FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               ترتیب: پرویز مظفر، اعجاز عبید

 

 

قلمی چہرہ

               پروفیسر ظفر احمد نظامی۔نئی دہلی

            چہرہ گول گفتار انمول، چہرے پر نمک پیشانی پر علمیت کی دمک، ابھری ہوئی ناک، فکر میں انہماک، بولتے ہوئے لب، رخ پر ذہانت کی تاب و تب، آنکھیں پُر نور، دل مسرور، سرپر سفید بال، برف کی شال، یہ ہیں ممتاز افسانہ نگار، نامور قلم کار، شاعر بے بدل، واقف رموز غزل، محقق باریک بیں ، شخصیت دلنشیں ، صاحب طرز تنقید نگار، اسپ ادب کے شہسوار، ماہر ادب اطفال، ادیب با کمال، قنوطی فکر حیات کی نفی…..یعنی محمد ابوالمظفر، مظفر حنفی۔

            مظفر حنفی یکم اپریل ۱۹۳۶؁ء کو واقفِ عالم آب و گل ہوئے ، اہل دانش ور صاحب دل ہوئے ابتدائی تعلیم کھنڈوہ میں پائی، مسلم یونیورسٹی سے لو لگائی، دل کے حکم کی تعمیل کی، ایم اے ، ایل ایل بی کی تکمیل کی۔ شادؔ عارفی کے فن سے مدد لی، برکت اللہ، یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند لی، عبدالقوی دسنوی کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہوئے ۔ شاد عارفی کی محبت میں استاد کامل ہوئے ۔ ویسے ان کا وطن فتح پور ہسوا ہے جو کھنڈوہ سے کافی دور ہے ۔ محکمہ جنگلات میں کھو کر رہ گئے ، ہسوا اور بھوپال کے ہو کر رہ گئے ۔ ۱۹۷۱؁ء میں دلی آ گئے یہاں کے ادبی حلقوں پر چھا گئے ۔ این سی ای آر ٹی کے پروڈکشن آفیسر ہوئے جامعہ ملیہ میں لکچر ر اور ریڈر ہوئے ۔ شہرت نے کلکتہ کھینچ بلایا، یونیورسٹی میں اقبال چیئر پروفیسر بنایا۔ ڈاکٹر مظفر حنفی صاحب تدریس سے سبکدوش ہو کر اب دلی میں رہائش پذیر ہیں ۔ ادبی کارناموں کی چاندنی میں دمک رہے ہیں ۔

            مظفر صاحب کو بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا شوق رہا، شعر و ادب کا ذوق رہا۔ ۱۹۴۹؁ء میں ادبی سفر شروع کیا۔ مڈل ا سکول کے افق پر افسانہ طلوع کیا۔ پھر تو ان کا قلم مسلسل چلنے لگا۔ ہر لمحہ تخلیق کے لیے مچلنے لگا۔ دس شعری مجموعوں جو جنم دیا۔ ٭[یہ تعداد بھی تقریباً تیرہ یا چودہ تک پہنچ چکی ہے ۔ مدیر] ایک درجن کتابوں کی تدوین کی، اسی قدر تحقیقی تصانیف کی تزئین کی، چودہ تراجم کیے ، ہر کتاب پر انعامات لیے ۔

            انھوں نے ’’یم بہ یم‘‘ ،  ’’پردۂ سخن‘‘ اٹھایا، ’’طلسم حروف‘‘ سے ص ’’دیپک راگ‘‘ گایا، ’’کھل جا سم سم‘‘ سے ’’دروازہ ٹٹولا،  ’’تیکھی غزلوں ‘‘ کا قفل کھولا۔ ’’پانی کی زبان‘‘ کو ’’عکس ریز‘‘ کیا، صریر خامہ‘‘ کو اور تیز کیا۔’’دو غنڈوں سے ‘‘ انتقام کیا، اینٹ کا جواب قلم سے دیا۔ جذبہ فرض شناسی سے کام لیا، احترام کے ساتھ استاد کا نام لیا۔ شاد کی غزلوں سے پردہ اٹھایا، ’’ایک تھا شاعر‘‘ سے دنیا کو متعارف کرایا۔کہیں ان کے کلیات چھپوائے ، کہیں مکاتیب منظر عام پر لائے ۔ نثر و غزل کی داد پائی، ہر شعر میں شوخیِ تحریر پائی، گجراتی ڈراموں کی سفارش کی، اڑیا افسانوں پر کرم کی بارش کی، نئی ناول نگاری اختیار کی، جاسوسی ناولوں کی بھر مار کی۔ ’’چوروں کے قاتل‘‘ کو ’’پیلی کوٹھی‘‘ میں پکڑا۔ ’’بین الاقوامی لٹیرے ‘‘ کو ’’تارِ عنکبوت‘‘ سے جکڑا۔ ’’شرلاک ہومز‘‘ کو ہندوستان بلایا، ’’پر اسرار قتل‘‘ کا پتہ لگایا، دنیائے صحافت میں نام پایا۔ ’’نئے چراغ‘‘ کا اجالا پھیلایا، غرضیکہ وہ ہر صنف کے کوچہ گرد ہیں ، میدان علم و ادب کو مرد ہیں ۔ انھیں نثر و نظم پر یکساں قدرت ہے ان کی ہر تحریر میں ندرت ہے ، ان کی حیات و شخصیت پر تحقیقی کام ہو چکا ہے ، ان کی ادبی خدمات کا نام ہو چکا ہے ۔ وہ خود کئی اساتذہ کو ڈاکٹر بنا چکے ہیں ، پی ایچ ڈی کی ڈگری سے سجا چکے ہیں ۔

            وہ انجمن اساتذہ اردو کے نائب صدر ہیں ، جامعات ہند کے لیے قابل قدر ہیں ، استاد کی حیثیت سے مقبول ہیں ، گلدستہ اردو کا پھول ہیں ۔ طلبہ کو بے پناہ عزیز ہیں ، اساتذہ کے لیے بیش قیمت چیز ہیں ۔ انھیں اپنی حیثیت پر غرور و ناز نہیں ، مصنف ہونا ان کے لیے طرہ امتیاز نہیں ۔ وہ بڑی سادھی سے رہتے ہیں اس لیے خود کہتے ہیں   ؂

یہ شہرت کا پرچم، یہ عظمت کا تاج

مظفرؔ یہ علت نہیں پالتے

 

بڑا تخلیق کار کسی نقاد کے سہارے کا محتاج نہیں ہوتا مظفر حنفی

               گفتگو:فیضان عارف (لندن)

            بر صغیر کے منفرد اسلوب رکھنے والے شاعروں میں مظفر حنفی کا نام نمایاں حیثیت کا حامل ہے ۔ ان کی غزل عہد حاضر کی آشوب کی ایک ایسی تصویر ہے جسے احساس اور فکر کے رنگوں سے تخلیق کیا گیا ہے ۔ انہوں نے موجودہ دور کے تلخ حقائق کو جس شاعرانہ انداز سے اپنی غزل میں سمویا ہے وہ ہر سخنور کے بس کی بات نہیں ان کے درج ذیل اشعار اس بات کی گواہی دیں گے ؒ

ہمیں لوح و قلم تقدیر نے بخشے تو ہیں لیکن

ہمارا آب و دانہ لکھ دیا ہے چور ہاتھوں میں

عظیم المرتبت ماضی تھا شہزادوں کی قسمت کا

مرا رنگین مستقبل ہے رشوت خور ہاتھوں میں

            مظفر حنفی کی پہچان کا بنیادی حوالہ ان کی شاعری ہے لیکن ایک نقاد اور اقبال شناس کے طور پر بھی ان کی شناخت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مظفر حنفی یکم اپریل ۱۹۳۶؁ء کو کھنڈوا مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے ۔ والدین نے ان کا نام ابوالمظفر رکھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے اور بھوپال یونیورسٹی سے ایم اے ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ڈاکٹریٹ کے لیے ان کی تحقیق کا موضوع شادؔ عارفی کی شاعری تھا۔ سرکاری ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کر کے وہ ۱۹۷۶؁ء میں جامعہ کے شعبۂ اردو سے وابستہ ہوئے اور ۱۹۸۹؁ء میں انہیں کلکتہ یونیورسٹی نے اقبال چیئر پر پروفیسر کی حیثیت سے فائز کیا۔ اور وہ تا حال اس عہدے پر کام کر رہے ہیں ۔ مظفر حنفی کی درجنوں کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور انہیں درجنوں اعزازات سے نوازا جا چکا ہے ۔ محبوب راہی کو مظفر حنفی کے فن اور شخصیت پر تحقیقی کام کے عوض ناگپور یونیورسٹی نے ۱۹۸۴؁ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ اور ان کا یہ مقالہ کتابی شکل میں چھپ چکا ہے ۔ ڈاکٹر مظفر حنفی گذشتہ دنوں برطانیہ آئے تو ان سے مختلف ادبی موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ سب سے پہلے ہم نے ان سے بھارت میں اقبال کی شخصیت اور شاعری پر تحقیق کے حوالے سے مکالمے کا آغاز کیا۔

س:      کلکتہ یونیورسٹی اور بھارت کی دیگر جامعات میں اقبال کے فن و فکر پر کیا کام ہو رہا ہے ؟

ج:       کلکتہ یونیورسٹی سمیت بھارت میں اقبال پر بہت تحقیقی کام ہو رہا ہے اقبال پر پورے بھارت میں ۷۰ سے زائد پی ایچ ڈی ہو چکی ہیں ۔ اور اقبال کی شاعری اور شخصیت پر چار سو سے زیادہ کتابیں چھپ چکی ہیں ۔ یو جی سی کے تحت کلکتہ یونیورسٹی میں ’’اقبالیات ہند و پاک میں ‘‘ کے نام سے ایک ببلو گرانی ترتیب دی جا رہی ہے جس میں اقبال پر اب تک لکھی جانے والی تمام کتابوں کا حوالہ مختصر تعارف کے ساتھ شامل کیا جائے گا۔ یہ کام ابھی جاری ہوا ہے اور میں اس تحقیقی کام کی نگرانی کا فریضہ انجام دے رہا ہوں ۔

س:      بھارت میں اردو زبان و ادب کی بقا اور ارتقا کے کیا امکانات ہیں ؟

ج:       عام تاثر یہ ہے کہ بھارت میں اردو زبان ترقی نہیں کر رہی ہے ۔ لیکن یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے ۔ بھارت کے وہ علاقے مثلاً اتر پردیش اور راجستھان وغیرہ جہاں اسٹیٹ کی زبان ہندی ہے وہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر اردو ترقی کرے گی تو اس سے ہندی زبان کو نقصان پہنچے گا۔ اس لیے مذکورہ علاقوں میں اردو کو حکومت کی طرف سے معاونت نہیں مل رہی ہے ۔ جبکہ بھارت کی دیگر ریاستوں مثلاً مہاراشٹر، آندھرا پردیش، بنگال، بہار اور کرناٹک میں اردو زبان بولنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے جہاں پرائمری جماعتوں سے لے کر یونیورسٹی تک اردو پڑھائی جاتی ہے اور تقریباً بھارت کی تمام یونیورسیٹیوں میں اردو کے شعبہ جات موجود ہیں ۔

س:      بھارت میں اردو پڑھنے کا رجحان کیا ہے ؟

ج:       دراصل اردو زبان کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کا روزی روٹی سے بہت کم تعلق رہ گیا ہے ۔ اب تو صرف تدریس اور ریڈیو کے شعبوں میں ہی اردو کے پڑھے لکھے لوگوں کے لیے گنجائش رہ گئی ہے ۔

س:      جو لوگ کہتے ہیں کہ بھارت میں اردو کا مستقبل روشن ہے ان سے اس خوش فہمی کی بنیاد کیا ہے ؟

ج:       اگر ہم اردو کے مستقبل کا جائزہ لینے سے پہلے بھارت میں ۱۹۴۷؁ء سے ۱۹۵۵؁ء تک کے منظر نامے پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ دور اردو کے حوالے سے بالکل تاریک تھا۔ اردو کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اب بھارت سے اردو ختم ہو جائے گی۔ لیکن ۱۹۷۰؁ء کے بعد سے مختلف بھارتی ریاستوں میں اردو پڑھنے لکھنے اور اس کے تدریسی انتظامات کے رجحان میں جس طرح اضافہ ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے معاملے میں جو لسانی تعصب تھا وہ رفتہ رفتہ کم ہوا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب اردو کی بقا کے ضمن میں صورت حال اتنی پریشان کُن اور تشویش ناک نہیں ہے جتنی کہ پچاس کی دہائی تک تھی۔

س:      کیا بھارت میں اردو کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے ؟

ج:       متعصب لوگ اور تنظیمیں تو دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں ۔ لیکن بھارت میں اردو کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ وہاں فلمیں اردو زبان میں بنتی ہیں اور لوگ اردو گیتوں اور غزلوں کو شوق سے سنتے ہیں ۔ بلکہ لوگ اپنے آپ کو زیادہ مہذب ثابت کرنے کے لیے اردو زبان بولتے ہیں اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم کی تخصیص نہیں ہے ۔

س:      اس وقت بھارت میں جو شاعری، خصوصاً غزل لکھی جا رہی ہے اس کا آپ پاکستان میں تخلیق ہونے والی شاعری سے کیسے موازنہ کریں گے ؟

ج:       اردو غزل نے جس مٹی میں جنم لیا ہے وہ ہندوستانی مٹی ہے چنانچہ آج پورے ہندوستان میں جو غزل لکھی جا رہی ہے اس میں ورائٹی بہت ہے مثلاً مغربی بنگال میں رہنے والا اردو کا شاعر، مہاراشٹر کے شاعر کے مقابلے میں مختلف انداز سے شعر لکھ رہا ہے ، بہار کا شاعر، گجرات کے شاعر سے مختلف غزل کہہ رہا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں شاعری تو بہت اچھی ہو رہی ہے لیکن اس میں یکسانیت بہت ہے ۔ غزل ہی کی وجہ سے بھارت میں بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں ۔ البتہ نظم اور افسانہ پاکستان میں بہت اچھا لکھا جا رہا ہے اس کے برعکس تنقید اور تحقیق کا کام بھارت مین زیادہ اچھے انداز میں ہو رہا ہے ۔ کیوں کہ تحقیق کے زیادہ مآخذ بھارت میں ہیں ۔ ویسے ادب اور اس کی تخلیق کا اس طرح موازنہ کرنا مناسب نہیں لیکن چوں کہ آپ نے پوچھا ہے تو میں نے اپنا مشاہدہ بیان کر دیا ہے ۔

س:      آپ نے کہا کہ غزل کی وجہ سے بھارت میں بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں ۔ کیا ان بڑے بڑے مشاعروں کی کامیابی میں ترنم کا عمل دخل بھی ہے ؟

ج:       جو لوگ صرف مشاعروں کے شاعر ہیں یا ترنم کا سہارا لیتے ہیں وہ درجہ دوم کے شاعر ہیں ۔ پہلے درجے کے شاعر وہ ہوتے ہیں جو ادبی رسائل میں چھپتے ہیں اور جن کی کوئی ادبی حیثیت ہوتی ہے ۔ کچھ شاعر ایسے بھی ہیں جن کی ادبی حیثیت بھی مستند ہے اور ان کو مشاعروں میں بھی بلایا جاتا ہے ۔ جیسے مجھے اور ندا فاضلی کو مشاعروں میں بھی بلایا جاتا ہے لیکن ہم مشاعروں کے شاعر نہیں کہلاتے ۔

س:      آپ کے نزدیک اچھی شاعری کی بنیادی صفت کیا ہے ؟

ج:       مین سمجھتا ہوں کہ شاعری کی بنیادی صفت ہی یہ ہوتی ہے کہ لکھنے والا کسی چیز کے بارے میں جس طرح محسوس کرے اسے مختصر الفاظ میں ایسے بیان کر دے کہ پڑھنے والا بھی ویسے ہی محسوس کرنے لگے ۔ اچھی شاعری میں نیا خیال اور نیا اندازِ بیان بہت اہم صفات ہوتی ہیں ۔

س:      کیا وہ شاعری اچھی ہوتی ہے جسے نقاد سرٹیفکیٹ دیں یا وہ شاعری اچھی ہوتی ہے جسے عوام پسند کریں ؟

ج:       حضرت علیؓ کا قول ہے کہ سچائی بین بین ہوتی ہے یہ دو انتہاؤں پر نہیں ہوتی۔ سچی اور اچھی شاعری وہ ہوتی ہے جسے اہلِ نظر پسند کریں ۔ ان اہلِ نظر میں نقاد بھی ہیں اور ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو نقاد نہیں ، لیکن ادبی شعور رکھتے ہیں ۔ اس ضمن میں یگانہؔ، ناصرؔ کاظمی، فیض احمد فیضؔ اور شادؔعارفی کی شاعری کی مثال دی جا سکتی ہے ۔

س:      آپ کے خیال میں اس وقت برصغیر پاک و ہند میں کون کون سے شاعر اچھی شاعری کر رہے ہیں ؟

ج:       بھارت میں شہریارؔ، نداؔ فاضلی، مخمور سعیدی، عرفان صٖیقی، اعزاز افضل، مھبوب راہیؔ، منورؔ رانا، اچھا شعر لکھ رہے ہیں جب کہ پاکستان میں وزیر آغا، شہزاد احمد، عبید اللہ علیمؔ، افتخارؔ عارف اور احمد فرازؔ اچھی شاعری کر رہے ہیں ۔ برطانیہ سے ساقیؔ فاروقی کا نام اچھے شاعروں میں شامل ہے ۔

س:      آپ خود بھی نقاد ہیں تو کیا اچھا ادب نقادوں کی سند کا محتاج ہوتا ہے ؟

ج:       دراصل آج کل نقادوں نے یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ تخلیق کار کو اپنے پیچھے رکھیں حالاں کہ ناقد کو تخلیق کار کے پیچھے رہنا چاہیے ۔ جن شاعروں کو اپنے لکھے ہوئے پر اعتبار نہیں ہوتا وہ نقادوں سے سند لینے کے لیے ان کے آگے پیچھے گھومتے ہیں اس لیے نقاد حضرات اچھے اور سچے شاعروں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے آگے پیچھے پھریں گے ۔ بڑا شاعر چوں کہ نقادوں کی خوشامد نہیں کرتا اس لیے وہ ان کی نظر میں معتوب رہتا ہے ۔ بڑے شاعر کو کبھی اس کے ہم عصر نقادوں نے تسلیم نہیں کیا۔ اس کی بڑائی کو ہمیشہ آنے والا وقت تسلیم کرتا ہے ۔ برا تخلیق کار کسی نقاد کے سہارے کا محتاج نہیں ہوتا۔ بیشتر نقاد وہ ہیں جو  شاعری اور افسانہ نگاری کے میدان میں ناکام ہونے کے بعد تنقید کی طرف آئے ہیں ۔

س:      آج کل پی ایچ ڈی کر نے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے جن شخصیات اور موضوعات پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہے وہ ایک الگ بحث ہے ۔ کیا پی ایچ ڈی کی ڈگری کی اتنی ارزانی تشویش ناک نہیں ہے ؟

ج:       آپ نے بہت نازک سوال کیا ہے جب محبوب راہیؔ نے مجھ پر پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے انہیں تین برس تک اس کام کی اجازت نہیں دی پھر انہوں نے بھوپال میں میرے استاد کو جا کر شکایت کی تو میں نے کہا کہ اب تک جو میں نے تیس پینتیس کتابیں لکھی ہیں (جو اب ۵۶ ہو چکی ہیں ) ان کے علاوہ بھی مجھے زندگی میں اور بہت سا کام کرنا ہے ۔ پی ایچ ڈی سے پہلے میں اپنا تخلیقی سفر مکمل کرنا چاہتا ہوں ۔ زندگی میں پی ایچ ڈی ان فن کاروں پر ہونی چاہیے جنہوں نے اپنا ادبی سفر مکمل کر لیا ہو جس طرح فیضؔ اور فراقؔ نے اپنی زندگی میں اپنے تخلیقی سفر کی تکمیل کر لی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ایچ ڈی کے سلسلے میں یہ اصول بنا دینا چاہیے کہ زندہ شخصیات پر پی ایچ ڈی کی اجازت نہ ہو۔ دراصل بھارت میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیے پی ایچ ڈی ہونا لازمی قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے پی ایچ ڈی کے ساتھ ہوتا رہا اب یو جی سی نے یہ شرط ختم کر دی ہے اس لیے معاملات کے بہتر ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے ۔

س:      برطانیہ میں آپ کے اعزاز میں مختلف شہروں میں کئی تقریبات ہوئی ہیں ان میں شرکت کے بعد آپ یہاں کی ادبی فجا کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں ؟

ج:       مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ برطانیہ میں مجھے کوئی ایک بھی شاعر ایسا نہیں ملا جس نے کسی دوسرے شاعر کی تعریف کی ہو۔ ہر بڑا چھوٹا شاعر اس میں ملوث ہے ۔ بیشتر شاعر تخلیقی کام کی بجائے ایک دوسرے میں کیڑے نکالنے اور ایک دوسرے کو مسترد کرنے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ برطانیہ میں پروان چڑھنے والی ہماری نئی نسل اردو زبان سے لاتعلق ہوتی جا رہی ہے اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ نئی نسل کے لیے اردو تعلیم کا خاطر خواہ بندوبست کیا جائے اور اس سلسلے میں کوئی موثر لائحہ عمل بنایا جائے وگرنہ آنے والے بیس پچیس برسوں میں یہ ملک اردو کا تیسرا بڑا مرکز نہیں رہے گا۔

بشکریہ : جنگ(لندن)

مطبوعہ: ۱۷ اگست ۱۹۹۷؁ء

 

باتیں مظفر حنفی کی: مصاحبہ

               آفرین حسین۔مشتاق احمد حامیؔ

آفرین: آپ کیوں لکھتے ہیں ؟ اور ادب کی جانب کیسے مائل ہوئے ؟

مظفر حنفی : کسی مچھلی کو معلوم نہیں کہ وہ پانی کے بغیر کیوں زندہ نہیں رہ سکتی اور کوئی پرندہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کیوں چہچہاتا ہے ۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ لکھنا پڑھنا میری زندگی کے لیے ویسا ہی ناگزیر ہے جیسے سانس لینا۔ بچپن سے ہی پڑھنے کا جنون سا تھا۔ مڈل کا امتحان قریب تھا ایسے میں والد مرحوم نے ’’طلسم ہوش ربا‘ ’پڑھتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ سرزنش کرتے ہوئے یہ بھی کہہ گئے کہ ایسا ہی شوق ہے تو تعلیم حاصل کر کے خود کچھ ایسی کتابیں لکھو جنہیں زمانہ پڑھے چنانچہ چل مرے خانہ بسم اللہ ……….

آفرین: سیکڑوں افسانوں اور تین افسانوی مجموعوں کے باوجود آپ نے اس صنف کو خیر باد کیوں کہا؟

مظفر حنفی: بے شک ادبی زندگی کی ابتدائی گیارہ برسوں میں کہانیاں اور افسانے زیادہ تخلیق کیے ۔ ۱۹۶۰؁ء کے آس پاس ادب میں جدید رجحانات کا بول بالا ہوا۔ جدیدیت نے تمام اصناف ادب میں مرکزیت اشاریت، علامت اور ابہام پر زور دیا۔ لیکن ان کی شمولیت سے شاعری، خصوصاً غزل کے نئے پر و بال مل گئے ۔ مجھے تخلیق کار ہونے کے ناتے شاید بروقت احساس ہو گیا اور میں نے افسانے کی جگہ غزل کو اپنا وسیلہ اظہار بنا لیا۔ میرا ایک مقطع ہے ۔

بری نہیں ہے مظفر کوئی بھی صنف ادب

قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے

آفرین: افسانوی ادب آپ کی نظر میں کیا معنی رکھتا ہے ؟

مظفر حنفی: ادب میں فکشن کی اہمیت اور افادیت سے کوئی فاترالعقل ہی منکر ہو سکتا ہے ۔ ہمارے ادبی سرمائے میں ایک سے ایک اچھا ناول اور افسانہ موجود ہے لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فکشن کی عمر شاعری کی ایک چوتھائی ہے اور اس اعتبار سے اردو کا شعری ادب فکشن سے کئی گنا زیادہ بھی ہے اور وسیع بھی۔ کیا سبب ہے کہ تا حال اردو کی تینوں منتظم شخصیتیں (میر، غالب اور اقبال) شعری اصناف ہی سے تعلق رکھتی ہیں !

مشتاق:ادبی تحریکات اور رجحانات سے اردو ادب کو کیا فائدہ پہنچا ہے ؟

مظفر حنفی: ادبی تحریکات اور رجحانات کے وسیلے سے یقیناً ادب کو بہت سے فائدے ہوئے لیکن اس کے مضرت رساں پہلو بھی تھے مثلاً سر سید تحریک نے اردو ادب کو نئی سمت و رفتار عطا کی۔ نثر کو عام فہم آسان بنایا۔ مغرب سے اثر پذیری کا دروازہ کھولا۔ اور ناول نگاری کا آغاز اور نظم کا ارتقا اسی تحریک کی دین ہے لیکن اس کے مقصدیت پر زور نے غزل چھین لی۔ حالی خود اپنی شاعری کو ابالی کھچڑی سے تعبیر کرتے تھے ۔ آگے چل کر ترقی پسند ادبی تحریک نے اردو افسانے کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ آزاد غزل پر شباب اسی تحریک کے زیر اثر آیا لیکن اس کی ندرت پسندی اور مخصوص نظریے کی پیروی نے نعرہ بازی کا روگ بھی پیدا کر دیا اور اردو زبان کی آبرو کہلانے والی غزل اس تحریک کے ہاتھوں بھی بے آبرو ہوئی۔ جدیدیت کے رجحان نے علامت اور اشاریت و رمزیت پر زور دے کر غزل کو اس کی آب و تاب لوٹائی تو افسانے کو منہ بند بنا کر اسے کہانی پن سے محروم کر دیا اور نظم کو بھی اتنا مبہم بنا دیا کہ اہمال کے نزدیک پہنچ گئی۔

مشتاق: ما بعد جدیدیت سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟

حنفی: جدیدیت کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ چند سکہ بند نقادوں کی جکڑ بندی اور تنگ نظری کے نتیجے میں رونما ہوئی تھی۔ ہندوستانی مابعد جدیدیت اپنے عہد کے دو با اثر تنقید نگاروں کی باہمی رسہ کشی کے نتیجے میں منظر عام پر آئی ہے لیکن ہر تخریب میں تعمیر اور ہر تعمیر میں تخریب کے عناصر بھی شامل ہوتے ہیں ۔ چنانچہ توقع ہے کہ اس کے وسیلے سے بالکل نئی نسل کو اپنی شناخت بنانے میں سہولت ہو گی۔

آفرین: ایک عمدہ شعر کی پہچان کیا ہے ؟ کیا اس کے اجزائے ترکیبی ہو سکتے ہیں ؟

مظفر حنفی: آفرین، جس طرح ایک اچھے انسان کی پہچان معیارات حالات اور زمانے کے تناظر میں متعین ہوتے ہیں اسی طرح جمالیات و شعریات ادب کا معاملہ ہے ۔ پھر وہ مثنوی کا ہے ، نظم کا ہے ، قصیدے کا ہے یا غزل کا؟ ان باتوں سے بھی فرق پڑے گا۔ بحیثیت مجموعی میں غزل کے شعر میں نئے خیال اور طرز ادا کی ندرت کو سب سے بڑا معیار قرار دیتا ہوں بشرطیکہ شعر پر تاثیر بھی ہو۔ زبان کی صحت، اسلوب کی برجستگی، فکر کی تازگی اور احساس کی شدت کو بھی اجزائے ترکیبی کی حیثیت حاصل ہے ۔ صنف سخن کا تعین ہو جائے تو ان کے اجزائے ترکیبی کو علمائے ادب نے بہت پہلے متعین کر دیا ہے ان کی پابندی کرنا ہو گا۔

مشتاق: مغربی بنگال میں نئی نسل کے شعرا کہاں تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں ؟ کیا شعر گوئی کے معاملے میں وہ محتاط اور دیانت دار ہیں ؟

مظفر حنفی: بھائی آپ کا سوال بہت خطرناک ہے اور اور بہتوں کو مجھ سے بد ظن کر سکتا ہے چوں کہ میری طبیعت میں منافقت نہیں ہے ، اس لیے واضح باتیں بے خوف و خطر کرتا رہتا ہوں ۔ اب بھی عرض کرتا ہوں کہ چند شعرا کو چھوڑ  کر یہاں کی نئی نسل شعر گوئی کے معاملے میں خاصی غیر محتاط ہے ۔ زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں سے اکثر عدم واقفیت کا ثبوت دیتی رہتی ہے اور ادبی و تخلیقی ذمہ داریوں کے تئیں بہت لاپروا ہے ۔ لیکن اس کے لیے میں نوجوانوں سے زیادہ ان سینیر شاعروں اور ادیبوں ، استادوں اور کہنہ مشق اہل قلم کو ذمہ دار قرار دیتا ہوں ، جنہوں نے ناجائز مقبولیت حاصل کرنے کے لیے سچ کہنے اور غلطی پر ٹوکنے کا فریضہ بروقت انجام نہیں دیا اور بے جا حوصلہ افزائی کے نام پر نئی نسل کو خام کاری پر آمادہ کرتے رہے ، جس کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ  گئی، تلفظ خراب ہو گیا، گرامر سے لاعلمی ہو گئی۔ اب خراب میدے ، باسی دودھ اور نقلی گھی سے اچھی مٹھائی کیسے بنائی جا سکتی ہے ؟ پھر بھی دو چار شاعر نئی نسل میں ضرور ایسے نظر آتے ہیں جن سے امیدیں وابستہ ہیں ۔

آفرین: افسانہ اور کہانی میں کیا فرق ہے ؟ بیش تر لوگ دونوں کو ایک ہی صنف تصور کرتے ہیں ؟

مظفر حنفی: میرے خیال میں کہانی، قصے اور حکایتوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے ، جس میں کوئی پر لطف اور عبرت انگیز واقعہ بیان کیا جاتا ہے ، جب کہ افسانہ کسی خاص نکتے پر زور دینے کے لیے نفسیاتی دروں بینی جذبات کی عکاسی کے لیے یا سیرت کے کسی نمایاں پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے جنم لیتا ہے ۔ لیکن ادھر چند برسوں سے اردو والوں نے کہانی کو بہ طور اصطلاح افسانے کا مترادف تسلیم کر لیا ہے ، کیوں کہ ہندی میں افسانے کے لیے یہی لفظ استعمال میں آتا رہا ہے ۔ اس لیے جو لوگ انہیں ایک ہی صنف تصور کرتے ہیں ان سے تعرض نہیں کرنا چاہیے ۔

مشتاق: درس و تدریس کے معاملے میں کلکتہ یونیورسٹی کی فضا کو آپ نے کہاں تک ساز گار پایا؟

مظفر حنفی: مشتاق میاں ، فجا خراب کیا بہت خراب تھی۔ اسے سازگار بنانے میں جان کھپائی ہے ۔ میں نے ۱۹۸۹؁ء میں شعبہ اردو کی اقبال چیئر پر بحیثیت پروفیسر جوائن کیا تو عالم یہ تھا کہ ایم اے (اردو) میں کل پچیس طلبا و طالبات کو داخلہ ملتا تھا۔ مہینوں کوئی کلاس نہیں ہوتی تھی۔ اساتذہ کہتے تھے کہ اسٹوڈنٹ نہیں آئے ، کسے پڑھانے کے لیے کلاس میں جائیں ۔ طالب علموں کا رونا تھا کہ دن بھر روم میں بیٹھ کر چلے آتے ہیں کوئی استاد زحمت ہی نہیں کرتا پھر یونیورسٹی میں حاضری دے کر وقت کیوں ضائع کیا جائے ۔ ایم اے اور بی اے کا نصاب آزادی کے بعد سے وہی چلا آ رہا تھا اور ہندوستان کی دیگر یونیورسیٹیوں کے مقابلے میں بہت ہی کمتر معیار کا تھا۔ اساتذہ میں ٹیوشن کی لعنت جڑ  پکڑ  رہی تھی۔ امتحانات کے پرچے تیار کرنے سے لے کر کاپیاں جانچنے اور نتیجہ تیار کرنے کا سب کام مقامی ٹیچر کرتے تھے ۔ امتحانات تین سال پچھڑے ہوئے تھے اور امتحان ہال میں نقل عام تھی۔ عموماً امید واروں کا امتحان ممتحنوں کے انصاف پر اعتماد متزلزل تھا۔ پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن بہت ہی سطحی بلکہ ایسے فضول موضوعات پر بھی ہو جاتا تھا جن پر اخبار میں ایک آدھ کالمی مضمون لکھ دینا کافی ہوتا ہے ۔ شعبے میں استاد بھی ضرورت کے اعتبار سے بہت کم تھے ۔ نیز استاد و شاگرد میں اس رشتہ کا سخت فقدان تھا، جس کے بغیر تعلیم و تربیت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ گذشتہ بارہ سالوں میں فجا کتنی تندیل ہوئی ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اب ایم اے (اردو) میں پچیس کی جگہ ۸۰ امیدواروں کو داخلہ ملتا ہے ۔ کلاسس پوری باقاعدگی سے ہوتی ہیں اور ۶۵ فیصد سے کم حاضری پانے والے طلبا کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یونیورسٹی میں میرا تیار کردہ نصاب تعلیم جاری ہوا اور اس کے معیار کو نمونہ قرار دے کر اب ہندوستان کی کئی دوسری معتبر یونیورسٹیوں نے اپنا نساب تیار کیا ہے ۔ اس کے طرز پر کالج سروس کمیشن نے مجھ سے SLETکا نصاب تیار کرنے کی ذمہ داری تفویض کی۔ بہت سے مقامی سینیر اساتذہ کی مخالفت کے باوجود میں نے بی اے (آنرس) اور پاس کورس کا نصاب بھی یکسر تبدیل کر دیا اور ہر سطح پر بنگال کے ادیبوں اور شاعروں کو نصاب میں شامل کر کے ان پرچوں کو لازمی قرار دیا گیا۔ ٹیوشن پڑھانے کے سلسلے میں اپنے قول و عمل سے اتنی بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا کہ اب شعبے کے اساتذہ اس کے نام سے بیزار ہو چکے ہیں ۔ امتحانات کو باقاعدہ کیا اور ہر سال کا امتحان بروقت ہونے لگا۔ نقل کے سلسلے میں اصولوں پر اتنی شدت سے کاربند رہا کہ یہ لعنت تقریباً ختم ہو گئی۔ ہرچند کہ مجھ پر سخت گیری کے الزامات بھی عائد کیے گئے ۔ امتحانوں کے پرچے بنانے ، جانچنے اور نتیجہ تیار کرنے کا ایسا سسٹم رائج کیا، جس میں ہیر پھیر کی گنجائش ہی نہیں تھی (سنتا ہوں کہ میرے سبکدوش ہوتے ہی پھر وہی پہلا سا طریق کار رائج کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ، کیوں کہ اس میں اساتذہ اور دفتری اہل کاروں کو سہولت رہتی ہے )۔ پچھلے دس بارہ برسوں میں آدھے ممتحن ہندوستان کی دیگر دانش گا ہوں کے ہوتے تھے ۔ پرائیوٹ امتحان دینے والے طلبا نے بھی اس مدت میں اعلیٰ پوزیشنوں سے کامیابی حاصل کی ہے ۔ پرچے کے سوالات آؤٹ ہونے اور Importantبتانے کی علت ختم ہو گئی۔ پیروی کرنے والے امیدواروں کی سختی سے سرزنش کی گئی اور کچھ کو سزائیں بھی ملیں ۔ ان برسوں میں پی ایچ ڈی کمیٹی کا کنوینر میں رہا سفارش کی بنا پر کسی غیر مستحق ریسرچ ا سکالر کو اس مدت میں داخلہ نہیں مل سکا اور ہمیشہ معیاری موضوعات کو ہی تحقیق کے لیے منظور کیا گیا جس کی ہندوستان بھر میں شہرت ہے ۔ شعبے میں اساتذہ کی کمی سے نمٹنے کے لیے مری تگ و دو کے نتیجے میں چھ جزوقتی لکچر ر فی الفور مقرر کیے گئے اور انہیں جہ صرف ریگولر اساتذہ کی طرح  اہم ذمہ داریاں اور اختیار تفویض کیے گئے بلکہ اعلیٰ کمیٹیوں میں مخصوص دعوت ناموں کے ذریعہ بلا کر مشاورت میں شامل کیا گیا۔ اساتذہ اور اسٹوڈنٹ کے درمیان خوشگوار تعلق قائم کرنے کے لیے نہ صرف ایک روزہ پکنک وغیرہ کا رواج عام کیا بلکہ شعبے میں پہلی بار تقریباً تیس اسٹوڈنٹ اور چھ اساتذہ دارجلنگ وغیرہ کے ہفتہ بھر کے تفریحی سفر پر گئے ۔ مزید برآں مسلسل لکھنے پڑھنے کی ایسی فضا بنائی کہ ہر سال شعبے میں استادوں میں سے کئی اپنی تصنیفات کو زیور طبع سے آراستہ کرنے لگے ہیں ۔ یہ سب کیسے ممکن ہو سکا اس کی طویل داستان کہیں اور بیان کی جائے گی لیکن شعبے کے رفقائے کار کی معاونت کے بغیر فضا کسی صورت میں سازگار نہیں ہو سکتی تھی۔

مشتاق: آپ مغربی بنگال اردو اکیڈیمی کے اہم رکن ہیں ۔ کیا آپ اکیڈیمی کی موجودہ کارکردگی سے مطمئن ہیں ؟ تقسیم ایوارڈ کے معاملے میں اکیڈیمی کہاں تک غیر جانب دار ہے ؟

مظفر حنفی: مطمئن تو خیر نہیں ہوں ، کیوں کہ ہر جگہ ترقی اور تغیر کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے ۔ لیکن گورننگ باڈی کا ممبر ہونے کے باعث اس بات کی شہادت دے سکتا ہوں کہ اردو اکیڈیمی کے کام اس کے لیے مقرر قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتے ہیں ۔ یہ فطری امر ہے کہ اس کے بعض فیصلوں سے باہر کے تمام لوگ اتفاق نہ کریں ۔ اگر تعمیری تنقیدیں کی جائیں تو ان کی روشنی میں اکاڈمی کو اپنے ضوابط میں مناسب تبدیلیاں کرنی چاہئیں ۔ مجھے اکثر امور میں  اختلافات ہوئے ان کا اظہار متعلقہ کمیٹیوں کی میٹنگ میں کرتا رہا ہوں ۔ لیکن فیصلہ کسی خاص شخص کی مرضی سے نہیں بلکہ ممبران کی کثرت رائے سے ہوتے ہیں ، اس لیے ان کا احترام کرنا لازم ہے ۔ اس سے زیادہ وضاحت کرنا گورننگ باڈی کے رکن ہونے کے ناتے میرے لیے مناسب نہیں ہے ۔

آفرین: آج کل اردو رسائل و جرائد کثرت سے شائع ہو رہے ہیں اور پھر چند شماروں کی اشاعت کے بعد ان میں سے بیش تر دم توڑ  دیتے ہیں ، آخر اس کا سبب کیا ہے ؟

مظفر حنفی: آفرین، میں سمجھتا ہوں نا تجربہ کاری اس کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ حالات کا بغور جائزہ لیے بغیر محض شوق کی تسکین کے لیے پرچہ جاری کر لینا اور ہے ، اسے جاری رکھنا، خود کفیل اور پھر منافع بخش بنانا، اس کی پالیسی متعین کرنا، سرکولیشن بڑھانا، اشتہارات حاصل کرنا، معیار کو مسلسل بلند کرتے رہنا نئے مدیران کو نہیں آتا۔ ایک ہی شخص مدیر سے لے کر پروف ریڈر اور نامہ بردار تک سب کام بغیر کسی پلاننگ کے کرتا ہے اور یہ سب کسی خاص مقصد مناسب سرمائے اور خلوص کے ساتھ نہیں ہوتا صرف ایڈیٹر کہے جانے اور زیادہ محنت کے بغیر ادبی حلقوں میں جلدی معروف ہو جانے کی سطحی خواہش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رسالے دو چار شماروں کے بعد پردۂ خفا میں چلے جاتے ہیں ۔ اردو والوں کے پرچے خرید کر نہ پڑھنے کی ادا اس کمزوری کا ایک اور بڑا سبب ہے ۔

آفرین: مغربی بنگال میں اردو زبان کا مستقبل کیا ہے ؟ اردو سے متعلق ریاستی حکومت کے رویے سے آپ کہاں تک مطمئن ہیں ؟

مظفر حنفی: چار پانچ برس پہلے بی بی سی(لندن) نے اس موضوع پر مجھ سے مفصل انٹرویو لیا تھا جو دو قسطوں میں نشر کیا گیا( اس کا متن میرے سفر نامے ’’چل چنبیلی باغ میں ‘‘ کے ضمیمے میں شامل ہے )۔ یہاں مختصراً عرض کروں گا کہ اردو کی حالت ہندوستان کی ان ریاستوں میں زیادہ خستہ ہے جہاں کی سرکاری زبان ہندی ہے ۔ غالباً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اردو کی ترقی سے ہندی کی مقبولیت کم ہو گی۔ گجراتی، تیلو، مراٹھی، بنگلہ وغیرہ زبانوں سے متعلق ریاستوں میں اردو کا حال یقیناً بہتر ہے اور وہاں مستقبل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بنگال کی ریاستی حکومت نے اردو کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ دوسری ہندی ریاستوں کے مقابلے میں بہت بہتر سہی لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ اردو ا سکولوں کے اساتذہ کی اسامیاں بڑھنی چاہئیں ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کالی جگہوں پر تقرر جلد کیے جائیں اور کلکتہ یونیورسٹی کے علاوہ کم از کم دیگر یونیورسٹیوں میں بھی اردو میں ایم اے کی تعلیم کا بندوبست ہونا چاہیے ۔ در اصل اس ریاست میں عوام اردو کی تحریک اس جوش و خروش کے ساتھ نہیں چلاتے جیسا کہ مثال کے طور پر بہار والے چلاتے ہیں ۔

آفرین: یہاں کے اردو والوں کا آپ کے ساتھ کیسا رویہ رہا؟

مظفر حنفی: کلکتہ اور ریاست بنگال کے دوسرے شہروں میں اردو والوں نے مجھے آنکھوں پر بٹھایا اور دلوں میں جگہ دی جس کے لیے میں عمر بھر ممنون و مشکور رہوں گا۔ یہاں اپنے بارہ سال قیام کے دوران یاد نہیں آتا کہ کوئی بڑا ادبی مشاعرہ یا تقریب ایسی ہوئی ہو جس میں مجھ کو بحیثیت صدر یا مہمان خصوصی مدعو نہ کیا گیا ہو۔ اپنی خرابی صحت یا عدم مصروفیت کی وجہ سے اکثر معذرت خواہی کر لیتا تھا۔ خصوصاً گذشتہ دو برسوں میں بہت کم جلسوں میں شرکت کی، کیوں کہ کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ’’وضاحتی منصوبے ‘‘ کے تحت بہت قلیل مدت میں بڑے پروجیکٹ کی بائیس جلدیں مکمل کرنی تھیں اور اسی دوران میں بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسے مرض کا شکار بھی ہو گیا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ اردو داں اور اردو کے اہل قلم نے مجھے بے حد احترام، محبت، اپنائیت سے نوازا۔ میری حق گوئی اور بے باک مشوروں کو قبول کیا۔ نیز بڑی سے بڑی شخصیت کی ادبی خامیوں کو برسر جلسہ نشان زد کرنے کے باوجود میری نیت اور خلوص پر شبہ نہیں کیا گیا۔ اس کا اس سے بڑا دوسرا انعام نہیں ہو سکتا۔ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات اور اردو ڈپارٹمنٹ کے ساتھیوں سے بھی بے پناہ مجھے اور احترام ملا۔ سب کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ میری تلخ و ترش باتوں ، اعتراضات اور بے لوث طرز عمل کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ پچھلی دہائی میں جتنی تعداد میں سہ ماہی رسائل اور ماہنامے شائع کیے گئے اتنے آزادی سے قبل یا آزادی کے بعد کی دہائی میں کبھی نہیں شائع ہوئے ۔ اب شاعر، بھی تبدیل ہوا ہے اور تقلید کی جگہ رفتار لے رہی ہے اس علاقے کے شعرا اور ادبا اور ان کی کتابوں پر تبصرے ہندوستان کے معیاری پرچوں اور بعض پاکستانی جریدوں میں بھی چھپنے لگے ہیں ۔ اب ادبی محفلوں میں شاعر کچھ احتیاط سے کام لیتے ہیں اور تلفظ کی صحیح ادائیگی کی کوشش کرتے ہیں ۔ یعنی گاڑی حرکت میں آ گئی ہے جلد ہی رفتار اور تیز ہو جانے کا یقین ہے ۔

مشتاق: آپ کی نظر میں آزاد نظم کی حیثیت کیا ہے ؟

مظفر حنفی: بھائی مشتاق حامی! آزاد نظم اردو کیا عالمی ادب کی ایک اہم اور کار آمد صنف سخن ہے ، جس کے وسیلے سے بہت سے بڑے فن کار ابھرے ہیں ۔ اس کی خرابی بس اتنی ہے کہ پابند شاعری کے مقابلے میں بہت آسان ہے ۔ اس لیے اکثر فن سے نابلد متشاعروں نے اس کو اپنی تشہیر کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ اب تو ان لوگوں کے لیے نثری نظم بھی وجود میں آ گئی۔

آفرین: ہندوستانی ادب اور بیرونی ممالک کے ادب میں کہاں تک مماثلت پائی جاتی ہے ؟

مظفر حنفی: میں بیرونی ملک کے ادب سے محض انگریزی کے ذریعہ واقف ہوں ۔ اصناف ادب کے موضوعاتی اور ہیئتی تقاضے سے بالاتر ہو کر دیکھیں تو ہر ادب اپنی ہم عصر زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ خواہ یہ آئینہ اردو کے فریم میں جڑا ہو یا فرانسیسی طرز کو ہو عکس اس میں زندگی کا ہی ہو گا۔

مشتاق: آپ اپنی شاعری سے کہاں تک مطمئن ہیں ؟ اگر مطمئن ہیں تو پھر مزید شعر کہنے کی کیا ضرورت ہے ؟

مظفر حنفی: آپ سے کس نے کہا کہ میں مطمئن ہوں اپنی شاعری سے ؟ میرا ایک شعر ہے :

وحشت کب رہنے دیتی ہے گھر پچیسوں بار بنایا

تا حال اٹھارہ سو سے زائد غزلیں ، دو سو کے قریب نظمیں ، سات آٹھ درجن رباعیاں اور دیگر تخلیقات وجود پا چکی ہیں ۔ لیکن لگتا ہے اندر کا لاوا اور بڑھ گیا ہے ۔ ابھی بہت کچھ کہنا ہے ۔ آپ کی دنیا بھی تو کتنی ٹیڑھی میڑھی ہے !

مشتاق: کیا شاعر کے لیے زود گوئی اور بسیار نویسی بھی ضروری ہے ؟

مظفر حنفی: قطعی ضروری نہیں ۔ یہ تو شاعر کے ظرف اور افتاد و استعداد پر منحصر ہے ۔ غالبؔ بہت کم کہہ کر عظیم کہلائے ۔ میر تقی میر اور اقبال بھی عظیم شاعروں میں ہیں اور دونوں نے بہت کہا ہے لیکن ایک پیمانہ یہ ضرور ہے کہ اچھا کہو خواہ کم ہو۔ اچھا بھی ہو اور زیادہ بھی تو سبحان اللہ نشان خاطر رہے کہ بہت کم کہنے والوں میں بہت خراب کہنے والے بھی موجود ہیں !

مشتاق: آپ کی نظر میں ہندوستان کا سب سے بڑا ناقد اور شاعر کون ہے ؟

مظفر حنفی: میر تقی میر نے تو ویسے ہی کسی سوال کے جواب میں سودا کی ہجو نگاری کے خوف سے اپنے ساتھ ان کا نام بھی شامل کر لیا تھا۔ ہمارے دور میں تو بفضلہٖ سوداؔ جیسا کوئی ہجو گو موجود نہیں ہے ۔ سنجیدہ جواب یہ کہ بھائی ابھی ہندوستان میں زندگی بسر کرنی ہے ۔ ایسے سوالوں کے جواب دے کر جان خطرے میں نہیں دالوں گا۔ ہر گروپ کا اپنا بڑا بلکہ عظیم شاعر موجود ہے اور ہر جماعت نے قد آور نقاد کھڑے کر رکھے ہیں ۔ فیصلہ آنے والی نسلیں کر دیں گی۔ ایک لطیفہ سنیے ۔ پروفیسر وشنو کانت شاستری اس وقت کلکتہ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ ہندی تھے ۔ موصوف اجودھیا سے کارسیوا انجام دے کر لوٹے تو یونیورسٹی کے اسٹاف روم میں ملاقات ہوئی۔ بندگی کے بعد مصافحے کو ہاتھ بڑھایا تو بھائی نے کچھ اتنی زور سے اور ایسے رخ سے دبایا کہ جان ہی نکل گئی۔ عرض کیا حضرت، یہ غریب حنفی کا ہاتھ ہے آپ اسے بابری مسجد کیوں سمجھ رہے ہیں ۔ آپ کا موجودہ استفسار بھی کچھ ایسے ہی رخ سے کیا گیا ہے !

آفرین: ایک اچھے شاعر یا تخلیق کار ہونے کے لیے کن لوازمات کا ہونا ضروری ہے ؟

مظفر حنفی: پہلے تو وہ مادہ یا صلاحیت، ’تا نہ بخشد خدائے بخشندہ‘ کسی کاوش یا تربیت سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اگر یہ وہبی وصف موجود ہے تو شاعر یا تخلیق کار کو مسلسل کاوش، مطالعے ، مشاہدے اور تجربے سے اسے بڑھاتے رہنا چاہیے ۔ اطہار پر قدرت، زبان پر مہارت ، احساس میں شدت، طرز ادا میں ندرت بھی شرط ہے ۔ اپنی زبان کے ادب پر نظر ہونی چاہیے اور کسی دوسری بڑی عالمی زبان کی مدد سے بیرونی دنیا کے ادب کا مطالعہ بھی لازمی ہے ۔

آفرین: بنگال میں اپنے ہم عصر شاعروں میں آپ کس سے زیادہ متاثر ہیں اور کیوں ؟

مظفر حنفی: بیٹی! تم بھی ایک لطیفہ سنو۔ کلکتہ آمد کے تین سال بعد میرے وائس چانسلر نے پوچھا حنفی صاحب اب تو آپ کو بنگلہ زبان آ گئی ہو گی۔ میں نے کہا جناب میں اپنی اردو بچانے میں لگا رہتا ہوں بنگلہ کب اور کیسے سیکھتا؟ تمہارے سوال کا جواب بھی اس لطیفے سے نکلتا ہے ۔

مشتاق: اقبال کی حیثیت آپ کی نظر میں ؟ کیا فیض بڑے شاعر نہیں تھے ؟

مظفر حنفی: بے شک اقبال ہمارے تین شاعروں میں سے ایک ہیں ۔ اردو نے اتنا بڑا نظم نگار تا حال نہیں پیدا کیا۔ ان کے فن اور شخصیت پر سینکڑوں کتابیں آ چکی ہیں ۔ اس لیے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ فیض یقیناً اچھے اور اہم شاعر ہیں لیکن انہیں عظیم نہیں کہوں گا۔

مشتاق: کیا مشاعروں کی افادیت آج بھی مسلم ہے اور آج کے مشاعرے بقائے اردو کے ضامن ہیں ؟

مظفر حنفی: حال ہی میں ماہنامہ ’’افکار‘‘ کراچی نے اس موضوع پر میرا مضمون بطور اداریہ شائع کیا ہے ۔ تفصیل تو وہاں مل جائے گی لیکن مختصراً عرض ہے کہ اپنی سطحیت اور مضر اثرات کے با وصف آج بھی مشاعروں سے اردو کی بقا میں مدد مل رہی ہے کچھ اصلاح ہو جائے ۔ ان سے متشاعروں ، گوئیوں ، اداکاروں ، ادبی طوائفوں ، بھانڈ گردی کرنے والے مزاحیہ شعرا کو دور رکھا جائے تو مشاعروں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ہر مشاعرے میں عوامی مقبولیت کے حامل چند اچھے اور سچے شاعروں کے ہم راہ ادبی مرتبہ رکھنے والے شاعروں کی کثرت ہونی چاہیے ۔ جیسا کہ جوش و جگر کے زمانے میں ہوتی تھی۔

 

چلتے چلتے

               خورشید جہاں مومنؔ

٭       آپ کا پسندیدہ رنگ، غذا اور مقام

            ہلکا نیلا، کباب اور کھنڈوا

٭       آپ کی پہلی تصنیف

            ’’جم کا غصّہ‘‘ مطبوعہ کھلونا ۱۹۴۹؁ء،  ۱۳ سال کی عمر میں

٭       آپ کا پہلا پیار/عشق

            اسے صیغۂ راز میں رہنے دیں

٭       آپ کی زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ

            جب میری پہلی کتاب شائع ہوئی

٭       آپ کی وہ خواہش جو پوری نہیں ہوئی

            کہ دنیا کی ٹیڑھ نکال دوں

٭       ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ، کیا آپ کے پیچھے بھی

            اور ہر کامیاب عورت کے پیچھے بھی مرد کا ہاتھ ہوتا ہے

٭       آپ کا پہلا جھوٹ

            یاد نہیں

٭       آپ کی زندگی کا سب سے غمگین لمحہ

            شاد عارفیؔ کی وفات

٭       آپ کو کس سے نفرت ہے

            ریا کاری سے

٭       مغربی بنگال میں اردو کا مستقبل

            ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں روشن تر ہے

٭       آپ کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ

            سعادت منہ اولادیں اور با صلاحیت شاگرد

٭       وہ چیز جو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں

            خود داری

٭       ۲۱!ویں صدی میں اردو

            اردو دانوں کے رویے پر منحصر ہے

٭       نئی نسل کے لیے کوئی مشورہ

            کامیابی کا کوئی چور دروازہ نہیں ، مسلسل محنت اور کاوش ضروری ہے

٭٭٭

مصنف اور پرویز مظفر کی اجازت اور تشکر کے ساتھ، جنہوں نے مواد کی فائلیں فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید