FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

آزادی کے بعد حیدر آباد کی نثر نگار خواتین

 

 

حصہ اول

 

                   نجم النساء

 

 

ابتدائیہ

 

دنیا میں اگرچہ کہ بے شمار بولیاں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن وہی بولیاں ’’زبان ‘‘ کا درجہ اختیار کرتی ہیں جن کے اپنے حروف ہوں اور جن کے حرف و صوت میں ہم آہنگی بھی ہو۔ ظاہر ہے اس کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ لیکن اردو زبان ہی ایک ایسی واحد بولی ہے جس نے ہندوستان میں نہایت ہی کم عمر میں زبان بن کر عوامی مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ اس نے عربی اور فارسی سے حروف مستعارلیے اور بتدریج اس میں اضافہ بھی ہوا۔ شاہان مغلیہ کے دور میں فارسی گو کہ سرکا ری زبان رہی لیکن انگریزوں کے تسلط اور عہد مغلیہ کے زوال کے ساتھ ساتھ فارسی بھی رو بہ زوال ہوتی گئی۔ انیسویں صدی کے وسط تک دفاتر اور عدالتوں میں فارسی کا چلن تھا۔ انگریز باوجود اقتدار کے ہندوستانی قوم پر اپنی زبان مسلط نہ کر سکے۔

لاچاری میں انھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اثر سیاسی مصلحت کی بناء پر آرڈی تینس ۱۸۸۵ء ؁ میں جاری کیا اس میں انگریزی کے بجائے ہندوستانی زبانیں رائج کرنے پر زور دیا۔

اُردو ہندوستان کی سب سے مقبول عام زبان ہے۔ یہ زبان ملک کے کونے کونے میں لکھی پڑھی اور بولی جاتی ہے۔  ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، انگریز غرض سب ہی اُردو کی شیرینی سے لطف اندوز ہوئے۔ اُردو نے عربی، فارسی اور انگریزی کے ساتھ اور ہندوستان کی تقریباً تمام زبانوں سے اثر قبول کیا ہے۔ اور ان کے الفاظ اس خوش اسلوبی سے اپنایا ہے کہ وہ اُردو کے ہو کر رہ گئے ہیں۔

اُردو نثرسے پیشتر اُردو نظم میں ادبی اُردو کے اچھے نمونے ملتے ہیں اُردو نثر کو ادبی حیثیت پندرھویں صدی عیسوی سے حاصل ہوئی۔ اُردو نثر کی ابتدائی تصانیف میں شیخ عین الدین گنج العلم کے رسالے سب سے قدیم مانے جاتے ہیں لیکن اُردو کی سب سے پہلی تصانیف بندہ نواز گیسودرازؒکی کتاب ’’معراج العاشقین‘‘ اور ’’ہدایت نامہ ‘‘ ہیں جو مذہبی رسالے ہیں ‘‘    ۱؎

ادب کو زندگی کا ترجمان بنا نے کے ساتھ زبان کوسہل اور عام فہم بنانے پر زور دیا گیا۔ داستان، ناول اور پھر مختصر افسانہ بن گئی۔ درسو تدریس نیز تبلیغ اور اصلاح میں ایسی نثر کی ضرورت محسوس کی گئی۔ جو قاری کے دل اور ذہن کو متاثر کرئے اُردو نثر کے ارتقاء میں سرسیداحمدخاں اور ان کے ادبی رفقاء نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ فراموش نہیں کئے جاسکتے۔  نذیر احمد نے اُردو ناول نگاری کو عروج دیا۔ آزاد نے تنقید، حالی نے سیرت نگاری اور شبلی نے تاریخ اور فلسفہ کوسنبھالا۔ عبدالحلیم شر ر کے تاریخی ناول۔ ذکا اللہ کی مختلف موضوعات پر تصانیف نے اُردو نثر کو جلا بخشی۔ رتن ناتھ سرشارکے ناول لکھنوی زبان کے اعتبارسے اُردو نثر میں اہمیت کی حاصل ہیں۔ اُردو و  نثر  ترقی کی اعلی منازل طے کرتی ہوئی بیسویں صدی میں عروج کو پہونچی۔  بیسویں صدی کے آغاز میں مرزا ہادی رسوا، راشدالخیری، حسن نظامی، ابوالکلام آزاد، چکبست، پریم چند، عبدالماجد دریابادی، نیاز فتح پوری، فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، ڈاکٹر محمدسیدعبداللہ ڈاکٹر محی الدین قادری زور، ڈاکٹر عابدحسین، ڈاکٹراعجازحسین، علی عباس حسینی، شوکت تھانوی، فراق گورکھپوری وغیرہ۔ اُردو ادب کی تاریخ میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس دور میں تحقیق، علمیت، سیرت نگاری، خاکہ نگاری، ناول نگاری نے بھی بہت ترقی کی، ،  ۲؎۔ ۱س کے بعد ترقی پسندتحریک نے اُردو پر اچھا اثر ڈالا۔ جس نے ادب کو زندگی سے قریب سے قریب تر کر دیا اس طرح تنقید، افسانہ، ناول، شاعری ہر میدان میں ترقی پسندتحریک نے صحت مند تبدیلیاں پیدا کر کے ادب کو صحیح معنوں میں زندگی کا ترجمان اور عکاس بنا دیا۔ خواتین نے بھی ترقی پسندتحریک سے تاثر قبول کیا اور سماجیو معاشرتی مسائل کو اپنی تخلیقات میں جگہ دی۔ اپنی سوجھ بوجھ اور فکرو شعور کی بدولت سماج سدھارکا کام کیا اور ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ یہ قابل فخر بات ہے۔

٭٭٭٭

 

 

 

 

 

آزادی کے بعد حیدرآباد کی خاتون نثرنگار

 

 

حیدرآباد اُردو کا مرکز رہا ہے۔ اہل قلم حضرت ہر دور میں ادب کی آبیاری کرتے رہے۔ یہاں تحریک نسواں کا آغاز یوں تو انسویں صدی میں ہو چکا تھا۔ جس کا تعلق معاشرتی اور تمدنی زندگی سے راست یابالواسطہ ضرور ہے۔ اس تحریک کی بتدریج ترقی نے نہ صرف مشرق کے سماجی اور معاشرتی اقدار ہی کو بدل ڈالا وہ سیاسی اور اقتصادی زندگی پربھی سایہ فگن رہی اور اس کے نتیجہ میں معاشی مسائل بھی نت نئے حالات سے دوچار ہو کر گزرتے رہے۔

عہد آصفی سے قبل ہندوستان کے لوگ قدیم روایات کے پابند اور قدامت پسندتھے۔  خاص کر حیدرآباد کا ماحول مستورات کے لئے سخت گیر تھا۔ بیشتر گھرانے کی خواتین گھرکی چہار دیواری سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ یہاں تک کہ کئی خواتین بیماری میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہو جاتی تھیں لیکن ڈاکٹرسے رجوع ہونا معیوب سمجھتی تھیں۔ حیدرآباد کا روایتی پردہ جس نے خواتین کوگھرسے باہر نکل کر علوم و فنون حاصل کرنے سے محروم رکھا وہ ترقی نسواں میں سدراہ بنا ہوا تھا اس دور کے حالات کو بغور مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تعلیم ایک خاص حد تک محدود تھی اور اپنی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام گھر پرہی کیا کرتے تھے لیکن گھرسے باہر بھیج کر زیور تعلیم سے آراستہ کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔

نصیرالدین ہاشمی اپنی کتاب ’’خواتین عہد عثمانی ‘‘میں ’’اسباب بیداری ‘‘کے عنوان کے تحت یوں لکھا ہے کہ :

’’دکن میں سب سے پہلے محب حسین (مرحوم )کی کوششوں اور ان کی تقریروں کے نتیجہ میں اس تحریک کو تقویت ملی۔ علاوہ ازین ممتاز یار الدولہ ،ہمایوں مرزا اور خود اس وقت کے بادشاہ نظام سابع بھی خواتین دکن کی ترقی کے زبردست حامی تھے۔ ‘‘  ۱ ؎

زمانہ بدلنے لگا اور قدامت پسندانہ ماحول میں تبدیلی آنے لگی۔ خواتین نے نہ صرف خود تعلیم حاصل کی بلکہ سماج میں روشن خیالی اور حصول علم کے رجحان کی تربیت کی۔ کسی شخصی و ذاتی یا مخصوص موضوع تک محدود نہیں رکھا بلکہ تقریباً تمام موضوعات پر قلم اٹھایا۔

خواتین دکن بھی اس میدان میں پیچھے نہیں رہیں۔ اپنے رشحات قلم کے ذریعہ ملک و بیرون ملک نہ صرف شہرت حاصل کی بلکہ داد بھی پائی۔ شاعری ہویا افسانہ نگاری ناول نگاری ہویاتنقیدوتدریس ہر میدان میں خواتین دکن کی صلاحیتوں کے نقوش نمایاں ہیں۔ آج ہمارے ملک میں انشاپرداز خواتین کی نمایاں تعداد نظر آتی ہے ،’  ۲؎

آزادی کے بعد حیدرآباد کی خاتون نثر نگار قابل مبارکباد ہیں کہ انھوں نے اپنی فکر و شعور کی بدولت اپنی انفرادیت کوتسلیم کروا لیا ہے۔

حیدرآباد کی خاتون نثرنگار نے ناول نگاری ،افسانہ نگاری ،ادبی اور مزاحیہ مضامین نگاری میں اپنی تخلیقات کے ذریعہ نام پیدا کیا اور شہرت حاصل کرتے ہوئے ادبی دنیا میں خاص مقام بنایا ہے۔

موجودہ دور کی خواتین نے تقریباً تمام شعبوں میں مرد کے شانہ بہ شانہ قدم ملا کر چل رہی ہیں بلکہ بعض معاملات میں تو مردسے آگے ہی نظر آتی ہیں۔

غرض حیدرآباد کی خواتین نثر نگار نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ اپنی شناخت برقرار رکھی ہے۔ کوئی بھی با شعور شخص ان کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کر سکتا۔

٭٭٭٭

 

 

ناول

 

ناول کا آغاز

 

قدیم دور میں کہانی اور داستان تھکے ہارے انسانوں کو ایسی دنیا کی سیر کراتی کہ انسان رومانی اور تصوراتی دنیا میں کھو جاتا جہاں اسے اپنی برتری کا احساس ہونے کے ستھ ساتھ اس کی انا کو بھی تسکین پہنچتی۔

داستان در اصل ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں زیادہ تر ما فوق الفطرت عناصر کے علاوہ، رومان، تخیل سے بھر پور کہانی نے داستان میں اس طرح طوالت اختیار کر لی کہ ایک کہانی سے دوسری کہانی مسسلک ہو جایا کرتی اور کہانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسل چلتا رہتا۔

قدیم زمانے کی داستانوں میں بے خودی پیدا کرنے کی اور دنیا سے بے فکر و بے تعلق کرنے کی صلاحیت تھی۔  اس میں ایسی فضا اور ماحول پیش کئے جاتے تھے کہ جس کا حقیقی دنیا کے تلخ حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا اور وہ سب کچھ ہوتا جو خیالی ہوتا یا پھر جس کی تمنا کی جاسکتی ہے ۔  ایسی کہانیوں کے طرز بیان میں تصنع اور مبلغہ آرائی ملتی ہے۔  واقعات کی بنیاد غیر فطری اور مافوق الفطرت عناصر پر ہوتی  ہے۔  یہ داستانیں اور مثنویاں نہ صرف عام انسانوں بلکہ در بروں میں رہنے والے بادشاہوں، شہزادوں کے علاوہ امراء اور روساء وغیرہ کی دلبستگی کا سامان مہیا کرتیں اور اکثر تو بادشاہوں کی فرمائش پر تحریر کی جاتی تھیں اور تخلیق کار اس کے صلہ میں انعام و اکرام سے نوازا بھی جاتا تھا۔ ۱۸۵۷؁ء میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس نے ہر شعبہ حیات کو ہلا دیا۔  ملک کا سماجی، ثقافتی اقتصادی اور اخلاقی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا۔ اس کا  اثر ہندوستان کے ادیبوں پر بھی ہوا۔  اور یہ کہانی جدید تقاضوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ناول کی شکل اختیار کر لی۔ ناول داستان کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔  ناول زمانہ موجودہ کی تاریخ ہے اور اس عہد کی کامل ترین تصویر جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔  ناول زندگی کا ترجمان ہوتا ہے جو حقیقی زندگی کی ہو بہو شکل پیش کرتا ہے۔  ناول ادب کی وہ صنف ہے جس کا موضوع انسانی زندگی ہوتا ہے او جو زندگی کی تشریح کرتا ہے۔  پہلی مرتبہ ناول نگاری کی خصوصیت میں یہ اضافہ کیا کہ زندگی کے سیدھے سادھے معمولی اور یہ ظاہر اہم مشاہدات کے پس منظر میں تہذیب، معاشرت، سیاست، اور بعض وقت تاریخ کے حقائق بھی موجود ہوتے ہیں ناول فنی اعتبار سے کہانی کا نیا  رویہ تصوراتی، تخیلی، اور رومانی دنیا سے نکل کر حقیقت نگری سے ہمکنار ہوا۔  اور معاشرتی زندگی کو قریب سے دیکھنے کی طاقت عطا کی۔

پروفیسر یوسف سر مست لکھتے ہیں۔  اگر چہ ناول کا لفظ اور اس کی ہیئت انگیزی ادب کے ذریعہ ہندوستان آئی لیکن اصل میں ہندوستان کے وہ مخصوص حالات تھے جنہوں نے یہاں کے ادیبوں کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔  حقیقت میں یہ ایک ضرورت تھی کیونکہ کہانی ہر زمانے میں ادب کی مقبول ترین صنف رہی ہے، اس مقبولیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہندوستانی ادیبوں نے زندگی کی حقیقتوں اور اپنے خیالات کو قصوں میں سمونا شروع کیا۔

نذیر احمد اردو ناول نگاری میں وہ پہلے ناول نگار ہیں جنہوں نے زندگی کے حقائق اور انسان کے غموں اور خوشیوں کو اپنے ۷ ناولوں کا موضوع قرار دیا اور اپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی جہالت اور تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کی۔  ان کا دور ایک طرف توہمات کا شکار تھا تو دوسری طرف مغرب کی تقلید ہی کو زندگی کا معیار سمجھے ہوئے تھا۔  چنانچہ اپنے ناولوں کو انہوں نے  معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بنایا۔  معاشرے کی اصلاح کیلئے انہوں نے تعلیم نسوں پر زور دیا۔  چنانچہ اپنے پہلے ناول، مراۃ العروس، کے دیباچے میں تحریر فرماتے ہیں، تب مجھے اس کتاب کی جستجو ہوئی جو اخلاق و نصائح سے بھری ہوئی ہو اور ان معاملات میں جو عورتوں کی زندگی میں پیش آتے ہیں اور عورتیں اپنے توہمات اور جہالت کی وجہ سے ہمیشہ مبتلائے غم رہا کرتی ہیں۔

ان کے خیالات کی اصلاح اور ان کی عادات کی تہذیب کرے اور کسی دلچسپ پیرائے میں ہو جس سے ان کا دل نہ اکتائے۔  طبیعت نہ گھبرائے۔  مگر تمام کتب خانہ چھان مارا ایسی کتاب کا پتہ نہ ملا۔ پر نہ ملا تب میں نے اس قصہ کا منصوبہ باندھا۔

چوں کہ یہ ناول ایک خاصی مقصد کے پیش نظر لکھا گیا تھا اس لئیاس میں وعظ و نصیحت کا رنگ غالب ہے۔  اس میں دو متضاد کردار کی لڑکیوں کو پیش کیا گیا ہے۔  ایک طرف ایک ایسی لڑکی ہے جو بد مزاج ہے اور دوسری طرف ایک سلیقہ مند اور خوش مزاج لڑکی ہے۔  کرداروں کے اس تضاد سے نذیر احمد نے درس وتدریس کا کام بڑے سلیقہ سے لیا ہے۔

پروفیسر احتشام حسین نذیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کرتے ہوتے کہتے ہیں کہ،

بہت سے نقاد نذیر احمد کو ناول نگار نہیں  مانتے ہیں لیکن محض اصلاح کا چکر ہے۔  میں ان کی سماجی بصیرت اور تاریخی شعور پر نظر رکھ کر انہیں اردو کا پہلا اور بہت اہم ناول نگار تسلیم کرتا ہوں۔

ڈپٹی نذیر احمد کے ناولیں، بنات النعش، توبۃ النصوح، ابن الوقت، جیسے ناولوں نے قوم پر اچھا اثر ڈالا۔ نذیر احمد کیساتھ مرزا ہادی رسواؔ کی تصانیف میں شریف زادہ، امراؤ جان ادا، اور ذات شریف قابل قدر کارنامے ہیں۔  سرشار کے ساتھ ہی عبد الحلیم شر ر کے تاریخی ناول بھی و قابل ذکر ہیں۔  ناول کو ترقی و سعت دینے میں پریم چند کو اولیت حاصل ہے۔  پریم چند نہایت ذہین، ذکی اور فطرت انسانی کا گہرا، مطالعہ رکھنے والے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے خواتین  بھی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئیں۔  وقار عظیم کا یہ خیال صحیح ہے کہ، خواتین کے ناول بیسویں صدی کے آغاز سے پہلے نہیں ملتے۔ وقار عظیم نے خواتین ناول نگاروں کی ناول نگاری اور ان کے مقصد پر اپنی رائے کا اس طرح اظہار کیا ہے۔

فن کے نقطہ نظر سے عورتوں کے  لکھے ہوئے ان قصوں اور ناول کا قابل رشک امتیاز یہ ہے کہ انہوں  نے فن کی سادگی  کو جو یقیناً مقصد کے ارض کی ابتدائی ہوتی ہے۔  کہانی کا سب سے اہم معیار بنایا ہے۔  اور اس طرح ناول نگاری کی تاریخ میں اس روایت کو غیر فانی مقام دیا ہے کہ کہانی لکھنے والا اپنے  مقصد کے معاملے میں مخلص ہو اور اس مقصد کو کہانی کے انداز میں بیان کرنے کی اہمیت کا احساس رکھتا ہو تو اس کی کہانی پر سننے اور پڑھنے والے کے لئے دلکش اور دلنشیں ہو جاتی ہے۔

ناول نگاروں نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اپنے مشاہدات کا بڑی گہرائی سے مطالعہ اور معاشرے کی ترجمانی کرتے ہوئے ناول کو زندگی کی وسعتوں کے حامل بنایا۔ سائنس کی بڑھتی ہوئی مانگ اور کل پر زوں کی روز افزوں ترقی نے انسان کو زیادہ مصروف بنا دیا۔  فرصت کے لمحات کم ہونے لگے۔  فارغ البالی عنقاء کے لئے بھی وقت نکالنا مشکل ہو گیا۔ لہذا مغربی رنگ کے ادب پر ایک اور لہر اثر انداز ہوئی۔ جس نے اردو زبان میں مختصر افسانوں کو جنم دیا۔  اور مختصر افسانہ یا کہانیاں پڑھنا و لکھنا پسند کیا جانے لگا۔

 

 

 

جیلانی بانو

 

جیلانی بانو اردو کی ہمہ جہت ادیبہ ہیں۔  انہوں نے نثر کی تمام اصناف پر طبع آزمائی ہے اس کے علاوہ انہوں نے کتابوں پر تبصرے بھی کئے روزنامہ سیاست ‘‘ میں کالم شیشہ و تیشہ بھی لکھا ہے۔ مختلف اخبارات ورسائل میں ان کی تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ یہ ملک و بیرون ملک کی مشہور شخصیت ہیں۔ ان کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔

جیلانی بانو کے دو مشہور ناول ’’ایوان غزل ‘‘ اور ’’بارش سنگ ‘‘ہیں۔ ان کاسب سے پہلا ناول ’’ایوان غزل ہے جو۱۹۷۶ء؁ میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا۔

انہوں نے ابتداء میں اس ناول کا نام ’’عہدستم ‘‘رکھا تھا۔ ہندوستان اس وقت بحرانی دورسے گزر رہا تھا۔  عہدستم ‘‘ نام سنسر کی زد میں آ جانے کے خطرے کے پیش نظر ’’ایوان غزل ’’میں تبدیل کر دیا۔

جیلانی بانو نے ’’ایوان غزل ’’لکھ کر اردو ناولوں میں ایک اچھے ناول کا اضافہ کیا۔  اردو کے پسندیدہ ناولوں میں اس کا شمار کیا جاتا ہے۔

’ایوان غزل ’’میں اپنے عہد کی بہتر انداز میں ترجمانی کی ہے۔ اس میں حیدرآباد کی جاگیرداری زندگی کی نزاعی کیفیت، کرب و الم کا خاکہ پیش کیا ہے۔

’’ایوان غزل ‘‘ میں ادبی تقریبات ہوا کرتی تھیں۔ جشن قوالی کبھی غزلوں کی شامیں کبھی رقص کی محفلیں وغیرہ۔ واحدحسین موسیقی و رقص کے دلدادہ تھے۔ واحدحسین کے بیٹے ارشدحسین اور ان کی بیوی رضیہ کو ایک لڑکی تولد ہوتی ہے اس کا نام غزل رکھا جاتا ہے۔

اس ناول کی ہیروئین غزل ہے اور ایک اہم ترین کردار ہے غزل بچپن میں اسٹیج پر کام کرتی ہے۔ غزل کی زندگی میں کئی مرد آتے ہیں ہر دفعہ وے دھوکہ دہی کا شکار ہوتی ہے۔ بلگرامی اپنی محبت کے جال میں غزل کوپھانستا ہے۔ نصیر منگنی کی انگوٹھی پہنا کرپاکستان چلا جاتا ہے۔ غزل بھی نصیر کو چاہنے لگتی ہے اور نصیر کا انتظار بھی کرتی ہے۔ ادبی تقریب میں مشہور و مقبول شاعرسرورجس نے مغرورحسیناوں کو جھکایا تھا۔ غزل کی زندگی میں سرورآتا ہے لیکن غزل سرورکی دام محبت میں نہیں پھنستی ہے اور سرورکوغریبی کی وجہ سے ٹھکرا کر ایک ڈاکٹرسے شادی کر لیتی ہے۔ اُسی اثنا میں نصیرپاکستان سے آ جاتا ہے اور اپنی منگنی کی انگوٹھی واپس لینے کے لئے غزل کے قریب آتا ہے اور غزل بھی نصیر کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ نصیر جب انگوٹھی غزل سے واپس لے لیتا ہے یہ صدمہ غزل برداشت نہیں کر پائی اور غزل کی وفات ہو جاتی ہے۔ غزل کی وفات کے بعد نصیر کرانتی سے تعلقات بڑھاتا ہے لیکن کرانتی بہت ہوشیار لڑکی ہے نصیر کے جال میں نہیں پھنستی اور نصیرسے دور رہتی ہے۔

ایوان غزل میں غزل کی طرح بی بی کا کردار بھی اہمیت کا حاصل ہے۔ بی بی واحدحسین کی بیویوں میں سے ایک ہیں۔ بی بی کا کردار بغیر کسی تبصرے کے اس اقطباس سے ملاحظہ فرمایئے :

’’پانچ ہزار کے نقد کے لالچ نے منشی صاحب کو پگھلا دیا۔  ایوان غزل کے سب سے بڑے ہال ‘‘ بہت الغزل ’’میں بی بی دلہن بنی اپنا جلوہ دکھا رہی تھیں۔  جب چار مضبوط عورتوں نے مل کر نکاح کے اقرار کو ان کی گردن پکڑ کربلائی تو وہ بے ہوش ہو گئیں اور دُلہا کے بدلے سب سے پہلے ان کی صورت حکیم نے دیکھی۔ (جیلانی بانو ’’ایوان غزل   ص  ۳۲   ص  ۳۳ )

بی بی بہت پھولی اور معصوم تھیں۔  دنیاسے بے خبر اپنا حق مانگنے کی پردہ نہیں۔  بی بی کے مزاج کوسمجھنے کے لئے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

’’بی بی بڑے ٹھنڈے خون کی تھیں اور تین برس گزرنے کے باوجود وہ اپنے کو ایوان غزل کی ملکہ کے بجائے ایک چپراسی کی لڑکی ہی سمجھتی ہیں۔ انہوں نے اپنے سارے اختیارات لنگڑی پھوپھوکوسونپ دیئے تھے اور خودسارے گھرکی ذمہ داریوں سے الگ تھلک بناؤ سنگا رکے خوشبوؤں میں بسے چم چم کرتے کپڑے پہنے کلدیوں میں سنہرے نگوں کا جوڑا  (جیلانی بانو’’ ایوان غزل ‘‘ ص نمبر ۱۰۳ )چمکاتی مسہری پر بیٹھی رہتی تھیں۔ یا پھر ناولیں پڑھنے میں وقت گزرتا۔ ماماؤں سے شہر کی اہم خبروں پر تبصرہ ہوتا۔ یا پھر پردہ لگی موٹر میں بیٹھ کروہ رشتہ داروں کے ہاں ملنے چلی جاتیں۔ انھیں بالکل خبر نہ ہوئی کہ آج گھر میں امباڑے کی بھاجی پکی ہے یا پالک کی۔ واحدحسین کا کن کن چیزوں سے پرہیز ہے۔  البتہ واحدحسین کمرے میں آتے تو وہ نئی دلہن کی طرح سمٹ کر بیٹھ جاتیں۔ ان کی ہر خواہش پر حکم کو بصد چشم قبول کرنے کو تیار۔ واحد حسین نے بھی بی بی کو اپنی ساری چابیاں سونپ دی تھیں۔  یہ وہ عورت تھی جس نے پچیس برس کی عمر میں پچیس عشق کرنے والے واحدحسین کو اپنے پاس بٹھایا تو پھر وہ کسی طرف نہ دیکھ سکے۔ مگراس ڈیوڑھی میں لا کر تین بچوں کی ماں بنا کر بھی بی بی ان کے ہاتھوں نہیں آئی تھیں۔ (جیلانی بانو ’’ایوان غزل   ص  ۳۲   ص  ۳۳)

ناول میں جاگیرداری ان ماحول کو پیش کیا گیا ہے۔ عورتیں کسی نہ کسی رُخ سے استھال کا شکار ہیں اسی وجہ سے دبی دبی سی بغاوت کا جذبہ رکھتی ہیں۔ انہیں یہ اخساس ہونے لگتا ہے کہ عورت کو وہ کچھ نہیں ملا جی کی وہ حقدار ہیں۔ ان کی زندگی بڑی حد تک گھریلو رہی ہے۔ الک طرف وہ ممتا بھری ماں ہیں تو دوسری طرف سگھڑ بیوی جو ہر دم  شوہر کے آرام وآسائش کا خیال رکھتی ہیں۔ حویلیوں ، محلوں ، اور ایوانوں میں عورتوں کی زندگی ایک مخصوص دائرے کے گرد گھومتی ہے۔

جیلانی بانو کا دوسرا ناول ’’بارش سنگ ‘‘ ۱۹۸۴؁ء کراچی پاکستان سے اور ۱۹۸۵ء؁ میں حیدرآباد سے شائع ہوا۔  ’’بارش سنگ ‘‘کا سب سے پہلے مراٹھی میں ترجمہ کیا گیا اور حیدرآباد سے شائع ہونے والے رسالے ’’پنج دھارا‘‘ میں اسے قسط وار شائع کیا گیا۔ ’’بارش سنگ ‘‘کو انگریزی میں بھی ترجمہ کیا اور Hail of  Sternessکے نام سے دہلی سے شائع ہوا۔ ’’پتھروں کی بارش ‘‘کے نام سے ہندی میں ۱۹۸۷ء ؁ میں دہلی سے شائع ہوا۔

جیلانی بانو کے ناولٹ کا مجموعہ ’’جگنواورستارے ‘‘ کے نام سے لاہواسے ۱۹۶۵ء ؁ میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں تین ناولٹ

شامل ہیں۔

(۱) دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پر

(۲) جگنواورستارے

(۳) رات

جگنواورستارے کا ایک اور ایڈیشن پاکٹ بکس سائزمیں شائع ہوا ہے اس ناولٹ میں صرف دو ناولٹ ہی یکجا ہیں (۱) رات اور (۲) جگنواورستارے۔ اس مجموعہ کو انہوں نے اپنی بڑی بہن ’’بو آپا‘‘ کے نام معنون کیا ہے۔

جیلانی  بانو کے دوسرا ناولٹ کا مجموعہ ’’نغمے کاسفر‘‘ہے۔  یہ ۱۹۷۷ء ؁ میں حیدرآبادسے شائع ہوا۔ ساہیتہ اکیڈ یمی اور اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے مالی تعاون سے اردومرکزحیدرآبادسے شائع ہوا ہے۔ اس مجموعے کو اترپردیش اردو اکیڈیمی اور آندھراپردیش اردو اکیڈیمی نے ۱۹۷۸ء ؁ میں انعام سے نوازا۔

نغمے کے سفرکوجیلانی بانو نے اپنے شوہر ڈاکٹر انور معظم کے نام معنون کیا ہے اس مجموعے میں ان کے چار ناولٹ یکجا کئے گئے ہیں۔

(۱) اکیلا (۲) پتھر کا جگر (۳) کیمیائے دل اور (۴) نغمے کاسفر

ناولٹ جگنواورستارے اور نغمے کا سفرکے علاوہ جیلانی بانو کے چند ناولٹ رسالوں میں شائع ہوئے ہیں۔ جیسے ’’گڑیا کا گھر‘‘ اور ’’ابارشن ‘‘ناولٹ ’’گڑیا کا گھر‘‘ پاکستانی رسالہ دوشیزہ میں نومبر۱۹۷۹میں شائع ہوا ہے۔

٭٭٭

 

 

عفت موہانی

 

عفت موہانی نے یہ حیثیت ناول نگاراورافسانہ نگار، ہندوستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی شہرت حاصل کی ہے۔ صف اول کی ناول نگار ہیں۔ برسوں سے وہ لکھ رہی ہیں۔

عفت موہانی قلمی نام ہے اصل نام خورشیدسلطانہ ہے۔ ۲۴؍ جولائی ۱۹۳۷ء ؁ میں حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ اے ، ایم۔ اے ، اور بی۔ ایڈ میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔ ‘‘(عفت موہانی، اپنی کہانی اپنی زبانی، رسالہ صبا، حیدرآباد دکن ۔ ص ،۲۳)

عفت موہانی کے مزاج میں بہت سادگی ہے اکثرسفیدرنگ لباس زیب تن کرتی ہیں۔ ان کے ناول کی ہیروئین بھی اکثرسفیدلباس میں جلوہ گر ہوئی ہیں۔ عفت موہانی کو گھریلو کاموں میں سینے پرونے ، پکوان وغیرہ سے بالکل بھی دلچسپی نہیں ہے اس لئے انہیں تصنیف و تالیف کے لئے بہت وقت مل جاتا ہے ویسے بچپن سے ادبی ذوق رہا۔ آٹھ سال کی عمرسے کہانیاں لکھنی شروع کہیں جو اخبار ’’میزان ‘‘ میں بچوں کے صفحے پر شائع ہوتی رہیں۔

عفت موہانی نے تقریباً ۸۵ً ناول اور سینکڑوں افسانے لکھے ہیں ناولوں کے نام حسب ذیل ہیں :

(۱) ستم کے سہارے (۲)محبت نام غم کا (۳) درد و درماں (۴) قافلے بہار کے (۵) نام تمنا(۶) بزدل (۶) غمگسار(۷) ہمسفر(۸) پندار(۹) راز (۱۰) آخری تحفہ (۱۱) محبت کی راہیں ( ۱۲ )  (۱۳) صنم (۱۴) داغ دل (۱۵) شہر آرزو (۱۶) آہوں کے گیت (۱۷) مداو (۱۸) سچے بندھن (۱۹) سویرے (۲۰) پیماں (۲۱)سزا(۲۲)  بھنور (۱۶) شہر آرزو(۱۷) آہوں کے گیت (۱۸) مداوا (۱۹) سچے بندھن (۱۹) سویرے (۲۰) پیماں (۲۱) سزا (۲۲) بھنور(۲۳) لے نام بھی ہستہ (۲۴) فاصلے اور منزل (۲۵) درد کا رشتہ (۲۶) ایک چراغ دور کا (۲۷) صہبا(۲۸) زود پشیماں (۲۹) پھول کا دل (۳۰) شرارت (۳۱) وفا کا دکھ (۲۳) ہم تو جئے بس تیرے لئے (۳۳) تقدیر(۳۴) پرانی آگ (۳۵) بہانے (۳۶) انتظار(۳۷) ایک زخم نہاں اور (۳۸) آگ میں پھول (۳۹) تیرے جہاں سے چل دے (۴۰) پت جھڑ کی بہار(۴۱) آرزو کی سوغات (۴۲) نغمہ سنگ ( ۴۳) دوراہا (۴۴) خواب وسراب (۴۵) پیاسی برسات (۴۶) قلزم غم (۴۷)خلش (۴۸) تکریم (۴۹) پچھتاوے (۵۰) درد آشنا (۵۱)ایک نظر(۵۲) آفریں (۵۳) چبھن (۵۴) شرط (۵۵) تشنہ کام  (۵۷) خواب پریشان (۵۸)موم کی زنجیریں (۵۹) گنہگار (۶۰) ہار جیت (۶۲) بے زبان(۶۳) نقاب (۶۴) تاوان ( ۶۵)محبت تم سے کی میں نے (۶۶) بنیا (۶۷) صنوبیہ(۶۸) تعبیر (۶۹) راستہ پھولوں بھرا (۷۰) خمیازہ (۷۰) دلیل کا کنول (۷۱) صبح بہاراں (۷۲)  لبینہ  (۷۳) اگر تم با وفا ہوتے (۷۴) سراب ساحل (۷۵) خواب ناتمام (۷۴) کرنوں کی مہک (۷۵) ماریہ (۷۶)  وفا جن سے کی (۷۷) اگن برہا کی (۷۸) سحاب (۷۹)رقیب (۸۱) وہ ایک لمحہ (۸۲)  خوشبو تیری یادوں کی (۸۳) شفق کے سائے (۸۴) ملن کے سپنے ۔  ایک ناول دستاب نہیں ہوئی۔

عفت موہانی نے مختلف النوع موضوعات پرخامدفرمسائی کی ہے۔ اخلاقی اصلاحی ، سماجی معاشرتی ، قومی یکجہتی ونفیساتی مسائل وغیرہ جیسے موضوعات پر اپنا قلم اٹھا یا ہے۔

عفت موہانی کے ناولوں میں ہم روایت کی اسیرعورتوں سے ملتے ہیں جو اپنے معاملات میں آزاد نہیں ہیں۔ ان کی مرضی پرکسی دوسرے کی مرضی مسلط کر دی جاتی ہے۔ جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی اور اس کی پسندکونظرانداز کر دیا جاتا ہے۔  خاندان کی عزت ، بزرگوں کا ادب اس کی پاوں کی بیٹریاں بن کر رہ جاتی ہیں۔  روشن خیالی اور ترقی پسندہی ہمارے سماج میں سخت ممنوع ہے۔

عفت موہانی کاسب سے پہلا ناول ’’ستم کے سہارے ‘‘ ہے۔ جو ۱۹۷۱ء؁میں نسیم بک ڈپولکھنوسے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ یہ ناول عفت موہانی نےنسیم انہو نوی (ناول نویس )کی فرمائش پر لکھا جوان کے ماہنامہ ’’ حریم ‘‘ میں مسلسل شائع ہوتا رہا۔ یہ ناول ۲۵۶ صفحات پر مشتمل ہے۔

اس ناول میں تین کردار اہم ہیں خالد، روبینہ اور ناہید۔ یہ تینوں کردار ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ محبت کرتے ہوئے اپنے آپ پرستم کرتے ہیں۔

خالد اور رو بینہ دونوں ایک دوسرے سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ خالد روبینہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ خالد اپنے والد کرنل صاحب سے شادی کی بات کرتا ہے۔ کرنل صاحب گو یہ رشتہ پسندنہیں اور خالد کا رشتہ ناہیدسے طئے کرتے۔  خالد کو اپنے ماں باپ سے اپنی بات منوانے کی ہمت نہیں اور خالد روبینہ کو لئے کرگھرسے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ روبینہ ایک مشرقی شرم و حیا والی لڑکی ہے۔ خالد کے ساتھ بھاگنے سے انکار کر دیتی ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ مجھے تم سے کبھی محبت ہی نہیں تھی۔  خالد گھر آ  کر اپنے گھر والوں کی مرضی کے آگے جھک جاتا ہے۔ ناہیدسے شادی کر لیتا لیکن روبینہ کی محبت کو دل سے نہیں بھلا پاتا۔ شادی کی رات روبینہ بیمار ہو جاتی ہے۔ خالد روبینہ کی عیادت کے لئے جاتا ہے۔ خالد کو جب پتہ چلتا کہ روبینہ آج بھی اسے بے حد چاہتی ہے۔  خالد بھی بیمار ہو جاتا ہے۔ ناہید خالد کی تیمار داری میں اپنے آپ کو وقف کر دیتی ہے جبکہ خالد ناہید پر ظلم کرتا اسے طلاق دینے کی دھمکی دیتا ہے۔  ناہیداس امید کے سہارے رہتی کہ ایک نہ ایک دن خالداسے اپنا لے گا ناہید اپنی محبت خالد پر نچھاور کر دیتی ہے ہر چھوٹی بڑی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔ خالد ناہید کی معصومیت کی وجہ سے ناہید کو چاہنے لگتا ہے لیکن ناہیدکواس بات کا انکشاف ہو جاتا کہ خالد روبینہ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ناہیدخالدسے کہتی کہ اگر پہلے ہی بتا دیتے روبینہ سے محبت ہے تو وہ شادی سے انکار کر دیتی اور یہ بھی کہتی کہ وہ روبینہ سے شادی کر لے دونوں کی خدمت کر کے وہ اپنی زندگی گزار لے گی۔  خالد ناہید پر ظلم کر کے دراصل اپنے ماں باپ سے بدلا لے رہا تھا۔ مگراس کی سزاناہیدکومل رہی تھی۔ ناہیدخالدسے کہتی ہے کہ :

’’آپ اسے بھول نہیں سکتے اپنی محبت پر جھوٹی آن اور بناوٹی نفرت کا پردہ نہ ڈالئے۔ آپ خود کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں ، روبینہ کو بھی اور مجھے بھی آپ میں اتنی ہمت نہ تھی آپ اپنے کو بھی بچا لیتے روبینہ کو بھی اور مجھے بھی۔ کیا ملا آپ کو اور کیا پایا آپ نے ‘‘۔ (ناول ‘‘ستم کے سہارے ‘‘ از۔عفت موہانی ص ۴۰ ۲ ۱۹۷۱؁ نسیم بک ڈپو لکھنو)

ناہید سوچنے لگتی ہے کہ روبینہ خالد کی محبوبہ ہو کر خالد کے لئے مر مٹ سکتی ہے میں تو بیوی ہوں کیوں نہ ان کے راستے سے ہٹ کر ہمیشہ کے لئے دونوں کو ملوا دوں یہ سوچ کر خودکشی کر کے اپنی جان قربان کر دیتی ہے۔ ناہید مرتے مرتے بھی اپنی موت کو اتفاقی حادثہ قرار دے کر روبینہ اور خالد کو تمام الزامات سے بری الذمہ  کر جاتی ہے۔

خالد کے والدین کی خوشی کے لئے روبینہ بھی ایک معذور شخص سے شادی کر کے زندگی گزار رہی تھی۔ ناہید کی قربانی سے پھر دو بچھڑے محبوب مل جاتے ہیں

نسوانی کردار میں ناہید اور روبینہ کے کردار بہت خوب ہیں۔  خالد کا کردارایسا ہے جو باپ کی خوشی کی خاطر تمام آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیتا اور ویران زندگی گزارنے لگتا ہے

عفت موہانی نے منظر نگاری بہت خوبصورت انداز میں کی ہے عفت موہانی کا دوسرا ناول ’’محبت نام ہے غم کا‘‘ کتابی شکل میں ۱۹۷۳؁ میں شائع ہوا۔ یہ ناول ۲۲۴صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ناول ۱۹۶۷ء میں ’’حریم ‘‘کے پرچوں میں چھپا۔ ڈاکٹر فیصل کا بیٹانافذحسین نمائش میں کھو جاتا ہے اور لا ولد نواب صاحب کو ملتا ہے۔  انہوں نے پڑھا لکھا کر لکچرر بنایا شادی بھی کرتے ہیں اور ایک بچہ بھی تولد ہوتا ہے۔ کالج میں ٹینس مقابلے میں نافذ اپنے بہن بھائی اور ماں باپ سے ملاقات بھی ہوتی ہے اور وہ ایک قلبی ربط محسوس کرتے ہیں اور گھر آتے ہیں نافذ حسین کے بیٹے کو دیکھ کرمسزفیصل کو وہ اپنے بیٹا جیسا لگتا ہے۔ نواب صاحب بھی ساری کہانی ستاتے ہیں کہیں نافذ سے جدا نہ ہو جاؤں یہ سوچ کر غم سے نڈھال ہو جاتے ہیں اور ایک اتفاقی حادثہ میں اپنی جان کھو دیتے ہیں جیتے جی نافذسے جدائی برداشت نہ ہوئی نافذ کی محبت غم بن گئی تھی ’’محبت نام ہے غم کا ‘‘

چونکہ عفت موہانی ایک مذہبی اور مسلم پردہ دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں عورت کا اعلی تعلیم یافتہ ہونا غلط سمجھا جاتا ہے اور عورت کی دنیا گھرکی چاردیواری سے باہر نہیں سمجھی جاتی۔ ان کو مذہبی ،روایتی ، نیک اور پاکیزہ خیالات ،اورسوچنے کا اندازاسی ماحول کے زیر اثر ملا ہے۔

عفت موہانی کی نظر میں عورتوں کی آزاد خیالی اور ترقی پسندی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ۔  محبت میں شرافت کی تمام حدیں پھلانگ دے اور ایک ناجائز بوجھ اٹھائے تکالیف کی زندگی گزارے۔ یا پھر طوائف بن جائے یا خود کشی کر لے۔

عفت موہانی مخلوط تعلیم کے بھی خلاف ہیں۔  ناول ’ایک چراغ دو رکا ، دلدل کا کنول اور ہار جیت کی کہانیاں کچھ اس طرح ہیں کہ عورت سے مجبوراً طوائف بن جاتی ہے۔

’ایک چراغ دور کا ‘‘ کی ہیروئن امیر ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولاد دجو دولت چمک دمک سے ایک طوائف کے ہتھے چڑھی۔  اشفاق کے ذریعہ اسے گذری زندگی سے چھٹکارا تو ملتا ہے مگر وہ بھی سماج کے ڈرسے عزت کی زندگی نہ دے سکا۔

’’دلدل کا کنول ‘‘طوائف کی بیٹی ماریہ اپنے اس راز کو چھپا نے کے لئے پل پل موت کا سامنا کرتی ہے۔ کمال ماریہ کو دولت کا لالچ بھی دیتا ہے مگر ماریہ اس دولت کو ٹھکرا دیتی ہے اور آخر کار عزت کی زندگی گزارنے کے مقصد کامیاب ہو جاتی ہے۔ ناول ’’ہار جیت ‘‘ بھی ایک طوائف کے ارد گرد گھومتی ہے۔ راحت جو ایک شریف باپ ناول ‘‘پت جھڑکی بہار‘‘ میں سوسائٹی گرل کبیر کو اپنے خوبصورتی کے جال میں پھنسا کرسارے پیسے لے کر فرار ہو جاتی ہے۔

عفت موہانی کے ناولوں میں عورتیں طوائف کا پیشہ کچھ مجبوری کی وجہ سے اپناتی ہیں اور کچھ شوق سے اپنا تی ہیں۔

ناول ’’مداور‘‘ میں ایثار بہت خوبصورت نوجوان ہے محسنہ ایثار کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر گھر والوں سے بغاوت کرتی ہے اور اپنے ماں باپ کے لاکھ سمجھانے پربھی سمجھتی نہیں آخر میں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ اسی سے ملتا جلتا کردار ’’آرزو کی سوغات ‘‘میں ہے نوحی عاصم کی محبت میں اس طرح گرفتار ہوتی ہے کہ اس سے دھوکہ ملنے پر نوحی خودکشی کر لیتی ہے۔

ناول ’’ خمیازہ‘‘ میں شہلا اپنے عیش کی خاطر آشنا کے تعاون سے اپنے شوہر کا قتل کر کے پھر آشنا سے شادی کر لیتی ہے۔ اپنے پہلے شوہر کی لڑکیوں سے نوکرانی جیسا سلوک کرتی ہے۔

ناول خواب وسراب ‘‘ کی ماں جہاں آرا نے شہریار کو اپنے سگے بیٹے کی طرح چاہا اور شہریار کی خاطر سگے بیٹے کو چھوڑنے تیار ہو گئی۔ اپنے عیش کی خاطر سگی اولاد کی دشمن بنی اور انھیں اپنی راہ کا کا نٹا سمجھا اور سگی ماں ہو کر بھی اپنے بچے کے حق میں سوتیلی ماں بن کر بچوں سے پیار کرتی ہے تو کہیں سوتیلی ماں بن کر شوہر کے بچوں پر ظلم ڈھاتی ہے اور کہیں پرسوتیلے بچوں کواس قدر پیار کرتی ہے کہ ان کی تائید میں اپنے خون سے نفرت کرنے لگتی ہے۔

عورت کے مختلف روپ طبیعت کو عفت موہانی نے اپنے ناولوں میں جگہ دی ہے

اردو ادب کی دنیا میں شاید ہی کسی اور مصنفہ نے اتنے ناولیں لکھی ہوں۔

عفت موہانی کے کئی ناولوں کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں جیسے کنٹری وغیرہ  اترپردیش  اردو اکیڈیمی نے ان کے بعض ناولوں پر ایوارڈ دیئے ہیں۔

عفت موہانی ادبی دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ محوسفرہیں۔  عفت موہانی ۱۹۷۱ء؁سے ۱۹۹۵ء ؁ تک تقریباً۸۵ناول لکھیں۔  ۱۹۹۵ء کے بعد نسیم انہونوی کے انتقال کے بعدسے انھوں نے ناول لکھنا چھوڑ دیا۔ اب وہ صرف افسانے لکھ رہی ہیں جو اکثر رسائل میں چھپتے رہتے ہیں عفت موہانی کے افسانوں کا مختصر جائزہ ’’افسانوں کے باب ‘‘ میں ملاحظہ فرمایئے۔

٭٭٭

 

 

رفیعہ منظور الامین

 

رفیعہ منظور الامین بین الاقوامی شخصیت کی حامل ہیں بحیثیت ناول نگار اور افسانہ نگار کے  بے حد مشہور ہیں۔

رفیعہ منظور الامین ۲۵؍ جولائی کو حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم فارمل کاچی گوڑہ حیدرآباد سے حاصل کی اور بی ایس سی ویمنس کالج کوٹھی حیدرآباد سے کیا۔ رفیعہ منظور الامین کے پردادا پیارے صاحب عزیز کا قائم کردہ اسلامیہ اسکول جو لڑکیوں کے لئے ہے اب بھی سکندرآباد میں فعال ہے۔  ان کے دادا حضرت جناب محمد عبدالمجید، حیدرآباد کی سیول سرویس کے پہلے ممبر تھے۔  انہیں انسپکٹر جنرل آف جیلرز کے ساتھ اکاونٹنٹ جنرل حیدرآباد کا عہدہ سونپا گیا تھا۔  ان کے والد محمد عبدالحمید کا تعلق بھی پولیس ڈیپارٹمنٹ سے رہا۔  رفیعہ منظورالامین کہتی ہیں کہ، مجھے فخر ہے کہ علم دوست خاندان سے میرا تعلق رہا‘‘ (حیدرآباد کی طنز و مزاح نگار خواتین از ڈاکٹر حبیب ضیاء ص ۵۱)

رفیعہ منظور الامین کی شادی منظور الامین سے ہوئی جو خود شاعر و ادیب ہیں، انہوں نے نظمیں، افسانے، مضامین، ڈرامے، اور میوزیکل فیچر لکھے اس کے علاوہ طنز و مزاح پر بھی قلم اٹھا یا۔  آل انڈیا ریڈیو کے مختلف اسٹیٹوں پر بحیثیت ڈائرکٹر فائز رہے پھر ٹیلی ویژن کے شعبہ سے منسلک رہتے ہوئے کئی ترقیاں حاصل کیں اور آخر میں ڈائرکٹر جنرل دور درشن نئی دہلی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے اس اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ڈ ہوئے۔

رفیعہ منظور الامین نے آٹھ سال کی عمر سے لکھنے کی شروعات کی۔  آج بھی ان کی نگارشات کا سلسلہ جاری ہے۔  جو نگارشات  منظر عام پر آئیں وہ حسب ذیل ہیں۔

(ا)سارے جہاں کا درد    [ناول]پہلی بار  ۱۹۷۴؁ء دوسری بار ۱۹۸۴؁ء۔

(۲)عالم پناہ             [ناول ]  پہلی بار  ۱۹۸۳؁ء   دوسری بار   ۱۹۸۷؁ء

(۳) یہ راستے            [ناول]  ۱۹۹۵؁ء

(۴)دستک سی درد دل پر   [افسانوں کا مجموعہ]   ۱۹۸۶؁ء

(۵) آہنگ              [افسانوں کا مجموعہ ]   ۲۰۰۰؁ء

(۶)سا ئنسی زاویے       [سائنسی مضامین] ۱۹۸۶؁ء

(۷)نگار خانہ       [امریکہ کے شب و روز پر مبنی]  ۱۹۹۸؁ء

(۸)آؤ نا ٹک کھیلیں      [کتابچہ]   ۱۹۷۱؁ء

(۹)خبر رسانی کے طریقہ   ۱۹۶۷؁ء

اس کے علاوہ بارہ ٹیلی فلمیں لکھیں جو دور درشن  کے نیشنل چینل کے علاوہ سری نگر، جالندھر، لکھنو، دلی اور حیدرآباد کے دور درشن کیندروں سے پیش کی جا چکی ہیں۔  ایک فیچر فلم   Romancing the stones :Taj Mahal   جو دنیا کی سترہ زبانوں میں اس کا اسکرین ہے  اور مکالمے انہوں نے لکھے۔

فنکشن کی دنیا سے قطع نظر مختلف النوع مضامین پر آرٹیکلز  وقتاً فوقتا ملک کے بعض مقتدر رسائل اور اخباروں میں شائع ہوتے رہے۔  ان کی بنائی ہوئی تصویروں کی نمائش انگلستان میں ہوئی۔  لندن، امریکہ،  اور کناڈا کے قیام کے دوران ان سے لئے گئے  انٹر ویوز  BBC  اور دوسرے ریڈیو  اور ٹی وی چینلز  پر براڈ کاسٹ ہوئے۔

رفیعہ منظور الامین کا چوتھا ناول زیر قلم ہے۔  تصویریں، کہانیوں کا مجموعہ، طویل موج، ٹی وی اور ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ زیر طبع ہیں۔  ناول’سارے جہاں کا درد‘ ۳۴۳ صفحات پر مشتمل ہے اور یہ پہلی بار  ۱۹۷۴؁ء  میں اور اس کے دس سال بعد ۱۹۸۷۴؁ء میں نظامی پریس لکھنو سے شائع ہوا۔

ناول،’عالم پناہ‘ کے تین ایڈیشن شائع ہوئے۔  اس ناول کو ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی ہے۔  ہندی اور کنٹری زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔  اس ناول کا ہندی ترجمہ منظور الامین نے کیا ہے۔  یہ ناول تقریباً ۳۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔  رفیعہ منظور الامین نے اس ناول کا انتساب اس طرح کیا ہے۔

منظور الامین کے نام جس کے ساتھ حیات، حیات جاوداں بن گئی، ناول، عالم پناہ، آل انڈیا ریڈیو کے قومی پروگراموں میں ریڈیا ئی سیریل کے طور پر اٹھا رہ قسطوں میں نشر ہو چکا ہے۔  یہ ناول پہلی بار  ۱۹۸۳؁ء میں دہلی سے اور دوسری بار  ۱۹۸۷؁ء میں حسامی بک ڈپو حیدرآباد سے شائع ہوا۔

ناول ’عالم پناہ‘ فرمان کے نام سے دور درشن کے چیانل نمبر   ا۔ اور ۲۔ پر کم از کم چھ  بار پیش ہو چکا ہے۔  اس سیریل کو قومی  سطح پر چار ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔

فرمان، در اصل اس حویلی کا نام ہے جس میں حیدرآباد کے نوابوں کا خاندان رہتا تھا۔ ان کا تیسرا ناول، یہ راستے،  ۱۹۹۵؁ء میں انجمن ترقی اردو آندھرا پر  دیش۔  اردو ہال، حمایت نگر، حیدرآباد سے چھپ کر منظر عام پر آیا۔  یہ ناول  ۳۳۸  صفحات پر مشتمل ہے۔  رفیعہ منظور الامین نے اس کا انتساب اس طرح کیا ہے۔  ان ساری لڑکیوں کے نام جنہیں اس قابل نہیں بنایا جاتا کہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔

ناول ’یہ راستے‘ کی رسم اجرائی کے موقع پر ڈاکٹر بیگ احساس، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ، ڈاکٹر مصطفی کمال نے تاثرات پیش کئے۔  ڈاکٹر بیگ احساس نے کہا کے بیشتر رسم اجراء کے جلسوں میں معروضی سرسری جائزہ ہی پیش کیا جاتا ہے۔  تا ہم یہ راستے تخلیق کار مصنفہ محض ٹی وی سیریل ہی نہیں لکھتیں بلکہ نا ول نویسی کا ہوش مندانہ حق ادا کرتی ہیں۔  ناول کے کردار التمش اور کاکل سے متعلق جو رویہ رفیعہ منظور الامین نے رکھا ہے وہ ہمارے ذہین فنکاروں کے اندار فکر سے جا ملتا ہے۔

انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ رفیعہ منظور الامین کا ٹی وی سیریل’فرمان‘ جس طرح کامیاب  اور مقبول ہو ا ہے اسی طرح ’یہ راستے‘  سیریل بھی عوام سے سند مقبولیت حاصل کرے گا۔

ڈاکٹر راج بہادر گوڑ نے خاتون ناول نویسوں کی تخلیقات کا تجزیہ کیا۔  اور کہا کہ خاتون ناول نویسوں میں ایک چمکتا اور دمکتا نام رفیعہ منظور الامین بھی ہے۔  انہوں نے کہا کہ یہ راستے، ناول میں نسوانی کردار اور جذبے کی خوبصورت عکاسی ملتی ہے۔  ڈاکٹر گوڑ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ رفیعہ منظور الامین کی اس ناول کی پذیرائی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر مصطفی کمال ایڈیٹر شگوفہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ دور ماحولیاتی آلودگی اور ملاوٹ کا دور ہے۔  جس کے اثرات ادب اور شعر پر بھی پڑ رہے ہیں۔  ایسے میں رفیعہ منظور الامین کا ناول، یہ راستے، اشاعت ایک خوش آئند علامت ہے۔  رفیعہ منظور الامین نے اپنی اس تازہ تخلیق کے ذریعے اپنے ایک با شعور ہونے کا ثبوت مہیا کیا ہے۔  انہوں نے کہا کہ ناول پر تبصرہ آسان نہیں۔

ڈاکٹر مصطفی کمال نے کہا کہ رفیعہ منظور الامین اپنے ناول کے ذریعہ قاری کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں۔  ڈاکٹر ایس۔  اے منان نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ انہیں ناولیں پڑھنے  کا وقت میسر نہیں ہے تا ہم انہوں نے قراۃ العین حیدر اور جیلانی بانو کی ناولیں پڑھی ہیں رفیعہ منظور الامین کی ناولوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ آج کی لڑکیوں کو ہمت اور حوصلہ اور خود اعتمادی کے احساس و جذبہ سے ہمکنار کرتی ہیں۔  ایک خاتون ناول نویس کا یہ کارنامہ قابل فخر ہے۔  ڈاکٹر ایس اے منان نے ناول  کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ان کی فنی اور ادبی حیثیت اور اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ یہ ناول نئی نسل کی لڑکیوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کرنے میں اہم رول ادا کرے گا۔

نگار خانہ، رفیعہ منظور الامین نے ان کے امریکہ میں قیام کے دوران، وہاں کے شب و روز پر ایک دلچسپ نگارش پیش کی ہے جو ماہنامہ ’ہما‘ ڈائجسٹ میں ستمبر ۱۹۹۸؁ء سے سلسلہ وار شائع ہوئی۔

قلی  قطب شاہ کی سالگرہ کے موقع پر انہیں کا لکھا ہو ایک اسٹیج ، قلی قطب شاہ، پیش ہوا۔  رفیعہ منظور الامین کا پسندیدہ افسانہ نگار کرشن چندر اور پسندیدہ شاعر علامہ اقبال ہیں۔

رفیعہ منظور الامین کی ہمہ گیر شخصیت ادب میں پیوست ہو گئی ہے اتنا سارا ادبی سرمایہ رہنے کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ، میرے نزدیک سب سے اہم تخلیق وہ ہے جو ابھی لکھی ہی نہیں گئی۔

رفیعہ منظور الامین کی شخصیت ان کے فن پاروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔  انہوں نے اپنے فن پاروں میں فرضی کرداروں سے گریز کرتے ہوئے اور حقیقی واقعات سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کے کہرے اور عمیق تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی کہانیوں کا تانا بانا بُنا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

فاطمہ تاج

 

فاطمہ تاج حیدرآباد کی ان با شعور اہل خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہے۔ جیسے غزل،نظم ،افسانہ ،ناول مضامین ،انشایئے اور خاکہ وغیرہ۔

فاطمہ تاج کی شخصیت بہت پہلو دار ہے۔ ان کا اپنا وجود ان کی اپنی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ بحیثیت اک انسان وہ کئی خوبیوں کی مالکہ ہیں۔ ان میں خیالات کی بلندی ، اسلوب بیان کی صفائی اور پاکیزگی ، لطافت اور رنگینی سب کچھ موجود ہے۔

فاطمہ تاج کے دو ناول ’’جب شام ہو گئی ‘‘اور ’’نقش آب ‘‘ زیر طبع ہیں۔  ایک ناولٹ ’’وہ ‘‘ زیور طباعت سے آراستہ ہو کر۵؍ نومبر۱۹۹۵ء؁ کو منظر عام  پر آ  چکا ہے۔

ناولٹ ’’وہ ‘‘ ۷۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مختصر ناولٹ کا عنوان بھی انہوں نے مختصر ہی منتخب کیا اور مختصر وقت میں ہی مکمل کیا۔ لیکن اس مختصر ناولٹ میں رسیع پیمانہ پر فکرو  نظر اور جذبات کا  اظہار خیال ،گفتگو میں ظاہر ہوتا ہے۔

اس ناولٹ کی خوبی یہ ہے کہ ’’وہ ‘‘ اور میں ‘‘ کی تمام گفتگو کو قلمبند کیا گیا ہے۔  ’’وہ ‘‘ اور ’’میں ‘‘ کا نام آخر تک  تجسس میں رکھا گیا ہے فاطمہ تاج ’’وہ ‘‘کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

’’افسانوی دنیا میں زیادہ تر فرضی کردار ہی ہوتے ہیں اس کے باوجود لگتا ہے کہ وہ حقیقی کردار ہیں اور ہمارے آس پاس ہی ہیں …

میں نے کوشش توکی ہے کہ مرکزی کردار کو قارئین کے ذہن میں کہیں پناہ مل جائے۔ ’’وہ ‘‘دراصل ’’میں ‘‘کی نشاندہی کرتا ہے اور لفظ ’’میں ‘‘ کائنات پر محیط نہیں بلکہ کائنات کی تخلیق کا سبب بھی ہے۔

’’وہ ‘‘ پورے ناول میں ’’وہ ‘‘ہی ہے اس سفرمیں کہیں اُس کا نام نہیں صرف اس کی گفتگو اور دوسرے کردارسے اس کا اتفاقی ٹکراؤ۔

خوشگواراورفکرونظرسے بھرپور گفتگو میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں ،میں کامیاب ہو سکی یا نہیں ؟ یہ فیصلہ قارئین ہی کر سکیں گے۔

’’میں ‘‘ کی اہمیت کے لئے ’’وہ ‘‘ بہت ضروری ہے اور ’’وہ ‘‘ کی اہمیت کو میں نے دیانت داری سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’وہ ‘‘ کا پرسرارکر داواس کہانی کے اختتام پرہی وضاحت کی منزلیں طئے کرتا ہے۔  ( ناولٹ ’’وہ ‘‘ فاطمہ تاج   ص  نمبر  ۵)

ناولٹ ’’وہ ‘‘کا ہر کردار محبت میں ناکامی کا شکار ہے ناکامی ان کا مقصد ہے۔ کسی کو بھی محبت میں فتح حاصل نہیں ہوتی۔ فاطمہ تاج نے اس ناول کو ہم ایک بہترین کاوش قرار دے سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

صغرا ہمایوں مرزا

 

دنیائے ادب میں صغرا ہمایوں مرزا کا تعارف مختلف حیثیتو ں سے ہوتا ہے۔ ادیبہ شاعرہ ،مدیرہ ، اور سماجی خدمت گذار کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دہیں۔

حیدرآباد کی پہلی مسلم خاتون جنھوں نے اپنی تصانیف اور کارناموں کے ذریعہ حیدرآباد و بیرون حیدرآباد شہرت حاصل کی ۔

صغرا ہمایوں مرزا کے والد ڈاکٹر صفدر علی مرزا سرجن افواج تھے۔  صغرا ہمایوں مرزا ۱۸۸۴ء؁ میں حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے خانگی طورپراردواورفارسی کی تعلیم حاصل کی کیونکہ اس زمانے میں اسکول نہیں تھے۔ اسکی شادی ۱۹۰۱ء ؁ میں ہمایوں مرزا صاحب پٹنہ کے بسیرسٹر سے ہوئی۔ شادی کے بعد ہمایوں مرزا نے حیدرآباد ہی میں سکونت اختیار کی۔

صغرا ہمایوں مرزا نے لڑکیوں کی فلاح  و  بہبود کے خیال سے ایک مدرسۂ صفدریہ قائم کیا۔ جس کے لئے انہوں نے اپنی جائیداد کا ایک حصہ دے دیا۔ اس مدرسہ میں آج  بھی تعلیم کے ساتھ مختلف کور سس سکھائے جاتے ہیں۔

صغرا ہمایوں مرزا نے نہ صرف فلاحی کام انجام دیئے بلکہ اپنے قلم کے ذریعہ اصلاح کی کوشش بھی کی ہے۔

(۳) ایک ایسے دور میں جبکہ تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اور ماحول قدامت پسندانہ تھا۔ انہوں نے پردے کی قیود کوتوڑکرجلسہ عام میں تقاریر کیں۔  اسطرح خواتین کو نئی راہ دکھائی۔ )

صغرا ہمایوں مرزا کی طبیعت نثرنگاری کی طرف زیادہ مسائل تھی اسلئے زیادہ تر نثر ہی میں لکھا۔ مگر وہ اچھی شاعرہ بھی تھیں۔ صبا تخلص کرتی تھیں۔ انھیں استادجلیل سے تلمذ تھا۔ ان کی ادارت میں کئی رسالے نکالے۔ زیادہ تر صغرا ہمایوں مرزا نے خواتین کی ترقی اور اصلاح کے مسائل سے خاص دلچسپی لی۔  متعدد ناول اور افسانے لکھے اور اصلاحی کتابیں بھی لکھیں۔  طرز تحریرسادہ ، رواں اور شگفتہ ہے تاکہ پڑھنے والد دلچسپی کے ساتھ ساتھ کچھ سبق بھی حاصل کر سکے۔ کثیر تعداد میں مضامین ،قصے ، افسانے اور مرثیے لکھے۔  ان کی تصانیف تقریباً پندرہ رہیں جوحسب ذیل ہیں :

(۱) سرگزشت ہاجرہ (اصلاحی ناول )

(۲) شیرنسواں (معاشرتی ناول )

(۳) موہنی       (معاشرتی ناول )

(۴) بی بی طوری کا خواب (قصہ یا حکایت )

( ۵) مقالات صغرا ء    (تقاریر کا مجموعہ )

(۶) تحریر انساء  (عورتوں کو خط و کتابت سکھا نے کی کتاب )

( ۷) سفینہ ء نجات   (نوحوں اور مرثیوں کا مجموعہ )

(۸)  سفرنامہ عراق

(۱۰) ء  پونہ

( ۱۱)   سیربہاروبنگال

(۱۲)  سیاحت جنوبی ہند

(۱۳)  مجموعہ نصائح

(۱۵)  آواز غیب

اس کے علاوہ انہوں کے حضرت فاطمہ کی سواغ عمری بھی تحریر کی ہے۔

سرگزست ہاجرہ ، مشیرنسواں ، بی بی طوری کا خواب نصائح حصہ اول اور موہنی کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی سرگذشت ہاجرہ داستانی طرز کا ایک ناول ہے۔ جس میں چار سہیلیاں ایک جگہ جمع ہو کر اپنی آپ بیتی سناتی ہیں جس کے مطالعہ سے لڑکیوں کو اخلاقی درس حاصل ہوتا ہے سرگذشت ہاجرہ میں صغرا ء ہمایوں مرزا مغربی تہذیب کی اچھائیوں کو مشرقی قدروں کے ساتھ اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں ساراکی سرگذشت کا ایک اقتباس ڈاکٹر کی زبانی ملاحظہ فرمائیے

’’دنیا کا منہ کوئی بندہ نہیں کر سکتا آپ جوان ہیں میرے گھر میں آج کل میری بی بی نہیں ہے وہ اپنے میسورگئی ہے ایسی حالت میں آپ کا میرے گھر میں تنہا رہنا  بد نمائی ہے گو کہ میں آپ کو مثل اپنی لڑکی کے سمجھتا ہوں دنیا بری جگہ ہے۔ اسی لئے حضرت رسول خدا نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا۔ ’’اے عائشہ تم اپنے باپ سے بھی جب بات کروتو تنہائی میں نہ کرو کسی کو ساتھ رکھو شیطان ساتھ ہے اس سے ڈرو۔ ‘‘

جناب بشیر الدین  احمد نے تو بیگم صغرا ہمایوں مرزا کو حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی روح رواں کیا تھا وہ قوم وہ ملک کی اصلاح کی خاطرایسی تصویر دکھا یا کرتی تھیں جس سے قوم اور اپنے آپ کوسدھارسکے۔  بیگم صاحب کے بیان کی اثر آفرینی ملاحظہ ہوسارا کی سرگزشت میں لکھتی  ہیں

’’آپ یہ خیال نہ کیجئے کہ آپ کا رہنا میرے لئے دوبھر ہے۔ آپ کی وجہ سے میرے اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے جو مجھے گراں گذر رہا ہے نہیں ہرگز نہیں جو کچھ کہہ  رہا ہوں یقین جانیئے آپ کی بھلائی کے لئے۔ دنیا میں آپ مجرد زندگی کب تک بسرکریں گی عورت کے لئے شوہر ایک نعمت ہے اور مرد کے لئے نیک بی بی کا ملنا جنت ہے ‘‘۔

مشیرنسواں ایک معاشرتی ناول ہے۔ اس میں اخلاقی اصلاح اور مقصدیت کارفرما ہے۔ مقصد کو واضح شکل دے کر اخلاقی اصلاح کا اہم کام لیا۔  انہوں نے کہا :

’’کسی قوم کے رسم و رواج کی آنکھیں بند کر کے تقلید کرنی فضول ہے۔ البتہ اس کے ہنرسکھینے چاہئیں۔  ‘‘

بیگم صغرا ہمایوں مرز اکا ’’موہنی ‘‘ بھی ایک رسوم پر قصے کے پیرائے میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

’’بی بی طوری کا خواب ‘‘ قصہ یا حکایت کہاجاسکتا یہ پندرہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں اصلاحی پہلو نمایاں طور پر عیاں ہے۔

’’بی بی طوری اپنے سائیں سے اپنا خواب بیان کرتی ہے۔ کسی پہاڑ پر دھواں اور کسی کے چیخنے کی آوازیں سن کروہ وہاں جاتی ہے وہاں ایک چڑیا انسانوں کی مانند گفتگو کر سکتی ہے ایک شکاری کی قیدسے رہائی مختلف اشخاص کے پاس لے جاتی ہے اور بی بی طوری ان سب کی مدد کرتی ہے جو کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا ہیں بی بی طوری کی ساس اس خواب کی ی تعبیر بتاتی ہیں کہ تمہارے ہاتھوں مصیبت زدہ اشخاص کا بھلا ہو گا۔

صغرا ہمایوں مرزا اس طرح سے اس قصہ کے ذریعہ مصیبت زدہ ، اشخاص کی مدد کرنے کا خواتین کودرس دیتی ہیں۔

بیگم صغرا ہمایوں مرزا کی تحریروں میں ناول اور کہانی کی ملی جلی تکنیک ملتی ہے۔ جب ۱۹۱۷ء ؁ میں جامعہ عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا اس وقت ان کی تخلیقات کا فی مقبول ہو رہی تھیں۔ عوام اور خواص دونوں طبقوں میں دلچسپی سے پڑھی جا رہی تھیں ان کی تحریروں میں۔ اس عہد کے گہرے نقوش نظر آتے ہیں جس سے اس عہد کی روایات کوسمجھنے میں آسانی ہوئی ہے۔ خواجہ حسن نظامی ،بیگم صاحبہ کے فن کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’حکایات عموماً معتبر اور تاریخی ہیں۔  جس کے اندر ایک خاص مقصد یہ تھا کہ وہ طبقہ نسواں کو دنیا کی نشیب و فراز کو بتانے کی کوشش کی ہے تاکہ ملک اور قوم کی بیگم صغرا ہمایوں مرزا کا ۱۹۵۹ء؁ میں انتقال ہوا۔  مجموعی اعتبار سے ان کی تخلیقات مذہبی اور اصلاحی ہونے کی وجہ سے پر اثر اور ناقابل فراموش ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

آمنہ ابو الحسن

 

 

آمنہ ابو الحسن اردو کی  ایک ذہین اور با صلاحیت تخلیق کار ہیں۔  بحیثیت ناول نگار اور افسانہ نگار بے حد مشہور ہیں۔  ان کے ناول، سیاہ، سرخ، سفید، تم کون ہو،  واپسی، مہک، وہ اور میں، اور، یاد ش بخیر، اردو کے بہترین ناول تسلیم کئے جاتے ہیں۔  انہوں نے اردو ناول کو شعور کی رو کی تکنیک سے با قاعدہ طور پر روشناس کروایا۔ آمنہ ابو الحسن کا سب سے پہلا ناول’سیاہ ، سرخ سفید‘، ۱۹۶۸؁ء میں نیشنل بک ڈپو مچھلی کمان حیدرآباد سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔  یہ ناول ۲۲۴صفحات پر مشتمل ہے اس کی قیمت صرف ۴ روپے اور تعداد اشاعت ایک ہزار ہے، یہ رومانی ناول ہے۔

ان کا دوسرا ناول ’تم کون ہو‘ ۱۹۷۴؁ء میں نیشنل پرنٹنگ پر یس چار کمان حیدرآباد سے شائع ہو کر منظر  عام پر آیا۔  یہ ناول ۱۶۴ صفحات پر مشتمل ہے اس کی قیمت صرف چھ روپے ہے یہ معاشرتی ناول ہے۔  ان کا تیسرا ناول، واپسی،   ۱۹۸۱؁ء میں موڈرن پبلشنگ ہاوس۔ ۹۔ گولا مارکٹ دریا گنج، نئی دہلی ۱۱۰۰۰۲ سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ یہ ناول ۱۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔  اس کی قیمت صرف اٹھارہ ۱۸ روپے ہیں اور یہ بھی معاشرتی ناول ہے۔  ان کا چوتھا ناول، آواز، دسمبر ۱۹۸۵؁ء میں موڈرن پبلشنگ ہاوس گولا مارکیٹ دریا گنج، نئی دہلی ۱۱۰۰۰۲ سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔  یہ ناول ۱۷۶صفحات پر مشتمل ہے اس کی قیمت صرف ۲۵ روپے ہیں اور یہ بھی معاشرتی ناول ہے۔

ان کا پانچواں ناول، یادش بخیر،  ۱۹۹۴؁ء میں موڈرن پبلشنگ ہاوس، دریا گنج نئی دہلی سے شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔  یہ ناول  ۳۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔  اس کی قیمت ایک سو پچاس روپے ہے۔  آمنہ ابو ا لحسن  نے ناول، یادش بخیر، کے پیش لفظ میں صرف ایک شعر پیش کیا ہے جو یہ ہے۔

وہ روشنی جسے تہذیب نفس کہتے ہیں

کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے ‘‘(ناول ’’یارش بخیر ‘‘از آمنہ ابو الحسن ص اول)

انتساب اپنی دونوں بیٹیاں نیلوفر اور صنوبر کے نام

جو نغمے، چشمے، قہقہے اور گیت ہیں میرے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوشبوئیں ہیں زندگی کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور ارتقاء کے اس سفر کی راہی جو نئی نسل کے پیش قدم ہے  اور ان تمام کرداروں کے نام بھی جو  جان ہیں اس ناول کی

ناول، یادش بخیر، قدیم و جدید دونو ں  رجحانات سے مستفید ہے۔  انہوں نے اپنے کرداروں میں خود کلامی سے کام لیا ہے اور اس کے وسیلے سے  کرداروں  کے افکار و تصورات کی ترجمانی کی ہے ۔  ان کی تحریروں میں محاورات کی صفائی اور دلکشی بھی ہے۔  یادش بخیر میں جو اہم کردار ہیں وہ یہ ہیں صنمؔ ، ارم، کہکشاں، افشاں، مبین، عرفان، نواب بھائی، پھوپو وغیرہ۔ صنم اس ناول کا مرکزی کردار ہے جو بہت شائستہ، سلیقہ شعار منکر المزاج اور نیک لڑکی ہے۔ صنم علمو دانشوری کی دولت سے مالا مال ہے اور نئی زندگی کی آگہی  سے اس کا ذہن بھی روشن ہے۔

آمنہ ابو الحسن کی ناولیں دستیاب نہیں ہو سکی کیونکہ انہوں نے اپنی تخلیقات کو کوئی  لائبریری میں رکھنا مناسب نہیں سمجھا اس تعلق سے ان کے شوہر مصطفیٰ علی اکبر صاحب نے کہا کہ، میری بیوی کا مزاج کچھ عجیب تھا اپنی  کوئی کتاب کو لائبریری میں نہیں رکھا اور اپنے انتقال سے کچھ دن پہلے اپنی کتابوں کو تول کے بھاؤ میں بیس روپئے میں تمام کتابیں ردّی میں ڈال دئیے جب مصطفی علی اکبر صاحب گھر آئے تب ان کی صاحبزادی نے بتایا کہ ممی نے ساری کتابیں ردّی میں ڈال دی ہیں۔  جب مصطفی صاحب نے آمنہ ابو الحسن سے دریافت کیا کہ اپنی تخلیقات کو صرف ۲۰ روپئے کے عوض کیوں ڈالا۔ آمنہ ابو الحسن نے کہا کہ اب ان کتابوں کو کون پڑھنے والا ہے۔  ایک ناول ’یادش بخیر‘ جس کو مصطفی صاحب نے چھپا کر رکھی تھی  وہ مقالہ نگار کو پڑھ کر لوٹانے کے لئے دی ہے مصطفی علی اکبر صاحٍب نے آمنہ ابو الحسن کے تعلق سے اور ایک بات بتائی کہہ میری بیوی کبھی نماز نہیں پڑھتی تھیں لیکن تسبیح لے کر ذکر الہی کیا کرتی تھیں، یہی بات پر مصطفی علی اکبر صاحب نے ایک واقعہ رابعہ بصری کا بیان کیاحسن بصری نے حج کو جانے کا ارادہ بصری سے ظاہر کیا۔  تب رابعہ بصری نے بھی حسن بصری کیساتھ چلنے کی اور کعبۃ اللہ شریف دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ حسن بصری نے کہا کہ، تم نماز نہیں پڑھتی ہو پہلے نماز کی پابندی کرو پھر کعبۃ اللہ شریف جانا اور اس طرح حسن بصری مصر کے لئے نکلے۔  حسن بصری ہر قدم پر ایک ایک سجدہ کرتے ہوئے کعبۃ اللہ پہونچے تو حسن بصری کیا دیکھتے ہیں کہ کعبۃ اللہ اپنی جگہ سے غائب ہے۔ کعبۃ اللہ رابعہ بصری سے ملاقات کے لئے رابعہ بصری کے پاس چلا گیا۔ حسن بصری کو حیرت ہوئی کہ رابعہ بصری کا درجہ کتنا بلند  ہے۔  یہ واقعہ بیان کرتے وقت محترم مصطفی علی اکبر صاحب اشکبار ہو گئے کیونکہ مصطفی صاحب اپنی بیوی آمنہ ابو الحسن سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ‘‘(ملاقات مصطفی علی اکبر صاحب بتاریخ ۱۵؍ جنوری ۲۰۰۶ رہائش آمنہ ابو الحسن ّ)

یہ روشن ستارہ  ۹؍ اپریل ۲۰۰۵ کو غروب ہوا لیکن اردو ادب کی دنیا میں ہمیشہ چمکتا رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

اُردو افسانے کا پس منظر

 

 

مغربی ادب میں افسانہ (Short story)۱۸۳۰ء ؁ سے لکھا جانے لگا تھا۔ ایڈگر ایلن کے مطابق انگریزی کا پہلا افسانہ نگار واشنگٹن ارونگ  کا نام آتا ہے اور ان کا تحریر کردہ افسانہ ’’اسکیچ بک ‘‘( Sketch book ۱۸۱۸ء ؁ میں مختصر افسانے کی تاریخ میں اولین کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔

ہند وستان میں اُردو افسانے کا آغاز سجادحیدریلدرم اور پریم چند کے ہاتھوں ہوا۔ یہ دونوں افسانہ نگار اپنے ساتھ دو علاحدہ مکتب فکر رکھتے تھے۔  پریم چند نے اصلاح پسندی کے ساتھ حقیقت نگاری کی داغ بیل ڈالی اور دوسری طرف سجادحیدریلدرم رومانیت اور تخیل پسندی کی نمائندگی کرتے ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز بنیادی مسائل پرنہ ہوتے ہوئے تعلیم یافتہ طبقہ میں پائے جانے والی زندگی پر مرکوز ہے۔

اُردو کا پہلا افسانہ سجادحیدریلدرم نے لکھا۔ اُردوافسانے کو بام عروج پر عروج پر پہونچانے کا سہرا پریم چند کے سرہے۔ پریم چند کے افسانوں میں ترقی پسندعناصر ملتے ہیں۔ ترقی پسندتحریک نے اُردو افسانے کو معراج پر پہنچایا‘‘ (’’ذوق ادب و شعور‘‘ از پرو فیسر احتشام حسین ص ۳۵۔)

اُردو افسانے کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس کا دامن ہزاروں افسانہ نگاروں کی تخلیقات سے بھرا رہا۔ اُردو ادب کی مختلف تحریکوں کے نشیب و فراز سے یہ اپنے قاری کوسیراب کرتی رہی اور کر رہی ہے۔ اُردو افسانوں میں جہاں مرد افسانہ نگاروں کی بالادستی رہی وہیں خاتون افسانہ نگاروں نے بڑی ہی سوجھ بوجھ اور انہماک سے اپنے سماج، معاشرے اور اردو گرد کے مشاہدات پر اپنے افسانوں کی عمارت کھڑی کی اور ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جو آج کے انسانوں اور اس کی زندگی کے لئے اہم تصور کئے گئے۔ یہ موضوعات معاشرتی بھی ہے۔ سماجی بھی اور نفسیاتی بھی۔ ان کے نزدیک افسانے کا مفہوم زیادہ وسیع تھا۔ مواد، تکنک، ترتیب، تشکیل اور پیش کش میں وہ کسی سے پیچھے نہیں تھیں مگر چند ایک افسانہ نگاروں کو چھوڑ کر ان خاتون افسانہ نگاروں میں موضوع کی تلاش، مواد کی فراہمی اور ان سے جڑے ذہنی اور جذباتی اقدار مشترک پائے گئے۔ مثلاًافسانہ نگار اور ان کا اپنا ماحول اور مشاہدہ جس ماحول کا وہ پروردہ ہواسے جتنی زیادہ واقفیت رکھتا ہے اسی انہماک سے اس کا احاطہ یاعکاسی کرتا ہے۔

افسانے میں تاثر کی وحدت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ تاثر کی یہ وحدت کردار مکالمے، پس منظر یا ماحول، پلاٹ کسی بھی ذریعہ سے پیدا کی جاسکتی ہے کہانی میں کسی مخصوص واقعہ یا تاثر کے بجائے ماحول اور عام تجربے کو بھی پیش کیاجاسکتا ہے۔ افسانے کے لئے پلاٹ مکالمہ، کردار نگاری، مقصد، اسلوب یا ماحول بے حد اہمیت رکھتے ہیں۔

’’پلاٹ ‘‘کہانی کا ڈھانچہ کہلاتا ہے اس سے کہانی کے ارتقاء کوسمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ افسانہ ایسی ایسی راہوں سے گزرا جن پراسے زندگی کے قرب اور فن کے احساس نے برابر نئی نئی چیزوں سے آشنا کیا۔ منزل تک پہنچنے کے لئے افسانہ نگاروں کو بے شمار مراحل طے کرنے پڑے۔

اُردو ادب میں جن تحریکوں کی وجہ سے انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ ان میں علی گڑھ تحریک سب سے مقدم اور اولین حیثیت رکھتی ہے اس کے بعدجس تحریک نے مجموعی حیثیت سے افسانے کوسب زیادہ متاثر کیا وہ ترقی پسندتحریک ہے

ترقی پسندتحریک نے یوں تو شعر و ادب کی تمام اصناف کو متاثر کیا لیکن خاص طور پر اُردو افسانے کواس کے دین کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں اردوافسانہ اپنے موضوع، اسلوب، فن اور تکنک کے لحاظ سے عروج پر نظر آتا ہے

اس دور کے افسانہ نگاروں نے اپنے عہد کے ہر موضوع پر قلم اٹھایا ہے آزادی کی تڑپ، انسانی معاشرے اور ان کے آپسی رشتے، جنسی گھٹن، انسانی رویوں کے نفیساتی عوامل وغیرہ۔ یہ سارے ہی میلانات ان کے پاس نظر آتے ہیں۔

حیدرآباد اردو کا  مرکز رہا ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں نے ہر دور کا ساتھ دیا ہے۔ وہ مردافسانہ نگاروں کے دوش بدوش ہم قدم رہی خواہ مقصدی، اصلاحی یا رومانی ترقی پسندتحریک یا جدیدیت یا اسقارانی و تمثیلی وہ ادبی میدان میں کسی سے بھی پیچھے نہیں رہی۔

اردو دنیا میں جدید میلانات کی ترویج و اشاعت اور عکاسی و ترجمانی میں حیدرآباد کے افسانہ نگاروں نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔ کسی زمانے میں علاقائی عناصر شعر و ادب میں جلوہ گر ہوتے رہے تھے۔ آج بھی یہ کیفیات تھوڑی بہت ملتی ہیں۔ لیکن سائنسی ایجادات صنعتی ترقی اور نثرو اشاعت کی سہولتوں کے باعث دوریاں سمٹ چکی ہیں اور کوئی عجب نہیں کہ جلد ہی ساری دنیا ایک چھوٹا ساگاوں محسوس ہو۔

حیدرآباد کے افسانہ نگاروں نے بھی اس بدلتی ہوئی صورت حال، زمانے کے شب و روز اور پیچ و خم پر گہری نظر رکھی اور زندگی کی دھڑکنوں کومحسوس کیا۔ آپ ان سے اتفاق کریں یا نہ کریں۔ انھوں نے اپنے اپنے زاویہ سے مسائل کا تجزیہ کیا۔ اپنے تاثر ات اور محسوسات کو صفحہ قرطاس پر پیش کیا۔ شعر و ادب کے بدلتے منظرنامہ کی اپنے قلم سے تصویر کھینچی۔

مختصر افسانہ اُردو  نثر کی جدید ترین شکل ہے۔ جس میں افسانہ نگار اپنے تخیل اور قوت مشاہدہ سے حیات انسانی کی منجملہ حرکات وسکنات کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کرتا ہے۔ ‘‘۱؎  افسانے کا آغاز اور اختتام بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔

جوافسانہ جتنے پرزور الفاظ اور نرالے پن سے شروع ہو کر ختم ہوتا ہے۔ اتنا ہی مقبول ہوتا ہے۔ افسانہ کی کامیابی پلاٹ پربھی موقف ہے پلاٹ جس قدر اچھوتا، نرالا اور معنی خیز ہو گا۔ افسانہ اتنا ہی دلچسپی سے پڑھا جائے گا۔ بعض افسانے ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جن میں کوئی پلاٹ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود وہ بہت ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کاسبب اس فن کا رکے قلم کی خوبی ہے کامیاب افسانے کے لئے اس کے مکالمے نہ صرف پر جوش ہونے چاہے۔ بلکہ وہ کردار کی حیثیت و ہئیت کے عین مطابق بھی ہونے ضروری ہیں۔ افسانے میں طنز و مزاح اور ظرافت کا عنصر بھی افسانے کو کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس سے قاری کی دلچسپی قائم رہتی ہے۔ ایک اچھے افسانے میں نفسیاتی عنصر، واردات قلبی، مرقع نگاری، سیرت نگاری مقامی رنگ میں ندرت، صفائی اور پاکیزگی کا  ہونا بھی لازمی امر ہے۔ ‘‘(نئے تنقیدی زاویے از ڈاکٹر خوشحال زیدی ص ۱۳۱)

اردو افسانہ بہت ترقی کر رہا ہے۔ اس کی برق رفتاری اور کامیابی کو دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس کا مستقبل انتہائی تاب ناک ہے۔  ادب اور زندگی میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں افسانہ نگاری نے جو اہم رول ادا کیا ہے کسی دوسری صنف نے نہیں کیا۔ حالات کے تیور اور ادیبوں کے ابھرتے ہوئے قلم یہ بتاتے ہیں کہ عنقریب افسانہ نگاری اردو نثر میں زندگی کی سچی ترجمانی کرنے اور مونس بننے کے لئے تیار ہے۔

مشینوں کی برق رفتاری، سائینس کی ایجادات انسانی زندگی کو بھی مشین بنا دینا چاہتی ہے۔ ادب کو زندگی کی دوڑ دوڑ میں حالات کے نشیب و فراز کے ساتھ ڈھلتے ہوئے برق رفتاری کے ساتھ لے چلنے میں نثر کے اندر اگر کوئی صنعت تمام خوبیاں رکھتی ہے تو وہ مختصر افسانہ کی ہی ڈگر ہے۔

اُردو ادب میں بے شمار افسانہ نگار اپنے زندہ جاوید شاہکار پیش کر کے ادب اور زندگی میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ آج کے افسانہ نگار کی یہ کاوش قابل صد آفریں ہیں۔ حالات کے تیور اور زمانے کی گردش بتا رہی ہیں کہ افسانہ میں وسعت اور گہرائی سماج اور زندگی کی سچی آئینہ دار ہے۔ ‘‘ (’’داستان سے افسانے تک ‘‘ از وقار عظیم ص ۱۵۱۔)

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ

 

 

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نہ صرف بلند پایہ محقق اور نقاد ہی نہیں بلکہ بہترین افسانہ نگار بھی ہیں، ان کا شمار جامعہ عثمانیہ کے تیسرے دور کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔  ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’ کچے دھاگے ‘‘ جس میں نو دلچسپ افسانے ہیں جو حسب ذیل ہیں :۔ (۱)۔ زیر و بم۔ (۲) نئے پرانے۔ (۳)کچے دھاگے۔ (۴)کھنڈر۔ (۵)بیس سال بعد۔ (۶)بھنور ارسیا۔ (۷)دل ناداں۔ (۸)نور و ظلمت۔ (۹)رومیو جولیٹ۔

ان کے یہاں افسانے کے مختلف اجزائے ترکیبی میں ایک آہنگ اور توازن ملتا ہے۔  پلاٹ کے ساتھ کردار نگاری کو خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کرنے کا فن ان کے پاس نظر آتا ہے۔  ان کے افسانوں کے کردار زندگی کے قریب معلوم ہوتے ہیں۔

اس مجموعے کے بیشتر افسانے تفسیاتی حقائق پر مبنی ہیں۔  افسانہ، کھنڈر، میں نفسیاتی الجھن کے شکار مرد کی داستان ہے جس کی زندگی میں کئی عورتیں آتی ہیں مگر وہ کسی کو نہیں اپناتا۔ اس کی کھنڈر نما زندگی کبھی آباد نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ انگریزی ادب اور مغرب کی جدید تحریکوں سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔  افسانہ، کچے دھاگے، اعلیٰ تعلیم یافتہ سوسائٹی پر طنز کے تیر برسائے اور بڑے موثر طریقے سے خیال انگیز باتیں کہی گئی اس افسانے میں اصلاح کا پہلو نمایاں ہیں۔

اس مجموعے کے تقریباً سبھی افسانے سماج کی اصلا ح کی ترقی اور معیاری سماج کی تشکیل میں انسانی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں۔  اور سماج کے مختلف طبقوں کی زندگی کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔  ان کا انداز بیان اور اسلوب نہایت دلکش ہے۔

افسانہ، نئے پرانے، اور کچے دھاگے، میں سماج میں پھیلی خرابیوں کے بارے میں قاری کی توجہ کو راغب کرنے کی مکمل سعی کرتی ہیں۔  ان کے افسانوں کے تعلق سے نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں۔

’’موجودہ دور کے انسانوں کے کرداروں کی بڑی اچھی تصویر کشی کی گئی ہے۔  کردار کے تحت الشعور کی کیفیات کو بھی واضح کرتی ہیں۔  جنسی کشمکش کو بھی پیش کرتی ہیں۔  مگر ساتھ ساتھ عورت کے وقار کو صدمہ ہوتا ہے اور نہ عریانی پائی جاتی ہے۔  مردوں کی ہرجائی پن کو اجاگر کرنے میں ان کا قلم بڑا زور دکھاتا ہے۔  ‘‘

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اپنے افسانوں کے ماحول میں انہوں نے ایسی فضا  پیدا کی ہے جو جاری وساری نظر آتی ہے، جودلچسپ بھی اور حیرت انگیز بھی ہے۔  وہ افسانے کے واقعات کا اس طرح نقشہ پیش کرتی ہیں کہ قاری اس کو پڑھ کر جیتا جاگتا منظر اپنی نظروں  کے سامنے محسوس کرتا ہے۔  ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ اپنی تخلیقات کے ذریعہ علمی و ادبی دنیا میں کافی مقبولیت حاصل کی۔

 

٭٭٭٭

 

 

 

افروز سعیدہ

 

 

افروز سعیدہ حیدرآباد کی نئی اور ابھرتی ہوئی افسانہ نگار خاتون ہیں۔  ۱۹۴۴ء اپریل میں حیدرآباد کے معزز خاندان میں پیدا ہوئیں۔  ان کے دادا نواب سخاوت جنگ بہادر اول تعلقہ دار تھے۔  ان کے پانچ میں سے ایک سپوت جناب شرافت حسین کسٹم آفیسر مرحوم کی پہلی اولاد ہے۔  والد محترم ادبی ذوق سے معمور شخصیت کے مالک تھے۔  افروز سعیدہ کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے۔  انہوں نے ۱۹۶۲ء میں ریڈی کالج سے بی ایس سی اور ۱۹۶۴ء میں بی اے کیا، لیکن والدہ محترمہ کے کہنے پر گریجویشن کے بعد ۱۹۶۲ء  میں مرتضیٰ قاسمی ایجوکیشن آفیسر اور نگ آباد (مہاراشٹرا) سے شادی ہوئی۔ انہوں نے شادی کے بعد بھی اپنی تعلیمی کاوشیں جاری رکھیں اور پھر ۱۹۹۱ء میں ایم اے درجہ اول میں پاس کیا۔

افروز سعیدہ کو ادبی ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ ان کے دونوں بھائی شعری ذوق رکھتے ہیں۔  شباہت حسین افسر جو میکانیکل انجینئر ہیں اور دوسرے وجاہت حسین انور بی کام مقیم سعودی عربیہ، ایک بہن حمیدہ تسکین جو انعام یافتہ خوشنویس ہے جو حسینی پاشاہ چشتی قادری نقشبندی کی زوجہ ہیں۔

افروز سعیدہ کو دو لڑکے ہیں۔  مصطفیٰ قاسمی اور مجتبیٰ قاسمی۔  افروز سعیدہ کو کالج کے زمانے سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔  اس زمانے میں ریڈی کالج میں محترمہ جہاں بانو نقوی ان کی لکچرار تھیں۔  انہوں نے ہی ان کی ہمت افزائی کی اور ذوق کو سراہا۔ افسانے اور مضامین لکھنا اور سنانا ڈراموں میں کام کرنا اور بیت بازی میں حصہ لینا ان کے محبوب مشغلے رہے ہیں۔  ان کے اس شوق نے جِلا بخشی انیس(19)  افسانوں کا یہ پہلا مجموعہ ’’نایاب‘‘ اردو ادب میں اضافہ کا حصہ ہے۔

افروز سعیدہ کی کہانیاں ’’خاتونِ مشرق ‘‘ ’’مریم‘‘ ’’پونم‘‘ اور  ماہنامہ ’’پیام اردو ‘‘ کے پرانے پڑھنے والے ان کی محاورانہ تحریروں سے واقف ہیں۔  ان کے افساے ان کی دکھ بھری زندگی کی پیداوار ہیں۔

ڈاکٹر حبیب ضیاء افروز سعیدہ کے بارے میں لکھتی ہیں۔

’’اچھے  مکالمے لکھنا ہر ادیب کے بس کی بات نہیں۔  افروز سعیدہ مکالمہ نگاری کے فن سے خوب واقف ہیں۔  کئی افسانوں میں انہوں نے اردو زبان سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا بھی ان کے افسانے نہ صرف پڑھ سکتا ہے بلکہ افسانے کے مرکزی خیال پر غور و فکر بھی کر سکتا ہے۔ ‘‘(افروز سعیدہ مجموعہ ’’نایاب‘‘ پیش لفظ  ص نمبر ۵)

افروز سعیدہ محفل  خواتین سے ۱۹۸۰ء سے آج تک وابستہ ہیں۔  یہ محفل ہر ماہ کے دوسرے ہفتہ کو منعقد ہوتی ہے۔  انہوں نے یہاں پر کئی افسانے سنا کر داد حاصل کی۔

افروز سعیدہ کو کہانیاں لکھنے اور ڈراموں میں کام کرنے کا شروع ہی سے شوق رہا ہے۔  اپنے کالج میں بھی انہوں نے ڈرامے میں کام کیا۔

افروز سعیدہ کے بیشتر افسانے نفسیاتی حقائق پر مبنی ہیں قاری کے ذہن کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔  ان کے افسانے آل انڈیا ریڈیو سے ۱۹۷۶ء تا ۱۹۸۰ء میں نشر ہوتے رہے۔  اس کے علاوہ عرب ٹائمز، کویت میں افسانہ ’’یادیں ‘‘ کے عنوان سے ۲؍ جولائی ۱۹۸۰ء کو چھپا تھا۔

’’نایاب‘‘ ان کے انیس (۱۹) دلچسپ و اصلاحی افسانوں کا مجموعہ ہے۔  جس میں ۱۔ تکمیل آرزو۔ ۲۔ نادان۔ ۳۔ نایاب۔ ۴۔ مجرم کون؟۔ ۵۔ پشیمان۔ ۶۔ شام غم کی قسم۔ ۷۔ فیصلے کی رات۔ ۸۔ انتقام۔ ۹۔ ادھورے خواب۔ ۱۰۔ خواب یا حقیقت۔ ۱۱۔ منزل بہاروں کی۔ ۱۲۔ پھولوں کی چھن۔ ۱۳۔ تہی دامن۔ ۱۴۔ خزاں رسیدہ۔ ۱۵۔ دائرے۔  ۱۶۔ بکھرے موتی۔ ۱۷۔ کرن۔ ۱۸۔ فیصلہ۔ ۱۹۔ فریب آرزو۔

افروز سعیدہ کی ’’فیصلے کی رات ‘‘ ایک اچھی کہانی ہے۔  سفینہ اس کا مرکزی کردار ہے اور کہانی اسی کے اطراف گھومتی ہے۔  سفینہ بیوہ تھی۔ اس کی ایک لڑکی اسماء تھی۔ اسماء کی سالگرہ ہے اور اسی سال اسماء نے میٹرک درجہ اول میں پاس کیا تھا۔

اس کہانی کا پلاٹ تین مرد حضرات پر منحصر ہیں۔  ایک سفینہ کا شوہر جو زمیندار تھا انتقال ہو چکا ہے۔  دوسرے شخص رفیق سے ملاقات ملازمت کے دوران ہوتی ہے اور عشق کی آگ پہلے ہی دن سے بڑھتی چلی جاتی ہے اور سفینہ سوچنے لگتی ہے کہ میں ایک تیس سالہ بیوہ ہوں اور ایک جوان لڑکی  کی ماں ہوں ذرا سی لغزش بدنامی و  رسوائی کے گہری کھائی میں ڈھکیل سکتی ہے۔  سفینہ نے کئی بار سوچا کہ نوکری سے استعفیٰ دے دوں مگر جذبات کے بہاؤ میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ سفینہ  کے جذبات کا حال ملاحظہ فرمایئے۔

’’تمہاری قربت کے خیال ہی سے میرے دل کی دھڑکن بے قابو سی ہو رہی تھیں۔  میرے اندر سلگتی آگ کی حرارت کو اگر تم نے محسوس کر لیا تو کیا ہو گا۔ اپنے احساساتو خیالات میں سے تمہیں آگاہ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ مجھے تم سے محبت تھی بس، روحانی محبت، جسے میں ایک طرفہ ہی رکھنا چاہتی تھی۔ اکیلی فنا ہو جانا چاہتی تھی کیونکہ اس فنا میں مجھے اپنی بقا نظر آتی تھی …  (مجموعہ ’’نایاب‘‘  افروز سعیدہ۔ مشمولہ ’’فیصلے کی رات ‘‘ ص نمبر ۶۱)

ایک دن اچانک رفیق نے جذبات سے بے قابو ہو کر سفینہ کا ہاتھ اپنے تپتے ہاتھوں میں لے لیا اور دونوں تپش محسوس کرنے لگے پھر سفینہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ایک شادی شدہ مرد جو ایک کنبہ کا سرپرست ہے اور سماج میں ایک اعلیٰ مقام پر ہے میں ایک بیوہ ہوں جو معاشرے کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔  دوسرے دن سفینہ نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔

کچھ دن بعد اپنے آپ کو سنبھال کر ایک اسکول میں ملازمت ڈھونڈ لی۔ یہاں بھی اس اسکول کے ڈائرکٹر حسن جاوید بھی سفینہ پر کچھ زیادہ ہی مہربان تھے اور سفینہ کی بیٹی اسماء کو باپ کا پیار دینا چاہتے تھے۔  سفینہ کو اپنے فیصلہ کا اعلان  اسماء کی سالگرہ پارٹی میں کرنا تھا۔ اسی پارٹی میں اسماء کی سہیلی رعنا کے باپ رفیق بھی چلے آتے ہیں۔  سفینہ کی نظر جب رفیق پر پڑتی ہے ماضی کی یادیں آنے لگتی ہے۔  اب سفینہ کے لیے ’’فیصلہ کی رات‘‘ تھی۔  اسکولی ڈائرکٹر مس حسن جاوید یا پھر رفیق اسی کشمکش میں سفینہ بے ہوش ہو کر گر جاتی ہے پھر ہوش آنے پر دیکھتی ہے اسماء رو رہی ہے اور رفیق قریب بیٹھی ہے پھر رفیق سفینہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے :

’’سفینہ مجھے خوشی ہے کہ برسوں بعد تم سے ملاقات ہوئی میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں تم برا تو نہیں مانو گی۔ سفینہ تم جب پہلی بار میرے آفس آئی تھی اسی دن تمہیں اپنانے کی تمنا نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا۔ تمہیں ا پنی سمجھنے لگا تھا تمہارا استعفیٰ سے ایک دن پہلے میں بہک گیا تھا دوسرے دن تم سے معافی مانگنا اور تمہارا ہاتھ تھام لینا چاہتا تھا۔ اسی دن تم نہیں آئیں دوچار دن انتظار کرنے کے بعد تمہارے گھر گیا تو معلوم ہوا تم کہیں اور منتقل ہو چکی ہو اور آج … ‘‘رفیق خاموش ہو گئے۔  مس جاویدحسن دودھ کا گلاس لئے آ گئے تھے اور سفینہ کو سہارادے کر اٹھانے لگے۔  رفیق بھی آگے بڑھے اور اسی وقت سفینہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی …‘‘( مجموعہ ’’نایاب‘‘  افروز سعیدہ۔ مشمولہ ’’فیصلے کی رات ‘‘ ص نمبر ۶۱)

اور فیصلہ کیا ہو سکتا ہے ، افروز سعیدہ نے قاری پر چھوڑ دیا۔ انہیں اپنی صنف سے خاصی ہمدردی ہے۔  انھوں نے ہمیشہ عورت کی مظلومیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔  ماں، بیوی، بیٹی، بہو ہر حیثیت میں عورت استحصال کا شکار رہی ہے۔  انہوں نے زندگی کو ہمیشہ قریب سے دیکھا ہے۔  بے کسوں اور مظلوموں کی حمایت ان کی تحریروں کا بنیادی مقصد رہا ہے۔

افسانہ ’’نایاب‘‘ کی شروعات اس شعر سے ہوتی ہے۔

خدا پوچھے گا محشر میں بتا تفسیر کس کی ہے

تو کہہ دوں گا میری تقدیر میں تحریر کس کی ہے

افروز سعیدہ کے افسانے سماجی شعور اور عصری حسیت کی عمدہ مثال ہیں۔  ان کے افسانے متوسط طبقے اور نچلے متوسطہ طبقے کی معاشرتی زندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ مختلف النوع موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔  ان کے مسائل ان کے دکھ ان سب کا بغور جائزہ لے کر ان کو اپنے شعور کی مدد سے صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔  ان کے ضمن میں یہ خوبیاں بہ درجہ اتم پائی گئی ہیں۔

افروز سعیدہ کا دوسرا فسانوی مجموعہ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ‘‘ طبع ہو چکا ہے۔  جس میں ۱۔ کاغذ کی کشتی۔ ۲۔ جہاں اور بھی ہیں۔  ۳۔ پیاسی شبنم۔  ۴۔  بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔  ۵۔ … اور ہم غبار دیکھتے رہے۔ ۶۔ مکافات عمل۔  ۷۔ وقت کی کروٹ۔  ۸۔ رانگ نمبر۔ ۹۔ انتظار تیرا آج بھی ہے۔  ۱۰۔ تاریک راہوں کے مسافر۔ ۱۱۔ کشکول۔

ان کے افسانے بہترین تہذیبی شعور کے حامل ہیں جن میں تلخی ہوتی ہے نہ طنز بلکہ ان کے افسانے نہایت ہی دھیمے انداز میں قاری کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔  انہوں نے اپنے کرداروں کی نفسیات کوبڑی چابکدستی اور کامیابی سے پیش کیا ہے۔

افروزسعیدہ کے تمام افسانے زندگی کے کسی نہ کسی رُخ پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس کے اچھے اور بُرے پہلوؤں کو اُجاگر کر کے انسانی زندگی کی بنیادی کمزوریوں کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں۔

بہر کیف ان کا فن مقصدیت اور افادی ادب کی زندہ مثال ہے۔

٭٭٭٭

 

 

شبینہ اسلم فرشوری

 

 

شبینہ اسلم فرشوری اردو دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں بدایوں یوپی میں پیدا ہوئیں۔  ان کے والد رحمان حسین فرشوری بھی کافی ادبی ذوق رکھتے تھے۔

شبینہ اسلم فرشوری کی ابتدائی تعلیم بدایوں میں ہوئی۔ آگرہ یونیورسٹی سے بی۔  اے اور بی ایڈ کرنے کے بعد  تایا  زاد بھائی اسلم فرشوری سے ۲؍ اپریل  ۱۹۷۵ کو شادی ہوئی۔  جو آل انڈیا ریڈیو میں  اناونسر تھے اس کے بعد وہ ای ٹی وی اردو کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔  تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے ان کے افسانے اور مضامین اخبار سیاست میں چھپ چکے ہیں جو بہت جلد کتابی شکل میں، باتیں اپنے دل سے، کے نام سے منظر عام پر آئیں گے۔  انہوں نے پہلے بچوں کیلئے لکھنا شروع کیا۔ عورتوں کی مختلف مسائل پر بھی نفسیاتی مضامین لکھے۔  مزاحیہ مضامین بھی کافی لکھے۔ (ملاقات ۱۰؍ اپریل بمقام محفل خواتین)

شبینہ اسلم فرشوری کو ادبی ذوق ورثہ میں ملا اس لئے ان کو شعر و ادب  سے ہمیشہ سے ہی لگاو رہا کئی افسانے اور مضامین وقتاً فوقتاً مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔  شمع میں شبینہ انجم کے نام سے اکثر سوال چھپتے جس کے جواب ادریس دہلوی دیتے تھے۔  شادی کے بعد باضابطہ ان کے شوہر اسلم فرشوری نے علمی و ادبی ذوق کو جلا بخشی۔  ان کے پسندیدہ ادیب مشتاق احمد یو سفی، مجتبیٰ حسین، رفیعہ منظور الامین، جیلانی بانو ڈاکٹر حبیب ضیاء۔ ’’ نسیمہ تراب الحسن اور فریدہ زین ہیں ‘‘۔ (’’حیدرآباد کی طنز و مزاح نگار خواتین‘‘ از ڈاکٹر حبیب ضیاء ص ۱۹۵)

ان کے افسانے گھریلو زندگی اور سماجی رجحانات کیا اچھے عکاس ہیں افسانہ’’ بادلوں کا سفر‘‘ میں مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے امتزاج کی ضرورت کو نمایاں کیا ہے۔  چونکہ سماجی مسئلہ راست طور پر گھریلو زندگی سے وابستہ تھا اس لئے اس مسئلہ  کے حل کو انہوں نے روز مرہ کی گھریلو زندگی میں ہی  تلاش کیا ہے۔

افسانہ’ بادلوں کا سفر‘ میں سفینہ بیگم کی آج ساٹھ ویں سالگرہ تھیں۔  بچپن سے انہوں نے اب تک پرکشش زندگی گزاری۔  بچپن میں ہر کسی کی لاڈلی تھیں جب ہوش سنبھا لا تو سب کی خوشی میں اپنی خوشی سمجھ کر سب کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔  ایک دن اچانک گاڑی چلاتے ہوئے سفینہ بیگم کا حادثہ  ہو گیا۔  جب ہوش آیا تو دوا خانہ میں اپنے اطراف  خاندان کے سارے افراد کو دیکھا پھر وہ پیار بھری نظروں سے سب کو دیکھتی رہیں۔  ایک ماں اپنے بچوں کے چہرے پر خوشی دیکھنا چاہتی ہے۔  اگر بچے اپنی زندگی میں ناکام رہے تو اس میں ماں کی ناکامی ہے کیونکہ وہ بچوں کی خوشحال زندگی میں اپنی تربیت پر خوش ہوتی ہے۔  اگر اولاد  کی زندگی  میں کہیں سے دکھ  کے بادل آ گئے تو وہ اس کا ذمہ دار خود کو سمجھتی ہے کہ شاید میری مصروف ترین زندگی  کی وجہ سے  میں اپنے بچوں کی صحیح پر ورش نہ کر سکی۔  مگر سفینہ بیگم ہر معاملہ میں خوش قسمت تھیں  کہ شادی سے لے کر آج تک اس نے ہر حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اور جوان بیٹے جو ماں کی طاقت ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر تو وہ ہر غم بھلا دیتی  ہے ان کی خوشی میں اپنی خوشی سمجھتی ہے۔  شبینہ اسلم فرشوری کے افسانے مختلف موضوعات  پر مبنی ہیں جو زندگی کے کسی نہ کسی مسئلہ سے متعلق ہیں اور اچھے افسانے کہے جا سکتے ہیں ان کے افسانوں میں تفکر کا عنصر بھی ہے اور نفسیاتی مشاہدہ بھی۔  ان کے افسانوں میں مکمل موضوعات پر عبور کے ساتھ ساتھ اسلوب میں رنگینی و دلکشی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

عزیز النساء حبیبی

 

 

حیدرآباد کی ترقی پسند افسانہ نگاروں میں عزیز النساء حبیبی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کا تعلق حیدرآباد کے رئیس تعلیم یافتہ گھرانے سے ہیں۔  ابتدائی تعلیم کے بعد بی ایس سی۔  بی۔  ایڈ کیا اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئی۔  بچپن سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا کالج میں آنے کے بعد یہ شوق اور پروان چڑھا۔  اور اسی شوق نے ایک مجموعے کی شکل اختیار کر لی۔  ان کا افسانوی مجموعہ۔  تم بڑی سنگ دل ہو۔  جو مندرجہ ذیل بیس افسانے شامل ہیں۔  ۱)سنہری آنکھیں ۔  ۲  اے غم دل کیا کروں۔  ۳  مثلث۔ ۴ تلاش۔ ۵) التجا  ۶)باجی۔  ۷ )شہلا۔ ۸) سپنوں کے جھروکوں سے۔  ۹) ایک عید۔ ۱۰)چاندنی رات۔ ۱۱)تیرے بغیر ۱۲)عورت کا دل۔ ۱۳)زندگی کے کھیل  ۱۴) تم  ۱۵) دل جلتا ہے تو جلنے دے۔ ۱۶) میرا محبوب۔  ۱۷) امتحان ۱۸) اف یہ مرد  ۱۹) تم بڑی سنگ دل ہو۔  ۲۰) یہ دنیا ہے۔

عزیز النساء حبیبی   اپنے انفرادی لب و لہجہ اور طرز اد ا کی بناء پر ادب کی جانی پہچانی شخصیت بن گئی۔  ان کے طرز تحریر کی پختگی اور خیال و فکر کی بلندی اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ وہ ایک نہایت حساس اور با صلاحیت افسانہ نگار ہیں۔  انہوں نے مختلف النوع موضوعات پر خاصی توجہ فرمائی ہیں۔

ان کے افسانوں کے موضوعات میں معاشرتی، وسماجی نفسیاتی مسائل جیسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔

عزیزالنساء حبیبی اپنے افسانوں کے تعلق سے لکھتی ہیں۔

’’ ہندوستانی عورت کی بے بسی کو دیکھ کر میں نے بارہا سوچا کہ وہ عورت جس کے بغیر  مرد ایک پل ٹک نہیں سکتا جو بیوی بن کر لاکھوں دلوں پر حکو مت کرتی ہے جو سرتاپا ہمدردی ہوتی ہے۔  ماں بن کر فقر بانی کا جیتا جاگتا نمونہ نظر آتی ہے حضور نے جس کے قدموں تلے جنت کی نشاندہی کی ہے۔  وہ مشرق میں کمزور بے بس کنیز کے سوا کچھ نہیں۔  ان ہی پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے میں افسانے لکھتی ہوں ‘‘ (پیش لفظ ’’تم بری سنگل دل ہو ‘‘۔)

عزیز النساء حبیبی نے اپنے افسانوں میں یہ بتا نے کی کوشش کی ہے کہ ایک مشرقی عورت کتنا ہی خود کو ترقی پسند

اور بے باک کیوں نہ بتائے مگر اس کا دل ہمیشہ مشرقی عورت ہی کا رہے گا۔  اپنے شوہر سے پیار و محبت کے علاوہ ایثار، ہمدردی بھروسہ اور اعتماد کی متمنی رہتی ہے۔  افسانہ، شہلا، کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔

’’ ہندوستان کی مختلف لڑکیوں کی طرح وہ بھی مرد کی بے وفائی اور ہوس کا شکار ہوئی لیکن اس بے چاری نے کبھی بے وفائی کا شکوہ نہیں کیا۔  وہ مرد کی طرح کم ظرف نہیں جو اپنی زندگی کے اہم ترین اور نازک ترین راز کو بھی ہوا میں ربر کی گیند کی طرح اچھال دیتے ہیں ‘‘(دیباچہ ’’تم بڑی سنگل دل ہو ‘‘)

محبت کی راہ میں اٹھنے والے قدم مرد کو کچھ نہیں ہوتا لیکن عورت کو کہیں کا نہیں رکھتی۔  اس  کی رضا کارانہ خود سپردگی مہنگی پڑتی ہیں۔  بہر حال اس افسانے میں ایک مشرقی عورت کے حال زار کو پیش کیا گیا ہے۔

عورت کی نا انصافی پر ابراہیم جلیس ’تم بڑی سنگدل ہو‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔

’’عزیز کو سماج میں عورت کی توہین پر غصہ ہے۔  سماج کی نظر میں عورت ایک قابل فروخت جنس کے سوا کچھ نہیں۔  عورت کو سماج نے انسان کبھی نہیں سمجھا۔  وہ سماج کی اس نا انصافی پر شدّت سے احتجاج کرتی ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ عورت  کو عورت سمجھا جائے۔  عورت جنس نہیں انسان ہے۔  وہ خریدی جائے اور نہ بیچی جائے۔ ‘ (دیباچہ ’’تم بڑی سنگ دل ہو ‘‘)

عزیز النساء محبیبی نے ترقی پسند دور میں کافی افسانے لکھے اور اس دور کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔  آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے بھی افسانے نشر ہو تے رہے۔  مختلف رسائل میں بھی افسانے شائع ہوتے رہے۔  عزیز النساء حبیبی اپنے تجربات اور مشاہدات کا بڑی گہرائی سے مطالعہ اور معاشرے کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے افسانے ترتیب دیئے۔  اس مجموعے کے ہر افسانے کی ابتداء ایک خوبصورت شعر سے ہوتی ہے اس  کے بعد ہندوستانی معاشرے کی مظلوم عورتوں کے حال زار کی داستان غم دل کو چھو لینے والے انداز میں ہوتی ہیں۔  واقعی عزیز النساء حبیبی کا انداز بیان بہت خوب سے خوب تر کی طرف رواں دواں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

فریدہ زین

 

 

حیدرآباد کی خواتین افسانہ نگاروں میں فریدہ زین کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔

فریدہ زین۲۳؍ اکتوبر۱۹۴۸ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔  نامپلی گرلز اسکول سے میٹرک کیا اور بی اے عثمانیہ یونیورسٹی سے کرنے کے بعد ناگپور یونیورسٹی سے ایم اے امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ تعلیم وتدریس سے فطری لگاؤ کی بنا پر فلاور زون ہائی اسکول ریڈ ہلز حیدرآباد کی بانی وسرپرست ہیں۔

بھونگیر کے ایڈوکیٹ سیدزین العابدین صاحب سے شادی کے بعد فریدہ صاحبہ کو اپنے شوہر سے اور بھی تعاون ملا۔ ویسے تو فریدہ زین صاحبہ کو کہانیاں لکھنے کا شوق بچپن سے ہے۔  آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں اس وقت سے وہ کہانیاں لکھ رہی ہیں۔  ان کا پہلا افسانہ بعنوان ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے ‘‘۔ ۱۹۷۰ء میں ماہنامہ بیسویں صدی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے افسانے برصغیر کے مشہور ماہناموں میں چھتے آ رہے ہیں۔  جیسے :شمع،شاعر،بیسویں صدی،خاتون مشرق،سب رس، روبی، بانو،پونم، راشٹریہ سہارا حیدرآباد وغیرہ۔

اب تک پانچ افسانوی مجموعے اور ایک مضامین کا مجموعہ منظر عام  پر آ  چکا ہے اور ایک ناولٹ ’’تلاش آدم‘‘ (قرآن و حدیث کی روشنی میں ) زیر ترتیب ہے۔

فریدہ زین کے افسانوی مجموعے اس طرح ہیں۔

(۱)    سسکتی چاندنی            (افسانوی مجموعہ)

(۲)    دل سے دار تک           (افسانوی مجموعہ)

(۳)    اے گردش  دوراں       (افسانوی مجموعہ)

(۴)    دھرتی کا دُکھ             (افسانوی مجموعہ)

(۵)    ایک حرف  تمنا           (افسانوی مجموعہ)

فریدہ زین کا سب سے پہلا افسانوی مجموعہ ’’سسکتی چاندنی‘‘ ہے جو جون ۱۹۷۹ء میں منظر عام پر آیا۔  اس کا پیش لفظ جیلانی بانو نے لکھا۔ مجموعہ ’’سسکتی چاندنی‘‘ میں گیارہ افسانوں پر مشتمل ہے جو حسب ذیل ہیں (۱) اک چراغ رہگذر (۲) شام جو ڈوب گئی (۳) شب غم سنور گئی (۴) شمع ہر رنگ میں  جلتی ہے (۵) دست حنا (۶) ویراں ہے میکدہ (۷) بے نیازی حد سے گذری (۸) بہار  دے کے خریدے گئے ہیں ویرانے (۹) ایک شیشہ اور ٹوٹا (۱۰) کانٹوں سے دل کے چاک سئے  (۱۱) سسکتی چاندنی۔

آل انڈیا ریڈیو کے نیرنگ پروگرام میں وقتاً فوقتاً ان کے افسانے نشر ہوا کرتے ہیں۔  ان کے ایک افسانے چراغ  رہگذر کو دہلی میں اسٹیج شو کیا گیا۔

فریدہ زین کے افسانوں کے مطالعے سے ان کی خداداد صلاحیتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔  ان کے افسانوی سفر کا آغاز رومان اور شاعرانہ انداز  نگارش سے ہوا جس کی مثال ان کے افسانوں سے دی جاسکتی ہے۔  ان کے افسانوں میں سماجی شعور کے ساتھ ساتھ فرد اور سماج کی کشمکش کی صحیح عکاسی ملتی ہے۔  اپنے اطراف کے ماحول اور ذاتی تجربات و مشاہدات کو اپنے افسانوں میں سمونے کی کوشش کرتی ہیں۔

’’سسکتی چاندنی‘‘ ایک افسانہ بھی ہے اور اس مجموعہ کا عنوان بھی ہے۔ اس افسانہ میں ایک بدنصیب لڑکی چاند کی کہانی  ہے جو حسن کی دولت سے بھی محروم ہے مگر اپنی انا اور خود داری پر جیتی ہے کسی کی ہمدردی و رحم کی بھیک کی محتاج نہیں۔  چاند کی خوبصورت بہن عفت کی شادی اس کے خالہ زاد بھائی صباحت سے ہوئی لیکن ایک بچے کو جنم دے کر اس کا انتقال ہو جاتا ہے۔  چاند کو بچے سے والہانہ محبت دیکھ کر صباحت چاند کے سامنے شادی کی پیشکش رکھتا ہے۔  چاند نے صباحت سے کہا کہ آپ کو باجی سے محبت تھی اور مجھ سے ہمدردی۔ اس ہمدردی اور رحم کی بنا پر مجھ سے شادی نہ کیجئے۔  میری تمنائیں پوری نہ ہو سکیں اس کا مجھے غم نہیں۔  کوئی پھول پا  کر نازاں رہتا ہے اور کوئی کانٹے پا کر خوش ہوتا ہے۔  ہم گڈو کی پرورش اور ازدواجی رشتے میں بندھ کر ہی نہیں بہن بھائی کے رشتے سے بھی کر سکتے ہیں۔

فریدہ زین کے افسانوں کے کردار ایثار، قربانی کے جذبے ،پاکیزگی اور سمجھوتےو مفاہمت کو اُجاگر کرتے ہیں۔

فریدہ زین کا دوسرا مجموعہ’’ دل سے دار تک‘‘ ہے جو ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا۔ اس کا پیش لفظ پروفیسر عنوان چشتی نے لکھا ہے۔  اس افسانوی مجموعہ میں مندرجہ ذیل گیارہ افسانے شامل ہیں۔

۱۔ دل سے دار تک۔  ۲۔ خوابوں کے کھنڈر۔ ۳۔ چندا کی چاندنی۔ ۴۔ دل ایک سجدہ گاہ۔ ۵۔ پلکوں کی چھاؤں میں۔  ۶۔ منزل۔ ۷۔ بسیرا۔ ۸۔ گھونگھٹ کی آنچ۔ ۹۔ ہوکے رنگ۔ ۱۰۔ چشم نم۔  ۱۱۔ اور ہم اکیلے ہیں۔

فریدہ زین ان افسانوں میں سماجی شعور، انسان سے ہمدردی، زندگی سے پیار، نفسیانی مشاہدہ، غریبوں اور مفلوک الحال کرداروں کے واقعات کی صحیح عکاسی کی ہے۔  ان افسانوں میں ایک مقصد ہوتا ہے۔  کردار جو دن رات اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہے اس کے باوجود اس کو اپنا حق نہیں ملتا۔ ان کے افسانے  ظلم کے خلاف شعور بیدار کرتے ہیں کہ اپنا حق مانگنے پر نہ ملے تو چھیننا چاہئے۔

فریدہ زین کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’ اے گردش دوراں ‘‘ جو ۱۹۹۱ء میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ کی قیمت صرف اٹھارہ روپئے ہے۔  اس مجموعہ میں بھی گیارہ افسانے ہیں۔  جو حسب ذیل ہیں :

۱۔ اے گردش، دوراں۔ ۲۔ کوہ کن۔  ۳۔ کنارے بے وفا نکلے۔  ۴۔ یہ بتا چارہ گر۔  ۵۔ تلاش میں ہے سحر۔ ۶۔ خون پھر خون ہے۔  ۷۔ پتھر کا دور ۸۔ قاتل مسیحا ۹۔ وقتِ سفر یاد آیا۔ ۱۰۔ دل ڈھونڈ تا ہے۔  ۱۱۔ پھول انتظار کے۔

’’اے گردش دوراں ‘‘ کی کہانی غریب اور معصوم سات سالہ لڑکی گلابی کی ہے۔  جس کے پیدائش کے دوسرے سال ہی اس کا باپ گلابی اور اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا اس کی ماں بھی گلابی سے نفرت کرنے لگتی ہے کہ گلابی منحوس ہے۔  اس کی پیدائش پر اس کے شوہر سے ساتھ چھوٹ گیا۔

گلابی کی ماں نواب صاب کے شاندار بنگلے میں بہ حیثیت ملازمہ گزر بسر کرتی تھیں۔  گلابی کی ماں کی طبعیت ناساز رہنے لگی تو گلابی کو اپنی جگہ رکھوا دی۔  گلابی اس گھر میں سارے گھر والوں کے کام جنگل کی ہرنی کی طرح اچھل اچھل کر کرتی لیکن گلابی کی پراہ کسی کو نہیں۔  ایک دن نواب صاحب کے دوست جو بمبئی سے آئے تھے گلابی کودو روپئے بخشش دیا۔ گلابی اس دن بہت خوش تھیں۔  کیوں کہ دس پیسے کو ترسنے والے ہاتھ پر آج دو روپئے تھے۔  وہ دو روپئے ماں کی دوا پر ہی خرچ ہو گئے۔  گلابی اپنے لیے کچھ بھی نہ لے سکی۔ گلابی سوچنے لگی روز ماں کو اس طرح روز دوائیاں ملتی رہی تو جلد سے جلد صحت ٹھیک ہو جائے گی۔ گلابی تو ہر روز مہمانوں کا انتظار رہنے لگا۔ جب بھی مہمان آتے ان کو مانگنے سے پہلے پانی پلا دیتی چائے پیش کرتی اور خاموش للچائی نظروں سے دیکھا کرتی مگر مقامی لوگ بخشش کیوں دیں گے۔  گلابی کی ماں نے کہا کہ کچھ پیسے دوا کے لیے بیگم صاحبہ سے مانگ کر لائے۔  بیگم صاحبہ نے کہا کہ پہلے ہی اگلے مہینے کی تنخواہ لے چکی اور اب کہاں سے دیں گے۔  گلابی کے پاس نکی بے بی کی اسکول کی فیس کے پیسے فراک میں تھے۔  اس دن بیگم صاحبہ نے گلابی کو بہت مارا پیٹا تھا نکی بے بی نے گلدان توڑ دیا اور الزام گلابی کے سرآ گیا۔ لیکن گلابی کو بیگم صاحبہ کی ڈانٹ کی پرواہ نہیں ماں کی فکر تھیں نکی بے بی کے فیس کے ۲۰ روپئیے لے کر گھر گئی ماں کی طبیعت بہت بگڑ چکی تھی۔ رحیمو چاچا کے رکشے میں دواخانہ لے جایا گیا۔ بتیس روپئے کی دوالی اور اٹھائیس بچے ہوئے تھے۔  وہاں ہاسپٹل میں بڑے سرکار آ گئے اور گلابی کے گال پر تھپڑ رسید کر کے کہا ’’چور کہیں کی‘‘ اسکول کی فیس چرا کر لے آئی۔ گلابی نے کہا میں چور نہیں ہوں۔  میں آپ کے پیسے کام کر کے واپس کروں گی۔ ادھر ڈاکٹر نے کہا کہ اس پیشنٹ کے ساتھ کون ہے۔  رحیمو چاچا بھاگ کر گئے۔  ڈاکٹر نے کہا معاف کرنا ہم اس پیشنٹ کو بچا نہیں سکے۔  گلابی نے اٹھائیس روپئے بڑے سرکار کے منہ پر پھینک دیئے۔  گلابی کے سر سے ماں کا آخری سہارا بھی چھوٹ چکا تھا۔

فریدہ زین کے افسانوں میں تسلسل، روانی، سادگی، اسلوب کی نرمی برقرار رہتی ہے۔

فریدہ زین کا چوتھا مجموعہ ’’دھرتی کا دکھ‘‘ ہے۔  ۱۹۹۴ء  ڈسمبر میں ۵۰۰ کی تعداد میں یہ کتاب اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے جزوی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔  اس مجموعے میں سترہ افسانے ہیں۔  ۱۔ جنبش لب۔ ۲۔ دھرتی کا دکھ۔ ۳۔ اشکِ سنگ ۴۔ جائے پناہ۔  ۵۔ نقشِ فریاد۔ ۶۔ دھماکہ۔  ۷۔ ایک شیشہ اور ٹوٹا۔ ۸۔ درد اور درماں۔  ۹۔ چاند پھر نکلا۔ ۱۰۔ دستِ حِنا۔ ۱۱۔ ٹکراؤ۔ ۱۲۔ کرچیاں۔  ۱۳۔ ویراں ہے میکدہ۔ ۱۴۔ پرواز۔ ۱۵۔ طوفان کے بعد۔  ۱۶۔ سائبان۔  ۱۷۔ ناآشنا۔

فریدہ زین صاحبہ کی کہانیاں عموماً بیانیہ ہوتی ہیں۔  ان کو زبانو بیان پر قدرت حاصل ہے۔  ان کے افسانوں میں منظر کشی کا مشاہدہ بہت وسیع ہوتا ہے۔  ان کے افسانوں میں پہلے ہلچل ہوتی ہے، پھر درد کسک، اختتام میں المیہ ہوتا ہے۔

فریدہ زین صاحبہ کا پانچواں افسانوں مجموعہ ’’ایک حرفِ تمنا‘‘ ہے۔  ۲۰۰۳ء میں اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے جزوی تعاون سے شائع ہوا۔ اس میں کل پندرہ افسانے ہیں۔  ۱۔ ایک حرف تمنا۔ ۲۔ روزگار۔ ۳۔ سرائے کا نگہبان۔ ۴۔ شاہ کار۔  ۵۔ پھول کی پتی سے۔  ۶۔ مٹی بھر اناج۔ ۷۔ بارش میں بھیگا سورج۔ ۸۔ روپ بہروپ۔ ۹۔ چھاؤں سے دھوپ تک۔ ۱۰۔ بھرم۔  ۱۱۔ بے نام سی یہ رات۔ ۱۲۔ سیلاب۔  ۱۳۔ بار شبنم۔ ۱۴۔ دل گم گشتہ۔ ۱۵۔ کوہ کن۔

اس مجموعہ میں چار افسانے محبت اور رومانی انداز کے ہیں۔  ایک حرف تمنا، سیلاب، چھاؤں سے دھوپ تک، بے نام سیرت۔  ان چار افسانوں میں محبت اپنے روپ بدلتی رہتی ہے۔  کرب تنہائی، آرزو، تمنا لئے ہوئے۔  مرد اور عورت کی محبت کی طالب تو کہیں شدید جذبہ انتقام۔  وہ اپنے افسانے کی بنیاد ایسے واقعہ پر نہیں رکھتی جو بعید از قیاس ہو۔ ان کے افسانوں میں نئے مسائل، نئے تجربوں کے ساتھ آگہی و بصیرت کی ایک مانوس فضاء ملتی ہے۔  ان کے یہاں تازگی ہے۔  مجموعوں میں شامل افسانوں کے مقابلے میں یہاں ان کا فن ارتقائی سفر میں تیزی سے پروان چڑھتا نظر آیا ہے۔

فریدہ زین کے افسانے فنی اعتبار سے بہت ہی کامیاب افسانے ہوتے ہیں۔

فریدہ زین کے مجموعۂ مضامین ’’ندائے قلم‘‘ کا ادبی جائزہ مضامین کے باب میں ملاحظہ فرمائیے۔

٭٭٭

 

 

رفیعہ منظور الامین

 

 

رفیعہ منظور الامین اپنے بے شمار افسانوں، ناولوں انفرادی لب و لہجہ اور طرز ادا کی بناء پر ادب کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔

رفیعہ منظور الامین حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔  ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری لی۔ بی ایس سی پاس کرنے کے بعد منظور الامین صاحب سے ان کی شادی ہو گئی۔ جو خود بھی ایک اچھے شاعر اور مصنف ہیں۔  ریڈیو اور ٹی وی سے کئی سال منسلک رہنے کے بعد ٹی وی کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔

رفیعہ منظور الامین کو بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق ہے۔  پہلی کہانی دہلی سے شائع ہونے والے رسالہ ’’پیام تعلیم‘‘ میں شائع ہوئی۔

کالج میں بھی وہ ادبی سرگرمیوں میں بے حد مصروف رہتی تھیں۔  کالج میگزین ’’کاسماس‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی انہوں نے انجام دیئے۔

رفیعہ صاحبہ کو اردو ادب سے بڑی دلچسپی ہے۔  علاوہ ازیں مجسمہ سازی، باغبانی، مصوری، فوٹو گرافی اور سیاحت ان کے محبوب مشاغل ہیں۔  منظور صاحب کی ملازمت کے سلسلے میں مختلف مقامات پر تبادلوں سے آدھی دنیا کی سیاحت کر چکی ہیں۔

رفیعہ منظور الامین بحیثیت ناول نگار، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور انشائیہ نگار کی حیثیت سے مشہور ہیں۔  اس کے علاوہ سائنس سے گریجوئیٹ ہونے کی وجہ سے سائنس سے بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ سائینسی مضامین کا مجموعہ ’’سائینسی زاوئیے ‘‘ تصنیف کیا۔ اس کے علاوہ سائینس کے تعلق سے مضمون اور افسانے اخبارات اور رسائل کے زینت بنے ہیں۔

رفیعہ منظور الامین کے افسانوں کا مجموعہ جو بہت مشہور ہے ’’دستک سی دردِ دل پر ‘‘ ۱۹۸۹ء میں سیمانت پر کاش نئی دہلی کی جانب سے شائع ہوا۔ جو حسب ذیل چوبیس (۲۴) نمائندہ افسانوں پر مشتمل ہے۔

۱۔ تنگامنی، ۲۔ مات، ۳۔ ایک نگاہ کا زیاں، ۴۔ رشتے، ۵۔ کون، ۶۔ کھوئی راہوں کے ہمسفر، ۷۔ اپنی اپنی صلیب، ۸۔ ناگ پھنی کا کھیت، ۹۔ حرف آگہی، ۱۰۔ چپ، ۱۱۔ ٹینی بار پر، ۱۲۔ بچھو بوئی، ۱۳۔ ستمگر، ۱۴۔ سوئمبر، ۱۵۔ ریت کی گھڑی، ۱۴۔ بے وفا، ۱۷۔ تیسرا دیس، ۱۸۔ شو رسلا سل، ۱۹۔ جونک، ۲۰۔ باسنگ شو، ۲۱۔ گھن، ۲۲۔ چھینے ہوئے لمحے، ۲۳۔ قمیص، ۲۴۔ دستک سی دردِ دل پر۔

مجموعہ ’’دستک سی دردِ دل پر‘‘ اس میں مشمولہ افسانے ’’رشتے ‘‘ ’’بے وفا‘‘ ’’بچھو بوائی ‘‘ ’’ناگ پھنی کا کھیت‘‘ اور ’’دستک سی دردِ دل پر ‘‘ بے مثال افسانے ہیں۔

افسانہ ’’رشتے ‘‘ میں آج کے ہندوستانی سماج میں بڑھتی ہوئی مغربیت اور اسکے ساتھ ہماری معاشرتی اقدار کی بہت عکاسی کی گئی ہے۔

افسانہ ’’دستک سی دردِ دل پر ‘‘ میں کشمیر کے حسین مناظر کو پیش کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی  ہے کہ آج کا انسان اتنا خود غرض ہو گیا ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر دو سروں کی زندگی تباہ کرنے سے بھی عار نہیں کرتا۔ ہمارے معاشرے میں بے زبان ہو کر لہولہان زندگی بسر کر رہے ہیں۔  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی تحریر کے ذریعہ سماج کی خدمت کرنے کو انہوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا ہے۔

رفیعہ صاحبہ کو افسانہ نگاری ناول نگاری ڈرامہ نگاری اور سائینس پر اپنی بے شمار تحریروں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر صنف پر کافی عبور رکھتی ہیں۔  انہوں نے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اور بیرون ہند سے کردار لئے ہیں۔  منظور صاحب کا ماس میڈیا سے تعلق رفیعہ صاحبہ کے لیے قابل نیک ثابت ہوا۔ مختلف علاقوں کے تبادلے نے وہاں کے مختلف سماجی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔

رفیعہ منظور الامین کے افسانے موجودہ سماج کے لیے ایک آئینہ کی طرح کام کرتے ہیں، زبان سادہ سہل عام فہم لکھتی ہیں۔  انہوں نے اپنے افسانوں کے موضوعات کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے اور اپنی ذاتی کالمس عطا کیا ہے۔  وہ موضوع کے مرکزی نقطے کو پکڑ کر نہیں بیٹھ جاتیں بلکہ وہاں سے اپنے اطراف میں آزاد روی سے دیکھتی ہیں اور منفی حقائق کا پتہ لگاتی ہیں۔  ان کا مقصد ہوتا ہے کہ ہر معیار کے ذہن تک رسائی ہو۔ ان کے افسانے قاری کے ذہن پر ایسا تاثر چھوڑتے ہیں کہ دل اور دماغ ایک ہو کر سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

رفیعہ منظور الامین کے دیگر افسانے ’’ڈیر فادر‘‘ ’’پرائی ‘‘ بازگشت‘‘ ’’ نیل کنٹھ‘‘ ’’رشتے ‘‘ ’’حرف آگہی‘‘ ’’ بچھو بواٹئ‘‘ ’’ بے وفا ‘‘ ’’ بلا عنوان ‘‘ وغیرہ۔

افسانہ ’’ڈیر فادر ‘‘  میں ان کے مشاہدے میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی ہے۔  دیر فادر کی کہانی کچھ اس طرح ہے۔

اس افسانے کا ہیرو ضعیف شخصی ہے جو بیوی کے انتقال کے بعد لندن میں رہتا ہے۔  کبھی تنہائی کا گلہ نہیں کرتا ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گزارتا اور اپنے دوستوں سے ذکر کر تا ہے کہ میرے بچے میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور میرا انتظار کرتے رہتے ہیں۔  ایک دفعہ اس ضعیف شخص کادوست ملنے کے لیے گھر آ گیا۔ یہ ضعیف شخص ہسکی پی رہا تھا اور کہنے لگا کہ یہ وہسکی میری بیٹی لیزا اور اس کے شوہر دے کر گئے ہیں، اور میں مائیکل کے بیٹے کی سالگرہ میں جانے آیا ہوں۔  اس ضعیف شخص کے دوست اس کی زندگی پر رشک کرتے رہتے کہ اس زمانے میں کتنی فرمانبردار اولاد ہیں وہی دوست پھر ملنے کے لیے گھر آیا تو اس ضعیف شخص کا انتقال ہو چکا ہے اور وہاں ایک خط لکھا ہوا تھا۔ ڈیر فادر، آپ کو نیا رین کوٹ پسند آیا ہو گا۔ دوست خط لے کر اس کے بیٹے مائیکل کی تلاش میں نکلا تو پتہ چلا کہ مائیکل تو پانچ سال کا بچہ تھا تب ہی مرگیا تھا وہ اب تک اپنے بیٹے مائیکل کو زندہ تصور کر کے خط لکھ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتا، کہ میرا بیٹا ہے میری بیٹی ہے مجھے اس طرح چاہتے ہیں میرا خیال رکھتے  ہیں۔  یہ ایک سبق آموز کہانی ہے کہ اولاد کاسہارا والدین کے جینے کا سہارا ہوتا ہے۔

اس افسانے میں شروع سے لے کر آخر تک تسلسل رہتا ہے اور قاری کو تجسس رہتا ہے کہ آگے کیا ہوا۔ کہانی ختم ہونے کے بعد قاری سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ سماج میں ایسا بھی ہوتا ہے مگر اس کے آگے انسان بے بس و لاچار رہتا ہے۔

افسانہ ’’بلا عنوان ‘‘   کو شمع کے قارئین نے بہت سراہا ہے۔  اس افسانے کا ہیرو ایک امریکن شخص ٹام ہے جو بہت کروڑ پتی ہے۔  شادی کے بارے میں اس شخص کے خیالات ہندوستانی تھے کہ وہ ایک ایسی لڑکی سے شادی کرے گا جس کا ماضی میں کوئی چاہنے والا نہ ہو۔ بہت کوشش کے بعد اس کی ملاقات مارگریٹ سے ہوتی ہے۔  جو اس کے خیالات پر پوری اتر تی ہے، شرمیلی، کم سخن، سنجیدہ و مشرقی تہذیب کا نمونہ تھی۔ ان خوبیوں کی وجہ سے ٹام سے شادی ہو جاتی ہے۔  کچھ دن بعد مارگریٹ کے گردے خراب ہو جاتے ہیں۔  ٹام بہت پریشان رہتا ہے جب کہ مغربی دنیا میں رشتے بہت جلد بدلتے رہتے ہیں۔  شادی کے بہ نسبت طلاق کا فیصلہ زیادہ ہوتا ہے۔  اس کے باوجود ٹام اپنی بیوی مارگریٹ سے بے انتہا محبت کرتا ہے اور اپنی بیوی کو کھونا نہیں چاہتا۔ اپنی فیکٹری میں کام کرنے والے لڑکے فریڈی کو ایک لاکھ ملین کے عوض گردے کی فروخت کے لیے راضی کر لیتا ہے۔  فریڈی انجانے میں گردے دے کر ماں کی جان بچا تا ہے۔  مارگریٹ اپنے لڑکے کو جانتی تھی، مگر فریڈی اسے نہیں جانتا تھا۔ اس طرح سے فریڈی نے اولاد کا فرض ادا کر دیا تھا۔

ٹام اچھے خوبیوں کا مالک تھا مگر اس کے پاس برائیاں بھی تھی وہ بے ایمانی اور وعدہ خلافی، ٹام فریڈی  کو رقم دینے سے انکار کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اعضا کی فروخت کو قانوناً جرم کہتا ہے۔  ٹان سے مارگریٹ اصرار کرتی ہے کہ وعدہ خلافی نہ کرے تو ٹام کہتا ہے کہ کونسا وعدہ کیسا دستاویزی ثبوت ہے۔  ٹام کی بات پر مارگریٹ کو بہت غصہ آتا ہے اور وہ بتاتی ہے کہ فریڈی اس کا اپنا بیٹا ہے۔  یہ سن کر ٹام پیسے دینے راضی ہو جاتا ہے۔  ٹام کے ہدایت کے مطابق فریڈی کو روپیوں کا تھیلا وہیں رکھ کر مارگریٹ کو کار میں چیک اپ کے لیے لے جانا ہوتا ہے، راستے میں ٹائم بم پھٹ پڑتا ہے اس طرح سے سب کے پرخچے اڑ جاتے ہیں، اور ٹام کا انتقام پورا ہوتا ہے۔  کیوں ٹائم مشرقی طریقے سے اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے مگر جب اسے معلوم ہوتا ہے مارگریٹ کی زندگی میں پہلے کوئی مرد آ چکا ہے نفرت کی آگ میں جھلستا رہتا ہے مارگریٹ اور فریڈی کے خاتمہ کے بعد اس کے بدلے کی آگ ٹھنڈی ہوتی ہے۔

رفیعہ صاحب کہ ڈھیروں افسانے مختلف رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔  مجموعی اعتبار سے اردو ادب میں ان کی حیثیت بلند اور مستحکم ہے۔

٭٭٭

 

 

 

طیبہ خسرو

 

 

طیبہ خسرو کا شمار دکن کی ابھرتی ہوئی خواتین  افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔  ان کا پیدائشی وطن حیدرآباد ہے۔  ان کے پرداد سید شاہ بدر الدین قادری حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ کی اولاد میں سے تھے ان کے دادا کو بھی تصوف سے نسبت تھی۔ ان کے والد سید احمد قادری حیدرآباد میں ایک جاگیر دار کالج میں انگریزی کے پروفیسر تھے اور انسپکٹر جنرل (رجسٹریشن اسٹامپ) بھی تھے۔  ان کے نانا، نانی اور ماموں نے اپنی قابلیت کی بناء پر شہرت حاصل کی۔  ماموں علی یاور جنگ علی گڈھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اور ممبئی کے گورنر بھی تھے۔  خاندانی ادبی سرگرمیوں میں یہ ایک اور طرز خدمت ہے۔  جس کی روحِ رواں محترمہ طیبہ خسرو ہیں۔

طیبہ خسرو کا تعلیمی آغاز  مانٹو سوری (Montessori)  اسکول میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد بی اے عثمانیہ سے کیا۔ شادی ہونے کی وجہ سے کچھ سال تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا تھا بعد میں پھر ایم اے اردو جامعہ عثمانیہ سے مکمل کیا۔

طیبہ خسرو کی تین کتابیں منظر عام پر آئیں۔

۱۔ سرمژگاہ              (افسانوی مجموعہ)

۲۔ جوہی کی ڈالی            (بچوں کے لئے )

۳۔ ابر سیناں             (شخصیات )

مجموعہ ’’سرمژگاہ‘‘ میں مندرجہ ذیل نوافسانے شامل ہیں۔  ۱۔ موّ کی کلیاں۔  ۲۔ اور نوبت بجتی رہی۔ ۳۔ چھیڑ خوباں سے۔  ۴۔ در پنہاں۔  ۵۔ میرے نین بہائے نیر۔ ۶۔ مداوا کون کرے۔  ۷۔ وہ کھٹکھٹاتی رہی۔ ۸۔ لوح جہاں پہ حرف مکر ر نہیں ہوں میں۔  ۹۔ شمع جلتی ہے سحر ہونے تک۔

اس کے علاوہ انہوں نے مضامین، انشایئے اور سوانحی خاکے بھی لکھے ہیں۔

طیبہ خسرو کے افسانے مختلف النوع موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔  زندگی کے ان گنت مسائل پر دعوت  فکر دیتے ہیں۔ انہیں سماج میں عورت کی توہین پر غصہ آتا ہے۔  وہ سماج کی اس نا انصافی پر شدت سے احتجاج کرتی ہیں۔

افسانہ ’’درد پنہاں ‘‘ محبت کی ناکامی سے عبارت ہے۔  سچی محبت کی تمنا میں دھوکہ فریب ہی ہاتھ آیا۔ ہر بار مرد پر اعتبار کرتے ہوئے غلط راہ اختیار کرتے ہوئے غلط راہ اختیار کرنے سے زندگی برباد ہو گئی۔

یہ افسانہ روایتی انداز لئے ہوئے ہے۔  محبت اور زندگی اٹل حقیقت ہے اور انسان جب تک زندہ ہے ان لطیف جذبات و احساسات سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔

طیبہ خسرو کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔  درد پنہاں کے علاوہ مداوا کون کرے، اور نوبت بجتی رہی، شمع جلتی رہی سحر ہونے تک ان کے اچھے افسانے کہے جاسکتے ہیں۔  ان افسانوں میں مقصدی اور اصلاحی پہلو بہت نمایاں ہے۔  عورت کی جس میں مظلومیت کو اجاگر کیا ہے۔  بے کسوں اور مظلوموں کی حمایت ان کی تحریروں کا بنیادی مقصد رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

عفت موہانی

 

 

اُردو ادب میں عفت موہانی کا شمار ملک کی انتہائی قابل اور با صلاحیت خواتین میں کیا جاتا ہے۔  انہوں نے اردو ادب میں افسانہ نگاری سے شروعات کی۔

ان کا پہلا افسانہ ’’تماشہ‘‘ جو رسالہ بیسوی صدی میں ۱۹۶۰ء میں شائع ہوا۔ اس وقت سے لے کر اب تک انھوں نے سینکڑوں افسانے لکھے لیکن انہوں نے اپنے افسانوں کو مجموعے کی شکل نہیں دی۔ ان کے بے شمار افسانے ہندو پاک کے مختلف رسائل میں چھپ چکے ہیں جیسے پاکستان کے رسائل ساقی، جام نو، زیب انساء، بتول، اوراق، سیپ، صبح امید وغیرہ ہندوستان کے رسائل بیسویں صدی، مریم، پونم، شاعر، صبح نو، روبی، تحریک، جلتے دیب، شب خون، آثار، فلمی ستارے، تعمیر، قلمی تصویر، مشرقی آنچل، ماہنامہ پاکیزہ آنچل وغیرہ ہیں۔

عفت موہانی کے بے شمار افسانوں میں سے چند مختلف افسانوں کے ذریعہ ان کے فن افسانہ نگاری کا مختصر جائزہ لیا جائے گا۔ چند افسانوں کے نام یہ ہیں :

خون بہا کیا شکست پیماں کا، بیٹی، پیاسا، رشتہ دل کا، اندیشوں کا سایہ، حصار، محبت کی راہیں، ذراسی بات، پیاس اور سراب، دھیمے دھیمے چراغ جلے ہیں، امیرو غریب، ایک پھول چار کانٹے، مذاق، شام انجام، بگولے، بے وفا وغیرہ۔

افسانہ ’’خون بہا کیا شکست بہا کا‘‘ میں سچی دوستی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔  ایثار محبت، شرافت نفس کی کہانی ہے۔

سارہ پر اس کے چچا اور چچی بہت ظلم کرتے ہیں سارہ کی شادی ایک بوڑھے شخص سے کرنا چاہتے ہیں۔  نازنینہ کو اپنی سہیلی کے دکھ پر ترس آتا ہے۔  نازنینہ اپنے منگیتر عزیز احمد سے اپنی محبت کا واسطہ دے کر سارہ سے شادی کرا دیتی ہے۔  اس طرح سے نازنینہ اپنی سہیلی کی خاطر دوستی کی خاطر اپنی خوشیوں اور اپنی محبت کو قربان کر دیتی ہے۔

عفت موہانی ہر نوع کے افسانے لکھتی ہیں۔  ان کے افسانوں میں رومانی بھی ہیں اور سیاسی بھی، سماجیو مسائلی بھی ہیں۔  وہ اپنے افسانوں میں اخلاقی اقدار کو خاص اہمیت دیتی ہیں۔  یہ سب وسعت نظر، غور و فکر اور وسیع مطالعہ کا نتیجہ ہے۔

افسانہ ’’بیٹی‘‘ میں سجاد صاحب کو دو لڑکیوں کے بعد بیٹے کی امید ہے مگر پھر تیسری بھی بیٹی پیدا ہونے پر انہیں بہت غصہ آتا ہے۔  تیسری بیٹی فاخرہ سے ہمیشہ بہت نفرت کرتے ہیں۔  فاخرہ نے بھی اپنے باپ کی بے رخی سے جینا سیکھ لیا تھا۔ فاخرہ نے پڑھ لکھ کر ایک مقام حاصل کیا۔ ادبی دنیا میں افسانہ نگار کی حیثیت سے بہت پیسہ بھی کمایا اور نام بھی شہرت بھی ہونے لگی۔ سجاد صاحب اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی کے جہیز کے لیے مکان فروخت کرنا چاہتے تھے تب فاخرہ نے ڈھیر ساری رقم دی۔ سجادصاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔ جس بیٹی کو انہوں نے نفرت کی آج اس بیٹی نے ان کو عزت بخشی تھی۔ اس افسانے سے درس ملتا ہے کہ بیٹی اور بیٹا یکساں ہے اگر لائق ہو تو، نالائق ہو تو بیٹی کی اور بیٹا کیا۔

افسانہ ’’رشتہ دل کا ‘‘ جو ماہنامہ مشرقی آنچل، مارچ ۱۹۹۲ء کو شائع ہوا۔ اس افسانے میں بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک مشرقی عدالت اپنے شوہر کے ساتھ پیار محبت ایثار اور بھروسہ کی متمنی رہتی ہے۔

ایک پچاس سالہ شخص فیصل کی شادی سلمیٰ سے ہو جاتی ہے۔  سلمیٰ یتیم اور غریب ہے۔  فیصل اچھے کردار کا مالک ہے۔  شادی کے بعد سلمیٰ ڈاکٹر محسن کی محبت میں گرفتار ہوتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ گھر سے بھاگ چلیں۔  فیصل کو سلمیٰ کے منصوبے کا علم ہو جاتا اور اپنی ساری جائیداد فیصل سلمیٰ کے نام کر دیتا اور کہتا کہ جانا ہی چاہتی ہو تو کسی دوسرے شخص کے ساتھ جاؤ ڈاکٹر محسن بدمعاش کے ساتھ مت جاؤ۔ اگر جب چاہو گھر واپس آؤ تو میں تمہیں بیٹی یا بہن سمجھ لوں گا۔  سلمیٰ کو اپنے منصوبے پر پشیمانی ہوتی ہے اور دلو جان سے فیصل کا احترام کرنے لگتی ہے۔  معافی مانگتے ہوئے پوری زندگی فیصل کا ساتھ دینے کا وعدہ کرتی ہے۔

جائیداد کے کاغذات کو پھاڑ دیتی ہے۔  فیصل کی محبتو ایثار ہمدردی میں سلمیٰ اپنے آپ پر شرمندہ ہوتی ہے اپنی زندگی کو فیصل کے لیے وقف کر دیتی ہے۔     (حقیقی مقالہ ایم ۔ فل عفت یاسمین ’’آزادی کے بعد حیدرآباد کی خواتین افسانہ نگار‘‘  ص ۔ ۱۱۹)

عفت موہانی کے افسانے ہر زاویۂ نظر سے بہتر اور سبق آموز ہیں۔

٭٭٭

 

 

آمنہ ابوالحسن

 

 

افسانہ نگار خواتین میں آمنہ ابوالحسن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ سیدہ آمنہ ابوالحسن جو آمنہ ابوالحسن کے نام سے ادبی دنیا میں اپنی تخلیقات کے سلسلے میں شہرت رکھتی ہیں ۔ حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ سادات گھرانے میں ۱۰؍مئی ۱۹۴۱ء؁ کو پیدا ہوئیں ۔ آپ کے نانا مرحوم اپنے وقت کے جید عالم تصور کئے جاتے تھے۔ آمنہ ابوالحسن کی والدہ کا انتقال ان کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا اور  یہ والد صاحب کی زیر سایہ تعلیم و تربیت پاتی رہیں ۔آپ کے والد ابوالحسن سیدعلی مرحوم نامور قانون اور سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما بھی تھے۔ رسالہ پاکیزہ آنچل کی غزالہ صدیقی آمنہ ابوالحسن سے انٹرویو کے ایک حصہ میں لکھتی ہیں کہ ان کے والد ہندوستان کی پہلی پارلیمنٹ کے رکن بھی تھے۔ علاوہ ازیں قائد ملت نواب بہادر یار جنگ کے بعد آپ کواتحادالمسلمین کا صدر چنا گیا تھا۔ ایسے والد کے زیرسایہ تعلیم و تربیت نے آمنہ ابوالحسن کو بچپن سے ہی لکھنے کا شوق پیدا کیا۔ اس طرح سے سب سے پہلی تخلیق کہانی کے روپ میں ’’ننھی کلی‘‘ کے عنوان سے بچوں کے لئے شائع ہونے والے رسالے میں چھپی جب یہ مڈل کلاس کی طالبہ تھیں ۔ اس کے بعد باضابطہ لکھتی ہی چلی گئیں ۔ ان کے قلم کی جادو بیانی نے کئی تخلیقات کو جنم دیا۔

آمنہ ابوالحسن کی شادی دوران تعلیم ہی جناب مصطفی علی اکبر صاحب سے ہوئی جو آل انڈیا ریڈیو نیوز ریڈر دہلی ہیں ۔

آمنہ ابوالحسن کی اب تک آٹھ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جس میں دو افسانوی مجموعے اور چھ ناولیں ہیں جو حسب ذیل ہیں:

افسانوی مجموعے

(۱)    کہانی                    (۱۹۶۵)

(۲)    بائی فوکل                (۱۹۹۰)

ناولیں :

(۳)    سیاہ سرخ سفید           (۱۹۶۸)

(۴)    تم کون ہو               (۱۹۷۴)

(۵)    واپسی                   (۱۹۸۱)

(۶)    آواز                    (۱۹۸۵)

(۷)   پلس مائی نس             (۱۹۸۷)

(۸)    یادش بخیر                       (۱۹۹۴)

آمنہ ابوالحسن کے ان دو افسانوی مجموعوں کے علاوہ بے شمار افسانے ہندوستان وپاکستان کے مختلف رسائل میں شائع ہوئے جیسے :

بیسویں صدی، شاعر، آندھراپردیش سب رس، صبا، لندن سے نکلنے والے مشرق، اور حیات نو وغیرہ ۔ اس کے علاوہ انہوں نے نظمیں ، چند سائنسی مضامین اور مقالے بھی لکھے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادب کی دوسری اصناف پر بھی کافی عبور حاصل تھا۔ ان کے تحریر کردہ کچھ مضامین اس طرح ہیں :

۱۔ ’’احساس‘‘ کے عنوان سے ایک تاثر سالنامہ مشرب کراچی سے شائع ہوا۔

۲۔ ’’کرشن چندر اور میں ‘‘ ۔سیاست حیدرآباد میں شائع ہوا۔

۳۔ ’’شعلوں کا شجر‘‘ کمار پاشی کی ادارت میں نکلنے والے دہلی کے رسالے ’’سطور‘‘ میں شائع ہوا اور غالب اکیڈیمی میں پڑھا گیا۔

۴۔ ’’روشن یادو کا آبشار‘‘ جشن حیدرآباد میں پڑھا گیا ۔ پونم حیدرآباد ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا۔

۵۔ لوگ گیت پر مضمون سیاست حیدرآباد میں شائع ہوا۔

۶۔ ’’دو دن‘‘ اجتنا  ایلورا سے متعلق رپورتاژ شاعر بمبئی میں شائع ہوا۔

۷۔ ’’حیدرآباد کی سیر گاہیں ‘‘ شاعر بمبئی میں شائع ہوا۔

مراہٹواڑہ یونیورسٹی اور نیشنل بک ٹرسٹ کے علاوہ مختلف اداروں کی طرف سے شائع شدہ انتھالوجی میں بھی ان کی کئی کہانیاں شامل ہو چکی ہیں ۔

آمنہ ابوالحسن کے کئی انٹرویو، ریڈیو، ٹی وی پر پیش ہوئے۔ ۱۹۹۴ء میں دہلی ٹی وی پر آدھے گھنٹے کا ایک خصوصی پروگرام بحیثیت ادیبہ پیش کیا گیا جب کہ ۱۹۹۵ء میں کشمیر ریڈیو کے لیے آدھے گھنٹے کا انٹرویو ریکارڈ کیا گیا جسے قمر رئیس نے ترتیب دیا تھا۔

آمنہ ابوالحسن کو فنون لطیفہ ، موسیقی اور مصوری سے بھی کافی لگاؤ تھا۔ ابتداً  آمنہ ابوالحسن کے مزاج میں انتہائی پسندی شامل تھی مگر صبر و تحمل پہلے اپنے والد پھر شوہر سے ملا۔ والد قانون داں تھے، شوہر صحافی، ان دونوں کے مخصوص اور منفرد شعبوں نے انتہائی اہم رول ادا کیا۔ یہ ان کے ارتقائی ادبی سفر میں کبھی حائل نہیں ہوئے۔ ان کے شوہر ہمیشہ ان کے ادبی شہ پاروں کا احترام کیا کرتے تھے۔

آمنہ ابوالحسن کے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والے واقعات جب ذہن میں جمع ہو جاتے تب ہی افسانے لکھنے کی تحریک پیدا ہوتی اپنی خواہش اپنے ولولے کے تحت ہی لکھتی رہی۔ کبھی بھی کسی مجبوری یا فرمائش کے تحت نہیں لکھا۔

آمنہ ابوالحسن کے افسانوں مجموعے اب نایاب ہیں کوشش کے باوجود کہیں دستیاب نہ ہوسکے۔ مختلف رسائل سے متفرق افسانوں سے ان کے فن کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

ان کے افسانوں کی فہرست کچھ اس طرح ہیں :

۱۔ تجدید                                        ۲۔معذرت

۳۔میری میا                             ۴۔ میرا ناچی رے

۵۔ خالق                                        ۶۔بر مزار ما

۷۔ سچائی کا بوجھ                           ۸۔اندھیرا روشنی اور دل

۹۔کہانی                                         ۱۰۔ٹرمینں

۱۱۔ اندھیرے کا خوف                     ۱۲۔ گیت

۱۳۔ دل                                         ۱۴۔منظر

۱۵۔پتھر کی قیمت                                ۱۶۔نام

۱۷۔ روشنی                              ۱۸۔برجو

۱۹۔اشیرواد                             ۲۰۔تین لڑکیاں

۲۱۔ سرگوشی                            ۲۲۔منزلیں دار کی

۲۳۔کاتبِ تقدیر                         ۲۴۔ چاپ

۲۵۔ دریچہ                             ۲۶۔ ایک بوند عطر کی

۲۷۔ ننکو                                         ۲۸۔آوا

۲۹۔لیبل                               ۳۰۔ایکس وائی زیڈ

۳۱۔ وہ عورت                            ۳۲۔ ہائی فوکل

۳۳۔ راستہ                              ۳۴۔ مولی

۳۵۔ شیشے کی دیوار                       ۳۶۔خوشبو کی منزل

۳۷۔ گہن                                ۳۸۔پرتو

۳۹۔ پہچان                              ۴۰۔عفریت

۴۱۔طواف                             ۴۲۔کرسی

۴۳۔حاصل حیات                               ۴۴۔ پیلا پھول

آمنہ ابوالحسن کے افسانہ ’’تجدید‘‘ کا مرکزی کردار اسٹیشن ماسٹر شیام جب اس قصبہ میں آیا وہ پچیس (۲۵) سال کا توانا نوجوان تھا۔ شیام اپنی ڈیوٹی کے فرصت کے وقت تصویریں بنا کر دیواروں پر آویزاں کرتا ۔ ایک رات جب اسٹیشن پر ریل گاڑی رکتی ہے تو ایک لڑکی گھبرائی ہوئی پریشان کیبن کے اندر آتی ہے۔ اور بیٹھنے کی اجازت مانگتی ہے ۔ شیام کے لیے یہ انوکھا تجربہ تھا۔ اس لڑکی نے بتایا کہ وہ گھر سے بھاگ کر آئی ہے، ا سکے باپ نے زبردستی اس کا بیاہ کرنا چاہا ،خود کو بچانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ یہ کہتے ہوئے وہ سوگئی۔ شیام نے اس کی تصویر بنا دی جب ریل گاڑی آ گئی شیام نے اس لڑکی کو جگایا اور وہ لڑکی چلی گئی۔ شیام انتظار کی گھڑیاں دیکھتا رہا بھی تو وہ لڑکی آئے گی۔ پچیس سال کے بعد اپنی بیٹی کے ساتھ وہ اسٹیشن پر آئی بیٹی اپنی تصویر اس ویران پلیٹ فارم پر دیکھ کر حیران ہو گئی تب اس کی ماں نے کہا کہ وہ تصویر تمہاری نہیں میری ہے پچیس سال پہلے میں تمہاری جیسی تھی جب میں گھر سے بھاگ کر آئی تو اس اسٹیشن ماسٹر نے مجھے پناہ دی اور میری تصویر بنائی تھی نہ جانے وہ اسٹیشن ماسٹر اب کہاں ہے ۔ شیام دونوں ماں بیٹی کی باتیں سن رہا تھا تب ہی ریلوے اسٹیشن پر زور دار دھماکہ ہوتا ہے کہ شیام نے ایک پٹری پر دو گاڑیوں کی آمد کا سگنل دے دیا تھا لڑکی اور اس کی ماں تصویر  پھینک کر باہر نکلتے ہیں اور شام تصویر کو اٹھا کر اس کی پشت پر پچیس سال پہلے لکھی تاریخ کو مٹا کر نئی تاریخ درج کرتا ہے۔

اس افسانے میں آمنہ ابوالحسن طویل انتظار کو بہتر انداز میں پیش کیا۔ لیکن شیام کو اس طویل انتظار کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔

افسانہ ’’معذرت‘‘ سات صفحات پر مشتمل بالکل معمولی نوعیت کی کہانی ہے چند سہلیاں سونیا، رضیہ ، ناہید، ممتاز، سلمیٰ جامن توڑنے درخت پر چڑھتی ہیں ۔ محمود نامی ایک نوجوان کی مینا سے چھیڑ چھاڑ ہوتی ہے۔ محمود مینا کی ساری سہلیوں کو پکچر بتاتا ہے اور گھما کر لاتا ہے آخر میں محمود کی شادی مینا کے بجائے سونیا سے ہو جاتی ہے۔ کورٹ میریج جس کی اطلاع اخبار کے ذریعے معلوم ہوتی ہے ساری سہلیاں مینا کا غم دور کرنے جاتی ہیں مینا حسب معمول چوینگم چباتی ہوئی کہتی ’’معذرت کی مطلق ضرورت نہیں ‘‘

اس افسانے کے کردار اور کہانی میں جان نہیں ۔

افسانہ ’’میری میا‘‘ کی کہانی ایک ٹھیلہ بندی راہ ونایک کے ارد گرد گھومتی ہے۔ ونایک دن بھر کی کمائی لال مرچ اور کیریوں کی فروخت سے ہونے والے پیسے دوستوں کو سنیما دکھاتا اور شراب پی کر اڑا دیتا ہے اس کی ماں ریشمی کو شکایت رہتی ہے کہ گھر میں پیسے نہیں دیتا تو شادی کس طرح کروں گی ایک دفعہ ونایک ماں کو پچاس روپئے دیتا ہے۔ ماں ایک لڑکی دیکھ کر شنکتلا سے اس کی شادی کر دیتی ہے۔ شادی کے جشن کے دن ہی داروغہ ایک کانسٹبل کے ساتھ آ کر  ونایک کو گرفتار کر لیتا ہے۔ سارے مہمان پریشان ہو جاتے ہیں تب ونایک فخر سے کہتا ہے کہ اس نے شکنتلا پر الزام لگایا تھا کہ اس لئے میں نے سے قتل کر دیا۔ یہ افسانہ غریب طبقے کی دکھ بھری کہانی ہے۔

افسانہ ’’میرا ناچی رے ‘‘ عشق و محبت میں تڑپنے والوں کی داستان ہے ۔ نشاط زماں سے محبت کرتی ہے اور ایاز نشاط سے محبت کرتا ہے جب کہ زماں شادی  شدہ ہے اور بچے بھی ہیں نشاط کو اس لئے زماں پسند ہے کہ وہ نشاط کے ناچ گانے کو پسند کرتا ہے۔نشاط کا خیال ہے کہ انسان ، گوشت اور جسم ہی نہیں دل و دماغ بھی ہے چنانچہ وہ زماں کے قریب ہو جاتی ہے۔

افسانہ ’’خالق‘‘ خالص فلمی انداز کا افسانہ ہے۔ زرینہ کی زندگی میں تین مرد آتے ہیں زرینہ کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ رفعت زرینہ کا ساتھ دینے کا وعدہ کرتے ہوئے شہر سے باہر  چلا جاتا ہے جب واپس آتا ہے تو زرینہ نہیں ملتی ایک عرصہ بیت جانے کے بعد رفعت اور زرینہ کی ملاقات ہوتی ہے لیکن زرینہ رفعت کو پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے۔ زرینہ کی بیٹی دور سے ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھی اور رفعت آخر میں میری بچی کہہ کر ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔

مصنفہ کو مصوری اور موسیقی دونوں سے دلچسپی ہونے کے باعث کئی افسانے جنم لیتے ہیں افسانے گیت، منظر،  سچائی کا بوجھ میں منظر کشی اور پیش کشی کا انداز بہت عمدہ ہے۔ اس سے پیار و محبت کے لطیف جذبوں کو ابھارا گیا ہے۔

آمنہ ابوالحسن نے شہری زندگی سے ہٹ کر دیہاتی لوگوں کی زندگی کی بہت عمدہ نمائندگی کی ہے وہاں کے کھیت کھلیان ، دیہات کا پس منظر وہاں کی بولیوں کا ذکر ان افسانوں میں ’’آوا‘‘ اور ’’برجو‘‘ ’’لیبل‘‘ اور ’’میری میا‘‘ میں بہتر انداز میں تجزیہ کیا ہے۔

’’کہانی‘‘ کا شمار  بیانی نوعیت کی کہانیوں کے زمرے میں آتا ہے۔ شعور کی تکنک سے کام لیتے ہوئے کہانی کا تانا بانا تیار کیا گیا ہے۔

آمنہ ابوالحسن نے کہانی میں کردار ’’جہاں ‘‘ کی زندگی میں آئے نوجوانوں کا ذکر تو کیا ہے اسی میں ایک نوجوان زماں ہے۔ زماں کون ہے اور جہاں سے کیا رشتہ ہے ۔ گھر میں آویزاں تصویر کا کیا مطلب ہے آیا وہ تصویر والی شخصیت بقید حیات ہے یا نہیں ۔ اس افسانے میں بہت سے سوالات جگہ پاتے ہیں ۔

آمنہ ابوالحسن کے دوسرے افسانے ’’پتھر کی قیمت‘‘ ’’منزلیں دار کی ‘‘ ’’دریچہ‘‘ میں مکالمے حسب واقعات تحریر کئے گئے ہیں ۔ منظر کشی عمدہ کی گئی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ عصمت و عفت کا خیال رکھا ہے۔ کسی جگہ بھی مخرب الاخلاق مکالمے تحری نہیں کئے ۔ افسانے کی ابتداء سے اختتام تک قاری اور تخلیق کار کا رشتہ برابر قائم رکھا ہے۔

بہر حال آمنہ ابوالحسن کی تخلیقات لاجواب ہیں ۔یہ روشن ستارہ ۹؍اپریل  ۲۰۰۵ء کو غروب ہو گیا۔

ان کے ناولوں کا تجزیہ ناول کے باب میں ملاحظہ فرمائیے۔

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر صبیحہ نسرین

 

 

ڈاکٹر صبیحہ نسرین ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں۔  انہوں نے تحقیقو تنقید کے علاوہ صنف افسانہ پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔

ڈاکٹر صبیحہ نسرین کا افسانوی مجموعہ ’’روشن راہیں ‘‘ ہے۔  روشن راہیں اور ’’ فسانہ عجائب کی تلخیص‘‘ یہ دونوں کتابیں ایک ہی دن ایک ہی سن میں ۱۴؍جنوری ۲۰۰۴ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئیں۔  دونوں کتابیں ایک ہزار ایک سو گیارہ(۱ا۱۱) کی تعداد میں شائع ہوئیں۔

افسانوی مجموعہ ’’روشن راہیں ‘‘ کا پیش لفظ پروفیسر بیگ احساس صاحب (شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی ) نے لکھا ہے۔

اس مجموعہ میں ۳۰ افسانے شامل ہیں جو حسب ذیل ہیں :

۱۔ جل پری، ۲۔ دل دے آئے، ۳۔ حسن  اخلاق، ۴۔ عرشی فلک، ۵۔ صنم کا شہر، ۶۔ Aclur & Recorded، ۷۔ روشن راہیں، ۸۔ العظمۃ للہ، ۹۔ حسین جادوگر (پارٹ۔ ۱)، ۱۰۔ حسین جادو گر (پارٹII)، ۱۱۔ اسپِ تازی، ۱۲۔ بھارتی، ۱۳۔ حسین کشتی، ۱۴۔ میں بے قصور ہوں، ۱۵۔ دو،دو، ۱۶۔ صباح کمپنی، ۱۷۔ متاعِ عزیز، ۱۸۔ حسین روپ، ۱۹۔ جو کہہ دیا سو کہہ دیا، ۲۰۔ گولی نمبر ۲۰۱، ۲۱۔ پتھر کا قلعہ، ۲۲۔ شیریں ساز، ۲۳۔ سچا پیار، ۲۴۔ چاند ہتھیلی پر، ۲۵۔ یہی تو ہے، ۲۶۔ یہ کیا؟، ۲۷۔ سچ کا انعام، ۲۸۔ کانوں سنی آنکھوں دیکھی، ۲۹۔ جنگ، ۳۰، دیو کی زبان۔

ڈاکٹر صبیحہ نسرین کے افسانوں میں فکرو نظر گہرائی، زندگی کا عرفان اور آگہی و بصیرت ملتی ہے۔  تقریباً سبھی افسانے سبق آموز اور معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی پس منظر رکھتے ہیں۔

افسانے ’’جل پری‘‘ اور ’’ حسین کشتی ‘‘دونوں افسانوں کا موضوع کشتی ہے۔  ان افسانوں میں کشتی سے مراد ’’اردو‘‘ ہے۔  اردو کی بقاء کے لیے افسانے کی ہیروئین اپنے آپ کو مر مٹانے کا جذبہ رکھتی ہے۔  جب دل میں جذبہ بیدار ہوتا ہے اللہ سے مدد مانگنے پر غیبی طاقت رونما ہوتی ہے اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔

افسانے ’’روشن راہیں ‘‘ ’’العظمۃ للہ‘‘ میں ہم کو بہت خوبصورت انداز میں ڈاکٹر صبیحہ نسرین نے یہ درس دیا ہے کہ اللہ ہی واحد ہے جو ہر شئے پر غالب ہے۔  اللہ ہی سے ہی دین اور دنیا کا وجود ہے۔  سب سے پہلے اللہ بعد میں دنیاوی نظام ہے۔  لوگ کہتے ہیں کہ ’’اللہ‘‘ مسلمان کاہے۔  لیکن ڈاکٹر صبیحہ نسرین نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر انسان پیدائشی مسلمان ہوتا ہے واقعی ڈاکٹر صبیحہ نسرین قابل تعریف اس اعلیٰ کھوج کے لیے ہر ہاتھ پر ایک نہیں دو نہیں بارہ دفعہ اللہ لکھا ہوتا ہے۔  اس تحقیق کو انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں افسانہ کی شکل میں ڈھال کر آسان طریقہ سے سمجھایا ہے۔  اللہ ایک نور ہے جب یہی نور طلوع آفتاب کے ساتھ پھیلتا ہے اس سے ساری کائنات استفادہ اٹھاتی ہے پھر کہتے ہیں اللہ کے ناشکرے بندے کہ اللہ کچھ نہیں کرتا۔ اللہ اپنی عبادت کرنے والے اور نہ کرنے والے سب کو ہی اپنی نعمتوں سے مالامال کرتا رہتا ہے پھر بھی انسان شکایت کرتا ہے کہ اللہ سے کچھ فیض نہیں مل رہا ہے۔  جب کہ انسان کی ہر سانس پر اللہ کا اختیار ہے۔

افسانہ ’’حسین جادو گر۔ (پارٹ II) میں آجکل کے حالات حاضرہ پر ڈاکٹر صبیحہ نسرین نے بہت اچھا نقشہ کھینچا ہے۔  یہ اقتباس ملاحظہ فرمایئے۔

’’اسلام سے دشمنی پیغمبر اسلام سے دشمنی صرف بد باطن لوگ ہی کر سکتے ہیں، اور ان دونوں یہ فیشن بن گیا ہے کہ لوگ اپنے دنیاوی مقاصد پورا کرنے کے لیے ایمان بیچ رہے ہیں ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، لیکن انھیں بہت پچھتانا پڑے گا۔ ان کے بڑے بڑے اعزاز، بڑے بڑے عہدے، بڑے بڑے انعام جو ایمان بیچ کر انھوں نے کما  لئے ہیں وہ انھیں اللہ پاک کے عذاب سے نہیں بچاسکتے۔  اور ان کے ہمدرد ان  کے بہی خواہ ان کے دکھ کو دور نہیں کر سکتے۔  دنیا کمانے والے ایک کمینے کی مثال تمہارے سامنے ہے جو دماغی مرض سے تڑپ تڑپ کر مرگیا۔ اللہ محفوظ رکھے ایسے کمینوں کے ساے سے بھی بچنا چاہئے۔  نادان اتنا بھی نہیں سمجھتے جو باپ کو باپ نہ کہے وہ پڑوسی کو چچا کیسے کہے گا۔ پہلے عہدے ایمانداروں کو دیئے جاتے تھے لیکن آج بے ایمانوں کے دیئے جاتے ہیں۔  یہاں سے وہاں تک سب کچھ بدلنا ہو گا۔ جب یہ جنگ جیتنا چاہتی ہو تو پہلے آنسوبہانا چھوڑو!! اپنے دکھ درد کو بھولنا سیکھو، پھر میدان میں آ جاؤ، حمایت کے لیے صیانت کے لیے دیکھو تو کون مہربان ہیں تم پر؟ پھر تمہیں کیا کمی ہے۔ ‘‘  (افسانوی مجموعہ ’’روشن راہیں‘‘  از ڈاکٹر صبیحہ نسرین۔ افسانہ حسین جادوگر ۔پارٹ II۔ ص:۵۳۔۵۴)

ڈاکٹر صبیحہ نسرین کے افسانے مقصدی ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پسند ہوتے ہیں افسانے ’’صباح کمپنی ‘‘ ’’کانوں سنی آنکھوں دیکھی‘‘، ’’دیو کی زبان‘‘ وغیرہ اپنے منفرد انداز میں ہیں۔  ان افسانوں میں ایک زاویۂ نظر ہے، وسعت کی گہرائی ہے۔  ڈاکٹر صبیحہ نسرین کو اپنی تحریروں پر قدرت حاصل ہے۔

ڈاکٹر صبیحہ نسرین نے ’’فسانۂ عجائب کی تلخیص ‘‘ طلباء و طالبات کے لیے داستان کو عام فہم زبان میں تحریر کیا ہے۔

’’فسانہ عجائب‘‘ مرزا رجب علی بیگ سرورؔ کی لکھی ہوئی داستان محبت ہے۔  قصہ در قصہ کی روایت سے داستان کو بہت طول دے دیا گیا۔  اس داستاں میں مافوق الفطرت عناصر کا شامل ہونا داستان کی دلچسپی کا باعث ہے۔  سرورؔ نے لکھنو کی تہذیب کا مکمل نقشہ، لکھنو کی زبان میں بڑی خوش اسلوبی سے کھینچتا ہے۔

غرض فسانہ عجائب عالمانہ زبان و بیان میں نثر کا بہترین نمونہ ہے۔  ڈاکٹر صبیحہ نسرین کی خاص خوبی یہ ہے کہ جماعت صغیر سے پی ایچ ڈی تک درجہ اول میں کامیابی حاصل کی۔ مزید ان کو اپنی خدمات اور اپنے کتابوں پر انعاموں اور طلائی تمغوں سے نوازا گیا ہے۔  ۱۹۹۲ء میں اردو ادب کی مثالی خدمات پر ’’کمیونل ہارمنی ایوارڈ‘‘ آندھرا جنرل کی طرف سے دیا گیا۔ بے شک ڈاکٹر صبیحہ نسرین کی شخصیت حیدرآباد کے لیے باعث فخر ہے۔

٭٭٭

 

 

قمر جمالی

 

 

قمر جمالی عہد حاضر میں اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار ہوتی ہیں۔  جنہوں نے اپنی تخلیقات سے بہت جلد ہی شہرت حاصل کر لی۔

ان کا اصلی نام قمر سلطانہ ہے اور قلمی نام قمر جمالی ہے۔  ان کے والد کا نام مولوی محمد جمال شریف صاحب تھا۔ ۲؍اپریل ۱۹۴۸ء کا چیگوڑہ حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔  کاچیگوڑہ گرلز ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا اس کے بعد بیسک ٹریننگ کی تکمیل کی۔ بی اے انگریزی ادب میں اور ایم اے بھی انگریزی ادب میں پہلا سال مکمل کیا دوسرا سال ادھورا رہ گیا۔ بیسک ٹریننگ کرنے کی وجہ سے کچھ عرصہ پیشۂ تدریس سے بھی وابستہ رہیں اس کے بعد محکمہ مالگذاری میں منڈل ریونیو آفیسر محبوب نگر اور حیدرآباد میں تعینات رہیں۔  آجکل کمشنر لینڈ ریونیو آفس نامپلی حیدرآباد میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

قمر جمالی کو بچپن سے ہی ادبی ذوق رہا ہے پہلی کہانی ’’اے چاند چھپ نہ جانا‘‘ کے عنوان سے غالباً ۶۸۔ ۱۹۶۷ء میں لکھی۔ جو دہلی سے نکلنے والے ایک رسالہ ’’رودادِ حیات‘‘ میں چھپی اس کے بعد باضابطہ چھپنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

قمر جمالی کے پاس رودادِ حیات میں چھپنے سے پہلے کہانیوں کا خاصہ ذخیرہ موجود تھا۔ لکھ کر ایک ٹین کے بکسے میں چھپا دیا کرتی۔ جب باضابطہ چھپنے کا سلسلہ شروع ہوا انھیں دوبارہ پڑھ کر جو بچکانی تھیں انہیں تلف کر دیا جو چلتے وقت کے ساتھ تھیں انھیں چھپوا دیا۔   (خود نوشت)

قمر جمالی کی شادی ۱۹۷۹ء میں محمد محمود حامد صاحب سے ہوئی۔  ان کے شوہر سرکاری ملازمت کے علاوہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں اور ’’تناظر‘‘ سہ ماہی رسالے کے سب ایڈیٹر بھی تھے۔  اردو ادب سے کافی دلچسپی ہے۔  ان کی تین بیٹیاں ہیں۔  سب اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

قمر جمالی کے گھر کا ماحول اور ان کی زندگی، شگفتہ ماحول کی آئینہ دار ہے۔  ایک بیوی، ایک ماں کی حیثیت سے بے شمار گھریلو اور دفتری ذمہ داریاں عائد ہیں اسے نپٹانے کے بعد وہ ادبی خدمات کے لیے وقت نکال ہی لیتی ہیں، معلوم نہیں وہ اپنے وقت کو کیسے تقسیم کرتی ہیں۔

قمر جمالی کے اب تک چار مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔  جو حسب ذیل ہیں :

۱۔       شبیہ     (افسانوں کا مجموعہ)

۲۔      سبوچہ  (افسانوں کا مجموعہ)

۳۔      سحاب  (افسانوں کا مجموعہ)

۴۔      سنگریزے  (ریڈیو ڈراموں کا مجموعہ)

افسانوی مجموعہ ’’سحاب‘‘ میں شامل کچھ افسانوں کا ہندی میں ترجمہ کر کے ایک اور مجموعہ زیر ترتیب ہے۔  اس کے علاوہ انہوں نے معیاری سفرنامے، ادبی کالم،  فیچر، ڈرامے وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔

قمر جمالی کی بنیادی پہچان افسانہ نگاری سے ہے۔  اب تک تقریباً سو (100) افسانے لکھے جتنے لکھے اتنے شائع ہوئے۔  دو سال روزنامہ ’’ہمارا عوام‘‘ کے ادبی کالم کی نگران کار رہیں اور ایک سال تک ہر ہفتہ ایک ادبی کالم ’’زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے ‘‘ کے عنوان سے لکھتی رہیں ہیں۔  علاوہ ازیں ایک سہ ماہی رسالہ ’’تناظر‘‘ کی مدیر تھیں اور ان کے شوہر سب ایڈیٹر رہے۔  یہ رسالہ ۲۵؍۳۰ سال پرانا ہے جسے دہلی سے بلراج ورما صاحب نکالتے تھے۔  ۱۹۹۸ء میں اس کی ادارت قمر جمالی کے نام منتقل ہوئی۔ انہوں نے تین شمارے نکالے ان کی ترقی ہو گئی(MRO) منڈل ریونیو آفیسر بن جانے کی وجہ سے ادارت کا بوجھ سنبھال نہیں پا رہی تھیں اس لیے استعفیٰ دیدیا۔

قمر جمالی کا مقصد ہے کہ اپنے قلم سے سماج کی تلخ حقیقتوں کو واضح کر کے ذہن کو جھنجھوڑنے کا کام لیں اور وہ ایک حد تک کامیاب بھی رہی ہیں۔

قمر جمالی کے افسانوں میں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انھیں اپنی اقدار سے بے انتہا پیار ہے وہ عورت کے تقدس اور عظمت کی قائل ہیں۔

قمر جمالی کے افسانوں کا مجموعہ ’’شبیہ‘‘ پڑھنے  سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے قلم سے کس طرح کھیلتی ہیں۔  سبھی افسانے اچھے ہیں۔  خصوصاً ’’ فاتح عالم‘‘ ایک متاثر کن افسانہ ہے جس میں عورت اور مرد کی تخصیص کو مٹا  کر اپنے جذبے کی توانائی اور احساس سے ہمکنار کرنے کی کوشش پنہاں ہے۔  عورت کونسوانیت کو جلال عطا کرتی ہیں۔  اس افسانے میں ایک عورت انتہائی غریب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بچے کی ماں بھی ہے۔  ناکافی لباس زیب تن کئے ہوئے بس میں چڑھتی ہے۔  اسے ہوس بھری نگاہیں گھورتی رہتی ہیں۔ بارش بہت زور دار ہو رہی ہے۔  گود میں چند ماہ کا بچہ ہے بس سے اب اترنا ہے۔  دفعتاً وہ ایک عزم کے ساتھ اٹھتی ہے اور اپنی ساڑی اتار کر بچے کو اس میں لپیٹ لیتی ہے اور خود بوسیدہ پیٹی کوٹ اور بلاوز میں ہی سب کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔  اس وقت اس کے چہرے پر ممتا  کا ایسا تقدس اور جلال جھلک رہا ہے کہ وہ تمام ہولناک نگاہیں جو چند لمحے پہلے اسے گھور رہی تھیں۔  خود بخود نیچے جھک جاتی ہیں۔  اس وقت اس کے چہرے پرایسی طمانیت جھلک رہی تھی جیسے کہ کہ اس نے ایک عالم کو تسخیر کر لیا ہو۔

’’فاتح عالم ‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو :

’’ ابھی کچھ دیر قبل جن مردوں کی نگاہیں اس کی پھٹی جوانی کو جھنجوڑ رہی تھیں۔ وہی نگاہیں اب جھکی ہوئی تھیں ، گویا ممتا کا دبیز پردہ اس کے  بے لباس جسم کے آگے حجاب بن گیا تھا‘‘

عورت کا ماں کا رشتہ بہت مقدس ہوتا ہے اس رشتہ میں اپنی اولاد کے لئے ہر مصیبت اور ہر تکلیف سہنے کی طاقت ہوتی ہے۔  اس حوصلہ کے سامنے کوئی فاسد خیال پنپ نہیں سکتا۔

آپ افسانہ کیوں لکھتی ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں قمر جمالی نے کہا کہ’’ اس کا جواب دینا مشکل ہے ‘‘ جہاں تک میری ذات کا مسئلہ کوئی میرے اندر بیٹھ کر ڈکٹیٹ کرواتا ہے۔  شاید یہی وجہ ہے۔  میں افسانہ کسی کی خواہش ،مطالبہ یا پھر ضرورت کے تحت نہیں لکھ سکتی مرے لئے یہ ایک مقدس عمل ہے۔  ایک غیر فطری فعل۔  ہاں جب اس کی بنت مکمل ہو جاتی ہے اور زبان و بیان کا مسئلہ شروع ہوتا ہے تو میں اس پر محنت کرتی ہوں۔  یہاں سے میرا فطری عمل شروع ہوتا  ہے۔  زبان کو کرداروں اور ماحول کے مطابق ڈھالنا۔ زبان کی صحت ودرستگی کا مجھے بہت خیال رہتا ہے۔  جس علاقے کی بولی بول رہے ہوں شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئیے یہ ان کا اپنا نظریہ ہے ‘‘ (شخصی انٹرویو بتاریخ ۱۲؍ مئی ۲۰۰۴ء بمقام ۔ کمشنر لینڈ ریونیو آفس۔ نامپلی حیدرآباد)

افسانوی مجموعہ ’’ سبوچہ‘‘ کے افسانے ’’سوالیہ نشان‘‘؟ ’’کفن‘‘ ’’ رام لالے ‘‘ ’’ مجسمہ ‘‘  ’’ کھنڈر‘‘   ’’ جئے بھوانی ‘‘ … اور پھانسی دے دی گئی ‘‘  ’’ اگنی پرویش‘‘  ’’ زندگی زندگی ‘‘ ۔  ان سب افسانوں میں ایک مقصد کارفرما ہے۔

افسانہ ’’ کفن‘‘ ایک غریب مرتبان بیچنے والی خانہ بدوش عورت گوری کی داستان غم ہے۔  مسلسل پانچ دن بارش ہونے کی وجہ سے مرتبان خریدنے کوئی نہیں آیا۔ بیچاری گوری اور اس کے دو بچے بھوک سے نڈھال تھے اور سردی سے اکڑ رہے تھے۔  ایک موٹر نشین خاتون سو۱۰۰ مرتبان خریدنے آئی تو گوری بہت خوش ہو گئی اور سوچنے لگی کہ کھانے کی چیزوں کے علاوہ پہننے اور اوڑھنے کے گرم کپڑے خریدے گی۔  موٹر نشین میم صاحبہ کو مرتبان بتانے میں گوری بہت مصروف ہو گئی۔  وہ بچوں کا واسطہ دے کر مرتبان خریدنے پر مجبور کر رہی تھی۔ اُدھر گوری کے بڑے بیٹے نے چار پانچ بار ماں سے کہا کہ ماں چھوٹے کی طبیعت خراب ہو رہی ہے ، ماں چھوٹا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔  ماں دیکھو میری بات سنو کہیں دیر نہ ہو جائے۔  گوری کام میں مصروف کہنے لگی جا ڈیرے میں لے جا کرسلادے۔  ابھی دو منٹ کی بات ہے۔  یہ سب تو میں تم لوگوں کے لئے ہی تو کر رہی ہوں۔  گوری کے ہاتھ میں جب سومرتبان کے پیسے آ گئے تو منافع کے پیسے الگ اور باقی کے پیسے غلہ میں ڈالنا تھا۔ کیونکہ اس کا میاں آنے والا تھا۔  اگر اس کے ہاتھ لگ گئے تو سارے پیسے اُڑا دیتا۔

آخر کار میاں نے آ کر گوری کو گالیاں دیتے ہوئے لاتوں سے مارنے لگا۔ گوری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور کہنے لگی یہ لے اب تک دیتی آئی ہوں۔  اس کے شوہر نے کہا تو کیا کسی کودے سکتی ہے تو تولے سکتی ہے تو نے میرے بچے کی جان لی ہے۔  جب گوری نے یہ سنا سرچکرا کر بے ہوش ہو گئی اور سارے لوگ جمع ہو گئے۔  جب گوری کو ہوش آیا تو اس کا شوہر رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ جیتا آدمی تو ننگا بھی جی لے۔ … مگر مر کر تو اُسے جسم پر پوشاک چاہئیے نا … گوری نے جو پیسے گرم   کپڑوں کے لئے جمع کئے تھے اس پیسے سے کفن آیا۔

واقعی غریبی انسان کو جیتے جی مار دیتی ہے۔

قمر جمالی افسانے کے فن اور اس کی تکنیک کی ترسیل سے بخوبی واقف ہیں۔  انہوں نے اپنے قاری کو اپنے افسانوں سے اس بات کا اعتماد بھی دلایا کہ ادب کا کام سماج کی نمائندگی بھی ہے۔

قمر جمالی کے افسانوں میں جہاں فنکارانہ چابکدستی ملتی ہے وہیں اثر اور کیفیت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر افسانے ہندوستان کی دیگر زبانوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔

افسانہ’’فاتح  عالم‘‘ کو انگریزی زبان میں پروفیسر راجیو ورما چندی گڑھ نے ترجمہ کر کے سہ ماہی رسالہ Symphony  کٹک ،اڑیسہ میں شائع کیا۔

افسانہ’’ اُپچ‘‘ کو اڑیا زبان میں ڈاکٹر نسیمہ بیگم نے ترجمہ کیا۔ جھنکار اڑیسہ  میں شائع کیا گیا۔

افسانہ’’اگنی پرویش‘‘ کو ہندی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ قمر جمالی کوایوارڈس ملے۔ بسٹ سٹیزن ایوارڈ اور میرؔ اکیڈیمی لکھنو کی جانب سے ’’ امتیاز  میر‘‘ ایوارڈ سے نوازا گیا۔

قمر جمالی ادب کی ہرسرگرمی سے جڑی ہوئی ہیں۔

’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کی ملک گیر سطح پرسکریٹری ہیں اور ریاستی سطح پربھی سکریٹری رہی ہیں اور نہایت ہی سرگرم رہی ہیں۔ محبوب نگر میں بھی ادبی محفلوں میں شرکت کرتی تھیں۔ ’’ محفل خواتین‘‘ حیدرآباد میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتی ہیں۔  شعبۂ  خواتین ادارۂ ادبیات اردو کی سکریٹری ہیں۔  علاوہ ازیں دیگر کئی انجمنیں جو ادب سے جڑی ہیں ان سے وابستہ ہیں۔

قمر جمالی نے کہا کہ ڈاکٹر راج بہادر گوڑ کی شخصیت سے بہت ہی زیادہ متاثر ہیں۔  قمر جمالی کو ان میں انسانیت کا وہ نمونہ نظر آتا ہے جو قابل تقلید ہے۔  وہ ان کی بے پناہ عزت کرتی ہیں۔

قمر جمالی نے کہا ہے کہ ادب میں نظریوں کی بندش کی قائل نہیں ہیں۔ مکتب فکر اور نظریہ تخلیق کودرست سمجھتی ہیں۔  ہاں ادب میں ترسیل کی قائل ہیں اور ان پر لیبل چسپاں کرنا تو نقادوں کا شیوہ ہے ، میرا نہیں ‘‘(شخصی انٹرویو بتاریخ ۱۲؍ مئی ۲۰۰۴ء بمقام ۔ کمشنر لینڈر یونیو آفس۔ نامپلی حیدرآباد)

ان کی تحریروں میں مشاہدے اور لطیف انداز  بیان کا حسین امتزاج ملتا ہے۔

٭٭٭

 

 

ساجدہ عابد

 

 

حیدرآباد کی خواتین افسانہ نگاروں میں ساجدہ عابد کا نام اہمیت کا حامل ہے۔  حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ سادات گھرانے میں ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوئیں۔  ابتدائی تعلیم کے بعد بی۔ اے ویمنس کالج سے اور ایم۔ اے سوشولوجی عثمانیہ یونیورسٹی سے کیا۔

زمانۂ طالب علمی سے ہی کلچرل اور ادبی سرگرمیوں کے علاوہ مذہبی سرگرمیوں سے گہری دلچسپی تھی۔ کئی ڈرامے اور افسانے آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے نشر ہوئے۔  رویندر بھارتی اور سروجنی دیوی ہال، سلور جوبلی ہال، باغ عامہ میں پروگرامس ترتیب دے چکی ہیں۔ مضامین اور افسانے اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

حیدرآباد کی مذہبی تنظیم ’’بزم خواتین‘‘ کی خازن اور مدیر اعلیٰ رہ چکی ہیں۔  ان کے شوہر عظیم صاحب سنگارینی کالریز میں ممتاز عہدیدار ہیں۔

ساجدہ عابد کا ایک افسانوی مجموعہ ’’درد پنہاں ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔  جس میں مندرجہ ذیل بارہ افسانے ہیں۔

۱۔ یاد دیں جو ستاتی ہیں۔  ۲۔ ایک افسانہ ایک حقیقت۔ ۳۔ جھوٹ  کے پاؤں۔  ۴۔ وہ ایک صبح۔ ۵۔ دوسری شادی۔ ۶۔ جنت ارضی۔ ۷۔ گھر کا چراغ۔  ۸۔ خلیل خان۔ ۹۔ گھونگھٹ۔  ۱۰۔ درد پنہاں۔  ۱۱۔ یہ ہیں ہمارے مہرباں۔  ۱۲۔ راکھی۔

اس مجموعے کے بیشتر افسانوں میں سماجی بدعنوانیاں، معاشی پستی، اور زوال پذیر جاگیردارانہ نظام کے تلخ حقائق کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔  انہیں موضوع کو فنی معنویت کے ساتھ پیش کرنے کا فن آتا ہے۔

’’ایک افسانہ ایک حقیقت ‘‘ میں عورت کی نفسیات سے گہری دلچسپی دکھائی گئی ہے۔  اس افسانے میں شوہر اپنی نیک بخت وفا شعار بیوی کے ہوے ہوئے دوسری عورت سے شادی کر لیتا ہے۔  اگر یہی کام بیوی کرے تو سماج میں اس کا کوئی مقام نہیں ہو گا اور اسے بد چلن، آوارہ، فاحشہ کا نام دیا جائے گا لیکن مرد کے لیے یہ کوئی عیب کی بات نہیں دورِ حاضر تک بھی عورت کی زبوں حالی، نا انصافی پر انصاف دلانے والا کوئی نہیں۔  مرد تو گویا دور کی بات، عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔  سماج میں ایک عورت دوسری عورت کے بارے میں سوچے گی تو برائی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے اور وہ دن دور نہیں صاف ستھرا معاشرہ بن جائے گا۔

ساجدہ عابد کے دوسرے افسانے ’’وہ ایک صبح ‘‘ ’’گھونگھٹ‘‘ جنت ارضی میں عورت کی مظلومیت اور مرد کی سنگ دلی کو اجاگر  کیا ہے۔  مایوسی اور نامرادیوں کا ہمتو حوصلہ سے مقابلہ کرنا ہی ان کہانیوں کا پیغام ہے۔  ساجدہ عابد عورت ہونے کی وجہ سے عورتوں کی فطرت کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔

ساجدہ عابد کو مجموعہ ’’درد پنہاں پر اردو اکیڈیمی آندھراپردیش نے ایوارڈ سے نوازا‘‘ ان کا   بیان سادہ اور شگفتہ ہے انہیں بات کہنے کا سلیقہ بھی حاصل ہے۔  ان کی تحریروں میں انکشاف  ذات، اختصار، مسرت بہم پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے۔

ممبئی میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے محترمہ ساجدہ عابد کی تخلیقات میں کچھ ٹھہراؤ ساآ گیا۔ انہوں نے اپنے بیٹے طلعت عزیز کو بہت محنت سے اردو اور غزل کی طرف راغب کروایا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی طلعت عزیز کو بہت پرکشش آواز دی ہے۔  اپنے لہجے سے غزل کو سنوار کر درد مند آواز میں وہ غزل کو لاجواب بنا دیتے ہیں۔  طلعت عزیز صفِ اول کے گلوکار ہیں۔  سامعین ان کے غزل سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دردو غم کی آغوش میں کھو جاتے ہیں۔  یہ سچ ہے کہ عورت کی تخلیق ہر ہنر جانتی ہے۔  اسے ساجدہ عابد نے یہ ثابت کر دکھایا۔ بیٹے (طلعت عزیز) کی کامیابی کا سہرا جو آسمان کی بلندی پر چمک رہا ہے وہ ماں (ساجدہ عابد) کے سر جاتا ہے۔  ایک ماں کو اور کیا چاہئے جس کا بیٹا شہرت کی بلندی پر ہے۔

٭٭٭

 

 

 

انیس قیوم فیاض

 

 

حیدرآباد کی ابھرتی ہوئی خواتین افسانہ نگاروں میں انیس قیوم فیاض بھی اہمیت کی حامل ہیں۔

پہلے انیس قیوم کے نام سے ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ قیوم صاحب ان کے والد صاحب کا نام ہے اور شادی کے بعد فیاض اقبال سے انیس قیوم فیاض ہو گئیں۔

انیس قیوم فیاض ۱۹۵۰ء میں حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔  میٹرک گوشۂ محل اسکول حیدرآباد سے پاس کیا۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ایس سی اور بی ایڈ کی تعلیم کی تکمیل کے بعد کچھ عرصہ پیشہ تدریس سے وابستہ رہیں۔  ۱۹۷۶ء میں ایم اے امتیازی نمبروں میں کامیاب کیا۔ ایم اے کے ڈیسرٹیشن کا موضوع ’’حیدرآباد میں افسانہ نگاری‘‘ تھا۔

انیس قیوم فیاضی بنیادی طور پر خالص افسانہ نگار ہے۔  افسانے کی تکنیک اور اسٹائیل سے بخوبی واقف ہیں۔

ان کی اب تک دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور دو تصانیف زیر طبع ہیں۔

۱۔ افسانوں مجموعی ’’گھر کی دیوار ‘‘

۲۔ تحقیقی مقالہ ’’حیدرآباد میں افسانہ نگاری‘‘

ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’گھر کی دیوار‘‘ ۲۵؍ستمبر ۱۹۸۰ء میں اشاعت کے مراحل طے کر کے منظر عام پر آیا اور اسی کی قیمت صرف آٹھ روپئے ہے۔  اس کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر یوسف سر مست نے لکھا ہے۔  یہ اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے تعاون سے شائع ہوئی۔  اس مجموعہ میں پندرہ افسانے حسب ذیل ہیں :

۱۔ کئی سال بعد، ۲۔ پتھر کا انسان، ۳۔ پاس روایت، ۴۔ یہ رشتے، ۵۔ دب دب کر زخم ابھرتے ہیں، ۶۔ تم، ۷۔ سکون پانے کہاں جائیں، ۸۔ لُٹا ہوا مسافر، ۹۔ آنسو اور ستارے، ۱۰۔ تم میرے ہو، ۱۱۔ ثابت قدم رہیں گے، ۱۲۔ تم سے ہے کائنات میں رنگ، ۱۳۔ یاد کی خوشبو، ۱۴۔ گلوں کا کام شبنم ہے، ۱۵۔ گھر کی دیوار۔

ان کے کرداروں کی زبان نفسیات کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں۔  انہوں نے ہر نوع کے افسانے لکھے ہیں۔  رومانی بھی اور سماجیو مسائلی بھی۔ یہ عورت کی عظمت  کے تقدیس کی حامل ہیں۔  کسی بھی قسم کی عریاں اور غیر مہذب تحریر سے گریز کرتی ہیں۔

انیس قیوم فیاض اپنی افسانہ نگاری کے تعلق سے اظہار خیال کرتی ہیں :

’’میری افسانہ نگاری دراصل میرے قید و بند اور اقدامات پسند ماحول کی دین ہے۔  ان ہی دنوں میرے دلو دماغ نے فرار کی راہ اپنائی اور قلم کو اظہار  خیال کا ذریعہ بنایا‘‘ (افسانوی مجموعہ ’’روشن راہیں‘‘  از ڈاکٹر صبیحہ نسرین۔ افسانہ حسین جادوگر ۔پارٹ II۔ ص:۵۳۔۵۴)

بچپن ہی سے شعرو ادب سے گہری دلچسپی کے باعث لکھنے کی ابتداء زمانہ طالب علمی سے ہی ہو چکی تھی ان کا پہلا افسانہ ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا۔ کالج میں آنے کے بعد باضابطہ لکھنا شروع کر دیا اور معیاری رسائل میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔  جیسے : بیسوی صدی، خاتون دکن، بانو، حجاب، شبستاں، شاعر، تحریک، زیب النساء لاہور وغیرہ۔  ان کے کئی افسانوں کے دوسری زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے جیسے۔  ہندی، بنگلہ، آسامی وغیرہ۔ کئی افسانے آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد اور دہلی سے بھی نشر ہو چکے ہیں۔  علاوہ ازیں روزنامہ سیاست کے بھی زینت بن چکے ہیں۔

انیس قیوم فیاض میں افسانہ نگاری کی صلاحیتیں غیر معمولی ہیں :۔ اس بات کا اندازہ ان کے افسانوں کے مطالعہ سے لگایاجاسکتا ہے۔

افسانے ’’تم سے ہے کائنات میں رنگ ‘‘ ’’تم‘‘ ’’دب دب کر زخم ابھرتے ہیں ‘‘ اور کئی سال بعد ‘‘ میں خالص رومانی رنگ چھایا ہوا ہے۔  سچی محبت کا اظہار جذباتی الفاظ میں بہت اچھا لگتا ہے اور قاری رومانی دنیا میں کھو جاتا ہے۔  محبت کا جذبہ زندگی سے الگ کر دیا جائے تو زندگی بے معنی ہو جائے گی۔ محبت کے کئی اقسام ہیں انسانی رشتوں سے محبت، خدا سے محبت، رسولؐ سے محبت، پیسہ محبتسے محبت دنیا سے محبت ہر محبت میں انسان کی غرض شامل ہوتی ہے۔  اور اسے حاسل کرنے کی جستجو میں زندگی صرف ہوتی رہتی ہے اور دنیا چلتی رہتی ہے۔

افسانہ ’’گھر کی دیوار‘‘ اس مجموعہ کا آخری افسانہ ہے اور عنوان بھی ہے۔

پرکاش اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن جاتا ہے۔  پرکاش کی ماں واپسی تک انتظار بھی نہ کیا اور چل بسی۔ پرکاش اپنی ماں کی جدائی کے غم میں رو رو کے نڈھال ہوا جا رہا تھا۔ پھر اپنے دل کو تسلی دے لی کہ میری ماں کو ایک دن تو جانا ہی تھا دنیا میں ہر انسان کو ایک دن جانا ہے سب جانے کے لیے ہی تو آئے ہیں۔  ایک دن پرکاش کو اس کے پتاجی کا خط آتا ہے کہ میں نے تمہارے چھوٹے بہن بھائی کا خیال رکھنے کے لئے نئی ماں لے آیا۔ پرکاش سوچتا کہ پتاجی کو اپنے بچوں کا کتنا خیال ہے کہ انھیں خوش کر رکھنے کے لئے پتا جی نے دوسری شادی کر لی۔

پرکاش کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد تین سال بعد اسے گاؤں لوٹنے کی خوشی تھی سب سے ملنے کی خوشی تھی۔  لہلہاتے کھیتوں میں ندی کے کنارے شانتی سے کیا وعدہ یاد آنے لگا۔ شانتی نے پرکاش سے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے لوٹنے تک میں انتظار کروں گی۔

سب سے پہلے پرکاش گاؤں لوٹتے ہی ندی کے کنارے شانتی سے ملا۔ گھونگھٹ اوڑھے شانتی سے ملاقات ہوتی ہے۔  مگر اگلے ہی لمحے پرکاش کو جھٹکا لگتا ہے اس کے گلے کا منگل سوتر دیکھ کر پرکاش شانتی سے کہتا ہے کہ کیا تمہیں منگل سوتر پہننے کا بہت شوق تھا۔ شانتی کہتی ہے مجبوری تھی۔ پرکاش کہتا کہ ایسی کیا مجبوری تھی۔ کون ہے جو تم کو مجھ سے چھینا میں اس راستے کی ہر دیوار کو گرا دوں گا۔ جب پرکاش گھر آتا تو پینتالیس ۴۵ سالہ پتاجی تین سال بعد بھی ویسے ہی ہٹے کٹے ہے پھر اپنے چھوٹے بہن بھائی سے ملتا ہے پھر اسکے بعد نئی ماں پر نظر پڑتی ہے تو وہ ’’شانتی‘‘ ہے جو شانتی محبوبہ تھی وہ اب ماں کے روپ میں تھی چرن چھوکر آشر واد لیتا ہے راستے کی ہر دیوار کو گرایا جاسکتا ہے مگر گھر کی دیوار کو نہیں۔  راستے کی دیوار اور گھر کی دیوار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

افسانہ ’’گھر کی دیوار‘‘ کے تعلق سے ڈاکٹر یوسف سرمست لکھتے ہیں :

’’جیسا کہ خود انیس نے لکھا ہے راستہ کی ہر دیوار گرائی جاسکتی ہے لیکن گھر کی دیوار کو نہیں گرایا جاسکتا۔ خاص طور پر ایسا انسان جو زندگی میں بعض قدروں کو عزیز رکھتا ہو اور جوان قدروں کی قدر و قیمت جانتا بھی ہو۔  انیس کے تمام افسانوں میں بلکہ ان کی پوری افسانہ نگاری میں ’’گھر کی دیوار‘‘ ابھر ابھر کر سامنے آتی ہے۔  یہ گھر کی دیوار بعض وقت ماں باپ کی اٹھائی ہوئی ہوتی ہے، کبھی آباء و اجداد کی، کبھی ازدواجی زندگی اسے بلند کرتی ہے، کبھی یہ مذہب کی تیار کردہ ہوتی ہے۔  کبھی خاندانی روایات کی تعمیر کردہ اور کبھی روایات کی بنائی ہوئی ہوتی ہے، بعض وقت خود محبت یہ دیوار اٹھاتی ہے اور جو دیوار خود اپنے ہاتھ سے ا تھائی جاتی ہے اور جو اپنی گھر کی ہوتی ہے وہ کبھی بھی اور کسی طور پر بھی نہیں گرائی جاسکتی۔ انیس نے اپنے افسانوں میں ایک طرح سے اس حقیقت کو بڑے سلیقے کے ساتھ پیش کیا ہے۔

افسانہ ’’یاد کی خوشبو‘‘ ہندوستانی عورت کی پاکیزہ محبت کی کہانی جو ایک بار کسی کو من مندر کا دیوتا ماں لیتی ہے جب اس دامن کو تھام لیتی ہے ساری زندگی اسی کے نام پر بتا دیتی ہے۔  انیس قیوم فیاض اسی بات کو اس افسانے میں بڑی خوبصورت سے ظاہر کی۔

انیس قیوم فیاض کے فن کا جواز جہد حیات ہے۔  یہ جد  و جہد بھی فن کار کی اپنی جد و جہد ہے اور انفرادی زندگی، سماجی زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے یہی تخلیق فن کا جواز ہیں اور اس کا کرب اس سے فنکار کے ذہن کی ساخت ہوتی ہے۔

بشریٰ رحمن، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، اور رام لال وغیرہ ان کے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔

انیس قیوم فیاض لیبیا میں سات سال رہیں وہاں بھی اپنی تخلیقی کاموں میں مصروف رہیں۔  ان کے اور دو تصنیفات زیر طبع ہیں۔

انیس قیوم فیاض اب مہدی پٹنم اوم نگر حیدرآباد میں رہائش پذیر ہیں۔  انھیں مصوری اور باغبانی سے بھی کافی لگاؤ ہے اپنے فرصت کے وقت میں اپنے فن کو پروان چڑھانے میں مصروف رہتی ہیں۔

انیس قیوم فیاض فیاض ہمدرد، خوش مزاج شخصیت کی مالک ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

زینت ساجدہ

 

 

زینت ساجدہ ادبی دنیا میں ایسی مایہ ناز شخصیت ہیں جن کے ساتھ وابستگی خوش نصیبی سمجھی جاتی ہے۔

زینت ساجدہ حیدرآباد کی خاتون افسانہ نگاروں میں اہم مقام رکھتی ہیں۔  انہوں نے بے باکی کے ساتھ سماج کے ان گھناؤنے واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔  جو ترقی پسند ادیب کا بنیادی رجحان رہا۔ زینت ساجدہ اپنی بے پناہ حقیقت نگاری کی وجہ سے اپنے فن میں آفاقیت یا عمومیت پید ا کرتی ہیں اور اپنے کرداروں کو زندہ اور متحرک پیش کرنے میں بہت زیادہ قدرت رکھتی ہیں۔  ان کے افسانے موثر ہوتے ہیں اور شگفتگی لئے ہوتے ہیں۔  وہ انسانی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہیں۔  زینت ساجدہ کے افسانوں میں امتیازی خصوصیت اچھوتا پن ہے۔  ان کے دل میں عورتوں کی ناقدری کا پورا پورا احساس ہے جو ان کے قلم کی روانی میں صاف دکھائی دیتا ہے۔  ان کے خیالات کی پاکیزگی، طرز ادا، زبان کی سادگی اور شگفتگی ہر لحاظ سے قابل ستائش ہے۔  ان کی سب سے پہلی تخلیق ’’لاٹری‘‘ افسانہ نما مضمون ہے جو ماہنامہ شہاب حیدرآباد سے شائع ہوا۔  اس کے بعد ان کے بے شمار افسانے اور مضامین رسائل اور اخبارات کی زینت بڑھاتے رہے ہیں۔

زینت ساجدہ کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’جلترنگ‘‘ ہے۔  جو حیدرآباد کے ادبی حلقوں میں ان کی شہرت کا باعث بنا۔ یہ حسب  ذیل دس افسانوں پر مشتمل ہیں :

۱۔  پروانے

۲۔ کھلاڑی

۳۔ بی بی

۴۔ کنول رانی

۵۔ یونیورسٹی روڈ پر

۶۔ شہزادی

۷۔ مذاق

۸۔ پارو

۹۔ بجھتا ہوا شعلہ

۱۰۔ آخری لمحہ

اس مجموعہ میں شامل سبھی افسانے نہایت خوبصورت ہیں جو مختلف النوع موضوعات پر مبنی ہیں۔  خصوصاً بی بی، یونیورسٹی روڈ پر، بجھتا ہوا شعلہ اور آخری لمحہ کا شمار ان کے بہترین افسانوں میں کیاجاسکتا ہے۔

خود زینت ساجدہ صاحبہ ’’بی بی ‘‘ کو اپنے اس مجموعے کی سب سے بہتر کہانی قرار دیتی ہیں۔  بقول ان کے ’’ساری کہانیاں حقیقی ہیں صرف افسانوی مبالغہ سے کام لیا گیا ہے۔ ‘‘ (میرے افسانے ’’جلترنگ‘‘  ص ۱۶)

’’ یونیورسٹی روڈ پر ‘‘ اس افسانے میں امراء کی بے حسی پر لطیف انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔  امراء کسی کی مدد کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ بہ نسبت اس کے ایک غریب بہت ہمدرد اور درد مند دل رکھتا ہے۔  اس افسانے میں ہیرو اور ہیروئین کی کار بارش کی وجہ سے خراب ہو جاتی ہے۔  سامنے کی کوٹھی کے مکین سے مدد مانگتے ہیں تو وہ صاف انکار کر دیتا ہے۔  اس افسانے میں دکھایا گیا ہے کہ اونچے طبقے کے لوگ بہت خود غرض اور مطلب پرست ہوتے ہیں۔

جلترنگ کی کہانیاں بڑی حد تک سماجی، اصلاحی اور رومانی انداز لئے ہوئے ہیں لیکن کہانیوں کو ابتدائی کوشش کہاجاسکتا ہے۔  خود زینت ساجدہ ان کہانیوں کو تجربے کا نام دیتی ہیں۔  جلترنگ کے بعد بھی ان کی کئی بے شمار کہانیاں شائع ہو چکی ہیں۔  جو تکنیک موضوع اور فکرو شعور کے اعتبار سے ’’جلترنگ ‘‘ کی کہانیوں سے کہیں زیادہ بلند معیار کی حامل ہیں۔

روشنی اوتار، زنجیریں اور اجنبی اس کی روشن مثالیں ہیں۔  ان کہانیوں کے موضوعات خواتین کی زبوں حالی اور عدم مساوات ہے۔  جلترنگ کی کہانیوں میں رومانیت غالب ہے اس کے بعد کی کہانیاں دعوت فکر دیتی ہیں۔

روشنی ایک غم زدہ عورت کی کہانی ہے۔  شوہر کی وفات کے بعد بیٹے کی نہ صرف اچھی طرح پرورش کرتی ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بنا کر بیرون بھیجتی ہے۔  اس کا بیٹا ہی اس کا واحد سہارا رہتا ہے اس کا جینے کا مقصد ہی اس کا بیٹا ہے۔  بیرون ممالک جا کر اس کا بیٹا جب شادی کر لیتا ہے اور اپنی ماں کو شادی کی اطلاع دیتا ہے۔  اس کی ماں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے اور شدت سے تنہائی کا احساس ہونے لگتا ہے۔  جب وہ اپنے باپ کے کہے ہوے الفاظ یا آنے لگتے ہے کہ ’’ماں باپ کو ہمیشہ اولاد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اولاد کو ماں باپ کا خیال نہیں ہوتا‘‘ یہ سوچ کر وہ حوصلہ مند ہو جاتی ہے کہ ابھی اس دنیا میں مجھ سے بھی  زیادہ دکھی لوگ رہتے ہیں اور غم کا مداوا کرتے ہوئے اپنی سہیلی کو خط لکھتی ہے کہ تم اپنے آپ پر افسوس نہ کرو اور تمہاری گھٹیا کی بیماری سے پریشان نہ ہو اور بھائی صاحب کے دمہ سے پریشان نہ ہو۔ تم دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تو ہو اور آج میں بھی خدمت کاراستہ چن لیا اور اب میں اداس ہوں نہ اکیلی ہوں۔

بحیثیت مجموعی زینت ساجدہ کے تمام افسانے تمام، شگفتہ، دلچسپ اور فکر انگیز ہیں۔  ان کا ایک صاف ستھرا مزاج ہے اور سوچنے کا ایک مخصوص ڈھنگ اور بات کہنے کا خاص  سلیقہ ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے صحت مند ذہن و فکر کی ترجمانی کرتے ہیں اور خوب سے خوب تر ذہن کی تعمیر کرتے ہیں۔

اہل  حیدرآباد نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں جشن زینت ساجدہ کا اہتمام کیا اور کیسہ زر پیش کیا۔ ان پر کئی رسالوں نے نمبر بھی نکالے۔

زینت ساجدہ کا حلقۂ احباب بہت وسیع ہے جس میں راج بہادر گوڑ، مخدوم اختر شاہ خاں ، امیر علی خاں وغیرہ وغیرہ ہیں۔

راج بہادر گوڑ سے زینت ساجدہ کے گہرے مراسم ہیں۔  راج بہادر گوڑ انہیں بنیادی طور پر ٹیچر اور مدرس سمجھتے ہیں۔  وہ لکھتے ہیں :

’’ اس کو ( زینت ساجدہ) تدریس سے عشق اور ٹیچری کی عادت پڑی ہوئی ہے۔  کسی شاعر نے اپنے کلام کا مجموعہ دیا،پڑھتی ہے تو ہاتھ میں پنسل ہو گی۔  یہاں مصرعہ وزن سے گرتا ہے یہ لفظ بھرے خارج ہو یہ شعر غزل کی مجموعی فضا سے ہم آہنگ نہیں۔  یہاں یہ لفظ نہ ہو اور اس کے بجائے دوسرا لفظ ہو تو شعرا ور بھی حسیں ہو جائے گا۔ غرض مجموعۂ کلام کا قیمہ بن جائیگا۔   (راج بہادر گوڑ کا مضمون  ماہنامہ پونم حیدرآباد ۔جون ، جولائی  ۱۹۸۳ء ص  ۲۰)

زینت ساجدہ کی تربیت میں ان کے اساتذہ کا بڑا حصہ رہا ہے۔  چنانچہ ان کے نظریات کا زینت ساجدہ صاحبہ پر گہرا اثر پڑا ہے۔  اپنے طلباء کی اچھی اور بہتر تربیت ہو وہ ہمیشہ اسی کوشش میں رہتی ہیں۔

زینت ساجدہ اور ان کے شوہر حسینی شاہد ترقی پسند تحریک سے بے حد متاثر تھے اور ترقی پسند نظریات کے حامل ہونے کی وجہ سے انہیں بہت سی قربانیاں دینی پڑیں۔  تلنگانہ تحریک کا دور آیا۔ کمیونسٹ رہنما  روپوش ہو گئے زینت ساجدہ چونکہ تدریس سے وابستہ تھیں اور ان کا شمار کسان یا مزدور لیڈروں میں نہ ہوتا تھا اس لئے ان کو زیادہ پریشان نہیں کیا گیا لیکن ان کے ترقی کے منازل میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔  حسینی شاید کے ساتھ بھی بہت زیادتی ہوئی ان پر یونیورسٹی کی ملازمت کے سارے راستے بند کر دئے گئے۔  حسینی شاہد مختلف کالجوں میں پارٹ ٹائم کام کرتے رہے پھر اردو آرٹس کالج قائم ہوا تو انھیں وہاں پناہ ملی۔ زینت ساجدہ بھی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود ترقی کے زینے نہ طے کر سکیں بہ مشکل تمام ریڈر کے عہدے تک پہنچ پائیں۔  لیکن ان کو اس کا بھی ملال نہیں رہا کہ مزید دیتے کیوں نہیں ملے اور عہدے کی خاطر کسی کے سامنے نہ جھکنے کا جو ان کا رویہ تھا اس کو اپنی ملازمت کے اختتام تک نبھاتی رہیں۔  وظیفہ پر علیحدگی سے دوسال پہلے انھیں صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی مقرر کیا گیا تو انہوں نے سوچا کہ جس عمارت کے دروازے ان کے شوہر پر بند کر دئے گئے ہوں وہ اس میں کیسے جاسکتی ہیں۔  لہذا چند اہم میٹنگوں کو چھوڑ کر آرٹس کالج کی پتھریلی عمارت میں واقع صدر شعبۂ کے دفتر کو زینت نہیں بخشی۔ صدر شعبہ کا سارا دفتر کام نظام کالج میں بیٹھ کر انجام دیتی رہیں۔ (’’زینت ساجدہ سے ادبی گفتگو ‘‘ (انٹرویو از وقار خلیل)، صفحہ نمبر ۹۲، ماہنامہ پونم جون ،جولائی،۱۹۸۳)

زینت ساجدہ اپنے برتاؤ اور رویے میں بے حد مہذب اور نرم لیکن اپنے نظریوں اور ارادوں میں چٹان کی طرح مضبوط تھیں۔  ان پر ہم جس قدر فخر کریں کم ہے۔  بے شک ان کی ہر صفت لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔

٭٭٭

 

 

 

نجمہ نکہت

 

 

نجمہ نکہت کا شمار حیدرآباد کی مصروف افسانہ نگار خواتین میں ہو تا ہے۔  وہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار تھیں۔

نجمہ نکہت کے آبادو اجداد کا تعلق بادشاہ جہانگیر کے سلسلے سے چلا آ رہا ہے ان کے دادا سید حسین اتر پر دیش لکھنو میں رجسٹرار ہائی کور ٹ تھے۔  ان کے والد سیدسراج الحسن بھی پیشۂ وکالت سے وابستہ تھے۔  ان کی والدہ زیب انساء بیگم خوش اخلاق و دیندار خاتون تھیں۔

نجمہ نکہت ۲۴؍ مئی ۱۹۳۶ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔  بزرگوں نے چاندی بیگم نام رکھا اور ماں باپ نے جیلانی بیگم رکھا۔  جب پندرہ سال کی عمر میں دسویں جماعت میں داخل ہوئیں تو انہوں نے اپنی مرضی سے اپنا نام جیلانی بیگم سے بدل کر نجمہ نکہت رکھا۔  انہیں اپنے ماں باپ کا دیا  ہوا نام جیلانی بیگم پسند نہیں تھا گیارہ سال کی عمر میں ان کی پہلی تصنیف ’’وہ راتیں ‘‘کے نام سے افسانہ ماہنامہ ’’جا دہ ‘‘بھو پال میں شائع ہوئی جس کو کوثر چاند پو ری نکالتے تھے۔  پندرہ سا کی عمر سے تو انہوں نے با قاعدہ لکھنا شروع کیا ان کے افسانے قومی اور بین الاقوامی رسالوں میں چھپنے لگے تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس سے ان کا حوصلہ بلند ہوا۔  لکھنے ذوق اور بڑھتا گیا۔ کئی ایڈیٹر اور مصنفوں کے خطوط نے انہیں لکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس با رے میں ان  کے بھائی ڈاکٹر حامد حسین لکھتے ہیں کہ:

’’یہی جیلانی بیگم جب تیرہ چو دہ سال کی تھی تو ایک دن کسی اخبار کا ترا شا لیئے میرے پاس آئی جس میں ایک چھوٹی سی خوب صورت کہانی چھپی تھی جسے کسی نجمہ نکہت نے لکھا تھا۔  جب  میں نے کہانی نویس کے متعلق پو چھا تو اس نے ہلکے سے کہا ’’جی یہ میں ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ادبی دنیا کے لئے وہ نجمہ نکہت ہو گئی لیکن خاندان کے ہر فرد کے لئے وہ صرف ’’چاند تھی جو حال تک اپنی ٹھنڈی میٹھی چاندنی بکھیرتی ہر چین روح کو سکون پہچانے کی کو شش کر تے کرتے کرتے خود ہی ہمیشہ کے لئے گہنا گئی‘‘۔

نجمہ نکہت کو بچپن سے تعلیم کا شوق تھا۔  ان کی ابتدائی تعلیم مفید الانام کوٹلہ علی جاہ حیدرآباد میں ہوئی۔  عربی اور اردو کی تعلیم گھر پر ہوئی۔ وہ پڑھنے میں ذہین اور سمجھ دار تھیں۔  میٹرک کے امتحان کے وقت نجمہ نکہت سخت بیمار ہو گئیں۔  ان کے بھا ئی ڈاکٹر حامد حسین نے ایک ٹیو ٹر کو گھر پر رکھ کر تعلیم دلوائی۔  نجمہ نکہت کو میٹرک میں اچھے نمبرات سے کامیابی حاصل ہوئی انہوں نے پی یو سی کی تعلیم پرائیوٹ حاصل کی۔  نجمہ نکہت کی ملاقات لکھنو کے بہت بڑے رئیس جاگیردار شیخ احمد حسین قدوائی سے ہوئی اور یہ ملاقات محبت میں تبدیل ہو گئی فروری ۱۹۵۳ء کو شادی ہوئی۔  نجمہ نکہت کی ازدواجی زندگی بہت خوش حال تھی۔  بہ قسمتی سے ان کے شو ہر کا ورنگل سے حیدرآباد آتے ہوئے کار میں قلب پر حملہ کے باعث انتقال ہو گیا۔ اس اچانک حادثہ کا نجمہ نکہت کو کو بہت صدمہ ہوا۔ انہوں نے کوئی آٹھ سال ازدواجی زندگی بسر کی تھی۔ شو ہر کے اچانک داغ مفارقت دیئے جانے سے نجمہ نکہت کا چند برسوں تک دماغی توازن کھو گیا۔ وہ گم صم رہنے لگیں۔ کھانے پینے میں کوئی رغبت نہ لیتی تھیں۔  گھنٹوں دیواروں پر ٹکٹکی لگائے رہتیں کچھ عرصہ تک تو اپنی  بیٹیوں کو تک نہ پہچان پائیں  ان کا باضابطہ علاج کیا گیا اور وہ نارمل ہو گئیں۔  کم عمری کی بیوگی میں گر یجویشن کی تکمیل کی۔

نجمہ نکہت کا اولین افسانوی مجموعہ’’سیب کا درخت ‘‘ہے اور ایک غیر مطبوعہ گیارہ افسانے ہیں۔  مجموعہ ’’سب کا درخت ‘‘پندرہ افسانوں پر مشتمل ہے۔

(۱)کھنڈر(۲)سائے (۳)پتھر اور کونپل (۴)دو ٹکے کی (۵)اس رہگذر پر (۶)آخری حویلی (۷)ایر کنڈیشنڈ (۸)پھر وہی صبح پھر وہی شام(۹)سیب کا درخت (۱۰)شبنم اور انگارے (۱۱)وہ دونوں (۱۲)سکنڈہینڈ(۱۳)دھند لے نقوش (۱۴)ریشمی قمیض(۱۵)دوردیس سے

مجموعی حیثیت سے تمام افسانے متاثر کن، دلچسپ اور نصیحت آمیز ہیں اس میں نفسیاتی مشاہدہ مو جو دہے۔  انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ اپنی شناخت بر قرار رکھی ہے۔  اپنے فن سے خود کو ادب میں رو شناس کر وایا یہی وجہ ہے کہ ادب کی دنیا میں نجمہ نکہت کا ایک مقام ہے انہوں نے اپنے قلم پر اپنی مضبوط گرفت کا ثبوت دیا ہے۔  ان کے بیشتر افسانوں میں جاگیرداری میں استحصال کا شکار ہونے والے کرداروں کے حالات، نفسیاتی پیچیدگیاں معاشی پستی، اخلاقی گراوٹ اور زندگی کا کرب ملتا ہے۔  اس نظام کے اختتامی کرب کو نہایت عبرت انگیز طریقہ سے پیش کیا گیا ہے۔  جاگیرداری نظام کے خاتمہ کے بعد نئی نسل کی جدو جہد، طوفان سے ابھر نے کی کیفیت پرانی ذہنیت کے خطرناک پہلو، نیک اور اچھے مقاصد کے پیچھے کام کر نے والی جاگیردارانہ پا لسی کو بلا جھجک افسانہ ’’کھنڈر ‘‘میں یہ بتا یا گیا کہ حشمت جہاں کی زندگی ایک شاہانہ انداز سے گزر رہی تھی لیکن بعد میں وہ ایک بو سیدہ دیوڑھی کی گری ہوئی دیواروں کی طرح ایک کھنڈر میں تبدیل ہو گئی۔

افسانے کا پلا ٹ حیدرآباد کے زوال پذیر جاگیردارانہ نظام اور ایک وسیع محل کے نمائندہ خاندان اور اس کے درمیان کی آویزش اور کشمکش کا ترجمان ہے۔  اس خاندان کے افراد ان دونوں اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔  حشمت جہاں اس خاندان کی سر براہ ہے مٹتی ہوئی جا گیر دارانہ تہذیبی اقدار کی وارث اور امین ہے۔  وہ ماضی کی یاد سے اپنی ویران زندگی میں رنگ بھرنے کی کو شش کر تی ہے۔  ان کا باہر کی دنیا سے کٹ کر اپنے گھر کی چہار دیواری میں سمٹنا، اس مٹتی بکھیرتی تہذیب اور تہذیب کی نمائندہ نسل کے المناک انجام کا یہ اشارہ ہے۔  حشمت جہاں کا کردار نامساعد حالات سے سمجھو تہ اور ناگوار حقائق سے عبارت ہے۔  وہ اس محل نما کھنڈر میں ایک کٹھ پتلی کی مانند ہے جو اپنے درمیان ایک توازن قائم رکھتی ہے۔  ان حالات میں سمجھو تہ اور شکست میں ہی وہ اپنی فتح سمجھتی ہے۔  حالانکہ یہاں سب کچھ اپنا ہو تے ہوئے بھی پرا یا ہے۔ سہاگ، بچے، گھربار، نوکر چاکر کوئی بھی ایسا نہیں جسیوہ اپنا صرف اپنا کہہ سکے جب تک زندہ رہو، کھاؤ پیو، قیمتی لباس پہنو اور اپنے سجائے ہوئے کمرے میں پڑے رہو یہ کیسی زندگی ہے ؟آخر اس کا مقصد کیا ہے ؟وہ کس کو اپنا کہہ سکے وہ بھی اپنے حقوق اور اپنی حیثیت کے متعلق سو چنے کی اہمیت نہیں کر تی لیکن اب مجبورو لا چار ہے۔ بیمار ہے اسے اپنی ضروریات کی اشیاء ’کا ہو ش نہیں۔ اس کا حافظہ نہایت کم زور ہے اس کی حا لت کا نقشہ نجمہ نکہت نے یوں کھینچا ہے :

’’اپنے سیاہ گھنی ابروؤں کے اشارے پر دیوڑھی کے ذرے ذرے کو جلا نے والی حشمت جہاں اب تب دق میں مبتلا ہیں اپنے نواڑی پلنگ پر بے حسو حرکت پڑی ہیں جیسے ان کا جسم زند گی کی ساری بے چین جذبات و گمبھیر احسا سات سے خالی ہو چکا ہو۔  پان دان کے خرچ کے لئے پانچ سو کی رقم لے کے بڑبڑانے والی کا پاندان اب عجیب انداز میں بکھرا پڑا تھا۔  چو نے کی کٹوریاں نہ جا نے نواب پا شاہ کے بچوں نے کھیل کھال کے کہاں پھینک دی تھیں۔  چھا لیا ں کے خانوں کے ڈھکن ادھر ادھر کہیں دالان میں دکھا ئی دیتے ان کی خوب صورت آنکھوں میں عجیب سا ڈر اور وحشت نظر آتی۔ اب تو بال بھی پکنے شروع ہو گئے تھے۔  بڑی بیگم پن کٹی میں زور زور سے پان کو ٹین وہ دھیرے سے کراہتیں۔

’’اماں حضت۔  یوں پان نہ کوٹیے میرے دل پر ہتھوڑے لگتے ہیں۔  اللہ قسم۔  اب آپ لو گوں کو ہمارے دکھ درد کا احساس نہیں رہ گیا ہے۔ حشمت جہاں دو بچوں کی ماں تھی مگر وہ اپنی ممتا کو تر ستی رہی۔ کبھی دو بوند دو دھ اپنے بچوں کو نہ پلا یا۔ اونچے خاندانوں کی اناؤں نے دودھ پلایا۔

بچوں کو کھلا نے، سلانے، پڑھانے کی ذمہ داری بوا کی ہی تھی۔ کہنے کو تو حشمت جہاں ان بچوں کی ماں تھی مگر وہ انہیں کبھی اپنے کلیجے سے نہیں لگا یا تھا۔ بڑے سر کار کا انتقال ہو ا تو بے حساب بیوائیں کفنیا پہنے ادھر ادھر گھومتیں۔  بڑی دیوڑھی وسیع قبر ستان میں تبدیل ہو گئی بے چین روحیں آدھی رات کو بھٹکتی تھیں۔ لو گ کہتے کہ یہ شا ید ماں باپ پر ظلم ڈھا کر زبر دستی ان کنواریوں کو محل میں داخل کر لینے کی سزا ہے۔  ان کی بیویوں کے دل سے نکلی ہوئی آہوں کا کر شمہ ہے۔  ماں سے ممتا چھین لینے و بے آسرا کے دینے کے عوض دیا گیا عذاب ہے۔

اب دیوڑھی کی کمر پو سیدہ مکان کی طرح ہو گئی تھی۔  اب یہاں صرف معمولی زندگی رہ گئی تھی۔  سب کو بد مزاج اور چڑ چڑ ا بنا دیا تھا۔ اب یہاں بیماریوں، لڑائیوں اور آپس کی دشمنی کا راج تھا۔ سب کچھ لٹ گیا تھا۔ ۔‘‘

اس افسانے کا بیشتر حصہ زوال پذیر جاگیردارانہ نظام پر مشتمل ہے۔  پلاٹ بے حد مربوط ہے جس میں واقعات کی ترتیب ان کا ارتقاء و انجام ہے۔

نجمہ نکہت کے بعض افسانوں کے مختلف زبانوں میں تر جمے ہو چکے ہیں اور مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں :ایوان، صبا، چراغ شاہراہ دہلی، آندھرا پردیش حیدرآباد، ادب لطیف لاہور، سریتافلمی ستارے دہلی، دو شیزہ کراچی وغیرہ

مجموعہ’’سیب کا درخت کو اردو اکیڈمی آندھرا پردیش سے ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

نجمہ نکہت کو ۱۹؍اگست کو قلب پر حملہ ہوا۔ انہیں دوا خانہ  میڈی سٹی حیدرآباد میں شریک کیا گیا آخری وقت میں ان میں کچھ کر دکھانے کا عزم حوصلہ تھا۔  علا لت کے وقت جب وہ دوا خانہ میں شریک ہوئیں تو ضروریات کی چیزیں کم اور کتا بیں زیادہ رکھوائیں۔  ان کی بیٹیاں ثریا طلعت قدوائی اور ہما رفعت قدوائی کا کہنا ہے کہ ممی کو کتابوں سے جنونی حد تک محبت تھی۔ کپڑوں کے دو جوڑے رکھوائے اور کتا بیں زیادہ لے کر چلنے کو کہا اور اپنی بیٹیوں سے کہا کہ ’’میں رہوں یا نہ رہوں ‘‘دو سرا افسانوی مجموعہ شائع کروا دینا۔  ان میں شاید اور کچھ لکھ کر اضافہ کر کے شائع کروانے کی تمنا باقی تھی مگر وقت کے ہاتھوں انسان مجبور، لا چارو بے بس ہو جا تا ہے دس دن تک زندگی اور موت سے اکیلی جنگ لڑتی رہیں ۲۹؍اگست ۱۹۹۷؁ء جمعہ کے دن اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں (انّا لِللّٰہِ وانّا الیہِ راجِعون)

نجم النساء بیگم نے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی سے موضوع ’’نجمہ نکہت حیات اور کارنامے ‘‘پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ۲۰۰۰ ؁ء میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔

٭٭٭

 

 

فاطمہ تاج

 

 

فاطمہ تاج حیدرآباد دکن کی ادب خیزسرزمین سے تعلق رکھتی ہیں نظم اور نثر پر انہیں کامل عبور حاصل ہے۔ یہ اُردو ادب کی حرکیاتی اور فعال شخصیت مانی جاتی ہیں۔

ان کے آباء و اجداد مدینہ منورہ سے ہندوستان آ  کر آباد ہوئے ان کے والدسیدحسن جمال البل قصیدہ گو شاعر تھے اور والدہ زبیدہ خاتون خطابی پٹھان ذی علم شخصیت تھیں۔

فاطمہ تاج۲۹ ؍اکٹوبر ۱۹۴۸ء ؁ کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یکم نومبر۱۹۶۲ ء ؁ میں حبیب احمد بالفقیہ سے رشتہ ازدواج میں مسنلک ہو گئیں۔ ان کے خسربھی حبیب حسن بالفقیہ بھی کافی ادبی ذوق رکھتے تھے۔  فاطمہ تاج کے چھ لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں۔

فاطمہ تاج کو طفل عمری سے ہی لکھنے کا شوق تھا ۱۹۹۲ء ؁ میں پہلا شاعری کا مجموعہ ’’ اب کے برس ‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی اور پھر بہت ہی کم عرصہ میں گیارہ تصانیف شائع ہوئیں اور مقبولیت حاصل ہوئی دیگر کئی مجموعے زیر طبع ہیں دو ناول ’’جب شام ہو گئی ‘‘ اور ’’نقش آب ‘‘ بھی زیر طبع ہیں۔

فاطمہ تاج کی تصانیف جو منظر عام پر آ چکی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱) اب کے برس (شاعری )

(۲)آس پاس (افسانوں کا مجموعہ )

(۳)امانت (مضامین کا مجموعہ )

(۴)دلاسہ  (مزاحیہ مضامین کا مجموعہ )

(۵)’’وہ ‘‘ (ناولٹ)

(۶)خوشبوئے غزل  (شاعری )

(۷) حوصلہ

(۸)پھول غزل کے

(۹)یک چراغ اور

(۱۰)من مانی  (مزاحیہ مضامین کا مجموعہ )

(۱۱)’’انمول نگینے ‘‘سلطان جسٹں شرف الدین احمد کی شاعری مرتبہ فاطمہ تاج

علاوہ ازیں وہ مختلف تنظیموں سے بھی وابسطہ ہیں۔ آل انڈیا ومین اسوسی الشین کی جنرل سکریٹری ہیں۔ ۱۹۹۷ء؁ میں بنائی کئی فلورا ومین سوسائٹی کی فاونڈروپرلسیبڈنٹ ہیں۔ محفل خواتین،حیدرآباد کی معتمد نشر و اشاعت رہی ہیں۔ انجمن خواتین ،بزم خواتین ، تنظیم نسواں تعمیر ملت ، مسلم ایجوکیشن کی ممبر ہیں۔ ہندی کا دمی کلب کی ممبر ہیں۔ اوراسمیتا کی ممبر بھی ہیں۔

فاطمہ تاج کی ادبی خدمات کوتسلیم کرتے ہوئے آل انڈیا میر اکیڈیمی نے انہیں ’’امیتاز میر‘‘ ایوارڈ سے نوازا۔ ان کی مجموعی خدمات پر اندرا گاندھی انٹرنیشنل دہلی ،اُردو اکیڈیمی آندھرا پردیش، ساہتہ ادب دہلی ایواڈس سے نوازا۔ افسانوی مجموعہ ’’چھاؤں کی چادر دھوپ کی کلیاں ‘‘ پر اُردو  اکیڈیمی آندھراپردیش نے ایوارڈسے نوازا۔ اور ۱۹۹۳ء ؁ میں افسانوی مجموعہ ’’آس پاس ‘‘ پر اترپردیش اُردو اکیڈیمی نے ایوارڈ سے نوازا۔

مجموعہ ’’آس پاس ‘‘ میں تیس افسانے شامل ہیں جو حسب ذیل ہیں :

(۱) شمع جلتی رہی (۲) قصہ سائے کا (۳) سفیدگھوڑا (۴) ندیم (۵) انتقام (۶) چنگاری (۷)قید اور رہائی (۸)سرگوشیاں (۹)اندھیرے (۱۰)کالی شال (۱۱)عہد وفا کے بعد (۱۲) زخم دل (۱۳) بات اتنی سی تھی (۱۴)شناخت (۱۵)چشم نم (۱۶)بھنور(۱۷)سیلاب آرزو (۱۸)چمپاکلی (۱۹)گڑیا (۲۰) نقش سنگ (۲۱) دھوپ (۲۲) سوال (۲۳) نغمہ (۲۴) کہانی (۲۵) شعلوں کے درمیان (۲۶)لمحوں کا سفر(۲۷)نظارہ بہار(۲۸)اور پھر(۲۹)چراغ (۳۰)تابانیاں

فاطمہ تاج کا روانی سے چلنے والد قلم مختلف النوع موضوعات احاطہ کرتے ہوئے زندگی کے ان گنت مسائل پر دعوت فکر دیتا ہے

افسانہ ’’شمع جلتی رہی ‘‘ میں محلوں کی شاہانہ زندگی اور وقت کے ہاتھوں مٹی ہوئی سلطنت کی زوال پذیرداستان الم بیان کی ئی ہے

اس افسانے میں ورشا کو جرات منہ لڑکی میں دکھایا گیا ہے۔ محبت کے آگے رشتے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ محبت ہی ان کا مقصد ہے اس افسانے میں پیش کیا گیا ہے۔

افسانہ ’’چشم نم ‘‘ میں تقسیم ہند کے وقت بیوہ اصغری بیگم کی بیٹی شاہ نور(نوشین ) گم ہو جاتی ہے بہت تلاش کرنے کے باوجود ان کی بیٹی نہیں ملتی اصغری بیگم کی بہنیں انہیں پاکستان بلوا لیتی ہیں۔ نونشین ایک لا ولد جوڑے کو میلے میں ملتی ہے انہوں نے اس بچی کو اللہ  کا کرم سمجھ کر اپنی بچی جیسی پرورش کیا زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور اچھے رئیس گھرانے میں شادی کر دی۔ ایک دن نوشین اپنی سہیلی کے پاس جاتی ہے وہاں پر اپنی ماں کو دیکھ کر زار و قطار روتی ہے اپنے گھر لاتی ہے۔ ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے اور پسیوں کی فکر نہ کرتے ہوئے بینائی واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرتے کو کہتی ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے بینائی توواپس نہیں لوٹائی جاسکتی لیکن پیوند کاری کر سکتے ہیں۔ نوشین کہتی کہ میری آنکھیں میری ماں کو دیجئے اور آپریشن کامیاب ہوتا ہے اصغری بیگم اپنی بیٹی کو دیکھ سکتی ہیں نوشین کہتی ہے ماں تم مجھے دیکھ رہی ہو۔ بس ماں مجھے اور کیا چاہیے تم مجھے دیکھ سکتی ہو،ماں نے کہا بیٹی تو نے یہ کیا کیا تو نے مجھے اپنی آنکھیں دے دیں نوشین کہتی یہ تمہاری ہی عطا کردہ تھی۔ روتے روتے نوشین کے آنکھوں کے غاروں سے خون بہنے لگتا ہے غم اور خوشی کے ملے بھلے جذبات سے نوشین کی دماغ کی شریانیں پھٹ جاتی ہیں ۔

فاطمہ تاج کے ہرافسانے کا اسلوب اور انداز فکر جدا ہے۔ ان کی تحریروں میں خاص نظم و ضبط ہے۔ ان کی حساس طبیعت نظم ہو کہ نثر ماحول کی اثر انگیز ترجمانی ،انسانی د رد و الم کی دل میں کسک اور قلبی احساسات ان کی تحریر میں چار چاند لگا دیتا ہے۔

فاطمہ تاج کادوسرا افسانوی مجموعہ ’’چھاؤں کی چادر دھوپ کی کلیاں ‘‘ ہیں۔  جو جنوری ۲۰۰۲ء ؁ میں شائع ہو کر منظر عام پرآیا۔  اس کا پیش لفظ ڈاکٹر صفیہ نصیرالدین انکولوی نے لکھا ہے۔ اس مجموعے میں مندرجہ ذیل سترہ افسانے شامل ہیں :

(۱)آزادی (۲) انتساب (۳) ملبہ (۴) دو ورق (۵) دل کا اعتبار نہیں (۴) شین (۷) جیون دھارا (۷)سفینہ اور ساحل (۹)انتظار(۱۰) ورق ورق زندگی (۱۱)تیسراموڑ(۱۲) آدھا چاند(۱۳)آس کا دیا (۱۴)جیون سے بھری تیری آنکھیں (۱۵)تپش (۱۴)دھواں ہی دھواں (۱۷)دو بدن۔

فاطمہ تاج نے اپنے افسانوں میں زندگی کے ارضی پہلوؤں کی عکاسی توکی ہے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے قاری کو اپنے افسانوں سے اس بات کا اعتماد بھی دلایا ہے کہ ادب کا کام سماج کی نمائندگی بھی ہے۔

افسانے ’’آزادی ’’انتساب ‘‘ ’’شین ‘‘ ’’ورق ورق زندگی ’’دھواں ہی دھواں ‘‘ وغیرہ میں تخیل کی بلندی اپنے عروج ہے۔

افسانہ ’’ آزادی ‘‘ میں فرنگی دنگافسادمچائے ہوئے تھے۔  چورہ سالہ شکیلہ کا گھر لٹ چکا تھا اس کے بابا کو ختم کر دیا گیا۔ کا کی کو شکیلہ کھیت میں منتشر حالت میں پڑی ہوئی ملی۔ کاکی نے شکیلہ کو گھر لے آئی۔ شکیلہ کا اب اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔  وہ اب تنہا تھی۔ کاکی اپنے گھرکے کرایہ دار رکشا راں رشیدسے شکیلہ کا نکاح محلہ کے مولوی صاحب کو بلوا کر کر دیا۔ رکشے کے پہسیے  کی طرح رشید کی زندگی کا پہیہ بھی گھوم رہا تھا۔  شکیلہ نے ایک بچے کو جنم دیا۔  گورا،گول مٹول ،سنہرے بال انگریز کی طرح۔ پھر کچھ روز بعد پورے ملک میں انقلاب آ چکا تھا۔  فساداوربڑھ چکا تھا۔ ایک دن رشید نے کاکی سے کہا ’’کا کی میں آزادی لینے جا  رہا ہوں ،کا کی نے ٹھہر جا مت جا۔ آزادی کیا بازار میں ملتی۔ شکیلہ درد زہ سے تڑپ رہی تھی۔ ببلو نے کاکی سے کہا ماں کو کیا ہوا کیوں چیخ رہی ہیں کاکی نے کہا،جا باہر جا  کر صحن میں کھیل۔ ببلو نے کہا نہیں ڈر لگتا فرنگی اٹھا کرے جائیں گے۔ کاکی نے دل میں کہا فرنگی کا بیٹا ہو کر فرنگی سے ڈرتا ہے۔

شکیلہ نے بچی کو جنم دیا اور شکیلہ کی روح پرواز ہو گئی۔ کاکی نے روتے ہوئے بچی کو گود میں لے لیا۔ کاکی کے گود میں بچی کو دیکھ ببلو نے پوچھا۔ یہ کیا ہے۔ کاکی نے کہا ’یہ آزادی ہے ‘‘

فاطمہ تاج کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ اسلوب بیاں رواں ،شائسہ اور شگفتہ ہے۔ ماحول اور واقعات کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہوئے اپنی تخلیقات کو پیش کرتی ہیں۔

فاطمہ تاج کا کہنا ہے کہ ان کے قدامت پرست گھرانے نے اعلی تعلیم یافتہ ہونے اور یونیورسٹی کی ڈگریوں کی مہریں لگا نے سے روکے رکھا یہ اعزاز کیا کچھ کم ہے کم عرصہ میں گیا رہ تصانیف کی وہ مالکہ بن گئیں اور کئی تخلیقات بہت جلد منظر عام پر آنے کی توقع ہے۔

فاطمہ تاج کے افسانے ،مضامین ،خاکے ،انشائیے ، غزلیں ، نظمیں اور متفرق تحریریں اخباروں اور رسالوں میں شائع ہو رہی ہیں ان کی تخلیقات آل انڈیا ریڈیو،ٹی وی پر نشر ہوئی۔ ان کے کئی انٹرویو اردو ،ہندی اور انگریزی اخبارات ورسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔

تسیم سلطانہ نے حیدرآبادسنٹرل یونیورسٹی گچی باولی سے ۲۰۰۳ء ؁ میں فاطمہ تاج کی ادبی خدمات پر مقالہ قلمبند کیا۔

فاطمہ تاج اپنی پرکشش تحریرسے اپنے احساسات جذبات تجربات و مشاہدات سب کچھ صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتی ہیں فاطمہ تاج خلوص کی پیکر ہیں۔ ان کی طبیعت میں سادگی اپنا پن اور دلی تعلق ملتا ہے۔ فخر بالکل نہیں جبکہ فاطمہ تاج کی شخصیت ادبی دنیا کے لئے باعث فخر ہے اور ان کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

نوٹ : مضامین کے تعلق سے مضامین کے باب میں ملاحظہ فرمائیے اور ناولٹ کے تعلق سے ناول کے باب میں ملاحظہ فرمایئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہادیہ شبنم

 

 

ہادیہ شبنم خاص حیدرآباد کی متوطن ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے ہسٹری میں کیا اور انوار العلوم  ایوننگ کالج میں ہسٹری کی لکچرر ہو گئیں ترقی کرتے ہوئے صدر شعبۂ کے فرائض انجام دیئے۔ اُردو ادب میں خاص دلچسپی ہونے کی وجہ سے افسانہ لکھتی رہیں اور ایک افسانوی مجموعہ ترتیب دیا۔ یہ افسانے مختلف رسائل میں بھی شائع ہوئے۔ مجموعہ ’’  رنگ رنگ اجنبی ‘‘ ۱۹۸۳ء ؁ میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ میں مندرجہ ذیل سات افسانے شامل ہیں :

ہادیہ شبنم کے تمام افسانوں میں فکر و نظر کی گہرائی کے ساتھ ساتھ آگہی اور بصیرت جھلکتی ہے۔ انداز بیان نہایت دل آویز ہے جو قاری کے دل کو موہ لیتا ہے اور موضوع پرسوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔

افسانہ ’’رنگ رنگ اجنبی ‘‘ میں محبت پر دولت کو اہمیت حاصل ہے۔ دولت کے آگے محبت کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ افسانے میں شاعر صاحب لڑکی سے محبت کرتے ہیں اُسے ٹھکرا کر اپنی چچا کی دولت مند لڑکی سے شادی رجا لیتے ہیں۔

رنگ رنگ اجنبی میں محبت کی شکست ہوئی تو افسانہ ’’احساس کے دریچے ‘‘ میں محبت کو پروان چڑھایا گیا۔

’’ احساس کے دریچے ‘‘میں افسانہ نویس نے ’’جیون کی کہانیاں ‘‘میں ہاسٹل میں رہنے والی تین لڑکیاں (شبنم ،شان اور شاہینہ )جو بہت شوق اور دلچسپی سے پڑھتی ہیں۔ قلمی دوستی کرتے ہوئے اپنے شہر بلاتی ہیں اور وہ شہر آتا ہے۔ روز روز کی ملاقاتوں سے جیون کو شان سے محبت ہو جاتی ہے لیکن مذہب کی دیوار آڑے آتی ہے۔ تب شبنم شان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتی ہے :

محبت کا ہی ایک جذبہ توایسا ہے جو مکمل ہے

جس کا کوئی نام نہیں ہے۔ جس کی کہیں حدیں نہیں ہیں

یہ کائنات کی وسعتوں میں پھیلا ہوا۔ اور

یہی جذبہ ہمیں خدا تک پہنچاتا ہے۔ ‘‘

ہادیہ شبنم کا انداز تحریر شگفتہ اور رواں ہے۔ زبان شستہ اور خیالات پاکیزہ ہیں۔ انھیں لطیف جذبات واحساسات کی ترجمانی کا خاص ملکہ حاصل ہے۔

٭٭٭

 

 

 

محمودہ یاسمین

 

 

محمودہ یاسمین حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ ہندوستان و پاکستان میں اپنے فن کی وساعت سے نام پیدا کیا ان میں محمودہ یاسمین کا نام نمایاں اہمیت کا حاصل ہیں۔

محمودہ یاسمین نے بچپن سے لکھنا شروع کیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعدسے اس شوق میں اضافہ ہوا۔ جامعہ عثمانیہ سے بی۔ اے اور ایم۔ اے فلسفے سے ڈگری حاصل کی۔( میں اور میری افسانہ نگاری ’’ایوان حیدرآباد نمبر۱۹۵۱ء ؁ ص ۱۵۸)

محمودہ یاسمین کے افسانے مقصدی ہوتے ہیں جوان کے تجربات اور مشاہدات کے عکاس ہیں۔  ہمارے اردگرد کی زندگی کے نشیب و فرازسماجی ،معاشی ، معاشرتی اور تاریخی حقائق کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔  مصنفہ اس فکر میں رہتی ہیں کہ تمہید عمدہ ہو،الجھاؤ سے پاک ہو اور قاری اور تخلیق کار کا رشتہ برابر قائم رہے اور یہ رشتہ افسانے کی ابتداسے اختتام تک قاری کو اپنی گرفت میں لئے دکھتا ہے۔

محمودہ یاسمین کے متعدرافسانے ’’جب من کی آنکھیں کھلیں ‘‘ زندگی کی چھاؤں میں ،انوکھی محبت ،دوسری شادی،  بغاوت ،غریب کا دل ، انتقام ،کون کسی کا ،سوزناتمام اور وہ بیوی تھی وغیرہ جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئے جیسے ایوان ،شباب ،سب رس ، مجلہ عثمانیہ اور شہناز کراچی وغیرہ میں جو کافی مقبول ہوئے ہیں۔

افسانہ ’’ جب من کی آنکھیں کھلیں ‘‘ میں محمودہ یاسمین نے ازدواجی رشتے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ کرنل عتیق شباب اور شراب کے دلدادہ تھے۔  اپنی عیاشیوں میں کرنل عتیق یہ بھی بھول گئے کہ ان کی ایک بھولی بھالی بیوی بھی ہے۔ جب کرنل عتیق بیمار ہوئے ان کی بیوی ریحانہ نے ہی ساتھ دیا۔ رات دن تیمار داری میں اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ اچھے وقت میں کرنل عتیق کے ساتھ جو عورتیں ساتھ تھی وہ سب کنارہ کش ہو گئی۔ یہ سچ ہے کہ بیوی کے پاس ایثار و قربانی  کا جذبہ ہوتا ہے۔ اور بیوی کا مقام کوئی دوسری عورت نہیں لے سکتی۔

افسانہ ’’وہ  بیوی تھی ‘‘کی کہانی بھی کچھ اُسی نوعیت کی ہے کہ مرد مطلبی اور بے وفا ہوتے ہیں۔ عورت کا جائز مقام اُس کی نظر میں کچھ بھی نہیں۔

’’وہ بیوی تھی ‘‘کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے :

’’مرد شادی سے پہلے اسی عورت کو اپنے  تصور کی آنکھ سے آسمانی حور،الف لیلیٰ کی پری سمجھتا ہے لیکن شادی کے بعد وہی عورت اس کی نگاہ میں اتنی ذلیل ہو جاتی ہے کہ وہ صرف گھرکی ایک ملازمہ اور بچے پیدا کرنے کی ایک مشین بن جاتی ہے۔ ‘‘

محمودہ یاسمین کے تمام افسانوں میں مقصدی اور اصلاحی پہلو بہت نمایاں ہے۔ انہوں نے عورت کی مظلومیت کو اجاگر کیا۔ عورت کی نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ عورت ماں۔ بیوی ،بیٹی ،بہو ہر حیثیت سے اپنے آپ کو قربان کرتی چلی آئی ہے۔ ہر حال میں عورت استحصال کا شکار رہی ہے۔

محمودہ یاسمین اپنی افسانہ نگاری کے تعلق سے لکھتی ہیں ’’ابتداء ہی سے زندگی میں تلخیاں گھلی رہیں۔ زندگی میں دکھ زیادہ اٹھائے۔ وہی سوز میرے افسانوں میں موجود ہے۔ زندگی کو ہمیشہ قریب سے دیکھنے کی عادی ہوں۔ اور یہ عادت اب طبع ثانی بن چکی ہے۔ مجھے افسانہ نگاری سے زیادہ حقیقت نگاری کا شوق رہا۔ سماجی مسائل سے مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ بے کسوں اور مظلوموں کی حمایت میری تحریروں کا بنیادی مقصد رہا ہے۔ (میں اور میری افسانہ نگاری ’’ایوان حیدرآباد نمبر۱۹۵۱ء ؁ ص ۱۵۸)

٭٭٭

 

 

سلطانہ شرف الدین

 

سلطانہ شرف الدین حیدرآباد کے ایک معزز علم دوست خاندان میں پیدا ہوئیں۔  ابتدائی تعلیم نامپلی گرلز اسکول سے حاصل کرنے کے بعد بی۔  اے، بی ایڈ اس کے بعد  ایم۔ اے۔  ایم۔ ایڈ کیا۔ جسٹس شرف الدین صاحب سے شادی ہو گئی۔ ملازمت کا  آغاز درس وتدریس سے کیا۔  چادر گھاٹ بوائز کالج کی صدر معلّمہ تھیں۔  انسپکٹر آف اسکول کے فرائض بھی انجام دیئے تھے۔  سلطانہ شرف الدین شاعرہ بھی اور ادیبہ بھی تھیں۔  ان کے افسانے مختلف رسائل اور آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوئے۔  انہوں نے اپنے افسانوں کی طرف توجہ دیتی تو مجموعہ کی شکل اختیار کر لیتیں۔، زندگی میں کافی مصروفیات کے بناء پر اپنے تخلیقات کو مجموعہ کی شک نہ دے سکی۔  سلطانہ شرف الدین کے افسانے ایک مقصد لئے ہوتے۔  انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے سماجی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہیں۔

جیسے مغربی  اندھی تقلید کو اپنانا۔  جھوٹی شان و شوکت، کلب اور اونچی سوسائٹی  کی برائیاں، شوہر اور بیوی کے جھگڑے وغیرہ۔  ان کے افسانوں  میں ایک درس ایک پیام ہوتا۔ سلطانہ شرف الدین ایک خوش گفتار، ملنسار، خاتون تھیں۔  سلطانہ شرف الدین کے تعلق محترمہ فاطمہ تاج لکھتی ہے کہ، آپا کا خلوص میرے حق میں تو واقعی نعمت عظمی ہے۔  محترمہ فاطمہ تاج کہتی ہیں کہ میں نے آپا سے بارہا کہا کہ اپنی تخلیقات کو کتابی شکل دے کر منظر عام پر لے آئیے۔  آپا کہتی رہی چھوڑو یار تم یہ بکواس کو شاعر کہتی ہو اگر ایسا ہی ہے تم میرے مرنے کے بعد کتابی شکل دے دینا   فاطمہ تاج  چاہتی تھی کہ سلطانہ شرف الدین کی زندگی میں ہی ان کا کلام شائع کر کے ان کو چونکا دے لیکن ایسا ن نہی  ہو سکا۔  ان کا کلام، انمول نگینے، بعد از مرگ منظر عام پر آیا۔  لیکن افسانوں کا مجموعہ ابھی زیر طبع ہے۔  سلطانہ شرف الدین کو اردو ادب سے بے حد لگاؤ تھا، کافی مصروفیات کے باوجود فطری تقاضے انہیں لکھنے پر مجبور کر دیتے تھے۔  انہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن کتابی شکل دے کر منظر عام پر نہیں لایا۔

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر بانو طاہرہ سعید

 

ڈاکٹر بانو طاہرہ سعید ملکو بیرون ملک کی شہرت یافتہ اردو، فارسی، انگریزی کی ممتاز شاعرہ ادیبہ تھیں۔  اس کے علاوہ ایک نقاد اور افسانہ نگار بھی تھیں۔  ان کی پیدائش ۱۹۲۰؁ء  میں شمالی ہند میں ہوئی۔  تعلیم لکھنو میں پائی۔  انہوں نے از بلا تھو برن کالج لکھنو سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اپنے والد کی پنشن کے بعد ان کے ساتھ طہران چلی گئیں۔

بانو طاہرہ کے والد سعید امیر علی معصومی ایران کے مشہور رئیس تھے دولت مند ہونے  کے ساتھ ان کے خاندان میں علم و ادب کا ذوق تھا۔  اسی شوق میں سید امیر علی کمسنی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے یورپ گئے۔  تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایران واپس جانے کے بجائے ہندوستان آ گئے۔  یہاں ان کے کئی رشتے دار پہلے سے سکونت پذیر تھے۔  امیر علی صاحب قانون انگریزی اور فلسفہ کے ماہر تھے۔  پہلے وہ بنگال میں  قانون کے پرفیسر رہے پھر لکھنو یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر بن گئے۔  اپنے ہی خاندان کی لڑکی سے انہوں نے ہندوستان کے دوران قیام شادی کی۔  ایک بیٹا اور ایک بیٹی بانو طاہرہ سعید بھی یہاں تولد ہوئے۔  پھر  ۱۹۳۶؁ء  میں وہ وظیفہ پر سبکدوش ہونے کے بعد واپس طہران چلے گئے۔ بانو طاہرہ سعید کو ایران سے جتنی محبت تھی اتنی ہی ہندوستان سے بھی تھی۔  ایران میں رہتیں تو ہندوستان کی یاد میں بے چین رہتیں۔  اور ہندوستان آتیں تو ایران کی فضائیں ان کے خیالوں میں انگڑائیاں لیتی تھیں۔  کرنل سعید سے ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد وہ حیدرآباد آ گئیں۔  بانو طاہرہ سعید کو علمی لگن بچپن سے تھی۔  زمانہ طالب علمی میں شاہ ایران نے ادبی انعام سے نوازا۔  ایران میں صحافت کے کورس کی تکمیل کی اور ریڈیو تہران کے شعبہ اردو کی نگران و منتظم بھی رہیں اور بی بی سی کی ٹریننگ بھی حاصل کی۔ بانو طاہرہ سعید کئی ادبی و تہذیبی انجمنوں سے وابستہ تھیں۔  ان کا کلام اخبار، سیا ست، کے علاوہ ملک و بیرون ملک کے ادبی رسائل میں اکثر و بیشتر شائع ہو تا رہتا تھا۔ حیدرآباد دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے بھی ان کا کلام سنا جا سکتا تھا وہ ادارہ ادبیات اردو، انجمن ترقی  اردو مجلس کے شعری محفلوں میں پابندی سے شرکت کرتی تھیں۔  محفل خواتین کی نائب صدر تھیں۔  ان کے شعری مجموعے اور نثری کتابیں فارسی اور انگریزی میں شائع ہو کر مقبول عام ہو چکی ہیں۔  ان کی کتابوں پر آندھرا پردیش مغربی بنگال، بہار، اور اتر پردیش اردو اکیڈمی سے ایوارڈس دئے گئے۔  ساہینہ اکیڈیمی ، منسٹری آف کلچرل افیرز،قومی یکجہتی، کلاسرسوتی اور مخدوم امن ایوارڈ، امتیاز میر ایوارڈ لکھنو، حاصل کر چکی ہیں۔

نظم ہو کہ نثر ماحول کی اثر انگیز ترجمانی، اور انسانی درد و الم کی کیفیت کا بیان پیدا کر دیتا ہے  دل میں کسک لکھنو میں پروان چڑھی زبان کا اثر ان کی تحریر میں چار چاند لگا دیتا ہے۔  ہر صنف میں ان کی تخلیقات موجود ہیں۔  کئی مختصر اور طویل افسانے اردو سے فارسی اور تلگو زبان میں ترجمہ ہو کر چھپتے ہیں۔  ان کی ایک انگریزی نظم دنیا  کی پچاس انگریزی نظموں کے مجموعہ میں شامل ہے۔  انگریزی ادب کی مجموعی خدمات کے اعتراف میں انہیں امریکہ کی عالمی یونیورسٹی اریزونا سے ڈی لٹ کا اعزاز دیا گیا ہے۔  بعض انگریزی نظمیں کامن ویلتھ پوسٹ گریجویٹ کورس میں شامل بھی کی گئی ہیں۔ جب وہ طہران میں  تھیں تو اردو میں اپنے مقالے وہاں کے ریڈیو اسٹیشن سے سناتی تھیں۔  خبریں پڑھتی تھیں اور دوران جنگ ہندوستانی افواج کا پروگرام بھی نشر کرتی تھیں۔ وہاں کے اخباروں اور ادبی رسالوں میں ان کا کلام و مضامین چھپتے رہتے جو نہ صرف سرا ہے جاتے بلکہ انہیں انعامات سے نوازا جاتا۔

ان کی تصنیفات حسب ذیل ہیں۔

۱) ہدیہ طاہرہ                 (نعتیہ کلام )

۲) سات دوست،            ( بچوں کی کہانیاں )

۳) آشیاں ہمارا               (قومی نظمیں )

۴)دور رہ کر                  (نثری نظموں کا مجموعہ)

۵)گل خونچکاں           (نظمیں واقعات کربلا)

۶)برگ سنبر               (مجموعہ کلام )

۷) مثبت منفی                (ناملین کی انگریزی نظموں کا منظوم ترجمہ)

۸)مہکتے ویرانے

۹)بینتھ دی ہاو

۱۰) خون جگر                (افسانے مجموعہ )

علاوہ ازیں ان کی اردو نظموں کا منظوم تلگو ترجمہ بھی ارپنا کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔  ہر صنف میں ان کی تخلیقات موجود ہیں، ۔ ان میں فطری طور پر تخلیقی  رجحان تھا وہ بنیادی طور پر امن کی متلاشی رہیں۔  وہ انسان دوستی اور قومی یکجہتی کی پر ستار تھیں انہوں نے احساس کی شدّت، دل سوزی کی چاشنی سے اپنی تحریروں میں ایسی دل آویزی پیدا کی کہ ہر پڑھنے والا حساس ذہن ان کے بارے میں  سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ ان کا مشاہدہ گہرا اور نازک تھا۔ خاصی طور سے زبان و بیان کی جو طرز انہوں نے اپنائی وہ تخلیقی صلاحیت کو غیر معمولی طور پر بر ا اثر بنا دیتی تھی۔  اگر ادیبہ کی حیثیت سے ان کے افساوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں انسانی کردار کی نفسیات خاصی خیال رہتا ہے۔  افسانے کے کردار ہر لحاظ سے مکمل اور جاندار رہتے روز مرّہ زندگی کے تجربات کا بغور جائزہ لیتی ہیں اور  اسی وجہ سے جذباتی مسائل کی نمایاں جھلک دکھائی ہے۔  یہ ایسی پر اثر کہانیاں ہیں کہ پڑھنے والوں کو عورتوں کی نفسیات سے آگاہی ہوتی ہے۔ عورتوں کی محرومی اور مجروح جذبات کی بولتی تصویر یں ہیں۔ بانو طاہرہ سعید کی اکثر کہانیاں عرب، مصر، اور ایران کی ہیں، چونکہ بانو صاحبہ خود ان ممالک کی سیاحت کر چکی تھیں۔  اس کے علاوہ ایران اور ہندوستانی رسم و رواج اور طرز معاشرت کو  بہتر طور پر پیش کیا گیا۔ بانو طاہرہ سعید کا اولیں افسانوی مجموعہ، خون جگر، میں مسیحا کو اس مجموعہ کا بہترین افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔  اس افسانے میں عورت کی ناقدری اور ان مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے جو عورت کو سماج کی طرف سے اور کچھ نظام قدرت کے تحت  اٹھانے پڑتے ہیں۔  میسما محنت کس ہونے کے باوجود اپنے  شوہر کی ظلم و زیادتی کا شکار ہے اور اپنے پتی کی بے حسی، بے دردی و بے وفائی کے آگے مجبور ہے۔  مسیما اچھے دن کے انتظار میں پتی کے ظلم  سہتی رہتی یہ افسانہ انسانیت کی دم توڑتی صدائیں ہیں، حیوانیت اور درندگی کا شکار عورت ہے۔ افسانہ خاتون مصر، ایک حب الوطن جوڑنے کی کہانی ہے۔  جس میں نوبیاہتا دلھن اپنی انفرادی خواہشات پر وطن عزیز کو ترجیح دیتی ہے۔  ورد العرب  (عرب کا گلاب )ایک فوق الفطرت افسانہ ہے جو ایک ایسے ماحول میں لے جاتا ہے جہاں ہنسی اور تجسس ہے۔  ساتھ ہی سماج کیرسم و رواج کی جکڑ بندیوں کی شکار ایک مظلوم لڑکی داستان بھی ہے جو ان قیود کو توڑ نہ سکی اور ان پر قربان ہو گئی۔ افسانہ، آغا باجی ایک گہرا نفسیاتی مشاہدہ ملتا ہے۔  عورت کی فطرت اور اس کی کمزوریوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ ’ ہزار منت کی ہزار سماجت سے کام لیا لیکن آغا باجی کسی صورت میں رام نہ ہو سکیں۔ طلاق لے کر انہوں نے زمانے پر ثابت کر دیا کہ تر یا ہٹ کس قدر زبر دست ہتھیار ہے۔ ‘

خون جگر ایک طویل افسانہ ہے، جس میں پہلی جنگ عظیم کے پس منظر کو پیش کیا گیا۔  سیاسی وسماجی افکار، تہذیبو تمدن اور اس روایات کی عکاسی کی گئی ہے۔ بانو طاہرہ سعید کیافسانوں کے تعلق سے ڈاکٹر سیدہ جعفر لکھتی ہے۔ فن اور تکنک کے لحاظ سے بعض نقادوں کو یہ افسانے زیادہ چست وسڈول نہ معلوم ہوں گے۔  بانو طاہرہ سعید اچھی قصہ گو ہیں، ان میں بات کہنے کا سلیقہ موجود ہے۔ ان کے افسانے میں انشائیے  کی سی دلکشی و جاذبیت موجود ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کہانیوں میں کردار نگاری اور افسانہ نویسی کیدوسرے لوازم کی حیثیت ثانوی ہے۔  انسانی مسائل کے ادراک اور درد مندی کا جذبہ ان کی ہر سطرمیں جاری وساری نظر آتا ہے۔  یہی دردمندی بانو طاہرہ سعید صاحبہ کی تحریروں کی بنیادی خصوصیت معلوم ہوتی ہے۔

بانو طاہرہ سعید کے مجموعہ کلام کے تعلق ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور مرحوم لکھتے ہیں۔  یہ اردو فارسی اور انگریزی تینوں زبانوں پر شاعرانہ دسترس رکھتی تھیں اور باغ و بہار شخصیت کی مالک تھیں چونکہ فطرتاً شاعر پیدا ہوئی اس لئے اپنے مزاج کی رنگینی اور طبیعت کی شگفتگی کے باعث ہر محفل میں محبوب اور مقبول رہا کرتی تھیں۔  واقعی بانو طاہرہ سعید خوش گفتار و خوش رفتار تھیں۔  انہوں نے عصری موضوعات پر فی الفور اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ان کا یہ وصف ان کے شعور اور فن کا آئینہ دار ہے۔  بانو طاہرہ سعید ہر لحاظ سے قابل قدر اور لائق ستائش ہیں۔

طہران میں پیدا ہونے والی  یہ شاعرہ ۱۷ ؍ اگست  ۲۰۰۱؁ء  دکن کی خاک کا حصہ بن گئی۔

٭٭٭

 

 

 

عزیز النساء حبیبی

 

حیدرآباد کی ترقی پسند افسانہ نگاروں میں عزیز النساء حبیبی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ان کا تعلق حیدرآباد کے رئیس تعلیم یافتہ گھرانے سے ہیں۔  ابتدائی تعلیم کے بعد بی ایس سی۔  بی۔  ایڈ کیا اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئی۔  بچپن سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا کالج میں آنے کے بعد یہ شوق اور پروان چڑھا۔  اور اسی شوق نے ایک مجموعے کی شکل اختیار کر لی۔  ان کے افسانوی مجموعہ  ’تم بڑی سنگ دل ہو‘  میں مندرجہ ذیل بیس افسانے شامل ہیں۔  ۱)سنہری آنکھیں ۔ ۲  اے غم دل کیا کروں۔  ۳  مثلث۔ ۴ تلاش۔ ۵) التجا  ۶)باجی۔  ۷ )شہلا۔ ۸) سپنوں کے جھروکوں سے۔  ۹) ایک عید۔ ۱۰)چاندنی رات۔ ۱۱)تیرے بغیر ۱۲)عورت کا دل۔ ۱۳)زندگی کے کھیل  ۱۴) تم  ۱۵) دل جلتا ہے تو جلنے دے۔ ۱۶) میرا محبوب۔  ۱۷) امتحان ۱۸) اف یہ مرد  ۱۹) تم بڑی سنگ دل ہو۔  ۲۰) یہ دنیا ہے۔

عزیز النساء حبیبی کیافسانے انفرادی لب و لہجہ اور طرز اد ا کی بناء پر ادب کی جانی پہچانی شخصیت بن گئی۔  ان کے طرز تحریر کی پختگی اور خیال و فکر کی بلندی اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ وہ ایک نہایت حساس اور با صلاحیت افسانہ نگار ہیں۔  انہوں نے مختلف النوع موضوعات پر خاصی توجہ فرمائی ہیں۔

ان کے افسانوں کے موضوعات میں معاشرتی، وسماجی نفسیاتی مسائل جیسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔  عزیز النساء حبیبی اپنے افسانوں کے تعلق سے لکھتی ہیں، ہندوستانی عورت کی بے بسی کو دیکھ کر میں نے بارہا سوچا کہ وہ عورت جس کے بغیر  مرد ایک پل ٹک نہیں سکتا جو بیوی بن کر لاکھوں دلوں پر حکو مت کرتی ہے جو سرتاپا ہمدردی ہوتی ہے۔  ماں بن کر قربانی کا جیتا جاگتا نمونہ نظر آتی ہے حضور نے جس کے قدموں تلے جنت کی نشاندہی کی ہے۔  وہ مشرق میں کمزور بے بس کنیز کے سوا کچھ نہیں۔

ان ہی پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے میں افسانے لکھتی ہوں۔  عزیز النساء حبیبی نے اپنے افسانوں میں یہ بتا نے کی کوشش کی ہے کہ ایک مشرقی عورت کتنا ہی خود کو ترقی پسن اور بے باک کیوں نہ بتائے مگر اس کا دل ہمیشہ مشرقی عورت ہی کا رہے گا۔  اپنے شوہر سے پیار محبت کے علاوہ ایثار، ہمدردی بھروسہ اور اعتماد کی متمنی رہتی ہے۔  افسانہ، شہلا، کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے  ہندوستان کی مختلف لڑکیوں کی طرح وہ بھی مرد کی بے وفائی اور ہوس کا شکار ہوئی لیکن اس بے چاری نے کبھی بے وفائی کا شکوہ نہیں کیا۔  وہ مرد کی طرح کم ظرف نہیں جو اپنی زندگی کے اہم ترین اور نازک ترین راز کو بھی ہوا میں ربر کی گیند کی طرح اچھال دیتے ہیں۔  محبت کی راہ میں اٹھنے والے قدم مرد  کو کچھ نہیں ہوتا لیکن عورت کو کہیں کا نہٰن رکھتی۔  اس  کی رضا کارانہ خود سپردگی مہنگی پڑتی ہیں۔  بہر حال اس افسانے میں ایک مشرقی عورت کے حال زار کو پیش کیا گیا ہے۔  عورت کی نا انصافی پر ابراہیم جلیس، تم بڑی سنگدل ہو، کے دیباچے میں لکھتے ہیں، عزیز کو سماج میں عورت کی توہین پر غصہ ہے۔  سماج کی نظر میں عورت ایک قابل فروخت جنس کے سوا کچھ نہیں۔  عورت کو سماج نے انسان کبھی نہیں سمجھا۔  وہ سماج کی اس نا انصافی پر شدّت سے احتجاج کرتی ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ عورت  کو عورت سمجھا جائے۔  عورت جنس نہیں انسان ہے۔  وہ خریدی جائے اور نہ بیچی جائے۔

عزیز النساء حبیبی نے ترقی پسند دور میں کافی افسانے لکھے اور اس دور کے ممتاز افسانہ نگاروں میں ان  کا شمار ہوتا ہے۔  آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے بھی افسانے نشر ہو تے رہے۔  مختلف رسائل میں بھی افسانے شائع ہوتے رہے۔  عزیز النساء حبیبی اپنے تجربات اور مشاہدات کا بڑی گہرائی سے مطالعہ اور معاشرے کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے افسانے ترتیب دیئے۔  اس مجموعے کے ہر افسانے کی ابتداء ایک خوبصورت شعر سے ہوتی ہے اس  کے بعد ہندوستانی معاشرے کی مظلوم عورتوں کے حال زار کی داستان غم دل کو چھو لینے والے انداز میں ہوتی ہیں۔  واقعی عزیز النساء حبیبی کا انداز بیان بہت خوب سے خوب تر کی طرف رواں دواں ہے۔

٭٭٭

٭٭٭

پروفیسر رحمت یوسف زئی کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل فراہم کی۔

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید