FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

بہشتی زیور

مصنف:حکیم الامت مجدد ملت مولانا

اشرف علی تھانوی

نور اللہ مرقدہ


حصہ اوّل

حصہ دوّم


    حصہ سوم


بلا ضرورت قرض کی مذمت

حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا اعوذ باللہ من الکفروالدین۔ ترجمہ میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں کفر اور دین یعنی قرض سے۔ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ کیا آپ قرض کو کفر کے برابر کرتے اور اس کے ساتھ ذکر کرتے ہیں فرمایا ہاں۔ رواہ النسائی والحاکم وقال صحیح الاسناد

حدیث2 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے قرض خدا کا جھنڈا ہے زمین میں جب وہ کسی بندے کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں اس کی گردن پر قرض کا بوجھ رکھ دیتے ہیں۔ رواہ الحاکم وقال صحیح علی شرط مسلم قال الحافظ بل فیہ بشر بن عبیدالدارسی

حدیث3عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ ایک شخص کو اس طرح وصیت فرما رہے تھے کہ گناہ کم کیا کرو تم پر موت آسان ہو جائے گی اور قرض کم لیا کرو کہ آزاد ہو کر جیو گے۔ رواہ البیہقی

حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص لوگوں کا مال ادا کرنے کی نیت سے لے حق تعالی اس کا قرض ادا کر دیتے ہیں اور جو شخص لوگوں کا مال ضائع کرنے اور مار لینے کی نیت سے لے خدا تعالی اس کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اس کو بخاری و ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔

حدیث 5۔ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں سے جو شخص قرض کے بار میں لد جائے پھر اس کے ادا کرنے میں پوری کوشش کرے پھر ادا کرنے سے پہلے مر جائے تو میں اس کا مدد گار ہوں۔ رواہ احمد باسناد جید وابو یعلی والطبرانی فی الاوسط

حدیث 6۔ میمون کردی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں جو صحابی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی عورت سے قلیل یا کثیر مقدار مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں عورت کا حق مہر ادا کرنے کی نیت نہیں بلکہ محض دھوکا دیا۔ پھر بدون ادا کیے ہی مر بھی گیا تو وہ قیامت کے دن زنا کار بن کر خدا کے سامنے جائے گا اور جس شخص نے کسی سے قرض لیا اور اس کے دل میں قرض ادا کرنے کی نیت نہیں بلکہ محض دھوکہ سے اس کا مال لے لیا پھر بدون ادا کیے ہی مر بھی گیا تو وہ خدا تعالی کے سامنے چور بن کر جائے گا۔ رواہ الطبرانی فی الصغیر والا وسط ورواتہ ثقاۃ

حدیث 7۔ عمر بن شرید اپنے باپ سے جو صحابی ہیں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہوت والے کا ٹالنا اس کی آبرو اور مال کو حلال کر دیتا ہے۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ والحاکم وقال صحیح الاسناد

ف یعنی جو شخص قرض ادا کرنے پر قادر ہو اور پھر بھی ادا نہ کرے تو قرض خواہ اس کی آبرو ریزی کر سکتا اور برا بھلا کہہ سکتا اور لوگوں میں اس کی بدمعاملگی مشتہر کر سکتا ہے جس طریقہ سے ممکن ہو ظاہرا یا چھپ کر اپنا حق اس سے وصول کر سکتا ہے۔

حدیث 8۔ ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حق تعالی تین شخصوں سے بہت نفرت کرتے ہیں۔ ایک بڈھا زنا کار۔ دوسرے مفلس تکبر کرنے والا۔ تیسرے مال دار ظالم جو قرض خواہوں پر ٹال مٹول کر کے ظلم کرتا ہے رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ و ابوداود والنسائی والترمذی وابن حبان والحاکم وصححاہ

دعا ادائے قرض

حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مکاتب آیا اور کہنے لگا کہ میں کتابت کی رقم ادا کر نے سے عاجز ہو گیا ہوں میری امداد کیجیے۔ فرمایا کہ میں تجھ کو چند کلمات کی دعا نہ بتلا دوں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلائی ہے۔ اگر تیرے اوپر کوہ ثبیر کے برابر بھی قرض ہو گا تو حق تعالی ادا کر دیں گے یوں کہا کر اللہم اکفنی بحلالک عن حرامک و اغنی بفضلک عمن سواک۔ رواہ الترمذی واللفظ وقال حسن غریب والحاکم وقال صحیح الاسناد

حدیث 10۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل سے فرمایا کہ میں تم کو ایسی دعا نہ بتلاؤں کہ اگر تمہارے اوپر پہاڑ کے برابر قرض ہو تو اس کو بھی حق تعالی ادا کر دیں گے یوں کہا کرو۔ اللہم مالک الملک توتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شئی قدیر رحمان الدنیا والاخرۃ ورحمیہما تعطیہما من تشاء وتمنع منہما من تشاء ارحمنی رحمۃ تغسینی بہا عن رحمۃ من سواک۔ رواہ الطبرانی فی الصغیر باسناد جید

عبادتوں کا سنوارنا

عمل وضو اچھی طرح کرو گو کسی وقت نفس کو ناگوار ہو۔ عمل تازہ وضو کا زیادہ ثواب ہے۔ عمل پائخانہ پیشاب کے وقت قبلے کی طرف منہ نہ کرو نہ پشت کرو۔ عمل پیشاب کی چھینٹوں سے بچو۔ اس میں بے احتیاطی کرنے سے قبر کا عذاب ہوتا ہے۔ عمل کسی سوراخ میں پیشاب مت کرو شاید اس میں سے کوئی سانپ بچھو وغیرہ نکل آئے۔ عمل جہاں غسل کرنا ہو وہاں پیشاب مت کرو۔ عمل پیشاب پاخانہ کے وقت باتیں مت کرو۔ عمل جب سو کر اٹھو جب تک ہاتھ اچھی طرح نہ دھو لو پانی کے اندر نہ ڈالو۔ عمل جو پانی دھوپ سے گرم ہو گیا اس کو مت برتو۔ اس سے برص کی بیماری کا اندیشہ ہے جس میں بدن پر سفید سفید داغ ہو جاتے ہیں

نماز کا بیان

عمل نماز اچھے وقت پر پڑھو رکوع سجدہ اچھی طرح کرو جی لگا کر پڑھو۔ عمل جب بچہ سات برس کا ہو جائے اس کو نماز کی تاکید کرو جب دس برس کا ہو جائے تو مار کر نماز پڑھواؤ۔ عمل ایسے کپڑے یا ایسی جگہ میں نماز پڑھنا اچھا نہیں کہا اس کی پھول پتی میں دھیان لگ جائے۔ عمل نمازی کے آگے کوئی آڑ ہونا چاہیے اگر کچھ نہ ہو ایک لکڑی کھڑی کر لو یا کوئی اونچی چیز رکھ لو اور اس چیز کو دائیں یا بائیں ابرو کے مقابل رکھو۔ عمل فرض پڑھ کر بہر ہے کہ اس جگہ سے ہٹ کر سنت نفل پڑھو۔ عمل نماز میں ادھر ادھر مت دیکھو اوپر نگاہ مت اٹھاؤ جہاں تک ہو سکے جمائی کو روکو۔ عمل جب پیشاب پائخانہ کا دباؤ ہو تو پہلے اس سے فراغت کر لو پھر نماز پڑھو۔ عمل نفلیں اور وظیفے اتنے شروع کرو جس کا نباہ ہو سکے۔

موت اور مصیبت کا بیان

عمل اگر پرانی مصیبت یاد جائے تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لو جیسا ثواب پہلے ملا تھا ویسا ہی پھر ملے گا۔ عمل رنج کی کیسی ہی ہلکی بات ہو اس پر انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھ لیا کرو ثواب ملے گا۔

زکوٰۃ اور خیرات کا بیان

عمل زکوٰۃ جہاں تک ہو سکے ایسے لوگوں کو دی جائے جو مانگتے نہیں آبرو تھامے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ عمل خیرات میں تھوڑی چیز دینے سے مت شرماؤ جو توفیق ہو دے دو۔ عملیوں نہ سمجھو کہ زکوٰۃ دے کر اور خیرات دینا کیا ضرور ہے۔ ضرورت کے موقعوں پر ہمت کے موافق خرل خیرات کرتی رہو۔ عمل اپنے رشتہ داروں کو دینے سے دہرا ثواب ہے۔ ایک خیرات کا دوسرے رشتہ دار سے احسان کرنے کا۔ عمل غریب پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔ عمل شوہر کے مال سے اتنی خیرات مت کرو کہ اس کو ناگوار ہو۔

روزے کا بیان

عمل روزے میں بیہودہ باتیں کرنا لڑنا بھڑنا بہت بری بات ہے اور کسی کی غیبت کرنا تو اور بھی بڑا گناہ ہے۔ عمل نفل روزہ شوہر سے اجازت لے کر رکھو جبکہ وہ گھر پر موجود ہو۔ عمل جب رمضان شریف کے دس دن رہ جائیں ذرا عبادت زیادہ کیا کرو۔

قرآن مجید کی تلاوت کا بیان

عمل اگر قرآن شریف اچھی طرح نہ چلے گھبرا کر مت چھوڑ دو۔ پڑھے جاؤ۔ ایسے شخص کو دہرا ثواب ملتا ہے۔ عمل اگر قرآن شریف پڑھا ہو اس کو بھلاؤ مت بلکہ ہمیشہ پڑھتی رہو نہیں تو بڑا گناہ ہو گا۔ عمل قرآن شریف جی لگا کر خدا سے ڈر کر پڑھا کرو۔

دعا اور ذکر کا بیان

عمل دعا مانگنے میں ان باتوں کا خیال رکھو۔ خوب شوق سے دعا مانگو۔ گناہ کی چیز مت مانگو۔ اگر کام ہونے میں دیر ہو جائے تو تنگ ہو کر مت چھوڑو قبول ہونے کا یقین رکھو۔ عمل غصہ میں آ کر اپنے مال و اولاد و جان کو مت کوسو شاید قبولیت کی گھڑی ہو۔ عمل جہاں بیٹھ کر دنیا کی باتوں اور دھندوں میں لگو وہاں تھوڑا بہت اللہ و رسول کا ذکر بھی ضرور کر لیا کرو نہیں تو وہ باتیں سب وبال جان ہو جائیں گی۔ عمل استغفار بہت پڑھا کرو اس سے مشکل آسان اور روزی میں برکت ہوتی ہے۔ عمل اگر نفس کی شامت سے گناہ ہو جائے تو توبہ میں دیر مت لگاؤ اگر پھر ہو جاء پھر جلدی توبہ کرو۔ یوں مت سوچو کہ جب توبہ ٹوٹ جاتی ہے تو پھر ایسی توبہ سے کیا فائدہ۔ عمل بعضی دعائیں خاص خاص وقت پڑھی جاتی ہیں۔ سوتے وقت یہ دعا پڑھو۔ اللہم باسمک اموت واحی جاگتے وقت یہ دعا پڑھو الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور صبح کو یہ دعا پڑھو۔ اللہم بک اصحبنا و بک امسینا وبک نحیی وبک نموت والیک النشور شام کو یہ دعا پڑھو اللہم بک امسینا و بک اصبحنا وبک نحیی وبک نموت والیک النشور کھانا کھا کر یہ دعا پڑھو الحمدللہ الذی اطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین وکفانا واوانا۔ بعد نماز صبح اور بعد نماز مغرب اللہم اجرنی من النار سات بار پڑھو اور بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شی فی الارض ولا فی السماء وہو السمیع العلیم تین بار پڑھو۔ سواری پر بیٹھ کر یہ دعا پڑھو۔ سبحان الذی سخرلنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون۔

کسی کے گھر کھانا کھاؤ تو کھا کر یہ بھی پڑھو اللہم بارک لہم فیما رزقتہم واغفرلہم وارحمہم چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھو اللہم اہل علینا بالامن والایمان والسلامۃ والاسلام ربی وربک اللہ۔ کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھو۔ اللہ تعالی تم کو مصیبت سے محفوظ رکھیں گے۔ الحمد للہ الذی عافانی مما ابتلاک بہ فضلنی علی کثیر ممن خلق تفصیلا دولہا دولہن کو نکاح کی مبارک تو دو تو اس طرح کہو بارک اللہ لکما وبارک علیکما وجمع بینکما فی خیر۔ جب کوئی مصیبت آئے تو یہ دعا پڑھا کرو۔ یا حی یاقیوم برحمتک استغیث پانچوں نمازوں کے بعد اور سوتے وقت یہ چیزیں پڑھ لیا کرو۔ استغفراللہ الذی لا الہ الاہو الحی القیوم واتوب الیہ تین بار اور لا الا الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک الحمد وہو شئی لکل شئی قدیر ایک بار اور سبحان اللہ تینتیس بار اور الحمد للہ تینتیس بار اور اللہ اکبر چونتیس بار اور قل اعوذ بربک الفلق اور قل اعوذ برب الناس ایک ایک بار اور آیت الکرسی ایک بار اور صبح کے وقت سورۃ یسین ایک بار اور مغرب کے بعد سورہ واقعہ ایک بار اور عشاء کے بعد سورہ ملک ایک بار اور جمعہ کے روز سورہ کہف ایک بار پڑھ لیا کرو اور سوتے وقت امن الرسول بھی سورت کے ختم تک پڑھ لیا کرو۔ اور قرآن شریف کی تلاوت روز کیا کرو جس قدر ہو سکے۔ اور یاد رکھو کہ ان چیزوں کا پڑھنا ثواب ہے نہ پڑھے تو بھی گناہ نہیں۔

قسم اور منت کا بیان

عمل اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم مت کھاؤ جیسے اپنے بچے کی اپنی صحت کی اپنی آنکھوں کی ایسی قسم سے گناہ ہوتا ہے۔ اور جو بھولے سے منہ سے نکل جائے فورا کلمہ پڑھ لو۔ عمل اس طرح سے کبھی قسم مت کھاؤ کہ اگر میں جھوٹ ہوں تو بے ایمان ہو جاؤں چاہے سچی بات ہو۔ عمل اگر غصے میں ایسی قسم کھا بیٹھو جس کا پورا کرنا گناہ ہو تو اس کو توڑ دو اور کفارہ ادا کر دو جیسے یہ قسم کھا لی کہ باپ یا ماں سے نہ بولوں گی یا اور کوئی قسم اسی طرح کی کھا لی۔

معاملوں کا یعنی برتاؤں کا سنوارنا

لینے دینے کا بیان

معاملہ روپے پیسے کی ایسی حرص مت کرو کہ حلال و حرام کی تمیز نہ رہے۔ اور جو حلال پیسہ خدا دے اس کو اڑاؤ نہیں ہاتھ روک کے خرچ کرو۔ بس جہاں سچ مچ ضرورت ہو وہیں اٹھا۔ معاملہ اگر کوئی مصیبت زدہ لاچاری میں اپنی چیز بیچتا ہو تو اس کو صاحب ضرورت سمجھ کر مت دباؤ اور اس چیز کے دام مت گراؤ یا تو اس کی مدد کرو یا مناسب داموں وہ چیز خرید لو۔ معاملہ اگر تمہارا قرض دار غریب ہو اس کو پریشان مت کرو بلکہ اس کو مہلت دو۔ کچھ یا سارا معاف کر دو۔ معاملہ اگر تمہارے ذمہ کسی کا قرض چاہتا ہو اور تمہارے پاس دینے کو ہے اس وقت ٹالنا بڑا ظلم ہے۔ معاملہ جہاں تک ممکن ہو کسی کا قرض مت کرو اور اگر مجبوری سے لو تو اس کو ادا کرنے کا خیال رکھو بے پرواہ مت بن جاؤ۔ اور اگر جس کا قرض ہے وہ تم کو کچھ کہے سنے تو الٹ کر جواب مت دو۔ ناراض نہ ہو۔ معاملہ ہنسی میں کسی کی چیز اٹھا کر چھپا دینا جس میں وہ پریشان ہو بہت بری بات ہے۔ معاملہ مزدور سے کام لے کر اس کی مزدوری دینے میں کوتاہی مت کرو۔ معاملہ قحط کے دنوں میں بعضے لوگ اپنے یا پرانے بچوں کو بیچ ڈالتے ہیں ان کو لونڈی غلام بنانا حرام ہے۔ معاملہ اگر کھانا پکانے کو کسی کو آگ دے دی یا کھانے میں ڈالنے کو کسی کو ذرا سا نمک دے دیا تو ایسا ثواب ہے جیسے وہ سارا کھانا اس نے دے دیا۔ معاملہ پانی پلانا بڑا ثواب ہے یہاں پانی کثرت سے ملتا ہے وہاں تو ایسا ثواب ہے جیسے غلام آزاد کیا۔ اور جہاں کم ملتا ہے وہاں ایسا ثواب ہے جیسے کسی مردے کو زندہ کر دیا۔ معاملہ اگر تمہارے ذمہ کسی کا لینا دینا ہو یا کسی کی امانت تمہارے پاس رکھی ہو تو دو چار آدمیوں سے اس کا ذکر کر دو یا لکھوا کر رکھ لو شاید مر مرا جاؤ تو تمہارے ذمہ کسی کا رہ نہ جائے۔

نکاح کا بیان

معاملہ اپنی اولاد کے نکاح میں زیادہ اس کا خیال رکھو کہ دیندار آدمی سے ہو۔ دولت خشمت پر زیادہ خیال مت کرو۔ خاص کر آجکل زیادہ دولت والے انگریزی پڑھنے سے ایسے بھی ہونے لگے ہیں کہ کفر کی باتیں کرتے ہیں ایسے آدمی سے نکاح ہی درست نہیں ہوتا تمام عمر بدکاری کا گناہ ہوتا رہے گا۔ معاملہ اکثر عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ غیر عورتوں کی صورت شکل کا بیان اپنے خاوند سے کیا کرتی ہیں یہ بہت بری بات ہے اگر اس کا دل گیا تو پھر روتی پھریں گی۔ معاملہ اگر کسی جگہ کہیں سے شادی بیاہ کا پیغام چکا ہے اور کچھ کچھ مرضی بھی معلوم ہوتی ہے ایسی جگہ تم اپنی اولاد کے لیے پیغام مت بھیجو ہاں اگر وہ چھوڑ بیٹھے یا دوسرا آدمی جواب دے دے تب تم کو درست ہے۔ معاملہ میاں بی بی کی تنہائی کے خاص معاملوں کا ساتھنوں سہیلیوں سے ذکر کرنا خدائے تعالی کے نزدیک بہت ناپسند ہے۔ اکثر دولہا دولہن اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ معاملہ اگر نکاح کے معاملہ میں تم سے کوئی صلاح لے تو اگر اس موقع کی کوئی خرابی یا برائی تم کو معلوم ہو تو اس کو ظاہر کر دو یہ غیبت حرام نہیں۔ ہاں خواہ مخواہ کسی کو برا مت کہو۔ معاملہ اگر خاوند مقدور والا ہو اور بی بی کو ضرورت کے لائق بھی خرچ نہ دے تو بی بی چھپا کر لے سکتی ہے۔ مگر فضول خرچی کرنے کو یا دنیا کی رسمیں پورا کرنے کو لینا درست نہیں۔

کسی کو تکلیف دینے کا بیان

معاملہ جو شخص پورا حکیم نہ ہوا اس کو کسی کی ایسی دوا دارو کرنا درست نہیں جس میں نقصان کا ڈر ہو اگر ایسا کیا گنہگار ہو گا۔ معاملہ دھار والی چیز سے کسی کو ڈرانا چاہے ہنسی میں ہو منع ہے شاید ہاتھ سے نکل پڑے۔ معاملہ چاقو کھلا ہوا کسی کے ہاتھ میں مت دو یا تو بند کر کے دو یا چارپائی وغیرہ پر رکھ دو دوسرا آدمی ہاتھ سے اٹھا لے۔ معاملہ کتے بلی وغیرہ کسی جاندار چیز کو بند رکھنا جس میں وہ بھوکا پیاسا تڑپے بڑا گناہ ہے۔ معاملہ کسی گنہگار کو طعنہ دینا بری بات ہے۔ ہاں نصیحت کے طور پر کہنا کچھ ڈر نہیں۔ معاملہ بے خطا کسی کو گھورنا جس سے وہ ڈر جائے درست نہیں۔ دیکھو جب گھورنا تک درست نہیں تو ہنسی میں کسی کو اچانک ڈرا دینا کتنی بری بات ہے۔ معاملہ اگر جانور ذبح کرنا ہو چھری خوب تیز کر لو۔ بے ضرورت تکلیف نہ دو۔ معاملہ جب سفر کرو جانور کو تکلیف نہ دو نہ بہت زیادہ اسباب لادو نہ بہت دوڑاؤ۔ اور جب منزل پر پہنچو اول جانور کے گھاس دانے کا بندوبست کرو۔

عادتوں کا سنوارنا

کھانے پینے کا بیان

ادب بسم اللہ کر کے کھانا شروع کرو اور داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ البتہ اگر اس برتن میں کئی قسم کی چیز ہے جیسے کئی طرح کا پھل کئی طرح کی شیرینی ہو اس وقت جس چیز کو جی چاہے جس طرف سے چاہو اٹھا لو۔ ادب انگلیاں چاٹ لیا کرو اور برتن میں اگر سالن ہو چکے تو اس کو بھی صاف کر لیا کرو۔ ادب اگر لقمہ ہاتھ سے چھوٹ جائے اس کو اٹھا کر صاف کر کے کھا لو شیخی مت کرو۔ ادب خربوزے کی بھانکیں ہیں یا کھجور وانگور کے دانے ہیں یا مٹھائی کی ڈلیاں ہیں تو ایک ایک اٹھاؤ۔ دو دو ایکدم سے مت لو۔ ادب اگر کوئی چیز بدبودار کھائی ہو جیسے کچا پیاز لہسن تو اگر محفل میں بیٹھنا ہو پہلے منہ صاف کر لو کہ بدبو نہ رہے۔ ادب روز کے خرچ کے لیے آٹا چاول ناپ تول کر پکاؤ اندھا دھند مت اٹھاؤ۔ ادب کھا پی کر اللہ تعالی کا شکر کرو۔ ادب کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھو لو اور کلی بھی کر لو۔ ادب بہت جلتا کھانا مت کھاؤ۔ ادب مہمان کی خاطر کرو۔ اگر تم مہمان جاؤ تو اتنا مت ٹھہرو کہ دوسرے کو بوجھ لگنے لگے۔ ادب کھانا مل کر کھانے سے برکت ہوتی ہے۔ ادب جب کھانا کھا چکو اپنے اٹھنے سے پہلے دسترخوان اٹھوا دو۔ اس سے پہلے خود اٹھنا بے ادبی ہے اور اگر اپنی ساتھن سے پہلے کھا چکو تب بھی اس کا ساتھ دو۔ تھوڑا تھوڑا کھاتی رہو تاکہ وہ شرم کے مارے بھوکی نہ اٹھ جائے۔ اور اگر کسی وجہ سے اٹھنے ہی کی ضرورت ہو تو اس سے عذر کر دو۔ ادب مہمان کو دروازے کے پاس تک پہنچانا سنت ہے۔ ادب پانی ایک سانس میں مت پیو تین سانس لینے کے وقت برتن منہ سے جدا کر دو اور بسم اللہ کر کے پیو اور پی کر الحمد للہ کہو۔ ادب جس برتن سے زیادہ پانی جانے کا شبہ ہو یا برتن کے اندر کا حال معلوم نہ ہو کہ اس میں شاید کوئی کیڑا کانٹا ہو ایسے برتن سے منہ لگا کر پانی مت پیو۔ ادب بے ضرورت کھڑے ہو کر پانی مت پیو۔

ادب پانی پی کر اگر دوسروں کو بھی دینا ہو تو جو تمہارے داہنی طرف ہو اس کو پہلے دو اور وہ اپنے داہنی طرف والی کو دے۔ اسی طرح اگر کوئی اور چیز بانٹنا ہو جیسے پان عطر مٹھائی سب کا یہی طریقہ ہے۔ ادب جس طرف سے برتن ٹوٹ رہا ہے ادھر سے پانی مت پیو۔ ادب شروع شام کے وقت بچوں کو باہر مت نکلنے دو۔ اور شب کو بسم اللہ کر کے دروازے بند کر لو اور بسم اللہ کر کے برتنوں کو ڈھانک دو اور چراغ سوتے وقت گل کر دو۔ اور چولہے کی آگ بجھا دو یا دبا دو۔ ادب کھانے پینے کی چیز کسی کے پاس بھیجنا ہو تو ڈھانک کر بھیجو۔

پہننے اوڑھنے کا بیان

ادب ایک جوتی پہن کر مت چلو۔ رضائی وغیرہ اس طرح مت لپیٹو کہ چلنے میں یا جلدی سے ہاتھ نکالنے میں مشکل ہو۔ ادب کپڑا داہنی طرف سے پہننا شروع کرو۔ مثلاً داہنی آستین داہنا پائنچہ داہنی جوتی اور بائیں طرف سے نکالو۔ ادب کپڑا پہن کر یہ دعا پڑھو گناہ معاف ہوتے ہیں۔ الحمدللہ الذی کسانی ہذا ورزقنیہ من غیر حول منی لا قوۃ۔ ادب ایسا لباس مت پہنو جس میں بے پردگی ہو۔ ادب جو امیر عورتیں بہت قیمتی پوشاک اور زیور پہنتی ہیں ان کے پاس زیادہ مت بیٹھو خواہ مخواہ دنیا کی ہوس بڑھے گی۔ ادب پیوند لگانے کو ذلت مت سمجھو۔ ادب کپڑا نہ بہت تکلف کا پہنو اور نہ میلا کچیلا پہنو۔ بیچ کی راس رو اور صفائی رکھو۔ ادب بالوں میں تیل کنگھی کرتی رہو مگر ہر وقت اسی دھن میں مت لگی رہو۔ ہاتھوں میں مہندی لگاؤ۔ ادب سرمہ تین تین سلائی دونوں آنکھوں میں لگاؤ۔ ادب گھر کو صاف رکھو

بیماری اور علاج کا بیان

ادب بیمار کو کھانے پینے پر زیادہ زبردستی مت کرو۔ ادب بیماری میں بدپرہیزی مت کرو۔ ادب خلاف شرع تعویذ گنڈہ ٹوٹکہ ہرگز استعمال مت کرو۔ ادب اگر کسی کو نظر لگ جائے تو جس پر شبہ ہو اس کی نظر لگی ہے اس کا منہ اور دونوں ہاتھ کہنی سمیت اور دونوں پاؤں اور دونوں زانو اور استنجے کا موقع دھلوا کر پانی جمع کر کے اس شخص کے سر پر ڈال دو جس کی نظر لگی ہے انشاء اللہ تعالی شفاء ہو جائے گی۔ ادب جن بیماریوں سے دوسروں کو نفرت ہوتی ہے جیسے خارش یا خون بگڑ جانا ایسے بیمار کو چاہیے کہ خود سب سے الگ رہے تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔

خواب دیکھنے کا بیان

ادب اگر ڈراونا خواب نظر آئے تو بائیں طرف تین بار تھتکار دو اور تین بار اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھو اور کروٹ بدل ڈالو اور کسی سے ذکر مت کرو انشاء اللہ تعالی کوئی نقصان نہ ہو گا۔ ادب اگر خواب کہنا ہو تو ایسے شخص سے کہو جو عقل مند یا تمہارا چاہنے والا ہو تا کہ بری تعبیر نہ دے۔ ادب جھوٹا خواب بنانا بڑا گناہ ہے۔

سلام کرنے کا بیان

ادب آپس میں سلام کیا کرو اس طرح السلام علیکم اور جواب اس طرح دیا کرو وعلیکم السلام اور سب طریقے واہیات ہیں۔ ادب جو پہلے سلام کرے اس کو زیادہ ثواب ملتا ہے۔ ادب جو کوئی دوسرے کا سلام لائے یوں جواب دو علیہم وعلیم السلام ادب اگر کئی آدمیوں میں سے ایک نے سلام کر لیا تو سب کی طرف سے ہو گیا۔ اسی طرح ساری محفل میں سے اسی نے جواب دے دیا وہ بھی سب کی طرف سے ہو گیا اضافہ ہاتھ کے اشارے سے سلام کے وقت جھکنا منع ہے اگر کوئی شخص دور ہو اور تم اس کو سلام کر دیا وہ تم کو سلام کرے تو پھر ہاتھ سے اشارہ کرنا جائز ہے لیکن زبان سے بھی سلام کے الفاظ کہنے چاہئیں مسلمانوں کے جو بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں ان کو بھی انگریزی یا ہندوانہ طریق سے سلام نہ کرنا چاہیے بلکہ شرعی طریقے پر استادوں وغیرہ کو سلام کرنا چاہیے۔ اگر استاد کافر ہو تو اس کو صرف سلام یا السلام علی من اتبع الہدی کہنا چاہیے کافروں کے لیے السلام علیکم کے الفاظ نہ استعمال کرنے چاہئیں سب مسلمانوں کے لیے یہی حکم ہے۔

بیٹھنے لیٹنے چلنے کا بیان

ادب بن ٹھن کر اتراتی ہوئی مت چلو۔ ادب الٹی مت لیٹو۔ ادب ایسی چھت پر مت سو جس میں آڑ نہ ہو شاید لڑھک کر گر پڑو۔ ادب کچھ دھوپ میں کچھ سایہ میں مت بیٹھو۔ ادب اگر تم کسی لاچاری کو باہر نکلو تو سڑک کے کنارے کنارے چلو۔ بیچ میں چلنا عورت کے لیے بے شرمی ہے۔

سب میں مل کر بیٹھنے کا بیان

ادب کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں مت بیٹھو۔ ادب کوئی عورت محفل سے اٹھ کر کسی کام کو گئی اور عقل سے معلوم ہوا کہ ابھی پھر آئے گی۔ ایسی حالت میں اس جگہ کسی اور کو نہ بیٹھنا چاہیے وہ جگہ اسی کا حق ہے۔ ادب اگر دو عورتیں ارادہ کر کے محفل میں پاس پاس بیٹھی ہوں تو ان کے بیچ میں جا کر مت بیٹھو۔ البتہ اگر وہ خوشی سے بٹھلا لیں تو کچھ ڈر نہیں ادب جو عورت تم سے ملنے آئے اس کو دیکھ کر ذرا اپنی جگہ سے کھسک جاؤ جس میں وہ یہ جانے کہ میری قدر کی۔ ادب محفل میں سردار بن کر مت بیٹھو جہاں جگہ ہو غریبوں کی طرح بیٹھ جاؤ۔ ادب جب چھینک آئے منہ پر کپڑا یا ہاتھ رکھ لو اور پست آواز سے چھینکو۔ ادب جمائی کو جہاں تک ہو سکے روکو۔ اگر نہ رکے تو منہ ڈھانک لو۔ ادب بہت زور سے مت ہنسو۔ ادب محفل میں ناک منہ چڑھا کر منھ پھلا کر مت بیٹھو۔ عاجزی سے غریبوں کی طرح بیٹھو۔ کوئی بات موقع کی ہو بول چال بھی لو۔ البتہ گناہ کی بات مت کرو۔ ادب محفل میں کسی طرح پاؤں مت پھیلاؤ۔

زبان کے بچانے کا بیان

ادب بے سوچے کوئی بات مت کہو سوچ کر یقین ہو جائے کہ یہ بات کسی طرح بری نہیں تب بولو۔ ادب کسی کو بے ایمان کہنا یا یوں کہنا کہ فلانی پر خدا کی مار خدا کی پھٹکار خدا کا غضب پڑے دوزخ نیب ہو خواہ آدمی کو خواہ جانور کو یہ سب گناہ ہے جس کو کہا گیا ہے اگر وہ ایسا نہ ہوا تو یہ سب پھٹکار لوٹ کر اس کہنے والی پر پڑتی ہے۔ ادب اگر تم کو کوئی بیجا بات کہے بدلے میں اتنا ہی کہہ سکتی ہو اگر ذرا بھی زیادہ کہا پر تم گنہگار ہو گی۔ ادب دوغلی بات منہ دیکھے کی مت کرو کہ اس کے منہ پر اس کی سی اور اس کے منہ پر اس کی سی۔ ادب چغلخوری ہرگز مت کرو نہ کسی کی چغلی سنو۔ ادب جھوٹ ہرگز مت بولو۔

ادب خوشامد سے کسی کی منہ پر تعریف مت کرو اور پیٹھ پیچھے بھی حد سے زیادہ تعریف مت کرو۔ ادب کسی کی غیبت ہرگز بیان مت کرو اور غیبت یہ ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی ایسی بات کہنا کہ اگر وہ سنے تو اس کو رنج ہو چاہے وہ بات سچی ہی ہو۔ اور اگر وہ بات ہی غلط ہے تو وہ بہتان ہے اس میں اور بھی زیادہ گناہ ہے۔ ادب کسی سے بحث مت کرو اپنی بات کو اونچی مت کرو۔ ادب زیادہ مت ہنسو اس سے دل کی رونق جاتی رہتی ہے۔ ادب جس شخص کی غیبت کی ہے اگر اس سے معاف نہ کرا سکو تو اس شخص کے لیے دعائے مغفرت کیا کرو۔ امید ہے کہ قیامت میں معاف کر دے۔ ادب جھوٹا وعدہ مت کرو۔ ادب ایسی ہنسی مت کرو جس سے دوسرا ذلیل ہو جائے۔ ادب اپنی کسی چیز یا کسی ہنر پر بڑائی مت جتلاؤ۔ ادب شعر اشعار کا دھندا مت رکھو البتہ اگر مضمون خلاف شرع نہ ہو اور تھوڑی سی آواز سے کبھی کبھی کوئی دعا یا نصیحت کا شعر پڑھ لو تو ڈر نہیں۔ ادب سنی سنائی ہوئی باتیں مت کہا کرو۔ کیونکہ اکثر ایسی باتیں جھوٹی ہوتی ہیں۔

متفرق باتوں کا بیان

ادب خط لکھ کر اس پر مٹی چھوڑ دیا کرو اس سے اس کام میں آسانی ہوتی ہے جس کام کے لیے خط لکھا گیا ہو۔ ادب زمانے کو برا مت کہو۔ ادب باتیں بہت چھپا کر مت کرو نہ کلام میں بہت طول یا مبالغہ کیا کرو۔ ضرورت کے قدر بات کرو۔ ادب کسی کے گانے کی طرف کان مت لگاؤ۔ ادب کسی کی بری صورت یا بری بات کی نقل مت اتارو۔ ادب کسی کا عیب دیکھو تو اس کو چھپاؤ گاتی مت پھرو۔ ادب جو کام کرو سوچ کر انجام سمجھ کر اطمینان سے کرو جلدی میں اکثر کام بگڑ جاتے ہیں۔ ادب کوئی تم سے مشورہ لے تو وہی صلاح دو جس کو اپنے نزدیک بہتر سمجھتی ہو۔ ادب غصہ جہاں تک ہو سکے روکو۔ ادب لوگوں سے اپنا کہا سنا معاف کرا لو ورنہ قیامت میں بڑی مصیبت ہو گی۔ ادب دوسروں کو بھی نیک کام بتلاتی رہو۔ بری باتوں سے منع کرتی رہو۔ البتہ اگر بالکل قبول کرنے کی امید نہ ہو یا اندیشہ ہو کہ یہ ایذاء پہنچائے گا تو خاموشی جائز ہے مگر دل سے بری بات کو بری سمجھتی رہو اور بدون لاچاری کے ایسے آدمیوں سے نہ ملو۔

دل کا سنوارنا

زیادہ کھانے کی حرص کی برائی اور اس کا علاج

بہت سے گناہ پیٹ کے زیادہ پالنے سے ہوتے ہیں۔ اس میں کئی باتوں کا خیال رکھو۔ مزیدار کھانے کی پابند نہ ہو حرام روزی سے بچو۔ حد سے زیادہ نہ بھرو بلکہ دو چار لقمے کی بھوک رکھ کر کھاؤ۔ اس میں بہت سے فائدے ہیں ایک تو دل صاف رہتا ہے جس سے خدائے تعالی کی نعمتوں کی پہچان ہوتی ہے اور اس سے خدائے تعالی کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے دل میں رقت اور نرمی رہتی ہے جس سے دعا اور ذکر میں لذت معلوم ہوتی ہے۔ تیسرے نفس میں بڑائی اور سرکشی نہیں ہونے پاتی۔ چوتھے نفس کو تھوڑی سی تکلیف پہنچی ہے اور تکلیف کو دیکھ کر خدا کا عذاب یاد آتا ہے اور اس وجہ سے نفس گناہوں سے بچتا ہے۔ پانچویں گناہ کی رغبت کم ہوتی ہے۔ چھٹے طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیند کم آتی ہے تہجد اور دوسری عبادتوں میں سستی نہیں ہوتی۔ ساتویں بھوکوں اور عاجزوں پر رحم آتا ہے بلکہ ہر ایک کے ساتھ رحمدلی پیدا ہوتی ہے۔

زیادہ بولنے کی حرص کی برائی اور اس کا علاج

نفس کو زیادہ بولنے میں بھی مزہ آتا ہے اور اس سے صدہا گناہ میں پھنس جاتا ہے۔ جھوٹ غیبت اور کوسنا کسی کو طعنہ دینا اپنی بڑائی جتلانا خواہ مخواہ کسی سے بحثا بحثی لگانا۔ امیروں کی خوشامد کرنا۔ ایسی ہنسی کرنا جس سے کسی کا دل دکھے۔ ان سب آفتوں سے بچنا جب ہی ممکن ہے کہ زبان کو روکے۔ اور اس کے روکنے کا طریقہ یہی ہے کہ جو بات منہ سے نکالنا ہو جی میں آتے ہی نہ کہہ ڈالے بلکہ پہلے خوب سوچ سمجھ لے کہ اس بات میں کسی طرح کا گناہ ہے یا ثواب ہے یا یہ کہ نہ گناہ ہے نہ ثواب ہے۔ اگر وہ بات ایسی ہے جس میں تھوڑا یا بہت گناہ ہے تو بالکل اپنی زبان بند کر لو اگر اندر سے نفس تقاضا کرے تو اس کو یوں سمجھاؤ کہ اس وقت تھوڑا سا جی کو مار لینا آسان ہے اور دوزخ کا عذاب بہت سخت ہے۔ اور اگر وہ بات ثواب کی ہے تو کہہ ڈالو اور اگر نہ گناہ ہے نہ ثواب ہے تو بھی مت کہو۔ اور اگر بہت ہے دل چاہے تو تھوڑی سی کہہ کر چپ ہو جاؤ۔ ہر بات میں اسی طرح سوچا کرو تھوڑے دنوں میں بری بات کہنے سے خود نفرت ہو جائے گی۔ اور زبان کی حفاظت کی ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ بلا ضرورت کسی سے نہ ملو۔ جب تنہائی ہو گی خود ہی زبان خاموش رہے گی۔

غصے کی برائی اور اس کا علاج

غصے میں عقل ٹھکانے نہیں رہتی اور انجام سوچنے کا ہوش نہیں رہتا۔ اس لیے زبان سے بھی جا بیجا نکل جاتا ہے۔ اور ہاتھ سے بھی زیادتی ہو جاتی ہے اس لیے اس کو بہت روکنا چاہیے اور اس کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ کرے کہ جس پر غصہ آیا ہے اس کو اپنے روبرو سے فورا ہٹا دے اگر وہ نہ ہٹے تو خود اس جگہ سے ٹل جائے۔ پھر سوچے کہ جس قدر یہ شخص میرا قصور وار ہے اس سے زیادہ میں خدا تعالی کی قصور وار ہوں اور جیسا میں چاہتی ہوں کہ اللہ تعالی میری خطا معاف کر دیں ایسے ہی مجھ کو بھی چاہیے کہ میں اس کا قصور معاف کر دو اور زبان سے اعوذ باللہ کئی بار پڑھے اور پانی پی لے یا وضو کر لے اس سے غصہ جاتا رہے گا۔ پھر جب عقل ٹھکانے ہو جائے اس وقت بھی اگر اس قصور پر سزا دینی مناسب معلوم ہو مثلاً سزا دینے میں اسی قصور وار کی بھلائی ہے جیسے اپنی اولاد ہے کہ اس کو سدھارنا ضروری ہے اور یا سزا دینے میں دوسرے کی بھلائی ہے جیسے اس شخص نے کسی پر ظلم کیا تھا۔ اب مظلوم کی مدد کرنا اور اس کے واسطے بدلہ لینا ضروری ہے اس لیے سزا کی ضرورت ہے۔ تو اول خوب سمجھ لے کہ اتنی خطا کی کتنی سزا ہونی چاہیے جب اچھی طرح شرع کے موافق اس بات میں تسلی ہو جائے تو اسی قدر سزا دے دے۔ چند روز اس طرح غصہ روکنے سے پھر خود بخود قابو میں آ جائے گا تیزی نہ رہے گی اور کینہ بھی اسی غصے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ جب غصہ کی اصلاح ہو جائے گی کینہ بھی دل سے نکل جائے گا۔

حسد کی برائی اور اس کا علاج

کسی کو کھاتا پیتا یا پھلتا پھولتا عزت آبرو سے رہتا ہوا دیکھ کر دل میں جلنا اور رنج کرنا اور اس کے زوال سے خوش ہونا اس کو حسد کہتے ہیں یہ بہت بری چیز ہے۔ اس میں گناہ بھی ہے ایسے شخص کی ساری زندگی تلخی میں گزرتی ہے۔ غرض اس کی دنیا اور دین دونوں بے حلاوت ہیں اس لیے اس آفت سے نکلنے کی بہت کوشش کرنی چاہیے۔ اور علاج اس کا یہ ہے کہ اول یہ سوچے کہ میرے حسد کرنے سے مجھی کو نقصان اور تکلیف ہے۔ اس کا کیا نقصان ہے۔ اور وہ میرا نقصان یہ ہے کہ میری نیکیاں برباد ہو رہی ہیں۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا لیتی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حسد کرنے والی گویا اللہ تعالی پر اعتراض کر رہی ہے کہ فلانا شخص اس نعمت کے لائق نہ تھا اس کو نعمت کیوں دی۔ تو یوں سمجھو کہ توبہ توبہ اللہ تعالی کا مقابلہ کرتی ہے تو کتنا بڑا گناہ ہو گا۔ اور تکلیف ظاہر ہے کہ ہمیشہ رنج و غم میں رہتی ہے اور جس پر حسد کیا ہے اس کا کوئی نقصان نہیں کیونکہ حسد سے وہ نعمت جاتی نہ رہے گی بلکہ اس کا یہ نفع ہے کہ اس حسد کرنے والی کی نیکیاں اس کے پاس چلی جائیں گی۔ جب ایسی ایسی باتیں سوچ چکو تو پھر یہ کرو کہ اپنے دل پر جبر کر کے جس شخص پر حسد پیدا ہوا ہے زبان سے دوسروں کے روبرو اس کی تعریف اور بھلائی کرو اور یوں کہو کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس کے پاس ایسی ایسی نعمتیں ہیں اللہ اس کو دونی دیں۔ اور اگر اس شخص سے ملنا ہو جائے تو اس کی تعظیم کرے اور اس کے ساتھ عاجزی سے پیش آئے۔ پہلے پہلے ایسے برتاؤ سے نفس کو بہت تکلیف ہو گی مگر رفتہ رفتہ آسانی ہو جائے گی اور حسد جاتا رہے گا۔

دنیا اور مال کی محبت کی برائی اور اس کا علاج

مال کی محبت ایسی بری چیز ہے کہ جب یہ دل میں آتی ہے تو حق تعالی کی یاد اور محبت اس میں نہیں سماتی۔ کیونکہ ایسے شخص کو تو ہر وقت یہی ادھیڑ بن رہے گی کہ روپیہ کس طرح آئے اور کیونکر جمع ہو۔ زیور کپڑا ایسا ہونا چاہیے اس کا سامان کس طرح کرنا چاہیے۔ اتنے برتن ہو جائیں۔ اتنی چیزیں ہو جائیں۔ ایسا گھر بنانا چاہیے۔ باغ لگانا چاہیے۔ جائداد خریدنا چاہیے۔ جب رات دن دل اسی میں رہا پھر خدائے تعالی کو یاد کرنے کی فرصت کہاں ملے گی۔ ایک برائی اس میں یہ ہے کہ جب دل میں اس کی محبت جم جاتی ہے تو مر کر خدا کے پاس جانا اس کو برا معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ خیال آتا ہے کہ مرتے ہی یہ سارا عیش جاتا رہے گا۔ اور کبھی خاص مرتے وقت دنیا کا چھوٹنا برا معلوم ہوتا ہے۔ اور جب اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا سے چھڑایا ہے تو توبہ توبہ اللہ تعالی سے دشمنی ہو جاتی ہے اور خاتمہ کفر پر ہوتا ہے۔ ایک برائی اس میں یہ ہے کہ جب آدمی دنیا سمیٹنے کے پیچھے پڑ جاتا ہے پھر اس کو حرام حلال کا کچھ خیال نہیں رہتا۔ نہ اپنا اور پرایا حق سوجھتا ہے۔ نہ جھوٹ اور دغا کی پرواہ ہوتی ہے۔ بس یہی نیت رہتی ہے کہ کہیں سے آئے لے کر بھر لو۔ اسی واسطے حدیث میں آیا ہے کہ دنیا کی محبت سارے گناہوں کی جڑ ہے۔ جب یہ ایسی بری چیز ہے تو ہر مسلمان کو کوشش کرنا چاہیے کہ اس بلا سے بچے اور اپنے دل سے اس دنیا کی محبت باہر کرے۔ سو علاج اس کا ایک تو یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرے اور ہر وقت سوچے کہ یہ سب سامان ایک دن چھوڑنا ہے۔ پھر اس میں جی لگانا کیا فائدہ۔ بلکہ جس قدر زیادہ جی لگے گا اسی قدر چھوڑتے وقت حسرت ہو گی۔ دوسرے بہت سے علاقے نہ بڑھائے یعنی بہت سے آدمیوں سے میل جول لینا دینا نہ بڑھائے ضرورت سے زیادہ سامان چیز بست مکان جائداد جمع نہ کرے۔ کاروبار روزگار تجارت حد سے زیادہ نہ پھیلائے۔ ان چیزوں کو ضرورت اور آرام تک رکھے غرض سب سامان مختصر رکھے۔

تیسرے فضول خرچی نہ کرے۔ کیونکہ فضول خرچی کرنے سے آمدنی کی حرص بڑھتی ہے اور اس کی حرص سے سب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ چوتھے موٹے کھانے کپڑے کی عادت رکھے۔ پانچویں غریبوں میں زیادہ بیٹھے امیروں سے کم ملے۔ کیونکہ امیروں سے ملنے میں ہر چیز کی ہوس پیدا ہوتی ہے۔ چھٹے جن بزرگوں نے دنیا چھوڑ دی ہے ان کے قصے حکایتیں دیکھا کرے۔ ساتویں جس چیز سے دل کو زیادہ لگاؤ ہو اس کو خیرات کر دے یا بیچ ڈالے۔ انشاء اللہ تعالی ان تدبیروں سے دنیا کی محبت دل سے نکل جائے گی اور دل میں جو دور دور کی امنگیں پیدا ہوتی ہیں کہ یوں جمع کریں۔ یوں سامان خریدیں۔ یوں اولاد کے لیے مکان اور گاؤں چھوڑ جائیں۔ جب دنیا کی محبت جاتی رہے گی یہ امنگیں خود دفع ہو جائیں گی۔

کنجوسی کی برائی اور اس کا علاج

بہت سے حق جن کا ادا کرنا فرض اور واجب ہے جیسے زکوٰۃ قربانی کسی محتاج کی مدد کرنا اپنے غریب رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا کنجوسی میں یہ حق ادا نہیں ہوتے۔ اس کا گناہ ہوتا ہے یہ تو دین کا نقصان ہے۔ اور کنجوس آدمی سب کی نگاہوں میں ذلیل و بے قدر رہتا ہے یہ دنیا کا نقصان ہے اس سے زیادہ کیا برائی ہو گی۔ علاج اس کا ایک تو یہ ہے کہ مال اور دنیا کی محبت دل سے نکالے۔ جب اس کی محبت نہ رہے گی کنجوسی کسی طرح ہو ہی نہیں سکتی دوسرا علاج یہ ہے کہ جو چیز اپنی ضرورت سے زیادہ ہو اپنی طبیعت پر زور ڈال کر اس کو کسی کو دے ڈالا کرے۔ اگرچہ نفس کو تکلیف ہو مگر ہمت کر کے اس تکلیف کو سہار لے۔ جب تک کہ کنجوسی کا اثر بالکل دل سے نہ نکل جائے یوں ہی کیا جائے۔

نام اور تعریف چاہنے کی برائی اور اس کا علاج

جب آدمی کے دل میں اس کی خواہش ہوتی ہے تو دوسرے شخص کے نام اور تعریف سے جلتا ہے اور حسد کرتا ہے۔ اس کی برائی اوپر سن چکی ہو۔ اور دوسرے شخص کی برائی اور ذلت سن کر جی خوش ہوتا ہے۔ یہ بھی بڑے گناہ کی بات ہے کہ آدمی دوسرے کا برا چاہے۔ اور اس میں یہ بھی برائی ہے کہ کبھی ناجائز طریقوں سے نام پیدا کیا جاتا ہے مثلاً نام کے واسطے شادی وغیرہ خوب مال اڑایا۔ فضول خرچی کی۔ اور وہ مال کبھی رشوت سے جمع کیا کبھی سودی قرض کیا اور یہ سارے گناہ اس نام کی بدولت ہوئے اور دنیا کا نقصان اس میں یہ ہے کہ ایسے شخص کے دشمن اور حاسد بہت ہوتے ہیں اور ہمیشہ اس کو ذلیل اور بدنام کرنے اور اس کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں علاج اس کا ایک تو یہ ہے کہ یوں سوچے کہ جن لوگوں کی نگاہ میں ناموری اور تعریف ہو گی نہ وہ رہیں گے نہ میں رہوں گی تھوڑے دنوں کے بعد کوئی پوچھے گا بھی نہیں پھر ایسی بے بنیاد چیز پر خوش ہونا نادانی کی بات ہے۔ دوسرا علاج یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو شرع کے تو خلاف نہ ہو مگر یہ لوگوں کی نظر میں ذلیل اور بدنام ہو جائے۔ مثلاً گھر کی بچی ہوئی باسی روٹیاں غریبوں کے ہاتھ سستی بیچنے لگے اس سے خوب رسوائی ہو گی۔

غرور اور شیخی کی برائی اور اس کا علاج

غرور اور شیخی اس کو کہتے ہیں کہ آدمی اپنے کو علم میں یا عبادت میں دیانتداری میں یا حسب و نسب میں یا مال اور سامان میں یا عزت آبرو میں یا عقل میں یا اور کسی بات میں اوروں سے بڑا سمجھے اور دوسروں کو اپنے سے کم اور حقیر جانے یہ بڑا گناہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں نہ جائے گا اور دنیا میں بھی ایسے لوگ آدمی سے دل میں بہت نفرت کرتے ہیں اور اس کے دشمن ہوتے ہیں اگرچہ ڈر کے مارے ظاہر میں آؤ بھگت کرتے ہیں اور اس میں یہ بھی برائی ہے کہ ایسا شخص کسی کی نصیحت کو نہیں مانتا حق بات کو کسی کے کہنے سے قبول نہیں کرتا بلکہ برا مانتا ہے اور اس نصیحت کرنے والے کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے۔ علاج اس کا یہ ہے کہ اپنی حقیقت میں غور کرے کہ میں مٹی اور ناپاک پانی کی پیدائش ہوں۔ ساری خوبیاں اللہ تعالی کی دی ہوئی ہیں اگر وہ چاہیں ابھی سب لے لیں۔ پھر شیخی کس بات پر کروں اور اللہ تعالی کی بڑائی کو یاد کرے۔ اس وقت اپنی بڑائی نگاہ میں نہ آئے گی اور جس کو اس نے حقیر سمجھا ہے اس کے سامنے عاجزی سے پیش آئے اور اس کی تعظیم کیا کرے شیخی دل سے نکل جائے گی اگر اور زیادہ ہمت نہ ہو تو اپنے ذمے اتنی ہی پابندی کر لے کہ جب کوئی چھوٹے درجے کا آدمی ملے اس کو پہلے خود سلام کر لیا کرے۔ انشاء اللہ تعالی اس سے بھی نفس میں بہت عاجزی جائے گی۔

اترانے اور اپنے آپ کو اچھا سمجھنے کی برائی اور اس کا علاج

اگر کوئی اپنے آپ کو اچھا سمجھی یا کپڑا زیور پہن کر اترائی اگرچہ دوسروں کو بھی برا اور کم نہ سجھی یہ بات بھی بری ہے حدیث میں آیا ہے کہ یہ خصلت دین کو برباد کرتی ہے اور یہ بھی بات ہے کہ ایسا آدمی اپنے سنوارنے کی فکر نہیں کرتا کیونکہ جب وہ اپنے آپ کو اچھا سمجھتا ہے تو اس کو اپنی برائیاں کبھی نظر نہ آئیں گی۔ علاج اس کا یہ ہے کہ اپنے عیبوں کو سوچا اور دیکھا کرے اور یہ سجھے کہ جو باتیں میرے اندر اچھی ہیں یہ خدائے تعالی کی نعمت ہے میرا کوئی کمال نہیں۔ اور یہ سوچ کر اللہ تعالی کا شکر کیا کرے اور دعا کیا کرے کہ اے اللہ اس نعمت کا زوال نہ ہو

نیک کام دکھلاوے کے لیے کرنے کی برائی اور اس کا علاج

یہ دکھلاوا کئی طرح کا ہوتا ہے کبھی صاف زبان سے ہوتا ہے کہ ہم نے اتنا قرآن پڑھا۔ ہم رات کو اٹھے تھے کبھی اور باتوں میں ملا ہوتا ہے۔ مثلاً کہیں بدوؤں کا ذکر ہو رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ نہیں صاحب یہ سب باتیں غلط ہیں ہمارے ساتھ ایسا ایسا برتاؤ ہوا۔ تو اب بات تو ہوئی اور کچھ لیکن اسی میں یہ بھی سب نے جان لیا کہ انہوں نے حج کیا ہے کبھی کام کرنے سے ہوتا ہے جیسے دکھلاوے کی نیت سے سب کی روبرو تسبیح لے کر بیٹھ گئی یا کبھی کام کے سنوارنے سے ہوتا ہے جیسے کسی کی عادت ہے کہ ہمیشہ قرآن پڑھی ہے مگر چار عورتوں کے سامنے ذرا سنوار سنوار کر پڑھنا شروع کر دیا۔ کبھی صورت شکل سے ہوتا ہے جیسے آنکھیں بند کر کے گردن جھکا کر بیٹھ گئی۔ جس میں دیکھنے والے سمجھیں کہ بڑی اللہ والی ہیں۔ ہر وقت اسی دھیان میں ڈوبی رہتی ہیں۔ رات کو بہت جاگی ہیں۔ نیند سے آنکھیں بند ہوئی جاتی ہیں۔ اسی طرح یہ دکھلاوا اور ابھی کئی طور پر ہوتا ہے اور جس طرح بھی ہو بہت برا ہے۔ قیامت میں ایسے نیک کاموں پر جو دکھلاوے کے لیے ہوں ثواب کے بدلے اور الٹا عذاب دوزخ کا ہو گا۔ علاج اس کا وہی ہے جو کہ نام اور تعریف چاہنے کا علاج ہے جس کو ہم اوپر لکھ چکے ہیں۔ کیونکہ دکھلاوا اسی واسطے ہوتا ہے کہ میر انام ہو اور میری تعریف ہو۔

ضروری بتلانے کے قابل بات

ان بری باتوں کے جو علاج بتلائے گئے ہیں ان کو دو چار بار برت لینے سے کام نہیں چلتا۔ اور یہ برائیاں نہیں دور ہوتیں مثلاً غصے کو دو چار بار روک لیا تو اس سے بیماری کی جڑ نہیں گئی یا ایک آدھ بار غصہ نہ یا تو اس دھوکے میں نہ آئے کہ میرا نفس سنور گیا ہے بلکہ بہت دنوں تک ان علاجوں کو برتے۔ اور جب غفلت ہو جائے افسوس اور رنج کرے اور آگے کو خیال رکھے۔ مدتوں کے بعد انشاء اللہ تعالی ان برائیوں کی جڑ جاتی رہے گی۔

ایک اور ضروری کام کی بات

نفس کے اندر کی جتنی برائیاں ہیں اور ہاتھ پاؤں سے جتنے گناہ ہوتے ہیں ان کے علاج کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ جب نفس سے کوئی شرارت اور برائی یا گناہ کا کام ہو جائے اس کو کچھ سزا دیا کرے۔ اور دو سزائیں آسان ہیں کہ ہر شخص کر سکتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ اپنے ذمہ کچھ آنہ دو آنے روپیہ دو روپے جیسی حیثتآ ہو جرمانے کے طور پر ٹھہرا لے۔ جب کبھی کوئی بری بات ہو جایا کرے وہ جرمانہ غریبوں کو بانٹ دیا کرے اگر پھر ہو۔ پھر اسی طرح کرے۔ دوسری سزا یہ ہے کہ ایک دو وقت کھانا نہ کھایا کرے۔ اللہ تعالی سے امید ہے کہ اگر کوئی ان سزاؤں کو نباہ کر برتے انشاء اللہ تعالی سب برائیاں چھوٹ جائیں گی اچھی باتوں کا بیان ہے جن سے دل سنورتا ہے۔

توبہ اور اس کا طریقہ

توبہ ایسی اچھی چیز ہے کہ اس سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جو آدمی اپنی حالت میں غور کرے گا۔ کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی بات گناہ کی ہو جاتی ہے ضرور توبہ کو ہر وقت ضروری سمجھے گا۔ طریقہ اس کے حاصل کرنے کا یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں جو جو عذاب کے ڈراوے گناہوں پر آئے ہیں ان کو یاد کرے اور سوچے اس سے گناہ پر دل دکھے گا۔ اس وقت چاہیے کہ زبان سے بھی توبہ کرے اور جو نماز روزہ وغیرہ قضا ہوا ہو اس کو قضا بھی کرے۔ اگر بندوں کے حقوق ضائع ہوئے ہیں ان سے معاف بھی کرا لے یا ادا کرے اور جو ویسے ہی گناہ ہوں ان پر خوب کڑھے اور رونے کی شکل بنا کر خدائے تعالی سے خوب معافی مانگے۔

خدائے تعالی سے ڈرنا اور اس کا طریقہ

اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مجھ سے ڈرو۔ اور خوف ایسی اچھی چیز ہے کہ آدمی اس کی بدولت گناہوں سے بچتا ہے۔ طریقہ اس کا وہی ہے جو طریقہ توبہ کا ہے کہ خدائے تعالی کے عذاب کو سچا کرے اور یاد کیا کرے۔

اللہ تعالی سے امید رکھنا اور اس کا طریقہ

اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تم حق تعالی کی رحمت سے نا امید ہو۔ اور امید ایسی اچھی چیز ہے کہ اس سے نیک کاموں کے لیے دل بڑھتا ہے اور توبہ کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت کو یاد کیا کرے اور سوچا کرے۔

صبر اور اس کا طریقہ

نفس کو دین کی بات پر پابند رکھنا اور دین کے خلاف اس سے کوئی کام نہ ہونے دینا اس کو صبر کہتے ہیں۔ اور اس کے کئی موقعے ہیں۔ ایک موقع یہ ہے کہ آدمی چین امن کی حالت میں ہو۔ خدائے تعالی نے صحت دی ہو۔ مال دولت عزت برو نوکر چاکر مال اولاد گھر بار سازو سامان دیا ہو۔ ایسے وقت کا صبر یہ ہے کہ دماغ خراب نہ ہو۔ خدائے تعالی کو نہ بھول جائے۔ غریبوں کو حقیر نہ سمجھے ان کے ساتھ نرمی اور احسان کرتا رہے دوسرا موقع عبادت کا وقت ہے کہ اس وقت نفس سستی کرتا ہے جیسے نماز کے لیے اٹھنے میں یا نفس کنجوسی کرتا ہے جیسے زکوٰۃ خیرات دینے میں ایسے موقع میں تین طرح کا صبر درکار ہے۔ ایک عبادت سے پہلے کہ نیت درست رکھے۔ اللہ ہی کے واسطے وہ کام کرے نفس کی کوئی غرض نہ ہو۔ دوسرے عبادت کے وقت کہ کم ہمتی نہ ہو جس طرح اس عبادت کا حق ہے اسی طرح ادا کرے۔ تیسرے عبادت کے بعد کہ اس کو کسی کے روبرو ذکر نہ کرے۔ تیسرا موقع گناہ کا وقت ہے۔ اس وقت کا صبر یہ ہے کہ نفس کو گناہ سے روکے۔ چوتھا موقع وہ وقت ہے کہ اس شخص کو کوئی مخلوق تکلیف پہنچائے برا بھلا کہے اس وقت کا صبر یہ ہے کہ بدلہ نہ لے خاموش ہو جائے۔ پانچواں موقع مصیبت اور بیماری اور مال کے نقصان یا کسی عزیز و قریب کے مر جانے کا ہے۔ اس وقت کا صبر یہ ہے کہ زبان سے خلاف شرع کلمہ نہ کہے بیان کر کے نہ روئے۔ طریقہ سب قسم کے صبروں کا یہ ہے کہ ان سب موقعوں کے ثواب کو یاد کرے اور سمجھے کہ یہ سب باتیں میرے فائدے کے واسطے ہیں۔ اور سوچے کہ بے صبری کرنے سے تقدیر تو ٹلتی نہیں۔ ناحق ثواب بھی کیوں کھویا جائے۔

شکر اور اس کا طریقہ

خدائے تعالی کی نعمتوں سے خوش ہو کر خدائے تعالی کی محبت دل میں پیدا ہونا اور اس محبت سے یہ شوق ہونا کہ جب وہ ہم کو ایسی ایسی نعمتیں دیتے ہیں تو ان کی خوب عبادت کرو۔ اور ایسی نعمت دینے والے کی نافرمانی بڑے شرم کی بات ہے۔ یہ خلاصہ ہے سکر کا۔ یہ ظاہر ہے کہ بندے پر ہر وقت اللہ تعالی کی ہزاروں نعمتیں ہیں۔ اگر کوئی مصیبت بھی ہے تو اس میں بھی بندے کا فائدہ ہے تو وہ بھی نعمت ہے۔ جب ہر وقت نعمت ہے تو ہر وقت دل میں یہ خوشی اور محبت رہنا چاہیے کہ کبھی خدائے تعالی کے حکم کے بجا لانے میں کمی نہ کرنی چاہیے۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ خدائے تعالی کی نعمتوں کو یاد کیا کرے اور سوچا کرے۔

خدائے تعالی پر بھروسہ رکھنا اور اس کا طریقہ

یہ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ بدون خدائے تعالی کے ارادے کے نہ کوئی نفع حاصل ہو سکتا ہے۔ نہ نقصان پہنچ سکتا ہے اس واسطے ضرور ہوا کہ جو کام کرے اپنی تدبیر پر بھروسہ نہ کرے۔ نظر خدائے تعالی پر رکھے اور اسی مخلوق سے زیادہ امید نہ رکھے نہ کسی سے زیادہ ڈرے یہ سمجھ لے بدون خدا کے چاہے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کو بھروسہ اور توکل کہتے ہیں طریقہ اس کا یہی ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت اور حکمت کو اور مخلوق کے ناچیز ہونے کو خوب سوچا اور یاد کیا کرے۔

خدائے تعالی سے محبت کرنا اور اس کا طریقہ

اللہ تعالی کی طرف دل کا کھینچنا اور اللہ تعالی کی باتوں کو سن کر اور ان کے کاموں کو دیکھ کر دل کو مزہ نا یہ محبت ہے طریقہ اس کا یہ ہے کہ اللہ کا نام بہت کثرت سے پڑھا کرے اور ان کی خوبیوں کو یاد کیا کرے اور ان کو جو بندے کے ساتھ محبت ہے اس کو سوچا کرے۔

خدائے تعالی کے حکم پر راضی رہنا اور اس کا طریقہ

جب مسلمان کو یہ معلوم ہے کہ خدائے تعالی کی طرف سے جو کچھ ہوتا ہے سب میں بندے کا فائدہ اور ثواب ہے تو ہر بات پر راضی رہنا چاہیے۔ نہ گھبرائے نہ شکایت حکایت کرے۔ طریقہ اس کا اسی بات کا سوچنا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے سب بہتر ہے۔

صدق یعنی سچی نیت اور اس کا طریقہ

دین کا جو کوئی کام کرے اس میں کوئی دنیا کا مطلب نہ ہو نہ تو دکھلاوا ہو نہ ایسا کوئی مطلب ہو جیسے کسی کے پیٹ میں گرانی ہے اس نے کہا لاؤ روزہ رکھ لیں۔ روزے کا روزہ ہو جائے گا اور پیٹ ہلکا ہو جائے گا یا نماز کے وقت پہلے سے وضو ہو مگر گرمی بھی ہے اس لیے وضو تازہ کر لیا کہ وضو بھی تازہ ہو جائے گا اور ہاتھ پاؤں بھی ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ یا کسی سائل کو دیا کہ اس کے تقاضے سے جان بچی اور یہ بلا ٹلی۔ یہ سب باتیں سچی نیت کے خلاف ہیں۔ طریقہ اس کا یہ ہے کہ کام کرنے سے پہلے خوب سوچ لیا کرے اگر کسی ایسی بات کا اس میں میل پائے اس سے دل کو صاف کر لے۔

مراقبہ یعنی دل سے خدا کا دھیان رکھنا اور اس کا بیان

دل سے ہر وقت دھیان رکھے کہ اللہ تعالی کو میرے سب حالوں کی خبر ہے ظاہر کی بھی اور دل کی بھی اگر برا کام ہو گا یا برا خیال لایا جائے گا شاید اللہ تعالی دین میں یا آخرت میں سزا دیں دوسرے عبادت کے وقت یہ دھیان جما لے کہ وہ میری عبادت کو دیکھ رہے ہیں اچھی طرح بجا لانا چاہیے۔ طریقہ اس کا یہی ہے کہ کثرت سے ہر وقت یہ سوچا کرے تھوڑے دنوں میں اس کا دھیان بندھ جائے گا پھر انشاء اللہ تعالی اس سے کوئی بات اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف نہ ہو گی۔

قرآن مجید پڑھنے میں دل لگانے کا طریقہ

قاعدہ ہے کہ اگر کوئی کسی سے کہے کہ ہم کو تھوڑا سا قرآن سناؤ دیکھیں کیسا پڑھتی ہو تو اس وقت جہاں تک ہو سکتا ہے خوب بنا کر سنوار کر سنبھال کر پڑھتی ہو اب یوں کیا کرو کہ جب قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو پہلے دل میں یہ سوچ لیا کرو کہ گویا اللہ تعالی نے ہم سے فرمائش کی ہے کہ ہم کو سناؤ کیسا پڑھتی ہو اور یوں سمجھو کہ اللہ تعالی خوب سن رہے ہیں اور یوں خیال کرو کہ جب آدمی کے کہنے سے بناسنوار کر پڑھتے ہیں تو اللہ تعالی کے فرمانے سے جو پڑھتے ہیں اس کو تو خوب ہی سنبھال سنبھال کر پڑھنا چاہیے۔ یہ سب باتیں سوچ کر اب پڑھنا شروع کرو۔ اور جب تک پڑھتی رہو یہی باتیں خیال میں رکھو۔ اور جب پڑھنے میں بگاڑ ہونے لگے یا دل ادھر ادھر بٹنے لگے تو تھوڑی دیر کے لیے پڑھنا موقوف کر کے ان باتوں کے سوچنے کو پھر تازہ کر لو انشاء اللہ تعالی اس طریقے سے صحیح اور صاف بھی پڑھا جائے گا اور دل بھی ادھر متوجہ رہے گا۔ اگر ایک مدت تک اسی طرح پڑھو گی تو پھر آسانی سے دل لگنے لگے گا۔

نماز میں دل لگانے کا طریقہ

اتنی بات یاد رکھو کہ نماز میں کوئی کام پڑھنا بے ارادہ نہ ہو بلکہ ہر بات ارادے اور سوچ سے ہو مثلاً اللہ اکبر کہہ کر جب کھڑی ہو تو ہر لفظ پر یوں سوچو کہ میں اب سبحانک اللہم پڑھ رہی ہوں پھر سوچو کہ اب وبحمد کل کہہ رہی ہوں۔ پھر دھیان کرو کہ اب و تبارک اسمک منہ سے نکل رہا ہے۔ اسی طرح ہر لفظ الگ الگ دھیان اور ارادہ کرو پھر الحمد اور سورت میں یوں ہی کرو پھر رکوع میں اسی طرح ہر دفع سبحان ربی العظیم کو سوچ سوچ کر کہو۔ غرض منہ سے جو نکالو دھیان بھی ادھر رکھو۔ ساری نماز میں یہی طریقہ رکھو انشاء اللہ تعالی اس طرح کرنے سے نماز میں کسی طرف نہ بٹے گا۔ پھر تھوڑے دنوں میں آسانی سے جی لگنے لگے کا اور نماز میں مزہ آئے گا۔

پیری مریدی کا بیان

مرید بننے میں کئی فائدے ہیں۔ ایک فائدہ یہ کہ دل کے سنوارنے کے طریقے جو اوپر بیان کیے گئے ہیں ان کے برتاؤ کرنے میں کبھی کم سمجھی سے غلطی ہو جاتی ہے پیر اس کا ٹھیک راستہ بتلا دتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کتاب میں پڑھنے سے بعضی دفعہ اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا کہ پیر کے بتلانے سے ہوتا ہے ایک تو اس کی برکت ہوتی ہے پھر یہ بھی خوف ہوتا ہے کہ اگر کوئی نیک کام میں کمی کی یا کوئی بری بات کی پیر سے شرمندگی ہو گی۔ تیسرا فائدہ یہ کہ پیر سے اعتقاد اور محبت ہو جاتی ہے اور یوں جی چاہتا ہے کہ اس کا طریقہ ہے ہم بھی اس کے موافق چلیں چوتھا فائدہ یہ ہے کہ پیر اگر نصیحت کرنے میں سختی یا غصہ کرتا ہے تو ناگوار نہیں ہوتا۔ پھر اس نصیحت پر عمل کرنے کی زیادہ کوشش ہو جاتی ہے۔ اور بھی بعضے فائدے ہیں جن پر اللہ تعالی کا فضل ہوتا ہے ان کو حاصل ہوتے ہیں اور حاصل ہونے ہی سے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر مرید ہونے کا ارادہ ہو تو اول پیر میں یہ باتیں دیکھ لو۔ جس میں یہ باتیں نہ ہوں ان سے مرید نہ ہوں۔ ایک یہ کہ وہ پیر دین کے مسئلے جانتا ہو۔ شرع سے ناواقف نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اس میں کوئی بات خلاف شرع نہ ہو۔ جو عقیدے تم نے اس کتاب کے پہلے حصہ میں پڑھے ہیں ویسے اس کے عقیدے ہوں جو جو مسئلے اور دل کے سنوارنے کے طریقے تم نے اس کتاب میں پڑھے ہیں کوئی بات اس میں ان کے خلاف نہ ہو۔ تیسرے کمانے کھانے کے لیے پیری مریدی نہ کرتا ہو۔ چوتھے کسی ایسے بزرگ کا مرید ہو جس کو اکثر اچھے لوگ بزرگ سمجھتے ہوں۔ پانچویں اس پیر کو بھی اچھے لوگ اچھا کہتے ہوں۔ چھٹے اس کی تعلیم میں یہ اثر ہو کہ دین کی محبت اور شوق پیدا ہو جائے یہ بات اس کے اور مریدوں کا حال دیکھنے سے معلوم ہو جائے گی۔ اگر دس مریدوں میں پانچ چھ مرید بھی اچھے ہوں تو سمجھو کہ یہ پیر تاثیر والا ہے۔ اور ایک آدھ مرید کے برے ہونے سے شبہ مت کرو۔

اور تم نے جو سنا ہو گا کہ بزرگوں میں تاثیر ہوتی ہے وہ تاثیر یہی ہے۔ اور دوسری تاثیروں کو مت دیکھنا کہ وہ جو کہہ دیتے ہیں اسی طرح ہوتا ہے وہ ایک چھو کر دیتے ہیں تو بیماری جاتی رہتی ہے۔ وہ جس کام کے لیے تعویذ دیتے ہیں وہ کام مرضی کے موافق ہو جاتا ہے۔ وہ اسی توجہ دیتے ہیں کہ آدمی لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ ان تاثیروں سے کبھی دھوکا مت کھانا۔ ساتویں اس پیر میں یہ بات ہو کہ دین کی نصیحت کرنے میں مریدوں کا لحاظ ملاحظہ کرتا ہو۔ بیجا بات سے روک دیتا ہو۔ جب کوئی ایسا پیر مل جائے تو اگر تم کنواری ہو تو ماں باپ سے پوچھ کر اور اگر تمہاری شادی ہو گئی ہے تو شوہر سے پوچھ کر اچھی نیت سے یعنی خالص دین کے درست کرنے کی نیت سے مرید ہو جاؤ۔ اور اگر یہ لوگ کسی مصلحت سے اجازت نہ دیں تو مرید ہونا فرض تو ہے نہیں مرید مت بنو۔ البتہ دین کی راہ پر چلنا فرض ہے بدون مرید ہوئے بھی اس راہ پر چلتی رہو۔

اب پیری مریدی کے متعلق بعضی باتوں کی تعلیم کی جاتی ہے

تعلیم پیر کا خوب ادب رکھے۔ اللہ کے نام لینے کا طریقہ وہ جس طرح بتلائے اس کو نباہ کر کرے۔ اس کی نسبت یوں اعتقاد رکھے کہ مجھ کو جتنا فائدہ دل کے درست ہونے کا اس سے پہنچ سکتا ہے اتنا اس زمانے کے کسی بزرگ سے نہیں پہنچ سکتا۔ تعلیم اگر مریدوں کا دل ابھی اچھی طرح نہیں سنوارا تھا کہ پیر کا انتقال ہو گیا تو دوسرے کامل پیر سے جس میں اوپر کی سب باتیں ہوں مرید ہو جائے۔ تعلیم کسی کتاب میں کوئی وظیفہ یا کوئی فقیری کی بات دیکھ کر اپنی عقل سے کچھ نہ کرے پیر سے پوچھ لے۔ اور جو کوئی نئی بات بھلی یا بری دل میں آئے یا کسی بات کا ارادہ پیدا ہو پیر سے دریافت کر لے۔ تعلیم پیر سے بے پردہ نہ ہو اور مرید ہونے کے وقت اس کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دے رومال یا کسی اور کپڑے سے یا خالی زبان سے مریدی درست ہے۔ تعلیم اگر غلطی سے کسی خلاف شرع پیر سے مرید ہو جائے یا پہلے وہ شخص اچھا تھا اب بگڑ گیا تو مریدی توڑ ڈالے اور کسی اچھے بزرگ سے مرید ہو جائے لیکن اگر کوئی ہلکی سی بات کبھی کبھار پیر سے ہو جائے تو یوں سمجھے کہ آخر یہ بھی آدمی ہے فرشتہ تو ہے نہیں۔ اس سے غلطی ہو گئی جو توبہ سے معاف ہو سکتی ہے۔ ذرا ذرا سی بات میں اعتقاد خراب نہ کرے۔ البتہ اگر وہ اس بیجا بات پر جم جائے تو پھر مریدی توڑ دے۔ تعلیم پیر کو یوں سمجھنا گناہ ہے کہ اس کو ہر وقت ہمارا سب حال معلوم ہے۔ تعلیم فقیری کی جو ایسی کتابیں ہیں کہ ان کا ظاہری مطلب خلاف شرع ہے ایسی کتابیں کبھی نہ دیکھے۔ اسی طرح جو شعر اشعار خلاف شرع ہیں ان کو کبھی زبان سے نہ پڑھے۔ تعلیم بعضے فقیر کہا کرتے ہیں کہ شرع کا راستہ اور ہے اور فقیری کا راستہ اور ہے۔ یہ فقیر گمراہ ہیں۔ ان کو جھوٹا سمجھنا فرض ہے۔ تعلیم اگر پیر کوئی بات خلاف شرع بتلائے اس پر عمل درست نہیں۔ اگر وہ اس پر ہٹ کرے تو اس سے مریدی توڑ دے۔

تعلیم اگر اللہ تعالی کا نام لینے کی برکت سے دل میں کوئی اچھی حالت پیدا ہو یا اچھے خواب نظر آئیں یا جاگتے میں کوئی آواز یا روشنی معلوم ہو تو بجز اپنے پیر کے کسی سے ذکر نہ کرے نہ کبھی اپنے وظیفوں اور عبادت کا کسی سے اظہار کرے کیونکہ ظاہر کرنے سے وہ دولت جاتی رہتی ہے۔ تعلیم اگر پیر نے کوئی وظیفہ یا ذکر بتلایا اور کچھ مدت تک اس کا اثر یا مزہ دل پر کچھ معلوم نہ ہوا تو اس سے تنگ دل یا پیر سے بد اعتقاد نہ ہو بلکہ یوں سمجھے کہ بڑا اثر یہی ہے کہ اللہ کا نام لینے کا دل میں ارادہ پیدا ہوتا ہے اور اس نیک کام کی توفیق ہوتی ہے اور ایسے اثر کا کبھی دل میں خیال نہ لائے کہ مجھ کو خواب میں بزرگوں کی زیارت ہوا کرے مجھ کو ہونے والی باتیں معلوم ہو جایا کریں۔ مجھ کو خوب رونا آیا کرے۔ مجھ کو عبادت میں ایسی بیہوشی ہو جائے کہ دوسری چیزوں کی خبر ہی نہ رہے کبھی کبھی یہ باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور کبھی نہیں ہوتیں اگر ہو جائیں تو خدائے تعالی کا شکر بجا لائے۔ اور اگر وہ ہوں یا ہو کر کم ہو جائیں یا جاتی رہیں تو غم نہ کرے۔ البتہ خدا نہ کرے اگر شرع کی پابندی میں کمی ہونے لگے یا گناہ ہونے لگیں۔ یہ بات البتہ غم کی ہے۔ جلدی ہمت کر کے اپنی حالت درست کرے اور پیر کو اطلاع دے اور وہ جو بتلائیں اس پر عمل کرے۔ تعلیم دوسرے بزرگوں کی یا دوسرے خاندان کی ان میں گستاخی نہ کرے اور نہ جگہ کے مریدوں سے یوں کہے کہ ہمارے پیر تمہارے پیر سے یا ہمارا خاندان تمہارے خاندان سے بڑھ کر ہے ان فضول باتوں سے دل میں اندھیرا پیدا ہوتا ہے۔ تعلیم اگر اپنی کسی پیر بہن پر پیر کی مہربانی زیادہ ہو یا اس کو وظیفہ و ذکر سے زیادہ فائدہ ہو تو اس پر حسد نہ کرے۔

مرید کو بلکہ ہر مسلمان کو اس طرح رات دن رہنا چاہیے

ضرورت کے موافق دین کا علم حاصل کرے خواہ کتاب پڑھ کر یا عالموں سے پوچھ پاچھ کر۔ سب گناہوں سے بچے۔ اگر کوئی گناہ ہو جائے فورا توبہ کرے۔ کسی کا حق نہ رکھے۔ کسی کو زبان سے یا ہاتھ سے تکلیف نہ دے۔ کسی کی برائی نہ کرے۔ مال کی محبت اور نام کی خواہش نہ رکھے نہ بہت اچھے کھانے کپڑے کی فکر میں رہے۔ اگر اس کی خطا پر کوئی ٹوکے تو اپنی بات نہ بنائے فورا اقرار اور توبہ کر لے۔ بدون سخت ضرورت کے سفر نہ کرے۔ سفر میں بہت سی باتیں بے احتیاطی کی ہوتی ہیں۔ بہت سے نیک کام چھوٹ جاتے ہیں۔ وظیفوں میں خلل پڑ جاتا ہے وقت پر کوئی کام نہیں ہوتا۔ بہت نہ ہنسے بہت نہ بولے۔ خاص کر نا محرم سے بے تکلیفی کی باتیں نہ کرے۔ کسی سے جھگڑا تکرار نہ کرے۔ شرع کا ہر وقت خیال رکھے۔ عبادت میں سستی نہ کرے۔ زیادہ وقت تنہائی میں رہے۔ اگر اوروں سے ملنا جلنا پڑے تو سب سے عاجز ہو کر رہے۔ سب کی خدمت کرے برائی نہ جتلائے۔ اور امیروں سے تو بہت ہی کم ملے۔ بد دین آدمی سے دور بھاگے۔ دوسروں کا عیب نہ ڈھونڈے۔ کسی پر بدگمانی نہ کرے اپنے عیبوں کو دیکھا کرے اور ان کی درستی کیا کرے۔ نماز کو اچھی طرح اچھے وقت دل سے پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا بہت خیال رکھے۔ دل یا زبان سے ہر وقت اللہ کی یاد میں رہے کسی وقت غافل نہ ہو۔ اگر اللہ کا نام لینے سے مزہ آئے دل خوش ہو تو اللہ تعالی کا شکر بجا لائے۔ بات نرمی سے کرے۔ سب کاموں کے لیے وقت مقرر کر لے اور پابندی سے اس کو نباہے۔ جو کچھ رنج و غم نقصان پیش آئے اللہ تعالی کی طرف سے جانے پریشان نہ ہو اور یوں سمجھے کہ اس میں مجھ کو ثواب ملے گا۔ ہر وقت دل میں دنیا کا حساب کتاب اور دنیا کے کاموں کا ذکر مذکور نہ رکھے بلکہ خیال بھی اللہ ہی کا رکھے۔ جہاں تک ہو سکے دوسروں کو فائدہ پہنچائے خواہ دنیا کا یا دین کا۔ کھانے پینے میں نہ اتنی کمی کرے کہ کمزور یا بیمار ہو جائے نہ اتنی زیادتی کرے کہ عبادت میں سستی ہونے لگے۔

خدائے تعالی کے سوا کسی سے طمع نہ کرے نہ کسی کی طرف خیال دوڑائے کہ فلانی جگہ سے ہم کو یہ فائدہ ہو جائے۔ خدائے تعالی کی تلاش میں بے چین رہے۔ نعمت تھوڑی ہو یا بہت اس پر شکر بجا لائے اور فقر و فاقہ سے تنگ دل نہ ہو۔ جو اس کی حکومت میں ہیں ان کی خطا و قصور سے درگزر کرے۔ کسی کا عیب معلوم ہو جائے تو اس کو چھپائے۔ البتہ اگر کوئی کسی کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور تم کو معلوم ہو جائے تو اس شخص سے کہہ دو۔ مہمانوں اور مسافروں اور غریبوں اور عالموں اور درویشوں کی خدمت کرے۔ نیک صحبت اختیار کرے۔ ہر وقت خدائے تعالی سے ڈرا کرے۔ موت کو یاد رکھے۔ کسی وقت بیٹھ کر روز کے روزے اپنے دن بھر کے کاموں کو سچا کرے جو نیکی یاد آئے اس پر شکر کرے گناہ پر توبہ کرے۔ جھوٹ ہرگز نہ بولے۔ جو محفل خلاف شرع ہو وہاں ہرگز نہ جائے۔ شرم و حیا اور بردباری سے رہے۔ ان باتوں پر مغرور نہ ہو کہ میرے اندر ایسی خوبیاں ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا کیا کرے کہ نیک راہ پر قائم رکھیں۔

نیک کاموں کے ثواب اور بری باتوں کے عذاب کا بیان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں سے بعضے نیک کاموں کے ثواب اور بری باتوں کے عذاب کا بیان تا کہ نیکیوں کی رغبت اور برائیوں سے نفرت ہو۔

نیت خالص رکھنا

ایک شخص نے پکار کر پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کیا چیز ہے۔ آپ نے فرمایا نیت کو خالص رکھنا۔ ف مطلب یہ ہے کہ جو کام کرے خدا کے واسطے کرے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سارے کام نیت کے ساتھ ہیں۔ ف مطلب یہ کہ اچھی نیت ہو تو نیک کام پر ثواب ملتا ہے ورنہ نہیں ملتا۔

دکھلاوے کے واسطے کوئی کام کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص سنانے کے واسطے کوئی کام کرے اللہ تعالی قیامت میں اس کے عیب سنوائیں گے۔ اور جو شخص دکھلانے کے واسطے کوئی کام کرے اللہ تعالی قیامت میں اس کے عیب دکھلائیں گے۔ اور فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تھوڑا سا دکھلاوا بھی ایک طرح کا شرک ہے۔

قرآن و حدیث کے حکم پر چلنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت میری امت میں دین کا بگاڑ پڑ جائے اس وقت جو شخص میرے طریقے کو تھامے رہے اس کو سو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں تم لوگوں میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اس کو تھامے رہو گے تو کبھی نہ بھٹکو گے۔ ایک تو اللہ تعالی کی کتاب یعنی قرآن۔ دوسرے نبی کی سنت یعنی۔حدیث

نیک کام کی راہ نکالنا یا بری بات کی بنیاد ڈالنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص نیک راہ نکالے پھر اور لوگ اس راہ پر چلیں تو اس شخص کو خود اس کا ثواب بھی ملے گا اور جتنوں نے اس کی پیروی کی ہے ان سب کے برابر بھی اس کو ثواب ملے گا اور ان کے ثواب میں بھی کمی نہ ہو گی۔ اور جو شخص بری راہ نکالے پھر اور لوگ اس راہ پر چلیں تو اس شخص کو خود اس کا بھی گناہ ہو گا اور جتنوں نے اس کی پیروی کی ہے ان سب کے برابر بھی اس کو گناہ ہو گا۔ اور ان کے گناہ میں بھی کمی نہ ہو گی۔ ف مثلاً کسی نے اپنے اولاد کی شادی میں رسمیں موقوف کر دیں یا کسی بیوہ نے نکاح کر لیا اور اس کی دیکھا دیکھی اوروں کو بھی ہمت ہوئی تو اس شروع کرنے والی کو ہمیشہ ثواب ہوا کرے گا۔

دین کا علم ڈھونڈھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کے ساتھ اللہ تعالی بھلائی کرنا چاہتے ہیں اس کو دین کی سمجھ دے دیتے ہیں ف یعنی مسائل کی تلاش اور شوق اس کو ہو جاتا ہے۔

دین کا مسئلہ پوچھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سے کوئی دین کی بات پوچھی جائے اور وہ اس کو چھپا لے تو قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔ ف اگر تم سے کوئی مسئلہ پوچھا کرے اور تم کو خوب یاد ہو تو سستی اور انکار مت کیا کرو اچھی طرح سمجھا دیا کرو۔

مسئلہ جان کر عمل نہ کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے جس قدر علم ہوتا ہے وہ علم والے پر وبال ہوتا ہے بجز اس شخص کے جو اس کے موافق عمل کرے۔ ف دیکھو کبھی برادری کے خیال سے یا نفس کی پیروی سے مسئلہ کے خلاف نہ کرنا۔

پیشاب سے احتیاط نہ کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب سے خوب احتیاط رکھا کرو کیونکہ اکثر قبر کا عذاب اسی سے ہوتا ہے۔

وضو اور غسل میں خوب خیال سے پانی پہنچانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حالتوں میں نفس کو ناگوار ہو ایسی حالت میں وضو اچھی طرح کرنے سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ ف ناگواری کبھی سستی سے ہوتی ہے کبھی سردی سے۔

مسواک کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دو رکعتیں مسواک کر کے پڑھنا ان ستر رکعتوں سے افضل ہیں جو بے مسواک کیے پڑھی جائیں۔

وضو میں اچھی طرح پانی نہ پہنچانا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعضے لوگوں کو دیکھا کہ وضو کر چکے تھے مگر ایڑیاں کچھ خشک رہ گئی تھیں تو آپ نے فرمایا بڑا عذاب ہے ایڑیوں کو دوزخ کا۔ ف انگوٹھی چھلا چوڑیاں چھڑے اچھی طرح ہلا کر پانی پہنچایا کرو اور جاڑوں میں اکثر پاؤں سخت ہو جاتے ہیں خوب پانی سے تر کیا کرو۔ اور بعضی عورتیں منہ سامنے سامنے دھو لیتی ہیں کانوں تک نہیں دھوتیں۔ ان سب باتوں کا خیال رکھو۔

عورتوں کا نماز کے لیے باہر نکلنا

فرمایا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے سب سے اچھی مسجد ان کے گھروں کے اندر کا درجہ ہے ف معلوم ہوا کہ مسجدوں میں عورتوں کا جانا اچھا نہیں۔ اس سے یہ بھی سمجھو کہ نماز کے برابر کوئی چیز نہیں۔ جب اس کے لیے گھر سے نکنا اچھا نہیں سمجھا گیا تو فضول ملنے ملانے کو یا رسموں کو پورا کرنے کو گھر سے نکلنا تو کتنا برا ہو گا۔

نماز کی پابندی

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ پانچوں نمازوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے دروازے کے سامنے ایک گہری نہر بہتی ہو اور وہ اس میں پانچ وقت نہایا کرے۔ ف۔ مطلب یہ کہ جیسے اس شخص کے بدن پر ذرا میل نہ رہے گا۔ اسی طرح جو شخص پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھے اس کے سارے گناہ دھل جائیں گے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہو گا۔

اول وقت نماز پڑھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اول وقت میں نماز پڑھنے سے اللہ تعالی کی خوشی ہوتی ہے۔ ف۔ بیبیو تم کو جماعت میں جانا تو ہے ہی نہیں پھر کیوں دیر کیا کرتی ہو۔

نماز کو بری طرح پڑھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص بے وقت نماز پڑھے اور وضو اچھی طرح نہ کرے اور جی لگا کر نہ پڑھے اور رکوع سجدہ اچھی طرح نہ کرے تو وہ نماز کالی بے نور ہو کر جاتی ہے اور یوں کہتی ہے کہ خدا تجھے برباد کرے جیسا تو نے مجھ کو برباد کیا۔ یہاں تک کہ جب اپنی خاص جگہ پر پہنچتی ہے جہاں اللہ کو منظور ہو تو پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر ماری جاتی ہے۔ ف۔ بیبیو نماز تو اسی واسطے پڑھتی ہو کہ ثواب ہو۔ پھر اس طرح کیوں پڑھتی ہو کہ اور الٹا گناہ ہو۔

نماز میں اوپر یا ادھر ادھر دیکھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم نماز میں اوپر مت دیکھا کرو کبھی تمہاری نگاہ چھین لی جائے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو شخص نماز میں کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھے اللہ تعالی اس کی نماز کو اسی پر الٹا ہٹا دیتے ہیں۔ ف۔ یعنی قبول نہیں کرتے۔

نماز پڑھتے کے سامنے سے نکل جانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو خبر ہوتی کہ کتنا گناہ ہوتا ہے تو چالیس برس تک کھڑا رہنا اس کے نزدیک بہتر ہوتا سامنے نکلنے سے۔ ف۔ لیکن اگر نمازی کے سامنے ایک ہاتھ کے برابر یا اس سے زیادہ کوئی چیز کھڑی ہو تو اس چیز کے سامنے سے گزرنا درست ہے۔

نماز کو جان کر قضا کر دینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص نماز کو چھوڑ دے وہ جب خدائے تعالی کے پاس جائے گا تو وہ غضب ناک ہوں گے۔

قرض دے دینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میں نے شب معراج میں بہشت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا کہ خیرات کا ثواب دس حصے ملتا ہے اور قرض دینے کا ثواب اٹھارہ حصے۔

غریب قرض دار کو مہلت دے دینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک قرض ادا کرنے کے وعدے کا وقت نہ آیا ہو اس وقت تک اگر کسی غریب کو مہلت دے تب تو ہر روز ایسا ثواب ملتا ہے جیسے اتنا روپیہ خیرات دے دیا۔ اور جب اس کا وقت جائے اور پھر مہلت دی تو ہر روز ایسا ثواب ملتا ہے جیسے اتنے روپے سے دونا روپیہ روز مرہ خیرات کر دیا۔

قرآن مجید پڑھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص قرآن مجید کا ایک حرف پڑھتا ہے اس کو ایک حرف پر ایک نیکی ملتی ہے۔ اور نیکی کا قاعدہ ہے کہ اس کے بدلے دس حصے ملتے ہیں۔ اور الم کو ایک حرف نہیں کہتا بلکہ الف ایک حرف ہے اور ل ایک حرف اور م ایک حرف۔ تو اس حساب سے تین حرفوں پر تیس نیکیاں ملیں گی

اپنی جان یا اولاد کو کوسنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ نہ تو اپنے لیے بددعا کیا کرو اور نہ اپنی اولاد کے لیے اور نہ اپنے خدمت کرنے والے کے لیے۔ اور نہ اپنے مال و متاع کے لیے۔ کبھی ایسا نہ ہو کہ تمہارے کوسنے کے وقت قبولیت کی گھڑی ہو کہ اس میں خدا سے جو مانگو اللہ تعالی وہی کر دیں۔

حرام مال کمانا اور اس سے کھانا پہننا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو گوشت اور خون حرام مال سے بڑھا ہو گا وہ بہشت میں نہ جائے گا دوزخ ہی اس کے لائق ہے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص کوئی کپڑا دس درہم کو خریدے اور اس میں ایک درہم حرام کا ہو تو جب تک وہ کپڑا اس کے بدن پر رہے گا اللہ تعالی اس کی نماز قبول نہ کریں گے۔ ف۔ ایک درہم چونی سے کچھ زائد ہوتا ہے۔

دھوکا کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص ہم لوگوں سے دھوکا بازی کرے وہ ہم سے باہر ہے۔ ف۔ خواہ کسی چیز کے بیچنے میں دھوکا ہو یا اور کسی معاملے میں سب برا ہے۔

قرض لینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ کسی کا کوئی درہم یا دینار رہ گیا ہو تو وہ اس کی نیکیوں سے پورا کیا جائے گا جہاں نہ دینار ہو گا نہ درہم ہو گا۔ ف۔ دینار سونے کا دس درہم کی قیمت کا ہوتا ہے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قرض دو طرح کا ہوتا ہے جو شخص مر جائے اور اس کی نیت ادا کرنے کی ہو تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں اس کا مددگار ہوں۔ اور جو شخص مر جائے اور اس کی نیت ادا کرنے کی نہ ہو اس شخص کی نیکیوں سے لے لیا جائے گا۔ اور اس روز دینار درہم کچھ نہ ہو گا۔ ف۔ مددگار کا مطلب یہ ہے کہ میں اس کا بدلہ اتار دوں گا

مقدور ہوتے ہوئے کسی کا حق ٹالنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مقدور والے کا ٹالنا ظلم ہے۔ ف۔ جیسے بعضوں کی عادت ہوتی ہے کہ قرض والی کو یا جس کی مزدوری چاہتی ہو اس کو خواہ مخواہ دوڑاتی ہیں جھوٹے وعدے کرتی ہیں کہ کل نا پرسوں نا۔ اپنے سارے خرچ چلے جاتے ہیں مگر کسی کا حق دینے میں بے پروائی کرتی ہیں۔

سود لینا دینا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر اور سود دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

کسی کا زمین دبا لینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص بالشت بھر زمین بھی ناحق دبائے اس کے گلے میں ساتوں زمین کا طوق ڈالا جائے گا۔

مزدوری کا فورا دے دینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مزدور کو اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دیا کرو۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تین آدمیوں پر میں خود دعوی کروں گا۔ ان میں سے ایک وہ شخص بھی ہے کہ کسی مزدور کو کام پر لگایا اس سے کام پورا لے لیا اور اس کی مزدوری نہ دی۔

اولاد کا مر جانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دو میاں بیوی مسلمان ہوں اور ان کے تین بچے مر جائیں اللہ تعالی ان دونوں کو اپنے فضل و رحمت سے بہشت میں داخل کریں گے۔ بعضوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اگر دو مرے ہوں آپ نے فرمایا کہ دو میں بھی یہی ثواب ہے پھر ایک کو پوچھا آپ نے ایک میں بھی یہی فرمایا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ قسم کھاتا ہوں اس ذات پاک کی جس کے اختیار میں میری جان ہے کہ جو حمل گر گیا ہو وہ بھی اپنی ماں کو نواں نال سے پکڑ کر بہشت کی طرف کھینچ کر لے جائے گا جبکہ ماں نے ثواب کی نیت کی ہو۔ ف۔ یعنی ثواب کا خیال کر کے صبر کیا ہو۔

غیر مردوں کے روبرو عورت کا عطر لگانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت اگر عطر لگا کر غیر مردوں کے پاس سے گزرے تو وہ ایسی ایسی ہے یعنی بدکار ہے۔ ف۔ جہاں دیو جیٹھ بہنوئی یا چچا زاد ماموں زاد پھوپھی زاد خالہ زاد بھائی کا آنا جانا ہو عطر نہ لگائے۔

عورت کا باریک کپڑا پہننا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعضی عورتیں نام کو تو کپڑا پہنتی ہیں اور واقع میں ننگی ہیں ایسی عورتیں بہشت میں نہ جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو سونگھنے پائیں گی۔

عورتوں کو مردوں کی وضع اور صورت بنانا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کا سا پہناوا پہنے ۔ ف۔ ہمارے ملک میں کھڑا جوتا یا اچکن مردوں کی وضع ہے عورت کو ان چیزوں کا پہننا حرام ہے۔

شان دکھلانے کو کپڑا پہننا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی دنیا میں نام و نمود کے واسطے کپڑے پہننے خدا تعالی اس کو قیامت میں ذلت کا لباس پہنا کر پھر اس میں دوزخ کی آگ لگائیں گے۔ ف۔ مطلب یہ ہے کہ جو اس نیت سے کپڑا پہننے کہ میری خوب شان بڑھے۔ سب کی نگاہ میرے ہی اوپر پڑے۔ عورتوں میں یہ مرض بہت ہے۔

کسی پر ظلم کرنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس بیٹھنے والوں سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ مفلس کیسا ہوتا ہے۔ انہوں نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ کہلاتا ہے جس کے پاس مال اور متاع نہ ہو۔ آپ نے فرمایا کہ میری امت میں بڑا مفلس وہ ہے کہ قیامت کے دن نماز روزہ زکوٰۃ سب لے کر آئے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ کسی کو برا بھلا کہا تھا اور کسی کو تہمت لگائی تھی اور کسی کا مال کھا لیا تھا اور کسی کا خون کیا تھا اور کسی کو مارا تھا۔ پس اس کی نیکیاں ایک کو مل گئیں کچھ دوسرے کو مل گئیں۔ اور اگر ان حقوق کے بدلے ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو چکیں تو ان حقداروں کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے اور اس کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔

رحم اور شفقت کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص آدمیوں پر رحم نہ کرے اللہ تعالی اس پر رحم نہیں کرتے۔

اچھی بات دوسروں کو بتلانا اور بری بات سے منع کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص تم میں سے کوئی بات خلاف شرع دیکھے تو اس کو ہاتھ سے مٹا دے اور اتنا بس نہ چلے تو زبان سے منع کر دے اور اگر اس کا بھی مقدور نہ ہو تو دل سے برا سمجھے۔ اور یہ دل سے برا سمجھنا ایمان کا ہارا درجہ ہے۔ ف۔ بیبیو اپنے بچوں اور نوکروں پر تمہارا پورا اختیار ہے ان کو زبردستی نماز پڑھواؤ۔ اگر ان کے پاس کوئی تصویر کاغذ کی یا مٹی چینی کی یا کپڑے کی دیکھو یا کوئی بیہودہ کتاب دیکھو تو فورا توڑ پھوڑ دو ان کو ایسی چیزوں کے لیے یا آتشبازی اور کنکوے کے لیے یا دیوالی کی مٹھائی کے کھلونوں کے لیے پیسے مت دو۔

مسلمان کا عیب چھپانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا عیب چھپائے اللہ تعالی قیامت میں اس کا عیب چھپائیں گے۔ اور جو شخص مسلمان کا عیب کھول دے اللہ تعالی اس کا عیب کھول دیں گے یہاں تک کہ کبھی اس کو گھر میں بیٹھے فضیحت اور رسوا کر دیتے ہیں۔

کسی کی ذلت یا نقصان پر خوش ہونا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص اپنے بھائی مسلمان کو کسی گناہ پر عار دلائے تو جب تک یہ عار دلانے والا اس گناہ کو نہ کرے گا اس وقت تک نہ مرے گا۔ ف۔ یعنی جس گناہ سے اس نے توبہ کر لی ہو پھر اس کو یاد دلا کر شرمندہ کرنا بری بات ہے اور اگر توبہ نہ کی ہو تو نصیحت کے طور پر کہنا درست ہے لیکن اپنے آپ کو پاک سمجھ کر یا اس کو رسوا کرنے کے واسطے کہنا پھر بھی برا ہے۔

چھوٹے چھوٹے گناہ کر بیٹھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اے عائشہ چھوٹے گناہوں سے بھی اپنے کو بہت بچاؤ کیونکہ خدائے تعالی کی طرف سے ان کا مؤاخذہ کرنے والا بھی موجود ہے۔ ف۔ یعنی فرشتہ ان کو بھی لکھتا ہے پھر قیامت میں حساب ہو گا اور عذاب کا ڈر ہے۔

ماں باپ کو خوش رکھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ تعالی کی خوشی ماں باپ کی خوشی میں ہے اور اللہ تعالی کی ناراضی ماں باپ کی ناراضی میں ہے۔

رشتے داروں سے بدسلوکی کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہر جمعے کی رات میں تمام آدمیوں کے عمل اور عبادت دربار الٰہی میں پیش ہوتے ہیں جو شخص رشتہ داروں سے بدسلوکی کرے اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔

بے باپ کے بچوں کی پرورش کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں اور جو شخص یتیم کا خرچ اپے ذمے کھے بہشت میں اس طرح پاس پاس رہیں گے اور شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کر کے بتلایا۔ اور دونوں میں تھوڑا فاصلہ رہنے دیا۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل نے کہ جو شخص یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے اور محض اللہ ہی کے واسطے پھیرے جتنے بالوں پر کہ اس کا ہاتھ گزرا ہے اتنی ہی نیکیاں اس کو ملیں گی اور جو شخص کسی یتیم لڑکی یا لڑکے کے ساتھ احسان کرے جو کہ اس کے پاس رہتا ہو تو میں اور وہ جنت میں اس طرح رہیں گے جیسے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی پاس پاس ہے۔

پڑوسی کو تکلیف دینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف دے اس نے مجھ کو تکلیف دی اور جس نے مجھ کو تکلیف دی اس نے خدائے تعالی کو تکلیف دی۔ اور جو شخص اپنے پڑوسی سے لڑا وہ مجھ سے لڑا اور جو مجھ سے لڑا وہ اللہ تعالی سے لڑا۔ ف۔ مطلب یہ کہ بے وجہ یا ہلکی ہلکی باتوں پر اس سے رنج و تکرار کرنا برا ہے

مسلمان کا کام کر دینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص اپنے بھائی کے کام میں ہوتا ہے اللہ تعالی اس کے کام میں ہوتے ہیں۔

شرم اور بے شرمی

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرم ایمان کی بات ہے اور ایمان بہشت میں پہنچاتا ہے اور بے شرمی بدخوئی کی بات ہے اور بدخوئی دوزخ میں لے جاتی ہے۔ ف۔ لیکن دین کے کام میں شرم ہرگز مت کرو جیسے بیان کے دنوں میں یا سفر میں اکثر عورتیں نماز نہیں پڑھتیں اسی شرم بے شرمی سے بھی بدتر ہے۔

خوش خلقی اور بد خلقی

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ خوش خلقی گناہوں کو اس طرح پگھلا دیتی ہے جس طرح پانی نمک کے پتھر کو پگھلا دیتا ہے۔ اور بدخلقی عبادت کو اس طرح خراب کر دیتی ہے جس طرح کہ سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سب میں مجھ کو زیادہ پیارا اور آخرت میں سب میں زیادہ مجھ سے نزدیکی والا وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم سب میں زیادہ مجھ کو برا لگنے والا آخرت میں سب میں زیادہ مجھ سے دور رہنے والا وہ شخص ہے جس کے اخلاق برے ہوں۔

نرمی اور روکھا پن

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ بے شک اللہ تعالی مہربان ہیں اور پسند کرتے ہیں نرمی کو اور نرمی پر ایسی نعمتیں دیتے ہیں کہ سختی پر نہیں دیتے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص محروم رہا نرمی سے وہ ساری بھلائیوں سے محروم ہو گیا۔

کسی کے گھر میں جھانکنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک اجازت نہ لے لے کسی کے گھر میں جھانک کر نہ دیکھے اور اگر ایسا کیا تو یوں سمجھو کہ اندر ہی چلا گا۔ ف۔ بعضی عورتوں کو ایسی شامت سوار ہوتی ہے کہ دولہا دلہن کو جھانک جھانک کر دیکھتی ہیں بڑی بے شرمی کی بات ہے۔ حقیقت میں جھانکنے اور کواڑ کھول کر اندر چلے جانے میں کیا فرق ہے۔ بڑے گناہ کی بات ہے۔

کنسوئیں لینا یا باتیں کرنے والوں کے پاس جا گھسنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص کسی کی باتوں کی طرف کان لگائے اور وہ لوگ ناگوار سمجھیں قیامت کے دن اس کے دونوں کانوں میں سیسہ چھوڑا جائے گا۔

غصہ کرنا

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھ کو کوئی ایسا عمل بتلائیے جو مجھ کو جنت میں داخل کر دے۔ آپ نے فرمایا غصہ مت کرنا اور تیرے لیے بہشت ہے۔

بولنا چھوڑ دینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ کسی مسلمان کو حلال نہیں کہ اپنے بھائی مسلمان کے ساتھ تین دن سے زیادہ بولنا چھوڑ دے۔ اور جو تین دن سے زیادہ بولنا چھوڑ دے اور اسی حالت میں مر جائے وہ دوزخ میں جائے گا۔

کسی کو بے ایمان کہہ دینا پھٹکار ڈالنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو شخص اپنے بھائی مسلمان کو کہہ دے کہ او کافر تو ایسا گناہ ہے جیسے اس کو قتل کر دے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مسلمان پر لعنت کرنا ایسا ہے جیسا کہ اس کو قتل کر ڈالنا۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب کوئی شخص کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو اول وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے آسمان کے دروازے بند کر لیے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی طرف اتری ہے وہ بھی بند کر لی جاتی ہے پھر وہ دائیں بائیں پھرتی ہے جب کہیں ٹھکانا نہیں پاتی تب اس کے پاس جاتی ہے جس پر لعنت کی گئی تھی۔ اگر وہ اس لائق ہوا تو خیر۔ نہیں تو اس کے کہنے والے پر پڑتی ہے۔ ف۔ بعضی عورتوں کو بہت عادت ہے کہ سب پر خدا کی مار خدا کی پھٹکار کہا کرتی ہیں۔ کسی کو بے ایمان کہہ دیتی ہیں یہ بڑا گناہ ہے چاہے آدمی کو کہے یا جانور یا کسی چیز کو۔

کسی مسلمان کو ڈرا دینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال نہیں کسی مسلمان کو کہ دوسرے مسلمان کو ڈراوے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص کسی مسلمان کی طرف ناحق اس طرح نگاہ بھر کر دیکھے کہ وہ ڈر جائے اللہ تعالی قیامت میں اس کو ڈرائیں گے۔ ف۔ اور اگر کسی خطاء و قصور پر ہو تو ضرورت کے موافق درست ہے۔

مسلمان کا عذر قبول کر لینا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص اپنے بھائی مسلمان کے سامنے عذر کرے اور وہ اس کے عذر کو قبول نہ کرے تو ایسا شخص میرے پاس حوض کوثر پر نہ آئے گا۔ ف۔ یعنی اگر کوئی تمہارا قصور کرے اور پھر وہ معاف کرا دے تو معاف کر دینا چاہیے۔

چغلی کھانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ چغلخور جنت میں نہ جائے گا۔

غیبت کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص دنیا میں اپنے بھائی مسلمان کا گوشت کھائے گا یعنی غبتا کرے گا اللہ تعالی قیامت کے دن مردار گوشت اس کے پاس لائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ جیسا تو نے زندہ کو کھایا تھا اب مردہ کو بھی کھا۔ پس وہ شخص اس کو کھائے گا اور ناک بھوں چڑھتا جائے گا اور غل مچاتا جائے گا۔

کسی پر بہتان لگانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص کسی مسلمان پر ایسی بات لگائے جو اس میں نہ ہو اللہ تعالی اس کو دوزخیوں کے لہو اور پیپ کے جمع ہونے کی جگہ رہنے کو دیں گے یہاں تک کہ اپنے کہے سے باز آئے اور توبہ کرے۔

کم بولنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص چپ رہتا ہے بہت آفتوں سے بچا رہتا ہے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے اللہ کے ذکر کے اور باتیں زیادہ مت کیا کرو کیونکہ سوائے اللہ تعالی کے ذکر کے بہت باتیں کرنا دل کو سخت کر دیتا ہے اور لوگوں میں سب سے زیادہ خدائے تعالی سے دور وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔

اپنے آپ کو سب سے کم سمجھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص اللہ کے واسطے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کا رتبہ بڑھا دیتے ہیں اور جو شخص تکبر کرتا ہے اللہ تعالی اس کی گردن توڑ دیتے ہیں۔ ف۔ یعنی ذلیل کر دیتے ہیں۔

اپنے آپ کو اوروں سے بڑا سمجھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا آدمی جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا۔

سچ بولنا اور جھوٹ بولنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سچ بولنے کے پابند رہو کیونکہ سچ بولنا نیکی کی راہ دکھلاتا ہے اور سچ اور نیکی دونوں جنت میں لے جاتے ہیں اور جھوٹ بولنے سے بچا کرو کیونکہ جھوٹ بولنا بدی کی راہ دکھلاتا ہے اور جھوٹ اور بدی دونوں دوزخ میں لے جاتے ہیں۔

ہر ایک کے منہ پر اسی کی سی بات کہنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کے دو منہ ہوں گے قیامت میں اس کی دو زبانیں ہوں گی آگ کی ف دو منہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے منہ پر اسی کی سی کہہ دی اور اس کے منہ پر اس کی سی کہہ دی۔

اللہ کے سوا دوسرے کی قسم کھانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا یوں فرمایا کہ اس نے شرک کیا۔ ف جیسے بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ اس طرح قسم کھاتے ہیں تیری جان کی قسم اپنے دے دوں کی قسم اپنے بچوں کی قسم یہ سب منع ہیں اور ایک حدیث میں ہے کہ اگر ایسی قسم کبھی منہ سے نکل جائے تو فورا کلمہ پڑھ لے۔

ایسی قسم کھانا کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو ایمان نصیب نہ ہو

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص قسم میں اس طرح کہے کہ مجھ کو ایمان نصیب نہ ہو تو اگر وہ جھوٹا ہو گا تب تو جس طرح اس نے کہا ہے اسی طرح ہو جائے گا اور اگر سچا ہو گا تب بھی ایمان پورا نہ رہے گا۔ ف اسی طرح یوں کہنا کہ کلمہ نصیب نہ ہو یا دوزخ نصیب ہو یہ سب قسمیں منع ہیں یہ عادت چھوڑنی چاہیے۔

راستے میں سے چیز ہٹا دینا

راستے میں سے ایسی چیز ہٹا دینا جس کے پڑے رہنے سے چلنے والوں کو تکلیف ہو

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایک شخص چلا جا رہا تھا راستے میں اس کو ایک کانٹے دار ٹہنی پڑی ہوئی ملی اس نے راستے سے الگ کر دیا اللہ تعالی نے اس عمل کی بڑی قدر کی اور اس کو بخش دیا۔ ف اس سے معلوم ہوا کہ ایسی چیز راستے میں ڈالنا بری بات ہے۔ بعضی بے تمیز عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ آنگن میں پیڑھی بچھا کر بیٹھتی ہیں آپ تو اٹھ کھڑی ہوئیں اور پیڑھی وہیں چھوڑ دی۔ بعضی دفعہ چلنے والے اس میں الجھ کر گر جاتے ہیں اور منہ ہاتھ ٹوٹتا ہے اسی طرح راستے میں کوئی برتن چھوڑ دینا یا چارپائی یا کوئی لکڑے یا سل بٹہ ڈالنا سب سے برا ہے۔

وعدہ اور امانت پورا کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس کو عہد کا خیال نہیں اس میں دین نہیں۔

کسی پنڈت یا فال کھولنے والے یا ہاتھ دیکھنے والے کے پاس جانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص غبل کی باتیں بتلانے والے کے پاس آئے اور کچھ باتیں پوچھے اور اس کو سچا جان اس شخص کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہو گی۔ ف اسی طرح اگر کسی پر جن بھوت کا شبہ ہو جاتا ہے بعض عورتیں اس جن سے ایسی باتیں پوچھتی ہیں کہ میرے میاں کی نوکری کب لگ جائے گی میرا بیٹا کب آئے گا یہ سب گناہ کی باتیں ہیں۔

کتاب پالنا یا تصویر رکھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس گھر میں کتا یا تصویر ہو اس میں فرشتے نہیں آتے۔ ف یعنی رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ بچوں کے کھلونے جو تصویر دار ہوں وہ بھی منع ہیں۔

بدون لاچاری کے الٹا لیٹنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو پیٹ کے بل لیٹا تھا آپ نے اس کو اپنے پاؤں سے اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس طرح لیٹنے کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتے۔

کچھ دھوپ میں کچھ سائے میں بیٹھنا لیٹنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیٹھنے کو منع فرمایا ہے کہ کچھ دھوپ میں ہو اور کچھ سائے میں۔

بد شگونی اور ٹوٹکا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ بد شگونی شرک ہے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ٹوٹکا شرک ہے۔

دنیا کی حرص نہ کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی حرص نہ کرنے سے دل کو بھی چین ہوتا ہے اور بدن کو بھی آرام ملتا ہے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اگر بہت سی بکریوں میں دو خونی بھیڑیئے چھوڑ دیئے جائیں جو ان کو خوب چیریں پھاڑیں کھائیں تو اتنی بربادی ان بھیڑیوں سے بھی نہیں پہنچتی جتنی بربادی آدمی کے دین کو اس بات سے ہوتی ہے کہ مال کی حرص کرے اور نام چاہے۔

وقت کو غنیمت سمجھنا موت کو یاد رکھنا اور بہت دنوں کے لیے بندوبست نہ سوچنا اور نیک کام کے لیے

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو بہت یاد کیا کرو جب ساری لذتوں کو قطع کر دے گی یعنی موت۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صبح کا وقت تم پر آئے تو شام کے واسطے سوچ بچار مت کیا کرو اور جب شام کا وقت تم پر آئے تو صبح کے واسطے سوچ بچار مت کیا کرو۔ اور بیماری نے سے پہلے اپنی تندرستی سے کچھ فائدہ لے لو اور مرنے سے پہلے اپنی زندگی سے کچھ پھل اٹھا لو۔ ف مطلب یہ کہ تندرستی اور زندگی کو غنیمت سمجھو اور نیک کام میں اس کو لگائے رکھو ورنہ بیماری اور موت میں پھر کچھ نہ ہو سکے گا۔

بلا اور مصیبت میں صبر کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو جو دکھ مصیبت بیماری رنج پہنچتا ہے یہاں تک کہ کسی فکر میں جو تھوڑی سی پریشانی ہوتی ہے ان سب میں اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کرتے ہیں۔

بیمار کو پوچھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی بیمار پرسی صبح کے وقت کرے تو شام تک اس کے لیے ستر ہزار فرشتے دعا کرتے ہیں اور اگر شام کو کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے دعا کرتے ہیں۔

مردے کو نہلانا اور کفن دینا اور گھر والوں کی تسلی کرنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو شخص مردے کو غسل دے تو گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ اور جو کسی مردے پر کفن ڈالے تو اللہ تعالی اس کو جنت کا جوڑا پہنائیں گے۔ اور جو کسی غمزدہ کی تسلی کرے اللہ تعالی اس کو پرہیزگاری کا لباس پہنائیں گے اور اس کی روح پر رحمت بھیجیں گے اور جو شخص کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے اللہ تعالی اس کو جنت کے جوڑوں میں سے ایسے قیمتی دو جوڑے پہنائیں گے کہ ساری دنیا میں قیمت میں ان کے برابر نہیں۔

چلا کر اور بیان کر کے رونا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر کے رونے والی عورت پر اور جو سننے میں شریک ہو اس پر لعنت فرمائی ہے۔ ف بیبیو خدا کے واسطے اس کو چھوڑ دو۔

یتیم کا مال کھانا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قیامت میں بعضے آدمی اس طرح قبروں سے اٹھیں گے کہ ان کے منہ سے آگے کے شعلے نکلتے ہوں گے۔ کسی نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہوں گے۔ آپ نے فرمایا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ لوگ اپنے پیٹ میں انگارے بھر رہے ہیں۔ ف ناحق کا مطلب یہ ہے کہ ان کو وہ مال کھانے کا اس میں سے اٹھانے کا شرع سے کوئی حق نہیں۔ بیبیو۔ ڈرو ہندوستان میں ایسا برا دستور ہے کہ جہاں خاوند چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر مرا سارے مال پر بیوہ نے قبضہ کیا پھر اسی میں مہمانوں کا خرچ اور مسجدوں کا تیل اور مصلیوں کا کھانا سب کچھ کرتی ہیں۔ حالانکہ اس میں ان یتیموں کا حق ہے اور سارے خرچ ساجھے میں سمجھتی ہیں۔ اور ویسے بھی روز کے خرچ میں اور پھر ان بچوں کے بیاہ شادی میں جس طرح اپنا جی چاہتا ہے خرچ کرتی ہیں۔ شرع سے کوئی مطلب نہیں۔ اس طرح ساجھے کے مال سے خرچ کرنا سخت گناہ ہے۔ ان کا حصہ الگ رکھ دو اور اس میں سے خاص ان ہی کے خرچ میں جو بہت لاچاری کے ہیں اٹھاؤ اور مہمانداری اور خرل خیرات اگر کرنا ہو تو اپنے خاص حصے سے کرو وہ بھی جبکہ شرع کے خلاف نہ ہو نہیں تو اپنے مال سے بھی درست نہیں خوب یاد رکھو نہیں تو مرنے کے ساتھ ہی آنکھیں کھل جائیں گی۔

قیامت کے دن کا حساب کتاب

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قیامت میں کوئی شخص اپنی جگہ سے ہٹنے نہ پائے گا جب تک کہ چار باتیں اس سے نہ پوچھی جائیں گی۔ ایک تو یہ کہ عمر کس چیز میں ختم کی دوسری یہ کہ جانے ہوئے مسئلوں پر کیا عمل کیا۔ تیسری یہ کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں اٹھایا۔ چوتھی یہ کہ اپنے بدن کو کس چیز میں گھٹایا۔ ف مطلب یہ کہ یہ سارے کام شرع کے موافق کیے تھے یا اپنے نفس کے موافق اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قیامت میں سارے حقوق ادا کرنے پڑیں گے۔ یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بے سینگ والی بکری کی خاطر بدلہ لیا جائے گا ف یعنی اگر اس نے ناحق سنگ مار دیا ہو گا۔

بہشت دوزخ کا یاد رکھنا

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ دو چیزیں بہت بری ہیں ان کو مت بھولنا۔ یعنی جنت اور دوزخ۔ پھر یہ فرما کر آپ بہت روئے یہاں تک کہ آنسوؤں سے آپ کی ریش مبارک تر ہو گئی۔ پھر فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے آخرت کی باتیں جو کچھ میں جانتا ہوں تم کو معلوم ہو جائیں تو جنگلوں کو چڑھ جاؤ اور اپنے سر پر خاک ڈالتے پھرو۔ ف بیبیو۔ یہ ایک سو ایک حدیثیں ہیں اور کئی جگہ اس کتاب میں اور حدیثیں  بھی آتی ہیں۔ ہمارے حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کوئی چالیس حدیثیں  یاد کر کے میری امت کو پہنچائے تو وہ قیامت کے دن عالموں کے ساتھ اٹھے گا۔ تم ہمت کر کے یہ حدیثیں اوروں کو بھی سناتی رہا کرو۔ انشاء اللہ تعالی تم بھی قیامت میں عالموں کے ساتھ اٹھو گی۔ کتنی بڑی نعمت کیسی آسانی سے ملتی ہے۔

تھوڑا سا حال قیامت کا اور اس کی نشانیوں کا

قیامت کی چھوٹی چھوٹی نشانیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی حدیث میں یہ آئی ہیں۔ لوگ خدائی مال کو اپنی ملک سمجھنے لگیں اور زکوٰۃ کو ڈانڈ کی طرح بھاری سمجھیں اور امانت کو اپنا مال سمجھیں۔ اور مرد بیوی کی تابعداری کرے اور ماں کی نافرمانی کرے اور باپ کو غیر سمجھیں اور دوست کو اپنا سمجھیں۔ اور دین کا علم دنیا کمانے کو حاصل کریں اور سرداری اور حکومت ایسوں کو ملے جو سب میں نکمے ہوں یعنی بد ذات اور لالچی اور بدخلق اور جو جس کام کے لائق نہ ہو وہ کام اس کے سپرد ہو۔ اور لوگ ظالموں کی تعظیم اور خاطر اس خوف سے کریں کہ یہ ہم کو تکلیف نہ پہنچائیں۔ اور شراب کھلم کھلا پی جانے لگے اور ناچنے گانے والی عورتوں کا رواہ ہو جائے اور ڈھولک سارنگی طبلہ اور ایسی چیزیں کثرت سے ہو جائیں اور پچھلے لوگ امت کے پہلے بزرگوں کو برا بھلا کہنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایسے وقت میں ایسے ایسے عذابوں کے منتظر رہو کہ سرخ آندھی آئے اور بعضے لوگ زمین میں دھنس جائیں اور آسمان سے پتھر برسیں اور صورتیں بدل جائیں یعنی آدمی سور کتے ہو جائیں۔ اور بہت سی آفتیں آگے پیچھے جلدی جلدی اس طرح آنے لگیں جیسے بہت سے دانے کسی تاگے میں پرو رکھے ہوں اور وہ تاگا ٹوٹ جائے اور سب دانے اوپر تلے جھٹ جھٹ گرنے لگیں اور یہ نشانیاں بھی آئی ہیں کہ دین کا علم کم ہو جائے اور جھوٹ بولنا ہنر سمجھا جائے۔ اور امانت کا خیال دلوں میں سے جاتا رہے اور حیا شرم جاتی رہے اور سب طرف کافروں کا رد ہو جائے اور جھوٹے جھوٹے طریقے نکلنے لگیں۔ جب یہ ساری نشانیاں ہو چکیں اس وقت سب ملکوں میں نصاریٰ لوگوں عیسائیوں کی عملداری ہو جائے اور اسی زمانے میں شام کے ملک میں ایک شخص ابو سفیان کی اولاد سے ایسا پیدا ہو کہ بہت سیدوں کا خون کرے اور شام اور مصر میں اس کے حکم احکام چلنے لگیں۔

اسی عرصہ میں روم کے مسلمان بادشاہ کی نصاریٰ کی ایک جماعت سے لڑائی ہو اور نصاریٰ کی ایک جماعت سے صلح ہو جائے دشمن جماعت شہر قسطنطنیہ پر چڑھائی کر کے اپنا عمل دخل کر لیں وہ بادشاہ اپنا ملک چھوڑ کر شام کے ملک میں چلا جائے اور نصاریٰ کی جس جماعت سے صلح اور میل ہو اس جماعت کو اپنے ساتھ شامل کر کے اس دشمن جماعت سے بڑی بھاری لڑائی ہو۔ اور اسلام کے لشکر کو فتح ہو۔ ایک دن بیٹھے بٹھلائے جو نصاریٰ موافق تھے ان میں سے ایک شخص ایک مسلمان کے سامنے کہنے لگے کہ ہماری صلیب کی برکت سے فتح ہوئی مسلمان اس کے جواب میں کہے کہ اسلام کی برکت سے فتح ہوئی۔ اسی میں بات بڑھ جائے یہاں تک کہ دونوں آدمی اپنے اپنے مذہب والوں کو پکار کر جمع کر لیں اور آپس میں لڑائی ہونے لگے۔ اس میں اسلام کا بادشاہ شہید ہو جائے اور شام کے ملک میں بھی نصاریٰ کا عمل دخل ہو جائے۔ اور یہ نصاریٰ اسی دشمن جماعت سے صلح کر لیں۔ اور بچے کھچے مسلمان مدینہ کو چلے جائیں اور خیبر کے پاس تک نصاریٰ کی عملداری ہو جائے اس وقت مسلمانوں کو فکر ہو کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کو تلاش کرنا چاہیے تاکہ ان مصیبتوں سے جان چھوٹے۔ اس وقت حضرت امام مہدی علیہ السلام مدینہ منورہ میں ہوں گے اور اس ڈر سے کہ کہیں حکومت کے لیے میرے سر نہ ہوں مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کو چلے جائیں گے۔ اور اس مانے کے ولی جو ابدال کا درجہ رکھتے ہیں سب حضرت امام کی تلاش میں ہوں گے اور بعضے لوگ جھوٹ موٹ بھی دعوی مہدی ہونے کا کرنا شروع کر دیں گے۔ غرض امام خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوں گے اور حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان میں ہوں گے اور بعضے نیک لوگ ان کو پہچان لیں گے اور ان کو زبردستی گھیر گھار کر ان سے حاکم بنانے کی بیعت کر لیں گے اور اسی بیعت میں ایک آواز آسمان سے آئے گی جس کو سب لوگ جتنے وہاں موجود ہوں گے سنیں گے۔

وہ آواز یہ ہو گی کہ یہ اللہ تعالی کے خلیفہ یعنی حاکم بنائے ہوئے امام مہدی ہیں اور حضرت امام کے ظہور سے بڑی نشانیاں قیامت کی شروع ہوتی ہیں غرض جب آپ کی بیعت کا قصہ مشہور ہو گا تو مدینہ منورہ میں جو فوجیں مسلمانوں کی ہوں گی وہ مکہ چلی آئیں گی۔ اور ملک شام اور عراق اور یمن کے ابدال اور اولیاء سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بھی عرب کی بہت فوجیں اکٹھی ہو جائیں گی۔ جب یہ خبر مسلمانوں میں مشہور ہو گی۔

ایک شخص خراسان سے حضرت امام کی مدد کے واسطے ایک بڑی فوج لے کر چلے گا۔ جس کے لشکر کے آگے چلنے والے حصے کے سردار کا نام منصور ہو گا۔ اور راہ میں بہت سے بد دینوں کی صفائی کرتا جائے گا۔ اور جس شخص کا اوپر ذکر آیا ہے کہ ابو سفیان کی اولاد میں ہو گا۔ اور سیدوں کا دشمن ہو گا۔ چونکہ حضرت امام بھی سید ہوں گے وہ شخص حضرت امام کے لڑنے کو ایک فوج بھیجے گا جب یہ فوج مکہ مدینہ کے درمیان کے جنگل میں پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے تلے ٹھیرے گی تو یہ سب کے سب زمین میں دھنس جائیں گے۔ صرف دو آدمی بچ جائیں گے جن میں سے ایک تو حضرت امام کو جا کر خبر دے گا۔ اور دوسرا اس سفیانی کو خبر پہنچائے گا اور نصاریٰ سب طرف سے فوجیں جمع کریں گے اور مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کریں گے۔ اس لشکر میں اس روز اسی جھنڈے میں ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ساتھ بارہ ہزار آدمی ہوں گے تو کل آدمی نو لاکھ ساٹھ ہزار ہوئے۔ حضرت امام مکہ سے چل کر مدینہ تشریف لائیں گے اور وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار شریف کی زیارت کر کے شام کے ملک کو روانہ ہوں گے اور شہر دمشق تک پہنچنے پائیں گے کہ دوسری طرف سے نصاریٰ کی فوج مقابلہ میں آ جائے گی۔ حضرت امام کی فوج تین حصے ہو جائے گی۔ ایک حصہ تو بھاگ جائے گا۔ ایک حصہ شہید ہو جائے گا۔ اور ایک حصہ کو فتح ہو گی اور اس شہادت اور فتح کا قصہ یہ ہو گا کہ حضرت امام نصاریٰ سے لڑنے کو لشکر تیار کریں گے۔ اور بہت سے مسلمان آپس میں قسم کھائیں گے کہ بے فتح کیے ہوئے نہ ہٹیں گے پس سارے آدمی شہید ہو جائیں گے۔ صرف تھوڑے سے آدمی بچیں گے جن کو لے کر حضرت امام اپنے لشکر میں چلے آئیں گے۔ اگلے دن پھر اسی طرح کا قصہ ہو گا کہ قسم کھا کر جائیں گے اور تھوڑے سے بچ کر آئیں گے۔ اور تیسرے دن بھی ایسا ہی ہو گا۔ آخر چوتھے روز یہ تھوڑے سے آدمی مقابلہ کریں گے اور اللہ تعالی فتح دیں گے۔ اور پھر کافروں کے دماغ میں حوصلہ حکومت کا نہ رہے گا۔

اب حضرت امام ملک کا بندوبست شروع کریں گے اور سب طرف فوجیں روانہ کریں گے اور خود ان سارے کاموں سے نمٹ کر قسطنطنیہ فتح کرنے کو چلیں گے جب دریائے روم کے کنارے پر پہنچیں گے بنو اسحاق کے ستر ہزار آدمیوں کو کشتیوں پر سوار کر کے اس شہر کے فتح کرنے کے واسطے تجویز کریں گے جب یہ لوگ شہر کی فصیل کے مقابل پہنچیں گے اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر بآوز بلند کہیں گے اس نام کی برکت سے شہر پناہ کے سامنے کے دیوار گر پڑے گی اور مسلمان حملہ کر کے شہر کے اندر گھس پڑیں گے اور کفار کو قتل کریں گے اور خوب انصاف اور قاعدے سے ملک کا بندوبست کریں گے۔ اور حضرت امام سے جب بتح ہوئی تھی اس وقت سے اس فتح تک چھ سال یا سات سال کی مدت گزرے گی۔ حضرت امام یہاں کے بندوبست میں لگے ہوں گے کہ ایک جھوٹی خبر مشہور ہو گی کہ یہاں کیا بیٹھے ہو وہاں شام میں دجال گیا۔ اور تمہارے خاندان میں فتنہ و فساد کر رہا ہے اس خبر پر حضرت امام شام کی طرف سفر کریں گے اور تحقیق حال کے واسطے نو یا پانچ سواروں کو آگے بھیج دیں گے۔ ان میں سے ایک شخص کر خبر دے گا کہ وہ خبر محض غلط تھی ابھی دجال نہیں نکلا حضرت امام کو اطمینان ہو جائے گا۔ اور پھر سفر میں جلدی نہ کریں گے اطمینان کے ساتھ درمیان کے ملکوں کا بندوبست دیکھتے بھالتے شام میں پہنچیں گے وہاں پہنچ کر تھوڑے ہی دن گزریں گے کہ دجال بھی نکل پڑے گا۔ اور دجال یہودیوں کی قوم میں سے ہو گا۔ اول شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا اور دعوی نبوت کا کرے گا۔ پھر اصفہان میں پہنچے گا۔ اور وہاں کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہو جائیں گے اور خدائی کا دعوی شروع کر دے گا۔ اسی طرح بہت سے ملکوں پر گزرتا ہوا یمن کی سرحد تک پہنچے گا۔ اور ہر جگہ سے بہت سے بددین ساتھ ہوتے جائیں گے یہاں تک کہ مکہ معظمہ کے قریب آ کر ٹھہرے گا۔ لیکن فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے شہر کے اندر نہ جانے پائے گا۔

پھر وہاں سے مدینہ کا ارادہ کرے گا اور وہاں بھی فرشتوں کا پہرہ ہو گا جس سے اندر نہ جانے پائے گا۔ مگر مدینہ کو تین بار ہالن آئے گا۔ ا ور جتنے آدمی دین میں سست اور کمزور ہوں گے سب زلزلہ سے ڈر کر مدینہ سے باہر نکل کھڑے ہوں گے اور دجال کے پھندے میں پھنس جائیں گے اس وقت مدینہ میں کوئی بزرگ ہوں گے جو دجال سے خوب بحث کریں گے دجال جھنجلا کر ان کو اس وقت قتل کر دے گا اور پھر زندہ کر کے پوچھے گا اب تو میرے خدا ہونے کے قائل ہوتے ہو وہ فرمائیں گے کہ اب تو اور بھی یقین ہو گیا کہ تو دجال ہے پھر وہ ان کو مارنا چاہے گا مگر اس کا کچھ بس نہ چلے گا۔ اور ان پر کوئی چیز اثر نہ کرے کی وہاں سے دجال ملک شام کو روانہ ہو گا۔

جب دمشق کے قریب پہنچے گا اور حضرت امام وہاں پہلے سے پہنچ چکے ہوں گے اور لڑائی کے سامان میں مشغول ہوں گے کہ عصر کا وقت آ جائے گا اور مؤذن اذان کہے گا اور لوگ نماز کی تیاری میں ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسی علیہ السلام دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اترتے نظر آئیں گے اور جامع مسجد کی مشرق کی طرف کے منارے پر آ کر ٹھیریں گے اور وہاں سے زینہ لگا کر نیچے تشریف لائیں گے۔ حضرت امام سب لڑائی کا سامان ان کے سپرد کرنا چاہیں گے۔ وہ فرمائیں گے لڑائی کا انتظام آپ ہی رکھیں میں خاص دجال کے قتل کرنے کو آیا ہوں۔ غرض جب رات گزر کر صبح ہو گی حضرت امام لشکر کو آراستہ فرمائیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام ایک گھوڑا ایک نیزہ منگا کر دجال کی طرف بڑھیں گے اور اہل اسلام دجال کے لشکر پر حملہ کریں گے اور بہت سخت لڑائی ہو گی اور اس وقت حضرت عیسی علیہ السلام کے سانس میں یہ تاثیر ہو گی کہ جہاں تک نگاہ جائے وہاں تک سانس پہنچ سکے اور جس کافر کو سانس کی ہوا لگا دیں وہ فورا ہلاک ہو جائے دجال حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا۔ آپ اس کا پیچھا کریں گے۔ یہاں تک کہ باب لد ایک مقام ہے وہاں پہنچ کر نیزے سے اس کا کام تمام کریں گے اور مسلمان دجال کے لشکر کو قتل کرنا شروع کریں گے۔ پھر حضرت عیسی علیہ السلام شہروں شہروں تشریف لے جا کر جتنے لوگوں کو دجال نے ستایا تھا سب کی تسلی کریں گے اور خدائے تعالی کے فضل سے اس وقت کوئی کافر نہ رہے گا۔ پھر حضرت امام کا انتقال ہو جائے گا۔ اور سب بندوبست حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھ میں آ جائے گا۔ پھر یاجوج ماجوج نکلیں گے ان کے رہنے کی جگہ شمال کی طرف آبادی ختم ہوئی ہے اس سے بھی آگے سات ولایت سے باہر ہے اور ادھر کا سمندر زیادہ سردی کی وجہ سے ایسا جما ہوا ہے کہ اس میں جہاز بھی نہیں چل سکتا۔

حضرت عیسی علیہ السلام مسلمانوں کو خدائے تعالی کے حکم کے موافق طور پہاڑ پر لے جائیں گے اور یاجوج ماجوج بڑا ادھم مچائیں گے۔ آخر کو اللہ تعالی ان کو ہلاک کریں گے اور عیسی علیہ السلام پہاڑ سے اتر آئیں گے اور چالیس برس کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام وفات فرمائیں گے اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ میں دفن ہوں گے اور آپ کی گدی پر ایک شخص ملک یمن کے رہنے والے بیٹھیں گے جن کا نام جہجاج ہو گا اور قحطان کے قبیلے سے ہوں گے اور بہت دیندار اور انصاف کے ساتھ حکومت کریں گے۔ ان کے بعد آگے پیچھے اور کئی بادشاہ ہوں گے پھر رفتہ رفتہ نیک باتیں کم ہونا شروع ہوں گی اور بری باتیں بڑھنے لگیں گی اس وقت آسمان پر ایک دھواں سا چھا جائے گا اور زمین پر برسے گا۔ جس سے مسلمانوں کو زکام اور کافروں کو بیہوشی ہو گی۔ چالیس روز کے بعد آسمان صاف ہو جائے گا اور اسی زمانہ کے قریب بقر عید کا مہینہ ہو گا۔ دسویں تاریخ کے بعد دفعتہ ایک رات اتنی لمبی ہو گی کہ مسافروں کا دل گھبرا جائے گا اور بچے سوتے سوتے اکتا جائیں گے اور چوپائے جنگل میں جانے کے لیے چلانے لگیں گے اور کسی طرح صبح نہ ہو گی۔ یہاں تک کہ تمام آدمی ہیبت اور گھبراہٹ سے بیقرار ہو جائیں گے۔ جب تین راتوں کی برابر وہ رات ہو چکے گی اس وقت سورج تھوڑی روشنی لیے ہوئے جیسے گہن لگنے کے وقت ہوتا ہے مغرب کی طرف سے نکلے گا اس وقت کسی کا ایمان یا توبہ قبول نہیں ہو گی۔ جب سورج اتنا اونچا ہو جائے گا جتنا دوپہر سے پہلے ہوتا ہے پھر خدائے تعالی کے حکم سے مغرب ہی کی طرف لوٹے گا اور دستور کے موافق غروب ہو گا۔

پھر ہمیشہ اپنے قدیم قاعدے کے موافق روشن اور رونق دار نکلتا رہے گا اس کے تھوڑے ہی دن کے بعد صفا پہاڑ جو مکہ میں ہے زلزلہ آ کر پھٹ جائے گا اور اس جگہ سے ایک جانور بہت عجیب شکل و صورت کا نکل کر لوگوں سے باتیں کرے گا اور بڑی تیزی سے ساری زمین میں پھر جائے گا اور ایمان والوں کی پیشانی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے نورانی لکیر کھینچ دے گا جس سے سارا چہرہ اس کا روشن ہو جائے گا اور بے ایمانوں کی ناک یا گردن پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی سے سیاہ مہر کر دے گا جس سے اس کا چہرہ میلا ہو جائے گا اور یہ کام کر کے وہ غائب ہو جائے گا۔ اس کے بعد جنوب کی طرف سے ایک ہوا نہایت فرحت دینے والی چلے گی اس سے سب ایمان والوں کی بغل میں کچھ نکل آئے گا جس سے وہ مر جائیں گے۔ جب سب مسلمان مر جائیں گے اس وقت کافر حبشیوں کا ساری دنیا میں عمل دخل ہو جائے گا اور وہ لوگ خانہ کعبہ کو شہید کریں گے اور حج بند ہو جائے گا اور قرآن شریف دلوں سے اور کاغذوں سے اٹھ جائے گا اور خدا کا خوف اور خلقت کی شرم سب اٹھ جائے گی اور کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا۔ اس وقت ملک شام میں بہت ارزانی ہو گی لوگ اونٹوں پر سواریوں پر پیدل ادھر جھک پڑیں گے اور جو رہ جائیں گے ایک آگ پیدا ہو گی اور سب کو ہانکتی ہوئی شام میں پہنچائے گی۔ اور حکمت اس میں یہ ہے کہ قیامت کے روز سب مخلوق اسی ملک میں جمع ہو گی پھر وہ آگ غائب ہو جائے گی اور اس وقت دنیا کو بڑی ترقی ہو گی۔ تین چار سال اسی حال سے گزریں گے کہ دفعۃ جمعہ کے دن محرم کی دسویں تاریخ صبح کے وقت سب لوگ اپنے اپنے کام میں لگے ہوں گے کہ صور پھونکا دیا جائے گا۔ اول ہلکی ہلکی آواز ہو گی پھر اس قدر بڑھے گی کہ اس کی ہیبت سے سب مر جائیں گے۔ زمین و آسمان پھٹ جائیں گے اور دنیا فنا ہو جائے گی۔ اور جب آیت مغرب سے نکلا تھا اس وقت سے صور کے پھونکنے تک ایک سو بیس برس کا زمانہ ہو گا۔

اب یہاں سے قیامت کا دن شروع ہو گیا۔

خاص قیامت کے دن کا ذکر

جب صور پھونکنے سے تمام دنیا فنا ہو جائے گی چالیس برس اسی سنسانی کی حالت میں گزر جائیں گے پھر حق تعالی کے حکم سے دوسری بار صور پھونکا جائے گا اور پھر زمین آسمان اسی طرح قائم ہو جائے گا اور مردے قبروں سے زندہ ہو کر نکل پڑیں گے اور میدان قیامت میں اکٹھے کر دیئے جائیں گے اور آیت بہت نزدیک ہو جائے گا جس کی گرمی سے دماغ لوگوں کے پکنے لگیں گے اور جیسے جیسے لوگوں کے گناہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ پسینہ نکلے گا اور لوگ اس میدان میں بھوکے پیاسے کھڑے کھڑے پریشان ہو جائیں گے جو نیک لوگ ہوں گے ان کے لیے اس زمین کی مٹی مثل میدے کے بنائی جائے گی۔ اس کو کھا کر بھوک کا علاج کریں گے اور پیاس بجھانے کے لیے حوض کوثر پر جائیں گے۔ پھر جب میدان قیامت میں کھڑے کھڑے دق ہو جائیں گے اس وقت سب مل کر اول حضرت آدم علیہ السلام کے پاس پھر اور نبیوں کے پاس اس بات کی سفارش کرانے کے لیے جائیں گے کہ ہمارا حساب و کتاب اور کچھ فیصلہ جلدی ہو جائے۔ سب پیغمبر کچھ کچھ عذر کریں گے اور سفارش کا وعدہ نہ کریں گے سب کے بعد ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وہی درخواست کریں گے آپ حق تعالی کے حکم سے قبول فرما کر مقام محمود میں ایک مقام کا نام ہے تشریف لے جا کر شفاعت فرمائیں گے۔ حق تعالی کا ارشاد ہو گا کہ ہم نے سفارش قبول کی اب ہم زمین پر اپنی تجلی فرما کر حساب کیے دیتے ہیں۔

اول آسمان سے فرشتے بہت کثرت سے اترنا شروع ہوں گے اور تمام آدمیوں کو ہر طرف سے گھیر لیں گے پھر حق تعالی کا عرش اترے گا اس پر حق تعالی کی تجلی ہو گی اور حساب کتاب شروع ہو جائے گا اور اعمال نامے اڑائے جائیں گے ایمان والوں کے داہنے ہاتھ میں اور بے ایمانوں کو بائیں ہاتھ میں وہ خود بخود آ جائیں گے اور اعمال تولنے کی ترازو کھڑی کی جائے آگ جس سے سب کی نیکیاں اور بدیاں معلوم ہو جائیں گی اور پل صراط پر چلنے کا حکم ہو گا۔ جس کی نیکیاں تول میں زیادہ ہوں گی وہ پل سے پار ہو کر بہشت میں جا پہنچے گا۔ اور جس کے گناہ زیادہ ہوں گے اگر خدائے تعالی نے معاف نہ کر دیئے ہوں گے وہ دوزخ میں گر جائے گا اور جس کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے ایک مقام ہے اعراف جنت دوزخ کے بیچ میں وہ وہاں رہ جائے گا اس کے بعد ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام اور عالم اور ولی اور شہید اور حافظ اور نیک بندے گنہگار لوگوں کو بخشوانے کے لیے شفاعت کریں گے ان کی شفاعت قبول ہو گی۔ اور جس کے دل میں ذرا ظہور سا بھی ایمان ہو گا وہ دوزخ سے نکال کر بہشت میں داخل کر دیا جائے گا۔ اسی طرح جو لوگ اعراف میں ہوں گے وہ بھی آ کر کو جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے اور دوزخ میں خالی وہی لوگ رہ جائیں گے جو بالکل کافر اور مشرک ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو کبھی دوزخ سے نکلنا نصیب نہ ہو گا۔ جب سب جنتی اور دوزخی اپنے اپنے ٹھکانہ ہو جائیں گے اس وقت اللہ تعالی دوزخ اور جنت کے بیچ میں موت کو ایک مینڈھے کی صورت پر ظاہر کرے گا سب جنتیوں اور دوزخیوں کو دکھلا کر اس کو ذبح کرا دیں گے اور فرمائیں گے اب نہ جنتوں کو موت آئے گی نہ دوزخیوں کو آئے گی سب کو اپنے اپنے ٹھکانہ پر ہمیشہ کے لیے رہنا ہو گا اس وقت نہ جنتیوں کی خوشی کی کوئی حد ہو گی اور نہ دوزخیوں کے صدمے اور رنج کی کوئی انتہا ہو گی۔

بہشت کی نعمتوں اور دوزخ کی مصیبتوں کا ذکر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے واسطے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی آدمی کے دل میں ان کا خیال آیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کی عمارت میں ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک اینٹ سونے کی۔ اور اینٹوں کے جوڑنے کا گارا خالص مشک کا ہے اور جنت کی کنکریاں موتی اور یاقوت ہیں اور وہاں کی مٹی زعفران ہے جو شخص جنت میں چلا جائے گا چین سکھ میں رہے گا اور رنج و غم نہ دیکھے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کو اسی میں رہے گا کبھی نہ مرے گا۔ نہ ان لوگوں کے کپڑے میلے ہوں گے۔ نہ ان کی جوانی ختم ہو گی اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جنت میں دو باغ تو ایسے ہیں کہ وہاں کے برتن اور سب سامان چاندی کا ہو گا۔ اور دو باغ ایسے ہیں کہ وہاں کے برتن اور سب سامان سونے کا ہو گا اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جنت میں سو درجے اوپر تلے ہیں اور ایک درجے سے دوسرے درجے تک اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان میں فاصل ہے یعنی پانچ سو برس اور سب درجوں میں بڑا درجہ فردوس کا ہے اور اسی سے جنت کی چاروں نہریں نکلی ہیں یعنی دودھ اور شہد اور شراب طہور اور پانی کی نہریں اور اس سے اوپر عرش ہے۔ تم جب اللہ سے مانگو تو فردوس مانگا کرو۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ان میں ایک ایک درجہ اتنا بڑا ہے کہ اگر تمام دنیا کے آدمی ایک میں بھر دیئے جائیں تو اچھی طرح سما جائیں۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جنت میں جتنے درخت ہیں سب کا تنہ سونے کا ہے۔

اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سب سے پہلے جو لوگ جنت میں جائیں گے ان کا چہرہ ایسا روشن ہو گا جیسے چودھویں رات کا چاند پھر جو ان سے پیچھے جائیں گے ان کا چہرہ تیز روشنی والے ستارے کی طرح ہو گا نہ وہاں پیشاب کی ضرورت ہو گی نہ پاخانے کی نہ تھوک کی نہ رینٹھ کی۔ کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور پسینہ مشک کی طرح خوشبودار ہو گا۔ کسی نے پوچھا کہ پھر کھانا کہاں جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ڈکار آئے گا جس میں مشک کی خوشبو ہو گی اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت والوں میں جو سب سے ادنی درجہ ہو گا اس سے اللہ تعالی پوچھیں گے کہ اگر تجھ کو دنیا کے کسی بادشاہ کے ملک کے برابر دے دیں تو تو راضی ہو جائے گا وہ کہے گا اے پروردگار میں راضی ہوں ارشاد ہو گا جا تجھ کو اس کے پانچ حصے کے برابر دے دیا وہ کہے گا اے رب میں راضی ہو گیا۔ پھر ارشاد ہو گا جا تجھ کو اتنا دیا اور اس سے دس گناہ دیا۔ اور اس کے علاوہ جس چیز کو تیرا جی چاہے گا اور جس سے تیری آنکھ کو لذت ہو گی وہ تجھ کو ملے گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ دنیا ور اس سے دس حصے زیادہ کے برابر اس کو ملے گا۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ تعالی جنت والوں سے پوچھیں گے کہ تم خوش بھی ہو وہ عرض کریں گے کہ بھلا خوش کیوں نہ ہوتے آپ نے تو ہم کو وہ چیزیں دی ہیں جو آج تک کسی مخلوق کو نہیں دیں۔ ارشاد ہو گا کہ ہم تم کو ایسی چیز دیں جو ان سب سے بڑھ کر ہو وہ عرض کریں گے ان سے بڑھ کر کیا چیز ہو گی۔ ارشاد ہو گا کہ وہ چیز ہے کہ میں تم سے ہمیشہ خوش رہوں گا کبھی ناراض نہ ہوں گا۔

اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب جنت والے جنت میں جا چکیں گے اللہ تعالی ان سے فرمائیں گے تم اور کچھ زیادہ چاہتے ہو میں تم کو دوں وہ عرض کریں گے کہ ہمارے چہرے آپ نے روشن کر دیئے ہم کو جنت میں داخل کر دیا ہم کو دوزخ سے نجات دے دی اور ہم کو کیا چاہیے اس وقت اللہ تعالی پردہ اٹھا دیں گے اتنی پیاری کوئی نعمت نہ ہو گی جس قدر اللہ تعالی کے دیدار میں لذت ہو گی اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دوزخ کو ہزار برس تک دھونکایا یہاں تک کہ اس کا رنگ سرخ ہو گیا۔ پھر ہزار برس تک دھونکایا یہاں تک کہ سفید ہو گئی۔ پھر ہزار برس اور دھونکایا یہاں تک کہ سیاہ ہو گئی۔ اب وہ بالکل سیاہ تاریک ہے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم نے کہ تمہاری یہ آگ جس کو جلاتے ہو دوزخ کی آگ سے ستر حصے تیزی میں کم ہے۔ اور وہ ستر حصے اس سے زیادہ تیز ہیںا اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اگر ایک بڑا بھاری پتھر دوزخ کے کنارے سے چھوڑا جائے اور ستر برس تک برابر چلا جائے تب جا کر اس کی تہ میں جا پہنچے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دوزخ کو لایا جائے گا۔ اس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی اور ہر ایک باگ کو ستر ہزار فرشتے پکڑے ہوں گے جس سے اس کو گھسیٹیں گے۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سب میں ہلکا عذاب دوزخ میں ایک شخص کو ہو گا کہ اس کے پاؤں میں فقط آگ کی دو جوتیاں ہیں مگر اس سے اس کا بھیجا ہنڈیا کی طرح پکتا ہے اور وہ یوں سمجھتا ہے کہ مجھ سے بڑھ کر کسی پر عذاب نہیں۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دوزخ میں ایسے بڑے سانپ ہیں جیسے اونٹ اگر ایک دفعہ کاٹ لیں تو چالیس برس تک زہر چڑھا رہے اور بچھو ایسے ایسے بڑے ہیں جیسے پالان کاٹھی کسا ہوا خچر۔

وہ اگر کاٹ لیں تو چالیس برس تک لہر اٹھتی رہے اور ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے آج نماز میں جنت اور دوزخ کا ہو بہو نقشہ دیکھا نہ آج تک میں نے جنت سے زیادہ کوئی اچھی چیز دیکھی اور نہ دوزخ سے زیادہ کوئی چیز تکلیف کی دیکھی۔

ان باتوں کا بیان کہ ان کے بدون ایمان ادھورا رہتا ہے

حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کئی اوپر ستر باتیں ایمان کے متعلق ہیں سب میں بڑے بات تو کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور سب سے چھوٹی بات یہ ہے کہ راستہ میں کوئی کانٹا لکڑی پتھر پڑا ہو جس سے راستہ چلنے والوں کو تکلیف ہو اس کو ہٹا دے۔ اور شرم و حیا بھی ایمان کی ان ہی باتوں میں سے ایک بڑی چیز ہے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ جب اتنی باتیں ایمان سے علاقہ رکھتی ہیں تو پورا مسلمان وہی ہو گا جس میں سب باتیں ہوں اور جس میں کوئی بات ہو اور کوئی بات نہ ہو وہ ادھورا مسلمان ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ مسلمان پورا ہی ہونا ضروری ہے۔ اس لیے ہر ایک کو لازم ہوا کہ ان سب باتوں کو اپنے اندر پیدا کرے اور کوشش کرے کہ کسی بات کسر نہ رہ جائے اس لیے ہم ان باتوں کو لکھ کر بتلائے دیتے ہیں۔ وہ سب سات اوپر ستر ہیں۔ تیس تو دل سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالی پر ایمان لانا یہ اعتقاد رکھنا کہ خدا کے سوا سب چیزیں پہلے ناپید تھیں پھر خدا کے پیدا کرنے سے پیدا ہوئیں یہ یقین کرنا کہ فرشتے ہیں یہ یقین کرنا کہ خدائے تعالی نے جتنی کتابیں پیغمبروں پر اتاری تھیں سب سچی ہیں۔ البتہ اب قرآن کے سوا اوروں کا حکم نہیں رہا۔

یہ یقین کرنا کہ سب پیغمبر سچے ہیں البتہ اب فقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے کا حکم ہے یہ یقین کرنا کہ اللہ تعالی کو سب باتوں کی پہلے ہی سے خبر ہے اور جو ان کو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے یہ یقین کرنا کہ قیامت آنے والی ہے جنت کا ماننا دوزخ کا ماننا اللہ تعالی سے محبت رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا اور کسی سے بھی اگر محبت یا دشمنی کرے تو اللہ ہی کے واسطے کرنا ہر کام میں نیت دین کی کرنا گناہوں پر پچھتانا خدائے تعالی سے ڈرنا خدائے تعالی کی رحمت کی امید رکھنا شرم کرنا نعمت کا شکر کرنا عہد پورا کرنا صبر کرنا اپنے کو اوروں سے کم سمجھنا مخلوق پر رحم کرنا جو کچھ خدا کی طرف سے ہو اس پر راضی رہنا خدا پر بھروسہ کرنا اپنی کسی خوبی پر نہ اترانا کسی سے کینہ کپٹ نہ رکھنا کسی پر حسد نہ کرنا غصہ نہ کرنا کسی کا برا نہ چاہنا دنیا سے محبت نہ رکھنا۔ اور سات باتیں زبان سے متعلق ہیں زبان سے کلمہ پڑھنا قرآن شریف کی تلاوت کرنا علم سیکھنا علم سکھلانا دعا کرنا لغو اور گناہ کی بات سے جیسے جھوٹ غیبت گالی کو سنا خلاف شرع گانا ان سب سے بچنا۔

اور چالیس باتیں سارے بدن سے متعلق ہیں وضو کرنا غسل کرنا کپڑے کا پاک رکھنا نماز کا پابند رہنا زکوٰۃ صدقہ فطر دینا روزہ رکھنا حج کرنا اعتکاف کرنا جہاں رہنے میں دین کی خرابی ہو وہاں سے چلے جانا منت خدا کی پوری کرنا جو قسم گناہ کی بات پر نہ ہو اس کو پورا کرنا ٹوٹی ہوئی قسم کا کفارہ دینا جتنا بدن ڈھانکنا فرض ہے اس کو ڈھانکنا قربانی کرنا مردے کا کفن دفن کرنا کسی کا قرض آتا ہو اس کو ادا کرنا لین دین میں خلاف شرع باتوں سے بچنا سچی گواہی کا نہ چھپانا اگر نفس تقاضا کرے نکاح کر لینا جو اپنی حکومت میں ہیں ان کا حق ادا کرنا ماں باپ کو آرام پہنچانا اولاد کو پرورش کرنا رشتہ داروں ناتہ داروں سے بد سلوکی نہ کرنا آقا کی تابعداری کرنا انصاف کرنا مسلمانوں کی جماعت سے الگ کوئی طریقہ نہ نکالنا حاکم کی تابعداری کرنا مگر خلاف شرع بات میں نہ کرے لڑنے والوں میں صلح کرا دینا نیک کام میں مدد دینا نیک راہ بتلانا بری بات سے روکنا اگر حکومت ہو تو شرع کے موافق سزا دینا اگر وقت آئے تو دین کے دشمنوں سے لڑنا امانت ادا کرنا ضرورت والے کو قرضہ دے دینا پڑوسی کی خاطر داری رکھنا آمدنی پاک لینا خرچ شرع کے موافق کرنا اسلام کا جواب دینا اگر کوئی چھینک لے کر الحمد للہ کہے تو اس کو یرحمک اللہ کہنا کسی کو ناحق تکلیف نہ دینا خلاف شرع کھیل تماشوں سے بچنا راستہ میں سے ڈھیلا۔ پتھر کانٹا لکڑی ہٹا دینا اگر الگ الگ سب باتوں کا ثواب معلوم کرنا ہو تو فروع الایمان ایک کتاب ہے اس میں دیکھ لو۔

قلب کی صفائی اور باطن کی درستی کی ضرورت

عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ لا ینظر الی اجسامکم ولا الی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم۔ رواہ مسلم ترجمہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شبہ حق تعالی نہیں دیکھتے یعنی توجہ نہیں فرماتے فقط تمہارے جسموں کی طرف اور نہیں دیکھتے فقط تمہاری صورتوں کی طرف۔ اور یہ خیال نہ کرو کہ جب ظاہری اعمال جو فقط ظاہری اعضاء سے ادا کیے جائیں اور ان میں قلب کو توجہ نہ ہو مقبول نہیں تو اعمال قلبیہ بھی مقبول نہ ہوں گے۔ ا ور نیز ظاہری اعمال مقبول ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں اس لیے کہ فرماتے ہیں لیکن دیکھتے ہیں تمہارے دلوں کی طرف مطلب یہ ہے کہ حق تعالی ایسے اعمال کو قبول نہیں کرتے جو فقط ظاہر ہی میں اچھے معلوم ہوتے ہوں اور اخلاص اور توجہ قلبی سے خالی ہوں مثلاً کوئی عبادت کرے اور بظاہر تو عبادت میں مشغول ہے مگر دل میں غفلت چھا رہی ہے اور دل میں تمیز نہیں ہوتی کہ خدا کے سامنے کھڑا ہے یا کوئی اور کام کر رہا ہے تو ایسے اعمال مقبول نہیں ہوتے اور یہ غرض نہیں ہے کہ ظاہری اعمال کا بالکل اعتبار ہی نہیں بلکہ اعتبار ہے لیکن اس شرط سے کہ توجہ اور اخلاص قلبی بھی اس کے ساتھ ہو جیسا کہ حدیث و قرآن اعمال کا بالکل اعتبار ہی نہیں بلکہ اعتبار ہے لیکن اس شرط سے کہ توجہ اور اخلاص قلبی بھی اس کے ساتھ ہو جیسا کہ حدیث و قرآن سے ثابت ہے کیونکہ قلب خاص محل نظر الٰہی ہے اور جس طرح اس کو ظاہری طبی تشریح میں سلطان البدن ہونے کا شرف حاصل ہے اسی طرح روحانی اور باطنی تشریح میں بھی ملک الجوارح ہونے کا فخر میسر ہے جب تک اس کی حالت درست نہ ہو گی کوئی صورت فلاح اور نجات کی حاصل نہیں ہو سکتی۔

مثلاً کوئی ظاہر میں مسلمان ہو دل سے نہ ہو تو اس کو اسلام کا خداوند کریم کے نزدیک کچھ بھی اعتبار نہیں اور علی ہذا القیاس کوئی محض دکھانے یا ایسی ہی اور کسی غرض فاسد کے لیے نماز صدقہ وغیرہ عبادت کرے تو وہ کسی درجہ میں بھی شمار نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ فلاحیت دارین اور مقبولیت عنداللہ تعالی کا مدار اصلاح قلب پر ہے۔ لوگوں نے آجکل اس میں بہت بڑی کوتاہی کر رکھی ہے۔ فقط ظاہری اعمال تو تھوڑے بہت کرتے بھی ہیں اور ان کا علم بھی حاصل کرتے ہیں مگر باطنی اصلاح اور قلب کی درستی و اصلاح کی کچھ بھی فکر نہیں گویا کہ یوں خیال کرتے ہیں کہ اصلاح باطن اور ریا و کینہ و حسد وغیرہ کا علاج اور اس سے محفوظ ہونا کچھ ضروری نہیں فقط ظاہری اعمال کو واجب سمجھتے ہیں اور ان کو نجات کے لیے کافی خیال کرتے ہیں حالانکہ اصلی مقصود اصلاح قلب ہے جیسا کہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے اور اعمال ظاہری ذریعہ ہیں قلب کے درست ہونے کا۔ اور ظاہر اور باطن میں کچھ ایسا قدرتی علاقہ ہے کہ بغیر ظاہری حالت درست کیے ہوئے باطنی حالت درست نہیں ہوتی۔ اور جب تک ظاہری اعمال پر دوام ہمیشگی اور پابندی نہ ہو اصلاح باطنی دائم نہیں رہتی۔

اور جب باطنی حالت درست ہو جاتی ہے تو ظاہری اعمال خوب اچھی طرح ادا ہوتے ہیں اور یہاں سے کوئی بے عقل یہ شبہ نہ کرے کہ ظاہری اعمال کی فقط اس وقت تک حاجت ہے جب تک کہ قلب کی حالت درست نہیں ہوتی اور جب قلب درست ہو گیا تو پھر ظاہری اعمال کی کچھ حاجت نہیں خواہ کریں یا نہ کریں اس لیے کہ یہ عقیدہ کفر ہے اور وجہ اس کے باطل ہونے کی یہ ہے کہ جب قلب درست ہو گا تو وہ حتی المقدور ہر وقت طاعت الٰہی میں مصروف رہے گا اور یہی علامت ہے اس کے درست ہونے کی کیونکہ مقصود اصلاح قلب ہے یہی ہے کہ طاعت الٰہی ہو اور اس کا شکر کیا جائے اور پروردگار کی نافرمانی اور ناشکری نہ ہو اور نماز روزہ وغیرہ کا اطاعت الٰہی میں داخل ہونا بہت ظاہر ہے تو جب یہ طاعات چھوڑ دی گئیں تو پھر قلب کہاں درست رہا اگر درست رہتا تو شب و روز مثل اولیاء کرام اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے طاعت الٰہی میں ضرور مصروف رہتا کیا نعوذ باللہ کسی بے عقل اور احمق کو یہ وسوسہ ہو سکتا ہے کہ کسی کا قلب جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے بھی زیادہ صاف اور صالح ہے جو اس کو عبادت ظاہری کی حاجت نہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو باوجود اکمل الکاملین اور افضل المرسلین ہونے کے اس قدر ظاہری اعمال میں مصروف ہوتے تھے جس سے دیکھنے والوں کو بھی رحم آتا تھا اور تا حیات یہی حالت رہی اور آپ کی یہ کیفیت حدیث کی کتابوں میں خوب اچھی طرح مذکور اور مشہور ہے خوب سمجھ لو لہذا مسلمانوں خوب سمجھ لو کہ جس طرح اعمال ظاہریہ مثل صوم و صلوۃ وغیرہ کا ادا کرنا اور ان کے ادا کرنے کا طریقہ جاننا واجب ہے اسی طرح اعمال باطنیہ جیسے صوم و صلوۃ وغیرہ کا ریاء نمود وغیرہ سے محفوظ رکھنا یا کینہ و حسد اور غضب وغیرہ سے قلب کو صاف رکھنا اور ان اعمال کے ادا کرنے کا جاننا بھی واجب ہے جن میں بعض اعمال تو محض قلب سے تعلق رکھتے ہیں جیسے گناہ کا قصد کرنا کینہ یا حسد کرنا اور اخلاص پیدا کرنا اور بعض میں قلب اور دیگر اعضاء بھی شریک ہیں جیسے صلوۃ و صوم و حج و صدقہ وغیرہ صرح بہ الامام الغزالی واقرہ علیہ العلامۃ ابن عابدین اور حدیث میں ہے۔ رکعتان من رجل ورع ای متوقی الشبہات افضل من الف رکعۃ من مخلط ای لایتقی الشبہات والظاہر ان المراد بالالف التکثیر لا التحدید فرعن انس قال الشخ  حدیث حسن لغیرۃ کذافی العزیزی شرح الجامع الصغیر یعنی دو رکعت نماز ایسے پرہیزگار کی جو شبہ کی چیزوں سے بھی بچتا ہو اس شخص کی ہزار رکعت نماز سے افضل ہے جو شبہ کی چیزوں سے نہ بچے۔ آہ ظاہر ہے کہ یہ فضیلت بغیر صفائی قلب اور اصلاح باطن کے میسر نہیں ہو سکتی جو امراض باطنی سے تندرست نہیں وہ تو واجبات بھی ٹھیک طور سے نہیں ادا کر سکتا۔ اور جو حرام چیزوں سے بچنے پر بھی پورا قادر نہیں پھر مشتبہات چیزوں سے کیسے بچ سکتا ہے جو اس کو یہ فضیلت میسر ہو۔ تقوی اور صفائی باطن کے ساتھ جو کچھ بھی عبادت ہوتی ہے وہ باقاعدہ اور مقبول ہوتی ہے اگرچہ وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔

لہذا مسلمان کو لازم ہے کہ ظاہر و باطن کی کامل طور سے اصلاح کرے کہ یہی ذریعہ نجات کا ہے اور فقط ظاہری اعمال کو بغیر درستی باطن کے نجات کے لیے کافی نہ سمجھے۔ دیکھو اگر کوئی شخص بہت سی نمازیں پڑھے اور نیت یہ ہو کہ لوگ ہم کو بزرگ سمجھیں اور ہماری تعریف کریں تو کیا وہ عذاب سے بچ جائے گا حالانکہ نماز تو ایسی چیز ہے کہ اگر کوئی اس کو باقاعدہ اور اخلاص سے محض اللہ تعالی کے لیے ادا کرے تو اس عذاب سے بھی بچ جائے جو ترک نماز پر ہوتا ہے اور ثواب بھی حاصل ہو۔ مگر افسوس کہ اس شخص نے بوجہ مرض ریاء دکھلاوا اور حب ثناء تعریف چاہنے کے اس نماز کو برباد کر دیا۔ پس اس کو چاہیے کہ اپنے ان امراض کا علاج کرے ورنہ عنقریب سخت ہلاکی میں مبتلا ہو جائے گا کیونکہ جب مرض بڑھتا رہے گا اور علاج ہو گا نہیں ظاہر ہے کہ انجام ہلاکت ہو گا۔ بھائیو جب تم بیمار ہو اور تمہارا جسم مریض ہو تو کیا یہ گوارا کرو گے کہ مرض میں مبتلا رہو اور باوجود قدرت کے علاج نہ کرو۔ یہاں تک کہ وہ مرض تم کو ہلا کر دے ہرگز نہیں گوارا کر سکتے حالانکہ اس مرض سے جو تکلیف ہو گی وہ جسمانی تکلیف اور پھر وہ بھی چند روزہ دنیا ہی میں ہے۔ پس جب یہ گوارا نہیں تو روحانی امراض میں مبتلا رہنا جس کی وجہ سے ایسی جگہ تکلیف ہو جہاں ہمیشہ رہنا ہے گوارا کرنا عقل سلیم کے بالکل خلاف ہے۔ لہذا ہر انسان کو لازم ہے کہ جسم و قلب و ظاہر و باطن کی خوب اصلاح کرے اور عقل سلیم سے کام لے کر فلاحیت دارین کو اپنا قبلہ مقصود سمجھنے خوب کہا ہے۔

کیا وہ دنیا جس میں ہو کوشش نہ دیں کے واسطے

واسطے واں کے بھی کچھ یا سب یہیں کے واسطے

حدیث میں ہے عن النعمان بن بشیر مرفوعا فی حدیچ طویل الاوان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وہی القلب متفق علیہ یعنی فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل نے خبردار ہو اس بات سے کہ بدن میں ایک جزو اور وہ ایک بوٹی ہے۔ جب وہ درست ہوتا ہے تو تمام بدن درست ہوتا ہے اور جب وہ جزو فاسد ہو جاتا ہے تو تمام بدن فاسد اور خراب ہو جاتا ہے اور آگاہ رہو کہ وہ جزو دل ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ اعضاء کی درستی اور اطاعت خداوندی بجا لانا موقوف ہے قلب کی درستی پر کیونکہ قلب سلطان البدن ہے اور رعیت کی اصلاح موقوف ہوتی ہے سلطان کے صالح ہونے پر سوا اعضاء نیک کام جب ہی کریں گے جب کہ قلب صالح ہو۔ لہذا اصلاح قلب میں کوشش کرنا واجب اقرار پایا اس طور کہ اطاعت خداوندی واجب ہے خواہ وہ اطاعت فقط قلب سے تعلق رکھتی ہو یا اس میں قلب کے ساتھ اعضا و جوارح کا بھی دخل ہو اور اطاعت کا صحیح اور مقبول ہونا موقوف ہے صلاحیت قلب پر نتیجہ یہ نکلا کہ اصلاح قلب واجب ہے خوب سمجھ لو۔ دیکھئے شریعت نے ایسی حالت میں جبکہ انسان کو بھوک کی خواہش ہو اور اس حالت میں نماز پڑھنے سے طبیعت پریشان ہو تو یہ حکم دیا ہے کہ ایسی حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے بلکہ پہلے کھانا کھا لو پھر نماز پڑھو بشرطیکہ نماز کا وقت فوت نہ ہو جائے تو اس میں حکمت یہ ہے کہ مقصود عبادت سے حق تعالی کے سامنے حاضری اور اظہار عبدیت ہے اس طرح کہ ظاہری و باطن اس کے کام میں مشغول ہوں اور غیر اللہ کی طرف حتی الامکان توجہ نہ رہے اور جب بھوک لگ گی ہو تو گو ظاہر بدن نماز میں مشغول ہو گا لیکن قلب پریشان ہو گا اور یہی دل چاہے گا کہ جلدی سے نماز سے فارغ ہو جائیں تاکہ جلد کھانا مل جائے پس حق تعالی کے سامنے جس طرح حاضری چاہیے تھی اس میں بہت بڑا خلل واقع ہو گا۔

اس واسطے اسی حالت میں نماز کو مکروہ کہا گیا جس سے یہ معلوم ہو گیا کہ اصل محل نظر خداوندی قلب ہے اور شریعت مقدسہ نے اس کی اصلاح کا بہت بڑا انتظام کیا ہے بزرگان دین نے اصلاح قلب کے لئے برسوں مجاہدے اور ریاضتیں کی ہیں۔ اس مختصر رسالے میں بوجہ خوف طوالت زیادہ مضمون نہیں لکھا گیا ورنہ کتابیں کی کتابیں اس فن کی موجود ہیں۔ اگر ان کتابوں کا خلاصہ بھی لکھا جائے تو ایک بڑی ضخامت کی کتاب ہو جائے۔ اس حدیث سے قلب کی اصلاح کی بہت بڑی تاکید ثابت ہوتی ہے کہ مدار اصلاح طاعت قلب ہی پر رکھا گیا ہے۔ حدیث میں ہے عن ابن عباس مرفوعا قال رکعتان مقتصدتان خیر من قیام لیلۃ والقلب ساہ روا ابن ابی الدنیا فی التفکر کذا فی کنز العمال۔ یعنی فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ دو رکعت نماز درمیانی طور پر پڑھنا بہتر ہے رات بھر نماز پڑھنے سے ایسی حالت میں کہ قلب غافل ہو۔ اس حدیث کو ابن ابی الدنیا نے تفکر میں روایت کیا ہے مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دو۔ رکعت نماز پڑھے اور درمیانی طور پر ادا کرے اس طرح کہ اس کے فرائض و واجبات اور سنن کو حضور قلب کے ساتھ ادا کرے گو طویل قرأت وغیرہ نہ ہو ایسی دو رکعتیں نہایت عمدہ اور مقبول ہیں۔ رات بھر غفلت قلب کے ساتھ نماز پڑھنے سے اس حدیث سے اہتمام قلب کی کس قدر تاکید معلوم ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فی الحقیقت فعل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے کہ کیسا کام کیا۔ اور کمیت مطلوب نہیں ہے کہ کتنا کام کیا۔ اگرچہ تھوڑا ہی کام ہو مگر باقاعدہ اور عمدہ ہو تو وہ حق تعالی کے یہاں محبوب اور مقبول ہے۔ اور اگر بہت سا کام ہو لیکن بے قاعدہ اور بے ضابطہ غفلت سے ہو وہ ناپسند ہے خوب سمجھ لو

مانصیحت بجائے خود کردیم

روزگارے دریں بسر بردیم

گرنیاید بگوش رغبت کس

بررسولاں بلاغ باشدو بس

پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج و عادت کا بیان

آپ دل کے بڑے سخی تھے کسی سوالی سے نہیں کبھی نہیں کی اگر ہوا دے دیا یا نہ ہوا تو نرمی سے سمجھا دیا دوسرے وقت دینے کا وعدہ کر لیا آپ بات کے بڑے سچے تھے آپ کی طبیعت بہت نرم تھی سب باتوں میں سہولت اور آسانی برتتے اپنے پاس اٹھنے بیٹھنے والوں کا بڑا خیال رکھتے کہ ان کو کسی طرح کی اپنے سے تکلیف نہ پہنچے۔ یہاں تک کہ اگر رات کو اٹھ کر باہر جانا ہوتا تو بہت ہی آہستہ جوتی پہنتے بہت ہلکے سے کواڑ کھولتے بہت آہستہ چلتے اور اگر گھر میں تسریف لاتے اور گھر والے سو رہتے تو بھی سب کام چپکے چپکے کرتے کبھی کسی سوتے کی نیند خراب نہ ہو جائے ہمیشہ نچی نگاہ زمین کی طرف رکھتے جو بہت سے آدمیوں کے ساتھ چلتے تو اوروں سے پیچھے رہتے جو سامنے آتا اس کو پہلے خود سلام کرتے جب بیٹھتے تو بہت عاجزی کی صورت بنا کر جب کھانا کھاتے تو بہت ہی غریبوں کی طرح بیٹھ کر پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا کبھی چپاتی نہیں کھائی۔ تکلف کی تشتریوں میں کبھی نہیں کھایا ہر وقت خدائے تعالی کے خوف سے غمگین سے رہتے ہر وقت اسی سوچ میں لگے رہتے اسی دھن میں کسی کروٹ چین نہ آتا زیادہ وقت خاموش رہتے بدون ضرورت کے کلام نہ فرماتے جب بولتے تو ایسا صاف کہ دوسرا آدمی خوب سمجھ لے۔ آپ کی بات نہ تو اتنی لمبی ہوتی کہ ضرورت سے زیادہ اور نہ اس قدر کم ہوتی کہ مطلب بھی سمجھ میں نہ آئے۔ بات میں ذرا سختی نہ تھی نہ برتاؤ میں کسی طرح کی سخت تھی اپنے پاس آنے والے کی بے قدری اور ذلت نہ کرتے تھے کسی کی بات نہ کاٹتے تھے البتہ اگر شرع کے خلاف کوئی بات کرتا تو یا تو منع فرما دیتے یا وہاں سے خود اٹھ جاتے خدا کی نعمت کیسی ہی چھوٹی کیوں نہ آپ اس کو بہت بڑا سمجھتے تھے کبھی اس میں عیب نہ نکالتے تھے کہ اس کا مزہ اچھا نہیں ہے۔ یا اس میں بدبو آتی ہے البتہ جس چیز کو دل نہ لیتا اس کو خود نہ کھاتے اور نہ اس کی تعریف کرتے نہ اس میں عیب نکالتے۔

دنیا کی کیسی ہی بات ہو اس کی وجہ سے آپ کو غصہ نہ آتا مثلاً کسی کے ہاتھ سے نقصان ہو گیا کسی نے کوئی کام بگاڑ دیا یہاں تک ک حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے دس برس تک آپ کی خدمت کی اس دس برس میں میں نے جو کچھ کر دیا اس کو یوں نہیں فرمایا کہ کیوں کیا اور جو نہیں کیا اس کو یوں نہیں پوچھا کہ کیوں نہیں کیا۔ البتہ اگر کوئی بات خلاف دین کے ہو جاتی تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی تاب نہ لا سکتا تھا۔ اپنے ذاتی معاملہ میں آپ نے غصہ نہیں کیا۔ اگر کسی سے ناراض ہوتے تو صرف منہ پھیر لیتے۔ یعنی زبان سے کچھ سخت و سست نہ فرماتے اور جب خوش ہوتے تو نیچی نگاہ کر لیتے۔ شرم اس قدر تھی کہ کیا کنواری لڑکی کو ہو گی۔ بڑی ہنسی آتی تو یوں ہی ذرا مسکرا دیتے یعنی آواز سے نہ ہنستے سب میں ملے جلے رہتے یہ نہیں کہ اپنی شان بنا کر لوگوں سے کھنچنے لگیں بلکہ کبھی کبھی کسی کا دل خوش کرنے کو ہنسی مذاق بھی فرما لیتے اس میں بھی وہی بات فرماتے جو سچی ہوتی نفلیں اس قدر پڑھتے کہ کھڑے کھڑے دونوں پاؤں سوج جاتے جب قرآن شریف پڑھتے یا سنتے تو خدا کے خوف اور محبت سے روتے۔ عاجزی اس قدر مزاج میں تھے کہ اپنی امت کو حکم فرمایا کہ مجھ کو بہت مت بڑھا دینا۔ اور اگر کوئی غریب ماما اصیل آ کر کہتی کہ مجھ کو آپ سے الگ کچھ کہنا ہے آپ فرماتے اچھا کہیں سڑک پر بیٹھ کر کہہ لے وہ جہاں بیٹھ جاتی آپ بھی وہیں بیٹھ جاتے کوئی بیمار ہو امیر یا غریب اس کو پوچھتے کسی کا جنازہ ہوتا آپ اس پر تشریف لاتے کیسا ہی کوئی غلام ملام دعوت کر دیتا آپ قبول فرما لیتے اگر کوئی جو کی روٹی اور بدمزہ چربی کی دعوت کرتا آپ اس سے بھی عذر نہ فرماتے زبان سے کوئی بیکار بات نہ نکلتی۔

سب کی دلجوئی کرتے کوئی ایسا برتاؤ نہ فرماتے جس سے کوئی گھبرائے ظالم موذیوں کی شرارت سے خوش تدبیری کے ساتھ اپنا بچاؤ بھی کرتے مگر ان کے ساتھ اسی خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آتے آپ کے پاس حاضر ہونے والوں میں اگر کوئی نہ آتا اس کو پوچھتے ہر کام کو ایک قاعدہ سے کرتے یہ نہیں کہ کبھی کچھ کر دیا کبھی کسی طرح کر لیا جب اٹھتے خدا کی یاد کرتے جب بیٹھتے خدا کی یاد کرتے جب کسی محفل میں تشریف لے جاتے تو جہاں تک آدمی بیٹھے ہیں اس کے کنارے پر بیٹھ جاتے یہ نہیں کہ سب کو پھاند کر بڑی جگہ جا کر بیٹھیں۔ اگر بات کرنے کے وقت کئی آدمی ہوتے تو باری باری سب کی طرف منہ کر کے بات کرتے یہ نہیں کہ ایک طرف توجہ ہے دوسروں کو دیکھتے بھی نہیں سب کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے کہ ہر شخص یوں سمجھتا کہ مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں اگر کوئی پاس کر بیٹھتا یا بات شروع کرتا اس کی خاطر رکے بیٹھے رہتے جب پہلے وہی اٹھ جاتا تو آپ اٹھتے۔ آپ کے اخلاق سب کے ساتھ عام تھے۔ گھر میں جا کر آرام کے لیے مسند پر تکیہ لگا کر بیٹھتے تھے گھر کے بہت سے کام اپنے ہاتھ سے کر لیتے کہیں بکری کا دودھ نکال لیا کہیں اپنے کپڑے صاف کر لیے اپنا کام اکثر اپنے ہاتھ سے کر لیا کرتے کیسا ہی برے سے برا آدمی آپ کے پاس آتا اس سے بھی مہربانی کے ساتھ ملتے اس کی دلشکنی نہ فرماتے۔ غرض سارے آدمیوں سے زیادہ آپ ہی خوش اخلاق تھے۔

اگر کسی سے کوئی ناپسند بات ہو جاتی تو کبھی اس کے منہ در منہ نہ جتلاتے نہ طبیعت میں سختی تھی اور نہ کبھی سختی کی صورت بناتے جیسے بعضوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی کے ڈرانے دھمکانے کو جھوٹ موٹ غصہ کی صورت بنا کر ویسی ہی باتیں کرنے لگتے ہیں کہ آپ کی عادت چلانے کی تھی جو کوئی آپ کے ساتھ برائی کرتا آپ کبھی اس کے ساتھ برائی نہ کرتے بلکہ معاف اور درگزر فرما دیا کرتے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی غلام کو خدمت گار کو عورت کو بلکہ جانور تک کو بھی نہیں مارا اور شریعت کے حکم سے سزا دینا اور بات ہے اگر آپ پر کوئی زیادتی کرتا تو اس کا بدلہ نہ لیتے ہر وقت ہنس مکھ رہتے اور ناک بھوؤں کو نہ چڑھاتے اور یہ مطلب نہیں کہ بیغم رہتے کیونکہ اوپر آ چکا ہے کہ ہر وقت غم اور سوچ میں رہتے۔ مزاج بہت نرم تھا نہ بات میں سختی نہ برتاؤ میں سختی نہ بیباکی تھی کہ جو چاہا پھٹ سے کہہ دیا نہ کسی کا عیب بیان کرتے نہ کسی چیز کے دینے میں دریغ فرماتے ان خصلتوں کی ہوا بھی نہ لگی تھی جیسے اپنی بڑائی کرنا کسی سے بحثا بحثی لگانا جس بات میں کوئی فائدہ نہ ہو اس میں لگنا نہ کسی کی برائی کرتے نہ کسی کے عیب کی کھود کرید کرتے اور وہی بات منہ سے نکالتے جس میں ثواب ملا کرتا ہے کوئی باہر کا پردیسی آ جاتا اور بول چال میں پوچھنے پاچھنے میں بے تمیزی کرتا آپ اس کی سہار فرماتے کسی کو اپنی تعریف نہ کرنے دیتے۔ اور حدیثوں میں بڑی اچھی اچھی باتیں لکھی ہیں۔ جتنی ہم نے بتلا دی ہیں اگر عمل کرو یہ بھی بہت ہیں۔ اب نیک بیبیوں کے حال سنو۔

آیتوں کا مضمون

فرمایا اللہ تعالی نے جو عورتیں ایسی ہیں کہ اسلام کا کام کرتی ہیں یعنی نماز اور روزے کی پابندی گناہ ثواب کے کاموں کا خیال رکھتی ہیں اور جو ایمان درست رکھتی ہیں یعنی حدیث و قرآن کے خلاف کسی بات میں اپنا دل نہیں جماتیں اور جو عورتیں تابعداری سے رہتی ہیں یعنی شیخی نہیں کرتیں اور جو عورتیں خیرات و زکوٰۃ دیتی ہیں اور جو عورتیں روزہ رکھتی ہیں اور جو عورتیں اپنی عزت و آبرو کو بچاتی ہیں یعنی کسی کے سامنے ہو جانے کا اور کسی کو آواز سنانے کا اور خلاف شرع کپڑے پہننے کا اور بے ضرورت کسی سے ہنسنے بولنے کا اور بھی ہر طرح کی بے شرمی کا پرہیز رکھتی ہیں اور جو عورتیں اللہ کو بہت یاد رکھتی ہیں یعنی دل سے بھی ان کا دھیان رکھتی ہیں اور زبان سے بھی ان کے نام لیتی ہیں ایسی عورتوں کے واسطے اللہ تعالی نے اپنی بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے اور فرمایا اللہ تعالی نے جو نیک بخت عورتیں ہوتی ہیں ان میں یہ باتیں ہوا کرتی ہیں کہ وہ تابعدار ہوتی ہیں اور خاوند گھر نہ بھی ہو جب بھی اپنی آبرو کا بچاؤ رکھتی ہیں اور فرمایا اللہ تعالی نے ایسی بیبیاں اچھی ہیں جو شرع کا کاموں کی پابند ہوں اور ان کے عقیدے ٹھیک ہوں اور وہ تابعداری کرتی ہوں اور جہاں کوئی خلاف شرع بات ہوئی فورا توبہ کر لیتی ہوں اور خدائے تعالی کی عبادت میں لگی رہتی ہیں اور روزہ رکھتی ہوں۔

دوسری فصل کنزالعمال کے ترغیبی مضمون میں

حدیث :ارشاد فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے کیا تم اس بات پر راضی نہیں یعنی راضی ہونا چاہیے کہ جب تم میں کوئی اپنے شوہر سے حاملہ ہوتی ہے اور وہ شوہر اس سے راضی ہو تو اس کو ایسا ثواب ملتا ہے کہ جیسا اللہ کی راہ میں روزہ رکھنے والے اور شب بیداری کرنے والے کو اور جب اس کو درد زہ ہوتا ہے تو آسمان اور زمین کے رہنے والوں کو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت کا جو سامان مخفی رکھا گیا ہے اس کی خبر نہیں پھر جب وہ بچہ جنتی ہے تو اس کے دودھ کا ایک گھونٹ بھی نہیں نکلتا اور اس کی پستان سے ایک دفعہ بھی بچہ نہیں چوستا جس میں اس کو ہر گھونٹ اور ہر چوسنے پر ایک نیکی نہ ملتی ہو اور اگر بچہ کے سبب اس کو رات کو جاگنا پڑے اس کو راہ خدا میں ستر غلاموں کو آزاد کرنے کا اجر ملتا ہے اے سلامت یہ نام ہے حضرت ابراہیم صاحبزادہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی کہلاتی کا وہی اس حدیث کے راوی ہیں آپ ان سے فرماتے ہیں کہ تم کو معلوم ہے کہ میری اس سے کون عورتیں مراد ہیں باوجودیکہ نیک ہیں ناز پروردہ ہیں مگر شوہروں کی اطاعت کرنے والی ہیں اپنے شوہروں کی ناقدری نہیں کرتیں۔ الحسن بن سفیان طس وابن عساکر بن سلامۃ حاضنۃ السید ابراہیم حدیث : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے مگر گھر کو برباد نہ کرے یعنی قدر اجازت و مقدار مناسب سے زیادہ خرچ نہ کرے تو اس عورت کو بھی ثواب ملتا ہے بسبب اس کے خرچ کرنے کے اور اس کے شوہر کو بھی اس کا ثواب ملتا ہے بوجہ اس کے کمانے کے اور تحویلدار کو بھی اس کے برابر ملتا ہے کسی کے سبب کسی کا اجر گھٹتا نہیں۔ عن عائشہ فائدہ۔ پس عورت یہ نہ سمجھے کہ جب کمائی مرد کی ہے تو میں ثواب کی کیا مستحق ہوں گی۔ حدیث: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اے عورتو تمہارا جہاد حج ہے عن عائشہ فائدہ۔

دیکھئے ان کی بڑی رعایت ہے کہ ان کو حج کرنے سے جس میں جہاد کی برابر دشواری بھی نہیں جہاد کا ثواب ملتا ہے جو کہ سب سے زیادہ مشکل عبادت ہے۔ حدیث: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں پر نہ جہاد ہے جب تک علی الکفایہ رہے اور نہ جمعہ اور نہ جنازہ کی ہمراہی (طعن عن ابی قتادہ) فائدہ پھر دیکھئے گھر بیٹھے ان کو کتنا ثواب مل جاتا ہے۔ حدیث: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیبیوں کو ساتھ لے کر حج فرمایا تو ارشاد ہوا کہ بس یہ حج تو کر لیا پھر اس کے بعد بوریوں پر جمی بیٹھی رہنا (حم عن ابی ہریرۃ) فائدہ مطلب یہ کہ بلا ضرورت شدید سفر نہ کرنا۔ حدیث: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی پسند کرتا ہے اس عورت کو جو اپنے شوہر کے ساتھ تو محبت اور لاڈ کرے اور غیر مرد سے اپنی حفاظت کرے۔ (قرعن علی) فائدہ مطلب یہ ہے کہ شوہر سے محبت کرنے اور اس کی منت سماجت کرنے کو خلاف شان نہ سمجھے جیسی مغرور عورتیں ہوتیں ہیں۔ حدیث: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتیں بھی مردوں ہی کے اجزاء ہیں (حم عن عائشہ) فائدہ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت حوا علیہا السلام کا پیدا ہونا مشہور ہے۔ مطلب یہ کہ عورتوں کے احکام بھی مردوں ہی کی طرح ہیں باستثنائے احکام مخصوصہ پس اگر ان کے فضائل وغیرہ جدا بھی نہ ہوتے تب بھی کوئی دلگیری کی بات نہیں جب اعمال پر فضائل کا مردوں سے وعدہ ہے ان ہی اعمال پر ان سے ہے۔ حدیث: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق حق تعالی نے عورتوں کے حصہ میں رشک کا ثواب لکھا ہے اور مردوں پر جہاد لکھا ہے پس جو عورت ایمان اور طلب ثواب کی راہ سے رشک کی بات پر جیسے شوہر نے دوسرا نکاح کر لیا صبر کرے گی اس کو شہید کے برابر ثواب ملتا ہے (طب عن ابی مسعود) فائدہ دیکھئے ایک ذرا سے ضبط پر کتنا بڑا ثواب ملتا ہے جو مزدوروں کو کس دشواری سے ملتا ہے۔

حدیث: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بی بی کے کاروبار کرنے سے بھی تم کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ (فرعن ابن عمر) فائدہ دیکھئے عورتوں کو راحت پہنچانے کا کیسا سامان شریعت نے کیا ہے کہ اس میں ثواب کا وعدہ فرمایا جس کی طمع میں ہر مسلمان اپنی بی بی کو راحت پہنچائے گا۔ حدیث فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب عورتوں سے اچھی وہ عورت ہے کہ جب خاوند اس کی طرف نظر کرے تو وہ اس کو مسرور کر دے اور جب اس کو کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کر دے اور اپنی جان اور مال میں اس کو ناخوش کر کے اس کی کوئی مخالفت نہ کرے حم ن ک عن ابی ہریرۃ حدیث فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رحمت فرمائے پائجامہ پہننے والی عورتوں پر قط فی الافردک فی تاریخہ ہب عن ابی ہریرۃ فائدہ دیکھئے حالانکہ پاجامہ اپنی مصلحت پردہ کے لیے مثل امر طبعی کے ہے پہنا مگر اس میں بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا لے لی یہ کتنی بڑی مہربانی ہے عورتوں کے حال پر۔ حدیث فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکار عورت کی بدکاری ہزار بدکار مردوں کی برابر اور نیک کار عورت کی نیک کاری ستر اولیاء کی عبادت کے برابر ہے ابو الشیخ عن ابن عمر دیکھئے کتنے تھوڑے عمل پر کتنا بڑا ثواب ملا یہ رعایت نہیں عورتوں کی تو کیا ہے۔

اضافات از مشکوۃ

حدیث: ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کے حق میں میری نصیحت بھلائی کرنے کی قبول کرو اس لیے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہے الخ متفق علیہ فائدہ یعنی اس سے راستہ و درستی کامل کی توقع مت رکھو اس کی کج فہمی پر صبر کرو دیکھئے عورتوں کی کس قدر رعایت کا حکم ہے۔ حدیث: ابوہریرہ سے روایت ہے کہ مومن مرد کو مومن عورت سے یعنی بی بی سے بغض نہ رکھنا چاہیے کیونکہ اگر اس کی ایک عادت کو ناپسند رکھے گا تو دوسری کو ضرور پسند کرے گا روایت کیا اس کو مسلم نے ۔ فائدہ یعنی یہ سوچ کر صبر کر لے۔ حدیث: عبداللہ بن زمعہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی بی بی کو غلام کی طرح بیدردی سے نہ مارنا چاہیے اور پھر ختم دن پر جماع کرنے لگے الخ۔ متفق علیہ فائدہ یعنی پھر مروت کیسے گوارہ کرے گی۔ حدیث: حکیم بن معویہ اپنی باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم پر ہماری بی بی کا کیا حق ہے آپ نے فرمایا کہ وہ یہ ہے کہ جب تو کھانا کھائے اس کو بھی کھلا دے اور جب تو کپڑا پہنے اس کو بھی پہنا دے اور اس کے منہ پر نا مارے اور بول چال گھر ہی کے اندر رہ کر چھوڑ دی جائے روایت کیا اس کو احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ نے ۔ فائدہ یعنی اگر اس سے روٹھے تو گھر سے باہر نہ جائے۔ حدیث: ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب مومن ہیں مگر ایمان کا کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم سب میں اچھے وہ لوگ ہیں جو اپنی بیبیوں کے ساتھ اچھے ہوں۔ روایت کیا اس کو ترمذی نے اور اس کو حسن صحیح کہا ہے۔ فائدہ یہ فصل ثانی کی حدیثیں ہیں اور فصل اول میں تیرہ تھیں سب ملا کر چالیس ہو گئیں گویا یہ مجموعہ فصلین فضائل نساء کی ایک چہل حدیث ہے۔

آیتوں کا مضمون

فرمایا اللہ تعالی نے جن بیبیوں میں آثار سے تم کو معلوم ہو کہ یہ کہنا نہیں مانتیں تو اول ان کو نصیحت کرو اور اس سے نہ مانیں تو ان کے پاس سونا بیٹھنا چھوڑ دو اور اس پر بھی نہ مانیں تو ان کو مارو اس کے بعد اگر وہ تابعداری کرنے لگیں تو ان کو تکلیف دینے کے لیے بہانہ مت ڈھونڈ۔ فائدہ اس سے معلوم ہوا کہ خاوند کا کہنا نہ ماننا بہت بری بات ہے اور فرمایا اللہ تعالی نے چلنے میں پاؤں زور سے زمین پر مت رکھو جس میں زیور وغیرہ کی غیر مرد کو خبر ہو جائے۔ فائدہ باجے دار زیور تو پہننا بالکل درست نہیں اور جس میں باجہ نہ ہو ایک دوسرے سے لگ کر بچ جاتا ہو اس میں یہ احتیاط ہے اور سمجھو کہ جب پاؤں میں جو ایک چیز ہے اس کی آواز کی اتنی احتیاط ہے تو خود دعوت کی آواز اور اس کے بدن کھلنے کی تو کتنی تاکید ہو گی۔

حدیثوں کا مضمون

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اے عورتو میں نے تم کو دوزخ میں بہت دیکھا ہے عورتوں نے پوچھا اس کی کیا وجہ آپ نے فرمایا تم مار پھٹکار سب چیزوں پر بہت ڈالا کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری بہت کرتی ہو اور اس کی دی ہوئی چیز کو بہت ناک مارتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک بی بی نے بخار کو برا کہا آپ نے فرمایا کہ بخار کو برا مت کہو اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بی بی نے بخار کو برا کہا آپ نے فرمایا کہ بخار کو برا مت کہو اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر کے رونے والی عورت اگر توبہ نہ کرے گی تو قیامت کے روز اس حالت میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے بدن پر کرتے کی طرح ایک روغن لپیٹا جائے گا جس میں آگ بڑی جلدی لگتی ہے اور کرتے ہی کی طرح تمام بدن میں خارش بھی ہو گئی یعنی اس کو دو تکلیفیں ہوں گی خارش سے تمام بدن نوچ ڈالے گی اور دوزخ کی آگ لگے گی وہ الگ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اے مسلمان عورتو کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کی بھیجی ہوئی چیز کو حقیر اور ہلکا نہ سمجھے چاہے بکری کی کھڑی کیوں نہ ہو۔ فائدہ بعضی عورتوں میں یہ عادت بہت ہوتی ہے کہ دوسرے کے گھر کی آئی ہوئی چیز کو ناک مارا کرتی ہیں طعنے دیا کرتی ہیں اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب ہوا تھا اس نے اس کو پکڑ کر باندھ دیا تھا نہ تو کھانے کو دیا اور نہ اس کو چھوڑا یوں ہی تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ فائدہ اسی طرح جانور پال کر اس کے کھانے پینے کی خبر نہ لینا عذاب کی بات ہے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعضے مرد اور عورت ساٹھ برس تک خدا کی عبادت کرتے ہیں پھر موت کا وقت آتا ہے تو خلاف شرع وصیت کر کے دوزخ کے قابل ہو جاتے ہیں۔

فائدہ جیسے بعضوں کی عادت ہوتی ہے یوں کہہ مرتے ہیں دیکھو میری چیز میرے نواسہ کو دیجیو بھائی کو نہ دیجیو یا فلانی بیٹی کو فلانی چیز دوسری بیٹی سے زیادہ دیجیو یہ سب حرام ہے وصیت اور میراث کے مسئلے کسی عالم سے پوچھ کر اس کے موافق عمل کرے کبھی اس کے خلاف نہ کرے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عورت دوسری عورت سے اس طرح نہ ملے کہ اپنے خاوند کے سامنے اس کا حال اس طرح کہنے لگے جیسے وہ اس کو دیکھ رہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ آپ کی دو بیبیاں بیٹھی تھیں ایک نابینا صحابی آنے لگے آپ نے دونوں کو پردے میں ہو جانے کا حکم دیا دونوں نے تعجب سے عرض کیا کہ وہ تو اندھے ہیں آپ نے فرمایا تم تو اندھی نہیں ہو تم تو ان کو دیکھتی ہی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے خاوند کو دنیا میں کچھ تکلیف دیتی ہے تو بہشت میں جو حور اس خاوند کو ملے گی وہ کہتی ہے کہ خدا تجھے غارت کرے وہ تو تیرے پاس مہمان ہے جلدی ہی تیرے پاس سے ہمارے پاس چلا آئے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ایسی دوزخی عورتوں کو نہیں دیکھا یعنی میرے زمانہ سے پیچھے ایسی عورتیں پیدا ہوں گی کہ کپڑا پہنے ہوں گی اور ننگی ہوں گی یعنی نام کو بدن پر کپڑا ہو گا لیکن کپڑا باریک اس قدر ہو گا کہ تمام بدن نظر آئے گا اور اترا کر بدن کو مٹکا کر چلیں گی اور بالوں کے اندر موباف یا کپڑا دے کر بالوں کو لپیٹ کر اس طرح باندھیں گی جس میں بال بہت سے معلوم ہوں جیسے اونٹ کا کوہان ہوتا ہے ایسی عورتیں بہشت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نصیب نہ ہو گی۔

فائدہ یعنی جب پرہیزگار بیبیاں بہشت میں جانے لگیں گی ان کو ان کے ساتھ جانا نصیب نہ ہو گا پھر چاہے سزا کے بعد ایمان کی برکت سے چلی جائیں اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عورت سونے کا زیور دکھلاوے کو پہنے گی اسی سے اس کو عذاب دیا جائے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تشریف رکھتے تھے ایک آواز سنی جیسے کوئی کسی پر لعنت کر رہا ہو آپ نے پوچھا یہ کیا بات ہے لوگوں نے عرض کیا کہ یہ فلانی عورت ہے کہ اپنی سواری کو اونٹنی پر لعنت کر رہی ہے وہ اونٹنی چلنے میں کمی یا شوخی کرتی ہو گی ا س عورت نے جھلا کر کہہ دیا ہو گا تجھے خدا کی مار جیسا کہ عورتوں کا دستور ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ اس عورت کو اور اس کے اسباب کو اس اونٹنی پر سے اتار دو یہ اونٹنی تو اس عورت کے نزدیک لعنت کے قابل ہے پھر اس کو کام میں کیوں لاتی ہے۔ فائدہ خوب سزا دی تمام شد رسالہ کسوۃ النسوۃ۔

جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ والصلوۃ والسلام کے پیارے اور پاکیزہ شمائل اور آپ کی عادتوں کا بیان

بیہقی نے حضرت براء بن عازب سے روایت کی ہے کہ آپ سب سے زیادہ حسین تھے اور سب سے زیادہ خوش خلق تھے اور نہ بہت لمبے تھے نہ پستہ قد تھے۔ ابن سعد نے اسمعیل بن عیاش سے بطریق صحیح مرسل روایت کیا ہے کہ آپ سب سے زیادہ لوگوں کی ایذا پر صبر فرماتے تھے ترمذی نے ہند بن ابی ہالہ سے ایک بڑی حدیث بسند حسن آپ کے شمائل میں روایت کی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ آپ جب چلنے کے لیے پاؤں اٹھاتے تو قوت سے پاؤں اکھڑتا تھا اور قدم اس طرح رکھتے کہ آگے کو جھک پڑتا اور تواضع کے ساتھ قدم بڑھا کر چلتے چلنے میں گویا کسی بلندی سے پستی میں اتر رہے ہیں جب کسی کروٹ کی طرف کی چیز کو دیکھنا چاہتے تو پورے پھر کر دیکھتے یعنی کن انکھیوں سے دیکھنے کی عادت نہ تھی نگاہ نیچی رکھتے زمین کی طرف آپ کی نظر بہت زیادہ رہتی تھی بہ نسبت آسمان کے اور صحابہ کے پیچھے آپ چلا کرتے تھے عموماً عادت آپ کی کن انکھیوں سے دیکھنے کی تھی مطلب یہ ہے غایت حیا سے پورا سرا ٹھا کر نگاہ بھر کر نہ دیکھتے تھے جو آپ کو ملتا تھا پہلے آپ ہی اس کو سلام کرتے تھے ابوداود نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ آپ کے کلام میں ترتیل ہوتی تھی یعنی آپ ٹھیر ٹھیر کر بات چیت فرماتے تھے تاکہ مخاطب اچھی طرح سمجھ لے لیکن نہ اس قدر ٹھیر ٹھیر کر جس سے مخاطب گھبرا جائے اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ ایک بات کو تین بار فرمایا کرتے تھے غرض یہ ہے کہ آپ کلام کو نہایت عمدہ طریق سے ادا فرماتے تھے جیسا موقع ہوتا تھا اس کا لحاظ فرماتے تھے بعضے مخاطب خوش فہم اور جلدی سمجھنے والے ہوتے ہیں وہاں پر ایک بات کو چند بار لوٹانا نا مناسب ہے اور بعضے مخاطب دیر میں بات کو سمجھتے ہیں ان کو کئی بار سنانا مناسب ہے اور جہاں ہر قسم کے لوگ ہوں وہاں تین بار بات کو لوٹانا مناسب ہے اس لیے کہ بعضے اعلی درجہ کے فہیم ہوتے ہیں اور اول ہی دفعہ سمجھ لیں گے اور بعض اوسط درجہ کی سمجھ رکھتے ہیں وہ دو بار میں سمجھ لیں۔

گے اور بعضے غبی ہوتے ہیں وہ تین بار میں بخوبی سمجھ لیں گے اور اگر کہیں اس مقدار سے بھی زیادہ حاجت ہو تو خوش اخلاقی کی بات یہ ہے کہ اس سے بھی دریغ نہ کرے خوب سمجھ لو اصل تو یہ ہے کہ خوش اخلاقی اور قواعد کی پابندی کا اعلی مرتبہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھا نہ کسی کو پہلے میسر ہوا اور نہ آئندہ میسر ہو گا اور باوجود قواعد انتظامیہ کی پابندی کے خوش اخلاقی کا برتاؤ بہت بڑا کمال ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارک تھی کہ آپ اس کام میں جس کو خود انجام دیتے تھے۔ خوب اچھی طرح قواعد کی پابندی فرماتے تھے اور دوسروں سے جو ان امور میں غلطی اور کوتاہی ہوتی تھی تو زجر نہ فرماتے ہاں ان کی اصلاح کی غرض سے باقاعدہ اور نرمی سے نصیحت فرما دیتے تھے یہی طریقہ متبعین سنت کو اختیار کرنا چاہیے کہ قواعد انتظامیہ کی پابندی اور خوش اخلاقی کی عادت اختیار کریں اور دوسروں کو بھی رغبت دلا دیں مگر محض اپنے نفس و غضب کی شفاء کے لیے دوسروں کی کوتاہی کی گرفت نہ کریں ہاں ان کی اصلاح کی غرض سے اگر ضرورت ہو تو سختی بھی محمود ہے خوب سمجھ لو

ابوداود نے حضرت عائشہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام جدا جدا ہوتا تھا جو شخص ا سکو سنتا سمجھ لیتا بیہقی نے حضرت عائشہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بری عادتوں سے زیادہ جھوٹ ناگوار ہوتا تھا بیہقی اور ابوداؤد اور نسائی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ آپ کو سب کپڑوں میں بہت محبوب یمنی چادر تھی جس میں کئی رنگ ہوتے ہیں اور عزیزی نے ابن رسلان سے اس کپڑے کے پسندیدہ ہونے میں یہ حکمت نقل کی ہے کہ وہ بہت زینت کا کپڑا نہیں ہے یعنی سادہ ہوتا ہے اور وہ میلا بھی کم ہوتا ہے۔ سبحان اللہ کیا شان مبارک تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ اپنی ذات مقدسہ کو دنیا میں مسافر سمجھتے تھے نہ دنیا کی رونق سے تعلق تھا نہ اس کر مزخرفات کی طرف توجہ تھی مسلمانو تم کو بھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ بقدر ضرورت ایسے کپڑے پہن لیا کرو جس سے ستر ڈھک جائے اور جو سادے ہوں اور میلے کم ہوں تاکہ ان کی زینت خدائے تعالی کی طرف توجہ رکھنے سے مانع ہو اور جلدی صاف کرنے کی حاجت نہ ہو کہ اس میں وقت زیادہ صرف ہوتا ہے اور بعضی روایتوں میں سفید کپڑوں کی بھی تعریف آتی ہے بخاری اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عبادت زادہ محبوب تھی جو ہمیشہ ادا ہو سکے یعنی نوافل وغیرہ اس قدر پڑھنے چاہئیں جن کو نباہ سکے یہ نہیں کہ ایک دن تو سب کچھ کر لیا اور دوسرے دن کچھ بھی نہیں تھوڑی عبادت جو ہمیشہ ہو سکے وہ اس سے بہتر ہے کہ بہت عبادت کی جائے مگر کبھی ہو اور کبھی ناغہ ہو جائے جیسا کہ بسند صحیح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہوا ہے (السنی) وغیرہ نے مرسلا بسند حسن لغیرہ مجاہد سے روایت کی ہے کہ آپ کو بکری کے گوشت میں اس کا اگلا حصہ زیادہ پسند تھا۔

حاکم وغیرہ نے بسند حسن لغیرہ حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ پینے کی چیزوں میں آپ کو ٹھنڈا اور میٹھا پانی زیادہ محبوب تھا ابو نعیم نے حضرت ابن عباس سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ آپ کو پینے کی چیزوں میں دودھ بہت زیادہ پسند تھا ابن السنی اور ابو نعیم نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ آپ کو شہد کا شربت پینے کی چیزوں میں بہت زیادہ محبوب تھا۔ ابو نعیم نے حضرت ابن عباس سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام سالن سے زیادہ سرکہ محبوب تھا مسلم نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ آپ کو پسینہ زیادہ آتا تھا اور عزیزی میں ہے کہ حضرت ام سلیم جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ کو اکٹھا کر لیتی تھیں اور دوسری خوشبو میں ملا لیتی تھیں کیونکہ وہ خوشبو دار ہوتا تھا اور یہ روایت مسلم میں ہے حضرت جابر سے مسلم نے روایت کی ہے کہ آپ کی ڈاڑھی مبارک کے بال زیادہ تھے۔ ابن عدی وغیرہ نے حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ میوہ جات میں آپ کو خرمائے تر اور خرپزہ زیادہ محبوب تھا۔

ابو نعیم نے حضرت ابن عباس سے روایت کی کہ آپ کو شانہ کا گوشت اور جگہ کے گوشت سے زیادہ محبوب تھا امام احمد اور نسائی نے بسند صحیح حضرت ابو واقد سے روایت کی ہے کہ جب آپ امام ہوتے تھے تو نماز بہت مختصر پڑھتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تھے تو بہت طویل پڑھتے تھے آپ مقتدیوں کے ساتھ اس لیے مختصر نماز پڑھتے تھے کہ ان کو تکلیف نہ ہو اور تنہا اس لیے تطویل فرماتے تھے کہ نماز آپ کی آنکھ کی ٹھنڈک تھی اس میں آپ کو چین ہوتا تھا اور اس سے بڑھ کر کیا چین ہو گا کہ محبوب حقیقی کے سامنے عاجزانہ کھڑا ہو کر اس سے التجا کرے اور اس اختصار اور تطویل کی مقدار اور حدیثوں میں بہ تفصیل وارد ہوئی ہے امام احمد اور ابوداود نے بسند حسن حضرت عبداللہ بن بسر سے روایت کی ہے کہ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے دروازے پر تشریف لے جاتے تو دروازے کے سامنے نہ کھڑے ہوتے بلکہ اس کے داہنے ستون کے سامنے کھڑے ہوتے یا بائیں ستون کے سامنے کھڑے ہوتے اور فرماتے السلام علیکم یہ طریقہ سنت ہے کہ کہیں جائے تو دروازے کے مقابل نہ کھڑا ہو داہنے یا بائیں جانب کھڑا ہو اس لیے کہ اس طرح کھڑے ہونے میں کسی کی بے پردگی کا اندیشہ نہیں ہے ہاں اگر دروازہ بند ہو تو دروازے کے سامنے کھڑا ہونا بھی مضائقہ نہیں اور گھر والے کو اپنے آنے کی اطلاع اس طرح سے کہے کہ السلام علیکم کہے اگر وہ پہلی بار نہ سنے تو دوبارہ پھر یہی کہے خوب سمجھ لو۔

ابن سعد نے طبقات میں حضرت عکرمہ سے مرسلا روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ جب آپ کے پاس کوئی شخص آتا اور آپ اس کے چہرے پر بحالی اور خوشی دیکھتے تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے غرض یہ تھی کہ اس کو آپ کے ساتھ انسیت حاصل ہو ابن مندہ نے عتبہ سے روایت کی ہے کہ جب آنحضرت کے پاس کوئی شخص آتا تھا اور اس کا نام ایسا ہوتا تھا جو آپ کو محبوب نہ ہوتا تو اس نام کو بدل دیتے تھے۔ امام احمد وغیرہ نے روایت کی ہے کہ جب آپ کے پاس کوئی اپنے مال کی زکوٰۃ لاتا تھا تاکہ آپ اس کو موقع پر صرف کر دیں تو آپ فرماتے تھے اے اللہ فلاں شخص پر رحمت فرما ہم کو بھی یہ طریقہ برتنا چاہیے کہ جب کوئی ہمارے ذریعہ سے صدقات تقسیم کرائے یا کسی چندہ میں روپیہ دلائے تو ہم اس کو یہی دعا دیں حاکم نے حضرت عائشہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جب آنحضرت کو کوئی خوشی پیش آتی تھی تو فرماتے تھے الحمد للہ الذی بنعمۃ تتم الصالحات اور جب ناگواری پیش آتی تو فرماتے الحمدللہ علی کل حال۔ امام احمد اور ابن ماجہ نے حضرت ابن مسعود سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جب لونڈی غلام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں جہاد میں آتے تھے تو آپ سب گھر والوں کو بانٹ دیتے تاکہ ان گھر والوں میں باہم تفریق نہ ہو جائے یعنی اگر کسی کو ملے اور کسی کو نہ ملے تو اندیشہ ہے کہ ان لوگوں میں باہم رنجش پیدا ہو جائے یہی طریق ہم لوگوں کو اختیار کرنا چاہیے کہ جب کوئی چیز تقسیم کریں تو ہر موقع پر اس کا خیال رکھیں کہ ایسا طریق اختیار نہ کریں جس سے باہم لوگوں میں رنجش پیدا ہو اور کوئی مفسدہ پیدا ہو خواہ برادری میں تقسیم کی جائے یا اہل و عیال میں یا شاگردوں و مریدوں میں۔

خطیب نے حضرت عائشہ سے بسند ضعیف روایت کی ہے کہ جب آنحضرت کے پاس کھانا لایا جاتا تھا اور دوسرے لوگ بھی آپ کے ساتھ کھاتے تو آپ اپنے آگے سے کھاتے تھے اور جب آپ کے پاس چھوارے لائے جاتے تو ہر طرف سے تناول فرماتے تھے۔ ابن السنی وغیرہ نے بسند صحیح حضرت انس سے روایت کی ہے کہ جب آپ کے پاس پھل لایا جاتا تو ایسے وقت کہ جب وہ اول ہی کھانے کے قابل ہوتا ہے تو آپ اس کو دونوں آنکھوں سے لگاتے پھر دونوں ہونٹوں سے لگاتے اور فرماتے اللہم کما اریتنا اولہ فارنا اخرہ پھر بچوں کو دے دیتے تھے جو آپ کے پاس اس وقت بیٹھے ہوتے تھے ابن عساکر نے حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر اور حضرت قاسم بن محمد سے بطریق مرسل صحیح روایت کی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ برتن لایا جاتا تھا جس میں خوشبو دار تیل وغیرہ ہوتا تو آپ اس تیل سے انگلیاں تر فرما لیتے پھر اس کو جہاں لگانا ہوتا ان انگلیوں سے استعمال فرماتے تھے۔ طبرانی نے حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت کی ہے کہ آپ جب سونے کو لیٹتے تھے تو اپنے داہنے ہاتھ کو داہنے رخسارہ کے نیچے رکھ لیتے تھے۔

شیرازی نے القاب میں حضرت عائشہ سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ آپ جب سر میں تیل لگانے کا قصد فرماتے تھے تو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی میں اس کو رکھتے پھر بھوؤں سے لگانا شروع کرتے یعنی بھوؤں کو اول لگاتے پھر دونوں آنکھوں ر لگاتے پھر سر پر لگاتے اور عزیزی میں ہے کہ منادی نے فرمایا ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ڈاڑھی میں تیل لگانے کے قصد فرماتے تھے تو پہلے دونوں آنکھوں پر لگاتے تھے پھر ڈاڑھی میں لگاتے تھے احقر کہتا ہے کہ یہ روایت میری نظر سے نہیں گزری ابوداود اور ترمذی اور طیالسی نے حضرت انس اور حضرت جابر سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ آپ جب پیشاب یا پائخانہ کے لیے بیٹھنے کا قصد فرماتے تھے تو اپنے کپڑے کو نہ اٹھاتے تھے جب تک کہ زمین کی اس جگہ سے جہاں فراغت فرماتے سے قریب نہ ہو جاتے تاکہ بغیر ضرورت ستر نہ کھلے کیونکہ ستر کھولنے کی ضرورت تو اسی وقت ہوتی ہے جب قضائے حاجت کے لیے آدمی بیٹھ جائے سو پہلے سے ستر کھولنے کی کیا حاجت ہے اس لیے آپ عین ضرورت کے وقت ستر کھولتے تھے۔ ابوداود و نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جب آپ جنب ہونے کی حالت میں بغیر غسل کیے سونے کا قصد فرماتے تھے تو وضو فرما لیتے تھے پھر سوتے تھے اور جب ایسی حالت مذکورہ میں کھانے یا پینے کا قصد فرماتے تھے تو فقط دونوں ہاتھ گٹوں تک دھو لیتے تھے پھر کھاتے پیتے تھے حیض اور نفاس والی عورت جب پاک ہو تو اس کے لیے بھی یہی سنت ہے۔

حاکم و ابوداود نے بسند صحیح حضرت عبداللہ بن یزید سے روایت کی ہے کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم لشکر کو رخصت فرماتے تھے تو یہ دعا پڑھتے استودع اللہ دینکم امانتکم وخواتیم اعمالکم مناسب ہے کہ جب کسی کو رخصت کرو تو یہ دعا پڑھ لیا کرو یہ اس شخص کی دین و دنیا کی فلاح کے لیے دعا ہے جس کو رخصت کیا جاتا ہے خطیب نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے بسند ضعیف روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسواک کر چکتے تھے تو جو بڑا شخص ہوتا اس کو عنایت فرما دیتے تھے اور جب کچھ پانی وغیرہ پیتے تو بچا ہوا اس شخص کو عنایت فرماتے جو آپ کی داہنی جانب ہوتا یہ دونوں چیزیں آپ بوجہ سخاوت اور لوگوں کو برکت پہنچانے کے عطا فرماتے تھے

ابن السنی اور طبرانی نے بسند حسن حضرت عثمان بن ابی العاص سے روایت کی ہے کہ جب باد شمالی چلتی تھی تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے۔ اللہم انی اعوذبک من شر ما ارسلت فیہا۔ وجہ اس دعا کے پڑھنے کی یہ تھی کہ ایسی ہوا کبھی کسی قوم پر بطریق عذاب بھیجی جاتی ہے کذا فی العزیزی تو آپ دعا فرماتے تھے کہ یا اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس چیز کے شر سے جس کو آپ نے اس ہوا میں بھیجا ہے اور یہی ترجمہ ہے اس دعا کا امام احمد اور حاکم نے بسند صحیح حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل بیت میں سے کسی کی نسبت یہ اطلاع ہوتی کہ اس نے ایک دفعہ بھر جھوٹ بولا ہے تو آپ برابر اس سے رنجیدہ اور ناراض رہتے یہاں تک کہ وہ شخص توبہ کر لیتا اور جب توبہ کر لیتا اور جب توبہ کر لیتا تو آپ بدستور اس سے راضی ہو جاتے وجہ یہ تھی کہ جھوٹ چونکہ اسلام میں ایک بہت بڑا گناہ ہے اور گنہگار سے بغض رکھنا لازم ہے اس لیے آپ ایسے شخص سے اعراض فرماتے تھے اور سب گنہگاروں سے آپ کا یہی برتاؤ تھا۔ شیرازی نے القاب میں بسند حسن لغیرہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غمگین ہوتے تھے تو ڈاڑھی مبارک ہاتھ میں لے لیتے تھے اور اس کو دیکھتے تھے۔ اور ابن السنی اور نعیم نے حضرت عائشہ سے اور ابونعیم نے نیز حضرت ابوہریرہ سے بھی بسند حسن یہ مضمون نقل کیا ہے کہ آپ جب غمگین ہوتے تھے تو بکثرت ڈاڑھی مبارک کو مس فرماتے تھے۔ امام احمد نے بسند صحیح حضرت عقبہ بن عامر سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سرمہ لگاتے تھے تو بعدد طاق سلائی آنکھوں میں پھیرتے تھے دوسرے حدیث میں جس کو ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے یہ مضمون ہے کہ ہر آنکھ میں تین تین سلائی سرمہ لگاتے تھے۔

مسلم اور امام احمد وغیرہ نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ جب آپ کھانا کھاتے تھے تو اپنی تین انگلیوں کو جن سے کہ آپ کھایا کرتے تھے کما فی روایۃ الحاکم چاٹ لیا کرتے تھے تاکہ حق تعالی کی نعمت یعنی رزق ضائع نہ ہو۔ ترمذی نے حضرت ابویرہرہ سے روایت کی ہے کہ جب آپ کو کوئی دشواری پیش آتی تھی تو سر مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور سبحان اللہ العظیم پڑھتے تھے۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ نے بسند صحیح حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے میں کسی کو کسی کام کے لیے بھیجتے تھے تو فرما دیتے تھے کہ خوشخبری سناؤ لوگوں کو یعنی ان سے خوش کن باتیں کرو دینی اور دنیاوی امور میں اور ان کو نفرت نہ دلاؤ تاکہ وہ تم سے نفرت نہ کریں مگر حد شرعی کو ہر جگہ ملحوظ رکھنا چاہیے اییر بشارتیں اور خوش کن باتیں نہ کرے جو دین کے خلاف ہوں اور آسانی کرو لوگوں پر سختی نہ کرو۔ ابو داؤد اور ترمذی نے حضرت صخر بن داعہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکر کو روانہ کرنے کا قصد فرماتے تھے تو اول روز میں اس کو روانہ فرماتے تھے کیونکہ وہ برکت کا وقت ہے حاجت روائی کی ایسے وقت جانے سے زیادہ امید ہے۔

ابو داؤد نے حضرت عائشہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ جب آپ کسی شخص کو کوئی بری بات معلوم ہوتی تھی تو آپ نصیحت کے وقت یہ نہیں فرماتے تھے کہ فلاں شخص کا کیا حال ہے کہ وہ ایسا کام کرتا ہے یا ایسی بات کہتا ہے لیکن یہ فرماتے تھے لوگوں کا کیا حال ہے کہ ایسی ایسی باتیں یعنی بری باتیں کہتے ہیں اور ایسے ایسےیعنی برے کام کرتے ہیں سبحان اللہ کیا حسن اخلاق تھا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور کیا دانائی تھی کہ نصیحت بھی اس طرح فرماتے تھے جس سے مقصود بھی حاصل ہو جائے اور وہ مجرم رسوا بھی نہ ہو اور اس کو ندامت بھی نہ ہو بلکہ نصیحت کی قدر کرے اور اس پر عمل کرے۔ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کو کھانا کھا لیتے تھے تو شام کو نہ کھاتے تھے اور جب شام کو کھا لیتے تھے تو صبح کو نہ کھاتے تھے۔ فائدہ مقصود یہ ہے کہ آپ دن میں ایک وقت کھانا کھاتے تھے کبھی صبح کو کبھی شام کو ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرماتے تھے تو دو رکعت نماز نفل جس کا نام لوگوں نے تحیۃ الوضو رکھ لیا ہے پڑھ لیتے تھے جبکہ وقت مکروہ نہ ہوتا پھر نماز فرض پڑھنے مسجد میں تشریف لے جاتے تھے

خطیب اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس نے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب جاڑے کا موسم آتا تو آپ جمعہ کی رات کو مکان کے اندر سونا شروع فرماتے تھے اور جب گرمی کا موسم آتا تو جمعہ کی رات کو باہر سونا شروع فرماتے اور جب نیا کپڑا پہنتے تھے اللہ تعالی کی حمد فرماتے تھے یعنی الحمد للہ یا مثل اس کے کوئی اور لفظ شکریہ میں فرماتے اور دو رکعت نماز نفل شکریہ میں پڑھتے اور پرانا کپڑا کسی محتاج کو عطا فرما دیتے بیہقی اور خطیب نے بسند حسن حضرت حسن بن محمد بن علی سے مرسلا روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب مال آتا تھا سو اگر صبح کے وقت آتا تھا تو دوپہر تک نہ رکھتے تھے اور اگر شام کے وقت آتا تو رات تک نہ رکھتے تھے۔ فائدہ مقصود یہ ہے کہ آپ دین میں ایک وقت کھانا کھاتے تھے کبھی صبح کو شام کو ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم جب وضو فرماتے تھے تو دو رکعت نماز نفل جس کا نام لوگوں نے تحیۃ الوضو رکھ لیا ہے پڑھ لیتے تھے جبکہ وقت مکروہ نہ ہوتا پھر نماز فرض پڑھنے مسجد میں تشریف لے جاتے تھے خطیب اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب جاڑے کا موسم تا تو آپ جمعہ کی رات کو مکان کے اندر سونا شروع فرماتے تھے اور جب گرمی کا موسم تا تو جمعہ کی رات کو باہر سونا شروع فرماتے اور جب نیا کپڑا پہنتے تھے اللہ تعالی کی حمد فرماتے تھی۔

یعنی الحمد للہ یا مثل اس کے کوئی اور لفظ شکریہ میں فرماتے اور دو رکعت نماز نفل شکریہ میں پڑھتے اور پرانا کپڑا کسی محتاج کو عطا فرما دیتے بیہقی اور خطیب نے بسند حسن حضرت حسن بن محمد بن علی سے مرسلا روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پاس جب مال آتا تھا سو اگر صبح کے وقت آتا تھا تو دوپہر نہ رکھتے تھے اور اگر شام کے وقت آتا تو رات تک نہ رکھتے تھے۔ فائدہ یعنی فورا خرچ فرما دیتے تھے۔ محدث بغوی نے حضرت والد مرہ سے بسند ضعیف روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب زیادہ ہنسی آتی تھی تو منہ پر ہاتھ رکھ لیتے تھے۔ فائدہ اور ایسا اتفاق کبھی ہو جاتا تھا کہ آپ کو زیادہ ہنسی آئے ورنہ آپ تو صرف مسکرایا کرتے تھے کماورد بسند صحیح ابن السنی نے حضرت ابو امامہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مجلس میں بیٹھتے تھے اور بات چیت فرماتے تھے اور پھر وہاں سے اٹھنے کا قصد فرماتے تھے تو استغفار پڑھتے تھے دس سے لے کر پندہ بار تک فائدہ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ وہ استغفار یہ تھی استغفراللہ العظمس الذی لا الہ الا ہوالحی القیوم واتوب الیہ کافی العززی لکم لم اقف علی سندہ۔ ابوداود نے حضرت عبداللہ بن سلام سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیٹھتے تھے اور باتیں کرتے تھے تو کثرت سے آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے تھے۔ امام احمد اور ابو داود نے حضرت حذیفہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی دشواری پیش آتی تھی تو نماز نفل پڑھتے تھے اس عمل سے ظاہری و باطنی دنیوی و اخروی نفع ہوتا ہے اور پریشانی دور ہوتی ہے۔ ابن السنی نے حضرت سعید بن حکیم سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز عمدہ معلوم ہوتی تھی اور اس چیز کو اپنی نظر لگ جانے کا اندیشہ فرماتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔

اللہم بارک فیہ ولا تضرہ فائدہ آپ کی نظر سے بجز بھلائی کسی کو برائی نہیں پہنچ سکتی تھی مگر باوجود اس کے آپ اس عمل کو امت کی تعلیم کے لیے فرماتے تھے تاکہ امت کے لوگ ایسا کیا کریں کذا فی العزیزی ابن سعد نے مجاہد سے بطریق حسن مرسل روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی عورت کو اپنے نکاح کا پیغام دیتے تھے اور وہ پیغام منظور نہ ہوتا تو دوبارہ اس کا ذکر نہ فرماتے تھے یعنی اصرار نہ کرتے اگر پیغام منظور ہو جاتا نکاح فرما لیتے ورنہ خاموش رہتے اور اصرار کر کے ذلت اختیار نہ فرماتے تھے اور کسی پر دباؤ نہ ڈالتے تھے اور آپ نے ایک عورت کو پیغام نکاح دیا اس نے انکار کیا پھر خود اس عورت ہی نے آپ سے نکاح کرنا چاہا آپ نے فرمایا کہ ہم نے دوسری عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ اب ہم کو حاجت نہیں رہی ابن سعد اور ابن عساکر نے حضرت عائشہ سے بسند حسن لغیرہ روایت کی ہے۔ کہ جب آپ ازواج مطہرات سے خلوت فرماتے تھے تو بہت نرمی اور خوب خاطر داری اور بہت اچھی طرح ہنسنے بولنے سے پیش آتے تھے۔ ابن سعد نے حبیب بن صالح سے مرسلا روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پائخانہ میں تشریف لے جاتے تھے تو جوتہ پہن کر جاتے تھے اور سر کو ڈھک لیتے تھے۔ بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت فرماتے تھے۔ تو اس سے آپ یہ کہتے تھے لاباس طہور انشاء اللہ تعالی طبرانی نے بسند حسن ابوایوب انصاری  سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تھے تو پہلے اپنے واسطے دعا فرماتے تھے۔ پھر اوروں کے لیے دعا کرتے تھے

نسائی نے بسند حسن حضرت ثوبان سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی خوف پیش آتا تھا تو یہ دعا پڑھتے تھے اللہ اللہ ربی لا شریک لہ۔ ابن مندہ نے حضرت سہیل سے رویت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بات یا کسی کام سے راضی ہوتے تھے تو سکوت فرماتے تھے۔ ابو نعیم نے حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ جب ازواج مطہرات میں سے کسی کی آنکھ دکھتی تو آپ ان سے ہم بستری چھوڑ دیتے تھے آنکھ کے آرام ہونے تک ابن المبارک و ابن سعد نے مرسلا روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی جنازہ پر تشریف لے جاتے تھے تو بہت خاموشی فرماتے تھے اور اپنے دل میں موت کے متعلق گفتگو فرماتے تھے کیونکہ جنازہ عبرت کا مقام ہے اس کو دیکھ کر اپنی موت کو یاد کرنا چاہیے اور اس بے کسی کا خیال کرنا چاہیے جو بعد موت پیش آئے گی اور عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ حاکم اور ابو داود اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب چھینکتے تھے تو اپنا ہاتھ یا کپڑا منہ پر رکھ لیتے تھے اور آواز کو پست فرما لیتے تھے۔ مسلم اور ابوداود نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نیک کام شروع فرماتے تھے تو پھر اس کو ہمیشہ کیا کرتے تھے۔ ابن ابی الدنیا نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آتا تھا اس حال میں کہ آپ کھڑے ہوتے تھے تو آپ بیٹھ جاتے تھے۔

اور جب ایسے حال میں غصہ آتا تھا کہ آپ بیٹھے ہوتے تھے تو آپ لیٹ جاتے تھے حالت بدل دینا علاج ہے غصہ فرو ہو جانے کا یعنی غصہ جاتے رہنے کا ابوداود نے حضرت عثمان سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مردہ کے دفن سے فارغ ہوتے تو قبر پر کچھ دیر ٹھیرتے تھے اور آپ کے ہمراہی بھی ٹھیر جاتے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ اپنے مردہ بھائی کے لیے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اس لیے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جاتا ہے یعنی منکر و نکیر کے سوال کا وقت ہے اس لیے اس کے جواب میں ثابت قدم رہنے کی اور جواب باقاعدہ دینے کی دعا کرو تاکہ مردے کو پریشانی نہ ہو ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کرتہ پہنتے تھے تو داہنی طرف سے سے شروع فرماتے تھے۔

یعنی اول داہنا ہاتھ اس میں داخل فرماتے تھے کذا فی العزیزی ابن سعد نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارک تھی کہ آپ کے صحابہ میں سے کوئی آپ سے ملتا اور وہ ٹھیر جاتا آپ کے ساتھ تو آپ بھی ٹھیر جاتے اور جب تک وہ شخص چلا نہ جاتا آپ برابر ٹھیرے رہتے اور جب آپ کے صحابہ میں سے کوئی آپ سے ملاقات کرتا اور آپ بھی ٹھیر جاتے اور جب تک وہ شخص چلا نہ جاتا آپ برابر ٹھیرے رہتے اور جب آپ کے صحابہ میں سے کوئی آپ سے ملاقات کرتا اور آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تو آپ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیتے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں سے نہ نکالتے تھے جب تک کہ وہ خود نہ چھوڑ دیتا اور ابن المبارک کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ اپنا چہرہ اس کے سامنے سے نہ پھیرتے تھے جب تک کہ وہ اپنا چہرہ آپ کے سامنے سے نہ پھیر لیتاتھا اور آپ جب صحابہ میں سے کسی سے ملاقات فرماتے تھے اور وہ صحابی آپ کے کان کے قریب ہونا چاہتے سرگوشی کے لیے تو آپ ان کے قریب اپنا کان کر دیتے اور اپنے کان کو نہ ہٹاتے جب تک کہ وہ شخص فارغ ہو کر خود نہ ہٹ جاتے نسائی نے حضرت حذیفہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے صحابہ میں سے کوئی ملتا تھا آپ مصافحہ فرماتے تھے اور ان کے لیے دعا فرماتے تھے۔

طبرانی نے حضرت جندب سے روایت کی ہے کہ جب آپ صحابہ سے ملتے تو مصافحہ نہیں فرماتے تھے یہاں تک کہ سلام کر لیتے یعنی پہلے سلام کرتے پھر مصافحہ فرماتے تھے ابن السنی نے روایت کی ہے کہ ایک انصاری  کی کنیزہ سے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو پکارنا چاہتے تھے اور اس کا نام یاد نہ آتا تھا تو ابن عبداللہ کہہ کر پکارتے تھے یعنی اے خدا کے بندہ کے بیٹے حاکم نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے تو ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے ابوداود نے بعض آل ام سلمہ سے بسند حسن روایت کی ہے کہ آپ کا بچھونا کفن کی مثل ہوتا تھا یعنی جیسے کپڑے کا کفن دیا جاتا ہے اسی کی قسم سے بچھونا بھی تھا قیمتی اور تکلف کا نہ تھا اور آپ کی مسجد آپ کے سرہانے تھی یعنی جب آپ سوتے تھے تو آپ کا سر مسجد کی جانب ہوتا تھا کذا فی العزیزی اور دوسری حدیث میں جس کو ترمذی نے بسند حسن حضرت حفصہ سے روایت کیا ہے یہ وارد ہوا ہے کہ آپ کا بچھونا ٹاٹ کا تھا۔ حاکم نے بسند صحیح حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتہ ٹخنوں سے اوپر ہوتا تھا یعنی نصف پنڈلیوں تک جیساکہ دوسری روایت میں آیا ہے کذا فی العزیزی بغیر ذکر سند الروایۃ۔ اور آپ کے کرتہ کی آستین انگلیوں کے برابر ہوتی تھیں اور دوسری حدیث میں جس کو ابوداود اور ترمذی نے بسند حسن روایت کیا ہے آستین کی لمبائی ہاتھوں کے گٹوں تک وارد ہوئی ہے غرض دونوں طرح آپ کا پہننا ثابت ہو گیا۔ پس آپ کا کرتہ کبھی گٹوں تک ہوتا تھا اور کبھی انگلیوں کی برابر۔

امام احمد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے بسند حسن حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکیہ چمڑے کا تھا جس میں خرما کے درخت کی چھال بھری تھی طبرانی نے نعمان بن بشیر سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت معمولی درجہ کے چھوہارے بھی اس قدر میسر نہ آتے تھے جس سے آپ شکم سیری فرما لیتے روئے زمین کے خزانے آپ کے پیروں میں آ لگے تھے مگر زہد اختیار کیا تھا اور لذت دنیا کو حقیر اور ذلیل سمجھ کر آپ نے ایسے فقر کی حالت اختیار کی تھی اور جو آمدنی ہوتی تھی اس کو کثرت سے آپ خیرات کرتے تھے اور چھوہارے اہل عرب کی معمولی غذا ہیں کیونکہ وہاں بہ کثرت پیدا ہوتے ہیں ترمذی نے بسند صحیح حضرت انس سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے لیے کل آئندہ کے واسطے کچھ جمع نہیں رکھتے تھے طبرانی نے حضرت ابن عباس سے بسند حسن روایت کی ہے کہ جب آپ چلتے تھے تو لوگوں کو آپ کے آگے سے نہ ہٹایا جاتا تھا اور نہ مارا جاتا تھا جیسا کہ متکبرین کی عادت ہوتی ہے کہ خادم سٹرک پر سے لوگوں کو ہٹاتا ہے جھڑکتا ہے تاکہ ان کے لیے سڑک خالی ہو جائے۔ ابن سعد نے بسند حسن حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ آپ تین دن سے کم میں قرآن شریف ختم نہیں کرتے تھے۔ ابن سعد نے محمد بن الحنفیہ سے مرسلا روایت کی ہے کہ آپ کی یہ عادت تھی کہ آپ کسی کام کے کرنے کو جو شرع میں جائز ہوتا تھا منع نہیں فرماتے تھے پس جب آپ سے کوئی سوال کیا جاتا اور آپ اس سوال کے پورا کرنے کا قصد کرتے تو فرماتے ہاں اور اگر ارادہ اس کے پورا کرنے کا کسی مجبوری سے نہ ہوتا تھا تو خاموش رہتے تھے۔

٭٭٭

تشکر: اردو محفل کے رکن اسد، جنہوں نے متن کی فائل فرام کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید