FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               مرزا خلیل احمد بیگ

کتاب ’تنقید اور اسلوبیاتی تنقید‘ کا ایک حصہ

مغرب کے چند اسلوبیاتی نظریہ ساز

لسانیات کی روشنی میں ادبی فن پارے کے مطالعے اور تجزیے کو ’اسلوبیات‘ (Stylistics)  کا نام دیا گیا ہے۔ لسانیات زبانوں کے سائنسی مطالعے کا نسبۃً ایک جدید علم ہے۔ اس شعبۂ علم کا اپنا م مخصوص طریقۂ کار ہے جسے بروئے عمل لاتے ہوئے یہ زبانوں کے مطالعے اور تجزیے کا کام انجام دیتا ہے۔ لسانیاتی طریقۂ کار کا اطلاق جب ادب کے مطالعے میں کیا جاتا ہے تو یہ مطالعہ اسلوبیات (Stylistics)  کہلاتا ہے۔ اسے اسلوبیاتی تنقید بھی کہتے ہیں۔ اسلوبیات اسلوب کے سائنسی مطالعے کا بھی نام ہے۔ چوں کہ ادب کا ذریعۂ اظہار زبان ہے، اس لیے اسلوب کی تشکیل و تعمیر، زبان کے اشتراک کے بغیر نا ممکن ہے۔ اسی لیے اسلوب کو ادبی فن پارے کی ان لسانی خصوصیات سے تعبیر کیا جاتا ہے جو اسے انفرادیت بخشتی ہیں اور جن کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں مصنف کی تصنیف یا تخلیق ہے۔ زبان کا بنیادی ڈھانچا اگرچہ ایک ہوتا ہے، لیکن زبان کے استعمال کی نوعیت ہر شاعر اور ادیب کے یہاں جداگانہ ہوتی ہے۔ اسی لیے ہر ادبی فن کار کا اسلوب بھی جداگانہ ہوتا ہے اور جب اس کا اسلوب اس درجہ مخصوص ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی پہچان یا شناخت بن جائے تو اسے صاحبِ اسلوب کہا جانے لگتا ہے۔

تکنیکی اعتبار سے ہم اسلوبیات کو کسی ادبی فن پارے کی لسانیاتی خصوصیات کا مطالعہ کہیں گے۔ یہ اسلوبیاتی مطالعہ لسانیات کی مختلف سطحوں مثلاً صوتی، صرفی، لغوی، نحوی معنیاتی سطح پر کیا جاتا ہے۔ لسانیاتی علم و بصیرت کے بغیر ادبی فن پارے کے اسلوبیات مطالعے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے مغرب میں اسلوبیات کا ارتقاء لسانیات کے ارتقاء کے بعد عمل میں آیا۔ لسانیات یا لسانیاتِ جدید بیسویں صدی کے نصفِ اول کی پیداوار ہے اور اسلوبیات کا ارتقاء بیسویں صدی کے وسط میں عمل میں آتا ہے۔ ۱۹۵۰ء کے بعد یورپ اور امریکہ میں ماہرین لسانیات کی توجہ اسلوبیات کی جانب منعطف ہوتی ہے۔ اسلوبیات کو ادبی اسلوبیات سے ممیز کرنے کے لیے بعض اوقات اسے ’لسانیاتی اسلوبیات‘ (Linguistic Stylistics)  کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

چوں کہ ادب کے اسلوبیاتی مطالعے کی بنیاد لسانیات پر قائم ہے، اس لیے ۱۹۵۰ء کے بعد سے اسلوبیات کو اطلاقی لسانیات کے ایک اہم جزو کی حیثیت سے فروغ دینے کی کوششوں کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی کوشش ۱۹۵۳ء میں کی گئی جب امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی میں زبان اور ادب کے موضوع پر ایک سیمنار منعقد ہوا جس میں ادب بالخصوص شاعری کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق اور دیگر اسلوبیاتی مسائل پر اظہارِ خیال کیا گیا اور مقالے پڑھے گئے۔ اس سیمنار کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ادب کے معروضی مطالعے کے لیے چند مسلمات قائم کیے گئے، مثلاً اس بات پر زور دی گیا کہ ادب بنیادی طور پر ایک کلماتی اظہار (Utterance)  ہے۔ اسی لیے یہ ایک لسانی عمل (Language Act)  بھی ہے جس کی اپنی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر اسے دوسری نوع کے لسانی عمل سے ممیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس مسلمے سے ایک بات یہ پیدا ہوئی کہ جب ادبی فن پارہ ایک لسانی عمل ہے تو اس کی لسانی ساخت بھی ہے جو صوتی، صرفی، لغوی اور نحوی ساختوں پر مشتمل ہے جن کا مطالعہ لسانیات کے علم کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ زبان اور ادب کے موضوع پر منعقدہ اس سیمنار کی رپورٹ انڈیانا یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی کے پروفیسر ہیرلڈ وائٹ ہال اور ٹیکس یونیورسٹی کے پروفیسر آر کی بالڈ اے۔ ہل تے مشترکہ طور پر شائع کی ہے۔ (۱)

انڈیانا یونیورسٹی میں ایک دوسری کانفرنس سوشل سائنس ریسرچ کونسل کے زیر اہتمام اپریل ۱۹۵۸ء میں ’’اسلوب‘‘ کے موضوع پر منعقد ہوئی جس میں ادب میں اسلوب کی اہمیت، نوعیت اور خصوصیات کو زیرِ بحث لایا گیا اور ادبی و شعری اسلوب کے صوتی، صرفی، نحوی اور معنیاتی، پہلوؤں پر غور کیا گیا۔ نیز بحور و اوزان کے مسائل پر لسانیاتی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی گئی۔ اس کانفرنس میں جن اسکالرز نے مقالات پیش کیے ان میں روجربراوؤن، جان بی کیرل، سیموربی، چٹمن کے رومن یا کولبسن، رچرڈ ایم۔ ڈورسن آرکی بالڈاے۔ ہل ڈیل ایچ۔ ہائمز آئی۔ اے۔ رچرڈز، ٹامس اے۔ سیبیوک، سال سپورٹا اور چالزای۔ اوس گڈ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ اس کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالات کو ٹامس اے۔ سیبیوک نے کتابی صورت میںStyle in Language کے نام سے مرتب کر کے شائع کر دیا ہے۔ (۲)

ادبی اسلوب پر ایک اور اہم بین الاقوامی سمپوزیم راک فلرفاونڈیشن کے زیرِ اہتمام اگست ۱۹۶۹ء میں اٹلی میں منعقد ہوا۔ اس سمپوزیم میں امریکہ، انگلستان اور دیگر یورپی ممالک کی بے شمار سرکردہ شخصیات نے شرکت کی اور اس میدان میں جو نئی تحقیقات سامنے آئی تھیں ان سے متعلق مقالات پیش کیے۔ یہ سمپوزیم ایک طرح سے ۱۹۵۸ء میں انڈیانا یونیورسٹی میں منعقدہ کانفرنس کا تسلسل کہا جا سکتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس کانفرنس میں صرف امریکی اسکالرز نے شرکت کی تھی جب کہ اٹلی کے اس سمپوزیم میں امریکہ کے علاوہ دس یورپی ممالک کے مندوبین بھی شریک ہوئے تھے جن میں روال بارت، سیمورچٹمن، اسٹیفن المن، رینے ویلک، سیموئل آر۔ لیون، رچرڈ اے۔ سیس، نیلزایرک انکوسٹ، رچرڈاوہمن، ایم۔ اے۔ کے ہیلیڈے اور رقیہ حسن کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ اس سمپوزیم کا مرکزی موضوع لسانیات اور ادبی نظرئے کے درمیان رشتہ نیز اسلوبیاتی مطالعات کا مستقبل تھا۔ اس کے علاوہ اسلوب کیا ہے ؟ اسلوبی خصائص کس طرح ظہور پذیر ہوتے ہیں؟ کیا لسانیات ادبی اسلوب کی توضیح کے لئے کافی ہے ؟ کیا اسلوبیات محض لسانیات کا ایک شعبہ ہے؟ وغیرہ سوالات بھی اٹھائے گئے اور ایک مخصوص صنفِ ادب کے اسلوب، ایک مخصوص عہد کے اسلوب اور ایک مخصوص منصف کے اسلوب سے بھی بحث کی گئی اور تجزیے پیش کئے گئے۔ اس سمپوزیم میں پیش کئے جانے والے مقالات اور ان پر ہونے والی بحثوں کو سیمورچٹمن نے یکجا کر کے کتابی شکل میں Literary Style:A Symposiumکے نام سے شایع کر دیا ہے (۳)

زبان و ادب کے باہمی رشتوں ، نیز مطالعہ اور اسلوبیات پر اس وقت سے لے کر اب تک کئی اور مذاکرے اور کانفرنسیں مختلف ممالک میں منعقد ہو چکی ہیں اور ان موضوعات و مسائل پر متعدد امریکی اور یورپی عالموں نے سنجیدہ غور و فکر سے کام لیا ہے اور نظریہ سازی کے فرائض انجام دئے ہیں۔ ایسے عالموں میں ٹامس اے۔ سیبیوک ، روجر فاؤلر، رولاں ویلز ، آر کی بالڈ اے ، ہل سیموئل آرلیبو، جیو فر ی لیج، ڈیل۔ ہائمز ، ایم۔ اے ، کے ، ہیلیڈ، رچرڈ اے سیئس ، سیمورچٹمن، نیلیز ایرک انکو سٹ ، ڈونلڈسی۔ فریمن وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے چند عالموں کے اسلوبیاتی نظریات کو یہاں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے:۔

)   نلز ایرک انکوسٹ (Nils Erik Enkvist)

نلزایرک انکوسٹ آبو اکادمی (فن لینڈ کی سویڈش بولنے والوں کی یونیورسٹی )  میں انگریزی زبان و ادب کے ڈانر پروفیسر (Donner Professor) تھے۔ یہ اس اکادمی کے ریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے لسانیات اور ادبی موضوعات پر کثرت سے لکھا ہے۔ انکوسٹ Linguistics and Style کے جو ۱۹۶۴ء میں لندن سے شایع ہوئی، جزوی مصنف ہیں۔ انھوں نے نظریۂ اسلوب پر برسوں کام کیا ہے۔

انکوسٹ نے اپنے مونو گراف(۴)  ’’ On Defining Style‘‘ میں اسلوب کی ان تمام تعریفوں سے بحث کی ہے جو شاعر و ادیب ، مفکر و دانشور نقاد اور ادبی اسکالر وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں اسلوب کو کبھی مصنف کے زاویۂ نظر سے دیکھا گیا ہے تو کبھی اسے قاری کے تاثرات پر مبنی قرار دیا گیا ہے اور کبھی اسے متن یا ادبی فن پارے کی خصوصیات کی معروضی چھان بین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان تمام تعریضوں کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد انکوسٹ نے زبان کے حوالے سے اسلوب کی دو مفصل تعریفیں بیان کی ہیں:

(الف)             انکوسٹ کے نزدیک اسلوب کی پہلی تعریف وہ ہے جس میں اسلوب کو ’متبادل اظہارات کے درمیان انتخاب ‘ (The choice between alternative expressions) کہا گیا ہے۔ انکوسٹ کا خیال ہے کہ اسلوب کی تشکیل اس وقت عمل میں آتی ہے جب متبادل اظہاری شکلوں کے درمیان انتخاب سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ انتخاب لسانی سطح پر ہوتا ہے اور قواعد کے دائرے میں رہ کر کیا جاتا ہے۔ اسی لئے یہ قواعدی انتخاب (Grammatical Choice) بھی ہوتا ہے۔ قواعدی انتخاب اسلوبیاتی انتخاب (Stylistic Choice)  بھی ہو سکتا ہے اور غیر اسلوبیاتی انتخاب (Non-stylistic choice) بھی۔

جب دو مختلف المعنیٰ الفاظ کے درمیان انتخابی عمل پیش آتا ہے تو یہ غیر اسلوبیاتی انتخاب کہلاتا ہے۔ انکوسٹ نے یہ بات ذیل کی دو مثالوں سے واضح کی ہے:۔

-۱        It is pouring.

-۲       It is drizzling.

یہاں دو الفاظ pouringاور drizzlingدو الگ الگ معنی بیان کرتے ہیں، اس لئے یہ اگر چہ قواعدی انتخاب ہے، لیکن غیر اسلوبیاتی انتخاب کہلائے گا۔ قواعدی انتخاب، اسلوبیاتی انتخاب اس وقت کہلاتا ہے جب دو ہم معنیٰ یا متحد المعنیٰ الفاظ کے درمیان انتخابی عمل میں پیش آتا ہے، مثلاً:

-۱        He is a fine man.

-۲       He is a nice chap.

یہاں fine man اور nice chapکے درمیان انتخاب اسلوبیاتی انتخاب کہلائے گا کیونکہ یہ دونوں معنی کے اعتبار سے ایک ہیں۔

اردو میں اسلوبیاتی اور غیر اسلوبیاتی انتخاب لفظی کو ذیل کے تین جملوں کی مدد سے بخوبی واضح کیا جا سکتا ہے۔

۱۔         آفتاب طلوع ہوتے ہی ہر طرف روشنی پھیل گئی۔

۲۔        آفتاب غروب ہوتے ہی ہر سو تاریکی چھا گئی۔

۳۔        سورج ڈوبتے ہی ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔

ان مثالوں میں جملہ نمبر (۱)  اور (۲)  کو غیر اسلوبیاتی انتخاب کہیں گے اور جملہ نمبر(۲)  اور(۳)  کو اسلوبیاتی انتخاب قرار دیں گے۔ کیوں کہ آخر الذکر دونوں جملے اگر چہ لسانیاتی ساخت کے اعتبار سے جداگانہ ہیں ، لیکن بہ اعتبارِ معنیٰ یکساں نظر آتے ہیں۔ لسانیاتی ساخت کے اعتبار سے دونوں جملوں کے درمیان فرق کو یوں واضح کیا جا سکتا ہے:۔

دونوں جملوں کی لسانیاتی ساخت

جملہ نمبر(۲)

جملہ نمبر (۳)

آفتاب  (فارسی)

سورج (تدبھو)

غروب  ہونا (فعلِ مرکّب)

ڈوبنا (سادہ فعل)

طرف

سو

تاریکی (فارسی/مؤنّث)

اندھیرا (تدبھو/ مذکّر)

چھا گیا (فعلِ مذکّر)

چھا گئی (فعلِ مؤنّث)

مذکورہ دونوں جملوں کے ہر زمرے کے الفاظ اگرچہ لسانیاتی ساخت کے اعتبار سے جداگانہ ہیں، لیکن ان کے معنیٰ ایک ہیں۔ یعنی ان میں ترادفی رشتہ (Synonymic Relation ship) پایا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ مترادف الفاظ ہیں جو معنیٰ کے فرق کو نہیں بلکہ معنیاتی وحدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ادبی سطح پر اس نوع کے لسانی تباین (Language Variations) سے اسلوب کی تشکیل ہوتی ہے۔

اردو شعر و ادب میں اسلوبیاتی انتخاب کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اکثر دو شاعروں کے خیالات میں مطابقت ہوتی ہے۔ لیکن ان کے لسانی اظہار میں فرق پایا جاتا ہے۔ یہی فرق دونوں شاعروں کے درمیان اسلوب کا فرق یا اسلوبیاتی امتیاز بن جاتا ہے۔ ایسے موقعوں پر شاعر کی شناخت اس کے اسلوب کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ شیخ امام بخش ناسخ کا ایک شعر ہے :

ہو گئے دفن ہزاروں ہی گل اندام اس میں

اس لئے خاک سے ہوتے ہیں گلستاں پیدا

ناسخ نے اس شعر میں جو بات کہی ہے تقریباً وہی بات غالب نے اپنے اس شعر میں دوسرے انداز سے کہہ دی ہے :

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

یہ دونوں اشعار مفہوم اور مضمون کے اعتبار سے تقریباً یکساں ہیں،لیکن ناسخ اور غالب کے کہنے کے انداز میں یعنی ان کے لسانی اظہار میں فرق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی فرق دونوں شاعروں کے درمیان یا دونوں اشعار کے درمیان اسلوب کا فرق بن جاتا ہے۔

اسی طرح میر تقی اور غالب کے بعض اشعار میں خیالات کی ہم آہنگی اور مفہوم کی مطابقت پائی جاتی ہے لیکن لسانی اظہار میں فرق کی وجہ سے دونوں کا اسلوب جداگانہ ہے، مثلاً میر کا ایک شعر ہے:

کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو

ہم فراموش ہوؤں کو بھی کبھی یاد کرو

غالب نے اسی مضمون کو یوں باندھا ہے:

تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

انکوسٹ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اسلوبیاتی انتخاب صرف الفاظ کی ہی سطح پر واقع نہیں ہوتا بلکہ صوتی ، صرفی، لغوی ، نحوی اور فقروں اور جملوں نیز عبارت کی سطح پر بھی اسلوبیاتی انتخابات کی مثالیں پائی جاتی ہیں:۔

(۱)  صوتی سطح: صوتی سطح پر دو مصمتوں (Consonantis)  یا دو مصوتوں (Vowels) کے درمیان انتخاب جو معنی کی تبدیلی کا سبب نہ ہو، اسلوبیاتی انتخاب قرار پا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ذیل کی مثالیں ملاحظہ ہوں:

۰          ب اور پ کے درمیان انتخاب ، مثلاً بادشاہ /پادشاہ۔

۰          داور ذ کے درمیان انتخاب ، مثلاً ، اُستاد/ استاذ۔

۰          پ اور ف کے درمیان انتخاب، مثلاً ، سپید/سفید۔

۰          مختصر اور طویل مصوتوں کے درمیان انتخاب ، مثلاً ، نگہ/ نگاہ: مہ /ماہ؛ گنہ/ گناہ،  رہ/ راہ ، سیہ/ سیاہ، خموش /خاموش وغیرہ۔

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی

وہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے کم  ہے              غالب

خاموش ہے چاندنی قمر کی   شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی                         اقبال

(۲)  قواعدی سطح: صوتی سطح کے علاوہ اردو میں قواعدی سطح پر بھی اسلوبیاتی انتخاب کی بے شمار مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

  • فعلی شکلیں: آئیے/ آئیں؛ بیٹھئے/بیٹھیں؛ فرمائیے/فرمائیں؛ پوچھو ہو/پوچھتے ہو؛ آوے /آئے، آئے ہے /آتا ہے ؛ جلے ہے /جلتا ہے ، وغیرہ۔

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو          (میر)

جلے ہے دیکھ کے بالینِ یار پر مجھ کو   (غالب)

جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے     (غالب)

آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالب (غالب)

  • تراکیب لفظی : حسن ظاہری/ ظاہر حسن ؛ لشکر شاہی /شاہی لشکر ؛ ابرِ سیاہ /سیاہ ابر؛  وجہِ خاص/ خاص وجہ؛ آہِ سرد/ سرد آہ ، نشۂ دولت/ دولت کا نشہ؛ تازگیِ خیال/ خیال کی تازگی؛  باعثِ فخر/ فخر کا باعث ، شب و روز /رات دن ، نشیب و فراز / اُتار چڑھاؤ ، بود و باش/ رہن سہن وغیرہ
  • نحوی ساخت و ترتیب : ان کی آمد پر /ان کی تشریف آوری پر، ’شروع قصے کا‘ (باغ و بہار ، سرگزشت آزاد بخت پادشاہ کی ، (باغ و بہار)  : ’رہائی طلسم سے اس سے گرفتارِ محبت کی، (فسانہ عجائب )  وغیرہ۔

(۳)  کلامیہ کی سطح : اسلوبیاتی انتخاب نہ صرف آوازوں ، لفظوں فقروں اور جملوں نیز دیگر اجزائے کلام پر مشتمل ہوتا ہے بلکہ جملوں سے بڑی اکائی یعنیDiscourseنیز عبارت کی سطح پر بھی اس کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اس کی ایک عمدہ مثال مرزا رجب علی بیگ سرور کی کتاب فسانۂ عجائب میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں رات کے خاتمے کے بعد صبح کی آمد کا منظر ایک طویل عبارت میں یوں بیان کیا گیا ہے:

’’جس وقت زاغِ شب نے بیضہ ہائے انجم آشیانۂ مغرب میں چھپائے اور صیادانِ سحر خیز دام بردوش آئے اور سیمرغِ زریں جناح ، طلا بال غیرتِ لعلِ قفسِ مشرق سے جلوہ افروز ہوا یعنی شب گزری روز ہوا۔ ‘‘

اسی مفہوم کو اسماعیل میرٹھی نے بالکل سیدھے سیدھے سادے انداز میں یوں ادا کیا ہے ، ع:

رات گزری نور کا تڑکا ہوا

یہاں اظہار کے دونوں پیرایوں میں اسلوب کا فرق نہایت واضح ہے۔

(ب)   انکوسٹ نے اسلوب کی دوسری تعریف ’ نارم سے انحراف ‘ (Deviation from a norm) کی حیثیت سے کی ہے۔ نارم (Norm) سے یہاں زبان کے تسلیم شدہ اور مروجہ اصول و ضوابط مراد لئے جاتے ہیں۔ جن کی خلاف ورزی کو ’انحراف‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عام زبان ایک مقررہ ڈگر پر چلتی ہے اور بندھے ٹکے اصولوں پر کام کرتی ہے۔ اسی زبان کو جب کوئی شاعر یا ادیب اپنے تصرف میں لاتا ہے تو وہ اس میں انوکھا پن پیدا کرتا ہے اور نئے لہجے ، نئے پیرایۂ بیان اور نئے طرزِ اظہار کی تلاش میں وہ نئے نئے لسانی سانچے ، پیٹرن اور تلازمات تشکیل دیتا ہے اور زبان میں تراش خراش کاٹ چھانٹ اور توڑ پھوڑ سے بھی کام لیتا ہے۔ اظہار کی جدتیں ، تنوع اور نئے لسانی تجربے نیز تصرفات زبان کو ایک نہج پر قائم نہیں رہنے دیتے جن کی وجہ سے زبان اپنی مروجہ ڈگر سے ہٹ جاتی ہے۔ زبان میں تصرف کے اسی عمل کو  لسانی انحراف قرار دیا گیا ہے جو ’ نئی زبان‘ کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ اسی انحراف کی وجہ سے زبان میں تازگی ، ندرت اور امتیازی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔ لسانی نارم سے انحراف کو لسانی امتیازات یا اسلوبی خصائص(Style-features)  کہنا بیجا نہ ہو گا۔

اسلوبیاتی انتخاب کی طرح نارم سے انحراف کی بھی کئی لسانی سطحیں ہیں، لیکن سب سے نمایاں اور دلکش انحراف وہ ہوتا ہے جو زبان کے سلسلے میں انتخابی ضابطوں (Selectional Rules) کو نہ ماننے اور انتخابی پابندیوں (Selectional Restrictions) کی خلاف ورزی کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ انحراف نہ صرف اسلوب کی تشکیل کا سبب بنتا ہے بلکہ اسلوب میں ندرت ، تازگی اور جدت بھی پیدا کرتا ہے۔ یہاں اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ انحراف سے نہ تو غیر معیاری ، بے قاعدہ یا بگڑی ہوئی زبان مراد ہے ار نہ ہی اصول و قواعد ِ زبان کی شکست و ریخت اس کی منشا ہے، بلکہ انحراف سے یہاں متن (Text) کی وہ خصوصیات مراد ہیں جوز بان میں محض جدت و تصرف اور ایجاد و اختراع یا پیرایۂ اظہار کے نئے سانچوں کے طور پر معرضِ وجود میں آتی ہیں اور جن کا استعمال ایک متن (یا ادبی فن پارے )  کو دوسرے متن سے یا ایک مصنف کو دوسرے مصنف سے ایک دور کے ادب کو دوسرے دور کے ادب سے ممیز و ممتاز کر دیتا ہے۔ انکوسٹ کا خیال ہے کہ جب دو متون میں نارم سے انحراف کی بنیاد پر فرق پایا جائے تو دونوں متون کا اسلوب جداگانہ ہو گا۔ (۵)

اردو شعر و ادب میں لسانی نارم سے انحراف اور انتخابی ضابطوں اور پابندیوں کی خلاف ورزی کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ایسی چند مثالوں کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا۔

(۱)       ’’رات‘‘ ایک ہندی نژاد لفظ ہے۔ اردو میں اس کی جمع فاعلی حالت میں راتیں اور مفعولی میں راتوں تشکیل دی جاتی ہے۔ اردو میں رات کے لئے فارسی ’’شب‘‘ کا استعمال بھی پایا جاتا ہے ،لیکن اردو قاعدے کے مطابق بنائی گئی اس کی جمع ’’شبیں‘‘ اردو میں مستعمل نہیں ہے۔ لیکن انور شعور نے اس لسانی نارم سے انحراف کرتے ہوئے اپنی غزل کے ایک شعر میں ’’شبیں کا استعمال کیا ہے:

تمھارے ساتھ گزاری ہوئی شبیں اب تک

مجھے جگائے ہوئے ہیں ، شبیں ہی ایسی تھیں

(۲)      اردو میں لفظ ’’پانی‘‘ اسمِ واحد کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً پانی برس رہا ہے ، مجھے پانی پلا دو ، ہر جگہ پانی ہی پانی ہے ،وغیرہ۔ اردو محاوروں میں بھی پانی ہی مستعمل ہے، مثلاً ، شرم سے پانی پانی ہونا۔ لیکن اکثر نئے شاعروں نے اس لفظ کی جمع بنائی ہے اور اپنے اشعار میں ’’پانیوں‘‘ باندھا ہے جو لسانی نارم سے انحراف ہے۔ مثال کے طور پر صبا اکرام کا یہ شعر دیکھئے:

ہے اب تو خیر اسی میں کہ پانیوں میں رہو

کبھی جو سطح پہ آئے تو ڈوب جاؤ گے

(۳)     اردو کے جو فعلی مادے ’’الف‘‘ یا ’’واؤ‘‘  پر ختم ہوتے ہیں ان کا فعلِ مستقبل کا صیغہ بناتے وقت ’’گا ‘‘ یا  ’’گی‘‘ لگانے سے پہلے ’’ئے‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ ، مثلاً جائے گا، جائے گی ، یا سوئے گا ، سوئے گی ، لیکن فعل مادے ’’ہو‘‘ کے ساتھ ’’گا‘‘ لگانے سے پہلے ’’ئے کا اضافہ نہیں کیا جاتا ، مثلاً ہو گا۔ مظفر حنفی نے اس لسانی نارم سے انحراف کرتے ہوئے اپنی ایک غزل کی ردیف ’’ہوئے گا ‘‘ قائم کی ہے :

پھر سنا جاتا ہے نخلستان صحرا ہوئے گا

کانپتا بیٹھا ہے دیوانہ کہ اب کیا ہوئے گا

اسی غزل کا ایک اور شعر ہے :

اک ستارہ ٹوٹ کر آیا مظفر کی طرف

آپ نے شاید اسے پیغام بھیجا ہوئے گا

(۴)     اردو میں مصدر کی علامت ’’تا‘‘ ہے جس کا الحاق فعلی مادے (Verbal Root) کے ساتھ ہوتا ہے، مثلاً آنا، جانا، چلنا ، کرنا، دونا، وغیرہ۔ لیکن ’’ہنر نا اردو‘‘ کا کوئی مصدر نہیں ہے کیوں کہ علامت مصدر ’’نا‘‘ حذف کر کے دینے کے بعد جو چیز باقی بچتی ہے وہ اسم ہے ، یعنی ’’ہیز‘‘ اردو کا عام قاعدہ یہ ہے کہ علامتِ مصدر حذف کر دینے کے بعد فعلی مادہ باقی رہ جاتا ہے مثلاً ’’چلنا ‘‘ جو مصدر ہے اگر اس میں سے ’’نا‘‘ حذف کر دیں تو ’’چل‘‘ باقی بچے گا جو فعلی مادہ ہے۔

عادل منصوری نے یہ جدت پیدا کی ہے کہ لفظ ’’ہنر‘‘ (جو اسم ہے)  میں ’’نا ‘‘ لگا کر مصدر ’’ہنرنا ‘‘ بنا لیا پھر کرتا ہوا مرتا ہوا کے پیٹرن پر ہنر تا ہوا بنا لیا جو لسانی نارم سے انحراف ہے۔ ان کی ایک غزل کا یہ شعر دیکھئے :۔

تو داد اگر نہ دے ، نہ سہی ، گالیاں سہی

اپنا بھی کوئی عیب ہنرتا ہو اسا ہو

اس غزل کا مطلع یوں ہے :

پہلو کے آر پار گزرتا ہوا سا ہو

اک شخص آئینے میں اتر تا ہوا سا ہو

(۵)     اردو میں فعل ’’ اگنا‘‘ اور اس کے مشتقات کا استعمال بالعموم سبزہ ، بودہ یا دیگر نباتی اشیا کے زمین سے بتدریج نمودار ہونے کے لئے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لفظ ’’ چاند‘‘ کے لئے نکلنا ، ڈوبنا ، چھپنا ، وغیرہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ لیکن مظفر حنفی نے اپنی ایک غزل کے مطلع میں چاند کے ساتھ اگنا کا فعلی صیغہ استعمال کیا ہے جو معنیاتی بے قاعدگی (Semantic Anomaly) کا مظہر ہے اور جس سے انتخابی ضابطے اور پابندی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ جب چاند کا انتخاب کر لیا گیا تو اس کے بعد افقی سطح (Syntagmatic Level) پر دوسرے لفظ کے انتخاب میں متکلم پر بعض پابندی عائد ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظ کا انتخاب وہ کلّیہ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا۔ اسے بہت سی باتوں مثلاً قواعد ، معنیاتی مطابقت اور روز مرہ وغیرہ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً اگر کلام کی ابتدا میں لفظ ’’لڑکا‘‘ آیا ہے تو اس کے ساتھ فعل آیا، آتا ہے، آیا گیا وغیرہ ہی استعمال ہو گا۔ کیوں کہ لفظ لڑکا کا انتخاب متکلم کو اس بات پر مجبور کرتا ہے اور اس امر کا پابند بناتا ہے کہ فعلِ مذکر استعمال کرے۔ اس انتخابی پابندی کو قواعدی مطابقت کا نام دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں کلام میں انتخابِ لفظی معنیاتی مطابقت کا بھی حامل ہونا ضروری ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ لڑکی روئی یا لڑکی ہنس دی، تو یہاں قواعدی مطابقت کے علاوہ معنیاتی مطابقت بھی پائی جاتی ہے اور انتخابی ضابطوں کی پوری پوری پابندی کی گئی ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ کرسی روئی یا کرسی ہنس دی یا ماچس کی ڈبیا نے سیب کھا لیا تو یہاں اگر چہ قواعدی مطابقت موجود ہے لیکن معنیاتی مطابقت کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس لئے اہلِ زبان کے نزدیک یہ تینوں جملے  قابل قبول نہ ہو گے اور مبہم (Ambiguous)  تصور کئے جائیں گے۔ ان جملوں میں انتخابی پابندی کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے۔ کیوں کہ رونا اور ہنسنا دونوں انسانی جبلتیں ہیں جو غیر ذی روح اشیاء سے منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کرسی روئی ، کرسی ہنس دی ، یا ماچس کی ڈبیا نے سیب کھا لیا وغیرہ جملوں میں معنیاتی مطابقت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور انتخابی ضابطے اور پابندی خلاف ورزی کی گئی ہے لیکن شاعری میں اس قسم کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں جاتی ہیں جہاں معنیاتی مطابقت سے کام نہ لیا گیا ہو اور انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ اس ضمن میں مظفر حنفی کے جس شعر کا ذکر اوپر کیا گیا تھا، یہ ہے :

چاند اُگا ہے ، پروا سنکی ، چلنا ہے تو چل

مہکا نے پھلواری من کی ، چلنا ہے تو چل

یہاں ’’چاند ‘‘ کے ساتھ ’’اگا‘‘ کا استعمال لسانی نارم سے انحراف ہے۔

(۶)      اردو میں ’’نے‘‘ کا استعمال علامتِ فاعلِی کے طور پر ہوتا ہے ، مثلاً میں نے کھانا کھایا ، تم نے کتاب پڑھی ، اس نے اخبار خریدا ، وغیرہ۔ لیکن بعض شاعروں نے ’’نے‘‘ کے استعمال میں اس لسانی نارم سے انحراف کیا۔ مثلاً شہزاد احمد کی غزل یہ شعر دیکھئے:

سورج سے کہو یہیں ٹھہر جائے

ہم نے سائے کو ناپنا ہے

(۲)   ڈیل ایچ۔ ہائمز  (Dell H. Hymes)

ڈیل ایچ ہائمز نے اعلیٰ تعلیم امریکہ کی انڈیا نا یونیورسٹی میں پائی۔ وہ ادب ، بشریات اور لسانیات تینوں علوم کے طالب علم رہے انہوں نے کچھ دنوں تک ہارورڈ یونیورسٹی میں سماجی بشریات کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ کچھ عرصے تک وہ ورجینیا یونیورسٹی میں بشریات اور انگریزی کے پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے۔ ہائمز کی دلچسپی بشریات کے علاوہ اسلوبیات اور سماجی لسانیات سے بھی ہے۔ ان علوم میں ان کے کارنامے قابلِ قدرِ ہیں۔

اسلوبیات کے میدان میں ڈیل ہائمز کا نام اس وقت مشہور ہو جب ۱۹۶۰ء میں ان کا معرکۃ الآرا مقالہ (۶) "Phonological Aspects of Style: Some English Sonnets”شائع ہوا۔ اس مقالے میں ہائمز نے بیس انگریزی سانٹس (دس ورڈزورتھ کی اور دس کیٹس کی)  صوتیاتی تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس تجزیے سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صوت و معنیٰ کے درمیان ایک باہمی رشتہ پایا جاتا ہے جو صوتی رمزیت (Sound Symbolism) کی شکل شاعر میں پورے طور پر آشکار ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی نظموں (جیسے ورڈز ورتھ اور کیٹس سانیٹس )  میں پائی جانے والی غالب یا کثیر الوقوع آوازیں صوتئے (Phonemes=)  نظم کے مجموعی تاثر کی پورے طور پر عکاسی کرتی ہیں۔ ڈیل ہائمز کے صوتیاتی تجزیے کا طریقۂ کار یہ ہے :

(۱)       سب سے پہلے نظم کا انتخاب (نظم چھوٹی ہو جس میں لریکل(Lyrical)  شاعری کی خصوصیات پائی جاتی ہوں)  کیا جاتا ہے۔

(۲)      نظم کو صوتیاتی تحریر (Phonetic Writing) کا جامہ پہنایا جاتا ہے۔

(۳)     نظم میں پائے جانے والے صوتیوں (Phonemes) یعنی مصمتوں اور مصوتوں (Consonants and Vowels) کی الگ الگ فہرست تیار کی جاتی ہے اور ہر صوتئے کے سامنے تجزیہ نظم میں اس کی تعداد وقوع درج کی جاتی ہے۔

(۴)     مصمتوں اور مصوتوں کی دونوں فہرستوں میں سے غالب یا کثیر الوقوع (High-ranking) کو چھانٹا جاتا ہے اور ان کی ایک مشترکہ فہرست اس طرح تیار کی جاتی ہے کہ جو صوتیہ سب سے زیادہ بار استعمال ہوا ہے وہ سب سے اوپر درج کیا جاتا ہے اس کے بعد دوسرا پھر تیسرا پھر دیگر کثیر الوقوع صوتئے درج کئے جاتے ہیں۔

(۵)     غالب یا کثیر الوقوع صوتیوں کی مدد سے ایک ایسا لفظ یا فقرہ تشکیل دینا جاتا ہے جو زیر تجزیہ نظم میں استعمال ہوا ہو۔ اگر یہ لفظ اس نظم کے مجموعی تاثر اور Themeکو بیان کرتا ہے تو اسے تجمعی لفظ (Summative Word) کہیں گے۔ تجمعی لفظ میں تین خصوصیات کا پایا جانا لازمی ہیں:

صوتی سطح پر یہ لفظ زیرِ تجزیہ کی کثیر الوقوع آوازوں سے مل کر بنا ہو۔

اس لفظ کا استعمال زیرِ تجزیہ نظم میں ہوا ہو۔

معنیاتی سطح پر یہ لفظ اس نظم کے مجموعی تاثر اور Themeکو پیش کرتا ہو۔

اگر تجمعی لفظ زیرِ تجزیہ نظم میں مناسب مقام پر ہو واقع ہوا ہے تو اسے کلیدی لفظ (Key Word) بھی کہہ سکتے ہیں۔

(۶)      نظم کی غالب کی آوازوں کا جن سے تجمعی لفظ کی تشکیل عمل میں آتی ہے ، نظم کے بنیادی خیال اور مجموعی تاثر سے رشتہ قائم کیا جاتا ہے ، یعنی صوتی رمزیت کے امکانات کا پتا لگایا جاتا اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ صوت و معنیٰ نظم میں کس طرح یا ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ اردو میں ڈیل ہائمز کے اس صوتیاتی تجزیے کے طریقۂ کار کا اطلاق سب سے پہلے راقم الحروف نے اقبال اور فیض کی دو نظموں پر کیا۔ ان دونوں نظموں کا عنوان ’’تنہائی ‘‘ (۷)

فیض کی نظم تنہائی داخلی انداز کی ایک خوبصورت نظم ہے جو یوں شروع ہوتی ہے:

پھر کوئی آیا دلِ زار ! نہیں کوئی نہیں

راہ رَو ہو گا کہیں اور چلا جائے گا

اس نظم کے صوتیاتی تجزیہ سے جو کثیر الوقوع صوتیے (مصمتے اور مصوتے)  برآمد ہوئے انہیں ترتیب دینے پر ’’کوئی نہیں آئے گا‘‘ کی تشکیل عمل میں آئی۔ یہ تجمعی (Summative)  فقرہ اگر صوتیاتی سطح پر فیض کی نظم ’’تنہائی‘‘ کے کثیر الوقوع صوتیوں (مصمتی اور مصوتی آوازوں )  سے مل کر بنا ہے تو معنیاتی سطح پر یہ اس نظم کے مرکزی خیال اور مجموعی تاثر کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ فیض کی اس نظم میں مایوسی ،ناامیدی ، اداسی شکستہ دلی اور حزن و ملال جن کیفیات کا اظہار کیا گیا ہے وہ تمام کیفیات اس چھوٹے سے فقرے میں مجتمع ہو گئی ہیں۔ اسی لئے یہ فقرہ نظم کے مرکزی خیال کو بڑی خوبی کے ساتھ (Sum up) کرتا ہے اور نظم کے آخر میں نہایت موزوں مقام پر واقع ہوا ہے ، ع:

اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

اقبال کی جس نظم کے صوتیاتی تجزیے کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اس کا عنوان بھی ’’تنہائی ‘‘ ہے ، لیکن یہ ایک بالکل دوسرے موڈ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس میں جن خارجی اشیاء اور مظاہر کا ذکر آیا ہے وہ مناظرِ سے تعلق رکھتے ہیں ، مثلاً شب ، انجم، آسمان ، چاند، دشت ، دریا، کہسار، وغیرہ نظم کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے :

تنہائیِ شب میں ہے حزیں کیا

انجم نہیں تیرے ہم نشیں کیا

اور نظم ختم ہوتی اس شعر پر:

کس شے کی تجھے ہوس ہے اے دل

قدرت تری ہم نفس ہے اے دل

اس نظم کے غالب یا کثیر الوقوع صوتیوں (آوازوں )  کی ترتیب سے جو تجمعی لفظ تشکیل پاتا ہے وہ ’’تنہائیِ شب‘‘ ہے یہ ایک مرکب لفظ اور صوتیاتی سطح پر نظم کی غالب آوازوں سے مل کر بنا ہے۔ نیز معنیاتی سطح پر یہ نظم کے مفہوم کو بڑی خوبی کے ساتھ واضح کرتا ہے۔

ڈیل ہائمز کے اس صوتیاتی تجزئے کے طریقۂ کار کا اطلاق پروفیسر مسعود حسین خاں بھی اقبال کی دو نظموں ’’ایک شام‘‘ اور ’’حقیقتِ حسن‘‘ کے صوتیاتی تجزیوں پر کیا ہے۔ یہ دونوں تجزیے ان کی کتاب ’’اقبال کی نظری و عملی شعریات ‘‘(۸)  میں شامل ہیں۔ ان تجزیوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :

’’خود میں نے اقبال کی دو نظموں ’’ایک شام‘‘ اور ’’حقیقت حسن‘‘ کا صوتیاتی تجزیہ’ اقبال کی نظری و عملی شعریات‘ میں پیش کیا اور ڈیل ہائمز کے انداز میں اس کی تجمعی (Summative) لفظ کا تعین پہلی نظم میں ’’خاموش‘‘ اور دوسری ی میں ’’حسن‘‘ کیا (۹)

ڈیل ہائمز صوت و معنی کے باہمی رشتے یا صوتی رمزیت پر زور دیتا ہے اور نظم کے مجموعی صوتی تاثر کو نظم کے مفہوم سے اس طرح مربوط کرتا ہے کہ نظم کی صوتی کلیت اس کے اندر چھپے ہوئے مفہوم کو بالکل واضح کر دیتی ہے۔ ڈیل ہائمز کے خیال میں کسی بھی لریکل نظم میں کوئی ایسا لفظ یا فقرہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ جس کے عناصرِ ترکیبی میں صوتی سطح پر ایسی تمام آوازیں شامل ہوتی ہیں جن کا استعمال اس نظم میں بالمقابل دوسری آوازوں کے کثرت سے ہوتا ہے اور جو اس نظم کی غالب یا کثیر الوقوع آوازیں ہوتی ہیں۔ معنیاتی سطح پر یہی لفظ نظم کے نفسِ مضمون یا اس کے بنیادی خیال اور مفہوم کی ترجمانی کرتا ہے۔

(۳)    رولاں ویلز(Rulon Wells)

رولاں ویلز نے امریکہ کی یونیورسٹی آف اوٹا میں تعلیم پائی۔ پی ، ایچ ، ڈی کی ڈگری ہارورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کچھ دنوں پنسلوانیا یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد وہ ییل یونیورسٹی میں لسانیات کے ایسو سی ایٹ پروفیسر پھر پروفیسر مقرر ہوئے۔ رولاں ویلز ماہرِ لسانیات و اسلوبیات ہونے کے ساتھ ساتھ ماہرِ ہندیات بھی ہیں۔ انھیں انڈک زبانوں ، ویدوں ، اپنشدوں ، نیز یہاں کے فلسفے سے گہری دلچسپی رہی ہے۔ تقابلی ہند یورپی لسانیات اور فائلالوجی بھی ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے

اسلوبیات کے ضمن میں اسمیہ اور فعلیہ رولاں ویلز کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔ انھوں نے اپنے گراں قدر مقالے (۱۰)  "Nominal and Verbal Style” میں انگریزی زبان کے حوالے سے اسمیت اور فعلیت کا نظریہ پیش کیا ہے۔ ان کے خیال میں کسی مصنف کے اسلوب کا تجزیہ اسمیہ اور فعلیہ طرزِ اظہار کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسمیہ اسلوب میں اسم کو فعل پر، اور فعلیہ اسلوب میں فعل کو اسم پر ترجیح دی جاتی ہے۔ کسی مصنف کے یہاں اسمیہ اور فعلیہ دونوں اسالیب مل سکتے ہیں اور ایک بات جو اسمیہ اسلوب میں کہی گئی فعلیہ اسلوب میں بھی کہی جا سکتی ہے یا جو بات فعلیہ اسلوب میں کہی گئی اسے اسمیہ اسلوب میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی مصنف کے یہاں اسلوبیاتی امتیاز اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک اسلوب کو دوسرے اسلوب پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر سچ پوچھا جائے تو لسانی ترجیحات ہی اسلوبیات امتیاز کا سبب بنتی ہیں۔

رولاں ویلز کے تجزئے کے مطابق بہ حیثیتِ مجموعی انگریزی زبان میں فعلیہ اسلوب کو اسمیہ اسلوب پر ترجیح دی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انگریزی میں اسمیہ اسلوب کے مقابلے میں فعلیہ اسلوب کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے۔ رولاں ویلز کا یہ بھی خیال ہے کے انگریزی کے اسمیہ جملے ، فعلیہ جملوں کے مقابلے میں طویل ہوتے ہیں، کیوں کہ انگریزی میں بہت سے اسم فعلی مادوں سے مشتق ہیں جن میں لاحقہ ہوتا ہے ، مثلاً جب ہم ذیل کے دو فقروں کو دیکھتے ہیں:

۱.          When we arrive

۲.         At the time of our arrival

تو میں پتا چلتا ہے کہ پہلا فقرہ فعلیہ ہے جب کہ دوسرا اسمیہ فقرہ ہے اور فعلیہ فقرے کے مقابلے میں طویل ہے۔ پہلے فقرے میں حروف اور الفاظ نیز الفاظ کے درمیان وقفوں کی تعداد کم ہے۔ جب کہ دوسرے فقرے میں حروف ، الفاظ اور ان کے درمیان وقفے نسبتاً زیادہ ہیں۔ رولاں ویلز نے اسمیہ اور فعلیہ اسلوب کے درمیان فرق کو محض اسم اور فعل کے امتیاز تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ ان دونوں اسالیب کے درمیان امتیازات کو جملوں کے طول جملوں میں فقروں کی تعداد نیز دیگر صرفی و نحوی خصوصیات کے حوالے سے سے بھی پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً فعلیہ اسلوب کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس میں کسی بات کے اظہار کے لئے بعض دو فقرے (Clauses) استعمال کئے جاتے ہیں ، جب کہ وہی بات اسمیہ اسلوب میں ایک فقرے(جس میں صرف ایک فعل ہوتا ہے)  میں ادا کی جا سکتی ہے، مثلاً:۔

۱.          If the does that will be sorry.

۲.         In the event of his doing that, he will be sorry.

اردو میں پروفیسر گوپی چند نارنگ پہلے اسکالر ہیں جنھوں نے نظریۂ اسمیت اور فعلیت کی روشنی میں اقبال کے کلام کا مطالعہ و تجزیہ پیش کیا ہے (۱۱)  اسمیت اور فعلیت کو انھوں نے کلامِ اقبال کے صرفی و نحوی امتیازات کا ایک ’’پہلو ‘‘قرار دیا ہے۔ وہ ’’مسجد قرطبہ‘‘ ’’ذوق و شوق ‘‘ اور دیگر نظموں کے صرفی و نحوی تجزیوں سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اقبال کے کلام میں فعلیت (Verbalization) کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے۔ ’’مسجدِ قرطبہ ‘‘ کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس کے پہلے دوسرے تیسرے اور پانچویں بند میں اسمیت (Nominalization) کا انداز ہے ، جب کہ چوتھے اور چھٹے بند میں افعال کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ ساتویں بند میں افعال کی تعداد اور زیادہ ہو گئی ہے اور نظم کے آخری بند کے ’’ہر ہر شعر میں فعل کا عمل دخل دیکھا جا سکتا ہے۔ ‘‘ زیر تجزیہ نظم ’’مسجد قرطبہ ‘‘ کے پہلے بند کے ابتدائی تین مصرعے ملاحظہ ہوں جن میں ایک فعل بھی استعمال نہیں ہوا ہے :

سلسلۂ روز و شب ، نقش گرِ حادثات

سلسلۂ روز و شب ، اصل حیات و ممات

سلسلۂ روز و شب ، تارِ حریر دو رنگ

اس نظم کا آخری بند بقولِ گوپی چند نارنگ پہلے بند کی اسمیت سے بالکل متضاد کیفیت رکھتا ہے اور اس کے ہر شعر میں کوئی نہ کوئی فعل ضرور پایا جاتا ہے۔ اس بند کے ابتدائی تین شعر دیکھئے :

وادیِ کہسار میں غرق شفق ہے سحاب

لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب

سادہ و پر سوز ہے ، دختر دہقاں کا گیت

کشتیِ دل کے لئے سیل ہے عہدِ شباب

آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

پروفیسر نارنگ کے مطابق فعلیت کی یہی کیفیت ’’ذوق و شوق ‘‘ میں بھی ملتی ہے۔ کلامِ اقبال میں اسمیت اور فعلیت کے اس تجزئے سے نارنگ صاحب یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’اقبال اگر چہ اسمیت سے کام لیتے ہیں اور ایک مضبوط تخلیقی حربے کے طور پر اس کو استعمال کرتے ہیں ، لیکن اس کے تحدید یا امکانات کی کے خطروں کا بھی انہیں وجدانی طور پر احساس تھا ، اس لئے اس سے گریز بھی کرتے ہیں اور جلد اس تنگنائے سے باہر فعلیت کی کھلی فضا میں آ جاتے ہیں۔ ان کے موضوعی محرکات اور کشاکشِ خیال یعنی Discourseکے تقاضے بھی اسی کے حق میں ہیں۔ شعرِ اقبال کی حرکی اور پیغامی لے اسلوبیاتی اعتبار سے فعلیہ احساس ہی کے ذریعے صورت پذیر ہو سکتی تھی۔ ‘‘ (۱۲)

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے کلامِ اقبال کے صرفی و نحوی تجزئے سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ اقبال فعلیت کو اسمیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح فعلیہ اسلوب کلامِ اقبال کا ایک امتیازی اسلوبیاتی و صف قرار پاتا ہے۔ اس سلسلے میں نارنگ صاحب نے اردو زبان کے مزاج کی روشنی میں اسمیت اور فعلیت کی جس لسانی درک و بصیرت کے ساتھ وضاحت کی ہے وہ قابل تحسین ہے ، مثلاً

  • اسمیت سے اختصار اور فعلیت سے جملے میں پھیلاؤ آتا ہے۔
  • فعلیت سے ترسیلِ معانی میں زیادہ مدد ملتی ہے
  • فعلیت زیادہ پر تاثیر ہے۔
  • بچے فعلیہ اسلوب کی تخلیق ، بچے اسمیہ اسلوب کی تخلیق سے زیادہ مشکل ہے۔ اس میں تہ داری اور معنیٰ آفرینی کی گنجائش زیادہ ہے۔
  • اسمیت میں اسلوبیاتی تنوع کا زیادہ امکان نہیں، فعلیت میں تنوع کے امکانات لامحدود ہیں، اور کوئی بھی اچھا اسلوب ان امکانات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

)    جیوفری لیچ (Geoffrey Leech)  

جیوفری لیچ ایک ممتاز ماہرِ لسانیات و اسلوبیات ہیں۔ معنیات ان کا خصوصی علمی میدان رہا ہے اس موضوع پر ان کی کتاب Semanticsکو علمی دنیا میں پایۂ اعتبار حاصل ہے۔ لیچ کچھ عرصے تک یونیورسٹی کالج لندن میں انگریزی کے لیکچرر اور کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر کے اسسٹنٹ سکریٹری کی عہدے پر فائز رہے۔ لنکا سٹر یونیورسٹی میں لسانیات اور جدید انگریز ی زبان کے پروفیسر رہ چکے ہیں۔

جیوفری لیچ نے انگریزی شاعر ڈیلن ٹامس (Dylan Thomas)  کی نظم "This Bread I Break” کا اسلوبیاتی تجزیہ پیش کر کے عملی اسلوبیات کی ایک بہترین مثال پیش کی ہے۔ (۱۳)  اس تجزیے کے ذریعے لیچ نے اپنے اسلوبیاتی نظریے کو بھی واضح کیا ہے۔ لیچ کے نزدیک ادبی متن کے مطالعے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ لسانیاتی توضیح Linguistic Description کہلاتا ہے اور دوسرا طریقہ تنقیدی تشریح (Critical Interpretation)  ہے۔ بہ ظاہر یہ دونوں طریقے الگ الگ ہیں لیکن ان میں باہمی رابط پایا جاتا ہے۔ لیچ نے اس تجزیے میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح لسانیاتی توضیح بالواسطہ طور پر تنقیدی تشریح کی مدد کر سکتی ہے۔ کسی ادبی فن پارے میں معتی کی اتنی تہیں اور جہتیں ہوتی ہیں کہ کسی دوسرے Discourse یا کلامیہ میں ان کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ گویا ادب پارہ گنجیۂ معنی کا طلسم ہوتا ہے۔ لیچ نے مذکورہ انگریزی نظم کے حوالے سے ادبی اظہار کی تین خصوصیات کا ذکر کیا ہے جو معنی کی تمام جہات و بعاد کی نمائندگی کرتی ہیں۔ معنی کو لیچ عام مفہوم میں استعمال نہیں کرتا، بلکہ وہ اس سے وسیع معنی مراد لیتا ہے۔ معنی میں وہ ہر طرح کے لسانیاتی انتخاب (Linguistic Choice)  کو شامل کرتا ہے۔ خواہ معنیاتی انتخاب ہویا لغوی، قواعدی اور صوتیاتی۔

ڈیلن ٹامس کی مذکورہ نظم کے تجزیے کے سلسلے میں لیچ سب سے پہلے لسانیاتی توضیح کے ایک پہلو اتصالیہ (Cohesion)  کا ذکر کرتا ہے جس کی ادبی متون کے مطالعے میں خاص اہمیت ہے۔ اتصالیہ سے لیچ کی مراد قواعدی اور لغوی نوعیت کے اندرونِ متن وہ لسانیاتی رشتے ہیں جو کسی ادبی فن پارے کے مختلف اجزاء کو کلامیہ (Discourse)  کی مکمل اکائی کی صورت میں باہم مربوط کرتے ہیں اور اس طرح بہ اعتبارِ مجموعی یہ رشتے متن کے مفہوم کی ترسیل کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادبی فن پارے میں قواعدی اور لغوی سطح پر جو لسانیاتی انتخابات بروئے عمل لائے جاتے ہیں ان سے پوری نظم میں معنیاتی رشتوں کا ایک جال سا بن جاتا ہے۔ لغوی سطح پر اتصالیہ الفاظ کی تکرار کی صورت میں پایا جاتا ہے یا ان الفاظ کے استعمال میں جن میں بعض معنیاتی خصوصیات مشترک ہوتی ہیں، مثلاً مذکورہ نظم میں bread -oats crops یا day-night- summer- sun یا-tree- fruit- grape-vine wine یا blood-flesh یاjoy- merry وغیرہ۔

لیچ کے نزدیک ادبی فن پارے کی لسانیاتی توضیح کا دوسرا پہلو فور گراؤنڈنگ (Foregrounding)  ہے۔ اس سے مراد زبان کے مروجہ قاعدوں اور لسانی نارم سے دانستہ انحراف ہے۔ ہر زبان کا اپنا چلن ہوتا ہے۔ ایک عام روش، نارم (Norm)  موجہ اصول اگر ان لسانی ضابطوں اور قاعدوں یا چلن اور نارم کی خلاف ورزی کی جائے تو اُسے انحراف، (Deviation)  سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہی چیز فورگرا ؤنڈنگ سے نہ صرف اظہار میں جدت اور ندرت پیدا ہوتی ہے بلکہ زبان کی توسیع بھی ہوتی ہے اور زبان کے تخلیقی، جمالیاتی اور اظہاری استعمال کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ فورگراؤنڈنگ کو لیچ جمالیاتی ترسیل کا بنیادی اصول قرار دیتا ہے۔ ڈیلن ٹامس کی مذکورہ نظم میں لسانی نارم سے انحراف کی متعدد مثالیں پائی جاتی ہیں، مثلاً "The oat was merry”۔ یہاں عیر ذی روح اسم (Oat)  کو ایسی خصوصیت کا حامل بتایا گیا ہے جو صرف جوذی روح بلکہ انسانوں سے نسبت رکھتی ہے۔ اس قسم کے اظہار کو زبان کے عام چلن اور مروجہ نارم سے انحراف تصور کیا جاتا ہے۔ زبان کا عام چلن The man was merry کو قبول کر سکتا ہے لیکن "The oat was merry” کو کسی صورت انگریزی نہیں کر سکتا۔ (۱۴)

ادبی فن پارے کی لسانیاتی توضیح کی تیسری جہت فورگراؤنڈنگ کا اتصال ہے۔ اس سے لیچ یہ مراد لیتا ہے کہ ادبی متن میں پائی جانے والی زبان کی مختلف النوع انحرافی شکلوں میں کسی طرح کا باہمی ربط و اتصال قائم کیا جا سکتا ہے اور کس طرح اندرونِ متن انھیں پیٹرن کی صورت دی جا سکتی ہے۔

فورگراؤنڈنگ سے متعلق لیچ کے تجزیے کا یہ ماڈل دراصل لسانیات کے دبستانِ پراگ (Prague School)  کے ممتاز عالم اور نقاد جان حکاروسکی(۱۵)  کے ماڈل پر تیار کیا گیا ہے جس نے پہلی بار شعری زبان میں فورگراؤنڈنگ کی اہمیت کو تسلیم کیا اور کہا کہ شاعری کی زبان کو ضرور Foregrounded ہونا چاہیئے۔ اردو میں اس نوع کے تجزیے کے بیحد امکانات ہیں۔ مثال کے طور پر فیض کی نظم ’’تنہائی‘‘ میں فورگراؤنڈنگ کی نہایت دلکش شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں بھرپور ترسیلی امکانات پائے جاتے ہیں اور جو شاعر کی بے پناہ اظہاری قوتوں اور زبان کے تخلیقی استعمال کی حرکیات کا پتا دیتی ہیں۔ نظم ’’تنہالی‘‘ کی بعض تراکیب جنھیں فورگراؤنڈنگ کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ ہیں، مثلاً خوابیدہ چراغ، بے خواب کواڑ، اجنبی خاک، تاروں کا غبار، راہ گزار کا سو جانا، راہ گزار کا راستہ تکنا، چراغ کا لڑکھڑانا وغیرہ۔ اس نظم میں معنی کی اتصال کی بھی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں، مثلاً راستہ/ راہ رو/ راہ گزار یا رات / تارے/ چراغ/ شمع یا ڈھلنا/ بکھرنا / گل کرنا/لڑکھڑانا (زوال پذیری کی علامتیں جو فیض کی مذکورہ نظم میں مایوسی، اداسی اور حرماں نصیبی کے Signifiers کے طور پر استعمال ہوئی ہیں) ۔

حواشی و حوالے

۱۔         دیکھیے ہیرلڈ بہ۔ ایلن (Harold B. Allen)  مرتب، Readings in Applied English Linguistics، ہندوستانی ایڈیشن (نئی دہلی: امیرنڈ پبلشنگ کمپنی، ۱۹۷۱ء) ، ص ۴۸۸ تا ۴۹۲۔

۲۔        ٹامس اے۔ سیبیوک (Thomas A. Sebeok)  مرتب، Style in Language (کیمبرج، میسا چوسٹس: MIT، ۱۹۶۰ء)

۳۔        سمیورچٹمن (Seymour Chatman) ، مرتب، Literary Style: A Symposium (لندن اور نیویارک: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، ۱۹۷۱ء)

۴۔        نلز ایرک انکوسٹ (Nils Erik Enkvist) ، ۱۹۶۴ء، "On Defining Style: An Essay in Applied Linguistics”. مشمولہ Linguistics and Style (نلز ایرک، انکوسٹ اور دیگر) ، لندن: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس۔ ص ۳ تا ۵۶۔

۵۔        نلز ایک انکوسٹ کے ان اسلوبیاتی نظریات سے راقم اطراف نے اپنے ایک مضمون ’’اسلوب: تعریف، توضیح اور تشکیل‘‘ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ دیکھیے راقم الحروف کی کتاب زبان، اسلوب اور اسلوبیات (علی گڑھ: ادارۂ زبان و اسلوب، ۱۹۸۳ء) ، ص ۱۵۷ تا ۱۸۸۔

۶۔        ڈیل ایچ۔ ہائمز (Dell H. Hymes) ، ۱۹۶۰ء، "Phonological Aspects of Style: Some English Sonnets”. مشمولہ ٹامس ۱۷۔ سیبیوک (مرتب) ، محولہ کتاب۔ ص ۱۰۹ تا ۱۳۱۔

۷۔        دیکھیے راقم اطراف کا مضمون ’’شعری اسلوب کا صوتیاتی مطالعہ: دو اردو نظمیں‘‘ مطبوعہ شعرو حکمت (حیدرآباد) ۔ نمبر ۷ (۱۹۷۲ء) ، ص ۲۱۷ تا ۲۴۶۔

۸۔        مسعود حسین خاں ، اقبال کی نظری و عملی شعریات (سری نگر: اقبال انسٹی ٹیوت، کشمیر یونیورسٹی، ۳۸۹۱ئ) ۔

۹۔         مسعود حسین خاں، ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر‘‘ مطبوعہ آجکل (نئی دہلی) ، جلد ۹۴، شمارہ ۱۱ (جون ۱۹۹۱ء)  ص ۳ و ۴۔

۱۰۔       رولاں ویلز (Rulon Wells) ، ۱۹۷۰ء”Nominal and Verbal Style” مشمولہ Linguistics and Literary Style (مرتبہ ڈونلڈسی۔ فریمن) ، نیویارک: ہولٹ، رائن ہارٹ اینڈ ولنسٹن۔ ص ۲۹۷ تا ۳۰۶۔

۱۱۔        دیکھیے گوپی چند نارنگ کا مضمون ’’اسلوبیاتِ اقبال: نظریۂ اسمیت اور فعلیت کی روشنی میں‘‘ مشمولہ ادبی تنقید اور اسلوبیات (گوپی چند نارنگ) ، دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۹۸ء۔ ص ۱۵۳ تا ۱۷۵۔

۲۱۔       ایضاً، ص ۱۷۴۔

۱۳۔       دیکھیے جیوفری لیچ (Geoffrey Leech)  کا مضمون”This Bread I Break: Language and Interpretation” مشمولہ ڈونلڈ سی۔ فریمن (مرتب) ، محولہ کتاب۔ ص ۱۱۹ تا ۱۲۸۔

۱۴۔       فورگرااؤنڈنگ (Foregrounding)  کو دورِ حاضر کے اردو نقاد بہ نظر تحسین دیکھتے ہیں اور شعراء کے کلام میں اس کی کمی یا فقدان کا گلہ کرتے ہیں، مثلاً ممتاز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی نے شہریار کے شعری مجموعے نیند کی کرچیں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ ’’زبان اور محاورے کے تئیں شہریار کا رویّہ ابھی اور ڈھیٹ اور بے پروا ہونا چاہیے تاکہ ان کی تخلیقی قوت پر سے بند پوری طرح اٹھ سکے‘‘۔ پھر وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’آہنگ میں مزید تنوع لانے کے لیے انھیں زبان میں بھی تنوع لانا ہو گا۔ انھوں نے جان بوجھ کر فارسی تراکیب اور نسبتاً نامانوس الفاظ سے گریز کیا ہے تو اس کا بدل مروّج زبان میں تھوڑی بہت توڑ پھوڑ کی صورت میں انھیں حاصل کرنا چاہیے۔ ‘‘ ( پیش لفظ، نیند کی کرچیں، ص ۱۷،۱۸) ۔

۱۵۔       دیکھیے جان مکارووسکی (Jan Mukaroresky)  کا مضمون "Standard Language and Poetic Language” مشمولہ ڈونلڈ سی۔ فریمن (مرتب) ، محولہ کتاب۔ ص ۴۰ تا ۵۶۔ (۱۹۹۷ ء)

 

مسعود حسین خاں اور اسلوبیات

اسلوبیات ایک نیا دبستانِ تنقید ہے جسے اردو میں متعارف کرانے کا سہرا پروفیسر مسعود حسین خاں کے سر ہے۔ مسعود صاحب پہلے اسکالر ہیں جنھوں نے اردو میں اسلوبیات پر مضامین لکھے اور اس کی مبادیات سے اردو داں طبقے کو روشناس کرایا۔ اس سلسلے کا ان کا سب سے پہلا مضمون ’’مطالعہ شعر: صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘‘ ہے جو ۱۹۶۰ء کے آس پاس لکھا گیا اور جو ان کے مجموعۂ مضامین شعرو زبان (حیدرآباد، ۱۹۶۶ء)  میں شامل ہے۔

اسلوبیات کی جانب مسعود صاحب کی توجہ لسانیات کی تربیت حاصل کرنے کی وجہ سے مبذول ہوئی، کیوں کہ ’اسلوبیات‘ در اصل ادب کے مطالعے میں لسانیات کے اطلاق کاہی دوسرا نام ہے۔ لسانیات کی تربیت پانے کی وجہ سے ان کا ذہن تجزیاتی، معروضی اور سائنسی طرزِ فکر کا حامل بن گیا تھا۔ ایک جگہ لسانیات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ :

’’اس میں سائنسی اندازِ فکر کے تقاضوں کو پورا کرانے کے لئے ضروری ہے کہ جذبہ و تخیل کی دنیا سے نکل کر انسان تعلقی اور منطقی فکر کو اپنائے ‘‘ (۱)

وہ ادب اور لسانیات کو ’ ہم دِگر ‘ دیکھنا چاہتے تھے اور لسانیات سے جو علمی بصیرت حاصل ہوتی ہے اس سے ادب کے مطالعے میں فائدے اٹھانا چاہتے تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ادب کا ذریعہ اظہار زبان ہے اور زبان کی ہی سائنسی مطالعے کا نام ’لسانیات ‘ ہے ، لہٰذا ادب کے لسانیات نقطۂ سے مطالعے کا وافر جواز پایا جاتا ہے۔

مسعود حسین خاں صاحب اگر چہ بنیادی طور پر ادب کے استاد تھے ، لیکن مطالعۂ ادب کے داخلی ، تاثراتی اور وجدانی طریقۂ کار کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ ناقدینِ ادب کے بلند بانگ دعووں اور مبالغہ آمیز تعمیمات سے بیزار ہو چکے تھے اور تنقید کے خالص داخلی رنگ کو بیجا تصوّر کرتے تھے اسی طرح خالص ذوقی اور وجدانی تنقید بھی ان کے نزدیک کارِ عبث تھی۔ اپنے اِس تنقید نظرئیے کا اظہار انھوں نے اپنی خود نوشت درودِ مسعود میں ایک جگہ یوں کیا ہے :

’’میں ادبی تنقید کی فقرے بازی اور قولِ محال سے بیزار تھا۔ ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں، مقدس وید اور دیوانِ غالب، ’منزل اردو شاعری کی آبرو ہے، جن فقروں پر لوگ سر  دھنتے تھے میری سمجھ میں ان کا مفہوم نہیں آتا تھا۔ میں زیادہ سے زیادہ انہیں انشاءپردازی کہہ سکتا ہوں ، ادبی تنقید ہر گز نہیں۔ ان سے مجھے لطف مل سکتا ہے، بصیرت نہیں ملتی۔ جہاں تک قدماء کے مشاہدات کا تعلق ہے ان میں کچھ جان پاتا تھا۔ لیکن ہر سطح پر علوم کے حوالے سے ان کی نئی تشریحات کی ضرورت محسوس کرتا۔ بیان و بلاغت کی کتب میں ’صرف‘ کا تصوّر اس طرح چھایا رہا ہے کہ ’ صوت‘ کا کہیں پتا نہیں چلتا، حالانکہ حرص تو صرف جامہ ہے، زبان کی جان تو صوت ہوتی ہے۔ ‘‘(۲)

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ تنقید کے مروجہ اسالیب سے مسعود صاحب کا دل اچاٹ ہو چکا تھا اور وہ تنقید کے عصری رجحانات و میلانات، مثلاً رومانی تنقید ، تاثراتی تنقید اور جمالیاتی تنقید کو ادب کی تفہیم و تنقید کے لئے ناکافی سمجھتے تھے، لیکن ادب پر لسانیات کے اطلاق اور مطالعۂ ادب کے لئے اسلوبیاتی طریقۂ کار کو اختیار کرنے باقاعدہ تحریک انہیں امریکہ میں پروفیسر آر کی بالڈے اے۔ ہل کے لکچرز سے ملی جن میں وہ پابندی کے ساتھ حاضری دیا کرتے تھے۔

مسعود حسین خاں صاحب نے ۶۰۔ ۱۹۵۹ء کے دوران امریکہ کا علمی سفر کیا اور اپنے علمی استفادے کے لئے امریکہ کی دو ممتاز دانش گاہوں ٹیکسس یونیورسٹی (آسٹن)  اور ہارورڈ یونیورسٹی کا انتخاب کیا۔ ٹیکسس یونیورسٹی میں ان کی ملاقات پروفیسر آرکی بالڈ اے۔ ہل سے ہوئی جو اگر چہ وہاں کے شعبۂ انگریزی کے صدر تھے، لیکن ان کی دلچسپی کا میدانِ علم لسانیات بھی تھا۔ وہ ’ لسانیاتی اسلوبیاتی‘ کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور ادب کی تفہیم کی و تنقید کے لئے لسانیات کا اطلاق کر رہے تھے بلکہ اس وقت وہ لسانیات کا ادب پر اطلاق کرنے والوں کے ’ سرخیل‘ تھے۔ مسعود صاحب ٹیکسس یونیورسٹی میں اپنے قیام کے دوران پابندی کے ساتھ پروفیسر ہل کے لکچرز میں شریک ہوتے رہے۔ انھیں ان لکچروں میں وہ سب کچھ ملا جس کی ہندوستان میں انھیں تلاش تھیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔

’’پروفیسر ہل کے لکچروں میں‘‘ جن میں میں پابندی سے حاضری دیتا تھا، وہی پایا جس کی مجھے تلاش تھی، یعنی لسانیات اور ادب کو کس طرح ہم دگر کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘(۳)

مسعود حسین خاں جس وقت امریکہ پہنچے، اس وقت وہاں نوام چامسکی کے لسانیاتی نظریات کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ان کے امریکہ پہنچنے سے صرف دو سال قبل چامسکی کی شہرۂ آفاق کتابSyntactic Structures(۱۹۵۷ء)  میں شائع ہوئی تھی جس نے لسانیات کی دنیا میں ایک انقلابِ عظیم برپا کر دیا تھا۔ لیکن ثقہ لوگ اس کے نظریات کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ پروفیسر ہل بھی چامسکی کے لسانیاتی نقطۂ نظر کو ’’لائق اعتنا‘‘ نہیں سمجھتے تھے، کیوں کہ ان کا تعلق بلوم فیلڈ کے ’بیوہاری‘Behavioristدبستان سے تھا ، اس لئے جیسا کہ مسعود صاحب نے لکھا، ، پروفیسر ہل کی لسانیاتی اسلوبیات کی اماس بلوم فیلڈ کے نظریے پر قائم تھی۔ (۴)

(۲)

زبان کے مسائل سے لوگوں کی علمی دلچسپی اگر چہ قدیم زمانے سے رہی ہے، لیکن لسانیاتِ جدید Modern Linguisticsکا باقاعدہ ارتقا بیسویں صدی کے آغاز سے ہوتا ہے اور فری ڈی نینڈ ڈی سسیلور کے لسانی تصورات لسانیاتِ جدید کا نقطہ آغاز قرار پاتے ہیں۔ سیلور کی یادگار صرف اس کی کتاب Course in General Linguisticsہے جو اس کے شاگردوں نے اس کے لکچر نوٹس کی مدد سے ترتیب دے کر اس کی وفات کے تین سال بعد ۱۹۱۶ء میں شائع کی تھی۔ جدید لسانیات کے ارتقا میں فرڈی نینڈ ڈی سسیلور کے تصورات اتنے بنیادی اہمیت کے حامل ہیں کہ اسے ’لسانیاتِ جدید کا باوا آدم ، کہا جانے لگا۔ جن لسانیاتی نظریات کو سسیلور نے پیش کیا تھا ان کی بنیاد پر ہیئتی یا ساختیاتی لسانیات Structures Linguisticsکا ارتقا عمل میں آیا ہے جسے توضیحی لسانیات Descriptive Linguisticsکے نام سے بھی یاد کیا گیا۔ توضیحی لسانیات کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ زبان کی توضیح بیان کرتی ہے ، تاریخ نہیں۔ یعنی کسی زبان میں عہد بہ عہد رو نما ہونے والی تبدیلیوں کے مطالعے کے علم الرغم یہ کسی ایک عہد میں بولی جانے والی زبان کی ہیئت یا ساخت کی توضیح Descriptionہے۔ بیسویں صدی سے قبل زبانوں کے تاریخی مطالعے کا رجحان عام تھا، لیکن سسیلور کے لسانی تصورات کے عام ہوتے ہی عالموں کی توجہ زبانوں کے توضیحی مطالعے کی جانب مبذول ہوئی۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس زمانے میں یورپ میں فرڈی نینڈڈی سسلیور لسانیات پر لکچر دے رہا تھا تقریباً اسی زمانے میں امریکہ میں علم بشریات Anthropologyکی ایک شاخ کے طور پر لسانیات کا ارتقا عمل میں آ رہا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز کے آس پاس ماہرینِ بشریات امریکہ کی ’ریڈ انڈین ‘ Red Indians قوموں کی تیزی کے ساتھ مٹتی ہوئی تہذیب کو محفوظ کر لینے کی کوشش میں سرگرداں تھے۔ زبان چونکہ تہذیب کا ایک اہم جزو ہے، اس لئے ماہرینِ بشریات ان قوموں کی زبانیں ریکارڈ کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ چنانچہ اس عمل کے دوران ان کی توجہ ریڈ انڈین زبانوں کے مطالعے اور تجزیے کی جانب بھی مبذول ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ابتدائی دور کے ماہرینِ لسانیات ،بنیادی طور پر بشریات کے عالم تھے ، جن میں فرنیز بواز اور ایڈورڈسپیر کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ ان عالموں نے اور بعض دوسرے ماہرینِ بشریات نے اگر چہ ریڈ انڈین زبانوں کے مطالعے اور تجزئے میں بے حد سرگرمی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کے مطالعے بعض اوقات ٹھوس اور مربوط نہ ہو سکے۔ ان میں ایک طرح کی کمی باقی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان زبانوں کے مطالعے کے کوئی رہنما اصول اب تک متعین نہ ہو سکے تھے اور ان کے تجزئے کے طریقے کار کی جستجو ہنوز باقی تھی۔ یہ صورت حال لینارڈبلوم فیلڈ کی مفصل اور معرکۃ الآرا تصنیف Languageکی ۱۹۲۲ء میں اشاعت سے یکایک تبدیل ہو گئی۔ بلوم فیلڈ نے اس کتاب میں زبان کی توضیح اور تجزئے کے واضح اصول متعین کئے اور کہا کہ ماہرینِ لسانیات کو صرف اسی مواد کی معروضی اور منظم طور پر چھان پھٹک کر نی چاہئے جو ان کے مشاہدے کے دائرے میں آتا ہو۔ علاوہ ازیں بلوم فیلڈ نے ’معنی‘ سے زیادہ اس بات پر زور دیا کہ کسی زبان میں لسانی مواد کی ترتیب و تنظیم کس نہج پر عمل میں آئی ہے اور اس کے پیچھے کون سے اصول کار فرما رہے ہیں۔ اپنے اس ہیئتی نظرئے کی تشکیل میں بلوم فیلڈ نے ’معنی‘ سے صرف نظر کیا ہے۔ اس کے خیال میں زبان کے توضیحی مطالعے میں معنیٰ سے سرو کار رکھنا چنداں ضروری نہیں۔ لسانیات کی دنیا میں بلوم فیلڈ کا طلسم تقریباً ربع صدی تک قائم رہا۔

بیسویں صدی کی نصفِ اوّل کے ختم ہوتے ہی لسانیات نے اپنے ارتقاء کا ایک نیا موڑ اختیار کیا۔ نوام ’چامسکی نے ‘جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ۱۹۷۷ء میں محض ۲۹ سال کی عمر میں جس وقت کو وہ میسا چومٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں استاد تھا Syntactic Structures کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس سے اس کی شہرت نہ صرف پوری دنیا میں پھیل گئی ، بلکہ لسانیات کو ایک نئی سمت اور نئی جہت بھی ملی ہے۔ چامسکی بلاشبہ اس صدی کا سب سے ذہین اور با اثر عالمِ لسانیات ہے جس نے تخلیقی قواعد Generative Grammarکا نظریہ پیش کر کے لوگوں ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ چامسکی کا خیال ہے کہ کسی زبان کا بولنے والا اس زبان کے اصول و ضوابط Rulesکو اپنے تحت الشعور میں محفوظ کر لیتا ہے جو اس زبان کے استعمال میں یعنی فقروں اور جملوں کی تشکیل و ترتیب میں اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ایک ماہر لسانیات کا کام یہ ہے کہ وہ ان اصول و ضوابط کا پتا لگائے ، اور یہی ’دریافت‘ اس زبان کی ’قواعد‘Grammar کہلاتی ہے۔ جو قواعد ایسے اصول و ضوابط پر مشتمل ہو جو اس بات کی صراحت کریں کسی زبان کے فقروں یا جملوں کی کون سے ترتیب ممکن ہے اور کون سی ممکن نہیں، تو ایسی قواعد ’تخلیقی قواعد‘ Generative Grammar کہلائے گی اسی قواعد کی ایک شکل کو ’تبادلی تخلیقی قواعد‘ Trans Promotional Generative Grammarکا نام دیا گیا ہے۔ چامسکی کے نزدیک قواعد وہ طریقہ کار Deviceہے جو کسی زبان کی تمام قواعدی شکلیں (یعنی وہ تمام فقرے اور جملے جو قواعد کی رو سے درست ہوں تخلیق کرتا ہے، غیر قواعدی شکلیں نہیں۔ قواعد کے بارے میں چامسکی کے اس نظرئے سے تخلیقی لسانیات Generative Linguisticsکے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے

(۳)

بیسویں صدی کی وسط تک ہندوستان میں جدید لسانیات کا فروغ تو ہو چکا تھا، لیکن شعر و ادب پر اس کے باقاعدہ طور پر اطلاق کی بات ابھی تک کسی کے ذہن میں نہیں آئی تھی،اور اردو زبان تو اس معاملے میں اور بھی پیچھے تھے۔ اس صورتِ حال کا ذکر مسعود حسین خاں صاحب یوں کرتے ہیں:

’’غرض قواعد نویسی ہو یا عروض و بلاغت کے اصول، ہماری علمی نظر ان گہرائیوں تک نہیں جاتی جو توضیحی لسانیات نے اس صدی میں پیدا کر دی ہے۔ شعر و ادب بھی زبان سے پیدا ہوتا ہے ، اس لئے اس کے اصول وضع کرنے میں علمِ زبان سے اغماض کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ لفظ و معنیٰ کی بحث پر یا تو دیو مالا کی چھوٹ پڑتی ہے یا ہم فلسفیانہ موشگافیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم یہ محسوس تو کر لیتے ہیں کہ شاعر ’ گنجینۂ معنیٰ کا طلسم ‘ بناتا ہے لیکن اس ترکیب کے پیچھے جس معنیاتی حقیقت سے سامنا ہے اس توجیہہ نہیں کر پاتے۔ چنانچہ یا تو شاعری جزویست از پیغمبری ، کہتے آتے ہیں یا ’آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں۔ ‘ ہم نے زبان کے تہ نشین امکانات کو چامسکی کے وقت تک مطلق سمجھنے کی کوشش نہیں کی‘‘(۵)

امریکہ میں اپنے قیام کے دوران مسعود صاحب چامسکی سے بے حد متاثر تھے۔ انہیں چامسکی کی آئندہ مقبولیت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ بلوم فیلڈ کی شہرت اب زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’بلوم فیلڈ کی ’بیوہاریت ‘ کا طلسم ٹوٹ رہا تھا اور لسانیات نئی پرواز کے لئے پر تول رہی ہے۔ ‘‘ (۶)

امریکہ میں اپنے قیام کے دوران وہ قدماء کے ’علم بیان و بلاغت ‘ کے بارے میں اکثر سوچتے اور ان کے مشاہدات و فرمودات کو لسانیات کی کسوٹی پر ’’رکھنے‘‘ کی کوشش کرتے۔ جیسا کہ انھوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ انھیں ’’اس میں چامسکی کے نظریے سے بہت مدد ملتی ‘‘(۷)

ٹیکسس یونیورسٹی میں تقریباً دو سمسٹر گزارنے کے بعد مسعود حسین خاں صاحب نے ہارورڈ یونیورسٹی کا رخ کیا۔ وہاں ان کی ملاقات مشہور نقاد اور ادبی اسکالر آئی۔ اے۔ رچرڈز سے ہوئی ، لیکن وہ ان سے کوئی خاطر خواہ استفادہ نہ کر سکے کیوں کہ بقول ان کے رچرڈز نے اپنی تحقیقات کو اب صرف انگریزی زبان پڑھانے کے طریقوں تک محدود کر دیا تھا۔ (۸)  وہ رچرڈ ز کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’جس شخص نے ساری عمر  ادب کی ماہیت اور معنی کی معنویت سمجھنے میں گزاری تھی ، آخری عمر میں بچوں اور بالغوں کو انگریزی پڑھانے کے طریقوں کی ایجاد پر وقت صرف کر رہا تھا :‘‘ (۹)

ہارورڈ یونیورسٹی میں مسعود صاحب کو مطالعے کے کافی مواقع ملے۔ انھوں نے وہاں مقام کے دوران زبان و ادب کے رشتوں کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کیا اور فنِ شعر پر بے شمار کتابیں پڑھیں جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں:

’’اس زمانے میں میرے سر میں سودا سمایا ہوا تھا کہ زبان کے ناز ک ترین استعمال یعنی شاعرانہ استعمال کی کُنہ تک پہنچ سکوں۔ لسانیات کا مطالعہ اب میرے لئے ثانوی ہو گیا تھا۔ جب ادبی نقادوں کی لفاظی سے گھبرا جاتا تو پھر لسانیات میں غوطہ زن ہوتا۔ قدماء کے علمِ بیان و بلاغت کے بارے میں مشاہدات اور فرمودات کو لسانی علم کی کسوٹی پر کسنے کی کوشش کرتا۔ اس میں چامسکی کے نظرئے سے بہت مدد ملتی۔ اس لئے کہ اس نے علمِ لسان کی آنکھیں باہر کے بجائے اندر کی جانب کر دی تھیں۔ اب ’ معنی‘ اس قدر ’بے معنی‘ نہیں تھا جس قدر کہ’ بلوم فیلڈ یوں‘ نے سمجھ رکھا تھا، لیکن اس کے لئے نفسیاتی لسانیات پر کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ‘‘ (۱۰)

ہارورڈ کے قیام کے دوران مسعود حسین خان نے لسانیات کے علاوہ شعر کی تخلیق کے محرکات اور مسائل سے بھی دلچسپی لی کیونکہ تجزیۂ شعر پر لسانیات کا اطلاق کرنے سے پہلے وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ ’’ شعر کے بارے میں ادبی نقادوں نے کیا سوچا اور کہا ہے۔ ‘‘ لیکن جہاں تک کہ ’ نقدِ شعر ‘ کا تعلق ہے، انھوں نے خود کو ’متنِ شعر‘ اور ’شاعر کی لسانی مہارت ‘ کے مطالعے تک ہی محدود رکھنے کی کوشش کی، اور یہی اسلوبیات یا اسلوبیاتی تنقید کا مقصد بھی ہے۔

امریکہ سے ہندوستان واپسی پر مسعود صاحب نے اسلوبیاتی مضامین کا سلسلہ شروع کیا(۱۱)  جن میں ’نقدِ شعر ‘ کے لسانی پہلوؤں کا مطالعہ پیش کیا گیا اور متن (Text)  کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ چوں کہ زبان ادب کا ذریعۂ اظہار ہے اس لئے ادب و شعر کے لسانی پہلوؤں کے مطالعے میں لسانیات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ لسانیاتی مطالعۂ شعر یا ادب پر لسانیات کے باقاعدہ اطلاق کو ’اسلوبیات‘ کا نام دیا گیا ہے۔ وضاحت کی خاطر ماہرین اسے کبھی کبھی ’لسانیاتی اسلوبیات‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اصطلاح ’ادبی اسلوبیات ‘ سے اسے ممیّز کرنے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے۔

مسعود صاحب اس نظریۂ تنقید کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:

’’لسانیاتی مطالعۂ شعر، در اصل ‘ شعریات کا جدید ہیئتی نقطۂ نظر ہے۔ لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ جامع ہے ، اس لئے کہ یہ شعری حقیقت کا کلی تصوّر پیش کرتا ہے۔ ہیئت و موضوع کی قدیم بحث اس نقطۂ نظر سے بے معنیٰ ہو جاتی ہے۔ یہ کلاسیکی نقدِ ادب کے اصولوں کی تجدید کرتا ہے اور قدماء کے مشاہدات اور اصطلاحاتِ ادب کو سائنسی بنیاد عطا کرتا ہے۔ لسانیاتی مطالعۂ شعر صوتیات کی سطح سے اُبھرتا ہے اور ارتقائی صوتیات، تشکیلات، صرف و نحو اور معنیات کی پُر پیچ وادیوں سے گزرتا ہوا ’اسلوبیات‘ پر ختم ہو جاتا ہے‘‘(۱۲)

وہ آگے چل کر لکھتے ہیں:

’’لسانیاتی مطالعۂ شعر میں نہ تو فن کار کا ماحول اہم ہوتا ہے اور نہ خود اس کی ذات اہمیت در اصل ہوتی ہے اُس فن پارے کی جس کی راہ میں سے ہم اس کے خالق کی ذات اور ماحول دونوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ ‘‘ (۱۳)

(۴)

پروفیسر مسعود حسین خاں نے اسلوبیات پر اردو یا انگریزی میں باقاعدہ کوئی کتاب تصنیف نہیں کی۔ اس موضوع پر انھوں نے جو کچھ سوچا وہ مضامین و مقالات کی شکل میں ہی ہم تک پہنچا ہے۔ لیکن ان مضامین کے ذریعے سے ہی انھوں نے ایک پوری نسل کی ذہنی تربیت کا کام انجام دیا اور اپنے شاگردوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جس نے ان سے تحریک پا کر اسلوبیاتی موضوعات پر مضامین اور کتابیں لکھیں اور ان کی قائم کردہ علمی روایت کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

اپنے ایک مضمون میں پروفیسر مسعود حسین خاں نے اپنے دو شاگردوں کا راقم الحروف اور مغنی تبسم کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

’’صوتیاتی سطح پر تجزئے کے اس انداز کو میرے دو شاگردوں پروفیسر مغنی تبسم اور ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ نے اپنی تحریروں میں آگے بڑھایا۔ مغنی تبسم کا فانی کی شاعری کا تجزیہ اور ’’غالب کی شاعری : بازیچۂ اصوات‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ اور مرزا خلیل احمد بیگ صاحب کا مضمون ’’شعری اسلوب کا صوتیاتی مطالعہ‘‘ (فیض اور اقبال کی نظمیں ’’تنہائی ‘‘ )  اس قسم کے تجزئے کی اچھی مثالیں ہیں‘‘۔ (۴۱)

اسلوبیات پر مسعود صاحب کا پہلا مضمون ’’مطالعۂ شعر : صوتیاتی نقطۂ نظر سے ‘‘ ہے جو ان کے مجموعۂ مضامین شعرو زبان میں شامل ہے۔ یہ مجموعہ حیدرآباد سے ۱۹۴۴ء میں شائع ہوا تھا۔ اسلوبیاتی نوعیت کے چند مضامین ان کی کتاب مقالاتِ مسعود (نئی دہلی ، ۱۹۸۹ء)  میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی کتاب اقبال کی نظری و عملی شعریات (سری نگر ، ۱۹۸۳ء)  کا آخری حصّہ اقبال کے کلام کے اسلوبیاتی تجزیے کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ مختلف رسائل میں اسلوبیات سے متعلق ان کے بے شمار مضامین دبے پڑے ہیں جن کا ایک قابلِ قدر مجموعہ تیار ہو سکتا ہے۔

مسعود صاحب نے اسلوبیاتی مطالعہ شعر کا بھی کیا ہے اور نثر کا بھی۔ شعر کے اسلوبیاتی مطالعے کے ضمن میں ان کے حسبِ ذیل مضامین بے حد اہمیت رکھتے ہیں:

            ۱۔         ’’مطالعۂ شعر: صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘‘ (۱۵)

            ۲۔        ’’کلام غالب کے قوافی و ردیف کا صوتی آہنگ‘‘ (۱۶)

            ۳۔        ’’کلامِ غالب کے صوتی آہنگ کا ایک پہلو‘‘ (۱۷)

            ۴۔        ’’فانی کا صوتی آہنگ : ایک غزل کا لسانیاتی تجزیہ‘‘ (۱۸)

            ۵۔        ’’اقبال کا صوتی آہنگ ‘‘ (۱۹)

            ۶۔        ’’محمد قلی کی زبان‘‘ (۲۰)

نثری اسلوب کے مطالعے اور تجزئے کے ضمن میں ان کے قابلِ ذکر مضامین یہ ہیں:

            ۱۔         ’’غالب کے خطوط کی لسانی اہمیت‘‘ (۲۱)

            ۲۔        ’’خواجہ حسن نظامی : زبان اور اسلوب‘‘ (۲۲)

            ۳۔        ’’نیاز فتح پوری کا اسلوبِ نگارش ‘‘ (۲۳)

علاوہ ازیں مسعود صاحب نے ذیل کے مضامین میں بھی زبان و اسلوب کے باہمی رشتوں اور بہت سے اسلوبیاتی مسائل پر اظہار خیال کیا ہے:

            ۱۔         ’’تخلیقی زبان‘‘ (۲۴)

            ۲۔        ’’ادب میں اسلوب کی اہمیت‘‘ (۲۵)

            ۳۔        ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر‘‘ (۲۶)

سطورِ بالا میں پروفیسر مسعود حسین خاں کے ایک درجن اسلوبیاتی مضامین کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ مضامین اردو میں اسلوبیات کے فروغ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، اور ان مضامین کی وجہ سے ان کا نام اردو اسلوبیات کے معمارِ اول کی حیثیت سے ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ ان کا نام اسلوبیاتی نظریہ سازوں اور اسلوبیاتی تنقید کے بنیاد گزاروں میں بھی سرِ فہرست ہو گا۔

حواشی و حوالے

۱۔         مسعود حسین خاں، مقالاتِ مسعود (نئی دہلی : ترقی اردو بیورو ۱۹۸۹ء)  ، ص ۱۷۹

۲۔        مسعود حسین خاں، ورودِ مسعود (پٹنہ: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری ، س ن ) ، ص ۱۸۰

۳۔        ایضاً ، ص ۱۷۹۔ ۸۰۔

۴۔        ایضاً ، ص ۱۸۱۔

۵۔        ایضاً ، ص ۱۸۰۔

۶۔       ایضاً ، ص ۱۸۲۔

۷۔        ایضاً ، ص ۱۸۲۔

۸۔        ایضاً ، ص ۱۸۲۔

۹۔         ایضاً ، ص ۱۸۲۔

۱۰۔       ایضاً ، ص ۱۸۲۔

۱۱۔        پروفیسر مسعود حسین خاں اپنے ایک مضمون ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر ‘‘ مطبوعہ آج کل میں یوں رقم طراز ہیں:

’’اردو میں شعری اسلوب کے لسانیات تجزئے کا سلسلہ راقم الحروف کے ان مضامین سے شروع ہوتا ہے جو اس نے ۱۹۶۰ء میں امریکہ سے واپسی پر لکھنا شروع کئے۔ ‘‘

(آج کل ، جلد ۴۹ ، شمارہ ۱۱، جون ۱۹۹۱ء، ص ۴)

۱۲۔       مسعود حسین خاں ، شعر و زبان (حیدرآباد : شعبۂ اردو ، عثمانیہ یونیورسٹی ، ۱۹۶۶ء)  ، ص ۱۶

۱۳۔       ایضاً ، ص ۱۸۔

۱۴۔       مسعود حسین خاں ، ’’لسانیاتی اسلوبیات اور شعر ‘‘ مطبوعہ آج کل ، جلد ۴۹، شمارہ ۱۱ (جون ۱۹۹۱ء)  ، ص ۴

۱۵۔       مشمولہ شعر و زبان (مسعود حسین خان) ۔

۱۶۔       مشمولہ اردو میں لسانیاتی تحقیق مرتبہ عبد الستار دلوی (بمبئی : کوکل اینڈ کمپنی ، ۱۹۷۱ء)

۱۷۔      مطبوعہ آج کل (غالب نمبر)  ، جلد ۲۷،شمارہ ۷ (فروری ۱۹۶۹ء)

۱۸۔       مشمولہ تحفۃ السرور مرتبہ شمس الرحمن فاروقی (نئی دہلی : مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، ۱۹۸۵ء) ۔

۱۹۔       مشمولہ مقالاتِ مسعود (مسعود حسین خاں، نئی دہلی : ترقی اردوبیورو، ۱۹۸۹ء۔

۲۰۔      مطبوعہ سب رس (حیدرآباد) ، فروری ۱۹۶۹ء۔

۲۱۔       مشمولہ غالب: فکر و فن (گورکھپور : شعبۂ اردو ، گورکھ پور یونیورسٹی ، ۱۹۷۰)

۲۲۔      مطبوعہ قومی آواز ، جلد ۴، شمارہ ۸۱ (۴ مارچ ۱۹۸۴) ۔

۲۳۔      مطبوعہ نگارِ پاکستان ، شمارہ ۲ (فروری ۱۹۸۷) ۔

۲۴۔      مطبوعہ آواز ، جلد ۴۷، شمارہ ۲۳(یکم دسمبر ۱۹۸۲ء)

۲۵۔      مطبوعہ آواز ، جلد ۴۸، شمارہ ۵ (یکم مارچ ۱۹۸۳ء)

۲۶۔      مطبوعہ آج کل ، جلد ۴۹، شمارہ ۱۱(جون ۱۹۹۱ء) ۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں  نے فائل فراہم کی اور اشاعت کی اجازت دی

ان پیج فائل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ورڈ پروسیسنگ: اعجاز عبید