FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ادبی تجزیئے

Adbi tajziye free urdu book

               غلام شبیر رانا

 

رولاں بارتھ (Roland Barthes)

فرانس کا  ایک  مردم خیز قصبہ چہر بورگ (Cherbourg)جو نارمنڈی (Normandy )کی حدود میں واقع ہے حسن فطرت میں ایک بلند مقام رکھتا ہے۔ اس قصبے سے 12 نومبر 1915کو ایک ایسا درخشاں ستارہ طلوع ہو اجس کی تابانیوں سے سفاک ظلمتیں کافور کرنے میں مدد ملی اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔ یہ نیر تاباں رولاں بارتھ تھا۔ جس نے ایک ادبی نظریہ ساز، فلسفی، نقاد، ماہر لسانیات اور رجحان ساز تخلیق کار کی حیثیت سے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ اس کے افکار کی ضیا پاشیوں سے علم و ادب کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا اور افکار تازہ کی ایسی نوید سنائی دی جس نے فکری اضمحلال اور جمود کا خاتمہ کر دیا۔ اس نے فکر و فلسفہ پر بڑے صدیوں کے تار عنکبوت ہٹا کر اسے جہان تازہ سے آشنا کیا۔ تقلید کی مہلک روش کے باعث تاریخی صداقتوں، تاریخ کے مسلسل عمل اور عصری آگہی پر ابلق ایام کے سموں کی جو گرد پڑ چکی تھی وہ سب اس نابغۂ  روزگار دانش ور کے فکر و فن اور فلسفیانہ افکار کی جولانیوں سے چھٹ گئی اور دلوں کو ایک ولولۂ  تازہ نصیب ہوا۔

  مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

  تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

تقدیر نے رولاں بارتھ کو عجیب حالات سے دوچار کر دیا۔ یہ حالات ہی تو ہیں جو قدم قدم پر انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا کر اسے ہجوم یاس میں تنہا آگے بڑھنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اس یاس و  ہراس کے عالم میں فرد اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا پھرتا ہے۔ اسی کا نام تقدیر ہے  جو انسان کی بے بسی کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتی۔ رولاں بارتھ کی عمر ابھی ایک سال سے بھی کم تھی جب اس کا والد شمالی سمندر کے علاقے میں ایک جنگ میں مارا گیا۔ رولاں بارتھ کی ماں ہینریٹ بارتھ(Henriette Barthes)کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا بیوگی کی چادر اوڑھے، اپنے یتیم بچے کو وہ آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھنے کی آرزومند تھی۔ اپنے قصبے سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد رولاں بارتھ اپنی ماں کے ہمراہ پیرس پہنچا، اس وقت اس کی عمر گیارہ برس تھی ْ۔ ایک فعال، مستعد اور زیرک طالب علم کی حیثیت سے رولاں بارتھ نے ہر امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس کی تعلیمی زندگی کا یادگار دور  وہ تھا جب وہ شہرۂ آفاق مادر علمی سور بون(Sorbonne)میں 1935 سے 1939تک زیر تعلیم رہا۔ یہاں ایسا تعلیمی ماحول تھا جس کے اعجاز سے ذرے کو آفتاب بننے کے فراواں مواقع میسر تھے۔ سخت محنت، اعصاب شکن حالات اور جذباتی شکست و ریخت نے رولاں بارتھ کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے اور اسے تپ دق کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ اس کے باوجود اس نے عزم و ہمت کی چٹان بن کر حالات کا خندہ پیشانی سے مقابل کیا اور ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بن کر لوح جہاں پر اپنی عظیم اور  فقید المثال  کامیابیوں اور کامرانیوں کے انمٹ نقوش ثبت کر دئیے۔ اس کی تصانیف کی تعداد بیس کے قریب ہے جو فکری تنوع اور جدت افکارکا اعلیٰ ترین معیار پیش کرتی ہیں۔ فرانس کی اہم جامعات کے علاوہ دنیا کی ممتاز درس گاہوں نے  اس یگانۂ روزگار فاضل کے افکار سے اکتساب فیض کیا۔ اس نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس میں گزاری اور فرانس کی صف اول کی جامعات میں اس نے تدریسی خدمات انجام دیں۔ رولاں بارتھ کو اپنی ماں سے بہت محبت، قلبی وابستگی اور عقیدت تھی۔ یہ اس کی ماں ہی تھی جس نے اس کی تعلیم و تربیت کی خاطر ہر قسم کی تکالیف اور صبر آزما حالات کا سامنا کیا۔ نا مساعد حالات کی بھنک تک اپنے فرزند کو نہ پڑنے دی۔ 25نومبر 1977کی شام رولاں بارتھ کے لیے شام الم ثابت ہوئی جب اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ اس  سانحے نے اس جری تخلیق کار کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا اس کا زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا مگر اس کی رو ح زخم زخم اور پورا وجود کرچی کرچی ہو گیا کمرے میں جس جگہ اس کی ماں نے آخری سانس لی وہاں ایک میز پر وہ روزانہ تازہ پھول بکھیرتا  اور اپنی عظیم محسن  اور غم خوار  ماں کی خدمت میں آنسوؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کرتا کسی نے سچ کہا ہے کہ شجر تناور کو اگر دیمک لگ جائے یا کسی آدمی کے دل میں غم بیٹھ جائے تو دونوں کا جانا ٹھہر جاتا ہے۔ رولاں بارتھ بھی جذباتی انہدام کی تاب نہ لا سکا اور 25مارچ 1980کو یہ آفتاب جہاں تاب عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب عازم سفر ہو گیا۔ وہ شعلہ جوالا تہہ خاک چلا گیا جو زندگی بھر اپنی گرمی ء گفتار سے دلوں کا ایک ولولۂ  تازہ کی نوید سناتا رہا۔ لسانیات کا یہ مسکراتا ہوا دبستان اور اپنی فکر پرور اور خیال افروز گفتگو سے محفل کو مسحور کر دینے والے نقاد سے فرشتۂ اجل نے تاب گویائی اور قلم چھین لیا۔ اس کی وفات سے ساختیاتی فکر کا ایک اہم ستون زمیں بوس ہو گیا۔ نظر ی و عملی تنقید کی عظیم الشان روایات اور زندگی کی اقدار عالیہ کی ترجمانی کا باب اپنے اختتام کو پہنچا۔ کئی حقیقتیں خیال و خواب بن گئیں اور بزم ادب سوگوار ہو گئی۔ پوری دنیا کو اپنے تہلکہ خیز خیالات سے چونکا دینے والا جری تخلیق کار جس خاموشی سے  عازم اقلیم عدم ہو گیا اس نے سب پر حیرت اور سکتے کی کیفیت طاری کر دی۔

  مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

 تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

  سلسلۂ  روز و شب نقش گر حادثات ہے۔ اس وسیع و عریض عالم آب و گل کے مظاہر، دراز کار جہاں، اسرار و رموز اور تعاملات اس حقیقت کے مظہر ہیں کہ یہ کائنات ابھی شاید نا تمام ہے اسی لیے دما دم صدائے کن فیکون کانوں میں گونجتی ہے۔ جہاں تک تخلیق ادب کا تعلق ہے تو اس کے سوتے اس تمام اسی معنی خیزی سے پھوٹتے ہیں۔ ادب کے بارے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کہ ایک فعال مستعد اور زیرک تخلیق کار اپنی تخلیقی  فعالیت کے اعجاز سے محض گنجینۂ  معانی کے طلسم کی گرہ کشائی نہیں کرتا بلکہ ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باند ھ کر نئے معانی کو سامنے لاتا ہے۔ اس کی یہ حیران کن فعالیت ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے اور نئے معانی کی تخلیق اور نئے مفاہیم کی آفرینش سے ایک دھنک رنگ منظر نامہ مرتب ہوتا ہے رولاں بارتھ کے خیال کے مطابق فکر و خیال کی اسی جولانی کو تخلیق ادب پر محمول کرنا چاہیے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان کا ادب محض لفظی مرقع نگاری کے ذریعے تمام مناظر، مطالب اور مفاہیم تک رسائی کے امکانات سامنے نہیں لاتا بلکہ اس کے معجز نما اثر سے ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے غیب سے نئے نئے  مضامیں خیال میں آتے چلے جاتے ہیں اور اس طر ح ایک ایسا غیر مختتم سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو نت نئے معانی اور مفاہیم کی تشکیلات پر منتج ہوتا ہے۔ اس لیے رولاں بارتھ نے ادب کو معنی خیزی کا نقیب قرار دیا۔ یہ معنی خیزی اس قدر وسیع، جامع اور ہمہ گیر ہوتی ہے کہ ہر لحظہ اس کی نئی شان قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ زبان کے بارے میں رولاں بارتھ کے تصورات ساختیاتی فکر کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس نے زبان کے ہمہ گیر اثر کو زیر بحث کاتے ہوئے لکھا ہے :

"Language in concrete situations-resembles that between langue /parole but, so to speak, brings within the scope of language elements- the recursive process underlying sentence formation-regarded by Saussure as belong into parole.” (1)

 رولاں بارتھ نے سوسئیر کے خیالات کی تشریح و توضیح میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ اس نے اپنی کتا  ب عکس، موسیقی اور متن (Image, Music and Text)میں زبان، الفاظ اور ابلاغ کے متعدد اہم پہلوؤں کو زیر بحث لاتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ تصویر کی ہمہ گیر اثر آفرینی کا ایک عالم معترف ہے۔ اس نے اس کتاب میں متعدد دلکش تصاویر کو شامل کیا ہے۔ کچھ تصاویر تو ایسی ہیں کہ جن کی خاموشی گفتگو ہے اور بے زبانی زبان کا منفرد انداز لیے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر چند تصاویر جو مؤثر ابلاغ کو اس طر ح یقینی بناتی ہیں کہ ان کے حسن و دلکشی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ان میں تیر انداز، مہ جبیں حسیاناؤں کا ہجوم اور ان کا انداز دل ربائی، شاہی دربار کا جاہ و جلال، نئے بادشاہ کی رسم تاج پوشی، مرنے والے پر جاں کنی کا عالم، حالت نزع کے تاثرات، پیغام اجل، ماتمی جلوس، مراقبہ، یاد رفتگاں، جدائی کی کیفیت، مرنے والوں کے لواحقین کی آہ و فغاں، عالم حسرت و یاس  اور آبشار کی تصاویر کو جس فنی مہارت سے تیار کیا گیا ہے وہ فن کار کے ذوق سلیم کا واضح ثبوت ہے۔ رولاں بارتھ نے تصاویر کی مدد سے زندگی کی مقتضیات اور حقیقی معنویت کی بڑے احسن طریقے سے تشریح کی ہے۔

  تخلیق ادب میں کئی معتبر حوالے منصۂ شہود پر آتے ہیں۔ ان میں سے بعض کردار بہت اہمیت کے حامل ثابت ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تخلیق کار کے معتوب کردار اس بے دردی کے ساتھ تختۂ مشق بنائے جاتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معتوب کردار تخلیق کار کے نوک قلم کے نیچے سسکتے، تڑپتے اور نیم جاں کیفیت میں بے بسی کے عالم میں پڑے ہوتے ہیں مگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ رولاں بارتھ نے تخلیق کار کے اس رویے پر گرفت کی اور قاری کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ کاش ان کرداروں کو کبھی اس انتقامی کارروائی سے نجات مل سکتی جو کہ تخلیق فن کے لمحوں میں اس کے ساتھ روا رکھی جاتی ہے۔ رولاں بارتھ نے ایک سچے تخلیق کار کے منصب سے بحث کرتے ہوئے اس امر پر اصرار کیا کہ ہر کردار کے ساتھ منصفانہ سلوک ضروری ہے۔ معتوب کردار بھی اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنا دفاع کر سکیں اور مصنف کے یک طرفہ سلوک  اور حقارت آمیز  مرقع نگاری  اور نفرت سے بچ سکیں۔ مصنف جو الفاظ استعمال کرتا ہے ان کی صداقت کے بارے میں گہری چھان پھٹک نا گزیر ہے۔ تصو یر ایک ہی رخ اور ایک لفظ کے واحد معنی پر رولاں بارتھ کو شدید اعتراض تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک لفظ اپنے دامن میں ایک صد رنگی کی کیفیت لیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کے  معانی کی متعدد  پرتیں اور طرفیں ہوتی ہیں۔ رولاں بارتھ نے اظہار، ابلاغ اور کثیر المعنویت کے سلسلے میں بڑی چشم کشا صداقتیں بیان کی ہیں۔ اس نے لکھا ہے :

"It is said that we preserve the meaning of words : in short that the  word has only one meaning: the right one .This rule illicitly engenders a suspicion what is worse, a general trivialization  of metaphorical language.”(2)

تاریخ کو رولاں بارتھ نے ایک ایسے علم کا نام دیا ہے جو چونکا دینے اور ورطۂ  حیرت میں ڈال دینے کی صلاحیت سے متمتع ہے۔ حریت فکر کے ایک مجاہد کی حیثیت سے رولاں بارتھ نے تقلیدی رجحانات کے مسموم اثرات سے بچنے کی راہ دکھائی، اس نے ادبی، لسانی، تہذیب اور ثقافتی اقدار و روایات کے پرانے اور فرسودہ تصورات کی اسا س پر استوار کاخ و ایوان کو تیشۂ  حرف سے منہدم کر دیا۔ زبان کو اس نے کبھی شفاف میڈیم تسلیم نہ کیا اور ان لوگوں کے انداز فکر کو گمراہ کن قرار دیا جو زبان کو ایک شفاف میڈیم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ادبی تنقید کو اس نے ایسا دلکش اسلوب اور ڈسکورس عطا کیا کہ اسے تخلیق کی رعنائیوں سے مزین کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ بادی النظر میں ماضی، حال اور مستقبل کے متعلق مثبت شعور و آگہی کے سوتے تاریخ کے حقیقی شعور سے پھوٹتے ہیں۔ تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی کی صورت میں انسان اپنے حال کو سنوارنے کے لیے بہتر لائحۂ  عمل اختیار کر سکتا ہے۔ اس کے اعجاز سے ایک مثبت انداز فکر پروان چڑھتا ہے اور انسان یہ محسوس کر لیتا ہے کہ ستاروں سے آگے اور بھی جہاں ہیں۔ اس کی نگاہ بلند ہو جاتی ہے اور وہ ستاروں پہ کمند ڈالنے کی صلاحیت اپنے اندر موجزن محسوس کرتا ہے۔ آج  کے دور میں زندگی کی برق رفتاریوں نے فاصلوں کی طنابیں کھینچ لی ہیں۔ تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی کے بعد یہ بات روز روشن کی  طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لانے والے اولو العزمان دانش مند جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر کی راہ اپناتے ہیں۔ جب  ایک جر ی تخلیق کار حق گوئی، بے باکی اور صداقت کی مشعل تھام کر تخلیق فن پر مائل ہوتا ہے تو اس کا وجود مہیب سناٹوں میں حق کی آواز اور ہولناک تاریکیوں میں ستارۂ سحر اور جانگسل تنہائیوں ایک قابل اعتماد ساتھی کی حیثیت سے حوصلے اور ہمت کی نوید بن جاتا ہے۔

رولاں بارتھ کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ چربہ ساز، سارق، کفن دزد، جعل ساز اور خفاش عناصر نے گلشن ادب پر دھاوا بول دیا ہے۔ ان لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں کے باعث فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم اب تک نہیں آسکا۔ قلم فروش ادیبوں کے قبیح کردار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے رولاں بارتھ نے واضح کیا ہے کہ ان سفہا، اجلاف و ارزال اور ساتا روہن کی وجہ سے ادب نے الفاظ کے سرطان کی صورت اختیار کر لی ہے۔ جب بھی لفظ کی حرمت کو پامال کیا گیا رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں۔ ایک سچے تخلیق کار کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے تخیل کی جولانیوں سے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اپنے الفاظ میں اس طر ح اتار ے ہیں ہے کہ قاری ان کی رو ح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مسحور ہو جائے۔ رولاں بارتھ کی تحریروں میں یہی اثر آفرینی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ اپنے تخیل کی جولانیوں سے قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے میں رولاں بارتھ کو ید طولیٰ حاصل ہے۔ ادبی دبستانوں سے دامن بچاتا ہو اوہ اپنے لیے ایک الگ اور منفرد راہ کا انتخاب کرتا ہے اس کی اس انفرادیت میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں۔ اپنی ادبی زندگی اور تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت رولاں بارتھ نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اس کا تعلق قلم و قرطاس کے حوالے سے تخلیق ادب سے ہے۔ اس نے کبھی تنقید، لسانیات یا دیگر نظریات کے حوالے سے احساس تفاخر کا اظہار نہیں کیا۔ عجز و انکسار اس کی فطرت کا حصہ تھا۔

 رولاں بارتھ کا معر کہ آرا کام S/Zہے جو کہ بالزاک کے ناولٹ ( Sarrasine )کے تجزیاتی مطالعہ پر مبنی ہے۔ بالزاک کا ناولٹ تیس صفحات پر مشتمل ہے ہے اور ادبی حلقوں میں  اس کی زیادہ پذیرائی بھی نہ ہو سکی۔ رولاں بارتھ نے اس ناولٹ کا اس قدر جامع اور عالمانہ تجزیہ پیش کیا ہے کہ دو سو صفحات میں اس کے تمام پہلو کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ اسلوب اور ڈسکورس کے اعتبار سے S/Zاپنی مثال آپ ہے۔ عالمی ادبیات میں فکشن کی تنقید کا اس قدر ارفع معیار اس سے قبل کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ S/Zجو کہ 1970میں شائع ہوئی تنقید کا بلند ترین معیار پیش کرتی ہے۔ رولاں بارتھ کی پس ساختیاتی فکر  کے اہم پہلو  اس اہم تصنیف میں یک جا ہو گئے ہیں۔ اسلوب کی دل کشی اور انفرادیت کی منفرد شان کی بدولت یہ کتاب مسلسل مرکز نگاہ چلی آ رہی ہے۔ رولاں بارتھ نے ادب، تہذیب اور ثقافت کے بارے میں اپنا موقف نہایت مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ ثقافتی اقدار کے متعلق رولاں بارتھ کا انداز فکر نہ صرف حقیقت پسندانہ ہے بلکہ اس نے اپنے جاندار اسلوب سے معاشرت اور ثقافت کی اہم اقدار کو زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا کیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ ایک زیرک تخلیق کار کو اپنا یہ فرض کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ حرف صداقت لکھنا اس کا نصب العین ہے۔  رولاں بارتھ نے زندگی کے بارے میں کئی پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس نے اس حیات مستعار کو اہم نشانات، علامات، اشارات اور کوڈز کی صورت میں دیکھنے کی جو سعی کی ہے وہ اس کے ندرت تخیل کا شاندار نمونہ ہے  ممتاز نقاد اور دانش ور جوناتھن کیولر (Jonathan Culler )نے رولاں بارتھ کی تصنیف S/Zسے درج ذیل اقتباس پیش کیا ہے ؛

"The classic remedy…..is to treat  them ironically by superimposing a second code that enunciates them with detachment…In saying that Sarrasine, had hoped for dimly lit room, a jealous rival, death and love, etc, the discourse mingles three staged codes ….The code of passion establishes what Sarrasine is supposed to be feeding; the novelistic code transforms this feeling, into literature: it is the code of an innocent author who has no doubt that the novelistic is a just(natural)expression of passion. The ironic code takes up the, naïveté, of the first two codes: as the novelist undertakes to speak of the character(code2)the ironist undertakes to speak of the character(code2),the ironist undertakes to speak of the novelist (code 3)….it would suffice to produce….a pastiche of Balzac to take one step further this staggering of codes. The effect of this can tilevering? Constantly going beyond the previous stage and aspiring to infinity. It constitutes writing in all power of its play.” (3)

 رولاں بارتھ کو جو مقبولیت اور پذیرائی نصیب ہوئی اس کے پس پردہ جو تخلیقی عوامل اور محرکات کار فرما ہیں ان کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کے مزاج کی متضاد، تہلکہ خیز، بت شکن اور سیمابی روش  نے اسے جو انفرادیت عطا کی اس کے اعجاز سے اس نے جریدۂ  عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ اس نے ساختیاتی فکر کو نئی جہات سے آشنا کیا۔ ساختیات، لسانیات، نشانات اور علامات کے نظام کے شارح کی حیثیت سے بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا۔ رولاں بارتھ نے تنقید کو تخلیق کی چاشنی عطا کی اور اس کی تحریروں میں دلچسپی سے لبریز قابل مطالعہ مواد نے قاری کی توجہ حاصل کی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی تحریروں سے مسرت، شادمانی، حوصلے اور امید کی نوید ملتی ہے۔ متن میں پوشیدہ گنجینۂ  معانی کے بارے میں کوڈز کی اختراع اس کی سوچ کا ایک انوکھا پہلو سامنے لاتی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ متن کی تفہیم اور توضیح صرف قاری سے منسلک ہے اس عمل میں مصنف کا  سرے سے کوئی کردار ہی نہیں۔ اس کا شہرۂ آفاق تجزیاتی مضمون "The death of the author”اس کی بت شکن روش کا مظہر ہے۔ رولاں بارتھ نے اپنے اس نوعیت کے انقلابی تصورات سے پوری ادبی دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کی اقلیم فن میں حیرت کی فرماں روائی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی معرکہ آرا تحریروں سے  سب کو حیران کر گیا اور یہی اس کے کمال فن کا راز ہے۔

  تخلیقی عمل جس محنت، لگن، انہماک اور عمیق مطالعہ کا متقاضی ہے رولاں بارتھ نے اس پر توجہ مبذول کراتے ہوئے ایک مثال دی ہے۔ ہر بر ٹ جو کہ انقلاب فرانس میں ایک سر گرم کارکن  تھا اور ایک اخبار کا مدیر بھی تھا۔ وہ اخبار کو کبھی شائع نہ کرتا جب تک اس کا عمیق مطالعہ نہ کر لیتا۔ تحریر کے بین السطور مفاہیم پر اس کی کڑی نظر رہتی۔ اس سے وہ یہ مراد لیتا ہے کہ ہر زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لفظ کی حرمت کو ہمیشہ ملحوظ رکھے۔ رولاں بارتھ کی کتاب "Writing degree zero”میں ان تمام عوامل کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کتاب سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

"They signified a whole revolutionary situation. Here is an example of a mode of writing whose function is no longer only communication or expression but the imposition  of something beyond language which is both history and the stand we take in it.”  (4)

رولاں بارتھ نے مصنف اور مسودہ نویس کے مابین پائے جانے والے فرق کو واضح کیا۔ اس نے چربہ ساز عناصر کو اس طر ح آئینہ دکھایا کہ ان کی قلعی کھل گئی۔ ایک زیرک مصنف جب قلم تھام کر پرورش لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو اس کی تحریر نوائے سروش کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اس کے بر عکس ایک چربہ ساز متفی معاشرے کی نظروں میں گر جاتا ہے۔ قارئین اس کی قلا بازیوں، ملمع کاری اور جعل سازیوں کو  لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔ رولاں بارتھ نے لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں کا تمام احوال نہایت دیانت داری سے بیان کیا ہے۔ گلشن ادب کو ان کے مسموم اثرات سے نجات دلانے کے لیے رولاں بارتھ نے فکری سطح پر جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اس نے حق گوئی اور بے باکی کو جس طر ح اپنایا اس کی بنا پر تاریخ ہر دور میں اس کی تعظیم کرے گی۔

  فنون لطیفہ کے ساتھ رولاں بارتھ کی دلچسپی اس کے ذوق سلیم کی مظہر سمجھی جاتی ہے۔ اس کا خیال تھا کہ ہر پیکر تصویر ایک نقش فریادی کے روپ میں دعوت نظارہ دیتا ہے۔ ہر تصویر اپنے اندر ابلاغ کے وسیع تر امکانات لیے ہوئے ہوتی ہے۔ تصاویر ایک قلزم معانی کے مانند ہیں ان کی غواصی کرنا اور ان کی تہہ سے معانی کے گہر ہائے آبدار بر آمد کرنا بلا شبہ ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ رولاں بارتھ نے مراقبے کے ذریعے تصاویر کے معانی اخذ کرنے کے متعدد تجربات کیے۔ وہ فن مصوری اور فوٹو گرافی کے جملہ اسرار و رموز کی اس طرح گرہ کشائی کرتا ہے  کہ اس پر ایک ماہر مصور کا گمان ہوتا ہے۔ اس نے یہ بات زور دے کر کہی کہ جامد و ساکت تصاویر بھی زبان حال سے کچھ نہ کچھ مطالب ادا کرتی ہیں۔ اس نے لکھا ہے :

"Photography is a kind of primitive theater, a kind of tableauvivant, a figuration of the motionless and made up face beneath which we see the dead.” (5)

  رولاں بارتھ کی سیماب صفت اور تہلکہ خیز تحریروں کے بارے میں رد عمل بھی ظاہر ہوا۔ بعض لوگوں نے اسے جدت، تنوع، ندرت اور انفرادیت کی اقلیم کا بے تاج بادشاہ قرار دیا ہے تو کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی تحریروں پر یاسیت زدہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں اس تمام صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے گراہم ایلن (Graham Allen )نے لکھا ہے :

The modern writer for Barthese is a sisyhean figure,continually striving to create a free writing, continually experiencing the collapse of writing into Literature. Barthese thesis is pessimistic, but it is also more Marxist than Sartre’s in  its sense of relation between writing and society.”(6)

رولاں بارتھ نے مکتبی تنقید کو قابل اعتبا ر نہیں سمجھا۔ اس کا خیال تھا کہ مکتبی نقادوں نے اپنی بے بصری، کور مغزی اور جہالت مآبی کی وجہ سے تنقید کو بازیچۂ اطفال بنا دیا ہے۔ مکتبی تنقید کی وجہ سے سنجیدہ تحریروں کے حسن و قبح کو زیر بحث لانے کا سلسلہ رو بہ زوال ہے۔ مکتبی تنقید میں تاریخ، نفسیات، لسانیات اور نظریات کا حقیقی شعور عنقا ہے۔ رولاں بارتھ نے خود نوشت اور آپ بیتی کی اصلیت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ وہ آزادیِ تحریر اور آزادیِ اظہار کو انسانی آزادی سے تعبیر کرتا تھا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرنا اور ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو تاباں رکھنا حریت فکر کے مجاہدوں کا شیوہ ہو تا ہے۔ متاع لوح و قلم چھن جانے کے باوجود بھی یہ لوگ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر حرف صداقت لکھنے  کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ رولاں بارتھ نے ظلم کے تمام ضابطے مسترد کر دیئے کیونکہ ان کی وجہ سے آزادیِ اظہار کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ اس نے یہ بات ببانگ دہل کہی کہ روشنیوں کی راہ میں جو بھی دیوار بنتا ہے سیل زماں کے تھپیڑے اسے خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ اس نے اپنی خود نوشت میں اپنا تمسخر بھی اڑایا ہے اس کام کے لیے بڑے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے مدت سے جو حسرت انصاف تھی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نے خود اپنے خلاف بھی کئی فیصلے صادر کر دیئے۔ اپنی آپ بیتی میں اس نے بڑے دلچسپ انداز میں زندگی کے تلخ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس نے لکھا ہے:

"I my self am my own symbol, I am the story which happens to me : free wheeling in language, I have nothing to compare myself to; and in this movement the pronoun of imaginary ‘I” is in-pertinent; the symbolic because literally immediate: essential danger for life of the subject: to write on oneself may seem a pretentious idea; but it is also a simple idea: simple as the idea of suicide.” (7)

  زندہ خیالات اور ابد آشنا تصورات لوح جہاں پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتے ہیں جب کہ تقلید کی مہلک روش اختیار کرنے والے اپنی موت آ پ مر جاتے ہیں ان کا نام حرف غلط کی طرح مٹ جاتا ہے۔ عالمی ادبیات کو تنقید، تخلیق، نفسیات، لسانیات، فلسفہ، عمرانیات اور علم بشریات کے جملہ اسرار و رموز سے آشنا کرنے والے اس دانش ور کا نام ادبی حلقوں میں ہمیشہ عزت و وقار کے ساتھ لیا جائے گا۔ اس نے نئے زمانے اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کا احساس اجاگر کیا۔ اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ احساس زیاں کا عنقا ہونا  خطرے کی گھنٹی ہے۔ امروز کی شورش میں اندیشۂ  فردا کا پیدا ہونا تنقید کا ثمر ہے۔ رولاں بارتھ نے اپنے لسانی نظریات سے جمود کا خاتمہ کیا اور فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عالمی ادبیات میں اس نقاد کے دبنگ لہجے کی صدائے باز گشت تا ابد سنائی دیتی رہے گی۔ الفاظ کے نئے نئے معانی اور مفاہیم کی جستجو کی جو راہ رولاں بارتھ نے دکھائی وہ اس کی اعلیٰ سوچ کی علامت ہے۔ اس نے لسانی تنقید کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے مالامال کر دیا۔ اس کے کمالات کا عدم اعتراف احسان فراموشی کے مترادف ہے۔ دنیا کا نظام ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا۔ اس میں سکوں محال ہے ثبات تو صرف ایک تغیر کا نام ہے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ رولاں بارتھ پر شکوہ آواز کی باز گشت تنقید و ادب کے ایوانوں میں ہمیشہ گونجتی رہے گی۔

پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں

جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی

٭٭٭

 

مآخذ

(1)Roland Barthes: Image, Music, Text, Fontanna Press,1977,Page 8

(2)Roland Barthes: Criticism and Truth, Athlone Press London, 1987,Page 6

(3)Jonathan Culler : Barthes,A very short introduction,Oxford University Press, London  Page71

(4)Jonathan Culler: Barthes, A very short introduction,  Page,17 (5)Rolan Barthes: Camera Lucida,Translated by Richard Howard,Hill and Wang, London Page 32

(6)Graham Allen : Roland Barthese, Routledge, London, 2004, Page 20

(7)Roland Barthese: Roaln Barthese by Roland Barthese, Translated by Richard Howard, Los Angles 1977, Page 56

٭٭٭

 

سوسئیر (Saussure): ایک مطالعہ

بیسویں صدی کا ممتاز ماہر لسانیات سوسئیر26نومبر 1857کو اپنے آبائی شہر جنیوا میں پیدا ہوا۔  اس نے اپنی تعلیم جرمنی اور فرانس سے مکمل کی اور تمام امتحانات میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے جنیوا یو  نیورسٹی  میں تدریسی خدمات پر مامور کیا گیا۔ یہیں سے اس کے لسانی نظریات اور شعبہ لسانیات میں اس کے انقلابی تصورات کا آغاز ہوا۔ اسے جدید لسانیات کا موجد اور باوا  آدم قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی علمی، ادبی اور لسا نی  خدمات کے اعتراف میں جنیوا یونیورسٹی میں اس کے نام کی چئیر کا قیام عمل میں لایا گیا جس پر وہ زندگی بھر مسند نشیں رہا۔ سوئٹزر لینڈ کے اس نامور دانشور نے پوری دنیا کو  لسانیات میں اپنے انقلابی تصورات سے حیرت زدہ کر دیا۔ اس نے زندگی بھر فروغ علم و ادب کے لیے اپنی جدو جہد کو جاری رکھا۔ اس کے افکار کی تابانیوں اور تصورات کی ضیا پاشیوں سے تقلید کی تاریکیاں کافور ہو گئیں، افکار تازہ کی نوید سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات پیدا ہونے لگے اور لسانیات میں نئے  مباحث کے دروازے کھلنے لگے۔ 22فروری 1913کو جدید لسانیات کے اس عظیم مفکر نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ اس کی وفات سے جدید لسانیات کو  ایک منفرد اسلوب کے حامل بے باک اور انقلابی فاضل سے محرومی کا صدمہ سہنا پڑا۔

لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا

ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا

سوسئیر زندگی بھر ستائش، صلے اور نمود و نمائش سے بے نیازتدریسی  خدمات میں مصروف رہا۔ اس کی زندگی میں اس کی کوئی با ضابطہ تصنیف شائع نہ ہو سکی اور نہ ہی کسی کتاب کا کوئی مسودہ مرتب ہو سکا۔ اس کی وفات کے بعد اس کے رفقائے کار  اور شاگردوں کی مدد سے اس کے کلاس لیکچرز کو جمع کیا گیا ان کی بہ غور چھان پھٹک اور تحقیق کے مراحل سے گزارنے کے بعد  انھیں کتابی شکل میں 1916میں شائع کیا گیا۔ یہ کتاب Course in General Linguistics کے نام سے  پوری دنیا میں مشہور ہوئی اور اسے جدید لسانیات کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا شمار بیسویں صدی کی اہم ترین  لسانی تصانیف میں ہوتا ہے جن کے معجز نما اثر سے فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی اور جس کی باز گشت  اب تک علم و ادب کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔ سوسئیر کی یہ تصنیف  اب تک انسانی تہذیب و ثقافت، ادب و لسانیات اور فلسفہ کی سب سے زیادہ مطالعہ کی جانے والی کتب میں شمار ہوتی ہے۔ نشاتہ الثانیہ کے دور سے لے کر اب تک جتنی بھی وقیع تصانیف منظر عام پر آئی ہیں ان میں سے چشم کشا بیانات، فکر پرور خیالات، رجحان ساز تصورات اور لسانیات کے انقلابی نظریات کے اعتبار سے سوسئیر کی یہ تصنیف کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔

  سوسئیر نے قدیم مروج لسانی تصورات اور فلسفیانہ خیالات کو لائق اعتنا نہیں سمجھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ تمام خیالات نسل در نسل تاریخی روایات کی اساس پر استوار ہیں جن میں تقلیدی  تصورات اور اوہام پرستی کے عناصر کے باعث صداقتوں پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑتی چلی گئی ہے۔ کورانہ تقلید کو اس نے بے بصری پر محمول کیا اور واضح کیا کہ ایسی روش ہلاکت خیزی کی جانب لے جاتی ہے جس سے فکری بانجھ پن کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا اصرار تھا کہ لسانیات کے قدیم تصورات جدید دور میں قابل عمل نہیں ہیں کیونکہ ان تصورات میں حقائق کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ قدیم لسانی محقق محض آوازوں کے مطالعہ اور علم معانی کے حصار میں رہتے ہوئے گنجینۂ  معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے امکانات پر غور کرتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لسانیات جیسے اہم موضوع پر قدیم لسانی محقق اس سہو کا مرتکب ہوا کہ وہ زبانوں کے مختلف گروہوں کے ارتقائی مراحل کو زیر بحث لاتے وقت اس تفکر اور تعمق کو رو بہ عمل نہ لا سکا جو اقتضائے وقت کے مطابق تھا۔ سوسئیر نے لسانی مباحث کو ایک منفرد روپ عطا کیا اور زبان کو اشارات کے ایک نظام سے تعبیر کیا، جس کا عمیق مطالعہ اس امر کا متقاضی ہے کہ یہ تمام عمل بہ یک  وقت اور ساتھ ساتھ پایۂ  تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لسانیات کا مطالعہ اس طرح کیا جائے کہ زبان کو ایک مکمل نظام کی حیثیت سے دیکھتے ہوئے ایک خاص نقطے اور خاص وقت پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ وہ اسے یکساں نوعیت کے نظام سے تعبیر کرتا ہے اس کو دو الگ الگ نظاموں کے بارے میں اس کے متعدد تحفظات ہیں۔ سوسئیر کے خیال میں لفظ  کی جو تحریری یاتقریری شکل ہمارے مشاہدے میں آتی ہے اسے نشان (Sign)  سمجھناچاہیے اس کے علاوہ  یہ  بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جس طرح کاغذ کے دو پرت ہوتے  ہیں اسی طر ح لفظ کے بھی دو پہلو موجود ہوتے ہیں۔ سوسئیر ایک پہلو کو معنی نما (Signifier)کا نام دیتا ہے جب کہ دوسرے پہلو کو وہ تصور معنی (Signified)سے تعبیر کرتا ہے۔ سوسئیر سے قبل لسانیات کے ماہر زبان کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے چلے آئے تھے:

  لفظ =چیز  یا دوسرے لفظوں میں Word= Thing

سوسئیر نے اپنے انقلابی تصور لسانیات کے مطابق لفظ اور معنی کے بارے میں جو منفرد نمونہ پیش نظر رکھا اسے اس طر  ح ظاہر کیا جا سکتا ہے :

 نشان =معنی نما  Sign =Signifier

 تصور معنیSignified

سوسئیر نے تصور معنی اور معنی نما کے درمیان پائے جانے والے تعلق کے بارے میں یہ بات صراحت سے بیان کی ہے کہ یہ تعلق بادی النظر میں ایک ایسی نوعیت کا حامل ہے جس کو من مانی حیثیت قرار دینا درست ہو گا۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ جب لسانیات کی رو سے پہلی مرتبہ ایک شخص نے ایک چوپائے کو جو کہ چھوٹے قد کا تھا اسے بلی کا نام دیا تو اب تک اس چوپائے کو بلی ہی کہا جاتا ہے۔ اس مخلوق کا یہ نام من مانا ہی تو ہے۔ جس کا حوالہ دیا جا رہا ہے اس کو جس نام سے یاد کیا جائے وہ نا معلوم کب سے اسی من مانے انداز میں لسانی پہلو سے نوک زبان پر ہے۔ وہ نظام افتراقات کے ذریعے ان  تمام ناموں کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس طرح اس کا پیش کردہ نظام افتراقات اپنے اندر ایک قلزم معانی کو سموئے ہوئے قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔

سوسئیر کا ایک اہم کام یہ ہے کہ اس نے لسانی امور کی تفہیم کے لیے دو اہم اصطلاحیں متعارف کرائیں۔ ان دو اصطلاحوں کے ذریعے وہ اپنے تصورات کی توضیح کرتا ہے۔ پہلی اصطلاح کو وہ لانگ (Langue)ٌکا نام دیتا ہے۔ لانگ سے مراد زبان کا تجریدی نظام (Abstract System)ہے۔ اس سے وہ ایسی زبان مراد لیتا ہے جو ابلاغ، بول چال اور مکالمات کے ذریعے اپنی تفہیم کی یقینی صورت پیدا کر سکے۔ دوسری اصطلاح پارول (Parole)ہے۔ سوسئیر پارول سے ایسی زبان مراد لیتا ہے جو بولنے والے کی کامل دسترس میں ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ لانگ(Langue)اپنی نوعیت کے لحاظ سے قواعد کے ایک غیر شخصی ذہنی تصور اور فعالیت کا ایک روپ ہے۔ جہاں تک پارول (Parole)کا تعلق ہے اسے سوسئیر ایک کے خیال کے مطابق ایک طریق کار سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے معجز نما اثر سے گنجینۂ  معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ سوسئیر نے کہا تھا :

"In linguistic system,  there are only differences : meaning is not mysteriously immanent in a sign  but is functional,  the result of  its difference from  other  sign ”  (1)

  سوسیئر نے واضح کر دیا کہ زبان کو ایک کلی نظام میسر ہے جو کہ ہر لمحہ مکمل حالت میں موجود رہتا ہے۔ جس طرح یہ کائنات نا تمام ہونے کے باوجود ہر لمحہ مکمل صورت میں سامنے آتی ہے اسی طرح زبان کا کلی نظام بھی ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت کا مظہر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک لمحہ قبل وقو ع پذیر ہونے والے تغیرات بھی زبان کے اس کلی نظام کی دسترس میں ہوتے ہیں :

 یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آ رہی ہے دما دم  صدائے کن فیکون

اس وسیع و عر یض کائنات کا بنظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ عالم آب و گل محض اشیا کا رہین منت نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کائنات کے حقائق ہیں جو ایک جا مع صورت میں سامنے  آ کر صورت حال کو پیش کر تے ہیں۔ ساختیات کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس کائنات کا وجود اشیا کے آزادانہ وجود سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ ساختیات نے واضح کر دیا کہ زبان کو اشیا کے نام دینے والے نظام سے تعبیر کرنا غلط ہے۔ اسی لیے وہ زبان کو اسمیانے( Nomenclature )والا نظام نہیں سمجھتے۔ دراصل یہ ساخت ہی ہے جو نام دینے  کی صلاحیت سے متمتع ہے۔ ساخت کو انسانی ذہن و ذکاوت اور فہم و ادراک میں کلیدی مقام حاصل ہے۔ اگر اشیا اور تصورات کو ان اہم اور وقیع نشانات ( جو کہ انھیں ایک دوسرے سے ممیز کر تے ہیں )  سے باہر رہتے ہوئے بھی قابل فہم بنایا جا سکے تو اس طرح ایک زبان سے دوسری زبان کی اصطلاحات کا بالکل صحیح مترادف میسر آسکتا ہے۔ یہاں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے چونکہ تراجم بالعموم تخمینے یا قریب قریب مفہوم کے بیان پر مبنی ہو تے ہیں اس لیے مفاہیم و مطالب کا انحصار فرق پر ہونا چاہیے نہ کہ چیزوں کے حوالے یا تصورات پر۔ ممتاز نقاد ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton)نے سوسئیر کے کسانی نظریات کے حوالے سے لکھا ہے :

"Saussure believed that linguistics would get  into a hopeless mess if it  concerned  itself with actual speech, or parole as he called it. He was not interested in investigating what people actually said ; he was concerned with the objective structure of signs which made their speech possible in the first place, and this he called langue. Neither was Saussure concerned with the real objects which people spoke  about: in order to study language effectively, the referents of signs, the things they actually denoted, had to be placed in brackets. (2)

سوسئیر نے لسانیات کے پس پردہ کارفرما عوامل کے بارے میں جو تصورات پیش کیے ان کی وجہ سے لسانیات کے  ٹھہرے پانی کی جامد و ساکت کیفیت میں ایک مد و جزر پیدا ہوا۔ اس کی یہ دلی تمنا تھی کہ کسی بھی زبان کے ارتقائی  مدارج اور لسانی اثاثے کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت اس عہد کے حالات اور زمانے  کے تغیر  پذیر حالات، واقعات اور مروجہ صورت (Synchronic Form  )پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے۔ سوسئیر نے زبان کے قائم بالذات (Substantive)چیز ہونے کے تصور پر گرفت کی اور اس قسم کے خیالات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے اپنے نظریات میں اس بات پر اصرار کیا کہ زبان کسی طرح بھی کسی مثبت یا  ٹھوس عنصر پر انحصار نہیں کرتی بلکہ زبان کی اساس تو نظام افتراقات ہے۔ زبان کی کلیت کی تفہیم اس بات کی متقاضی ہے کہ زبان کا مطالعہ صحیح تناظر میں کیا جائے۔ گروہ انسانی کو تو اپنے روزمرہ کاموں اور ابلاغ کے لیے زبان کی احتیاج ہے مگر اپنی اصلیت کے اعتبار سے زبان کو اس قسم کی بیساکھیوں کی ہرگز ضرورت نہیں۔ جس طرح فطرت خود بہ خود لالے کی حنا بندی کا فریضہ انجام دیتی ہے اسی طرح زبانیں بھی فطری انداز میں نشو و ارتقا کے مدارج طے کرتی ہوئی اوج کمال تک پہنچتی ہیں۔ زبان کو دراصل ایک سماجی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس کی نوعیت دوسرے سماجی اداروں سے یکسر مختلف ہے۔ اس کو تمام سماجی اداروں میں محوری حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح ملا اور مجاہد کی اذاں میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ہر سماجی ادارے کی ضروریات لسانی حوالے سے جداگانہ خیال کی جاتی ہیں۔ سوسئیر  نے زبان کے نظام اور اس کے اشارات کے بارے میں اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

"A language is a system of signs expressing ideas, and hence comparable to writing, the deaf -and -dumb alphabet, symbolic rites, forms of politeness, military signals, and so on .It is simply the  most important of such systems .It is therefore possible to conceive of a science which studies the role of signs as part of social life .It would form part of social psychology, and hence  of general psychology .We shall call it semiology.” (3)

 سوسئیر نے ساختیاتی فکر کے موضوع پر جن خیالات کو اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ان کے بارے میں مباحث کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا۔ سوسئیر  نے ساختیاتی فکر کے موضوع پر اس جانب توجہ دلائی کہ عقل عام (Common Sense)پر مبنی تمام تصورات کسی طور بھی قابل لحاظ نہیں۔ ساختیاتی فکر کے مطابق حقیقت نگاری (Realism )کا بھی عملی طور پر کوئی وجود نہیں۔ اس کے علاوہ ساختیاتی فکر نے زبان کو شفاف میڈیم ماننے سے انکار کر دیا۔ اس عالم آب و گل میں معاشرتی زندگی اور سماج کے مروج تصور کو ساختیاتی فکر نے قابل توجہ نہ سمجھا ان کا خیال تھا کہ سماجی تشکیل کا تصور رو بہ عمل لانا چاہیئے۔ جہاں تک آئیڈیالوجی کا تعلق ہے ساختیاتی فکر نے اسے کوئی اہمیت نہ دی بلکہ ان کے نزدیک اس کا وجود ایک واہمہ ہے۔ ہر قسم کا نظریہ بہ ہر صورت زباں کے ڈسکورس کا مرہون منت ہے۔ ساختیات کی حیثیت ایک فلسفیانہ اصول اور طریق کار کی سی ہے اس کے بارے میں یہ سمجھنا کہ یہ کسی عظیم آئیڈیالوجی کی اساس پر استوار ہے ایک خام خیالی ہے۔ جہاں تک لفظ سیمیالوجی (Semiology)کا تعلق ہے یہ یونانی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب نشان ہے۔ گویا زبان کو نظام نشانات سے مربوط کر کے سوسئیر نے اسے ایک جداگانہ انداز میں سامنے لانے کی کوشش کی۔ جب بھی کوئی نظام اشارات منصۂ  شہود پر آتا ہے اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اظہار اور ابلاغ کے نئے امکانات سامنے آرہے ہیں۔ اس قسم کی مساعی سے زبان کی ثروت میں اضافہ ہوتا ہے اور نت نئے تجربات کے اعجاز سے  زبان کو منفرد پیرایہ ہائے اظہار نصیب ہوتے ہیں۔ جوناتھن کیولر (Jonathan Culler)نے سوسئیر کے لسانی تصورات اور نظام نشانات کو زیر بحث لاتے ہوئے لکھا ہے:

"Saussure begins by defining language as a system of signs . Noises count as  language only when they serve to express or communicate ideas, and thus the central question for him becomes the the nature of the sign: what gives it its identity  and enables it to function  as sign. He argues that signs are arbitrary and conventional and that each is defined not by essential properties but by differences,  and this leads to the development  of the distinctions on which  structuralism and semiotics have relied.”(4)

سوسئیر کا بیان کردہ یہ نظام افتراقات اپنی اصلیت کے لحاظ سے قاری پر فکر و نظر کے متعدد نئے امکانات تک رسائی کے امکانات پیدا کرتا ہے۔ زبان میں جنم لینے والے نظام اختلاف کو اگر لانگ (Langue)سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اسی طر ح گفتگو اور تقریر کے دوران اظہار کے جو مراحل طے کیے جاتے ہیں اور جو کہ اپنی تمام تر فعالیت کے باعث اس نظام کا ثمر ہیں۔ انھی کی اساس پر یہ نظام افتراقات استوار ہے اسے پارول (Parole)کا نام دیا جاتا ہے۔ سوسئیر نے معنی نما (Signifier )اور تصور معنی (Signified) میں پائے جانے والے نظام افتراقات کو واضح کرتے ہوئے ان میں ربط کی ایک صورت بھی پیدا کر دی اور یہ ارتباط معنی کی وحدت پر منتج ہوا۔ سوسئیر نے معنی نما اور تصور معنی میں وحدت کا جو تصور پیش کیا اس کے بعد آنے والوں نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور بالآخر ژاک دریدا  نے اس وحدت کو دو لخت کر دیا۔ یہ کہناغلط نہ ہو گا کہ ژاک دریدا کے رد تشکیل کے تصور کے سوتے سوسئیر کے نظریۂ  افتراق سے پھوٹتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ بعد میں آنے والے دانشوروں نے  سوسئیر کے افکار کی مشعل تھام کر روشنی کے سفر کو جاری رکھا اور نئے زمانے نئے صبح و شام کی جانب رواں دواں رہے۔ اس لیے سوسئیر کے لسانی تصورات کی ندرت، تنوع اور انفرادیت کو نظر انداز کرنا ایک تاریخی غلطی کے مترادف ہو گا۔ جدید لسانیات میں اسے بنیاد گزار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بہ قول رام ریاض :

کس نے پہلا پتھر کاٹا، پتھر کی بنیاد رکھی

  عظمت کے سارے افسانے  میناروں کے ساتھ رہے

 1994 میں ژاک دریدا (Jacques Derrida )نے ماریزیو فیراسیس (Maurizio Ferrasis)سے ایک انٹرویو میں اس بات کی صراحت کر دی تھی کہ اس کا رد تشکیل کا تصور در اصل ساختیات کے رد عمل کے طور پر ظاہر ہوا۔ ژاک دریدا نے کہا :

"The first step for me, in the approach to what I proposed to call deconstruction, was a  putting into question of authority of linguistics, of logocentrism. And this, accordingly, was a protest against the ‘linguistic turn’, which under the name of  structuralism, was already well on its way .Deconstruction was inscribed in the ‘linguistic turn’, when it was in fact a protest against linguistics.! "(5)

جدید لسانیات نے سوسئیر کی فراہم کی گئی فکری اساس پر اپنا سفر مسلسل  جاری رکھا اور خوب سے خوب تر کی جستجو کا عزم کر لیا۔ سوسئیر نے جس طر ح لانگ (Langue )اور پارول (Parole)میں حد فاصل کا احساس اجاگر کیا اس سے ایسی  ہلچل پیدا ہوئی جس نے جدید لسانیات کو نئے آفاق کی جانب سر گرم سفر ہونے پر مائل کیا۔ لانگ کو ایک نظام اور ایک ادارے کے طور پر پہلی بار متعارف کرایا گیا جب کہ پارول کی  حیثیت تقریر و تحریر کے نظام میں  ادائیگی کے غالب عنصر کی ہے۔ بعض اوقات اس سے عام قاری الجھن کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود جدید لسانیات میں سوسئیر کے خیالات تازہ ہوا کے ایک ایسے جھونکے کے مانند تھے جن کے اعجاز سے گلشن ادب میں روئیدگی اور نمو کے امکانات پیدا ہوئے۔ جوناتھن کیولر (Jonathan Culler)نے سوسئیر کے لسانی نظریات پر عمیق نگاہ ڈالتے ہوئے اس کے نظام افتراقات کے بارے مدلل گفتگو کی ہے۔ اس نے لکھا  ہے : ٖ

For Saussure the identity of two instances of a linguistic unit (two utterances of the same phoneme )was not an identity of substance but of form only .This is one of his most important  and influential principles, though it is also among the hardest to grasp.”(6)

    سوسئیر کا خیال تھا کہ گفتگو اور تقریر کو بہ ہر حال تحریر پر فوقیت اور بالا دستی حاصل ہے۔ اس نے لسانی امور اور لسانیات میں اپنے تجزیاتی مطالعات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لسانیات میں اگر سائنسی انداز فکر کو اپنایا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقریر کی لذت سے یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے دل سے جو بات نکلتی ہے وہ بے پناہ اثر رکھتی ہے وہ سیدھی سننے والے کے دل میں اتر جاتی ہے۔ اس دلنشیں تقریر اور گفتگو کو سننے والا پکار اٹھتا ہے یہ سب کچھ تو پہلے سے اس کے نہاں خانۂ  دل میں موجزن تھا۔ تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانا اور سامعین کو مسحور کر دینا ایک جان دار اسلوب کا امتیازی وصف ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بعد میں ژاک دریدا نے سوسئیر سے الگ اپنی راہ نکالی لیکن یہ ایک مسلمہ صداقت  ہے کہ ژاک دریدا کے رد تشکیل پر مبنی تمام تصورات کے سوتے اسی رجحان ساز ادیب اور مفکر کے افکار سے پھوٹتے ہیں۔ جدید لسانیات کے فروغ کے لیے سوسئیر کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔

سوسئیر نے زبان کے حوالے سے یہ بات واضح کر دی کہ زبان کی اصلیت ایسے عناصر اور اصطلاحات  کی رہین منت ہے جو ایک دوسرے پر باہم انحصار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ لسانی عمل میں ان عناصر اور اصطلاحات کا عمل دخل اس قدر مسلسل اور غیر مختتم انداز میں جاری رہتا ہے کہ ایک اصطلاح اپنے انفرادی روپ میں ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہوئے گلدستۂ معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنے کا کرشمہ کر دکھاتی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ عمل دوسرے عناصر کی موجودگی میں بھی جاری رہتا ہے۔ سوسئیر نے لسانیات میں اقدار کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے  اس حقیقت کی نشان دہی کہ لسانی نقطۂ نظر سے قدر سے مراد  معانی کی وہ مجتمع کیفیت ہے جس کے جلوے نشانات کے مرہون منت ہیں۔ نشانات ایسے واضح اشارے کرتے ہیں کہ ان اقدار کے بارے میں کوئی ابہام سرے سے باقی نہیں رہتا۔ یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ لسانی اقدا رکی جلوہ گری  اور ان کی بو قلمونی لسانایت کی ساخت اور ایک خاص نظام کا ثمر ہیں۔ یہ دھنک رنگ منظر نامہ اپنے تمام تنوع کے ساتھ اس وقت نگاہوں کو خیرہ کرتا ہے جب عناصر میں تعلق کا پور انظام ارتباط و تضاد کے دوہرے تفاعل کے ساتھ معنی خیزی کے عمل کو یقینی بنائے۔ لسانی عمل میں ارتباط و تضاد کا پہلو بہ پہلو سر گرم سفر رہنا قابل فہم ہے۔ اسی سے معنی خیزی کا عمل پوری تاب و تواں کے ساتھ منصۂ شہود پر آتا ہے۔ ایک ماہر لسانیات اور زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والا تخلیق کار ارتباط و تضاد کے وسیلے سے ابلاغ کو مؤثر بنا دیتا ہے۔ کہیں متضاد اشیا کا موازنہ کیا جاتا ہے اور کہیں یکساں خصوصیات کی حامل اشیا کے بیان سے معنی خیزی پر قدرت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر قابل توجہ ہیں :

ایک سب آگ ایک سب پانی

دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں

چراغ خانۂ درویش ہوں میں

 ادھر جلتا ادھر بجھتا رہا ہوں

ابتدا ہی میں مر گئے سب یار

عشق کی کون انتہا لایا

سوسئیر کے افکار کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دی امریکہ میں لیونارڈ بلوم فیلڈ  (Leonard Bloomfield)نے اس کی پذیرائی کی۔ ہر ادبی و علمی نظریے کی طرح سوسئیر کے لسانی نظریات پر بھی گرفت ہوئی اور اسے بعد میں آنے والوں نے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مقدور بھر مساعی کیں۔ یہاں تک کہ ساختیات کے اصولوں کو ناقابل عمل قرار دیا گیا۔ اس کے بعد پس ساختیات کا دور شروع ہو گیا۔  جس طرح رخش عمر ہمیشہ رو میں رہتا ہے اسی طرح فکر و خیال کے فاصلے بھی کبھی طے نہیں ہوتے۔ رہروان علم و دانش نے روشنی کے جس سفر کا آغاز کیا اسے  بعد میں آنے والے عصری تقاضوں کے مطابق جاری رکھتے ہیں۔ یہ سلسلہ ازل  سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ وقت یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا تصور درست تھا اور کس نئے تصور کو غلط تصور کی جگہ اپنا رنگ جمانا ہے۔ پس ساختیات نے سوسئیر کے تصورات کی بساط لپیٹ دی ہے اور افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے لیے جد و جہد جاری ہے۔ اس راہ میں مقام کا کوئی تصور ہی نہیں۔ جامد و ساکت اشیا موت کی مظہر ہوتی ہیں۔ تبدیلی اور ندرت ہی زندگی کی حرکت و حرارت کی نقیب ہے۔ آنے والا دور بدلتے ہوئے منظر نامے کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کرے گا۔

  اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دئیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا۔

٭٭٭

مآخذ

(1)Terry Eagleton : Literary Theory, Minnesota Press USA,1996,Page 84

(2) Terry Eagleton : Literary Theory, Page84

(3)David Lodge : Modern Criticism and Theory, Pearson Education, Singapore,2003,Page, 8

(4) Jonathan  Culler: On Deconstruction, Routledge, London, 1983,Page 98-

(5) Nicholas Royle: Jacques Derrida, Routledge, London, 2003,Page 62-

 (6)Jonathan Culler: Structuralist Poetics,Routledge London, 2002,Page, 12

٭٭٭

مجید امجد: ہے جس کے لمس میں ٹھنڈک، وہ گرم لو ترا غم

مجید امجد 29جون 1914کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا۔ ان کا خاندان پورے علاقے میں معزز و محترم تھا۔ ان کی عمر صرف دو سال تھی جب ان کی ماں اور والد میں خاندانی تنازع کے باعث  علیحدگی ہو گئی۔ ان کی والدہ انھیں لے کر اپنے میکے چلی آئی اور اپنے لخت جگر کی پرورش کرنے لگی۔ مقامی مسجد کے خطیب سے انھوں نے عربی اور فارسی زبان کی استعداد حاصل کی۔ ممتاز ماہر تعلیم رانا عبدالحمید خان کے ان کے خاندان سے قریبی مراسم تھے۔ مجید امجد کی تعلیم و تربیت ان کے ننھیال میں ہوئی۔ اسلامیہ ہائی سکول جھنگ صدر سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ تاریخی تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخل ہوئے اور یہاں  سے انٹر میڈیٹ کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کی علمی و ادبی فضا نے ان کی ادبی صلاحیتوں کو صیقل کیا۔ جھنگ میں اس زمانے میں کوئی ڈگری کالج نہ تھا اس لیے وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخل ہوئے اور 1934میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ جھنگ آ گئے اور یہاں کے مقامی مجلے ’’  ہفت روزہ عروج ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے 1939کے وسط تک بہ حیثیت مدیر ’’ہفت روزہ عروج جھنگ ‘‘ میں خدمات انجام دیں۔ اس زمانے میں پورا بر صغیر برطانوی استبداد کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ تاجر کے روپ میں آنے والے ایسٹ انڈیا کمپنی کے شاطر جو 1857سے تاج ور بن چکے تھے یہاں کے بے بس عوام کے چام کے دام چلا رہے تھے۔ 1939میں جب دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو غاصب برطانوی حکم رانوں نے اپنی جنگ میں بر عظیم پاک و ہند کے مظلوم عوام کو بھی جھونک دیا۔ یہاں کے بے بس عوام پہلی عالمی جنگ کے زخم خوردہ تھے۔ اب اس نئی افتاد سے ان پر جو کوہ الم ٹوٹا اس نے ان کو یاس و ہراس میں مبتلا کر دیا۔ ہوائے جور و ستم کی اس مہیب رات میں بھی حریت فکر کے مجاہدوں نے رخ وفا کو بجھنے نہ دیا۔ مجید امجد نے ہفت روزہ عروج جھنگ کے مدیر کی حیثیت سے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا اور حریت ضمیر سے جینے کے لیے ہمیشہ اسوۂ شبیر کو زاد راہ سمجھا۔ مجید امجد کی ادارت میں مجلہ عروج نے بہت ترقی کی اور اس کی اشاعت میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ یہ مجلہ با ذوق قارئین  ادب کے پاس ڈاک کے ذریعے جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، شورکوٹ، چنیوٹ، کبیر والا، خانیوال، عبدالحکیم، مظفر گڑھ، فیصل آباد، بھکر، میاں والی، خوشاب، گڑھ مہاراجہ اور سرگودھا کے دور دراز مقامات تک ارسال کیا جاتا تھا اور اسے نہایت دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا۔ اس مجلے کی مقبولیت کا سبب یہ تھا کہ اس میں مجید امجد کے تجزیاتی اور تنقیدی  مضامین، ادب پارے، حالات حاضرہ پر تبصرے  اور شاعری کی اشاعت کا سلسلہ مسلسل جاری تھا۔ مجید امجد نے تیشۂ  حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ مجید امجد نے اپنی تحریروں سے قارئین میں عصری آگہی  پیدا کی اور عوام میں حالات حاضرہ کے بارے میں مثبت شعور و آگہی  پروان چڑھانے کی سعی کو اپنا نصب العین بنایا۔ خاص طور پر جلیاں والا باغ، موپلوں کی جد و جہد، بھگت سنگھ کے جذبۂ آزادی، حادثہ مچھلی بازار کان پور جیسے موضوعات پر عروج میں نظم و نثر کی جو تخلیقات شامل اشاعت ہوئیں ان سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ ظالم و سفاک، موذی و مکار استبدادی و استحصالی قوتیں اور مفاد پرست، ابن الوقت بیوروکریسی نے اس مجلے کی انتظامیہ کو اپنی انتقامی کارروائیوں سے ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ دوسری عالمی جنگ میں جب برطانوی حکومت  نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اس خطے کے مظلوم اور بے بس و لاچار عوام کو جنگ کی  بھٹی میں جھونک دیا تو مجید امجد نے اس کے خلاف ایک نظم لکھی جو عروج کے صفحہ اول پر شائع ہوئی۔ اس نظم میں انھوں نے اپنے رنج و غم اور عوامی غیظ و غضب کو اشعار کے قالب میں ڈھالا۔ اس نظم کی اشاعت پر مقتدر برطانوی حلقے بہت سیخ پا ہوئے اور مجید امجد کو  عروج کی ادارت سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا۔ ایک زیرک، فعال، مستعد اور حریت فکر کے مجاہد سے متاع لوح و قلم چھین کر اور آزادیِ اظہار پر قدغن لگا کر فسطائی جبر نے یہ سمجھ لیا کہ اب ان کے اقتدار کی راہ میں کوئی حائل نہیں ہو سکتا  مگر وہ تاریخ کے مسلسل عمل سے بے خبر تھے۔ اگر زبان خنجر خاموش بھی رہے تو بھی آستین کا لہو پکار پکار کر ظلم کے خلاف دہائی دیتا ہے۔ مجید امجد نے ظلم کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا اور کسی مصلحت کی پروا نہ کی اور عزت و وقار کے ساتھ مجلے کی ادارت سے علیحدگی کے بعد گھر چلے آئے۔ ایک بار پھر بے روزگاری کے جان لیوا صدمات اور جانگسل تنہائیوں کے ہولناک لمحات نے اس حساس تخلیق کار کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ کچھ عرصہ بعد انھیں ڈسٹرکٹ بورڈ جھنگ میں کلرک کی حیثیت سے نوکری مل گئی اور اس طرح انھوں نے اپنی انا پسندی، سفید پوشی اور خود داری کا بھرم بر قرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ در کسریٰ پہ صدا کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا وہ جانتے تھے کہ یہ جامد و ساکت کھنڈر اس قابل نہیں کہ انسانیت کے مسائل پر توجہ دے سکیں۔ مجید امجد کی شادی 1939 میں اپنے چچا کی بیٹی سے ہوئی۔ یہ خاتون گورنمنٹ ہائی سکول برائے طالبات جھنگ صدر میں ایلیمنٹری سکول ٹیچر تھیں۔ تقدیر کا المیہ یہ ہے کہ یہ قدم قدم پر انسانی تدبیروں کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔ مجید امجد کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا۔ ان کی یہ شادی کامیاب نہ ہو سکی اور اس کے بعد جدائی کا  ایسا غیر مختتم سلسلہ شروع ہو اجس نے مجید امجد کو خود نگر اور تنہا بنا  دیا۔ مسلسل اٹھائیس سال تک ان کے درمیان ربط کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ مجید امجد کی کوئی اولاد نہ تھی، انھوں نے اپنے بھائی عبدالکریم بھٹی  (M.Sc. Math)کی بیٹی نوید اختر کی پرورش کی اور اس ہونہار بچی کو اپنی بیٹی قرار دیا۔ اب یہ خاتون فزکس میں M.Scکر کے ایک سرکاری ڈگری کالج میں بہ حیثیت پر نسپل خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کے شوہر پروفیسر غلام عباس کا شعبہ کیمسٹری ہے۔ ان سے میری ملاقات ہوئی، نہایت خوش خصال، وضع دار، مہمان نواز اور شرافت کے پیکر اور توقیر کی مجسم صورت ہیں۔ ان کے کمرے میں میز پر ایک گل دان رکھا تھا جس میں مختلف رنگوں کے گلاب کے پھول سجے تھے۔ سامنے دیوار پر ایک خوب صورت فریم میں مجید امجد کی تصویر اور ان کی نظم’’ گلاب کے پھول ‘‘ آویزاں دیکھ کر بے اختیار آنکھیں پر نم ہو گئیں۔ یہ شعر پڑھا تو گریہ ضبط کرنا محال ہو گیا :

 کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد

مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

 حکومت پاکستان نے 1944میں خوراک اور غذائی اجناس و ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے محکمہ خوراک کے قیام کا اعلان کیا۔ مجید امجد نے محکمہ خوراک کی بھرتی کا امتحان پاس کیا اور اس محکمے میں ملازم ہو گئے۔ محکمہ خوراک میں ملازمت کے سلسلے میں وہ پاکستان کے جن اہم شہروں میں تعینات رہے ان میں لائل پور (موجودہ فیصل آباد)، مظفر گڑھ، گوجرہ، راول پنڈی، لاہور اور منٹگمری (موجودہ ساہیوال)شامل ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے وہاں علمی و ادبی محفلوں کے انعقاد میں گہری دلچسپی لی۔ مجید امجد کو ان کی زندگی میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کے وہ  یقینی طور پر مستحق تھے۔ ذرائع ابلاغ نے ان کو بالکل نظر انداز کر رکھا تھا۔ ادب کی ترویج و اشاعت پر مامور مقتدر حلقوں کی مجرمانہ غفلت نے کئی جوہر قابل گوشۂ  گم نامی کی جانب دھکیل دئیے۔ ہمارا معاشرہ قحط الرجال کے باعث بے حسی کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں جاہل کو تو اس کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے مگر اہل کمال کی توہین، تذلیل، تحقیر اور بے توقیری کے لرزہ خیز، اعصاب شکن واقعات کو دیکھ کر وقت کے ان حادثات کو کوئی نام دینا بھی ممکن نہیں۔ مجید امجد نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو اپنا نصب العین بنا یا۔ وہ حالات سے اس قدر دل برداشتہ اور مایوس ہو چکے تھے کہ ان کی توقع ہی اٹھ گئی۔ نہ وہ کوئی حکایتیں بیان کرتے اور نہ ہی کسی سے انھیں کسی قسم کی کوئی شکایت تھی۔ اپنے غم کا بھید انھوں نے کبھی نہ کھولا۔ ایک شان استغنا سے زندگی بسر کی اور ان کی زندگی کے دن کشمکش روزگار میں کٹتے چلے گئے، موہوم بہاروں کی آرزو میں ان کا دم گھٹنے لگا ان کی کوئی امید بر نہ آئی اور نہ ہی انھیں اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دی۔ زندگی کا زہر پی کر ایک پل کے رنج فراواں میں کھو جانے والے اس جری تخلیق کار کو زمانے نے بڑی بے دردی سے اپنی ناقدری کی بھینٹ چڑھا دیا۔ وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا اور پھر اس حساس شاعر نے اپنی محرومیوں، تنہائیوں اور دکھوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ صبر کی روایت میں انھوں نے لب کبھی وا نہ کیے۔ نامور ادیب اور دانش ور انتظار حسین نے ارباب اختیار کو مطلع کر دیا تھا کہ مجید امجد کے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیاں اور بے رحمانہ غفلت اس کی زندگی کی شمع بجھا سکتی ہے۔ پھر حادثہ ہو کے رہا چشم کا مرجھا جانا۔ مجید امجد کو تنہائیوں نے ڈس لیا۔ وہ ساہیوال میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ مجید امجد نے 11مئی1974کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ اس کے ساتھ ہی جدید اردو نظم کا ایک تابندہ ستارہ افق ادب سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔ اخلاقی، تہذیبی، ثقافتی اور انسانی اقدار کا عظیم ترجمان ہمیشہ کے لیے پیوند خاک ہو گیا۔ حیف صد حیف کہ ایک ایسا رباب اجل کے ہاتھوں ٹوٹ گیا جس نے ہجوم یاس میں بھی دل کو سنبھال کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کی تلقین کی مگر اس سے پھوٹنے والے نغمے تا ابد دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو کر اردو نظم کو نئے امکانات سے آشنا کرتے رہیں گے۔ مجید امجد کی نظم گوئی ایک کھلا ہوا امکان ہے اس کے سوتے بے لوث محبت اور بے باک صداقت سے پھوٹتے ہیں۔ ان کی شاعری دور غلامی سے لے کر طلوع صبح آزادی تک کی مسافت کی تمام راہوں کی آئینہ دار ہے۔ تخلیق فن کی یہ مسافت ایک درخشاں عہد کی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مجید امجد نے اپنے ذاتی تجربات، احساسات اور مشاہدات کو ایک ذاتی تحریک کے اعجاز سے حدود زمان و مکاں سے آگے پہنچانے کی سعی کی ہے۔ یہ لہجہ مقامی نہیں بلکہ ایک آفاقی نوعیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔

کیا روپ دوستی کا، کیا رنگ دشمنی کا

کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا

آخر کوئی کنارا، اس سیل بے کراں کا

آخر کوئی مداوا، اس درد زندگی کا

اس التفات پر ہوں لاکھ التفات قرباں

مجھ سے کبھی نہ پھیرا رخ تو نے بے رخی کا

او مسکراتے تارو، او کھلکھلاتے پھولو

کوئی علاج میری آشفتہ خاطری کا

مجید امجد کا پہلا شعری مجموعہ ’’ شب رفتہ‘‘1958میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’شب رفتہ کے بعد ‘‘1976میں شائع ہوا۔ مجید امجد کی تمام شاعری پر مشتمل ’’کلیات مجید امجد ‘‘ کی اشاعت 1989میں ہوئی۔ مجید امجد کی شاعری کو علمی و ادبی حلقوں کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی۔ انھیں تمام پاکستانی زبانوں کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی اور ہندی پر عبور حاصل تھا۔ وہ تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کے مابین ربط کی ایک صورت پیدا کرنے کے متمنی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ عالمی کلاسیک کے تراجم کے ذریعے تخلیق ادب اور زبان کی توسیع کے عمل کو مہمیز کیا جائے۔ اس تمام عمل کے معجز نما اثر سے وسعت نظر پیدا ہو گی اور ادب میں آفاقیت کا عنصر نمو پائے گا۔ انھوں نے عالمی ادبیات کا وسیع مطالعہ کیا تھا انھوں نے انگریزی ادب اور امریکی ادب کی نمائندہ شعری تخلیقات کو  ترجمے کے ذریعے اردو کے قالب میں ڈھالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سلسلے میں ان کی مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اپنی شاعری کے ذریعے فلسفیانہ مسائل کی گہرائی اور وسعت سے قاری کو آشنا کرنے میں ان کے متنوع تجربات ان کی انفرادیت کے مظہر ہیں۔ ان کی بات دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتی ہے اور قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے۔ ان کی شاعری ان کے ذوق سلیم کی عکاس بھی ہے اور اس کے اعجاز سے تہذیب و تمدن کی بالیدگی کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اسے لا زوال بنا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی نظم مقبرۂ  جہانگیر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہے۔ اس نظم کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے اس میں شاعر نے نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ زندگی اور اس کی مقتضیات کے بارے میں اپنے سوز دروں کا احوال بیان کیا ہے۔

مر مریں قبر کے اندر۔۔ تہہ ظلمات کہیں

کرمک و مور کے جبڑوں میں سلاطیں کے بدن !

کوئی دیکھے، کوئی سمجھے تو اس ایواں میں، جہاں

نور ہے، حسن ہے، تزئین ہے، زیبائش ہے

ہے تو بس ایک بجھی روح کی گنجائش ہے

تم نے دیکھا کہ نہیں، آج بھی ان محلوں میں

قہقہے، جشن مناتے ہوئے نادانوں کے

جب کسی ٹوٹتی محراب سے ٹکراتے ہیں

مرقد شاہ کے مینار لرز جاتے ہیں

 مجید امجد کی زندگی اور معمولات کا بہ نظر  غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ان کے نہاں خانۂ دل میں محبت کی کمی کے جذبات شدت اختیار کر گئے تھے۔ ان کے دل میں ایک تمنا تھی کہ وہ کسی سے ٹوٹ کر محبت کریں اور اس طرح اپنی نا آسودہ خواہشات کی تکمیل کی کوئی صورت تلاش کر سکیں۔ در اصل وہ محبت کے وسیلے سے اپنی جذباتی تشنگی کی تسکین کے آرزومند تھے۔ انھیں یقین تھا کہ خلوص، ایثار، درد مندی، وفا اور بے لوث محبت کے ذریعے ایک فرد اپنی ذات کی تکمیل کر سکتا ہے اور زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم پر قادر ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سچی محبت کرنے والا بالواسطہ طور پر  زندگی کی اقدار عالیہ کو فروغ دیتا ہے۔ مجید امجد نے محبت کو جذبۂ  انسانیت نوازی کے حوالے سے دیکھا۔ مجید امجد کی زندگی میں ایک جرمن خاتون ’’شالاط ‘‘نے محبت کے جذبات کو مہمیز کیا۔ یہ 1958کا واقعہ ہے جب شالاط ساہیوال آئی اس خاتون کو عالمی ادبیات، فنون لطیفہ اور آثار قدیمہ سے گہری دل چسپی تھی۔ وہ ساہیوال کے قریب واقع ہڑپہ کے کھنڈرات دیکھنے آئی تھی۔ اس موقع پر اس کی ملاقات مجید امجد سے ہوئی۔ مجید امجد کی شاعری اس کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ مجید امجد اور شالاط کی یہ رفاقت 83دنوں پر محیط ہے مگر اس عرصے میں وہ  دل کی بات لبوں پر لانے سے قاصر رہے۔ لفظ سوجھتے تو معانی کی بغاوت سد سکندری بن کر اظہار کی راہ میں حائل ہو جاتی۔ مجید امجد نے شالاط کو کوئٹہ تک پہنچایا اور اسے خدا حافظ کہا اس آس پر کہ جانے والے شاید لوٹ آئیں لیکن شالاط نے تو جا کر مستقل جدائی مجید امجد کی قسمت میں لکھ دی۔ تقدیر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں انسانی تدبیر کسی طور بھی ان کو بدل نہیں سکتی۔ تقدیر اگر ہر لمحہ ہر آن انسانی تدابیر کی دھجیاں نہ اڑا دے تو اسے تقدیر کیسے کہا جا سکتا ہے۔ شالاط کی مستقل جدائی نے مجید امجد کی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ ان کی شاعری پر بھی اس کا واضح پرتو محسوس ہوتا ہے مجید امجد کی یہ نظم جو 22نومبر 1958کو شالاط کی جدائی کے موقع پر کوئٹہ میں لکھی گئی لکھی گئی ایک حساس شاعر کے سوز دروں اور قلبی کیفیات کی مظہر ہے۔

برس گیا بہ خرابات آرزو، ترا غم

قدح قدح تری یادیں  سبو سبو، ترا غم

ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا

مہک رہا تھا زمانے میں کو بہ کو، ترا غم

غبار رنگ میں رس ڈھونڈتی کرن تری دھن

گرفت سنگ میں بل کھاتی آب جو، ترا غم

ندی پہ چاند کا پرتو ترا نشان قدم

خط سحر پہ اندھیروں کا رقص، تو، ترا غم

ہے جس کی رو میں شگوفے، وہ فصل، تیرا دھیان

ہے جس کے لمس میں ٹھنڈک، وہ گرم لو، ترا غم

نخیل زیست کی چھاؤں میں نے بہ لب تری یاد

فصیل دل کے کلس پر ستارہ جو، ترا غم

طلوع مہر، شگفت سحر، سیاہیِ شب

تری طلب، تجھے پانے کی آرزو، ترا غم

نگہ اٹھی تو زمانے کے سامنے، ترا روپ

پلک جھکی تو مرے دل کے رو بہ رو، ترا غم

  مجید امجد کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت منکشف  ہوتی ہے کہ مجید امجد کے دل میں شالاط  کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کے جذبات مسلسل پروان چڑھتے رہے۔ مجید امجد کی شاعری میں اس دور کے تجربات، احساسات اور مشاہدات پوری قوت اور شدت کے ساتھ موجود ہیں وہ اپنی نفسی کیفیات اور محسوسات کو پورے خلوص اور دیانت سے اشعار کے قالب میں ڈھالتے چلے گئے۔ اپنی داخلی کیفیات اور سوز دروں کو وہ جس دردمندی کے ساتھ پیرایۂ اظہار عطا کرتے ہیں وہ قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین ہے۔ ان کے کلام میں جذبات اور احساسات کی شدت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔  شالاط کے لیے مجید امجد نے پھول کا استعارہ کئی مقامات پر استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعری میں شالاط کے حوالے سے متعدد مقامات پر نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔ کہیں وہ اسے عنبر دیاروں کی پر جلی تتلی کی اڑان  سے تعبیر کرتے ہیں  تو کہیں گلاب کے پھول اس کا عکس بن جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اس موضوع پر متعدد علامات کا استعمال ہوا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ تمام علامات ایک ایسے نفسیاتی کل کا روپ دھار لیتی ہیں جن کے اعجاز سے مجید امجد کے لا شعور کی تمام صلاحیتیں اشعار کے قالب میں ڈھل کر صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر سفر درد، کھنڈر، نگاہ باز گشت، میونخ، سنگت، ریلوے سٹیشن، کوہ بلند، جیون دیس اور ایک شبیہ کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ شالاط کی جدائی مجید امجد کے لیے شام الم ثابت ہوئی جس نے ان کی روح کو زخم زخم اور پورے وجود کو کرچی کرچی کر دیا۔ جب مجید امجد کا سایہ بھی ان کا اپنا سایہ نہ رہا تو شالاط کی یادوں کی شمعیں فروزاں کر کے زندگی کے دن پورے کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ ان کی زندگی کراہتے لمحوں میں ڈھل گئی موج اشک نے امید کی شمع کو گل کر دیا۔ ساز گلستاں کو مضراب خار سے چھیڑنے والوں نے انھیں حد درجہ آزردہ کر دیا۔ مہجور یادیں ان کے لیے سوہان روح بن گئیں۔ مجید امجد کا غم ہستی ہر وقت درد محبت سے الجھتا رہا۔ جب بھی شالاط کی یاد آتی وہ ایام گزشتہ کی کتاب کے صفحات کی ورق گردانی میں مصروف ہو جاتے۔ جب بھی شالاط کی جدائی کے زخم بھرنے لگتے وہ کسی نہ کسی بہانے اس غم کی یاد  تازہ رکھنے کی خاطر اسے کثرت سے یاد کرنے لگتے۔ محبت کے وسیلے سے خود کو فروغ دینے کی یہ انوکھی کاوش تھی۔ کسی کو چاہنے کی آرزو میں چاندنی راتوں میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومتے رہتے مگر بچھڑنے والے کب واپس آتے ہیں۔ اس محبت نے ان کو کبھی نہ ختم ہونے والے غم و حزن کے جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان کی نظم ’’ کون دیکھے گا ‘‘جو 3جون 1966کو لکھی گئی اس کے پس منظر میں شالاط کی جدائی کے لاشعوری محرکات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

جو دن کبھی نہیں بیتا، وہ دن کب آئے گا

انھی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا

ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا

مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا

  سمے کے سم کے ثمر نے مجید امجد کی زندگی کو مسموم کر دیا اور محبت کی ناکامی نے ان کا سکون قلب معدوم کر دیا۔ اپنی سوچ کی بے حرف لو کو فروزاں کیے ہوئے نا آسودہ خواہشات اور حسرتوں کی شعاعوں کے چیتھڑے زیب تن کیے نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتے ہوئے یہ حساس شاعر لمحہ لمحہ وقت کی تہہ میں اتر گیا اور یوں قلزم خوں پا  رکر گیا۔ مجید امجد کی شاعری میں وقت کی برق رفتاری اور بدلتے ہوئے رویوں کا احوال بڑی مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔ صحرائے زندگی کی کٹھن مسافت فرد کو تن تنہا طے کرنا پڑتی ہے۔ عمر بھر کوئی بھی تعلق نہیں نبھا سکتا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترجیحات اور خیالات میں تغیر و تبدل رونما ہوتا رہتا ہے۔ مجید امجد کی زندگی میں قناعت، اطاعت خداوندی  اور چاہت کے جذبات کے امتزاج سے ایک دھنک رنگ منظر نامہ قلب و  نظر کو مسحور کر دیتا ہے۔ شب فراق اور خلوت غم کی اعصاب شکن کیفیات میں وہ اپنے جذبات و احساسات کو پورے خلوص کے سا تھ اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں :

گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر

سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر

یہ دوریوں کا سیل رواں، برگ نامہ، بھیج

یہ فاصلوں کے بند گراں، کوئی بات کر

آ ایک دن، مرے دل ویراں میں بیٹھ کر

اس دشت کے سکوت سخن جو سے بات کر

امجد نشاط زیست اسی کشمکش میں ہے

 مرنے کا قصد، جینے کا عزم، ایک ساتھ کر

 مجید امجد کی شاعری میں واقعہ کربلا کو حریت فکر کے ایک ایسے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے  جس نے قیامت تک کے لیے استبداد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی راہ دکھائی۔ مقام شبیری کو وہ حقیقت ابدی قرار دیتے تھے جب کہ کوفی و شامی پیہم انداز بدلتے رہتے ہیں۔ مجید امجد کے شعری تجربات میں کاروان حسینؓ کے مسافروں اور جاں نثاروں کا عظیم الشان کردار اور وفا ایک وجدانی کیفیت کی حامل ہے۔ مجید امجد کے روحانی اور وجدانی تجربات نے اس واقعہ کے بارے میں عقیدت اور تسلیم کی منفرد صورت پیش کی ہے۔ مجید امجد نے شام، دمشق، بصرے اور کوفے کو علامتی انداز میں پیش کیا ہے۔ کربلائے عصر میں ان شہروں کا وجود آج بھی  قاری کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ کاروان حسینؓ  کو آج بھی صعوبتوں کا سفر درپیش ہے جب کہ وقت کے شمر اور یزید آج بھی چین سے مسند نشین ہیں۔ اس دشت ستم کو پھر کسی حسینؓ کا انتظار ہے  تا کہ آگ انداز گلستاں پیدا کر سکے۔ معرکہ سامانی ء نمرود و خلیلؑ، فرعون و موسیٰ ؑاور  شبیرؓ و یزید سے یہ ظاہر ہوتا ہے قوت شبیری ہی حق کی بالادستی کی ضامن ہے۔ مجید امجد نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کو ہر دور میں لائق تقلید قرار دیا ہے۔ وہ ایک قطرۂ خوں جو رگ گلو میں ہے وہ حریت فکر کے مجاہدوں کو ہزار بار بھی مقتل وقت میں جانے پر آمادہ کرتا ہے۔ ان کی یہ نظم زندگی کی حقیقی معنویت کی مظہر ہے :

بستے  رہے  سب تیرے  بصرے کوفے

اور نیزے پر، بازاروں بازاروں گزرا

  سر۔۔۔۔۔ سرور کا

قید میں،  منزلوں منزلوں روئی

بیٹی ماہ عرب کی

اور ان شاموں کے نخلستانوں میں گھر گھر،  روشن رہے الاؤ!

چھینٹے پہنچے، تیری رضا کے ریاضوں تک، خون شہدا کے

اور تیری دینا کے دمشقوں میں بے داغ پھریں زر کار عبائیں !

چہرے فرشوں پر!

اور ظلموں کے درباروں میں، آہن پو ش ضمیروں کے دیدے بے نم تھے!

مالک تو ہی اپنے ان شقی جہانوں کے غوغا میں

 ہمیں عطا کر۔۔

زیر لب ترتیلیں، ان ناموں کی، جن پر تیرے لبوں کی مہریں ہیں۔

 مجید امجد کی شاعری میں واقعہ کربلا کے بارے میں جو تاثر پیش کیا گیا ہے وہ تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ان کا تاریخ اور تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں تجزیہ بڑی اہمیت کا حامل، سیل زماں کی مہیب موجیں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند  بہا کر لے جاتی ہیں مگر تاریخ اور تہذیب کی نشانیاں بہ ہر صورت باقی رہ جاتی ہیں۔ واقعہ کر بلا در اصل تاریخ اور زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی بقا کی ایک جد و جہد سے عبارت ہے۔ یہ ایک ایسا معیار ہے جس کی بدولت پیمانۂ  تحقیق سے سرخوش ہو کر کلمۂ  توحید کی تمازت کو قلب و جگر میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مجید امجد  نے اپنے اسلوب کی انفرادیت، تنوع، بو قلمونی اور ندرت کا لو ہا منوایا ہے۔ انھوں نے واقعہ کربلا کے تمام اہم کرداروں کے بارے میں حقیقت ابدی کا سراغ لگایا ہے۔ ان کی ایک نظم جو حضرت زینبؓ کے بارے میں ہے اسے پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ظلم کی میعاد کے دن ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں۔ صبح و مسا کی تیرہ شبی کے بعد طلوع صبح بہاراں کی روشنی اور امید فردا کی نوید کو کبھی روکا نہیں جا سکتا۔ مجد امجد کی متاع الفاظ سے طوفان حوادث میں بھی امید کا مژدۂ جانفزا نصیب ہوتا ہے۔ آباد ضمیروں کے لیے حضرت زینبؓ کا کردار، صبر، ایثار اور حریت فکر کی پیکار ہر عہد میں لائق تقلید رہے گی۔ مجید امجد نے عالم اسلام کی اس عظیم ہستی کے حضور جو نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے اس کی تاثیر پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے :

حضرت زینب ؑ

وہ قتل  گاہ، وہ لاشے، وہ بے کسوں کے خیام

وہ شب، وہ سینۂ  کو نین میں غموں کے خیام

وہ رات جب تیری آنکھوں کے سامنے لرزے

مر ے ہوؤں کی صفوں میں ڈرے ہوؤں کے خیام

یہ کون جا ن سکے، تیرے دل پہ کیا گزری

لٹے جب آگ کی آندھی میں، غمزدوں کے خیام

ستم کی رات کی، کالی قنات کے نیچے

بڑے ہی خیمۂ دل میں تھے عشرتوں کے خیام

تیری ہی برق صدا کی کڑک سے کانپ گئے

یہ زیر چتر مطلا شہنشہوں  کے خیام

جہاں پہ سایہ کناں ہے ترے شرف کی ردا

اکھڑ چکے ہیں ترے خیمہ آنگنوں کے خیام

مجید امجد کی شاعری میں ایک نئے دور کی بشارت ملتی ہے۔ اس کے لیے ہر فرد کو اپنا خون پسینہ ایک کرنے کی ضرورت ہے۔ مجید امجد کا خیال ہے کہ نظام کہنہ کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے کا خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ نظام کہنہ تو ایک ایسی گرتی ہوئی عمارت ہے جو سیل زماں کی مہیب موجوں کی تاب نہیں لا سکتی۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے وہ ظالمانہ استحصالی نظام اور اس کے پروردہ مفاد پرست اور  انسان دشمن مافیا کے قبیح کردار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اسے للکارتے ہیں کہ اگر ان میں اتنا دم خم ہے تو ان کا کام تمام کر دیں۔ ان کی نظموں میں ایک تعمیری قوت ہے جو اصلاح کے متعدد پہلو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں معاشرتی زندگی کو شدید مصائب و مسائل کا سامنا ہے۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کے باعث فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ہلاکت خیزیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اس دنیا کو مقتل وقت کہنا غلط نہ ہو گا۔ مجید امجد کا خیال ہے کہ آج کے انسان کو استحصالی مافیا نے زندہ درگور کر دیا ہے مجبور، محروم اور مظلوم انسانیت ایک قبرستان میں دفن ہے جسے اپنی قبروں سے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں۔ چلتے پھرتے ہوئے مردوں سے ملاقاتیں اب روز کا معمول بن گئی ہیں۔ آنسوؤں، آہوں اور اکھڑے دموں میں جینے والے بے بس و لاچار انسان اپنی زندگی کے مقدس غموں کی امانت کو سنبھالے سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ یہاں بے گناہوں پہ ظلم کی شمشیر چل رہی ہے مگر جلتے روم کو دیکھ کر وقت کے نیرو چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں یہاں غریب کی ہستی کو بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔ ان لرزہ خیز حالات میں مدعی ء عدل کی پر اسرار  خاموشی محروم اور مظلوم طبقے کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتی ہے۔۔ مجید امجد نے جو فروش گندم نما، چربہ ساز، سارق اور کفن دزد عناصر کے مکر کی چالوں کے خلاف شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے :

اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال

مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل

مجید امجد کو بچپن ہی سے اعلیٰ ترین علمی و ادبی ماحول میسر آیا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ میں رانا عبدالحمید کی قیادت میں علم و ادب کا کارواں سوئے  منزل رواں دواں تھا۔ اس زمانے میں اس شہر سدا رنگ میں فروغ ادب کے لیے جو اہم شخصیات فعال کردار ادا کر رہی تھیں ان میں محمد شیر افضل جعفری، خان محمد سرخوش، غلام محمد رنگین، سید مظفر علی ظفر، خادم مگھیانوی، کبیر انور جعفری، سید جعفر طاہر، سردار باقر علی خان، غلام علی چین، رانا سلطان محمود، صدیق لالی، صاحب زادہ رفعت سلطان، شیر محمد شعری، دیوان احمد الیاس نصیب، عاشق حسین فائق، امیر اختر بھٹی،  راجہ اللہ داد، مہر بشارت خان اور ظہور احمد شائق کے نام قابل ذکر ہیں۔ مجید امجد نے ان تمام ادیبوں کی صحبت میں رہتے ہوئے حالات و واقعات کی تہہ تک پہنچنے کی استعداد حاصل کی۔ ان کی چشم بینا نے سات پردوں میں پوشیدہ حقائق کی گرہ کشائی کی اور  دنیا جسے شہر کوراں سے تعبیر کیا جاتا ہے اس پر تمام صداقتیں واضح کر دیں۔ مجید امجد کی شاعری میں ان کی ذات، ماحول اور شخصیت کے تمام  پہلو ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ وہ حریت فکر و عمل کے عملی پیکر تھے۔ جابر سلطان کے سا منے کلمۂ حق کہنا ان کا مطمح نظر رہا۔ انھوں نے صبر و رضا کا پیکر بن کر زندگی بسر کی۔ حریت ضمیر سے جینے کے لیے انھوں نے اسوۂ شبیرؓ  کی تقلید کو شعار بنایا۔ وہ یہ بات بر ملا کہتے تھے کہ زیر تیغ  بھی کلمۂ حق پڑھنے والوں نے قیامت تک کے لیے فسطائی جبر کا خاتمہ کر دیا۔ زمین کرب و بلا کے بہتر جاں نثار نمازیوں کے امام کا ایک سجدہ متاع کون و مکاں ہے۔ نواسۂ رسول ﷺ نے پوری دنیا پر یہ بات واضح کر دی کہ صحرائے کرب و بلا اور فرات کے ساحل سے سلسبیل کی مسافت صرف ایک گام ہے۔ مجید امجد کی نظم چہرۂ مسعود اردو کے رثائی ادب میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے موضوع، مواد اور اسلوب کی ندرت، تنوع، تازگی اور تاثیر میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے اسلوب سے متاثر ہو کر ان کے معاصرین نے ان کے شعری تجربات کو اپنے اسلوب کی اساس بنانے کی سعی کی۔ مجید امجد کی شاعری میں ایک آفاقی لب و لہجہ ہے جو ساری حیات و کائنات کے دکھ درد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے رنگ جہان گزراں اور قسمت کج کلہاں اور تاج وراں کی بربادی کے بارے میں وہ کوئی ابہام نہیں رہنے دیتے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ آج بھی جس شہر پر نظر ڈالیں وہاں اہل کوفہ جیسی بے وفائی کے مناظر عام ہیں۔ آج کا انسان زر و مال اور جان بچا کر بھی ذلت تخریب اور فنا کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے اس کے بر عکس نواسۂ رسولﷺ نے جان قربان کر کے اور عزیزوں، بچوں اور متاع بے بہا اسلام کی خاطر نثار کر کے مقاصد زیست کو رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیا۔ انھوں نے مینارۂ عرش کو چھو کر اپنے عظیم منصب کو حقیقت ابدی بنا کر انسانیت کو نئی رفعتوں تک رسائی کی راہ دکھائی۔ مجید امجد نے کہا تھا :

سلام ان پہ تہہ تیغ بھی جنھوں نے کہا

جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے

  لفظ کی حرمت، اسلوب کی ندرت، احترام انسانیت، وطن اور اہل وطن سے قلبی وابستگی اور جبر سے نفرت مجید امجد کی سرشت میں شامل تھی۔ زندگی کے جس قدر موسم انھوں نے دیکھے انھیں وہ صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے رہے۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ روشنی کا یہ سفر بہ ہر صورت جاری رہے گا اور الفاظ و معانی کے جو گھروندے وہ تعمیر کر رہے تھے ان میں ارفع خیالات کا بسیرا ہو گا۔ ان کی انفرادیت  نے ان کے اسلوب کو مثالی بنا دیا۔ انھوں نے جو طرز فغاں ایجاد کی وہی بعد میں آنے والوں کے لیے طرز ادا بن گئی۔ ضلع کونسل جھنگ کے دفاتر کے سامنے ایک خوب صورت باغ ہے جو مجید امجد پارک کہلاتا ہے۔ اس باغ کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس  کی تمام روشوں پر مختلف رنگوں کے سدا بہار گلاب کثرت سے اگے ہوئے ہیں۔ کئی قسم کے اثمار و اشجار  اس باغ میں موجود ہیں۔ طیور اور تتلیاں یہاں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ کھجوروں کے جھنڈ ہیں جن پر شہد کی مکھیوں کے چھتے ہیں اور شہد کی مکھیاں پھولوں سے شہد کشید کرتی ہیں۔ شہر کی واحد سیرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں سر شام ہی حسین و جمیل خواتین کا جمگھٹا لگ جاتا ہے۔ نامور ادیب اور دانش ور ڈاکٹر نثار احمد قریشی جب 2006میں پروفیسر غفار بابر کے ہمراہ  جھنگ تشریف لائے تو مجید امجد پارک میں بھی گئے۔ انھوں نے آہ بھر کر کہا ’’ مجید امجد تمھارے خواب کی تعبیر بالکل درست نکلی۔ اور پھر مجید امجد کے یہ اشعار پڑھے تو سب لوگ بے اختیار رونے لگے :

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گلاب کے پھول

حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول

  نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہم سب جھنگ کے جنوب میں نصف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بارہ سو سال قدیم شہر خموشاں ’’ لوہلے شاہ ‘‘پہنچے جہاں مجید امجد آسودۂ  خاک ہے۔ مجید امجد کی آخری آرام گاہ کے قریب  گلاب کی ایک سدا بہار بیل اگی ہوئی تھی جس نے پوری قبر کو گلاب کے پھولوں کی چادر سے ڈھانپ رکھا تھا۔ ہم سب محو حیرت تھے کہ تقدیر کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں۔ دور زماں کی ہر کروٹ جب لہو کی لہر اور دلوں کا دھواں بن جائے تو حساس تخلیق کار کا  زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ جاتا ہے مگر اس کا پورا وجود کر چیوں میں بٹ جاتا ہے۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ پھولوں پر شبنم کے قطرے پڑے ہوئے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس مہیب سناٹے میں طائران خوش نوا، پیلوں کے اشجار، گلاب کے پھول اور شبنم  کے قطرے اس یگانۂ  روزگار تخلیق کار کے حضور  نذرانۂ  عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی آنکھوں  سے آنسو مسلسل بہہ  رہے تھے۔ انھوں نے گلو گیر لہجے میں کہا: ’’ مجید امجد ایک ایسا تخلیق کار تھا جو ایام کا مرکب نہیں بلکہ راکب تھا وہ مہر و مہ و انجم کا محاسب تھا۔ اس کی ہر  بات کالنقش فی الحجر ثابت ہوئی۔ اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ آسماں بھی اس کی لحد پہ شبنم افشانی کر رہا ہے۔ طائران خوش نوا اس لافانی تخلیق کار کی یاد میں احساس زیاں کے باعث گریہ و زاری میں مصروف ہیں۔ مجید امجد کی یاد تا ابد ان کے مداحوں کے  دلوں کو مر کز مہر و وفا کرتی رہے گی۔ ‘‘

گلاب کے پھولوں پر پڑے ہوئے شبنم کے قطرے سورج کی پہلی کرن پڑتے ہی موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے مجید امجد کا یہ شعر پڑھ کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا:

جہان گریۂ شبنم سے کس غرور کے ساتھ

گزر رہے ہیں تبسم کناں، گلاب کے پھول

 مجید امجد کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے بعد ہم واپس آئے تو دیر تک فرط غم سے نڈھال رہے۔ مجید امجد کی داستان حیات بلا شبہ عظیم  ہے۔ اس داستان حیات میں محبت و مروت، حیرت و حسرت، درد و غم استغنا و انکسار اور صبر و تحمل کا جو دلکش امتزاج دکھائی دیتا ہے وہ اس بے مثال تخلیق کار کی عظمت کو چار چاند لگا دیتا ہے  جس نے خودی کا تحفظ کرتے ہوئے انتہائی کٹھن حالات، جانگسل تنہائیوں میں بھی شہرت عام اور بقائے دوام حاصل کی۔ جب تک دنیا باقی ہے لوح جہاں پر مجید امجد کا عظیم الشان کام اور قابل صد احترام نام ثبت رہے گا۔ مجید امجد نے خود کہا تھا :

تیرے فرق ناز پہ تاج ہے، مرے دوش غم پہ گلیم ہے

 تری داستاں بھی عظیم ہے، مری داستاں بھی عظیم ہے

٭٭٭

 

میر تقی میر : نہ کہیں مزار ہوتا

  تاریخ، ثقافت اور تہذیب کے دوام کو پوری دنیا میں کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اقوام و ملل کے وجود پر تو ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ سکتی ہے اور ان کا نام و نشاں تک باقی نہیں رہتا مگر تہذیب کا معاملہ الگ ہے۔ تہذیب کی بقا در اصل انسانیت کی بقا سے منسلک ہے اگر تہذیب و ثقافت کے نشانات معدوم ہو جائیں تو اس خطے کے عوام کی تاریخ اور ارتقا کے بارے میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے اور یہ جہاں ایک صنم کدے کی صورت ہے۔ آج اقتضائے وقت کے مطابق جہد للبقا کی خاطر ہر قسم کے چیلنج کا پوری قوت سے جواب دینا از بس ضروری ہے یہی تہذیب و تمدن کا تقاضا بھی ہے اور زندہ اقوام کا شیوہ بھی یہی ہے۔ جو تہذیب و تمدن عصری آگہی کو پروان نہ چڑھا سکے اور جہد للبقا کی دوڑ میں اپنے وجود کا اثبات نہ کر سکے اس کی داستاں تک بھی داستانوں میں باقی نہیں رہتی۔ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوا کرتا ہے۔ یہ تاریخ ہی ہے جس کے معجز نما اثر سے ہر عہد میں نسل نو کو تہذیب و ثقافت کا گنج گراں مایہ منتقل ہوتا رہتا ہے۔ تہذیب کا تحفظ اور اس کی  شناخت انتہائی محنت، دیانت، لگن اور احساس ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی طرح اسے آنے والی نسلوں تک پہنچانا جہاں ذہنی بالیدگی کا مظہر ہے وہاں اس سے مستقبل کے متعدد نئے امکانات سامنے آتے ہیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی قوم کے تاریخی اثاثے اور تہذیبی میراث کے تحفظ اور اس کو آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے  میں غفلت کی مہلک روش اپنانے سے ایسے گمبھیر نتائج سامنے آتے ہیں جن کے باعث پورا منظر نامہ ہی گہنا جاتا ہے اور اس کے بعد پتھر کے زمانے کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ کروچے نے کہا تھا :

  ’’تاریخ دو چیزوں کے ملاپ سے تشکیل پاتی ہے۔ ثبوت اور تنقید، ماضی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ یہ نشانیاں محض بے حس ٹکڑے نہیں ہوتے۔ ان میں ماضی کے افکار اور ماضی کی فکر چھپی

 ہوئی ہوتی ہے۔ یہ ماضی کے ذہن و شعور کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہم ان نشانیوں کو اس لیے محفوظ رکھتے ہیں تاکہ یہ مستقبل کے مورخ کے لیے ثبوت کے طور پر فراہم ہوں۔ ‘‘(1)

 تہذیبی میراث کے زیاں کا ایک واقعہ اردو ادب میں بھی پیش آیا جب خدائے سخن میر تقی میر کی قبر کا نشان ناپید ہو گیا۔ میر تقی میر جو 1723میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ اپنے باپ کے انتقال کے بعد 1734میں دہلی پہنچے۔ دہلی میں میر تقی میر کا قیام جس علاقے میں تھا اسے کوچہ چہل امیراں کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جو بعد میں کوچہ چیلاں کہانے لگا۔ اس کے بعد یہ عظیم شاعر لکھنو کے نواب آصف الدولہ کی دعوت پر 1782میں دہلی کو خیرباد کہہ کر لکھنو پہنچا۔ اردو شاعری کا یہ آفتاب لکھنو میں بروز جمعہ 21ستمبر 1810کو عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔  بعض روایات کے مطابق میر تقی میر کے جسد خاکی کو اکھاڑہ بھیم لکھنو  کے ایک گوشے میں دفن کیا گیا۔ اس کے بعد اس کی قبر کا نشاں بھی قضا نے مٹا دیا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے رالف رسل اور ڈاکٹر این میر ی شمل کے حوالے سے 1980میں ایک بار اپنے شاگردوں کو بتایا:

 ’’اردو زبان کے نابغہ روزگار شاعر میر تقی میر نے 1782میں ذاتی مسائل اور معاشی مجبوریوں کے باعث  جب لکھنو منتقل ہونے کا فیصلہ کیاتو یہاں ان کا قیام لکھنو کی ایک کم معروف آبادی ست ہٹی میں ہوا۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ آبادی ریذڈنسی اور رومی دروازے کے درمیانی علاقے میں ہوا کرتی تھی۔ اس کا محل وقوع اور رہن سہن لکھنو کے اس زمانے کے ترقی یافتہ علاقے سے قدرے کم معیار کا تھا۔ میر تقی میر نے ایک گونہ بے خودی کے حصول کی خاطر مے نوشی اختیار کی۔ دن رات کی بے خودی کے حصول کی تمنا ، ہجوم غم اور نا آسودہ خواہشات نے میر تقی میر پر جنونی کیفیت طاری کر دی۔ کثرت مے نوشی، آلام روزگار کی مسموم فضا، سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں  اور ہجوم غم نے بالآخر  ان کی زندگی کی شمع بجھا دی۔ میر تقی میر کی وفات کے بعد ان کی تدفین ست ہٹی سے کچھ فاصلے پر واقع ایک قبرستان میں ہوئی جسے بھیم کا اکھاڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اب یہ تمام آثار تاریخ کے طوماروں میں دب کر عنقا ہو چکے ہیں  اور ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ‘‘حقیقتوں کا خیال و خواب ہو جانا کس قدر روح فرسا اور اعصاب شکن المیہ ہے اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا :

بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی

کہ  آنکھیں بند ہوں اور آدمی  افسانہ ہو جائے

 نامور ماہر تعلیم، دانش ور محقق اور ادیب رانا عبدالحمید خان جو 1926میں گورنمنٹ کالج جھنگ کے پرنسپل تھے وہ کالج کے طلبا اور اساتذہ کے ہمراہ دہلی، لکھنو اور آگرہ کے مطالعاتی دورے پر گئے۔ اس دورے میں حاجی احمد بخش نے پرنسپل کی کار کے ڈرائیور کی حیثیت سے شرکت کی۔ میں نے 1980میں حاجی احمد بخش سے ایک انٹرویو کیا جس کا ملخص گورنمنٹ کالج جھنگ کے مجلہ ’’کارواں ‘‘میں شائع ہو ا۔ اس سفر کا ذکر کرتے ہوئے حاجی احمد بخش نے بتایا:

 ’’ہمارے ساتھ بیس طالب علم اور دو اساتذہ تھے۔ ان میں پروفیسر  لال چند لالہ اور پروفیسر  سردار پریم سنگھ بھی شامل تھے۔ رانا عبدالحمید کو میر تقی میر کی شاعری سے عشق تھا۔ دہلی، آگرہ اجمیر اور علی گڑھ کے بعد جب ہم لکھنو پہنچے تو میر تقی میر کی قبر کی تلاش شروع ہوئی مگر اس کا کہیں اتا پتا نہ ملا۔ مقامی باشندوں کی زبانی اتنا معلوم ہوا کہ قدیم زمانے میں جس علاقے کو بھیم کا اکھاڑہ کہا جاتا تھا اب اس کے آثار کہیں نہیں ملتے۔ ‘‘

 حاجی محمد یوسف (ڈاکٹر عبدالسلام کے چچا زاد بھائی )کا تعلق ایک کاروباری خاندان سے تھا۔ وہ ذاتی طور پر کئی مرتبہ لکھنو گئے۔ وہ اردو کی کلاسیکی شاعری اور میر تقی میر کے اسلوب کے شیدائی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میر کی لحد کے سرہانے بیٹھ کر آہستہ بول کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کریں اور اس لا فانی تخلیق کار کے حضور آنسوؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کریں مگر انھیں بھی میر تقی میر کی آخری آرام گاہ کے بارے میں کوئی معلومات نہ مل سکیں۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران میاں عبد الواحد لکھنو چھاونی میں تھے ان کے علاوہ محمد خان پوسٹ ما سٹر  بھی اسی علاقے میں  تعینات تھے وہ بھی میر تقی میر کی لحد کا کوئی اتا پتا معلوم نہ کر سکے۔ سردار باقر علی خان جو انڈین سول سروس میں اعلیٰ افسر تھے بعد میں ملتان کے کمشنر رہے انھوں نے کچھ عرصہ لکھنو میں گزارا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے عرصہ قیام لکھنو میں وہ میر تقی میر کی آخری آرام گاہ کا صحیح تعین کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کی اولاد اب جھنگ میں مقیم ہے۔ مجھے 1970میں ان سے ملنے کا موقع ملا جو چراغ سحری تھے۔ ان کی یادداشتوں کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جس علاقے میں بھیم کا اکھاڑہ بتایا جاتا ہے اس کا محل وقوع لکھنو شہر کے ریلوے سٹیشن کے قرب و جوار میں شمال کی سمت میں تھا۔ اس علاقے میں خشک میوے فروخت ہوتے تھے بالخصوص یہ مارکیٹ مونگ پھلی کی فروخت کے لیے مشہور تھی۔ گمان ہے کہ دریائے گومتی کے کنارے جو کچی آبادیاں اس زمانے میں وجود میں آ گئی تھیں یہ اس میں شامل ہو سکتا ہے۔  جھنگ میں میر تقی میر کی یاد میں قائم ہونے والی ’’بزم میر ‘‘جو 1900میں اس عظیم شاعر کے فکر و فن پر تحقیقی کام میں مصروف تھی۔ اس میں متعدد دانش ور شامل رہے۔ ان میں سے چند نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے قابل قدر کام کیا۔ سید عبدالباقی( عثمانیہ)، پروفیسر تقی الدین انجم (علیگ)، پروفیسر عبدالستار چاولہ، ڈاکٹر سید نذیر احمد، رانا سلطان محمود، رانا عبدالحمید خان،  نامور ماہر تعلیم غلام علی چین، میر تحمل حسین، میاں اللہ داد، الحاج سید غلام بھیک نیرنگ، محمد شیر افضل جعفری، کبیر انور جعفری، یوسف شاہ قریشی (بار ایٹ لا)، رام ریاض،  پروفیسر محمد حیات خان سیال، پروفیسر خلیل اللہ خان، مہر بشارت خان، دیوان احمد الیاس نصیب، عاشق حسین فائق، بیدل پانی پتی، مرزا معین تابش اور سید جعفر طاہر سب نے مختلف اوقات میں میر تقی میر کی آخری آرام گاہ کے آثار معدوم ہو جانے کو ایک بہت بڑے تہذیبی زیاں سے تعبیر کیا۔ یہ بات تو سب نے تسلیم کی کہ جس جگہ پر میر تقی میر کو دفن کیا گیا تھا اب وہاں پر ریلوے لائن اور جنکشن موجود ہے  جو نہ صرف بے مہری ء عالم کی دلیل ہے بل کہ اسے حالات کی ستم ظریفی بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ حساس شاعر جس نے اپنے سرہانے آہستہ بولنے کی استدعا کی اب وہ منوں مٹی کے نیچے پڑا  بھاری بھرکم ریل گاڑیوں اور انجنوں کی چھک چھک کے شور  میں دب چکا ہے۔ وہ بے مثال تخلیق کار جسے غالب، ذوق اور متعدد شعرا نے اپنا پیش رو تسلیم کیا اور اس کے اسلوب کو ابد آشنا اور لائق تقلید قرار دیا اب اس کی قبر کا نشاں تک موجود نہیں۔ وہ یگانۂ روزگار شاعر جس نے 13585اشعار پر مشتمل اپنے چھے دیوان لکھ کر اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ کیا اور اردو ادب کو مقاصد کی رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیا آج اس کا جسد خاکی لکھنو ریلوے سٹیشن اور ریلوے جنکشن کے شور محشر میں نو آبادیاتی دور میں برطانوی استبداد کے فسطائی جبر کے خلاف انصاف طلب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میر کو اپنے بارے میں معلوم تھا زمانے کے حالات کس قدر تلخ صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ابلق ایام کے سموں کی گرد میں تمام واقعات اوجھل ہو جاتے ہیں اور حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ اس دنیا میں دارا اور سکندر جیسے نامیوں کے نام و نشاں نہ رہے تو ایک شاعر کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہونا تخیل  کی شادابی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ وفات کے صرف چھے عشروں کے بعد ایک عظیم شاعر کی قبر کا نشان تک معدوم ہو جانا لمحۂ فکریہ ہے۔

میرے تغیر حال پہ مت جا

اتفاقات ہیں زمانے کے

بعد مرنے کے میری قبر پہ آیا وہ میر

یاد آئی میرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد جب غاصب برطانوی  تاجر تمام اخلاقی اور قانونی حدود سے تجاوز کر کے تاجور بن بیٹھے تو وہ تمام علامات اور نشانیاں جو اہل ہندوستان کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص قابل احترام تھیں انھیں چن چن کر ان طالع آزما، مہم جو اور انسانیت سے عاری  فاتحین نے نیست و نابود کر دیا۔ لکھنو شہر کے سٹیشن کے قریب چھٹی والا پل کے قریب ریلوے لائن کے درمیان ایک قبر کے آثار موجود تھے۔ آج سے کوئی اسی سال قبل اس مرقد کو مقامی باشندے شاہ  افجشن کا مزار خیال کرتے تھے۔ اسی مزار کے بارے میں ادبی حلقوں کی رائے یہ رہی کہ ہو نہ ہو یہی تو میر تقی میر کی قبر کا نشان بننے کے گمان کی ایک صورت ہو سکتی ہے۔ حیف صد حیف کہ اب اس مر قد کا بھی کوئی سراغ کہیں نہیں ملتا۔ اس طرح دل کی تسلی کی ایک موہوم صورت بھی نا پید ہو گئی۔ حال آں کہ میر تقی میر کی قبر تو 1857کے بعد برطانوی افواج کی بزدلانہ، ظالمانہ اور جارحانہ خونیں واقعات کے فوری  بعد مکمل طور پر منہدم کر دی گئی تھی۔ سرابوں میں بھٹکنے والوں کے لیے اب مزید کسی خوش فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

میر تقی میر کی تمام زندگی مفلسی، کس مپرسی ، پریشاں حالی  اور درماندگی میں بسر ہوئی۔ ایک بیٹے، بیٹی اور اہلیہ کی وفات سے میر تقی میر کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا۔ اس ہجوم یاس میں اس کے دل پر جو کوہ ستم ٹوٹا اس کے باعث اس کی زندگی کی تمام رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئیں۔ میر تقی میر کے مرقد کا نشاں نا پید ہو جانادر اصل موت کے جان لیوا صدمات اور تقدیر کے نا گہانی آلام کے مسائل و مضمرات کی جانب توجہ دلاتا ہے۔ اس عالم آب و گل کی ہر ایک چیز کو فنا ہے اور بقا صرف رب ذوالجلال کی ذات کو حاصل ہے۔ میر تقی میر کی شاعری اور اس کے الفاظ ہی اب اس کی یاد دلاتے رہیں گے ۔

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لہو آتا ہے جب نہیں آتا

٭٭

  (1)بہ حوالہ مبارک علی ڈاکٹر : تاریخ اور فلسفہ تاریخ، فکشن ہاؤس، لاہور، اشاعت اول، 1993، صفحہ

مآخذ214

٭٭٭

مصنف کے شکرئیے کے ساتھ کہ انہوں نے فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید