FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

نظم کے نئے معمار۔رفیق سندیلوی

               محرک: زیف سید (ظفر سید)

فیس بک کے حاشیہ ادبی گروہ کے آن لائن مباحثے کا سکرپٹ

 

۔۔ ساتواں اجلاس

نظم کے نئے معمار کے ساتویں اجلاس میں سب دوستوں کا خیرمقدم ہے۔ اس اجلاس کے شاعر رفیق سندیلوی ہیں ، صدارت کے فرائض تصنیف حیدر سرانجام دیں گے، جب کہ ابتدائیہ معید رشیدی نے لکھا ہے۔

کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا

               رفیق سندیلوی

گُلِ اِنفصال پذیر ہوں

مَیں نے تیری شاخ سے ٹوٹ کر

کسی اور باغ کا رُخ کیا

تو کھُلا کہ خو شبو جو مجھ میں تھی

بڑے خاص طرز و حساب کی

کسی آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب کی

مرے رنگ و روغنِ جسم میں

جو عمیق نوع کا درد تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو سُرخ تھا

مَیں کہیں کہیں سے جو زرد تھا

مرے زرد و سُرخ کے درمیاں

وہ جو اِک حرارتِ لمس تھی

وہ فنا ہوئی

!مری پتّی پتّی بکھر گئی

وہ دھُندَلکا تھا کسی صبح کا یا کہ شام کا

مَیں پڑا تھا خشک زمین پر

تری شاخِ سبز کے دھیان میں

کہ عجیب واقعہ ہو گیا اُسی آن میں

مری پتّی پتّی جو اِنقطاع کے دُکھ میں تھی

وہ ہوائے غیب کے زور سے

اُسی ضبط و بست میں آگئی

وُہی ضبط و بست جو مجھ میں تھا

وُہی کیفِ ہست جو مجھ میں تھا

مَیں دوبارہ جمع ہوا تو پھر

تری شاخِ تَر کی طرف اُڑا

عجب اِک نشاطِ مراجعت مرے دِل میں تھی

مرے زرد و سُرخ کے درمیان کے تِل میں تھی

یہ خیال تھا

فقط ایک دِن کی مَسافرت پہ تو وصل ہے

مری اصل ہے

مگر اب کے بیچ کا فاصلہ

کئی نوری سال میں طے ہوا

وہاں پہنچا، دیکھا تو اُس جگہ

تری شاخ تھی نہ ہی باغ تھا

وہ جو تھی نشاطِ مراجعت

وہ جو اِنسِلاک کی تھی خوشی

وہ فنا ہوئی

مری پتّی پتّی جو جُڑ گئی تھی

پھر ایک بار بکھر گئی!

وہ دھُندَلکا تھا کسی صبح کا یا کہ شام کا

مَیں اُسی طرح ہی پڑا تھا خشک زمین پر

تری شاخِ تَر، تری شاخِ سبز کے دھیان میں

کہ عجیب واقعہ ہو گیا اُسی آن میں

مری پتّی پتّی

جو اِنقطاع کے دُہرے غم میں نڈھال تھی

وہ ہوائے غیب کے زور سے

پھر اُسی طرح ہی کے ضبط و بست میں آ گئی

وُ ہی ضبط و بست جو مجھ میں تھا

وُ ہی کیفِ ہست جو مجھ میں تھا

مگر اَب کے یک جا ہوا تو مَیں

کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا

وہیں اَپنے روغنِ حُسن میں

وہیں اَپنے حجلۂ رنگ میں

وہیں اَپنے مرکزِ درد میں

وہیں اَپنے سُرخ میں ، زرد میں

وہیں اَپنے مُشکِ وُجود ہی میں پڑا رہا

!! کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا

٭٭٭

 

تصنیف حیدر: محترم حضرات! حالانکہ میں ہندوستان میں اور حاشیہ میں موجود معید رشیدی، فیاض احمد وجیہ جیسی قابل شخصیات کے ہوتے ہوئے خود کو بالکل اس ذمہ داری کے لائق نہیں گردانتا ہوں مگر میں نے یہ فریضہ حاشیہ کے اہم مذاکراتی سلسلے کے جاری رکھنے کے لیے قبول کر لیا ہے۔ اس اعتراف سے آگے بڑھ کر میں معید رشیدی صاحب سے درخواست گزار ہوں کہ وہ اپنا ابتدائیہ پوسٹ کریں تاکہ رفیق سندیلوی کی نظم پر باقاعدہ گفتگو کا آغاز ہوسکے۔ امید ہے ہم سب اس نظم کی تفہیم و تعبیر کی گہرائی ناپنے کے لیے حتی المقدور کوشش کریں گے۔ رفیق سندیلوی ہمارے عہد کے ایک ممتاز نظم نگار ہیں ، جن کی نظم پر ارکان حاشیہ روشنی ڈالیں گے -اب ظفر سید صاحب سے ایک صراحت بھی چاہوں گا کہ میرے خیال میں یہ حاشیہ کا ساتواں نہیں آٹھواں اجلاس ہے، کیا میں صحیح ہوں ؟

ظفر سیّد: جنابِ صدر، یہ حاشیہ کا آٹھواں اجلاس ضرور ہے، لیکن حاشیہ کے ذیلی سلسلے "نظم کے نئے معمار” کا ساتواں اجلاس ہے۔ ضیا جالندھری صاحب چوں کہ آزاد نظم نگاروں کی پہلی نسل سے تعلق رکھتے تھے اس لیے انہیں اس سلسلے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

تصنیف حیدر: بہتر ہے، میں دراصل پچھلے اجلاس میں یامین صاحب کے صدارتی خطبے کو پڑھ کر کنفیوز ہو گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "محترم اراکینِ حاشیہ! آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے حاشیے کے ساتویں اجلاس میں شرکت کی” اب امید کرتا ہوں کہ آپ کی وضاحت کے بعد میرے ساتھ ساتھ دوسرے "حاشیہ برداروں "” کی الجھن بھی سلجھ گئی ہو گی

ظفر سیّد: معید رشیدی صاحب کا ابتدائیہ پیشِ خدمت ہے

 

 صدر اجلاس و معزز اراکین حاشیہ

 کیا یہ سچ ہے کہ ایک نظم جتنی مبہم ہو گی، اتنی ہی اچھی یا تہ دار ہو گی؟میرا معروضہ اس کے بر عکس ہے۔ اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ جو نظم ابہام سے جتنی مبرا ہو گی، اتنی ہی اچھی یا کامیاب ہو گی۔ نظم میں اگر ابہام نہ ہو تو نظم کا قیام ممکن ہی نہیں۔ ابہام مانوس کو نامانوس بناتا ہے۔ اگر سیدھے سادے لفظوں میں بات کرنی ہے تو نظم کے بجائے کہیں اور سر کھپائیے۔ پھر منہ چھپانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ ابہام سے کوئی نظم نہ تو چیستاں بنتی ہے اور نہ مبالغے سے کوئی نظم لغویات کے دائرے میں آتی ہے۔ ہماری شعریات میں مبالغہ انتہائی بنیادی عنصر ہے اور ابہام سے مفر نہیں۔ استعارے سے کوئی بچتا ہے تو اپنا نقصان کرتا ہے۔ علامت سے کوئی خوف کھاتا ہے تو اس کی بصیرت مجروح ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں کسی نظم کے اچھے برے ہونے کا معیار کیا ہو گا؟ کیا آپ ابہام سے نفرت کرتے ہیں ؟کیا مبالغے سے آپ کا دم الٹتا ہے ؟ کیا استعارہ آپ کو الجھن میں مبتلا کرتا ہے ؟ کیا علامت اور تمثیل سے آپ خوف کھاتے ہیں ؟ اگر یہ درست ہے تو معاف کیجیے، یہاں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ آپ ہلکان بھی ہوں گے اور آپ کا قیمتی وقت بھی ضائع ہو گا۔ اور اگر آپ تخلیق کے اسرار سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں ، مطالعۂ شعر میں تخلیقی عناصر کی تلاش اگر آپ کا مقصود ہے، اگر خلا میں رنگ بھرنا آپ کا شوق ہے اور اگر آپ اجنبی منطقوں سے گزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو اس بزم میں آپ کا خیر مقدم ہے !۔

 حاشیہ کے گزشتہ تمام اجلاس اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اس کے اراکین متن پر سنجیدگی سے مکالمہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امید ہے اس نظم پر بھی ویسے ہی گفتگو ہو گی جو اس فورم کا معیار و امتیاز ہے۔ رفیق سندیلوی کی یہ نظم افہام و تفہیم میں ٹھہراؤ کی متقاضی ہے۔ داخلی و خارجی، دونوں سطح پر بڑی روانی محسوس ہوتی ہے، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ زیادہ سے زیادہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سماعت کو اس کی ساخت بھلی معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کے بطن میں اتریے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنت میں جو کلیدی وصف ہے وہ ابہام ہے۔ میں پھر اپنا سوال دہراؤں گا۔ کیا یہ سچ ہے کہ ایک نظم جتنی مبہم ہو گی، اتنی ہی اچھی یا تہ دار ہو گی؟ اور اس بار بھی میرا معروضہ اس کے بر عکس ہے۔ یعنی ابہام کی کثرت بعض اوقات عیب ہے۔ شعر چیستاں ہو جائے تو جنگل کا کتا ہو جاتا ہے۔ وہ بھونکتا رہے، ہاتھی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ تو کیا یہ نظم بھی چیستاں ہے ؟ کیا یہاں ابہام عیب کی منزل میں ہے ؟ کیا اس نظم کا چہرہ متشکل ہو پایا ہے ؟ اور ہو پایا ہے تو اس کا جمال کیا ہے ؟ قاری اگر تربیت یافتہ نہ ہو تو قرأت میں دشواری تو ہو گی۔ نظم کی روایات اور ابہام کی جمالیات سے ہم آہنگ نہ ہو تو معنوی طرفیں کھلنا محال ہو جائے گا۔ اول تو عنوان ہی مبہم ہے۔ پھر عرصۂ متن کی تفہیم بھی کچھ آسان نہیں۔ زمان و مکان کا تعین الگ مسئلہ ہے۔ تین ٹکڑوں میں اس نظم کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ بحر کامل /متفاعلن کی گردان ہے۔

نظم خود شناسی کے داخلی فلسفے پر ہے۔ اس کے مفہوم تک رسائی کے لیے اس کے علائق و علائم پر توجہ ضروری ہے۔ رعایتیں معنوی تہ داری میں چمکتی ہیں۔ کوئی انھیں چھیڑے تو آب، مآب تک پہنچتا ہے۔ ، گل ’ مرکزی کردار ہے۔ کیا ہے یہ گل؟، میں ’ گل کے پیراہن میں کیا گل کھلاتا ہے ؟ کیا بتانا چاہتا ہے ؟ نارسائی کی روداد؟ اپنی بے بسی کی کہانی؟ اگر یہ نارسائی کی روداد ہے تو اس کا انجام کیا ہے ؟ کہانی کا کلائمکس کیا ہے ؟ ،میں ’ /انسان کی اصل کیا ہے ؟ کیا اصل کا جوہر ، وصل ’ میں ہے ؟ کیا یہ محض قافیہ اور خوش آہنگی کے قیام کے لیے ہے ؟ اگر نہیں تو، وصل’ کی اصل کیا ہے ؟ کیا وصل ممکن ہے ؟ کم سے کم اس نظم کا منظرنامہ تو یہی بتاتا ہے کہ وصل ممکن نہیں۔ وصل کی واحد صورت خود شناسی یا عرفان ذات ہے ؟ جس نے خود کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا۔ خودی خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ آدمی اپنی آدمیت کی سزا کاٹ رہا ہے۔ گل کی نسبت باغ، شاخ، خوشبو، پتی، رنگ و روغن /سرخ و زرد …یہ سب خارجی علائق ہیں۔ ہر شے اپنے مرکز کی طرف لوٹتی ہے۔ اس عمل میں وقت لگ سکتا ہے۔ اس دوران خواب بنتے بھی ہیں ، ٹوٹتے بھی ہیں۔ رد و تشکیل کے طوفان میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔

 مذہبی بیانیہ ہے کہ آدمی بنایا گیا تھا جنت کے لیے، لیکن جنت سے نکالا گیا۔ پھر خیر و شر کے معیار سے کہانی میں کشمکش پیدا کی گئی۔ کہانی میں جان پڑ گئی۔ اس سمندر میں چھوٹے چھوٹے ٹیلے ہیں۔ زمین پر قدم رکھنا پانی کے مسافر کے مقدر میں نہیں۔ ارے جناب، میں بھی کہاں سمندر اور ٹیلوں پھنس گیا۔ اس نظم میں دو مرکز ہیں۔ اس کے درمیان فاصلہ کئی نوری سال کا ہے۔ ایک دن کا وصل فریب ہے۔ دو مراکز کیا ہیں ؟ ،شاخ سبز’ اور، خشک زمین ’۔ ایک شاداب، ایک بنجر۔ یہی ادراک خنجر چبھوتا ہے اور عمیق نوع کا درد پیدا کرتا ہے۔ یہ ہجرت ہے، نقل مکانی ہے، نقل زمانی ہے، محض ایک خواب ہے یا فریب؟ خدا کی قسم مجھے نہیں معلوم۔ مجھے تو شاخ سبز پر خواہشِ،وصل ہے۔ اگر خواہش وصل ہے تب تو ٹھیک ہے، لیکن قبلہ اگر آپ کا مرکز ہی وصل ہے تو خشک زمین (خارج) سے شاخ سبز (داخل)، یعنی مرکز، یعنی وصل تک پہنچنے میں نوری سالوں کا ناتمام سلسلہ ہے۔ اسے عبور کرتے ہوئے آپ خود نور بن جائیں گے۔ قطرہ، دریا میں مل جائے گا۔ کیا یہی عرفان ذات ہے ؟ اگر یہی عرفان ذات ہے تو خود شناسی کا یہ داخلی فلسفہ توجہ چاہتا ہے۔ اگر آپ تصوف میں یقین رکھتے ہیں تو فنا اور بقا کے مسائل کو سمجھیے۔ اگر آ پ مسائل تصوف میں غالب نہیں تو اپنے وجود، اپنی مٹی اور اپنے علائق میں زندہ رہیے۔ یہی آپ کی بقا ہے :

 مگر اب کے یک جا ہوا تو میں

 کسی رخ کی سمت نہیں اڑا

 وہیں اپنے روغن حسن میں

 وہیں اپنے حجلۂ رنگ میں

 وہیں اپنے مرکز درد میں

 وہیں اپنے سرخ میں ، زرد میں

 وہیں اپنے مشک وجود ہی میں پڑا رہا

 کسی رخ کی سمت نہیں اڑا

 بھئی یہ شاعر تو مجھے بڑا چالاک جان پڑتا ہے۔ میں نے تو بڑے ہچکولے کھائے۔ اب آپ بھی تیار ہو جائیے۔ بسم اللہ!۔

معید رشیدی: شکریہ ظفر سید صاحب۔

ظفر سیّد: جناب صدرِ: شہزاد نئیر صاحب کا ان پیج میں لکھا ہوا تبصرہ پیشِ خدمت ہے :

 جدید نظم اپنے ساتھ اظہار کے بہت سے نئے قرینے لے کر آئی ہے۔ اس سے نہ صرف نئے موضوعات کے فنکارانہ اظہار کی راہ ہموار ہوئی ہے بلکہ پرانے موضوعات کو نئے ڈھنگ اور نئی لفظیات میں ادا کرنے سے حقیقت کے وہ گوشے بھی حیطۂ نور میں آ گئے جو تاریکی میں پڑے تھے۔ حقیقت نہ تو مستقیم ہوتی ہے اور نہ یک رُخی۔ یہ وہ کثیر سمتی احساس ہے جو زماں ، مکاں اور بیاں کے ساتھ ہر آن بدلتا اور متنوّع شکلوں میں جلوہ فرما ہوتا ہے۔ جدید نظم نے احساسِ حقیقت کے نو بہ نو قرینوں کے ساتھ ساتھ ادراکِ حقیقت اور بیانِ حقیقت کی بھی نئی جہتیں کھولی ہیں۔ یہ کام شاعری کی کوئی اور صنف اتنے بڑے پیمانے پر نہیں کر سکی۔ نئی نظم نے جدید طرزِ احساس کے مینار سے حیات و کائنات کو بہ نظر دگر دیکھنے کا گُر سیکھا تو اُسلوب اور لفظیات کی سطح پر روایتی نظم سے الگ ہو کر کھڑی ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ نئی نظم شاعری کی دیگر اصناف سے بڑھ کر عہدِ جدید کے فکری منظر نامے سے منسلک ہے۔ اگرچہ نئے عہد کو نئے پیرائے میں بیان کرنے کی کاوش اپنی بنیادوں پر مضبوط ہو چکی ہے۔ پھر بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ روایتی اسلوبِ شاعری اور کہنہ طرزِ احساس سے جدا اس صنفِ سخن کے تجزیاتی مطالعے کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین اس کے بے پناہ امکانات سے آگاہ ہوں اور تحصیل معانی کے بہجت افروز عمل میں شریک ہوں۔

 جدید نظم کے بڑے اور معتبر ناموں میں رفیق سندیلوی کا نام بھی شامل ہے۔ انھوں نے تسلسل اور تواتر کے ساتھ اعلیٰ درجے کی نظمیں تخلیق کی ہیں۔ وہ نئی نظم کے اسلوبیاتی وظائف سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ انھوں نے استعارہ۔ تمثال، علامت اور امیجری کا استعمال وسیع پیمانے پر کیا ہے۔ وہ بصری تمثالوں اور امیجری کے فنکارانہ اور تخلیقی اظہار سے معانی کی ایک نئی دُنیا خلق کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ نئی نظم پر وارد ہونے والے اعتراضات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ابہام اور پیچیدگی کے سبب ترسیل اور لطفِ سخن سے محروم رہتی ہے مگر رفیق سندیلوی کی یہ نظم گواہی دے رہی ہے کہ وہ اپنے اظہار، علامتی نظام اور اشاراتی فضا کے باعث مکمل طور پور جدید ہے تو دوسری طرف گھلاوٹ، تاثیر اور حُسنِ سخن سے بھی لبریز ہے۔ رفیق سندیلوی کا طرزِ احساس دیو مالائی، اساطیری دھُندلکوں میں عہدِ جدید کے کوندے (sparks) دیکھنے سے عبارت ہے جو زیر تجزیہ نظم سے بھی مترشح ہے۔

 "کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا”رفیق سندیلوی کی نظمیہ تکنیک سے منسلک ایک ایسی نظم ہے جس میں بڑے موضوع کو یکسر جُدا ڈھنگ سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ نظم تین حصوں /ٹکڑوں پر مشتمل ہے جو تین الگ الگ لیکن باہم دگر منسلک واقعات کا شعر ی بیان ہے۔ نظم کے پہلے تین مصرعے یہ ہیں :

 گُلِ اِنفصال پذیر ہوں

 مَیں نے تیری شاخ سے ٹوٹ کر

 کسی اور باغ کا رُخ کیا

 یہ مصرعے ایسا ہی بیانیہ ہیں جو کسی کہانی کے آغاز میں ہونا چاہیے۔ ایک پھول کسی کی (اپنی نہیں ) ٹہنی سے جُدا ہو کر کسی اور باغ میں جا تا ہے۔۔۔ خیال رہے کہ پھول شاخ سے ٹوٹ کر روایتی معنوں میں باغ میں نہیں جاتا۔۔۔ وہ بازار جا سکتا ہے، کسی کی زلفیں سجا سکتا ہے یا کسی کی تربت۔ نظم نگار نے پھول کو باغ کا رُخ کرتے دِکھایا ہے۔ یعنی وہ ایک اور، ایک جُدا باغ ہے۔ آگے چل کر کھلے گا کہ کس طرح نظم نگار نے زمین یا دُنیا کودوسرا باغ قرار دیا ہے۔ ابھی آپ نظم کی اگلی سطریں پڑھیے :

 تو کھُلا کہ خو شبو جو مجھ میں تھی

 بڑے خاص طرزو حساب کی

 کسی آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب کی

 مرے رنگ و روغنِ جسم میں

 جو عمیق نوع کا درد تھا

 مَیں کہیں کہیں سے جو سُرخ تھا

 مَیں کہیں کہیں سے جو زرد تھا

 مرے زرد و سُرخ کے درمیاں

 وہ جو اِک حرارتِ لمس تھی

 وہ فنا ہوئی

 مری پتّی پتّی بکھر گئی!۔

 اِن سطروں میں شاعر نے شاخ سے پھول کے انقطاع اور پھر کسی اور باغ کا رُخ کرنے کے بعد(اور باعث)رونما ہونے والے المیہ واقعات کا کفایتِ لفظی سے بیان کیا ہے۔ اس علیحدگی کے باعث بہت سی چیزیں فنا ہوئیں۔ بالآخر گُل کا پتّی پتّی بکھر جانا اس حصے کا اختتامیہ بنا ہے۔ اس حصے کی قرأت کے دوران جہاں نظم کا بے پناہ بہاؤ، مصرعوں کی دِلکشی، الفاظ کی خوبصورتی اور قافیے کی صوتی غنائیت متاثر کرتی ہے، وہیں تصویر کشی کے باعث معانی کے کوندے بھی ایک ترتیب کے ساتھ آنکھوں کے سامنے لپکتے رہتے ہیں۔ غور کیجیے تو سانحۂ ہبوطِ آدم اِن مصرعوں کے ساختئیے سے جھلک رہا ہے۔ کسی بھی انسان کا عالمِ ارواح سے عالمِ اجساد میں آنا ایک اور جہت ہے۔ لاشعور کے وسیع جنگل سے کسی گُل مثال خیال کا شعور کے باغ میں آنا اور رعنائی کھو کر بکھر جانا، کسی زندہ دِل شخص کا حلقۂ مزاج شناساں سے ٹوٹ کر خشک مزاجوں میں آنا اور بکھر جانا، محب کا محبوب کی گلی سے جُدا ہو کر کوئے نا شنایاں میں چلے آنا، انسان کا رحمِ مادر کی مانوس اور مامون پناہ گاہ سے اجنبی دُنیا کے باغ میں آنا۔۔۔

مؤخر الذکر نکتے کی تفہیم کے لئے "مَیں نے تیری شاخ سے ٹوٹ کر” اور "آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب”والے مصرعے اور "حرارتِ لمس” اور” زردوسُرخ "کی تراکیب ذہن میں لائیں اور پھر دیکھیں کہ نظم کے مذکورہ مصرعے معانی کی کتنی بڑی کائنات کو وجود میں لائے ہیں۔ اب اس حصے کی پہلی تین لائنوں کو پڑھتے ہوئے مثنوی مولانا روم کی ابتدا میں ” نَے نامہ” کے اشعار کو یاد کریں۔ نَے کا نیستاں سے جُدائی کو شرحِ دردِ اشتیاق کہنا اور فراق میں نالہ زن رہنا۔۔ یہ ایک ایسی مطابقت ہے جو آگے بھی نظم کے امکان و آثار میں ساتھ چلتی ہے لیکن نظم کا آخری حصہ عہدِ جدید کا فکری منظر نامہ ہے اور اسی میں نظم کا جوہر سمٹ آیا ہے۔

 اس نظم کا دوسرا حصہ پچیس مصرعوں پر مبنی ہے۔ یہ حصہ اپنی اصل سے انسلاک کی کوشش کا بیانیہ ہے۔ ہوائے غیب کے زور سے گُل کی بکھری ہوئی پتّیاں مجتمع ہوتی ہیں اور مراجعت کے کیف میں چلی جاتی ہیں لیکن کئی نوری سال کی مسافت طے کر کے گُل نے دیکھا کہ وہ جس باغ سے گیا تھا وہ تو ختم ہو چکا ہے۔ وہاں نہ شاخ ہے نہ باغ۔۔ یوں وصل کی خوشی فنا ہو جاتی ہے۔ ہوائے غیب یعنی ہدایتِ آسمانی کی رہنمائی میں روحانی ارتفاع کے حصول اور آسمانوں سے وصال کی اس کوشش کا ناکام رہنا ایک اہم نکتہ ہے۔ عہدِ حاضر میں تو یہ کہا گیا ہے کہ: آسمانوں میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ لیکن آپ عطّار کی مثنوی "منطق الطیر” کا آخری حصہ ذہن میں لائیں جہاں ہزار کٹھنائیوں کے بعد حاصل ہونے والی منزلِ مقصود پر آئینے کے سوا کچھ نہ تھا!انسان جو صدیوں تک اپنے زورِ تخیل سے آسمان کو باغوں سے سجاتا رہا مگر جب عقل کے راستے سے اُسے وہاں کوئی ریاضِ ارم نہ مل سکا تو وہ اس روحانی کاہش کے کرب کو سہہ نہ سکا اور بے سمتی کے عالم میں یقین و عدم یقین کے مابین مُعلّق رہا۔ توہّم۔ تخیل اور ماورائیت کی بنیادوں پر کیے گئے اس سفرِ مراجعت میں اُسے کامیابی نہ ہو سکی تھی۔

 اٹھّارہ مصرعوں پر مشتمل نظم کا تیسرا حصہ یکجائی کے ایک اور عمل کا بیانیہ ہے۔ اس میں انقطاع کے دُہرے غم میں نڈھال بکھرا ہوا پھول کسی اور طرح کی ہوائے غیب کے زور سے ایک بار پھر ضبط و بست میں آ جاتا ہے۔ لیکن اس بار یکجا ہونے کے بعد وہ مراجعت کے سفر پر قطعاً روانہ نہیں ہوتا، نہ ہی اُس کے دِل میں اپنی (نام نہاد) اصل کی طرف لَوٹنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ وہ اپنے ہونے کے کیف میں مست ہو کر اپنے ہی روغنِ حُسن۔ حجلۂ رنگ۔ مرکزِ درد اور مُشکِ وجود میں پڑا رہتا ہے۔ یعنی اپنی موجودگی کے اندر ورا و ماورا سے بے نیاز ہو جا تا ہے۔ یہاں کیفِ ہست کی ترکیب کتنی خوبی کے ساتھ وجودیت کے احوال کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

 ہزاروں سال تک انسان خود کو آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ سمجھتا رہا۔ اپنی معراج آسمانوں سے انسلاک میں دیکھتا رہا۔ اس کی سوچ کے تمام زاویے آسمانوں سے شروع ہو کر آسمانوں پر ختم ہوتے رہے۔ افلاک نشیں سے وصل کو اپنی اصل سے یعنی اپنے آپ سے وصل جانا گیا۔ انسان کی تمام تر سعی کا مداراس پر رہا کہ انقطاع کے دُکھ کو کس طرح وصال کے سُکھ میں بدلا جائے۔ یہی دُکھ نظم کے پہلے حصے میں بیان ہوا ہے۔ اس ضمن میں روحانیات کے زیر ہدایت بہت لمبے سفر ہوئے جن میں نظم نگار کے بقول کئی نوری سال لگ گئے۔ لیکن آخرش ملا کیا! وہی لا شئی، وہی نیستی:

 وہاں پہنچا، دیکھا تو اُس جگہ

 تری شاخ تھی۔ نہ ہی باغ تھا

 وہ جو تھی نشاطِ مراجعت

 وہ جو اِنسِلاک کی تھی خوشی

 وہ فنا ہوئی

 اہم بات یہ ہے کہ دوسری یکجائی انسان کے اپنے غیب (وجدان، لاشعور) سے ہو رہی ہے جس کے بعد انسان نے آسمانوں کی بجائے زمین پر نگاہ ڈالی۔ عقل و شعور کی روشنی میں دیکھا پرکھا۔ نادیدہ جہانوں کو آباد کرنے کی بجائے اردگرد کی دُنیا آباد کی۔ پھر وہ اپنے ہونے کے نشے میں چور، خود اپنے اندر بسیرا کر لیتا ہے۔ یہ نظم کی وہ سطح ہے جہاں پُرانے فکری مواد کو نئے علمی منظر نامے سے منسلک کر کے۔ اسے عہدِ جدید کی کروٹوں سے مربوط کرنے کی مستحسن کاوش دکھائی دیتی ہے۔ عصرِ جدید کی علمی اورسماجی و تہذیبی رویّے (بشمول خودی اور وجودیت) اس عہد کے انسان کو اپنی ذات اور اپنی مُشکِ ناف میں اعتماد وسرور سے آشنا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو پوری نظم میں پھول کا بار بار بکھر کر مجتمع ہونا نظریۂ آواگون کی طرف اور بالآخر مکتی اور نروان کی اشارہ کرتا ہے جو بہر حال اپنی ذات میں پناہ کے سوا اور کچھ نہیں یا پھر یہ ذات کے اندر انسان کی مسلسل موجودگی کی مختلف صورتیں ہیں۔

 ایک اعلیٰ تخلیقی شہ پارے کی معراج یہی ہے کہ وہ معانی کی کئی پرتیں تخلیق کرے اور یہ نظم اس میں کامیاب ہے۔ یہ نظم بہت قرینے سے نسلِ انسانی کے شعوری، وجدانی اور روحانی سفر کا محاکمہ کرتی ہے۔ بیان سراسر استعاراتی ہے۔ رواں بحر کے انتخاب، مناسب تریں الفاظ۔ مصرع بندی کے شعور، تازہ تراکیب، بے ساختہ قوافی اور معانی کے تسلسل نے مِل جُل کر اس نظم کو نہ صرف رفیق سندیلوی کی، بلکہ اُردو کی ایک بے حد عمدہ و ارفع نظم بنا دیا ہے۔ اس کے وسیلے سے قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ جدید نظم نے جمالیات اور حُسنِ معانی کی نئی بوطیقا مرتّب کر کے اُردو شاعری کو کتنا وسیع اور مالامال کر دیا ہے۔

تصنیف حیدر: ظفر صاحب! ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ کے توسط سے معید رشیدی اور شہزاد نیر کے مختصر تجزیوں کو ہم ملاحظہ کرسکے ہیں۔ شہزاد صاحب نے شاید حاشیہ کے اجلاس میں پہلی بار شرکت کی ہے، ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معید رشیدی نے جس طرح مکالمے کا آغاز کیا، شہزاد نیر نے اسے آگے بڑھا دیا ہے بلکہ ان کا تجزیہ پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ احباب سے اس نظم کے حوالے سے یہ سوال بھی کر ڈالوں کہ کسی نظم کی اہمیت کا تعین کثیر المعنویت سے ہوتا ہے یا رمزیت اور ایمائیت کی وسعت سے ؟ ابھی فرشی صاحب خاموش ہیں ، حمید شاہد صاحب بھی چپکے سے گفتگو سن رہے ہیں۔۔۔ دیکھیے رنگ کیا ہو محفل کا! ناصر عباس نیر، جلیل عالی، محمد یامین، علی ارمان، اشعر نجمی اور نعمان شوق صاحبان کی چپ ٹوٹی تو تعبیروں کے اور دفتر کھلیں گے۔

انوار فطرت: جنابِ صدر!

 یہ نظم پڑھتے ہوے مجھے مولوی کی مثنوی معنوی یاد آ گئی اور اس کے ساتھ ہی ول ڈیوراں کے دو جملے بھی، جو اس نے دو مختلف مقامات پر لکھے۔ ایک کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ وصل مکمل کر دیتا ہے اور دوسرا کچھ یوں تھا کہ ہجر انسان کو عظمت عطا کرتا ہے۔ اب مولیٰ نا کی مثنوی مجھے وصل میں تکمیل کی تفسیر دکھائی دیتی ہے آپ جانیے صوفیاء کے ہاں یہ ایک مقبول ترین نظریاتی عقیدہ ہے۔ رفیق سندیلوی کی ’’کسی رخ کی سمت نہیں اڑا‘‘ میں مجھے ہجر کی وساطت سے عظمت کی یافت دکھائی دیتی ہے جب کہ ’’وصل میں تکمیل‘‘ کے نظریے کو انہوں نے پوری شاعرانہ شائستگی کے ساتھ مردود قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کل کو رد کرتے ہوے الگ سے اپنے وجود کا احترام کیا ہے۔ نظم میں پہلا سانحہ شاخ سے ٹوٹ کر حرارتِ لمس سے محروم ہونے اور پھر پتی پتی بکھر جانے کا ہے۔ اس کے بعد ایک نشاطیہ رونما ہوتا ہے یوں کہ کوئی ہوائے غیب چلتی ہے اور پھول کے بکھراؤ کو ضبط و بست میں لے آتی ہے۔ اس پر وہ سرشاری میں اس شاخ کی طرف مراجعت کرتا ہے جہاں سے وہ ٹوٹا ہے لیکن وہاں پہنچ کر دیکھتا کیا ہے کہ نہ وہاں وہ شاخ ہے اور نہ ہی باغ، سانحہ بار دگر رونما ہوتا ہے اور وہ پھول جو پتی پتی مرتب ہو چکا تھا ایک بار پھر بکھرتا ہے، ایک بار پھر دھرتی کی طرف مراجعت ہوتی ہے۔ یہ مراجعت قصداً اور عمداً نہیں بل کہ ایک فطری عمل ہے۔ دھرتی کی اپنی فطرت ہے، وہ شیرازہ بندی کرتی ہے، یہ ہی اس کی ہوائے غیب کا زور ہے۔ سو یہ بکھرا ہوا پھول ایک بار پھر شیرازہ بند ہوتا ہے۔ پہلے سانحے میں وہ کسی ’’اور باغ‘‘ کا رخ کرتا ہے۔ یہ ’’اور باغ‘‘ اس کے لیے مسموم ثابت ہوتا ہے کیوں پھول کی ’’کیمسٹری‘‘ اس کی کے مسٹری سے مختلف ہے، باغ کی آب و ہوا میں پَھلنے والی نہیں۔ دھرتی اپنی فطرت کے مطابق اس پر ایک بار پھر اپنا عمل کرتی ہے اور وہ ایک بار پھر جمع ہوتا ہے۔ اب ے وں ہے کہ وہ ’’کسی اور باغ‘‘ کا مزا چکھ چکا ہے لہٰذا ادھر نہیں جاتا بل کہ اس بار وہ اسی شاخ تر و سبز کا رخ کرتا ہے جہاں سے ٹوٹا ہے لیکن آہ! کئی نوری سال کا فاصلہ طے کر کے جب وہ وہاں پہنچتا ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ وہ سب تو دھوکے کی ٹٹّی تھی، وہاں تو کچھ بھی نہیں لہٰذا سانحے کا اعادہ ہوتا ہے۔ یہاں تک وہ دو تجربے کر چکتا ہے۔ ’’کسی اور باغ‘‘ کا اور ’’اس شاخ‘‘ کا بھی، جہاں سے وہ ٹوٹ کر بکھرا۔ دھرتی کو وہی کچھ کرنا ہے جو وہ کرتی چلی آرہی ہے سو وہ ہر بار اس کا شیرازہ باندھتی ہے۔ اوپر تلے دو تجربات کے ہم کیفیت نتائج اس سے ایک تیسرا تجربہ کراتے ہیں۔ اس بار جب وہ شیرازہ بند ہوتا ہے تو کسی رخ کی طرف نہیں اڑتا اور اپنے ہی لذت آگیں مشکِ وجود میں پڑ رہتا ہے۔ اب نہ اسے بکھراؤ کا خدشہ ہے نہ حرارتِ لمس سے محرومی کا اندیشہ۔

 میں اسے دھرتی سے محبت کی ایک خوب صورت نظم قرار دیتا ہوں۔ رفیق سندیلوی کرافٹ ماسٹر ہے اور تقلیبِ ہیئت کے بیان میں مہارت تامہ رکھتا ہے، اس کی نظم ’’مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔

 جنابِ صدر! یہ تبصرہ میں رات لکھ چکا تھا لیکن بروقت چسپاں نہیں کر سکا، آج جب آ کر حاشیہ آراء ہوا تو معلوم پڑا کہ جنابِ نیّر شہزاد لگ بھگ کچھ ایسی ہی بات کر رہے ہیں۔ ان کا دھیان ’’منطق الطیر‘‘ کی طرف گے ا لے کن میں جہاں تک سمجھ پاے ا ہوں رفیق کی نظم تشکیک و ے اس کا بے انیہ نہیں بل کہ خود پر ایقان کی نظم ہے۔

تصنیف حیدر: اس بار شہزاد نیر کے ساتھ ساتھ انوار فطرت نے بھی پہلی بار شرکت کی ہے اور بھرپور شرکت کی ہے۔ کچھ لفظ شکستہ ضرور ہیں لیکن تبصرہ کہیں سے شکستہ معلوم نہیں ہوتا۔ کیا بات ہے کہ رفیق سندیلوی کی نظم پہلوی قرآن سے دو اہم افراد کو مربوط معلوم ہوئی ہے۔

پروین طاہر: r رفیق سندیلوی میرے پسندیدہ نظم نگاروں میں سے ایک ہے اس کی نظم فلسفے، خیال، جمال اور کرافٹ کا ایک حسین امتزاج ہوتی ہے۔ وہ غور و فکر اور خیال میں کھوۓ رہنے والا شاعر ہے۔ پہلے پہل اس پر کوئ خیال یا فلسفہ یلغار کرتا ہے اور اور پھر فکر کی آمیخت سے وہ تخلیقی کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے جمال اور کرافٹ تو نظم میں بعد ازاں داخل ہوتے ہیں مگر بہت بے ساختی کے ساتھ۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان اجزاۓ ترکیبی کو مختلف تناسب سے برتنے میں بے حد ماہر ہو گیا ہے۔ وہ طرز نظم میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ اس کی نظمیں جدید شاعری کی عمدہ مثال ہیں کہ وہ جدید انسان کی نمائندگی کرتی ہیں جو صرف اسیر جمال نہیں بلکہ فکروفلسفہ اور اعلی انسانی آدرش اس کا ذھنی مسئلہ ہیں اور مسئلہ فن بھی(جاری ہے )

ظفر سیّد: جنابِ صدر، میں آپ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انوار فطرت صاحب کی تحریر میں کچھ الفاظ ضرور شکستہ ہیں ، لیکن تبصرہ اتنا مربوط ہے کہ اس طرف دھیان نہیں جاتا۔ البتہ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اردو میں ٹائپ کرتے وقت الفاظ کے درمیان آنے والی ی کے لیے بڑی ے استعمال نہ کریں بلکہ چھوٹی ی ہی سے کام چلائیں۔ مثلاً لفظ "میرا” لکھتے وقت اسے "م ے را” نہ لکھیں بلکہ "م ی را” ٹائپ کریں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس خرابی کہ وجہ ان پیج ہے، جہاں "م ے را” اور "م ی را” باہم پیوست ہو کر "میرا” بن جاتے ہیں ، لیکن یونی کوڈ تحریر "ے ” کو الگ طریقے سے برتتی ہے۔

پروین طاہر: صاحب صدر جہاں تک رفیق سندیلوی کی زیر مطالعہ نظم کا تعلق ہے تو میں نے کسی اور جہت سے اس کو انجواۓ کیا ہے۔ یہ سچ، کائناتی سچ کی تلاش کی داستان ہے۔ سچ کی ایک شکل خارجی ہوتی ہے جس کا تعلق جغرافیے، مذہب، تہذیب، روایات اور نسلی تجربات سے ہوتا ہے۔ یہ سچ کی زمینی شکل ہے ے یا جڑوں سے وابستگی کی صورت انسان کی ھستی کا جز بنی رہتی ہے۔ سچ کی دوسری صورت داخلی ہوتی ہے جو مندرجہ بالا خارجی پابندیوں سے آذاد ہوتی ہے۔ ایک ذہین اور صاحب فکر انسان ان پا بندیون سے بالا ہو کر جب اپنی کائناتی حیثیت پر غور کرتا تہ یقیناً وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے جو مقبول زمانہ نسلی روایت اور تجربے سے یکسر الگ ہوتا ہے۔ اس تجربے کی نامانوسیت، تنہائی ادراک کی وسعت(اور اس کے مقابلے میں انسان کا کائناتی حقیر پن) اسے ایک فکری ناسٹلجیا کا شکار کر دیتا ہے۔ وہ پھر سے اپنی جڑوں کی تلاش میں بیقرار ہو جاتا ہے۔ جب اس کا ذہنی ویہار پھر ویسا ہونا چاہتا ہے جو اس کے جغرافیے مذہب اور مقبول نسلی نظریات کے مطابق ہوتا ہے۔ مگر اس کا تجربہ آفاقی سوچ کا تجربہ اسے اس وصل سے پوری طرح لطف اندوز ہونے نہیں دیتا۔ (جاری ہے )

پروین طاہر: اب نظم کے تیسرے مرحلے کی باری آتی ہے وہ ہے تلاش حق کے سلسلے میں انسان کے خام تجربے کی۔ کوئی فکری فلسفہ نوردی انسان کے تجربے کو مکمل نہیں کرتی وہ کبھی اس باغ میں تو کبھی اس باغ میں اپنا جوہر اپنی خودی تلاش کرتا پھرتا ہے مگر اس کو کبھی اپنے سوال کا مکمل جواب نہیں ملتا۔ جواب ملتا ہے تو اپنے باطن سے اپنے حواس اپنی خرد کی sublimation سے۔ یہی وہ صوفیانہ مقام ہے جب انسان کو انا الحق کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ وہ اپنے "روغن حسن” میں اپنے "حجلہ رنگ” میں اور اپنی "مشک وجود” میں گم پڑا رہتا ہے کہ اس کا وجود، وجود کی خوشبو اس کا اپنا حجلہ رنگ خود اس کی اپنی نظر میں اعتبار پا چکے ہیں۔ اور سچ کی تلاش کے لۓ اسے حاجت پرواز نہیں رہتی۔ وہ خود دھرتی ہے خود ہھی آسمان ہے سارے رخ ساری سمتیں اس کے اپنے وجود میں سمٹ آتے ہیں۔

پروین طاہر: نظم جدید کی قاری ہونے کے ناطے سے مین نے رفیق کی نظموں کے ساتھ بہت سا وقت گزارا ہے۔ وہ انسانی وجود کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اس کا وجود ہی اس کی روح ہوتا ہے اور تمام روحانی و ذہنی تجربات کی آماجگاہ بھی۔ اس ضمن میں اس کی نظمیں "مراتب وجود بھی عجیب ہیں ” لال بیگ اڑ گیا” ایسی نظمیں ہیں جو انسانی وجود کو معتبر اور انسانی ذہن کو قوت پرواز جتانے پر دلالت کرتی ہیں۔

پروین طاہر: اب نظم میں موجود سبز، سرخ اور زرد رنگوں پر غور کریں تو وہ ان مقبول زمانہ فلسفوں کی یاد دلاتے ہیں جو ہماری فکری تہذیب پر غالب رہے۔ مگر انسان کے درد کا مداوا خارجی انسلاک میں کہاں ہے کوئی راہ کوئی مکتی ملتی ہے تو خود انسان کے اپنے تحلیل نفس سے۔ انسان کے سوال کا جواب بذات خود انسان ہے۔ انسان فکری تنہائی کا شکار ہے۔ سماجی یا خارجی جڑت اسے کوڈ آف کنڈکٹ سکھاتی ہے انسانوں کی طرح جینے کا گر بتاتی ہے مگر انسان اپنی عظمت کی راہ یا اپنے حقیر ہونے کا ادراک اپنے ہی ذہنی تجربات سے حاصل کرتا ہے۔ میرے خیال موجب یہ احساس ہی اس نظم کا بنیادی تھیم ہے اور اس کا بنیادی قضیہ بھی۔

واجد علی سید: یہ نظم جتنی منفرد ہے، اس پر گفتگو اتنی ہی دلچسپ ہو رہی ہے۔ آپ تمام اصحاب کے سامنے میری رائے کی کیا حیثیت لیکن جناب صدر کی اجازت سے چند جملے کہنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ میں گفتگو کو طول نہیں دوں گا بلکہ نظم پڑھتے ہوئے جو میرے ذہن میں آیا اسے یہاں تحریر کروں گا۔ مجھے یہ نظم بالکل الگ رنگ میں نظر آ رہی ہے۔ بلا شبہ اس کے تین حصے سب پر واضح ہیں ، لیکن میں ان حصوں کو ایک بچے کے دنیا میں آنے سے پہلے، یہاں وقت گزارنے اور الہام کی طرف واپس جانے سے تعبیر کر رہا ہوں۔ ہمارے مذہبی عقائد کی جھلک، اور تخلیق کی سائنسی بنیادیں بھی مجھے اس میں نظر آ رہی ہیں۔ جیسے ایک ماں جب بچے کو جنم دیتی ہے تو اس کی انول نال کاٹ کراسے ماں کے بدن سے الگ کیا جاتا ہے۔ بچہ نئی دنیا میں زرد اور سرخ حالت میں مولود ہوتا ہے۔ اس نئی کائنات میں اسے ایک خاص مقدار کی ہوا، پانی اور تپش درکار ہوتی ہے، جس کے بعد اسے خود سے سانس لینا سیکھنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے میں دن نہ رات، فقط انتشار کی کیفیت۔ اب یہ سفر طے کرنا ہے۔

 اگر دیکھا جائے تو ہماری دنیا کے سامنے ساحل پر پڑی ریت کے ایک حقیر ذرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ یہاں کئی نسلیں آئیں ، آباد ہوئیں ، اور کبھی نہ واپس آنے کے لیے اپنی اپنی منزلوں کی جانب لوٹ گئیں۔ ان کی حیات اور مرگ کو ماپنے کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں۔ کہنے کو یہ دنیا ایک سانس سے بھی کم مدت کی ہے، اور دیکھا جائے تو لوگ برسوں جیتے ہیں ، اور تہذیبیں ہزاروں برس زندہ رہتی ہیں ، لیکن ان کا کل صرف صفر رہتا ہے۔ شاید اسی لیے ایک دن کی مسافت کئی نوری سال میں طے ہوئی۔

 اس سفر میں ماں کا ساتھ جب تک رہتا ہے گویا ایک سایہ سا موجود ہوتا ہے، پھر اس کی جدائی کے بعد دنیا کو تنِ تنہا جھیلنا پڑتا ہے۔ اسی طرح دنیا سے جانے کے بعد جس شجر سے جسم پھوٹا اور پھر جس شاخ سے ٹوٹا اس کے ساتھ دوبارہ جڑنے کا عمل شروع ہوا۔ جسے مسلمان مانتے ہیں اور قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ آخرت میں تمہیں تمہاری ماؤں کے نام سے اٹھایا جائے گا۔ یہاں بھی دن اور رات کا تعین نہیں لیکن جو سمجھ آتا ہے وہ انتشار، ابتری، اور پراگندگی ہے۔ ماں سے ملنے کے بعد، یعنی اپنی اسی شاخ سے جڑنے کے بعد وہ پتی پتی ایک ہو گئی، اور اس کے بعد مسافرت کی گھڑی بھی ختم ہوئی۔

پروین طاہر: صاحب صدر میری بات ختم ہوتی ہے۔ امید ہے آپ اور دیگر دوست اس زاوئیے سے بھی نظم کو دیکھنا پسند کریں گے۔ آپ فاضل حضرات کی بحث بھی غور سے پڑھ رہی ہوں۔

تصنیف حیدر: پروین طاہر فکر کی نئی جہت کے ساتھ شامل مذاکرہ ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنی نظم گوئی کی طرح تفہیم کو بھی منفرد لبادہ اڑھایا ہے۔ ان کی بات پر غور کیا جانا چاہیے۔ واجد علی سید! آپ کی تعبیر بھی قطعی علمی اور اہم ہے، بلکہ آپ نے جس طرح زندگی کے سیدھے سادے پروسز سے نظم کو جوڑ کر دیکھا ہے اس سے نظم کی بنیادی حقیقت ہم سب پر روشن ہوئی ہے۔ معید رشیدی نے کہا تھا کہ نظم خود شناسی کے داخلی فلسفے پر ہے۔ شہزاد نیر نے اسے تشکیک اور انوار فطرت نے یقین کی خورد بین سے آنکا۔ پروین طاہر نے ان سب سے آگے بڑھ کر تعبیر کی ایک نئی راہ نکالی۔ میں اس پر تفصیلی بات بعد میں کروں گا۔ گفتگو بہت اچھی چل رہی ہے۔

انوار فطرت: Zaf ! thanx for suggestions. I’ll take care in future۔

قاسم یعقوب: صاحب صدر!

 رفیق سندیلوی اُردو نظم کا معتبر حوالہ بن چکے ہیں ، اسّی کی دہائی کے معدودے چند نام[جو اس وقت بچ چکے ہیں ] اُن میں رفیق کا نام پہلے تین لوگوں میں لیا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ کہتے خوشی ہو رہی ہے کہ حاشیہ نے رفیق اور انوار فطرت کی اُن نظموں کا انتخاب کیا جو "نقاط” کے نظم نمبر کے انتخاب میں بھی شامل ہیں۔ رفیق کی ایک اور نظم”پانی کا سرمایہ” جو اپنی وضع کی منفرد نظم ہے کا پس ساختیاتی تجزیہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ نظم کی ایک Mappingہوتی ہے آپ اسے دوسرے لفظوں میں نظم کاSurface Structureکہہ سکتے ہیں۔ ہر نظم اپنے Mapمیں قاری کو اتارتی ہے، نظم کی کئی پرتیں ہو سکتی ہیں مگر ہر پرت نظم کے سٹریکچر میں سے اپنا وجود بناتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک قسم کا درسی قسم کا انداز چل نکلا ہے کہ نظم کی تشریح شروع کر دی جاتی ہے اور جو لائن جس بھی فکر سے مشابہ لگے وہ بیان کر دی جاتی ہے، نظم اپنے متن کی ایک تہہ میں بیسیوں تہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ نظم کی ایک تعبیر ایک متن ہوتا ہے جو اپنے تئیں مکمل ہونا چاہیے۔ نظم کی Constructionکو جب ہم ڈی کنسٹرکٹ کرتے ہیں تو وہ نظم کی تشکیل کے Mapیا نظم کے Surfaceکا رَد ہوتا ہے [ اب رَد کا مطلب یہ نہیں کہ جو پہلے تعبیر پیش کی گئی ہے وہ باطل تھی، بلکہ وہ تعبیر کچھ دیر کے لیے اوجھل ہو گئی ہے، نئی تعبیر کے سامنے آ جانے کی وجہ سے، اُسے دوبارہ منظر پہنایا جا سکتا ہے ]

 رفیق کی مذکورہ نظم کی Mappingپر سب سے پہلے بات کی جائے تو ہمیں اس نظم کے تین حصے نظر آتے ہیں۔

 ۱۔ پھول شاخ سے ٹوٹ کر کسی اور باغ کا رُخ کرتا ہے، مگر اس سفر میں اُس کی پتی پتی بکھر گئی اور خوشبو بے نام ہو گئی۔

 ۲۔ دوسرے حصے میں وہ کسی باغ کا بھی حصہ نہیں بنا بلکہ خشک زمیں پر پڑا ہُوا ہے، یعنی خانہ بربادِ ِ ِ ِ ِ اُسے ہوائے غیب کے زور سے دوبارہ نشاطِ مُراجعت نصیب ہوتی ہے اور وہ اپنے پہلے والے باغ کی طرف گامزن ہو جاتا ہے، [یہ سفر جو بظاہر ایک دن کی مسافت یعنی مختصر تھا کئی نوری سالوں پر محیط یعنی طویل مسافت کے بعد طے ہوتا ہے۔ وہاں پہنچ کے اُسے پہلے والا منظر نظر نہیں آتا۔ انسلاک کی بات تو دور وہاں تو نہ شاخ تھی اور نہ ہی باغِ گویا جسے وہ اپنی اصل کہہ رہا تھا اور کئی نوری سالوں کی سمافت طے کر کے اُسے پانے کی تمنا لیے ہوئے تھا، کسی بھی انجام سے آشنا نہیں ہوتا۔ نتیجتاً وہ پھر اُسی طرح کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے، اُس کی پتی پتی دوبارہ بکھر جاتی ہے۔

 ۳۔ نظم کے تیسرے حصے میں ہوائے غیب کے زور سے اُسے دوبارہ وہی کیفِ ہست نصیب ہوتا ہے وہی روغنِ حسن اور وہی مرکزِ درد ملتا ہے جو پہلے اُس کی مُراجعت کی خبر لایا تھا مگر اب کی بار وہ کسی سمت نہیں جاتا بلکہ اپنے مشکِ وجود میں ہی پڑا ہُوا اُس شاخ اور باغ سے انسلاک کے مزے لیتا ہے۔

 نظم کی Mappingتو یہی کچھ کہہ رہی ہے۔ یہاں وہ باغ کیا ہے اور اُس کی شاخ سے کیا رشتہ ہے ؟ اس شاخ سے انفصال کیوں ہوا؟ شاعر انقطاع اور انسلاک کے اس سفر میں سب کچھ مخفی رکھے ہوئے ہے وہ Surfaceپر کچھ نہیں بتانا چاہ رہا۔ Surfaceپر شاعر کا متن مکمل ہے۔ ہوائے غیب کے زور سے وہ دوبارہ انسلاک کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے اور اسی ہوائے غیب کے زور سے وہ اپنے ہست کے مرکز درد میں اترتا ہے اور مشکِ وجود میں پڑا رہنے میں مزہ لیتا ہے۔ واقعات کا یہ ظہور کیسے ہو رہا ہے، شاعر ہمیں کسی بھی تفصیل سے آگاہ نہیں کرنا چاہ رہا۔ اتنا کچھ چھپا دینے کے باوجود اُس کے متن کاSurfaceمکمل ہے۔ شاعر اپنی اس کوشش میں کامیاب نظر آتا ہے۔ بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان ابہام اوے Gapsکی وجہ سے قاری کو نظم کے Deepمیں اُترنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے

 Deep Structureاصل میں قاری کے اپنے Gapsہیں جہاں وہ اپنے علوم کی فکر نوردی کرتا ہے۔ مگر وہ Deep Structureمیں جو متن تیار کرے وہ مکمل ایک متن ہونا چاہیے یعنی وہ نظم کی کلی کسی تعبیر کو پیش کر رہا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ درسی نوعیت کی تشریح سے نظم کی تخلیقی پروٹوٹائپ سے دور کر دیا جائے۔ نظم کے Mapکے قریب رہ کر اُس کی پرتوں کو کھولا جائے۔ جیسا کہ اوپر لوگوں کی رائے سے مجھے "حلقہ "نوعیت کی تشریح کا گمان ہوا۔ میرے خیال میں اس کے زیریں ساخت کی سب سے عمدہ تعبیر پروین طاہر نے پیش کی ہے جو مختصر ہونے ساتھ ساتھ شاعر کے وژن کو نئی جہت سے پالینے کی کامیاب کوشش بھی ہے۔ بات آگے چلتی ہے تو اس کی نئی تعبیرات بھی پیش کرتا ہوں۔

تصنیف حیدر: متن کی تعبیر کا انحصار ہماری قرات پر بھی ہوتا ہے۔ یوں تو مہمل اور بے معنی جملوں کی بھی بیشتر تعبیرات ہوسکتی ہیں ، قاسم یعقوب کی یہ بات بالکل درست ہے کہ مدرسے کے بچوں کی طرح اپنی عقلوں سے ا، کل پچو تشریح کرنا بالکل غلط ہے لیکن سابقہ تعبیرات پر ایسی تشریح کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا۔ شاعری کی تعبیر ہر شخص کے اپنے مطالعے اور مشاہدے و فکر کا آئینہ ہوتی ہے۔ یہ الگ بات کہ ہم کسی تعبیر سے روکشی اختیار کریں مگر اس کے کلی استرداد کا حق ہمیں حاصل نہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اس بار وہ لوگ بھی حاشیہ کے اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں جو پہلے کسی وجہ سے شریک نہیں ہو  پائے تھے۔ ہمیں قاسم یعقوب کی دیگر تعبیرات کا انتظار رہے گا۔ اب کب تک انتظار کروائیں گے شاہد صاحب! کچھ تو کہیے کہ۔۔۔۔۔۔۔

محمد حمید شاہد: جناب صدر، آپ کا شکریہ، میں پہلی فرصت میں اپنی رائے کے ساتھ حاضر ہو جاؤں گا۔ تاخیر کے لیے معذرت۔

محمد حمید شاہد: جناب صدر، میں رفیق سندیلوی کی زیر نظر نظم” کسی رُخ کی سمت نہیں اڑا پر” پر سیدھے سبھاؤ بات کرنے سے ہچکچا رہا ہوں تو اس کا سب یہ ہے کہ میں جس رفیق سندیلوی کی نظم کا معترف ہوں ، یہ نظم اس کی نمائندہ نظم نہیں ہے۔ میں نے عین آغاز میں ہی یہ بات کہہ دی ہے، رہا اس کا جواز تو وہ میں آگے چل کر آپ کے سامنے رکھوں گا، پھر آپ کو اختیار ہو گا آپ میری گزارشات کو مانیں ، یا اٹھا کر ایک طرف پھینک دیں۔ خیر احباب یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ رفیق نے غزل اور نظم میں ایک الگ وضع کی شناخت بنائی ہے، رفیق کی غزل کا ایک مصرع ہے ” میں ایک خم دار آئینہ ہوں کسے خبر ہے ” تو جسے اس خم دار آئینے کی خبر نہیں ہے، وہ نہیں جان پائے گا کہ ایک نظم ایک سے زیادہ دائروں کا میں بننا، وجودی اذیتوں سے ان مدور کوسوں کا مس کرتے ہوئے گزرنا بجائے خود ایک معنویت رکھتا ہے۔ اچھا میرے خیال کا ذرا ڈھنگ سے تعاقب کرنے کے اس کی غزل کے وہ دونوں اشعار مکمل صورت میں دیکھ لیجئے جن میں سے ایک کا مصرع میں نے اوپر درج کیا اور دوسرے کی جانب اشارہ کر آیا ہوں۔

 میں اِک پہاڑی تلے دبا ہوں کسے خبر ہے

 بڑی اذیت میں مبتلا ہوں کسے خبر ہے

 کسے خبر ہے کہ میرا ہر عکس گم ہُوا ہے

 میں ایک خم دار آئینہ ہوں کسے خبر ہے

 اگر آپ نے رفیق کی نظمیں توجہ سے پڑھ رکھی ہیں تو اس کی اذیتوں سے بھی آگاہ ہوں گے۔ بلکہ یہ اذیتیں آپ کے وجود کا حصہ ہوں گی کہ یہ اس کی نظم کا خاصا ہے کہ وہ قاری کے لہو میں اذیت بن کر دوڑنے لگتی ہیں۔ جی "سواری اونٹ کی ہے ” میں یہ اذیت نظم کے متکلم یعنی بھورے اور بوڑھے اونٹ پر سوار اس بزدل شخص کے ہاں دیکھی جا سکتی ہے جس کی ڈھیلی رفاقت کو ایک سفر نامختتم عطا ہوا ہے۔ "سرخ کمبل” میں تو اس اذیت کی باقاعدہ تجسیم ہو گئی ہے :” پیل گوں ، مسلول چہرہ/خشک لب/پچکے ہوئے رخسار/سوکھی پسلیاں /بے جان زانو/جوڑوں جوڑوں میں پسینہ/ دھونکی سا/ نفخ دم میں مبتلا سینہ/سدا کی ادھ کھلی /اندر کی جانب کو دھنسی آنکھیں /گھنی بلغم زدہ سانسیں۔۔۔۔۔ "۔۔ اس کی نظم "برادہ اڑ رہا ہے ” میں اذیت کی جو صورت ہم دیکھتے ہیں اس میں بھیگی آنکھیں بھی ہیں اور ان میں /کے آگے ترمرے ناچنے لگتے ہیں کہ ” وقت نے جب تختہ آہن پہ رکھ کر/تیز رو آرا چلایا تھا/ہمیں ٹکڑوں میں کا ٹا تھا / اسی دن سے برادہ اڑ رہا ہے /پیڑ کے سوکھے تنے سے / چھت کی کڑیوں سے / کتابوں اور خوابوں سے /برادہ اڑ رہا ہے / میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے !! نظم”مگر مچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے ” میں یہ اذیت ایک بار پھر جنم لے رہی ہے تو ” قبر جیسی کھاٹ” میں یہ قبر ہی فرار کا ایسا دریچہ ہو گئی ہے جو وہاں کھلتا ہے جہاں ایک خواب اس کا منتظر ہوتا ہے۔ موت جیسا خواب، موت کا یہ عقدہ اس کی ایک اور نظم ” جب پو پھٹی” میں تب کھلتا ہے جب گھر میں صف ماتم بچھ جاتی ہے "۔۔۔۔۔ /اور سینکڑوں راتوں کے /اک لمبے سفر کے بعد/ساحل آ گیا/ جب اگلے دن کی پو پھٹی / گھر میں صف ماتم بچھی!!”

 میرا خیال ہے میں اب تک وہ علاقے نشان زد کر چکا ہوں جو رفیق سندیلوی کے تخلیقی وجود کو عزیز ہیں۔ رفیق کا یہ محبوب علاقہ ماورا میں نہیں بلکہ اس کے اپنے وجود اور جسم سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ ایک بار پھر اس کی غزل کی طرف دھیان جاتا ہے،

 برہنہ کر کے سحر، شب کو بے ردا کر کے

 میں کوہِ جسم سے اُترا ہوں یاترا کر کے

 کہاں یہ جسم، کہاں الف لیلہ کا رستہ

 میں تھک گیا ہوں سفر ایک رات کا کر کے

 قریب تر ہے وہ ساعت کہ میں بھی دیکھوں گا

 یہ جسم و جان کے حصے جدا جدا کر کے

محمد حمید شاہد: 2

اس کی نظم "غسل خانے کی حکایت ” ہو یا "لال بیگ اڑ گیا”، کیک کا ایک ٹکڑا” ہو یا” وہی مخدوش حالت ” کوہ جسم مقابل ہوتا ہے، عجب طرح کی تھکن وجود توڑتی ہے اور جسم و جاں کے حصے لخت لخت ہوتے ہیں۔ سو ایسے میں وہ اس تجربے کے مقابل پورے خلوص سے ہوتا ہے کاٹھ کا سا جسم پگھل رہا ہو، اور وجود پانی میں گھل گھل کر بہہ رہا ہو۔ آدمی لال بیگ بن کر غلاظت میں پل رہا ہو، کیچ کی امس میں ، غلاظتیں بہانے والی نالیوں میں اور وہ وہاں رہتے رہتے تنگ آ گیا ہو، کوئی اکیلا عزا دار جسم کا تعزیہ اٹھائے جنم دن منانے پر مجبور ہو یا ایسی مخدوش حالت کو نظم کیا گیا ہو جس میں "ایک آدھی مینگنی”اور”ناک میں بلغم” جسے الفاظ بھی اس کی جمالیاتی ارتفاع کا سبب ہو رہے ہوں تو ماننا پڑتا ہے کہ اس تخلیقی علاقے میں رفیق اپنے پورے وجود کی سچائی کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ جی اذیت والے وجود کے ساتھ۔

 جناب صدر اب میں رفیق کی نظم ” کسی رُخ کی سمت نہیں اڑا پر” کی طرف آنا چاہتا ہوں ، میں نے اس نظم کو اور اس جیسی ایک دو اور نظموں کو رفیق کی انحرافی نظموں کی ذیل میں رکھا ہے اور اس کی نمائندہ نظم ماننے سے انکار کیا ہے تو اس باب میں کچھ کہنے سے پہلے مجھے اس کا اعتراف کرنا ہے کہ یہ ایسی نظم بھی نہیں ہے جسے بالکل لائق اعتنا نہ جانا جائے۔ یہ بات مان لینے کی ہے کہ تخلیقی سرگرمی کی منتہا زندگی کی بنیادی صداقتوں کو دریافت کرنا ہے مگر اس پر یہ اضافہ بھی لازم ہے کہ زندگی کی وہ صداقتیں جو ہمارے تاریخی، تہذیبی، اجتماعی یا کسی طبقے اور فرد کے تجربے میں تو ہیں مگر ان کا کوئی نہ کوئی گوشہ مخفی رہ گیا ہو(یاد رہے ایک نہ ایک گوشہ ہمیشہ مخفی رہ جاتا ہے )۔ گویا زندگی کے تجربہ کو لائق اعتنا جانتے ہوئے ایک اور رخ کا ظہور، اسے آپ اس امتزاج کے دریافت کرنے یا اس انجذابی صورت میں ڈھالنے سے تعبیر دے سکتے ہیں ، جو حسن میں ڈھل جاتی ہے، ایسا حسن جو تحیر زا ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی ایسے فن پارے کا تصور ممکن نہیں رہتا جو نامیاتی وحدت میں نہ ڈھلے۔ نامیاتی وحدت سے مراد میکانکی وحدت نہیں جو ٹیکسٹ کے اوپر سے شناخت ہو جاتی ہے، یا پھر اسے کہانی بنا کر برآمد کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو مجموعی کیفیت اور مزاج ہے جو فن پارے میں تین سطحوں پر اپنا رشتہ مستحکم کرتا ہے۔ خیال کی سطح پر، اسے ارتفاع بخشتے ہوئے، اظہار کی سطح پر اسے خلوص اور باطنی سچائی سے جوڑتے ہوئے، اور بیان کی سطح پر، اس میں وارفتگی اور سپردگی کو تحریک دے کر۔ باقی ساری باتیں اگرچہ تیکنیکی ہیں ، تاہم فن پارے کی تشکیل میں وہ بھی اہم ہیں کہ ایک عالم کے خیال کا رفیع ہونا، اس خیال سے اس کی سچی وابستگی کا ہونا اور اس کو وارفتہ ہو کر بیان کر دینا، ضروری نہیں کہ ایک فن پارے کی تشکیل بھی اس کا لازمی نتیجہ ہو، کہ اس باب میں ثانوی ہو جانے والے تیکنیکی لوازم اور کاریگریاں بھی فن کار کے مزاج کا پہلے سے حصہ ہونی چاہئیں۔ میں نے یہاں تیکنیکی لوازم کو جاننے کی بات نہیں کی انہیں فن کار کے مزاج کا حصہ ہو جانے کی بات کی ہے کہ اس طرح تخلیق کار کے اندر سے وہ شعوری التزام منہا ہو جاتا ہے جو اکثر اوقات تخلیقی وفور میں رخنے ڈال دیا کرتا ہے۔

 اب ذرا رفیق کی نظم کو میری ان گزارشات کی روشنی میں آنکیے، لیکن پہلے ٹھہر کر اس کا دل کھول کر اعتراف ہونا چاہئیے کہ نظم جن مدھر سروں میں بہتی ہے، لائینیں ایک ایک خاص طوالت سے بڑھتی نہیں لہذا پڑھتے ہوئے سانس کے دھاگے باہم الجھتے نہیں ہیں ، تمثالیں بصری ہو جاتی ہیں اور وہ بھی متحرک لہذا پڑھنے والا ان تصویروں کے ساتھ ساتھ رہتا ہے، علامت کی بجائے ایک اشاراتی نظام بنتا چلا جاتا ہے لہذا بیانیہ گمبھیر نہیں ہوتا شفاف رہتا ہے معنیاتی ترسیل ہوتی رہتی ہے مگر ایک لطف بھی قائم رہتا ہے۔

محمد حمید شاہد: 3

رفیق نے اس نظم میں جو کہا میں دھر دوں کہ اس کی ترسیل میں کوئی رخنہ نہیں رہا۔ شاعر نے اپنے آپ کو گل انفصال پذیر کہا اور” تیری شاخ ” سے ٹوٹنے کی بات کی تو اقبال کے اس کہے کی جانب متوجہ ہونے پر میں مجبور تھا :

 تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا

 اک جذبہ پیدائی، اک لذتِ یکتائی

 رفیق کی ساری نظم اس خیال کی تفسیر ہو جاتی ہے۔ مگر اپنی اضافی الجھنوں کے ساتھ۔ اچھا اس طرح کی بات کرنا جس طرح رفیق نے کی ہے جدید نظم والوں کو بہت مرغوب رہا ہے تاہم رفیق اپنی نظموں کی خاص فضا کی وجہ سے اپنے ہم عصروں سے الگ تھا جب کہ اس میں ایسا نہیں ہے، جی میں یہ اس کے باوجود کہہ رہا ہوں کہ اس نظم میں شاعر نے اپنے آپ سے مخصوص فضا بحال رکھنے کے لیے، بالکل الگ وضح کی لائینیں دے رکھی ہیں ، کسی رخ کی سمت نہ اڑنا، گُلِ اِنفصال پذیر ہونا، بڑے خاص طرز وحساب کی خوشبو کا ہونا، کسی آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب دیکھنا، جسم کے رنگ و روغن میں عمیق نوع کے درد کا ہونا، کہیں کہیں سے زرد اور کہیں کہیں سے سرخ ہونا، پتی پتی کا انقطاع کے دکھ میں ہونا، پھر ضبط و بست، کیفِ ہست، نشاطِ مراجعت، روغنِ حُسن، حجلۂ رنگ، حتی کہ آخر میں وہی مُشکِ وُجود۔۔۔۔۔ مگر میں نے کہا نا کہ ان لطافتوں کے باوجود، جو کہ ذرا قدیم ہوتی زبان کو نیا بنا کر شعری تجربے کا حصہ ہو رہی ہیں اور اس لطف کے باوجود کہ جو پہلی قرأت میں اس نظم کے غنائی پن اور تصویری تحرک عطا کرتا ہے مجھے لگا( اور خدا کرے کہ ایسا مجھے ہی لگا ہو ) کہ نظم نے میکانکی وحدت کا دائرہ تو مکمل کیا جسے نظم پڑھنے والا ہر قاری شناخت کر سکتا ہے مگر نامیاتی وحدت ٹوٹ گئی ہے، کہاں ؟ میں اس جانب اشارہ کیے دیتا ہوں۔

 رفیق سندیلوی کا یہ قرینہ رہا ہے کہ وہ جس موضوع، خیال یا احساس کو برتنے جا رہا ہوتا ہے اس کے لیے باقاعدہ فضا بندی کرتا ہے، یہی وتیرہ بالعموم اس کی نظم کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ مثلاً دیکھیے نظم "عجب خالق شے ہوں ” میں ایک ایسی تخلیق کا ذکر ہو رہا ہے جو بہ ظاہر انسانی تجربے میں نہیں آیا ” مگر یہ علم نہیں / اس کی کیا شباہت تھی / بدن کا حصہ زیریں تھا یا کہ بالائی/ وہ کوئی مرگ کا سر تھا / کہ کوئی شہنائی۔۔ ” وغیرہ وغیرہ۔ مگر آغاز میں یہ کہہ کر ” بس اتنا یاد ہے /تخلیق کی تھی کوئی چیز” اور پھرانسانی تجربے میں آنے والے چیزوں اور مظاہر کے ساتھ اس کی مشابہتیں ہونے / نہ ہونے کے ذکر سے ایسی فضا بنا لی تھی جو معنی، احساس /خیال اور بیان کو ایک اکائی میں ڈھال رہے تھے۔ اسی طرح نظم "عجب مافوق سلسلہ تھا” میں "شجر، تھے / چراغ، لو کے بغیر ہی/جل رہے تھے /کوزے بغیر مٹی کے /چاک پر ڈھل رہے تھے /۔۔۔۔ / نڈر پیادہ تھے / اور بزدل/اصیل گھوڑوں پہ بیٹھ کر / جنگ لڑ رہے تھے۔۔۔ ” ایک بار پھر وغیرہ وغیرہ کہ یہ مافوق سلسلہ یہاں رکتا نہیں ہے مگر نظم نگار نے "عجب مافوق سلسلہ” کہہ کر گویا اس نظم میں اس سب کو نظم کے اندر جمالیاتی اور معنیاتی سطح پر ایک اکائی میں باندھ دیا ہے یہ اکائی یا وحدت بہ ظاہر میکانکی وسیلوں کے باوجود نامیاتی ہو جاتی ہے زندہ وجود کی طرح۔

 زیر نظر نظم” کسی رُخ کی سمت نہیں اڑا ” میں ایسا نہیں ہو پایا میں نے کہا نا کہ یہ میرا احساس ہے۔ اب کوشش کرتا ہوں کہ نظم کے اس بہت اہم شاعر کی منحرف نظم میں وہ مقامات نشان زد کر دوں جو میکانکی سطح پر ایک دائرہ مکمل کر نے میں خوب چوکس ہیں مگر اسے نامیاتی وحدت میں ڈھالنے کا وقت آیا تو دم سادھے پڑے رہتے ہیں۔

محمد حمید شاہد: 4

 شاعر نے اپنے آپ کو گل انفصال پذیر کہا اور یہ بھی کہا کہ میں یعنی نظم کا متکلم، (کہہ لیجئے انسان )”تیری شاخ "سے ٹوٹا تو”کسی اورباغ” کا رخ کیا۔ ایسے میں شاعر نے "تیری شاخ”کے معنی متعین کر دئیے ہیں اور ساتھ ہی ” کسی اور یعنی غیر” کی سمت رخ کرنے کو بھی کھول دیا ہے۔

 – نظم کا یہ کہنا ہے کہ جب تک وہ اس شاخ سے جڑا رہا جسے ” تیری شاخ” کہا گیا ہے، (جس سے مکالمہ بھی ہو رہا ہے )تو اس کا احساس تک اس گل کو نہ تھا کہ اس میں خاص طرز کی جو خوشبو، رنگ اور عمیق نوع کا درد تھا وہ اس شاخ سے جڑنے کی وجہ ہی سے تھا۔ تاہم شاخ سے ٹوٹتے ہی اس کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔

 – باقی کی نظم اسی انقطاع کے دہرے غم کی ہے۔ شاخ سے ٹوٹ کر بکھر جانا، اور پھر حادثاتی طور پر( شاعر نے اسے ” ہوائے غیب” کی کرامت کہا ہے ) بکھری پتیوں کا مجتمع ہونا ہو یا نشاط مراجعت سے سرشار ہونا اصل کی طرف لوٹنا مگر وہاں سے "تیرے باغ” اور” تیری شاخ” کو نہ پا سکنا۔ سو وصل اور انسلاک کے غم میں بکھرنے تک نظم بکھرتی نہیں ہے۔

 – نظم کے اندر شروع سے اس کا التزام ہے کہ ایک مخاطب ہے (تیری شاخ والا) ایک شاخ سبز ہے، گل کے سارے رنگ، ساری خوشبوئیں اور سارے درد اس شاخ سے جڑنے کے تصور پر معنیاتی تشکیل کرتے ہیں۔ حتی کہ شاخ سے ٹوٹ کر ہوائے غیب کے وسیلے سے شاخ سبز کی جانب مراجعت کا نشاط بھی اسی نامیاتی اصول سے جڑا ہوا ہے جس میں تازگی اور زندگی ایک شاخ سے جڑنے میں ہے، کہیں بھی اس مافوق سلسلے کی گنجائش نہیں نکالی گئی، جو یکایک نظم اپنے تیسرے حصہ میں بیان کر دیتی ہے، تیری شاخ والے سے تخاطب بتاتا ہے کہ ابھی اس سے مکالمہ ٹوٹا نہیں ہے، جسے نظم کے تیسرے حصے میں لائق اعتنا نہیں جانا گیا (حالاں کہ اس شاخ سبز پر قیام کا عرصہ ہو یا ہوائے غیب کے زور سے خود مکتفی ہو جانے والا، دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک سا رہتا ہے )

 – نظم دوسرے حصے میں مکمل ہو گئی تھی مگر شاخ سبز کا تصور قصداً منہا کیا جاتا ہے، یکایک انقطاع کا دکھ بھی نہیں رہتا تو ہوائے غیب کا زور بھی مطمئن نہیں کرتا اور سوال برقرار رہتا ہے کہ یہ خوشگوار سانحہ کیسے ہوا؟۔ اس مضمون کے لیے نظم کے پہلے دو میں سے کسی حصے میں قرینہ رکھ دیا گیا ہوتا یا پھر ان بکھری پتیوں کا اس زمین میں فنا ہونے سے ایک نیا رشتہ قائم ہوتا، زمین کی زرخیزی اور نئے بیخچے اور راس جنین کے پھوٹنے کا (کہ اس کا تو التزام نظم کی اس لائن میں پہلے سے تھا ” میں پڑا تھا خشک زمین پر/ تیری شاخ سبز کے دھیان میں ") بس شاعر نے شاخ سبز کے دھیان کو توڑنا تھا مگر اس نے اس نظم کی نامیاتی وحدت ہی کو توڑ دیا۔ خیر میں نے کہا نا یہ میرا تاثر ہے ممکن ہے نادرست ہو۔ احباب اس باب میں آپ کی رہنمائی درکار ہو گی۔

 اجازت دیجئے مکالمہ آگے چلا تو پھر حاضری دوں گا۔

تصنیف حیدر: ایک اہم ناقد، سب سے پہلے ایک اہم قاری ہوتا ہے۔ کسی بھی فن پارے کی کلوز ریڈنگ ہی اس کی جمالیات کو واضح بھی کرتی ہے اور اس کے خاکے پر سوال بھی قائم کرتی ہے۔ شاہد صاحب جو اتنی دیر سے خاموش تھے تو اب ان کی خاموشی کا جواز ان کا یہ تبصرہ ہے۔ لیکن ان کا قائم کیا گیا سوال ہرگز غیر اہم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دھیان رکھیے میں نے کہا ہے کہ شاہد صاحب نے اپنا اسٹنینڈ کلئیر کر کے نظم کے حوالے سے اپنی بے لاگ رائے ہمارے سامنے پیش کر دی ہے۔ رفیق سندیلوی کو جو کچھ کہنا ہو گا وہ تو وقت آنے پر کہیں گے ہی مگر فی الحال جو لوگ اس نظم پر پہلے تبصرہ کر چکے ہیں انہیں بھی اور جو اس کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں بھی از سرنو اس سوال پر بھی غور کرنا چاہیے اور گل کے اچانک یک جا ہونے کے واقعے کو نظم کا نقص یا حسن قرار دے کر اپنی دلیل سامنے رکھنی چاہیے۔ ظفر صاحب آپ کیوں خاموش ہیں۔۔۔۔۔ ؟

صدف مرزا: جدید لب و لہجے کی نمائندہ اس نظم میں موضوع کے ساتھ انصاف کرنے کے لئے تکنیکی، فکری اور معنیاتی ہر سطح پر جس ہنر مندی اور الفاظ کی بے ساختگی کا استعمال کیا گیا ہے وہ ابتدا سے ہی قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی ہے۔ ایک منظر نامہ تخلیق کرنے کے بعد اس کی جزئیات اور تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔

 من و تو۔۔ میں رابطہ اور مکالمہ قائم ہے اور متکلم تو سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی داخلی کیفیات بیان کرتا ہے

صدف مرزا: منتشر جزئیات کا شکار نہیں ہے بلکہ اس میں ایک نامیاتی وحدت ہے۔ ایک مرکزی استعارہ جو باقی کی امجری سے مربوط ہے واقعاتی تسلسل زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے متصل ہوتا جاتا ہے۔ مثلا ً پہلے حصے کے استعارے میں ایک پھول کی مناسبت سے امیجری میں ہم آہنگی دکھائی دے گی، کہیں کچھ بھی غیر مربوط یا بھرتی کا باصری پیکر محسوس نہیں ہوتا اور نظم کی بنت سے قاری کی نگاہوں میں ایک منظر نامہ ابھرنے لگتا ہے پھول، شاخ، باغ، رنگ، روغن، درد، سرخ اور زرد، انتہائی مشاقی سے پہلی سطروں میں ہی امیجری کا انتخاب کر کے ان کو آخر تک چابکدستی کے ساتھ نبھایا گیا ہے۔

صدف مرزا: نظم اپنی ابتدا ہی سے نہایت مترنم انداز سے اپنا تعارف کرواتی ہے اور یہی آہنگ بڑی سہولت اور سہج سبھاؤ سے آخری سطر تک برقرار رہتا ہے اور مطالعے کی لذت میں نہ صرف اضافہ کرتا ہے بلکہ قاری کو رک کر یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ اپنے موضوع کی سنجیدگی کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بھی نظم کی نغمگی کو برقرار رکھا گیا ہے

صدف مرزا: باغِ بہشت سے اذنِ سفر، یا خروجِ جنت کا واقعہ کوئی ایسا اچھوتا موضوع نہیں ہے جس کو کسی نے پہلے اپنی تحریر میں نہیں پرویا، لیکن شاعر کی انفرادیت ہی یہی ہے کہ وہ مہین حریری ریشمی پردوں جیسے استعاروں کی پرتوں میں لپیٹ کر اسی موضوع کو ایک نیا رنگ دے کر، فنکاری سے ایک سلائڈ کی طرح نگاہوں کے سامنے سے گزارتا چلا جا تا ہے۔ ہر سلائڈ ایک جز کی طرح پچھلی سلائڈ کی وضاحت بھی کرتی ہے۔

 نظم کی ابتدائی سطروں میں ایک منظر نامہ پیش کرنے کے بعد دوسرا حصہ اس منظر نامے کے تمام تر خد و خال واضح کرنے لگتا ہے

صدف مرزا: دوسرا حصہ۔۔۔۔۔

 وہ دھُندَلکا تھا کسی صبح کا یا کہ شام کا

 مَیں پڑا تھا خشک زمین پر

 پتی پتی بکھرا وجود ہوائے غیب سے ایک مرتبہ پھر سمٹتا ہے، ایک مرتبہ پھر اپنی اصل سے وابستگی اور اسی دریا میں قطرے کی صورت میں جذب ہونے کی آرزو امید اور توقع کا جامہ اوڑھ لیتی ہے کس خوبصورتی سے، نشاطِ مراجعت، کی ترکیب استعمال کر کے انتہائی اختصار سے واضح کیا گیا ہے کہ یہ وصل رجوع اور رجعت کی ایک صورت ہے۔ نفسیات کا ایک اہم موضوع، حال کے دگرگوں حالات سے دلبرداشتہ ہو کر سابقہ زندگی کی مانوس اور آرام دہ آغوش میں پناہ لینے کی تڑپ انسان کے وجود کے تار و پو میں رچی ہے۔

صدف مرزا: یہاں زمان کا تصور ختم ہو گیا ہے، بس ایک دھندلکا ہے، لیکن مکان کا تصور واضح ہے، سخت زمین پر پڑے پڑے بھی اندر ایک تمنا زندہ تھی۔ یہاں جس روانی سے اندرونی قافیہ استعمال کیا گیا ہے اس نے، میری رائے میں نظم کے مجموعی تاثر اور موسیقیت میں نہ صرف اضافہ کیا ہے بلکہ اس کی اثر آفرینی کو بھی دو چند کیا ہے

 عجب اِک نشاطِ مراجعت مرے دِل میں تھی

 مرے زرد و سُرخ کے درمیان کے تِل میں تھی

صدف مرزا: شاخ سے بچھڑے

 اس پھول کو پروان کے نئے حوصلے ملتے ہیں۔ اور اصل سے ملنے کی تڑپ لئے وہ مائل بہ سفر ہوتا ہے۔ دوبارہ شاخِ تر کی سمت اڑتے ہوئے اسے یہی خبر تھی کہ یہ محض ایک مختصر سی مسافت ہے، لیکن اس کی تمام تر ذوق و شوق اور توقعات کے برعکس یہ فاصلہ ایک ایسی طویل مسافت میں بدل گیا طے کرنے میں کئی نوری سال لگے ہیں۔

صدف مرزا: کائناتی شعور کو

 صرف دو الفاظ میں جس خوبی سے

 سمو دیا گیا ہے اس کی لذت ان الفاظ کو ڈی کوڈ کرنے میں ہی مضمر ہے۔

 اگلی سطریں کہ اس سعی لاحاصل کا درد پیش کرتی ہیں سفر کا اختتام ایک دلدوز مایوسی میں ہوتا ہے، مایوسی، لا حاصلگی اور نا رسائی کے زمستانی ہاتھ ایک مرتبہ پھر اس کی مہجور، دردناک ہستی کو پاش پاش کر دیتے ہیں۔

 وہ دھُندَلکا تھا کسی صبح کا یا کہ شام کا

 تیسرے اور آخری حصے میں پہلی سطر پھر دہرائی گئی ہے

 وہی بے زمانی کی کیفیت، وہی شاخِ سبز اور تر کا دھیان، وہی مکان سے آ گاہی، اور پھر ہوائے غیب سے دہرے انقطاع کے درد سے چور وجود مجتمع ہوتا ہے اب یہاں پر ہی شاعر کی فن پر دسترس عروج پر دکھائی دیتی ہے

 وہی، اور، وہیں کی تکرار

 اس منظر نامے کو مجسم کرتی ہے

 وہی ضبط و بست

 وُ ہی کیفِ ہست

 اب بھی اس کی ذات میں موجود ہے، لیکن سمٹنے کے باوجود وہ وہیں اسی سخت زمین پر رہنے کا فیصلہ خود اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔

 وہیں اَپنے روغنِ حُسن میں

 وہیں اَپنے حجلۂ رنگ میں

 وہیں اَپنے مرکزِ درد میں

 وہیں اَپنے سُرخ میں ، زرد میں

 وہیں اَپنے مُشکِ وُجود ہی میں پڑا رہا

 دل سے انسلاک و مراجعت کی تڑپ رخصت ہو گئی اور نظم ایک دائرے میں گھومتی ہوئی، خود کو دہراتی اسی انداز میں اختتام پذیر ہوتی ہے

صدف مرزا: لفظی و واقعاتی تجزیہ قاری کو نظم کی انتہا میں اس شاخ سے ٹوٹے گل یا اک مشتِ خاک کا خود اپنی ہستی کا اعتراف، یقین اور شناخت ہی نہیں دیتی بلکہ نوری سالوں کی مسافتوں اور دوبارہ ریزہ ریزہ ہوتے بدن، نارسائی کے درد اور اپنی تپسیا کے ضائع جانے کا غم اور اس کی اپنی ذات سے آگاہی کا مکمل شعور دیتا ہے

 اس شاخ سے ٹوٹا پھول تو خود بھی شاخِ تر و شاخِ سبز ہے

 من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ

 یا شاید اس عرفانِ ذات سے بھی ایک قدم آگے، انالحق کے نعرے کی بازگشت بن جاتا ہے

 اور اس سخت و سنگلاخ زمین ہی اس کا مسکن قرار پائی۔ اسے اک ٹوٹے تارے کی طرح گردوں سے مراجعت کی حسرت بھی نہیں رہی۔

 اور یہیں پر نظم کا جدید لہجہ اپنی پوری آ ب و تاب سے نمایاں ہوتا ہے۔

 معنیاتی اعتبار سے تہہ داری اس کا حسن ہے اور قاری اس کی تفہیم اپنے ذہنی افق کی وسعت اور فکر و شعور کی روشنی میں کرتا ہے

اشعر نجمی: جناب صدر! لیجیے، ہم بھی آخر کار محفل میں آ ہی دھمکے۔ کیا کریں ، بہت برداشت کیا، لیکن جب پانی سر سے اونچا بہنے لگا توہم خود کو مزید روک نہ پائے۔ جناب صدر! سب سے پہلے تو یہاں یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہمارے ذہن میں "تشریح” اور "تفہیم” کے متعلق کیا تصورات ہیں ؟ مجھے ڈر ہے کہ ہم نے کہیں ان دونوں چیزوں کو ایک ہی تصور نہ کر لیا ہو۔ "شرح نویسی” کی اپنی اہمیت ہے لیکن وہ "تفہیم ” کا محض ایک حصہ ہے یا ابتدائی مرحلہ ہے۔ ہمارے اکثر تجزیہ نگار یا نقاد تشریح اور تفہیم میں فرق نہیں کر پاتے ہیں ، جب کہ بعض اوقات تشریح ہمیں فن پارے سے دور لے جانے کا سبب بھی بنتی ہے۔ اگر میں ایلیٹ کے الفاظ میں اپنی بات رکھوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کے تجزیوں کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک مشین کے پرزوں کو الگ الگ کر دیا گیا ہو اور قارئین سے مطالبہ کیا جارہا ہو کہ وہ انھیں دوبارہ جوڑ کر محظوظ ہو۔ لیکن جناب صدر! مجھے افسوس ہے کہ میں نہ تو قصاب ہوں اور نہ ہی جراح، چنانچہ کسی نظم سے لطف اندوز ہونے کا یہ طریقۂ کار آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ بات طویل ہو جائے گی، لہٰذا اس قضیے کو یہیں چھوڑتے ہیں اور نظم سے مکالمہ کرتے ہیں۔

اشعر نجمی: جناب صدر! رفیق سندیلوی کی زیر نظر نظم میں متکلم (فرد) محض ایک تجرید یا علامت کی شکل میں نظر نہیں آتا اور نہ ہی یہ اظہار کسی مخصوص تصور کا پابند ہے بلکہ یہاں شدید جذباتی اور نفسیاتی رد عمل کا اظہار ہو رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے اسباب اجتماعی اور آفاقی ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی بھی ہیں۔ اس نظم میں المیاتی ماورائی عمل کا مشاہدہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ یہ المیہ صرف شاعر کی ناکامی نہیں بلکہ انسان (صرف جدید انسان نہیں ) کی ناکامی ہے جو مسائل اور چیلنجز کے سامنے بے دست و پا ہو جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ پاؤں ایک معطل حیاتیاتی کیفیت میں گرفتار ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ "اڑنا” اس کے اختیار میں ہے، یہ اور بات ہے کہ وہ "کسی رخ کی سمت نہیں اڑا”،یہ بھی مراجعت کی علامت ہے۔ چنانچہ صرف پناہ گزینی اور شکست خوردگی اس کا مقدر ہے۔ لیکن اس پناہ گزینی یا شکست خوردگی سے بھی کسی غلط فہمی میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غالب جب دنیا کو” بازیچۂ اطفال ” گردانتا ہے تو دراصل وہ خود کو ہستی کی رزم گاہ میں ایک تجربہ کار اور پختہ ذہن تماشائی کی حیثیت سے تسلیم بھی کراتا ہے۔ رفیق سندیلوی نے بھی موجودات سے اپنی جذباتی تعلق کو گوارا بنا لیا ہے، اس لیے وہ اب "کسی رخ کی سمت نہیں اڑنا چاہتا”۔ متصوفانہ شاعری میں بھی ہر پیرایۂ ہجراں کا اول و آخر وصل ہے اور زندگی کے تمام ہنگامے ایک ہی ازلی اور ابدی حقیقت کے جلوے۔ فرائڈ نے اس ازلی اور ابدی حقیقت کو ہی "اصل مسرت” سے تعبیر کیا ہے لیکن اس کے خیال میں اس حقیقت کو پانے کے لیے انسان کو نئی تہذیب کے عائد کردہ ان ضوابط سے رہائی حاصل کرنی ہو گی جو اس کی چھٹپٹاہٹ کے ذمے دار ہیں اور اسے تہذیب کی ابتدائی صورتوں کی جانب مراجعت کرنا ہو گا۔ یہاں خاطر نشان رہے کہ ابتدائی صورتوں سے یہاں فرائد کی مراد فطری سادگی اور شادابی ہے جس پر انسانی تعقل نے معروضیت اور سردمہری کے پردے ڈال دیے ہیں۔

اشعر نجمی: محمد علوی کی ایک معروف اور بہترین نظم "اب جدھر بھی جاتے ہیں ” ہیں۔ اس نظم میں گائے، بھینس، اونٹ، گھوڑے، ہاتھی، گلی کے کتے، بھوت وغیرہ کی غیر موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے شاعر نے بڑی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے نظم کا اختتام کچھ یوں کیا ہے، "اب جدھر بھی جاتے ہیں /آدمی کو پاتے ہیں "۔ ممکن ہے کہ آپ اسے آدم بیزاری سے تعبیر کریں لیکن یہ اس انسانی معصومیت اور سچائی کے ختم ہو جانے کا نوحہ ہے جس کے بغیر انسان صرف آدمی بن کر رہ گیا ہے، جو ایک غیر دلچسپ اور ترقی یافتہ مخلوق ہے۔ ورڈز ورتھ بھی اپنی ایک نظم میں بنی نوع انسان کی معصومیت مسخ پر نوحہ کناں رہ چکا ہے بلکہ وہ تو یہ تلقین بھی کرتا ہے کہ فطرت کے حسن کی طرف راغب ہو جاؤ۔ رفیق سندیلوی کی نظم کی ہئیت اتنی پیچیدہ نہیں لیکن ان کی نظم میں بیان کردہ تجربہ اس سے زیادہ پیچیدہ ہے جو ابن آدم کی معصومیت کے زوال سے عبارت ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اپنی تین کوششوں کو زوال اور تبدیل حال کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے، پیڑ کو مرکز اور پتے کو وجود کی علامتیں اور استعارے بنا کر پیش کیا ہے۔ رفیق سندیلوی کی اس نظم میں ہم ایسے انسان سے دوچار ہوتے ہیں جو زوال اور تبدیل حال کے سامنے بے دست و پا ہے۔ وہ خود شناسی کے ذریعہ اپنی حالت کا مداوا، بلکہ اس کے سامنے مقادمت کرنا چاہتا ہے۔

 اور اب ایک آخری بات یہ کہ بلاشبہ ہم مرکز کی طرف صرف اس لیے واپس نہیں ہوسکتے کہ ہم واقعی واپس ہونا چاہتے ہیں۔ ہاں ، اگر ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ بحران اتنا بڑا ہے کہ مرکز کی طرف ہماری واپسی ضروری ہے تو شاید اس پر بھی غور کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ لیکن بحیثیت شاعر یا ادیب ہم صرف اس کی خواہش ہی کرسکتے ہیں۔

ظفر سیّد: جنابِ صدر:

 حاشیہ پر اتنی بھرپور گفتگو دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس بار کئی ایسے دوستوں نے بھی قلم اٹھایا ہے جو اس سے پہلے کسی وجہ سے خاموش رہے تھے۔

 نظم پر اتنے مختلف پہلوؤں سے اور اتنی تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے کہ اس پر کوئی اضافہ کرنا نصف النہار کے وقت چراغ جلانے کے مترادف ہے۔ تاہم حاضری لگانے کے مقصد سے نظم کی تکنیک کے بارے میں ایک دو باتیں عرض کیے دیتا ہوں۔

 میں نے اس نظم کو ایک ڈرامے کے طور پر پڑھا ہے۔ تین ایکٹ کا ڈراما۔ یونانی حکما سے لے کر ہالی وڈ کی فلموں تک میں ڈرامے کے تین اجزا کو مقدم مانا گیا ہے۔ محرک، کلائمیکس، اور تحلیل۔ نظم کی ابتدا میں محرک بیان کر دیا گیا ہے، یعنی گل کا شاخ سے جدا ہو جانا۔ جب تک گل شاخ سے پیوستہ تھا، تب تک وقت بھی رکا ہوا تھا کیوں کہ وقت کی تعریف دو واقعات کا درمیانی وقفہ ہے۔ جب کوئی واقعہ رونما نہ ہو رہا ہو تب تک وقت بھی جامد رہتا ہے (جدید فزکس ہمیں بتاتی ہے کہ بگ بینگ سے پہلے وقت کا وجود نہیں تھا، کیوں کہ اس سے پہلے واقعہ جامد تھا۔ )

 اگلے ایکٹ میں کہانی آگے بڑھ کر اپنے کلائمیکس تک پہنچتی ہے جس کا انجام مایوسی پر ہوتا ہے۔ آخری ایکٹ میں گل کی پتیاں دوبارہ مجتمع ہوتی ہیں لیکن اب کی بار گل پر "انکشاف” ہوتا ہے کہ اس کی منزل شجر سے دوبارہ انسلاک نہیں ہے۔ انکشاف (epiphany) فکشن کی اصطلاح ہے جسے جیمز جوئس نے اپنے افسانوی مجموعے "ڈبلنرز” کے ہر افسانے میں استعمال کیا ہے۔ اس دوران کرداروں پر اپنے حالات و واقعات کے بارے میں اچانک کوئی ایسی بات کھلتی ہے جس سے ان کی زندگیوں کا دھارا تبدیل ہو جاتا ہے اور ان کو اپنے حالات و واقعات نئی روشنی میں نظر آنے لگتے ہیں۔ یہی انکشاف نظمِ زیرِ بحث کا بنیادی نکتہ ہے، جس کے بعد گل "اپنے حجلۂ رنگ، ” اپنے "مرکزِ درد” اور اپنے "سرخ و زرد” میں پڑ رہنے ہی پر قناعت کرتا ہے، اور جس کے بعد اسے "کسی رخ کی سمت اڑنے ” کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔

 دوست پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ رفیق سندیلوی نظم کے کرافٹ کے ماسٹر ہیں۔ اس نظم میں انہوں نے ڈرامے اور فکشن کے تکنیکوں کو اتنی ہی فن کاری اور چابک دستی سے نبھایا ہے۔

قاسم یعقوب: صاحبِ صدر!

 میرا پروین طاہر کی بنائی ہوئی معنیاتی حدود کا ایک دفعہ پھر ذکر کرنے کو دل کر رہا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ سچ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک کا تعلق روایات، جغرافیہ، نسلی تجربات، تہذیب اور مذہب سے ہے جب کہ ایک سچ داخلی فکر نوردی کا پروردہ ہوتا ہے۔ آگے چل کر پروین نے نظم کے آخری حصے میں اس داخلی سچ کی دریافت کے عمل کو” خرد کیSublimation”اور” صوفیانہ مقام” قرار دیا ہے۔

 صاحبِ صدر!

 یہاں دو ایک باتوں کی طرف میں اپنے خیالات پیش کرنا چاہوں گا کہ نظم کا Pivotalنکتہ اصل میں تیسرا اور آخری حصہ ہے۔ نظم کے دو پہلے بند[حصے ] تیسرے بند[حصے ] کی دلیل بنتے ہیں۔ پروین نے بالکل ٹھیک کہا کہ ذات کی فکر نوردی اُسے اُس سچ سے آشنا کرتی ہے جو شاعر کے Outerمیں موجود سچ کا رد بھی ہو سکتا ہے، وہ سب نسلی تفاخرات اور تہذیبی و مذہبی صداقتیں اپنی "شناخت” کے سوال کے آگے بے معنی ہو جاتی ہیں۔ حمید شاہد نے اسی ایک حصے کو نظم کا اضافی حصہ سمجھا ہے، انھوں نے اس پر اعتراض یہ کیا ہے کہ "شاخِ سرسبز کا تصور قصداً منہا کیا گیا ہے اور ہوائے غیب کا زور بھی مطمئن نہیں کرتا۔ "میرے خیال میں ہوائے زور جو پہلے بھی مراجعت کا باعث بنی اور پہلے بھی یہ خوشگوار سانحہ اسی کی مرہونِ منت وقوع پذیر ہُوا اور شاعر کے کسی بھی بیرونی اشارے کے بغیرِ ِ ِ ِ ِ،اب کی بار اُسے اُس یقین کی دولت سے مالامال کرتی ہے جو یہاں شاعر کا تخلیقی مدعا ہے۔ پھول شاخ سے جدا ہو کر اپنے وجود کی دولت[روغنِ حسن، حجلۂ رنگ، مرکزِ درد، مشکِ وجود]سے محروم ہُوا تھا۔ اور اسی کی بازیافت کی تگ و دو میں تھا جو اُس کا "تعارف "ہے، جو اُس کی” شناخت” ہے۔ حمید شاہد صاحب لکھتے ہیں کہ” شاعر نے شاخِ سرسبز کے دھیان کو توڑنا تھا، اُس نے نظم کی وحدت کو ہی توڑ دیا”۔ میرے خیال میں شاعر نے شاخ سے ٹوٹنے اور جڑنے کی طرف کبھی بھی توجہ نہیں دی۔ اور آخر پرنہ ہی اُس کا مقصدِ اولیٰ زمین سے جڑنے کا رہا ہے۔ آپ نظم کی تکراری لائنوں کا مطالعہ کریں جو بار بار اپنے مرکزی قضیے کر دہرا رہی ہیں [وہی ضبط و بست جو مجھ میں تھا/ وہی کیفِ ہست جو مجھ میں تھا]۔ شاعر تو "اپنے پھول” کو اپنی” مشکِ وجود” کی کیفیات میں لوٹانے کا عزم لیے ہوئے ہے، جس کے لیے وہ شاخ سے ٹوٹنے کے بعد دوبارہ مراجعت کرتا ہے اور جب اُسے "مشکِ وجود” نہیں ملتا تو شاخ سے پیوستگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ آپ نظم کو پڑھیے، وہ تو زمین پر پڑا ہے اور شاخ سے ٹوٹنے کا نہیں ، اپنے مشکِ وجود کی بازیافت کا دکھ لیے ہوئے ہے۔ جو نہی ہوائے غیب اُسے اُس کا اصل مدعا لوٹاتی ہے وہ اپنے "حجلۂ رنگ” اور روغنِ حسن میں لوٹ آتا ہے۔ "شاخ "تک کی مراجعت کیا بے معنی نہیں ہو گئی؟ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں کا کہ ہوائے غیب اور انقطاع و انسلاک کا سارا جھگڑا ہی اپنے تناظرات کے ساتھ دھڑام سے زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ شاعر کی تخلیقی کامیابی میں قاری بھی تخلیقیت کا سرورِ ابدی حاصل کرتا ہے۔ اقبال کی ایک نظم کا آخری شعر دیکھیے :”حیات و موت نہیں التفات کے لائق/ فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود”۔ گویا سب کچھ اسی میں سمٹ آیا ہے۔ "ہو اگر خود نگر  و خود گر  و خود گیر خودی/ یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے "۔ میرا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ رفیق کے اس خیال کو اقبال کے فلسفے سے خوشہ چیں قرار دوں۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جو انقطاع کا دوہرا غم تھا وہ یکایک ختم ہونے کا باعث کیا تھا۔ وہ اپنے ہست میں لوٹ آتا ہے۔ کیا نظم میں سارا جوکھم ہست کا کیف نہیں۔ نظم کا اصل نکتہ یہی ہے نہ کہ شاخ سے جڑنے کی خواہشِ ِ ِ ِ ِ ِ نظم میں تخاطب "تری شاخ” نہیں بلکہ ایک کردار ہے جو اُسے اپنے کیفِ ہست کی دریافت کے بعد غیر ضروری لگنے لگتا ہے۔ امید ہے حمید شاہد صاحب اس ایک اہم نکتے کو ارسرِ نَو دیکھیں گے۔

تصنیف حیدر: مراجعت کے مفہوم پر جو بات قاسم یعقوب نے کہی ہے وہ فکر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ میں خود بھی کافی غور سے آپ احباب کی گفتگو پڑھ رہا ہوں اور یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ کون سا رمز ہے جو نظم کے کسی اہم لفظ کے بھیس میں ہماری طرف معصوموں کی طرح دیکھ رہا ہے۔ اشعر نجمی نے بھی چونکہ نفسیاتی حوالے سے (جس میں انہوں نے سگمنڈ فرائڈ کا بھی ذکر کیا ہے ) مراجعت کے حلقے سے نظم کی تعبیر کی کڑی جوڑنا چاہی ہے۔ اس لیے اب اس لفظ پر بات ہونا ضروری ہے۔ پروین طاہر اور حمید شاہد سے میں خاص طور پر اس جانب دھیان دینے کا التماس کرتا ہوں۔ ستیہ پال آنند صاحب نے بھی بہت سی صحیح باتیں غلط جگہ پوسٹ کر دی ہیں۔ ان کی بات چونکہ پوری نہیں ہوئی ہے، اس لیے میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے تمام کمنٹس کو اگر مناسب خیال کریں تو وہاں پوسٹ کرنے کے بجائے یہیں پوست کر دیں تاکہ ان کی کارآمد باتوں پر مزید گفتگو ہوسکے۔

ستیہ پال آنند: رفیق سندیلوی کی نظموں کے مجموعہ "غار میں بیٹھا شخص” (۲۰۰۷ عیسوی) میں مشمولہ اپنے "پیش لفظ” میں راقم الحروف نے لکھا تھا۔۔۔ "رفیق سندیلوی کی نظم کو کس زُمرے میں رکھا جائے ؟

 یہ سوال وہی قاری یا تنقید نگار پوچھ سکتا ہے جسے صرف اس بات سے غرض ہو کہ ہر شاعر کی پیشانی پر ایک لیبل چسپاں کر کے ہی اس کی شاعری کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکا کی نوبیل پرایز یافتہ شاعرہ مایا انجیلو نے گزشتہ برس مجھے بتایا کہ ایک ذاتی ملاقات میں ژاں پال سارترے نے اپینی موت سے ایک برس پہلے یعنی ۱۹۷۹ میں ان سے کہا تھا :” اگر کوئی مجھے وجودیت کا علمبردار کہتا ہے، تو مجھے برا لگتا ہے۔ اگر میرے سینے پر تمغے کی طرح سے کسی نام کا لیبل ٹانکنا بھی ہے تو وہ ‘ ژاں پال سارترے ‘ ہونا چاہیے۔ "۔۔۔۔ رفیق سندیلوی بطور شاعر صرف رفیق سندیلوی ہے۔ اور اگر سہولیت کے طور پر ہم نظم گو شعرا کی فہرست میں اس کا نام لکھنے کے بعد، مناسب لیبل تلاش کر کے یہ فرض کر لیں کہ وہ ن م راشد اور اسے بعد آدھ درجن سے کچھ زیادہ شعرا کے زُمرے میں فِٹ آتا ہے، تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ ” (اقتباس القط)

 اس اقتباس کی ضرورت اس لیے پڑی کہ کوئی دو دہائی پہلے جب میں نے پنڈی / اسلام آباد کے کچھ جدید شاعر دوستوں کے بارے میں لکھتے ہوئے انہیں بیسویں صدی کے شروع میں انگلستان میں امیجسٹ شعرا کی پہلی کھیپ ( ایژرا پاؤنڈ، ٹی ایس ایلیٹ) سے مشابہ کیا اور لطیف پیرائے میں یہ کہا کہ یہ شعرا (جن میں بنیادی طور پر نصیر احمد ناصر، علی محمد فرشی، انوار فطرت، رفیق سندیلوی، پروین طاہر اور کچھ دیگر احباب شامل تھے ) "تصویری مفاہیم کی شاعری میں پیش پیش ہیں اور انہیں ‘پنڈی اسکول آف امیجسٹ پوئٹس’ کہا جا سکتا ہے۔ "۔۔۔ یہ اصطلاح جیسے ‘اوور نایٹ’ ہی ان دوستوں پر چسپاں ہو گئی ( اور اب تک ہے کیونکہ پچھلے برس اپنے سفر آخرت پر جانے سے قبل مرحوم ضیا جالندھری نے بھی ایک تحریر میں اس کا استعمال کیا ) اس کے بعد کے کچھ برسوں میں اس اسم سے ملقب بہ گروپ کے طریق کار پر بہت بحث ہوئی۔ یہ بات بر سبیل تذکرہ کہی جا سکتی ہے کہ "تسطیر” کے پہلے دور کے اجراء کے کچھ شماروں میں غزل کے پیش پا افتادہ استعاروں کے بارے میں لکھتے ہوئے میں نے ان شعرا کا خاص طور پر ذکر کیا لیکن یہ بات دہرائی کہ جس طرح ایذرا پاؤنڈ، ایلیٹ سے اپنے طریق کار میں مختلف ہے، یا یہ دونوں لوئی میکنیس، رابرٹ گریوز، یا ایڈمنڈ بلنڈن سے مختلف ہیں ، اسی طرح اس بپتسمائی نام سے موسوم بہ گروپ یعنی "پنڈی سکولٰ آف امیجسٹ پوئٹری” کا ہر شاعر اپنے طریق کار میں ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس جملے میں "طریق کار” کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ رفیق سندیلوی کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے اس پر اپنی بیشتر توجہ مرکوز کرنا پڑے گی۔

ستیہ پال آنند: میں نے "غار میں بیٹھا ہوا شخص” کے دیباچے میں اور رفیق کی ایک نظم "سواری اونٹ کی ہے ” پر تحریر کردہ ایک عملی تنقید کے مضمون میں بھی اس بات کا اظہار کھلے الفاظ میں کیا تھا، کہ یہ نوجوان شاعر اس گروپ سے ہم عصری اور علاقائی نسبت رکھتے ہوئے بھی ایک الگ اور منفرد اسلوب کا شاعر ہے۔ اس کی نظمیں (ایک پنجابی ضرب المثل کے استعمال کے لیے معافی چاہتا ہوں ) "بوڑھی دادی کا جھاٹا” یعنی الجھے ہوئے بال نہیں ہیں ، جنہیں تخاریب التحل کے عمل سے گذار کر ہر بال سیدھا کرنا پڑے۔ بیانیہ کی جزویات، زبان کا رکھ رکھاؤ، استعاروں اور علامتوں کی کچھ مبہم اور کچھ غیر مبہم مشاطگی، بنیادی استعارہ "پھول” کیے اسٹرکچر کی نامیاتی وحدت، جو شروع سے آخر تک قائم بالذات رہتی ہے، ایک واحد متکلم کی روداد جو صحیح، معین اور جزویات میں درست وقائع نگاری سے عبارت آرائی کی حدود پار کرتے ہوئے اپنے نقطہ ٔ آغاز پر لوٹ آتی ہے، ” تُو”، جو فرد مقابل ہے، اس کا غیر حاضر اور غائبانہ ہیولے ٰ، یہ سب رفیق کے "اپنے ” ہیں ان میں "پنڈی اسکول ” کے دیگر افراد کی کوئی مشترک جہت نہیں ہے (جاری ہے )

ستیہ پال آنند: ارسطو کی بوطیقا سے لے کر آج تک متعدد اہل فکر و نظر نے اپنے اپنے انداز میں صریحاً یا کنایتاً کہا ہے کہ کوئی بھی شعری کاوش اس وقت تک کلیتاً "شعری” کہلائے جانے کے قابل نہیں ہوتی جب تک کہ وہ جذبے کو کانسیپٹ میں یا تبدّل و تغیّر میں کانسیپٹ کو جذبے میں پگھلاتے ہوئے شعری اظہار کی مختلف جہتوں کو بروئے کار نہ لائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ جہتیں کیا ہیں۔ لفظیات کی سطح پر موزوں الفاظ کا استعمال، پیکر تراشی اور تصویر سازی کی سطح پر استعارہ اور امیج ییٹرن، اور علامت و رمز کی سطح پر

 Symbolic relevance, appropriateness and relatedness

 کا خیال نہ رکھا جائے۔ اس نظم میں یہ بدرجۂ اتم موجود ہے۔ دوسری بات مَیں کمرہ ٔ جماعت میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ کسی نظم کی تدریس میں جہاں دو متوازی الزاویہ اقدار پر بحث مقصود ہو تو سیدھی سادی براہ راست طریقے سے عین ممکن ہے، لیکن اگر یہ اقدار مساوی یا متوازی الزاویہ نہ ہو کر تطابق میں نہ ہوں ، ان میں متفاوت ہو اور ان میں سے ایک کا جھکاؤ افزوئی کی طرف یا کمتری کی طرف ہو تو اس نظم پر بحث کے دو مختلف طریق کار ہیں۔ ا

 Block block comparison & contrast /

 or /

 Item item comparison & contrast

ستیہ پال آنند: اس نظم میں یہ عین ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کر کے ہم دیکھیں کہ "گل انفعال پذیر” کی حالت پہلے کیا تھی، پھر جب پتی پتی بکھر گئی اور وہ گلشن سے ویرانے میں "ہوائے غیب” کی کرم فرمائی سے آ گرا تو اس کی حالت کیا ہے۔ شاخ کے ساتھ پیوست رہنے کی سابقہ خواہش جس کے لیے اسے نوری سالوں کا سفر اختیار کرنا پڑا اور حال کے اس لمحے میں جب وہ خود کفیلی اور خود اعتمادی کے ذہنی ساختیے میں مطمئن ہے، اس کی کیا حالت ہے۔۔۔۔ ا س کے لیے ہمیں میٹرک میں حساب کے مضمون میں تجارت کے سوالوں کی طرح دو متوازی کالم بنانے پڑیں گے اور آئٹم بائی آئٹم یا بلاک بائی بلاک ان امیجز، تصویری مفاہیم کی حامل پرانی تمثالوں اور تشبیہوں کو ان میں درج کرنے کے بعد یہ دیکھنا ہو گا کہ ان میں کیا تفاوت ہے۔۔۔۔ دوستو، ا ب یہ جزو بہت طویل ہو گیا ہے۔ اسے بند کرنے سے پہلے میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں نظم کو اس عمل سے گذار سکتا ہوں ، لیکن یہاں میں ایک مباحثے میں برابر کا شریک ہوں اور مجھے پروفیسری کا گاون پہننے کا کوئی حق نہیں ہے، اس لیے میں یہ کام نہیں کروں گا۔ (جاری ہے )

 یہ لکھ چکنے کے بعد میں نے کچھ اقتباسات پڑھے اور مجھے احساس ہوا کہ نظم کے مرکزی خیال پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ میں ، ما سوا اس کے، کہ کہوں ‘ میں سب کی تائید کرتا ہوں ‘، اور کچھ نہیں لکھ سکتا۔ اشعر صاحب کا فرمانا بجا ہے کہ تشریح کا دوسرا نام تنقید نہیں ہے۔ اور کچھ مندرجات میں تشریح کا عمل تشریح الابدان، یعنی مفرد یا مرکب میں تمیز کیے بغیر متن کے افتراق و انشقاق کا عمل قرار پایا ہے۔ تاویل و توجیہہ تو اس عمل میں معاون ہو سکتے ہیں ، لیکن حاشیہ آرائی اور عقدہ کشائی نہیں ہو سکتی اور مزید بر آں یہ کہ مضمون در بطن شاعر فرض کرتے ہوئے علم فراست الید کا استعمال تو نظم کش ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ‘کوٹ’ دیکھیں

 Evaluation is the process of appraisal and assessment, not of judgment۔

 یہ اس کتاب سے ہے جسے ہم نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تنقید کا حرف آخر سمجھ کر پڑھایا

 Seven Types of biguity

 اس وقت سکۂ عام تھی، چہ آنکہ ان پچاس برسوں میں اس کو پیچھے چھوڑا جا چکا ہے۔ بہر حال یہ بات درست ہے کہ رفیق کی اس نظم کی روح اصل تک پہنچنے کی تگ و دو میں کچھ مندوبین شاعر سے بھی آگے دوڑتے ہوئے نکل گئے ہیں۔ میں ان کی ہمت کی داد دیتا ہوں۔ لیکن خود نظم فہمی کو ان دوستوں پر چھوڑتے ہوئے صرف اس نظم کی تکنیک کے بارے میں ہی کچھ لکھنے پر ہی اکتفا کرونگا۔ (جاری ہے )

ستیہ پال آنند: تو، آئیے، بات کریں۔

 میں اپنا بیان ایک بار پھر اپنے لکھے ہوئے دیباچے سے شروع کروں گا۔ میں نے لکھا تھا کہ کوئی بھی جینوئن شاعر اپنی زندگی کے خارجی اور داخلی محرکات سے منتخب کر کے ایک ترجیحی دائرہ اپنے ارد کرد حصار کی طرح کھینچ لیتا ہے۔ کئی دفعہ یہ دائرہ، اپنے گول آکار کو بدلتے ہوئے، ربڑ کے غبارے کی طرح پچکتے ہوئے یا بڑھتے ہوئے عجیب الخلقت اشکال اختیار کر لیتا ہے لیکن پھر بھی اپنی لچھمن ریکھا کے اندر رہتا ہے۔ اس عمل میں یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ ترجیحی دائرہ ‘کانسینٹرک دائرہ’ یعنی پہلے دائرے کو کاٹتے ہوئے، کئی اور دائروں کی شکل میں اس کے گول آکار میں ہی اپنی مختلف اشکال میں نمودار ہو۔ (مثال کے طور پر میری اپنی نظم "دائرہ در دائرہ” ہے، جو سرطان کی بیماری کے خلیوں اور تخلیقی قوت کی کارکردگی کے خلیوں میں مناسبت تلاش کرنے کی ایک سعی تھی)۔ رفیق سندیلوی کے ہاں یہ طریق کار (میں ے لکھا تھا) بہ طور محرک اور بہ طور تکمیل کار، یعنی دائرے کے ایک نقطے سے چلتے ہوئے اسی نقطے پر واپس پہنچنے کع عمل میں پورا سفر طے کرنے کی صلاحیت میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ کانسینٹرک دائرے اسے بہلا پھسلا کر خود میں مدغم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، لیکن کئی بار راستہ بدلنے کے باوجود، وہ واپس اپنے مدار پر پہنچ کر اپنے سفر کی تکمیل کرتا ہے۔ میں نے لکھا تھا۔ (اقتباس) "یہی ایک وجہ ہے جس کے طفیل اس کی ساری نظمیں نامیاتی وحدت کے بہترین نمونے ہیں۔ "

ستیہ پال آنند: میں نے "سواری اونٹ کی ہے "، پر عملی تنقید (مشمولہ نقاط، ) میں زیڈ ریڈ پولک (پیدایش ۱۷۸۷ء، وفات ۱۸۵۶ء) کو کوٹ کیا تھا۔ پولک نے شاعری کے وظائف کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وظائف بذات خود لوک گیتوں ، لوک ریتوں یا رواجوں اور جادوئی کمالات ک عنصر شاعری میں سموتے ہوئے اس حد درجہ معنی خیز بنا دیتے ہیں۔ ماحول اور معاشرتی اقدار اپنی جمالیات خود تشکیل دیتے ہیں لیکن قارئین ان وظائف کو اپنی زندگی، ‘رِیت’، رواج، بچپن میں سنی ہوئی کہانیوں سے نوڑ کر معانی خود اخذ کر لیتے ہیں۔ قاری اساس تنقید کا ذکر تب تک نہیں چھڑا تھا، لیکن اب اگر پولک کی بات کو اس سے منسلک کریں تو جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے، اس کی طرف اشارہ تو مندوبین نے کیا ہے، لیکن کھل کر بات نہیں ہوئی۔ صدف مرزا لکھتی ہیں۔ "باغِ بہشت سے اذنِ سفر، یا خروجِ جنت کا واقعہ کوئی ایسا اچھوتا موضوع نہیں ہے جس کو کسی نے پہلے اپنی تحریر میں نہیں پرویا، ” شہزاد نیر لکھتے ہیں۔ "اب اس حصے کی پہلی تین لائنوں کو پڑھتے ہوئے مثنوی مولانا روم کی ابتدا میں ” نَے نامہ” کے اشعار کو یاد کریں۔ نَے کا نیستاں سے جُدائی کو شرحِ دردِ اشتیاق کہنا اور فراق میں نالہ زن رہنا۔۔ یہ ایک ایسی مطابقت ہے جو آگے بھی نظم کے امکان و آثار میں ساتھ چلتی ہے لیکن نظم کا آخری حصہ عہدِ جدید کا فکری منظر نامہ ہے اور اسی میں نظم کا جوہر سمٹ آیا ہے۔۔ پھر ایک بارنیر لکھتے ہیں۔ "ہوائے غیب یعنی ہدایتِ آسمانی کی رہنمائی میں روحانی ارتفاع کے حصول اور آسمانوں سے وصال کی اس کوشش کا ناکام رہنا ایک اہم نکتہ ہے۔ عہدِ حاضر میں تو یہ کہا گیا ہے کہ: آسمانوں میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ لیکن آپ عطّار کی مثنوی "منطق الطیر” کا آخری حصہ ذہن میں لائیں جہاں ہزار کٹھنائیوں کے بعد حاصل ہونے والی منزلِ مقصود پر آئینے کے سوا کچھ نہ تھا!انسان جو صدیوں تک اپنے زورِ تخیل سے آسمان کو باغوں سے سجاتا رہا مگر جب عقل کے راستے سے اُسے وہاں کوئی ریاضِ ارم نہ مل سکا تو وہ اس روحانی کاہش کے کرب کو سہہ نہ سکا اور بے سمتی کے عالم میں یقین و عدم یقین کے مابین مُعلّق رہا۔ توہّم۔ تخیل اور ماورائیت کی بنیادوں پر کیے گئے اس سفرِ مراجعت میں اُسے کامیابی نہ ہو سکی تھی۔ ” قطعیت اور سکہ بند تاریخیت شاید یہ گوارا نہیں کرتی لیکن یہ سچ ہے کہ اسلام ہو، صہونیت ہو، عیسائی مذہب، بودھ دھرم ہو، کہ ہندو مت۔۔۔ سب میں دیومالائی پیٹرن میں انسان کے خروج کا تذکرہ ملتا ہے، کہیں یہ بہشت ارم سے ہے، کہیں آکاش گنگا سے ہے کہیں اندر سبھا سے ہے۔ اب اگر بین المتونیت کی سطح پر قاری کا ذہن اپنی نسلی لاشعور کی سطح پر یہ قبول کرتا ہے تو اسے اس نظم کی داستان کو قبول کرنے میں کیا عذر ہو گا۔

 نوٹ۔ میرا بیان مکمل نہیں ہوا۔ میں شاید ایک بار پھر حاضر ہوں گا۔

ستیہ پال آنند: صاحب صدر اور دوستو، مجھے معاف کیا جائے کہ میں نے غلط کالموں میں یہ سب کچھ پہلے پوسٹ کر دیا۔

قاسم یعقوب: نظم کی کچھ تعبیریں یوں اپنی شکل بناتی ہیں : ۱۔ نظم میں ازلی مہجوری کا دکھ اصل میں صوفی فکر کا گیان ہے۔ "شہودی فکر” میں انسان کا وجود اپنے موجود سے الگ اپنی پہچان رکھتا ہے اور اُسے اپنی "شرکت "سے کائنات کے معنوی فلسفے کی آبیاری کرنی ہے۔، نظم میں مذہبی فکر سے ہی استفادہ کیا گیا ہے۔ صحائف میں مذکور ہے، انسان کو زمین پراُس کے جرم کی پاداش میں بھیجا گیا ہے۔ شاعر اسی مذہبی فکر کی تکمیل میں پہلے دو حصوں میں ” وجودی فکر” کے سہارے اپنے اصل کی طرف مُراجعت کرتا ہے مگر کہا جاتا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے یعنی آگے کچھ نہیں کھیت میں جو اُگتا ہے وہی خرمن کالباس ہوتا ہے۔ کھیتی میں کچھ نہیں تو آگے بھی کچھ نہیں ہو گا۔ یوں ہم اس فکر کو[یا شاعر کے بقول پہلے دو بندوں میں ]مرکزِ اصل سے وصل کی بے کار اور بے معنی جہد سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اگر حیات جولاں گاہِ اعمال نہیں تو پھر اس عرصے میں پڑاہوا وقت [یا ملا ہوا وقت] کس کام کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر کو نظم میں مراجعت کے بعد اپنی اصل کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اس ایقان کے ساتھ نئی جستجو میں داخل ہوتا ہے کہ ازلی مہجوری کوئی فلسفۂ حیات نہیں۔ صوفیا کے وجدانی مراقبے، اس نظم میں شاعر کی اس مراجعت کا تقابلی مطالعہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ وجودی صوفیا اس گورکھ دھندے میں پھنس کے ایک غیر مرئی کیفیت میں پڑے رہتے ہیں۔ شاعر بھی اس بھیانک عرصے تک اسی ازلی مہجوری میں پڑا ہُوا تھا[میں پڑا تھا خشک زمین پر/تری شاخِ سبز کے دھیان میں ]مگر مُراجعت[وجدانی مراقبے ] کے سفر نے اُسے دوہرا صدمہ دیا۔ گویا وہ ایک فکر سے غیر مطمئن ہو کے پلٹتا ہے۔ یہ فکر”وجودی فکر” ہے۔ اب وہ اپنے گیان میں غوطہ زَن ہو کے نئی معنی تلاش کر لاتا ہے اور وہ ہیں شہودی فکر کا” ایقانِ غیر متزلزل”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خودشناسائی اس فکر کا حاصل ہے، اپنی شرکت سے تصویرِ کائنات کے رنگوں میں اضافہ اس کا مقصد ہے۔ یوں وہ کائنات کو اپنی شرکت دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ اپنے رنگ کابہت سے رنگوں میں بکھر جانے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔

 ۲۔ مجھے اس نظم کی ایک تعبیر شاعر کی شعری اور تخلیقی سیرابی میں بھی نظر آ رہا ہے۔ "پانی کا سرمایہ” رفیق کی ایک منفرد نظم ہے جس میں گھر کے نلکے کا پانی زیرِ زمیں اُتر جاتا ہے۔ شاعر کے لیے بہ ظاہر یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کہ پانی کہاں سے لیا جائے۔ بالآخر زیرِ زمیں پانی سے نلکے کی حدوں کو ملانے کے لیے اوپر سے نیا پانی ملایا جاتا ہے۔ یوں نلکا پانی بھرنے لگتا ہے۔ وہاں بھی پانی ایک تخلیقی سرگرمی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ تخلیقی سوتے جب خشک ہونے لگتے ہیں تو کوئی انسپائریشن اُسے دوبارہ تخلیقی جذبات سے مالامال کرتی ہے اور شاعر پھر اپنے کیفِ ہست میں سرود و سرور کے نغمے الاپنے لگتا ہے۔

 پیشِ نظر نظم میں بھی ہم ایک پڑھت میں دیکھتے ہیں کہ شاعر اپنے تخلیقی بانجھ پن سے نکل کر اپنے انسپائریشن Sourceکو تلاش کرنا ہے۔ وہ اپنے فطری انسلاکات سے رجوع کرتا ہے مگر وہاں اُسے بانجھ پَن کا منظر ملتا ہے اور آخرِ کار وہ اپنے وجود کے قرب میں تخلیقی وجد دریافت کرتا ہے۔ شاخ سے کٹنا شاعر کا تخلیقی بانجھ پن ہے جو اُسے ضبط وبست سے محروم کر دیتا ہے۔ شاعر اپنے تخلیقی Originکو تلاش کرتا وہیں آ نکلتا ہے مگر اُسے وہ جذباتی کیفیات نہیں ملتیں جس سے اُس کا تخلیقی بانجھ پن دور ہو سکے۔ اشیا اپنے تناظرات بدلتی رہتی ہیں ، شاعر اُس خواب آمیز مہجوری کے اس قدر بھیانک انجام پر دوبارہ زمین پر آ لگتا ہے۔ زمین پہ پڑے رہنا اُس کیفیت کا اظہاریہ ہے جب تخلیقی وجد روٹھ جاتا ہے اور شاعر اپنے مرکز کو پانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ بہرحال وہ اپنے کیفِ ہست میں پناہ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جب وہ اپنے وجود سے منسلک تخلیقی کیفیات سے سرشار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں پھول کا انفصال پذیر ہونا اور پھر اپنے انقطاع کے دکھ اور انسلاک کی کوششوں کے بعد اپنے حجلۂ رنگ اور روغنِ حسن کو پا لینے کا اعلان تخلیقی بانجھ پن سے تخلیقی سرشاری کی طرف آنے کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔

 رفیق کا ایک شعر ہے :”میری خواہش ہے میں آواز کو صورت دے دوں /اور آواز کی صورت گری ناممکن ہے "۔ آواز کی صورت گری مشکل عمل ہے، فطرت مخالف رویہ ہے مگر ایقان کے غیر مرئی احساس کو لفظ پہنانا مشکل نہیں ، یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب تخلیق کا انجانا احساس اپنے ایقان کوپا لیتا ہے۔ تخلیق کی سرشاری تخلیق کار کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے

محمد حمید شاہد: جناب صدر، آپ نے فرمایا کہ میں کچھ کہوں جب کہ فاضل نظم نگار کا ایس ایم ایس موصول ہوا ہے کہ اگر میں نظم کے حوالے اپنی پہلے والی رائے پر قائم ہوں ، تو مزید کچھ نہ کہوں۔ تو یوں ہے کہ میں کچھ نہیں کہہ رہا۔

تصنیف حیدر: شاہد صاحب! اول تو کسی نظم پر بات نہ کرنے کا یہ کوئی جواز ہی نہیں ہے کہ شاعر آپ کو اس پر بات کرنے سے منع کر رہا ہے۔ ہمیں کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا اس کا فیصلہ ہمیں کرنا ہے اور کسی کو نہیں۔ آپ مجھ سے علم، عمر اور تجربے تینوں میں کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ ایک طرف اگر آپ نظم نگار کا کہا مان رہے ہیں تو دوسری جانب میرا ہی نہیں تمام اہل حاشیہ کی آپ سے محبت کا حق ادا نہیں کر رہے۔ اب میں رفیق سندیلوی اور احباب حاشیہ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ کم از کم نظم کا دورانیہ مکمل ہونے تک اس کے بارے میں ایک دوسرے سے کسی قسم کی کوئی گفتگو نہ کریں۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حاشیہ ایک ایسا فورم ہے جس کے منتخب افراد حاشیہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی بھی ضرورت ہیں۔ گفتگو بہت اچھی چل رہی ہے۔ شاہد صاحب! ہم لوگ آپ کی رائے کے منتظر ہیں

معید رشیدی: حاشیہ کے منشور میں یہ بھی ہے کہ بحث کے دوران شاعر خاموش رہے گا۔ اسے بولنے کی اجازت اس وقت ہو گی جب اس کی ضرورت پڑے، ورنہ اخیر میں تو اس کا حق ہی ہے۔ اظہار پر کسی طرح کی پابندی مناسب نہیں۔ موافق یا مخالف، ہر طرح کی علمی بحث کا استقبال ہونا چاہیے۔ شکریہ۔

تصنیف حیدر: تائید

محمد حمید شاہد: جی جناب صدر آپ نے بجا کہا مجھے اپنی بات کہنے سے رکنا نہیں چاہئیے۔ معید جی یہ بھی درست کہ علمی بحث کا استقبال کیا جانا چاہئیے۔ اگر ممکن ہوا تو میں تفصیلی گفتگو کے لیے پھر حاضری دوں گا، احباب اس عرصہ میں میرے سوالات کو چاہے رد کریں ، ان پر بات ضرور کریں۔ قاسم یعقوب نے نظم کی تشریح، یا اسے ماپا درست درست مگر اس باب میں میرے لطیف اشاروں کو اپنی تشریح کے زور پر نادرست جہت دے کر رد کر دیا، اگر ممکن ہو تو وہ ایک دفعہ میرے نوٹ کو پھر سے پڑھ لیں۔

 نظم میں "تیری شاخ” کہہ کر تخاطب والی بات، ہوائے غیب کے زور کا شاخسانہ، ایک میکانکی وحدت کی موجودگی تو پے کہ جو ان سب تشریحات کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ وہ سب تشریحات جو ہم بہ سہولت کر رہے ہیں مگر ایک نامیاتی وحدت کا ٹوٹنا کہ جو تیسرے حصے کو فاصلے پر رکھ دیتا ہے۔ پھر پہلے اور آخری مراحل میں ایک سے نتائج،یعنی خاص طرز وحساب کی خو شبو، جسم کا رنگ و روغن، عمیق درد، کہیں کہیں سے سرخ ہونا اور کہیں کہیں سے زرد، اور حرارت لمس۔ یہی سب کچھ آخری حصہ میں پہنچتے ہوئے بھی معیار رہتے ہیں اور پہلے کی طرح دھیان میں ہونے کی دلیل، تب ہی تو نظم نگار نے کہا ہے "وُہی ضبط و بست جو مجھ میں تھا/وُ ہی کیفِ ہست جو مجھ میں تھا ” گویا "تیری شاخ” سے مکالمہ موجود، اس کی طرف دھیان قائم، مگر شاخ سے کٹنے کے بعد اپنی ہستی میں خود مکتفی ہونے کا جواز "ہوائے زور” کے علاوہ کہاں ہے (ظاہر ہے ہوائے زور جواز نہیں ہے )جو اسے نامیاتی وحدت(میکانکی وحدت نہیں ) میں ڈھال دے۔ یہ جواز چاہے شاعرانہ سطح کا ہو، مافوق ہو (جیسا کہ اس”عجیب مافوق سلسلہ” میں تھا)، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ شاعر تو اپنی منطق خود بنایا کرتا ہے آپ جوں ہی وہ منطق نشان زد کریں گے میں اس ٹوٹے ہوئے تارے کو ماہ کامل سمجھ لوں گا۔ تاہم یہ بات تو میں پہلے ہی تسلیم کر چکا ہوں کہ یہ نظم کنکر نہیں ، ٹوٹا ہوا سہی مگر جھل مل کرتا تارا ہے۔

پروین طاہر: صاحب صدر اس میں تو کوئی شک ھی نہیں کہ میرے محترم دوست جناب حمید شاہد نظم کے بے مثال پارکھ ہیں۔ اور میں تہہ دل سے ان کی اس صلاحیت کی قائل ہوں۔ چونکہ یہ ایک علمی بحث چل رہی ہے اس لئے چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گی۔ اچھی نظم میں کہیں کہیں gaps ہوتے ہیں جو شعری اخفا ء، رمز، اور ایمائیت کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں ہر قاری اپنے طریقے سے پر کرتا ہے۔ یہ شعری اخفاء نظم کی کمزوری نہیں نظم کا حسن تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایمائیت ہی تو نظم کو ملٹی ڈایمنشنل بناتی ہے۔ صرف آپ کو کسی شاعر کے معنیاتی نظام کے ساتھ مانوس ہونا پڑتا ہے۔ البتہ چونکہ آپ کو شاعر کی نظموں کی دوسری لاٹ پسند ہے اس لئے کچھ مسائل تو پیدا ہو سکتے ہیں۔ میں پوری ایمانداری سے کہتی ہوں کہ جہاں سے میں نے نظم کو دیکھا ہے مجھے اس میں کوئی گیپ نظر نہیں آ رہا۔ اس کے باوجود ہم آپ کے نقطۂ نظر کا احترام کرتے ہیں یقیناً اس کی کوئی ٹھوس وجہ ہو گی یا پھر اس مقام کی جہاں سے آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور آپ کو یہ ستارہ ٹوٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔

محمد حمید شاہد: صدر محترم کیا یہ انتہا درجہ کی ستم ظریفی نہ ہو گی کہ ایک شخص کو "نظم کا بے مثال پارکھ” کہا جائے اسے یقین دلایا جائے ‘ "تہہ دل سے اس کی صلاحیت” کو مانا جا رہا ہے مگر پہلی سانس ٹوٹنے بھی نہ پائے اور کہہ دیا جائے کہ ‘نظم کا یہ بے مثال پارکھ’ یہ تک نہیں جانتا کہ:

 ‘اچھی نظم میں کہیں کہیں گیپس ہوتے ہیں جو شعری اخفا ء، رمز اور ایمائیت کے زمرہ میں آتے ہیں ، جنہیں ہر قاری اپنے طریقے سے پر کرتا ہے۔ ‘/’ شعری اخفاء کو نظم کی کمزوری نہیں نظم کا حسن تصور کیا جاتا ہے۔ ‘/’ ایمائیت ھی تو نظم کو ملٹی ڈایمنشنل بناتی ہے۔ صرف آپ کو کسی شاعر کے معنیاتی نظام کے ساتھ مانوس ہونا پڑتا ہے۔ ‘

 جناب صدر، جو شخص ان بنیادی باتوں سے آگاہ نہیں اسے "نظم کا پارکھ” تو کیا نظم کا سنجیدہ قاری کہنا بھی کسی شدید مذاق سے کم نہ ہو گا۔ میں ایک بار پھر گزارش کروں گا کہ جن گوشوں کی جانب میں نے اشارہ کیا ہے نہ تو وہ جمالیاتی بعد، رمز اور ایمائیت کے قرینے ہیں ، نہ ایسے شعری اخفا کا حیلہ جو نظم میں متعین اور اکہرے معنی کی چوندھ گھٹا کر ایسی دھند بناتے ہیں جو متن کو گھمبیر گہرا اور پہلو دار بنا دیا کرتے ہیں اور نہ ایسے رخنوں کی وجہ سے کوئی نظم ملٹی ڈایمنشنل ہوتی ہے۔ جو میں نشان زد کر آیا ہوں وہ نظم کی نامیاتی وحدت کو توڑتے ہیں۔ کیا ہم براہ راست ان پر بات کر سکتے ہیں ؟ میرا یہ سوال نظم کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہے اور میں اس حیثیت میں خوش ہوں۔

پروین طاہر: شاہد بھائی میں نے آپ کو کچھ سمجھایا نہیں آپ کی طرح اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور اپنے مؤقف کو بیان کرنے کے لئے دلائل دئے ہیں۔ اگر آپ کو برا لگا ہے تو معذرت خواہ ہوں۔ اور اگر کچھ فاضل دوست یہ سمجھتے ہیں کہ اختلاف رائے جرم ہے، منفی بات ہے دلیل کا جواب دلیل سے نہیں دیا جا سکتا تو اتنیsuffocation کسی بھی فورم کے لئے اچھی نہیں ہوتی۔ ہمارا آپ کا تخلیق کا انٹیلیکٹ کا اور احترام باھمی کا رشتہ ہے۔ ایک آدھ اختلاف سے کوئی قیامت تو آ نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔ میری آپ کے بارے میں جو رائے ہے وہ اس نظم پر یکساں رائے نہ ہونے سے یا آپ کے غصہ کرنے سے تبدیل تھوڑی ہو گی :)))))))) یعنی میں آپ کو نظم کا بیمثال پارکھ سمجھتی رہوں گی۔ اور کبھی کبھار آپ سے اختلاف کی جرأت کرتی رہوں گی :))))

تصنیف حیدر: دوستو! یہ مقام بہت ہی اہم ہے۔ یہاں ذاتی طور پر خود کو نظم سے جوڑنے کے بجائے ہمیں ایک دوسرے سے بلاوجہ الجھنا نہیں چاہیے۔ شاہد صاحب! جہاں تک میں سمجھتا ہوں پروین طاہر کی بات کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا کہ آپ کو اتنی سی بات ک بھی علم نہیں کہ کسی اچھی نظم میں جگہ جگہ گیپس ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ دعوی دلیل طلب ہے۔ جیسے کہ آُپ نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ رفیق سندیلوی فضا بندی کے لیے کئی مصرعے خلق کرتے ہیں۔ یہ جملہ ستائشی ہے یا نہیں میں نہیں جانتا لیکن فضا بندی کا جہاں تک تعلق ہے یہ بھی نظم نگار کی ایک کمزوری ہی ہوتی ہے۔ کوئی شخص اچھا نظم نگار ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہمیشہ اچھی نظم ہی تخلیق کرے گا۔ غالب کے یہاں بھونڈے اور بھدے شعر بھی ہیں۔ میراجی نے کچھ اوٹ پٹانگ نظمیں بھی لکھی ہیں۔ لیکن اس سے ان کے ادبی قد کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کبھی کبھار نظم کا بے مثال پارکھ بھی افہام و تفہیم کے معاملے میں چوک سکتا ہے۔ جہاں تک مجھے سمجھ آیا ہے آپ کا اعتراض نظم کی نامیاتی وحدت پر ہے، اچھا یوں کرتے ہیں کہ آپ کے اعتراض پر از سر نو نظر دوڑاتے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے ‘ نظم دوسرے حصے میں مکمل ہو گئی تھی مگر شاخ سبز کا تصور قصداً منہا کیا جاتا ہے، یکایک انقطاع کا دکھ بھی نہیں رہتا تو ہوائے غیب کا زور بھی مطمئن نہیں کرتا اور سوال برقرار رہتا ہے کہ یہ خوشگوار سانحہ کیسے ہوا؟۔ اس مضمون کے لیے نظم کے پہلے دو میں سے کسی حصے میں قرینہ رکھ دیا گیا ہوتا یا پھر ان بکھری پتیوں کا اس زمین میں فنا ہونے سے ایک نیا رشتہ قائم ہوتا، زمین کی زرخیزی اور نئے بیخچے اور راس جنین کے پھوٹنے کا (کہ اس کا تو التزام نظم کی اس لائن میں پہلے سے تھا ” میں پڑا تھا خشک زمین پر/ تیری شاخ سبز کے دھیان میں ") بس شاعر نے شاخ سبز کے دھیان کو توڑنا تھا مگر اس نے اس نظم کی نامیاتی وحدت ہی کو توڑ دیا” میں تمام ارکان حاشیہ سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ اس سوال پر غور کر کے اس کا جواب دیجیے کہ آخر جب تک گل نے مراجعت کا سفر طے نہیں کیا یا جب تک وہ شاخ سبز کے وصال سے ہم کنار نہیں ہوا یا اس کے دھیان کے سحر سے باہر نہیں آیا پھر بھلا اس کے انقطاع کا دکھ کیسے رفع ہو گیا۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ سوال غیر اہم نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کا جواب نہیں ہو گا۔ اور اگر نہیں ہے تو بلاشبہ یہ نظم کی کمزوری ہی ہو گی۔ ہم نظم پر فیصلہ سنانے نہیں آئے ہیں۔ رائے دینے بیٹھے ہیں۔ اور سوال علمی ہے تو جواب بھی علمی ہی ہونا چاہیے۔

انوار فطرت: جنابِ صدر! نظم سے لطف اندوز ہونے ے ا اس کی تفہیم کے لیے راج مستری ہونا ہی ضروری ہے تو پھر تو ہم ٹھہرے ادبی بھوندو اور ہمی کیا اے سوں کے تو شہر بس جائیں گے۔

 سوال یہ ہے کہ جب کوئی تخلیق ہم پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہوتی ہے تو کیا ہم فیتہ لے کر اس کی میپنگ کر رہے ہوتے ہیں یا بلڈوزر پر سوار ہولیتے ہیں۔ تخلیق جتنی اعلیٰ ہو گی اتنی ہی لطیف ہو گی اور لطافت کی پیمائش، چہ معنی دارد؟ جسے ’’درسی قسم کا انداز‘‘ قرار دیا جا رہا ہے وہ تو وہی ہے جس پر قاسم میاں غزل، نظم، موسیقی ے ا تصویر کو دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نظم مردہ خانے میں چیر پھاڑ کر دیکھنے کی چیز ہے نہ لیبارٹری کی خورد بینوں ے ا نلکیوں میں سے گزار کر پرکھنے کی۔ تنقید بجائے خود اے ک تخلیقی رویہ ہے۔ تلطف کی دبازت اور عرض و طول کا کوئی فارمولا نہیں ہوتا اسے تو بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انسان کا محسوساتی عمل امتزاجی ہوتا ہے اور اس کی ہزار آنکھیں ہوتی ہیں وہ کسی ایک آنکھ سے نہیں دیکھتی بہ یک وقت ساری آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ یہ عمل کسی تخلیق پر ایک آنکھ نہیں کھولتا، ایسا کرنا تخلیق کی توہین ہے۔

 اچھی نظم وہ حیا دار محبوبہ ہے جس سے پہلی نظر ہی میں عشق ہو جاتا ہے اب وہ بھی اگر آپ پر مہربان ہو جائے تو کیا ہی بات ہے لیکن یاد رکھیے کہ وہ ایک دم سے نہیں کھلنے کی، کھلتے کھلتے کھلے گی۔ یہ بھی خیال رہے کہ آج تک کسی عاشق نے عشق فرمانے سے پہلے 32-19-32 کی پیمائش نہیں لی۔ یہ ٹولز والے نظریات کلاسوں میں پڑھانے کی چیزیں ہیں۔ تنقید کے ہاتھ میں اصطلاحات کی بیساکھیاں تھما کر اسے نادانستہ معذور کیا جا رہا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ عسکری، سلیم، مظفر علی سے د، شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی، ضمیر بدایونی، وارث علوی اب تک پڑھے جا رہے ہیں کیوں ؟ اسی لیے نا، کہ ان کے رویے دیسی ہیں جن سے ہمارے ذوق کو جِلا اور شوق کو ہوا ملتی ہے۔ اصطلاحات سے مرعوب تو خوب کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا تنقیدی مضمون کو تا آخر پڑھ ڈالنا مجھ جیسے کے لیے تو مانیے کارے دارد ہی ہوتا ہے۔

 پروین سے معذرت کے ساتھ! رفیق کی نظم میں سبز و زرد و سرخ مقبولِ زمانہ فلسفوں کی طرف اشارہ نہیں کیوں کہ ان رنگوں کا ذکر وہ آخر میں کرتے ہیں۔ میرے نزدیک ان سے مراد غالباً بہجت، وفور اور سرشاری ہے۔ مجھے نہیں ے اد پڑتا کہ غار میں بے ٹھے اس آدمی نے ان موضوعات کو کبھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ کچھ توقف کے بعد بات آگے چلانے کی کوشش کروں گا۔

انوار فطرت: Please read as: kabhi derkhor-e-aetena sjha ho

انوار فطرت: حمید شاہد! بھیّا کیا ہو گے ا؟ کیا آپ کو ے قین ہے کہ بہن پروین آپ کے بارے میں ایسا سوچ سکتی ہیں ؟ وہ تو مجھ جیسے گھامڑوں  کی رائے کو بھی۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ اس وقت حالتِ جلال میں ہیں میری اس بات کا بھی مطلب غلط نکالا جا سکتا ہے

پروین طاہر: صاحب صدر آپ کی اجازت سے۔۔۔۔۔۔۔۔ انوار بھائی آپ نے شاھد بھائی سے میری سفارش کی بہت اچھا لگا وہ بھی میرے بہت پیارے بھائی ہیں کل تک مان جائیں گے :)))) جہاں تک سبز، سرخ اور زرد رنگوں کی تعبیر کی بات ہے تو میرے فریم آف ریفرنس میں (جس میں رہتے ہوئے میں نے نظم مطالعہ کیا ہے ) یہ تعبیر relevant ہے۔ البتہ آپ کی بات بھی غور طلب ہے۔ مگر غار میں بیٹھے شخص کا گیان دھیان دنیا سے منقطع تو تصور کیا جا سکتا ہے ماورا نہیں۔ جس تعبیر کی طرف آپ نے اشارہ دیا ہے وہ تو پہلی نظر میں سامنے آتی ہے۔ وہ روپ خوبصورت ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک تشریحی ممانعت رکھتا ہے اس لئے ہم سب اس کو اپنی اپنی پسندیدہ جہت سے دیکھ رہے ہیں بیک وقت سب جہتوں سے نہیں۔

ظفر سیّد: جنابِ صدر، میں آپ کی اجازت سے پروین طاہر صاحبہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ حمید شاہد صاحب اتنی آسانی سے روٹھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ انہیں واقعی ناراض کرنے کے لیے بہت جوکھم کرنا پڑے گا اور ویسے بھی اختلافِ رائے کسی بھی ادبی مکالمے کا بنیادی پتھر ہوتا ہے۔ سبھی ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں ملاتے چلے جائیں تو بات کہاں آگے بڑھتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس نظم پر بہت معیاری گفتگو ہو رہی ہے اور سبھی پہلوؤں کا بہت گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جا رہا ہے۔

 جنابِ انوار فطرت نے بات مزید آگے چلانے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کے تبصرے کا انتظار رہے گا۔ البتہ ان سے گذارش ہے کہ وہ الفاظ کی درمیانی ی کے لیے Y کی بجائے I کا استعمال کریں تاکہ ان کی بیش قیمت گفتگو کو پڑھنے اور محفوظ رکھنے میں آسانی ہو۔ شکریہ۔

محمد حمید شاہد: جناب یہ ناراضی اور برہم ہونے کی بات کہاں سے پھوٹ نکلی۔ لگتا ہے شاید اس میں میرا قصور ہو گا کہ مکالمہ کے دوران میں جو درست جانتا ہوں لپیٹ لپٹا کے نہیں صاف صاف کہہ دیتا ہوں۔ بدلحاظ ہو جاتا ہوں مگر بدتمیز نہیں ہوں۔ جو بات کھٹکتی ہے اسے ثابت کرنے کے لیے میں کسی کے نور پر تاریکی کا عنوان نہیں جماتا، مگر جہاں میل نظر آئے، لاکھ چاہوں نظر سے اوجھل نہیں ہوتی۔ اور ہاں پروین سے اور انوار آپ سے جو تعلق خاص ہے، وہ سامنے رکھا جائے اور میری اب تک کی ادبی زندگی بھی تو ناراضی کے ڈرامے کی طرف دھیان بھی نہیں جانا چاہیے۔ اب رہا رفیق کی نظم کا قصہ تو صاحب میں اس کا پرانا پرانا قاری ہوں ، ستیہ پال آنند نے بہت پہلے جب اسلام آباد راول پنڈی آکر، یہاں سے جانے کے بعد، پنڈی کے امیجسٹ نظم نگاروں کی ایک ٹرائیکا بنائی،علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر اور رفیق سندیلوی تو مجھے یہ یوں بجا لگی کہ یہی لوگ گزشتہ ربع صدی میں نظم پر نئے ذائقے کا دریچہ کھولنے والے تھے۔ میں رفیق کی نظم کا، اس غزل کا اور اس تنقید کا بھی قاری ہوں۔ جی تنقید کا بھی کہ جس میں وزیر آغا کی امتزاجی تنقید کو موضوع بنایا گیا تھا یا معاصر ادب اور ادیب پر بات کی گئی تھی۔ مگر ان سب میں مجھے اس کی نظم نے زیادہ قربت دی اور یہ تب ہوا تھا جب ہمارے اس نظم نگار نے ” غار میں بیٹھا شخص” کا مسودہ، کتاب چھپنے سے پہلے میرے پڑھنے اور اس پر غور کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ یہ ہفتوں میرے پاس رہا، پڑا کہاں رہا، میں نے اسے لفظ لفظ پڑھا، بار بار پڑھا، کتاب آئی تو بھی پڑھا اور اس رفیق کو پالیا جسے چاہوں بھی تو فاصلے پر نہیں پھینک سکتا۔ سو میرا سوال اس کی نظم کو مان لینے کے بعد کا ہے،

،۔ اورمیرا سوال اب بھی اسی طرح آپ کی توجہ چاہتا ہے۔ میں نے اس کے لیے نظم کے متن سے اشارے فراہم کر دئیے ہیں تاکہ ان ہی پر بات ہو، اور اگر میری تفہیم میں کوئی رخنہ ہے تو میں اسے دور کر سکوں۔ کیا ان اشاروں کو ایک بار پھر دہرانا ہو گا،

 گل انفصال پذیر کا”تیری شاخ”کہہ کر تخاطب۔

 شاخ سے ٹوٹنے میں گل کے کسی ارادے، اوبنے، طلب جستجو کا نہ رکھنا جانا۔

 انقطاع کے بعد بکھرنا، مگر ہوائے غیب کے زور سے مراجعت۔

 اس مراجعت کی سرشاری۔

 ہوائے غیب کے زور پر نوری سال کی مسافت مگر انسلاک کی خواہش فنا ہونا اور پتی پتی ہو کر بکھرنا

 اس فنا کے باوجود نظم کا ایک معنیاتی وحدت میں ڈھل جانا۔ کہ یہاں ایک معنیاتی دائرہ مکمل ہوتا ہے مگر نظم کا آگے بڑھایا جانا۔

 تیسرے حصے میں ” ہیپی اینڈنگ” کا میکانکی اہتمام،

 مگر "وہی کیف ہست” اور” وہی ضبط وبست” جیسی لائنوں کا بتانا کہ یہ کوئی نیا کیف ہست یا تصور ہست نہیں بلکہ ابھی تک انقطاع سے پہلے والا دھیان قائم ہے۔

 ایک اور بات، اوپر ہمارے ایک فاضل دوست نے نظم کو شیخ فرالدین عطار کی تمثیلی مثنوی منطق الطیر سے جوڑ کر دیکھنے کی سعی کی ہے، منظق الطیر میں سلوک کی جو سات وادیاں عبور کی گئی ہیں صاف لفظوں میں لکھتا ہوں ، جستجو، عشق، معرفت، استغنا، توحید، حیرت اور فنا، تو کیا نظم انہیں اپنے متن میں برتتی ہے ؟ ہاں یہ سب میری نظر میں تھا تب ہی تو میں نے یہ کہا تھا کہ” شاعر نے شاخ سبز کے دھیان کو توڑنا تھا مگر اس نے اس نظم کی نامیاتی وحدت ہی کو توڑ دیا”۔

اشعر نجمی: جناب صدر! آپ نے بالکل درست فرمایا کہ ہم یہاں نظم پر فیصلہ سنانے نہیں آئے ہیں اور یہ کہ کبھی کبھار نظم کا بے مثال پارکھ بھی افہام و تفہیم کے معاملے میں چوک بھی سکتا ہے۔ لیکن جب ہم کسی رائے سے اختلاف معتذرانہ انداز میں ، پنڈلیاں دباتے ہوئے کرتے ہیں تو وہی ہوتا ہے جو ہوا۔ پروین طاہر کی گرفت اور ان کے دلائل اتنے مضبوط اور منطقی تھے کہ انھیں "کانپتی ٹانگوں والے اختلاف” کے بجائے برملا اور سخت انداز میں اپنی بات رکھنی چاہیے تھی۔ کیوں کہ تنقید کا پہلا اصول تو یہی ہے کہ وہ جسے پسند کرتی ہے، اسی پر سخت وار کرتی ہے اور جسے پسند نہیں کرتی، اسے منھ نہیں لگاتی۔

 ظفر سید نے اس نظم کو تین ایکٹ ڈرامے کے طور پر پڑھا اور میرے خیال میں اس نظم کا سب سے اچھا اور مختصر تجزیہ انھوں نے پیش کیا۔ شاعر نے الگ الگ تصویروں کو جوڑ کر ایک مکمل تصویر بنانے کی کوشش کی ہے جو بہ یک وقت اس کے انفرادی وجود کا احساس بھی دلاتے ہیں اور ان سب کی ترتیب سے ایک نئے اور وسیع تر وجود کا بھی۔ یہاں شعور اور لاشعور کا تصادم منظر کے نامیاتی وحدت کو مجروح نہیں کرتا بلکہ اس نظم میں تجربے کا مفہوم، لفظوں کے علاوہ ان کے درمیانی وقفے میں بھی موجود ہے جن کی خاموشی کو آہنگ کا تسلسل آواز عطا کرتا ہے۔ نظم میں وہ منظر جو شاعر کے وجود سے باہر ہے اور وہ جو اس کے رد عمل کے طور پر شاعر کے ذہن اور احساس کی تختی پر ابھر رہا ہے، دونوں کی آمیزش سے ایک تیسرا منظر پیدا ہوا ہے جو نہ صرف خارجی صداقت ہے نہ محض داخلی تجربہ۔ یہ وقفے جو ایک فن کار کو کئی بار شکست بھی دے دیتے ہیں ، ہماری زندگی کی عصری سچائیوں ، ہمارے بیدار ذہنی جدوجہد اور ہمارے Blind spots کے رشتوں کو بھی بناتے ہیں۔ معروف ہندی شاعر مکتی بودھ نے انھیں ہمارے conditioned reflexes کا نام دیا تھا۔

اشعر نجمی: تفہیم اور تجزیے کی عام نوعیتیں ایک میکانکی طریق کار کی پابند ہوتی ہیں اور اسی منزل پر شعر میں اشکال، ابہام اور اہمال کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ شاید اسی لیے معید رشید ی نے اپنے کلیدی خطبے میں اس مسئلے کو زیر بحث لایا تھا، کیوں کہ انھیں ڈر تھا کہ اس نظم کے حوالے سے یہ خطرہ پیش آنے والا ہے۔ اردو کی تنقیدی روایت میں جب تک شاعری کے اسکولوں ، مکاتیب فکر اور شاگردی استادی کے سلسلے رائج رہے، افہام تو تفہیم کا عمل بھی معینہ خطوط پر جاری رہا۔ اس میں غیر متوقع کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ جب کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شاعر اپنے تخلیقی اظہار کی جو ہئیت ترتیب دیتا ہے، قاری (نقاد بھی قاری ہی ہوتا ہے ) کے ذاتی میلان و مذاق سے وہ مطابقت نہیں رکھتی، چنانچہ اس کے لیے ناقابل فہم بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہوتی ہے کہ قاری خود کو کمتر سمجھنے یا اپنی بصیرت کو ناکام دیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتا، اس لیے ایسی شاعری کے تعلق سے اس کا رویہ حریفانہ اور بعض اوقات مخاصمانہ ہو جاتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ ہر فن کی طرح شعری ہئیت کی مکمل تفہیم کا تصور محض ایک مفروضہ ہے اور یہ نظریہ اب کسی مخصوص مکتب فکر سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ عام ہوچکا ہے۔ حتیٰ کہ خود شاعر کے لیے بھی یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی تخلیق کے محرک اور اس کے نتیجے کو کسی منظم اور مربوط مسئلے کی شکل میں سمجھے۔ کالرج کا خیال تھا کہ شاعری کا تاثر اسی صورت میں زیادہ ابھرتا ہے جب اسے پوری طرح نہ سمجھا گیا ہو اور استدلالی فکر اس اعتراف پر مجبور ہو کہ شاعر نے تجربے کی جو ہئیت تعمیر کی ہے، وہ منطق کی گرفت میں نہیں آسکتی اور نہ ہی اس سے کوئی دو ٹوک نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔

 میں یہاں "شاخ سبز” اور "نامیاتی وحدت کے ٹوٹنے ” کی بحث کو اسی تناظر میں دیکھ رہا ہوں۔ وٹگنسٹائن کی یہ بات یاد رکھیے کہ "ہر لفظ حقائق کی تصویر ہے "۔ یا دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ بے معنی لفظ کی تخلیق انسانی استعداد سے باہر کی چیز ہے۔ الفاظ کو جب تک ہم ایک دوسرے سے نہیں جوڑتے، معنی یا تاثر کا تسلسل ہماری دسترس سے باہر ہوتا ہے۔ شاعر یہ کام اپنی تخلیق منطق کی روشنی میں کرتا ہے لیکن نقاد اسی کام کو تعقل اور استدلال کی روشنی میں انجام دیتا ہے۔ جناب صدر! میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کسی تخلیقی کاوش کو سمجھنے کا یہ کون سا طریقہ ہے۔ پھر مغرب کے "دادا شاعروں ” کی ان نظموں کی تفہیم کا جواز کیا ہو گا جنھوں نے اشاروں اور تصویروں کی مدد سے نظموں کے تاثر یا تجربے کی وضاحت کی تھی۔ کیا ہم بھول گئے کہ فراسٹ نے کہا تھا کہ صرف کان حقیقی لکھنے والا ہے اور کان ہی حقیقی پڑھنے والا ہے۔ یعنی شاعری کی ترکیب اصلاً اس کے آہنگ سے ہوتی ہے۔ کیا ایلیٹ نے ہمیں نہیں بتایا کہ آہنگ سے الگ مفہوم کوئی چیز نہیں اور اگر ان کے ٹکڑے کر دیے جائیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں کوئی خیال نہیں بلکہ صرف الفاظ ہیں۔ مجھے اپنی کم علمی کا مکمل احساس ہے لیکن اب تک میں نے یہی جانا ہے کہ شاعری ہو، مصوری ہو یا موسیقی، ان میں لفظی، صوتی یا بصری اظہار کی مختلف النوع صورتیں ایک کلی حقیقت بن جاتی ہیں اور ان کی تعمیر میں کام آنے والے عناصر اپنی انفرادی حیثیت کھو دیتے ہیں۔ چنانچہ کسی "شاخ سبز” وغیرہ جیسی مجرد ترکیب کو نظم سے علاحدہ کر کے دیکھنا اور پھر اس حوالے سے اس نظم کے خوب و زشت کا فیصلہ سنانا بالکل ایسا ہے جیسے ہم کسی انسانی وجود کو ایک مکمل اکائی کی صورت میں نہیں بلکہ اسے "اعضائے رئیسہ” کا مجموعہ سمجھ رہے ہوں۔ یہ کام حکیموں اور جراحوں کا تو ہو سکتا ہے لیکن کسی ادبی نقاد کا نہیں۔

پروین طاہر: صاحب صدر آپ کی اجازت سے۔۔۔۔۔۔۔۔ اشعر صاحب آپ کی بات اپنی جگہ پر ٹھیک ہے کہ مجھے اپنی دلیل پر مضبوط رہنا چاہئے تو عرض ہے کہ میں اپنی دلیل پر سختی سے قائم ہوں میں نے اسے واپس نہیں لیا۔ جہاں تک شاہد بھائی کی بات ہے ان کے ساتھ پندرہ سالہ پرانی ادبی رفاقت ہے، احترام باہمی کا رشتہ ہے۔ ان کو غلط فہمی ہو گئی تھی کہ شاید میں نے انہیں نظم کی ساخت وغیرہ کے بارے میں کچھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی یہ غلط فہمی دور کرنا ضروری تھا۔ ورنہ میرا انداز معذرت خواہانہ نہیں ہے۔ اور نہ میں اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحب صدر میں تو اس انتظار میں تھی کہ شاید نظم کو مختلف پہلوؤں سے پرکھنے کے علاوہ اسے کوئی surface سے بھی دیکھے تو بہت سے اعتراضات ویسے ھی دور ہو جائیں گے۔ میں اپنی فطری(gender hesitations) کی وجہ سے اس موضوع کو چھیڑنا نہیں چاہتی تھی مگر اس پہلو پر کسی سیکٹر سے بات ہی نہیں آئی اگر آئی بھی ہے تو ڈھکے چھپے سوالات کی صورت۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ نظم کو اوپری سطح سے یا سامنے کے بصری امیجز کو فریم آف ریفرینس بناتے ہوئے کوئی تعبیر نہ ڈھونڈنا جدید نظم کے امکانات کو محدود کرنے والی بات ہوگی۔ لہذا اپنی صنفی ہچکچاہٹ کو فی الوقت ایک طرف ایک طرف رکھتے ہوئے اور آپ سب کو اس ڈسکورس میں شریک کرتے ہوئے ہم اس نظم کو سامنے کے رخ سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (جاری ہے )۔

پروین طاہر: حسب معمول نظم کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں محبت، عشق یا جنسی تجربے کے بار اول کا سراغ ملتا ہے جو یقیناً شاعر (یانظمیہ کہانی کا کردار)کو اپنی شریک حیات کے مقدس وجود(شاخ سبز) کے ساتھ ہوا ہے۔ کیونکہ نظم میں شاعر نے اسے اپنی اصل کہا ہے۔ یہ تجربہ شاخ سبز کی برکت سے آب جذب میں تیرتے ہوئے خواب جیسی سبک کیفیت کا باعث بنا۔ زیر سطر اس شاخ تر کے ساتھ شاعر کی fixation کا سراغ بھی ملتا جو دوسرے سٹینزا میں justify ہو گا، بہر حال انسان چونکہ متنوع المزاج ہو تا ہے لہذا پہلا تجربہ کتنا ہی زرخیز کیوں نہ ہو "گل انفصال پذیر” کو ایک باغ سے دوسرے باغ میں جانے کی تمنا یا جستجو ضرور رہتی ہے خواہ اس کا بھگتان شاخ سبز یا اپنی اصل سے انقطاع ھی کیوں نہ ہو۔ لہذا انفصال پذیری یا انقطاع اس پھول کا المیہ ٹھہرتا ہے۔ میں نے بھگتان کا لفظ دانستہ استعمال کیا ہے کیونکہ انفصال کا ایک مطلب بھگتان بھی ہے۔ (جاری ہے )۔

پروین طاہر: نظم کے دوسرے سٹینزا میں شاخ سے ٹوٹ کر کسی دوسرے باغ، کسی دوسری شاخ کی تلاش کا نتیجہ ہے یعنی بار دگر عشق، محبت یا جنسی تجربہ جو کہ شاید احساس جرم، احساس بے وفائی اور سب سے بڑھ کر sexual fixation کی وجہ سے ناکام رہتا ہے۔ اور "گل” یا شاعر ecstasy کی اس سطح یا اس مقام سے محروم رہتا ہے جو اسے شاخ سبز کے وجود کی برکت سے نصیب ہوتی تھی اس کے لئے باغ دیگر کی زمین خشک و ویران ثابت ہوتی ہے اور اسے وہاں ہوتے ہوئے بھی شاخ سبز کو دھیان میں لانا پڑتا ہے۔ نظم کے اسی مقام پر شاعر کے دل میں اسی شاخ سبز کی طرف مراجعت کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اسی مقام پر انسانی نفسیات کا اپنے قریبی رشتوں کو for granted لینے کا ذکر بھی ہے کہ شاعر اس مراجعت یا وصل کو ایک رات کی دوری پر سمجھ رہا تھا۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہوتا جب ایسے رشتوں مین خفیف سی دوری بھی آ جائے تو ان کی وارفتگی اور SPONTANEITY کو بحال ہونے میں ایک عرصہ لگ جاتا ہے۔ جس کو شاعر نے کئی نوری سالوں کی دوری بتایا ہے یہ دوری دونوں فریقین کی وجہ سے تھی، محبت ایک آہنگ ہے ایک راگنی ہے سروں ، کا تال میل ہے ایک نفاست ہے نے نوازی ہے اس میںذزرا سا غلط سر لگا تو تو راگنی اور نے نواز تال سے چھوٹ جاتے ہیں۔ اور پھر کبھی بھی وہ آہنگ ہاتھ نہیں لگتا جو آب جذب میں تیرتے ہوئے خواب کی سبک خرامی بن جاتا ہو۔ لہذا اس دفعہ شاعر دوہرے انقطاع کے دکھ سے گزرتا ہے پہلے تو بار دگر تجربے کی وجہ سے محض زہنی دوری پیدا ہوئی تھی اب وہ جسمانی دوری کا باعث بھی بن گئی ہے، شاخ سبز اپنی جگہ پر موجود نا تھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ physically disappear ہوئی تھی بلکہ یہ کہ اس کی شادابی رخصت ہو چکی ہے۔ اور یوں گل اس دوہرے انقطاع کے دکھ میں پتی پتی ہو کر بکھر جاتا ہے، (جاری ہے )

پروین طاہر: صاحب صدر ا ب میں نظم کے آخری حصے کی طرف آتی ہوں۔ نظم کے پہلے دو حصوں میں تو من و تو کا معاملہ جاری رہتا ہے، اپنے وجود کے ساتھ ساتھ کیف ھست کو پانے کے لئے "دوئی” یعنی other کے وجود کی اہمیت برقرار رہتی ہے شاخ سبز خواہ وہ اس باغ سے ہو یا دوسرے سے اس کے وسیلے کی ضرورت رہتی ہے۔ مگر آخری سٹینزا میں شاعر دوئی یا other کی وجودی ضرورت سے بالا ہو جاتا ہے۔ ایسا ہونا اس گہرے غمگین تجربے کا نتیجہ یا بھگتان ہے جو شاعر کو ابتدائے نظم میں پیش آتا ہے۔ نظم کے آخری حصے میں ایک خیالی وصل کی طرف اشارہ ہے جس کے لئے شاعر کو کسی فزیکل انسلاک، یا "حرارت لمس” کی ضرورت نہیں رہی۔ ورائے وجود ہونا کوئی ابنارمل بات نہیں گیان دھیان میں رہنے والے لوگ صوفی، سنت شاعر اکثر اس تجربے سے گزرتے ہوں گے۔ میری یہاں ورائے وجود ہونے سے مراد صرف جنسی نہیں یہ تو اس نظم کا فریم تھا۔ جبکہ ورائے وجود ہونا تو وہ اعلی مقام جسے پانے کے لئے گوتم نے جنگلوں کا رخ کیا، میرا بائی پربتوں ، وادیوں اور ویرانوں میں پھرتی رہی،۔۔۔۔۔۔۔ صاحب صدر اس رخ سے نظم کو اینلائز کرتے ہوئے ہوئے آنکھیں بھیگ گئی ہیں کہ مجھے سراج اورنگ آبادی کا وہ اشعار یاد آ رہے ہیں جنہیں جب بھی پڑھتی ہوں رو پڑتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی / نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی/چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا/ مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہیں سو ہری رہی/ دوستو میں "گل انفصال پذیر کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے شاخ تر کی بپتا کو دل و جاں سے محسوس کرتے ہوئے آپ سے اجازت چاہوں گی صاحب صدر میری بات ختم ہوتی ہے۔

پروین طاہر: صاحب صدر میری املا اور punctuation کی غلطیوں سے در گزر فرمائیں اور اس وجہ سے پیدا ہونے والے گیپ کو از خود فل کر لیں :))))))))

محمد حمید شاہد: جناب صدر آپ کی وساطت سے، مجھے پروین سْ کہنا ہے کہ خوش رہئیے۔ رفیق کے تخلیقی مزاج کے علاقے سے تفہیم کی جو صورت آپ نے سجھائی ہے، یہ مطمئن کرتی ہے (صوفی، سنت، اور ورائے وجود والا تجربہ اگرچہ اس نظم کے تناظر میں ان الجھنوں کو رفع نہیں کرتا، جن پر آپ نے اپنا تجزیہ کنکلوڈ کیا، اسی طرح تحیر عشق والی بات بھی اس فریم میں فٹ نہیں بیٹھتی۔ تاہم) جسم اورجنس کا تجربہ بھی کم اہم نہیں ہوتا جسے آپ نے بجا طور پر نظم کے متن سے دریافت کیا ہے اور نظم کہانی مکمل کر دی۔

 مانتا ہوں کہ میرا دھیان اس طرف نہیں گیا تھا، حالاں کہ میں رفیق کے مجموعی تخلیقی مزاج پر بات کرتے ہوئے اپنے پہلے نوٹ میں یہ بھی کہہ آیا تھا کہ وہ” کوہ جسم کے مقابل ہوتا ہے، عجب طرح کی تھکن وجود توڑتی ہے اور جسم و جاں کے حصے لخت لخت ہوتے ہیں۔ سو ایسے میں وہ اس تجربے کے مقابل پورے خلوص سے ہوتا ہے (جس میں ) کاٹھ کا سا جسم پگھل رہا ہو، اور وجود پانی میں گھل گھل کر بہہ رہا ہو۔ ” اب جو غور کرتا ہوں تو اس بہکنے کی وجہ وہ لسانی نشانات ہیں (” فنا”، ” کیف ہست”، "دھیان” اور” نوری سال” وغیرہ) جو مجھے کسی اور فضا میں کھینچ لے گئے، اس بابت سوچنے ہی نہ دیا حالاں کہ رفیق کا یہ محبوب علاقہ ہے۔ خیر پروین جی آپ کا ایک بار پھر شکریہ اور یاد آتا ہے کہ اشفاق احمد سے ایک بار مکالمہ ہو رہا تھا، جنس پر بات چل نکلی تو کہنے لگے، ‘جنس میرے لیے بہت محترم ہے، اسی کی بدولت میں ہوں اور اسی کے طفیل آپ ہیں ، لہذا جنس کا احترام کیا جانا چاہئیے۔، سو جنس محسن بھی ہے اور محترم بھی(اگرچہ میں اصرار نہیں کروں گا کہ نظم کے تیسرے حصہ میں اس محترم جنس کا یہ پہلو آیا ہے ) تاہم اس حصہ میں اپنے ہی وجود سے کیف کی کشید والا” کیف ہست” ظاہر ہے جو نظم کو مکمل کر دیتا ہے۔ ایسے میں ” کیف ہست” کی تکمیلی صورت چوں کہ وہی رہتی ہے جو نظم کے پہلے حصہ میں آئی لہذا نظم کے آخری حصے میں ” وہی” اس سے جڑ کر معنی کی تکمیل کر دیتا ہے۔ اس رخ سے دیکھیں تو”اپنے روغنِ حُسن” اور” اَپنے مُشکِ وُجود” کی لذت اور طرح کا معنوی ذائقہ دیتی ہے۔

پروین طاہر: صاحب صدر کی اجازت سے۔۔۔۔۔۔۔۔ شکر ہے شاہد بھائی آپ مسکرائے :))))) دوستو جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر اچھی نظم بیک وقت CONCENTRIC اورECCENTRIC ہوتی ہے ایک اس کا ایک بڑا بیرونی دائرہ ہوتا ہے اور اس کی مختلف تعبیریں اس دائرے کے اندر کے ECCENTRIC دائرے جو اپنی جگہ مکمل ہوتے ہیں لیکن بیرونی اور مرکزی دائرہ ان سب دائروں کے ساتھ مماس بناتا ہے۔ ہم نے اب تک کی پیش کی گئی تعبیروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ دیکھا ہے۔ بنیادی طور پر وہی تین ایکٹ کی نظم اور کئی ایک تعبیریں جن کے طبعی ڈانڈے نظم کی ما بعد اطبیعات سے ضرور جڑتے ہیں۔ میرا خیال ہے میں بہت کچھ کہہ چکی اس اجلاس کے لئے یہ آخری گفتگو تھی۔

ستیہ پال آنند: بہت مختصر لکھوں گا کہ طبیعت ابھی پوری طرح بحال نہیں ہوئی۔ پروین نے بہت کارآمد نقطے اٹھئے ہیں۔ (‘اہم’ نہ کہہ کر ‘کارآمد’ اس لیے کہا ہے کہ ان سے ‘کار’ اور ‘بار’ یعنی کار/ و / بار، دونوں چلائے اور اٹھائے جاتے ہیں۔ دیکھیں انہوں نے کیا کہا ہے۔ (اقتباس)”میں تو اس انتظار میں تھی کہ شاید نظم کو مختلف پہلوؤں سے پرکھنے کے علاوہ اسے کوئی surface سے بھی دیکھے تو بہت سے اعتراضات ویسے ھی دور ہو جائیں گے۔ میں اپنی فطری(gender hesitations) کی وجہ سے اس موضوع کو چھیڑنا نہیں چاہتی تھی مگر اس پہلو پر کسی سیکٹر سے بات ھی نہیں آئی اگر آئی بھی ہے تو ڈھکے چھپے سوالات کی صورت۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ نظم کو اوپری سطح سے یا سامنے کے بصری امیجز کو فریم آف ریفرینس بناتے ہوئے کوئی تعبیر نہ ڈھونڈنا جدید نظم کے امکانات کو محدود کرنے والی بات ہوگی۔ لہذا اپنی صنفی ھچکچاھٹ کو فی الوقت ایک طرف ایک طرف رکھتے ہوئے اور آپ سب کو اس ڈسکورس میں شریک کرتے ہوئے ہم اس نظم کو سامنے کے رخ سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ” (اقتباس القط)۔۔۔ راقم الحروف نے رفیق کے بارے میں اپنی پہلی لکھتوں (دیباچہ) اور (نظم کی عملی تنقید) میں بھی یہ کہا تھا کہ اس کے امیج پیمانے سے کھینچی ہوئی سیدھی لکیر نہیں بناتے جس میں کوئی کونے کھدرے نہ ہوں۔ سیدھی لکیر ضرور ہوتی ہے، لیکن یہ امیج قوسیں بناتے ہوئے چلتے ہیں۔ قوسیں بنا کر اپنی ہی جانب مڑتے ہوئے استعارے کی وحدت مجروح نہیں ہونے دیتے۔ ” معانی کا یہ سفر ہمہ وقت محسوسات کے زییریں آہنگ سے رس کشید کرتا ہے، جس کے نتیجے میں (اور داخلی قوافی کی مدد سے۔ بقول صدف مرزا)رفیق کی نظمیں جمالیاتی حظ پہنچانے میں کامیاب ہیں۔ اور غزل کی دیرینہ روایت سے بھی استفادہ کرتی ہیں۔۔۔۔۔ اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔۔۔

محمد حمید شاہد: جی، یہ بات یوں درست تسلیم کی جانی چاہئیے کہ کسی بھی تخلیق پارے میں "ہم مرکز” معنوی دائرے کے ساتھ ساتھ "منحرف المرکز” دائرے بنتے رہتے ہیں تاہم اس معنوی مرکز سے احتراز کرنے والے یہ دائرے معنوی انتشار کا باعث بننے کی بجائے اس فن پارے میں معنی کی کچھ اور سطحیں (جو اپنے اپنے دائرے میں کٹی پھٹی نہیں ہوتیں ) ابھاتے ہیں۔

ستیہ پال آنند: اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کبیر کی "جھینی چدریا” کی طرح چادر کی بنت میں اچھا اور قادر الکلام ‘شاعر جلاہا’ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد (سنسکرت اصطلاح "وِشرام”) کے طریق کار سے یا تو بڑے بڑے شگاف چھوڑتا ہے، یا باریک درزوں سے اس کی سپاٹ uniformity کو punctuate کرتا ہے۔ اس سے دو فواید حاصل ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ متن سے معنی کا انشراح کہیں کہیں تو (بقول پروین) بڑے شگافوں کی مدد سے قاری ظاہری سطح پر بخوبی سمجھ لیتا ہے، اور کہیں کہیں باریک درزوں میں سے معانی کا انشراح کچھ اس طرح چلتا ہے کہ نہ تو پیمانہ چھلکتا ہے اور نہ رِستا ہے، یعنی چلمن سے پیچھے کا نظارہ "صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں ” پیش کرتا ہے۔۔۔۔۔ جدید نظم میں معانی کا مبسوط اور معین بیانہ میں بافت ہو جانا ہی اس کی کامیابی کا مظہر ہے۔ "زیر مطالعہ نظم اُتنا ہی دکھاتی ہے جتنا معانی کے سیال وجود کو منکشف کرنے کے لیے ضروری ہے۔ "۔ اس کے لیے عقدہ کشائی کی ضرورت نہیں ہے، شاید قاری کو خود صارف بننے کی ضرورت ہے، تا کہ وہ شاعر کے ساتھ قدم بہ قدم چل سکے۔

تصنیف حیدر: میں آپ کے درمیان رہ کر بھی کچھ وقت کے لیے خاموش ہی رہا تو اس کا سبب یہ تھا کہ اختلاف سے ہی نظم پر کوئی نئی بات ہونے کی گنجائش نکلنا ممکن تھی۔ خیر پروین طاہر کا تجزیہ پڑھ کر اْطمینان بھی ہوا اور افسوس بھی کہ اگر وہ صنفی مجبوری یا جینڈر ہیزیٹیشن کا شکار ہوئے بغیر اپنی بات پہلے ہی کہہ دیتیں تو شاید اس سے بھی اختلاف و اتفاق کی مزید صورتیں سامنے آسکتی تھیں۔ ادب میں جینڈر ہیزیٹیشن کا ذکر سن کر پہلے تو میں چونک ہی پڑا کہ ہم حالی کے دور سے کب باہر آئیں گے۔ ارے بھیا! یہی تو ادبی سرپھرے ہیں جو پیروں پیغمبروں اور سنتوں کے بعد کسی طرح کی ہچکچاہٹ کے بغیر اپنی بات کہنے میں ماہر ہیں۔ یہ علم لدنی کے مالک چاہے نہ ہوں مگر ان کی حسیں ایسی بیدار ہوتی ہیں ، اور زبان ایسی طرار کہ جو سمجھ آتی ہے کہہ دیتے ہیں ، اور بلا کی کہتے ہیں ، لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ اگر یہ ہی صنفی مجبوریوں کا شکار ہو گئے تو میر سے لے کر منٹو تک کو تصوف یا ترقی پسندی کی چہار دیواری میں قید کر کے ہمیشہ کے لیے خود پر ایک سرابی کیفیت طاری کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہے گا۔ خیر یہ تو ہوئی میرے دل کی بات! اب آتے ہیں اصل بات کی جانب۔۔۔ اس نظم پر جس قدر گفتگو ہونی چاہیے تھی ہوئی اور مجھے خوشی ہے کہ ستیہ پال آنند جیسے وقیع نظم نگار سے لے کر واجد علی سید جیسے گہری نظر رکھنے والے قاری تک نے اس میں حصہ لیا۔ نظم کا دورانیہ تیرہ جون کو مکمل ہو جائے گا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اگر کسی کو کوئی نئی بات کہنی ہو تو وہ آج اسے پوسٹ کر دے تاکہ کل رفیق سندیلوی کو نظم کے ساتھ ساتھ اس مباحثے پر بھی کچھ باتیں کرنے کا موقع دیا جا سکے۔

ستیہ پال آنند: میں نے بوجوہ ایک بار سارے مندرجات غور سے پڑھے۔ اشعر نجمی صاحب نے "شرح نویسی” اور "تفہیم” میں جو فرق بتایا تھا، اسی پر آ کر تان ٹوٹتی ہے۔ غالب کا ایک شعر یاد آتا ہے۔۔۔۔۔ ؂ نقش معنی ہمہ خمیازۂ عرضِ،صورت / سخن حق ہم پیمانۂ ذوقِ،تحسیں۔۔۔ اگر ہم معنی شناسی کا خم ٹھونک کر دعوے کرنے پر مصر ہیں تو یہ ہماری self acclation ہے، دوسری صورت میں اگر ہمیں صرف ستائش مقصود ہے، تو ظاہراً تو ایسے لوگ حق گو ہیں۔۔ لیکن۔۔۔ Unsaid better۔

محمد حمید شاہد: جناب صدر، وہ نظم کا شارح ہو یا تجزیہ کار اور معبر یا پھر محض قاری (جو نظم سے حظ اٹھانا چا ہتا ہے ) ان سب کو بہر حال (اپنی اپنی توفیق اور طبع کے مطابق) محض شاعر کی قوت واہمہ سے معاملہ نہیں کرنا ہوتا اس تجربے کے شعور کے مقابل بھی ہونا ہوتا ہے جو اس تخلیقی عمل کی بنت میں معنیاتی دھاگوں کی طرح تانے بانے کا کام کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظوں کا انتخاب، صوتی آہنگ، اور لائنوں کی ساخت، ان میں وقفوں کا التزام جو ایک خاص آہنگ کو بناتے ہوئے معنی کی تہیں بٹھاتے اور ایک دھند سی بنا تے ہیں (ایسی دھند جو متن کو واشگاف ہونے سے روکتی ہے مگراس کے اندر سے دھنک سی پھوٹنے کو راہ دیتی ہے۔ ) سب اپنی اپنی جگہ اہم ہیں (اگرچہ ان کا تناسب بدلتا رہتا ہے ) یہی وہ عناصر ہیں ، جو نظم کی جمالیات متعین کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ تاہم یہ سارا معاملہ ذوق کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ لہذا کسی تخلیق کار کے ہاں اور اس سے تجزیہ /تفہیم کا معاملہ کرنے والوں کے ہاں ان عناصر کی ترکیب حسب ذوق بدلنا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

اشعر نجمی: جناب صدر!کسی نظم سے "حظ” اٹھانے کے لیے ضروری نہیں کہ ہم اسے آپریشن تھیٹر کے ٹیبل پر لٹا کر اس کے اعضا الگ الگ کر کے اس کا معائنہ کریں۔ کسی نظم سے لطف اندوز ہونا کا یہ طریقہ مجھے سفاکانہ لگتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہم جب تک کسی نظم کو (اپنے طورپر) سمجھ نہیں لیتے، اس سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے لیکن ہم اکثر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب تک ہم اس سے لطف اندوز نہیں ہوں گے، اسے سمجھنے کی کوششیں بھی ضائع ہوں گی۔ کیا ایسا اکثر نہیں ہوتا کہ ادب کا عام لیکن بے لوث قاری کسی فن پارے سے جب لطف اندوز ہوتا ہے تو اس کی کلیت سے ہوتا ہے نہ کہ اجزائے ترکیبی سے۔ میں نے یہاں قصداً "بے لوث قاری” کی اصطلاح استعمال کی ہے، کیوں کہ ماہرین افہام و تفہیم اور نقاد اس نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ بے لوث قاری کسی نظم کا مطالعہ خود کو خوش کرنے کے لیے کرتا ہے جب کہ ثانی الذکر دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اسے پڑھتا ہے۔ قاری فن پاروں کے زندہ تجربات میں جیتا ہے لیکن ہمارے نقادوں نے اب تک فن کے حضور انکسار کے آداب نہیں سیکھے ہیں۔ بلاشبہ شاعری صنعت گری بھی ہے لیکن بقول وارث علوی جب تنقید حزم و احتیاط سے کام نہیں لیتی تو وہ آرٹ کا کارخانہ بن جاتی ہے اور شعر کے پرزے پرکھنے میں شاعری کے پرزے اڑ جاتے ہیں۔

محمد حمید شاہد: جناب صدر! اس سے اتفاق کیا جانا چاہئیے کہ ” ہم جب تک کسی نظم کو (اپنے طور پر) سمجھ نہیں لیتے، اس سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے ” اور یہ بھی بجا ہے کہ "جب تک ہم اس سے لطف اندوز نہیں ہوں گے، اسے سمجھنے کی کوششیں بھی ضائع ہوں گی” گویا لطف اندوز ہونے اور سمجھنے کے بیچ کوئی نہ کوئی رشتہ ہے۔ نظم کے اوپری اسٹریکچر کی جمالیات ایک لطف سے ہمکنار کرنے کے بعد اپنی تاثیر کی بقا کے لیے معنی کی طرف راغب کریں یا معنی کی لہریں اس کے متن کی ساخت کی جانب بار بار اشارہ کریں ، ہر دو صورتوں میں اسے کلیت ہی میں دیکھنا ہو گا، جی کسی بھی سطح پر کوئی رخنہ اس کلیت کو توڑ دیتا ہے۔ پھر یہ بھی تو ہے کہ فن پارے کی کلیت بہر متن اوراس کے ڈیپ اسٹریکچر میں موجود انہی عناصر کی ایک خاص ترکیب کا نام ہے۔

اشعر نجمی: جناب صدر! آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ فن پارے میں معنی کا مسئلہ بہت پرانا اور متنازعہ ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ کسی نظم کی تفہیم میں قاری معنی کی ایک ہی سطح پر ہمیشہ جما رہے۔ معنی کا تصور اضافی ہے۔ ذہنی ارتقا، ماحول کی تبدیلی، زندگی اور فن کی طرف گونا گوں رویے، ذاتی تجربے کے اثرات وغیرہ کے باعث ایک ہی نظم لفظ و معنی کے مختلف اسرار منکشف کرسکتا ہے جیسا کہ زیر بحث نظم میں پروین طاہر صاحبہ اور محمد حمید شاہد صاحب کے نتائج افکار میں یہاں نظر آیا۔ ظاہر ہے کہ رفیق سندیلوی کی نظم کی ہئیت بدستور قائم رہتی ہے۔ تبدیلی کا عمل ان دونوں ثقہ مبصرین کی ذہنی فضا میں ہوتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر غالب کے اسی شعر کو لے لیجیے :

 قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا

 خط جام مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا

 جوش ملسیانی نے اپنی شرح میں اس شعر کی طویل تشریح کے بعد بھی اسے مہمل قرار دیا۔ اگرچہ اتنی تشریح کے بعد مہملیت کے الزام کا ابطال خود ہی ہو جاتا ہے لیکن اس تشریح کا جو سب سے بڑا عیب ہے، وہ یہ ہے کہ غالب کے جمالیاتی تجربے کو معنی کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ آپ ہی بتائیں ، ناسخ کے اس شعر ی متن کے "ڈیپ اسٹرکچر” میں اتر کر معنی کے کون سے موتی ہاتھ لگتے ہیں۔

 ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں

 مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں

 ناسخ کا یہ شعر بے معنی ہو کر بھی موزونیت کے ایک ذہنی عمل کا نتیجہ تھا، چنانچہ غیر استدلالی ہونے کے باوجود بے معنی نہیں ہوسکا۔ ممکن ہے کہ یہ لاشعوری یا نیم شعوری تجربے کا بیان ہو۔ عبدالمجید بھٹی کی نظم "برہن” ذرا ملاحظہ فرمالیں :

 چھن چھن چھن

 چھن

 چھن چھن۔ چھن چھن۔ چھن چھن چھن۔

 چھن چھن

 چھن

 چھن۔۔۔چھن۔۔۔چھن۔۔۔چھن

 ظاہر ہے یہ آواز پازیب یا گھر کے باہری دروازے کی زنجیر کے ارتعاش سے ابھرتی ہے اور یہی نظم کی ہئیت کا تعین بھی کرتی ہے۔ یہی اس کا "اوپری اسٹرکچر” ہے اور یہی "ڈیپ اسٹرکچر” بھی۔ کئی مغربی شاعروں نے بصری تاثر، سمندر کی لہروں ، ہوا کے جھونکوں ، ڈالیوں اور پتوں کی کپکپاہٹ سے فنی اظہار کے نئے زاویے اخذ کیے ہیں۔ کیا ہمیں یہ یاد نہیں رہا کہ امیر خسرو نے روئی دھننے کے آہنگ کو "درپئے جاناں جاں ہم رفت” کی لفظی تنظیم سے منسلک کر دیا تھا؟ عرض مدعا صرف اتنا ہے کہ لسانی صداقت سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اس کا تصور اضافی ہے، چنانچہ شعر کی تفہیم میں اس پر اکتفا کرنا، اصول نقد کے خلاف ہے۔

محمد حمید شاہد: جناب صدر! تخلیقی عمل میں معنی کا مردود ہونایقینی ہے یا کسی بھی فن پارے کی تخلیق ایک اور سطح ہر معنی خیزی کا عمل بھی ہے یہ سوال واقعی بہت اہم ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ اس ساری گفتگو کے (کہ جو اب تک ہو چکی) کچھ معنی نکل رہے ہیں ، اور خاص طور پر نظم کے حوالے سے بات آگے بڑھی تو اس پر صاد کرنے کو جی چاہتا ہے کہ "معنی کا تصور اضافی ہے ” فالتو والا اضافی نہیں ، اضافیت والا اضافی۔ اور یہی اضافیت معنی کو نظم کے حوالہ سے مختلف کر دیتی ہے۔

 ایک بات بہت اہم ہے کہ ہم سب نوع انسانی کی روایتی دانش سے کسی نہ کسی سطح پر جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ عام قاری اور اس کا لسانی تجربہ اس کا قیدی ہو جاتا ہے جب کہ تخلیق کار اس میں کانٹ پھانس کرتا ہے۔ اس کانٹ پھانس اور حک و اضافہ کو ہم کلی تبدیلی سے تعبیر نہیں دے سکتے تاہم ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں ڈھلنا( یوں جیسے توانائی کی ایک شکل دوسری میں ڈھل جاتی ہے ) معنی خیزی کا عمل ہے، اسے آپ دوسرے معنوں میں روح عصر سے جڑنا بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو فضا میں بکھری ہوتی ہے۔ معنی خیزی کا یہ عمل ایک نظم لکھنے والے کے ہاں بہ ظاھر زبان کے وسیلے سے ظاہر ہو رہا ہوتا ہے، مگر فی الاصل یہ اس زبان میں نہیں ہوتا، جس کے معنی وزن میں تولنے پراس کے لفظوں کے برابر نکلتے ہیں یا پھر جن لفظوں کا مفہوم اس کی سطح کے اوپر چمٹا ہوتا ہے، روایتی دانش والا۔ کہ سب کچھ کھول کھول کر بیان کر دینے والے لفظ معنی کی مکمل ترسیل کے ساتھ ہی مر جاتے ہیں ، نظم میں معنی خیزی نظم کی کل سے ہی ظہور میں آتی ہے / آسکتی ہے، ظاہر ہے ایسے میں جب لفظ کا منصب بدل جاتا ہے تو اس معنی پر اصرار کا کوئی جواز نہیں ہے جو لغات میں پڑا ہوتا ہے۔

 تخلیقی عمل میں ، میں نے کہا نا، لغت کے معنی اہم نہیں ہوتے، ایک نظم میں تو لفظ ایک لائن میں جو معنی ترتیب دیتا ہے ممکن ہے نظم کے مکمل ہونے پر انہیں اوندھا دیا جائے۔ لہذا وہ لائنیں جو محض آوازوں ، تصویروں یا لہروں کی صورت دکھا رہی ہوتی ہیں ، فن پارے کی تکمیل پر پر از معنی ہو جاتی ہیں۔ اوپر اس ضمن میں بہت خوب مثال دی گئی” چھن چھن چھن” والی بس یوں ہے کہ اسے نظم کے عنوان "برہن” سے جوڑ کر پڑھنا ہو گا۔ ہاں میں اس سے کلی اتفاق کرتا ہوں کہ نظم کی تحسین فقط معنی کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔

 یوں بھی ہے کہ ایک قاری نے (چاہے وہ کس درجہ کا ہو )، ایک فن پارے سے جو اخذ کیا اسے فن پارے کے متبادل کے طور پر لینا اور اس جوہر کو فاضل شے سمجھ لینا جو تخلیق کا محرک اور اس کا تانا بانا تھی یا یہ فرض کر لینا کہ تخلیق کار، اس کے زمانے اور لسانی وسیلے اور اس کے اندر موجود روایت کی دھمک سے کلی طور پر کٹا جا سکتا ہے، درست نہیں ہے۔ معنی کلی طور پر تباہ نہیں کیے جا سکتے تاہم یہ کسی اور صورت حال پر منطبق ہوتے ہیں یا کسی اور صورت حال کا مظہر ہو سکتے ہیں ، پھر یوں ہے کہ تخلیقی عمل کے دورآن متشکل ہونے والے معنی معطل نہیں ہوتے ان میں نمو ہوتی رہتی ہے۔ بسا اوقات ساخت اور معنی کی یہی تحلیل اور نمو فن پارے کی قدر کا تعیین کرتی ہے اور دیکھا گیا ہے کہ وہ تخلیق جس کی ہئیت مکمل ہومگراس میں معنی کی نمو کی زیادہ گنجائشیں ہوں وہ لمبی عمر پاتے ہیں۔

 ایک عام قاری محدود وقت کے لیے (یا فوری طور پر)کسی فن پارے سے جو حظ اٹھاتا، لذت پاتا اور لطف لیتا ہے وہ اس کا بدل نہیں ہو سکتی جو ادب کے قاری کو جمالیاتی حظ اور انبساط کے عمل کی تکمیل پرمیسر ہوتا ہے۔ یاد رہے ایسے میں غیر محسوس طور ہی سہی استدلالی حس بیدار رہتی ہے، اسے شعری وسیلوں سے ایک رخ دیا جا سکتا ہے مگر وہ کہیں ٹھٹھک کر ٹھہر جائے، تو لسانی منطق بھی اسے آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔

قاسم یعقوب: صاحبِ صدر!

 رفیق سندیلوی کی زیرِ بحث نظم "نقاط” کے "نظم نمبر” میں شامل ہے۔ اس نمبر میں چار دہائیوں کے اہم شاعروں کی نظموں کا انتخاب پیش کیا گیا تھا اور نئی نظم کے مباحث کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ "نقاط "کا یہ شمارہ اکتوبر 2011 ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ تب سے اب تک کئی شاعروں کی منتخب نظموں کی مختلف جہات پر Feed Back آ چکا ہے۔ رفیق سندیلوی کی منتخب نظموں کے حوالے سے بھی کچھ تبصرے موصول ہوئے ہیں۔ میں اِن میں سے یہاں دو تبصرے پیش کر رہا ہوں جو اُن کی منتخب نظموں کے تبصروں سے علیحدہ کیے گئے ہیں۔ امید ہے ان تبصروں کی روشنی میں "کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا” کو سمجھنے میں مدد ملے گی، یا کم از کم نئی جہات کو راستہ ملے گا۔ ملاحظہ ہوں :

 حنیف سرمد کا تجزیہ

 معیاری، کثیر الجہت اور تہہ دار تخلیق اپنے بطون میں معنی کا تلاطم خیز سمندر پنہاں کئے ہوتی ہے۔ ایسی تخلیق کے تجزیاتی عمل میں ایک ذی شعور، وسیع المطالعہ اور صاحبِ ذوق قاری فکر کے کشادہ تر آفاق میں رسائی حاصل کرنے لینے کے علاوہ فنکار کے تخلیقی تجربے کی جمالیاتی مسرت سے سرشار ہونے کی بشارت بھی پا لیتا ہے۔ جدید اُردو نظم کی روایت میں جن شاعروں کی تخلیقات فکر و فن کے ارفع امتزاج کی بدولت معنی کے متنوع زاویوں کو رخشندہ کرنے کے ساتھ جمالیاتی لطافت سے لبریز دکھائی دیتی ہیں۔ اُن میں رفیق سندیلوی کی شخصیت منفرد اور امتیازی شناخت کی حامل ہے۔

 کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا ” رفیق سندیلوی کی ایک ایسی ہی کامیاب اور عمدہ نظم ہے جس میں فکری تنوّ ع اور تخلیقی تجربے کی مسرت آمیزی اعلیٰ پائے کی ہے۔ اس فن پارے کا فکری لینڈ سکیپ جن جہات سے روشن ہے ان میں پہلی جہت سائنسی شعور سے عبارت ہے۔ اس کے مطابق نظم میں علم طبیعات کی جدید تھیوری بگ بینگ کی تھیوریٹیکل اپروچ رو حِ  عصر کی حیثیت میں موجود ہے۔ کائنات کے بسیط و عریض نظام میں انرجی کے تموّ ج سے پیدا ہونے والے عظیم دھماکے اور اس کی بدولت نظام شمسی کا معرض وجود میں آنا جس میں تمام سیارے اپنے مرکز (سورج) سے جد ا ہو ھکر اس کا طواف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خلامیں بکھرے ہوئے مواد سے ان سیاروں کا بننا اور قوّ تِ تجاذبہ کے تحت اپنے مرکز (سورج )کی جانب رجعت کرنا۔۔ لاشعوری سطح پرتخلیق کائنات کی یہ کتھا اس فن پارے کے متن میں کارفرما ہے۔

 کسی رُخ کی سمت نہیں اُڑا ” کی دوسری جہت علم حیاتیات سے عبارت ہے۔ اس کی رو سے ہر جاندار نیست سے ہست کا سفر طے کرتا ہے۔ وہ بظاہر ارتقا کی مختلف منزلیں طے کرتا ہے لیکن اس کا یہ سفر ایک دائرے کا سفر دکھائی دیتا ہے۔ وہ جس نقطہ سے سفر شروع کرتا ہے آخر اُسی نقطہ پر خود کو موجود پاتا ہے۔ انسان ہو یا دوسرے جاندار (پودے اور جانور) مادّ ے کی تشکیل و ترتیب سے ان کا مخصوص جوہر پیدا ہوتا ہے اور پھر جب مادّ ہ ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل ہوتا ہے یعنی پیدائش اور موت کے فطری عمل میں تو ان کا وجود عدم جوہریت کا شکار ہو جاتا ہے۔

 اس نظم کی تیسری فکری جہت فلسفیانہ ہے اور یہ وجودی فلسفہ پر مشتمل ہے۔ وحشت، خوف، جبر اور عدم جوہریت کا عنصر متن کی تشکیل میں موجِ،رواں کی حیثیت رکھتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی دائرے میں ثباتِ وجود کیلئے انائیت پسندی ایک تحرکی قوّت کا درجہ رکھتی ہے لیکن انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطحوں پر انائیت اور ثباتِ وجود کے عمل میں بے پناہ طاقت اور غلبہ حاصل کر لینے کے باوجود زندگی کی بے ثباتی کائناتی نظام میں وجود کی بے معنویت معاشرتی اور سماجی نظام میں خود ساختہ قوانین، اقتدار کا جبر اور پھر کائنات میں زندگی کے فنا ہو جانے کے خیال سے پیدا ہونے والا شعوری اور لاشعوری خوف اس فن پارے کا بیانیہ ہے، جس کے بین السطور میں مذہب اور تصوف کے تصورات پر بھی بحث آرائی ہو سکتی ہے۔

 نظم کی چوتھی فکری جہت ما بعد الطبیعیات سے جڑی ہوئی ہے، خاص طور پر پیراسائیکالوجی سے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو نظم میں انسان کی تخلیق اور اس کے روحانی اور مادی ارتقا کی کتھا کو بیان کیا گیا ہے۔ انسان کی عالمِ بالا سے عالمِ رنگ وبو میں آمد، نزول عشق کے ذریعے روحانی ارتقاکی معراج، اس معراج کی بدولت عرفانِ ذات کی بشارت اورحُسنِ سرمدی کے جلوؤں میں گم ہو جانے کے عمل سے متعلقہ واردات و کیفیات اس نظم کے متن کی تعمیر و تشکیل میں خونِ جگر کی صورت موجود ہیں۔

 پانچویں جہت اسلوبیاتی آب و رنگ کی مظہر ہے۔ نظم کا متن اپنی بنت کاری میں فکری بھی ہے اور غنائی بھی۔ تمثال کاری میں تحرک بھی ہے اور جمال بھی۔ خیال، جذبے اور لفظ کے نامیاتی کُل سے یہ نظم معنوی اور صوری ہر دو سطحوں پر ایک دلکش اور جاذبِ نظر فن پارے میں ڈھل گئی ہے۔ نظم کی لفظیات قاری کی جملہ حسیات کو بیدار کرنے والی ہیں۔ خوشبو اور رنگوں کا تلازمہ باصرہ اور شامہ کی حس سے متعلق ہے۔ ہوا اور حرارت کا بیانیہ حسِ سامعہ اور حسِ لامسہ کو محیط ہے۔ بلاشبہ یہ نظم قاری کے حواسِ خمسہ کو مسحور کر کے دل وروح میں اُتر جاتی ہے۔ انسانی نفسیات کے دائرے میں تخلیقی تجربے کی مسرت اور روحانی لذّت کی کیفیت سے سرشار کر دینے والی یہ نظم واقعی بہت عمدہ اور معیاری ہے۔

قاسم یعقوب: صفدر صفی کا تجزیہ:

 نظم کے تلازمات کا حرکی برتاؤ اس نظم کو Dynic Imagery کی خصوصیت سے متصف کر رہا ہے۔ تین مختلف منطقوں میں گھومتی اس خوبصورت نظم کی تازہ تراکیب، شعری منبت کاری، اور لفظوں کی نشست و برخاست ایک خاص طرز کے کلیشے کو Deconstruct کر کے اپنا وجودی اظہار کرتی نظر آتی ہے :

 "گلِ،انفصال پزیر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "

 ابتدائی لائن ہی شاعر کی قلبی اور فکری ریختگی کی غماز ہے۔ آگے متصل مصرعوں میں اسی ریختگی میں ملفوف غارت گری کا محاکمہ کیا گیا ہے اور اس خوشبو سے بالآخر تہی دامن ہو جانے کا اشارہ دیا گیا ہے جو ایک خاص طرز و حساب سے تھی اور اس کی پاکیزگی کسی آبِ جذب میں تیرتے ہوئے خواب سے عبارت تھی۔ اسی پر بس نہیں ، اس کے رنگ و روغن جسم میں جو عمیق نوع کی اذیت پنہاں تھی، جو”سرخی و زردی” وجود کی رنگینی اور رعنائی کا باعث تھی اور ان کے درمیان حرارت لمس کا وسیلہ تھی، سب فنا کے گھاٹ اُتر جاتی ہے۔ پتی پتی جدا ہو جاتی ہے۔ عجیب سانحہ ہوتا ہے۔۔ !! ہر شے بکھراؤ کی زد پر آ جاتی ہے۔ وجود، نا موجود ہو کر رہ جاتا ہے۔ ! نظم آگے بڑھتی ہے تو اسی بے وجودی سے پھر وجود شکل پذیر ہوتا دکھائی دیتا ہے جیسے کوزہ گر کے ہاتھ میں چکنی مٹی بار بار کبھی کسی برتن کی شکل اختیار کر رہی ہو اور کبھی کوزہ گرکی مرضی کے تابع دوبارہ مٹی کے ڈھیلے میں منقلب ہو رہی ہو۔۔ کہانی کے بیانیے کی طرح نظم دوسری کروٹ لیتی ہے تواسی طرح بنتے بگڑتے، سجتے سنورتے، سنبھلتے بکھرتے پھر وجود باہم موجود ہو جاتا ہے لیکن یہاں شاعر اپنی ذات کی اس خصوصیت کا ذکر کر تا ہے جو ازل سے اسے ودیعت ہوئی تھی :

 وُہی ضبط و بست جو مجھ میں تھا

 وُہی کیفِ ہست جو مجھ میں تھا

 اسی کیف ہست اور ضبط و بست کے زیر اثر وہ بارہا اسی تجربے سے دوچار ہو تا ہے کہ اسے شاخ سے جدا ہو کر پتی پتی ہو کر بکھرنا پڑتا ہے، پھر سے سفر آغاز کرنا پڑتا ہے لیکن نظم کے اگلے حصے میں سفر کی جہت پتی سے شاخ تک کے افقی منظر نامے کے بجائے نوری سال کے فاصلوں میں منقلب ہو تی اور عمودی جہت اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ نوری فاصلوں کا یہ عمودی سفر دعا کا استعارہ بھی ہو سکتا ہے جو بظاہر شکستگی اور پا مالی کے اس مسلسل عمل کا واحد حل ہے۔ نظم کے اس حصے میں "مگر اب کے ” کا موڑ غور طلب ہے اور نظم کے متکلم کے لئے یہ ایک انوکھی کیفیت کا حامل ہے۔ ایک اچنبھا ہے کہ اب کی بار ایک دن کی دوری کئی نوری سال کی مسافرت کیوں بن گئی۔۔۔۔ !! اسی استعجاب کے دوران یہ حقیقت بھی سوال بن کر منکشف ہوتی ہے کہ اس جانگسل مسافرت (جسے عبادت یا ریاضت بھی کہا جا سکتا ہے اورجو دعا پر منتج ہوتی رہی )کے اختتام پر لا حاصلی اور نا یافت کا ایک نیا باب ہی کیوں مقابل آ رہا ہے۔

 آخر میں نظم کے متکلم کی مراجعت خارج سے داخل کی جانب اشارہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ شاعر نے سفر کی سمت بدل دی ہے۔ بار بار ٹوٹنے بکھرنے، جڑنے مجتمع ہونے کا یہ Cycle اب شاید اختتام پذیر ہوتا نظر آتا ہے۔ کیونکہ اب شاعر نہ تو کسی دعا کی جھوٹی سچی امید کا سہارا لیتا ہے اور نہ ہی عبادت و ریاضت کے طول طویل نوری سالوں کا فاصلہ پھر سے طے کرنے پر آمادہ ہے بلکہ اب وہ اپنے اندر سے جڑگیا ہے۔ خود آشنا ہو گیا ہے :

 اگرچہ نظم کے محوری ابعاد surface کی کہانی میں موجود ہیں لیکن ایک اچھے فن پارے کی حیثیت سے کئی معنوی بطون نظر سے اوجھل بھی رہ جاتے ہیں۔ اسطوری حوالے سے مکتی اور نروان کی یہ کتھا جہاں ہمیں سدھارتھ کی کہانی کی طرف متوجہ کرتی ہے وہیں آدم و حوا کے جنت بدر ہو جانے اور پھر معافی تلافی کے عمل کے بعد جنت ارضی کی طرف اتارے جانے کی یاد بھی دلاتی ہے۔

 صوفیانہ مزاج و فکر کی روشنی میں اگر دیکھیں تو اپنے من کی کھوج، واصل بالاصل یا فنا فی الذات ہو جانا اور سفر کے سارے پڑاؤ طے کرتے ہوئے اس حقیقت کے انکشاف سے ہمکنار ہونا کہ درونِ ذات سے جڑنا ہی اصل غایت تخلیق اور منتہائے سفر ہے، اس نظم کی فکری سطح کا حاصل ہے اور یہی حاصل تمام فلسفیانہ تفکرات کاست بن کر آگہی کا در و ا کرتا ہے۔

 یہ نظم اصلا” ایک ایسے صوفیانہ تجربے کی توسیع ہے جس میں اپنے ہی کارن شاخ (اصل) سے پتی پتی ہو کر جدا ہو جانے اور پھر کسی اور مدار میں ، کسی اور عالمِ،برزخ میں ان پتیوں کے باہم جڑ جانے کو بہت خوبصورتی اور تخلیقیت سے بیان کیا گیا ہے –

 نظم میں جو تلازمات استعمال ہوئے ہیں ، ان کا الگ سے ذکر بھی اس کی دیگر معنیات کی دریافت کے لیے گرہ کشا ہو سکتا ہے، مثلاً آبِ،جذب کے مرکب تلازمہ کو آبِ حیات سے منسلک کریں تو کہانی مزید وسعت پذیر ہو جاتی ہے اسی طرح ” کہیں کہیں سے سرخ ہونا اور کہیں کہیں سے زرد ہونا” بھی نظم کے سلسلۂتفہیم میں قاری کی مدد کرسکتا ہے۔ سیاسی اصطلاح میں تو "سرخ” اور "سبز” کے الفاظ اپنا ایک خاص مفہوم رکھتے ہیں لیکن یہاں زردی اصل میں سرخ اور سبز ہی کی مرجھائی ہوئی شکل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح نشاطِ مراجعت اور کیفِ ہست کی تراکیب بھی اپنے اندر ایک الگ معنیاتی جہان رکھتی ہیں اور نظم کی فکری توسیع میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان تلازمات کی انگلی پکڑ کر قاری نظم کے بطون میں دور تک سفر کر سکتا ہے۔

محمد حمید شاہد: دلچسپ اور ہمارے دوست محمد عمر میمن کی تراشیدہ اصطلاح کے مطابق "غلبہ آور” تاہم کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ حنیف سرمد اور صفدر صفی کو حاشیہ کا حصہ بنالیا جاتا، وہ اب تک ہو چکی گفتگو سے جڑ کر بات کرتے، ایسے میں ان سے مکالمہ ہو سکتا تھا اور وہ سوالات جو ہمارے پاس ہیں ان کے سامنے رکھے جا سکتے تھے، خیر۔۔۔۔۔ جناب صدر، آپ کی وساطت سے میں قاسم یعقوب سے درخواست کروں گا کہ ان دونوں ناقدین کو حاشیہ کا حصہ بنائیں۔ ہم ان کا اس فورم پر خیر مقدم کریں گے۔

ظفر سیّد: میں حمید شاہد صاحب کی تجویز کی تائید کرتا ہوں۔ حاشیہ کو مزید اچھے تجزیہ کاروں اور ناقدین کی اشد ضرورت ہے۔ حنیف سرمد اور صفدر صفی اگر فیس بک پر موجود ہیں تو انہیں لازماً حاشیہ کا رکن بننا چاہئیے۔

معید رشیدی: اراکین حاشیہ کو اطلاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تصنیف حیدر نے مجھے فون کر کے بتایا کہ وہ اس وقت دہلی سے باہر ہیں۔ اس لیے حاشیہ سے بھی غیر حاضر ہیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ ان کا پیغام میں اس فورم تک پہنچا دوں اور رفیق سندیلوی سے گزارش کروں کہ وہ اپنے خیالات پیش کریں۔ رفیق سندیلوی صاحب تشریف لائیے۔

محمد حمید شاہد: جنابِ رفیق سندیلوی تشریف لائیے۔

رفیق سندیلوی: صاحب صدر !اس میں کوئی شک نہیں کہ نظم پر بھرپور بحث ہوئی اوراسے مزید بحث کی حاجت نہیں لیکن آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں نظم کے بارے میں دو مختصر آرا پیش کر دوں تاکہ یہ آرا تفہیم نظم سے جُڑ کر اس بحث کا حصہ بن جائیں اورجس طرح حنیف سرمد اور صفدر صفی کے ارکانِ حاشیہ بننے کی اُمید پیدا ہو چلی ہے اسی طرح کیا بعید کہ یہ صاحبانِ نظر بھی اس فورم کی رکنیت قبول کر لیں۔

 احمدسہیل کی رائے :

 "نظم میں فرد ٹوٹ کر بکھرتا ہے اور بکھر کر اجزا میں سسکیاں لیتا ہے۔ اصل میں یہ ایک ٹوٹے ہوئے آدمی کا دل خراش سانحہ ہے جو نشاطِ مراجعت کا واہمہ ہے اور نفسِ محدود میں نفسِ لا محدود کا انکشاف کرتا ہے۔ یہ نظم خوابیت کی صداقتوں کا سہارا لے کر عقلی اور تخیلی قوّ توں کے مختلف ذائقوں سے روشناس کراتی ہے اور وجود کی مہک کا شدید احساس دلاتی ہے۔ "

 احمد ہمیش کی رائے :

 "رفیق سندیلوی کی یہ نظم قلبِ ماہیت کی نظم ہے اور اس میں تصورِ ذات خود میں منقلب ہوتا ہے تاہم یہ دیکھنا پڑے گا کہ شاعر کی ذات کہاں منقلب ہوئی ہے اور کیا نیا روپ دھارتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب رفیق سندیلوی تصورِ ذات کا انقطاع بیان کرتا ہے اور خود کو نشان زد کرتے ہوئے کسی اور رُخ کو جا لیتا ہے تو یہی رُخ اُس کی ذات کا بھی تصور بن جاتا ہے اور کائنات کا بھی۔ وہ جو پال کلی نے رُخ بدلنے کے تصور کو Lets the line go for a walk کے طور دیکھا ہے، اُسے رفیق سندیلوی اس طرح لے کے آئے ہیں :

 وہیں اپنے روغنِ حسن میں

 وہیں اپنے حجلۂ رنگ میں

 وہیں اپنے مرکزِ دردمیں

 وہیں اپنے سرخ میں ، زرد میں

 وہیں اپنے مشکِ وجود ہی میں پڑا رہا

 بظاہر یہ نظم استدلال کی تاب نہیں لا سکتی تاہم یہ خود اپنی جگہ ذات کا استدلال ہے جیسا کہ نیند میں چلتے ہوئے آدمی سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ صحیح رُخ اختیار کرے۔ اسی طرح اس نظم کے مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رفیق سمت کا رُخ کرتا بھی ہے اور نہیں بھی کرتا۔ وقت کا تصور بدلتے ہوئے اس نظم میں رفیق ایسی پرواز پہ ہے جو   مختصر آل پز ذکہیں تھمتی ہوئی نظر نہیں آتی :

 یہ خیال تھا

 فقط ایک دن کی مسافرت پہ تو وصل ہے

 مری اصل ہے

 مگر اب کے بیچ کا فاصلہ

 کئی نوری سال میں طے ہوا غور کیا جائے تو رفیق سندیلوی اسی ایک خیال اوراسی ایک احساس پر تو زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ جس بارش میں اب تک بھیگے ہیں وہ اُن کی اپنی زندگی ہے۔ یہ زندگی اُن کا دل ہے، اُن کی شاعری ہے بلکہ اِس سے آگے جو کچھ بھی کہا جائے، اُس میں اُن کی زندگی ہی سمائے گی۔ "

رفیق سندیلوی: صاحبِ صدر!ان آرا کے بعدسب سے پہلے تو مجھ پر واجب آتا ہے کہ میں ان تجزیہ نگاروں کا شکریہ ادا کروں جنھوں نے نظم کی معنیات و جما لیات کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ معید رشیدی نے حجابی نیم حجابی انداز میں فنی سطح پر ابہام اور فکری سطح پر مذہب و تصوف اور وجود ی حوالے سے اشارتاً کچھ سوالات قائم کئے۔ شہزاد نیّر کا تجزیہ اپنے فریم ورک میں خیال انگیز اور مکمل تھا۔ انوار فطرت وہ سرمست فنکار ہیں جو تخلیق کے یکتا ہونے کا احترام کرتے ہیں۔ اُنھوں نے نظم کو دھرتی سے محبت اور وجود پر ایقان کی نظم قرار دیا۔۔ پروین طاہر بیک وقت نظم کی اعلیٰ فن کار بھی ہیں اور تجزیہ کار بھی۔ وہ ہمیشہ اپنے تخلیقی ضمیر کے ہم رکاب رہتی ہیں۔ ان کی گفتگو میں تجزیے کی ذہانت بھی تھی اور جمال و گداز کی تلاش بھی۔ یہی وجہ ہے کہ شرکائے گفتگو اُن سے متاثر ہوئے، حتّیٰ کہ حمید شاہد کی گرفت بھی اپنے مؤقف پر ڈھیلی پڑ گئی اور بالآخر اُنھوں نے بڑی حد تک پروین طاہرکی تفہیم کو تسلیم کر لیا۔ یقیناً یہ مرونت ہے جس کی قدر کی جانی چاہیے۔ واجد علی شاہ نے نظم کی کتھا کو بالکل الگ رنگ میں دریافت کیا۔ اُن کے نکات کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ صدف مرزا نظم کی وقیع اور سلیقہ مند پارکھ ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے نظم کی معنوی لذّت میں نظم کی نغماتی لذّت کو فراموش نہیں کیا۔ دونوں کو بیک وقت نظر میں رکھا۔ قاسم یعقوب کے نظم کی maping پر بات کی اور surface structureکوڈی کنسٹرکٹ کر کے بتایا کہ کیسے نظم کے deep structure میں اُترنے کے لئے راستہ ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ اشعر نجمی نے نظم کے وجود کو اکائی مان کرنظم سے بہت عمدہ مکالمہ کیا اور بجا طور پر نظم میں بیان کردہ تجربے کی پیچیدگی کو نشان زد کیا۔ اُن کی ہر شرکت میں اُن کے ادبی تجربے کا عطر  موجود تھا۔ ظفر سیّد:،کے مختصر تجزیے کے بارے میں بھی اُن کی رائے صائب ہے۔ جدید نظم کے لئے ستیہ پال آنند کی تخلیقی و تجزیاتی خدمات سے سب آگاہ ہیں۔ اُنھوں نے نظم پراپنے تحریر کردہ دیباچے کی روشنی میں گفتگو کی جو میری نظموں کی کتاب "غار میں بیٹھا شخص”کے لئے لکھا گیا تھا۔ اس دیباچے کو ادبی دُنیا میں تفہیم نظم کے لئے اختیار کردہ تنقیدی اپروچ کے باعث بہت سراہا جاتا ہے۔ یٰسین آفاقی اور ظفر سیّد:،نے حاشیہ کے لئے اس نظم کا انتخاب کیا۔ تصنیف حیدر نے بطورِ صدر گفتگو کوسمت دی اور اسے قابو میں رکھا۔ میں ان سب احباب کا ممنون ہوں۔

 صاحبِ صدر!میری حیثیت ادب کے ایک طالب علم سے زیادہ نہیں۔ مناسب نہیں لگتاکہ میں بطورِ شاعر نظم کی بحث میں پیش کردہ تعبیرات سے اُلجھوں۔ مجھے اپنی نظموں کے تجزیے میں مخل ہو کر کسی کے خیالات کوپلٹانا پسند نہیں۔ تفہیمی مطالعے میں سوالیہ نشان لگتے رہتے ہیں۔ یہی چیز بحث کو آگے بڑھاتی ہے۔ اس لیے میں قرأتِ نظم کے حوالے سے چند عمومی معروضات پیش کروں گا اور بحث کی مجموعی فضا سے روشنی لے کرنظم کے دو ایک پہلوؤں پر خیال آرائی کروں گا۔ شعر یا نظم کی صفتِ خاص یہ ہوتی ہے کہ اس کے الفاظ کو بطورِ الفاظ ہی لیا جاتا ہے۔ انھیں کسی مخصوص معنی کا نمائندہ نہیں سمجھا جاتا۔ نظم میں کسی سگنیفائر کا کبھی ایک سگنیفائیڈ نہیں ہوتا۔ دال اپنے مدلول سے آزادبھی ہوتے ہیں اور معروضیت و صداقت سے بے نیاز بھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرأت کے وقت نظم کے الفاظ میں معنی کی برقی رو چلنے لگتی ہے جوغیر مطلق ہوتی ہے اور قاری کی ادراکیت سے وسعت پذیر ہوتی رہتی ہے۔ قاری اساس تنقید میں نقّاد بنی بنائی پیداوار کا منفعل صارف نہیں ہوتا۔ وہ فعالی سطح پر متن کے معنی کو تشکیل دیتا ہے۔ قاری اساس تنقید میں یہ خیال بھی فائق رہا ہے کہ قرأت کی تمام صورتیں درست ہوتی ہیں اورفن پارے میں اضافے کا موجب بنتی ہیں مگر نشانیاتی تنقیدمیں قاری کو قرأت کی بے مہار آزادی حاصل نہیں ہوتی۔ وہ معنی کے پیچیدہ معاملات کو حل ضرور کرتا ہے لیکن انھیں اپنے طور پر تراشنے میں آزاد نہیں ہوتا۔ اس کی آزادی معنی کو متن کے نحویاتی اور عملیاتی راستوں میں درریافت کرنے سے عبارت ہوتی ہے۔ یہ راستے دورئ متن پر بھی منتج ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں اخذِ معنی کے بجائے ممکنہ معنی کا احاطہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ نظم کی وہ تشریح جو ممکنہ معنی پر خوشی کا اظہار کرے اور منتخب معنی سے انکار کرے۔ کیا اس کی تائید کی جا سکتی ہے ؟یقیناًنشانیاتی تنقیدکا یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے۔ نظم کی قرأت میں مظہریاتی تنقید کا یہ تصور بھی بہت اہم ہے کہ مصنف کے تہہ نشیں شعور کو متن کے اندر جاکر تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس تنقید کی خاص بات یہ ہے کہ اسں میں موضوع و معروض کی ثنویت قائم نہیں رہتی۔ phenomenon اورnoumenonیکجا ہو جاتے ہیں اورمعنی تاثیر کی سطح پر قاری کے تجربے میں آتا ہے۔

رفیق سندیلوی: صاحبِ صدر!حاشیہ کے اجلاسوں میں نظموں پرجو ڈسکورس قائم ہوئے، اس کے عقب میں قرأت کے یہی تصورات کسی نہ کسی شکل میں معرضِ اظہار میں آتے رہے ہیں۔ کچھ مغالطے بھی اِن مباحث میں راہ پا گئے ہیں۔ جہاں تک فن پارے کی اورجینلٹی یعنی اختراعیت یا خود مکتفیت کا تعلق ہے، یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ نئی تھیوری اسے تکثیریت کا حامل گردانتی ہے۔ رولاں بارتھ کے نزدیک اس کا کوئی ایک مبداء یا originنہیں ہوتا۔ اس میں کئی متون شامل ہوتے ہیں جو ثقافتی اور لسانی سسٹم کے اندر، ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کے مرہون ہوتے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایک دوسرے کے مقابل صف آراہوتے ہیں۔ قرأت کے عمل میں اگر فن پارے کے اورجینل یعنی منفرد اور یکتا ہونے کا گمان ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہی صف آرائی ہوتی ہے جو زبان و اسلوب کی سطح پر فن پارے کے خود مکتفی ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ شاعر کی انائے مستور اوراسطورِ ذات بھی اس احساس سے الگ نہیں ہوتی۔ آپ اسے شاعر کے وژن یا رویا کا نام دے سکتے ہیں جو سٹرکچرنگ یا تقلیب کے عمل میں اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ فن پارہ تکوینی تناظر میں نہیں ، پیداواری تناظر میں خلق ہوتا ہے جس کے لئے فن کار تخم ریزی یعنی disseminationکا طریقہ اختیار کرتا ہے۔

 تخلیقی عمل میں ابہام اور Gapsلازمیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ فن پارے کی ساخت میں اس کی مقدار خود تخلیقی عمل طے کرتا ہے۔ ابہام کو تحلیل کرنے اور gapsکو بھرنے کا انحصارقاری کی مرادی استعداد پر ہوتا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فن پارے میں بیّن راستے سے داخل ہو کر گہرائی میں اُتراجائے۔ باہر کے غلاف کو ہٹاکر ہی deep structure میں جھانکاجا سکتا ہے

رفیق سندیلوی: صاحبِ صدر!نظم کی مجموعی بحث کو سامنے رکھیں تو کئی رموز کھلتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا گُل شاخِ سبز کے دھیان سے باہر آ سکتا ہے جبکہ نیچر نے اس کی زندگی کو شاخ سے باندھ رکھا ہے ؟کیا مرد عورت کے حصار سے باہر آ سکتا ہے جب کہ جنسی رغبت نے اس کی جمالیات اور نمو کو عورت سے منسلک کر رکھا ہے ؟کیا ذات،  ماذات کے چنگل سے نجات پا سکتی ہے جبکہ فلسفے نے انسانی فکر کو یہی پاٹھ پڑھایا ہے ؟کیا وجود،الوہی وجود سے کنارہ کش ہو سکتا ہے جب کہ مذہب نے یہی تصور انسان کے ذہن میں ڈال رکھا ہے ؟ یہاں بچے اور ماں کا حیاتیاتی حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ فطرت، عورت اور مذہب اور سائنس کے ٹرانس سے باہر آنا اتنا آسان نہیں۔ ہوائے غیب بھی ایک ٹرانس ہے۔ ہالۂ اعتقاد یا فکرِراسخہ کا گھیرا بہت سخت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہوا واحد متکلم کے وجود کو دو بار جوڑتی ہے مگر اگلی بار اس کا عمل دخل نظر نہیں آتا اور واحد متکلم واہمے سے نکل کر خود کو ازسر نو ایک نئے ڈھنگ سے مرتب کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وجود کی اس یکجائی یا جمع آوری میں صرف زمینی خصوصیات ہی بروئے کار آئی ہیں تو مناسب نہیں ہو گا۔ آسمانی تصوّ رات بھی اس میں شامل ہیں۔ کیفِ ہست، ضبط و بست، آبِ جذب روغنِ حسن، حجلۂ رنگ، مرکزِ درد، مُشکِ وجود اورسرخ و زرد کی تراکیب اِسی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ نظم میں سبز، سُرخ اور زرد،تین رنگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ سبز یعنی وہ متعینہ راہ جس پر آج کا جدید انسان کُلّی طور پر نہیں چل سکتا۔ زرد یعنی وہ متعینہ راہ جس پروہ (مذہبی سطح پرکم نُموئی کے باعث یا انسانی نفسیات کے زیر اثر) جزوی طور پرکسی حد تک چل سکتا ہے اور سُرخ یعنی اس راہ سے ہٹ کر وہ الگ راہ جسے انسان خود وضع کرنا چاہتا ہے۔ سبزو سُرخ کے حوالے سے رائٹسٹ اور لیفٹسٹ یا دائیں اور بائیں بازو کا سیاسی، ادبی اورفلسفیانہ تصور بھی ایک جیسا ہے۔ ایک تصور مذہبی سطح پر یمین و یسار کا بھی پایا جاتا ہے۔ رائٹسٹ اصحاب الیمین ہیں اورلیفٹسٹ اصحاب الیسار ہیں۔ لغوی سطح پر دیکھیں تو اوّل الذکر جنت (شاخ سبز/باغ)میں جائیں گے اور اصحاب الیسار دوزخ(خشک زمین)میں۔ اصطلاحی معنوں میں بھی رائٹسٹ وہ لوگ ہیں جو تنظیم یا روایتی اداروں کی متعینہ پالیسیوں کے حامی ہیں یعنی الوہی احکام اور صراطِ مستقیم کے پابند ہیں اور لیفٹسٹ وہ سُرخے ہیں جو انقلاب کے داعی ہیں۔ ریڈیکل، سوشل، لبرل اور سیکولرتبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔ نظم کی تشریح میں سامنے آ چکا ہے کہ ہالۂ اعتقاد واحد متکلم کو دو بار مراجعت پر مجبور کرتا ہے مگر تیسری بار وہ مراجعت کے بجائے اپنے سُرخ و زرد میں پناہ لے لیتا ہے۔ یہاں رائٹسزم کے حوالے سے مراجعت کو آسانی کے ساتھ رجعت و ادّعائیت سے جوڑا جا سکتا ہے اور لیفٹسزم کو انحراف پسندی سے۔ غور کریں تو نظم میں الوہیت یا وجودِ مطلق سے انکار نہیں کیا گیا لیکن ” باغ” کو نا موجود دکھایا گیا ہے۔ البتہ جگہ یا مقام کے لانچنگ پیڈ تک رسائی کے باوجود واحد متکلم کو نا یافت کی منزل میں رکھا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس طرح نظم میں مذہب و تصوف کے بارے میں کئی امتزاجی جہتوں سے تخم ریزی یا disseminationکی گئی ہے۔ فطرت اور عورت کے بارے میں disseminationکے طریقے کو اسی طرز پر جانچا جا سکتا ہے۔ غور کریں تو اس منزل فکر پر نظم کے بارے میں احمد سہیل کی رائے درست نظر آنے لگتی ہے کہ” اصل میں یہ ایک ٹوٹے ہوئے آدمی کا دل خراش سانحہ ہے جو نشاطِ مراجعت کا واہمہ ہے اور نفسِ محدود میں نفسِ لا محدود کا انکشاف کرتا ہے۔ "واضح رہے کہ میرا دائیں یا بائیں بازو سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ میں نے یہ معروضاتDiscourse Analysis کے طور پر بیان کی ہیں۔ انھیں قبول یا رد کیا جا سکتا ہے۔ مجھے اپنی اس نظم کے تخلیقی عمل کے بارے میں کچھ یاد نہیں۔ البتہ میں جب بھی یہ نظم پڑھتا ہوں یا سُناتا ہوں تو گداز و غنا کی لہر مجھے کہیں بہا لے جاتی ہے۔

رفیق سندیلوی: اب ایک آخری بات۔ تشریح و تجزیہ میں توسیع و تبدیلی آتی رہتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ۔۔۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا۔۔۔ میرا نقطۂ نظر یہ نہیں تھا۔۔۔ دراصل میرا مقصود اور تھا۔۔۔ میرا دھیان اِس نکتے کی طرف نہیں گیا تھا۔۔ اور پھر آپ بڑی آسانی سے ایک تھیسس کے اندر ایک اور تھیسس کھینچ کر لاتے ہیں۔۔۔ اشعر نجمی نے بحث کے ایک مقام پر دُرست کہا تھا کہ” نظم کی ہئیت بدستور قائم رہتی ہے۔ تبدیلی کا عمل مبصرین کی ذ ہنی فضا کے اندر ہوتا رہتا ہے "۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فن پارے کا متن اٹل ہوتا ہے۔ اسے نہ وقت بدل سکتا ہے نہ کوئی مبصّر۔۔ وہ سب الفاظ بے حیثیت ہو کر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جو اس کی درجہ بندی یا gradationکے لئے استعمال کئے جا رہے ہوتے ہیں۔

محمد حمید شاہد: جناب صدر اب آپ کے صدارتی خطبہ کا مقام ہے۔ اصولی طور پر ہمیں نظم نگار کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا ہوتا، اور میں بھی اس اصول کا احترام کروں گا۔ یہاں میرے موقف کو جس طرح جناب رفیق سندیلوی نے نظم کے حق میں "بڑی حد” تک موڑ لیا ہے، ریکارڈ کی درستی کے لیے اس کی وضاحت۔ جناب رفیق سندیلوی نے فرمایا،

 "حتّیٰ کہ حمید شاہد کی گرفت بھی اپنے مؤقف پر ڈھیلی پڑ گئی اور بالآخر اُنھوں نے بڑی حد تک پروین طاہرکی تفہیم کو تسلیم کر لیا۔ "

 جناب صدر پروین نے نظم کی تفہیم جنس اور جسم کے حوالے سے کی تھی اور چوں کہ پہلے اس رخ سے نظم کو نہیں دیکھا گیا تھا لہذا میں نے اس باب میں کہا تھا :

 "سو جنس محسن بھی ہے اور محترم بھی(اگرچہ میں اصرار نہیں کروں گا کہ نظم کے تیسرے حصہ میں اس محترم جنس کا یہ پہلو آیا ہے ) تاہم اس حصہ میں اپنے ہی وجود سے کیف کی کشید والا” کیف ہست” ظاہر ہے جو نظم کو مکمل کر دیتا ہے۔ ایسے میں ” کیف ہست” کی تکمیلی صورت چوں کہ وہی رہتی ہے جو نظم کے پہلے حصہ میں آئی لہذا نظم کے آخری حصے میں ” وہی” اس سے جڑ کر معنی کی تکمیل کر دیتا ہے۔ اس رخ سے دیکھیں تو”اپنے روغنِ حُسن” اور” اَپنے مُشکِ وُجود” کی لذت اور طرح کا معنوی ذائقہ دیتی ہے۔ "

 جنس اور جسم کے ساتھ روغن حسن کو دیکھنے اور اپنے ہی مشک وجود والی لذت کو سامنے رکھ کر نظم کے اسٹریکچر کے مکمل ہونے کی حد تک میں پروین سے متفق تھا(اور اس میں سے بھی محترم جنس منہا ہو گئی تھی)، یہ "بڑی حد” تک متفق ہونا نہیں ہے۔ سو یہ موقف کے "ڈھیلے "ہونے والا "ڈھیلا” کس کر مارنا زیادتی ہو گیا ہے۔

تصنیف حیدر: صاحبان نقد و نظر! بحث بھرپور رہی ہے، میں آج شام تک آپ لوگوں سے تفصیلی بات کروں گا۔ مصروفیت کی بنا پر میرے حاشیہ سے کچھ دیر دور رہنے کی وجہ سے آپ لوگوں کو جس ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا مجھے احساس ہے۔ معید رشیدی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میری درخواست پر رفیق سندیلوی کو اظہار رائے کی دعوت دی۔

تصنیف حیدر: اصحابِ حاشیہ! دلی میں ان دنوں گرمی اور میری مصروفیت کا عالم ایک ہی جیسا ہے، دونوں کم ہونے میں نہیں آرہے ہیں۔ اس کی وجہ سے آپ لوگوں کو جیسی ذہنی کوفت اٹھانی پڑی ہے اس کا احساس مجھے بخوبی ہے لیکن کیا کیا جائے کہ بقول جوش پیٹ بڑا بدکار ہے بابا پیٹ بڑا بدکار۔۔ خیر! اب اس نظم پر ہونے والی گفتگو پر میں اس سے زیادہ اور کیا کہوں کہ ابتدائیے سے لے کر انتہائیے تک اس نظم پر جیسی بحث ہوئی ہے وہ خود اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔ لیکن ہمیں سوچنا یہ ہے کہ نظم کے انتخاب اور اس پر ہونے والی اس بحث میں کارآمد حصہ کتنا ہے تو میری بات پر ذرا غور کیجیے کہ حاشیہ کے اجلاس میں ہونے والی بحث کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ یہاں نظم ہماری بحث سے دور ہو جاتی ہے اور مکالموں سے ’میں ، کی بو آتی محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ اس نظم میں بھی یہ ’میں ، موجود ہے لیکن بحث میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اچھا دوسری بات یہ ہے کہ ہم اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ نظم پر جو بھی بات ہو وہ اس کے حق میں ہو، گویا ہم نظم پر تنقید نہیں کر رہے۔ اس کے حق میں مقدمہ لڑرہے ہیں۔ ابتدائیہ میں معید رشیدی نے کہا تھا کہ مجھے یہ شاعر بڑا چالاک معلوم ہوتا ہے۔ کسی شخص نے بھی یہ پلٹ کر پوچھنا گوارا نہیں کیا کہ بھائی !آخر یہ چالاکی کن معنوں میں ہے۔ اس کے درپردہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ کیا یہ چالاکی عیاری کی مرادف ہے یا اس سے معید رشیدی کچھ مثبت گوشوں پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ خیر! حمید شاہد کے اعتراض کو بھی لیے دیے معاملات کی صف میں دھکیل دیا گیا۔ پروین طاہر نے جنسی کشاکش سے اس پورے معمول نظم کو جوڑ کر ضرور دیکھا مگر حمید شاہد کا سوال تشنہ تھا اور پوری بحث میں تشنہ ہی رہا۔ کیا منطقی دلائل سے کسی نظم کی کمزوری کو رد کیا جا سکتا ہے۔ میں رفیق سندیلوی کو پڑھ چکا ہوں ، ان پر لکھ بھی چکا ہوں مگر مجھے یہ ان کا رویہ ٹھیک نہیں لگا جو انہوں نے نظم پر اپنے موقف کے بیان کرنے سے پہلے دو تین آرا کو یہاں جڑ دیا اور پھر خود ہی احمد سہیل کی تعریف کو سب سے بہتر قرار دے کر تالیاں بجالیں۔ یہ کام کوئی اور کرتا تو مجھے ایسی شکایت نہ ہوتی۔ جان ملٹن کی فردوس گمشدہ سے لے کر اقبال کی جنت ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے، تک ہم نے بیشتر ایسی نظمیں پڑھی ہیں جن کا بیانیہ آدم و حوا یا انسان کی خودی میں گم ہو جانے اور اس کے اپنے بنیادی حوالے، زمین سے مربوط ہونے کی یاد دلاتا ہے۔ اس نظم میں اول تو ایسا ابہام ہے ہی نہیں جس پر دیر تک سر دھنا جائے، اس پوری بحث کو پڑھنے کے بعد، اور خاص طور پر قاسم یعقوب کے تبصروں اور تجزیوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے ہم ڈی کنسٹرکشن کے پھاؤڑے سے معنی کی زمینیں کھودنے کے بجائے کسی بے بی ٹیوب کی مانند نئے سے نئے معنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور تب تو بالکل حد ہی ہو گئی جب خود رفیق سندیلوی نے اپنے طویل کمنٹ میں لیفٹسٹ اور رائٹسٹ کی بحث چھیڑ دی۔ واجد علی سید او ر ظفر سید کے تجزیے اس لیے بہتر تھے کیونکہ ایک نے نظم کے داخلی مادے کو چھوکر دیکھنے کی کوشش کی تو دوسرے نے اس کے خارجی حسن کو تنقید کے محدب عدسے سے دکھانے کی کوشش کی۔ کسی نظم کی کامیابی یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس پر طول طویل بحث ہو۔ اشعر نجمی نے جتنی باتیں کیں وہ قابل قدر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ک معنی انسان کے اپنے تجربات ذہنی سے وجود میں آتا ہے، لیکن معنی اور لفظ کی تقریب اور تعمیم کا خیال لازماً ہونا چاہیے۔ یوں تو دنیا میں کچھ مہمل ہے ہی نہیں اور سب کچھ مہمل ہے کے مصداق نظم پر الف لیلوی طرز کی بحث بھی چھیڑ ی جا سکتی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ معنی کا حد سے تجاوز کرنا کسی انسان کے پھیلے ہوئے بدنما پیٹ سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ جیسے خیال شعر سے پہلے بھی اپنا وجود رکھتا ہے اسی طرح معنی کا رس لفظ کی ٹہنی سے تراوش کرتا رہتا ہے۔ اس بحث میں اس قدر باتیں ہوچکی ہیں اور شاید میرے اندازے سے زیادہ ہی ہوچکی ہیں کہ آگے اور کچھ کہنا اس بحث کے پھیلے ہوئے پیث میں اور دوچار نوالے انڈیلنے جیسا عمل ہو گا۔ اس لیے فی الحال اتنا ہی کہوں گا کہ نظم نگار کے ساتھ ساتھ تمام ارکانِ حاشیہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ہم نے اس اجلاس کو بھی مل جل کر کامیاب بنایا ہے۔ اگلی نظم کا اعلان جلد ہی ہو گا۔ آپ لوگ انتظار کریں۔

ظفر سیّد: حاشیہ کے ایک بھرپور اور انتہائی کامیاب اجلاس پر میں تمام شرکت کنندگان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ تصنیف حیدر خصوصی شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اجلاس کو بخوبی نبھایا۔ مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ اس اجلاس کے ذریعے ہمیں کئی ایسے دوستوں کے قابلِ قدر خیالات جاننے کا بھی موقع ملا جو پہلے کسی وجہ سے خاموش تھے۔ اگلے اجلاس کا جلد ہی اعلان کر دیا جائے گا۔

جلیل عالی: میں تصنیف حیدر صاحب کی اختتامی صدارتی گفتگو کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیسی کھری اور سچی باتیں کی ہیں انہوں نے۔ ہمیں ان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔

ممتاز رفیق: جناب میں اس شان دار اجلاس کی تمام پوسٹس تو نہیں دیکھ سکا لیکن جناب حمید شاہد اور اجلاس کے صدر کی گفتگو نے مجھے بہت لطف دیا کاش میں اس محفل میں شامل ہوتا جس وقار اور سنجیدگی سے یہ اجلاس منعقد کیا گیا اس پر میں تمام شرکا اور منتظمین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں

 ‎٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید