FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

رفیق سندیلوی اور ان کی شاعری

 

               جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

رفیق سندیلوی کی نظم نگاری

 

               ڈاکٹر شفیق انجم

 

رفیق سندیلوی جدید اُردو نظم کے تازہ دم اور معتبر شاعروں میں سے ہیں۔ اُنھوں نے مختصر مدت میں اپنی فکری ندرت اور فنی جودت کی بدولت اُس مقام تک رسائی پائی ہے جو قابلِ فخر بھی ہے اور لائقِ تقلید بھی۔ معاصر نظم گو شعرا میں اُن کی آواز نہ صرف نمایاں و ممتاز ہے بلکہ بہ آسانی آگے نکلتی اور اپنے اوج کے نئے زاویے ترتیب دیتی دکھائی دیتی ہے۔ ’’غار میں بیٹھا شخص‘ ‘کی نظمیں اِسی حقیقت کا آئینہ ہیں اوراِ ن نظموں کے مطالعے سے بہت واضح طور پر احساس ہوتا ہے کہ اِن کا خالق صرف اچھے درجے کا شاعر نہیں،بہت اچھے اور اعلی پائے کا وہ سخن گر ہے جسے اپنے فن پر غیر معمولی قدرت اور دسترس حاصل ہے۔

رفیق سندیلوی کی سب سے بھلی بات اور پہلے ذکر کیے جانے کے لائق خوبی‘ اُن کی نظموں میں گہرے تجربے اور احساس کی وہ فراواں حدّت ہے جو یک بیک قاری کو اُچک لیتی ہے۔ بالکل جیسے کوئی سحر پھونکے۔۔۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے اِس کا لفظ لفظ مسلسل حسی ادراک سے جُڑا ہوا اور ذات کی داخلی ریاضتوں میں پگھلایا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھت آغاز ہی سے گھیرا ڈالنے لگتی ہے اور جوں جوں یہ عمل آگے بڑھتا ہے، محویّت کا اَن دیکھا حصار تنتا چلا جاتا ہے۔’’غار میں بیٹھا شخص‘ ‘کی تمام تر نظموں میں یہ وصف موجود ہے اور ترسیلِ معنی سے تسکینِ جمال تک کی تمام منزلیں اِسی کے سائے میں سَر ہوتی ہیں۔ ایک لمحاتی شدّت اور کوندے کی طرح اُبھرتی گم ہوتی کیفیت کو بہت دیر تک سنبھالے رکھنا اور نظم کے آغاز سے اختتام تک اِس کے یکساں ارتعاش کو رواں دواں رکھنا، کسی غیر معمولی تخلیقی قوّت اور ضبط و ارتکاز کی صلاحیّت کے بغیر ممکن نہیں۔ رفیق سندیلوی نے یہ کر دکھایا ہے اور اِسی لیے اُن کی نظموں کی پہچان کا اوّلین حوالہ داخلی جذب و کشش اور احساس و ادراک کی یہی تیز اور مسلسل رو ہے:

 

گُلِ انفصال پذیر ہوں

مَیں نے تیری شاخ سے ٹوٹ کر

کسی اور باغ کا رُخ کیا

تو کھلا کہ خوشبو جو مجھ میں تھی

بڑے خاص طرز و حساب کی

کسی آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب کی

مرے رنگ و روغنِ جسم میں

جو عمیق نوع کی درد تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو سرخ تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو زرد تھا

مرے زرد وسُرخ کے درمیاں

وہ جو اِک حرارتِ لمس تھی

وہ فنا ہوئی

مری پتّی پتّی بکھر گئی!

 

نظم کی بُنت اور سنبھال سہار میں رفیق سندیلوی کا طریقۂ کار بہت قابلِ توجّہ اور جاذبِ نظر ہے۔ اُن کے اُسلوب کی سج اور تکنیک کا رچاؤ باہم ایک ہو کر اثر آفرینی کی بنیادیں مضبوط کرتے ہیں اور جمالیاتی حظ بخشی کے عمل کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ نظم کا لانچنگ پیڈ خیال ہو یا واقعہ، ہر دو صورتوں میں لفظوں کا رَس بھرا اِحساس اور تکنیکی تموّج تحیّر پیدا کیے رکھتا ہے۔ دیدہ زیب منقّش مصرعے اپنی جڑت بُنت،تقدم تأخر اور پھیلاؤ سمٹاؤ میں ایک وجد پیدا کرتے کچھ اِس طور سے وارد ہوتے ہیں کہ قاری کو لمبا انتظار نہیں کھینچنا پڑتا۔ عموماً ہر مصرعے اور بسا اوقات چند ایک مصرعوں بعد تسکینِ جمال کا ایک دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اِس کے بعد ایک اور، پھر ایک اور۔۔ نظم کے اختتام پر یہ سب ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک کُلی احساس میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ قرینہ اور سلیقہ رفیق سندیلوی کو محبوب ہُوا ہے۔ اُن کے اظہار میں گھٹے ہوئے اختصار اور بڑھی ہوئی تفصیل کی بجائے ایک متوازن صورتِ حال ہے۔ وہ ن۔ م۔ راشد کی طرح لمبا چکر نہیں کاٹتے اور نہ میرا جی کی طرح ایڑی پر گھومتے ہیں بلکہ مجید امجد کے قریب رہتے ہوئے چھوٹے دائروں میں حرکت مکمل کرتے ہیں۔ اِس نبھا ہ میں انھیں کامیابی ملی ہے تو اِس کی بڑی وجہ غالباً یہی ہے کہ ایک تو اُنھوں نے اپنا فکری محور آس پاس کی زمینوں سے ہٹ کر دُور کے ثقافتی علاقوں میں نہیں بنایا۔ دوسرے لسانیاتی سطح پر حافظے کے مقفّل خزانوں کو تازہ بنے ذخیروں پر فوقیت نہیں دی اور تیسرے جمالیاتی بہاؤ کو کسی مخصوص پیکر میں مقید کرنے کے بجائے متنو ّع صورتوں میں نقش کرنے کی سعی کی ہے:

 

عجب ملاح ہے

سوراخ سے بے فکر

آسن مار کے

کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے

عجب پانی ہے

جو سوراخ سے داخل نہیں ہوتا

کوئی موجِ نہُفتہ ہے

جو پیندے سے

کسی لکڑی کے تختے کی طرح چپکی ہے

کشتی چل رہی ہے

 

رفیق سندیلوی کی نظموں میں موجود مظاہر کا حسی و وجدانی ادراک بہت اہم ہے۔ اسی دائرے سے وہ اپنے موضوعات چنتے اور اِنھیں ایک نئے ترتیبی سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ اُن کے ہاں حال کی اشکال کبھی اپنے موجود مظاہر کے ساتھ وارد ہوتی ہیں کبھی اِس تجریدی صورت میں جو تخیل کا زور اُنھیں سُجھاتا ہے۔ یہیں سے وہ ماضی کی طرف اُترتے اور نا موجود کو کریدتے ہیں لیکن اِس کرید میں موجود سے ربط و تعلق برابر اُستوار رہتا ہے۔ اِس طریقہ کار کی بدولت اُن کی نظموں میں وہ اتصالی رنگ اور امتزاجی ذائقہ در آیا ہے جس میں موجود کا کھردرا، کٹیلا پن بھی ہے اور نا موجود کی ملائم پُراسراریت بھی۔ رفیق سندیلوی نے یہ جوڑ اِس خوبی سے لگایا ہے کہ کسی ایک عنصر کو دوسرے سے جدا کر کے سمجھا جانا ممکن نہیں رہا:

 

ترمرے سے ناچتے ہیں

دیدۂ نم ناک میں

برّاق سائے رینگتے ہیں

راہ داری میں

بُرادہ اڑ رہا ہے

ناک کے نتھنے میں

نلکی آکسیجن کی لگی ہے

گوشۂ لب ‘رال سے لتھڑا ہے

ہچکی سی بندھی ہے

اِک غشی ہے

میرا حاضر میرے غائب سے جُدا ہے

کیا بتاؤں ماجرا کیا ہے

 

موضوعاتی حوالے سے ’’غار میں بیٹھا شخص‘ ‘کی تمام نظمیں ایک لڑی میں پروئی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ زندگی کے بارے میں استفہام و حیرت، معلوم و نامعلوم کا طلسم، حیات و موت کی بوالعجبی، وجود کے ظاہر و باطن میں تعبیروں کا اژدہام۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وقت۔۔۔ وقت جو ہر نقش کو روندتا ہوا مسلسل رواں دواں ہے۔ رفیق سندیلوی نے اِن سب مسائل و معاملات کو زاویے بدل بدل کرسوچا، محسوس کیا اور نظم کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اُنھوں نے یہ قدیمی موضوعات نئی جہتوں کے ساتھ اپنائے اور تازہ علمی و فکری تناظر میں اِن کی تفہیم کی ہے۔ یہ مراتبِ وجود کی ایسی کہانیاں ہیں جس میں ایک عجیب مافوق سلسلہ ہے۔ لہر سے لہر جڑی ہے اور رنگ برنگ طلسم ہویدا ہوئے چلے جاتے ہیں۔

رفیق سندیلوی نظم میں موضوع کی ترسیل امیج سازی کے ذریعے کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے منظر بتدریج اُترتے ہیں اور تصویر بننے لگتی ہے۔ یہ بالکل مصوّری کی طرح کا عمل ہے جیسے ماہر مصور کا ہر سٹروک تصویر کی ایک نئی جہت تخلیق کرتا ہے اور رنگوں کے امتزاج اور زاویوں کے جڑاؤ سے ایک شبیہ واضح ہوتی چلی جاتی ہے، اِسی طرح کا عمل رفیق سندیلوی کی نظموں میں بھی ہوا ہے۔ یہاں لفظوں کے برش سے منظر پینٹ کیے گئے ہیں۔ ہر نظم ایک تصویر ہے اور یہ تصویر کچھ اِس مہارت سے کینوس پر اتاری گئی ہے کہ نہ صرف موضوع بلکہ اِس سے وابستہ تمام تر کیفیتیں اور احساس کی تمام تر حالتیں بھی پینٹ ہو گئی ہیں۔ یہاں امیج سازی میں شستگی، برجستگی اور پرفیکشن کا وہ عالم ہے کہ داد دیئے بغیر رہا نہ جائے۔ کُل کی تشکیل کے لیے اجزا کی سلیکشن،ان کی تراش خراش اور پھر جُڑت کا اَنوکھا سٹائل،نظم کی معنویت کو اِس طور نکھارتا ہے کہ تفہیم اپنے محوروں میں آپ ہی آپ گھوم جاتی ہے:

 

چاند ستارے

پھول،بنفشی پتے

ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر

اُڑنے والی برف

لکڑی کے شفّاف وَرَق پر

مور کے پَر کی نوک سے لکھے

کالے کالے حرف

اُجلی دھوپ میں

ریت کے روشن ذرّے

اَور پہاڑی درّے

اَبر سوارسہانی شام

اور سبز قبا میں

ایک پری کا جسم

سُرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے

پھولوں جیسے اسم

رنگ برنگ طلسم

جھیل کی تہ میں

ڈوبتے چاند کا عکس

ڈھول کے وحشی تال پہ ہوتا

نیم برَہنہ رقص

 

کیسے کیسے منظر دیکھے

ایک کروڑ برس پہلے کے

غار میں بیٹھا شخص!

 

رفیق سندیلوی نے اپنی نظموں میں اُسلوبیاتی جدت سے خاصا کام لیا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں تند بہاؤ کو روک کر ملائم اُبھاروں کے ساتھ رواں رہتے ہیں اور یہ روانی عمودی ہوتی ہے، افقی نہیں۔ بالکل آبشار کی دھار کی طرح۔۔۔ جو اُوپر سے نیچے اپنا آپ سہارتی ہوئی اُترے۔ اُن کے ہاں طویل مصرعے خال ہی آتے ہیں۔ غنا کے تسلسُل کے ساتھ مختصر،بھر پور اور مٹھی بند مصرعے سندیلوی صاحب کی خاص پہچان ہیں۔ اِن کی تشکیل میں اُنھوں نے لفظوں کا انتخاب بڑی عمدگی سے کیا ہے۔ عموماً تشدید اور جزم والے الفاظ یا ایسی ترکیبیں جن میں چٹخ کی سی آواز اُبھرے یا وہ مرکبات جو دھمک آمیز ارتعاش پیدا کریں، اُن کے تخلیقی عمل میں خصوصیت کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ وہ مفتوح و مضموم آوازوں کے شیدائی ہیں، مکسور کے نہیں۔ اِس رویے کی بدولت اُن کے اسلوب میں بلند آہنگی بھی پیدا ہوئی ہے اور لہجے میں وہ مدو ّر پن بھی ظاہر ہوا ہے جو جاذبیت کی لے کو تیز تر کرے۔ فارسی اور عربی الفاظ سے استفادے نے بھی اِس سلسلے میں راہ ہموار کی ہے اور یوں اُن کی نظموں میں اسلوب و آہنگ کا وہ روپ تشکیل پایا ہے جو اعلی سطح کے فلسفیانہ افکار اور پیچیدہ وجدانی تجربوں کو سمیٹتا اور تمام تر رنگوں کے ساتھ نقش کرتا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے رفیق سندیلو ی کی نظموں کو مقام سے خلق ہوتی اور لا مقام کو مَس کرتی نظمیں کہا ہے۔ جناب شاہد شیدائی کے نزدیک مجید امجد اور وزیر آغا کے بعد اُبھرنے والی کہکشاں میں رفیق سندیلوی ایک درخشاں ستارے کے مانند ہیں کیونکہ موضوع اور مواد کے اعتبار سے اُن کی نظم نادریافت منطقوں کا ایسا جہانِ بے نشاں ہے جس میں شاید ہی اُن کا کوئی ہم عصر نظم نگار اُترا ہو۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے خیال میں رفیق سندیلوی کی نظمیں بہت تازہ دَم ہیں اور یہ ایک بے حد گہرے اور پہنچے ہوئے شاعر کی نظمیں ہیں۔ اِن آرا کی صداقت میں کلام نہیں اور اِس حقیقت میں بھی کچھ شبہ نہیں کہ رفیق سندیلوی کا فن بہت منفرد نوعیّت کا ہے۔اُنھوں نے نہ صرف اپنی نظموں میں ایک نیا لحن خلق کیا ہے بلکہ اِس کی ارفعیت کاسامان بھی بہم پہنچایا ہے۔ اِس تجدّد پر اُن کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

رفیق سندیلوی کا شعری وجدان

 

               دانیال طریر

 

نظم کے سنجیدہ قاری پر ایک بات تو رفیق سندیلوی کی نظمو ں کے مجموعے ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی اوّلین قرأت ہی سے ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ نظمیں اُس کے ہم عصر نظم نگاروں سے مختلف ہیں،لیکن اوّلین قرأت پر دکھائی دینے والا یہ اختلاف اُس کی نظموں کے ظاہر کا اختلاف ہے۔ باطن تک رسائی پہلی قرأت کے بس میں ہونی بھی نہیں چاہیے کیوں کہ اگر نظم پہلی ہی قرأت پر اپنے سب اَسرار کھول دے تو اِسے جدید تر نظم کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

اوّلین قرأت پر یہ نظمیں قاری کو زرعی و صنعتی فضا سے دور کہیں صحرا میں یا کوہساروں کے دامن میں ملگجے میں بیٹھے لوگوں کے ایک گروہ میں شامل کر دیتی ہے جہاں ایک فرد مختصر و طویل،مربوط و غیر مربوط اور مختلف النوع واقعات پر مبنی کسی مشترک روح کی داستان سُنارہا ہے۔ پہلی سطح پر صرف تجسس ہے اور حیرت و ابہام کی کم گہری دھند ہے جس سے معنی کی روشنی کبھی چھنتی ہے تو کبھی دھند کی اوڑھنی اوڑھ لیتی ہے۔ پہلی سطح پر اِس داستان کا سامع یہی محسوس کرتا ہے کہ جیسے یہ داستان اپنی تفہیم اور تکمیل کے لئے اُسے اپنا ایک فعال کردار بنانا چاہتی ہے مگر ہمارا سامع تو اَب تک صرف داستانیں سُننے کا عادی ہے۔ وہ داستان کا کردار بن کر سُنانے کے عمل میں شریک ہونے کی خُو پیدا نہیں کرسکا۔ محض سامع کی حیثیت میں یہ داستان غنودگی کے کیف اور کبھی کبھی بے کیفی سے تو ہمکنار کر سکتی ہے مگر پوری نیند اور پوری بیداری سے سرشار ہونے کی توقع پوری نہیں کر سکتی۔ گویا رفیق سندیلوی کی نظمیں سُننے اورُسنانے کی دو طرفہ فضا سے ممزوج ہیں۔

پہلی سطح پر یہ نظمیں پُر آہنگ تصویر یں ہیں مگر اِس آہنگ کے عقب میں موجود غنائیت کے قرینے، تصویروں کے پسِ منظر میں خیال و احساس، رنگ و روغن اور ارتباط و انسلاک کے رموز نیز مربوط ومنسلک کرنے کے وسائل اور شعری محرک سے تخلیقی تجربے کی کُنہ تک رسائی کے معاملات قاری کی فعال شرکت کا مطالبہ کرتے ہیں البتہ قاری کی فعال شمولیت سے پیشتر بھی رفیق سند یلوی کی نظمیں اپنی فنکارانہ تازگی کے با وصف اُس کے دوسرے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ کیف آگیں اور اَثر آفریں ہیں۔

آج کے دور میں لکھی جانے والی بیشتر نظم جن وجوہات کی بنا پر یکسانیت زدگی کا احساس پیدا کرتی ہے،اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

۱۔ آج کی بیشتر نظم عموماً داخلیت سے عاری مخصوص نوعیت کے خارجی آہنگ کی حامل ہے۔ وہ آہنگ جو ذاتی خیال و           احساس، تخلیقی کرب اور عصر ی شعور کی دین ہوتا ہے، اکثر شعرا کے ہاں مفقود ہے۔

۲۔مخصوص اور محدود لفظی ذخیرے کے باعث اکثر شاعروں کی نظم لفظیاتی تکرار اور استعارا تی یکسانیت کی شکار دکھائی دیتی ہے جو طبیعت کو مکدر کر دینے کا باعث بنتی ہے۔

۳۔ ایک ہی نظم میں جد ید کہلائے جانے والے سبھی موضوعات کو بغیر از تحلیل سمونے کی کوشش تقریباً سب کے ہاں یکساں طورپر موجود ہے۔ کم فہمی کے باعث اِسے معنی کی تکثیریت سمجھ لیا جاتا ہے۔

۴۔روحِ عصر کو نہ پا سکنے والے نظم نگار عصری شعور کا اظہار فرض سمجھتے ہیں۔ خبر کو نظمانے کا شوق انھیں اپنے اصل سوالوں کی طرف بھی متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ نتیجتاً تخلیق سطحیت اور بناوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔

۵۔ امیج سازی میں بھی تقلیدی روش عام ہے۔تجربے سے پھوٹتے امیجز اِس لئے بھی کم دکھائی دیتے ہیں کہ اکثر لکھنے والوں کے پاس اپنا تجربہ ہی نہیں ہوتا۔زیادہ تر دو سروں کے تجربات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

۶۔ نظم کے آغاز، کلائمکس، اختتامیے نیز مصرعوں کی لمبائی چوڑائی تک میں یکسانیت در آئی ہے۔

۷۔ دورانِ نظم قوانی کا استعمال سامنے کے قافیوں سے ہٹ کر اِس لئے بھی دکھائی نہیں دیتا کہ نظم نگاروں کو غزل دشمنی نے شعورِِ غزل ہی سے بیگانہ کر دیا ہے۔

۸۔خارجیت کی یلغار میں داخلیت کا تحفظ بھی اکثر نظم نگاروں کے ہاں ناپید ہے۔

۹۔محدود اور موجود کے علاوہ کسی جہانِ دیگر کی تلاش آج کے بیشتر نظم نگاروں کا مسئلہ ہی نہیں جس نے نظم میں ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔

۱۰۔ آج کی بیشتر نظم ہر دوسرے شاعر کے ہاں جُز و تو بنتی ہے مگر کسی تخلیقی کُل سے ملاپ کا احساس نہیں دلاتی،یعنی کثرت کسی وحدت میں منقلب ہوتی ہے نہ اِس جانب پیش قدمی کا تاثر اُبھارتی ہے۔

مندرجہ نکات کی روشنی میں جب رفیق سندیلوی کا نظم کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایک بدلی ہوئی فضا دکھائی دیتی ہے۔ رفیق سندیلوی کی ہر نظم ایک الگ اکائی ہونے کے باوجود ایک کُل کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کا یہ تاثر ریاضت اور اپنی تخلیقی ذات کی مکمل آ گہی کے بغیر پید ا نہیں ہوتا۔ رفیق سندیلوی اپنے مرکز سے دور جا کر بھی اِس سے لاتعلق نہیں رہتا۔

رفیق سندیلوی نے خود کو موجود تک محدود نہیں کیا بلکہ نامعلوم کو معلوم کرنے کے لئے فکری اور شعری سطح پر بہت قابلِ تعریف کام کیا ہے۔ اُس کے ہاں موجود نامانوسیت اور اجنبیت اِسی سبب پیدا ہوئی ہے۔

رفیق سندیلوی کے سوال موضوعیت کے حامل ہیں۔اِن سوالوں کی معروضی اہمیت اپنی جگہ مگر رفیق سندیلوی نے اِنھیں اپنی داخلی دنیاؤں سے چُنا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ سوال ابدیت کے لمس کے باوجود اُس کے اپنے سوال معلوم ہوتے ہیں اور یہ اُس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ رفیق سندیلوی کو ہم عصر نظم نگاروں میں ممتاز کرنے والی ایک خوبی اُس کا شعورِ غزل بھی ہے۔ نظموں میں آنے والے اَچھوتے قوافی اور اِنھیں برتنے کا سلیقہ رفیق سندیلوی کو غزل کی تخلیقی ریاضت سے حاصل ہوا ہے۔غزل گوئی کی اِسی گہری نسبت نے اُس کی نظم کے رنگ و آہنگ اور صورت و ساخت کو ترتیب دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

رفیق سندیلوی نے اپنی نظم کو مصرعوں کی طوالت، آغاز، اُٹھان اور اختتام ہر حوالے سے معمول کی نظم سے الگ اور مختلف بنانے کی کوشش کی ہے اور اِس میں وہ خاصا کامیاب نظر آتا ہے۔

رفیق سندیلوی کی شاعری اُس کے اپنے تجربے کی دین ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کی امیجری اپنی ساخت و پرداخت میں انفرادیت کی حامل ہے۔ تجربے سے منسلک تمثالیت کی ایسی مثالیں ہماری شاعری میں بہت ہی کم ہیں۔

رفیق سندیلوی کے ہاں سطحی نوعیت کا وہ عصری شعور بھی نظر نہیں آتا جس پر اِس دور کے متعدد شاعر مفتخر دکھائی دیتے ہیں۔رفیق سندیلوی نے روحِ عصر کے انجذاب کے بعد اپنے سوالوں کو بڑے سوالات یعنی ہمیشہ کے سوالات کے ساتھ جوڑ کر اپنی فکری تشکیل کی ہے تاہم اُس کی نظم میں فکر براہِ راست اظہار کے بجائے حسی تمثالوں میں خود کو منقلب کر کے اپنی موجودگی کو ثابت کرتی ہے۔

رفیق سندیلوی کے ہاں موضوعاتی غدر کے بجائے ایک مرکزی سوال یا خیال کی پیش کش کا رویّہ عام ہے۔ وہ ایک مرکز کے گرد دائرہ در دائرہ پھیل کر مرکز کی طرف پلٹ آتا ہے مگر جلو میں کئی نئے خیالات اور سوالات اُس کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ اُس کی نظم معنوی جہات کی حامل ہے مگر یہ معنوی جہات موضوعات کی بے جا کثرت کی وجہ سے نہیں، موضوع یا سوال کے اعماق تک رسائی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

رفیق سندیلوی کا لفظی ذخیرہ بھی دوسرے نظم نگاروں کے مقابلے میں زیادہ کثیر ہے۔ معمول کے بر خلاف لفظیات کے استعمال نے اُس کی نظم کو صوری و معنوی حوالوں سے مختلف بنانے کے ساتھ ساتھ روانی اور غنائیت ایسی خوبیوں سے متصف کر دیا ہے۔ اُس کی نظم رُک رُک کر، ہانپ ہانپ کر اور ٹوٹ ٹوٹ کر آگے بڑھنے کے بجائے میٹر کے تسلسل میں میانہ رفتار کے ساتھ تکمیل کے مراحل طے کرتی ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظم کا آہنگ اُس کی تخلیقی شخصیت کی اکائی سے جس طرح منسلک ہے وہ نہ صرف اُسے ایک بے مثال شاعر کے طور پر متعارف کرانے کا وسیلہ بنتا ہے بلکہ قاری کے ذہن پر نظم کی بالائی سطح سے زیریں سطح تک پہنچنے کے راستے بھی اُجالتا چلا جاتا ہے۔

رفیق سندیلوی نے اپنی نظموں میں زمان و مکاں کے پھیلاؤ کو کم اور زیادہ کرتے ہوئے وجود و عدم کے معنی دریافت کرنے کی تخلیقی کاوش کی ہے۔عموماً ان موضوعات پر غور و فکر کرنے والے شاعر شاعری کی حدود سے باہر نکل کر دیگر علوم کے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن رفیق سندیلوی نے خود کو شاعری کی حدود میں رکھتے ہوئے فلسفیانہ اور نیم فلسفیانہ سوالات کے جواب تلاش کرنے کا قابلِ ستائش کام کیا ہے۔ رفیق سندیلوی کی بیشتر نظمیں لوک کہانی اور اساطیری فضا میں وقت نا وقت، خواب و حقیقت، وجود و عدم، مکا ں ولا مکاں، من و تُو، جبر و اختیار نیز وحدت و کثرت کے معنی تلاش کرتے ہوئے نت نئی تمثالیں گھڑتی اور پیش کرتی چلی جاتی ہیں۔ چونکہ اِن سوالوں کے سرے کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جُڑ کر ایک مرکزِ واحد کی جانب سفر کرتے محسوس ہوتے ہیں، اس لئے رفیق سندیلوی کی نظموں کے سرے بھی کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جڑنے کا احساس دلاتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ نظمیں مرکز گریز ہو کر بھی مرکز مائل نظر آتی ہیں۔ اِن تمام نظموں کا مرکز خود شاعر کا تخلیقی وجود ہے اور اِن نظموں کا محرک بھی یہی تخلیقی وجود ہے۔ اِن نظموں کی توانائی، آب و تاب، بوقلمونی اور نیرنگی سب اِسی وجود کی عطا ہے۔

ہر اعلیٰ تخلیق کار کے راستے میں غیر تخلیقی وجود ایک رکاوٹ ہوتا ہے مگر اِسے مکمل طور پر راستے سے ہٹایا بھی نہیں جا سکتا۔رفیق سندیلوی کی نظموں میں فن کی سطح پر تخلیقی وجود اور غیر تخلیقی وجود کا تصادم نظر آتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اِسی تصادم نے رفیق سندیلوی کے تخلیقی وجود کو اُن بے اعتدالیوں سے بچایا ہے جو اُس کے دوسرے ہم عصروں میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔رفیق سندیلوی اِس امر سے آگاہ ہے کہ لطافت میں کثافت یا کثافت میں لطافت کی کتنی مقدارسے جلوہ پیدا ہو جاتا ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظمیں اچھی بھی ہیں ا ور اَچھوتی بھی، اِن نظموں کا رنگ بھی نیا ہے اور آہنگ بھی، یہ نظمیں فنی طور پر چابک دست بھی ہیں اور زبردست بھی، یہ نظمیں بامعنی بھی ہیں ا ور لاثانی بھی۔ رفیق سندیلوی پڑھے جانے اور بار بار پڑھے جانے کا استحقاق رکھتا ہے۔ سنجیدہ فکری سوالات اور تازہ تر شعر ی جمالیات کے با وصف اُس کی نظمیں قارئین کو تا دیر آنند مہیاّ کرتی رہیں گی۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ رفیق سندیلوی کو نظم کے بڑے لکھنے والوں میں گِنا جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

رفیق سندیلوی کی نظم : ’’وُہی مخدوش حالت‘‘

 

                  ڈاکٹر طارق ہاشمی

 

 

اُردو نظم کی روایت میں اُسلوب کے متنو ّع قرینے اختیار کیے گئے ہیں۔ ہر شاعر نے اپنی وسعتِ ذہنی اور فنی شعورو آگہی کے باعث اپنے لیے اظہار کا نیا راستہ نکالنے کی اپنے طور پر ایک کوشش کی ہے۔ اِس سلسلے میں ابلاغ بھی ایک مسئلہ رہا ہے، اگرچہ شعرا نے اِسے ایک حد تک اہمیت دی ہے یعنی جہاں ابلاغ حسنِ ابہام کو مجروح کرنے لگے تو شاعر قاری کو نظر انداز نہ بھی کرے تو اپنے مخاطبین کا حلقہ محدود ضرور کر لیتا ہے، لیکن اچھا شاعر اپنے اُسلوب کی انفرادیت کو اپنی ترجیحات میں اوّلیں اہمیت دیتا ہے۔

اُردو نظم کے اسالیب میں ایک انداز وہ بھی ہے جسے ایلیٹ نے شاعری کی تیسری آواز قرار دیا ہے یعنی ایسا انداز جس میں شاعر خود خطاب کرنے کے بجائے اپنے ماضی الضمیرکا اظہار کسی کردار کی زُبانی کرتا ہے۔ شاعری کی تیسری آواز جس کی جانب ایلیٹ نے نشان دہی کی ہے، مشرق و مغرب ہر دو شعری روایتوں میں متعدد شعرا کے ہاں مختلف النو ّع کرداروں کی صورت میں سنائی دیتی ہے، جن میں انسانی کرداروں کے علاوہ حیوانات، دیو مالائی مخلوقات، جمادات و نباتات اور مجرد عناصر حتّٰی کہ کیفیات و احساسات بھی بطورِ کردار دکھائی دیتے ہیں۔ اِن کرداروں کی تشکیل کی متنو ّع شعری غایتیں ہو سکتی ہیں، جن میں ایک اُسلوبیاتی غایت علامت نگاری ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظم ’’وُہی مخدوش حالت‘‘ میں ایک ایسا کردار تراشا گیا ہے جو بے زُبان حیوان ہے۔ یہی کردار نظم میں واحد متکلم کی صورت میں مخاطب بھی ہوتا ہے۔ نظم کی ابتدا اُس کے تعارف سے ہوتی ہے، جس میں وہ دِن بھر تلاشِ رزق کی ناکام اور اُکتا دینے والی مشقّت اُٹھانے کے بعد شام کو واپس آتے ہوئے یوں گزارشِ احوال کرتا ہے:

 

ہمیشہ سے وُہی مخدوش حالت

ایک آدھی مینگنی دُم سے لگی ہے

ناک میں بلغم بھرا ہے

ہڈّیاں اُبھری ہوئی ہیں پشت کی

دو روز پہلے ہی

مُنڈی ہے اُون میری

 

کردار کے اِس سراپے کی تصویر میں کوئی جمالیاتی پہلو نہیں ہے بلکہ انتہائی قبیح تصویر سامنے آتی ہے۔ اِس تصویر میں حُسن بھرنا شاعر کا اختیار بھی نہیں ہے مگریہ بدصورتی کی جمالیات ہے جو اِس کردار کی ہیئت کذائی کو واضح طور پر متشکل کرتی ہے۔ غور کیجیے تو اِس کردار کا تعلق اُسی طبقے سے ہے جس کے ماحول کا تعارف فیضؔ نے اپنی نظم ’’کتّے‘‘ میں کراتے ہوئے غلاظت میں گھر اور نالیوں میں بسیرے دکھائے ہیں لیکن نظم کا یہ کردار فیضؔ کے کردار سے مختلف ہے یعنی وقت آنے پر آقاؤں کی ہڈّیاں چبانے کا شعور نہیں رکھتا اور نہ ہی اِس کی طاقت کیوں کہ یہ کردارگوسفندی قبیلے سے ہے۔ نظم آگے بڑھتی ہے اور شاعر دِن بھر کی ناکام مساعی کے بعد اُس ماحول کی منظر کشی کرتا ہے جہاں رزق کی دستیابی کے امکانات معدوم ہیں :

سردیوں کے دِن ہیں

چٹیل بے نُمو میدان میں

ریوڑ کے اندر

سَر جھکائے

گھاس کی اُمّید میں

مدّھم شکستہ چال چلتا

خشک ڈنٹھل

اور پولی تھین کے مردہ لفافوں کو چباتا

دِن ڈھلے باڑے میں آتا ہوں

 

مذکورہ ماحول میں رزق جس قدر قلیل ہے، خوف اور دہشت اُسی قدر فراواں ہے:

 

ہمیشہ سے وُہی دوزخ کی بھاری رات

کہنہ خوف کا اَسرار

گہری بوُ

نکیلی قتلیوں والے سُوَر

کتوں کی لمبی بھونک

کہرے اور اندھیرے کی چڑھائی

بھیڑیوں کے دانت

خطرہ!

 

نظم کے دوسرے حصّے میں ایک اور کردار داخل ہوتا ہے:

 

صبح دَم باڑے میں

کوئی آدمی آتا ہے

موٹی چھال کی رسّی گلے میں ڈالتا ہے

ذبح خانے کی طرف چلتا ہے

 

اِس کردار کا تعارف اُس کی آمد سے پہلے ہو چکا ہے، یا یوں کہیے کہ اِس کردار کی آمد کا خوف ساری رات لاحق رہا اور اُس کی وحشت کے روپ وہ ہیں جنھیں نظم کے پہلے حصے میں مختلف وحشی کرداروں یعنی سو َر، کتّے یا بھیڑیے کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ نظم کا یہ دوسرا کردار مرکزی کردار کو اُس طرف لے جا رہا ہے، جہاں اُسے اپنے آخری انجام سے دو چار ہونا ہے۔ فنا کے اِس لمحے میں اُسے ہر طرف بقا کے آثار نظر آتے ہیں لیکن یہ اُس کے لیے نہیں، دیگر عناصرِ حیات کے لیے ہیں :

 

دُنیا اپنے اندر مست ہے

ارض و سما اپنی جگہ موجود ہیں

پانی اُسی سرعت سے دریاؤں میں بہتا ہے

پہاڑوں کی وُہی اِستادگی

سب کچھ وُہی ہے

ہست کی سانسیں

مسلسل چل رہی ہیں

زمین، آسمان اور کوہسار اپنی جگہ موجود و اِستادہ ہیں اور اپنے حال میں مست لیکن نظم کا مرکزی کردار فنا سے دو چار ہونے جا رہا ہے۔ پانی کی روانی فزوں تر ہے۔ ہست کی سانسیں چل رہی ہیں لیکن کردار کی رفتار میں ایک عجیب سا اِضمحلال ہے۔ گویا ایک طرف کائنات کا عنصر بقا کا ترانہ گا رہا ہے مگر وہ فنا کے گریے سے دو چار ہے اور بالآخر:

مسلسل چل رہی ہیں

مضمحل کمزور ٹانگیں

ایک دُوجے سے اُلجھتی دستیاں

بے مایگی کا آخری لمحہ

زُبانِ بے زُبانی

ایک دَم گردن پہ

تیزی سے چھری چلتی ہے

قصّہ ختم ہوتا ہے!

 

نظم کا اختتام مرکزی کردار کی بعد از مرگ خود کلامی پر مشتمل ہے لیکن یہاں یہ کردار کثرت میں وسعت کی مثال ہے یعنی وہ المیہ جس سے یہ کردار نسل در نسل اور زماں در زماں دو چار ہے۔ نظم کے اِس حصّے میں اُسی بنیادی فلسفے کو بیان کیا گیا ہے جس کے اظہار کے لیے گذشتہ سطور ایک پس منظر کا کام دیتی ہیں :

 

ہمیشہ سے یہاں قربان ہوتا آ رہا ہُوں

کار آمد جانور ہُوں

کھال سے جوتے

سنہری اُون سے بنتی ہی سَر کی ٹوپیاں

اور گوشت پکتا ہے !!

 

وہ وجود جو اپنی زندگی میں زندہ رہنے کے وسائل سے محروم تھا، موت سے دو چار ہوکر دوسروں کے لیے زندگی کے مختلف اسباب پیدا کر رہا ہے۔ سَرسے لے کر پاؤں تک امان کے سامان بہم پہنچا رہا ہے اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو کسی ایک مکانی دائرے یا زمانی وقفے میں نہیں ہوا بلکہ ازل کے لمحے سے رُونُما ہوتا آرہا ہے۔ اَن گنت صدیوں کا یہ وہ تاریک بہیمانہ طلسم ہے، جس نے اِس طبقے سے وابستہ ہر کردار کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔

ایک اور زاویے سے دیکھیں تو درج بالا سطور میں رجائیت کا ایک پہلو بھی ہے۔وہ یہ کہ کرداراِس سرشاری میں ہے کہ وہ مرنے کے بعد ایک اور طرح کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔ اُسے جوتوں، ٹوپیوں اور گوشت کی صورت میں ایک اور عرصۂ حیات مل جاتا ہے،بالفاظِ دیگر اُس کے وجود میں قلبِ ماہیّت کی صلاحیّت ہے۔ اگر پہاڑ اپنی جگہ موجود ہیں اور ہست کی سانسیں چل رہی ہیں تو اُسے بھی بقا کا ایک راستہ مل گیا ہے۔ وہ اَب ایک حیوان کے روپ میں نہیں بلکہ دیگر کار آمد عناصرِ حیات کے روپ میں ایک نئی زندگی گزارے گا۔

ساخت کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ نظم تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے اور ہر حصّے کی ابتدا یکساں نوعیّت کے مصرعوں سے ہوتی ہے:

-i         ہمیشہ سے وہی مخدوش حالت

-ii       ہمیشہ سے وہی دوزخ کی بھاری رات

-iii      ہمیشہ سے یہاں قربان ہوتا آ رہا ہوں

پہلے دونوں مصرعے بالترتیب کردار کے دن اور رات کی تصویر ہیں جب کہ تیسرا مصرعہ زندگی کا دن گزار لینے کے بعد زندگی کی شام کی تصویر ہے۔ تینوں تصویریں کردار پر وقت کے جبر کا اظہار کر رہی ہیں جن میں احتجاج کا کوئی رنگ نہیں ہے۔ شاید یہ بے احتجاجی ہی ایک طرح کا احتجاج ہے جس میں گھمبیر خاموشی کا احساس ہوتا ہے جو دیکھنے والے کے ذہن میں وجود،عدم، موت اور تسلسلِ حیات کے بارے میں سوالات اُبھارتا ہے۔

زندگی کا یہ وہ کردار ہے جو اِسی لیے پیدا ہوتا ہے کہ موت سے دو چار ہو۔ اُس کی زندگی کا زمانی وقفہ محض ایک مہلت ہے، اُس کے وجود کے اِس قابل ہو جانے کی کہ اُسے بعد از مرگ استعمال کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی زندگی میں فنا کا خوف اُس کی سرشت میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہر شب وہ اپنے طے شدہ انجام کے انتظار میں گزارتا ہے۔ اُس کے لیے ہر دن موت کے معیّن دن جیسا ہے۔

نظم کا یہ علامتی کردار جس سطح پر انسان کے جس طبقے کی نمائندگی کرتا ہے، اُس کا احوال بڑی عمدگی سے سامنے لایا گیا ہے۔انسان کے اِس طبقے پر جس طرح رزق کے دروازے بند اور خوف کے دریچے کھول دیے گئے ہیں، جابر اور قاہر طبقہ اِس پر جس نوع کے مظالم روا رکھتا ہے، نظم میں علامتی انداز میں اس کی دِلگداز اور پُر اثر تصویر کھینچی گئی ہے۔

نظم کا مرکزی کردار چونکہ بے زُبانی کا شکار ہے، اِس لیے نظم میں اختیار کیا گیا دھیما لہجہ اور مصرعوں کے اختصار نے نظم کے اُسلوب کو ایک فطری رنگ دے دیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

       رفیق سندیلوی کی نظمیں

 

               اے خیام

 

ساقی فاروقی نے اپنے مجموعے ’’شاہ دولہ کے چوہے اور دوسری نظمیں ‘‘ میں لکھا ہے کہ انھیں اپنے پانچ ہم عصروں ایذرا پاؤنڈ، ٹی ایس ایلیٹ، ڈبلیو ایچ آڈن، ڈلن ٹامس اور کڈ ہیوز سے جدید نظم کے اسرار و رموز سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ رفیق سندیلوی نے اپنے مجموعے ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ میں ایسا کوئی اعتراف نہیں کیا لیکن اُس کی نظمیں پڑھتے ہوئے بہت واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اُس نے بھی اِن اکابر سے یقیناً استفادہ کیا ہے اور تکنیکی طور پر نظم کے اسرار و رموز کو پوری طرح سمجھا ہے اور تبھی نظم لکھنے پر خود کو آمادہ کیا ہے۔ تجزیاتی ارادے سے نہیں بلکہ سرسری طور پر بھی ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظموں پر نظر ڈالیں تو محسوس ہو گا کہ رفیق سندیلوی جو زاویۂ نگاہ رکھتا ہے وہ کسی عمومی شاعر کا تو نہیں ہو سکتا، یقیناً اُس نے سوچاہے اور بہت سوچاہے۔ اُس نے ایک نئے استعارے کو جنم دینے کی کامیاب کوشش کی ہے اور یہ استعارے ذہنوں میں محض ارتعاش پیدا نہیں کرتے، محض چونکاتے نہیں بلکہ تحت الشعور میں اُتر کر اپنی جگہ بنا لیتے ہیں اور قاری کو اکساتے ہیں کہ نظموں کو ذرا سنجیدگی سے پڑھیں، بہ نظرِ غائر مطالعہ کریں، ان کی گہرائی میں اُتریں، دانش کی سطحوں کو پرکھیں، اِن کے موضوعات پر غور کریں اور اِس پر غور کریں کہ اِن موضوعات کے معنیٰ اور مفاہیم کو اُجاگر کرنے کے لیے کیا، کیسا اور کون سا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔

میرا سروکار چونکہ فکشن سے زیادہ ہے اور شاعری سے کم، پھر بھی رفیق سندیلوی کے مجموعے ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کی نظموں کو پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ یہ نظمیں روا روی سے پڑھنے کی چیز نہیں ہیں۔ اِن نظموں نے نہ صرف یہ کہ مجھے چونکا دیا بلکہ سنبھل سنبھل کر، ایک ایک لفظ اور ایک ایک لائن کو اور اکثر نظموں کو بار بار پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ بہت اچھے شارٹ فکشن یا بہت اچھے افسانے کی طرح اِن نظموں میں بھی ایک لفظ کی کمی یا بیشی نظر نہیں آئی۔ دانستہ طور پر نظموں کو خوب صورتی عطا کرنے کے لیے الفاظ کی بھرمار نظر نہیں آئی۔ ہر لفظ موضوع کے معنی اور مفہوم کی طرف اشارہ کرتا نظر آیا اور افسانے کی طرح ہی اکثر نظموں نے ایک آغاز، ٹریٹمنٹ اور پھر انجام سے دوچار کیا۔ اور یہ کہ جس طرح افسانے میں موضوع کے اعتبار سے افسانہ خود اپنا اسلوب متعین کرتا ہے، اِسی طرح رفیق سندیلوی کی نظموں کے موضوعات بھی اپنا اسلوب خود متعین کرتے ہیں، اور یہ عمل فطری اور منطقی ہوتا ہے۔ نظموں کی یہ صورت میرے لیے بہت مختلف اور بہت نئی ہے اور اِس بنا پر میں رفیق سندیلوی کو کسی بھی دوسرے شاعر یا شاعروں کے ساتھ بریکٹ نہیں کر سکتا۔

رفیق سندیلوی کی زیادہ تر نظمیں ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ ہر نظم ایک پُر اسرار ا ورطلسماتی سی کیفیت رکھتی ہے، اور اپنے اندر ایسا بہاؤ رکھتی ہے کہ قاری ذرا سا بھی ٹھٹکے بغیر حیرت زدہ سا آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہمہ وقت ایک خوشگوار تاثر سے دوچار رہتا ہے۔

رفیق سندیلوی نے اپنا مطمحِ نظر واضح کرنے کے لیے اساطیر اور اسطوری کرداروں سے بھی مدد لی ہے۔ لوک کہانیاں، لوک گا تھائیں اور جاتکیں بھی اُس کے اُسلوب میں سما گئی ہیں۔ اُس نے اسطوری کرداروں سے کوئی تمثیل ترتیب نہیں دیا بلکہ ایک ایسی طلسماتی فضا پیدا کی ہے جس میں دیر تک رہنے کو جی چاہتا ہے اور اِسی لیے اُس کی نظمیں خود کو بار بار پڑھواتی ہیں۔ زندگی اور زندہ رہنے کی خواہش، اُمید، مجبوریاں، ولولہ، جستجو، استحصال، ماضی، حال، جدو جہد، معاشرہ، فرد سبھی کچھ اُس کی نظموں کے موضوع بنے ہیں، ہر لائن کا لفظ ایک مخصوص مفہوم دے رہا ہوتا ہے اور قاری تک وہی مفہوم پہنچتا ہے جو شاعر نے اُس لفظ کو دیا ہے۔ رفیق سندیلوی شعری ضرورت کی خاطر لفظوں کو توڑنے مروڑنے پر اصرار کرتا ہے اور نہ اِس کی کوشش کرتا ہے، کہیں کہیں اگر ایسا ہوا ہے تو ایک فطری بہاؤ میں اِس طرح ضم ہو گیا ہے کہ وہی معنی و مفہوم اور وہی ترکیب اصل معلوم ہوتی ہے اور اِس میں غیر فطری پن کا کوئی شائبہ محسوس نہیں ہوتا۔

رفیق سندیلوی اپنی نظموں میں کسی نظریے، کسی خاص رجحان سے متاثر نظر نہیں آتا۔ گو کہ اُن موضوعات کو بھی اُس نے نظم میں شامل کیا ہے جو ترقی پسندوں کو مرغوب رہے ہیں، لیکن اُس کا طریقۂ واردات مختلف ہے۔ وہ بھرپور شاعری کرتا ہے، محض لفظوں کی چیخ پکار اور لہجے کے اُتار چڑھاؤ سے کوئی فضا بنانے کی کوشش نہیں کرتا، وہ تو ایک کیفیت کو خلق کرتا ہے۔ اِسی طرح وہ فلسفۂ وجودیت کے امکانات سے بھی بہت اچھی طرح واقف ہے لیکن اُس نے اِس فلسفے کے مثبت اطوار کو گرفت میں لیا ہے اور منفی گراں باری کو قریب نہیں آنے دیا۔ نظریات اور فلسفیانہ سوچ کے پہلو اُس کی شاعری کو مجروح نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ اُس کی شاعری میں اِس طرح گھل مل گیا ہے کہ وہ اِسی کا حصّہ یا جُز معلوم ہوتا ہے جسے نہ الگ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی الگ رکھ کر نظم کے مفہوم تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

میں اکثر کہتا ہوں کہ ایک اچھے فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ فلسفی بھی ہو یا یہ کہ وہ ایک فلسفیانہ نظریہ رکھتا ہو۔ اس سے میری مراد قطعی یہ نہیں ہوتی کہ وہ ہیگل، فرائیڈ اور گبریل مارسل ہو، یا کیرکے گارڈ، نطشے، ہائیڈیگر اور سارتر ہو بلکہ میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی شے کو دیکھنے اور سمجھنے کے اِس راز سے واقف ہو جو کسی اور پر منکشف نہیں ہو سکتا، وہ ایسا زاویۂ نظر رکھتا ہو جس تک کسی اور کی پہنچ نہیں ہو سکتی، اُس کا اندازِ بیان مدلل ہو اور وہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ رفیق سندیلوی ایسا ہی شاعر ہے جو راز منکشف کرتا رہتا ہے، جو چیزوں کو اِس زاویے سے دیکھتا ہے اور دکھاتا ہے جس تک کسی اور کی رسائی نہیں ہو سکتی۔

سارتر نے کسی موقعے پر کچھ ایساکہا تھا کہ موضوعات مشرق کے پاس ہیں اور اُسلوب مغرب کے پاس، اور جب یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے گلے ملیں گی یا قریب تر ہوں گی تو بڑی شاعری وجود میں آئے گی۔ رفیق سندیلوی کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ مشرقی موضوعات مغربی اسالیب کے لبادے میں شعری روپ دھار چکے ہیں اور بڑی شاعری وجود میں آ چکی ہے۔

میں نے اِس تاثر میں دانستہ کسی نظم یا کسی نظم کے اقتباس کا حوالہ دینے سے گریز کیا ہے۔ یہ ایک مجموعی تاثر ہے جو میں نے کتاب کے ایک مطالعے کے بعد تحریر کیا ہے۔ فرداً فرداً تمام نظمیں اپنے اندر اتنی توانائی رکھتی ہیں کہ وہ بہت کچھ لکھوا سکتی ہیں لیکن یہ ذمہ داری شاعری کے نقادوں کی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

’’یہ سجیلی مورتی ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ

 

               حنیف سرمد

 

عمدہ اور معیاری تخلیق رفعتِ خیال اور جمالیاتی حُسن و رعنائی کا آئینہ ہوتی ہے۔ اِس کے متن (Text) کی بُنت کاری میں ایک ایسی منظم پیچیدگی اور نامیاتی وحدت ہوتی ہے جسے سادگی و پُرکاری اور رومان و حقیقت کے حُسنِ امتزاج سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ رفیق سندیلوی کی نظم ’’ یہ سجیلی مورتی ‘‘ عمدہ معیار اور دلفریب اُسلوب کی حامل ایک ایسی ہی تخلیق ہے۔ فکری سطح پر اِس نظم کا معنیاتی کینوس بسیط و عریض ہونے کے با وصف جہاں کثیر الجہاتی تجزیاتی عمل میں جہت در جہت مفاہیم کے کشادہ تر آفاق روشن کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہاں اُسلوبیاتی و جمالیاتی سطح پر نادر تمثال کاری اور تخلیقی متن کی تعمیر و تشکیل میں شعری لفظیات کو فن کارانہ چابکدستی سے موتیوں کی مثل لڑیوں میں پَرو دینے کے فسوں کی غمازی بھی کرتا ہے۔

اِس نظم کا متن سراسرتخلیقی ہے اور معنیاتی تفہیم کے دائرہ در دائرہ پھیلتے ہوئے نظام فکر سے عبارت ہے۔ معنیاتی تفہیم کا پہلا دائرہ اساطیری جہت سے متعلق ہے۔ فن کا ر نے تخلیقِ حیات یا تخلیقِ آدم کی پُراسرار کتھا کو روحِ عصر بنا کر اپنے تخلیقی عمل میں جذب کیا ہے اور ایک اچھوتے اساطیری متن کی بُنت کاری کی ہے۔ اساطیری جہت کی رُو سے نظام کائنات میں عناصرِ اربعہ یعنی آتش، باد، آب اور خاک کے نامیاتی کُل سے مادۂ حیات کی پیدائش اور تخلیقِ آدم کی ارتقائی داستان اِس نظم کا مرکزی بیانیہ ہے جس میں قدیم اور جدید عہد کے تہذیبی، تمدنی اور فکری شعور کی امتزاجی روح دکھائی دیتی ہے۔ تخلیقِ حیات کے تاریخی فلسفے کے بین بین جدید سائنس کے نامیاتی و کیمیائی ارتقاء کے نظریہ کی ایک جھلک بھی نظم کے متن میں نظر آ رہی ہے جس کے مطابق اِس کرہ ارض پر زندگی کا ظہور مخصوص ماحول میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی کیمیائی تبدیلیوں کی بدولت ہوا اور پھر آبی ماحول میں مادۂ حیات کی تخلیق ہوئی (برقی گرج چمک اور الٹرا وائلٹ شعاعوں کے زیر اثر مختلف عناصر کے تعامل سے حیاتیاتی مادہ اور اس سے سادہ قسم کے پروکریوٹک جاندار اور پھر ان سے یوکریوٹک جاندار پیدا ہوئے) جس سے آبی حیات پیدا ہوئی اور پھر زندگی کا ارتقائی سفر پانی سے خشکی پر رواں دواں ہو گیا۔ اِس نظم میں ازمنۂ قدیم کے آتش پرست تہذیب و تمدن (آگ، ستاروں اور سورج کی پرستش ) اور جدید سائنسی شعور کے فکری امتزاج کی متھ کو جھلملاتی لَو کے سامنے رقص کرتی مورتی اور دو الگ طرزوں کی مٹی کے ایک برتن میں گوندھنے کی علامتوں سے نشان زد کیا گیا ہے۔ رفیق سندیلوی نے حیاتیاتی تخلیق کی ارتقائی کتھا کو نئے رنگ و آہنگ میں بیان کیا ہے جس میں شعور و آگہی کی قندیل بھی روشن ہے اور تخلیقی عمل کی مسرت وانبساط سے لبریز ہونے کی بشارت بھی لَو دے رہی ہے۔

نظم کا دوسرا معنیاتی دائرہ ارضی و ثقافتی جڑوں سے وابستگی اور اجتماعی شعور ولا شعور کی آفاقی رَو سے عبارت ہے۔ اِس جہت کے تناظر میں نظم کا فکری ارتفاع استعجاب انگیز ہے۔ تخلیق کار نے وجدانی جست کے ذریعے قرنوں پہ محیط اجتماعی شعور ولا شعور کی رَو کو تخلیقی تجربے میں بجلی کے کوندے کی مثل جذب کرکے ایک ایسے فن پارے کے روپ میں متشکل کر ڈالا ہے جو شعورِ ذات کا استعارہ ہونے کے با وصف ماضی، حال اور مستقبل کے شعور و ادراک کے نامیاتی کل کا اعلانیہ ہے۔ ارضی و ثقافتی جڑوں سے وابستگی اور اجتماعی شعور و لاشعور کے آفاقی دائرے میں اس نظم کا بیانیہ رقص و آہنگ کے حیاتیاتی اور کائناتی نظام میں مرکزیت کے ثبات کی دلیل ہے۔ حیات و کائنات کا ذرّہ ذرّہ جب نراج کی ارفع ترین منزل کو پاکر کائناتی رقص و آہنگ کی رَو کو چھُو لیتا ہے تو جمود، تاریکی اور سکوت پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ تحرک، صوت اور نور ہویدا ہو جاتے ہیں۔ اِس نظم میں قدیم بُت پرست مذاہب، بدھ مت اور برصغیر کے تہذیبی و تمدنی کلچر کے فکری شعور کی جھلک نمایاں ہے۔ ارضی و ثقافتی تناظر میں دیکھیں تو یہ نظم آرٹ، فنونِ لطیفہ اور رقص و آہنگ کو عمرانیاتی ارتقا کی تاریخ کے آئینے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ عیاں کرتی ہے۔

زیر تجزیہ نظم کے متن کا ایک اور فکری دائرہ جدید حیاتیات کی علمی و فکری بصیرتوں کا زائیدہ ہے۔ جدیدسائنسی شعور کا یہ دائرہ اِس ابدی فکر سے روشن ہے کہ تخلیقِ ادب اور تخلیقِ حیات دونوں کی نوعیت یکساں ہے۔ بیج زمین میں خود کو گم کر کے روئیدگی کی بشارت پاتا ہے۔ سپرم مادہ جاندار کی یوٹرس میں بیضہ (ایگ ) کی صورت مدغم ہو کر زائی گوٹ کا روپ دھارتا ہے اور پھر ایک نئے ذی روح کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے ہی ظاہر اور باطن کے ادراکی تعامل سے پیدا ہونے والے حسیاتی ارتعاش سے فن کار بھی اپنے تخلیقی تجربے میں لمحۂ فراموشی سے ہم کنار ہوتا ہے تو فن پارہ منصہ شہود پہ آتا ہے۔ دوالگ طرزوں کی مٹی کے ایک برتن میں گوندھنے کی تمثیل دراصل حیاتیاتی تخلیق کی شاعرانہ تفسیر ہے۔ ہَوا، ویشیا کے ہونٹ اور چھُو لینے کی خواہش انسانی زندگی کے جنسیاتی پہلو کی نمائندہ علامتیں ہیں۔

نظم کے زیر متن ایک اور معنیاتی دائرہ روشن ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس کا تعلق مابعد الطبعیات سے ہے۔ غور کیجیے تو نظم کے فکری نظام میں سب سے اہم ترین شعوری جہت پیراسائیکالوجی کا موضوع ہے۔ پیراسائیکالوجی کے مطابق انسان کے ظاہری حواس خمسہ یعنی سامعہ، باصرہ، شامہ، ناطقہ اور لامسہ کی طرح باطنی حواس خمسہ بھی ہوتے ہیں۔ ان حواس کے علاوہ حسِ مشترک، حسِ مُتخیّلہ اور متصوّرہ اور واہمہ کی حسّیات بھی ہوتی ہیں۔ صوفی، یوگی یا پیراسائیکالوجی کا کوئی طالب علم مخصوص ریاضتوں مثلاََ مراقبہ، یوگ آسن، پاس انفاس، تصور اسم ذات، شمع بینی اور آئینہ بینی وغیرہ کے ذریعے باطنی حواس کو بیدار کر کے عالمِ استغراق میں چلا جاتا ہے تواُس پر عجائبات کے دریچے روشن ہونے لگتے ہیں، فضا میں دائرے بننے لگتے ہیں اور روشنیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ایسے افراد جو اپنے باطنی حواسِ خمسہ کو بیدار کر لیتے ہیں اُن میں ہالۂ نور اور برقی دائرے کو پڑھنے اور دیکھنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے۔ پیرا سائیکالوجی کی عملی ریاضتوں سے حاصل ہونے والے کامل استغراق وتفکر کے دوران فرد کو نراج کی ایک ایسی منزل کی بشارت ملتی ہے جہاں جذبات واحساسات ا ور فکر و تصورات مجرد پیکروں میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ غیر مرئی اور غیر محسوس اشیاء مرئی اور طبعی روپ میں متحرک دکھائی دینے لگتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح صوفی اور یوگی وغیرہ مراقبۂ ذات کی ارفع منزل کو پاکر کشفِ ذات اور روحانی سفر (Spiritual Traveling) کے ذریعے مابعد الطبعیاتی مظاہر کے سر چشمے کا نظارہ کر لیتے ہیں تو کیا فن کار بھی اپنے تخلیقی عمل میں ایسی واردات و کیفیات کا ادراک پا لیتا ہے؟ اِس سلسلہ میں کوئی حتمی اور ناقابلِ تردید دعویٰ نہیں کیا جا سکتالیکن بعض تخلیق کاروں کے فکر و فن میں پیش بینی اور مابعد الطبیعاتی شعور و آگہی کا عنصر تخلیقی اذہان اور صوفیانہ اذہان کے مابین شعور و فکر اور کشفِ ذات کی مشترک قدر کو نشان زد کرتے ہیں۔

رفیق سندیلوی نے پیراسائیکالوجی کے عملی مظاہر یعنی مراقبہ، حبسِ دَم، شمع بینی اور نفسِ مستاویہ وغیرہ کی ریاضتوں سے استفادہ کیا ہے یا یہ کہ وہ پیراسائیکالوجی کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں یا نہیں اور اُنھوں نے مابعد الطبعیاتی سائنس کے نظریاتی اور اطلاقی فلسفے تک کس قدر رسائی حاصل کی ہے، اِس کے بارے میں کوئی حتمی دعویٰ تو مشکل ہے لیکن یہ ایک زندہ صداقت ہے کہ اُن کے فکر و فن میں مابعد الطبعیاتی فکر کا گہرا اثر ہے۔ تخیل کی پرواز اور وجدان کی رفعت سے وہ خاطرخواہ کام لیتے ہیں۔ بطورِ خاص اِس نظم کے ذریعے اُنھوں نے پیرا سائیکالوجی کے عملی مظاہر کی واردات و کیفیات کو شعوری یا لا شعوری طور پر اپنے تخلیقی تجربے میں سمیٹا ہے اور کمال فن کاری سے اِس طرح بیان کیا ہے جیسے ایک یوگی اپنے آشرم میں وشواس کے ساتھ یوگ آسن کے ذریعے مستغرق ہو کر کشفِ ذات کی آشا پوری کر لینے کا آنند پاتا ہے۔ جنسی فعالیت کے تناظر میں دیکھیں تو نظم کی مابعد الطبعیاتی کتھا یہ ہے کہ شاعر ایک پیراسائیکالوجسٹ کی سطح پر شمع بینی یا باطنی آنکھ کے ذریعے یا ریاضتِ نفسی یعنی سانس لینے کے مخصوص عمل کے ذریعے استغراق کی حالت میں تخلیقِ انسانی کے پُراسرار عمل پہ اپنی فکر کو مرکوز کرتا ہے تو اگلے ہی لمحے انسانی وجود کی تخلیقی کہانی جنسی احساسات و جذبات کی تمام تر جزئیات کے ساتھ مجرد پیکروں میں ڈھل کر ایک متحرک فلم کی صورت شمع کی لَو میں یا باطنی آنکھ کے پردے پہ دکھائی دینے لگتی ہے اور دو الگ طرزوں کی مٹّی سے تشکیل پانے والی سجیلی مورتی وجدانی حدّت کے طفیل ایک مکمل نسوانی پیکر میں ڈھل کر محو رقص ہو اُٹھتی ہے۔ اِس نظم کی فکری رفعت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس کے متن میں معنی کے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی مثل سمویا گیا ہے۔

الغرض اِس نظم کا اُسلوبیاتی اور جمالیاتی حُسن دِلفریب ومسرت آمیز ہے۔ فکری و لسانی سٹرکچر جزو اور کُل کی نامیاتی وحدت سے عبارت ہے۔ خیال، جذبے اور لفظ کی آمیخت دل افروز ہے۔ لینڈ سکیپ متحرک اور دلکش امیجری سے روشن ہے۔ تخاطب اوراستفہام کی جاذب نظر فضا نے اِس نظم کی تاثیر اور سُندرتا میں اوربھی اضافہ کیا ہے۔ تراکیب و علامات اور استعارات و تشبیہات کے برتاؤ میں خوب صوتی اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کی تھالی، جھلملاتی لَو، رقص کرتی مورتی، ویشیا کے ہونٹ، مخمل کی لہریں، بھنور اِک گول سا اورسبک اندام لہریں جیسی ترکیبوں اور ہَوا کو چھوکر قسم کھانے کے لیے کہنا، صحن میں قدم رکھنا، وہاں سے چپکے سے مٹّی لے جانا اور دو الگ طرزوں کی مٹی کو ایک برتن میں مِلا کر گوندھنا جیسی تمثالوں کا سلسلہ لمس کی مٹھاس اور احساس و وجدان کی خوشبو سے معطر ہونے کے با وصف اِس فن پارے کے جمالیاتی نظام کو وضع کرنے میں اکسیرِ اعظم کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس فن پارے کی فکری رفعت کی دلیل یہ ہے کہ دورانِ قرات اِس کے پرت تہہ در تہہ کھلتے چلے جاتے

ہیں اور اِس عمل میں شعور و آگہی کے سوتے پھوٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نظم تخلیقی تجربے کی لطافت سے سرشار ہے اور ایسی ہی سرشاری قاری کو بھی عطا کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

رفیق سندیلوی کی نظمیہ شاعری

 

               ڈاکٹر یٰسین آفاقی

 

رفیق سندیلوی ۱۹۸۰ء کی دہائی کے بعد اردو نظم کے افق پر نمایاں ہونے والے منفرد شاعر ہیں۔ معاصر نظم میں ان کے فن کی حیثیت صحرا میں اُگے ہوئے ایک درخت سی ہے جس کی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک جدت پسند تخلیقی شاعر کی طرح رفیق سندیلوی نے اپنا پیرایۂ اظہار خود وضع کیا ہے۔ ان کے ہاں براہ راست اظہار اور تمثال کے ذریعے تجربے کی تشکیل کا اسلوب نمایاں ہے۔

نقادوں نے رفیق سندیلوی کی نظم کے فن کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کی ڈیڑھ دو درجن سے زائد نظموں کے تجزیے بھی کیے گئے ہیں۔ لیکن نظم ’’حدِ بیابانی میں ‘‘ ان کے نقادوں اور تجزیہ نگاروں کی نظر سے اوجھل رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظم ایک بار پڑھنے سے اپنا آپ ظاہر نہیں کرتی۔ نظم کو کئی بار پڑھنے سے شاعرانہ ادراک کا سراغ ملتا ہے۔ ’’حدِّ بیابانی میں ‘‘ اپنے تجربے کی شدت اور اجزا کے طلسمی اتصال کی وجہ سے رفیق سندیلوی کی نظموں کے مجموعے ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ میں بے حد منفرد نظم ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ شاعر کے تجربے کے مختلف اجزا کا رس کشید ہو کر نظم کے texture میں سما گیا ہے۔ یوں اس نظم میں شاعر کے شعری وژن کی ایک واضح شکل رونما ہوئی ہے۔ میں نے   اس نظم کے تجزیے کو مرکز میں رکھ کر رفیق سندیلوی کی نظمیہ شاعری کے بعض اہم عناصر کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نظم پڑھ لی جائے:

 

میرے اسلوبِ تموج پہ نظر ڈال

مری لہر کے پیرائے کو دیکھ

لمس کی دھوپ کو دیکھ

اور مرے سائے کو دیکھ

دیکھ اب میرے خدوخال میں تبدیلی ہے

دل کی روندی ہوئی مٹّی

جو بہت ماند تھی

اب عکسِ تصور ہی سے چمکیلی ہے

اب مرے جسم کا ہر زاویہ تمثیلی ہے

آخر اس گہرے اندھیرے کے

فلک بوس پہاڑوں میں بنا کر رستہ

جھلملاتی ہوئی نقشین شعاعوں کو

کسی وجد میں آئے ہوئے

دریا کی طرح بہنا تھا

چاند کے گرد جو ہالہ تھا

اسے ٹوٹنا تھا

ابر کو کچھ کہنا تھا

سُر میں سُر ہوتا تھا آمیز

بہم تال میں تال

میرے اسلوبِ تموج پہ نظر ڈال

مری لہر کے پیرائے کو دیکھ

لمس کی دھوپ کو دیکھ

اور میرے سائے کو دیکھ

دیکھ کس طرح میرے ہاتھ سے

پھوٹا ہے بنفشی پودا

کاسۂ سر سے نکل آئی ہے اودی کونپل

اور اگ آئے ہیں

سینے سے چناری پتے

جسم اک مہکا ہوا باغ نظر آتا ہے

آخر اک تارا

گھنی رات کے دروازے سے

در آتا ہے

آخر اِس حدِّ بیابانی میں

ایک گُل پوش نے دھرنا تھا قدم

آ کے یہاں رہنا تھا

جھلملاتی ہوئی نقشین شعاعوں کو

کسی وجد میں آئے ہوئے

دریا کی طرح بہنا تھا!

