FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

"کتاب” اینڈرائیڈ ایپ سے حاصل کردہ ناولٹ

اک آرزو ہے تمہاری

سمیرا گُل ع‍ثمان

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں ….

اک آرزو ہے تمہاری

سمیرا گل عثمان

جمع و ترتیب: اعجاز عبید


 

آج چودھویں کی شب تھی، چاند کا حسن دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، سیاہ اندھیری رات کا ہر منظر آج چاندنی میں بھیگا ہوا تھا، وہ اپنے بیڈ روم کی کھڑکی سے ٹیک لگائے بڑی محویت سے ٹکٹکی باندھے بظاہر چاند کو دیکھے جا رہی تھی لیکن در حقیقت وہ چاند میں اپنے محبوب کا جھلملاتا عکس ڈھونڈ رہی تھی، ہر طرف گہرا سکوت اور جامد خاموشی تھی، جیسے کائنات کی ہر شے، اپنا دم سادھے چاند کے حسن کا نظارہ کر رہی ہو بس اس کی سانسوں کا زیر و بم تھا جو سکوت زدہ فضا میں ارتعاش پیدا کر رہا تھا اور اک ہوا تھی جو پورے تسلسل سے چل رہی تھی۔

’’رات کا حسن تو چاند سے ہے اگر یہ چاند نہ ہوتا تو رات بھی اتنی حسین نہ ہوتی۔‘‘ اس نے جیسے پورے دل سے اقرار کیا اور پھر کسی خیال کے تحت اس کے لب دھیرے سے مسکرا دئیے۔

’’مریان! میرا اور آپ کا رشتہ بھی چاند اور رات جیسا ہے، جیسے چاند کے بغیر رات ادھوری ہے، اگر آپ مجھے نہ ملتے تو میں بھی آپ کے بغیر ایسے ہی ادھوری رہتی، آپ نے میری زندگی کی اندھیری راہوں کو اپنی محبت کی چاندنی سے جگمگا دیا ہے۔‘‘

’’یہ چاند کے ساتھ کیا راز و نیاز ہو رہے ہیں۔‘‘ کسی نے پیچھے سے آ کر اپنی مضبوط پناہوں کے حصار میں جکڑا تھا۔

’’ارے آپ کب آئے؟‘‘ اس نے چاند پر سے نظریں ہٹا کر مریان حیدر پہ جما دیں کہ اب اسے چاند میں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔

’’تم چاند کو دیکھنے میں اس قدر محو تھی کہ گاڑی کا ہارن بھی سنائی نہیں دیا۔‘‘

’’اس ’’چاند‘‘ میں بھی ہم اپنے ’’اس چاند‘‘ کو دیکھ رہے تھے۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ وہ شوخی سے کہتا اس کے مزید قریب ہوا۔

’’مریان پلیز۔‘‘ وہ ذرا سی کسمسائی۔

آج تو میرا دل

کرتا ہے

کہ تم اتنے

قریب آؤ

کہ پاس سے گزرتی

ہوا کو بھی پتہ نہ چلے

کہ وہ

وہ دیوانوں کے

بیچ سے گزر رہی ہے

اک مدھم سرگوشی اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو اس کے رخسار تپ اٹھے۔

’’لگتا ہے کچھ زیادہ ہی چڑھ گئی ہے۔‘‘

’’جی! میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘ وہ خمار آلودہ لہجے میں بولا۔

’’کیا مطلب؟ تم نے سچ میں پی ہے۔‘‘ وہ چیخ اٹھی اس نے تو مذاق میں کہا تھا مگر وہ تو سچ میں اقرار کر رہا تھا۔

’’ارے توبہ توبہ کیسی بات کر رہی ہو۔‘‘ اس نے جھٹ سے دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے پھر اس کی گہری براؤن آنکھوں میں جھانکا۔

سلامت رہے تیری آنکھوں کی مستی

ہمیں مہ کشی کی ضرورت نہیں ہے

’’لیٹ نائٹ غزل پروگرام سے فرصت مل گئی ہو تو اب ڈنر کر لیں۔‘‘ اس نے مریان حیدر کی مضبوط گرفت سے خود کو چھڑانے کی ناکام سعی کرتے ہوئے کہا۔

جس کے لہجے سے محبت امرت بن کر ٹپک رہی تھی۔

’’آپ فریش ہو جائیں میں کھانا لگاتی ہوں۔‘‘ بروقت اسے خیال آیا کہ مریان نے لنچ ٹائم کے بعد کچھ نہیں کھایا ہو گا اور وہ خود بھی تو اس کے انتظار میں بھوکی بیٹھی تھی۔

سرشاری اس کے انگ انگ سے جھلک رہی تھی اسے اپنی محبت اور آئیڈیل ایک ساتھ ملے تھے وہ اپنی قسمت پہ جتنا بھی ناز کرتی کم تھا، وہ پلٹ کر جانے ہی والی تھی کہ اسے اپنے پلو پر کسی کے کھچاؤ کا احساس ہوا وہ پلٹی تو مریان کو محض گھور کر رہ گئی اس کے پلو کا کونہ وہ اپنی انگلی پہ لپیٹ چکا تھا۔

’’اب ایسے ہی آ گئے۔‘‘ اس نے اپنے پیچھے اس کے قدموں کی آہٹ سن لی تھی۔

’’ہاں، چینج کرنے میں پانچ منٹ لگنے تھے۔‘‘

’’تو اس میں کیا ہے؟‘‘ سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے رک کر اسے دیکھا۔

’’سمجھا کرو یار میں پانچ منٹ تو کیا ایک منٹ بھی تم سے دور نہیں رہنا چاہتا پہلے ہی دو گھنٹے پندرہ منٹ اور دس سیکنڈ کے بعد تمہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ وہ اس کی اداکاری پر ہنستے ہوئے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگانے لگی تھی مریان نے بھی اس کے ساتھ مل کر برتن لگائے اور پھر لائیٹ آف کر دی۔

’’آپ کے پاس بھی کوئی کام سیدھا نہیں ہے اب لائیٹ کیوں آف کر دی ہے آپ کوپتہ بھی ہے مجھے اندھیرے سے کتنا ڈر لگتا ہے۔‘‘ اس کی جان پر بن آئی تھی، اسی لمحے وہ کینڈل جلاتا اس کے قریب چلا آیا۔

’’میرے ہوتے ہوئے تمہاری زندگی میں کبھی اندھیرا نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس نے کینڈل کو ٹیبل کے عین وسط میں رکھا اور پھر کرسی کھینچ کر اسے بٹھایا۔

’’اب ہم کریں گے رومینٹک کینڈل لائیٹ ڈنر۔‘‘ وہ ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر خود بھی اس پر براجمان ہو چکا تھا۔

٭٭٭

’’ماما چائے بنائی ہے تو ایک کپ مجھے بھی دے دیں۔‘‘ مہرو نے کچن میں جھانکتے ہوئے کہا۔

’’جاؤ پہلے اپنے دادا جان کو دے آؤ پھر آ کر تم لے لینا۔‘‘ زہرہ بیگم نے وہیں سے اسے ٹرے تھماتے ہوئے کہا جس میں چائے کے ساتھ دوسرے لوازمات بھی تھے۔

’’اوہو میں تو بھول ہی گئی۔‘‘ وہ سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولی۔

’’آپ کو دادا جان بلا رہے ہیں۔‘‘ مہرو نے ٹرے واپس ان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے دادا جان کا پیغام دیا اور خود اطمینان سے بیٹھ کر گھونٹ گھونٹ چائے پینے لگی، زہرہ بیگم کچھ سوچتے ہوئے ان کے بیڈ روم کی جانب چلی آئیں جو لاؤنج کے آخری سرے پر واقع تھا، جب وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے نظریں کسی غیر مرئی نقطے پہ جمائے نہ جانے کس ان دیکھی سوچ میں گم تھے۔

’’ابا جان آپ کی چائے۔‘‘ اس انداز تخاطب پر انہوں نے چونک کر سر اٹھایا ایک پل کے لئے انہیں ایسا لگا جیسے زارا نے پکارا ہو، مگر اگلے ہی پل سامنے کھڑی زہرہ کو دیکھ کر وہ سیدھے ہو بیٹھے۔

’’تم میرا کتنا خیال رکھتی ہو بیٹا! ابھی مجھے شدت سے چائے کی طلب ہو رہی تھی اور تم لے آئی۔‘‘ وہ ممونیت سے بولے۔

’’ابا جان آپ کی خدمت میرا فرض ہے۔‘‘ زہرہ بیگم نے کچھ خفگی سے باور کروایا تو وہ دھیرے سے مسکرا دئیے۔

’’مجھے تم سے ایک ضروری مشورہ کرنا تھا۔‘‘ انہوں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔

’’جی کہیے۔‘‘ وہ ہمہ تن گوش ہوئیں۔

’’تم جانتی ہو زہرہ جب زارا ایک ننھے وجود کو اپنی ممتا سے ہمیشہ کے لئے محروم کر کے خود ابدی نیند سو گئی تھی، تو میرا دل چاہا تھا میں اس ننھی زارا کو جو میری زارا کے وجود کا حصہ ہے، ہمیشہ کے لئے اپنی آغوش میں سمیٹ لوں کہ اس پہ کبھی دنیا کی گرم ہوا کا سایہ بھی نہ پڑے، مگر وہ شیراز حسن…‘‘ انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔

زبیر لغاری کی ایک ہی بیٹی تھی ’’زارا‘‘ اگرچہ بیٹا بھی ایک ہی تھا وہ ’’زارا‘‘ کی شادی اپنے دوست کے بیٹے سے طے کر چکے تھے جب زارا نے اپنے کلاس فیلو شیراز حسن کو ان سے متعارف کروایا اور پھر اس کی ضد کے سامنے اور کچھ اپنی عزت کے رولنے کے خوف سے مجبور ہو کر زارا کا نکاح اس سے کروا دیا مگر اس شرط پہ کہ آج سے تم ہمارے لئے مر گئی ہو اور اب پلٹ کر کبھی اس شہر واپس نہ آنا، وہ تو شاید آ ہی جاتی مگر زندگی نے اتنی مہلت ہی نہ دی، شادی کے تین سال بعد وہ ایک وجود کی تخلیق کرنے کی کوشش میں خود زندگی ہار گئیں، زارا کی موت کی خبر نے زبیر لغاری کے مضبوط وجود کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا وہ اس سے لاکھ خفا سہی مگر انہوں نے ایسا تو کبھی نہیں چاہا تھا، عریشہ کو اپنی گود میں لے کر انہیں ایسا لگا جیسے وجود میں تھمی ہوئی خون کی گردش پھر سے رواں ہو گئی ہو وہ جو بخود زارا کی کاپی تھی۔

انہوں نے چاہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن شیراز حسن راستے کی دیوار بن گیا، عریشہ اس کی محبت کی واحد نشانی اس کے جینے کا اکلوتا سہارا بھلا وہ کیسے لے جانے دیتا اور زارا سے ملنے والا پہلا اور آخری تحفہ۔

وہ تو اس کی متاع جان تھی لیکن زبیر لغاری اس کے جذبات نہ زارا کے لئے سمجھ پائے تھے اور نہ عریشہ کے لئے سمجھ پا رہے تھے اور اس دن سے لے کر آج تک ان کا دل اپنی نواسی میں ہی اٹکا ہوا تھا۔

’’خیر جانے دو ان باتوں کو۔‘‘ وہ ایک لمحے کے توقف سے بولے۔

’’اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے عریشہ کو ہمارے گھر سے دور رکھتا ہے اب وہ اس گھر میں آئے گی بھی اور ہمیشہ کے لئے اس گھر میں رہے گی بھی۔‘‘ آخز میں وہ چائے کا خالی کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے پرجوش انداز میں بولے۔

’’وہ کیسے ابا جان؟‘‘ زہرہ بیگم کا لہجہ اور انداز دونوں نارمل تھے انہیں اس بات پر بالکل حیرت نہ ہوئی تھی وہ جانتی تھیں کہ ابا جان ان اٹھارہ سالوں میں عریشہ کو اپنے ساتھ رکھنے کے ہزاروں پلان بنا چکے تھے کبھی کہتے ’’گاؤں کے دو ٹکے کے گورنمنٹ سکولوں میں عریشہ کیا خاک پڑھے گی کبھی دیہاتی زندگی پر لمبا اور طویل لیکچر دیتے، کبھی اس کے مستقبل کے متعلق نالاں نظر آتے، مگر ابا جان کی ہر کوشش بے سود رہی، اتنے طویل بحث و مباحثے کے بعد شیراز حسن کا ایک ہی جواب ملتا۔‘‘

’’میں اپنی بیٹی کے بغیر نہیں رہ سکتا اور میں اسے اپنی نظروں سے دور نہیں بھیجوں گا۔‘‘ اور اب کی بار ابا جان کیا مشورہ کرنے والے تھے۔

’’میں اسے راحل(پوتا) کی دلہن بنا کر اس گھر میں لاؤں گا۔‘‘ کچھ لمحوں کے توقف کے بعد آخر انہوں نے وہ بم پھوڑ ہی دیا جس سے وہ ڈر رہی تھیں۔

زہرہ بیگم نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے انہیں دیکھا ان کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہو چکی تھی آنکھوں سے روشنیاں پھوٹ رہی تھیں زہرہ بیگم کو ایسا لگا جیسے وہ بام تصور میں عریشہ اور راحل کی شادی دیکھ رہے ہوں۔

قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ابا جان کی نواسی کے لئے دن بدن بڑھتی دیوانگی کو دیکھتے ہوئے یہی بات کل زہرہ بیگم کے دل میں بھی آئی تھی اور وہ دل کی باتوں کو دل میں رکھنے کے قائل نہیں تھیں سو اظہار رائے کے لئے فوراً راحل کی طرف رجوع کیا اور راحل کی رائے کا اظہار سن کر وہ صدمے کے مارے گنگ رہ گئی تھیں اور اب وہی الفاظ ان کے کانوں میں گونج رہے تھے۔

’’امی یہ بات آپ کے دل میں آئی بھی کیسے؟ میں اس سے ہرگز شادی نہیں کروں گا آج کے بعد ایسا سوچئے گا بھی مت۔‘‘ وہ تو بات سنتے ہی بری طرح سے بپھر گیا تھا۔

’’بس وہ میرے ٹائپ کی نہیں، اس کا فیملی بیگ گراؤنڈ اس کی کوالیفیکیشن اس کا مزاج کچھ بھی تو ہم میں کامن نہیں ہے۔‘‘

’’اچھا تو کیسی لڑکی چاہیے تمہیں جس سے تم شادی کرو گے۔‘‘ زہرہ بیگم نے حتی المقدور اپنے لہجے کو نرم رکھنے کی کوشش کی ورنہ تو غصے کے مارے برا حال تھا۔

’’خوبصورت، ویل ایجوکیٹڈ، ماڈرن اور اپنی کلاس کی جو میرے ساتھ سوسائٹی میں موو کر سکے جو میرے ساتھ چلتی ہوئی اچھی لگے، جس کو ساتھ پا کر میں فخر محسوس کروں۔‘‘ انتہائی تحمل سے اپنا آئیڈیل آشکار کیا گیا۔

’’دوسرے لفظوں میں بے حیا، بے باک، ہر طرح کی اخلاقیات سے عاری، یوں کیوں نہیں کہتے کہ تمہیں بیوی نہیں ایک چلتا پھرتا اشتہار چاہیے جسے گلے میں لٹکا کر پھرو اور ہر کوئی دیکھے بار بار دیکھے۔‘‘

’’کیا ہوا زہرہ کس سوچ میں پڑ گئی اگر تمہیں میری بات پسند نہیں آئی تو کوئی بات نہیں تم اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرو، تم راحل کی ماں ہو اس کی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق تمہیں مجھ سے زیادہ ہے ہو گا وہی جو تم چاہو گی۔‘‘ زہرہ بیگم نے دیکھا آخری جملہ ادا کرتے ہوئے ان کی آنکھوں کی جوت بجھ چکی تھی اور لہجہ بھی خاصا پست تھا۔

’’یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں ابا جان۔‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کر ان کے پاس آبیٹھیں۔

’’خدا آپ کا سایہ ہمیشہ ہمارے سر پہ سلامت رکھے آپ کے ہوتے ہوئے میں کون ہوتی ہوں فیصلہ کرنے والی۔‘‘ وہ ان کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے عقیدت سے بولیں۔

’’خوش رہو بیٹا۔‘‘ وہ زہرہ کے بے حد ممنون تھے جو بہو ہو کر بیٹیوں سے بھی بڑھ کر تھیں۔

’’بس سہیل آ جائے تو اس سے بھی بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے تئیں بالکل مطمئن ہو چکے تھے۔

’’لیکن ابا جان!‘‘

’’ہاں … ہاں بولو۔‘‘ وہ اس کا تذبذب بھانپ چکے تھے۔

’’آپ ایک بار راحل سے بھی پوچھ لیتے۔‘‘ زہرہ بیگم نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔

’’راحل سے کیا پوچھنا۔‘‘ اس معاملے میں وہ پرانے خیالات کے مالک تھے بس جو بڑوں نے طے کر دیا بچوں کو ہر صورت نبھانا ہے۔

’’راحل میرا بہت فرمانبردار پوتا ہے وہ میری بات کبھی نہیں ٹالے گا۔‘‘ اس طرف سے وہ گویا آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے، زہرہ بیگم کا جی چاہا کہ ان کے لاڈلے پوتے کی روشن خیالی ان پر عیاں کر دے مگر پھر کچھ سوچ کر خاموشی میں ہی عافیت جانی اور ایک بار پھر راحل کو قائل کرنے کا ارادہ باندھا۔

٭٭٭

زہرہ بیگم کی تو گویا نیند ہی اڑ گئی تھی، تمام رات سوچوں، خیالوں کے تانے بانے بننے میں گزر گئی۔

’’اگر راحل نے عریشہ کو ریجیکٹ کر کے اپنی پسند کی کسی لڑکی سے شادی کر لی تو ابا جان اسے ویسے ہی گھر سے نکال دیں گے جیسے بیس برس پہلے لالہ کو…‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھ تھیں۔

اس کا لالہ اس کا چاند سے پیارا بھائی کتنا اچھا تھا حویلی میں رہنے والے دوسرے مردوں کی نسبتاً سادہ، معصوم، نرم خو اور بہت محبت کرنے والا، اسے کتنا شوق تھا لالہ کی شادی ہو اس کی بھابھی حویلی میں آئے اور اس کی خواہش جس روز پوری ہوئی، وہ ایک طوفانی رات تھی سہ پہر سے ہی سرخ آندھی نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، بادل کس قدر زور سے گرج رہے تھے تبھی اس شور میں ایک اور شور اٹھا تھا۔

’’چوہدری شیراز حسن شہر سے اپنی دلہن لے کر آئے ہیں۔‘‘ رحمت جو کہ ان کا گھریلو ملازم تھا اُس کی آواز پر اس کا ہاتھ اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا وہ کھڑکیاں، پردے وہیں چھوڑ کر باہر کی جانب لپکی۔

’’اماں بی سنا آپ نے لالہ کی دلہن۔‘‘ جوش میں اس نے راستے میں حیرت کا بت بنی اماں بی کو بھی گھما ڈالا تھا۔

’’بس یہیں رک جاؤ، کوئی باہر نہیں جائے گا۔‘‘ ابا جان کے لہجے میں بادلوں کی سی گرج تھی وہ اور اماں بی وہی تخت پر بیٹھ گئیں مگر اس کے دل میں ہول اٹھ رہے تھے اور ایک جھلک اس لڑکی کو دیکھنا چاہتی تھی جسے اس کے لالہ شیراز حسن نے پسند کیا تھا، پندرہ منٹ کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد ابا جان اکیلے ہی بڑے ہال میں آئے تھے، زہرہ کا دل دھک سے رہ گیا۔

’’آج سے میں اس حویلی میں اس نافرمان کا نام نہ سنوں مرگیا آج سے وہ ہمارے لیے۔‘‘ وہ جس طرح سے آئے تھے اسی طرح اپنا فیصلہ سناتے دھپ دھپ کرتے واپس چلے گئے پیچھے ان کے قدموں کی گونج رہ گئی تھی یا پھر اماں بی کی سسکیاں۔

’’کیا بات ہے زہرہ، تم ابھی تک جاگ رہی ہو؟‘‘ سہیل رضا کی آواز پر اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تھا، وہ ان کی جانب کروٹ بدلے متفکر سے پوچھ رہے تھے۔

’’ہاں وہ بس نیند نہیں آ رہی تھی۔‘‘ ان کا انداز ٹالنے والا تھا۔

’’چلو پھر باتیں کرتے ہیں۔‘‘ وہ کہنے کے ساتھ ہی شرارت سے اٹھ بیٹھے۔

’’اب مجھے کچھ کچھ نیند آنے لگی ہے۔‘‘ زہرہ بیگم نے لیٹ کر سرتاپا چادر اوڑھ لی تھی وہ زیر لب مسکراتے ہوئے پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگے۔

اگلی صبح وہ اس سے بات کرنے اس کے بیڈ روم میں آئیں تو وہ اپنا سوٹ کیس تیار کیے کہیں جانے کو بالکل تیار کھڑا تھا، پوچھنے پر اس نے بتایا۔

’’آفس کی طرف سے ایک ماہ کے کنٹریکٹ پر لندن جا رہا ہوں۔‘‘ ان کی خود سرجیکل کی فیکٹری تھی لیکن وہ ایم بی اے پاس کرنے کے بعد خود کو جیسے کوئی توپ سمجھنے لگا تھا اسے سرجیکل کی فیکٹری سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں پرکشش سیلری پیکج پر بطور ور کر کام کر رہا تھا۔

’’تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔‘‘

’’کل ہی ڈیل فائنل ہوئی ہے رات دیر سے آیا تو آپ سو رہی تھیں۔‘‘ وہ جلدی جلدی بالوں میں برش چلاتے ہوئے بولا۔

’’فلائیٹ کتنے بجے ہے۔‘‘

’’دس بجے اور مجھے ابھی راستے سے ایک دوست کو بھی پک کرنا ہے، لاہور جانے میں بھی دو گھنٹے لگیں گے اس لئے اب مجھے اجازت دیں۔‘‘ اس نے ریسٹ واچ پر نظر دوڑاتے ہوئے سر کو زہرہ بیگم کے سامنے ذرا سا خم کیا، انہوں نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی، پہلی بار وہ اتنے لمبے سفر پہ جا رہا تھا اس خیال سے ہی ان کی آنکھیں بھر آئیں۔

’’امی پلیز بس ایک مہینے کی تو بات ہے آپ پلیز ایسے مت کریں۔‘‘ وہ زہرہ بیگم کو اپنے بازوؤں کے حلقے میں لئے ہوئے باہر آیا۔

’’خدا تمہیں اپنی امان میں رکھے۔‘‘ کچھ ہی دیر میں وہ سب سے مل کر بزرگوں کی دعاؤں کا حصار لئے گھر سے رخصت ہوا۔

٭٭٭

زبیر لغاری جو راحل کے جانے کی وجہ سے بے حد افسردہ سے رہنے لگے تھے، عریشہ کے آنے کا سن کر پھر سے کھل اٹھے تھے، آج صبح سے ان کی ہدایات جاری تھیں۔

’’زہرہ آج ڈنر خاصا پر تکلف ہونا چاہیے اسے بریانی بہت پسند ہے وہ ضرور بنا لینا اور چائے وہ بالکل نہیں پیتی ہاں لسی ضرور بنا لینا اس کے بغیر نوالہ اس کے حلق سے نہیں اترتا۔‘‘ وہ ایک ہی بات کوئی دس بار دوہرا رہے تھے، اس کا کمرہ بھی انہوں نے کسی ملازمہ کی بجائے مہرو سے صاف کروایا تھا کہ وہ اچھی طرح ڈیکوریٹ کرے گی۔

مہرو کو ابھی سے اس وی آئی پی مہمان شخصیت سے جلن ہونے لگی تھی وہ بھی تو دادا جان کی پوتی تھی محبت کا یہ مظاہرہ اس نے کبھی اپنے لئے تو نہیں دیکھا تھا۔

٭٭٭

’’ایک تو اس ٹرین کو بھی آج ہی ایک گھنٹہ پہلے آنا تھا اب ایک گھنٹہ یہاں ویٹ کروں۔‘‘ اس نے نہایت کوفت کے عالم میں بڑبڑاتے ہوئے بیگ اٹھایا، تو وہ بمشکل ہی اسے اپنی جگہ سے ہلا پائی۔

’’اف اتنا بھاری یہ نوری کی بچی نے لگتا ہے پوری الماری کے کپڑے پیک کر دئیے ہیں۔‘‘ اسے جی بھر کر نوری پہ تاؤ آیا۔

’’ہائے اب کیا کروں؟‘‘ اس نے بے بسی سے سوچا۔

اتنے رش میں وہ ٹھوکریں کھاتی آگے بڑھی تو لڑکھڑا کر رہ گئی، اتنے طویل سفر کے بعد تو ویسے بھی سر درد سے پھٹا جا رہا تھا آنکھوں کے سامنے تارے ناچ رہے تھے اس نے مدد طلب نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسی بھیڑ میں ایک مہربان شناسا چہرہ دکھائی دیا، وہ لپک کر آگے بڑھی۔

’’نانا جان۔‘‘ اس نے دور سے ہی آواز دی، زبیر لغاری بھی اسے دیکھ چکے تھے۔

’’نانا جان آپ ایک گھنٹہ پہلے کیسے آ گئے، آپ کو پتہ تھا ٹرین ایک گھنٹہ پہلے آنے والی ہے۔‘‘ وہ ان کے گلے میں جھولتے ہوئے حیرت سے بولی تو وہ مسکرا دئیے۔

’’میں تو اپنی بیٹی کے انتظار میں پچھلے دو گھنٹے سے یہاں بیٹھا ہوں اب تو آنکھیں بھی تھکنے لگی تھیں۔‘‘ عریشہ کو ان کی محبت پر کوئی شبہ نہیں تھا وہ محبت سے انہیں دیکھتی ان کے ساتھ چل پڑی۔

’’واؤ بیوٹی فل کار۔‘‘ اس نے بلیک مرسڈیز کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، زبیر لغاری نے اس کی سمت کا دروازہ کھولا تو وہ کچھ جھجکتے ہوئے بیٹھ گئی، اپنی زندگی میں وہ پہلی بار ایسی شاندار گاڑی میں بیٹھی تھیں۔

’’تمہیں یہ گاڑی پسند آئی۔‘‘

’’ہاں بہت۔‘‘ عریشہ نے بہت کو خاصا لمبا کھینچا۔

’’شیراز حسن نے کبھی تمہیں اس گاؤں سے باہر نکلنے ہی نہیں دیا اگر ہمارے پاس رہتی تو ایسی ہی گاڑیوں میں گھومتی۔‘‘ ان کے لہجے میں دولت کا غرور بول رہا تھا، عریشہ کو ان کی یہ عادت بالکل پسند نہیں تھی۔

’’اچھا یہ بتاؤ شیراز حسن نے ہمارے گھر آنے کی اجازت کیسے دی؟‘‘ وہ ابھی تک دل سے شیراز حسن کو اپنا داماد نہیں مانتے تھے اس لئے آج تک نہ تو وہ ان کے گھر آئے تھے نہ ہی اس گھر سے سوائے زبیر لغاری کے کوئی آزاد کشمیر جاتا تھا ایک تو سفر بہت تھا دوسرے تعلقات کوئی خاص خوشگوار نہیں تھے زبیر لغاری کو محض عریشہ سے غرض تھی ان کا جب دل چاہتا وہ ملنے چلے جاتے تھے۔

عریشہ کو اپنے نانا جان سے بہت محبت تھی وہ جب بھی آتے اس کے لئے ڈھیروں تحائف لے کر آتے تھے جن کو وہ خاصا اترا اترا کر اپنی دوستوں کو دکھاتی تھی۔

’’لالہ جانی تو بہت اچھے ہیں، بہت پیار کرتے ہیں مجھ سے، اس لئے تو میری ہر بات مان لیتے ہیں میری برتھ ڈے پہ کہنے لگے ’’آج مجھ سے جو مانگو کی ملے گا۔‘‘ تو میں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں کچھ دنوں کے لئے نانا جان کے گھر جانا چاہتی ہوں تو وہ کچھ رنجیدہ ہو گئے، میرے بغیر رہ نہیں سکتے نا اس لئے مجھے خود سے دور نہیں بھیجتے مگر اس بار میں نے بھی پکی ضد باندھ لی، دو دن بھوک ہڑتال کی تو خود ہی نوری کو بلا کر میرا سامان پیک کروا دیا۔‘‘

پھر نوری کی امی نے سمجھایا کہنے لگیں۔

’’پاں جی، آپ کی عیشو تو بڑی بھولی ہے باہر کی دنیا تو اس نے دیکھی ہی نہیں کل کلاں کو اس کا بیاہ بھی تو کرنا ہے اسے گھومنے پھرنے دیں دنیا دیکھنے دیں اپنے رشتے داروں سے ملنے دیں اور پھر آپ سے دور رہے گی تو آپ کے بغیر رہنے کی عادت پڑے گی۔‘‘

’’خالہ کی بات لالہ جانی کی سمجھ میں آئی یا نہیں یہ میں نہیں جانتی لیکن میری سمجھ میں خوب اچھی طرح سے آ گئی تھی میں نے کہہ دیا لالہ جانی سے، پہلی بات تو یہ کہ میں شادی نہیں کروں گی اور اگر کی تو سب سے پہلے یہ شرط کہ ’’وہ‘‘ میرے ساتھ لالہ جانی کے گھر رہے گا، میں اپنے لالہ جانی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔‘‘ اتنی لمبی بات کے بعد اس نے ایک لمحے کو توقف کیا۔

’’میں نے ٹھیک کیا نا، نانا جان۔‘‘ آخر میں معصومیت سے نانا جان سے تصدیق چاہی تو ان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں، وہ نواسی کو گھر لانے کے منصوبے بنائے بیٹھے تھے اور نواسی ان کے لاڈلے پوتے کو بھی لے اڑنے کا پلان بنا چکی تھی۔

’’نہیں بیٹا لڑکے اپنا گھر نہیں چھوڑتے ہمیشہ لڑکیوں کو ہی اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔‘‘ انہوں نے رسانیت سے سمجھایا، تو وہ بگڑ کر بولی۔

’’ایویں فضول میں۔‘‘

’’عریشہ بیٹے یہ دنیا کا دستور بھی ہے اور قرت کا قانون بھی اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔‘‘ وہ نرمی سے بولے۔

’’نانا جان آپ بالکل لالہ جانی جیسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ عریشہ نے منہ پھیلاتے ہوئے کہا تو نانا جان مسکرا دیے، اگلے چند منٹوں میں گاڑی لغاری ہاؤس کے سامنے رک چکی تھی۔

٭٭٭

ڈنر کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے وہ اور مہرو کچھ دیر چھت پر چہل قدمی کرتی رہیں پھر مہرو کو بھی اپنے ٹیسٹ کی تیاری کرنا تھی وہ اپنی بکس لے کر بیٹھی تو عریشہ اٹھ کر اپنے بیڈروم میں چلی آئی جو کچھ گھنٹے پہلے ہی اس کی ملکیت بنا تھا، وہ آتے ہی سب سے ملنے کے بعد کچھ دیر آرام کی غرض سے لیٹی تھی تو اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی اور اب دن بھر میں چار گھنٹے سونے کے بعد نیند کا آنا محال تھا، اس نے کرٹین کھسکا کر گلا ونڈو اوپن کی آسمان کا سیاہ آنچل ستاروں سے جگمگا رہا تھا ٹھنڈی سبک خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔

’’نہ جانے لالہ جانی کیا کر رہے ہوں گے۔‘‘ کھڑکی کے پٹ سے ٹیک لگاتے ہوئے اسے لالہ جان کی بہت یاد آئی تھی اٹھارہ سالوں میں پہ پہلی رات تھی جو وہ اس کے ساتھ نہیں تھے۔

’’ٹن … ٹن… ٹن۔‘‘ دیوار گیر کھڑی کی ٹن ٹن پر اس نے چونک کر وال کلاک کی جانب دیکھا جو پورے بارہ کا الٹی میٹم دے رہا تھا۔

’’مریان حیدر کا پروگرام۔‘‘ اچانک یاد آنے پر اس نے ریڈیو کی تلاش میں اپنے پورے بیگ کی تلاشی لے ڈالی تھی مگر ریڈیو نہ ملا۔

’’نوری کی بچی اگر تو اس وقت میرے سامنے ہوتی تو میں تمہیں کچا چبا جاتی۔‘‘ اسے ایک بار پھر نوری پر بے تحاشا غصہ آیا تھا۔

مریان حیدر کا پروگرام سنے بغیر نیند آ جائے یہ بھلا کیسے ممکن تھا کمرے میں پریڈ کرتے ہوئے اس کا دماغ مسلسل الجھن کا شکار تھا دل میں بے چینی تھی اس نے گھڑی کی سمت دیکھا سوئیوں کی تیزی سے آگے بڑھتے قدم اس کے اضطراب کو مزید بڑھاوا دے رہے تھے، رات دو بجے تک وہ یونہی مہکتی رہی دو بجے کے بعد جب اسے یقین ہو گیا کہ اب پروگرام ختم ہو چکا ہو گا تو وہ خاموشی سے بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔

مریان حیدر ایف ایم کے لیٹ نائٹ غزل پروگرام کا کیمپیئر تھا اور وہ اس کی آواز کی اس کی شاعری کی اس کی غزلوں کی دیوانی تھی، وہ ہفتے میں ایک دن پروگرام کرتا تھا مگر عریشہ اس کے پروگرام کی ریکارڈنگ کر لیا کرتی تھی اور پھر پورا ہفتہ اسی پر گزارہ کرتی، اس کی آواز میں ایک عجیب سا سحر تھا رات کے پر فسوں لمحوں میں جامد خاموشی اور سکوت زدہ فضا کو چیرتا ہوا اس کا آنچ دیتا بھیگا لہجہ جب سماعتوں سے ٹکراتا تو ایسا لگتا تھا جیسے ایک قطار میں بندھی گھنٹیاں ایک ساتھ کھنک اٹھی ہو ہر سو نغمے بکھر جاتے تھے، جلترنگ سے بجنے لگتے تھے، جس طرح لوگوں کو شراب لگ جاتی ہے اریشہ کو اس کی آواز لگ چکی تھی، اس کی آواز کا امرت جب تک سماعتوں میں نہیں گھلتا نیند نہیں آتی تھی۔

٭٭٭

صبح آنکھ کھلنے پر اس نے آنکھیں مسلتے ہوئے وال کلاک کی جانب دیکھا جس پر صبح کے پانچ بج رہے تھے رات دیر سے سونے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں ابھی تک نیند کا خمار تھا اس کا دل چاہا سوئی رہے لیکن پھر نماز کے خیال سے اٹھ گئی، وضو کر کے باہر آئی تو وہیں لاؤنج میں ایک جانب بچھے تخت پر ممانی جان نماز پڑھ رہی تھیں، انہوں نے اٹھ کر عریشہ کو جائے نماز دیا اور خود قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگیں، نماز ادا کرنے کے بعد اس نے لاؤنج کی ونڈوز کھول دی تھیں اور سامنے جو نظارہ تھا اسے دیکھ کر وہ دم بخود رہ گئی، اسے پھولوں سے محبت نہیں عشق تھا، اس نے اپنے گھر میں گلاب، موتیا، چنبیلی اور بہت سے پودے لگا رکھے تھے، مگر سامنے والوں کے گھر میں پھول نہیں پورا گلستان مہک رہا تھا، سورج کی چمکتی کرنوں سے پھولوں پہ گرے کے آنسو ہیروں کی مانند دمک رہے تھے۔

بہار کے موسم کی آمد تھی گل لالہ کا حسن اپنے جوبن پر تھا بے ساختہ اس کا دل چاہا کہ ننگے پاؤں نرم نرم گھاس پر چلے، ہوا کے دوش پر اپنا آنچل اڑا دے پھولوں سے اٹکھیلیاں کرے۔

’’نانا جان نے اتنا پیار گھر بنا لیا کیا تھا جو ایک باغیچہ بھی بنا لیتے تو میں اس وقت پورے گھر کو پھولوں سے سجا دیتیں۔‘‘ دل میں ایک معصوم سی خواہش نے چٹکی لی۔

کھٹرپٹر کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا ممانی جان ناشتہ کے ابتدائی تیاریاں شروع کر رہی تھیں، وہ بھی ان کے پاس کچن میں چلی آئی۔

’’میرے لائق کوئی خدمت۔‘‘ اس نے دروازے کے ایک پٹ کو تھام کر استفسار کیا۔

’’ارے نہیں بیٹا میں کر لوں گی۔‘‘ وہ اسے دیکھ کر مسکرائیں۔

’’آپ اتنا تکلف کیوں برت رہی ہیں، مجھے بتائیں نا کیا مینو ہے ناشتے کا، میں آپ کی ہیلپ کرواؤں گی۔‘‘ وہ زہرہ بیگم کے منع کرنے کے باوجود زبردستی کچن میں گھس آئی تھی اور پھر اس نے سب کے لیے آلو کے پراٹھے بنائے تھے، ناشتے کی میز پر نانا جان اور ماموں اس کی تعریف میں رطب اللسان تھا اور مہرو کا منہ پھول رہا تھا۔

٭٭٭

’’نہ جانے لوگوں کو دوپہر کے وقت کیسے نیند آ جاتی ہے۔‘‘ وہ اکیلی ہی پورے گھر میں بولائی بولائی سی پھر رہی تھی نانا جان اور ماموں آفس تھے مہرو کالج اور ممانی جان کچھ دیر اس سے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اب اپنے بیڈ روم میں ریسٹ کر رہی تھی، اور وہ حد درجہ بوریت کا شکار۔

دو، تین میگزین کی ورق گردانی کرنے کے بعد وہ بالکنی میں آ کھڑی ہوئی کہ آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے کا شغل ہی سہی، مگر دس منٹ میں ہی عاجز آ گئی یہ کالونی کی سڑک تھی میں روڈ تو نہیں جہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا۔

اسے نوری اور ریشماں یاد آئیں، بھری دوپہر میں دونوں اپنے گھر کی اندرونی دیوار پھلانگ کر ان کے گھر آ جاتی تھیں اور پھر آم کے پیڑ کی چھاؤں میں کھٹی میٹھی کیریوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے زمانے بھر کی باتیں ہوئیں، ریڈیو بھی ساتھ ساتھ بجتا تھا۔

’’ہائے میرا ریڈیو۔‘‘ دل سے ایک ہوک اٹھی تھی، وہ پھر سے بے چین ہو گئی، گھر کی یاد بہت ستانے لگی تھی جی میں ایا ابھی واپس چلی جائے مگر لالہ جانی کی آواز پاؤں کی زنجیر بن جاتی تھی جو انہوں نے آتے ہوئے کتنے مزے سے کہا تھا۔

’’دیکھنا دو ہی دن میں واپس آؤں گی۔‘‘ اور وہ اتنے ہی دھڑ لے سے بول آئی تھی۔

’’دو مہینوں سے پہلے واپس آنے والی نہیں۔‘‘ اور اب دو ہی دن میں دل واپسی کے لیے ہمکنے لگا تھا۔

’’نہ جانے کیا سوچ کر اس اجنبی شہر میں چلی آئی۔‘‘

’’ٹھاہ۔‘‘ وہ اپنی ہی سوچ میں غلطاں خود سے الجھ رہی تھی جب اچانک مہرو اس کے کان میں آ کر چلائی، وہ اس اچانک افتاد پر اچھل کر پیچھے ہٹی تھی اور اس کی ڈری سہمی صورت دیکھ کر مہرو سے اپنی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا۔

’’سوری یار مجھے نہیں پتہ تھا تم سچ میں ڈر جاؤ گی۔‘‘ وہ ابھی بھی ہنس رہی تھی عریشہ نے اسے گھورتے ہوئے ایک لمبا سانس خارج کیا مگر اس کا دل ابھی تک بہت تیز دھڑک رہا تھا۔

شام البتہ دن کی نسبت خاصی خوشگوار تھی مہرہ نے اسے خوب گھمایا تھا اور دونوں ڈھیر ساری شاپنگ بھی کی تھی اور اب دونوں بیڈ پہ اپنی چیزیں بکھیرے دادا جان کو اپنی شاپنگ دکھا رہی تھیں۔

٭٭٭

’’واؤ بیوٹی فل۔‘‘ اس نے کھڑکی کے پردے کھسکا کر دونوں پٹ وا کیے تو بے ساختہ اس کے لبوں سے یہ الفاظ پھسلے باہر کا موسم ہی کچھ ایسا تھا تمام رات برستی بارش نے ہر چیز کو اک دلفریب سا حسن عطا کیا تھا سامنے والوں کا گلستان دھل دھلا کر نکھر سا گیا تھا، اب بھی کچھ آوارہ بادل آسمان کی بانہوں میں جھوم رہے تھے سرد ہوا کے جھونکوں اور سرد کے لمبے درختوں میں جیسے کوئی مقابلہ بازی ہو رہی تھی پرندوں کے میٹھے نغموں پر دونوں سرمستی کے عالم میں جھوم رہے تھے، آسمان پہ بھی اتنے دنوں سے چھایا گرد کا غبار دھل گیا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ہلکی سی پھوار کو اپنی ہتھیلی پہ محسوس کیا تو اس کا دل ہمک ہمک کر اس گلستان میں جھومنے کو مچلے لگا وہ زیادہ دیر خود کو روک نہ پائی بیڈ پڑا دھڑا دوپٹہ شانو پہ پھیلا اور بھاگتی ہوئی سامنے والوں کے گیٹ پر جا پہنچتی، گیٹ کھلا تھا وہ ایک لمحے کے لیے تذبذب کا شکار ہوئی۔

’’جانے کس کا گھر ہے جاؤں یا نہیں۔‘‘ اس نے رک کر ایک پل کو سوچا لیکن اگلے ہی لمحے گیٹ سے جھانکتی کیلے کے پیڑ سے لپٹی بوگن ویلیا نے اسے مسکرا کر ویلکم کہا تو وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر اندر چلی آئی۔

’’اتنے خوبصورت پھول۔‘‘ اس نے ننھے گلاب کی ایک کلی کو چھو کر اس کی ملائمت کو محسوس کیا، اس کی خوشبو سے اپنی سانسوں کو مہکایا اور پھر چپل اتار کر پورے لان کا ایک چکر لگا وہ تو جیسے کسی جنت میں آ گئی تھی، پرندوں سے چہچہاہٹ میں اس کے قہقہوں نے کھل کر فضا میں اک ترنم سا بکھیر دیا تھا، ایک لچکیلی شاخ کے سرے کو پکڑ کر اس نے خوب اچھی طرح سے جھنجھوڑا، اس پر ٹھہرے بارش کے قطرے ایک سرعت سے برسنے لگ، کتنے ہی قطرے اس نے اپنی ہتھیلی پر جمع کیے اور ہوا میں اڑا دیے۔

’’موتیے کے پھول، میں ان کا گجرا بناؤں گی۔‘‘ وہ بڑے چاؤں سے اپنے آنچل کو پھولوں سے بھرنے لگی۔

’’کون ہو تم اور اندر کیسے آئی؟‘‘ کوئی اس کے کانوں کے قریب اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ وہ بے ساختہ اچھل کر رہ گئی اسی اثناء میں اس کا آنچل اس کی گرفت سے چھوڑ کر ہوا کے دوش پر لہرایا اور سارے پھول سامنے والے پہ جا گرے۔

’’اور تم نے اتنے سارے پھول توڑے۔‘‘ مقابل کا صدمے کے مارے برا حال تھا۔

’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے لان سے پھول چرانے کی۔‘‘ ایک الزام بھی عائد ہو چکا تھا، وہ خاموشی سے کھڑی لب کاٹتی رہی، مارے توہین اور احساس شرمندگی کے آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا تھا، وہ بھلا کہاں عادی تھی ایسے ہجوم کی ایسے رویوں کی، وہ اپنا دھونس ہر کسی پر جما لیتی تھی مگر ایسا سخت اور اکھڑ لہجہ اس کے ساتھ کبھی کسی نے روانہ رکھا تھا۔

اس کا سر جھکا ہوا تھا اور آنسو اب پلکوں کے باڑ پھلانگ کر رخساروں پہ لڑھک آئے تھے، مقابل کھڑے شخص کا دل شاید اس کے آنسوؤں سے پسیجا تھا۔

’’اچھا پلیز اب رونا تو بند کرو۔‘‘ وہ ملتجی لہجے میں کہتا تھوڑا سا آگے بڑھا اور وہ بنا اس کی جانب دیکھے پلکیں جھپک جھپک کر آنسو روکتی بھاگتی ہوئی گھر چلی آئی وہ دیر تک کھڑا اس عجیب و غریب لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا۔

’’آج ناشتہ مل جائے گا۔‘‘ دادا جان نے اندر سے آواز دی تھی جس پر وہ کچھ الجھتا ہوا اندر چلا آیا۔

٭٭٭

’’نانا جان کہاں جا رہے ہیں آپ؟‘‘ اس نے اخبار ٹیبل پر پٹختے ہوئے درشت لہجے میں استفسار کیا۔

’’ایک میٹنگ ہے۔‘‘ نانا جان عجلت میں کہہ کر نکل جانا چاہتے تھے مگر وہ ٹیبل کے گرد سے گھومتی ہوئی ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

’’یہ اچھا طریقہ ہے مجھے یہاں بلا کر خود سارا سارا دن غائب رہتے ہیں‘‘ اس کی آنکھوں میں لہجے میں لفظوں میں خفگی ہی خفگی تھی۔

’’سوری بیٹا، لیکن کل کا سارا دن تمہارا۔‘‘ انہوں نے لمبی بحث سے بچنے کے لیے شارٹ کٹ میں پیار سے اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا مگر وہ اس لالی پاپ سے بہکنے والی نہیں تھی۔

’’مجھے کل کا نہیں آج کا دن چاہیے۔‘‘

’’بیٹا آج فارن سے کچھ کلائینٹ آئے ہیں ان کے ساتھ ایک بہت ضروری بزنس ڈیل فائنل کرنی ہے۔‘‘ وہ بے بسی سے بولے۔

’’تو وہ ڈیل ماموں فائنل کر لیں گے۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولی۔

’’تمہارے ماموں تو آج چیمبر کے آفس جا رہے ہیں وہاں شہر کے سب بزنس میں کی بہت امپورٹڈ میٹنگ ہے۔‘‘ نانا جان کے اس وضاحت بھرے بیان پر اس نے ناراضگی سے منہ پھلا لیا۔

’’السلام و علیکم دادا جان!‘‘ نووارد کی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا تو ماتھے پر سلوٹیں پڑ گئیں، ابرو تن گئے۔

’’ارے جیتے رہو مانی بیٹا بڑے اچھے وقت پر آئے ہو۔‘‘ نانا جان اسے دیکھتے ہی خوشگواریت سے بولے۔

’’یہ میری نواسی ہے عریشہ یہ مہرو کے ماموں کا بیٹا ہے ابھی حال ہی میں ایم بی اے کے ایگزیم دیے ہیں آج کل رزلٹ کا ویٹ کر رہا ہے، اب تم لوگ آپس میں گپ شپ لگاؤ میں چلتا ہوں۔‘‘ وہ ابتدائی تعارف کی رسم نبھاتے قہقہے بکھیرتے چلے گئے اور مانی اسے دیکھتے ہی مجسمہ کی مانند ساکت رہ گیا تھا، کل صبح اس نے جس لڑکی کو ڈانٹا تھا، وہ بلا شک و شبہ یہی لڑکی تھی وہ من ہی من میں جی بھر کر شرمندہ ہوا مہمان کے ساتھ ایسا سلوک، وہ اسے مکمل نظر انداز کرتی صوفے پر بیٹھ گئی اور اپنے سامنے اخبار پھیلا لیا۔

’’ایم سوری۔‘‘ وہ بھی اس کے سامنے ون سیٹڈ صوفہ پر براجمان ہو چکا تھا۔

’’جی آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟‘‘ وہ اخبار تھوڑا سا نیچے سرکا کر اجنبی سرد لہجے میں بولی۔

’’میں اپنے کل صبح کے رویے پہ بے حد شرمندہ ہوں، اصل میں مجھے پھولوں سے بہت محبت ہے اور کوئی انہیں بے دردی سے توڑے تو مجھے غصہ آ جاتا ہے۔‘‘ وہ وضاحت بھرے انداز میں نرمی سے بولا۔

آواز میں اب غصے کی جگہ عاجزی تھی لہجہ انتہائی ہموار اور سادہ تھا لفظوں کو نہایت خوبصورتی سے ٹھہر ٹھہر کر قدرے رداں انداز میں ادا کیا گیا تھا۔

’’جائیں معاف کیا۔‘‘ اس نے اخبار ہٹا کر اسے دیکھا۔

’’او رئیلی۔‘‘ وہ خوشگوار حیرت میں گھر کر بولا شاید اسے اتنی جلدی اتنے مثبت ردعمل میں توقع نہیں تھی، وہ حقیقتاً امپریسڈ ہوا تھا۔

’’اچھا عریشہ کچھ اپنی ہابیز کے بارے میں بتاؤ نا؟‘‘ آج وہ نانا جان کے ساتھ زاہد پیلس آئی تھی، مانی کے دادا جان اسے بہت اچھے لگے تھے اور اس نے موقع غنیمت جان کر مانی کی شکایت بھی لگائی تھی، جس پر مانی کو اچھی خاصی ڈانٹ اور عریشہ کو مکمل طور پر عندیہ ملا تھا کہ وہ جب چاہے جتنے چاہے، باغیچے سے پھول توڑ سکتی ہے۔

پھر مانی نے اس کی فرمائش پہ اسے پورا گھر بھی دکھایا تھا اور اب وہ حسب عادت اپنے آنچل کے پلو میں موتیا کے پھول چن رہی تھی اور مانی نے یہ سوال اس کی پھولوں پر سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا تھا، کیونکہ اس کا سارا دامن پھولوں سے سجا ہوا تھا اور مانی کی قوت برداشت جواب دے رہی تھی۔

’’میرا شوق یہ ہے۔‘‘ کہہ کر اس نے اپنا پلو ہوا میں اڑا دیا، سارے پھول ان دونوں پر برستے ہوئے سرسبز شاداب گھاس پہ بچھ گئے تھے اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ بجائے خفا ہونے کے اس کے چہرے کے دھنک رنگوں میں جیسے کھو سا گیا تھا، اس کی ڈارک براؤن آنکھیں شفاف نازک کانچ کی مانند چمکتی تھیں شنگر فی لب بغیر کسی لپ اسٹک کے بیھ نوخیز گلابی کلیوں جیسے تھے بھرے بھرے گندمی رخساروں میں لالیاں سی گھلی تھیں چھوٹی سی ناک میں چمکتی ہیرے کی لونگ اس کا واحد زیور تھی اور اس کا سلیقے سے دوپٹہ اوڑھنے کا انداز کتنا پرکشش تھا۔

’’اونہوں مانی اب گھورنا تو بند کرو، رئیلی میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر جب تم نے میری ہابیز پوچھیں تو بتانا پڑا۔‘‘

’’تو پریکٹیکل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ وہ بگڑ کر بولا۔

’’ویسے میرا ایک اور بھی شوق ہے وہ بھی کر کے دکھاؤں۔‘‘ دونوں ساتھ چلتے چلتے برڈز کیج کے قریب رک گئے تھے مانی اس کی شرارت اور ارادہ بھانپ کر پنجرے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔

’’مہربانی جناب یہ برڈز بہت مہنگے ہیں۔‘‘

’’ویسے تمہارا لان بہت خوبصورت ہے تم کبھی ہمارے گاؤں آنا پھر میں تمہیں اپنا کشمیر دکھاؤں گی، بہت سندر جگہ ہے بلند و بالا پہاڑ اونچے اونچے گھنے درخت، بہتے جھرنے، وادیاں، لیکن اتنے خوشنما خوش رنگ پھول تو میں نے وہاں بھی نہیں دیکھے جب میں یہاں سے واپس جاؤں گی تو تم مجھے آرانیہ، للی سوئٹ، پیزا، ویلج اور ایسٹر کا ایک ایک پودا گٹ کرو گے، ویسے تو میرا دل چاہتا ہے تم مجھے یہ پورا لان گٹ کر دو۔‘‘ مانی اس کی بے تکی فرمائش پر زیرلب مسکرا دیا تھا۔

’’ویسے یاد آیا مجھے تو ڈرائیونگ کا بھی بہت شوق ہے تم مجھے ڈرائیونگ سکھاؤ گے؟‘‘ اگلے مطالبے پہ وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گیا۔

’’دیکھو میں تمہاری مہمان ہوں تم مجھے انکار نہیں کر سکتے۔‘‘ اور اس کے پاس انکار کی گنجائش ہی کہاں تھی، مجبوری میں ہی سہی اسے اثبات میں سر ہلانا ہی پڑا ورنہ وہ پھر دادا جان سے شکایت کرتی اور دادا جان کی کی کوئی بات وہ ٹالتا نہیں تھا۔

٭٭٭

’’آنٹی آپ سے ایک بات پوچھوں۔‘‘ وہ زہرہ بیگم کو آنٹی کہہ کر بلاتی تھی۔

’’ہاں پوچھو۔‘‘ انہوں نے شفقت سے اسے دیکھا وہ اس کے قریب بیٹھی ان کے پاؤں کی مالش کر رہی تھی دو روز پہلے واش روم میں سلپ ہونے سے ان کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی اور عریشہ ان کے منع کرنے کے باوجود زبردستی ان کے پاؤں پر زیتون کا تیل مل رہی تھی۔

’’میری ماما کیسی تھیں؟‘‘ وہ تیل کی بوتل کا ڈھکن بند کرنے کے بعد اب بڑے اشتیاق سے ان کی جانب متوجہ تھی۔

’’میں کیا بتاؤں بیٹا میں نے تمہاری ماما کو نہیں دیکھا۔‘‘

’’وہ کیوں بھلا؟‘‘ عریشہ کو تعجب نے گھیرا۔

’’تمہاری ماما کی شادی میری شادی سے پہلے ہو چکی تھی۔‘‘

’’تصویروں میں بھی نہیں۔‘‘

’’نہیں میں نے ان کی کوئی تصویر اس گھر میں نہیں دیکھی۔‘‘ انہوں نے نفی میں گردن ہلائی۔

’’پھر تو آپ نے میرے لالہ جان کو بھی نہیں دیکھا ہو گا۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی، اب کے بارے پھر سے زہرہ بیگم کا سر انکار میں ہلا تھا۔

’’جب میری ماما کی ڈیتھ ہوئی تب بھی آپ نہیں آئی تھیں۔‘‘

’’تب میں اور تمہارے ماموں شارجہ میں تھے مہرو کی ڈیلیوری کا وقت قریب تھا اور ڈاکٹر نے سفر سے منہ کر رکھا تھا اس لیے ہم آ نہیں سکے۔‘‘

’’اچھا اور اس کے بعد جب آپ پاکستان واپس آئیں تب تو آ سکتی تھیں نا۔‘‘ عریشہ نے اب کی بار کچھ نروٹھے پن سے کہا۔

’’تمہارے نانا جان نے ابھی تک تمہارے لالہ جانی کو اپنے داماد کے طور پر تسلیم نہیں کیا، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اس نے ہی ان کی معصوم بھولی بھالی بیٹی کو ورغلایا تھا اور ان کے مقابل لا کھڑا کیا، ان کی برسوں کی کمائی عزت مٹی میں رول دی، وہ آ کر تمہارے گھر جاتے ہیں تو صرف تمہارے لیے وہ تم سے اپنی بیٹی کو ڈھونڈتے ہیں جبکہ تمہارے لالہ جانی کو آج اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی وہ بالکل پسند نہیں کرتے میں نے اور تمہارے ماموں جان نے بہت بار چاہا کہ تم سے ملنے جائیں مگر ابا جن نے اجازت نہیں دی پھر ہم انہیں ناراض کر کے تو نہیں آ سکتے تھے نا۔‘‘

’’یہ انوکھی منطق ہے نانا جان کی خود تو جاتے ہیں مگر اور کسی کو جانے نہیں دیتے اور سارا قصور میرے لالہ جان کا تو نہیں ماما بھی انٹرسٹڈ تھیں ان میں۔‘‘ عریشہ کو نانا جان کی اس منافقت بھری سوچ پہ خوب غصہ آیا تھا، زہرہ بیگم نے کوئی جواب نہیں دیا۔

’’اور آپ کے ابا جان کیوں اکیلے رہتے ہیں آئی میں مانی کے پیرنٹس۔‘‘ یہ خیال کئی بار اس کے منہ میں آیا تھا مگر اس نے مالی سے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔

’’بھائی جان نیویارک میں اپنی فیملی کے ساتھ سیٹل ہیں انہوں نے وہاں ایک انگریز لڑکی کو مسلمان کر کے اس سے نکاح کر رکھا ہے۔

’’اور مانی کی ماما۔‘‘

’’وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘ زہرہ بیگم نے یاسیت سے کہا اور سوچا یہ محبت کا زہریلا ناگ جس کو ڈس لے پھر اسے کہیں کا نہیں رہنے دیتا، بڑا بھائی بھی اس گوری کی محبت کا اسیر ہو کر گھر کو بھول چکا تھا اس کی بیوی بے وفائی کے غم میں گھل گھل کر مر گئی اور مانی کو ابا جان کے پاس چھوڑ کر وہ گویا ان کا ہر حق ادا کر چکے تھے اور ابا جان کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ دن میں ایک بار اپنی آواز تو سنا دیتا ہے۔

’’ایم سوری۔‘‘ وہ افسردگی سے بولی۔

’’اور کون ہے آپ کی فیملی میں؟‘‘ کچھ لمحوں کے توقف کے بعد اس نے ایسے ہی برائے بات پوچھا تھا۔

’’اور کوئی نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پہ ایک تاریک سایہ سا لہرایا اور الفاظ اپنے مفہوم پر لرز گر رہ گئے وہ سست قدموں سے اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی، عریشہ نے سوچا ان دکھوں اور غموں کے ساتھ ہنسنا مسکرانا اور جیے جانا ہی شاید زندگی ہے۔

٭٭٭

’’دادا جان اب کی بارے میں آپ کی ایک نہیں سنوں گا، بس اب اس گھر میں دادی دلہن آ کر رہے گی، میری نظر میں دو رشتے بھی ہیں، ایک تو ہمارے گھر والی سڑک کے کارنر میں رہتی ہیں گورا رنگ، سبز آنکھیں، میرون بال اور ہاں منہ میں دانت بھی ابھی باقی ہیں اور بغیر سٹک کے چلتی ہیں، دھیمے مزاج والی شائستہ سی خاتون ہیں اور دوسری گرلز سکول کے آگے والی واک گراؤنڈ کے سامنے والی گلی میں ہیں، ہائے دادا جان ان کے تو کیا کہنے کاش وہ مجھے جانی میں ملی ہوتیں تو میں چانس مس نہ کرتا، بس آپ کو جو فیصلہ کرنا ہے جلدی کریں میں یہ روز روز آپ کی فرمائشیں نہیں پوری کر سکتا، کبھی آپ کو گوبھی کے پراٹھے چاہئیں، کبھی سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی تو کبھی گاجر کا حلوہ۔‘‘ کچن میں مانی کی لائیو ٹرانسمیشن مسلسل بڑبڑاہٹ کے ساتھ جاری تھی جبکہ دادا جان اپنے سامنے اخبار پھیلائے خبروں میں محو تھے، شاید مانی کی یہ بکواس دادا جان کے لیے روز کا معمول بن تھی مگر دادی دلہن پر تو اس کی ہنسی نہیں تھم رہی تھی وہ ابھی ابھی آئی تھی اس لیے دونوں اس کی آمد سے خبر خبر تھے، مانی نے کچن کی کھڑکی سے باہر جھانکا اور یہیں پہ اس کی شامت آئی دادا جان کھڑکی کے پاس ہی بیٹھے تھے فوراً اپنی لاٹھی اٹھا کر اس کے بازو کو نشانہ بنایا۔

’’گدھے، لانائق اتنی بوڑھی خواتیں پہ نظر رکھتا ہے شرم نہیں آتی۔‘‘

’’ارے وہ تو میں آپ کے لیے …‘‘ وہ برا مانتے ہوئے بولا۔

’’اور جو تمہاری دادی مرحومہ کو پتہ چلے تو خود تو واپس آ نہیں سکتی مجھے وہاں بلا لے گی۔‘‘ دادا جان نے ڈرنے کی ناکام ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا عریشہ سے ایک بار پھر اپنا قہقہہ ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا۔

’’دادا جان در اصل یہ در پردہ آپ سے اپنی شادی کی بات کرتا ہے مگر آپ سمجھتے نہیں۔‘‘ عریشہ نے دادا جان کے پاس بیٹھتے ہوئے مانی کو چھیڑا۔

’’ہاں اب تو واقعی سوچنا پڑے گا۔‘‘ وہ اخبار ایک جانب رکھ کر بالکل سنجیدہ ہو چکے تھے۔

’’دادا جان آپ بھی کس کی باتوں میں آ گئے۔‘‘ اس نے پھر کھڑکی سے جھانکتے ہوئے خاصی خونخوار نظروں سے عریشہ کو گھورا، جانتا جو تھا کہ دادا جن کے من میں ایک بار جو بات سما جائے پھر اسے عملی جامہ پہنا کر ہی انہیں چین آتا ہے۔

’’کیا بنا رہے ہو؟‘‘ وہ اٹھ کر کچن میں چلی آئی۔

’’گوبھی کے پراٹھے۔‘‘ وہ منہ پھیلا کے بولا۔

’’یہ گوبھی کے پراٹھے ہیں اتنے جلے سڑے۔‘‘ عریشہ نے ایک پراٹھا ہاتھ میں پکڑ کر ناک چڑھائی، وہ اطمینان سے پیچھے ہٹ گیا۔

’’آپ بنا کر دکھائیں ہم بھی تو دیکھیں کیا شاہکار تخلیق کرتی ہیں۔‘‘ سنک میں ہاتھ دھوتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہتا وہیں کیبن سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوا گیا، عریشہ کی اس کی جانب پشت تھی۔

’’کوئی ملازم کیوں نہیں رکھ لیتے۔‘‘

’’ملازمہ کی بیٹی کی ڈلیوری ہے وہ اس خوشی میں چھٹی لے کر اپنے گاؤں روانہ ہے اور کسی پہ دادا جان کو اعتبار نہیں آتا تین چار بار ملازمہ کا ارینج کیا ہے میں نے، دادا جان اس کا انٹرویو بھی ایسے لیتے ہیں جیسے اسے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنا ہو اور پھر…‘‘ وہ اپنی دھن میں بولے جا رہا تھا جبکہ عریشہ کا چہرہ اس کی پہلی اطلاع پر ہی خجالت سے سرخ ہو گیا تھا وہ تو پوچھ کر پچھتائی تھی۔

بے ساختہ مانی کی نگاہ اس کی سرمئی آنچل سے جھلکتی بھیگی سیاہ ریشمی زلفوں سے ٹکرائیں یوں لگتا تھا جیسے افق کے کنارے کالی گھٹا چپکے سے جھانک رہی ہو اور گالی گھٹاؤں میں سمٹا سا دن بوند بوند برس رہا تھا اس کا دل چاہا کاش کبھی ایسی بارش اسے بھی بھگوئے۔

’’شوگر کہاں ہے؟‘‘ وہ اچانک پلٹی مگر نہ جانے وہ کہا کھویا تھا اس نے تو اپنی بات بھی ادھوری چھوڑ دی تھی۔

’’مانی۔‘‘ عریشہ نے اس کا شانہ ہلایا۔

’’ہوں۔‘‘ وہ ہڑبڑا کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔

’’شوگر؟‘‘ عریشہ نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا اس نے آگے بڑھ کر کیبن سے شوگر اسے تھمائی اور خود باہر دادا جان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔

’’دادا جان آپ یہ ریڈیو سنتے ہیں؟‘‘ گوبھی کے پراٹھے سے مکمل انصاف کرتی عریشہ کی نگاہ اچانک ہی سامنے الماری میں رکھے ریڈیو سے ٹکرائی تھی۔

’’نہیں بیٹا اب اس عمر میں کیا ریڈیو لوں گا یہ تو ایسے ہی بے کار پڑا ہے۔‘‘

’’اچھا تو پھر میں لے لوں۔‘‘ اس نے اٹھ کر پہلے اسے جھاڑن سے اچھی طرح صاف کیا پھر چلا کر دیکھا تو وہ خاموش ہی رہا شاید سیل ایکسپائر ہو چکے تھے۔

’’ہاں ہاں کیوں نہیں یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔‘‘ وہ خوشدلی سے بولے۔

’’مانی اب اٹھ جاؤ۔‘‘ ریڈیو واپس الماری میں رکھتے ہوئے وہ مانی کی جانب پلٹی۔

’’کہیں جانا ہے؟‘‘ دادا جان نے استفسار کیا۔

’’ارے میں تو آپ کو بتانا ہی بھول گئی یہ مانی مجھے ڈرائیونگ سکھانے والا ہے اور آج میری کلاس کا پہلا دن ہے اور یہ جناب ہیں کہ ناشتے سے ہی فارغ نہیں ہو رہے۔‘‘

’’اچھا بابا چلو۔‘‘ وہ چائے کا آخری گھونٹ بھرتا فوراً اٹھ گیا۔

’’ریڈیو پر زیادہ کسے سنتی ہو۔‘‘

’’میں تو جسٹ مریان حیدر کو سنتی ہوں کیا بتاؤں مانی اتنی پرکشش بھاری گمبھیر آواز سحر انگیز دلنشین لہجہ اس پر اس کا زبردست کلیکشن، واؤنڈر فل، کاش میں ایک بار ان صاحب سے مل لوں۔‘‘ مانی نے اپنی وائٹ ہنڈا اسوک میں بیٹھتے ہوئے ایسے ہی سرسری سا پوچھا تھا مگر اس کے قابل دید اشتیاق پہ کھٹک گیا۔

’’اور فرض کرو اگر وہ کبھی کہیں تمہیں مل جائے تو اسے کیا کہو گی۔‘‘

’’آئی لو…‘‘ مانی کا پاؤں بے اختیار بریک پر پڑا تھا جہاں گاڑی ایک جھٹکے سے رکی وہیں عریشہ کی زبان کو بھی یک دم بریک لگا۔

’’تم اسے آئی لو یو کہو گی۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بے یقینی سے بولا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

’’نہیں ’’یو‘‘ کو ’’یور‘‘ بنا کر اس کے ساتھ ڈانس بھی لگاؤں گی۔‘‘ وہ ابھی تک ہنس رہی تھی۔

’’ویسے اتنی بھی خاصی نہیں ہے اس کی وائس، سن چکا ہوں میں۔‘‘ وہ اپنی بھینپ مٹانے کو بولا۔

’’پلیز میں مریان حیدر پہ کوئی بھی نیگیٹو ورڈ نہیں سنوں گی۔‘‘ وہ برا مان گئی۔

’’اچھا دیکھو یہ اسٹیرنگ ہے یہ اسپیڈ بریکر اور یہ کلچ۔‘‘ وہ ایک ایک کر کے اسے سب کے نام بتا رہا تھا۔

’’اوکے فائن آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے اب مجھے ونیلا آئس کریم کھلاؤ اگر تم میرا موڈ درست کرنا چاہتے ہو تو۔‘‘ عجیب زبردستی تھی وہ زیر لب مسکراتا ہوا گاڑی کا رخ ایٹ مور کی جانب موڑ چکا تھا۔

٭٭٭

’’یار قسم سے ابھی چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی ویل تھینکس۔‘‘ میگزین ایک جانب رکھ کر چائے کا مگ تھامتے ہوئے مہرہ نے مشکور نظروں سے عریشہ کو دیکھا، تبھی ٹیلی فون کی بیل پر اسے اس جانب متوجہ ہونا پڑا۔

’’تمہارا ہی فون ہے۔‘‘ اگلے ہی پل اس نے ریسیور عریشہ کو تھما دیا، دوسری جانب نوری تھی۔

’’اب کیا تم وہاں جا کر جم ہی چکی ہو واپس کب آؤ گی۔‘‘ عریشہ کی آواز سنتے ہی وہ چیخ پڑی تھی، اس نے بے ساختہ ریسیور کار سے دور ہٹایا۔

’’اچھا یہ بتاؤ لالہ جانی کیسے ہقں؟‘‘

’’اچھے ہیں۔‘‘ ابھی تک اس کا لہجہ اکھڑا خفا خفا سا تھا۔

’’مجھے بہت یاد کرتے ہوں گے۔‘‘ وہ افسردہ ہوئی۔

’’شکر کرتے ہیں کہ تم گھر میں نہیں ہو ورنہ ہر وقت چیں چیں کر کے یسب کا سر کھاتی ہو جانتی ہو پچھلے کئی روز سے گاؤں میں کسی کو سر درد کی شکایت نہیں ہوئی۔‘‘

’’نوری کی بجی۔‘‘ عریشہ نے دانت پیسے دوسری جانب اس کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

’’اچھا لالہ جانی کا بہت خیال رکھنا۔‘‘

’تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں وہ میرے بھی لالہ جانی ہیں۔‘‘ وہ پھر سے خفا ہوئی۔

نوری ان کے پڑوس میں رہتی تھی تین بھائیوں کے ہوتے ہوئے اسے اپنے گھر میں تو کوئی کام ہوتا نہیں تھا سو ہر وقت ان کے گھر میں پائی جاتی تھی۔

’’اچھا اب فٹافٹ بتاؤ، واپس کب آؤ گی؟‘‘

’’جب دل چاہے گا‘‘ نوری کو چڑاتے ہوئے اس نے ریسیور رکھ دیا، مہرو یقیناً اکیڈمی جا چکی تھی اس کی میڈیکل کی پڑھائی اتنی ٹف تھی کہ وہ بمشکل ہی عریشہ کو وقت دے پائی تھی، کچھ دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد اچانک اسے خیال آیا کہ گل دادا جان نے اس سے حلوہ کھانے کی فرمائش کی تھی وہ حلوہ بنانے کے لیے اٹھ کر کچن میں چلی آئی۔

دو تین کیبنٹ کا جائزہ لینے کے بعد اسے اپنا مطلوبہ سامان مل گیا تھا۔

’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ عین دروازے کے وسط میں کھڑا استفسار کر رہا تھا۔

’’حلوہ بنا رہی ہوں دادا جان کے لیے۔‘‘ سوجی بھونتے ہوئے اس نے بغیر پلٹے جواب دیا۔

’’خوشبو تو اچھی آ رہی ہے۔‘‘ اس نے آگے بڑھ کر کڑاہی میں جھانکا۔

’’واؤ بادام، کشمش، پستہ۔‘‘ مانی نے پلیٹ کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ عریشہ نے اسے ٹوکنے کے لیے بے ساختہ اس کے ہاتھ پہ کف گیر دے مارا، وہ درد سے بلبلا اٹھا تھا اور اب پورے لاؤنج میں اس کی پریڈ جاری تھی۔

’’ایم سوری مانی، وہ میں نے نوری کے دھوکے میں …‘‘ وہ وضاحتیں کرتی اب پیچھے پیچھے تھی۔

’’ہائے اتنا گرم کف گیر میرا ہاتھ جلا دیا۔‘‘ وہ مسلسل دہائیاں دے رہا تھا۔

’’اچھا یہ لگا لو پھر جلن نہیں ہو گی۔‘‘ وہ بھاگ کر پیسٹ اٹھا لائی تھی مگر وہ اس کی سن کہاں رہا تھا اس وقت اس کا ٹانک عروج پر تھا۔

’’بیٹھو یہاں اتنا جلا نہیں جتنا شور مچا رکھا ہے۔‘‘ عریشہ نے اسے زبردستی صوفے پر بٹھایا اور خود اس کے زخم پر پیسٹ لگانے لگی، زخم واقعی گہرا تھا اسے دیکھ کر دکھ ہوا۔

’’بہت جلن ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے ہمدردی سے پوچھا تو مانی نے کسی معصوم بچے کی طرح خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’دایم سوری مانی، میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘‘ وہ پست لہجے میں شرمندگی سے معذرت کر رہی تھی اور مانی کو آج تک کبھی کسی آنکھوں میں کاجل اتنا اچھا نہیں لگا تھا سنہری آنکھوں کی لرزتی لمبی پلکیں اس کا دل دھڑکا گئی تھی۔

٭٭٭

’’ویری گڈ۔‘‘ مانی نے تالی بجا کر اس کی شاندار ڈرائیونگ کو داد دی، پندرہ دن میں اس نے سب سیکھ لیا تھا۔

’’ہو جائے ایک لانگ ڈرائیو۔‘‘ اس کے پرجوش انداز پر وہ شانے اچکاتا فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ چکا تھا وہ بے حد محتاط انداز میں ڈرائیونگ کر رہی تھی مگر اس کی گاڑی کا رخ مرالہ روڈ کی بجائے کسی اور سمت تھا۔

’’ہم لاہور جا رہے ہیں۔‘‘ مانی کے استفسار پہ وہ کمال اطمینان سے بولی۔

’’کیا؟‘‘ وہ بے ساختہ اپنی سیٹ پر اچھل کر رہ گیا۔

’’محترمہ لاہور یہاں سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پہ ہے۔‘‘ مانی نے اسے روکنا چاہا۔

’’دو گھنٹے جانے اور دو آنے میں چھ گھنٹے وہاں، تو اس کا مطلب ہے ہم دس گھنٹوں میں واپس آ جائیں گے گڈ۔‘‘ اس کے اطمینان میں زرہ برابر فرق نہیں آیا تھا۔

’’میرے دادا جان خفا ہو نگے اور تمہارے نانا جان۔‘‘

’’ڈونٹ وری نانا جان سے میں نے پرمیشن لے لی تھی اور رہے دادا جان تو وہ اگر خفا بھی ہوئے تو تم پر ہوں گے میں تو مہمان ہوں۔‘‘ وہ اس کی بات اچک کر مزے سے مسکرائی۔

’’کم آن اب اپنی شکل کے زاویے تو درست کرو میں تمہیں کڈنیپ کر کے تو نہیں لے جا رہی، دس گھنٹے بعد واپس مابدولت آپ کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ آپ کی رہائش گاہ تک پہنچا دے گی۔‘‘ اس کی کھلکھلاہٹ پر وہ محض اسے گھور کر رہ گیا۔

’’اب خاموش ہو کر کیوں بیٹھ گئے کوئی بات کرو تاکہ کچھ تو راستہ کٹے۔‘‘ اس کی مستقل خاموشی اب اسے کھٹکنے لگی تھی۔

’’جب لاہور آ جائے تو مجھے جگا دینا۔‘‘ اس نے سیٹ کے پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں مون لیں، عریشہ کی تو جان ہی جل کر رہ گئی تھی۔

’’دیکھتی ہوں کیسے سوتے ہو۔‘‘ اس نے گڑھ کر سوچا اور نان اسٹاپ شروع ہو گئی۔

’’جانتے ہو میں فرسٹ ٹائم لاہور جا رہی ہوں مجھے بہت شوق تھا لاہور دیکھنے کا، مگر میں پہلے کبھی آ نہیں سکی، ایک بار ہمارے اسکول کی ٹرپ آئی تھی لیکن لالہ جانی نے مجھے پرمیشن نہیں دی نوری نے اس ٹرپ کے ساتھ لاہور دیکھا ہوا ہے واپس آ کر اتنی تعریفیں کیں کہ بس میں نے سوچ لیا اگر کبھی نانا جان کے گھر آئی تو لاہور ضرور دیکھوں گی اب یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ نانا جان اور ماموں آفس میں بزی رہتے ہیں، مہرہ اپنی سٹڈی میں مصروف راحل آؤٹ آف کنٹری اور وہ ہوتا بھی تو میں اس کے ساتھ کبھی نہ جاتی، کوئی انڈر اسٹینڈنگ بھی تو ہو اس نے تو کبھی مجھ سے فون پر بات کرنا گوارہ نہ کیا جانے کن ہواؤں میں رہتا ہے، خیر چھوڑو تو میں کہہ رہی تھی باقی ممانی جان تو ان پہ گھریلو ذمہ داریاں، دادا جان کو ٹریولنگ سے چڑ ہے، ایسے میں بس ایک تم ہی فارغ تھے تو میں نے سوچا کیوں نہ تمہیں بھی تھوڑی سی سیر کروا دوں، گھر میں تم بے چارے بور ہو جاتے ہو گے نہ تمہارا کوئی دوست ہے نہ لوٹر لڑکوں جیسے کوئی مشاغل، ویسے آج جب تم مجھے سارا لاہور گھماؤ گے، تو بلیو می تمہیں بہت مزہ آئے گا آزمائش شرط ہے۔‘‘ اور پھر سارا؟؟؟ ہوئی نا تو ساری فلمیں بھول جاؤ گی۔‘‘ وہ لفظوں کو خوب چبا چبا کر غصے سے بولا۔

’’تم اتنے روڈ کیوں ہو رہے ہو۔‘‘ اس نے حیرت سے دریافت کیا۔

’’تو کیا گانا گاؤں۔‘‘ وہ جل کر رہ گیا۔

’’اور اگر ساتھ ڈانس بھی ہو تو مزہ آ جائے۔‘‘ وہ ہنوز غیر سنجیدہ تھی۔

’’دیکھو میرا دماغ نہ کھاؤ، مجھے کچھ سوچنے دو۔‘‘

’’تو ایک جگہ بیٹھ کر بھی تو سوچ سکتے ہو۔‘‘ وہ اس کی پریڈ سے عاجز آ کر بولی۔

’دبلکہ تم پہلے یہ چاکلیٹ کھا لو۔‘‘ ہاتھ میں پکڑی آدھی کھائی چاکلیٹ اس نے مانی کی جانب بڑھائی تو مانی نے رک کر اسے یوں دیکھا جیسے اس کا دماغ چل گیا ہو پھر نپے تلے قدم اٹھاتا اس کے قریب آ کر رک گیا۔

’’تم جانتی ہو ہم کس قدر مصیبت میں پھنس چکے ہیں اگر یہ گاڑی نہ چلی تو رات اسی سڑک کے کنارے گزارنی پڑ سکتی ہے۔‘‘ اسے اپنی فکر نہیں تھی اگر جو اس کے ساتھ عریشہ نہ ہوتی تو وہ ہرگز اس قدر ڈسٹرب نہ ہوتا مگر آج کل تو حالات چل رہے تھے کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا، اس پر سے جنگل، ویرانہ اور رات کا وقت۔

’’تم اتنا نیگیٹو کیوں سوچ رہے ہو ابھی کوئی گاڑی یہاں سے گزرے گی تو لف لے لیں گے۔‘‘ اس کے کہتے ہی دور سے آتی ایک کرولا کی ہیڈ لائٹس دکھائی دی تھیں، عریشہ کی آنکھیں چمکنے لگیں وہ بونٹ سے اتر کر اس کے قریب آ کھڑی ہوئی۔

’’دیکھا۔‘‘ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے مانی کو باور کروایا۔

لفٹ کے لیے دونوں نے سگنل دیا تھا مگر گاڑی بغیر رکے اپنی سابقہ رفتار کو برقرار رکھے گزرتی چلی گئی۔

’’ملی گئی لفٹ۔‘‘ وہ صاف مذاق اڑاتے لہجے میں بولا۔

’’تم جو ساتھ نہ ہوتے تو مل ہی جاتی۔‘‘ پھر وہ دیر تک اس نامعلوم افراد کو غائبانہ صلواتوں سے نوازتی رہی۔

مانی نے ایک بار پھر سے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی، مسلسل چلنے کی وجہ سے شاید انجن تپنے لگا تھا اب جو ذرا ریسٹ ملا تو وہ اپنی سانسیں ہموار کرتی پھر سے چل پڑی تھی۔

’’تھینک گاڈ۔‘‘ اس نے پورے دل سے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔

’’لو آ گیا تمہارا گھر۔‘‘ مانی نے باہر نکل کر اس کی جانب کا دروازہ کھولا۔

’’تم بھی آؤ مجھے اندر تک چھوڑنے۔‘‘ وہ اس کے قریب ہی رک گئی۔

’’کیوں؟‘‘ مانی اس کے سہمے ہوئے انداز پر کچھ ٹھٹکا۔

’’میں نے نانا جان کو نہیں بتایا تھا کہ میں تمہارے ساتھ لاہور جا رہی ہوں۔‘‘ اس کے معصومیت بھرے انکشاف پہ مانی کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا اور اس کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں عریشہ کو مزہ دے گئیں، مگر پھر اس کی ہراساں شکل دیکھ کر وہ اپنی ہنسی ضبط نہیں کر سکی۔

’’بہت بد تمیز ہو۔‘‘ مانی نے اپنا کب کا رکا سانس بحال کیا، وہ اسے گڈبائے تھینک یو ویری مچ کہتی وائیٹ گیٹ کی جانب بڑھ گئی، مانی نے دور تک اسے جاتے دیکھا اور ’’پاگل‘‘ کہ کر زیر لب مسکرا دیا۔

٭٭٭

’’یہ لیجئے سب کی چائے۔‘‘ ممانی جان اور مہرو راحل کو گھیرے بیٹھی تھیں جو ابھی کل شام ہی واپس آیا تھا، عریشہ نے چائے کے کپ دیگر لوازمات کے ہمراہ تینوں کے عین درمیان میں رکھے اور پھر سب کو چائے سرو بھی کی۔

راحل بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا، اسکائی بلو آنچل میں اس کی سنہری رنگت سونے کی مانند دمک رہی تھی، راحل نے سوچا اگر یہ لمبے بال شولڈر کٹ میں تبدیل ہو جائیں اور یہ گز بھر کا دوپٹہ اتار کر سلیو لیس اور جینز پہنے تو اتنی بھی بری نہیں۔

٭٭٭

’’دادا جان ایک گیم اور پلیز۔‘‘ وہ دادا جان کے ساتھ لان میں ٹینس کھیل رہی تھی، دادا جان اب تھک کر بیٹھ چکے تھے اور وہ بضد اصرار تھی کہ ایک گیم اور کھیلی جائے۔

’’نہیں بیٹا اب اور نہیں۔‘‘ وہ پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بمشکل بولتے ہوئے آدھی بات اشارے سے سمجھا پائے تھے۔

مانی بظاہر اخبار میں گم مگر سارا دھیان ان دونوں کی تکرار کی جانب تھا، آخر جیت عریشہ کی ہوئی وہ کچھ دیر کھڑے اپنی بے ترتیب سانسیں ہموار کرتے رہے اور پھر اس کے ساتھ کھیلنے پر آمادہ ہو گئے، اسی وقت مہرہ تقریباً بھاگتی ہوئی آئی تھی۔

’’عریشہ تمہارے لالہ جانی آئے ہیں۔‘‘ اس نے دور سے ہی آواز دی۔

’’لالہ جانی اور یہاں۔‘‘ وہ خوشگوار حیرت سے دو چار ہوئی اس کے پیچھے لپکی۔

’’اس کا مطلب ہے یہ اب واپسسی چلی جائے گی۔‘‘ اس سوچ کے ساتھ ہی مانی کا دل ایک لمحے کو ڈوب کر ابھرا۔

’’بہت رونق تھی اس بچی کی وجہ سے ہمارے گھر میں، اب یہ واپس چلی جائے گی تو میرا دل نہیں لگے گا۔‘‘ دادا جان افسردہ ہوئے تھے۔

’’اور میرا بھی۔‘‘ مانی کے دل نے چپکے سے اس کیے کانوں میں سرگوشی کی۔

٭٭٭

’’لالہ جانی آپ یوں اچانک۔‘‘ لاؤنج میں قدم رکھتے ہی وہ لالہ جانی کی بانہوں میں جھول گئی تھی۔

’’کیسی ہے میری گڑیا۔‘‘

’’بالکل ٹھیک، مگر آپ مجھے کچھ فٹ نہیں لگ رہے اپنا خیال نہیں رکھتے تھے نا۔‘‘ اس نے ان کا شانہ چھوڑ کر شاکی نظروں سے انہیں دیکھا تو وہ مسکرا دیے۔

’’لالہ جانی آپ ڈنر میں کیا لیں گے۔‘‘ دونوں کے درمیان کھڑی مہرو نے ان سے استفسار کیا اس وقت زہرہ بیگم میڈیسن لینے فاروق صاحب کے ساتھ کلینک گئی تھیں کل رات سے انہیں ٹمپریچر ہو رہا تھا اور نانا جان بھی کچھ دیر پہلے باہر نکلے تھے مہرو کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔

’’ارے نہیں بیٹا تم کوئی تکلف نہ کرو ہم واپسی کے لیے نکلنے ہی والے ہیں۔‘‘ وہ مہرو کا گال تھپتھپا کر عریشہ کی جانب مڑے۔

’’بیٹا تم جلدی سے اپنا سامان پیک کر لو دو دن بعد نوری کا نکاح ہے اور اس نے آج صبح سے شور مچا رکھا ہے کہ اگر عریشہ نہیں آئے گی تو وہ نکاح ہی قبول نہیں کرے گی۔‘‘

’’نوری کا نکاح یوں اچانک۔‘‘ اس کی آنکھوں میں استعجاب اتر آیا۔

’’ہاں وہ عاذب سعودیہ جا رہا ہے تو ابھی بس نکاح کر رہے ہیں رخصتی دو سال بعد ہو گی تم ذرا جلدی کرو واپس بھی آج رات جانا ہے۔‘‘ اب کی بار وہ فوراً اٹھ گئی۔

’’ارے یہ کیا ہم آئے اور آپ چل دیے۔‘‘ راحل دروازے میں کھڑا دریافت کر رہا تھا یقیناً اسے مہرو سے اطلاع مل چکی تھی اور وہ لالہ جانی سے مل کر سیدھا اوپر ہی آیا تھا۔

’’تو قصور تو آپ کا ہوا نا آپ نے آنے میں دیر کر دی۔‘‘ وہ بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے برجستہ بولی، اس کے نیچے آنے تک نانا جان آ چکے تھے وہ سب سے مل کر باہر نکل آئی گیٹ کے قریب ہی ٹیکسی کھڑی تھی۔

نانا جان اور مہرہ اس کے جانے پر بے حد افسردہ دکھائی دے رہے تھے اور اس نے آتے ہوئے نانا جان سے وعدہ لیا تھا کہ وہ مہرو اور ممانی جان کو لے کر ان کے گھر ضرور آئیں گے جبکہ زبیر لغاری اور شیراز حسن میں محض سلام کا تبادلہ ہوا تھا پھر دونوں نے دوبارہ ایک دوسرے سے کلام نہیں کیا تھا۔

زبیر لغاری کو دیکھ کر انہیں آنسو بہاتی زارا یاد آ جاتی تھی جو روز ان کے سینے سے لگ کر ایک ہی سوال کرتی۔

’’شیزی میں نے کوئی اتنا بڑا جرم تو نہیں کیا تھا نا جو ابا جان نے مجھے اپنی زندگی سے بے دخل کر دیا۔‘‘

وہ ٹیکسی میں سوار ہونے والے تھے جب عریشہ نے دروازے میں حائل ہو کر ان کو بیٹھنے سے روکا وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔

’’لالہ جانی پہلے دادا جان سے تو مل لیں ورنہ وہ بہت خفا ہوں گے کہ میں جو ہر وقت ان کے گھر میں گھسی رہتی تھی جاتے ہوئے خدا حافظ بھی نہیں کیا۔‘‘ وہ لالہ جانی کا بازو تھامے مسلسل بولتی زاہد پیلس میں داخل ہو چکی تھی۔

’’یہ کس کا گھر ہے۔‘‘ شیراز حسن کی آنکھوں میں ستائش کے رنگ چمکے۔

’’یہ مہرو کے نانا جان کا گھر ہے اور مہرو کے نانا جان کو میں دادا جان کہتی ہوں۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ طویل روش کو عبور کرنے کے بعد سامنے بڑے لاؤنج میں دادا جان بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے انہیں اندر آتا دیکھ کر اپنی جگہ سے بے ساختہ اٹھ کھڑے ہوئے۔

’’دادا جان یہ میرے لالہ جانی ہیں۔‘‘ شیراز حسن کے لیے تو کائنات ایک نقطے میں سمیٹ آئی تھی وہ جہاں کھڑے تھے وہیں مجسم ہو گئے۔

دادا جان کے نورانی چہرے پہ دراڑیں سی پڑ گئیں کچھ کہنے کی کوشش میں ان کے لب مسلسل کانپ رہے تھے۔

جبکہ کچن سے برآمد ہوتا مانی بھی وہیں دہلیز پر رک کر ان کا جائزہ لینے لگا، انگوری رنگ کے کلف لگے شلوار سوٹ میں وہ بے حد وجیہہ لگ رہے تھے سیاہ سلکی بال اس کی فراخ پیشانی پہ لہرا رہے تھے رنگت میں گلابوں کا عکس جھلکتا تھا، گھنٹی سیاہ مونچھوں تلے عنابی لب سختی سے ایک دوسرے میں پیوست تھے سبز آنکھوں میں گھلے حزن و ملال کے رنگ انہیں مزید پر سوز بنا رہے تھے، اس نے آج تک مردانہ وجاہت سے اس قدر بھرپور شخصیت نہیں دیکھی تھی، وہ سوچ رہا تھا اگر زارا آنٹی نے ان کے لیے اتنا بڑا اسٹینڈ لیا تھا تو اس میں کوء خاص تعجب کی بات نہیں تھی، ان کی مقناطیسی پرکشش شخصیت مقابل کو مسمرائز کر دینے کی حد تک سحر انگیز تھی۔

دادا جان اور لالہ جانی کے تاثرات عریشہ کے لیے خاصے ناقابل فہم تھے، اس نے کچھ الجھ کر استفہامیہ نگاہوں سے مانی کو دیکھا تو اس نے لاعلمی سے شانے اچکا دیے۔

’’ا… ب… ابا… جی…ا … جان۔‘‘ لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر شیراز حسن کے لبوں سے ادا ہوئے تھے اور اگلے ہی لمحے انہوں نے آگے بڑھ کر ابا جان کے کمزور نا تواں وجود کو اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا، اب ششدر ہونے کی باری عریشہ اور مانی کی تھی۔

’’ابا جان!‘‘ لاؤنج میں چاروں طرف ایک ہی آواز کی گونج تھی۔

’’میں نے غصے میں آ کر چلے جانے کو کہا اور تم چلے گئے کبھی مڑ کر خبر نہ لی کہ تمہارا بوڑھا باپ زندہ بھی ہے یا مر چکا۔‘‘ دادا جان کے جھریوں بھرے چہرے پہ آنسو لکیریں بناتے گزر رہے تھے، وہ ان کا بیٹا تھا اور بیٹوں کا ہر قصور قابل معافی ہوتا ہے، شیراز حسن نے ان کے دونوں ہاتھوں پہ سر ٹکا دیا۔

’’میں کچھ دنوں بعد آپ کو منانے آیا تھا مگر آپ وہ گاؤں چھوڑ چکے تھے میں نے بہت ڈھونڈا مگر آپ نہیں ملے۔‘‘ ان کے لہجے میں صدیوں کی تھکن در آئی یہ الگ بات کہ ان کچھ دنوں میں تین سالوں کی مسافت تھی۔

مانی جا کر زہرہ بیگم اور نانا جان کو بلا لایا تھا اگلے ہی پل لاؤنج میں خوب رونق اور میلے کا سا سماں تھا۔

’’لالہ جانی کبھی میری یاد نہیں آئی۔‘‘ زہرہ بیگم ان کے ساتھ بیٹھی بچوں کی طرح شکوہ شکایات کر رہی تھی۔

’’بہت آئی تھی اس لئے تو عیشو سے کبھی خود کو بابا نہ کہلوایا وہ جب جب لالہ جانی کہہ کر بلاتی تھی مجھے تم یاد آتی تھیں۔‘‘ شیراز حسن نے محبت سے بہن کو اپنے ساتھ لگا لیا۔

زبیر لغاری خاموش بیٹھے اپنی جلد بازی پر پچھتا رہے تھے کیا تھا جو وہ زارا کی بات پر غور کر لیتے اس نے بلا شبہ اپنے لئے بہترین شخص کا انتخاب کیا تھا۔

’’پلیز لالہ جانی اب یہ ایموشنل سین بس بھی کریں۔ عریشہ نے چائے کی ٹرے سینٹرل ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اکتا کر کہا تو سب ہنس دئیے راحل اور مہرو بھی وہیں تھے، البتہ مانی کہیں نظر نہیں آ رہا تھا وہ اپنا اور اس کا کپ اٹھا کر باہر نکل آئی۔

٭٭٭

وہ بالائی منزل کی جانب جاتی سیڑھیوں پہ بیٹھا تھا، جولان کے دائیں سائیڈ پہ واقع تھیں، سیڑھیوں کی ریلنگ کے ساتھ بوگن ویلیا کی خوب گھنی بیل تھی سبک ہوا کے جھونکے آتے جاتے شاخوں سے جب اٹکھیلیاں کرتے گزرتے تو شاخوں کے کنارے ٹکے گلابی پھول اڑ کر ہمہ وقت سیڑھیوں پہ برسا کرتے تھے۔

’’چائے۔‘‘ عریشہ کپ اس کی جانب بڑھا کر خودبھی وہیں بیٹھ گئی۔

’’تھینک یو۔‘‘ اس نے کپ تھام کر لبوں سے لگا لیا۔

’’میرے لئے تو یہ بہت بڑا سرپرائز ہے کہ تم میرے فرسٹ کزن ہو۔‘‘ وہ ابھی تک شاک کے زیر اثر تھی، کچھ وہ فطری طور پر لا ابالی تھی اور جس قدر لالہ جانی نے اسے پیار دیا تھا اسے تو کبھی اپنی ماں بھی یاد نہیں آئی تھی، کجا کہ ددھیالی رشتے دار اور پھر وہ خود سے ہی یہ سمجھتی رہی کہ اس کے لالہ جانی اکلوتے تھے اور دادی حیات نہیں ہیں اور اب یوں اچانک اتنے سارے رشتوں کا مل جانا کسی ونڈر سرپرائز سے کم نہیں تھا۔

’’اور مجھے بھی یہ کوئی فلمی سی سیچویشن لگ رہی ہے آئی کانٹ بلیو یار۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔

’’ویسے آپ کے گھر کو دیکھ کر اکثر میرے دل میں یہ خواہش ابھرتی تھی کہ کاش یہ گھر میرا ہوتا اور میں صبح صبح سارے گھر کو پھولوں سے سجا دیتی اور اب تو…‘‘

’’اے لڑکی خبردار جو میرے پھولوں پر اپنی نیت خراب کی تو۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر تیزی سے بولا تو وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔

’’چلو جلدی سے دونوں اپنا منہ میٹھا کرو۔‘‘ چینی کی پلیٹ میں دو رس گلے لئے مہرو ان کے سامنے کھڑی تھی۔

’’مگر کس خوشی میں۔‘‘ دونوں کے لبوں سے ایک ساتھ نکلا۔

’’راحل بھائی کی منگنی کی خوشی میں۔‘‘ ساتھ اس نے عریشہ کا بازو کھینچ لیا۔

’’جلدی آؤ سب وہاں تمہارا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ کھینچتی چلی گئی، مہرو نے لے جا کر اسے زہرہ بیگم کے پہلو میں بٹھایا تھا، زہرہ بیگم نے اپنی انگلی سے ڈائمنڈ رنگ اتار کر اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں سجا دی۔

’’آج سے یہ ہماری بیٹی۔‘‘ محبت بھرا لمس اس کی پیشانی پہ ٹھہرا اس نے کچھ نا سمجھی کے عالم میں خالی خالی نظروں سے سب کو دیکھا تو نگاہ بے ساختہ راحل کی سمت اٹھ گئی وہ خاصی پر شوق نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

اس کے من میں نہ تو کوئی لطیف سا احساس جاگا نہ کسی جذبے نے کروٹ لی، بلکہ اس کے بر عکس ایک عجیب سا سناٹا اور خالی پن اس کے روم روم میں اترنے لگا تھا وہ اپنی کیفیت کو کوئی نام نہ دے پائی اور وہاں سے اٹھ گئی۔

٭٭٭

اسے واپس گھر آئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا مگر نہ جانے کیسی اداسی اس کے دامن سے لپٹ گئی تھی لاکھ دامن جھاڑا، جھٹکا مگر بے سود، وہ اداسی و اضطراب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا تھا، اسے سیالکوٹ یاد نہیں آ رہا تھا اسے دادا جان، نانا جان، ممانی جو اب اس کی پھوپھو بھی تھی یا مہرو، راحل اور ماموں میں سے بھی کسی کی یاد نہیں ستا رہی تھی، اسے صرف مانی یاد آ رہا تھا اس کی باتیں، اس کی ہنسی، اس کی جھنجھلاہٹ اس کے ساتھ بیتا ایک ایک پل اور ہر لمحہ بہت یاد آ رہا تھا اور یہی یاد اسے تشویش میں مبتلا کیے دے رہی تھی۔

’’وہ کیوں مجھے یاد آتا ہے۔‘‘ وہ خود سے پوچھ پوچھ کر ہار گئی مگر کہیں کوئی جواب کوئی آواز نہیں تھی دل تھا کہ اس کی بے بسی پہ ہنستا رہتا اور آنکھیں اسے دیکھنے پر بضد جب کبھی نظر اپنے ہاتھ کی تیسری انگلی پر پڑتی تو اک رنگین دائرے کی صورت وہاں کچھ جلنے لگتا تھا جس کی تپش اس کے پورے وجود میں اضطراب کی لہریں دوڑا دیتی۔

’’تو کیا مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔‘‘ تھک ہار کر اس نے دل سے وہ سوال پوچھا جس سے وہ پچھلے سات دنوں سے نظریں چرا رہی تھی، دل کی لے ہی بدل گئی تھی وہ بے ساختہ بیڈ سے اٹھ بیٹھی۔

’’اف میرے خدایا یہ کیا ہو گیا۔‘‘ اس نے بے ساختہ سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اسے اس راہ کا مسافر کبھی نہیں بننا تھا مگر محبت پر کسی کا زور نہیں چلتا مگر یہ اپنا زور ہر کسی پر چلانے کی طاقت رکھتی ہے ہر وجود کو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ یہ دل کو اپنا ہم نوا بناتی ہے دل کے سامنے وجود کی حیثیت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے۔

٭٭٭

وہ واپس آئی تو لغاری ہاؤس میں اس کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں، وہ مانی سے بات کرنا چاہتی تھی اسے خود کو دو حصوں میں بانٹ کر زندگی نہیں گزارنی تھی، مگر اس نے خود کو نہ جانے کن نادیدہ کاموں میں الجھا رکھا تھا ایک منٹ بھی تو نہیں تھا اس کے پاس عریشہ کے لئے، وہ جس کا کبھی سارا وقت اس کا ہوا کرتا تھا۔

برسات کا موسم تھا جاتی گرمیوں کے دن تھے موسم بدل رہا تھا مگر اس کے لئے تو جیسے وقت رک سا گیا تھا نہ دن ڈھلتے تھے نہ راتیں کٹتی تھیں، کروٹیں بدل بدل کر جسم دکھنے لگا تو وہ اٹھ کر باہر لان میں چلی آئی، آسمان کے سینے پر سر رکھ کر لیٹا چاند بھی جاگ رہا تھا کہ رتجگے تو اس کا مقدر تھے، وہ خالی خالی نظروں سے کبھی چاند کو دیکھتی تو کبھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو۔

’’جدائی اگر دو پل کی ہو تو کوئی جھیل بھی سکتا ہے جدائی اگر چار دن کی ہو تو کوئی سہہ بھی سکتا ہے مگر جدائی اگر عمر بھر کی ہو تو کوئی کہاں تک چارا کرے میرے مولا میری طرف دیکھ میرے ان اٹھے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھ اگر تو چاہے تو انہیں بھر بھی سکتا ہے۔‘‘ وہ تنہائی اور اکیلے پن کے ساتھ رات کے آخری پہر کھلے آسمان کے نیچے بیٹھی اپنے رب سے ہمکلام تھی۔

ہلکے ٹمپریچر کی وجہ سے اسے باہر خنکی سی محسوس ہوئی مگر وہ ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی تیز ہواؤں کی زد میں شاخوں سے ٹوٹ کر بکھرے زرد سوکھے پتے محو رقص تھے لیکن آج اسے اپنی پسند کی یہ دھن بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی چند ہی دنوں میں اس کا جی جیسے ہر چیز سے اوب گیا تھا۔

اگلی شام جب وہ آوارہ گردی کرنے کے بعد لاؤنج میں بیٹھے دادا جان اور لالہ جانی کو سلام کرنے کے بعد اسے مکمل نظر انداز کرتا اوپر چلا آیا تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر اس کے پیچھے آئی تھی۔

’’مانی مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے تم میری بات کیوں نہیں سن رہے۔‘‘

’’بھئی میری کیا مجال جو میں تمہاری بات نہ سنوں کہو کیا کہنا ہے۔‘‘ الماری میں سر گھسائے وہ جانے کیا تلاش کر رہا تھا یا پھر یہ بھی ایک طرح سے لاتعلقی کا بہانہ تھا۔

’’تم یہاں میرے سامنے آ کر بیٹھو۔‘‘ وہ جھنجھلا گئی، وہ الماری کے دونوں پٹ بند کرتا اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور نظریں اس کے صبیح چہرے پر گاڑ دیں۔

وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے کچھ کہنے نہ کہنے کی کشمکش میں مبتلا تھی اس کے اس انداز پر مزید نروس ہو گئی۔

’’ایسا کرو تم سوچ لو میں اتنی دیر میں فریش ہو کر آتا ہوں۔‘‘

’’نہیں تم بیٹھو۔‘‘ اسے اٹھتے دیکھ کر وہ بہ عجلت بولی تھی وہ دوبارہ بیٹھ گیا۔

’’اتنی سوچ بچار بھئی تم عریشہ ہی ہونا۔‘‘ وہ شرارت سے مسکرایا جس پر عریشہ نے اسے مصنوعی خفگی سے گھورا تھا۔

’’یقین آ گیا ہے اب۔‘‘ وہ بے ساختہ ہنس پڑا۔

’’مانی آئی لو یو۔‘‘ وہ ایک ہی سانس میں بول گئی تھی وہ اپنی جگہ اچھل کر رہ گیا۔

’’یہ کیا بے ہودگی ہے۔‘‘ اگلے ہی پل اس کی فراخ پیشانی سلوٹوں سے اٹ گئی تھی۔

’’میں نے جسٹ اپنی فیلنگ کا اظہار کیا ہے۔‘‘ وہ اطمینان سے گویا ہوئی۔

’’تمہاری شادی ہو رہی ہے راحل سے کارڈ بٹ چکے ہیں۔‘‘ وہ لفظوں کو خوب چبا چبا کر بولا تھا۔

’’یہ شادی رک بھی سکتی ہے اگر تم میرا ساتھ دو تو۔‘‘ وہ اٹھ کر اس کے قریب چلی آئی۔

’’شٹ اپ۔‘‘ وہ پوری قوت سے چلایا اور اس کا ہاتھ عریشہ کے نازک رخساروں پہ اپنا نشان چھوڑتا ہوا ہوا میں ہی کہیں معلق ہو گیا تھا۔

وہ وہیں کھڑی ڈبڈبائی نظروں سے اسے دیکھتی رہی، مانی ضبط کی انتہاؤں کو چھوتا اس کے قریب سے گزرتا چلا گیا، وہ تو من ہی من میں خدا کا شکر گزار تھا کہ اس کے جذبات یکطرفہ ہیں کم از کم عریشہ کی زندگی میں کوئی خلش کوئی رنج اور ملال تو نہ ہو گا، مگر… جو اس نے سوچا بھی نہیں تھا وہ ہو گیا تھا، وہ تمام رات بے مقصد سڑکوں پہ گاڑی دوڑاتا رہا اتنے برسوں بعد تو خوشیوں نے گھر کا راستہ دیکھا تھا اس کے پاپا بھی اپنی فیملی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے پاکستان آ رہے تھے وہ ایک بار پھر سے رشتوں کو آزمائش کی بھٹی میں نہیں جھونکنا چاہتا تھا، اکیس برس لگے تھے ان رشتوں کو دوبارہ جڑنے میں، اب جو ٹوٹتے تو پھر شاید کبھی نہ جڑ پاتے، زہرہ پھپھو کو ایک بار پھر سے وہ ان کے بھائیوں سے محروم نہیں کرنا چاہتا تھا، انہوں نے ماں بن کر اسے پالا تھا، وہ اپنی ذاتی خواہشوں پر ان کی خوشیاں نہیں چھین سکتا تھا۔

٭٭٭

میری روح یوں بے چین نہ ہوتی

کوئی موسم بھی ہوتا اگر

بہاریں آ بھی سکتی تھیں

میرے جیون کے صحرا پہ

گھٹائیں چھا بھی سکتی تھیں

یہ جتنے زخم دل پر ہیں

یہ سارے سل بھی سکتے تھے

اگر تم ساتھ دیتے تو

مقدر مل بھی سکتے تھے

وہ دلہن بنی پتھر کے بت کی طرح ساکت صامت بیٹھی تھی، محض سانسوں کا زہر و بم تھا جو اسے احساس دلا رہا تھا کہ وہ زندہ ہے، وہ زندہ بھی تھی مگر زندگی اس کے اندر مر چکی تھی، ٹوٹے خوابوں کے کانچ تھے جن کے نوکیلے کونے دل میں چبھ رہے تھے رہ رہ کر دل سے اٹھتی درد کی لہروں نے اس کے پورے وجود کو شل کر دیا تھا۔

’’عیشو وقت اور حالات انسان کو بدل دیتے ہیں جو محبت آج تمہارے وجود میں سانس لے رہی ہے ضروری تو نہیں کہ وہ عمر بھر جاوداں رہے مجھے یقین ہے وہ راحل کی چاہتوں کے سامنے اپنا دم توڑ دے گی۔‘‘ نوری نے اس کے دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے رسانیت سے کہا جس پر وہ اسے دیکھ کر رہ گئی کہا کچھ نہیں اب کہنے کو کچھ نہیں رہا تھا اب وہ کسی اور کی ہو چکی تھی اور اب اس کا بن کر رہنا تھا، البتہ یادوں پر پہرے نہیں تھے اور دل کے کواڑ وہ بند کر چکی تھی۔

مہرو ابھی ابھی اسے گلابوں سے مہکتے اس بیڈ روم میں چھوڑ کر گئی تھی آئینے میں جھلملاتے اپنے عکس کو اس نے دیکھا تو نگاہ اپنے وجود پر ساکت ہو کر رہ گئی، میرون لہنگے میں اس کا دو آتشی روپ قیامت ڈھا رہا تھا، اس نے نوچ نوچ کر اپنے سارے گہنے اتار دئیے، اپنے بالوں کے ساتھ بھی وہ یہی حشر کرنے والی تھی جب راحل نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

’’آرام سے بھئی اتنی بھی کیا جلدی ہے۔‘‘ اس کے ہاتھ کو اپنے لبوں سے لگا کر وہ اس کے بالوں میں مہکتے گجرے اتارنے لگا۔

’’اچھا کیا تم نے جو یہ خود اتار دیا مجھے گہنوں سے لدی پھندی لڑکیاں بالکل اچھی نہیں لگتیں۔‘‘ اب وہ اس کی نازک کلائیوں سے چوڑیاں اتار رہا تھا۔

’’آج تم بہت خوبصورت لگ رہی تھی جانتی ہو میرے دوست میری قسمت پہ رشک کر رہے تھے۔‘‘ وہ گمبھیر لہجے میں کہتا اس کے بے حد قریب آ چکا تھا وہ اس کی سانسوں کا ارتعاش اپنے وجود پر محسوس کر سکتی تھی چاہنے کے باوجود وہ کوئی مزاحمت نہیں کر پائی اس نے خود کو خدا کی رضا پر چھوڑ دیا تھا۔

٭٭٭

’’السلام وعلیکم دادا جان!‘‘ لاؤنج میں سب بیٹھے شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب مانی نے اندر وارد ہوتے ہوئے سب کو مشترکہ سلام کیا، وہ غیر مخصوص انداز میں اٹھ کر اپنے بیڈ روم میں چلی آئی تھی، اس روز کے بعد دونوں میں بات چیت بالکل بند تھی۔

’’عریشہ باہر آؤ نا، دیکھو مانی کتنے مزے کی باتیں سنا رہا ہے اور تمہیں اسے مبارک باد نہیں دینی اس کا رزلٹ آیا ہے ہمیشہ کی طرح بہت شاندار اور وہ اس خوشی میں ہم سب کو پارٹی دے رہا ہے۔‘‘ مہرو با آواز بولتی اس کے بیڈ روم میں داخل ہوئی جبکہ خاموش بیٹھی عریشہ کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

’’چلو اٹھو جلدی سے تیار ہو جاؤ سب آؤٹنگ پر جائیں گے۔‘‘ مہرو نے اس کا بازو کھینچا۔

’’مجھے کہیں نہیں جانا۔‘‘ وہ اپنا بازو چھڑاتی سپاٹ لہجے میں بولی تھی مہرو نے پہلی بار اس کے اکھڑے تیور دیکھے تو ٹھٹھک گئی۔

’’کیا ہوا؟‘‘ اس کے لہجے میں تشویش کا رنگ غالب تھا۔

’’کچھ نہیں بس میرا موڈ نہیں ہے۔‘‘ اس کے روکھے لہجے پر وہ مایوس ہوتی اٹھ کر باہر چلی آئی۔

رات کو راحل اسے گھمانے لے گیا تھا ڈنر کے بعد واپسی پر اس نے گاڑی ایک بیوٹی پارلر کے سامنے روک دی، عریشہ نے الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا کیونکہ اس کے خیال میں اسے ابھی پارلر کا چکر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

’’اپنے بالوں کی کٹنگ کروالو مجھے تمہارے یہ لمبے بال پسند نہیں۔‘‘ نارمل سے انداز میں آرڈر پاس کرتے ہوئے اس نے سگریٹ سلگا لیا سگریٹ سے اسے الرجی تھی اگلے ہی پل اس کا دم گھٹنے لگا تو وہ ڈور اوپن کرتے ہوئے باہر نکل آئی۔

’’اتنے خوبصورت ریشمی بال ہیں آپ کے پھر کیوں کٹنگ کروا رہی ہیں۔‘‘ بیوٹیشن نے اس کے لمبے ریشمی بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے حسرت بھرے انداز میں کہا۔

’’بس جس کو جو نعمت مل جائے وہ پھر اس کی قدر نہیں کرتا۔‘‘ دوسری چیئر پہ فیشل کرواتی لڑکی نے کچھ عجیب سے انداز میں کہا تھا جو اسے برا بھی لگا، مگر وہ خاموش رہی۔

’’ایک ہم ہیں اتنے شیمپو اور امپورٹڈ آئل، گھریلو ٹوٹکے استعمال کر کے دیکھ لئے مگر کیا مجال ہے جو ذرا بھی بڑھ جائیں۔‘‘ نو وارد خاتون بھی اس کے قریب آ کھڑی ہوئی پھر جب تک اس کے بالوں کی کٹنگ ہوتی رہی ایسے ہی جلے کٹے تبصرے اس کی سماعتوں سے ٹکراتے رہے، فرش پر ٹوٹ کر بکھرے اپنے ریشمی بالوں کو دیکھ کر اسے یاد آیا تھا کہ کیسے وہ اور نوری روز اپنا ایک ایک بال اتار کر اسے پیمائشی فیتے سے ماپا کرتی تھیں لالہ جانی دیکھ کر ہنستے اور کہتے۔

’’اس طرح لمبے تو نہیں ہوں گے البتہ ایک بات پکی ہے کہ جو روز اتارتی ہو تو ایک دن گنجی ضرور ہو جاؤ گی۔‘‘ اس کے دل میں ڈھیر سارا ملال اتر آیا، مگر شوہر کی خوشنودی میں وہ بھی خوش تھی۔

٭٭٭

’’عریشہ کہیں نہیں جائے گی۔‘‘ نانا جان نے قطعیت بھرے انداز میں دو ٹوک بات کرنے کے بعد گویا بحث ہی سمیٹ دی تھی اور اٹھ کر اپنے بیڈ روم میں چلے گئے۔

’’یہ اچھی زبردستی ہے اب کیا میں اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے کر جاؤں۔‘‘ راحل وہاں بیٹھا دیر تک بڑبڑاتا رہا، اس کا ٹرانسفر لندن والی برانچ میں ہو گیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ عریشہ اس کے ساتھ جائے مگر نانا جان نے سنتے ہی واضح انکار کر دیا تھا۔

’’تو بیٹا تمہیں ضرورت کیا ہے اپنا گھر اپنا وطن چھوڑ کر دیار غیر میں بسنے کی، اپنی فیکٹری ہے وہ سنبھالو۔‘‘ فاروق صاحب تو ویسے بھی اس کی جاب کے خلاف تھے وہ خفگی سے اٹھ کر اندر چلا گیا، عریشہ اس کے سوٹ ہینگ کر رہی تھی۔

’’کتنی بار کہا ہے تم سے یہ چوڑیاں نہ پہنا کرو ہر وقت کی چھن چھن۔‘‘ وہ آتے ہی اس پر الٹ پڑا ساتھ ہی اس کی کلائی تھام کر زور سے مروڑی ساری چوڑیاں ٹوٹ کر فرش پہ بکھر گئیں کچھ اس کی کلائی میں بھی چبھ گئی تھیں اب وہاں سے قطرہ قطرہ خون رسنے لگا تھا، اسے بھی کوئی شوق نہیں تھا مگر پھپھو کو اس کی سونی کلائیاں اچھی نہیں لگتی تھیں اس کے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی زبردستی پہنا دیتیں۔

’’ایم سوری۔‘‘ اسے ہمیشہ چوٹ دے کر درد کا احساس ہوتا تھا وہ خاموشی سے وارڈ روب کی جانب بڑھ گئی، راحل اس سے پہلے ہی دراز سے سنی پلاسٹ نکال کر اس کے وارڈروب کے عین وسط میں آ کھڑا ہوا پھر ٹشو سے زخم صاف کرتے ہوئے بینڈیج کر دی۔

’’یار تم اتنی خاموش گم صم سی کیوں رہتی ہو، شادی سے پہلے تو ہر وقت اچھلتی پھرتی تھی مہرو تو کہا کرتی تھی کہ اتنا بولتی ہو کہ مقابل کا ناک میں دم کر دیتی ہو، اب تو تمہارے لالہ جانی بھی تم سے دور نہیں پھر کیا مسئلہ ہے؟‘‘ راحل نے اس کے گلے میں بازو ڈال کر اس کا چہرہ اوپر اٹھایا تو اس کی پلکیں بے ساختہ لرز کر عارضوں پر جھک گئیں۔

’’نانا جان نے چائے کا کہا تھا میں دے کر آتی ہوں۔‘‘ اس نے دانستہ بات بدل دی۔

’’اپنے نانا جان کو یہ بھی بتا کر آنا کہ تم میرے ساتھ جانا چاہتی ہو۔‘‘ وہ یاد آنے پر نئے سرے سے سلگ اٹھا تھا عریشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا، وہ خود بھی اس شہر سے بہت دور چلی جانا چاہتی تھی، یہاں رہ کر وہ پرانی یادوں اور باتوں سے نہیں نکل سکتی تھی اور اسے سب کچھ بھلا کر ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا تھا، نانا جان پہلے تو نہیں مانے تھے پھر یہ جان کر کہ یہ عریشہ کی بھی خواہش ہے بخوشی اجازت دے دی، اگلے ایک ہفتے کے اندر اندر وہ سب سے ملنے کے بعد لندن چلے گئے تھے۔

٭٭٭

علی الصبح نماز پڑھنے کے بعد اس نے کرٹین ہٹا کر گلاس ونڈو اوپن کی تو نم ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے وجود سے ٹکرائے سردی کی شدید لہر اسے ٹھٹھرا کر اندر ہی اندر کہیں منجمد ہو گئی تھی، لمحہ بھر کے لئے وہاں کھڑے رہنا محال ہو گیا اس نے فوراً کھڑکی بند کر کے پردے برابر کر دئیے۔

لندن کی صبح بھی اس کے احساسات جیسی تھی غبار آلود اور دھواں دھواں سی۔

کچن میں گروسری کا سب سامان موجود تھا، فرنچ آملیٹ اور بریڈ سینکنے کے بعد وہ چائے بھی بنا چکی تھی اب مسئلہ راحل کو جگانے کا تھا گھر میں یہ کام پھپھو ہی کرتی تھیں دو بار بیڈ روم کا چکر لگانے کے بعد اب تیسری مرتبہ وہ اس کے سرہانے کھڑی تھی، وہ بیڈ پر اوندھا لیٹا خوب گہری نیند سو رہا تھا۔

’’راحل… راحل!‘‘ دو تین بار پکارنے پر بھی جب اس نے کوئی رسپانس نہ دیا تو وہ کچھ دیر کھڑی انگلیاں چٹخاتی رہی پھر ایک خیال آنے پر اس نے لینڈ لائن سے اس کے سیل پر مسڈ کالز کیں اگلے دس منٹ میں وہ فریش ہو کر ڈائیننگ ٹیبل پر آ چکا تھا۔

’’یہ کیا طریقہ ہے جگانے کا۔‘‘ اس نے آتے ہی اس کے بالوں کی لٹ کھینچی پھر چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

’’تم ناشتے پر میرے لئے آئندہ اتنا تکلف نہ کرنا میں صبح جسٹ ایک کپ کافی پیتا ہوں۔‘‘ تمام لوازمات پرے کھساتے ہوئے اس نے خود بھی کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی اور بڑی فرصت سے اسے دیکھنے لگا۔

’’میں کافی بنا لاتی ہوں۔‘‘ اگلے ہی پل وہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔

’’کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے جیسے میں کسی روبوٹ کے ساتھ رہتا ہوں۔‘‘ وہ اس کے پیچھے ہی کچن میں آیا تھا۔

’’رہنے دو کافی میں وہ سب کھا لوں گا جو تم نے بنایا ہے۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھام کر واپس لے آیا، غالباً وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔

’’ویسے مجھے تمہاری یہ فرمانبرداریاں اچھی لگتی ہیں اور پھر مجھے اپنی کسی فرمائش پر انکار سننے کی عادت بھی نہیں، یہ بات یاد رکھنا۔‘‘ فرنچ آملیٹ اور بریڈ کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہوئے وہ مزے سے بولا۔

’’شام کو تیار رہنا میں تمہیں شاپنگ کرواؤں گا۔‘‘

مین ڈور بند کر کے وہ واپس بیڈ روم میں چلی آئی، اسے لالہ جانی، نوری اور اپنا وہ سندر سا کشمیر بہت یاد آ رہا تھا، زندگی میں در آنے والی اتنی بڑی تبدیلی کو وہ ابھی تک ایکسپٹ نہیں کر پا رہی تھی اسے کچھ وقت درکار تھا اس سارے سیٹ اپ میں خود کو مکس اپ کرنے کے لئے، پھر وہ دیر تک بیٹھی مانی کے متعلق سوچتی رہی نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کی سوچوں کا محور تھا اگرچہ وہ خود کو اس سمجھوتے کے لئے بخوشی رضا مند کر چکی تھی، مگر دل کے معاملے میں وہ خود کو بے بس محسوس کرتی تھی۔

٭٭٭

بڑی سی الماری کھولے وہ اسی ادھیڑ بن میں کھڑی تھی کہ کون سا سوٹ پہنے، جب اس کی نگاہ ہینگر میں لٹکے اس بلیک سوٹ سے ٹکرائی ساتھ ہی اسے کچھ یاد بھی آیا تھا۔

’’اور کتنی لڑکیوں کو ایسی شاپنگ کروا چکے ہو؟‘‘

’’کسی کو بھی نہیں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’کیونکہ اور لڑکیوں سے میرا چھوٹا موٹا فلرٹ رہا ہے۔‘‘

’’پھر مجھ پر یہ عنایت کس خوشی میں۔‘‘

’’کیونکہ تم سے لمبا فلرٹ کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘

’’جلدی کرو عریشہ ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔‘‘ راحل نے ادھ کھلے دروازے سے اندر جھانکا تو وہ اس سوٹ کو الماری کے نچلے خانے میں رکھ کر چینج کرنے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں دوپٹہ اوڑھتی باہر نکل آئی۔

’’مائی گاڈ، تم ایسے چلو گی میرے ساتھ۔‘‘ راحل نے اسے دیکھتے ہی سر تھام لیا۔

’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ اس نے کچھ الجھ کر دیوار گیر آئینے میں اپنا جائزہ لیا مگر اسے تو ایسی کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی تھی۔

’’یہ لندن ہے یار! تم جب تک پاکستان میں تھی میں نے بھی کچھ نہیں کہا مگر یہاں ایسا گیٹ اپ نہیں چلے گا، اب یہ بڑی بی کی طرح دوپٹہ اوڑھنا چھوڑ دو۔‘‘ اس کے تمسخرانہ انداز پر عریشہ نے اپنے دوپٹے کو کچھ اور مضبوطی سے تھام لیا جیسے خدشہ ہو کہ کہیں وہ اتار کر پھینک نہ دے۔

’’ملک بدل جانے سے اسلامی تہذیب اس کی قدر اور روایات نہیں بدلا کرتی، میں دوپٹہ نہیں اتاروں گی آپ کو اگر لے کر جانا ہے تو ایسے ہی چلیں ورنہ میں گھر میں ہی ٹھیک ہوں۔‘‘ اگلے ہی پل اس کا ازلی اعتماد عود کر آیا تھا اس نے خود کو قربان کیا تھا اب اپنی حیا اور حرمت کو پامال نہیں کر سکتی تھی، راحل نے ایک لمحے کو رک کر اس کا دو ٹوک اور قطعی انداز ملاحظہ کیا اور پھر سر جھٹک کر باہر نکل گیا وہ اب اسے ساتھ لے جا کر شاپنگ سینٹر میں کوئی سین نہیں کری ایٹ کرنا چاہتا تھا۔

٭٭٭

وہ واش روم سے وضو کر کے باہر نکلی تو مغرب کی نماز کا وقت ہو چکا تھا، راحل بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے سیل فون پر کوئی گیم کھیلتا ساتھ ساتھ کچھ گنگنا رہا تھا۔

’’تم نے اپنی شاپنگ نہیں دیکھی۔‘‘ اسے سامنے پا کر وہ اس کی جانب متوجہ ہو گیا، عریشہ نے اس کی نظروں کے تعاقب میں ان بند شاپنگ بیگز کو دیکھا جو کل شام سے اسی پوزیشن میں پڑے تھے جیسے وہ رکھ کر گیا تھا۔

’’نماز پڑھ کر دیکھ لوں گی۔‘‘ اس نے دوپٹہ لپیٹ کر جائے نماز بچھا لی۔

’’یہ نماز بعد میں پڑھتی رہنا آؤ پہلے وہ سب دیکھو جو میں تمہارے لئے لایا ہوں۔‘‘ وہ اٹھا اور شاپنگ بیگز اٹھا کر بیڈ پر ڈھیر کر دئیے، اب اس کی منتظر نگاہیں عریشہ پہ ٹکی تھیں۔

’’نماز کا وقت کم ہے میں شاپنگ بعد میں دیکھ لوں گی۔‘‘ رسانیت سے کہتے ہوئے اس نے نیت باندھ لی، راحل کا موڈ بری طرح سے آف ہوا تھا وہ پھر سے اپنے سابقہ مشغلے میں گم ہو گیا۔

’’ہاں اب دکھاؤ کیا لائے ہو۔‘‘ نماز ادا کرنے کے بعد وہ اس کے سامنے آ بیٹھی مگر وہ ہنوز لا تعلقی کا مظاہرہ کیے موبائل میں گم رہا۔

’’خفا ہو؟‘‘ وہ اس کے گھٹنے پر ٹھوڑی ٹکاتے ہوئے دھیرے سے بولی راحل نے سیل سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا وہ کتنی معصوم اور پاکیزہ سی لگ رہی تھی۔

’’اب اتنے پیار سے مناؤ گی تو خفا کیسے رہ پاؤں گا۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے شاپنگ بیگز کھولنے لگا، اندر سے جینز، ٹاپ، منی اسکرٹ، سیلو لیس اور کیپری جیسے ملبوسات برآمد ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر عریشہ کی آنکھیں حیرت کے باعث پھیل گئیں۔

’’میں یہ سب نہیں پہنتی۔‘‘

’’جانتا ہوں۔‘‘ وہ بے نیازی سے بولا۔

’’مگر اب یہ سب تم پہنو گی۔‘‘ راحل نے اس کے رخسار کو نرمی سے چھوا۔

’’مجھے ویسٹرن لڑکیاں اچھی لگتی ہیں اور میں تمہیں بھی اسی روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’مگر…‘‘ اس کے لب کچھ کہنے کو وا ہوئے تھے لیکن راحل نے اس کے لبوں پہ اپنی فنگر رکھ کر خاموش کروا دیا۔

’’کل ویک اینڈ ہے میرے کچھ دوست مدعو ہیں ارینجمنٹ بہت اچھا ہونا چاہیے۔‘‘

’’مینیو بتا دیں میں کل صبح سے تیاری شروع کر دوں گی۔‘‘ اس کے بات بدلنے پر عریشہ نے سکھ کا سانس لیا تھا مگر اگلے ہی پل وہ سکون لمحاتی ثابت ہوا۔

’’میں کھانے کی ارینجمنٹ کی نہیں تمہاری بات کر رہا ہوں، ان ڈریسز میں سے جو تمہیں پسند آئے پہن لینا، میرے دوست بہت ماڈرن ہیں اور میں ان کے سامنے کوئی ناٹک برداشت نہیں کروں گا۔‘‘ وہ وارننگ کے انداز میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔

’’میں ان میں سے کوئی لباس نہیں پہنوں گی۔‘‘ اس نے بیڈ سے ساری چیزیں اٹھا کر پھینک دیں اور تاسف بھری نظروں سے راحل کو دیکھا یہ کیسا شوہر تھا جو دوستوں میں اس کی نمائش لگا رہا تھا اسے تحفظ اور مان دینے کی بجائے سب کے سامنے بے حجاب کرنا چاہتا تھا، وہ صرف اس کے لئے سجنا سنورنا چاہتی تھی اور وہ اس کی سجاوٹ کو زمانے بھر میں نیلام کروانا چاہتا تھا۔

’’تم وہی کرو گی جو میں کہوں گا اور چاہوں گا بھی۔‘‘ وہ سنگین لہجے میں کہتا راستے میں پڑی چیزوں کو ٹھوکروں سے اڑاتا تن فن کرتا باہر نکل گیا، اسے اپنی حماقت پر پچھتاوا ہو رہا تھا جو وہ اس سے شادی کی صورت کر چکا تھا۔

٭٭٭

’’جلدی تیار ہو کر نیچے آ جاؤ میرے فرینڈز آ چکے ہیں۔‘‘ نیم وا دروازے سے وہ آرڈر پاس کرتا واپس چلا گیا، عریشہ نے بے بسی سے خود کو آئینے میں دیکھا تین روز پہلے کا پہنا ہوا ملگجا لباس بے حد شکن آلود تھا، وہ اس حلیے میں نیچے نہیں جا سکتی تھی اور وارڈ روب سے اس کے ملبوسات غائب تھے وہاں اب ان کی جگہ جینز، سیلو لیس، میکسی، ٹاپ، کیپری اور منی اسکرٹ نے لے رکھی تھی۔

اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا وارڈ روب کے سب سے نچلے خانے کو اس نے کھولا تو بلیک سوٹ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں چمک اتر آئی، ویلوٹ کا بلیک ٹراؤزر شرٹ جس کے شرٹ پر سلور رنگینوں کا انتہائی دیدہ زیب کام تھا ساتھ بڑا سا چائنا سلک کا بلیک اور سلور ڈائی اینڈ ڈائی دوپٹہ تھا۔

وہ اس سوٹ کو زندگی میں کبھی نہیں پہننے والی تھی مگر آج اسے پہن کر جیسے اسے کسی تحفظ کسی مضبوط پناہ گاہ کا احساس ہوا تھا، وہ سیڑھیاں اتر کر لاؤنج میں چلی آئی، لاؤنج کا منظر دیکھ کر اسے ایک جھٹکا سا لگا تھا۔

سامنے صوفوں پر بیٹھے اس کے دوست جو تین لڑکوں اور چار لڑکیوں پر مشتمل تھے ان میں سے لڑکے ڈرنک اور لڑکیاں اسموکنگ کرنے میں مصروف تھیں۔

بظاہر انتہائی مہذب نظر آنے والا یہ شخص کس قدر اخلاقی پستیوں میں گرا ہوا تھا وہ دیکھ کر بھی ناقابل یقین تھی۔

’’السلام وعلیکم!‘‘ وہ ان کے پاس جا کر آہستگی سے بولی جس پر اپنے اپنے شغل کو ترک کرتے ہوئے سب نے سر اٹھا کر خاصی جانچتی نظروں سے سرتاپا اسے دیکھا تھا البتہ سلام کا جواب کسی نے دینا گوارہ نہ کیا، اسے اپنی جانب اٹھی ان خمار آلود نگاہوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔

’’اچھا تو یہ ہے تمہاری وائف۔‘‘ سنگل صوفے پر بیٹھی اس برٹش لڑکی نے کچھ اس قدر طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ وہ بے ساختہ اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔

گہرے گریبان کے سیلو لیس شرٹ کے نیچے منی اسکرٹ پہنے خاصے بے باک انداز میں وہ صوفے پہ بیٹھی سگریٹ کے کش لینے میں مگن تھی۔

’’یار تم تو کہتے تھے کہ کسی مس ورلڈ ٹائپ لڑکی سے شادی کرو گے مگر یہ تو مجھے کچھ ’’بہن جی‘‘ ٹائپ کی لگ رہی ہیں۔‘‘ راحل کے ساتھ بیٹھے لڑکے نے بے تکلفی سے اس کے شانے پر ہاتھ مارتے ہوئے خاصا تمسخرانہ قہقہہ لگایا تھا۔

عریشہ کی نظریں بے ساختہ جھک گئیں وہ اس لمحے راحل کو دیکھنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔

’’ویسے ہے بہت بیوٹی فل، ایسی نیچرل بیوٹی تو پورے یورپ میں نہیں ہو گی۔‘‘ دوسرے لڑکے نے والہانہ نظروں سے اسے دیکھتے دھیرے سے اس کا گال چھوا تو وہ جیسے کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے ہٹی اس کی اس حرکت پر یکبارگی سب کا مشترکہ قہقہہ لاؤنج میں گونجا۔

’’ارے بھابھی پلیز ڈونٹ مائینڈ، آئیے نا بیٹھیے۔‘‘ اب کی بار اس نے عریشہ کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھایا تھا، آنکھوں میں در آنے والی نمی کو پلکیں جھپک جھپک کر اس نے بمشکل باہر آنے سے روکا تھا، خالی پیمانے پھر سے بھرنے لگے تھے، ایک گلاس اس کی جانب بھی بڑھا دیا گیا۔

’’ارے بھابھی پیئیں نا۔‘‘ دوسرے لڑکے نے اس کے گلاس کے ساتھ اپنا گلاس ٹچ کرتے ہوئے پر زور فرمائش کی تھی، گلاس اس کے ہاتھوں میں کانپنے لگا، راحل نے اس لمحے خاصی خشمگیں نظروں سے اسے گھورا تھا، ہاتھ میں پکڑا جام لرزا، آنسوؤں کا گولا اس کے خلق میں اٹک گیا تھا۔

’’شراب نجس ہے حرام ہے اس کے قریب مت جاؤ۔‘‘ کوئی اس کے اندر سے چیخ کر بولا۔

’’کیا ہو جائے گا زیادہ سے زیادہ اور جو ہو گا میں اسے فیس کر لوں گی مگر حرام کو خود میں شامل نہیں کر سکتی۔‘‘ وہ گلاس ٹیبل پر رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی، اس کی ہتھیلیاں نم ہو چکی تھیں شدید سردی میں بھی اس کے مساموں سے پسینہ چھوٹ نکلا، یک لخت اس کا دل گھبرانے لگا تھا۔

’’وٹ ہیپنڈ؟‘‘ راحل نے آبرو اچکا کر استفسار کیا اس کے سر میں درد کی شدید لہر اٹھی تھی اگلے ہی پل وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر صوفے پر گر گئی۔

٭٭٭

نیم بے ہوشی میں اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اسے پکار رہا ہو، وہ اپنے چہرے پہ مردانہ ہاتھوں کا لمس محسوس کر سکتی تھی بدقت تمام اس نے آنکھیں کھولیں۔

’’تھینک گاڈ! تمہیں ہوش آ گیا۔‘‘ راحل اسے دیکھ کر مسکرایا جس پر عریشہ نے کچھ تعجب سے اسے دیکھا تھا۔

’’چلو اٹھو اور جلدی سے فریش ہو کر آ جاؤ میں ناشتہ بنا چکا ہوں۔‘‘ وہ اس کا گال تھپتھپا کر بیڈ روم سے باہر نکل گیا، وہ اس کے اس قدر التفات پر حیران ہوتی واش روم میں چلی آئی، کل رات جو ہوا تھا اس کے بعد وہ راحل سے کسی بھی قسم کی درشت رویے کی توقع کر سکتی تھی، مگر وہ تو بالکل نارمل ہی سلوک کر رہا تھا۔

’’اپنا خیال رکھنا شام کو بات ہو گی۔‘‘ وہ آفس جانے کو تیار کھڑا تھا، عریشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا، اس کا انداز اسے کچھ عجیب پر اسرار سا لگا تھا، وہ کچھ دیر سوچتی رہی رہی پھر ناشتہ کرنے کے بعد بیڈ روم میں چلی آئی۔

اس نے ابھی تک کل شام والا بلیک سوٹ پہن رکھا تھا اپنے کپڑوں کی تلاش میں اس نے پورے اپارٹمنٹ کی تلاشی لے ڈالی، آخر وہ اسے بیڈ کے نیچے ایک سوٹ کیس میں پیک مل گئے تھے، باہر آسمان سے برف برس رہی تھی جس سے سردی کی شدت میں بے حد اضافہ ہوا تھا، وہ اپنے لئے بلو کلر کا پرنٹڈ سوٹ منتخب کر کے نہانے چلی گئی اسی دوران اطلاعی گھنٹی بجنا شروع ہو چکی تھی۔

آنے والا بھی شاید کافی فرصت میں آیا تھا جو دس بار کوئی رسپانس نہ ملنے پر بھی مسلسل بیل بجائے جا رہا تھا، گیلے بالوں کو تولیے میں لپیٹتے ہوئے شانوں پہ دوپٹہ پھیلا کر اس نے دروازہ کھولا تو سامنے راحل کا وہی دوست کھڑا تھا جس نے کل رات اسے ڈرنک آفر کرتے ہوئے کس قدر بے تکلفی سے اس کا گال چھوا تھا، عریشہ کو اپنے دائیں رخسار پر چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوئیں۔

’’وہ میں آپ کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا، کل شام آپ اچانک…‘‘

’’میں اب ٹھیک ہوں۔‘‘ عریشہ نے اس کی بات کاٹ کر قدرے رکھائی سے جواب دیا۔

’’اب کیا دروازے میں کھڑا رکھیں گی۔‘‘ اس کے صبیح چہرے کو نظروں میں سموتے ہوئے عادل نے اسے کچھ شرمندہ کرنا چاہا مگر وہ پورے اعتماد سے بولی۔

’’آپ کا دوست گھر نہیں ہے بہتر ہے آپ ان کی موجودگی میں تشریف لائیں۔‘‘ اس کے کہتے ہی زور سے دروازہ بند کیا اور اندر چلی آئی اس کی عجیب بے ہودہ نظروں پر دیر تک اس کا خون کھولتا رہا تھا۔

’’تمہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ مہمانوں سے کیسے بی ہیو کیا جاتا ہے تمہاری جرأت کیسے ہوئی کہ تم میرے گھر آئے دوست کی انسلٹ کرو۔‘‘ وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی جب وہ اس کے سر پہ آ کر چلایا۔

’’میں نے کسی کی کوئی انسلٹ نہیں کی اسے صرف یہ سمجھایا ہے کہ وہ تمہاری موجودگی میں آئے۔‘‘ سرد سپاٹ انداز میں کہنے کے بعد وہ بنا اس کی جانب دیکھے ہنوز اپنے کام میں مصروف رہی۔

’’کس قدر دقیانوس ہو تم۔‘‘ اس کے جھلاہٹ بھرے الفاظ عریشہ کو اپنی جگہ منجمد کر گئے تھے، وہ برنر بند کرتے ہوئے وہیں چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گئی اس کا سر آج پھر بھاری سا ہو رہا تھا کھانے کی خوشبو بھی اسے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔

مگر اپنی حالت کے پیش نظر اس پر جو انکشاف ہوا وہ احساس ہی اتنا خوشگوار تھا کہ بے ساختہ اس کے لبوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی، اسے راحل کا آج صبح والا رویہ بھی سمجھ میں آنے لگا تھا، آج کتنے دنوں بعد وہ دل سے خوش ہوئی تھی، زندگی گزارنے کا کوئی مقصد کوئی مصرف اسے ملنے والا تھا۔

٭٭٭

’’تم جو کر رہے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے، اللہ کا دیا سب کچھ تو ہے ہمارے پاس پھر تمہیں اس طرح سے مال کمانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ ابھی کچھ دیر قبل اس نے اپنے آفس کے سیکرٹ مخالف پارٹی کے ایک شخص کو دے کر اس سے بھاری رقم وصول کی تھی، اس کی ذات کی برائیاں ایک جانب، مگر اس بات کا تعلق ڈائریکٹ اس سے جڑنے والا تھا اور وہ حرام ذرائع سے کمایا ہوا مال اپنی ذات پر خرچ نہیں کر سکتی تھی اس جیسا بے ایمان اور بے ضمیر شخص ہی اس کی قسمت میں رہ گیا تھا اس نے کڑھ کر سوچا۔

’’اب کوئی خود آ کر مجھے رقم دے جائے تو اس میں میرا کیا قصور، اتنی رقم دیکھ کر تو کسی کا بھی دل بے ایمان ہو سکتا ہے یہاں تک کہ تمہارا بھی۔‘‘ بے نیازی سے شانے اچکاتے ہوئے اس نے الٹا اس کے ایمان پر الزام دھرا تو وہ تڑپ اٹھی۔

’’لعنت بھیجتی ہوں میں ایسی دولت پر۔‘‘

’’ٹھیک ہے تم لعنت بھیجتی رہو ہم عیاشی کریں گے۔‘‘ ڈسکو اور لڑکیوں کے خیال سے ہی اس کی آنکھوں میں چمک اتر آئی تھی۔

’’دیکھو راحل پلیز اس وقت سے ڈرو جب حرام ذرائع سے کمایا مال ہی تمہاری آزمائش بن جائے گا، اللہ تم سے پوچھے گا مال کہاں سے کمایا؟ کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اگر آج تمہارے باس کو تمہاری اس بے ایمانی کا پتہ چل جائے تو تم ان کے سامنے سر اٹھا کر بات کرنے کے قابل نہیں رہو گے، تو سوچو راحل وہ تو بادشاہ ہے رب ہے حاکم ہے اس کے سامنے کیا جواب دو گے۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے بولی اس کے لہجے کا اثر تھا یا لفظوں کا سحر کہ ایک لمحے کو تو راحل کا وجود بھی اس تصور سے کانپ گیا تھا مگر اگلے ہی پل شیطان نے اسے پھر سے بہکا دیا۔

’’تم کوئی اسلامک سینٹر کیوں نہیں جوائن کر لیتی یہاں کے لوگوں کو آئی تھینک زیادہ ضرورت ہے تمہارے وعظ اور نصیحت کی دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔‘‘ طنزیہ وار اس پہ کرنے کے بعد اس نے ٹی وی کا والیوم فل بڑھا دیا اسکرین پر میڈونا کا کوئی بے ہودہ سا سونگ چل رہا تھا جسے وہ بڑی محویت سے دیکھنے لگا۔

٭٭٭

’’ہم کہاں جا رہے ہیں۔‘‘ وہ بہ عجلت ہی اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا عریشہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی استفسار کیا۔

’’ڈاکٹر سے میں نے تمہارا اپائنٹمنٹ لے رکھا ہے۔‘‘

’’مگر میری طبیعت تو بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ اسے عجیب سی بے چینی نے گھیرا۔

’’تمہاری طبیعت کے لئے نہیں تمہارے ابارشن کے لئے ڈاکٹر کے پاس لے جا رہا ہوں۔‘‘ اس کے اس قدر سنگین انکشاف پر عریشہ کو اپنے گرد دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی تھی، ایک خوشنما، دلفریب سا احساس تھا جسے وہ اپنے وجود میں محسوس کرتی آج کل کس قدر خوش رہنے لگی تھی اور وہ کتنا ظالم تھا کہ اس سے یہ احساس بھی چھین لینا چاہتا تھا، وہ احساس جو اب اس کے لئے زندگی تھا۔

’’نہیں راحل تم ایسا نہیں کرو گے۔‘‘ وہ اس بے حس شخص کے بازو کو جھنجھوڑتی تڑپ ہی تو اٹھی تھی۔

’’دیکھو یار ابھی تو ہمارے لائف انجوائے کرنے کے دن ہیں، ابھی سے میں ان بچوں کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا اور پھر ابھی تو ہم میں انڈر اسٹینڈنگ بھی ڈویلپ نہیں ہوئی پہلے ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ لیں تم خود کو میرے قابل بنا لو پھر آٹھ دس سال بعد سوچ لیں گے اس ٹاپک پر بھی۔‘‘ وہ پر سکون لب و لہجے میں کہتا گاڑی ہیکنی لندن ہاسپٹل کے سامنے روک چکا تھا اور اس کی منتیں، آہ فریاد سب رائے گاں چلی گئی تھیں وہ اس احساس کو ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا کر خالی دامن لئے واپس لوٹ آئی اسے لگا اس احساس کے ساتھ وہ بھی مر چکی ہے۔

٭٭٭

وہ بالکونی میں گم صم اداس سی کھڑی آسمان سے سفید روئی کو برستے ہوئے دیکھ رہی تھی اس کے کشمیر میں بھی ایسی ہی برف باری ہوتی تھی وہ اور نوری سنو مین بنایا کرتی تھیں، ایک دوسرے پر برف کے گولے پھینکتی، ہنستی مسکراتی، کھلکھلاتی، کتنی خوش باش اور بے فکری کی زندگی تھی وہ، نہ کوئی غم تھا نہ کسی درد کا احساس، کچھ روز پہلے نوری کا خط آیا تھا اس نے لکھا تھا ’’کشمیر تمہارے بغیر بہت اداس ہے۔‘‘

بیڈ روم سے نکلتے نک سک سے تیار راحل نے ایک لمحے کو ٹھہر کر اسے دیکھا اس روز کے بعد سے دونوں میں بات چیت تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی، وہ تو پہلے بھی کم بولتی تھی مگر اب تو کوئی بات ہی نہیں کرتی تھی، وہ بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔

اس کے گلابی، شگفتہ رخساروں میں زردیاں سی گھل گئی تھیں، سنہری آنکھوں کی جوت بجھی بجھی سی تھی، عارضوں کے اوپر سیاہ حلقے بے حد نمایاں تھے، وہ اس کے حسن پر ہی تو مرتا تھا سو اس کی چمک ماند پڑتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔

’’کم آن ہنی یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔‘‘ وہ اس کے دونوں ہاتھ تھام کر محبت سے بولا۔

’’تمہیں اس سے مطلب؟‘‘ وہ اس کے ہاتھ جھٹک کر بالکونی سے ہٹ گئی راحل نے آگے بڑھ کر اسے شانوں سے تھام لیا، عریشہ کو اس کی قربت سے کراہیت سی محسوس ہوئی، وہ خود سے سمجھوتے کر کے تھک چکی تھی اب مزید اسے اس شخص کا وجود اپنے ساتھ گوارا نہیں تھا۔

کل شام اس کے لیپ ٹاپ پر اس نے جولیا کے ساتھ اس کی انتہائی قابل اعتراض تصویریں دیکھی تھیں زمانے کی ہر برائی تو اس میں موجود تھی وہ بھی کہاں تک خود کو آمادہ کرتی، وہ راشی تھا، زانی تھا، شرابی تھا، بے وفا تھا، قاتل تھا اور اسے بھی تو اپنے ساتھ اسی کیٹیگری میں شامل کرنا چاہتا تھا۔

’’چلو آج ذرا آؤٹنگ پر چلتے ہیں تمہارا موڈ فریش ہو جائے گا۔‘‘

’’مجھے کہیں نہیں جانا۔‘‘ اس پر جانے کیوں آج اس قدر قنوطیت طاری تھی۔

’’اچھا میں تمہیں فورس نہیں کروں گا، تم اپنی مرضی سے جو بھی ڈریس پہن لو۔‘‘ وہ اس کے گریز اور انکار کی یہی وجہ سمجھ سکا تھا۔

’’انسلٹ نہیں ہو جائے گی تمہاری جو میں سر پہ دوپٹہ اوڑھ لوں گی۔‘‘ وہ طنز سے گویا ہوئی۔

’’دس منٹ ہیں تمہارے پاس اگر تم نے چینج نہ کیا تو میں تمہیں ایسے ہی اٹھا کر لے جاؤں گا۔‘‘ وہ دھمکی آمیز لہجے میں کہتا صوفے پہ بیٹھتے ہوئے وال کلاک کی جانب نظریں جما چکا تھا، وہ کچھ دیر کھڑی اسے گھورتی رہی پھر چینج کر آئی۔

’’ویری گڈ کتنی سویٹ لگتی ہو جب بغیر کوئی ہنگامہ کیے بات مان لیتی ہو۔‘‘ وہ اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے باہر گاڑی تک لایا۔

پہلے وہ ڈسکو جانے کے لئے تیار ہوا تھا مگر اب اسے ہمراہ پا کر اس نے گاڑی کا رخ فائیو اسٹار کی جانب موڑ دیا۔

’’کیا لو گی تم؟‘‘ مینیو کارڈ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے راحل نے استفسار کیا۔

’’یہاں کچھ حلال ملتا ہے؟‘‘ اس نے مشکوک نظروں سے راحل کو دیکھا تو اس نے بے ساختہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔

’’ملتا ہے جناب سب ملتا ہے۔‘‘ ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی اپنا آرڈر درج کروانے کے بعد اس نے گرد و نواح کا جائزہ لیا، عریانیت اور بے حیائی تو اس قوم پر ختم تھی۔

’’ہیلو راحل۔‘‘ ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص نے ان کے قریب آ کر راحل سے ہاتھ ملایا۔

’’سر شی از مائی وائف۔‘‘ غالباً وہ اس کی کمپنی کے ایم ڈی صاحب تھے۔

’’ہیلو مسز راحل۔‘‘ ان صاحب نے راحل سے مصافحہ کرنے کے بعد اس کی جانب ہاتھ بڑھایا۔

’’السلام وعلیکم!‘‘ وہ رکھائی سے کہتی دوبارہ بیٹھ گئی، راحل اندر ہی اندر اچھا خاصا جز بز ہو اٹھا۔

’’مے آئی جوائن یو۔‘‘ ڈھیٹ ہڈی تھا۔

’’شیور سر وائے ناٹ۔‘‘ راحل کا اخلاقی مظاہرہ قابل دید تھا عریشہ اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گئی وہ اس شخص کی موجودگی میں ان کمفرٹیبل محسوس کرنے لگی تھی، کھانا آ چکا تھا اور وہ صاحب بھی کمال بے تکلفی سے ان کے ساتھ شریک ہو چکے تھے اسی لمحے جولیا بھی نہ جانے کہاں سے ٹپک پڑی تھی، اس کا حلیہ آج ضرورت سے زیادہ ہی بے باک تھا عریشہ کو سرے سے نظر انداز کرتی وہ راحل سے ہائے ہیلو کرنے کے بعد چیئر گھسیٹ کر اس کے ساتھ بیٹھ چکی تھی۔

کھانے کے بعد جولیا نے ڈرنکس آرڈر کی تھی اور پھر وہ اور راحل اٹھ کر ڈانسنگ فلور پر چلے گئے تھے وہ وہاں اکیلی رہ گئی۔

’’ڈونٹ وری میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔‘‘ ٹیبل پہ رکھے اس کے سفید دودھیا ہاتھ پر اس شخص نے اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی، اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔

’’آؤ ہم بھی ڈانس کرتے ہیں۔‘‘ اس کی اگلی آفر پہ وہ اپنی جگہ دم بخود رہ گئی تھی اس کی باپ کی عمر کا شخص اس سے فلرٹ کر رہا تھا، اس کا رواں رواں سلگ اٹھا۔

’’ایکسکیوز می۔‘‘ وہ وہاں سے اٹھ کر دوسری سائیڈ پر چلی آئی، اس نے راحل کو دو تین بار پکارا مگر وہ شراب اور شباب کے نشے میں ہی گم تھا۔

’’او کم آن بے بی، لٹس ڈانس۔‘‘ وہ شخص جانے کب اس کے ساتھ آ کھڑا ہوا تھا اور اب اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگا تھا۔

’’راحل!‘‘ اس نے بے بسی کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے اسے آواز دی۔

’’کم آن ہری اپ۔‘‘ خمار آلود لہجے میں کہتا وہ اس کے بے حد قریب آ چکا تھا اور پھر اپنے بازو اس کی کمر کے گرد باندھ دئیے، عریشہ نے زور کا دھکا دے کر ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پہ مارا تھا، جس کی آواز ہال میں آخری حد تک گونج اٹھی لوگوں نے اپنی اپنی سرگرمیوں سے ایک لمحہ نکال کر اسے دیکھا مگر وہ بنا کسی کی جانب دیکھے بھاگتی ہوئی ہوٹل کا داخلی گیٹ عبور کر گئی۔

٭٭٭

اجنبی شہر کے انجان راستے مگر وہ چلتی جا رہی تھی شام کے ملگجے اجالے کو سیاہ اندھیرا نگل چکا تھا برف باری کے ساتھ ساتھ ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی ہونے لگی تھی، سرسراتی ہواؤں کے سرد تھپیڑے نازک بدن کو چھیدتے ہوئے گزر رہے تھے، وہ کچھ اور خود میں سمٹ کر چلنے لگی جب اچانک ٹھوکر لگنے پر وہ منہ کے بل سڑک کے کنارے گری تھی اس کے پیر کے انگوٹھے کو کوئی نوکیلی چیز چیرتی ہوئی گزر گئی، درد کا شدید احساس، اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اپنی بے بسی کے احساس سے مغلوب ہو کر اس نے ایک شکوہ کناں سی نظر آسمان کی جانب اٹھائی تھی تبھی ایک گاڑی کے بریک اس کے قریب آ کر زور سے چڑچڑائے، اس نے رخ موڑ کر دیکھا راحل کا دوست عادل اس میں سے نکل کر اس کی جانب آیا تھا۔

’’عریشہ تم اور یہاں۔‘‘ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے وہ تعجب سے بولا، عریشہ نے نوٹ کیا کہ آج اس نے اسے بھابھی کہہ کر نہیں بلایا تھا۔

’’ارے تمہارا پاؤں تو زخمی ہو گیا۔‘‘ اس نے تشویش بھرے انداز میں زخم کا جائزہ لیا، پھر ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔

’’آؤ میں تمہیں ڈراپ کر دوں۔‘‘ عریشہ نے دیکھا کہ اس کے سامنے بیٹھا وہ بھی مکمل طور پر بارش میں بھیگ چکا تھا اور اب ہولے ہولے کانپتے ہوئے اس نے دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑا بارش کی تندی اور برف باری کی شدت میں ایک ساتھ اضافہ ہوا تھا۔

عادل نے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر راستہ نظر آنا مشکل ہو گیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی چکر ویو میں پھنس گئے ہوں، چاروں طرف برف کا غبار اور دھواں ہی دھواں گاڑی دو قدم چل کر پھر رک گئی تھی۔

اچانک اس کی نگاہ عریشہ کے سفید مر مریں کانپتے ہاتھوں اور لرزتے لبوں پر پڑی وہ بے ساختہ یک ٹک اسے دیکھتا ہی چلا گیا، وہ قدرتی حسن کا شاہکار تھی یا پھر عادل کو تو ایسی ہی لگتی تھی اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی مستی تھی جو مقابل کو مسرور کر دیتی، محبت کا اک ساغر تھا جو اس کی ذات میں بہتا تھا، اندھیری رات میں وہ چمکتا ہوا چاند تھی وہ دئیے کی طرح روشن، ابر نیساں کی مانند پاکیزہ اور پھولوں کے جیسی کومل اور نرمل تھی اسے دیکھ کر بہاروں میں کھلنے والے پہلے شگوفے کا احساس ہوتا تھا۔

اس کی نظروں کی تپش نے عریشہ کو اس کی جانب دیکھنے پر مجبور کیا تھا عادل نے فوراً نظروں کا زاویہ بدل لیا،

’’میرا اپارٹمنٹ قریب ہی ہے جب تک یہ طوفان تھم نہیں جاتا تم وہاں رک جاؤ۔‘‘ وہ اپنی جانب کا لاک کھول کر باہر نکلی آئی کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، خود عریشہ کو اپنے قدم زمین پہ اکھڑتے محسوس ہو رہے تھے۔

وہ اپارٹمنٹ کا دروازہ لاک کرتے اس کے قریب چلا آیا، وہ ایک کونے میں کھڑی کپکپا رہی تھی۔

’’ہم دونوں یہاں اکیلے ہیں، تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگ رہا۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر جذبات سے بوجھل لہجے میں بولا تو عریشہ نے گھبراہٹ کے باوجود نفی میں گردن ہلا دی۔

’’کیوں؟‘‘ اس کا انکار عادل کو حیرت میں مبتلا کر گیا تھا۔

’’کیونکہ میں اللہ کے بعد ایک مسلمان بھائی کی پناہ میں ہوں اور کوئی مسلمان بھائی اپنی بہن پر نیت خراب نہیں کرتا، بشرطیکہ اس کے ہوش و حواس سلامت ہوں اور تم اس وقت نشے میں نہیں ہو۔‘‘ وہ دل میں خوفزدہ تھی مگر بظاہر مضبوطی سے بولی۔

عادل کے بہکتے قدم وہیں تھم گئے تھے جو معتبر رشتہ وہ اس کے ساتھ جوڑ بیٹھی تھی اس کے بعد اسے اپنے گھٹیا ارادے پر خود ہی ندامت ہوئی، گو کہ اس کے اندر کہیں اچھائی کے آثار باقی تھے، اس نے مکمل طور پر اس چکا چوند میں خود کو گم نہیں کیا تھا۔

’’کافی پیو گی؟‘‘ اس کی اگلی آفر پر طمانیت کا سانس لیتے ہوئے اس نے انکار کرنا چاہا مگر وہ پھر بول اٹھا۔

’’پلیز انکار مت کرنا کیونکہ مجھے اس وقت بہت طلب ہو رہی ہے۔‘‘ وہ اس کے منت بھرے اصرار پر مسکرا دی اور وہ اس کی مسکراہٹ کو اقرار سمجھ کر کافی کے دو مگ بنا لایا۔

’’تھینک یو۔‘‘ وہ کپ تھام کر ہیٹر کے سامنے جا بیٹھی اور کافی کا ایک گھونٹ حلق میں اتارا، اس کا ذائقہ اتنا ہی کڑوا اور تلخ تھا جتنی کہ آج کل اس کی زندگی۔

’’عادل یہ جس طرح کی زندگی تم جی رہے ہو یہ سب کرنے کے بعد تمہیں سکون ملتا ہے جانتے ہو تم رحمان کی بجائے شیطان کی پیروی کر رہے ہو، اللہ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر گمراہیوں کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہو اور جس روز تم سر تک اس میں دھنس گئے اس دن تمہارے لئے سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا، اور ابھی بھی وقت ہے عادل پلیز بچا لو خود کو لوٹ آؤ اپنے اصل کی جانب، چھوڑ دو شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پہ چلنا، ان راہوں کا انجام ذلت اور پشیمانی کے سوا کچھ بھی…‘‘

’’تمہارا پاؤں زخمی ہو گیا تھا بینڈیج کر لو اور آج لگتا ہے یہ طوفان نہیں رکے گا وہ سامنے گیسٹ روم ہے تم وہاں سو سکتی ہو اور کسی چیز کی ضرورت پڑے تو کچن میں سب کچھ موجود ہے۔‘‘ اپنی بات کے رد عمل میں بالکل بدلا ہوا جواب سن کر عریشہ نے تاسف بھری نظروں سے اس کی پشت کو گھورا اور رات بھر لاؤنج میں بیٹھی طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتی زیست کے سو دو زیاں میں الجھی رہی۔

٭٭٭

اگلے روز ناشتہ کرنے کے بعد عادل اسے واپس چھوڑنے آیا تھا گاڑی اس کے اپارٹمنٹ کے سامنے رک چکی تھی وہ ڈور اوپن کرنے ہی والی تھی جب عادل کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

’’عریشہ تم نے میرے دل میں ایمان کا ایک دیپک جلایا ہے میں کوشش کروں گا کہ اپنی ذات کے اندھیروں کو اس کی کرنوں سے منور کر سکوں۔‘‘

’’بیسٹ آف لک، میں تمہارے لئے دعا کروں گی۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرائی اور پھر اتر کر لفٹ کی جانب بڑھ گئی۔

’’آ گئی ہو رات بھر رنگ رلیاں منا کر، میرے سامنے تو بڑی شرافت اور پارسائی کا ڈھونگ کرتی ہو اور پیچھے یہ کھیل کھیلے جاتے ہیں۔‘‘ وہ دروازہ بند کر کہ پلٹی ہی تھی جب کسی نے اس کے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ کر اس کا رخ اپنی سمت کیا۔

’’کیا بکواس ہے یہ تم جانتے ہو رات بھر طوفان…‘‘

’’اگر یہ رات میرے ایم ڈی صاحب کے ساتھ گزاری ہوتی تو میرا کوئی فائدہ بھی ہوتا۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر خباثت سے بولا۔

’’جسٹ شٹ اپ۔‘‘ وہ پوری قوت سے چلائی بس نہیں چل رہا تھا ورنہ اس قدر گھٹیا بات پر اس کا منہ نوچ لیتی۔

’’ایم ڈی صاحب کو تھپڑ کیوں مارا تھا تم نے۔‘‘ وہ اس کا بازو تھام کر درشتی سے بولا۔

’’وہ میرے ساتھ بد تمیزی کر رہا تھا۔‘‘ وہ ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑاتی اس سے دو قدم پیچھے ہٹی۔

’’سو واٹ؟‘‘ اس نے بے نیازی سے شانے اچکائے۔

’’اگر مجھے کوئی اعتراض نہیں ان باتوں سے تو تمہیں کیا پرابلم ہے۔‘‘ اس کے تیور خطرناک حد تک جارحانہ تھے۔

’’تمہارا تو ضمیر مر چکا ہے تم انسانیت کے معیار سے گر چکے ہو تم جیسا گھٹیا…‘‘ راحل نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پہ مارا تھا وہ لڑھک کر پیچھے صوفے پہ جا گری۔

’’تم سے شادی میری زندگی کی سب سے بڑی حماقت تھی سکون برباد کر دیا ہے تم نے میرا، ہر جگہ ہر موقع پر تم میری انسلٹ کرواتی ہو، ایک سزا کے طور پر مسلط کر دی گئی ہو مجھ پر، تمہاری وجہ سے میری نوکری خطرے میں پڑ چکی ہے تم سے تو اچھی جولیا…‘‘

’’تو جولیا سے شادی کر لو، تم ویسی ہی بیوی ڈیزرو کرتے ہو۔‘‘ وہ چیخ اٹھی۔

’’تم کیا سمجھتی ہو میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا۔‘‘ عریشہ کا سرد، کٹیلا انداز اسے اندر تک سلگا گیا تھا۔

’’میں ابھی اور اسی وقت تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں۔‘‘ وہ پوری شدت سے دھاڑتا، راستے میں آئی ہر چیز کو ٹھوکروں سے اڑاتا اپارٹمنٹ سے باہر چلا گیا تھا اور وہ اپنی جگہ گم صم ساکت کھڑی رہ گئی تھی۔

٭٭٭

پاکستان کال کرنے کے بعد اس نے اپنا کچھ ضروری سامان پیک کر لیا تھا دو دن ہو گئے تھے راحل پلٹ کر واپس نہیں آیا تھا آج لالہ جانی پہنچ رہے تھے وہ بڑی سی چادر اوڑھتی لاؤنج میں بیٹھی لالہ جانی کا انتظار کرنے لگی وہ اسے لینے آ رہے تھے اور جب تک وہ آ نہ جاتے اسے یہیں ان کا ویٹ کرنا تھا، اس کی آنکھیں بالکل خشک اور خالی تھیں۔

بد کردار، اخلاقیات سے عاری، جہالت اور گمراہی کی پستیوں میں گرا ہوا شوہر گلے میں پہنے ایک طوق کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور ایسا طوق جب گلے سے اترتا ہے تو وہ کوئی تکلیف کوئی اذیت نہیں دیتا بلکہ ایک گہرے سکون کا احساس دلاتا ہے اس لمحے ویسا ہی سکون اور اطمینان وہ اپنے اندر اترتا محسوس کر رہی تھی۔

وہ یقیناً اس کی زندگی میں ایک کڑی آزمائش بن کر آیا تھا جس کو اس نے انتہائی صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ جھیلا تھا اور اب اس سے پہلے کہ اس کے ضبط کی طنابیں ہاتھ سے چھوٹتیں اور اس کا صبر جواب دیتا اللہ نے اس کی آزمائش ختم کر دی تھی۔

اطلاعی گھنٹی پر لالہ جانی کا تصور کرتے ہوئے اس نے بھاگ کر دروازہ کھولا تھا مگر سامنے کھڑے راحل کو دیکھ کر اسے اپنی جلد بازی پر جی بھر کے کوفت ہوئی، وہ کی رنگ گھماتا سیٹی پہ کوئی دھن گنگناتا خاصے فریش موڈ میں یوں اندر آیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

’’تم کہاں جا رہی ہو؟‘‘ صوفے کے پاس رکھا بیگ اور اسے بڑی سی چادر میں پیک دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا تھا۔

’’واپس پاکستان جا رہی ہوں۔‘‘ وہ رخ موڑے بغیر ناگواری سے بولی۔

’’کیوں؟‘‘ وہ حواس باختہ سا گھوم کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

’’تم نہیں جانتے۔‘‘ اس کا انداز استہزائیہ تھا۔

’’دیکھو ایم سوری وہ مجھے غصہ آ گیا تھا اور غصے میں، میں نہ جانے تم سے کیا کچھ بول گیا، میاں بیوی میں سو جھگڑے ہو جاتے ہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں نا کہ تم اتنی سی بات پر گھر چھوڑ کر چلی جاؤ اور پھر تمہیں بتانا چاہیے تھا کہ تم رات عادل کے گھر میں تھی۔‘‘

’’اتنی سی بات؟‘‘ اس کی سوئی اسی نقطے پر اٹک گئی تھی۔

’’تم مجھے طلاق دے چکے ہو سمجھے۔‘‘ اگلے ہی پل وہ ہوش میں آ کر چلائی۔

’’کیا بچوں جیسی بات ہے ایسے غصے میں بول دینے سے طلاق تھوڑی ہو جاتی ہے کوئی طلاق ولاق نہیں دی میں نے تمہیں اور آج شام ایم ڈی صاحب کو میں نے ڈنر پہ انوائیٹ کیا ہے تم پلیز ذرا اچھے انداز سے بات کرنا ان سے پہلے ہی بڑی مشکل سے ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا ہے بھری محفل میں اتنی بڑی شخصیت پر ہاتھ اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی اور…‘‘

اس لمحے دروازہ کھلنے پر سامنے لالہ جانی کا چہرہ نمودار ہوا تھا وہ بھاگ کر ان کے گلے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو دی، راحل اپنی جگہ بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گیا۔

’’ماموں جان! آپ یوں اچانک، کوئی اطلاع دے کر آتے تو میں خود ائیر پورٹ ریسیو کرنے آ جاتا۔‘‘ اس کے اس قدر اپنائیت کے مظاہرے پر شیراز حسن نے محض ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی تھی پھر عریشہ سے مخاطب ہوئے۔

’’چلو بیٹا میں نے واپسی کی سیٹ بھی ریزرو کروا لی ہے۔‘‘

’’مگر کہاں، ماموں جان آپ میری بات تو سنیں میں نے اسے طلاق نہیں دی۔‘‘ راحل گھوم کر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا انہوں نے کچھ ٹھٹک کر ایک بار عریشہ اور دوسری بار راحل کو دیکھا۔

’’آ… آپ میرا یقین کریں یہ جھوٹ بول رہی ہے۔‘‘ اس الزام پر عریشہ نے تڑپ کر سر اٹھایا تھا لالہ جانی کی استفہامیہ نگاہیں اس پر جم گئیں۔

’’لالہ جانی آج سے تین دن پہلے اس نے تین بار وا شگاف الفاظ میں کہا تھا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔‘‘

’’مگر میری نیت نہیں تھی۔‘‘ وہ جھنجھلا گیا۔

’’نیت کنایہ الفاظ میں شرط ہوتی ہے۔‘‘ اب کہ شیراز حسن کو بھی اس کی ڈھٹائی پر غصہ آ گیا تھا وہ بہن کی محبت میں اس کا لحاظ کر رہے تھے۔

’’ہاں مگر میں نے دو بار کہا تھا اور میں رجوع کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘

’’نہیں لالہ جانی اس نے تین بار کہا تھا۔‘‘ وہ سراسیمہ ہو کر لالہ جانی کی جانب بڑھی اور پھر ان کے پیچھے چھپ گئی۔

’’ماموں جان یہ جھوٹ…‘‘

’’بس۔‘‘ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔

’’میری بیٹی جھوٹ نہیں بولتی۔‘‘ ان کے لہجے کے مان، اعتبار پر عریشہ نے بڑے تفاخر سے گردن اٹھا کر انہیں دیکھا تھا تبھی اسے بیرونی دروازے سے جولیا اندر آتی دکھائی دی۔

’’کہاں تھے تم آج! کب سے کال کر رہی ہوں تم نے اپنا سیل بھی آف کر رکھا ہے۔‘‘ وہ عریشہ اور لالہ جانی کو ’’ہیلو‘‘ بولنے کے بعد بے تابی سے راحل کی جانب بڑھی۔

’’ہو از شی۔‘‘ انہوں نے پلٹ کر عریشہ سے دریافت کیا۔

’’گرل فرینڈ یا اس سے بھی زیادہ سمجھ لیں۔‘‘ وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بڑبڑائی۔

’’اچھا تو یہ شوق بھی رکھتے ہیں۔‘‘ ان کے طنزیہ لہجے پر راحل کی نظریں زمین میں گڑ گئیں۔

’’بس اتنا ہی نہیں اخلاقیات سے گرا ہر شوق رکھتے ہیں۔‘‘ وہ کہہ کر رکی نہیں لالہ جانی بھی ایک سرد سی نگاہ اس پہ ڈال کر عریشہ کے تعاقب میں نکلے۔

’’تم نے یہ سب مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا، کیوں اتنی اذیت میں زندگی گزارتی رہی، کس نے سکھایا تھا تمہیں ظلم برداشت کرنا میں نے ایسی تربیت تو نہیں کی تھی تمہاری۔‘‘ لالہ جانی نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھا، انہیں اپنی لا علمی پہ افسوس ہو رہا تھا اور اکلوتی لاڈلی بیٹی کا گھر اجڑنے کا دکھ ایک الگ کہانی تھی۔

’’میں آپ کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘ اس نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا اور سوچنے لگی۔

’’کہ میں آپ کو کیا بتاتی لالہ جانی کچھ آپ کو بتانے لائق تھا ہی نہیں، آپ سے یہ کہتی کہ وہ مجھے نیم برہنہ لباس پہننے اور شراب پینے پر مجبور کرتا ہے میرا نماز پڑھنا اسے پسند نہیں اس کی غیر موجودگی میں اس کے دوستوں کو گھر نہیں بلاتی تو میں دقیانوسی ہوں اس کے دوستوں کی بانہوں میں نہیں جھومتی تو اس کی انسلٹ ہو جاتی ہے، کیا بتاتی آپ کو زندگی بھر سکول کے اسٹیج پہ کھڑے ہو کر حلال و حرام کی تمیز پہ لیکچر دینے والے شخص کا داماد راشی ہے، زانی ہے، شرابی ہے، قاتل ہے۔‘‘ بے ساختہ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے یقیناً وہ اس قابل نہیں تھا کہ اس جیسی پیاری لڑکی اس کی ہم سفر بنتی۔

٭٭٭

اس کے گھر آنے سے پہلے ہی یہ خبر لغاری ہاؤس تک پہنچ چکی تھی، شام میں زہرہ پھپھو، ماموں اور نانا جان آئے تھے، اس سے معذرت کرنے، بلکہ اس کے سامنے تو دادا جان، لالہ جانی سمیت سب ہی شرمندہ سے بیٹھے تھے جیسے جو ہوا وہ سب نے جان بوجھ کر کیا ہو۔

’’آپ سب اتنا گلٹی فیل کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ جو ہوا وہ میری قسمت میں لکھا تھا، پلیز نانا جان میں اس کے لئے کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا رہی، آپ بھی خود کو کوئی الزام نہ دیں اور اس میں راحل کا بھی قصور نہیں ہے، بس ہمارے مزاج ہی نہیں مل سکے، وہ کیا کہتے ہیں۔‘‘ وہ رسانیت سے کہتے ہوئے ایک پل کو رکی جیسے ذہن پہ زور دے کر کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔

’’ہاں یاد آیا انڈر اسٹینڈنگ اور یوں سمجھ لیں وہ زمین تھا اور میں آسمان، آپ نے کبھی زمین اور آسمان کو ملتے ہوئے دیکھا ہے ہاں اکثر دور سے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر یہ ہماری نظر کا دھوکہ ہے اور کچھ نہیں، قریب جا کر دیکھنے پروہ اتنے ہی فاصلے پر کھڑے نظر آتے ہیں اور ہم جتنا بھی سفر ساتھ کر لیتے یہ فاصلہ نہیں سمٹ سکتا تھا۔‘‘ وہ فلسفیانہ انداز میں کہتی مصنوعی بشاشت سے مسکرائی، کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اب بیٹے کی جدائی زہرہ پھپھو کا مقدر بنتی وہ پہلے ہی اکیس برس اپنے بھائی سے جدا رہی تھیں، نانا جان کا کیا بھروسہ تھا کہ ابھی وہ راحل کو اپنی جائیداد سے عاق کرتے ہوئے اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لئے بے دخل کر دیتے، کچھ معاملات میں وہ ایسے ہی سنگدلانہ فیصلے کر جاتے تھے بھلے ہی بعد میں عمر بھر اس فیصلے پہ پچھتاتے رہیں مگر خلاف مزاج بات برداشت نہیں کرتے تھے۔

’’وہ سب تو ٹھیک ہے مگر…‘‘

’’تو اگر مگر۔‘‘ عریشہ نے ٹوک دیا۔

پلیز نانا جان اور دادا جان آپ دوست تھے اور اب بھی دوست ہیں اس بات کو لے کر آپ کی دوستی میں کوئی رنجش یا خلش آئے، مجھے اچھا نہیں لگے گا، جب مجھے کوئی ٹینشن نہیں تو آپ سب بھی خود کو فضول میں ڈسٹرب نہ کریں۔‘‘ اس کا انداز ملتجیانہ تھا۔

’’ٹھیک ہے بیٹا جیسی تمہاری خوشی۔‘‘ زبیر لغاری اٹھ کر زاہد تابانی کے قریب آ بیٹھے تھے اور اب باتوں کا رخ پلٹ کر سیاست اور بزنس کی جانب مڑ چکا تھا، اس نے بے ساختہ دل میں شکر ادا کیا کہ اس سے بات سنبھل گئی تھی اور اس بات کو لے کر خاندان بھر میں فساد برپا ہو سکتا تھا، کہ بہرحال یہ کوئی چھوٹی اور معمولی بات نہیں تھی۔

’’پھپھو اور ماموں جان آپ سب ڈنر ہمارے ساتھ کریں گے۔‘‘ انہیں اٹھتا دیکھ کر عریشہ اور روشنی نے واپس بٹھایا، روشنی اور عمیر مانی کے بہن بھائی تھے، اپنی سویٹ سی تائی جان کو کچن سے باہر بھیجتے ہوئے وہ روشنی اور مہرو کچن میں گھسی ڈنر کا مینیو ترتیب دے رہی تھیں، روشنی اور عمیر نے اپنی باتوں سے اسے خوب ہنسایا تھا وہ دونوں بھی اس کے ہم مزاج نکلے تھے شوخ دل اور باتونی، مانی سے البتہ اس کا سامنا کم ہوا تھا جب اس کے گھر ہونے کے امکانات ہوتے وہ کمرے سے نہیں نکلتی تھی۔

٭٭٭

’’بہت بدل گئی ہو تم عریشہ۔‘‘ چھ ماہ میں یہ پہلی بات تھی جو مانی نے اس سے کی تھی، رات اپنے دوسرے پہر میں داخل ہو رہی تھی آسمان کا سیاہ آنچل ستاروں سے روشن تھا، اسے نیند نہیں آ رہی تھی جب وہ دادا جان کا وہی پرانا ریڈیو اٹھا کر باہر لان میں آ بیٹھی تھی نیم تاریکی میں اسے مانی کی وہاں موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا، وہ اس کی آواز پر چونکی اور پھر سپاٹ لہجے میں بڑبڑائی۔

’’جب کوئی بہت اپنا دل توڑ دے تو انسان بدل ہی جاتا ہے۔‘‘ وہ بے چین سا ہو کر اس کے قریب چلا آیا اور اس کی چیئر کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

’’میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’کیوں ترس آ رہا ہے مجھ پر۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسی، جیسے اپنی ہی بات کا حظ اٹھایا ہو۔

’’میں تم سے پیار…‘‘

’’پیار کا نام مت لو، اس سوال کا جواب تم بہت پہلے دے چکے ہو۔‘‘

’’میں شرمندہ ہوں مگر میں مجبور تھا۔‘‘ اس کی وضاحت پر وہ بغیر کوئی رد عمل ظاہر کیے ہنوز ریڈیو کے اسٹیشن بدلنے میں مگن رہی جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔

’’تم اس پر جس آواز کو سننا چاہتی ہو وہ اب نہیں سن پاؤ گی۔‘‘ اس کا اشارہ ریڈیو کی جانب تھا۔

’’کیوں؟‘‘ عریشہ نے آبرو اچکائے۔

’’جب سے تم نے اسے سننا چھوڑ دیا ہے اس نے سمجھ لو بولنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ وہ اس کی بات میں چھپا مفہوم سمجھے بغیر ریڈیو وہیں رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی، دو قدم چل کر اسے اپنے پلو پہ کھنچاؤ سا محسوس ہوا تھا وہ رک گئی مگر پلٹی نہیں۔

میری ہر دعا کا محور

بس اک آرزو تمہاری

اس آرزو سے آگے

کوئی راستہ نہیں ہے

تمہیں کس قدر ہے چاہا

یہ تمہیں پتہ نہیں ہے۔

ٹھہرا ٹھہرا پر سوز گھمبیر لہجہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔

’’یہ غزل تو۔‘‘ وہ الٹے قدموں گھوم گئی۔

’’تم مریان حیدر کو سنایا کرتی تھی۔‘‘ وہ مسکرایا۔

’’میں ہی مریان حیدر ہوں۔‘‘

’’مانی تم۔‘‘ عریشہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔

’’تم نے کبھی بتایا نہیں۔‘‘ اس کے اندر اک خوشگوار سا احساس انگڑائی لے کر بیدار ہوا تھا۔

’’تم نے کبھی پوچھا بھی تو نہیں۔‘‘ وہ الٹا خفا ہوا۔

’’آئی کانٹ بلیو۔‘‘ وہ ابھی تک شاک میں تھی۔

’’ول یو میری می میم۔‘‘ اب وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا۔

’’شٹ اپ، یہ کیا بے ہودگی ہے؟‘‘ وہ سٹپٹا کر رہ گئی۔

’’میں نے جسٹ اپنی فیلنگ کا اظہار کیا ہے۔‘‘ مانی نے اطمینان سے وضاحت دی جس پر عریشہ نے اسے مصنوعی خفگی سے گھورا وہ اسی کے الفاظ دوہرا رہا تھا۔

’’اٹھو بھی اگر کسی نے دیکھ لیا تو۔‘‘ اسے ٹس سے مس نہ ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ جھنجھلا گئی۔

’’تو کیا؟ میرا کام اور آسان ہو جائے گا۔‘‘ وہ اس کی بات اچک کر بولا۔

’’کاش لالہ جانی یا پھر دادا جان میں سے کوئی دیکھ لے۔‘‘ اس نے بے ساختہ دونوں ہاتھ اٹھا کر فریاد کی۔

’’میرا دوپٹہ چھوڑو۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا پلو کھینچا جو ابھی تک حفظ ما تقدم کے طور پر مانی نے اپنی مضبوط گرفت میں تھام رکھا تھا ورنہ محترمہ یہاں بھلا رکتی؟

’’تو تم تیار ہو، تھینک یو سو مچ۔‘‘ وہ فوراً اٹھ گیا اور پھر ایک گہرا سانس کھینچ کر عریشہ کے بگڑتے زاویوں کو دیکھا۔

’’دیکھو تم نے کہا تھا کہ جب تمہیں مریان حیدر ملے گا تو تم اسے آئی لو یو کہو گی، تو اب میں کھڑا ہوں تمہارے سامنے اپنا وعدہ پورا کرو۔‘‘

’’جی نہیں میں نے کہا تھا کہ میں یوکو یور بنا کر ساتھ وائس بھی لگاؤں گی۔‘‘ اس نے تصحیح کرنا ضروری سمجھا۔

’’یو کو یور بنا کر ساتھ وائس لگانا ضروری ہے کیا۔‘‘ وہ مسکین سی شکل بنا کر اس کی جانب جھکا تو حواس باختگی میں وہ فوراً بول گئی ’’اتنا بھی نہیں۔‘‘ جس پر مانی کا قہقہہ بے ساختہ تھا وہ اس سے اپنے مطلب کی بات اگلوا چکا تھا عریشہ نے جھینپ کر سر جھکا لیا۔

زندگی کے ٹیڑھے میڑھے دشوار گزار راستوں کا سفر وہ طے کر چکی تھی اب آگے کا راستہ بے حد شفاف اور نکھرا نکھرا سا تھا بالکل مریان حیدر کی کھنکتی ہوئی زندگی سے بھرپور ہنسی کی طرح، اس کا دل آج پھر گنگنانے کو چاہا تھا۔

میری ہر دعا کا محور

اک آرزو تمہاری

٭٭٭

ماخذ: ’ کتاب‘ اینڈرائیڈ ایپ تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل