FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

 

 

فہرست مضامین

باقیاتِ رازؔ

 

حصہ اول: ابو الفاضل رازؔ چاند پوری کی حیات اور کلام کا طائرانہ جائزہ

 

 

                سرور عالم راز سرور

 

 

 

بسمہ

امید ہست کہ بیگانگیِ عرفی را

بدوستیِ سخن ہایِ  آشنا بخشند

والدہ (مرحومہ) کے نام

 

ع   آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

 

 

 

کوائفِ مصنّف

 

ابتدا و انتہا کیا ہستیِ موہوم کی

ابتدا اک داستاں ہے، انتہا افسانہ ہے

 

(راز)

نام تخلص

سرور عالم راز سرور

والد گرامی

ابو الفاضل محمد صادق رازؔ چاند پوری (مرحوم)

والدہ محترمہ

رشید فاطمہ رازی (مرحومہ)

پیدائش

16مارچ 1935ء ، جبل پور، مدھیہ پردیش، ہندوستان

شریک حیات

قیصر رازی

اولاد

صبا رازی سید (ایم ڈی)

سلمان سرور رازی (ایم ڈی)

داماد

سید محمد عقیل (ایم ڈی)

نواسیاں

ثنا سید (نگار)، نجاح سید (گلنار)، عروج سید (شہوار)

تعلیم

بی ایس سی (انجینیرنگ) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ہندوستان

ایم ایس سی (انجینیرنگ): امریکہ

ملازمت

لیکچرر، مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ، ہندوستان (61ءتا 71ء)

سوِل انجینیر، امریکہ (71ءتا 95ء)

قیام امریکہ

64ءتا 68ء بسلسلۂ تعلیم

ہجرت

1971ء

تصانیف

سوِل انجینئرنگ پر دو کتابیں (انگریزی)

شہرِ نگار (مجموعہ غزلیات)

رنگِ گلنار (مجموعہ غزلیات و منظومات)

کتاب حج و عمرہ (انگریزی)

باقیات رازؔ (حضرت ابو الفاضل رازؔ چاند پوری مرحوم کی شاعری کا تعارفی مطالعہ)

تیسرا ہاتھ (افسانوں کا مجموعہ)

در شہوار (مجموعہ غزلیات)

 


 

بسمہ

وہیں سے ابتدائے حسنِ عالم ساز ہوتی ہے

جہاں پر ختم سوزِ عشق کا افسانہ ہوتا ہے

                                                (راز)                       

سوانحی خاکہ

ابو الفاضل رازؔ چاند پوری

 

اے رازؔ اگر سلامت ہے ذوقِ شعر گوئی

ہو جائے گی مرتب رودادِ زندگانی

 

اسمِ گرامی                                  محمد صادق

تخلّص                                        رازؔ

کنّیت                                       ابو الفاضل

والد محترم                                  حافظ محمد جعفر حافظ

تاریخ پیدائش                            25 مارچ 1892ء

مقام پیدائش                              چاند پور، ضلع بجنور، اُتّر پردیش، ہندوستان

تاریخ وفات                               25 اگست 1969ء

مقام وفات                                 علی گڑھ، اُتّر پردیش، ہندوستان

تلمُّذ                                           حضرت عاشق حسین سیماب اکبرآبادی

تصانیف

  1.  زرّیں افسانے
  2. دُنیائے رازؔ
  3. نوائے رازؔ
  4. داستانے چند
  5. داستانِ عہدِ گل
  6. مصحفِ رازؔ (غیر مطبوعہ)
  7. مئے باقی (غیر مطبوعہ)

 

 

 

 

 

بِسمہ

 

حدیثِ مختصر

 

گوش نزدیک لبم آر کہ آوازے ہست

 

دُنیا کی زبانوں میں اُردو وہ واحد زبان ہے جس کے ہر دَور میں ہزاروں شعراء  دادِ سخن سنجی دیتے رہے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دَور میں عظمت و ناموری معدودے چند شعراء  کا ہی حصّہ رہی ہے۔ انہیں شعراء  پر بیشتر کتابیں اور مقالے لکھے گئے ہیں ۔ وہی تحقیق و تنقید کا موضوع رہے ہیں اور انہیں کے نام سے اُردو شاعری کے پرستار عموماً واقف ہیں ۔ باقی کے ہزاروں شعراء  کو اپنی شناخت اور تشخص قائم کرنے کے لئے ہمیشہ جدّ و جہد کرنی پڑی ہے۔ مشاعرے، اخبار و رسائل، (موجودہ دَور میں ) ریڈیو اور ٹیلی وژن، مناظرے اور مباحثے اور گروہ بندی اس جدّوجہد کے عناصرِ خمسہ ہیں ۔ ان عناصر کو بخوبی استعمال کرنے کے لئے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ کسی نہ کسی طرح شاعر کی دسترس اِن پر ہو،بلکہ یہ بھی لازم ہے کہ وہ ان کو استعمال کرنے کے طریقوں سے واقف ہو اور انہیں استعمال کرنے کے لئے تیار بھی ہو۔ خصوصاً آخری دو عناصر کے استعمال میں جو حربے بروئے کار لانے پڑتے ہیں ، ان کے لئے ہر طبیعت تیار بھی نہیں ہوتی۔

علاوہ ازیں اگر کوئی شاعر طبعاً خاموش اور گوشہ نشین ہو تو اس کی شناخت ا ور تشخص کا قیام اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ رازؔ چاند پوری مرحوم کا شمار اسی زمرہ میں تھا۔ چنانچہ اپنے منفرد اندازِ فکر اور ممتاز طرزِ سخن کے باوجود وہ تقریباً پچاس سال ادب و شعر کی خدمت کر کے یہ کہتے ہوئے راہیِ ملکِ عدم ہو گئے کہ

سراپا سوز ہوں میں ہمنوائے سازِ فطرت ہوں

تعجب ہے مری آواز پہچانی نہیں جاتی

رازؔ مرحوم کو دنیائے ادب سے اِس سلسلہ میں جو شکوہ تھا، وہ اشعار کی صورت میں گاہے گاہے نوکِ قلم پر آیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ

میں بندۂ تسلیم ہوں ، خود کام نہیں ہوں

خوش نوش ہوں ، مخمورِ مئے عام نہیں ہوں

گمنام ہوں ، گمنام سہی بزمِ ادب میں

اے رازؔؔ یہ کیا کم ہے کہ بدنام نہیں ہوں

سچ پوچھئے تو وہ اس سے زیادہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے تھے۔ اُن کی افتادِ طبع اور اُس زمانے کی تہذیب کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ خاموشی سے کام کرتے رہیں اور زمانہ کی بے حسی سے زیادہ بد دل نہ ہوں ۔ بالآخر وہ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ

طے کر چکا ہوں راہِ محبت کے مرحلے

اس سے زیادہ حاجتِ شرح و بیاں نہیں

یہ شعر کہتے وقت ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہو گا کہ جس راہِ محبت کے مراحل سے کامیاب گزر کر وہ اپنے تئیں مطمئن تھے اُس کی کامرانیوں اور دُشواریوں کی داستان مدتوں محتاجِ بیان رہے گی اور بالآخر اس کی تشریح و بیان کا کام میرے نحیف و سبک مایہ قلم کو دیارِ غیر میں بیٹھ کر سرانجام دینا ہو گا۔ اس کام کی مشکلات کی تفصیل کا تو یہ موقع نہیں ہے، البتہ اجمالی طور پر ان مسائل کا ذکر شاید بے محل نہ ہو گا جو اس سلسلہ میں مجھے پیش آئے۔

میں نے رازؔ کی شاعری کے اِس تعارفی مطالعہ کا بیشتر حصّہ امریکہ کی سنگلاخ سرزمین میں بیٹھ کر تالیف کیا ہے۔ امریکہ میں بڑی حد تک اردو شعر و ادب اور اس کے متعلقات ان مشاعروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں جو وقتاً فوقتاً مختلف شہروں میں منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔ تنقید و تحقیق کے لئے جو وسائل ضروری ہیں ، وہ یہاں کم و بیش مفقود ہیں ۔ کتابیں ، رسائل اور دوسرے مآخذ میسّر نہیں ہیں اور ایسے اہلِ علم و بصیرت تقریباً ناپید ہیں جن سے تحقیق و تالیف کے گوناگوں اور مشکل مراحل میں راہ نمائی،مشورہ یا اصلاح کے لئے رجوع کیا جا سکے۔ اگر کہیں کوئی ایسا صاحبِ علم ہے بھی تو باہم ارتباط و مراسلت کے مواقع اور محرکات وہاں کی مخصوص مشینی زندگی کا شکار ہو کر مضمحل بلکہ مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ برصغیر ہند و پاک کے اُردو مراکز، وسائل اور اربابِ فکر و نظر سے دوری اور اہلِ اُردو کی عمومی بے حسی بھی تخلیقی کوشش اور عمل میں سدّ راہ ہیں ۔ ایسے دل شکن حالات پر مستزاد خود میری کوتاہیِ علم اور ادبی سبک مائیگی ہر قدم پر میرا قلم تھام لیتی تھیں اور زیرِ نظر کتاب کی تدوین کا ہر مرحلہ پہلی نظر میں ناقابلِ تسخیر نظر آتا تھا۔

مندرجہ بالا مسائل اور موانع کے علاوہ میری مشکلات کا سب سے بڑا سبب وہ تعلقِ خاطر ثابت ہوا جو مجھ کو رازؔ مرحوم سے اُن کی زندگی بھر رہا اور میری زندگی ختم ہونے تک رہے گا۔

ابو الفاضل رازؔ چاند پوری میرے مشفق و محترم والد ہی نہیں تھے، وہ میرے مربی، معلّم، زندگی کے ہر نشیب و فراز میں راہ نما بلکہ یوں کہئے کہ میرے ہیرو تھے۔ اپنے ہوش سنبھالنے کے لمحہ سے اُن کی وفات تک میں نے ان کو، ان کے اندازِ فکر اور طریقِ عمل کو نہایت قریب سے دیکھا اور خود بھی اکثر و بیشتر اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ اب جب کہ میں خود زندگی کی پینسٹھ شامیں دیکھ چکا ہوں ، یہ احساس اور بھی گہرا ہو گیا ہے کہ میری زندگی کے بیشتر اصول اور ضوابط، سوچنے اور کلام کرنے کا طریقہ اور حیات کا عمومی شعور انہیں کے فیضانِ صحبت و تربیت کے مرہونِ منّت ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ میں اُن پر ایسے عمل نہیں کر سکا جیسا ان کا حق تھا۔ ایسے قریبی اور جذباتی تعلق کا ایک فطری تقاضا یہ بھی ظاہر ہوا کہ میں خود کو رازؔ پر ناقدانہ قلم اٹھانے پر آمادہ نہ کر سکا۔ چنانچہ زیرِ نظر مطالعہ تعارفی ہے تنقیدی نہیں ، کیونکہ یہ میرا مقام نہیں ہے۔

مذکورہ بالا مشکلات کے باوجود میں نے امکانی حد تک کوشش کی ہے کہ رازؔ سے میری ارادت مندی، میری تجزیاتی فکر کو مغلوب نہ کر دے تاکہ میں ان کے کلام پر وہ صحیح و متوازن رائے پیش کر سکوں جس کے وہ مستحق ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ میں اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اور شخص اس کام کو کرتا تو وہ بھی کم و بیش انہیں نتائج پر پہنچتا جو میرے مطالعہ اور تجزیہ سے ثابت ہوئے ہیں ۔ اہلِ نظر کتاب کے مطالعے کے بعد خود یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ میں اپنی اس کوشش میں کس حد تک حقیقتِ حال سے قریب ہوں ۔

بندۂ اہلِ محبت ہوں ، صداقت کیش ہوں

ایک ہیں نا آشنا و آشنا میرے لئے

’’باقیاتِ رازؔ‘‘ کی تالیف و ترتیب کے حوالہ سے چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔

رازؔ کا وہ شعری سرمایہ جس کو خود اُن کی نظرِ انتخاب و احتساب نے قابلِ اشاعت سمجھا، چالیس سالوں ( 1916ءتا 1955ء) پر محیط ہے اور تقریباً بارہ ہزار اشعار پر مُشتمل ہے۔ اُن کی غزلوں کا ایک مختصر انتخاب ’’نوائے رازؔ‘‘ (مطبوعہ 1961ء) اور نظموں کا ایک مجموعہ ’’دُنیائے رازؔ ‘’ (مطبوعہ 1930ء) اہلِ ذوق و نظر سے خراجِ تحسین حاصل کر چکے ہیں ۔ برصغیر ہند و پاک کے مختلف رسائل و جرائد میں اُن کا جو مزید کلام مدتوں شائع ہوتا رہا،اسے وہ اپنی مختلف مجبوریوں کی وجہ سے مرتب کر کے شائع نہیں کرا سکے۔ 1954ء میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے اپنے منتشر کلام کی شیرازہ بندی کی اور اس پر بالاستیعاب نظرِ ثانی کے بعد ایک ضخیم مجموعہ ’’مصحفِ راز ‘’ مرتب کیا جو تین حصّوں پر مشتمل ہے:

١۔ ’’نوائے رازؔ‘‘  : جس میں ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ غزلیات ہیں ۔

٢۔ ’’صحیفۂ رازؔ ‘’  :  جس میں ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ منظومات ہیں ۔

٣۔ ’’حدیثِ رازؔ‘‘ :  جو ان کی غیر مطبوعہ رباعیات پر مشتمل ہے۔

اس منتخب کلام کے علاوہ رازؔ نے اپنے بقیہ کلام کو جو ان کے ابتدائی اور وسطی زمانۂ شعر گوئی کا نمائندہ تھا نظرانداز ہی نہیں بلکہ یکسر تلف کر دیا۔ اس دور کی چند چیدہ چیدہ غزلوں کا انتخاب انہوں نے ’’مئے باقی‘‘ کے عنوان سے مرتّب کر کے اپنے شعری اثاثہ میں محفوظ کر دیا تھا۔ یہی دونوں مسودات (’’ مصحفِ رازؔ‘‘ اور ’’مئے باقی‘‘  (زیرِ نظر تالیف کا موضوع ہیں ۔

مرے کلام میں مضمر ہے زندگی اے رازؔ

رموزِ حسن و محبت سے آشنا ہوں میں

1955ءکے بعد رازؔ نے شعر گوئی تقریباً ترک کر دی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کے بقیہ چودہ سال گوشہ نشینی میں گزار دیے۔ ان کے ابتدائی اور وسطی دور کے کلام کے اتلاف اور آخر عمر میں دنیائے ادب سے کنارہ کشی سے اردو ادب و شعر کو جو نقصان پہنچا اس کا صحیح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ شاعری سے آخر عمر میں مکمل دستبرداری کے بارے میں  مصحفِ رازؔ ‘’ کے دیباچہ میں وہ یوں رقم طراز ہیں :

’’آ خر میں اس ر از کو افشا کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ 55ءکے بعد راز کے حالات و خیالات میں کچھ ایسا انقلاب رونما ہوا کہ اس نے شعر گوئی ترک کر دی، اور اگر کسی مجبوری کی بِنا پر کبھی کچھ کہا بھی تو اس کو ’ مصحفِ راز‘ میں شامل نہیں کیا۔‘‘

دراصل 1955ء میں رازؔ کی اہلیہ نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا تھا اور اس صدمۂ جانکاہ نے انہیں بالکل ہی مضمحل کر دیا تھا۔ اس سال کے بعد کی کہی ہوئی صرف تین غزلیں ’’مئے باقی‘‘ میں ملتی ہیں ۔ ان تینوں کو میں نے والدِ مرحوم کی روح سے معذرت کے ساتھ اس کتاب میں شامل کرنے کی جسارت کی ہے کہ یہ بھی بہر کیف ان کے تبرکات میں سے ہیں ۔ ان غزلوں پر میں نے تاریخ ڈال دی ہے تاکہ وہ بقیہ کلام سے ممیّز رہ سکیں ۔

اس تالیف کے آخر میں ٭رازؔ کے اُس کلام کا انتخاب شامل کر دیا گیا ہے جو ’’دنیائے رازؔ ‘’ اور ’’نوائے رازؔ‘‘ میں شائع نہیں ہو ا تھا۔ ان کے غیر مطبوعہ کلام کو تمام و کمال شائع کرنا ممکن نہیں ہے۔ امید ہے کہ مذکورہ انتخاب ان کی شاعری کی نمائندگی بخوبی کر سکے گا۔ کسی کے کلام کا انتخاب نہایت ہی مشکل کام ہوتا ہے اور اس میں انتخاب کرنے والے کی پسند و ناپسند کا دخل ناگزیر ہے۔ رازؔ سے میرے جذباتی تعلق کی وجہ سے یہ کام کچھ زیادہ ہی مشکل ثابت ہوا۔ بہرکیف اس سلسلہ میں اگر کوئی کوتاہی رہ گئی ہے تو میں اس کی ساری ذمہ داری قبول کرنے کو بخوشی تیار ہوں ۔

مذکورہ بالا انتخاب میں ’’نوائے رازؔ ‘‘ ’’ اور دُنیائے رازؔ‘‘ کی غزلوں اور منظومات میں سے وہ چند تخلیقات بھی شامل کر دی گئی ہیں جن سے کتاب کے متن میں مفصل استدلال کیا گیا ہے۔ لیکن اختصار کے پیشِ نظر ہر وہ مطبوعہ تخلیق شامل نہیں کی گئی ہے جس کا کوئی شعر متن میں درج ہے۔ یہ اقدام قاری کے لئے کلامِ رازؔ کی بہتر تفہیم میں معاون ثابت ہو گا۔

اس کتاب کے آخر میں ’’مئے باقی‘‘ ٭٭کے عنوان کے تحت رازؔ کی اُن غزلیات کا انتخاب بھی ہے جن کو انہوں نے نظرانداز کر دیا تھا، گویا یہ خود اُن کے انتخاب ’’مئے باقی‘‘ کا انتخاب ہے۔ اس سے نہ صرف اس بیش قیمت اثاثہ کی حفاظت مقصود ہے ،بلکہ یہ خیال بھی اس اقدام کا محرک ہے کہ ان اشعار سے مستقبل کے مورخ کو رازؔ کی شاعری کی ارتقائی منزلوں کا تھوڑا بہت اندازہ ہو سکے گا۔ علاوہ ازیں اسی حصّہ میں وہ پانچ نوحے بھی شامل کر دیے گئے ہیں جو رازؔ نے قریبی اعزہ اور احبّا کی وفات پر نظم کیے تھے۔

میں معظمی مجید جامی صاحب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے نہ صرف اس کتاب کی تدوین و تہذیب میں میری راہ نمائی کی،بلکہ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود اس مسودہ پر نظرِ ثانی کی ذمہ داری بھی سنبھالی۔ محترمی سیّد الیاس صاحب نے کتاب کی تالیف کے مختلف مراحل میں اپنے مشوروں سے مجھے نوازا، میں ان کا بھی شکرگزار ہوں ۔

آخر میں ضروری ہے کہ میں اپنی اہلیہ قیصر رازی کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے اس مشکل کام میں قدم قدم پر میری ہمت افزائی کی اور وہ خوشگوار اور پُر سکون ماحول بھی فراہم کیا جس کے بغیر میں اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔

افسانہ بن نہ جائے کہیں بات رازؔ کی

یوں مختصر حکایت ناز و نیاز کی

مجھے اپنی علمی اور ادبی فرو مائیگی کا نہ صرف احساس ہے بلکہ اعتراف بھی۔ پھر بھی میں اس کتاب کی تالیف و اشاعت پر شرمندہ یا متاسف ہرگز نہیں ہوں ،بلکہ اس کوشش پر مجھے دلی مسرّت ہے۔ کچھ اس وجہ سے کہ میری یہ ناچیز تالیف رازؔ کی شاعری کے مطالعہ اور تفہیم میں معاون ثابت ہو گی اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ یہ کتاب میری جانب سے اُن کی خدمت میں خراجِ عقیدت و محبت ہے کہ میں عمر بھر گلشنِ رازؔ کا خوشہ چین رہا ہوں ۔

حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم

نازم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم

 

 

سرور عالم راز

یکم جنوری 2000ء

فورٹ ورتھ، ٹیکساس، امریکہ

٭، یہاں یہ حصہ دوم کے طور پر ایک الگ ای بک میں شامل کیا گیا ہے۔ ا ع

٭٭’مئے باقی‘ ایک تیسری ای بک کی شکل میں بنا دی گئی ہے۔ ا ع

 

 

 

 

 

 

 

باب 1

مختصر حالات و کوائف

میری نظر میں ہے وہ فسانہ

کہتی ہے دنیا جس کو حقیقت

 

رازؔ کا نام محمد صادق تھا۔ وہ 25 مارچ 1892ء(مطابق 25 شعبان 1309 ھ) کو استاذ الاساتذہ قائم چاند پوری کے مولِد قصبہ چاند پور (ضلع بجنور، اُتر  پردیش، ہندوستان)کے ایک شریف و نجیب اور متوسّط مسلم خاندان میں پیدا ہوئے۔ خاندانی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے آباء و اجداد اصحابِ سیف تھے۔ آپ کے پردادا شیخ فتح محمد عنفوانِ شباب میں اپنے چچا سے کسی بات پر خفا ہو کر ایران چلے گئے تھے (بچپن میں والدِ ماجد کے انتقال کے بعد چچا نے ان کی پرورش کی تھی) اور وہاں بارہ سال فوجی خدمات انجام دے کر وطن واپس آئے تھے ۔اوّل اوّل انہوں نے سلطنتِ مغلیہ کے آخری دَور میں اور پھر والیِ پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں نمایاں خدمات انجام دیں اور صوبیدار کے عہدہ پر فائز رہے۔ حالاتِ زمانہ کے تقاضوں سے مجبور ہو کر بعد میں رازؔ کے اسلاف نے ملازمت کی جانب توجہ دی اور پھر یہی ذریعۂ معاش ہو کر رہ گیا۔

رازؔ کے جدّ امجد منشی نذر محمد ایک دیندار اور صاحبِ علم بزرگ تھے اور اُس زمانے کی مروّجہ اُردو اور فارسی میں اچھی دستگاہ رکھتے تھے۔ رازؔ اپنی ’’یادداشت‘‘ (٭) میں لکھتے ہیں کہ:

’’مجھے اپنے بچپن کا وہ زمانہ ہنوز یاد ہے جب میرے جدّ امجد منشی نذر محمد مرحوم بارِ ملازمت سے سبکدوش ہو کر (اوائل 1902ء) چاندپور تشریف لائے تھے۔ صبح و شام بعض اعزہ و احبّا ان کے پاس آتے تھے اور مختلف حالات و مسائل پر گفتگو ہوتی تھی۔ یہ عموماً سِن رسیدہ تھے۔ کبھی کبھی وہ اپنے بچپن اور جوانی کے قصّے بھی بیان کرتے تھے۔

٭رازؔ کی تحریر کردہ یہ ’’یاددداشت‘‘ جس میں انہوں نے اپنے خاندانی حالات تفصیل سے لکھے ہیں ،   خاندانِ  رازؔ کے پاس محفوظ ہے۔

دادا جان عموماً رات کو مجھے اپنے پاس بلا لیتے تھے۔ میں اکثر ان کے پاؤں دباتا تھا اور وہ مجھے دلچسپ کہانیاں ، واقعات اور خاندانی حالات سنایا کرتے تھے۔ اِس کے علاوہ روزانہ جو کچھ مکتب یا مدرسہ میں پڑھتا تھا اس کو سنتے تھے اور حسبِ ضرورت اسباقِ کتاب کی تشریح و توضیح کرتے تھے۔ اب نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ لوگ۔

ع  ‘‘انقلابات ہیں زمانے کے ‘’

منشی نذر محمد نے ابتدا میں اِدھر اُدھر ملازمت کی، پھر وہ محکمۂ صحت میں ویکسی نیٹر (Vaccinator)ملازم ہو گئے تھے اور ترقی ‌کرتے کرتے سپرنٹنڈنٹ کے عہدہ تک پہنچے تھے۔

رازؔ کے والدِ ماجد محمد جعفر (مرحوم) حافظِ قرآن اور پابندِ صوم و صلوٰۃ تھے۔ ابتدا میں چند سال محکمۂ پولیس میں ملازم رہے، پھر محکمۂ انہار میں بعہدہ امین فائز ہوئے۔ وہ نہ صرف اُردو اور فارسی میں اچھی قابلیت رکھتے تھے بلکہ آپ کو شاعری کا بھی نہایت اچھا ذوق تھا۔ چنانچہ آپ کا تخلص حافظ تھا۔ گویا ادب و شعر کا شوق رازؔ کو اپنے والدِ  ماجد سے ورثہ میں ملا تھا۔ رازؔ اپنی ’’یاد داشت‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ:

’’ان کو شعر و سخن سے بھی دلچسپی تھی۔ کبھی کبھی بطور تفنّنِ طبع اشعار موزوں کرتے تھے،مگر کبھی شعراء  کے زمرے میں شامل نہیں ہوئے اور نہ کوئی مجموعۂ کلام مرتّب کیا۔ ان کا تخلص حافظ تھا۔ ان کی بیاض(٭) میں صرف ایک غزل ایسی ہے جس میں حافظ تخلص ہے۔ باقی غزلیں ، خمسے، رباعیاں وغیرہ اُس زمانہ کے ایسے شعراء  کی ہیں جو اپنے زمانے میں مقامی طور پر خوش گو مشہور ہوں گے یا ان سے برادرانہ و دوستانہ تعلقات ہوں گے۔‘‘

حافظ محمد جعفر حافظ کی یادگار واحد غزل بغیر کسی تشریح و حاشیہ درج ذیل ہے کہ یہ تبرک کا حکم رکھتی ہے:

آہ وہ دَورِ زندگی، آہ وہ دَورِ سرخوشی

گردشِ روزگار سے خواب و خیال ہو گیا

(راز)

٭ یہ بیاض بھی خاندانِ راز میں محفوظ ہے

غزل

(حافظ محمد جعفر حافظ)

 

روز حضرت کا نظارا کیجئے

چاند کو صدقے اُتارا کیجئے

ہے کہاں سنگِ درِ محبوب حق

شیشۂ دل پارا پارا کیجئے

چشمکیں ہوتی ہیں اوروں سے سدا

میری جانب بھی اشارا کیجئے

دوست کے گھر تک نہیں ہوتا گزر

یا خدا کیسے گذارا کیجئے

ہے مقامِ عشق جائے امتحاں

جو مصیبت ہو گوارا کیجئے

حال حافظ کا جو ہے ابتر تو ہو

آپ زلفوں کو سنوارا کیجئے

….

رازؔ پانچ بہنوں میں اکیلے بھائی تھے۔ چنانچہ ان کی پرورش و تربیت بڑے ناز و نعم میں ہوئی۔ چونکہ گھر میں تعلیم کا چرچا تھا اور آپ کے والدِ ماجد خود صاحبِ علم تھے، رازؔ کی تعلیم کی جانب بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ آ‍پ کو فطرت نے ذہانت اور فطانت بدرجہ اتم عطا کی تھی اور حصولِ علم کا شوق انہیں بچپن سے تھا۔ چنانچہ جلد ہی مروّجہ اُردو اور فارسی کی تعلیم سے فراغت حاصل کر لی۔ اپنی تعلیم، ملازمت وغیرہ سے متعلق مختصر روداد رازؔ کی زبانی ہی سنئے۔ اپنی ’’یاد داشت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’سب سے پہلے دستورِ زمانہ کے مطابق، حافظ کریم بخش کے مکتب میں قرآن شریف پڑھا۔ پھر منشی شرف الدین (عرف میاں جی کلو) کے مکتب میں اُردو، فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھ کر تحصیلی اسکول، چاند پور سے اَپر پرائمری پاس کیا اور 1908ء میں تحصیلی اسکول رایا (ضلع متھرا) سے اُردو مڈل۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول، مراد آباد میں اسپیشل کلاس میں (جو درجہ ٦ کے برابر تھی) داخل ہوا۔ اُس زمانہ میں اسپیشل کلاس میں صرف وہ طلبہ داخل کیے جاتے تھے جو اُردو یا ہندی مڈل اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انگریزی پڑھنا چاہتے تھے۔ پہلے سال میں زیادہ تر انگریزی پڑھائی جاتی تھی اور پھر کامیاب طلبہ کو درجہ ہفتم میں عام طلبہ کے ساتھ تمام مضامین انگریزی میں پڑھائے جاتے تھے۔ 1911ء میں تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا، مگر مطالعہ کا شوق برابر قائم رہا۔ فارسی درسیات کی تکمیل اور عربی زبان کی تحصیل کے لئے کئی بار کوشش کی، لیکن فکرِ معاش و افکارِ روزگار نے کامیاب نہ ہونے دیا۔

1912ء میں والدِ بزرگوار کے ایما سے ریاست بلاسپور (ضلع بلند شہر) میں محرّر (کلرک) کی جگہ پر تقرر ہو گیا، مگر وہاں دل نہ لگا اور تقریباً ایک سال کے بعد استعفیٰ دے کر کانپور چلا گیا۔ تار کا کام (Telegraphy) سیکھا، مگر مقابلہ کے امتحان میں کامیاب نہ ہو سکا۔ 1914ء میں البرٹ انڈیا ریلوے میں ملازم ہوا …. اسی سلسلے میں ٹونڈلہ، فیروز آباد، آگرہ، خورجہ اور اٹاوہ میں رہا۔ آخر کار ریلوے کی ملازمت سے کنارہ کش ہو کر پھر کانپور گیا اور ٹائپ رائٹنگ سیکھنے کے بعد 1931ء کے شروع میں سرکاری ملازمت (Indian Ordnance Department) میں داخل ہوا۔ 1932ء میں کانپور سے جبل پور کا تبادلہ ہو گیا اور جبل پور سے ریٹائر ہو کر کانپور آ گیا۔‘‘

رازؔ کا ارادہ کانپور میں مستقل سکونت کا تھا، جہاں ان کے بہت سے اعزّہ و اقربا مستقل مقیم تھے۔ لیکن جنوری 1955ء میں ان کی رفیقۂ حیات نے طویل علالت کے بعد داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ رازؔ کشاکشِ حالات و آلامِ روزگار سے دل برداشتہ تو تھے ہی، اس صدمہ نے ان کی کمر بالکل توڑ دی اور دنیا اور اس کے اعتبارات سے ان کا دل یکسر اٹھ گیا۔ اُسی سال نومبر میں وہ اپنے بڑے بیٹے محمود عالم رازؔ کی خواہش پر علیگڑھ منتقل ہو گئے،جہاں انہوں نے اپنی عمر کے بقیہ چودہ سال گوشہ نشینی میں گزار دیے۔ شعر گوئی تقریباً ترک کر دی تھی اور وہ اپنا وقت زیادہ تر اخبار و رسائل کی ورق گردانی، مطالعۂ کتب اور اپنے ادبی سرمایہ کی تہذیب اور شیرازہ بندی میں گزارا کرتے تھے۔ اپنی گوشہ نشینی کی عادت کا ذکر وہ نہایت خوبصورت انداز میں ایک شعر میں کرتے ہیں ۔

دنیا ہمارے حال کی جویا ہے کس لئے

عزلت گزیں ہوئے کہ گنہ گار ہو گئے؟

….

علیگڑھ ہی میں رازؔ پر 25 اگست 1969ء کو دل کا دورہ پڑا اور اُسی شام وہ حرکتِ قلب بند ہو جانے سے 77 سال کی عمر میں اپنی نظم ’’آوارہ گردِ محبت‘‘ کے اِن اشعار کی تفسیر بن کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔

قسمت میں ہے افتادگی، شکوہ کسی کا کیا کروں

کیوں میں کسی کا نام لوں ، کیوں ہوں کسی سے بدگماں

دلدادۂ اُلفت ہوں میں ، راضی ہوں میں ہر حال میں

اُس کی رضا سے شاد ہوں ، اُس کی خوشی سے شادماں

دو دن کا ہے یہ رنج و غم، دو دن کی ہے یہ زندگی

اُٹھ جاؤں گا اک روز میں دُنیا سے آخر ناگہاں

رازؔ تمام عمر افکار و آلام کا شکار رہے۔ یوں تو دنیا میں غم و رنج کسی نہ کسی حد تک ہر شخص کی زندگی کا حصّہ ہوتے ہیں ، لیکن کچھ لوگوں کو قدرت دوسروں سے زیادہ ہی آشنائے ابتلا رکھتی ہے۔ رازؔ ایسے ہی لوگوں میں تھے۔ 1911ء میں ان کی تعلیم کے انقطاع کا باعث 1910ء میں ان کی شادی ہو سکتی ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں عائلی زندگی کی ذمہ داریوں نے انہیں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے سے روکا ہو گا۔ مزید برآں 1891ء میں انفلوئنزا کی ہندوستان گیر وبا میں ان کے والدین دو ہفتہ کے اندر اندر راہیِ ملکِ بقا ہو گئے اور بہنوں کی نگہداشت و پرداخت کی تمام ذمہ داریاں  رازؔ کے شانوں پر آ گئیں ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان کے دو بچوں نے عالم طفلی میں ہی انہیں داغِ مفارقت دے دیا۔ اپنے سب سے بڑے بیٹے محمد فاضل کی نا وقت وفات (دسمبر 1915ء) کے بعد اس کی یادگار کے طور پر آپ نے ابو الفاضل کنّیت اختیار کر لی تھی جو بعد میں ان کے نام کا جزو بن گئی اور پھر وہ تا حین حیات دنیائے اردو میں ابو الفاضل رازؔ چاند پوری کے نام سے مشہور و معروف رہے۔

کانپور کا گیارہ سالہ قیام رازؔ کے لئے نسبتاً پُر سکون رہا۔ مالی پریشانی اور رفیقۂ حیات کی مستقل علالت نے تو وہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا، البتہ اعزّہ کی قربت ان کے لئے باعث تقویت تھی۔ ادبی و شعری سطح پر بھی وہ مصروف رہے۔ مُنشی دیا ناراین نگم اُن دنوں کانپور سے رسالہ ’’زمانہ ‘’ نکالتے تھے۔ رازؔ چار سال تک اس کی مجلسِ ادارت سے وابستہ رہے۔ کانپور میں اربابِ ذوق و ادب کی خاصی تعداد موجود تھی، شعرو شاعری کا چرچا تھا اور اس طرح ان کے ذوق کی تسکین کا سامان میسر تھا۔ یوں بھی کانپور سے اُردو کے دوسرے مراکز (لکھنؤ، آگرہ، دلی، عظیم آباد وغیرہ) دور نہیں تھے۔ آگرہ میں رازؔ کے استاد حضرت سیماب اکبرآبادی (مرحوم) موجود تھے اور اپنے فعّال ادارہ’‘ قصرِ ادب‘‘ کے ذریعہ ادب و شعر کی نمایاں خدمات انجام دے رہے تھے۔ چنانچہ رازؔ کی ادبی آسودگی کا خاصہ سامان موجود تھا۔

1932ء میں رازؔ کا تبادلہ جبل پور ہو گیا، جہاں وہ تقریباً بائیس سال رہے۔ یہ دَور اُن کے لئے بڑا سخت اور صبر آزما تھا۔ نہ صرف وہاں ان کا کوئی عزیز و قرابت دار نہیں تھا بلکہ ادب و شعر کے حوالہ سے بھی یہ شہر بنجر اور تقریباً بے آب و گیاہ تھا۔ رفیقۂ حیات کی علالت اور معاشی پریشانیاں بدستور دامن گیر تھیں کہ 1940ء اور 1941ء میں یکے بعد دیگرے دو بیٹیوں نے عین عالمِ شباب میں والدین کو داغِ مفارقت دیا۔ ان صدموں کے آنسو ابھی خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ سب سے بڑے بیٹے اختر عالم راز نے 1943ء میں بیس سال کی عمر میں بعارضۂ تپ دق داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ جوان اولاد کی پے بہ پے موتوں کے صدمۂ جانکاہ کا تھوڑا بہت اندازہ وہ لوگ لگا سکتے ہیں جو ایسی جان لیوا آزمائش سے ایک مرتبہ گزر چکے ہوں ۔ وقت کے ساتھ صبر سب کو آ جاتا ہے۔ رازؔ اس اصول سے مستثنیٰ نہیں تھے، لیکن اُن کے دل کے زخم ہمیشہ ہرے ہی رہے اور انہوں نے پھر کبھی دنیا اور دنیا والوں سے رازؔ کو مانوس نہیں ہونے دیا۔ جنوری 1955ء میں ان کی رفیقۂ حیات نے ایک طویل علالت کے بعد جب اس جہانِ فانی سے کوچ کیا تو رازؔ کی غم دیدہ اور بوڑھی آنکھوں میں دُنیا بالکل اندھیری ہو گئی اور پھر انہوں نے بقیہ زندگی گوشہ نشینی اور دنیا سے بے تعلقی میں کاٹ دی۔

اپنے بچوں اور رفیقۂ حیات کی وفات پر رازؔ نے جو نوحے کہے تھے، وہ اس کتاب میں درج ہیں ۔ ان کے ہر لفظ سے جو درد ٹپکتا ہے، وہ کسی تشریح و توضیح کا محتاج نہیں ہے۔

کیا کہوں کس طرح گزرتی ہے

صبح بے نور ، ما تمی ہے شام    (رازؔؔ)

جبل پور کے دورانِ قیام میں وہاں کے معدودے چند اہلِ ذوق سے رازؔ کے مراسم ہو گئے تھے جو وقت کے ساتھ گہرے ہوتے گئے، مگر انہیں یارانِ وطن کی جدائی ہمیشہ ہی شاق گزرتی رہی۔ وہ جبل پور میں بھی ادبی و شعری کام کرتے رہے۔ اس دَور کی شاعری میں غربت کی شکایت اور یارانِ محفل کی پُر درد یاد جا بجا دکھائی دیتی ہے۔ 1947ء میں وہ زبردست حادثہ پیش آیا جو آزادیِ ہند و پاک سے وابستہ تھا اور جس نے لاکھوں خاندانوں کی زندگیوں کو تہ و بالا کر دیا تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد رازؔ کے سب احباب ہندوستان سے نقلِ مکانی کر کے نئے ملک جا بسے تھے۔ رازؔ ایک مرتبہ پھر جبل پور میں تن تنہا ہو گئے تھے اور ملازمت سے سبک دوش ہو کر کانپور منتقل ہونے تک تنہا ہی رہے۔ ایک شاعر اور ادیب کی حیثیت سے ان کی یہ تنہائی اور اہلِ ادب کی صحبت سے مکمل محرومی بہت تکلیف دہ تھی۔ انہوں نے وطن سے دوری، جبل پور کی خشک ادبی فضا اور احبابِ جبل پور کی ہجرتِ پاکستان سے متعلقہ درد بھرے جذبات کا اظہار اپنی غزلوں ، نظموں اور رباعیوں میں جا بجا کیا ہے۔

رازؔ یہ دشتِ جبل پور اور میں اب کیا کہوں

اک کرشمہ ہے نگاہِ شاہد تقدیر کا

بہارِ دشتِ غربت خوب دیکھی رازؔ اب چلئے

وطن کی یاد آئی ہے نویدِ جانفزا ہو کر

وطن بخیر، بہارِ وطن بخیر، اے رازؔ

وطن کی یاد پھر آئی ہے دشتِ غربت میں

دیارِ حسن سے گزرا ہوں میں اس شان سے اکثر

سرودِ زندگی بر لب، شرابِ عاشقی در سر

فضائے میکدہ خنداں ، سوادِ میکدہ روشن

نگاہِ ساقیِ رعنا، شریکِ گردشِ ساغر

یکایک گرد بادِ انقلاب آیا بہ ایں شورش

پریشاں ہو گیا دم بھر میں نظمِ زندگی یکسر

تڑپ اٹھتا ہے دل اے رازؔ جب وہ یاد آتے ہیں

خدا جانے کہاں ہوں گے حریفانِ زباں آور

….           (بیادِ یاراں )

دلبر ہے کوئی یہاں نہ دلدار

صہبائے خودی سے ہے زمانہ سرشار

کیوں پائے طلب کو دے رہا ہے تکلیف

غربت میں تلاشِ اہلِ دل ہے بیکار

….

رازؔ کے اس شوق کا ذکر اس سے قبل ہو چکا ہے جو انہیں تحصیلِ علم کے لئے مستقل اکساتا رہتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے زندگی کی گراں بار مصروفیتوں اور نامرادیوں کے باوجود حصولِ علم کی جدوجہد عمر بھر جاری رکھی۔ اُردو اور فارسی کے علاوہ انہوں نے اپنی کوشش  و محنت سے انگریزی، عربی اور ہندی میں بہت اچھی استعداد بہم پہنچا لی تھی اور آخر عمر تک وہ ہر امکانی ذریعہ سے اپنی ذہنی تسکین اور ادبی آسودگی کا سامان بہم پہنچاتے رہے۔

علیگڑھ میں مستقل قیام کے دوران رازؔ نے اپنے منتشر کلام کی شیرازہ بندی کی تھی۔ اس سے قبل ان کی چند کتابیں شائع ہو چکی تھیں ۔ ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصانیف کی فہرست اجمالی تشریحات کے ساتھ درج ذیل ہے۔ زیرِ نظر تالیف کی بنیاد بیشتر انہیں کتابوں پر ہے۔

١۔ ’’زریں افسانے‘‘۔اردو مرکز (لاہور)۔1927ء

چودہ (14) افسانوں کا مجموعہ جن کو راز نے انگریزی سے اُردو زبان اور ہندوستانی معاشرہ میں ڈھالا تھا۔ اِس مجموعہ کے چند افسانے عشق و محبت کی لازوال داستان سناتے ہیں اور چند سماجی حیثیت سے سبق آموز ہیں ۔ اب یہ مجموعہ نایاب ہے۔

2۔’‘دُنیائے رازؔ۔‘‘1930ء

رازؔ کی چونسٹھ(64) نظموں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اپنے زیرِ اہتمام کانپور میں شائع کرایا تھا۔ مقدمہ مرزا جعفر علی خان اثر لکھنوی نے لکھا تھا۔ یہ سب منظومات ’’مصحفِ رازؔ‘‘ میں شامل ہیں جو ’’باقیاتِ رازؔ‘‘ کا موضوع ہے۔ یہ کتاب بھی اب نایاب ہے۔

3۔’‘نوائے رازؔ‘‘۔ادارۂ نیس اردو، الٰہ آباد (ہندوستان)، 1961ء

رازؔ کی ایک سو تراسی (183) غزلیات کا مجموعہ ہے جس پر پیش لفظ ہندوستان کے معروف نقاد ڈاکٹر خلیل الرحمٰن اعظمی نے قلم بند فرمایا تھا اور رازؔ کی شاعری کا مختصر تعارف حضرت خلیق فیض آبادی نے۔ یہ غزلیں بھی ’ مصحفِ رازؔ‘‘ میں موجود ہیں ۔

4۔’‘داستانے چند‘‘۔نسیم بک ڈپو۔لکھنؤ(ہندوستان) ،1968ء

حضرت سیماب اکبرآبادی کی ذات و صفات اور ادبی خدمات کا حقیقت افروز افسانہ ،جو سات مختصر مگر دلچسپ اور جامع داستانوں پر مشتمل ہے۔ رازؔ نہ صرف مولانا سیماب اکبرآبادی کے ارشد تلامذہ میں شمار کیے جاتے تھے بلکہ مولانا سے ان کے تعلقات دوستانہ و عزیزانہ تھے۔ سیماب صاحب کے مطالعہ کے سلسلہ میں ان داستانوں کی اہمیت مسلّم ہے۔ کتاب کے آخری تین ابواب میں رازؔ نے سیماب صاحب مرحوم کی ادبی خدمات کا تجزیہ کیا ہے۔

5۔’‘داستانِ عہدِ گل‘‘۔نسیم بک ڈپو۔لکھنؤ (ہندوستان)۔1941ء

رازؔ کے نام سولہ (16) ادبا و شعراء  کے ادبی خطوط پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب رازؔ کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ سیماب اکبرآبادی، احسن مارہروی، ساغر نظامی، کوثر چاند پوری وغیرہ حضرات کے خطوط دلچسپ ہیں اور بیشتر ادبی دستاویز کی حیثیت کے حامل ہیں ۔

6۔’‘ مصحفِ رازؔ ‘’۔(غیر مطبوعہ)

علیگڑھ کے قیام کے دوران مرتّب کیا ہوا مجموعۂ کلام جو رازؔ کی تمام مطبوعہ اور غیر مطبوعہ غزلیات اور منظومات (نظموں اور رباعیات) پر مشتمل ہے۔ اس مسودہ کے تین حصّے ہیں :

(١) نوائے رازؔ  (غزلیات)

(٢) صحیفۂ رازؔ  (منظومات)

(٣) حدیثِ رازؔ (رباعیات)

7۔’‘مئے باقی‘‘

رازؔ کے ابتدائی اور وسطی دَور کی شاعری کی غزلوں کا نہایت مختصر انتخاب۔ اس مسودہ کے علاوہ رازؔ نے اس دور کا بقیہ کلام تلف کر دیا۔ اس انتخاب کے چیدہ چیدہ اشعار زیرِ نظر کتاب میں اسی عنوان کے تحت شامل ہیں ۔ رازؔ کے مذکورہ کلام کا اتلاف ایک ادبی سانحہ ہے۔ اس کی تلافی تو اب نہیں ہو سکتی، البتہ اس دور کی بچی کھچی غزلوں سے رازؔ کے ابتدائی اندازِ تغزل کی نشاندہی ہوتی ہے۔

….

مندرجہ بالا تصانیف و تالیفات کے علاوہ رازؔ کے متعدد مضامین و مقالات رسالوں میں بکھرے ہوئے شیرازہ بندی کے محتاج ہیں ۔ ٹالسٹائی کے ایک ناول کا ترجمہ ان کے ادبی اثاثہ میں محتاجِ اشاعت موجود ہے۔ یہ سارا ادبی و شعری سرمایہ تقریباً نصف صدی پر محیط ہے حالانکہ خود رازؔ اپنی شاعری کی عمر چالیس سال بتاتے ہیں ۔ اس اجمال کی تھوڑی سی تفصیل درج ذیل ہے۔

’’مصحفِ رازؔ‘‘ کے دیباچہ ’’رازؔ کی بات‘‘ میں رازؔ لکھتے ہیں کہ:

’’فطرتِ فیاض نے رازؔ کو زبانِ گویا کے ساتھ طبعِ موزوں اور ذوقِ شعر گوئی بھی عطا فرمایا اور شکرِ نعمت میں اپنے علم و نظر اور ظرف و ذوق کے مطابق رازؔ نے دادِ سخن سنجی دی، مگر افکار و آلام روزگار کی بدولت اس کو اتنا موقع نہیں ملا کہ وہ اپنے افکارِ پریشاں کی شیرازہ بندی کر سکتا۔ فکرِ معاش و یادِ بتاں کے ساتھ ذکرِ خدا بھی لازمی ہوتا ہے کہ اطمینانِ قلب کے لئے ذکر و فکر سے بہتر اور کوئی شغل نہیں ہو سکتا۔

تقریباً چالیس سال میں یعنی 1916ءسے 1955ءتک رازؔ نے جو کچھ کہا (نظم، غزل، رباعی وغیرہ)، وہ کم و بیش دس بارہ ہزار اشعار پر مشتمل ہے اور اس کو یکجا شائع کرانا کارے دارد۔ موجودہ دَور میں جب کہ اہلِ دل و صاحبانِ ذوق مطمئن نہیں اور فرصتِ مطالعہ بھی کم ہے، انتخابِ کلام کا دشوار مرحلہ طے کرنا ضروری تھا۔‘‘

اس اقتباس میں رازؔ نے کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے اپنی شاعری کی عمر چالیس سال بتائی ہے۔ 1916ءاور 1955ءاُن کی زندگی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 1955ء میں رازؔ کی رفیقۂ حیات ایک اذیت ناک علالت کے بعد اس دارِ فانی سے کوچ کر گئی تھیں اور اس صدمہ سے دل برداشتہ ہو کر اُسی سال انہوں نے شاعری ترک کر دی تھی۔ چنانچہ اس سال کو اپنی شعر گوئی کا آخری سال قرار دینا درست ہی ہے۔ البتہ 1916ء میں وہ چوبیس سال کے تھے اور شاعری کرتے ہوئے انہیں کئی سال گزر گئے تھے۔ 1916ءمیں ہی رازؔ نے حضرت سیماب اکبرآبادی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی شعر گوئی کا نقطۂ آغاز اسی سال کو قرار دیا اور ’’مصحفِ رازؔ ‘’ میں اس سے پہلے کی کوئی غزل شامل نہیں کی۔ اپنی جو غزلیں انہوں نے ’’مئے باقی‘‘ میں محفوظ کر دی ہیں ان پر کوئی سنِ تحریر درج نہیں ہے۔ چونکہ انہیں رازؔ نے اپنے ابتدائی اور وسطی دَور کی کوشش کہا ہے، گمانِ اغلب ہے کہ ان میں کچھ غزلیں 1916ء سے پہلے کی ضرور ہوں گی۔

حضرت سیماب اکبرآبادی سے رازؔ کے تلمذ کا قصّہ دلچسپ ہے۔ رازؔ نے ’’داستانے چند‘‘ میں اُسے یوں بیان کیا ہے:

’’میری شعر گوئی کا شوق تو طالب علمی کے زمانے ہی سے تھا، مگر حصولِ علم اور بعدہٗ فکر معاش نے اس کو ترقی کرنے کا موقع نہ دیا تھا۔ بہ سلسلۂ ملازمت 1915ء میں مجھے آگرہ جانے کا موقع ملا۔ اس وقت آگرہ میں مولانا نثار علی نثار، ماسٹر تصوف حسین واصف، مولانا بزرگ علی عالی، حضرت فلک اور سیماب صاحب کا شمار اساتذہ میں تھا۔

ایک روز میرے ایک کرم فرما منشی کریم بخش جو کچہری میں ملازم تھے، غربت کدۂ راز (محلہ نئی بستی) پر تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ ایک اور بزرگ صورت شخص بھی تھے، یعنی مولوی محمد ایوب صاحب باغ اکبرآبادی ثم اجمیری۔ رسمی تعارف کے بعد باغ صاحب نے پوچھا کہ ’’آپ کس کے شاگرد ہیں ؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’تلمیذ الرحمٰن‘‘۔ باغ صاحب مسکرائے اور کہا کہ ’’ ہر علم و فن کو باقاعدہ حاصل کرنے کے لئے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاعری بھی ایک لطیف و نازک فن ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ کسی سے مشورۂ سخن کیجئے‘‘۔ میں نے کہا ’’بسم اللہ، آپ ہی اتنی زحمت گوارا کیجئے‘‘۔ باغ صاحب پھر مسکرائے اور قدرے تامل کے بعد کہا ’’اچھا، میں آپ کو ایسے شخص کے پاس لے چلوں گا جو میرا بھی استاد ہے‘‘ ۔

چنانچہ مقررہ دن اور وقت پر ہم سیماب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیماب صاحب اپنے ایک محبوب شاگرد ارشاد احمد خان ارشاد نظامی اکبرآبادی (مرحوم) کی مختصر سی بساط خانہ کی دکان پر تشریف فرما تھے۔ تعارف کے بعد باغ صاحب نے ہمارے حاضر ہونے کی غرض بیان کی اور سیماب صاحب نے شعر سنانے کی فرمائش کی۔ میں نے چند اشعار پیش کیے:

یہ کون آیا اٹھا کر پردۂ رخسار گلشن میں

یکایک جو اُجالا ہو گیا میرے نشیمن میں

جو ہوں اہلِ نظر آئیں ، بہارِ آتشیں دیکھیں

وفورِ آتشِ گل نے لگا دی آگ گلشن میں

جوانی میں کیا کرتے ہیں یاد ہم اپنے بچپن کو

جوانی کو کیا کرتے تھے یاد ہم اپنے بچپن میں

آخری شعر پر سیماب صاحب مسکرائے اور ارشاد مرحوم کو اشارہ کیا۔ وہ پنواڑی کی دکان سے پان لائے۔ سیماب صاحب نے ایک پان مجھے عنایت کیا اور فرمایا کہ ’’بحیثیت ایک شاعر اور شاگرد‘‘۔ اور اس طرح چند لمحوں میں ’’استادی و شاگردی‘‘ کا مرحلہ طے ہو گیا۔

 

یہ 1916ءکا واقعہ ہے۔ بعد ازاں میں جب تک آگرہ میں رہا، ہفتہ عشرہ میں ایک بار سیماب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور وہ بھی کبھی کبھی ارشاد مرحوم کے ساتھ غریب خانہ پر قدم رنجہ فرماتے رہے۔‘‘

رفتہ رفتہ رازؔ کے سیماب صاحب سے تعلقات استادی و شاگردی کے دائرہ سے نکل کر دوستانہ و عزیزانہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے ’’داستانے چند‘‘ اور ’’داستانِ عہد گل‘‘ میں ان تعلقات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔

رازؔ نے 77 سال کی عمر پائی۔ ان کے مراسم و تعلقات مختلف لوگوں سے مختلف سطحوں پر زندگی بھر رہے۔ ان لوگوں میں ملک کے نامور اور گمنام ادبا اور شعراء  بھی تھے اور اعزہ و اقربا بھی، دوست احباب بھی تھے اور ہمسائے بھی۔ بے تکلف تو وہ کسی سے مشکل ہی سے ہوتے تھے کہ ان کی طبیعت اور مزاج کا یہی تقاضا تھا، لیکن خلوص و صداقت، محبت اور شرافت کا دامن ان کے ہاتھ سے زندگی کے کسی لمحہ میں کبھی نہیں چھوٹا۔ بعض لوگوں سے ان کے تعلقات دوستانہ اور چند سے عزیزانہ تھے، مگر وہ اپنی بے ریائی، حق پسندی اور صاف گوئی میں ’’غالب کے طرفدار‘‘ کبھی نہیں رہے۔ ان کی وضعداری، سچائی، سادگی اور ہر ایک سے حسنِ سلوک کا ایک زمانہ معترف تھا، حالانکہ ان کی حق نوازی اور بے لاگ صداقتِ نفس ہمیشہ ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتی تھی۔ ان کو اپنی اس ’’کمزوری‘‘ کا احساس تھا اور بارہا انہوں نے اپنی شاعری میں اس کا اعتراف کیا ہے۔

وہ ہر شخص کی عزت کرنے کے قائل تھے اور فضول بحث اور جھگڑوں سے متنفر۔ وہ اس سنہرے اصول پر عمر بھر سختی سے کاربند رہے کہ کوئی شخص دوسروں کی عزت کا مستحق صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ خود دوسروں کے ساتھ عزت کا برتاؤ کرے۔ اس اصول کا ایک دلفریب مظہر رازؔ کی اپنے سے چھوٹوں سے بھی ’’آپ، جناب‘‘ سے بات کرنے کی عادت تھی۔ اس میں عمر کی کوئی قید نہیں تھی، حتیٰ کہ ان کی اپنی اولاد بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں تھی، بلکہ وہ اپنے نواسوں تک سے اس عزت سے گفتگو کرتے۔

یہ امر مسلّم ہے کہ کسی شخص کے مقام و منزلت کا اندازہ اس سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ لوگ اسے اس کی وفات کے بعد کس طرح یاد کرتے ہیں ۔ ارادت مندانِ رازؔ کے لئے یہ باعثِ مسرت و افتخار ہے کہ تیس سال بعد بھی لوگ رازؔ (مرحوم) کو یاد کرتے ہیں اور محبت اور احترام سے یاد کرتے ہیں ، الحمد للّٰہ! رازؔ کے مندرجہ ذیل اشعار آج بھی ان پر ایسے ہی صادق آتے ہیں جیسے وہ ان کی زندگی میں آتے تھے۔ اس کتاب کے ذریعہ ان سے یہ غائبانہ ملاقات اس بیان کی شاہد ہے۔

 

اب یہ عالم ہے میری حیرت کا

آئنہ ہوں جمالِ فطرت کا

حسنِ صورت کے دیکھنے والے

جائزہ لیں کبھی طبیعت کا

رازؔ سے مل کے آپ خوش ہوں گے

آدمی ہے بڑی محبت کا

 

 

 

باب 2

رازؔ کی شاعری کے محرّکات

 

بظاہر نغمہ زن ہوتا ہے رازؔ بے نوا لیکن

حقیقت یہ ہے خود فطرت نوا پرداز ہوتی ہے

 

انسان اپنی فطرت میں اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کا بندہ ہے۔ اس کی زندگی کے سارے متعلقات پر انہیں عوامل کی مہر لگی ہوتی ہے۔ وہ اپنی طبیعت و خصلت اور رجحان و میلان کے بنیادی عناصر فطرت سے لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔ بعد ازاں ان میں سے کچھ اس کے تجربات و مشاہدات، تعلیم و تربیت، دنیا اور دنیا والوں سے ربط و ضبط اور معاشرہ کے تقاضوں سے متاثر ہوتے ہیں اور اپنی ہیئت اور اثر پذیری میں اصل سے منحرف یا کم از کم ایک حد تک مختلف ہو جاتے ہیں ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنے ماحول کا زندانی ہوتا ہے۔ یہاں ’’ماحول‘‘ ان سب خارجی اور داخلی عوامل پر محیط ہے جو اس پر کسی نہ کسی صورت میں اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ وہ نہ صرف اس خارجی دنیا اور اس کے اثرات سے آزاد نہیں ہے جو لامحالہ اسے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں اور جن سے نبرد آزمائی اس کا مقدّر ہے بلکہ اس داخلی زنداں سے بھی اسے ایک لمحہ کو مفر نہیں ہے جو وہ اپنے تصور و تخیل کی مدد اور شہ پر خود بناتا ہے۔ انہیں داخلی اور خارجی محرکات کی بھٹّی میں تپ کر اس کی شخصیت، میلانِ طبع، پسند و ناپسند، اندازِ فکر و عمل وغیرہ جِلا پاتے ہیں ۔

شاعر فطری طور پر ذکی الحس اور جذبات پرست ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ ہر محرک سے زیادہ اور جلد متاثر ہوتا ہے۔ اسے دنیا کی بے ثباتی ہو یا دنیا والوں کی خود غرضی و خود نمائی، اپنوں کی بے حسی ہو یا دوسروں کی بیگانگی، سب بُری اور تکلیف دہ لگتی ہیں اور دوسروں سے زیادہ ہی بُری لگتی ہیں ۔ وہ کوئی خوبصورت منظرِ فطرت یا کوئی حسین صورت دیکھتا ہے تو اس کی روح وجد میں آ جاتی ہے اور دل گنگنانے لگتا ہے، اور زندگی کا ہر سانحہ اور حادثہ، ہر تجربہ اور مشاہدہ اسے جذبات و احساسات کی صد رنگ دنیا سے نئی آشنائی بخشتا ہے۔ اس کا دل بے اختیار ہو کر ان کیفیات کو دنیا پر آشکار کرنے کے بہانے ڈھونڈنے لگتا ہے۔ پھر چونکہ وہ جذبات و کیفیات کے اظہار کے ایک مخصوص و مقبول طریقہ یعنی شعر گوئی پر قدرت رکھتا ہے، اس لئے اشعار کی صورت میں انہیں منظر عام پر لانا عین فطری عمل ہے جس کا صدور ناگزیر ہے۔ منشی برج نرائن چکبست لکھنوی نے یہی صورتِ حال اس خوبصورت شعر میں بیان کی ہے۔    شاعری کیا ہے، علی جذبات کا اظہار ہے

دل اگر بیکار ہے تو شاعری بیکار ہے

ہر شاعر کی طرح رازؔ کی شاعری میں بھی خارجی اور داخلی دونوں رنگ نظر آتے ہیں ، جو ایک فطری امر ہے۔ وہ ایک عام انسان تھے اور مشکلاتِ زندگی، ابتلائے زمانہ، معاشی مسائل اور ذاتی و شخصی آزمائشوں کا مزہ اچھی طرح چکھ چکے تھے، بلکہ ان کے حصّہ میں آلام و مصائب کچھ زیادہ ہی آئے تھے۔ دو ہفتہ کے اندر والدین کی وفات، کم عمری میں گھر کی ساری ذمہ داریاں ، رفیقۂ حیات کی مستقل علالت، تین سال میں یکے بعد دیگرے تین جوان بچوں کی اذیت ناک موت، معاشی بدحالی وغیرہ کی یورش نے انہیں ہمیشہ سراسیمہ اور بے حال رکھا۔ مشہور ہے کہ مصیبت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ رازؔ کو بھی اپنے پرائے کی بیگانگی کا خوب ہی تجربہ ہوا۔ انہوں نے زندگی اور دنیا کو نہایت قریب سے دیکھا اور بہت جلد ہی دونوں کی صورت سے بیزار ہو گئے۔ وہ خود نہایت سادہ لوح، حق پسند، صاف گو اور خوددار تھے۔ دنیا اور اہلِ دنیا کی خود غرضانہ سرشت اور جفا خوئی نیز اس کی خودسری، خود پسندی اور خود نمائی سے وہ اگر بد دل نہ ہوتے تو اور کیا کرتے۔ دراصل وہ جس طرح کی دنیا اور جس خصلت و خوبی کے انسان کے ساتھ نباہ کر سکتے تھے اور جس کے وہ شاید خواہاں اور متلاشی بھی تھے، اس کا وجود آسمان تلے نہیں تھا۔ ان کی بدقسمتی یہ بھی تھی کہ دنیا میں رہ کر دنیا سازی کے گُرسے وہ بالکل ناواقف تھے۔

 

زمانہ کہتا ہے بے باک، کیا کروں اے رازؔ

سبق پڑھا نہیں میں نے زمانہ سازی کا

سنے گا کون، سناؤں کسے فسانۂ دل

سخن فروش ہے دنیا، سخن نیوش نہیں

دنیا ہے اسیرِ خود پرستی

آئینۂ حق نُما کہاں ہے؟

….

ان حالات کے پیشِ نظر کوئی حیرت نہیں کہ گوشہ نشینی اور عزلت گزینی ان کا مقدّر ہو کر رہ گئی تھیں ۔ اگر دنیا ان کے قریب بھی آنا چاہتی تو وہ اس سے گھبرا کر دور بھاگتے تھے۔ صرف ضرورت کی حد تک ہی وہ دنیا سے ملوّث رہنا چاہتے تھے۔ وہ اپنی فطرت اور حالات سے مجبور تھے اور اپنے رنگِ طبیعت سے معذور

مشکل نہیں کہ رونقِ محفل نہ بن سکوں

لیکن میں اپنے رنگِ طبیعت کو کیا کروں

اس رنگِ طبیعت کا ایک پہلو تو ان کی حق پرستی اور صاف گوئی تھی اور دوسرا اُن کی سنجیدہ طبعی اور قنوطیت۔ ایک کا شاعرانہ اعتراف وہ یوں کرتے ہیں :

رازؔ دو عیب ہیں یہی تم میں

صاف گو اور حق نگر ہو تم

اور دوسرے کا ذکر شوکت تھانوی ’’شیش محل‘‘ (٭) میں اس طرح کرتے ہیں :

’’ادبی رسائل میں آپ کا کلام کثرت سے پڑھا تھا، خصوصاً ‘‘پیمانہ’’ میں آپ پابندی سے لکھتے رہتے تھے۔ ساغر صاحب سے آپ کے تذکرے سنے تھے۔ آخر کانپور کے ایک مشاعرہ میں آپ مع اپنی چھوٹی سی داڑھی اور روپہلی عینک کے نظر آ گئے۔ جوانی میں وہ بلا کی سنجیدگی تھی کہ خدا شباب کو اس قسم کی سنجیدگی سے محفوظ رکھے۔ اس قسم کی سنجیدگی بڑھاپے تک پہنچ کر پتّھر بن جایا کرتی ہے۔ لطیفہ کہیں گے تو وہ بھی بغیر ہنسے ہوئے۔ لطیفہ سنیں گے تو وہ بھی اس طرح کہ سنانے والے کا خودکشی کو دل چاہنے لگے، مگر اس خاموشی میں بھی خلوص اور صداقت خاموشی کے ساتھ کارفرما نظر آئی۔ چھوٹی سی حیثیت اور بہت بڑے دل کے آدمی ثابت ہوئے۔ زندگی ایک مقررہ اصول پر بسر کرتے ہوئے پائے گئے۔ کانپور جب تک رہے، کبھی کبھی ملاقات ہوتی رہی۔ جب سے جبل پور گئے ہیں ، نہ ان کو ہماری خبر ہے نہ ہم کو ان کی۔ وہ اپنے گھر خوش، ہم اپنے گھر اُن کی اس فراموش کاری سے ناخوش۔‘‘

رازؔ کی شاعری میں داخلیت کی فراوانی کے یہی اسباب ہیں ۔ جب انسان کا دل دکھا ہوا ہوتا ہے اور اسے دنیا میں سکون و اطمینان کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو اس کے جذبات  و احساسات میں غیر معمولی شدّت پیدا ہو جاتی ہے اور دوسروں پر گزرتے ہوئے سانحات اسے خود اپنے پر گزرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، گویا جگ بیتی آپ بیتی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس عالمِ نامرادی میں اگر رازؔ یہ کہتے ہیں تو حیرت کا کوئی مقام نہیں ہے:

زمانہ سے کرتا ہوں قطعِ تعلق

جہاں تک بنی رسمِ دنیا نباہی

یہ دنیا،بے وفا دنیا، خدا ناآشنا دنیا

اسی کے واسطے کیا آدمی دیوانہ ہوتا ہے؟

اُن کے کلام میں جہاں خارجی محرّکات کا اثر نظر بھی آتا ہے وہاں اکثر ان کے جذبات اسے مغلوب کر کے کم و بیش داخلی رنگ و روپ دے دیتے ہیں اور وہ خارجی علائق کو اپنی ذات کی الجھنوں سے الگ نہیں رکھ سکے ہیں ۔

نامرادی و پُرسشِ احباب

زندگی ہو گئی ہے ایک عذاب

رازؔ کی داخلیت ان کی منظومات میں بھی نمایاں ہے۔ چند نظموں میں (مثلاً   رازؔ شعر گوئی، تصویرِ عشق، ہلالِ عید) خارجی محرکات نمایاں ہیں اور ان کے جذبات ان عوامل پر زیادہ اثرانداز نہیں ہو سکے ہیں ۔ لیکن چند اور نظموں میں داخلی رنگ کی فراوانی ہے، یہاں تک کہ جن نظموں میں خارجی اثرات و کیفیات کا غلبہ ہونا چاہئے وہاں بھی رازؔ کے جذبات و محسوسات کثرت سے نظر آتے ہیں ۔ عبدالقادر سروری اپنی تالیف ’’جدید اردو شاعری ‘’(٭٭) میں اس کو یوں بیان کرتے ہیں :

’’رازؔ کی شاعری زیادہ تر داخلی رنگ رکھتی ہے۔ ان کی نظمیں وارداتِ قلب اور احساسات کی ترجمان ہوتی ہیں ۔ اس کیفیت کا غلبہ اُن پر اس قدر ہے کہ جو نظمیں خارجی تفصیلات سے پُر ہونی چاہئے تھیں ، ان میں بھی شاعر کے جذبات کی فراوانی داخلی رنگ نمایاں کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’سکوتِ شب‘‘ کی تصویر میں شاعر نے اپنے ذاتی جذبات کا رنگ اس قدر بھر دیا ہے کہ وہ رات کا سماں پیش کرنے کی بجائے رات کے سکون میں شاعر کے تاثرات اور احساسات کا آئینہ بن گئی ہے۔

طاری ہے اک سکوت جہانِ خراب پر

ہنگامہ زارِ دہر کی ہر شے خموش ہے

لیلائے شب کے حسن کی جادو طرازیاں

آشفتگانِ عشق کا اب سرد جوش ہے

میخانۂ حیات ہے گہوارۂ سکوں

میخوار ہوش میں ہے نہ بادہ فروش ہے

رندِ خراب حال بھی ہے بے نیازِ ہوش

فردا کی اب ہے فکر نہ کچھ رنجِ دوش ہے

مضرابِ حسن نغمہ طرازی سے بے خبر

سازِ حیاتِ عشق سراپا خموش ہے

المختصر ہے سارا جہاں وقفِ بیخودی

اک رازؔ دلفگار کو البتہ ہوش ہے

رازؔ بازارِ دنیا سے طوعاً و کرہاً گزر گئے۔ نہ وہ دنیا کے طلبگار تھے اور نہ انہیں اس بازار میں خریداری کی کوئی تمنّا تھی۔ ان کے کلام کا داخلی رنگ اسی بے نیازیِ طبع کا پرتو ہے۔

بظاہر راہ رو بن کر، بباطن رہنما ہو کر

رہا میں ساتھ دنیا کے حقیقت آشنا ہو کر

یہ جلوہ ،جلوۂ رنگیں ! یہ صورت، صورتِ زیبا !

کوئی دنیا کو کیا دیکھے گا تجھ سے آشنا ہو کر

۔۔۔

٭ شیش محل: شوکت تھانوی – اردو بک اسٹال، لوہاری دروازہ، لاہور –1925ء

٭    ٭جدید اردو شاعری عبدالقادر سروری – کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور –1946ء

 

 

باب 3

غزلیات رازؔ

 

چھیڑا ہے رازؔ میں نے افسانۂ محبت

آغاز سے ہو اچھا انجام داستاں کا

 

رازؔ کے مجموعۂ غزلیات ’’نوائے رازؔ‘‘ پر ہندوستان کے مشہور نقّاد جناب خلیل الرحمٰن اعظمی نے جو پیش لفظ لکھا تھا وہ رازؔ کی غزلیہ شاعری کو سمجھنے اور پرکھنے میں بہت معاون ہے۔ انہوں نے غزلیاتِ رازؔ کے بعض ایسے محاسن کی نشاندہی کی ہے جن کو ہر وہ شخص غیر شعوری طور پر نظرانداز کر سکتا ہے جو ان غزلوں کا مطالعہ روایتی غزل گوئی کے تناظر میں کرے گا۔ اس پیش لفظ کے مندرجہ ذیل اقتباسات زیرِ نظر تالیف کے مطالعہ کے پیش خیمہ کے طور پر استعمال کیے جا سکتے ہیں :

’’ہم کسی نئے غزل گو شاعر کی تعریف کرنا چاہیں گے تو …. اگر وہ جذبات کا شاعر ہے اور اس کے جذبات میں شدّت ہے تو ہم اسے میر کے قبیلہ کا شاعر کہیں گے۔ اگر اس کے یہاں فکر کا عنصر ہے یا اس کے تخیلات میں پیچیدگی اور اشکال ہے تو اسے غالب کی برادری میں شامل کریں گے۔ اگر معاملہ بندی اور چٹخارہ ہے تو جرأت اور داغ کے مماثل بتائیں گے۔ اگر استادی اور کرتب ہے تو ناسخ اور ذوق یا اسی قبیل کے کسی استادِ فن سے اُس کا سلسلۂ نسب ملائیں گے۔ بیسویں صدی میں ہم نے چند اور غزل گویوں کے سر پر عظمت کا تاج رکھا ہے۔ مثلاً حسرت، اصغر، فانی اور جگر وغیرہ۔ اب عام ناقدین نے اُردو کے کسی جدید غزل گو کو نوازنے کا یہ ڈھنگ نکالا ہے کہ اُسے اچھا غزل گو اور جدید شاعر کہنے کے لئے انہیں عناصرِ اربعہ کےساتھ رکھ کر دیکھنا اور کسی نہ کسی سے اُس کی قسمت کے ستارے کو وابستہ رکھنا ضروری سمجھاہے ….‘‘

وہ آگے چل کر رازؔ کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’اس طرح کی شاعری پر تنقید یا تعارف کے لئے غزلیہ شاعری کے عام معیاروں کو سامنے رکھنا کچھ زیادہ سود مند نہ ہو گا …. اگر عام تنقیدی اصولوں سے دامن چھُڑا کر براہِ راست شاعر کے ساتھ ذہنی سفر کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس مجموعہ میں بعض ایسی باتیں ملیں جو چاہے کسی اور شاعر کے یہاں نہ ہوں یا کسی اور کے یہاں محاسن کے طور پر موجود نہ ہوں ، لیکن وہی باتیں اس مجموعہ کی فضا کو ایک ایسا رنگ دیتی ہیں جو میرے نزدیک بہت بڑی خوبی ہے ا ور اسی خوبی کی بنا پر اس شاعری کو زندہ رہنے کا حق ہے۔‘‘

’’سب سے پہلی بات جو مجھے رازؔ کی شاعری میں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں شدّت یا تلخی نہیں ہے۔ شاعر کے یہاں محسوسات بھی ہیں اور تجربات بھی، غم اور افسردگی، ناکامی اور نامرادی کے لمحے بھی ہیں ، لیکن ان کو شاعر نے ہضم کرنے کے بعد اس طرح پیش کیا ہے کہ یہ شدّت ایک خوشگوار اعتدال میں تبدیل ہو گئی ہے اور زہر کی تلخی امرت رس معلوم ہونے لگتی ہے۔‘‘

’’رازؔ کی شاعری ایک نارمل اور عام انسان کے دکھ درد، مسرت و انبساط اور اس کی آرزوؤں اور خوابوں کا نارمل اور سادہ اظہار ہے۔ اسی لئے اس میں رنگینی، سرشاری، ربودگی، اُڑان، فلسیانہ فکر، پیچیدگی اور بہت سے ایسے عناصر نہیں ملیں گے جو عام اُردو غزل گویوں کا طرۂ امتیاز ہیں ۔‘‘

….

خلیل الرحمٰن اعظمی کی اس تحریر سے مندرجہ ذیل باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں :

(١) رازؔ کا کلام روایتی غزل گوئی کی شاہراہِ عام سے الگ اپنا مخصوص اور منفرد رنگ رکھتا ہے جس سے لطف اُٹھانے کے لئے غزل گوئی کے عام معیار اور اصول نہ صرف کارآمد نہیں ہیں بلکہ وہ رازؔ کی شاعری کی فہم و تحسین میں ایک حد تک رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔

(٢) رازؔ کے کلام میں جذبات و احساسات کی صداقت ہے، مگر وہ ایسی شدّتِ  جذبات سے پاک ہے جو طبیعت میں تکدر یا انقباض پیدا کرے۔

(٣) ان کی شاعری ایک عام آدمی کے سیدھے سادے اور فطری جذبات کا فطری اظہار ہے۔ چنانچہ اس میں ایک عام شخص کی ذہنی اور جذباتی آسودگی کا سارا سامان موجود ہے۔ البتہ اس سامان کی ظاہری نوعیت روایتی غزل گوئی کے متعلقات سے مختلف ہے۔

کلامِ رازؔ کی مذکورہ ندرت و انفرادیت کی ترکیب کئی عناصر سے ہوئی ہے، مثلاً زبان و بیان کے چند غیر معمولی التزامات جو رازؔ نے بڑے اہتمام سے برتے ہیں ، اُردو غزل کے روایتی مضامین اور روایتی اندازِ بیان سے تقریباً مکمل احتراز، حلاوتِ فکر وغیرہ۔ اسی لئے اُن کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُس کے اِن بنیادی عناصر سے واقفیت حاصل کی جائے اور مطالعۂ راز کے وقت انہیں ذہن میں رکھا جائے۔

 

               راز کے التزاماتِ شعری

 

اُردو غزل گوئی کے ہر دَور میں ہزاروں شعراء  کی نغز گوئی اس بات کی شاہد ہے کہ بیشتر شعراء  کا کلام ایسی امتیازی خصوصیات سے کم و بیش مبرّا ہوتا ہے جو اسے انفرادیت سے سرفراز کر سکیں ۔ صدیوں کی غزل سرائی نے اب کوئی ایسا جذبہ یا خیال نہیں چھوڑا ہے جس کو متعدد شعراء  نے اپنے اپنے انداز میں نظم نہ کیا ہو۔ چنانچہ اکثر شعراء  کا اپنے پیش روؤں یا ہم عصروں کی بازگشت نظر آنا حیرت کا مقام نہیں ہے۔ انفرادیت اور عظمت ہر دَور میں معدودے چند شعراء کا ہی حصّہ رہی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انفرادیت، عظمتِ کلام کو مستلزم نہیں ہے جب کہ عظیم کلام کا منفرد ہونا ایک فطری امر ہے۔

انفرادیتِ کلام کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں ۔ کہیں یہ شدّتِ جذبہ اور احساس کی اثر پذیری میں ظاہر ہوتی ہے (میر تقی میر) تو کہیں بلندیِ خیال کی شکل اختیار کر لیتی ہے (مرزا غالب)، کہیں زبان کی سادگی اور معاملہ بندی پر منحصر ہوتی ہے (داغ) اور کہیں مشاقیِ لفاظ پر (ناسخ)۔ اسی طرح انفرادیتِ کلام شعوری بھی ہو سکتی ہے اور غیر شعوری بھی۔ شعوری انفرادیت اس خصوصیت کلام کو کہا جائے گا جسے شاعر اختیاری طور پر، سوچ سمجھ کر اپناتا ہے اور غیر شعوری انفرادیت اس خصوصیت کو کہیں جو شاعر کی افتادِ طبع اور تربیتِ فکر کے قدرتی نتیجہ کے طور پر اضطراری طور پر اس کے کلام میں دَر آتی ہے۔

رازؔ کی غزل گوئی میں انفرادیت کے متعدد پہلو نظر آتے ہیں جو روایتی کہے جا سکتے ہیں ۔ ان کے یہاں سادگی اور پُرکاری بھی ہے اور پُر شکوہ ترکیبیں بھی، صفائیِ زبان بھی ہے اور چستیِ بندش بھی، جذباتِ عالیہ اور فلسفہ و تصوف بھی ہیں اور ایک عام انسان کا دکھ درد بھی۔ لیکن ان سب اجزا کی فرداً فرداً موجودگی کو ان کے کلام کی انفرادیت کا ضامن نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہر اچھے شاعر کے کلام میں مذکورہ خصوصیات موجود ہوتی ہیں ، مگر جب تک اس کے کلام کی دلپذیری اور معنی آفرینی کا مدار کسی ایک خصوصیت پر نہ ہو اس پر انفرادیت کا حکم مشکل ہی سے لگ سکتا ہے۔ میر اپنے سوز و گداز اور شدّتِ جذبات، غالب اپنی معنی آفرینی اور بلندیِ افکار، داغ اپنی صفائیِ زبان اور اقبال اپنے شکوہِ الفاظ اور فلسفۂ عالیہ کے حوالہ سے اسی لئے منفرد تھے کہ اُن کا کلام ان خصوصیات سے سراسر مملو تھا اور یہی خصوصیات ان کی شاعری کی عظمت و امتیاز کی بڑی حد تک ضامن تھیں ۔

دراصل رازؔ کے کلام کو غزلیہ شاعری کی راہِ عام سے ممتاز و منفرد کرنے کے ضامن اُن کے وہ التزامات ہیں جو انہوں نے حیرت انگیز ضبط و نظم سے اپنی غزلوں میں برتے ہیں اور اس خوبصورتی سے کھپا دیے ہیں کہ بیک نظر دکھائی نہیں دیتے۔ جب تک ان کی غزلیہ شاعری کا بالاستیعاب تجزیہ نہ کیا جائے،یہ التزامات ذہن پر مرتب نہیں ہوتے کیونکہ وہ کلام کی خوبصورتی اور دلپذیری میں گھل مل کر شیر و شکر ہو کر رہ گئے ہیں ۔ یہ اجمال قدرے تفصیل کا متقاضی ہے۔

1۔’‘مصحفِ رازؔؔ‘‘ کی دو سو ترپن (253) غزلوں میں اٹھائیس (28) غزلیں ایسی ہیں جن کی ردیف صیغۂ واحد متکلم (میں ، مجھے، میرے لئے، مرا،میں نے، ہوں ، وغیرہ) میں ہیں اور شاعر کو ہر شعر کا مضمون اس طرح بیان کرنے پر مجبور کرتی ہیں جیسے وہ اس کا ذاتی تجربہ، مشاہدہ یا جذبہ ہو۔ چنانچہ ایسی غزلوں کا ہر شعر رازؔ کی ترجمانی پر مامور معلوم ہوتا ہے۔ یہ امر بذاتِ خود غیر معمولی یا اہم نہیں ہے، لیکن درج ذیل تین اور التزامات کے ساتھ مل کر نہایت دلچسپ اور اہم ثابت ہوتا ہے۔

2۔ مندرجہ بالا اٹھائیس غزلوں کے علاوہ اسّی (80) غزلیں ایسی ہیں جن کے مطلعوں میں رازؔ نے صیغۂ متکلم ( میں ، مجھ کو، میرے لئے وغیرہ) استعمال کر کے ان کے مضامین کو ایک شخصِ واحد (رازؔ) کی آپ بیتی کی شکل دے دی ہے۔ یہ مطلعے ان سینکڑوں اشعار کے علاوہ ہیں جن میں انہوں نے اسی التزام کے ساتھ آپ بیتی کا انداز برتا ہے اور جو ان کی غزلوں میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں ۔

3۔ مذکورہ اشعار میں وہ دو سو ترپن (٣5٢) مقطع شامل کیجئے جن میں رازؔ نے بھی ہر شاعر کی طرح اپنے تخلص کے حوالہ سے دنیا کی بات خود پر ڈھال کر کہہ جانے کا ڈھنگ اپنایا ہے، تو اس التزام کی اہمیت اور بھی ظاہر و واضح ہو جاتی ہے۔

4۔ علاوہ ازیں یہ بات نہایت دلچسپ اور قابلِ ذکر ہے کہ رازؔ نے اپنے پورے غزلیہ کلام میں صیغۂ جمع متکلم (ہم، ہمارے، ہم سے ،وغیرہ) کے استعمال سے تقریباً مکمل اجتناب برتا ہے۔ یہ صورتِ حال نہایت غیر معمولی ہے اور اُردو غزل گوئی میں یقیناً منفرد بھی ہے کیونکہ کسی اور شاعر نے اس شدّت و اہتمام سے یہ التزام نہیں برتا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس طرح رازؔ نے اپنی غزلوں کے تمام مشاہدات، خیالات و احساسات کو ایک شخصِ واحد (رازؔ) کی ذات سے بلا شرکتِ غیرے وابستہ کر دیا ہے۔ ’’ہم، ہمارے‘‘ اور ایسے ہی دوسرے الفاظ سے اظہارِ خیال میں جو عمومیت سی پیدا ہو جاتی ہے ،اس کے لئے رازؔ بالکل تیار نظر نہیں آتے۔ یہ التزام ان کی انا اور خود داری کی جانب اشارہ کرتا ہے، جو ان کی طبیعت کے اہم اجزا تھے۔

صیغۂ جمع متکلم سے مکمل احتراز و اجتناب ایک حد تک شعوری معلوم ہوتا ہے کیونکہ  اس اہتمام اور ضبط و نظم سے اختیار کیا ہوا ہر التزام ایک سوچی سمجھی اور شعوری کوشش کا متقاضی ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہزاروں اشعار میں دو ایک مقامات کے سوا رازؔ خود پر ’’ہم، ہمارے، وغیرہ‘‘ کے اطلاق کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ؟ تاریخِ ادبِ اردو میں شاید ہی کوئی شاعر گزرا ہو گا جس نے اس شدّت و اہتمام سے اعلانِ انا کی ایسی مخصوص صورت اختیار کی ہو۔ یہ التزام ایک حد تک غیر شعوری بھی ہو سکتا ہے۔ رازؔ نہایت غیور اور خوددار شخصیت کے مالک تھے اور اپنی افتادِ طبع میں دنیا اور راہِ عام سے گریزاں تھے۔ یہ طرزِ عمل نخوت و تکبّر کی بنا پر ہرگز نہیں تھا کیونکہ ان کی طبیعت بلا کی سادہ اور حق پسند تھی اور نخوت و تکبّر انہیں چھو کر بھی نہیں گزرے تھے۔ وہ ہنگامہ آرائی اور شور و شغب سے بہت گھبراتے تھے اور انہوں نے اپنی دنیا الگ ہی بسا رکھی تھی۔ وہ اپنی شاعری کو بھی راہِ عام سے ممتاز و ممیز رکھنا چاہتے تھے۔ اس جذبہ کو انہوں نے اپنے کلام میں مختلف انداز میں پیش کیا ہے:

 

حسنِ ظن ہے یہ اہلِ عالم کا

ورنہ ان سے میں ہم کلام نہیں

رازؔ تقلیدِ مزاجِ عام مستحسن نہیں

فطرتِ شاعر کو تو آزاد ہونا چاہئے

اے رازؔ شعرِ خاص ہے سرمایۂ ادب

تکلیفِ التفات نہ دے ذوقِ عام کو

جس بادۂ سرجوش سے میں مست ہوں اے رازؔ

میخانۂ ہستی میں تو وہ عام نہیں ہے

 

چنانچہ مذکورہ التزام رازؔ کی خاموش طبیعت اور عزلت گزینی کا زائیدہ معلوم ہوتا ہے۔ انہیں اس افتادِ طبع اور اندازِ فکر کے نتائج کا بخوبی احساس تھا، مگر وہ اپنی فطرت سے جنگ پر آمادہ نہیں تھے:

 

مشکل نہیں کہ رونقِ محفل نہ بن سکوں

لیکن میں اپنے رنگِ طبیعت کو کیا کروں

گمنام ہوں ، گمنام سہی بزمِ ادب میں

اے رازؔ یہ کیا کم ہے کہ بدنام نہیں ہوں

رازؔ کا یہ رجحانِ طبع عوام پسند شاعری کرنے میں ہمیشہ حارج رہا اور اُن کا شاعرانہ خطاب، اربابِ ذوق و ادب سے ہی انہیں کی زبان و استعارہ میں رہا۔ چنانچہ انہیں وہ قبولیتِ عام حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ البتّہ ادبی حلقوں میں ان کا مقام و مرتبہ مناسب بھی تھا اور محترم بھی۔

…………

 

               رازؔ اور غزل کے روایتی مضامین

 

تکلفاتِ قیام و سجود ہیں بے سود

کہاں خلوص و محبت، کہاں رسوم و قیود

رموزِ حسن و محبت سے رازؔ واقف ہے

مگر یہ راز ہے دنیائے رازؔ تک محدود

غزل کے لغوی معنی ’’محبوب سے گفتگو کرنا‘‘ ہیں ۔ اُردو غزل نے اپنے سارے متعلقات فارسی سے مستعار لئے ہیں ۔ کیا زبان و بیان اور کیا استعارے اور تشبیہیں ، کیا مضامین اور کیا ہیئت، سب کچھ ہی فارسی کا مرہونِ منّت ہے۔ وہی حسن و عشق کی واردات ہے اور وہی ہجر و وصال کے افسانے، وہی حسن کی بیوفائی ہے اور وہی عشق کی واماندگی اور نوحہ گری۔ گل و بلبل، آشیانہ و قفس، بہار و خزاں ، جنون و صحرا نوردی، دشت پیمائی و آبلہ پائی، جام و سبو، کعبہ و بت خانہ، موعظاتِ ناصح،  رقیب کی ریشہ دوانیاں ، غرضیکہ کون سا مضمون ہے جو فارسی کی خوشہ چینی کا ثمرہ نہیں ہے۔ ہر شاعر نے ایسے ہی مضامین پر زورِ قلم صرف کیا ہے۔ لہٰذا اکثر شعراء دوسروں کے حاشیہ بردار اور صدائے بازگشت معلوم ہوتے ہیں ۔

اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ روایتی غزل کے روایتی مضامین کی پاسداری نے اُردو غزل گو کو ایک ایسا فرضی اور افسانوی محبوب ایجاد کرنے پر مجبور کر دیا جس کا وجود انسان کی روزمرّہ کی زندگی میں اگر یکسر ناممکن نہیں ہے تو کم از کم بے حد مشکل اور بعید از قیاس ضرور ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اسی محبوب کے حوالہ سے غزل کو وارداتِ قلب، معاملہ بندی، جذبات نگاری اور معنی آفرینی کے بے شمار دلنشیں اور بیش بہا تحائف بھی ملے ہیں ۔ لیکن اس ضمن میں کمال اور سرفرازی ہر دَور میں چند شعراء تک محدود رہی ہے۔

ایک غزل گو کی حیثیت سے رازؔ مذکورہ روایتی مضامین سے یکسر اغماض تو نہیں برت سکتے تھے، البتہ انہوں نے اس منزل میں بھی اجتہاد و انفرادیت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا ہے۔ اس انفرادیت کے دو پہلو ان کے کلام میں نمایاں ہیں :

1۔      چند روایتی غزلیہ مضامین کو انہوں نے تقریباً یکسر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ عشق کی افسانوی نامرادی، غمِ ہجراں ، دشت نوردی اور آبلہ پائی، خُمریات وغیرہ سے انہوں اہتمام و التزام کے ساتھ احتراز برتا ہے اور اگر کہیں بھولے بھٹکے ان کا ذکر آ بھی گیا ہے تو وہ رازؔ کے مخصوص اندازِ فکر و بیان کی آنچ میں تپ کر اپنی روایتی شکل کھو بیٹھا ہے۔ مثلاً:

 

اسیرانِ قفس کو کاش یہ احساس ہو جائے

شکستہ بازوؤں میں قوتِ پرواز ہوتی ہے

پروانے خودغرض تھے کہ خود جل کے مر گئے

احساسِ سوزِ شمعِ شبستاں نہ کر سکے

لگا دو آگ،جلا دو اب آشیانے کو

بہار آنے کی کوئی امید ہی نہ رہی

وہ مصلحت تھی کہ پاسِ ادب، خدا جانے

مگر خزاں کو سمجھنا پڑا بہار مجھے

جو سوزِ محبت سے نہ ہو شعلہ بداماں

وہ شمع کبھی رونقِ محفل نہیں ہوتی

 

اس اندازِ فکر اور طرزِ بیان میں اور روایتی غزل میں جو فرق ہے اس پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے۔

….

2۔       رازؔ کے یہاں محبت اور اس کے متعلقات ایک منفرد رنگ سے آراستہ نظر آتے ہیں ۔ ان کے یہاں محبت میں گریہ و زاری کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ وہ راہِ محبت سے گزرتے ہیں ، مگر صبر و تحمل سے۔ گویا یہ مرحلہ سخت تو ہے مگر اس میں رو رو کر زمین و آسمان سر پر اٹھانا عاشقی کی توہین ہے۔ ان کا عشق ایک سیدھے سادے مگر خوددار شخص کا عشق ہے:

 

وہ مری آہ و بکا تھی خامکاری کی دلیل

ہو گیا خاموش،ذوقِ عشق جب کامل ہوا

دردِ فراقِ یار کی مجبوریاں بجا

اتنا تو ہو نہ شور، قیامت کہیں جسے

اس کا یہ مطلب نہیں کہ رازؔ محبت کے قائل نہیں ہیں ۔ محبت تو ان کا محبوب موضوع ہے اور ان کے کلام میں اس پر سینکڑوں اشعار ملتے ہیں ۔ وہ محبت کے شاعر ہیں اور اسی کے پیامی۔ البتہ ان کے یہاں اس کا تصور اور اس کے تقاضے کچھ اور ہیں ۔ شاید فکرو بیان کی یہ اجنبیت بیک نظر ہماری توجہ کا دامن نہیں کھینچتی ہے۔ ان کی محبت ایک سیدھے سادے عام شخص کی سیدھی اور سچی محبت ہے جو اپنے ہر تجربہ میں سادگی، خلوص اور دلسوزی رکھتی ہے، جو بازارِ عام کی رسوائی کو پسند نہیں کرتی اور اپنی واماندگی اور بے سروسامانی کا تماشا ساری دنیا کو نہیں دکھانا چاہتی ہے۔ ان کی محبت میں ایک تہذیب اور رکھ رکھاؤ ہے۔ وہ کسی وقت بھی لب و لہجہ اور جذبات کی شرافت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کے بیانِ محبت میں ایک تازگی اور شائستگی ہے جو اپنے اندر بے ساختگی بھی رکھتی ہے اور اثر پذیری بھی۔ ایسے رکھ رکھاؤ کی محبت کی قدر و قیمت دنیا کے بازارِ عام میں چاہے جیسی بھی ہو، اہلِ درد اس سے خوب واقف ہیں کہ یہ محبت رازؔ کی نظروں میں عبادت کے مترادف ہے۔

 

مرا ذوقِ پرستش ہے جدا سارے زمانہ سے

محبت کرتا جاتا ہوں ، عبادت ہوتی جاتی ہے

….

محبت کی تعریف رازؔ کی زبانی ہی سنئے:

محبت کیا ہے ، نیرنگی ہے اک حسنِ طبیعت کی

کبھی کافر، کبھی حق آشنا معلوم ہوتی ہے

مایۂ زیست و جانِ راحت ہے

ہائے کیا چیز یہ محبت ہے

ابھی واقف نہیں دنیا محبت کی حقیقت سے

حقیقت میں محبت ہی تو حسنِ زندگانی ہے

….

وہ محبت کے پرستار ہیں اور اسے جان سے بھی عزیز جانتے ہیں :

 

محبت بے بہا اک چیز ہے دنیائے امکاں میں

اگر وہ جان دے کر بھی تجھے مل جائے،سستی ہے

بڑی تقدیر ہے اس کی جو دل پہلو میں رکھتا ہے

بڑی قسمت ہے اُس دل کی محبت جس میں بستی ہے

اک خانماں خراب کی دولت کہیں جسے

وہ درد دل میں ہے کہ محبت کہیں جسے

….

رازؔ کے یہاں عاشق کو خود داری کی تعلیم دی جاتی ہے اور نیازِ عشق، حسن کو نیاز مندی پر مجبور کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ ان کی دیوانگی بھی ہوش کا رنگ لئے ہوئے ہے اور محبت کی خودفراموشی بھی محبوب کی یاد کا بہانہ بن جاتی ہے:

نیازِ عشق میں اتنا کمال پیدا کر

کبھی

کہ نازِ حسن سراپا نیاز بن جائے

کمالِ عشق ہے یہ ، شانِ عاشقی ہے یہی

کہ سوزِ عشق مبدّل بہ ساز ہو جائے

ہشیار ہوں ہشیار، میں بیہوش نہیں ہوں

مینوشِ محبت ہوں ، بلا نوش نہیں ہوں

سرگرم تکلم ہوں تصوّر میں کسی سے

گو صورتِ تصویر ہوں ، خاموش نہیں ہوں

اہلِ ظاہر بے خبر ہیں غالباً اس راز سے

خودفراموشی بھی اک صورت ہے اُس کی یاد کی

….

یہ رنگ و آہنگ بیک نظر غزل کی روایتی معاملہ بندی اور وارداتِ قلب سے یکسر مختلف معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو رازؔ کا رنگ اور مذکورہ روایتی رنگ ایک ہی سکّہ کے دو رُخ ہیں ۔ رازؔ کی محبت میں وہ بے اختیاری اور والہانہ پن ڈھونڈنا بیکار ہے جو دوسروں کے کلام میں نظر آتا ہے۔ رازؔ کے لئے محبت ایک تقاضائے فطرت ضرور ہے، مگر اس کے لئے وہ دلِ درد آشنا کے ساتھ بلند نگاہی اور طبعِ سلیم کی موجودگی بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل اشعار کی گھلاوٹ، نرمی اور لب و لہجہ کا رکھ رکھاؤ دیکھئے اور خود ہی فیصلے کیجئے کہ وہ دل کے تاروں پر مضراب کا اثر رکھتے ہیں کہ نہیں :

 

انجامِ تمنّا کی تفسیر سے کیا حاصل

اک خوابِ پریشاں کی تعبیر سے کیا حاصل

دیوانہ سہی لیکن دیوانۂ اُلفت ہوں

پابندِ محبت ہوں ، زنجیر سے کیا حاصل

سراپا سوز ہوتا ہے، مجسم ساز ہوتا ہے

حقیقت میں دلِ درد آشنا اک راز ہوتا ہے

ہزاروں جام ہائے تلخ و شیریں پینے پڑتے ہیں

بڑی مشکل سے کوئی آشنائے راز ہو تا ہے

حسن کیا چیز ہے ، محبت کیا

خواب ہے ، خواب کی حقیقت کیا

ناکام محبت ہوں اے رازؔ تو کیا غم

یہ بات بھی ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی

کسی کی بے نیازی کو کہاں احساس ہوتا ہے

ہزاروں بار سجدے میں جھکائی ہے جبیں میں نے

ہائے وہ میری آخری حسرت

دل سے نکلی تھی جو دُعا ہو کر

….

یہ دلسوزی، نرمی اور لب و لہجہ کی گھلاوٹ وہی کیفیت ہے جس کے متعلق  خلیل الرحمٰن اعظمی نے لکھا ہے کہ رازؔ نے اپنے تجربات و محسوسات کو ہضم کرنے کے بعد اس طرح پیش کیا ہے کہ ’’یہ شدّت ایک خوشگوار اعتدال میں تبدیل ہو گئی ہے اور زہر کی تلخی امرت رس معلوم ہونے لگتی ہے‘‘۔ دراصل رازؔ اپنی شعر گوئی کے کسی لمحہ میں بھی اس  میانہ روی اور شائسگتی سے بیگانہ نہیں ہونا چاہتے جو اُن کی شخصیت اور فطرت کے اہم اجزا میں شمار کی جا سکتی ہیں ۔ اگر وہ یہ اندازِ سخن نہ اختیار کرتے تو اپنی ذات سے انحراف کے ذمہ دار ٹھہرتے۔ اس اندازِ کلام نے رازؔ کے اشعار کو میر کے اس شعر کی فکری تفسیر بنا دیا ہے

 

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

…………

               رازؔ اور ’’تقلیدِ مزاجِ عام‘‘

 

اس سے قبل یہ ذکر ہو چکا ہے کہ رازؔ راہِ عام پر چلنے کے قائل نہیں تھے۔ چنانچہ شاعری میں عوام پسند کلام سے ان کا احتراز ایک حد تک یقیناً شعوری تھا۔ وہ جس موضوع پر بھی طبع آزمائی کرتے تھے اس کو اپنے مخصوص رنگ و آہنگ سے نئی یا کم از کم مختلف شکل دے دیتے تھے۔ ’’تقلیدِ مزاجِ عام‘‘سے یہ کنارہ کشی ان کی شاعری کو انجمنِ عوام سے نکال کر بزمِ خاص میں پہنچا دیتی ہے۔ چنانچہ ان کے کلام سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہمیں ان ظروف اور پیمانوں کو ترک کرنا پڑتا ہے جو روایتی شاعری کے مطالعہ کے لئے عموماً استعمال ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے، خلیل الرحمٰن اعظمی اسی لئے ان کی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں کہ :

’’اس طرح کی شاعری پر تنقید یا تعارف کے لئے غزلیہ شاعری کے عام معیاروں کو سامنے رکھنا کچھ زیادہ سودمند نہ ہو گا …. اگر عام تنقیدی اصولوں سے دامن چھڑا کر براہِ راست شاعر کے ساتھ ذہنی سفر کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس مجموعہ میں بعض باتیں ایسی ملیں جو چاہے کسی اور شاعر کے یہاں نہ ہوں یا کسی اور کے یہاں محاسن کے طور پر موجود نہ ہوں ، لیکن وہی باتیں اس مجموعہ کی فضا کو ایسا رنگ دیتی ہیں جو میرے نزدیک بہت بڑی خوبی ہے …. ‘’

اس رنگ کی چند مثالیں پچھلے صفحات پر گزر چکی ہیں ۔ یہاں خمریات اور مسئلہ جبر و قدر کے حوالے سے مختصراً اس موقف کی مزید تائید مقصود ہے۔ یہی تائید رازؔ کی شعر گوئی کی انفرادیت اور دیگر مضمرات کی گرہ کھولنے میں بھی معاون ہو گی۔

جب مرزا غالب نے کہا تھا کہ

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

تو انہوں نے ایک لطیف حقیقت کی جانب اشارہ کیا تھا۔ اردو غزل کی روایت کا ایک اہم اور دلکش حصّہ وہ ہے جو جام و شراب، ساقی و میکدہ اور کیف و سرور سے وابستہ ہے۔ ہر قابلِ ذکر شاعر نے اس موضوع پر اپنے انداز میں طبع آزمائی کی ہے۔ رازؔ بھی اس کوچہ سے بیگانہ نہیں ہیں البتہ وہ اس شراب سے تقریباً ناواقف نظر آتے ہیں جو اردو غزل کو بہکنے کے ہزار بہانے فراہم کرتی ہے ۔ ایک آدھ جگہ و ہ ضرور کہتے ہیں کہ

رندی ہے اساسِ پارسائی

پینے سے پھر احتراز کیا ہے

فکرِ دنیا جاں گسل تھی، فکرِ عقبیٰ دل خراش

میں نے ان دونوں کو نذرِ جام و مینا کر دیا

اب ترے اشعار میں پہلی سی رنگینی نہیں

غالباً اے راز تو نے ترک پینا کر دیا

لیکن فوراً ہی وہ سنبھل کر اس دوسری شراب کے گن گانے لگتے ہیں جو انہیں عزیز ہے اور اپنے نشہ میں محبت اور عرفانِ حقیقت کا رنگ لئے ہوئے ہے:

ازل سے رازؔ مخمورِ شرابِ نابِ الفت ہوں

مری بادہ پرستی بھی دلیلِ حق پرستی ہے

ہے بادۂ اُلفت سے حاصل مجھے سرشاری

سب سے ہے الگ میرا معیارِ گنہ گاری

مستِ مئے عرفاں ہوں ، ساقی کا یہ احساں ہے

اب میں بھی مسلماں ہوں ، دنیا بھی مسلما ں ہے

کرنا تھا کچھ نہ کچھ تو علاجِ خودی مجھے

سیدھی سی بات بادہ کشی اختیار کی

جتنے میکش ہیں ، مئے ہوش کے متوالے ہیں

کیا خراباتِ جہاں میں کوئی ہشیار نہیں ؟

اس مے کشی اور غزلیہ شاعری کی روایتی مے کشی میں جو فرق ہے وہ توضیح و تشریح کا محتاج نہیں ہے۔ رازؔ کے یہاں مے کشی ایک حد سے گزر جانے کے بعد ہوشیاری کی ضامن ہو جاتی ہے، بیہوشی اور بے حالی کی نہیں

انتہائے مے کشی میں ہوشیاری بڑھ گئی

ابتدا میں تو یہ کیفیت مجھے حاصل نہ تھی

اور ایسا ہونا بھی چاہئے کہ اس مئے عرفاں اور بادۂ الفت کا یہی فطری تقاضا ہے۔

رازؔ کے کلام میں اندازِ فکر کی یکسانیت بدرجۂ اتم ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے۔ اگر کہیں وہ انسانی فطرت کے تقاضے سے اپنے جادۂ فکر سے بھٹک بھی جاتے ہیں تو بہت جلد وہ پھر اپنی دیکھی بھالی راہ پر واپس آ جاتے ہیں ۔ اس کی اچھی مثال وہ اشعار ہیں جو انہوں نے جبر و قدر کے مسئلہ پر کہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایک عام انسان کی طرح رنج و غم، آزمائش اور ابتلا کی مختلف شکلوں سے زندگی بھر نبرد آزما رہنے کے بعد ان کے ذہن میں سوالات اُبھرے ہوں گے۔ ایک ذکی الحس شاعر کی حیثیت سے انہیں ان سوالات کے جوابات کی تلخی کچھ زیادہ ہی محسوس ہوئی ہو گی۔ اپنی نامرادیوں اور پریشانیوں سے تنگ آ کر انہوں نے بھی آسمان کی جانب سوالیہ نگاہیں اٹھائی ہوں گی۔ ان کی فکر میں اس مسئلہ پر تضاد نظر آتا ہے جو انسانی فطرت کا خاصّہ ہے اور جس سے وہ اپنی طبیعت کے ضبط اور معتقدات کی سختی کے باوجود چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے ہیں ۔

اپنی طبیعت اور تجربہ کے کسی کمزور لمحہ میں رازؔ حسنِ عمل اور تدبیر و کوشش میں ہی ہر مشکل کا حل سمجھ لیتے ہیں اور تدبیر کے نتائج کو وہ نوشتۂ تقدیر کے مترادف مانتے ہیں ۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ :

حسنِ عمل کا ہے وہ نتیجہ

کہتی ہے دنیا جس کو مقدّر

ہم نشیں ایسی کوئی تدبیر ہونی چاہئے

میرے قبضہ میں مری تقدیر ہونی چاہئے

کامیابی کی کیجئے تدبیر

بس یہی ہے نوشتۂ تقدیر

لیکن زندگی کے تلخ حقائق انہیں خواب و خیال کی دنیا سے باہر نکلنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ان کی حیرانی و سراسیمگی درج ذیل اشعار سے ظاہر ہے:

حریفِ جبر کہوں یا شریکِ قدر اس کو

بہ لطفِ خاص دیا ہے جو اختیار مجھے

کیا تماشا ہے کسی بات کا مقدور نہیں

اور پھر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مجبور نہیں

اور جب اس اختیار کی ملکیت کا انکشاف ہوتا ہے تو وہ صبر و شکر کے انداز میں کہتے ہیں :

حدّ امکاں تک تو بے شک کام ہے تدبیر کا

اس سے آگے جو مقدّر ہو مری تقدیر کا

اک رمز ہے لطیف، سمجھنے کی بات ہے

سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں اختیار میں

الزامِ اختیار کی تردید کیا کروں

وہ جانتا ہے جتنا مجھے اختیار ہے

یعنی  ع چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ، ہم کو عبث بدنام کیا۔آخر کار، رازؔ اپنی مجبوری کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

کیا کہتے ہو تم مجھ سے، دیکھی ہے بہت میں نے

تقدیر کی دارائی ، تدبیر کی رسوائی

جب بگڑتی ہوئی دیکھی کوئی تدبیرِ خرد

کر دیا دفترِ تقدیر میں شامل میں نے

جب بگڑتی ہے قسمتِ تدبیر

دل شریکِ نماز ہوتا ہے۔

آخری شعر ہو بہو انسانی فطرت کی تصویر ہے کہ ع جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا۔رازؔ بھی اپنے نام نہاد ’’اختیار‘‘ کی درماندگی دیکھ کر حرفِ آخر یوں ادا کرتے ہیں :

دیوانہ کن تھی کشمکشِ جبر و اختیار

اب جبر اختیار کیے جا رہا ہوں میں

تدبیر نہ بن سکی جو تقدیر

معلوم ہوا کوئی خدا ہے !

اللہ بس باقی ہوس!

 

 

آساں نہیں اے رازؔ حقیقت کو سمجھنا

مشکل ہے نکلنا اثرِ وہم و گماں سے

…………

               چھوٹی بحروں میں غزل گوئی

 

اُردو شاعری کی مقبولیت غزل کی مرہونِ منّت ہے۔ غزل کو الگ کیجئے اور پھر اُردو شاعری کو دیکھئے تو سوائے معدودے چند نظم گو اور مرثیہ نگار شعراء کے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ اردو کی پوری تاریخ میں ایک بھی شاعر ایسا نہیں گزرا ہے جس نے اپنی سخن سنجی کے کسی نہ کسی لمحہ میں غزل میں طبع آزمائی نہ کی ہو۔ اچھی شاعری کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ دل میں اُتر جاتی ہے اور بہ آسانی زبان پر چڑھ جاتی ہے۔ غزل اس پیمانے پر پوری اترتی ہے۔ اس کا ہر شعر اپنے دو مصرعوں میں جذبات و خیالات، تجربات و مشاہدات کی دلکش ادائیگی کی جو صلاحیت رکھتا ہے وہی اس کی ہر دل عزیزی کی ضامن ہے۔

غزل کہنا چاہے کتنا ہی آسان سمجھا جائے، اچھی غزل کہنا بہرکیف نہایت مشکل کام ہے اور چھوٹی بحر میں اچھی غزل کہنا اس مشکل میں ایک اور شرط کا اضافہ کرتا ہے۔ چھوٹی بحروں میں غزل گوئی اس کی متقاضی ہے کہ نفسِ مضمون کم سے کم الفاظ میں جذبہ اور اثر پذیری کی صداقت کے ساتھ ادا کیا جائے۔ یہ اس وقت ہی ممکن جب شاعر کو زبان و بیان دونوں پر مکمل عبور ہو۔ اظہارِ خیال، انتخابِ الفاظ، مناسبتِ تراکیب اور بندش کی چستی پر اگر قدرت نہیں ہے تو چھوٹی بحر میں غزل گوئی کارے دارد۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ اگر شاعر زبان دان اور قادر الکلام نہیں ہے تو ایسی غزل کی اثر پذیری اور معنویت مجروح بلکہ اکثر معدوم ہو جاتی ہیں اور وہ اس شعر کی مانند گورکھ دھندا ہو سکتی ہے   مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو  کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

چند الفاظ میں ایک عمیق و دلکش خیال پیش کرنے کی مثال مومن کا وہ شعر ہے جس پر مرزا غالب اپنا پور دیوان نچھاور کرنے کو تیار تھے

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا  جب کوئی دوسر ا نہیں ہوتا

رازؔ کو چھوٹی بحروں میں غزل گوئی کا نہ صرف شوق ہے بلکہ ملکہ بھی ہے۔ ’’مصحفِ رازؔ‘‘ میں بہت بڑی تعداد میں ایسی غزلوں کی موجودگی ان کے اس شو ق و ترجیح پر دلالت کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ حقیقت ان کی مختصر نویسی، کم گوئی اور خاموش طبعی کا ہی شاخسانہ ہو۔ یہ بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص طویل گفتگو اور طولانی مباحث سے فطرتاً محترز ہو، وہ اپنی شاعری میں بھی اختصار کو پسند کرے گا اور چھوٹی بحروں میں طبع آزمائی کی جانب راغب ہو گا۔

رازؔ نے چھوٹی بحروں میں جو غزلیں کہی ہیں ، اُن میں جذبات و احساسات کی صداقت اور اثر بہت نمایاں ہیں ۔ اشعار پڑھ کر دل پر اکثر ایک چوٹ سی لگتی ہے اور قاری خود کو ان اشعار سے ہم آہنگ پاتا ہے ، یعنی

دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اُس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

چھوٹی بحروں میں رازؔ کے درج ذیل اشعار اپنی سادگی اور پُرکاری میں کتنے دل نشیں ہیں :

 

ہائے وہ میری آخری حسرت

دل سے نکلی تھی جو دُعا ہو کر

فکرِ دنیا سے ہو گیا آزاد

میکدہ ، تیرا میکدہ آباد

یک بیک ہو گیا یہ کیا مجھ کو

کیا بتاؤں کہ آ گیا کیا یاد

جانتا ہوں بتا نہیں سکتا

کیسے دنیائے دل ہوئی برباد

کسی خود بیں سے ہوتا آشنا کیا

تجھے دیکھا تھا ، دنیا دیکھتا کیا

خودی کیا اور خودی کا اِدّعا کیا

جو بندہ ہے بنے گا وہ خدا کیا

تکلف بر طرف میں صاف کہہ دوں

وفا کیا اور پیمانِ وفا کیا

کرم گُستر، فقیرِ بے نوا ہوں

فقیرِ بے نوا کا مدّعا کیا !

….

رازؔ کے کلام میں کہیں کہیں ایسے اشعار بھی نظر آ جاتے ہیں جن کا لہجہ تیکھا اور اندازِ بیان قدرے شوخی آمیز ہوتا ہے۔ اُن کے کلام کی عمومی سنجیدگی اور قنوطیت کے پیشِ نظر ایسے اشعار اور بھی دلچسپی اور دلکشی کے حامل ہو جاتے ہیں ۔

 

عشق میں جو خراب ہوتا ہے

بس وہی کامیاب ہوتا ہے

زندگی ہے تغیّرات کا نام

روز اک انقلاب ہوتا ہے

حسن ہو گا ، شباب بھی ہو گا

آدمی پھر خراب بھی ہو گا

غور سے دیکھ تو کتابِ حیات

کامیابی کا باب بھی ہو گا

فکرِ دیر و حرم نہیں ہے

گویا کوئی بھی غم نہیں ہے

ہم رنگِ کرم ستم نہیں ہے

اتنا احساں بھی کم نہیں ہے

مجھ کو تجھ سے کوئی شکایت

واللہ! تری قسم نہیں ہے

تصویرِ جہاں میں رنگ بھرنا

تخلیقِ جہاں سے کم نہیں ہے

 

کائنات پر نظر ڈالئے، اس کی گوناگوں بوقلمونی دیکھئے اور پھر شعر کو بار بار پڑھئے۔ اس کی صداقت اور سادگی اپنی اثر انگیزی کے ساتھ دل کے دروازہ پر دستک دے گی۔ ع  کرشمہ دامنِ دل  می  کشد کہ جا ایں جاست

…………

 

               تصوف اور کثرت و وحدت

 

رازؔ کو فطرتِ فیاض نے ایک درد مند دل، حساس طبیعت اور نہایت سادہ مزاج سے متصف کیا تھا۔ ان کے مختصر حالاتِ زندگی سے یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ زندگی بھر آلام روزگار کا شکار رہے۔ کم عمری ہی میں بڑے خاندان کی ذمہ داری، مالی تنگ حالی، نوجوان اولاد کی دائمی جدائی، سب نے مل کر ان کو ہمیشہ ملول و پریشان ہی رکھا۔ پھر بھی ایک طرف اگر ان کی غیور اور خوددار طبیعت نے انہیں دنیا کے سامنے اپنا دُکھڑا بیان کرنے سے روکا تو دوسری طرف اسی طبیعت نے اُن میں جدوجہد کا جذبہ اور خود اعتمادی پیدا کر دی۔ دنیا اور اہلِ دنیا سے وہ حسنِ ظن کم ہی رکھتے تھے۔

یہ بزمِ دہر اور یہ ابنائے روزگار

مدّت ہوئی زیارتِ انساں کیے ہوئے

غم ہائے روزگار نے انساں بنا دیا

عالم اب اور ہے مری بزمِ خیال کا

منتشر ہیں تمام اہلِ نماز

کیا حرم میں کوئی بلال نہیں ؟

 

چنانچہ سکونِ قلب کی تلاش میں ان کی نظریں تصوّف کی جانب اٹھی تھیں اور انہوں نے ایک عرصہ تک کوچۂ تصوّف کی نظری و عملی سیر کی تھی۔ ان کی کسی تحریر سے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ انہوں نے باقاعدہ کسی صاحبِ حال بزرگ سے اس سلسلہ میں رجوع کیا تھا یا خود اپنے طور پر اس منزل میں گامزن ہوئے تھے۔ چونکہ ان کی طبیعت ہمیشہ سے نام نہاد اہلِ حال و قال سے بد ظن تھی اور اس کٹھن راہ میں کسی صحیح راہ نما کا ملنا معلوم ، چنانچہ گمانِ اغلب ہے کہ انہوں نے خود ہی مطالعہ اور ریاض کا دوگانہ ادا کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ انہیں تصوّف میں وہ گوہرِ مقصود ہاتھ نہیں آیا جس کے وہ متلاشی تھے اور وہ پھر سے ایک عام انسان کی آزمائش بھری زندگی میں یہ کہتے ہوئے واپس آ گئے تھے

 

سکونِ قلب بڑی چیز ہے، یقیناً ہے

مگر ملے بھی کہیں دَورِ زندگانی میں

 

پھر بھی رازؔ اور ان کی شاعری پر اس تجربہ کا اثر ہمیشہ رہا۔ ان کی فطرت، تصوف کے محرکات و متعلقات کو جذب کرنے کے لئے موزوں تو تھی ہی، چنانچہ ان کے کلام میں وحدت الوجود، خود ی و بیخودی، کائنات و فطرت، تلاشِ حق، جبر و قدر اور ایسے ہی دوسرے موضوعات پر کثرت سے اشعار ملتے ہیں ۔ ان سے رازؔ کی وسعتِ فکر و نظر، مشاہدہ کی گہرائی اور اس خلش کا اندازہ ہوتا ہے جو انہوں نے حیات و فطرت کو سمجھنے اور سمجھانے میں صرف کی ہے۔ مثلاً مندرجہ ذیل اشعار پر غور کیجئے:

اب یہ عالم ہے میری حیرت کا

آئنہ ہوں جمالِ فطرت کا

خلوتِ دل عجیب خلوت ہے

اک مرقع ہے اس کی محفل کا

حسنِ فطرت ہے یہاں جلوہ نما میرے لئے

ذرّہ ذرّہ دہر کا ہے آئنا میرے لئے

اک ترا جلوہ ہے جس کی دید میں مصروف ہوں

ورنہ بزمِ دہر میں ہے اور کیا میرے لئے

 

یہ ساری کائنات ایک ہی ذات کا عکس ہے۔ وہی حقیقتِ واحد ہے، باقی سب ’’حلقۂ دامِ خیال‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

 

مری فطرت حقیقت آشنا معلوم ہوتی ہے

نظر پڑتی ہے جس شے پر خدا معلوم ہوتی ہے

 

یہاں مرزا غالب کا مشہور شعر بے اختیار یاد آ جاتا ہے کہ

اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

….

وحدت الوجود یا ہمہ اوست کے فلسفہ پر رازؔ نے اپنے منفرد انداز میں جا بجا خیال آرائی کی ہے، مگر ایک فلسفی کی طرح نہیں ۔ انہوں نے اس حقیقت کو ایک صاحبِ دل انسان کی طرح دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے جو اپنی وسیع النظری کے باوجود ان پابندیوں کا بھی احترام کرتا ہے جو خود اس کے وجود نے اس پر عائد کر رکھی ہیں ۔

 

ذوقِ نظارہ یہ اعجاز دکھاتا ہے مجھے

ہر طرف حسن کا جلوہ نظر آتا ہے مجھے

نگہِ شوق ذرا دیکھ کہیں وہ تو نہیں

دل کے آئینہ میں کوئی نظر آتا ہے مجھے

عالم ہے یہ اب میری وسیع ا لنظری کا

بالا ہے نظر میری حدِ کون و مکاں سے

پابندیوں کی حد ہی میں آزاد ہم ہیں رازؔ

آگے قدم بڑھا کہ گرفتار ہو گئے

جب دیا ہوش نے دھوکا درِ جاناں کے قریب

بیخودی لے گئی مجھ کو رہِ عرفاں کے قریب

رازؔ اپنے کلام میں بے خودی کو اُس کے معروف مفہوم میں ہی استعمال کرتے ہیں یعنی وہ کیفیتِ سرخوشی جو انسان کو اپنے نفس کے تقاضوں سے اعراض پر آمادہ کرتی ہے، یا دل و دماغ کی وہ یکسوئی جو خالقِ کائنات کی ہستی کا اثبات اور دوسری ہر شے کی نفی کرتی ہے اور وجدان و عرفان الٰہی کہنے کے لئے ضروری ہے۔ اُن کی خودی اقبال والی خودی نہیں بلکہ وہ خودی کو خودسری اور خود نمائی اور خود فروشی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں

 

خودی کیا اور خودی کا اِدّعا کیا

جو بندہ ہے ، بنے گا وہ خدا کیا

جب تک ہے خودی دل میں ہو گی نہ پذیرائی

بیکار ہیں یہ سجدے، ان سجدوں سے کیا ہو گا

رموز و  کُنہِ حقیقت سے ہوتا کیا واقف

وہ خود فروش جو اپنا بھی راز داں نہ ہوا

خدا ملتا ہے لیکن بیخودی سے آشنا ہو کر

حقیقت تک پہنچ سکتا نہیں تو خود نما ہو کر

 

اس بیخودی کی ایک منزل وہ ہے جس میں انسان خود کو پہچان لیتا ہے اور اپنی حقیقتِ نفس کے وجدان سے سرفراز ہوتا ہے۔ رازؔ کے نزدیک عرفانِ الٰہی تک پہنچنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔

 

حل ہو سکا نہ ان سے کبھی عقدۂ جہاں

حاصل جو اپنے نفس کا عرفاں نہ کر سکے

اپنی تلاش گویا اس کی ہی جستجو ہے

جو خود کو ڈھونڈتا ہے، وہ اس کو ڈھونڈتا ہے

 

اور یہ اس لئے ہے کہ  کیا کہوں تیری نظر محدود ہے  ورنہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے !

اس کیفیت کی آخری منزل خودآگاہی اور خودشناسی کی راہ سے خداشناسی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے، جہاں من و تو کا فرق دھندلا جاتا ہے اور دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ

 

مظہر ہوں کسی کے حسن کا میں

جلووں کا کسی کے آئینا ہوں

ہے کوئی نگاہ والا؟

بندہ ہوں مگر خُدا نما ہوں

خود پرستی، حق پرستی ہے بہ شکلِ اجتہاد

سرحدِ تقلید سے آگے ہے بُت خانہ مرا

 

یہ وہی خود پرستی ہے جو ہر منصور کو عرفانِ حق تک دار و رسن کی راہ سے لے جاتی ہے

 

انا الحق کہنے والے تو بہت ہوتے ہیں دُنیا میں

مگر ان میں کوئی اک آدھ ہی منصور ہوتا ہے

 

کچھ ایسی ہی کیفیت سے غالب دو چار ہوئے ہوں گے جب انہوں نے یہ شعر کہا تھا

 

ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود

قبلہ کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

 

جس طبیعت و محبت نے رازؔ کو اس منزل پر کامیابی سے پہنچایا تھا اسی نے انہیں کثرت میں وحدت دیکھنے کا سلیقہ بھی سکھایا تھا۔ وہ یوں بھی ایک صلح کل، عالی مشرب اور وسیع القلب انسان تھے۔ تصوف کے شوق نے انہیں اصل پر زور دینا اور فروعات سے احتراز کرنا سکھا دیا تھا، چنانچہ انہیں وہ تعصبات اور اختلافات بالکل پریشان نہیں کرتے تھے جو اوروں کے لئے انتشار و افتراق کا سامان بہم پہنچاتے تھے۔ وہ مرزا غالب کے اس شعر پر ایمان رکھتے تھے

وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے

مرے بتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو

چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ :

 

ذرّہ ذرہ سے عیاں شانِ خود آرائی ہے

کثرتِ جلوہ گری شاہدِ یکتائی ہے

ہر ایک کے پردہ سے آواز تری آئی

جس ساز کو بھی چھیڑا جلوہ گہِ کثرت میں

یہ کعبہ، وہ بت خانہ، کچھ فرق نہیں ان میں

اک حسن کی خلوت ہے، اک حسن کی محفل ہے

کثرت ہے عکسِ وحدت، وحدت ہے روحِ کثرت

ظاہر ہے یہ حقیقت بت خانۂ جہاں سے

 

یہ اشعار رازؔ کے مشربِ محبت کی تصدیق کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہیں ان مصنوعی اقدار اور اندازِ فکر و عمل سے بَیر ہے جو صرف کسی ایک مخصوص نقطۂ نظر میں ہی یقین رکھتے ہیں اور ہر مختلف نقطۂ نظر کو غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ اِدھر رازؔ یہ کہہ رہے تھے کہ   پرتوِ مہر حسن ہیں دونوں  شمعِ کعبہ ، چراغِ بُت خانہ

اور اُدھر دنیا ان کی وسیع النظری کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی

 

کوئی مومن بتاتا ہے، کوئی کافر سمجھتا ہے

مگر جو کچھ حقیقت ہے وہ پہچانی نہیں جاتی

بہت سمجھے تو بس اتنا کہ کافر کہہ دیا مجھ کو

مذاقِ حق پرستی کو کہاں اہلِ جہاں سمجھے

 

یہ صورت ناگزیر سی تھی کیونکہ دنیا ور اہلِ دنیا، وسیع النظری کا ساتھ عموماً نہیں دیتے ہیں اور رازؔ کے نزدیک وحدت و کثرت اور عبادت و محبت ہم معنی تھے۔

 

مرا ذوقِ پرستش ہے جدا سارے زمانے سے

محبت کرتا جاتا ہوں ، عبادت ہوتی جاتی ہے

دیدۂ دل وا ہوا دیدارِ جاناں ہو گیا

عین ایماں آج عشقِ کفرساماں ہو گیا

کہاں ہیں غیر، سب اپنے ہیں بزمِ فطرت میں

کہ قیدِ مذہب و ملّت نہیں محبت میں

دیکھ لیتا ہوں جہاں بھی تو نظر آتا ہے

شکر، صد شکر، کہ سرگشتۂ اّیام نہیں

ضیائے حسن سے معمور ہے فضائے جہاں

ہر ایک جلوہ یہ کہتا ہے شاہکار ہوں میں

پڑ گیا عکسِ حسنِ عالم تاب

بن گیا دل اب آئنہ خانہ
ان اشعار کو پڑھ کر دل و دماغ پر جو مجموعی تاثر پیدا ہوتا ہے اسے ہر صاحبِ دل آسانی سے پہچان سکتا ہے کیونکہ رازؔ کی فکر اور اظہارِ خیال کا تعلق ہر لمحہ ہماری روزمرہ کی دنیا اور زندگی سے ہی ہے۔ اس خصوصیتِ کلام کو اپنے تجزیہ میں خلیل الرحمٰن اعظمی نے یوں قلمبند کیا ہے:

’’….(رازؔ کے) کسی شعر کو پڑھنے کے بعد ہم پر یہ تاثر نہیں ہوتا کہ شاعر عام آدمیوں سے علاحدہ کوئی مخلوق ہے یا اس کی شخصیت کچھ مافوق الفطرت ہے، عجیب و غریب ہے یا اس کے تجربات کچھ اس طرح کے ہیں کہ جن سے ہم غیر معمولی طور پر مرعوب یا بھوچکّے ہو جائیں اور اس کی بنا پر ’واہ‘ کہہ دیں ۔‘‘

اس خوبی کو اگر رازؔ کے غزلیہ کلام کی روح کہا جائے اور اسی کو اگر ان کی شاعری کی بقا و دوام کا ضامن ٹھہرایا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔

 

 

 اے رازؔ یہی ہے بے کمالی  ورنہ مجھ میں کمال کیا ہے

…………

               حرفِ آخر

 

شعر کہتا ہوں کہ ہوں مجبور ذوقِ طبع سے

رازؔ کچھ خواہش نہیں مجھ کو نمود و نام کی

رازؔ کا یہ شعر نہ صرف ان کی شاعری کے اصل محرک (ذوقِ طبع) کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ان کی غزل گوئی کے ان سب محاسن کی تائید و تصدیق بھی کرتا ہے جو پچھلے صفحوں میں ان کی شاعری کے مطالعہ اور تجزیہ سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ ہر چند کہ یہ محاسن اُن محاسن سے مختلف ہیں جو اُردو کے روایتی غزل گویوں میں پائے جاتے ہیں ، مگر ان کی دلکشی اور ہمہ گیری سے انکار ممکن نہیں ہے۔

روایتی غزل گوئی کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن اعظمی ’’نوائے رازؔ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ:

’’لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کبھی کبھی ہم انہیں محاسن سے اس لئے اوب جاتے ہیں کہ ہم اپنی عام زندگی کو ان سے ہم آہنگ نہیں پاتے اور اس وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید شاعری چند بندگانِ خدا کے لئے مخصوص ہے اور انہیں کی زندگی کی ترجمان ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے بھی خاص خاص لمحات درکار ہیں ۔‘‘

رازؔ کی غزل گوئی کی اصل خوبی دراصل یہی ہے کہ ہمیں ان کی آواز میں آواز ملانے میں ، یا ان کے دل کا درد خود محسوس کرنے میں ،یا ان کے جذبات و احساسات کو اپنے اندر بیدار اور جاری و ساری دیکھنے میں کسی تکلیف یا تکلف سے کام نہیں لینا پڑتا ہے۔ چونکہ اس شاعری میں ایک عام آدمی ہم سے مخاطب ہے اور اس کی بات میں خلوص اور صداقت ہے اور وہ بغیر کسی تکلف کے صرف اپنے ذوقِ طبع سے مجبور ہو کر گویا ہے، ہمیں اس کی آواز پر لبیک کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔

رازؔ کی یہی ندرتِ فکر و بیان ان کی غزل گوئی کو دوسروں کی غزل سرائی سے جہاں ممتاز کرتی ہے، وہیں ان کے خیالات کے فہم اور ان کے فنِ شاعری کی پرکھ اور تحسین میں سدّ راہ بھی بن جاتی ہے اِلّا یہ کہ اُن کے منفرد اندازِ فکر و بیان سے ہمیں واقفیت ہو اور روایتی غزل سرائی سے جدا ایک نئی آواز اور نئے انداز کے استقبال کے لئے ہم تیار بھی ہوں ۔

شاعری ہو یانثر نگاری، اندازِ بیان کی اہمیت بہرحال مسلّم ہے۔ اُردو غزل میں ہر وہ مضمون طرح طرح سے نظم ہو چکا ہے جو انسانی ذہن میں آسکتا ہے اور کسی نئے مضمون کی اُپج کا تصور تقریباً ناپید ہے۔ البتہ جو خصوصیت ایک شاعر کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ یہی اندازِ بیان ہے۔ رازؔ چونکہ راہِ عام سے گریزاں ہیں ، انہوں نے بہت سے پامال مضامین کو اپنے سادہ مگر منفرد اندازِ بیان سے ایسی جِلا دے دی ہے کہ وہ نئے معلوم ہوتے ہیں ۔ اسے آپ ان کی خوش بیانی سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ مثلاً مندرجہ ذیل اشعار میں انہوں نے معمولی اور عام مضامین کو ایک نئی بلندی تک پہنچا دیا ہے۔

جو نہ جاتی ہو کوئے جاناں تک

مجھ کو معلوم ایسی راہ نہیں

جینے میں مل رہا ہے مجھے لطفِ مرگ بھی

حیران ہوں خُدا سے میں اب کیا دُعا کروں !

منظور ہے کیا اور ابھی مشتاق بنانا

یا جلوہ دکھانے ہی کا دستور نہیں ہے؟

تلاش اور بقا کی جہانِ فانی میں ؟

یہ خواب دیکھا تھا میں نے بھی نوجوانی میں

 

یہی سادگی اور پُرکاری رازؔ کے یہاں مشکل موضوعات کی ادائیگی میں بھی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ پچھلے صفحات سے ظاہر ہے ، رازؔ زبان کی پیچیدگیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اپنی فارسی کی مہارت کا ، تراکیب اور بندشِ الفاظ میں استادانہ اور دلپذیر استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی وہ زندگی اور اس کے متعلقات پر آسان الفاظ میں ، الجھاؤ اور التباس سے دامن بچا کر، اظہارِ خیال کا گر بھی خوب جانتے ہیں ۔ اس قادرالکلامی کی وجہ شاید یہ ہے کہ انہیں خواہ مخواہ بات میں سے بات پیدا کرنے کا شوق نہیں ہے اور وہ اُن حُدود سے بخوبی واقف ہیں جن میں رہ کر وہ اچھی شاعری کر سکتے ہیں ۔ جبکہ ماہر القادری لکھتے ہیں : (٭)

’’رازؔ صاحب ایسی فضا میں پرواز کی کوشش نہیں کرتے جہاں پہنچ کر شہپر کی قوت جواب دے دے۔ ایک حد پر پہنچ کر اطمینان و سکون کے ساتھ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں ، زبان سے ادا کر دیتے ہیں ۔‘‘

درج ذیل چند اشعار اس دعوے کی تائید میں پیش کیے جا سکتے ہیں :

 

پچھتانے سے کیا حاصل پچھتانے سے کیا ہو گا

کچھ تو نے کیا ہوگا، کچھ تجھ سے ہوا ہو گا

جینے کا مزا جب ہے، جینے کا ہو کچھ حاصل

یوں لاکھ جیے کوئی، تو جینے سے کیا ہوگا

کس منہ سے کروں میں اس کا شکوہ

اپنے ہی کیے کو رو رہا ہوں

سکونِ قلب بڑی چیز ہے ، یقیناً ہے

مگر ملے بھی کہیں دورِ زندگانی میں

دلیلِ جوشِ محبت ہے بدگماں ہونا

اگر خلوص بھی شامل ہو بدگمانی میں

ترے جلووں نے فرصت ہی نہیں دی

میں نیرنگِ زمانہ دیکھتا کیا

حقیقت کھل گئی ہے آرزو کی

میں اب ہوں گا کسی سے بدگماں کیا

 

خوش بیانی اور معنی آفرینی کا یہ رنگ رازؔ کے مقطعوں میں بہت نظر آتا ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ انہوں نے کیوں رازؔ تخلص اختیار کیا تھا، لیکن یہ کہنا شاید بے جا نہیں ہے کہ ان کا تخلص ان کی طبیعت اور شخصیت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اُن کے اکثر مقطعے سیدھے سادے ہیں ، مگر ان کی اثر پذیری میں کوئی شک نہیں کر سکتا :

 

رازؔ سب سے ہوا ہے بیگانہ

کھل گئی دہر کی حقیقت کیا؟

رازؔ مل جاتی ہے فکروں سے نجات

شاعری سے اور کچھ حاصل نہیں

بظاہر نغمہ زن ہوتا ہے رازؔ بے نوا لیکن

حقیقت یہ ہے خود فطرت نوا پرداز ہوتی ہے

٭آگرہ اسکول کا ارتقائے نظم : ما ہر القادری

….

شاعر(آگرہ)سالنامہ1938ء

اے رازؔ یہ کوئی زندگی ہے

ممنونِ امید و آرزو ہوں

ہٹا نہ رازؔ کبھی مرکزِ محبت سے

ہزار بار زمانہ میں انقلاب ہوا

رازؔ دنیا سے بے نیاز تو ہے

اہلِ دل سے وہ بے نیاز نہیں

رازؔ سے مل کے آپ خوش ہوں گے

آدمی ہے بڑی محبت کا

رازؔ کی غزلیہ شاعری کے اس تجزیہ میں ان کے جذبات کی صداقت اور بیان کے خلوص کا بارہا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ خوبیاں ان کی شاعری اور شخصیت و کردار دونوں کے حوالے سے ان کی زندگی کا حصّہ رہی ہیں ۔ ان کی غزل گوئی کے بارے میں خلیل الرحمٰن اعظمی کی رائے حرفِ آخر کے طور پر یہاں پیش کرنا شاید نامناسب نہیں ہے:

’’میرا خیال ہے کہ اگر اُردو کا عام غزل گو غزل کے روایتی موضوعات اور اسالیب اور اُس کی مخصوص فضا کو اپنے اوپر طاری کرنے اور ہر حالت میں عاشق، رند، دیوانہ یا جذباتی ہونے کے بجائے اپنے آپ سے سچ بولنا شروع کر دے اور غزل کے آداب کا لحاظ کرنے کے بجائے اپنی زندگی کی صداقتوں پر بھروساکرے تو اس صورت میں اُردو غزل گوئی اپنی یکسانیت کے دائرہ کو توڑ سکتی ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ جب سے اُردو زبان وجود میں آئی ہے اور غزل گوئی کا رواج ہوا ہے لاکھوں شعراء نے اس صنف میں اپنی عمرِ عزیز صرف کی ہے، لیکن ان ہزاروں صاحبِ دیوان شعراء میں بھی گنے چنے شاعر زندہ ہیں اور باقی سب انہیں کی آوازِ بازگشت معلوم ہوتے ہیں ۔ کسی شاعر کا زندہ رہنا اس بات پر موقوف نہیں ہے کہ اس نے کتنی بڑی شاعری کی ہے۔ وہ حقیقی شاعری کر کے بھی زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘

طریقِ عشق میں جو خستہ و خراب ہوا

وہ اپنے مقصدِ ہستی میں کامیاب ہوا

ہمیشہ حدّ ادب کو نگاہ میں رکھا

رہِ طلب میں نہ میں خستہ و خراب ہوا

ہٹا نہ رازؔ کبھی مرکزِ محبت سے

ہزار بار زمانے میں انقلاب ہوا

 

 

 

باب 4

منظوماتِ رازؔ

 

اس باب میں ’‘ مصحفِ رازؔ‘‘ میں درج مطبوعہ اور غیر مطبوعہ نظموں کا مطالعہ اور تجزیہ مقصود ہے۔ رازؔ نے اپنی شاعرانہ کاوشوں کو غزل سرائی اور نظم گوئی تک ہی محدود رکھا اور اُردو میں مروّجہ دوسری اصنافِ سخن (قصیدہ، مثنوی، مسدّس وغیرہ) کی جانب بالکل توجہ نہیں دی۔ ’’ مصحفِ رازؔ‘‘ میں چند مختصر نظمیں ہیں جن پر قطعات کا اطلاق ہو سکتا ہے، لیکن خود رازؔ نے ’’مصحفِ رازؔ ‘’میں ایسی کوئی تقسیم نہیں کی ہے۔

رازؔ کی شعر گوئی بقول خود ان کے ذوقِ طبع کی مجبوری تھی اور اس میں دنیا کی داد و ستائش یا نمود و نام کی خواہش کو قطعی دخل نہیں تھا۔

 

رازؔ میری شعر گوئی بے حقیقت ہے تو ہو

اپنے دل کا راز کہتا ہوں نوائے راز میں

دنیا سے مجھے مطلب؟ دنیا تو ہے دیوانی

سنتا ہوں میں دنیا کی، کرتا ہوں غزل خوانی

 

چنانچہ انہیں بے مطلب شاعری کا شوق تھا اور نہ خوامخواہ بات سے بات پیدا کرنے کا ذوق۔ محدود اصنافِ سخن میں انہوں نے اپنی شعری اور ذہنی آسودگی کا پورا سامان دریافت کر لیا تھا اور وہ اس پر قانع تھے۔

’’ مصحفِ رازؔ‘‘ میں درج نظموں کی تعداد پچّانوے (95) ہے۔ اس میں پینتالیس (45) وہ نظمیں بھی شامل ہیں جو ان کی نظموں کے مجموعہ ’’دنیائے رازؔ‘‘ میں شائع ہو چکی ہیں ۔ اس طرح ان کی غیر مطبوعہ نظموں کی تعداد پچاس (50) ہوتی ہے۔ ’’دنیائے رازؔ‘‘ (مطبوعہ 1930ء) میں کل چونسٹھ (64) نظمیں شائع ہوئی تھیں ۔ گویا نظرِ ثانی کے بعد رازؔ نے ان مطبوعہ تخلیقات میں سے انّیس (19) نظموں کو ’’ مصحفِ رازؔ‘‘ میں شامل نہیں کیا۔

زیرِ نظر کتاب کے آخری حصّہ میں رازؔ کی غیر مطبوعہ نظموں کا انتخاب شامل کر دیا گیا ہے۔ ایسی سب نظموں کی اشاعت بخوفِ ضخامت ضروری نہیں سمجھی گئی۔ اس کے علاوہ چند ایسی مطبوعہ نظمیں بھی شائع کر دی گئی ہیں جو اپنی انفرادیت اور دلکشی میں رازؔ کی نظم گوئی کی نمائندگی بخوبی کرتی ہیں یا جن کو متن کتاب میں نمونۂ کلام یا استدلال کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ’’دنیائے رازؔ‘‘ کی کمیابی بلکہ نا یابی کے پیشِ نظر یہ اقدام صحیح اور مستحسن ہے۔

ہر چند کہ رازؔ بنیادی طور پر غزل گو ہیں ، مگر ان کی نظمیں بھی ان کی غزلوں کی طرح دلکش اور متنوع ہیں ۔ انہوں نے داخلی محسوسات پر بھی قلم اٹھایا ہے اور خارجی حادثات و واقعات کے علاوہ سیاسی اور سماجی موضوعات پر بھی انہوں نے دادِ سخن دی ہے اور اخلاقی مضامین پر بھی لکھا ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں ہیئت اور بیان کے نئے تجربے بھی کیے ہیں اور ان کی بیشتر تخلیقات، موسیقیت اور غنائیت سے بھرپور ہیں ۔ چنانچہ ایسی نظموں کی ان کے یہاں کمی نہیں ہے جن کو پڑھ کر گنگنانے کو دل چاہتا ہے۔ البتہ رازؔ کے یہاں موضوعات کی وہ وسعت نہیں ہے جو ایک خالص نظم گو شاعر کے یہاں نظر آتی ہے۔ شاید اسی کے اعتراف میں (اور کچھ اپنی طبیعت کے فطری ضبط و نظم کی شہ پر) انہوں نے ’’ مصحفِ رازؔ‘‘ کے حصۂ نظم ’’صحیفۂ رازؔ‘‘ میں اپنی نظموں کو گیارہ (11) عنوانات کے تحت درج کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کی تمام منظومات صرف انہیں گیارہ عنوانات پر حاوی ہیں ۔ دراصل یہ ایک موٹی سی تقسیم ہے جس کا مقصد شامل مضامین کی نظموں کو یک جا کرنا اور کتاب کے مطالعہ میں آسانی بہم پہنچانا معلوم ہوتا ہے۔ یہ گیارہ عنوانات مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ تمہید و تمجید: یہ حصّہ دو حمدیہ نظموں (بسم اللہ اور الحمد للّٰہ) پر مشتمل ہے۔ ہر چند کہ دونوں میں ربِ کائنات کی رحمت اور ربوبیت کا اقرار اور اپنی عبودیت کا اعتراف ہے، لیکن اپنی عادت و روایت کا پاس کرتے ہوئے رازؔ نے اپنے اندازِ بیان سے انہیں منفرد اور بے حد دلپذیر بنا دیا ہے۔ دونوں نظموں کے درج ذیل چیدہ چیدہ ٹکڑے اس بیان کی تائید کرتے ہیں :

 

سحر کو مطلعِ مشرق سے جب سورج نکلتا ہے

اُفق سے نورِ بے پایاں کا اک چشمہ ابلتا ہے

چمن میں سبزۂ خوابیدہ بھی کروٹ بدلتا ہے

ہر اک غنچہ چٹکنے کے لئے پیہم مچلتا ہے

تری رحمت سے دورِ بادۂ گل رنگ چلتا ہے

جمالِ شام جب رنگِ شفق بن کر نکھرتا ہے

نئے انداز سے ہر منظرِ فطرت سنورتا ہے

قمر سطحِ فلک پر ناز سے پھر رقص کرتا ہے

ستارہ ڈوبتا ہے کوئی، تو کوئی ابھرتا ہے

ترا میکش بھی تیرے نام کا اک جام بھرتا ہے

(ا لحمد للّٰہ)

’’بسم اللہ‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے اور رازؔ کی اللہ سے داد خواہی کی داد دیجئے:

 

ساقی کہاں ہے لانا گل رنگ و لالہ فامی

حد سے گزر چکی ہے اب میری تشنہ کامی

یہ تو نہیں پیوں گا، ہاں وہ مجھے پلا دے

جس سے کبھی ہوئی تھی سیراب تشنہ کامی

یعنی وہی جو پی تھی مے خانۂ ازل میں

جس کے خمار میں بھی اک کیف ہے دوامی

کہنا ہے آج مجھ کو افسانۂ محبت

دینی ہے آج مجھ کو کچھ دادِ خوش کلامی

للّٰہ ایک ساغر میخانۂ شرف سے!

بندہ ہوں میں بھی تیرا اے میکشوں کے حامی

……..

2۔ سوز و ساز : اس حصّہ کی بیشتر نظمیں رازؔ کے کلام میں جاری و ساری داخلیت کی آئینہ دار ہیں ۔ چند وہ نظمیں ہیں جو تمام و کمال رازؔ کے جذبات و محسوسات پر مبنی ہیں (مثلاً محبت، اعترافِ محبت، انتظار، شوقِ دید وغیرہ) اور اس مناسبت سے وہ ان کی جذبات نگاری اور معنی آفرینی کی بہت ا چھی مثال ہیں ۔ نفاستِ زبان ، جذبہ کی صداقت اور پُر اثر بیان ان نظموں کی خصوصیات میں سے ہیں ۔ دوسری قسم کی نظموں میں رازؔ شعر گوئی، شاعر اور قلبِ شاعر ہیں ، جن کا نفسِ مضمون عنوانات سے ہی کم و بیش ظاہر ہے۔ ان کے علاوہ وہ نظمیں ہیں (مثلاً خلوت در انجمن، عندلیبِ زار، تصویرِ عشق وغیرہ) جو رازؔ کی تخئیل کی زائیدہ ہیں ۔ نظم کے مضمون کی مناسبت سے الفاظ و طرزِ بیان اختیار کر کے رازؔ نے انہیں اثر پذیری اور دلکشی سے مالامال کر دیا ہے۔

پہلی قسم کی نظموں کے نمونہ کے طور پر رازؔ سے پہلے محبت کی تعریف سنئے اور پھر اعترافِ محبت:

 

پلا اے ساقیِ بزمِ محبت

فسردہ ہو چلا اب جوشِ الفت

دگرگوں ہو گیا اب رنگِ محفل

شکستہ ہو نہ جائے ساغرِ دل

کوئی ساغر بنامِ حق پرستی

وہ ساغر جو بڑھا دے کیفِ ہستی

وہ جامِ آتشیں ، جانِ محبت

جو چمکاتا ہے حسنِ روئے فطرت

دکھاتا ہے جمالِ آئنہ ساز

بتاتا ہے حریمِ ناز کے رازؔ

شرابِ عشق سے مخمور کر دے

خیالِ ماسوا کو دور کر دے

بیاں کرنی ہے رودادِ محبت

کھانی ہے مجھے اس کی حقیقت

محبت شمعِ بزمِ انس و جاں ہے

محبت حسنِ فطرت بے گماں ہے

محبت ہے بِنائے بزمِ امکاں

محبت ہے مدارِ چرخِ گرداں

محبت شاہدِ اہلِ نظر ہے

محبت حق نما و حق نگر ہے

محبت حسنِ دل کا آئنا ہے

محبت جلوۂ معنی نما ہے

اگر ناخوش نہ ہو پیرِ طریقت

تو کہہ دوں برملا رازؔ محبت

ذرا سی بات طرفہ ماجرا ہے

محبت درحقیقت خود خدا ہے

(محبت)

….

قسم اس صبح کی، جو مصدرِ اسرارِ فطرت ہے

قسم اس شام کی، جو مخزنِ آرام و راحت ہے

قسم اس مہر کی، جو مطلعِ انوارِ قدرت ہے

قسم اس ماہ کی ،جو منبعِ حسن و لطافت ہے

نہ ہو تو بدگماں مجھ سے، مجھے تجھ سے محبت ہے

قسم اس شاہدِ مینا کی جو آنکھوں سے پنہاں ہے

قسم اس جلوۂ رعنا کی جو ہر سو نمایاں ہے

قسم اس نارِ دوزخ کی جو صد زحمت بداماں ہے

قسم اس روضۂ رضواں کی جو فردوسِ راحت ہے

نہ ہو تو بدگماں مجھ سے، مجھے تجھ سے محبت ہے

(اعترافِ محبت)

….

دوسری قسم کی نظموں کے نمونہ کے طور پر ’’شاعر‘‘ کے دو بند پیش کیے جاتے ہیں :

 

اے کہ تو رونقِ آبادی و ویرانہ ہے

شمع کا نور ہے، سوزِ دلِ پروانہ ہے

بندۂ عشق و وفا، حسن کا دیوانہ ہے

جانِ میخانہ ترا نعرۂ مستانہ ہے

دل کے پردوں میں تلاطم تری آواز سے ہے

سازِ ہستی میں ترنّم لبِ اعجاز سے ہے

اللہ اللہ یہ وسیع النظری، کیا کہنا

ہر طرف حسن کی ہے جلوہ گری، کیا کہنا

بیخودی اور یہ شوریدہ سری، کیا کہنا

رشکِ صد ہوش ہے اک بیخبری، کیا کہنا

چشمِ بینا ہے تری محرمِ اسرارِ وجود

قلبِ روشن ہے ترا مطلعِ انوارِ شہود

(شاعر)

….

3۔ مشاہدات و محسوسات : جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، اس حصّہ میں وہ نظمیں جمع کر دی گئی ہیں جو رازؔ کے مشاہدات اور محسوسات پر مبنی ہیں ۔ تماشہ گاہِ عالم، اعجازِ بہار، سکوتِ شب اور ہلالِ عید وغیرہ دنیائے محسوسات سے تعلق رکھتی ہیں اور حسبِ معمول ان میں رازؔ کے جذبات و کیفیات کی فراوانی ہے۔ دوسری طرف وہ نظمیں ہیں جو رازؔ کے ذاتی مشاہدات کا نتیجہ ہیں ۔ اس حصّہ میں کئی ایسی نظمیں ہیں جو انہوں نے کسی کتاب یا رسالہ میں شائع کسی تصویر یا منظر کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر کہی ہیں ، مثلاً بحرِ ہستی، تصویرِ وفا، جاپانی دوشیزہ وغیرہ اور چند نظمیں ان کے مشاہدات کی صورت گری ہیں (خوابِ راحت، نادار طالب علم)۔ نمونہ کے طور پر تماشہ گاہِ عالم کے چند اشعار درج ذیل ہیں :

خدا رکھے عجب شے ہے تماشا گاہِ عالم بھی

کہ ہر منظر ہے دلکش، ہر نظارا روح افزا ہے

ہزاروں جلوہ ہائے حسن ہر پردے میں پنہاں ہیں

نگاہِ حسن جو کے واسطے جلوہ ہی جلوا ہے

یہ وہ گلشن ہے جس کا ہر چمن ہے دامنِ گل چیں

خزاں نا آشنا اک باغ ہے، جنت کا ٹکڑا ہے

نگاہِ غور سے تو دیکھ اس کو دیکھنے والے

کہ ہر منظر سے پیدا جلوۂ حسنِ خود آرا ہے

….

4۔ حقیقت و افسانہ : رازؔ نے یہ عنوان اُن تخلیقات کے لئے تجویز کیا ہے جو کسی اور عنوان کے تحت نہیں آ سکتی تھیں ۔ اس حصّہ میں تمام نظمیں کم و بیش داخلیت کی مظہر ہیں ۔ رازؔ نے بیشتر نظموں میں آپ بیتی کے انداز میں افسانہ گوئی کی ہے۔ چنانچہ اور نظموں سے کچھ زیادہ ہی ان نظموں میں حرمان و یاس اور قنوطیت کا جوش ہے۔ عہدِ آزادی، گلبانگِ پریشاں ، کشمکشِ حیات وغیرہ اس حصّہ کی نمائندہ نظمیں ہیں ۔ گلبانگِ پریشاں کے مندرجہ ذیل چند اشعار سے اس حصہ کے مجموعی رنگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:

نہ پوچھ اے ہم نشیں میری پریشانی کا افسانہ

زمانہ کی کشاکش نے بنا رکھا ہے سودائی

نہ اب وہ درد ہے دل میں ، نہ اب وہ درد کی لذّت

نہ وہ شورِ فغاں باقی، نہ وہ ہنگامہ آرائی

نہ اب جینے کی حسرت ہے ، نہ اب مرنے کی خواہش ہے

نہ اب دل میں تمنّا ہے، نہ اب میں ہوں تمنّائی

غرض مطلب کسی سے کچھ نہیں مجھ کو زمانے میں

کوئی مومن ہو یا کافر، مسلماں ہو کہ ترسائی

طبیعت بجھ چکی ہے گرمیِ بزمِ تماشا سے

پسند آئے مجھے کیوں کر کسی کی جلوہ فرمائی

(گلبانگِ پریشاں )

….

5۔ رموز و نکات : اس حصہ کی نظمیں آسانی سے رموز و نکات کے ذیلی عنوانات کے تحت جمع کی جا سکتی ہیں ۔ رموز کے تحت اضطراب و سکوں ، جوانی کی کہانی، سرمایۂ نشاط، ترکِ تکلف وغیرہ رکھی جا سکتی ہیں ۔ ان کا تعلق رازؔ کے داخلی احساسات اور متعلقات سے ہے۔ ترک تکلف اور اس کے ساتھ کی نظموں پر مفصل نظر اگلے صفحات میں ڈالی گئی ہے۔ نکات ان نظموں پر مشتمل سمجھی جا سکتی ہے جن میں رازؔ نے اپنے اوپر بات ڈھال کر انسان کو مسلسل کوشش اور جدوجہد کا پیام دیا ہے (تدبیرِ منزل، پیامِ فطرت، کلیدِ کامرانی، نکتۂ لطیف وغیرہ)۔ اس حصّہ پر بھی اگلے صفحات میں مفصل بحث کی گئی ہے۔

….

6۔ تحسین و تلقین: رازؔ نے اس عنوان کے تحت وہ نظمیں یک جا کر دی ہیں جو مشرقی تہذیب پر مغربی تہذیب کی یورش کے مضر نتائج کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ اس موضوع پر رازؔ کا موقف آگے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس عنوان کے تحت جنت ارضی کی حور،   رفیقۂ حیات، مشرقی خاتون سے، خاتونِ مسلم وغیرہ نظمیں درج کی گئی ہیں ۔

….

7۔ راز و نیاز : پانچ نظموں پر مشتمل یہ مکالمہ رازؔ اور ان کی ’’رفیقِ زندگی‘‘ کے درمیان عورت کی فطرت اور معاشرہ میں اس کے مقام پر نہایت دلچسپ ہے۔ اس پر مفصل بحث اگلے صفحات میں کی گئی ہے۔

….

8۔ دامنِ گل چیں : چند انگریزی نظموں کے تراجم بعنوان فطرت، امروز، گلاب وغیرہ اس حصہ کی زینت ہیں ۔ رازؔ کے ان تراجم پر اظہار خیال اگلے صفحات میں کیا گیا ہے۔

….

9۔ داد و فریاد : یہ مختصر حصّہ اُن چند نظموں پر مشتمل ہے جن میں رازؔ نے داد و فریاد کے انداز میں اپنا درد یا شکایت نظم کی ہے۔ جُرعۂ شیریں میں وہ ’’شاعر گیسو بدوش‘‘ سے کہتے ہیں :

 

ادّعائے علم و عرفانِ حقیقت، مرحبا

واقعی تو صاحبِ دل ہے، یقیناً تیز ہوش

بادۂ اسرارِ اُلفت تیرے پیمانہ میں ہے

یاد ہیں اب تک تجھے افسانہ ہائے بزمِ دوش

یہ تو سب کچھ سچ ہے لیکن کیا کہوں اک راز ہے

کہہ رہاتھا کل کسی میکش سے پیرِ مے فروش

’’خود فروشی شیوۂ اہلِ ہنر ہوتی نہیں

با ادب خاموش باش و بادۂ صافی بنوش‘‘

(جُرعۂ شیریں )

درویش سے، اپنے دل سے، بیادِ یاراں وغیرہ اس حصّہ کی دوسری نظمیں ہیں ۔

….

10۔ آئینۂ عالم : جیسا کہ عنوان سے عیاں ہے، یہ حصّہ ملکی اور سیاسی موضوعات پر نظموں پر مشتمل ہے ( ایشیا، تبریک، جامِ اوّلیں ، آزادی کے بعد وغیرہ)۔ بیشتر ہندوستان و پاکستان کی آزادی کے بعد کے حالات پر ہیں اور اس دلی تکلیف کا آئینہ ہیں جو راز جیسے حسّاس شاعر کو فسادات اور نام نہاد لیڈروں کی ’’بندر باٹ‘‘ دیکھ کر ہوئی ہو گی۔ شکوۂ بیجا کے مندرجہ ذیل اشعار اس حصّہ کی ترجمانی کرتے ہیں :

 

یہ فضائے چمن، یہ گرد و غبار

کیا تماشا ہے اے خدائے بہار

موسمِ گل ہے یہ کہ فصلِ خزاں

صحنِ گلشن ہے یہ کہ آتش زار

یوں پریشاں ہے گیسوئے سنبل

کوئی چاہے تو گن لے اک اک تار

دلبری ہے نہ دلدہی، توبہ

حسن افسردہ، عشق ہے بیمار

اور اہلِ نگاہ؟ کیا کہئے

اپنی نظروں میں ہیں وہ خود ہی خار

حق پرستی کا دور ختم ہوا

سر بزانو ہے ساقیِ خوش کار

یہ تو سب کچھ سہی، مگر ہمدم

ہے یہاں کوئی صاحب کردار

(شکوۂ بیجا)

….

11۔ لالہ زار : یہ حصّہ اُن پانچ نوحوں پر مشتمل ہے جو رازؔ نے احبّا و اقربا کی وفات پر کہے تھے(بیادِ سیماب، دیا نرائن نگم، الفراق، بیادِ اختر، سوزِ نہاں )۔ یہ نوحے اپنی دلسوزی اور حزن و ملال میں منفرد ہیں اور ان کا ہر شعر رازؔ کے دُکھے ہوئے دل کی صدا معلوم ہوتا ہے۔ خصوصاً بیادِ اختر (جو انہوں نے اپنے بیس سالہ بیٹے اختر عالم راز کی وفات پر کہا تھا) انتہائی اندوہ گیں ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ اس کو پڑھ کر آنکھ اشک آلود نہ ہو۔ سوزِ نہاں ، رازؔ کی شعری زندگی کی آخری نظم ہے۔ اپنی رفیقۂ حیات کی وفات پر کہے ہوئے اس نوحہ کے بعد رازؔ نے شاعری ترک کر دی تھی۔ یہ پانچ نوحے زیرِ نظر تالیف میں مئے باقی کے عنوان کے تحت درج ہیں ۔

رنج و راحت کا فلسفہ بے سود  اعتباری ہے گردشِ ایام

کیا کہوں کس طرح گزرتی ہے  صبح بے نور، ماتمی ہے شام

……..

               منظوماتِ رازؔ میں مقصدیت

 

اُن کی غزل گوئی کے حوالے سے رازؔ کے اس التزام کا ذکر پچھلے صفحات میں ہو چکا ہے جو انہوں نے صیغۂ جمع متکلّم (ہم، ہمارے، ہمیں وغیرہ) سے تقریباً مکمل احتراز کی صورت میں برتا ہے۔ یہی صورت ان کی نظموں کی بھی ہے۔ ’’ مصحفِ رازؔ‘‘ کی پچانوے (95)نظموں میں سے صرف دو ایسی ہیں (بحرِ ہستی اور آزادی کے بعد) جن میں ’’ہم‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔ بقیہ ترانوے(93) نظموں اور ایک سو پینتالیس (145) رباعیوں میں صیغۂ جمع متکلّم سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے۔ اس التزام کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ رازؔ کو اپنے کلام میں وہ عمومیت گوارا نہیں ہے جو ’’ہم، ہمارے‘‘ یا ایسے ہی دوسرے الفاظ سے پیدا ہو سکتی ہے۔

رازؔ کی نظموں کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی مقصدیت ہے۔ وہ بے مصرف شاعری کر کے اپنا اور قاری کا وقت خراب نہیں کرنا چاہتے۔ چنانچہ ایسی نظموں میں بھی جن کو خارجی کیفیات یا فطری منظر کشی کا آئینہ ہونا چاہئے، رازؔ نے اپنے جذبات کا رنگ بھر دیا ہے اور حرفِ آخر کے طور پر ان میں کوئی نہ کوئی پیام، آرزو یا دعوت ضرور رکھ دی ہے۔ مثال کے طور پر نخلستان کے چند اشعار درج کیے جاتے ہیں ۔ جہاں قاری نخلستان کی منظر کشی کی امید رکھتا ہے، وہاں رازؔ نظم کے آخری مصرع میں اسے کسی اور ہی کیفیت سے آشنا کرتے ہیں ۔ یہ خالص داخلیت ہے جو ان کے کلام کی جان ہے۔

 

اک سبزہ زارِ پُر فضا، غیرت دہِ صحنِ چمن

اک لالہ زارِ دلکشا، جنّت نشاں ، گویا وطن

پھیلا ہوا ہے دور تک مثلِ بساطِ انجمن

آزاد اہلِ بادیہ، خان بدوش و بے نوا

پاکیزہ سیرت، خوش لقا، اہلِ محبت، با صفا

آرام و اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں جا بجا

آزاد غم ہائے جہاں ہیں قلب ان کے بالیقیں

دنیا ہے ان کے واسطے فردوس بر روئے زمیں

ایسی ہی آزادی مجھے اے کاش مل جائے کہیں

….             (نخلستان)

رازؔ کی نظم ہلالِ عید بھی مندرجہ بالا بیان کی تائید کرتی ہے۔ ہلالِ عید پر روایتی نظمیں عموماً عید کی آمد پر خوشی کا اظہار اور اللہ کے حضور نذرانۂ تشکّر پیش کرتی ہیں ، مگر رازؔ کے یہاں نظارۂ ہلالِ عید ’’موجبِ راحت‘‘ بھی ہے اور ’’باعثِ تکلیف‘‘ بھی۔

 

موجبِ راحت ہے نظارہ ہلالِ عید کا

باعثِ تکلیف بھی ہے لیکن اس کو دیکھنا

اہلِ ظاہر کے لئے سرمایۂ صد انبساط

اہلِ باطن کے لئے آئینۂ فطرت نما

میکشِ بزمِ طرب کے واسطے وجہِ سرور

درد  آشامِ مصیبت کے لئے صبر آزما

آفتابِ ماہ پرور ہے نگاہوں میں مری

کیا کروں میں دیکھ کر جلوہ ہلالِ عید کا

……..            (ہلالِ عید)

 

               انگریزی نظموں کے تراجم

 

رازؔ نے اپنی کوشش و محنت سے انگریزی زبان میں بہت اچھی مہارت پیدا کر لی تھی۔ اس کے لئے انگریزی ادب و شعر کا مطالعہ ناگزیر رہا ہو گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس مطالعہ کے دوران اُنہیں انگریزی کہانیوں اور منتخب منظومات کا اردو میں ترجمہ کرنے کا شوق پیدا ہوا ، اور انہوں نے اسے عملی جامہ بھی پہنایا۔ نثر میں انہوں نے ایک دو ناولوں کا ترجمہ کیا، نیز کئی کہانیوں کا مرکزی خیال، پلاٹ وغیرہ انگریزی سے اخذ کر کے انہیں ہندوستانی ماحول و معاشرت کے سانچہ میں ڈھالا۔ یہ کہانیاں ’’زریں افسانے‘‘ کی کتابی شکل میں 1930ء میں لاہور سے شائع ہوئیں ۔ انہوں نے متعدد نظموں کا ترجمہ بھی کیا۔ ان میں سے چار نظمیں ’’ مصحفِ رازؔ‘‘ میں شامل ہیں : فطرت، امروز، گلاب اور پیمانِ وفا۔

کسی غیر زبان کے ادب کا اپنی زبان میں ترجمہ ایک نہایت مشکل کام ہے۔ خصوصاً منظوم ادب کا ترجمہ اور بھی مشکل ہے کہ اس کی روایات، زبان و بیان، رنگ و آہنگ اور دوسرے مقتضیات نثری ادب کے مقابلے میں پیچیدہ اور دقیق ہوتے ہیں ۔ رازؔ کی ترجمہ کی ہوئی چاروں نظموں کے حواشی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ انہوں نے ترجمہ انگریزی سے اُردو میں کیا ہے، لیکن اصل میں چاروں جرمنی سے انگریزی میں منتقل ہو چکی تھیں ۔ گویا رازؔ کی یہ کوشش ترجمہ کے ترجمہ کا مقام رکھتی ہے۔ چونکہ انگریزی کے مذکورہ تراجم سامنے نہیں ہیں ، اس لئے اردو ترجمہ کی اصل سے مطابقت کا اندازہ ممکن نہیں ہے۔ اگر کچھ کیا جا سکتا ہے تو صرف اس قدر کہ ان تراجم کو عمومی طور پر بغور دیکھا جائے اور نظم گوئی کے مسلّمہ اصولوں پر انہیں پرکھا جائے۔

رازؔ کے چاروں تراجم زبان و بیان کا نہایت اچھا نمونہ کہلائے جانے کے مستحق ہیں ۔ ان کی زبان شستہ بلکہ شگفتہ ہے اور طرزِ بیان موثّر۔ انہوں نے معنویت اور غنائیت کے ساتھ ان تراجم میں اردو نظم گوئی کے تقاضوں کا خیال رکھا ہے۔ چنانچہ نظمیں پڑھ کر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ غیر زبان سے اردو میں منتقل کی گئی ہیں بلکہ چاروں سر تا سر طبعزاد معلوم ہوتی ہیں ۔ اس کیفیت کو نظم ’’گلاب‘‘ میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔تین بندوں پر مشتمل اس مختصر نظم میں گلاب کے پھول سے خطاب کیا گیا ہے کہ

اے گلِ خوش رنگ و خوشبو، میہمانِ فصلِ گل

زینتِ صحنِ چمن، سرتاجِ گل ہائے بہار

دایۂ فطرت نے بخشی ہے تجھے نشو و نما

دامنِ فطرت ہے میری زیست کا سرمایہ دار

ایک ہی دامن سے ہم دونوں کو ہے وابستگی

ایک ہی چشمہ سے ہم دونوں ہیں یکساں فیضیاب

ایک دن ہو جائیں گے یہ دونوں بربادِ فنا

تیری رنگیں ماجرائی اور مرا کافر شباب

البتّہ ایک ہی دامنِ فطرت سے وابستگی اور فیض یابی کے باوجود انسان اور گلاب کے پھول کی تقدیر میں نمایاں فرق ہے۔ ایک کی تقدیر میں فنائے دائمی ہے اور دوسرا حیاتِ تازہ کے لئے اگلی فصلِ گل کا منتظر ہے۔

ہاں مگر اس ربط میں بھی اک نمایاں فرق ہے

کیوں نہ میں حیرت زدہ ہوں دیکھ کر رنگِ جہاں

میں جواں ہوتا نہیں کھو کر جوانی ایک بار

فصلِ گل آتے ہی ہو جاتا ہے لیکن تو جواں !

….           (گلاب)

رازؔ ترجموں کے لئے بھی ایسی نظموں کا انتخاب کرتے ہیں جن میں مقصدیت ہوتی ہے۔ بے مصرف گفتگو جیسی انہیں روزمرہ زندگی میں پسند نہیں تھی ویسی ہی اپنی شاعری میں گوارا نہیں ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے جس کو خلیل الرحمٰن اعظمی نے ’’اپنے آپ سے سچ بولنے‘‘ اور ’’اپنی زندگی کی صداقتوں پر بھروسا کرنے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ رازؔ کی شاعری کی بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی اور اپنی شاعری کے کسی لمحہ میں اس صراطِ مستقیم سے اِدھر اُدھر نہیں ہوئے۔ ان کی نظم ‘‘ اِمروز’’ پڑھئے تو وہ نہ صرف یہ کہ ترجمہ نہیں معلوم ہوتی بلکہ اپنی سادہ بیان اور آسان زبان کے باوجود اپنا پیام نہایت موثر طریقہ سے قاری تک پہنچاتی ہے۔

 

موسم بہار کا ہے اور پھول بھی کھلے ہیں

آؤ چلو چمن کو، یہ وقت ہے غنیمت

کچھ پھول جمع کر لو، موقع ہے آج اس کا

اللہ جانے کل کی کیا ہو گی شکل و صورت

کس فکر میں ہو یارو! یہ وقت ہے غنیمت !

کالی گھٹا فلک پر چھائی ہوئی ہے ہر سُو

توبہ کا دَر بھی وا ہے اور بابِ میکدہ بھی

لبریز جام کر لو، قسمت ہے آج یاور

پیر مغاں بھی خوش ہے، رحمت بھی ہے خدا کی

چَھک جاؤ آج دیکھو، یہ وقت ہے غنیمت !

طاقت بھی ہے بدن میں ، تقدیر بھی جواں ہے

حاصل ہے تم کو سب کچھ، کس بات کی کمی ہے

کچھ کام آج کر لو، کل کی خبر ہے کس کو

کل آئے یا نہ آئے، ’’امروز‘‘ تو ابھی ہے

ضائع کرو نہ اس کو، یہ وقت ہے غنیمت !

(امروز)

……..

 

               رازؔ اور مشرقی تہذیب

 

دم بخود ہوں رنگِ عالم دیکھ کر           رازؔ اب یارائے گویائی نہیں !

رازؔ جہاں دنیا کی خود غرضی اور اہلِ دنیا کی خودپرستی اور کم سوادی سے عمر بھر دم بخود رہے، وہیں ان کی ذہنی تکلیف کا باعث مغربی تہذیب کے ہاتھوں مشرقی اقدار کی تاراج بھی تھی۔ وہ اس تاخت و تاراج سے مشرقی تہذیب کو اور خصوصاً مشرقی عورت کو متاثر بلکہ پامال دیکھ کر بہت کڑھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے زخم خوردہ ’’یارائے گویائی‘‘ کو اس صورتِ حال کے خلاف احتجاجی آواز اٹھانے میں استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا ہے۔

عبدالقادر سروری اپنی کتاب ’’جدید اردو شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’رازؔ کی شاعری کا ایک خاص پہلو مشرقی عورتوں کے متعلق احترام کے جذبات کی فراوانی ہے۔ ہندوستانی عورت اُن کی نظر میں نسائیت کا مکمل نمونہ اور معیار ہے ،جس کی مدح سرائی انہوں نے کئی نظموں میں کی ہے۔‘‘

یہ اجمال قدرے تفصیل چاہتا ہے:

رازؔ مشرقی تہذیب اور اقدار کے دلدادہ تھے۔ انہوں نے مشرقی ماحول میں تربیت حاصل کی تھی اور مغربی تعلیم و تہذیب کی یورش سے اُسے پامال و مجروح ہوتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ وہ مشرقی تہذیب و ثقافت کو مغربی سیلاب بلا خیز کی تاراج کا شکار ہوتے دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے تھے۔ چونکہ وہ ہر مشرقی قدر کو شرافت کا اعلیٰ معیار سمجھتے تھے ،چنانچہ وہ ایک طرف مغربی تہذیب کی مادّہ پرستی سے دل برداشتہ اور ناخوش بلکہ خوفزدہ تھے اور دوسری طرف وہ دوسروں سے امید رکھتے تھے کہ اس خطرہ کو پہچان کر اپنے تہذیبی سرمایہ کی نہ صرف قدر کریں بلکہ اس کی بقا کے لئے جدوجہد بھی کریں ۔

وہ مغربی تعلیم کے خلاف ہرگز نہیں تھے بلکہ اس کے فوائد سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ نہ صرف وہ خود انگریزی میں نہایت اچھی دسترس رکھتے تھے، بلکہ اپنی اولاد کو بھی گوناگوں مشکلات کے باوجود اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی۔ دراصل ان کی شکایت کا مرکز مغرب کی وہ آزادیِ خیال اور اقدار تھیں جو براہ راست اُن مشرقی روایات اور طرزِ زندگی سے متصادم تھیں جن پر عاشرہ، خصوصاً ہندوستان کے مُسلم معاشرہ کی بنیاد قائم تھی۔ بزرگوں کا احترام، شرم و حیا، باہمی خلوص و محبت، عصمت و عفّت اور ایسی ہی دوسری قدروں کو مادّہ پرستی، خود نمائی اور دولت و طاقت کے حصول کی دوڑ میں پامال دیکھ کر انہیں دلی رنج ہوتا تھا۔ چونکہ وہ عورت کو معاشرہ کی بنیاد جانتے تھے، مغربی تعلیم کے نتیجہ میں اس کے بے راہ روی، آزاد خیالی ور بے پردگی کو وہ مشرقی شرافت اور طرزِ معاشرت کے حق میں سمّ قاتل سمجھتے تھے۔ وہ عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہیں تھے، البتہ اس کا صحیح مقام ان کی نگاہ میں اس کا گھر تھا اور اس کا اوّلیں فرض اپنے خاندان کی دیکھ بھال، پرداخت اور تربیت۔ وہ عورت کو ’’جنّتِ ارضی کی حور‘‘ مانتے تھے اور چاہتے تھے کہ اس حیثیت سے وہ اپنے فرائض ذمہ داری کے ساتھ ادا کرے۔

چونکہ مغربی سیلِ بے پناہ کو روکنا ان کے بس میں نہیں تھا، انہوں نے ایک درد مند شاعر کی حیثیت سے اس خطرہ کے خلاف متعدد نظموں میں آواز اٹھائی ہے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے عورت کو خطاب کر کے مختلف حوالوں سے مغرب کی اندھی تقلید سے باز آنے کی تنبیہ و تلقین کی ہے۔ ان نظموں سے رازؔ کے ذہنی تضاد کا پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف وہ یہ چاہتے ہیں کہ مرد کی طرح عورت بھی مغربی تعلیم سے فیض یاب ہو اور دوسری طرف وہ اسے اِس تہذیب کے مضر نتائج سے آزاد دیکھنا بھی چاہتے ہیں ۔ ان کی نظمیں ’’جنت ارضی کی حور، رفیقۂ حیات، مشرقی خاتون سے، ہندی عورت سے، خاتونِ مسلم سے اور راز و نیاز‘‘ ان کے خیالات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں ۔ بغور مطالعہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان نظموں کی ترتیب میں رازؔ نے اپنے خیالات اور تلقین کا ایک خاص طریقِ اظہار ذہن میں رکھا ہے، جو اپنی ارتقائی شکل میں بہت دلچسپ ہے۔

اس سلسلہ کی پہلی کڑی ’’جنت ارضی کی حور‘‘ ہے۔ اس نظم میں رازؔ عورت کے اوصافِ حمیدہ کا اعتراف اور اس کی تعریف و تحسین کرتے ہیں اور اسے نوبہارِ زندگی اور سازِ نیازِ عاشقی جیسے القاب سے نوازتے ہیں :

وہ ساکنِ خلدِ بریں

غیرت دہِ ماہِ مبیں

آئینہ زارِ دہر میں

فطرت کا حسنِ دلنشیں

وہ پاک باطن، خوبرو

وہ شمعِ بزمِ رنگ و بو

رونق دہِ باغِ جہاں

اہلِ نظر کی آبرو

ہمدرد بھی، دمساز بھی

غم خوار بھی، ہمراز بھی

سازِ نیازِ عاشقی

نغمہ طرازِ ناز بھی

 

عورت ہے، عورت بے گماں !

رازؔ اس نظم کو بطور تمہید استعمال کرتے ہیں اور اس کی عملی شکل ’’رفیقۂ حیات‘‘ کی شکل میں پیش کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ایک مثالی رفیقۂ حیات ہی انسان کی زندگی میں خوشیوں اور کامرانیوں کی ضامن ہے کیونکہ اس سے ’’شیرازۂ نظمِ جہاں ‘‘منضبط ہے اور وہی خلوت و جلوت میں روشنی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ ’’رفیقۂ حیات‘‘ کے چند بند رازؔ کے خیالات کی تشریح و وضاحت کے لئے کافی ہیں :

 

اے رفیقِ زندگی، اے غم گسار و با وفا

باعثِ تسکینِ دل ہے، راحتِ پہلو ہے تو

ہمدم و دمساز ہے، ہمدرد ہے، ہمراز ہے

محفلِ امکاں میں تنہا شاہدِ دل جو ہے تو

ڈھونڈتی رہتی ہیں آنکھیں ہر طرف جلوہ ترا

اہلِ بینش کی نظر میں تو سراپا نور ہے

اسے نگارِ شعلہ رو، یہ نور افشانی تری

وادیِ ایمن ہے دُنیا، تو چراغِ طور ہے

ملکۂ نازک ادا، اے پیکرِ حلم و حیا

عالمِ امکاں میں تو ہے ناظمِ بزمِ حیات

تو نہ ہو تو ہے پراگندہ کتابِ زندگی

ہے تجھی سے منضبط شیرازۂ نظمِ حیات

….

اگلی تین نظمیں ایک ہی زنجیر میں بندھی ہوئی ہیں ۔ ’’مشرقی خاتون سے‘‘ راز اپنے خطاب میں عمومی تلقین کر تے ہیں کہ مغربی تعلیم حاصل کرنا تو اچھی بات ہے، مگر اس کے نتائج سے بچنے کے لئے خرد مندی کی ضرورت ہے۔ جو راہ گھر کی ذمہ دارانہ نگہداشت سے اسے ’’روکشِ جنت‘‘ بنا سکتی ہے، وہی اسے ’’مصر کے بازار میں جنسِ فراوانی‘‘ بھی بنا سکتی ہے۔مشرقی خاتون سے گفتگو کے بعد رازؔ کی ’’ہندی عورت سے‘‘ اور پھر ’’خاتونِ مسلم سے‘‘ مخاطب ہونا فطری بات ہے۔ ’’ہندی عورت سے‘‘ کا اندازِ تکلم عنوان کی مناسبت سے سادہ، نرم اور گھریلو ہے۔ لب و لہجہ کی وہ شدّت جو دو ایک جگہ مشرقی خاتون سے خطاب میں تھی، اس نظم میں ہندی عورت سے اپنے حسنِ نظر سے کام لینے کی اپیل میں بدل گئی ہے اور اندازِ بیان میں محبت اور اپنائیت کی مٹھاس ہے۔ رازؔ کی اگلی نظم ’’خاتونِ مسلم سے‘‘ ان کی اس بد دلی اور مایوسی کی غمّاز ہے جو خود ایک شریف اور مشرقیت میں سرتاپا ڈوبے ہوئے مسلمان کی حیثیت سے انہیں اس صورت حال سے ہوئی ہو گی جو خاتونِ مسلم مغرب کی بے جا تقلید میں اختیار کر رہی تھی۔ وہ اپنی تنبیہ اور تلقین کے نتائج کے بارے میں پُر امید نہیں ہیں ، نظم کا آخری شعر اس ناامیدی کا غمّاز ہے۔ مندرجہ بالا اجمال کی شعری تفصیل رازؔ کی ہی زبان سے ملاحظہ فرمائیے :

اے کہ تجھ پر منحصر جمعیّتِ بزمِ حیات

پیکرِ ہستی میں تو روحِ پریشانی نہ بن

مشرقی و مغربی تعلیم حاصل کر، مگر

بن کے علّامہ، وبالِ جہل و نادانی نہ بن

جامۂ تہذیبِ مشرق سے ہے تیری آبرو

مغربی تقلید میں تو ننگِ عریانی نہ بن

اے عروسِ شرق، مشرق ہے ترا خلوت کدہ

مغربی محفل میں تو شمعِ شبستانی نہ بن

یوسفستانِ محبت ہے بہت تیرے لئے

مصر کے بازار میں جنسِ فراوانی نہ بن

یاد رکھ پچھتائے گی، یہ بیخودی اچھی نہیں

ہوش میں آ، دیکھ میں کہتا ہوں دیوانی نہ بن

( مشرقی خاتون سے)

….

اے ہوش مند و باخبر

کیوں بن رہی ہے کم نظر

مصرِ محبت چھوڑ کر

تو جا رہی ہے اب کدھر

کنعاں کا یہ رستا نہیں

یوسف یہاں بستا نہیں

راہِ وفا کو چھوڑنا

اخلاص سے منہ موڑنا

اپنوں سے رشتہ توڑنا

غیروں سے ناتا جوڑنا

ہرگز تجھے زیبا نہیں

زیبا نہیں ، اچھا نہیں

لکھ پڑھ، مگر انسان بن

صدق و صفا کی کان بن

مہر و وفا کی شان بن

جسمِ حیا کی جان بن

تو کون ہے؟ کچھ غور کر

رُتبے پہ اپنے رکھ نظر

مغرب کا حسنِ خود نما

عبرت کا ہے اک آئنا

کیوں تیری چشمِ سُرمہ سا

لیتی نہیں درسِ حیا

حسنِ نظر سے کام لے

غافل نہ ہو انجام سے

(ہندی عورت سے)

….

وہ عورت ، جو کبھی تھی مظہرِ اوصافِ انسانی

وہ عورت ، منحصر تھا جس پہ نظمِ بزم امکانی

وہ عورت ، جس کا دل پروانۂ شمعِ محبت تھا

وہ عورت ، جس کے دم سے محفلِ الفت تھی نورانی

وہ عورت ، جو سراپا پیکرِ حلم و مروّت تھی

وہ عورت ، جس کی صورت سے عیاں تھی شانِ انسانی

کچھ ایسا مغربی تہذیب پر آیا ہے دل اس کا

کہ مشرق کے تمدّن سے ہوئی جاتی ہے بیگانی

نہ وہ اخلاق و عادت ہے ، نہ وہ شانِ محبت ہے

نہ وہ حسنِ تبسّم ہے ، نہ وہ طرزِ گل افشانی

حریمِ ناز میں رہنا ، دلوں پر حکمراں ہونا

پسند آتا نہیں اس کو کہ ہے حُبطِ سلیمانی

سن اے خاتونِ مسلم سن! کہ میں تجھ سے ہی کہتا ہوں

کہاں تو اور کہاں یہ شورشِ پیدا و پنہانی

غنیمت ہے کہ اب بھی تو سمجھ لے اس حقیقت کو

’’چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی‘‘

(خاتونِ مسلم سے)

….

اس سلسلہ کی آخری نظم ’’راز و نیاز‘‘ ہے جو دراصل پانچ مختصر نظموں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہر نظم رازؔؔ اور ان کی ’’شریکِ زندگی‘‘ کے درمیان مکالمہ کی صورت میں ہے۔ پوری نظم نہایت دلچسپ ہے اور قاری کی حیرت کا باعث بھی۔ اس نظم میں رازؔؔ نے دنیا، اہلِ دنیا، عورت اور اس کے معاشرہ میں مقام پر اپنے خیالات کا تفصیلی اظہار کیا ہے۔ اس میں تو کوئی حیرت کا مقام نہیں ہے، مگر انہوں نے جس شوخ اندازِ بیان اور تیکھی زبان کا استعمال کیا ہے اس کی توقع رازؔ ایسے محتاط اور سنجیدہ شاعر سے مشکل ہی سے کی جا سکتی ہے۔ وہ تو غزل کے روایتی عشق کا افسانہ بھی روایتی زبان میں سنانے سے گریز کرتے ہیں چہ جائیکہ وہ اتنی آزادی سے اور ایسی زبان میں اظہارِ خیال کریں ۔

اس پر مستزاد یہ کہ اپنے موقف کو بیان کرنے کے لئے جو ظرف (’’رفیقِ زندگی‘‘ سے بے تکلف مکالمہ) اختیار کیا ہے وہ بھی ان کے عام اندازِ فکر سے جداگانہ اور اچھوتا ہے۔ مکالمہ کے دوران انہوں نے ’’رفیقِ زندگی‘‘ کو تُرکی بہ تُرکی جواب دینے کی اجازت دی ہے، بلکہ اس سے وہ مخصوص زبان اور اندازِ گفتگو استعمال کرائے ہیں جو شمالی ہندوستان کے شریف مسلم گھرانوں میں ’’اندرونِ خانہ‘‘ مستعمل ہیں ۔ ادائیگیِ خیال کے لئے ’’رفیقِ زندگی‘‘ کا کردار استعمال کرنا رازؔ کے لئے ایک فطری امر ہے۔ جس تہذیب کی گود میں ان کی پرورش و تربیت ہوئی تھی وہ انہیں کسی ’’غیر‘‘ خاتون سے ایسا مکالمہ کرنے کی کیسے اجازت دے سکتی تھی۔ نظم کے مطالعہ کے وقت یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ یہ مکالمہ گھر کی چہار دیواری میں ہو رہا ہے اور چونکہ اس کی حیثیت ایک ’’ذاتی معاملہ‘‘ کی سی ہے، چنانچہ دونوں جانب سے بے تکلف زبان اور تیکھا لب و لہجہ قابلِ گرفت نہیں ہو سکتا، بلکہ یہی باتیں نظم کی دلپذیری کا باعث ہیں ۔

’’راز و نیاز‘‘ جن پانچ نظموں پر مشتمل ہے، ان کا نفسِ مضمون اس کے عنوانات سے ظاہر ہے۔’‘(1) تمہید، (2) تقریر، (3) مناظرہ، (4) شکر رنجی اور (5) ملاپ‘‘۔ اس نظم کا پورا لطف اسے پڑھنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ذیل میں ان نظموں کے چیدہ چیدہ اشعار کے ذریعہ ‘‘راز و نیاز’’  کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے۔

….

 

تمہید

 

جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، رازؔ اس حصہ میں آگے آنے والی تقریر کی تمہید باندھتے ہیں اور ’’رفیقِ زندگی‘‘ سے محفلِ حسن و محبت کی اُس ’’شمعِ سوز آگیں ‘‘ کی ضیا باری سے محرومی کا گلہ کرتے ہیں جو تقلیدِ مغرب میں ’’رونقِ بازارِ الفت‘‘ ہو کر رہ گئی ہے:

الٰہی خیر! یہ کیا ماجرا ہے

دگرگوں رنگِ محفل ہو گیا ہے

وہ شمعِ سوز آگیں ، مہر پرور

ضیا بارِ حقیقت تھی جو یکسر

ہوئی ہے اس کو اب خلوت سے نفرت

بنی ہے رونقِ بازارِ الفت

وفاداری بہ رنگِ مغربی ہے

صفا کیشی کی شاہد خودسری ہے

نظامِ زندگی برہم ہوا ہے

سکونِ دل کا اب حافظ خدا ہے

….

’’رفیقِ زندگی ‘’ان کی شکایت کا روئے سخن اپنی جانب جان کے چیں بجبیں ہوتی ہے تو رازؔ اس کا شبہ دور کرنے کی کوششِ ناکام کرتے ہیں :

رفیقِ زندگی! کیوں سرگراں ہے

ترا قصّہ نہیں ، یہ داستاں ہے

فسانہ ہے یہ اربابِ جہاں کا

تجھے دھوکا ہے سرّ دلبراں کا

….

مگر اب بات بگڑ چکی ہے اور بالآخر ’’تقریر‘‘ کے آخر میں ’’رفیقِ زندگی‘‘ سے چُپ نہیں رہا جاتا ہے اور وہ دنیا اور اہلِ دنیا کی شکایت کے پردہ میں صنفِ نازک پر حملہ کا جواب دیتی ہے:

 

تقریر

 

رفیقِ زندگی! اللہ اکبر

قیامت خیز ہے دنیا کا منظر

کوئی خود بیں ہے ، کوئی خود نما ہے

برائے نام کچھ ذکرِ خدا ہے

کہاں باقی ہے اب وہ صدقِ الفت

ریاکاری پہ قائم ہے محبت

مثالاً آج کل عورت کی حالت

نہیں کیا موجبِ افسوس و حیرت؟

وہ عورت، وہ شریکِ زندگانی

مجسّم پیکرِ حسنِ معانی

وہ عورت اب وبالِ جاں ہوئی ہے

سراسر رہزنِ ایماں ہوئی ہے

کرشمہ ہے ہوائے مغربی کا

خدا حافظ ہے شمعِ مشرقی کا

زباں کو روکئے اپنی خدارا

انہیں باتوں سے دل ہے پارہ پارا

خدا سمجھے، یہ کوئی شاعری ہے

حلاوت کے عوض تلخی بھری ہے

پڑیں پتّھر اس اندازِ بیاں پر

یہ حملے اور پھر اک بے زباں پر !

….

اس نوک جھونک کا انجام سوائے مناظرہ کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ رازؔ اپنی ’’رفیقِ زندگی‘‘ کے جواب میں ایک لمبی تقریر میں مشرقی عورت کی ناروا آزادی اور بے راہ روی کا نقشہ کھینچتے ہیں اور اپنی شریکِ حیات سے ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں ۔ اس کے بدلہ میں انہیں ’’رفیقِ زندگی ‘ کے بڑھتے ہوئے غصّہ کا سامنا کرنا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ باہمی شکر رنجی کی شکل میں نظر آتا ہے:

 

مناظرہ

 

رفیقِ زندگی، یہ بات کیا ہے

کہ نقشہ دہر کا بگڑا ہوا ہے

عجب اک عالمِ بیم و رجا ہے

خدا کے فضل کا بس آسرا ہے

نہ گھر میں چین ملتا ہے نہ باہر

ٹھکانہ ہی نہیں گویا کہیں پر

اسی کا نام شاید ہے ترقی

کہ خانم کو نہیں کچھ فکر گھر کی

یقینا ًاس کا حق ہے سیرِ گلشن

اگر جلتا ہے جل جائے نشیمن

اُسے پروائے ننگ و نام کیا ہے

اسے عہدِ وفا سے کام کیا ہے

….

جواباً انہیں یہ سننے کو ملتا ہے:

بہت اچھا، میں اتنی کم نظر ہوں

بہت بہتر، میں ایسی بے ہنر ہوں

بڑی کم ظرف ہوں میں ، خود نما ہوں

بہت کج خلق ہوں میں ، بیوفا ہوں

مجسّم عیب، سرتاپا خطا ہوں

خودی و خودسری کا آئنا ہوں

مگر تم، اے مرے سرتاج، تم بھی

کبھی کرتے ہو دلداری کسی کی؟

….

بات بگڑتی دیکھ کر رازؔ چرب زبانی سے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ’’رفیقِ زندگی‘‘ کی تعریف کے پُل باندھ دیتے ہیں ۔ ’’رفیقِ زندگی‘‘ اس تعریف کے پردہ میں پوشیدہ الزامات اور شکوہ سے بے خبر نہیں ہے۔ دونوں کی نوک جھونک بہت دلچسپ ہے۔ قاری کو دونوں کے لب و لہجہ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ شکر رنجی مصنوعی سی ہے اور بالآخر ملاپ کی شکل اختیار کر لے گی:

 

شکر رنجی

 

رفیقِ زندگی! سرمایۂ جاں !

انیسِ خاطرِ رازؔ پریشاں

میں قائل ہوں تری فہمِ رسا کا

تری فہمِ رسا، عقدہ کشا کا

جہاں میں تو ہی میری راز داں ہے

مرا ہر رازِ دل تجھ پر عیاں ہے

سراپا سوز ہوں یا ساز یکسر

مجسّم آئنہ یا راز یکسر

الٰہی خیر! آخر راز کیا ہے

جفا ہے، کیا کوئی طرزِ وفا ہے؟

بتاؤ تو سہی کچھ، بات کیا ہے

مری تعریف کا دفتر کھلا ہے

یقیناً کچھ نہ کچھ ہے راز اس میں

شمار اب تک کیا ہے مجھ کو کس میں ؟

معمّا ہے، پہیلی ہے، یہ کیا ہے

ہوئی سرزد کوئی مجھ سے خطا ہے؟

نہیں ایسا نہیں ، ہرگز نہیں ہے

مرا دل آج کچھ اندوہگیں ہے

عجب بے رنگ سا ہے رنگِ محفل

سمجھنا ہو گیا ہے اس کا مشکل

خودی ہے یا مجسّم حق پرستی؟

معمّا سی ہے کچھ عورت کی ہستی

کبھی تصویر ہے جور و جفا کی

کبھی تفسیر ہے قہرِ خدا کی

کبھی خاموش، مثلِ بے زباں ہے

کبھی ہنگامہ آرائے جہاں ہے

میں اب سمجھی،میں اب سمجھی حقیقت

مری کمزوریوں پر تو نظر ہے

جزاک اللہ، یہ لطف و عنایت!

مگر اپنی بھی کچھ تم کو خبر ہے؟

بصیرت ہو تو کھل جائے حقیقت

معمّا مرد ہوتا ہے کہ عورت !

….

اس منزل پر پہنچ کر رازؔ خود کو مجبور پاتے ہیں اور معاملہ کو رفع دفع کرنا چاہتے ہیں ۔ دنیا کی بے راہ روی اور عورت کی آزاد خیالی اتنے اہم مسائل نہیں ہیں کہ ان پر جھگڑا کر کے گھر کا سکون برباد کیا جائے۔ ملاپ میں اس قصّہ کا انجام جس طرح ہوتا ہے وہ پڑھنے والے کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس کے لبوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ بھی لاتا ہے :

 

ملاپ

 

رفیقِ زندگی! دلگیر کیوں ہے

سراپا سوز کی تصویر کیوں ہے

غضب آلود چشمِ سرمگیں ہے

شرر افشاں ہر اک چینِ جبیں ہے

پریشاں گیسوئے عنبر فشاں ہے

لبِ گل رنگ پر دودِ فغاں ہے

ذرا سی بات پر یہ برہمی ہے

مگر اس برہمی میں دلکشی ہے

میں قرباں ! یہ ادائے بے نیازی

میں صدقے! یہ طریقِ دل نوازی

چلو جاؤ، ہٹو، مجھ سے غرض کیا

معمّا ہوں معمّا میں سراپا

مری فطرت مرے رُخ سے عیاں ہے

مری طینت حریفِ آسماں ہے

ستم گاری سے ہے مجھ کو محبت

ریاکاری ہے گویا میری فطرت

ڈرو مجھ سے، مری برقِ نظر سے

مری چشمِ غضب، جادو اثر سے

میں واقف ہوں کسی کے رازِ دل سے

نگاہِ شوق و سوز و سازِ دل سے

نہ مانو گے، نہ مانو گے مگر تم!

بتاؤں کس قدر ہو خوش نظر تم

دکھاؤں میں اگر شانِ جلالی

مٹا دوں سب کسی کی خوش جمالی

کھلا سکتی ہوں گل ہائے معانی

دکھا سکتی ہوں حسنِ خوش بیانی

مری فطرت میں وہ سوزِ نہاں ہے

کہ جس کے ساز پر رقصاں جہاں ہے

بڑے آئے کہیں کے ناز بردار

پڑے اس ناز برداری پہ پھٹکار

ستانے سے مجھے حاصل ہوا کیا؟

جلانے سے مجھے حاصل ہوا کیا؟

ادا کیا، ناز کیا، انداز کیا ہے

یہ عشوہ اور غمزہ کیا بلا ہے؟

مجسّم شعر ہوں ، نغمہ ہوں ، لَے ہوں

کوئی سازِ طرب ہوں میں کہ نَے ہوں

تمہیں حاصل اگر حسنِ بیاں ہے

تو میرے منہ میں بھی گویا زباں ہے

بس اب خاموش ہو جاؤ خدارا

کہیں پھر ہو نہ کوئی بات پیدا

راز کے ’’رموز و نکات‘‘ :

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رازؔ ایک مضمون کے مختلف عناصر جستہ جستہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بیان میں نفس مضمون کے تسلسل اور فکری ارتقا کی جانب خاص توجہ رکھتے ہیں ۔ مشرقی عورت سے متعلقہ نظموں کی ترتیب کے سلسلہ میں پچھلے صفحات میں اس کا اجمالی ذکر ہو چکا ہے۔ یہی طریقِ فکر رازؔ کی ان نظموں میں بھی نمایاں ہے جن میں انہوں نے دنیا اور اس کی کم سوادی کا شکوہ کیا ہے۔ ’’(1) نکتۂ لطیف، (2) نیرنگِ جہاں ، (3) ترکِ تکلف، (4) ترکِ تعلق اور (5) ترکِ دنیا‘‘ اس زنجیر کی پانچ کڑیاں معلوم ہوتی ہیں ، جو اسی ترتیب سے ’’ مصحفِ رازؔ‘‘ میں پیش کی گئی ہیں ۔

ان نظموں میں رازؔ کی قنوطیت پسندی بہت نمایاں ہے۔ اس سے قبل اُن کی خاموشیِ طبع، سنجیدہ مزاجی، راہِ عام سے گریز اور عُزلت گزینی کا ذکر ہو چکا ہے اور ان ذاتی حالات کی جانب بھی اشارہ کیا جا چکا ہے جنہوں نے رازؔ کو عمر بھر چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ ان کی قنوطیت نے انہیں دنیا اور اہلِ دنیا سے جس طرح مایوس کر دیا، اس کے بعد کسی  ہم نفس کا نہ ملنا باعثِ حیرت نہیں ہے۔ انہیں چاروں طرف ہوس و خود غرضی، دنیا داری اور زمانہ سازی دکھائی دیتے ہیں اور ان کی سادہ اور حق پرست طبیعت ان سے دو چار ہونا تو درکنار، کسی طرح کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ہے۔

مندرجہ بالا نظموں سے پہلے وہ کلیدِ کامرانی میں خود کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا سے الگ تھلگ رہ کر گزر مشکل ہے، مگر اس خیال کو عملی جامہ پہنانا ان کے لئے ناممکن ثابت ہوتا ہے اور وہ ترکِ دنیا کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ ’’کلیدِ کامرانی‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:

بجا ہے جو تجھے شکوہ ہے کس مپرسی کا

یہ سچ ہے کوئی یہاں پر نہیں ترا دمساز

بپا ہے شورِ قیامت زمانے میں ہر سو

سُنے تو کوئی سُنے کس طرح تری آواز

بلند ہے تری تخئیل، فکر عالی ہے

ترے خیالِ رسا کی ہے عرش تک پرواز

حریفِ تابِ تکلّم ہے تیری خاموشی

نوا فروش ہے باطن میں تیرے دل کا ساز

مگر زمانہ میں اہلِ نظر ہیں کم ایسے

جو تاڑ لیں تری صورت سے تیرے دل کا راز

جو اہلِ دل ہیں وہ خود درد مند رہتے ہیں

بنے تو کوئی بنے کس طرح ترا دمساز

نکل تو گوشۂ خلوت سے، مصلحت یہ ہے

شریکِ بزمِ سخن ہو کے ہو نوا پرداز

کسی کو اپنا بنا لے، کسی کا تو ہو جا

کسی پہ ناز ہو تجھ کو، کسی کو تجھ پر ناز

یہی کلید ہے بس ایک کامرانی کی

’’زمانہ با تو نہ سازد، تو با زمانہ بساز‘‘

وہ کہنے کو تو یہ کہہ گئے کہ کامرانی کا راز ’’زمانہ با تو نہ سازد، تو با زمانہ بساز‘‘، مگر خود وہ عمر بھر اس پر عمل نہیں کر سکے۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے تھے۔ انہیں اس باب میں اپنی کوتاہی کا خوب علم تھا:

ایک عالم میں ہو گیا رُسوا  اپنی فطرت کی بے ریائی سے

اور وہ دنیا سے برگشتہ خاطر ہو کر یہ کہتے تھے کہ

اہلِ جہاں سے کوئی تعلق نہیں مجھے

وہ ہیں خدا فروش تو میں ما سِوا فروش!

پھر بھلا وہ زمانہ سازی کیسے کر سکتے تھے۔ لہٰذا فکری طور پر ان کی زندگی ’’زمانہ با تو نہ سازد، تو با زمانہ ستیز‘‘ سے زیادہ ہم آہنگ و قریب رہی اور عملی طور پر اس نبرد آزمائی میں انہوں نے خاموشی اور گوشہ نشینی کو آلۂ کار بنا یا۔

اختصار کے پیشِ نظر نظموں میں اپنے خیالات و معتقدات کے تدریجی اور ارتقائی اظہار کی کوشش کی تقلید اور تائید میں رازؔ کی ان پانچ نظموں کے چیدہ چیدہ اشعار پیش کیے جاتے ہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ نکتۂ لطیف سے ترکِ دنیا تک، رازؔ کی فکر و بیان کا سفر دلچسپ بھی ہے اور معنی خیز بھی

وقفِ خزاں ہے حسنِ گلستانِ آرزو

قلبِ امید، جورِ فلک سے ہے داغدار

ناواقفِ رموزِ محبت ہیں ہم نشیں

بیگانۂ اصولِ مروّت ہیں غم گسار

زاہد فریب کار ہے، واعظ ہے خود نما

نا گفتنی ہے صوفیِ صافی کا حالِ زار

مطرب ہے مستِ بادۂ نغماتِ خودسری

شاعر ہے کم نگاہ و خود آرا و خام کار

بس، اے فریب خوردۂ دنیائے رنگ و بو

تا چند یہ حکایتِ غم ہائے روزگار

لاریب، کم نظر ہے زمانہ، ضرور ہے

بیشک فریب کار ہے دنیا، فریب کار

عمرِ دو روزہ در غمِ عالم مکُن خراب

خاموش باش و حسنِ عمل را نگاہ دار

….            (نکتۂ لطیف)

مکدّر مطلعِ بزمِ جہاں ہے

مرے ساقی، مئے صافی کہاں ہے؟

فضائے میکدہ ہے ابر آلود

تپش آموز دل ، برقِ تپاں ہے

تحیّر خیز ہے رنگِ زمانہ

عجب نیرنگیِ دَورِ زماں ہے

فریب آگیں ہے دعوائے محبت

وفا دشمن حریفِ خوش بیاں ہے

ریاکاری ہے اصلِ پاکبازی

خلوص اک پردۂ جورِ نہاں ہے

خموش اے رازؔ جویائے حقیقت

خدا کا نام لے کیوں سرگراں ہے

….           (نیرنگِ جہاں )

راز آخر تا بکے سرگشتۂ زہد و ورع؟

پارہ پارہ اب لباسِ پارسائی کیجئے

دے چکے برسوں زمانے کو فریبِ ناروا

اب ضرورت ہے حقیقت تک رسائی کیجئے

کر چکے بس کر چکے سجدے نمائش کے لئے

اب کسی گوشہ میں چھپ کر جبّہ سائی کیجئے

دیجئے گویا زباں کو اب خموشی کا سبق

بے زبانی کو حریفِ خوش نوائی کیجئے

چھوڑیے اب یہ تکلف، بے ریا ہو جائیے

الغرض، نذرِ حقیقت خود نمائی کیجئے

….           (ترکِ تکلف)

نہ پوچھ مجھ سے فسانہ غم محبت کا

کہ یہ فسانہ کسی کو سنا نہیں سکتا

نہ چھیڑ مجھ کو مرے ہمدم و رفیق، نہ چھیڑ

کسی کو رازِ محبت بتا نہیں سکتا

نہ پوچھ مجھ سے سبب میری کم نگاہی کا

حریمِ راز کا پردہ اٹھا نہیں سکتا

مری نگاہ میں اب جلوۂ حقیقت ہے

فریبِ حسنِ محبت میں کھا نہیں سکتا

سلام اہلِ وفا کو ، سلام دنیا کو

کہ اب کسی کو میں اپنا بنا نہیں سکتا

….           (ترکِ تعلق)

راز آخر تا بکے سرگشتۂ دنیائے دوں ؟

چھوڑ یہ ہنگامہ زارِ دہر، ہو خلوت گزیں

تا بکے شکوہ گزارِ انقلابِ روزگار

تا کجا منّت پذیرِ آرزوئے دل نشیں

کامیابِ آرزو ہونا بہت دشوار ہے

کامیابِ آرزو کوئی بھی ہو سکتا نہیں

دل کو دے درسِ قناعت، ہو توکّل آشنا

لے خوشی سے جو ملے، وہ زہر ہو یا انگبیں

چند روزہ ہے یہ دنیا اور اس کا رنج و غم

فکر کر انجام کی، فکرو ں سے کچھ حاصل نہیں

(ترکِ دنیا)

….

راز کی اس یاسیت کی جانب عبدالقادر سروری (٭) نے یوں اشارہ کیا ہے:

’’راز کی شاعری اردو شاعری کی روایتی قنوطیت کی طرف زیادہ مائل ہے۔ اصغر گونڈوی کے بعد سے اکثر شاعروں نے شعر سے رنج و ملال کے اثرات کو گھٹانے کی کوشش شروع کی تھی۔ لیکن یاس و حرماں اُردو شاعری کے خمیر میں اس قدر جاگزیں ہو گئے ہیں کہ وقتاً فوقتاً نمایاں ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ راز کی قنوطیت زیادہ تر ان کے ذاتی حالات کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے، لیکن اس زمانہ کی بے مہریوں کا بھی دخل ہے۔‘‘

راز اپنی ایک رباعی میں اس موقف کی تائید کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں :

دنیائے دنی سے ہے محبت تجھ کو

افکار سے کس طرح ہو فرصت تجھ کو

بیکار ہے جستجوئے راحت اے رازؔ

دوزخ میں کہاں ملے گی جنّت تجھ کو

….

 

                چند تجرباتِ منظوم

 

نظم ہو یا غزل، غنائی بحروں کا استعمال ان کی دلکشی کو دوچند کر دیتا ہے۔ غنائی بحروں سے مراد وہ بحریں ہیں جو اپنی ہیئت میں موسیقیت رکھتی ہیں اور بلند آواز میں پڑھنے سے جن کا اتار چڑھاؤ کانوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے۔ ایسی بحریں عموماً قدرے طویل ہوتی ہیں ۔ رازؔ نے اپنی بہت سی نظموں میں ایسی بحریں استعمال کی ہیں ۔ چونکہ ان کا کلام  یوں بھی معنویت سے بھرا ہوا ہے اور اس میں لفظی بازی گری کا فقدان ہے، چنانچہ غنائی بحروں میں کہی گئی نظمیں پڑھئے تو انہیں گنگنانے کو بے اختیار دل چاہتا ہے اور ان کی اثر پذیری بڑھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

پچھلے صفحوں میں رازؔ کی دو نظموں ’’الحمد للّٰہ‘‘ اور ’’اعترافِ محبت‘‘ کا تفصیلی ذکر ہو چکا ہے۔ دونوں کی بحر غنائیت سے بھرپور ہے۔ ’’کسی کی یاد میں ‘‘، ’’انتظار‘‘ اور ’’تدبیرِ منزل‘‘ بھی موسیقیت سے مملو ہیں ۔ ان تینوں نظموں میں رازؔ نے ٹیپ کے مصرع کی تکرار سے ان کا سماں باندھا ہے۔ عنوان و مضمون کی مناسبت سے رازؔ نے انتخابِ الفاظ، طرزِ بیان اور ٹیپ کے مصرع کی بندش و مطابقت میں اپنی قادرالکلامی کے جوہر دکھائے ہیں ۔ اگر ’’کسی کی یاد میں ‘‘ امید و تمنّا کی سرخوشی کا تاثر پیدا کرتی ہے تو ’’انتظار‘‘ حسرت ویاس کی آئینہ دار ہے اور’‘ تدبیرِ منزل‘‘ دعوتِ استقلال دیتی ہے۔تینوں نظموں کے چند بند اس موقف کی تائید میں پیش کیے جاتے ہیں :

شفق کی سرخی فلک پہ دوڑی، نمودِ شب کی نوید لائی

کھُلا وہ جوڑا عروسِ شب کا، وہ زُلف اس کی جہاں پہ چھائی

وہ تارے چمکے، وہ چاند نکلا، یہ حسنِ فطرت کی دلربائی

مگر ابھی تک تری تجلّی کہیں بھی مجھ کو نظر نہ آئی

کہاں ہے آ جا، جھلک دکھا جا، مرے ستارے ، مرے ستارے!

یہ رات کا وقت، ہو کا عالم، یہ قلبِ روشن کی تیرہ حالی

نظر ہے حیراں ، اُداس دنیا، تری ضیا سے فضا ہے خالی

یہ قلبِ مضطر کی بیقراری، یہ آرزوؤں کی پائمالی

تو اپنے جلووں کو عام کر دے، دکھا دے اب شانِ خوش جمالی

کہاں ہے آ جا، جھلک دکھا جا، مرے ستارے ، مرے ستارے!

….          (کسی کی یاد میں )

 

روشن تھا ماہِ کامل، روشن تھا ہر ستارا

فرشِ زمیں پہ یکسر تھا فرش چاندنی کا

برپا تھی بزمِ عشرت، سامانِ عیش بھی تھا

میری نظر کو لیکن تھا انتظار تیرا

میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا، افسوس تو نہ آیا

کنجوں میں سو رہے تھے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے

ساکت تھا پتّہ پتّہ، خاموش سب تھے غنچے

مصروفِ خوابِ نوشیں مرغانِ خوشنوا تھے

ہاں ، اک چکور تنہا فریاد کر رہا تھا

میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا، افسوس تو نہ آیا

….              (انتظار)

تجھے کیا فکر ہے اے دل! تجھے کس بات کا کھٹکا

خدا کا نام لے، اٹھ اور سرگرم سفر ہو جا

اگر دشوار ہے منزل تو ہونے دے، نہ تو گھبرا

نہیں زادِ سفر ممکن ،نہ ہو، اس کی نہ کر پروا

خدا خود میرِ ساماں است اربابِ توکّل را

تذبذب کا بکے، اب شانِ استقلال پیدا کر

تلاشِ رہبرِ منزل ہے کیا،خود اپنا بن رہبر

بھرسہ رکھ خدا پر اور اپنے دست و بازو پر

تجھے کیا غم، اگر کوئی نہیں ہے ہم سفر تیرا

خدا خود میرِ ساماں است اربابِ توکّل را

….            (تدبیرِ منزل)

اُردو نظم اپنی ہیئت میں غزل کی طرح مخصوص مقتضیات کی پابند نہیں ہے جبکہ غزل ردیف، قوافی، وزن، بحر، مطلع اور مقطع کی متعدد پابندیوں میں محصور ہے۔ روایتی نظم صرف ردیف اور قوافی کی پابند ہوتی ہے۔ نہ صرف وہ مطلع اور مقطع کی بندش سے آزاد ہے، بلکہ بحر کے التزام میں بھی آزادی اور اجتہاد ممکن ہے۔ علاوہ ازیں نظم صرف ایک ہی مضمون یا خیال پیش کرتی ہے جبکہ غزل کا ہر شعر ایک مختلف جذبہ، احساس یا خیال بیان کرتا ہے۔ چونکہ رازؔ کو ’’جدید نظم‘‘ یا ’’نثری نظم‘‘ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس لئے ان کا ذکر یہاں تحصیلِ لا حاصل ہے۔ روایتی اُردو نظم کی مذکورہ بالا خصوصیات شاعر کو ہیئت کے تجربوں کی دعوت دیتی ہے۔ رازؔ نے اپنی نظم گوئی میں اس دعوت کا فائدہ اٹھایا ہے اور کئی نظموں میں ہیئت کے نئے تجربوں سے ان کے زیر و بم، دلکشی، اثر پذیری اور معنویت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش کم و بیش ہر جگہ خوشگوار ہے اور کہیں بھی مصنوعی نہیں معلوم ہوتی۔راز کے درج بالا تجربوں کو چند مثالوں سے مختصراً واضح کیا جا سکتا ہے:

باغِ آرزو : اس نظم میں باغِ آرزو کی مرقع کشی رازؔ نے اپنے مخصوص انداز میں کی ہے۔ نپے تلے مصرعے، سادہ زبان اور لطیف ترکیبوں سے مرصّع یہ نظم ان وارفتگانِ آرزو کے انہماک پر اظہارِ افسوس کرتی ہے جو گردشِ ایام اور اس کے نتائج سے بیگانہ بیٹھے ہوئے ہیں :

اک گلشنِ راحت فزا

اک لالہ زارِ رنگ و بو

اک باغ، باغِ دلکشا

گہوارۂ جوشِ نمو

دنیائے عبرت خیز میں پیشِ نظر ہے چار سو

بادہ کشانِ آرزو

حلقہ بگوشِ بیخودی

وارفتگانِ آرزو

منّت پذیرِ سرخوشی

ساغر بلب، راحت بجاں ، ممنونِ لطفِ زندگی

بیٹھے ہوئے ہیں بے خبر

پروائے ننگ و نام سے

واقف نہیں مطلق مگر

وہ گردشِ ایام سے

صد حیف کوئی دہر میں غافل ہو یوں انجام سے

ہر بند کا پہلا مصرع تیسرے کا اور دوسرا مصرع چوتھے کا ہم قافیہ ہے اور پانچواں (ٹیپ کا) مصرع چوتھے کا ہم قافیہ ہے، مگر وزن میں وہ سابقہ دو مصرعوں کے برابر ہے۔ اس ہیئت سے نظم کا زیر و بم بہت دلکش ہو گیا ہے۔

….

مصوّر : یہ نظم پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند آٹھ مصرعوں سے تشکیل دیا گیا ہے، مگر ان مصرعوں کی ترتیب سے بند کی ہیئت بدل گئی ہے۔ یہ تنوع نظم کو حسنِ صورت بخشتا ہے اور نظم کی چھوٹی بحر سے جو تشنگی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے، اس کی جانب قاری کی توجہ جمنے نہیں دیتا۔ نظم کا پہلا اور آخری بند نمونہ کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں :

 

نقاشِ حسنِ فطرت

صورت کشِ حقیقت

عکاسِ بزمِ فطرت

بیٹھا ہوا ہے تنہا

بے فکر و مطمئن سا

خاموش اس طرح ہے

تصویر ہے وہ گویا

دنیائے رنگ و بو کی

اب یاد آ رہا ہے

دل کو جلا رہا ہے

اُس کو ستا رہا ہے

گزرا ہوا زمانہ

بھولا ہوا فسانہ

لب پر ہے اس کے گویا

دل دوز یہ ترانہ

افسوس اے جوانی !

۔۔۔۔

٭  جدید اردو شاعری: کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور –1942ء

 

 

باب 5

رباعیاتِ رازؔ

 

دلداریِ دوست کا فسانہ کہئے

یا قصّۂ شوخیِ زمانہ کہئے

جو کچھ کہئے اس انجمن میں اے رازؔ

با طرزِ لطیف و شاعرانہ کہئے

 

راز کی یہ رباعی محض شاعرانہ خیال آرائی نہیں ہے۔ اُن کی غزلیہ اور منظوم شاعری کا تجزیہ شاہد ہے کہ یہ رباعی ان کے مسلکِ شاعری کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان کی رباعی گوئی بھی انہیں نقوش پر گامزن ہے۔ رازؔ اپنی رباعیات میں بھی اسی میانہ روی اور اعتدالِ فکر و بیان کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ان کا طرّۂ امتیاز ہے۔

’’ مصحفِ رازؔ‘‘ میں رباعیوں کی تعداد ایک سو پینتالیس (145) ہے۔ رازؔ نے اپنی شعر گوئی کو غزلوں ، نظموں اور رباعیوں تک محدود رکھا ہے اور کسی اور صنفِ سخن میں طبع آزمائی نہیں کی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ شاعری اُن کے لئے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا ایک فطری ذریعہ تھی اور کسی سطح پر داد خواہی انہیں مقصود نہیں تھی۔ ان کے اس جذبہ کی آسودگی کے لئے مثنوی یا کسی اور صنفِ سخن کی انہیں ضرورت محسوس نہیں ہوئی

شعر کہتا ہوں کہ ہوں مجبور ذوقِ طبع سے

راز کچھ خواہش نہیں مجھ کو نمود و نام کی

رباعی ایک مشکل صنفِ سخن ہے۔ شاید اسی لئے بیشتر شعراء نے اس کی جانب کم ہی توجہ دی ہے۔ چار مصرعوں میں بات کو مکمل اور موثر طور پر ادا کرنا زبان و بیان پر مکمل قدرت چاہتا ہے۔ سیّد امداد امام اثر رُباعی کے بارے میں رقمطراز ہیں :

’’رُباعی وہ صنفِ شاعری ہے جس کے لئے حکیمانہ مضامین کی حاجت ہے۔ شاعر کو لازم ہے کہ مسائلِ اخلاق و تمدّن و معاشرت و مذہب و دیگر مضامینِ جلیلہ سے اپنے کلام کو زینت دے۔ اگر پست خیالی کی طرف اس کے کلام کا میلان ہو گا تو اس کی رباعی نگاری با مراد تاثیر پیدا نہ کر سکے گی۔ چونکہ یہ صنفِ شاعری عروضی ترکیب کی رو سے بہت محدود صورت رکھتی ہے، شاعر کو لازم ہے کہ منقح مسائل کو اس طرح موزوں کرے کہ تھوڑے لفظوں سے بہت معنی پیدا ہوں اور چوتھا مصرع بہت پُر مضمون اور پُر زور اور ایسا ہو کہ گویا ہر مصرعہ ہائے سابق کا خلاصہ یا نتیجہ ہو۔ اہلِ واقفیت سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس صنفِ شاعری کے لئے زیادہ تر داخلی مضامین کی حاجت ہے۔ مسائلِ اخلاق و تمدّن و معاش و معاد کے علاوہ عشقیہ مضامین بھی اس میں موزوں کیے جا سکتے ہیں ،بشرطیکہ ایسے مضامین پست خیالی کے عیب سے پاک متصور ہوں ۔‘‘

اُن کی باقی شاعری کی طرح رازؔ کی رباعی گوئی بھی تقریباً تمام کی تمام ان کے داخلی جذبات و محسوسات کی پروردہ ہے۔ عشق و محبت، تدبیر و تقدیر، غربت کی شکایت، وحدت و کثرت، زندگی کی بے ثباتی، فطرت کی ہمہ گیری وغیرہ ،جس موضوع پر بھی انہوں نے دادِ سخن دی ہے ،اس میں جذبہ کی سچائی اور داخلیت کی کارفرمائی صاف نظر آتی ہے۔ چونکہ وہ فنِ عروض سے بخوبی واقف تھے، ان کی رباعیاں فنی اعتبار سے تنقید سے بالاتر ہیں اور اپنے دلچسپ طرزِ بیان، سادگی اور گھُلاوٹ سے ذہن پر اچھا اثر چھوڑتی ہیں ۔ رازؔ نے اپنی رباعی گوئی کو انتخابِ مضامین کے ضمن میں زیادہ وسیع نہیں رکھا ہے اور محدود موضوعات پر ہی طبع آزمائی کی ہے۔

اس سے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ رازؔ فطرت اور اس کی ہمہ گیری کے پرستار ہیں ۔ وہ فطرت کی بوقلمونی میں وحدت کی روح جاری و ساری جانتے ہیں ۔ اپنے اس طرزِ فکر کو وہ غزل، نظم اور رباعی میں یکساں خلوص اور صفائی سے پیش کرتے ہیں گویا یہ خیال صرف ایک شاعرانہ بات نہیں ہے بلکہ وہ اس کی صداقت کے دل سے قائل ہیں اور انہیں اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کو ئی عذر نہیں ہیں :

ہر سازِ سخن ہے پردہ دارِ صد راز

ہر پردۂ ساز میں ہے تیری آواز

اے مطربِ خوشنوائے بزمِ معنی

پردہ پردہ میں تو ہے نغمہ پرداز

کعبہ دیکھا، شرار خانہ دیکھا

دنیا کا ہر ایک کارخانہ دیکھا

ہر ایک مکاں میں ترے جلوے دیکھے

ہر ایک تیرا نگار خانہ دیکھا

اگر چشمِ دل وَا ہو تو صبح اور شام کی وہ قدرتی آمد و شد جس کی جانب انسان آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ہے، خالقِ کائنات کی ربوبیت اور عظمت کے عرفان کی چنگاری دلوں میں مشتعل کر سکتی ہے :

تشریقِ جمال صبحِ عشرت دیکھی

تنویرِ سواد شامِ راحت دیکھی

اک روز میں دو کرشمہ ہائے دلکش

اے شاہدِ کُل تیری کرامت دیکھی

 

اور جو اپنے چاروں طرف اس ہمہ گیر ربوبیت کی کرشمہ سازیاں دیکھنے سے معذور ہیں ، ان کی حالت پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے :

گل ہائے نظر نواز خنداں دیکھے

فطرت کے ہزار راز عریاں دیکھے

فردوسِ جہاں کی ہر روش پر میں نے

محمود نما ایاز حیراں دیکھے

راز بایں ہمہ توصیف و تشکر، خود کو حرفِ شکایت لب پر لانے سے روک نہیں سکے ہیں ۔ دنیا میں قانونِ فطرت کی تعمیل میں بہر کیف حسن کے ساتھ بدصورتی، نیکی کے ساتھ برائی اور امیری کے ساتھ غریبی ہے۔ اس کی مصلحت کو پوری طرح سمجھنا انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اور اگر کوئی شخص رنج و آلام اور ابتلائے زمانہ کا شکار ہی رہا ہو تو اس کے لبوں پر حرفِ شکایت کا آ جانا حیرت کا مقام نہیں ہے :

اک بات تھی بے نقاب کر دی تو نے

برباد سب آب و تاب کر دی تو نے

افسوس! کہ اس میں رنگِ غربت بھرکر

تصویرِ جہاں خراب کر دی تو نے

پھر بھی رازؔ ایک حرفِ شکایت کو اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں کہ وہ انہیں اس راہ سے ہٹا دے جس پر ان کا وجدان انہیں عمر بھر چلاتا رہا ہے :

دیوانۂ حسنِ بے ریائی ہوں میں

پروانۂ شمعِ آشنائی ہوں میں

خود دار ہوں ، خود دار  یقیناً اے رازؔ

آئینۂ روئے حق نمائی ہوں میں

 

چنانچہ فوراً ہی سنبھل کر ان کا حیرت کدۂ عالم کا مشاہدہ کرنا اور حیرت و تعجب سے یوں کہنا ایک فطری بات ہے :

کچھ حسن کی تنویر نظر آتی ہے

کچھ عشق کی تاثیر نظر آتی ہے

دنیا ہے کہ بُت خانۂ آذر اے رازؔ

جو چیز ہے تصویر نظر آتی ہے

انہیں اس کا بھی احساس و علم ہے کہ ’’بُت خانۂ آذر‘‘ کی یہ بے شمار تصاویر دراصل ایک ہی حقیقت کا پرتو ہیں ۔ ان کی صد رنگی ایک ہی رنگ سے مستعار ہے۔ وہ اس جہانِ رنگ و بو کو حیرت و مسرت سے دیکھتے ہیں ، مگر ان کی نظر اس کی بوقلمونی کی حقیقت سے خوب واقف ہے :

یہ باغِ جہاں ، یہ لالہ زارِ کثرت

یہ محفلِ نازِ شاہدانِ فطرت

ظاہر میں تو اک جہانِ  رنگ و بو ہے

باطن میں مگر ہے بوستانِ وحدت

 

چنانچہ انہیں اپنی حق شناسی پر پورا اعتماد ہے :

 

بیکار ہر اک قیاس ہو جائے گا

مجروح ہر التباس ہو جائے گا

اٹھے گا نظر سے جب حجابِ باطل

اے رازؔ تو حق شناس ہو جائے گا

 

البتہ انہیں اس کا یقین نہیں تھا کہ دنیا ان کی اس حق شناسی اور حق پرستی کی قرار واقعی داد دے گی۔ دنیا اور دنیاداری سے ان کی بیزاری اور گوشہ نشینی کی جانب پچھلے صفحات میں اشارہ کیا جا چکا ہے اور ان کے اسباب کا ذکر بھی ہو چکا ہے۔ ہر شخص کو دنیا میں گزر کرنے کے لئے اہلِ دنیا سے کچھ نہ کچھ تو ربط و ضبط رکھنا ہی پڑتا ہے ا ور بہت دنیا داری بھی کرنی ہوتی ہے۔ البتہ دنیا سازی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ رازؔ کی عزلت گزینی اور دنیا سے دل برداشتگی ان کی طبیعت کا تقاضہ تھی۔ اس میں کبر و نخوت یا کسی احساسِ برتری کا دخل ہرگز نہیں تھا۔ اخلاق اور مروّت ان کی طبیعت اور تہذیب کا حصّہ تھے اور وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ البتہ سکون انہیں تنہائی اور گوشہ نشینی میں ہی ملتا تھا۔ اس میں ان کی زندگی کی واماندگیوں کو بڑا دخل تھا۔ دنیا نے ان کی خاموشی کو کچھ اور ہی معنی پہنائے تھے۔ اس کا رازؔ کو احساس تھا، مگر چونکہ ان کا دل بالکل صاف تھا وہ اس ضمن میں بالکل مطمئن تھے۔دنیا اور اس کی بے ثباتی پر انہوں نے کہا ہے کہ :

 

دنیا پہ تو اپنا دل نہ شیدا کر

بے جا خواہش نہ دل میں پیدا کر

زنہار ا گر ہے پاسِ ایماں تجھ کو

بت خانۂ دہر میں نہ سجدا کر

ہر گل ہے فریب کار، توبہ توبہ

عیّار و ستم شعار، توبہ توبہ

کیوں باغِ جہاں سے ہو نہ دل کو وحشت

ہے رشکِ خزاں ، بہار توبہ توبہ

دنیائے دنی سے ہے محبت تجھ کو

افکار سے کس طرح ہو فرصت تجھ کو

بیکار ہے جستجوئے راحت اے رازؔ

دوزخ میں کہاں ملے گی جنّت تجھ کو

 

اور دنیا کی انگشت نمائی پر یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دل کو سمجھایا کہ :

 

دنیا یہ سمجھتی ہے کہ مغرور ہوں میں

مے خانۂ ہستی سے بہت دور ہوں میں

اب کون بتائے راز اس کافر کو

صہبائے خدا ساز سے مخمور ہیں میں

آزادِ قیودِ بزمِ ہستی ہوں میں

پابندِ اصولِ حق پرستی ہوں میں

ظاہر میں شکستہ حال و دل ہوں لیکن

جو رشکِ عروج ہے وہ پستی ہوں میں

 

لیکن گاہے گاہے وہ دنیا میں اہلِ دل کی کمی سے الجھ کر زبانِ قلم پر حرفِ شکایت بھی لے آتے ہیں اور اس سے اور اس کے بندھنوں سے اپنے منفرد انداز میں آزادی کا اعلان کرتے ہیں :

 

دنیا کہتی ہے یہ کہ تو ہے مجھ سے

واللہ عجیب گفتگو ہے مجھ سے

معلوم نہیں ہے رازؔ اس کو شاید

گلزارِ جہاں میں رنگ و بو ہے مجھ سے

 

دراصل رازؔ کو زندگی اور اس کی آزمائشوں نے جو سبق پڑھایا تھا اور جس سبق کو ان کے تصوف کی تربیت اور ریاض نے جِلا دی تھی، اس نے انہیں ایک نئی دنیا سے متعارف کرا دیا تھا جہاں ہوس اور خود نمائی کا گزر نہیں ہے ، جو حق نیوشی کی روشنی سے منور ہے اور جہاں پہنچ کر من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے۔ انہیں دنیا کی پہنائیوں میں جو لطف آتا تھا، اس کے سامنے اس دنیا کی وقعت بہت کم تھی۔ درج ذیل چار رباعیوں میں انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے :

 

رونق دہِ بزمِ نازِ دنیا تو ہے

شیدائے جمالِ شمعِ عقبیٰ تو ہے

کیا دیدِ رُخِ حبیب ہو گی اے رازؔ

بیگانۂ جلوہ ہائے معنیٰ تو ہے

جب سرد یہ جوش آز ہو جائے گا

وا، دیدۂ امتیاز ہو جائے گا

آئے گا نظر جمالِ معنیٰ ہر سو

دنیا سے تو بے نیاز ہو جائے گا

جب سارا جہانِ رازؔ سو جاتا ہے

اک عالم بے خودی میں کھو جاتا ہے

ہوتا ہے نیاز اس سے حاصل مجھ کو

بیدار میرا نصیب ہو جاتا ہے

جب حسنِ نظر سے ساز ہو جائے گا

آئینۂ حق، مجاز ہو جائے گا

اُٹھ جائے گا پردۂ دوئی آنکھوں سے

حاصل اس سے نیاز ہو جائے گا

 

وہ یہ سادہ اور مختصر ساپیام بار بار دُہراتے ہیں ۔ ان کا ایمان ہے کہ خود اعتمادی اور خود داری کا چولی دامن کا ساتھ ہے، محبت میں دنیا کے سارمے امراض کا علاج مخفی ہے اور خودپرستی کی بجائے خداپرستی میں سکون اور اطمینانِ دل کا راز پنہاں ہے اور اس راہ میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو حسنِ عمل اور نیک نیتی پر یقین رکھتا ہو:

 

ہنگامۂ سوز و ساز برپا کر دے

نذرِ آتش، خیالِ بے جا کر دے

دُنیا میں اگر ہے جستجوئے راحت

وقفِ غمِ عشق، فکرِ دنیا کر دے

شیدائے خودی و خود پرستی کیوں ہے

پابندِ طریقِ بزمِ ہستی کیوں ہے

اُٹھ، توڑ یہ قید و بندِ لا یعنی تو

انساں ہو کر اسیرِ پستی کیوں ہے

بگڑی ہوئی اپنی خود بنانا اچّھا

احساں ہے کسی کا کب اُٹھانا اچّھا

احساں سے جو ملے حیاتِ جاوید

اُس زیست سے موت کا ہے آنا اچّھا

اس لئے وہ یوں دُعا کو ہاتھ اُٹھاتے ہیں کہ :

وا عقدۂ بود و ہست کر دے ساقی

دنیا کو خدا پرست کر دے ساقی

صوفی، میکش، فقیر، مومن، کافر

سب کو ہاں سب کو مست کر دے ساقی

دیوانۂ حسنِ یار کر دے مجھ کو

بیگانۂ روزگار کر دے مجھ کو

بیکار ہے بحثِ کفر و ایماں ساقی

مخمورِ مئے بہار کر دے مجھ کو

 

امید ہے کہ یہ دُعا رائیگاں نہیں جائے گی کیونکہ یہ اُن کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ہے اور

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

 

 

 

 

اختتامیہ

 

 

 

راز کی شاعری نہ صرف متنوع اور دلکش ہے، بلکہ منفرد بھی۔ ان کی غزلوں کی لطافتِ بیان، نفاست، سلیۂ اظہار، لہجہ کا رکھ رکھاؤ اور حلاوت دل کے ساز پر مضراب کا کام کرتی ہے۔ ان کی منظومات میں مقصدیت، انتخابِ الفاظ اور زبان و بیان کی صد رنگی نہایت دلکش اور پُر اثر ہے۔ انہوں نے غزلیات ، منظومات و رباعیات میں راہِ عام سے ہٹ کر اپنے منفرد انداز میں دادِ سخن گوئی دی ہے اور ان کی یہ کوشش جذبہ کی صداقت اور اظہارِ خیال کے خلوص کی وجہ سے کہیں بھی مصنوعی نہیں معلوم ہوتی، بلکہ اپنے تاثر اور دلپذیری میں یکتا ہے۔

راز نے گلشنِ اردو کو اپنی شعر گوئی کے ذریعہ بے شمار نہایت خوبصورت پھول دیے ہیں ۔ اگر کسی سطح پر دنیائے اردو میں کوئی ایسا پروگرام یا ادارہ ہوتا جو ماضیِ قریب و بعید کے صاحبِ طرز ادبا و شعراء کو ’’دریافت‘‘ کر کے دلدادگانِ شعر و ادب کے سامنے پیش کرتا تو نہ معلوم رازؔ (مرحوم) کی طرح اور کتنے شعراء اپنے فن سے اردو کو مالا مال کر جاتے۔ اردو کی زبوں حالی اور اربابِ اردو کی تاریخی بے حسی کے پیشِ نظر ایسی امید حقیقت سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔ ممکن ہے کہ آئندہ کبھی کوئی ایسی صورت پیدا ہو جب اہلِ اردو تذکروں کی شکل میں ہی اس کام کے لئے تیار ہو جائیں ۔

یہ مختصر مطالعہ اُردو دنیا کو رازؔ چاند پوری سے دوبارہ متعارف کرانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ رازؔ کی شعرگوئی نہ صرف ان کے دلی جذبات کا پُر خلوص اظہار ہے ،بلکہ ان کی اس عقیدت پر دال بھی ہے جو ان کو اہلِ دل سے تھی۔

 

راز اہلِ دل سے اب تک یہ عقیدت ہے مجھے

شعر کے پردے میں حالِ دل کہے جاتا ہوں میں

 

مایوس نہیں ہوں میں ابھی اہلِ چمن سے

مانا کہ کوئی میرا ہم آواز نہیں ہے

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، عملِ لفظی اور تدوین:اعجاز عبید

ای بک: اعجاز عبید