 

جیسے ہی نظم کا آغاز ہوتا ہے، ایک گھنا احساس قاری کے حواس کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ شاعر پر یہ کیا واردات گزری ہے کہ وہ اپنے اندرونی تلاطم کو دیکھنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ دراصل رفیق سندیلوی اب اپنے فکر و فن کی بلند تر سطح پر پہنچ چکے ہیں اسی وجہ سے ان کی شاعری گہری نظر سے تجزیاتی مطالعے کا تقاضا کرتی ہے۔ نظم کی ابتدا یوں ہوتی ہے:

میرے اسلوبِ تموج پہ نظر ڈال

مری لہر کے پیرائے کو دیکھ

نظم کا آغاز منفرد انداز میں ہوا ہے۔ دوسری نظموں میں شاعر بالعموم تجربے کے پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ لیکن اس نظم میں اپنے عہد میں رہ کر ہی تجربے کو مرتب کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں رفیق سندیلوی کی نظم کا آغاز عام طور پر کسی جان دار شے، فرد یا اجتماع کی حالت کے انشراح سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی نظم کا آغاز غیر معمولی انداز میں ہوا ہے۔ نظم کی ابتدا ہی سے سرشاری کا ایک دریا امنڈ آیا ہے۔ جیسے جیسے نظم آگے بڑھتی ہے قاری نظم کے تارو پور سے منسلک ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نظم کے دھاگے میں ایک ہمہ گیر تجربے کے خدوخال کو تمثالوں کی صورت میں پرو دیا گیا ہے۔ وسیع تر تناظر میں نظم کی ابتدائی دو لائنوں کی تہ سے بحر کا امیج ابھرتا ہے جو شاعر کی ذات کا استعارہ اور بحر کا پانی اس کی تخلیقی توانائی کا مظہر ہے۔ نظم آغاز سے ہی قاری کو غور و فکر کے لیے آمادہ کرتی ہے کہ دیکھ نظم کے متکلم پر کیا واردات گزری ہے کہ اس کی قلب ماہیت ہو گئی ہے۔ یہ ایک بنیادی سوال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظم میں اندرونی تلاطم کے حاصل کو بیان کیا گیا ہے۔

شاعر نے اسلوب تموج کا پہلے اور لہر کے پیرائے کا ذکر بعد میں کیا ہے۔ اس سے لہر کے پیرائے پر تموج کے اسلوب کی برتری کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ کیوں کہ سمندر میں مد و جزر کا پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے اور اس کی بنیادی وجہ چاند کی کشش بتائی جاتی ہے۔ اس لیے تموج میں ایک مستقل صورت حال مضمر ہوتی ہے۔ اور تموج پانی کی بالائی سطح پر پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی جڑیں تہ آب پھیلی ہوتی ہیں۔ جب کہ لہر یں ہوا کے زیر اثر سطح آب پر پیدا ہوتی اور پھیلتی ہیں۔ بنابریں لہروں میں ایک عارضی پن کی کیفیت موجود ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ لہروں کی نسبت تموج کا عمل زیادہ معنی خیز ہوتا ہے۔ اس لیے شاعر نے نظم میں تموج کا ذکر پہلے کیا ہے کہ اس کے اثرات زیادہ دور رس ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ ایک طرف تو شاعر اپنی عصریت اور موقعیت سے جڑا ہوا ہے اور دوسری طرف فطرت کے ازلی و ابدی مظاہر سے بھی مربوط و منسلک ہے۔ یوں وہ ہر دو سے بیک وقت اثر پذیر ہوتا ہے۔

یہاں ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرنا بھی ناگزیر ہے۔ اگرچہ اسلوب اور پیرائے کے الفاظ میں معنوی اکائی کا احساس ہوتا ہے لیکن پیرائے کی نسبت اسلوب زیادہ بامعنی لفظ ہے۔ اس لیے تموج کے ساتھ اسلوب اور لہر کے ساتھ پیرائے کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ الفاظ کے استعمال کے اس قرینے سے بھی سمندر کے پانی کے مد و جزر اور لہروں کی صورت میں حرکت کی معنویت پر روشنی پڑتی ہے۔

سمندر کے پانی کو بالعموم ساکن کہا جاتا ہے لیکن یہ ساکن نہیں ہوتا۔ اس میں حرکت کا عمل ہر آن جاری رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے سمندرکا پانی ہر وقت ساحل پر چڑھتا اور اترتا رہتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سمندر کے پانی کا کچھ حصہ دریا کی طرح آہستہ آہستہ ایک طرف کو بہنے لگتا ہے۔ نظم میں پانی کی حرکت کا یہ عمل موجود ہے اور یہ فن کار کے تخلیقی عمل سے بے حد مماثل ہے:

جھلملاتی ہوئی نقشین شعاعوں کو

کسی وجد میں آئے ہوئے

دریا کی طرح بہنا تھا!

شاعر اپنی سرمستی کی کیفیت اور ذوق و شوق کی حالت کو نمایاں کرنے کے لیے خود کو ایک بے خودی سے جھومتے اور لہراتے ہوئے دریا سے مشابہ قرار دیتا ہے۔ وہ دراصل یہ کہتا ہے کہ میرے من کی موج کو دیکھ، میرے جذبۂ دل کو دیکھ، میرے جوش طبع کو دیکھ اور میری شگفتگی کو دیکھ اور دیکھ میرے سر میں یہ کیا سودا سمایا ہوا ہے کہ میں وجد میں آئے ہوئے دریا کی طرح بہ رہا ہوں اور جھومتے لہراتے ہوئے زندہ ہوں۔ اس سے کسی قدر شاعر کا اسلوب حیات بھی نشان زد ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی قوت یا محرک ہے جو شاعر کو دریا کی طرح بہنے پر آمادہ کر رہی ہے۔ کیوں کہ دریا کی طرح بہنا اپنے پورے پھیلاؤ اور وسعت کے ساتھ یک سو ہو کر کسی خاص سمت کا سفر ہے۔ نظم میں اس سفر میں جوش و جذبہ اور تمکنت کی شان پیدا ہو گئی ہے۔ شاعر اپنے جوہر سے ہم آہنگ ہو کر اپنی موجودگی سے سرشار ہو رہا ہے۔

کسی وجد میں آئے ہوئے دریا کی طرح بہنے کی کیفیت کوسمجھنے کے لیے لہروں کے mechanism کو بیان کرنا ضروری ہے۔ ہوا کے زیر اثر پانی کا ایک ذرہ دوسرے ذرے کو حرکت دے کر اپنی جگہ پلٹ آتا ہے۔ دوسرا ذرہ تیسرے کو اور تیسرا چوتھے کو۔ اس طرح سمندر کا پانی اوپر نیچے، آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے لیکن مستقلاً اپنی جگہ نہیں چھوڑتا۔ اس کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک دوسرے سے جڑی ہونے کی بنا پر لہروں کی حرکت ایک آہنگ سا پیدا کرتی ہے جو حالت وجد کے مشابہ ہوتا ہے۔ اس سے مماثل عمل شاعر کی ذات میں رونما ہوتا ہے۔ حالات و واقعات اور عصری صورت حال کے زیر اثر اس کی ذات میں تغیر کا ایک متناہی سلسلہ جاری رہتا ہے جواس کی نشوونما اور ارتقا کا سبب بنتا ہے۔ بعض اوقات یہ اندرونی اتھل پتھل فرد کو بے ترتیبی اور انتشار کا شکار بھی بنا دیتی ہے لیکن نظم میں یہ عمل شاعر کی نمو کا باعث بنا ہے جس سے اس کی ظاہری اور باطنی تقلیب عمل میں آتی ہے۔

چاند کی کشش کے زیر اثر مد و جزر کا عمل اس وقت رونما ہوتا ہے جب چاند زمین کے مرکز کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور یوں سمندر کے پانی کا چڑھاؤ چاند کی طرف ہو جاتا ہے۔ مد و جزر کا یہ عمل نظم کے علامتی اور استعاراتی نظام کے ساتھ گہری مماثلت رکھتا ہے۔ نظم کی تفہیم میں چاند اور ابر کے استعارے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ استعارے نظم کے تخلیقی فریم ورک میں محبوب اور عاشق کے لیے استعمال ہوئے ہیں :

چاند کے گرد جو ہالہ تھا

اسے ٹوٹنا تھا

ابر کو کچھ کہنا تھا

سُر میں سُر ہوتا تھا آمیز

بہم تال میں تال

جب عاشق کے بحر کی تلاطم خیز موجوں کا رخ محبوب کی طرف ہو جاتا ہے تو وہ عاشق کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ شاعر کو یقین تھا کہ محبوب کے گرد کھنچا ہوا حصار ایک دن ٹوٹ جائے گا اور وہ اپنے عاشق سے کھل جائے گا۔ شاعر کے نزدیک محبوب کے گرد کا ’’ہالہ ٹوٹنا‘‘ اور عاشق کا محبوب سے ملنا اور حال دل کہنا ایک قدرتی امر تھا۔ شاعر نے سُرمیں سُر اور تال میں تال آمیز ہونے کے عمل کے ذریعے وصل اور انسلاک کے عمل کی صورت گری کی ہے جو عالم کیف و مستی کا سبب بنتا ہے۔ یوں شاعر کا ’’اسلوب تموج‘‘ اور ’’ لہر کا پیرایہ‘‘ زندگی کی ایک ارتفاعی صورت کو نشان زد کرتے ہیں۔ اس کو شاعر کی باطنی طاقت یا باطنی کشود سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہاں فرد کے روحانی ارتفاع اور مد و جزر کے عمل میں ایک مشابہت کی بھی نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ جس طرح مد و جزر کے دوران سمندر کا پانی چڑھتا اور اترتا رہتا ہے اور لہریں ٹوٹتی اور بنتی رہتی ہیں، اسی طرح فرد میں جذباتی اور روحانی روئیدگی کا عمل بھی گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ روحانی ترفع ایک غیر مادی شے ہے۔ شاعر نے اس غیر مادی شے کا ادراک Concrete Images کی صورت میں کیا ہے۔ اور یوں ایک غیر مرئی شے کو ایک مخصوص شے میں متشکل کر کے روئیدگی کے عمل کو ایک واضح اور فن کارانہ شکل میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ نظم کی تیسری اور چوتھی لائن میں شاعر کہتا ہے:

لمس کی دھوپ کو دیکھ لہر

اور مرے سائے کو دیکھ

لمس کی دھوپ اور سائے سے انسانی وجود میں مختلف و متضاد عناصر کی موجودگی کو نشان زد کیا گیا ہے۔ انسانی وجود میں عناصر کا یہ افتراق زندگی میں معنی خیزی کا سبب بنتا ہے۔ مزید برآں شاعر اپنے لمس کی حدت کا ادراک کرانا چاہتا ہے کہ دیکھ میرے لمس کی حرارت سے کیا کیا تغیر رونما ہو سکتا ہے۔ ’’لمس کی دھوپ‘‘ کا تمام و کمال احاطہ رفیق سندیلوی کی نظم ’’اگر میں آگ ہوتا‘‘ میں کیا گیا ہے۔ نظم کی سرسری قرأت سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ رفیق سندیلوی کے یہاں ’’لمس کی دھوپ‘‘ کا عمل بہت گہرا، تیز اور وسیع ہے۔ ساری زندگی اس کی زد میں آ سکتی ہے۔ نظم ’’عجیب خالقِ شے ہوں ‘‘ میں شاعر کہتا ہے:

بس اتنا یاد ہے

تخلیق کی تھی کوئی چیز

کچھ اس کے لمس میں ٹھنڈک تھی

کچھ حرارت تھی

تخلیق کی یہ ٹھنڈک اور حرارت ،لمس کی دھوپ اور سائے کے مشابہت رکھتی ہے۔ کیوں کہ تخلیق کار کا وجود نچڑ کر، تخلیق کے رگ و ریشے میں سما جاتا ہے۔ گویا تخلیق ،تخلیق کار کے وجود کا وہ ٹکڑا ہے جو اس سے الگ ہو کر، ایک علیحدہ وجود کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

’’حدِّ بیابانی میں ‘‘ میں آگے چل کر شاعر کہتا ہے:

دیکھ اب میرے خدوخال میں تبدیلی ہے

دل کی روندی ہوئی مٹّی

جو بہت ماند تھی

اب عکسِ تصور ہی سے چمکیلی ہے

اب مرے جسم کا ہر زاویہ تمثیلی ہے

ان سطروں میں لفظ ’’اب‘‘ یہ منکشف کرتا ہے کہ جسم و دل کا ایک رنگ لمحۂ موجود میں ہے جو محبوب کے تصور سے چمک رہا ہے اور ایک رنگ اس سے پہلے تھا جس کو شاعر نے اس نظم میں دل کی روندی ہوئی مٹّی کہہ کر اجاگر کیا ہے اور جسم و دل کی خستگی و شکستگی کو گہرے اندھیرے کے فلک بوس پہاڑوں سے تعبیر کیا ہے۔ جسم اور دل کے اس رنگ کا اظہار رفیق سندیلوی کی دیگر نظموں میں بھی ہوا ہے۔ مثال کے طور پر نظم ’’میں نے دروازہ نہیں کھولا تھا‘‘ میں جسم بے انت اندھیرے سمندر میں گرا ہوا ہے۔ نظم ’’گھنے انبوہ میں ‘‘ سُن بدن کے زخم کے گہرے شگافوں کا بیان ہوا ہے۔ نظم ’’سرخ کمبل‘‘ میں کہا گیا ہے کہ بدن میں خستگی ہی خستگی ہے۔ نظم ’’قبر جیسی کھاٹ میں ‘‘ میں بدن کے بے نمو اندھے کنویں کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح دل کو بھی مختلف پیکروں میں محسوس کیا گیا ہے:

ننھی سی چھاتی ہے

جس پر بڑا گہرا گھاؤ ہے………

’’سفر اب پڑاؤ ہے‘‘

دھونکنی سا

نفخ دَم میں مبتلا سینہ ………

’’ سرخ کمبل‘‘

نظم ’’سنا ہے خلق آئے گی‘‘ میں بھی پشت و سینہ کے گھنے زخموں کا تذکرہ ہوا ہے۔ ان نظموں میں جسم و دل کے بکھرے ہوئے پیکروں کو یکجا دیکھا جائے تو ’’اب‘‘ سے پہلے کے جسم و دل کا رنگ و آہنگ واضح ہو جاتا ہے اور یہ رنگ و آہنگ خستہ و شکستہ تمثالوں پر مشتمل ہے۔ مگر جب محبوب کے تصور، کوئی دوسری تعبیر یا کسی اور ہی دنیا کے منظر سے خیال میں رعنائی آتی ہے تو اس رعنائی سے دل کی پامال شدہ مٹّی جگمگا اٹھتی ہے اور شاعر کے جسم کا ہر گوشہ کسی دوسری شے کی نظیر بن جاتا ہے اور نظم ’’جھلملاتی ہوئی نیند، سُن‘‘میں دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر مل جاتی ہی:

اے چراغوں کی لَو کی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن

خواب سے جوڑ

لہروں میں ڈھال

اک تسلسل میں لا

نقش مربوط کر

نرم، ابربشمیں کیف سے

میری درزوں کو بھر

میری مٹّی کے ذرّے اٹھا

میری وحشت کے بکھرے ہوئے

سنگ ریزوں کو چُن

اے چراغوں کی لو کی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا ادھڑا ہوا جسم بُن

کوئی لوری دے

جھولا جھلا

پوٹلی کھول رمزوں کی

مجھ پر کہانی کی ابرک چھڑک

میرا کاندھا تھپک

آ مجھے تاجِ روئیدگی سے سجا

اک تسلسل میں لا

لو کے اِکتارے پر

چھیڑ دے کوئی دھُن

اے چراغوں کی لو کی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن!!

اب واپس پلٹیے اور ملاحظہ کیجئے کہ ’’حدِّ بیابانی میں ‘‘ میں شاعر نے کس طرح اپنے بدلے ہوئے خدوخال کو دیکھنے کی دعوت دی ہے:

دیکھ کس طرح میرے ہاتھ سے

پھوٹا ہے بنفشی پودا

کاسۂ سر سے نکل آئی ہے اودی کونپل

اور اگ آئے ہیں

سینے سے چناری پتے

جسم اک مہکا ہوا باغ نظر آتا ہے!

شاعر روئیدگی کے غیر معمولی تجربے سے گزرا ہے۔ اس کے ہاتھ سے بنفشی پودا، سر سے اودی کونپل اور سینے سے چناری پتے پھوٹ نکلے ہیں۔ اس تجربے سے قبل شاعر رات کے عذاب کا شکار تھا اور اس کا اپنے ہاتھ کے بارے میں احساس اور ادراک کچھ یوں تھا:

خبر نہیں کہ پھوٹنا ہے کس شعاع درد کو

مرے لرزتے ہاتھ سے ………

’’کدھر ہے منبعِ غنا‘‘

میں تہی وجود موسم

مرے ہاتھ میں خلا ہے………

’’میں تہی وجود موسم‘‘

زندگی، میں نے ترے ہاتھ پہ

کم رکھے ہیں

وہ دیے

جن کی بنفشی لو میں

رات نے اپنا بدن

وصل کی تہ میں دیکھا ………

’’جب میری شریان پھٹی‘‘

چنار کے درخت کی پتّیاں انسانی پنجے کے مانند ہوتی ہیں۔ اس لیے شاعری میں پنجۂ معشوق کو اکثر چنار کے پتے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چنار کے درخت کو از خود آگ بھی لگ جاتی ہے۔ جب شاعر ’’حدِّ بیابانی میں ‘‘ میں یہ کہتا ہے:

اور اُگ آئے ہیں

سینے سے چناری پتے

تو اس سے انکشاف ہوتا ہے کہ سینے میں نمو کا عمل شرو ع ہو چکا ہے۔ سینۂ بے رنگ، سینۂ صد رنگ میں تبدیل ہو چکا ہے اور یوں لگتا ہے جیسے دل کے اندر آگ سی لگی ہوئی ہے اور اس آگ سے جسم کا رنگ و روغن چمک اٹھا ہے۔ نشوونما کے اس براق عمل سے جسم ایک مہکتے ہوئے باغ میں منقلب ہو چکا ہے اور یہ شاعر کی باطنی طاقت کا کرشمہ ہے۔ درحقیقت یہاں روئیدگی کے ایک شدید احساس کی صورت گری کی گئی ہے۔ یہ وجود کی زرخیزی اور معنی خیزی کا نہایت تخلیقی اظہار ہے۔ اس سے رفیق سندیلوی کے ہاں ایک نئے شعری اسلوب کا امکان ظاہر ہوا ہے۔ یہ اسلوب مغرب کے امیجسٹ شعرا کی شاعری سے ملتا جلتا ہے۔ مثلاً ایذراپونڈ کی یہ لائنیں دیکھئے:

درخت میرے ہاتھوں میں داخل ہو گیا ہے

رس میرے بازوؤں میں بھر گیا ہے

درخت میرے سینے میں اگ آیا ہے

نیچے کی طرف

شاخیں میرے اندر سے بازوؤں کی طرف اُگ آئی ہیں !

ان لائنوں سے رفیق سندیلوی کی نظم کی لائنیں امیج کی حد تک ایک جزوی مشابہت رکھتی ہیں لیکن ان کی نظم کا رُخ اور روّیہ بالکل مختلف ہے۔ قاری سوچتا ہے کہ شاعر کا جسم تو بکھرا اور ادھڑا ہوا تھا۔ اب یہ نہ صرف یکجا اور ثابت و سالم ہو چکا ہے بلکہ ایک تر و تازہ اور شگفتہ بدن میں بھی ڈھل گیا ہے۔ آخر اس تقلیب کا راز کیا ہے؟ نظم ’’عجیب خالقِ شے ہوں ‘‘ میں شاعر نے خود ہی یہ سوال اٹھایا تھا کہ:

وہ کوئی دستِ بہاریں تھا

یا کہ دیدۂ گُل

وہ کیا تھا جس کی نمی سے

بدن گیا تھا دھُل

’’حدِّ بیابانی میں ‘‘ میں اس حوالے سے یہ اشارہ ملتا ہے:

آخر اک تارا

گھنی رات کے دروازے سے

در آتا ہے

آخر اس حدِّ بیابانی میں

ایک گُل پوش کو دھرنا تھا قدم

آ کے یہاں رہنا تھا

نظم میں محبوب کے لیے چاند، تارا اور گُل پوش کے استعارے استعمال کیے گئے ہیں اور جسم و دل کے ویرانے کو حدِّ بیابانی کہا گیا ہے۔ رفیق سندیلوی کے ہاں جسم و دل کی تالیف کا عمل اس وقت ہوتا ہے جب:

لرزتی موج

انوکھا لمس

کوئی دوسری تعبیر منظر اور ہی دنیا کا

باطن کو جگاتا ہے……

’’ پانی کا سرمایہ‘‘

نظم ’’حدِّ بیابانی میں ‘‘ پر غور کیجئے تو لرزتی موج تموج اور لہروں کی صورت میں موجود ہے۔ انوکھا لمس، چاند، تارا اور گُل پوش کے استعاروں میں لپٹا ہوا ہے۔ کوئی دوسری تعبیر، شاعر کو خواب کی تعبیر کی صورت میں مل گئی ہے۔ جب محبوب حدِّ بیابانی میں قدم دھرتا ہے تو شاعر کا باطن روشن ہو جاتا ہے اور وہ روئیدگی کا تاج پہن لیتا ہے اور اپنے بدلے ہوئے جسم و دل کے ساتھ خواب و خیال کی دنیا میں وارد ہو تا ہے۔

’’حدِّ بیابانی میں ‘‘ سے مماثل تجربہ رفیق سندیلوی کی نظم ’’مہرباں فرش پر‘‘ میں بھی اپنی چھپ دکھاتا ہے۔ اس نظم میں بھی شاعر کا صحرائے جاں ایک جاوداں اور غنائی رفاقت کے لمس سے مہک اٹھتا ہے۔ نظم ملاحظہ کیجئے:

اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں

مہرباں فرش پر پاؤں میرا پڑا

میں نے دیکھا کھلا ہے مرے سامنے

زر نگار و منقّش، بہت ہی بڑا

اک در خواب کا

مہرباں فرش کے

مرمریں پتھروں سے ہویدا ہوا

عکس مہتاب کا

میں نے ہاتھ اپنے آگے بڑھائے

اور اس کو چھوا

گھنٹیاں میرے کانوں میں بجنے لگیں

جاوداں اور غنائی رفاقت کے مابین تھا

میرا صحرائے جاں

اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں

میں نے دیکھا

میرے شب نما جسم پر

اک ستارہ سی بارش نے لب رکھ دیا

نرم براق، ترشے ہوئے طاق پر

جتنا زاد سفر میرے ہمراہ تھا

میں نے سب رکھ دیا!

اب میں آزاد تھا

اور طلمسیں پڑاؤ کا ہر اسم بھی یاد تھا

میں نے دیکھا

میرے چار جانب جھکا تھا پیالہ نما آسماں

میرا محرم، میری سانس کا راز داں

اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں

مہرباں فرش پہ پاؤں میرا پڑا

میں نے دیکھا کھلا ہے میرے سامنے

زرنگار و منقّش، بہت ہی بڑا

ایک در خواب کا!!

جس طرح رفیق سندیلوی کی نظموں میں جسم کے مختلف ایمجز کا ایک جال بچھا ہوا ہے، اس طرح رات کی تمثالوں کا ذکر بھی ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہوا ہے۔ نظم ’’حدِّ بیابانی میں ‘‘ میں ’’ حدِّ بیابانی ‘‘ کے الفاظ کا استعمال دوہرے معنی میں یعنی Duplicity of Metaphor کے طور پر ہوا ہے اور نظم میں اس کا ادراک گھنی رات اور اندھیرے کے فلک بوس پہاڑوں کے استعاروں کی صورت میں کیا گیا ہے۔ رفیق سندیلوی کی دیگر نظموں میں بھی تاریکی اور رات کے امیجز موجود ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:

 

خزانہ اٹھا لے گئی رات………

’’سمے ہو گیا‘‘

مجھے کیا دیا ہے تو نے

یہی رات کی سیاہی………

’’میں تہی وجود موسم‘‘

کس طرح ہجر کی درماندہ سیہ رات کٹی………

’’جب مری شریان پھٹی‘‘

جس گھڑی رکھی گئی بنیاد میری

اس گھڑی سے

تیرگی کے پیٹ میں ہوں ……

’’ مگر مچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے‘‘

میں گیا اس طرف

جس طرف نیند تھی

جس طرف رات تھی

بند مجھ پر ہوئے سارے در

سارے گھر……

’’ ایک زنجیر گر یہ میرے ساتھ تھی‘‘

میں نہیں جانتا

اُس گھڑی تیرگی کے طلسمات میں

جو اشارا ہوا

کس کی انگلی کا تھا

اور جو کھولی گئی تھی میرے قلب پر

کون سی بات تھی ………

’’ ایک زنجیر گریہ میرے ساتھ تھی‘‘

نیستی کے اندھیرے میں بیٹھے ہوئے

روزِ اوّل سے اجڑے ہوئے

بے سہارا مکیں تو نہیں ہو……

’’ کہیں تم ابد تو نہیں ہو‘‘

 

اسی طرح نظم ’’اس باغ میں کوئی پیڑ نہیں ‘‘ میں شب کے طلائی فرغل کا ذکر ہوا ہے۔ نظم ’’مگر وہ نہ آیا‘‘ میں رات کو سرد خانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض دوسری نظموں میں بھی رات کے ایمجز بکھرے ہوئے ہیں۔ رفیق سندیلوی کی نظموں میں رات اور تاریکی ازل کی تاریک رات سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے ان کے یہاں رات کی سرحدیں بساطِ عدم سے بھی مل جاتی ہیں۔ ان کی نظموں میں جسم کے ساتھ بھی رات کے مختلف پیکروں کا تذکرہ ہوا ہے جن کا حوالہ اوپر ان کی نظموں کے مختلف ٹکڑوں میں دیا گیا ہے۔ بہرکیف شاعر رات کی رسیوں سے خود کو جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے اور اس کی گرفت سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔ اس کے دل میں رات کے حدودِ اربعہ سے نکل جانے کا ولولہ ابھرتا ہے اور بالآخر وہ کہتا ہے:

آخر اک تارا

گھنی رات کے دروازے سے

در آتا ہے!

اور یوں وہ بالآخر رات کی تاریکی کو عبور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ان سطروں میں ’’آخر‘‘ کا لفظ اس بات

کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاعر کو رات کے منہ سے نکلنے کے لیے بہت تگ و دو کرنا پڑی ہے۔ تب کہیں جا کر وہ رات کی قوتوں پر فتح یاب ہوا ہے اور یوں جسم و جاں کے اندھیرے میں جھلملاتی ہوئی نقشین شعاعوں کا گزر ممکن ہوا ہے۔ بدن کے جو ہر خفتہ میں جو قوت لاہوت مدغم تھی، اس کا بھی ظہور ہوا ہے اور مساموں سے شعاع بے نہایت بھی پھوٹ نکلی ہے

کیوں کہ رفیق سندیلوی قدیم اور جدید زندگی کو تمثیلی طرز احساس سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ ’’اک تارا‘‘ کوئی کہنہ ستارا بھی ہو سکتا ہے جو عدم کی تاریک رات سے پھوٹا ہو۔ یا یہ کسی برتر حقیقت کا اشارا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ تجلی کی کیفیت یا کشف کا اشاریہ بھی ہو سکتا ہے۔ رفیق سندیلوی کے ہاں معانی کی تکثیریت کا یہ عمل بھی ان کی نظم کو مابعد جدید نظم کے دائرے میں لے آتا ہے۔ بلاشبہ رفیق سندیلوی کی نظم کی صورت میں مابعد جدید اردو نظم کی ہیئتی تشکیل کا ایک نیا انداز نمایاں ہوا ہے۔

نظم ’’حدِّ بیابانی میں ‘‘ میں یہ سطریں دہرائی گئی ہیں :

میرے اسلوبِ تموج پہ نظر ڈال

مری لہر کے پیرائے کو دیکھ

لمس کی دھوپ کو دیکھ

اور مرے سائے کو دیکھ

 

اور یہ سطریں بھی دہرائی گئی ہیں :

 

جھلملاتی ہوئی نقشین شعاعوں کو

کسی وجد میں آئے ہوئے

دریا کی طرح بہنا تھا!

 

ان سطروں کی تکرار نظم کے مجموعی تاثر میں اضافہ کرتی ہے اور روحانی سرمستی کی کیفیت کو مزید گھمبیر کر دیتی ہے۔ نظم میں یہ کیفیت محبوب کی غنائی قربت اور رفاقت کی دین ہے۔ نظم کو کئی بار پڑھنے سے اس کا غنائی اثر حوا س پر چھا جاتا ہے اور قاری اپنے حواس کی پُراسراریت کی گرہیں کھولنے کے عمل کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ ان سطروں کی تکرار سے ایک تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شاعر کسی تاثیر یا بھید کا رنگ گہرا کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ ایسا تأثر یا بھید ہے جو نظم کے مافیہ کو ایک تسلسل یا نظم کے اجزا کو ایک کُل کی شکل میں لانے سے پیدا ہوتا ہے۔ تخلیق کاری کا یہ زاویہ رفیق سندیلوی کی نظم کی شناخت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔

شعری اسلوب کا شاعر کے باطن کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ رفیق سندیلوی کی نظم کا ہرا بھرا اور توانا اسلوب شاعر کے سرسبز و شاداب اور روشن باطن کی نمائندگی کرتا ہے اور اندرونی نمو کو روشن اور شفاف امیجز میں متشکل کرتا ہے۔ ’’حد بیابانی میں ‘‘ ایسی نظم ہے جو روئیدگی کے ایک گھنے احساس کو بنیاد بنا کر ہنر مندی کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ امیجز ایک مسحور کن انداز میں ایک دوسرے کے اندر پیوست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یوں ایک گہرا معنیاتی سلسلہ تخلیق ہوا ہے جس سے لفظی و معنوی دونوں سطحوں پر ایک غیر معمولی تنظیم کا احساس ہوتا ہے اور یہ باور آتا ہے کہ نظم میں تمثالی طرزِ احساس اور لیریکل شاعری کے اسلوب کو آمیخت کیا گیا ہے۔ یہ نظم رفیق سندیلوی کی نظمیہ شاعری میں مرکزی رَو کا درجہ رکھتی ہے۔ میں اس نظم کو ان کی نظمیہ شاعری کا حاصل اور ان کی نظمیہ شاعری کو مابعد جدید نظم کا ایک حسین پرتَو کہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رفیق سندیلوی کی نظمیہ شاعری سے اردو نظم کو ایک نیا ارمغان نمو ملا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک رات کا ذکر:غزل میں نئی دستک

 

 

               رشید نثار

 

میرے نزدیک رات ایک ایسا وجود ہے جو سر چشمۂ راز ہے بلکہ ایک اور جہت سے دیکھیں تو ہم اِسے اِدراکِ حُسن بھی کہہ سکتے ہیں۔ رات چونکہ خود کو منکشف کرتی ہے لہٰذا اس کی چھوٹی چھوٹی دنیائیں حیرت انگیز طور پر کسی آنکھ والے کو اپنی طرف بُلاتی اور اپنے حسن کی رعنائی کو پرکھنے کی دعوت دیتی ہیں۔ رفیق سندیلوی نے رات کو رویائی ہیئت میں دیکھا اور اپنے تصوّرات کے شاخ در شاخ روزنوں سے اِس کے باطن میں جھانکا ہے۔ اِس طرح اُس نے اپنے تکمیل شُدہ فکر کو ایک پیکر عطا کرنے کی کی کوشش کی ہے۔

اُردو غزل میں روایتی اُسلوب نیم شفّاف صورت میں سر گرم عمل رہا ہے لیکن جب سےmodern sensibility نے غزل میں نئی نزاکتیں پیدا کی ہیں، تب سے اِس کے تزئینی نقوش میں نیا حُسن پیدا ہو ا ہے۔ رفیق سندیلوی اِ س سے متاثر ہوا ہے مگر اُس نے اپنے تصوّر کونیا اُسلوب بخشا اور نئے استعاروں میں تمثال گری کا جواز پیدا کیا ہے۔ اُس کے ہاں حُسن کی تلاش کے ایک انوکھے انداز اور مکمل طور پر ایک مرتکز اُسلوب نے جنم لیا ہے جو قدیم روایات کے برعکس وجدانی سطح پر ایک اَن دیکھے اِنقلاب کے وجود کی خبر سُنا تا ہے۔

رات اپنے وجود میں پُر اَسراریت کا نفوذ رکھتی ہے مگر معروضی انداز سے دیکھنے والی آنکھ اس کے خارجی مظاہر تک محدود رہتی ہے۔ رفیق سندیلوی نے خارجی مظاہر تک ہی اکتفا نہیں کیا کیوں کہ وہ اپنے الفاظ کا گہرا ہم سفر رہا ہے اور ان کے ساتھ مائلِ پرواز ہوا ہے۔ اس سفر میں رات کی صفات بہت سے لمحات میں اذیّت ناک صورتِ حال سے دوچار ہوتی ہیں۔ اس کے با وصف رفیق سندیلو ی رات کے مظاہر کے ساتھ آسمان پر جا کر زمین کو آباد کرتا رہا ہے۔ وہ اگر ایسا نہ کرتا تو اپنے ہُنر کو پُر مایہ بنانے کے عمل سے اِنحراف کرتا۔ چنانچہ اُس نے اِنحراف نہ کر کے زمینی رشتوں کے ساتھ گہری مطابقت پیدا کی ہے اور اب اُس کی روایت اُس کی اپنی ہے اور تقدس مآب بھی۔ اِس ضمن میں اُس کے چند اشعار کا ذکر کروں گا جن کی خواندگی سے اس امر کا اِنکشاف ہوتا ہے کہ جمالیاتی انداز میں تغیر سا آ گیا ہے۔ وقت اور فاصلوں کی زمام فن کار کے ہاتھ میں آ گئی ہے جس سے تخلیق کا دائرہ اندر سے کھل کر بڑا ہو گیا ہے اور خیال کو وسعت نصیب ہوئی ہے:

 

فُسونِ خواب نے آنکھوں کو پتھر کر دیا تھا

اور اِک تارہ حفاظت پر مقرّر کر دیا تھا

 

طلسمی دھوپ نے اِک مرکزِ عصرِ رواں میں

مرے قد اور سائے کو برابر کر دیا تھا

 

کشش نے کھینچ لیا تھا زمین پر مجھ کو

سو گرتے گرتے بھی میں نے خلا شکار کیا

 

ہم آسماں کی زمام تھامے گزر رہے تھے

فرشتے جب شانۂ زمیں پر اُتر رہے تھے

میں دِن کا سلسلہ دِن سے ملانے والا تھا

کہ درمیان میں اِک رات آن کو دی تھی

 

مجھے ٹھکانہ نہیں مِلا تھا کسی طبق پر

میں تھک کے خاکی بدَن کے ٹیلے پہ آ گیا تھا

 

رفیق سندیلوی نے علامت اور تصوّر کو امتزاجی صورت عطا کی ہے۔ اُس کے ترکیبی آہنگ نے بڑی مہارت کے ساتھ اُلوہی اِنسان کا ہیولہ تراشا ہے۔ اُس کی اندرونی صداقت نے ظلمت و نور کے وہ منطقے ایجاد کئے ہیں جس سے غزل کو ایک انوکھا جہانِ معنی نصیب ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اُردو غزل کلیشے سے بچنے کے لئے عجیب حالات سے دوچار تھی۔ بعض اوقات تصوّرات کی یکسانیت نے خیال کو محدود اور کلیشے کو بے ہنگم طور پر پھیلا دیا تھا۔ اِس سے بچنے کے لئے رفیق سندیلوی نے پہلے اپنے اُسلوب کی تشکیل میں مہارت حاصل کی۔ اِس کے بعد رات کے اِستعارے کو عمیق تجربے کی آماج گاہ بنایا۔ اِس طرح اُس نے اندرونی صداقت کا اِنکشاف کیا ہے۔ یہ ایک کٹھن مرحلہ تھا

ر لفظ مو                   ٭٭٭٭کیوں کہ اپنے ہاتھوں کنواں کھود کر پانی پینا آسان نہیں۔ اُس نے جاری شُدہ اُسلوب اور سکہّ ٔ رائج الوقت کی تجدید نہیں کی۔ اُس نے موضوع و ہیئت کو یک جان بنانے کے لئے ایک تراشیدہ ذہن سے کام لیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُس نے رات کے پیکر کو آرائش بخشنے کے لئے متنوّع استعارے تراشے ہیں اور غیر معمولی جدّت اور تصوّراتی رفعت سے کام لے کر اِنھیں نقشِ نو عطا کر دیا ہے۔ اس کی جدیدیت کے بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ جب رات کا ذکر ہو گا تو رفیق سندیلوی کو پہچاننے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہو گی۔ اس اعتبار سے اُس کی خارا شگافی کی مثالیں اتنی نُمایاں ہیں اور اس کی استثنائی صورت اتنی غیر روایتی ہے کہ بہ یک وقت کسی پیکر کی تجسیم اور جسم کی ترسیم ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ آبِ کشفِ رواں، سیاہی ٔ شبِ خاکداں۔ طلسم کی شمشیر۔ شبِ یک نفَس، کنگرۂ نور، زنگارِ صدا، شانۂ زمیں جیسے استعاراتی پیکر کسی اِسرار کی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔ ایک پُر اَسرار کائنات رفیق سندیلوی کے خلاّق ذہن میں آباد ہے۔

’’ایک رات کا ذکر‘‘ میں رفیق سندیلوی نے عہدِ عتیق کے طلسمات اور اساطیری روایات سے منسلک ہو کر ایک نئی اور تازہ رومانی تحریک کو پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔ اور عہدِ موجود کے روحانی افلاس کا مُداوا وجدانی تجربات کی روشنی میں تلاش کیا ہے۔ میں یہاں اِس امر کا تجزیہ ضروری سمجھتا ہوں کہ وجدانی تجربات کو سیاسی منطق کے بغیر تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ علی ہٰذالقیاس وجدانی تجربہ روحانی افلاس کے عہد میں سیاسی منطق کی روشنی میں آئیڈیلسٹ فلاسفی کو جنم دیتا ہے اور الہامی عقل کی کارفرمائی بھی اِس عہد میں فروغ پاتی ہے جس کی بنا پر تمثیل یاallegory ذہنی تصاویر کی جگہ حاصل کر لیتی ہے۔ رفیق سندیلوی کی تمثیل و تمثال کی طرف رغبت نے’’ ایک رات کا ذکر‘‘ میں زندہ کردار ادا کیا ہے۔ یہاں یونی ورسل اور منفرد تمثالوں میں سے چند ایک کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

 

سماوی پتھر کہیں دہانوں پہ رُک نہ جائیں

ہم ارضی غاروں کی سمت جانے سے ڈر رہے تھے

 

سات طبق، چھ جہتیں، چاروں کھونٹ عمامہ

اور ستارہ چوغہ، چاند لبادہ       میرا

 

کسی دِن جفت ساعت میں دُعا کا ہاتھ تھامے

ہیولا سا مرے مہمان کا اُترے کسی دِن

 

میں کہ عِلمِ غیب نہ جانتا تھا مگر یہ دِل

کسی آبِ کشفِ رواں دواں میں پڑا رہا

 

کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے، ساعتِ موجود

مجھے قدیم زمانے میں کھینچ لائی ہو

 

خمیرِ آب و آتش ہو گا میری دسترس میں

بگولے گوندھ دوں گا سُرمئی بادل بُنوں گا

 

چھٹیں فضاؤں سے نا ممکنات کے بادل

کوئی ستارۂ امکان اِس   برس چمکے

رفیق سندیلوی کی تمثیل و تمثال کی طرف رغبت سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو مستحکم کرنا چاہتا ہے اور جمالیاتی ادراکِ حقیقت میں اپنے ارادے کی ضد کو کارفرما رکھنا چاہتا ہے۔ اُس نے مو جودات کی تفہیم کو اقدار کا پیرہن بخشا ہے۔ لہٰذا شاعرانہ طریق کار میں اُس نے رنگوں کی سچائی کے ساتھ سائنسی امکانات کو برقی اثرات سے منوّر کر کے خود کو مشہود کیا ہے۔ اُس نے جا بہ جا بنفشی روشنی کے مظاہر اور اس سے پھوٹنے والے تلازموں کا اہتمام کیا ہے اور شعاعِ نور کو اپنے ابعادی تصوّر کی جالیوں سے گزارا ہے لہٰذا رنگوں کی بارِش کا احساس ایک حسین اور جاذب پیکر کو تراشتا ہے۔ اِس طرح رفیق سندیلوی اپنی غزل میں ایک مقناطیسی کشش کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ تخلیقی کارنامہ رفیق سندیلوی کو ایک نیا طلوع بخشے گا۔

’’ایک رات کا ذکر‘‘ میں تجربے کی معجزیاتی فضا ایک اور حوالے سے قطب نُمائے خیال اور قابلِ اعتماد فطرت کو منکشف کرتی ہے۔ وہ یوں کہ جب رات خود کو افشا کرتی ہے تو دوشیزۂ فطرت کا روپ دھار لیتی ہے۔ اس طرح اس کی اپنی فطرت بھی تعمیر ہوتی ہے۔ رفیق سندیلوی نے اپنے تخلیقی عمل میں رات کے تناظر میں تلازموں کی ایک انوکھی دُنیا خلق کی ہے اور منظم انداز میں سخت فنی کاوش کے ساتھ خیال پر حاکمیت حاصل کی ہے۔ بذاتِ خود رفیق سندیلوی اظہار میں آزادی کی کمی کو پسند نہیں کرتا۔ وہ فکری انتشار کے عہد میں افسردہ اور اُداس بھی نہیں۔ اس کے با وصف اُس نے جس مشکل راستے کو پسند کیا ہے وہ خواب بیداری کا ایک کھیل ہے۔ یاد رہے کہ خواب بیداری کا سارا سفر ذ ہنی ہوتا ہے۔ رفیق سندیلوی نے ذ ہنی تحفّظ کے احساس کی روشنی میں وجوہات کو بُنیاد فراہم کی ہے اور اپنی ذات سے متفق ہو کر ایک پُر عزم کائنات پیدا کر دی ہے۔ یہ تخلیقی جہت جسے میں عملیت کا نام دینا چاہتا ہوں۔ کسی کشٹ اور کشف کو جنم دے کر شدید تغیر خیال کو ممکن بناتی ہے۔ ’’ایک رات کا ذکر‘‘ میں تخلیقی جذبے کی رہنُمائی کا پتہ چلتا ہے اور’’ استرداد‘‘ کا مفہوم اُبھر کر سامنے آتا ہے اور واضح ہوتا ہے کہ رفیق سندیلوی اپنے عہد کے مقبول اسالیب اور موضوعات کو مسترد کر کے نئی سوچ کی بُنیاد ڈال کر اپنے آپ کو ادبی سفر میں زندہ رکھنا چاہتا ہے۔

رفیق سندیلوی نے یکسوئی اور مسلسل تبدیلی کی حسّیات کے ساتھ غزل میں اپنا وجود ثابت کیا ہے۔ اس نے یوٹوپیائی تصوّر کے خاتمے اور ماورائے ادراک کی نفی کرتے ہوئے رات کی روشنی میں انسانی خیال کی آزادی کی ضمانت دی ہے۔ اِس طرح انسانی خواہش زمیں کی کوکھ سے لے کر آسمانی وسعتوں تک ناممکن کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اِس کامیابی اور اِس تحریک کا سہرا رفیق سندیلوی کے سر سجتا ہے۔ واقعی شاعری کی سطح پر فلکیات اور ارضیات کی سائنس میں ایک نئی دستک اور ایک نئی دھمک کا احساس منصۂ شہود پر آیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

رفیق سندیلوی کی نظم ’’ غار میں بیٹھا شخص‘‘ کا تجزیہ

 

               خاور اعجاز

 

رفیق سندیلوی کی نظموں میں جہاں اسلوب کے اور بہت سے محاسن ہیں وہاں خارجی زندگی کو داخل کے جھروکے سے دیکھنے کا عمل ایک خاص شاعرانہ مہارت کے ساتھ واقع ہوا ہے۔ وہ اِس طریقِ کار کے ذریعے ایک نقطہ یا ایک مقام پر موجود رہتے ہوئے پُرکار کی طرح اپنی سوچ کی آنکھ کو ۳۶۰ درجے کے زاویوں پر گھما کر اُن تمام مناظر کوسمیٹ لیتا ہے جو اُس کے دائرۂ احساس میں آتے ہیں۔ ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ اُس کے اِسی طرزِ احساس کی ایک عمدہ مثال ہے۔

نظم کا موضوع اگرچہ اَچھوتا نہیں مگر رفیق سندیلوی کی ٹریٹ منٹ نے امیجز کے حوالے سے خیالات کو اِس طرح پھیلایا اور پھر سمیٹا ہے کہ نظم کا کینوس ایک شخص یا ایک لمحہ کے گرد گھومتے ہوئے بھی کئی زمانوں پر محیط ہو گیا ہے اور اِس خوبی کے ساتھ جیسے سنگ تراش کسی پہاڑ سے فالتو پتھر یوں ہٹائے کہ مجسمہ دکھا ئی بھی دینے لگے اور پہاڑ سے الگ بھی نہ ہو۔ اُس کے اِسی ٹریٹ منٹ نے اُس کی بعض دوسری نظموں کی طرح اِس نظم کو بھی اَچھوتا بنا دیا ہے جس میں وہ گذشتہ کے مناظر کو حال کی آنکھ سے دیکھتا ہوا اِس حال کو ماضی اور اُس ماضی کو حال سے جوڑ تا چلا جاتا ہے۔

یوں تو بات کا آغاز کہیں سے بھی ہو سکتا ہے لیکن ہم جس چیز کو بیان کرنا چاہتے ہوں اُس کا خاکہ ہمارے ذہن میں تیار ہونے لگتا ہے، مناسب الفاظ ترتیب پانے لگتے ہیں اور خیالات ایک دوسرے کے پیچھے صف در صف جمع ہونے لگتے ہیں۔ یہ عمل جب ایک شاعر کے ذہن میں ہوتا ہے تو سب کچھ ایک خاص سلیقے سے وقوع پذیر ہوتا ہے اور بات کا آغاز نہایت نپے تُلے انداز میں سامنے آتا ہے۔ خاص طور پر نظم کے شاعر کی یہ خوبی ہونا چاہیے کہ وہ مہمل، غیر ضروری یا موضوع سے دوری پیدا کرنے والے خیالات، واقعات، اشیا یا الفاظ کا استعمال نہ کرے۔ ’’غار میں بیٹھا شخص‘‘ کو جب اِس نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ابتدا میں ہمارا واسطہ ’’چاند ستارے‘‘ کے الفاظ سے پڑتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ الفاظ شاعر کے ذہن میں کیوں آئے جو عالمِ بالا اور گزرے ہوئے وقت کے نمائندے ہیں۔ میرے خیال میں اِس کی دو وجوہات ہیں : اوّل تو یہ کہ زندگی فضائے بالا سے سفر کرتی ہوئی نیچے کی سمت آئی سو اِس اشارے کو نظم میں جگہ دینے کے لیے اُس فضا کے نمائندوں کو چُنا گیا۔ دوسرے یہ کہ نظم میں دکھایا گیا زمانہ ایک کروڑ سال پر محیط ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تخلیقِ کائنات اور اِس کے مختلف مدارج کا آغاز سائنسی نقطۂ نظر سے کئی ارب سال پیشتر ہوا تھا۔ لہٰذا یہ ضروری تھا کہ اربوں سال پر پھیلی ہوئی کائنات کے اُس حصے کی بات کرتے ہوئے جو ایک کروڑ سال پر محیط ہے شاعر کو نسبتاً نزدیکی اشاروں کی ضرورت تھی جو ’’چاند ستارے‘‘ کی ترکیب سے ہی ممکن تھا کہ اس میں ایک جمالیاتی پہلو بھی ہے اور جو چاند کے ساتھ سورج یا کسی اور سیّارے کو جمع کر دینے سے میسر نہ آ سکتا تھا، اِسی لیے نظم کے آغاز کے لیے یہ بہترین حوالے بنتے ہیں۔

’’پھول، پتے‘‘ اِس زمین کے استعارے ہیں جو چاند ستاروں کے بعد عالمِ وجود میں آتے ہیں اور زندگی کے نباتاتی دور کی ترجمانی کرتے ہیں۔ چاند ستاروں کے بعد پھول پتّوں کے ذکر کا مقصد عالمِ بالا سے توجہ ہٹا کر زمین پر زندگی کے آغاز کی طرف توّجہ مبذول کرانا ہے جو نباتات کی شکل میں نمودار ہوئی۔ اوّل اوّل ساحلی علاقوں میں ایسے پودے نمودار ہوئے جو بغیر پتّوں کے تھے لیکن پھِر اِنھی پودوں نے درختوں کی شکل اختیار کرنا شروع کر دی اور جنگل بننے لگے۔ ’’ ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر اُڑنے والی برف‘‘ میں اُن موسموں کی کہانی ہے جو حیاتِ انسانی سے پیشتر کرۂ ارض پر بیتے۔ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب برفانی طوفانوں سے زمین کا بیشتر حصہ ڈھک گیا تھا۔ اِس سرد و گرمِ زمانہ کے نتیجے میں کچھ مواد دَب جانے سے کوئلہ بن کر برف کی سفید تختی پر کالے حروف کی تحریر میں ڈھلا ہُوا دکھائی دینے لگتا ہے۔ اِس کے بعد نظم ایک زقند بھرتی ہے اور شاعر اُس زمانے کے ذکر کو جب زمین پر ڈائینوسارز کی حکومت تھی، اپنے بیان سے حذف کر دیتا ہے کہ یہ کچھ غیر شاعرانہ اور مکینیکل محسوس ہوتا، تاہم اِس خلا کو مور کے ذکر سے پُر کیا گیا ہے جو ایک شاعرانہ تلمیح ہے۔ سائنس ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ Tectonic پلیٹوں کے ٹکراؤ سے پہاڑوں کے سلسلے پیدا ہوئے۔ یہ عمل نباتاتی زندگی، برفانی ادوار، اور عظیم الجثہ حیوانات کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے اور آج سے تقریباً تین کروڑ برس پہلے تک جاری رہتا ہے۔ یہ عمل پہاڑوں کے ٹکراؤ سے درّے بھی بناتا ہے جو برف کے تودوں، سمندری پانیوں اور اُس وقت کے عظیم الجثہ حیوانات کو محفوظ گزرگاہیں فراہم کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انسانی زندگی کا آغاز ایک کروڑ سے چالیس لاکھ برس پیشتر کے دوران میں ہوتا ہے۔ اِس انسانی نسل کو سائنس بن مانسوں سے مشابہ لیکن اِن سے مختلف بتاتی ہے۔ یوں نظم کا ایک پرت اَپنے پورے جمالیاتی رنگ و روغن کے ساتھ سائنسی معلومات کی بنیادوں پر ایستادہ نظر آتا ہے۔ یہی دیکھیے کہ رفیق سندیلوی نے پتّوں کو بھی محض پتّے نہیں، بنفشی پتّے کہا ہے۔

دوسری سطح پر ’’مور کے پَر‘‘ کی نوک سے لکھے’’ کالے کالے حرف‘‘ کے الفاظ جہاں انسانی زندگی کے آغاز کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہیں جگنو کے اجالے اور برف کی سفیدی کے مقابل ابتدائی انسان کی کم عقلی، کم فہمی اور بے بضاعتی کو ’’کالے حرف‘‘ سے ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف اُس کی نارسائی کو مصور کیا ہے بلکہ اِس اندھیرے کو بھی جس میں انسان کئی زمانوں تک قدم قدم چلتا رہا ہے لیکن پھر علم و آگہی کی ’’ اُجلی دھوپ‘‘ میں یہی انسان ریت کے ذرّوں کی طرح چمکنے لگتا ہے اور اُس ’’پہاڑی درّے‘‘ کو عبور کر لیتا ہے جس کا ایک سرا اِس اندھیرے میں گم ہے جہاں سے اُس نے روشنی کا سفر آغاز کیا تھا۔ ’’ سبز قبا‘‘ میری نظر میں ہریالی اور شادابی کا وہ دور ہے جسے اساطیری زبان میں پری کے ’’جسم ‘‘ اور ’’طلسم‘‘ سے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ رنگ برنگی فضا تا دیر قائم نہیں رہتی اور ڈوبتے ہوئے چاند کا عکس جھیل کی تہ میں چلا جاتا ہے جس کے ساتھ ہی ڈھول کی وحشی تال پر برہنہ رقص کا آغاز ہو جاتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں یہاں شاعر نے انسانی ارتقا کے راستے میں اپنے تہذیبی پڑاؤ کا ذکر کیا ہے لیکن وہ اِس تہذیب کے زوال پذیر ہو جانے پر ملول بھی نظر آتا ہے۔

نظم کی آخری سطور میں وہ ایک با ر پھر زمانوں کو زمانوں سے مِلا دیتا ہے۔ ایک کروڑ برس پہلے کے غار میں بیٹھے ہوئے شخص کی

تمثیل سے جو پہلو سامنے آتے ہیں اُن میں ایک تو خود غار ہے جو کسی جائے کشف یا مراقبے کے مقام کو ظاہر کرتا ہے اور وقت کی علامت ہے۔ ’’کروڑ برس‘‘ اِس غار کا وہ حصہ ہے جو معلوم کائنات کا قریبی علاقہ کہا جا سکتا ہے اور تیسرا وہ ’’ شخص‘‘ جو ایک کروڑ برس سے اِس غار میں بیٹھا مختلف ادوار کو خود پر گزرتے ہوئے دیکھ رہا ہے یا پھر وہ شخص جو ابھی ابھی غار میں آن کر بیٹھا ہے اور اساطیری آنکھ سے گذشتہ کا نظارہ کر رہا ہے۔ یہ شخص قدیم بھی ہے اور جدید بھی، ظاہر بھی ہے اور غائب بھی یعنی یہ شخص آدم ؑ بھی ہے اور خود رفیق سندیلوی بھی !

٭٭٭

 

 

 

 

رفیق سندیلوی کی غزل*

 

               ڈاکٹر وزیر آغا

 

آج سے کچھ عرصہ پہلے رفیق سندیلوی کے مجموعۂ کلام’’ ایک رات کا ذکر‘‘ پر مَیں نے ایک مفصّل مضمون **لکھا تھا اور اِس کے آخر میں اپنے تاثر کو اِن الفاظ میں سمیٹا تھا:

’’       رفیق سندیلوی کی غزل کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اِس شاعر نے اپنے خدوخال سے بھی        خود کو مُنسلک رکھا ہے، خدوخال سے باہر آنے کی تگ و دَو بھی کی ہے، بیکرانی کا مزہ بھی چکھا ہے        اوراِس کے بعد زمین، رات اور عورت کی طرف بھی مراجعت کی ہے۔ ۔ ۔ اِس لیے نہیں کہ وُہی        اُس کی آخری منزل ہے کیوں کہ آخری منزل کوئی نہیں ہے۔ یہ سارا آنے جانے، پھیلنے اور سمٹنے کا وظیفہ ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ رفیق سندیلوی تخلیق کاری کے اصل ذائقہ سے آشنا ہے                        اور اِسی لئے وُہ اپنے معاصرین سے الگ بھی ہے اور آگے بھی۔ ‘‘

اِس سے میرا مقصود رفیق سندیلوی کے معاصرین سے قطعِ محبت کا اعلان کرنا ہر گز نہیں تھا کیوں کہ تخلیق کاری کے حوالے سے مجھے رفیق سندیلوی کے معاصرین بھی بے حد عزیز ہیں۔ اُن میں سے بیشتر نے اپنے اپنے دائرۂ عمل میں رہتے ہوئے ’جو ذرّہ جس جگہ ہے وُہی آفتاب ہے ،کا ثبوت نہایت عمدگی سے پیش کیا ہے۔ مَیں دراصل یہ کہہ رہا تھا کہ غزل کا ایک امتیازی وصف ریزہ خیالی ہے اور غزل گو شعرا نے اپنے لخت لخت تجربات کو موڈ کے حوالے سے باہم مربوط تو کیا ہے مگر اِس عمل میں کوئی تمثیل متشکل ہو کر سامنے نہیں آئی۔ یہ کام رفیق سندیلوی نے کیا ہے اور قطعاً غیر شعوری طور پر کیا ہے۔ اِس اعتبار سے رفیق سندیلوی کی غزل نظم کے اثرات کو قبول کرنے کی ایک دل کش مثال فراہم کرتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ رفیق سندیلوی کی تمثیل کسی باقاعدہ آغاز یا انجام کے تابع نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اِس کا مطلب یہ تھا کہ تمثیل نے اُس کی غزل کو اَپنی مُٹھّی میں بند کر لیا ہے مگر ہُوا یہ ہے کہ خود یہ تمثیل ٹکڑوں اور قاشوں میں بٹ کر اُس کی جُملہ غزلوں کے اندر بکھر گئی ہے۔ یوں دیکھئے تو ریزہ خیالی کی شرط ایک حد تک پوری بھی ہو گئی ہے تاہم جب اشعار کے بکھرے ہوئے ریزوں کو جمع کریں تو تمثیل کے خدوخال اُبھر آتے ہیں اور ریزہ خیالی کا عنصر ترتیب اورانسلاک کے لئے جگہ خالی کر دیتا ہے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ رفیق سندیلوی کی غزل ، غزل کے اوصاف کی حامِل ہونے کے باوجود ریزہ خیالی کی شرط کو عبور کر گئی ہے، یعنی اُس کی ساخت شکنی میں کامیاب ہو گئی ہے۔

رفیق سندیلوی کی تمثیل کو بہ آسانی تین حصوّں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ رات کے ذکر پر مشتمل ہے، دو سراحصہ رات کے اختتام سے ذرا پہلے کی اُس حالت کا عکاس ہے جس میں فسُونِ خواب جنم لیتا ہے اور تیسرا حصہ وُہ ہے جس میں طلسمی دھوپ ہست کو ایک قریۂ حیرت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ مَیں نے ’’ ایک رات کا ذکر‘‘ پر مضمون لکھتے ہوئے اپنے اِسی تاثر کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور بعض احباب کا خیال ہے کہ مَیں اِس میں کامیاب بھی ہوا ہوں مگر آپ جانتے ہیں کہ احباب کے’ فرمائے ہوئے ،میں محبت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ اِس لیے اُن کی کہی ہوئی بات کو فی الفور قبول نہیں کرنا چاہیے۔ میری یہ استدعا ہے کہ آپ خود رفیق سندیلوی کی کتاب پڑھیں اور دیکھیں کہ مَیں نے جو کہا ہے وُہ کہاں تک دُرست ہے۔ البتہ مَیں آپ کو اُن کے اشعا رسُنادیتا ہوں جو مَیں نے مضمون میں اپنے مؤقف کے ثبوت میں پیش کئے تھے:

 

مَیں دِن کا سلسلہ دِن سے ملانے والا تھا

کہ درمیان میں اِک رات آن کو دی تھی

جسم کے تاریک لشکر سے بچائے گا مجھے

اِک ستارہ رات کے شَر سے بچائے گا مجھے

 

ایک سیاہ بشارت والے ڈر کے ساتھ گزاری

مَیں نے پہاڑ کے اِک درّے میں ساری را ت گزاری

 

شب کی تھیلی بھری ہوئی تھی کرنوں سے

دِن کے خالی بستے میں تاریکی تھی

 

بدن کے خاکداں میں اور کیا رکھّا ہوا ہے

اندھیری رات کا اندوختہ رکھّا ہوا ہے

 

مَیں کہاں تلک کسی سنگِ شب میں چھپا رہوں

مجھے اپنے گھر میں پناہ دے ، مرے آئینے

 

مَیں اِک پہاڑی تلے دبا ہوں کسے خبر ہے

بڑی اذیّت میں مبتلا ہوں کسے خبر ہے

 

مجھ کو صحرا سے بچائے گی اِسی صحرا کی ریت

اور یہی پانی سمندر سے بچائے گا مجھے

 

مَیں کاٹ دوں گا اندھیرے میں اُس شبیہ کا ہاتھ

او ر اِک طلسم کی شمشیر خواب کو دوں گا

 

نکل پڑوں مَیں کوئی مشعلِ فسُوں لے کر

قیامِ گاہِ ابد تک مری رسائی ہو

 

سبز شعاعیں پھوٹ رہی تھیں ٹاپوں سے

اور سوار کے رستے میں تاریکی تھی

 

ختم ہو جائے گا پھر ابلاغ کا سارا   فُسوں

جب سماعت گاہ تک ترسیل ہو جائیں گے ہم

 

اِدھر رستے میں چوتھے کوس پر تالاب پڑتا ہے

مَیں خاک اور خون سے لِتھڑی رکابیں دھو کے آتا ہوں

 

اچانک ایک شعاعِ سفر ہویدا ہو

سوار زین کسے، دیدۂ فرس چمکے

 

ایک صوتی لہر گَردِ خواب سے اُٹھتی ہوئی

دشتِ شب سے کچھ سوارِ بے صدا آتے ہوئے

 

یہ میرا ظرف کہ مَیں نے اثاثۂ شب سے

بس ایک خواب لیا ، چند شمع دان لئے

 

پرندے میرا بدن دیکھتے تھے حیرت سے

مَیں اُڑ رہا تھا خلا میں عجیب شان لئے

 

کسی بحرِ خواب کی سطح پر مجھے تیرنا ہے تمام شب

مری آنکھ کِشتیِ جسم ہے، مرا بادباں مرا ہاتھ ہے

 

دیکھتا کیا ہوں کہ رقصِ خواب میں ہیں میرے گِرد

سالمے۔ بادل،  کُرے ، اجرام اور آتش فشاں

 

عجیب بے رنگ دھُند مجھ میں ہے ایستادہ

مَیں وسطِ شب میں کہیں کھڑا ہوں کسے خبر ہے

 

کہاں یہ جسم ، کہاں الف لیل کا رستہ

مَیں تھک گیا ہوں سفر ایک رات کا کر کے

 

فُسونِ خواب نے آنکھوں کو پتھر کر دیا تھا

اور اِک تارہ حفاظت پر مقرّر کر دیا تھا

 

طلسمی دھوپ نے اِک مرکزِ عصرِ رواں میں

مرے قد اور سائے کو برابر کر دیا تھا

 

ستارے بُجھ رہے تھے جا نمازِ جسم و جاں پر

مگر اِک کشف کی مشعل نفَس میں جا گزیں تھی

 

بھڑک رہی ہے مرے گِرد اِک طلسمی لَو

رکھا ہُوا ہے سرہانے چراغِ نامعلوم

 

پڑاؤ کرنے پسِ لا مکاں رُکا تھا مَیں

رُکا نہ جس جگہ کوئی وہاں رُکا تھا مَیں

 

کہیں ایک نقطے پہ رُک گیا ہے نظامِ کون و مکاں ا بھی

کوئی شے جنم نہیں لے رہی، کوئی شے فنا نہیں ہو رہی

 

کسی دروازۂ معلوم سے داخل ہُو ا تھا

اور اب اِ ک قریۂ حیرت سَرا میں گھومتا ہوں

 

اُس اعتکافِ تمنّا کی سرد رات کے بعد

مَیں جل مروں جو کبھی آگ تک جلائی ہو

 

یہ نجوم ہیں مری اُنگلیاں، یہ اُفق ہیں میری ہتھیلیاں

مری پور پور ہے روشنی، کفِ کہکشاں مرا ہاتھ ہے

 

جائیں گے ہم خال و خد سے اِک ہیولے کی طرف

پھر ہَوا کے جسم میں تحلیل ہو جائیں گے ہم

 

مگر ایک رات کا ذکر ہے کہ مدار میں

کسی روشنی کے بہت قریں مرا جسم تھا

 

نور کی موجیں مرے ہمراہ ہوں گی او ر مَیں

رات کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دینے آؤں گا

 

بدن سے پھوٹے گی لذّت، مٹھاس اور خوشبُو

شراب و عورت و انجیر خواب کو دوں گا

 

اُڑائے پھرتا ہوں صد ہا جہات میں خود کو

مَیں اپنے جسم کی مٹّی بہم نہیں رکھتا

 

رفیق سندیلوی کسی ایک دیار کا مستقل باسی نہیں ہے۔ یہی اصل بات ہے کہ شاعر خود کو کسی ایک لکیر میں پابند نہ کرے۔ وُہ صحیح معنوں میں آزاد ہو۔ جہاں چاہے رُک جائے، جہاں چاہے آگے بڑھ جائے یا واپس آئے یا کسی اور سمت میں نکل جائے، چنانچہ اُس کی شاعری کو کسی ایک زمانی تناظر میں رکھ کر دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اِس لئے شاعر مجموعۂ اضداد ہی نہیں، مجموعۂ جہات بھی ہے۔ سارے سفر، جُملہ فاصلے اُس کی ذات کے دروازے پر آ کر رُک جاتے ہیں اور اُس کی ذات کے اندر سے ساری جہات اور سارے فاصلے برآمد ہو کر شش جہات میں پھیل جاتے ہیں۔ ایک اچھا شاعر ہمہ وقت کروٹیں لیتی ہوئی ایک ایسی ساخت ہے جو کائنات کی ساخت سے مشابہ ہے۔ ایسی ساخت کو کسی ایک نظریے ،آئیڈیالوجی ،نفسیاتی دباؤ یا مقصد کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔

تخلیق کاری کے باب میں یہ بات بہ تکرار کہی گئی ہے کہ فن زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے مگر کیا یہ صحیح ہے کیوں کہ ایسی صورت میں تخلیق کاری کا عمل فوٹو گرافی کے عمل سے مختلف نہ ہو گا۔ بعض دوسروں نے کہا ہے کہ فن آئینے کی طرح انعکاس کرتا ہے۔ غور کیجئے کہ فن کار محض منعکس کرنے پر مامور نہیں ہے۔ وُہ دراصل تخلیق کاری کے دوران تین مراحل سے گزرتا ہے۔ ۔ ۔ پہلا مرحلہ باہر کی روشنی کو خود میں جذب کرنے کا ہے اور آخری مرحلہ اِسے منعکس کرنے کا مگر درمیان میں ایک وُہ مرحلہ بھی ہے جو انتہائی پُراسرار ہے یعنی جہاں تخلیق کار باہر سے آنے والی روشنی کی قلبِ ماہیت کر دیتا ہے۔ چنانچہ جب وُہ تقلیب کے بعد اِس کا انعکاس کرتا ہے تو وُہ کوالٹی کے اعتبار سے اتنی بدل چکی ہوتی ہے کہ اِس کی اصل صورت کو نشان زد کرنا بھی بعض اوقات مشکل ہو جاتا ہے۔ مَیں اپنے اِس مؤقف کو ایک تمثیل کے ذریعے بیان کرتا ہوں۔

یہ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ چاندسورج کی چندھیا دینے والی روشنی کو پہلے تو قبول کرتا ہے اور پھر اُسے زمیں تک پہنچا دیتا ہے۔ اگر وُہ محض ایک آئینے کا کردار ادا کرتے ہوئے سورج کی روشنی کو اُس کی تمام تر درخشندگی اور آب و تاب کے ساتھ زمین پر پھیلاتا تو یہاں رات کو بھی دِن ہوتا اور لوڈ شیڈنگ کا سارا مسئلہ حل ہو جاتا مگر چاند تو ازل کا فن کار ہے۔ وُہ ساحر لدھیانوی کا نالائق شاگرد نہیں کہ اُستاد کے شعر   ؎ دُنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں /جو کچھ مجھے دیا ہے وُہ لَوٹا رہا ہوں مَیں ،کو ایک سچا سودا سمجھ کراِس پر عمل پیرا ہو کیوں کہ وُہ جانتا ہے کہ اِس کا روبار میں بہت زیادہ دیانت داری ایک منفی عمل ہے۔ لہٰذا آپ دیکھیں کہ چاند نے سورج کی تیز روشنی میں پرچھائیوں کا کھوٹ ملا کر اسے چاندنی میں منقلب کیا ہے اور ایسا کر کے اسے انتہائی پُر اسرار،سکون بخش اور جاذبِ نگاہ بنا دیا ہے۔ روشنی وُہی ہے مگر چاند کے تخلیقی عمل نے اِسے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ تاہم چاند کا چلن بھی عجیب ہے۔ وُہ سدا گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ یہی حال اکثر تخلیقی کاروں کا ہے کہ وُہ بھی گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں۔ جب وُہ آدھے چاند میں ڈھلتے ہیں تو چاندنی کم اور تیرگی زیادہ پھیلاتے ہیں اور جب ہلال کی صورت جلوہ گر ہوتے ہیں تو چٹکیاں لیتے، ہر کس و نا کس کو چھیڑتے، جراحتیں تقسیم کرتے پھِرتے ہیں۔ ہم انھیں پیار سے طنز نگار کہتے ہیں مگر اصل تخلیق کار وُہ ہے جو ہمہ وقت ماہِ کامل کے پیکر میں سورج کی تیز روشنی کو چاندنی میں بدل کر زمین اور اِس کے باسیوں تک پہنچاتا ہے۔ اِس سے آپ اندازہ لگائیں کہ تخلیق کاری کے عمل میں مصنّف کی اہمیت کتنی زیادہ ہے مگر ساختیاتی ناقدین مصنّف کو نہیں مانتے۔ اُن سے پوچھیں تو وُہ کہیں گے کہ اس تمثیل میں اوّلیں حیثیت زمین کی ہے کیوں کہ وُہی چاندنی کی قرأت کرتی ہے جب کہ چاندنی کی حیثیت تخلیق یاtext کی ہے، رہا چاند تو اُس کی حیثیت صفر ہے۔ ساختیاتی نقاد اِس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اگر چاند نہ ہو تو چاندنی کہاں سے آئے گی؟

رفیق سندیلوی کی کتاب’’ ایک رات کا ذکر‘‘ میں جو تمثیل پیش ہوئی ہے، شاعر کی واقعی زندگی میں اُس کی صورت کیا ہو گی،مجھے اِس سے زیادہ غرض نہیں گو کہ مَیں اُسے مسترد کرنے کے حق میں بھی نہیں ہوں کیوں کہ تخلیق کاری کے عمل میں شاعر کے تجربات و حوادث کو کون نظر انداز کر سکتا ہے؟مگر تجربات و حوادث کے مستقیم بیان سے تو فن وُجود میں نہیں آسکتا۔ لہٰذا میری دِلچسپی اِس میں ہے کہ یہ تجربات و حوادث کس طرح فن میں منقلب ہوسکے ہیں یعنی سورج کی روشنی کس طرح چاندنی میں تبدیل ہوئی ہے اور کیا وُہ واقعی چاندنی بن پائی ہے یا نہیں !مَیں نے ’’ ایک رات کا ذکر‘‘ پر جو مضمون لکھا ہے اُس میں شاعر کی شخصی زندگی کی منقلب صورت کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر مَیں منقلب صورت کو سامنے رکھ کر شاعر کی شخصی زندگی کی کڑیاں دریافت کرنے کی سعی کرتا تو تنقید کے دائرے سے نکل کر تفتیش کے دیار میں داخل ہو جاتا۔ لہٰذا مَیں نے ایسا نہیں کیا۔

مجھے خوشی ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق، ا سلام آباد نے رفیق سندیلوی کی غزل گوئی کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اِس تقریب کا اہتمام کیا ہے۔ یہ موقع تفصیلی محاکمے کا نہیں۔ اِس کے لئے آپ میرا مضمون ملاحظہ کر سکتے ہیں ،تاہم مجھے یہ کہنے میں ہرگز تأمل نہیں کہ رفیق سندیلوی وسیع امکانات کا شاعر ہے۔ اُس نے نہ صرف زبان کو خالص تخلیقی سطح پر برتا ہے بلکہ اپنے تخلیقی عمل کی مدد سے محسوسات، تصوّرات حتّیٰ کہ اپنے خیالات تک کو چیزے دیگر بنا دیا ہے۔ وُہی روشنی کو چاندنی میں ڈھالنے کا عمل!میری دُعا ہے کہ رفیق سندیلوی اپنے اِس جذب کے عالَم کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو اور جراحتیں تقسیم کرنے کے اُس کاروبار میں کبھی ملوّث نہ ہو جس میں ہماری نئی پود ایک انوکھی کشش محسوس کر رہی ہے۔

حوالہ جات:

*یکم اپریل۱۹۹۴ء کا محررہ ،وزیر آغا کا غیر مطبوعہ مضمون جو رفیق سندیلوی کی کتاب’’ ایک رات کا ذکر‘‘ مطبوعہ منیب پبلی کیشنز، اسلام آباد۔ ۱۹۸۸ء کی تقریبِ تفہیم میں پڑھا گیا۔

* *یہ مضمون’’ اوراق‘‘، لاہور۔ شمارہ ۱۱، ۱۲۔ سالنامہ۱۹۹۳ء اور سہ ماہی’’ تمثال‘‘ کراچی۔ شمارہ اپریل تا ستمبر۱۹۹۴ء میں شائع ہوا۔ بعدازاں یہی مضمون وزیر آغا کی کتاب’’ معنی اور تناظر‘‘، مکتبہ نردبان، سرگودھا۔ ۱۹۹۸ء میں شامل ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

 

غار میں بیٹھا شخص……. رفیق سندیلوی

 

               عابد خورشید

 

عام طور سے لکھنے کے لیے کاغذ قلم کی ضرورت ہوتی ہے۔ رفیق سندیلوی کی نظموں پر لکھنے لگا ہوں تو ہاتھ سے قلم رکھنا پڑا ہے۔ کاغذ اور قلم کا رشتہ ویسے بھی بھیدوں بھرا ہے۔ قلم کے کاغذ سے َمس ہونے کی دیر ہوتی ہے ،لکھنے کچھ بیٹھو اور لکھا کچھ جاتا ہے۔ لفظ ، قلم کی سیاہی سے زیادہ تخلیق کار کا خون چوس کر ہی کاغذ پر بولنے کے قابل ہوتا ہے۔ ساختیات والے ایسے ہی متن کے گُن نہیں گاتے۔ متن تو خود تخلیق کار کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظموں پر قلم کے بجائے آنکھوں سے لکھنا پڑتا ہے۔ گویا نظر کی روشنائی سے کام لینا پڑتا ہے۔ اُس کی نظمیں جہانِ دیگر سے جہانِ رنگ و بو میں اِس طرح منتقل ہوتی ہیں کہ کھردراہٹ سے نرماہٹ تک کا فاصلہ ریزہ ریزہ ہو کر پاؤں میں بچھنے لگتا ہے۔

تجزیاتی مطالعے کے رُجحان میں نظم کے بھید کو جاننے یا آسان الفاظ میں نظم کی کہانی کو بُننے یا نظم کو کھولنے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے مگر اِس کی چابی کو نظم کے اندر ہی تلاش کرنا چاہیے۔ نظم سے کچھ برآمد ہونا چاہیے نہ کہ نظم میں کچھ ڈالا جانا چاہیے۔ نظم میں کچھ ہوتا ہے تو اِس کا ساختیاتی یا ا امتزاجی تنقید کی روشنی میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ رفیق سندیلوی کی بیشتر نظموں میں یہ گنجائش یا Space ایک خوبی کے طور پر موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظمیں صراحت کے ساتھ تجزیاتی مطالعوں کی ضرورت کا احساس دلاتی ہیں۔ اِن نظموں کی بُنت ایسی ہے کہ محض قرات کی سرشاری سے مس ہونا ہی کافی نہیں۔

بعض الفاظ ہمارے طے شدہ شعری پیڑن میں فٹ نہیں ہوتے۔ اگرچہ لفظ کو شعری یا نثری روپ میں منقسم نہیں کیا جا سکتا لیکن لفظ کو قلم کے بجائے آنکھوں سے تراشنا پڑے تو لفظ کی سیمابیت کو محض اُس کے معانی تک محدود کرنابھی ممکن نہیں رہتا۔ لفظ کامقامی اظہار رفیق سندیلوی کی نظموں کے منظر نامے کو اجنبیت سے مس نہیں ہونے دیتا۔ پھر اُس کی نظموں کا داخلی آہنگ (Internal Rhyming) بھی ایک وصف کے طور پر متاثر کرتا ہے۔ اُس کی نظموں کی سطروں میں قافیہ ہمارے بیشتر نظم نگاروں کی طرح غز ل کے زیر اثر نہیں آتا۔ اُس کی نظم ایک مکمل اور خود مختار اکائی کی سطح پر قافیے کو اپنے شعری نظام کا حصہ بنا لیتی ہے۔

نظم کو عالمگیریت سے منسلک کرنے کے لیے آج کل دیومالائی داستانوں کے کرداروں پر نظمیں لکھنے کا رُجحان ہمارے کئی ایک نظم نگاروں کے ہاں پروان چڑھ رہا ہے۔ یا پھر نظم کا عنوان انگریزی میں دیا جا رہا ہے۔ اِس سے نظم کا ’’دائرہ‘‘ وسیع نہیں ہو جاتا۔ سب سے پہلے نظم کی تخلیقی فضا کو مقامی ہونا چاہیے یعنی اُسے الفاظ جمع مقام کا حامل ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ہی عالمگیریت یا لا مقامیت کا تناظر مہیا کیا جا سکتا ہے۔ رفیق سندیلوی کی نظموں کے اِس پہلو کی طرف وزیر آغا نے کتاب کے فلیپ میں اشارہ کیا ہے:

’’رفیق سندیلوی کے ہاں ’’مقام‘‘ اور ’’لا مقام‘‘ یک جا ہوتے دِکھائی دیتے ہیں ، اسی لیے وہ اپنے عصر کے دیگر نظم گو شعراء سے اپنی الگ شناخت رکھتا ہے۔ اِس پر مستزاد یہ کہ رفیق سندیلوی کو زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ اُس کے ہاں لفظیات کا سرمایہ بھی دوسروں سے کہیں زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ اُس نے ’’مقامیت‘‘ کو ایک کہانی کار کی سی جزو بینی اور ہنر مندی سے نظم کا حصہ بنایا ہے ، پھر جب اس بنیاد پر نظم کو اُسارا ہے تو اس میں توانائی بھی پیدا ہوئی ہے اور رفعت بھی ! چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ فی الوقت اُردو نظم کے میدا ن میں رفیق سندیلوی ، ایک بھرپور اور بے حد توانا آواز کی حیثیت رکھتا ہے‘‘

رفیق سندیلوی مقامی اور لا مقامی دنیاؤں سے فن کارانہ سطح پر جُڑا ہوا ہے۔ اُس کی نظموں میں سماجیاتی اور کائناتی تصورات مل کر ایک دائرہ بناتے ہیں۔ وہ باہر کے مناظر کو اپنے اندر جذب کرنے کے باوجود اُنھیں تشکیک کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ وہ اپنی نظموں کے عقبی دیار میں قدیم ضرور نظر آتا ہے لیکن اُس کا اظہار اتنا دلفریب اور جدید تر ہے کہ قاری اجنبیت کی دیوار پھلانگ کر اُس کے فن میں منہمک ہو جاتا ہے۔ رفیق سندیلوی اساطیری کہانیوں سے کرداروں کو نکالنے کے بعد اُنھیں اپنے رنگ میں تراشتا ہے، پھر اُنھیں موجودہ عہد تک لا کر اِس طرح اپنی نظموں میں سمو دیتا ہے کہ محسوس اور لا محسوس کا فرق ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ عجب پانی ہے، تندور والا، بُرادہ اُڑ رہا ہے، قبر جیسی کھاٹ میں ،مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں ،سرخ کمبل، لال بیگ اُڑ گیا،۔ ۔ اِسی تاثر کی نظمیں ہیں۔ ایسی ہی ایک خوبصورت نظم ’’سواری اونٹ کی ہے‘‘ ہے۔ اِس نظم کے حوالے سے ستیہ پال آنند لکھتے ہیں :

’’یہ نظم، عہدِ حاضر کے قاری کے لیے نامانوس نہیں ;وہ بچپن میں سُنی ہوئی کہانیوں ، تاریخ و ثقافت کے رشتے سے استواری اور اُردو ، فارسی ، عربی کی ادبی روایت سے اِنسلاک کی بنا پر اس نظم کو مانوس پاتا ہے۔ تاریخیت (Historicism) سنِ ولادت یا سنِ تخت نشینی یا فتوحات کا نام نہیں۔ جدیدیت کی مہم نے گزشتہ صدی کے وسط میں تاریخیت کو بے معنی قرار دینے کی جو مہم شروع کی تھی، وہ ۱۹۶۹ء کے آس پاس ہی ختم ہو گئی تھی جبNeo – Historicism کی تصدیقِ مکرر، امریکن ہسٹاریکل سوسائٹی نے اپنے کنونشن کے دوران میں اپنی قرار دادوں میں کی اور اس امر پر زور دیا کہ ماضی اور حال خود میں مربوط ہونے کے علاوہ مستقبل میں بھی موجود ہوتے ہیں اور موجود رہتے ہیں۔ ‘‘

’’سواری اُونٹ کی ہے ‘‘ میں تینوں زمانوں کاپُراسرار تال میل موجود ہے۔ اِس تال میل کو رفیق سندیلوی کی امیجری میں بہ طورِ خاص دیکھا جا سکتا ہے۔ کچی آنکھ ، لیس کا دریا ، پانی کا سرمایہ، بدن کاسبو، بازوئے خواب، حیرت کے خیمے، اور ایسے ہی بے شمار امیجز اُبھارنے والا یہ شاعر اپنی نظموں میں اظہار کی جس سطح پر موجود ہے، اُس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں :

کیا عجب کشتی ہے

جس کے َدم سے یہ پانی رواں ہے

اور اِس ملّاح کا دِل نغمہ خواں ہے

کتنے ٹاپو راہ میں آئے

مگر ملّاح

خُشکی کی طرف کھنچتا نہیں

نظّارۂ رقصندگیِ خواب میں

شامل نہیں ہوتا

عجب پانی ہے

جو سوراخ سے داخل نہیں ہوتا

۔ ۔ ۔ ۔                (عجب پانی ہے )

اچانک اِک شبیہ

بے صدا سی جست بھر کے

آئنے کے پاس سے گزر گئی

سیاہ زرد دھاریاں

کہ جیسے لہر ایک لہر سے جُڑی ہوئی

سنگار میز ایک دَم لرز اُٹھی

کلاک کا طلائی عکس بھی دہل گیا

بدن جو تھا بُخار کے حصار میں پگھل گیا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔                    (مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں )

کیا بتاؤں

وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر

تیز رَو آرا چلایا تھا

ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا

اُسی دن سے بُرادہ اُڑ رہا ہے

پیڑ کے سوکھے تنے سے

چھت کی کڑیوں سے

کتابوں اور خوابوں سے

بُرادہ اُڑ رہا ہے

میرا حاضر میرے غائب سے جُدا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔                          ( بُرادہ اُڑ رہا ہے)

جس طرح لہر سمندر میں رہتے ہوئے بھی اپنا ایک الگ وجود رکھتی ہے۔ اِسی طرح عمدہ تخلیق کار بھی اپنی تخلیقات میں اندر سے جُڑا ہوتا ہے۔ جُز یا کُل کی صور ت میں اُس کی حیثیت میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ رفیق سندیلوی کی نظموں کے ٹکڑے، چاہے آپ اُنھیں نظم کے جس حصے سے بھی منتخب کر لیں، حتی کہ اُس کی نظموں کے عنوانات بھی ایک لڑی میں موتیوں کی طرح پروئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آئیے اُس کی کچھ نظموں کے عنوانات کی قرات کرتے ہیں :

 

مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں

سواری اُونٹ کی ہے

کہانی علامت بنے گی

سفر اَب پڑاؤ ہے

یہ ماتم کی شبِ سوئم

ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی

مکاں لا مکاں ہے

جو سٹرک صدیوں سے میرے ساتھ تھی

جب پو پھٹی

میں نے دروازہ نہیں کھولا تھا

سست رَو خواب تھا

بُرادہ اُڑ رہا ہے

عجب رفتار میری آگ میں تھی

مرا جسم جاہل ہوا ہے

اگر میں واقعی غائب ہوا ہوں

تمھیں اِس سے کیا ہے

مگرمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے

قبر جیسی کھاٹ میں

کدھر ہے منبعِ غنا

وُہی بات کھلتی

مجھے اپنا جلوہ دِکھا

مہرباں فرش پر

میں تہی وجود موسم

اِس باغ میں کوئی پیڑ نہیں

رفیق سندیلوی کی تمام نظموں کے عنوانات میں ردھم ہے۔ اُس کی نظموں کے عنوانات دوسرے نظم نگاروں کی طرح غنا سے عاری نہیں ہوتے۔ ۔ غنا سے امیجری، امیجری سے اُسلوب اوراُسلوب سے مفہوم تک، خوبیاں کا یہ تنوّع ایک ایسے شاعر ہی میں ہو سکتا ہے جوبہ یک وقت اپنے کلچر اور اپنی شخصیت سے پوری طرح ہم آہنگ ہو اور اپنے عہد کا درّاک بھی ہو اور مُدرّک بھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن:ایک تجزیہ

 

                                                          دانیال طریر

 

رفیق سندیلوی کی نظم ’’ جھلملاتی ہوئی نیند، سُن‘‘ پڑھ کر جو پہلی مشکل مجھے درپیش ہے وہ اِس نظم کی مخاطب ہستی سے متعلق ہے۔ مجھے یہ طے کرنا ہے کہ آیا اِس نظم کی مخاطب ہستی کوئی پتھر کی مورتی ہے یا کوئی تصوراتی دیوی۔ مخاطب ہستی پر مجھے اِس لیے پتھر کی مورتی کا گمان گزرا ہے کیوں کہ بہ ظاہر یہ ہستی فعالیت سے قطعی طور پر عاری ہے اور اِس کی تمام تر فعالیت کا دارومدار خطاب کرنے والی ہستی کی تمناؤں پر ہے جب کہ تصوراتی دیوی کا خیال مجھے اِس لیے آیا ہے کہ خطاب کرنے والے کی تمنائیں مخاطب ہستی اور اُس کی قوّتوں پر کسی غیر یقینی اظہار کی پیش کش کے برعکس مکمل اعتقاد کی حامل ہیں۔ خطاب کرنے والے کو یقین ہے کہ وہ اِس دیوی کے چرنوں سے مایوس نہیں لوٹے گا اور یہ یقین ظاہر کر رہا ہے کہ خطاب کرنے والا اِس دیوی کی تعمیر ی فعالیت سے پوری طرح آگاہ ہے اور اپنی حالتِ زار کے ذریعے اِس کی فعالیت کو کرشمہ سازی پر مائل کرنا چاہتا ہے جو فی الوقت عدم فعال ہے۔ اِن دو قیاسات میں میرا کون سا قیاس زیادہ قرین عقل اور نظم کی ساختیاتی معنویت سے مناسبت رکھتا ہے، اِس کا فیصلہ مجھے ابھی کرنا ہے لیکن اِس فیصلے کے لیے نظم کے فاعل اور مفعول کا تعیّن ناگزیر ہے۔ یہ نظم دو ہستیوں کے مابین مکالماتی انداز کی حامل ضرور ہے مگر بڑی حد تک اِسے مونولاگ تصور کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اِ س نظم کی مخاطب ہستی مکالمے میں صرف سامع کا کردار ادا کر رہی ہے اور بہ ظاہر نظم کی مفعول ہے۔ اِس نظم کی متکلم ہستی نظم کا فاعل کہی جا سکتی ہے مگر ظاہراً قابلِ مشاہدہ۔ اِس صورتِ حال کی تصدیق یا تردید کے لیے یہ ضروری ہے کہ نظم میں موجود افعال کی جہاتِ فعلیت کو سامنے رکھا جائے۔ نظم کی اوّلین تین سطور پر غور کیجیے:

اَے چراغوں کی لوکی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن

اِن سطور میں فعلیت کی جہت یہ صاف ظاہر کر رہی ہے کہ نظم کا متکلم مفعول ہے جو مخاطب ہستی کو اپنے وجود پر تعمیری عمل کے لیے متوجّہ کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ تمام افعال متکلم پر آزمائے جانے ہیں، اِس لیے یہ ضروری ہے کہ مخاطب ہستی کو پتھر کی مورتی کے بجائے تصوراتی دیوی مان کر نظم کی قرأت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ نظم کی اگلی نو سطریں متکلم کی تمناؤں کی صورت میں اِس تصوراتی دیوی کی کرشمہ ساز قوّتوں کی جانب اشارہ کناں ہیں :

خواب سے جوڑ

لہروں میں ڈھال

اِک تسلسُل میں لا

نقش مربوط کر

نرم، ابر یشمیں کیف سے

میری درزوں کی بھر

میری مٹی کے ذرّے اُٹھا

میری وَحشت کے بکھرے ہوئے

سنگ ریزوں کو چُن

مَیں نے دیوی کو تصوراتی اِس لیے کہا ہے کہ نظم میں اِس کے لیے نیند کا استعارہ پیش کیا گیا ہے جو ایک طرف روشنی سے مشابہت کا رشتہ قائم کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف جھلملاہٹ کے باعث عدم شفافیت سے جُڑا ہوا ہے۔ یہ استعارہ، روشنی کی وضاحت اور جھلملا ہٹ کے ابہام کے مابین ایک خاص توازن رکھ کر وضع کیا گیا ہے جس نے اِسے کثیر المعنی بنا دیا ہے۔ معنی کی اِس کثرت کو برقرار رکھنے اور ہر قاری کی فعال شرکت کا حق محفوظ رکھنے کی خاطر مَیں نے اِس استعارے کی تفہیم کے لیے تصوراتی دیوی کی علامت سے کام لیا ہے۔ یہ دیوی کسی’ ’ تخلیقی لمحے ‘‘ کی نمائندہ ہو سکتی ہے، جو متکلم یعنی شاعر کے وجود کو منتشر اور مضمحل کر دینے والی عدم تخلیقیت کی اذ یّت سے چھٹکارا دے کراُسے خواب سے جوڑنے ، تسلسُل میں لانے اور تاجِ رُوئیدگی سے سجانے کے فرائض انجام سکے یا’’ موت‘‘ کی نمائندہ ہو سکتی ہے، جو وجودی کرب کی صورت حال سے نکلنے کے لیے متکلم کا انتخاب ہے اور شاید اِس انتخاب کے علاوہ اب اُس کے پاس کوئی دوسری صورت نہیں بچی جو اُسے آزاد رہنے کی سزا سے نجات دلا سکے یاپھریہ کسی ’’مابعد الطبعیاتی ہستی ‘‘کی نمائندہ ہو سکتی ہے جس سے متکلم کا مکالمہ عقیدت مندانہ تمناؤں سے عبارت ہے۔ اِس ہستی پر اعتقاد متکلم کی قوت ہے اور یہی قوت اُسے جینے کا حوصلہ دیتی ہے اور شکستگی کے باوجود اُسے نومیدی کے دلدل میں دھنسنے سے بچا لیتی ہے۔ یا پھر یہ دیوی کسی اور ’’معنی ‘‘ کی نمائندہ ہو سکتی ہے جس کا تعیّن ہر قاری کا حق ہے اور اسے چھیننا عملِ تنقید کے منافی ہو گا۔ تا ہم متکلم کا لہجہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مخاطب ہستی اُس کی بدحالی کا سبب نہیں بلکہ اُس کا مداوا ہے۔ آخر متکلم ہستی کی زبوں حالی کا سبب کیا ہے ؟ کیا یہ کوئی ’’وجودی کرب ‘‘ ہے ؟یعنی کیا یہ ہستی اپنی آزادیِ انتخاب کے بھیانک نتائج بھگت رہی ہے یا معروضی حالات کی ناگفتہ بہ صورت نے اُسے بے حال کر رکھا ہے ؟ میرا خیال ہے جس کرب میں اِس نظم کا متکلم مبتلا ہے وہ کوئی وجودی کرب نہیں ہو سکتا کیوں کہ وجودی کرب کی صورت میں کسی تصوراتی دیوی یا وجود سے باہر کسی قوّت کو مدد کے لیے آواز دینا بے معنی ہو جاتا ہے لیکن اگر تصوراتی دیوی کی علامت کو ’’موت‘‘ کے طور پر قبول کر لیا جائے تو متکلم کے کرب کو ’’وجودی کرب‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ جہاں تک غیر موافق معروضی حالات کی بات ہے تو اِس حوالے سے نظم میں کوئی واضح اشارہ دستیاب نہیں ہے مگر نظم کی مزید نو سطور کی قرأت شاید کسی نتیجے تک پہنچنے میں معاونت کر سکے :

کوئی لوری دے

جھولا جھلا

پوٹلی کھول ، رمزوں کی

مجھ پر کہانی کی اَبرک چھڑک

میرا کاندھا تھپک

آ مجھے تاجِ رُوئیدگی سے سجا

اِک تسلسل میں لا

لو کے اِکتارے پر

چھیڑ دے کوئی دھُن

اِن سطور میں لوری، دھُن اور کہانی سننے کے تقاضے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حقیقت سفاک ہو چکی ہے۔ متکلم کسی لمحۂ سکون کی، کسی طمانیت بھری ساعت کی، کسی پُر کیف پَل کی تلاش میں ہے جو اُس کی بے ربطی کو مربوط کر دے، اُس کے عدم تسلسُل میں تسلسُل پیدا کر دے اور اُس کی بے خواب آنکھوں میں خواب کی جوت جگا دے۔ نظم کی ابتدائی تین سطور مجموعی طور پر تین بار دہرائی گئی ہیں۔ یہ سہ بار گی اعادہ متکلم کے کرب کی شدّت کا اظہار بھی ہے اور مخاطب ہستی کی بے پروائی کا ثبوت بھی۔ آخر یہ مخاطب ہستی اِس قدر بے پروا کیوں ہے ؟ مَیں نہ چاہتے ہوئے بھی اِس سوال کو نظم کا حاصل سمجھنے پر مجبور ہوں کہ یہی سوال متکلم کے کرب کو انفرادیت کے دائرے سے نکال کر اجتماع میں موجود ہر فرد کے دُکھ کی آواز بنا رہا ہے اور شاید دُکھوں کے اظہار کی یہی مشارکت برق رفتار عہد میں شاعری کا جواز مہیّا کرتی ہے اور احساس دلاتی ہے کہ ہم انسانی زندگی کی معنویت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

نظمیں

               رفیق سندیلوی

 

بڑا چکر لگائیں

 

 

کسی دن آ

پرانی کھائیوں کو پار کر کے

دلدلوں میں پاؤں رکھیں

نرسلوں کو کاٹ ڈالیں

پیش منظر کے لیے رستہ بنائیں

آ کسی دن

دھند میں جکڑی ہوئی

کانٹوں بھری یہ باڑ

جس میں وقت کی بجلی رواں ہے

 

جو زمیں وآسماں کو

کاٹتی ہے

بیچ سے

 

اس کو ہٹائیں

آ کسی دن

جھولتے پُل سے اتر کر

نقشۂ تقویم میں

ُپر پیچ کہساروں کے اندر

جھاگ اُڑاتی

شور کرتی

بَل پہ بَل کھاتی ندی میں

غوطہ زن ہوں

تیرتے جائیں

 

کسی دِن آ

بڑا چکّر لگائیں !

٭٭٭

 

 

 

جاؤ اب روتے رہو

 

 

تم نہیں جانتے

اس دھند کا قصہ کیا ہے

دھند جس میں کئی زنجیریں ہیں

ایک زنجیر

کسی پھول، کسی شبد

کسی طائر کی

ایک زنجیر کسی رنگ، کسی برق

کسی پانی کی

زلف ورخسار

لب و چشم کی، پیشانی کی

تم نہیں جانتے

اس دھند کا زنجیروں سے رشتہ کیا ہے

یہ فسوں کار تماشا کیا ہے!

 

تم نے بس دھند کے اس پار سے

تیروں کے نشانے باندھے

اور ادھر میں نے تمھارے لیے

جھنکار میں دل رکھ دیا

کڑیوں میں زمانے باندھے

جاؤ اب روتے رہو

وقت کے محبس میں

خود اپنے ہی گلے سے لگ کر

تم مرے سینۂ صد رنگ کے

حق دار نہیں

اب تمھارے مرے مابین

کسی دید کا

نا دید کا اسرار نہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

خواب مزدور ہے

 

 

خواب مزدور ہے

رات دن سر پہ بھاری تغاری لیے

سانس کی

بانس کی

ہانپتی کانپتی سیڑھیوں پر

اترتا ہے

چڑھتا ہے

روپوش معمار کے حکم پر

ایک لاشکل نقشے پہ اٹھتی ہوئی

اوپراٹھتی ہوئی

گول دیوار کے

خشت در خشت چکر میں محصور ہے

خواب مزدور ہے!

 

اک مشقت زدہ آدمی کی طرح

میں حقیقت کی دنیا میں

 

روپوش معمار کے حکم پر

ایک لا شکل نقشے پہ اٹھتی ہوئی

اوپر اٹھتی ہوئی

گول دیوار کے

خشت در خشت چکر میں محصور ہے

خواب مزدور ہے!

 

اک مشقت زدہ آدمی کی طرح

میں حقیقت کی دنیا میں

یا خواب میں

روز معمول کے کام کرتا ہوں

 

یا خواب میں

روز معمول کے کام کرتا ہوں

 

یا خواب میں

روز معمول کے کام کرتا ہوں

کچھ دیر آرام کرتا ہوں

کانٹوں بھری کھاٹ میں

پیاس کے جام پیتا ہوں

اور سوزن ہجر سے

اپنی ادھڑی ہوئی تن کی پوشاک سیتا ہوں

جیتا ہوں

کیسی انوکھی حقیقت ہے

کیسا عجب خواب ہے

اک مشقت زدہ آدمی کی طرح

اپنے حصے کی بجری اٹھانے پہ مامور ہے

خواب مزدور ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جیسے کوزہ نہیں جانتا

 

 

 

جیسے کوزے پہ جھک کر

کبھی روشنی کی مرصع صراحی نے

دو گُھونٹ امرت انڈیلا نہیں

جیسے کوزہ نہیں جانتا

اک جھری

نوک سوزن سی پتلی لکیر

اس کے پیندے پہ ہے

کیسے محفوظ رکھے گا پانی

جو اندھے کنووں سے

ہوا کھانستی ٹونٹیوں

بے نمو گھاٹیو ں سے

چٹانوں کی باریک درزوں

تڑختی زمیں کی دراڑوں سے

قطرہ بہ قطرہ

اکٹھا ہوا

 

جیسے کوزہ نہیں جانتا

ّآب زر

منبع نور سے

اک تسلسل کے عالَم میں

بوندوں کی صورت

ٹپکتا ہے

تر کرتا رہتا ہے

 

پیاسوں کے لب

پر بُجھاتا نہیں ایک دم تشنگی

ایک میقات ہوتی ہے

کو زے کی

بھرنے کے رسنے کے مابین

اک را ت ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کیک کا ایک ٹکڑا

 

 

 

کہنہ تر زین بدلی گئی

پھر نئی نعل بندی ہوئی

اورفرس ہنہنایا

سوار اب سواری پر مجبور تھا

میں اکیلا عزا دار

کتنے یگوں سے

اٹھائے ہوئے

جسم کا تعزیہ

خود ہی اپنے جنم دن پہ مسرور تھا

کپکپاتی چھری

کیک کو وسط تک

چیر کر رک گئی

دل لرزنے لگا

ضعف کی ماری پھونکوں نے

ایک ایک کر کے

بھڑکتی لووں کو بجھایا

عزیزوں نے

بچوں نے

تالی بجائی

مبارک مبارک ہوئی

کیک کا ایک ٹکڑا

مرے منھ میں ٹھو نسا گیا

نعل کی شکل کا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ سجیلی مورتی

 

اے ہَوا

پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا

صحن میں کس نے قدم رکھا تھا

چپکے سے

یہاں سے کون مٹّی لے گیا تھا

وقت کی تھالی میں

کس نے لا کے رکھ دی

جھلملاتی لَو کے آگے

رقص کرتی

یہ سجیلی مورتی

جس کے نقوشِ جسم

روشن ہو رہے ہیں

ویشیا کے ہونٹ

فربہ پاؤں جیسے اِک گرھستن کے

خمیری پیٹ میں

مخمل کی لہریں

نو ری و ناری

سُبک اندام لہروں میں

بھنور اِک گول سا

پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا

اے ہَوا

تُو جانتی ہے

راز سارا

دو الگ طرزوں کی مٹّی

ایک برتن میں ملا کر

گوندھنے کا!

٭٭٭

 

 

 

غار میں بیٹھا شخص

 

چاند، ستارے

پھول، بنفشی پتے

ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر

اُڑنے والی برف

لکڑی کے شفّاف ورَق پر

مور کے پَر کی نوک سے لکھّے

کالے کالے حرف

اُجلی دھوپ میں

ریت کے روشن ذرّے

اَور پہاڑی درّے

اَبر سوار سُہانی شام

اور سبز قبا میں ایک پَری کا جسم

سُرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے

پھولوں جیسے اِسم

رنگ برنگ طلسم

جھیل کی تَہ میں ڈُوبتے چاند کا عکس

ڈھول کے وَحشی تَال پہ ہوتا

نیم بَرہنہ رقص!

 

کیسے کیسے منظر دیکھے

ایک کروڑ برس پہلے کے

غار میں بیٹھا شخص !!

٭٭٭

 

 

 

 

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

 

 

اَے چراغوں کی لوکی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن

خواب سے جوڑ

لہروں میں ڈھال

اِک تسلسُل میں لا

نقش مربوط کر

نرم، ابر یشمیں کیف سے

میری درزوں کی بھر

میری مٹّی کے ذرّے اُٹھا

میری وَحشت کے بکھرے ہوئے

سنگ ریزوں کو چُن

 

اَے چراغوں کی لو کی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن

کوئی لوری دے

جھو لا جھلا

پوٹلی کھول ، رمزوں کی

مجھ پر کہانی کی اَبرک چھڑک

میرا کاندھا تھپک

آ مجھے تاجِ رُوئیدگی سے سجا

اِک تسلسُل میں لا

لو کے اِکتارے پر

چھیڑ دے کوئی دھُن

اَے چراغوں کی لوکی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند، سُن

میرا اُدھڑا ہوا جسم بُن!

٭٭٭

 

 

حدِّ بیابانی میں

 

 

میرے اسلوبِ تموج پہ نظر ڈال

مری لہر کے پیرائے کو دیکھ

لمس کی دھوپ کو دیکھ

اور مرے سائے کو دیکھ

دیکھ اب میرے خدوخال میں تبدیلی ہے

دل کی روندی ہوئی مٹّی

جو بہت ماند تھی

اب عکسِ تصور ہی سے چمکیلی ہے

اب مرے جسم کا ہر زاویہ تمثیلی ہے

آخر اس گہرے اندھیرے کے

فلک بوس پہاڑوں میں بنا کر رستہ

جھلملاتی ہوئی نقشین شعاعوں کو

کسی وجد میں آئے ہوئے

دریا کی طرح بہنا تھا

چاند کے گرد جو ہالہ تھا

اسے ٹوٹنا تھا

ابر کو کچھ کہنا تھا

سُر میں سُر ہوتا تھا آمیز

بہم تال میں تال

میرے اسلوبِ تموج پہ نظر ڈال

مری لہر کے پیرائے کو دیکھ

لمس کی دھوپ کو دیکھ

اور میرے سائے کو دیکھ

دیکھ کس طرح میرے ہاتھ سے

پھوٹا ہے بنفشی پودا

کاسۂ سر سے نکل آئی ہے اودی کونپل

اور اگ آئے ہیں

سینے سے چناری پتے

جسم اک مہکا ہوا باغ نظر آتا ہے

آخر اک تارا

گھنی رات کے دروازے سے

در آتا ہے

آخر اِس حدِّ بیابانی میں

ایک گُل پوش نے دھرنا تھا قدم

آ کے یہاں رہنا تھا

جھلملاتی ہوئی نقشین شعاعوں کو

کسی وجد میں آئے ہوئے

دریا کی طرح بہنا تھا!

٭٭٭

 

 

 

غزلیں

 

               رفیق سندیلوی

 

زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لئے

ندائے غیب کو جاتا ہوں بہرے کان لئے

 

میں بڑھ رہا ہوں کسی رعدِ ابر کی جانب

بدن کو ترک کئے اور اپنی جان لئے

 

یہ میرا ظرف کہ میں نے اثاثۂ شب سے

بس ایک خواب لیا اور چند شمع دان لئے

 

میں سطحِ آب پہ اپنے قدم جما لوں گا

بدن کی آگ لئے اور کسی کا دھیان لئے

 

میں چل پڑوں گا ستاروں کی روشنی لے کر

کسی وجود کے مرکز کو درمیان لئے

 

پرندے میرا بدن دیکھتے تھے حیرت سے

میں اڑ رہا تھا خلا میں عجیب شان لئے

 

قلیل وقت میں یوں میں نے ارتکاز کیا

بس اک جہان کے اندر کئی جہان لئے

 

ابھی تو مجھ سے میری سانس بھی تھی نامانوس

کہ دستِ مرگ نے نیزے بدن پہ تان لئے

 

زمیں کھڑی ہے کئی لاکھ نوری سالوں سے

کسی حیاتِ مسلسل کی داستان لئے

٭٭٭

 

 

 

کسی دن میری فطرت کا زمیں کو علم ہوگا

میں کیا ہوں اس حقیقت کا زمیں کو علم ہوگا

 

کئی شکلوں میں بکھرا ہے یہ میرا جسم خاکی

میرے اعضا کی وحدت کا زمیں کو علم ہوگا

 

ڈبو دے گا انہیں جو ایستادہ ہیں ازل سے

کبھی پانی کی طاقت کا زمیں کو علم ہوگا

 

مجھے کیا علم کہ لمحۂ حاضر میں کیا ہے

بُری اور نیک ساعت کا زمیں کو علم ہوگا

 

مرے قلبِ جنوں انگیز کو دے گی توازن

برودت اور حدت کا زمیں کو علم ہوگا

 

کہاں کس خاک میں روپوش ہے کوئی خزانہ

زمیں کی تہ کی حالت کا زمیں کو علم ہوگا

٭٭٭

 

 

 

کوئی بھی دل میرے دل سے یوں دل لگی نہ کرے

میرا وجود تو خود سے بھی دوستی نہ کرے

 

زمانے بھر سے الگ ہے تمہاری ناز و ادا

کوئی کرن تیرے جلوؤں کی ہمسری نہ کرے

 

تیرے نصیب کے آنسو بھی مجھ کو مل جائیں

خدا کبھی تیری آنکھوں کو شبنمی نہ کرے

٭٭٭

 

 

 

زمیں بارہ ستونوں پر کھڑی تھی اور میں بھی

گلوئے شب میں تاروں کی لڑی تھی اور میں بھی

 

گڑا تھا اس کا چہرہ اور خنجر قلبِ مہ میں

وجودِ شمس میں برچھی گڑی تھی اور میں بھی

 

سماتے کس طرح ہم دونوں اِس چودہ طبق میں

ہوا اپنی جسامت سے بڑی تھی اور میں بھی

 

گرا تھا ایک ہی ساعت میں وہ بھی مشتری سے

افق سے کاسنی مٹی جھڑی تھی اور میں بھی

 

جسے خالی سمجھ کر وہ زمیں پر لوٹ آیا

اُسی گنبد میں اِک میت پڑی تھی اور میں بھی

٭٭٭

 

 

 

اُسے شوقِ غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا

مرے نجمِ آب! مجھے بتا وہ کہاں گیا

 

جو لکیر پانی پہ نقش تھی، وہ کہاں گئی

جو بنا تھا خاک پہ زائچہ وہ کہاں گیا

 

کہاں ٹوٹے میری طنابِ جسم کے حوصلے

جو لگا تھا خیمہ وجود کا وہ کہاں گیا

 

جو زمین پاؤں تلے بچھی تھی، کدھر گئی

وہ جو آسمان سروں پہ تھا وہ کہاں گیا

 

گئے کس جہت کو تکونِ خواب کے زاویے

جو رُکا تھا آنکھ میں دائرہ وہ کہاں گیا

 

ابھی عکس اُس کا ابھر رہا تھا کہ دفعتہً

مرے آئینے سے بچھڑ گیا وہ کہاں گیا

 

کہاں گم ہوئیں وہ زبان و کام کی لذتیں

جو پھلوں میں ہوتا تھا ذائقہ وہ کہاں گیا

٭٭٭

 

 

 

 

عجب اِک سایۂ لاہوت میں تحلیل ہوگی

فسونِ حشر سے ہیئت مری تبدیل ہوگی

 

کئے جائیں گے میرے جسم میں نوری اضافے

کسی روشن ستارے پر مری تکمیل ہوگی

 

دیا جائے گا غسلِ اولیں میرے بدن کو

طلسمی باغ ہوگا اُس کے اندر جھیل ہوگی

 

کبھی پہنچے گا حسِ سامعہ تک حرفِ خفتہ

کبھی آوازِ نامعلوم کی ترسیل ہوگی

 

کبھی عقدے کھلیں گے اساطیری زمیں کے

کبھی اس داستانِ کہنہ کی تاویل ہوگی

٭٭٭

 

 

 

حجرۂ کشف و کرامت میں رکھا ہے میں نے

جسم تقویم کی حالت میں رکھا ہے میں نے

 

سانس کی چھت بھی کسی ثانیے گر سکتی ہے

دل کی ہر اینٹ کو عجلت میں رکھا ہے میں نے

 

سدرۂ غیب تلک میری رسائی تھی کہاں

جو قدم رکھا ہے وحشت میں رکھا ہے میں نے

٭٭٭

 

 

 

میں خود کو لا مکاں سے ڈھونڈ لوں گا

ستارہ،کہکشاں سے ڈھونڈ لوں گا

 

مقامِ نجمِ گریہ بھی کسی دن

میں اُصطرلابِ جاں سے ڈھونڈ لوں گا

 

فلک کا آخری بے نور زینہ

چراغِ خاک داں سے ڈھونڈ لوں گا

 

کسی شب میں طوافِ خواب کر کے

بدن کو درمیاں سے ڈھونڈ لوں گا

٭٭٭

 

 

 

نیند کے آبِ رواں کو مات دینے آؤں گا

اے شبِ نا خواب تیرا ساتھ دینے آؤں گا

 

جب ستارے نقطۂ انفاس پر بُجھ جائیں گے

میں خدا کو جان بھی اُس رات دینے آؤں گا

 

نُور کی موجیں مرے ہمراہ ہوں گی اور میں

رات کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دینے آؤں گا

 

آسماں کے نیلے گنبد سے نکل کر ایک دن

میں زمیں کو قُرمزی خیرات دینے آؤں گا

 

بند ہو جائیں گے جب سارے دریچے کشف کے

اُس گھڑی میں چند امکانات دینے آؤں گا

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید