FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ بیکانیری: شخصیت و شاعری

 

شاگردِ رشید استاذالشعراء افتخار الملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی

 جانشین فصیح الملک داغؔ دہلوی

 

 

                پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

 

 

 

انتساب

 

خاندانِ شیخ محمد ابراہیم آزاد کے روشن چشم و چراغ

اور

اپنے عَم ّ

مغیث احمد صمدانی

کے نام

جنہوں نے دیوانِ آزادؔ  کے طبع دوم کا اہتمام کر کے آزادؔ صاحب کی شخصیت اور ان کے کلام کو زندہ جاوید کر دیا،

دیوان آزادؔ پہلی بار ۱۹۳۲ء میں آگرہ سے شائع ہوا تھا، اس کی اشاعت دوم ۲۰۰۵ء میں کراچی سے ہوئی۔

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

ہفتہ ۸ جون ۲۰۱۳ء ؍۲۸ رجب المرجب ۱۴۳۴ھ

مصنف سے رابطے کے لیے

Cell:03332142076

E-Mail: drraissamdani@yahoo.com

 

 

خراج عقیدت

 

بِسْمِ اللہِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 

اپنے خاندان کے ان تمام بزرگوں کی خدمت اقدس میں جو بے لوث، بے غرض اور خلوص و محبت کا پیکر تھے۔ جو آپس میں سب کو شجرہ کی مانند یکجا رکھتے تھے، ہر ایک کے دکھ و تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے تھے اور

سب کی خوشی میں ہی ان کی خوشی تھی۔ اے اللہ۱! تو آج بھی اس خاندان کے لوگوں کو اپنے بزرگوں کی طرح صلہ رحم اور ہمدردی رکھنے والا بنا دے۔

اے اللہ ! میرے خاندان کے ان بزرگوں کو اور ان تمام احباب کو جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے

جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما اور خاندان کی آئندہ نسل کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

 

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

ہفتہ ۸ جون ۲۰۱۳ء ؍۲۸ رجب المرجب ۱۴۳۴ھ

 

 

 

دیباچہ

 

                 ڈاکٹر فرمان فتح پوری

( ستارۂ امتیاز)

 

ٍ        ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی سوانح نگاری اور خاکہ نویسی کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں کچھ عرصہ قبل ان کا خاکوں کا مجموعہ ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ منظر عام پر آ چکا ہے۔ اس سے قبل سوانحی مضامین پر مشتمل کتاب ’یادوں کی مالا‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔ صمدانی صاحب کی ان دونوں کتابوں پر میری رائے شامل ہے۔ اپنے موضوع پر بہت خوب لکھتے ہیں بلکہ ان کی حیثیت ایک صاحب نظر ادیب و محقق کی ہے۔ ایک اور خوبی جو میں نے ان میں محسوس کی کہ وہ صلہ و ستائش کی پروا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس بار انہوں نے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا ہے جن کا زمانہ انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر سے بیسویں صدی عیسویں کے تقریباً آخر کا ہے۔ یہ راجستھان کے معروف مداح سرا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ ہیں جو صاحب دیوان شاعر تھے جن کا مجموعہ کلام آگرہ سے ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا۔ اس دور کے ممتاز شاعروں میں الطاف حسین حالیؔ، احمد رضا بریلوی، داغؔ دہلوی، سید وحید الدین بیخودؔ دہلوی، امیر مینائی، محسن کاکوروی، شاد عظیم آباد، علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور دیگر معروف شعرا ء اور ادیب شامل ہیں۔ پیش نظر کتاب آزادؔ صاحب کی شخصیت، شاعری، خاندان، آبائی شہروں اور آزادؔ صاحب کے بارے میں ماہنامہ نعت لاہور کے خاص شماروں کے تعارف پر مبنی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ مواد اور معیار دونوں اعتبار سے، یہ کتاب آزادؔ صاحب کے متعلق گراں قدر اضافہ ہے۔

تخلیقی صلاحیت رکھنے والے کسی بھی تخلیق کار کے سلسلے میں یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ وہ ایک سے زائد اصنافِ سخن میں اظہار ذات کا ذریعہ بنانے پر قادر ہو۔ ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جنہوں نے نثر اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کی ہے اور ان میں سے ہر ایک میں خوب لکھا ہے۔ ڈاکٹر صمدانی ان لکھنے والو میں سے ہیں جنہوں نے اپنے موضوع لائبریری سائنس کے بارے میں بہت کچھ لکھاساتھ ہی مختلف ادبی موضوعات خاص طور پر سوانح نگاری اور خاکہ نویسی کو اپنا موضوع بنا یا اور ایک سوانح نگار کے طور پر ادب کی دنیا میں اپنی شناخت قائم کی۔

پیشِ نظر کتاب کی اساس شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی شخصیت اور نعت گوئی ہے۔ اس لیے اس کا موضوع اس امر کا مُتقاضی ہے کے ‘ نعت‘ کے حوالے سے کچھ تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کروں۔ اس موضوع پر تفصیلی اظہار خیال میں اپنی کتاب ’’اردو کی نعتیہ شاعری ‘‘ میں کر چکا ہوں جو ۱۹۷۲ء میں آئینہ ادب لاہورسے شائع ہوئی تھی۔ اردو شاعری کی محترم و مقبول صنف ’’نعت‘‘ ہے ’’ نعت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی کا تعلق مدحت و ثنا سے ہے۔ شعری اصطلاح اور صنف کی صورت میں یہ براہِ راست عربی سے نہیں بلکہ دوسری اصناف کی طرح فارسی سے اردو میں آئی ہے۔ بات یہ ہے کہ اردو فارسی میں شعر و سخن کے حوالے سے نعت کا جو مفہوم متعین ہے وہ عربی میں نہیں ہے۔ عربی میں اس جگہ ’’مدح‘‘ یا ’’وصف‘‘ کا لفظ مُستعمل ہے اور رسولِ اکرمﷺ کی شان میں اشعار کہنے والوں کو ’’نعت گو‘‘ نہیں بلکہ مدّاحِ رسول یا وصّافِ رسول کہا جاتا ہے۔ عموماً ’’مدح‘‘ کے لفظ سے وہی کام لیا جاتا ہے جو اردو فارسی میں لفظِ نعت سے لیا جاتا ہے۔ لیکن اپنے اصطلاحی مفہوم میں ’’مدح‘‘ کا لفظ نعت سے وسیع تر ہے کہ اس کا اطلاق، عربی نثر و نظم دونوں پر ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے حضور اکرمﷺ کی شان میں لکھا ہوا ہر ٹکڑا یا مضمون، نعت کے دائرے میں شامل ہے۔ عربی کے اولین نعت نگاروں میں جناب ابو طالب اور اُمِ معُبد کے نام آتے ہیں۔

مختصر اً عرض کروں کہ عربی میں نعت گوئی کا رواج صرف ذوقِ شعر گوئی کی تسکین یا کمال زباندانی کے اظہار کے لیے نہ تھا۔ اُس کا اصل مقصد، اسلام اور مسلمانوں پر، ہجویہ حملہ کرنے والے شعرا کا جواب دینا تھا۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ کو اسی غرض سے شعر گوئی اور نعتیہ قصیدہ نگاری کی اجازت دی گئی تھی کہ اُس کے ذریعہ کفار مکہ کے ہجوں گاروں کو لاجواب کرنا اور مسلمانوں کی عزت و ناموس کو اُن کے حملوں سے تحفظ و نجات دلانا مقصود تھا ورنہ حضورِ اکرمﷺ کو یہ بات پسند نہ تھی کہ لوگ ان کی تعریف میں قصیدے لکھیں۔ ان قصائد کا بنیادی مقصد حضورِ اکرمﷺ کی ذاتی بزرگی و عظمت کا اظہار نہیں بلکہ دین اسلام کی برکات و احسانات سے عوام الناس کو دلکش پیرائے میں متعارف کرانا اور غیر مسلم شعرا کے خلاف جہاد باللسان و القلم کو موثر و کارگر بنانا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شاعری میں رسمی نعت گو شعرا سے قطع نظر، بے شمار ایسے شعرا موجود ہیں جن کی نعتیہ شاعری یکسر وجدانی اور رسمیات سے پاک ہے۔ ان شعرا کے نعتیہ کلام نے ہمارے معاشرے کی تہذیبی زندگی پر کم و بیش وہی اثر ڈالا ہے جو نعت گوئی کا مقصود اصلی تھا۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ بھی ان شعرا میں سے ہیں کہ جن کے نعتیہ کلام میں رسولِ اکرمﷺ کی ذات صفات سے والہانہ عشق صاف عیاں ہوتا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنابِ آزادؔ سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں جن کی شاعری کے بارے میں خود بیخودؔ دہلوی نے کہا کہ ’ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چندہ محتاج نہیں ‘۔ بیخودؔ دہلوی جیسے استاذ الشعرا جانشین فصیح الملک داغؔ دہلوی کی اس رائے کے  بعد گنجائش نہیں رہ جاتی کے آزادؔ صاحب کی شاعری پر کچھ کہا جائے۔

پیش نظر کتاب سے اندازہ ہوا کہ صمدانی صاحب ایک شاعر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے خاندان میں شعر و ادب کا مذاق کئی نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ متعدد احباب ادیب و شاعر اور صاحب دیوان شاعر ہیں۔ خود صمدانی صاحب کے بعض اشعار اس کتاب میں کہیں کہیں نظر سے گزرے۔ امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ رسولِ اکرم ﷺ سے محبت کرنے والوں کے لیے تسکین کا وسیلہ ہو گی۔ اہل ذوق کو انبساطِ روح اور نشاطِ قلب کے اسباب فراہم کرے گی۔ غور و فکر کی راہیں کھولے گی اور مصنف کے قلم کو مزید معتبر و محترم بنائے گی اور ہر اعتبار سے اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہو گی۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری

( ستارۂ امتیاز)

 

 

دیباچہ

 

                پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی

ڈین آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرنگ و چیرٔ مین شعبہ اردو

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد

 

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کا تعلق شاعر مزدوراحسان دانشؔ کے وطن مظفر نگر سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ احسان دانش کی طرح محنتی، واقعات و مناظر کی تصویر کشی اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے والے لکھاری ہیں۔ زبان شستہ اور پاکیزہ ہے۔ اپنے موضوع پر خوب لکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی حیثیت ایک صاحبِ نظر ادیب و محقق کی ہے۔ واقعہ نگاری اور واردات کے بیان کی خوبصورتی سے قلم بند کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ ادب میں سوانح نگاری، خاکہ نویسی اور رپورتاژ ان کے خاص موضوعات ہیں۔ سوانح نگار کی حیثیت سے انہوں نے بے شمار علمی و ادبی شخصیات پر مضامین، خاکے اور تصانیف مرتب کیں۔ ادب کی دنیا میں انہوں نے سوانح نگاروں اور خاکے لکھنے والوں میں اپنی الگ شناخت قائم کی۔ ڈاکٹر صمدانی کی تحریروں میں دھیما پن اور سادگی ہے وہ اپنے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں شخصیت کا دلفریب اور مکمل نقشہ چھوڑنے میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔

’’پیشِ نظر کتاب ڈاکٹر صمدانی کے پردادا شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی سوانح اور شاعری سے متعلق ہے۔ جہاں تک جنابِ آزادؔ کی شاعری کا تعلق ہے تو وہ اپنے شعری اظہار کے حوالے سے کلاسیکل لب و لہجے کو بڑی عمدگی اور فنی مہارت سے شعروں کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کا دیوان ۱۹۳۲ء میں آگرہ سے شائع ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ آزادؔ کو بیخودؔ دہلوی جیسے معروف اور پختہ فکر شاعر کی شاگردی کا بھی اعزاز حاصل ہے اور بیخودؔ حضرتِ داغؔ دہلوی کے شاگرد تھے اس اعتبار سے ادب کی یہ تکون یعنی داغؔ، بیخودؔ اور آزادؔ اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ جو کتاب آزادؔ صاحب کی سوانح و شاعری پر روشنی ڈالتی ہے اور اس تناظر میں ایک ایسے شخص و شاعر کو منظر عام پر لاتی ہے جو اوراق کی تہہ میں محفوظ تھا۔ اس حوالے سے ڈاکٹر رئیس صمدانی ہدیہ تکریم کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک باکمال شخص و شاعر کو ادبی دنیا میں روشناس کرانے کے لیے ایک اہم اقدام کیا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر عمدہ کاوش ہے۔

 

 

 

 

 حرف اول

 

                ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ ہندوستان کے ایک قادر الکلام شاعر جن کا تعلق ہندوستان کے صوبے راجستھان کے معروف شہر بیکانیر سے تھا۔ آپ کا نعتیہ دیوان ۱۹۲۳ء میں آگرہ سے شائع ہوا تھا۔ اشاعت دوم ۲۰۰۵ء میں کراچی سے ہوئی۔ آز ادؔ صاحب سے میرا خون کا رشتہ ہے مَیں ان کا پڑ پوتا اور وہ میرے پڑ دادا ہیں۔ تعلق کی ایک اساس سخن فہمی اور ادب سے دلچسپی ہے جو ہمارے خاندان کی میراث ہے۔ آزادؔ صاحب کے خاندان کے احباب نے ہمیشہ حرف و قلم سے رشتہ جوڑے رکھا اور سخن فہمی کی جانب مائل رہے۔ ذوقِ شعری کا یہ سلسلہ یکے بعد دیگرے نسلوں میں سفر کرتا ہوا موجودہ دور تک پہنچ چکا ہے۔ شخصیات میرا خاص موضوع رہی ہیں گزشتہ ۳۵ برسوں سے لکھ رہا ہوں۔ پہلا سوانحی مضمون ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا تھا، یہ شخصیات پر لکھنے کی ابتدا تھی، شخصیات کے حوالے سے اب تک میرے بے شمار مضامین اور کئی تصانیف بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ’یادوں کی

مالا‘۲۰۰۹ء میں لاہور سے شائع ہوئی، شخصی خاکوں پر مشتمل دوسری کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘ ۲۰۱۲ء کراچی سے میں شائع ہوئی۔

آزادؔ صاحب پر میرا پہلا مضمون ’’انوارا لصوفیہ‘ قصور میں ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا مضمون ’دیوانِ آزادؔ ‘ اشاعت دوم ۲۰۰۵ء میں شامل ہے۔ آزادؔ صاحب پر کتاب مرتب کرنے کا خیال بہت پہلے آ چکا تھا۔ وقت کس تیزی سے گزرا معلوم ہی نہ ہو سکا۔ کام کرتا رہا اور اب مکمل ہوا دیر آید درست آید۔ اس کتاب کے قاری دو طرح کے ہو سکتے ہیں ایک آزادؔ صاحب کے خاندان اور برادری کے احباب جو تعداد میں ہزاروں میں ہیں۔ دوسرے سوانحی ادب سے دلچسپی رکھنے والے، عام قاری، شاعر، ادیب اور محققین۔

ٍٍٍ        آزادؔ صاحب کی شخصیت اور ان کی سخن فہمی ادبی تاریخ خصوصاً نعتیہ شاعر کی حیثیت سے اہم اور لائقِ توجہ ہے۔ ادبی حوالے سے یہ کتاب آزادؔ صاحب کی سوانح اور تخلیقی خدمات پر اہم دستاویز اور آئندہ کے محقق کے لیے مفید ماخذ ہو گی۔ کتاب کا پہلا باب آزادؔ صاحب کی شخصیت کو نمایاں کرتا ہے۔ معلومات کا بنیادی ماخذ خود آزادؔ صاحب کا دیوان ہے۔ اس کے علاوہ راقم الحروف نے جو باتیں اپنے والدِ بزرگوار قبلہ انیس احمد صمدانی مرحوم اور خاندان کے دیگر احباب سے سنیں انہیں اس باب کا حصہ بنایا گیا ہے۔

باب دوم آزادؔ صاحب کی نعتیہ شاعری پر مبنی ہے۔ آپ بنیادی طور پر نعت گو شاعر ہیں اردو شاعری کے دامن میں عشق مصطفیﷺ کی شان اقدس میں صالح شعر و ادب کے بے مثال ہیرے اور موتی بکھیرے جو اپنی مثال آپ ہیں۔ تیسرے باب میں آزادؔ صاحب کے ہمعصر شعراء اور اہل قلم کی رائے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ چوتھا باب خاندان کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے باب پنجم میں آزادؔ صاحب کے آبائی شہروں بیکانیر، مظفر نگر اور حسین پور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ چھٹا باب ’دیوان آزادؔ طبع اول و دوم، لاہور سے شائع ہونے والے ادبی رسالے ماہنامہ ’نعت‘ کے خاص نمبر ’آزادؔ  بیکانیری کی نعت‘ کا احاطہ کرتا ہے۔ آخر میں ’کچھ اپنے بارے میں ‘ ہے۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب نے بہ وجود صحت کی خرابی کے اس بار بھی عنایت فرمائی اور ایک تفصیلی دیباچہ تحریر فرمایا۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ ان کا شکریہ ادا کروں۔ اصغر کاظمی صاحب بھی بجا طور پر شکریے کے مستحق ہیں۔ کوشش کی ہے کہ کتاب کو آزادؔ صاحب کے حوالے سے معلوماتی اور دلچسپ بنا سکوں۔ اس میں کہاں تک کامیاب ہوا اس کا فیصلہ قارئین ہی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ میری اس خدمت کو قبولیت کا درجہ عطا  فرمائے۔ آزادؔ صاحب کی مغفرت کی دعا کے ساتھ اپنی بات اپنے ہی اشعار پر ختم کرتا ہوں۔ میرا بنیادی مقصد بھی یہی ہے ؎

رفتہ گانِ عہد کو یاد رکھنا چاہتا ہوں

ہے یہ ایک فرض جو نبھا نا چاہتا ہوں

زندگی کے سفر میں جو ہوا حاصل رئیسؔ

زندگی کو بہ احترام لوٹا نا چاہتا ہوں

 

ہفتہ ۸ جون ۲۰۱۳ء ؍۲۸ رجب المرجب ۱۴۳۴ھ

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

 

 

 

 

 

                باب۔ ۱

شخصیت   شیخ محمد ابراہیم آزادؔ

 

( ۱۸۶۸ء۔ ۱۹۴۷ ء)

 

نام محمد ابراہیم، آزادؔ تخلص، تاریخی نام غلام باری تھا، ہندوستان کے صوبہ راجستھان کی تاریخی ریاست بیکانیر آپ کے آباء و اجداد کی مسکن تھی جس کی مناسبت سے آپ راجپوت اور بیکانیری ٹھہرے، نقشبندیہ سلسلہ سے تعلق نے آپ کو نقشبندی بنا دیا۔ آپ ہندوستان کے صوبے یو پی کے ضلع مظفر نگر کے قصبے ’حسین پور‘ میں بروز منگل ۲۵ فر وری ۱۸۶۸ء مطابق یکم ذیقعد ۱۲۸۴ھ کی شب پیدا ہوئے۔ آپ نے ۷۹ سال عمر پائی، طویل علالت کے بعد قیام پاکستان سے ڈھائی ماہ قبل ۸ جون ۱۹۴۷ء کی شب کو اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی، آپ بیکانیر میں اپنے آبائی قبرستان میں مدفن ہیں۔

جنابِ آزاد،ؔ  صاحب دیوان شاعر ہیں اور آپ کا شمار ہندوستان کے بلند پایہ مداح سرا شعراء میں ہوتا ہے۔ آپ نے تمام زندگی نعت کہی اور عشقیہ شاعری سے نہ صرف بچے رہے بلکہ اہل اسلام کو اسے اختیار کر نے کو منع فرمایا۔ با وجود بلند پایہ وکیل اور بیکانیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہونے کے آپ کی پوری زندگی سادگی کا نمونہ تھی۔ آپ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے، خاندان کے اکثر احباب علاوہ دیگر مشاغل کے شعر و سخن سے خاص شغف رکھتے تھے اور حمد و نعت گوئی کو اپنے لیے اعزاز تصور کیا کر تے۔ آپ کے خاندان کے بزرگ دیوان، قاضی، وکیل، جج اور استاد تھے بعض تجارت کے پیشے سے بھی وابستہ تھے۔ آپ کی طبیعت میں شعر و سخن کا مذاق ابتدا ہی سے تھا بقول ایک ہمعصر بھائی محمد اسرائیل صاحب ’آپ کی طبیعت بھی رسا تھی استعداد و قابلیت سے اللہ عز و جل نے کافی حصہ عطا فرما دیا تھا اس لیے آپ نے بجائے عشقیہ شاعری کے حمد و ثنائے باری تعالیٰ عزاسمہ‘ و نعت رسول مقبول خیر الا نام و اسوؤحسنہ کو اپنا مطمع نظر اور نصب العین قرار دیا‘۔ بقول تابشؔ صمدانی آزادؔ صاحب کا گھرانا صدیوں سے گہوارۂ علم و ادب رہا ہے۔

جناب آزادؒؔ کا تعلق خاندان باری بخشؒ سے ہے جو خاندانِ حسین پور کے نام سے بھی معروف ہے۔ آزادؔ صاحب نے اپنے نعتیہ دیوان ’’ثناء محبوب خالق‘‘، دیوان آزادؔ طبع شدہ ۱۹۳۲ء میں تحریر فر مایا کہ ’ہمارے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ جو ہندوستان کے ایک حکمراں خاندان سے تھے جو ۱۱۴۸ بکرمی (۱۰۸۸ء)میں اسلام سے مشرف ہوئے پہلے آپ کا نام بیربل تھا بعد اسلام لانے کے باری بخش ہوا‘۔ مورثِ اعلیٰ عبد القدوس گیارھویں ہجری (۱۶۸۸ء) میں حسین پور بارہ بستی جس کو پٹھانوں کی بارہ بستی کہتے تھے کے قاضی مقرر ہوئے۔ عبدا لقدوس صاحب بھی علمی ذوق اور سخن فہم تھے۔ محمد افضلؒ فارسی کے مستند شاعر تھے۔ عبد القدوس صاحب کے پوتے محمد افضل صاحب سے آزادؔ صاحب کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں جا ملتا ہے۔ آزادؔ صاحب نے دادا محمد افضل صاحب کا فارسی کا ایک شعر جو جامع مسجد حسین پور میں لکھا ہوا ہے درج دیوان کیا ہے ؎

رقیب رابتوا ضع نگاہ باید داشت

سک گشندہ ہماں بہ کہ آشنا باشد

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، فارسی کی تعلیم اپنے والد بزرگوار نبی بخشؒ سے حاصل کی جو مذہبی سوچ رکھتے تھے۔ انہوں نے حکومت برطانیہ میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ آخر میں ریاست نابھہ میں رہے پھر فرید کوٹ ریاست پٹیالہ میں سکونت اختیار کی اور ریاست فرید کوٹ کی جانب سے فیروزپور میں سر کاری وکیل رہے۔ اپنے والد کی زیر نگرانی آزاد صاحب نے چند ہی سالوں میں فارسی زبان پر اس قدر عبور حاصل کر لیا کہ فارسی زبان میں خط و کتابت فر مانے لگے۔ آپ انتہائی ذہین اور مذہبی ذہن کے مالک تھے۔ قدرت نے آپ کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازہ تھا، حافظہ اس قدر تیز کہ جو بات ایک مر تبہ سن لیتے ہمیشہ یاد رہتی۔ آپ ایک شفیق باپ، فرمانبردار فرزند، خیال کرنے والے شوہر، بہترین استاد، بلند پایہ وکیل، بہترین منصف و جج، خوش اخلاق، خوش طبع، خوش مزاج، خوش گو اور بلند کردار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمدردِ قوم بھی تھے۔

آزادؔ صاحب کی شخصیت اور مقام کئی جہت سے ممتاز اور منفرد ہے آپ اسرارِ شریعت سے واقف، کتاب و سنت کے بحرِ ذخار کے سچے عاشق اور صاحبِ فضل و کمال تھے۔ عربی زبان کے الفاظ کا استعمال، قرآنی آیات کا ترجمہ آپ نے اپنے کلام میں بہت ہی خوبی سے نظم فر ما یا۔ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں آپ کی سوچ یہ تھی کہ’ خدا کی صِفَت تو پھول تو کیا پتے پتے سے ظاہر ہوتی ہے۔ حسن و اخلاق کے بیان کرنے کے لیے ذات مقدس محبوب خدا کی ایسی ہے کہ اگر تمام عمر ایک صفت کے ہی بیان میں خرچ کی جائے تو ایک شمہ بھی بیان نہیں ہو سکتی۔ اگر نعت کے بیان کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لیا جائے تو عین موجب خوشنودی خدا اور رسول ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ اس کے بیان کرنے کے لیے قرآن پاک و تفاسیر و کتب پر غور کرنا پڑتا ہے اور جس قدر انہماک اس میں ہو گا اسی قدر حضور کا عشق اس کے دل میں ہو گا جو عین ایمان ہے ‘۔

آزادؔ صاحب ملتِ اسلامیہ کی بہبود کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ دنیا میں جہاں جہاں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی ہو رہی تھی وہ اس کا درد محسوس کر رہے تھے۔ اپنے اس دکھ کا اظہار انہوں نے اپنی نظموں میں بر ملا کیا۔ وہ اسلامی مساوات اور اخوت کے علمبردار بھی تھے۔ اس حوالے سے تابشؔ صمدانی نے اپنے مضمون ’آزادؔ بیکانیری اور اُن کا فن‘ شائع شدہ ماہنامہ ’نعت‘ لاہور ستمبر ۱۹۹۰ء میں لکھا ہے کہ ’’ ایک مرتبہ آزادؔ صاحب نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد دیکھا کہ ایک شخص نے جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کی اور وہ الگ کھڑا ہوا ہے۔ آپ نے اُس سے دریافت کیا کہ تم نے جماعت کے ساتھ نماز ادا کیوں نہیں کی۔ اُس شخص نے عرض کیا کہ وہ ذات کا میراثی ہے اور آج کسی نے وضو کے لیے اس کے برتن میں پانی نہیں ڈالا۔ آزادؔ صاحب کو یہ بات ناگوارِ خاطر ہوئی اور آپ نے اُس شخص سے کہا کہ آئندہ تم خود پانی لیا کرو۔ اُس وقت کے رسم و رواج اور ماحول کے مطابق مسجد کے دوسرے نمازیوں کو آزادؔ صاحب کا یہ عمل گراں گزرا لیکن آپ کے ادب و احترام کے پیش نظر کوئی شخص بھی اختلاف کی جرأت نہیں کر سکا۔ آزادؔ صاحب کی وجہ سے میراثی خاندانوں کو اچھوت سمجھے جانے کی مکروہ رسم کا خاتمہ ہوا‘‘۔

آپ کی شخصیت متقیانہ صفات کی حامل تھی یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں صوفیانہ رنگ غالب ہے۔ تصوف کے موضوعات اور جذباتِ حقیقی کو آپ نے جس باریک بینی اور خوبی کے ساتھ نظم میں بیان کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی تصوف آپ کا پسندیدہ موضوع تھا آپ کے نثری مضامین یقیناً تصوف کے مشکل مسائل کا حل پیش کرتے ہوں گے۔ کیوں کہ جو شخص نظم میں تصوف جیسے دقیق اور مشکل موضوع کو اسقدر مہارت اور خوبی سے بیان کرنے میں کمال رکھتا ہو وہ نثر میں اس موضوع پر زیادہ بہتر انداز سے قلم اٹھا سکتا ہے۔

جناب آزادؔ کی شخصیت کا ایک قابل تقلید پہلو دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا اور اس میں عملی طور پر حصہ لینا تھا۔ خاندان میں منعقد ہونے والی مختلف تقاریب، حتیٰ کے چھوٹی سے چھوٹی تقاریب میں شریک ہونا، بچوں اور بڑوں میں گھل مل جانا آپ کی شخصیت کا خاصہ تھا۔

آپ ایک حساس اور درد مند دل لیے ہوئے تھے۔ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور دل جوئی کیا کرتے، اکثر احباب کے انتقال پر آپ نے اپنے جذبات کا اظہار نظم میں کیا اپنے اعّزا و اَقرِبا کے بچوں کی شادی کے موقع پر سہرے کہے۔ اپنے پیر حاجی حا

زبان کے الفاطفر فظ جماعت علی شاہ نقشبندی علی پوری، استاد بیخودؔ دہلوی کی شان میں نظمیں کہیں، اسی طرح دیگر بزرگوں کی شان میں منقبتں پیش کیں۔ علی پور سیداں اور علی پور اسٹیشن پر تعمیر ہونے والی مساجد کے سنگِ بنیاد کی تاریخ بھی کہی۔ ریاست بیکانیر میں دریائے ستلج پر نہر گنگ کے اجراء کے موقع پر آپ نے فارسی میں تاریخ کہی۔ آپ کے کہے ہوئے قطعات آپ کے دیوان میں شامل ہیں۔

۱۹۰۵ء سے ۱۹۱۷ء کے درمیان انجمن خدام الصوفیہ کے تحت ہونے والے اجلاسوں میں جو علی پور سیداں میں منعقد ہوئے آپ نے نہ صرف شرکت کی بلکہ ان اجلاسوں میں اپنے پیر حضرت جماعت علی شاہ کی شان میں نظمیاں خراج عقیدت پیش کیا۔ آزادؔ صاحب قیام پاکستان سے قبل پاکستانی علاقوں خاص طو پر لاہور، علی پور سیداں، ضلع سیالکوٹ تشریف لاتے رہے اور انجمن خدام الصوفیہ کے جلسوں میں اپنا کلام بھی پیش کرتے رہے۔ ۱۹۰۵ء میں لاہور کے مقام پر منقعد ہونے والے جلسے میں آپ نے جو کلام سنایا اس کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے ؎

تری سیرت کی تو کیا بات ہے میرے مولا

تری صورت سے تو بن جاتے ہیں سیرت والے

۱۹۱۲ء میں ہندوستان کے شہر کوٹ کپورہ میں اجلاس منعقد ہوا اس اجلاس میں آپ کے پیر و مرشد پیر سید جماعت علی شاہؒ نے شرکت فرمائی۔ اس موقع پر پیش کی جانے والی نظم کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے ؎

رشک آتا ہے مجھے کوٹ کپورہ تجھ پر

بیکانیری جو تھا حصہ بنا قسمت تیری

اپنے استاد جناب بیخودؔ دہلوی کے دل و جان سے قربان اور بے انتہا عزت و تکریم آزادؔ صاحب کے کلام سے عیاں ہے ؎

مرے اُستاد ہیں بیخودؔ جو نواسے تیرے

ان سے بن گیا دیوان رسولِ اکرم

تیرے مداحوں پہ احسان ہے ان کا

تیرا اُن پر رہے احسان رسولِ اکرم

دنیا کے حالات و واقعات پر بھی جنابِ آزادؔ کی نظر تھی آپ نے ان حالات اور سیاست کو قریب سے دیکھا، ان کی نظر پوری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک میں ہونے والے مظالم اور زیادتیوں پر رہتی تھی اور ان مظالم کو جو مراکش، ایران، اٹلی، کابل اور ہندوستان کے مسلمانوں پر ہو رہے تھے ان کی کسک وہ اپنے اندر محسوس کیا کرتے ان کا اظہار آپ نے بر ملا کیا۔ ایک موقع پر آپ نے کہا ؎

علم مولا میں ہے جو حال مرکش اب ہے

کیسا مظلوم ہے ایران رسولِ اکرم

شہ کو معلوم ہیں اٹلی کے مظالم جو ہیں

اب غضب ڈھاتا ہے بلقان رسولِ اکرم

آپ ہندوستان کی سیا ست سے بے بہرہ نہیں تھے۔ فرماں روائے کابل سلطان محمد حبیب الرحمٰن خان بہادر کی ہندوستان آمد کے موقع پر آپ نے ایک نظم کہی آپ کے بقول یہ نظم برادران صاحبان قوم کی خواہش پر کہی۔ گویا آپ اپنے گرد بسنے والے احباب کی خواہشات کا بھی احترام کیا کرتے تھے۔ اس موقع پر آپ نے کہا ؎

مرحبا ہند ترے آج جو مہماں آئے

بارک اللہ عجب شان کے سلطاں آئے

میزباں تجھ کو مبارک ترے مہماں آئے

منتظر جن کا زمانہ تھا وہ سلطاں آئے

آپ نام و نمود اور شہرت کو نہ پسند فرماتے اور نہ ہی انہوں اس جانب توجہ کی۔ آپ کے کلام پر متعدد شعراء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’رعنا لکھنوی نے جو نہایت قابل سخنور و خوش گو ہیں بہت ہی قابلیت و محنت سے اس دیوان (دیوان آزادؔ)کا مقدمہ لکھا تھا بوجہ اس کے کہ عزیز موصوف کو میرے سے خاص سعادت مندانہ تعلق ہے انہوں نے معائب سے در گزر کر کے محاسن کی طرف توجہ کی گو صاحب موصوف نے خود اپنے شوق سے مقدمہ لکھا تھا لیکن میں نے شامل کرنا مناسب نہ سمجھا کیوں کہ یہ دیوان کسی اور سے داد لینے کی غرض سے طبع نہیں کرایا جاتا اس کو شامل نہ کیے جانے کے متعلق میں نہایت شرمندگی سے عزیز موصوف سے معافی چاہتا ہوں اور اسی طرح عزیز کامل محمد یوسف راسخؔ نے بہت محنت سے تبصرہ لکھا تھا وہ بھی شامل نہیں کیا گیا عزیز موصوف سے بھی معافی چاہتا ہوں ‘‘۔ اس بات سے یہ اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ آزادؔ صاحب اپنی تعریف و توصیف کے ہر گز ہر گز قائل نہ تھے۔ ان احباب نے جو ہندوستان میں ان کے ارد گرد تھے آزاد صاحب کی علمی سرمائے کو محفوظ کرنے کی جانب توجہ نہیں دی۔ دیوان کیوں کہ طبع شدہ تھا وہ کسی طرح محفوظ رہا اور اس کے چند نسخے پاکستان آ گئے آزادؔ صاحب نے نثر بھی لکھی، تصوف آپ کا خاص موضوع تھا۔ آپ کا کل علمی سر ما یہ ہندوستان ہی میں رہ گیا۔ آزادؔ صاحب اپنی جگہ جلیل المرتبہ، زود حس، زود فہم، زود گو، ذی علم، کہنہ مشق شاعر تھے لیکن مفادِ اشاعت اور فیضان ابلاغ سے یکسر بے نیاز تھے۔

عاجزی و انکساری آزادؔ صاحب کی طبیعت کا خاصہ تھی۔ ان کے کلام سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کے ان کے مزاج میں خاکساری، فروتنی اور عاجزی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ بڑوں کا احترام اور عزت، چھوٹوں سے وضع داری برتنا خاندانی روایت تھی۔ آپ صالح، با اصول، ایماندار، انصاف پسند، بات کے سچے اور کھرے واقع ہوئے تھے۔ معاملات کے سچے، نڈر، بے باک اور کھری بات بلا خوف و خطر کہہ ڈالتے۔ یہ شعر آپ کی ان صفات کا عکاس ہے ؎

شاعر نہ میں ہوں اور نہ اہل زباں ہوں میں

جادو نگار میں ہوں نہ سحر البیان ہوں میں

اعجاز شہ جو کرتا ہوں آزادؔ  میں بیان

ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں معجز بیاں ہوں میں

آزادؔ صاحب صوم و صلوٰۃ کے پابند اور متقیانہ صفات رکھتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے حوالے سے ایک واقعہ بہت مشہور ہے جسے ہمارے خاندان کے احباب اکثر سنایا کرتے ہیں۔ آزادؔ صاحب بیکانیر اسمبلی کے بہ لحاظ عہدہ رکن تھے۔ ایک دن اجلاس جاری تھا۔ بیکانیر کا مہاراجہ گنگا سنگھ از خود اس اجلاس میں موجود تھا۔ دوران اجلاس عصر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ آزادؔ صاحب نے اجلاس وقتی طور پر رکوانے کی درخواست نہیں کی بلکہ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اسمبلی ہال میں ایک جانب جا کر اپنی شیروانی اتار کر جائے نماز کے طور پر نیچے فرش پر بچھا کر نماز ادا فرمائی۔ اسمبلی میں موجود ہندؤوں اور سکھوں کی غالب اکثریت کے باوجود آزادؔ صاحب کی یہ بے باکی ممکن ہے کہ ہندو شدت پسندوں کو پسند نہ آئی ہو لیکن آزادؔ  صاحب کی اس ادا نے راجپوت مہاراجہ گنگا سنگھ کو متاثر کیا اور اس کے حکم سے آئندہ اسمبلی کے اجلاس کے دوران نماز کے اوقات میں وقفے کا خیال رکھا جانے لگا۔ عدالتوں کے لیے بھی حکم جاری ہوا کہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے وقفہ رکھا جائے اسی طرح جمعہ کے دن بیکانیر کے اسکولوں میں نماز جمعہ سے قبل چھٹی کی جانے لگی۔ بیکانیر کی مدینہ مسجد کا سنگِ بنیاد جناب آزادؔ کے دست مبارک سے رکھا گیا۔ یہ مسجد راجستھان میں خوبصورتی کے اعتبار سے منفرد اور دیدہ ذیب مسجد شمار کی جاتی تھی۔ بیکانیر اسٹیٹ کے تحت قائم ہونے والی سیرت کمیٹی کے سر پرستِ اعلیٰ بھی تھے۔

آزادؔ صاحب تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔ اپنے خیالات اور نظریات کا پرچار انہوں نے اپنے نثری مضامین اور شاعری میں بھر پور انداز سے کیا۔ تصوف اور آزادی نسواں کے موضوع پر آزاد صاحب کے نثری مضامین رسالہ ’’پیام اتحاد‘‘ اور دیگر رسائل میں شائع ہوئے بقول پروفیسر عبد المحصی ’آزادؔ صاحب تعلیم نسواں کے سلسلہ میں اپنے مخصوص نظریات کی تائید میں یکہ و تنہا لڑتے دھائی دیتے ہیں ‘۔ افسوس آزاد صاحب کا نثری علمی سرمایا پاکستان منتقل نہ ہو سکا۔ جس قدر بھی شائع ہوا ہندوستان میں ہی رہ گیا۔

آزادؔ صاحب لوگوں میں رہنے والے، لوگوں کی بات سننے والے، خاموشی سے مستحقین کی مدد کرنے والوں میں سے تھے۔ خاندان اور برادری میں خوش مزاج و خوش گفتار کے طور پر جانے جاتے تھے۔ علمی، ادبی، ثقافتی، سماجی اور بھلائی کے کاموں میں عملی شریک ہوا کرتے۔ جب کبھی مالی مدد کرنے ضرورت ہوتی کبھی بُخل اور تنگ نظری سے کام نہ لیتے بلکہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کرتے۔ خاندان کی فلاحی انجمن ’’انجمن خاندانِ حسین پور‘‘ کا قیام ۱۹۰۱ء میں عمل میں آیا۔ اس انجمن کا اولین اجلاس ۱۹۰۱ء میں جناب حافظ محمد یوسف مرحوم اور بابا عبد الحق کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ آزاد صاحب نے اس انجمن کی سرگرمیوں میں عملی حصہ لیا۔ عبد الولی صاحب نے انجمن کے اجلاس عام منعقدہ ۷۔ ۸ مئی ۱۹۴۵ء، منعقدہ امرتسر اپنے صدارتی خطبہ میں واضح کیا تھا کہ انجمن ۱۹۱۵ء کے بعد اس انجمن کا کوئی جلسہ نہیں ہوا اور یہ انجمن غیر فعال ہو گئی۔ لیکن چند بزرگ ہستیاں قبلہ عبد الہادی مرحوم، حافظ ایوب مرحوم، بابو احمد حسن صاحب، قبلہ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب و شیخ منظور الحق صاحب کی رگ حمیت جوش میں آئی۔ انہوں نے بکھرے ہوئے قومی شیرازے کو یکجا کرنے کے لیے قوم کو مخاطب کیا اور پرانی انجمن کو مقام فیروز پور میں ایک نئی سمت بخشی اور سالانہ جلسہ بمقام بابیوالہ منعقد ہوا۔ رسالہ ’موج دریا‘ جاری کیا گیا جو نہایت شان و شوکت آب و تاب کے ساتھ متواتر چار سال تک جاری رہا۔ اس رسالے میں آزادؔ صاحب کے مضامین تواتر کے ساتھ شائع ہوئے۔ ۱۹۲۴ء میں خاندان کے بعض احباب نے ایک اور انجمن ’’انجمن اتحاد و ترقی‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ یہ انجمن خاندان سے اوپر برادری کی سطح پر فلاح و بہبود کا کام کرنے کی غرض سے معرض وجود میں آئی تھی۔ انجمن کا مقصد حسین پور خاندان کے علاوہ دیگر خاندانوں اور برادری کے احباب کو وسیع بنیادوں پر منظم کرنا اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا تھا۔ اس انجمن نے رسالہ  ’’پیام اتحاد ‘‘ جاری کیا اور ۱۹۲۵ء میں خاندان کا شجرہ بھی تیار کیا۔ آزادؔ صاحب کا عملی تعاون اورسر پرستی اس انجمن کے شامل حال رہی۔

کراچی میں زاہد حسین ٹرسٹ (اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے گورنر اور جسٹس ناصر اسلم زاہد صاحب کے والد )نے ’’انجمن اتحاد ‘‘ کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد ڈالی ہے۔ اس انجمن میں حسین پور، مظفر نگر کے علاوہ بنت، بگھرا، بڑھانہ، گنگو، ہاپڑ، کرنال، نیلوہار، شاہجہاں پور، سراوا، شہا آباد، شاہ پور اور عمر پور سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے احباب شامل ہیں۔ زاہد حسین ٹرسٹ نے اپنے بزرگوں کی سنت کو ایک بار پھر سے تازہ کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کا مقصد صرف ایک خاندان کی بہبود نہیں بلکہ آپس میں جڑے کئی خاندانوں اور برادریوں کی فلاح ہے۔ اس انجمن نے ’اخبار شیوخ‘ اور ’پیام اتحاد‘ کے نام سے ایک خبر نامہ بھی جاری کیا ہے۔ راشد حسین زاہد صاحب انجمن کی سرگرمیوں میں زیادہ فعال ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں ’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ‘ نے ’پیامِ اتحاد‘ کے نام سے ایک خبر نامہ جاری کیا تھا لیکن خاندان کے بعض احباب کی مخالفت کے باعث خبر نامے کا نام تبدیل کر کے ’حسین پوری نیوز ‘ کر دیا گیا بعد ازاں وہ بھی بند ہو گیا۔

۱۸۸۱ء میں ہندوستان کے شہر فرید کوٹ کے مہاراجہ نے آزادؔ صاحب کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو اعلیٰ عہدے کی پیش کش کی جسے آپ نے قبول کر لیا۔ اس طرح آپ ۱۸۸۱ء سے ۱۸۹۷ء تک فرید کوٹ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ بعد ازاں آپ فرید کوٹ سے ہندوستان کی ریاست بیکانیر منتقل ہو گئے میرے والد صاحب قبلہ انیس احمد صمدانی مرحوم آزادؔ صاحب کے فرید کوٹ سے بیکا نیر منتقل ہونے کا واقعہ اکثر سنا یا کر تے تھے کہ مہاراجہ فرید کوٹ آپ کی بہت عزت کیا کرتا  تھا اور ہر طریقے سے آپ کا خیال بھی رکھتا۔ آزادؔ صاحب بھی نیک نیتی اور محنت سے تمام امور کی انجام دہی فر ماتے رہے۔ ایک روز کسی سر کاری تقریب میں مہاراجہ نے آپ کواپنے کسی کارندے کے ذریعہ شراب کی پیش کش کر دی۔ آپ کو اس کی یہ حرکت سخت نا گوار گزری، آپ اسی وقت اپنے گھر تشریف لے گئے اور بغیر کسی کو بتائے رات کے اندھیرے میں فرید کوٹ کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہتے ہوئے بیکانیر تشریف لے گئے اور زندگی میں دوبارہ کبھی فرید کوٹ کا رخ نہیں کیا۔ مہاراجہ کو جب آزادؔ صاحب کے چلے جانے کا علم ہوا تو اپنی اس حرکت پر نادم ہوا اور سرکاری احکام جاری کیا کہ شیخ صاحب جب کبھی بھی فرید کوٹ دوبارہ واپس آئیں گے تو انہیں وہی اعزاز اور مقام دیا جائے گا۔ مگر آزاد صاحب نے دوبارہ فرید کوٹ جانے کے بارے میں سو چا بھی نہیں۔

بیکانیر میں اس وقت مہاراجہ گنگا سنگھ حکومت برطانیہ کی طرف سے حاکم تھا۔ یہ بیکانیر کا اکیسواں مہاراجہ تھاجس نے ۱۸۹۸ء میں تاج برطانیہ کی جانب سے اقتدار سنبھالا اور اپنی موت ۲ فر وری ۱۹۴۳ ء تک بیکانیر پر حکومت کرتا رہا، گنگا سنگھ ایک نیک انسان تھا۔ اس نے اپنے دور حکمرانی میں ریاست کی بہتری اور ترقی  کے بے شمار اقدامات کئے۔ آزاد صاحب کی نیک سیرت اور اخلاص کو دیکھتے ہوئے مہاراجہ گنگا سنگھ بھی آپ کا قدر داں ہو گیا اور آپ کو ریاست کے وزیر اور قانونی مشیر کا درجہ دیا گیا۔ اکتوبر ۱۸۹۷ء سے آپ نے بیکانیر میں وکالت کی، ۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۱ء تک چیف کورٹ بیکانیر میں جج و چیف جسٹس کے فرائض انجام دیئے۔ تابشؔ صمدانی نے اپنے مضمون ’آزادؔ بیکانیری اور اُن کا فن‘ میں لکھا ہے کہ ’مہاراجہ بیکانیر نے آزادؔ صاحب کی سو روپے ماہانہ پنشن مقرر کی جو تاحیات جاری رہی اور بطور خاص یہ حکم صادر کیا گیا کہ خزانے کا کارندہ خود آزادؔ صاحب کے گھر پر جا کر پینشن کی رقم ادا کیا کرے گا۔ ایسے اعزاز کی بیکانیر کی تاریخ میں کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔ آزادؔ صاحب نے جہاں ایک طرف بیکانیر میں دینی خدمات سرانجام دیں، وہاں شعر و ادب سے بھی فضائے بیکانیر کو آشنا کیا۔ آپ کو’ بابائے بیکانیر ‘کہا جاتا تھا‘‘۔ بیکانیر ریاست کی جانب سے آپ کی عزت و توقیر کا یہ عالم تھا کہ گھر سے عدالت جانے اور عدالت سے واپس گھر لانے کے لیے آپ کے لیے دو گھوڑوں والی بگی آیا کرتی تھی۔

ریاست بیکانیر کے مہاراجہ گنگا سنگھ کی تخت نشینی کو کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ گنگا سنگھ سے قبل ڈونگر سنگھ ریاست بیکانیر کا حکمراں تھا۔ اس کے کوئی اولاد نہیں تھی اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنے چھوٹے بھائی گنگا سنگھ کو بیٹا بنا لیا تھا۔ چنانچہ اس کے انتقال کے بعد ریاست کی حاکمیت اعلیٰ گنگاسنگھ کو سونپ دی گئی۔ یہ ریاست کا اکیسواں سربراہ تھا۔ اس کے خاندان کے کچھ لو گوں نے کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ آزادؔ صاحب چیف جج کی حیثیت سے ریٹائر ہو چکے تھے اور ریاست کے ایک نامی گرامی وکیل شمار کیے جاتے تھے۔ گنگا سنگھ نے آزادؔ صاحب کو اپنا وکیل مقرر کیا اور آپ کو ایک سرکاری وکیل کی حیثیت سے تمام مراعات دی گئیں۔ آپ نے اپنی مدد کے لیے ایک جونئیر وکیل بھی مقرر کیا۔ جناب نثار احمد صمدانی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ آزادؔ صاحب نے سر کار بیکانیر کی نمائندگی کر تے ہوئے مہاراجہ گنگا سنگھ کے کیس کی پیروی اس خوبی سے کی کہ کیس کا فیصلہ مہاراجہ گنگا سنگھ کے حق میں ہو گیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ راجہ اس عظیم کارنامے پر بے انتہا خوش تھا۔ محبوب احمد سبزواری مرحوم جو آزادؔ صاحب کے ہم زلف اور میرے ماموں تھے نے بتا یا تھا کہ صرف آزادؔ صاحب کے جونیئر وکیل جناب نثار احمد صاحب کو اس وقت ۲۰ ہزار روپے کیس کا معاوضہ دیا گیا۔ راجہ نے آزادؔ صاحب کو ریاست بیکانیر کا ایک وسیع علاقہ دینے کی پیش کش کی اور کہا کہ آپ اس پورے گاؤں کے مالک ہوں گے۔ آزاد صاحب نے راجہ کی اس پیش کش کو قبول کر نے سے انکار کر دیا۔ تاہم آپ کو کثیر رقم دی گئی اوراس کے ساتھ ہی آپ کو ریاست کے ایک وزیر کا درجہ دے دیا گیا جو آخر تک قائم رہا۔

آزادؔ صاحب راجستھان کے ایک نامی گرامی وکیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی مقبولیت اور شہرت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب انہوں نے برطانوی عدالت میں بیکانیر کے مہاراجہ گنگا سنگھ کی تخت نشینی کا کیس جیتا۔ اس کامیابی نے آزادؔ  صاحب کو بیکانیر کی حکومت میں اعلیٰ مقام عطا کیا۔ ریاست بیکانیر میں آپ کو ایک ذہین، بے باک اور ایماندار وکیل کے طور جانا جانے لگا۔ آپ کے اعزاز و مرتبے میں اضافے کے  ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی آپ کی حیثیت مستحکم ہوئی۔ مالی طور پر بے حد مستحکم ہونے کے باوجود غرور اور تکبر آپ سے کوسو دور تھا۔

آزادؔ  صاحب حق گو، نڈر اور اصولوں کے سخت پابند تھے۔ بقول پروفیسر عبد المحصی ’جناب محمد ابراہیم آزادؔ مرحوم نے ایک مردِ حق اور حق اندیش کی طرح حق و صداقت کے دیئے کو بیکانیر کے ویران صحرا میں روشن رکھا جس کی روشنی نے بہت سی نیک روحوں کومنور کیا‘۔ آزادؔ صاحب کی صلاحیت خدا داد تھی۔ آپ نے اپنے والد ماجد کی آغوش تربیت میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اردو، فارسی کے علاوہ عربی کی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ بزرگوں کی صحبت سے اپنے قلب کو منور کیا۔ اساتذہ کی خدمت میں آپ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ان کے اساتذہ کی تربیت اور صحبت نے انہیں اس طرح نکھار دیا کہ پورے راجستھان میں آپ کی شہرت ایک نیک اور دین دار کی حیثیت سے عام ہو گئی لوگوں نے آپ سے کسب فیض کیا ۔ آپ کے ہمعصر آپ کی علمیت، اعلیٰ مہارت، سخن فہمی اور مداح سرائی سے بے انتہا متاثر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کا نعتیہ دیوان طبع ہونے لگا تو بے شمار اہل علم، شاعروں، دانشوروں نے اس پر اظہار خیال کرنا یا تقاریظ لکھنے اپنے لیے اعزاز جانا۔ آزادؔ صاحب نے ان میں سے چند کی آرا کو ہی دیوان میں شامل کیا۔ باقی کو اس وجہ سے شامل اشاعت نہیں کیا کہ انہیں اپنی تعریف و توصیف پسند نہیں تھی۔ ان احباب سے آپ نے معذرت چاہی جو آپ کے دیوان میں شامل ہے۔

جنابِ آزادؔ بیکانیری کا زمانہ انیسویں صدی عیسویں کے نصف آخر سے بیسویں صدی عیسویں کے تقریباً نصف آخر تک ہے۔ اس دور کی ممتاز شخصیات میں علامہ اقبال، حسرتؔ  موہانی، مولانا محمد علی جوہرؔ، الطاف حسین حالیؔ، احمد رضاؔ بریلوی، داغؔ دہلوی، سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی، امیرؔ مینائی، محسنؔ کاکوروی، شادؔ عظیم آبادی، مولانا غلام شہیدؔ ، آسیؔ غازی پوری، حسنؔ بریلوی، علامہ ضیاء القادری، محمد عبداللہ بیدلؔ، حافظ خلیل الدین حسن، حافظؔ پیلی بھیتی، محمد یوسف راسخؔ، منشی عبدالشکور خاں برقؔ اجمیری، محمد عبداللہ صوفیؔ شامل ہیں۔ مذہبی عقائد کے اعتبار سے آپ سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت قبلہ حاجی سید جماعت علی  شاہ نقشنبدی سجادہ نشیں علی پور سیدان ضلع سیالکوٹ (فیصل آباد)کے با قاعدہ مرید تھے۔

سخن فہمی آزادؔ صاحب کے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے، صاحبِ دیوان اور بقول ابن انشا بے دیوان شاعر بھی ہوئے ہیں۔ آزادؔ صاحب بنیادی طور پر راجپوت تھے راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا کی ہیں، میرابائی، مہدی حسن اور ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی نے راجستھان کے تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں حالانکہ وہ خود بھی راجپوت ہی ہیں۔ بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر (یوپی )کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔ خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ نے سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں بہٹنیر(بیکانیر) سے دہلی ہجرت کی، شہاب الدین شاہجہاں کے عہد میں یہ خاندان شکار پور سے منتقل ہو کر قصبہ حسین پور، ضلع مظفر نگر، یو پی میں مقیم ہو ا۔ آزادؔ  صاحب حسین پور سے فرید کوٹ پھر بیکانیر منتقل ہوئے۔ ان کا یہ عمل ایسا ہی تھا کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ بیکانیر میں نعتیہ مشاعروں کا انعقاد آزاد صاحب کی زیر سر پرستی پروان چڑھا۔ بقول پروفیسر محمد حسین سلیمانی ’علمی مجالس اور مشاعرے آزاد منزل کی وہ یادگاریں ہیں جن کو اہل ذوق اور اہل نظر بھلا نہیں سکتے ‘ محشر امروہوی کا کہنا ہے کہ ’بیکانیر میں اُردو ادب کی داغ بیل کا سہرا حضرت آزادؔ مرحوم نے ڈالا ‘۔

میَں نے آزادؔ صاحب کو نہیں دیکھا اس کی وجہ یہ رہی کہ میں اُن کے دنیا سے رخصت ہو جا نے کے پورے نو ماہ بعد دنیا میں آیا۔ گویا آزادؔ صاحب نے اس دنیا سے واپسی کا سفر باندھا اور میَں نے اس دنیا میں آنے کی تیاری شروع کی۔ یہی اللہ کا نظام ہے وہ دنیا میں اپنے بندوں کو بھیجتا اور واپس بلاتا رہتا ہے۔ میرے لیے آزادؔ صاحب کی شخصیت کی ظاہری وَضع قَطع یا حلیہ بہ بیعنہٖ بیان کرنا مشکل ہو گا لیکن میں نے آزادؔ صاحب کے کئی بیٹوں کو جو میرے دادا ہوئے کو بہت قریب سے دیکھا، ان کے بعض بیٹے ان کا پَرتَو، ظلّ یا پرچھائیں تھے۔ ان کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو میَں نے اپنے والد صاحب اور دیگر احباب سے سنیں آزادؔ صاحب کی شخصیت کا ظاہری حلیہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے۔ دبلے پتلے، مِیانَہ قد، کتابی چہرہ، سانو لا نکھرا نکھرا رنگ، چہرے پر معصومیت، جسم و جسہ معدوم و موہوم، متانت اور سنجیدگی، معمولی مونچھوں کے ساتھ کالی داڑھی، کھڑے نقش، ستواں ناک، کرنجی آنکھیں، کشادہ پیشانی، چھدرے بال، ہنستا مسکراتا چہرہ، ہنستے وقت دانت نمایاں ہوا کرتے، مخروطی انگلیاں، نرم گفتار، سبک رفتار، مرنجاں مرنج، خوش لباس گھر میں کرتا پاجامہ عدالت جاتے وقت سر پر راجستھانی امامہ (پگڑی)، کالی جبہ نما شیروانی اور علی گڑھ کاٹ کا پاجامہ، پیروں میں کبھی سلیم شاہی اور کبھی قائد اعظم کے فیتے والے بوٹوں جیسے بوٹ یہ ہے آزادؔ صاحب کی ظاہری شخصیت جو میں بنا سکا۔

خلیلؔ صمدانی کے مجموعہ کلام ’گلزارِ خلیل‘ میں قاضی امین الدین حسین اثرؔ  عثمانی جیپوری نے آزادؔ  صاحب کے بارے میں لکھا کہ ’’ حضرت آزادؔ ظاہری وجاہت کے علاوہ ایک کامل درویش بھی تھے۔ آپ کا مزارِ مبارک آج بھی فیوض و برکات کا خزینہ ہے بشرطے کہ کوئی صحیح طالب ہو‘‘۔ انصارؔ محشر عباسی امروہوی نے لکھا ’’شیخ محمد ابراہیم آزادؔ مرحوم عشقِ مجازی سے متنفر تھے اور عشقِ حقیقی سے سرشار‘‘۔

آزادؔ ؒ صاحب نے طویل علالت کے بعد قیام پاکستان سے ڈھائی ماہ قبل ۸ جون ۱۹۴۷ء کی شب ۷۹ سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی، آپ ہندوستان کے صوبے راجستھان کے شہر بیکانیر میں اپنے آبائی قبرستان میں مدفون ہیں ؎

آسماں تِری لحد پہ شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

 

 

 

 

                 باب۔ ۲

 

 شاعری  شیخ محمد ابراہیم آزادؔ بیکانیری

 

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی شاعری کی ابتدا عشقیہ شاعری سے ہوئی یہ دور۱۹۰۳ء مطابق ۱۳۲۱ھ کا تھا۔ ابتدا میں منشی عبدالشکور خاں برقؔ اجمیری شاگرد رشید حضرت داغؔ دہلوی سے اصلاح لی۔ لیکن ان کا مزاج اس سے مختلف تھا تعلیم و تربیت اسلامی طرز پر ہوئی تھی۔ مذہب سے خاص لگاؤ اور صوم و صلاۃ کے پابند تھے۔ مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ذہن نے عشقیہ شاعری کو قبول نہ کیا اور بہت جلد اس سے راہِ فرار اختیار کی اور عشقیہ شاعری سے طوبہ کر لی اور عہد کیا کہ نعت کے سوا کچھ نہیں کہیں گے۔ آپ نے مولانا مولوی عبدالحئی بیخود بدایونی سے بھی اصلاح لی۔ آزادؔ صاحب کا عشقیہ کلام جس قدر بھی تھا منظر عام پر نہ آ سکا اور نہ ہی محفوظ رہا۔ آزادؔ بذات خود اس کے حق میں بھی نہ تھے کہ عشقیہ کلام منظر عام پر آئے۔ آپ بہت جلد غزل گوئی سے تائب ہو کر صرف حضور اکرمﷺ کی مداح سرائی کی جانب آ گئے اور مُدّت العمر نعت کہتے رہے۔

۱۹۱۳ء (۱۳۳۱ھ)میں آپ باقاعدسلسلہ شاگردی استاذ الشعراء افتخارالملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی جانشیں فصیح الملک داغؔ دہلوی داخل ہوئے۔ بیخودؔ دہلوی نے آپ کے بارے میں میں لکھا کہ ’ خمخانۂ بیخودؔ کے جرعہ کشوں میں ایک حاجی شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا نام بھی درج رجسٹر شاگرداں ہے خدا اُن کو زندہ رکھے صوفی منش انسان ہیں حمد و نعت کہتے ہیں عاشقانہ شعر نہیں کہتے تعجب خیز امر یہ ہے کہ باوجود شغل وکالت شعر کہتے ہیں ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چندہ محتاج نہیں، کئی سال ہوئے میں نے ان کو نعت گوئی میں اپنا خلیفہ بنا لیا تھا‘۔ بیخودؔ دہلوی نے آزادؔ صاحب کی شخصیت کا خوبصورت نقشہ اس طرح کھینچا ؎

نام آزادؔ وضع کے پا بند

میرے شاگرد میرے عاشقِ زار

ہیں یہ مداح سرور عالم

نعت گوئی ہے خاص ان کا شعار

ان کے اشعار سب ہیں تاریخی

کرتے ہیں واقعات کا اظہار

یہ محدث نہ یہ مؤرخ ہیں

یہ تو عشق نبی کے ہیں بیمار

ہیں یہ مداح سیرت نبوی

اور مداح اِن کا بیخودؔ زار

بیخودؔ دہلوی اردو کے مامور شاعر استاد الا اساتذہ میں سے تھے۔ آپ ہندوستان کے شہر بھرت پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے مرتب کردہ مجموعے ’ گفتارِ بیخودؔ‘ اور ’شہسوارِ بیخودؔ ‘ ہیں۔ آپ کا انتقال ۹۳ سال کی عمر میں ۲ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو دہلی میں ہوا۔

آزادؔ صاحب ۱۹۰۳ء (۱۳۲۱ھ) میں سلسلہ مریدی پیر و مرشد حافظ حاجی سید جماعت علی شاہ نقشبندی سجادہ نشیں علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ شامل ہوئے۔ آپ اپنے پیر و مرشد حافظ حاجی سید جماعت علی شاہ اور اپنے استاد بیخودؔ دہلوی کی بزرگی اور استادی کے دل سے قدر داں تھے آپ نے ایک جگہ فر مایا کہ میرا کلام میرے حضرت شیخ والا کی توجہ قلبی اور استادمد ظلّہٰ کی خاص عنایت کا نتیجہ ہے۔ اپنی ایک نظم میں آپ نے اپنے استاد اور پیر، دونوں کو ایک ہی شعر میں کس قدر خوبصورتی کے ساتھ نذرانہ عقیدت پیش کیا ؎

استاد نے زبان دی مضمون شیخ نے

دیوان میرا مفت میں تیار ہو گیا

آزادؔ صاحب نے اپنے شاعر ہونے کے بارے میں انتہائی انکساری کے ساتھ یہ کہا کہ وہ نہ تو شاعر ہیں اور نہ ہی اہل زباں ہیں۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں بلا خوف و تردد کے کہہ دیتے ہیں۔ یہ ان کی انکساری ہے ورنہ ان کے قادر الکلام شاعر ہونے میں کسی بھی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتا۔ ان کے کلام میں زبان و بیان کی خوبیوں کے علاوہ شاعری کے علم و عروض کے سخت پابند نظر آتے ہیں۔ لفظیات میں بھی آزادؔ بے مثال ہیں۔ انہوں نے عام فہم اور سادہ الفاظ استعمال کیے۔ پروفسر سحر انصاری کے الفاظ میں جو انہوں نے نظیر اکبر آبادی کے لیے کہے تھے آزادؔ صاحب پر بھی صادق آتے ہیں کہ انہوں نے عامیانہ۔ سوقیانہ اور غیر شاعرانہ الفاظ کو بھی شاعری بنا دیا ہے۔

آزادؔ صاحب کی شاعری نہ تو مبہم و پیچیدہ علامتوں کی شاعری ہے اور نہ ہی دورِ ارتقا استعارات و کنایاتی کی بلکہ آپ کی شاعری سیدے سادے سچے جذبوں کے ارتعاش کی شاعری ہے، عشقِ نبوی میں ڈوبے ہوئے خیالات کی شاعری ہے۔ آپ کی شاعری وجدانی اور رسمیات سے بالکل پاک اور اس میں جذب و انجذاب کی وہ شدت بھی موجود ہے جو نبی اکرمﷺ کی ذات و صفات سے والہانہ لگاؤ سے پیدا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کے عام سننے والے کے ذہن و دل میں آآسانی سے اُتر جاتی ہے۔ مولانا حسرت موہانی کے اس شعر میں کہی ہوئی بات آزادؔ صاحب کی شاعری پر پوری اترتی ہے ؎

شعر در اصل ہیں وہی حسرتؔ

دل میں سُنتے ہی جو اُتر جَائیں

 

                شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی حمد نگاری

 

حمد سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف، حمد و ثنا کا مطلب بھی خدا کی تعریف، حمد صرف اور صرف خدا کے لیے مخصوص ہے جب کہ ثنا انسان کی بھی ہو سکتی ہے۔ حمدِ باری تعالیٰ کی ابتدا تخلیق کائنات کے آغاز سے ہی ہوئی۔ زمین و آسمان کی ہر ہر چیز اللہ کی پیدا کردہ اور اس کے تابِع اور فرمانبردار مخلوق ہے۔ ابتدائے آفرینش سے اللہ کی یہ مخلوق اپنے رب کی حمد اور پاکیزگی بیان کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ اللہ کی ہر مخلوق اپنے مالک کی حمد کرتی ہے۔ شاعری کی یہ صنف یعنی حمد خالق کائنات کی مدح و ثنا کے لیے مخصوص ہے۔ خواجہ حسن نظامی نے ادب کی اس صنف کو ’روح ادب ‘ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے از خود اپنی حمد قرآن کریم میں بیان کی۔ متعدد قرآنی آیات مثال کے طور پر سورۂ فاتحہ، سورۂ اخلاص، سورۂ البقرہ میں موجود آیۃ لکرسی اور دیگر کئی سورتوں میں حمد باری تعالیٰ بیان کی گئی ہے۔ حمد ابتدا ہے ہر چیز اور ہر کام کی۔ شاعر ہو یا نثر نگار وہ حمد باری تعالیٰ کو اپنی تخلیق کا نقطہ آغاز تصور کرتا ہے اس عمل کو وہ اپنا فرض اولین خیال کرتا ہے اور نثریا نظم کے صورت میں اپنی تخلیق بیان کر کے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرتا ہے۔ حضرت آدام علیہ السلام اور اماں حوا کی توبہ بھی اپنے مالک کی حمد و استغفار کے نتیجے میں قبول ہوئی۔ مخلوق کا کام اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنا اور توبہ و استغفار کرنا ہے اسے قبول کرنا اسی مالک کائنات کا کام ہے انسان اس کی بندگی کا حق کسی طور ادا نہیں کر سکتا۔ اس میں اتنی سکت، ہمت، صلاحیت ہی نہیں، حمد ایک وسیع تر موضوع ہے انسان کوشش تو کر سکتا ہے لیکن اس کی سچائی اور پاکیزگی کا حق ادا کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ حق تو کسی طور ادا نہیں ہو سکتا لیکن انسان اپنی دانِش میں، صلاحیت کے مطابق اپنے پیدا کرنے والے کی عظمت و صفات کو عاجزی، انکساری، سعادت مندی، عقیدت و نیاز مندی کے ساتھا پنے دلی احساسات کا اظہار کبھی نظم میں اور کبھی نثر میں کرتا ہے۔ شاید ہی کوئی ادیب یا شاعر ایسا گزرا ہو جس نے حمد باری تعالیٰ نہ کہی ہو۔ جسے اللہ نے حرف و قلم سے رشتہ جوڑنے کی سعادت بخشی ہے اس نے اول اول اپنے مالک کی حمد سے ہی اپنے علمی وا دبی سفر کا آغاز کیا ہے۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا نعتیہ دیوان ’’ثنائے محبوب خالق دیوان آزادؔ‘ کا آغاز بھی حمد باری تعالیٰ سے ہوا ہے۔ آزادؔ صاحب بھی اپنی عبدیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پروردگار کی حمداس طرح بیان کرتے ہیں ؎

اللہ تو نے خاک کو انسان بنا دیا

انسان کیا بنا یا مسلماں بنا دیا

مطلع نے حمد کے مجھے سحباں بنا دیا

مطلع نے نعت کے مجھے حساں بنا دیا

آزادؔ نام جپتے ہیں اُس بے نیاز کا

رحمت سے جس نے ہم کو مسلماں بنا دیا

انسان کو کائینات کے ایک ایک ذرے  میں اللہ کی کبریائی اور اس کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ آزادؔ نے اسے کس خوبصورت انداز سے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے ؎

جلوے جلوے میں لگا رہتا ہے پردا تیر

پردے پردے میں نظر آتا ہے جلوا تیرا

آزادؔ نے بعض موقع پر نعت سے حمد پیدا کی۔ فرماتے ہیں ؎

جب عالم امکاں ہی میں تو سب سے سوا ہو

تو جس کا ہو بندہ وہ بھلا کیوں نہ خدا ہو

حمد کے ایک شعر میں آپ نے پروردگار کے حوالے سے کیا خوب خیال پیش کیا ہے ؎

کیا بات تیری قدرتِ والا کی اے قدیر

کن کہہ کے جس نے عالمِ امکاں بنا دیا

قطرے کو تو نے گوہر خوش آب کر دیا

ذرے کو تو نے مہرِ درخشاں بنا دیا

اپنی ایک حمد میں آزادؔ خالق کائنات کی حمد سرائی میں کہتے ہیں ؎

سب کچھ تیری قدرت میں ہے سب علم میں تیرے

حاضر رکھا ہر شے کو بنا کر نہ بنا کر

حق تعالیٰ کی رحمت کا ذکر آزادؔ  نے اس طرح کیا ؎

ظاہر ہے کہ رحمت ہے تیری عدل سے بڑھ کر

نیکی کو لکھا جاتا ہے دس درجے بڑھا کر

رحمت کا ہے رحمت کے لیے توبہ بہانہ

عصیاں کو مٹا دیتی ہے نیکی کو لکھا کر

باری تعالیٰ کے ذکر کی فضیلت کے حوالے سے آزادؔ نے کیا خوب کہا ہے ؎

کیا بتائے کوئی اے ذکر فضیلت تیری

جب کہ مذکور ہے مذکور سے محبت تیری

نقش ہے دل پہ ترا سِکہ زبان پر تیرا

جسم پر حکم ترا جاں پہ حکومت تیری

تری تعریف ہے قرآن میں کیا کیا مذکور

کیا کیا مذکور حدیثوں میں ہے مدحت تیری

رات دن شام و سحر جاگتے سوتے ہر دم

ہے یہ ارشاد کہ کثرت سے ہو کثرت تیری

پانچ نمازوں اوراسلام کے پانچ بنیادی ارکان کا نقشہ کیا خوب پیش کیا ہے ؎

پنج نوبت ہے تری پانچ یہ رُکنِ اسلام

اللہ اللہ یہ تری شان یہ شوکت تیری

تجھ سے آباد مساجد ہیں کعبہ معمور

عرش پر شان تری کُرسی پہ طلعت تیری

 

                شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی نعت نگاری

 

آزادؔ  صاحب کا مقام اور ان کا کلام کئی جہت سے ممتاز اور منفرد نظر آتا ہے۔ آزادؔ اسرارِ شریعت سے واقف، کتاب و سنت کے بحرِ ذخار کے سچے عاشق اور صاحبِ فضل و کمال ہیں۔ ثنا خوانی میں جس باریک بینی، احتیاط اور ادب شناسی کی ضرورت ہو تی ہے آزادؔ اس سفر میں بہت ہی خوبی کے ساتھ گزرے ہیں۔ زبان و بیان پر غیر معمولی دسترس حاصل ہے۔امتیاز الشعراء بیخودؔ دہلوی نے آپ کے کلام کے بارے میں فر ما یا کہ ’’ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چنداں محتاج نہیں ہے ‘‘۔ آپ کا کلام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ نے کلام اللہ سے مدحت سر ائی سیکھی اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جیسے مدحت سرا اور عاشق رسول کو اپنا راہ رو بنا یا ؎

لکھتا ہوں کیا ثنا رُخِ عالی جناب کی

تفسیر لکھ رہا ہوں خدا کی کتاب کی

ایک جگہ آپ نے کہا ؎

کیا تاب ہے جو ہو سکے حمد و ثنا مجھ سے

یہ جو کچھ کہتا ہوں کہلواتا ہے میرا خدا مُجھ سے

نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’وصف ‘ یا ’مدح ‘کے ہیں یا ’’کسی شخص میں اچھی اور قابل ذکر صفات و خوبیوں کا پایا جا نا اور ان خوبیوں کا بیان کیا جانا‘۔ لیکن اسلامی معاشرہ میں لفظ ’نعت‘ کا استعمال مجازاً صرف اور صرف سید المرسلین خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کے توصیف ثنا یعنی تعریف کے لیے ہوا ہے۔ اردو اور فارسی میں لفظ نعت سے مراد حضرت محمدﷺ کی مدح و ثنا مراد ہوتی ہے۔ عربی میں ’مدح النبی‘ یا ’المدائح النبویہ‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد رفیع الدین اشفاق جنہوں نے اردو میں نعتیہ شاعری پر پہلا تحقیقی مقالہ تحریر کیا جس پر انہیں ناگپور یونیورسٹی سے ۱۹۵۵ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی کے خیال میں ’اس صفت کا تعلق دینی احساس اور عقیدت مندی سے ہے اور اسے خالص دینی اور اسلامی ادب میں شمار کیا جاتا ہے ‘۔ اسی طرح ڈاکٹر شاکر اعوان کی تصنیف ’’عہد رسالت میں نعت‘‘ اردو ادب میں اپنے موضوع پر قابل تعریف کام ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تصنیف ’’اردو کی نعتیہ شاعری‘‘ اپنے موضوع پر معتبر حوالہ ہے۔

نعت کہنا یا نعت کا پڑھنا مسلمان کی حیثیت سے باعث بر کت اور باعث ثواب تصور کیا جاتا ہے۔ بے شمار شعراء جو صرف عشقیہ شاعری کیا کرتے ہیں انہوں نے حصول ثواب کی غرض سے نعت بھی کہی بعض نے تو ثواب کی خاطر اور بعض نے صرف اس لیے نعت کہی تاکہ وہ اپنے آپ کو نعتیہ شعراء کی صف میں بھی کھڑا کر سکیں۔ جنابِ آزادؔ کے پورے نعتیہ کلام میں نبی اکرمﷺ سے والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار نمایاں ہے۔ آپ کے کلام سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کہنے والا عشقِ رسولﷺ میں مجسم ڈو با ہوا ہے وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہے۔ ان کے اشعار بسا اوقات پڑھنے والے پر اس قدر شدید اثر ڈالتے ہیں کہ وہ اندر سے تڑپ کر رہ جات ہے اور محسوس کرتا ہے جیسے وہ از خود اپنے نبی کی شان بیان کر رہا ہے ؎

پڑھتا ہوں میں نبی پہ درود و سلام آج

اللہ سے ہم کلام ہے میرا کلام آج

بخت رسا نکال دے اتنا تو کام آج

دربار مصطفیٰ میں ہو میرا سلام آج

آزادؔ صاحب کے کلام سے واضح ہے کہ آپ کو اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ عربی پر بھی عبور حاصل تھا، آپ کا فارسی کلام جو خاص آپ کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے بوجوہ شائع نہیں ہو سکا۔ عربی زبان کے الفاظ کا استعمال، قرآنی آیات کا ترجمہ آپ نے اپنے کلام میں بہت ہی خوبی سے نظم فر ما یا۔ جناب آزادؔ نے تحریر فر مایا کہ ’’حمد و نعت کیا ہے۔ واقعی خدا کا شکر یہ ادا کرنا ہے خدا کی صفت تو پھول تو کیا پتے پتے سے ظاہر ہوتی ہے۔ حسن و اخلاق کے بیان کرنے کے لیے ذات مقدس محبوب خدا کی ایسی ہے کہ اگر تمام عمر ایک صفت کے ہی بیان میں خرچ کی جائے تو ایک شمہ بھی بیان نہیں ہو سکتی۔ اگر نعت کے بیان کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لیا جائے تو عین موجب خوشنودی خدا اور رسول ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ اس کے بیان کرنے کے لیے قرآن پاک و تفاسیر و کتب سیر پر غور کرنا پڑتا ہے اور جس قدر انہماک اس میں ہو گا اسی قدر حضور کا عشق اس کے دل میں ہو گا جو عین ایمان ہے ‘‘ ؎

الستُ ربکُم ارشاد خالق جب ہوا سب سے

تو سب کا مقتدیٰ ہو کر بڑھہا آگے بلیٰ تیرا

کھلے ہیں معنی ٔ یٰسین و طٰہٓ جو کوئی سمجھے

ہر اک ان میں لقب ہے اے حبیب کبریا تیرا

حدیثوں میں بیاں تو نے کیا ہے حمدِ خالق کو

خدا قرآن میں مداح ہے خیر الوریٰ تیرا

کیا بات تیری قدرتِ والا کی اے قدیر

کن کہہ کے جس نے عالم امکاں بنا دیا

ربٌِ ہَب لِی اُ متی کَہتے ہیں آپ

مختصر سا ہے سوالِ مصطفیٰ

اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے قرآن کریم میں نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ پر درود و سلام بھیجنے کی ہدایت واضح طور پر موجود ہے۔ سورۂ الا حزاب(۳۳) کی آیت (۵۶) میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ ’’بلاشبہ اللہ اور اُس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی کریم ؑ پر۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو درود بھیجو آپؑ پر اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔ اللہ نے کلام مجید کی متعدد آیات میں نبی کریم حضرت محمدﷺ کی تعریف و توصیف یعنی نعت بیان کی ہے۔ سورۂ اَ لْبَقَرَ ۃ (۲) میں کہا ’اول المومنین ہیں ‘، سورۂ آلِ عمر ان (۳) میں کہا ’وہ مصطفیٰ ہیں ‘، سورۂ اَ لنِساء (۴) میں فرمایا ’ حاکم برحق ہیں ‘، سورۂ اَلْمآئدَہ(۵) میں کہا ’نور ہیں ‘، سورۂ اَلْانعَام (۶)میں کہا ’ اول المسلمین ہیں ‘، سورۂ اَلتَّوبہ(۹) میں آپﷺ کو ’رؤف و رحیم ‘ کہا گیا، سورۃ اِبراھیم (۱۴)میں بتا یا گیا کہ آپﷺ ’تاریکیوں سے نکالنے والے ہیں ‘، سورۂ اَلاَ نْبیآء(۲۱) میں کہا گیا ’ سراپا رحمت ہیں ‘، سورۂ اَلاحزَاب (۳۳) میں کہا گیا ’’خاتم النبین ہیں ‘، سورۂ یٰٓسین (۳۶) میں آپ ؑکو ’یاسین کہا گیا ‘، سورۂ اَلفتح (۴۸) میں کہا گیا ’محمد ہیں ‘، سورۂ اَلصَّفّ(۶۱) میں فرمایا ’احمد ہیں ‘، سورۂ اَلْمُزَّمِّل (۷۳) میں فرمایا ’کملی والے ہیں ‘، سورۂ اَلْمُدَّثِّر (۷۴) میں آپ ؑ کو ’چادر والے ہیں ‘ کہا گیا اور کہا گیا کہ آپ ؑسراپا ہدایت ہیں۔ سورۂ الم نشرح میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ’اور بلند کر دیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر‘۔

جس کی تعریف و توصیف مالکِ کائنات نے بیان کی ہو اس کی شانِ اقدس میں عقیدت کے پھول کسی بھی بندے کی جانب سے پیش کیے جائیں بڑی سعادت کی بات ہے۔ آنحضرت محمدﷺ کی مدح و ثنا بیان کرنے کا شرف آپ کے چچا جناب ابو طالب کو حاصل ہے جنہوں نے بنو ہاشم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ محمدﷺ کو کفار مکہ کی زیادتیوں سے بچائیں۔ دوسرا مدح جاہلیت کا نامور شاعر اعشی بن قیس کو کہا جاتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے لکھا ہے کہ عربی کے اولین نعت نگاروں میں جناب ابو طالب اور اُمِ مُعبد کے نام آتے ہیں۔ دونوں کی نعتیں، عربی ادب کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتی ہیں اور ان کے حوالے، بعد کے اکثر نعت گو شعراء کے یہاں ملتے ہیں۔ اُم معبد کا نام عاتکہ بنتِ خالد ہے اور اس کی نثری نعت کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے ہے کہ اسے متعدد عربی شعرا نے منظوم کیا ہے، اس کے مواد کو بطورِ تلمیح اپنے کلام میں صرف کیا ہے، اور حضرت حسان بن ثابتؓ نے اس کے حوالے سے ایک پورا نعتیہ قصیدہ کہہ کر اپنے دیوان کو مزین کیا ہے ‘‘۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت علیؓ عہد رسالت کے مادحین رسول ؑ میں سے تھے۔ حضرت حسان بن ثابت کو عہد نبوی میں ہی منبر عطا کیا جاتا تھا تاکہ وہ اپنی شعری تخلیقات (نعت) پیش کر سکیں۔ حضرت حسان بن ثابت کے علاوہ عہد رسالت میں جن مداحینِ رسولؓ کا ذکر ملتا ہے ان میں حضرت حمزہؓ بن عبد لمطلب، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عبداللہ ابن رواحہ، حضرت سید ابن ابی ناسا کنانی، حضرت مالک بن المنظ، حضرت عباس ؑ، حضرت ابو سفیان بن الحارث، حضرت کعب بن مالکؓ حضرت مالک بن نمطہ شامل ہیں۔ خواتین میں حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت فاطمہ الزہرہؓ سے بہت سے نعتیہ اشعار منسوب ہیں۔ حضرت صفیہؓ بنت ابی طالب، حضرت عاتکہ ؓ بنت عبد المطلب شامل ہیں۔ حضرت حسان کا یہ خوبصورت شعر ملاحظہ کیجئے ؎

وَاَ حْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَآء‘

ترجمہ (اے حسن و جمال کے آقاﷺ آپ سے بڑھ کر حسین و جمیل میری آنکھوں نے کسی کو نہیں دیکھا اور آپﷺ سے بڑھ کر جمیل کسی عورت نے بچہ پیدا نہیں کیا)۔ حضرت حسانؓ کو شاعر اسلام اور شاعر النبی ؑ‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ نعت رسولﷺ کے بیان کرنے میں  آزادؔ  صاحب نے اپنے آپ کو حضرت حسان بن ثابت ارضی اللہ عنہ کا مقلد کہا۔ جناب آزادؔ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجئے ؎

نعت میں ہوں اُسی شاعر کا مقلد میں بھی

مل گئی تھی جسے خلعت میں ردائے آقا

شائقو دل سے ہمیں میلاد خوانی چاہیے

قلب صدیقی بیان حّساں زبانی چاہیے

حضرت کعب بن زبیر عہد رسالت کے مداحین میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ حضرت کعبؓ نے جب اپنا قصیدہ بردہ شریف حضورﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپؑ سن کر اتنے خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک اتار کر انعام میں دے دی اسی لیے اس قصیدے کا نام قصیدۂ بردہ پڑ گیا۔ عباسی عہد میں مداح سرا ابو لاعتاحیہ کا نام ملتا ہے۔ ان کے علاوہ ابن الفارض، عبد اللہ الیافعی، صرصری اور امام البوصیری، ابن نباتہ مصری، شہاب الدین محمود الحلبی، ابن جابر الاندلسی، ابن خلدون، عبد اللہ اشیرازی، حسین دجانی، عبدالغنی النابلسی قابل ذکر ہیں۔

صحابہ اکرم کے بعد مداح سرائی کا سلسلہ بطور مقدس فن کے جاری رہا۔ صوفیاء اکرام بھی محبت رسولﷺ میں سر شار نظر آتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے نعتیہ قصائد مشہور ہیں۔ امام زین العابدین، غوث اعظم، خواجہ بختیار کاکی، خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت شمس تبریزی، مولانا روم، سعدی شیرازی، بو علی شاہ قلندر، خواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت امیر خسرو، مولانا جامی، مولانا احمد رضاء خان بریلوی، فردوسی، بابا طاہر، ابو سعید ابو الخیر، عبداللہ انصاری، حکیم سنائی، فریدالدین عطار، نظامی، خاقانی، فردوسی، سوری، نظامی، عرفی، قدسی، رامی اور علامہ اقبال فارسی اور اردو زبان کے نعتیہ کلام کے سرمائے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ فارسی شعرا میں جامیؔ کی نعت کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے ؎

نسیما جانبِ بطحا گزر کن   زاحو الم محمدﷺ را خبر کن

جامیؔ  کا ہی یہ فارسی شعر کس قدر مشہور ہے اس شعر کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہے ؎

لَا یُمْکِنُ الثَّنَآ ءُ کَمَا کَانَ حَقُّہ‘

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

سعدی شیرازی کی عربی کی یہ نعت زبانِ زد خاص و عام ہے ؎

بلغ العلیٰ بکمالہٖ کشف الدّجیٰ بجمالہٖ

حسنَت جمیع خصالہٖ صلو علیہ و آ لہٖ

امیر خسرو کی نعت کا یہ شعر دیکھئے ؎

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

بہ ہر سورقصِ بسمل بود شب جائے کہ من بودم

خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسرو

محمدﷺ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

جان محمد قدسی کی نعت کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے ؎

مرحبا سید مکی مدنی العربی

دل و جان بادفدایت چہ عجب خوش لقبی

اردو زبان کے قدیم و جدید شعراء میں یوں تو بے شمار نام ملتے ہیں لیکن گیسو دراز، فخر الدین نظامی، قدسی، بیدل، غالب، ملا وجہی، عوارض، ابن نشاطی، نصرتی، ولی، سید محمد اکبر حسینی، سراج، سودا، شیراز، باقر آقاہ، نظیر اکبر آبادی، شہید، غالب، مومن، لطف، راجہ مکھن لال، منشی شنکر لال، ساقی، ولی دکنی، سودا، جگر، میر، انیس، دبیر، امیر مینائی، محسن کاکوروی، شائق، حالی، شبلی، ظفر علی خان، حالی، حفیظ جالندھری، نظم طباطبائی، طوفان نیرت، جلیل، شاہ نیاز بریلوی، بیدم وارثی بہزاد لکھنوی، مولانا احمد رضا خان، ، ماہر القادری، خلیل صمدانی کے علاوہ شیخ محمد ابراہیم آزاد شامل ہیں۔ دور حاضر کے نعت گو شعراء میں اثر صہبائی، احسان دانش، اختر لکھنوی، ادیب رائے پوری، ارمان اکبر آبادی، اعجاز رحمانی، اقبال صفی پوری، انور جمال، تابش دہلوی، حفیظ تائب، حافظ لدھیانوی، خالد بزمی، ذوق، ظفر نگری، ذہین شاہ تاجی، راغب مرادآبادی، ستار وارثی، سر شار صدیقی، سعید وارثی، اقبال عظیم، سیماب اکبر آبادی، صبیح رحمانی، صہبا اختر، عاصی کرنالی، محشر بدایونی، جمیل نقوی، تابشؔ صمدانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

طاہر حسین طاہرؔ سلطانی ادبی جریدے ماہنامہ ’’ارمغانِ حمد ‘‘ اورسہ ما ہی ’’جہان حمد‘‘ کے مدیر نعت گو شاعر کی حیثیت معروف ہیں۔ لاہور سے شائع ہونے والا رسالہ ’نعت‘ قابل ذکر ہے۔ راجا رشید محمود بہت ہی محنت، عقیدت اور خلوص سے ماہنامہ نعت شائع کر رہے ہیں۔ الطاف حسین حالیؔ کی دیگر شاعری کے علاوہ نعتیہ کلام کس قدر مشہور ہے۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لا نے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

امیر مینائی کا نعتیہ کلام تاثر کن ہے ؎

جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں

حسرت آتی ہے کہ یہ پہنچا میں رہا جاتا ہوں

دو قدم بھی نہیں چلنے کی ہے طاقت مجھ میں

شوق کھینچے لیے جاتا ہے میں چلا جاتا ہوں

حسرت موہانی بے شمار صلاحیتوں کے مالک۔ شاعر، ادیب، صحافی، محقق، تذکرہ نگار اور سیاسی رہنما۔ ان کی نعتیں دل میں اترنے والی ہیں۔ اپنے بارے میں کیا خوب شعر کہا ؎

غالب و مصحفی و میر و نسیم و مومن

طبع حسرت نے اٹھا یا ہے ہر اُستاد سے فیض

علامہ اقبال ایک قومی شاعر ہیں یوں تو ان کا شمار نعت گو شعراء میں نہیں ہوتا لیکن ان کے فارسی اور اردو کلام میں خوبصورت نعتیں موجود ہیں۔ اقبال کے یہ خوبصورت شعر ؎

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

جمیل نقوی کو ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی نے ’سرکار کی چاہت والے ‘ کہا ہے۔ ان کی کہی ہوئی حمد و نعت بہت مقبول ہیں ؎

کعبہ پہ پڑی جب پہلی نظر کیا چیز ہے دنیا بھُول گیا

یوں ہوش و خِرد مفلوج ہوئے دل ذوقِ تماشا بھُول گیا

سید فصیح رحمانی جتنی اچھی نعت پڑھتے ہیں ان کی کہی ہوئی نعت بھی خوب ہوتی ہے ؎

کعبہ کی رونق کعبہ کا منظر ، اللہ اکبر اللہ اکبر

دیکھوں تو دیکھے جاؤں برابر ، اللہ اکبر اللہ اکبر

حیرت سے خود کو کبھی دیکھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو

لایا کہاں مجھ کو میرا مقدر ، اللہ اکبر اللہ اکبر

تیرے کرم کی کیا بات ہے مولا، تیرے حرم کی کیا بات ہے مولا

تا عمر کر دے آنا مقدر ، اللہ اکبر اللہ اکبر

آزادؔ صاحب سے پہلے بھی اس خاندان کے احباب میں ادبی و شعری ذوق پایا جاتا تھا آزاد صاحب کی اولادوں اور خاندان کے بے شمار احباب سخن فہمی کا ذوق رکھتے ہیں۔ صاحبِ دیوان اور بے دیوان شاعر و نثر نگار بھی ہیں۔ آزادؔ  صاحب کے بیٹے خلیل صمدانی خلیلؔ کی کہی ہوئے نعتیں بھی گہرا اثر رکھتی ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ’گلزار خلیل‘ تابشؔ صمدانی مرحوم نے مرتب کیا۔ تابشؔ صمدانی کے بیٹوں رہبر اور سرور میں شعری ذوق پایا جاتا ہے اور شعر کہتے ہیں۔ خلیل صمدانی کے چھوٹے بیٹے حسین صمدانی سخن فہم ہیں، شعر گنگناتے دکھائی دیتے ہیں تا حال بے دیوان شاعروں کی فہرست میں ہیں۔ خلیل صمدانی کا ایک شعر ملاحظہ ہو ؎

سَر اسِ لیے ملا ہے کہ محو سجودر ہوں

لَب اِس لیے ملے ہیں کہ میں ان کا نام لوں

آزادؔ صاحب کے پوتے خلیل صمدانی کے بڑے صاحبزادے تابشؔ صمدانی بھی نعت گو شاعر تھے۔ ان کی نعتوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے ؎

یہ بھی مرے اجداد کا احسان ہے تابش

ورثہ میں ملا ہے مجھے مدحت کا قرینہ

تابشؔ کے اس شعر کے حوالے سے مَیں نے کبھی تابشؔ صمدانی کے لیے یہ شعر کہا تھا ؎

وراثت میں ملی ہیں جسے آبا کی صفات

کتنا خوش نصیب مدح سرا ہے تابشؔ

آزادؔ صاحب ان خوش نصیبوں میں سے ہیں کہ جن کے بیٹے، پوتے اور اب پڑپوتے ان کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہیں۔ تابشؔ  صمدانی کے بیٹوں رہبرؔ صمدانی اور سرورؔ خلیل صمدانی خوب شعر کہتے ہیں۔ سرورؔ صمدانی کا یہ شعر ملاحظہ ہو ؎

اجداد کو میرے صدیاں بیتیں مداح سرائی کرتے ہوئے

نعتِ نبیؑ کہنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

حافظ ضیاؔ احمد مشتاق مرحوم، آزادؔ صاحب کے پوتی داماد ہیں یعنی جناب خلیل احمد صمدانی کے داماد۔ ان کا مجموعہ کلام ’گرداب تمنا‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے۔ حافظ ضیا صاحب مرحوم کے بیٹے فرخ ضیا اور اطہر ضیا سخن فہم ہیں، شعر کہتے ہیں، نثر بھی خوب لکھتے ہیں۔ ضیاؔ صاحب کا ایک خوبصورت شعر ؎

ہماری بس یہی روداد ہے اے داورِ محشر

خطائیں ہوتی رہتی ہیں پشیماں ہوتے رہتے ہیں

ضیاؔ صاحب حافظ قرآن بھی تھے اس مناسبت سے انہوں نے کیا خوب شعر کہا ؎

پوچھے گا خدا مجھ سے کیا لائے تو کہہ دوں گا

الفت ہے محمدؑ کی سینے میں بھی قرآں ہے

میَں آزادؔ صاحب کا پڑ پوتا ہوں۔ خود کو شاعر تو نہیں کہتا البتہ ضرورت کے مطابق کچھ کہہ لیتا ہوں۔

نثر لکھنے سے فرصت نہیں ملی۔ شعر و ادب کا ذوق وراثت میں ضرور ملا ہے۔ جیساکہ خود میں نے عرض کیا تھا ؎

ہو کیوں نہ ناز مجھے سخنوری پہ رئیسؔ

میرے ہی اجداد کا ورثہ ہے جو مجھے ملا ہے

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے دو بار بالترتیب (۲۰۱۱ء۲۰۱۳ء) عمرہ کی سعادت نصیب فرمائی۔ خانہ کعبہ پر حاضری کے موقع پر میں نے کچھ اس طرح عرض کیا ؎

رَحمتَ کا تیری منظر دیکھ رہا ہوں

دعاؤں کا اپنی ثَمَر دیکھ رہا ہوں

رَونَق تیرے گھر کی دیکھ رہا ہوں

نا چیز پہ تیرا اَبر کرم دیکھ رہا ہوں

روضۂ رسولﷺ پر حاضری نصیب ہوئی۔ اپنی کیفیت کو اس طرح بیان کیا ؎

بلاوے پہ نبیؐ کے میں مدینے آ گیا ہوں

خوش ہوں زندگی میں یہ مرتبہ پا گیا ہوں

تھی یہ آرزُو مدت سے مدینہ دیکھوں

کرم پہ اپنے نبیؐ کے ، مراد پا گیا ہوں

تھی تمنا ریاض الجنہ میں ہو ایک سجدہ نصیب

جبیں کو جنت میں جھکا نے کا اعزاز پا گیا ہوں

نگاہیں کیسے ہٹتیں روضے کی جالیوں سے رئیسؔ

برسوں کی پیاس کا احساس پا گیا ہوں

کسی بھی مصنف یا شاعر کا کلام اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جناب آزادؔ کے کلام سے ان کی شخصیت کے خدوخال کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں۔ آپ ان خوش نصیب شعراء میں سے ہیں کہ جنہیں مدحت سراحی تحفۂ خداوندی کے طور پر ملی۔ نعت گوئی ان کے خمیر کا لازمی حصہ ہے۔ آزادؔ صاحب نے حمد، نعت، قصیدہ، رباعیات، قطعات، سلام اور دیگر اصناف شاعری میں زندگی کے ہر ہر موضوع کو خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اچھے اخلاق اور حضور کے پاکیزہ عمل سے پھیلا، اس موضوع کو کس خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ؎

یا نبی تیرا مبارک ہوا آنا کیسا

تجھ سے پہلے تھا جہالت کا زمانہ کیسا

پھونکی اک نئی روح تیرا آنا کیسا

اللہ اللہ بنا تجھ سے زمانہ کیسا

جھُوٹ کہتے ہیں کہ تلوار سے پھیلا اسلام

کام باتوں سے لیا تیغ چلانا کیسا

شب معراج کے واقعات کا ذکر جناب آزادؔ نے عشق مصطفیٰ میں ڈوب کر کیا۔ اس کیفیت کو آپ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں بھی وہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے اس کلام کا کہنے والا گذرا ہے۔ اللہ نے آپ کو غیر معمولی دسترس، جذبہ صادق اور بصیرت سے نوازا تھا۔ آپ نے اپنی اسی خداداد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے کلام کو ان خصوصیات کے ساتھ پیش کیا اور کامیاب و کامران ہوئے ؎

شبِ معراج تیرا بن کے مہماں عرش پر جانا

مقدر تیری اُمت کا تھا پستی سے ابھر جانا

شبِ معراج فرشتوں نے خدا سے پوچھا

میزباں تو ہے تو کس شان کا مہماں ہو گا

قدسیوں نے شب معراج جو شوکت دیکھی

بولے حیرت سے کہ اللہ کی قدرت دیکھی

یوں تو حضور رہتے تھے ہر دم خدا کے پاس

اظہار قُرب کرنا تھا لیکن بُلا کے پاس

آزادؔ  صاحب نے حج و زیارت روضہ القدس کی خواہش و تمنا، زیارت طیبہ کی تڑپ کو اپنے دل کی گہرائیوں سے مختلف نعتوں میں بیان کیا ہے ؎

ارمان ہے مدینے کا کعبہ کی آرزو

لے چل خدا کے واسطے بخت رسا مجھے

جس برس میں حج میسر ہو زیارت ہو نصیب

زندگی بھر میں جو پوچھو تو وہ ہے اچھا برس

آزادؔ  نہیں اور تمنا کوئی دل میں

روضے کا ہے ارمان مدینے کی تمنا

کب دیکھیں گی آنکھیں مری دربار مدینہ

کب آئے گی باری مری سر کار مدینہ

جیتے جی دیکھ لوں دُنیا میں تماشائے بہشت

میرے مولا کا دکھا دے مجھے روضہ یا رب

یا نبی روضۂ اقدس پہ بلا لو جھٹ پٹ

یہ تو ارمان مرے دل کا نکالو جھٹ پٹ

دیکھئے ہوتی ہیں مقبول دعائیں کب تک

مرے مولا مجھے روضے پہ بُلائیں کب تک

روضہ رسولﷺ کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کیا ؎

شکر خدا غلام ہے آقا کے سامنے

پہنچا دیا ہے پیاس نے دریا کے سامنے

کیا دیکھتی ہیں آنکھیں میں قرباں اے خدا

جانم فدا ہے کیا دلِ شیدا کے سا منے

دیکھتا ہوں روضہ خیر البشر کو میں

اللہ دل ہی دیدوں نہ کیوں اب نظر کو میں

جناب آزادؔ  کی خوش نصیبی کہ آپ کو خواب میں رسولِ مقبولﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ نے اپنے کلام میں اس سعادت کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے ؎

گُم کیا خواب میں بھی جلوہ دکھا کر مجھ کو

رخ روشن بھی دکھا یا تو چھُپا کر مجھ کو

میں قسم کھا کے یہ کہہ دوں گا کہ جنت دیکھی

شہ دکھائیں گے اگر روضہ بُلا کر مجھ کو

حضور اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت کا ذکر بہت ہی اچھے انداز سے کیا ؎

ہو مبارک باعث کون و مکاں پیدا ہوئے

فخر آدم شاہِ عالم جانِ جاں پیدا ہوئے

چاند کو دو ٹکرے کرنے کا ذکر جناب آزادؔ اس طرح کر تے ہیں ؎

دو ٹکڑے جس نے بدر کو ایمان سے کر دیا

یہ ہے کمال نا خن رشک ہلال کا

آزادؔ نے بعض اہم موضوعات کو بہت ہی خوبصورت اور واضح الفاظ میں بیان کیا ہے ؎

کیا رتبہ بیاں ہو سکے اس شاہ ہدیٰ کا

وہ نور ہے اَللہ غنی کس خدا کا

وہ اول مخلوق ہے وہ افضل مخلوق

وہ اشرفِ مخلوق ہے محبوب خدا کا

صورت کا وہ نقشہ ہے کہ وہ نور خدا ہے

سیرت کی وہ صورت کہ ہے محبوب خدا کا

سر کیا نا نا کی اُمت پر فدا

پھل یہ لایا ہے نہالِ مصطفیٰ

کیوں کام لے قدموں سے مدینے کے سفر میں

شیدائے نبی سر ہی کے بل جائے تو اچھا

اردو زبان اور اپنے استاد جناب بیخوؔد دہلوی تعریف و توصیف بیان کر تے ہوئے جناب آزادؔ فر ماتے ہیں ؎

شکر صد شکر اے خلاق زبانِ اردو

فضل سے تیرے نمایاں ہوئی شانَ اردو

نعت مولا میں بہت کام لئے ہیں اس سے

کیوں نہ پیاری ہو دہن کو یہ زبان اردو

یا تو آغوش میں اردو کے پلا ہے بیخود

یا پلی گود میں بیخودؔ کے زبانِ اردو

خوشہ چیں ہون اُ سی بیخودؔ کی زباں کا میں بھی

جس کی ممنوں ہے آزادؔ  زبانِ اردو

بیخودؔ دہلوی آزادؔ صاحب کے دولت کدے واقع بیکانیر جو آزاد منزل تشریف لے گئے۔ اس موقع پراپنے استاد کی شان میں نذرانہ عقیدت کچھ اس طرح پیش کیا ؎

بتائے اب کوئی مجھ کو میں اپنے گھر کو کیا سمجھوں

کہ گھر پر میرے وہ آئے خدا کے مہماں ہو کر

بنی آزاد منزل اب تو بیخودؔ  میکدہ تیر

ہوا ہے کیا سے کیا میرا مکاں تیرا مکاں ہو کر

۱۹۱۲ء میں جناب آزاد نے ہندوستان کے قصبے کوٹ کپورا میں اپنے شیخ کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کیا جس میں آپ نے اپنے بیکانیر سے تعلق کے حوالے سے یہ شعر کہا ؎

رشک آتا ہے مجھے کوٹ کپورہ تجھ پر

بیکانیری جو تھا حصہ بنا قسمت تیری

 

                 نظم، قصائد، رباعیات، منقبت، سلام اور تصوف

 

آزادؔؔ ؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔؔ نے حمد و نعت کے علاوہ نظم، قصائد، رباعیات، سلام اور منقبت بھی کہیں جو آپ کے بزرگان دین سے دلی عقیدت کا اظہار ہے۔ آپ کا نعتیہ و منقبتی کلام پُر اثر اور پڑھنے والے کے دل پر گہرا اثر کرتا ہے۔ آپ سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت قبلہ حاجی سید جماعت علی شاہ نقشنبدی سجادہ نشیں علی پور سیدان ضلع سیالکوٹ (فیصل آباد)کے با قاعدہ مرید تھے۔ آپ کے پیر و مرشد کے یہاں سالانہ جلسہ انورا لصوفیہ کا ہوتا تھا۔ آزادؔ صاحب نے ان جلسوں میں (۱۹۰۵ء تا ۱۹۱۷ء) باقاعدہ شرکت فرمائی اور اپنی نظمیں پیش کیں۔ آپ کے دیوان کا حصہ دوم انہیں نظموں پر مشتمل ہے۔ ان نظموں میں آپ نے اپنے پیر و مرشد کی عزت، احترام و توقیر جس انداز سے بیان کی کے اس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آپ اپنے شیخ کا کس حد تک احترام کیا کرتے تھے۔ آپ کی نعتوں میں بھی اکثر آپ کے شیخ کا ذکر ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو ؎

کیا کہوں تم سے کہ ہے آج یہ کیسا جلسہ

میری آنکھوں نے تو دیکھا نہیں ایسا جلسہ

یہ جماعت ہے کہ ہے خدا کی مجلس

یہ جماعت ہے کہ ہے صل علیٰ کی مجلس

آزادؔ  غلام آپ کے خادم کا ہے خادم

جب تک رہے یہ زندہ یو نہی مدح سرا ہو

آزادؔ صاحب نے تصوف کے موضوعات اور جذباتِ حقیقی کو باریک بینی اور خوبی کے ساتھ نظم میں بیان کیا ہے۔ آپ کے نثری مضامین تصوف کے مشکل مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ اس موضوع کے حوالے سے آپ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎

جب فانی و مجبور یہ انسان بنا ہو

کیا قادر و قیوم کی پھر اس سے ثنا ہو

میں خاک ہوں تو نُور ہے کیا تیری ثنا ہو

ممکن نہیں ممکن ہے اگر تیری عطا ہو

رہ کر عرب میں تیرے اُمی رسول نے

اہل عجم کو صاحب عرفاں بنا دیا

ذی عقل آدمی کو بنا یا تو کیا ہو

دانا بنا کے پھر مجھے ناداں بنا دیا

تو نے آزادؔ غزل نعت میں لکھی کیا خوب

دیکھنا ہو گا یہ مقبول ترا نا کیسا

آپ تصوف کی معراج پر فائز ہیں چنانچہ اپنے اس مقام کا ذکر بھی انہوں نے اپنے کلام میں کیا، اہل تصوف کے اجلاس میں آپ نے بڑی خوبی سے عام انسان کو تصوف کے درجات کے بارے بتا تے ہوئے کہا کہ ؎

سنگلاخ زمیں رکھتی ہیں یہ منزلیں اپنی

خود چل کے نہ گرنا کہیں تم ٹھو کریں کھا کر

اس مرد خدا کی تمہیں ہے سخت ضرورت

جو کھینچ لے اوپر کو ذرا ہاتھ بڑھا کر

آئے نہ نظر گر تمہیں تھک جائیں نگاہیں

تب دیکھنا آزادؔ  کی عینک کو لگا کر

جناب آزادؔ نے اپنی شاعری کے پیغام میں طریقت کو شریعت کاپابند بنایا چنانچہ آپ نے تمام مسلمانوں کو اور خاص طور پر اہل طریقت کو کھلے ہوئے الفاظ میں بتا دیا کہ ؎

اے طریقت تو ضیا ہے اور شریعت خورشید

سیرت مہر ہے تو مہر ہے صورت تیری

جناب آزادؔ نے حضرت غوث الا عظم محی الدین جیلانی، خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اور خواجہ حمید الدین ناگوریؒ کی شان میں منقبت بھی کہی۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎

قتیل رنگ یزدانی محی الدین جیلانی

شہید ناز سبحانی محی الدین جیلانی

علیم علم عر فانی محی الدین جیلانی

خبیر راز پنہانی محی الدین جیلانی

حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اور حضرت سلطان حمید الدین نا گوری رحمۃ اللہ علیہما کی شان میں منقبت کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے آزادؔ نے کہا ؎

عجب ہیں دونوں ہی سلطان معین الدین حمید الدین

شہ دیں صاحب ایماں معین الدین حمید الدین

مالماں کیوں نہ شیدا ہوں کہ ہیں اسلام میں دونوں

وہ نور قلب یہ ایماں معین الدین حمید الدین

آزادؔ  دنیا میں رونما ہونے والے حالات اور واقعات سے لا علم نہیں تھے بلکہ ان کی نظر پوری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک میں ہونے والے مظالم اور زیادتیوں پر بھی رہتی تھی اور ان مظالم کو جو مراکش، ایران، اٹلی، کابل اور ہندوستان کے مسلمانوں پر ہو رہے تھے ان کی کسک وہ اپنے اندر محسوس کیا کرتے ان کا اظہار آپ نے بہت ہی خوبصورت انداز سے کیا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎

علم مولا میں ہے جو حال مراکش اب ہے

کیسا مظلوم ہے ایران رسولِ اکرم

شہ کو معلوم ہیں اٹلی کے مظالم جو ہیں

اب غضب ڈھاتا ہے بلقان رسولِ اکرم

سلطنت مُلک مراکش کی بھی رکھنا

اور سلامت رہے ایران رسولِ اکرم

اس پہ سایا رہے الطاف و کرم کا تیرے

جو یہ کابل کا ہے سلطان رسولِ اکرم

ہند والے بھی مسلماں ہوں ایسے آقا

جیسے تھے اگلے مسلماں رسولِ اکرم

ختم آزادؔ  کی فر یاد ہے مولا اس پر

ہو درود آپ پہ ہر آن رسولِ اکرم

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حضور سلام سوز غم اس طرح پیش کیا ؎

سوز غمِ امام میں آہ و غاں نہیں

ایسا جلا دیا ہے کہ مطلق دھواں نہیں

آزادؔ کیا کہو گے سلامِ جناب پاک

طرزِ بیاں نہیں تمہیں تاب بیاں نہیں

فرماں روائے کابل سلطان محمد حبیب الرحمٰن خان بہادر کی ہندوستان آمد کے موقع پر آپ نے ایک نظم کہی آپ کے بقول یہ نظم برادران صاحبان قوم کی خواہش پر کہی۔

مرحبا ہند ترے آج جو مہماں آئے

بارک اللہ عجب شان کے سلطان آئے

میزبان تجھ کو مبارک ترے مہماں آئے

منتظر جن کا زمانہ تھا وہ سلطان آئے

مری کل قوم دعا کرتی ہے دل سے آزادؔ

خیر خوبی سے یہ پھر ہند میں مہماں آئے

آزادؔ صاحب نے بچوں کو انگریزی پڑھانے، کھیتی باڑی کرانے یا مدرسوں میں پڑھا کر مسجد کا مولوی بنانے کے عمل کو اچھوتے انداز سے بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بچہ کھیتی باڑی کرے تو اسے کہا جاتا ہے کہ یہ کام تو کم تر لوگوں کا ہے۔ انگریزی پڑھنے کی صورت میں اسے والدین کے لاڈ پیارسے تعبیر کیا جاتا ہے اور اگر بچہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کرے تو اسے مسجد کا مولوی کہا جاتا ہے۔ یہ صورت حال بچے کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ اس خیال کو آپ نے اس قطعہ میں اس طرح بیان کیا ؎

کھیتی کریں تو کہتے ہیں کام جاٹ کا

انگلش پڑھیں تو کہتے ہیں بچہ ہے لاٹ کا

مسجد کا مُلاں کہتے ہیں جو علمِ دین پڑھیں

جاہل ہے کُتا دھوبی کا گھر کا نہ کاٹ کا

جنابِ آزادؔ نے رباعیات بھی کہیں۔ چند رباعیات ملاحظہ ہوں ؎

خاک بنتا ہوں تو ٹھو کر سے اُڑا دیتے ہیں

آنسوبنتا ہوں تو آنکھوں سے گرا دیتے ہیں

پھونس بنتا ہوں تو ہوں چھاج میں پھٹکا جاتا

دانہ بنتا ہوں تو چکی میں دلا دیتے ہیں

 

کیسی گھبراتی جوانی بسواری آئی

کہہ گئی جاتی ہوں میں پیری کی باری ّئی

آتے ہی بیٹھ گئی ٹیک کے زانو پیری

چونکہ یلغار چلی تھی تھکی ہاری آئی

آزادؔ صاحب ہندوستان میں بے راہ روی اور اسلام سے دوری کو محسوس کر رہے تھے۔ ان حالات کا انہیں ادراک بھی تھا اور وہ ان کے لیے پریشان بھی دکھا ئی دیتے ہیں۔ ایک جگہ ان حالات کا ذکر اس طرح کیا ؎

کیا کہوں ہند میں اسلام کی حالت کیا ہے

مٹتے جاتے ہیں جہاں دین کے طور و اطوار

آزادؔ صاحب مسلمانوں کی دین سے دوری کی وجہ خود انہیں قرار دیتے ہیں اور اس کے زوال کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں ؎

ہم نے خود پاؤں میں اپنے ہی کلہاڑی ماری

توڑ کر دین کے ارکان رسولِ ؑ اکرم

چودھویں صدی میں اسلام سے متعلق حالات تھے ان کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ زمانے کا نقشہ ہی پلٹ گیا ہے جو کل تک اسلام سے دور تھے وہ اسلام کے دعویدار بن گئے ہیں۔ اس دور کے بارے میں آپ نے اپنی ایک نظم میں کہا ؎

یک بہ یک رنگ زمانے کا یہ پلٹا کیسا

اے صدی چودہویں تیرا ہے یہ نقشہ کیسا

کل جو تھے دہریہ وہ آج ہیں شیخ الاسلام

جوش پر دیکھو ہدایت کا ہے دریا کیسا

جناب آزادؔ نے اپنے تخلص کے حوالے سے ایک جگہ کہا ؎

تخلص پر مرے آزادؔ جو حیراں ہیں ، ناداں ہیں

غلام اس شہؑ کا ہوں جس کے غلام آزاد رہتے ہیں

آزادؔ  کو بیکا نیر کی اردو شعراء برادری میں غیر معمولی مقبولیت اور عزت و توقیر حاصل تھی چونکہ آپ حضرت بیخودؔ دہلوی سے شرف تلمیذ رکھتے تھے اس لیے اس فن میں درجہ اعتبار حاصل تھا اور راجستھان کے تقریباً تمام شعراء ہی ان کے دامانِ فیض سے وابستہ تھے۔ آزادؔ الفاظ کے مزاج دان ہیں، صداقت‘ جذبات‘ عقیدت اور خلوصِ اظہار ان کی قدرتِ کلام کے ضامن ہیں اور سلاست و روانی کے ساتھ ساتھ سوز و گداز شاعر کا خاص وصف ہے۔ ان کے ہاں ایک خوش گوار قسم کی جدت پسندی اور ندرتِ بیان کا احساس ہوتا ہے۔ آپ کے کلام میں آپ کا شعری باطن تمام تر طہارت کے ساتھ جلوہ نما ہے بلکہ ایک خوشبو بھی ہمراہ ہے جس میں ان کے اظہار و افکار معطر ہیں۔

آپ نے عربی، فارسی اور اردو کے الفاظ اور محاورات کا خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آزاد مکمل طور پر شعر و سخن کی جانب مائل ہوتے، ان کے کلام کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ طبع کرنے کا اہتمام کیا جا تا اور اس کی مناسب تشہیر بھی کی جاتی تو ادب اور شعر و شاعری کے دنیا میں دیگر معروف شعراء اور ادیبوں کی طرح آزادؔ صاحب کا مقام محفوظ ہوتا اور شہرت کی بلندی پر ہوتے لیکن عشقِ مصطفیٰ میں مجسم ڈوبے ہوئے اس عاشق رسولﷺ نے شعر گوئی کو اپنے جذبہ عشق رسولﷺ کے اظہار کا وسیلہ بنا یا۔ انہیں نام و نمود کی ہر گز پروا نہیں تھی اور نہ ہی انہوں اس جانب توجہ کی۔

آزادؔ صاحب کی شاعری بیان و انداز، جملوں کی ترکیب اور استعمال نیز الفاظ کے خوبصورت چناؤ کے اعتبار سے خاص مقام رکھتی ہے۔ وہ بہت ہی اخلاق، سچائی، صفائی، نیک نیتی، عجز و انکساری کے ساتھ اپنے اندر کی سچائی اور کیفیت کو شعر کا جامہ پہنانے میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں۔ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

 

 

 

                 باب۔ ۳

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ بیکانیری شاعروں، ادیبوں اور اہل علم کی نظر میں

 

جنابِ آزادؔ بیکانیری کا زمانہ انیسویں صدی عیسویں کے نصف آخر سے بیسویں صدی عیسویں کے تقریباً نصف آخر تک ہے۔ اس دور کے ممتاز سخنوروں میں حالیؔ(۱۸۳۷ء۔ ۱۹۱۴ء)، احمد رضاؔ بریلوی (۱۸۵۶ء۔ ۱۹۲۱ء)، داغؔ دہلوی(۱۸۳۱ء۔ ۱۹۰۵ء)، سید وحید الدین احمد بیخودؔ ہلوی(۱۸۷۱ء۔ ۱۹۲۷ء)، امیرؔ مینائی(۱۸۲۶ء۔ ۱۹۰۰ء)، محسنؔ کاکوروی(۱۸۲۶ء۔ ۱۹۰۵ء)، شادؔ عظیم آباد(۱۸۴۶ئ۔ ۱۹۲۷ء)، علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ (۱۸۷۷ء۔ ۱۹۳۸ء)، مولانا محمد علی جوہرؔ(۱۸۷۸ء۔ ۱۹۳۱ء)، حسرتؔ  موہانی(۱۸۷۸ء۔ ۱۹۵۱ء)، مولانا غلام شہیدؔ ، آسیؔ غازی پوری، حسنؔ بریلوی، علامہ ضیاء القادری، محمد عبداللہ بیدلؔ، حافظ خلیل الدین حسن حافظؔ پیلی بھیتی، محمد یوسف راسخؔ، منشی عبدالشکور خاں برقؔ اجمیری، محمد عبداللہ المعروف بہ امیر دولھا صوفیؔ، ممتاز علی ممتارؔ  ناصری سبزواری، نثار احمد نثارؔ، محمد عابد حسین عابدؔ آغائی اور خلیلؔ صمدانی شامل ہیں۔ یہی شعراء جناب آزادؔ کے ہم عصر کہے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض معاصرین شعراء اور دیگر احباب نے آزادؔ صاحب کے کلام کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار نثر اور نظم میں کیا اور تقریظیں لکھیں جو آپ کے روح پرور نعتوں کے مجموعے ’’دیوان آزاد‘‘ میں شامل ہیں۔ ذیل میں ان ادیبوں، دانشوروں اور آزادؔ صاحب کے قریبی رشتے داروں کے خیالات نقل کیے جا رہے ہیں۔

انعام احمد صدیقی صاحب کا آزادؔ صاحب سے دوہرا تعلق کچھ اس طرح سے ہے کہ آزادؔ صاحب ان کے دادا جناب علی احمد اور نانا جناب عزیز احمد کے بھائی ہیں۔ آپ نے بھی آزادؔ صاحب سے اپنے تعلق کا اظہار فرمایا۔ آزادؔ  صاحب کے پڑ پوتے جناب خلیل صمدانی کے پوتے اور جناب تابشؔ صمدانی کے صاحبزادے رہبر صمدانی نے بھی آزادؔ سے اپنے خاندانی تعلق اور مدحت سرائی کے حوالے سے اپنی رائے سے نوازا۔ شکریے کے ساتھ شامل کتاب ہیں۔

 

                امتیاز الشعراء سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی

 

خمخانہ بیخودؔ کے جرعہ کشوں میں ایک حاجی شیخ محمد ابراہیم صاحب آزادؔ کا نام بھی درج رجسٹر شاگردان ہے۔ صوفی منش انسان ہیں حمد و نعت کہتے ہیں عاشقانہ شعر نہیں کہتے۔ ان کا کلام بقدر ان کے ذوق شعری اصلاح کا چنداں محتاج نہیں ہے کئی سال ہوئے میں نے ان کو اپنا خلیفہ بنا دیا تھا۔

نام آزادؔ  وضع کے پابند

میرے شاگرد و میرے عاشق زار

ہیں یہ مداح سیرتَ بنوی

اور مداح ان کا بیخودؔ زار

 

                محمد عبداللہ بیدلؔ

 

جناب منشی محمد عبد اللہ بیدؔل جو آپ کے ہم عصر تھے اور قبلہ استاد بیخودؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ آزادؔ صاحب سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آزادؔ نے شاعری کا چراغ ہر جگہ روشن کیا اور یہ اصول کہ عشقیہ شاعری ایک بیہودہ گوئی اور خلافِ شریعت ہے کو بہ احسن خوبی اپنے دیوان کے ذریعہ عوام الناس تک پہنچایا ہے۔ بیدلؔ نے قطعہ تاریخ دیوان آزادؔ پر ایک بڑی نظم لکھ کر دیوان آزادؔ کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ آپ نے آزاد کے کلام کو کچھ اس طرح داد تحسین دی ہے۔

نیا یہ نعت کا گلشن کھلا ہے

لب جبریل پر صل علیٰ ہے

کلام آزادؔ  چھپ گیا ہے

نرالا ہے انوکھا ہے نیا ہے

بشر سے ہو بھلا توصیف شہ کی

خدا کرتا ہے جب تعریف شہ کی

حدیثوں سے لکھی سیرت نبی کی

کلام اس میں کرے طاقت کسی کی

بید لؔ نے آزاد کے دیوان حصہ دوم پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ؎

مسائل جو تصوف کے عیاں ہیں

خزینے گنج معنی کے نہا ہیں

کلام ان کا عجب معجز نما ہے

سرا پر دہ حقیقت کا کھُلا ہے

دکھائی ہے کہیں شمع ہدایت

بتائی ہے کہیں راہ طریقت

صلا آزادؔ  کو بیدلؔ ملا ہے

عجب جو نعت کا دفتر کھلا ہے

 

                عزیز احمد (آزاد صاحب کے چھوٹے بھائی)

 

میرے مخدومی محترم اخی معظم نے جو ثنائے محبوب کا گلدستہ پیش کیا ہے اس کو دیکھ کر انصاف سے بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ جس سچائی اور سلاست سے بپابندی زبان اردو صحیح صحیح واقعات سیرت نبوی بیان کیے ہیں اور جو مضامین نکالے ہیں یہ رنگ اور دیوان یا کلیات میں بہت کم ملے گا معلوم ہوتا ہے قدرت نے یہ اخی محترم کے لیے محفوظ کر رکھا تھا جو آپ کو دیا گیا ؎

این سعادت بزور بازو نیست       تانہ بخشد خدائے بخشندہ

ثنائے محبوب خالق کو سامنے رکھئے اور اس کا ہر شعر پڑھیئے اور مذاق سلیم سے مزے لیجئے ہر غزل ہر شعر میں آپ کو جدت و خوبی معلوم ہو گی۔ ثنائے محبوب خالق کے دوسرے حصہ کو جب آپ مطالعہ فرمائیں گے تو

معلوم ہو گا کہ نہایت نا زک و دقیق مسائل تصوف کو جو زبان سے اور نثر میں بھی مشکل سے ادا ہوتے ہیں اس کو نہایت خوبی سے نظم میں بیان کیا گیا اور قصائد میں بجائے بہاریہ تشبیت کے نئے نئے طریقہ سے حمد و نعت بیان کی گئی ہے گویا نعت گو قصائد گاران کو صحیح راستہ دکھا یا گیا ہے بعض موقعہ پر نعت سے حمد پیدا کی گئی فرماتے ہیں ؎

جب عالم امکاں ہی میں تو سب سے سوا ہو

تو جس کا ہو بندہ وہ بھلا کیوں نہ خدا ہو

تصورات اس قدر عالی ہیں جو دیکھنے و سنے میں نہیں آئے ؎

بہت ہی مسکرئے شہ جو دیکھا حشر میں مجھ کو

سیہ نامہ بغل میں ہاتھ میں دیوان مدحت ہے

کیا تھا ڈر تے ڈر تے پیش کچھ میں نے سیہ نامہ

تو ہنس کر شہ نے فرما یا کہ اس کی کیا ضرورت ہے

تصور میں کہا کرتا ہے مجھ سے لطف حضرت کا

خدا تک تجھ کو پہنچا دوں گا آگے تیری قسمت ہے

محمد اسرئیل (آزادؔ صاحب کے چچا زاد بھائی)

 

آپ کے کلام میں حسن فصاحت و اسلیب بلاغت کی جھلک شروع سے آخر تک نظر آتی ہے۔ ترکیب کی دلاویزی روز مرہ محا وروں کی بے تکلفی نے چار چاند لگا رکھے ہیں۔ بے ساختہ پن اور روانی کا یہ عالم ہے کہ ایک بحر مواج موجزن ہے جس کی لہروں میں تکلف و آوروخس و خاشاک کی طرح بہے چلے جا رہے ہیں اور زور طبیعت ان کی پروا نہیں کرتا  واقعہ نگاری اور جزئی واقعات کی تفصیل قادر الکلام پر دلالت کر رہی ہے اور لطف یہ ہے کہ جو کچھ کہا نرالے ڈھنگ سے کہا سچ یہ ہے کہ مصنف اپنی طرز حسنہ کا موجد ہے جس نے ارباب سخن کے لیے ایک شاہراہ کامیابی تیار کر دیا ہے جس کے اتباع میں منزل مقصود تک رسائی یقینی ہے۔ دیوان کی ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ کوئی لفظ بھی شریعت کے دائرہ سے باہر نہیں۔

 

                شیخ علی احمد (تحصیلدار)، آگرہ (برادر کلاں آزاد صاحب)

 

آزادؔ صاحب کہنہ مشق اور خوش بیان ہیں غلط ترکیبوں اور غیر مانوس الفاظ سے آپ کا کلام بالکل پاک ہے۔ ہر غزل محشرِ نعت اور جنتِ حمد ہے۔ بعض مقامات پر احادیث اور آیتِ قرآنی کا ترجمہ اس خوبی سے نظم فرمایا ہے کہ پڑھ کر جی خوش ہوتا ہے۔ آپ کی شاعری صاف زبان اور اچھے محاورات کا آئینہ دار ہے اسی طرح جذبات بھی بہ کثرت رکھتی ہے۔ میں یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب آزاد دنیاوی شاعری میں کیا پوزیشن رکھتے ہیں۔ آزادؔ صاحب حضرت بیخودؔ دہلوی جانشین فصیح الملک مرزا داغؔ دہلوی کے ارشد تلامذہ میں ہیں اور راجپوتانہ کے اساتذہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔

 

                محمد عبداللہ المعروف بہ امیر دولھا صو فیؔ

 

فصاحت و بلاغت دونوں   اس میں

کلام آزادؔ کا صل علیٰ ہے

نہ کیوں سر پر رکھیں دیوان آزاد

کہ اس میں حمد و نعت مصطفیٰ ہے

 

                حسن احمد حسنؔ (آزادؔ صاحب کے ماموں زاد بھائی)

 

محبوب خالق، اللہ اللہ کیا جلوۂ ناز مرغوب ہے نعت شمع ہدایت کا نیا اسلوب ہے حرف حرف تفسیر عاطفت ہے لفظ لفظ خرمن گل بہجت ہے ہر شعر چمن مدحت شگفتہ ہے ہر غزل پر لعبت چین آشفتہ نیا ساز ہے ہر خیال۔ نظم آئینہ افروز ہے روانیِ طبع رفرف معرفت سے سوا ہے تخیل عالی نغمہ جبریل کی ادا ہے۔ دل کہ واقف اسرار گفتار ہے لطف اٹھاتا ہے خرمن گل پر بہار کو دیکھ دیکھ کر کھلا جاتا ہے الحق حکایات شیخ وہ نگار پرُ بہار ہے کہ کیف حسب یثرب جس کا سنگھار ہے حیران ہوں اسے آزادؔ کی تحریر کہوں دفتر تنویر سمجھوں سارا کلام عجیب ہے ثمر سخن گنجینہ غریب ہے با لخصوص میرے لیے چراغ لامعہ ہے کہ اس کی روشنی میں گل مدح مرغوب نظر آیا ہے اگر قسمت سے دیار حبیب پہنچ گیا تو اس گل کو نذر گلشن کروں گا۔

دیوان نعت وہ کہا آزادؔ نے حسنؔ

بے شبہ جو کمال میں اپنی ہے خود نظیر

دیکھی جو مدح اس میں شہ بے مثال

لکھا ہے سال طبع بھی اوصاف بے نظیر

 

                محمد یوسف راسخؔ

 

آزادؔ تیری آج زمانے میں دھوم ہے

دیوان تیرا طبع ہوا ہے وہ لا جواب

حق تو یہ ہے کہ ناصح عامل کہوں تجھے

مد نظر ہے تیرے شریعت کی ہر کتاب

تو نے دکھائیں نعت میں جدت طرازیاں

ایجاد و اختراع میں ہر شعر انتخاب

جو بھی کہی ہے تو نے پتے کی کہی ہے سب

تاریخی حیثیت سے ہے ہر نکتہ اک کتاب

ہے سیرۃ النبی ترے دیوان کا ہر ورق

تاریخ اور سیرت کا خلاصہ ہے یہ کتاب

ارباب ذوق لکھیں گے تقریظ دل پسند

راسخؔ سے ایک شعر بھی نکلا نہ کامیاب

 

                حکیم محمد ممتاز علی ممتازؔ  ناصری سبزواری

 

میرے عزیز کی اللہ نے ہمیشہ اپنے فضل و کرم سے تمنائیں پوری کی ہیں آخر میں حج و زیارت روضہ اقدس اور اس دیوان کے طبع ہونے کی بڑی آرزو تھی جو یہ بھی اس کے کرم سے پوری ہوئیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عزیز موصوف کو ہمیشہ مقاصد دارین میں کامیاب رکھے اور یہ دیوان مقبول خدا و رسول ہو کر سرمہ چسم اہل بینش رہے۔

 

                نثار احمد نثارؔ

 

آنکھوں کی ضیا کیوں نہ ہو آزادؔکا دیوان

ہے نور فشاں مہر درخشان مدینہ

ہر بات کے قرآن و احادیث ہیں شاہد

ثابت ہے تیری نظم سے یوں شان مدینہ

 

                محمد عابد حسین عابدؔ آغائی اکبر آبادی

 

ہوا طبع دیوان نعت پیمبر

کہ تا بندہ ہیں جس میں انوار مخفی

کہا میں نے عابدؔ یہ سال طباعت

ہے دیوان آزاد یا نظم عرفی

جناب آزادؔ کے کلام میں خلوص و محبت، عقیدت و احترام کی خو شبو مشک و عنبر کی مانند موجود ہے۔ آپ کے نعتیہ کلام کو پڑھ کر ہماری روح تازہ ہو جاتی ہے اور دل و دماغ پر خوشگوار اثرات رونما ہوتے ہیں بسا اوقات وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ سمجھنے والا بہ خوبی محسوس کر سکتا ہے کہ جناب آزادؔ نے رسمی طور پر نعت نہیں کہی بلکہ ان کی فضا میں عشق رسولﷺ سے عقیدت و محبت کی بجلیاں کوند رہی ہیں۔ انہوں نے ہر نفس میں بوئے رسولﷺ کو محسوس کیا جس کی واضح مہک ان کے کلام میں رقصاں دکھا ئی دیتی ہے۔ آپ کے کلام کو توجہ سے پڑھنے والا یہ تاثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ شاعر کو اپنے محبوب سے بے پناہ وابستگی ہے۔ ان کے کلام سے ان کی علمیت، خاص طور پر قرآن، تفسیر اور حدیث نبوی ﷺ اور فن شاعری کے ادراک کا علم ہوتا ہے۔ آپ کے بارے میں جناب بیخودؔ دہلوی کی یہ رائے کہ ’’ان کا کلام شعری اصلاح کا چنداں محتاج نہیں ہے ‘‘ اہمیت رکھتا ہے اور آزادؔ صاحب کو ایک عظیم شاعر تسلیم کر نے کے لیے کافی ہے۔

 

                پروفیسر عبد المحصی

 

آزادؔ صاحب کے خاندان کی ایک علمی و ادبی شخصیت عبد المحصی صاحب گورنمنٹ صادق ایجر ٹن کالج (S.E. College)، بہاولپور میں انگریزی کے پروفیسر تھے اور خاندانی انجمن ’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ‘کے بانی و متحرک رکن کی حیثیت سے انجمن کی سرگرمیوں میں بھی بھر پور حصہ لیتے رہے۔ پروفیسر محصی نے ایسو سی ایشن کے اجلاس منعقدہ کراچی ۲۵۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۴۸ء میں خطبۂ صدارت پیش کرتے ہوئے آزادؔ صاحب کا ذکر ان الفاظ میں کیا یہ خطبہ ایسو ایشن کی شائع کردہ کتاب ’سرودِ رفتہ‘ میں شامل ہے۔

جناب محمد ابراہیم آزادؔ مرحوم نے ایک مردِ حق اور حق اندیش کی طرح حق و صداقت کے دیئے کو بیکانیر کے ویران صحرا میں روشن رکھا جس کی روشنی نے بہت سی نیک روحوں کو منور کیا آپ کا ضخیم نعتیہ دیوان جس کی ایک کاپی آپ نے بکمال مہر بانی اُس ایسو سی ایشن کو بھی مرحمت فرمائی تھی میرے دعویٰ کا ثبوت ہے آپ معتقدات کی مدافعت میں ایک بے باک اور نڈر وکیل تھے۔ اس کے شاہد ’’پیام اتحاد‘‘ کے وہ صفحات ہیں جہاں آپ ایک مضبوط حزب مخالف کے مقابلہ پر تعلیم نسواں کے سلسلہ میں اپنے مخصوص نظریات کی تائید میں یکہ و تنہا  لڑ تے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ ہمارے خاندان کے ایسے ستارے تھے جو اپنی دوری کے باوجود اُس کو روشن اور منور کرتا رہا۔

 

                انعام احمد صدیقی

 

انعام احمد صدیقی صاحب کا آزادؔ صاحب سے کیا تعلق و رشتہ ہے ان کے خیالات سے واضح ہے۔ آپ نے آزادؔ صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔

حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب سے میرا یعنی ہمارے خاندان کا ہمہ جہتی تعلق اور رشتہ ہے۔ آپ میرے پڑ دادا اور پڑ نانا حضرت نبی بخش اور پڑنانی محترمہ بو یعقو باً (زوجہ نمبر تین) کے بڑے صاحبزادے تھے۔ ہمارے پڑ دادا و نانا کی زوجہ محترمہ بو نصری دختر محمد اسحاق کی پانچ بیٹیاں تھیں، پسری اولاد نہیں ہوئی، جیسا کہ سینہ بہ سینہ روایات اور بزرگوں کی زبانی سنا ہے کہ پڑدادی و نانی بو نصری دختر محمد اسحاق از خود بی بی بیگم دختر مقصود علی کو بیاہ کر لائیں۔ حوصلہ مندی اور وسعتِ قلب کی یہ درخشاں مثال ہے جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ پڑ دادی و نانی محترمہ بی بی بیگم سے تین بیٹے ہوئے۔ شریف احمد، امداد علی اور علی احمد۔ علی احمد میرے دادا ہیں۔

جناب نبی بخشؒ کی تیسری شادی بو یعقوباً دختر کرامت علی صاحب سے ہوئی۔ ان کی اولاد جناب محمد ابراہیم آزادؔ، جناب عزیز احمد، محترمہ کنیز رابعہ اور امِ فاطمہ ہیں۔ جناب عزیز احمد میرے نانا ہیں۔ اس وجہ سے جناب ابراہیم آزاد صاحب سے میرا دوہرا رشتہ ہے۔ آپ میرے دادا جناب علی احمد اور میرے نانا جناب عزیز احمد کے بھائی ہیں۔ ہمارے بزرگ آپس میں، میل جول اور ایک دوسرے کی خبر گیری میں نمایاں تھے فاصلوں اور دوسری دشواریوں کے باوجود ایک دوسرے سے مستقل رابطے رکھتے تھے اور وقت ضرورت ایک دوسرے کی معاونت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔

جناب ابراہیم آزادؔ صاحب سے میری ملاقات کا واقعہ جو مجھے یاد ہے ذرا ذرا کچھ یوں ہے۔ میری چار پانچ سال کی عمر ہو گی جب ہم اپنی والدہ محترمہ رقیبہ خاتون کے ہمراہ فرید کوٹ اپنے نانا عزیز احمد کے پاس گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے بیکانیر جانے کا پروگرام بنایا گیا یا پہلے سے طے شدہ تھا۔ بیکانیر میں میری خالہ محترمہ عتیقہ خاتون رہتی تھیں۔ خالہ عتیقہ جناب خالوخلیل احمد (جومعروف نعت گو شاعر اور مشہور وکیل تھے )سے رشتۂ ازدواج میں منسلک تھیں۔ خالو خلیل احمد شیخ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب کے ساتویں صاحبزادے تھے جو آزاد منزل بیکانیر میں سکونت پذیر تھے۔ ہم لوگ نیچے کی منزل میں مقیم تھے۔ دوسری منزل پر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک روز والدہ صاحبہ خاص طور پر اپنے ہمراہ دوسری منزل پر لے کر گئیں۔ خاص ہدایت کے ساتھ کہ ادب کے ساتھ خاموش بیٹھنا وغیرہ وغیرہ۔ وہاں سب لوگ مؤدب انداز میں بیٹھے بات چیت میں مصروف تھے۔ ایک بزرگ ہستی نے بڑے شفقت و محبت کے ساتھ مسکراتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ پھیرا یہ یقیناً قبلہ حضرت ابراہیم آزادؔ صاحب ہی تھے۔

خالہ عتیقہ کا گھر صاف ستھرا رہتا تھا۔ باورچی خانہ میں جالی لگی ہوئی تھی۔ جالی کا دروازہ تھا جو مجھے اچھا لگتا تھا۔ مرغیاں پلی ہوئی تھیں ان کا جگہ جگہ فارغ ہو جانا نہایت بد تمیزی لگتی تھی۔ سوچتا تھا ان کی مرغیوں کو ایک طرف یہ کام کرنا کیوں نہیں آتا۔ گھر میں داخل ہونے کے لیے معمول کے مطابق دروازہ تھا۔ دوسری جانب ایک بہت بڑا اور اونچا محراب نما کھلا ہوا راستہ تھا جہاں سے اونٹ پانی سے لدی ہوئی پکھالوں سمیت اندر داخل ہوتے تھے ساتھ ہی بہت بڑا حوض تھا جس میں پکھالوں کا پانی انڈیل دیا جاتا تھایہ کام اونٹ کے کھڑے کھڑے ہی ہوتا تھا۔ آزاد منزل میں تہہ خانہ بھی تھا ہمیں وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی اور ڈرایا گیا تھا کہ وہاں بھوت رہتے ہیں۔ سڑک کی جانب کھڑکی دروازے تھے۔

جہاں تک مجھے یاد ہے ہمارا رابطہ آزاد منزل بیکانیر سے مستقل رہتا تھا۔ قبلہ محمد ابراہیم آزادؔ صاحب میرے والد احتشام احمد صدیقی کے سگے چچا تھے اور والدہ محترمہ رقیبہ خاتون کے سگے تایا۔ والد صاحب جناب ابراہیم آزادؔ صاحب کا بہت احترام کرتے تھے۔ والد بزرگوار بھی جناب پیر سید جماعت علی شاہ صاحب سے بیعت تھے اس طرح آزادؔ  صاحب اور میرے والد پیر بھائی بھی تھے والد صاحب کی چھوٹی ہمشیرہ (میری چھوٹی پھوپھی) جنابہ خدیجہ کی شادی جناب لئیق احمد پھو پھا سے ہوئی تھی۔ لئیق پھوپھا جناب ابراہیم آزادؔ صاحب کے پانچویں نمبر کے صاحبزادے تھے جو آزاد منزل بیکانیر میں مقیم تھے۔ میرے ماموں اور ان کی اولاد بھی آزاد منزل کے باسی تھے۔ میرے بڑے بھائی جناب احترام احمد صدیقی صاحب کا رشتہ پھوپھا لئیق اور پھوپھی خدیجہ کی بڑے صاحبزادی حامدہ خاتون سے طے تھا۔ اس طرح روابط اور قرابتوں کے کئی سلسلے تھے جو باہم ملاقاتوں اور خط و کتابت کے ذریعے مدتوں خاندانوں میں قائم تھے۔ نعتیہ مشاعرے، محفلیں، جشنِ عید میلاد النبی وغیرہ کا سالانہ اہتمام آزاد  منزل بیکانیر کی منفرد خصوصیت تھی۔ دعوت نامے، تذکرے حال احوال چلتے رہتے تھے۔ میرے بڑے بھائی جناب احترام احمد صدیقی صاحب کی بھی ان میں شرکت ہوتی رہتی تھی۔ آزادؔ صاحب کا دیوان آگرہ کی مرتضائی پر یس میں ۱۹۳۲ء میں چھپا جس کا اہتمام پریس کے مالک جناب قمر الدین خان صاحب نے کیا۔ جناب قمر الدین خان صاحب کی بیگم سے ہماری قریبی عزیز داری بھی ہے۔

ابراہیم آزادؔ صاحب سے متعلق ایک واقعہ جو زبانی در زبانی سنا ہے کہ مہاراجہ بیکانیر کا مقدم جو لندن میں زیر سماعت تھا۔ حضرت ابراہیم آزادؔ صاحب اس مقدمے کی پیروی کے لیے لندن تشریف لے گئے اور مقدمہ جیت گئے۔ راجہ بیکانیر اس پر اتنا خوش ہوا کہ حضرت صاحب کی واپسی پر از خود انہیں لینے پہنچا اور اپنے کندھوں پر بٹھا کر اپنے محل تک لایا۔ سبحان اللہ کیا شان تھی۔

ایک روز بیکانیر سے خط موصول ہوا غالباً پوسٹ کارڈ تھا والد صاحب پڑھ کر آبدیدہ ہو گئے فرمایا خاندان کے سب سے بڑی بزرگ ہستی ہم سے جدا ہو گئی ؎

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ

آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی تھے

 

                رہبرؔ صمدانی : ایڈیٹر سہ ماہی ’فروغِ نعت‘ ملتان

 

رہبرؔ صمدانی کا آزادؔ  صاحب سی وہی رشتہ اور تعلق ہے جو میرا آزادؔ صاحب سے وہ بھی آزادؔ صاحب کے پڑ پوتے ہیں۔ یہ خلیل احمد مرحوم کے صاحبزادے اور جناب تابشؔ صمدانی کے بڑے بیٹے ہیں۔ سخن فہمی کا    تسلسل صحیح معنوں میں اگر موجود ہے تو آزادؔ  صاحب کے بیٹے جناب خلیل صمدانی سے ہے، ان کے بیٹے تابشؔ صمدانی اور اب رہبرؔ  و سرورؔ سخن فہم ہیں۔ آزادؔ صاحب کی نعت نگاری پر اپنے خیالات اظہار ان الفاظ میں کیا۔ ’ مجھے بات کا آغاز یہیں سے کرنا چاہیے کہ یہ پروردگارِ عالم کا خاص کرم ہے کہ میری شناخت کا ایک حوالہ جناب محمد ابراہیم آزادؔ صمدانی ؒ نقشبندی مجدی خلیفۂ مجازسیدنا پیر جماعت علی شاہ نقشبندی مجدی سے بھی بنتا ہے۔ جناب آزادؔؒ کے ایک صاحبزادے جناب خلیل احمد صمدانی میرے دادا صاحب ہوتے ہیں جو خود بھی ایک صاحب طرز معروف نعت گو شاعر تھے۔ جناب خلیل صمدانی کا نعتیہ مجموعۂ کلام ’’گلزار خلیل‘‘ کے نام سے ۱۹۶۸ء میں جے پور راجستھان (بھارت) سے شائع اشاعت پذیر ہوا۔ جناب خلیل صمدانی کو اپنے والدِ گرامی جناب ابراہیم آزادؔ سے شاعری ورثے میں ملی۔ جناب خلیل صمدانی کے بڑے صاحبزادے یعنی میرے والدِ گرامی جناب طفیل احمد تابشؔ صمدانی جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور ایل ایل بی کی ڈگری ملتان آ کر حاصل کی۔ آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہاں فضا  کو نعتِ نبی سے معمور پایا۔ جس کا اظہار آپ کے اس شعر سے ہوتا ہے ؎

جس دن سے قدم رکھا ہے ہستی میں عدم سے

وابستہ ہوں میں سایۂ دامانِ کرم سے

جناب تابشؔ صمدانی کے دو مجموعہ ہائے نعت ’’برگ ثنا‘‘ اور ’’مرحبا سیدی‘‘ ملتان سے شائع ہوئے۔ جنابِ آزادؔ کی شاعری پر گفتگو کرنے کے لیے یہ تمہید ضروری تھی کہ جناب ابراہیم آزادؔ کی نعتیہ شاعری کا یہ تسلسل پہلی نسل سے ‘ دوسری نسل‘ اور دوسری نسل سے تیسری نسل ‘ اور تیسری نسل سے چوتھی نسل تک جاری و ساری ہے جو خلیل صمدانی سے تابشؔ صمدانی اور تابشؔ صمدانی سے رہبرؔ صمدانی اور سرورؔ صمدانی تک پہنچی اور اب میں جناب آزادؔ کی نعتیہ شاعری پر اپنی رائے عرض کرتا ہوں۔

میرے آباء و اجداد نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو تا قیامت رکھنے کے لیے صنفِ نعت ہی کا انتخاب کیا اور محسنِ انسانیت حضرت محمد مصفطیٰﷺ کو اپنا مرکز و محور تسلیم کیا۔ میرے آباء و اجداد کی ہر نعت اور نعت کا ہر شعر ادب اور مقامِ ادب سے پوری طرح آگہی رکھتا ہے اور مکمل حالتِ بیداری میں منازلِ نعت کی جانب گامزن رہا۔ جناب آزادؔ کے ہاں نعت کہنے کا ایک خاص انداز اور ایک خاص کیفیت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ آپ نے حبُ رسول پاکﷺ کو اپنے دل و دماغ میں اس حد تک رچا بسالیا کہ ہر شعر سے ان کی حضور پر نور سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ یقیناً وہ نعت کہتے ہوئے خود کو حضوری و حاضری کی کیفیت میں محسوس کرتے ہوں گے۔ ، پروردگار عالم آپ کی مرقد پر رحمتوں کا نزول فرمائے۔ کیا خوب فرماتے ہیں ؎

تمہیں نورِ خدا سمجھے ، تمہیں خیر البشر جانا

تمہاری شان کو پھر بھی نہ اے والا گہر جانا

شبِ معراج تیرا بن کے مہماں عرش پر جانا

مقدر تیری امت کا تھا پستی سے ابھر جانا

کس قدر پاکیزہ طلب ہے ؎

زباں سے نبی ؑ کی ثنا چاہتا ہوں

میں کیا چیز ہوں اور کیا چاہتا ہوں

فنا جس کو ہے وہ بقا کب بقا ہے

بقا جس کو ہے وہ فنا چاہتا ہوں

جہاں تک جنابِ آزادؔ کے اسلوب کا تعلق ہے میرا دعویٰ ہے اور میں پورے اعتبار و اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ نعت گوئی کی صداؤں کے ہجوم میں ان کے ہاں زبان و بیان کی اتنی نکتہ  طرا ز یاں، اتنی لطافتیں اور اس قدر وسعتیں ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا آسان نہیں، ہر شعر اور ہر مصرعے میں ایک نئی مہک، تازگی، دلکشی اور توانائی ہے۔ لفظی تراکیب کی ایجاد اثر آفرینی آج بھی اپنے دامن میں وسعتیں لیے ہوئے ہیں جیسے یہ ۱۳۵۰ہجری نہیں ۱۹۳۲ء کی شاعری نہیں آج کی شاعری ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دور میں اس قدر جدید شاعری اور وہ بھی صنفِ نعت میں پاکستان میں جب کبھی نعتوں کو یکجا کرنا ضروری سمجھا گیا تو جناب ابراہیم آزادؔ، جناب خلیل صمدانی اور جناب تابشؔ صمدانی کے نعتیہ اشعار متعدد بار حوالوں کے طور پر تحریر کیے جائیں گے۔ جناب آزادؔ کے چند اشعار عنوانات کے ساتھ ملاحظہ کیجئے ؎

امیدِ شفاعت کے تناظر میں

مہر باں اس پہ نہ کیوں حشر میں رحماں ہو گا

نام لیوا جو ترا شافعِٔ عصیاں ہو گا

اشک ندامت

وہاں اشکِ ندامت موتیوں میں تولے جاتے ہیں

خدا کے واسطے اے چشمِ تر دامن کو بھر جانا

التماس قیام

رہنما تو ہو تو پھر خضر کی حاجت کیا ہے

تو نے پہنچا یا ہمیں راہ دکھانا کیسا

تصورِ حضوری و حاضری

نگاہیں روضۂ شہہ سے نہیں آئیں میں آیا ہوں

الجھ کر جالیوں سے رہ گیا تارِ نظر میرا

نسبت حضرت حسان بن ثابتؓ

تم پہ ہے حضرت حسانؓ کا سایا آزاد

نعت گوئی میں بتا تا ہے تمہارا انداز

 

 

 

 

                باب۔ ۴

 

خاندان شیخ محمد ابراہیم آزادؔبیکانیری

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا تعلق خاندان باری بخشؒ سے ہے جو خاندان حسین پور کے نام سے بھی معروف ہے۔ آزادؔ صاحب نے اپنے نعتیہ دیوان ’’ثناء محبوب خالق‘‘، دیوان آزادؔ طبع شدہ ۱۹۳۲ء میں لکھتے ہیں کہ ’ہمارے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ جو ہندوستان کے ایک حکمراں خاندان سے تھے جو ۱۱۴۸ بکرمی (۱۰۸۸ء) میں اسلام سے مشرف ہوئے پہلے آپ کا نام بیر بل تھا بعد اسلام لانے کے باری بخش ہوا ‘ (دیوانِ آزادؔ صفحہ ۲۷۵)۔ بکرمی سے مراد سنہ بکرما جیت ہے، یہ ہندوؤں کے سال اور مہینوں کا نظام ہے جو ہندو راجہ بکر ما جیت کی وفات کے دن اور مہینے سے شروع ہوتا ہے۔ معروف مورخ محمد قاسم فرشتہ اپنی تصنیف ’’تاریخ فرشتہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’ بکر ما جیت کا تعلق ’پوار‘ قوم سے تھا، یہ طبیعت کا بہت نیک تھا جب اس کی عمر پچاس برس ہو ئی تو اس نے غیبی رہنمائی سے سپہ گری کے میدان میں قدم رکھا اور کچھ ہی عرصہ میں نہروالا اور مالوہ اس کے قبضہ میں آ گئے، عنان حکومت سنبھالتے ہی اس نے انصاف کا بول بالا کیا، ایک لڑائی میں بکرما جیت کو شکست ہوئی اس کے بعد راجہ بھوج نے عنان حکومت سنبھالا ( تاریخِ فرشتہ؍ محمد قاسم رشتہ،ص ۷۳)۔ دیوان باری نخشؒ کا زمانہ۱۱۴۸ بکرمی یا ۱۰۸۸ء تھا۔ یہ خاندان ہندوستان کے علاقہ راجستھان میں ریاست بیکا نیر کے مقام پر آباد تھا۔ اس وقت یہ علاقہ بھٹنیر (ہنو مان گڑھ) کہلاتا تھا۔ پندرھویں صدی میں یہ سر زمین راجپوتوں کے زیر اثر تھی۔ اسی قوم کے ایک راٹھور راجپوت ’سردار راؤ بیکا جی نے جو حاکم اعلیٰ مارواڑ (جودھپور) کا چھٹا بیٹا تھا نے اپنی قوم کی حمایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۴۶۵ء میں بھٹنیر ھنو مان گڑھ پر فوج کشی کا آغاز کیا، یہ سورش کئی سال جاری رہی، اسے فوجی قوت کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی حمایت بھی حاصل تھی چنانچہ اسے اپنے مقصد میں کامیابی ہو ئی اور ۱۴۸۸ء میں اس نے اس علاقہ پر اپنی حکمرانی کا باقاعدہ آغاز کیاساتھ ہی اس علاقے کا نام اس نے اپنے نام کی مناسبت سے ’’بیکانیر‘‘ رکھا۔ راؤ بیکا جی کا نتقال ۱۵۰۴ء میں ہوا۔

غزنوی حکمراں نے جب بھٹنیر پر حملہ کیا تو اس خاندان کے جدِ امجد بھٹنیر (موجودہ بیکانیر) سے دہلی منتقل ہو گئے اور دہلی سے منسلک شہر کھڈی ضلع شکار پور کو اپنا مسکن بنایا غزنوی حکمراں کی جانب سے اس خاندان کے مورث اعلیٰ کو کھڈی ضلع شکارپور کا دیوان مقرر کیا گیا۔ اس طرح یہ خاندان ابتدائی طور پر بیکانیر سے کھڈی ضلع شکار پور منتقل ہو گیا۔

محمد حنیف حسین پوری جنہوں خاندان حسین پور کا شجرہ پہلی مر تبہ ۱۹۰۵ء میں بعنوان ’’شجرہ خاندان دیوان باری بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ ساکن کہہ دی (شکار پوری)‘‘ مر تب کیا لیکن یہ شجرہ ۱۹۲۵ء میں طباعت پذیر ہوا۔ شجرہ کے صفحہ نمبر ۲۵ پر خاندان باری بخش کے بارے میں آپ نے تحریر فر مایا۔

یہ خاندان روز اول سے کائیتہ سے موسوم ہے اور چونکہ ابتداسے یہ خاندان بہٹنیر میں رہا اس لیے ایکڑی وال بہٹناگر کے نام سے موسوم ہوا جس زمانہ میں سلطان محمود غزنوی کا بہٹنیر پر حملہ ہوا (جو اس وقت ریاست بیکانیر ہنومان گڑھ کے نام سے مشہور ہے )اس خاندان کے جد امجد بحالت پریشانی بہٹنیر سے روانہ ہو کر دہلی پہنچے اس وقت دھلی میں مہاراجہ پال عرف جیون سنگھ تورمار خاندان کی حکومت تھی، حکومت کی جانب سے ہمارے خاندان کے جد امجد کو کہڈی (شکارپور) جو اس زمانہ میں ایک صوبے کی حیثیت میں تھا دیوان مقرر کر کے بھیجا گیا۔

کہدی (شکار پور) کا تاریخ سے تعلق ہے اس کی بابت مولف، مصنف گزیٹیر ڈسٹرکٹ مظفر نگر باب پنجم کے صفحہ ۱۰۵ پر بیان کرتا  ہے کہ یہ ضلع پانڈوں کی حکومت ہستنا پور کا حصہ تھا اور لکھتا ہے کہ جب چھٹی صدی عیسوی میں ہیون شانگ چینی سیاح ہندوستان میں آیا تو وہ اس علاقے سے گزرا اس وقت یہ ضلع تھانیسراور سانہاکی حکومت کا حصہ شمار ہوتا تھا جو مرکزی حکومت قنوج کی باج گذار تھیں۔ بارہویں صدی عیسوی میں یہ ضلع تین چھوٹی چھوٹی ریاستوں کہڈا، کہڈی ( شکار پور)اور بگھرہ میں منقسم ہو گیا جو دہلی کے راجہ پرتھوی راج چوہان کے ماتحت تھیں۔ گزیٹیر کے مطابق اس ضلع کے ابتدائی آباد دار راجپوت، تگا اور برہمن تھے۔

مدت تک یہ خاندان اپنے فرائض اس جگہ ادا کرتا رہا اور آخر زوال سلطنت رائے پتھورا پر مستقل طور پر اس جگہ مقیم ہو گیا چنانچہ اس خاندان کے دیوان گڈو مل داس کی اولاد اب تک اس جگہ قیام پذیر ہے اور جائیداد و جاگیر کی مالک روز اول سے چلی آ رہی ہے۔

دیوان گڈو مل داس کے چھوٹے بھائی دیوان بیربل صاحب ۱۱۴۵ بکرمی مشرف با اسلام ہوئے اور باری بخش کے نام سے موسوم ہو کر سکونت گزیں رہے اپنی جائیداد اور معانی پر قابض رہے۔

بہ عہد شہاب الدین شاہجہاں حسین خانصاحب میر شکار کو ایک وسیع جاگیر انعام میں ملی جس کو ممدوح نے آباد کر کے قصبہ حسین پور نام رکھا اور چونکہ ان کو انتظام جائیداد اور ریاست کے لیے ایک صاحب تجربہ و عقل و فرزانہ کی ضرورت تھی اس لیے آپ کی نظر مورث عبدالقدوسؒ پر پڑی بڑے اصرار کے بعد خانصاحب موصوف عبدلقدوس صاحب کو باعزاز حسین پور لائے اور عہدہ دیوان گیری و قضا پر متعین کیا اور اعزاز پالکی و معانی وغیرہ جو اس زمانہ میں دستور شاہی تھا آپ کے لیے معین کیا چنانچہ آپ معہ اہل و عیال شکار پور سے منتقل ہو کر قصبہ حسین پور میں مقیم ہو گئے اور اس وقت سے یہ خاندان حسین پوری مشہور ہو گیا اور اسی لیے عبدالقدوس صاحب سے ہی نمبر سلسلہ نسب شمار کیا جاتا ہے علاوہ جائیداد شکارپور جس وقت سے یہ خاندان حسین پور آیا قصبہ حسین پور میں ہی بہ حیثیت معانی دارو مالک آراضی زمیندار کہلاتا چلا آتا ہے یہ تحریر جناب مشکور احمد اور خالد پرویز کے مر تب کر دہ شجرہ خاندان حسین پور طبع شدہ ۱۹۹۰ء میں شامل ہے۔ (شجرہ خاندانِ حسین پور؍ مشکور احمد و خالد پرویز، ص:س)

خاندان باری بخشؒ کے بارے میں جناب محمد حنیف کی تحقیق بہت واضح ہے اور اُس وقت کے حالات پر ابتدئی معلومات فراہم کر تی ہے۔ اس تحقیق سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ اس خاندان کے جدِ امجد ہنومان گڑھ (بیکانیر) سےد ہلی منتقل ہوئے جہاں پر تومار خاندان کی حکومت تھی لیکن پورے ہندوستان پر غزنوی خاندان حکومت کر رہا تھا۔ اس خاندان کے جدِ امجد کو کہڈی (شکار پور) کا دیوان مقرر کیا گیا، یہ تقرری یقیناً دہلی کے حکمراں نے خاندان غزنوی کی مرضی سے ہی کی ہو گی۔ یہ بات واضح نہیں ہو ئی کہ اس خاندان کے سر براہان ھنومان گڑھ (بیکانیر ) سے دہلی منتقل ہونے کا سبب کیا تھا جب کہ وہ اس مقام پر برس ہا برس سے سکونت اختیار کیے ہوئے تھے۔ خیال ہے کہ دہلی کے حاکم کو کھڈی (شکار پور) جو ایک ضلع کی حیثیت رکھتا تھا کے بہتر انتظام کے لیے ایسے شخص کی ضرورت تھی جو زیادہ عقل و سمجھ رکھتا ہو، علم و فضل کا مالک ہو اور انتظامی امور کو احسن طور پر چلاسکتا ہو۔ چنانچہ اس کی نظر خاندان باری بخش کے جدِ امجد پر پڑی جو از خود حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے ان میں وہ تمام خوبیاں اور صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہوں گی جو دہلی کے حکمراں چاہتے تھے۔

کھڈی (شکار پور ) کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس علاقہ کو ایک صوبے کی حیثیت حاصل تھی۔ اس سے قبل یہاں پانڈوں کی حکومت تھی اور یہ علاقہ ہستاپور کا حصہ تھا۔ چھٹی صدی عیسویں میں ضلع تھانیسر اور سہناحکومت کا حصہ شمار ہوتا تھا۔ بارھویں صدی عیسویں میں یہ ضلع چھوٹی ریاستوں کہڈی (شکار پور) اور بگھرہ میں منقسم ہو گیا۔ اس ضلع کے بانیوں میں راجپور نگا اور برہمن شامل تھے۔

پانڈوؤں اور کوروؤں کے بارے میں مورخ فرشتہ اپنی کتاب تاریخ فرشتہ میں لکھتا ہے کہ ’’دواپریگ کے نصف آخر میں ہستاپور میں ایک راجہ تھا جو ذات کا کھتری اور نام کا ’بھرت‘ تھا اس کی اولاد سات نسلوں تک حکومت کر چکی تو آٹھویں نسل میں اس خاندان میں لڑکا پیدا ہوا جو بڑا ہو کر راجہ کور کے نام سے مشہور ہوا۔ ہندوستان کا مشہور شہر ’کو رکھیت‘ (تھانیسر) اسی راجہ کے نام پر آباد کیا گیا اور اس کی اولاد نے کوروؤں کے نام سے شہرت پائی۔ تاریخ فرشتہ :ص۔ ۴۹)اس تحقیق سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ خاندان باری بخش ہندوستان میں غزنوی عہد میں سلطان محمود غزنوی (۹۹۷ء۔ ۱۰۳۰ء) کے دور حکومت کے بعد مشرف بہ اسلام ہوا نیز اسیِ زمانے میں یہ بیکانیر سے کہہ دی (دہلی ) منتقل ہوا اور وہاں پر بھی اس خاندان کو حکمرانی میں شریک کیا گیا۔

 

                 خاندان باری بخش (حسین پور) اور سکھ مَت

 

تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ خاندان باری بخش کے مشرف بہ اسلام ہونے سے قبل اس خاندان کے لوگ جو بنیادی طور پر راجپوت تھے اپنے نام کے ساتھ’ سنگھ ‘جیسے (راجہ سنگھ، صورت سنگھ، تخت سنگھ، سمت سنگھ)، ’چند‘ جیسے (شیر چند، چندو چند) وغیرہ کے الفاظ استعمال کیا کر تے تھے، اس حوالے سے بعض کم علموں نے خیال کیا اور اسے عام بھی کر دیا کہ اس خاندان کے احباب سکھ مت سے تعلق رکھتے تھے، اس کی وجہ ناموں کے ساتھ لفظ سنگھ یا چند لگا نا تھا، حقیقت اس کے برعکس ہے، خاندان باری بخش کے دشمنوں نے اس قسم کے غلط بیانی محض خاندان کے لوگوں کو نیچا دکھانے کی غرض سے کی، اُس دور میں ریاست راجپوتانہ کے راجپوت اپنے نام کے ساتھ لفظ ’سنگھ‘ اس وجہ سے لگا یا کرتے تھے کہ یہ لفظ مذکر ہے جس کے لغوی معنی’ شیر، بہادر شخص، شجاع ‘کے ہیں، اس لفظ کی صفت ’نہایت اعلیٰ اور بہترین‘ ہے۔ دوسری بہت واضح دلیل اور تاریخی حقیقت یہ ہے کہ سکھ مت کے بانی گرو نانک سے پہلے سکھ مذہب کا وجود نہیں تھا، اس کے بانی گرو نانک ۲۰ اکتوبر۱۴۶۹ ء میں لاہور کے نزدیک گاؤں تلوندی (Talwandi)، ننکانا صاحب میں پیدا ہوئے گرو نانک دیوجی نے سکھ مَت کی بنیاد ۱۵۰۰ء میں رکھی اور اپنی تعلیمات کا آغاز کیا اس کے نتیجے میں گرو نانک دیوجی سکھ مت کے پہلے گرو ہوئے :

Web site: theworldofgrunanak.com/gronanak (16.10.2012)

گرو نانک کا انتقال ۱۵۳۸ء میں ہوا۔ خاندانِ باری بخش نے گرو نانک کی پیدائش سے چار سو بارہ(۴۱۲) سال قبل ۱۰۸۸ء میں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ ہندوستان میں اس وقت غزنوی عہد کا آغاز ہو چکا تھا۔ سبکتگین کے بعد محمود غزنوی کی حکمرانی بھی ختم ہو چکی تھی لیکن اس کی حکمرانی مثبت اثرات پورے ہندوستان میں موجود تھے۔ یہ دور تبلیغِ دین اور اولیاء اکرم اور صوفیائے عظام کے حوالے سے بھی تاریخِ اسلام کا سنہری دور تصور کیا جاتا ہے۔ جید اولیاء اور مبلغین اس دور میں پیدا ہوئے اور برصغیر پاک و ہند کی سرزمین میں بسنے والوں کو دین اسلام کی جانب راغب کرنے کا فریضہ احسن طور پر انجام دیا۔

 

                خاندان باری بخش (حسین پور) پر اولیائے عظام کی تعلیمات کے اثرات

 

خاندانِ باری بخش کے جدِ امجد جب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو یہ وہ دور تھا کہ جب برصغیر پاک و ہند کی سر زمین اسلام کے بلند مرتبہ بزرگوں، عظیم مبلغوں، اولیائے اکرم اور صوفیائے عظام کی تعلیمات، تبلیغ دین، اشاعت اسلام اور خدماتِ جلیلہ سے منور تھی۔ اسلام کے ان مبلغوں کی تعلیمات اور تبلیغ کے نتیجے میں پیغام حق پورے ہندوستان میں عام ہو رہا تھا بڑی تعداد میں لوگوں نے دین اسلام اختیار کیا۔ خاندان باری بخش کے بزرگ یقیناً اسلام کے ان صوفیائے عظام کی تعلیمات سے متاثر ہوئے۔ ۱۰۸۸ء سے کچھ عرصہ قبل اور بعد کے حالات واقعات اور اس دور کے بزرگان اسلام کی تعلیمات کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ دور تبلیغ اسلام کا دور تھا۔ اس زمانے میں بڑی تعداد میں اسلام کی تعلیمات کو قبول کیا گیا۔

 

                 حضرت سید علی ہجویریؒ المعروف بہ داتا گنج بخشؒ

 

حضرت سید علی ہجویریؒ المعروف بہ داتا گنج بخش ۴۰۰ھ مطابق ۱۰۰۹ء میں سلطان محمود غزنوی کے عہد حکمرانی میں غزنہ (غزنی) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا زمانہ ۱۰۰۹ء تا ۱۰۷۲ء کا ہے۔ سلطان محمود غزنوی کا عہد دارالسلطنت غزنہ کے عروج کا زمانہ تھا۔ آپ نے لاہور شہر کو اپنا روحانی مرکز و منبع ضرور بنایا لیکن آپ کی تعلیمات کی کرنیں برصغیر کے طول و عرض میں پھیلیں۔ آپؒ کی تبلیغی کوششوں سے ہزاروں غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپؒ کی تبلیغی کاوشیں تاریخ اسلام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ آپؒ کی تعلیمات کے نتیجے میں بڑی تعداد میں نہ صرف بتوں کے پجاریوں نے اسلام قبول کیا بلکہ ہندو برہمن بڑی تعداد میں اور تیزی کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر حافظ محمد ثانی نے اپنے مضمون ’حضرت سید علی ہجویری‘ (شائع شدہ روزنامہ جنگ کراچی یکم جنوری ۲۰۱۳ء) میں لکھا ہے کہ’ لاہور کا ہندو گورنر ’رائے راجو آپ کی تعلیمات، زُہد و تقویٰ، اخلاقِ حسنہ کے نتیجے میں تائب ہوا اور آپ کے دستِ حق پر اسلام قبول کیا، یہی نہیں بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد باقی تمام عمر آپؒ کے زیر سا یِہ بسر کر دی اور ’شیخ ہندی‘ کے لقب سے جانا گیا۔ ڈاکٹر سعید احمد صدیقی نے اپنے ایک مضمون(شائع شدہ روزنامہ جنگ کراچی یکم جنوری ۲۰۱۳ء) میں ہندو اس کالر’ داس وڈیرا‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’آپؒ کے عہد مبارک میں لاہور کے گوجروں نے آپؒ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا اور دل سے آپؒکے معتقد ہو گئے ‘‘ حضرت سید علی ہجویری حجتہ الا سلام امام غزالی کے ہم عصر بھی تھے۔ امام غزالی ۱۰۵۸ء میں پیدا ہوئے اور۱۱۱۱ء میں وصال ہوا۔ آپ کا نام ’محمد‘، لقب ’حجتہ الا سلام، عرفیت ’غزالی‘ تھی۔ فراساں کے اضلاع طاہران میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد روئی فروش تھے۔ اس نسبت سے ان کا خاندان غزالی کہلایا کیونکہ روئی کاتنے والے کو عربی میں غزالی کہتے ہیں۔ آپ نے سینکڑوں تصانیف تخلیق کیں۔

 

                سید ناغوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ

 

سید ناغوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ۱۰۷۸ء میں ایران کے جنوبی ساحلی قصبے گیلان (جیلان) میں پیدا ہوئے اور ۱۱۶۶ء میں آپ کا وصال ہوا۔ آپؒ نے چالیس برس دین کی علمی و روحانی خدمت انجام دی۔ آپ جب وعظ دیا کرتے تو چارسو لوگ آپ کا وعظ قلمبند کرتے جاتے تھے۔ آپ کی تعلیمات اور تبلیغ کے اثرات بر صضیر پاک و ہند پر نمایاں رہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی تعلیمات اور تبلیغ اسلام کے شباب کے دور میں ہی خاندان باری بخش کے بزرگ ۱۰۸۸ء میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ ان اولیائے عظام کے بعد آنے والے مبلغین اور صوفیائے اکرم خواجہ معین الدین چشیؒ (۱۱۴۴ء۔ ۱۲۳۶ء)، اور فرید الدین گنج شکرؒ (۱۱۷۳ء۔ ۱۲۶۸ء) کی تعلیمات سے بھی یہ خاندان مستفیض ہوتا رہا۔ حضرت شیخ عبدالقادر محی الدین جیلانیؒ کی شان میں آزادؔ صاحب نے ایک منقبت بھی کہی اس کے دو اشعار ملاحظہ ہوں ؎

قتیل رنگِ یزدانی محی الدین جیلانی

شہیدِ ناز سبحانی محی الدین جیلانی

علیم علمِ عرفانی محی الدین جیلانی

خبیر راز پنہانی محی الدین جیلانی

خاندان باری بخش کے بزرگوں پر دین اسلام کے ان اولیاء اور صوفیا اکرام کا فیض اور ان کی خصوصی عنایت نے انہیں راجپوتانہ سے دہلی اور پھر دہلی سے ایسے خطے پر لے گئی جسے علماء اور علم و دانش کی سر زمین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ہندوستان کا ضلع مظفر نگر۔ اس سر زمین نے علماء دین، صوفیائے اکرام اور فقہائے اسلام اور اہل دانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی، پائے کے سیاست داں پیدا  کیے ہیں، اعلیٰ منتظمین، معلمین، منصفین و مصنفین کی ایک بڑی جماعت پیدا کی ہے، ان اعلیٰ شخصیات کی علمی، ادبی، سماجی اور سیاسی خدمات کو عالمی سطح پر معتبر حیثیت حاصل ہے۔

 

                 خاندان باری بخش (حسین پور) عہد غزنوی میں

 

دسویں صدی عیسوی میں عباسی دور خلافت زوال پذیر ہوئی تو نواحی ریاستوں کے حکمرانوں نے خودمختاری اختیار کرنا شروع کر دی۔ بخارا کے حاکم اسماعیل سامانی کے ایک ترک امیر الپ تگین نے اختلافات کے باعث ۹۶۲ء میں سلطنت غزنہ کی بنیاد رکھی اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ابو اسحٰق ابراھیم ۹۶۳ء میں سلطنت غزنوی کا حکمراں بنا اس نے تین سال حکومت کی۔ ۹۷۷ء میں الپ تگین کا داماد ’’سبکتگین‘‘ جو بذات خود ایک ترک تھا غزنہ کا حکمراں بنا اس نے کابل اور پشاور پر قبضہ کر لیا، لاہور کے راجہ ’’جیپال‘‘سے اس کی نہ بنی تو نوبت معرکہ آرائی تک پہنچی جس میں جیپال کو شکست ہوئی۔ ۹۹۷ء میں سبکتگین کا انتقال ہوا، ابتدا میں اس کا چھوٹا بیٹا اسمعیل غزنہ کا حکمران بنا جب کہ سلطان محمود غزنوی جو سبکتگین کا بڑا بیٹا تھا اپنے آپ کو غزنہ کی حکمرانی کا زیادہ حقدار سمجھتا تھا اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو سمجھایا کہ وہ غزنہ کی حکمرانی سے دستبر دار ہو جائے مگر آپس میں کوئی سمجھوتہ نہ ہوا معاملہ معرکہ آرائی تک جا پہنچا اسمعیل کو شکست ہوئی اور محمود نے غزنہ کی حکمرانی کا آغاز کیا۔ سلطان محمود غزنوی کا دور حکومت ۹۹۷ء تا ۱۰۳۰ء ہے سلطنت غزنوی میں افغانستان، خراساں، سبستان اور مشرقی ایران شا مل تھے۔

سلطان محمود غزنوی سکندر کی طرح اپنے وقت کا فاتح تھا، بہادر سپہ سا لار، مدبر، سخی اور مہم جو، اس نے ہندوستان پر ستر(۷۰) حملے کیے جب کہ اسے کسی ایک میں بھی ناکامی نہیں ہوئی جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ خاندان باری بخش اسی زمانے میں راجستھان کے علاقے بیکانیر میں آباد تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے پہلا حملہ ۱۰۰۱ء میں کیا، اس کی تمام تر مہمات میں سب سے اہم، بڑی اور معروف مہم کاٹھیاواڑ کے ایک مقام ’’سومناتھ‘‘ کی تسخیر ہے جو ۶ جنوری ۱۰۲۶ء کو عمل میں آئی۔ سلطان محمود غزنوی اپنی سپاہ کے ہمراہ اپنی اسی مہم کے سفر میں بیکانیر سے گزرا۔ مورخ مولانا سید ابو ظفر ندوی نے اپنے کتاب ’’مختصر تاریخ ہند ‘‘ میں اس مہم جوئی اور بیکانیر کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔

’’۴۱۶ھ (۱۰۲۵ء) میں اس کا مشہور حملہ سومناتھ (گجرات) ہوا، ملتان سے بیکانیر ہوتے ہوئے تین سو پچاس میل کا لق و دق ریگستانی میدان طے کر کے اجمیر اور آبو ہو کر گجرات پہنچا اور پھر سومناتھ پٹن فتح کر کے چھوٹے رن کے راستہ سے ریگستان کو طے کرتا  ہوا ملتان واپس آ گیا‘‘ (مختصر تاریخ ہند؍ سید ابو ظفر ندوی۔ ص۴۲)۔

سلطان محمود غزنوی کی فتح سومناتھ کا ذکر مورخ فرشتہ اس طرح کرتا ہے۔

’’راستے میں سلطان محمود غزنوی کو چند قلعے ملے اگر چہ ان قلعوں میں بہادر سپاہی بھی تھے اور سامان جنگ کی بھی فراوانی تھی لیکن محمود کے سر پر خدا کی رحمت کچھ اس طرح سایہ کیے ہوئے تھی کہ ان قلعوں میں بسنے والوں نے بجائے جنگ کر نے کے محمود کے خوف سے اپنے قلعے معہ تمام مال و اسباب محمود کے سپرد کر دئے ‘‘۔ (تاریخ فرشتہ۔ ص۱۳۰)

مندرجہ بالا واقعات سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ سلطان محمود غزنوی جب اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کے اقدامات کر رہا تھا تو اس دوران طاقت ور ریاستوں نے مقابلہ کے بعد اور کمزور حاکموں نے محمود غزنوی کے خوف اور طاقت کے آگے سر تسلیم کر لیا چنانچہ عین ممکن ہے کہ بیکانیر کے حکمراں کی حیثیت سے اس خاندان نے محمود غزنوی سے سمجھوتہ کر لیا ہو جس کے نتیجہ میں اس خاندان کو دہلی کے نزدیک کہڈی (شکار پور) جسے ایک صوبہ کی حیثیت حاصل تھی کا دیوان یا حاکم مقرر کر دیا گیا۔

محمود غزنوی کے بارے میں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ اس کے دور حکمرانی میں ہندو بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے، اس کے دور میں ایک واقعہ بھی ہندوؤں کو بہ جبر مسلمان بنانے کا اور امن کی حالت میں کسی مندر کو توڑنے کا نہیں ملتا۔ دوسری جانب بعض مورخین کا کہنا ہے کہ محمود غزنوی کٹر قسم کا مسلمان تھا اس کے دورِ حکمرانی میں سب سے زیادہ ہندو مسلمان ہوئے۔ مورخ فرشتہ محمود کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’ محمود غزنوی تمام دنیاوی اور دینی خوبیوں کا مجموعہ تھا اور اپنی دلیری، شجاعت، عدل و انصاف، انتظام سلطنت اور فتوحات کی بنا پر دنیا کے گوشے گوشے میں مشہور تھا اس کی معرکہ آرائیوں کا اصل سبب یہ تھا کہ اسلام اور انصاف کی برکات کا پھیلایا جائے اور ظلم و تعدی کی بنیادوں کو ڈھا دیا جائے اس کی بہادری اور جرات مندی اور استقلال کا یہ عالم تھا کہ میدان جنگ میں سیلاب کی طرح بڑھتا ہوا چلا جاتا اور کسی بلندی اور پستی کا مطلق خیال نہ کرتا ۔

انصاف کا یہ عالم تھا کہ دور و نزدیک ہر مقام پر اس کی انصاف پسندی کا بول بالا تھا‘ (تاریخ فرشتہ۔ ص۹۹)۔ محمود غزنوی کا انتقال ۳۰ اپریل ۱۰۳۰ء میں ہوا۔

گیارھویں صدی سے ستھرویں صدی تک اس خاندان کے لوگوں کے بارے میں معلومات کہیں درج نہیں۔ خاندان کے بعض احباب کا خیال ہے کہ خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت باری بخشؒ سے اٹھارہ پشت تک یہ خاندان دہلی کے نزدیک کہڈی (شکار پور) میں ہی مقیم رہا۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ  نے بھی قبلہ باری بخشؒ کے بعد اٹھارہ پشت نیچے اعلیٰ حضرت عبدالقدوس صاحب کا ذکر کیا ہے۔ شجرہ خاندان حسین پور میں جناب پٹواری محمود الحسن کی ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک تحریر شائع کی ہے جس میں آپ نے جناب عبد القدوس صاحب سے اوپر دیوان باری بخشؒ سے اٹھارہ پشتیں اور  دیوان باری بخشؒ سے راجہ کرن تک دس پشتوں کے نام تحریر کیے ہیں۔ شجرہ میں یہ بھی درج ہے کہ یہ تحریر چھپی ہوئی حالت میں جناب اظہر الحق صاحب سے موصول ہوئی ۔ (شجرہ خاندان حسین پور ص :ش )اس تحریر کے مطابق:

۱۔      راجہ کرن

۲۔      راجہ دلیپ

۳۔     راجہ سنگھ

۴۔      راجہ جانی

۵۔      چندو چند

۶۔       صورت سنگھ

۷۔      شیر چند

۸۔      تخت سنگھ

۹۔       سمت سنگھ

بیر بل (باری بخش)، جناب باری بخش سے جناب عبد القدوس صاب تک ۲۷ پشتوں کے سر براہان کے نام حسب ذیل ہیں۔

۱۰۔ باری بخش (۱۱۴۵ء بکرمی، ۱۰۸۸ء)

۱۱۔     پیر بخش

۱۲۔ بخش اللہ

۱۳۔ محمد بخش

۱۴۔ علیم الدین

۱۵۔ نصر اللہ

۱۶۔ لطف اللہ

۱۷۔ کریم الدین

۱۸۔ عبدالسمیع

۱۹۔ مبارک علی

۲۰۔ محمد سلیمان

۲۱۔     محمد ابراہیم

۲۲۔     عبدالصمد

۲۳۔    فیض اللہ

۲۴۔    نصر الدین

۲۵۔     قطب الدین

۲۶۔    رحیم الدین

۲۷۔    عبدالقدوس (۱۶۸۸ء مطابق۱۱۰۰ھ)

 

                دیوان باری بخش رحمۃ اللہ علیہ

 

یہ امر تحقیق شدہ ہے کہ حضرت قبلہ دیوان باری بخشؒ اس خاندان کے مورث اعلیٰ ہیں۔ آپ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ آزادؔ  صاحب نے بھی یہی لکھا ہے کہ ’’ہمارے مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ جو ہندوستان کے ایک حکمراں خاندان میں سے تھے ۱۱۴۸ بکرمی (۱۰۸۸ء) میں اسلام سے مشرف ہوئے پہلے آپ کا نام بیربل تھا بعد اسلام لانے کے باری بخش ہوا‘‘۔ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ کو اس خاندان کے محسن اور رہنما کا درجہ حاصل ہے۔ ہم ان کے جس قدر شکر گزار اور احسان مند رہیں کم ہے۔ ان کے ہی اس اقدام پر یہ خاندان آج ایک اللہ اور ایک رسولﷺ کے ماننے والوں میں شامل ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے جدِ امجد حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ کے اس عمل کو قبول فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔ ہمیں یہ سعادت عطا فرمائے کہ ہم ہمیشہ ان کی مغفرت کے طالب رہیں۔

 

                خاندان باری بخش (حسین پور) مغل حکمراں شاہجہاں کے عہد میں

 

مغل شہنشاہ شاہجہاں ۱۶۲۷ء۔ ۱۶۶۲ء مطابق (۱۰۳۷ھ۔ ۱۰۶۷ھ ) کے دور حکمرانی میں خاندان باری بخش نے ایک بار پھر کہہ دی (شکار پور) سے ہندوستان کے ضلع مظفر نگر ہجرت کی اس کی تفصیل آزادؔ صاحب نے اپنے خاندان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح لکھی ہے کہ ’’ ہمارے جدِ امجد اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش سے اٹھارہ پشت نیچے ہمارے جدِ اعلیٰ حضرت عبدالقدوس رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو قریباً گیارہ سوہجری(۱۶۸۸ء) میں اس حسین پور کلاں میں جس کو خاں صاحب حسین خان نے (ان کو سوندے خاں بھی کہتے تھے اور وہ شاہجہاں علیہ الرحمۃ کے میر شکار تھے آباد کیا تھا )آ کر آباد ہوئے ‘‘۔ آزادؔ صاحب اپنی تحریر میں آگے لکھتے ہیں کہ ’’اس حسین پور کے متعلق بارہ بستی ہے جس کو پٹھانوں کی بارہ بستی کہتے ہیں حضرت عبدلقدوس اس بارہ بستی کے قاضی مقرر ہوئے ‘‘۔ (دیوانِ آزادؔ: ص۲۷۶)

جناب محمد حنیف حسین پوری نے بھی اپنے مرتب کر دہ شجرہ میں اس بات کا ذکر کیا ہے آپ لکھتے ہیں ’’بہ عہد شہاب الدین شاہجہاں صاحب قرآن ثانی حسیں خانصاحب میر شکار کو ایک وسیع جاگیر انعام میں ملی جس کو ممدوح نے آباد کر کے قصبہ حسین پور نام رکھا اور چونکہ ان کو انتظام جائیداد اور ریاست کے لیے ایک صاحب تجربہ و عقل و فرزانہ کی ضرورت تھی اس لیے آپ کی نظر ہمارے مورث عبدالقدوس صاحب پر پڑی، بڑے اصرار کے بعد خانصاحب موصوف عبدلقدوس صاحب کو باعزاز حسین پور لائے اور عہدہ دیوان گیری و قضا پر متعین کیا اور اعزاز پالکی و معانی وغیرہ جو اس زمانہ میں دستور شاہی تھا آپ کے لیے معین کیا چنانچہ آپ معہ اہل و عیال شکار پور سے منتقل ہو کر قصبہ حسین پور میں مقیم ہو گئے اور اس وقت سے یہ خاندان حسین پوری مشہور ہو گیا اور اسی لیے عبدالقدوس صاحب سے ہی نمبرسلسلہ نسب شمار کیا جاتا ہے علاوہ جائیداد شکارپور جس وقت سے یہ خاندان حسین پور آیاقصبہ حسین پور میں ہی بہ حیثیت معانی دارو مالک آراضی زمیندار کہلاتا چلا آتا ہے ‘ (شجرہ خاندانِ حسین پور: ص:س)۔ یہ خاندان ۱۶۸۸ء تک خاندانِ باری بخش کہلایا۔ ابتداء میں راجستھان کی سرزمین پر اور پھر دہلی میں سکونت اختیار کی۔ ۱۶۸۸ء میں عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ کے حسین پور میں سکونت اختیار کرنے کے بعداس خاندان کے احباب نے حسین پورکو اپنی شناخت بنایا اور اس حوالے سے کچھ احباب اپنے آپ کو حسین پوری کہنے لگے۔

 

                عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ

 

حسین پور ضلع مظفر نگر میں عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ کو وہ تمام اعزازات حاصل تھے جو ایک صوبے کے گورنر کو حاصل ہوتے ہیں لیکن یہ اعزاز اور مرتبہ خاندان باری بخش کے لیے نئی بات نہیں تھی، یہ خاندان ابتدا ہی سے حکمراں خاندان رہا۔ ریاست بیکانیر جس خطہ زمیں پر قائم ہوئی وہ سر زمین اس خاندان کی حکمرانی میں رہی اور یہ خاندان وہاں بھی حکمرانی کرتا  رہا۔ جب یہ خاندان بیکانیر سے کھڈی( شکار پور) منتقل ہوا تو اس خاندان کے جد امجد کو شہر کا قاضی مقرر کیا گیا تقریباً پانچ سو سال بعد۱۶۸۸ء میں مغل شہنشاہ شاہجہاں کے زمانے میں اس خاندان کے جد امجد کو ایک بار پھر اپنے علاقے کو خیر باد کہنا پڑا اس بار بھی اس خاندان کے سر براہ کو حسین پور ضلع مظفر نگر کا قاضی مقرر کیا گیا۔ جناب عبدالقدوس بہترین تنظیمی صلاحیتوں کے مالک تھے آپ اعلیٰ درجہ کا علمی اور شعری ذوق بھی رکھتے تھے، آپ کو عربی، فارسی پر بھی کمال حاصل تھا۔ فارسی کے شاعر تھے۔

عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ کے ایک صاحبزادے عبد الصمد ہوئے۔ ان کے دو بیٹے تھے عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ اور محمد اسلم۔ کہا جاتا ہے کہ محمد اسلم صاحب کی اولاد نے ہندوستان کے شہر سہارنپور میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ان کی اولاد ہندوستان میں ہی ہے۔ آزادؔ صاحب جناب عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ کی چھٹی پشت میں ہوئے۔

 

                محمد افضل رحمۃ اللہ علیہ

 

عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ کے بعد عبدالصمد ہوئے ان کے بعد جناب محمد افضل ہوئے جن کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں ملتی۔ محمد افضل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آزادؔ صاحب نے لکھا ہے کہ دادا محمد افضل رحمۃ اللہ علیہ نیک سیرت، اچھے صفات کے مالک تھے۔ سخن فہم تھے۔ فارسی میں شاعری کیا کرتے تھے۔ حسین پور کی جامع مسجد میں ان کا فارسی کا ایک شعر لکھا ہوا ہے ؎

رقیب رابتواضع نگاہ باید داشت

سک گزندہ ہماں بہ کہ آشنا باشد

خاندان باری بخش کے بزرگ جناب عبد القدوس سے تین پشت نیچے کی تفصیل شجرہ خاندان حسین پور کے علاوہ آزادؔ صاحب کے دیوان میں بھی درج ہے آزادؔ صاحب نے ان بزرگوں کے شعری ذوق کے بارے میں بھی لکھا اور بعض بزرگوں کے اشعار بھی نقل کیے ہیں۔

محمد افضل رحمۃ اللہ علیہ کے تین صاحبزادے ہوئے۔ غلام علی، غلام حسن اور غلام حسین غلام علی کی اولاد میں الطاف حسن قریشی(اردو ڈائجسٹ)، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم (معروف عالم دین)، اظہار احمد، میاں محمد، محمد اسلم، میاں احمد، مشکور احمد، عاصم مشکور و دیگر ہوئے۔ غلام حسین صاحب کی اولاد پسری نہیں ہوئی۔ غلام حسن صاحب کی اولاد میں آزادؔ صاحب کا خاندان شامل ہے۔ غلام حسن صاحب بھی شعری ذوق رکھتے تھے۔ آزادؔ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ بڑے ذی علم اور منشی اور خوش قلم تھے۔ ان کا بھی ایک شعر مسجد حسین پور میں لکھا ہوا تھا۔ غلام حسن صاحب کے چار بیٹے کریم اللہ، حبیب اللہ، غریب اللہ اور عزیز اللہ ہوئے۔ حبیب اللہ ، غریب اللہ اور عزیز اللہ کی اولاد کے بارے میں کہیں ذکر موجود نہیں۔ یقیناً ان کے خاندان کے افراد ہندوستان میں ہی ہوں گے۔ قبلہ کریم اللہؒ اور ان کی اولاد کی تفصیل ملتی ہے جو حسب ذیل ہے۔

 

                کریم اللہ رحمۃ اللہ علیہ

 

کریم اللہؒ صاحب غلام حسنؒ کے صاحبزادے تھے۔ آزادؔ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ’’دادا غلام حسنؒ صاحب کے صاحبزادے میرے پڑ دادا حضرت کریم اللہؒ ہوئے یہ بڑے زی علم اور منشی تھے، خوش قلم تھے۔ آپ کا ایک شعر لکھا ہوا جامعہ مسجد حسین پور میں تھا شاید اب قائم نہیں رہا۔ کریم اللہ صاحب کے دو بیٹے ہوئے امیر اللہ اور غلام صمدانی۔ غلام صمدانی رحمۃ اللہ علیہ آزادؔ  صاحب کے دادا ہوئے۔ کریم اللہؒ کا انتقال ۱۲۱۶ھ؍۱۸۰۱ء میں ہوا۔ آزادؔ صاحب نے اپنے پردادا کی تاریخ وفات اس طرح کہی ؎

بقا کب دور فانی میں آزادؔ

کہ جب فانی زمین و آسماں ہیں

ہوئی پر دادا کی تاریخ رحلت

کریم اللہ جنت آشیاں ہیں

 

                امیر اللہ رحمۃ اللہ علیہ

 

امیر اللہؒ کے بارے میں آزادؔ صاحب لکھتے ہیں ’دادا امیر اللہ مرحوم نہایت اعلیٰ خوش قلم و منشی تھے۔ ان کا قول تھا کہ طالب علم ا آس وقت منشی (عالم فاضل) ہوتا ہے کہ آٹھ پہر میں تین پہر پڑھے اور پانچ پہر لکھے۔ آپ بیگم شمرو کے یہاں اچھے عہدہ پر تھے۔ بعد میں مندسور (ریاست گوالیار) میں کوتوال ہوئے اور اسی جگہ آپ کا انتقال ہوا۔

 

                غلام صمدانی رحمۃ اللہ علیہ آزادؔ صاحب کے دادا

 

ٍ        قبلہ غلام صمدانی شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کے دادا تھے۔ نہایت پابند شریعت اور مخیر و پاک باطن تھے ‘‘۔ اعلیٰ حضرت غلام صمدانیؒ کی پاک دامنی کے بارے میں جناب آزادؔ نے لکھا کہ ’’حضرت والد صاحب (نبی بخشؒ)مرحوم فرماتے تھے کہ آپ نے آخر میں فرمایا تھا کہ امید ہے کہ خدا تعالیٰ مجھ سے غیبت کی بابت سوال نہیں فرمائے گا کیوں کہ میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔ آپ بیگم شمرو کی فوج میں ملازم تھے۔ ‘‘۔ (دیوانِ آزاد ص:۲۷۷)۔

خاندان باری بخش(حسین پور) کے جو احباب اپنے نام کے ساتھ لفظ ’’صمدانی‘‘ کا لاحِقہ لگا تے ہیں یہ نام اعلیٰ حضرت غلام صمدانی ؒ کے نام ہی سے ماخوذ ہے وہ اپنی نسبت اپنے خاندان کے انہی بزرگ سے ظاہر کر نے کے لئے اپنے نام کے ساتھ’ صمدانی ‘لکھتے ہیں۔ آپ نے اعلیٰ حضرت غلام صمدانی کے سن وفات (۱۲۷۶ھ؍۱۸۵۹ء) کا یہ قطعہ درج دیوان ہے ؎

بلا ہے موت کا پنجہ بلا ہے

کیا کیسا جدا دادا کو میرے

لکھوں تاریخ رحلت ان کی آزادؔ

ملا قرب خدا دادا کو میرے

آزادؔ  صاحب کے دادا غلام صمدانیؒ اور ان کے بھائی امیر اللہؒ بیگم شمرو کی فوج میں ملازم تھے۔ یہ زمانہ ۱۸۰۰ء سے ۱۹۰۰ء کے درمیان کا ہے۔ کیونکہ غلام صمدانی کی تاریخ وفات جو آزادؔ  صاحب نے درج دیوان کی ہے وہ ۱۸۵۹ء ہے۔ امیر اللہؒ صاحب غلام صمدانیؒ کے بڑے بھائی تھے۔ مغلیہ خاندان نے ہندوستان پر تین سو برس سے زیادہ حکمرانی کی۔ یعنی ۱۵۵۴ء سے ۱۸۵۷ء تک۔ قبلہ امیر اللہؒ اور غلام صمدانیؒ مرحوم نے مغل سلطنت کے اختتام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ مغلوں کی حکومت ہمایوں سے اورنگ زیب کے بڑے بیٹے محمد معظم شاہ ’’عالم بہادر شاہ‘‘ تک ایک سو ساٹھ برس تک رہی۔ شاہ عالم کا بیٹا شہزادہ معز الدین جہاندار شاہ حکمراں بنا پٹنہ (بہار) میں عظیم الشان کا بیٹا فرخ سیر نے بارہہ کے سادات کی مدد سے آگرہ کے پاس جنگ کی جس میں اس نے جہاں دار شاہ پر فتح پائی۔ بارہہ ہندوستان کے ضلع مظفر نگر میں واقع تھا۔ مولانا سید ابو ظفر ندوی نے اپنی کتاب مختصر تاریخ ہند کے صفحہ ۱۷۹ پر لکھا ہے کہ بارہہ کے سادات اپنی غیر معمولی بہادری کے سبب سے ہمیشہ فوجی عہدوں پر ممتاز رہے۔ گویا مظفر نگر کی سرزمین بہادر لوگوں کے حوالے سے بھی معروف تھی۔ یہاں کے لوگوں کا رجحان فوج میں ملازمت کرنے کا رہا ہو گا۔ قبلہ امیر اللہ اور محترم غلام صمدانیؒ کے بارے میں یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ فوج میں کس عہدے پر تھے۔ آزادؔ  صاحب نے صرف اتنا لکھا کہ یہ صاحبان بیگم شمرو کی فوج میں ملازم تھے۔

 

                 منشی عنایت علیؒ رحمۃ اللہ علیہ آزادؔ صاحب کے چچا

 

قبلہ غلام صمدانیؒ کے دو صاحبزادے تھے بڑے آزادؔ صاحب کے والد منشی نبی بخشؒ ،  چھوٹے منشی عنایت علیؒ تھے۔ اپنے چچا منشی عنایت علیؒ کے بارے میں آزادؔ صاحب نے لکھا ہے کہ چچا مرحوم کی پرورش و تعلیم وغیرہ والد صاحب نے کی جس قدر بھائیوں میں محبت تھی اور چچا صاحب اپنے بڑے بھائی کا جس قدر ادب کر تے تھے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ اگر مثال دی جا سکتی ہے تو میرے چھوٹے بھائی عزیز احمد کی۔ چچا صا حب نہایت سادہ مزاج، خلیق اور محبت کر نے والے تھے، ایسے لوگ دنیا میں کہاں پیدا ہو تے ہیں۔ مجھ پر بہت زیادہ شفقت فرماتے تھے، بڑے خوش قلم منشی تھے معمولی عہدہ پر محکمہ نہر میں ملازمت کر کے پنشن حاصل کی، آخر میں فرید کوٹ میں قیام تھا۔ جب میں فرید کوٹ سے بیکانیر آ گیا تو آپ کو بہت ملال ہوا۔ بد نصیبی سے مجھے پھر زیارت نصیب نہ ہو سکی‘‘۔

 

                نبی بخش مرحوم آزادؔ صاحب کے والد گرامی

 

آزاد صاحب اپنے والد گرامی قبلہ منشی نبی بخش مرحوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’آپ مجسم اخلاق و کرم تھے صوم و صلوٰۃ کے پابند، نہایت انشا ء پرداز منشی تھے۔ بڑے ہمدردِ قوم تھے، بہت سے قوم کے لڑکوں کو ذی علم کر دیا، سلسلہ نقشبندیہ میں داخل تھے۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؒ قلعہ والوں سے نسبت تھی، آپ برٹش گورنمنٹ میں نہایت جلیل القدر عہدوں پر رہے۔ آخر میں ریاست نابھ میں کچھ عرصہ رہ کر پھر فرید کوٹ میں آ گئے۔ سرکار فرید کوٹ کی طرف سے خاص فیروز پور میں وکیل تھے، جہاں آپ کا ۶ ستمبر ۱۸۸۷ء کو انتقال ہوا اور پیروں والے قبرستان میں مدفون ہوئے۔ آپ کاہی یہ بڑا مکان حسین پور کلاں والا بنوایا ہوا ہے جو عالی شان عمارت ہے اور زمین و باغ آپ کی زر خرید ہے۔ آپ شعر و اشعار سے تو شغل نہیں رکھتے تھے لیکن بڑے سخن فہم تھے، دماغ خاص پایا تھا، چھیاسی، ستاسی سال کی عمر تک دماغ کی وہی کیفیت تھی۔

دراز قد، گندمی گول پتلا جسم تھا، نہایت بذلہ سنج و زودرس تھے، آپ نے ہی اپنی قوم کو اپنے زمانے میں زیادہ مشہور کیا۔

آزادؔ صاحب نے اپنے والد گرامی کے انتقال ۱۸۸۷ء ؍۱۳۰۴ھ) پر یہ قطعہ کہا ؎

مصیبت کیسی گزری تجھ پہ آزادؔ

گئے دنیا سے جب وہ تیرے بابا

دُعا تاریخ بن کر نکلی دل سے

مقرب ہوں خدا کے میرے بابا

 

                آزادؔ صاحب کی والدہ محترمہ

 

آزادؔ صاحب نے اپنی والدہ بو یعقوباً جن کا انتقال ۱۹۲۸ئ؍ ۱۳۴۴ھ کو ہوا یہ قطعہ کہا ؎

چلی آزادؔ  کی ماں سوئے عقبیٰ

یہ صدمہ اور ہے اب جاں پہ اللہ

کہو تاریخ تاج مغفرت سے

کرم ہو تیرا میری ماں پہ اللہ

 

                آزادؔ صاحب کے بہن بھائی

 

آزادؔ صاحب کے والد جناب نبی بخش صاحب مرحوم نے تین شادیاں کیں آپ کے پانچ بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہوئیں۔ پہلی شادی بو نصری دختر محمد اسحاق سے کی۔ ان کا تعلق ہندوستان کے شہر’ بنت‘ سے تھا۔ ان سے آپ کی پانچ بیٹیاں ہوئیں، دوسری شادی محترمہ بی بی بیگم سے ہوئی جوسید مقصود علی شاہ کشمیری لدھیانوی کی دختر تھیں۔ ان سے آپ کے تین بیٹے ہوئے، تیسری شادی محترمہ بو یعقوباً  دختر کرامت علی سے ہو ئی۔ ان کا تعلق ہندوستان کے شہر’ بنت ‘سے تھا۔ ان سے آپ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ آزادؔ  صاحب کی والدہ بو یعقو باً تھیں۔ آپ کل ۱۳ بہن بھائی تھے۔ تفصیل حسب ذیل ہے۔

نبی بخش علیہ رحمۃ

بو نصری دختر محمد اسحاق (زوجہ اول)

بی بی بیگم دختر مقصود علی شاہ کشمیری (زوجہ سوم)

بو یعقوباً دختر کرامت علی لدھیانوی (زوجہ دوم)

مجیب النسا               امداد احمد علیہ رحمۃ                       محمد ابراہیم آزادؔ علیہ رحمۃ

اَمت الوحی              شریف احمد علیہ رحمۃ             عزیز احمد علیہ رحمۃ

اُمہ سلمیٰ               علی احمد علیہ رحمۃ                بو حنیفہ

اُمہ ہانی                 ۔                              اُ مہِ فاطمہ

اُمہ رقیہ         ۔                       کنیز رابعہ

 

                عزیز احمد علیہ رحمۃ (آزادؔ صاحب کے بھائی)

 

عزیز احمد مرحوم علیہ رحمۃ آزادؔ صاحب کے حقیقی چھوٹے بھائی تھے۔ دونوں بھائیوں میں بے حد محبت اور احترام پا یا جاتا تھا۔ ریاست فریدکوٹ میں تحصیلدار رہے۔ بعد ریٹائرمنٹ وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ اپنے چھوٹے بھائی عزیز احمد کے بارے میں آزادؔ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’میرے چھوٹے بھائی منشی عزیز احمد صاحب جو زیادہ تر میرے ساتھ رہے عہدہ نائب تحصیلداری و تحصیلداری ریاست فرید کوٹ پر ممتاز رہے اور اب اسی جگہ وکالت کرتے ہیں نہایت سعادت مند ہیں ‘‘۔ دیوانِ آزادؔ میں جناب عزیز احمد نے آزادؔ  صاحب کی شخصیت اور شاعری کے بارے میں تفصیلی اظہر خیال فرمایا ہے۔ اس تحریر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جناب عزیز احمد بھی علمی بصیرت رکھتے تھے، شعری ذوق اور سخن فہم تھے۔ ان کی تحریر ایک منجھے ہوئے صاحب طرز قلمکار کی تحریر کا عکس دیتی ہے۔ الفاظ کا استعمال اور چناؤ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ صاحب تحریر کو لکھنے کا سلیقہ خوب آتا ہے۔ عزیز احمد صاحب کی تحریر یہ پتہ دیتی ہے کہ وہ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ اپنے دلائل میں فارسی اشعار اور الفاظ کا استعمال گواہی دے رہا ہے کہ آپ فارسی خوب جانتے تھے۔ ملاحظہ کیجئے آپ سے ایک اقتباس  ’’میرے مخدوم محترم اخی معظم نے ثنائے محبوب خالق کا گلدستہ پیش کیا ہے اس کو دیکھ کر انصاف سے بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ سچائی ار سلاست سے بپا بندی زبان اردو صحیح صحیح واقعات سیرت نبوی بیان کیے ہیں اور جو مضامین نکالے ہیں رنگ اور دیوان یا کلیات میں بہت کم ملے گا معلوم ہوتا ہے قدرت نے یہ اخی محترم کے لیے محفوظ رکھا تھا جو آپ کو دیا گیا ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست       تانہ بخشد خدائے بخشندہ

اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطاربگوید‘‘ ثنائے محبوب خالق کو سامنے رکھئے اور اس کا ہر شعر پڑئیے اور مذاق سلیم سے مزے لیجئے ہر غزل ہر شعر میں آپ کو جدت و خوبی معلوم ہو گی‘‘۔

عزیز احمد صاحب کی شادی اشفاق حسین کی صاحبزادی ’اللہ رکھی‘ سے ہوئی ان سے آپ کی آٹھ بیٹیاں (عبیدہ خاتون، سعیدہ خاتون، عتیقہ خاتون، شفیقہ خاتون، رقیبہ خاتون، زبیدہ خاتون، عجیبہ خاتون اور نفیسہ خاتون) اور تین بیٹے ( شمیم احمد، نسیم احمد اور حنیف احمد مرحوم) ہوئے آزادؔ صاحب کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ شمیم احمد کی اولاد میں نفیس احمد، جلیل احمد، زبید احمد اور عجیب احمد ہیں۔ زبید احمد اور ان کے بچے ملتان میں مقیم ہیں۔ جلیل احمد عجیب احمد ہندوستان میں ہیں۔ بیٹیوں میں مغی خاتون، اصغری خاتون، ذکیہ خاتون، سائرہ خاتون، شریفہ خاتون اور زاہدہ خاتون ہوئیں۔ نسیم احمد مرحوم کے بیٹوں میں تسلیم احمد، سلیم احمد اور بیٹیوں میں رئیسہ خاتون، شاکرہ خاتون اور صوفیہ خاتون ہوئیں۔ صوفیہ خاتون کو مَیں ’ لاہورناً‘ کہا کرتا تھا کیوں کہ یہ لاہور سے شعیب صمدانی سے شادی ہو کر کراچی آئی تھیں۔ حنیف احمد صمدانی عزیز احمد مرحوم کے چھوٹے بیٹے تھے اور ان کی شادی آزادؔ صاحب کی چھوٹی بیٹی کنیز رسول سے ہوئی تھی۔ ہم ان کے پڑوسی بھی تھے اس اعتبار سے راہ و رسم کچھ زیادہ ہی تھا۔ حنیف احمد مرحوم کے دو بیٹے شعیب احمد اور شیث احمد ہیں، بیٹیوں میں کفیلہ صمدا نی، حمیرا صمدنی اور نجمہ صمدانی ہیں۔ حمیرا صمدانی کی شادی میرے عَمّ مغیث صمدانی سے ہوئی۔ یہ میری چچی تھیں۔ نیک سیرت، ملنسار، ہنس مکھ اور سمجھدار۔ جلد اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔ عزیز احمد کے بڑے بیٹے شمیم احمد، آزادؔ صاحب کی بڑی بیٹی حمیدہ خاتون سے منسوب تھے۔ آزادؔ صاحب اور عزیز احمد صاحب کی اولاد اور بعد میں ان کی اولاد اپنے نام کے ساتھ ’صمدانی‘ کا لاحِقہ استعمال کرنے لگی۔

 

                 شریف احمد علیہ رحمۃ (آزادؔ صاحب کے بھائی)

 

شریف احمد آزاد صاحب کے سوتیلے بھائی تھے ان کی والدہ کا نام بی بی بیگم تھا جو مقصود علی شاہ کشمیری لدھیانوی کی صاحبزادی تھیں۔ مولوی شریف احمد صاحب کے بارے میں آزادؔ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ عربی فارسی کے بڑے زی علم تھے اور خوش قلم تھے۔ ان کی اولاد دختری و پسری موجود ہے۔ اولادوں میں بشیر احمد، شبیر احمد، شبہی احمد، قریشہ اور عالیہ ہوئیں۔ بشیر احمد علیگ تھے۔ کراچی میں مقیم رہے۔ ان کے بیٹے تنویر احمد کا انتقال کراچی میں ہوا، شریف احمد مرحوم کے بیٹے شبیر احمد اور شبہی احمد نے پاکستان ہجرت نہیں کی۔ ان کے اولاد ہندوستان کے شہر ممبئی میں رہتی ہے۔ بیٹیوں میں مزملہ خاتون، مومنہ خاتون اور مسلمہ خاتون ہوئیں۔ شریف احمد مرحوم کے بیٹے اپنے نام کے ساتھ ’’صدیقی‘‘ کا لاحِقہ لگاتے ہیں۔ آزادؔ صاحب نے اپنے بڑے بھائی جناب شریف احمد جن کا انتقال ۱۳۳۸ھ ؍ ۱۹۱۹ء میں ہوا یہ قطعہ کہا ؎

بڑے بھائی گئے دنیا سے مولانا شریف احمد

بیان کیا ہو دل غمگیں پہ اس کا صدمہ بے حد ہے

یہی تاریخ رحلت کہہ دو تم آزادؔ اب اُن کی

شریف احمد تہ دامانِ مولائے محمدؑ ہے

 

                امداد احمد علیہ رحمۃ (آزادؔ صاحب کے بھائی)

 

آزادؔ صاحب کے بھائی تھے۔ ان کی والدہ بی بی بیگم دختر مقصود علی شاہ کشمیری لدھیانوی تھیں۔ آزاد صاحب نے تحریر فرمایا کہ جناب امداد احمد کے اولاد نہیں ہوئی اور ان کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب آزادؔ صاحب آٹھ نو ماہ کے تھے۔

 

                علی احمد علیہ رحمۃ (آزادؔ صاحب کے بھائی)

 

علی احمد علیہ رحمۃ آزادؔ صاحب کی دوسری والدہ (بی بی بیگم دختر مقصود علی شاہ )سے تھے۔ آپ کی شادی بی بی الٰہی جان دختر جناب مبارک علی سے ہوئی۔ اپنے بھائی علی احمد کے بارے میں آزادؔ صاحب نے لکھا کہ منشی علی احمد صاحب نہایت متقی اور پرہیز گار ہیں۔ برطانوی حکومت میں نائب تحصیلدار رہے۔ پینشنر ہو کر آگرہ میں قیام کیا۔ آپ کے چار صاحبزادے (احتشام احمد، ارشاد احمد، محمد احمد اور محمود احمد، بیٹیوں میں امت اَمت الحنان زوجہ حافظ خادم حسین (سکنہ فتح پور حسوا)، احمد بو عائشہ بیگم زوجہ جناب بشیر احمد واحدی(سکنہ واحد ولا، عالم گنج، آگرہ)، بو صدیقہ زوجہ بشیر احمد صدیقی اور بو خدیجہ ہوئی(بو خدیجہ کی شادی آزادؔ صاحب کے بیٹے جناب لئیق احمد صمدانی سے ہوئی)۔ احتشام احمد مرحوم کی شادی آزادؔ صاحب کے چھوٹے بھائی جناب عزیز احمد کی صاحبزادی محترمہ رقیبہ خاتون سے ہوئی۔ ان کی اولادوں میں افتخار احمد صدیقی، احترام احمد صدیقی، انعام احمد صدیقی اور بیٹیوں میں خاتون عرب، خاتون یثرب، ( میرے عم مغیث صمدانی کی پہلی شریک حیات حمیرا صمدانی کے انتقال کے بعد دوسری شادی خاتون یثرب سے ہوئی)، خاتون عدن، خاتون بطحہ شامل ہیں۔ احتشام احمد مرحوم کی اولاد اپنے نام کے ساتھ ’’صدیقی‘‘ لگاتے ہیں۔ آزادؔ  صاحب کے بھائی ارشاد احمد مرحوم کی دو بیٹیاں ہیں مقدسہ خاتون اور امینہ خاتون۔ محمد احمد مرحوم کی بیٹی مدنی خاتون ہیں جب کہ محمود احمد کا ایک بیٹا مشہود احمد ہے۔

 

                آزادؔ  صاحب کی شریک حیات (ہما بیگم اور محمودہ خاتون)

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی پہلی شادی سلطان حسن صاحب کی دختر محترمہ ہما بیگم سے ہوئی جن سے آپ کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ ہما بیگم کے انتقال (۱۹۲۸ء) کے بعد جب کے آپ اپنی عمر کے ساٹھ سال پورے کر چکے تھے نیز حج (۱۹۳۰ء مطابق۱۳۴۸ھ)پر تشریف لے جانے سے قبل آپ نے اپنے ماموں حکیم محمد ممتاز علی صاحب ممتاز ناصریؔ چشتی سبزواری کی صاحبزادی محمودہ خاتون سے عقد ثانی فر ما یا، یہ عمر میں آپ سے بہت چھوٹی تھیں۔ ان سے آپ کی کو ئی اولاد نہیں ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۷ء میں محترمہ محمودہ خاتون پاکستان آ گئیں اور حیدر آباد سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ ان کے ہمراہ آزادؔ صاحب کی پوتی نعیمہ خاتون تھیں جو جناب حقیق احمد کی صاحبزادی اور میری حقیقی پھوپھی تھیں۔ نعیمہ خاتون کو ہمارے دادا نے اپنی سوتیلی والدہ محترمہ محمودہ خاتون کو دے دیا تھا۔ نعیمہ خاتون کی پرورش محمودہ خاتون نے ہی کی اور ان کی شادی جناب اسرارالحق صاحب سے ہوئی، نعیمہ خاتون کی بینائی چلی گئی تھی، ساتھ ہی یہ بہت جلد اللہ کو بھی پیاری ہو گئیں۔ ان کے بیٹے احتشام الحق شبیر کی پرورش بھی محترمہ محمودہ خاتون نے ہی کی۔ مجھے متعدد بار دادی صاحبہ سے ملاقات کرنے ان کے گھر حیدر آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ انتہائی ملنسار، خوش اخلاق محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ بے حد خوددار تھیں۔ پاکستان میں ان کے کئی بیٹے سوتیلے ہی سہی لیکن اچھی مالی حالت میں تھے۔ انہوں نے اپنے کسی بیٹے کا سہارا بننا قبول نہیں کیا نہ ہی کسی سے مالی اِعانَت قبول کی۔ حیدر آباد سندھ کی ایک قدیم بستی میں انہیں ایک مختصر کچا پکہ گھر مل گیا تھا۔ اس کی الاٹمنٹ کے لیے بھی بہت پریشان رہیں۔ آخر کار جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکمرانی میں ان کا یہ مسئلہ حل ہو سکا۔ انہوں نے تمام عمر اسی چھوٹے سے گھر میں بسر کر دی۔ حالانکہ وہ ہندوستان میں ایک عالی شان گھر جو’ آزاد منزل‘ کہلاتا تھا میں رہائش پذیر تھیں۔ اگر وہ پاکستان نہ آتیں تو آزاد صاحب کی دیگر اولادوں کی طرح وہ بھی آزاد منزل کی اتنی ہی حصے دار ہوتیں اور ان کی زندگی ایک اچھے کشادہ گھر میں بسر ہوتی، یہی نہیں بلکہ بیکانیر ریاست کی جانب سے آزادؔ صاحب کی ماہانہ پینشن اُس وقت سو (۱۰۰) روپے تھی، آزادؔ صاحب کے انتقال کے بعد وہی اس کی حقدار بھی تھیں لیکن انہوں نے پاکستان کو ترجیح دی اور اپنی تمام تر جائیداد، آرام و آسائش کو خیر باد کہہ کر پاکستان چلی آئیں۔ محمودہ خاتون کا انتقال ۶ مارچ ۱۹۸۱ء کو حیدر آباد میں ہوا اور اسی شہر میں مدفن ہیں۔

آزادؔ صاحب نے اپنی پہلی شریک حیات محترمہ ہما بیگم جن کا انتقال۱۹۲۸ء؍۱۳۴۶ھ میں ہوا فارسی میں یہ قطعہ کہا ؎

رفیق و مونس و غم خوار آزادؔ

بحق رفتہ و ما را ترک گفتہ

بہ گفتہ تاج بخشش خود چہ تاریخ

ہما بیگم بہ جنت نیکو رفتہ

 

                 آزادؔ صاحب کی اولاد

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کے آٹھ بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ یہ تمام ان کی پہلی شریک حیات محترمہ ہما بیگم جو سلطان حسن صاحب کی دختر تھیں جن کا تعلق ہندوستان کے شہر ’’بنت‘‘ سے تھا کے بطن سے تھے۔ آٹھ بیٹوں میں سے سات نے پاکستان ہجرت کی، ان کے سب چھوٹے بیٹے اسماعیل صمدانی نے اپنے اجداد کی سرزمین کو ہی اپنے لیے ابدی آرام گاہ بنایا۔ آپ کی اولاد کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

 

۱۔     خلیق احمد صمدانی مرحوم

 

خلیق احمد، شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ وکالت کے پیشے سے منسلک تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے شہر ہارون آباد کو اپنا مسکن بنایا، یہاں بھی وکالت کو اپنا ذریعہ معاش بنا یا۔ خورشید حسن کی صاحبزادی قریشاں سے شادی ہوئی۔ محترمہ محمودہ خاتون جو جناب ریاض الا ابنیاء سبزواری کی صاحبزادی تھیں کو گود لے لیا اور ان کی پرورش کی۔ یہ خاندان میں ’خاتون‘ کے نام سے معروف تھیں، خوش مزاج، خوش گفتار اور محبت کرنے والی اور اپنوں اور پرائے کا خیال کرنے والی تھیں۔ کفیل احمد صمدانی سے جو جناب عتیق احمد صمدانی کے صاحبزادے تھے سے ان کی شادی ہوئی۔ میری والدہ اکثر ان کا ذکر بہت ہی محبت اور عقیدت سے کیا کرتی تھیں۔ اللہ کو پیاری ہوئیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر ظفر مسعود صمدانی ایک نیک سیرت انسان تھے۔ اچانک رحلت کر گئے۔ انتہائی دکھ ہوا۔ میں نے آزادؔ صاحب پر کتاب لکھنا شروع کی تو ارادہ تھا کہ اس میں ان کی اولاد بشمول اولاد پسری و دختری کا شجرہ بھی شامل کیا جائے جو با وجوہ نہ ہو سکا اس سلسلے میں میَں نے ڈاکٹر ظفر صمدانی کو ان کے اہل خانہ کی تفصیل فراہم کرنے کے لیے فون کیا انہوں اولین فرصت میں مکمل تفصیل فراہم کر دی۔ میں اس سلسلے میں مزید ان سے مدد لینا چاہتا تھا کہ ایک دن اطلاع ملی کے وہ اچانک اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بہت نیکیوں کے مالک تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔ جناب عتیق احمد صمدانی کو کلیم میں پنجاب کے علاقے ’آرائیں، وھن ‘ تحصیل میلسی میں زرعی زمین ملی جس کے بعد آپ نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہارون آباد میں مستقل رہائش اختیار کی۔ کچھ عرصہ بہاولپور میں بھی وکالت کی۔ بعد ازاں راولپنڈی کینٹ منتقل ہو گئے۔ آپ کا انتقال راولپنڈی میں ہوا وہی مدفن ہیں۔

 

۲۔    عتیق احمد صمدانی (ماسٹر جی )مرحوم

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کے دوسرے صاحبزادے تھے۔ تعلیم یافتہ، نیک سیرت، صوم و صلاۃ کے پابند، شعری ذوق بھی رکھتے تھے۔ شاعری کی یا نہیں معلوم نہ ہو سکا۔ کافی عرصہ استاد رہے۔ اس وجہ سے آپ ماسٹر جی کے نام سے بھی معروف تھے۔ آپ کی شادی آزادؔ صاحب کے چچا عنایت علی مرحوم کی پوتی امت الباقی دختر محمد اسرئیل سے ہوئی۔ آپ کے چار صاحبزادے وکیل احمد، کفیل احمد، جمیل احمد اور عقیل احمد ہوئے اور دو صاحبزادیاں سعیدہ اور رشیدہ تھیں۔ عقیل احمد اور رشیدہ کا جوانی میں انتقال ہوا جس کا ذکر آزادؔ صاحب نے اپنے دیوان میں بھی کیا اور ان کے انتقال پر قطعات بھی کہے جو دیوان میں درج ہیں۔ تقسیم ہند کے آپ نے پاکستان ہجرت کی، ابتداء میں کراچی اور پھر راولپنڈی کو اپنا مسکن بنا یا۔ اپنی بہن کنیز رسول کے گھر اکثر کراچی آیا کرتے، ان کا اور ہمارا گھر آگرہ تاج کالونی میں قریب قریب تھا۔ یہاں انہیں قریب سے دیکھنے اور بات کرنے کا موقع ملا۔ نماز کے دوران اللہ اکبر اللہ اکبر کافی بلند آواز سے کہا کرتے تھے۔ سخن فہم، بذلہ سنج و زود رس تھے۔ دبلے پتلے، کافی لمبا قد، گندمی رنگ، کشادہ اوپر کو جاتی ہوئی پیشانی، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، آنکھوں میں سوجھ بوجھ کی چمک، ناک کچھ پھیلی ہوئی، کلین شیو، سر پر کم کم سفید بال، سنجیدہ طرز گفتگو، وضع قطع، چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل اور وضع داری خوشگوار اظہار۔ زندگی کے آخری ایام آپ نے اپنے صاحبزادوں جو اسلام آباد میں مقیم تھے کے پاس گزارے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے وکیل احمد صمدانی حکومت پاکستان کے محکمہ تعلیم میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ڈپٹی فائنانشل ایڈوائزر، جوائنٹ سیکریٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ آپ پاکستان کے ایسے بیورو کریٹ تھے جو کسی سفارش، رشتے داری یا سیاسی تعلق سے اس مرتبہ پر نہیں پہنچے بلکہ محنت اور لیاقت سے یہ مقام حاصل کیا۔ عتیق احمد صمدانی کا انتقال اسلام آباد میں ہوا وہیں مدفن ہیں۔

 

۳۔    حقیق احمد صمدانی مرحوم

 

حقیق احمد صمدانی آزادؔ صاحب کے تیسرے بیٹے تھے۔ یہ راقم الحروف کے حقیقی دادا بھی تھے۔ راقم نے انہیں دیکھا، میری عمر اس وقت چار پانچ برس کی رہی ہو گی جب آپ کا انتقال ہوا۔ ہند وستان میں مختلف کاروبار کیے لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ آزادؔ ؔ صاحب جب تک وکالت کرتے رہے دولت کی فراوانی تھی جس کے باعث اولاد ہر فکر سے آزاد رہی۔ حتیٰ کہ حصول علم کی جانب بھی خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کی قدیم بستی بہار کالونی کو اپنا مسکن بنا یا۔ حقیق احمد صمدانی کے چھوٹے بیٹے مغیث احمد صمدانی نے بتایا کہ ’ان کے والد نے اپنی زندگی میں مشکل ہی سے کوئی کام کیا ہو گا، جو کام بھی کیا زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ وہ مذہبی ذہن رکھتے تھے، صوم و صلاۃ کے پابند ہی نہیں بلکہ عامل تھے لیکن اسے کبھی پیشہ نہیں بنا یا۔ بزرگوں کی صحبت میں رہا کرتے تھے۔ شروع میں قدیم کراچی ’’کھڈا مارکیٹ‘‘ میں لکڑی کی ٹال قائم کی، ریتی اور بجری کا ٹرک خریدا اور دیگر کئی کاروبار کیے لیکن کوئی کاروبار بھی جم نہ سکا۔ کچھ ہی عرصہ بعد بیمار رہنے لگے جس کی وجہ سے کوئی بھی کام مشکل ہو گہا‘‘۔ آپ کی شادی محمد زکریا سبزواری کی بیٹی امت الباقی سے ہوئی۔ دادی محترمہ بہت خوددار اور محنتی خاتون تھیں۔ آپ نے اپنے اولاد کی پرورش میں خوب خوب محنت کی۔ آپ کے چار بیٹے انیس احمد(راقم الحروف کے والد)، انتقال کراچی میں ۵ ستمبر ۱۹۹۷ء کو ہوا، ظریف احمد انتقال ۱۷ ستمبر ۱۹۹۵ء کو ہوا ہندوستان کے شہر بیکانیر میں مدفن ہیں، جلیس احمد انتقال ۱۲ ستمبر ۱۹۹۴ء کراچی میں ہوا اور مغیث احمد سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں جو کراچی میں مقیم ہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا آبائی پیشہ وکالت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے وکیل ہیں۔ میری پھو پیوں میں آپ کی بیٹیوں میں انیسہ خاتون (وفات ۴ جون ۱۹۸۵ء)، کوئٹہ میں مدفون ہیں، نسیمہ خاتون (انتقال ۶ مئی ۱۹۹۸ء)، کوئٹہ میں مدفون ہیں، نعیمہ خاتون (انتقال ۱۹۵۸ء) حیدر آباد میں مدفون ہیں، تسلیمہ خاتون انتقال کراچی میں ہوا، محترمہ مبینہ خاتون کراچی میں رہائش رکھتی ہیں۔ دادا حقیق احمد صمدانی کا انتقال کراچی میں ۱۹۵۲ء میں ہوا کراچی کے شیر شاہ قبرستان میں مدفن ہیں۔

میرے ذہن میں اپنے دادا کے جو ظاہری خد و خال آئے وہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ مناسب جسم، قد بہت لمبا نہیں لیکن چھوٹا بھی نہیں، گندمی رنگ جو اس خاندان کا طرۂ امتیاز ہے، کشادہ پیشانی اوپر کی جانب جاتی ہوئی، کتابی چہرہ، گول آنکھیں، چوڑا سینہ، آنکھوں میں سوجھ بوجھ کی چمک، ناک قدرے پھیلی ہوئی جس کے نیچے استرے اور قینچی سے آزاد سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، سر پر معمولی بال، پر کشش مسکراہٹ، وضع قطع، چہرے مہرے سے برد بار، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔

جناب حقیق احمد مرحوم کے بیٹے انیس احمد صمدانی مرحوم تھے جو میرے والدِ بزرگوار تھے۔ ان کے بارے میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ آج میں اور ان کی دیگر اولاد جو کچھ بھی ہے ان ہی کی تعلیم و تربیت کے طفیل ہے۔ میں نے انہیں اپنا آئیڈیل بنا یا اور کوشش کی کہ اپنے اندر ان کی صفات پیدا کر سکوں۔ محسوس کرتا ہوں کہ میں خود کو ایسا نہیں کر سکا۔ والد صاحب اپنی زندگی سے مطمئن، جو کچھ اللہ نے دیا اس پر صبر شکر اور قنائت پسند تھے۔ آج جب میں ان کی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ انہوں نے اتنی بھاری ذمہ داریاں اس قدر کم مالی استطاعت میں کیسے پوری کیں۔ یقیناً اللہ کی مدد اور یقین ان کے شامل حال رہا ہو گا۔ الحمد اللہ آج میں بھی اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے ہر نعمت سے نوازا۔ اولاد سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے۔ اللہ نے سعادت مند اولاد دی جو ماشا ء اللہ میری زندگی ہی میں اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔ دونوں بیٹے عدیل اور نبیل تعلیمی اور معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا۔ عدیل سعودی عرب کے شہر جدہ میں ملازم ہے۔ اپنی شریک سفر مہوش اور بیٹے صائم کے ساتھ متبرک سرزمین میں خوش ہیں۔ چھوٹا بیٹا نبیل اور اس کی شریک سفر ثمرا کراچی کے عباسی شہید اسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ میری بیٹی فاھینہ اپنے گھر میں خوش ہے۔ اس کا شریک سفر عاصم مشکور تعلیم یافتہ، مہذب اور خیال کرنے والا ہے۔ میرے پوتے ’صائم عدیل‘ اور ’ارسل نبیل‘، نواسہ’ ارحم‘ اور نواسیاں ’نیہا ‘اور’ کشف ‘میری زندگی کا سرمایا اور میرے لیے راحتِ جاں ہیں۔ انہیں دیکھ کر اور سن کر میری روح کوسکون ملتا ہے۔ زندگی میں ایک افسوس بھی ہے وہ یہ کہ میرے دو پوتے عدیل کا بیٹا ’راحم‘ اور نبیل کا بیٹا ’سبحان‘ کم سنی میں ہی ہم سے جدا ہو گئے۔ بہت غم اور صدمہ ہے۔ اس سے قبل میری ایک بیٹی ’‘سحر‘ بھی چند دن اس دنیا میں رہ کر۱۹۸۰ء میں اللہ کو پیاری ہو گئی تھی۔ اپنے گلشن کے ان تینوں پھولوں کا مجھے بے حد دکھ اور افسوس ہے۔ لیکن تقدیر الٰہی میں چارہ نہیں۔ اس موقع پر اپنی ماں کو خراج عقیدت پیش نہ کروں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اپنے بچوں کو کلی سے پھول، پھول سے تناور درخت اور درخت سے گلشن بنانے میں جس قدر آبیاری میرے والد صاحب نے کی والدہ محترمہ صفیہ خاتون کی شب و روز کی محنت و مشقت کسی طور کم نہیں۔ اپنی والدہ کا تفصیلی خاکہ ’’میری ماں ‘‘ کے عنوان سے لکھ چکا ہوں جو میری کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے والدین کی مغفرت فرمائے آمین۔

 

۴۔    لئیق احمد صمدانی مرحوم

 

لئیق احمد صمدانی آزادؔ صاحب کے چوتھے صاحبزادے تھے۔ ہندوستان میں نائب تحصیلدار بعد ازاں تحصیلدار کے عہدے پر فائز رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد آپ ۱۹۶۰ میں کراچی تشریف لے آئے۔ کچھ عرصے نجی اداروں میں ملازمت کی۔ آپ کی شادی آزادؔ صاحب کے بڑے بھائی علی احمد کی دختر محترمہ خدیجہ سے ہوئے۔ آپ کی اولاد پسری نہیں ہوئی، تین بیٹیاں حامدہ خاتون زوجہ احترام احمد صدیقی مرحوم، ساجدہ خاتون زوجہ آفتاب احمد صدیقی مرحوم اور زم زمی خاتون زوجہ قاضی عشرت مرحوم ہوئیں۔ آپ نے اپنی تینوں بیٹیوں کے ہمراہ کراچی ہجرت کی اور اپنے بڑے داماد احترام احمد صدیقی مرحوم کے ہمراہ عزیزآباد میں رہائش اختیار کی۔ آپ مذہبی سوچ و فکر رکھتے تھے۔ شعری ذوق آپ کو ورثہ میں ملا تھا۔ حمد و  نعتﷺ سے آپ کو والہانہ عشق تھا آپ جس کمرے میں روز و شب بسر کرتے تھے اس کی ایک دیوار پر کعبۃ اللہ اور دوسری دیوار پر روضۂ اطہر و مدینہ منورہ کی بڑے سائز کی شبیہ آویزاں تھیں۔ انہیں دیکھ کر آزادؔ صاحب کے دیوان کے صفحہ اول پر موجود ان کا درج ذیل شعر ذہن میں آ جایا کرتا تھا۔

اک رُخ پہ جو قبلہ ہے تو اک رُخ پہ ہے کعبہ

نورین ہیں دونوں رخِ زیبائے مدینہ

نیک سیرت، سادہ طبیعت تھے، گفتگو میں مٹھاس پایا جاتا تھا، ہر ایک سے محبت سے پیش آیا کرتے۔ شاعری تو نہیں کی لیکن سخن فہم، بزلہ سنج و زود رس تھے۔ آزادؔ صاحب نے ایک شعر میں اپنے بیٹوں لئیق اور خلیل کے سخن فہم ہونے کا ذکر خوبصورت انداز سے اس شعر میں کیا ہے ؎

لئیقؔ و خلیلؔ و اسدؔ شمسؔ  ومظہرؔ

کہ فہم سخن جن کا اعلیٰ ترین ہے

آپ کا ظاہری حلیہ جو میرے ذہن میں محفوظ ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ دبلے پتلے، لمبا قد، گندمی رنگ، کشادہ پیشانی اوپر کی جانب، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، چوڑا سینہ، آنکھوں میں سوجھ بوجھ کی چمک، قدرِ پھیلی ہوئی ناک جس کے نیچے سپاٹ میدان یعنی داڑھی موچھ صاف، سر پر کچھ کچھ چاندی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، طبیعت میں شائستگی اور میٹھاس، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، صورت شکل، وضع قطع، چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔ آپ کا انتقال طویل علالت کے بعد ۱۴ جنوری ۱۹۶۸ء صبح صادق کے وقت کراچی میں ہوا، عزیز آباد قبرستان میں مدفن ہوئے۔

 

۵۔    مفیق احمد صمدانی مرحوم

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کے پانچویں صاحبزادے مفیق احمد صمدانی تھے۔ تقسیم ہند وستان کے بعد پاکستان ہجرت کی اور ملتان کی سر زمین کو اپنا مسکن بنا یا۔ آپ شروع ہی سے تجارت کی جانب مائل تھے لیکن قابل ذکر کامیابی نہیں ہوئی۔ آپ سادہ طبیعت اور خوش گو تھے۔ آپ کی شریک حیات امۃ السلام دختر مظفر حسن انتہائی ملنسار اور پر خلوص خاتون تھیں۔ آپ کے اولاد نہیں ہوئی۔ آپ کے متبنیٰ بیٹے شیخ طاہر حسن وکالت کے پیشے سے منسک ہیں۔ انہوں نے ایل ایل بی کراچی سے کیا، دوران اسٹڈی ہمارے گھر کراچی میں ہی رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب راقم اسکول کا طالب علم تھا۔ مجھے ان کے شاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ خیال ہے کہ میں کوئی مشکل ان سے پوچھ لیا کرتا تھا۔ ان کی شادی میں شرکت اچھی طرح یاد ہے۔ پنجاب کے کسی زمیندار گھرانے میں ان کی شادی ہوئی اور کیا شاندار نظارہ تھا۔ کس دھوم سے بارات گئی اور کس لَش پَش نظاروں اور کَروفَر کے ساتھ ان کی بیگم رخصت ہو کر سسرال آئیں۔ ملنسار اور خوش اخلاق خاتون ہیں۔ اس وقت جناب مفیق احمد صاحب کا انتقال ہو چکا تھا۔ البتہ ان کی شریک حیات دادی صاحبہ حیات تھیں۔ اسی وقت ان کی عادات و  اطوار اور اچھے اخلاق کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دونوں ہی ملتان میں مدفن ہیں۔

 

۶۔    انیق احمد صمدانی مرحوم

 

انیق احمد مرحوم آزادؔ صاحب کے چھٹے صاحبزادے تھے۔ انتہائی سادہ اور باغ و بہار طبیعت رکھتے تھے۔ مغیث احمد صمدانی کے مطابق ہندوستان میں آپ ریلوے میں ملازم تھے اور پاکستان ہجرت کرنے کے بعد بھی آپ نے کچھ عرصے ریلوے میں ملازمت کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے ملتان شہر کو اپنا مسکن بنایا اور تجارت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں برکت دی۔ کاروبار میں آپ کے صاحبزادے رشید احمد صمدانی مرحوم بھی شریک کار تھے۔ آپ کی پہلی شادی آزاد صاحب کے چھوٹے بھائی عزیز احمد کی بیٹی نفیسہ خاتون سے ہوئی۔ ان سے آپ کا ایک بیٹا رشید احمد اور ایک بیٹی نرگس فہیم ہوئے۔ نفیسہ خاتون کے انتقال کے بعد آپ نے محترمہ وحیدہ خاتون سے عقد ثانی فرمایا۔ وحیدہ خاتون جناب نعیم احمد مرحوم کی صاحبزادی اور جناب فہیم احمد صدیقی کی ہمشیرہ تھیں۔ راقم کو جناب انیق احمد صمدانی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ صوم و صلاۃ کے پابند، سادہ مزاج، خلیق اور محبت کرنے والے، ہنستا مسکراتا چہرہ، درمیانہ قد، کتابی چہرہ، پہلے کلین شیو تھے بعد میں داڑھی رکھ لی تھی، کشادہ پیشانی، سر پر معمولی سفید کالے بال، فربہ جسم۔ سخن فہم تھے۔ ملتان کی سرزمین میں مَد فن ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے آمین۔

 

۷۔    خلیل احمد صمدانی مرحوم

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔؒ کے ساتویں بیٹے خلیل احمد صمدانی مرحوم اپنے آبائی گھر ’’آزاد منزل‘‘ بیکانیر میں ۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئے۔ جب آپ نے ہوش سنبھالا تو آزاد منزل کی فضاء شعر و سخن سے منور تھی۔ آپ کی تر بیت اپنے والد کے زیر سایہ ایسے ادبی ماحول میں ہو ئی کہ آپ کے اندر فہم و سخن کا پیدا ہو جانا لازمی امر تھا، آپ کو سخن فہمی وراثت میں ملی۔ اپنے مجموعہ کلام ’’گلزار خلیل‘‘ میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ’’ میں قبلہ و کعبہ کے سایہ عاطفیت میں اسی فضا ء میں پلا اور مشقِ سخن کرتا  رہا۔ آزاد منزل میں اکثر نعتیہ مشاعروں کے چرچے رہتے تھے۔ شعرا کرام حوصلہ افزائی کے خیال سے مجھے بلبل گلزار سخن کہتے تھے اور داد و تحسین سے نوازتے تھے ‘ ‘۔ خلیلؔ صمدانی کو ذوق علم و ادب، شعر گوئی و شعر فہمی اپنے والد بزرگوار جناب آزادؔ سے ورثے میں ملی، ساتھ ہی آپ میں خداداد صلاحیت بھی پائی جاتی تھی۔ آپ کی طبیعت قدرتی طور پر شاعرانہ تھی جو شعر و سخن کا ماحول آپ کو بیکانیر میں مُیَسر آیا اس نے آپ کی صلاحیتوں کوچار چاند لگا دیئے۔

استاد الشعراء جناب بیخودؔ دہلوی کی شاگردی کے بارے میں خلیلؔ صمدانی نے ایک واقعہ اپنے مجموعہ کلام میں اس طرح بیان کیا ہے۔ ’’ ایک دفعہ سرمایہ نازش زبان دہلی جانشینِ حضرت داغؔ، علامہ بیخوؔد دہلوی بیکانیر تشریف لائے۔ صاحب مو صوف نے میرے والد ماجد سے ارشاد فرمایا ’’ آزادؔ، خلیل کو ہمارا خلیل کر دیجئے، دو سال میں انشاءاللہ بیخود ثانی بنا دیں گے۔

خلیلؔ صمدانی کی شاعری انسانی ذہن کو متاثر کرنے والی ہے، شعریت سے بھر پور، زبان و بیان کے من جملہ قواعد کے عین مطابق نظر آتی ہے، شاعری آپ کو ورثہ میں ضرور ملی لیکن آپ فطرتاً شاعر ہیں اور آپ کو ایک حقیقی شاعر کہا جا سکتا ہے۔ جناب قاضی امین الدین حسین اثرؔ عثمانی جیپوری کی رائے میں ’’اگر موصوف کے کلام کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس میں میرؔ کی آہ، سوداؔ کی واہ، دردؔ کی صوفیت، ناسخؔ کی پہلوانی، آتشؔ کا بانکپن، انشاءؔ کا تمسخر، جراتؔ کی بے باکی، ذوقؔ کی روانی، مومنؔ کی رنگینی کی عکاسی پائی جاتی ہے ‘‘۔ آپ نے غزل کے علاوہ نعت بھی کہی، غزل کی طرح آپ کی نعت میں عشق مصطفی کی لگن اور فنی حسن پایا جاتا ہے۔

خلیلؔ صمدانی کی زندگی کا طویل عرصہ بیماری میں گزرا۔ راقم الحروف کے والد محترم انیس احمد مرحوم جو اپنے چچا جناب خلیل صمدانی مرحوم سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتے تھے کے بارے میں یہ واقعہ اکثر سنایا کر تے تھے کہ ان کے مرض کا تعلق ان کے حلق اور گلے سے تھا جس کے باعث آپ کی آواز بند ہو گئی تھی، ہر طرح کا علاج کیا مگر کوئی صورت نہیں بنی اور کافی وقت گزر گیا، آپ اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ کئے ہوئے تھے، آپ اپنے گھر ’آزاد منزل ‘ کی چھت پر نماز مغرب ادا کر رہے تھے، سلام پھیرا تو سامنے چاند نظر آیا جو محرم الحرام کا چاند تھا، آپ نے اس وقت دل سے دعا مانگی اور یقیناً آپ نے نواسہ رسول اور آل محمد کے حوالے سے اپنی بیماری اور آواز کی بحالی کے لئے خصوصی دعا مانگی ہو گی۔ والد صاحب کے مطابق دعا کے دوران آپ کو کھانسی اٹھتی ہے اور آپ کے حلق سے اچانک کچھ مادہ خارج ہوتا ہے اسی اثنا آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی آواز بحال ہو گئی ہے ، آپ اس بات کی اطلاع اپنے اہل خانہ کو جاء نماز پر بیٹھے بیٹھے دیتے ہیں اس طرح آپ از سر نو بات کر نے لگتے ہیں۔ یہ یقیناً ایک معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔

خلیلؔ صمدانی پہلے اپنے چچا جناب عزیز احمد کی دختر محترمہ عجیبہ خاتون سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے جن سے آپ کی ایک صاحبزادی عقیلہ خاتون ہوئیں جن کی شادی جناب وکیل احمد صمدانی سے ہو ئی، محترمہ عجیبہ خاتوں کے انتقال کے بعد آپ کی دوسری شادی محترم عزیز احمد کی دوسری صاحبزادی عتیقہ خاتون سے ہوئی جن سے آپ کے تین بیٹے تابشؔ صمدانی مرحوم، طالب صمدانی اور حسین صمدانی ہیں اور چار بیٹیاں طیبہ مرحومہ، طاہرہ، قدسیہ اور سعدیہ مرحومہ ہوئیں۔

تابشؔ صمدانی مرحوم کو شعری ذوق ورثہ میں ملا، آپ صاحب دیوان نعت گو شاعر تھے، وکالت آپ کا پیشہ تھا۔ آپ کے نعتیہ مجموعہ کلام ’’مر حبا سیّدی‘‘، ’’برگ ثنا ‘‘، شامل ہیں۔ اِن کے علاوہ ’نذر سعید ‘ ’گلزار خلیل‘ اور ’منقبت کے پھول‘ جناب تابشؔ  صمدانی کی مطبوعات ہیں۔ میَں نے تابشؔ صمدانی پر ایک تفصیلی سوانحی مضمون بھی تحریر کیا جو میری کتاب ’’یادوں کی ما لا‘‘ شائع شدہ ۲۰۰۹ء میں شامل ہے۔ مجھے ان سے اور شاید انہیں مجھ سے خاص انسیت تھی، وجہ مجھے نہیں معلوم میں تو ان سے اس وجہ سے متاثر تھا کہ وہ میرے خاندان کے ایک ایسے فرد تھے جو علم و ادب اور شعر گوئی کا اعلیٰ ذوق رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آباء و اجداد کے علمی اور ادبی ورثہ کو اپنی آئندہ نسل میں منتقل کرنے کے امین تھے۔ وہ بھی مجھ پر مہر باں تھے شاید انہوں نے مجھ میں بھی کچھ ایسی ہی صفات محسوس کی ہوں واللہ عالم بالثواب۔ حافظ لدھیانوی نے کا کہنا ہے کہ ’’ تین پشتوں سے یہ معزز گھرانہ حضورﷺ کے مدحت نگاروں کی حیثیت سے جا نا پہچانا جا تا ہے۔ تین پشتوں سے گھرکی فضاء میں نعت کے زمزمے گونجتے رہے ہیں میر انیسؔ نے اپنے خاندانی شرف کو بیان کر تے ہوئے کہا تھا ’’پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں ‘‘حافظ صاحب نے اس مصرعہ کی مناسبت سے ایک اور مصرعہ کہا اور تابشؔ صمدانی کو مشورہ دیا کہ وہ اس کرم خاص کا ذکر کر تے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ ’’ تیسری پشت ہے سرکار کی مداحی میں ‘‘۔ الحمد اللہ خاندان باری بخش میں شروع ہی سے ذوق سخن بدرجہ اتم موجود ہے اور ان کا شمار حضور اکرم محمد مصطفیﷺ کی مداح سراحوں میں ہوتا ہے۔ جناب آزادؔ کے بعد تیسری ہی نہیں بلکہ چوتھی اور پانچویں پشت میں بھی ذوقِ شعری پا یا جاتا ہے۔ الحمد اللہ تابشؔ صمدانی کے صاحبزادوں رہبر صمدانی اور سرور صمدانی شعری ذوق رکھتے ہیں۔ اچھے شعر کہتے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں صاحبِ دیوان شاعروں میں شامل ہوں گے۔ میَں نے تابشؔ صمدانی کے حوالے سے کبھی کہا تھا ؎

باغِ ابراہیم کا ایک پھول ہیں تابشؔ

جانشین آزادؔ  اور جانِ خلیلؔ ہیں تابشؔ

ہو نہ کیوں ناز ہمیں آزا دؔ ، خلیلؔ  و تابشؔ پر

کہ ایک ہی چمن کے یہ درخشندہ ستارے ہیں

رہی ہمیشہ جن کے لبوں پر سر کار کی مدحت

جو صدیوں میں ہوں پیدا یہ مہ انجم ہمارے ہیں

وراثت میں ملی ہیں جسے آبا کی صفات

کتنا خوش نصیب مدحت سرا ہے تابشؔ

قبول مدح محبوبی ہو تابشؔ  کی رئیسؔ

ہے یہ دعا تمہیں جنت ہو نصیب تابشؔ

خلیل صمدانی کو بھی قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، طویل قامت، بہت ہی دبلے پتلے، گندمی رنگ، چہرہ کے نقوش نمایا، ستواں کھڑی ناک، کرنجی آنکھیں، کشادہ پیشانی اوپر تک جاتی ہوئی، چھدرے بال، ہنستا مسکراتا چہرہ، یہ تھا جناب خلیل صمدانی کا ظاہری روپ جو میرے ذہن میں محفوظ رہ گیا ہے۔

۱۹۷۰ء میں جناب خلیلؔ صمدانی مرحوم اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنے بڑے بھائی محترم انیق احمد مرحوم کی تیمار داری کے لئے ملتان تشریف لائے۔ پاکستان میں آپ کی آمد عارضی اور صرف تین ماہ کے لئے تھی۔ اس دوران آپ عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے، اچانک دل کو دورہ پڑا اور آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۱۵ جون ۱۹۷۰ ء کو مالک حقیقی سے جا ملے اور ملتان کی سر زمین مدینۃ الا ولیاء کو اپنی ابدی آرام گاہ بنا یا۔

 

۸۔    اسماعیل احمد صمدانی مرحوم

 

اسماعیل احمد مرحوم آزادؔ صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے جنہوں نے پاکستان ہجرت نہیں کی اور اپنے آباء و اجداد کی سرزمین بیکانیر کو اپنے لیے دل و جان بنائے رکھا اور اسی سرزمین کو اپنی آخری آرام گاہ بنایا۔ یہ شرف صرف جناب اسماعیل کو حاصل ہوا کہ وہ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ راجستھان کے شہر بیکانیر میں آسودہ خاک ہیں۔ آپ کی شادی محترمہ بتول سے ہوئی آپ کے ایک ہی بیٹا عارف احمد ہوئے انہوں نے بھی اپنے والد اور دادا کی سرزمین کو اپنے لیے مقدس جانا اور بیکانیر میں ہی سکونت اختیار کی۔

 

آزادؔ  صاحب کی بیٹیاں (حمیدہ خاتون اور کنیز رسول)

 

آزادؔ صاحب کی دو صاحبزادیاں ہوئیں۔ حمیدہ خاتون اور کنیز رسول۔ حمیدہ خاتون کی شادی آزادؔ صاحب کے چھوٹے بھائی عزیز احمد کے بڑے صاحبزادے شمیم احمد سے اور چھوٹی صاحبزادی کنیز رسول کی شادی عزیز احمد کے چھوٹے بیٹے حنیف احمد صمدانی سے ہوئی۔ ان رشتوں سے اس بات کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں کہ آزادؔ صاحب اپنے چھوٹے بھائی جناب عزیز احمد سے کس در محبت اور چاہ رکھتے تھے۔

حمیدہ خاتون کی اولادوں میں نفیس احمد صمدانی، جلیل احمد صمدانی، زبید احمد صمدانی، عجیب احمد، مغنی، اصغری ، ذکیہ، نائلہ ثمن، سائرہ اور زاہدہ ہوئیں۔ آزادؔ صاحب کی چھوٹی بیٹی کنیز رسول کی اولادوں میں کفیلہ صمدانی، شعیب احمد صمدانی، حمیرا صمدانی، شیس صمدانی اور نجمہ صمدانی شامل ہیں۔ حمیدہ خاتون بیکانیر میں مدفن ہیں جب کہ چھوٹی صاحبزادی کنیز رسول کا انتقال ۱۲ اگست ۱۹۹۴ء کو کراچی میں ہوا اور شیر شاہ قبرستان میں مدفن ہیں۔

آزادؔ صاحب کے بیٹوں کی اولادیں در اولادیں ہندوستان کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہیں۔ ان کی اولادِ ذکور و اناث تعداد کے اعتبار سے ہزاروں میں ہو گی۔ راقم الحروف کی کوشش تھی کے اس کتاب میں آزادؔ  صاحب کی اولاد ذکور و اناث کا شجرہ بھی شامل کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں اسی فیصد کام مکمل کر لیا تھا۔ کتاب کی اشاعت میں کئی سال لگ گئے اس وجہ سے وہ شجرہ مکمل نہیں رہ سکا اوراس وجہ سے شامل اشاعت نہ ہو سکا۔ زندگی نے وفا کی تو انشاء اللہ شجرہ کو مکمل کر کے علیحدہ سے شائع کرنے کا ارادہ ہے۔

 

 

 

 

                باب۔ ۵

 

 آبائی شہر بیکانیر، مظفر نگر، حسین پور

 

شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کا خاندان ’ خاندانِ باری بخش ‘ جو بعد میں ’’خاندان حسین پور ‘‘ مشہور ہوا۔ اس خاندان کے احباب نے ہندوستان کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں، دیہاتوں، قصبوں اور تحصیلوں میں رہائش اختیارکی ان میں بیکانیر، دہلی، گنگا نگر، مظفر نگر، حسین پور، عمر پور، فرید کوٹ، بڑھانہ، کیرانہ، جھنجانہ، شکار پور، محمد پور، باہہ، شاملی، بجنور، کرنال، پانی پت، خان پور، ہری پور، فیروز پور، حصار، سرسہ، ہریانہ، روھتک، شاہ پور، بنت، میرٹھ، سہارنپور، آگرہ، اجمیر، الہٰ آباد، امرتسر، اعظم گڑھ، بھوپال، بہار، چندری گڑھ، کوٹ کپورہ، فیض آباد، فرخ آباد، فتح پور سیکری، ہاپڑ، جے پور، جیسل میر، جہانسی، میرٹھ، ممبئی، جود پور، مالیر کوٹلہ، لدھیانہ، جیسلمیر اور دیگر شامل تھے۔ تقسیم ہند کے بعد اس خاندان کے احباب نے پاکستان کے مختلف شہروں کو اپنا مسکن بنایا ان میں لاہور، راولپنڈی، بہاولپور، بہاولنگر، میلسی، ملتان، وہاڑی، خانے وال، بابے والا، ہارون آباد، چشتیاں، علی پور، بابے والا، چک جھمرہ، پشاور، کوئٹہ، عارف والا، بھوری والا، چنیوٹ، ڈیرا غازی خان، فیصل آباد، سرگودھا، حاصل پور، جھنگ، جہلم، لیاء، لودھراں، مظفر گڑھ، رحیم یار خان، صادق آباد، ساہیوال، وہاڑی، سندھ میں کراچی، حیدرآباد، کوٹری، میرپور خاص سکھر، روہڑی شامل ہیں۔ اکثریت ملک کے بڑے شہروں لاہور، کراچی، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان میں آباد ہے۔

علامہ سید ظمیر اختر نقوی نے اپنی کتاب ’تذکرہ وَ تاریخ کلاپور(۱)‘ میں اپنے تاثرات تحریر کرتے ہوئے حضرت امام جعفر صادقؓ کا یک واقعہ قلم بند کیا ہے کہ’ آپ ایک بستی سے گزرے جہاں کے لوگ انتہائی بد تہذیب اور بد اخلاق تھے ان کے لیے امام جعفر صادقؓ نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں اسی بستی میں محدود رکھنا، پھر ایک ایسی بستی سے گزرے جہاں کے لوگ انتہائی مہذب اور خوش اخلاق تھے ان کے لیے آپ نے دعا کی کہ انہیں پوری کائنات میں پھیلا دے۔ یہ ایک جگہ ایک بستی میں نہ رہنے پائیں۔ آپ کے اصحاب نے دریافت کیا کہ بد اخلاق لوگوں کے لیے ایک جگہ رہنے کی دعا اور خوش اخلاق لوگوں کے لیے منتشر رہنے کی دعا؟ امام جعفر صادقؓ نے فرمایا ’’میں چاہتا ہوں کہ بد اخلاق لوگوں کے عادات و اطوار اور رویے سے خلق خدا متاثر نہ ہو اور خوش اخلاق لوگوں کی تہذیب کو پوری دنیا اپنا لے اس لیے خدا سے دعا کی کہ انہیں پوری دنیا میں پھیلا دے ‘‘۔           خاندان باری بخش کے احباب کی مختلف شہروں میں سکونت اور ان کا پھیلاؤ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کے احباب کو دنیا کے کسی ایک، دو یا چند شہروں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس خاندان کے احباب بے شمار شہروں، قصبوں، دیہاتوں اور تحصیلوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے اچھے اخلاق و کردار سے دنیا کے لوگوں کو فیض پہنچا رہے ہیں۔ علامہ سید ظمیر اختر نقوی کی یہ کتاب مجھے محترم انعام احمد صدیقی نے فراہم کی۔ مقصد موصوف کا یہ ہے کہ میں خاندانِ باری بخش( حسین پور) کی تاریخ مرتب کروں۔ وہ مجھے اس جانب بہت عرصے سے مائل کر رہے ہیں۔ اس خاندان کی ایک فلاحی انجمن ’’ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن ‘‘ کے حوالے سے مر تب ہونے والی کتاب ’’سرودِ رفتہ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن بھی انعام بھائی نے مجھے اسی مقصد سے مطالعے کے لیے دیا۔ میرا اصل موضوع تو سوانح نگاری رہا ہے تا ہم اس موضوع پر میرا مطالعہ اور دلچسپی ہے۔ یہ کام مشکل اور کٹھن ہے۔ اس حوالے سے بعض تاریخی حقائق میں نے اس کتاب میں شامل کیے ہیں۔ زندگی نے وفا کی، اللہ تبارک و تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی، اگر وہ مجھ سے یہ خدمت لینا چاہتا ہے تو یہ کام ضرور ہو گا۔ انعام صاحب کے خلوص اور اس مقصد کے لیے ان کی لگن قابل تعریف ہے۔ دنیا میں اب ایسے پر خلوص لوگ کم کم ہیں۔

خاندان حسین پور کے ایک بزرگ عبداولی صاحب مرحوم نے خاندانی انجمن کے اجلاس عام منعقدہ امرتسر بتاریخ ۷۔ ۸ مئی ۱۹۴۵ء اپنے خطبۂ صدارت میں کہا کہ ۱۸۵۷ء جب کہ ہماری قوم کے چند افراد نے حسین پور کو خیر باد کہا۔ پنجاب کی سرزمین امرتسر کو جائے سکونت قرار دیا۔ آہستہ آہستہ یہ برادری پنجاب کے دیگر شہروں فیروزپور، فرید کوٹ، حصار، سرسہ، بیکانیر اور بڑے بڑے شہروں میں آباد ہوئی۔ اب ہندوستان کے ہر گوشہ میں اس برادری کے افراد سکونت پذیر ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی حالت بعینہٖ قدیم آرئیں کی سی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ جس طرح چند افراد پر مشتمل اور چند خانوں میں منقسم ہو کر اپنی بھیڑیں، مال مویشی کو لے کر کسی خطۂ زمین میں ڈیرے ڈال دیا کرتے تھے اس طرح ہماری قوم بھی اپنی زندگی کو گزارنے کے لیے جہاں کہیں روزگار ملا رہائش اختیار کرتی گئی(۲)۔

پروفیسر عبد المحصی نے اسی موضوع کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’ہمارے بزرگ شاید اٹھارویں صدی میں حسین پور میں آباد ہوئے تھے اور کافی طویل عرصہ تک وہیں اپنے خاندان کی آبیاری کرتے اور باہمی تعاون و اشتراک، استعداد و استقامت کی بدولت اس قدر پھولے پھلے کہ انیسویں صدی میں حسین پور کی محدود زمین نے انہیں قوت لایموت مہیا کرنے سے انکار کر دیا۔ اب ہمارے یہ بزرگ ’’ہر ملک ملک ما است کہ ملک خدائے ما است‘‘ پر یقین رکھتے ہوئے شہد کی مکھیوں کی طرح اپنے عزیز چھتے کو خیرباد کہہ کر ہندوستان کے مختلف اطراف و اکناف میں منتشر ہو گئے۔ خود پر اعتماد اور اللہ پر بھروسہ ان کا کل اثاثہ تھا۔ اسی لیے ایک مختصر عرصہ کے بعد دنیا نے ان سادہ پوش اور سادہ دل دیہاتیوں کو پنجاب کی سرزمین اور گنگا جمنا کے میدان میں تاریخی اہمیت رکھنے والی نہریں کاٹتے ہوئے دیکھا‘۔ آج خاندانِ باری بخش پاکستان کے کونے کونے میں آباد ہیں۔

پنجاب کی سرزمین اس خاندان کو زیادہ راس آئی۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کی اکثریت نے پانچ دریاؤں کی سرزمین میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

ذیل میں ہندوستان کے ان شہروں کے بارے میں جہاں اس خاندان کے احباب زیادہ تعداد میں رہائش پذیر رہے ہیں کے بارے میں بنیادی معلومات درج کی جا رہی ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد نئی نسل کو اپنے آباء و اجداد کی شخصیت کے ساتھ ساتھ وہ بزرگ جن شہروں میں مقیم رہے کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔ یہ اس خاندان کے آبائی وطن میں شمار کیے جاتے ہیں۔

 

                بیکانیر، راجستھان

 

ہندوستان کے شمالی علاقہ کو بر صغیر میں بعض خوبیوں کے باعث منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ سر زمین مختلف قسم کی ثقافت‘ تاریخی یادگاروں، صحرا، دریاؤں ، ہمالیہ، مذاہب اور آب و ہوا کے باعث انفرادیت رکھتی ہے۔ دہلی، ہیماچل پردیس، جموں و کشمیر، پنجاب، یو پی اور راجستھان صوبوں پر مشتمل ہے۔ راجستھان سب سے زیادہ رنگین اور متحرک ریاست شمار ہو تی ہے۔ بیکانیر ہندوستان کے صوبے راجستھان کی ایک قدیم اور تاریخی ریاست ہے۔ یہ مشہور ترین قلعوں فصیلوں اور محلوں کے باعث اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اس کی تین چیزیں بہت مشہور ہیں جو اس ریاست کو دیگر علاقوں سے منفرد کرتی ہیں ایک اونٹ دوسرے ریل کا نظام اورتیسرے جنگلی یا ریتیلی مرغی۔ اس کی سرحد پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقہ بہاولپور سے ملتی ہے۔ بیکانیر اور بہاولنگر کے درمیان طویل صحرا ہے۔ غزنوی خاندان کا حکمراں سلطان محمود غزنوی ملتان سے بیکانیر ہوتا ہوا اجمیر اور آبو ہو کر گجرات پہنچا اور سومناتھ فتح کیا۔ راجستھان بھارت کے شمال میں واقع ہے اس کا صدر مقام جیپور ہے۔ بڑے شہروں میں اجمیر، جودھ پور، بیکانیر، کوٹہ اور اودھے پور شامل ہیں۔ بیکانیر ۱۹۴۹ء تک ریاست بیکانیر کا دارالخلافہ رہا، تقسیم ہندوستان کے بعد یہ ریاست بھارت میں شامل کر دی گئی۔ یہ اناج، صنعت، علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے اعتبار سے ہندوستان کا ایک زرخیز شہر ہے۔

آزادؔ صاحب کے پرکھوں کی سرزمین راجستھان تھی، اس حوالے سے خاندانِ باری بخش(حسین پور) بنیادی طور پر راجستھانی یا راجپوت ہے، راجستھان آج کل آبادی کے لحاظ سے بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے، تقسیم سے قبل اس صوبے کا نام راجپوتانہ تھا اور یہ صوبہ بائیس راجواڑوں (ریاستوں ) کا مجموعہ تھا۔ راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا کی ہیں، میرابائی، مہدی حسن اور ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی نے راجستھان کے تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں حالانکہ وہ خود بھی راجپوت ہی ہیں۔ بعد میں آزادؔ صاحب کے اس خاندان کے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر (یوپی )کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔ ’ مورث اعلیٰ حضرت دیوان باری بخش علیہ الرحمۃ نے غزنوی دورِ میں بہٹنیر(بیکانیر) سے دہلی ہجرت کی، اس وقت دھلی میں مہاراجہ پال عرف جیون سنگھ تورمار خاندان کی حکومت تھی، شہاب الدین شاہجہاں کے عہد میں یہ خاندان شکار پور سے منتقل ہو کر قصبہ حسین پور، ضلع مظفر نگر، یو پی میں مقیم ہو ا۔ شیخ محمد ابراہیم آزادؔ حسین پور سے پہلے فرید کوٹ پھر بیکانیر منتقل ہوئے۔ ان کا یہ عمل ایسا ہی تھا کہ’ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘، آزادؔ صاحب نے اپنے انتقال تک بیکانیر کو ہی آباد کیے رکھا۔

 

                محل وقوع

 

بیکانیر ہندوستان کے صوبہ راجستھان کے تقریباً وسط میں واقع ہے اس کے شمال میں کشمیر ، چین کے علاوہ ہندوستان کا صوبہ پنجاب، امرتسر، ھنومان گڑ، مشرق میں امرتسراور شاہجہاں پور، جنوب میں گجرات، احمد آباد اور جونپور، مغرب میں پاکستانی علاقہ پنجاب کی سرحد ہے جب کہ شمال مشرق میں دہلی، گنگا نگر، مظفر نگر، میرٹھ، ہریانہ، شمال مغرب میں پاکستانی شہر بہاولپور اور بہاولنگر کی سر حد ملتی ہے، جنوب مشرق میں جیپور جب کہ

جنوب مغرب میں جودھپور ، رن کچھ نیز پاکستان کے صوبہ سندھ کے بعض علاقوں میر پور خاص، کھوکھرا پار واقع ہے۔

 

                رقبہ اور آبادی

 

ریاست بیکانیر کا رقبہ ۲۴۵ میل یا ۳۹۴ کلو میڑپر مشتمل ہے۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا نے ۱۹۴۱ء میں ریاست بیکانیر کی آبادی ایک لاکھ ۲۷ ہزار تحریرکی۔ اردو انسائیکلو پیڈیا فیروزسنز کے مطابق ۱۹۴۷ء میں اس کی آبادی ۹۳۸، ۹۲، ۱۲ تھی۔ صرف شہر بیکانیر کی آبادی ۱۹۷۰ء میں ایک لاکھ ۹۰ ہزار ۹۶۸ سو تھی۔ انٹر نیٹ پر بیکانیر کی آبادی کی تفصیل حسب ذیل دی گئی ہے۔

۲۰۰۱ء کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی 1,674,271تھی، ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں لوگوں کی کل تعداد2,367,745ہے۔ ان میں مردوں کی آبادی ,367,745اور عورتیں 1,674,271ہے۔ یعنی مرد کل آبادی کا53 فیصد اور خواتین کل آبادی 47فیصد ہیں۔

 

                آب و ہوا اور زبانیں

 

بیکانیر ہندوستان کے صحرائی راجستھان میں واقع ہے اس اعتبار سے یہاں کی آب و ہوا انتہائی گرم ریگستانی ہے۔ بارش بہت کم ہو تی ہے۔ سیرو سیاحت کے لیے بہترین موسم اکتوبر سے مارچ کے درمیان ہوتا ہے۔ بیکانیر کی بنیادی سرکاری زبان ہندی ہے لیکن راجستھانی، اردو اور مارواڑی بولنے والے بھی خاصی تعداد میں ہیں۔

 

                تاریخی پس منظر اور سربراہانِ ریاست

 

پندرھویں صدی میں مار واڑ (جودھپور) پر ایک راٹھور راجپوت راؤ جو دھا جی حکمرانی کر رہا تھا۔ اس راجہ کے کئی بیٹے تھے اس نے اپنے ایک بیٹے راؤ بیکا جی جو چھٹے نمبر پر تھا راجستھان میں کسی بھی جگہ اپنی علیحدہ حکمرانی قائم کر نے کی ہدایت کی۔ راؤ بیکا جی نے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے ۱۴۶۵ء میں بھٹنیر( ھنو مان گڑھ) پر فوج کشی کا آغاز کیا۔ اس حکمت عملی میں اسے اپنے باپ کے علاوہ اپنی قوم کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہ سورش کئی سال جاری رہی حتیٰ کہ اسے اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی اور راؤبیکاجی نے ۱۴۸۸ء میں علاقہ کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لیتے ہوئے اپنی حکمرانی کا آغاز کیاساتھ ہی اس علاقہ بھٹنیر( ھنو مان گڑھ) کا نام اپنے نام کی مناسبت سے ’’بیکانیر‘‘ رکھا۔ یہ ریاست بیکانیر اور نواحی بستیوں پر مشتمل تھی۔ بیکانیر کو ریاست کا دارالخلافہ بنایا گیا جو تقسیم ہند تک قائم رہا۔ اپنی حکمرانی کے ساتھ ہی راؤ بیکاجی نے شہر کی تعمیر نو کی جانب خصوصی توجہ کی خاص طور پر ایک چھوٹا سا قلعہ تعمیر کرایا جو آج بھی بیکانیر کے بانی حکمراں کی یادگار کے طور پر قائم ہے۔ راؤبیکا جی کا انتقال ۱۵۰۴ء میں ہو ا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں مغل بادشاہ محمد ظہیر الدین بابر (۱۴۸۳ء۔ ۱۵۳۰ء ) نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مغلیہ سلطنت کے قیام کے بعد علاقہ میں فتوحات کا آغاز ہو چکا تھا اور مغل حکمراں اپنی سلطنت کوو سیع سے وسیع تر کر نے کی غرض سے فتوحات کر رہے تھے۔ راؤبیکا جی نے ان حالات سے بھی فائدہ اٹھایا ہو گا۔ راؤبیکا جی کے انتقال کے بعد کلیان سنگھ جانشین ہوا یہ دور مغل بادشاہ اکبر اعظم (۱۵۵۶ء۔ ۱۶۵۱ء) کا تھا۔ بیکانیر کے حکمرانوں نے خطے کی خصوصی کیفیت کے باعث مغل فرمانرواؤں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار رکھے۔ کلیان سنگھ کو دربار اکبری میں خصوصیت حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بیکانیر کا سربراہ سلطنت دہلی کا بہت ہی بہ اعتماد اور ثابت قدم رہنے والا وفادار حاکم اور اکبر بادشاہ کے بہت قریب تھا۔ ۱۵۷۰ء میں اکبر بادشاہ نے کلیان سنگھ کی بیٹی سے شادی کی اس طرح بیکانیر کا حاکم مغل سلطنت سے مزید قریب آ گیا۔ کلیان سنگھ کا بیٹا ’رائے سنگھ، مغل سلطنت میں فوجی اعتبار سے اہمیت رکھتا تھا۔ یہ ایک جنرل تھا اور اکبر بادشاہ کا بہت ہی قابل اعتبار اور معتبر لوگوں میں سے ایک تھا۔ اپنے باپ کے بعد بیکانیر کا حکمراں مقرر ہوا اکبر اعظم نے اسے خاص انعام و اکرام سے نوازا اور یہ بیکانیر کا پہلا ’’راجہ ‘‘ مقرر ہوا یعنی بیکانیر ریاست کے حاکم اعلیٰ کو راجہ کی حیثیت رائے سنگھ سے حاصل ہوئی بعد میں رائے سنگھ کی بیٹی کی شادی سلیم سے ہوئی۔

 

                راجہ کرن سنگھ

 

 

راجہ کرن سنگھ(۱۶۳۱ئ۔ ۱۶۶۹ء) بیکانیر اسٹیٹ کا ایک ممتاز حکمراں تھا اس نے مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے ساتھ مل کر سلطنت کی ترقی کی جد و جہد کی۔ اس کے بعد انوپ سنگھ (۱۶۶۹ء۔ ۱۶۹۸ء) نے بھی ریاست کی حدود کو وسیع کر نے کی جد وجہد کی، اس زمانے میں ریاست بیکا بیر کے ریاست دکن سے انتہائی دوستانہ تعلقات استوار ہو گئے۔ اٹھارویں صدی میں بیکانیر اسٹیٹ اور جودھپور کے مابین وقفہ وقفہ سے معرکہ آرائی ہوتی رہی، با لا آخر دونوں ریا ستیں امن پر متفق ہوئیں، ۹ مئی ۱۸۱۸ء کو دونوں کے درمیان ایک امن معاہدہ ہواجس کے نتیجے میں برطانوی فوج نے ریاست کو باقاعدہ تسلیم کیا۔

رتن سنگھ

۱۸۲۸ء میں رتن سنگھ نے اپنے باپ کی جگہ ریاست کا اقتدار سنبھالہ۔ علاقے میں ٹھاکروں نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ رتن سنگھ تنہا اس سورش کو ختم نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اس نے برطانوی حکومت سے مدد کی درخواست کی جس کے بعد حالات قابو میں آ گئے۔ ریاست بیکانیر کا یہ حاکم انگریز کا وفادار تھا۔ ۱۸۴۲ء میں ہونے والی افغان جنگ میں رتن سنگھ نے انگریز کی بھر پور مدد کی ہر طریقہ سے انگریز کا وفادار رہا۔ کئی سو اونٹ بغرض جنگ انگریز کو تحفہ میں دئے اس زمانے میں جنگ میں دیگر اشیاء کے علاوہ اونٹ ایک مال و اسباب اور لوگوں کی سواری کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ بیکانیر اسٹیٹ شروع ہی سے اونٹوں کی افزائش نسل کے لیے ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔

 

                 سردار سنگھ

 

رتن سنگھ کے بعد اس کا بیٹا سردار سنگھ (۱۸۵۱ء۔ ۱۸۷۲ء) ریاست بیکانیر کا حاکم بنا اس نے اپنے سابقہ حاکموں کی پالیسی پر عمل در آمد کیا اور انگریز سے بدستور تعلقات استوار رکھے چنانچہ انگریز نے اسے بے شمار انعام و اکرام سے نوازا۔ ریاست کے گرد ونواہ کی مزید زمین ریاست بیکانیر میں شال کی گئی۔ اس کے نتیجے میں رتن سنگھ نے اجناس و دیگر سازوسامان جو اس کے علاقے سے گزر کر دیگر ریاستوں کو جاتا تھا اس پر عائد ٹیکس میں کمی کر دی۔

 

                ڈونگرا سنگھ

 

سر دار سنگھ کا کوئی بیٹا نہیں تھا اس کا انتقال ۱۸۷۲ء میں ہوا چنانچہ جانشینی کا مسئلہ پیدا ہوا اس کی بیوہ اور ریاست کے خاص وزیروں کے مشورے سے ’ڈونگرا سنگھ‘ کوسر دار سنگھ کا جانشیں مقرر کیا گیا۔ ڈونگرا سنگھ کی جانشینی میں برطانوی حکومت کی رضا مندی بھی شامل تھی۔ ڈونگرا سنگھ کے دور حکمرانی میں ریاست میں استحکام نہ ہو سکا مختلف قوموں نے اسے اپنا حاکم قبول نہ کیا اور ریاست میں امن قائم نہ رہا۔ سب سے زیادہ سوزش ۱۸۸۳ء میں ٹھاکروں نے بر پا کی یہ ایک طرح کی بغاوت تھی، اس کی بنیاد ریاست کی جانب سے لگائے جانے والے مختلف ٹیکسوں کو بنا یا گیا۔ ڈونگرا سنگھ کا انتقال ۱۸۸۷ء میں ہوا اس کا بھی کو ئی بیٹا نہیں تھا لیکن اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنے ایک چھوٹے بھائی گنگا سنگھ کو بیٹا بنا لیا تھا چنانچہ ریاست کی حاکمیت اعلیٰ گنگا سنگھ کو سونپی گئی۔

 

                سری گنگا سنگھ

 

سری گنگا سنگھ ریاست بیکانیر کا اکیسواں مہاراجہ تھا اس نے اپنی حکمرانی کا آغاز ۱۸۸۷ء میں کیا۔ تاج برطانیہ نے گنگا سنگھ کی حکمرانی کے لیے باقاعدہ اجازت نامہ ۱۸۹۸ء میں جاری کیا۔ گنگا سنگھ ایک نیک انسان تھا اس نے اپنے دور حکمرانی میں ریاست بیکانیر کی ترقی  کے لیے بے شمار عملی اقدامات کیے بیرونی دنیا میں بھی اس نے ریاست کے وقار میں اضافہ کیا۔ گنگا سنگھ ریاست بیکانیر کے مہاراجوں اور حکمرانوں میں اس اعتبار سے منفرد تھا کہ اس نے تاج برطانیہ کے ساتھ نہ صرف دوستانہ مراسم قائم کیے بلک برطانوی حکو مت کی نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ گنگا سنگھ نے ۱۹۰۲ء میں برطانیہ کا پہلا سرکاری دورہ کیا جہاں پر انہوں نے کنگ ایڈورڈ کی رسم تاجپوشی میں شرکت کی اس موقع پر سری گنگا سنگھ کو پرنس ویلس کا اے ڈی سی مقرر کیا گیا ان کی یہ حیثیت کنگ جارج تک قائم رہی پہلی جنگ عظیم میں سری گنگا سنگھ نے فرانس میں بحیثیت اسٹاف آفیسر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۱۵ء میں مصر میں بھی انہیں مہ داریاں سونپی گئیں۔ ۱۹۱۷ء میں مہاراجہ گنگا سنگھ کو امپیریل وار کانفرنس کا رکن نامزد کیا گیا اور ہندوستان کے لیے سیکریٹری کی معاونت کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ ۱۹۱۹ء میں منعقد ہونے والی امن کانفرنس اور ۱۹۲۴ء میں لیگ آف نیشن اسمبلی جینوا میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ گنگا سنگھ نے ۲ فروری ۱۹۴۳ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ گنگا سنگھ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا سری سادل سنگھ جی بہادر ۱۹۴۳ء میں ریاست کا سربراہ بنا اور ۱۹۴۹ء میں دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ بیکانیر ریاست کو بھارت کا حصہ بنا دیا گیا اس طرح ریاست بیکانیر میں سرداروں کی حکمرانی کا آغاز جو۱۴۸۸ء میں شروع ہوا تھا ۱۹۴۹ء میں اختتام کو پہنچا۔ سر دار راؤ بیکاجی ریاست کا پہلا حکمراں جب کہ سری گنگا سنگھ کا بیٹاسری سادل سنگھ جی بہادرریاست کا آخری مہاراجہ تھا۔

 

                حفاظتی دیوار

 

ریاست بیکانیر کے چاروں اطراف پتھر کی چار دیواری بنوائی گئی تھی جس کی موٹائی تقریباً چھ فٹ ، اونچائی ۱۵ سے ۳۰ فٹ تھی۔ ریاست میں داخل ہونے کے لیے پانچ دروازے تھے جب کہ تین خفیہ راستے اس کے علاوہ تھے۔ دیوار بنانے کا مقصد شہر کو بیرونی حملہ وروں سے محفوظ رکھنا تھا۔

 

                قلعہ اور میوزیم

 

ریاست بیکانیر کے حکمراں قلعہ اور قلعہ نما عمارات کی تعمیر میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ بیکانیر کے اولین حکمراں راؤبیکا جی نے اپنی حکمرانی قائم ہو تے ہی ایک چھوٹا سا قلعہ تعمیر کرایا جو اپنی خوبصورتی میں لاجواب تھا یہ قلعہ ریاست کے انتظامی امور کی انجام دہی کا مر کز بھی تھا۔ جو نا گڑھ قلعہ پندرھویں صدی میں مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے ایک جنرل راجہ رائے سنگھ نے تعمیر کرایا جو آج بھی قائم ہے۔ لعل گڑ پیلس بیکانیر کے راجہ سری گنگاسنگھ نے تعمیر کرایا۔ اس کی ڈیزائنگ بر طانوی ماہرین نے کی تھی یہ مشرقی اور مغربی طرز تعمیر کا اعلیٰ نمو نہ ہے۔ گنگ گولڈن جوبلی میوزیم میں قدیم تہذیبوں کے نوادرات، قلمی تسخے ، پینٹنگ، سکے اور دیگر نوادرات محفوظ ہیں۔

 

                تعلیمی ادارے

 

بیکانیر ریاست تعلیمی اداروں کے اعتبار سے بھی خود کفیل تھی اور اب بھی ہے۔ حکمرانوں نے جہاں دیگر امور کی جانب توجہ دی وہاں تعلیم کے فروغ اور تعلیمی اداروں کے قیام پر بھی خصوصی توجہ دی۔ انٹر نیٹ

پرحسب ذیل تعلیمی اداروں کی تفصیل موجود ہے (۱۲۳)۔

Colleges :

  1. . Shri. Dungar College
  2. . College of Engineering & Technology, Bikaner
  3. . Government Engineering College Bikaner
  4. . Sardar Patel Medical College, Bikaner
  5. . Marudhar Engineering College, Bikaner

Universities :

  1. . Maharaja Ganga Singh University
  2. . Rajasthan University of Veterinary and Animal Sciences,

Jaisalmer Road, Bikaner

  1. . Swami Keshwanand Rajasthan Agricultural University

Schools :

  1. . Saint Public Sr. Sec. School, Old Ginani
  2. . R.S.V., JNV Colony
  3. . K.V. No. 1 (Jaipur Road)
  4. . K.V. No. 2 Bikaner (inside Army campus)۔
  5. . K.V. No. 3 Nal Bikaner (inside Air Force Station Nal

Bikaner)Sophia Senior Secondary School,Jaipur Road

  1. . Bikaner Boys School
  2. . Govt City Senior Sec. School
  3. . Delhi Public School,Bikaner
  4. . Dayanand Public School.
  5. 10. . Sophia Senior Secondary School,Jaipur Road
  6. 11. . St.N.N R.S.V, Pawan Puri South Extension
  7. 12. . Central Academy Senior Secondary School {Sadul Ganj}
  8. 13. . Teresa Children Academy Sr. Sec. School (K.K Colony

Bikaner)

  1. 14. . Bal Bari, Gangashahar
  2. 15. . Aadarsh Vidhya Mandir, JNV Colony & Gangashahar
  3. 16. . St. vivekanand sr. sec. school
  4. 17. . Seth Tolaram Bafna Academy,Gangashahar, Nokha

Road

  1. 18. . Pink Model Senior Sec. School
  2. 19. . Fort Senior Sec. School
  3. 20. . Army Public School (Inside Army campus)
  4. 21. . Sadul Sports School Bikaner (Only Sports School In

Rajasthan)

  1. 22. . Sadul Sr. Secondary School(Kotegate Bikaner)
  2. 23. S.R.   Vidyaniketan, Bikaner

 

                انوپ سنسکرت لائبریری

 

بیکانیر میں قائم انوپ سنسکرت لائبریری دنیا میں سنسکرت مخطوطات کے وسیع ذخیرہ کے اعتبار سے معروف ہے۔ یہ لائبریری بیکانیر کے راجہ انوپ سنگھ کے نام سے منسوب ہے۔ لائبریری بیکانیر میں موجود’لعل گڑھ پیلس، کے ایک حصے میں قائم ہے جسے ’سادلنواس،(Sadul Niwas)کہا جاتا ہے۔ راجا انوپ سنگھ نے یہ قیمتی مخطوطات ستھرویں صدی میں حیدر آباد سے حاصل کیے تھے۔

 

                بیکانیر اسکول آف آرٹ

 

سترھویں صدی کے اختتام پر بہت سے مغل مصور دہلی سے ترک وطن کر کے بیکانیر میں آباد ہو گئے انہوں نے اپنے پیشے کی ترقی  اور فروغ کے لیے اپنے فن کا آغاز کیا اور مصوری کے ایک خاص اسلوب کی بنیاد رکھی۔ اس اسلوب مصوری کو شہرت حاصل ہوئی اپنی انفرادیت اور مخصوص اسلوب نگاری کے باعث اسے ’’بیکانیر اسکول آف آرٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس میں جلال کم اور جمال زیادہ تھا۔ رکن الدین اور رضا عباس اس اسکولِ مصوری کے بانیوں میں سے تھے۔

 

                اونٹ میلا

 

اونٹ جسے صحرائی جہاز کا نام دیا جاتا ہے بیکانیر کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیکانیر میں موٹر کار کے بجائے گھروں میں اونٹ پالے جاتے تھے گو یا اونٹ پالنا اس علاقے کی خاص روایت تھی۔ بیکانیر کے مختلف مہاراجہ اونٹ بطور تحفہ دیا کرتے تھے۔ اونٹ جنگ کے دوران بھی ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ سواری، مال برداری کے علاوہ اونٹوں کو میدان جنگ میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ بیکانیر مین اونٹوں کی خاص نسلیں پائی جاتی تھیں یہاں ہر سال جنوری کے مہینے میں اونٹوں کا میلا منعقد کیا جاتا جس میں لوگ دور دور سے شر کت کرنے آیا کر تے تھے۔

 

                مظفر نگر(یو پی)، ہندوستان

 

مظفر نگر ہندوستان کے ضلع یو پی (اتر پردیس) کا ایک ضلع ہے، یہ شمالی مغربی اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ مظفر نگر کی چار تحصیلیں بڑھانہ، کیرانہ، جھنجانہ اور شاملی ہیں۔ اس کی آبادی مسلمانوں اور ہندوؤں پر مشتمل ہے۔ اس کے اطراف نزدیک ترین شہروں میں بجنور، کرنال، پانی پت، ہسار، ہریانہ، روھتک، بڑہانہ، میرٹھ، سہارنپور، آگرہ، اور دیوبند واقع ہیں۔ خاندان باری بخش(حسین پور) کے بے شمار گھرانے آج بھی مظفر نگر اور اس کے گرد و نواح کے قصبوں اور دیہاتوں میں آباد ہیں۔ مبشر احمد واحدی (جن کی والدہ محترمہ احمد عائشہ بیگم دختر جناب علی احمد حسین پور خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور شیخ محمد ابراہیم آزادؔ کی بھتیجی ہیں )نے اپنی تحقیق ’’گلشن واحدی ‘‘ میں قصبہ بڑھانہ ضلع مظفر نگر کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ ’’ قصبہ بڑھانے میں ہر قسم کے لوگ بکثرت آباد تھے۔ آب و ہوا خوشگوار، علاقہ با رونق اور پر فضا تھا۔ دکانوں کا تو ذکر کیا منڈی میں باون مہاجن فقط ہنڈی والے تھے۔ لین دین میں ہنڈی کا کاروبار ایسا تھا جیسا آج کل بنک سر انجام دیتے ہیں۔ شاہان مغلیہ کے دور میں یہ قصبہ دار القضا، دار لا فتا اور دار العلم تھا۔ ’دارالقضا ،یعنی بذریعہ قاضی مقدمات کے فیصلوں کا مرکز، ’دارالفتا، جہاں سے بذریعہ مفتی سند فتویٰ حاصل کی جاتی تھی، ’دار العلم ، یعنی رائج الوقت تعلیم کا مرکز۔ چونکہ باشندگان علاقہ کو علما، فقہا اور صوفیہ کی صحبت حاصل تھی اس لیے عرصۂ دراز سے مظفر نگر نہایت مر دم خیز علاقہ مشہور ہے۔ یہاں سے بڑی بڑی نامور ہستیاں وجود میں آئیں ‘‘ (۴)۔

حضرت شاہ ولی اللہ کا مولد مظفر نگر کا موضع ’پھلت، تھا، اسے قریہ اولیاء بھی کہا جاتا ہے۔ معروف عالم دین حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ۱۸۶۳ء مطابق ۱۲۸۰ھ میں بمقام قصبہ تھانہ بھون، ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے، وہ اپنے والد کی جانب سے فاروقی اور والدہ کی جانب سے علوی تھے۔ ابتدائی تعلیم تھانہ بھون اور میرٹھ میں حاصل کی۔ پاکستان کے اولین وزیر اعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان کا تعلق بھی مظفر نگر سے تھا۔ کہا جاتا ہے لیاقت علی خان کے سلسلۂ نسب شہرۂ آفاق ایرانی بادشاہ نوشیر وان عادل سے ملتا ہے۔ آپ کے آباء و اجداد نے ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان کو اپنا مسکن بنا یا۔ جب آگرہ اکبر آباد بنا تو اس خاندان کے چند افراد نے بھی پایۂ تخت کو جا بسایا اور بعض ہندوستان کے ضلع مظفر نگر منتقل ہو گئے جہاں انہیں جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔ انیسویں صدی عیسویں کے شروع میں مغل سلطنت زوال پزیر ہوئی اور برطانوی حکومت زور پکڑ رہی تھی، اس خاندان والوں نے مظفر نگر کو بھی خیر باد کہا اور کرنال میں سکونت اختیار کی کیونکہ ان دنوں وہاں کی فضا زیادہ سازگار اور ماحول زیادہ دلپذیر تھا۔ مظفر نگر سے کرنال منتقل ہونے والوں میں سے ایک نوجوان نواب احمد علی خان کا خاندان بھی تھا۔ نواب احمد علی خان نے کرنال کے قریب راجپورہ ضلع سہارنپور کے ایک نواب ماہر علی خان کی صاحبزادی سے شادی کر لی موصوف ذوقِ علم و ادب رکھنے کے علاوہ فن سپہ گری میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔ ان کی شہرت و نیکنامی کا حال سن کر سرکارِ انگلشیہ نے ان کا اچھی طرح نوازا۔ ’’رکن الدولہ ‘‘، ’’ شمشیر جنگ‘‘ اور ’’ نواب بہادر‘‘ کے خطابات کے علاوہ انہیں مزید جاگیریں عطا کیں اور اپنے مشیران میں شامل کر لیا۔ ان کے ا انتقال کے بعد سرکاری خطابات ان کے بڑے بیٹے عظمت علی خان کو مل گئے اور سرکاری منصب بھی بدستور قائم رہا۔ لیکن اولاد سے محرم ہونے کے باعث وہ بہت جلد متاع دنیوی سے بیزار ہو گئے۔ چنانچہ ظاہری جاہ و جلال کو چھوڑ کر اور ذاتی جائیداد نیک کاموں کے لیے وقف کر کے وہ ہمیشہ کے لیے گوشہ نشین ہو گئے۔ حکومت نے ان کے اعزازات و خطابات ان کے چھوٹے بھائی نواب رستم علی خان کو تفویض کر دیئے۔ نواب رستم علی خان نہ صرف جائداد بلکہ خاندانی روایات کے بھی جائز وارث ثابت ہوئے۔ انھوں نے آباء و اجداد کی طرح خدمتِ خلق میں اس طرح حصہ لینا شروع کیا کہ ان کی شہرت کرنال اورسہارنپور کے محدود دائرے سے نکل کر سارے شمالی ہند میں پھیل گئی، ان کے ہاں نواب زادی محمودہ بیگم سے چار بیٹے ہوئے، سجاد علی خان لیاقت علی خان، خورشید علی خان اور صداقت علی خان۔ لیاقت علی خان یکم اکتوبر ۱۸۹۵ء میں کرنال میں پیدا ہوئے۔ (۵)

معروف عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد (پیدائش ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ء وفات ۱۴ اپریل ۲۰۱۰ء)، کا تعلق خاندان حسین پور سے تھا، ڈاکٹر الطاف حسین قریشی (اردو ڈائجسٹ ) خاندان حسین پور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری کا تعلق مظفر نگر سے ہے۔ جناب مبشر احمد واحدی صاحب جن میں ادبی ذوق بدرجہ اتم پا یا جات ہے انہوں نے خاندان واحدی کا نسب نامہ (شجرہ ) بھی مرتب فرمایا (۶)اس کے علاوہ مضامین کا مجمو عہ بعنوان ’’تمنائے نا تمام ‘‘ ۱۹۹۸ء (۶) میں شائع ہوا کا تعلق بھی مظفر نگر سے ہے۔ معروف شاعر احسانؔ دانش جو شاعر مزدور بھی کہلاتے ہیں مظفر نگر سے تعلق رکھتے تھے، آپ اسی ضلع کے شہر کاندھلہ میں ۱۹۴۱ء کو پیدا ہوئے (۷) اور ۲۱ مارچ ۱۹۸۲ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ احسانؔ دانش کے خاندان کا تعلق تو ضلع میرٹھ کے شہر باغپت سے تھا لیکن ان کے والد قاضی دانش علی نے باغپت کو خیر باد کہہ کر ضلع مظفر نگر کے شہر کاندھلہ میں سکونت اختیار کر لی تھی، احسان دانش اسی شہر میں پیدا ہوئے۔ احسان دانش نے اپنی سرگزشت میں لکھا ہے کہ ’’میں قصبہ کاندھلہ مظفر نگر (یو پی)میں ایک مزدور کے گھر پیدا ہوا۔ کاندھلہ کی سرزمین علم نوازی، اور ادب پروری کے لحاظ سے تاریخی اور مشہور جگہ ہے۔ چناں چہ کم لوگوں کو علم ہو گا کہ مولانا روم کے ساتویں دفتر کا شاعر اسی خاک پاک سے اٹھا تھا۔ اور آج تک برابر یہاں سے علمی چشمے پھوٹتے رہے ہیں‘‘۔ تابشؔ صمدانی معروف نعت گو شاعر، جن کے نعتیہ مجموعے ’ برگ ثنا،(۸)، ’ مر حبہ سیدی ، (۹)کے علاوہ کئی کتب منظر عام پر آ چکی ہیں۔ آپ کے والد بزرگوار محترم خلیل احمد صمدانی بھی شاعر تھے آپ کا مجموعہ کلام ’ گلزار خلیل،(۱۰)کے عنوان سے جناب تابش صمدانی نے ہی مرتب کیا۔ ہندوستان کے ضلع مظفر نگر سے تعلق رکھتے ہیں۔ معروف ادیب، افسانہ نگار اور ناول نگار شوکت تھانوی کا وطن بھی تھا نہ بھون مظفر نگر تھا۔

رقم الحروف کو اس بات پر فخر ہے کہ اس کا تعلق ہندوستان کی ایک ایسی مردم خیز خطے سے ہے جس کا نام ہندوستان کے جغرافیہ میں ’مظفر نگر، کے نام سے معروف ہے۔ اس سر زمین نے علماء دین، صوفیائے اکرم اور فقہا اسلام کو جنم دیا، اہل دانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی، اعلیٰ منتظمین، معلمین، منصفین و مصنفین پیدا کیے ہیں، جن کے خیالات اور تصنیفات سے ہمارے کتب خانے مالا مال ہیں۔ ان کی خدمات کو عالمی سطح پر معتبر حیثیت حاصل ہے۔ ان نامور شخصیات نے برصغیر پاک وہند میں علم و ادب، اسلامی علوم۔ تہذیب و ثقافت پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ کبھی میں نے عرض کیا تھا ؎

مظفر نگر تری عظمت کو سلام

کیسے کیسے گوہر نایاب پیدا کیے تو نے

حسین پورضلع مظفر نگر ہندستان

حسین پور ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے ایک قصبے بڑھانہ کے موضع کے طور پر سن گیارہ سو ہجری اور سترہویں صدی عیسوی میں آباد ہوا۔ مغل شہنشاہ شاھجہاں ۱۶۲۷ئ۔ ۱۶۶۲ء مطابق۱۰۳۷ھ۔ ۱۰۶۷ھ کے دورِ حکمرانی میں یہ خاندان ایک بار پھر کھڈی (شکارپور) سے ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے قصبے حسین پور منتقل ہواجس کے بارے میں آزادؒؔ صاحب نے لکھا ہے کہ ’’ ہمارے جد امجد اعلیٰ حضرت دیوان باری بخشؒ سے اٹھارہ پشت نیچے ہمارے جد اعلیٰ حضرت عبدالقدوس رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو قریباً سن گیارہ سو حجری میں اس حسین پور کلاں میں جس کو خان صاحب حسین خان نے (ان کو سوندے خان بھی کہتے تھے آباد کیا تھا) آ کر آباد ہوئے، اس حسین پور کے متعلق بارہ بستی ہے جس کو پٹھانوں کی بارہ بستی کہتے ہیں حضرت عبد القدوسؒ اس بارہ بستی کے قاضی مقرر ہوئے ،۔ محمد حنیف حسین پوری کے مطابق ’’بعہد شہاب الدین شا ہجہاں حسین پور خان صاحب میر شکار کو ایک وسیع جاگیر انعام میں ملی جس کو صاحب ممدوح نے آباد کر کے قصبہ حسین پور نام رکھا اور چونکہ ان کو انتظام جائیداد اور ریاست کے لئے ایک صاحبِ تجربہ و عقل و فرزانہ کی ضرورت تھی اس لئے آپ کی نظر ہمارے مورث اعلیٰ عبدالقدوس صاحب پر پڑی، بڑے اصرار کے بعد خان صاحب مو صوف عبدالقدوسؒ جو با اعزاز پالکی و معانی وغیرہ جو اس زمانے میں دستور شاہی تھا آپ کے لئے معین کیا چنانچہ آپ معہ اہل و عیال شکار پور

سے منتقل ہو کر قصبہ حسین پور میں مقیم ہو گئے اور اس وقت سے یہ خاندان حسین پوری مشہور ہو گیا۔

حسین پور اور مظفر نگر جغرافیائی اعتبار سے ہندوستان کے صوبے یو پی (اتر پردیس) کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں دیوبند،سہارنپور، امبالہ، شملہ ، مشرقی پنجاب اور کشمیر، جنوب میں میرٹھ ، دہلی اور پانی پت، مشرق میں ھنو مان گڑھ اور پاکستان کی سرحد ملتی ہے، مغرب میں نینی تال اور نیپال کی سرحد ملتی ہے، اسی طرح شمال مغرب میں دیرادون واقع ہیں، شمال مشرق میں کرنال، لدھیانہ، امرتسر ، چندریگر اور فاضلکا، جنوب مشرق میں راجستھان، ہریانہ، بیکانیر، روھتک اور صورت گڑھ، جنوب مغرب میں مرادآباد، روھیل کھنڈ، پیلی بھیت ، بریلی ، رامپور ، شاھجہا نپور، بلند شہر ، علی گڑھ ، آگرہ اور بجنور واقع ہیں۔

ابتدا میں حسین پور کی آبادی مختصر نفوس پر مشتمل تھی لیکن حال ہی میں مظفر نگر سے آئے ہوئے میرے چچا زاد بھائی وامص صمدانی ابنِ ظریف احمد صمدانی جو ہندوستان کے ضلع مظفر نگر میں ہی رہائش پذیر ہیں نے بتا یا کہ حسین پور اب ایک قصبہ نہیں رہا بلکہ اسے ایک چھوٹے اور با رونق شہر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور اس کی آبادی بھی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں کے مکینوں کا ذریعہ معاش زراعت کے علاوہ تجارت ہے۔ گیہوں، مکئی، گنا، باجرہ، سبزیاں اور مختلف پھل پیدا ہوتے ہیں۔ پھلوں میں آم کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ فرخ ضیا مشتاق نے اپنی کتاب ’صدی کا سفر‘ میں لکھا ہے کہ’ یہاں کے امراء زیادہ تر کرتا پاجامہ اور شیروانی میں ملبوس نظر آتے ہیں دیہاتی لوگ اب بھی دھوتی اور کرتا پہننے کو ترجیح دیتے ہیں‘(۱۱)۔

مظفر نگر کا سفر بذریعہ ریل اور سڑک بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ دہلی سے بذریعہ ریل یا سڑک میرٹھ، پانی پت ہو تے ہوئے مظفر نگر پہنچا جا سکتا ہے جہاں سے حسین پور تھوڑے ہی فاصلہ پر ہے۔ بیکانیر سے باراستہ رتن گڑھ ، فتح پور ، لوھاری، ہر یانہ، ھسار ، پانی پت ہوتے ہوئے مظفر نگر اور حسین پور پہنچا جا سکتا ہے۔

 

 

 

حوالہ جات

 

۱۔      رضوی، سید ظہور مہدی۔ تذکرہ وَ تاریخ کلاپور۔ کراچی: محبان سادات کلا پور، ۱۹۹۸ء،      ص۔ ۲۱

۲۔      مشتاق، فضاء احمد۔ سرودِ رفتہ۔ ملتان: سرودِ رفتہ کمیٹی، ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن

، ۲۰۰۳ء۔ ص۔ ۱

۳۔     www.census2011.co.in/census/district/426-bikaner.html

30 April 2013

۴۔    واحدی، مبشر احمد۔ گلشن واحدی : نسب نامہ خاندان واحدی، ضلع مظفر نگر یو پی۔ انڈیا؍

کراچی:        مصنف، ۱۹۸۹ء۔ ص۔ ۱۰

۵۔     قریشی دہلوی ، فضل حق۔ قائد ملت ؍ کراچی: مشہور پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۵۱ء،ص ص۔ ۱۷۔ ۵۱۹۔

۶۔      واحدی، مبشر احمد۔ تمنائے نا تمام ؍ کراچی : واحدی پبلی کیشن، ۱۹۹۸ء، ۱۵۸ص

۷۔     جدید شعرائے اردو: اردو ادب میں جدید شاعری کے بانیوں مولانا آزاد اور حالی سے  لے کر عہد حاضر تک کے مستند اور صاحب طرز شاعروں کے سوانح حیا ت، کلام بے  لاگ تبصرہ اور انتخاب کلام؍ مولف ڈاکٹر عبدالوحید۔ ۔ پشاور: فیروز سنز، ت۔ ن، ص۔۷۱۰س

۸۔     تابشؔ صمدانی۔ برگ ثنا؍ ملتان: خلیل صمدانی اکادمی، ۱۹۸۸ئ۔ ۱۲۸ص

۹۔      تابشؔ صمدانی۔ مرحبا سیّدیﷺ (نعتیں )؍ ملتان: خلیل صمدانی اکادمی، ۲۰۰۲ء۔

۱۰۔     خلیل صمدانی۔ گلزار خلیل؍ مر تبہ تابش صمدانی۔ ۔ بیکانیر: آزاد منزل، ۱۹۶۸ء۔ ص۔ ۶

۱۱۔     مشتاق، فرخ ضیا۔ ’صدی کاسفر،۔ اسلام آباد: ینگ مین حسین پوری ایسو سی ایشن، ۲۰۰۱ء، ص۲۱

 

 

 

                باب۔ ۶

 

دیوانِ آزادؔ اور ماہنامہ’ نعت، کے آزادؔ نمبر

 

                دیوانِ آزادؔ طبع اول ۱۹۳۲ء

 

آزادؔ صاحب کا دیوان ’’ثنائے محبوب خالق‘‘ دیوان آزادؔ کی۱۹۳۲ء میں آگرہ سے مرتضائی پریس سے شائع ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دیوان بیکانیر سے ہی نہیں بلکہ پورے راجستھان سے شائع ہونے والا اولین نعتیہ مجموعہ تھا۔ یہ دیوان دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ حمداور نعتوں پر مشتمل ہے جب کہ حصہ دوم میں قصائد، رباعیات، مناقب ہیں۔ اس حصہ میں اپنے پیر و مرشد کی شان میں نظرانہ عقیدت شامل ہے۔ دیوان کے آخری حصے میں آزادؔ صاحب نے ’’حالات مصنف‘‘ کے عنوان سے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس حصہ میں آزادؔ صاحب کے ہم عصروں کے تاثرات بھی ہیں۔

دیوان کا حصہ اول ۱۶۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ دیوان کا سر ورق پر سب سے اوپر قرآن کی یہ آیت چھپی ہوئی ہے ’’لَقَدْمَنَّ اللہ عَلَیْالُمؤْ مِنیِنَ اِذَبَعَثَ فِْیِہمْ رَسُوْلاً ّمِْن اَنْفُسِہمْ یَتْلُوْ اَعَلْیہمْ اٖیٰتِہَٖ وُیَزکِّیْہمِْ وَیُعَلِمُّہمُ اْلکِتَٰبََْ وَالحِکْمَۃط‘‘ اس آیت کے نیچے تین تصویریں ہیں درمیان میں مدینہ منورہ (سبز گنبد)، دائیں جانب بیت المقدص اور بائیں جانب کعبہ مکرمہ ان تصویروں کے نیچے آزادؔ لکھا ہے اور اس کے نیچے آزاد صاحب کا یہ شعر چھپا ہوا ہے ؎

ایک رخ پہ جو قبلہ ہے تو اک رُخ پہ ہے کعبہ

نورین ہیں دو نو رخ زیبائے مدینہ

پھر ’’ثنائے محبوب خالق : دیوان آزادؔ‘‘ لکھا ہے۔ شاعر کا نام کچھ اس طرح لکھا ہوا ہے ’از غلامان سرکار طیبہ حاجی شیخ محمد ابراہیم آزادؔ حسین پوری ثم بیکانیری وکیل بیکانیر خلیفہ مجاز حضرت قبلہ مولوی حاجی حافظ سید جماعت علی شاہ صاحب نقشبندی مجدی علی پوری مدظلہ، شاگرد و خلیفہ اول در نعت امتیاز الشعرا افتخار الملک حضرت حاجی منشی سید وحید الدین احمد بیخودؔ دہلوی نانشین حضرت فصیح الملک داغؔ دہلوی مرحوم،۔ نیچے در مطبع مرتضائی آگرہ با اہتمام منشی قمر الدین خان طبع کر دید۔ صفحہ دو پر نذر کے عنوان سے یعنی ’انتساب،کے تحت پہلے ایک شعر جو آزادؔ صاحب ہی کا ہے لکھا ؎

شہ کی مداحی میں دیوان لکھا میں نے

ایک مصرع بھی ہو مقبول تو کہنا کیا ہے

نیچے لکھتے ہیں ’’میں نہایت عاجزانہ و غلامانہ عقیدت و نیاز مندی سے اس دیوان کو حضور پُر نور سرور کائنات فخر موجودات سید الا ولین و آخرین خاتم النبیین سید المرسلین شفیع المذنبین رحمۃ اللعالمین حبیب خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پاک سے بامید قبولیت معنون کرتا ہوں۔ شاہاں چہ عجب گربنوازندگدارا۔ ۲۳ شعبان المکرم ۱۳۵۰ھ، غلام غلاماں سر کار طیبہ۔ محمد ابراہیم آزادؔ۔ دیوان کا آغاز آپ کی ایک حمدِ باری تعالیٰ سے ہوا ہے۔

دیوان آزادؔ کا حصہ دوم دیوان کے صفحہ ۱۷۷ سے شروع ہوتا ہے۔ شروع میں ’حصہ دوم دیوان آزاد اور نظم و قصائد منقبت و تصوف درج ہے۔ اس حصہ میں نظمیں ہیں جو انجمن خدام الصوفیہ کے جلسوں میں آپ نے پیش کیں۔ تاریخیں جو مختلف احباب کے انتقال پر آپ نے کہیں، اپنے بعض عزیزوں کی شادی پر سہرے بھی کہے، علی پور میں مسجد کی تعمیر، علی پور اسٹیشن پر مسجد کے تعمیر پر تاریخ کہی، امرتسر میں مسجد شریف کی تعمیر کی تاریخ، آپ کے شیخ حج پر تشریف لے جانے لگے تو آپ نے تاریخ کہی، ان کے علاوہ دیگر قطعات، رباعیات اس حصہ میں شامل ہیں۔ آخر میں اپنے بارے میں یہ دو اشعار بھی آزاد صاحب نے اپنے بارے میں کہے وہ درج ہیں۔

شا عر نہ میں ہوں اور نہ اہل زباں ہوں میں

جادو نگار میں ہوں نہ سحر البیان ہوں میں

اعجاز شہ جو کرتا ہوں آزادؔ میں بیاں

ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں معجز بیاں ہوں میں

حصہ دوم کے اختتام پر ’خاتمہ از مصنف، کے عنوان سے طویل مضمون شامل ہے جو آپ کے نثر نگار ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ یہ تحریر اخلاقیات، اسلامی تصوف، معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کی نشاندہی اور اپنے خاندان کو نیکی اور بھلائی کا درس دیتے دکھا ئی دیتے ہیں۔ خاندان کے احباب کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔ ’حالاتِ مصنف، کے تحت اپنے بارے میں بھی مختصر معلومات تحریر کی ہیں۔ آخر میں آپ کے بعض ہم عصر احباب کی رائے درج ہے۔

 

                دیوانِ آزادؔ طبع دوم ۲۰۰۵ء

 

آزادؔ صاحب کا دیوان ’’ثنائے محبوب خالق‘‘ دیوان آزادؔ کی اشاعت کو ۷۳ سال ہو چکے تھے۔ دیوان کیونکہ ہندوستان سے شائع ہوا تھا اس وجہ سے اس کی زیادہ تر کاپیاں ہندوستان میں ہی تھیں قیام پاکستان کے بعد پاکستان ہجرت کرنے والے اپنی جانوں کو سلامت پاکستان لے آئے وہی غنیمت تھا۔ تاہم آزادؔ صاحب کی دوسری شریک حیات جنہوں نے آزادؔ صاحب کے انتقال کے بعد ۱۹۴۷ء میں پاکستان ہجرت کی اپنے ہمراہ دیوان کی کچھ کاپیاں لے آئیں تھیں اور وہ رفتہ رفتہ طلب کرنے والوں اور آزادؔ صاحب کے قریبی رشتے داروں کو دیتیں رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ذخیرہ ختم ہو گیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ دیوان کا انتخاب شائع کیا جائے یا دیوان کو دوبارہ شائع کیا جائے۔

دیوان کی اشاعت دوم کا سہرا آزادؔ صاحب کے پوتے مغیث احمد صمدانی کو جاتا ہے انہوں نے اس کی ضرورت کو محسوس کیا، ان کی کوششیں بار آور ہوئیں اور دیوان ۲۰۰۵ء میں اشاعت دوم کے طور پر شائع ہوا۔ اس میں اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ دیوان جیسا تھا ویسا ہی شائع ہو اور ایسا ہی ہوا۔

 

                ماہنامہ’ نعت ،لاہور’ کے آزادؔ  بیکانیری کی نعت ،خاص نمبر

 

ستمبر ۱۹۹۰ء اور فروری ۱۹۹۲ء

 

راجا رشید محمود صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہنامہ ’نعت، لاہور سے شائع ہونے والا رسالہ گزستہ ۲۶ سال سے شائع ہو رہا ہے۔ اس ماہنامہ کے زیر اہتمام کئی نعت گو شعراء کے دیوان شائع ہوئے۔ ان میں نعت حافظ، غریب سہارنپوری کا نعتیہ دیوان، محمد شفیع رضوی کا انتخاب، امیر مینائی کا مجموعہ نعت شامل ہے۔ راجا رشید محمود صاحب نے قصور سے تعلق رکھنے والے محمد صادق قصوری کے توسط سے آزادؔ صاحب کا دیوان حا صل کیا۔ مقصد ماہنامہ ’نعت ، کا آزادؔ نمبر شائع کرنا تھا۔ وہ اپنے اس مقصد میں اس وقت اور زیادہ کامیاب ہوئے جب انہوں نے جناب تابشؔ صمدانی صاحب سے رابطہ کر لیا جو ملتان میں رہائش رکھتے تھے۔ راجا صاحب نے آزادؔ صاحب کی مداح سرائی کو دیکھتے ہوئے اسے دو حصوں میں شائع کرنے کا منصوبہ بنا یا۔ پہلا حصہ ستمبر ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا۔ یہ ماہنامہ نعت کا جلد ۳، شمارہ ۹ (ستمبر ۱۹۹۰ء) ہے جب کہ حصہ دوم بہ عنوان ’’آزادؔ بیکانیری کی نعت‘‘ حصہ اول ماہنامہ کی جلد ۵، شمارہ ۳ (فروری ۱۹۹۲ء) میں شائع ہوا۔ حصہ اول میں ’’آزادؔ بیکانیری کی نعت‘‘ میں ابتدا میں آزادؔ صاحب کی ایک حمدِ باری تعالیٰ کے علاوہ آزادؔ صاحب کے پوتے ملتان کے معروف شاعر جناب تابشؔ صمدانی کا ایک مضمون بعنوان ’’آزادؔ بیکانیری اور ان کا فن‘‘ ہے جس میں تابشؔ صمدانی نے آزادؔ صاحب کی شخصیت اور نعتیہ شاعری کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ تابشؔ صمدانی مرحوم کئی نعتیہ مجموعوں کے خالق ہیں۔ سید محمد سلطان شاہ کا ایک مضمون بعنوان ’’آزادؔ بیکانیری کی نعت گوئی‘‘ کے علاوہ ماہنامہ نعت کے مدیر راجا رشید محمود صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’آزادؔ نقشبندی بیکانیری کی شاعری‘‘ شامل ہے۔

خصوصی شمارے کے دیگر صفحات میں آزادؔ صاحب کے نعتیہ کلام کا انتخاب ہے۔

آزادؔ صاحب کے نعتیہ کلام پر مبنی ماہنامہ نعت خصوصی شمارے حصہ دوم میں آزادؔ  صاحب نعتوں کا انتخاب شامل ہے۔ ماہنامہ نعت خصوصی شمارے ’’آزادؔ بیکانیری کی نعت، حصہ اول کی ابتداء جس تحریر سے ہوئی ہے اسے مدیر کی جانب سے اداریہ یا آزادؔ صاحب کے لیے نذرانہ عقیدت کہا جا سکتا ہے۔ یہ تحریر ہاتھ سے لکھی ہوئی ہے یعنی کتابت شدہ یا کمپیوٹر پر کمپوز شدہ نہیں خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ خیالات نہ صرف مدیر کے اپنے ہیں بلکہ تحریر بھی ان کی اپنی ہی ہو گی۔ یہ تحریر کچھ اس طرح ہے :

جو شخص اپنے آقا و مولا علیہ التحیتہ والثناء کا غلام ہے ، وہی در اصل آزاد ہے۔

آزاد ۔ خواہشات کی غلام سے ،

آزاد ۔ رنج و غم کی گرفت سے ،

آزاد ۔ آلائشِ دُنیا سے ،

آزاد ۔ خوف و حُزنِ آخرت سے، فکرِ عقبیٰ سے۔

جو فرد اُمنگوں کا غلام ہے اور دُنیا کی محبت کے پھندے میں پھنسا ہُوا ہے، مفادات کا اسیر ہے اور نسل و زبان و رنگ کی حد بندیوں میں محبوس ہے ، اپنی ذات میں گم ہے یا حرص و ہوا کے پنجرے میں مقید ہے یا حسد اور کینہ کی برکت میں بند ہے ، ۔ ۔ وہ واقعی غلام ہے۔

غلام شیطنت کا ، ہیولیٰ سئیات کا، بندہ خواہشات کا، اور پُجاری رذائلِ اخلاق کے دیو تاؤں کا۔

ٍٍ        ایسی غلامی لعنت ہے !

تو پھر، ۔ آزادؔ بیکانیری کی طرح وہ غلا می کیوں نہ اختیار کریں جو سراپا آزادی ہو،

وہ غلامی جس کی خواہش دنیا بھر کے آزادوں کو ہے۔

ہر رنج و تعصب سے آزادی، یہاں وہاں کی فکر سے آزادی۔

غلامیِ سرکار (صلی اللہ علیہ و سلم) ہی آزادی ہے۔

اصلی اور مکمل آزادی۔

ایسا ہر آزاد زندہ باد !!

 

                ماہنامہ ’ انوار الصوفیہ ،    قصور میں آزادؔ صاحب پر مضمون کی اشاعت

راقم الحروف نے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اس بات کی کوشش کی کہ آزادؔ صاحب کے کلام کا انتخاب شائع کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں راقم کی نظر تابشؔ صمدانی پر پڑی اس لیے کہ اس کام میں ان سے بہتر مددگار کوئی اور ہو نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ از خود پختہ کلام شاعر اور آزادؔ صاحب کے جانشین تھے۔ انہوں نے میری درخواست کو قبول کر لیا اور یہ کام شروع کر دیا گیا۔ میرے پاس تابشؔ صمدانی کا ایک خط موجود ہے جو انہوں نے مجھے ۴ جولائی ۱۹۷۸ء کو تحریری کیا آپ نے لکھا ’’ وعدہ کے مطابق حضرت آزادؔؒ کے حالات زندگی اور کلام کے انتخاب میں بڑی تاخیر ہو گئی ہے۔ حالات زندگی کا مرحلہ خدا کے فضل کرم سے تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ کافی مفصل حالات قلم بند ہو گئے۔ اب انشاء اللہ ۱۵ دن کے اندر انتخاب سے فارغ ہو جاؤں گا۔ دوچار روز تک ’’حالات زندگی ‘‘ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں ‘‘۔ تابشؔ صمدانی نے آزادؔ صاحب کے حالات زندگی اور انتخاب پر مشتمل مجموعے کا عنوان بھی تجویز کیا۔ اسی خط میں آپ نے لکھا حضرت آزادؔ کے نئے مجموعہ کا نام میرے خیال میں ’’بر لب قدسیاں‘‘  بہتر رہے گا۔ دوسرا نام ذہن میں جو آتا ہے وہ ہے ’’کوثر وتسنیم‘‘۔ میں نے انتخاب کی کتابت شروع کرادی تھی۔ کمپیوٹر کا استعمال عام نہیں ہوا تھا۔ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ وہ کاتب اچانک اللہ کو پیارا ہو گیا اور کتاب کا کتابت شدہ اور اصل مسودہ مجھے باوجود انتہائی کوشش کے کاتب کے گھر سے نہیں مل سکا۔

میرے پاس اس انتخاب کی کوئی کاپی موجود نہیں تھی۔ کچھ عرصہ کوشش میں گزرا پھر صبر و شکر کر کے بیٹھ گیا اور آزادؔ صاحب پر وہ کتاب نہ آ سکی۔ کچھ عرصہ بعد آزادؔ صاحب پر میرا مضمون ’انوار الصوفیہ، میں ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا۔

ََََََََََََََََََََََََِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ        َََََ        ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

                کچھ اپنے بارے میں

 

آزادؔ صاحب نے اپنے دیوان کے اختتام پر ’حالاتِ مصنف ، کے عنوان کے تحت کچھ اپنے بارے میں تحریر فرمایا ہے۔ آزادؔ صاحب کی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے میں نے بھی یہ جسارت کی کہ اپنے بارے میں کچھ لکھوں۔ جس طرح آزادؔ صاحب کی لکھی ہوئی اور چھپی ہوئی تحریر کو ۸۱ سال بعد ان کے پڑ پوتے نے اپنی تحقیق کی بنیاد بنا یا ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں میرا کوئی پوتا یا پڑ پوتا اس تحریر کو بنیاد بنا تحقیق کو مزید آگے بڑھائے۔ تحقیق خواہ کسی بھی قسم کی ہو اُسے وقت کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ شخصیات کے بارے میں لکھی گئیں معلومات خاندان کی تاریخ کا روپ دھار تی ہیں۔ جس خاندان کی تاریخ زندہ ہو وہ خاندان نسلوں تک اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ خاندان کے لوگ بھی اس پر فخر کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسے خاندان کے فرد نہیں جو بے نام و نشان ہے۔

میَں آزادؔ صاحب کا پڑ پوتا ہوں۔ اس لیے خاندان کے بارے میں تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں۔ میرا خاندان بھی وہی ہے جو آزادؔ صاحب کا ہے۔ بات اپنے والدین سے شروع کروں گا۔ میرے والد صاحب آزادؔ صاحب کے تیسرے بیٹے حقیق احمد صمدانی کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے اور میَں اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد ہوں۔

میرے پرکھوں کی سرزمین راجستھان تھی، اس حوالے سے میں بنیادی طور پر راجستھانی یا راجپوت ہوں، راجستھان آج کل آبادی کے لحاظ سے بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کی تاریخ ہزار سال قدیم ہے۔ راجپوتوں کی حکمرانی کے بعد یہاں مغل، مراٹھوں اور انگریز کی حکمرانی رہی۔ پھر یہ بھارت ماتا کا حصہ بن گیا۔ تقسیم سے قبل اس صوبے کا نام راجپوتانہ تھا اور یہ صوبہ بائیس راجواڑوں (ریاستوں ) کا مجموعہ تھا۔ راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا کی ہیں، میرابائی، مہدی حسن اور ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی نے راجستھان کے تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں حالانکہ وہ خود بھی راجپوت ہی ہیں۔ بعد میں ہمارے بزرگوں نے ہندوستان کے ضلع مظفرنگر (یوپی )کے قصبہ حسین پور کو آباد کیا۔

راجپوتانہ کے بعدہندوستان کا ضلع مظفر نگر میرے بزرگوں کو مسکن ٹھہرا۔ یہ ایک ایسی مردم خیز سرزمین ہے جس نے علمائے دین، صوفیائے کرام اور فقہائے اسلام کو جنم دیا، اہل علم و دانش کی ایک بڑی جماعت پیدا کی مجھے ایسی متبرک سر زمین سے نسبت حاصل ہے جس کی کوکھ نے عظیم ہستیوں کو جنم دیا۔ میرے خاندان میں اکثر احباب تدریس اور شاعری سے شغف رکھتے ہیں، صاحب دیوان شاعر بھی ہیں اور بے دیوان شاعر بھی، شاعری میرے خمیر میں تو ہے لیکن تا حال باقاعدہ شاعری نہیں کی، ضرورت کے لیے شعر کہہ لیتا ہوں۔ ادب سے وابستگی میرے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے، ہمیں اپنے شاعر اور ادیب پرکھوں پر فخر ہے۔

میری ماں کا نام صفیہ سلطانہ اور والد صاحب کا نام انیس احمد صمدانی تھا۔ ماں سبزواری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور والد راجستھانی تھے، والد شہری بابو اور والدہ مشرقی پنجاب کی ایک دیہاتی۔ شہری اور دیہاتی ملاپ سے جنم لینے والے بندھن نے شہر کراچی میں ایک کامیاب زندگی گزاری، دنیاوی زندگی کا دورانیہ ۵۰ سال ۵ماہ اور ۲۵دنوں پر محیط رہا۔ اس ملاپ نے سات زندگیوں کو جنم دیا، انھوں نے ان ساتوں زندگیوں کی پرورش کی، انھیں تناور درخت بنا یا، یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی تین بہنوں اور دو بھائیوں کی بھی پرورش کی، انہیں پروان چڑھا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ ان سات زندگیوں میں دنیا میں آمد کے اعتبار سے مجھے سب پر سبقت حاصل ہے۔ میرے امی اور ابا کا ملاپ خالصتاً خاندان کے بزرگوں کے توسط سے ہوا یعنی کہ( ارینجڈ  میرج) ہوئی۔ یہ حادثہ قیام پاکستان سے پانچ ماہ قبل مارچ ۱۹۴۷ء میں ہوا، میرے وجود کا خمیر ہندوستان میں معرض وجود میں آ چکا تھا، اسے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ میرے والدین کو پاکستان ہجرت کا قصد کرنا پڑا، ’’لے کر رہیں گے پاکستان بٹ کر رہے گا ہندوستان ‘‘کی صدائیں میرے کانوں میں براہِ راست تو نہیں البتہ اپنی ماں کے کانوں سے ہوتی ہوئی مجھ تک ضرور پہنچیں۔ اس کا احساس میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں، کیوں کہ میں اُس وقت شکم مادر میں رہتے ہوئے ہجرت کی بہاروں کا لطف لے رہا تھا۔ مجھے بروز پیر ۱۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو یعنی قیام پاکستان کے سات ماہ بعد اس دنیا میں آنا تھا اور آیا۔ پنجاب کے ایک دیہات نما شہر ’میلسی ،میں اپنے ماموں جناب محبوب احمد سبزواری کے گھر پیدا ہوا، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو میری والدہ اپنے میکے مشرقی پنجاب کے شہر فرید کوٹ میں تھیں، والد صاحب راجستھان کے شہر بیکانیر میں تھے، چنانچہ والدہ نے اپنے بھائیوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور پنجاب کی سرزمین ان کی مستقر ٹھری جب کہ والد صاحب نے کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ میلسی کے بارے میں مجھ نا چیز نے ہی کبھی اس طرح کہا تھا ؎

میلسی ہے ایک شہر، پانچ دریاؤں کی سرزمین پر

میں ہوں رئیسؔ اُسی آسماں کا ایک ستارہ

یہاں میں پیدائش، تعلیم، ملازمت اور لکھنے لکھانے کی تفصیل ہی بیان کروں گا۔ پیدائش کی بات کر چکا، خاندان کے بارے اس کتاب میں بہت تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ دوہرانے سے طوالت کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ویسے میَں اپنا خاکہ ’’ اپنی تلاش‘‘ کے عنوان سے لکھ چکا ہوں، ایک خاکہ ’میری ماں ، کے عنوان سے بھی لکھا یہ دونوں خاکے میری کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی، میں شامل ہیں۔

تعلیم و تربیت کی ابتداء گھر سے ہوئی۔ میری ماں نے ہی مجھے الف سے اللہ سکھا یا۔ کلام مجید اپنے خاندان کی مختلف بزرگ خواتین سے پڑھا۔ کراچی کی قدیم بستی بہار کالونی میں رہائش تھی۔ یاد پڑتا ہے کہ گورنمنٹ اسکول بہار کالونی میں داخلہ ہوا، جلد بہار کالونی سے آگرہ تاج کالونی منتقل ہو گئے اور وہاں قائم قومی انجمن پرائمری اسکول پھر غازی محمد بن قاسم اسکول سے پرائمری اور پی اے ایف بیس مسرور (ماری پور) میں قائم گورنمنٹ سیکنڈری اسکول کیمپ نمبر ۲ سے ۱۹۶۶ء میں میٹرک سائنس سے کیا۔ میٹرک کے بعد کالج جانا شروع کیا۔ کالج جانا میرے لیے بھی اور میرے گھر کے احباب کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ سندھ مسلم کالج سے انٹر کیا۔ میَں پڑھائی میں مشکل سے پاس ہونے والا، کھلنڈرا قسم کا تھا، عام طور پر احباب کا خیال یہی تھا کہ یہ مشکل سے میٹرک کر لے تواسے کسی ٹیکنیکل کام میں لگا دیا جائے، ہوا بھی ایسا ہی، ابھی انٹر ہی کیا تھا یار لوگوں نے پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں اپرنٹس شپ میں بھرتی کرا دیا، مر پِٹ کر میں نے دو ماہ گزار لیے اس کے بعد مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ میں اسے جاری رکھ سکتا، چنانچہ میَں تو دو ماہ بعد ہی بھاگ کھڑا ہو ا، یہ نرم و نازک ہاتھ تو قلم چلانے کے لیے تھے، ان سے لوہا کس طرح گھسا جا سکتا تھا مجھے تو قلم چلانا تھا اور تعلیم کے میدان میں رہنا تھا خراد مشین کا ’’خرادیہ‘‘ کیسے بن سکتا تھا۔ انٹر کے بعد حاجی عبد اللہ ہارون کالج میں بی اے میں داخلہ لے لیا۔ یہاں میرے پرنسپل فیض احمد فیضؔ صاحب تھے۔ فیض احمد فیضؔ سے کون واقف نہیں، ادب کی دنیا کا ایک عظیم نام۔ معروف شاعر تابشؔ دہلوی نے بہت سچ کہا کہ ’ عظیم شخصیتوں کو دیکھ لینا بھی عظمت ہے‘۔ الحمد اللہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اردو ادب کی اس عظیم شخصیت کو نہ صرف دیکھا بلکہ بہت قریب سے دیکھا۔ فیضؔ  صاحب بلاشبہ پاکستان کے اُن چند گنے چنے شاعروں اور ادیبوں میں سے تھے کہ جنہوں نے دنیائے ادب میں پاکستان کو بلند مقام دیا۔ دھیمے لہجے کے ساتھ ساتھ دھیمہ پن ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ میں دو سال (۱۹۶۸ء۔ ۱۹۷۰ء) اس کالج کا طالب علم رہا اور گریجویشن اسی کالج سے کیا۔

گریجویشن کرنے کے بعد جامعہ کراچی کا رخ کیا اور معاشیات میں ایم اے کر کے بنکر بننے کا ارادہ تھا لیکن قسمت جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس لے گئی جہاں سے ۱۹۷۲ء میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ جامعہ کراچی کی لائبریری میں ملازمت کا آغاز ہوا، چند ماہ بعد ہی حکومت سندھ کے شعبہ تعلیم میں ملازمت مل گئی۔ ابتداء میں لائبریرین کی حیثیت سے تقرر گورنمنٹ پریمئر کالج میں ہوا جلد اپریل ۱۹۷۴ء میں تبادلہ حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں ہو گیا۔ ۱۹۹۷ء میں تبادلہ گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد میں ہوا اور یہی سے ریٹائرمنٹ ہو گئی۔ اس دوران ۱۹۸۵ء میں ایک اور ایم اے سیاسیات میں بھی کیا۔ ملازمت کے ساتھ لکھنے کی جانب راغب ہو چکا تھا۔ ساتھ ہی تعلیم کی بلند ترین ڈگری حاصل کرنے کا عزم بھی پیدا ہو چکا تھا۔ میں مسلسل اس کوشش میں رہا کہ کسی طرح پی ایچ ڈی کرنے کا موقع مل جائے، ۲۰۰۳ء نے دستک دی ہمدرد یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا۔ ۲۰۰۶ء میں مقالہ مکمل کر لیا لیکن ڈگری اپریل ۲۰۰۹ء جاری ہوئی۔ مارچ ۲۰۰۹ء میں ہی میَں سر کاری ملازمت سے ریٹائر ہو گیا، اس طرح مجھے دونوں اعزاز ساتھ ساتھ حاصل ہوئے۔ تجربہ ہوا کہ انسان اگر کچھ حاصل کرنے کی ٹھان لے بہ شرطِ کہ مقصد نیک ہو، اللہ پر مکمل بھروسا، صدق دل سے محنت کرے تو کامیابی قدم چوما کرتی ہے۔ دوسری اہم بات جو اپنے تجربے کے حوالے سے اپنی آئندہ آنے والی نسل سے کہنا چا ہوں گا وہ یہ کہ حصول علم کے لیے وقت، حالات، پیسہ، عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی، تعلیم کا حصول اس مقصد سے بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا بلکہ تعلیم خواہ وہ کسی بھی سطح کی ہو اس کا ہر صورت فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اپنے تمام بچوں کو جن میں میرے پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں اور دیگر خاندان کے بچے شامل ہیں کو یہی نصیحت ہے کہ حصول علم سے کسی صورت غافل نہ ہوں اور یہ بھی خیال نہ کریں کہ اب عمر اتنی ہو گئی ڈگری حاصل کر کے کیا ہو گا۔ حصول علم کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ حال ہی میں ایک خبر امریکہ کی ایک خاتون کے حوالے سے آئی کہ وہ اپنی زندگی میں تعلیم حاصل نہ کر سکی عمر گزرتی رہی حتی کہ اس کی عمر سو برس کی ہوئی تو اس نے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا اور پرائمری کا امتحان پاس کر لیا۔

کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد جامعہ سرگودھا میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں مئی ۲۰۱۰ء سے مارچ ۲۰۱۱ء میں بطور ایسو سی ایٹ پروفسر خدمات انجام دیں۔ جنوری ۲۰۱۲ء سے تا حال لاہور کی منہاج یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں پروفیسر و صدر شعبہ ہوں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ۲۰۰۱ء سے پڑھا رہا ہوں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے از راہ عنایت ’’ بیسٹ ٹیچر ایوارڈ ۲۰۱۳ء ‘‘سے نوازا، میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے۔

میَں پیدائشی لکھاری نہیں، لیکن ادب سے وابستگی اور سخن فہمی میرے خاندان کی شناخت ہے۔ شاعری خاندانی مرض ہے۔ مجھے لکھنے کاچسکا ایم اے کرنے کے بعد لگا۔ لکھنا اور چھپنا بھی ایک طرح کا نشہ ہوتا ہے، جس کو لگ جاتا ہے وہ اس سے آزاد نہیں ہو پاتا۔ لکھنا کب شروع کیا یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، جامعہ کراچی میں ایم اے (۷۱ئ۔ ۱۹۷۲ء) کرنے کے دوران باقاعدہ لکھنے کی جانب رغبت ہوئی، ۱۹۷۵ء میں میری پہلی کتاب، دوسری ’’کتب خانے تاریخ کی روشنی میں ‘‘ ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی، پہلا مضمون کراچی کے ایک ماہ نامہ ’’ترجمان‘‘ میں جنوری ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا۔ پہلا سوانحی مضمون خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تھا جو ماہ نامہ ’ترجمان، کی اگست ۱۹۷۸ کی اشاعت میں شامل ہوا۔ سوانحی مضامین سے میَں خاکوں اور رپورتاژ کی جانب آیا۔ پہلی رپورتاژ اپنی بیٹی’ سحر‘کے انتقال پر ۱۹۸۰ء میں لکھی۔ یہ میری کتاب ’یادوں کی مالا، میں شامل ہے۔ اِسی سال اپنے جد امجد شیخ محمد ابراہیم آزادؔ پر میرا مضمون ’انوارالصوفیہ‘  قصور میں شائع ہوا، ۱۹۷۸ء ہی میں لائبریری سائنس کے موضوع پر پہلا مضمون ’پاکستان لائبریری بلیٹن، میں شائع ہوا، اس طرح لکھنے اور چھپنے کی یہ گاڑی چلنا شروع ہوئی جو گزشتہ۳۸ برس سے رواں دواں ہے۔ میری کتابوں کی تعداد۳۲ ہو چکی ہے جب کہ ۲۵۰ کے قریب مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ عطا ء الحق قاسمی نے اپنے ایک کالم ’’پچاس سالہ قلمی سفر‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ایک لکھنے والے کی اصلی عمر وہی ہوتی ہے جو اس کی لکھنے پڑھنے میں گزرتی ہے ‘‘، میری اولین کاوش ۱۹۷۵ء میں منظر عام پر آئی تھی، اس طرح میرا قلمی سفر۳۸ سالوں پر محیط ہے۔ قاسمی صاحب کی منطق کے مطابق میری اصل عمر بھی یہی ہوئی۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا کہ ادب سے وابستگی میرے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے، خاندان میں شعر و ادب سے وابستگی کئی نسلوں سے چلی آ رہی ہے۔ شاعر میرے اندر ضرور ہے لیکن میں نثر نگاروں کے بیچ پھنس گیا، مجھے نثر لکھنے والوں کی صحبت و دوستی میسر آ گئی اور میَں نے بھی اس دوستی سے فائدہ اٹھا یا، لکھاریوں کی صف میں اپنے آپ کو بالکل پیچھے کھڑا پاتا ہوں۔ صبر شکر کرتا ہوں، کہ اس نے لکھنے پڑھنے کی توفیق عطا کی، ایک عدد سلیقہ مند استاد بیوی، بیٹے، بیٹی، گھر گھرستی، سب کچھ عطا کیا میرے مولا کا شکر ہے۔ لکھنے کے ساتھ ساتھ بولنا بھی آ گیا، مجمعے میں بولنا، تقریر کرنا، اس کے پیچھے بھی میرے دوستوں کا ہی ہا تھ ہے۔ میَں کراچی کی ایک غریب آبادی لیاری میں آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتا تھا، وہاں کے نوجوانوں نے جو عمر میں مجھ سے بڑے ہی تھے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے ایک سماجی ادارہ ’’تاج ویلفیئر سینٹر‘‘ قائم کیا تھا، یہ بات ہے ۱۹۶۰ء کی، جہاں اہل محلہ چھوٹے بڑے کھیل کود کے علاوہ فلاحی کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ بہت ہی اچھا ماحول تھا، بڑے اپنے چھوٹوں کا حد درجہ خیال کیا کرتے، چھوٹے اپنے بڑوں کے احترام کے ساتھ ان کے شریک رہا کرتے، گویا چھوٹوں کے لیے یہ ایک تر بیت گاہ تھی۔ تاج ویلفئر سینٹر ایک ایسا فلاحی ادارہ تھا جس نے اپنے اراکین میں خدمت خلق کا مثالی جذبہ پیدا کر دیا تھا، مختلف سیاسی نظریات کے حامل، مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف قومیتوں سے تعلق اور مختلف مذہبی عقائد رکھنے کے با وجود اس ادارے سے منسلک لوگ اپنے آپ کو ایک ہی خاندان کا فرد تصور کیا کرتے تھے۔ ہر ایک کے دکھ، درد، خوشی یاغمی میں عزیز رشتہ داروں سے بڑھ کر شریک رہا کرتے۔ خلوص، محبت، ہمدردی، با ہمی شفقت، اخوت، بھائی چارے کے اس ماحول کو کبھی بھلا یا نہیں جا سکتا۔ شاید ہم میں سے کسی کو بھی وہ ماحول زندگی میں دوبارہ نہیں مل سکا۔ در حقیقت میں نے اس ماحول سے بہت کچھ سیکھا، محفل میں گفتگو کرنا، مجمعے کے سامنے اسٹیج پر تقریر کرنے کا حوصلہ مجھ میں اسی دور میں پیدا ہوا۔ میرا بچپن اور جوانی اسی جگہ گزری اس ماحول سے میں تہذیبی اور تمدنی زندگی کی اعلیٰ قدروں سے واقف ہوا، یہی وجہ ہے کہ لڑکپن کے یہ تہذیبی نقوش میرے ذہن و دل پر آج بھی مر تسم ہیں۔

ہم سات بہن بھائی ہیں۔ چار بھائی (رئیس، پرویز، تسلیم، ندیم )جن میں میرا نمبر پہلا ہے، تین بہنیں (ناہید، شاہین، روحی )اپنے اپنے گھروں میں نانیاں اور دادیاں بن چکی ہیں۔ تینوں بھائیوں کے بچے بھی اب ماشاء اللہ بڑے ہو چکے ہیں وہ بھی جلد اپنے بچوں کے فرض سے فارغ ہونا شروع ہوں گے۔ دسمبر ۱۹۷۵ء میں خالہ کی بیٹی شہناز سے شادی ہوئی چوتھی دھائی میں دو برس باقی ہیں بندھن قائم ہے، نہیں معلوم کب تک قائم رہتا ہے،ا للہ نے دو بیٹوں عدیل اور نبیل، ایک بیٹی فاہینہ سے نوازا، پوتا صائم عدیل اور ارسل نبیل، نواسہ ارحم اور نواسی نیہا اور کشف میری کل کائنات ہے۔ عدیل سعودی عرب میں جدہ میں ایک کمپنی میں ملازم ہے۔ اپنی بیوی مہوش اور بیٹے کے ساتھ خوش ہے، نبیل اور اس کی بیوی ثمرا دونوں عباسی شہید اسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ ان کا بیٹا ارسل بہت پیارا ہے ابھی ایک ماہ کا ہی ہے۔ بیٹی فاھینہ کی شادی میرے خاندان کے جناب مشکور احمد صاحب مرحوم جو میرے اچھے دوست بھی تھے کے چھوٹے بیٹے عاصم سے ہوئی۔ ان کا ایک بیٹا ارحم اور دو بیٹیاں نیہا اور کشف ہیں۔ عاصم ایک بڑے تجارتی ادارے میں اچھے عہدہ پر ہے۔ سب خوش و خرم ہیں۔ حمایت علی شاعرؔ کا یہ شعر مجھ پر بھی صادق آتا ہے ؎

بس ایک کام کیا میں نے زندگی بھر میں

کہ سارے بچے ہیں تعلیم یافتہ گھر میں

امید کرتا ہوں کہ میرے بچے اپنے بچوں کو تعلیم ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے۔ تعلیم ہے تو سب کچھ ہے تعلیم نہیں تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت اس سے زیادہ ضروری ہے۔ والدین کو بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ بچے کی تربیت میں ماں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ میری دونوں بہویں ماشاء اللہ تعلیم یافتہ ہیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم ہی نہیں بلکہ ان کی تربیت پر بھی بہت توجہ دیں گی۔ اگر چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسل بہتر اور بہ عزت زندگی گزارے، معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرے تو ان کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دینا ہو گی۔ اس میں کوتاہی آنے والی نسل کو انتہائی نقصان پہنچائے گی۔

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

۱۵ ستمبر ۲۰۱۳ء

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید