FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

بھلے لوگ

               محمد یعقوب آسیؔ

 

               معاصر ادبی دنیا کے دو معتبر نام  ۔۔۔ پروفیسر انور مسعود اور سید علی مطہر اشعر

 

پیش لفظ

            پروفیسر انور مسعود اور سید علی مطہر اشعر دونوں کا وصفِ خاص ان کی بزرگانہ شفقت ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ان دونوں بزرگوں سے کسبِ فیض کا موقع ملا، اشعر صاحب سے تو بہت ملاقاتیں رہیں۔ ان کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھے، بارہا گھنٹوں پر محیط رسمی، غیر رسمی اور نجی محفلیں رہیں۔ پروفیسر صاحب کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے کے مواقع تو زیادہ نہیں تھے، جتنے بھی تھے، بھرپور تھے۔

            جنوری  ۱۹۹۰ء کی آخری دوپہر، گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کی لائبریری کا نیم تاریک ہال اور پروفیسر صاحب کے ساتھ کم و بیش دو گھنٹے کی گفتگو جو کہنے کو رسمی مگر حقیقت میں غیر رسمی تھی، آج بھی میرے ذہن میں تازہ لگ رہی ہے۔  خوش قسمتی سے میرے پاس پرانے طرز کا ایک ٹیپ ریکارڈر تھا، وہ ساری گفتگو محفوظ کر لی گئی اور میں نے کاغذ پر بھی منتقل کر لی۔ میں نے کوشش کی ہے کہ پروفیسر صاحب کا مخصوص اندازِ گفتگو جس حد تک لفظوں میں سمو سکتا تھا سمو دوں۔ بعد کا زمانہ کچھ ایسی تیز رفتاریاں لایا کہ آڈیو ٹیپ اور ٹیپ ریکارڈ جیس اشیاء بہت جلد آثارِ قدیمہ میں شمار ہونے لگیں۔ یہ بات میں نے سید علی مطہر اشعر صاحب سے سیکھی کہ کہا ہوا لفظ سنی ہوئی بات بہت عارضی ہوتی ہے، اور لکھا ہوا لفظ بہت دیرپا ہوتا  ہے۔ ادھر میں نے پروفیسر صاحب سے سیکھا کہ بات ہو شعر ہو، مزاح ہو، طنز ہو، کچھ بھی ہو، کسی بات کے پیچھے اقدار جتنی دیرپا اور مستقل ہوں گی وہ بات بھی اتنی ہی دیرپا اور مستقل ہو گی۔ تقریباً ربع صدی پہلے کی یہ گفتگو  آج بھی اپنے اندر تازہ کاری لئے ہوئے ہے۔ صرف تازہ کاری نہیں اس کی ضربیں بھی تازہ اور کاری ہیں۔

            سید علی مطہر اشعر صاحب کا شمار بلا مبالغہ ’’ایتھے بیٹھدے نیں خاکسار، آ جا‘‘ قسم کے بزرگوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ جہاں ہوتے ہیں، تشنگانِ ادب جمع ہو جاتے ہیں۔ فقیروں کی دھونی کا سماں بندھ جاتا ہے، وہ بول رہے ہیں ہم سن رہے ہیں ، ہم بول رہے ہیں وہ سن رہے ہیں۔ وہ ہماری بچگانہ قسم کی گفتگو پر بھی ہماری   یوں حوصلہ افزائی کرتے ہیں جیسے ہم سے کوئی بہت عالمانہ بات سرزد ہو گئی ہو۔ میرے لئے اشعر صاحب کی ذات اس بوڑھے برگد کی طرح رہی ہے، جس کی گھنی چھاؤں ہر قسم کی تپش کو مجھ سے دور رکھ کر مجھے ایک اور انداز کی تپش سے روشناس گراتی ہے، ماں کی نرم گرم گود اور باپ کا چوڑا چکلا سینہ دونوں اشعر صاحب کی ذات میں جمع ہو جاتے ہیں، اور میں کسی شیرخوار کی طرح ہمکنے لگتا ہوں۔ مجھے ماہنامہ ’’کاوش‘‘ کے لئے اشعر صاحب کے ساتھ رسمی اور غیر رسمی محفلوں سے اتنا کچھ ملا کہ اس چھوٹے سے پرچے میں چھ ماہ تک شائع ہوتا رہا۔ اللہ بھلا کرے نوید صادق کا کہ انہوں نے سہ ماہی ’’کاروان‘‘ بہاول پور کے ایک ہی پرچے میں اسے پورا شائع کر دیا۔

            میں نے دونوں میں سے کسی پر بھی کوئی تحقیقی کام نہیں کیا کہ مجھ میں اتنا دم خم ہی کب تھا!  تنقیدی کام تو خیر میرے اپنے قد سے بہت اونچا ہوتا۔ یوں کہئے کہ یہ اوراق ایک کم گو شاگرد کی  اپنے انتہائی مہربان اور دیالو اساتذہ کو خراجِ محبت پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اگر اس میں کہیں کوئی لفظ کوئی گستاخی کا تاثر دیتا ہو تو براہ کرم اسے وفورِ محبت پر محمول کیجئے گا، اور اس فقیر کو دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔

محمد یعقوب آسی   ۱۳؍ مارچ  ۲۰۱۴ء

 

احساس کا پُتلا

               پروفیسر انور مسعود سے ایک غیر رسمی انٹرویو

 گورنمنٹ کالج (لائبریری)  سٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی  ۳۱؍ جنوری ۱۹۹۰ء صبح دس بجے

 انٹرویو پینل :   محمد یعقوب آسیؔ، محمد احمد، محمد یوسف ثانی،  آفتاب رانا

٭٭

نوٹ:  یہ انٹرویو آڈیو کیسٹ پر ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس  کا خلاصہ یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ، ٹیکسلا کے سالانہ مجلہ ’’شاہین‘‘ (مئی  ۱۹۹۰ء)  میں شائع ہوا، جسے آفتاب رانا نے لکھا تھا۔  حلقۂ تخلیقِ  ادب ٹیکسلا کے ماہانہ خبرنامہ ’’کاوش‘‘ کے قارئین کے لئے میں نے اسے آڈیوکیسٹ سن کر دوبارہ لکھا۔  یہ انٹرویو کاوش میں (فروری ۱۹۹۹ء سے مئی ۱۹۹۹ء تک) سلسلہ وار شائع ہوا۔

٭٭

پروفیسر انور مسعود کا نام اردو اور پنجابی مزاحیہ ادب میں ایک حوالے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔نہ صرف آپ کے قطعات زبان زدِ عام ہیں بلکہ طویل پنجابی نظمیں ’’انار کلی دیاں شاناں ‘‘ ’’جہلم دے پُل تے‘‘ ’’اج کی پکائیے ‘‘اور ’’تندور تے‘‘ خواص اور عوام میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ پروفیسر صاحب کی مادری زبان پنجابی ہے جب کہ آپ کی خاتونِ خانہ کا تعلق اتر پردیش کے ایک اردو بولنے والے خاندان سے ہے۔آپ نے اردو، پنجابی اور فارسی میں شاعری کی ہے۔ طنز و مزاح میں آپ کے کلام کو بلا مبالغہ سند کا درجہ حاصل ہے۔ پروفیسر صاحب کا بات کرنے کا انداز کچھ ایسا ہے کہ وہ ایک بات کرتے کرتے دوسری بات شروع کر دیتے ہیں اور پھر پہلی بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ اس طرح سامع کی دل چسپی تو قائم رہتی ہے تاہم  بعض مقامات پر قاری کو الجھن ہو سکتی ہے۔ آپ گفتگو کے دوران اردو، پنجابی، انگریزی، فارسی تمام زبانیں اس روانی سے آپس میں ملا دیتے ہیں کہ کہ فوری طور پر اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا اور کسی طرح کی اجنبیت بھی پیدا نہیں ہوتی۔ انٹرویو سے پہلے آپ سے غیر رسمی بات چیت ہو رہی تھی کہ آفتاب رانا نے ایک سوال کر کے باقاعدہ انٹرویو کا آغاز کر دیا۔ اس طرح یہ انٹرویو کسی تمہیدی تقریر یا رسمی تعارف کے بغیر شروع ہو گیا۔

٭٭

آفتاب رانا: یہ جو شاعری ہوتی ہے، اس کا موضوع بڑا وسیع ہوتا ہے اور وہ جو اقبال نے یا غالب نے شاعری کی ہے، اور اقبالؔ نے کہا ہے کہ

 ع               سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

اب یہ دیرینہ مسئلہ ہے کہ کائنات حرکت میں ہے یا غیر حرکت میں۔ اس مسئلے کو موضوع بنایا ہے انہوں نے شاعری میں۔ تو کیا مزاحیہ شاعر جو ہے، وہ اس طرح کے بڑے بڑے مسئلوں کو ڈِس کَسdiscuss کر سکتا ہے؟

پروفیسر انور مسعود:  بڑا اچھا سوال ہے آپ کا، یہی سب کہا کرتے ہیں۔ انٹرویو دینے والا یہی کہا کرتا ہے، بڑا اچھا سوال ہے آپ کا۔۔۔ پہلے ہم لفظ مزاح پر بات کرتے ہیں۔۔۔اس میں ایک نقطہ ڈال دیجئے۔

محمد یعقوب آسیؔ: مزاج

پروفیسر انور مسعود:ہاں، مزاج۔ بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے سوال کے اندر ہی جواب چھپا ہوتا ہے، وہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ اب جیسے آپ نے مزاج کہہ دیا تو یہ بات مزاج کی بن گئی۔ ہر وہ شخص مزاح نگار ہے جس کے اندر مزاح موجود ہے، مزاج ہے جس کا! دیکھیں دنیا میں کہاں شاعری نہیں ہے! ساری دنیا میں شاعری پھیلی ہوئی ہے، یہاں تک کہ ۔۔۔  دیکھئے ۔۔۔  نالی میں پانی جا رہا ہے۔ اب یہ کوئی موضوع تو نہیں ہے۔ نالی میں گندا پانی جا رہا ہے اور ایک آدمی اس میں جھاڑو دے رہا ہے، یہ کوئی ٹارگٹ target نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کی نظر شاعرانہ ہے، آپ کے پیچھے مجید امجد ہے تو، وہ کہتا ہے ۔۔۔ کہ:

            گلی  کے موڑ پر نالی میں پانی

            تڑپتا تلملاتا جا رہا ہے

            زدِ جاروب کھاتا جا رہا ہے

            وہی مجبوریِ افتادِ مقصد

            جو اُس کی کاہشِ رفتار میں ہے

            مرے ہر گامِ نا ہموار میں ہے

تو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نظر اگر شاعرانہ ہے تو ہر جگہ شاعری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کا مزاج  مزاحیہ ہے تو ہر جگہ مزاح موجود ہے۔ دنیا کے بڑے مسائل میں بھی مزاح موجود ہے۔  آپ زندگی میں کوئی ناہمواری دیکھتے ہیں، کوئی ایسی چیز جو اپنی صحت سے ہٹی ہوئی ہے، صراطِ مسقیم سے بھٹک گئی ہے، تو وہاں، وہ ایک مزاحیہ سیچوایشن situation ہے۔ مثلاً یہ دیکھئے، ہمارے ہاں سنجیدہ ترین صنف جو ہے ادب کی، وہ ہے غزل۔ اس میں مزاح موجود ہے۔ غزل میں مزاح موجود ہے! اقبال جیسا سنجیدہ شاعر جو ہے، بانگِ درا میں ۔۔  اس کا ۔۔ مزاحیہ حصہ موجود ہے۔ عالیؔ صاحب رات دوہے پڑھ رہے تھے، وہ کیا کہہ گئی کہ، بھیّا کہہ گئی نار ۔۔۔

چھَیلا بن کے نکلے تھے اور بھیّا کہہ گئی نار

اس میں مزاح موجود ہے ۔۔۔  مزاح ہر جگہ موجود ہے ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ دیکھئے، اکبر الٰہ آبادی نے کوئی غیر سنجیدہ مضامین چھیڑے ہیں ؟ تہذیب اور یورپ Europe ، یورپ کی تہذیب سے اسے ایک نفرت ہے۔ اسے اپنی قدریں عزیز ہیں، یہ کتنا بڑا المیہ ہے، کتنا بڑا مسئلہ ہے اور اُس نے اِس کو چھیڑا ہے۔ تو، میں سمجھتا ہوں کہ مزاج ہونا چاہئے اور پھر آدمی ہر بات اس رنگ میں کہہ سکتا ہے

ع               ڈاروِن بولا بُوزنہ ہوں میں

ہیں جی! تو یہ جو ہے ارتقاء کا مسئلہ، مزاح میں آیا ہے۔ کتنا دیرینہ اور اہم مسئلہ ہے ڈاروِن Darwin کا!  دیرینہ مسئلہ اس لئے کہ اسے رومی نے بھی چھیڑا ہے۔ رومی نے تو اس سے بہت پہلے کہہ دیا ہے بلکہ بہت سے ایسے مسئلے ہیں جو آئن سٹائن  Ein Stein  نے بیان کئے ہیں یا نیوٹن Newton نے بیان کئے ہیں رومی کے ہاں وہ ہمیں ملتے ہیں۔ بات اصل میں مزاج کی ہے۔ مثلاً اقبال ۔۔۔ کتنی بڑی بات ہے، انسان پر طنز کر رہا ہے۔ کہتا ہے کہ شیطان خدا کے پاس گیا اور اس نے شکایت کی:

اے خداوندِ صواب و ناصواب

من شدم از صحبتِ آدم خراب

اے اچھائی اور برائی کے خدا! میں تے چنگا بھلا ہوندا ساں، مینوں تے ایس بندے دی صحبت نے خراب کیتا اے، شیطان کہہ رہا ہے! کتنی عظیم بات چھیڑی ہے!تو، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ انسان مزاح میں معمولی بات بھی کر سکتا ہے اور غیر معمولی بات بھی کر سکتا ہے۔

آفتاب رانا: آپ نے بھی تجربات کئے ہیں ؟ بڑے بڑے مسائل جو ہیں، ان کو ڈِسکَسdiscuss   کرنے کی کوشش کی ہے؟

پروفیسر انور مسعود:  جی، میں بتاتا ہوں۔ دیکھئے جی، بات یہ ہے کہ اس دور میں مزاح  میں ویرائٹی variety   آ گئی ہے۔  بہت ویرائٹی آ گئی ہے! ایک زمانہ تھا، جب مزاح جو ہے وہ بعض اوقات تین چار موضوعات تک محدود تھا۔ یا تو فیشن  پہ نظمیں لکھی جاتی تھیں، یا مہنگائی پر، یا بیوی پر۔ اب یہ ہے کہ ابھی، میں آپ کو بتاؤں ! آج بیان آپ نے پڑھا ہے، یہ لیٹسٹ latest   بات ہے، روس نے کہا ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھایا گیا تو ہم اسے پھر ویٹو veto  کر دیں گے۔ یہ آج کا مسئلہ ہے، تو، تمہاری بھینس کیسے ہے؟ میں اپنا قطعہ سنا رہا ہوں :

تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے

اب اس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سو ہمارا ہے

مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے ؟

تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے

اب دیکھئے نا، کتنا سنگین، کتنا سنجیدہ اور بین الاقوامی مسئلہ ہے، میں مزاح میں لایا ہوں۔ اس لئے  بنیادی بات وہی ہے، اگر آپ کے اندر مزاح موجود ہے، ہیں جی! وہ مکئی کا دانہ* بننے کی آپ کے اندر صلاحیت ہے!  اچھا، ایک اور بات، اُتنا مزاح عظیم ہو گا جتنا اس کے پیچھے غم عظیم ہوگا۔ جتنا دکھ عظیم ہو گا، کیونکہ دکھ کے بغیر نہیں مزاح پیدا ہوتا!اصلی  جو ہے سرچشمہ مزاح کا، درد مندی ہے۔ اب مزاح اور طنز میں فرق سمجھ لیجئے۔ مزاح میں صرف ایک تفریحی پہلو ہے، لیکن طنز وہ ہے، جب مزاح کی ڈائریکشن direction  بنتی ہے،آدمی کے ذہن میں کوئی سمت ہوتی ہے۔  مَیں اسے آسان لفظوں میں کہوں، جب اس کا نقطۂ نظر اخلاقی اور اصلاحی ہوتا ہے تو اس وقت طنز ہوتی ہے۔  مجھ سے پوچھئے عام لوگ یہ کہتے ہیں، ممتاز مفتی صاحب، اگلے دن انہوں نے کہا کہ جی انور مسعود ہمارا بڑا اچھا شاعر تھا لیکن کیا ہے، طنز میں پڑ گیا ہے۔ میں نے  قرآن مجید کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس میں مجھے محسوس ہوا ہے۔ مجھے مزاح کی مثال بہت کم ملی ہے لیکن طنزکی مثال ملی ہے۔’ وہ لوگ جو ضدی ہیں، حقیقت کو قبول نہیں کرتے‘، قرآن نے کہا ہے  وَ بَشّرْھِمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمِ (انہیں عذابِ الیم کی خوشخبری سنا دو!)  یہ طنز کا پیرایۂ اظہار ہے، اور۔۔۔۔ دردمندی نہ ہو نا، تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے بس، مزاح کیا وہ کھوکھلا پن سا ہوتا ہے۔

آفتاب رانا: سٹوڈیو2-  میں بھی آپ سے سوال پوچھا گیا تھا۔ آپ نے اس کا جواب نہیں دیا تھا، منّو بھائی نے دیا تھا کہ مزاحیہ شاعر جو ہوتا ہے وہ مسائل کو موضوع بناتا ہے۔ ان مسائل کا ایک طرح سے مذاق اڑاتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے۔ تو کیا یہ صورتِ حال ایک لا تعلقی کو جنم نہیں دیتی؟ کہ آپ نے ہنس لیا اور چپ ہو کے بیٹھ گئے۔

پروفیسر انور مسعود: میں سمجھتا ہوں کہ  جتنے بھی جواب دئے گئے تھے، مجھے لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کا جواب بہتر تھا۔ میں نے یہ عرض کیا تھا کہ۔۔ ایسا مزاح بھی ہو سکتا ہے جو آپ کے اندر پست قسم کے جذبات پیدا کرے، ایسا مزاح بھی ہو سکتا ہے جو آپ کے اندر اونچے خیالات پیدا کرے اور آپ کے جذبات کی اچھی طرح سے تطہیر کر کے  آپ کو اچھا انسان بنائے۔ سو، میں اُن سے اتفاق نہیں کرتا۔  وہی بات آ جاتی ہے کہ۔۔۔دیکھئے، اقبال نے فنونِ لطیفہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا  بلکہ خود فنِ لطیف (شعر) کا اتنا بڑا ہنرِ زیبا اس کے پاس ہے۔ اتنا بڑا ہنر ہے اس کے پاس! وہ خود کہتا ہے، مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کی طرح، لیکن  اس سے بڑا شاعر تو صدیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ وہ بھی کہتا کہتا ہے، مصوّری پر تنقید کر رہا ہے۔ مثلاً ایک تصویر اس نے دیکھی، اس نے کہا:

ع         کُودَکے بَر گردنِ بابائے پِیر

یہ کیا تصویر بنائی ہے کہ ایک بچہ ایک بوڑھے آدمی کے کندھے پر بیٹھا ہے۔ بچہ بھی کمزور ہے، بوڑھا بھی کمزور ہے۔ اقبال کو یہ تصویر پسند نہیں آ سکتی۔ اُسے کیسے پسند آئے؟ کمزوری کی تصویر بنا دی آپ نے! وہ تو قوت کو مانتا ہے جس کا وہ ایک سمبل symbol ہے، اس طرح جیسے، وہ، ایک تشخیص کرتا ہے اور تمیز کرتا ہے کہ فنون ایسے جو ہیں۔۔ میرؔ کے شعر کو اس نے فارسی میں ڈھال دیا، وہ ہے نا کہ:

ع          تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

تو اس نے فارسی میں یہ کہا کہ بری شاعری کی جب وہ مثال دیتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’شیونِ اُو از دیدۂ ہمسایہ خواب شُصت‘‘ کہ اس کے رونے سے ہمسائے کی نیند جاتی رہی، تو، یہ کوئی شاعری ہے؟ اسی طرح مزاح کی بھی درجہ بندی ہے، اس کی بھی اقسام ہیں۔ اونچے درجے کا مزاح بھی ہوتا ہے۔  آپ نہیں کہہ سکتے کہ اکبرؔ کا مزاح پست درجے کا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو سرسیّد سے بھی آگے نظر تھی اس کی! وہ دیکھ رہا تھا کہ ہماری جو ہے، کورپٹcorrupt   ہو رہی ہیں ویلیوز  values ۔۔۔ مشرق کی ویلیوز  کورپٹ ہو رہی ہیں، تو، اس لئے اس نے  ہمارے اندر ایک جذبہ بیدار کیا ہے اپنی ویلیوز سے محبت کرنے کا۔ مزاح سے کام لیا ہے اس نے۔

  محمد احمد: یہ مزاح جو ہے، اِم بیلینس imbalance، غیر متوازن کیفیت، کنٹراسٹcotrast ان چیزوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے کہ لوگ ان پر قہقہہ لگانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو طنز بیسیکلی basically ایک بالکل علیحدہ سی بات ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ ہمیشہ مزاح کے ساتھ جڑ کر آئی ہے۔ ان کا جو امتزاج ہے، وہ ان دونوں کی مخالف ڈائریکشنdirection کو بیلینس کرنے لے لئے یہ کیا جاتا ہے اور یہ اچھا  لگتا ہے۔ طنز کڑوی چیز ہے، مزاح میٹھی چیز ہے۔ ان کا تعلق اس کے علاوہ بھی کوئی ہے کیا؟

پروفیسر انور مسعود: بات یہ ہے کہ طنز صرف طنز اگر ہو اس میں مزاح نہ ہو تو وہ ایسے ہے جیسے آدمی کسی پر حملہ کر دے، ڈانگ کڈھ مارے۔ کوئی بھی کڑوی دوا نہیں کھاتا یار! اس کے لئے، شوگر کوٹڈ پلزsugar coated pills ہونے چاہئیں ! اچھا، سعدی کتنا بڑا معلمِ اخلاق ہے، بہت بڑا ریفارمرreformer ہے اور اس کے ہاں مزاح موجود ہے۔ دو ہی صورتیں ہیں۔ آپ جب کڑوی چیز پیش کریں تو۔۔۔۔ فنکار کا منصب ہے کہ اسے حسین بنائے۔ جمال فطرت کی بڑی ضرورت ہے۔ انسان خوبصورت بنایا گیا ہے اور خوبصورتی سے محبت اس کے دل میں ہے۔ فنِ لطیف یہی ہے یعنی تخلیقِ حسن۔ اور مزاح نگار جو ہے اگر وہ صرف طنز کا خیال رکھے گا اور اس میں مزاح شامل نہ کرے گا تو لوگوں کے اندر بیزاری پیدا ہو گی۔اور اگر آپ اس میں مزاح آمیز کریں تو وہی بات آپ کی جو ان کے خلاف جا رہی ہے اس پر وہ خود ہنسیں گے۔ اور۔۔۔ بہتر مزاح وہ ہے، بہتر طنز وہ ہے کہ ہنسیں نہیں بلکہ بعد میں رو بھی پڑیں اور اپنا محاسبہ بھی کریں۔ مثلاً میں نے ایک قطعہ لکھا، قطعہ پڑھا وہاں جا کے حویلیاں۔ تو میں نے جب قطعہ پڑھا تو ایک آدمی اٹھ کے ایک دم نکل گیا باہر، جویں شُوٹ مار کے نکل جاندا اے باھر، تو بعد میں میری ملاقات ہوئی اس سے، میں نے کہا: بھائی آپ کیوں اُٹھ کے آ گئے؟ کہنے لگا: جو آپ نے پڑھ دیا تھا اس کے بعد میرے اندر کچھ سننے کی تاب نہیں تھی۔ اور وہ قطعہ کیا تھا، میں آپ کو بتاؤں ۔۔  کہ:

کس طرح کا احساسِ زیاں تھا کہ ہُوا گُم

کس طرح کا احساسِ زیاں ہے کہ بچا ہے

ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے

اک لَونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے

تو، اس میں اگر مزاح کا عنصر نہ ہوتا تو بات ایسی ہی تھی۔ سنئے! بیلینس کرنے کے لئے، بڑا اچھا لفظ آپ نے کہا کہ اس میں ایک توازن، ایک تعادل، اس میں ایک اعتدال پیدا کرنے کے لئے۔ ۔۔۔۔۔

محمد احمد:  مزاح جس طرح پیدا کیا جاتا ہے، اس کے مختلف عناصر کہا جا سکتا ہے ان چیزوں کو، جیسے کنٹراسٹ contrast، متوازن، غیر متوازن کیفیت، اب تو طنز بھی اس میں شامل ہے۔ اس کی حقیقت جو ہے کوئی زمانی سی نہیں ہے؟ جن چیزوں پر ہم آج ہنستے ہیں، شام کو نہیں ہنستے، جن چیزوں کو آج دو دفعہ ہم نے سن لیا اس کو گھنٹے بعد جب سنیں گے، نہیں ہنسیں گے۔ اس لحاظ سے پرانا مزاح جو ہے اس کی کیفیت کیا ہے؟ کیا وہ ایک ہسٹریhistory سی نہیں بن گیا؟ مزاح کی ایوولیوشنevolution میں تو اس کا پوائنٹpoint ہے مگر آج ہم اس کو مزاح اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس پر آج قہقہہ نہیں لگتا، تو اس اعتبار سے۔۔۔

پروفیسر انور مسعود: اصل میں یہ جو بات آپ نے کی ہے، وہ لفظ جو اس کے لئے استعمال ہوتا ہے، وہ ہے ’’حربے‘‘۔ کہ آپ مزاح پیدا کرنے کے لئے کون سے حربے استعمال کرتے ہیں، ٹیکنیکtechnique جسے کہتے ہیں۔ اس کا ایک حربہ پیروڈیparody ہے، یہ ویسٹwest سے آیا ہے بلکہ ویسٹ سے کیا آیا ہے ہمارے ہاں مشرق میں بہت پرانا  موجود ہے۔ اس کے بعد لفظی بازی گری ہے، وہ بھی ایک حربہ ہے، پھر مبالغہ ہے، وہ بھی ایک حربہ ہے، مثلاً یہ کہ اگر کسی آدمی کی ایک چیز بہت نمایاں ہو تو اس کو مزید نمایاں کریں جیسے کارٹونcartoon، یہ وہی حربہ ہے۔ وہ عربی شاعر تھا ایک، اس کا دوست تھا جس کی ناک بہت لمبی تھی، تو وہ اسے کہا کرتا تھا  اَلسَّلامُ عَلَیْکُمَا  تم دونوں پر سلام ہو،  یعنی اس کی ناک کو بھی الگ شخصیت بنا دیا۔یہ وہ بات ہے کہ قیامت تک جتنے سال بھی گزر گئے، اس پر آپ ہنسیں گے۔ میں آپ کے جواب کی طرف آتا ہوں۔ پرانی سیچوایشنsituation جو سیچوایشن ختم ہو جاتی ہے، اس پر لکھا ہوا شعر بھی ضائع ہو جاتا ہے اور زندگی میں بعض قدریں دوامی ہیں، بعض باتیں بہت اہم ہیں جو انسان کے ساتھ ہمیشہ ہیں : اس کی بھوک ہے، اس کی پیاس ہے، اس کی محبت ہے، اس کی نفرتیں ہیں، اس کے دُکھ ہیں، جو مزاح ان سے پھوٹے گا اس کی قدر دوامی ہو گی! ہنگامی مسائل پر پیدا ہونے والا۔۔مثلاً کوئی ایک واقعہ ہے، میں نے وزیر کے ایک واقعے پر قطعہ لکھا ہے، وہ چھپا تھا اخبار میں، وہ اگالدان والا۔ وہ وزیر کا بیان آیا تھا کہ میں وزارت پر تھوکتا ہوں، تو، میں نے کہا کہ:

کبھی تو مثلِ قلم دان تھا یہی منصب

سلام کرتے تھے سب لوگ اس کی عظمت کو

یہ انقلاب تو دیکھو کہ خود جنابِ وزیر

اگال دان سمجھنے لگے وزارت کو

اب یہ واقعہ صرف ہنگامی ہے اور اس قطعے کی اہمیت بھی ہنگامی ہے۔لیکن یہ ہے کہ کچھ ہماری جدید تہذیب کی باتیں ہیں جیسے آج دروازے پُلpull اور پُشpush دیکھے ہیں آپ نے، پہلے نہیں ہوتے تھے ایسے دروازے۔ ضمیر جعفری نے کہا ہے کہ:

اُن کا دروازہ تھا مُجھ سے بھی سوا مشتاقِ دید

میں   نے  باہر   کھولنا   چاہا   تو   وہ   اندر  کھُلا

زندگی کے خارج میں جو تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اس سے متعلق مزاح ہوتا ہے! اس میں ایک تاثیر ملتی ہے۔ اور پرانی باتوں میں بعض دوامی قدریں لٹریچرliterature میں بھی ہیں، محبت کا مضمون ہے، وہ آفاقی ہے، وہ عالمگیر ہے، وہ زمان و مکاں سے ماورا ہے۔ تو، کوشش آپ کو یہ کرنی چاہئے، ہمارے فن کار کو، کہ ہمارا کس سے مقابلہ ہے؟ ہمارا مقابلہ یہ ہے ہم اکھاڑے میں اترے ہوئے ہیں اور ہمارے سامنے ٹائمtime  اور ہماری کشتی ہو رہی ہے۔ اب، جو زیادہ سے زیادہ ٹائم کوشکست  دے سکتا ہے، وہ بڑا شاعر ہے۔اسی لئے اقبالؔ، اقبالؔ بڑا شاعر ہے!  جب اقبال کی برسی منائی گئی صد سالہ تقریبات، سن ستتّر میں،تو میں نے پنجابی کا ایک شعر کہا، کہ:

صدی سمندر جد تک ڈِگسن، ورھے ورھے دیاں ندیاں

سن ستتّر(۷۷) تے اِک پاسے، ساریاں تیریاں صدیاں

حافظؔ آج بھی زندہ ہے، سعدیؔ آج بھی زندہ ہے، اقبالؔ آج بھی زندہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دوامی عناصر کو اپنانا چاہئے، وہ دیرپا ہوتے ہیں اور باقی ہنگامی سی  چیزیں ہیں جیسے مجیدؔ لاہوری۔ ہیں جی! انہوں نے سیاست کو اپنا موضوع بنا لیا۔ سیچوایشنلsituational  شاعری ہے، جب سیچوایشن مر گئی، شعر مر گیا۔ آپ حیران ہوں گے سن کے، کہ علامہ مشرقی شاعر بھی تھے! میری ان سے ملاقات ہوئی، میں آپ سے چھوٹی عمر کا تھا جب ان سے ملا۔ انہوں نے کہا: میں نے جیل میں تین کتابیں لکھی ہیں شاعری کی، دیکھوں گا ہندوستان میں کون ماں کا پُوت ہے جو  ان کا جواب لکھتا ہے! اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علامہ مشرقی بعد میں فوت ہوئے، ان کی شاعری پہلے مر گئی۔ جمالی نہیں ہے، وہ تو حساب کا آدمی تھا!

آفتاب رانا: ایسا تو نہیں کہ وہ نصیحت کر رہے ہیں معاشرے کو؟

پروفیسر انور مسعود: ہاں ہاں ! ناصحانہ پن بھی ہے لیکن وہ خشک ناصحانہ پن ہے۔ ایسا مولوی نہیں گوارا ہوتا، ہیں جی! دیکھئے ایک بات ہے! ایک مولوی صاحب وعظ کر رہے تھے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے دنیا میں جو چیز بنائی گئی ہے، بہترین ہے! جناب، وہ منبر کے نیچے ایک کُبڑا بیٹھا ہوا تھا۔ بات ختم کر کے چلے تو اُس نے کہا: مولانا، یہ آپ نے کیا فرما دیا ہے کہ اللہ نے ہر چیز اچھی بنائی ہے؟ ذرا میری طرف تو توجہ فرمائیے۔ مولوی نے کہا: قسمے خدا دی اِس توں بہتر کُبّا بن ای نہیں سکدا !

محمد احمد:  مزاح کے مقاصد، جیسے کوئی کہتا ہے یہ بالکل ہنسنے کے لئے ہے، مذاق اڑا دیتے ہیں اور اصلاحی ہے تو اس میں طنز بھی شامل ہے، ڈائریکشنل directional ہو جاتا ہے۔ آپ کی نظر میں اس کے کون سے مقاصد ہیں ؟ آپ نے طنز تو بہت لکھی ہے اس میں مزاح شامل کر کے لیکن اس کے ساتھ اور بھی مقاصد ہیں جن کو آپ آئیڈیلideal سمجھتے ہیں اور جب مزاح لکھنے بیٹھتے ہیں تو وہ آپ کے سامنے ہوتے ہیں ؟

پروفیسر انور مسعود: اصل میں آپ نے بحث چھیڑ دی ہے، فن برائے فن  یا  فن برائے زندگی۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے! تو میں اس کا ۔۔  فن برائے فن کا ۔۔  اس حد تک ضرور قائل ہوں، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کہ اس سے مسرّت حاصل ہو۔ ایک تفریحی عنصر، جو آپ کی تھکن کو اتار دے، آپ کو زندگی میں تازہ دم کر دے۔ قُرآنِ مجید میں حسن کی تعریف آئی ہے کہ جب اُن سے کہا گیا کہ گائے ذبح کرو اس کا یہ رنگ ہو، بسنتی رنگ ہو اس کا، ہیں جی! اور ساتھ آیا ہے، آیت آئی ہے تَسُرُّالنَّاظِرِیْنَ دیکھنے والوں کو مسرت بخشے۔ فن کا یہ بہت بڑا منصب ہے۔ تو گویا قرآن نے بتایا کہ جمال وہ ہے جو انسان کومسرت بخشتا ہے۔ اور اگر جناب وہ ڈائریکشنل ہو تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ، بہت اچھی بات ہے وہ تو۔ سُنئے آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے یہ دنیا بے مقصد نہیں بنائی! سنّتِ الٰہی یہی ہے کہ آدمی کوئی بے مقصد کام نہ کرے، مقصود کوئی ہونا چاہئے! تو میرا مقصد یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں، میں دیکھتا ہوں، کہ:

اجڑا سا وہ نگر، کہ ہڑپّہ ہے جس کا نام

اُس قریۂ شکستہ و شہرِ خراب سے

عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی

کلچر نکل پڑا ہے ٹنوں کے حساب سے

تو، میں تو اس کی مقصدیت کا قائل ہوں۔

آفتاب رانا : معاشرے کی قدریں جو زوال پذیر ہیں، نوجوانوں کی خاص طور پر۔ اس حوالے سے آپ کا ایک قطعہ تھا۔۔ ۔۔۔۔

پروفیسر انور مسعود : ہاں ہاں، اس کا نام تھا ’’دھواں ‘‘:

تبصرے ہوں گے مرے عہد پہ کیسے کیسے

ایک مخلوق تھی میراثِ رواں چھوڑ گئی

پھونکتی رہتی تھی پٹرول بھی تمباکو بھی

ہائے کیا نسل تھی دنیا میں دھواں چھوڑ گئی

محمد احمد: یہ جو مزاح ہے، اب اسی پر سوالات ہو رہے ہیں تو یہ موضوع ختم کر لیا جائے۔ یہ کہ اس کے پیچھے غم ہوتا ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بندے کو غم تو ہوتا ہے، لیکن جو مزاح وہ لکھتا ہے اس کا پہلو اور موضوع وہ نہیں ہوتا جو کہ اس غم کا ہوتا ہے۔ یہاں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ غم ایک ایسا جذبہ تھا جس کا ردّ عمل مزاح ہے، اس کے متعلق آپ فرمانا چاہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ جس کے متعلق، فرض کریں وزارت، ہمیں آج کل تلخیاں ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، تو اسی پر طنز بھی ہو جاتی ہے، اس کا موضوع تو وہی ہوا جس کا ہمیں غم ہے۔ لیکن کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں غم کوئی شدید ہے، بہت عجیب قسم کا لیکن جو ہم لکھنے بیٹھتے ہیں تو اس کی صورت ہی کوئی اور ہوتی ہے، اس کا موضوع ہی کوئی اور ہوتا ہے۔ تو کیا یہ کوئی رد عمل ہے اس جذبے کے خلاف؟ مطلب یہ کہ غم کے بعد جو جذبہ ابھرتا ہے، وہ مزاح کا ابھرتا ہے یا کوئی اور بات ہے؟

پروفیسر انور مسعود: ہاں یہ کہہ سکتے ہیں آپ۔ یہ ایک قسم کا ری ایکشن reaction ضرور ہے، عکس العمل کہوں گا میں اسے۔ یہ عکس العمل ہے۔ دیکھئے، کئی قسم کے ردِ عمل ہو سکتے ہیں، ایک آدمی کسی چیز کو دیکھ کر تیوری چڑھا سکتا ہے، ایک آدمی کسی چیز کو دیکھ کر رو سکتا ہے تو ایک آدمی زہر  رتے‘، قراٰاجرا‘دوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدخند بھی ہو سکتا ہے، زہریلی ہنسی بھی ہنس سکتا ہے اور ایک آدمی تعمیری ہنسی بھی ہنس سکتا ہے۔ یہ سارے ری ایکشن ہی تو ہیں، سوچیں ہیں تو ری ایکشن، کوئی بھی فن ہے وہ ری ایکشن تو ہے۔

محمد احمد: پیر صاحب کے متعلق آپ نے کچھ لکھا تھا۔۔ ۔

پروفیسر انور مسعود:   پیر فضل حسین صاحب؟

محمد احمد: جی ہاں، پہلی کتاب میں وہ شامل ہے۔ پہلے ہی، اس میں شروع کی جو نظم ہے، پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ طنز لکھی ہے، ہمیشہ چوٹیں کی ہیں، اس کے پیچھے کیا غم ہے؟ یا یہ سراپا  ردّ عمل ہے غم کوئی نہیں ہے؟ آپ کو وراثت میں ردِّ عمل ہی ملا کہ غم بھی ملا جس کے جواب میں آپ نے مزاح لکھا؟

پروفیسر انور مسعود: دیکھئے، بات یہ ہے کہ شاعری کوئی جیومیٹری geometry  نہیں ہے، کوئی میتھے میٹکسmathematics نہیں ہے اور نہ اس کے اندر اتنی تفریق کی جا سکتی ہے کہ یہ وہ ہے اور یہ وہ ہے، جیسے وہ سالٹ انیلے سس salt analysis کرتے ہیں آپ۔ تو اس کا سالٹ انیلے سس نہیں ہو سکتا۔ نہ، نہ! اس میں تو یہ ہے کہ کئی رَویں شامل ہو سکتی ہیں، وہ سب کچھ ہے۔ وہ ہے، وہ ہے، یہاں اس کی مقدار کتنی ہے، یہاں اس کو تول نہیں سکتے آپ۔ ابھی ہمارے پاس کوئی ایسی لیباریٹریlaboratory نہیں کہ ہم یہ تولیں کہ اس میں ری ایکشن کتنا ہے اور اس میں غم کتنا ہے۔۔۔تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ساری چیزیں ملی جلی ہیں، مل جل کے ایک مرکب سا بن جاتا ہے۔

محمد احمد: سر، اس میں نفسیات بھی تو شامل ہوتی ہے اس لحاظ سے  انیلے سس کرنا تھوڑا آسان نہیں ہو چکا، شخصیت کا؟

پروفیسر انور مسعود: ہاں، یہ ٹھیک ہے، لیکن یار! اب آدمی اتنی ایزیeasy چیز بھی نہیں ہے۔ ابھی کہاں نفسیات نے دعویٰ کیا ہے کہ آدمی پورا دریافت ہو چکا ہے۔ پورا نہیں دریافت ہوا ابھی، تو میں نہیں کہہ سکتا کہ کتنا ہے؟ اس میں ریشوratio نہیں بیان کی جا سکتی۔ آپ کا سوال بہت ریاضیاتی ہے۔

یوسف ثانیؔ: اچھا جی، آپ کی دو کتابیں آ چکی ہیں۔ آپ کا ان دونوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تقابلی جائزہ تھوڑا سا۔

پروفیسر انور مسعود: یہ، اصل میں، میلا اکھیاں دا کتاب جو ہے، وہ تو بی اے کے نصاب میں شامل ہے دو یونیورسٹیوں میں آپشنل  optional۔ یہ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں اور پنجاب یونیورسٹی میں اس کی کچھ نظمیں شامل ہیں اور اللہ نے اس کو بڑی پاپولیرٹی  popularity دی۔ پانچ ایڈیشن اس کے لگ گئے ہیں اور اب چھٹا ایڈیشن آنے والا ہے۔۔۔۔

آفتاب رانا: نام کے ساتھ ساتھ دام بھی کما رہے ہیں آپ شاعری سے۔

پروفیسر انور مسعود: نہیں ! شاعر، اصل میں، اسبغول تے کجھ نہ پھرول۔ زیادہ، پتہ ہے کماتا کون ہے؟ دکاندار۔ دیکھیں جی، پبلشر نے کتاب چھاپنی ہے، دکاندار نے بیچنی ہے۔ جس نے کسٹمر کو دینی ہے۔ اس کا کوئی حصہ نہیں، شعر اس نے نہیں لکھے، اس نے چھاپی نہیں لیکن اس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔  یہ استحصال کہہ لیں یا کچھ کہہ لیں۔ سب سے کم جس کو ملتا ہے، وہ شاعر ہے۔

محمد احمد: آپ کا شاعری کے علاوہ مشغلہ کیا ہے، وہ جو آپ کرتے ہوں اکثر۔

پروفیسر انور مسعود: بس یہی یار، شعر ہی سمجھ لیں۔ کوئی ایسا خاص مشغلہ نہیں۔ کھیلوں سے مجھے کوئی دل چسپی نہیں۔ کسی زمانے میں گُلّی ڈنڈا کھیلا۔ ہاکی پسند ہے۔ البتہ یہ ہے مجھے سب سے جو اچھا لگتا ہے کہ فرصت ہو تو کوئی کتاب ہو کتابے و گوشۂ چمنے! کوئی اچھی کتاب اور اچھی خوشبو، یہ دو چیزیں مجھے پسند ہیں۔ یہ تھوڑا ہے مشغلہ؟ شعر سے عہدہ برآ ہونا کوئی آسان ہے؟

آفتاب رانا: بات پنجابی شاعری کی ہوئی تھی، آپ کی جو شاعری ہے پنجابی کی، اس میں بہت سے الفاظ بڑے عوامی قسم کے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس دَور میں جب کہ لوگ پنجابی چھوڑ رہے ہیں، آپ نے اتنے مشکل  الفاظ استعمال کئے جو، میرا خیال ہے، پنجاب میں بھی کم ہی سمجھے جاتے ہیں۔ اس میں اچھے اچھے الفاظ بھی ہیں۔ وہ جو تندور ہے یا ساس بہو کا جھگڑا ہے، تو، اتنی عوامیّت کی وجہ کیا ہے؟

پروفیسر انور مسعود: بھئی یہ انہی کے۔۔۔ وہ سمجھتے ہیں ہماری بات! انہیں کچھ اجنبیّت نظر نہیں آتی، وہ بات جو ہے انہیں کچھ ایسا لگتا ہے کہ وہ جو ہم بیان کرتے ہیں وہی میں نے جو آپ سے کہا تھا کہ میں نے ہونٹوں سے لے کر کانوں کو واپس کر دی ہے۔

یوسف ثانیؔ: آپ گاؤں سے شہر میں آئے۔ اس کے علاوہ آپ نے اردو پنجابی دو مختلف زبانوں  میں لکھا، سنجیدہ بھی اور مزاحیہ بھی۔ آپ لکھتے اردو میں اور پنجابی میں ہیں اور آپ پروفیسر ہیں فارسی کے۔ یہ تضادات، ان کو آپ کیسے سنبھالتے ہیں ؟

پروفیسر انور مسعود: پہلی بات تو یہ ہے کہ میں گاؤں سے نہیں آیا، میں شہر کا رہنے والا ہوں۔ دوسرا یہ ہے کہ میری بیوی جو ہے، وہ اردو سپیکنگ ہے۔ اور میرے بچوں کی مادری زبان اردو ہے۔ ہر زبان کا ایک لیول  level ہے، ہر لیول پر مجھے زبان عزیز ہے۔ پنجابی میری مادری زبان ہے۔ اردو میری قومی زبان ہے، فارسی میری تہذیبی زبان ہے اور عربی میری دینی زبان ہے! انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ ہر زبان کا ایک مقام ہے اس اعتبار سے مجھے عزیز ہے۔

ہاں، مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز

شکر ہے انورؔ مری سوچیں علاقائی نہیں

یوسف ثانیؔ: آپ ماشاء اللہ ایک استاد بھی ہیں۔ استاد اور شاگرد کے موجودہ تعلقات، ان کے درمیان کمیونیکیشن  communication کچھ زیادہ ہونی چاہئے اور آج کل جو حالات چل رہے ہیں، اُن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

پروفیسر انور مسعود:  دیکھئے جی! اس دَور میں استاد کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ جو شاگرد ہے وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھتا ہے، وہ نعیم بخاری کو دیکھتا ہے، وہ طارق عزیز کو دیکھتا ہے، وہ ڈرامے دیکھتا ہے، وہ فلمیں دیکھتا ہے، وہ عظمیٰ گیلانی کو دیکھتا ہے، وہ عابد علی عابدؔ کو دیکھتا ہے۔ تو، اب اس کو وہاں سے کھینچ کے لانا ہے۔ چیلنج ہے، بہت بڑا چیلنج! اور لڑکا اگر اس ڈرامے کو چھوڑ کر انور مسعود کے لیکچر میں آ جائے اور وہاں نہ جائے تووہ کامیاب لیکچرر ہے، نہیں تو نہیں ہے! یہ ہے میرا، باقی لڑکے اس طرح ہیں، لڑکے بہت اچھے ہیں لڑکے آج بھی با ادب ہیں۔ ٹیچر کوئی مطمئن کرنے والا بھی تو ہو، نا! میں لڑکوں کو برا کہہ دوں، یہ بات نہیں ہے۔ ساتواں پیریڈ میرا ہوتا ہے۔ لڑکے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں آپ کے پیریڈ کے لئے بیٹھے ہیں۔ کیوں بیٹھے ہیں ؟ ایک تو میں نے فاصلہ زیادہ نہیں بڑھایا، ’’جا، جا، جا، جا!‘‘ یہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ میرا  مستقبل بیٹھا ہوا ہے۔ یہ میرا پاکستان ہے، یہ میرا سرمایہ ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کی ٹیچنگ  teaching بھی ایک۔۔۔ میں نے اسے ایسے ہی نہیں اپنایا۔ میں نے کہا تھا پبلک سروس کمیشن مجھے نہیں نا سیلیکٹselect  کرتا، تے میں مُنڈے لَے کے مسیت چو بہہ جاں گا۔ مجھے پڑھانے کا اتنا شوق تھا۔ ورنہ اتنا پڑھا کے تو لوگ بور ہو جاتے ہیں۔ اک کلاس اچ جانا، مصیبت پَے جاندی اے۔مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب میں کلاس میں لیکچر دے رہا ہوتا ہوں۔ حافظؔ کا ایک شعر ہے:

حافظؔ درونِ مے کدہ دارد قرارہا

کَالطَّیْرِ فِی الْحَدِیْقَۃِ وَاللَّیْثِ فِی الْعَجَمِ

جیسے باغ میں پرندہ ہوتا ہے، جیسے جنگل میں شیر ہوتا ہے تو ایسے میں کلاس میں ہوتا ہوں۔ بالکل ایسے اور میں لڑکوں کو منع نہیں کرتا کسی بات سے، سوال کرنے سے، میں انہیں پہلے دن کہہ دیتا ہوں دیکھو، سوال کرو! میں نے اپنے اساتذہ سے یہی سیکھا ہے۔ جب آپ کوئی ایسا سوال کریں گے کہ جس کا جواب مجھے نہیں آئے گا میں صاف کہہ دوں گا۔ سارا کچھ تو کسی کو بھی نہیں آتا، یار! سیدھی سی بات ہے، مجھے نہیں آتا بھائی، میں آپ کا ممنون ہوں مجھے آپ نے ایک ایسی بات دی جس کو میں ڈھونڈوں گا۔ تو، میں شکریہ ادا کرتا ہوں سوال کرنے والے کا۔ اس لئے میں ایسا ماحول رکھتا ہوں۔ سٹوڈنٹ آج بھی اچھا ہے، ٹیچر کو چاہئے اسے مطمئن کرے!

یوسف ثانیؔ: کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں آپ، طالبِ علم کو؟

پروفیسر انور مسعود:  میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ عام طور پر طلبا کی توجہ آج کل وہ پڑھائی کی طرف ویسی نہیں رہی جیسی کبھی ہوا کرتی تھی۔ اصل میں، اصل مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں پرائرٹیز  priorities بدل گئی ہیں۔ جو چیز زیادہ اہم نہیں ہے اس کو ہم اہم سمجھتے ہیں، جو چیز اہم ہے اس کو اہم نہیں سمجھتے۔ طلبا کے لئے یہی ہے کہ، جس کام کے لئے، مقصد جو ہے، آپ کالج میں کیوں داخل ہوئے، والدین نے آپ کو کیوں بھیجا ہے، ان کا پیسہ آپ کا وقت، سب کچھ خرچ ہو رہا ہے، ایک خاص مقصد کے لئے، تو اس کی طرف توجہ دیں ! اور پیغام؟ پیغام کوئی مشکل نہیں ہوتے۔ دیکھئے! زندگی میں سچائیاں بڑی آسان ہیں، بہت آسان۔ یہ کوئی مشکل بات ہے؟ بھائی جھوٹ نہ بولو۔ قرآن نے تو انہیں معروف کہا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے۔اصل بات عمل کرنا ہے، اصل بات ہے کہ آپ ان پر عمل کریں۔ اگر اثر ہوتا ہے تو ٹھیک ہے۔ ہمارے پروفیسر صاحب کہا کرتے تھے: میں سمجھاتا ہوں اگر سمجھ میں آ جائے آپ کو، تو اچھی بات ہے نہیں تو اور بھی اچھی بات ہے۔ یہ ہے کہ اپنی جو ڈیوٹی ہے، فرضِ منصبی ہے، اس کی طرف توجہ کریں۔

محمد یعقوب آسیؔ: یہ گفتگو باقاعدہ طور پر ختم کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ڈھیروں، کہ انہوں نے بہت سارا وقت دیا اور جتنے ہمارے سوالوں کے جوابات سے نوازا، اور میرا خیال ہے ذاتی طور پر کہ پروفیسر صاحب کو خوشی ہوئی ہو گی یہ سوالات سن کر۔

پروفیسر انور مسعود: ہاں، بالکل اچھا، میں یہ کہہ دیتا ہوں۔بھئی مجھے بہت خوشی ہوئی اور اچھا بھئی، وعلیکم الشکریہ۔ (قہقہہ)

محمد یعقوب آسیؔ: تو۔۔۔ اختتامی بات یہ ہے کہ:

ہس ہس جردے تتیاں ریتاں دھن مکئی دے دانے

جیوں جیوں بھانبڑ مچدا جاوے بندے جان مکھانے

طنز اور مزاح لکھنا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔ شکریہ!

٭٭

 

 مکئی دا دانہ

پروفیسر انور مسعود ہوراں دی کتاب ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ بارے اک لیکھ

 (مطبوعہ ماہنامہ کاوش ٹیکسلا مئی ۱۹۹۹ء)

            سُنیا اے انور مسعود ہوری کسے مشاعرے وچہ اپنی مشہور نظم ’’انار کلی دیاں شاناں ‘‘ پڑھ رہے سن۔ اونہاں نے نظم دیاں آخری سطراں پڑھیاں :

بہتیاں مینوں آندیاں کوئی نہیں، اِکو گل مکاناں

توں کیہ جانیں بھولئے مَجھّے، نار کلی دیا شاناں

            سُنن والیاں چوں کسے نے اُچی ساری آکھیا: ’لَو! حالے ایہنوں بہتیاں نہیں جے آندیاں !‘ ایس گل تے ہسّیا وی جا سکدا اے تے ایہ گل بڑی ڈوہنگی وی اے۔ میری نگہ وچہ ایہ جملہ نظم دی تعریف دا اک معیاراے ٹانچ نہیں۔ بولی ٹھولی دا سواد، بازار دی نقشہ کشی، مٹھی مٹھی پیڑ تے نال ہاسے، طنز، مخول، سچجے اکھان تے کیہ کجھ نہیں، ایس نظم وچہ! تے اجے وی شاعر نوں ایہ احساس اے پئی ’بہتیاں مینوں آندیاں کوئی نہیں ‘۔۔۔ میں سمجھنا آں ایہ بڑی وڈّی گل اے۔

            سن اٹھاہٹھ اُنہَتّر وچہ، جدوں ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ چھپوان دیاں تیاریاں ہوندیاں پئیاں ہون گیاں، میں دَسوِیں پاس کر کے سکولوں نکلیا ساں۔ اونہاں دناں وچہ ’اج کیہ پکائیے‘ دا زنانہ ورشن بڑا مقبول سی

رحمتے، ہزار ہون مزیدار بھنڈیاں

ہوندیاں نیں کجھ ذرا لیس دار بھنڈیاں

دفع کرو بی بی جی کوئی سبزیاں دی تھوڑ اے

سانوں ایہ لسوڑیاں پکان دی کیہ لوڑ اے

            ’’میرے نزدیک عوامی لب و لہجہ ای وضاحت دا اصل معیار اے‘‘ ایہ گل میری نہیں آپ انور مسعود ہوراں دی آکھی ہوئی اے۔ اَوکڑ اودوں ہوندی اے جدوں عام بولی ٹھولی دے لفظ شاعری ورگے نازک کم لئی بھارے بھارے تے کوہجے لگن۔انور مسعود ہوراں دی سلکھن اے جے اونہاں نے اوکھے تے ٹھیٹھ لفظاں نوں شاعری وچہ انج لیاندا اے پئی اوہ ذرا وی کوہجے نہیں لگدے۔

چھڈ دے کھانے کھلاں وڑیویں، ہُن ناں چبّیں چھولے

چھڈ دے پینے گُڑ دے شربت، پی ہُن کوکے کولے

بوتل دے نال مونہہ ناں لائیں، مونہہ وچہ پا لئیں کاناں

توں کیہ جانیں بھولئے مجّھے، نار کلی دیاں شاناں

(انار کلی دیاں شاناں )

بھانویں کِڈی سُجّی ہوئی، آئی ہوئی اکھ ہووے

لالیاں تے چوبھاں دی ستائی ہوئی اکھ ہووے

دھند ہووے، جالا ہووے بھانویں ہون کّکرے

اکھیاں چوں پانی وگے، نالے اکھ رَڑکے

چن دا وی چانناں جے اکھیاں نہیں سہندیاں

اٹھدیاں بہندیاں تراٹاں ہون پیندیاں

پیڑ مُک جاندی اے تے سوج لہہ جاندی اے

اکو ای سلائی نال ٹھنڈ پئے جاندی اے

(جہلم دے پُل تے)

سنیاں نہیں ساہی، چھَنڈ کے لائیں، کَنّاں اگے جھَپّے نیں ؟

ساری تَون ونجائی، ماسی! ایہ کیہ گوگے تھَپّے نیں ؟

میں سنیا اے نی چوری ہو گیا، زیور کجھ سرداراں دا

پچھلی راتیں کھول کے لے گیا، کھوتا کوئی گھمیاراں دا

(تندور)

            انور مسعود ہوراں دی شاعری دا اچیچ پُناں ایہ وے پئی اوہ اپنے اگے پچھے وسّن والے لوکاں نوں کہانی دا کردار بناندے نیں تے واقعات اوہ لیاندے نیں جہڑے ساڈے اگے پچھے ہر روز تے ہر تھاں ہوندے نیں پر روز دیاں گلاں ہون پاروں کسے دا دھیان اُنج اودھر نہیں جاندا جیویں انور مسعود ہوریں اینہاں روز ویتیاں توں ویہندے نیں۔ روز ہانڈی پکان دا رپھّڑ، وڈے وڈے شہراں وچہ تہذیب دا وگاڑ تے قدراں دی موت، کُڑیاں چڑیاں دے چاء مل تے سدھراں، پنڈاں دے مُنڈے کھُنڈے اونہاں دے پواڑے تے پنچائتاں، نونہہ سَس دا جھگڑا، زنانیاں دے طعنے میہنے، اَنکھاں دیاں گلاں، بسّاں گڈیاں وچہ پھیری والے تے شہراں وچہ رکشیاں والے تے اونہاں دی اپنی بولی، ایہ سب کچھ ویکھن لئی تے پھر اوہنوں شعراں وچہ ڈھالن لئی کوئی انور مسعود ای چاہی دا سی۔ کجھ سیانے انور مسعود نوں پنجابی دا نظیرؔ اکبر آبادی کہندے نیں، میں کہنا آں : انور مسعود پنجابی دا انور مسعود اے۔ اوہدی بولی دا خمیر پنجابی رہتل وچوں اٹھدا اے۔ اوہدیاں نظماں وچہ پنجاں دریاواں دے پانی دی سلھاب اے۔ اوہدے کردار پورے ماحول تے وسیب نوں نال لے کے ٹُردے نیں۔

کہن لگی سوہنیا، وے پُتّر بشیریا

میرا اک کم وی توں کریں اج، ہیریا

روٹی میرے اکرمے دی لئی جا مدرسے

اج فیر ٹُر گیا اے میرے نال رُس کے

۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔

چھیتی نال جائیں بیبا، دیریاں ناں لائیں بیبا

اوہدیاں تے لُوسدیاں ہون گیاں آندراں

بھکھا بھاناں اج اوہ سکولے ٹُر گیا اے

(امبڑی)

            ایہ سطراں پڑھن والے نوں کجھ دی دَسّن دی لوڑ نہیں، شاعر کتھوں بول رہیا اے۔ صاف دِسدا اے پئی ایہ اکھر پِنڈ دی مٹی وچہ اُگرے نیں۔ ماں دے پیار دی مہک ہر لفظ وچوں پھُٹدی اے پئی۔ ’اج کیہ پکائیے‘ دا’’ رحماں ‘‘ اک ماڈل کردار اے تے اپنے طبقے دا نمائندہ! لاریاں وچہ پھیری لان والیاں دیاں کجھ آوازاں تے اوہناں دا لہجہ ویکھو:

میرے ولّوں سارے بھین بھائیاں نوں سلام ہووے

جاتکاں بزرگاں تے مائیاں نوں سلام ہووے

لاری والا اجے کجھ دیر کھلووے گا

سَپّاں والا بابا تساں سنیا تے ہووے گا

بچہ بچہ اج اوس بابے نوں سہاندا اے

سرمہ میں ویچنآں جگ سارا جاندا اے

۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔

میرے کول دارُو اے جی دنداں دی مشین دا

چکّی جے خراب ہووے مزا کیہ اے پیہن دا

دوستو عزیزو، میری گل ذرا تولناں

کلمے دی مار وگے جھوٹھ جے میں بولنآں

۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔

سال نواں چڑھیا اے تے جنتری وی نویں اے

ایسے گلے وِکدی ایہ اج رواں رویں اے

کھل گیا اے پل بھانویں ہل پئیاں لاریاں

چھڈ کے ناں جان گیاں پُلے تے سواریاں

(جہلم دے پل تے)

رکھو جی اٹیچی کیس، چلئے جی، باؤ جی

کہڑے پاسے جاؤ گے؟ بدامی باغ جاناں جے؟

پِنڈی وَلّوں آئے او؟

اوتھے دی سناؤ کوئی، ایتھے دی ناں پُچھّیا جے

توبہ توبہ

پرسوں دی  لہور وچہ اگ پئی وَسدی

(رکشے والا)

            انور مسعود نے زبان دے سُنھپ نوں قائم رکھیا اے۔ تشبیہاں تے استعارے زبان دیاں لوڑاں دے عین مطابق نیں۔ ترکیباں سوہنیاں تے نَوِیاں نیں۔ سچی گل تاں ایہ وے پئی پروفیسر صاحب نے لوک بولی نوں ادب دی زبان بنا کے زبان دا مان ودھایا اے۔ مُڈھ رِیت دے نال جڑواں نواں پن ویکھو (اختصار واسطے میں کئی تھائیں کلے کلے مصرعے لکھے نیں ):

تُمّے دیاں گولیاں کریلیاں توں پِھکیاں

اینہاں نالوں چاڑھ لؤ، کونین دیاں ٹِکّیاں

کالیاں دے نال کاہنوں مارئیے اڈاریاں

ساڈیاں تے ہین امریکا نال یاریاں

(اج کیہ پکائیے)

تیرے ہتھاں دے وچہ ہالیا ۔۔۔ میرے سوہنے دیس دی لج

رہے بھردی تیری کاڑھنی۔۔۔ تیرے کلے بَجّھی مَجھ

سدا رہن دھمالاں پاؤندے ۔۔۔  تیرے دانے چھَٹدے چھَج

(ہالیا)

ع    کھڑکے ڈھول مدھانی والا، میں وچہ بھنگڑے پاواں

ع   پئے گئی ایں نی مائی بَگّو! میرے مگر دھگانے

ع   کَجّی رہو نی! کُجّے اندر، تینوں کیہ تکلیفاں

ع    اپنی ذات کڑتّن ہووے مصری نال نہ لڑئیے

ع    سَکّی جیہی متریئی ہوندی چنگے ہون جے ماپے

ع    سانبھی رہو نی! چینک بیگم! ٹھَپّی رکھ وڈیائیاں

(لَسّی تے چاہ)

ع   ٹُٹّے ہوئے چھتّر وانگوں بہتا ای ودھدا جاندا اے

ع   کَکھّوں ہَولا کر چھڈیا اے سانوں ایس نمانے نے

ع   دُھوں دِتّا اے ناسِیں اینھے ودھ کے جِنّاں بھوتاں توں

(تندور)

نک ساڈی جِند آئی روز دیاں رَٹّیاں نے سانوں ڈاہڈا پَٹّیا اے

مُنڈیاں توں چِڑ کے تے تساں لڑ بھڑ کے تے پِنڈ بھَنڈ سَٹّیا اے

لوکی ایہو سمجھدے گواہنڈیاں دے پنڈ وچہ جِن بھوت نچدا اے

شاہ ویلے، بھَتّے ویلے، ڈیگری تے شام ویلے روز جنگ مچدا اے

کِڈّے تُسی ڈِگ پئے او، شرم ای نہیں رہی اُکا وَڈّیاں دی پگ دی

کسر کیہڑی رہی اے کچہریاں تے تھانیاں تے روز بھِیڑ لگدی

لَبّھا کیہ جے، دَسّو مینوں، پیشیاں پوا کے، وکیلاں کول جا کے

مال ڈنگر، زمیں بھانڈا، دانا دُکا، لیف جُلّا، سبھّے بندھے پا کے

(حال اوئے پاہریا)

            انور مسعود ہوراں دے شعراں وچہ جتھے عام بولی ٹھولی دا نواں چسکا ملدا اے اوتھے زبان دی اچیچ روانی وی اے۔ کوئی نظم پڑھن لگ پؤ، پہلے حرف توں اخیرلے حرف تیکر، لفظ مصرعے، شعرتے نال نال معنے انج کھبویں نیں پئی جی کردا اے بندا اکو ساہے پوری نظم پڑھ جائے۔ عالم گیر حقیقتاں تے سوچن جوگ بیان، انور مسعود ہوری گلاں گلاں وچہ ایس طرح کہہ جاندے نیں جیویں کوئی گل ای نہ ہووے۔ پڑھن والے نوں جدوں ایس گل دا احساس ہوندا اے تے اوہ سوچیں پے جاندا اے یا پھر ہکا بکا جیہا رہ جاندا اے۔ انشائیے طرحاں اوہ ٹریاں جاندیاں راہ وچہ چوبھاں تے رَڑکاں کھلاردے جاندے نیں۔ زبان دی روانی دیاں سر کڈھویاں مثالاں لئی ایس کتاب وچہ آئیاں نظماں ’تسلّیاں ‘ تے ’وگوچہ‘ دا ناں لیناں کافی ہووے گا۔ اجوکی دنیا دے دُکھاں دا  بھرواں دَکھ ’دِینا‘ ’ورہیاں دے پینڈے‘  تے ’اخبار‘ وچہ خوب مِلدا اے۔ دوجیاں نظماں وی ایس دَکھ توں وانجھیاں نہیں :

اکھاں وچہ نہیں شرم دا کجلا، مونہاں تے نہیں پَلّے

اُچّا اچا ویکھن سارے کوئی نہ ویکھے تھَلّے

(انار کلی دیاں شاناں )

ع   اکھ جیہا کیمرہ تے لکھ نوں نہیں لبھدا

ع   رب جہڑے موتی دتے سَٹنے نہیں چاہی دے

(جہلم دے پل تے)

کیہ دسّاں کیہڑا چنگا اے کیہ دَسّاں کیہڑا مندا اے

ایہ مکدی گل مقدّر تے، ایہ لیکھاں والا دھندا اے

ایہ میریاں گلاں سن سن کے کجھ اثر نہ ہویا بالاں نوں

کیہ جانن اوہ تکلیفاں نوں، کیہ سمجھن اوہ جنجالاں نوں

(ریجھاں )

انج لگدا اے دنیا دے ہُن دِن ہو گئے نیں پورے نی

بندے رہن زمیں دے اُتّے، چن تے جان کتورے نی

(تندور)

            انور مسعود ہوراں دے ڈوہنگے مشاہدے دے نال نال اک ڈوہنگی پیڑ دا ثبوت پوری کتاب وچہ تھاں تھاں ملدا اے۔ کہن نوں اَن پڑھاں دی بولی لکھن والا ایہ شاعر دراصل بڑیاں ڈوہنگیاں گلاں کردا اے تے ایہ وی سچ اے پئی جیویں ایہ گلاں اوہ پنجابی وچہ کر گیا اے، کسے ہور زبان وچہ شاید ہو ای نہیں سی سکدیاں۔ ’وارداتریا‘ ’مزاح نگار‘ ’داری دارا۔۔ دو کنجوس‘ ’وگوچہ‘ ’دِینا‘ ’ورہیاں دے پَینڈے‘ ’ریجھاں ‘ ’تسلّیاں ‘ ’بدّل‘ ایہ اوہ نظماں نیں جنہاں وچہ دوہرے دوہرے چھڈ کے تیہرے چَوہرے مضمون ملدے نیں جیہڑے پروفیسر صاحب دی فلاسفی دا مڈھ بنھدے نیں۔ اونہاں نال اک وڈی زیادتی اونہاں دے چاہن والیاں نے کیتی اے۔ اونہاں تے مزاح نگار دا ٹھَپّہ لا چھڈیا اے۔

میرا مقصد اونہاں دی مزاح نگاری نوں نِندناں نہیں۔ میں ایہ کہنا چاہندآں پئی اونہاں دی شاعری، جنی کو میں پڑھی اے، اوہدے وچہ میری ملاقات اک ہور انور مسعود نال ہوئی اے جیہدا قد کاٹھ لوکاں دے انور مسعود نالوں کسے طرحاں وی گھٹ نہیں۔ حضرت میاں محمد بخش (صاحبِ سیف الملوک) دی خدمت وچہ اوہ سوالی بن کے جو کجھ منگدے نیں تے جیویں منگدے نیں، اوہ گل ای وکھری اے:

عشق دا لمبو بالے جیہڑی جہی تجلّی ہووے

جھلّی جیہی طبیعت میری ہور وی جھلّی ہووے

ڈاہڈی بھکھ جے لگی ہووے منگنوں کوئی نہیں سنگدا

مینوں درد محبت بخشو، میں نہیں دارُو منگدا

انج سوال کریساں جیونکر اڑیاں کرے ایاناں

اس درگاہوں حضرت صاحب، میں نہیں خالی جاناں

(حضرت میاں محمد بخش دی خدمت وچہ)

            پیار دی پیڑ اوہناں نوں رج کے ملی اے۔ اوہ جگ ورتی نوں ہڈ ورتی طرحاں سہاندے نیں۔ مثال دے طور تے:

کنج اسیں پرچائیاں بھکھاں کون ایہ ورقے تھُلّے

ہانڈی دے وچہ پتھر پا کے ہانڈی چاہڑی چُلھّے

خورے کد تک راج کریسن لَم سلَمّے کُلّے

انورؔ ایہ کیہ بدَّل بنیا اے، نہ وَسّے نہ کھُلّے

(بدّل)

کون سنے لفظاں دیاں چیکاں کون پڑھے اخباراں

مانواں دے کئی بال ایانے، چک کھڑے خرکاراں

اونہاں دا کوئی پتہ نشانی دھرتی تے نہیں باقی

رہ گئیاں اخبار دے اتے ڈنگ پھڑنگیاں لیکاں

میرے جیہا نہ مُورکھ کوئی پڑھیا لکھیا بندا

دکھاں دی میں پنڈ خریدی پلیوں پیسے دے کے

(اخبار)

آ وڑیا ایں ڈنگر مالا، توں اج کیہڑے پاسے

پیسے دے نیں پُتّر سارے ایس گلی دے واسے

مھاتڑ ایتھے خالی آوندے خالی کھَڑدے کاسے

پیسے جے کر پلے ہوون دُلھ ڈُلھ پیندے ہاسے

بہتیاں مینوں آندیاں کوئی نہیں اکو گل مکانآں

توں کیہ جانیں بھولئے مجھے نار کلی دیاں شاناں

(انار کلی دیاں شاناں )

             جو کچھ اوہناں نے سن ستر توں پہلوں آکھیا سی اج وی اونا ای سچا اے، منہ دٹاندرے توں وکھ کیہ ہوئیا اے؟ خاص کر اک نظم دا حوالہ ضرور دیاں گا۔۔’وگوچہ‘۔۔ بڑی نازک نظم اے۔ عقلاں والیاں لئی اک کھلے بجھارت اے تے اکھاں والیاں لئی اک تتی چننگ۔ ایس نظم دیاں آخری سطراں :

ویلے دا جو پاس نہ کرسی

ویلے نوں پچھتاوے گا

دونہہ دونہہ ہتھیں تاوے گا

’’اک کُڑی دی چیز گواچی، بھلکے چیتا آوے گا‘‘

            جے سمجھ آ جاوے پئی اوہ گواچی ہوئی شے کیہ اے تے اک سیک جیہا لگدا اے۔ میرا خیال اے ایہو سیک اے  جنھے انور مسعودتوں مزاح لکھوایا اے۔ اوہ تتی ریت دا سیکا کھا کے مکئی دا پھُلّا بن گیا اے، جہدا سارا وجود چمڑی توں باہر ہوندا اے۔ ایہ سیک اوہ اے جہڑا کسے ماں نوں اپنی اولاد دا ہوندا اے۔ ماں دی محبت  پُتّاں تے کپُتّاں لئی ا تھاہ ہوندی اے، جہڑے کہندے نیں اکو جیہی ہوندی اے اوہ غلط کہندے نیں۔ کسے پَڑ پاٹے کھُوہ دی ڈوہنگیائی کدے کسے نے مِنی اے؟ نہیں ! تے پھر، ماں دے پیار دی پیمائش وی نہیں ہو سکدی! ’امبڑی‘ ایس کتاب دی پہلی نظم اے۔ میں ایہ نظم نہیں پڑھ سکدا، کیوں جے میرے اندر ایناں سیکا سہن جوگا ساہ نہیں۔’مزاح نگار‘ ناں دی پوری نظم نقل کر رہیآں :

ہس ہس جردے

تتیاں ریتاں

دھن مکئی دے دانے

جیوں جیوں

بھانبڑ

مچدا جاوے

بندے جان مکھانے

            ایہ ساری  بحث  ایس اک گل تے مُک جاندی اے۔

            ’’ ہر بندا تے  مکئی دا دانہ نہیں ہوندا ناں !‘‘

شذرہ:

یہ مضمون ’’کاوش‘‘ میں شائع ہونے  سے پہلے انجینئرنگ کالج کے میگزین  میں ’’گوشۂ انور مسعود‘‘ میں شائع ہوا، اور اس سے بہت پہلے مہینہ وار ’’لہراں ‘‘ لاہور میں۔ پروفیسر صاحب نے اپنی گفتگو میں جو حوالہ دیا، وہ ’’لہراں ‘‘ کا حوالہ ہے۔

 

برگِ آوارہ کی تمثیل

سید علی مطہر اشعر کے فن اور شخصیت کے حوالے سے خامہ فرسائی کی ایک کوشش

ماہنامہ کاوش (ٹیکسلا)جلد اول شمارہ ۲ تا ۷ (جون تا نومبر ۱۹۹۸)

سہ ماہی کاروان (بہاول پور) شمارہ جون۔ستمبر ۲۰۰۹

(۱)

ماہنامہ کاوش ٹیکسلا ، جلد اول شمارہ نمبر۲ (جون ۱۹۹۸ء) صفحہ ۱۵ تا ۱۹

کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لئے

بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے

               نہ جانے کون سا لمحہ تھا جب میں نے خود کو امتحان میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ علی مطہر اشعر کی شاعری پر بات کرنا برگِ آوارہ کی تمثیل سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ بہاروں کے سودائی تو بہت ہیں کہ برگ و گل سب کو اچھے لگتے ہیں۔ خزاں سے پیار کرنے کا سلیقہ کم کم لوگوں کو آتا ہے۔ اشعر صاحب کا نام ایسے ہی چیدہ چیدہ لوگوں میں شامل ہے۔ زندگی خزاں اور بہار کا امتزاج ہے، اسے قبول کرنا ہے تو کلی طور پر قبول کرنا ہے۔

جوان ہاتھ میں اشعرؔ تھا اک ضعیف کا ہاتھ

خزاں بدست خرامِ بہار اچھا لگا

            اشعرؔ صاحب کی شاعری پر بات کرنا دراصل اپنا قد بڑھانے کی کوشش ہے، جیسے لوہا پارس کو چھونے کی کوشش کرے کہ سونا ہو جائے۔ میں نے اُن کے کلام کا مطالعہ شروع کیا تو محسوس ہوا کہ میرا فیصلہ (کہ اُن کی شاعری پر بات کی جائے) چاند کو گود لینے کا فیصلہ ہے۔ سو، میں نے اُن کی ذات اور چند واقعات کو اِس تحریر میں شامل کر دیا ہے تا کہ میرے لئے بات کرنا کسی قدر آسان ہو سکے۔

            اشعرؔ صاحب کی شاعری کا سب سے بڑا وصف راست گوئی ہے۔ شوکتِ الفاظ ا ور شانِ معانی جو اُن کے کلام میں پائی جاتی ہے، اُس کے پیچھے اُن کی پوری شخصیت پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ مناسب ہو گا اگر اُن کے فن کے ساتھ ساتھ اُن کی ذات اور زندگی کی باتیں بھی چلتی رہیں۔ اشعر صاحب کا تعلق خانوادۂ سادات سے ہے اور فکر و عقیدت کا محور سبطِ رسول کی ذات ہے۔ ان کے بزرگ ہندوستان کے علاقہ روہتک کے ایک قصبہ شکارپور میں رہتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۱ء میں اشعرؔ صاحب نے مہاجرت اختیار کی اور پاکستان آ گئے۔ بعد ازاں اُن کے والد ۱۹۵۸ء میں یہاں آئے، وہ عربی فارسی انگریزی اور اردو کے معروف عالم تھے۔ رئیس امروہوی، نسیم امروہوی اور جون ایلیا اشعرؔ صاحب کے سسرالی عزیزوں میں سے ہیں۔ اشعرؔ صاحب کو بچپن ہی ست شعر کا چسکا تھا، طبع موزوں تھی، سکول کے زمانے سے شعر کہنا شروع کیا۔ ایک گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’ایک ہندو لڑکا میرا ساتھی تھا، ایک مصرع وہ کہتا دوسرا میں کہتا اور یوں ہم شعر موزوں کیا کرتے تھے‘۔

عجیب بات ہے دورِ شباب میں اشعرؔ

مصیبتوں کا زمانہ شباب پر آیا

               یہ شعر انہوں نے ۱۹۵۵ء میں کہا  (راقم کی تاریخ پیدائش ۱۹۵۳ء ہے)۔اپنے اس دور کے ہم جلیسوں کے نام یاد کرتے ہوئے اشعرؔ صاحب نے بتایا: ’’ایک صفدر خان تھا، وہ پٹھان تھا، اس کا تعلق لکھنؤ سے تھا، اور ایک میں۔ ہم اکٹھے رہتے، گھنٹوں بحثیں ہوتیں، موضوع کی کوئی قید نہ ہوتی، خوب خوب نکتہ آفرینیاں ہوتیں، شعر کہے جاتے اور ایک دوسرے کے کلام پر ناقدانہ گفتگو ہوتی۔ تپش برنی، کمال کاسگنجوی اور شاہد نصیر کے ساتھ نشستیں ہوتیں ‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ شاہد نصیر سے کسبِ فیض کرنے والوں میں احمد فراز، محسن احسان اور ناصر کاظمی شامل ہیں۔

               واہ چھاؤنی کا صنعتی ماحول اپنی نوعیت کا منفرد ماحول ہے۔ یہاں تعلیمی سہولتیں کسی قدر بہتر ہونے کی وجہ سے شعور اور آگہی، جذبات اور احساسات کو جلا ملتی ہے۔ بارش کا پانی تو ہر جگہ برستا ہے، اب یہ مٹی پر منحصر ہے کہ وہ پھول اگاتی ہے یا جھاڑ  جھنکاڑ۔ علی مطہر اشعرؔ پر جب آگہی کی بارش ہوئی تو وہ رنگ برنگ پھول کھلے اور وہ خوشبو پھیلی کہ ایک زمانہ انہیں جان گیا۔  کلام کی در و بست، الفاظ کی نشست و برخاست، محاورے کا استعمال، تلمیح کی علامتی اور محسوساتی سطح، خیال کی گہرائی اور گیرائی، زیرک نگاہی، وقار اور تمکنت، شوکتِ لفظی، لہجے کی گھن گرج اور اعتماد، اور بے شمار ایسی خوبیاں ہیں جو قاری کو پہلی خواندگی میں اسیر بنا لیتی ہیں۔ علی مطہر اشعرؔ کا لہجہ اور اسلوب بہت نمایاں، بہت منفرد ہے۔ ایک حمد میں، مَیں چونک اٹھا، مندرجہ ذیل دو شعر ذوبحرین ہیں :

چند لفظوں کے توسط سے بھلا کیسے لکھوں

میرے مالک میں تری حمد و ثنا کیسے لکھوں

وسعتِ ارض و سما کیا ہے بجز وہم و خیال

اور کچھ بھی ہے یہاں تیرے سوا کیسے لکھوں

   یہ اشعار بحرِ رمل مثمن مقصور (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) پر بھی پورے اترتے ہیں اور بحر ارمولہ (فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن) پر بھی۔[حوالہ: ’’فاعلات‘‘ از محمد یعقوب آسی، مطبوعہ دوست ایسوسی ایٹس لاہور ۱۹۹۳: صفحہ ۸۸]

               نعت کہنا دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس میں جہاں ادب، احترام، خود سپردگی اور خلوص ضروری ہے وہیں یہ بھی لازم ہے کہ اُس ذاتِ گرامی ﷺ کو جو اللہ کو بھی سب سے عزیز ہے، اللہ کے مصداق نہ بنا دیا جائے اور:

جب اُنﷺ کی ذاتِ گرامی پہ گفتگو کیجے

ادب ادب کی طرح ہو، یقیں یقیں کی طرح

               علی مطہر اشعرؔ کی نعت گوئی میں حُسنِ بیان بھی ہے اور وقار بھی، مگر اس خواہش کو کیا کہئے کہ جس ذاتِ بے مثال کی مدحت بیان کی جا رہی ہے اُس کی نسبت سے طرزِ بیان بھی اُتنا ہی بے مثال ہو، اشعرؔ صاحب کو یوں بے چین کر دیتی ہے کہ وہ کہہ اٹھتے ہیں :

کرتے تو رہے مدحتِ سرکارِ رسالت

ہم وضع نہ کر پائے مگر طرزِ بیاں اور

بیٹھے ہیں سرِ رہ گزرِ شہرِ مدینہ

منتظرِ اِذنِ سفر غم زدگاں اور

               ملاحظہ فرمائیے کہ ترکیب سازی، الفاظ کی نشست اور معنویت کیا بر محل ہے! محسوس ہوتا ہے کہ دل کے تار چھیڑے جا رہے ہیں اور فن کار کی ضرب ہے کہ وجود کا تار و پو جھنجھنا اٹھتا ہے۔ اشعرؔ صاحب کا تعلق خانوادۂ شبیر سے ہے اور اظہار کی دولت جو انہیں عطا ہوئی ہے، خوب ہوئی ہے۔ سانحۂ کربلا پر انہوں نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ اس کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے۔ اشعرؔ صاحب کے بقول انیسؔ اور دبیرؔ اُن پر ’’وارد‘‘ ہوئے ہیں۔ میں نے اُن کے ہاں خاص طور پر یہ محسوس کیا ہے کہ وہ اِس عظیم سانحے کی تفہیم زندگی کی اطلاقی سطح پر کرتے ہیں :

دستورِ آگہی ہے، وفا کا نصاب ہے

شبیر ایک لفظ نہیں ہے، کتاب ہے

پھر سر اٹھا رہے ہیں یزیدانِ عصرِ نو

محسوس ہو رہی ہے ضرورت حسین کی

            الغرض، حوالہ فکری ہو یا فنی، اشعرؔ صاحب کے ہاں دونوں حوالوں سے خوبصورت شاعری ملتی ہے۔ انہوں نے نظمیں بھی کہیں، افسانے بھی لکھے مگر اُن کی شناخت میرے نزدیک ان کی غزل ہے۔ اشعرؔ صاحب کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔ وہ ایک عمر واہ کی اسلحہ ساز فیکٹری میں گزار آئے۔ ایک تو صنعتی ماحول جس میں انسان بھی کل پرزہ بن جاتا ہے اور پھر اسلحہ سازی اور بارود سازی کا۔ ایسے میں ایک حساس شخص جو جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے شب و روز محنت کرتا ہے اُس کے محسوسات کیا ہوں گے، اور اگر اسے قدرتِ اظہار بھی عطا ہوئی ہو تو اس کے الفاظ کس قدر فسوں سازی کریں گے!، یہ تب کھلتا ہے جب ہم ان کی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں۔

            انہوں نے بتایا: ’’میں شعر کہا کرتا تھا۔ راز مراد آبادی یہاں آئے اور ’واہ کاریگر‘ جاری کیا تو مجھے افسانوں پر لگا دیا۔ میں نے کئی افسانے لکھے جو سب ’واہ کاریگر‘ میں شائع ہوئے۔ میرے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ میں نے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے جو ’نیرنگِ خیال‘ اور ’ادبیات‘ میں شائع ہوئے۔

            واہ اور ٹیکسلا کے ادبی منظر نامے میں اشعرؔ صاحب بہر طور نمایاں نظر آتے رہے ہیں۔ فانوس، بزمِ رنگ و آہنگ، مجلسِ ادب، صریرِ خامہ (واہ چھاؤنی) اور حلقہ تخلیقِ ادب (ٹیکسلا)، اِن سب تنظیموں سے منسلک رہے مگر انتظامی امور سے گریز اپنائے رکھا۔ کچھ عرصہ پہلے حلقہ تخلیقِ ادب نے اُن کے ساتھ شام منانے کا اہتمام کیا۔ انہیں گھر (لالہ زار کالونی)سے لانے لے جانے کی ذمہ داری جاوید اقبال نے لی۔ گاڑی لے کر اُن کے ہاں پہنچے تو پتہ چلا اشعرؔ صاحب کسی کام سے ٹیکسلا گئے ہیں۔ اجلاس کے میزبانوں نے انہیں پا پیادہ ایچ ایم سی بس سٹاپ سے ایچ ایم سی سکول (مقامِ اجلاس) کو آتے دیکھا تو حیران ہوئے۔ پوچھا آپ پیدل آ رہے ہیں، آپ کو لینے تو گاڑی گئی ہوئی ہے۔ کمال بے نیازی سے کہا: ’’بس، میں تو چلا آیا!‘‘

(۲)

ماہنامہ کاوش ٹیکسلا ، جلد اول شمارہ نمبر۳ (جولائی ۱۹۹۸ء) صفحہ۳ تا ۷

            دورانِ گفتگو اشعرؔ صاحب نے کہا: ’’مشاعرہ ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوشن ہے۔ اور طرحی مشاعرے نے روایت کو زندہ رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے‘‘۔ اشعرؔ صاحب خود بھی جب سے شعر سے وابستہ ہوئے، مشاعروں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آج کے شعراء کیسا لکھ رہے ہیں (اشارہ گرو و نواح کے موجود شاعروں کی طرف تھا)۔ انہوں نے سب سے پہلے اختر عثمان کا نام لیا اور کہا: ’’اختر نے جدید شاعری کی ہے اور جدت اور روایت کو ساتھ ساتھ رکھا ہے، رؤف امیر اپنے حوالے کی صحیح شاعری کر رہا ہے اور اپنی تاریخ بنا رہا ہے‘‘۔

وہ سال خوردہ صداؤں کی بازگشت میں تھی

سو ہم نے لوحِ سماعت کو پھر سے سادہ کیا

عجیب نقش بنائے تھے ریگِ صحرا نے

ہوا نے راہ نوردوں کو خوش لبادہ کیا

’’عرب میں مشاعرے کی ابتدا جنگ سے ہوئی۔ لوگ جمع ہوتے اور اپنے اپنے قبیلے کے جوانوں کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں بیان کرتے۔ دوسرے فریق کی ہجو کہتے۔ بسا اوقات تلواریں کھنچ جاتیں۔ شاید ہی کوئی عرب ہو جو سخن گو نہ ہو۔یونان اس میدان میں عرب سے بہت پیچھے تھا۔ غنائیہ یونان کی نہیں عرب کی سرزمین سے اٹھا ہے۔ عرب کے لغوی معنی ہیں : بات کرنے والا، بولنے والا۔ اس طرح وہ غیر عربوں کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے۔ ایران نے البتہ عرب تہذیب کو متاثر کیا ہے اور عربوں نے فارس کی زبان کو قبول بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیب سازی میں عربی اور فارسی الفاظ باہم مستعمل ہیں ‘‘۔ اشعرؔ صاحب ایسی قیمتی باتیں اکثر بتایا کرتے ہیں اور جدید تراکیب اس روانی سے استعمال کرتے ہیں کہ قاری کو حیران ہونے کا موقع بھی نہیں دیتے۔

ہر ایک لفظ ہے تمثیلِ برگِ آوارہ

خزاں پسندیِ جاں ہے غزل سرائی میں بھی

اسیرِ خواہشِ تکمیلِ فن تو ہم بھی ہیں

مگر سلیقۂ کسبِ ہنر نہیں رکھتے

اُس کی ہر جنبشِ ابرو کی ضیافت کے لئے

اک طرف سلسلۂ شیشۂ پندار بھی ہو

جو کشتی کو ڈبونا چاہتے تھے

وہ خوش بختانِ ساحل ہو گئے ہیں

پھر ایک سلسلۂ فصلِ گل ہویدا ہوا

جب اُس نے خونِ کفِ پا سپردِ جادہ کیا

            اشعرؔ صاحب نے برصغیر میں اردو شاعری کے ارتقا کا مختصر جائزہ یوں بیان کیا ہے: ’’برصغیر کی موجودہ شاعری ان سلاطین کی مرہونِ منت ہے جو قصیدے لکھوایا کرتے تھے۔ اَوَدھ کے نوابوں نے شعرا کی باقاعدہ کفالت کی اور وظائف مقرر کئے۔ رثائی ادب پروان چڑھا۔ ہندوستان میں فارسی کے نفوذ کے ساتھ غزل بھی اردو شاعری میں داخل ہوئی۔ مشاعرہ وجود میں آیا۔ طرحی مشاعرہ نے ذوق کو جلا بخشی اور مسابقت کو ہوا دی۔ نتیجہ کے طور پر زبان و بیان، مضمون آفرینی، معاملہ بندی اور ہیئت کے نئے نئے تجربات سامنے آئے۔ صرف غزل کی بات کریں تو بھی مشاہیر کے ہاں ایک ہی زمین میں بہت سی غزلیں ملتی ہیں۔اور نئے ذائقے طرحی مشاعرے کی دین ہیں۔‘‘ انہی تجربات کے تسلسل میں اشعرؔ صاحب نے معروف زمینوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

میرے پندارِ محبت نے سکھایا ہے مجھے

اپنی آنکھوں کے دریچوں میں سجانا دل کا

بدن تو تیرگی میں جذب ہو جانے کے عادی ہیں

مگر مانوس ہوتی ہے نظر آہستہ آہستہ

ہم سر گزشتِ دستِ تمنا لکھیں اگر

آسودگانِ کوئے بتاں کی خبر ملے

وہ سنگِ در بھی حلقۂ اہلِ ہَوَس میں ہے

ٹکرائیں صاحبانِ وفا اپنے سر کہاں

            حالات ذاتی ہوں، مقامی، ملکی یا بین الاقوامی، انسان کے افکار پر اثر انداز ہوا کرتے ہیں اور کسی حد تک تبدیلی بھی لاتے ہیں۔ اہلِ قلم نے ہر زمانے میں اپنے منصب کا پاس رکھا ہے اور کڑے وقتوں میں بھی اپنے دور کی صحیح صحیح تصویر کشی کی ہے۔ اشعرؔ صاحب کے الفاظ میں ’’اگر آپ کسی دور کی تاریخ دیکھنا چاہیں تو اُس دور کی شاعری میں دیکھیں ‘‘۔  معاشرہ تبدیلیوں کا شکار ہوا۔ حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ پورے برصغیر کے باشندوں کو یوں بھگتنا پڑا کہ انگریز، جو یہاں تاجر کے روپ میں آیا تھا حاکم بن بیٹھا۔ اہل قلم نے نئے حالات میں قوم کو نئی سوچ دی۔ موضوعات تبدیل ہوئے، استعاروں اور علامات کی معنویت کو نئے زاویے ملے۔ غلامی اور آزادی، انسان کی تذلیل و توقیر، عمل اور ردِ عمل کی شاعری ہونے لگی۔ گل و بلبل اور عارض و لب کی جگہ زندگی ہے دیگر مسائل نے لے لی۔ نظیر اکبر آبادی، اکبر الہ آبادی، علامہ محمد اقبال اور الطاف حسین حالی کی شاعری میں اُس دور کے واقعات کا رد عمل نمایاں ہے۔ تحریکِ پاکستان کے حوالے سے بھی یہی صادق آتا ہے۔ پہلے پہل چند لوگ ہوا کرتے ہیں جو افکار کو نئی راہیں دکھاتے ہیں۔ جیسے فیض نے ایک بار کہا کہ منفی سیاسی رویوں نے مثبت شاعری کو جنم دیا ہے۔‘‘

            ۱شعرؔ صاحب نے اقبال کے حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بھی سنایا: لکھنؤ میں مشاعرہ تھا۔ اقبال کو دعوت دی گئی اور ان کا ٹرین سے لکھنؤ جانا قرار پایا۔ منتظمین نے جن لوگوں کو استقبال کے لئے ریلوے سٹیشن بھیجا وہ اقبال کے صورت آشنا نہیں تھے۔ انہوں نے اقبال کو شناخت تو کر لیا تاہم تصدیق کی غرض سے پوچھا: ’آپ ہی علامہ محمد اقبال ہیں ؟‘۔ اقبال نے کہا ’ہاں جی۔‘ ایک صاحب فوراً بولے:’جی ہاں، آپ اقبال ہی ہیں ‘۔ اقبال چنداں حیران ہوئے، پوچھا :’یہ کیا ماجرا ہے؟ خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی جواب دیتے ہیں !‘۔ کہا گیا: ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ ہاں جی کہیں گے، جی ہاں نہیں کہیں گے‘۔

               علی مطہر اشعرؔ کے اشعار میں تاریخ کی جھلکیاں دیکھئے:

پھر حلیفوں میں نہ گھِر جائے کہ نادان ہے وہ

اس نے حالات کو سمجھا کہ نہیں دیکھ تو لیں

میرا اک بچہ بھی مزدوری کے قابل ہو گیا

اس حوالے سے مرے حالات کچھ بہتر بھی ہیں

میرے اوقات بھی پابندِ سلاسل ہیں کہ اب

وقف رکھتا ہے انہیں شعبدہ گر اپنے لئے

            تاریخ میں تو قوموں کے حالات ہوتے ہیں۔ اشعرؔ صاحب تو ایک انفرادی واقعے کو دیکھتے ہیں اور اسے شعر میں یوں ڈھالتے ہیں کہ ان کے جملہ محسوسات قاری تک پہنچ جاتے ہیں۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں :

مقام فکر ہے سوزن بدست ماں کے لئے

رفو طلب ہے پسر کا لباسِ صد پارہ

گھر کے سب لوگ گراں گوش سمجھتے ہیں مجھے

سنتا رہتا ہوں بڑے غور سے سب کی باتیں

اپنے ماں باپ کی ہر بات بتاتا ہے مجھے

میرے کانوں میں وہ کرتا ہے غضب کی باتیں

وہ مری بات کبھی غور سے سنتا ہی نہیں

کیسے سمجھاؤں اُسے حدِ ادب کی باتیں

            علی مطہر اشعرؔ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے عیاں ہو جاتا ہے کہ وہ ایک عمر کانٹوں کی سیج پر گزار آئے ہیں۔ کار زارِ حیات میں پیٹ بھرنے، تن ڈھانپنے، سر چھپانے کی کٹھن گھاٹیوں کے علاوہ عزتِ نفس اور احترامِ آدمیت کا حساس مسئلہ بھی ہے۔ روپے کی چمک دمک اور مصنوعی زندگی کی چکا چوند کے اس دَور میں جہاں چہرے کی سلوٹوں سے زیادہ لباس کی سلوٹوں اور دلوں کی وسعتوں سے زیادہ طباقوں کی وسعت کو دیکھا جاتا ہے، وہاں دلِ درد مند کا تڑپ اٹھنا ناگزیر ہے۔مثال کے طور پر اشعرؔ صاحب کے یہ شعر دیکھئے:

اک چھوٹے سے سیب کو کتنی قاشوں میں تقسیم کروں

کچھ بچوں کا باپ ہوں اشعرؔ، کچھ بچوں کا تایا ہوں

اسے سمجھنے کی خواہش ہے سعیِ لا حاصل

وہ ایک غم جو مری ہر خوشی میں در آیا

پیرہن تبدیل کر لینا تو ممکن ہے مگر

اپنے چہرے سے نقوشِ مفلسی کیسے مٹائیں

ذرا سی بات تھی گھر سے دکان تک جانا

بڑا طویل سفر تھا کہ گھر تک آئے ہیں

            کہا جاتا ہے کہ غربت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ خیال کہاں تک درست ہے، یہ ضرور ہے کہ جب دولت کو شرافت کا اور قوت کو اعتبار کا معیار سمجھا جانے لگے تو سوچیں بھٹک جایا کرتی ہیں۔ انسان کے اندر فطرت کا قائم کردہ نیکی اور بدی، حق اور ناحق کو پرکھنے کا نظام خلفشار اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اعتبار واہمہ بن جاتا ہے اور شرافت خود ایک سوالیہ نشان میں ڈھل جاتی ہے۔ معاشرے کے حالات اور عمومی رویے جیسے بھی ہوں اقدار کا شہرِ آرزو بسا رہتا ہے اور معاشرے کا حقیقی نباض کچھ اس طرح کی باتیں کرتا ہے:

مژدۂ خوبیِ تعبیر ملے گا کہ نہیں

دیکھئے خواب میں دیکھا ہوا کب دیکھتے ہیں

پہلے وہ بہاروں کے کچھ آثار بنا لے

پھر دام تہِ دامنِ آثار بنے گا

اب اس زمین کو نسبت ہے ایسی بیوہ سے

کہ جس غریب کے سارے پسر ہوں آوارہ

اے تیرگی ہم سے تو ترا عقد ہوا ہے

ظاہر ہے ہمیں چھوڑ کے تو کیسے چلی جائے

بات کرنے کی اجازت بھی ہے اِس شرط کے ساتھ

قصۂ تلخیِ حالات نہیں کہہ سکتے

ہم بھی ہجومِ بے بصراں میں شریک تھے

دستار اُس کے ہاتھ میں دی جس کا سر نہ تھا

تعمیرِ نو کی بات تھی توسیعِ قصر تک

موضوعِ گفتگو کسی مفلس کا گھر نہ تھا

            میں نے پوچھا: ’آپ نے اتنی شاعری کی مگر ابھی تک کوئی کتاب نہیں لائے۔ اس میں کیا مصلحت ہے؟ مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ [’’تصویر بنا دی جائے ‘‘کے نام سے ان کا شعری مجموعہ دسمبر ۲۰۰۴ء میں منظرِ عام پر آیا]۔ پھر کہنے لگے: ’’میری شاعری میں فرق واقع ہوا ہے۔ شاعر کا اپنا ایک پس منظر اور پیش منظر ہوتا ہے، جس کے سحر سے وہ نکل نہیں پاتا۔ رؤف امیر اور اختر عثمان منفرد لہجہ رکھتے ہیں ‘‘۔ مجھے مخاطب کر کے کہا: ’’آپ نے عروض پر کام کیا ہے۔ ’فاعلات‘ مجھے اس لئے اچھی لگی کہ جس طرح شاعری میں جدت آئی ہے، اسی طرح علم عروض میں بھی ایک نیا پن آیا ہے۔ ویسے عام مشاہدہ ہے کہ جو شخص عروضی شاعر ہو وہ موضوعات کے اعتبار سے اتنا مستحکم نہیں ہوتا۔ سرِ نوکِ خیال جو آئے کہہ ڈالیں، بعد میں اس کی نوک پلک درست کرتے رہیں۔ شاعری انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ ہر شخص شاعری کرتا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس کی سطح کیا ہے۔‘‘ اشعرؔ صاحب کے بقول امان اللہ نے افسانوں میں شاعری کی ہے۔ شاعری کی مقصدیت اور منصب کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’’شاعری میں غم کا عنصر اسے چاشنی دیتا ہے اور فکری تحریک اسے آگے بڑھاتی ہے۔ غم کے ساتھ اس کے تدارک کی فکر شاعری کو ایک مقصد دیتی ہے‘‘:

اس کوزۂ جاں کو سرِ مژگاں نہ تہی کر

کچھ خون کے قطرے کسی طوفاں کے لئے رکھ

اشعرؔ جو فشارِ غمِ فردا سے بچا لے

ایسا کوئی نشتر بھی رگِ جاں کے لئے رکھ

(۳)

ماہنامہ کاوش ٹیکسلا ، جلد اول شمارہ نمبر۴ (اگست ۱۹۹۸ء) صفحہ ۱۱ تا ۱۳

 پھر کہیں اس کی جسامت کا تعین ہو گا

پہلے قطرے کو سمندر میں اترنے دیجے

            شاعری میں دو باتیں بہت اہم ہوتی ہیں : (۱) شاعر نے کہا کیا ہے اور (۲) کس طرح کہا ہے۔ پہلی بات شاعری کے موضوعات اور شاعر کی طرزِ فکر کو احاطہ کرتی ہے اور دوسری بات شاعر کے سلیقے اور اندازِ اظہار کو۔ سلیقہ اور انداز، جیسا کہ ان کے ناموں سے ظاہر ہے، لگے بندھے الفاظ کی میکانکی نشست یا محاورات کے استعمالِ محض کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں زبان کے جملہ عناصرِ ترکیبی اور علمِ بیان کی تمام جہتوں کا رچاؤ سامنے رکھتے ہوئے شاعری کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ شاعر نے زبان و بیان کی چاشنی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے موعودہ مضامین کو کس قدر حسن و خوبی سے شعر بند کیا ہے۔اصنافِ شعر اور اس سے متعلقہ اصطلاحات کا لفظاً ذکر کئے بغیر ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ قلم کار کی علمی استعداد نے اسے کس قدر چابک دستی عطا کی ہے، معنی آفرینی کے لئے وہ کون سے حربے استعمال کرتا ہے اور کس قدر سلیقے کے ساتھ۔ یہ سارا معاملہ چونکہ ذوقِ لطیف سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا اسے کسی لگے بندھے جملے میں بیان کرنا شاید ممکن نہیں۔ احساسات، ضروری نہیں کہ لفظوں کی صورت میں بعینہٖ ادا ہو جائیں۔ تاہم ترسیلِ احساس کی ممکنہ بلند سطح کو چھوتے ہوئے شاعرکیسی زبان استعمال کرتا ہے اور لطیف احساسات کو زبان کی لطافتوں سے کس طرح اور کس حد تک ہم آہنگ رکھتا ہے، یہ اسلوب ہے۔ عام زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ اسلوب کے کچھ عناصر ترکیبی ہیں مثلاً زبان دانی اور لفظیات، ترکیب سازی، استعارے اور علامات، سوالیہ یا بیانیہ انداز، لف و نشر اور مراعات النظیر کی بندش، معنی آفرینی کے حربے، صنائع اور بدائع کا برتاؤ، اور دیگر فنیات۔ مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک اسلوب کا نام نہیں پا سکتے جب تک ہم شاعر کی ذات، اس کی پسندیدہ لفظیات اور ان کی نشست و برخاست کو شامل نہ کر لیں۔ اس پورے پس منظر اور پیش منظر میں شاعر کی اپنی ترجیحات بھی شامل ہوتی ہیں اور نفسِ مضمون کے اعتبار سے لسانی تقاضے بھی۔ اب یہ شاعر پر منحصر ہے کہ وہ اس پوری صورتِ حال سے کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے۔ علی مطہر اشعرؔ کی غزلوں کے مطالعے سے یہ بات بڑی اچھی طرح سامنے آئی کہ وہ شعری حسن اور سلیقے کے محض قائل ہی نہیں بلکہ انہوں نے اس کو بڑی خوبی سے نبھایا ہے اور ساتھ ساتھ خود تنقیدی کے عمل کو بھی ہر سطح پر قائم رکھا ہے۔

یہ شغلِ شعر و سخن بھی عذاب ہے اشعرؔ

خود اپنے خون میں اپنا قلم ڈبونا ہے

رنگوں سے نہ رکھئے کسی صورت کی توقع

وہ خون کا قطرہ ہے کہ شہکار بنے گا

کج کلاہوں کو یہ توفیق کہاں ہے اشعرؔ

جتنے اخلاص سے ہم اہل ہنر سوچتے ہیں

            اشعرؔ صاحب کے ہاں کچھ الفاظ اور تراکیب بڑے تواتر سے آئی ہیں اور بہت خوب آئی ہیں۔ اس لئے ہم انہیں اشعرؔ صاحب کے اسلوب کا حصہ کہہ سکتے ہیں :

اشعرؔ کہو بہشتِ بریں کتنی دور ہے

اس شہر آرزو کے ہیں دیوار و در کہاں

یہی بہت ہے سکونِ دل و نظر کے لئے

پسِ خیال سرِ شہرِ آرزو رہنا

کیا قباحت ہے جو ویران دریچوں میں چلیں

کیا یہی کوئے بتاں ہے، ذرا دیکھیں تو سہی

کیا قباحت ہے اگر شہر میں دریافت کریں

ہے کوئی اور بھی ہم سا کہ نہیں، دیکھ تو لیں

یہ بات باعثِ حیرت بھی ہے فرشتوں میں

کہ آدمی نے ابھی حوصلہ نہیں ہارا

یہ بات باعثِ حیرت ہے ہم سفر کے لئے

کہ ہم ارادۂ ترکِ سفر نہیں رکھتے

            اشعرؔ صاحب نے خوب صورت فارسی تراکیب وضع کی ہیں اور انہیں اس چابک دستی ہے استعمال کیا ہے کہ ثقالت کا ذرا سا تاثر بھی پیدا نہیں ہونے دیا۔ دریدہ حال، زندہ دلانِ شب، غریبِ رہگزر، اندیشہ پسند، قصۂ تلخیِ اوقات، بام ہوس، اندیشۂ تخریبِ رگِ جاں، غبارِ دشتِ طلب، اکتفا پسندیِ جاں، ترتیبِ رسمِ غم، داستانِ عرصۂ جاں، محوِ یاس، رہینِ خوئے قناعت، ہجومِ نقشِ کفِ پا، عرصۂ گُل، گماں سرشت، حجلۂ شب۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنے اشعار میں عربی اور فارسی کے ایسے مفرد الفاظ بھی باندھے ہیں جو بالعموم کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ متذکرہ بالا تراکیب کو اشعار میں سلاست کے ساتھ باندھنا، ظاہر ہے، بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ آج کے سہل پسند دور میں یہ نعرہ بڑی شد و مد کے ساتھ لگایا جا رہا ہے کہ اردو کو ’’فارسیت سے پاک‘‘ کیا جائے، بھلے اس کے لئے ہندی اور انگریزی کے الفاظ ہی کیوں نہ لانے پڑیں۔ اس نعرے کے پیچھے کار فرما سیاسی مقاصد اور سازشوں سے قطع نظر اس وقت ہمارے پیش حقیقت یہ ہے کہ اردو کا خمیر فارسی اور عربی سے اٹھا ہے۔ یہ کل کی بات ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اردو کو مسلمانوں کی زبان ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ منطقی طور پر یہ بات بالکل بجا ٹھہرتی ہے کہ جس حسن و خوبی سے فارسی اور عربی تراکیب اردو میں سما جاتی ہیں، ہندی انگریزی بلکہ بعض علاقائی زبانوں کی تراکیب بھی اتنی نفاست سے نہیں آ سکتیں۔ اشعرؔ صاحب کے ہاں ایسی بظاہر بھاری بھرکم اور مشکل تراکیب اس قدر نرمی سے شاملِ کلام ہوتی ہیں کہ پڑھنے اور سننے والے کو لطف آ جاتا ہے

اک نقص یہ بھی تھا کہ سرِ جادۂ طلب

جتنے بھی رہ نورد تھے سب محوِ یاس تھے

میں اس کی دوسری دستک نہ سن سکا اشعرؔ

رہینِ خوئے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی

وابستہ در و بام کی تعمیر سے اشعرؔ

اندیشۂ تخریبِ رگِ جاں بھی بہت ہے

ساری شکایتوں کا ہدف میری ذات ہے

وہ محوِ گفتگو ہے بظاہر پسر کے ساتھ

پدر کی سوچ میں حائل ہوا تھا بے چارہ

کہ سرخ ہو گیا بچے کا زرد رخسارہ

ابھی نہ جاؤ خرابوں میں روشنی لے کر

دریدہ حال و پریشاں ہیں بے لباس ہیں لوگ

            سہل ممتنع یا کلامِ بے ساختہ ایسے اشعار کو کہا جاتا ہے جو شعر کی جملہ پابندیوں کے اندر رہتے ہوئے نثر بلکہ ’بے ساختہ نثر‘ کے بہت قریب ہوں۔ ایسے اشعار کی زبان سادہ، سہل اور رواں ہوتی ہے۔ اشعرؔ صاحب کے ہاں بھی ایسے اشعار بہت ملتے ہیں جن کو نثر کی صورت میں بھی یوں لکھا اور ادا کیا جا سکتا ہے کہ مفاہیم ذرہ بھر بھی متاثر نہیں ہوتے:

ہم اپنا قد بڑھا کر کیا کریں گے

غنیمت ہے کہ پاؤں پر کھڑے ہیں

ہم میں اک شخص بھی ناواقفِ حالات نہیں

سب کے سب صاحبِ ادراک ہیں سب سوچتے ہیں

شبِ غم کی سحر ہونے سے پہلے

کوئی آنسو سرِ مژگاں نہ رکھنا

یہ بھی اک طرفہ تماشا ہے کہ اُس کی چاہ میں

اپنے کچھ بے لوث یاروں کو عدو کہنا پڑا

مجھ پہ اکثر خواب کا عالم بھی گزرا ہے

طوفانوں میں ساحل میرے ساتھ رہے ہیں

            صرف اسی پر بس نہیں۔ میری نظر میں اُ ن کے کتنے ہی ایسے مصرعے بھی آئے جو ادائیگی میں تو بے ساختہ پن رکھتے ہی ہیں، معنوی سطح پر بھی اپنی جگہ مکمل مفہوم دیتے ہیں اور زبردست فکری گہرائی اور گیرائی کے حامل ہیں۔ چند مصرعے نقل کرتا ہوں :

ع         خدا جانے ہمیں کیا ہو گیا ہے

ع         اس کو یہ گماں تھا کہ مرے یار بہت ہیں

ع         مسافر خواب میں گھر دیکھتا ہے

ع         سمجھ لیجے سویرا ہو گیا ہے

ع         مری اپنی کوئی حالت نہیں ہے

ع         ہم برے سارا زمانہ اچھا

ع         آنکھ یوں ہی تو نم نہیں ہوتی

ع         یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا

            انکسار اور خود سپردگی کا عنصر رومانی شاعری کا خاصہ ہے۔ بسا اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ کہ ایسے عالم میں شاعر عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے مضامین خلط ملط کر بیٹھتا ہے۔ بعض مقامات پر وہ یا تو اپنی ذات کی مکمل نفی تک پہنچ جاتا ہے یا اظہار کا وقار مجروح کر بیٹھتا ہے۔ اس سے شعر کی فکری سطح تو گرتی ہی ہے، فنی طور پر بھی کمزوری در آتی ہے۔ اشعرؔ صاحب کے ہاں خود سپردگی اور انکسار میں بھی اپنی ذات کا ادراک اور عزتِ نفس کا احساس برابر قائم رہتا ہے اور عاشقی میں خود سپردگی اور اور خود داری کاایسا حسین امتزاج بنتا ہے، جس کا وصفِ خاص اعتدال ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

ہوا کی تاب کہاں لا سکیں گے ایسے پر

جو مل بھی جائیں کہیں سے بنے بنائے پر

کاسہ بدست گھر سے نکلتے ہی دفعتاً

اشعرؔ خیالِ عزتِ سادات آ گیا

قد بڑھانے کے طریقے ہمیں تعلیم نہ کر

تو اگر حد سے گزرتا ہے گزر اپنے لئے

دیکھ اے قریۂ نو میری سلیقہ مندی

ایسے آباد ہوں جیسے کبھی اجڑا ہی نہ تھا

ہمیں کسی سے تغافل کا ڈر نہیں اشعرؔ

کہ ہم قدم کسی دہلیز پر نہیں رکھتے

(۴)

ماہنامہ کاوش ٹیکسلا ، جلد اول شمارہ نمبر۵ (ستمبر ۱۹۹۸ء) صفحہ ۲تا ۴

            اردو اور فارسی شاعری میں غزل کی اہمیت اور مقام کی بدولت اسے شاعری کا عطر بھی کہا جاتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ غزل میں اختصار کا عنصر ہے۔ شاعر کو دو مصرعوں میں ایک مکمل مفہوم بیان کرنا ہوتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ غزل کا دھیما پن ہے۔ وسیلۂ اظہار کے طور پر الفاظ کے چناؤ اور برتاؤ میں صوتی اور معنوی دونوں سطحوں پر زبان کی لطافت کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بعض نقاد اب بھی غزل کے مستقبل کو مخدوش قرار دے رہے ہیں۔ اُن کے نزدیک آج کے دور کے مسائل اس وقت سے کہیں مختلف ہیں جب غزل کو رواج ملا۔ انسانی زندگی کے عملی مسائل میں غم جاناں کے سوا اور بھی بے شمار غم ہیں۔ آج کے دور کی بے چینی، عدم تحفظ، بھوک اور افلاس، خوف اور گھٹن، جنگ اور قحط، معاشرتی جبر وغیرہ کے سامنے لب و عارض اور گل و بلبل کی حکایات میں چنداں کشش نہیں رہی۔ منکرینِ  غزل دوسری وجہ غزل کو ہیئت کو گردانتے ہیں کہ اس میں اوزان، ردائف، قوافی اور دیگر لوازمات کی پابندیاں اظہار کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔  میرے نزدیک یہ ایک غیر صحت مند رویہ ہے اور اس کا محرک سہل پسندی کے سوا کچھ نہیں۔

            اردو شاعری اپنا فطری سفرطے کرتے ہوئے جب ولی دکنی تک پہنچی تو اُس وقت تک غزل ایک مضبوط شعری صنف کے طور پر تسلیم کی جا چکی تھی۔ یاد رہے کہ بعض تحقیقاتی اختلافات کے باوجود قلی قطب شاہ، شاہ مراد، شاہ نصیر اور ولی دکنی کا دور اردو شاعری کی فنیات کا پہلا دور کہلاتا ہے۔ تب سے اب تک غزل کی ہیئت میں کوئی قابلِ  ذکر تبدیلی نہیں ہوئی۔ بہ ایں ہمہ، غزل ہر دور میں مستحکم رہی ہے۔ نظم کی دیگر اصناف میں کتنی ہی نئی چیزیں آئیں۔آزاد نظم کا تجربہ بڑی حد تک کامیاب رہا تو بات آزاد نظم سے بڑھتی ہوئی نام نہاد نثری نظم تک جا پہنچی جسے آج کل ’’نثم‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ غزل میں بھی ’آزاد غزل‘ کی اصطلاح کے پردے میں ابیات اور فردات کو غزل قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عین ممکن ہے اگلے چند سالوں میں کوئی ’’نثری غزل‘‘ بھی سامنے آ جائے۔بدیسی زبانوں کی بعض اصناف کو بعینہٖ ان کے اصل ناموں سے اردو میں رائج کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ ان میں ہائیکو اور سانیٹ نمایاں ہیں۔ زمانہ شاہد ہے کہ ایسے تجربات اگرچہ وقتی طور پر بہت مقبول ہوتے دکھائی دیتے ہیں مگر اپنی ثقافتی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے دیرپا اور حقیقی قبولِ عام کبھی حاصل نہیں کر پاتے۔ جیسے نثر لکھ کر شاعر کہلوانے کے شوق نے ’’نثری نظم‘‘ یا ’’نثم‘‘ کو جنم دیا، ویسے ہی غزل کہے بغیر غزل گو کہلوانے کی دھن میں ابیات اور فردات کو ’’آزاد غزل‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ فنی اور فکری سطح پر ایسے انحطاط زدہ رویوں کے باوجود غزل نے اپنی اصلی روایتی صورت میں رہتے ہوئے ہر بدلتے زمانے کا نہ صرف ساتھ دیا ہے بلکہ خود کو تسلیم بھی کروایا ہے۔ ہر دور کے مسائل کو غزل میں بڑی خوبصورتی سے نبھایا جا رہا ہے۔ اور تو اور، جسے اینٹی غزل کا نام دیا گیا، وہ بھی تو غزل ہی کی مسخ شدہ صورت تھی۔

            اصل میں فرق جدت اور جدیدیت کا ہے۔ میرے نزدیک جدت روایت سے جنم لیتی ہے اور روایت کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے اسے آگے بڑھاتی ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے جس کا ایک عظیم ثبوت خود ہماری اردو زبان ہے جو در حقیقت جدت کی پیداوار ہے۔ واضح رہے کہ روایت اور جمود میں فرق ہے۔ جب ہم روایت کو بیک جنبشِ  قلم رد کر دیں اور اس کے باوجود مصر رہیں کہ یہی روایت ہے تو بات بگڑ جاتی ہے۔ مختصراً ہمیں یہ کہنا ہے کہ غزل اردو شاعری میں جدتوں کی روایت کا ایک خوب صورت مظہر ہے۔ میں علی مطہر اشعرؔ کا شمار ایسے شعرا میں کرتا ہوں جنہوں نے اپنی زریں روایات سے مضبوط تعلق قائم رکھتے ہوئے جدید تقاضوں کو نبھایا ہے اور تلخیِ ایام کی حکایت بیان کرتے ہوئے بھی غزل کی لطافت کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے افلاس اور غربت، غیر یقینی صورتِ حالات، خوف اور واہموں کی بہتات، انسانی اقدار کے انحطاط، معاشرتی سیاسی اور معاشی جبر، اور ایسے ہی بہت سارے مسائل کو غزل میں بیان کیا ہے جہاں لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو جایا کرتا ہے۔ بہ ایں ہمہ اُن کی غزل میں چاشنی کم نہیں ہوئی۔

            انسان بیک وقت دو قسم کی کیفیات سے دو چار ہے، خارجی اور داخلی۔ خارجی کیفیات ایسے عوامل کی پیدا کردہ ہیں جو انسان کے ارد گرد پائے جاتے ہیں اور داخلی کیفیات انسان کے طرزِ فکر اور طرزِ احساس کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ دونوں عالم در اصل ایک دوسرے کا ردِ عمل بھی ہیں اور تکملہ بھی، اور دونوں کے باہمی تعلق میں انسان کی ذات اپنی پوری جزئیات کے ساتھ اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ اس طرح انسان کا داخل اس کے خارج پر اور خارج اس کے داخل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اشعرؔ صاحب کی غزلوں میں مضامین کے تنوع کے ساتھ ساتھ یہ بات بہت اہم ہے کہ انہوں نے انسان کے داخل اور خارج کے مابین ایک توازن کو ملحوظ رکھا ہے اور یہی حفظِ مراتب ان کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے جسے ہم نے اعتدال کا نام دیا ہے۔

            سانحۂ کربلا انسانی تاریخ کا فقیدالمثال واقعہ ہے اور اس کی جس قدر تعبیرات کی گئی ہیں وہ سب انسانی زندگی کو احاطہ کرتی ہیں۔ ایک طرف یہ حق اور باطل کی جنگ ہے تو دوسری طرف تسلیم و رضا اور جبر و استبداد کی چشمک ہے۔ ایک طرف جان نثاری کی روشن مثالیں ہیں تو دوسری طرف پچھتاوے ہیں۔ انسانی فطرت کی بو قلمونیوں کے علاوہ اس عظیم تاریخی واقعے میں جو سب سے نمایاں بات نظر آتی ہے وہ حق پر قربان ہو جانے کا جذبہ ہے۔ ظلم کو بطور اصول کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح دریائے فرات کے کنارے لڑی جانے والی اس عدیم المثال جنگ میں بہنے والا لہو رہتی دنیا تک حق کی سرخ روئی کی دلیل رہے گا۔ اشعرؔ صاحب کے خاندانی پس منظر میں بتایا جا چکا کہ ان کا تعلق اسی گھرانے سے ہے جس کے شیرخوار بچوں کے خون کی سرخی بھی اس سعیِ  حاصل میں شامل ہے۔ پھر، بچپن میں انیس اور دبیر کا مطالعہ ان کا معمول رہا۔ جون ایلیا اور رئیس امروہوی جیسے بزرگ ان کے اقربا میں شامل ہیں۔ خود اشعرؔ صاحب کو ادراک و اظہار کی جو دولت ملی اور لفظوں پر جو تصرف انہیں حاصل ہے ان تمام عوامل کو سامنے رکھیں تو بجا طور پر اُن سے یہ امید کی جانی چاہئے کہ انہوں نے سانحۂ کربلا کو انتہائی گہرائی میں نہ صرف محسوس کیا ہو گا بلکہ اپنے قاری اور سامع کو بھی اس میں شامل رکھا ہو گا۔ میرے پاس ان کا جو نمونۂ کلام موجود ہے اس میں حمد و نعت کے بعد یہ سب سے بڑا موضوع ہے۔ اشعرؔ صاحب نے اس سانحے کو محسوساتی اور اطلاقی دونوں سطحوں پر بھرپور عقیدت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صرف چند اشعار نقل کر رہا ہوں :

اصطلاحاً یہی اک نام مناسب ہو گا

کربلا کیا ہے، گلستانِ ابو طالب ہے

جا بجا دشتِ بلا خیز میں سادات کا خون

منتشر خونِ رگِ جانِ ابو طالب ہے

شبیر کے لہو سے امامِ حسن کے بعد

دشتِ بلا میں لکھا گیا ہے علی کا نام

ہنوز طفل کھڑے ہیں اس اعتماد کے ساتھ

جو مَشک لے کے گیا ہے وہ آب لائے گا

اس کے لہو سے دینِ نبی سرخ رو ہوا

وہ اک دلیلِ عظمتِ خطمی مآب ہے

ممکن نہیں ہے ترکِ عزا داریِ حسین

ہم قرض جانتے ہیں محبت حسین کی

یہ کس کے نقشِ پا ہیں صبحِ عاشورہ سے محشر تک

ذرا سی دیر میں طے کر لیا یہ فاصلہ کس نے

یہ کس حق آشنا کی بازگشتِ سجدہ ریزی ہے

جنوں کو کر دیا پابندِ تسلیم و رضا کس نے

ابھی ممکن نہیں اشعرؔ یہ امرِ مستند لکھنا

کہ کی ہے کربلا کے سانحے کی ابتدا کس نے

اشعرؔ صاحب کو فطرت نے سوزِ فکر کے ساتھ سوزِ گلو سے بھی نوازا ہے اور کلامِ اشعرؔ بزبانِ اشعرؔ کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ انہوں نے مرثیے، سوز، سلام، منقبت لکھے بھی خوب ہیں اور پڑھے بھی خوب ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری میں جا بجا کربلا کے حوالے کہیں جلی اور کہیں خفی انداز میں بھرپور توانائی اور اطلاقی روح کے ساتھ موجود ہیں :

اشعرؔ وہی جو آج ستم گر کے ساتھ ہیں

کل حسنِ اتفاق سے سب میرے پاس تھے

مرے لبوں کی نمی تھی کہ سعیِ لا حاصل

وہ ریگ زار سا چہرہ بہت ہی پیاسا تھا

مرنے کے باوجود جو زندہ دکھائی دے

مقتل میں کوئی ایسا بھی لاشہ دکھائی دے

ہر قطرۂ خوں منتظرِ اذنِ فغاں ہے

یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا

وہ بھی مجرم ہے کہ فریاد نہیں کی جس نے

اس کو نا کردہ گناہی کی سزا دی جائے

منزل شناس تھے جو گئے قتل گاہ تک

ہر مستقر پہ گھٹتے رہے کارواں کے لوگ

(۵)

ماہنامہ کاوش ٹیکسلا ، جلد اول شمارہ نمبر۶ (اکتوبر ۱۹۹۸ء) صفحہ۳ تا ۵

کیفیت ایسی نہ گزری تھی سو گزری مجھ پر

ہنستے ہنستے کبھی گریاں نہ ہوا تھا سو ہوا

               زندگی کی رنگا رنگی اور ہر دم بدلتے حالات میں ایسا ہو جاتا ہے۔ اظہار کے بھی ہزاروں رنگ ہیں، زندگی کی طرح۔ کبھی کچھ نہ کہنے میں سب کچھ کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی لفظ بھی گونگے ہو جاتے ہیں۔ احساس کو اظہار تک آنے میں طویل اور کڑا سفر کرنا پڑتا ہے اور لفظ کا روپ دھارنے کے لئے تہذیب کے ساتھ رچاؤ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر تاثیر کی دولت ملتی ہے۔ زندگی اپنے تمام زاویوں اور تمام رنگوں کے ساتھ احساس کی تہہ میں موجود رہتی ہے اور اظہار کے لئے ایک سلیقہ اور طریقہ مقرر کرتی ہے جو کبھی خود کلامی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی غیر مبہم اعلانیہ انداز میں۔

کوئی سنے نہ سنے داستانِ عرصۂ جاں

تم اپنے آپ سے مصروفِ گفتگو رہنا

کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لئے

بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے

            زندگی نہ محض پھولوں کی سیج ہے اور نہ محض کانٹوں کا بستر۔ اس میں خوشیاں بھی ہیں غم بھی، قہقہے بھی ہیں نوحے بھی۔ چھوٹی بڑی بے شمار مسرتیں بھی ہیں اور لذتیں بھی اور چھوٹے بڑے ہزاروں تفکرات اور وسوسے بھی۔ ان سب کو قبول کرنا ہے اور ان سب کے ساتھ رہنا ہے کہ یہی زندگی ہے اور یہی اعتدالِ فکر ہے۔ اس کے باوجود کہ عارضی ہوتی ہے اور غم دیرپا۔ اشعرؔ صاحب کہتے ہیں :

یہ تو لازم ہے کہ چاہت کے سفر میں اشعرؔ

ارض گل پوش بھی ہو وادیِ پر خار بھی ہو

            غم اور احساسِ غم اگر ذاتی حوالے تک محدود رہے تو انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے اور اگر اس کا حوالہ ذات کے زنداں سے نکل کر معاشرے کا احاطہ کرنے لگے تو پھر لازم ہو جاتا ہے کہ غم کا ادراک بھی با مقصد ہو اور اس کا اظہار بھی۔ ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث پرانی ہو چکی! سچ یہی ہے کہ ادب زندگی کا حصہ ہے، اسے زندگی کا حصہ رہنا ہو گا اور زندگی میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا، یہی ادیب اور شاعر کا فرضِ منصبی ہے۔ اپنے اردگرد بستے انسانوں کے مسائل کا حل ڈھونڈنے سے پہلے ضروری ہے کہ مسائل کا ادراک بھی ہو۔ یہ ادراک بجائے خود ایک نعمت ہے اور اشعرؔ صاحب نے اسی نعمت کو عام کیا ہے۔

            ہمارے المیوں اور مسئلوں کی بہت سی سطحیں ہیں جن کا حلقۂ اثر ایک فرد سے لے کر پوری کائنات تک محیط ہو سکتا ہے۔انسان اپنے خارج کو اپنے داخل کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ داخل میں اگر سکون ہی سکون ہے، چاہے وہ بے حسی کی دین ہی کیوں نہ ہو، تو خارج کی بلاخیز موجوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ داخل میں سکون ہی سکون نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو گا۔ خارج میں جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اسی داخل کا کرشمہ ہے۔ داخل کی تشکیل میں ایک دو نسلوں کا نہیں صدیوں کی بود و باش اور فکری ورثوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ انسان روایات تشکیل دیتا ہے، روایات کو توڑتا ہے اور نئی روایات بنتی ہیں۔ یہ فطرت کے اس عمل سے بہت مشابہ ہے کہ سمندر کی سطح پر لاکھوں کروڑوں حباب بنتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، پھر بنتے ہیں۔ جب تک داخل کا سمندر اور خارج کی ہوا موجود ہے یہ عمل جاری رہے گا۔ اور، جب تک احساس اور اظہار زندہ ہیں ادب تخلیق ہوتا رہے گا۔ اقدار کے سیپ بھرتے رہیں گے اور غوّاصانِ بحرِ حیات کے لئے فکرِ جدید کے موتی بہم ہوتے رہیں گے۔

            اشعرؔ صاحب نے اس سارے عمل میں اپنے قاری کو ساتھ رکھا ہے۔ ان کے احساس کا کینوس جس قدر وسیع ہے رنگ بھی اسی قدر ہمہ گیر ہیں اور نقشہ کش اس حد تک ملوث ہے کہ اس کی بنائی ہوئی تصاویر کے رنگوں میں اس کا خونِ جگر جھلکتا ہے۔

رنگوں سے نہ رکھئے کسی صورت کی توقع

وہ خون کا قطرہ ہے کہ شہکار بنے گا

            زندگی کی وہ تصویر جو آئینے میں دکھائی دیتی ہے ایک سچے فنکار کو تڑپا دیتی ہے۔ اشعرؔ صاحب نے اپنی شخصیت کے استعارے میں کیسے کیسے نقش ابھارے ہیں، ملاحظہ ہوں :

ہر اک شکن کسی افتاد کی علامت ہے

بہت سے کرب منقش ہیں ایک چہرے میں

ہر روز انقلاب ہے چہرے کے عکس میں

ہر صبح اک شکن کا اضافہ دکھائی دے

نئی سلوٹ درونِ آئنہ ہے

نئے چہرے کا عنواں دیکھتا ہوں

            یہاں معاشرے کی شکست و ریخت کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے۔ اخلاقی اقدار اور ان کی پاسداری کی طرف سے بے توجہی بدترین معاشرتی منافقت کو جنم دیتی ہے اور پھر خود غرضی اور خود فریبی کی وہ ہوا چلتی ہے کہ بڑے بڑے زاہد اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ د ورخی کا دور دورہ ہوتا ہے اور نفسا نفسی کا وہ عالم جس کے گواہوں میں ہماری پوری دو نسلیں شامل ہیں۔ ایسے کردار و عمل کی مضبوط علامت اشعرؔ صاحب کے شعروں کا ’وہ شخص‘ ہے جو دراصل ایک فرد نہیں ایک معاشرتی رویے کا نام ہے۔ اس ’شخص‘ کے بھی دو پہلو ہیں ، ایک داخلی اور ایک خارجی۔ اس کی ذات کے مختلف پہلو جو اشعرؔ صاحب نے بیان کئے ہیں پورے معاشرے میں پائے جانے والے مختلف رویوں کے عکاس ہیں۔

جس کی خواہش تھی کہ وہ بامِ ہوس تک پہنچے

اب وہی شخص کہاں ہے، ذرا دیکھیں تو سہی

میرے بارے میں پریشان نہیں ہے وہ شخص

فکر لاحق ہے اسے شام و سحر، اپنے لئے

ان دنوں وہ بھی اسی شخص کی تحویل میں ہے

ہم نے رکھا تھا جو اِک کاسۂ سر اپنے لئے

آمادۂ فساد رہا بات بات پر

وہ سنگِ رہگزر تھا مرا ہم سفر نہ تھا

حسرت رہی کہ کارگہِ ہست و بود میں

جیسا بھی کوئی شخص ہو ویسا دکھائی دے

            الغرض اشعرؔ صاحب کا ’وہ شخص‘ نفاق، جبر، خود غرضی اور دو رخی کا استعارہ ہے۔ اس تسلسل میں اشعرؔ صاحب مزید کہتے ہیں :

قد بڑھانے کے طریقے ہمیں تعلیم نہ کر

تو اگر حد سے گزرتا ہے گزر اپنے لئے

نشاط ان کے تصرف میں ہے پسِ پردہ

غموں سے چور ہیں اشعرؔ مگر وہ پردے پر

ہم میں اک شخص بھی ناواقفِ حالات نہیں

سب کے سب صاحبِ ادراک ہیں، سب سوچتے ہیں

            اُن  کے ’اس شخص‘ کی دل فریبیاں بھی ملاحظہ کرتے چلئے جو اس کا دوسرا پہلو ہے:

کبھی چراغِ توقع بجھا گیا وہ شخص

کبھی کرن کی طرح تیرگی میں در آیا

کچھ اس لئے بھی بہت دل فریب ہے وہ شخص

وفا کا شائبہ رکھتا ہے بے وفائی میں بھی

یا یہ کہ رہ و رسم کی تحریک بھی وہ تھا

یا یہ کہ وہی ہم سے گریزاں بھی بہت ہے

(۶)

ماہنامہ کاوش ٹیکسلا ، جلد اول شمارہ نمبر۷ (نومبر ۱۹۹۸ء) صفحہ ۳تا ۴

            اشعرؔ صاحب کی عماقتِ نظر کا اندازہ لگانے کے لئے یہی جان لینا کافی ہے کہ انہوں نے اپنے ارد گرد رونما ہونے والے ان واقعات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے جن کو عام آدمی اکثر نظر انداز کر دیتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے قلم سے نکل کر یہ واقعہ ایک انفرادی منظر نہیں رہتا بلکہ اجتماعیت اختیار کر جاتا ہے۔ ایک فٹ پاتھ پر ایک گداگر عورت بیٹھی ہے، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور وہ بچے کا پھٹا ہوا قمیص سی رہی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے کہ اشعرؔ صاحب نے اِسے کیا بنا دیا:

مقامِ فکر ہے سوزن بدست ماں کے لئے

رفو طلب ہے پسر کا لباسِ صد پارہ

            یہ ایک گدا گر ماں کا معاملہ نہیں رہا، معاشرے کے لاکھوں محروم انسانوں کی محرومیوں کا نقشہ بن جاتا ہے۔ بایں ہمہ انسان اور انسانیت کا احترام ہمیشہ اشعرؔ صاحب کے پیشِ نظر رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ کسی کی محرومی اور مجبوری کو تماشا بنایا جائے یا کسی طور بھی یہ احساسِ محرومی سزا بن جائے۔ بعض اوقات تو عطا بھی سزا محسوس ہوتی ہے:

پوچھیں نہ کسی شخص سے حالاتِ پسِ در

توہین نہ کی جائے کبھی غم زدگاں کی

اس کی عطا میں طنز کا کچھ شائبہ بھی تھا

لرزش سی آ گئی مرے دستِ سوال میں

            اشعرؔ صاحب نے آگہی کا عذاب جھیلا ہے۔ یہ آگہی جو بلاشبہ ایک نعمت ہے، کبھی کبھی زحمت بھی بن جایا کرتی ہے۔ قوموں کی زندگی میں پچاس ساٹھ سال کا عرصہ اگرچہ کوئی بڑا عرصہ نہیں ہوتا، تاہم اس عرصے میں قومی مزاج کی جو تشکیل ہوتی ہے اس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ اشعرؔ صاحب ہمارے قومی مزاج کی کجی کو دیکھتے ہیں تو تڑپ اٹھتے ہیں۔

ہم سے اندیشہ پسندوں کی تو عادت ہے یہی

درد محسوس کیا کرتے ہیں ڈر سوچتے ہیں

تجھ پہ کھل جائے تو سرنامۂ محشر ٹھہرے

تیرے بارے میں جو ہم شام و سحر سوچتے ہیں

روشنی ہو گی تو دیکھیں گے تباہی کے نشاں

یہ اندھیرے کبھی حالات نہیں کہہ سکتے

انہیں پسند ہے شہرِ خیال میں رہنا

گماں سرشت ہیں، پروردۂ قیاس ہیں لوگ

ہم جس زمیں پہ آئے تھے صدقے اتار کے

اب تک ہمارے واسطے گھر کیوں نہیں ہوئی

یہ بات بھی طے ہو گئی دہشت زدگاں میں

جو سنگ بدست آئے گا سردار بنے گا

اب فیصلہ ہوا ہے کہ بے سمت ہی چلو

شاید اسی طرح کوئی رستہ دکھائی دے

            اس کے باوجود اشعرؔ صاحب کی تڑپ مایوسی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ حالات کی بہتری کے لئے ایک مسلسل کاوش کا درس دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ سے ان کا عزم جھلکتا ہے، وہ جہدِ مسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور حالات کی تلخی کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی۔ یہ عزم اور حوصلہ وہ آئندہ نسلوں تک کچھ اس انداز میں پہنچاتے ہیں :

قریہ قریہ دے رہے ہیں لوگ سورج کی خبر

لیکن اے زندہ دلانِ شب دیے بجھنے نہ پائیں

یہ سفر عرصۂ محشر میں بھی ساقط نہ ہوا

زندگی راہ بناتی رہی تلواروں پر

اشعرؔ علاجِ زخمِ جگر کی سبیل کر

کچھ وقت تو لگے گا مگر اندمال میں

میرے بچے گر مری تحریک پر چلتے رہے

اُن کے حق میں خوبیِ تقدیر ہو جاؤں گا میں

            اشعرؔ صاحب کے کلام کی ایک نمایاں خوبی، جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا، یہ ہے کہ انہوں نے تلمیحات کا اطلاقی سطح پر انطباق کیا ہے۔ کچھ مثالیں دیکھئے:

پھر پلٹ کر وہ مرے گھر بچشمِ تر جائیں

مجھے کنویں میں گرا لیں تو ہم سفر جائیں

ہم کو سوالِ آب پر قتل نہیں کیا گیا

ہم سے یہ کہہ دیا گیا پانی نہیں فرات میں

            دبنگ اور با وقار لہجہ جس میں ایک شاہانہ طمطراق پایا جاتا ہے اشعرؔ صاحب کے بہت سے اشعار میں ملتا ہے۔ ان کی کئی ردیفوں کا انداز ’غیر شخصی حکمیہ انداز‘ ہے اور بعض مقامات پر ایک لااُبالی مگر طنزیہ لہجہ سامنے آتا ہے:

کوئی تحریک تو ہو حفظِ رگِ جاں کے لئے

خلقتِ شہر کو حالات سے ڈرنے دیجے

اس کی ہر جنبشِ ابرو کی ضیافت کے لئے

اک طرف سلسلۂ شیشۂ پندار بھی ہو

دم بھی گھٹ جائے تو پندار کی تذلیل نہ ہو

روزنِ در سے کسی کو نہ صدا دی جائے

میری آواز بھی اب اُس پہ گراں ہے اشعرؔ

آسماں تک کوئی دیوار اٹھا دی جائے

پھر کوئی نیا قافلہ ترتیب دیا جائے

ہم آبلہ پا کب سے دوراہے پہ کھڑے ہیں

            اشعرؔ صاحب کے ہاں جہاں موضوعات کی رنگا رنگی ملتی ہے وہیں ان کا جداگانہ اسلوب ان موضوعات کو ایک نیا اور جاذبِ نظر رنگ عطا کرتا ہے۔ زبان پر انہیں گرفت حاصل ہے، فارسی عربی کی بھاری بھرکم تراکیب ان کے اشعار میں یوں پرو دی گئی ہیں کہ ان کی ثقالت کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ یوں غزل اپنی زندہ اور متحرک روایت سے مسلسل مربوط رہ کر نئے لہجے سے آشنا ہوتی ہے۔ اشعرؔ صاحب کے خونِ جگر کی سرخی زبان کو عجیب طرح کی رعنائی عطا کرتی ہے اور اشعرؔ صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا قرار پاتا ہے کہ:

جو بات بھی کرتا ہوں وہ مبہم نہیں ہوتی

اشعرؔ یہی خوبی ہے مرے طرزِ بیاں میں

دکھا رہا ہے تماثیلِ برگِ آوارہ

ہجومِ نقشِ کفِ پا کا رہنما ہونا

کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لئے

بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے

٭٭٭

 

برگد کی ٹھنڈی چھاؤں

تحریر:۔ ۲۳؍ مارچ ۲۰۱۱ء

یہ مضمون سید علی مطہر اشعرؔ کے ساتھ ایک شام بہ عنوان ’’شامِ سکون‘‘ (وطن دوست فورم واہ کینٹ : جمعہ یکم اپریل ۲۰۱۱ء) میں پیش کیا گیا۔

اپنا قد ودھانا پئے گا

اس دے نال کھلونے لئی

            پاشا رازؔ کا یہ شعر نہ جانے کتنی بار پڑھ چکا ہوں ! اور جب بھی اشعرؔ صاحب کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے، پاشا رازؔ مجھے میری کم مائیگی کا احساس دلا رہا ہے۔ بات کچھ ایسی غلط بھی تو نہیں ! اشعرؔ صاحب جس زمانے میں اپنے ساتھیوں سے ناقدانہ گفتگو کیا کرتے اور مصرعے پر مصرع لگایا کرتے تھے، میں شاید روٹی کو ’’چوچی‘‘ کہتا ہوں گا۔ اُس زمانے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا:’’ایک ہندو لڑکا میرا ساتھی تھا، ایک مصرع وہ کہتا دوسرا میں کہتا اور یوں ہم شعر موزوں کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔ ایک صفدر خان تھا، وہ پٹھان تھا، اس کا تعلق لکھنؤ سے تھا، اور ایک میں۔ ہم اکٹھے رہتے، گھنٹوں بحثیں ہوتیں، موضوع کی کوئی قید نہ ہوتی، خوب خوب نکتہ آفرینیاں ہوتیں، شعر کہے جاتے اور ایک دوسرے کے کلام پر ناقدانہ گفتگو ہوتی‘‘۔

عجیب بات ہے دورِ شباب میں اشعرؔ

مصیبتوں کا زمانہ شباب پر آیا

            یہ شعر انہوں نے ۱۹۵۵ء میں کہا، راقم کی عمر تب یہی کوئی دو سال رہی ہو گی۔ میرے لئے اشعرؔ صاحب کے فن اور فکر پر بات کرنا چاند کو گود لینے کے مترادف تھا، اور، ہے۔ یہ تو ان کی محبت ہے کہ میں نے جو کچھ لکھ دیا، اور جو کچھ کہہ دیا، انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسے من جملہ قبول کیا بلکہ ڈھیر سارے تعریفی کلمات بھی میری حوصلہ افزائی میں صرف کر ڈالے، میں ہمیشہ ان کی بزرگانہ شفقتوں سے مستفیض رہا ہوں۔

             میں جب خار زارِ ادب میں نو وارد تھا، اشعرؔ صاحب گاہے گاہے حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کے اجلاسوں میں شریک ہوا کرتے، میں اُن کو بہت انہماک سے سنا کرتا، اور ان کی شاعری کے محاسن پر سوچا کرتا۔  یوں میں اشعرؔ صاحب سے خاموش اصلاح لیا کرتا۔ مجھے یہ کہنے میں قطعاً کوئی عار نہیں کہ اشعرؔ صاحب میرے نزدیک تب بھی سند تھے، آج بھی سند ہیں۔ دوسروں کا مجھے نہیں پتہ، میں تو انہیں اہلِ زبان سمجھتا تھا، وہ تو ایک گفتگو میں انہوں نے بات کھولی کہ ان کے بزرگ ہندوستان کے علاقہ روہتک کے ایک قصبہ شکارپور میں رہتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۱ء میں اشعرؔ صاحب نے مہاجرت اختیار کی اور پاکستان آ گئے۔ بعد ازاں اُن کے والد ۱۹۵۸ء میں یہاں آئے، وہ عربی فارسی انگریزی اور اردو کے معروف عالم تھے۔ رئیس امروہوی، نسیم امروہوی اور جون ایلیا اشعرؔ صاحب کے سسرالی عزیزوں میں سے ہیں۔ یوں روہتک کی کھڑی بولی کے ماحول میں پرورش پا کر وہ ایسی اردو بولتے اور لکھتے ہیں کہ کیا کہنے!۔ ایسے اسلوب کی حامل شخصیت میرے لئے بلا مبالغہ برگد کے اس درخت کی مثال ہے جس کی گھنی ٹھنڈی چھاؤں میں کھیل ہی کھیل میں غزل سنگھار پاتی ہے اور افسانوں کے الفاظ دھڑکنا سیکھتے ہیں۔

            دھڑکنے سے یاد آیا، اشعرؔ صاحب کے حوالے سے اپنی کہانی آپ کو بھی سناتا چلوں۔ میں نے ان کی شخصیت اور فن کے حوالے سے اپنی طالب علمانہ آراء کو یک جا کیا، اپنی استطاعت کے مطابق جیسا لکھ پایا لکھا اور حلقہ کے خبرنامہ ’’کاوش‘‘ میں شائع کر دیا۔ اشعرؔ صاحب کا سہارا لے کر اپنا قد بڑھانے کی یہ میری دوسری کوشش تھی۔ میرا مضمون ’’برگِ آوارہ کی تمثیل‘‘ پہلے تو حلقہ کے خبرنامہ ’’کاوش‘‘ میں قسط وار شائع ہوئی [جلد اول شمارہ ۲ تا ۷ (جون تا نومبر ۱۹۹۸) ]۔ اس دوران میری آپ سے کبھی فون پر اور کبھی بالمشافہ ملاقات ہو جاتی۔ انہوں نے اپنی غزلیات کا مجموعہ شائع کرنے کا عندیہ اسی دوران دیا تھا۔ بعد ازاں نوید صادق نے اُس مضمون کو ’’سہ ماہی کاروان بہاول پور‘‘ [شمارہ جون۔ستمبر ۲۰۰۹] میں ایک ہی قسط میں شائع کر دیا۔اس کو جرأتِ رندانہ کہہ لیجئے کہ میں نے مضمون کی آخری قسط [شمارہ ۷ جلد اول (نومبر ۱۹۹۸ء، صفحہ ۴] کے ساتھ یہ خبر اپنے طور پر لگا دی:۔

تصویر بنا دی جائے

علی مطہر اشعرؔ صاحب آج کل اپنا شعری مجموعہ ’تصویر بنا دی جائے‘ کے نام سے ترتیب دے رہے ہیں۔ احباب کو ان کی کتاب کا شدت سے انتظار ہے۔

            یہ انتظار بڑا طویل ثابت ہوا، اشعرؔ صاحب کی کتاب دسمبر ۲۰۰۴ میں شائع ہوئی، تاہم اندازہ لگائیے کہ میری مسرت کا کیا عالم رہا ہو گا۔ اشعرؔ صاحب نے اپنے اولین شعری مجموعے کا نام بالکل وہی رکھا جس کا اعلان میں اُن سے اجازت لئے بغیر چھ سال پہلے کر چکا تھا، یعنی ’’تصویر بنا دی جائے‘‘۔ آپ کے ذہنوں میں یقیناً یہ شعر گونج اٹھا ہو گا:۔

کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لئے

بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے

             میرے نزدیک یہ ایک شعر نہیں بلکہ اشعرؔ صاحب کی جملہ ادبی تخلیقات کا اصلِ اصول ہے۔ اُن کی غزلیں دیکھ لیجئے، نظمیں دیکھ لیجئے، افسانے دیکھ لیجئے، تبصرے دیکھ لیجئے، مراثی اور سلام و منقبت دیکھ لیجئے یا اُن کے ساتھ آدھ پون گھنٹے کی نشست کر کے دیکھ لیجئے، آپ کو اُن کی ہر بات، ہر لفظ میں بے لاگ اور شفاف سچائی اور بلاغت ملے گی۔ کیوں نہ ہو! نہج البلاغہ کو جس طرح اشعرؔ صاحب نے پڑھا ہے اور اپنے اندر جذب کیا ہے، کم کم ہی کسی نے کیا ہو گا۔ یہی سچائی اور بلاغت ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔ الفاظ، تراکیب، استعارے، علامتیں، اور دیگر دیگر صنعتیں ان کے آگے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ ایک طرف امروہہ مکتبِ فکر سے فیض یاب ہوتے ہیں تو دوسری طرف انیس اور دبیر ان کے بقول ان پر وارد ہوئے ہیں۔ شاعری اور فطرت کے حوالے سے ان کی ایک بہت خوبصورت بات اور پندِ گراں قدر نقل کرتا ہوں : ’’ سرِ نوکِ خیال جو آئے کہہ ڈالیں، بعد میں اس کی نوک پلک درست کرتے رہیں۔ شاعری انسان کی فطرت میں شامل ہے، ہر شخص شاعری کرتا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس کی سطح کیا ہے‘‘۔

            اشعرؔ صاحب روایتوں کے امین بھی ہیں اور مائل پہ انحطاط اقدار پر بھی اُن کی گہری نظر ہے۔ انسانی معاشرہ اور اقدار زوال آمادہ ہیں، اور اس زوال کا اثر ہماری ادبیات پر بھی پڑا ہے۔ فارسی اور عربی سے بیزاری کا رویہ سامنے آیا ہے۔ میرے نزدیک اس کی دیگر مرکب وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک یہ بھی ہے، کہ ہم من حیث القوم بھی اور من حیث الامت بھی سہل پسند ہو گئے ہیں، اور محنت سے جی چرانے لگے ہیں۔ ستم یہ بھی ہے کہ ہم تاویلات میں پڑ گئے ہیں۔ ایک کام البتہ ہم نے بہت جی لگا کر سیکھا ہے اور وہ ہے عذر تراشی۔ ایسے میں سید علی مطہر اشعرؔ جیسی شخصیات کا وجود کئی اعتبار سے نعمت بھی ہے اور مثال بھی۔ تفصیل کا موقع نہیں، مشتے از خروارے کے طور پر اشعرؔ صاحب کے چند شعر پیش کرتا ہوں :۔

اشعرؔ جو فشارِ غمِ فردا سے بچا لے

ایسا کوئی نشتر بھی رگِ جاں کے لئے رکھ

رنگوں سے نہ رکھئے کسی صورت کی توقع

وہ خون کا قطرہ ہے کہ شہکار بنے گا

کیا قباحت ہے اگر شہر میں دریافت کریں

ہے کوئی اور بھی ہم سا کہ نہیں، دیکھ تو لیں

یہ بات باعثِ حیرت بھی ہے فرشتوں میں

کہ آدمی نے ابھی حوصلہ نہیں ہارا

اک نقص یہ بھی تھا کہ سرِ جادۂ طلب

جتنے بھی رہ نورد تھے سب محوِ یاس تھے

ہم میں اک شخص بھی ناواقفِ حالات نہیں

سب کے سب صاحبِ ادراک ہیں سب سوچتے ہیں

            بات چل نکلی ہے تو جی چاہتا ہے کہ میں اشعرؔ صاحب کی باتیں کرتا ہی رہوں۔ مگر مجھے جو مختصر کا وقت ملا ہے اس میں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ یہ بھی ایک لحاظ سے اچھا ہے، ورنہ اپنی علمیت کا پول کھل جاتا۔ اُدھر اشعرؔ صاحب کا انکسار دیکھئے، کہتے ہیں :۔

ہم اپنا قد بڑھا کر کیا کریں گے

غنیمت ہے کہ پاؤں پر کھڑے ہیں

            اشعرؔ صاحب بلاشبہ، بہر لحاظ اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں،ایک مضبوط اور گھنے برگد کی صورت! وہ برگد میرے جیسے کتنے ہی طفل فکروں کے لئے زمانے کی تند و تیز ہواؤں، کڑکتی دھوپ اور بے رحم بجلیوں سے پناہ دیتا ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ ٹھنڈی چھاؤں میرے اور آپ کے سروں پر تا دیر سلامت رہے۔ میری بڑی شدید خواہش ہے کہ ہماری جامعات اشعرؔ صاحب کی خدمات، شخصیت اور فن کے حوالے سے اپنے طلبا کو تحقیق کا کام تفویض کریں، اور اُن کو طوفانوں اور زلزلوں کے اس زمانے میں اپنے پاؤں پر کھڑے بوڑھے برگد سے فیض یاب ہونے کے مواقع فراہم کریں، یہ اردو ادب پر احسان ہو گا۔ یہ کام ایسا نہیں جسے ٹالا جا سکے کہ محبت کا قرض تو چکانا ہوتا ہے، اور بلا تاخیر و تأمّل چکانا ہوتا ہے۔

ہر قطرۂ خوں منتظرِ اذنِ فغاں ہے

یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا

            اجازت لینے سے قبل آج کی نشست کے شرکاء کی خدمت میں اپنے چند اشعار کا ہدیہ پیش کرنا چاہتا ہوں ، جس میں اپنے محترم بزرگ دوست سید علی مطہر اشعر کے اس شعر سے اکتسابِ فیض کیا ہے (۲۲۔ اگست ۱۹۹۸ء):

اس شہر کا کیا جانئے کیا ہوکے رہے گا

ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا

شعلہ سا وہ لپکا ہے کہستاں میں مکرر

خاشاک کا نمرود فنا ہو کے رہے گا

آباد بڑی دیر سے ہے شہرِ تمنا

اک روز درِ شہر بھی وا ہو کے رہے گا

اِس شہر پنہ کا ہمیں سایہ ہی بہت ہے

سودائے وطن سر پہ ردا ہو کے رہے گا

پھر دشمنِ ایماں نے نئی چال چلی ہے

کہتا ہے کہ وہ بندہ مرا ہو کے رہے گا

وعدوں پہ ترے چھوڑ دیا ہم نے بہلنا

اب خونِ جگر رنگِ حنا ہو کے رہے گا

لکھنا ہے مجھے نوحۂ برگِ گل یابس

۔’’یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا‘‘۔

 ٭٭٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید