FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اردو غزل۔ نئی تشکیل

 

حصہ اول

 

                طارق ہاشمی

 

 

 

 

 

روز یاں ریختہ کی اُٹھتی ہے دیوار نئی

 

 

 

صنفِ غزل کے پہلے شاعر

حضرت حکیم سنائی غزنویؒ

کے نام

 

 

 

 

ساری عمر کے اکلِ حلال سے شاعر کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ آخر یہ معتوبِ زمانہ ’’اکلِ حلال‘‘ بلا کیا ہے ؟ اور شعر و ادب میں اس کا حوالہ کیوں ؟ عرض کرتا ہوں۔ اس کے معنی بہت معمولی ہیں، اور ادب میں یوں ہوں گے۔ اپنا لکھنا، اپنا سوچنا، گھڑے گھڑائے استعاروں اور تشبیہوں پر قناعت نہ کرنا، چبائے ہوئے نوالوں کو ہضم نہ کرنا، ایک الگ نظامِ ہاضمہ بنا نا، تمام عُمر ایک ہی صبح، ایک ہی مقتل، ایک ہی قاتل پر ضائع نہ کرنا، اور اگر کسی نے عمر ضائع کر دی تو اس کا تتبّع نہ کرنا۔ پُرانے لفظوں کو نئے زاویے سے قطع کرنا، علم حاصل کرنے کے لیے ’’چین‘‘ تک پہنچنے کی تمنّا دل میں رکھنا۔ کم از کم جہالت پر ناز نہ کرنا۔ اپنی ادبی ترکیبِ نحوی ایجاد کرنا، وغیرہ۔ مختصر یہ کہ فنّی جمالیات چیزے دیگر ہے۔ اس ’’چیزے دیگر ‘‘پر نظر رکھنا اور جھَک نہ مارنا۔

(ساقی فاروقی)

 

 

 

 

 

 

تمہید

 

غزل کی تعریف، تحسین اور تردید میں اب تک جو کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے، میرے نزدیک قابلِ قدر ہے لیکن ایک تخلیق کار کی حیثیت سے میسرو مو جود کو ناکافی پا کر غیر مطمئن رہنا بھی میرا استحقاق ہے اور یہی بے اطمینان میری اس تصنیف کا جواز ہے۔

غزل کے بارے میں کوئی کتاب یا مضمون پڑھتے ہوئے اس صنف کے بنیادی سوالات ہمیشہ میرے سامنے رہے ہیں۔ میرا اب تک کا مطالعہ بعض جوابات کی فراہمی ضرور معاون ثابت ہوا ہے۔ لیکن بہت سے سوالات اب بھی بے تابی سے سیرابی تک کا فاصلہ طے نہیں کر پائے۔

یہاں اُن بے شمار سوالوں کی فہرست تو مہیّا نہیں کی جا سکتی، تاہم چند خلشیں اظہار چاہتی ہیں :

٭     غزل کی معنویت اور جواز کیا ہے ؟

٭     کیا غزل کبھی قصیدے کا حصّہ تھی؟

٭     غزل، شاعری کی ایک صنف کی حیثیت سے کب اور کیوں معرض وجود میں آئی؟

٭     صنفِ غزل کا پہلا شاعر کن بے تابیوں سے دوچار تھا؟

٭     ابتدائی زمانے میں اس صنف کی آبیاری کرنے والوں کی رغبتیں کیا تھیں ؟

٭     غزل کے اشارے اپنے اندر جہانِ معانی کی کتنی وسعتیں رکھتے ہیں ؟

٭     اردو غزل کے اسلوب کی نئی تشکیل کے سلسلے میں کلاسیکی دور کے شعرا نے کیا کیا تجربات کیے ؟

٭     داغ دہلوی کی غزل ہماری تہذیبی تاریخ میں کیا اہمیّت رکھتی ہے ؟

٭     برطانوی دور میں غزل کی مخالفت کیوں ہوئی؟

٭     ’’ مقدّمۂ شعر و شاعری‘‘ کے ذریعے سادگی کا سبق پڑھانے کا مقصد کیا تھا؟

٭     ترقی پسندوں کو غزل مخالف کیوں سمجھا جاتا ہے ؟

٭     آزادی کے بعد غزل کے احیا کی تہذیبی معنویت کیا تھی؟

٭     نئی شہری فضا سے اردو غزل کی شعری فضا کس طرح تبدیل ہوئی؟

٭     غزل کی ہیئت کو جامد اور ضّدی کیوں قرار دیا گیا؟

٭     سلیم احمد اور ظفر اقبال کے تجربات کیا محض اینٹی غزل کا ابال تھا؟

٭     غزل کی اساطیری فضا کے پس منظر میں کیا نفسیاتی اسباب کارفرما تھے ؟

٭     تازہ تر شعرا اُردو غزل کی نئی تشکیل کے لیے کیے گئے تجربات کی تاریخ سے کس قدر استفادہ کر رہے ہیں ؟

٭     اردو غزل میں تجربات کا طویل تاریخی سفر، مستقبل میں اس صنف لطیف کے کن نئے امکانات کا پتا دے رہا ہے ؟

 

اردو غزل نئی تشکیل میں ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی میں نے اپنے طور پر ایک کوشش کی ہے لیکن میں ایک بار پھر عرض کروں گا کہ یہ میری بیتابی سے سیرابی تک کا سفر ہیں اور فاصلہ ابھی طے نہیں ہوا۔ آپ میری گزارشات ملاحظہ کیجیے، ممکن ہے میں اس مقام تک رسائی حاصل کر پایا ہوں جہاں چشمے کہیں آس پاس ہوں۔

یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ تصنیف بنیادی طور پر ۱۹۴۷ء کے بعد کہی جانے والی غزل میں تجربات سے متعلق ایک نصابی مقالہ ہے، اگرچہ میں نے ان حدود اور قواعد کی پابندی سے ہر ممکن حد تک گریز کیا ہے جن کی موجودگی میں اپنی رائے کو حلق سے آگے تک آنے کی مجال نہیں ہوتی۔

طارق ہاشمی

 

 

 

 

غزل۔ مباحث اور ابتدائی دور کے تجربات

 

i۔       غزل کی آفرینش:

غزل کا لغوی معنی اور اصطلاحی مفاہیم

صنفِ غزل کا پہلا شاعر، سنائی غزنوی

غزل کی آفرینش کے سماجی و عمرانی حقائق

ii۔      غزل کا مزاج :

شمس قیس رازی کی علامتی تمثیل

ہیئت۔ داخلیت۔ ایمائیت۔ اختصار۔

iii۔    کلاسیکی اردو غزل میں تجربات

اردو غزل کی ابتدا ۔ ریختہ۔ ولی دکنی۔

دکن کے دیگر شعرا۔

ایہام گوئی اور اُس کا رد عمل۔ شاہ حاتم۔

میر و سودا کا دور۔ قاسم علی خاں آفریدی۔

ناسخ کی اصلاح زبان اور رد عمل۔

انشا۔ آتش۔ غالب۔ ذوق۔ ظفر۔ مومن۔

سقوطِ دہلی اور داغ کا اسلوب۔

 

 

 

(۱)

 

غزل، ہمارا تہذیبی عرف ہے۔ اپنی ماہیت کے اعتبار سے یہ صنفِ شعر ضرور ہے لیکن فی الاصل فارسی ادب سے مستفاد ایک ایسی زندہ روایت ہے جو ہمارے ثقافتی ورثہ کی زماں در زماں امین ہے۔ بظاہر بحر، قافیہ اور ردیف کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے اشعار کے اس مجموعے میں ہمارے شعراء نے بر عظیم پاک و ہند کی تمدنی زندگی کے لامحدود آثار جن ایمائی اسالیب میں محفوظ کیے ہیں، اس کی روشنی میں یہ بیان کچھ مبالغہ نہیں کہ ’’غزل ہمارا ثقافتی نسب نامہ ہے (۱)‘‘

اردو تنقید نے جس صنفِ ادب کو مبالغے کی حد تک مگر بجا طور پر سراہا ہے، وہ غزل ہے۔ کبھی تو یہ کہا گیا کہ ’’غزل ہماری تہذیب میں اور ہماری تہذیب غزل میں سما گئی ہے ‘‘(۲) تو کبھی اسے ’’اپنے آپ میں ایک تجربہ اور طرز احساس قرار دیا گیا ‘‘ (۳)

غزل کی محبوبیت کی دستاویزات تخلیقی اور تنقیدی ہر دو سطح پر موجود ہیں۔ اہلِ سخن نے جہاں ہر زمانے میں غزل کے تخلیقی سرمائے میں اضافہ کیا، وہاں نقد و نظر کے صاحبان نے اس صنف کی ماہیت، اوصاف اور امکانات کا جائزہ مختلف زاویوں سے لیا۔ بلاشبہ جتنی توجہ صنفِ غزل کو نصیب ہوئی ہے، اتنی کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ یہ بھی غزل کی محبوبیت ہی ہے کہ اگر کسی نقاد نے انفرادی سطح پر یا کسی ادبی تحریک نے اجتماعی طور پر اس کی مخالفت جزوی یا کلی طور پر کی تو غزل کو ہر محاذ پر جری اور جاں باز نوعیت کے مدافعین میسر آ گئے اور پھر وہ غبار جو ہفت آسمان کو چھونے والے تھے، ایسے بیٹھے کہ خاک میں خاک بھی نہ ہو پائے۔

غزل کی اسی قدر قبولیت، مقبولیت اور محبوبیت کے باوجود یہ امرِ حیرت ہے کہ آج تک یہ غور کرنے کی زحمت کم ہی کی گئی کہ آخر غزل معرضِ وجود میں کیوں آئی ؟ یہ سوال اردو کی ادبی تحقیق کے لیے ابھی تک تشنۂ جواب ہے کہ صنفِ غزل کِس طرح آغاز پذیر ہوئی، اور وہ کیا سیاسی وسماجی حالات تھے جو اس قابلِ قدر شعری تجربے کا جواز بنے ؟

مذکورہ سوالات کے تناظر میں ہم اپنے تحقیقی سرمائے کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ صنفِ غزل کے معرضِ وجود میں آنے کے عظیم ترین تہذیبی واقعے کا صحیح ادراک حاصل کرنے کی ہمارے ادبی مورّخین نے کوئی مربوط اور سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک طرف تو غزل کے عظیم مدّاح ہونے کا ثبوت دیتے ہیں لیکن دوسری طرف بقول نم راشد ’’مکتبی نوعیت‘‘(۴) کی تعریف کرتے ہوئے اسے انتہائی بازاری معنوں یعنی حرفِ بازناں گفتن(۵)لھومع النّساء(۶)حتیٰ کہ Flirtation (۷)تک سے نتھی کر دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں گلہ کوئی سکہ بند ناقدین سے نہیں کہ غزل کے بارے میں جدید ترین رویّہ رکھنے والے افراد حتّیٰ کہ سلیم احمد (۸)اور ظفر اقبال(۹) بھی غزل سے متعلق اس فرسودہ معنوی حصار سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔

صنفِ غزل کی اگر بہت علمی سطح کی تاریخ بیان کی بھی جاتی ہے تو بڑی سہولت سے اس تجربے کا سہرا سامانی دور کے شعرا رود کی یا شہید بلخی کے سر باندھتے ہوئے یہ کَہ دیا جاتا ہے کہ جب قصیدے کی تشبیب یا نسیب میں حسن و عشق کے مضامین باندھے جانے لگے تو انہیں غزل کہا گیا اور بعد میں فارسی شعراء نے ’’قصیدے کے درخت سے ایک قلم الگ لگائی (۱۰) ‘‘ یوں غزل معرضِ وجود میں آئی۔

صنفِ غزل کے ظہور میں آنے کا یہ مقبولِ عام اور سہولت پسند کلیہ فارسی شاعری کی تاریخ کی روشنی میں بحث طلب ہے اور سنجیدگی فکر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ غزل کو صنف سخن بنانے کے تجربے کا عمرانی و تاریخی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے ان امتیازات کو سامنے رکھنا چاہیے، جو مختلف زمانوں اور شعبوں میں غزل کے مروّج معانی کے درمیان موجود رہے ہیں مگر اب تک ان کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔

غزل کی ایک حیثیت بطور عربی لفظ ہے اور اس کے لغوی معانی حسن و عشق کی باتیں، عورتوں کی باتیں یا عورتوں سے باتیں ہے۔ یہ واضح رہے کہ عربی میں غزل کوئی صنفِ شعر قطعی نہیں تھی بلکہ یہ محض ایک لفظ ہے اورحسن و عشق کی باتوں، گیتوں حتیٰ کہ قصّے کہانیوں تک کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔

غزل کی دوسری حیثیت اصطلاحی ہے۔ مگر اس کا تعلق شاعری کے بجائے موسیقی سے ہے۔ ’’قول و غزل‘‘ موسیقی کی معروف اصطلاحیں ہیں۔ غزل کا بطور اصطلاح موسیقی اولین سراغ قدیم ساسانی دور میں خسرو پرویز کے درباری گائیک باربد کے حوالہ سے ملتا ہے، جس نے ۳۶۰ راگنیاں ایجاد کیں، جن میں سے ایک کا نام غزل تھا۔ قول و غزل کی اصطلاحوں کے بارے میں شمس قیس رازی لکھتے ہیں :

’’موسیقی کے اربابِ ہنر نے رباعی کے وزن پر ایک لحن تشکیل دیا اور ایک لطیف پیرایہ تالیف کیا۔ چنانچہ ایک معمول چلا آ رہا ہے کہ اس وزن کے اشعار پر تشکیل دیا جانے والا آہنگ قول اور فارسی مقطعات پر اسی نوع کے لحن کو غزل کہا جائے گا‘‘(۱۱)

حضرت امیر خسروؒ نے بھی اپنی ایجاد کردہ راگنیوں میں سے ایک کو غزل سے منسوب کیا تھا۔

غزل کی بطور اصطلاح موسیقی کے حوالہ سے ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ’’ بائبل‘‘ کی ایک کتاب "SONG OF SONGS” (۱۲)جو حضرت سلیمانؑ سے منسوب بعض عشقیہ غنائی مکالموں پر مشتمل ہے کے اردو ترجمہ کو ’’غزل الغزلات‘‘ (۱۳)کا عنوان دیا گیا ہے۔

غزل کی تیسری حیثیت تغزّلِ قصیدہ کے طور پر ہے۔ تغزّل کی اصطلاح کی مختلف سطحوں پر تشریح کی جاتی رہی ہے لیکن فارسی میں تغزل سے مراد وہ لطیف پیرایہ ہے جس سے قصیدے کا آغاز ہوتا تھا۔ ان اشعار میں شاعر عاشقانہ اشعار دل پذیر انداز میں کہتا تھا جس کے بعد ممدوح کی تعریف شروع ہوتی تھی۔ اس حصے کو تشبیب، نسیب اور غزل تینوں معانی سے منسوب کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر زہرا خانلری تغزلِ قصیدہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’چوتھی صدی (ہجری) کے قصیدہ گو شعرا نے قصیدے کو عاشقانہ اور دلپذیر انداز میں شروع کیا ہے اور چند اشعار کے بعد اصل مقصد یعنی ممدوح کی تعریف یا بیان واقعہ یا پند و نصیحت کا اظہار کیا ہے۔ قصیدے کا یہ پہلا حصہ تغزّل کہلاتا تھا۔ ‘‘ (۱۴)

غزل کی چوتھی حیثیت بطور اصلاح شاعری ہے۔ یعنی ایک ایسی صنفِ سخن جو مخصوص عناصر ترکیبی پر مشتمل ایک شعری ہیئت رکھتی ہے۔ غزل کی بطور صنفِ ادب کوئی معنی متعین تو نہیں تاہم جن مخصوص سماجی وسیاسی ضرورتوں (جن کا ذکر آگے آئے گا) کے تحت غزل کا آغاز ہوا۔ ان کو سامنے رکھا جائے تو غزل کی بطورِ صنفِ شاعری تفہیم کسی تجرید کا شکار نہیں ہوتی۔

غزل کی مذکورہ بالا حیثیات کے علاوہ اقبال کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کا ایک شعر بھی لائق توجہ ہے، جس میں انہوں نے غزل سے کوئی ایک صنفِ شاعری کے بجائے اپنی پوری شاعری مراد لیا ہے :

میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ

میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو

غزل کے مندرجہ بالا معانی اور ان کے درمیان موجود فرق اور امتیازات کو سامنے رکھتے ہوئے آئیے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ غزل بطور صنفِ شاعری کب، کیسے اور کیوں معرض وجود میں آئی۔

صنفِ غزل کے پہلے شاعر کے بارے میں عام خیال ہے کہ رود کی تھا، جو سامانی دور کے فرمانروا نصر بن احمد کا درباری گائیک اور شاعر تھا۔ یہ مفروضہ کیونکر عام اور قبول ہوا، تاریخ میں اس سلسلے میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملتے، سوائے عنصری کے اس شعر کے :

غزل رود کی وار نیکو بود

غزل ہائے من رود کی وارنیست

سوال یہ ہے کہ یہاں عنصری غزل سے کیا مراد لے رہا ہے ؟ کیونکہ خود عنصری غزل گو نہیں بلکہ قصیدہ گو شاعر تھا۔ یہاں ڈاکٹر سیروس شیمسا کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ’’عنصری کی مراد کوئی صنفِ شعر نہیں ہے بلکہ رود کی کا لحن ہے یا تغزل قصیدہ ہے۔ ‘‘ (۱۵)

رود کی کے بارے میں معروف مستشرق ڈاکٹر ایڈورڈ براؤن نے لکھا ہے کہ باربد اور رود کی میں حیران کن حد تک مشابہت پائی جاتی ہے۔ ـ‘‘(۱۶) شاید انہی مشابہتوں کی بنیاد پر شریف مجدّدی گورگانی نے کہا ہے :

ازاں چندیں نعیم جاودانی

کہ مانداز آلِ ساسان و آل سامان

ثنائے رود کی ماند است بدحش

نوائے باربد ماند است دستاں

دیوانِ رود کی کا دیباچہ رقم کرتے ہوئے فریدون مرزا نے تورودکی کے علم موسیقی کے حوالہ سے یہاں تک لکھا ہے کہ وہ باربد سے بھی بڑھ کر تھا۔ ‘‘ (۱۷) مذکورہ بالا بیانات اور آرا کے علاوہ متعدد تاریخی واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ رود کی شاعر سے زیادہ ایک گائیک تھا اور اشعار گا کر سناتا تھا۔ اس کے دیوان کی حیثیت جدید تحقیق کی روشنی میں مشکوک ہے اور بہت سے اشعار الحاقی ہیں۔

رضا قلی ہدایت کے تذکرے ’’مجمع الفصحا‘‘ سے لے کر رضا زادہ شفق، ذبیح اللہ صفا اور سعید نفیسی کی رقم کی گئی تواریخ تک میں اس حقیقت کے شواہد فراہم کیے گئے ہیں کہ رود کی کے دیوان میں متعدد اشعار ایسے ہیں جن کے اصل خالق قطران تبریزی ہیں۔ رود کی کو شاعر تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی اسے اصطلاحی معنوں میں غزل گو نہیں کہا جا سکتا۔ دائرہ معارف اسلامیہ میں لکھا ہے :

’’رود کی کے زمانے میں جب غزل کا نام آتا ہے تو اس سے قصیدے کی تشبیب ہی مراد لی جاتی تھی۔ ‘‘(۱۸)

رود کی کے بعد غزنوی دور تک متعدد شعرا قابل اہمیت ہیں جن میں اسدی طوسی، فرّخی سیستانی اور منوچہری کے نام سرفہرست ہیں۔ فارسی ادب کی تاریخ میں ان شعرا کو غزل گو لکھا گیا ہے۔ ان کے دواوین ملاحظہ کیے جائیں تو یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ ان کی غزلیں بھی ’’تشبیب ہی کی صورت میں تھیں۔ ‘‘ (۱۹) گویا اس دور میں غزل کا مفہوم تغزل قصیدہ سے متعلق ہے اورفی الحقیقت یہ شعرا غزل گو نہیں بلکہ قصیدہ گو تھے۔

اب تک کی بحث میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ غزنوی دورِ اقتدار تک غزل کا بطور صنفِ شعر کوئی وجود قائم نہیں ہوا تھا نہ ہی کسی شاعر کے ہاں الگ غزلیہ اشعار کا کوئی سراغ ملتا ہے اور اگر کوئی ایسی شاذ و نادر مثال مل بھی جائے تو ڈاکٹر سیروس شمیسا کے بقول:

’’کچھ بعید نہیں کہ وہ بھی در حقیقت تغزلات قصیدہ ہوں جن میں مدح سرائی کا حصّہ ناپید ہو گیا ہو یا بالکل مدح سرائی ہی نہ ہوئی ہو‘‘۔ (۲۰)

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں آیئے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ اصطلاحی معنوں میں یعنی غزل بطور صنفِ شاعری کیونکر آغاز پذیر ہوئی اور اس عظیم تہذیبی واقعے کے رونما ہونے کے کیا نفسیاتی، سماجی اور سیاسی اسباب تھے۔

فارسی شاعری کی تاریخ کا جائزہ لیں تو غزنوی دورِ اقتدار (بارہویں صدی عیسوی) میں ایک شاعر حکیم سنائی غزنویؒ کا مطبوعہ دیوان (۲۱)ایک ایسی مستند شعری دستاویز ہے جس میں پہلی بار غزل کا وجود بطور صنفِ شاعری ملتا ہے۔ ان کے دیوان میں ۲۰۳قصیدے جبکہ غزلوں کی تعداد ۴۳۷ ہے۔

سنائی غزنویؒ کے غزل کو الگ صنفِ سخن کی حیثیت سے اختیار کرنے کی طرف سب سے پہلے اشارہ تقی الدین کاشی نے اپنے تذکرے ’’خلاصتہ الاشعار وزبدۃ الافکار‘‘ میں کیا۔ اور بعض جدید محققین نے بھی فارسی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے اس سلسلے میں سنائی کے حق میں دلائل دیے ہیں :

دائرہ معارفِ اسلامیہ میں غزل کے باب میں لکھا ہے :

’’دربارِ غزنی کے مشہور شعرا فردوسی، عنصری، اسدی، فرّخی، منوچہری اور حکیم سنائی تھے۔ فردوسی کو چھوڑ کر سب نے غزلیں کہیں لیکن یہ غزلیں بھی ماسوا سنائی کی غزلوں کے تشبیب ہی کی صورت میں تھیں۔ سنائی کی غزلیات سے پہلے جداگانہ غزل کا کہیں پتہ نہیں چلتا، اس لیے یہی کہا جائے گا کہ قصیدے سے الگ غزلیں لکھنے والوں میں سنائی کو تقدم حاصل ہوا۔ ‘‘(۲۲)

معروف مستشرق پروفیسر اے جے آربری رقمطراز ہیں :

’’پہلا شاعر جس نے خوب خوب غزلیں کہیں، سنائی تھا۔ ۔ ۔ سنائی کے بعد غزل کی مقبولیت تمام اصنافِ سخن کے مقابلے میں مسلّم ہو گئی۔ ‘‘(۲۳)

’’غزل فارسی‘‘ کے عنوان سے فارسی شعرا کی غزلیات کے انتخاب کے دیباچے میں ڈاکٹر زہرا خانلری لکھتے ہیں :

’’حقیقت میں سنائی کو ’’بابائے غزل‘‘ کا نام دینا چاہئے۔ سنائی کی غزلیات ایسا سرچشمہ ہیں جس سے ایران کے تمام غزل گو شاعر سیراب ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم اپنے اس مجموعے میں غزل کو سنائی سے شروع کرتے ہیں۔ ‘‘(۲۴)

ایرانی ادب کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر ظہور الدین احمد لکھتے ہیں :

’’غزنوی دور بھی قصیدہ سرائی کا دور ہے اس میں بھی غزل تشبیب کی شکل میں موجود ہے۔ عنصری، منوچہری اور فرّخی کے کلام میں تغزّل کے مضامین موجود ہیں۔ اس دور میں سنائی ایک ایسا شاعر ہے، جس نے غزل کو ایک علیٰحدہ صنفِ سخن کی حیثیت سے لکھا اور مرتّب دیوان میں جگہ دی۔ ‘‘(۲۵)

سنائی جن کا پورا نام ابو المجد مجدود آدم سنائی تھا، عالمِ شباب ہی میں غزنوی سلطانوں کے دربار سے منسلک ہو گئے اور کئی قصیدے لکھے۔ پروفیسر ظہیر احمد صدیقی کے بقول ’’سنائی کی ابتدائی زندگی لہو و لعب میں گزری، بادشاہوں کی بے جا مدح وستائش اس کا پیشہ تھا۔ ‘‘(۲۶)

فارسی ادب کے مورّخین، سنائی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کی زندگی میں اچانک ایک ایسا انقلاب آیا کہ دربار داری ترک کر دی اور عرفانی اور اخلاقی مطالب پر شعر کہنے لگے۔ سنائی کے اس ذہنی انقلاب کے بارے میں کئی واقعات مشہور ہیں۔ ڈاکٹر عبد الحسین زریں کوب نے اس حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے جو تذکرہ دولت شاہ میں ’’درد آشام دیوانے کی حکایت‘‘ کے عنوان سے نقل کیا گیا ہے :

’’درد آشام غزنی کے مجذوبوں میں سے تھا۔ وہ میخانوں میں گھوم پھر کر شراب کی تلچھٹ جمع کرتا اور کسی حمام کے آتش خانے میں جا کر پی لیتا۔ اتفاقاً ایک مرتبہ سنائی کا اس آتش خانے سے گزر ہوا جہاں یہ دیوانہ رہ رہا تھا۔ سنائی نے ایک آواز سنی۔ وہ میخانے کے اندر گیا اور کان لگا کر سننے لگا۔ درد آشام اپنے دوست سے کہہ رہا تھا : مجھے شراب کا ایک جام دو تاکہ اس بد خصلت کور چشم ابراہیم غزنوی کی یاد میں نوش کروں۔ اس کے دوست نے کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ ابراہیم ایک عادل بادشاہ ہے۔ اس کی مذمت کس لیے کر رہے ہو؟ اس نے کہا ٹھیک ہے لیکن وہ ایک تنگ نظر اور نا انصاف بادشاہ ہے۔ غزنی کی حفاظت تو کر نہیں سکتا لیکن دوسرے علاقوں پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پھر اس نے جام لیا اور چڑھا گیا۔

اس کے بعد پھر فرمائش کی کہ ایک جام اور دو تاکہ کور چشم شاعر سنائی کے نام نوش جاں کروں۔ اس کے دوست نے پھر کہا: سنائی ایک بذلہ سنج شاعر ہے اور خاص و عام میں مقبول ہے۔ اس کے متعلق تجھے ایسی بات نہیں کہنی چاہیے درد آشام نے کہا تمہارا خیال غلط ہے۔ وہ تو ایک احمق آدمی ہے جس نے بے سروپا اور لایعنی باتوں کو آپس میں جوڑ کر شعر کا نام دے رکھا ہے اور ہر روز ایک حریص و طماع اور احمق آدمی کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کر شعر پڑھتا ہے اور اس کی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔ اسے اتنا بھی شعور نہیں کہ وہ اس قسم کی شاعری اور بے ہودہ باتوں کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ درد آشام کی ان باتوں نے شاعر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جو اس وقت ایک نیا قصیدہ بادشاہ کے حضور لے جا رہا تھا۔ چنانچہ وہ مخلوق خدا سے منہ موڑ کر خالق کا ہو گیا۔ ‘‘(۲۷)

سنائی اپنے اس ذہنی و روحانی انقلاب کے بعد تصوف و عرفان کے اس مرتبے کو پہنچے کہ ’’مولانا روم ؒ ‘‘ جیسے عظیم المرتبت بزرگ روحانی ان کے متعلق اپنی مثنوی میں کہتے ہیں :

نیم جوشی کردہ ام من نیم خام

از حکیمِ غزنوی بشنو تمام

اس کے علاوہ یہ شعر بھی مولانا رومؒ ہی سے منسوب ہے :

عطّار روح بود سنائی دو چشم اِو

ما از پئے سنائی و عطّار آمدیم

خاقانی نے بھی اپنے ان اشعار پر فخر کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے سنائی کے رنگ تصوف و عرفان میں شعر کہے ہیں۔ اقبال کی ’’بال جبریل‘‘ کے حصّہ غزلیات کا آغاز بھی حکیم سنائی کی تہنیت سے ہوتا ہے۔

سنائی کا یہ ذہنی انقلاب، قصیدہ گوئی سے گریز اور غزل کو علاحدہ صنفِ شاعری بنانا بھی کسی ایک شخص کا ذاتی و داخلی معاملہ نہیں ہے بلکہ غزل کے ابتدائی تار و پود سے اس عہد کے تاریخی و عمرانی تغیرات کا گہرا تعلق ہے جن کے ادراک کے لیے ہمیں صنفِ قصیدہ کی ماہیت و مزاج پر معروف تنقیدی زاویوں سے گریز کرنا ہو گا۔

تاریخ انسانی میں جب بھی کسی تہذیب نے ترقی کی ہے یا کسی سلطنت کو وسعت ملی ہے اس عظیم انقلابی عمل کی تکمیل میں اہل قلم نے فکر و نظر کی سطح پر زبردست طاقت بہم پہنچائی ہے بلکہ صریر خامہ، تلوار کی جھنکار سے زیادہ بلند آہنگ ربا ہے۔ روم نے جب ترقی کی تو اس سلطنت کے عظیم شہنشاہوں، سالاروں اور سورماؤں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھی گئیں جو ادبیاتِ عالم میں Romantic Poems یا Romantic Stories کہلاتی ہے۔

اسلامی و عجمی تہذیب نے بھی جب عروج حاصل کیا تو شعرا نے ان کی عظیم فتوحات اور کارناموں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جو صنف Medium اختیار کیا وہ قصیدہ تھا۔ اور قصیدہ گو شاعر لفظ و خیال ہی پر قدرت نہیں رکھتا بلکہ علم و فضل کے سرمائے سے بھی ثروت مند ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے فارسی قصائد محض شاہوں کی ستائش نہیں ہیں بلکہ عظمتِ رفتہ کی رفعتوں کی دستاویز بھی ہیں جن میں عظیم سورماؤں کے کارنامے قلم بند کیے گئے ہیں۔ چونکہ یہ اولوالعزم بادشاہ اور مہم جو جرنیل مہمات میں نہایت عظیم کامیابیاں حاصل کرتے تھے اس لئے قصیدہ گو شعرا اُن کی ہمتوں کو دوچند کرنے کے لئے ان کی صلاحیتوں اور استعداد کی بڑھا چڑھا کر تحسین کرتے تھے۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں تھا کہ مبالغہ کرتے تھے بلکہ ان کا مقصد ایسے امکانات کی تخلیقی نشاندہی ہوتا تھا جن کی طرف یہ عزم پرور ہیروز پیش قدمی کر سکتے تھے۔

بارہویں صدی عیسوی میں بدقسمتی سے نہ صرف ایران بلکہ تمام عالمِ اسلام حوادث کی زد میں آنے لگا جس کی بنیادی وجہ بیشتر مسلمان اربابِ اقتدار و لوطماساور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبیدمحیط ہے۔ اختیار کی عیش پسندی، نا اہلی اور پدرم سلطان بود کا تفاخر تھا۔ لہٰذا اولوالعزمی، جاہ و حشمت، ثروت و متانت ان حکمرانوں اور امرا کے کردار میں برائے نام رہ گئی اور شمشیر وسناں کی آب و تاب، نوائے طاؤس و رباب میں گم ہونے لگی۔ لیکن بدقسمتی سے قصیدہ گو شعرا اَب بھی اپنی معاشی ضرورتوں کے پیشِ نظر ان بادشاہوں کی اسی طرح مدح وستائش میں مصروف رہے اور ان کی ذات و کردار میں موجود بحران کے برعکس تعریف و توصیف میں قصائد رقم کرتے رہے۔

اس دور کے قصیدہ گو شعرا کی نجی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ امر پوشیدہ نہیں رہتا کہ بیشتر قصائد اُن امرا وسلاطین کے لیے لکھے گئے، جن سے شاعروں کی روزی وابستہ تھی یا انہوں نے ضرورت و احتیاج کے وقت ان سے فائدہ حاصل کیا تھا۔

یوں قصائد کے یہ شعر پارے تاریخی و تہذیبی دستاویز کے بجائے مبالغہ، کذب و افترا اور لہو و لعب کے اوراق بن گئے۔ شاعر اپنے باطن کے سچ کو چھپا کر بادشاہوں کو ایک پیکر محاسن بنا کر پیش کرتے اور صلے میں انعام و اکرام پاتے۔ کسی شاعر میں یہ جرأت نہ تھی کہ وہ ممدوح کی ذات کے کسی ایسے پہلو کی طرف اشارہ بھی کرتا جس میں عیب یا ذم کا نکتہ پایا جاتا۔ نظام شاہی میں ظّلِ الٰہی کا عتاب اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ خوگرِ حمد تھوڑاسا گلہ بھی کرتا۔ حبس اور گھٹن کے اس ماحول میں آزادی اظہار کی یہی وہ تمنّا ہے جس نے قصیدہ لکھنے والے کو ایک کھلی فضا میں سانس لینے کی راہ دکھائی۔

عمرانی حقائق کے اس تمام تر منظر نامے اور صنفِ غزل کے اولین شاعر حکیم سنائی غزنوی کی سیرت میں انقلابی تبدیلی کے تناظر میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ:

’’ وہ حقائق جو قصیدہ گو شاعر کے ضمیر کو کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے ان کے اظہار کے لئے غزل وجود میں آئی۔ ‘‘(۲۸)

سنائی غزنوی کے معاصر شعرا خصوصاً قصیدہ گوؤں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ امر بالکل کھل کر سامنے آتا ہے کہ اس وقت شعرا یا تو دوسروں کی مدح یا ستائش میں لگے رہے یا عشق کی روایتی رومانیت میں کھوئے رہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے، وہ گویا انسانوں میں زندگی بسر نہیں کر رہے تھے اور ماحول اور سماج کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ انہوں نے گرد  ٰو نواح کے بسنے والوں کو متاثر کیا۔ سنائی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے زمانے کے لوگوں کا کچا چٹھا نکال کر رکھ دیا۔ خاص طور پر مسلمانوں کو مخاطب کر کے ان کی برائیاں گنوائی ہیں۔ انفرادی بھی اور اجتماعی بھی۔

سنائی نے سماجی تنقید کے اس عمل کو غزل کے پیرائے میں جس طرح بیان کیا ہے اس کی دو مثالیں ملاحظہ ہوں :

ای دل از مولای عشقی یاد سلطانی مکن

در رہِ آزاد گاں بسیار ویرانی مکن

ہمرہِ موسیٰ و ہاروں باش در میدانِ عشق

فرش فرعونی مساز و فعلِ ہامانی مکن

بی جمال خوف لاف از یوسف مصری مزن

بی فراق و درد یاد پیر کنعانی مکن

در خراباتی کہ ایں گوید کہ فاسق شو بشو

وندران مجلس کہ آن گوید مسلمانی مکن

از سنائی حال و کار نیکواں بر رس بہ جد

مرد میدان باش تن در می دہ ارزانی مکن

ای جہانی پر از حکایت تو

گہ زشکرو گہ از شکایت تو

ہست بی تحفہ نشاط وطرب

آنکہ اونیست در حمایت تو

ای، ھمہ سال احسن الحسنی

در صحیفہ جمال آیت تو

جان ودل راہمی نہیب رسد

زین ستمہای بی نہایت تو

در وفا کوش باسنای ازانک

چند روزی است در ولایت تو

فارسی ادب کی تاریخ شعری دیکھیں تو سنائی کے بعد بھی غزل کی ابتدائی نشو و نما زیادہ تر صوفیا ہی کی مرہون منت ہے۔ اس حوالے سے شیخ فرید الدین عطّارؒ، مولانا رومؒ اور کرمانی مرشدیؒ کے نام صاحبِ اعتبار و اکرام ہیں۔

مذکورہ حقائق کی روشنی میں غزل کے بارے میں یہ نظریہ سازی باطل ہو جاتی ہے کہ غزل کی ابتدا حسن و عشق کے مضامین سے ہوئی، بعد میں تصوف و عرفان کے موضوعات غزل میں داخل ہوئے اور عصر حاضر تک آتے آتے دامنِ غزل بہت وسیع ہو گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے غزل کا دامن ابتدا ہی سے وسیع تر تھا اور زندگی کے حقائق و مسائل کا بیان اس صنف کا خاص موضوع تھا۔ بد قسمتی سے مقلد اور مکتبی قسم کے اذہان نے اِس صنف کو اس کے لغوی معنی تک محدود کر دیا اور بعد میں غزل کے بارے میں بعض غلط فہمیاں ایسی راسخ ہوئیں کہ اب تک اِن کے کالے جادو کا رَدّ نہیں تلاش کیا جا سکا۔

غزل عربی زبان کا لفظ ہے جو اپنے لغوی مفہوم میں کسی شعری ہیئت یا صنف کا نام نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک صنفِ غزل کا معاملہ ہے تو اسے صوفیا نے اختیار کیا اور جمالیات کے پردے میں زندگی کے اس جدلیاتی عمل کو پیش کیا جوا نسان کے داخل اور خارج میں خیر و شر کی صورت میں موجود ہے۔

درج بالا نکات غزل کی جدید تنقید اور نئے ادبی شعورسے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ اس صنفِ ہزار شیوہ کی مکتبی تعریفات اور تواریخ سے گریز کرتے ہوئے اس کی جانچ پرکھ کو زندگی کے پورے عمل سے مربوط کیا جائے۔

 

 

(۲)

 

غزل کے مزاج کو سمجھنے کا اوّلین معاون ذریعہ شمس قیس رازی کا بیان کر دہ تمثیل ہے۔ اُن کی تصنیف ’’المعجم‘‘ میں انتقاد شعر کے حوالے سے تاریخی لحاظ سے بہت قدیم ہے لیکن خیالات کے اعتبار سے فکر جدید کی حامل ہے۔ غزل کے بارے میں جناب رازی نے مختلف جہتوں سے گفتگو کی ہے جن میں سے بعض نکات اگرچہ وہی ہیں جو اس کے عربی مفہوم سے مختلف نہیں ہیں، تاہم غزل کا مزاج سمجھنے کے لیے ان کی بیان کردہ آہو اور شکاری کتوں کی تمثیل بڑی موثر ہے جس کے مطابق:

’’آہو جب شکاری کتوں کو دیکھتا ہے، پہلے تو بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب بھاگتے بھاگتے عاجز آ جاتا ہے اور تھک کر رہ جاتا ہے تو عالم بے بسی و مجبوری میں اُس کی زبان سے بے ساختہ چیخ نکلتی ہے۔ جس میں اتنا درد ہوتا ہے کہ شکاری کتوں کے دل میں بھی ایسی رِقّت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے شکار کو بلکہ اپنے آپ کو بھول جاتے ہے۔ اور اُس چیخ کے اثر میں کچھ اس طرح کھو جاتے ہیں کہ انھیں اپنا مقصد بھول جاتا ہے۔ ‘‘(۲۹)

غزل کی تعریف کے لیے اس تمثیل کی لفظیات اور علامتی نظام پر غور کیا جائے تو غزل ایک ایسی صنف ادب قرار پاتی ہے جو جمالیات سے جدلیات تک ہر نوع کی ادبی فکر کا احاطہ کرتی ہے۔

ہرن، زندہ رہنے کے استحقاق، زندگی کے حسن، جمالیاتی قدروں اور آزادی کی علامت جبکہ شکاری کتے جمال حیات کو مجروح کرنے والی اُن استحصالی قوتوں کا استعارہ ہیں جو کرہ ارض پر حسن و دانش کے بجائے محض طاقت و دہشت کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ تمثیل میں غزل کو آہو کی چیخ قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے شکاری کتوں کے دل میں بھی ایسی رِقّت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے مقصد کو بھول کر کہیں اور متوجہ ہو جاتے ہیں۔

رازی کا یہ بیان غزل کی تاثیر کو واضح کرتا ہے کہ غزل کے اشعار میں کسی بھی نوع کے سنگین ترین حالات و بحران میں تبدیلی لانے کا جوہر موجود ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی فکری طور پر خیالات کا تغیر ّ بھی ہے۔ داخلی طور پر کیفیات کا تبدّل بھی اور خارجی سطح پر حالات و واقعات کا انقلاب بھی۔ اس تمثیل میں غزل مسائل حیات کی ترجمان نظر آتی ہے۔

مذکورہ تمثیل کی معنوی جہات کو سمجھا جائے تو غزل کی تعریف کے لیے اس کے لغوی معنی یا قدیم روایتی مفہوم کی حیثیت اب ایسی ہی ہے جیسے کسی فرد کا نام جو اس کی عام سماجی شناخت تو ہوتا ہے مگر اس کے اوصاف، استعداد، سیرت و کردار اور اس کے باطن میں موجود امکانات کا احاطہ نہیں کرتا۔

غزل بقول مختار صدیقی ’’ہزار شیوہ‘‘(۳۰)اور بقول فراق ’’انتہاؤں کا سلسلہ ہے۔ ‘‘(۳۱)یہ اتنی تلّون مزاج صنفِ سخن ہے کہ حیات و کائنات کا ہر پہلو اس کی دسترس میں ہوتا ہے۔ اس کے ’’مضامین اتنے ہی زیادہ وسیع اور متنوع ہیں جتنا کہ خود انسان کی زندگی کے حالات و واقعات۔ ‘‘(۳۲)

ہیئت کے لحاظ سے غزل متّحد الوزن اور متّحد القوافی مگر مختلف الموضوع ابیات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ اب آپ بھلے اسے ’’رنگا رنگ دانوں والی مالا(۳۳) قرار دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزل کی ساخت اپنے باطن میں ایک زبردست جمہوری مزاج رکھتی ہے کہ صنف غزل اشعار کو ایک مخصوص وزن کا پابند تو بناتی ہے، قوافی کے لحاظ سے بھی کوئی زیادہ رعایت نہیں دیتی، نیز ردیف ہونے کی صورت میں اس کی تکرار میں بھی کسی نوع کی کوتاہی برداشت نہیں کرتی، مصرعوں کی پیمائش بھی ملحوظ رکھتی ہے لیکن جہاں تک فکر و خیال کا تعلق ہے غزل اپنے شعروں کو مکمل آزادیِ اظہار دیتی ہے اور کسی جبر و اکراہ کو روا نہیں خیال کرتی۔

غزل کا ایمائی مزاج بھی اس کی جمہوری سوچ کا عکاس ہے جس طرح جمہوری نظام میں رائے دہندہ اپنی فکر کا اظہار خفیہ اور خاموش انداز میں کرتا ہے، اسی طرح غزل گو بھی بلاغت اور بلند آہنگی سے گریز کرتے ہوئے کنایوں اور اشاروں میں اپنے مطلب کی بات کہتا ہے۔

غزل اپنی اس خاصیت کے باعث ریزہ خیالی اور نیم وحشی صنف سخن ایسے الزامات کا ہدف بھی بنی ہے۔ اقبالؔ نے فلسفۂ عجم پر لکھے گئے اپنے تحقیقی مقالے میں غزل کی اس خصوصیت کی وجہ ایرانی نفسیات کی روشنی میں بڑے دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’میرے خیال میں ایرانی ذہن تفصیلات کا متحّمل نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ اس میں اس منتظمہ کا فقدان ہے جو عام واقعات و مشاہدات سے اساسی اصول کی تفسیر کر کے ایک نظام تصورات کو بتدریج تشکیل دیتی ہے۔ ایرانیوں کا تتلی سا بیتاب تخیل گویا ایک نیم مستی کے عالم میں ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف اڑتا پھرتا ہے اور وسعت چمن پر مجموعی نظر ڈالنے کے ناقابل نظر آتا ہے۔ اس کے گہرے سے گہرے افکار و خیالات غزل کے غیر مربوط اشعار میں ظاہر ہوتے ہیں ‘‘۔ (۳۴)

غزل کے اشعار غیر مربوط ہونے کے باوجود اپنے باطن میں ایک ربط باہم رکھتے ہیں۔ شیخ صلاح الدین نے اس داخلی ربط کو ایک استعارے کے ذریعے یوں واضح کیا ہے کہ:

’’ایک پہاڑ پر چڑھ رہے ہوں، ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا ہو، گھٹا گھنگور اور ہمہ گیر اور تہہ دار، بجلی بار بار کوندتی ہو، ہر کوندے میں وادی کا ایک منظر منوّر ہو جاتا ہو اور پھر اندھیرے میں گم ہو جاتا ہو۔ اندھیرے میں سے ابھرتے اور اس میں ڈوبتے مناظر کا یہ تسلسل ذہن اور تخیل میں جو کیفیت پیدا کرے گا اس سے ایک مربوط جہان تخلیق کر لینا بعید از قیاس نہ ہو گا۔ کھرے شاعر کی غزل کا ہر شعر ایسا ہی ایک کوندا اور پوری غزل ایک جہان ہوتی ہے ‘‘۔ (۳۵)

غزل بھی اگرچہ ایک صنف شاعری ہی ہے تاہم اس کا مزاج دیگر اصناف شعر سے اتنا مختلف ہے کہ غزل اور نظم کے مابین ایک حد فاضل مقر ر ہو گئی ہے۔ غزل اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر نہ صرف یہ کہ مختلف ہے بلکہ ممتاز بھی ہے۔

غزل کی پہلی بنیادی خصوصیت داخلیت ہے۔ بلکہ ’’داخلی شاعری کی بہترین مثال غزل ہے جو شاعر کی دروں بینی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ‘‘(۳۶) غزل کا شاعر کائنات دل سے زیادہ تعلق رکھتا ہے اور اس کائنات کے مظاہر کو وہ قرطاس پر مصور کرتا رہتا ہے۔ داخلیت کی خاصیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ غزل گو شاعر اپنی خارجی دنیا سے غیر متعلق ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے خارجی تجربات کو بھی اس پیرائے میں بیان کرتا ہے کہ جگ بیتی اور آپ بیتی میں حدِّ فاصل کا تعین نہیں ہو سکتا۔ گویا غزل کا فن دلّی اور دل کی یکجائی کے اعجاز سے جنم لیتا ہے۔

غزل کی دوسری خصوصیت ایمائیت ہے۔ غزل گو شاعر اظہارِ احساس و جذبات کے معاملے میں رمز و ایمائیت کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور علامات، استعارات اور کنایات کے پردے میں بات کرتا ہے۔ سید عابد علی عابد نے اردو غزل کی علامات کو عالمِ طلسمات(۳۷) قرار دیا ہے۔ لیکن غزل کا فن بعض اوقات اس عالم طلسمات سے زیادہ حیران کن بھی ہوتا ہے۔ غزل کا شاعر سادہ لفظوں میں بھی ایک جہان معانی سمو دیتا ہے۔ غزل کی ایمائیت کو ہمارے عہد کے ایک شاعر جمال احسانی نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے :

جمال کھیل نہیں ہے کوئی غزل کہنا

کہ ایک بات بتانی ہے اک چھپانی ہے

اردو غزل کا اپنے تاریخی تناظر میں مطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ غزل مشرقی ثقافت کی ایک خفیہ زبان(Code Language)ہے اور جب تک اس کی ایمائی زبان کے قفل ابجد کو کھولا نہ جائے غزل کے شعر کی تفہیم کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا۔

غزل میں ایمائی اور علامتی زبان کی وجہ در اصل شعر کی صفتِ اختصار ہے۔ شاعر کو اپنے خیال کی تمام تر وسعت اور ہمہ گیریت کو شعر کے دو مصرعوں کی مختصر اور محدود ساخت میں سمونا ہوتا ہے۔ گویا غزل گوئی ریل کے سفر کی مانند ہوتی ہے، جس میں پٹڑی کی دو آ ہنی لائنوں کے اندر رہ کر ہی ایک عالم کی سیر کی جاتی ہے۔

شعر کے چھوٹے سے فریم میں زندگی کی ایک بڑی تصویر کے متنوع نقوش معمور کر دینے کا غزل کا جوہر مجنوں گورکھپوری کے نزدیک اہل ایران کا مزاج ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ایران کا مزاج اختصار پسند واقع ہوا ہے۔ روز اوّل سے ایرانی شعر و ادب میں جس کی قدیم ترین مثالیں مذہبی کتابوں کے آیات و اقوال ہیں۔ رمز و تمثیل اور کنایہ و ایجاز کا میلان غالب رہا۔ اہل ایران نظم و نثر دونوں میں مختصر اور بلیغ ملفوظات کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ (۳۸)

غزل کی صفت اختصار اس کا اعجاز بھی ہے۔ شمیم حنفی نے اپنے مضمون ’’ غزل کا سوالیہ نشان‘‘ میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے :

’’ ایک امریکی سکالر نے فکشن پر گفتگو کے دوران میں جب مجھ سے ایک مختصر کہانی سنانے کی فرمائش کی اور میں نے شاید تین جملوں کی ایک لطیفہ نما کہانی سنائی تو وہ بولے کہ صاحب! ہمارے یہاں تو کچھ ادیبوں نے ناول بھی اس سے چھوٹے لکھے ہیں۔ ‘‘(۳۹)

اردو کا افسانوی ادب یقیناً ایسے انوکھے انداز سے محروم ہے کہ ہمارے ہاں کسی فکشن لکھنے والے نے ایسے ہمہ گیر اسلوب کو دریافت کرنے کی سعی نہیں کی ہے لیکن شعری سطح پر اتنے جامع اور عجوبۂ روزگار اظہار کی استعداد اگر کسی صنف میں ہے تو وہ غزل ہے کہ جس کا ہر شعر ایک مکمل داستان بلکہ لفظ و معنی کا جہان ہوتا ہے۔

علم بیان کی اصطلاح مجاز مرسل کی تعریف بیان کرتے ہوئے اہل دانش نے اس کی مختلف نوعیتیں بیان کیں ہیں۔ غزل کی وسعت کو دیکھا جائے تو یہ بھی مجاز مرسل ہی کی ایک قسم قرار پاتی ہے، جس میں جُزو کَہ کر کُل مراد لیا جاتا ہے۔ بہت کم کَہ کر بہت کچھ اور محدود بات کَہ کے لامحدود مطالب اخذ کیے جاتے ہیں۔

غزل کی ایک اور اہم اور امتیازی خصوصیت جسے سمجھے بغیر غزل کے بارے میں بہت سے مغالطے ہو سکتے ہیں اور ہوئے بھی ہیں، وہ یہ کہ غزل میں فوریّت(Imegiancy)نہیں ہوتی ہے۔ غزل کا شاعر خارجی تجربے کا فوراً  اور براہ راست اظہار نہیں کرتا بلکہ شدت جذبات میں بھی استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے ’’ غزل واقعات کا روزنامچہ نہیں بلکہ ثقافتی قدروں کی تاریخ ہے۔ امروز و فردا کا ماجرا غزل میں اس حد تک بیان ہوتا ہے جس حد تک وہ روحِ عصر کی ترجمانی کرے، یہاں وقت کی رفتار صبح و شام کے تغیر سے نہیں قرنوں اور صدیوں کے انقلاب سے ناپی جاتی ہے ‘‘۔ (۴۰) گویا یہ وہ صنفِ سخن ہے جو ’’زمان و مکان میں بکھرے ہوئے اور پھیلے ہوئے واقعات کا سَت یا جو ہر نکال لیتی ہے۔ ‘‘(۴۱)

 

 

(۳)

 

ایران میں صفویوں کا اقتدار قائم ہوا تو بہت سے معتبر شعرا سرپرستی سے محرومی کے احساس کی بدولت ہندوستان ہجرت کر گئے، جہاں تیموری بادشاہوں کی سخاوت عروج پر تھی۔ ان شعراء میں عرفی، نظیری، کلیم ہمدانی اور صائب قابلِ ذکر ہیں۔

ان شعرا کا کمالِ سخن چونکہ ہندوستان میں سامنے آیا اس لیے فارسی شاعری میں ان کا اندازِ سخن بھی ’’سبکِ بندی‘‘ قرار پایا۔

ہجرت کا یہ واقعہ محض ایک نئے اندازِ شاعری ہی کا سبب نہیں بنا بلکہ سرزمینِ ہند میں صنفِ غزل کے تعارف اور رواج کی بنیاد بھی قرار پایا۔

اردو میں غزل کا آغاز ریختہ گوئی یعنی فارسی اور ہندی کے تال میل کے تجربات سے ہوا۔ ریختہ بنیادی طور پر موسیقی کی ایک اصطلاح ہے۔ حافظ محمود شیرانی کے مطابق:

’’اس اصطلاح سے موسیقی میں یہ مقصد قرار پایا کہ جو فارسی، خیال ہندوی کے مطابق ہو اور جس میں دونوں زبانوں کے سرود ایک تال اور ایک راگ میں بندھے ہوں اس کو ریختہ کہتے ہیں۔ (۴۲)

لیکن مختلف اوقات میں یہ اصطلاح اردو فارسی اور اردو شاعری کے لیے بھی استعمال ہوئی۔ اردو غزل کی ابتدائی شکل بھی ریختہ ہی کی صورت میں ملتی ہے۔ چنانچہ بعض ناقدین نے اس اصطلاح کو غزل کے لیے بھی مخصوص سمجھا ہے۔

اردو غزل کا اولین دستیاب نمونہ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ سے منسوب ہے لیکن محققین اس کے اصل شاعر کے بارے میں ابھی تک وثوق سے کچھ نہیں کَہ سکے :

وقتِ سحر، وقتِ مناجات ہے

خیز دراں وقت کہ برکات ہے

نفس مبادا کہ بگوید ترا

خسپ چہ خیزی کہ ابھی رات ہے

با دم خود ہمدم ہشیار باش

صحبتِ اغیار بوری بات ہے

باتن تناچہ روی زیں زمیں

نیک عمل کن کہ وہی سات ہے

پند شکر گنج بدل جاں شنو

ضائع مکن عمر کہ ہیہات ہے

حضرت امیر خسروؒ کے کلامِ ہندوی کے بارے میں بھی اب تک یقین سے کچھ نہیں کہا گیا۔ ذیل میں دی گئی ان سے منسوب ایک معروف غزل کو ڈاکٹر محمد انصار اللہ نے اپنے ایک مضمون میں کسی (۴۳) جعفر نامی شاعر سے منسوب کیا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی:

زحالِ مسکیں مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں

چو تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لہو کا ہے لگائے چھتیاں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلش چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کوں جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

اس عہد کے ایک اور شاعر حسن دہلوی کے ہاں بھی اس نوع کی ایک غزل کا سراغ ملتا ہے :

ہر لحظہ آید دردلم دیکھوں اوسے ٹک جائے کر

گویم حکایت ہجر خود با آں صنم جیولائے کر

بس میلہ کردم اے حسن بے جاں شدم از دم بدم

کیسے رہوں تجھ جیؤبن تم لے گئے سنگ لائے کر

مذکورہ بالا شعرا کے چند ایک غیر مستند شعری نمونوں کے بعد تقریباً دو سو سال تک کا عرصہ ایسا ہے، جس میں کسی شاعر یا اس کے ہاں کسی غزل کا سراغ نہیں لگایا جا سکا، البتہ سولہویں صدی میں بعض شعرا کے ہاں اس روایت کا بھرپور اظہار ملتا ہے۔ ان شعرا میں شیخ جمالی، موید بیگ، مشہدی بخاری اور بہرام سقّا بخاری قابلِ ذکر ہیں۔

ان شعرا کی تخلیقات ملاحظہ کی جائیں تو لب  ولہجہ امیر خسرو سے منسوب غزلوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ فارسی اثرات کا غلبہ زیادہ ہوتا دکھائی دیتا ہے :

خوارشدم، زارشدم، لُٹ گیا

در رہِ عشق تو کمر تُتا ہے

گاہ نگفتنی کہ جمالی تو بیت

تم کرو کیا اپنا کرم پُتا ہے

(شیخ جمالی)

باز ہندو بچۂ قصدِ دلم کرتی ہے

کچھ نہیں جانوں ازیں خستہ کیا کرتی ہے

چشمِ او طُرفہ غزالیست کہ درباغِ جمال

ہمہ ریحان و گل و سنبلِ تر چرتی ہے

(بہرام بخاری)

ریختہ کے یہ تجربات بہت حد تک فارسی غزل میں ملمّع گوئی کی روایت سے مماثل ہیں۔ ’’ملمّع کے لغوی معنی ہیں ابلق یعنی سفید و سیاہ گھوڑے کے اور اُس عبارت کے جو عربی اور ترکی دونوں زبانوں پر مشتمل ہو۔ ۔ ۔ ۔ ملمع گوئی فارسی غزل کی روایت بھی ہے۔ ملمع اُس شعر کو کہتے ہیں، جس کا ایک مصرعہ فارسی زبان میں ہوا دوسرا کسی اور زبان میں۔ ‘‘(۴۴)

مثلاً حافظ کی یہ غزل:

ازخونِ دل نوِ شتم نزدیک دوست نامہ

انّی رایت دھراً من ھجرک القیامہ

پرسیدم از طبیبی احوال عشق گفتا

فی قربھا عذاب فی بعد ھا سلامہ

حافظ چو طالب آمد جامی بہ جانِ شیریں

حتیٰ ھذوق منہ کا سا من الکرامہ

اسی طرح مولانا جلال الدین احمد یوسف کی غزل ہے :

گفتم او را ما دعا گوئی توا یم ای حورِعین

اعرضت عنی فقالت مادعاء الکافرین

بردرِ باغِ وصالش ہاتفی آواز داد

ھٰذا جنت عدن فاد خلوھا خالدین

ریختہ گوئی کے زیر اثر ارد و غزل کے مذکورہ تجربات اہم ہیں اگرچہ بعض اوقات دو زبانوں کا یہ جوڑ مصنوعی بھی نظر آتا ہے۔ بعض شعرا کے ہاں تصنع کی اس کوشش میں مضحک صورتحال بھی پیدا ہوتی ہے لیکن ان تجربات کا سلسلہ جب ولیؔ تک پہنچتا ہے تو دو زبانوں کا ملاپ ایک فطری روپ اختیار کرتا  ہوا نظر آتا ہے :

حاجت نہیں ہے شمع کی اُس انجمن منیں

جس انجمن میں شمعِ سجن کا جمال ہے

تجھ تجلی کے صحیفے کا سُرج ہے یک ورق

عکس تیری زلف کا جگ میں شب دیجور ہے

اردو غزل میں ولیؔ کے تجربات کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک روایت کے مطابق ان کا کلام سن کر شاہ گلشن نے انھیں مشورہ دیا کہ ’’ایں ہمہ مضامین فارسی کہ بیکار افتادہ اند، در ریختہ خود بکار ببراز تو کہ محاسبہ خواہد گرفت۔ ‘‘(۴۵)

چنانچہ ولی نے نہ صرف مضامین فارسی کو ریختہ میں باندھا بلکہ زبان و بیان کی سطح پر بھی منفرد تجربات کیے نئی تراکیب تراشیں، مزاج ریختہ کے مطابق فارسی اور عربی سے مناسب بحور تلاش کیں اور انھیں اردو کے قالب میں ڈھالا نیز فارسی محاوروں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ ولیؔ کے لسانی تجربات سے اردو شاعری میں ’’ غزل ایک ایسی صنف سخن بن گئی جس میں زندگی کے ہر رنگ کے تجربات کو بیان کرنے کی صلاحیت بیدار ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ حسن و عشق، غمِ جاناں و غمِ دوراں اردو غزل کی نئی علامتیں بن گئیں اور انسانی زندگی کے چھوٹے بڑے تجربات غزل کے دامن میں سمٹ آئے۔ ‘‘(۴۶)

حسن تھا پردہ تجرید میں سب سوں آزاد

طالبِ عشق ہوا صورتِ انسان میں آ

جو ہوا رازِ عشق سے آگاہ

وہ زمانے کا فخرِ رازی ہے

راہِ مضمون تازہ بند نہیں

تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

ولیؔ نے جہاں فارسی شعرا کی زمینوں میں غزلیں کہیں یا فارسی مضامین سے استفادہ کیا وہاں ولی نے فارسی محاوروں کو اردو میں ترجمہ کرنے کا بھی کامیاب تجربہ کیا چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

آب کردن     =     آب کرنا       اے ولی دل کوں آب کرتی ہے

بتنگ شدن     =     بتنگ ہونا       اے دوستاں بتنگ ہوا ہوں میں ہوش سے

جا کردن        =     جا کرنا          گوہر اس کی نظر میں جا نہ کرے

تماشا کردن     =     تماشا کرنا       تجھ سکھ کا نور جب سوں تماشا کیا ولی

خوش آمدن     =     خوش آنا نہ جاؤں صحن گلشن میں کہ خوش آتا نہیں مجھ کو

روا داشتن       =     روا رکھنا رکھتا ہے کیوں جفا کوں مجھ پر روا اے ظالم

قدیم اردو شعرا کے ہاں بیشتر اشعار میں شاعری کے لئے ریختہ کا لفظ مستعمل دکھائی دیتا ہے۔ اس سے بعض ناقدین کو یہ بھی التباس ہوا کہ ’’خسروؔ کے عہد سے اکبر کے زمانے تک بلکہ میرؔ و غالبؔ کیا ناسخؔ کے دور تک غزل کو ریختہ کہا گیا۔ ‘‘(۴۷)دکنی دور سے غالب کے زمانے تک بہت سے ایسے اشعار کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ جن میں غزل گو شعرا نے لفظِ غزل استعمال کیا ہے :

اے جانِ سراجؔ ایک غزل درد کی سن جا

مجموعۂ احوال ہے دیوان ہمارا

سودؔا تو اس زمیں میں غزل در غزل ہی لکھ

ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں

آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

دکن میں اردو غزل کا مطالعہ کریں تو اردو غزل ایک اور مختلف تجربے سے گزرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ یہاں فارسی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اظہارِ محبت عورت کی طرف سے ہے، جس کی بنیادی وجہ ہندی گیت کی روایت ہے۔ غزل گو شعرا نے اس نئی روایت کے زیر اثر عورت کے جذبات کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ ’’فریق مخاطب واضح طور پر مرد ہے، جہاں ایسا نہیں ہے وہاں بھی لہجے اور تخاطب کی انفعالیت گیت کے اثرات کی غماز ہے۔ ‘‘(۴۸)

تو پیارا عشق بھی تیرا ہے پیارا

لگیا ہے بہوت تجھ سوں دل ہمارا

سکھی کج بھی سمج توں دل میں اپنے

کتاِ منّت کرے عاشق بچارا

(عبداللہ قطب شاہ)

اگر کوئی آ کے دیکھے گا تو دل میں کیا کہے گا

مجھے بدنام کیا کرتے کہیں میں جاؤں گی چھوڑو

رضا گر مجھ کو دیتے ہو کروں گی گھر میں جا دارو

اگر مجھ ہووے گی فرصت صبح پھر آؤں گی چھوڑو

(میراں ہاشمی)

غزل میں عورت کی طرف سے اظہار محبت کے تجربے کے باعث بعض ناقدین نے اسے ریختہ کے بجائے ریختی سے تعبیر کیا ہے۔ حالانکہ یہاں فعل مذکر کے استعمال کی وجہ ہندی گیت کی وہ روایت ہے جو اس سرزمین میں صدیوں سے مروّج رہی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ریختی میں جو ابتذال اور رکاکت پائی جاتی ہے دکنی شعرا کی غزل میں اس کے عناصر مفقود ہیں۔ دکنی غزل میں برتی جانے والی زبان بھی اس اعتبار سے قابل لحاظ ہے کہ اس میں مقامی عناصر، ثقافت اور اصناف کی آمیزش ہے۔

غزل کی ہیئت میں تبدیلی کے باب میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے سراج اورنگ آبادی کی ایک مستزاد غزل کا حوالہ دیا ہے (۴۹)

ہر صبح فلک پر ملک عالمِ بالا

قد دیکھ سجن کا

تسبیح کریں سلمہ اللہ تعالیٰ

من کا لئے من کا

دیدار کی سمرن ہے مجھ آنکھوں کو سراج آج

پھر کیوں نہ پھر آویں

پلکوں کی ہر انگلی ستی لے ہاتھ میں مالا

آنسو کے رتن کا

ڈاکٹر صاحب کے خیال میں مستزاد کی یہ ہیئت مقامی اثرات خصوصاً ہندی گیت اور دوہے کی بدولت ہے۔ یہ بات زبان اور بعض مقامی عناصر کے حوالہ سے تو درست ہو سکتی ہے لیکن جہاں تک مستزاد غزل کی ہیئت کا تعلق ہے تو یہ روایت ہمیں فارسی شعراء کے ہاں نمایاں نظر آتی ہے۔ مثلاً مولانا رومؒ کی غزل ہے :

ہر لحظہ بہ شکل آں بت عیار برآمد

دل برد و نہاں شد

ہر دم بہ لباس دگرآں یار بر آمد

گہ پیر وجواں شد

یوسف شدواز معر فرستاد قمیصی

آں جلوہ گر عالم

دردیدہ یعقوب چو انوار برآمد

تادیدہ عیاں شد

رومیؔ سخنی کفر نہ گفت است و نگوید

منکر مشو یدش

منکر شدہ آں کس کہ بہ ان کار برآمد

مردود جہاں شد

دیوان ولیؔ، دلی پہنچا تو نہ صرف یہ کہ عوام و خواص میں مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ اردو غزل بھی بہت سے تخلیقی رویّوں سے آشنا ہوئی اور شعرا نے اس دیوان سے اپنی پسند کے رنگ چنے۔ ولی دکنی کے زیر اثر اس کے بعض معاصرین اور بعد کے شعرا نے اردو غزل میں اسلوبِ کا وہ منفرد تجربہ کیا جو ایہام گوئی کے نام سے اردو کی پہلی ادبی تحریک بن گیا۔ اگرچہ ایہام گو شعرا ابتذال کی طرف مائل ہوئے۔ تاہم بطور صنعتِ شعر اس میں لفظ کے متعدد معنوی تجربے ہوئے۔

ایہام گو شعرا ایک طرف تو مضمون پیدا کرتے مگر دوسری طرف اس مضمون کے لیے ایک ایسے لفظ کی تلاش بھی کرتے تھے جس سے مفہوم کو ذو معنویت کے رشتے میں پرویا جا سکے۔ اسلوب بیان کا یہ تجربہ آسان ہر گز نہ تھا۔ یہ الگ بات کہ اپنے وقت کے ماحول نے اسے غزل کا مقبول ترین میلان بنا دیا۔

ایہام گو یوں کے ہاں لفظِ تازہ کی تلاش میں نہ صرف زبان میں الفاظ و مرکبات کی تعداد بڑھی بلکہ اردو شاعری کا مخصوص لہجہ بھی تشکیل پانے لگا جو فارسی سے متاثر ہونے کے باوجود اس سے الگ اور ممتاز تھا۔ ’’ایہام گویوں کی اس کوشش سے سینکڑوں ہندوی و مقامی الفاظ اس طور پر استعمال ہوئے کہ اردو زبان کا جزو بن گئے۔ ‘‘(۵۰)

ایہام گو شعرا میں آبروؔ، ناجیؔ، مضمونؔاور شاہ حاتمؔ قابل ذکر ہیں۔ غزل میں ایہام کے چند نمونے ملاحظہ ہوں :

سیانے کوں عاشقی میں خواری بڑا کسب ہے

چاہے کہ بھاڑ جھونکے جو دل کا ہوئے دانا

ناجیؔ دہن کو دیکھ سخن مختصر کیا

گرچہ سجن کی زلف کا قصّہ طویل تھا

ایہام گوئی کا میلان ایک عرصہ تک مقبول رہا اور شعرا لفظوں کو ذومعنی برتنے کے مختلف اور متنوع تجربات کرتے رہے لیکن نادر شاہ کے حملے کے بعد وہ مجلسی فضا بری طرح مجروح ہوئی جس نے ایہام کو مقبول رجحان بنایا تھا۔ دوسری طرف اب خود شعرا بھی اس تجربے کی تکرار سے پیدا ہونے والی یکسانیت سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگے تھے۔ چنانچہ ایہام گوئی کے خلاف ردِ عمل کی تحریک جسے تازہ گوئی کی تحریک بھی کہا گیا ہے شروع ہوئی جس کے امام مظہر جان جاناں تھے۔ موصوف کے خیالات سے کئی اہل قلم متاثر ہوئے۔ شعرا نے ایہام گوئی کو نہ صرف ترک کیا بلکہ اس کے خلاف شعر بھی کہے۔ خود شاہ حاتم اصلاحِ زبان کی طرف مائل ہوئے اور اپنے دیوان کو ’’دیوان زادہ‘‘ کی صورت میں ایک نئی شکل دی۔

مظہر جان جاناں نے غزل گوئی کے لئے جو فضا بنائی اس میں لفظ تازہ کے بجائے مضمونِ تازہ کی جستجو کا میلان بڑھنے لگا۔ اس دور میں اردو غزل کو جو نئے نام میسر آئے ان میں میرؔ، سوداؔ، دردؔ اور قائمؔ ایسے نابغہ فن شامل ہیں۔ جنھوں نے نہ صرف لسانی تجربے کیے بلکہ بعض عروضی تجربے بھی کیے۔ اردو غزل میں اسلوب کے بھی متنوع رنگ سامنے آئے جو مذکورہ شعرا کی تجرباتی کاوشوں سے اردو غزل کے ارتقائی سفر میں تاریخ ساز اہمیت رکھتے ہیں۔

میرؔ کی غزل کا مطالعہ کریں تو ایک اہم تجربہ مکالمے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ میرؔ کے لہجے میں گفتگو کا رنگ اپنے بھر پور انداز میں غزل کو منفرد اسالیب سے آشنا کرتا ہے۔ عام بول چال کے انداز میں زبان کی تخلیقی چاشنی، شائستگی اور سخن کا اعجاز اس تجربے کو نہ صرف کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے بلکہ شعر کو صناعی سے پرکار سادگی کی طرف مائل بھی کرتا ہے۔ عام بول چال کا انداز میرؔ کے معاصر میرسوزؔ کے ہاں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے لیکن ’’ میرؔ کے ہاں عام زبان، عام زبان نہیں رہتی بلکہ حسّں شعر سے برقیا جاتی ہے۔ ‘‘(۵۱)

گلی میں اس کی گیا، سو گیا نہ بولا پھر

میں میرؔ میرؔ کر اس کو بہت پکار رہا

عام بول چال کے تجربے میں میرؔ بعض اوقات مبتذل انداز بھی اختیار کرتے ہیں اور ’’اس کے لیے ہر قسم کے لفظوں، محاوروں کے استعمال کا تجربہ کرنے سے نہیں ڈرتے۔ ۔ ۔ اس تجربے میں جہاں وہ کامیاب ہوتے ہیں تو ایسے کامیاب ہیں کہ ان کا شعر جادو اثر ہو کر ہماری زبان کا حصہ بن جاتا ہے۔ ‘‘(۵۲)

یوں پکاریں ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے

ادھر آ بے ابے او چاک گریباں والے

ہمیں غش آ گیا تھا وہ بدن دیکھ

بڑی کَلولَ ٹلی ہے جان پر سے

ایہام کے خلاف مظہر جان جاناں کے ردِّ عمل کی تحریک اور شاہ حاتمؔ کی اصلاح زبان کی کوششوں سے اگر چہ ہندی اثر کم ہو کر فارسی الفاظ و تراکیب کو رواج ملنے لگا تھا۔ لیکن میرؔ اس عقیدے کے قائل تھے کہ ’’ فارسی ترکیبیں ایسی ہونی چاہییں جو زبان ریختہ سے مناسبت رکھتی ہوں۔ ‘‘(۵۳) چنانچہ میرؔ نے بھی فارسی تراکیب برتیں لیکن کچھ تجربات بھی کیے۔ ان کے بعض اشعار میں ایک مصرعہ پورا فارسی کا جبکہ دوسرا خالص اردو کا ہے۔ اسی طرح تراکیب بھی ایسی استعمال کی ہیں کہ وہ ارد و اسلوب سے ہم آہنگ ہو گئی ہیں۔ میرؔ کا یہ تجربہ بڑا کامیاب ہے کہ وہ فارسی روایت کی پیروی کے باوجود اردو غزل میں ایسے اسلوب کو فروغ دے رہے تھے جو خالص اردو کا ہے اور اس کی پیروی نہ صرف یہ کہ مابعد کے شعرا نے کی بلکہ اردو زبان ایک مستقل ادبی زبان بن گئی۔ ’’یہ اتنا بڑا اور مثالی تجربہ تھا کہ ہر دور کے شعرا کو زبان کی سطح پر یہ کام مسلسل کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘(۵۴)

میرؔ کی غزل میں بعض لسانی تجربے بھی قابل توجہ ہیں۔ وہ عربی اور فارسی اسما کے آخر میں ’’ی‘‘ لگا کر اسم فاعل اور صفت بناتے ہیں :

ع

جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے

ع

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

ع

اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

میرؔ کے بعض مصرعوں میں لفظوں کی جمع ’’واں ‘‘، ’’اں ‘‘ اور ’’یاں ‘‘ لگا کر بھی ملتی ہے :

ع

ہے اس کے حرف زیر لبی کا سبھوں میں ذکر

ع

جفائیں دیکھ لیاں، بے وفائیاں دیکھیں

ع

برسوں رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں

میرؔ کے مذکورہ تجربات کی بنیادی وجہ عوام سے گفتگو کا جذبہ تھا اس لیے ’’وہ اشعار میں بھی وہی زبان استعمال کرتے تھے جو بقول خود ان کے جامع مسجد کی سیڑھیوں میں بولی جاتی ہے۔ ‘‘(۵۵) میرؔ نے بہت سے لفظ عوام کے ذوق کے مطابق استعمال کیے ہیں مثلاً مسجد کو مسیت، پلید کو پلیت اور نزدیک کو نزیک باندھا ہے۔ اسی طرح ’’شہر کے عوام اور کہیں کہیں دیہاتی و قصباتی دنیا اور غریب طبقے کے محاورات میرؔ کے یہاں بکثرت ہیں۔ ‘‘(۵۶)

اردو غزل کی روایت میں میرؔ کے مذکورہ لسانی تجربات کے تناظر میں یہ دعویٰ قرین حقیقت ہے ’’کہ میرؔ اردو کا پہلا شاعر ہے جس نے زبان کو شاعری بنایا۔ ‘‘(۵۷)

اردو شاعری میں میرؔ کے تجربات کا ایک پہلو عروضی بھی ہے۔ طویل اور ہندی بحور میں کہی گئی غزلوں میں ان تجربات نے ایک نئے آہنگ کو جنم دیا ہے جہاں اصوات کی ایک مخصوص ترتیب سے سماعتوں میں ایک وجد آفریں کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ’’میرؔ نے بحر متقارب و بحر متدارک میں بجائے سالم ارکان کے مختلف زحافات میں غزلیں کَہ کر اردو کو ہندی سے بہت قریب کر دیا ہے۔ آج کل جو ہندی نما گیت کہے جاتے ہیں وہ انھیں بحور میں ہوتے ہیں۔ ‘‘(۵۸) میرؔ کے اس عروضی تجربے نے اردو غزل کو ایک نیا غنائی رنگ اور آہنگ دیا۔ جدید غزل گو شعرا نے اس تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے اس امکان کو وسعت بھی دی ہے :

چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے

پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم باد و باراں ہے

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

اس عہد کا دوسرا بڑا نام میرزا رفیع سوداؔ کا ہے جن کا اصل میدان تو قصیدہ ہے لیکن اردو غزل میں بھی ان کا اثاثہ ہر اعتبار سے وقیع اور ممتاز مقام رکھتا ہے۔ سوداؔ کی غزل میں منفرد پہلو ان کے اسالیب کا تنوّع ہے۔ ’’وہ مختلف رنگوں اور مختلف لہجوں کو اردو غزل میں استعمال کرنے کا تجربہ کرتے ہیں۔ ‘‘ (۵۹) جو بعد میں مختلف شعرا کے ہاں ایک روایتِ نو بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ غزل میں اس پر شکوہ اسلوب کے اشعار بھی کہتے ہیں جو قصیدے کا وصف ہے، سنگلاخ زمینوں، مشکل بحروں اور متنّوع قافیوں سے مزیّن غزلیں قصیدے کی نئی شان و شوکت رکھتی ہیں۔ تاہم سوداؔ اس تجربے میں اس فرق کو ضرور ملحوظ رکھتے ہیں جو قصیدے اور غزل کے اسلوب اور لہجے کو مختلف بنا تا ہے۔ عبدالسلام ندوی کے الفاظ میں :

’’کلام کا زور مضمون کی نزاکت سے ایسا دست و گریباں ہے جیسے آگ کے شعلے میں گرمی اور روشنی، بندش کی چستی اور تراکیب کی درستی سے لفظوں کے دروبست کے ساتھ پہلو بہ پہلو جڑے ہیں، گویا ولایتی طپنچے کی چاپیں چڑھی ہوں۔ ‘‘(۶۰)

جو ہمسری کا تری گل نے کچھ خیال کیا

صبا نے مار طمانچے منہ اس کا لال کیا

نازک اندامی کروں کیا اس کی اے سودا بیاں

شمع ساں جس کے بدن پر ہو پسینے کا خراش

سوداؔ کی غزل میں اسالیب اور مضامین کے تنوع کے ساتھ ساتھ الفاظ کی بو قلمونی بھی قابل توجہ ہے۔ جو تجربہ میرؔ نے طبع فقیرانہ کے باعث کیا وہ سوداؔ نے اپنی شکوہ مندی کو کام میں لاتے ہوئے کیا۔ وہ بعض اوقات بحور اور قوافی کی شاعرانہ اور غیر شاعرانہ حدود کی پروا نہ کرتے ہوئے ہر طرح کے الفاظ تراکیب اور زمینیں استعمال کرنے کا تجربہ کرتے ہیں۔ ’’اس لحاظ سے اپنی غزل میں سوداؔ نے وہی تجربہ کیا جس سے ہمارے دور کے شعرا دوچار ہیں۔ ‘‘(۶۱)

اردو غزل کے ابتدائی مراحل میں ان بے باکیوں کے باعث بہت سے امکانات روشن ہوئے اور بعد کے غزل گوؤں کے لیے نئی راہیں کھلیں :

بولو نہ بول شیخ جی ہم سے کڑے کڑے

یاں چت کیے ہیں اس سے عمامہ بڑے بڑے

سوداؔ کے ہوتے وامق و مجنوں کا ذکر کیا

عالم عبث اکھاڑے ہے مردے گڑے گڑے

ہر آن یاس بڑھنی، ہر دم امید گھٹنی

دن حشر کا ہے اب تو فرقت کی رات کٹنی

مژگاں کی برچھیوں نے دل کو تو چھان مارا

اب بوٹیاں تھیں باقی اُن کے جگر کی بٹنی

تو نے بٹھائے سوداؔ یہ قافیہ وگرنہ

پائے قلم کو یکسر ہے یہ زمین بٹنی

فارسی محاوروں کو اردو میں ترجمہ کر کے استعمال میں لانے کا جو تجربہ ولی دکنی نے کیا تھا اسے بعد میں شعرا نے آگے بڑھایا۔ اس سلسلے میں ہر شاعر کی اپنی سعی قابل قدر ہے لیکن سوداؔ نے اس حوالہ سے جو کوششیں کی ہیں بے مثال ہیں۔ انہوں نے یہ لسانی تجربے اس انداز سے کیے ہیں جیسے ’’علم کیمیا کا ماہر ایک مادے کو دوسرے مادے میں جذب کر دیتا ہے اور تیسرا مادہ پیدا کر دیتا ہے کہ کسی تیزاب سے ان کا جوڑ کھل نہیں سکتا۔ ‘‘(۶۲)

فارسی محاوروں کو اردو میں ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ سوداؔ نے فارسی طرز پر نئے اردو مصادر بنائے مثلاً لاج سے لجانا، پتھر سے پتھرانا وغیرہ۔ اسی طرح فارسی اور عربی سے بھی نئے مصادر بنائے مثلاً داغ سے داغنا، قبول سے قبولنا اور شرم سے شرمانا وغیرہ۔

میرؔ و سوداؔ کے دور میں پشتو ثقافت کے زیر اثر اردو غزل میں تجربات کا جائزہ لیں تو بعض لسانی کوششیں غزل کے لحن کو ایک نئے آہنگ سے متعارف کراتی ہیں۔ اس حوالہ سے ایک بڑا اہم نام قاسم علی خان آفریدی کا ہے۔ جنہوں نے نہ صرف اردو غزل میں پشتو الفاظ کا استعمال کیا بلکہ زبان و بیان کی سطح پر پشتون لہجہ بھی اختیار کیا:

زطرفِ غیر غمازی کواُس کے کان تک شاید

کوئی ریبار جا پہنچا بنا پوچھے خبر ہم سے

نے مہر و محبت نہ مہربانی و الطاف

معشوقوں میں بو ننگ، نہ غیرت نہ حیا کی

دنیا سے کود جانا کیا سخت آفریدی

جو این و آں سے کودے غرزنگ ہے سو یہ ہے

اُس ماہ رو کی دید کو لے شام صبح تک

رکھتا ہے واز چشم کو کو کب تمام شب

مذکورہ اشعار میں قاصد کے لیے ’’ریبار‘‘ جست کے لیے ’’غرزنگ‘‘ اور باز کے لیے ’’واز‘‘ ایسے پشتو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ننگ کے لفظ کو بھی پشتو لغت کے مطابق غیرت کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔

قاسم علی خان آفریدی نے پشتو کی رعایت سے بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث میں بھی لچک پیدا کی ہے۔ مثلاً انھوں نے داستان، جفا، خطا، اور بہار کے الفاظ کو مذکر باندھا ہے۔ اس طرح اُن کے ہاں بعض الفاظ کا تلفظ بھی قابل لحاظ ہے :

جس طرح موت، قیامت ہے، حشر تینوں ایک

شکم مادر و تہ خانہ قبر تینوں ایک

جب اٹکتا ہے جو دل کچھ نہیں چھوڑے باقی

ننگ و ناموس، حیا اور شرم چاروں ایک

دیوانِ قاسم علی خان آفریدی کے مرتب نے حاشیے میں لکھا ہے کہ ’’ ان الفاظ کا تلفظ شاید اُس وقت پشتو( یا پنجابی) کے مطابق تھا۔ ‘‘(۶۳) تاہم آفریدی جس دور سے تعلق رکھتے ہیں، کسی دوسرے اردو شاعر کے ہاں تلفظ کی اس نوعیت کی مثالیں نہیں ملتیں۔

اردو غزل میں تجربات کے حوالہ سے دبستان لکھنو ٔ کے شعرا کی غزل بھی بعض جہتوں سے لائق اعتنا ہے۔ اس سلسلے میں ناسخ کی اصلاح زبان کی کوششیں تاریخ ادب میں بڑی اہم خیال کی گئی ہیں۔ وہ بقول غالب ’’طرز جدید کے موجد اور پرانی ناہموار روشوں کے ناسخ تھے۔ ‘‘(۶۴) انھوں نے قدیم پراکرتی عناصر کو شعوری طور پر خارج کر کے عربی و فارسی کے الفاظ و تراکیب کو اختیار کرنے پر زور دیا۔

یہ تحریک تہذیبی حوالوں سے بڑی اہمیت رکھتی ہے خصوصاً فرنگی سامراج کی اشاعت کے زمانے میں یہ ثقافت کی بقا کا وسیلہ تھی لیکن ناسخؔ نے عربی و فارسی الفاظ کے ساتھ ساتھ بعض علمی اصلاحات کو بھی غزل کا حصہ بنایا اور اپنی علمیت سے غزل کو اتنا بوجھل کر دیا کہ ان کے ہاں خیال کی رفعت میں تو کوئی شک نہیں لیکن اسلوب کی سطح پر ان کی غزل میں ’’ایک قسم کی شاعری ایجاد ہوئی۔ جس پر نہ قصیدہ گوئی اور نہ غزل سرائی دونوں میں کسی کی تعریف صادق نہیں آتی۔ ‘‘(۶۵) ناسخؔ کے ہاں ایک ایسا اسلوب ہے جو غزل کی ملائمت سے بہت حد تک تہی ہے :

مضمون چشم یار کی ہر دم ہے جستجو

شوق ان دنوں ہے مجھ کو ہرن کے شکار کا

کوئے جاناں میں ہوں پر محروم ہوں دیدا رسے

پائے خفتہ خندہ زن ہیں دیدۂ بیدار سے

میری آنکھوں نے تجھے دیکھ کے وہ کچھ دیکھا

کہ زبانِ مژہ پر شکوہ ہے بینائی کا

تازہ گوئی اور اصلاح زبان کی تحریکیں ایہام گوئی کے ردِّ عمل کے طور پرسامنے آئیں لیکن تازہ گوئی کا مدعا صرف صنعت ایہام کا رد تھا جبکہ ناسخؔ کی کوششیں لسانی حوالوں سے وسیع تر تھیں، جن کا مقصد اردو شاعری کی فارسی الفاظ و تراکیب کے ذریعے تطہیر و اصلاح تھا۔ ان کوششوں کے اثرات ہمہ گیر طور پر سامنے آئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’اردو زبان کی تطہیر و اصلاح کے اس عمل میں خرابی کی ایک صورت بھی مضمر تھی کہ یہ اردو کو اُس کے عوامی اور مقامی رنگ و نسل سے محروم کر دینے کی شعوری کاوش تھی۔ ‘‘(۶۶)جس سے اردو کی زبان سازی کا وہ عمل رک گیا جو میرؔ نے شروع کیا تھا۔

ناسخ کے بعض معاصرین میں ان کوششوں کے خلاف جزوی یا کلی طور پر رد عمل بھی سامنے آیا۔ انشاؔ، ذوقؔ، آتشؔ اور ظفرؔ نے ناسخؔ کی لسانی اصلاحوں کو تسلیم کرنے سے گریز کیا اور غزل میں مقامی لہجے اور ثقافتی عناصر کو جگہ دی، انشاؔ نے تو واضح اعلان کیا کہ ’’ہر لفظ جو اردو میں مشہور ہو گیا ہے، عربی ہو یا فارسی، ترکی، ہریانی، پنجابی ہو یا یوپی، ازروئے اصل غلط ہو یا صحیح وہ لفظ اردو کا لفظ ہے اگر اصل کے مطابق ہے تو بھی صحیح ہے اور اگر خلافِ اصل مستعمل ہے، تو بھی صحیح ہے۔ اس کی صحت و غلطی اردو کے استعمال پر موقوف ہے۔ ‘‘(۶۷)

انشاؔ نے اپنے مذکورہ لسانی عقیدے کے باعث اردو غزل میں بعض تجربے کر کے جدّتیں پیدا کیں اور شعر کی ایرانی فضا کو بدلنے کی سعی کی۔ یہ درست ہے کہ اُن کے تجربات سے اشعار میں داخلیت کے بجائے خارجیت کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے لیکن ’’غزل میں ہندوستانی عناصر سمو کر انشاؔ نے یہ بات ثابت کر دی کہ ایسے عناصر کو غزل میں جگہ دینے کی کتنی گنجائش ہے۔ ‘‘(۶۸) اُن کی غزل میں ہندی الفاظ، محاورات اور قوافی کے ساتھ ہندی فضاء اور ثقافت کے متعلقات ایک نئے طرز اور رنگ و آہنگ کو جنم دیتے ہیں۔ وہ تراکیب کم سے کم استعمال کرتے ہیں اور مصرع میں نثری ترتیب برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں :

یہ جلترنگ نے پھیلا دی آگ پانی پر

کہ جل کے گر پڑے خود میگھ راگ پانی پر

اے ہم نشیں ! یہ موسمِ ہولی ہے ان دنوں

منظور ہے جو سیر تو اُس خوش ادا کو چھیڑ

سانولے پن پر غضب ہے دھج بسنتی شال کی

جی میں ہے کَہ بیٹھیے اب جے کنھیا لال کی

چمپا میں، موگرے میں، مدن بان میں کہاں

ہے نازکی کی تہہ سی جو ایک اُس کے تن کے ساتھ

خواجہ حیدر علی آتشؔ کی غزل میں مرصع سازی کے عقیدے اور عربی و فارسی الفاظ و تراکیب کی روایت کی پیروی کے باوجود لسانی اجتہادات ملتے ہیں، جن کی بنیاد آتش کا یہ عقیدہ تھا کہ ’’ عربی فارسی الفاظ کو اردو میں اسی تلفظ اور محاورے کے مطابق بولنا اور لکھنا چاہیے ٔ جس طرح روزمرہ استعمال میں آتے ہیں۔ آتش اپنے معترضین کو جواب بھی اسی دلیل کے ساتھ دیتے تھے۔ ‘‘(۶۹) ان کے ہاں بعض لسانی تجربوں کی مثالیں ملاحظہ ہوں :

دختر رز مری مونس ہے مری ہمدم ہے

میں جہانگیر ہوں وہ نور جہاں بیگم ہے

ترکی میں درست تلفظ بیغم ہے۔

زہر پرہیز ہو گیا مجھ کو

درد درماں سے المضاف ہوا

عربی میں المضاف نہیں، المضاعف ہے۔

کیا نفاق انگیز ہم جنساں ہوائے دہر ہے

نیند اڑ جاتی ہے سننے سے نفیر خواب کو

رہگذر میں دفن کرنا اے عزیزاں تم مجھے

شاید آ جائے کسی کے میرا مدفن زیر پا

دونوں شعروں میں فارسی جمع بے اضافت استعمال کی ہے۔

اردو غزل کے کلاسیکی دور میں غالب ایک ایسے شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں جو اپنے اسلوب کے بارے میں بہت زیادہ Consciousہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسرے شعراء سے مختلف یا ممتاز بھی سمجھتے ہیں تو اُس کی وجہ اپنا منفرد اسلوب بتاتے ہیں۔ غالبؔ اگرچہ اُس روایت کے پاسدار ہیں جو میرؔ سے شروع ہوتی ہے اور وہ معتقد میرؔ بلکہ ’’میری‘‘ ہونے کو قابل افتخار خیال کرتے ہیں۔ لیکن انھیں تقلید سے نفرت ہے۔ وہ لہجے کے تتبع کو دبیروں اور شاعروں کا کام کے بجائے بھانڈوں کا کام سمجھتے ہیں۔ (۷۰) اس لیے انہوں نے غزل میں اسلوب کے سلسلے میں روایت کے بجائے جدت کو ترجیح دی اور ’’بڑی جانفشانی اور تجربے کے بعد ایک ایسی طرح ’’دیگر‘‘ اور ایک ایسا ’’انداز بیان اور ‘‘ایجاد کیا جو آج تک اپنی مثال آپ ہے۔ (۷۱)

کلاسیکی اردو غزل میں غالبؔ پہلے شاعر ہیں جن کے ہاں اسلوب کا نیا پن نمایاں ہے اور اُن کے ہاں روایت سے گریز کے متنوع قرینے دکھائی دیتے ہیں۔ غالبؔ نے اسلوب اور زبان و بیان کے جو تجربے کیے وہ ایک ایسے طرزِ اظہار کی بنیاد بنتے ہیں جن پر ایک پر شکوہ غزل کی تعمیر غالبؔ ایسے نابغہ شاعر ہی سے ممکن تھی۔

ان کے اشعار کی بنیادی خصوصیت ایسی تہہ داری ہے جس کے صحیح ادراک کے لیے بقول یوسف حسین خان:

’’ ایک خاص علوئے ذوق و امتیاز اور علمی بصیرت درکار ہے۔ ۔ ۔ مرزا کا تغّزل اردو زبان میں رمز نگاری کا آخری نقطہ ہے۔ وہاں صرف انھی کی رسائی ہو سکتی ہے جو اس کے سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ ‘‘(۷۲)

غالبؔ نے اپنے اسلوب میں تہہ داری کے لئے ایہام، رعایت لفظی اور کنائے کی صنائع بعض مقامات پر ضرور استعمال کی ہیں لیکن ان کا اصل تجربہ شعر میں لفظ کے ایسے استعمال یا الفاظ کی اُس خاص ترتیب کی ایجاد ہے جس سے ایک مفہوم کے بجائے کئی معنوی پرتیں تشکیل پاتی ہیں۔ ایسے اشعار میں بظاہر معنی اور نظر آتے ہیں مگر غور کرنے سے دوسرے لطیف معنی پیدا ہوتے ہیں۔ غالب کے تہہ دار اسلوب کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

کیوں کر اُس بت سے رکھوں جان عزیز

کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز

سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرّر چاہا

ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے مجھ کو

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ

جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو

کیا خوب تم نے غیر کو بوسا نہیں دیا

بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے

زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھا دیتے تھے

دیکھوں اب مر گئے پر کون اُٹھاتا ہے مجھے

غالبؔ کے ہاں اردو غزل کی عام روایت سے گریز کا دوسرا پہلو اُن کا فکری اسلوب ہے۔ اُن کی غزل کو پڑھتے ہوئے یہ واضح محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف لطیف احساسات کی پیداوار نہیں بلکہ فلسفیانہ سطح پر سوچتے ہوئے ایک ذہن کی تخلیق ہے۔ غالبؔ نے اپنے اشعار میں جتنے سوالات اُٹھائے ہیں، اردو غزل کی روایت میں کسی اور شاعر کے ہاں اس کی مثال کم یاب ہے۔ غزل میں استفہامیہ اسلوب کا تجربہ بقول پروفیسر ظہیر احمد صدیقی بیدل کے اثرات کا نتیجہ ہے جو ’’اپنی غزلوں میں سوالیہ انداز میں حقائق کا اظہار فرماتے ہیں۔ ‘‘(۷۳)

بحر بے تاب کہ آں گوہرِ نایاب کجا ست

چرخ سرگشتہ کہ خورشیدِ جہاں تاب کجاست

بلبل بہ نالہ حرفِ چمن را مفسراست

یارب! زبانِ نکہتِ گل ترجمان کیست

استفہامیہ اسلوب کے حوالہ سے غالب کے ہاں دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اُن کے دیوان کا پہلا ہی شعر ذات اور کائنات کے بارے میں مجموعۂ سوالات ہے :

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

غالبؔ کے ہاں اس سلسلے میں بعض اور مثالیں ملاحظہ ہوں :

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی

فتنۂ شورِ قیامت کس کی آب و گل میں ہے ؟

قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ

اے نالہ! نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے

اردو غزل کا کلاسیکی سرمایہ بیشتر حزنیہ اور المیاتی اسلوب کا حامل ہے۔ ملال اور اضمحلال کا رنگ ہمارے غزلیہ ادب پر سایہ فگن نظر آتا ہے۔ لیکن غالبؔ پہلے شاعر ہیں جن کے ہاں غم و الم کے متوازن بہجت و بشاشت کا انداز بھی نمایاں ہے۔ اُن کے اشعار میں ظرافت، بذلہ سنجی اور شوخی و مزاح کا اتنا وفور ہے کہ اردو غزل کا مزاج تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ غالب کی یہ خوش طبعی اُن غزلوں میں بھی نمایاں ہے جو شدید المیاتی احساس رکھتی ہیں :

میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی

سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یوں

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

یعنی کہ قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

کلاسیکی اردو غزل کا تلمیحاتی نظام مشرقی معاشرے کی بعض ایسی روایات پر مبنی ہے جو مسلمہ خیال کی جاتی ہیں اور بعض کے ساتھ تقدس بھی وابستہ ہے۔ اس سلسلے میں قصص الانبیا ء سے لے کر عام داستانوی حقائق اور کرداروں تک سے اردو شعرا نے استفادہ کیا اور اپنے اشعار میں اُن روایتوں کو دہرایا جو ہمارے ہاں مقبول عام ہیں۔ اس صورتِ حال میں غالب کے اسلوب کا جائزہ لیا جائے تو یہ دلچسپ نکتہ کھلتا ہے کہ اردو غزل میں پہلی بار ایک شاعر ان روایتوں کو ایک الگ زاویے سے دیکھ رہا ہے اور نئے حقائق سامنے لا رہا ہے :

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر!

نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لیے

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ

سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا

قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن

ہم کو منظور تنک ظرفی منصور نہیں

غالبؔ نے زبان کے استعمال میں بھی بعض تجربات کیے ہیں۔ اس سلسلے میں ’’طلبی‘‘، ’’روبکاری‘‘، ’’فوجداری‘‘ اور ’’سرشتہ داری‘‘ ایسے الفاظ قابلِ توجہ ہیں۔

میرؔ کی غزلوں میں ہندی بحر اور اس کے مختلف شیڈز نظر آتے ہیں لیکن غالبؔ اور اس کے معاصرین نے اردو غزل میں بحور کے جن تجربات کی طرف پیش رفت کی اُن سے مقامی عناصر کی اثر پذیری اور زیادہ نمایاں ہوتی ہے اور اردو غزل میں ایسے عروضی نظام کے فروغ کے آثار نظر آنے لگے جس میں نہ صرف ہندی اثرات پائے جاتے ہیں بلکہ ہندوستان کی دیگر قومی بولیوں کے بھی عناصر دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ سرمایہ کچھ زیادہ نہیں ہے تاہم بحور کے تجربات کی ایک نئی سمت کھلتی ہوئی ضرور نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے ’’دیوان غالب‘‘ میں دو غزلیں قابل ذکر ہیں۔ ایک غزل کا مطلع ہے :

عجب نشاط سے جلّاد کے چلے ہیں ہم آگے

کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے

اس غزل کی بحر ہندی چھند کی بحر ہے۔ اسی طرح یہ غزل جس کا مطلع ہے :

آ کہ میری جان کو قرار نہیں ہے

طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے

یہ بحر بھی ہندی موسیقی کے ایک راگ سے ماخوذ ہے۔ ہندی عروض کے حوالہ سے ابراہیم ذوقؔ کی ایک غزل قابل ذکر ہے۔ مطلع ہے :

جس ہاتھ میں خاتم لعل کی ہے گر اُس میں زلفِ سرکش ہو

پھر زلف ہے وہ دست موسیٰ جس میں اخگر آتش ہو

ذوقؔ نے یہ غزل ایک مشاعرے میں پڑھی تو شاہ نصیرؔ نے اس بحر کو محض اس لیے ناجائز قرار دیا کہ ’’کسی استاد نے اس پر غزل نہیں کہی۔ ‘‘ (۷۴) جبکہ ذوقؔ نے اپنے اس عروضی تجربے کی دلیل یوں دی کہ ’’۱۹ بحریں آسمان سے نازل ہوئیں۔ طبائع موزوں نے وقت بوقت گل کھلائے ہیں۔ ‘‘(۷۵)

اس دور میں عروضی تجربات کے حوالہ سے بہادر شاہ ظفرؔ کی ایک غزل بہت لائق توجہ ہے، جس کی بحر ہندوستان کی مقامی شعری اصناف دوہے اور حرفی سے بہت زیادہ قریب ہے :

نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا

غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا

ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحب فہم و ذکا

جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

ظفرؔ نے اپنی ایک مستزاد غزل میں نظام قوافی کا ایک انوکھا تجربہ کیا ہے۔ غزل میں قافیوں کی اس نوع کی ترتیب کو صنعتِ مسّمط کا نام دیا گیا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ ظفرؔ نے اس غزل میں صنعتِ مسّمط سے بھی زائد ایک قافیہ کا التزام کیا ہے۔ قوافی کے اتنے ادق نظام کی وجہ سے مضامین کوہ کندن و کاہ براوردن کی مثال ہو گئے ہیں :

 

میں ہوں عاشق مجھے غم کھانے سے ان کار نہیں

کہ ہے غم میری غذا

تو ہے معشوق تجھے غم سے سروکار نہیں

کھائے غم تیری بلا

دل و دیں تیرے حوالے کیے سب، کرتے ہی طلب

اور جو کچھ کہا سب

پھر جو بیزار ہے تو مجھ سے بتا اس کا سبب

میری تقصیر ہے کیا

نہ تو تقریر سے ہو اور نہ تحریر سے ہو

اور نہ تدبیر سے ہو

ہم تو کہتے ہیں ظفرؔ جو ہو سو تقدیر سے ہو

ہے یہی بات بجا

یہ اشعار غزل کے اشعار کے بجائے کسی نئی صنف نظم کے بند محسوس ہوتے ہیں۔ دیوان ظفرؔ میں بعض غزلیں ’’بزبان بھاکا‘‘ کے عنوان سے ملتی ہیں۔ یہ غزلیں نہ صرف ہندی لب و لہجہ میں ہیں بلکہ اپنے اندر اس طرح گیت کے اثرات رکھتی ہیں جو ہمیں قدیم دکنی غزلیات میں ملتے ہیں۔ ان غزلوں کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ ان میں اظہار عشق بھی عورت کی طرف سے ہے۔ مضامین ہندی گیت سے مماثل ہیں۔ اشعار میں کلام کرتا ہوا کردار ایک برہا کی ماری دوشیزہ نظر آتی ہے :

بیم اگن نت موہے جلاوے، پیا کا بھید کہوں کاسے

پی ہو پاس تو جی ہو ٹھنڈا اپنی بپتا کہوں واسے

من کے اندر پیا قلندر، تیرے ظفرؔ وہ آن بسا

کام پڑا جب واسے تہارو، کام رہا ہے دنیا سے

غزل کے مقطع میں تخلّص کے استعمال کی روایت قصیدے کی صنف ہی سے مستفاد ہے۔ چونکہ تشبیب میں جہاں سے مدح کی طرف گریز کیا جاتا تھا وہاں تخلص کا استعمال ہوتا تھا۔ غزل نے ایک صنفِ سخن کی شکل اختیار کی تو تخلص کی روایت اسی طرح برقرار رہی لیکن غزل کے مقطع میں تخلص کا استعمال مزاج کے اعتبار سے تشبیب سے قطعی مختلف ہے۔ قصیدے میں تخلص محض گریز کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جبکہ غزل کا ’’مقطع سو فیصدی داخلی چیز ہے اور اس میں نفسیاتی اور وجدانی ارتعاشات آخری بار جلوہ نما ہوتے ہیں۔ ‘‘(۷۶)

فارسی اور اردو شعرا کے ہاں اپنے نام کے ساتھ ایک مختصر نام بطور تخلص رکھنے اور غزل کے مقطع یا کسی دوسرے شعر میں استعمال کرنے کا رجحان عام رہا ہے۔ اس سلسلے میں مومنؔ نے ایک معنوی تجربہ کیا۔ غزلیات مومنؔ کے مقطع میں تخلص عموماً اپنے لفظی معنی بھی دیتا ہے۔ اس کے لیے مومنؔ اپنے اشعار میں رعایت لفظی اور صنعت مراعات النظیر کا استعمال بھی کرتے ہیں جو ایک خاص اسلوبیاتی حسن کا باعث بنتی ہیں۔ اگرچہ بعض مقامات پر تخلص کے معنوی استعمال کی تکرار گراں بھی گزرتی ہے :

جنّت میں بھی مومن نہ ملا ہائے بتوں سے

جورِ اجلِ تفرقہ پرداز تو دیکھو

چل کے کعبہ میں سجدہ کر مومن

چھوڑ اس بت کے آستانے کو

لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں

مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

۱۸۵۷ ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز راج اور مسلم رد عمل پر گفتگو کرتے ہوئے رالف رسل نے بڑی عمدہ بات کی ہے کہ ’’غزل کا محاورہ اُس انداز کا نہیں جس میں آپ مخصوص سیاسی تحریکوں کی براہ راست عکاسی کی توقع رکھ سکیں۔ ‘‘(۷۷) اس امر میں کوئی شک نہیں کہ غزل اپنی ابتداء ہی سے معاشرتی اور اجتماعی طرز احساس کی ترجمان رہی ہے۔ جمالیات کے پردے میں سماجی و سیاسی جدلیات کی ایمائی عکاسی غزل کا ہنر اور جوہر رہا ہے۔

اردو غزل نے برصغیر کی سیاسی تاریخ کو اپنے انداز میں جس قرینے سے سمویا ہے اُس کا ایک دلچسپ مطالعہ خواجہ منظور حسین نے ’’اردو غزل کا خارجی روپ بہروپ‘‘(۷۸) میں کیا ہے۔

۱۷۰۷ء کے بعد نا اہل حکمرانوں، خانہ جنگیوں اور بیرونی حملہ آوروں کے باعث ہندوستان کے باشندے جن مصائب سے دوچار ہوئے اُن کی تصویر کشی شہر آشوبوں اور بعض دیگر اصناف میں بھی کی گئی ہے۔ لیکن اس عہدِ پُر آشوب کے سانحات کی سب سے عمدہ دستاویز غزل ہے۔ محبوب کی ستم گری کے کنائے اور چمن و متعلقات چمن کی علامات کے پردے میں غزل بین آنکھیں ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کر سکتی ہیں۔

۱۸۵۷ء کا واقعہ اُن تمام سانحات کا نقطۂ عروج ہے جو گذشتہ ڈیڑھ صدی میں رونما ہو رہے تھے اور غزل گو شعراء نے اپنے اشعار میں ان کی ایک بلیغ دستاویز بنائی تاہم انگریزوں کا ہندوستان پر غلبہ اتنا معمولی واقعہ نہ تھا کہ غزل اپنی مدھم لَے کو برقرار رکھ سکتی:

اے بلبلِ نالاں ! تری فریاد غضب ہے

کر بات بھی آہستہ کہ صیّاد غضب ہے

قطعِ امید سے سر کاٹنے کو کیا نسبت

مجھ میں وہ دم ہے ابھی جو ترے خنجر میں نہیں

سقوط دہلی کے بعد غزلوں کا وہ سلسلہ بھی قابل ذکر ہے جس میں اجتماعی طور پر ایک طویل شہر آشوب رقم کیا گیا۔ غزل کے اس رثائی تجربے کے مختلف رنگ ’’فغان دہلی‘‘(۷۹) میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس عرصے میں ایک شاعر داغؔ دہلوی ایسے بھی ہیں جنھوں نے غزل کے محاورے، ایمائی اسلوب اور بنیادی علامتی نظام کو مجروح کیے بغیر سماجی ابتری کی عکاسی کے لئے اسلوب کا ایک نیا تجربہ کیا۔

داغؔ کی غزل میں زبان کے چٹخارے کا ذکر بہت ہوا ہے۔ نیز ایک اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اُن کے ہاں تغّزل نہیں ہے اور واسوخت کا رنگ غالب ہے لیکن داغؔ کے اشعار میں لہجے کی تندی، تیکھے پن اور نشتریت کے نفسیاتی اسباب پر بہت کم غور کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ واسوخت کا ایسا رنگ داغؔ سے پہلے کسی شاعر کے ہاں کیوں نہیں اور داغؔ کی غزل میں جلی کٹی سنانے کی وجہ کیا محض دلی کا محاورہ ہے یا اس کے پس منظر میں کچھ سماجی و عمرانی حقائق بھی ہیں۔ اُن کے اشعار میں مخاطب کیا صرف محبوب ہے یا کوئی اور کردار بھی جسے غزل کے ایمائی پیرائے میں برا بھلا کَہ کر دل کا کانٹا زبان سے نکالا جا رہا ہے :

دور ہی دور سے اقرار ہوا کرتے ہیں

کچھ اشارے سرِ دیوار ہوا کرتے ہیں

داغ نے خطِّ غلامی جو دیا فرمایا

ایسے ہی لوگ وفادار ہوا کرتے ہیں

حال دل تجھ سے دل آزار کہوں یا نہ کہوں

خوف ہے مانعِ اظہار، کہوں یا نہ کہوں

فکر ہے، سوچ ہے، تشویش ہے، کیا کیا کچھ ہے

دل سے بھی عشق کے اسرار کہوں یا نہ کہوں

آپ کے سر کی قسم داغ کو پروا بھی نہیں

آپ کے ملنے کا ہو گا، جسے ارماں ہو گا

………

سازیہ کینہ ساز کیا جانے

ناز والے نیاز کیا جانے

جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے

آپ بندہ نواز کیا جانے

جلوہ دیکھا تری رعنائی کا

کیا کلیجہ ہے تماشائی کا

ناروا کہیے، ناسزا کہیے

کہیے کہیے مجھے برا کہیے

غزل کے اس لحن اور اشعار کے اشاروں پر غور کیا جائے تو یہ عقدہ کھلنے میں دیر نہیں لگتی ہے کہ غزل میں واسوخت کے اسلوب کا تجربہ محض یار بے وفا کو جلی کٹی سنانے کے لیے نہیں بلکہ فرنگی سامراج کے غلبے کے بعد مجبور، مقہور اور اختیار سے محروم بے بس اہل ہند کی نفسیاتی تصویر کشی کے لیے کیا گیا۔

فراق گورکھ پوری نے داغ پر لکھتے ہوئے ۱۸۵۷ء کے بعد غزل میں لطیف اشاریت کا ذکر کیا ہے۔ (۸۰) لیکن بات فراق صاحب نے بھی کھل کر نہیں کی بلکہ اُردو تنقید کو محض ایک لطیف اشارہ دے دیا۔ یہ امر افسوس ہے کہ ہمارا تنقیدی سرمایہ کلام داغ کی سماجی معنویت تلاش کرنے کے بجائے ملامت کا انبار ڈالتا رہا ہے۔ درج بالا اشعار میں انگریز راج کے بعد ابن الوقت ریاکار، خوشامدپسند، خوف زدہ، حق گو اور ہواوہوس سے بے نیاز ہر نوع کے افراد کے کردار اپنے ظاہر و باطن کے ساتھ جس طرح موجود نظر آتے ہیں۔ داغ کی غزل کا تجربہ ایک بھر پور سماجی معنویت اور غزل کے وسیع امکانات کی روشن دلیل کے طور پر اردو ادب کی تاریخ میں محفوظ ہے۔

اردو غزل کا کلاسیکی دور جسے عموماً روایت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور تمام شعرا کو کم و بیش ایک ہی زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ گذشتہ صفحات میں اس دور کا اجمالی جائزہ اس امر کی دلیل ہے کہ اردو کے کلاسیکی شعرا نے ہر دور میں متنوع تجربے کیے اور اردو غزل کے ارتقا اور تشکیل نو کے لیے اسلوب، زبان اور آہنگ کے تجربات کیے جس سے نہ صرف یہ صنف اپنے امکانات کے نشانات تلاش کرتی رہی بلکہ اردو زبان میں الفاظ و معانی اور تہذیب و ثقافت کے نئے سرمائے سے ثروت مند ہوئی۔

٭٭

 

استفادہ

 

۱       ڈاکٹر ابوالخیر کشفی۔ دیباچہ ’’جہانِ معلوم‘‘ از افتخار عارف

۲      رشید احمد صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل‘‘ (مرتبہ ڈاکٹر سید معین الرحمان )یونیورسل بکس لاہور۱۹۸۷ص: ۹

۳      شمیم حنفی۔ ’’خیال کی مسافت ‘‘ شہزاد، کراچی ۲۰۰۳،                       ص: ۵۲

۴      نم راشد۔ مضمون ’’غزل کا مستقبل ‘‘ نیا دور کراچی شمارہ ۶۱، ۶۲،                ص:۵۲

۵      ’’ لغت نامہ دھخدا‘‘ (فارسی اردو لغت)

۶      ’’المنجد ‘‘(عربی لغت)

۷      ’’القاموس العصری ‘‘(جدید عربی انگریزی لغت)

۸      ملاحظہ ہو مضمون ’’جدید غزل ‘‘ مطبوعہ فنون (جدید غزل نمبر)

۹      ظفر اقبال کا شعر ہے :

غزل کہ تھی ہی ظفر حرفِ بازناں گفتن

کہاں کہاں لیے پھرتے رہے غریب کو ہم

۱۰     شبلی نعمانی۔ ’’شعر العجم ‘‘ (جلد پنجم) مطبع معارف اعظم گڑھ، ۱۹۶۱        ص:۳۳

۱۱      شمس قیس رازی۔ ’’المعجم فی معائرِ اشعار العجم‘‘ دانش گاہ تہران، سن             ص: ۱۲۰

۱۲      "The Holly Bible”(New Revised Standard Version) Oxford University Press, 1995 P634

۱۳     ’’کتاب مقدس‘‘ بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور، ۲۰۰۲                      ص:۶۵۵

۱۴     ڈاکٹر زہرا خانلری۔ ’’غزلِ فارسی‘‘ انتشارات امیر کبیر تہران ۱۳۶۹ھ ش       ص:۲

۱۵     ڈاکٹر سیروس شمیسا۔ ’’سبک شناسی شعر‘‘ انتشارات فردوس، تہران ۱۳۸۱ھ ش  ص:۲۶

۱۶     ایڈورڈ براؤن۔ ’’ لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘‘ (جلد اول)            ص:۱۵

۱۷     فریدون مرزا۔ دیباچہ ’’دیوانِ رود کی‘‘                           ص:۷

۱۸     ’’ دائرہ معارفِ اسلامیہ ‘‘ جامع پنجاب لاہور                     ص:۴۹۰

۱۹     ایضاً                                          ص: ۴۹۰

۲۰     ڈاکٹر سیروس شمیسا۔ ’’سبک شناسی شعر ‘‘                          ص: ۲۰۹

۲۱     حکیم سنائی غزنوی۔ ’’دیوانِ سنائی‘‘ نشرِ آزاد مہر، تہران ۱۳۸۱ ھش

۲۲     دائرہ معارف اسلامیہ                                   ص:۴۹۰

۲۳    پروفیسر آر  ٭شاط سے جلآراًجے آربری۔ ’’میراثِ ایران ‘‘ (ترجمہ سید عابد علی عابد)         ص: ۳۱۶

۲۴    ڈاکٹر زہرا خانلری۔ ’’غزلِ فارسی‘‘                               ص:۴

۲۵    ڈاکٹر ظہور الدین احمد۔ ’’ایرانی ادب‘‘ مرکز تحقیقات فارسی، ایران و پاکستان، ۱۹۹۹ص:۳۰۷

۲۶     پروفیسر ظہیر احمد صدیقی۔ ’’فارسی غزل کا ارتقائ‘‘ مجلس تحقیق و تالیف فارسی جی سی لاہور، ۱۹۹۳ص: ۲۷۱

۲۷    ڈاکٹر عبد الحسین زرّیں کوب۔ ’’گلستان عجم‘‘ مرکز تحقیقات فارسی، ایران و پاکستان، ۱۹۸۵ص: ۱۵۱

۲۸    فتح محمد ملک۔ ’’تعصبات‘‘ سنگ میل لاہور، ۱۹۹۱                   ص: ۱۳۵

۲۹     شمس قیس رازی۔ ’’المعجم فی معائرِ اشعار العجم‘‘ دانش گاہ تہران،س ن          ص: ۱۶۔ ۴۱۵

۳۰    مختار صدیقی۔ مضمون ’’ غزل اور شہزاد کی غزل‘‘ فنون لاہور (جدید غزل نمبر) ۱۹۶۹    ص:۳۲۸

۳۱     فراق گورکھپوری۔ مضمون ’’غزل کی ماہیت و ہیئ ت‘‘ نگار کراچی جولائی ۱۹۳۷  ص: ۱۶

۳۲    مجنوں گورکھپوری۔ ’’شعر اور غزل‘‘ ادبی اکیڈمی کراچی،س ن        ص: ۱۳۱

۳۳    اختر انصاری۔ ’’غزل اور غزل کی تعلیم ‘‘   ترقی اُردو بورڈ دہلی، ۱۹۷۹               ص:۱۱۸

۳۴    اقبال۔ ’’فلسفۂ عجم‘‘ (مترجم حسن الدین)                 ص: ۲۰

۳۵    شیخ صلاح الدین۔ ’’ناصر کاظمی۔ ایک دھیان ‘‘ مکتبہ خیال لاہور، ۱۹۸۶       ص:۱۱۸

۳۶    سلام سندیلوی۔ ’’ادب کا تنقیدی مطالعہ‘‘   نسیم بک ڈپو لکھنؤ،س ن          ص: ۳

۳۷    سید عابد علی عابد۔ ’’اصول انتقاد ادبیات‘‘ مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۶۶          ص: ۳۳۷

۳۸    مجنوں گورکھپوری۔ ’’شعر اور غزل‘‘ ادبی اکیڈمی کراچی،س ن              ص: ۸۸

۳۹     شمیم حنفی۔ ’’خیال کی مسافت‘‘شہرزاد کراچی۲۰۰۳                ص:۵۸

۴۰    پروفیسر حمید احمد خان۔ مضمون ’’ غزل کا مطالعہ ‘‘رسالہ اردو جنوری ۱۹۵۲             ص: ۵۷

۴۱     فراق۔ مضمون ’’غزل کیا ہے ‘‘ شاہ کار شمارہ ۴تا ۷                    ص: ۱۳۰

۴۲    حافظ محمود شیرانی۔ ’’پنجاب میں اردو‘‘     اُتر پردیش اُردو اکیڈمی لکھنؤ، ۱۹۸۶  ص:۱۴

۴۳    ڈاکٹر محمد انصار اللہ۔ مضمون ’’اردو غزل کی ابتداء‘‘ سہ ماہی ’’اردو‘‘ جولائی تا ستمبر۱۹۸۶         ص۵

۴۴    ظہیر احمد صدیقی۔ ’’فارسی غزل اور اس کا ارتقاء‘‘                    ص: ۱۴

۴۵    میر تقی میر۔ ’’ نکات الشعراء ‘‘    ( مرتبہ مولوی عبدالحق ) انجمن ترقی اردو اورنگ آباد، ۱۹۳۵ص: ۱۲

۴۶    ڈاکٹر جمیل جالبی۔ ’’تاریخ ادب اردو‘‘      (جلد اوّل) مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۹۵ص: ۳۳۷

۴۷    ڈاکٹر وقار احمد رضوی۔ ’’تاریخ جدید اُردو غزل ‘‘ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد، ۱۹۸۸ص:۲۷

۴۸    ڈاکٹر وزیر آغا۔ ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘     مکتبہ عالیہ لاہور ( بار ششم)، ۱۹۹۳ ص: ۳۳۷

۴۹     ڈاکٹر سید عبداللہ۔ ’’مباحث‘‘مجلس ترقی ادب لاہور، ۱۹۶۵   ص: ۵۲۰

۵۰    ڈاکٹر ملک حسن اختر۔ ’’اردو شاعری میں ایہام گوئی کی تحریک‘‘ فروغ ادب گوجرانوالہ، ۱۹۹۲      ص: ۱۶۱

۵۱     ڈاکٹر گوپی چند نارنگ۔ ’’ ادبی تنقید اور اسلوبیات‘‘سنگ میل لاہور، ۱۹۹۱     ص: ۱۶

۵۲    ڈاکٹر جمیل جالبی۔ ’’تاریخ ادب اردو‘‘ (جلد دوم)                  ص: ۶۰۷

۵۳    میر تقی میر۔ ’’نکات الشعرا‘‘                                    ص: ۷۸

۵۴    ڈاکٹر جمیل جالبی۔ ’’ تاریخ ادب اردو‘‘(جلد دوم)                  ص: ۶۰۸

۵۵    ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی۔ ’’دلی کا دبستان شاعری‘‘                      ص: ۴۳۳

۵۶    ڈاکٹر سید عبداللہ۔ ’’تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند‘‘(ساتویں جلد) ص: ۱۴۳

۵۷    ناصر کاظمی۔ ’’خوشبو کی ہجرت‘‘ (مکالمہ ) سویرا۔ شمارہ، ۷۱، ۸۱             ص:۶۶

۵۸    اثر لکھنوی۔ ’’مزا میر‘‘ (حصہ اول) کتاب دنیا دہلی ۱۹۴۷          ص: ۶۶

۵۹     ڈاکٹر جمیل جالبی۔ ’’تاریخ ادب اردو‘‘(جلد دوم)                   ص: ۶۸۵

۶۰     عبدالسلام ندوی۔ ’’شعر الہند‘ مطبوعہ اعظم گڑھ، ۱۹۴۲           ص: ۱۳۵

۶۱     ڈاکٹر جمیل جالبی۔ ’’تاریخ ادب اردو‘‘ (جلد دوم)                  ص: ۶۸۵

۶۲     محمد حسین آزاد۔ ’’آب حیات‘‘ عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور،س ن     ص: ۱۴۰

۶۳    خیال بخاری ( مرتب )۔ ’’دیوان قاسم علی خان آفریدی‘‘(اردو) (پشتو اکیڈمی پشاور)ص:۱۱۵

۶۴    غالب۔ ’’عود ہندی‘‘ مطبع مجتبائی میرٹھ،س ن                    ص: ۱۶۵

۶۵    ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی۔ ’’تاریخ ادبیات مسلمانان پاک و ہند‘‘(آٹھویں جلد)

دانش گاہِ پنجاب لاہور، ۱۹۷۱      ص: ۲۵۹

۶۶     فتح محمد ملک۔ مضمون ’’ ادبی روایت اور تجربے ‘‘ مشمولہ ‘‘قلم قبیلہ ‘‘ کوئٹہ، ۱۹۸۱ ء      ص: ۱۵۲

۶۷    انشاء اللہ خان انشاء۔ ’’دریائے لطافت‘‘( مرتب مولوی عبدالحق، مترجم کیفی دہلوی)

انجمن ترقی اُردو اورنگ آباد، ۱۹۳۵                        ص: ۳۵۳

۶۸    مشرف علی انصاری۔ ’’تاریخ ادبیاتِ مسلمانان پاک و ہند‘‘ ( جلد ششم)     ص۳۰۶

۶۹     محمد حسین آزاد۔ ’’آب حیات‘‘                          ص: ۳۴۸

۷۰    غالب۔ ( مکتوب بنام قدر بلگرامی) ’’عود ہندی‘‘                   ص: ۱۷۷

۷۱     رشید احمد صدیقی۔ ’’غزل، غالب اور حسرت‘‘ الوقار لاہور، ۱۹۹۱              ص: ۷۶

۷۲    یوسف حسین خان۔ ’’اردو غزل‘‘ مکتبہ جامع دہلی، ۱۹۵۲                   ص: ۱۳۵

۷۳    پروفیسر ظہیر احمد صدیقی۔ ’’فارسی غزل اور اس کا ارتقائ‘‘                    ص:۱۱۴

۷۴    محمد حسین آزاد۔ ’’آب حیات‘‘                          ص: ۴۲۱

۷۵    ایضاً                                          ص: ۴۲۱

۷۶    فراق۔ مضمون ’’دور حاضر اور غزل گوئی‘‘ مطبوعہ نگار جولائی ۱۹۳۷ء         ص: ۱۶

۷۷    رالف رسل۔ ’’اردو ادب کی جستجو‘‘ ( اردو ترجمہ محمد سرور رجا) انجمن اُردو ترقی پاکستان

۲۰۰۳ ص: ۱۴۸

۷۸    خواجہ منظور حسین۔ ’’اردو غزل کا خارجی روپ بہروپ‘‘   مکتبہ کارواں لاہور، ۱۹۸۱

۷۹    تفضل حسین کوکب دہلوی۔ ( مرتب) ’’فغان دہلی‘‘       بدر الدّجیٰ پریس دہلی، ۱۹۸۶

۸۰    فراق گورکھ پوری۔ ’’ اندازے ‘‘ فروغ ادب لاہور ( بار دوم )، ۱۹۶۷         ص: ۲۰۸

٭٭٭

 

 

 

 

اُردو غزل۔ برطانوی دور اقتدار میں

 

i۔       اصلاحی اور قومی طرزِ احساس

سرسید اور آزاد کی نظریہ سازی

مقدمہ شعرو شاعری۔ حالی کے تجربات

اکبر کا فکاہیہ اسلوب

اقبال

ii۔      بیسویں صدی کی جدید ادبی تحریکیں

ترقی پسند تحریک، غزل کے بارے میں نظریہ

قدیم علامات اور نئے معانی۔ رجزیہ لے

فیض احمد فیض، مخدوم، ساحر، احمد ندیم قاسمی،

کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری

حلقہ اربابِ ذوق، غزل کے بارے میں نظریہ

غنائی تجربے۔ میراجیؔ ۔ مختار صدیقی۔ قیوم نظر

ہزل

iii۔     اردو غزل کی نرول روایت

اردو غزل کے عناصر اربعہ۔ دیگر شعراء

آرزو۔ فراق۔ جمیل مظہری۔ یگانہ۔ شاد

 

 

 

 

 

(۱)

 

برصغیر پر انگریزوں کے مکمل قبضے کے بعد حالات نے جو نئے پینترے بدلے، اُن کے پیش نظر ہندوستان کے مسلم سماج کی فکریات کو علی گڑھ کی صورت میں ایک ’’نئی روشنی ‘‘ میسر آئی۔ اس تحریک نے جہاں فکر و نظر کی سطح پر نئی سمتوں کا تعین کیا وہاں ادب کو بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جس کے باعث مختلف اصناف کی تطہیر کا عمل شروع ہوا۔

سرسید کی رائے میں ’’ہماری زبان کے علم و ادب میں نقصان یہ تھا کہ نظم پوری نہ تھی۔ شاعروں نے اپنی ہمت، عاشقانہ غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصیدوں اور ہجر کے قطعوں اور قصہ و کہانیوں کی مثنویوں میں صرف کی تھی۔ (ایسا نہیں کہ شاعروں کو) اِن مضامین کو چھونا نہیں چاہیے تھا۔ نہیں وہ نہایت عمدہ مضامین تھے اور جودت طبع اور تلاشِ مضمون کے لیے نہایت مفید ہیں مگر نقصان یہ تھا کہ ہماری زبان میں صرف یہی تھے۔ دوسری قسم کے مضامین جو در حقیقت وہی اصلی مضامین ہیں اور نیچر سے علاقہ رکھتے ہیں، نہ تھے۔ ‘‘(۱)

اردو شعر و ادب میں اِسی بے اطمینانی کے باعث انجمن پنجاب کی صورت میں اجتہاد کی ایک تحریک شروع ہوئی جس کے سرخیل محمد حسین آزاد تھے۔ آزادؔ اردو کلاسیکی شاعری کے مداح ہونے کے باوجود اردو شعرا کے بارے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ وہ ’’چند بے موقع احاطوں میں گھرِ کر محبوس ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ افسوس یہ ہے کہ ان محدود دائروں سے ذرا بھی نکلنا چاہیں تو قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اگر کوئی واقعی سرگزشت یا علمی مطلب یا اخلاقی مضمون نظم کرنا چاہیں تو اس کے بیان میں بد مزہ ہو جاتے ہیں۔ ‘‘(۲)

سرسید اور آزاد کے مذکورہ خیالات کی روشنی میں اُس عہد کے ممتاز غزل گو الطاف حسین حالیؔ نے شاعری کے حوالہ سے اس عقیدے کا اظہار کیا کہ ’’جو شخص اس عطیہ الٰہی کو مقتضائے فطرت کے موافق کام میں لائے گا ممکن نہیں کہ اُس سے سوسائٹی کو کچھ نفع نہ پہنچے۔ ‘‘(۳)

شاعری سے کام لینے کی اس افادی سوچ کے پیش نظر حالیؔ نے جہاں دیگر اصناف نظم اردو کی اصلاح کے لئے تجاویز دیں وہاں اردو غزل کہنے والوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ’’ اگر کوئی دیکھے اور سمجھے تو صد ہا تماشے صبح سے شام تک ایسے عبرت خیز نظر آتے ہیں کہ شاعر کی تمام عمر اس کی جزئیات کے بیان کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔ کسی واقعہ کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیا ہوا؟ یا کسی واقعہ کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہوا؟ کبھی خوف معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہو گا اور کبھی یاس دل پر چھا جاتی ہے کہ بس اب کچھ نہیں۔ اس سے دلچسپ مییٹریل غزل کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہر بات کا ایک محل اور ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ عشق و عاشقی کی ترنگیں اقبال مندی کے زمانے میں زیبا تھیں۔ اب وہ وقت گیا، عیش و عشرت کی رات گئی اور صبح نمودار ہوئی۔ ‘‘(۴)

نئی صبح کی ’’روشنی ‘‘ میں حالیؔ نے افادی نظریۂ ادب کے تحت غزل کی اصلاح کے لیے جو تجاویز دیں اُن کا لب لباب یہ ہے کہ شعر میں دو صفات کا ہونا حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ہے :

۱۔ سادگی

۲۔ نیچر کے مطابق

مولانا الطاف حسین حالی نے ’’ مقدمہ شعر و شاعری ‘‘میں جو نظریہ شعر پیش کیا ہے، اُس کا خلاصہ یہ ہے :

صنعت پہ ہو فریفتہ عالم اگر تمام

ہاں سادگی سے آئیو اپنی نہ باز تو

جوہر ہے راستی کا اگر تیری ذات میں

تحسینِ روزگار سے ہے بے نیاز تو

وہ دن گئے کہ جھوٹ تھا ایمانِ شاعری

قبلہ ہو اب ادھر تو نہ کیجو نماز تو

حالیؔ نے غزل کا قبلہ درست کرنے کے لیے سادہ اور نیچر کے مطابق شاعری کا منشور ملّی مفادات کے تحت پیش کیا لیکن بالواسطہ طور پر یہ نظریۂ شعر بیرونی حکومت کے لیے بھی بہت مفید ثابت ہوا۔

سادہ اور نیچر کے مطابق شعر کہنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ شاعر جو بھی بات کرے، براہ راست انداز میں کرے اور اُس پر کسی صنعت، علامت یا اشاروں و کنایوں کا نقاب نہ چڑھائے۔ اس طرح شاعر جو کلام کرے گا اُس کے معانی تک رسائی مقامی افراد کے ساتھ ساتھ سامراجی حکومت کے ذرائع تک بھی ممکن ہو گی۔ بالفاظ دیگر غزل سے اُس کا جوہر خارج کر کے اُسے ایک ایسی صنف بنا دیا جائے جس میں علامتوں کے پردے میں کسی ایسے خیال کا اظہار ممکن نہ ہو جو بیرونی حکومت کے لیے بغاوت یا سازش کا باعث بن سکے۔

مذکورہ حقائق کے ساتھ ساتھ سادگی اور نیچر کے مطابق شاعری کے حوالہ سے اُن کے تنقیدی نظریات میں غزل کے ایمائی رنگ کو سمجھنے کے سلسلے میں بہت سی فروگذاشتیں واضح ہیں اور بہت سے متضاد بیانات بھی انھوں نے رقم کیے ہیں تاہم یہ حقیقت بھی قابل ان کار نہیں ہے کہ ’’اُن کی ساری کوشش یہ تھی کہ غزل کو اُن تمام عناصر کی گرفت سے آزاد کیا جائے جو محض رواجی اور رسمی ہیں۔ ‘‘(۵)

حالیؔ نے مذکورہ نظریات کی روشنی میں اقتدائے مصحفیؔ و میرؔ کے بجائے پیروی ٔ مغربی کرتے ہوئے اردو غزل میں جس تجربے کو فروغ دیا اُس کا نمایاں وصف اصلاحی و قومی خیالات کا تسلسل ہے۔ جس کے لیے حالی نے ایک ایسے اسلوب کو فروغ دیا جس میں سادہ بیانی اور صاف گوئی کا عنصر نمایاں تھا۔ اس طرح انھوں نے مستقبل میں اردو غزل کے لیے ایک نیا لہجہ متعین کرنے کی کوشش کی۔ حالیؔ نے جس نوعیت کی غزل اور نئے اسلوب کا تجربہ کیا، اُس کے چند نمونے قابل توجہ ہیں :

اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا

جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا

کاٹیے دن زندگی کے ان یگانوں کی طرح

جو سدا رہتے ہیں چوکس پاسبانوں کی طرح

لگاؤ نہ اس دارِ فانی سے دل

عیاں اس کی ہیں سست پیمانیاں

گل آوازِ بلبل پہ ہیں ہنس رہے

کہ کے دن کی ہیں یہ خوش الحانیاں

ٹڈیوں کا ہے کھیتیوں پہ ہجوم

بھیڑیوں کے ہیں خوب تر لبِ آز

تشنۂ خوں ہے بھوکے شیروں کے

حیلہ گر روبہوں کے عشوۂ ناز

نہیں خالی ضر ر سے وحشتوں سے لوٹ بھی لیکن

حذر اس لوٹ سے جو لوٹ ہے علمی و اخلاقی

کہ ان کے دیکھنے والے ابھی کچھ لوگ ہیں باقی

سلف کی دیکھ رکھو راستی اور راست اخلاقی

صحرا میں کچھ بکریوں کو قصاب چراتا پھرتا تھا

دیکھ کے اس کو سارے تمھارے آ گئے یاد احسان ہمیں

جدید غزل کے لیے حالیؔ نے جو نظریہ سازی کی اور اپنے نظریات کی روشنی میں جو تجربات کیے اُن سے اگرچہ ’’ایک سپاٹ اور نثر زدہ شاعری معرض وجود میں آنے لگی ‘‘(۶) بلکہ بعض ناقدین کے نزدیک تو یہ ’’ نہ غزل ہے نہ شاعری‘‘(۷) لیکن یہ بے کیفی اور پھیکا پن اپنے تاریخی تناظر میں بعض پہلوؤں سے بہت اہم ہے۔ یہ اردو غزل کے جدید تجربات کی خشت اوّل ہونے کے اعتبار سے اپنی تمام تر خامیوں اور ناکامیوں کے باوجود اہمیت رکھتا ہے کہ ان تجربات سے اردو غزل میں نئے موضوعات کے ساتھ ساتھ نئی لفظیات اور اسالیب کی طرف پوری سنجیدگی کے ساتھ جہت نمائی کی گئی۔ پھر حالیؔ نے اپنی ان تجرباتی غزلوں میں بھی ایسے شعر نکالے جن کی تخلیقی تازگی سے ان کار ممکن نہیں ہے۔ ’’بعض غزلوں میں تو ادبیت کی دبی دبی سی چاشنی اشعار کو خشک نثریت سے بچا ہی نہیں لیتی بلکہ اُن میں لذّت ( بھی ) پیدا کر دیتی ہے۔ ‘‘(۸)

یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ تبدیلی کے عمل میں تعمیر سے پہلے تخریب ناگزیر ہوتی ہے۔ اس لیے حالیؔ اگر شعوری طور پر اردو غزل میں تبدیلی کی کوشش کر رہے تھے تو لازمی طور پر وہ الفاظ و علائم اور اسالیب ضرور مجروح ہونا تھے جنھیں اردو شعرا نے حرز جاں بنا لیا تھا۔

دوسری بات یہ کہ ان تجربات کی کامیابی یا ناکامی کو ان کے نتائج، اثرات اور امکانات کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔ ’’حالیؔ کی اس جرأ تِ رندانہ نے اردو غزل کے شاعروں کو یہ احساس دلایا کہ طرزِ فکر و طرزِ ادا میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ ‘‘(۹) ’’انھوں نے ایک راستہ بنایا۔ ۔ ۔ آگے چل کر دو سروں نے اس فضا سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور جو راستہ حالیؔ نے بنایا، اس پر وہ بڑی خوبی سے گامزن ہوئے، اس لیے تنوع پسندی اور جدت طرازی کے سلسلے میں حالیؔ کی محنت اکارت نہیں گئی۔ ‘‘(۱۰) حالیؔ کی نئی غزل نے مستقبل میں جس طرح کی غزل کے لیے راہ ہموار کی اُس کا رنگ مستقبل کے شعرا کی غزل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں تک حالی کے اختیار کردہ اسلوب کا تعلق ہے تو یہ ’’ایک عبوری دور یا کسی عبوری وقفے کی چیز ہے۔ ‘‘(۱۱)

حالیؔ کے تنقیدی نظریات اور غزل میں تجربات کی توسیع مختلف جہتوں سے ہوئی اور اُن کے معاصر اور مابعد شعرا نے ان تجربات کو آگے بڑھایا۔ ان میں سے بعض شعرا اردو غزل کی تاریخ میں کوئی خاص مقام تو نہیں رکھتے لیکن اُس عہد میں غزل کے مزاج اور اسلوب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے کے حوالہ سے اُن کا کام لائق تو جہ ضرور ہے۔

ان شعرا کی غزلیں حالیؔ کی غزل کی طرح سپاٹ اور نثر زدہ ہیں بلکہ بعض کے ہاں تو بڑے عجیب و غریب تجربات بھی ملتے ہیں، جن کی بنیادی وجہ غزل کے ایمائی مزاج سے عدم واقفیت ہے اور یہ وہ فرو گذاشت ہے جو حالی کے تنقیدی نظریات کے بعد ایسی عام ہوئی ہے کہ اب تک بہت سے شعرا کے ہاں غزل کی سانس اکھڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مثلاً اُس عہد میں اسماعیل میرٹھی نے اپنے کلام کے مجموعی مزاج کے مطابق بچوں کے لیے غزلیں کہیں اور اپنے تجربے کو ’’بہاریہ غزل‘‘ یا ’’نصابیہ غزل‘‘ کا نام دیا۔ ان غزلوں میں انھوں نے بچوں کے موضوعات، تدریسی انداز میں بیان کیے :

وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی منزل اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

متفاعلن، متفاعلن، متفاعلن، متفاعلن

اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مولانا محمد علی جوہر نے رزمیہ آہنگ میں غزلیں کہیں۔ اُن کا خاص کارنامہ اردو غزل میں کربلا کا استعارہ ہے۔ جو جدید شعرا کے ہاں باقاعدہ رجحان کی شکل میں نظر آتا ہے۔ ’’مولانا نے سانحہ کربلا کے تاریخی و معنوی انسلاکات کو کئی مقامات پر برتا اور اُن سے تخلیقی سطح پر مجاہدین آزادی کے جذبہ حریت اور حوصلہ شہادت کو للکارا ہے۔ ‘‘(۱۲)

قتلِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

کہتے ہیں لوگ، ہے رہِ ظلمات پُر خطر

کچھ دشتِ کربلا سے سوا ہو تو جانیے

چکسبت اور مولانا اقبال سہیل کی غزل فلسفیانہ انداز تغزل سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے۔ وحید الدین سلیم نے مسلسل غزل کے تجربے کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ غزل کے کسی ایک مصرعے کو بطور عنوان درج بھی کیا۔

حالیؔ کے معاصرین میں اکبرؔ کی غزل تجرباتی لحاظ سے بڑی اہم ہے جنہوں نے ظریفانہ اسلوب اختیار کیا۔ اگرچہ کلاسیکی اردو غزل میں بعض شعرا کے ہاں بہجت و بشاشت کے عناصر ملتے ہیں لیکن اکبر نے فکاہیہ انداز کے متنوع تجربات کیے۔ انگریزی الفاظ اور علامتوں کا استعمال کرتے ہوئے اکبر نے اردو غزل میں بڑی بے تکلفی سے لسانی تجربات کیے۔ ’’انھوں نے جو زبان چاہی استعمال کر ڈالی، جو لہجہ جی میں آیا اختیار کر لیا، انھوں نے ہر بات ہر طریقے سے کہی ہے۔ ثقّات کی زبان میں، عوام کی زبان میں، مولویوں کی زبان میں، صوفیوں کی زبان میں، شاعر کی زبان میں اور سب سے بڑی بات یہ کہ شخص کی زبان میں۔ ‘‘(۱۳)

اکبرؔ نے انگریزی الفاظ محض جدّت کے شوق میں استعمال نہیں کیے بلکہ ایک بدیسی تہذیب کو اُس کی اپنی زبان کی لفظیات میں ہدف طنز بنایا، ان لفظوں میں اُس عہد کے مادی شعور کی تلخ سچائیاں مختلف علامات کے پس منظر میں نظر آتی ہیں۔ انجن، پائپ، ٹائپ، غبارہ، ائر شپ اور تھیٹر ایسے الفاظ جدید مغربی ذہن اور اقدار کے نمائندہ ہیں :

اب کہاں ذہن میں باقی ہیں براق و رفرف

ٹکٹکی بند ھ گئی قوم کی انجن کی طرف

حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا

پانی پینا پڑا ہے پائپ کا

اکبرؔ نے بعض انگریزی الفاظ و اسماکی اصوات سے استفادہ کرتے ہوئے بڑے دلچسپ تجربے کیے :

میں اسپنسر سے مستغنی ہوں مجھ سے مل نہیں ملتا

یا

وہاں پے بل ہے اور یاں سانپ کا بھی بل نہیں ملتا

بوزنے کو ارتقا نے کر دیا انساں تو کیا

انقلابِ حرف نے مولی کو ولیم کر دیا

کلاسیکی اردو غزل میں شیخ، زاہد، واعظ، عاشق، رقیب، محبوب، ساقی، رند اور محتسب ایسے کردار بہت مقبول رہے ہیں۔ اکبر نے اردو غزل میں کچھ نئے کردار بھی متعارف کرائے جو ’’بر عظیم کی سیاسی اور سماجی زندگی کے مختلف طبقوں اور شعبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ‘‘(۱۴) میر و مرزا، بابو، ملا، پنڈت، لالا، لاٹ، مس، چیلا، پروفیسر، بدھو، جمن، حاکم اور محکوم ایسے کردار ہیں جنہیں اکبر نے طبقاتی و سیاسی رویوں کی علامت بنا کر پیش کیا:

توپ کھسکی پروفیسر پہنچے

جب بسو لا ہٹا تو رندا ہے

بدھو سے صرف ہند کا مسلم مراد ہے

مقصود عاجزی ہے غرور اک فساد ہے

اکبرؔ کے مذکورہ تجربات کے زیر اثر ارد و غزل کا سرمایہ بھی بہت حد تک رمز اور ایمائیت سے محروم ہے بلکہ یہ دونوں عناصر مجروح ہوئے ہیں۔ تاہم یہ بھی اُس تخریب ہی کی ایک مختلف شکل ہے جو آئندہ تعمیر کے لیے ناگزیر تھی۔

حالیؔ، اکبرؔ اور اُن کے معاصرین کے تجربات اور تخریب و تعمیر کے عمل کے بعد اردو غزل کو اسلوب اور لہجے کی جو سمتِ نومیسر آئی وہ اقبال کا شعری لحن ہے۔ اقبالؔ نے جس انداز اور پیرائے میں غزل کہی اس کے لیے جہت نمائی کا اعزاز اگرچہ اُس کے پیش روؤں ہی کو حاصل ہے تاہم اقبالؔ چونکہ ہر اک مقام سے آگے کی جستجو رکھنے والے شاعر ہیں۔ اس لیے انھوں نے خود بھی بعض بڑے اہم تجربے کیے اور اردو غزل کو ایک ایسا اسلوب دیا جو صرف منفرد نہیں ہے بلکہ بے مثال بھی ہے، جس میں تنوع بھی ہے اور ترفع بھی۔ ’’ پرانی غزل کے نظام اقدار پر غالب کے ہاں جو تشکیک نمودار ہوئی تھی وہ اقبالؔ کے ہاں یقین میں بدل جاتی ہے۔ اقبال غزل کے خاکستر سے ایک نیا جہانِ غزل تیار کرتے ہیں۔ ‘‘(۱۵)

اقبالؔ نے مسلسل غزل کے تجربہ میں تو سیع کر کے اس انداز سے شعر کہے کہ غزل اور نظم کے مابین حدِّ فا صل قائم کرنا ایک مشکل معاملہ ہو گیا ہے تاہم ایسا ہر گز نہیں ہے کہ انھوں نے غزل کے اشعار کی انفرادیت یا اکائیت کو مجروح کیا ہو۔ ان کی غزل کے اشعار اُسی طرح اپنی منفرد حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ غزلیہ اشعار کی روایت رہی ہے۔ ’’ان کے ہاں جہاں مختلف اشعار میں ہم آہنگی ہے وہاں بھی ہر شعر کی انفرادیت قائم رہتی ہے۔ ‘‘(۱۶)

اشعار کی انفرادیت کی یہ خوبی اقبالؔ کی صرف غزلوں ہی میں نہیں بعض اوقات یہ وصف ان کی منظومات کے اشعار میں بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اُن کی متعدد نظمیں ایسی ہیں جن سے اشعار الگ کر کے پڑھے جائیں تو وہ اُسی طرح ایک مکمل اکائی رکھتے ہیں جیسا کہ غزل کے اشعار کا امتیاز ہے۔ اقبالؔ کے ایسے بہت سے اشعار مقبول خاص و عام ہیں جو فی الاصل اُن کی منظومات سے ماخوذ ہیں۔

اقبال نے نظم اور غزل کی حد تفریق کو کم کرنے کے لیے بعض تجربے بھی کیے ہیں۔ مثلاً ’’زبورِ عجم‘‘ ( حصہ دوم) کی ایک غزل جس کا مطلع ہے :

فروغِ مشتِ خاک از نوریاں افزوں شو دروزے

زمیں از کوکبِ تقدیر او گردوں شو دروزے

’’جاوید نامہ‘‘ میں ’’نغمہ ملائک‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اسی طرح ایک اور فارسی غزل ’’جاوید نامہ‘‘ میں :

توبہ آوردن زنِ رقاصۂ عشوہ فروش

کے عنوان کے تحت گوتم کی تقریر کے ایک جز کے طور پر پیش کی گئی۔

اقبالؔ اردو غزل میں تو ایسا کوئی تجربہ منصہ شہود پر نہیں لائے تاہم چند نکات اس حوالہ سے قابل توجہ ہیں :

۱۔      بال جبریل کی بعض ایسی غزلیں ہیں جو قلمی نسخوں میں عنوانات کے تحت ملتی ہیں۔ لیکن اقبال نے بوقتِ اشاعت اُن کے عنوان حذف کر دیے۔

۲۔      اقبال کی بعض منظومات ایسی ہیں جو مکمل طور پر غزل کی ہیئت میں ہیں۔ آخری شعر میں انہوں نے غزل میں مقطع کی روایت کے مطابق اپنا تخلص بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً پیام عشق، جاوید کے نام، ترانہ ہندی، ترانہ ملی وغیرہ۔

یہاں مارچ ۱۹۰۷ء والی غزل بھی قابل ذکر ہے جسے اقبالؔ نے عنوان دے دیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی متعدد نظمیں ایسی ہیں غزل کی ہیئت میں ہیں البتہ مقطع نہیں ہے۔ مثلاً زہد اور رندی، دل، پیامِ صبح، دعا، لینن، سلطان ٹیپو کی وصیت، فرشتوں کا گیت، فرمان خدا، نپولین کے مزار پر، مسولینی وغیرہ۔

۳۔     اقبالؔ کی بیشتر نمائندہ منظومات کے بند غزل کی ہیئت میں ہیں۔ اگرچہ وہ ہر بند کے آخر میں ایک الگ شعر کَہ کر اُسیترکیب بند بنا دیتے ہیں۔ مثلاً طلوع اسلام، مسجد قرطبہ، ذوق و شوق، جبریل و ابلیس، ابلیس کی مجلس شوریٰ وغیرہ اسی طرح محراب گل افغان کے افکار کے بیشتر حصے بھی غزل کی ہیئت میں ہیں۔

۴۔     اقبال کی منظومات میں غزل کا آہنگ بھی لاحق توجہ ہے۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی نے تنقیدی اصطلاحات کی توضیح کرتے ہوئے تغزل کی تعریف میں اقبال کی نظم ’’شمع و شاعر ‘‘ کے اشعار کا بطور خاص حوالہ دیا ہے۔ ‘‘(۱۷) اقبال کے غزلیہ آہنگ کی تعریف اُن کے بعض نظریاتی مخالفین نے بھی کی ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’وہ فطرتاً غزل گو تھے اور اتنے بڑے نظم نگار ہونے کے باوجود غزل گو ہی رہے۔ ‘‘(۱۸)

۵۔     اقبالؔ نے اپنی شاعری کے لیے جہاں موسیقی کی اصطلاحات نوا، نغمہ اور نے وغیرہ استعمال کی ہیں وہاں غزل کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً اپنی نظم ’’ذوق و شوق ‘‘ میں کہتے ہیں :

میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ

میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو

اقبالؔ نے غزل میں کلاسیکی روایت سے گریز نہیں کیا ہے لیکن زبان کے آہنگ میں اتنے منفرد تجربات کیے ہیں کہ وہ روایت سے مختلف بلکہ کسی حد تک اجنبی بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس اجنبیت کا احساس خود اقبالؔ کو بھی ہے۔ ایک شعر میں انہوں نے بڑے انوکھے انداز میں اپنی غزل کی لسانی خاصیت کا اظہار کیا ہے، جس میں انکسار اور تعلّی کا امتزاج ہے :

نہ زباں کوئی غزل کی، نہ غزل سے باخبر ہیں

کوئی دلکشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی

اس شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے فتح محمد ملک نے لکھا ہے کہ ’’اگر وہ زبان سے باخبر نہ ہوتے تو غزل کے ہزاروں سال پرانے رموز و علائم اور محاکات و تلازمات میں انقلاب برپا کرنے میں ہر گز کامیاب نہ ہوتے۔ ‘‘(۱۹) اس امر میں تو کوئی شک نہیں کہ اقبالؔ غزل کی زبان سے آگاہ تھے لیکن وہ جس نوعیت کا انقلاب لائے اُس میں ایسا منفرد لسانی اور اسلوبیاتی تجربہ ہے جو قابل تحسین تو ہے مگر بعض سوالات بھی اٹھاتا ہے۔ چنانچہ جہاں بعض ناقدین نے اُن منظومات کو تغزل آشنا قرار دیا ہے وہاں بعض نے اُن کی غزل میں اِس عنصر کی کمی محسوس کرتے ہوئے اُن کی زبان کو غزل کی زبان کے اوصاف سے خالی قرار دیا ہے۔ ‘‘(۲۰)

یہاں شمس الرحمن فاروقی کے ایک مضمون (۲۱) کا حوالہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا جس میں انھوں نے بالِ جبریل کے اُس کلام کی فہرست درج کی ہے جس کی بنیاد پر اقبال کو ایک بڑے غزل گو کی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے یہ منفرد دلیل پیش کرتے ہوئے کہ ’’بال جبریل‘‘ کے مبیّنہ حصہ غزل میں کہیں بھی غزل کا عنوان نہیں دیا گیا۔ یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ یہ فرض کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک تا سولہ اور پھر ایک تا اکسٹھ نمبر شدہ کلام کے بارے میں اقبالؔ کا خیال تھا کہ اُسے غزل کی طرح نہ پڑھا جائے۔ اس دعوے کے ساتھ انہوں نے نمبر پانچ ( جس کے مقطع میں غزل کی روایتی ساخت سے انحراف کیا گیا ہے ) کے آگے درج رباعی کو ملا کر یہ بات بھی وثوق سے کہی ہے کہ یہ دونوں مل کر ایک نظم بناتے ہیں۔

فاروقی صاحب کی تمام تر گفتگو کا لُبِ لباب یہ ہے کہ بال جبریل کا حصہ غزل فی الاصل غزلوں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ انھیں غزلیں فرض کر لیا گیا۔ یہ دلیل انفرادیت کا پہلو رکھتی ہے۔ لیکن وہ خود بھی اس بات کا تعین نہیں کر پائے کہ اس ’’مبینہ حصہ غزل ‘‘ کو کون سی صنف سمجھ کر پڑھا جائے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے اقبالؔ کے مخصوص فلسفۂ حیات کی تبلیغ کے باعث اُن کی غزل میں لوچ، دھیمی لے اور سر گوشی میں بات کرنے کے انداز کی کمی کی شکایت کی ہے۔ (۲۲) اگرچہ انہوں نے جدید غزل گو شعرا پر اقبالؔ کے اثرات کے حوالہ سے مفصّل بحث کی ہے جو ایک لحاظ سے اُن کے اعتراض کا جواب بھی ہے نیز انہوں نے آگے چل کر یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اقبالؔ کے ہاں لوچ اور دھیما پن موجود ہے۔ اس سلسلے میں شہزاد احمد کا ایک مضمون ’’ اردو غزل کے جدید تر رجحانات ‘‘(۲۳)بھی لائق توجہ ہے۔

مذکورہ آرا اقبالؔ کی غزل کے حوالے سے بحث کا در کھولتے ہیں، تاہم بعض اعتراضات کو یک قلم رد بھی نہیں کیا جا سکتا، خصوصاً اس نوعیت کے اشعار کی روشنی میں :

مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے

خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اسرار بھی ہے

بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہ دین و وطن

اس زمانے میں کوئی حیدرِ کرّار بھی ہے

یہ بھی بجا ہے کہ اقبالؔ بعض اوقات ’’پیغمبرانہ‘‘ لہجے میں مخاطب ہونے کی سعی کرتے ہیں لیکن اُن کی غزل کے سرمائے پر مجموعی انداز سے دیکھیں تو انہوں نے اپنے تجربات سے ایسے اشعار بھی نکالے ہیں جو اردو غزل کی روایت کی پاسداری بھی کرتے ہیں اور ایک روایت نو کے پیش رو بھی ہیں اور ایسی غزلیں، اقبال کی غزل کے مجموعی سرمائے میں مقدار اور معیار ہر دو اعتبار سے غالب حیثیت رکھتی ہیں۔ جن کی موجودگی میں مذکورہ اعتراضات اور غزل کے آہنگ کو مجروح کرنے والی چند غزلیں بے اہمیت ہو جاتی ہیں :

وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی

مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی

پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے

جو مشکل اب ہے یارب پھر وہی مشکل نہ بن جائے

یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز

اندیشۂ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز

بجلی ہوں نظر کوہ بیاباں پہ ہے میری

میرے لیے شایاں خس و خاشاک نہیں ہے

تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

اقبالؔ کی غزل میں تجربات کے حوالہ سے اُس کا علامتی نظام بھی قابل توجہ ہے۔ بعض علامتیں نئی ہیں جبکہ بعض مروّجہ علامات کو نیا مفہوم دیا گیا ہے۔ اقبال کے ہاں ’’لالہ ‘‘ کی علامت متنوع جہات رکھتی ہے۔ اسی طرح ’’ بادِ سحر‘‘ یا ’’ بادِ نسیم‘‘ کی علامت ایک پورے معنوی نظام کے ساتھ آئی ہے۔

بعض داستانوی کردار جو اردو غزل کی روایت میں ایک خاص عشقیہ مفہوم کے حامل تھے۔ اقبالؔ نے انہیں بطور علامت نیا اور وسیع مفہوم دیا ہے۔ مثلاً فرہاد اور مجنوں کے کردار جہد مسلسل کی علامت بنا کر پیش کیے گئے ہیں۔ اسی طرح لیلیٰ کا کردار منزل کا مفہوم رکھتا ہے۔ اقبالؔ نے مذکورہ داستانوی کرداروں کے ساتھ ساتھ ان کرداروں سے منسوب داستانوں کے دیگر عناصر مثلاً محمل، ناقہ، جرس، دشت اور صحرا کو بھی اپنے علامتی نظام کا حصہ بنایا ہے۔

اقبال کے علامتی نظام میں اسلامی تاریخ کے بعض کردار بھی قابل توجہ ہیں مثلاً خلیل ؑ، کلیم ؑ، عیسیٰ ؑ، رسول کریمﷺ، علیؓ، شبیرؓ، فاروقؓ، ابو بکرؓ، ابوذرؓ، اویسؓ، سلمانؓ اور زہراؓ ایسے کردار ہیں جو اقبالؔ کی غزل میں مختلف مقامات پر مختلف معنوی مفہوم کے حامل ہیں۔ اسی طرح فن و دانش اور تصوف سے وابستہ کردار سنائی، رومیؒ، رازی، جنیدؒ، بسطامی، عطار، غزالیؒ اور خسروؒ کے کردار لائق ذکر ہیں۔

اقبالؔ نے بعض بلادِ اسلامیہ کے نام بھی اردو غزل میں بطور علامت استعمال کیے ہیں مثلاً مصر و حجاز، رومتہ الکبریٰ، کوفہ و شام، ترکی اور دلّی ایسے شہر میں جو شکوہ ماضی یا شانِ استقبال ہر دو مفہوم میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اقبالؔ کی غزل میں درویش اور قلندر کی علامت بھی متعدد مفاہیم رکھتی ہے۔

اردو غزل میں اقبال کے مذکورہ تجربات نہ تو محض وقت کا تقاضا تھے نہ ہی اقبالؔ نے محض اپنی اسلام پسندی کے باعث ایسا کیا۔ یہ ایک پہلو ضرور ہو سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی شاعرانہ ذمّہ داری سے پوری طرح آگاہ تھے اور انہوں نے اس فرض کی آگاہی سے سبکدوشی تک کا سفر متنوع تجربات کرتے ہوئے طے کیا۔ بڑی ’’محنت، تلاش، تجربہ اور تراش خراش کے بعد غزل کے لیے ساز اور سانچے بنائے۔ ۔ ۔ اور غزل کو رزمیہ کے درجے تک پہنچایا۔ انہوں نے غزل کو محفل سماع اور بزم ماتم سے نکال کر مجاہدوں کی صف اور دانشوروں کے حلقے میں پہنچایا۔ ‘‘(۲۴)لیکن اپنی نَے نوازی میں لَے کا توازن، تاثیر اور دلکشی نہ صرف برقرار رکھی، بلکہ اپنے غنائی تجربات کو سمجھنے کے لیے سماعتوں کو دعوت بھی دی ہے :

کوئی دیکھے تو میری نَے نوازی

نفس ہندی، مقامِ نغمہ تازی

………

 

 

(۲)

 

 

بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اس سے وابستہ دانشور غزل کے مخالف تھے۔ اس غلط فہمی کی دو وجوہ ہیں :

۱۔      بعض ترقی پسند ناقدین نے ماضی کے تمام شعری سرمائے پر کڑی تنقید کی تھی( اس میں غزل کی تخصیص نہیں تھی)

۲۔      ترقی پسند شعرا نے اپنے تحریکی مقاصد کے لیے زیادہ تر نظم کو وسیلہ اظہار بنایا۔

بعض ترقی پسند رسائل میں غزل پر مختلف حوالوں سے بحث ضرور ہوئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جوشؔ اور چند متاثرین جوشؔ کے کچھ جوشیلے بیانات کے علاوہ اس تحریک سے وابستہ کسی اہم دانشور نے غزل کی مخالفت نہیں کی۔ سجاد ظہیر، آلِ احمدؐ سرور اور مجنوں گورکھپوری میں سے کسی نے بھی صنف غزل کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ سجاد ظہیر ایسے سرخیل تحریک نے تو حافظ شیرازی پر

’’ذکرِ حافظ ‘‘کے نام سے کتاب بھی لکھی۔ ممتاز حسین نے انتشار خیالی والے اعتراض کو دہرایا۔ علی سردار جعفری نے بھی چند اعتراضات ضرور کیے لیکن انھوں نے واضح لکھا کہ ’’ جس طرح ماضی کی روایات کے سلسلے میں ترقی پسندوں نے کوئی فیصلہ نہیں لیا تھا اس طرح غزل کی مخالفت بھی ترقی پسند تحریک کا پروگرام نہیں بنی۔ ‘‘(۲۵)

اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی پسند شعرا نے غزل کہی بھی اور نئے دور کے نئے مسائل بیان کرنے کے لیے اسلوب اور آہنگ کے تجربات بھی کیے۔

یہ دور برصغیر پاک و ہند کے باشندوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے گمبھیر مسائل اور بحرانات کا دور تھا۔ کرّہ ارض پر ایک عالمی جنگ لڑی جا چکی تھی اور غربت و افلاس پوری دنیا کے لیے ایک مشترک مسئلہ بن گئے تھے۔ اس صورتِ حال میں سوویت یونین کی سرزمین نجات کی علامت کے طور پر ابھر رہی تھی۔ عالمی سطح پر ادیبوں اور شاعروں نے ادب اور زندگی کے مابین رشتے اجاگر کرنے کے لیے کانفرنسیں کیں، نئے انسانی مسائل میں ادب کو زندگی کا رہنما بنانے کے لیے اعلامیے جاری ہوئے اور پوری دنیا کے ادب میں تبدیلی لانے کی کوششیں کی گئیں۔

مذکورہ حالات میں برصغیر کے بعض مقامی ادیبوں نے بھی ترقی پسند تحریک کے

پلیٹ فارم پر ادب میں تبدیلی کی کوششوں کو فروغ دیا جن سے دیگر اصناف ادب کے ساتھ ساتھ اردو غزل بھی متاثر ہوئی۔ ’’یہ وہ عرصہ ہے جو اردو شاعری کی تاریخ میں بغاوت اور تجربوں کا ایک طوفانی دور ہے۔ ‘‘ (۲۶) چنانچہ ترقی پسند شعرا ہی پر کیا موقوف اردو غزل کی کلاسیکی روایت کے امین اور مذکورہ تحریک کے بعض حوالوں سے مخالفین جگرؔ اور حسرتؔ نے بھی اس طرح زبان اختیار کی:

جو تھے غلامانہ زندگی کے وہی ہیں لیل و نہار اب تک

نچوڑتا ہے لہو غریبوں کا دست سرمایہ دار اب تک

سفارشیں ظالموں کے حق میں پیام رحمت بنی ہوئی ہیں

نہیں ہے شائستہ سماعت دکھی دلوں کی پکار اب تک

(جگر)

رسمِ جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے

حبِّ وطن محوِ خواب دیکھیے کب تک رہے

لازم ہے یہاں غلبۂ آئین سوویت

دو ایک برس میں ہو کہ دس بیس برس میں

(حسرت)

ترقی پسند تحریک کا منشور ایک معاشی انقلاب کے لیے تھا۔ چنانچہ اس سے وابستہ اردو شعرا نے برصغیر پاک و ہند میں مذکورہ انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لیے جہاں نظم کا سہارا لیا وہاں اردو غزل کی روایت سے بھی استفادہ کیا لیکن یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ’’ یہ شعرا اپنے تمام تر باغیانہ رویوں کے باوجود فنی اظہار میں کلاسیکی تھے۔ ‘‘(۲۷) جس کی بنیادی وجہ اس تحریک کا ادبی منشور تھا جو ادب میں مواد کی اہمیت کو اوّلیت دیتا ہے۔ لیکن ہیئت یا اسلوب کو ثانوی حیثیت۔ ترقی پسند تنقید کا فنی نظریہ یہ تھا کہ ’’جب کسی ملک کا ادب زوال کی منزلوں سے گزر رہا ہو، اس وقت صناعت اور اسلوب کو مواد سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے لیکن ترقی اور انقلاب کے مواقع پر جب کہنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے مواد اہم ہو جاتا ہے۔ ‘‘(۲۸)

اگرچہ ادب کے بارے میں ایسی نظریہ سازی بہت سے خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تاہم ترقی پسندوں کے نزدیک اپنے عہد کی یہی صداقتِ اولیٰ تھی۔ چنانچہ ان شعرا نے نئے اسالیب یا علامتی نظام کے تجربات کے بجائے مروّجہ اسالیب ہی سے استفادہ کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مروجہ استعاروں اور علامتوں سے برصغیر کا ذہن مانوس تھا اس لیے مانوس زبان یا اسالیب میں خطاب زیادہ کارگر تھا کہ پڑھنے یا سننے والوں کے لیے شعر کا مفہوم سمجھنا آسان ہوتا تھا۔ کسی کو یہ ضرورت محسوس نہ ہوتی کہ شاعر کا دیوان چھونے سے پہلے شاعر کے دماغ کا (Analysis)کرے (۲۹) جبکہ نئی راہیں تراشنے یا تجربات کرنے میں یہ خطرہ ضرور موجود تھا کہ شعرا اپنے پیغام کا ابلاغ کرنے میں ناکام ہوں۔

ان شعرا نے سماجی مسائل کی ترجمانی کے لیے اردو غزل کی انہی کلاسیکی علامات سے اعتنا کیا جو چمن اور متعلقات چمن یا مے خانہ و زنداں سے متعلق تھیں۔ لالہ و گل، بلبل، صبا، سحر، کوہسار، قفس، زندان، زنجیر، مقتل، صلیب، مے خوار، عاشق، معشوق، رقیب، ناصح، اور واعظ ایسے الفاظ و علائم صدیوں سے اردو غزل میں مستعمل تھیں اور ترقی پسند شعراء نے بھی اسی سے استفادہ کیا۔

بعض مقامات پر مذکورہ الفاظ و علائم کی تکرار سے پیدا ہونے والی یکسانیت سے بیزاری بھی ہوتی ہے تاہم بعض فن شناس شعرا نے اپنے زندہ اسلوب میں یہ کارِ ہنر ضرور انجام دیا کہ مذکورہ علامات میں اتنی جان ڈال دی کہ وہ نئے دور کے نئے مسائل کا احاطہ کر سکیں۔ یہ تجربہ اتنی ہنر مندی سے کیا گیا کہ ترقی پسند غزل کے بعد بھی بہت سے جدید شعرا نے ان علامات سے استفادہ کیا:

روش روش ہے وہی انتظار کا موسم

نہیں ہے کوئی بھی موسم بہار کا موسم

ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے

بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن

یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

چلی بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم

کہیں تو قافلۂ نو بہار ٹھہرے گا

با نے پھر درِ زنداں پہ آ کے دستک دی

سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے

رقص مے تیز کرو ساز کی لَے تیز کرو

سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں

(فیض)

وا ہو رہی مے کدۂ نیم شب کی آنکھ

انگڑائی لے رہی ہے زمیں دیکھتے چلیں

آ ہی گیا وہ میرا نگارِ نظر نواز

ظلمت کدے میں شمع فروزاں لیے ہوئے

(مخدوم محی الدین)

ساز گار ہے ہم دم، ان دِنوں جہاں اپنا

عشق شادماں اپنا، شوق کامراں اپنا

(اسرار الحق مجاز)

اب اے دل تباہ ترا کیا خیال ہے

ہم تو چلے تھے کاکل گیتی سنوارنے

(ساحرلدھیانوی)

خود اپنی محبوب ادا سے قفل خموشی کھولے گا

اے دل ! تم مایوس نہ ہونا پتھر کا بت بولے گا

کلی نے سر اٹھایا، لالۂ خونیں کفن بدلا

فضا میں دیکھتے ہی دیکھتے رنگِ چمن بدلا

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

(مجروح سلطان پوری)

صبح کو راہ دکھانے کے لیے

دستِ گل میں ہے دیا شبنم کا

(احمد ندیم قاسمی)

جہاں سے پچھلے پہر کوئی تشنہ کام اٹھا

وہیں پہ توڑے ہیں یادوں نے آج پیمانے

(کیفی اعظمی)

ترقی پسند ادیب ابلاغ کے مسئلے میں بڑے واضح نظریات کے حامل تھے کہ ادب میں ایہام و ابہام قطعاً نہیں ہونا چاہیے بلکہ تخلیق کی تفہیم، معاشرے کے ایک انتہائی عام آدمی کے لیے فوری ہونی چاہیے اور ادیب کے پیغام کی ترسیل بغیر کسی رکاوٹ کے ہو، نیز اُس میں ایسی تاثیر ہو کہ مزدور، کسان اور محنت کش طبقہ اُسے سن کر یا پڑھ کر اپنے حقوق کے لیے نبرد آزما ہو۔ ادب کے ان افادی نظریات کے باعث شاعری کے بارے میں کچھ ویسی ہی غلط فہمیاں ایک بار پھر عام ہونے لگیں جو حالیؔ کے ’’مقدمہ شعر و شاعری ‘‘کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔ شاعری سے کام لینے کی افادی فکر نے ایک بار پھر معیاری ادب کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے اور بزعمِ خود جوابات بھی دیے، چنانچہ جہاں اردو نظم میں انقلاب کے نعرے لگائے گئے وہاں غزل میں اس نوعیت کا لہجہ بھی اختیار کیا گیا:

لال پھریرا اس دنیا میں سب کا سہارا ہو کے رہے گا

ہوکے رہے گی دھرتی اپنی ملک ہمارا ہو کے رہے گا

لینن کے پیغام کی جے ہو اسٹالن کے نام کی جے ہو

جے ہو اس دھرتی کی جس پر اپنا اجارہ ہوکے رہے گا

امن کا جھنڈا اس دھرتی پر کس نے کہا لہرانے نہ پائے

یہ بھی کوئی ہٹلر کا ہے چیلا مارے ساتھی جانے نہ پائے

(مجروح سلطان پوری)

بعض شعرا نے اقبالؔ کے لہجے کی بھی پیروی کی:

بدل گئے ہیں اگر چہ قاتل نظام دارورسن وہی ہے

ابھی تو جمہوریت کے پردے میں نغمۂ قیصری چھپا ہے

اردو غزل میں اس خطیبانہ انداز سے جہاں اسلوب کا حسن متاثر بلکہ مجروح ہوا وہاں بعض فن شناس غزل گوؤں نے ایک زبردست غنائی تجربہ کیا اور طویل، رواں اور مترنّم بحور کے ذریعے ایک خاص رجزیہ لَے پیدا کی، جو ایک طرف تو اُن کے تحریکی تقاضوں کی تکمیل کرتی ہے تو دوسری طرف اردو غزل کو ایک ایسے منفرد غنائی آہنگ سے آشنا کرتی ہے، جس میں محض رزمیہ للکار نہیں بلکہ نغمگی بھی ہے۔ شعرا نے اس سلسلے میں بحور کی روانی کے ساتھ ساتھ اصوات کی ترتیب اور الفاظ کے صوتیاتی اشتراک یا امتزاج کا اہتمام بھی کیا ہے :

زندگی موتیوں کی ڈھلکتی لڑی، زندگی رنگ گل کا بیاں دوستو!

گاہ روتی ہوئی گاہ ہنستی ہوئی میری آنکھیں ہیں افسانہ خواں دوستو!

کیسے طے ہو گی یہ منزل شامِ غم، کس طرح سے ہو دل کی کہانی رقم

اک ہتھیلی میں دل اک ہتھیلی میں جاں اب کہاں کا یہ سود و زیاں دوستو!

(مخدوم محی الدین)

یہ شام و سحر، یہ شمس و قمر، یہ اختر و کوکب اپنے ہیں

یہ لوح قلم، یہ طبل و علم، یہ جاہ و حشم سب اپنے ہیں

مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں

دل والو! کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

میدانِ وفا دربار نہیں، یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں

عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے

سزا خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے

ہاں جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجیے

ہر رہ جو اُدھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کے جاتی ہے

(فیض)

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے گردشِ دوراں بھول گئے

وہ زلفِ پریشاں بھول گئے وہ دیدۂ گریاں بھول گئے

تسکین دلِ محزوں نہ ہوئی وہ سعی کرم فرما بھی گئے

اس سعیِ کرم کو کیا کہیے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

(مجاز)

ہاں وادی ایمن بھی ہے وہی ہاں برق کا مسکن بھی ہے وہی

اور ہوش کا خرمن بھی ہے وہی، پر ان کا تقاضا کون کرے

(جذبی)

ترقی پسند تحریک کے زمانے میں اردو شعرا کو حلقہ اربابِ ذوق کی صورت میں ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آیا جو ادب میں جدید رجحانات کا علمبردار خیال کیا جاتا ہے۔ جدید اِن معنوں میں کہ یہ لوگ محض زندگی کے نئے مسائل سے وابستہ نہیں تھے بلکہ ادب میں ان مسائل کے اظہار کے لیے نئے شعری وسائل اور تجربات کے ذریعے نئی ہیئتیں، نئے اسالیب اور نئی لفظیات کے استعمال پر بھی زور دیتے تھے۔ یہ شعرا ترقی پسند تحریک کی مقصدیت کے برعکس ادب برائے ادب کے ترجمان تھے۔ اس حوالے سے میراجی، الطاف گوہر، اور ن۔ م۔ راشد نے ایک زبردست نظریہ سازی کی۔

حلقۂ اربابِ ذوق سے وابستہ ادیبوں نے جس نوع کا ادب تخلیق کیا، اُس کی ادبی شناخت میں ترقی پسندتحریک کی مخالفت ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آئی جس سے وابستہ اہل قلم محض مواد کی اہمیت تسلیم کرتے تھے جبکہ ہیئت اور اسلوب کو نظرانداز کرنا وقت کا اہم تقاضا خیال کرتے تھے۔ اس کے برعکس ’’ حلقہ کے شعرا یہ ضرورت محسوس کرتے تھے کہ خود کو مقر رہ ہیئت اور اسلوب بیان میں محصور رکھنے کے بجائے نئی ہیئت اور نئے اسالیب بیان کے تجربے کیے جائیں۔ ‘‘(۳۰)

اس طرز احساس کی بدولت شاعری میں تجربات اور امکانات کی نئی راہیں کھلیں لیکن امر واقعہ ہے کہ ان نئی راہوں پر عزم سفر باندھتے ہوئے حلقہ کے شعراء نے نظم کی طرف تو بھرپور توجہ کی لیکن غزل کی جانب نظرِ التفات بہت دیر بعد ہوئی چنانچہ حلقہ کے ابتدائی دور کے شعراء نے اردو نظم کے ارتقا میں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ ساز ہے لیکن غزل ’’سدا سہاگن ‘‘ قرار دیے جانے کے باوجود ابتدا میں اُس توجہ سے محروم رہی جو نظم کو حاصل تھی۔

الطاف گوہر نے غزل کے بارے میں اپنے دبستان فکر کے ادبی نظریات جس طرح بیان کیے ہیں اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقۂ اربابِ ذوق کی انتقادی روشوں میں غزل کے

غیر لچکدار صنف ہونے کا احساس پایا جاتا ہے۔ اُن کے مطابق ’’غزل بطور صنف ادب ہماری نظروں میں بڑی وقعت رکھتی ہے۔ لیکن اس میں اتنی لچک موجود ہونی چاہیے کہ وہ وقت کے تاثرات کو قبول کرتے ہوئے صحیح رنگوں میں ڈھلتی جائے۔ ‘‘(۳۱) اسی طرح ن۔ م۔ راشدؔ نے بھی غزل کی ہیئت اور علائم کو محدود قرار دے کر فتویٰ صادر کیا تھا کہ یہ صنف معاصر زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔ (۳۲)

حلقہ اربابِ ذوق نے غزل پر اتنی توجہ ضرور کی کہ ہفتہ وار اجلاسوں میں غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ اس کا پتہ یونس جاوید کے مرتب کردہ ریکارڈ (۳۳)سے بھی چلتا ہے لیکن جو سالانہ شعری منتخبات شائع کیے جاتے تھے وہ صرف منظومات پر مشتمل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ نظم پر ہونے والی تنقید بھی اتنی اہم سمجھی گئی کہ اس کے مباحث شائع کیے جاتے تھے۔

حلقہ کے پلیٹ فارم پر غزل کی مخالفت تو کبھی نہیں ہوئی لیکن اپنے ابتدائی دور میں کم توجہی اور کچھ سردمہری ضرور برتی گئی چنانچہ میراجی، ن۔ م۔ راشد، مختار صدیقی، یوسف ظفر اور قیوم نظر ایسے شعرا اُردو نظم میں تو گراں قدر سر مایہ چھوڑ گئے لیکن ۱۹۴۷ء تک کی اس اہم نسل کا اردو غزل میں امتیازی مقام ایک سوال ہے۔

میراجیؔ، مختار صدیقی اور بعض دوسرے شعرا نے ہندی بحور میں جو چند غزلیں کہی ہیں وہ گیت کے آہنگ کے قریب ہیں۔ مذکورہ غزلوں میں کیے گئے غنائی تجربات کے بعض رنگ درج ذیل اشعار میں دیکھے جا سکتے ہیں :

جیون جوتی جاگ رہی ہے چھوڑ بہانے چھوڑ بہانے

تن من دھن کی بھینٹ چڑھا دے کیوں سپنوں کے تانے بانے

موہ کا پنچھی دل میں بے کل ڈول رہا ہے جنگل جنگل

تو ہے اک نادان شکاری ٹھیک نہیں ہیں تیرے نشانے

چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں

لیکن میں آزاد ہوں ساقی چھوٹے سے پیمانے میں

اپنی بیتی کیسے سنائیں، بدمستی کی باتیں ہیں

میراجیؔ کا جیون بیتا پاس کے اک مے خانے میں

(میراجی)

ماتھے پر صندل کا ٹیکہ اب دل کے کارن رہتا ہے

مندر میں مسجد بنتی ہے مسجد میں برہمن رہتا ہے

رت بیت چکی ہے برکھا کی اور پیت کے مارے بیٹھے ہیں

روتے ہیں رونے والوں کی آنکھوں میں ساون رہتا ہے

(قیوم نظر)

پاس کیا ہے فقیروں نے بھی کبھی کبھار بہاروں کا

ورنہ خوش رہنا خوش رکھنا کام ہے دنیا داروں کا

اپنے حال کو جان کے ہم نے فقر کا دامن تھاما ہے

جن داموں یہ دنیا ملتی اتنے ہمارے دام کہاں

(مختار صدیقی)

تجربات کے سلسلے میں میراجیؔ کی وہ کچھ غزلیں بھی قابل اعتنا ہیں جو ہزلیات کے عنوان سے اُن کے کلیات میں شامل ہیں اور اُن میں تضحیک کے لہجے کے ساتھ ساتھ بعض دیگر ذائقے بھی ملتے ہیں۔ نیز قیام پاکستان کے بعد ’’انٹی غزل‘‘ کے تحت کیے گئے شعری تجربات کے حوالے سے بعض نکات کی روشنی میں قابلِ بحث بھی ہیں :

جتنی برف نظر آتی ہے ہم کو کنچن چنگا میں

اتنا ہی دنگا ہوتا ہو گا شاید در بھنگا میں

انگے کا تو قافیہ میرے بس میں نہیں کیوں ؟ یہ بھی سنو

انگے کو گر قافیہ باندھا کہنا پڑے گا انگا میں

حضرت مہمل اک دن ننگ دھڑنگ ملنگ سے کہنے لگا

یہ تو کہو کچھ لطف بھی آتا ہے اس ننگ دھڑنگا میں

پیسوں کا انتظام ہوا یا نہیں ہوا

ہم سے کہو کہ کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا

ان لڑکیوں کے ساتھ ہی ہم جاتے مدرسے

لیکن بغل میں آج ہی بستہ نہیں ہوا

لندھور! اب تو ایک غزل در غزل چلے

کہتے ہیں وہ رواں ابھی دریا نہیں ہوا

ایک ہزلیہ غزل میں میراجی نے غزل کی ہیئت کو بھی نظر انداز کیا ہے :

اے حضرتِ آوارہ!

ہم سوچتے ہیں کیسے ہو آپ سے چھٹکارا

جو انس ہوا دل کو یہ بھید سجھاتا ہے

پہلے بھی کبھی شاید دیکھا تھا یہ نظارہ

باتوں کی یہ گھاتیں ہیں جیتیں ہیں نہ ماتیں ہیں

دل پل میں اڑاتی ہے جیسے کوئی مہ پارہ

اور ہم کو نہیں یارا

کچھ اس کا نہیں چارہ

حلقۂ اربابِ ذوق کے ابتدائی دور میں غزل سے کم اعتنائی کے باعث ایک اعتراض یہ بھی سامنے آیا کہ ’’حلقے کے شعرا غزل کہنے پر قادر نہیں۔ ‘‘(۳۴) چنانچہ ۴۷ء کے بعد اردو شعرا کی ایسی نسل ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اس اعتراض کا تخلیقی جواب دیا اور نہ صرف بھر پور غزل کہی بلکہ متنوع تجربات بھی کیے۔

ناصر کاظمی، منیر نیازی، شہزاد احمد اس نسل کے نمائندہ شعرا ہیں، جن کی غزل بھی منفرد اسالیب کی نمائندہ ہے اور ان کے بعد آنے والے متعدد شعرا ایسے ہیں جن پر مذکورہ نسل کے اثرات ہیں۔ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ حلقۂ اربابِ ذوق میں جو ماحول اور فضا استوار ہوئی اس کا مزاج کچھ ایسا تھا کہ ’’جو مثبت تجربہ بھی اردو شاعری میں کیا گیا وہ حلقے کی تحریک کا جزو بن گیا۔ اس تحریک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے نئے لکھنے والوں کو شدت سے متاثر کیا اور اب جو تجربات نئے لکھنے والے کر رہے ہیں اُن کی تخلیقی اساس حلقۂ اربابِ ذوق کی تحریک پر ہی استوار ہوئی ہے۔ ‘‘(۳۵)

 

 

(۳)

 

اردو غزل جہاں ایک طرف تحاریک کے زیر اثر ایسے تجربات کا سفر کر رہی تھی جو اُن تحاریک کے سماجی یا ادبی نظریات کی تکمیل کا باعث تھے تو دوسری طرف ان تحاریک کے متوازی اردو غزل کی ایک نرول روایت کا سراغ بھی ملتا ہے۔ مذکورہ شعرا میں اگرچہ معدودے چند ہی ایسے ہیں جنھوں نے کوئی شعری تجربہ کیا لیکن اس نسل کے سخنِ کاروں کا یہ عطائیہ بھی ناقابل فراموش ہے کہ وہ غزل کی زیر دستی اور نظم کے غلبے کے زمانے میں اپنے زندہ اشعار کی بدولت اس صنف کی بقا کے ضامن رہے۔

ان شعرا میں سب سے قابل قدر نام تو اردو غزل کے عناصر اربعہ فانی بدایونی، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی اور اصغر گونڈوی ہیں جو تاریخِ ادب میں احیائے غزل کی علامت قرار دیے گئے ہیں۔ ان شعرا کے چند اشعار درج کیے جار ہے ہیں تاکہ اس دور میں غزل کے معاصر ذائقے محسوس کیے جا سکیں :

تیرا نگاہِ شوق! کوئی راز داں نہ تھا

آنکھوں کو ورنہ جلوۂ جاناں کہاں نہ تھا

اب تک تری گلی میں یہ رسوائیاں نہ تھیں

اب تک تو اس زمیں پہ کوئی آسماں نہ تھا

(فانی)

تاثیر برقِ حسن جو اُن کے سخن میں تھی

اک لرزشِ خفی مرے سارے بدن میں تھی

محتاج بوئے عطر نہ تھا جسمِ خوب یار

خوش بوئے دلبری تھی جو اُس پیرہن میں تھی

(حسرت)

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا

دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آ ہی گیا

جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا

(جگر)

عشق ہی سعی مری عشق ہی حاصل میرا

یہی منزل ہے، یہی جادۂ منزل میرا

اور آ جائے نہ زندانیِ وحشت کوئی

ہے جنوں خیز بہت شورِ سلاسل میرا

(اصغر)

غزل کے عناصر اربعہ کے علاوہ اس عہد میں کچھ اور غزل گوؤں کے سخن رنگ بھی قابلِ لحاظ ہیں :

کیا کہوں ناصحوں کا طولِ سخن

ہاتھ بھر کی زبان ہے گویا

(احسن)

نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں

وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں

(جلیل)

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

(شاد عظیم آبادی)

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب

موت کیا ہے انھی اجزا کا پریشاں ہونا

(چکبست)

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

(حفیظ جونپوری)

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

(ثاقب)

غزل اُس نے چھیڑی مجھے ساز دینا

ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

(صفی)

برسا دے نور تو مری ریشِ سفید پر

منھ دیکھتا ہے کیا ارے ساقی پلا مجھے

(ریاض)

اردو غزل کی نرول روایت میں آرزوؔ، فراقؔ اور جمیل مظہریؔ کے لسانی تجربات اس حوالے سے بڑے اہم ہیں کہ ان شعرا نے اردو غزل میں مقامی الفاظ اور ثقافتی عناصر کو سمونے کی سعی کی۔ اس سلسلے میں آرزوؔ نے میرؔ کی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے زبان سازی کے عمل کو آگے بڑھایا اور خالص اردو میں شعر کہے۔ نیز آرزوؔ نے ان شاء اللہ انشا کے اُن لسانی عقائد اور اسلوبیاتی کوششوں کی بازیافت بھی کی جو ناسخؔ کی اصلاح زبان کے ردِّ عمل کے طور پر سامنے آئی تھیں۔ ’’سریلی بانسری‘‘ کی غزلیں مذکورہ شعرا کے تجربات کی توسیع دکھائی دیتی ہیں :

کالی گھٹا میں کوندا لپکا روکے جو کوئل کوک گئی

جتنی گہری سانس کھنچی تھی اتنی لمبی ہوک گئی

چپ ایک پہیلی ہے سوچو گے تو بوجھو گے

تم سے وہی کہنا ہے جو سب سے چھپانا ہے

جنھیں نظر ہی نہیں آرزوؔ وہ کیا جانیں

خزف سمیٹے ہیں یا موتیوں کی ڈھیری ہے

فراق گورکھپوری کی غزل جہاں عربی و فارسی روایت سے فیض اٹھاتے ہوئے کلاسیکی لب و لہجے کی امین نظر آتی ہے وہاں ہندو مت کی بعض مذہبی روایات، عقائد اور اساطیری حکایات کی ایک زیریں لہر بھی ان کے اشعار میں نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ اس کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ ’’ہندوستان کی قدیم ثقافت اور وجدان کی کارفرمائی اور اس کی جھلکیاں اردو شاعری میں نہیں ملتیں۔ ‘‘(۳۶)

اپنے اس احساس کی بدولت وہ اپنی غزل میں اُس مخصوص احساس حیات و کائنات کو سمونے کی کوشش کرتے ہیں جو ’’رگ وید سے لے کر تلسی داس اور سورداس اور میرا بائی کے کلام میں نظر آتا ہے۔ ‘‘(۳۷) ان کے مضامینِ غزل میں جہاں ہندو صنمیات کی روایات نظر آتی ہیں وہاں اس کا پرتو اسلوب، لہجے اور عروض میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اس تمام تر کوشش کا مقصد اردو غزل میں ہندوستانیت کے اُس تصور کو اجاگر کرنا تھا جس کی کمی یا فقدان کی شکایت انھیں اردو کی شعری روایت سے ہے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے انھوں نے متنوع تجربات کیے۔ ’’فراق نے ہندی دوہوں اور گیتوں کے تجربوں سے بھی اردو غزل کی فضا بدلنے کی سعی کی ہے۔ ‘‘(۳۸) جبکہ ’’اُن کے ہاں دوسری قسم کا تجربہ ہندی الفاظ و تشبیہات کو اپنی غزلوں میں کھپانے کا ہے۔ ‘‘(۳۹) اس کھپت کے سلسلے میں اُن کے ہاں ایک سلیقہ بھی ملتا ہے اور انتخاب بھی۔ شعریت سے معمور فارسی الفاظ اور غنائیت سے مملو ہندی الفاظ کا ملاپ اُن کے اشعار میں ایک خاص رس اور لطف کو جنم دیتا ہے۔

فراق ہندی کے نامانوس الفاظ سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ غزل کے مزاج کا بھی دھیان رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہندی الفاظ کے اصوات ہی ایسی ہیں کہ اُن کے استعمال سے غزل میں گیت کا آہنگ خود بخود پیدا ہو جاتا ہے :

دنیا سے رکھ سچی لاگ

جھوٹا تیاگ اور بیراگ

آگ بھبھوکا گورا مکھڑا

زلفیں کالے کالے ناگ

روپ پہ یوں لہلوٹ ہے دنیا

جیسے گت پر ناچے راگ

پو پھٹے وہ رنگ اپنا سر بسر بدلتی ہے

دیکھ رات کی جوگن کیا بھبھوت ملتی ہے

ہندو صنمیات میں دیویاں مذہبی اعتقاد کا ایک خاص مظہر ہیں۔ فراق نے غزل میں نسوانی حسن کی عکاسی کے لیے ان دیویوں کے حسن کی تصویریں مصّور بھی کی ہیں اور انھیں بطور صنائع شعری بھی استعمال کیا ہے :

بساط ناز پہ ہے، تُو ہے کہ کوئی دیوی ہے

بھنوؤں کی نرم لچک، انکھڑیوں کا نرم جھکاؤ

وہ آکاش کی دیوی اتری

چندر کرن پر گاتی راگ

فراقؔ نے اپنی غزل میں ہندو ثقافت کی روح(Sprit) کے جاری و ساری ہونے کا دعویٰ اپنی نثری تحریروں میں متعدد مقامات پر کیا ہے۔ وہ ہندو ثقافت کے عناصر کی خارجی تصویر کے بجائے مختلف کیفیتوں کو مصوّر کرتے ہوئے انھیں بطور تشبیہ یا تمثال استعمال کرتے ہیں :

دلوں کو تیرے تبّسم کی یاد یوں آئے

کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

ذروں کو ملائے ہے تاروں کو جگائے ہے

کچھ دھیمے سروں میں وہ جب رات کو گائے ہے

ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

جیسے صبح کی دیوی، چھاؤں میں ستاروں کی

یوں امید کی صورت یاس سے نکلتی ہے

فراقؔ نے اردو غزل میں اُن الفاظ کا بہاؤ ایک بار پھر جاری کرنے کی کوشش کی، جن کے سوتے فارسی غلبے کے باعث خشک کر دیے گئے تھے۔ اس سلسلے میں ’’گل نغمہ‘‘ میں شامل ’’طرزِ میر‘‘ کے عنوان سے وہ چار غزلیں قابل ذکر ہیں، جن کی ردیفوں میں متروکات کا تجربہ کیا گیا ہے۔

ہندی عروض خصوصاً دوہے کی بحر میں کیے گئے تجربات نئے نہیں ہیں البتہ متنوع ضرور ہیں۔ گیان چند جین (۴۰) اور سید محمد عقیل (۴۱) نے مذکورہ غزلوں میں وزن کی بعض غلطیوں کی نشاندہی کی ہے جو جزوی صداقت کی حامل ہیں کیوں کہ ان کے متون میں کتابت کی غلطیاں ہیں۔

اردو غزل میں ہندی آہنگ کے تجربات کے حوالے سے جمیل مظہری کی مساعی بھی قابل توجہ ہیں۔ ’’فکرِ جمیل ‘‘ میں اُن کی غزلوں کا ایک حصہ ’’پریم گیتا ‘‘کے عنوان سے ہے جس پر شاعر نے یہ نوٹ بطور خاص درج کیا ہے :

’’ اس مجموعے میں رومانی اور جذباتی انداز کی غزلوں کے علاوہ وہ غزلیں بھی ہیں جن میں ہندی اردو تغزل کو ایک سانچے میں ڈھالنے کا تجربہ کیا گیا ہے۔ یہ تقریباً سب کی سب فکرِ ایام شباب ہیں، یعنی ۱۹۳۰ء سے لے کر ۱۹۳۸ء تک۔ ‘‘(۴۲)

شاعر کے اس نوٹ سے جہاں ان غزلوں کی تخلیق کا زمانی تعین ہوتا ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ غزلیں تجربے کی باقاعدہ شعوری کاوش کے تحت رقم ہوئی ہیں۔ یہ غزلیں بحور کے لحاظ سے ایک زبردست غنائیت کی حامل ہیں لیکن الفاظ میں صوتیات کی ترتیب اور اتار چڑھاؤ سے غزل میں بھجن کا رنگ اور آہنگ زیادہ غالب ہے۔ اشعار میں سوز اور تغزل کم جبکہ گیت کی نشاط اور انبساط زیادہ ہے البتہ شاعر نے مقامی ثقافت کو بڑے عمدہ انداز میں اجاگر کیا ہے :

پڑا تھا سوتا ستار دل کا ہوئی اچانک یہ جاگ تم سے

جو زندگی روگ بن چکی تھی وہ بن گئی آج راگ تم سے

اٹھا کے شعلے ہمارے دل میں الاؤ سے دور چپ کھڑی ہو

نہ ڈالا جاتا ہے تم سے پانی نہ تاپی جاتی ہے آگ تم سے

جلا سکی دھوپ بھی نہ مجھ کو لبھا سکا روپ بھی نہ مجھ کو

یہ میرا سارا گھمنڈ تم سے یہ میرا سارا تیاگ تم سے

چلی ہو لیکن یہ یاد رکھو کہ اس میں کوئی کمی نہ کرنا

ہمارا خونِ جگر بھی مانگے اگر تمھارا سہاگ تم سے

ہندی آہنگ میں اردو غزل کے مذکورہ تجربات قیام پاکستان کے بعد ایک نئے تسلسل کے ساتھ جاری رہے اور اس آہنگ کے بعض نئے امکانات سامنے لانے کی کوشش کی گئی۔

اردو غزل کی نر ول روایت کے تحت تجربات کی ایک زبردست جہت یاس یگانہ چنگیزی ہیں۔ جنھیں بجا طور پر ’’اقبال کے بعد اردو شاعری کا بہت بڑا مجتہد اور صاحبِ طرز امام‘‘(۴۳) قرار دیا گیا ہے۔ اُن کا شعری سفر کسی محاذ سے کم نہ تھا۔ وہ غالب کا بت توڑنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن غالبؔ پرستوں ( بقول یگانہ ’’ غلبچیوں‘‘ ) سے اُن کی رزم آرائیاں اردو غزل میں ایک نئے لہجے اور اسلوب کی تشکیل کا باعث ضرور بنیں، جس میں غزل کی مروجہّ لفظیات سے انحراف بہت واضح ہے۔

اُن کے اشعار میں للکار اور ایک ایسا عسکری آہنگ ہے جس سے اردو غزل ابھی تک آشنا نہ تھی۔ ’’وہ پہلے شاعر ہیں جو ہمیں زندگی کا جبراتی رخ دکھاتے ہیں۔ ‘‘(۴۴):

خواہ پیالہ ہو یا نوالہ ہو

بن پڑے تو جھپٹ لے بھیک نہ مانگ

الٹی تھی مت زمانۂ مردہ پرست کی

میں ایک ہوشیار کہ زندہ ہی گڑ گیا

یگانہؔ کون وہ بزمِ ادب سے بیگانہ

لڑائی چھیڑ کے پگڑی اتارنے والے

اردو غزل کی طنز کی راہ سب سے پہلے غالبؔ کی انائیت نے دکھائی اور بشری کرداروں سے لے کر خدا تک غالبؔ کے طنز کا ہدف بنتے ہیں، لیکن یگانہؔ کی انا جب غالبؔ سے متصادم ہوتی ہے تو طنز کی یہ نشتریت فزوں تر ہو جاتی ہے :

جیسے دوزخ کی ہوا کھا کے ابھی آیا ہو

کسی قدر واعظِ مکّار ڈراتا ہے مجھے

ارے کیسی سزا، کہاں کی سزا

ہچکچاتا تو کام کیا کرتا

یگانہؔ کی انائیت اُن کی غزل میں تمسخر اور تعریض کا ایسا اسلوب بھی تشکیل دیتی ہے :

پڑے ہو کون سے گوشے میں تنہا

یگانہؔ کیوں خدائی ہو چکی بس

تکبّر کی منفیت سے قطع نظر یگانہؔ کی غزل میں یہ اسلوب جب روایت کے ساتھ امتزاج کی صورت میں سامنے آتا ہے تو اس کا اثباتی رنگ اس نوع کے اشعار کی تخلیق کا باعث بنتا ہے :

ہوا جو بگڑی تو ٹھنڈا ہی کر کے چھوڑ گئی

ہزار شعلۂ بے باک سر کشیدہ سہی

فریبِ ابرِ کرم بھی بڑا سہارا ہے

بلا سے نخلِ تمنا خزاں رسیدہ سہی

اے رہزنِ بے پردہ مشکل مری آساں کر

کیوں آنکھ چراتا ہے گم گشتہ و تنہا سے

بوئے وفا کہاں چمنِ روزگار میں

دل ہٹ گیا ہے جیسے کوئی پھول جھڑ گیا

میں پیمبر نہیں یگانہؔ سہی

اس سے کیا کسر شان میں آئی

یگانہ کے بعض اشعار میں لفظیات کے ایسے تجربے بھی کیے گئے ہیں کہ اسلوب غزل کے بالکل نئے وطیرے اور پینترے نظر آتے ہیں۔ ان اشعار میں ایسے الفاظ بھی در آئے ہیں کہ غزل تو کجا ہجو اور واسوخت کے علاوہ کسی بھی صنف شعر کے مزاج سے بڑی مشکل سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں :

کس مزے سے ہیں بیویوں والے

عیش کرتے ہیں روزمرہ ادھار

آ گئی چھینک، رک گیا پیشاب

پھر بھی انساں ہے فاعلِ مختار

چٹ بھی اپنی ہے، پٹ بھی اپنی ہے

میں کہاں ہار ماننے والا

شادؔ عارفی کے تجربات بھی یگانہؔ سے کچھ مختلف نہیں ہیں :

ہے تو احمق چونکہ عالیشان کاشانے میں ہے

اس لیے جھک مارنا بھی اُس کے فرمانے میں ہے

اُن کے مداح اس زمانے میں

جیسے کتے قصائی خانے میں

میں تو چٹنی سے کھا رہا ہوں شاد

دال ملتی ہے جیل خانے میں

ان اشعار میں برتا گیا لہجہ یگانہ کے اسلوب غزل ہی کی طرح ہے۔ شادؔ کے تجربات کی اصلیت (Originality) اور انفرادیت طنز و تضحیک میں گفتگو کا عام اور روزمرہ لہجہ ہے۔ جس میں گھن گرج نہیں بلکہ دھیما پن ہے :

تمہیں جس حال میں سجدہ کیا ہے

اُسے اللہ بہتر جانتا ہے

جب چلی اپنوں کی گردن پر چلی

چوم لوں منہ آپ کی تلوار کا

خشک لب کھیتوں کو پانی چاہیے

کیا کریں گے ابرِ گوہر بار کا

آپ کو کتنی اذیّت ہو گی

میں اگر آپ کی باتوں میں نہ آؤں

مشورہ ضروری ہے ہر طرح مگر یارو

عشق میں بزرگوں سے رائے کون لیتا ہے

غزل میں اسلوب اور زبان کے تجربات کے سلسلے میں یگانہ اور شاد عارفی کی بعض کاوشیں اردو غزل کی روایت میں خط تنسیخ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مذکورہ شعرا نے غزل میں جو اسلوب اختیار کیا اُس کے اثرات بہت دُور رس ہیں۔ اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ’’جدید نئی غزل اپنی تمام تر غیر سنجیدہ قلا بازیوں کے باوجود جس طرح غزل کے گلے سڑے الفاظ اور بندھے بندھائے سودوں کو اکھاڑ پچھاڑ رہی ہے وہ زیادہ تر یگانہؔ اور شادؔ عارفی کی دین ہے۔ ‘‘(۴۵)

٭٭

 

استفادہ

 

۱۔      سرسید احمد خان۔ ’’مقالات سرسید‘‘ (جلد دوم ) مجلس ترقی ادب لاہور۱۹۸۵  ص:۵۵۵

۲۔      محمد حسین آزاد۔ لیکچر ’’ نظم اردو ‘‘بحوالہ ’’ اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘      ص: ۲۳۲

۳۔     الطاف حسین حالی۔ؔ ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘(مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی)        ص: ۹۵

۴۔     ایضاً                                          ص: ۹۸

۵۔     اختر انصاری۔ ’’غزل کی سرگزشت ‘‘ ادارہ شعر و ادب علی گڑھ ۱۹۷۵          ص: ۴۶

۶۔      ڈاکٹر وارث کرمانی۔ مضمون ’’جدید شعری تنقید‘‘ مطبوعہ نقوش لاہور شمارہ ۱۵   ص: ۲۴

۷۔      فیض احمد فیض۔ؔ ’’میزان ‘‘اردو اکیڈمی سندھ، کراچی ۱۹۸۷        ص: ۱۳۷

۸۔     فراق۔ ’’اندازے ‘‘ فروغِ ادب لاہور ۱۹۶۸                ص: ۲۲۸

۹۔      ڈاکٹر شیخ عقیل احمد۔ ’’غزل کا عبوری دور‘‘   جے ڈی پبلیکیشنز دہلی ۱۹۹۶       ص: ۳۳

۱۰۔     ڈاکٹر عبادت بریلوی۔ ’’غزل اور مطالعہ غزل‘‘ انجمن ترقی اردو پاکستان ۱۹۵۵    ص: ۴۵۴

۱۱۔     فراق۔ ’’اندازے ‘‘                                    ص:۲۱۰

۱۲۔     گوپی چند نارنگ۔ ’’سانحہ کربلا بطور شعری استعارہ‘‘ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۱۹۸۶ص:۲۵

۱۳۔     رشید احمد صدیقی۔ ’’علی گڑھ میگزین‘‘ (اکبر نمبر) ۱۹۵۱ء                    ص: ۱۲

۱۴۔    ڈاکٹر غلام حسن ذوالفقار۔ ’’اردو شاعری کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ سنگ میل لاہور ۱۹۹۸ص: ۳۷۹

۱۵۔    فتح محمد ملک۔ مضمون ’’غزل اور نئی غزل‘‘ مطبوعہ ادب لطیف لاہور سالانہ ۱۹۶۴ء        ص: ۵۹

۱۶۔     افتخار احمد صدیقی۔ ’’فروغ اقبال‘‘ اقبال اکیڈمی لاہور ۱۹۹۲            ص: ۱۷۵

۱۷۔    ابو الاعجاز حفیظ صدیقی۔ ’’کشاف تنقیدی اصطلاحات‘‘ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ۱۹۸۵

۱۸۔     مجنوں گورکھپوری۔ مضمون ’’ اقبال‘‘ مشمولہ ’’اقبال بحیثیت شاعر‘‘ (مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)                اقبال اکیڈمی لاہور                                      ص: ۵۷

۱۹۔      فتح محمد ملک۔ مضمون ’’ اقبال کی غزل‘‘( فنون جدید غزل نمبر)              ص: ۲۸۹

۲۰۔    عبدالسلام ندوی۔ ’’اقبال کامل‘‘

۲۱۔     شمس الرحمن فاروقی۔ مضمون ’’ اردو غزل کی روایت اور اقبال‘‘ مطبوعہ زاویہ، نیویارک جنوری تا مارچ ۲۰۰۳ ص: ۱۳

۲۲۔    ڈاکٹر وزیر آغا۔ ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ مکتبہ عالیہ لاہور( بار ششم ) ۱۹۹۳     ص: ۲۸۲

۲۳۔    شہزاد احمد۔ مضمون ’’اردو غزل کے جدید تر رجحانات‘‘ مطبوعہ فنون، جون جولائی ۱۹۷۱ء   ص: ۵۰

۲۴۔     رشید احمد صدیقی۔ ’’ اقبال، شخصیت اور شاعری‘‘ اقبال اکیڈمی لاہور ۱۹۷۶      ص: ۱۲۰

۲۵۔     علی سردار جعفری۔ ’’ ترقی پسند ادب‘‘ مکتبہ پاکستان لاہور، سن                ص: ۲۳۳

۲۶۔    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی۔ ’’غزل اور متغزلین‘‘ اردو مرکز لاہور ۱۹۵۴            ص: ۲۵۵

۲۷۔    خالد علوی۔ ’’ غزل کے جدید رجحانات‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس دہلی ۱۹۹۶      ص :۸۹

۲۸۔     احتشام حسین۔ ’’تنقیدی جائزے ‘‘الہ آباد پبلشنگ ہاؤس ۱۹۵۱        ص: ۱۰۰

۲۹۔     فیض احمد فیض۔ ’’میزان‘‘                                      ص: ۱۴۵

۳۰۔    عقیل احمد صدیقی۔ ’’جدید اردو نظم نظریہ اور عمل‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۱۹۹۰   ص : ۱۶۴

۳۱۔     الطاف گوہر۔ مضمون ’’پنجاب کے نوجوان اسکول کا نظریہ شعر‘‘ ادبی دنیا اپریل ۱۹۴۵ء ص: ۳۵

۳۲۔    نم راشد۔ ’’ محفل‘‘ شکاگو یونیورسٹی شمارہ ۱ تا ۴ ۱۹۷۶ء              ص: ۶۳

۳۳۔    یونس جاوید۔ ’’حلقہ ارباب ذوق‘ مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۸۲        ص: ۱۹۸۲ ء

۳۴۔    ڈاکٹر انور سدید۔ ’’ اردو ادب کی تحریکیں ‘‘انجمن ترقی اردو لاہور (بار چہارم )۱۹۹۹      ص: ۵۷۹

۳۵۔     ایضاً                                          ص: ۵۷۸

۳۶۔    شمیم حنفی۔ مضمون ’’کائنات نغمہ و گل‘‘ مطبوعہ ’’ شیرازہ‘‘ سری نگر نومبر ۱۹۶۴ء        ص: ۲۳

۳۷۔    فراق گورکھپوری۔ ’’روپ ‘‘     کاروانِ ادب ملتان                      ص: ۶

۳۸۔    فتح محمد ملک۔ ’’ تعصبات‘‘ سنگ میل لاہور ۱۹۹۱                   ص: ۱۵۱

۳۹۔    ڈاکٹر نوازش علی۔ ’’فراق گورکھپوری۔ شخصیت اور فن ‘‘ دستاویز مطبوعات لاہور ۱۹۹۵   ص: ۲۷۲

۴۰۔    ڈاکٹر گیان چند جین۔ مضمون ’’ فراقؔ کی بے عروضیاں ‘‘ نیا دور لکھنؤ ( فراق نمبر، حصہ اوّل)۱۹۸۳ء ص: ۲۱۸

۴۱۔     ڈاکٹر سید محمد عقیل۔ ’’نیادور فراق نمبر‘‘ اندازے الہٰ آباد نمبر ۱۷        ۱۹۸۳ئ       ص: ۹

۴۲۔    جمیل مظہری۔ ’’فکر جمیل ‘‘ مکتبہ اسلوب کراچی ( بار دوم ) ۱۹۸۵         ص:۴۱

۴۳۔    مظفر علی سیّد۔ ابتدائیہ ’’صدف‘‘ ( مشمولہ دیوار پہ دستک)         سنگ میل لاہور ۱۹۹۱         ص :۱۱

۴۴۔    مجنوں گورکھپوری۔ مضمون ’’غزل اور عصر جدید ‘‘مطبوعہ نگار ۱۹۴۲ء         ص: ۵۰

۴۵۔    شمس الرحمن فاروقی۔ مضمون ’’ہندوستان میں نئی غزل‘‘ فنون ( جدید غزل نمبر)        ص: ۱۳۶

٭٭٭

 

 

 

 

 

آزادی کے بعد اردو غزل کا احیا

 

 

i۔      نو تشکیلی رجحانات

احیائے غزل۔ سماجی و نفسیاتی اسباب

ترقی پسند غزل کا تسلسل۔ روایت کی تازہ کاری

ii۔      ناصر کاظمی۔ منیر نیازی۔ شہزاد احمد

تمثال کاری۔ تجسیم کاری

’’پہلی بارش ‘‘کا منفرد تجربہ

منیر نیازی۔ تمثالوں کا تنوع، مذہبی طرز احساس

شہزاد احمد۔ جدید فکریات اور اسلوبِ غزل

iii۔     دیگر شعرا کے تجربات

ہندی لحن اور بحور۔ ظہیر فتح پوری۔ ابن انشاء۔

جمیل الدین عالی

پنجابی لفظیات اور بحور۔ شیر افضل جعفری۔ صوفی تبسم

غزل میں نسائی طرز احساس، ادا جعفری

 

 

 

 

(۱)

 

۱۹۴۷ء محض برصغیر کی آزادی کا سال ہی نہیں بلکہ اُس تہذیب کی بازیافت کا سال بھی ہے جس کے سوتے گذشتہ صدی میں خشک کرنے کی ہر ممکن سعی کی گئی۔ ۱۸۵۷ء میں مغربی سامراج کے تسلط کے ساتھ ہی اوّلین کوشش یہ کی گئی کہ برصغیر کی دانش اور تہذیبی مزاج میں تبدیلی لائی جائے۔ اس کوشش کی زد میں جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی آئے، وہاں ادب بھی اس کا ہدف بنا۔ چنانچہ وہ اصنافِ ادب جن کا تعلق برصغیر کی سرزمین، اس کے تمدّن یا اس سے ہم آہنگ تہذیبوں سے تھا، اُن کا فروغ انجماد کا شکار ہو گیا۔ اس کے مقابلے میں بعض نئی اصنافِ نظم جو بدیسی تہذیب اپنے ہمراہ لائی تھی، اُن کے ارتقاء کے سلسلے میں بھر پور مساعی سامنے آئیں۔ چنانچہ دور غلامی میں بہت سی وہ ادبی تحریکیں بھی جو اگرچہ مغربی سامراج کی مخالف اور اس کے نظامِ خیال اور تمدنی مزاج کے تسلط کی شاکی تھیں، اُس احساسِ کمتری سے آزاد نظر نہیں آتی ہیں، جو اپنی اصنافِ ادب کے حوالے سے اجاگر کیا جا چکا تھا۔

انجمن پنجاب اور علی گڑھ تحریک سے لے کر ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق تک تمام تحریکیں مشرق کی اپنی اصنافِ شعر کے سلسلے میں بہت حد تک احساسِ کمتری کا شکار نظر آتی ہیں۔ یہی وہ احساس ہے جس کے باعث گزشتہ نوّے ۹۰ برس کے دوران میں بیشتر شعری اصناف جو مشرقی ادب کی شناخت تھیں متروک ہوتی چلی گئیں۔ ۱۸۵۷ء کے بعد بیسویں صدی کے نصف اوّل تک نظم کا فروغ اور غزل دشمنی کی بنیادی وجہ بھی دانش فرنگ کا پیدا کردہ یہی احساسِ کمتری ہی تھا۔

اس تمام عرصہ میں اُن جملہ شعرا کی کوششیں لائق تحسین ہیں جنھوں نے کسی نہ کسی طرح غزل کی بقا کی ضمانت دی اور اس صنفِ لطیف و ہزار شیوہ کے تسلسل کو بہر طور برقرار رکھا۔

۱۹۴۷ء میں برصغیر کی غلامی ختم ہوئی تو یہاں کے باشندوں کا ذہن بھی آزاد ہوا اور اپنے فکر و تدبّر سے گریز کے بجائے مراجعت کا عمل سامنے آیا۔ خصوصاً وطن عزیز میں اپنی تہذیب و ثقافت کی بازیافت اور ترقی کی کوششوں نے تو ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔

محمد حسن عسکری کے پاکستانی ادب کا فلسفہ اسی سوچ کی بنیاد پر تھا کہ پاکستان محض ایک خطۂ زمین نہیں ہے بلکہ اُس تہذیب کی بازیافت اور تسلسل کا استعارہ ہے جو برصغیر پاک و ہند میں صدیوں کی تاریخ رکھتی ہے۔

ہند اسلامی تہذیب کے فروغ نو کی کوششوں کے نتیجے میں اردو شعر و ادب کے رجحانات میں سامنے آنے والی ایک غیر معمولی تبدیلی شعرا کا نظم سے غزل کی طرف واپسی کا میلان ہے۔ ترقی پسند ہوں کہ حلقہ اربابِ ذوق سے وابستہ اہلِ سخن غزل کے قافلے میں جوق در جوق شامل ہونے لگے۔ ’’ وہ شعرا بھی جو طبعاً غزل گوئی سے محترز یا اصولاً غزل کے مخالف تھے نہ صرف غزل کہنے لگے بلکہ غزلوں کے مجموعے بھی شائع کرانے لگے۔ ‘‘(۱)

حلقۂ ارباب ذوق کی تاریخ (۲) میں ۱۹۴۹ء میں جس نمایاں تبدیلی کا ذکر کیا گیا ہے، وہ نظم نگاروں کا غزل گوئی کی طرف میلان ہے۔

غزل کی اس تازہ لہر کو اگرچہ تنقید کے بعض زاویوں نے رجعت پسندی بلکہ ’’برصغیر میں وبا‘‘ کا نام بھی دیا(۳) لیکن حقیقت یہ ہے کہ احیائے غزل کا یہ میلان سماجی اور تمدنی سطح پر اہلِ مشرق کے لیے ایک ذہنی اور نفسیاتی اعتماد کا سامان ہے کہ غزل محض صنفِ شاعری نہیں بلکہ ایک تہذیبی ادارہ بھی ہے اور ۴۷ء کے بعد اس کی نشاۃ الثانیہ نے یہ ثابت کر دیا کہ اس کی افادیت ہر دور میں مسلّم ہے اور ’’اگر ایک ادارے کی حیثیت سے غزل کی اہمیت ثابت ہے تو ہماری تہذیب کے دوسرے ادارے بھی ویسے ہی تخلیقی اور جان دار ہیں جیسے اس دور میں غزل ثابت ہوئی ہے۔ ‘‘(۴)

غزل گریزی سے غزل جوئی کے اس رجحان کی خارجی وجوہ بہت سی تلاش کی جا سکتی ہیں لیکن داخلی سطح پر اس کا بنیادی سبب اس کے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا کہ غزل جس تہذیب کی بدولت پروان چڑھی تھی، ۴۷ کے بعد اسے فروغ نو نصیب ہوا اور شعرا کا وہ احساس کمتری بڑی حد تک ختم ہوا، جو اُن کے ذہنوں پر اپنی اصنافِ شعر کے حوالہ سے کم و بیش ایک صدی تک مسلط رہا۔

اس صورت حال میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ ۴۷ء کا سال آزادی کی نوید بھی ہے اور غزل کی نشاۃ الثانیہ کی ساعت بھی۔

۱۹۴۷ء کے بعد اُن ادبی تحریکوں کا زور ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے جو سماجی نظریات کی بنیاد پر شروع کی گئی تھیں، چنانچہ غزل کا اثباتِ نواس وصفِ خاص کے ساتھ ہوا ہے کہ نئے غزل گو نے مقر رہ نظریوں، خانوں، فارمولوں اور نعروں سے اپنا دامن چھڑا لیا ہے اور وہ کسی وقتی یا ہنگامی مسلک سے وابستگی کے لیے اپنے ذہن کو آمادہ نہیں کر پاتا۔ اُس نے اِن لکیروں اور پلوں کو توڑ دیا ہے اور زندگی کے نا پیدہ کنار سمندر میں داخل ہو گیا ہے۔ ‘‘ (۵)

مذکورہ جکڑ بندیوں سے رہائی اور ’’ترک نسب‘‘ کی بدولت آزاد فضا میں نہ صرف غزل ارتقا پذیر نظر آتی ہے بلکہ اپنے باطن میں موجود امکانات کو دریافت کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ جہاں بعض شعرا نے انفرادی سطح پر تجربات کیے، وہاں اجتماعی طور پر نئی غزل، جدید غزل اور جدید تر غزل کی بحثیں شروع ہوئیں جن کا پھیلاؤ انھیں غزل کی متنوع تحاریک کی شکل دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ مذکورہ مباحث کو ’’ساقی‘‘، ’’ادب لطیف‘‘، ’’فنون‘‘، ’’اوراق‘‘ اور ’’نصرت‘‘ ایسے معتبر رسائل میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔

آزادی کے بعد پہلی دہائی میں غزل گو شعرا کی ایک نمایاں صف ترقی پسند تحریک سے وابستہ تخلیق کاروں کی ہے۔ مذکورہ تحریک کی نظریاتی شدت میں اگرچہ قیام پاکستان کے بعد بہت حد تک کمی آ گئی تھی لیکن جہاں تک غزل کا تعلق ہے تو ایک عرصہ تک ترقی پسند تحریک اردو غزل پر سایہ کیے رہی اور پاکستان میں بعض آمرانہ حکومتوں کے تسلط کے خلاف غزل اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوتی رہی۔ تاہم ترقی پسند شعرا نے اظہار کی سطح پر کوئی نیا تجربہ نہیں کیا۔ اسی لیے ’’ترقی پسند غزل نیا طرزِ احساس بھی نہیں رکھتی۔ ایک طرزِ احساس کی توسیع اوراُس کے اگلے امکانات کی تلاش میں سفر کر رہی تھی۔ ‘‘(۶)

آزادی کے بعد ابھرنے والے ترقی پسند شعرا نے اپنے ما قبل غزل گوؤں کے تجربات اور طرز احساس کو کس طرح آگے بڑھایا۔ اُس کا ایک عکس درج ذیل شعرا کے ہاں دیکھتے ہیں :

گرمیِ محفل فقط اک نعرۂ مستانہ ہے

اور وہ خوش ہے کہ اس محفل سے دیوانے گئے

 

کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتۂ شب بھی تھے ہم

صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

(خاطر غزنوی)

ہر گام پہ مسلے ہوئے کچھ پھول ملے ہیں

ایسے تو مرے دوست گلستاں نہیں ہوتے

آج ہم دار پر کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

(احمد فراز)

دونوں احساس کی نبضوں کو سلا دیتے ہیں

سایۂ گل ہو کہ زلفوں کی گھٹا، دیکھ چکے

ایک دن ساحل امید بھی دیکھیں گے جمیل

قعرِ دریا میں گئے، سیلِ بلا دیکھ چکے

(جمیل ملک)

امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر

سمندروں کے سفر پر کیا روانہ مجھے

درِ قفس پہ رہائی کے بعد بیٹھا ہوں

فلک کو دیکھوں کہ اپنے بریدہ پر دیکھوں

(محسن احسان)

چوبِ صحرا بھی وہاں، رشکِ ثمر کہلائے

ہم خزاں بخت شجر ہوکے حجر کہلائے

ہم تہِ خاک کیے، جاں کا عرق اُن کے لیے

اور پسِ راہ وفا گردِ سفر کہلائے

(عطا شاد)

شعرا کا دوسرا گروہ اُن شعرا سے متعلق ہے جو روایت کے ڈھرے سے یکسر الگ نہیں ہوا، بنے بنائے اسالیب میں غزل کہی اور کسی تجربے کی طرف توجہ نہیں کی۔ تابش دہلوی، سیف الدین سیف، عبدالحمید عدم اور احسان دانش وغیرہ اس قبیل کے قابلِ ذکر شعرا ہیں۔

تیسری صف میں ایسے شعرا ہیں جنھوں نے اگرچہ کوئی تجربہ تو نہیں کیا لیکن اُن کی غزل محض روایت کی تکرار بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ان شعرا کے ہاں روایت کی پاسداری کے باوجود بعض اشعار میں ایک زبردست تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ تاریخ ادب میں ان شعرا کے وہی اشعار ہی زندگی کا پتہ دیتے ہیں جن میں روایت کو ایک تازگی کے احساس کے ساتھ نبھایا گیا ہے :

کوئی بھی دور سرِ محفلِ زمانہ رہا

تمھارا ذکر رہا یا مرا افسانہ رہا

تم اک جزیرۂ دل میں سمٹ کے ٹھہرے رہے

مری نگاہ میں طوفانِ صد زمانہ رہا

(مجید امجد)

راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے

فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

(قابل اجمیری)

فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے

سبک ہوئے ہیں تو عیشِ ملال سے بھی گئے

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے

گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے

(عزیز حامد مدنی)

دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے

اوراُس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو

اتنے شائستہ آدابِ محبت نہ بنو

شکوہ آتا ہے اگر لب پہ تو شکوہ بھی کرو

(اطہر نفیس)

دل کی بساط پہ شاہ پیادے کتنی بار اتارو گے

اس نگری میں سب شاطر ہیں تم ہر بازی ہار و گے

پاگل پن ہے گونج کے پیچھے بھاگتے پھرنا چاروں اور

اپنی صدائیں واپس لے لو یوں کس کس کو پکارو گے

(سجاد باقر رضوی)

ہجر تو ہجر تھا اب دیکھیے کیا بیتے گی

اُس کی قربت میں کئی درد نئے اور بھی ہیں

رات تو خیر کسی طرح سے کٹ جائے گی

رات کے بعد کئی کوس کڑے اور بھی ہیں

(خلیل الرحمن اعظمی)

ٹھیک ہے اے ضبط غم! آنسو کوئی ٹپکا نہیں

پر یہ دل سے آنکھ تک پیہم سفر میں کون ہے

دل تھا پہلو میں، تو کہتے تھے تمنا کیا ہے

اب وہ آنکھوں میں تلاطم ہے کہ دریا کیا ہے

(توصیف تبسم)

یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو

رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو

ساحلِ خیال پر کہکشاں کی چھوٹ تھی

ایک موج لے گئی اُن تجلیّات کو

(محبوب خزاں )

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے

سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

بیدلؔ لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا

اور ہم نے اس لباس کو اُلٹا پہن لیا

(بیدل حیدری)

اُس کا ہونا بھی بھری بزم میں ہے وجہِ سکوں

کچھ نہ بولے بھی تو وہ مرا طرف دار لگے

کسی خوبی کا تصور ہی نہیں تیرے بغیر

حسن جس جا نظر آئے ترا کردار لگے

(شاذ تمکنت)

گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے

ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلّم کا

ساتھ آئے کہ کوئی رہ جائے

زندگی مڑ کے دیکھتی ہے کہاں

(فرید جاوید)

خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن

تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو

وہ آئیں تو حیران وہ جائیں تو پریشان

یارب! کوئی سمجھائے یہ کیا ہو گیا دل کو

(شہرت بخاری)

آزادی کے بعد اردو غزل کی چوتھی اور سب سے اہم جہت اُن شعرا سے متعلق ہے جنھوں نے روایت کے خلاف کوئی علم بغاوت تو بلند نہیں کیا لیکن بنے بنائے راستوں پر چلنا بھی انھیں گوارا نہ ہوا۔ ان شعرا نے انفرادی طور پر اور بعض اجتماعی سطح پر تجربات کیے اور شاہراہِ غزل کے ساتھ کچھ نئی روشیں بنائیں۔

ان شعرا میں بعض وہ ہیں جنھوں نے غزل کی لفظیات میں کوئی بڑی تبدیلی لائے بغیر اسلوبِ بیان کے اتنے متنوع تجربات کیے کہ غزل میں بالکل جدید طرز احساس نے جنم لیا اور اردو غزل میں قیام پاکستان کے بعد تشکیل پانے والے معاشرے، اُس کے افراد کے محسوسات اور مسائل کے اظہار کے نئے قرینے اور امکانات سامنے آئے۔ مذکورہ جدّت طراز شعرا میں ناصر کاظمی، منیر نیازی اور شہزاد احمد کی شعری کاوشیں رجحان ساز ہیں۔ دوسرے وہ غزل گو ہیں جنھوں نے ہندی اور پنجابی بحور و لفظیات کو فروغ دے کر زبان اور اسلوب کے اُن تجربات کی توسیع کی جو اُن سے قبل مختلف ادوار میں شعرا نے کیے تھے۔ مذکورہ شعرا میں ظہیر فتح پوری، ابن انشائ، جمیل الدین عالی، شیر افضل جعفری اور صوفی تبسم قابلِ اہمیت ہیں۔

 

 

 

 

(۲)

 

پاکستان کے قیامِ عمل میں آنے کے بعد جس شاعر کو اپنے منفرد اسلوب اور طرزِ احساس کی تازگی کے باعث سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوئی وہ ناصر کاظمی ہیں۔ حسن عسکری نے تو اُن کی ابتدائی شاعری ہی پر اس تواتر سے لکھا (۷) کہ جیسے یہ اعلان کیا جا رہا ہو کہ ناصر کاظمی کی صورت میں ’’ پاکستان کو ایک شاعر میسر آ گیا ہے۔‘‘ (۸) عسکری صاحب کے ناصر پر مسلسل لکھنے سے جہاں ناصرؔ کا تعارف وسیع سطح پر ہوا وہاں ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ ایک عرصہ تک انھیں عسکری ہی کی آنکھ سے دیکھا جاتا رہا اور بیشتر تجزیہ کاروں نے بعد کی شاعری میں بھی ’’ناصر کو اُن کی ابتدائی شاعری کے تناظر میں اسیر کرنے کی کوشش کی(۹) بعض ناقدین نے تو ناصر کاظمی کو عسکری کی اسلامی ادب کی تحریک کا آلۂ کار تک قرار دے دیا۔ (۱۰)

ناصر کاظمی کے بارے میں ایک اور زاویۂ نظر جو غالب دکھائی دیتا ہے وہ اُن کے طرز احساس، اسلوب اور لفظیات کا میرؔ کی غزل سے جوڑ ہے اس کی بنیادی وجہ بھی ایک تو عسکری ہی ہیں۔ خصوصاً قیام پاکستان کے بعد میرؔ کی بازیافت کے سلسلے میں اُن کی تحریریں اور اس حوالہ سے ناصر کی شاعری پر اُن کے تبصرے ہیں۔ دوسری وجہ خود اس سلسلے میں ناصرؔ کے بعض بیانات ہیں، جن میں ناصرؔ نے میرؔ کے عہد کی رات کو اپنے عہد کی رات سے مماثل قرار دیا(۱۱) اور قیام پاکستان کے بعد کی فضاء کی میر کے کلام میں ایک Relevanceظاہر کی تھی۔ (۱۲)

یہ درست ہے کہ ناصرؔ نے میرؔ کو اپنا معاصر اور جیون ساتھی قرار دیا تھا(۱۳) اور خود کو میرؔ کا رسیا بھی کہا تھا(۱۴) لیکن اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ انھوں نے خود کو میرپرست قرار دینا بھی پسند نہیں کیا تھا(۱۵) ناصرؔ کے نزدیک ’’میرؔ کا شب چراغ تھوڑی دور تک رستہ دکھا سکتا ہے منزل پر نہیں پہنچا سکتا جو فن کار روایت نہیں بنا سکتا وہ کوئی تخلیقی کارنامہ بھی نہیں کر سکتا۔ ‘‘(۱۶)ناصرؔ کا تعلق اس سلسلے سے ضرور ہے جس سے وابستہ ہو کر غالبؔ نے بھی خود کو ’’میری‘‘ کہا تھا۔ یہ افتخار ناصر کو ضرور حاصل ہے لیکن اُن پر یہ حقیقت بھی روشن ہے کہ ’’ روایت کا مصرف یہی ہے کہ اُس سے حرارت تو حاصل کی جا سکتی ہے۔ اُس کے سائے میں ڈیرے نہیں ڈالے جا سکتے۔ جو کارواں اس الاؤ پر رہ پڑا اور اپنا الاؤ الگ نہ جلایا تو پھر یہ الاؤ اُس کا ساتھ نہیں دیتا۔ جب اپنے پاس آگ نہ ہو تو باہر کی آگ بھی حرارت نہیں پہنچاتی۔ ‘‘(۱۷)

میرؔ کی روایت سے وابستگی کے نقطۂ نظر سے ناصر کی اداسی اور ۴۷ ء کے فسادات کے تناظر میں بعض تہذیبی حوالوں کی بازیافت ضروری ہوئی ہے لیکن اس ایک زاویے سے اُس کی تفہیم کے باعث وہ شعری وسائل یا تجربات بہت کم زیر بحث آئے ہیں جن سے ناصر نے غزل بافی کے فن کو نئی بنت سے آشنا کیا۔

ناصر کاظمی کی غزل کو اپنے عہد کی شعری فضا کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ نظم کا وہ ماحول ہے جسے ترقی پسند تحریک یا حلقہ کے معتبر سخن کار ایک بڑے مقام پر لے جا چکے تھے۔ ’’سارے برصغیر میں اردو شاعری کا سب سے بڑا اظہار نظموں میں ہو رہا تھا (۱۸) ’’فیض احمد فیض، راشدؔ اور میراجیؔ کا طوطی بول رہا تھا۔ ۔ ۔ اور غزل کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ ‘‘(۱۹)

ناصر کاظمی اس صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ ’’غزل میں کلیشے کی پرانی ڈگر ‘‘(۲۰) سامنے آتی ہے، جس پر مزید چلنے کا مطلب صنفِ غزل کو شکستہ پا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی لیے وہ بنے بنائے ہوئے راستوں پر چلنے والے اپنے ہم سفروں پر طنز کرتے ہوئے اپنی غزل کے لیے نئی راہوں کی تلاش کا عمل شروع کرتے ہیں۔

ناصرؔ نے نظم کے ماحول میں غزل کا چراغ جلانے کے لیے غزل کے اسلوب میں ایک بہت اہم اور دور رس تجربہ یہ کیا ہے کہ مغربی نظم کے وہ شعری وسائل جنھیں اردو شعراء اپنی نظموں میں بروئے کار لا رہے تھے انھیں اپنی غزل میں استعمال کیا۔

مذکورہ شعری وسائل کی ایک لہر اگرچہ کلاسیکی اردو غزل یا ۱۸۵۷ء کے بعد عبوری دور میں بھی بعض شعرا کے ہاں دیکھی جا سکتی ہے تاہم باقاعدہ رجحان یا ایک مربوط شکل میں یہ تجربات ناصر کاظمی کے ہاں پہلی بار سامنے آئے جو اُن کی غزل میں ایک نئے شعری نظام کو تشکیل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ناصرؔ کے ہاں غزل میں اسلوب کے متنوع تجربات میں سے ایک اہم تجربہ تمثال کاری (Imagery)کا ہے۔ مغربی شعریات میں بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں دیگر ادبی تحریکوں کے ساتھ ساتھ امیجری کا رجحان بھی ایک باقاعدہ تحریک کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جس کے بانیوں میں، ہیوم، فلنٹ، لوول اور سب سے زیادہ ایذرا پاؤنڈ کا نام اہم ہے۔ ۱۹۱۲ء میں اُس کی کتاب "Ripostes”کے عنوان سے شائع ہوئی جو تمثالیت Imagismکا سنگ اولین ثابت ہوئی۔ ۱۹۱۴ء میں "Des imagists”کے عنوان سے امیجسٹ سکول کا پہلا مجموعہ شائع ہوا جس میں امریکی اور برطانوی شعرا کا کلام شامل ہے۔

جہاں تک تمثال کاری کے معانی یا اس کے اسلوبیاتی قرینوں کا تعلق ہے تو یہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک تدریجی ارتقا رکھتے ہیں اور اس سکول سے وابستہ شعرا اور اہلِ نظر اسے مختلف حوالوں سے دیکھتے ہیں۔ شاعری کا یہ ایک ایسا اسلوب ہے جس میں کوئی ترکیب، استعارہ یا لفظ اس طور سے استعمال کیا جاتا ہے جس سے ایک حسی ادراک جنم لیتا ہے۔ اس سلسلے میں ’’ مغربی شعریات‘‘ کے مولف نے سی ڈی لیوس کی تمثال کے بارے میں تعریف ان الفاظ میں دی ہے :

’’(تمثال) الفاظ کے نقش و نگار سے بنی ہوئی ایک تصویر ہوتی ہے۔ کسیا سم صفت سے، کسی تشبیہ سے، کسی استعارے سے ایک تمثال پیدا ہو سکتی ہے۔ بلکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کسی ایسی ترکیب، جملے یا عبارت کی صورت میں پیش کی جائے جو سطحی طور پر تو محض ایک بیانیہ مجموعۂ الفاظ ہو لیکن ہمارے ذہن کو کسی خارجی حقیقت کی عکاسی پر مستزاد کسی چیز کی طرف منتقل کر دے۔ چنانچہ ہر شاعرانہ تمثال کسی نہ کسی حد تک استعارے کی خصوصیت رکھتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمثال کی سب سے زیادہ عمومی قسم ایک مرئی تصویر ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی تمثالوں میں دوسرے حواس کے تجربوں کے عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ہر تمثال میں چاہے وہ کتنی ہی جذباتی یا عقلی ہو حسیت کا کچھ نہ کچھ شائبہ ہوتا ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ ایک شاعرانہ تمثال ایک لفظی تصویر ہوتی ہے جس پر جذبات یا امثال کا رنگ چڑھا ہوتا ہے۔ ‘‘(۲۰)

فارسی اور کلاسیکی اردو غزل میں کسی کیفیت یا صورتِ حال کی تشبیہ کی خاطر تمثال کاری کا ایک عمومی رجحان رہا ہے۔ اسی طرح، مثنویات، شہر آشوبوں اور سب سے بڑھ کر مرثیوں میں بھی اس کے عمدہ نمونے دیکھے جا سکتے ہیں لیکن یہ تصویریں بطور شعری اسلوب کے نہیں تراشی گئیں بلکہ واقعہ نگاری کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے۔ اس کے علاوہImageryکے جدید شعری تقاضوں کو پورا بھی نہیں کرتی ہیں۔ اقبالؔ کے ہاں البتہ اس رجحان کی بعض مثالیں ضرور لائق توجہ ہیں۔ خصوصاً اُن کی غزلوں میں جہاں رومانیت کا اثر زیادہ ہے :

پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغِ چمن

پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار

اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن

برگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی بادِ صبح

اور چمکاتی ہے اس قطرے کو سورج کی کرن

جدید اردو نظم میں ن۔ م۔ راشد، میرا جی، مجید امجد اور اختر الایمان نے اپنے اپنے رنگ میں منفرد مصوّری کی ہے لیکن غزل میں ناصر کاظمی اور منیر نیازی نے پہلی بار اسے بطور شعری اسلوب کے اختیار کیا، تمثالیں تراشیں اور اس کی متنوع جہات و امکانات کو اجاگر کیا۔

اردو غزل میں ناصر کاظمی کی تمثالیں دیکھی جائیں تو یہ ’’ امیجری بالکل نئی تازہ پکچر گیلری ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ ‘‘ (۲۲) یہ الگ بات کہ اس تصویر خانے کی دریافت کے لیے ناصرؔ نے "How to look at a picture”قسم کے نسخے نہیں پڑھے۔ ‘‘ (۲۳) بلکہ اپنی شعری روایت سے استفادہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’تصویریں دیکھنا مجھے انیسؔ نے سکھایا :

ع نکلے خیمے سے جو لے کر علی اصغرؑ کو حسین ؑ

مرثیہ شروع ہوتے ہی سننے والا کربلا کے میدان میں پہنچ جاتا ہے۔ ‘‘ (۲۴)

ناصر کی تخلیقی اپج اور شعری روایت سے استفادے کے امتزاج نے اردو غزل میں تمثال کاری کے تجربے کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ حسیاتی تنوع بھی پیدا کیا۔ اس سلسلے میں جہاں ناصر نے فطرت کے مظاہر کی عکاسی کی وہاں ان نقوش کے پس منظر میں تہذیبی پہلوؤں کو بھی علامتی انداز میں اجاگر کیا جو ہندوستان اور بعد ازاں پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات سے تعلق رکھتے ہیں۔

’’برگِ نے ‘‘ اور ’’دیوان‘‘ کی غزلوں کا مطالعہ کیا جائے تو ناصرؔ کی غزل میں فطرت سے لگاؤ کا رجحان بہت غالب ہے اور اشعار میں قدرت کے متنوع مظاہر و مناظر اپنے بھر پور رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ سرو کے درخت، سرسوں کے پھول، گھاس کے ہرے سمندر، فاختائیں، کونجیں، لال کھجوریں، چلتا دریا، چاند، تارے اور ڈھلتی رات میں تیز  ‘مئن انشائمکآپون ایسے مناظر اُن کی غزل میں فطرت کی مختلف صورتیں ظاہر کرتے ہیں۔ ان مظاہر قدرت سے لگاؤ کے باعث ناصر کے ہاں ایک Fantasyکا رجحان بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اس سلسلے میں جب تک فطرت کے بارے میں اُن کے عقائد سے اعتنا نہ کیا جائے فطرت کے ان رنگوں کی معنویت کھل نہیں سکتی کیوں کہ فطرت کے بارے میں ناصر کاظمی کا رویّہ رومانوی شعرا سے مختلف ہے۔

انتظار حسین سے ایک گفتگو میں ناصر نے کہا تھا کہ فطرت کوئی Romanticچیز نہیں ہے۔ ۔ ۔ یہ ایک بڑی مہذّب تہذیب ہے جسے صدیوں میں انسان نے خون دے دے کر پالا ہے، اس کے استعارے اس کی زندہ علامتیں ہیں۔ آپ اندازہ کریں جس شہر میں درخت ہوں، پرندے ہوں، کبوتر ہوں، چڑیاں ہوں، آسمان کھلے ہوں وہ کوئی Romanticنہیں۔ Romanticکون کہتا ہے اسے۔ اس کے پیچھے تصور کرو اُس معاشرے کا کہ کیسے لوگ بستے ہوں گے جنھوں نے وہ پھول لگائے ہیں۔ ۔ ۔ وہ درخت اگائے ہیں ‘‘۔ (۲۵)

ناصر کاظمی کی تمثالوں میں اس مہذب تہذیب کے خدوخال بڑی آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہیں :

پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں

رت آئی پیلے پتوں کی تم یاد آئے

دن پھر آئے ہیں باغ میں گل کے

بوئے گل ہے سراغ میں گل کے

وا ہوا پھر در مے خانۂ گل

پھر صبا لائی ہے پیمانۂ گل

رقص کرتی ہوئی شبنم کی پری

لے کے پھر آئی ہے نذرانۂ گل

لال کھجوروں نے پہنے

زرد بگولوں کے کنگن

چلتا دریا، ڈھلتی رات

سَن سَن کرتی تیز پون

سبز کھیتیوں پہ پھر نکھار آ گیا

لے کے زرد پیرہن بسنت آئی

پھر چاند کو لے گئیں ہوائیں

پھر بانسری چھیڑ دی صبا نے

ناصر کاظمی نے موسیقی اور مصوری کو شاعری کی آنکھیں قرار دیا تھا(۲۶) ان آنکھوں کی آب و تاب بڑھانے کے لیے وہ سورداس، میرا بائی اور کبیر کے سنگیت کا رس سماعتوں میں اتارتے ہیں تو وہیں شاغال اور شاکر علی کے شاہ پاروں سے بھی رنگوں کا ایک جہاں آباد کرتے ہیں۔ ناصرؔ کی یہ دلچسپیاں فنِ تمثال میں اُنھیں نئی جہتوں سے آشنا کرتی ہیں۔ وہ جہاں بصری تمثالوں میں ساکن اور متحرک ہر دو انداز کی تصویریں بناتے ہیں تو وہیں ایسی تمثالیں بھی ہیں جو سماعت کو متحرک کرتی ہیں :

خموشی انگلیاں چٹخا رہی ہے

تری آواز اب تک آ رہی ہے

آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے

خامشی طرز ادا چاہتی ہے

یاد کے بے نشاں جزیروں میں

تیری آواز آ رہی ہے ابھی

ناصرؔ کاظمی کا پہلا مجموعۂ کلام ’’برگ نے ‘‘ ایک منفرد تمثالی ترکیب ہے، جس میں باصرہ اور سامعہ ہر دو حواس میں تحرک پیدا ہوتا ہے۔

ناصرؔ نے تمثالوں کے تجربے سے اُس تہذیبی آشوب کی تصویریں بھی کھینچی ہیں جو ۴۷ء میں ہندوستان کے بٹوارے کے وقت سامنے آیا۔ ہجرت اور اُس کے نتیجے میں فسادات کے باعث جس عظیم المیے نے جنم لیا اُس کی تصویریں ناصرؔ کی غزل میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں مظاہر فطرت اور اُس کے متعلقات کو بڑی عمدہ اور بلیغ علامتیں بنا کر پیش کیا گیا ہے :

کیاریاں دھول سے اٹی پائیں

آشیانہ جلا ہوا دیکھا

فاختہ سرنگوں ببولوں میں

پھول کو پھول سے جدا دیکھا

پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے

یارو! یہ کیسی ہوا ہے اب کے

پتیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں

قتلِ گل عام ہوا ہے اب کے

شفقی ہو گئی دیوار خیال

کس قدر خون بہا ہے اب کے

کب نہیں شور بہاراں ناصرؔ

ہم نے کچھ اور سنا ہے اب کے

ناصر کاظمی کا شعری سفر ایک تہذیبی آشوب سے شروع ہوتا ہے اور دوسرے تمدنی المیے پر ختم۔ جس طرح صبح آزادی لہو لہو تھی اُسی طرح شامِ سقوطِ مشرقی پاکستان بھی خون آشام تھی۔ یہ سقوط اپنے اندر ۴۷ء کے واقعات سے زیادہ کرب رکھتا تھا کہ بوقت آزادی تمام تر دکھوں کے باوجود یہ امر باعثِ راحت تھا کہ ہم خود مختار ہو گئے۔ لیکن اس شام تو وجود کے آدھے ہونے کا المیہ جنم لے رہا تھا۔

اس عظیم المیے کا دکھ بھی ناصر کاظمی نے بڑی عمدہ تمثالوں میں اجاگر کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مشرقی پاکستان کا لینڈ اس کیپ اپنے تمام تر ثقافتی حوالوں کے ساتھ پینٹ کیا ہے، دریا، ساحل، کشتیاں، کھیت، ماہی گیروں کے گیت اور ٹھنڈی راتوں کی تمثالیں جہاں مشرقی پاکستان کی سرزمین کی تصویریں سامنے لاتی ہیں وہیں اُس آشوب کے گہرے احساس کی آئینہ دار بھی ہیں جس نے آدھے وجود کے مستقل کرب کو جنم دیا۔ اس حوالہ سے ناصر نے بعض مکمل غزلوں میں اس کی تمثال کاری ہے :

جنت ماہی گیروں کی

ٹھنڈی رات جزیروں کی

سبز سنہرے کھیتوں پر

پھواریں سرخ لکیروں کی

اُس بستی سے آتی ہیں

آوازیں زنجیروں کی

دیس سبز جھیلوں کا

یہ سفر ہے میلوں کا

راہ میں جزیروں کی

سلسلہ ہے ٹیلوں کا

کشتیوں کی لاشوں پر

جمگھٹا ہے چیلوں کا

وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے

اکے لیے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی

ترا دِیا جلانے والے کیا ہوئے

ناصرؔ کاظمی کی غزل میں اسلوب کا دوسرا اہم تجربہ تجسیم کاری (Personification)ہے۔ اس سے مراد کسی مجرد شے، کیفیت یا صفت کی پیکر سازی ہے۔ ’’ یہ خطاب کا وہ طریقہ کار ہے جس میں بے جان اشیاء مجردات کو زندگی کی صفات سے معمور کر دیا جاتا ہے۔ ‘‘(۲۷)دوسرے لفظوں میں ’’ یہ کسی صفت یا مجرد حالت کی تخیلاتی تصویر یا تجسیم ہوتی ہے جس میں بے جان مظاہر کو انسانی اوصاف سے منسوب کیا جاتا ہے ‘‘۔ (۲۸)

غزل کی روایت میں تجسیم کاری کا اسلوب مفقود تو نہیں رہا تاہم اس کا وجود خال خال ہے۔ مثلاً مومن کا شعر ہے :

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے

ہم تو کل خوابِ عدم میں شبِ ہجراں ہو گے

ناصرؔ کاظمی کی غزل میں مختلف کیفیتوں کو بڑے متنوع پیکروں میں مجسم کیا گیا ہے۔ اجسام کی تشکیل میں بعض شعروں میں اس طرح انسانی نفسیات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اُن کی حرکات دیکھتے ہوئے قاری ایک ہنر کار شاعر ہی سے نہیں بلکہ ایک ماہر نباض سے بھی ملتا ہے۔ اس سلسلے میں ناصر کے تراشے ہوئے وہ پیکر زیادہ لائق اعتنا ہیں جن میں اداسی کا اظہار ہے۔ ایسے اشعار کی طلسماتی فضا بھی حیران کن ہے :

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

یہ کَہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی

گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں

کدھر چلے گئے وہ ہم نوائے شامِ فراق

کھڑی ہے در پہ مرے سر جھکائے شامِ فراق

وہ اشک خوں ہی سہی دل کا کوئی رنگ تو ہو

اب آ گئی ہے تو خالی نہ جائے شامِ فراق

بجھی بجھی سی ہے کیوں چاند کی ضیا ناصرؔ

کہاں چلی ہے یہ کاسہ اٹھائے شامِ فراق

ناصرؔ کاظمی کا اسلوب جہاں اور پہلوؤں سے متاثر کُن ہے۔ وہیں اُن کا فن تجسیم بھی اپنے اندر کشش کے ہزار رنگ رکھتا ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ ’’ناصرؔ کا شہرِ غزل ایک عجیب شہر ہے۔ ۔ ۔ یہاں خموشی انگلیاں چٹخاتی ہے اور سونے صحرا آدھی راتوں کو چیخ اٹھتے ہیں۔ یہاں کوئی صورت جو ستارہ، شبنم اور پھول کی طرح ہے اپنی طرف بلاتی ہے یہاں جلتی ہوئی ریت پاؤں چلنے لگتی ہے۔ یہاں دھیان کی سیڑھیوں پر کوئی پچھلے پہر چپکے سے پاؤں دھرتا ہے۔ کبھی صبح کا سماں ہوتا ہے اور کبھی پتیاں محوِ یاس اور گھاس اداس ہوتی ہے۔ ‘‘(۲۹)

ناصرؔ کاظمی کی تمثال کاری اور تجسیم کاری کا ہنر ’’ پہلی بار‘‘ش میں اپنے تمام تر تکنیکی لوازمات سے معمور اور بھر پور نظر آتا ہے۔ چوبیس غزلیات کے اس سلسلے کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے شیخ صلاح الدین نے Rachel C. Carson کی کتاب”SEA AROUND US” کا ذکر کیا ہے، جس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس کتاب کے پہلے باب میں (یہ دکھایا گیا ہے کہ) ارض اور چاند کی تخلیق کے بعد اُن کے باہمی تعلق سے جب پہلی بارش کا نزول ہوا تو پھر زمین پر سمندر بنے اور ان سمندروں میں حیات نے انگڑائی لی۔ ‘‘(۳۰)

شیخ صاحب کے بقول ’’ ناصر نے یہ کتاب اور اسی مصنفہ کی دوسری کتابیں میری وساطت سے پڑھی تھیں اور اس کے تخیّل آمیز بیان سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ اس مصنّفہ کی نثر شاعری سے بہت قریب ہے اور ناصر کے تخیّل نے اس مصنّفہ کو یوں ہضم کیا کہ جیسے برسوں کے بعد اُس کو وہ رزق ملا ہو جس کا وہ حقدار ہے۔ اس سلسلۂ غزل کے نام میں اس مصنفہ کے منظرِ کائنات و حیات کا ایک رچاؤ ضرور ہے۔ ‘‘(۳۱)

’’پہلی بار‘‘ش کی غزلوں کا مطالعہ کیا جائے تو اس بیان کی تصدیق متعدد حوالوں سے ہوتی ہے۔ ان غزلیات کا واقعاتی پس منظر کچھ بھی ہو لیکن اس سلسلۂ غزل کے اشعار میں تمثالیں زمین پر تخلیقی ارتقا کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ مقامی لینڈ سکیپ کی تصویریں بھی اس انداز سے تراشی گئی ہیں کہ ان میں ترفّع اور عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ جنگل، پانی اور شہروں کی تمثالیں اپنے اندر حیرت و استعجاب کا عنصر رکھتی ہیں :

شام کا شیشہ کانپ رہا تھا

پیڑوں پر سونا بکھرا تھا

جنگل جنگل بستی بستی

ریت کا شہر اڑا جاتا تھا

جگمگ جگمگ کنکریوں کا

دشتِ فلک میں جال بچھا تھا

فطرت کی عکاسی کی تمثالوں میں رنگوں کے تنوع کا احساس ایک عجیب استعجاب کا سامان بنتا ہے :

لال کھجوروں کی چھتری پر

سبز کبوتر بول رہا تھا

پیلے پتھریلے ہاتھوں میں

نیلی جھیل کا آئینہ تھا

دھوپ کے لال ہرے ہونٹوں نے

تیرے بالوں کو چوما تھا

کالے پتھر کی سیڑھی پر

نرگس کا اک پھول کھلا تھا

نیل گگن سے ایک پرندہ

پیلی دھرتی پر اترا تھا

سبز پہاڑی کے دامن میں

اُس دن کتنا ہنگامہ تھا

زرد گھروں کی دیواروں کو

کالے سانپوں نے گھیرا تھا

دور کے دریاؤں کا سونا

ہرے سمندر میں گرتا تھا

ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے

لال صراحی میں سونا تھا

پہلی بارش کے سلسلۂ غزلیات میں مختلف نوع کے شہروں، بستیوں اور وادیوں کے لینڈ سکیپ تصویر کیے گئے ہیں، شہروں کے حوالے سے چھٹی غزل بڑی منفرد ہے جس میں پتھر کے ایک شہر کی حیران کن تصویریں ہیں :

پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا

شہر کے نیچے شہر بسا تھا

پیڑ بھی پتھر، پھول بھی پتھر

پتا پتا پتھر کا تھا

چاند بھی پتھر، جھیل بھی پتھر

پانی بھی پتھر لگتا تھا

انیسویں غزل میں ایک شہر مدفون کی تمثالیں ہیں۔ جس کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ شاعر ان آثار کو حیرت سے دیکھتا ہے اور شہر کی تاریخ، جغرافیہ، تہذیب و ثقافت اور اس کے باشندوں کے اندازِ تمدن کے بارے میں سوال کرتا ہے :

گونگے ٹیلو! کچھ تو بولو

کون اس نگری کا راجا تھا

کن لوگوں کے ہیں یہ ڈھانچے

کن ماؤں نے ان کو جنا تھا

کس دیوی کی ہے یہ مورت

کون یہاں پوجا کرتا تھا

کس دنیا کی کوِتا ہے یہ

کن ہاتھوں نے اسے لکھا تھا

کس گوری کے ہیں یہ کنگن

یہ کنٹھا کس نے پہنا تھا

کن وقتوں کے ہیں یہ کھلونے

کون یہاں کھیلا کرتا تھا

پہلی بارش کے سلسلۂ غزلیات میں سب سے زیادہ پر کشش تمثالیں پانی اور جنگل سے متعلق ہیں۔ جن کے مناظر میں نہ صرف حسن اور دلکشی ہے بلکہ تخیل اور تحیر بھی ہے۔ ان کی منظر کشی میں شاعر نے صرف خارجی ماحول ہی سے اعتنا نہیں کیا بلکہ بیرونی فضا کے اثر سے شاعر کے داخل میں جن موسموں نے جنم لیا اور اُن موسموں سے وابستہ جمالیات کے جتنے حوالے بنتے ہیں اُن کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اُن غیر معمولی محسوسات کی تمثالیں بھی ہیں جو فطرت کے حسین مناظر کے مشاہدے کے بعد صرف ایک شاعر کے باطن ہی میں جنم لے سکتے ہیں :

چاند ابھی تھک کر سویا تھا

تاروں کا جنگل جلتا تھا

پیاسی کونجوں کے جنگل میں

میں پانی پینے اترا تھا

ہاتھ ابھی تک کانپ رہے ہیں

وہ پانی کتنا ٹھنڈا تھا

جسم ابھی تک ٹوٹ رہا ہے

وہ پانی تھا یا لوہا تھا

گہری گہری تیز آنکھوں سے

وہ پانی مجھے دیکھ رہا تھا

کتنا چپ چپ کتنا گم سم

وہ پانی باتیں کرتا تھا

پانی کی ان تمثالوں کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ہے کہ ’’یہ منظر نامہ کسی غیر سیارہ سے آنے والے اسٹروناٹ کی اچانک زمین تک رسائی سے شروع ہو کر انسان کے کشفِ ذات اور خواب کی طلسماتی فضاء کو اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے۔ ‘‘(۳۲)

ایسی ہی منظر کشی ایک اور غزل میں جنگل کی ہے۔ تاہم فضا بندی میں وہ جادوئی کیفیت نہیں ہے البتہ منفرد حسّی تجربات کا جہانِ حیرت یہاں بھی حیران کرتا ہے :

پون ہری، جنگل بھی ہرا تھا

وہ جنگل کتنا گہرا تھا

بوٹا بوٹا نور کا زینہ

سایہ سایہ راہ نما تھا

کونپل کونپل نور کی پتلی

ریشہ ریشہ رس کا بھرا تھا

خوشوں کے اندر خوشے تھے

پھول کے اندر پھول کھلا تھا

گاتے پھول، بلاتی شاخیں

پھل میٹھا، جل بھی میٹھا تھا

ناصرؔ کاظمی کی شاعری اور شخصیت ہر دو میں ایک حیرانی کا عنصر موجود ہے۔ احمد عقیل روبی نے ناصرؔ کا شخصی خاکہ (۳۳) کھینچتے ہوئے جس پہلو کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے وہ حیران کرنے والی فطرت ہے۔ یہ حیرانی در اصل اُن اساطیری حوالوں کی وجہ سے ہے جن سے وہ متاثر تھے بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ ’’ ناصر کاظمی کے ذہن کی ساخت میں حکایات اور اساطیر کا گہرا دخل ہے۔ ‘‘(۳۴)

’’پہلی بار‘‘ش کی غزلیات میں حیرانی کا یہ عنصر اگرچہ متفرق حوالوں کے ساتھ موجود ہے تاہم وہ تمثالیں بہت زیادہ لائق توجہ ہیں جن میں مختلف احساسات کو اساطیری انداز میں مصوّر کیا گیا ہے۔ ان تصویروں میں طلسماتی فضا، خوف، تحیّر، خوشی اور سرشاری کی کیفیات ہیں۔ یہ جادوئی مناظر ہندوستان کی دیومالائی داستانوں میں بیان کردہ منظر ناموں سے مختلف نہیں ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ’’ناصر نے حکایاتی اور داستانی وضعوں کو اپنے تجربے سے ہم آہنگ جانا ہے اور اس طرح اپنے تجربے کو اجتماعی تخیل کے تناظر میں لا کر دیکھا ہے۔ ان حکایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں انتظار حسین اور ناصر کاظمی اپنے تجربات کو حکایاتی حوالوں سے پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ ‘‘(۳۵)

یہ کوشش ’’پہلی بار‘‘ش سے قبل بھی بعض غزلوں میں نظر آتی ہے۔ تاہم اس سلسلۂ غزلیات میں اساطیری اور دیومالائی تمثالیں ایک نمایاں رجحان ہیں۔ اس سلسلے میں غزل ۱۲، ۱۳ اور ۱۶ بطور خاص لائق توجہ ہیں۔ اوّل الذکر دو غزلوں میں خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے، جس کے دوران میں شاعر کا سامنا کچھ مافوق الفطرت اور وحشت ناک عناصر سے ہوتا ہے :

دیکھ کے دو چلتے سایوں کو

میں تو اچانک سہم گیا تھا

ایک کے دونوں پاؤں تھے غائب

ایک کا پورا ہاتھ کٹا تھا

ایک کے الٹے پیر تھے لیکن

وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا

زرد گھروں کی دیواروں کو

کالے سانپوں نے گھیرا تھا

آگ کی محل سرا کے اندر

سونے کا بازار کھلا تھا

محل میں ہیروں کا بنجارا

آگ کی کرسی پر بیٹھا تھا

اک جادوگرنی وہاں دیکھی

اُس کی شکل سے ڈر لگتا تھا

کالے منہ پر پیلا ٹیکا

انگارے کی طرح جلتا تھا

پیاسی لال لہو سی آنکھیں

رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا

بازو کھنچ کر تیر بنے تھے

جسم کماں کی طرح ہلتا تھا

ہڈی ہڈی صاف عیاں تھی

پیٹ کمر سے آن ملا تھا

شیخ صلاح الدین نے ’’پہلی بار‘‘ش کو جنت کی تلاش کا بیان قرار دیتے ہوئے غالباً اسی غزل کی تمثالوں کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’اس میں دوزخ کی بھر پور جھلک نظر آتی ہے۔ ‘‘(۳۶)

سولہویں غزل میں تراشی گئی تمثالوں میں صرف اساطیری عناصر ہی نہیں بلکہ سرزمینِ ہند کی تہذیبی اور ثقافتی تصویریں بھی ہیں۔ شاعر ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد ایک بستی میں اترتا ہے جہاں :

سرماندی کے گھاٹ پہ اُس دن

جاڑے کا پہلا میلا تھا

بارہ سکھیوں کا اک جھرمٹ

سیج پہ چکر کاٹ رہا تھا

نئی نکور کنواری کلیاں

کورا بدن کورا چولا تھا

دیکھ کے جوبن کی پھلواری

چاند گگن پر شرماتا تھا

پیٹ کی ہری بھری کیاری میں

سورج مکھی کا پھول کھلا تھا

ماتھے پر سونے کا جھومر

چنگاری کی طرح اڑتا تھا

بالی رادھا، بالا موہن

ایسا ناچ کہاں دیکھا تھا

کچھ یادیں، کچھ خوشبو لے کر

میں اُس بستی سے نکلا تھا

ان غزلوں میں نہ صرف تمثالیں ہیں بلکہ کردار بھی تراشے گئے ہیں۔ شاعری میں کردار نگاری بھی مغربی نظم کے جدید اور مرغوب اسالیب میں سے ایک ہے۔ امریکہ اور یورپ کی شعری تاریخ میں متعدد شعرا نے مختلف ٹکنیکس میں کردار تخلیق کیے ہیں۔ کہیں ان کرداروں کو نام دیا گیا ہے تو کہیں صرف اسمائے ضمیر سے کام لیا گیا ہے۔ ان کرداروں میں بعض اوقات خود کلامی Monologueکا انداز بھی ملتا ہے۔ کردار کے ذریعے احساس کی ترسیل کو ٹی ایس ایلیٹ نے اپنے ایک مضمون”Three Voices of Poetry”میں شاعری کی تیسری آواز  قرار دیا ہے۔ (۳۷)

مغربی شاعری میں اگرچہ چاسر (Chauser)سے لے کر شعرائے جدید تک بیشتر شعرا نے کردار تخلیق کیے ہیں تاہم اس سلسلے میں براؤننگ کی نظموں میں پیش کیے گئے کردار بہت اہمیت کے حامل سمجھے گئے ہیں۔ بیسویں صدی میں خود ایلیٹ نے بھی اس حوالے سے تخلیقی انداز میں کام کیا اور اپنی نظموں میں نہ صرف کردار تخلیق کیے بلکہ ٹیکنیکس کے متنوع تجربات بھی کیے۔

فارسی اور کلاسیکی اردو غزل میں بھی کردار نگاری کا رجحان رہا ہے عاشق، معشوق، رقیب، ساقی، واعظ، نامہ بر اور رند غزل کے معروف کردار ہیں۔ تاہم ان کی حیثیت Typeکی ہے۔ ان کی سیرت و کردار اور اوصاف متعین رہے ہیں لیکن بیسویں صدی میں بعض جدید نظم نگاروں نے اپنی نظموں میں جو کردار تخلیق کیے ہیں اُن میں تخلیقی جہات نظر آتی ہیں۔ اس حوالہ سے اقبال، ن۔ م۔ راشد، میراجی، مجید امجد، منیر نیازی، اختر الایمان اور جیلانی کامران کے نام اہم ہیں۔

ٍٍ        مغربی نظم کا یہ شعری اسلوب بھی ناصرؔ کاظمی نے غزل میں اختیار کیا اور اپنی بھرپور تجرباتی استعداد کی بدولت غزل کو ایک اور نئی اسلوبیاتی راہ کی روشنی دکھائی۔ اس حوالہ سے نہ صرف ’’پہلی بار‘‘ش کے کردار لائق توجہ ہیں بلکہ ’’برگِ نے ‘‘ اور ’’دیوان‘‘ میں بھی بعض غزلوں میں کردار تراشے گئے ہیں۔ خصوصاً مشرقی پاکستان کا لینڈ اس کیپ مصوّر کرتے ہوئے ماہی گیروں اور ملّاحوں کے کردار تخلیق کیے۔ اسی طرح ناصرؔ کی ایک معروف غزل میں مانوس اجنبی کا کردار اپنے اندر ماضی کی بازیافت کے حوالے سے بہت سی حیرانیاں رکھتا ہے۔ یہ کردار ایک اعتبار سے خود شاعر کا شخصی خاکہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جتنی صفات اُس کردار کی ظاہر کی گئی ہیں اُن کا سراغ خود شاعر کی ذات میں ملتا ہے۔

یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ ناصر کاظمی پر لکھی جانے والی تحقیقی و تنقیدی کتابوں میں سے بیشتر کے عنوانات اسی غزل کے مختلف مصرعوں یا اُن کے ٹکڑوں سے دئیے گئے ہیں :

’’مجھے تو حیران کر گیا وہ‘‘ از      احمد عقیل روبی

’’ہجر کی رات کا ستارہ‘‘          از      احمد مشتاق

’’وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر‘‘       از      ڈاکٹر حسن رضوی

’’اجنبی مسافر، اداس شاعر‘‘      از      ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی

ناصر کاظمی کے تخلیق کردہ کردار غیر متعین صفات کے حامل ہیں اور اپنی تشریح و توضیح کے لیے نقد کے انھی معیارات کا تقاضا کرتے ہیں جو افسانوی ادب کی تنقید میں متعین کیے گئے ہیں۔

جہاں تک ’’پہلی بار‘‘ش کے کرداروں کا تعلق ہے، اس میں دو بنیادی کردار ہیں۔ ایک کردار واحد متکلم کے صیغے میں خطاب کرتا ہے جبکہ دوسرا مخاطب ہے۔ پہلا کردار کہانی کا ہیرو ہے جو اپنا تعارف یوں پیش کرتا ہے :

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا

پہلے تیرا نام لکھا تھا

میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے

بارِ امانت سر پہ لیا تھا

میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو

جن و ملک نے سجدہ کیا تھا

تونے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا

میں جب رستے سے بھٹکا تھا

جو پایا ہے، وہ تیرا ہے

جو کھویا وہ بھی تیرا تھا

تجھ بن ساری عمر گزاری

لوگ کہیں گے تو میرا تھا

پہلی بارش بھیجنے والے

میں ترے درشن کا پیاسا تھا

اس تعارف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کردار اُس تصور انسان کا ہے جس کا خاکہ تخلیقِ آدم سے پہلے خالقِ کائنات نے سوچا۔ جس کی تخلیق کا مقصد اُسے قلم اور کتاب کی ذمہ داری سونپنا تھا۔ یہ کردار اپنے اندر بھر پور تخلیقی استعداد رکھتا ہے اور زندگی کے رویوں کو بڑے تہذیبی انداز میں دیکھتا ہے اور خطا کے بعد بھی اُسی کے در پرسجدہ کناں ہوتا ہے اور اُس سے جدا ہو کر اپنی آنکھوں میں ایک خلا محسوس کرتا ہے۔

پہلی غزل کے بعد داستانِ محبت کا آغاز ہوتا ہے اور نویں غزل تک یہ کردار اپنے محبوب کے وصل سے سرشار رہتا ہے۔ یہ سرشاریِ شاعری صرف اُس کے داخل ہی میں نہیں بلکہ اُس کے خارج میں موجود عناصر بھی ایک کیف و سرور کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وصل کی ان کیفیتوں کا جس انداز سے بیان کیا گیا ہے، وہ اس کردار کے زندہ محسوسات کا پتہ دیتا ہے :

میرے ہاتھ بھی سلگ رہے تھے

تیرا ما تھا بھی جلتا تھا

دو روحوں کا پیاسا بادل

گرج گرج کر برس رہا تھا

تیری پلکیں بوجھل سی تھیں

میں بھی تھک کر چور ہوا تھا

تیری ہلال سی انگلی پکڑے

میں کوسوں پیدل چلتا تھا

تیرے سائے کی لہروں کو

میرا سایہ کاٹ رہا تھا

کالے پتھر کی سیڑھی پر

نرگس کا اک پھول کھلا تھا

دسویں غزل میں یہ کردار فراقِ یار سے دوچار ہوتا ہے، اس لمحے اُسے بے تابی ٔ دل بے چین کرتی ہے لیکن اُس کی تخلیقی استعداد اُسے مایوس نہیں ہونے دیتی۔ چنانچہ وہ اپنے اضطراب سے زندہ لفظ کشید کرنے لگتا ہے :

پچھلی رات کی تیز ہوا میں

کورا کاغذ بول رہا تھا

ہجر کے ان لمحوں میں وہ شدید خوف زدہ بھی ہوتا ہے۔ خوف کی اس کیفیت کی تمثالیں بارھویں اور تیرھویں غزل میں کھینچی گئی ہیں۔ لیکن خوف کا یہ حصار تا دیر نہیں رہتا اور وہ خوف کی اس آگ سے نکل کر ہرے سمندروں کے ساحلوں پر چہل قدمی کرنے لگتا ہے۔ ٹھنڈا پانی، گاتے نوکے، جاڑے کے میلے میں رقص کرتی لڑکیاں اور چاند تاروں کی تابندگی اُس کے اندر تخلیقی قوتوں کو ابھارتی ہے۔

اس دوران میں اُسے یاد محبوب بھی رلاتی ہے۔ وہ اُس کے شہر میں بھی جاتا ہے لیکن اُسے شہر آباد نہیں بلکہ ایک مدفنِ قدیم لگتا ہے۔ اس کے برعکس اُسے اپنی تنہائی جنت سامان محسوس ہوتی ہے۔ یہ کردار کہانی کے اس موڑ پر حسنِ مجازی سے حسنِ حقیقی کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور تنہائی اُسے محض اکیلا پن نہیں لگتی بلکہ ایک پوری تہذیب دکھائی دیتی ہے :

سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی

تنہائی کا پھول کھلا تھا

تنہائی میں یاد خدا تھی

تنہائی میں خوف خدا تھا

تنہائی محراب عبادت

تنہائی منبر کا دیا تھا

تنہائی مرا پائے شکستہ

تنہائی مرا دستِ دعا تھا

وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی

میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا

یہ کردار تنہائی کو جس وسیع تہذیبی اور تخلیقی تناظر میں دیکھتا ہے اُس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’انسان اس دنیا میں نہ صرف اکیلا آتا ہے اور یہاں سے اکیلا جاتا ہے، بلکہ وہ یہاں رہتا بھی اکیلا ہی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد، اپنے اندر جھانک کر، اپنی ذات کی مسلسل نشو و نما ( یا ذکا) کرتے رہنے سے ہی وہ سکون کی منزل( یا جنت) تک پہنچ سکتا ہے۔ ‘‘(۳۸)

یہ کردار بطور تخلیق کار اپنے باطن میں یہ محسوس کرتا ہے کہ ’’تنہائی تخلیقی زندگی کے لیے ایک ناگزیر مرحلہ ہے۔ ۔ ۔ دنیا کی ہر شے تنہائی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ اس عالم کی تمام مخلوقات تنہائی کے پردوں ہی میں نشو و نما پاتی ہیں۔ انسان شعور رکھتا ہے، اس لیے وہ تمام مخلوقات کے مقابلے میں سب سے زیادہ حساس ہے۔ شعور و آگہی کا یہ آشوب اسے آسمان و زمین کی وسعتوں میں حیران و سرگرداں لیے پھرتا ہے۔ شاعر کی تنہائیوں نے اس دنیا کے گوشے گوشے کو ایک حیاتِ تازہ بخشی ہے اور اُس کی تنہائی کا یہ سفر ابد تک جاری رہے گا۔ ۔ ۔ ‘‘(۳۹)

’’پہلی بارش ‘‘ کا دوسرا کردار معشوق کا ہے، جس کے حسن و جمال کا سراپا شاعر نے مختلف غزلوں میں کھینچا ہے :

تیرے بالوں کی خوشبو سے

سارا آنگن مہک رہا تھا

چاند کی دھیمی دھیمی ضو میں

سانولا مکھڑا لو دیتا تھا

تیری ہلال سی انگلی پکڑے

میں کوسوں پیدل چلتا تھا

بالوں میں تھی رات کی رانی

ماتھے پر دن کا راجا تھا

اک رخسار پہ زلف گری تھی

اک رخسار پہ چاند کھلا تھا

ٹھوڑی کے جگمگ شیشے پر

ہونٹوں کا سایہ پڑتا تھا

چندر کرن سی انگلی انگلی

ناخن ناخن ہیرا سا تھا

اک پاؤں میں پھول سی جوتی

اک پاؤں سارا ننگا تھا

اس پیکرِ جمال سے وصل کی سرشاریوں کا جس انداز سے ذکر کیا گیا ہے۔ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کردار بھی اپنے من میں شاعر سے ملن کی لگن رکھتا ہے۔ نویں غزل میں تو یہ کردار رات کی طوفانی بارش میں خود ملنے بھی آتا ہے۔ اگلی غزل میں اُس کے دوسری بار آنے اور اُس کے انتظار میں شاعر نے اپنی بے تابی بھی بیان کی ہے لیکن یہی وہ ملاقات ہے جس میں یہ کردار کسی ان جانے خیال یا وہم کا شکار ہو کر داغِ جدائی دے جاتا ہے۔ اگرچہ وہ ایک بار پھر ملتا ہے تاہم اُس پرانے وہم سے اپنے دل و دماغ کو آزاد نہیں کر پاتا اور ایک ویران ریلوے سٹیشن پر شاعر کو ہمیشہ کے لیے الوداع کَہ دیتا ہے۔

یہ وجود جس کا خارجی طور پر اس کہانی میں اگرچہ اتنا ہی کردار ہے کہ شاعر اس پیکرِ جمال کے عشق میں مبتلا ہے اور کچھ دن شاعر کو وصل سے سرشار کر کے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ تاہم داخلی سطح پر یہ کہانی کے مرکزی کردار کے لیے بہت بھرپور ہے۔ اس کا حسن شاعر کے لیے متاثر کن ہے، اُس کا وصل شاعر کے لیے سامانِ سرشاری ہے لیکن سب سے بڑھ کر اُس کا ہجر اوراُس کے نتیجے میں ملنے والی تنہائی اُس کے لیے تخلیق کا سر چشمہ بن جاتی ہے۔

اس تنہائی میں وہ اپنی ذات اور امکانات کا بھی ادراک حاصل کرتا ہے اور کائنات کے اس تخلیقی عمل پر غور کرتے ہوئے اُسے اُس خالق کا عرفان بھی نصیب ہوتا ہے جس کے حکم سے اس جہانِ آب و خاک کا چاک گردش میں ہے۔

ناصر کاظمی کی ذات اور فن کے بعض محققین نے اس کردار کے حوالے سے اُن کی ذاتی زندگی میں بھی کھوج لگایا ہے اور اس سلسلے میں بعض نسوانی کرداروں کے ذکر کے علاوہ ملتان کا ایک سانولا چہرہ بھی دیکھا ہے۔ (۴۰) ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی نے مذکورہ کردار سے تعلق کے بعض واقعات جن کا ذکر اُن کے شخصی خاکے ’’مجھے تو حیران کر گیا وہ‘‘ از عقیل روبی(۴۱) میں کیا گیا ہے اور اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر اس پہلو کی صداقت کا بھی اظہار کیا ہے۔ (۴۲)

مذکورہ حقائق اور اُن کی تصدیق کی تحقیقی حوالے سے ایک اہمیت ہو سکتی ہے لیکن تنقیدی نقطۂ نظر سے کسی تخلیقی فن پارہ میں بنیادی چیز یہ اہمیت رکھتی ہے کہ تخلیق کار نے ذاتی دکھ یا واقعات کو کس طرح کسی بڑے معنوی یا شعری تجربے میں ڈھالا ہے اور اس تجربے سے کیا زندہ لفظ کشید کیے ہیں اور اگر فن کار کسی عظیم فن پارے کو تخلیق کرنے کا جوہر رکھتا ہے اور اپنی فنی استعداد کو بروئے کار لا کر وہ کوئی شعری صحیفہ تخلیق کر لیتا ہے تو اُس کے پس منظر یا واقعاتی اسباب کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے۔

’’پہلی بار‘‘ش میں دو مرکزی کرداروں کے علاوہ بعض اساطیری کردار ( جن کا ذکر تمثالوں کے باب میں کیا جا چکا ہے ) بھی اپنے اندر حیرانیاں رکھتے ہیں۔ یہ کردار بعض کیفیتوں کی تجسیم تو ہیں لیکن کہانی میں کسی نئے موڑ یا تبدیلی کا باعث نہیں بنتے۔ کرداروں کے سلسلے میں سرماندی کے گھاٹ پہ جاڑے کے پہلے میلے میں بارہ سکھیوں کا رقص بھی بہت پر کشش ہے۔

مذکورہ انسانی کرداروں کے ساتھ کہیں کہیں مظاہرِ فطرت بھی کرداروں کا روپ دھارتے ہیں، جو شاعر کی بے پناہ تخئیلی قوت اور تخلیقی استعداد کا پتہ دیتے ہیں :

نکہت و نور کو رخصت کرنے

بادل دور تلک آیا تھا

کبھی کبھی بجلی ہنستی تھی

کہیں کہیں چھینٹا پڑتا تھا

شاخیں تھیں یا محرابیں تھیں

پتا پتا دستِ دعا تھا

تیئیسویں غزل میں تنہائی بھی ایک کردار کے روپ میں سامنے آتی ہے جو شاعر کے لیے ایک با وفا دوست اور تخلیقی رفیق ثابت ہوتی ہے :

تنہائی کا تنہا سایہ

دیر سے میرے ساتھ لگا تھا

چھوڑ گئے جب سارے ساتھی

تنہائی نے ساتھ دیا تھا

جدید شعرا کے ہاں غزل میں کردار نگاری کا رجحان بہت نمایاں ہے اور بقول شہزاد احمد ’’غزل کے کردار جو شروع میں پاکستانی فلموں کی طرح متعین ہوا کرتے تھے، اب متعین نہیں رہے (۴۳)اور نئے غزل گو ان کرداروں میں زندگی کے مختلف متنوع رنگ بھر رہے ہیں۔ ان کرداروں میں جدید شہری زندگی کے متفرق پہلو اور اُن سے جنم لینے والی نفسیاتی پیچیدگیوں کے عکس بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ شعرا اِن کرداروں کے ذریعے اپنے باطنی ہیجانات کو بھی مصور کرتے ہیں اور یہ کردار بطور ہمزاد بھی سامنے آتے ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے کردار نگاری کے اس رجحان کو ایک خاص ثقافتی، زمینی اور نفسیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے اور بہت سے جدید شعرا کے غزلیہ اشعار میں تخلیق ہونے والے کرداروں کا جائزہ لیا ہے۔ اُن کے نزدیک ’’نئی غزل کی ایک اہم خصوصیت۔ ۔ ۔ یہ ہے کہ اُس میں ایک نیا پیکر جنم لے رہا ہے۔ نفسیات کی زبان میں اس نئے پیکرکو شاید WISE OLD MANکا نام ملے گا۔ مگر میں اسے ’’دوسری ہستی ‘‘ (The Other)کَہ کر پکاروں گا۔ ‘‘(۴۴)

ڈاکٹر صاحب نے متعدد غزل گو شعرا کے ہاں اس دوسری ہستی کے مختلف خدوخال کا جائزہ لیا ہے لیکن اس سلسلے میں انھوں نے ناصر کاظمی کے ہاں اس کے اولین نقوش کا ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ جدید غزل میں یہ رجحان ناصر کاظمی کے تجربے ہی کی توسیع ہے اور نئے شعرا کے ہاں ’’دوسری ہستی‘‘ کے عکس ناصرؔ ہی سے inspirationکی مختلف جہات ہیں۔

’’پہلی بار‘‘ش میں مغربی نظم کے مذکورہ شعری اسالیب کے علاوہ بھی بہت سے منفرد تجربات یکجا ہو گئے ہیں۔

فارسی اور کلاسیکی اردو غزل کی تاریخ میں دو غزلہ، سہ غزلہ، چہار غزلہ اور پنج غزلہ کی روایت رہی ہے۔ شاعر کی تخلیقی استعداد بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ غزلیات کے سلسلے میں تخلیق کا باعث بنتی رہی ہے۔ ایک سے زائد غزل کی صورت میں کبھی کبھار مقطع میں غزل دیگر کا اعلان بھی کیا گیا ہے تاہم اسے ضروری نہیں سمجھا گیا۔

’’پہلی بار‘‘ش کا تجربہ اس لحاظ سے انفرادیت رکھتا ہے کہ پہلی بار ایک ساتھ چوبیس غزلیں ایک ہی بحر اور ردیف و قافیہ میں تخلیق ہوئی ہیں۔ اگرچہ اس سلسلۂ غزلیات میں نہ تو قافیہ اتنا مشکل ہے، نہ بحر طویل ہے اور نہ ہی ردیف منفرد۔ تاہم تجربے کی اولیت اور انفرادیت دلچسپ ہے۔

’’پہلی بار‘‘ش کی غزلوں کے اشعار غزلیہ سے زیادہ نظمیہ رنگ رکھتے ہیں۔ ہیئتی اعتبار سے بھی ’’ یہ انفرادی طور پر مکمل غزلیں ہونے کے ساتھ ساتھ مل کر ایک وحدت کو تشکیل دیتی ہیں۔ یہ وحدت طویل نظم کے قریب کی کوئی چیز معلوم ہوتی ہے۔ ہر غزل گویا اُس نظم کا ایک بند ہے جس کے اشعار ایسے مربوط نظر آتے ہیں جیسے کسی زینے کے مدارج یا مراحل۔ ‘‘ (۴۵) اس لحاظ سے یہ بات درست ہے کہ ’’پہلی بارش میں غزل اور نظم کا امتیاز اٹھ گیا ہے۔ ‘‘(۴۶)

غزل اور نظم کا ادغام اگرچہ اس سے پہلے اقبالؔ کے ہاں بھی نمایاں ہے تاہم وہاں غزلیں نظمیہ آہنگ تو رکھتی ہیں لیکن اشعار کی انفرادی حیثیت ختم نہیں ہوتی جبکہ ’’ پہلی بار‘‘ش کے متعدد اشعار ایسے ہیں جو اپنی الگ حیثیت میں کوئی ایسا مفہوم نہیں رکھتے جیسا غزل کی روایت میں اشعار اپنی فکری اکائی کے حامل ہوتے ہیں۔ ان ’’اشعار میں تکمیل کا وہ حسن نظر نہیں آتا جو ناصرؔ کی باقی غزلوں کا خاص انداز ہے۔ ‘‘(۴۷)

ناصرؔ کاظمی کے ہاں غزلِ مسلسل کا رجحان پہلی بارش سے قبل بھی رہا ہے۔ اس سلسلے میں دیوان کی بیشتر غزلیں اپنے اندر نظمیہ آہنگ رکھتی ہیں۔ بعض اوقات ناصرؔ ردیف اس نوعیت کی استعمال کرتے ہیں کہ غزل اور نظم میں حدِّ امتیاز بہت کم رہ جاتی ہے۔ مثلاً:

رہ نوردِ بیابانِ غم، صبر کر، صبر کر

کنج کنج نغمہ زن، بسنت آ گئی

ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے

تاہم مذکورہ غزلوں میں اشعار کی انفرادی حیثیت برقرار رہتی ہے۔ ’’پہلی بار‘‘ش کے سلسلۂ غزلیات کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اردو غزل میں پہلی بار یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ چند غزلیں اس طرز میں لکھی گئی ہیں کہ اُن کی اکائی سے ایک داستان یا افسانہ تشکیل پاتا ہے۔ جس میں واقعات کا تسلسل بھی ہے۔ ابتدا، ارتقا اور انتہا کے افسانوی تقاضے بھی پورے کیے گئے ہیں اور کرداروں کی تشکیل میں بھی افسانوی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔

غزل میں کہانی پن پیدا کرنا، شاعری کی ایک بالکل منفرد جہت ہے۔ نظم میں اس نوعیت کے تخلیقی کام ہوتے رہتے ہیں اور نظم میں اس کی گنجائش بھی بہت آسانی سے پیدا ہو جاتی ہے۔ عالمی اور اردو ادب میں بے شمار نظمیں افسانوی انداز میں لکھی گئی ہیں لیکن اردو غزل ابھی تک ایسے کسی تجربے سے آشنا نہ تھی۔ ناصرؔ کاظمی نے اپنی تخلیقی استعداد کی بدولت نہ صرف یہ تجربہ کیا بلکہ اسے کامیابی سے ہم کنار بھی کیا۔ اگرچہ اس سلسلے میں غزل کے اشعار کی بطور فرد معنوی اکائی قدرے مجروح ہوئی ہے تاہم ایک منفرد تجربہ کر کے غزل میں وسعت کا ایک نیا راستہ ضرور پیدا کیا گیا ہے۔

’’پہلی بار‘‘ش کی کہانی واحد متکلم کے صیغے میں لکھی گئی ہے اور فنی اعتبار سے اس میں فلیش بیک (Flash Back)کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ کہانی کا آغاز اُس کے انجام سے ہوتا ہے۔ جس میں کردار اپنے محبوبِ مجازی کی محبت کی اسیری سے آزاد ہو کر معشوقِ حقیقی کے حضور حاضری کا شرف حاصل کرتا ہے۔

ابتدائی غزل میں حمدیہ اشعار مثنویوں کی اُس روایت کا تسلسل نہیں ہیں جن میں شاعر آغازِ داستان سے پہلے خدا اور رسولﷺ کی تعریف کرتا تھا اور اوصاف الٰہی و توصیف رسولﷺ کے بعد کہانی کی ابتداء کرتا تھا۔ ’’پہلی بار‘‘ش کی ابتدائی حمدیہ غزل، اس کہانی کا حصہ ہے بلکہ ایک منطقی اختتامیہ ہے، جس میں مرکزی کردار عشق کے سفر میں زینۂ مجاز کو طے کرتے ہوئے حسنِ حقیقی کے جلووں کو دیکھتا ہے۔ اس مرحلے اُسے اپنا تخلیقی عمل کائنات کے تخلیقی عمل کی ابتدا سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ وہ اپنی تخلیقی قوتوں کے اسرارکھولتا ہے اوراُس مقصدِ عظیم کی بازیافت کرتا ہے جو اُس کی آفرینش کے وقت اُسے سونپا گیا تھا۔ اور جس کی وجہ سے صبر صمیم سے نواز گیا اور اسمِ عظیم عطا کیا گیا۔ اس مقام پر کہانی کا یہ کردار عشق کے مجازی سفر کو اپنی لغزش سمجھتا ہے اور خدا سے گلہ کرتا ہے :

تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا

میں جب رستے سے بھٹکا تھا

آخر میں یہ کردار نفس و آفاق سے آزاد ہو کر عالمِ تنہائی میں اپنا وجود اپنے محبوب حقیقی کو سونپ دیتا ہے :

جو پایا ہے وہ تیرا ہے

جو کھویا وہ بھی تیرا تھا

تجھ بن ساری عمر گزاری

لوگ کہیں گے تو میرا تھا

پہلی بارش بھیجنے والے

میں ترے درشن کا پیاسا تھا

حسن ازل کی دید کی یہی وہ پیاس ہے جس پر کہانی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔

شاعری کو اگرچہ شاعر کی زندگی اور اُس کے تجربات سے الگ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اُس کے تجربات و حوادث ہی کا عکس ہوتی ہے تاہم ’’پہلی بار‘‘ش میں جو افسانہ تراشا گیا ہے، اُس میں بعض واقعاتی صداقتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ سلسلۂ غزلیات ایک اعتبار سے آپ بیتی بھی ہے۔ ان اشعار میں آپ بیتی کے لوازمات ممکن ہے پورے نہ ہوتے ہوں لیکن شاعری میں خصوصاً غزل میں آپ بیتی کے جن پہلوؤں کو سمیٹا جا سکتا ہے پہلی بارش میں اُس کا عکس نمایاں ہے۔ یہ آپ بیتی محض واقعات کا بیان نہیں بلکہ باطنی تجربات اور مکاشفات کا اظہار بھی ہے۔ یہ سلسلۂ غزلیات ’’ اُس شخص کا سفرِ حیات ہے کہ جس کی تصویر اس سلسلے کی پہلی غزل میں بتائی گئی ہے، جو بیک وقت حمد بھی ہے، ایک تخلیقی انسان کی تصویر بھی ہے جو خالقِ حقیقی سے اپنی خلاقانہ صلاحیّتوں کی بنا پر جرات کلام بھی کرتا ہے۔ ‘‘(۴۸)

’’پہلی بار‘‘ش کو مذکورہ پہلو سے دیکھیں تو اردو غزل کے سفر میں اظہار کا یہ بھی ایک منفرد تجربہ ہے کہ ایک شاعر اپنی آپ بیتی کو غزل کے اشعار کے پیکر میں ڈھالے۔ اگرچہ یہ آپ بیتی زندگی کے متنوع تجربات یا زمانی لحاظ سے کسی بڑے عرصے پر محیط نہیں ہے بلکہ ایک محدود وقت میں پیش آنے والے چند واقعات کا بیان ہے۔

اس سلسلۂ غزلیات کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں کچھ سفروں کی روداد بیان کی گئی ہے۔ شاعر دورانِ سفر میں مختلف مناظر کا مشاہدہ کرتے ہوئے اپنے احساسات رقم کرتا ہے۔ یہ مناظر جو مختلف شہروں، جنگلوں، دریاؤں اور سمندر پر مشتمل ہیں، شاعر کے مشاہدے میں آتے ہیں تو وہ اپنے احساسات کو ایک سفر نامہ نگار کی طرح بیان کرتا ہے۔ یہ مناظر خارجی طور اپنا کیا محلِ وقوع رکھتے ہیں اور ان میں واقعاتی صداقت کس نوع کی ہے، اس بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا قدرے مشکل ہے۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ ’’ناصرؔ نے پہلی بارش میں اپنی زندگی کے دو یادگار سفر ایک منفرد انداز میں بیان کیے ہیں۔ ایک سفر ملتان سے کوئٹہ تک اور دوسرا مرحوم مشرقی پاکستان کا جو اُس ملک کے دیگر ادیبوں، شاعروں کے ساتھ کیا تھا۔ ۔ ۔ ان غزلوں میں پتھر کے جس شہر کا ذکر ہے وہ کوئٹہ ہی ہے اور جو منظر نامہ پیش کیا گیا ہے وہ اس شہر اور اس کے آس پاس کا ہے۔ ‘‘(۴۹)

شیخ صلاح الدین نے بھی ایک امریکی شاعرہ Caroline Kyzaکے ساتھ ایک نشست کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب ’’ ناصر نے پہلی بارش کی غزلوں سے ایک غزل (سولھویں ) سنائی تو اس پر شاعرہ نے فوراً کہا:

” It is one of the poems from the poetic  travelogue of yours.۔ ..”

ناصرؔ نے قبول کیا کہ یہ غزل اسی شاعرانہ سفرنامے میں سے ہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناصرؔ نے اُس کو یہ بتایا تھا کہ یہ سلسلۂ غزل ایک سطح پر شاعرانہ سفر نامہ بھی تھا۔ ‘‘(۵۰)

’’پہلی بار‘‘ش کو اس پہلو سے دیکھیں تو یہ ایک اور منفرد تجربہ ہے کہ صنفِ غزل میں سفرنامہ کا امکان روشن کیا گیا ہے اور غزل کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ اُس میں ایک سفر کی روداد، مناظر کا مشاہدہ اور داخلی احساسات کو بیان کیا جا سکے۔

اردو غزل کے تجرباتی سفر میں ’’پہلی بار‘‘ش کسی ایک تجربے کا نام نہیں بلکہ یہ متنوع تجربات کا مجموعہ ہے۔ جس میں شاعری کے نئے اسالیب کے ساتھ ساتھ اسے ادب کی افسانوی اور دیگر نثری اصناف سے بھی ہم آہنگ کیا گیا ہے۔

اردو غزل کے سفر میں ناصر کاظمی نے جن نئے راستوں کی تلاش کی، اُن میں ایک روش کا اشارہ اُس کی لفظیات کے حوالہ سے بھی دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ ’’ ناصرؔ کاظمی کی غزل میں غزل کی معروف مشنری دکھائی نہیں دیتی اور غزل کی لسانیات کے بارے میں بھی انحراف نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ اگر ناصرؔ کاظمی کی زبان کو دیکھا جائے تو محسوس ہو گا کہ یہ زبان تغزل کی زبان نہیں ہے۔ یہ زبان روزمرہ کی زبان ہے اور ایسے ذہنی رویوں کی زبان ہے جن سے ہم عصر نسلیں گزر رہی ہیں۔ ‘‘(۵۱)

ناصرؔ کاظمی کی زبان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’اُس کے لہجے کی سرتیاں کسی سکہ رائج الوقت کی یاد نہیں دلاتیں۔ ‘‘ (۵۲)

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ناصرؔ کاظمی کے ہاں روزمرہ کی زبان اور بیان کی وہ سادگی ہے جو عام بول چال کا حصہ ہوتی ہے۔ اس لسانی رجحان کی بنیادی وجہ ناصر کا میرؔ کی طرف میلان ہے اور اُس وقت کی عمومی فضا ہے جس میں احیائے میرؔ کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں ہو رہی تھیں۔ یہاں یہ توضیح ضروری ہے کہ ناصر کاظمی کی غزل میں روزمرہ کی زبان، اُس کے لہجے کی پہچان ضرور ہے لیکن اس سلسلے میں اُن لسانی کوششوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو اس سے پہلے یگانہؔ، فراقؔ اور خصوصاً حفیظ ہوشیار پوری کی غزل میں نظر آتی ہیں۔ فراقؔ اور حفیظ سے تو ناصر متاثر بھی رہے بلکہ حفیظ سے تو شعری مشاورت کے پتے بھی ملتے ہیں۔ لیکن حفیظ کے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ اُن کا ’’مقامِ غزل ‘‘ اُس وقت سامنے آیا جب ہر سمت ناصر کی غزل اپنے لہجے کے اعتبار سے انفرادیت اور مقام بنا چکی تھی اور ’’حفیظ کی تازہ فضا کو ناصر کاظمی پہلے سامنے لے آئے۔ ‘‘(۵۳)

حفیظ ہوشیار پوری کے چند شعر اس حوالہ سے قابل لحاظ ہیں جو لسانی اجتہادات کے حوالے سے اپنی اوّلیت کا پتہ دیتے ہیں :

جب سے ہوئے تم سے جدا

پھرتے ہیں تنہا تنہا

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

کیا دل گرفتہ ہم تری محفل سے آئے ہیں

آنکھوں میں اشک بھی بڑی مشکل سے آئے ہیں

تم کہاں ہو گے ہم کہاں ہوں گے

فاصلے کتنے درمیاں ہوں گے

غزل میں نئی زبان اور لفظیات برتنے کے سلسلے میں ناصرؔ کا مزاج اجتہادی ضرور تھا لیکن وہ اس حوالہ سے اپنی کوششوں کو پوری طرح بروئے کار نہ لا سکے۔ اس کی وجہ ممکن ہے ناصر کے مداح اور معتبر نقاد محمد حسن عسکری ہوں جنھوں نے غزل میں گھاس کا لفظ استعمال کرنے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ناصرؔ تو اس سے بھی اگلا قدم اُٹھا کر غزل میں پیاز کا ذکر بھی کرنا چاہتے تھے۔ (۵۴)

اردو غزل میں تجربات کے حوالہ سے ناصر کاظمی کا عروضی مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ ناصرؔ نے جہاں مروجہ بحریں استعمال کیں، وہاں بعض بحروں میں زحافات یا ارکان میں اس طرح اضافہ کیا کہ اُن کے مد و جزر سے ایک زبردست غنائیت پیدا ہوتی ہے۔ ان بحروں کی موسیقیت اور لچکیلا پن غزل کو ایک منفرد رسیلے آہنگ سے آشنا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ’’برگِ نَے ‘‘ کی یہ دو غزلیں لائقِ توجہ ہیں :

کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا

دن ڈھلا رات پھر آ گئی، سو رہو، سو رہو

’’دیوان‘‘ میں اس نوع کی غزلیں خاصی تعداد میں ملتی ہیں :

ع

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے

ع

رہ نوردِ بیابانِ غم، صبر کر، صبر کر

ع

ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے

ع

ساری رات جگاتی ہے بیتے لمحوں کی جھانجن

ع

کنج کنج نغمہ زن، بسنت آ گئی

ع

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے

احیائے میرؔ کی کوششوں کے سلسلے میں اردو غزل جن اسالیب سے آشنا ہوئی خصوصاً عروضی سطح پر جن میلانات کو فروغ ملا، اُن میں ہندی لفظیات اور بحروں کا استعمال بہت نمایاں ہے۔ اس حوالہ سے ناصر کاظمی نے بھی ہندی بحریں استعمال کی ہیں لیکن اُن کی تعداد زیادہ نہیں۔ البتہ دو غزلیں ایسی ہیں جن کا عروضی مطالعہ بہت دلچسپ ہے۔ ان غزلوں میں نہ صرف ہندی بحر ہے بلکہ اشعار میں مکمل طور پر دوہے کا آہنگ ہے۔ خصوصاً ردیف استعمال نہ کرنے سے شعر اور دوہے کا ایک زبردست امتزاج سامنے آیا ہے :

گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ

دلّی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ

ناصرؔ ہم کو رات ملا تھا تنہا اور اداس

وہی پرانی باتیں اُس کی وہی پرانا روگ

ایک نگر میں ایسا دیکھا دن بھی جہاں اندھیر

پہلے پہر یوں جلے اندھیری جیسے گرجیں شیر

اب کے تو اس دیس میں یوں آیا سیلاب

کب کی کھڑی حویلیاں پل میں ہو گئیں ڈھیر

مذکورہ اشعار میں غزل، دوہے کے آہنگ کے کتنا قریب ہو گئی ہے اس کے لیے تلسی داس کا یہ ایک دوہا بطور ذائقہ دیکھا جا سکتا ہے :

تلسی داس کھڑے بجار میں مانگیں سب کی کھَیر

ناں کا ہو سے دوستی، ناں کا ہو سے بَیر

۱۹۴۷ء کے بعد اردو غزل کو جس شاعر کے دم سے حیات نو نصیب ہوئی، وہ ناصر کاظمی ہیں جو اردو شاعری کے افق پر ’’یہ احساس لے کر اٹھے کہ جب تک غزل اہم ترین صنف سخن نہیں بن جاتی، ملک سخن کا سماں سنسان رہے گا۔ ‘‘(۵۵)

ناصر نے غزل کی اہمیت تسلیم کرانے کے لیے مغربی نظم کے شعری وسائل، نئے اسالیب اظہار اور عروضی اجتہادات کے تجربات کر کے بہت سے جدید امکانات روشن کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’’پہلی بار‘‘ش ایسا منفرد تجربہ بھی ناصرؔ کے تخلیقی استعداد اور تجرباتی قوت کی روشن علامت ہے۔ ان تجربوں سے اردو غزل کو نہ صرف نئی زندگی ملی بلکہ زندہ رہنے کا اعتماد نصیب ہوا۔

ناصرؔ کاظمی کے مذکورہ تجربات کی اہمیت کو شعر کے جدید اسالیب کی تفہیم رکھنے والے ناقدین نے تسلیم کرتے ہوئے نئی اردو غزل کے ظہور کو ناصرؔ کا مرہون منت خیال کیا ہے۔ معاصر اردو غزل پر سیمینار منعقد کرنے کے لیے جو مراسلہ ارسال کیا گیا، اُس میں غزل کے نئے امکانات کی آفرینش کے لیے جس شاعر کے اسالیب کو سب سے زیادہ قابل اہمیت گردانا گیا ہے وہ ناصرؔ کاظمی ہیں (۵۶) اُن کی تجرباتی کاوشیں اتنی کامیاب رہیں کہ ایک عرصہ تک نئے شعرا اُن کی تقلید کرتے رہے اور اسالیب ناصرؔ کے کلیشیز سے نکل نہیں پائے۔

جدید شعرا نے ناصرؔ کے لب و لہجے اور اُن کے شعری وسائل کو یوں مرغوب سمجھا ہے کہ بقول حسن عسکری ’’ ناصرؔ کاظمی کی غزل کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی ہے کہ لوگوں نے اسے بھی ایک نسخہ بنا ڈالا ہے۔ ‘‘(۵۷)

بعض شعرا اِس نسخے کو اگرچہ بڑے بیمار انداز سے بھی استعمال کرتے رہے تاہم تخلیقی ذہنوں نے ان اسالیب کو اپنے لیے نئے راستوں کی دریافت کا تابندہ نشان سمجھا ہے۔

اردو غزل کی تشکیلِ جدید کے سلسلے میں منیرؔ نیازی کا تمثالی اسلوب اپنے تنوع اور فراوانی کے باعث جہت نما حیثیت کا حامل ہے۔ منیرؔ نے اپنے اشعار میں تمثال کاری کے تجربات اور اُس کے امکانات سے بھر پور استفادہ کیا۔ یہ تصویریں کہیں تو محض عشق کے رومانی جذبات و احساسات کی ترجمان ہیں تو کہیں ان کی وسعت آفاق کی شش جہات تک پھیلی ہوئی ہے۔

ان تمثالوں کی بنیادی خصوصیت رنگوں کی حیرت انگیز فراوانی ہے ایسے لگتا ہے جیسے رنگ کی تخلیق منیرؔ کا شعری مشغلہ ہے اور وہ اس سلسلے میں مختلف تجربے کرتے رہتے ہیں :

شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس

آبِ سادہ کو حریفِ رنگِ بادہ کر دیا

شمس الرحمن فاروقی کے نزدیک ’’رنگوں کا استعاراتی اشارہ منیر کی شاعری کے لیے کلید کا کام کرتا ہے۔ ‘‘ (۵۸) اپنے دستِ ہنر سے وہ جب یہ کلید استعمال کرتے ہیں تو اُن کی شعری فضاء میں ایک ایسا ’’کلر بکس‘‘ کھلتا ہے جس میں وہ رنگ بھی ہیں جو روزمرہ زندگی میں ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں اور وہ بھی جنھیں موسم تخلیق کرتے ہیں۔ ان میں وہ رنگ بھی ہیں جن سے انسانی بصارت سیر ہوتی ہے اور وہ بھی جن کی تشنگی ہر لمحہ محسوس ہوتی رہتی ہے۔ عشق کی مختلف کیفیات کو مصور کرنے کے لیے بھی منیر نے عجیب تحیر خیز تمثالیں تراشی ہیں۔ وصل کی سرخوشی اور سرمستی، جمال یار کے عکس اور قلب و جاں کی مختلف وارداتوں کی تصویر بندی کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

آیا وہ بام پر تو کچھ ایسا لگا منیر

جیسے فلک پہ رنگ کا بازار کھل گیا

منیرؔ پھول سے چہرے پہ اشک ڈھلکے ہیں

کہ جیسے لعل سمِ رنگ سے پگھلنے لگے

بہنے لگی ہے ندی، اک سرخ رنگ مئے کی

اک شوخ کی لبوں کا لعلِ ایاغ چمکا

شاخِ گلِ انار کھلی بھی تو سنگ میں

وہ دل ترا ہوا یا لبِ خوں فشاں ہوا

ملائمت سے اندھیرے میں اُس کی سانسوں کے

دمک رہی ہیں وہ آنکھیں ہرے نگیں کی طرح

میں جو منیرؔ اک کمرے کی کھڑکی کے پاس سے گزرا

اُس کی چق کی تیلیوں سے ریشم کے شگوفے پھوٹے

اُن تمثالوں میں جہاں رنگ کی تخلیق کا باعث موسم برسات ہے، شاعر کے لیے نشاط و انبساط کا فراواں سامان ہے :

طاؤس کی آواز سے موسم ہے شبِ تار

صد نغمۂ ناہید یہ ساون کی جھڑی ہے

گھپ اندھیرے میں چھپے سونے بنوں کی اور سے

گیت برکھا کے سنوں رنگوں میں ڈوبے مور سے

صحن کو چمکا گئی بیلوں کو گیلا کر گئی

رات بارش کی فلک کو اور نیلا کر گئی

رات فلک پر رنگ برنگی آگ کے گولے چھوٹ

پھر بارش وہ زور سے برسی مہک اُٹھے گل بوٹے

محبوب کا وصل اور موسم کے رنگ شاعر کے لیے خوشی کا سامان ہی نہیں ہیں بلکہ حیرت، دہشت، درد اور اداسی کے اسباب بھی ہیں۔ رنگ جمال میں یہ احساسِ ملال ایک سوال ہے جس کے جواب کے طور پر وہ سماجی وجوہ بھی دیکھی جا سکتی ہیں ’’جن کی عائد کردہ صعوبتوں نے ایک تشنج کی کیفیت پیدا کر دی ہے ‘‘ (۵۹) اور شاعر کے داخل میں بعض نفسیاتی گرہوں کو بھی کھولنے کی سعی کی جا سکتی ہے :

شہر کی گلیوں میں گہری تیرگی گریاں رہی

رات بادل اس طرح آئے کہ میں تو ڈر گیا

حسن کی دہشت عجب تھی وصل کی شب میں منیرؔ

ہاتھ جیسے انتہائے شوق سے شل ہو گیا

وہ رنگیلا ہاتھ میرے دل پہ اور اُس کی مہک

شمعِ دل بجھ سی گئی رنگِ حنا کے سامنے

کوکتی تھی بنسری چاروں دشاؤں میں منیرؔ

پر نگر میں اس صدا کا رازداں کوئی نہ تھا

’’دشمنوں کے درمیان شام‘‘ اور ’’ماہِ منیر‘‘ میں جس نوع کی تمثالیں تراشی گئی ہیں، اردو غزل میں ایک نئے روحانی طرزِ احساس کے حوالے سے ایک بالکل مختلف اور منفرد تجربے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دونوں کتابیں بالترتیب حضرت امام حسین ؑ اور رسول کریمﷺ کے نام معنون کی گئی ہیں۔

ان مجموعوں میں شامل غزلیں ایک خاص تنزیہی اسلوب کا تجربہ ہیں جن کے باطن میں حمد، نعت اور منقبت کا آہنگ بھی موجود ہے۔ شاعر مذہب کے فلسفے اور طرز احساس کے تحت خدا اور خدا والوں کی مدح بھی کرتا ہے اور ان سے متصادم قوتوں پر طنز و تضحیک کے اشعار بھی کہتا ہے لیکن ان دونوں پہلوؤں کے متوازی وہ کائنات کی وسعتوں سے الگ ہو کر کائنات کا ایک وسیع خارجی مطالعہ و مشاہدہ بھی کرتا ہے جس میں حیات و موت زمانوں کا تسلسل اور

شکست و ریخت کی تصویریں بھی ہیں :

متاعِ مہرِ منوّر دلوں سے پیدا ہو

متاعِ خوابِ مسّرت غموں سے پیدا ہو

مثالِ قوسِ قزح، بارشوں کے بعد نکل

جمال رنگ کھلے منظروں سے پیدا ہو

فروغِ اسمِ محمدؐ ہو بستیوں میں منیرؔ

قدیم یاد نئے مسکنوں سے پیدا ہو

زوالِ عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں

کھلا نہیں کوئی در بابِ التجا کے سوا

منیرؔ کی تمثالوں میں کائنات کی ایسی تصویریں بھی ہیں جنھیں ایسا لگتا ہے جیسے کسی اور سیارے سے کھینچا گیا ہے۔ ان تصویروں میں صرف کرہّ ارض کے بحر و بر ہی نہیں بلکہ آفاق کی وسعتوں کے دیگر بے کراں مناظر بھی ہیں۔ یہ تصویریں کیمرے کی ساکن تصویریں نہیں ہیں بلکہ ایسی متحرک تمثالیں ہیں جن میں کائنات میں موجود مہ و مہر اور گردش سیار کا پورا نظام اپنے تحرک کا احساس دلاتا ہے۔ بقول سہیل احمد خان ’’غزلوں کا یہ منطقہ ہمیں ایک نئی کونیات cosmology سے دوچار کر رہا ہے۔ ‘‘(۶۰)

یہ تمثالیں ایک خواہش ادراک کا ثمر بھی ہیں۔ منیرؔ کے نزدیک شعر کا تخلیقی عمل نامعلوم کی تلاش کا نام ہے اور ’’شاعر عالم وجود کا شعور رکھنے والا اور عالمین نا موجود کی جستجو کرنے والا ہوتا ہے۔ مذہب ایک حد پر رک جاتے ہیں۔ مگر مذہب شعر پیہم سفر میں ہے اور شاعر مستقل مضطرب، مستقل آزردہ۔ ‘‘(۶۱) لیکن اس آزردگی کا منتہا دل گرفتگی یا مایوسی نہیں بلکہ ایک تخلیقی اضطراب ہے جو شاعر کو زمان و مکاں کے مسلسل مطالعے اور مشاہدے میں محو رکھتا ہے :

شہر، پربت، بحر و بر کو چھوڑتا جاتا ہوں میں

اک تماشا ہو رہا ہے دیکھتا جاتا ہوں میں

ابر ہے افلاک پر اور اک سراسیمہ قمر

ایک دشتِ رائے گاں میں دوڑتا جاتا ہوں میں

زمین دور سے تارہ دکھائی دیتی ہے

رکا ہے اُس پہ قمر چشم سیر بیں کی طرح

فریب دیتی ہے وسعت نظر کی افقوں پر

ہے کوئی چیز وہاں سحرِ نیلمیں کی طرح

چار سو باجیں پَلوں کی پایلیں

اس طرح رقاصۂ عالم چلے

کائنات کے مطالعے کے بعد منیرؔ جب اپنے تخلیقی باطن میں جھانکتے ہیں تو اس کون الصّغیر میں نور کی ایسی مشعلیں روشن نظر آتی ہیں کہ مہ و مہر کی شمعیں جس کی خوشہ چیں ہیں :

تابشِ خورشید میرے جسم میں ہے اے منیرؔ

چشمِ شب حیراں ہے میرے پرتوِ سیّار سے

زمانوں کے تسلسل، تخریب و تعمیر اور فنا و بقا کا نظام منیرؔ کے مطالعے میں آتا ہے تو سیم و زر سے آلود سودوزیاں کا کاروباری سلسلہ اپنے اندر عجیب عبرت خیزیاں سمیٹے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ ’’لوگ خدائے ذوالجلال کو بھول کر خدائے اقتصادیات کی عبادت میں مشغول ہیں۔ ‘‘(۶۲) تو منیرؔ کی غزل کے پردے پر ایسی تصویریں بنتی ہیں جن میں انسان کی مادی سوچ کی بو العجبیوں کے عکس بھی ہیں اور اُس کے بھیانک انجام کے مظاہر بھی۔ یہاں منیرؔ ترقی پسندوں کی طرح کسی جدلیاتی فلسفے کی تبلیغ نہیں کرتے نہ ہی کسی کو اُس کے انجام سے خبردار کر کے کوئی ہدایت نامہ جاری کرتے ہیں بلکہ ویران بستیوں اور آگ کی تمثالیں تراش کر دہشت و ہیبت کے سامان بہم پہنچاتے ہیں :

اس شہرِ سنگ دل کو جلا دینا چاہیے

پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے

اک تیزی رعد جیسی صدا ہر مکان میں

لوگوں کو اُن کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے

اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ

ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ

چمک زر کی اُسے آخر مکانِ خاک میں لائی

بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ

باطن زر دار پراسرار ہے جیسے منیرؔ

کانِ زر کی بند ہیبت مشعلوں کے سامنے

ڈر کے کسی سے چھپ جاتے ہیں جیسے سانپ خزانے میں

زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں

ان تمثالوں میں جہاں دیومالائی داستانوں سے استفادہ کیا گیا ہے وہاں یہ اشعار قرآن حکیم کی اُن آیات کی تفسیربھی معلوم ہوتے ہیں جن میں انسان کو اُس کے استحصالی اعمال کے انجام سے دوچار دکھایا گیا ہے۔ منیرؔ نے تاریخ کے تسلسل اور شکست و ریخت کا جس زاویے سے مطالعہ کیا ہے، اُس میں بھی قرآنی طرزِ فکر کا عکس ہے اور وہ اُن ویرانوں کی تمثالیں تراشتا ہے جو اپنے عصر میں پر شکوہ مناظر تھے :

سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں

اُن امّتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں

صر صر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ

کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں

کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے

کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں

ہے بابِ شہرِ مردہ گزر گاہِ بادِ شام

میں چپ ہوں اس نگر کی گرانی کو دیکھ کر

منیرؔ نیازی کا تمثالی اسلوب اپنے تنوع، وسعت اور ہمہ گیریت کے باعث اردو غزل میں تجربات اور تبدیلی کے ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ حمد و نعت کا آہنگ اور مزاحمت و رثا کا امتزاج بھی غزل میں ایک خاص تہذیبی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے جس کے اثرات نئی نسل کے شعرا کی غزل میں نمایاں دیکھے جا سکتے ہیں۔

متنوع تمثالوں اور مذہبی طرزِ احساس کے علاوہ منیرؔ کے ہاں اسلوب کا ایک بالکل نیا پہلو جو اس سے پہلے غزل میں شاذ ہی دیکھا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ منیر کے اشعار پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی داستان گو اپنے احوالِ واقعی بیان کر رہا ہے۔ ان واقعات سے کوئی کہانی تو تشکیل نہیں دی جا سکتی لیکن اردو غزل میں بیانیہ اسلوب کے امکانات بڑے بھرپور انداز سے سامنے آتے ہیں۔ منیرؔ کے اشعار میں داستان گوئی کا رنگ بھی ہے لیکن بیانیہ اسلوب اُن اشعار میں زیادہ جاذب توجہ ہے جن میں خبر یا اطلاع کا تاثر ہے یا فرد کے ساتھ پیش آنے والے کسی واقعے کا بیان ہے :

صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ

ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا

اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا

ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا

اک ہفت رنگ ہار گرا تھا مرے قریب

اک اجنبی سے شہر میں آیا ہوا تھا میں

اور یہ پوری غزل :

میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا

عمر میری تھی مگر اُس کو بسر اُس نے کیا

۴۷ء کے بعد اردو غزل کی نئی تشکیل کے سلسلے میں ناصر کاظمی اور منیر نیازی کے ساتھ جو تیسرا اہم نام لیا جا سکتا ہے، شہزاد احمد کا ہے جن کے شعری اسلوب میں تجربات رجحان ساز ہیں اور اُن کی غزل ’’ تاریخی طور پر پاکستانی غزل میں ایک نئے موڑ کا درجہ رکھتی ہے۔ ‘‘(۶۳)

شہزاد احمد کی غزل کی میلانات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پہلو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ فلسفہ و نفسیات کے مردِ میدان بھی ہیں۔ مذکورہ شعبہ ہائے علم کے بنیادی سوال آغاز ہی سے خدا، انسان، نفسِ انسانی اور کائنات کی ماہیت کے بارے میں رہے ہیں لیکن بیسویں صدی میں وجودی مفکروں نے فلسفے کے ان قدیم سوالات کے نئے زاویوں سے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وجودی سوچ کے ڈانڈے ڈی ازم کی فکریات قدیم سے جدا تو نہیں کیے جا سکتے لیکن کر کے گور، گیبرئل مارشل، ہائیڈ یگر اور سارتر نے وجودیت کی جدید نظری جہات متعین کیں۔

شہزاد احمد کی غزل کی بنیادی پہچان وہ فکری سوالات ہیں جو عہد جدید کے مذکورہ فلسفیوں نے اُٹھائے ہیں :

واقعہ کوئی نہ جنت میں ہوا میرے بعد

آسمانوں پہ اکیلا ہے خدا میرے بعد

بلا رہا ہے مجھے بار بار اپنی طرف

خدا نے پھینک دیا ہے جس آسماں سے مجھے

جواز کوئی اگر مری بندگی کا نہیں

میں پوچھتا ہوں تجھے کیا ملا خدا ہو کر

باغِ بہشت کے مکیں کہتے ہیں مرحبا مجھے

پھینک کے فرشِ چاک پر بھول گیا خدا مجھے

میں ترا بندہ ہوں مگر تیرے جہاں کا راز دار

تو ہے مرا خدا مگر تو نہیں جانتا مجھے

دیکھ اب اپنے ہیولے کو فنا ہوتے ہوئے

تو نے بندوں سے لڑائی کی خدا ہوتے ہوئے

غزل میں فکر کے نئے زاویے موضوع بحث نہیں ہیں لیکن شعر میں جدید فلسفیانہ نوعیت کے مذکورہ سوالات کے باعث اردو غزل میں شہزاد نے ایک خاص منطقی اور استدلالی اسلوب کو فروغ دینے کی سعی کی ہے۔ غزل فکری طور پر کبھی بے اساس نہیں رہی۔ کلاسیکی شعرا نے بھی خدا، انسان، وقت اور زندگی کی ماہیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ غالبؔ کا اسلوب تو مذکورہ سوالات کے باعث تفلسف سے معمور ہے۔ پھر اقبالؔ نے بھی غزل میں زمان و مکاں کی فلسفیانہ

تشریح و توضیح کی ہے لیکن شہزاد نے جدید فکریات کو غزل میں بڑے سائنسی اور تجرباتی انداز میں بیان کیا ہے۔ کہیں کہیں تو شعر بالکل کلیہ سازی کا عمل نظر آتا ہے :

کس نے سایوں کو بدن دے دیا انسانوں کا

جڑ دیے کس نے چمکتے ہوئے تارے تہِ آب

دوری کو اپنا کر ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟

آنکھ خلاؤں میں آوارہ، جسم تھکن سے چور

جسے کہتے ہیں لمحۂ تخلیق

یہی لمحہ ہے راز داں اپنا

شہزاد کی غزل میں اسلوب کے مذکورہ پہلو کے علاوہ جو عنصر تجرباتی نقطۂ نظر سے زیادہ اہم ہے وہ شہر کی جدید فضاء اور اس کے متعلقات ہیں۔ ۴۷ء کے بعد اردو غزل میں شہر کے لفظ نے خصوصی اہمیت حاصل کی ہے۔ ناصرؔ کاظمی اور منیرؔ نیازی کے ہاں شہر ایک خاص رویّے کی علامت کے طور پر نظر آتا ہے لیکن ان شعرا نے شہر کو ایک داخلی پیرائے میں دیکھا ہے اور جدید ذہنیت کو سمجھنے کے لیے شہری فرد کی نفسیات کو پرکھنے کی سعی کی ہے جبکہ شہزاد نے شہر اور شہری ماحول کی ایک خارجی عکاسی کی ہے۔ خارجی اور بیرونی فضا کی تصویر بندی کے باعث شہزاد کی غزل کی لفظیات میں ایک دلچسپ تبدیلی نظر آتی ہے۔ خصوصاً اُن اشعار میں جہاں جدید اشیائے ضرورت کے نام لیے گئے ہیں۔ ایسے اشعار جن میں جدید شہری ماحول سے متعلق لفظیات کا تجربہ کیا گیا ہے، کہیں تو محض ایک صورت واقعہ سے آگے نہیں جاتے لیکن بعض مقامات پر ان کی بلیغ علامتیّت بہت متاثر کن ہے۔ چند اشعار جن میں یہ تجربہ محض فیشن نظر آتا، ہے، ملاحظہ ہوں :

مٹی جمی ہوئی تھی جب کوٹ کے کفوں پر

حیرت ہوئی تھی مجھ کو لوگوں کے قہقہوں پر

دو دن بھی کھل کے بات نہ شہزاد ہو سکی

دو سال ایک ساتھ رہے ہم کلاس میں

تجھ میں کس بل ہے تو دنیا کو بہا کر لے جا

چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھاتا کیوں ہے

یونہی ایک روز اُس نے مجھے پھول دے دیا تھا

کئی روز تک پھرا ہوں اُسے کوٹ پر سجائے

جدید غزل پر گفتگو کرتے ہوئے سلیم احمد نے اپنے ایک مضمون میں اس نوع کے اشعار کو ’’واقعیت زدگی‘‘ قرار دیا ہے اور اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس طرح غزل کی رمزیت مجروح ہو سکتی ہے۔ (۶۴) یہ اعتراض درست ہے لیکن غزل کی رمزیت تو اس سے پہلے بھی بعض دیگر حوالوں سے متاثر ہو چکی ہے خصوصاً یگانہ اور شاد کے ہاں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ غزل کا جدید شعور، تجربات کے جن مراحل سے گزر رہا ہے اُس میں نفی اور اثبات دونوں عوامل موجود ہیں۔ نیا غزل گو تجربے کرتے ہوئے بعض جدید عناصر کو جہاں فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے وہاں بعض قدیم صفات کے حوالہ سے اُس کے ہاں تشکیک بھی پائی جاتی ہے۔ جیسے ناصر کاظمی نے تغزل کے بارے میں کہا کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے ؟

شہزادؔ کے ہاں جدید اشیائے ضرورت محض ایک صورت واقعہ کا عکس بھی ہیں لیکن بعض اشعار میں یہ شہری زندگی، اُس کے معمولات، فرد کی نفسیات اور لایعنیت کا ایک بلیغ استعارہ بھی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں اسلوب کے اس تجربے کا اثباتی رنگ سامنے آتا ہے :

دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر

آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں

گھر کی تختی کوئی پڑھتا ہی نہیں کیا کیجے

کوئی ایسا کہ مجھے شہر میں رسوا کر دے

بنتی رہی وہ ایک سویٹر کو مدتوں

چپ چاپ اُس کے کتنے شب و روز کٹ گئے

پت جھڑ میں اک کلی بھی میسر نہ آ سکی

بس سگریٹوں کی راکھ سے میدان اٹ گئے

چہرے پہ جو لکھا ہے وہی اُس کے دل میں ہے

پڑھ لی ہیں سرخیاں تو یہ اخبار پھینک دے

جو مل چکی ہیں اُن کو بھی پہچانتی نہیں

آنکھیں ہیں یا کہ شہر کی آوارہ لڑکیاں

جن سے ہوئی دلوں کو حرارت کی آرزو

وہ لوگ ہیں جلی ہوئی ماچس کی تیلیاں

کمال احمد صدیقی نے جدید اردو غزل پر منعقدہ سیمینار میں اپنے مقالے ’’آزادی کے بعد غزل میں احیا پرستی‘‘ (۶۵) میں نئے غزل گوؤں سے بعض اہم سوالات پوچھے تھے اور یہ اعتراض کیا تھا کہ نئی غزل میں اسلوب کی ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی جو آزادی کے بعد پیدا ہونے والے مسائل اور جدید شہری معاشرے کی تشکیل کے حوالے سے سماجی میلانات کا احاطہ کر سکے۔ کمال صاحب کے مذکورہ سوالات میں سے دو یہ تھے :

۱۔      مکانوں کے نقشے بدل گئے، شہروں نے قصبوں اور دیہاتوں کو نگل لیا ہے۔ ذرائع آمدورفت اور رسل و رسائل کے طریقے بدل گئے ہیں۔ لباس بدل گئے ہیں۔ کیا اردو غزل میں ان تبدیلیوں کی جھلک آئی؟

۲۔      انسانی جذبات تو وہی ہیں لیکن زندگی کے طریقے کچھ ایسے بدلے ہیں کہ اے۔ کے ۴۷ مشین گن، بموں کے دھماکے معمولات میں شامل ہیں۔ آبادی کے بڑے حصے کے لیے ریڈیو اور ٹیلی وژن اور اخبار نے شاید ہی کسی کو بے خبر رکھا ہے۔ اردو غزل میں ان کا کوئی سراغ ؟

یہ سوالات اپنے طور پر بہت اہم ہیں لیکن ۴۷ کے بعد تخلیق کی گئی اردو غزل پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ نئی زندگی اور اُس کے ماحول کے نقوش سے عاری ہے۔ یہ الگ بات کہ غزل کا مخصوص ایمائی اسلوبیاتی نظام اور نظم کی زبان سے مختلف محاورہ ماحول کی ترجمانی کی واضح تصویریں نہیں بناتا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ۴۷ء کے بعد اگر صرف ناصر، منیر اور شہزاد ہی کی غزل کا بہ نظر غائر مطالعہ کر لیا جائے تو نئی زندگی کے تمام تر نقوش کے عکس بڑے واضح انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔

 

 

 

 

(۳)

 

اردو غزل میں ہندوستان کی مقامی فضا اور اُس کے ثقافتی عناصر کو کم و بیش ہر دور کے شعرا نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرؔ سے فراق تک ارضی ماحول کی عکس بندی کے تجربات ایک تہذیبی تاریخ رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں بعض غزل گوؤں نے عروضی سطح کے تجربات کر کے اُس آہنگ کو زندہ رکھا، جس کا تعلق ہماری مقامی موسیقی سے ہے جبکہ بعض غزل گوؤں نے اردو غزل کے فارسی سے مستفاد عروضی نظام کو متاثر کیے بغیر مقامی الفاظ اور ثقافتی عناصر کو غزل کا حصہ بنا کر اُن اعتراضات کے رد کا سامان کیا جو اردو غزل میں

عجمی تہذیب کے غلبے کے حوالے سے اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔

ناسخؔ کی اصلاح زبان کے عمل میں جہاں بہت سے شعراء شریک ہوئے بلکہ اپنی تخلیقات کا ازسرِ نو جائزہ لیا وہاں اس تحریک کے رد عمل کے طور پر یہ احساس بھی اجاگر ہوا کہ اردو کی شعری روایت کو ایران کی تہذیبی علامات کے زیر اثر رکھنے کے بجائے، مقامی ثقافت کا نمائندہ بنانا چاہیے۔ اس سلسلے میں تنقیدی اور تخلیقی دونوں سطح پر اہل قلم نے کوششیں کیں، جن کی توسیع بعد میں آنے والے شعرا اپنے اپنے طور پر کرتے رہے۔

آزادی کے بعد احیائے میرؔ کی وجہ صرف عہد کے حالات کا اشتراک ہی نہ تھا بلکہ مقامیت کا وہ احساس بھی تھا جو غلامی ختم ہونے کے بعد زندہ ہوا۔ تحریک آزادی کے عروج کے زمانے ہی میں اس احساس کے باعث اردو غزل میں مقامی عناصر کی ایک پوری لہر نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں آرزو، فراق اور جمیل مظہری نے قابلِ ذکر کوششیں کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حلقہ اربابِ ذوق سے وابستہ میراجی اور مختار صدیقی کا ہندی غنائی لحن بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

۴۷ء کے بعد ان کوششوں کا تسلسل ناصر کاظمی کے علاوہ ظہیر فتح پوری، ابنِ انشا اور

جمیل الدین عالیؔ کے ہاں نظر آتا ہے۔

ظہیر فتح پوری نے غزل اس عقیدے کے تحت تخلیق کی کہ:

’’یہ دھرتی بہت وسیع ہے اس میں بھانت بھانت کی مٹی ہے، طرح طرح کا رنگ روپ ہے۔ میرے ملک اور میری سر زمین کی اپنی مہکار ہے، اپنے رنگ ہیں، اپنے پیکر ہیں، میری غزلوں میں اپنے دیس کی بوباس ہے۔ ان میں جو آہنگ ہے اُس میں میرے ملک کی ندیوں کا لہراؤ ہے۔ یہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی شعوری کوشش نہیں بلکہ لاشعور کا فطری بہاؤ ہے۔ اس بہاؤ کی موسیقی میں جو رس ہے وہ دیسی ہے، عجمی یا مغربی نہیں۔ تمام دنیا کے انسان یکساں جذبے رکھتے ہیں مگر اظہار کے انداز جدا جدا ہیں۔ اظہار کا فرق۔ ۔ ۔ سوچیے تو۔ ۔ مٹی کا فرق ہے۔ میرے وطن پاکستان کی بھی اپنی شوبھا(CHARM)ہے جو اوروں سے مختلف اور منفرد ہے۔ باہر کی ہوائیں یہاں سے بھی گزرتی رہی ہیں۔ یہاں کے پھولوں، پتیوں پر ان کے اثرات پڑے ہیں۔ کچھ اثرات جزوِ چمن ہو گئے ہیں۔ ہمارے مزاج کا حصہ بن گئے ہیں۔ وہ اب ہمارے ہیں مگر ایسے بھی ہیں جن کے پھیر میں پڑ کر ہم اپنے جمال فن کے کئی زاویوں سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ ‘‘(۶۶)

ظہیر فتح پوری نے غزل میں اس بے نیازی کے مداوے کے لیے اپنی غزل کو اسلوب اور آہنگ کے کس تجربے سے گزارا، اُس کی ایک مثال قابلِ لحاظ ہے :

اب کے بڑے سج دھج سے آیا گاتا مدماتا ساون

کھل گئے سارے گھاؤ پرانے جل تھل ہے دل کا آنگن

کل جو گئے غم کو بہلانے سوئے چمن بس کھو ہی گئے

کلیوں نے بھی سیکھ لیا ہے جیسے ترا شرمیلا پن

عشق میں یوں تو کس نے کیا پایا ہے مگر اے جانِ ظہیر

تجھ کو ہمیشہ یاد رہے گا میرا یہ اندازِ سخن

ظہیر کا یہ انداز سخن، اسلوب کا کوئی نیا تجربہ نہیں ہے بلکہ ان سے پہلے ہندی بحراور آہنگ میں کیے گئے تجربات کا تسلسل ہے۔ اُن کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ما قبل اور معاصر شعراء کی طرح ہندی کے معروف آہنگ ہی میں شعر نہیں کہے بلکہ ’’مروّجہ بحور کے علاوہ ہندی کی متعارف بحروں میں شعری تجربے کیے۔ ۔ ۔ جو عمرانی تقاضوں کی تاریخیت کے تناظر میں اپنا ایک واضح مقام رکھتے ہیں۔ ‘‘(۶۷)

ہندی بحور میں ظہیر کے تجربات کے دو رخ ہیں۔ ایک یہ ہے کہ انھوں نے معروف بحور میں ارکان کی کمی بیشی سے غنائی تجربے کیے اور بحر کی لے میں ایک انوکھا مدّو جزر پیدا کیا:

عمر کو جس نے عشق میں کاٹا بے آرام

اُس کو دیے اس دنیا نے لاکھوں الزام

کیا کوئی سیلِ درد گزرنے والا ہے

سونا بن ہے، ساون رت، انسانی شام

دل زدگاں پر اب جانے کیا گزرے گی

عشق میں بھی آئے ہیں ظہیرؔ آنسو ہی کام

حسن کہ تھا سیماب صفت، ٹھہرا نہ چمن میں

آن بسا کچھ تیرے تن، کچھ میرے من میں

تیرے سوا جو تجھ میں ہے، بس ہم جانے ہیں

حسن اَن دیکھے روپ دکھائے دل درپن میں

ان حالوں ڈھارس بھی ظہیر! اک برچھی ہو گی

خوش قسمت ہو شام ہوئی ہے سونے بن میں

دوسری طرز کی وہ غزلیں ہیں جن کی بحر میں پایا جانے والا ’’آہنگ نہایت نیا اور انیلا ہے ‘‘(۶۸)ان غزلوں کے اشعار پڑھتے ہوئے نہ صرف ایک عام قاری کی مطالعیت کچھوے کی چال کا شکار ہو تی ہے بلکہ ماہرین عروض کے لیے بھی امتحان کا سامان ہیں۔ شاعر نے اگرچہ ان نامانوس بحور کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کی اجنبیت عارضی ہو گی(۶۹) لیکن بعض مصرعوں میں یہ دعوی مجروح بھی ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے شاعر نے اپنے اس تجربے میں کہیں کہیں ناکامی کا اعتراف بھی کیا ہے۔ (۷۰)اجنبی آہنگ کی غزلوں سے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

مرے من موہن ترے مکھڑے پر کھلے بیلے کا بجیلا پن ہے

نصیبہ اب کے بہت اترایا، تبسم ہے یا کنول روشن ہے

لگاوٹ میں یہ سجاوٹ ہے جب لگن میں تیری پھبن کیا ہو گی

ابھی چمکا ہے حیا کا سورج، ابھی سے سارا بدن کندن ہے

بڑی شوخی ہے کھلے جاتے ہو ظہیر اتنا تو بتاتے جاؤ

ہاں ہم جولی سے ہولی کھیلی، کہاں وہ کافر بندرا بن ہے

گیہوں بوتے عمر بیتی، جو کاٹیں گے ہم بہت یاں

ہاں جس دن یہ طور چھوٹا جینا ہو گا بہت کم یاں

سب نے کھنچوا لیں فصلیں، سب ہو بیٹھے مطمئن سے

جو بیتی کس کو بتاتے، سب کو ہے آ گم بہت یاں

ہندی بحر میں غزل کے مزاج سے ہم آہنگ بہت کم شعر نکلتے ہیں کہ اُن پر گیت کی غنائیت غالب آ جاتی ہے لیکن مذکورہ اشعار میں گیت کا لحن بھی پیدا نہیں ہو سکا۔

اردو غزل میں ہندی بحور اور لفظیات کے تجربات کے سلسلے میں ابنِ انشا کی کوششیں بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتیں۔ جن کے بقول:

کس واسطے ٹھیٹ بنے رہیے ذرا رنگ بدل کے غزل کہیے !

یہ جو اردو زبان ہماری ہے سو رنگ ہیں اس کے دامن میں

تاہم وہ میرپسندی یا میرؔ سے مزاجی اشتراک کے باوجود ہندی کی رواں بحروں کی مرغوبیت کو میرؔ کی پیروی خیال نہیں کرتے بلکہ ہندی مطالعے کا فیضان سمجھتے ہیں (۷۱) جس کے باعث اُن کی غزل میں ایک جوگیانہ لحن پیدا ہوا ہے۔ اُن کے اشعار ایک مست الست فقیر کی نوا محسوس ہوتے ہیں۔ اردو غزل میں اس نوع کا اسلوب ہندی آہنگ میں شعر کہنے والے کم و بیش ہر شاعر کے ہاں دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کی کامیاب مثالیں میرا جیؔ اور ابنِ انشا کے ہاں زیادہ ہیں۔ ’’چاند نگر‘‘ اور ’’اُس بستی کے اک کوچے میں ‘‘ سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

کبھی اُن کے ملن کے آشا نے اک جوت جگا دی تھی من میں

اب من کا اجالا سنولایا پھر شام ہے اپنے آنگن میں

سبھی بول مدھر، سبھی نین سجل، کن گلیوں میں تم ہمیں لے آئے

اس من کو نہ لوگو بھٹکاؤ یہ من ہے کسی کے بندھن میں

جنگل جنگل شوق سے گھومو، دشت کی سیر مدام کرو

انشا جی ہم پاس بھی لیکن رات کی رات قیام کرو

میرؔ سے بیعت کی ہے تو انشا میرؔ کی تبعت بھی ہے ضرور

شام کو رو رو صبح کرو اب، صبح کو رو رو شام کرو

ابن انشا نے رواں بحروں میں جہاں میرؔ کی حزینہ لے کا لحاظ رکھا وہاں اردو غزل میں ولیؔ کے نشاطیہ لہجے کی بازیافت بھی کی:

پیت کرنا تو ہم سے نبھانا سجن، ہم نے پہلے ہی دن تھا کہا نا سجن

تم ہی مجبور ہو، ہم ہی مختار ہیں، خیر مانا سجن یہ بھی مانا سجن

شہر کے لوگ اچھے ہیں ہم درد ہیں، پر ہماری سنو ہم جہاں گرد ہیں

داغِ دل نہ کسی کو دکھانا سجن، یہ زمانہ نہیں وہ زمانہ سجن

اے منہ موڑ کے جانے والی! جاتے میں مسکاتی جا

من نگری کی اجڑی گلیاں سونے دھام بساتی جا

پورے چاند کی رات وہ ساگر جس ساگر کا اور نہ پوچھ

یا ہم آج ڈبو دیں تجھ کو یا تو ہمیں بچاتی جا

مذکورہ اشعار کے حوالے سے اردو غزل میں ہندی بحور و لفظیات کے تجربات کے سلسلے میں نظیر صدیقی نے اس الجھن کا اظہار کیا ہے کہ:

’’ یہ طے کرنا آسان نہیں کہ اس قسم کے اشعار ہندی میں اردو غزل کا تجربہ ہیں یا اردو غزل میں ہندی شاعری کا۔ ۔ ۔ ۔ یہ اشعار پڑھنے والے کو جدید ہندوستان سے نکال کر ماضی کے رومانی ہندوستان میں لے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ غزل میں ہندی زبان، ہندی تلمیحات، ہندی استعارات اور ہندوستانی فضا کا استعمال ایک خوبصورت تجربہ تو ضرور ہے لیکن اس تجربے میں شاعر اور قاری غزل سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ‘‘(۷۲)

ہندی آہنگ سے مملو غزل کے بارے میں یہ رائے صادق لیکن صادر کیا گیا فیصلہ محلِ نظر ہے۔ غزل میں ہندی بحر اور ہندی لفظیات ایک ساتھ استعمال کرنے سے غزل کا روایتی مزاج مجروح ہوتا ہے۔ ورنہ صرف ہندی بحر یا ہندی مقامی الفاظ کے استعمال کے تجربات میرؔ سے عہدِ حاضر تک شعرا نے کیے ہیں اور ان میں ایک نیا ذائقہ اور رس پیدا کیا ہے۔ اس لطف و لذت کا اعتراف بھی نظیر صاحب نے کیا ہے بلکہ اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ’’ابن انشا یا دوسرے شاعروں نے غزل میں اس رنگ کے تجربے کو آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ ‘‘(۷۳)

ابن انشا اور اس قبیل کے شعرا جن مقامی ثقافتی عناصر سے متاثر نظر آتے ہیں اُس میں ہند کی دیومالائی داستانیں بھی ہیں۔ ان شعرا کے ہاں جہاں ان داستانوں کی اثر پذیری دیگر حوالوں سے دیکھی جا سکتی ہے وہاں ان کے اسلوب میں بھی جو گیوں جیسی داستان سرائی کا رنگ غالب ہے۔ ابنِ انشا نے داستان سرائی کے سلسلے میں ایک کام یہ بھی کیا کہ چار مسلسل غزلوں میں ایک کہانی رقم کی ہے۔ چاروں غزلیں پانچ پانچ اشعار پر مشتمل ہیں اور ہر غزل کو کہانی کے ایک باب کے طور پر عنوان دے کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ چاروں غزلیں ایک ہی وزن میں اور زمین میں ہیں۔

اردو غزل میں ہیئت اور اسلوب کے اس منفرد تجربے کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ چار غزلوں پر مشتمل کہانی کو ’’انشا نے پھر عشق کیا ‘‘ عنوان دیا گیا ہے۔ اس کہانی میں اگرچہ مختلف کردار ہیں لیکن بنیادی طور پریہ مرکزی کردار کے مونو لوگ کی صورت میں لکھی گئی ہے :

 

۱۔ پیمان محبوب سے :

 

اپنے کو ہم اس شہر میں رسوا نہ کریں گے

اب تک جو ہوا خیر، اب ایسا نہ کریں گے

وعدہ ہے کہ اب اور جلائیں گے نہ جی کو

نقصان ہے اس میں تو یہ سودا نہ کریں گے

تا شام نہ ان کو چوں میں گھومیں گے پریشاں

تا صبح شبِ ماہ میں جاگا نہ کریں گے

ہر موڑ پہ ٹھٹھکیں گے نہ دیوانوں کی صورت

ہر در پہ تجھے جا کے پکارا نہ کریں گے

لکھیں گے کسی اور ہی عنوان کی نظمیں

غزلوں میں بھی اس بات کا چرچا نہ کریں گے

 

۲۔ باتیں اپنے دل کے ساتھ:

 

وعدہ تو کیا ہے مگر ایفا نہ کریں گے

ایفا جو کریں گے کوئی اچھا نہ کریں گے

لوگوں سے چھپا لیں گے جو احوال ہے جی کا

اپنے سے کسی بات میں دھوکا نہ کریں گے

اے دل ترے فرمانوں کو ٹالا ہے نہ ٹالیں

اُن کی بھی ترے سامنے پروا نہ کریں گے

اس راہ کو ہم چھوڑ کے جائیں کسی جانب

آزردہ نہ ہو ہم کبھی ایسا نہ کریں گے

لکھیں گے اُسی ٹھاٹ سے نظمیں، کبھی غزلیں

ہاں آج سے لوگوں کو دکھایا نہ کریں گے

 

۳۔ خطاب کسی دوست کا لوگوں سے :

 

ہم نے نہ کہا تھا کہ وہ کیا کیا نہ کریں گے

ہاں صبر کی کہتے ہو تو انشا نہ کریں گے

بڑھ جائے گا آزارِ محبت ہے یہ لوگو

وہ ایک نظر دیکھ کے اچھا نہ کریں گے

اُن سے کہو ایسے تو دوانوں سے نہ الجھیں

سن لیں گے، مگر آپ کا کہنا نہ کریں گے

سائل ہیں فقط ایک عنایت کی نظر کے

یہ اور کسی شے کا تقاضا نہ کریں گے

در سے نہ اُٹھائیں وہ ضمانت پہ ہماری

رسوا ہیں مگر آپ کو رسوا نہ کریں گے

 

۴۔ بابِ چہارم – درمسافرت:

 

وہ جی میں کوئی بات جو لاتے ہیں عزیزو!

وہ سب نہ کریں گے، چلو اچھا نہ کریں گے

تنہائی میں لے جائیں گے سمجھائیں گے دل کو

یہ مان بھی جائے گا یہ دعویٰ نہ کریں گے

اتنا ہے کہ چھوڑیں گے یہ دیوانوں کی صورت

ہم کل سے سر راہ بھی آیا نہ کریں گے

ہو جائیں گے جا کر کہیں پر دیس میں نوکر

یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کریں گے

اس شہر میں آئندہ نہ دیکھیں گے وہ ہم کو

کیا کیا نہ کیا عشق میں، کیا کیا نہ کریں گے

تقسیم کے بعد ابھر نے والے شعرا میں جمیل الدین عالیؔ کی مقبولیت اُن کے دوہوں کی رہین منت ہے۔ اس لحاظ سے یہ زیادہ امکان تھا کہ عالیؔ کی ہندی بحروں میں کہی گئی غزلوں میں ہندی غنائیت کے منفرد تجربات سامنے آئے لیکن اس سلسلے میں اُن کی کوششیں صرف روایت کا حصہ ہی بن سکی ہیں اور اُن کے اشعار میں ہندی بحور و لفظیات کے حوالے سے اسلوب کا کوئی نیا پن تلاش نہیں کیا جا سکتا۔

مذکورہ شعرا کے علاوہ بھی پاکستان اور ہندوستان کے متعدد شعرا نے ہندی اوزان میں جزوی طور پر غنائی اسلوب کے تجربات کی کوششیں کی ہیں۔ اس حوالے سے اجتبیٰ رضوی اور آنند نرائن ملّا کی بعض غزلیں بھی تاریخِ شعر کا حصہ ہیں۔

مذکورہ شعرا کے پیش کردہ تجربات اردو غزل میں مقامیت کی تلاش کا ایک زاویہ ہیں۔ یہ کوششیں زمانی طور پر خاصا پھیلاؤ رکھتی ہیں لیکن قیام پاکستان کے بعد ان کی ایک نئی جہت بھی سامنے آتی ہے۔ اس سلسلے میں جہاں ناصر کاظمی اور منیرؔ نیازی نے خالص اردو میں شعر کہنے کے رجحان کو فروغ دیا وہاں بعض شعرا نے غزل کی لسانیات اور اسلوب کو پاکستان کی لوک ثقافتوں سے ہم آہنگ کرنے کے تجربات بھی کیے اور یہاں کی ’’علاقائی زبانوں کے شفّاف چشموں سے الفاظ کے ٹھنڈے موتیوں کی تلاش ‘‘(۷۴) کی۔

جستجو کے اس سفر میں اردو غزل کے دو راہرووں شیر افضل جعفری کی کلّی اور صوفی تبسّم کی جزوی کوششیں تاریخی اہمیت رکھتی ہیں۔

شیر افضل جعفری کا تعلق پاکستان کے ضلع جھنگ سے تھا جو بالائی اور زیریں پنجاب کا نقطۂ اتصال اور چناب کنارے آباد ہے۔ اس شہر میں بولی جانے والی بولی ’’ لہندا‘‘ پنجابی اور سرائیکی کے ملاپ سے جنم لیتی ہے۔ شیر افضل جعفری نے اردو اور اپنی مقامی بولی کے الفاظ کی غیریت ختم کرنے کے سلسلے میں غزل میں متنوع لسانی تجربات کیے ہیں۔ جس سے ’’زبان کو ابلاغ کی ایک نئی اور نرالی صلاحیت ملی ہے۔ ‘‘(۷۵)

سوئے سیج سہاگ پہ کملی

تڑپے ساری رات سیانی

راگ تلے سونے روپے میں

غزل غریب، فقیر، نمانی

میں چنھاں رود کا مٹی ملا پانی ہوں مگر

دل کی فنجان میں توبہ سے نتھر جاتا ہوں

میں عجب رنگ پتنگا ہوں خدا جلوے کا

طور بجلی کے اگن روپ سے ٹھر جاتا ہوں

غزل کے ورد سے اور ماہیے کے چلّے سے

کیا ہے کیکروں کو جھنگ میں ’’سرو‘‘ میں نے

تڑا کے لہندے کے لہجے کے لال لال گلاب

کیا ہے سانولی اردو کو سرخ رو میں نے

بھارت میں دلّی، بنارس، اودھ اور بریلی اپنی مخصوص ثقافتوں کی بدولت بہت معروف ہیں لیکن شیر افضل جعفری نے جھنگ کے تمدن کو ان شہروں کے مقابل پیش کیا ہے :

سجا کے ہیر کے گاؤں کو نورو نغمہ سے

بنا دیا ہے بنارس کا بھی گرو میں نے

اس طرح موج میں آ جھنگ بریلی ہو جائے

شاعری تیری شریعت کی سہیلی ہو جائے

غزل کی یہ روایت جس کے لیے ’’لوک غزل‘‘ کا عنوان(۷۶) مناسب ہے، اپنے اندر بہت سے امکانات رکھتی ہے۔ شیر افضل جعفری کے اشعار ایک نئے تمدّنی محاورے اور ثقافتی ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اُن کے مجموعۂ کلام پاکستانی معاشرے کی اردو کے لیے ایک جدید لغت ترتیب دیتے ہیں کہ ’’وہ گرد و پیش کی مانوس فضا کو اُس غرابت آمیز تمدنی ورثے کی وساطت سے نہیں دیکھتے جو زبان و بیان کو لکھنوی اور دہلوی حد بندیوں میں محصور کر دیتا ہے۔ ‘‘(۷۷)

بادل کی ونجھلی میں نیندوں کی بھیرویں ہے

ٹھنڈی ہوا کے ہونٹوں پہ آج لوریاں ہیں

لیتی ہیں مے کدوں سے شرما کے باج افضل

وہ بولیاں کہ جن کی آنکھیں کٹوریاں ہیں

میرے غزالِ شاعری نے سات آسماں

طے کر لیے ہیں ایک ہی رنگیں چھلانگ میں

جڑے ہوئے ہیں کئی چودھویں کے چاند افضلؔ

بصد نیاز مری شیشمی کھڑاؤں میں

کوئی کھیون ہار نہیں ہے

بیری دریا پار نہیں ہے

ہر چڑھنے والے کے حق میں

سولی چنبہ ہار نہیں ہے

یار کی زلف کے اسیروں کی

راگ ورگی پکار ہوتی ہے

شیر افضل جعفری نے صرف لسانی تبدیلی کی کوششیں نہیں کی ہیں بلکہ غزل میں پنجاب کی پوری ثقافت کو گوندھا ہے۔ پنجاب کی مختلف ذاتیں : سیال، بلوچ، سید اور لالی، پنجاب کے ناچ: جھمر، دریس اور سمی اس طرح موسیقی کی وہ اصطلاحات یا آلات جو یہاں مروّج ہیں : سندھٹرا، ملھار، ونجھلی، چنگ، کھماج، اکتارا اور تونبا۔ پنجاب کی فصلیں، درخت، دریا نہریں حتیٰ کہ حیوانوں کے نام بھی غزل کا اس طرح حصہ بنائے گئے ہیں کہ ایک نیا تہذیبی منطقہ تشکیل پاتا ہوا نظر آتا ہے۔

اردو غزل میں یہ تجربہ نظیر اکبر آبادی کے تجربات کی توسیع ضرور ہے لیکن مختلف اس لحاظ سے ہے کہ نظم کا مزاج اتنا حسّاس نہیں ہے جتنا کہ غزل کا ہے۔ نظم ہر نوع کا لفظ اور لہجہ قبول کرتی ہے، غزل بھی رد نہیں کرتی لیکن تخلیق کار سے ایک گہری ریاضت کے تقاضے کے بعد قبولیت کے دروازے کھولتی ہے۔ شیر افضل جعفری کے ہاں وہ ریاضت نظر آتی ہے جس سے غزل کا باب قبولیت وا ہوتا ہے۔

لسانی اور ثقافتی تجربات کے علاوہ شیر افضل جعفری کی غزل میں شعری تجربے اور مذہبی تجربے کا ملاپ بھی اُن کے اسلوب کو انفرادیت آشنا کرتا ہے۔ اردو غزل کے کلاسیکی مزاج میں اگرچہ تصوف اور عرفان کا رچاؤ ہمیشہ سے رہا ہے لیکن جعفری کی غزل میں روحانی تجربہ تصوف کے وحدت الوجودی یا وحدت الشہودی افکار سے وابستہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک ایسے مست الست فقیر کے جذبات سے ہم آہنگ ہے جو ہمارے ماحول میں مذہب کی مروّج روایات اور اقدار کی پاسداری میں ایک قلبی سکون محسوس کرتا ہے۔

نماز، تہجّد، تلاوت قرآن، تراویح، شبِ معراج اور لیلۃ القدر میں عبادت اور احاطۂ مسجد میں قیام کی لذّت و سرشاری جعفری کی غزل میں ایک بالکل مختلف ذائقہ کے اشعار کی تخلیق کا باعث بنتے ہیں۔ اردو غزل میں اسلوب کا یہ زاویہ ایک نئے شعری لحن کی دریافت ہے :

مسجد ہے، خنک رات ہے، مٹی کا دیا ہے

اس مست فضا نے مجھے سرمست کیا ہے

مجھ سالک و درویش نے الہام کا نشہ

لیلائے شبِ قدر کی آنکھوں سے پیا ہے

جو زخم جوانی کو تغافل نے دیا تھا

اُس زخم کو پیری میں تہجد نے سیا ہے

اگ آئے ہیں اسلام کی روہی میں ستارے

ہنستی ہوئی دوپہر پہ والّیل کی چھاں ہے

قاری کے لبِ پاک پہ ترتیل کی رم جھم

نشہ بھری آنکھوں میں ترنّم کا سماں ہے

دردِ درود مجھ کو غزل مند کر گیا

خوش ماجرا و خرم و خرسند کر گیا

امشب مری دعا کی تہی شاخ سرو کو

ابرِ اثر برس کے برومند کر گیا

جب کبھی طیش میں اللہ سے ڈر جاتا ہوں

پنکھڑیاں بن کے مدینے میں بکھر جاتا ہوں

میں رضا مست جواری ہوں رضا چو سر پر

بازیاں جیت کے بھی شوق سے ہر جاتا ہوں

میں وضو کر کے غزل عید منانے کے لیے

محفلِ شعر میں دستار بہ سر جاتا ہوں

اک رندِ الٰہی کو جو ارمان بہ لب ہے

قرآن کے رخسار کے بوسے کی طلب ہے

پھاگن ہے، خنک چاندنی ہے، سامنے رب ہے

یہ رات غزل کے لیے معراج کی شب ہے

یہ انوکھے اسلوب کے تجربے میں گندھے ہوئے اشعار بلاشبہ ’’وارث شاہؒ، بلھے شاہؒ، حضرت سلطان باہوؒ، میرؔ وغالب اور دردؔ و اقبال کا نقطۂ اتصال ہیں جہاں سے اردو شاعری ایک نئے سفر کا آغاز کرتی ہے۔ ‘‘(۷۸)

اردو غزل کو پنجاب رنگ سے ہم آہنگ کرنے کا دوسرا اہم تجربہ صوفی تبسّم کی وہ عروضی کوشش ہے جو انھوں نے ہیر وارث کی بحر کو غزل میں برتنے کے سلسلے میں کیا ہے۔ اس جدّت طرازی کے سلسلے میں مالک رام نے ایک واقعہ تحریر کیا ہے :

’’ ہیر وارث شاہ پنجابی زبان کا شہرہ آفاق اور لازوال شاہ کار ہے۔ ایک دن دوستوں کے حلقے میں یہ بات زیر بحث آ گئی کہ وارث شاہ نے یہ نظم کس بحر میں لکھی ہے، خیر تھوڑی سی بحثا بحثی کے بعد یہ تو طے ہو گیا کہ کون سی متداول بحروں میں حذف و اضافہ کر کے یہ نئی بحر ایجاد کی گئی ہے۔ لیکن اب یہ بحث چھڑ گئی کہ کیا یہ بحر اردو میں بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے۔ دوسرے اس پر شبہے کا ا ظہار کر رہے تھے۔ صوفی تبسّم ٹھہرے استاد کہنے لگے کہ اس میں ناممکن ہونے کی کیا بات ہے اور شعر کہا:

شبِ ہجر کی یاس انگیزیوں میں آئی اس طرح یادِ وصال تری

جیسے شمع قندیل میں ہو روشن، جیسے بادلوں میں مہ تاب چمکے

یہ بحرجیسی اوبڑ کھا بڑا ہے، وہ ظاہر ہے۔ غرض اس کے بعد انھوں نے باقاعدگی سے پنجابی بحر میں لکھنا شروع کیا۔ ‘‘(۷۹)

مذکورہ بحر پنجابی، ہندکو اور سرائیکی زبان میں منظوم قصوں، دوہوں اور حرفیوں میں استعمال کی گئی ہے اور ان مقامی بولیوں کا لہجہ اس بحر کے لحن سے ہم آہنگ بھی ہے۔ اس لیے علاقائی شعرا نے اس بحر کو برتتے ہوئے کوئی مشکل محسوس نہیں کی ہو گی۔ لیکن اردو زبان کے لیے اس کھردری اور سنگلاخ بحر کے پتھریلے مد و جزر کا برداشت کرنا قدرے مشکل امر محسوس ہوتا ہے۔

صوفی تبسم نے نہ صرف اس مشکل کو حل کیا ہے بلکہ پنجابی بحر کو برتتے ہوئے اُن کا ’’ذوق نغمگی اور وصف ترنم شناسی بھی اپنا جوہر دکھاتا ہے۔ ‘‘(۸۰)

کل وہ مست شباب نقاب الٹے محوِ سیر جو گل و گلزار میں تھی

ایک چمن گویا صحن چمن میں تھا ایک بہار گویا نو بہار میں تھی

اب شباب کے دِنوں کی بات کیسی اب وصال کی رات کا تذکرہ کیا

نہ وہ دن اپنے اختیار میں تھے نہ وہ رات اپنے اختیار میں تھی

وہی میں وہی آرزو میری وہی تو ہے وہی شباب لیکن

جانے کون کس نے ہم سے چھین لی ہے وہ جو بات اک لیل و نہار میں تھی

ترے بزم میں آنے سے اے ساقی چمکے مے کدہ جام شراب چمکے

ذرہ ذرہ نظر آئے ماہ پارہ گوشہ گوشہ مثل آفتاب چمکے

لائے تاب اتنی چشم شوق کیونکر، دیکھے کون اُس کے بے نقاب جلوے

جس کے روئے درخشاں پہ اے صوفیؔ بڑھ کے زلف سے کہیں نقاب چمکے

پنجابی بحر کو اردو غزل میں برتنے کی یہ جدت یقیناً عروضی لحاظ سے تاریخ ساز ہے۔ صوفی تبسم سے پہلے کسی اور شاعر نے یہ تجربہ نہیں کیا بلکہ بعد میں بھی معدودے چند شعرا ہی اس بحر میں طبع آزمائی کر سکے ہیں۔ تاہم یہاں اردو غزل کے کلاسیکی دور میں بہادر شاہ ظفرؔ کی ایک غزل کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں، جس میں انھوں نے ایک ایسی بحر اختیار کی ہے جو پنجابی کی مذکورہ بحر سے زیادہ مختلف نہیں ہے :

ہیں عشق میں اس کا تور نج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا

غمِ عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا

ظفرؔ آدمی اُس کو نہ جانیے گا ہو وہ کیسا ہی صاحب فہم و ذکا

جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

اردو غزل کی روایت میں شاعرات کے تخلیقی سرمائے پر نظر ڈالیں تو ایسی کوئی انفرادیت سامنے نہیں آتی جس سے تخلیق کار کی صنف کی تمیز ممکن ہو۔ اس تناظر میں قیام پاکستان کے بعد پہلی دہائی میں ادا جعفری کا شعری اسلوب ایک اہم تجربے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنھوں نے ’’پہلی مرتبہ شاعرہ کی حیثیت سے غزل میں صیغۂ تانیث استعمال کرتے ہوئے نہایت جرأت سے اپنے جذبے اور وارداتِ قلبی کا اظہار کیا ہے۔ ‘‘(۸۱)

ادا جعفری کے ہاں پہلی بار اُن خاص نسائی احساسات اور جذبات کا بیان امکان پذیر ہوا جن کا اظہار ایک عورت ہی کی زبان سے ہو سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی غزل میں جس نوع کے اشعار تخلیق کیے ہیں وہ نسائی احساسات کے اظہار کے سلسلے میں تاریخ ساز ہیں اور بہت سی نئی شاعرات نے غزل کے اس نئے امکان سے استفادہ کرتے ہوئے عورت کے داخلی جذبات کو اپنے حقیقی رنگ و آہنگ میں پیش کیا:

جھکی ہوئی مری آنکھیں، سلے ہوئے مرے لب

اب اس سے بڑھ کے ترا اعتراف کیا ہوتا

تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا

یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں

سر کی چادر بھی ہوا میں نہ سنبھالی جائے

اور گھٹا ہے کہ برسنے کا بہانہ چاہے

اردو غزل میں اس نوع کا اسلوب اختیار کر کے ادا جعفری کا یہ دعویٰ رد کرنا قدرے مشکل ہو گا کہ :

’’میری آواز، اپنی آواز ہے، میں کسی آواز کی گونج نہیں ہوں، شاعرات میں پہلی آواز میری تھی۔ تاریخ میں ڈھونڈنے سے کئی شاعرات کے نام مل جائیں گے لیکن خواتین کی شاعری کا اعتبار مجھ ہی سے شروع ہوتا ہے۔ ‘‘(۸۲)

٭٭

 

استفادہ

 

۱       نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل ‘‘ گلوب پبلیشرز لاہور ۱۹۸۴                 ص : ۲۰۶

۲      یونس جاوید۔ ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘ مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۸۲

۳      کمال احمد صدیقی۔ مضمون ’’آزادی کے بعد غزل میں احیا پرستی‘‘مشمولہ ’’ معاصر اردو غزل‘‘ ( مرتبہ پروفیسر قمر رئیس) اردو اکیڈمی دہلی         ۱۹۹۴          ص: ۱۲۰

۴      جیلانی کامران۔ مضمون ’’زندہ ناصر کاظمی ‘‘ مشمولہ ’’ ہجر کی رات کا ستارہ‘‘ ( مرتبہ احمد مشتاق) نیا ادارہ لاہور، سن           ص: ۱۳۷

۵      خلیل الرحمن اعظمی۔ مضمون ’’جدید تر غز ل‘‘ مطبوعہ فنون، جدید غزل نمبر (جلد اوّل ) جنوری ۱۹۶۹ء         ص: ۶۵

۶      سہیل احمد خان۔ ’’طرفیں ‘‘ سنگ میل لاہور ۱۹۸۸                ص:۹۲

۷      ’’ تخلیقی عمل اور اسلوب‘‘ ( مرتبہ محمد سہیل عمر) نفیس اکیڈمی کراچی ۱۹۹۱ ص: ۱۷ تا ۵۱

۸      انتظار حسین۔ ’’چار گھڑی یادوں کا میلہ ‘‘ مطبوعہ ’’ہجر کی رات کا ستارہ‘‘ (مرتبہ احمد مشتاق )    ص: ۶۵

۹      سہیل احمد خان۔ ’’سرسوں کے پھول کا ہمعصر‘‘ مطبوعہ ’’ ہجر کی رات کا ستارہ‘‘         ص: ۱۷۸

۱۰     کمال احمد صدیقی۔ ’’آزادی کے بعد غزل میں احیا پرستی ‘‘ مطبوعہ ’’معاصر اردو غزل‘‘ ( مرتبہ قمر رئیس) ص: ۱۲۱

۱۱      ناصر کاظمی۔ ’’ خوشبو کی ہجرت‘‘ (مکالمہ) سویرا شمارہ ۱۸، ۱۷                      ص: ۲۰۶

۱۲     ایضاً                                          ص: ۲۰۶

۱۳     ناصر کاظمی۔ ’’بنائے تازہ، جان پہچان، میر تقی میر‘‘ؔ سویرا شمارہ ۲۰، ۱۹         ص: ۲۶۱

۱۴     ایضاً                                          ص:۲۶۲

۱۵     ایضاً                                          ص:۲۶۲

۱۶     ناصر کاظمی۔ ’’خوشبو کی ہجرت‘‘ ( مکالمہ )                              ص: ۲۰۷

۱۷     ناصر کاظمی۔ ’’دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف ‘‘ (مذاکرہ) ماہ نو ستمبر ۱۹۵۴ء         ص: ۲۶

۱۸     سجاد باقر رضوی۔ ’’مضمون ’’ناصر کاظمی ایک جائزہ ‘‘ مطبوعہ فنون جون ۷۲             ص: ۴۰

۱۹     ناصر کاظمی۔ ٹی وی انٹر ویو مشمولہ ’’ ہجر کی رات کا ستارہ‘‘                    ص: ۱۱۲

۲۰     ایضاً                                          ص:۱۱۴

۲۱     ہادی حسین۔ ’’مغربی شعریات‘‘ مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۶۸                ص: ۳۴۔ ۲۳۳

۲۲     ناہید قاسمی۔ ’’ناصر کاظمی۔ شخصیت اور فن ‘‘ فضل حق اینڈ سنز لاہور ۱۹۹۰              ص: ۱۶۳

۲۳    ناصر کاظمی۔ ’’نیا اسم ‘‘ ( مکالمہ ) سویرا شمارہ ۸، ۷                         ص: ۹۹

۲۴    ناصر کاظمی۔     ایضاً

۲۵    ناصر کاظمی۔ ٹی وی انٹر ویو ( مشمولہ ہجر کی رات کا ستارہ )                   ص: ۲۰۳

۲۶     ناصر کاظمی۔ ’’ خوشبو کی ہجرت‘‘ ( مکالمہ ) سویرا شمارہ ۱۸، ۱۷،                     ص: ۲۰۷

۲۷    PRINCTON ENCYCLOPEDIA OF POETRY AND AND POETICS

۲۸    Dictionary of Literary terms and theory

۲۹     خلیل الرحمن اعظمی۔ ’’زاویہ نگاہ ‘‘ آدرش پبلیشرز، بیراگی، سن                        ص: ۷۳۔ ۷۴

۳۰    شیخ صلاح الدین۔ ’’ناصر کاظمی ایک دھیان ‘‘ مکتبہ خیال لاہور ۱۹۸۶          ص: ۱۱۷

۳۱     ایضاً                                          ص: ۱۱۷

۳۲    شمس الرحمن فاروقی۔ ’’اثبات و نفی ‘‘ مکتبہ جامعہ دہلی ۱۹۸۶                 ص: ۱۵۸

۳۳    احمد عقیل روبی۔ ’’مجھے تو حیران کر گیا وہ ‘‘ورڈز آف وزڈم لاہور ۱۹۹۴

۳۴    ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی۔ ’’ اجنبی مسافر، اداس شاعر ‘‘ بیکن ہاؤس ملتان ۲۰۰۱          ص: ۱۳۸

۳۵    سہیل احمد خان۔ ’’طرفیں ‘‘                            ص: ۵۳

۳۶    شیخ صلاح الدین۔ ’’ ناصر کاظمی۔ ایک دھیان ‘‘                           ص: ۸۵

۳۷     John Hayward(Ed) "T.S Eliot Eliot Selected Prose”

۳۸    باصر کاظمی۔ دیباچہ ’’ پہلی بارش ‘‘ مشمولہ ’’ کلیات ناصر‘‘ مکتبہ خیال لاہور ۱۹۸۲              ص:۱۹

۳۹     ناصر کاظمی۔ فیچر ’’شاعر اور تنہائی ‘‘ مطبوعہ ’’خشک چشمے کے کنارے ‘‘مکتبہ خیال لاہور ۱۹۸۷        ص:۸۳

۴۰    ڈاکٹر حسن رضوی۔ ’’وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر‘‘ سنگ میل لاہور ۱۹۹۶                  ص: ۲۶۰

۴۱     احمد عقیل روبی۔ ’’مجھے تو حیران کر گیا وہ ‘‘

۴۲    ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی۔ ’’ اجنبی مسافر، اداس شاعر ‘‘                      ص: ۱۴۵

۴۳    شہزاد احمد۔ مضمون ’’ اردو غزل کے جدید تر رجحانات ‘‘                      ص: ۵۰

۴۴    ڈاکٹر وزیر آغا۔ ’’نئے مقالات ‘‘ مکتبہ اردو زبان سرگودھا ۱۹۷۲                      ص: ۱۴۵

۴۵    باصر سلطان کاظمی۔ دیباچہ ’’ پہلی بارش ‘‘                        ص:۲۰

۴۶    غالب احمد۔ دیباچہ ’’پہلی بارش ‘‘                                ص:۲۶

۴۷    ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی۔ ’’اجنبی مسافر، اداس شاعر ‘‘                ص: ۱۴۱

۴۸    شیخ صلاح الدین۔ ’’ناصر کاظمی۔ ایک دھیان ‘‘                            ص: ۱۱۷

۴۹     ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی۔ ’’اجنبی مسافر، اداس شاعر ‘‘                       ص : ۱۴۵

۵۰    شیخ صلاح الدین۔ ’’ ناصر کاظمی۔ ایک دھیان‘‘                            ص: ۱۱۷، ۱۱۶

۵۱     جیلانی کامران۔ مضمون ’’ زندہ ناصر کاظمی ‘‘ مشمولہ ’’ہجر کی رات کا ستارہ ‘‘    ص: ۱۳۸۔ ۱۳۷

۵۲    مظفر علی سیّد۔ مضمون ’’ناصر کاظمی۔ ایک گم گشتہ نوا ‘‘ مشمولہ ’’ہجر کی رات کا ستارہ ‘‘     ص۔ ۱۰۲

۵۳    حمید نسیم۔ ’’کچھ اور اہم شاعر ‘‘ فضلی سنز کراچی، سن                   ص:۱۷۱

۵۴    ناصر کاظمی۔ ’’ خوشبو کی ہجرت‘‘ (مکالمہ )                              ص: ۲۱۸

۵۵    فتح محمد ملک۔ ’’تعصبات‘‘                                      ص: ۱۵۷

۵۶    اشتیاق عابدی کا مراسلہ۔ مطبوعہ ’’معاصر اردو غزل ‘‘ ( مرتبہ پروفیسر قمر رئیس)

۵۷    محمد حسن عسکری۔ ’’تخلیقی عمل اور اسلوب‘‘ مرتبہ ( محمد سہیل عمر)                   ص: ۲۳۲

۵۸    شمس الرحمن فاروقی۔ ’’اثبات و نفی ‘‘                            ص:۵۵

۵۹     انیس ناگی۔ ’’آٹھ غزل گو ‘‘ ( مرتبہ جاوید شاہین) مکتبہ میری لائبریری (بار دوم ) ۱۹۸۸        ص: ۱۵

۶۰     سہیل احمد خاں۔ ’’طرفیں ‘‘                                   ص: ۶۹

۶۱۔     منیر نیازی۔      انٹرویو فلمی مجلہ ’’شمع‘‘ لاہور                              ص: ۴۵

۶۲     فتح محمد ملک۔ ’’تعصبات ‘‘                                      ص: ۳۴۹

۶۳    سہیل احمد خان۔ ’’طرفیں ‘‘                                   ص: ۹۴

۶۴    سلیم احمد۔ مضمون ’’ جدید غزل ‘‘ مطبوعہ فنون ( جدید غزل نمبر )                    ص:۴۱

۶۵    کمال احمد صدیقی۔ مضمون ’’ آزادی کے بعد غزل میں احیا پرستی ‘‘ مطبوعہ ’’معاصر اردو غزل ‘‘         ص: ۱۲۲

۶۶     ظہیر فتح پوری۔ ابتدائیہ ’’ گریزاں ‘‘ الحبیب پبلیکیشنز لاہور ۱۹۹۱                    ص: ۱۲۔ ۱۱

۶۷    ڈاکٹر آغا سہیل۔ فلیپ ’’گریزاں ‘‘

۶۸    سید افضال حسین نقوی۔ مقدمہ ’’گریزاں ‘‘                             ص : ۲۰

۶۹     ظہیر فتح پوری۔ ابتدائیہ ’’ گریزاں ‘‘                           ص: ۱۲

۷۰۔     ایضاً

۷۱     ابن انشاء۔ ابتدائیہ ’’چاند نگر‘‘ لاہور اکیڈمی لاہور ۲۰۰۲                    ص: ۱۲

۷۲    نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل ‘‘                                 ص: ۲۱۳۔ ۲۱۲

۷۳    ایضاً                                          ص : ۲۱۵

۷۴    ڈاکٹر سلیم اختر۔ مضمون ’’دھرتی کا بیٹا۔ شیر افضل جعفری ‘‘ مطبوعہ شبیہ (شیر افضل جعفری نمبر)        ص:۵۴

۷۵    مجید امجد۔ دیباچہ ’’سانولے من بھانولے ‘‘                               ص: ۱۰

۷۶     ڈاکٹر انور سدید۔ مضمون ’’وقت کے میلے میں رانجھا سرشت غزل نگار ‘‘ شبیہ ( شیر افضل جعفری نمبر )   ص: ۴۹

۷۷    ڈاکٹر وحید قریشی۔ فلیپ ’’سانولے من بھانولے ‘‘

۷۸    سراج منیر۔ مضمون ’’جھنگ رنگ کا شاعر ‘‘ شبیہ ( شیر افضل جعفری نمبر )            ص: ۶۴

۷۹    مالک رام۔ مضمون ’’صوفی تبسم کی شاعری ‘‘ مطبوعہ ’’تحریر ‘‘ دلی اپریل جون ۱۹۷۸ ء           ص: ۱۰۳

۸۰    ڈاکٹر نثار احمد قریشی۔ ’’صوفی تبسم۔ احوال و آثار ‘‘ کلاسیک لاہور        ۲۰۰۳         ص: ۸۷

۸۱     ڈاکٹر رشید امجد۔ مضمون ’’پاکستان کی اردو شاعرات ‘‘ مشمولہ عبارت (۱)۔ (مرتبہ ڈاکٹر نوازش علی ) دھنک پرنٹرز،           راولپنڈی ۱۹۹۸                                      ص: ۱۰۰

۸۲    طاہر مسعود کو انٹرویو۔ مشمولہ ’’یہ صورت گر کچھ خوابوں کے ‘‘ مکتبہ تخلیق ادب کراچی ۱۹۸۵        ص: ۱۷۳

٭٭٭

 

 

 

 

اردو غزل کی جدلیاتی دہائی

 

 

i۔      سلیم احمد اور ’’انٹی غزل ‘‘

جدید ذہنی ساخت کی تشکیل۔ ادب کی نئی نظریہ سازی

سلیم احمد، ’’انٹی غزل ‘‘، کاروباری لفظیات

ردعمل۔ دیگر شعرا

ii۔      ظفر اقبال کے تجربات

لسانی تشکیلات کا نظریہ۔ ’’آب رواں ‘‘

’’گلافتاب ‘‘۔ غزل کی نئی زبان کی نظریہ سازی

رد عمل۔ اسلوب کے تجربے، تسلسل خیال

’’ہے ہنومان‘‘۔ ’’ تکوین‘‘

iii۔     دیگر شعرا کے تجربات

جون ایلیا۔ انور شعور۔ شکیب جلالی۔ ساقی فاروقی۔

اقبال ساجد۔ سلیم شاہد۔ مراتب اختر۔ ناصر شہزاد

ریاض مجید۔ اختر احسن۔ صلاح الدین محمود۔

زہرا نگاہ۔ کشور ناہید

 

 

 

(۱)

 

برصغیر پاک و ہند میں جدید ذہنی ساخت کا تشکیلی عمل ۱۹۶۰ء کے بعد شروع ہوا، چنانچہ جہاں سماجی سطح پر ردّ و قبول کے نئے معیارات مقر ر ہونے لگے وہاں ادب کی تخلیقی اصناف کی نئی شناخت کے لیے اہل قلم نے ہمہ جہت تجربات کا آغاز کیا۔ خیال کے لحاظ سے جدید فکری تحریکیں شروع ہوئیں تو لفظ اور اسلوب کی سطح پر نئی وضعیں سامنے آئیں۔ جن کا مقصد نئی نسل کے نزدیک پیش رو ادبی مقتدرہ ESTABLISHMENTکی گمراہیوں کو نشانہ بنانا اور انھیں رفع کرنا ہی نہ تھا بلکہ علمی اور جمالیاتی بنیادوں پر ادب و فن کی اُن نئی آگاہیوں سے بھی متعارف کرانا تھا جو عالمی تناظر میں تازہ کار و تازہ دم تھیں۔ اگرچہ اس گروہ کی شناخت میں انحراف، اختلاف اور ان کار کا پہلو سب سے زیادہ روشن ہے۔ ‘‘ (۱)

بعض لوگ تو انحراف کی اس حد تک گئے کہ بڑے واضح طور پر یہ اعلان کیا کہ ’’نئے فنکار کے نزدیک …کوئی خاص روایت، کوئی جغرافیہ، کوئی آسمان، کوئی زمین اپنے اندر اتنا تقدس نہیں رکھتی کہ اُسے کھیل تماشے پر فوقیت دی جائے … اُسے کسی مابعدالطبیعات سے ایسا لگاؤ نہیں کہ اُس کے لیے اپنی ہستی ختم کر دے …جس کی کوئی مابعدالطبیعات نہیں ہو سکتی۔ جس کا کوئی مذہب و ملت نہیں ہو سکتا، اخلاقیات، مذہبیات، ترقی پسندی یا تعمیر کسی بھی تصور میں آفاقی افادیت نہیں …وہ کسی ضابطے یا فارمولے کا محکوم نہیں وہ تو خود سب سے بڑا نظم و ضبط ہے۔ ‘‘(۲)

جدید شعرا کے ہاں انحراف کی اس شدید رو کے باعث یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ ’’جدید غزل کلچر کے بجائے بے کلچری پر عقیدہ رکھتی ہے۔ ‘‘(۳)

جدید شاعر تہذیب و ثقافت پر کتنا اعتقاد رکھتا ہے اور وہ اس سے کس حد تک وابستہ رہنا چاہتا ہے یا نہیں رہنا چاہتا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ۶۰ء کے بعد اردو غزل میں تجربات کا جائزہ لیں تو وہ زبان و بیان میں کی گئی تبدیلیوں کی اُن کوششوں سے بہت مختلف ہیں جو ماضی میں کی گئیں بلکہ بعض صورتوں میں یہ تجربے بہت اجنبی بھی ہیں۔

یہ تجربے اپنی نوعیت میں اتنے انقلابی ہیں کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی اردو غزل کے لیے ایک جدلیاتی عرصہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پیکار کے عمل میں اردو غزل کے اسلوب اور لفظ کے مقبول نظریات کے خلاف ایک زبردست ردِّ عمل سامنے آیا۔ جس سے نہ صرف نئی بحثوں کا آغاز ہوا بلکہ غزل کی ماہیّت و مستقبل کے بارے میں بعض تنقیدی حلقوں کی طرف سے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا۔

غزل میں اس حد تک باغیانہ تجربے کرنے والوں میں دو اہم نام سلیم احمد اور ظفر اقبال ہیں جن کی کوششیں ہمہ جہت اور تفصیلی مطالعے کی متقاضی ہیں۔

سلیم احمد کی ’’بیاض ‘‘ شائع ہوئی تو اس کی ابتداء میں اپنے عہد کی غزل کے مروّجہ اسالیب اور لفظیات کے خلاف دو اعلانات کیے گئے۔ ایک نثری دیباچے کی صورت میں دوسرا شعری پیرائے میں۔ دیباچے میں اپنے عہد کے شعری اسلوب سے انحراف کا اظہار کرتے ہوئے سلیم احمد نے کہا:

’’چاند، بادل اور دریا کے الفاظ کا استعمال شاعری نہیں۔ بعض لوگ جنھیں صرف اس قسم کے الفاظ پر وجد آتا ہے، شاعرانہ اور غیر شاعرانہ الفاظ اور مضامین کی قید و تخصیص کے قائل ہوتے ہیں۔ ان کا نظریہ صحیح ہو یا غلط، میں اس نظریے کو تسلیم نہیں کرتا۔ خود رحمی اور رقّت کے جذبات بھی مجھے زیادہ پسند نہیں ہیں۔ یہ عناصر کسی حد تک مجھے اپنے پیش روؤں سے وراثت کے طور پر ملے ہیں مگر میں نے ان سے شعوری جنگ کی ہے۔ ‘‘(۴)

گریز پائی کا یہ اعلان بین السّطور اُس تمثالی اسلوب شعر کے خلاف ہے جو ناصرؔ کاظمی اور منیرؔ نیازی نے اختیار کیا اور اُسے رواج دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ شاعروں کی اُس کھیپ پر بھی بہت گہرا طنز کیا گیا ہے جو دورِ حاضر میں پھیلے ہوئے انسانی مسائل سے بے خبر ممیاتی ہوئی غزل لکھ کر روایت کو پیٹ رہے ہیں۔ سلیم احمد اگرچہ خود مذہبی مزاج کے باعث روایت پرست اور فکری لحاظ سے عینیت پسند بلکہ بقول سجاد باقر رضوی ’’وضعاً کلاسیکی ‘‘ تھے۔ (۵) تاہم شاعری میں انھوں نے روایت سے زیادہ اجتہاد سے کام لیتے ہوئے بغاوت کی راہ اختیار کی:

عشق میں کھو کے عزّتِ سادات

میرؔ کی طرح کیوں پھریں ہم خوار

گو نہ غالب کو ہو، ہمیں تو ہے

ذوقِ آرائشِ سر و دستار

ہم نہ درویش ہیں، نہ صوفی و رند

رنگِ آتش ہمیں نہیں درکار

طرزِ حسرتؔ پہ ہم نہیں لہلوٹ

ہم کو چکّی کے کام سے ہے عار

ہم روش پر فراقؔ کی کیوں جائیں

منزلِ غم نہیں ہمارا دیار

ربط رکھتے ہیں گو یگانہؔ سے

اُن کا مسلک مگر ہے تیغ کی دھار

ان اشعار میں میرؔ سے فراقؔ تک اردو غزل کی تمام روایت سے گریز پائی ظاہر کی گئی ہے۔ البتہ یگانہؔ سے ربط کا ان کار ممکن نہیں ہو سکا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سلیم احمد کی غزل کے وہ تجربات جنھیں ’’ہماری ادبی رائے عامہ نے اینٹی غزل کا نام دیا ہے۔ ‘‘(۶) یگانہ کی بغاوتوں ہی کی توسیع ہیں۔ اس توسیع کی مختلف جہات، آئندہ اثرات اور ان سے پیدا ہونے والے تنازعات اردو غزل کی تاریخ میں بڑے ہنگامہ خیز ہیں، جن کے شور و غوغا میں سلیم احمد کے تجربات پر گفتگو کے بعض پہلو نظرانداز ہو گئے۔

سلیم احمد کے درج بالا اعلان بغاوت کے باوجود یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اُن کا شعری سفر ایک خاص اخلاقی شعور اور مذہبی طرزِ احساس سے شروع ہوا اور ایک مخصوص اندازِ فکر کے باعث اُن کے لب و لہجے پر غزل کے روایتی اسلوب کی اثر انگیزی کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ اس سلسلے میں ساقیؔ فاروقی نے الفاظ و تراکیب کی ایک فہرست فراہم کرتے ہوئے یہ اعتراض کیا ہے کہ سلیم احمد ’’ گلے گلے دوسروں کے لہجے اور کلاسیکی آہنگ میں دھنسے ہوئے ہیں اور کلاسیکی غزل گوؤں کی آوازوں کے کنٹھے اور بالے اُن کے کان میں پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘(۷)

ہر شاعر اپنے ابتدائی شعری سفر میں اپنے ما قبل شعرا سے اثر قبول کرتا ہے لیکن بعد میں شعری تجربات سے اپنے لیے ایک نیا راستہ تلاشتا اور تراشتا ہے۔ سلیم احمد کی غزل کو بھی اپنے ابتدائی اثرات سے کچھ آگے دیکھیں تو اُن کے ہاں لفظیات کا ایک ایسا نظام ہے جو جدید شہری زندگی کے کاروباری ذہن اور ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ زندگی کے متنوع تجربوں اور معاملات حسن و عشق کے لیے کاروباری اور تجارتی الفاظ کا نبھاؤ اردو غزل کا ایک انوکھا اسلوبیاتی ذائقہ ہے۔

الفاظ کا یہ ذخیرہ اُس سماجی طرزِ احساس کا ترجمان ہے جس میں تجارت، دھن دولت اور لین دین ایک بنیادی معاشرتی قدر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے نئے ذہن کی سوچ کے زاویے بھی معلوم ہوتے ہیں جو زندگی کے ہر پہلو کو کاروباری نقطۂ نظر سے سوچتا ہے۔

سلیم احمد کی غزل میں مول، بھاؤ، قرض، ادھار، بیگار، گاہک، دکان، اجرت، ٹھیکا، دھندا، نقد، دام، دان، نفع، مزدوری اور سود وزیاں ایسے نئے الفاظ ہیں جن سے بڑی ’’قطعیت اور شدت کے ساتھ نئی کاروباری دنیا اپنی بے نقاب تاجرانہ ذہنیت کے ساتھ ابھر تی ہے۔ ‘‘(۸)

سلیم نفع نہ کچھ تم کو نقد جاں سے اُٹھا

کہ مال کام کا جتنا تھا سب دکاں سے اُٹھا

ہم بھی ٹوٹا ہوا دل اُن کو دکھائیں گے سلیم

کوئی پوچھ آئے وہ کیا لیتے ہیں بنوائی کا

دستور یہ اچھا ہے مزدوری الفت کا

اجرت بھی نہ مانگیں ہم بیگار کیے جائیں

تیرا پڑتا نہیں کھاتا تو نہ لے جنسِ وفا

گھوم پھر کر اسی اک مال پہ ٹکتا کیوں ہے

دل حسن کو دان دے رہا ہوں

گاہک کو دکان دے رہا ہوں

چڑھتے سورج کا مول کیا آنکھیں

شام تک ہے یہ گرمیِ بازار

ہو رہی ہے متاعِ دل نیلام

بول چھوٹے گی جانے کس کے نام

تجھ کو چاہا تو شاعری بھی کی

آم کے آم گٹھلیوں کے دام

تجارتی اور کاروباری الفاظ کے سلسلے میں مذکورہ بالا اشعار بھی اہم ہیں لیکن اس حوالے سے سلیم احمد کی ایک غزل توجہ چاہتی ہے، جس کی ردیف ’’دکان‘‘ ہے :

ٹھپ ہو چکی ہے حسنِ خیالات کی دکان

ایسے میں کیا چلے گی غزلیات کی دکان

گاہک کا کال دیکھ کے دھندا بدل دیا

کھولی تھی پہلے ہم نے بھی جذبات کی دکان

سودے میں حرفِ حق کے دوالہ نکل گیا

کھولیں گے ہم بھی کذب و خرافات کی دکان

سلیم احمد نے بعض پیشوں کو بھی غزل کا حصہ بنایا ہے :

گانٹھتے ہیں پھٹے ہوئے جذبات

ہوکے سیّد بنے سلیمؔ چمار

سرمنڈاتے ہیں ہم سے آ کے خیال

اپنا پیشہ ہوا ہے حجامی

شام ہی سے سنور کے بیٹھی ہیں

حسرتیں ہیں زنانِ بازاری

مجتبیٰ حسین نے سلیم احمد کی شاعری میں تین بنیادی علامتوں کو سرگرم عمل بتایا ہے۔ بازار، کچہری، اور شہدوں کی ٹولی۔ (۹)

بازار اور اُس سے وابستہ لین دین کی لفظیات جہاں سماج کی کاروباری سوچ کی عکاس ہیں وہاں عدالت اور اس کے متعلقات معاشرے کے عام جرم پرور معاملات کی تصویر بندی کرتے ہیں۔ اگرچہ عدالت کے حوالہ سے لفظیات کے استعمال کا تخلیقی امکان کلاسیکی غزل کے عہد میں غالبؔ نے اجاگر کیا، جس کی بنیادی وجہ اُن کی زندگی کا طویل مقدمہ برائے پنشن تھا، تاہم سلیم نے ان لفظیات کے تجربے کو نئے دور کے وسیع تر مسائل کی عکاسی کے لیے استعمال کر کے اس کے امکانات کو اور وسعت دی :

اب ہماری صفائی کون کرے

دل بنا ہے گواہِ سلطانی

رکھوں جو لحاظ مصلحت کا

کیا کوئی بیان دے رہا ہوں

ہم ہیں منشی عدالتِ دل کے

روز لیتے ہیں عشق کا اظہار

لفظیات کے مذکورہ تجربات کے بعد سلیم احمد کی ’’بیاض ‘‘ میں شامل وہ غزلیں قابلِ توجہ ہیں جنھوں نے غزل کی روایت کی پیالیوں میں طوفان کھڑا کر دیا۔ ان غزلوں میں نہ صرف لہجہ شدید، تندی و تیزی کا حامل ہے بلکہ لفظ و ترکیب کا نظام بھی بہت کھارا ہے۔ جس نوع کے الفاظ کو شاعر نے غزل میں استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے، اُن کا استعمال غزل و نظم تو کجا، عام گفتگو میں بھی تہذیب کے دائرے سے خارج سمجھا جاتا ہے۔ ایسے کھارے الفاظ اور کسیلالہجہ اس سے پہلے یگانہؔ اور شاد عارفی کے یہاں بھی ایک حد تک موجود ہے لیکن ’’سلیم احمد نے اسے برت کر نئی معنویتوں کے اظہار کا کام لیا ہے۔ ‘‘(۱۰)

نہ پوچھو عقل کی چربی چڑھی ہے اس کی بوٹی پر

کسی شے کا اثر ہوتا نہیں کم بخت موٹی پر

آ کے اب جنگل میں یہ عقدہ کھلا

بھیڑیے پڑھتے نہیں ہیں فلسفہ

سلیم احمد نے غزل میں یہ لفظیات کیوں اختیار کیں ؟ اُن کے لہجے میں اتنی تندی و تیزی کیوں ہے کہ کلام پر دشنام کا گماں ہوتا ہے ؟ انھوں نے غزل کی تہذیبی زبان کا لحاظ کیوں نہ کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو نہ صرف اُن کے ناقدین نے اُٹھائے ہیں بلکہ اس کشمکش کا شکار غزل کا ہر روایت پسند قاری ہے ؟ سلیم احمد اس سلسلے میں بطور جواب حسن عسکری کے حوالہ سے لکھتے ہیں :

’’انہوں نے کہا تھا کہ روایتی شاعری کے ذریعے تم نے درد، کسک اور نشاطیہ لہجے پر قابو پا لیا ہے۔ اب غصّہ اور طنز کے اسالیب کو بھی آزماؤ۔ میں نے یہ کام شروع کیا تو میرے اندر نہ جانے کیسے کیسے بھوت جاگ اُٹھے اور میں بالکل از خود رفتہ ہونے لگا۔ …ان میں ایک بھوت اپنی ناکامی کا بھی تھا۔ شدید غم و غصہ نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور میں ایسی شاعری کرنے کے خواب دیکھنے لگا جسے سن کر لوگ رات کو سو نہ سکیں۔ ‘‘(۱۱)

سلیم احمد کا بیان اس امر کا اظہار ہے کہ غزل میں اُن کا تجربہ نہ صرف شعوری ہے بلکہ ماحول کے خلاف پیکار کی ایک پوری منصوبہ بندی کے تحت ہے۔ اُن کے اندر جذبہ انتقام اور اُن کے خون کا کھولاؤ انھیں مجبور کر رہا تھا کہ وہ غزل کی روایتی زبان، لہجے اور لفظیات سے بغاوت کا اعلان کر کے جو لفظ جس طرح مرضی آئے استعمال کریں۔ چنانچہ انھوں نے ایسا کیا، جس کے بعد نہ صرف تنقیدی سطح پر اُن کی مخالفت کی گئی بلکہ اُن کے خلاف شعری سطح پر بھی محاذ کھل گئے۔ اُن کے اندازِ غزل کو ’’خرافات گوئی‘‘ (۱۲) قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر حنیف فوقؔ نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’’ اُس نظام میں جہاں اچھے کاموں کا ذکر کم ہوتا ہے اور جرائم کو اخباری شہرت حاصل ہوتی ہے یہ تکنیک بڑی مستند بن گئی ہے۔ ‘‘(۱۳)

سلیم احمد کی غزل کے خلاف جو شعری سطح پر محاذ کی چند ایک مثالیں قابلِ لحاظ ہیں :

سلیم احمد کا ہے کچھ ذہن گندہ

بری لگ جائے سچ کَہ دے جو بندہ

(رحمت امروہوی)

مکھیاں بھنکیں گی، بھونکیں گے غزل میں کتے

یہ بھی دن آ کے رہے گا مجھے معلوم نہ تھا

( عجیب و غریب خاں )

غزل میں اختیار کیے گئے سلیم احمد کے اسلوب نے نہ صرف چونکا یا بلکہ ایک دھچکا لگایا ہے اور حادثہ یہ ہوا کہ اُن کی تندو تیز اور نشتریت سے معمور لہجے کے جواب میں تنقید بھی اُسی نوعیت کی ہونے لگی۔ چنانچہ اُن کے اسلوبِ غزل پر تہذیبی تصادم اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفسیاتی پیچیدگیوں کے حوالے سے بہت کم سوچا اور لکھا گیا۔ سلیم احمد نے اس سلسلے میں ایک مضمون میں اپنے عہد کی تہذیبی جدلیاتی فضا کا جائزہ لیتے ہوئے بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ ’’ہماری تہذیب میں ایک غیر تہذیب کی مداخلت کے بعد جو تبدیلیاں آئی ہیں، اُن میں توڑنے اور جوڑنے کا عمل مرکزی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اور ہمارے شعور اور لاشعور کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ایک لاینحل کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ‘‘(۱۴)

جمیل جالبی نے بھی سلیم احمد کے اسلوبِ غزل کو شعور و لاشعور کی اسی جنگ کے باعث اختلالِ اعصاب (نروس بریک ڈاون ) قرار دیا ہے۔ (۱۵)

سلیم احمد کی غزل کا ایک پہلو جنسی اسلوب کا وہ تجربہ بھی ہے جس کے باعث غزل میں پہلی بار جنسی معاملات کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا۔ اُن کے اس تجربے کو معاصر تنقید نے کئی زاویوں سے دیکھا ہے لیکن اُن نفسیاتی کیفیتوں تک رسائی کی کوشش بہت کم تجزیہ کاروں کے ہاں نظر آتی ہے جن سے عہد نو کا انسان دو چار ہے۔ اُن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں جنسی اسلوب کے ذریعے عہد نو کے انسان کا مسخاکہ (Caricature)کھینچا گیا ہے :

مرد نامرد ہیں اس دور کی زن ہے نازن

اور دنیا کی ہر اک شے ہے اسی کا سمبل

سخت بیوی کو شکایت ہے جہانِ نو سے

گاڑی آتی نہیں اور گر جاتا ہے پہلے سگنل

عشق اور اتنا مہذب چھوڑ کے دیوانہ پن

بند نیچے سے گلے تک شیروانی کے بٹن

دھرا کیا ہے زبانی پیار کے رنگیں فسانوں میں

کھرے کھوٹے کا سب احوال کھل جائے گا رانوں میں

ڈاکٹر حنیف فوق نے اس نوعیت کے اشعار کو فراقؔ کی اثر پذیری قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سلیم احمد نے فراق سے اُن کی جمالیاتی سرشاری کے جز و کو خارج کر کے اُن کی جسم پرستی کے رجحان کو لے لیا ہے۔ ‘‘(۱۶)

سلیم احمد کے ان اشعار کا جائزہ لیا جائے تو ان میں جسم پرستی یا شہوت پسندی کا کوئی مریضانہ رجحان نہیں ملتا، نہ ہی یہ کسی فردِ واحد کے جذباتی ابال کا اظہار ہیں۔ اس معاملے میں جب تک اُس تہذیبی عمل کی شکست و ریخت سے اعتنا نہ کیا جائے، قضیہ حل نہیں ہوتا۔ سلیم احمد فکری طور پر دبستان عسکری سے وابستہ تھے، جن کا بنیادی مسئلہ اُس مشرق کی بازیافت تھا کہ عشق جس کی بنیادی قدروں میں شمار ہوتا تھا۔ عسکری صاحب کا یہ خیال تھا کہ ’’سرسید و حالی کی عقلیت کی تحریک کے بعد جو روش ابھری تھی اُس نے جنس و جذبے کا وہ خوف پیدا کر دیا تھا، جس کا پورا اردو ادب شکار ہو چکا تھا۔ ‘‘(۱۷)

سلیم احمد کے جنسی اسلوب کی حامل غزلوں میں کوئی مریضانہ شہوت پسندی نہیں بلکہ یہ عہدِ حاضر کی اُس عقلی، مشینی، کاروباری اور تجارتی فضا پر اظہار تضحیک ہیں جس میں سانس لینے والا انسان آدھے وجود کا کسری آدمی ہے اور عشق دماغ کا خلل ہے۔ یہ وہ جدید ماحول ہے جس میں انسان کا باطن روحانی سرشاری سے عاری ہو کر محض مادی سطح پر ترقی کر رہا ہے۔

سلیم احمد کے تجربات کے سلسلے میں یہ امر خوش آئند نہیں ہے کہ اسلوب اور لفظیات میں تبدیلی کی ان کوششوں نے ابھی کوئی واضح شکل نہیں اختیار کی تھی کہ وہ خود سلیم احمد کی عدم توجہی کا شکار ہو گئے۔ جس قوّت اور شدّت سے انھوں نے عہدِ حاضر کی مادی سوچ کے زاویوں کے خلاف غزل کے محاذ پر مقابلہ کیا، اگر وہ پس قدمی کا فیصلہ اتنے جلدی نہ کرتے تو اسلو بِ غزل کے تجربات کو اپنے ہاں کسی واضح امکان سے روشن ضرور کرتے۔

قطع نظراس کے کہ سلیم احمد اپنی وضع کلاسیکی کے باعث بغاوت کے راستے پر زیادہ دور نہیں گئے، اُن کے تجربات نے ایک جہت نمائی کا کام ضرور کیا، دوسری طرف ظفر اقبال کے لسانی تجربوں نے بھی لفظ اور اسلوب کے بعض نئے اشارے روشن کیے تو اس عہد کی ایک پوری نسل جو اپنی سماج کی لایعنی صورت حال سے پہلے ہی بیزار تھی اپنے غصہ اور فکری برہمی کا ا ظہار غزل میں کرنے لگی۔ خصوصاً اُس غیر تہذیب جس کے خلل کا ذکر سلیم احمد نے اپنے مضمون میں کیا، اُس کے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تمدنی شکل کی تصویر کشی اس نسل کے غزل گوؤں کا مرکز و محور نظر آتی ہے۔ ساتھ ساتھ وہ اختلالِ ذہنی بھی نظر آتا ہے۔ جس سے نئے عہد کا انسان دوچار ہے۔ اگر چہ اس نوع کے الفاظ اور اسلوب کو بعض لوگوں نے تخلیقی تجربے کے بجائے بطور فیشن بھی اختیار کیا:

چڑیا بیٹھی چھاؤں میں

بلی بیٹھی داؤں میں

گھر میں سب کے قفل پڑے تھے

باہر کیوں گائے بندھی تھی

(ساحل احمد )

ہاں وہ بھی گجرات کا تھا

تم اُس کو پہچانتے ہو

اپنا کیا لے جائے گا

آتا ہے تو آنے دو

اُس نے یہ کہلایا ہے

تم مجھ سے شادی کر لو

گھر میں بھی سب راضی ہیں

دل کہتا ہے ہاں کَہ دو

سیکل پہ ٹیڈی گرل گلی سے گزر گئی

کتا بھی ساتھ دور تلک بھونکتا گیا

(عادل منصوری)

اتنی مدّت بعد ملے ہو کیسے ہو

تم بھی کیا اب امریکہ میں رہتے ہو

ایک خرگوش جو جھاڑی سے نکل کر بھاگا

میرے ساتھی نے ہوا ہی میں چلا دی گولی

(خلیل رامپوری)

شیخ کے دل میں حوریں ہیں فردوس کی

میرے دل میں ہیں لاہور کی لڑکیاں

(عباس اطہر)

یادوں کے ٹیلی وژن پر گریاں دیکھ کر اُس کو

تاج محل میں تنہا بیٹھا سگریٹ پھونک رہا ہوں

کھوج میں تیری ان گنت ٹرامیں اور بسیں چھانی ہیں

تارکول کی سڑکوں پر میں میلوں پیدل گھوما ہوں

(صادق)

ٹہنی گلاب کی مرے سینے سے آ لگی

جھٹکے کے ساتھ کار کا رکنا غضب ہوا

سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا

کھڑکی کا پردہ کھینچ دیا رات ہو گئی

(بشیر بدر)

ادبی رائے عامہ نے غزل کے اس رجحان کو ردِّ غزل، منفی غزل، ہجویہ غزل اور اینٹی غزل کا نام دیا اور اسے تہذیبی طور پر ٹیڈی ازم کے زیر اثر ایک منفی میلان گردان کر ’’بری شاعری کا سر چشمہ قرار دیا۔ (۱۸) بعض ناقدین کے نزدیک یہ ’’غزل کی مضحک پیروڈی ‘‘(۱۹)بلکہ ’’ہزل ‘‘ (۲۰) ہے اور بعض کی رائے میں اس نوع کی غزل کا ماضی کے ادبی سرمائے کے تناظر میں جائزہ لیں تو یہ ’’ریختی اور واسوخت کے قریب ہے۔ ‘‘(۲۱)

اس بات سے ان کار ممکن نہیں کہ سلیم احمد اور اُن کے بعض معاصرین کا مذکورہ رجحان غزل، اردو کی شعری روایت اور اُس کے تہذیبی مزاج کے خلاف ہے۔ اس رجحان کے تحت کہے گئے اشعار اکہرے ہیں اور غزل کے ایمائی اور رمزیاتی مزاج کو مجروح کرتے ہیں۔ ان شعراء نے غزل کی گہری معنویت اور داخلی آہنگ کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑے کھردرے، درشت اور کسیلے الفاظ استعمال کیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ شعرا نہ تو مزاجاً غیر سنجیدہ تھے نہ ہی اردو غزل کی روایت سے ناواقف۔ یہ لوگ در اصل ایک رد عمل کے طور پر سامنے آئے اور اپنے رویّوں میں شدید تر ہو گئے، چنانچہ اردو غزل کی ان کے تجربوں نے دھچکا بھی لگایا اور اس تخریبی عمل سے اردو غزل کا ایوان کچھ نقصان آشنابھی ہوا۔

اس تمام تر صورتِ حال کے تناظر میں ان تجربات کو شعری جدلیات سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا، جس نے ہمارے ادبی ماحول میں ایک بحث کا دروازہ کھولا اور دونوں اطراف کے زاویہ نظر اور فکر و خیال کو اظہار کا موقع ملا۔ مختلف ادبی حلقوں اور رسائل و جرائد میں مذکورہ مباحث کے باعث اسلوب اور زبان کے نئے برتاؤ کے سلسلے میں شعراء کی غزل کے نئے امکانات سے آشنائی ہوئی۔ ان مباحث نے ’’جہاں نوجوانوں کو بالآخر راہ اعتدال دکھائی وہاں بزرگوں میں بھی رفتہ رفتہ اس نئی راہِ سخن کے محاسن اجاگر ہونے لگے۔ ‘‘(۲۲)

 

 

 

(۲)

 

اردو غزل کی تشکیلِ جدید کے سلسلے میں ظفر اقبال کے تجربات ہمہ جہت ہیں جن کی موافقت و مخالفت میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور یہ مبارزت اب بھی کئی محاذوں پر گرم نظر آتی ہے لیکن دونوں اطراف سے ایک غلط فہمی بڑی واضح دکھائی دیتی ہے کہ تجزیہ کاروں نے ظفر اقبال کے تجربوں کو یا تو سلیم احمد کے انٹی غزل کے رجحان سے نتھی کر کے دیکھا ہے یا لسانی تشکیلات کے اُن نظریات سے منسوب کیا ہے جو اُن کے بعض معاصر نظم نگاروں کے توسّط سے عام ہوئے۔

انٹی غزل کا شعری میلان اور لسانی تشکیلات کی تنقیدی رو بلاشبہ اپنے آغاز میں طوفانِ بلا خیز کی طرح تھے جن سے معاصر اور نئے اذہان نے بڑے گہرے اثرات قبول کیے اور اس سلسلے میں ظفر اقبال کا متاثر ہونا بھی کوئی بعید از قیاس معاملہ نہیں لیکن ان حدوں میں محصور کرنے سے اُن کے تجربات کی وسعت کو سمجھنے اور اخذِ نتائج کے سلسلے میں کئی ایک مغالطے پیدا ہو سکتے ہیں اور ہوئے بھی ہیں۔

سلیم احمد اور بعض دیگر غزل بافوں کے ہاں انٹی غزل کے رجحان کے تحت کی جانے والی شاعری اپنے لہجے اور اسلوب کے لحاظ سے ظفر اقبال کی غزل سے قدرے مماثلت ضرور رکھتی ہے لیکن ظفر اقبال اس قسم کے لب و لہجے کو اختیار کرنے تک لسانی تبدیلی کی کوششوں کے جن مراحل سے گزرے ہیں، اُن کا زمانی ترتیب سے تجزیہ کیا جائے تو بات بڑی کھل کر سامنے آتی ہے کہ اُن کے تجربے محض انٹی غزل کے میلان کا نتیجہ نہیں ہیں۔

جہاں تک لسانی تشکیلات کا تعلق ہے تو یہ تحریک اُن نظم نگاروں نے شروع کی جو نئی شاعری کے لیے پرانی زبان کو ترک کر کے جدید لسانی ضرورتوں کو محسوس کرتے تھے۔ لیکن یہ تحریک جتنے زور سے شروع ہوئی اتنی ہی سرعت سے ختم ہو گئی جس کی بنیادی وجہ اس کے نظریہ سازوں کے بعض ذہنی التباسات تھے چنانچہ خود اس تحریک سے وابستہ بعض ناقدین نے اسے ’’مغالطوں کی جدلیات ‘‘(۲۳)قرار دے کراس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

انتظار حسین اس خیال کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ ظفر اقبال لسانی تشکیلات کے بہکاوے میں آ گیا۔ (۲۴)خود ظفر اقبال یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’کیا نئی لغت، نئی زبان، نیا لفظ اور زبان کی تبدیلی محض ایک سلوگن تھا اور اگر نہیں تو اس سلسلے میں نئی نظم والوں کی کارگزاری کیا ہے اور اگر کچھ نہیں یا اگر کچھ ہے بھی تو وہ کچھ ایسی قابلِ ذکر نہیں ہے۔ تو کیا یہ مناسب وقت نہیں کہ یہ حضرات اپنی ناکامی کا اعتراف و اعلان کرتے ہوئے یہ سلوگن با عزّت طور پر واپس لے لیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ نئی نظم اور اس کی تحریک کا ایک تو شور بہت مچایا جاتا ہے، دوسرے کسی بھی کار گزاری کے بغیر تبدیلی زبان کے اس دیرینہ نعرے پر انحصار بھی کیا جاتا ہے۔ ‘‘(۲۵)

مذکورہ حقائق کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ ظفر اقبال کے تجربات کا جائزہ انٹی غزل یا لسانی تشکیلات کے تنقیدی زاویوں سے لینے کے بجائے انھیں الگ اور وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے۔

ظفر اقبال کا شعری سفر ’’آب رواں ‘‘ سے شروع ہوتا ہے جس کی بعض غزلوں کی زبان پر رنگِ ناصرؔ کا پرتو بھی دیکھا گیا۔ (۲۶) اگر چہ لب و لہجہ کے تیکھے پن کے اعتبار سے اس مجموعہ کی شاعری یگانہ سے زیادہ قریب ہے۔

اسلوب کے لحاظ سے ’’آبِ رواں ‘‘ اردو غزل میں تجربوں کے سلسلے میں ایک اہمیت رکھتی ہے۔ ظفر اقبال نے جب غزل آغاز کی تو اُس وقت ناصر اور منیر کا تمثالی اسلوب بہت مقبول تھا اور دونوں شعرا ء اس انداز کے متنوع تجربے کرتے ہوئے غزل میں بڑی منفرد تصویر کاری کر رہے تھے، جن میں تہذیبی حوالے غالب تھے۔ ’’آبِ رواں ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ تمثالی اسلوب کچھ نئے رنگوں کے انعکاس کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے لیکن شعری تجربے کے لحاظ سے یہ تمثالیں مختلف ہیں کہ ان میں مصّوری کا انداز ناصر اور منیر کی طرح سکیچ یا پورٹریٹ کا نہیں بلکہ تجرید کا ہے۔ ’’ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے صاف، دھندلی، مکمل، ادھوری، ٹیڑھی ترچھی تصویروں سے بنی ہوئی کوئی فلم دیکھ رہے ہوں۔ ‘‘(۲۷)

ظفر اقبال کی شعری مصوری مناظرِ فطرت کی ایسی تصویر کشی ہے، جس میں شاعر کے حواس کا تجربہ بھی بڑا زندہ اور متحرک ہے اور بہت سی مجرّد اشیاء اور کیفیتیں مجسم نظر آتی ہیں :

شب بھر رواں رہی گل مہ تاب کی مہک

پو پھوٹتے ہی خشک ہوا چشمۂ فلک

موجِ ہوا سے کانپ گیا روح کا چراغ

سیلِ صدا میں ڈوب گئی یاد کی دھنک

سائے کا سبزہ ہوا پامال سب کے سامنے

بادلوں کے پیچھے پیچھے دھوپ کا لشکر بھی تھا

تیرہ درخت پر پڑی آبِ رواں کی روشنی

صبح لپٹ لپٹ گئی موجۂ باریاب سے

گال سے لگ کے سو گئی درد کی زرد رو کرن

زخم کی آنکھ کھل گئی خارِ خمارِ خواب سے

چپ چاپ سمندر پہ رواں خواب کی کشتی

اور خواب کی کشتی میں غضب ناک سمندر

یہی تیغ تیز تلی ہوئی، یہی زخم ناب کھلا ہوا

سرِ شاخِ ظلمتِ زندگی یہی ماہ تاب کھلا ہوا

یہ مہک جو تیر کی طرح میرے مشامِ جاں میں در آئی ہے

اسی باغ میں ہے یہیں کہیں وہ سیہ گلاب کھلا ہوا

کہیں پر بتوں کی ترائیوں میں ردائے آب تنی ہوئی

کہیں بادلوں کے بہشت میں گل آفتاب کھلا ہوا

اُسی زرد پھول کی بددعا ہے ظفرؔ یہ دل کی فسردگی

مرا منتظر رہا مدتوں جو پسِ نقاب کھلا ہوا

ظفرؔ اقبال کی یہ منفرد تمثالیں بعد کی شعری تخلیقات میں بھی تابندہ ہیں :

لہو کی سرسبز تیرگی ہے کہ رنگ اڑتے لباس کا ہے

سمجھ میں آئے کہاں کہ منظر حواس کے آس پاس کا ہے

گل گنہ کی دبیز خوشبو میں چور ہیں بام و در ہوا کے

جو ہے تو اک گوشۂ سیہ میں خمار خالی گلاس کا ہے

عجیب تھا اُس ہرے بھرے کھیت سے گزرنے کا تجربہ بھی

مگر یہ ہر عضو کی زبان پر جو ذائقہ زرد گھاس کا ہے

ظفر اقبال کی ان منفرد تمثالوں کو افتخار جالب نے ’’ محسوسات کی تعقلاتی ہیئت کی شناخت کا عمل ‘‘(۲۸) قرار دیا ہے جسے شاعر نے شعری واردات میں ضم کیا ہے۔

ظفر اقبال کے لسانی تجربات کا آغاز اُن کے دوسرے مجموعۂ کلام ’’گلافتاب ‘‘ سے ہوتا ہے، جن کی نظریاتی اساس شاعر نے یہ فراہم کی ہے کہ ’’جن چشموں سے اس (اردو) زبان نے ابتدا میں توانائی حاصل کی اور جو ایک مدت تک اس پر روک دیے گئے تھے، میں نے انھیں پھر سے رواں کر دیا ہے … یہ تازہ خون اردو زبان کی موجودہ تھکن اور پژمردگی دور کرنے کے لیے ضروری تھا۔ ‘‘(۲۹)

اس سلسلے میں ظفر اقبال نے جہاں شعری تجربوں کے ذریعے اجتہادات کیے وہاں تنقیدی سطح پر بھی بھرپور نظریہ سازی کی۔ اُن کے خیال میں :

’’یہ بھی ہمارے شاعروں اور ادیبوں ہی کا کام ہے کہ چاروں صوبوں کی زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب تر لانے کا اہتمام کریں، کیوں یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ وفاقِ پاکستان کے کسی بھی صوبے میں رہنے والا دوسرے صوبے کی زبان نہیں سمجھتا۔ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ اُن کے سروں پر اردو کو مسلط کر دیا جائے۔ ہر صوبے کے اردو لکھنے والے ادبا ان زبانوں کے آمیزے سے ایک ایسی مشترکہ زبان تشکیل دے سکتے ہیں جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بھی اردو ہی کے وسیلے سے ہو گا۔ ‘‘(۳۰)

’’اس بات کا امکان پیدا کیا جائے کہ پاکستان کے صوبوں میں بولی جانے والی مقامی بولیوں اور اردو کے باہمی فاصلے کو اس حد تک کم کر دیا جائے کہ جس کے نتیجے میں صرف اردو اور ایسی اردو تشکیل پذیر ہو جائے کہ مقامی زبانیں کسی حد تک باقی رہتے ہوئے بھی اس اردو میں اس حد تک گھل مل جائیں کہ اصل شناخت اردو ہی کو ارزانی رہے۔‘‘(۳۱)

ظفر اقبال اردو کے قدیم زبان سازوں سے گلہ مند ہیں کہ انھوں نے اس زبان کو اردوئے معلّیٰ قرار دے کر اسے توانائی فراہم کرنے والے علاقائی اور دیگر زبانوں کے سرچشمے اس پر بند کر دیے۔ چنانچہ وہ تجویز پیش کرتے ہیں :

’’اردو زبان کو ایک جوہڑ بننے سے بچانے اور آب رواں بنانے کے لیے انھیں پھر سے رو براہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘(۳۲)

اُن کے خیال میں اس عمل کا انحصار تخلیق کار کی تخلیقی قوت پر ہے۔ اس کا ’’ تخلیقی وفور جتنا شدید اور زور دار ہو گا وہ اتنی ہی غیر معمولی زبان کا متقاضی ہو گا اور اس عمل کے دوران جو زبان وجود پذیر ہو گی وہ مرّوج اور روایتی زبان سے یکسر مختلف ہو گی۔ ‘‘(۳۳)

ظفر اقبال نے اپنے لسانی تجربات کے لیے جو تخلیقی مساعی کیں اُن میں پہلی قابلِ ذکر کوشش فکِ اضافت اور پنجابی طرز پر ترکیب سازی ہے :

عکس تھرتھراتا ہے آسمان پیالے میں

گرد سا چمکتا ہوں یوں ہوا کے بالے میں

ہمارے سر میں بھی سکھ منزلوں کی خاک اڑی

ہمارے پاؤں میں بھی سلسلے سفر کے رہے

فکِ اضافت کے اس تجربے ہی نے گلافتاب جیسے نئے لفظ تشکیل کا امکان روشن کیا۔ ’’گلافتاب‘‘ لسانیات کی اصطلاح میں ایک Portmenseauلفظ ہے۔ جس میں دو الفاظ ترکیب بننے کے بجائے ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک نیا لفظ بناتے ہیں۔ انگریزی، فارسی اور خود اردو زبان کی تشکیلی عوامل پر غور کریں تو بہت سے ایسے الفاظ ملتے ہیں جو اپنی ابتدائی مشکل میں دو الفاظ تھے یا مرکب اضافی تھے لیکن اب وہ بطور مفرد لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً ’’ناخدا‘‘ جو اپنی ابتدائی شکل میں ناؤ کا خدا ہے۔ اسی طرح ’’پیاس ‘‘اور ’’ بھڑاس‘‘ جن کی ابتدائی صورت دیکھی جائے تو یہ مرکبِ اضافی کی صورت میں پینے کی آس اور بھڑنے کی آس تھے۔

لسانی تجربوں کے سلسلے میں ظفر اقبال نے بعض الفاظ کا تلفظ بھی پاکستان کی مقامی بولیوں کے تلفظ کے مطابق استعمال کیا ہے :

میں اس کیفیت کو نہیں جانتا

مجھے تیسری بار آیا صبر

بہت ذہن میں سنسناتا پھرا

چکا چوند چونچال کالا کفر

کوئی اور شے ہے مرے آر پار

ہوا ہے نہ پتوں کا پیلا چکر

میدان تھے جہاں، وہاں جنگلے جنگل ہوئے

بے جسم و جاں جڑیں کسی ڈر کے ڈنٹھل ہوئے

پتوں کے پیرہن پہ نین عکس کی ظفرؔ

جھلکار یوں پڑی کہ جنگل میں منگل ہوئے

ایک اور غزل کی ردیف قابلِ غور ہے جس میں ’’ گیا ‘‘کوفَعَل کے بجائے فَع کے وزن پر ’’گیا‘‘ باندھا ہے :

جسے ڈوبنا تھا اُسے تار گیا

وہ دشمن تھا کون اُس کی مت مار گیا

وہیں ہو گیا ہور کا ہور وہ

جو اندروں نکل کے ذرا باہر گیا

مقامی تلفظ کے استعمال کی یہ وہ روایت ہے جسے آتش و انشا نے ناسخ کی اصلاح زبان کی تحریک کے رد عمل میں جاری رکھا اور یہ اعلان کیا کہ : ’’ہر لفظ جو اردو میں مشہور ہو گیا ہے، عربی ہو یا فارسی، ترکی، ہریانی، سریانی پنجابی ہو یا یوپی ازروئے اصل غلط ہو یا صحیح وہ لفظ اردو کا ہے اگر اصل کے مطابق ہے تو بھی صحیح ہے اور اگر خلافِ اصل مستعمل ہے تو بھی صحیح ہے۔ ‘‘(۳۴)

مقامی تلفظ کے استعمال کی ان کوششوں کو بنیاد بناتے ہوئے ظفر اقبال نے بعض الفاظ کی جمع بھی فارسی یا عربی سے مستعار قواعد کے برعکس مقامی طرز پر بنائی ہے۔ کلاسیکی اردو شاعری میں ایسی کوششوں کی مثال میرؔ کے ہاں ملتی ہے۔ ظفر اقبال کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

دو دھڑوں کے درمیاں جب گاؤں میں گولی چلی

آنگناں میں سنسنی تھی بیریاں پر بور تھا

جسم کے بے حد و بے انداز میں چاراں طرف

بحر سے اٹھتی تھی آندھی گرد میں گرداب تھے

ظفر اقبالؔ کے لسانی تجربات میں نئے مصادر بنانے کا عمل بھی نمایاں ہے۔ اس سلسلے میں اُن کی غزلیں جن کے مطلعے :

چمک چمکار نے شب شیر نے کے

مزے محکم الف انجیر نے کے

اور:

دلّدر درمیاں دلدار نے کا

تلخ تنہا الف ان کار نے کا

ہیں، قابلِ ذکر ہیں۔ ان غزلوں میں استعمال کیے جانے والے قوافی کے اسما سے نئے مصادر بنانے کی سعی کی گئی ہے۔ کسی اسم سے مصدر بنانے کی کوششیں اردو زبان میں شاذ ہیں اور لسانی تبدیلی کے اس نوع کے عوامل کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔ اردو غزل کے کلاسیکی دور میں اس نوع کی بعض کوششیں سوداؔ نے کیں۔ مثلاً پتھر سے پتھرانا۔ لاج سے لجانا وغیرہ۔ لیکن بحیثیت مجموعی اردو ادب میں اہل قلم نے ایسے اجتہادات کی طرف توجہ نہیں کی۔

نئے مصادر بنانے کی ظفر اقبال کی مذکورہ کوششیں بحث طلب ہیں۔ ان کی کامیابی یا ناکامی کے سلسلے میں گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن یہ امر افسوس ہے کہ اُن کی ایسی مساعی کو محض انٹی غزل تعبیر کر کے رد نہیں تو کم از کم شدید متنازعہ ضرور کر دیا گیا ہے۔

نئے مصادر بنانے کے سلسلے میں ظفر اقبال کی ’’عیب و ہنر‘‘ میں شامل یہ غزل قابلِ توجہ ہے جس میں لسانی اجتہاد قبولیت کے قریب تر ہے :

کہاں تک مفت میں رسوائیے گا

کسی دن تو بغل گیرائیے گا

بہت ارزاں نہیں پہلے بھی ملنا

اسے اب اور مت مہنگائیے گا

سبھی تعریف کرتے ہیں ہماری

کسی دن آپ بھی اچھائیے گا

طبیعت کی روانی رک گئی ہے

کبھی آ کر اسے دریائیے گا

تغافل اب تو عادت ہو گیا ہے

اسے اب اور کیا پختائیے گا

کبھی تو کیجیے گا منصفی بھی

سو، کب تک رنجشیں بیجائیے گا

میں ہر سو گونجتا پھرتا ہوں دل میں

کہاں تک اور اسے صحرائیے گا

ظفرؔ، جیسا سلوک اُس نے کیا ہے

جواباً آپ بھی ویسائیے گا

مصادر بنانے کا یہ تجربہ اپنے اندر بھرپور تخلیقی قوت رکھتا ہے لیکن امر افسوس ہے کہ ہمارے شعرا اس نوع کی لسانی کوششوں سے گھبراتے ہیں۔ لیکن یہاں سعادت سعید کی ایک غزل کا حوالہ برمحل ہو گا، جس میں انہوں نے اجتہاد کی ایک کامیاب کوشش کی ہے :

سو بار فرطِ شوق سے بھنورا چکے ہیں ہم

آبادیاں بدن کی بھی کھنڈرا چکے ہیں ہم

تیری طلب کسے ہے یہاں بادِ آگہی

اس عہدِ بے حواس کو لچرا چکے ہیں ہم

لینا ہے تم سے کیا ہمیں اے شب کے راہیو!

اک اپنی زندگی کو تو سحرا چکے ہیں ہم

بس چوم کر ہی سنگِ گراں چھوڑ دیتے ہیں

مضبوط بازوؤں کو بھی صفرا چکے ہیں ہم

لیکن یہ بھید کھل نہ سکا کھیل ہے یہ کیا

آنکھوں کو ساری دنیا میں سفرا چکے ہیں ہم

اے ابرِ صبحِ عشق! ضرورت نہیں تری

سیپی کا بطن ریت سے گہرا چکے ہیں ہم

ذروں کے دیپ کالی فضاؤں کو سونپ کر

اے ارض بے شعاع! تجھے قمرا چکے ہیں ہم

ظفر اقبال نے اپنے لسانی تجربوں کی بنیاد یہ قائم کی ہے کہ اردو زبان نے ابتدا میں جن چشموں سے توانائی حاصل کیا اور جو مدت تک اس پر روک دیے گئے، انھیں پھر سے رواں کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو زبان کی توانائی جن چشموں کی مرہونِ منت ہے اُن میں لفظیات کا ایک ایسا ذخیرہ بھی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بعض عوامل کے پیش نظر متروک ہو گیا، اور دلچسپ و عجیب امر یہ ہے کہ ان الفاظ میں سے بیشتر پاکستان کی مقامی زبانوں سرائیکی، پنجابی، ہندکو اور گوجری میں اب بھی مستعمل ہیں۔

اس سلسلے میں ایک لغت ’’اردو کے خوابیدہ الفاظ ‘‘ کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں، جس میں مرکزی اردو بورڈ نے ان تمام الفاظ کا ذخیرہ جمع کیا ہے جو کسی دور میں اردو زبان میں مستعمل تھے لیکن فی زمانہ اُن کا چلن موقوف ہے اور انھیں مقامی زبانوں ہی کے الفاظ سمجھا جاتا ہے۔ اس لغت کی ابتدا میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ:

’’ان الفاظ نے خدا جانے کب اور کس وجہ سے اپنی حر کی قوت کھو دی کہ انھیں لغت کے اوراق میں روپوش ہونا پڑا اور ان کی روپوشی کے بعد کوئی انھیں اپنے بیان کی داستان سرائے میں واپس بھی نہ لا سکا۔ ‘‘(۳۵)

ظفر اقبال کے تجربات کا ایک پہلو مذکورہ خوابیدہ الفاظ ( جنہیں متروک نہیں قرار دیا جا سکتا ) کا غزل کے راستے اردو زبان میں واپس لانا بھی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں یہ خوابیدہ الفاظ ایک بار پھر بیدار نظر آتے ہیں :

تکمے کھلے ہوئے کسی کالی قمیض کے

بوٹے بنے ہوئے کسی شب شرم شال پر

جڑا آرزو نے بڑے جوکھموں

عمارت نئی میں پرانا پتھر

روایت سے بغاوت کے لیے روایت سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے، اسی طرح زبان کے تجربات، اجتہادات اور شکست و ریخت کے لیے زبان کے قواعد اور اس کے تشکیلی عوامل سے بھی واقف ہونا ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں ظفر اقبال کا اپنا خیال ہے کہ:

’’اگر آپ زبان کے اصولوں کو اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اسے توڑنے پر مجبور ہوتے ہیں تو بھی پہلے آپ کو زبان کے تقاضوں، اس کی نزاکتوں اور لطافتوں سے پورے طور پر بہرہ مند ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اپنی کم علمی اور کم آگاہی کو ایسے تجربات کے حوالے سے کوئی بھی شعری تجربہ تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہے۔ بار بار گرنے کا امکان سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے یار لوگ زیادہ تر اس جوکھم میں پڑتے ہی نہیں۔ ‘‘(۳۶)

ظفر اقبال نے زبان کے تجربات کا جوکھم قبول کیا ہے اور اس سلسلے میں زبان کے قواعد سے آگاہی کا ثبوت بھی دیا لیکن اُن کے بعض تجربے ایسے بھی ہیں جن میں قابلِ گرفت حد تک لغزشیں پائی جاتی ہیں۔ یہ ایسی لغزشیں ہیں جو زبان کی ناروّا حَد تک تخریب کی مثالیں ہیں۔ اس سلسلے میں الف کے اضافے سے لفظوں کی ہیئت بدلنے کا تجربہ قابلِ ذکر ہے :

سیدھے سیدھے شعر کہتے سب کو خوش آتے ظفرؔ

کیا کیا جائے کہ اپنی عقل میں افتور تھا

نم نشیں تھی سرمئی سلوٹ کی سنگ آمیز سطح

ایک فٹ کے فاصلے پر دو سفید اگلاب تھے

زبان کا ارتقائی عمل متقاضی ہے کہ لفظوں کی شکل اس طور پر تبدیل ہو کہ وہ مختصر ہو جائیں تاکہ وہ اور زیادہ سہولت سے بولے جا سکیں، جیسا کہ عربی قاعدے میں اگر بعض الفاظ کے شروع میں الف استعمال ہو تو ضرورت کے تحت الف کو حذف بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ابراہیم کو براہیم اور افلاطوں کو فلاطوں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ظفر اقبال نے اس کے معکوس کام کیا ہے کہ بعض لفظوں کے ساتھ حرف الف ویسے ہی جوڑ دیا ہے۔ یہ عمل غلط ہے کہ درست اس سلسلے میں ماہر لسانیات فیصلہ دے سکتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ زبان کے ارتقا کے اصول کے یہ سخت خلاف ہے۔

ظفر اقبال نے الف کا استعمال حرف اضافت کے لیے بھی کیا ہے۔ مثلاً

ویراں تھی رات چاند اپتھر سیاہ تھا

یا پردۂ نگاہ سراسر سیاہ تھا

افراتفری مچی ہوئی تھی

خوشبو اچراغ بجھ گیا تھا

الف کا بطور حرفِ اضافت استعمال کسی لسانی اصول کے پیش نظر نہیں کیا گیا اور یہ زبان کی شکست و ریخت کے سلسلے میں ایک انتہا پسندانہ رویہ ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ’’زبان کے بندھن پوری طرح توڑ سکنے کے باعث شاعر کو خود پر شدید غصہ ہے اور وہ زبان کے آہنی در و دیوار سے سر ٹکرا کر اس غصے کا اظہار کر رہا ہے۔ ‘‘(۳۷)اپنے غصے کا اعتراف خود ظفر اقبال بھی ان لفظوں میں کرتے ہیں کہ ’’میں نے گلافتاب جو کام کیا ہے اُس کا ایک مقصد زبان سے متعلقہ بعض بندشوں کو ایک جھٹکے سے توڑ دینا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ انتہا پسندانہ بھی تھا اور جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ موت دکھاؤ تاکہ زحمت قبول کی جا سکے۔ ‘‘(۳۸)

زبان کی شکست و ریخت کا ایسا اہتمام اگرچہ ناروا سلوک ہے تاہم یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ رویہ ایک شاعر کا ہے اور ’’ شاعر زبان کے ساتھ اس طرح کھیلتا ہے جس طرح بچہ ماں کے بدن سے کھیلتا ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ زبان پر تشدد اور توڑ پھوڑ بھی روا رکھتا ہے۔ ‘‘(۳۹)

محمد اظہار الحق نے دو قسطوں کے ایک کالم میں یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ ’’میرے پاس اگروقت ہوتا اور ہمّت ہوتی تو گلافتاب کی ازسرنو کتابت کرتا اور جہاں جہاں نیا چولا غرابت دکھا رہا ہے وہاں وہاں پرانا پیراہن فٹ کرتا۔ ‘‘(۴۰)

محمد اظہار الحق نے اپنی اس خواہش کی تکمیل ایک غزل کی حد تک کی ہے جو کچھ یوں ہے۔ ’’گلافتاب ‘‘ میں غزل کا متن :

سورج دریا میں گر رھیا تھا

میں دور سے چھپ کے دیکھتا تھا

پیڑوں پہ ہوئی تھی برف باری

پتھرا پہاڑ بچ رھیا تھا

بادل اسیاہ سر زمیں پر

بجلی ادرخت سا ا گیا تھا

مچھلی باہر گئی ہوئی تھی

پانی امکان بے صدا تھا

افراتفری مچی ہوئی تھی

خوشبو اچراغ بجھ گیا تھا

اندھی تھی انتظار آنکھیں

ساون میں ہر طرف ہریا تھا

سر میں تلوار سی چلی تھی

سینے پر پھول سا کھلیا تھا

دیدار نامہ بر کبوتر

آنکھوں کے گھر مرا پڑیا تھا

محمد اظہار الحق نے اس متن میں یوں ترمیم کی ہے :

سورج دریا میں گر رہا تھا

میں دور سے چھپ کے دیکھتا تھا

پیڑوں پہ ہوئی تھی برفباری

پتھر کا پہاڑ بچ رہا تھا

بادل کی سیاہ سرزمیں پر

بجلی کا درخت سا اگا تھا

مچھلی باہر گئی ہوئی تھی

پانی کا مکان بے صدا تھا

افراتفری مچی ہوئی تھی

خوشبو کا چراغ بجھ گیا تھا

اندھی تھیں انتظار آنکھیں

ساون میں ہر طرف ہرا تھا

سر میں تلوار سی چلی تھی

سینے پر پھول سا کھلا تھا

دیدار کا نامہ بر کبوتر

آنکھوں کے گھر مرا پڑا تھا

یہ محمد اظہار الحق کے مشورے پر عمل پیرائی کا نتیجہ ہے یا خود ظفر اقبال کا احساسِ سہو کہ ’’گلافتاب ‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں مذکورہ غزل کا متن ہو بہو شائع ہوا جیسا کہ ترمیم کی گئی ہے۔ اس ایڈیشن کے ساتھ ظفر اقبال نے یہ توضیح بھی کی ہے کہ ’’موجودہ ایڈیشن میں اُس لسانی جکڑ بند کو قدرے ڈھیلا کر دیا گیا ہے کیونکہ اس کے بیشتر مقاصد حاصل کیے جا چکے ہیں۔ مثلاً باقی معاملات کو جوں کا توں رکھتے ہوئے جہاں پنجابی کی جگہ اردو افعال کو بحال کیا ہے وہاں کے کئی بجائے الف کے استعمال کو ترک کر دیا گیا ہے۔ ‘‘(۴۱)

ظفر اقبال نے لسانی تجربات کے سلسلے میں جس شدت کا مظاہرہ کیا، اُس کے خلاف ردِّ عمل بھی اتنی شدت کے ساتھ ہوا۔ چنانچہ جہاں ان کوششوں کو ’’بے تکے تجربات ‘‘(۴۲) قرار دیا گیا وہاں گلافتاب کو ظفر اقبال کا ’’ذہنی اختلال ‘‘ (۴۳)بھی کہا گیا بلکہ اُن کی ان مساعی کو نفسیاتی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہوئے ’’ٹریجک نا آسودگیوں کا ردِّ عمل ‘‘(۴۴) بھی سمجھا گیا۔

شہزاد احمد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ’’ظفر اقبال محض ردِّ عمل ہے۔ اُس نے فرض کر لیا ہے کہ فرد ایک نئی زبان بنا سکتا ہے۔ یہ رویّہ انتہا درجے کی انفرادیت اور ذاتی خول میں محبوس ہونے کی دلیل ہے۔ ‘‘(۴۵)

ظفر اقبال کے لسانی تجربات کے حوالہ سے یاسمین حمید کا ایک مفصّل مضمون(۴۶) لائق توجہ ہے جس میں ان تجربات کی محض تردید نہیں کی گئی بلکہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ بعض سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔ وہ کہتی ہیں :

۱۔       کیا ہمیں ( غزل میں ) یہ تبدیلیاں راتوں رات کر دینی چاہیے ؟

۲۔      کیا ہمیں اس نازک اور عمدہ صنف کو شاعری کی ایک کھردری شکل میں بدل دینا چاہیے ؟

۳۔     کیا ہمیں غزل میں دوسری زبانوں کے الفاظ بہ زور ٹھونسنے چاہییں ؟

۴۔     کیا ہمیں مصرعہ سازی کے وقت قواعد کی واضح غلطیاں کرنی چاہییں ؟

۵۔     کیا ہمیں اس قسم کے شعر لکھنا شروع کر دینے چاہییں ؟

دیدار کا نامہ بر کبوتر

آنکھوں کے گھر مرا پڑا تھا

مذکورہ سوالات کے جوابات ظفر اقبال نے ایک تحریر میں دیے ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ غزل میں جس تبدیلی کی وہ کوشش کر رہے ہیں۔ اُس کے لیے وہ ۳۵ سال سے کوشاں ہیں اور ۳۵ سال کو ایک رات نہیں کہا جا سکتا۔ نرم و نازک اور سوز وگدازسے معمور شاعری در اصل وہ پر تصنع شاعری تھی جس کے خلاف نئے شاعروں نے علم بغاوت بلند کیا۔ مسئلہ کھردری شاعری کا نہیں بلکہ کھردرے الفاظ کو سلیقے کے ساتھ استعمال کرنے کا ہے۔ اردو زبان یا کسی بھی دوسری زبان کا کوئی لفظ اجنبی یا ناقابلِ استعمال نہیں بشرطیکہ اُس کا چلن عام ہو جائے اور اس میں زیادہ دیر بھی نہیں لگتی۔ قواعد کی غلطیاں کرنے کے لیے توڑ پھوڑ پر ایمان اور حوصلہ چاہیے اور زبان سے آزادیاں وہی شاعر لے سکتا ہے جواس کی توفیق بھی رکھتا ہو۔ ‘‘(۴۷)

ظفر اقبال کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ اُن کے لسانی تجربات محض زبان کی شکست و ریخت نہیں بلکہ تعمیر آئندہ کا پیش خیمہ ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی ان کوششوں کو نئے ذائقوں کے زخم قرار دے کر جہاں اپنی کاوشوں کے نتائج کا فیصلہ وقت پر چھوڑتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ :

ظفرؔ یہ وقت ہی بتلائے گا کہ آخر ہم

بگاڑتے ہیں زباں یا زباں بناتے ہیں

وہاں اس تیقّن سے بھی سرشار ہیں کہ:

نہیں کہ ذوق سماعت بیاں کے بعد ہوا

زباں کا معجزہ قطع زباں کے بعد ہوا

’’گلافتاب ‘‘ کے بعد ظفر اقبال کے لسانی تجربات میں شدت دیکھنے میں نہیں آتی تاہم ایسا نہیں ہے کہ ’’زبان کے بارے میں اُن کا رویہ تذبذب کا شکار ہو گیا ہے۔ ‘‘ (۴۸) بلکہ انتظار حسین کا یہ خیال قرین حقیقت ہے کہ ’’ظفر اقبال کے لسانی تجربوں کے بعد کی شاعری زبان کی بغاوت کے اثرات سے خالی نہیں۔ ‘‘(۴۹) جس کا ثبوت اُن کی غزل میں بے تکلفی کا نمایاں عنصر ہے۔

یہ بے تکلفی صرف زبان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ لہجے اور اسلوب کے ساتھ بھی ہے، چنانچہ ظفر اقبال کے لسانی تجربے اپنی وسیع تر شکل میں اردو غزل میں اسلوب کی تبدیلی کی بھی ایک کاوش بن گئے ہیں اور جو اکھاڑ پچھاڑ انھوں نے زبان اور اُس کے قواعد کے حوالے سے کی ہے، وہی غزل کی روایتی اسلوب اور لہجے کے ساتھ بھی روا رکھی ہے۔ جیسا کہ ظفر اقبال نے اوپر کے بیان میں اپنی اور اپنی معاصر نسل کی اُس بغاوت کا ذکر کیا ہے جو سوز و گداز، تغزل اور نرم و ملائم لہجے کے خلاف رونما ہوئی کہ غزل کی یہ وہ صفات ہیں جن کا امکان بروئے کار لایا جا چکا ہے اور اب غزل کا اسلوب ان اوصاف میں محدود رہ کر محض دہرائے جانے کے عمل سے دوچار ہے۔ لیکن متعدد شعرا ایسے ہیں جو روایت کی اس نزاکت کا ادراک اور غزل کی نئی شعریات کی ضرورت کا احساس نہیں رکھتے۔

ظفر اقبال اُن غزل بافوں کو جو روایت کی لکیر سے سرِ مو انحراف نہیں کرتے، شدید طنز کا نشانہ بنایا ہے کہ غزل کے یہ وہ نادان دوست ہیں جو اس صنف کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اُن کے نزدیک غزل گوؤں کی یہی وہ روایت پرستی ہے جو اس صنف کے لیے امکانات کو محدود کر چکی ہے چنانچہ صنفِ غزل کے معترضین کے اعتراضات و خدشات بھی غلط نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ (غزل کو ) نیم وحشی صنفِ سخن کہا گیا ہے۔ جب کہ میں خود غزل گو ہونے کے باوجود اسے ایک بے ہودہ صنف قرار دیتا ہوں اور وہ اس لیے کہ جو غزل آج لکھی جا رہی ہے وہ اساتذہ کے رنگا رنگ جگالی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ ( بیشتر شعرا ) محض اپنی ذاتی ضرورت، نام و نمود یا بے کار مباش کچھ کیا کر کے تحت کشتوں کے پشتے لگائے چلے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ حرام ہے جو بنیادی شعری دسترس حاصل ہونے کے باوجود کبھی انھیں ایک کھینچی ہوئی لے کر سے ایک قدم آگے بڑھنے توفیق ہوئی ہو۔ انھوں نے شعر میں کوئی نیا نظریہ دینے کا تکلف کیا ہو یا اپنے ہم عصر وں سے مختلف ہی ہونے یا نظر آنے کی کوئی کوشش کی ہو یا کبھی ان حضرات نے سوچا ہو کہ غزل کے اس مردے کو آخر کتنی بار زندہ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ یہ تو بہت دور کی بات ہے کہ اس صنفِ سخن کی قلبِ ماہیت ہی اس طور کی جا سکے کہ اس کی کہولت اور یبوست ہی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ ہمارے بعض حضرات لے جنڈ بنے پھرتے ہیں۔ حالانکہ رعایتی نمبر دینے کے بعد بھی وہ زیادہ سے زیادہ تیسرے درجے کے شاعر قرار پا سکتے ہیں کیونکہ شاعری کا اصل معیار وہ نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے جو ہمارے ہاں نافذ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ اُن کی شاعری اُن کے اندر سے اُٹھنے کے بجائے اُن پر بنی بنائی ہی وارد ہوتی ہے۔ فی الاصل وہ اپنے کسی سینئر کا نقلی ایڈیشن ہوتے ہیں یا قطعاً غیر شعر کی بنیاد پر اہمیت حاصل کر پاتے ہیں۔ ‘‘(۵۰)

ظفر اقبال نے ادبی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے روایت کے ڈھرے پر چلنے والے شعرا پر نثر کے علاوہ شعری پیرائے میں بھی کیا ہے :

سخن سرائی تماشا ہے، شعر بندر ہے

خدا کی مار ہے شاعر نہیں مچھندر ہے

شاعر وہی شاعروں میں اچھا

کھا جائے جو شاعری کو کچا

یہ طنزیہ و مضحکہ خیز صورتِ حال صرف ادبی فضا میں نہیں بلکہ من حیث المعاشرہ ہر شعبۂ زندگی میں پھیلی ہوئی ہے :

جس نے چوری کی تھی سو پچاس پر چھوڑا اُسے

جو سڑک پر جا رہا تھا اُس کو اندر کر دیا

عدالت ہے حکومت کی خود اپنی

حکومت پر کرے کیا کوئی دعویٰ

ہوئی صحّت رعایا کی ذرا ٹھیک

پڑے بیمار جب سلطان سنجر

ہوئی میعاد ممبری کی ختم

رہ گئے لال دین سے لالو

بین جب سے بجا رہا ہوں ظفرؔ

میرے چاروں طرف ہے کیا کیا بھینس

یہی صورت ہے اب، کتاب اُس کے

سر پہ دے مار اور کَہ اقرا

ساری مایوسیوں کا ایک علاج

یعنی ایم اے کے بعد کیجئے لا

رشوت سے بنے ہوئے مکاں پر

لکھو ہٰذا من فضلِ ربی

تجربات کے زیر اثر ظفر اقبال کی غزل کے اس نوع کے اسلوب کے خلاف بھی تنقیدی سطح پر ایک بھر پور رد عمل سامنے آیا۔

یہاں ایک شعری مجموعے کا حوالہ برمحل ہو گا جو ڈفر اقبال کے فرضی نام سے ’’سہ روزہ ہذیان‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ یہ مجموعہ اس حوالہ سے دلچسپ و عجیب ہے کہ اس میں شامل تمام غزلیں ظفر اقبال کے شعری لہجے کی پیروڈی ہیں۔ اس کی اشاعت کا مقصد جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ ثابت کرنا تھا کہ ظفر اقبال جس نوع کی غزل کَہ رہے ہیں وہ سوائے ہذیان گوئی کے اور کچھ نہیں۔

اس مجموعۂ کلام میں غزلوں کی تعداد ۳۲ ہے جبکہ آخری غزل چو غزلہ یوں کل تعداد ۳۵ہے۔ اس کتاب میں ظفر اقبال کے تجربات کی تحریف کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

جس کے پیچھے لاکھ حیلے کر لیے

اُس نے آگے سے وسیلے کر لیے

اس سے پہلے کہ کتر جاتا کوئی

ہم نے اپنے کان ڈھیلے کر لیے

سادہ پانی ہی پلایا ہے تمہیں

نین کیوں تم نے نشیلے کر لیے

دیگ میں تو ایک دانہ بھی نہیں

ہم نے کیوں آگے پتیلے کر لیے

اس طرح روئے ہیں دریا کے خلاف

آنسوؤں سے ہونٹ گیلے کر لیے

شاعری کی ناک میں دم کر دیا

جب گلے ہم نے سریلے کر لیے

زر ہے اک نیلی سیاہی کی دوات

خواہشوں سے ہاتھ نیلے کر لیے

جو طبیعت صاف کرتا ہے مری

جمع اُس جھاڑو کے تیلے کر لیے

رکھ دیا سوجی کا حلوہ سامنے

دانت جب ہم نے نکیلے کر لیے

بات تو تھی دو دلوں کے درمیاں

کیوں اکٹھے دو قبیلے کر لیے

منہ نہیں کالا کیا ہم سے ڈفر

اُس نے اپنے ہاتھ پیلے کر لیے

سہ روزہ ہذیان میں جہاں اس نوع کی غیر سنجیدہ غزلیں تخلیق کی گئی ہیں وہاں بعض اشعار اس نوع کے بھی ہیں :

میری مفتوح تمہیں دیکھیں گے فرصت میں کبھی

تمہیں جیتا ہے مگر دل نہیں ہارا اپنا

کھلی آنکھوں سے ہاتھ آنے نہیں پاتے کئی منظر

یہ آنکھیں بند کر لو اور نظارہ کھول کر دیکھو

اک دیے کے لیے ترستا ہے

جل بجھی خواہشات کا مدفن

درج بالا نوعیت کے اشعار کے حوالہ سے ’’سہ روزہ ہذیان ‘‘کے دیباچہ نگار نے اس افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ’’ڈفر اقبال (یعنی ظفر اقبال ) نے یہ جنگ لڑتے ہوئے اپنے انتہائی خوبصورت شعر بھی ضائع کر دیے ہیں۔ ‘‘(۵۱)

ظفر اقبال کے اچھے شعروں کی مستقبل میں رائے گانی کے خطرہ سے قطع نظر یہ سوال ضرور توجہ چاہتا ہے کہ اگر تمسخرانہ تحریف کی اس کوشش سے اتنے اچھے اشعار سرزد ہو سکتے ہیں تو اصل تجربات اپنے اندر کتنے خوشگوار امکانات رکھتے ہوں گے۔

ظفر اقبال پر سب سے بڑا اعتراض یہ وارد کیا جاتا ہے کہ اُن کے تجربوں میں اشعار اتنے تمسخر آمیز ہو گئے ہیں کہ مزاحیہ محسوس ہوتے ہیں۔ غزل میں مزاح اور شگفتگی کے عناصر بھی رہے ہیں لیکن اس قدر تضحیک اور ٹھٹھہ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ ان غزلوں کو سنجیدہ شمار ہی نہیں کرتے بلکہ مزاحیہ کلام سمجھتے ہیں۔ اسی مغالطے کے پیش نظر ایک انٹرویو میں ظفر اقبال سے اُن کی مزاحیہ شاعری کی بابت بھی سوال کیا گیا۔ ‘‘(۵۲)

یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے تاہم اس کے بعض پہلوؤں کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔ ظفر اقبال کے ہاں تمسخر کی ایک صورت تو اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ غزل میں ایسے قافیے لاتے ہیں جن کے استعمال کا گماں تک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ استعمال چونکہ پہلی بار اور خلافِ توقع ہوتا ہے۔ اس لیے مزاح کا احساس فطری ہوتا ہے۔

تمسخر اور مزاح کی دوسری صورت اُس وقت سامنے آتی ہے، جب اُن الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو مروّج اردو میں سنے، پڑھے نہیں جاتے اور انھیں مقامی زبانوں کے الفاظ سمجھا جاتا ہے یا وہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک فطری معاملہ ہے کہ جب مغلوب زبان کا لفظ غالب زبان کے جملے میں استعمال کیا جاتا ہے تو وہ مزاحیہ محسوس ہوتا ہے۔

ظفر اقبال کے ہاں تمسخر کے حوالے سے یہ پہلو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ یہ ردِّ عمل کی شاعری ہے۔ ایک ایسا ردِّ عمل جو روایت کے محدود الفاظ، گھٹے ہوئے اسلوب اور شاعرانہ و غیر شاعرانہ کی ناروا پابندیوں کے خلاف ہے۔ اس لیے ظفر اقبال کے اشعار میں آزادی کی خواہش بہت کھل کر سامنے آتی ہے۔ گویا وہ ناروا پابندی کے برعکس ناروا آزادی کو زیادہ روا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ وہ غزل کی گھٹن کو دور کرنے کے لیے ہر نوع کا لفظ، لہجہ اور اسلوب اختیار کرتے ہیں۔

مذکورہ نکات کے علاوہ ایک اور پہلو جس کی طرف ظفر اقبال نے خود اشارہ کیا ہے بھی لائق توجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں :

’’ شاعری ویسے بھی اب محض رونا پیٹنا نہیں ہے، جیسا کہ اسے مستقل طور پر بنا دیا گیا ہے۔ اور جہاں غیر ضروری طور پر ملبوس و مستور کر کے اسے بے روح اور بے بس کر دیا گیا ہے، وہاں اسے ہم عصر زندگی سے بھی دور تر کر کے اسے ایک فالتو چیز بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شاعری میں شاعر کی شخصیت کا پورا اظہار نہیں ہو پاتا، جس سے شاعری کا خون کی کمی کا شکار ہونا قدرتی بات ہے۔ غزل کے موضوعات میں بہجت و بشاشت کو ٹکسال باہر کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ عملی زندگی میں ہنسی مذاق اور فقرے بازی کا خوگر شاعر جب شعر کہنے بیٹھتا ہے تو باقاعدہ با وضو ہو کر شاعری اور سنجیدگی کو ہم معنی بنا دیا گیا ہے اور شعر میں شوخی اور مسرت کے پہلو کو مزاحیہ قرار دے کر اسے نا شاعری قرار دے دیا گیا ہے۔ ‘‘(۵۳)

غزل میں بہجت و بشاشت کے سکے چلاتے ہوئے وہ بعض اوقات ایسے انتہا پسندانہ رویے بھی اختیار کرتے ہیں کہ ’’اپنی ہی کھیتیاں خراب کرنے ‘‘ (۵۴) لگتے ہیں لیکن دوسری طرف آزادی الفاظ، اسلوب کی کشادگی اور تمسخرانہ انداز کے تجربات سے ایسے اشعار بھی نکالے ہیں جنھیں روایت پسند بھی رد نہیں کر سکتے۔ باوجود اس کے کہ ان اشعار کے الفاظ غزل کی روایت کا حصہ نہیں رہے۔ ایسا اسلوب اس سے پہلے اختیار نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسے الفاظ و اسلوب کی دامنِ غزل میں گنجائش سمجھی جاتی رہی ہے، لیکن ظفر اقبال نے اس سلسلے میں اپنے ہنر کو آزمایا ہے :

اک ذرّہ محرمی کی خاطر

چھانا ہے بدن کا چپا چپا

ہے ساری مصیبتوں کا منبع

زخموں پہ تسلیوں کا پھنبا

ٹکراؤ لہو کی لہر پر ہو

روٹھے جسموں کا ہو مینوا

جذبات کی بھیڑ تھی کچھ ایسی

کھوّے سے چھل رہا تھا کھوّا

مجھے باہر کے الجھیڑوں سے کیا کام

مجھے کافی ہے اندر کا ستاوا

کپڑے پہناؤں کیا سخن کو

سر پر مرے آسماں ہے ننگا

نہ چمکی اُس بدن کی دھوپ دم بھر

رگوں میں جم گیا سارا دسمبر

خیر جعلی ہے کہ فرضی ہے میاں

رکھ تو لو وصل کی عرضی ہے میاں

اُسی چوکھٹ پہ پڑا رہتا ہے

دل ہے کیا کیجیے غرضی ہے میاں

سفرِ خواب کا صلہ مانگیں

سوجتے پیر، کانپتی ٹانگیں

آگ دو دن میں ہو گئی ٹھنڈی

حضرتِ دل دکھا گئے جھنڈی

مجھے کبڑا نہ سمجھو زندگی پر

میں ہنستے ہنستے دہرا ہو گیا ہوں

مدت سے حسرتوں کی کمائی پہ ہے بڑا

یہ دل کہ مانتا نہیں کنجر کسی طرح

ہر نوع کے لفظ اور اسلوب کے برتنے سے غزل کو نقصان بھی پہنچا ہے مگر یہ خسارہ اُس منفعت کا عشرِ عشیر بھی نہیں جس کے باعث یہ صنف خوف کے حصار سے باہر آئی۔ ان تجربات سے وہ گھٹن دور ہوئی ہے جو اس پر مصنوعی انداز سے طاری کر دی گئی۔ ظفر اقبال نے اپنے تجربوں سے غزل کو ’’کھلی فضا میں سانس لینے ‘‘ (۵۵)کے قابل بنا دیا ہے۔ ایک ایسی کھلی فضا جو بہت اوگھٹ گھاٹیوں کے بعد میسر آئی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ’’زبان کی شکست و ریخت، قافیے ردیف کی آزادیوں اور لفظیاتی بے راہ رویوں کے بعد اُن کے لہجے میں ایک خاص قسم کی سہولت در آئی۔ ایسی سہولت شاید ہی کسی اور غزل گو کو حاصل ہو(۵۶) تاہم یہ سہولت ایسی بھی نہیں جیسا کہ ’’سہ روزہ ہذیاں ‘‘ میں دعویٰ کیا گیا ہے (۵۷)کہ:

تین دِنوں کی چھٹی لے کر دفتر سے

ایک کتاب کی غزلیں پوری کرتے ہیں

ظفر اقبال نے خود کو تجربوں کی مشکل میں ڈال کر اردو غزل کے لیے جو سہولت کی راہ پیدا کی ہے اُس کی صرف ایک مثال ’’عیب و ہنر ‘‘ کی یہ غزل ملاحظہ ہو:

ہوا کے ہاتھ پہ رکھا ہوا معاملہ ہے

سو یہ ہمارا تمہارا بھی کیا معاملہ ہے

کبھی ملیں بھی تو موسم کی بات کرتے ہیں

ہمارا اُس کا تعلق ہی لا معاملہ ہے

ہمیں تو اُس سے محبت ہے، یہ تو مانتے ہیں

اُسے نہیں ہے تو یہ اک جدا معاملہ ہے

ہمارے واسطے منزل معاملہ نہیں عشق

سو جس قدر بھی ہے بس راستہ معاملہ ہے

یہاں ہمارے نہ ہونے میں اور ہونے میں

زیادہ فرق نہیں، ایک سا معاملہ ہے

کچھ اُس کی بزم میں جانے سے تو نہیں ان کار

بس اُس کے ساتھ ہمارا ذرا معاملہ ہے

ہمارا کام تو یلغار ہے محبت کی

رہا بچاؤ تو یہ آپ کا معاملہ ہے

ابھی یہ راز کسی پر نہیں کھلا کہ یہ کھیل

بشر معاملہ ہے یا خدا معاملہ ہے

فساد ہوتا ہی رہتا ہے اُس گلی میں ظفرؔ

پر اس دفعہ تو کوئی دوسرا معاملہ ہے

ارد و غزل میں ظفر اقبال کے تجربات کا ایک پہلو تسلسل خیال کے حوالے سے بھی ہے۔ غزل کی ہیئت میں ہر شعر اپنا الگ معنی رکھنے کے ناتے ایک علاحدہ فکری اکائی رکھتا ہے، سوائے اس کے کہ غزل مسلسل ہو یا اُس کے بعض اشعار قطع بند ہوں۔

ایک غزل گو کی حیثیت سے ظفر اقبال بھی اسی نظریے کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’پوری غزل کو ایک اکائی بنانے یا تسلیم کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ اس کا ہر شعر نہ صرف مکمل اکائی ہوتا ہے بلکہ اسے ایک مکمل نظم بھی کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘(۵۸) ’’غزل کا ہر شعر مختلف موضوع پر محیط ہو سکتا ہے بلکہ بعض اشعار مضمون اور معنی کے لحاظ سے متضاد بھی ہو سکتے ہیں۔ ‘‘(۵۹)

غزل کی یہ وہ صفت ہے جس کے باعث یہ صنف مرغوب بھی ہے اور معتوب بھی۔ غزل کے مخالفین نے جس پہلو پر سب سے زیادہ اعتراض وارد کیا ہے وہ غزل میں تسلسل کی کمی کا فقدان ہے۔ عہدِ سرسید کے ناقدین سے لے کر عہدِ جدید تک غزل پر اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو ۷۰ فیصد مخالفت کی بنیاد اس کی ریزہ خیالی ہے۔

۶۰ء کی دہائی میں اردو ادب کی مجموعی صورت کو دیکھا جائے تو شعری حلقوں میں جدید نظم کے تصور نے اپنی گرفت اتنی مضبوط کی ہوئی تھی کہ جدید شاعری کا مفہوم جدید نظم ہی کے حوالے سے متعین کر دیا گیا تھا اور ایک بار پھر نظم گو اور نظم پرست ناقدین غزل کو ہدفِ تنقید بنانے لگے۔ ظفر اقبال نے اس سلسلے میں جہاں اعتراضات کے جواب دیے وہاں یہ بھی کوشش کی کہ نظم اور غزل کے مابین فاصلے کم کیے جائیں تاکہ اردو شاعری میں یہ مصنوعی محاذ ختم ہو۔

اس حوالے سے نظم گوؤں نے بھی کوئی مصالحت کا قدم اُٹھایا کہ نہیں یہ ایک سوال ہے لیکن ظفر اقبال نے اپنے طور پر غزل کا ایک ایسا نیا ہیوالا بنانے کا تجربہ کیا کہ غزل کو نظم کے قریب لایا جائے۔

تسلسل خیال کے تجربے کے حوالے سے ظفر اقبال بہت پر امید ہیں کہ ’’یہ (غزل) نظم کے زیادہ قریب آ رہی ہے اور اگر اس کا یہ ارتقائی سلسلہ جاری رہا تو دونوں صنفوں کے درمیان نہ صرف ایک دوسرے کو برداشت کرنے بلکہ اس طرح کی ہم وجودیت کی صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ‘‘(۶۰)

ظفر اقبال غزل کو نظم کے قریب لانے کے سلسلے میں اس لیے بھی پریشان نظر آتے ہیں کہ اُن کے خیال میں ’’غزل کا ترجمہ کسی دوسری خصوصاً بین الاقوامی زبان میں نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کے نزدیک غزل شاعری کی وہ واحد صنف ہے جس کا کسی غیر ملکی زبان میں ترجمہ کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ اس کے مخصوص اشارے اور اصلاحات ترجمہ کی ہی نہیں جا سکتیں، چنانچہ جدید غزل کی نئی عمارت تعمیر کرتے وقت اس بات کا خصوصی خیال رکھا جانا ضروری ہو گا کہ اس میں تبدیلی لائی جانے کی کوشش کی جائے۔ ۔ ۔ جدید غزل میں تسلسل خیال کی روایت پہلے ہی سے موجود ہے جو اس طرح بھی شکل پذیر ہو سکتی ہے کہ کسی بھی غیر ملکی شائق ادب کو اس کا ترجمہ پڑھتے وقت کسی تعجب یا جھنجلاہٹ کا احساس نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ہما و شما کا کام نہیں ہے کہ غزل کے ساتھ یہ سارا کچھ بھی کر گزرا جائے اور اس کے بعد بھی غزل، غزل ہی رہے۔ ‘‘(۶۱)

غزل میں تسلسلِ خیال کے تجربات کے حوالے سے ظفر اقبال کے مذکورہ خیالات محلِ نظر ہیں اور اس سلسلے میں بعض سوالات جواب طلب ہیں :

۱۔       غزل اور نظم کو قریب لانے کی کوشش غزل گو ہی کیوں کریں جبکہ اس مصنوعی مغائرت کا سوال نظم گو اٹھاتے ہیں ؟

۲۔      غزل کو نظم کے قریب لایا ہی کیوں جائے جبکہ اس کی اپنی ایک ہیئتی پہچان ہے اور یہ اپنا الگ مزاج بھی رکھتی ہے ؟

۳۔     کیا نظم کی بعض دیگر اصناف کے سلسلے میں بھی کبھی کوئی ایسی کوشش سامنے آئی ہے کہ انھیں قریب لایا گیا ہو؟

۴۔     کیا ایک صنف کو کسی دوسری صنف کے قریب لانے سے اُس صنف کی کسی کمزوری پر قابو پایا جا سکتا ہے ؟

۵۔      غزل کے بارے میں یہ پریشانی کیوں ہے کہ اس کا ترجمہ کسی دوسری بین الاقوامی زبان میں نہیں ہو سکتا جبکہ اس سلسلے میں کام ہو چکا ہے اور یہ کوشش بہت کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ اردو غزل نہ صرف بین الاقوامی زبانوں میں بلکہ بعض مقامی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے اور کسی غیر اردو قاری نے اس کی ہیئتی اوصاف پر تعجب کا اظہار نہیں کیا۔

۶۔       کیا ترجمے کے سلسلے میں محض غزل ہی کے مخصوص علائم و رموز ہی رکاوٹ ہیں ؟ حالانکہ یہ مسئلہ بین الاقوامی طور پر ہر زبان کی اُن شعری اصناف کے ساتھ ہے جو تہذیبی طور پر اپنی زمین کے ساتھ ایک تمدنی وابستگی رکھتی ہیں۔

۷۔      کیا غزل میں تسلسل خیال قائم کرنے سے رموز و علائم کا ترجمہ ممکن ہو جائے گا؟

۸۔     کیا غزل کی مخصوص ہیئتی پہچان کو محض اس لیے مسخ کر دیا جائے کہ وہ دوسری زبان میں ترجمہ نہیں ہو سکتی؟

۹۔      غزل کے بارے میں بعض غزل گو کیوں احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ اردو نظم کی تمام اصناف شکستہ ہو کر جس ایک ہیئت میں وجود پذیر ہوئی ہیں وہ آزاد نظم ہے۔ جس کا اسلوب، لب و لہجہ اور لفظیات کی ترتیب و تشکیل کاسارا نظام غزل ہی سے مستعار ہے۔

مذکورہ سوالات کے علاوہ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ غزل میں تسلسلِ خیال کے جدید تجربات کے باعث یہ صنف نظم کے تو قریب نہیں آ سکی البتہ اس کے بعض صنفی اوصاف کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ چنانچہ ظفر اقبال، اُن کے بعض معاصرین اور متعدد جدید غزل گوؤں کے ہاں یہ مسئلہ نظر آتا ہے کہ اُن کی غزل میں ایک شعر بطور اکائی اپنا کوئی وجود نہیں رکھتا۔ اُن کی پوری غزل تو ایک خاص حد تک لطف یا ذائقہ رکھتی ہے لیکن جوں ہی کسی ایک شعر کو الگ کر پڑھا جائے تو وہ پھیکامحسوس ہوتا ہے۔ جدید غزل کا یہ ہیولا مستقبل میں اس صنف کی کیا شکل بنائے گا، یہ سوال آئندہ کے لیے بہت سے خدشات کا حامل ہے۔

غزل اور نظم کے مابین حدِ فاصل کم کرنے کی کوشش ظفر اقبال کی متعدد غزلوں میں نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے ’’عیب و ہنر ‘‘ میں شامل دو غزلیں قابلِ توجہ ہیں جن میں سے ایک غزل۱۱۱جبکہ دوسری ۱۵۴ اشعار پر مشتمل ہے۔

ظفر اقبال نے غزل اور نظم کی قربت کے لیے مسلسل غزل کا ایک اہم اور بھرپور تجربہ ’’ہے ہنومان‘‘ میں کیا ہے، جس میں اس دیومالائی کردار کو مختلف سماجی استعاروں میں برت کر عصری صورت حال کی ہمہ جہت زاویوں سے عکس کشی کی ہے۔

اس نوع کا تجربہ اس سے پہلے اختر احسن زین غزلوں کی صورت میں بھی کر چکے ہیں جو ’’گیا نگر میں لنکا‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوئی ہیں۔ ہنومان کو جن عناصر کا استعارہ بنایا گیا ہے اُن میں :

۱۔      ڈارون کے نظریہ ارتقا کے مطابق انسان کے آباء و اجداد ہونے کا استعارہ۔

۲۔      ڈگڈگی پر ناچ کر روزی کمانے کے حوالے سے محنت کش کا استعارہ۔

۳۔     بھگتی اور سائنسی قواعد پر عبور حاصل کرنے کی بدولت ایک عالم اور فلسفی کا استعارہ۔

۴۔     ملکی بزنس کی رعایت سے شہوت پرستی کا استعارہ جو بین الاقوامی جنگوں میں محکوم قوموں پر جبریب کا احاطہ بھی کرتا ہے۔

۵۔     بندر بانٹ کے حوالے سے قسّامِ رزق کا استعارہ، جس کی فطرت میں استحصال کا رویہ ہے۔

۶۔      کاندھے پر گرز رکھنے اور جنگل کا سردار ہونے کے ناتے جنگل کا قانون یعنی مارشل لا بلکہ خاکی رنگ کے وجود کی رعایت سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا استعارہ۔

۷۔      نقال ہونے کے باعث قینچی بردار شاعروں اور ادیبوں کا استعارہ۔

’’ہے ہنومان‘‘ کی غزلوں میں اس کردار کے مذکورہ تمام استعاروں کو ایک وحدت میں برتا گیا ہے۔ ان غزلوں میں ہنومان جی کے کردار سے کس طرح استفادہ کیا گیا ہے اور یہ اشعار لب و لہجے کے لحاظ سے کیا ذائقہ رکھتے ہیں۔ اس کے لیے چند غزلیں ملاحظہ ہوں :

پیڑ پہ چڑھ کے پیڑ ہو گئے

ہنومان جی بھیڑ ہو گئے

کانوں کان سنا سندیسہ

لفظو لفظ کھدیڑ ہو گئے

گھوڑے کو کیا ایڑ لگائی

ساتھ ہی خود بھی ایڑ ہو گئے

ویسے بن گئے جیسے چاہا

سیدھ ہو گئے ٹیڑھ ہو گئے

جون بدل لی ہنومان نے

لالی تھی اب سیڑھ ہو گئے

چھیڑتے چھیڑتے بندریاؤں کو

خود ہی اپنی چھیڑ ہو گئے

اپنے کرتوتوں کے باعث

بچپن میں ہی ادھیڑ ہو گئے

ترت ہمیں بھی ساتھ ملایا

آدھے تھے پھر ڈیڑھ ہو گئے

اچھے بھلے خوشی نندن تھے

اچھی بھلی کھکھیڑ ہو گئے

…………

آپ بھی اب رستے سے ہٹنے والے ہیں

ہنومان جی ! جنگل کٹنے والے ہیں

آسمان کو جاتے ہوئے غبارے بھی

آہستہ آہستہ پھٹنے والے ہیں

بیٹھے ہیں جو دھونس جمائے ہوئے بن پر

وہ بندر آپس میں بٹنے والے ہیں

آپ کے نوکر چاکر بھوکے بندر لوگ

آپ کی جانب آپ جھپٹنے والے ہیں

بندروں کی ہونے والی ہے خود جے کار

ہنومان دنیا میں گھٹنے والے ہیں

عاشق لوگوں نے بھی سوچ رکھا ہے کچھ

اور بساطِ عشق الٹنے والے ہیں

بندر جاتی کے جاتے ہوئے قافلے پر

انھی پاؤں پر آج پلٹنے والے ہیں

آپ کدھر سے نکلیں گے ہنومان جی اب

راستے سب لاشوں سے پٹنے والے ہیں

جن کی مدد کو کوئی نہیں آتا تھا وہ

آپ سے اپنے آپ نمٹنے والے ہیں

……………

آخر ہم یہ کب تک سنتے جائیں

ہنومان جی! آئیں بائیں شائیں

کیسے پہنچیں آپ کے چرنوں تک ہم

بندریاں ہیں آپ کے دائیں بائیں

آپ کے بارے میں کچھ سچی جھوٹی

ہم نے بھی تو سن رکھی ہیں کتھائیں

آپ کو تو کیا فرصت ملتی ہو گی

نسدن ہم ہی آپ کے دوارے آئیں

آپ ہی چالو کر سکتے ہیں ان کو

رکی ہوئی ہیں صدیوں سے جو ہوائیں

ہم ہی کب کے دور سے آئے بیٹھے

ہم کو بھی کبھی اپنا آپ دکھائیں

موسم ٹھیک ہے، بندر چپ ہیں سارے

بندریاں بھی خوش ہیں اور سنائیں

……………

تسلسل خیال کی روایت غزل کا حصہ رہی ہے تاہم اردو شعر و ادب اس وصف پر پہلی بار اصرار حالیؔ نے کیا اور مقدمہ میں غزلِ مسلسل لکھنے پر زور دیا۔ اس تجربے کو اقبالؔ نے بڑی کامیابی سے نبھایا اور اپنے اشعار میں نظم اور غزل کے اوصاف کو باہم ملا دیا۔ مسلسل غزل کے حوالے سے ناصر کاظمی کی ’’پہلی بار‘‘ش کہانی کے رنگ میں ایک ہی زمین اور بحر میں ۲۴ غزلوں پر مشتمل ایک اور منفرد اور مربوط تجربہ ہے۔ ’’ہے ہنومان‘‘ اس سلسلے کی ایک مزید اہم کاوش ہے تاہم اس کی نوعیت اپنے ما قبل تجربات سے قطعی مختلف ہے۔

یہ غزلیں انفرادی طور پر مسلسل اور نظمیہ آہنگ رکھتی ہیں لیکن بحیثیت کل باہم مربوط بھی ہیں اور ایک دوسرے سے جدا بھی۔ ان کے باہمی ربط کا ایک وسیلہ تو ’’ہنومان جی‘‘ ہیں، جن کے اساطیری کردار کے مختلف استعاروں کے گرد ان غزلوں کے اشعار گردش کرتے ہیں اور دوسرا وہ خاص عروضی نظام ہے جس کی بحریں اگرچہ مختلف غزلوں میں قدرے مختلف ہیں تاہم ان کا Rhythmایک دوسرے کے لیے زیادہ اجنبی نہیں۔ ان کے اندراُس غنائیت کا التزام کیا گیا ہے جو بندر نچانے والوں کے اُن خاص کلمات میں ہوتا ہے جو ڈگڈگی کی دھن پر ادا ہوتے ہیں اور بندر اُن پر رقص کرتا ہے یا مختلف شعبوں کی زبوں حالی اور مضحکہ خیز صورت حال کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے جبکہ مختلف استعاروں کو ایک وحدت میں ڈھال کر اردو غزل کے ایمائی اسلوب کے جوہر کو بڑے منفرد انداز سے آزمایا گیا ہے۔

تسلسل خیال کے حوالے سے ظفر اقبال کے ہاں دوسرا اہم تجربہ ’’تکوین ‘‘ کی غزلیں ہیں جن میں زمان و مکاں کے عمل اور نظامِ آفاق کا ادراک حاصل کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ ان غزلوں میں عناصرِ کائنات کے باہمی ربط اور اُس کے نتیجے میں تخلیقی عمل کی تفہیم اور اُس کا شعری اظہار مسلسل غزل کے پیرائے میں کیا گیا ہے :

گردش کرتی ہوئی زمین

جیتی مرتی ہوئی زمین

ٹوٹتے ہوئے تاروں سے

ہر دم ڈرتی ہوئی زمین

آسمان کی سیڑھی سے

روز اترتی ہوئی زمین

کبھی رواں رہی ہے ظفرؔ

کبھی ٹھہرتی ہوئی زمیں

کچھ زمیں، کچھ آسماں پر ہوں

جانتا ہوں میں کہاں پر ہوں

وقت آگے اور ہے آگے

میں ابھی پچھلے نشاں پر ہوں

بھاگتے سے ابر کے نیچے

دوڑتی سی کہکشاں پر ہوں

ہوں ظفرؔ، آدھا خلاؤں میں

اور آدھا خاک داں پر ہوں

ظفر اقبال نے ’’سرِعام‘‘ کے فلیپ پر لکھا ہے کہ ’’میں مسلسل اُس پیرائے کی تلاش میں ہوں جو صحیح معنوں میں شاعری کے شایانِ شان ہو۔ ‘‘(۶۲)

اردو غزل میں ظفر اقبال کے تجربات در اصل اسی تلاش کے سفر سے تعبیر ہیں۔ وہ اس سفر کے مراحل میں زبان کے آگے بھی سینہ تان کر کھڑے ہوئے، زبان کو سر پہ بھی اٹھایا اور زبان پر سوار ہو کر بھی سخن کیا۔ پرانی پنکچوئیشن کو پٹخ پاٹا، اور زبان کے خوابیدہ الفاظ کو بیدار کیا، نئے الفاظ کے داخلے اور نئی تشکیل کے تجربے بھی کیے چنانچہ ’’ اردو کے پرانے چاہنے والے جو جمود کے شوقین تھے اور اردو کو اُس درخت کی طرح پالنا چاہتے تھے جو دوسال کا ہو کر بھی سوافٹ سے اونچا نہیں ہوتا، ایسے اردو نوازوں کو بڑا دکھ ہوا۔ انھوں نے پکار پکار کر زبان دانی کے جملہ کوائف و ضوابط سے ڈرایا۔ وہ سجاوٹ، وہ ست رنگ خوش پوشی جس سے اردو کا دامن سج رہا تھا، اُس پر اعتراض کیا۔ ۔ ۔ ‘‘(۶۳) لیکن ظفر اقبال کسی ہر اس میں پڑنے کے بجائے اپنے تجربوں کے امکانات کی تلاش میں آگے بڑھتے گئے۔

زبان کی تنگ دامانی دور کرتے ہوئے ظفر اقبال نے غزل کے روایتی اسلوب پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ تغزل، سوز و گداز اور ملائمت کو غزل کی Out Datedاور پیش پا افتادہ صفات قرار دیا اور نیا لب و لہجہ بنانے کی کوشش کی۔ حبس اور گھٹن کی فضا سے نکلنے کے لیے ایسے بھی مصرعے تراشے جو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہ تھے اور شعر کے ساتھ ایسی بو العجبیاں برتیں کہ روایت کے علمبردار انگشت بدنداں بلکہ سر پکڑ کے رہ گئے چنانچہ ظفر اقبال کو جس نوع کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا وہ بہت شدّت کا حامل تھا۔

ابتدا میں اُن کی لسانی کوششوں کو اردو زبان اور اسلوبیاتی مساعی کو اردو غزل کے لیے خطرہ سمجھا جانے لگا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُن کے تجربات کی رد و قبولیت کے سلسلے میں مباحث کا آغاز ہوا۔ اردو غزل کی روایت کی تکرار اور یکسانیت کے تناظر میں ان تجربوں کی بنیاد، ماہیت اور اثرات پر گفتگو ہوئی چنانچہ جہاں مخالفت کا غبار بیٹھنے لگا وہاں داد و تحسین کے بھی ڈونگرے برسنے لگے اور پھر تنقید نے ایسا رخ بدلا کہ تحسین اس حد کو پہنچی انھیں فراقؔ، فیضؔ اور ناصرؔ کی تلافی، نئی غزل کا جبرئیل اور جدید غزل کا پیغمبر تک قرار دیا گیا۔ ‘‘ (۶۴)

شمس الرحمان فاروقی نے تو بہت پہلے یہ اعلان بھی کرا دیا تھا کہ ’’دیوان غالب‘‘ کی اوّل اشاعت (۱۸۴۱ئ) کے بعد اردو غزل کی تاریخ میں دوسرا انقلابی قدم ’’گلافتاب ‘‘ کی اشاعت (۱۹۶۶) تھی۔ ‘‘(۶۵)

یہ تنقیدی آرا مبالغہ پر مبنی ہو سکتی ہیں لیکن اس اعتراف سے گریز ممکن نہیں کہ جدید تر غزل کے تار و پود اور اس کی اسلوبیاتی تشکیل میں زیادہ تر عناصر وہی تاباں ہیں جن کا ماخذ ظفر اقبال کا تخلیقی اثاثہ ہے۔ ’’اگر وہ آبِ رواں کی حدود میں رہتے تو معترضین کو موقع کم ملتا لیکن پھر جدید غزل کی وہ توسیع اور جگہ جگہ سے تعمیرِ نو بھی نہ ہوتی جو ظفر اقبال کے ہاتھوں انجام پائی۔ ‘‘(۶۶)

ظفر اقبال کے تجربوں کو اُن کی ذات کے حوالے سے دیکھیں تو انھیں کسی تجربے کی ناکامی پر نا امیدی اور کسی تجربے کی کامیابی پر کوئی احساسِ تعلّی نہیں بلکہ اپنے تجربات کی شدّت اور حدّت پر ایک تحیّر اور استفسار طلبی ضرور ہے کہ:

بہتی ہوئی چاروں طرف آواز پگھل کر

کیا رہ گیا دیکھو مرا انداز پگھل کر

ناچار ظفر گرمی گفتار کے ہاتھوں

کچھ اور ہوئے جاتے ہیں الفاظ پگھل کر

……………

 

 

 

 

(۳)

 

۶۰ء کی دہائی میں اردو غزل کو بہت سے صاحبِ اعتبار نام میسر آئے تاہم اسلوب اور زبان کے تجربوں کے سلسلے میں جن غزل گوؤں نے اپنی الگ شناخت متعین کروائی اُن میں جون ایلیا، انور شعور، شکیب جلالی، اقبال ساجد، سلیم شاہد، مراتب اختر، ناصر شہزاد، ریاض مجید، صلاح الدین محمود اور اختر احسن کی غزل کا تنوع قابلِ ذکر ہے۔

جونؔ ایلیا کی جس شعری ماحول میں پرورش و پرداخت ہوئی وہ ماضی کے تہذیبی ورثے کا امین اور اردو غزل کی روایت میں پیوست تھا، جون کا تخلیقی اثاثہ بھی اُس روایت سے الگ نہیں ہے لیکن اُن کی غزل کا لب و لہجہ اور اسلوب صنوبر کی طرح ہے جو باغ میں آزاد بھی ہے اور پابہ گل بھی۔

وہ جس تخلیقی و تہذیبی ماحول سے تعلق رکھتے تھے، شہر کے جدید تقاضوں کے باعث شکست و ریخت کا شکار ہو گیا چنانچہ جون ایلیا کی غزل میں اسلوب کے حوالہ سے قابل ذکر پہلو وہ رثائی انداز ہے جو اُن سے پہلے غالبؔ، اقبالؔ اور منیر نیازیؔ کی غزل میں ملتا ہے، تاہم کھوئے ہوؤں کی جستجو نے اُن کے شعروں میں ایک مختلف پیرائے کی تشکیل کا سامان بھی بہم پہنچایا ہے۔ اک طور دہ صدی جو بے طور ہوا تو جون کی غزل یوں رثا آمادہ ہوئی :

جادۂ شوق میں پڑا قحطِ غبارِ کارواں

واں کے شجر تو سر بہ سر دستِ سوال ہو گئے

جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش

اب کئی ہجر ہو چکے، اب کئی سال ہو گئے

پیلے پتوں کو سہ پہر کی وحشت پرسہ دیتی تھی

آنگن میں ایک اوندھے گھڑے پر بس اک کوّا زندہ تھا

یہ نغمہ سماعت کر اے مطربِ کجِ نغمہ!

ہے نعرۂ یا قاتل در حلقۂ بسمل ہا

سوختگاں کا ذکر کیا، بس یہ سمجھ کہ وہ گروہ

صرصرِ بے اماں کے ساتھ دست فشاں گزر گئے

کیا وہ بساط الٹ گئی، ہاں وہ بساط الٹ گئی

کیا وہ جواں گزر گئے ؟ ہاں وہ جواں گزر گئے

اک طورِ دہ صدی تھا جو بے طور ہو گیا

اب جنتری بجائیے تاریخ گائیے

جو حالتوں کا دور تھا، وہ تو گزر گیا

دل تو جلا چکے ہیں، سو اب گھر جلائیے

اپنا کمال تھا عجب، اپنا زوال تھا عجب

اپنے کمال پر درود، اپنے زوال پر سلام

تلاش کے اس سفر میں وہ کردار بھی غزل کا حصہ بنے ہیں جو گمشدہ تہذیب کا استعارہ ہیں :

پہنچی ہے جب ہماری تباہی کی داستاں

عذرا وطن میں تھی کہ عنیزہ وطن میں تھی

کوہکن کو ہے خود کشی خواہش

شاہ بانو سے التجا کیجے

آفرینش ہی فن کی ہے ایجاد

یہی بابا الف کا ہے ارشاد

اردو غزل میں تیکھے تیوروں کا اسلوب کوئی نیا تجربہ نہیں لیکن جون نے اس سلسلے میں کچھ ایسی لفظیات کا اہتمام کیا ہے کہ اسے اردو غزل کی طنزیہ روایت کی تقلیدِ محض نہیں کیا جا سکتا:

حاصلِ کُن ہے یہ جہانِ خراب

یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں

وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

چبا لیں کیوں نہ خود اپنا ہی ڈھانچہ

تمھیں راتب مہیّا کیوں کریں ہم

لب ترے ہشت اور ترے پستان ہشت

ہشت جاناں جان، جانان جان ہشت

بیچ میں کیا ہے ؟ فقط شرمِ وجود

ران ازل اور ابد کی ران ہشت

حضورِ موئے زیرِ ناف یہ دل

عجب کم بخت تھا، نامرد نکلا

جدید اردو غزل میں زبان کے تجربوں کے حوالہ سے جون کے ہاں دو باتیں قابلِ ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ انھوں نے بعض اُن الفاظ کا احیا کیا جو اردو غزل میں متروک ہو چکے تھے۔ دوسرا یہ کہ ’’عربی اور فارسی کی اچھی تعلیم کے باعث غزل میں عربی اور فارسی کے نامانوس الفاظ و تراکیب کے استعمال میں اُن کے یہاں جھجھک نہیں ملتی۔ ‘‘(۶۷)کلاسیکی اردو غزل کی لفظیات کے احیا کے حوالے سے اُن کے یہ اشعار قابل توجہ ہیں :

مرا اک مشورہ ہے التجا نئیں

تو میرے پاس سے اس وقت جا نئیں

بے دلوں کو نہ چھیڑیو کہ یہ قوم

امّتِ شوقِ رائگاں خوں ہے

تو اگر آئیو تو جائیو مت

اور اگر جائیو تو آئیو مت

ہے مرا یہ ترا پیالۂ ناف

اس سے تو غیر کو پلائیو مت

سویرے ہی سے گھر آ جائیو آج

ہے روزِ واقعہ باہر نہ رہیو

عربی فارسی روایت سے مستعار چند الفاظ ملاحظہ ہوں :

حضرتِ زلفِ غالیہ افشاں

نام اپنا صبا صبا کیجے

ہم نفسانِ وضع دار، مستمعانِ بردبار

ہم تو تمہارے واسطے ایک وبال ہو گئے

شکرِ خدا شہید ہوئے اہل حق تمام

برگستوانِ و تیغ و تبر خیریت سے ہیں

جونؔ نے عربی فارسی الفاظ کے ساتھ بعض تجربے بھی کیے ہیں اور بعض الفاظ کو اردوایا بھی ہے :

انتظاری ہوں اپنا میں دن رات

اب مجھے آپ بھیج دیجیے گا

وہ پسِ دریچہ کب سے ہے اس آرزو میں یارو

کہ جمے گلی ذرا میں صفِ طعنہ بر زباناں

اے دل! وہ بتِ شنگل، کیا طرف ادا ہو گا

میں ذکر سے جس کے ہوں، یاں مجلسیاں انگیز

جون ایلیا کی ایک غزل تجربات کے حوالے سے بہت قابل توجہ ہے، جس میں جدید صنعتی زندگی کا عکس اور جدید انسان کی پیکر تراشی، علامتی انداز میں کی گئی ہے۔ غزل کی ردیف ’’مشین ‘‘ ہے :

ہار آئی ہے کوئی آس مشین

شام سے ہے بہت اداس مشین

دل دہی کس مشین سے چاہے

ہے مشینوں سے بدحواس مشین

یہی رشتوں کا کارخانہ ہے

اک مشین اور اُس کے پاس مشین

ایک پرزا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا

اب رکھا کیا ہے تیرے پاس مشین

عہد حاضر کا انسان اپنے باطن میں کیا طوفان لیے پھرتا ہے ؟ اُس کی ذات کس کرب سے آشنا ہے ؟ وہ دوسروں کے بارے میں کیا سوچتا ہے ؟ اپنے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے اور اس مجموعی صورت حال وہ اپنی موجودگی کا مفہوم کیا رکھتا ہے ؟ جدید اردو غزل ان سوالوں کے جواب مختلف سطحوں پر دیتی ہے اور ہر نئے غزل گو نے اپنے داخل و خارج کو اس آئینے میں دیکھ کر اُس کا عکس شعروں میں اتارا ہے تاہم انور شعور نے اس عمل میں دوسرے شعرا کی نسبت اپنے تخلیقی جوہر کو قدرے منفرد انداز میں آزمایا ہے اور اس مقصد کے لیے اردو غزل میں ایک خاص تجربہ کیا ہے۔

انور شعور کا اثاثۂ غزل دیکھا جائے تو زیادہ تر ایسی غزلیں ملتی ہیں جن میں ردیف متکّلم کا صیغہ ہے اور وہ اس ردیف کے تسلسل میں اپنے بارے میں استفسار طلب نظر آتے ہیں۔ کہیں یہ استفہام صرف اپنی ذات سے متعلق ہے اور کہیں پوری کائنات کو پوچھا گیا ہے :

کس قدر رسوائیاں ہیں میرے ساتھ

کیا بتاؤں کس قدر تنہا ہوں میں

اچھوں کو تو سب ہی چاہتے ہیں

ہے کوئی؟ کہ بہت برا ہوں میں

متکّلم کی ردیف کے تکرار کے باعث جدید غزل میں وہ ’’واحد متکلّم کا شاعر‘‘(۶۸) کہلاتے ہیں اور اُن کا سرمایۂ غزل ’’ ذات نامہ ‘‘ (۶۹) قرار دیا گیا ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں کہ وہ اپنی ذات کے اسیر ہیں بلکہ یہ فی الاصل تلاش اور دریافت کا ایک عمل ہے۔ اپنے آپ کو پہچان کر کائنات کا ادراک حاصل کرنا اور پھر کشفِ ذات کے اس مرحلہ سے گزرنا جہاں خالق و مخلوق کے مابین پردے حائل نہیں رہتے۔

ممکن ہے انور شعور کا فکری میلان تصوف کی طرف بھی ہو لیکن اُن کی غزلیں تصوف سے زیادہ اُس تفکر میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہیں جن میں ذہن جدید گمشدگی کے المیے سے دوچار ہونے کے بعد ڈوبا ہوا ہے۔ دورِ حاضر کا بنیادی نفسیاتی مسئلہ انسان کے گم ہو جانے کا ہے۔ چنانچہ انور شعور غزل میں متکلّم کی ردیف کی تکرار سے خود کو تلاش کر کے انسان کے خدوخال واضح کرنا چاہتے ہیں۔ اُسے اُس کی اپنی پہچان اور شناخت دینا چاہتے ہیں۔ ’’باطن کی اس کھوج کو انور شعور نے اپنی غزلوں کا اوّل و آخر قرار دیا ہے۔ ‘‘(۷۰)

اُس سے کہنے کی جا، میں نے مجھ سے کہا

جو بھی کہنا ہوا، میں نے مجھ سے کہا

جب بھی آپس میں کی، بات اس کے لیے

تو نے تجھ سے سنا، میں نے مجھ سے کہا

کہنے والا بھی میں، سننے والا بھی میں

میں نے مجھ سے سنا، میں نے مجھ سے کہا

اپنا اور اپنے عہد کے انسان کا کرب غزل میں اتارتے ہوئے اُن کے لہجے میں طنز و تعریض کی اُس نشتریت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جس کی تلخی میں شدت زہر ناک حد تک ہے۔ اُن کی غزل ’’ ننگی صداقتوں کو اجاگر کرتی ہے اور ایک الگ ہی ذائقے اور کمال کی مظہر ہے۔ ‘‘(۷۱)

آگ ہے اور سلگ رہی ہے حیات

راکھ ہوں اور بکھر رہا ہوں میں

بیٹ کر جاتی ہے چڑیا فرق پر

عظمتِ آدم کا آئینہ ہوں میں

بچنا ہے محال اس مرض سے

جینے کے مرض میں مبتلا ہوں

انور شعور کے اس لب و لہجے کے بارے میں نظیر صدیقی نے لکھا ہے کہ ’’اُن کی ذات میں ایک کھردرا پن ہے جو اُن کی شاعری میں کہیں بے شرم سچائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور کہیں انسان کے اُس رویے کی جس میں تعریض و تضحیک ملی ہوتی ہیں۔ ‘‘(۷۲)

انور شعور کی غزل میں طنز کے زاویوں کو دیکھیں تو ان کا ہدف دوسرے کم اور اپنی ذات زیادہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنے ایک مضمون میں بڑے اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’جدید غزل میں ایک احساس پیدا ہو رہا ہے کہ معاشرے کے گناہ خود ہمارے گناہ ہیں اور ہمارا ریاکار قاری ہمارا ہم شکل بھائی ہے۔ ‘‘(۷۳)

سلیم احمد نے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں دیگر غزل گوؤں کا حوالہ دیا ہے وہاں اس سلسلے میں انور شعور کو بنیادی اہمیت دی ہے :

اس میں کیا شک ہے کہ آوارہ ہوں میں

کوچے کوچے میں پھر اکرتا ہوں میں

مجھ سے سرزد ہوتے رہتے ہیں گناہ

آدمی ہوں، کیوں کہوں اچھا ہوں میں

صاف و شفاف آسماں کو دیکھ کر

گندی گندی گالیاں بکتا ہوں میں

کانچ سی گڑیوں کے نرم اعصاب پر

صورتِ سنگِ ہوس پڑتا ہوں میں

مجھ سے پوچھے حرمتِ کعبہ کوئی

مسجدوں میں چوریاں کرتا ہوں میں

خواب آور گولیوں کے راستے

خود کشی کی کوششیں کرتا ہوں میں

بوالہوس ہوں، گناہ گار ہوں میں

سر سے پا تک ترے نثار ہوں میں

فقط دنیا پہ کیا الزام رکھوں

کچھ اپنے آپ میں بھی جھانکتا ہوں

سنے وہ اور پھر کر لے یقیں بھی

بڑی ترکیب سے سچ بولتا ہوں

طریق انساں کا، خصلت جانور کی

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا ہوں

انور شعور اپنی ذات کے فاسقانہ پہلوؤں کے برملا اظہار کے ساتھ اپنے اس روییّ کو انسانی فطرت کا حصّہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں :

دھوکا کریں، فریب کریں یا دغا کریں

ہم کاش دوسروں پہ نہ تہمت دھرا کریں

رکھا کریں ہر ایک خطا اپنے دوش پر

ہر جرم اپنے فردِ عمل میں لکھا کریں

اپنی ذات کو محور و مرکز بنا کر اس طرح اشعار تراشنا کی ایک نقطہ پھیلتے پھیلتے مکان کی وسعتوں اور زماں کی گردشوں کو ہی نہ سمیٹ لے بلکہ کوزہ گرِ ازل کے چاک کا بھی احاطہ کر لے اردو غزل میں یگانہ اسلوب ہے اور ’’عجب نہیں کہ آگے چل کر یہ انداز ہماری شاعری کے ایک بہت بڑے تجربے کا روپ دھار لے۔ ‘‘(۷۴)

۶۰ء کی دہائی میں سامنے آنے والے شعرا میں شکیب جلالی کو ایک خاص اعتبار حاصل ہوا ہے، خصوصاً اُن کی جواں مرگی کے باعث اس امر پر بہت افسوس کیا گیا کہ اردو غزل کا ایک امکان پوری طرح تابندہ نہ ہو سکا۔ اُن کی بعض غزلیں بھرپور تخلیقیت کی حامِل ہیں لیکن اُن کی قدر و اہمیت کے سلسلے میں بعض مبالغے بھی ہمارے تنقیدی رویّوں کا حصّہ بن گئے ہیں۔ اُردو غزل کی تشکیلِ جدید کے سلسلے میں کیے گئے تجربات کے لحاظ سے شکیب کے ہاں کچھ زیادہ حوصلہ افزا پہلو نہیں ہیں، البتہ اردو غزل یگانہؔ کے زیر اثر اور روایت سے ایک بڑی بغاوت کے تحت طنز و تعریض کے جس تیکھے لب و لہجہ سے آشنا ہوئی تھی، شکیب نے اُسے غزل کی روایت سے ہم آہنگ کرنے کی سعی ضرور کی۔ چنانچہ اُن کے ہاں اسلوب میں تندی اور لہجے میں تلخی تو ہے لیکن نشتریت اور زہر ناکی نہیں ہے :

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی میں بوجھ ہوں

چہرے کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ

عالم میں جس کی دھوم تھی، اُس شاہ کار پر

دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس پر

کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا مگر شکیب

رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں

شکیب کے ہاں دوسرا قابل ذکر پہلو وہ منفرد تمثالیں ہیں جو اُنھی سے مخصوص ہیں :

آ کر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر

تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

آج تک اُس کے تعاقب میں بگولے ہیں رواں

ابر کا ٹکڑا کبھی برسا تھا ریگستان پر

کمرے خالی ہو گئے، سایوں سے آنگن بھر گیا

ڈوبتے سورج کی کرنیں جب پڑیں دالان پر

کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں

مہ تاب اپنی قبر کا پتھر لگا مجھے

ساقی فاروقی، جدید تنقید کا بھی ایک معتبر نام ہے۔ تخلیقی حوالے سے ان کی بنیادی پہچان نظم ہے لیکن غزل کا سرمایہ بھی اس اعتبارسے لائقِ توجہ ہے کہ ان کے ہاں لفظ کے استعمال میں نئے لسانی شعور کا رچاؤ اور ایک تیکھا پن دکھائی دیتا ہے :

میں اسے ڈھونڈ رہا تھا کہ تلاش اپنی تھی

اک چمکتا ہوا جذبہ تھا کہ جعلی نکلا

صرف حشمت کی طلب، جاہ کی خواہش پائی

دل کو بے داغ سمجھتا تھا، جذامی نکلا

وہ سحر گورکن ہے، بدن بدحواس ہیں

ہو پتلیوں میں جان تو مردہ نہ جانیے

رات اسکول سے نکلی ہوئی دو شیزہ ہے

جس کے ہاتھ میں ستاروں سے بھرا بستہ ہے

ہر شیلف پر سجے ہیں مگر دشمنوں کے سر

ناداں ! ترا دماغ ہے مقتل نہ کر اسے

۶۰ء کی دہائی میں برصغیر کی سرزمین خاک و خون کے جس بڑے سانحے سے دوچار ہوئی وہ ستمبر ۶۵ء کی جنگ تھی۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس معرکے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ خطۂ پنجاب تھا۔ اس واقعہ نے دونوں طرفوں کے ادب پر بھی اپنا اثر ڈالا تاہم زیادہ تر تخلیقات ہنگامی نوعیت کی ثابت ہوئیں اور پائیدار ادب بہت کم سامنے آیا۔

اس سلسلے میں اردو غزل کے منظر نامے کو دیکھا جائے تو سلیم شاہد نے اس تجربے کو بڑی کامیابی سے تخلیق کے رنگوں میں ڈھالا اور جنگ سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورت حال کو پیرایۂ غزل میں بیان کیا۔ ۶۵ء کی جنگ کے تناظر میں کہی گئی ان غزلوں میں دشمن کے خلاف نفرت، اپنا جذبہ ایمانی، کٹ مرنے کا ولولہ اور شوق شہادت کی سعادت بڑے تخلیقی انداز میں شعر کا رنگ اختیار کرتی ہے :

راستہ چاہیے دریا کی فراوانی کو

ہے اگر زعم تو لے روک لے طغیانی کو

لے یہ طوفاں تری دہلیز تک آ پہنچا ہے

برف سمجھا تھا میں اس ٹھہرے ہوئے پانی کو

سرخ رو ہوں کہ میں اس آگ سے کندن نکلا

شعلۂ خوں نے اجالا مری پیشانی کو

وہ خوں بہا کہ شہر کا صدقہ اتر گیا

اب مطمئن ہیں لوگ کہ دریا اتر گیا

زمیں کو سجدہ کیا خوں سے با وضو ہو کر

میں رزم گاہ سے لوٹا ہوں سرخرو ہو کر

جہاں میں پھیل گئی دودِ شعلہ سے ظلمت

فلک پہ بہ گیا سورج لہو لہو ہو کر

شاہدؔ کہاں سے ہو کے گزرتی ہے آب جو

رنگت تمام سرخ ہے کیوں سطحِ آب کی

سرزمینِ پنجاب میدانی علاقہ ہے اور لہلہاتی فصلوں کے کھیت اس خطے کی زرخیزی کی علامت ہیں۔ ۶۵ء کی جنگ میں بارود کی برسات نے یہاں کے کھیتوں میں بھوک کی جو فصل اگائی اس کی تصویریں بھی سلیم شاہدؔ کی غزل فراہم کرتی ہے :

مٹی ملی ہواؤں سے آتی ہے بوئے قحط

بے رنگ کھیت دیکھ کے چہرہ اتر گیا

بڑھ گئی کچھ اور پیاسی کھیتیوں کی تشنگی

ابر چھایا تھا مگر برسا نہیں جی کھول کر

پھر نئی فصل کا موسم ہے دعا کر شاہدؔ

ابر سیراب کرے خطّۂ بارانی کو

شاعر اس تباہی و تاراجی کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھتا ہے جس میں رجائیت کا رنگ ہے :

آب یاری جو ہوئی ہے تو شجر بھی ہوں گے

تو نے سمجھا تھا غلط خون کی ارزانی کو

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو غزل مزاحمت کے جس لب و لہجے سے آشنا ہوئی قیام پاکستان کے بعد اُس نے کوئی نئی تخلیقی جہت اختیار نہیں کی البتہ ترقی پسند تحریک کا متعین اسلوب مختلف شعرا کے ہاں اپنے اپنے رنگ میں وسعت پذیر ہوا۔ لیکن ۶۰ء کی دہائی میں اقبال ساجد ایسے شاعر ہیں جنھوں نے مزاحمتی شاعری کو منفرد لفظیات اور اسلوب کے تجربے سے غزل کا حصہ بنایا۔ اُن کا لہجہ اپنے بیشتر معاصر شعرا کی طرح کھردرا اور تلخ ہے تاہم اپنی ’’ حیرت انگیز‘‘ قادرالکلامی سے انتہا درجہ کی تلخی کو فن بنایا ہے۔ ‘‘(۷۵)

جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں

ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

کسی بھی شاخ سے خیرات گھر لے کر نہیں آئے

گئے تھے باغ میں لیکن ثمر لے کر نہیں آئے

ہمارے شب زدوں کو قرض کی عادت نہ پڑ جائے

مگر ہم کوئی سوغاتِ سفر لے کر نہیں آئے

وہاں ہر شہر کے پہلو میں اک لوہے کا جنگل تھا

مگر اک شاخِ پیوندی بھی گھر لے کر نہیں آئے

ظفر اقبال نے جدید غزل کے کھردرے پن کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’مسئلہ کھردری شاعری کا نہیں بلکہ کھردرے الفاظ کو سلیقے سے استعمال کرنے کا ہے۔ ‘‘(۷۶) اقبال ساجدؔ کا کمال یہی ہے کہ انھوں نے متعدّد ایسے الفاظ غزل میں استعمال کیے ہیں جو شاعری میں تو کیا عام زندگی میں بھی درشت محسوس ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں اُن کی غزل میں لفظ اور لہجے کی ایسی تشکیل نو ہے کہ کسی شعر یا مصرعے میں کوئی بھی لفظ غیر شعر کے درجہ تک نہیں پہنچتا۔

’’اقبال ساجدؔ نے اپنی غزل میں اُن تمام نئے الفاظ کو برتا جو نئی زندگی کے بنیادی الفاظ ہیں ‘‘(۷۷) اور ان کے استعمال میں ایسی فنی چابک دستی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ’’ایسے لگتا ہے کہ یہ الفاظ سالہا سال سے غزل میں استعمال ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ ‘‘(۷۸)

اقبال ساجدؔ کی غزل میں نئے ذخیرہ الفاظ کو دیکھیں تو نئی شہری زندگی کے جملہ لوازمات کو غزل کا حصّہ بنانے کے لیے بھرپور تخلیقیت نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں ایسے الفاظ بھی نظر آتے ہیں جو تھانہ کچہری کے نظام سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے الفاظ بھی ہیں جو بازار اور ہسپتال کی فضا میں بولے جاتے ہیں۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ اقبال ساجد نے اپنی غزل میں چائے اور دانتوں کا منجن جیسے انتہائی نامانوس الفاظ بھی استعمال کیے ہیں لیکن اپنی ہنر کاری کے باعث ان الفاظ کومانوس بنانے کا امکان روشن کیا ہے :

دکھاوے کے لیے خوشحالیاں لکھتے ہیں کاغذ پر

ہم اس دھرتی پہ ورنہ رزق کے چکر میں رہتے ہیں

گردشِ خوں پہ ہے جب گردشِ دوراں کا اثر

کیوں نہ ساجدؔ تنِ لاغر میں تپِ دق ٹھہرے

شہر کے باغ میں ہو جائے ملاقات تو پھر

کون گلیوں میں رکے، کون پسِ چق ٹھہرے

آڑے وقت میں سایہ ہی کام آتا ہے

خود کو پیچھے اس کو اگاڑی کرتا ہوں

چائے کی پیالی پہ ہاں میں ہاں ملانا پڑ گئی

دوستوں میں خود کو برخوردار بھی کرنا پڑا

تفتیش اپنے ہاتھ میں لے اپنے قتل کی

خود ہی تلاش شہر میں جائے وقوع کر

نئی لفظیات کے علاوہ اقبالؔ ساجد کی ایک غزل قابل توجہ ہے، جس میں شہری زندگی کے تناظر میں زندگی کے گوناگوں رویّوں کی عکس بندی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ غزل کی ردیف ہے ’’کرائے پر‘‘:

حاصل کرو مرے لیے نفرت کرائے پر

لے آؤ سارے شہر کی خلقت کرائے پر

جسموں کی منڈیوں میں سبھی کچھ ملے گا دوست

تنہائی، قرب، لمس و حرارت کرائے پر

کچھ برف برف لوگ پگھلنے کے واسطے

سورج سے چاہتے ہیں تمازت کرائے پر

بھر جائے گی زمین کی صورت فضا بھی کل

اٹھ جائے گی فضا کی بھی وسعت کرائے پر

جائز ہے کاروبار کی خاطر یہاں پہ سب

چندہ کفن کے واسطے، میت کرائے پر

۶۰ کی دہائی میں اردو غزل میں نئی لفظیات کے تجربات کا ایک پہلو انگریزی الفاظ کے استعمال کا ہے۔ اس سلسلے میں بعض شعرا نے اگرچہ اسے بطور فیشن بھی اپنایا لیکن لفظ کی نزاکت کا احساس رکھنے والے تخلیقی شعرا نے انگریزی زبان کے ذخیرۂ الفاظ سے بڑی عمدگی سے استفادہ کیا۔ غزل گو شعرا نے جو الفاظ استعمال کیے یہ ہماری عام معاشرتی زندگی سے الگ نہیں ہیں بلکہ روزمرہ مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ قابلِ اہمیت نام اقبال ساجدہی کا ہے :

رات فٹ پاتھ پہ دن بھر کی تھکن کام آئی

اس کو بستر بھی کیا، سر پہ بھی تانے رکھا

چلتے پھرتے تھیٹروں میں ایک جوکر کی طرح

ہنسنے رونے کا مجھے کردار بھی کرنا پڑا

کیا کروں پتھر کو انجکشن لگانا پڑ گئے

وہ کہ بے حس تھا اُسے بیدار بھی کرنا پڑا

میں نے لوگو اپنی سوچوں کی سمگلنگ آپ کی

جرم جب عائد ہوا ان کار بھی کرنا پڑا

اُگا نہ سبزہ تو اس سے اجاڑ گھر کی منڈیر

پلاسٹک کی ہری بیل سے سجائی دیکھ

اس سلسلے میں اس دہائی ایک خوش آہنگ شاعر رئیس فروغ کی بعض تخلیقی کاوشیں بھی لائق توجہ ہیں جن میں اس نے بعض انگریزی الفاظ کو ’’اردوایا ‘‘ہے :

جیسے ہر شام تجھے روپ بدل کر آئے

میری آنکھوں نے الوژن کو حقیقت سمجھا

شارٹ سرکٹ سے اڑیں چنگاریاں

صدر میں اک پھول والا جل گیا

یہ مرا ہمزاد ہا کر تو نہیں

بیچتا پھرتا ہے سایہ دھوپ میں

جو ہے سو پسنجر ہے مگر فرق تو دیکھو

بیٹھا ہے کوئی بس میں کوئی بس میں کھڑا ہے

انگریزی الفاظ کے تخلیقی استعمال کے سلسلے میں مراتب اختر اور ناصر شہزاد بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے :

وا کھڑکیوں کے چہروں پہ کرٹن دبیز تھے

کمرہ جدید شہر کے منظر سے کٹ گیا

میں فائلوں کے ایک پلندے میں بند تھا

دفتر کی اک دراز کے اندر بکھر گیا

گھبرا گیا ہوں دیکھ کے ٹیلی گرام کو

یہ رت خدا کرے کوئی اچھی خبر سنائے

ٹیبل کے اردگرد کی ہر سانس چونک اُٹھی

میں بات کر رہا تھا کسی خوش اصول کی

کیفے کے ایک کونے میں مصروف گفتگو

مغموم، بے حیات بدن، بے زبان ہے

ان لفظیات کے استعمال کے حوالے سے تبسم کاشمیری نے درست لکھا ہے کہ ’’مراتب نے نئے سماجی رابطوں سے بننے والا ڈکشن استعمال کر کے اپنے عہد کا شعور مہیّا کیا ہے … یہ نیا تہذیبی حوالہ غزل کے لیے نئے شعور کا احساس دلاتا ہے جو طویل جمود کے بعد تجدید حیات کے نئے ڈھانچے میں داخل ہو رہی ہے۔ ‘‘(۷۹)

ناصر شہزاد کو اردو شاعری میں غزل اور گیت کے امتزاج کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے ہندی بحر اور الفاظ کے استعمال سے غزل کو غنائیت کے سلسلے میں ثروت مند رکھا ہے لیکن زبان کے تجربات کے سلسلے میں اُن کی قابلِ ذکر کوشش الفاظ کا وہ سرمایہ ہے جو جدید شہری ماحول کے حوالے سے ہماری زندگیوں کا ناگزیر حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ناصر شہزاد نے غزل کے تخلیقی عمل میں ’’الفاظ کی اُن منظور شدہ فہرستوں کو یکسر منسوخ کر دیا جن کے بغیر کوئی غزل ذی تغزل شمار نہیں ہو سکتی تھی‘‘۔ (۸۰)چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں بعض نئے الفاظ کا جرأت مندانہ اور تخلیقی استعمال اپنی تابانی دکھا رہا ہے :

کمرے کے شیلف پر ہے سجی بدھ کی مورتی

گلدان میں چنی ہوئی جنگل کی گھاس ہے

پھر جسموں پہ بھاری نہ رہے گی یہ شبِ قرب

آ، بار میں ہم بیٹھ کے مے تھوڑی سی پی لیں

دن امتحاں کے، پورا سلیبس، ادھورا عشق

چہرہ ہے فق کتاب پہ کہنی کی ٹیک ہے

۶۰ ء کی دہائی میں اردو غزل میں انگریزی الفاظ کا تجربہ بہت مقبول ہوا اور متعدد شعرا نے اسے تخلیقی سطح پر نبھایا۔ ذیل میں چند اشعار ملاحظہ ہوں جن میں شعرا نے غزل میں دو زبانوں کی غیریت کا پردہ باقی نہیں رکھا اور استعمال کیے گئے انگریزی الفاظ اردو زبان ہی کا حصہ محسوس ہوتے ہیں :

راتوں کو ہانٹ کرتی ہیں یادیں پرانیاں

اے وائے عمر رفتہ کی ریشہ دوانیاں

(انجم رومانی)

کتابِ کفر کا صفحہ کھلا تھا سامنے سب کے

عجب افسانے دہراتی تھی V اُس کے گریباں کی

(ظفر اقبال )

آج شاہدؔ اُس کے دروازے پہ پاؤں رک گئے

ریڈیو بجتا تھا میں سمجھا کہ شہنائی نہ ہو

(سلیم شاہد)

پھر پرانی البمیں چھونے کی بھی فرصت کہاں

کر رہے ہیں جمع یادوں کے ذخائر کس لیے

(ریاض مجید)

چھوڑ خط لکھنا اُسے اب اُس کو ٹیلی فون کر

اُس کا نمبرسکس سیون سکس سیون فور ہے

(نامعلوم)

جدید ڈکشن کے حوالے سے اردو غزل میں تبدیلی کا ایک پہلو جدید ذرائع آمدورفت اور اُن کا نظام بھی ہے۔ ذیل میں چند اشعار ملاحظہ ہوں جو ڈاکٹر ریاض مجید کے مضمون ’’اردو غزل۔ بگھی سے سکوٹر تک‘‘ (۸۱) سے لیے گئے ہیں :

تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتا دیکھ لیتا ہوں

میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشا دیکھ لیتا ہوں

( منیر نیازی)

یہ اور بات آنکھیں مٹی سے بھر گئی ہیں

دیکھے ہیں چند چہرے جاتی ہوئی بسوں میں

( شہزاد احمد)

دن تھے کہ تیری کار کا نمبر بھی یاد تھا

اب ہے کہ ہم کو بھول گیا اپنا نام بھی

(محمود شام)

اب وہ سرخ سی موٹر جانے کس بستی میں ہو گی سہیل

تو کیا نمبر دیکھ رہا ہے آتی جاتی کاروں کے

(سہیل احمد خان)

رکشہ کرا کے دوستو ! وہ گھر چلا گیا

میں بس اسٹاپ ہی پہ اُسے دیکھتا رہا

(مسرور کیفی)

آیا نہیں ہے وہ ابھی ملنے کے واسطے

ہم وقت کاٹتے ہیں ذرا بس اسٹاپ پر

(سلیم بے تاب)

مڑ مڑ کے اپنی سیٹ سے وہ دیکھتی تو ہے

لیکن مجھے اترنا ہے اگلے سٹاپ پر

(عطا الحق قاسمی)

۶۰ء کی دہائی میں تجربات کے سلسلے میں ایک اور اہم کوشش اردو غزل میں جدید علوم کی پیشکش ہے۔ شعرا نے جدید سائنس کی مختلف شاخوں اور نئی اقتصادیات سے وابستہ الفاظ یا اصطلاحات کو اشعار میں استعمال کر کے اردو غزل کے اسلوب کو نئے شعور سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم نام ریاض مجید کا ہے جنھوں نے یہ تجربہ نئے عہد کے علوم اور غزل کی زبان ہر دو معاملے کے عمدہ ادراک کے ساتھ کیا ہے :

میں صدیوں پہلے کا جل بجھ چکا ستارہ ہوں

زمیں پہ آج مگر میری روشنی جائے

رنجِ ناقدری کا دل پر اس لیے گھاؤ رہا

عہدِ فرطِ زر میں اپنا بھی وہی بھاؤ رہا

مختلف سب سے ریاض اپنے غروب اپنے طلوع

دور رہ کے سب سے ہم قطبین ایسے ہو گئے

مجھے اجال گیا آبِ کیمیا غم کا

شبیہ دے گیا وہ اس میں ڈالتے ہی مجھے

جسم کے ہوتے ادھورا ہے تجسس کا سفر

وقت ہو تسخیر، اگر یہ راہ کا پتھر ہٹے

محشرستاں ہیں، ریاض ان خلیوں کی سرگوشیاں

ذہن بھی مجھ کو مشینوں کی ٹھکا ٹھک سا لگا

توصیف تبسم کی غزل میں جہاں صنائع شعری سے مرصّع اسلوب کی آب و تاب ہے، وہاں مذکورہ تجربے کے سلسلے میں اُن کے دو شعر ملاحظہ ہوں، جن میں جدید سائنسی و سماجی علوم کا عمدہ شعری اظہار ہے :

سوال یہ ہے کہ اِن آئنوں کی بستی میں

سفر تمام کرے کس طرح کرن اپنا

اسی طرح یہ شعر جس میں سقوطِ وقت (End of Time) کے نظریے کو بیان کیا گیا ہے :

بس اک دھماکا کہ رات کی سرحدوں کا کچھ تو سراغ پائیں

بس اک چنگاری چاہتا ہو فتیلۂ آفتاب جیسے

بیسویں صدی میں مریخ اور چاند تک رسائی جدید سائنس کے اہم اور حیرت ناک واقعات ہیں جنھیں شعرا نے مختلف زاویوں سے دیکھا اور غزل میں سائنسی شعور اور سماجی شعور کی یک جائی کے ساتھ بیان کیا:

خلا میں سخت زمیں نے تو مجھ کو پھینک دیا

اب اس جگہ سے مری لاش کو اچھالے کون

(زیب غوری)

آشوبِ آگہی ہے کہ تسخیرِ ماہ تاب

انسان گرد بن کے خلاؤں میں رہ گیا

(فضا ابن فیضی)

آنکھیں خلا کی دھند سے آگے کریں سفر

اک نور کی لکیر افق پر نظر تو آئے

(شہر یار)

کرّۂ ارض پر سائنس کے ارتقا کی برکات سے ان کار نہیں لیکن دوسری طرف وہ مسائل بھی پیدا ہوئے جن کا حل دکھائی دیتا۔ اس سلسلے میں ماحول کی آلودگی کا مسئلہ قابلِ ذکر ہے جن کا اظہار شعرا نے منفرد اسالیب میں کیا ہے :

فضاؤں میں وہ آگ تھی اس برس

کہ اڑتے پرندوں کے بھی پر جلے

(والی آسی)

ہے یہاں عکسِ ہوا بھی نایاب

شاخ تو آپ ہی لرزی ہے یہاں

(ظفر اقبال)

۶۰ء کی دہائی میں خورشید رضوی ایسا نام ہے جس کے ہاں تجربات کی کوئی نئی لہر بظاہر نہ ہونے کے باوجود روایت ایک نیا روپ اختیار کرتی ہوئی نظر آتی ہے :

پہیلی زندہ ہے ابہام کے وسیلے سے

کسی کو یاد نہ رہتی جو حل ہوئی ہوتی

دلِ تباہ کو حسرت سے دیکھنے والے

یہی نگاہ اگر برمحل ہوئی ہوتی

چار سمت استادہ، تن کی چار دیواری

اور اس کے پیچوں بیچ ڈولتا مکاں دل کا

مشکل ہے ضبطِ سیلِ سخن بس کہ دوستو

سی لوں اگر لبوں کو تو چھاتی تڑق چلے

۶۰ء کی دہائی میں تجربات کو مجموعی انداز سے دیکھیں تو اردو غزل گو شعرا کے ہاں روایت سے انحراف کا رویہ غالب دکھائی دیتا ہے۔ تہذیبی عقائد ہوں، تمدّنی ضابطے ہوں یا مروّجہ ادبی نظریے نئے شاعر کا ذہن کسی کو تقدس کی نظر سے بہت کم دیکھتا ہے بلکہ معاشرے کے ہر صاحبِ اعتبار پہلو پر اپنے حرفِ ان کار کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ اردو ادب میں بالعموم اور شاعری میں بالخصوص جس قدر نے اہمیت حاصل کی وہ بے سمتی اور بے چہرگی ہے۔ لایعنیت کا احساس اور گم شدگی کا روگ لفظ کی متنوع شکلوں میں ظاہر ہونے لگا۔

اس صورت حال میں بعض غزل گوؤں نے اُس مجرّب سے نسخے کو بھی استعمال کیا جسے مغربی فکر رومانیت اور مشرق کی روحانی فضا تصوّف کا نام دیتی ہے۔ چنانچہ جہاں مروّجہ روایتوں سے ان کار کیا گیا وہاں ماضی قدیم سے بھی لگاؤ کی مختلف شکلیں سامنے آئیں۔ اس حوالے سے صلاح الدین محمود کی بعض غزلیں لائق توجہ ہیں، جن میں صوفیانہ اسلوب کے تجربے کیے گئے ہیں۔ لیکن اُن کا ’’شعری تخیل اور انداز بیان قطعی غیر مانوس ہے ‘‘ (۸۲) یہ غزلیں اُن کے انتہائی مختصر مجموعے ’’کشف قرص الوجود ‘‘ میں شائع ہوئی تھیں :

ساعت ایک بہانہ لب کا

ذات ہوا میں پانا لب کا

صورت ایک طریقہ شب کا

سیرت صوت میں آنا لب کا

صورت شجر اور صدا پرندہ

ساکت ایک ٹھکانہ لب کا

پانی کا میدان فرشتہ

بارش اک انجان فرشتہ

رشتۂ شب سے سیرت جیسا

صورت کی پہچان فرشتہ

حرف بنا جب رنگت لب کی

ہونٹوں کی اک جان فرشتہ

کالی جھیل اور کالا سورج

ہم نے شب میں پالا سورج

لو ہو اندر بینائی کے

اندھے رنگ، اجالا سورج

اجلے اجلے طائر کہتے

صابر شعلوں والا سورج

کالی قدرت والی رات

ساکت دن میں خالی رات

بجھتی صوت فرشتہ بن کر

سوئے بن، ہریالی رات

چاند کی خصلت جیسا چہرہ

چہرے سنگ سوالی رات

۶۰ء کی دہائی میں تجربات جہاں روایت سے انحراف کی مثالیں ہیں وہاں اس سلسلے میں بعض اہم سوالات بھی اُٹھائے گئے۔ اختر احسن روایت سے وابستگی یا علاحدگی کے حوالے سے یہ استفار کرتے ہیں کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ نئے فن کار کا رشتہ روایت سے بہت کمزور ہے تو اس سے مراد کون سی روایت سے ہے ؟ ’’ ہماری ذہنی روایت یا ہمارے آباء و اجداد کی روایت یا اُن کے آباء و اجداد کی روایت سے۔ قبائلی یا بین الانسانی روایت سے، دوسوسال کی روایت سے یا دو لاکھ سال کی روایت سے۔ ‘‘(۸۳)

اختر احسن کے نزدیک اگرچہ جدید شاعر کو زمان و مکاں کی ضخیم کتاب کے کسی ایک صفحے سے کوئی شغف نہیں تاہم غزل میں خود انہوں نے جس نوع کا تجربہ کیا ہے وہ انھیں بدھ مت کی زین روایت سے ملاتا ہے۔

زین در اصل ’’جاپان میں بدھ مت کی ایک شاخ ہے۔ ہندوستان میں اس کی بنیاد دھیان ساکھا ( شاکھا ) کے نام سے پڑی۔ بعد میں یہ مذہب چان (دھیان ) کے نام سے چین میں رائج ہوا۔ چودھویں صدی میں جاپان نے اسے زین کے نام سے قبول کیا۔ ‘‘(۸۴)

اختر احسن نے اپنی غزلیات کو زین غزلیں قرار دیتے ہوئے انھیں اُن تمام خِطّوں کے درد کا عکس کہا ہے جن پر بدھ مت کی اشاعت و قبولیت ہوئی۔ اُن کے بقول :

’’ میری ان زین غزلوں کا میری دھرتی سے ایک بہت پرانا رشتہ بنتا ہے اور وہ ہے ’’بدھ مت‘‘ …اس کا پہلا اصول تھا پرستش کے لائق انسان ہے نہ کہ خدا۔ ایک ’’میں ‘‘ کا لفظ ہی تنہا سب سے بڑا دکھ یا سکھ ہے۔ یہ ’’میں ‘‘ کی کیفیت اور موضوعات زین غزلوں میں ملتے ہیں۔ ‘‘ (۸۵)

زین غزلیں جنھیں ’’غزل کی یک سمتی سے انحراف کی کوشش ‘‘ (۸۶) اور ’’غزل کے تہذیبی محور میں انقلاب لانے ‘‘(۸۷) کی جستجو قرار دیا گیا ہے ایک خاص دیومالائی علامتی نظام میں ایشیائی باشندوں کے دکھ کا اظہار ہیں۔ بیسویں صدی میں دو عظیم جنگوں کے بعد ایشیائی اقوام جس درد اور کرب سے گزری ہیں ان غزلوں میں اسے بعض اساطیری علامتوں کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

زین غزلیں جو اختراحسن کے مجموعے ’’گیا نگر میں لنکا‘‘ میں شائع ہوئی ہیں، تعداد کے لحاظ سے سو ۱۰۰ ہیں اور دو ابواب میں برابر تقسیم کی گئی ہیں۔ پہلا باب ’’گوتم ‘‘ کے عنوان سے ہے جبکہ دوسرے کو ’’راون ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔

زین غزلوں میں گوتم کا گیا نگر اور راون کا لنکا دو متضاد تہذیبوں کی علامتیں ہیں۔

’’گیا نگر‘‘ ایشیائی مشرقی ممالک جبکہ راون کا ’’ لنکا‘‘ اُن تمام غالب اقوام کا استعارہ ہے جن کی جنگی وحشت نے بیسویں صدی کے انسانوں کو عالمی خونی پیکار سے دوچار کیا۔ ان غزلوں کی ابتداء میں اختر احسن نے نئی شاعری کے تین منشور بھی پیش کیے ہیں۔ پہلا منشور ’’شطرنج کی بساط ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ دوسرا منشور ’’تلوار کا فن ‘‘ کے عنوان سے جبکہ آخری منشور کو ’’ناقسمتی ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ گویا کرۂ ارض ایک شطرنج کی بساط ہے اور جیت اُسی کی ہے جو تلوار کا فن جانتا ہے اور بیسویں صدی میں اس فن پردسترس کچھ مخصوص اقوام نے حاصل کی ہے جس کے نتیجے میں ایشیائی ممالک کے باشندے اپنی قسمت سے محروم ہیں۔

اس عالمی مبارزت میں فاتح اقوام کی فتح میں اُن کی طاقت کے ساتھ ساتھ بعض دیگر عوامل بھی شریک ہیں جن میں مذہبی پیشواؤں کا استحصال ایک ایسا عنصر ہے جو تاریخ کے تسلسل کا حصّہ ہے۔

زین غزلوں کو اس گہری معنویت کے تناظر میں دیکھیں تو ’’ گیا نگر میں لنکا‘‘ در اصل ’’ طیّب زمینوں میں شر کی کونپل پھوٹنے کا استعارہ ہے۔ ‘‘ (۸۸)

ذیل میں اس کتاب کے دونوں ابواب سے دو دو غزلیں ملاحظہ ہوں جو گوتم اور راون کے کرداروں کے پس منظر میں عصری معنویت کو اجاگر کرنے کی مثالیں ہیں :

باب ایک۔ ’’گوتم ‘‘

کرنے آئے تھے سیر بدھ جی

دریا کو گئے ہیں پیر بدھ جی

اللہ اللہ تمہارے دم سے

تم ہی ہو حرم اور دیر بدھ جی

نروان تو مل گیا ناں صاحب

ہم کو نہ ملے تو خیر بدھ جی

تم ہی ہمارے ایک دشمن

اک تم سے رکھیں گے بیر بدھ جی

اوّل اوّل بہت تھے اپنے

آخر آخر ہو غیر بدھ جی

نروان کی آخری حدوں میں

پھیلائے ہوئے ہو پیر بدھ جی

شبدوں سے سجی ہوئی ہیں خوابیں

پھولوں سے بھری ہوئی کتابیں

سنگیت میں تیرتے ہنڈولے

رنگوں میں جھولتی ربابیں

جو آئے کھرے کھرے گئے وہ

جو مست تھے پی گئے شرابیں

بدھ جی کے سر سے ڈرنے والے

بدھ جی کے پاؤں جا کے دابیں

اترے تھے جو رات اپنی چھت سے

وہ چوہے کتر گئے جرابیں

باب دو۔ ’’راون ‘‘

جب راون نے بندوق چلائی

چیخن لاگی ساری خدائی

گرجے کال ہے سب کے سر پر

کال سمے ہے کال بھلائی

گلے میں کرموں کی ہے مالا

کالی چولی سادھو بھائی

نکل کے لنکا نگری سے

ایک قیامت روان ڈھائی

سادھو سنت اس دنیا میں

جیسے پانی اوپر کائی

راون نام کو من میں راکھو

راون گرو ہے سب کا سنتو

تن پہ سجاؤ راون مالا

پران جیو یا وید الاپو

کرو گر ران امیری ساتھ

یہ جگ ہے راون کا مو

راون پاس ہے ساری دولت

راون سے جو چاہو لو

رائی سے ہے پربت بڑی

پر راون سے بڑا نہ کو

گوتم اور راون کے اساطیری کرداروں ’’گیا‘‘ اور ’’ لنکا ‘‘کی سرزمین اور ان سے وابستہ علامتوں کے پس منظر میں کہی گئی زین غزلیں اردو غزل کے تجربات کے سفر میں انفرادی شناخت رکھتی ہیں لیکن یہ سارا علامتی نظام انتہائی پیچیدہ اور عدم ابلاغ کے مسئلے کا شکار ہے جسے حل کرنے کے لیے شاعر نے ابتدا میں نئی شاعری کے تین منشور نہایت تفصیل و توضیح کے ساتھ رقم کیے ہیں۔

اختر احسن کی زین غزلوں کے علاوہ باقر مہدی کی کالی غزلیں بھی اس اعتبار سے قابلِ ذکر ہیں کہ ان میں بھی محکوم طبقے کے دکھوں کو سمیٹا گیا ہے لیکن یہ اسلوب یا لفظیات کے لحاظ سے کوئی نیا تجربہ نہیں قرار دی جا سکتیں۔ ان کے تخلیق کار نے انھیں کالی غزلیں غالباً اس لیے قرار دیا ہے کہ یہ اُن سیاہیوں کو موضوع بناتی ہیں جو معاشرے میں جابرانہ اقدار کے باعث پھیلی ہوئی ہیں اور شاعر ان اندھیروں کے خلاف قلمی جہاد کر رہا ہے :

کہتے ہیں زندگی کی ضیا لے گئی ہوا

اور جاتے جاتے کالی گھٹا لے گئی ہوا

لال نیلے ظلم سے ٹکرائیں گے

انقلابی کالے پرچم بار بار

رنگوں کو ڈھونڈ لائے علامت کے جال سے

کالے سے لال رنگ کا اظہار کر گئے

اردو غزل میں تجربات کے حوالے سے بعض شاعرات کی غزل بھی قابلِ توجہ ہے، جس میں نسائی طرز احساس کو اجاگر کرنے کے لیے لفظ اور اسلوب کے تجربے کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اوّلیت اگرچہ ادا جعفری کو حاصل ہے تاہم زہرانگاہ اور کشور ناہید نے ۶۰ء کی دہائی میں اُن کی کوششوں کو وسعت دیتے ہوئے ایسی غزل تخلیق کی، جس میں عہد نو کی عورت کا ایک جیتا جاگتا سراپا سامنے آتا ہے۔ ان شاعرات نے غزل میں صیغۂ تانیث محض اپنی ظاہری صنفی شناخت کے تعیّن کے لیے نہیں کیا بلکہ ایک عورت کے باطن میں نسائی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کے لیے کیا۔

زہرا نگاہ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں جن میں ’’سہاگن کا انبساط‘‘ (۸۹) لفظ لفظ نمایاں ہے :

اُس نے آہستہ سے زہراؔ کہہ دیا دل کھل اُٹھا

آج سے اس نام کی خوشبو میں بس جائیں گے ہم

دل بجھنے لگا آتشِ رخسار کے ہوتے

تنہا نظر آتے ہیں غمِ یار کے ہوتے

آنکھوں میں دیدار کا کاجل ڈالا تھا

آنچل پہ امید کا تارہ ٹان کا تھا

میں تو اپنے آپ کو اُس دن بہت اچھی لگی

وہ جو تھک کے دیر سے گھر آیا، اُسے کیسا لگا

کشور ناہید کی غزل پڑھتے ہوئے اردگرد کی فضا میں گھر کی خوشبو رچی بسی محسوس ہوتی ہے ‘‘(۹۰) اور چہرے کے وہ رومانی رنگ بھی نظر آتے ہیں جو صرف عورت کے خدوخال سے مخصوص ہوتے ہیں اور مختلف کیفیتوں میں اُن کی تبدیلی داخلی احساسات کی ترجمان بن جاتی ہے :

کچھ یوں بھی زرد زرد سی ناہید آج تھی

کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا

دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ

مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں

رات بھی کالے چادر اوڑھے آ پہنچی ہے زینے میں

مہندی لگائے بیٹھی سوچوں لٹ الجھی سلجھائے کون

کیفیّتِ نشاط تھی خود ہی سے گفتگو

ناہید یہ ردا بھی حیا کی تھی کچھ دنوں

منحصر رنگوں کی آتش پر نہیں ہے دل کشی

میلے کپڑوں میں بھی تجھ کو دیکھنے آئیں گے لوگ

۱۹۶۰ء کی دہائی میں اردو غزل میں تجربات کی نوعیّت غیر معمولی ہے۔ اس سے قبل جو تجربے ہوئے وہ غزل کی روایت کے اندر رہ کر کیے گئے جبکہ اس دہائی کے شعراء میں سے بیشتر نے سرے سے روایت ہی سے انحراف کیا اور اسے کئی پہلوؤں سے شک کی نگاہ سے دیکھا۔ ان تجربات نے اردو غزل کی ایسی انقلابی فضا بنائی کہ بعض روایت پسند ناقدین کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ ’’غزل کی کلاسیکیت بحران میں ہے ‘‘ (۹۱) اور اس پریشانی کا اظہار بھی کیا گیا کہ ’’اردو غزل کدھر‘‘ (۹۲) کا رختِ سفر باندھے ہوئے ہے۔ اس دور میں غزل جن رجحانات سے آشنا ہوئی اُن کے پیش نظر اسے نشاۃ الثانیہ کے بعد دورِ زوال سے بھی تعبیر کیا گیا۔

اس امر میں شک نہیں کہ ۶۰ء کی دہائی میں اردو غزل تجربات کے عمل میں انتہا پسندی کا شکار ہوئی۔ غزل میں سنجیدہ روی اور مزاحیہ پن کی حدِّ فاصل ختم ہونے سے غزل پر ہزل کا گماں گزرنے لگا۔ بیشتر شعرا کا انداز اکھڑا ہوا اور لب و لہجے میں کسیلا پن ہے۔ لفظ کھردرے اور مصرعے تند و تیز ہیں۔ یکسانیت سے نکلنے کی کوششوں نے بذات خود ایک یکسانیت کی فضاء پیدا کر دی۔ بعض شعرا کے ہاں ’’ نیا پن ہانپ کر رہ گیا…(اور ) جدّت برائے جدّت اور دھکم پیل میں غزل اپنی زندہ روایت سے کٹ کر رہ گئی۔ ‘‘(۹۳)

لیکن اس حقیقت سے ان کار ممکن نہیں کہ یہ شاخِ بریدہ خزاں رسیدہ و بے ثمر نہیں رہی بلکہ جدید لفظیات و اسالیب کے نہال سے اسے ایسا پیوند لگایا گیا کہ یہ شاخ نہ صرف پھر ہری ہوئی بلکہ اس پر آنے والے ثمر کا ذائقہ بھی مختلف، منفرد اور بے مثال ہے۔

۶۰ء کی دہائی کے تجربات در اصل جدلیات کا عمل ہیں جو غزل کی کہنہ روایت اور منہ زور بغاوت کے مابین ایک ایسی پیکار ثابت ہوئے جس کے بعد اردو غزل کو بالکل ایک نیا اسلوب، نیا لہجہ اور نئی شکل ملی۔ شکست و ریخت اور تخریب کا یہ سارا سلسلہ غزل کی تعمیر نو، تشکیل نو اور تزئین نو کے لیے ناگزیر تھا کہ زندہ روایت محض اپنے آپ کو دہراتی نہیں بلکہ نئی قبولیت کے لیے اپنے رد کا حوصلہ بھی رکھتی ہے کہ ’’رد عمل کچھ مدت گزر جانے کے بعد خود روایت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اگر یہ جدلیاتی عمل جاری و ساری نہ ہوتا تو روایت نئے سرے سے شروع کرنی پڑتی۔ ‘‘(۹۴)

٭٭

 

استفادہ

 

۱       عتیق اللہ۔ مضمون ’’جدید نظم۔ ہیئت اور تجربے ‘‘(مشمولہ ) ’’اردو نظم ۱۹۶۰ ء کے بعد‘‘ (مرتبہ، زبیر رضوی)اردو اکیڈمی دہلی              ۱۹۹۵                                        ص: ۱۰۲

۲      اختر احسن۔ مضمون ’’ نئی شاعری کا منشور‘‘ مشمولہ ’’نئی شاعری‘‘ ( مرتبہ افتخار جالب ) نئی مطبوعات               لاہور ۱۹۶۶                                           ص: ۳۸

۳      ڈاکٹر سید محمد عقیل۔ ’’ نئی علامت نگاری‘‘ انجمن تہذیب نو پبلیکیشنز الہ آباد، سن   ص: ۱۱۵

۴      سلیم احمد۔ ’’بیاض‘‘ ۱۹۶۶                                     ص: ۱۰

۵      سجاد باقر رضوی۔ مضمون ’’ سلیم احمد کی غزل‘‘ مشمولہ ’’روایت ‘‘ نمبر ۴۔ ۱۹۸۶ء        ص: ۱۴۰

۶      فتح محمد ملک۔ مضمون ’’ سلیم احمد کی شاعری ‘‘      ایضاً                   ص: ۱۶۱

۷      ساقی فاروقی۔ ’’بازگشت و بازیافت ‘‘ مکتبہ اسلوب کراچی ۱۹۸۷             ص: ۱۳۴

۸      مجتبیٰ حسین۔ مضمون ’’بیاض پر ایک نظر‘‘ مطبوعہ ’’ فنون‘‘ (جدید غزل نمبر) جنوری ۱۹۶۹ء         ص: ۳۱۷

۹      ایضاً                                          ص: ۳۱۷

۱۰     سجاد باقر رضوی۔ مضمون ’’ سلیم احمد کی غزل ‘‘ مشمولہ ’’روایت ‘‘ نمبر ۴              ص: ۱۴۵

۱۱      سلیم احمد۔ مضمون ’’ روایتی غزل کے بارے میں ‘‘ مطبوعہ ’’نیا دور ‘‘ کراچی شمارہ ۸۰؍ ۱۷۹         ص: ۳۱۷

۱۲     نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل۔ ایک مطالعہ ‘‘                     ص: ۲۲۹

۱۳     ڈاکٹر حنیف فوق۔ مضمون ’’ اردو غزل کے نئے زاویے ‘‘ مطبوعہ ’’ فنون‘‘ (جدید غزل نمبر)        ص:۱۲۰

۱۴     سلیم احمد۔ مضمون ’’روایتی غزل کے بارے میں ‘‘ مطبوعہ نیا دور کراچی                ص: ۳۱۶

۱۵     ڈاکٹر جمیل جالبی۔ مضمون ’’کچھ سلیم احمد کے تخلیقی سفر کے بارے میں ‘‘مشمولہ روایت نمبر ۴         ص: ۱۰۵

۱۶     ڈاکٹر حنیف فوق۔ مضمون ’’اردو غزل کے نئے زاویے ‘‘ مطبوعہ ’’ فنون ‘‘(جدید غزل نمبر )        ص: ۱۳۰

۱۷     بحوالہ سجاد باقر رضوی۔ مضمون ’’سلیم احمد کی غزل ‘‘ مشمولہ ’’ روایت‘‘ نمبر ۴   ص: ۱۳۸

۱۸     نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل۔ ایک مطالعہ‘‘ گلوب پبلشرز لاہور ۱۹۸۴       ص: ۳۶۱

۱۹     انور سدید۔ ’’اردو ادب کی مختصر تاریخ ‘‘ مقتدرہ قومی زبان             ص: ۵۱۳

۲۰     ایضاً                                          ص۵۱۳

۲۱     ڈاکٹر بشیر بدر۔ ’’آزادی کے بعد غزل کا تنقیدی مطالعہ ‘‘       انجمن ترقی اردو دہلی۱۹۸۱ ص: ۱۵۹

۲۲     فتح محمد ملک۔ مضمون ’’سلیم احمد کی شاعری ‘‘ مشمولہ روایت نمبر ۴            ص: ۱۶۳

۲۳    انیس ناگی۔ دیباچہ ’’رطب و یابس‘‘       جنگ پبلشرز لاہور ۱۹۹۱          ص: ۱۳

۲۴    انتظار حسین۔ پیش لفظ ’’عیب و ہنر ‘‘       پاکستان بکس اینڈ لیٹریری ساؤنڈزلاہور      ص: ۱۴

۲۵    ظفر اقبال۔ ’’حالہ نثر ما بشنو‘‘ (غیر مطبوعہ تنقیدی کتاب)            ص: ۱۶

۲۶     فتح محمد ملک۔ ’’تعصبات‘‘                               ص: ۱۵

۲۷    انیس ناگی۔ تعارف ظفر اقبال مشمولہ ’’آٹھ غزل گو ‘‘ (مرتبہ جاوید شاہین)    ص: ۳۵

۲۸    افتخار جالب۔ ابتدائیہ ’’گلافتاب‘‘ گورا پبلشرز لاہور (بار دوم) ۱۹۹۵         ص: ۱۴

۲۹     ظفر اقبال۔ فلیپ ’’گلا افتاب ‘‘

۳۰    ظفر اقبال۔ ’’حالہ نثر ما بشنو‘‘                          ص: ۱۷

۳۱     ایضاً                                          ص: ۷۶

۳۲    ایضاً                                          ص: ۳۱

۳۳    ایضاً                                          ص: ۲۳

۳۴    انشا اللہ خاں انشا۔ ’’دریائے لطافت ‘‘انجمن ترقی اُردو اورنگ آباد ۱۹۳۵  ص: ۳۵۳

۳۵     اشفاق احمد۔ ’’اردو کے خوابیدہ الفاظ ‘‘مرکزی اردو بورڈ لاہور ( بار دوم) ۱۹۷۲  ص: الف

۳۶    ظفر اقبال۔ ’’حالہ نثر ما بشنو‘‘                             ص: ۱۵۸

۳۷    شمس الرحمن فاروقی۔ مضمون ’’طبعِ رواں، منظر معنی اور بے شمار امکان ‘‘ مشمولہ ’’اب تک ‘‘ ( کلیات ظفر اقبال)      ص:۴۶

۳۸    ایضاً                                          ص : ۶۵

۳۹     شمس الرحمن فاروقی۔ مضمون ’’طبع رواں، منظر معنی اور بے شمار امکان‘‘ مشمولہ ’’اب تک ‘‘        ص: ۳۸

۴۰    محمد اظہار الحق۔ ’’تلخ نوائی ‘‘ مطبوعہ ’’روزنامہ پاکستان ‘‘ اسلام آباد ۲۴، ۲۵ اگست ۱۹۹۴ء

۴۱     ظفر اقبال۔ فلیپ ’’گلافتاب ‘‘ ( دوسرا ایڈیشن )

۴۲    نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل ‘‘                         ص: ۵۷

۴۳    سیّد جابر علی جابر۔ مضمون ’’جدید نظم، جدید غزل اور جدید طرز احساس ‘‘ مطبوعہ ’’فنون ‘‘( جدید غزل نمبر )   ص۲۲۶

۴۴    نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل ‘‘                         ص: ۱۳۷

۴۵    شہزاد احمد۔ مضمون ’’غزل اور رد غزل ‘‘ مطبوعہ ’’ فنون‘‘ لاہور جنوری فروری   ۱۹۷۳

۴۶    یاسمین حمید۔ ’’دی نیوز‘‘ اسلام آباد ۵ نومبر ۱۹۹۶ء

۴۷    ظفر اقبال۔ ’’حالہ نثر ما بشنو‘‘                            ص: ۳۷

۴۸    افتخار جالب۔ مضمون ’’ظفر اقبال۔ بیک ٹو ساہیوال ‘‘ آئندہ کراچی شمارہ ۳۳    ص: ۱۱۲

۴۹     انتظارحسین۔ پیش لفظ ’’ عیب و ہنر ‘‘                            ص:۱۴

۵۰    ظفر اقبال۔ ’’حالہ نثر ما بشنو‘‘                             ص: ۸۲۔ ۸۱

۵۱     مقصود وفا۔ ’’سہ روزہ ہذیان ‘‘( ڈفر اقبال کے فرضی نام سے تحریفی غزل کا مجموعہ )      ص:۱۰

۵۲    ابرار احمد۔ مضمون ’’ظفر اقبال کی غزل ‘‘ مشمولہ ’’عبارت ‘‘ (۱) مرتبہ نوازش علی      ص: ۲۱۰

۵۳    ظفر اقبال۔ ’’ حالہ نثر ما بشنو‘‘                            ص:۳۶۔ ۳۵

۵۴    ابرار احمد۔ مضمون ’’ظفر اقبال کی غزل ‘‘ مشمولہ ’’عبارت ‘‘(۱)             ص: س۲۱۰

۵۵    جاوید شاہین۔ تعارف ظفر اقبال مشمولہ ’’ آٹھ غزل گو ‘‘                    ص: ۳۱

۵۶    رؤف امیر۔ ’’اردو غزل۔ مخالفت و مدافعت ‘‘ غیر مطبوعہ مقالہ برائے ایم فل۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ص: ۲۸۴

۵۷    ڈفر اقبال۔ ’’سہ روزہ ہذیان ‘‘ ہم خیال پبلشرز فیصل آباد ۱۹۹۵                ص: ۹

۵۸    ظفر اقبال۔ ’’ حالہ نثر ما بشنو‘‘                            ص: ۶

۵۹     ایضاً                                          ص: ۵۵

۶۰     ایضاً                                          ص: ۸۵

۶۱     ایضاً                                          ص: ۸۶

۶۲     ظفر اقبال۔ فلیپ ’’سرعام ‘‘      گورا پبلشرز لاہور ۱۹۹۵

۶۳    بانو قدسیہ۔ فلیپ ’’رطب ویابس ‘‘

۶۴    قمر جمیل۔ پس ورق ’’رطب و یابس ‘‘

۶۵    شمس الرحمن فاروقی مضمون ’’طبع رواں، منظر و معنی اور بے شمار امکانات‘‘ مشمولہ ’’اب تک ‘‘ ص:۳۷

۶۶     شمس الرحمن فاروقی۔      ایضاً                           ص: ۴۳

۶۷    نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل۔ ایک مطالعہ ‘‘                     ص: ۱۷۵

۶۸    احفاظ الرحمن۔ مضمون ’’واحد متکلم شاعر ‘‘ فنون ( جدید غزل نمبر )            ص: ۳۳۹

۶۹     محمد سلیم الرحمن۔ تعارف انور شعور۔ مشمولہ ’’آٹھ غزل گو ‘‘                 ص: ۱۱۵

۷۰    ایضاً                                          ص: ۱۱۶

۷۱     غلام حسین ساجد۔ مضمون ’’اردو غزل بیسویں صدی میں ‘‘ آئندہ، کراچی ( بیسویں صدی نمبر ) شمارہ ۱۹، ۲۰ دسمبر ۲۰۰۰ ص: ا۱۰

۷۲    نظیر صدیقی۔ ’’جدید اردو غزل۔ ایک مطالعہ ‘‘                     ص: ۱۲۷

۷۳     سلیم احمد۔ مضمون ’’جدید غزل ‘‘ فنون (جدید غزل نمبر)                     ص: ۵۷

۷۴    احفاظ الرحمن۔ مضمون ’’واحد متکلم کا شاعر ‘‘فنون ( جدید غزل نمبر )          ص: ۳۳۹

۷۵    احمد ندیم قاسمی۔ پس ورق ’’اثاثہ ‘‘ (مجموعۂ شعر اقبال ساجد )

۷۶    ظفر اقبال۔ ’’ حالہ نثر ما بشنو‘‘                                  ص : ۳۷

۷۷    جواز جعفری۔ مضمون ‘‘ عہد جدید تر کا نمائندہ کون ہے ‘‘ مشمولہ اثاثہ            ص: ۲۳۳

۷۸    ایضاً    ۲۳۳

۷۹    تبسم کاشمیری۔ فلیپ ’’جنگل سے پرے سورج‘‘(مراتب اختر کا مجموعہ کلام )

۸۰    مجید امجد۔ ابتدائیہ ’’بن باس‘‘(کلیاتِ ناصر شہزاد ) الحمد پبلیکیشنز لاہور۲۰۰۴ ص:۲۵

۸۱     ڈاکٹر ریاض مجید۔ مضمون ’’اردو غزل۔ بگھی سے سکوٹر تک ‘‘                 ۱۹۷۲ ء

۸۲    انتظار حسین۔ ’’صلاح الدین محمود کا تعارف ‘‘ پہچان الہ آباد شمارہ ۵۔ ۲۰۰۱      ص : ۳۰۹

۸۳    اختر احسن۔ ’’گیا نگر میں لنکا‘‘ سنگ میل لاہور(بار دوم)           ص: ۱۸

۸۴    ’’اردو جامع انسائیکلو پیڈیا ‘‘ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۸۸

۸۵    اختر احسن۔ مضمون ’’میری زین غزلیں اور میں ‘‘ ماہ نامہ نصرت لاہور نومبر ۱۹۶۲ء       ص: ۱۳۲

۸۶    ظفر اقبال۔ ’’حالہ نثر ما بشنو‘‘                                    ص: ۱۱۵

۸۷    شمیم حنفی۔ ’’خیال کی مسافت ‘‘ شہر زاد کراچی ۲۰۰۳                      ص: ۴۸

۸۸    غلام حسین ساجد۔ ’’تائید‘‘ اورینٹ پبلشرز لاہور ۱۹۹۶                      ص: ۷۳

۸۹     ساقی فاروقی۔ ’’بازگشت و بازیافت ‘‘                            ص: ۱۸۶

۹۰     شہزاد احمد۔       فنون    مارچ ۱۹۶۶ء

۹۱     سید محمد عقیل رضوی۔ مضمون ‘‘غزل کی کلاسیکیت بحران میں ہے ‘‘مشمولہ ’’معاصر اردو غزل ‘‘ مرتبہ ( قمر رئیس )   ص: ۲۴

۹۲     نظیر صدیقی۔ مضمون ’’اردو غزل کدھر ‘‘مشمولہ ’’جدید اردو غزل۔ ایک مطالعہ ‘‘       ص: ۲۰۵

۹۳     مرزا حامد بیگ۔ ابتدائیہ ’’دیوار آب ‘‘ (مجموعہ کلام محمد اظہار الحق)شیخ غلام اینڈ سنز لاہور ۱۹۸۵                                                       ص: ۱۷

۹۴     شہزاد احمد۔ ابتدائیہ ’’رنگ غزل ‘‘( انتخاب پاک و ہند کی اردو غزل ۱۹۴۷ء تا ۱۹۸۸ء ) پیکیجز  لیمیٹڈ                لاہور ۱۹۸۹                                           ص: ۱۷

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید