FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حالی اور سیاست

               معین احسن جذبی

یہ کتاب جذبی صاحب کی کتاب ’حالی کا سیاسی شعور‘  کے آخری ابواب اور ’تقریظ‘، ’تعارف‘ اور ’حرفِ اول‘  پر مشتمل ہے۔ کتاب کا بقیہ حصہ ’تاریخ ہند: برطانوی راج سے علی گڑھ تحریک تک‘ نامی برقی کتاب میں ملاحظہ کریں

 

تقریظ

جذبی صاحب ایک خوش فکر اور خوش گو شاعر کی حیثیت سے اردو دنیا میں معروف ہی نہیں بلکہ مقبول اور محبوب بھی ہیں مگر محقق اور نقاد کی حیثیت سے وہ پہلی بار ہمارے سامنے آتے ہیں۔

کسی شاعر کے کلام کو علمی مقالے کا موضوع بنانا خاصا خطر ناک کام ہے۔ مصنف کی علمی بصیرت کتنی ہی گہری اور تحقیقی نظر کتنی ہی باریک کیوں نہ ہو، اگر وہ ذوق شعر سے محروم ہے تو یہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو منطقی مو شگافیوں اور ذہنی تجزیوں میں روح معنی تحلیل ہو کر رہ جائے اور بے چارے شاعر کو فریاد کرنی پڑے۔ ؎

شعر مرا بہ مدرسہ کہ برد

لیکن جذبی صاحب خود شاعر کا دل و دماغ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ’’حالی کی شاعری میں سیاسی شعور ‘‘ کی بحث اس سلیقے سے اور سبک دستی سے کی ہے کہ اول سے آخر تک کہیں بھی حالی کے کلام کے ساتھ زبر دستی نظر نہیں آتی۔ بعض چیرہ دست اور سینہ زور نقادوں کی طرح انھوں نے یہ نہیں کیا کہ شاعر کے متفرق اشعار کو لے کر تاویل کی خراد پر چڑھائیں اور جس نظریے کا چوکھٹا چاہیں تیار کر لیں۔ انھیں اس کا پورا احساس تھا کہ شاعری میں خیالات عام طور پر بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ کوئی بات کہیں ہوتی ہے کوئی کہیں اور وہ بھی اشاروں کنایوں میں۔ اور انھوں نے بکھرے ہوئے خیالات کو سمیٹنے اور اشارات کو سمجھنے میں بڑی محنت، تلاش اور علمی دیانت داری سے کام لیا اور ان کی تعبیر و تفسیر حالی کی شاعری کے مجموعی رنگ و آہنگ کی روشنی میں اور جہاں تک ہو سکا، مضامین حالی کی مدد سے کی جن میں شاعر نے اپنے سیاسی اور عمرانی تصورات کو تفصیل اور وضاحت سے پیش کیا ہے۔

جذبی صاحب کا اصل دعویٰ جسے ثابت کر نے کے لیے یہ مقالہ لکھا گیا ہے کہ حالی کے سیاسی خیالات کو سر سید کے خیالات کی صدائے باز گشت کہنا غلط ہے۔ شروع میں ان کا تصور سیاست کسی حد تک سر سید سے متاثر تھا لیکن آگے چل کر مختلف عوامل کے اثر سے انھوں نے اپنی الگ راہ اختیار کر لی۔ ان عوامل کو جنھوں نے حالی کے سیاسی افکار کی نشو  و  نما پر اثر ڈالا، جذبی صاحب نے مناسب ترتیب و تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس ضمن میں اٹھارھویں صدی کے شروع سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک دوسو سال کی ہندستانی سیاست کا جائزہ لیا ہے۔

حالی جیسے شاعر کی طبع سلیم کا سیاسی ماحول کے بدلتے ہوئے رنگ کو بہت سے سیاست دانوں سے پہلے دیکھنا اور سمجھنا، ان کے حساس قلب کا اس سے متاثر ہونا اور ان تاثرات کاشعر کے سانچے میں ڈھل کر نکلنا بجائے خود ایک دلچسپ موضوع ہے اور جذبی صاحب کی ستھری زبان اور سدھے ہوئے انداز بیان نے اسے اور دلچسپ بنا دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کتاب کو اس سے زیادہ مقبولیت حاصل ہو گی جتنی سنجیدہ تصانیف کو اس علمی کساد بازاری کے دور میں نصیب ہوتی ہے۔

(ڈاکٹر )سید عابد حسین

علی گڑھ۔ 15/ نومبر1958

 

تعارف

حالی کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا۔

حالی ز نوا ہائے جگر سوز نیا سود

تا لالۂ شبنم زدہ را داغ جگر داد

یہ نوائے جگر سوز  کیا تھی اور اس نے کس طرح خزاں دیدہ چمن میں زندگی کی نئی امنگ پیدا کی ؟جذبی صاحب نے اس مقالہ میں پورے ادیبانہ کمال اور محققانہ بصیرت کے ساتھ حالی کے سیاسی شعور کا تجزیہ کر کے اس کا جواب دیا ہے۔ اردو ادب میں اپنی نوعیت کی یقیناً یہ پہلی کو شش ہے جس سے تحقیق و تنقید کی نئی راہیں سامنے آ گئی ہیں۔

ہندستان کی تاریخ کا جو دور1857 کے ہنگامہ سے شروع ہو کر1914 پر ختم ہوتا ہے، بعض اعتبار سے اس ملک کی سیاسی اور سماجی زندگی کا اہم ترین باب ہے۔ غیر ملکی تسلط کی جڑیں اسی دور میں مضبوط ہوئیں اور تحریک آزادی کی بنیاد بھی اسی زمانہ میں رکھی گئی۔ قدیم سیاسی اور سماجی نظریات نے اسی دور میں دم توڑا اور مغربی علوم و فنون کے ذریعہ اصلاح فکر و معاشرت کے لیے جدو جہد کا آغاز بھی اسی زمانہ میں ہوا۔ یہی نہیں بلکہ جدید ہندستان کے ذہنی اور فکری معماراسی دور میں پیدا ہوئے۔ ایسی صورت میں ادب، سیاست اور سماج کا کوئی مطالعہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اس دور کی تحریکوں کا پورا جائزہ نہ لیا جائے۔ جذبی صاحب نے حالی کے سیاسی شعور کو سمجھانے کے لیے انیسویں صدی کی تحریکوں کا تجزیہ بڑی بالغ نظری سے کیا ہے، اور اس طرح وہ اس پس منظر کے تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بغیر نہ حالی کی شاعری کا مطالعہ ممکن ہے نہ اس کی شخصیت کا۔ کتاب کے ابتدائی ابواب میں برطانوی تسخیر کے اثرات، وہابی تحریک کی مقبولیت اور سر سید کی تحریک کی نوعیت پر انھوں نے سیر حاصل بحث کی ہے اور بعض ایسی حقیقتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو اب تک بہت سے مصنفین کی نظروں سے اوجھل رہی ہیں۔

1857کا ہنگامہ ایک طرف اگر بقول حالی ’دریائے عتاب ذوالجلال‘ کی موج زنی تھا تو دوسری طرف تعمیر نو کا پیغام بھی تھا۔ ہندستان کے سیاسی اور سماجی ادارے مدت ہوئی نبضیں چھوڑ چکے تھے، لیکن ہندستانی اب تک پرانی تہذیب کا خستہ لباس اوڑھے بیٹھے تھے اور قدامت پسندی نے ان کی روح کو مضمحل اور قوائے عمل کو شل کر دیا تھا۔ اس تہلکہ نے بتایا کہ وقت کا قافلہ کوسوں دور نکل چکا ہے۔؎

کہاں بیٹھے ہو تم اے خانۂ ویراں کے دربانو !

قومی زندگی میں اس نوعیت کا تہلکہ بڑے کٹھن مسائل پیدا کر دیتا ہے اگر ایک طرف یہ ڈر ہو تا ہے کہ کہیں قوم نا ساز گار حالات سے مایوس ہو کر افسانوی شتر مرغ کی طرح اپنی گردن عظمت گزشتہ کے ریگ زار میں نہ چھپالے تو دوسری طرف یہ خطرہ بھی لگا رہتا ہے کہ کہیں نئی روشنی سے اس کی آنکھیں اتنی خیرہ نہ ہو جائیں کہ ماضی سے اس کا رشتہ ہی ٹوٹ جائے۔ پہلی صورت میں قومیں اگر اپنے وجود کو قائم رکھنے سے معذور رہتی ہیں تو دوسری صورت میں ان کی کیفیت بالکل اس شخص کی ہو جاتی ہے جو اپنا حافظہ کھو بیٹھا ہو۔ ایک رہبر اور مصلح کی صلاحیتوں کے لیے آزمائش کی یہ بڑی سخت منزل ہو تی ہے۔ حالی کی مصلحانہ صلاحیتیں اس آزمائش میں پوری اتریں۔ وہ ماضی کے صحت مند سرمایہ کو ساتھ لے کر آگے بڑھے اور وقت کے تقاضوں اور قوم کے مزاج کو سامنے رکھ کر اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ اس دور میں ان کی حیثیت اس چینی علامت کی ہے جو ایک طرف خطرات سے آگاہ کر تی ہے اور دوسری طرف نئے امکانات کا پتا دیتی ہے۔ ان کی چشم حقیقت بیں نے اصلاح کے حدود کو متعین کر نے میں جس طرح ضروریات وقت اور قومی مزاج کا لحاظ رکھا اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ سر سید کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

دھونے کی ہے اے رفارمر جا باقی

کپڑے پہ ہے جب تلک کہ دھبّا باقی

دھو شوق سے دھبے کو پر اتنا نہ رگڑ

دھبّا رہے کپڑے پہ نہ کپڑا باقی

’مسدس‘‘ قوم کا مرثیہ نہ تھا۔ وہ قومی حافظہ کے تحفظ کا سب سے موثر نسخہ تھا۔ اس کے ذریعہ قنوطیت کو دور کر کے زندہ رہنے اور کچھ کر نے کی آرزو کو بیدار کر نا مقصود تھا۔ انھوں نے یاد ماضی سے تعمیر نو کا سامان مہیا کیا۔

حالی کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سر سید کے ساتھ ان کا معاملہ ’استاد ازل‘  کا تھا اور ان کے خیالات سر سید کے خیالات کی صدائے باز گشت تھے۔ جذبی صاحب نے نہایت مدلّل طریقہ پر ثابت کیا ہے کہ یہ خیال صرف ایک حد تک صحیح ہے۔ حالی اگرچہ سر سیّد ہی کے توسط سے اپنے دور کے بیشتر مسائل سے رو شناس ہوئے لیکن ان مسائل پر وہ اپنی رائے بھی رکھتے تھے اور عام طور پر سر سید کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ عورتوں کی تعلیم، ٹیکنکل ایجو کیشن  کی اہمیت پر ان کی رائے سر سیّد سے مختلف تھی، مذہبی معاملات میں ان کے خیالات کو کسی طرح سر سید کے خیالات کا پر تو نہیں کہا جا سکتا۔ معاشی لائحہ عمل اور سیاسی مسائل پر وہ جس طرح سر سیّد سے جداگانہ رائے رکھتے تھے اس کا بڑا گہرا مطالعہ پانچویں باب میں کیا گیا ہے۔ سماجی اور معاشی نظام میں متوسط طبقے کی اہمیت کے جس احساس کا اظہار حالی کے اس شعر میں ہوا ہے۔ ؎

دم سے وابستہ ہے ان کے قوم کا سارا نظام

یہ اگر بگڑے تو سمجھو قوم کا بگڑا قوام

اس طرح سر سیّد کے یہاں نہیں ملتا۔

حقیقتاً حالی نے تعلیمی، مذہبی، سماجی مسائل پر خود بڑا غور و فکر کیا تھا اور خود اپنے نتائج پر پہنچے تھے۔ ان کی مخصوص انفرادیت جگہ جگہ جھلکتی ہے، گو ان کی کسر نفسی اور سر سیّد سے عقیدت نے اس انفرادیت کو نمایاں نہیں ہو نے دیا۔ جذبی صاحب نے جس طرح اس انفرادیت کو ابھارا ہے اور حالی کے خیالات کو ایک مربوط اور منظم صورت میں پیش کیا ہے اس سے ان کی دقّت نظر اور گہرے مطالعہ کا پتا چلتا ہے۔

خلیق ا حمد نظامی

شعبۂ تاریخ، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

 

حرف اوّل

حالی کی شاعری اور شخصیت کے بارے میں اب تک عام خیال یہ رہا ہے کہ وہ سر سید کے رفیق کار، ان کے خیالات کی آواز باز گشت اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے ترجمان تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کے بگڑے ہوئے اخلاق کو سدھارنے کی کوشش کی اور ان میں وطن کی محبت کا احساس بیدار کیا۔ البتہ ادھر چند سال ہوئے سید احتشام حسین (شعبۂ اردو، لکھنؤ یو نیورسٹی) نے عام روش سے ہٹ کر حالی کے صنعتی شعور پر روشنی ڈالی ہے لیکن وہ بھی جب حالی کے سیاسی تصور پر آتے ہیں  تو یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ ان کے سیاسی خیالات سر سید ہی کے خیالات سے ماخوذ ہیں۔ حالی سے متعلق یہ باتیں نہ کلیتہً صحیح ہیں نہ کلیتہً غلط، لیکن نا کافی ضرور ہیں  اور اس صورت حال کو پیدا کر نے کے جہاں اور اسباب ہیں  وہاں حالی کی کسر نفسی بھی ہے جو ان کی تصنیف کو بھی تالیف لکھواتی تھی۔ پھر مسدس اور حیات جاوید ہیں جن میں سر سیّد کی ترجمانی اس انداز میں کی گئی ہے گویا حالی سر سیّد سے ہر مسئلہ میں تمام و کمال متفق ہوں لیکن اس سلسلے میں اس حقیقت کو نظر انداز نہ کر نا چاہیے کہ حالی شخص اور شاعر دونوں اعتبار سے مخصوص انفرادیت کے بھی حامل تھے جس کا سر چشمہ ان کا اپنا رد عمل، اپنے تصورات اور اپنے خیالات تھے نہ کہ دوسروں کے۔

اس میں شک نہیں کہ مسدس میں سر سیّد کے خیالات کا پر تو ملتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ سر سید کے ایما اور تحریک پر لکھی گئی۔ اس میں اگر سر سیّد کا عکس نہ آتا تو حیرت کی بات تھی۔ اس کے باوجود اس طویل نظم میں اسلام کے عروج و زوال کی تصویریں حالی کے اپنے مطالعے اور مشاہدے کا نتیجہ ہیں اور ان ہی کو مسدّس کی جان سمجھنا چاہیے لیکن جب وہ ترقی کی راہیں سجھاتے ہیں تو پھر اپنی نہیں سر سیّد کی بات کہتے ہیں۔ ان مستعار خیالات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا اور ان ہی کو حالی کا سرمایۂ فکر سمجھ لینا صحیح نہ ہو گا کیونکہ مسدّس کی تصنیف کے بعد بھی وہ مختلف مسائل پر سوچتے اور لکھتے رہے اور یہ زمانہ کم و بیش پینتیس سال کی مدت پر محیط ہے۔

اسی طرح ہم ’حیات جاوید‘ کو بھی حالی کے اصل خیالات کا آئینہ دار نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس مدلل مداحی میں رفاقت اور شرافت کا جذبہ غالب ہے۔ یعنی سر سیّد کے کارناموں کی یک رخی تصویر ہے، بے لاگ تنقید نہیں۔

زیر نظر مقالہ، حالی کی شاعری میں ان کے سیاسی شعور کی جستجو ہے۔ پہلے تین ابواب میں اس دور کی سیاست کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اور سر سیّد کی تحریک کی نوعیت سے بحث کی گئی ہے۔ یہ تحریک ہمارے نزدیک بڑی حد تک سیاسی ہے، گو خود حالی اسے مذہبی تحریک قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں سر سیّد کی سیاست کا ذرا تفصیل سے جائزہ لینا پڑا تاکہ حالی کے سیاسی افکار و تصورات سے موازنہ و مقابلہ ہو سکے۔

اس موازنے اور مقابلے سے جو نتائج بر آمد ہوئے ہیں،  ان کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالی اگرچہ سر سیّد ہی کے توسط سے اپنے دور کے بیشتر مسائل سے روشناس ہوئے، لیکن ان مسائل کو وہ عام طور سے سر سیّد کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتے۔ مثال کے طور پر مذہب کے بارے میں ان کے خیالات سر سیّد سے مختلف ہیں۔ تعلیمی تصورات کی نوعیت جدا گانہ ہے۔ معاشی لائحہ عمل بھی وہ نہیں جو سر سید نے پیش کیا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاسی افکار و مقاصد میں نمایاں فرق ہے۔

حالی کے سیاسی شعور کا کھوج لگانے میں اس بات کا بھی احساس ہوا کہ ان کے خیالات ایک منظم صورت رکھتے ہیں۔ ان کے اس شعر پر بار بار نظر پڑتی تھی:۔

ہم آج بیٹھے ہیں ترتیب کر نے دفتر کو

ورق جب اس کا ا ڑا لے گئی صبا ایک ایک

لیکن شاعری میں خیالات عام طور سے بکھرے ہوئے ہو تے ہیں �، کوئی بات کہیں ہو تی ہے کوئی کہیں، وہ بھی اشاروں کنایوں میں۔ خوش قسمتی سے ان اشاروں کنایوں کی تفسیر و تعبیر زیادہ تر خود حالی کے مضامین میں مل گئی۔ اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ان کے خیالات کو ایک لڑی میں پرو یا جا سکا بلکہ بیشتر ان کی ترجمانی خود ان ہی کے الفاظ میں ہو گئی۔

آخر میں یہ عرض کر نا ہے کہ حالی کی شاعری میں حالی کے سیاسی شعور کو متعین و ممیز کرنے کی کوشش کا نتیجہ یہ مقالہ ہے اور اس کے جواز میں یہ کہنا بھی بے محل نہ ہو گا کہ اس نوعیت کی بحث اس پیمانے پر اس سے پہلے نہیں کی گئی۔

معین احسن جذبی

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

دسمبر 1956

 

حالی کے سیاسی شعور کی ابتدا

حالی سنہ 1837میں پانی پت کے ایک قدیم اور شریف خاندان میں پیدا ہوے، لیکن اس شرافت کو دولت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ خاندان میں زمینداری تو تھی، لیکن یہ زمینداری یوپی اور بہار کی زمینداری سے مختلف تھی۔ پنجاب کے بٹوارے کے اصول کے مطابق زمیندار اپنی زمینیں بٹائی پر (آدھا آدھا حصہ) کسان کو دے دیا کرتے اور نفع و نقصان میں برابر کے شریک رہتے۔ چنانچہ اس چھوٹے سے زمیندار خاندان کا گزارا صرف زمین کی آمدنی پر نہیں ہوسکتا تھا اور اسے اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے محنت و مشقت کرنا پڑتی۔ حالی نے بھی اسی غریبی اور محنت و مشقت کی فضا میں ہوش سنبھالا۔

حالی نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور قدرتی طور پر اس طبقے کی تمام خصوصیات کے حامل تھے۔ محنت، مستقل مزاجی، سادگی، دل سوزی اور رواداری کی جو مثالیں اس طبقے میں ملتی ہیں وہ امرا و رؤسا میں مشکل سے ملیں گی۔ یہ خصوصیتیں غیر شعوری طور پر حالی کی شخصیت کا جزو بن گئیں۔ حالی کا یہ طبقاتی کردار در اصل ان کے فن کی کنجی ہے۔

ایک غریب لیکن شریف گھرانے کے بچے کی تعلیم جس طرح اور جن دشواریوں کے ساتھ ہوسکتی تھی اسی طرح حالی نے بھی تعلیم حاصل کی۔ قرأت سیکھی، قرآن حفظ کیا، کچھ فارسی اور کچھ عربی کی تحصیل کی، لیکن صرف اسی پربس نہیں کیا۔ نامساعد حالات اور انتہائی افلاس کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ دلّی جا پہنچے جو ان دنوں انحطاط و زوال کے عالم میں بھی اہل کمال کا مرجع بنا ہوا تھا۔ یہاں رہ کر انھوں نے بعض مشہور عالموں سے فیض حاصل کیا۔ یہیں وہ غالب سے متعارف ہوئے جنھوں نے ان کے جوہر قابل کو پہچانا اور انھیں شعر گوئی کا مشورہ دیا۔ حالی ڈیڑھ سال دلی میں رہنے کے بعد اٹھارہ سال کی عمر میں پانی پت واپس آئے۔ کچھ دنوں حصار میں ملازمت کی۔ یکایک سنہ 1857کا ہنگامہ برپا ہوا۔ حالی وطن آ گئے اور کوئی چار سال تک ’’پانی پت کے مشہور فضلا سے بغیر کسی ترتیب اور نظام کے کبھی منطق یا فلسفہ کبھی حدیث اور کبھی تفسیر پڑھتے رہے۔ ‘‘

حالی کوئی بیس سال کے تھے کہ سنہ 1857 کا ہنگامہ برپا ہوا۔ بہت ممکن ہے کہ اس کی ہولناکی اور دہشت انگیزی نے حوادث روزگار کی واقعیت اور اہمیت کو سلجھانے اور سمجھانے میں حالی کی مدد کی ہو۔ لیکن اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ پرانے تصورات میں جنھیں وہ اب تک سینے سے لگائے ہوئے تھے، ایک تہلکہ مچ گیا۔ انھوں نے دلّی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ صرف دلّی کے اہل کمال ہی کا مرثیہ نہیں بلکہ ان تمام اقدار و تصورات کا بھی مرثیہ ہے جو انھیں عزیز تھے۔ کیا کچھ اس انقلاب کی نذر نہیں ہو گیا! اور کیا کچھ حالی ان اشعار میں نہیں کہہ گئے۔

تذکرہ دہلیِ مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ

نہ سناجائے گا ہم سے یہ فسانا ہرگز

داستاں گل کی خزاں میں نہ سنا اے بلبل

ہنستے ہنستے ہمیں ظالم نہ رلانا ہرگز

لے کے داغ آئے گا سینہ پہ بہت اے سیّاح

دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز

چپّے چپّے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہِ خاک

دفن ہو گا نہ کہیں اتنا خزانا ہرگز

مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو

اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز

جس کو زخموں سے حوادث کے اچھوتا سمجھیں

نظر آتا نہیں اک ایسا گھرانا ہرگز

بخت سوئے ہیں بہت جاگ کے اے دور زماں

نہ ابھی نیند کے ماتوں کو جگانا ہرگز

اس کے بعد ان صاحبان کمال کا ماتم ہے جن کے دم سے دلّی دلّی تھی۔ غالب، شیفتہ، نیّر، آزردہ، ذوق، مومن، صہبائی، کس کے لیے وہ آنسو نہیں بہاتے۔ اور آخری شعر میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا اور اس کے ساتھ آنسو بھی ختم ہو گئے۔

رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر

اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانا ہرگز

یہ ہیں سنہ 1857کی بغاوت کے تاثرات جو ایک مدت بعد یعنی آخری دور میں حالی کے قلم سے بے ساختہ ٹپک پڑے۔ اسے اگر دوسرے رخ سے دیکھیے تو انگریزوں کی ایسی تصویر ابھرتی ہے جس میں بے پناہ سفاکی اور بربریت کا رنگ غالب ہے۔ حالی یہ نقش اپنے دل سے کبھی نہ مٹا سکے۔

شیفتہ کی صحبت میں حالی آٹھ نو سال تک (1863-72) رہے۔ وہ اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ انھیں اپنے ادبی ذوق کے سنوارنے میں غالب سے نہیں بلکہ شیفتہ سے فائدہ پہنچا جو ’’مبالغے کو نا پسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادی اور سچی باتوں کو محض حسن بیان سے دل فریب بنانا اسی کو منتہائے کمال شاعری سمجھتے تھے۔‘‘ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ شیفتہ جو بغاوت کے جرم میں ماخوذ ہو کر بڑی مشکلوں سے نواب صدیق حسن خاں کی کوششوں سے رہا ہوئے اور جن کی آدھی جاگیر اسی سلسلے میں ضبط ہوئی۔ ان کی انگریز دشمنی اور ان کے سیاسی شعور سے انھوں نے کیا اثر قبول کیا۔ حالی کے سوانح نگار بھی اس باب میں خاموش ہیں، لیکن قیاس کہتا ہے کہ شیفتہ جیسی ہستی کی صحبت میں حالی کے سیاسی افکار و میلانات نے ایک خاص رخ ضرور اختیار کیا ہو گا۔

حالی کو مذہب سے کافی لگاؤ تھا۔ دلی اور پانی پت کے عالموں کی تعلیم اور فیض صحبت نے حالی میں اگر مذہبی شغف پیدا کر دیا ہو تو کچھ عجب نہیں۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا ایک طبقہ وہابی عقائد سے بہت متاثر تھا۔ حالی بھی غالباً ان عقائد کو تسلیم کرتے تھے۔ یہ شبہ اس واقعہ سے اور بھی قوی ہو جاتا ہے جو ان کی سب سے پہلی تصنیف کے ساتھ پیش آیا۔ خواجہ غلام الثقلین کا بیان ہے کہ

’’غدر سے دو تین سال پہلے مولانا دہلی میں زیر تعلیم تھے۔ اس زمانے میں ایک عربی رسالہ آپ نے تصنیف کیا جس میں ایک منطقی مسئلہ مولوی صدیق حسن خاں کی تائید میں تھا جسے ان کے استاد نے پڑھ کر بہت ناراضگی کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ اس کو چاک کر دیا۔ مولانا کو قدرتی طور پر رنج ہوا لیکن استاد نے جو مشہور حنفی عالم تھے اور حسین بخش کے مدرسے میں پڑھاتے تھے کہا کہ رسالہ اگرچہ نہایت لیاقت سے لکھا گیا تھا مگر چونکہ ایک وہابی مولوی کی تائید میں تھا اس لیے چاک کر دیا گیا۔ 2‘‘؎

یہ امر بعید از قیاس نہیں ہے کہ وہابی مولوی کی تائید کرتے ہوئے حالی نے وہابی تحریک کا اثر قبول کیا ہو جس کی بنیاد انگریزی حکومت کی تخریب اور اسلامی حکومت کے قیام پر تھی۔ شیفتہ کے علم و تقدس اور مذہبی انہماک کا بھی ان پر ایک عرصے تک سایہ رہا۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیفتہ کو ’’مثنوی جہادیہ‘‘ کے مصنف حکیم مومن خاں مومن سے تلمذ تھا جو مولانا اسمٰعیل شہید کے خاندان سے روحانی ارادت اور قلبی محبت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ حالی نے خود اپنے مضامین میں جس طرح شاہ ولی اللہ کے اقتباسات سے اپنی دلیلوں کو تقویت پہنچائی ہے، اس سے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جہاں شاہ صاحب کے مذہبی افکار کے قائل تھے وہاں ان کے انقلاب آفریں سیاسی تصورات سے بھی ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔

جہاں گیر آباد میں حالی کی ملازمت کا سلسلہ سنہ 1872میں شیفتہ کی وفات کے ساتھ ختم ہوا۔ اس دوران میں انھوں نے کچھ قدیم طرز کی غزلیں کہیں اور کچھ مذہبی رسالے لکھے۔ ایک اعتبار سے یہ حالی کے مذہبی انہماک کا دور تھا۔ لیکن اسی دور میں انھیں مزید غور و فکر کا موقع بھی ملا۔ سنہ 1866میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کا اخبار جاری کیا جو بعد میں انسٹی ٹیوٹ گزٹ بن گیا۔ اس کی ابتدائی جلدیں جنھیں حالی سر سید کے پولٹیکل ورکس سے تعبیر کرتے ہیں ان کی نظر سے ضرور گزری ہوں گی اور وہ انگریزی نظام حکومت اور اس کی برکتوں سے اس اخبار کے توسط سے آشنا ہوئے ہوں گے۔ سنہ 1868 میں انھیں غالباً خود بھی شیفتہ کے یہاں سر سید سے ملنے کا اتفاق ہوا۔  سنہ 1870میں تہذیب الاخلاق کے اجرا نے بھی حالی کو ان تمام جدید مسائل سے روشناس کرایا جنھیں سر سید ایک عرصے سے محسوس کر رہے تھے۔ سنہ 1871تک حالی میں اتنی سوجھ بوجھ پیدا ہو گئی تھی کہ وہ اپنے طور پر سر سید کی تحریک اور ان کے کاموں کا جائزہ لینے لگے چنانچہ اسی سال سید احمد خاں اور ان کے کام، کے عنوان سے ان کا ایک مضمون انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں شائع ہوا جس میں انھوں نے نہایت محتاط انداز میں سر سید کے کارناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ذاتی رائے بھی پیش کی۔ اس مضمون کے آخر میں حالی نے خاص طور پر اپنی غیر جانب داری پر زور دیا ہے۔

’’میں نے یہ جو کچھ لکھا ہے اس سے مجھ کو مولوی سید احمد خاں کا خوش کرنا منظور نہیں۔ نہ ان کے مخالفوں سے بحث کرنی مقصود ہے بلکہ اس کا منشا وہ ضرورت اور وہ مصلحت ہے جس کے سبب سے بھولے کو راہ بتائی جاتی اور مریض کو دوائے تلخ کی ترغیب دی جاتی ہے‘‘۔

لیکن اس غیر جانب داری کے باوجود حالی نے اس مضمون میں سر سید کے تمام کاموں سے قریب قریب اتفاق کیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے ان کی رائے سر سید کے بارے میں تذبذب اور تردد سے خالی نہ تھی۔ اس مضمون کو دیکھیے تو اس میں خطبات احمدیہ کی تعریف، علی گڑھ سوسائٹی کی قابل قدر اور نفع بخش خدمات کا اعتراف اور کمیٹی خواست گار ترقی تعلیم اہل اسلام کی حمایت مختصر لیکن جامع انداز میں نظر آتی ہے۔ تہذیب الاخلاق ان کی رائے میں حدت بصر اور تیزیِ نظر کے لیے ایک عمدہ وسیلہ ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ دین و دنیا کے معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ جن حالات میں لکھی گئی اور حکومت نے سر سید کی تنقید کو جس طرح برداشت کیا اس سے حالی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ انگریزی حکومت حق پسند اور حق شناس ہے اور یہ راز سر سید ہی کی بدولت آشکار ا ہوا۔

رعیت کی آزادی جو اس سلطنت کی بے بہا اور برگزیدہ خاصیتوں میں سے ایک خاصیت ہے اور جس کی حقیقت نہ جاننے سے سلطنت کی ایک بڑی خوبی ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی تھی اگر سچ پوچھیے تو اس کی معرفت کا دروازہ جو ہم پر کھلا اس کی کنجی سید صاحب کی آزاد تحریریں ہیں۔

اس نام نہاد رعیت کی آزادی کی نوعیت حالی کی نظر میں واقعتاً کیا تھی اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ فی الحال یہ امر قابل توجہ ہے کہ سنہ 1871تک حالی نئے حالات اور نئے مسائل سے آشنا ہو کرسر سید کی پالیسی کو مسلمانوں کی ترقی کے لیے بڑی حد تک درست سمجھنے لگے تھے اور سر سید کے زیر اثر ان کی نگاہ انگریزی حکومت کے بعض روشن پہلوؤں پر پڑنے لگی تھی۔

سنہ 1872میں حالی کو ملازمت کے سلسلے میں لاہور جانا پڑا۔ یہاں وہ ترجموں کے ذریعہ انگریزی ادب سے روشناس ہوئے اور یہیں ان کے شعر و ادب کے قدیم مذاق و تصور میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوا۔ ترجمۂ حالی میں لکھتے ہیں۔

’’نواب شیفتہ کی وفات کے بعد پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو لاہور میں ایک اسامی مجھ کو مل گئی جس میں مجھ کو یہ کام کرنا پڑتا تھا کہ جو ترجمے انگریزی سے اردو میں ہوتے تھے ان کی اردو عبارت درست کرنے کو مجھے ملتی تھی تقریباً چار برس میں نے یہ کام لاہور میں رہ کر کیا۔ اس سے انگریزی لٹریچر کے ساتھ فی الجملہ مناسبت پیدا ہو گئی اور نامعلوم طور پر آہستہ آہستہ مشرقی اور خاص کر عام فارسی لٹریچر کی وقعت دل سے کم ہونے لگی۔‘‘  اس پر ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے جن الفاظ میں تبصرہ کیا ہے وہ یہ ہیں۔

’’اس اقتباس کا یہ آخری جملہ یاد رکھنے کے قابل ہے اگر یہ صحیح ہے تو اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حالی کا ادبی احساس پستی، سر سید کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ خود انفرادی طور پر پیدا ہوا اور اسی احساس نے عبرت اور غیرت دلا کر حالی کو سر سید کا ہمنوا بنا دیا۔‘‘

ڈاکٹر موصوف کی رائے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت نگاری کی طرف حالی کا رخ کچھ تو شیفتہ نے موڑ ا کچھ انگریزی ادب نے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انگریزی ادب کے مطالعہ نے ان میں شعر و ادب کا وہ افادی تصور پید اکر دیا جس سے اب تک وہ نا آشنا تھے۔ یہیں سے حالی کی شعری صلاحیتوں کو مقصد ملا۔ یہ مقصد سیاسی اور سماجی تھا۔

اسی زمانے میں لاہور میں آزاد نے انگریزی ادب کے اثر سے نیچرل شاعری کی حمایت میں آواز بلندکی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اردو شاعری کو مبالغوں، دور از کار تشبیہوں اور استعاروں سے پاک کر کے اس کی بنیاد ان واقعات اور حقائق پر رکھی جائے جو نیچر کے مطابق ہوں۔ اس کے لیے انھوں نے سنہ 1874میں ایک مشاعرہ کی بنیاد ڈالی جو ہندستان میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل نیا تھا اور جس میں بجائے مصرع طرح کے کسی مضمون کا عنوان شاعروں کو دیا جاتا تھا کہ اس مضمون پر اپنے خیالات جس طرح چاہیں نظم میں ظاہر کریں ۔

حالی نے بھی ان مشاعروں کے لیے چار مثنویاں لکھیں۔ برکھا رت، نشاط امید، حب وطن اور مناظرہ رحم و انصاف۔  ان میں برکھا رت تو صرف منظر نگاری سے متعلق ہے اور اس لیے ہماری بحث سے خارج ہے باقی تین نظمیں حالی کے ابتدائی سماجی شعور کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں۔

’’نشاط امید‘‘ سے اس افسردگی و مایوسی کا اندازہ ہوتا ہے جو بغاوت کی ناکامی، تباہی اور عام سیاسی و اقتصادی پستی کا نتیجہ تھی۔ اس میں انگریزوں کی پالیسی کا دخل تھا۔ مسلمان حکومت کے رویہ کے پیش نظر اپنی خوش حالی سے قطعی مایوس ہو چکے تھے لیکن سنہ1871میں حکومت کو ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور وہابیوں کی مسلسل شورش نے اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کر دیا اور نگاہ غضب میں تلطف کے آثار پیدا ہونے لگے۔ گویا مایوسی کے تاریک بادلوں سے ایک ہلکی سی کرن پھوٹی جو سر سید کے یہاں امید کی خوشی بن گئی اور حالی کے یہاں نشاط امید۔ لیکن سچ پوچھیے تو ان کے یہاں خوشی نظر آتی ہے اور نہ ان کے یہاں نشاط۔ دونوں اپنے اپنے دل کو ڈھارس دیتے ہیں۔ اتنی گہری تاریکی میں ایک ہلکی سی کرن بھلا کیا روشنی پیدا کرسکتی تھی اسی لیے ’’نشاط امید‘‘ میں مایوسی کی جو دل دوز تصویر ملتی ہے، اس کے آگے امید کا مرقع بے جان سا معلوم ہوتا ہے۔ آخری بند میں یاس کی کیفیت ملاحظہ ہو۔

ہوتا ہے نو میدیوں کا جب ہجوم

آتی ہے حسرت کی گھٹا جھوم جھوم

لگتی ہے ہمت کی کمر ٹوٹنے

حوصلہ کا لگتا ہے جی چھوٹنے

ہوتی ہے بے صبری و طاقت میں جنگ

عرصۂ عالم نظر آتا ہے تنگ

جی میں یہ آتا ہے کہ سم کھائیے

پھاڑ کے کپڑے نکل جائیے

بیٹھنے لگتا ہے دل آوے کی طرح

یاس ڈراتی ہے چھلاوے کی طرح

ہوتا ہے شکوہ کبھی تقدیر کا

اڑتا ہے خاکہ کبھی تدبیر کا

ٹھنتی ہے گردوں سے لڑائی کبھی

ہوتی ہے قسمت کی ہنسائی کبھی

اس کے بعد امید کو دیکھیے۔

جاتا ہے قابو سے دل آخر نکل

کرتی ہے ان مشکلوں کو تو ہی حل

کانوں میں پہنچی تری آہٹ جو ہیں

رختِ سفر یاس نے باندھا وہیں

ساتھ گئی اس کے پژمردگی

ہو گئی کافور سب افسردگی

تجھ میں چھپا راحت جاں کا ہے بھید

چھوڑیو حالی کا نہ ساتھ اے امید

ان اشعار میں وہ جذبہ نہیں جو اس سے پہلے کے شعروں میں چھلکا پڑتا ہے۔ آخری شعر کا یہ مصرعہ، چھوڑیو حالی کا نہ ساتھ اے امید، بذات خود حسرت و افسردگی کا مرقع اور ساری نظم کا نچوڑ ہے۔ حالی دوسروں کو امید نہیں دلاتے بلکہ خود امید کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں جس کا دامن بھی ہاتھ میں نہیں آتا۔ چھوڑیو حالی کا نہ ساتھ اے امید، کیسی غمگین التجا ہے، اس سے بھی بڑھ کر ان کی غزل کا یہ شعر ہے۔

دیکھ اے امید کیجو ہم سے نہ تو کنارا

تیرا ہی رہ گیا ہے لے دے کے اک سہارا

یہ کیفیت صرف حالی ہی کی نہیں ساری قوم کی تھی۔ مصرعہ ثانی محرومیوں کی پوری داستان لیے ہوئے ہے۔ قوم کے پاس کیا رہ گیا ہے۔ نہ حکومت، نہ دولت، نہ تجارت، نہ صنعت۔ پنپنے کے سارے آثار مٹ چکے ہیں۔ کوئی سہارا باقی نہیں۔ ہاں بس ایک امید ہے۔ لیکن جہاں اتنے سہارے مٹے ہیں وہاں شاعر کو شدید اندیشہ ہے کہ کہیں امید کا آخری سہارا بھی نہ جاتا رہے کیونکہ اس کے بعد تو جینے کے لیے بھی کوئی بہانہ نہیں۔ اسی لیے جب وہ امید سے مخاطب ہوتا ہے تو اس کے انداز میں منت، سماجت اور التجا  آ جاتی ہے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حالی اپنی اور ساری قوم کی مایوسیوں سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن کھل کر بات نہیں کہتے۔

لیکن حب وطن، میں ضبط و احتیاط کے با وصف حالی ایک حد تک کھل گئے ہیں۔ وہ مایوسی جو ’نشاط امید‘ میں ہے اس کا اصل سبب بے اختیار ظاہر ہو جاتا ہے۔ غلامی کا کانٹا کھٹکنے لگتا ہے اور اس بری طرح کھٹکتا ہے کہ اس سخت گیری اور زبان بندی کے دور میں بھی حالی کے لبوں سے آہ نکل جاتی ہے۔ غلامی کی بھیانک تصویر ان کی آنکھوں میں پھرنے لگتی ہے۔ اگر آپس میں اتحادو اتفاق ہوتا تو یہ دن کیوں آتا اور یہ درگت کیوں بنتی۔

ملک ہیں اتفاق سے آزاد

شہر ہیں اتفاق سے آباد

ہند میں اتفاق ہوتا اگر

کھاتے غیروں کی ٹھوکریں کیوں کر

قوم جب اتفاق کھو بیٹھی

اپنی پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھی

ایک کا ایک ہو گیا بدخواہ

لگی غیروں کی پڑنے تم پہ نگاہ

پھر گئے بھائیوں سے جب بھائی

جو نہ آنی تھی وہ بلا آئی

پاؤں اقبال کے اکھڑنے لگے

ملک پر سب کے ہاتھ پڑنے لگے

کبھی تورانیوں نے گھر لوٹا

کبھی درّانیوں نے زر لوٹا

کبھی نادر نے قتل عام کیا

کبھی محمود نے غلام کیا

سب سے آخر میں لے گئی بازی

ایک شائستہ قوم مغرب کی

آخری شعر میں انگریزوں کی شدید قتل و غارت گری کی طرف ایک معنی خیز اشارہ کرنے کے بعد وہ ملک کی موجودہ حالت پر نظر دوڑاتے ہیں۔ انھیں ہر طرف قحط، بھوک، افلاس جہالت اور امراض کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ ان مصیبتوں کو دور کرنے کے لیے وہ اپنے ہم وطن متموّل، اہل کمال اور تعلیم یافتہ اصحاب کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کی خود غرضی و تعصب اور بخل کو قومی زوال کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں۔ مثلاً اہل دولت کی بے حسی کا حال یہ ہے۔

اہل دولت کو ہے یہ استغنا

کہ نہیں بھائیوں کی کچھ پروا

شہر میں قحط کی دہائی ہے

جانِ عالم لبوں پہ آئی ہے

پر جو ہیں ان میں صاحب مقدور

ان میں گنتی کے ہوں گے ایسے غیور

کہ جنھیں بھائیوں کا غم ہو گا

اپنی راحت کا دھیان کم ہو گا

جتنے دیکھو گے پاؤ گے بے درد

دل کے نامرد اور نام کے مرد

 اور اہل کمال کے باہمی حسد، تعصب اور بخل کا عالم یہ ہے۔

فاضلوں کو ہے فاضلوں سے عناد

پنڈتوں میں پڑے ہوئے ہیں فساد

ہے طبیبوں میں نوک جھونک سدا

 ایک سے ایک کا ہے تھوک جدا

رہتے دو اہل علم ہیں اس طرح

 پہلوانوں میں لاگ ہو جس طرح

الغرض جس کے پاس ہے کچھ چیز

 جان سے بھی سوا ہے اس کو عزیز

قوم پر ان کا کچھ نہیں احساں

 ان کا ہونا نہ ہونا ہے یکساں

سب کمالات اور ہنر ان کے

 قبر میں ان کے ساتھ جائیں گے

قوم کیا کہہ کے ان کو روئے گی

نام پر کیوں کر جان کھوئے گی

حالی اہل ثروت اور صاحبان کمال سے جس قدر بیزار ہیں اسی قدر تعلیم یافتہ لوگوں سے بھی ناخوش اور غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔

تربیت یافتہ ہیں جو یاں کے

خواہ بی۔ اے ہوں اس میں یا ایم اے

بھرتے حب وطن کا گو دم ہیں

پر محب وطن بہت کم ہیں

بند اس قفل میں ہے علم ان کا

 جس کی کنجی کا کچھ نہیں ہے پتا

لیتے ہیں اپنے دل ہی دل میں مزے

 گویا گونگے کا گڑ ہیں کھائے ہوئے

اہل انصاف شرم کی جا ہے

گر نہیں بخل یہ تو پھر کیا ہے

تم نے دیکھا ہے جو وہ سب کو دکھاؤ

 تم نے چکھا ہے جو وہ سب کو چکھاؤ

علم کو کر دو کو بہ کو ارزاں

ہند کو کر دکھاؤ انگلستاں

 

حالی کو یہ بھی احساس ہو چلا ہے کہ اس جدید عہد میں عزت اور معاش کے وسائل جاگیرداری دور کے وسائل سے قطعی مختلف ہیں۔

ذات کا فخر اور نسب کا غرور

 اٹھ گئے اب جہاں سے یہ دستور

اب نہ سید کا افتخار صحیح

 نہ برہمن کو شدر پر ترجیح

یعنی اب خاندان، نسل اور مذہب کے امتیازات سے نہ تو پیٹ بھر سکتا ہے اور نہ عزت ہی نصیب ہوسکتی ہے۔ اس کے بجائے۔

قوم کی عزت اب ہنر سے ہے

لم سے یا کہ سیم و زر سے ہے

کوئی دن میں وہ دور آئے گا

 بے ہنر بھیک تک نہ پائے گا

ہنر، علم اور دولت ان ہی تین چیزوں پر حالی کے نزدیک موجودہ زمانے میں قومی ترقی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے وہ حب وطن، میں ان ہی تین طبقوں کو جن میں ہنر، علم یا دولت ہے جھنجھوڑتے ہیں اور انھیں قومی خدمت پر اکساتے ہیں۔ اسی قومی خدمت کو وہ حب وطن کا نام دیتے ہیں۔ یہی انسانوں کو حیوانوں پر ترجیح دیتی ہے ورنہ کسی خاص مقام یا مولد و منشا سے لگاؤ میں تو انسان اور حیوان برابر ہیں۔

ہے کوئی اپنی قوم کا ہمدرد

 نوع انساں کا جس کو سمجھیں فرد

جس پہ اطلاقِ آدمی ہو صحیح

جس کو حیواں پہ دے سکیں ترجیح

قوم پر کوئی زد نہ دیکھ سکے

قوم کا حال بد نہ دیکھ سکے

قوم سے جان تک عزیز نہ ہو

 قوم سے بڑھ کے کوئی چیز نہ ہو

حالی یہاں قوم کا لفظ کسی خاص فرقے کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ ہندستان کا ہر باشندہ، خواہ وہ کسی طبقہ یا مذہب کا ہو، قوم میں داخل ہے۔ شروع شروع میں سر سید بھی قوم کی یہی تعبیر کرتے تھے۔ حالی بھی اسی وسیع تصور کو لے کر چلتے ہیں اور ایک فرقہ کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے۔ مذہبی اختلافات سے ان کی رائے میں قومیت نہیں بدلتی۔ ہندستانی ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔

ہو مسلمان اس میں یا ہندو

 بودھ مذہب ہو یا کہ ہو برہمو

جعفری ہووے یا کہ ہو حنفی

 جین مت ہووے یا ہو بیشنوی

سب کو میٹھی نگاہ سے دیکھو

 سمجھو آنکھوں کی پتلیاں سب کو

حالی کے ذہن میں ایک وسیع انسانی برادری کا تصور ہے جس میں اہل دولت بھی ہیں اور صاحبان علم و کمال بھی۔ لیکن ان کا دل جس کے لیے سب سے زیادہ کڑھتا ہے وہ غریبوں اور ناداروں کا طبقہ ہے۔ ملک کی بیشتر آبادی اسی طبقے سے متعلق ہے۔ حالی جب قوم کو ترقی کے لیے دولت والوں، ہنر مندوں اور تعلیم یافتہ لوگوں سے اپیل کرتے ہیں تو اس بیکس اور ناقابل توجہ مخلوق پر سب سے زیادہ توجہ صرف کرتے ہیں۔

بیٹھے بے فکر ہو ہم وطنو!

 اٹھو اہل وطن کے دوست بنو

مرد ہو تو کسی کے کام آؤ

 ورنہ کھاؤ پیو چلے جاؤ

جب کوئی زندگی کا لطف اٹھاؤ

دل کو دکھ بھائیوں کے یاد دلاؤ

کتنے بھائی تمھارے ہیں نادار

 زندگی سے ہے جن کا دل بیزار

نوکروں کی تمھارے جو ہے غذا

ان کو وہ خواب میں نہیں ملتا

جس پہ تم جوتیوں سے پھرتے ہو

واں میسر نہیں وہ اوڑھنے کو

کھاؤ تو پہلے لو خبر ان کی

جن پہ بپتا ہے نیستی کی پڑی

پہنو تو پہلے بھائیوں کو پہناؤ

کہ ہے اترن تمھاری جن کا بناؤ

ایک ڈالی کے سب ہیں برگ و ثمر

 ہے کوئی ان میں خشک اور کوئی تر

سب کو ہے ایک اصل سے پیوند

 کوئی آزردہ ہے کوئی خور سند

 اور ان اشعار میں تو جیسے حالی کی روح سمٹ کر آ گئی ہو۔

مقبلو! مدبروں کو یاد کرو

خوش دلو! غم زدوں کو شاد کرو

جاگنے والو! غافلوں کو جگاؤ

 تیرنے والو! ڈوبتوں کو تراؤ

یعنی اس طبقے کی ناداری کا علاج حالی کے پاس یہ ہے کہ جو کسی قابل ہیں وہ امداد و اعانت سے دریغ نہ کریں۔

’مناظرہ رحم و انصاف‘ سپاٹ سی نظم ہے۔ اس میں رحم و انصاف اپنے اپنے اوصاف بیان کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر اپنی فوقیت اور برتری جتاتا ہے۔ اس قضیے کا فیصلہ عقل آ کر کرتی ہے۔ اس کی نظر میں رحم و انصاف دونوں اپنی اپنی خصوصیات کے اعتبار سے مساوی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ اصلاً دونوں ایک ہی ہیں۔ اختلاف صرف نام کا ہے۔

یہ نظم ایک طرح سے عقل کی برتری کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ دراصل انیسویں صدی کی مغربی عقلیت ہے جس سے حالی پہلی بار آشنا ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس نظم میں اور بھی اشارے ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حالی قدیم اور جدید نظامِ حکومت کے متعلق سوچنے لگے ہیں۔ مثلاً انصاف کہتا ہے۔

میں ہی تھا جس نے کہ ویرانوں کو آباد کیا

میں ہی تھا جس نے کہ اخباروں کو آزاد کیا

حکم سے میری ہوئی کونسلوں کی ماموری

رائے سے میری بنیں سلطنتیں جمہوری

کھو دیا میں نے نشاں سلطنت شخصی کا

 اور دنیا سے غلامی کو مٹا کر چھوڑا

مجلسیں سیکڑوں ملکوں میں بٹھائیں میں نے

راہیں اغلاط سے بچنے کی سجھائیں میں نے

حکم و قانون کسی گھر میں مقید نہ رہا

سلطنت نام ہے اب قوم کی پنچایت کا

الغرض حالی کی ان نظموں سے جو لاہور کے زمانہ قیام کی پیداوار ہیں ان کے ابتدائی سیاسی اور سماجی شعور کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہندستان کی ناکسی و بے حسی، قومیت کا تصور، مغرب کی عقلیت، جمہوریت، انفرادی آزادی اور غلامی کا انسداد، یہ ساری چیزیں ان کے ذہن پر منعکس ہونے لگی تھیں۔ یہ زمانہ درحقیقت حالی کے ذہنی انقلاب کا دور ہے جس میں وہ قدیم و جدید کی کشمکش سے نکلنے اور نئے حالات اور نئے خیالات سے آشنا ہونے لگے تھے۔

٭٭٭

 

قدیم اور جدید نظام حکومت کا تصور

سنہ 1875کے لگ بھگ حالی لاہور سے دلی چلے آئے۔ یہاں انھوں نے سنہ 1879میں وہ نظم لکھی جو، مدوجزر اسلام سے زیادہ مسدس حالی، کے نام سے مشہور ہے۔ یہیں سے حالی نے ارادی طور پر اسلامی سیاسیات کے میدان میں قدم رکھا، اگرچہ مسلمانوں کے مسائل اسی زمانے سے انھیں دعوت فکر دینے لگے تھے جب سنہ 1871میں انھوں نےسید احمد خاں اور ان کے کام  کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں ایک مضمون سپرد قلم کیا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم ان کے سیاسی افکار کی اصل نوعیت اور حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سیاست میں حالی کا ذہنی سرمایہ کیا تھا۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں جب مسلمان بڑی حد تک مغربی علوم و فنون سے� ناآشنا تھے، حالی اپنے دور کی حقیقت کا سراغ لگانے میں تاریخی، معاشی اور طبعی حالات سے مدد لیتے ہیں۔ سائنٹفک تجزیہ کا یہ انداز آج تو ایک حد تک عام ہے، لیکن حالی کے زمانے میں اس کا فقدان تھا۔ وہ مستقبل کے لیے حال کا تجزیہ ماضی کی روشنی میں کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور طبعی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔

حالی نے اس تہذیب و معاشرت میں آنکھ کھولی تھی جو قدیم جاگیرداری نظام کی پیداوار تھی۔ قدرتی طور پر انھیں اسی نظام حکومت سے لگاؤ ہونا چاہیے لیکن انھوں نے عام مسلمانوں کی طرح جذباتی رو میں بہنا پسند نہیں کیا۔ انگریزوں کی حکومت مستحکم ہو چکی تھی اور ایک جدید نظام حکومت ملک پر نافذ ہو چکا تھا۔ یہ وہ حقیقت تھی جس سے روگردانی ممکن نہ تھی محض جذباتی لگاؤ کی بنا پر جدید سے نفرت اور قدیم سے محبت حالی کی متوازن طبیعت کے منافی تھا۔ انھوں نے اس جذباتی کشمکش سے نکلنے کے لیے عقل و انصاف سے کام لیا اور قدیم و جدید کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی۔

حالی نے ایشیائی طرز حکومت کے بارے میں جو ہندستان میں بھی صدیوں سے رائج تھی اپنی نظموں میں بعض اشارے کیے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ کہتے ہیں۔

وہ گئے دن جبکہ تھے مختار و مطلق حکمراں

قسمتوں کی قبضۂ قدرت میں تھی ان کے عناں

ہاتھ میں غسال کے مردہ ہو بے بس جس طرح

تھے جہاں بانوں کے ہاتھوں میں یوں ہی اہل جہاں

تھا رعیت کا کوئی ہمدرد تو تھا بادشاہ

 اور مصلح تھا کوئی اس کا تو تھا خود حکمراں

تھی نہ اہل ملک کو قومی مقاصد سے غرض

تھا نہ قومیت کا قوموں میں کہیں باقی نشاں

خواہشیں سب کی جدا اغراض تھیں سب کی الگ

اپنے اپنے راگ تھے اور اپنی اپنی ڈفلیاں

قوم اپنی حد سے آگے کوئی بڑھ سکتی نہ تھی

پیش قدمی سے رکے کب کے کھڑے تھے کارواں

شعر میں وضاحت کی گنجائش نہیں لیکن نثر میں حالی نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ایشیائی طرز حکومت کی بابت وہ ایک مضمون میں لکھتے ہیں  کہ یہ ایک طاقت کو اعتدال سے زیادہ بڑھاتی ہے اور اس کے سوا تمام طاقتوں کو ملیامیٹ کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے ایشیا کی کسی قوم میں جان باقی نہیں رہی۔ اس نظام میں بادشاہ کی خود مختاری اور مطلق العنانی کے باعث رعایا خود کو مجبور و ناچار سمجھنے لگتی ہے اور اسے اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ملکی اور قومی معاملات صرف بادشاہ یا اس کے ارکان حکومت ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ خود مختار سلطنت میں رعایا کی عملی قوتیں معطل اور بے حس و حرکت ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنی مادّی ضروریات تو کسی نہ کسی طرح پوری کر لیتے ہیں لیکن مذہبی، معاشرتی یا سماجی خرابیوں کی اصلاح سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ صورت ان میں صبر و تحمل اور قناعت کو دن بہ دن بڑھاتی اور ہمت، دلیری، اولوالعزمی اور غیرت و حمیت کو کم کرتے کرتے چند نسلوں میں بالکل ختم کر دیتی ہے۔

اس کے بعد حالی یہ بتاتے ہیں کہ محکوم قوموں میں عملی قوت بالکل زائل نہیں ہوتی۔ انھیں چونکہ حکمراں قوم کی طرح سلطنت کا سہارا نہیں ہوتا اور وہ فوجی اور ملکی خدمات کے علاوہ بہت سی رعایتوں سے محروم رہتی ہیں، اس لیے انھیں مجبوراً زیادہ تر بنج بہوار اور دستکاری وغیرہ کو اپنا ذریعہ معاش بنانا پڑتا ہے۔ اس طرح ان میں اپنی مدد آپ کرنے کا مادہ بڑھتا ہے او ر عقل معاش ترقی پاتی ہے۔

لیکن حکمراں قوم کی معاش کا مدار شاہی ملازمت، جاگیر، منصب اور معافی پر ہوتا ہے۔ وہ تجارت، زراعت اور دستکاری کو معیوب تصور کرنے لگتے ہیں اور سلطنت کی امداد کے سہارے پر کوئی ایسا وسیلۂ معاش اختیار نہیں کرتے جس میں انھیں اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنا پڑے۔ اس لیے ان میں نہ تو عقل معاش ہی باقی رہتی ہے اور نہ سلف ہلپ کا ملکہ۔ اسی روشنی میں حالی مسلمانوں کے زوال کو بھی دیکھتے ہیں۔

’’یہی بپتا ہماری قوم پر پڑی ہے، کچھ تو طرز حکومت نے ہماری حالت میں سکون و انجماد کی بنیاد ڈالی اور کچھ قومی سلطنت کے سہارے نے ہماری قوائے عملیہ کو معطل کر دیا اور نسلاً بعدنسلاً یہ حالت منتقل ہوتی چلی آئی، یہاں تک کہ کاہلی، سستی بیکاری، افسردگی، مایوسی اور بزدلی ہماری قومی خصلتیں بن گئیں اور شدہ شدہ بزرگوں کی میراث ہم تک پہنچی۔ اس صورت میں کون کہہ سکتا ہے کہ یہ خصلتیں خود بخود ہم میں پیدا ہو گئی ہیں یا ہم اپنی نالائقی سے ایسے مردار اور اپاہج بن گئے ہیں یا (نعوذ باللہ) اسلام نے ہم کو ایسا بنا دیا ہے۔‘‘

اس سلسلے میں حالی نے طبعی حالات کا بھی جائزہ لیا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ایشیائی نظام کے علاوہ ملک کے طبعی حالات نے بھی سماجی زندگی میں جمود و تعطل پیدا کیا ہے۔ انھیں ہنری ٹامس بکل کے اس نظریہ سے اتفاق ہے کہ جن ملکوں میں نیچرل فنا منا یعنی قدرتی ظہور نہایت تعجب خیز اور دہشت انگیز ہوتے ہیں، وہاں خواہ مخواہ وہم غالب اور عقل مغلوب ہو جاتی ہے اور جب تک بذریعۂ تعلیم یا دیگر اسباب کے وہم کو مغلوب اور عقل کو غالب نہیں کیا جاتا وہ ممالک اسی حالت میں گرفتار رہتے ہیں۔   اس قول کی وضاحت کے لیے حالی نے بکل کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے کہ گرم ملکوں کو اور جگہوں کی بہ نسبت نیچرل فنا منا سے زیادہ دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اور انھیں شدید نقصانات پہنچتے ہیں۔ مثلاً زلزلہ سے جو یکایک ظہور پذیر ہوتا ہے، ہزاروں جانیں تلف ہوتی ہیں اور لوگ سخت خوف اور دہشت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس قسم کے قدرتی مظاہر چونکہ انسان کی فہم سے بالا ہوتے ہیں اور وہ ان سے بچاؤ کی بھی قدرت نہیں رکھتا، اس لیے اسے اپنی مجبوری اور عاجزی کا یقین ہو جاتا ہے۔ توہمات بڑھنے لگتے ہیں اور عقل کو مغلوب کر کے بے بنیاد خیالات پیدا کر دیتے ہیں۔ ہندستان بھی ایک گرم ملک ہونے کی حیثیت سے ان ہی حالات کا تابع ہے۔ بکل لکھتا ہے کہ

’’ہندستان میں ہر قسم کی دقتیں ایسی بیشمار اور ایسی خوفناک اور بظاہر اس قدر سمجھ سے باہر درپیش آئیں کہ زندگی کی ہر ایک مشکل کا سبب بہ مجبوری ایسا قرار دینا پڑا کہ انسان کی قدرت سے باہر ہو، جب کسی بات کا سبب سمجھ میں نہیں آیا فوراً وہم و تصور نے اپنا عمل کیا اور آخر وہم کا غلبہ ایسا خطرناک ہو گیا کہ سمجھ مغلوب ہو گئی اور اعتدال جاتا رہا۔ یونان میں چونکہ نیچر خوفناک اور بہت چھپی ہوئی نہ تھی اسی سبب سے وہاں انسان کے دل پر خوف کم غالب ہوا اور لوگ خیال پرست کم ہوئے طبعی اسباب کے دریافت کرنے پر توجہ ہوئی اور علم طبعی ایک چیز قرار پایا اور انسان کو رفتہ رفتہ اپنی قوت اور اقتدار کا علم ہوتا گیا اور وہ ایسی دلیری سے واقعات کی تحقیقات کرنے لگا کہ اس قسم کی جرات ان ملکوں میں ہرگز نہیں ہوسکتی جہاں آزادی نیچر کے دباؤ سے مظلوم ہو رہی ہے اور جہاں ایسے واقعات پیدا ہوتے رہتے ہیں جو سمجھ میں نہیں آسکتے۔‘‘

یہاں یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ حالی نے ملکی اور اخلاقی زوال کے جو اسباب تلاش کیے ہیں وہ روحانی نہیں بلکہ خالص مادی ہیں۔ ان کے خیالات کا نچوڑ یہ ہے کہ ہندستان کے تمام امراض کی جڑیں ایشیائی طرز حکومت اور طبعی حالات میں ملتی ہیں۔ ایشیائی نظام نے سماج میں جمود، مایوسی، بے کاری، سستی اور بزدلی پیدا کر دی۔ دوسری طرف ہندستان کے طبعی حالات نے بدکو بدتر بنا دیا۔ اوہام عقل پر غالب آ گئے اور سماج اپنی مجبوری اور ناچاری پر ایمان لاکر تقدیر کا پرستار اور تدبیر سے کنارہ کش ہو گیا یہی وہ اسباب ہیں جن کی بنا پر ہندستان میں کسی سلطنت کو استحکام نصیب نہیں ہوا اور وہ کسی نہ کسی بیرونی طاقت کا غلام بنا رہا۔ جو قوم بھی یہاں آ کر حکمراں ہوئی، کچھ عرصے کے بعد ان ہی کمزوریوں کا شکار ہو کر کسی بیرونی حملہ آور سے مغلوب ہو گئی۔ گویا غلامی ہندستان کے فاتحین کے لیے مقدر ہو چکی تھی۔ ان ہی تصورات کو حالی، انگلستان کی آزادی اور ہندستان کی غلامی میں ظاہر کرتے ہیں۔

کہتے ہیں، آزاد ہو جاتا ہے جب لیتا ہے سانس

یاں غلام آ کر کرامت ہے یہ انگلستان کی

اس کی سرحد میں غلاموں نے جوہیں رکھا قدم

 اور کٹ کر پاؤں سے اک ایک بیڑی گر پڑی

قلب ماہیت میں انگلستان گر ہے کیمیا

کم نہیں کچھ قلب ماہیت میں ہندستان بھی

آن کر آزاد یاں آزاد رہ سکتا نہیں

وہ رہے ہو کر غلام اس کی ہوا جن کو لگی

’شکوۂ ہند‘ میں بھی یہی تصور کار فرما ہے۔ نظم کا لب لباب یہ ہے کہ مسلمان جن خصوصیات کو لے کر یہاں وارد ہوئے تھے وہ رفتہ رفتہ یہاں کی آب ہوا میں ایسی مٹیں کہ اب ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ حالی کو شدید رنج ہوتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ

ترکمانی صولت اور مغلی جلادت ہم میں تھی

عزم کر دی ہم میں تھا بدوی حمیت ہم میں تھی

ہاشمی آداب و عباسی فضائل ہم میں تھے

نطق اعرابی و  عدنانی فصاحت ہم میں تھی

ضرب کراری و حرب خالدی رکھتے تھے ہم

سطوت حمزی و فاروقی جلالت ہم میں تھی

عرق غیرت تھی دلیل اپنی شرافت کی نہ مال

جھینپتی ہے جس سے دولت وہ شرافت ہم میں تھی

آج خ اور تھا مقام اپنا تو کل تھا باختر

عیش و عشرت کی نہ فرصت تھی نہ عادت ہم میں تھی

ننگ تھا ہم کو مشقت سے نہ مزدوری سے عار

جو بزرگی تھی مشقت کی بدولت ہم میں تھی

ہم شتربانی سے پہنچے تھے جہاں بانی تلک

اس لیے باقی شتربانوں کی خصلت ہم میں تھی

جو نشاں اقبال مندی کے ہیں وہ سب ہم میں تھے

حبّ دینی ہم میں تھا قومی مودّت ہم میں تھی

گھر ہمارے اور ہم سب وقف مہمانوں پہ تھے

یثربی مہماں نوازی اور ضیافت ہم میں تھی

پھوٹ سے واقف نہ تھے ہم تیری اے ہندوستاں

احمدی اخلاق واسلامی اخوت ہم میں تھی

چھین لی سب ہم سے یاں شان عرب آن عجم

تو نے اے غارت گر اقوام و اکال الامم

اور موجودہ حالت یہ ہے کہ نہ صورت پہچانی جاتی ہے نہ سیرت۔ حالی ہندستان سے سوال کرتے ہیں۔

آئے تھے اے ہند! یاں ایسے ہی ہم زارو نزار؟

ہے عرب سے جن سے ننگ اور ہے عجم کو جن سے عار

ہم انھیں اسلاف کے معلوم ہوتے ہیں خلف؟

جن کی تھی محکوم نسل رستم و اسفندیار

ہیں ہمیں اے آری اور ت ان سواروں کے سپوت؟

جن کی دوڑوں سے ہیں واقف تیرے دشت و کوہسار

تھیں یہی شکلیں ہماری تھا یہی رنگ اور روپ؟

تھی یہی سیرت ہماری تھا یہی اپنا شعار

سیرتیں تو نے بدل دیں مسخ کر دیں صورتیں

آبرو تو نے ڈبو دی کھو دیا تو نے وقار

کر دیا شیروں کو تو نے گو سفند اے خاک ہند

جو شکار افگن تھے آ کر ہو گئے یاں خود شکار

حالی مسلمانوں کے ایک ایک وصف کا ماتم کرتے ہیں۔ غیرت، حمیت، علم، دانش، دولت، سلطنت، ایمان، جفاکشی، دلیری، اولوالعزمی، وجاہت، قوت، ارادے کی پختگی، مہمان نوازی، ہمسائے کی ہمدردی، محبت و صداقت، اخوت و مساوات، راستی و صدق عہد، غرضیکہ دنیا کی کوئی ایسی خصوصیت نہیں جو وہ ان مسلمانوں سے منسوب نہ کرتے ہوں جنھوں نے پہلے پہل ہندستان میں آ کر سلطنت و حکومت کی بنیاد ڈالی تھی۔ انھیں سلطنت و حکومت کے جانے کا جتنا غم ہے اس سے کہیں سوا علم و ہنر اور اخلاقی خوبیوں کی تباہی کا صدمہ ہے اور ہندستان سے اصل شکایت یہی ہے۔

پر گلا ہے یہ کہ جو کچھ اپنا ہم لائے تھے ساتھ

وہ بھی تو نے ہم سے لے کر کر دیا بالکل گدا

آدمیت کے تھے جوہر جو ہماری ذات میں

خاک میں آخر دیے اے ہند! سب تو نے ملا

لیکن اس تباہی کا یقین پہلے ہی سے تھا۔

نکبتیں یہ سب جبھی سے ہم کو آتی تھیں نظر

آئے تھے یاں جبکہ اپنا چھوڑ کر ملک و دیار

تھا یقیں ہم کو کہ شامت رفتہ رفتہ آئے گی

ہم کو تو اے خاک ہند! آخر یوں ہی کھا جائے گی

یہ یقین کیوں تھا؟ اس کا جواب ’رفتہ رفتہ‘ میں ملتا ہے۔ یعنی وہ صدیوں پرانا ہندستانی نظام حکومت جو دھیرے دھیرے عملی صلاحیتوں کو سلب کر کے سماجی زندگی میں تعطل و انجماد کی کیفیت پیدا کر دیتا تھا۔ اس عمل میں ملک کے طبعی حالات کا جو حصہ تھا حالی اس کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتے ہیں۔

ہم کو ہر جوہر سے یوں بالکل معرا کر دیا

تون ے اے آب و ہوائے ہند! یہ کیا کر دیا

’آب و ہوائے ہند‘ سے ملک کے طبعی حالات کے علاوہ کچھ اور مراد لینا صحیح نہ ہو گا۔ شکوۂ ہند میں اصل شکوہ دو چیزوں سے ہے۔ ایک تو قدیم طرز حکومت، دوسرے طبعی حالات۔ ان ہی دونوں نے حالی کے نزدیک مسلمانوں کی سی اولوالعزم قوم کو ذلت اور زوال تک پہنچا دیا۔ لیکن سید ہاشمی فریدآبادی کی نظر میں یہ نظم کچھ اور ہی معنی رکھتی ہے۔  ہمیں ہاشمی صاحب کے اس خیال سے تو اتفاق ہے کہ مسلمانوں کی جدا گانہ قومیت کا تصور جس شد و مد سے حالی نے، شکوۂ ہند، میں پیش کیا ہے اور کسی نظم میں نظر نہیں آتا۔ لیکن اس کی امتیازی خصوصیات کے سلسلے میں وہ اپنی ایک عجیب و غریب دریافت بھی سامنے لاتے ہیں۔

نظم کا تیسرا امتیاز یہ ہے کہ بعد کے واقعات اور پاکستان کی تاسیس بالخصوص وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی ہندستان سے نقل مکانی نے اسے دوربینی اور پیش گوئی کی ایک عجیب مثال بنا دیا۔ پہلا ہی شعر سن کر خیال ہوتا ہے کہ انسانی فن و دماغ کی بجائے شاید کوئی الہامی قوت تھی جس نے شاعر کی زبان سے یہ الفاظ ادا کرائے ہیں۔

الوداع اے کشور ہندوستاں جنت نشاں

رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی میہماں

لیکن نظم کی پہلی امتیازی خصوصیت ہاشمی صاحب کی نظر میں یہ ہے کہ ’’اس میں مسلمانوں کی قوم یا کسی گروہ سے خطاب نہیں کیا بلکہ کشور ہندستان کو اپنا مخاطب بنایا ہے۔‘‘ ہاشمی صاحب نے اگر اس پہلی خصوصیت ہی پر تھوڑی دیر غور کر لیا ہوتا تو وہ اس نتیجے پر نہ پہنچتے کہ پشیمانی کی بدولت ’’شاعر مایوس و مغموم ہو کر ہندستان کو چھوڑ دینا چاہتا ہے، یا وہ نادانستہ طور پر اپنی ملت کو ایک الگ ملک بسانے اور پاکستان بنانے کی دعوت دے رہا ہے۔ ‘‘ ہاشمی صاحب نہ جانے کیوں ’’الوداع اے کشور ہندستان‘‘ کو ہندستان چھوڑنے کا اعلان تصور کرتے ہیں جبکہ مصرعہ ثانی رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی مہمان

سے ظاہر ہے کہ حالی ایک بدیسی قوم کی حیثیت سے جو کبھی عمل و اخلاق کی صفات سے آراستہ اور جہاں بانی و جہاں داری کی دولت سے پیراستہ تھی رخصت ہو رہے ہیں۔ لیکن اب وہ اپنی قوم کو اسی طرح دیسی سمجھتے ہیں جس طرح باہر سے آئی ہوئی دوسری قومیں انحطاط و زوال کے بعد اپنے آپ کو دیسی تصور کرنے لگی تھیں۔ یعنی جب تک مسلمانوں نے ہندستان کو اپنا وطن نہیں بنایا وہ تمام خوبیوں کے حامل رہے جو ایک شائستہ و مہذب حکمراں قوم میں ہونی چاہئیں۔ لیکن یہاں رہنے اور بسنے کے بعد ہندستان کی طرز حکومت اور آب و ہوا نے انھیں ہندستانی سماج کے عام رنگ میں رنگ دیا۔ بدیسی گویا رخصت ہو گیا اس کی بجائے اب کوئی ہے تو وہ خالص دیسی ہے۔

حالی کی نظر میں مسلمانوں کی تباہی کا سبب یہ تھا کہ وہ ہندستان آ کر بعض ایسے طبعی اور تمدنی عوامل کا شکار ہو گئے جو یہاں بر سرکار تھے۔ ان ہی عوامل کی بنا پر حالی نے ہندستان کو غارت گر اقوام، اور اکّال الامم، بتایا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آئندہ حکمراں قومیں اس عبرت انگیز واقعہ سے سبق حاصل کریں گی۔

پر زمانہ میں رہیں گے تا قیامت یادگار

جو کیے برتاؤ تو نے ہم سے اے ہندوستاں

ماجرا ہو گا ہمارا عبرت اوروں کے لیے

چیت جائیں گے بہت سن کر ہماری داستاں

آگ سے رہتا ہے جیسے دور دور آتش پرست

حکمراں تیرے یونہی تجھ سے رہیں گے برکراں

برکتیں یاں چھوڑ کر ہم اپنی جائیں گے بہت

ہم نہ ہوں گے پر نصیحت ہم سے پائیں گے بہت

ظاہر ہے یہ اشارہ انگریزوں کی طرف ہے جنھوں نے ہندستان کو اپنا وطن نہیں بنایا۔

حالی کے مطالعہ میں جو چیز الجھن میں ڈالتی ہے وہ انگریزی حکومت کے بارے میں ان کے متضاد خیالات ہیں۔ وہ کبھی اس کی مدح سرائی میں مشغول نظر آتے ہیں کبھی مذمت میں۔ اس سلسلے میں یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ حالی تضاد کی اس نوعیت کو تخلیقی عمل کے عین مطابق تصور کرتے ہیں۔

شاعر ایک ہی چیز کی کبھی ایک حیثیت سے ترغیب دیتا ہے اور کبھی دوسری حیثیت سے اس سے نفرت دلاتا ہے،  وہ ایک ہی گورنمنٹ کی کبھی اس کی خوبیوں کے سبب سے ستائش کرتا ہے اور کبھی اس کی ناگوار کارروائیوں کے سبب شکایت مگر وہ کبھی ان حیثیتوں کی تصریح نہیں کرتا جن پر اس کے مختلف بیانات مبنی ہوتے ہیں۔ جب ایک پہلو کو بیان کرتا ہے۔ تو گویا دوسرے پہلو کو بالکل بھول جاتا ہے وہ ایک نادان بچے کی طرح کبھی بے اختیار رو پڑتا ہے اور کبھی ہنسنے لگتا ہے۔ مگر نہ اس کے رونے کا منشا معلوم ہوتا ہے اور نہ ہنسنے کا، پس ممکن ہے کہ شاعر کے کلام میں ایسی بے جوڑ باتیں دیکھ کر لوگ متعجب ہوں، مگر جب تک شاعر کا سا دل ان کے پہلو میں اور ویسا ہی سودا ان کے دماغ میں نہ ہو ان کا تعجب رفع ہونا مشکل ہے۔

جہاں تک حقائق و واقعات کی عکاسی کا تعلق ہے شاعر کے بارے میں حالی کا حسب ذیل بیان قابل لحاظ ہے۔

’’وہ کوئی فلسفہ یا تاریخ کی کتاب نہیں لکھتا تاکہ اس کو حقائق و واقعات کے ہر ایک پہلو پر نظر رکھنی پڑے۔ بلکہ جس طرح ایک فوٹو گرافر ایک ہی عمارت کی کبھی روکا رکا، کبھی پچھیت کا، کبھی اس ضلع کا اور کبھی اس ضلع کا جدا جدا نقشہ اتارتا ہے، اسی طرح شاعر حقائق و واقعات کے ہر ایک پہلو کو جدا جدا رنگ میں بیان کرتا ہے پس ممکن ہے کہ شاعر ایک ہی چیز کی کبھی تعریف کرے اور کبھی مذمت اور ممکن ہے کہ وہ ایک اچھی چیز کی مذمت کرے اور بری چیز کی تعریف، کیونکہ خیر محض کے سوا ہر چیز میں شرکا پہلو اور شر محض کے سوا ہر شر میں خیر کا پہلو موجود ہے۔‘‘

حالی کے اس بیان پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن یہ اس کا محل نہیں پھر بھی ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ہر چیز میں چونکہ خیر و شر کے پہلو موجود ہیں اس لیے شاعر آنکھ بند کر کے بھی حقائق و واقعات پیش کر دے تو خیر و شر کی تصویریں ابھر آئیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی تصویریں اس وقت تک نامکمل رہتی ہیں جب تک شاعران میں شعوری طور پر اپنی پسندیدگی یا ناپسندیدگی، نفرت یا محبت کا رنگ نہ بھرے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ نفرت یا محبت کے وجوہ کی تصریح نہیں کرتا لیکن اشارے ضرور کر دیتا ہے۔ ان ہی اشاروں کی صراحت کے لیے نقاد کی ضرورت پڑتی ہے۔

بایں ہمہ حالی ایک با شعور فن کار ہیں۔ ان کی اکثر یک رخی تصویریں بھی زبان حال سے بہت کچھ کہتی ہیں۔ انھوں نے جس طرح انگریزی طرز حکومت کے محاسن و معائب پر نظر ڈالی ہے وہ ان کی سیاسی بصیرت پر دال ہے۔ سر سید کے یہاں ہمیں اس غیر ملکی سامراجی نظام کا صرف روشن پہلو نظر آتا ہے۔ لیکن حالی پر اس کی اصل حقیقت منکشف ہے۔ اس لیے وہ اگر سر سید کی طرح انگریزوں سے مرعوب نظر نہ آئیں یا انھیں ہر معاملے میں قابل تقلید نہ سمجھیں تو یہ کوئی ایسی حیرت کی بات نہ ہو گی۔

ہندستان میں برطانوی سامراج کا اصل مقصد جائز و ناجائز طریقوں سے دولت کا سمیٹنا تھا۔ یہ لوٹ صرف ہندستان تک ہی محدود نہ تھی۔ جہاں جہاں ان سامراجیوں کے قدم پہنچے تباہی اور غارت گری بھی جلو میں آئی تجارت و صنعت پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک صنعتی دور کی ترقیوں کی زد میں آ کر تباہ ہو گئے لطف یہ ہے کہ یہی سرمایہ دار جو اپنے نفع کی خاطر بڑی بڑی قوموں کو برباد کرنے میں ضمیر کی کوئی خلش محسوس نہیں کرتے، خود کو اپنی صنعتی ترقیوں کی بنا پر سب سے زیادہ مہذب اور شائستہ تصور کرتے تھے۔ اس نظام اور تہذیب و شائستگی کا پردہ حالی نے جس طرح چاک کیا ہے۔ وہ دیکھنے کے قابل ہے۔

بات یہ ہے کہ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے نے علم و ہنر میں اس قدر ترقی کی ہے اور وہ دوسرے حصے کے ابنائے جنس سے اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ اگلے زمانے کے فاتح اور کشور کشا جن ناجائز ذریعوں سے مفتوحین کی دولت و ثروت اور سلطنت کے مالک ہوتے تھے۔ ان ذریعوں کے کام میں لانے کی اب مطلق ضرورت نہیں رہی۔ جس قدر مال و دولت پہلے قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ سے حاصل کیا جاتا تھا۔ اس سے اضعاف مضاعفہ اب صنعت اور تجارت کے ذریعہ سے خود بخود کھچا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب دو ایسی گورنمنٹوں کے درمیان جن میں سے ایک شائستہ اور دوسری ناشائستہ ہو تجارتی عہد نامہ تحریر ہو جاتا ہے تو یقیناً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ شائستہ گورنمنٹ بغیر اس کے کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری دوسری گورنمنٹ کے تمام ملک و دولت و منافع و محاصل کی بالکل مالک ہو گئی۔

کروڑوں اہل صنعت و حرفت جن کی دستکاری میکینکس(کلوں مشینوں ) کا کسی طرح مقابلہ نہیں کرسکتی، نان شبینہ کو محتاج ہو جاتے ہیں۔ فلاحت پیشہ لوگوں پر یہ بپتا پڑتی ہے کہ زمین کی پیداوار جس قدر کثرت کے ساتھ غیر ملکوں کو جاتی ہے اسی قدر ملک میں زیادہ کاشت کا تردد کیا جاتا ہے اور اس سبب سے روز بروز زیادہ لاگت لگانی پڑتی ہے اور محنت کا کافی معاوضہ نہیں ملتا۔

پولٹیکل اکانومی (علم سیاست مدن)کا یہ مسلم ّ مسئلہ ہے کہ قدرتی پیداوار کی جس قدر زیادہ مانگ ہوتی جاتی ہے اسی قدر اس کے بہم پہنچانے میں زیادہ لاگت اور زیادہ محنت صرف ہوتی ہے اور مصنوعی چیزوں کی جس قدر زیادہ طلب ہوتی ہے اسی قدر ان پر کم لاگت آتی ہے اور کم محنت صرف ہوتی ہے۔

ملکی تاجروں کے لیے جو کہ شائستہ ملکوں کی مصنوعی چیزوں کی تجارت کرتے ہیں۔ اول تو اوپر والے منافع کی کچھ گنجائش ہی نہیں چھوڑ تے اور اگر قدر قلیل (جیسے آٹے میں نمک) کچھ فائدہ ہوتا بھی ہے تو اپنے ملک کی نہایت ضروری اور ناگزیر اشیا کا نرخ گراں ہونے کے سبب ان کی کمائی میں سے بہت کم پس انداز ہوتا ہے اور جس قدر ہوتا ہے وہ غیر ملکوں کی آرائش اور غیر ضروری چیزوں کے خرید نے میں جو باوجود کمال نفاست اور لطافت کے نہایت ارزاں دستیاب ہوتی ہیں، صرف ہو جاتا ہے۔ پس ان کو بھی فارغ البالی اور آسودگی کبھی نصیب نہیں ہوتی اور اگر سودو سو میں دو چار ایسے نکل بھی آتے ہیں جو اپنے ملک میں مرفہ الحال سمجھے جاتے ہیں ان کا معاملہ اور لین دین ان کروڑ پتیوں سے ہوتا ہے جن کے مقابلے میں وہ اپنے تئیں محض مفلس اور قلانچ تصور کرتے ہیں اور جن کی مانگ کے خوف سے ہمیشہ دوالہ نکل جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔

اگر کہیں آزادیِ تجارت میں کوئی مزاحمت پیش آتی ہے اور بغیر جبر و تعدی کے کام نہیں چلتا تو اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی شائستہ قوم بھی سب کچھ کرنے کو موجود ہو جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ آزادیِ تجارت کی مزاحمت رفع کرنی عین انصاف ہے۔ حالانکہ آج تک پولیٹکل اکانومی نے اس بات کا تصفیہ نہیں کیا کہ فری ٹریڈ کا قاعدہ مطلقاً قرین انصاف ہے یا خاص خاص صورتوں میں خلاف انصاف بھی ہوسکتا ہے۔ انگلینڈ کا فائدہ فری ٹریڈ میں ہے۔ اس لیے وہ اسی کو عین انصاف سمجھتا ہے۔ فرانس اور یونائٹیڈ اسٹیٹس (اضلاع متحدہ امریکہ) اس کو اپنے حق میں بالفعل مضر سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اس کو جائز نہیں رکھتے۔

یہ اقتباس اس بات کا ثبوت ہے کہ حالی غیر ملکی سامراجی استحصال کے مختلف طریقوں سے کتنی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ اس پس منظر میں ان کے دو شعر ملاحظہ ہوں۔

نہیں خالی ضرر سے وحشیوں کی لوٹ بھی لیکن

حذر اس لوٹ سے جو لوٹ ہے علمی و اخلاقی

نہ گل چھوڑے نہ برگ و بار چھوڑے تو نے گلشن میں

یہ گل چینی ہے یالٹّس ہے گلچیں ! یا ہے قزّاقی

ہندستان کی تباہی کی اس سے زیادہ مکمل تصویر وہ بھی دو شعروں میں مشکل ہی سے پیش کی جا سکتی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زرعی اور صنعتی استحصال نے ملک کا اقتصادی اور سماجی ڈھانچہ اس طرح توڑا کہ کہرام مچ گیا۔ کمپنی کو صرف لوٹ درکار تھی۔ رفاہ عام سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ہندستان کا قصباتی نظام تعلیم بھی حکومت کی دانستہ بے توجہی کی بدولت ختم ہو گیا۔ یہ مدرسے جو مدت دراز سے جاگیرداروں کی سرپرستی کی بنا پر چل رہے تھے۔ جاگیروں کی ضبطی کے ساتھ بند ہو گئے، لیکن ان کی بجائے انگریزوں نے عرصے تک تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں کیا۔ مفلسی و بے کاری کے ساتھ جہالت اور جہالت کے ساتھ جرائم کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ مولوی اور پنڈت سوسائٹی کی اخلاقی حالت کے بڑی حد تک ذمہ دار تھے لیکن مغلیہ حکومت اور شرعی عدالتی نظام کی شکست نے انھیں بے کار اور ان کا رشتہ عوام سے منقطع کر دیا۔ دوسرے جاگیر داری دور میں فرد کو سیاسی جمود کے باعث ایک محدود ماحول سے نکلنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی اور اس لیے اس پر سماج کے اخلاقی دباؤ کا اثر زیادہ تھا۔ لیکن جب اقتصادی تباہی نے سماج کا شیرازہ بکھیرا تو اسے کسب معاش کے لیے باہر نکلنا پڑا اور سماج کی گرفت اس کے اخلاق پر نہیں رہی۔ یوں بھی اخلاقی انتشار پیدا ہوا۔ الغرض حالی کے مندرجہ بالا اشعارہندستان کی زرعی، صنعتی، تجارتی، علمی اور اخلاقی تباہیوں کی ایک پوری تاریخ ہیں۔ ایک شعر اور ملاحظہ ہو۔

علم کیا اخلاق کیا ہتھیار کیا

سب بشر کے مار رکھنے کے ہیں ڈھنگ

برطانوی سامراجیوں نے ہندستان میں جو ستم ڈھایا ہے، اسے دیکھتے ہوئے حالی ہندستان کی نوآبادیاتی حکومت کو ایک مستقل عذاب اور لعنت تصور کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کی نگاہیں اس شر میں خیر کے عناصر ڈھونڈھ نکالتی ہیں۔ انیسویں صدی کے نصف اول میں انگریزی حکومت نے لوٹ کھسوٹ کے باوجود سماجی اصلاحات کی طرف بھی قدم اٹھایا تھا۔ ملک نراج کی گرفت میں تھا۔ انتشار اور بدامنی کا دور دورہ تھا۔ ٹھگوں کے حملوں سے (جو در اصل بے روزگار کسانوں کے حملے تھے) خوف کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ رہزنی عام تھی۔ نہ تاجر محفوظ تھے نہ مسافر۔ اس صورت حال میں انگریزی حکومت نے ٹھگی اور رہزنی کا انسداد کیا۔ اور امن و امان کی وہ فضا قائم کی جو مدتوں سے ہندستانی کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ ستی، دختر کشی اور غلامی جیسی وحشیانہ رسمیں جو سیکڑوں سال سے چلی آتی تھیں ان کا بھی بڑی جرأت سے خاتمہ کیا۔ اس کے علاوہ اخبارات کی آزادی اور انگریزی تعلیم کے رواج سے مغرب کی ترقی یافتہ قوموں کے سائنٹفک اور جمہوری خیالات کی اشاعت ہوئی اور میونسپل کمیٹیوں اور کونسلوں کا قیام عمل میں آیا۔ ریل اور تار برقی کی بدولت سفر اور خبر کی جو آسانیاں فراہم ہوئیں ان سے بھی فرسودہ سماجی بندھنوں کے ٹوٹنے اور خیالات کے بدلنے میں بڑی مدد ملی۔ حالی جگہ جگہ ان برکتوں کا جو انگریزی دور حکومت میں میسر آئی تھیں بڑی فراخ دلی سے اعتراف کرتے ہیں۔ مثلاً مناظرہ رحم و انصاف، میں انصاف اپنی بڑائی کی جو دلیلیں پیش کرتا ہے وہ دراصل انگریزی حکومت کا روشن پہلو ہیں۔

میں ہی تھا جس نے کہ ویرانوں کو آباد کیا

میں ہی تھا جس نے کہ اخباروں کو آزاد کیا

حکم سے میرے ہوئی کونسلوں کی ماموری

رائے سے میری بنیں سلطنتیں جمہوری

مجلسیں سیکڑوں ملکوں میں بٹھائیں میں نے

راہیں اغلاط سے بچنے کی سجھائیں میں نے

حکم و قانون کسی گھر میں مقید نہ رہا

سلطنت نامِ ہے اب قوم کی پنچایت کا

اس کے ساتھ ساتھ مسدس کے یہ بند بھی دیکھیے۔

حکومت نے آزادیاں تم کو دی ہیں

ترقی کی راہیں سراسر کھلی ہیں

صدائیں یہ ہرسمت سے آ رہی ہیں

کہ راجا سے پر جا تلک سب سکھی ہیں

تسلط ہے ملکوں میں امن و اماں کا

نہیں بندرستہ کسی کارواں کا

کھلی ہیں سفر اور تجارت کی راہیں

نہیں بند صنعت و حرفت کی راہیں

جو روشن ہیں تحصیل حکمت کی راہیں

تو ہموار ہیں کسب دولت کی راہیں

نہ گھر میں غنیم اور دشمن کا کھٹکا

نہ باہر ہے قزاق و رہزن کا کھٹکا

مہینوں کے کٹتے ہیں رستے پلوں میں

گھروں سے سوا چین ہے منزلوں میں

ہر اک گوشہ گلزار ہے جنگلوں میں

شب و روز ہے ایمنی قافلوں میں

سفر جو کبھی تھا نمونہ سقر کا

وسیلہ ہے وہ اب سراسر ظفر کا

پہنچتی ہیں ملکوں سے دم دم کی خبریں

چلی آتی ہیں شادی و غم کی خبریں

عیاں ہیں ہر اک براعظم کی خبریں

کھلی ہیں زمانہ پہ عالم کی خبریں

نہیں واقعہ کوئی پنہاں کہیں کا

ہے آئینہ احوال روئے زمیں کا

اس ضمن میں وکٹوریہ کی، جشن جوبلی، کے بھی چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

اس عہد نے وہ خوں بھرے ہاتھ کیے قطع

جو پھیرتے تھے بیٹیوں کے حلق پہ خنجر

بیٹوں کی طرح چاہتے ہیں بیٹیوں کو اب

جو لوگ روا رکھتے تھے خونریزیٔ، دختر

جب بیٹیوں نے زندگی اس طرح سے پائی

دی زندگی ایک اور انھیں علم پڑھا کر

اس عہد نے کی آ کے غلاموں کی حمایت

انساں کو نہ سمجھا کسی انسان سے کمتر

دی اس نے مٹا ہند سے یوں رسم ستی کو

گویا وہ ستی ہو گئی خود عہد کہن پر

نابود کیا اس نے زمانہ سے ٹھگی کو

اک قہر تھا اللہ کا جو نوع بشر پر

بند اپنے فرائض میں مسلماں ہیں نہ ہندو

معمور مساجد ہیں تو آباد ہیں مندر

بجتا ہے فقط چرچ میں اتوار کو گھنٹا

سنکھ اور اذاں گونجتے ہیں روز برابر

آخری دو شعر میں حکومت کی مذہبی رواداری کی طرف اشارہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا ترقی پسندانہ کردار انیسویں صدی کے نصف اول حصے میں ختم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد سماجی اصلاحات ترک کر دی گئیں اور مذہبی تعصبات اور توہمات کو برقرار رکھنے یا بڑھانے کے لیے مذہبی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کی گئی۔ حالی اس فریب کو اس قدر جلد نہیں سمجھ سکتے تھے وہ اسے انگریزوں کی رواداری اور کشادہ دلی پر محمول کرتے رہے۔

حالی کی نظر میں انگریزی عہد حکومت کا سب سے روشن پہلو یہ تھا کہ اس کی بدولت شخصی اور مطلق العنان حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور جاگیرداری دور میں سماجی زندگی پر جو تاریکی اور تعطل طاری تھا اس میں عمل اور حرکت کی لہریں ابھرنے لگیں۔ وہ پرانی اور نئی زندگی کا موازنہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

اگرچہ ہم برٹش گورنمنٹ کے نہایت شکر گزار ہیں کہ اس نے ہم کو برخلاف شاہان سلف کے ہر طرح کی آزادی دی ہے۔ ہم اپنی ترقی اور اصلاح کی ہر طرح کی تدبیریں عمل میں لا سکتے ہیں۔ جس طرح ہم اپنی تعلیم و تربیت کا سامان بغیر مداخلت گورنمنٹ کے کرسکتے ہیں، اسی طرح ہر قسم کی سوشل اصلاحیں بغیر گورنمنٹ کی دست اندازی کے کرسکتے ہیں مگر ایشیائی خود مختاری جو ہزار ہا سال سے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ابتدائے آفرینش سے ایک حالت پر چلی آتی تھی اور جس نے ایشیا کی تمام قوموں کو بے حس و حرکت کر دیا تھا، اس کا اثر ابھی تک ہماری رگوں اور پٹھوں میں موجود ہے۔ اس لیے ہم آزادی کی نعمت سے جو گورنمنٹ نے ہم کو بخشی ہے، حالت موجودہ میں فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ہم خاص اپنی بھلائی کا کوئی کام بغیر گورنمنٹ کی امداد کے نہیں کرسکتے۔

یہ سماجی شعور انگریزی عہد کی پیداوار ہے۔ حالی اسے جاگیردارانہ دور کی بے بسی کے مقابلے میں بڑی اہمیت دیتے ہیں اور اسے ایک نعمت سمجھتے ہیں۔

قوم اپنی حدسے آگے کوئی بڑھ سکتی نہ تھی

پیش قدمی سے رکے کب کے کھڑے تھے کارواں

بند تھے ناکے ترقی کے کہ آخر غیب سے

آیا اک سیلاب آزادی کا ریلا ناگہاں

جس نے سب روکیں ہٹا کر کر دیا میدان صاف

غار یا ٹیلا رہا باقی نہ کوئی درمیاں

ہندستان کی تاریخ میں پہلی بار سماج کو جماعتی اعتبار سے ہاتھ پاؤں مارنے اور سماجی کاموں میں حصہ لینے کی جو آزادی ملی تھی اس کا سب سے حسین اظہار دہلی کا جلسۂ کانفرنس، ہے۔ پہلے بند میں وہ ہندستان کے مسلمان بادشاہوں کی فتح و نصرت کے جشن کی تصویر کھینچنے کے بعد دلّی سے سوال کرتے ہیں۔

اے خاک پاک دہلی! اے تخت گاہ شاہاں !

پیش نظر ہیں تیرے سب اگلے سازو ساماں

ہنگامے اس زمیں پر لاکھوں ہیں گرم ہر سو

پر کوئی جشن قومی آتا نہیں نظر یاں

تقریب جشن جس میں ہو کچھ نہ جز اخوت

ملکوں سے جمع آ کر جس میں ہوئے ہوں اخواں

جن کو نہ ہو بلاوا حاکم کا اور قدغن

لایا ہو کھینچ کر دل ان کو نہ حکم سلطاں

ٹھہرائیں جس کو چاہیں وہ آپ میر مجلس

چاہیں جنھیں بنائیں وہ آپ میر ساماں

آئے ہوں اس غرض سے سب مل کے تاکہ سوچیں

دنیا میں کس طرح ہوں سرسبز پھر مسلماں

اے شہ نشین اسلام! اے معدن سلاطین

اے پائے تخت سادات ! اے دار ملک مغلاں

تو جشن گاہ شاہاں ہر عہد میں رہا ہے

ایسا بھی جشن کوئی تجھ میں کبھی ہوا ہے

 اور پھر اگلے بند میں موجودہ قومی جلسوں کو ان شاہی جشنوں پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ صرف فرد واحد کی شان و شوکت کے مظاہر تھے اور یہ پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔

شاہوں کے جشن تھے وہ یہ جشن قوم کا ہے

شوکت میں وہ بڑے تھے عظمت میں یہ بڑا ہے

دولت کے تھے وہ جلوے ملت کا ہے یہ نقشہ

کاغذ کی تھیں وہ ناویں بیڑا یہ نوح کا ہے

بے روح تھے وہ قالب ہے اس میں روح خویشی

موج سراب تھے وہ یہ چشمۂ بقا ہے

میلے نہ وہ بچھڑتے روح ان میں گریہ ہوتی

رہتا ہے آندھیوں میں روشن یہ وہ دیا ہے

یہاں یہ ملحوظ رہے کہ حالی جس آزادی کو برطانوی دور حکومت کا بہت بڑا عطیہ سمجھتے ہیں، وہ صرف سوشل اصلاح کی آزادی ہے۔ حالی اسی کو بہت کچھ سمجھتے ہیں کیونکہ انگریزوں سے پہلے یہ حق بھی میسر نہ تھا۔ چنانچہ وہ چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی جو ساری قوم و ملت کے لیے نفع بخش ہو بڑی عزت اور وقعت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ ان کاموں کو اہمیت نہیں دیتے جن کا فائدہ صرف کسی فرد واحد کی ذات تک محدود ہو۔ یہی خیالات ہیں جو ایک جگہ شعر کے پیکر میں بھی ڈھل گئے ہیں۔

جھٹ پٹے کے وقت گھرسے ایک مٹی کا دیا

ایک بڑھیا نے سررہ لا کے روشن کر دیا

تاکہ رہ گیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں

راہ سے آساں گزر جائے ہر اک چھوٹا بڑا

یہ دیا بہتر ہے ان جھاڑوں سے اور � فانوس سے

روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا

گر نکل کر اک ذرا محلوں کے باہر دیکھیے

ہے اندھیرا گھپ در و دیوار پر چھایا ہوا

سرخ رو آفاق میں وہ رہنما مینار ہیں

روشنی سے جن کی ملاحوں کے بیڑے پار ہیں

ہم نے ان عالی بناؤں سے کیا اکثر سوال

آشکارا جن سے ان کے بانیوں کا ہے جلال

شان و شوکت کی تمھاری دھوم ہے آفاق میں

دور سے آ آ کے تم کو دیکھتے ہیں باکمال

قوم کی اس شان و شوکت سے تمھاری کیا ملا

دو جواب اس کا اگر رکھتے ہو یارائے مقال

سرنگوں ہو کر وہ سب بولیں زبان حال سے

ہوسکا ہم سے نہ کچھ الانفعال !الانفعال!

٭٭٭

 

حالی اور سماجی اصلاحات

حالی کو قدیم اور جدید نظام حکومت کے مطالعہ کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ مسلمان ہنوز اول الذکر ہی سے مانوس تھے اور اسی کو اصلاح و فلاح کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ مذہبی اور سیاسی تعصب یا مغائرت کی بنا پر انھیں انگریزی نظام حکومت میں اپنے لیے کوئی جگہ نظر نہ آتی تھی اور نہ وہ غیر جانب دارانہ طور پر یہ سوچنے کے لیے تیار تھے کہ کس نظام میں کیا خوبی یا خامی ہے۔ یہ رویہ انھیں اور بھی شکست خوردگی اور انحطاط کی طرف لیے جا رہا تھا۔ حالی نے اس رجحان کو روکنے کے لیے مسلمانوں کو بتایا کہ جدید یعنی انگریزی نظام حکومت میں کتنی ہی خرابیاں کیوں نہ ہوں، قدیم کے مقابلے میں اس میں اتنی آزادی ضرور ہے کہ وہ قومی فلاح و بہبود کا کام کسی روک ٹوک کے بغیر کرسکتے ہیں اور اسی محدود آزادی کی بنیاد پر قومی ترقی کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔

قومی ترقی کا احساس حالی کے یہاں سیاسی اور معاشی تغیرات کی بنا پر پیدا ہوا اور سر سید کی طرح انھیں بھی قدیم تہذیب و تمدن، علوم و فنون اور آئین و رسوم کی بنیادوں میں خلل نظر آ رہا تھا۔

لی ہے کروٹ ایک مدت سے زمانے نے بدل

راس تھا اگلوں کو جو موسم گیا کب کا نکل

جو تمدن کی عمارت تھے گئے اسلاف چھوڑ

آ گیا اب اس کی بنیادوں میں سر تا سر خلل

کام کے ہیں اب نہ دنیا میں ہنر ان کے نہ فن

 اور بکار آمد زمانے میں ہے کس ان کا نہ بل

ہیں نئی رسمیں نئے آئیں نئی ہے چال ڈھال

 اور نئے علم و ہنر کا ہے جدھر دیکھو عمل

حالی ان نئی حقیقتوں سے آنکھیں نہیں چراتے۔ وہ ان کی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ زمانہ جس میں بزرگوں نے زندگی بسر کی اور جواَب ختم ہو چکا ہے اس کے تقاضے اور تھے۔ موجودہ زمانہ پرانے زمانے سے بالکل مختلف ہے اس لیے اس کے تقاضوں کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ ان تغیرات کو نہ سمجھنا اور ان تقاضوں کو پورا نہ کرنا بربادی کو دعوت دینا ہے کیونکہ

جس کو کہتے ہیں زمانہ ہے وہ شان کبریا

اس کے وعدے ہیں امٹ، اس کی وعیدیں ہیں اٹل

جو چلے منزل گہِ دنیا میں چال اس کے خلاف

رفتہ رفتہ اس کی چالوں نے دیا ان کو کچل

زمانے کی مخالفت کو حالی اس لیے بھی غلط تصور کرتے ہیں کہ زمانہ شان کبریا ہے اور اس سلسلے میں وہ لاتسبوا� الدہر فان الدہر ہواللہ، کی حدیث جواز میں پیش کرتے ہیں۔

زمانہ دیر سے چلا رہا ہے اے مسلمانو!

کہ ہے گردش میں میری غیب کی آواز ہے پہچانو!

سنے ہوں گر نہ معنی لاتسبوا الدہر کے تم نے

تو اب سن لو کہ ہوں میں شان ربانی مجھے جانو

وہ ناصح اور ہوں گے جن کا کہنا ٹل بھی جاتا ہے

اگر میری نہ مانو گے تو پچھتاؤ گے نادانو!

’زمانہ‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔

’’مبارک ہیں وہ جنھوں نے اس کے تیور پہنچانے اور اس کی چال ڈھال کو نگاہ میں رکھا۔ جدھر کو وہ چلا اس کے ساتھ ہولیے اور جدھر سے اس نے رخ پھیرا اس کے ساتھ پھر گئے۔ گرمی میں گرمی کا سامان کیا اور جاڑے میں جاڑے کی تیاری کی‘‘

’’جو لوگ زمانے کی پیروی نہیں کرتے وہ گویا زمانے کو اپنا پیرو بنانا چاہتے ہیں۔ مگر یہ ان کی سخت خام خیالی ہے۔ چند مچھلیاں دریا کے بہاؤ کو نہیں روک سکتیں اور چند جھاڑیاں ہوا کا رخ نہیں پھیر سکتیں‘‘

’’اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عارضی یا چند روزہ کام یابی مقتضائے وقت کی مخالفت میں بھی حاصل ہوسکتی ہے مگر جو لوگ دنیا میں آ کر کام یابی کا پورا پورا استحقاق حاصل کر گئے وہ وہی تھے جنھوں نے مقتضائے وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا اور جیسا زمانہ دیکھا ویسے بن گئے۔‘‘

مختصر یہ کہ حالی ’زمانہ با تو نہ سازددتو  با زمانہ بساز‘ کے قائل ہیں اور صرف قائل ہی نہیں اس پر ایمان بھی رکھتے ہیں۔

زمانہ کا دن رات ہے یہ اشارا

کہ ہے آشتی میں مری یاں گزارا

نہیں پیروی جن کو میری گوارا

مجھے ان سے کرنا پڑے گا کنارا

سدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی

چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی

اس سے ابن الوقتی یا موقع پرستی مراد نہیں۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان زمانہ یا بہ الفاظ دیگر ان نئی حقیقتوں سے جو انگریزی دور حکومت میں پیدا ہوئی ہیں اپنی سماجی زندگی کو ہم آہنگ کریں۔ اس لحاظ سے حالی اور سر سید ایک ہی انداز میں سوچتے نظر آتے ہیں۔ سر سید کی طرح انھیں بھی مسلمانوں کے اخلاق معاشرت اور مذہب و تعلیم کی اصلاح کی فکر د امن گیر ہے۔ ان امور پر انھوں نے تفصیل سے تو بحث نہیں کی لیکن اپنا نقطۂ نظر ضرور واضح کر دیا ہے۔

حالی کے یہاں اخلاق و معاشرت کا نظریہ بڑی حد تک سر سید سے مستعار ہے وہ مغربی تہذیب کی برتری کے اتنے ہی معترف ہیں جتنا کہ سر سید۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :

ایک اعلیٰ درجے کی شائستہ قوم جو ہماری خوش قسمتی سے ہم پر حکمران ہے اس کا چال چلن، اس کے اخلاق، اس کا طریق معاشرت، اس کے علوم و فنون، اس کی دانش مندی، اس کی تہذیب، اس کے نئے نئے ایجادات جوہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ جب ان باتوں کو اپنے ملک کی موجودہ صورت کے ساتھ مقابلہ کریں تو ضرور ہے کہ ہم کو اپنی اور اپنے ہم وطنوں کی نہایت وحشیانہ حالت پر افسوس آئے اور ہمدردی کا جوش ہمارے دلوں میں موجزن ہو۔

حالی ایک طرف مغربی تہذیب کو دیکھتے ہیں جو دنیاوی طریقوں کی علم برادر ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کی تہذیب ہے جو جاگیری نظام کے انحطاطی دور کی ساری خامیوں اور کمزوریوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہر ترقی کی دشمن ہے۔ یعنی جس طرح مسلمانوں کے علوم و فنون پر جمود طاری ہے اسی طرح ان کے اخلاق و معاشرت میں بھی نشو و نما کی صلاحیتیں ختم ہو چکی ہیں۔

               اخلاق و معاشرت

حالی کو مسلمانوں کے اخلاقی انحطاط کا جتنا رنج ہے اتنا شاید ہی کسی اور چیز کا ہو گا۔ یہ رنج ’شکوۂ ہند‘ میں کافی نمایاں ہے۔ لیکن مسدس میں جب وہ اس موضوع پر آتے ہیں تو ان کے لہجہ میں تلخی سی پیدا ہو جاتی ہے۔ دنیا کا کوئی عیب ایسا نہیں جسے وہ مسلمانوں سے منسوب نہ کرتے ہوں۔

تغّلب میں، بدنیتی میں، دغا میں

نمود اور بناوٹ فریب اور ریا میں

سعایت میں، بہتان میں افترا میں

کسی بزم بیگانہ و آشنا میں

نہ پاؤ گے رسوا و بدنام ہم سے

بڑھے پھر نہ کیوں شانِ اسلام ہم سے

ان کے اکثر قطعے اور رباعیاں اسی موضوع سے متعلق ہیں۔ ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس لیے اختصار کی خاطر ہم یہاں چند عنوانات پر اکتفا کریں گے۔ مثلاً قطعات میں تفاخر سے نفرت کرنے پر تفاخر، نوکروں پر سخت گیری کا انجام، سخن سازی، لوگ کسی کی خوبیاں سن کر اتنے خوش نہیں ہوتے جتنے کہ اس کے عیب سن کر، پاس نیک نامی، غرور نیک نامی، خود ستائی، حملۂ نفس، اپنی ایک ایک خوبی کو بار بار ظاہر کرنا، خوشامد کے معنی، بے اعتدالی، اور رباعیات میں غرور سب عیبوں سے بدتر ہے۔ نیکی اور بدی پاس پاس ہیں۔ مکر و ریا، عفو باوجود قدرت انتقام، ہمت، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

لیکن حالی منفی انداز فکر کے قائل نہیں۔ انھوں نے جہاں اخلاقی کمزوریوں اور خرابیوں کو بے نقاب کیا ہے وہاں عملی اعتبار سے اس کے اصلاحی پہلو پر بھی نظر ڈالی ہے۔ اس ضمن میں ان کا ایک مضمون، تجارت کا اثر عقل و اخلاق پر، نہایت اہم ہے جس میں وہ مسلمانوں کے اخلاقی تنزل کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ شاہی زمانے سے انھوں نے ملازمت کے سوا کسب معاش کے اور ذرائع اختیار نہیں کیے۔ انھوں نے تجارت کی طرف کبھی رخ نہیں کیا جو قوم میں عقل معاش ہی پیدا نہیں کرتی اخلاق کی بھی تہذیب کرتی ہے۔ کیونکہ تاجر کی ضرورتیں ایسی ہیں کہ جب تک وہ انکسار، شیریں زبانی، تحمل و بردباری اختیار نہ کرے اپنے پیشے میں اسے کام یابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ نیز جیسی جرأت و دلیری تجارت کی بدولت پیدا ہوتی ہے ایسی کسی اور پیشے سے پیدا نہیں ہوتی الغرض تجارت کی کامیابی کے لیے جس کا مدار تاجر کے مقبول و معتمد خاص و عام ہونے پر ہے نہایت ضروری ہے کہ تاجر علاوہ عاقل اور مدبر ہونے کے عمدہ اخلاق اور عمدہ خصلتوں سے آراستہ ہو اور اس لیے تجارت کو انسان کا معلم اور اتالیق کہا جائے تو کچھ بیجا نہیں‘‘۔

حالی کا نظریہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اگر اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو جائیں تو ان میں وہی کردار پیدا ہو جائے گا جس کی بدولت وہ کسی زمانے میں دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم بن گئے تھے، لیکن وہ اس سے بھی بے خبر نہیں کہ محکومی اور افلاس کا اثر اخلاق پر کیا پڑتا ہے۔ انسان انسان نہیں رہتا، جانور سے بدتر ہو جاتا ہے۔

فلاکت جسے کہیے ام الجرائم

نہیں رہتے ایماں پہ دل جس سے قائم

بناتی ہے انسان کو جو بہائم

مصلی ہیں دل جمع جس سے نہ صائم

وہ یوں اہل اسلام پر چھا رہی ہے

کہ مسلم کی گویا نشانی یہی ہے

کہیں مکر کے گر سکھاتی ہے ہم کو

کہیں جھوٹ کی لو لگاتی ہے ہم کو

خیانت کی چالیں سجھاتی ہے ہم کو

خوشامد کی گھاتیں بتاتی ہے ہم کو

فسوں جب یہ پاتی نہیں کارگر وہ

تو آخر کو کرتی ہے دریوزہ گر وہ

دوسرے لفظوں میں حالی کا مفہوم یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں کی معاشی حالت درست نہیں ہوتی اس وقت تک کسی قسم کی اخلاقی اصلاح ممکن نہیں۔ وہ اگر چہ شاہ ولی اللہ کی طرح صاف طور سے اخلاق کو اقتصادیات کے تابع قرار نہیں دیتے، لیکن ان کی نظر سے یہ نکتہ پوشیدہ نہیں کہ تجارت یا دستکاری سے اخلاق پر کیا اثر پڑتا ہے اور اقتصادی رشتے کس طرح سیرت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

جہاں تک معاشرت کا تعلق ہے حالی اس کی اصلاح میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو فراموش نہیں کرتے۔ چنانچہ سب سے پہلے ان کی توجہ ان رسوم پر مرکوز ہوتی ہے جن کی ادائیگی پر بے تحاشہ روپیہ صرف ہوتا ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں۔

’’اسپیچوں میں زیادہ تر ان رسموں کی برائی پر زیادہ زور دیا جائے جن کے ترک کرنے سے فضول خرچی اور اسراف کا انسداد مقصود ہے‘‘۔

یہ اسراف صرف رسموں ہی تک نہ تھا بلکہ مسلمانوں کی طرز معاشرت میں اس طرح رچ بس گیا تھا کہ لوگ کفایت شعاری کو رکیک او ر مذموم فعل سمجھنے لگے تھے۔ حالی اس اسراف کے خلاف بار بار اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔

ایک مسرف نے یہ ممسک سے کہا

کب تک اے نادان یہ حبّ مال و زر

تو جو یوں رکھتا ہے دولت جوڑ جوڑ

ہے سدا دنیا ہی میں رہنا مگر

ہنس کے ممسک نے کہا اے سادہ لوح

زر لٹانا رائیگاں اور اس قدر

آج ہی گویا نصیب دشمناں

آپ کا دنیا سے ہے عزم سفر

حالی اسراف کی مذمت ہی نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کی عام معاشی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے وہ بخل کو اسراف پر ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی ایک نظم کا عنوان ہی یہ ہے کہ جس قوم میں افلاس ہواس میں بخل اتنا بدنما نہیں جتنا اسراف۔

معاشرت کی اصلاح کے سلسلے میں حالی جانتے تھے کہ مسلمان عام طور سے عصبیت کے شکار اور قدامت کے پرستار ہیں۔ ان باتوں نے انھیں تنگ نظر اور ہٹ دھرم بنا دیا ہے۔ اس موضوع پر انھوں نے اکثر اظہار خیال کیا ہے۔ لیکن تعصب و انصاف، میں وہ اسے خاص طور سے اٹھاتے ہیں اور تعصب کو فرد اور سماج دونوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ یہ دشمن حالی کے نزدیک، انصاف، سے زیر ہوسکتا ہے۔ جس کا انحصار عقل پر ہے۔ یہاں سر سید کا اثر ان پر صاف طور سے نمایاں نظر آتا ہے، کیونکہ وہ اسی تہذیب کے قائل معلوم ہوتے ہیں جو عقلیت کی علم بردار اور انسانیت اور وسیع النظری کی حامل ہو۔ چنانچہ انیسویں صدی کے مغرب کی ان تہذیبی قدروں کی روشنی میں وہ انگریزوں کے ساتھ کھانے پینے یا ان کا لباس اختیار کرنے میں کوئی برائی نہیں دیکھتے۔ لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ وہ سر سید کی طرح مغربی معاشرت اختیار کرنے کی ترغیب نہیں دیتے۔ البتہ انھیں سر سید سے اس امر میں اتفاق ہے کہ معاشرت اور مذہب دو جداگانہ چیزیں ہے اور مغربی معاشرت اختیار کرنے یا عیسائیوں کے ساتھ کھانے پینے سے ایمان نہیں جاتا۔ تعصب و انصاف، میں انھوں نے انصاف کی دنیا اسی نقطۂ نظر سے پیش کی ہے۔

حق کی پہچان جز اخلاص نہ تھی

حق کی پوشش کو ئی داں خاص نہ تھی

ساتھ اغیار کے کھاتے تھے اگر

کبھی ایماں کا نہ ہوتا تھا ضرر

صلحا لیمپ جلاتے تھے وہاں

اتقیا میز پہ کھاتے تھے وہاں

غور ہر بات میں کی جاتی تھی

مشورت عقل سے لی جاتی تھی

سنتے تھے بات نرالی جس دم

کستے تھے اس کو محک پر پیہم

عادتیں سب کی بدلتی تھیں سدا

ایک اللہ کی عادت کے سوا

عیب جس رسم میں پا لیتے تھے

دل وہیں اس سے اٹھا لیتے تھے

معاشرت کی اصلاح میں بھی حالی نے عملی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اصلاح معاشرت کی امید اسی وقت کی جا سکتی ہے جبکہ ہمارے علما اور واعظین اس ضروری کام کی طرف متوجہ ہوں۔ ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمانوں پر کسی کا اثر تھا تو مولویوں اور عالموں ہی کا تھا اور وہ اس وقت تک کوئی بات نہ مانتے، جب تک کسی ثواب اُخروی کی امید یا عذاب اخروی کا خوف اس میں شامل نہ ہو۔

اس سلسلے میں حالی آریہ سماج کی تحریک کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ یہ نیا مذہبی فرقہ اس دور میں ہندوؤں کی معاشرت کی اصلاح میں بڑا سرگرم تھا اور اس کی کوششیں بار آور ہوئی تھیں۔ اس کی کامیابی کا راز ایک تو وہ جوش تھا جو ہر نئے مذہب کے ماننے والوں میں ہوتا ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ تجارت پیشہ لوگوں نے جو طبعاً کفایت شعار اور جزرس ہوتے ہیں، اس مذہب کو عام طور سے اختیار کر لیا تھا۔ لہذا مسرفانہ رسموں کی مذمت ان کے طبعی میلان کے مطابق ہوتی اور مذہبی جوش کے ساتھ طبعی میلان شامل ہو کر تمام سماج کو ان رسموں کی بیخ کنی پر آمادہ کر دیتا۔  حالی اس نظیر کی روشنی میں سب سے پہلے تاجروں کی اصلاح کو ضروری سمجھتے ہیں اور چونکہ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں آریہ سماج جیسی کوئی پر جوش اور جدید مذہبی جماعت نہ تھی، اس لیے وہ اس کا م کے لیے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کو منتخب کرتے ہیں جو ان دنوں مسلمانوں کی قومی جماعت سمجھی جاتی تھی۔ فرماتے ہیں :

’’ہمارے نزدیک محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اس سیکشن(صیغہ) کو جو کہ اس نے اصلاح معاشرت کے لیے قائم کیا ہے اپنے کام کا آغاز اول مسلمان تاجروں سے کرنا چاہیے۔‘‘

اسی طرح حالی یہ دیکھتے ہیں کہ آریہ سماج میں ہندو عورتیں معاشرتی اصلاحات قبول کرنے کی اس لیے زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ وہ زمانۂ حال کی تعلیم سے بہرہ ور ہیں۔ عورتیں چونکہ عام طور سے مردوں کی بہ نسبت رسم و رواج کی زیادہ پابند ہوتی ہیں، اس لیے حالی کا خیال ہے کہ اس معاملے میں عورتوں کی مزاحمت جس قدر کم ہو گی اسی قدر مردوں کی اصلاح میں آسانی ہو گی۔  وہ مسلمان عورتوں میں پردے کو بھی رسم و رواج کی زیادتی کا ایک سبب قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ گھر کی چار دیواری میں یہی ان کی تفریح و دل بستگی کا سامان ہے۔ اسی پردے کی وجہ سے و ہ موجودہ تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ ان تمام باتوں کا خلاصہ حالی کے الفاظ میں یہ ہے کہ

’’تاوقتے کہ عورتوں میں زمانۂ حال کی تعلیم رواج نہ پائے اور ہمارے واعظین زبانی مجلسوں میں قرآن اور حدیث کی رو سے بیہودہ فضول رسموں کی برائیاں ذہن نشین نہ کریں بہت ہی کم امید ہے کہ ہماری طرز معاشرت میں کوئی معتدبہ اصلاح ہوسکے۔

عورتوں کی تعلیم کے بارے میں حالی کے خیالات سر سید سے بہت کچھ مختلف نظر آتے ہیں۔ سر سید عورتوں کے مخالف نہ تھے۔ لیکن انھیں یہ اندیشہ تھا کہ اس تحریک سے قوم کی توجہ جواب تک مردوں کی تعلیم پر مرکوز رہی ہے کہیں بٹ نہ جائے اور کوئی کام بھی تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ چنانچہ عورتوں کی تعلیم کے بارے میں ان کا رویہ یہ تھا کہ پہلے مرد تعلیم حاصل کر لیں، اس کے بعد وہ خود اپنی عورتوں کو پڑھا لیں گے۔ لیکن حالی عورتوں کے لیے بھی زمانہ حال کی تعلیم ضروری تصور کرتے ہیں کیونکہ اس سے اصلاح معاشرت میں مدد ملتی ہے۔

حالی کے دل میں ہندستانی عورتوں کے لیے جو ایک گہرا درد ہے وہ ہمیں اس دور کے کسی مصلح، مفکر یا شاعر کے یہاں نظر نہیں آتا۔ ان کی ’مناجات بیوہ‘ اور ’چپ کی داد‘ مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں، ’چپ کی داد‘ میں خاص طور سے جاگیرداری عورت کی صحیح تصویر ملتی ہے جو بڑی حد تک مرد کی ملکیت ہوتی تھی۔ اس نظم میں ان تمام بے رحمیوں اور ناانصافیوں کا ذکر ہے جو مردوں نے عورتوں کے ساتھ روا رکھی تھیں۔ انھیں اس لیے جاہل رکھا جاتا تھا کہ کہیں وہ اپنے جائز حقوق سے واقف ہو کر مردوں کی برابری کا دعویٰ نہ کرنے لگیں۔

گزرے تھے جگ تم پر کہ ہمدردی نہ تھی تم سے کہیں

تھا منحرف تم سے فلک برگشتہ تھی تم سے زمیں

دنیا کے دانا اور حکیم اس خوف سے لرزاں تھے سب

تم پر مبادا علم کی پڑجائے پرچھائیں کہیں

ایسا نہ ہو مرد اور عورت میں رہے باقی نہ فرق

تعلیم پاکر آدمی بننا تمھیں زیبا نہیں

یہ نظم سنہ 1905کی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب مسلمانوں کے روشن خیال طبقے میں تعلیم نسواں کی ضرورت کا احساس قوی ہو گیا تھا اور جیسا کہ نظم کے آخری شعر  سے ظاہر ہے۔

سلطان جہاں بیگم فرماں روائے بھوپال کی بھی تائید اسے حاصل ہو چکی تھی۔ یہ مسئلہ جسے سر سید اپنی زندگی میں ٹالتے رہے اب قدامت پسندوں کی مخالفت کے باوجود متشکل ہوتا نظر آ رہا تھا۔ حالی کو ان قدامت پسندوں سے کافی اندیشہ اور اس راہ کی مشکلات کا پورا اندازہ ہے، لیکن وہ اس سے ہراساں نہیں۔ اس کے برعکس وہ تعلیم نسواں کے حامیوں کی ہمت بندھاتے اور دشواریوں سے مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

لیکن جس جوش و خروش سے حالی نے تعلیم نسواں کی حمایت کی ہے، اس سے قدرتی طور پر یہی خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پردے کی مخالفت میں بھی اسی جوش و خروش سے کام لیں گے۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ پردے کو عورتوں کی اصلاح معاشرت میں ایک روڑا تصور کرتے ہیں اور اس حقیقت سے بھی آشنا نظر آتے ہیں کہ حکمراں قوم کے تتبع میں ہندستان کی اکثر پردہ نشیں قومیں پردہ ترک کرتی جا رہی ہیں۔ پھر وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ مسلمان عورتوں میں پردہ بس واجبی سارہ گیا ہے اور پردے کے اندر بد چلنی عام ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر وہ یہ تو کہتے ہیں کہ اگر ساری قوم پردہ ترک کرنے کا تہیہ کر لے تو وہ بھی اس کے لیے تیار ہیں ورنہ صرف چند گھرانوں میں پردہ اٹھ جانے سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو گا۔ لیکن آخر میں جب فیصلہ دیتے ہیں تو پردے ہی کے حق میں دیتے ہیں اور اسے عفت و پاکیزگی کا ضامن قرار دے کر اس کے لیے مذہبی جواز بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ اور چونکہ مسلمان شرعی حکم کے مطابق اب تک پردے کے پابند تھے اس لیے انھیں مسلمانوں میں جو عفت و پاکیزگی نظر آتی ہے اس کے مقابلے میں یورپ کی بے پردہ قوموں میں اس کا دسواں حصہ بھی نظر نہیں آتا۔

حقیقت یہ ہے کہ حالی پردے کے معاملے میں زمانے کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے بھی مذہبی عصبیت اور رسم و رواج کی بیڑیوں سے اپنے آپ کو آزاد نہ کرسکے۔ گو زمانے کا ہر تقاضا پورا کیا جانے کے لیے نہیں ہوتا، پھر بھی یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ حالی اپنے مقدمات کے منطقی نتائج کی تاب نہ لا سکے۔ اس طور پر ان کا مغربی اور مشرقی عورت کا تجزیہ بھی یک طرفہ ہو گیا۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حالی کے اخلاق و معاشرت کی اصلاح کا نظریہ اگرچہ وہی ہے جو سر سید کا تھا، لیکن حالی کا اضافہ یہ ہے کہ وہ اس کے عملی پہلو پر بھی غور کرتے ہیں اور وہ بھی مسلمانوں کی معاشی حالت کے پس منظر میں۔ اسی لیے ان کے یہاں تجارت اور تاجروں کے طبقے کو اخلاق و معاشرت کی اصلاح میں اس قدر اہمیت حاصل ہے۔ نیز اس معاملے میں وہ سر سید کی انتہا پسندی اور جلد بازی کو نا پسند ہی نہیں کرتے، بلکہ ان کے طرز عمل کی درشتی کے شاکی نظر آتے ہیں۔ ذیل کی رباعی میں جس کا عنوان ’رفارم کی حد‘ ہے ان کا اشارہ سر سید ہی کی طرف معلوم ہوتا ہے۔

دھونے کی ہے اے رفارمر  جا باقی

کپڑے پہ ہے جب تلک کہ دھبا باقی

دھو شوق سے دھبے کو پہ اتنا نہ رگڑ

دھبا رہے کپڑے پہ نہ کپڑا باقی

یہاں حالی کے نکتہ رس ذہن نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اصلاح کے جوش میں بنیاد کا شعور ختم نہ ہو جائے۔

               مذہب

جہاں تک مذہبی اصلاح کا تعلق ہے۔ حالی اس کی ضرورت اور اہمیت کو سر سید ہی کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں  ’ہر مذہب ایک مدت کے بعد اپنی اصلیت سے متجاوز ہوتے ہوتے ایک طومار طویل الذیل ہو جاتا ہے۔ لیکن جب زمانے کی ضرورتیں مجبور کرتی ہیں تو اہل مذہب کو ان تمام قصوں، کہانیوں، رسم و رواج، اوہام و تعصبات اور ملکی قوانین جنھیں امتداد زمانہ کی وجہ سے مذہب کے عناصر و ارکان کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے، ترک کر کے صرف اصل مذہب پر قناعت کرنا پڑتا ہے‘‘۔ حالی اپنے دور کو ایسا ہی دور تصور کرتے ہیں جس میں زمانے کی ضرورتیں اہل مذہب کو شکنجے میں کستی ہیں کہ وہ اصل مذہب کو پہچانیں اور اسے حشو و زوائد سے پاک کریں۔

حالی کا زمانہ ہندستان کے صنعتی دور کے آغاز کا زمانہ تھا۔ حالی کو اس کا احساس تھا کہ صنعتی دور میں جاگیرداری دور کی بہ نسبت زندگی کی مصروفیتیں اور کسب معاش کی دقتیں بڑھ جاتی ہیں، کیونکہ وہ اس اسلام کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں جس پر حاشیے چڑھ گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اسی اسلام کو اسلام سمجھ لیا جائے تو کسی شخص کو دین کی ادائیگی سے اتنی مہلت نہیں مل سکتی کہ وہ ذلت و خواری سے بھی اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرسکے۔ دنیا میں عزت سے رہنے یا دین کی شوکت بڑھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب ادنیٰ درجے کی عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے جو تدبیریں کرنا پڑتی ہیں، وہ پہلے غالباً ملک اور سلطنت ہی کو درکار تھیں۔

ان حقیقتوں کے پیش نظر حالی کو یہ خوف تھا کہ کہیں مذہب کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل نہ ہو جائے کیونکہ ان کے نزدیک دنیا کی بہبودی یا دین کی کامیابی مقتضائے وقت کی موافقت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی تھی ۔ یہ دراصل سر سید کا نظریہ تھا۔ حالی اس کے قائل ہی نہیں علم بردار بھی ہیں۔ سر سید نے مذہب کو مغرب کے صنعتی دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مغرب کی عقلیت اور سائنس کی روشنی میں اسلام کو پیش کیا اور اسے تعلیم یافتہ طبقے کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں انھوں نے صرف قرآن کو مذہب کا اصل سرچشمہ قرار دیا اور اس کی وہ تفسیر پیش کی جو مغربی اقدار کے مطابق تھی۔ حالی نے سر سید کی ان کوششوں کو ہمیشہ سراہا اور اگرچہ انھیں سر سید کی تفسیر القرآن میں بعض جگہ نمایاں لغزشیں نظر آئیں پھر بھی انھوں نے سر سید کی مذہبی خدمات میں اسے ایک نہایت جلیل القدر خدمت سے تعبیر کیا۔  لیکن خود حالی نے مذہب اور وقت کے تقاضوں میں مطابقت پیدا کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ سر سید سے قطعی مختلف ہے۔ عقل و سائنس کے بجائے وہ ’الدین یسرٌ‘ کو مذہبی اصلاح کا معیار قرار دیتے ہیں۔

شریعت کے احکام تھے وہ گوارا

کہ شیدا تھے ان پر یہود و نصاریٰ

گواہ ان کی نرمی کا قرآں ہے سارا

خودالدین یسراً نبی نے پکارا

مگریاں کیا ایسا دشوار ان کو

کہ مومن سمجھنے لگے بار ان کو

الدین یسرٌ کی تصریح کے لیے حالی نے اسی عنوان سے ایک مضمون بھی سپرد قلم کیا ہے۔ اس میں انھوں نے قرآن اور حدیث کی رو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دین آسان ہے۔ تمام ادیان کا خاص مقصد اخلاق انسان کی تہذیب ہے۔ دین برحق وہی ہے جس میں کوئی بندش ایسی نہ ہو جو انسان کو اس کی واجبی آزادی سے محروم کر دے۔ تعصب جو انسانی ترقی کا مانع ہے اس کے ناگوار بوجھ سے اسلام کو طرح طرح سے سبک دوش کیا گیا ہے۔ اہل کتاب کا کھانا مسلمانوں کے لیے حلال ہے۔ لونڈی غلاموں کی اس قدر حمایت کی گئی ہے کہ وہ حقیقتاً یا حکماً ہمیشہ کے لیے آزاد کر دیے گئے ہیں۔ رائے انسانی کو اسلام میں یہاں تک آزادی حاصل ہے کہ وہ حکم جو نبی اپنی رائے سے دے اسے ماننے یا نہ ماننے کا لوگوں کو اختیار دیا گیا۔  الغرض اصل دین آسان تھا اور اس میں واجبی امنگ اور خوشی اور آزادی کو روکنے والی کوئی شے نہ تھی، لیکن کچھ مدت کے بعد اس پر حاشیے چڑھنا شروع ہو گئے۔ حالی نے ان کی اچھی خاصی تفصیل دی ہے لیکن پہلا حاشیہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں انھوں نے دین اور دنیا کی جدا گانہ حیثیتوں سے بحث کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ پیغمبر اسلا م کی تعلیم کے دو پہلو ہیں۔ ایک تعلیم تو وہ ہے جو آنحضرت کے فرائض منصبی میں داخل تھی۔ یعنی احکام الٰہی کی تبلیغ لوگوں کو مبدا اور معاد کی حقیقت سے آگاہ کرنا اور ان کے عقائد باطلہ اور اخلاق رذیلہ کی اصلاح کرنا۔ اس کا نام شریعت تھا اور اس کی مخالفت پر ضلالت کا اطلاق ہوتا ہے۔ دوسری تعلیم معاش سے تعلق رکھتی ہے اور آپ کے فرائض منصبی سے متعلق نہ تھی۔ چنانچہ اس کی تعمیل امت پر فرض نہیں۔  حالی نے اس دعوے کے ثبوت میں قرآن اور حدیث کے حوالوں کے علاوہ شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کے اقتباسات بھی فراہم کیے ہیں۔ غالباً اپنے اس نقطۂ نظر کے لیے وہ شاہ صاحب ہی کے ممنون ہیں۔

مختصر یہ کہ حالی نے بھی سر سید کی طرح موجودہ دور کی ترقیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دین کو دنیا سے جدا کیا، اگرچہ ان کا طریق کا ر سر سید کی مانند سائنٹفک نہ تھا۔ یہاں غیر شعوری طور پر وہ سرمایہ دارانہ دور کی اس خصوصیت کو اپناتے ہیں جس کے ماتحت مذہب ذاتی عقیدے کی چیز بن جاتا ہے۔ اور دنیوی مسائل میں اس کا احتساب اور سخت گیری قائم نہیں رہتی۔ قرآن میں انھیں نئی تفسیر کی گنجائش نظر آتی تھی۔  لیکن اس کے باوجود انھوں نے سر سید کی طرح نہ تو قرآن کی کوئی نئی تفسیر پیش کی اور نہ اسلام کی کوئی نئی تعبیر۔ اس کے بر خلاف انھوں نے مذہب کو نئی کسوٹیوں کے بجائے پرانی کسوٹیوں ہی پر پرکھا اور اسے نئے حالات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ یہ کوشش عام طور سے سر سید کی تائید میں تھی، مخالفت میں نہ تھی۔ مثال کے طور پر سر سید کے یہاں اگر دین کے مقابلے میں دنیا پر زور ہے تو حالی بھی دین و ملت کی بقا کا انحصار دنیاوی ترقیوں ہی پر رکھتے ہیں۔

گئے وہ دن کہ نفریں کرتے تھے دین دار دنیا پر

بقائے دین و ملت منحصر دنیا پہ اب جانو

اس سلسلے میں یہ امر قابل توجہ ہے کہ سر سید مروجہ صوفیانہ عقائد کے قائل نہ تھے۔ صوفیا اور صوفی منش شعرا نے دنیا کے گزشتنی اور گزاشتنی ہونے پر اتنا زور دیا تھا کہ حرکت و عمل کی قوتیں مضمحل ہو گئی تھیں اور دنیوی ترقی کے لیے جدوجہد کا خیال سرے سے جاتا رہا تھا۔ سر سید نے اس تصور کو عام ذہنوں سے دور کرنے کی کوشش کی اور دنیوی ترقی کے لیے عمل و حرکت کا پیغام دیا۔ حالی بھی اس امر میں سر سید کے ہم خیال ہیں اور ان تمام صوفیانہ تصورات کے سخت مخالف ہیں جو دنیا کی بے ثباتی، تقدیر پرستی اور بے عملی کی طرف رہبری کرتے ہیں۔ ان تصورات کے بارے میں حالی کا بیان یہ ہے کہ اگر تمام انسان ان پر کاربند ہوں تو دنیا کے سارے کاروبار درہم و برہم ہو جائیں۔ شجاعت اور ہمت، عقل اور تدبیر، محنت اور جفا کشی، عدالت اور سیاست، غرض کہ وہ سب صفتیں جو انسان کو انتظام معاش کے لیے عطا ہوئی ہیں یک قلم معطل اور بیکار ہو جائیں۔

صوفیانہ عقائد اور تصورات بہت کچھ جاگیرداری دور کی شخصی اور جابرانہ حکومت کی پیداوار تھے۔ اس نظام میں صناعوں، دستکاروں اور تعلیم یافتہ طبقے کی معاش کا انحصار عام طور سے فرمانروا طبقے کے رحم و کرم پر تھا، اس لیے اول الذکر طبقوں نے اپنی تسکین کے لیے رفتہ رفتہ ایک ایسے فلسفہ کی تشکیل کی جو اس کی محرومیوں اور مجبوریوں کا جواز بن سکے۔ چنانچہ ناپائیداریِ دنیا، تقدیر، توکل جبر اور اسی قسم کے تصورات نے عقائد کی صورت اختیار کر لی اور سماج میں ایک عام جمود اور تعطل کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ لیکن صنعتی دور میں محنت اور عمل کے بغیر زندہ رہنا دشوار ہی نہیں ناممکن تھا۔ چنانچہ حالی نے اگر ان تصورات کو عقل اور مذہب دونوں کی رو سے غلط ٹھہرایا اور ان تصورات کی اشاعت کی جو عمل و حرکت سے ہم کنار تھے تو کوئی تعجب کی بات نہیں، دنیا کا وجود صوفیا کے نزدیک موہوم تھا۔ حالی اسے یقینی سمجھتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کی ہر شے اسباب و علل کے ساتھ وابستہ ہے۔

دوستو! انکار اگر تم کو بداہت کا نہیں

عالم اسباب ہے دنیا اسے جانو یقیں

کاہ سے لے کوہ تک ذرے سے لے تا آفتاب

سب کو ہے جکڑے ہوئے اسباب کی حبل المتیں

حالی صوفیا کی طرح انسا ن کی مجبوری اور ناچاری کے قائل نہیں۔ وہ انسان کو افعال میں صاحب اختیار سمجھتے ہیں۔ جبر و قدر کا قدیم نزاعی مسئلہ ان کے خیال میں مذہب سے متعلق نہیں۔

جبریہ و قدریہ کی بحث و تکرار

دیکھا تو نہ تھا کچھ اس کا مذہب پہ مدار

جو کم ہمت تھے ہو گئے وہ مجبور

جو با ہمت تھے بن گئے وہ مختار

تقدیر کا عقیدہ بڑا محبوب و مقبول عقیدہ تھا۔ حالی نے اس مسئلے پر بھی قلم اٹھایا ہے اور تقدیر پرستوں کی خاصی خبر لی ہے۔

کبھی کہتے ہیں سعیۂ و کوشش سے حاصل

کہ مقسوم بن کوششیں سب ہیں باطل

نہیں ہوتی کوشش سے تقدیر زائل

برابر ہیں یاں محنتی اور کاہل

ہلانے سے روزی کی گر ڈور ہلتی

تو روٹی نکموں کو ہرگز نہ ملتی

نکموں کے ہیں سب یہ دل کش ترانے

سنانے کو قسمت کے رنگیں فسانے

اسی طرح کے کر کے حیلے بہانے

نہیں چاہتے دست و بازو ہلانے

وہ بھولے ہوئے ہیں یہ عادت خدا کی

کہ حرکت میں ہوتی ہے برکت خدا کی

حالی کے نزدیک مختلف اسباب میں جو مختلف تاثیریں ہیں اسی کا نام تقدیر الٰہی ہے۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ جو نفع یا نقصان پہنچنے والا ہے وہ ضرور پہنچے گا، خواہ تدبیر کی جائے یا نہ کی جائے۔ اسی طرح توکل کے صحیح معنی اپنے کو عاجز سمجھنے اور خدا پر بھروسہ کرنے کے ہیں اور شریعت کی رو سے یہ تدبیر کے منافی نہیں کیونکہ اگر تدبیر اور توکل میں منافات ہوتی تو کسب معاش میں کوشش کرنے کی ترغیب و تعریف نہ ہوتی۔ تدبیر ان کی نظر میں فطرت انسانی کا خاصہّ اور کامیابی کا سیدھا راستہ ہے توکل کی اس لیے تعریف کی گئی ہے کہ انسان اپنی تدبیر پر مغرور نہ ہو او ر یہ نہ سمجھے کہ اگر قدرتی تائیدیں نہ ہوں اور وہ تمام اسباب جو کامیابی کے لیے مقدر ہیں مساعدت نہ کریں تو کامیابی ناممکن ہے۔ توکل کی تعلیم میں دنیاوی مصلحت یہ ہے کہ انسان خدا پر بھروسہ کرے اور مشکلات میں کہیں جی نہ چھوڑ دے۔ چنانچہ توکل کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ تدبیر و کوشش میں اور بھی زیادہ جرأت اور حوصلہ پیدا ہو۔ لیکن تدبیر کے باوجود انسان کو بعض اوقات ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور انسان تدبیر کو لاحاصل سمجھنے لگتا ہے۔ اس کی اصل وجہ عام طور سے تدبیر کا نقص ہے۔ کوششوں اور تدبیروں کی ناکامی کی ایک وجہ حالی یہ بھی بتاتے ہیں کہ جس قوم میں زمانہ کے مطابق علوم و فنون کی تعلیم رائج نہیں ہوتی ان کا تجربہ اور واقفیت محدود ہوتی ہے اور اس لیے ان کی تدبیریں اکثر غلط یا غیر مفید ثابت ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب پے درپے ناکامیاں ہوتی ہیں تو وہ تدبیر کو ہیچ و پوچ سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن ایشیائی قوموں میں حالی کے نزدیک پست ہمتی کی سب سے بڑی وجہ اوہام کا غلبہ اور عقل کی مغلوبیت ہے اور چونکہ مسلمان بھی ان ہی اوہام میں مبتلا ہیں۔ اس لیے ان میں بھی کم حوصلگی پیدا ہو گئی اور وہ اپنے آپ کو مجبور و ناچار سمجھنے لگے۔ آخر میں حالی کامیابی کے لیے تین شرطوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ محنت، علم اور ہنر۔ یہ تین چیزیں ہوں تو جلد یا بدیر کامیابی یقینی ہے۔

               تعلیم

تعلیم کے بارے میں حالی کے تصورات واضح ہیں۔ وہ سر سید کی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پرانے علوم و فنون جو جمود و انحطاط کے عالم میں تھے، ان کی تحصیل سے موجودہ دور میں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ نہ تو ان سے کسب معاش ہی میں مدد مل سکتی ہے اور نہ وہ مغربی عقلیت اور سائنس کے مقابلے ہی میں ٹھہرسکتے ہیں۔

نتائج ہیں جو مغربی علم و فن کے

وہ ہیں ہند میں جلوہ گر سوبرس سے

تعصب نے لیکن یہ ڈالے ہیں پردے

کہ ہم حق کا جلوہ نہیں دیکھ سکتے

دلوں پر ہیں نقش اہل یوناں کی رائیں

جواب وحی اترے تو ایماں نہ لائیں

اب اس فلسفہ پر جو ہیں مرنے والے

شفا اور مجسطی کا دم بھرنے والے

ارسطو کی چوکھٹ پہ سر دھرنے والے

فلاطون کی اقتدا کرنے والے

وہ تیلی کے کچھ بیل سے کم نہیں ہیں

پھرے عمر بھر اور جہاں تھے وہیں ہیں

نہ سرکار میں کام پانے کے قابل

نہ دربار میں لب ہلانے کے قابل

نہ جنگل میں ریوڑ چرانے کے قابل

نہ بازار میں بوجھ اٹھانے کے قابل

نہ پڑھتے تو سو طرح کھاتے کما کر

وہ کھوئے گئے اور تعلیم پاکر

مغربی علوم و فنون جو حالی کے قول کے مطابق ہندستان میں سو سال سے جلوہ گر تھے، ان سے کسی نے فائدہ اٹھایا تھا تو ہندوؤں نے اٹھایا تھا۔ انگریزی تعلیم کی بدولت وہ ایک طرف سرکاری ملازمتوں کے حصول میں کامیاب تھے تو دوسری طرف انھوں نے صنعت و حرفت اور آزاد پیشوں کو ذریعہ معاش بنا لیا تھا۔ لیکن سر سید نے جب مسلمانوں کے لیے مغربی تعلیم کی بنا ڈالی تو ان کا مقصد صرف ملازمتوں کا حصول تھا جس کے لیے وہ حکومت کے ساتھ مسلمانوں کی وفاداری کو بھی ایک ضروری شرط قرار دیتے تھے۔ حالی سر سید کے ان خیالات سے بخوبی واقف تھے اور انھیں اس کا احساس تھا کہ موجودہ حالات میں حکومت کی خوشنودی مسلمانوں کے لیے کتنی ضروری ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ سر سید اپنی انتھک کوششوں کے باوجود مغربی تعلیم کی بنیاد اس وقت تک نہ ڈال سکے جب تک حکومت نے خود اس میں دلچسپی نہ لی اور دست اعانت نہ بڑھایا۔ علی گڑھ کالج اس کا زندہ ثبوت تھا۔

پاؤ گے تاریخ میں ہرگز نہ تم اس کی مثال

سلطنت نے قوم کی جو یاں مدد فرمائی ہے

ان حالات میں حالی کے لیے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ سر سید کی تائید و ترجمانی کرتے، چنانچہ سر سید نے کالج کے قیام کے جو مقاصد قرار دیے تھے وہی حالی نے بھی پیش کئے ہیں۔

یہ کالج قوم کو آپ اپنے بل چلنا سکھاتا ہے

سہارا غیر کا چھوڑیں یہ اک اک کو سجھاتا ہے

نہ چھوڑیں دین کا دامن رہیں دنیا میں عزت سے

سبق سب قوم کے بچوں کو یہ دونوں پڑھاتا ہے

نہیں پاتا کبھی عزت کی خواہش سے کوئی عزت

معزز کس طرح بنتے ہیں گُر اس کو سکھاتا ہے

خدا نے کر دیا ہے حکمراں جس قوم کو ہم پر

خلوص اور دوستی اس قوم کی دل میں بٹھاتا ہے

رعیت کو برابر حق دیے ہیں جو حکومت نے

طلب سے پہلے ان کا مستحق بننا بتاتا ہے

وفا کا بیج بوتا ہے تعصب دل سے کھوتا ہے

مسلمانوں کو گڈ سبجیکٹ بننا یہ سکھاتا ہے

علی گڑھ کالج کے متعلق اسی قسم کے وفا دارانہ خیالات کا اظہار حالی نے ایک اور نظم میں بھی کیا ہے۔

اطاعت سلطنت کی احترام اہل حکومت کا

وفاداری کی گردن میں بندھی سب کے رسن دیکھیں

زباں سے قیصر ہندوستاں کا نام لے کوئی

تو اک دریا محبت کا دلوں میں موجزن دیکھیں

لیکن حقیقت یہ ہے کہ وفاداری کی رسن، حالی کے نزدیک مجبوری اور مصلحت تھی۔ تعلیم اور اس کے مقصد کے بارے میں ان کا اپنا نظریہ سر سید کے نظریہ سے قطعی مختلف تھا۔ اس نظریے کو انھوں نے کھلم کھلا سرسیّد کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ وہ سر سید کی تعلیمی تحریک میں جو بڑی مشکل سے صورت پذیر ہوئی تھی کسی قسم کا رخنہ ڈالنا پسند نہ کرتے تھے۔ دوسرے وہ یہ بھی نہیں بھولتے کہ مسلمانوں میں مغربی تعلیم رائج کر کے سر سید نے قوم پر وہ احسان کیا ہے جس کی شکر گزاری کے لیے الفاظ مساعدت نہیں کرتے۔

ہمارے شکر سے اے قوم احسان اس کا بالا ہے

کہ جس نے قوم کی تعلیم کا یاں ڈول ڈالا ہے

شکر وا متنان کے اس جذبے نے حالی کی زبان تو بند نہیں کی، لیکن انھوں نے اپنا نقطۂ نظر اور اپنا پروگرام کچھ اس انداز میں پیش کیا کہ اس میں سر سید کی مخالفت کا انداز نہ پیدا ہونے پائے۔ یعنی ایک طرف وہ سر سید کی تائید کرتے رہے دوسری طرف اپنی بات بھی کہتے رہے۔

یہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ حالی مغربی علم و فن ہی کو مسلمانوں کی مشکلات کا اصل حل سمجھتے تھے۔ لیکن اس سے ان کی مراد عام طور سے وہ علم و فن تھے جن کی بنیاد سائنس پر ہے۔ حالی کی نظر سے یہ حقیقت پوشیدہ نہ تھی کہ انگریزوں کی سرمایہ دارانہ حکومت کی بدولت ہندستان مشینی صنعت کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ مشین کی قوت، عظمت اور ہیبت کا احساس ان کے یہاں جتنا قوی ہے اتنا ہی درست ہے۔ سائنس نے مغرب میں جو انقلاب برپا کیا تھا اور جس طرح وہ زندگی کے مختلف شعبوں کو متاثر کر رہی تھی، حالی اس سے بے خبر نہ تھے۔ سائنس کی بدولت انسان نے فطرت کی قوتوں پر قابو پاکر کائنات کی تسخیر شروع کر دی تھی، تحقیق و ایجاد کی صلاحیتیں بیدار ہو چکی تھیں اور نت نئی فتوحات سامنے آ رہی تھیں۔

اس نے ان کمزور ہاتھوں سے مسخر کر لیا

ابرو برق و باد سے تا بحر و بر و دشت و در

کل کی تحقیقات نظروں سے اتر جاتی ہے آج

بڑھ رہا ہے دم بدم یوں آج کل علم بشر

قوت ایجاد نے اب یاں تلک پکڑا ہے زور

شام کی ایجاد ہو جاتی ہے باسی تاسحر

اس کے علاوہ مشین کی ایجاد سے ذرائع پیداوار بدل گئے تھے۔ مشینی مال کی کثرت قدیم صنعت و دستکاری کا گلا گھونٹ رہی تھی اور سائنس کی حقیقتوں کے آگے قدیم علم و حکمت کے تصورات دم توڑ رہے تھے۔

رو ترقی کی چلی آتی ہے موجیں مارتی

اگلے وقتوں کے نشاں کرتی ہوئی زیرو زبر

دستکاری کو مٹاتی صنعتوں کو روندتی

علم و حکمت کی پرانی بستیاں کرتی کھنڈر

حالی کا یہ صنعتی شعور ان کے لیے بڑا تکلیف دہ تھا۔ انھیں یہ فکر دامن گیر تھی کہ مسلمان جواب تک جاگیردارانہ ذہنیت میں اسیر ہیں سائنس اور صنعت کے دور میں کس طرح زندگی بسر کریں گے، کیونکہ صنعتی عہد میں جاگیری دور کے برخلاف کسب دولت کا انحصار ذاتی محنت و مشقت پر ہوتا ہے۔

گئے وہ دن کہ ثروت باپ دادا چھوڑ جاتے تھے

بس اب ثروت ہے مزدوروں کا حصہ اے تن آسانو!

انھیں اس کا یقین تھا کہ موجودہ دور میں کوئی پیشہ یا فن، علم یعنی سائنس کے بغیر نفع بخش ثابت نہیں ہوسکتا۔

گیا دور حکومت کا بس اب حکمت کی ہے باری

جہاں میں چار سو علم و عمل کی ہے عمل داری

ضرورت علم و دانش کی ہے ہر فن اور صناعت میں

نہ چل سکتی ہے اب بے علم نجّاری نہ معماری

جہاں علم تجارت میں نہ ماہر ہوں گے سوداگر

تجارت کی نہ ہو گی تا قیامت گرم بازاری

علم و دانش کی ضرورت حالی کی نظر میں صرف نجاری، معماری اور تجارت جیسے پیشوں تک محدود نہیں بلکہ ادنیٰ سے ادنیٰ پیشے میں بھی وہ اسے کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق وہ زمانہ آ گیا تھا کہ آقاؤں کو ان نوکروں کی خدمت پسند نہ آئے گی جو زیور تعلیم سے عاری ہوں گے۔ سائنسی کے پیشے کے لیے بھی امتحانِ علم بیطاری دینا پڑے گا۔ بکالوں اور ب اور چیوں کو بھی اپنے فن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنا ہو گی۔

الغرض:

کوئی پیشہ نہیں اب معتبر بے تربیت ہرگز

نہ فصادی، نہ جراحی، نہ کحالی، نہ عطاری

جہاں تک دیکھیے تعلیم کی فرماں روائی ہے

جو سچ پوچھو تو اوپر علم ہے نیچے خدائی ہے

جاگیری دور میں حالی کے نزدیک علم و ہنر کی حیثیت زیادہ تر آرائشی اور نمائشی تھی۔ مسلمانوں کا اعلیٰ طبقہ اسے صرف اس لیے حاصل کرتا تھا کہ سوسائٹی میں اسے عزت کی نظر سے دیکھا جائے۔ لیکن موجودہ دور میں علم و ہنر کی وہ حیثیت باقی نہیں رہی تھی۔ اب یہ وجہ آرائش نہیں وجہ زندگی بن گئے تھے۔ یعنی پہلے یہ معاش کا ذریعہ نہ تھے لیکن اب خود معاش کا دارومدار ان پر تھا۔

گئے دن وہ کہ تھا علم و ہنر انسان کا زیور

ہوئی ہے زندگی خود منحصر اب علم و دانش پر

 اور پھر حالی کو جاگیری دور کے جمود کے مقابلے میں عہد حاضر کی تیز رفتاری کا بھی احساس تھا۔

یہ دورہ ہے بنی آدم کی روز افزوں ترقی کا

جو آج اک کام ہے اعلیٰ توکل ہے اس سے اعلیٰ تر

اس روز افزوں ترقی کے دور میں جس کا انحصار علم و دانش پر تھا مسلمانوں کو اپنے جینے کا سامان اور جگہ پیدا کرنی تھی۔ حالی کے خیال میں یہ صرف اسی وقت ممکن تھا جب وہ مقتضائے حال کے مطابق جدید تعلیم پر مائل ہوں ورنہ ان کے نام و نشان کا صفحۂ ہستی سے مٹ جانا یقینی تھا۔

زمانہ نام ہے میرا تو میں سب کو دکھا دوں گا

کہ جو تعلیم سے بھاگیں گے نام ان کا مٹا دوں گا

اس تعلیم سے حالی کی مراد وہ تعلیم ہے جو مسلمانوں کو سائنٹفک طور پر آزاد پیشے اختیار کرنے کے قابل بنا دے۔ وہ در اصل سر سید کے برعکس ٹکنیکل ایجوکیشن کے حامی نظر آتے ہیں۔ سائنسی علوم کی تعلیم بھی ان کے یہاں ثانوی اہمیت رکھتی ہے۔ ان کا سارا زور صنعت و دستکاری کی تعلیم پر ہے جسے وہ عام خواہشوں کے مطابق تصور کرتے ہیں۔

بالفعل بہ نسبت اس کے کہ ایک مدرسہ فزیکل سائنس کی تعلیم کے لیے قائم کیا جائے۔ بہتر ہے کہ ایک تعلیم خانہ صنعت اور دستکاری کے لیے کھولا جائے، کیونکہ پہلی صورت کی بہ نسبت دوسری صورت عام خواہشوں کو زیادہ پورا کرنے والی ہے۔

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ مذکورہ بالا خیال کا اظہار حالی نے اس زمانے میں کیا جو علی گڑھ کالج کے قیام کا زمانہ ہے یعنی سنہ 1876۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حالی ابتدا ہی سے تعلیم کے مسئلے پر سر سید سے اختلاف رکھتے تھے۔ اور صرف ایسی تعلیم کے حق میں تھے جو عملی اعتبار سے بھی مفید و کار آمد ہو۔ انھوں نے ایک مثال میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو انگریزوں کی ترقی یافتہ قوم کے علوم کس طرح اور کس نقطہ نظر کے تحت حاصل کرنے چاہئیں۔ اب تک جو نظریہ کار فرما تھا وہ ان کے خیال میں افسوس ناک تھا لکھتے ہیں :

 ’’لیکن اس غیر قوم سے جوں جوں میل جول بڑھتا گیا اُن کو اِن کی اور اِن کو اُن کی زبان سیکھنے کی ضرورت زیادہ ہوتی گئی۔ انھوں نے اول ان کی زبان سیکھی پھر رفتہ رفتہ ان کے علم بھی سیکھنے لگے۔ جن علموں کے ذریعہ انھوں نے ہر فن میں ترقی کی تھی وہ علم بھی انھوں نے حاصل کیے مگر سوائے رٹ لینے کے کوئی عملی فائدہ ان کے علموں سے نہ اٹھایا۔ وہ علم کو عمل کی غرض سے سیکھتے تھے۔ انھوں نے علم کو محض علم کے واسطے سیکھا۔  وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ علم آدمی کے لیے بنا ہے۔ مگر یہ بہ مشکل ابھی یہیں تک پہنچے تھے کہ آدمی علم کے لیے بنا ہے۔ اب تاوقتے کہ وہ علم کو عمل کی غرض سے نہ پڑھیں اور اس سے عملی فائدے نہ اٹھائیں تب تک ممکن نہیں کہ ان کی حالت درست ہو۔‘‘

حالی کو اس طریقہ تعلیم کی نسبت جس کی بنیاد میکالے نے ڈالی تھی، کوئی حسن ظن نہ تھا۔ اس تعلیم کی غایت یہ تھی کہ سامراجی نظم و نسق زیادہ خوش اسلوبی سے چل سکے۔  حالی اس راز کو خوب سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا یہ آل نامہ ملاحظہ ہو:

العلم قسمے از جہل مرکب

 الامتحان آزمائش لیاقت ممتحنان

 الیونیورسٹی کارخانہ کلرک سازی

یعنی یونیورسٹی کی تعلیم کا اصل مقصد حالی کے نزدیک دفتروں کے لیے کلرک مہیا کرنا تھا۔ امتحان کے طریقے کو وہ محض ایک ڈھونگ سمجھتے ہیں جس سے طلبا کی صحیح قابلیت کا اندازہ ناممکن ہے۔ چنانچہ اس نظام تعلیم میں تحصیل علم کے بعد بھی جہالت میں کوئی کمی نہیں ہوتی طلبا میں نہ علمی بصیرت پیدا ہوتی ہے نہ عملی صلاحیت۔ حالی علم کو عمل کی خاطر حاصل کرنے کے قائل ہیں اور چونکہ مروجہ طریقۂ تعلیم سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا اور فارغ التحصیل طلبا میں ملازمت کے سوا کوئی ایسی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی کہ وہ اپنے پیروں پر آپ کھڑے ہوسکیں۔ اس لیے انھیں سخت مایوسی ہوتی ہے یہاں بھی سر سید سے ان کا اختلاف ظاہر ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں۔

’’ہماری قوم میں انگریزی تعلیم (جو پریکٹیکل] عملی یعنی کام کرنے والے اشخاص پیدا کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ ) چشم بد دور  روز  بروز بڑھتی جاتی ہے اور تعلیم یافتہ اصحاب کی تعداد میں ہر سال معقول اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر افسوس ہے کہ مستثنیٰ صورتوں کے سوا عملی قوت اور سلف ہلپ (اپنی مدد آپ کرنا) کا مادہ ان میں تعلیم کے بعد اتنا بھی باقی نہیں رہتا جتنا کہ مدرسہ میں داخل ہوتے وقت وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ ‘‘

 ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جس کی بڑی دوڑ بی۔ اے یا ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یہ ہے کہ مڈل پاس کیے ہوئے طلبہ کی طرح سرکاری نوکری کے لیے ادھر ادھر سلسلہ جنبانی کرتا پھرے اور ذریعوں اور سفارشوں کی تلاش میں ایک مدت تک سرگرداں  و پریشان رہے۔ ان کو اپنے دست و بازو پر اتنا بھی بھروسہ نہیں ہوتا جتنا کہ چرندوں اور پرندوں کو اپنی قوت لایموت کی تلاش میں ہوتا ہے۔ وہ وجہ معاش کو غلامی یعنی نوکری ہی میں منحصر جانتے ہیں ان میں اور ایک غریب اورینٹل ا سکالر (عربی یا فارسی کا عالم) میں صرف اتنا ہی فرق ہوتا ہے کہ انھوں نے زمانہ کی ضرورت کے موافق باقاعدہ غلامی کا پیشہ سیکھا ہے اور اس بیچارے نے نہیں سیکھا

عملی قوت اور سلف ہلپ کا مادہ حالی کے نزدیک صرف آزاد پیشوں کی تعلیم ہی سے پیدا ہوسکتا ہے۔ وہ ہمیشہ اسی کی تبلیغ کرتے رہے۔ کراچی کے خطبۂ صدارت (سنہ 1908)میں وہ ایک بار پھر ان ہی خیالات کا اعادہ کرتے ہیں۔

’’میں صنعت و حرفت کی تعلیم کے متعلق آپ صاحبوں کے سامنے کوئی نئی بات نہیں کہتا، بلکہ جو کچھ پہلے کہا جاچکا ہے اسی کو دہراتا ہوں اور قوم کے لیڈروں کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو صنعت و حرفت کی طرف متوجہ کریں۔ ۔

 اور صرف یہی نہیں زراعت کی تعلیم کو وہ کچھ اس سے بھی زیادہ اہم سمجھتے ہیں :

’’ جس طرح صنعت و حرفت کی تعلیم قوم میں پھیلنا ضروری ہے، اسی قدر بلکہ اس سے بھی زیادہ ہمارے نوجوانوں کو نئے طریقۂ زراعت کی تعلیم دلانی ضروری ہے۔ ۔

حالی دراصل سماجی اصلاحات کے ذریعہ مسلمانوں میں ایک متوسط طبقہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اسی طبقے میں انھیں وہ صلاحیت نظر آتی تھی جو قوم کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منجدھار سے نکال کر کنارے تک پہنچا سکتی تھی۔ یوں تو مسلمانوں میں صاحبان ثروت بھی تھے اور علمائے مذہب بھی، لیکن حالی کو ان سے کوئی خاص توقع نہیں تھی کیونکہ یہ اپنے حال میں مست تھے اور وہ اپنے خول میں بند۔ نئے حالات اور نئے تقاضوں سے نہ انھیں واقفیت نہ انھیں دلچسپی۔

قوم کو اپنے تنزل سے ابھرنے کی امید

اہل علم و اہل دولت سے بہت کچھ تھی مگر

اہل دولت کا ہے اس عالم سے اک عالم جدا

عالم بالا سے بھی ہے جو کئی منزل ادھر

اب رہے عالم سو اتنا سوفتا ان کو کہاں

دین کا پھر کون ہے؟ دنیا میں وہ الجھیں اگر

اہل علم اور اہل دولت کے علاوہ حالی کی نظر ادنیٰ یا محنت کش طبقے پر بھی پڑتی تھی، لیکن یہ بھی اپنی جہالت اور افلاس کے باعث قومی ترقی میں کوئی حصہ نہ لے سکتا تھا۔ اب لے دے کے صرف ایک ہی طبقہ رہ جاتا تھا اور وہ تھا متوسط طبقہ جس پر انھوں نے اپنی نظم قوم کا متوسط طبقہ میں روشنی ڈالی ہے۔ اس کی تمہید میں یہ الفاظ خود ان ہی کے قلم سے نظر آتے ہیں۔

اس نظم میں متوسط درجہ کے لوگوں کی حالت کو فقرا اور اغنیا دونوں کی حالت سے بہتر بتایا گیا ہے۔ متوسطین سے وہ لوگ مراد ہیں جنھوں نے اپنی ذاتی کوشش اور سلف ہلپ سے دولت، عزت، نیک نامی یا علم و فضل میں اپنی پہلی حالت سے ترقی کر کے اپنے ہم سروں میں امتیاز حاصل کیا ہو۔ ادنیٰ درجے سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنی پست حالت سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے یا چاہتے ہیں مگر نہیں بڑھ سکتے۔ اعلیٰ درجے سے وہ لوگ مراد ہیں جو دولت اور عزت کے لحاظ سے ایک ممتاز حالت میں پیدا ہوئے مگر اس حالت سے ترقی کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے اور نیز اس حالت پر قائم رہنے کی فکر اور اس سے تنزل کرنے کا کچھ انسداد نہیں کرتے۔

یہ سطور جو ایک حد تک حالی کے طبقاتی انداز فکر کی غمازی کرتی ہیں ان کے متوسط درجے کے لوگوں میں صرف ان ہی لوگوں کو لیا ہے جو مالی اعتبار سے نہ اتنے خوش حال ہوں کہ دنیا کی کوئی فکر ان کے پاس تک نہ پھٹکے اور نہ اتنے مفلوک الحال کہ ہاتھ پاؤں ہلانے تک کی سکت باقی نہ رہی ہو۔ یہ گویا وہی طبقہ تھا جس سے خود حالی منسلک تھے۔ یعنی چھوٹے موٹے زمینداروں اور ملازمت پیشہ شرفا کا طبقہ جس کی مختصر سی آمدنی ضروریات زندگی کی پوری طرح کفیل نہ تھی، اس لیے اسے مجبوراً جدوجہد اور محنت و مشقت کی زندگی بسر کرنا پڑتی تھی۔ نیز اس میں سرے سے تعلیم کا بھی فقدان نہ تھا۔

اس نظم سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے بھی حالی درمیانی طبقے کے لوگوں کو فقرا اور اغنیا پر ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ فقرا ور ناداری ہو یا دولت و ثروت دونوں ان کی نظر میں انتہائی حالتیں ہیں اور دونوں میں اعتدال و توازن باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ ان حالتوں میں انسانی ذہن اور اخلاق مسخ اور انسان ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن تعمیری کاموں کے لیے سب سے زیادہ ضرورت اخلاقی توازن اور ذہنی سکون ہی کی ہوتی ہے اور یہ چونکہ صرف درمیانی زندگی ہی میں میسر آسکتا ہے اس لیے وہ اسی زندگی کو ہر دو پر ترجیح دیتے ہیں۔

ہے عجب دنیا میں نعمت درمیانی زندگی

فقر کی ذلت سے اور ثروت کے فتنہ سے بری

پھر متوسط طبقہ جادۂ اعتدال سے یوں بھی قدم باہر نہیں رکھتا کہ وہ دولت اور عسرت دونوں کے مزوں اور دونوں کی تلخیوں سے واقف ہوتا ہے، اس لیے وہ دیکھ بھال کر اور سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے دل میں ناداروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ ایک قدرتی سی بات ہے، کیونکہ اسے خود بھی ناداری کے دور سے کبھی کبھی گزرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف وہ دولت مندوں پر بھی لعن طعن نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس نشے کی لذت سے بھی آشنا ہے اور اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں ان کی خود رفتگی کو سمجھتا ہے:

جو گزرتی ہے گدا پر اس سے ہیں وہ باخبر

کیونکہ حالت گاہ گاہ ان پر بھی گزری ہے یہی

امتحاں دولت کے بھی ہیں کچھ نہ کچھ جھیلے ہوئے

کیونکہ ہے ہر گھونٹ میں اس مئے کی بدمستی وہی

اس لیے جب دیکھتے ہیں عسرت ابنائے جنس

جو ش ِ ہمدردی سے بیکل ان کاہو جاتا ہے جی

 اور نہیں کرتے زبان طعن بیدردی سے وا

جبکہ سنتے ہیں کسی منعم کی از خود رفتگی

دوسرے الفاظ میں یہ طبقہ اپنے مخصوص حالات کی بنا پر عام لوگوں کی طرح ادنیٰ یا اعلیٰ طبقے کی نسبت یک طرفہ اور انتہا پسندانہ رائے قائم نہیں کرتا بلکہ ہمدردانہ رویہ رکھتا ہے۔ چنانچہ اس ہمدردی کے ہوتے یہ ممکن نہیں کہ وہ انھیں پست حالت میں پڑا رہنے دے اور ان کی اصلاح و ترقی کی فکر نہ کرے پھر اس کا ذاتی مفاد بھی اسی میں ہے کہ وہ اپنے ساتھ دوسرے طبقوں کے ابھرنے میں بھی مدد دے، کیونکہ وہ تن تنہا آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جس طرح دوسرے طبقوں کو اس کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح خود اس کی ترقی کا دارومدار بھی دوسرے طبقوں کی ترقی پر ہے اگر کوئی طبقہ پیچھے رہ گیا تو یہ خود اس کے ضعف کا سبب بن جائے گا۔ سماجی زندگی میں کسی طبقے کی پسماندگی پورے سماج کو ضعیف و کمزور کر دیتی ہے۔ حالی یہ نکتہ متوسط طبقے پر بخوبی واضح کر دینا چاہتے ہیں۔

قوم ہو گر نا تواں تو تقویت بخشیں اسے

کیونکہ اس کے ضعف سے ہے ان کی قوت کو ضرر

سماجی زندگی میں حالی نے متوسط طبقے کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ نظم مذکور میں انھوں نے علم و حکمت، ادب و خطابت، اخلاق و آدمیت، تدبر و سیاست اور سب سے بڑھ کر قومیت کی روح کو صرف اسی طبقے سے وابستہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کی تباہی کو پوری قوم کی تباہی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔

دم سے وابستہ ہے ان کے قوم کا سارا نظام

یہ اگر بگڑے تو سمجھو قوم کا بگڑا قوام

اس جگہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سر سید اور حالی دونوں کے یہاں متوسط طبقے کا تصور مغرب کا رہین منت ہے۔ دوسرے ہندستان میں مغربی تعلیم اور تہذیب کے اثر سے ہندوؤں کا جو متوسط طبقہ ابھرا تھا اس کی ترقیوں کے کارنامے بھی دونوں کے سامنے تھے لیکن اس کے باوجود حالی اور سر سید کے تصورات میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ سر سید صرف یونیورسٹی کی مروجہ انگریزی تعلیم اور انگریزی معاشرت کے ذریعہ یہ طبقہ پیدا کرنا چاہتے تھے جس کا مقصد سرکاری ملازمتوں کا حصول تھا، لیکن حالی جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں اس تعلیم کے علم بردار ہیں جو مسلمانوں کو صنعتی عہد کے آزاد پیشوں کے قابل بنا دے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ ہندستانی مسلمانوں میں کم و بیش ویسا ہی متوسط طبقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ انگلستان کے صنعتی عہد میں پیدا ہوا تھا اور جس نے تاریخی ارتقا کے مطابق زندگی کے ہر شعبے میں اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ اسی نوع کا طبقہ دراصل ان کی امیدوں کا مرکز ہے۔ اسی کو وہ ترقی کا ہراول کہتے ہیں اور اسی میں وہ عمل کی قوتیں بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ جب وہ عملی قوت والوں کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد صرف وہی لوگ ہیں  جو زمانہ کی رفتار کے موافق نہ صرف باتوں سے بلکہ کاموں سے قوم کے لیے خود نمونہ بن کر اس کو ترقی کی طرف مائل کریں۔ مثلاً معاشرت میں جو خرابیاں نظر آئیں صرف ان کی برائی اور مذمت کرنے ہی پر اکتفا نہ کریں، بلکہ خود ان کو ترک کر کے قوم کے لیے ایک مثال قائم کریں۔ معاش کے وہ جائز ذریعے جو قوم کی اکثر جماعتوں میں معیوب گنے جاتے ہیں جیسے دکان داری یا صنعت ودستکاری، ان کو خود اختیار کر کے ان جماعتوں کی جھجک دور کریں۔ تجارت کے وہ اصول جن کے ذریعے سے کم مقدور آدمی بھی بڑی بڑی تجارتیں کرسکتے ہیں۔ ان پر خود کا ر بند ہو کر قوم میں تجارت کا چرچا پھیلائیں۔ اسی طرح ترقی کی ہر شاخ میں کچھ کر کے دکھائیں تاکہ اور لوگ بھی ان کی دیکھا دیکھی وہی رستہ اختیار کریں۔ تعلیم جو ترقی کی جڑ ہے اس کی اشاعت میں دم سے، قدم سے، درم سے، قلم سے، غرض ہر طرح کوشش کریں۔ مختصر یہ کہ تعلیم یافتہ نوجوان جن کو ترقی کا مقدمۃ الجیش کہنا چاہیے وہ اپنی اپنی قابلیت اور اپنے اپنے مذاق کے موافق ایسے کام اختیار کریں جو اولاً خود ان کے حق میں اور ثانیاً قوم اور ملک دونوں کے حق میں مفید ہوں۔

قوم ہے آس جس کی وہ جماعت ہے یہی

جس سے جان آتی ہے مردوں میں وہ طاقت ہے یہی

               سیاست

حالی کے سماجی اصلاحات یا ان کے دیگر افکار و تصورات کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہندستانی قومیت کا وہ جذبہ جس نے شروع شروع میں ان سے ’حب وطن‘  جیسی نظم لکھوائی تھی ختم تو نہیں ہوسکا، لیکن مسلم قومیت کے زیر اثر دب ضرور گیا۔ 1874میں یعنی حب وطن کی تصنیف کے بعد ہم انھیں زیادہ تر مسلمانوں ہی کے مسائل میں منہمک پاتے ہیں لیکن مسلمہ طور پر وہ مسلمانوں کے شاعر’ مد و جزر اسلام‘  لکھنے کے بعد ہی بنے۔ اب اسے ان کی مذہبی تربیت یا شیفتہؔ کی عالمانہ صحبتوں کا نتیجہ سمجھیے یا سر سید کی تحریک کا اثر، بہر صورت مسلمانوں کی خدمت ان کی زندگی کا مقصد بن گئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ 1857کی بغاوت کے بعد ہندستان کے تمام باشندوں میں سب سے زیادہ مظلوم مسلمانوں ہی کو سمجھتے تھے اور ایسا سمجھنا حالی جیسے شریف اور غیور انسان سے بعید نہ تھا۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ حالی فرقہ پرست تھے، درست نہ ہو گا۔ اس لیے کہ حالی نے نہ تو فرقہ پرستی کی کبھی تلقین کی اور نہ کبھی اسے روا سمجھا۔ ان کا اپنا مسلک یہ تھا کہ

ہندوسے لڑیں نہ گبر سے بیر کریں

شر سے بچیں اور شر کے عوض خیر کریں

جو کہتے ہیں یہ کہ ہے جہنم دنیا

وہ آئیں اور اس بہشت کی سیر کریں

اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملازمتوں کی دوڑ، نمائندہ اداروں میں مسلمانوں کی نشستوں کے تحفظ، سر سید اور مسلمانوں کی طرف سے کانگریس کی عام مخالفت، تلک کی تحریک انسداد گاؤ کشی اور ہندی اردو کے جھگڑوں کے بعد فرقہ پرستی کی تلخ و تند ہوائیں جب سارے ملک میں چل رہی تھیں اس وقت بھی حالی کی خواہش و کوشش یہی تھی کہ ہندو مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو۔ باہمی نفاق کو وہ دونوں کے لیے مضر سمجھتے تھے۔ اس مسئلے پر ان کا ایک خط کافی اہمیت رکھتا ہے جو انھوں نے 1904میں عبدالحلیم شرر کو لکھا تھا۔ اس کا یہ ٹکڑا ملاحظہ ہو:

’’لیکن در حقیقت اس سے زیادہ کوئی غلط خیال نہیں ہوسکتا کہ ہندو مسلمانوں میں دوستی اور یک جہتی کے روابط مستحکم نہیں ہوسکتے۔  بے شک بدقسمتی سے ایسے چند ناشدنی اسباب پیدا ہو گئے ہیں جن سے بالفعل دونوں قوموں کی ایک محدود جماعت کے دل ایک دوسرے سے پھٹ گئے ہیں، لیکن ہمارے پاس اس امر کے ب اور کرنے کے وجوہات موجود ہیں کہ جس قدر ملک میں تعلیم کی ترقی ہوتی جائے گی جس قدر لوگ قومی ضرورتوں سے واقف ہوتے جائیں گے اور جس قدر نااتفاقی کے مضر نتائج لوگوں پر آشکارا ہوتے جائیں گے، اسی قدر ان پر یہ راز ظاہر ہوتا جائے گا کہ بغیر اتحاد و یک جہتی کے دونوں قوموں کا ملک میں عزت سے رہنا اور گورنمنٹ کی نظر میں وقعت اور توقیر پیدا کرنا غیر ممکن ہے۔ یہی تعلیم جس نے بالفعل دونوں قوموں میں زہر گھول رکھا ہے آگے چل کر یہی زہر ایک دن تریاق کا کام کرنے والا ہے۔‘‘

حالی صدق دل سے محسوس کرتے تھے کہ ملک کا عام مفاد ہند و اور مسلمانوں کی دوستی اور یک جہتی پر منحصر ہے۔ وہ یہ بھی بشارت دیتے ہیں کہ ملکی ضروریات ایک کو دوسرے سے قریب تر ہونے پر مجبور کریں گی۔ مندرجہ بالا خط میں انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں کو بھی سراہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس اتحاد کے بروئے کار آنے کی طرف سے بڑی حد تک مایوس ہو چکے تھے۔ جس کا اظہار انھوں نے اپنے آخری دور میں یوں کیا ہے:

بگاڑ مذہب نے جو ہیں ڈالے نہیں وہ تا حشر مٹنے والے

یہ جنگ وہ ہے جو صلح میں بھی یونہی ٹھنی کی ٹھنی رہے گی

حالی ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار ہونے کے باوجود دو قوم کے نظریہ میں اعتقاد رکھتے ہیں۔ وہابی تحریک کے زیر اثر مسلمانوں میں ایک جداگانہ قومیت کا احساس پیدا ہو گیا تھا۔ اگر چہ اس احساس میں فرقہ واریت کو مطلق دخل نہ تھا۔ بہت ممکن ہے کہ شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اور سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل کی تحریک نے حالی کو بھی اسی انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہو اور وہ مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ ایک جداگانہ قوم سمجھنے لگے ہوں۔ بہر حال یہ تصور ابتدا ہی سے ان کے یہاں ملتا ہے۔ 1871میں  سید احمد خاں اور ان کے کام کے عنوان سے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں ان کا جو مضمون شائع ہوا تھا اس کی ابتدائی سطروں ہی میں یہ قومی امتیاز نمایاں ہے۔

ان دنوں میں جناب مولوی سید احمد خاں بہادر تمام ہندستان کی تربیت میں عموماً اور ہماری قوم کی تہذیب و اصلاح میں خصوصاً جواں مردانہ سعی اور کوشش کر رہے ہیں۔

یہ وہ زمانہ ہے جب حالی سر سید کی تحریک کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس میں اب تک شریک نہیں ہوئے تھے۔ اس کے باوجود وہ مسلمانوں کو ہماری قوم  سے تعبیر کرتے ہوئے دوسری قوموں سے ممیز کرتے ہیں۔ اسی تصور کے تحت انھوں نے نیشن یا قوم کی تعریف بھی پیش کی ہے۔

یہ ہے مانی ہوئی جمہور کی رائے

اسی پر ہے جہاں کا اتفاق اب

کہ نیشن وہ جماعت ہے کم از کم

زباں جس کی ہو ایک اور نسل و مذہب

مگر وسعت اسے بعضوں نے دی ہے

نہیں جو رائے میں اپنی مذبذب

وہ نیشن کہتے ہیں اس بھیڑ کو بھی

کہ جس میں وحدتیں مفقود ہوں سب

زباں اس کی نہ ہو مفہوم اس کو

ہوں آدم تک جدا سب کے جدواب

جو واحد لاشریک اس کا خدا ہو

تو لاکھوں اس کے ہوں معبود اور رب

حالی گویا قوم کے لیے زبان، نسل اور مذہب کی قید ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرا نظریہ جس میں یہ قید نہیں ان کے نزدیک مضحکہ خیز ہے، کیونکہ اس کی رو سے خدائے واحد و لاشریک کے ماننے والے اور لاکھوں خداؤں کو پوجنے والے ایک دوسرے کے ہم قوم بن جاتے ہیں۔ آخری شعر میں مذہب پر جو زور ہے اس سے بظاہر یہی مترشح ہوتا ہے کہ قوم کے لفظ کا اطلاق صرف ایک ہی مذہب کے ماننے والوں پر ہوسکتا ہے۔ یعنی قوم کا بنیادی عنصر مذہب ہے۔ اس کے آگے نسل اور زبان کی شرائط بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں۔ حالی دراصل قوم کا جدید نظریہ پیش کرتے ہوئے بھی اسی پرانے اسلامی تصور کے پابند ہیں۔ اسی لیے انھوں نے ہندستان کے دور دراز گوشوں کے مسلمانوں کو جو زبان اور نسل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف تھے، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی نظموں میں ایک قوم گردانا اور کانفرنس کو جشن قومی کے نام سے یاد کیا ہے۔

اے خاک پاک دہلی اے تخت گاہ شاہاں

پیش نظر ہیں تیرے سب اگلے سازوساماں

ہنگامے اس زمیں پر لاکھوں ہیں گرم ہرسو

پر کوئی جشن قومی آتا نہیں نظر یاں

اسی طرح، شکوۂ ہند، میں بھی مسلمانوں کی جداگانہ ہستی کا احساس بڑی شدت سے کارفرما ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کے یہاں قوم کا لفظ محدود معنی میں استعمال ہوا ہے، بلکہ ہندوؤں میں بھی اس کے یہی معنی لیے جاتے تھے۔ مشہور ہندی شاعر بھارتیندو ہریش چندر نے جہاں قوم کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں اس کا خطاب صرف ہندوؤں سے ہے۔ اس مغالطے کی وجہ یہ ہے کہ قوم کا جدید اور جامع تصور اس وقت صرف خال خال لوگوں تک پہنچا تھا اور عام طور سے مذہبی جماعت کو قوم کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

اس سلسلے میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حالی کے یہاں ہندستانی مسلمان کا تصور ہندستان کی سرحد تک محدود نہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر کے تحت وہ بھی عام مسلمانوں کی طرح ہندستانی مسلمانوں کو دنیائے اسلام کا ایک جز سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر انھوں نے ’مسدس حالی‘ میں ہندستانی مسلمانوں کی تاریخ کا رشتہ عرب کے مسلمانوں سے جوڑا اور ابتدائے اسلام اور دو رعباسیہ کے کارناموں پر اسی طرح فخر کیا جیسے کوئی اپنے قومی کارناموں پر کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دل میں ماضی کی بڑی عظمت و محبت ہے۔ وہ اس تاریخی اور انقلاب آفریں حقیقت کو بھول ہی نہیں سکتے کہ اسلام نے کس طرح عرب کے وحشیوں کو ایک متمدن قوم بنا دیا۔ اسلام کا ابتدائی زمانہ رہ رہ کر ان کی آنکھوں میں پھرتا ہے۔ مسدس میں وہ اس زمانے کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں جب مسلمانوں نے پہلے پہل ترقی کے میدان میں قدم اٹھایا۔ اس وقت ان تمام تہذیبوں کا شیرازہ جو اسلام سے قبل وجود میں آ چکی تھیں، منتشر ہو چکا تھا، اور ساری دنیا جہالت اور بربریت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ یہی حالت یورپ کی قوموں کی تھی، جو آج دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ کہی جاتی ہیں۔ خود برطانیہ جس کے ہاتھ میں آج ہندستان کی باگ ڈور ہے وہ اس زمانے میں وحشت و درندگی کی منزل میں تھا۔

وہ قومیں جو ہیں آج غمخوار انساں

درندوں کی اور ان کی طینت تھی یکساں

جہاں عدل کے آج جاری ہیں فرماں

بہت دور پہنچا تھا واں ظلم و طغیاں

بنے آج جو گلّہ باں ہیں ہمارے

وہ تھے بھیڑیے آدمی خوار سارے

اس اندھیرے میں جن لوگوں نے سب سے پہلے تہذیب و تمدن کی شمع روشن کی وہ عرب تھے۔ یہ لوگ ساری دنیا میں پھیل کر علم و حکمت کی تحصیل میں مصروف ہو گئے۔ یونانی علوم و فنون جو مردہ ہو چکے تھے انھوں نے دوبارہ زندہ کیا۔ فلاحت، سیاحت اور تجارت میں وہ ترقی کی کہ کوئی ان کا مدمقابل نہ رہا۔ اپنے ذوق سیاحت کی بدولت وہ ہر براعظم میں پہنچے۔ ان کی تہذیبی یادگاریں آج بھی لنکا سے اندلس تک نظر آتی ہیں۔ خود قرطبہ کے کھنڈر ان کے عروج و زوال کے شاہد ہیں۔

کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے

مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے

حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے

خلافت کو زیر و زبر جا کے دیکھے

جلال ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا

کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا

لیکن وہ دور جس میں مسلمان اپنی ترقی کے نقطۂ عروج تک پہنچے، خلفا عباسیہ کا دور تھا، جس میں بغداد کو ہر لحاظ سے مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ حالی نے اس عہد کے کارنامے بڑے فخر کے ساتھ گنائے ہیں مثلاً مساحوں نے کُرے کی مساحت کے سامان فراہم کیے۔ منجموں نے سمر قند سے اندلس تک رسد گاہیں قائم کیں۔ مورخوں نے تاریخ کے نئے آئین وضع کیے۔ حدیث کو پرکھنے کے اصول بتائے گئے۔ فصاحت، بلاغت، شاعری، حکمت، طب وغیرہ کو از سر نو زندگی بخشی گئی۔ مختصر یہ کہ مسلمانوں نے ماضی کا سرمایہ ہی محفوظ نہیں کیا بلکہ اپنی تحقیق و اجتہاد سے اس میں اضافے کیے اور انھیں کی وساطت سے تمام علوم و فنون یورپ میں پھیلے جن کی بنیادوں پر اہل یورپ نے آگے چل کر فلک بوس عمارتیں تعمیر کیں۔ حالی اسی بناپر یورپ کی موجودہ ترقی یافتہ قوموں کو عربوں کا مرہون منت تصور کرتے ہیں۔

غرض فن ہیں جو مایۂ دین و دولت

طبیعی، الٰہی، ریاضی و حکمت

طب اور کیمیا ہندسہ اور ہیئت

سیاست، تجارت، عمارت، فلاحت

لگاؤ گے کھوج ان کا جا کر جہاں تم

نشاں ان کے قدموں کے پاؤ گے واں تم

ہوا گو کہ پامال بستاں عرب کا

مگر اک جہاں ہے غزل خواں عرب کا

ہرا کر گیا سب کو باراں عرب کا

 سپید و سیہ پر ہے احساں عرب کا

وہ قومیں جو ہیں آج سرتاج سب کی

کنونڈی رہیں گی ہمیشہ عرب کی

یہ تھا حالی کی نگاہوں میں مسلمانوں کا شاندار ماضی جو ہمیشہ ان کی فکر اور خیال کا پس منظر بنا رہا۔ اس پس منظر میں وہ اور ان جیسے صاحب فکر مسلمان جب ہندستانی مسلمانوں کی موجودہ پستی کا جائزہ لیتے ہیں تو کبھی فخر ان کا سر بلند کر دیتا ہے اور کبھی ندامت ان کی گردن جھکا دیتی ہے۔

ذرا پھر کے پیچھے وہ جب دیکھتے ہیں

وہ اپنا حسب اور نسب دیکھتے ہیں

بزرگوں کا علم و ادب دیکھتے ہیں

 سر افرازیِ جدو اب دیکھتے ہیں

تو ہیں فخر سے وہ کبھی سر اٹھاتے

کبھی ہیں ندامت سے گردن جھکاتے

حالی کا خیال ہے کہ فخر و ندامت کے یہی احساسات اگر ساری قوم میں عام ہو جائیں تو ان میں حرکت و عمل کی تحریک پیدا ہوسکتی ہے اور وہ پھر اسی بلندی پر پہنچ سکتے ہیں جہاں کبھی ان کے جدّ امجد سرفراز تھے یعنی عظمت رفتہ کا حصول ان کے نزدیک ممکن ہے بشرطیکہ مسلمانوں کی نظر اپنے شان دار ماضی اور اس کی عہد آفریں صلاحیتیوں اور کارناموں پر رہے۔

اگر کچھ بھی باقی ہو یاروں میں ہمت

تو ان کا یہی افتخار و ندامت

شگون سعادت ہے اور فال دولت

کہ آتی ہے کچھ اس سے بوئے حمیت

وہ کھو بیٹھے آخر کمائی بڑوں کی

بھلا دی جنھوں نے بڑائی بڑوں کی

اسیری میں جو گرم فریاد ہیں یاں

 وہی آشیاں کرتے آباد ہیں یاں

قفس سے وہی ہوتے آزاد ہیں یاں

 چمن کے جنھیں چہچہے یاد ہیں یاں

وہ شاید قفس ہی میں عمریں گنوائیں

گئیں بھول صحرا کی جن کو فضائیں

قفس اور اسیری کی علامتوں سے حالی کا نصب العین اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ ماضی کی شوکت و عظمت کا تصور ان کے یہاں مختلف علوم و فنون کی ترقیوں تک محدود نہیں بلکہ فکر و عمل کی اس آزادی کا بھی احاطہ کرتا ہے جو اس زمانے میں مسلمانوں کوسیاسی اعتبار سے حاصل تھی۔ مذکورہ بالا بند میں وہ دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی آزادی کا زمانہ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں موجودہ غلامی اور محکومی کی زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔

حالی یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ غلامی میں کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی کیونکہ غالب قومیں مغلوب قوموں کو پامال کرنا اپنا حق تصور کرتی ہیں اور چونکہ غالب قوموں کا کردار ہمیشہ سے اسی نوعیت کا رہا ہے اس لیے موجودہ دور میں بھی مغلوب کا غالب کے ہاتھوں تباہ و برباد رہنا یقینی ہے۔

حق ہے غالب کا کہ کچلے اور دبے مغلوب کو

ہے یہی مغلوب ہونے کا مآل انجام کار

کرتے آئے ہیں سب اپنی اپنی باری میں یہی

 اور یہی جاری رہے گا دور تا روز شمار

قوم کا درجہ سے گر جانا ہے اپنے وہ گناہ

مرتکب جس کا نہیں بچتا سزا سے زینہار

غلامی کی ذلت حالی کے لیے ناقابل برداشت تھی آزادی کی قدر والے قطعے میں انھوں نے ان لوگوں کو جو غلامی پر خوش اور قانع تھے جس طرح لتھاڑا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے۔  ؎

ایک ہندی نے کہا حاصل ہے آزادی جنھیں

قدر داں ان سے بہت بڑھ کر ہیں آزادی کے ہم

ہم کہ غیروں کے سدا محکوم رہتے آئے ہیں

قدر آزادی کی جتنی ہم کو ہو اتنی ہے کم

عافیت کی قدر ہوتی ہے مصیبت میں سوا

بے نوا کو ہے زیادہ قدر دینار و درم

تعرف الاشیاء بالاضداد ہے قول حکیم

دے گا قیدی سے زیادہ کون آزادی پہ دم

سن کے اک آزاد نے یہ لاف چپکے سے کہا

ہے سقر موری کے کیڑے کے لیے باغ ارم

جیسا کہ ابتدا میں ذکر آ چکا ہے حالی اس غیر ملکی نظام حکومت سے اچھی طرح واقف تھے جس کی بنیاد جبرو تشدد اور استحصال دولت پر تھی اور اس نے ہندستان پر آزادی اور ترقی کے سارے راستے بند کر رکھے تھے۔ دوسری طرف مسلمان بے دلی و بے زاری کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان پر حکومت کا عتاب تھا ترقی اور آزادی کے مسئلے پر اگر وہ کبھی سوچتے بھی تھے توانھیں مستقبل تاریک اور اپنی کوششیں لاحاصل نظر آتی تھیں۔ حالی نے ایک مضمون میں اس مسئلہ پر اظہار خیال کیا ہے اور ترقی کے مفہوم اور اس کے امکانات کا جائزہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ مسلمانوں کی اس دلیل کو سامنے رکھ کر کہ دنیا میں آج تک کسی قوم نے ایک بار تنزّل کے درجہ کو پہنچ کر دوبارہ ترقی نہیں کی ہے فرماتے ہیں۔

لیکن ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ دوبارہ ترقی کرنے سے کیا مطلب ہے؟اگر دوبارہ سلطنت کرنا مراد ہے تو ہم تسلیم کرتے ہیں (بلکہ ہمارے نزدیک اگر دنیا واقعی عالم اسباب ہے تو ممکن نہیں ) کہ جو قومیں زمانہ موجودہ کے فنون جہانبانی و کشور کشائی میں اپنے بنی نوع سے پیچھے رہ گئی ہیں ان کو کبھی سلطنت اور حکومت میں استقلال کا درجہ حاصل ہوسکے یا جو مستقل نظر آتی ہیں ان کا استقلال قائم رہ سکے۔

’’زمانہ قدیم اور دور متوسط میں جبکہ جنگی طاقتیں تمام قوموں کی یکساں تھیں اس وقت ہر قوم سلطنت اور حکومت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتی تھی اور خاص خاص اسباب سے کبھی یہ قوم اس پر اور کبھی وہ قوم اس پر غالب آ جاتی تھی۔‘‘

’’لیکن زمانہ حال میں قواعد جنگ اور آلات حرب کے لحاظ سے دنیا کی حالت دگر گوں ہے۔ ایک قوم آسمان پر ہے تو دوسری قوم تحت الثریٰ میں ہے اور جو قومیں ترقی کر چکی ہیں ان کا فرض ہے کہ مغلوب قوموں کو کبھی ان وسائل میں برابر نہ ہونے دیں جن کے سبب سے ان کو غلبہ حاصل ہوا ہے۔ پس ضرورت ہے کہ ترقی یافتہ قوموں کا غلبہ اور رعب و داب روز بروز بڑھتا جائے اور جن قوموں نے اپنی حد سے آگے قدم نہیں بڑھایا وہ نوبت بہ نوبت مضمحل ہوتی جائیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے کوشش کرنا محض فضول ہے صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ ‘‘

اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ عام مسلمانوں کے ذہن میں ترقی کا لفظ دوبارہ سلطنت حاصل کرنے کے مرادف تھا۔ ساتھ ہی ساتھ حالی کی نسبت یہ بھی شبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سلطنت یا آزادی کے حصول کو موجودہ حالات میں ناممکن تصور کرتے ہیں لیکن اس شبہ کی تردید خود ان ہی کے الفاظ سے ہو جاتی ہے۔

’’ہم کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری یہ حالت خواہ کیسی ہو خواہ موروثی، خواہ اختیاری ہو، خواہ اضطراری، خواہ اس کے باعث ہم خود ہوئے ہوں، خواہ زمانے کے واقعات اس کا سبب ہوں، لیکن جب تک ہم اس حالت کو نہ بدلیں گے کسی طرح معذور نہیں سمجھے جا سکتے اور الزام سے بری نہیں ہوسکتے۔ غلام جب تک غلام ہے حقیر و ذلیل سمجھا جائے گا۔ خواہ وہ خود غلام بن گیا ہو اور خواہ جبر سے اس کو غلام بنایا گیا ہو۔ 1‘‘؎

ان الفاظ میں جو جذبہ پنہاں ہے وہ خود ان کے صداقت بیان کی دلیل ہے لیکن آزادی کی جنگ کے لیے صرف جذبہ کا فی نہیں۔ مادی طاقت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ حالی اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ سائنسی اور صنعتی دور کے آلات حرب کے آگے جاگیری دور کے فرسودہ ہتھیار کام نہیں دے سکتے۔ اس کا تجربہ سنہ 1857کی بغاوت اور وہابیوں کی تحریک کے سلسلے میں کافی ہو چکا تھا۔ اس تجربے کے پیش نظر انگریزوں کا مقابلہ میدان جنگ میں ممکن نہ تھا۔ انگریزوں کے غلبے کا راز سائنس اور مشینی صنعت کی ترقی میں تھا۔ مسلمان اس لحاظ سے بہت پیچھے تھے اور جب تک پیچھے تھے اس وقت تک انگریزوں سے معرکہ آرائی کا نتیجہ شکست کے سوا اور کچھ نہ ہوسکتا تھا۔ حالی جب یہ کہتے ہیں کہ جو قومیں زمانۂ موجودہ کے فنون جہانبانی و کشور کشائی میں اپنے بنی نوع سے پیچھے رہ گئی ہیں ان کو سلطنت اور حکومت میں استقلال کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں کہ مسلمان آزادی کا خیال ہی چھوڑ دیں۔ وہ در اصل مسلمانوں کی توجہ ان تمام دشواریوں کی طرف منعطف کرانا چاہتے ہیں جن کو حل کیے بغیر موجودہ زمانے کی مغلوب قومیں غالب قوموں سے ٹکر نہیں لے سکتیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کا درپردہ مشورہ یہ ہے کہ مسلمان آزادی اور حصول سلطنت کے لیے سب سے پہلے ترقی یافتہ قوموں کی سی قوت پیدا کریں جو اس دور میں صنعتی اور سائنسی ترقیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ گویا حالی کے نزدیک سلطنت و حکومت ان قوموں کو ملتی ہے جن کی ذہنی و اخلاقی حیثیت بلند ہوتی ہے، جن میں تعلیم و تہذیب کا معیار بہتر ہوتا ہے۔ جن کی سماجی نظام میں ترقی کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے اور جو بہ حیثیت مجموعی انسانیت کے کارواں میں دوسروں سے آگے ہوتی ہیں۔ حالی جانتے تھے کہ ان کے دور کے مسلمان کس قدر پستی میں ہیں۔ اس پستی سے نکالنے کے لیے وہ ان کو تہذیبی اور انسانی قدروں سے آشنا کرنا ضروری سمجھتے تھے۔

لیکن اس بلند و بالا مقصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کی اقتصادی حالت تھی جو نہایت درجہ ابتر ہو چکی تھی۔ سر سید نے اس مرض کے لیے ملازمت کا نسخہ تجویز کر دیا تھا لیکن حالی اس علاج کو بیکار ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس کی مخالفت مذمت کی حد تک کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی دلیل یہ تھی کہ شاہی زمانے میں تمام فوجی اور ملکی خدمات کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھلے ہوئے تھے اور ان کے لیے وجۂ معاش کا کوئی ذریعہ نوکری سے زیادہ آسان اور سہل الوصول نہ تھا۔ لیکن اب یہ حق سب سے پہلے انگلستان کے چار کروڑ باشندوں کو اور اس کے بعد ہندستان کے پچیس کروڑ باشندوں کو پہنچتا ہے علاوہ ازیں یہ امر خود حکومت کے امکان سے باہر ہے کہ چھ کروڑ مسلمانوں کو ہندستان کی عام رعایا پر ترجیح دے اور کل خدمات و مناصب ان ہی کے سپرد کر دے۔ چنانچہ ایسی صورت میں مسلمانوں کا صرف نوکری ہی کو ذریعۂ معاش سمجھنا کسی طرح مناسب نہیں۔ مزید بر آں مسلمانوں میں ان صلاحیتوں کا بھی فقدان ہے جو بیرونی حکومت کے تحت انجام خدمت کے لیے ضروری خیال کی جاتی ہیں۔ اسے حالی تاریخی حالات کا لازمہ قرار دیتے ہیں۔

’’ شاید میرا یہ کہنا کہ مسلمانوں میں فارن گورنمنٹ کی نوکری کی لیاقت عام طور پر ایسی جیسی کہ ہندستان کی دیگر اقوام میں ہے، نہیں پائی جاتی، آپ کو ناگوار گزرا ہو گا، مگر اس میں شک نہیں کہ زیادہ تر مسلمانوں کا ایسا ہی حال ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا اور انصاف یہ ہے کہ ان کا ایسا ہی حال ہونا چاہیے تھا۔ مسلمانوں کے سوا ہندستان کی تمام قومیں ہزار برس سے غیر قوم کی محکوم چلی آتی تھیں۔ اس لیے صبر و تحمل، فرماں برداری زمانہ سازی، فروتنی، رفق ومدارات اور دیگر صفات جن پر ایک محکوم قوم کی کامیابی بلکہ سلامتی اور زندگی منحصر ہے۔ طول عہد کے سبب ان کی قومی خصلتیں بن گئی تھیں اور جو لیاقتیں ایک فارن گورنمنٹ میں رسوخ و تقرب حاصل کرنے کے لیے درکار ہیں ان کی جبلت میں داخل ہو گئی تھیں۔ یہی سبب تھا کہ جو قومیں ان میں روزگار پیشہ تھیں وہ جس طرح فارسی زبان آسانی سے سیکھ لیتی تھیں اسی طرح انگریزی سیکھنے میں کوئی مشکل معلوم نہیں ہوئی اور جس طرح وہ مسلمانوں کے عہد میں تمام دفتروں پر حاوی تھے اسی طرح انگریزوں کے عہد میں تمام دفاتر اور آفس ان سے معمور ہو گئے۔‘‘

فارن گورنمنٹ میں ملازمت کی لیاقت کا مسلمانوں میں نہ ہونا حالی کے نزدیک ہر یڈیٹری جینس (HEREDITARY GENIUS)کے قاعدے کی رو سے بھی صحیح تھا۔ لیکن ان تمام دلائل سے قطع نظر وہ مسلمانوں کو ملازمت سے یوں بھی دور رکھنا چاہتے تھے کہ ملازمت انسان میں غلامی کی خو بو پیدا کرتی ہے۔ اسی بنا پر انھوں نے ہمیشہ نوکری کو غلامی سے تعبیر کیا اور اسے ننگ انسانیت سمجھتے رہے۔ ان کی ’مسدس‘ موسوم بہ ننگ خدمت، اس لحاظ سے کافی اہم ہے۔ اس میں انھوں نے سب سے پہلے ابتدائے آفرینش کی سادگی اور معصومیت کی عکاسی کی ہے۔ جب انسان نہ تو محنت مشقت سے جی چراتا تھا اور نہ کسب معاش کے لیے کسی کا رہین منت تھا۔ دنیا کے اس عہد طفلی میں کسی کو کسی پر تفوق حاصل نہ تھا۔ خورد و کلاں سب ہم وزن تھے۔ کسی کی قدر و قیمت میں فرق نہ آیا تھا کہ ناگہاں جو رو تظلم کا ایک طوفان برپا ہوا۔ طاقت وروں نے کمزوروں کو دبا لیا۔ پھر کمزور رفتہ رفتہ غلامی پر قانع ہوتے چلے گئے اور خدمت کا طوق خود اپنے گلے میں ڈال لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غلامی نے ان کی ذہنیتیں مسخ کر دیں اور آقاؤں کی خدمت کے مقابلے میں وہ ان آزاد پیشوں کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے جن میں اپنے دست و بازو کے سوا کسی اور کا احسان اٹھانا نہیں پڑتا تھا۔

در مخلوق کو ہم ملجا و ماوا سمجھے

طاعت خلق کو اعزاز کا تمغہ سمجھے

پیشہ و حرفہ کو اجلاف کا شیوہ سمجھے

ننگ خدمت کو شرافت کا تقاضا سمجھے

عیب گننے لگے نجّاری و حدادی کو

بیچتے پھر نے لگے جوہر آزادی کو

اس ننگ خدمت کی وضاحت کے بعد حالی اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جہاں تک خدمت ہم جنس کا تعلق ہے بہائم ملازمت پیشہ لوگوں سے افضل ہیں کہ عقل نہ رکھتے ہوئے بھی اس داغ سے آلودہ نہیں۔ وہ دنیا میں خدمت ہم جنس سے زیادہ کسی چیز کو بھی ذلت کا موجب تصور نہیں کرتے۔

اس سے بڑھ کر نہیں ذلت کی کوئی شان یہاں

کہ ہو ہم جنس کی ہم جنس کے قبضہ میں عناں

الغرض حالی مسلمانوں کے معاشی مسئلے کو سر سید کی نظر سے نہیں دیکھتے اور نہ ان کے بتائے ہوئے حل یعنی سرکاری ملازمت کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سر سید کی نگاہ صرف متوسط طبقے پر پڑتی تھی اور صرف اس کی خوش حالی کا خیال انھیں ستاتا تھا۔ انھیں یقین تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم و معاشرت اور اپنی وفاداری کے ذریعہ اعلیٰ سے اعلیٰ ملازمتیں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں جیسا کہ سر سید کی تحریک کے سلسلے میں ذکر ہو چکا ہے، انھوں نے حکومت سے ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ لیکن حالی اول تو سرے سے ملازمت ہی کے خلاف ہیں اور دوسرے انھیں حکومت سے بھی کوئی حسن ظن نہیں۔ اس مسئلے پر سر سید سے ان کا اختلاف کراچی کے خطبۂ صدارت میں نہایت واضح طور پر نظر آتا ہے۔

سر سید مرحوم جنھوں نے مسلمانوں میں تعلیم کی بنیاد ڈالی ہے، ابتدا سے ان کا خیال مسلمان تعلیم یافتہ نوجوانوں کی نسبت یہ تھا کہ جب وہ تعلیم پاکر کالجوں سے نکلیں گے تو ان میں ایسا ملکہ پیدا ہو جائے گا کہ جو ذریعہ معاش وہ اپنی طبیعت کے مناسب اور اپنی حالت کے موافق دیکھیں گے اس کو خود اختیار کر لیں گے۔ کیونکہ تعلیم ان کی خود رہنمائی کرے گی اور ان کو اس رستے پر ڈال دے گی جس کی قابلیت ان کی فطرت میں موجود ہو گی، پس یونیورسٹی کی موجودہ تعلیم کے سوا ان کو کسی خاص پیشہ یا صنعت کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں جہاں تک دیکھا جاتا ہے اب تک اس خیال کا ظہور نہیں ہوا اور جو امیدیں ان سے کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔

اب تک ہندستان کے مسلمانوں میں جس قدر تعلیم کا خیال پیدا ہوا ہے اس کی بنیاد صرف اسی بات پر ہے کہ وہ تعلیم کو ایک ذریعہ حصول معاش کا سمجھتے ہیں لیکن جب ان کی اولاد تعلیم پانے کے بعد معاش کی طرف سے فارغ البال نہ ہو گی تو سوائے اس کے کہ وہ تعلیم کا خیال چھوڑ دیں اس کا اور کیا انجام ہوسکتا ہے۔ سرکاری ملازمتیں نہایت محدود ہیں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ پس ممکن نہیں کہ ہر تعلیم یافتہ نوجوان مسلمان کے لیے حسب دل خواہ سرکاری ملازمت مل سکے۔ البتہ صنعت و حرفت کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ جس قدر تعلیم یافتہ بڑھتے جائیں گے اسی قدر ان کی مانگ زیادہ ہوتی جائے گی۔

یہ ہیں حالی کے آخری دور یعنی 1907کے خیالات جبکہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے میں سرکاری ملازمتوں کے نہ ملنے سے کافی بے چینی پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالی ایک مدت سے اسی طرز میں سوچتے تھے۔ اوپر کے اقتباس میں انھوں نے کوئی نئی بات نہیں کہی تھی بلکہ اپنی پرانی بات ایک بار پھر دہرائی تھی۔ 1887میں مسدس موسوم بہ ننگ خدمت، لکھنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ مسلمان ملازمت کی ذلت سے آشنا اور آزاد پیشوں کی عزت و اہمیت سے روشناس ہو جائیں ان کا بے لاگ مشورہ شروع ہی سے یہ تھا کہ مسلمان۔

پیشہ سیکھیں کوئی فن سیکھیں صناعت سیکھیں

کشت کاری کریں آئین فلاحت سیکھیں

گھر سے نکلیں کہیں آداب سیاست سیکھیں

الغرض مرد بنیں جرأت و ہمت سیکھیں

کہیں تسلیم کریں جا کے نہ آداب کریں

خود وسیلہ بنیں اور اپنی مدد آپ کریں

حالی کو قوم کی خوش حالی کی فکر سر سیدسے کہیں زیادہ ہے، کیونکہ قوم کا مفہوم اپنی وسعتوں میں دونوں کے ذہن میں مختلف ہے۔ سر سید قوم سے صرف متوسط طبقہ مراد لیتے ہیں۔ حالی کے یہاں قوم کا تصور متوسط طبقے تک محدود نہیں بلکہ تمام طبقوں پر محیط ہے۔ سر سید متوسط طبقے کی معاشی آسودگی کو پوری قوم کی معاشی آسودگی سمجھتے ہیں لیکن حالی کے خیال میں اعلیٰ یا اوسط طبقہ ادنیٰ طبقے کے مقابلے میں اتنا قلیل التعداد ہے کہ اس پر قوم کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا اور اس کی ترقی یا خوش حالی پوری قوم کی ترقی یا خوش حالی نہیں کہی جا سکتی۔ قوم کی خوش حالی کے معنی ان کی نظر میں یہ ہیں کہ ادنیٰ طبقے کے لیے بھی جو سب سے زیادہ کثیر التعداد اور سب سے زیادہ افلاس و احتیاج میں مبتلا ہے، معیشت کی راہیں پیدا ہوں اور وہ معاشی طور پر آسودگی کی زندگی بسر کرسکے۔ ان کے نزدیک اسلامی اخوت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ غریبوں اور محنت کشوں کے درد کو محسوس کیا جائے اور انھیں پستی سے ابھرنے میں مدد دی جائے۔

ہم نے مانا ہے موافق جن سے دور ماہ و سال

بھاگوان ایسے بھی ہیں اس قوم میں پر خال خال

ان کی کیا عزت ہے یارو قوم ہے جن کی ذلیل

ان کی کیا راحت ہے جن کی قوم ہے سب خستہ حال

ہے وہ ایسا غول میں قلیوں کے جیسے ایک میٹ

ہے ہزاروں مفلسوں میں ایک اگر آسودہ حال

یاد رکھو ہے بہت دامن فراخ اسلام کا

دی ہے بنیاد اخوت اس نے کل امت میں ڈال

ہیں اسی امت میں جو ڈھوتے ہیں دن بھر ٹوکری

ہیں اسی امت میں جو ہیں دھونکتے دن رات کھال

ان عزیزوں کی اخوت سے جنھیں آتا ہو ننگ

نام لیں فہرست سے اسلام کی اپنا نکال

ورنہ ذلت سے نکالیں ان کو اور یہ جان لیں

ان کی ذلت میں انھیں عزت سے رہنا ہے محال

اسی نوع کے خیالات کا اظہار وہ ایک جگہ اور بھی کرتے ہیں۔

]’جب تک قوم کسی نہ کسی قدر عزت کا استحقاق حاصل نہیں کرتی اس قوم کے چند آدمی اصلی عزت کے مستحق نہیں ہوسکتے جب تک تمام قوم میں علم کی روشنی نہیں پھیلتی علم کا سلسلہ کسی خاندان میں قائم نہیں  رہ سکتا۔ جب تک تمام قوم کے اخلاق درست نہیں ہوتے کوئی شخص خاندان کے اخلاق کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ جب تک تمام قوم مرفہ الحال نہیں ہوتی کوئی شخص دولت و حشمت سے اصلی خوشی حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘

اس سلسلے میں یہ بات خاص طور سے توجہ کے لائق ہے کہ حالی کو مزدور یا محنت کش طبقے کا خیال صرف اس کی غریبی یا افلاس کی بنا پر نہیں۔ وہ شعوری طور پر اسے سب سے زیادہ اہم اور سب سے اعلیٰ و افضل قرار دیتے ہیں۔ سماجی زندگی میں اس کی حیثیت انھیں بنیادی نظر آتی ہے۔ وہ ان کی نگاہ میں راز ق اور تہذیب و تمدن کا معمار ہے۔ کاروبار جہاں ان کے نزدیک اس کے دست و بازو کا رہین منت اور نظام عالم اس کے دم قدم سے قائم نظر آتا ہے۔

مگر اک فریق اور ان کے سوا ہے

شرف جس سے نوع بشر کو ملا ہے

سب اس بزم میں جن کا نور و ضیا ہے

سب اس باغ کی جن سے نشو و نما ہے

ہوئے جو کہ پیدا ہیں محنت کی خاطر

بنے ہیں زمانے کی خدمت کی خاطر

چنیں گر نہ وہ ہوں کھنڈر کاخ و ایواں

بنیں گر نہ وہ شاہ و کشور ہوں عریاں

جو بوئیں نہ وہ تو ہوں جاں دار بے جاں

جو چھانٹیں نہ وہ تو ہوں جنگل گلستاں

یہ چلتی ہے گاڑی انھیں کے سہارے

جو وہ کل سے بیٹھیں تو بے کل ہوں سارے

ان خیالات میں حالی کا جدید شعور صاف طور سے جھلکتا ہے۔ ہندستان میں مشینی صنعت کا آغاز ان کے ذہن میں مستقبل کے صنعتی دور کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جس میں وہ مزدور اور محنت کش طبقے کو دوسرے طبقوں سے اقتدار و اہمیت میں بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔ محنت اور جفا کشی جو صنعتی عہد کی اہم خصوصیات ہیں اور جن پر بڑی حد تک ترقی کا انحصار ہے، وہ انھیں مزدوروں اور محنت کشوں کے سوا کسی اور میں نظر نہیں آتیں۔ اسی لیے وہ متوسط اور اعلیٰ طبقوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ اگر انھوں نے محنت و مشقت کی عادت نہیں ڈالی اور خود کو صنعتی دور سے ہم آہنگ نہیں کیا تو صفحۂ ہستی پر ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے گا۔

قصر و ایواں ہوں مبارک تم کو اے محنت کشو

عیش کے بندے بہت ہونے کو ہیں بے خانماں

یاد رکھو! ہوں گے اب حقدار ان کے جانشیں

ہاتھ سے حق کھو دیے اپنے جنھوں نے رائیگاں

ہوں گے مزدور اور کمیرے ان کے اب قائم مقام

پھرتے ہیں بیکار جن کے کو دک و پیرو جواں

حالی نے جس دور میں آنکھ کھولی تھی وہ مغرب میں مشینی صنعت اور آزاد تجارت کا دور تھا۔ حالی یہ تو جانتے ہی تھے کہ مغربی قوموں نے جو مادی قوت و عظمت حاصل کی ہے وہ صنعت و تجارت ہی سے حاصل کی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انھیں اس کا بھی احساس تھا کہ ان آزاد پیشوں ہی کی بدولت مغرب میں ایک ایسی آزاد فضا پیدا ہو گئی ہے جس میں انسان اپنی ان صلاحیتوں کو اجاگر کرسکتا ہے جو اس کی فطرت میں مضمر ہیں۔ اس سلسلے میں وہ یورپ کے ایک مصنف کا بھی قول پیش کرتے ہیں۔

’’جس ملک یا قوم کا دارومدار ملازمت پر ہوتا ہے وہ کبھی مرفہ الحال نہیں ہوسکتی۔ ان کی قدرتی قوتیں ہمیشہ پژمردہ رہتی ہیں اور رفتہ رفتہ بالکل فنا ہو جاتی ہیں۔ لیکن جہاں صنعتوں اور حرفتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے وہاں یہ سمجھنا چاہیے کہ قومی زندگی کی بنیاد پڑ گئی ہے اور وہ زمانہ قریب ہے کہ تازگی اور رونق تمام ملک پر چھا جائے گی۔‘‘

حالی مسلمانوں میں اسی قومی زندگی کی بنیاد ڈالنا چاہتے ہیں قومی زندگی سے ان کی مراد صرف مادی و اقتصادی ترقی نہیں، ذہنی و اخلاقی ترقی بھی ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کی ترقی کا دارومدار ان کے نزدیک صنعت و حرفت پر ہے۔

لیکن ذہنی اور اخلاقی نشو و نما کے سلسلے میں حالی تمام آزاد پیشوں میں تجارت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون میں انھوں نے تجارت کو انسان کا معلم و اتالیق قرار دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اس سے بڑھ کر قوائے عقلیہ کو فائدہ پہنچانے والی اور راست بازی، دلیری، کفایت شعاری، انکساری اور دوسری اخلاقی صفات پیدا کرنے والی کوئی اور چیز نہیں۔ آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ :

’’تجارت اور ترقی ہمیشہ اور ہر جگہ لازم و ملزوم رہی ہیں۔ انسان کے اندرونی قوی ٰ کی ترقی، علوم و فنون کی ترقی، جنرل انفورمیشن (معلومات عامہ) کی ترقی، اخلاق کی، ضوابط و قوانین کی ترقی، آزادی کی ترقی، غرض کہ ہر طرح کی ترقی ہی ترقی اس سے پیدا ہوئی ہے۔‘‘

ان تمام ترقیوں میں  آزادی کی ترقی خاص طور سے قابل توجہ ہے۔ آزاد پیشوں سے جو ایک طرح کی آزاد ذہنیت پیدا ہوتی ہے اسے غالباً حالی سیاسی محکومی کی زنجیریں کاٹنے کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح آزاد پیشوں کی اہمیت ان کی نظر میں صرف معاشی نہیں رہتی بلکہ سیاسی بھی ہو جاتی ہے۔

الغرض حالی کا معاشی لائحہ عمل ان کے سیاسی نصب العین کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ نظر آتا ہے۔ مختصر الفاظ میں وہ اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق صنعت و حرفت اور دوسرے آزاد پیشوں سے مسلمانوں میں وہ اقتصادی اور اخلاقی قوت پیدا کرنا چاہتے ہیں جو آگے چل کر انگریزوں کی حریف بن سکے۔ ان کے نزدیک صرف یہی راہ مسلمانوں کو آزادی و خود مختاری کی منزل تک لے جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ مسلمانوں کے متوسط یعنی تعلیم یافتہ طبقے کو خاص طور سے ملازمت سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اگر یہ لوگ بھی جنھیں وہ قومی ترقی کے ضروری آلات  تصور کرتے ہیں ملازمت کے چکر میں پھنس گئے تو پھر قومی ترقی کا کوئی منصوبہ بھی عملی شکل اختیار نہ کرسکے گا۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے تعلیم یافتہ طبقے کو انھوں نے اس اہم کام کے لیے اس لیے منتخب کیا تھا کہ صرف اسی کی رسائی مغرب کے ان سائنسی اصولوں تک ہوسکتی تھی، جن کو اپنائے بغیر جدید دور میں نہ کوئی پیشہ فروغ پا سکتا تھا نہ کوئی فن۔ حالی ان سے یہی توقع نہیں کرتے کہ وہ ان اصولوں کی اشاعت کریں بلکہ خود نمونہ بن کر دوسروں کی ترغیب و تحریص کا بھی باعث بنیں۔

لیکن صنعت و حرفت کے سلسلے میں وہ ہندوؤں کے متوسط طبقے کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتے جو اس راہ پر بہت پہلے سے گامزن تھا۔ مشینی صنعت کی منفعت سے واقف ہو کر اس نے کپڑے کے کارخانے قائم کر لیے تھے۔ حالی اسے قومی ترقی کے لیے فال نیک تو قرار دیتے ہیں لیکن وہ اپنے اس رنج کو بھی چھپا نہیں سکتے کہ مسلمان جہاں اور چیزوں میں ہندوؤں سے پیچھے ہیں وہاں مشینی صنعت میں بھی ان کا کوئی حصہ نہیں۔

پست ہے ہمسر سے جو اپنے یہ سمجھادو اسے

خاک ہے وہ گو کہ ہے پہنچا ہوا افلاک پر

اپنی پستی کے نشاں پاتے ہیں ہر منزل میں ہم

کیا تجارت، کیا صناعت اور کیا علم و ہنر

کھل رہے جو کلوں کے کارخانے ملک میں

جن کے مالک ہیں وطن کے اہل ہمت سر بسر

جو کہ ہیں ملکی ترقی کے لیے اک فال نیک

جن میں امیدیں ہیں مثل روز روشن جلوہ گر

قوم کا حصہ نہ واں پاؤ گے تم اس کے سوا

دن چھپے قلیوں کی اک فوج آئے گی تم کو نظر

ہندوؤں کی اس صنعتی ترقی سے حالی اندیشے میں پڑ جاتے ہیں۔ صنعتی سرمایہ داری کی تخریبی قوتوں کے مظاہرے ان کی نظر کے سامنے تھے۔ یہ دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں کہ چھوٹی سی چھوٹی صنعتی قوم بڑے سے بڑے غیر ترقی یافتہ ملک کو کس آسانی سے تباہ کرسکتی ہے۔ سنہ 1894-95میں چین و جاپان کی لڑائی میں چین کی شکست اس کی تازہ ترین مثال تھی۔

گل کھلایا اس نے جو اقصائے مشرق میں ابھی

اس کے لکھتے وقت ہاتھوں میں لرزتے ہیں قلم

چین جو وسعت میں کم اک براعظم سے نہ تھا

اک جزیرے کی لپٹ نے کر دیا اس کو بھسم

صنعتی سرمایہ داری کو اپنی بقا کے لیے جس طرح کمزور قوموں کو لوٹنا پڑتا ہے حالی کو اس کا پورا پورا احساس ہے۔ دوسرے وہ ترقی یافتہ قوموں کے اس خاصے کو بھی نہیں بھولتے کہ وہ مغلوب قوموں کو کبھی بھی ان وسائل میں برابر نہیں ہونے دیتیں جن کے باعث انھیں غلبہ حاصل ہوا ہے۔

یہی اندیشہ حالی کو ہندوؤں کی صنعتی ترقی سے ہے۔ یعنی اگر ایک بار اس میدان میں انھوں نے مسلمانوں کو دبالیا تو پھر وہ ہمیشہ دبائے رکھیں گے۔ اسے وہ ایک ایسی بازی تصور کرتے ہیں جو ایک دفعہ ہارنے کے بعد دوبارہ نہیں جیتی جاتی، کیونکہ حریف پھر اس کا موقع ہی نہیں دیتا۔

پولو اور گھوڑ دوڑ کی سمجھو نہ ہار اس ہار کو

جو یہاں ہار ا، ہوئی ذلت گلے کا اس کے ہار

قوم جو اس دوڑ میں ہاری اسے سمجھو کہ وہ

ہو گئی زور آزمائی میں حریفوں کی شکار

سایہ میں برگد کے جیسے جل کے رہ جاتی ہے گھاس

زور مندوں میں یونہی ہوتی ہے مٹی اس کی خوار

حق ہے غالب کا کہ کچلے اور دبے مغلوب کو

ہے یہی مغلوب ہونے کا مآل انجام کار

سرمایہ داری کے دل میں کسی کا درد نہیں ہوتا۔ نہ وہ ہم وطنی کا پاس کرتی ہے نہ ہم سائیگی کا۔ حالی اسی لیے ہندوؤں کی صنعتی ترقی کی جانب مسلمانوں کو خاص طور سے متوجہ کرتے ہیں۔

دیکھنا پیچھے نہ ہم چشموں سے رہ جانا کہیں

حق میں ہمسائے کے ہمسائے کا بڑھتا ہے ستم

کراچی کے خطبۂ صدارت (سنہ1907)میں ہندوؤں کی صنعتی برتری سے متعلق ذیل کی سطور بھی ان کے اندیشوں کو صاف صاف ظاہر کرتی ہیں :

’’صاحبو! صنعت و حرفت کی ضرورت ہندستان میں عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے جب سے سودیشی تحریک شروع ہوئی ہے ہمارے معزز ہم وطن اس کی طرف بھی جلد سے جلد قدم بڑھا رہے ہیں۔ گورنمنٹ نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اس ملک کی مالی مشکلات جس میں وہ اکثر مبتلا ہوتا رہتا ہے ان سے نجات پانا محض صنعت و حرفت کی ترقی پر منحصر ہے۔ ممالک متحدہ میں اسی مقصد کے لیے انڈسٹریل کانفرنس قائم کی گئی ہے اور صوبوں میں بھی اس طرف توجہ ہوتی جاتی ہے۔ اگرچہ مسلمان بھی اس کی ضرورت سے انکار نہیں کرتے لیکن عملی طور پر وہ اب تک اس سے بالکل الگ رہے ہیں اور نہایت اندیشہ ہے کہ جس طرح وہ ابتدا میں انگریزی تعلیم سے نفرت کرنے کے سبب اپنی تمام ہم وطن قوموں سے پیچھے ر ہ گئے ہیں اور اب کسی طرح ان کی برابری نہیں کرسکتے۔ اسی طرح صنعت و حرفت سے بھی اس وقت تک ان کی غفلت کا وہی انجام نہ ہو‘‘۔

عجب نہیں کہ حالی کے دل میں اسی قسم کے اندیشے اس وقت بھی ہوں جب انھوں نے سنہ 1876میں صنعت و دستکاری کی تعلیم کو فزیکل سائنس کی تعلیم پر مقدم قرار دیا تھا۔

ہندوؤں کی صنعتی برتری کے سلسلے میں حالی کو قدرتی طور پر اس سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ جب ہندوؤں کو ایک بار سبقت حاصل ہو گئی تو پھر مسلمان ہزار کوشش کریں اس میدان میں کسی طرح ان کی برابری نہیں کرسکتے۔ اس کا جواب بظاہر مایوس کن ہونا چاہیے تھا، لیکن ہندستان کے نو آبادیاتی نظام کے پیش نظر حالی کو یقین تھا کہ انگریز اپنے تجارتی مفاد کی خاطر دیسی صنعتوں کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دیں گے۔ اس اثنا میں مسلمان چاہیں تو ہندوؤں کو پکڑسکتے ہیں :

’’ہماری کوشش صرف اس بات میں ہونی چاہیے کہ ہم اپنی ہم وطن قوموں سے جنھوں نے ہم سے بہت پہلے قدم آگے بڑھایا ہے کسی چیز میں کم نہ رہیں اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ہم اس کوشش میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ محکوم قوموں کی ترقی ہمیشہ ایک خاص حد پر جا کر پھیکی ہو جاتی ہے جس سے آگے بڑھنے کا محل ان کے لیے باقی نہیں رہتا۔ پس اگر ان میں سے ایک قوم آگے بڑھ گئی اور دوسری پیچھے رہ گئی تو پس ماندہ قوم کو مایوس نہ ہونا چاہیے کیونکہ اگر راہ میں نہیں تو اخیر منزل پر جا کر دونوں مل جائیں گی اور یہ بھی ناممکن نہیں کہ راہ ہی میں پچھلا قافلہ اگلے قافلے سے جا ملے، کیونکہ بعض اوقات ایسی اضطراری حالتیں پیش آتی ہیں کہ پچھلوں کو معمولی رفتار سے کسی قدر زیادہ جلد قدم اٹھانا پڑتا ہے یہاں تک کہ وہ راہ ہی میں اگلوں سے جا ملتے ہیں۔

ان سطورسے یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ حالی کو انگریزوں کی اس خود غرضانہ پالیسی سے اتفاق ہے جو دیسی صنعتوں کی راہ میں روڑے اٹکاتی تھی، لیکن یہ امر واقعہ نہیں۔ حالی نے اگرچہ مسلمانوں کو صنعت میں جلد سے جلد ترقی کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ وہ کم سے کم وقت میں ہندوؤں کے برابر ہو جائیں، لیکن وہ اس حقیقت سے بھی آشنا تھے کہ برطانوی مشینی مال کے آگے قدیم دیسی صنعتیں دم توڑ چکی ہیں اور ہندستان برطانوی مصنوعات کا محتاج بن چکا ہے:

اگر ایک پہننے کو ٹوپی بنائیں

تو کپڑا وہ اک اور دنیا سے لائیں

جو سینے کو وہ ایک سوئی منگائیں

 تو مشرق سے مغرب میں لینے کو جائیں

ہر اک شے میں غیروں کے محتاج ہیں وہ

مکینکس کی رو میں تاراج ہیں وہ

نہ پاس ان کے چادر نہ بستر ہے گھر کا

نہ برتن ہیں گھر کے نہ زیور ہے گھر کا

نہ چاقو نہ قینچی نہ نشتر ہے گھرکا

 صراحی ہے گھر کی نہ ساغر ہے گھر کا

کنول مجلسوں میں قلم دفتروں میں

اثاثہ ہے سب عاریت کا گھروں میں

جو مغرب سے آئے نہ مال تجارت

تو مر جائیں بھوکے وہاں اہل حرفت

ہو تجار پر بند راہ معیشت

دکانوں میں ڈھونڈی نہ پائے بضاعت

پرائے سہارے ہیں بیوپار واں سب

طفیلی ہیں سیٹھ اور تجار واں سب

حالی کو اس محتاجی کا کافی احساس ہے۔ ہندستان کی ساری دولت برطانوی مصنوعات خرید نے میں صرف ہو رہی تھی جس سے ملک روز بروز اور بھی مفلس ہوتا جا رہا تھا۔ انگریزوں کا یہ استحصال کسی خاص فرقہ یا قوم تک محدود نہ تھا۔ اس میں ہندو یامسلمان کی تخصیص نہ تھی خود سرمایہ داری بھی اس قسم کی تخصیص نہیں کرتی۔ برطانوی لوٹ کا شکار ہندستان کا ہر باشندہ تھا۔ حالی کو یہ کسی طرح گوارہ نہیں کہ مفلس ہندستانیوں کی کمائی سے غیر ملکی سرمایہ دار اپنی جیبیں بھریں اور پھر اس کا عشر عشیر بھی ہندستان واپس نہ آئے۔ ملک کی عام اقتصادی بہبودی کا تقاضا یہ تھا کہ ہندستان کی دولت ہندستان ہی میں رہے۔ حالی اسی بلند مقصد کو سامنے رکھ کر سودیشی تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ اس تحریک کے بارے میں زمانہ کانپور کے ایڈیٹر نے ان سے بعض باتیں پوچھی تھیں۔ حالی نے جواب میں جو لکھا ہے اس سے ان کے صحیح خیالات کا اندازہ ہوسکتا ہے:

’’جس قدر تحریکیں اب تک ہندستان کی بھلائی کے لیے دیسیوں کی طرف سے ہوئی ہیں، میرے نزدیک ان میں سے کوئی ایسی تحریک جس سے ملک کو حقیقی فائدہ پہنچنے کی امید ہو سودیشی تحریک سے بہتر نہیں ہوئی۔ ہندومسلمانوں کے اتفاق کی نہ سودیشی تحریک میں بلکہ ہر کام میں جو ہندستان کی عام بھلائی سے تعلق رکھتا ہو اشد ضرورت ہے اور جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں سودیشی تحریک جیسی ہندوؤں کے حق میں مفید ہے ایسی ہی مسلمانوں کے حق میں مفید ہے ۔ اس تحریک کا اثر ملک پر ضرور ہو گا اور  رفتہ رفتہ کم و بیش ہوتا جاتا ہے۔ لوگوں کو اس سرنگ کا راستہ معلوم ہو گیا ہے جس راستے سے ملک کی دولت غیر ملکوں میں کھنچی چلی جاتی ہے مگر اس راستے کا بند کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے اور اس کے لیے جلدی کرنا نیچر سے مقابلہ کرنا ہے ، اگر ایک صدی میں بھی ہندستان غیر ملکوں کی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائے تو سمجھو اس کی بہت جلد کامیابی ہوئی‘‘

حالی کے سامنے دراصل دو حریف تھے۔ ایک ہندو جو ان کے ہم وطن تھے، دوسرے انگریز جو غیر ملکی تھے اور ان کے ہم وطنوں کے مشترک حریف۔ اس مشترک حریف کی قوت توڑنے کے لیے وہ ہندوؤں سے اتحاد کو ضروری تصور کرتے تھے۔ اسی طرح وہ امور جن سے ہندو اور مسلمان دونوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا، ان میں بھی وہ اشتراک عمل کے خواہاں تھے، لیکن جب کبھی مسلمانوں کے حقوق و اقتدار کا سوال اٹھتا تو وہ ایک خالص مسلمان کے ذہن سے سوچتے۔

مثال کے طور پر اسی سودیشی تحریک کو لیجیے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اس سے ان کے نقطۂ نظر کی کافی وضاحت ہو جاتی ہے۔ سنہ 1905میں حکومت نے بنگال کی تقسیم کا اعلان کیا جس کا مقصد ایک ایسے صوبے کی تشکیل تھی جس میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو مسلمانوں کی بہبودی مقصود نہ تھی۔ درپردہ اس تقسیم کا مقصد بنگالیوں کی اجتماعی قوت کو توڑنا، کلکتہ کی سیاسی برتری کو کم کرنا اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کی طاقت کو بڑھانا تھا تاکہ وہ تعلیم یافتہ ہندوؤں کی جلد بڑھنے والی قوت کو روکتی رہے۔

 مسلمانوں نے قدرتی طور پر اس تجویز کا خیر مقدم کیا کیونکہ معاشی اعتبار سے وہ نہایت پست حالت میں تھے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی معاشی پستی کے ذمہ دار بھی خود انگریز ہی تھے۔ مسلمان چونکہ ابتدا میں ان کے اصل حریف تھے اس لیے مسلمانوں کی سیاسی قوت توڑنے کے لیے ان کی معاشی تباہی ضروری سمجھی گئی۔ ان کی جائدادوں، آراضیوں اور منصبوں پر ہندوؤں کا قبضہ کرایا گیا۔ لیکن کچھ مدت کے بعد جب ہندو مغربی علوم و فنون کے ذریعہ معاشی اور سیاسی میدان میں آگے بڑھنے لگے تو انھیں اس بڑھتی ہوئی قوت سے خطرہ محسوس ہوا اور تباہ شدہ مسلمانوں کو حکومت، منصب اور دولت کے خواب دکھائے جانے لگے۔ انگریزی سیاست نے اپنی ہندو نوازی سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پہلے ہی پیدا کر دیے تھے۔ تقسیم بنگال نے اس خلیج کو اور بھی وسیع کر دیا۔ بنگالیوں نے تقسیم کے خلاف سخت شورش و ہنگامے برپا کیے۔ ولایتی سامان کا بائیکاٹ اور دیسی صنعتوں کی ترقی کی تحریک اسی رد عمل کا نتیجہ تھی۔ مسلمان اس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ سنہ 1906میں جب مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکہ میں پڑی تو اس کے اجلاس میں ایک تجویز کے ذریعہ تقسیم بنگال کو مسلمانوں کے حق میں مفید اور اس کے خلاف شورش اور بائیکاٹ کی تحریکوں کو مذموم قرار دیا۔

 اس تقسیم سے سر سید کے اس خیال کو مزید تقویت پہنچی کہ مسلمانوں کامفاد انگریزی حکومت کے استحکام سے وابستہ ہے اور نواب وقار الملک نے جو لیگ کے بانی اور سکریٹری تھے، صاف الفاظ میں کہا کہ ’’ہمارے حقوق کی حفاظت تب ہی ہوسکتی ہے جبکہ ہم گورنمنٹ کی حفاظت پر کمر بستہ رہیں۔ ہمارا وجود اور گورنمنٹ کا وجود لازم و ملزوم ہیں‘‘

حالی اگرچہ تقسیم بنگال کے بارے میں صاف صاف کچھ نہیں کہتے، لیکن ان کے اس بیان سے کہ سودیشی تحریک کو بنگال کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے، ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تقسیم بنگال کے حق میں ہیں :

’’اس تحریک کو تقسیم بنگال کے معاملے سے متعلق کرنا گویا اس بات کا اعتراف کرنا ہے کہ اگریہ تجویز منسوخ ہو جائے تو ہم اس تحریک سے دست بردار ہو جائیں گے۔ میں نے سنا ہے کہ گزشتہ کانگریس کے اجلاس میں ایک رزولیوشن اس مضمون کا پیش ہوا تھا کہ سودیشی تحریک کو تقسیم بنگال کے مسئلے سے کچھ تعلق نہ ہونا چاہیے۔ لیکن بنگالیوں نے اس کی سخت مخالفت کی اور اس کو ہرگز پاس نہ ہونے دیا، ہندو مسلمانوں کے اتفاق کی نہ صرف سودیشی تحریک میں بلکہ ہر کام میں جو ہندستان کی عام بھلائی سے تعلق رکھتا ہو اشد ضروری ہے، اور جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں سودیشی تحریک جیسی ہندوؤں کے حق میں مفید ہے ایسی ہی مسلمانوں کے حق میں مفید ہے۔ مگر مجھے امید نہیں ہے کہ جب تک بنگالی سودیشی تحریک کو تقسیم بنگال کی منسوخی پر معلق رکھیں گے اور ملک کی عام ہمدردی کے خیال کو اس خود غرضی کے میل کچیل سے پاک نہ کریں گے تب تک مسلمان ان کے شریک نہ ہوں گے‘‘۔

اس اقتباس سے یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حالی فرقہ وارانہ مسائل کو عام ملکی تحریکوں سے جو ہندو مسلمان دونوں کے لیے نفع بخش ہوں یا بیرونی سامراج کی گرفت کو کمزور کرتی ہوں، الگ کر کے دیکھتے ہیں۔ سر سید بھی ان تمام امور کے حامی تھے جن کا تعلق مشترک مفاد سے تھا، لیکن وہ کسی ایسے اقدام کو برداشت نہیں کرسکتے تھے جس سے حکومت کے استحکام پر ذراسی بھی ضرب پڑے۔

لیکن سنہ1911میں تقسیم بنگال کی منسوخی نے مسلمانوں کے دل و دماغ میں ہنگامہ برپا کر دیا اور وفاداری کی وہ عمارت جس کی بنیاد سر سید نے ڈالی تھی، متزلزل ہو گئی۔ مسلمان حکومت کے اس رویہ سے اس درجہ بد دل اور بد ظن ہوئے کہ انھیں اپنی پچھلی پالیسی بیکار اور لاحاصل نظر آنے لگی یہیں سے مسلمانوں کی نئی پالیسی کا آغاز ہوا اور وقار الملک نے انھیں حکومت کے بجائے خدا اور اپنے دست و بازو پر بھروسہ کرنے کی تلقین کی۔  لیکن حالی کو اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے کسی تلخ تجربے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ انگریزی حکومت کے کردار سے اچھی طرح واقف تھے۔ انھوں نے بہت پہلے سر سید کی زندگی ہی میں کھلے طور پر کہہ دیا تھا۔

وہ دن گئے کہ نازاں تھی قوم سلطنت پر

اب قوم کو خدا کا یا اپنا آسرا ہے

حالی اگرچہ سر سید ہی کی طرح ہندوؤں کے خوف میں مبتلا تھے، لیکن ان کے خوف کی نوعیت مختلف تھی۔ سر سید اس اندیشے کا شکار تھے کہ ہندوؤں نے انگریزی تعلیم اور اعلیٰ سرکاری عہدوں کی بدولت ملکی سیاست میں اپنا عمل دخل قائم کر لیاتو پھر وہ پسماندہ مسلمانوں کو کبھی ابھرنے نہ دیں گے۔ لیکن حالی نہ تو سر سید کے اس اندیشے میں شریک نظر آتے ہیں اور نہ ہی ہندوؤں کے تعلیم یافتہ طبقے سے جو سرکاری عہدوں کے توسط سے ملک کی سیاست پر اثر انداز ہو رہا تھا متوحش ہیں۔ انھیں ملازمت کے میدان میں ہندوؤں سے کوئی خوف نہیں ورنہ وہ مسلمانوں کو ملازمت سے باز رکھنے کی کوشش نہ کرتے۔ انہیں ہندوؤں سے اندیشہ ہے تو صنعت و حرفت کے میدان میں ہے جس کی طرف مسلمانوں نے مطلق توجہ نہ کی تھی، ان کو یقین تھا کہ جو قوم اس دوڑ میں آگے نکل جائے گی اس کو بالآخر دوسری قوموں پر غلبہ حاصل ہو گا۔

اسی طرح سر سید جب مسلمانوں کے سیاسی استحکام کے لیے انگریزی حکومت کے استحکام و اقتدار کو لازمی قرار دیتے ہیں تو حالی اس سے متفق نظر نہیں آتے، کیونکہ وہ مسلمانوں کے اس اقتدار اور جاہ و حشمت کا خواب دیکھتے ہیں جو انھیں ماضی میں حاصل تھا اور اس منزل تک پہنچنے کے لیے وہ ملازمت نہیں بلکہ صنعت و حرفت اور دوسرے آزاد پیشوں کی راہیں تجویز کرتے ہیں جو موجود ہ سائنٹفک عہد سے ہم آہنگ ہوں اور اس بنا پر بشارت دیتے ہیں کہ

رستے میں گر نہ ٹھہرے تو تم بھی جاملو گے

گزرا ابھی ہے یاں سے خیل و حشم تمہارا

سر سید کے یہاں اس خیل و حشم کا تصور انگریزی حکومت کے سایہ میں تھا، حالی کے یہاں آزادی کے تصور کے ساتھ وابستہ ہے۔ چنانچہ وہ سر سید کی طرح ہندوؤں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے نہ تو اینگلو مسلم محاذ بنانے کی فکر کرتے ہیں اور نہ انگریزی حکومت کی پاے داری پر مسلمانوں کے سیاسی مفاد کو مبنی سمجھتے ہیں، بلکہ اس کے برعکس جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ان کا اصل مقصد اس غیر ملکی اور سامراجی حکومت سے نجات حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے وہ ہندوؤں کے اشتراک و تعاون کے بھی خواہاں ہیں۔

حالی نے اگرچہ بعض جگہ وفاداری کی تلقین کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ حکومت کے وفادار نہیں۔ سر سید کے یہاں وفاداری ایک مذہبی عقیدہ تھی۔ حالی اسے طوعاً و کرہاً گوارا کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے ملکی امن و امان کی بھی ضرورت تھی اور وقت کی بھی۔ دوسرے انگریز مسلمانوں سے خاص طور سے بد ظن تھے اس لیے مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ صلح جوئی اور آشتی سے اس وقت تک کام لیا جائے جب تک کہ مسلمان انگریزوں جیسی صنعتی قوت نہ پیدا کر لیں اور ان میں انگریزی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی سکت نہ آ جائے۔ غالباً اسی خیال کے تحت حالی نے کبھی کبھی حکومت سے وفاداری کا اظہار کیا ہے۔

سر سید کو انگریزوں کی شرافت اور ایمانداری پر پورا پورا بھروسہ تھا، ان کا یہ یقین کہ انگریز وفاداری کے صلے میں مسلمانوں کی مؤدبانہ شکایتوں اور درخواستوں پر توجہ دیں گے اور ا پنے سلوک میں مساوات برتیں گے، اسی بھروسے کی پیداوار تھا۔ بہت ممکن ہے کہ حالی بھی کچھ دنوں اس غلط فہمی میں مبتلا رہے ہوں، لیکن حالات و واقعات نے بہت جلد ان پر واضح کر دیا کہ مسلمان ہزار قریب آنے کی کوشش اور خلوص و وفا کا مظاہرہ کریں، لیکن انگریزوں کے دل میں گھر نہ کرسکیں گے۔

ملنے کی جو نہ کرنی تھی تدبیر کر چکے

 آخر کو ہم حوالۂ تقدیر کر چکے

اے دل اب آزمائش تقدیر کا ہے وقت

 وہ امتحان برّشِ شمشیر کر چکے

کہتے ہیں طبع دوست شکایت پسند ہے

 ہم شکوہ ہائے غیر بھی تحریر کرچکے

سر سید کو انگریزوں کی دوستی پر کامل اعتماد تھا۔ حالی کو اس میں بھی انگریزوں کی سیاست نظر آتی ہے۔ چنانچہ انگریزوں کا التفات انھیں انگریزوں سے قریب تر نہیں کرتا، بلکہ اور بھی بدگمانی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

ہے ان کی دوستی پر ہم کو تو بدگمانی

وہ ہم کو دوست سمجھیں یہ ان کی مہربانی

اُمید وصل سے ہے کچھ جی چھڑائے دیتا

جو کچھ سنا ہے ہم نے مشاطہ کی زبانی

ایک غیر ملکی سامراجی حکومت سے جس کا کردار ایک کھلی ہوئی حقیقت تھی، کسی بھلائی کی امید رکھنا ان کی نگاہ میں ایسا ہی تھا جیسے جلاد سے مسیحائی یا راہزن سے رہنمائی کی توقع کرنا:

درد اور درد کی ہے سب کے دوا ایک ہی شخص

یاں ہے جلاد و مسیحا بخدا ایک ہی شخص

قافلے گزریں وہاں کیوں کر سلامت واعظ

ہو جہاں راہزن اور راہنما ایک ہی شخص

انگریزوں کے بے رحمانہ رویّہ میں انھیں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، قوم کب کی تباہ ہو چکی تھی، لیکن تباہ کاری کا سلسلہ تھا کہ ختم ہونے کو نہیں آتا تھا۔

ہو چکی قوم مردہ پر جلاد

ابھی درّے لگائے جاتا ہے

 اور اس پر جب انگریز خود کو ہندستان کا رکھوالا کہتے تو حالی کے ذہن میں قصاب اور بکریوں کی مثال پھر جاتی:

صحرا میں کچھ بکریوں کو قصاب چراتا پھرتا تھا

دیکھ کے اس کے سارے تمھارے آ گئے یاد احسان ہمیں

اسی طرح انگریزوں کے اس دعوے پر کہ ان کی حکومت انصاف کی حکومت ہے حالی کھری کھری سناتے ہیں :

جب سے سنی ہے تیری حقیقت چین نہیں اک آن ہمیں

اب نہ سنیں گے ذکر کسی کا آگے کو ہوئے کان ہمیں

پاس انھیں گر اپنا ذرا ہو جان اپنی بھی ان پہ فدا ہو

کرتے ہیں خود نا منصفیاں اور کہتے ہیں نافرمان ہمیں

 اور یہ رباعی بھی دیکھئے:

پاؤ گے نہ کوئی قاف سے لے تا قاف

حق تلفیوں کے دل میں نہ ہوں جس کے شگاف

گر غور سے سنیے غل ہے یہی چار طرف

انصاف !انصاف! آہ انصاف انصاف

اس انصاف کے ساتھ ساتھ حالی کی نظر انگریزوں کی فرقہ وارانہ سیاست پر بھی پڑتی ہے، کبھی ہندوؤں سے ساز باز ہے کبھی مسلمانوں سے:

داد طلب سب غیر ہوں جب تو ان میں کسی کا پاس نہ ہو

بتلائی ہے زمانہ نے انصاف کی یہ پہچان ہمیں

کل کی خبر غلط ہو تو جھوٹے کا رو سیاہ

تم مدعی کے گھر گئے اور مہماں رہے

حالی کے نزدیک اسی فرقہ وارانہ سیاست پر انگریزی حکومت کے قیام اور استحکام کا دارومدار تھا۔ برطانوی مدبر اچھی طرح جانتے تھے کہ صرف تلوار کے زور سے زیادہ عرصے تک حکومت نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ انھیں ملک میں ایسے حالات و اسباب پیدا کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ ہر فرقہ انگریزوں کے سہارے کامحتاج ہو جائے یہ کھیل جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، خاص طور سے ہندو اور مسلمانوں کے ساتھ کھیلا گیا، کیونکہ یہی ہندستان کی سب سے بڑی قومیں تھیں۔ پہلے ہندوؤں کو ابھارا اور مسلمانوں کو تباہ کیا پھر مسلمانوں کی پشت پناہی پر آ گئے اور ہندوؤں کی طر ف سے آنکھیں پھیر لیں۔ ملازمت کے پیچھے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے بد ظن ہی نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے۔ حالانکہ اصل دشمن پر دے کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور خوش تھا کہ سلطنت کے استحکام میں جو کام تیر و تفنگ نہ کرسکے وہ ذرا سے تدبر نے نفاق کا بیج بو کر کر دیا، اور لطف یہ کہ الزام بھی سرنہ آیا۔ لیکن حالی کی گہری نگاہ اس راز کو بھی پا جاتی ہے اور تدبیر قیام سلطنت  کے عنوان سے وہ اس راز کو بھی آشکارا کر دیتے ہیں۔

تدبیر یہ کہتی تھی کہ جو ملک ہو مفتوح

واں پاؤں جمانے کے لیے تفرقہ ڈالو

 اور عقل خلاف اس کے تھی یہ مشورہ دیتی

یہ حرف سبک بھول کے منہ سے نہ نکالو

پر رائے نے فرمایا کہ جو کہتی ہے تدبیر

مانو اسے اور عقل کا کہنا بھی نہ ٹالو

کرنے کے ہیں جو کام وہ کرتے رہو لیکن

جو بات سبک ہو اسے منہ سے نہ نکالو

آخری شعر سے برطانیہ کی ڈپلو میسی کا بھی سراغ ملتا ہے۔ ایک برطانیہ ہی پر کیا موقوف، یورپ کے سارے سیاست دانوں کا یہی رنگ تھا۔ وہی سب سے کامیاب مدبر سمجھا جاتا جو سبک بات کا تو خیر ذکر ہی کیا کوئی ایسی بات بھی منہ سے نہ نکالتا جس سے کسی تلخی کا اظہار یا کوئی واضح مفہوم متعین ہوتا ہو۔ ہر بات یوں بھی ہو اور یوں بھی۔ یعنی جو بات کہی جائے وہ انتہائی نرم، شیریں، پہلو دار اور مبہم ہو۔ اس فریب کا نام ڈپلومیسی تھا اور یہی ڈپلو میسی ہندستان میں بھی کار فرما تھی۔ حالی کی موجودہ پولیٹکل اسپیچیں دیکھیے تو یہ ڈپلومیسی برہنہ نظر آتی ہے۔

اے بزم سفیران دول کے سخن آرا

ہر خورد و کلاں تیری فصاحت پہ فدا ہے

یہ سچ ہے کہ جادو ہے بیاں میں ترے لیکن

کچھ سحر بیانی کا تری ڈھنگ نیا ہے

ظاہر ہے نہ غصہ میں بیاں سے تری رنجش

نہ لطف میں کچھ طرز بیاں اس سے جدا ہے

ہے دل میں نہاں ایک شکایات کا طومار

 اور لب پہ جو دیکھو تو نہ شکوہ نہ گلا ہے

جو صلح کی باتیں ہیں وہ ہیں شہد سے شیریں

 اور جنگ میں کچھ لطف سخن اس سے سوا ہے

گر سوچیے تو سیکڑوں پہلو ہیں مضر کے

 اور سنیے تو زنجیروں سے ہر قوت بندھا ہے

دل کی ترے ہوتی نہیں معلوم کوئی بات

گونگا نہیں گویا نہیں کیا جانیے کیا ہے

کھلتا نہیں کچھ اس کے سوا تیرے بیاں سے

اک مرغ ہے خوش لہجہ کہ کچھ بول رہا ہے

تھے لب پئے اظہار پہ اب آ کے کھلا ہے

انسان کو اخفا کے لیے نطق ملا ہے

یہ تھی برطانوی ڈپلومیسی جس میں ابہام اور اخفا پر خاص زور تھا، لیکن منشور و اعلانات میں اس کی گنجائش نہ تھی۔ اس میں واضح انداز بیان اختیار کرنا پڑتا تھا، لیکن عام منشوروں اور ا علانوں کے بارے میں فری مین کا یہ قول بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب ہم منشوروں اور ا علانوں کی طرف آتے ہیں تو گویا ہم کذب کے منتخب خطہ میں قدم رکھتے ہیں۔ اس روشنی میں ملکہ وکٹوریہ کا وہ اعلان نامہ توجہ کے لائق ہے جو سنہ 1858میں ہندستان میں شائع کیا گیا تھا۔ اس میں ملکہ نے خاص طور سے مذہبی، ملکی اور نسلی تفریق سے بلند ہو کر اپنی تمام رعایا کو مساوی درجہ عطا کیا تھا اور برطانوی یا غیر برطانوی رعایا کی کوئی تخصیص نہیں کی تھی۔ ہندستانی اپنی سادگی میں اس اشتہار کو سچ سمجھ بیٹھے اور اطمینان و مسرت کا اظہار کیا۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں تجربات نے بتا دیا کہ مساویانہ سلوک کے وعدے سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔ حکمراں قوم پھر حکمراں قوم ہے۔ نسلی امتیازات جیسے پہلے تھے ویسے ہی اب ہیں۔ کالا کالا ہے اور گورا گورا۔ کالے پر جو بھی بیت جائے کم ہے۔ گورا جو بھی کر گزرے روا ہے۔ کالا اگر گورے کی ایک ضرب سے نہیں مرتا تو مظلوم گورا ہے نہ کہ کالا۔ حالی نے اسی تفریق و  امتیاز کو کالے اور گورے کی صحت کا میڈیکل امتحان میں واضح کیا ہے۔

دو ملازم ایک کالا اور گورا دوسرا

دوسرا پیدل مگر پہلا سوار راہوار

تھے سول سرجن کی کوٹھی کی طرف دونوں رواں

کیونکہ بیماری کی رخصت کے تھے دونوں خواستگار

راہ میں دونوں کے باہم ہو گئی کچھ ہشت مشت

کوکھ میں کالے کی اک مکا دیا گورے نے مار

صدمہ پہنچا جس سے تلی کو بہت مسکین کی

آ کے گھوڑے سے لیا سائیس نے اس کو اتار

ٹھوک کر کالے کو گورے نے تو اپنی راہ لی

چوٹ کے صدمے سے غش کالے کو آیا چند بار

آخرش کوٹھی پہ پہنچے جا کے دونوں پیش و پس

ضارب اپنے پاؤں اور مضروب ڈولی میں سوار

ڈاکٹر نے آ کے دونوں کی سنی جب سرگزشت

تہہ کو جا پہنچا سخن کی سن کے قصہ ایک بار

دی سند گورے کو لکھی تھی جس میں تصدیق مرض

 اور یہ لکھا تھا کہ سائل ہے بہت زار و نزار

یعنی اک کالا نہ جس گورے کے مکے سے مرے

کر نہیں سکتا حکومت ہند میں وہ زینہار

 اور کہا کالے سے تم کو مل نہیں سکتی سند

کیونکہ تم معلوم ہوتے ہو بظاہر جاندار

ایک کالا پٹ کے جو گورے سے فوراً مر نہ جائے

آئے بابا اس کی بیماری کا کیوں کر اعتبار

سر سید حاکم و محکوم میں مساویانہ تعلقات کی اہمیت پر تمام عمر زور دیتے رہے اور صرف آخری عمر میں اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریز کسی قیمت پر بھی ہندستانیوں کو برابر کا درجہ دینے پر آمادہ نہیں۔ لیکن حالی کو ابتدا ہی سے اس کا احساس تھا کہ مساوات تو بڑی چیز ہے زبردست زیر دست کے ساتھ انصاف بھی نہیں کرسکتا۔ اسے اول تو قانون کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور نہ بھی ہو تب بھی اسے کیا پروا۔ طاقت اور حکومت کے آگے قانون کی نہیں چلتی۔ قانون کا اطلاق تو صرف کمزوروں پر ہوتا ہے۔ حالی اپنی نظم ’قانون‘ میں یہی باتیں سوچتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

کہتے ہیں ہر فرد انساں پر ہے فرض

 ماننا قانون کا بعد از خدا

پر جو سچ پوچھو، نہیں قانون میں

 جان کچھ مکڑی کے جالے سے سوا

اس میں پھنس جاتے ہیں جو کمزور ہیں

  اور ہلا سکتے نہیں کچھ دست و پا

پر اسے دیتے ہیں توڑ اک آن میں

 جو سکت رکھتے ہیں ہاتھوں میں ذرا

حق میں کمزوروں کے ہے قانون وہ

  اور نظر میں زور مندوں کی ہےلا

جب قانون صرف زور مندوں کا آلہ کار ہو اور وہ بھی کمزوروں کو پیسنے کے لیے تو پھر مساوات کا اعلان فریب محض نہیں تو اور کیا ہے۔ حالی حکومت کے اس فریب میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ آئے دن کے واقعات سے بھی وہ یہی نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہیں کہ انگریز حتی الامکان ہر معاملے میں اپنی ہی قوم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، خواہ اس سے دوسری قوم کو کتنا ہی سخت نقصان کیوں نہ پہنچے۔ ان حالات میں ہندستانی بھلا ایسی قوم سے کیا توقع کرسکتے ہیں۔ قوم کی پاس داری، میں حالی نے انگریزوں کی اسی قومی خصوصیت کو پیش کیا ہے:

اک مسلماں خاص انگریزوں پہ تھا یوں نکتہ چیں

پاس ان لوگوں کو اپنی قوم کا ہے کس قدر

چاہتے ہیں نفع پہنچے اپنے اہل ملک کو

گو کہ ان کے نفع میں ہو ایک عالم کا ضرر

کارخانہ کا یہ راجس کے کبھی چاقو نہ لیں

اس کا ہو بے چارہ ہندی بیچنے والا اگر

خوردنی چیزیں جو یاں سے لینی پڑتی ہیں انھیں

ان کو لندن سے منگائیں بس چلے ان کا اگر

الغرض اہل وطن کی پاسداری کو یہ لوگ

جانتے ہیں دین و ایماں اپنا، قصہ مختصر

سن کے حالی نے کہا ہے حصر انگریزوں پہ کیا

ایک سے ہے ایک قوم اس عیب میں آلودہ تر

ہیں محبت میں سب اندھے اپنی اپنی قوم کے

یہ وہ خصلت ہے کہ مجبور اس پہ ہے طبع بشر

مکھیاں جیتی نگل جاتے ہیں پاس قوم میں

اچھے اچھے راست باز اور حق پسند اور داد گر

یہ تھا مغرب کی قومیت کا حال جسے انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب نے جنم دیا تھا۔ حالی دیکھتے ہیں کہ اس میں خود غرضی بے جا پاس داری اور تنگ نظری کے وہ عناصر داخل ہو گئے ہیں جن کے ہوتے ایک قوم دوسری قوم پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ حالی بھی انگریزوں پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک انگریزوں کا یہ دعویٰ کہ وہ عدل و مساوات کے حامی ہیں اور ان کی حکومت صرف ہندستان کی بہبود اور بھلائی کے لیے ہے سرتا سر غلط اور جھوٹا دعویٰ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حالی نے سامراجیوں کی حکومت کو پوری طرح طشت از بام کیا ہے ان کے جورواستبداد اور ان کی جارحانہ طرز حکومت کا اثر حالی کے دل پر اتنا گہرا اور شدید ہے کہ انھیں ابنائے وطن کی بیدردیوں کے مقابلے میں ان غیر ملکی حکمرانوں کی غم خواریاں زیادہ ناقابل برداشت نظر آتی ہیں۔

ہیں اگر بے دردیاں اپنوں کی دل کو ناگوار

ناگوار ان سے سوا غیروں کی ہیں غم خواریاں

یہ تمام شہادتیں ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہیں کہ حالی نے سر سید کی طرح دوستی اور وفاداری کے بیج نہیں بوئے، بلکہ درپردہ حکومت کے خلاف بددلی، بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ وہ انگریز حکام سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ شمس العلماکا خطاب ملنے پر وہ بڑی کشکمش میں پڑگئے۔ اس سلسلے میں اپنے بیٹے خواجہ سجاد حسین کو ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’اگر چہ گورنمنٹ کی طرف سے یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس کی ہمارے ہم چشم آرزو رکھتے ہیں مگر مجھے تو ایک مصیبت معلوم ہوتی ہے تم جانتے ہو کہ میں کسی حاکم یا افسر سے کبھی نہ ملتا تھا اور ایسے مواقع سے ہمیشہ الگ تھلگ رہتا تھا۔ مگر اب جب کوئی حاکم ضلع پانی پت میں آوے گا یا جب کوئی نیا ڈپٹی کمشنر کرنال میں بدل کر آوے گا لامحالہ وہاں جانا پڑے گا۔‘‘

حالی کے سیاسی افکار کے سلسلے میں اس گہری وابستگی کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو انھیں دنیائے اسلام سے تھی۔ ہندستان کے مسلمان اگرچہ غلام ہو چکے تھے لیکن ان کے ہم مذہبوں کی آزاد سلطنتیں اب بھی قائم تھیں اور ترکی کا خلیفہ اب بھی ان کا اپنا خلیفہ اور روحانی پیشوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اخوت اسلامی کے نظریہ میں بھی عقیدہ رکھتے تھے جو انھیں ایک طرح کی اخلاقی ہی نہیں سیاسی قوت بھی دیتا تھا۔ انگریز اس سے واقف تھے اور اسی لیے ہندستانی مسلمانوں کی وفاداری انھیں ہنٹر کی طرح مشتبہ نظر آتی تھی۔ سر سید نے انگریزوں کے دل سے یہ شبہ دور کرنے کے لیے خلیفہ ترکی کی مذہبی پیشوائی کو ناجائز اور حکمراں قوم یعنی انگریزوں سے کامل وفاداری کو شرعاً جائز قرار دیا تھا۔ حالی خلیفہ کی اس مذہبی حیثیت کے بارے میں تو کچھ نہیں کہتے، لیکن سلطنت ترکی پر کوئی آنچ آتی دیکھتے ہیں تو ان کے غم و غصے کی انتہا نہیں رہتی، اس سلسلے میں ایک قطعہ جو خود حالی کے الفاظ میں �اس وقت لکھا گیا تھا جبکہ ترکی کو سلطان عبدالعزیز کے قتل کے بعد اخیر صدمہ پہنچا، ان کے دلی احساسات و جذبات کی پوری پوری ترجمانی کرتا ہے۔

خیر ہے اے فلک کہ چار طرف

 چل رہی ہیں ہوائیں کچھ ناساز

رنگ بدلا ہوا ہے عالم کا

 ہیں دگرگوں زمانہ کے انداز

ہوتے جاتے ہیں زور مند ضعیف

 بنتے جاتے ہیں مبتذل ممتاز

چھپتے پھرتے ہیں کبک و تیہو سے

گھونسلوں میں عقاب اور شہباز

ہے نہتوں کو رہ گزر میں خطر

 رہزنوں نے کیے ہیں ہاتھ دراز

ٹڈیوں کا ہے کھیتیوں پہ ہجوم

 بھیڑیوں کے ہیں خوں میں تر لب آز

ناتوانوں پہ گد ہیں منڈلاتے

گھائلوں پر ہیں ہیز تیر انداز

تشنۂ خوں ہیں بھوکے شیروں کے

 حیلہ گر روبہوں کے عشوۂ ناز

دشمنوں کے ہیں دوست خود جاسوس

 اور یاروں کے یار ہیں غماز

ہو گا انجام دیکھیے کیا کچھ

 ہے پر آشوب جبکہ یہ آغاز

لے ابھی تک کھلی نہیں لیکن

 غیب سے آ رہی ہے کچھ آواز

وقت نازک ہے اپنے بیڑے پر

 موج ہائل ہے اور ہواناساز

یا تھپیڑے ہوا کے لے ابھر ے

 یا گیا کشمکش میں ڈوب جہاز

کام اسے اپنے سونپ دو حالی

 نہیں جس کا شریک اور انباز

ہے وہ مالک ڈبوئے خواہ ترائے

 چارہ یاں کیا ہے غیر عجز و نیاز

آخری دو شعروں سے جہاں تک عالم اسلام کا تعلق ہے کتنا انس اور کیسی یگانگت ٹپکتی ہے۔ اسی طرح جنگ طرابلس و بلقان کے دوران میں جب ہندستانی مسلمانوں میں ترکوں کے لیے ایک عام ہمدردی اور جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا۔ وہ بھی اس میں شریک نظر آتے ہیں اور ظفر علی خاں کو جو اس سلسلے میں سنہ 1913میں قسطنطنیہ گئے تھے عام مسلمانوں کی طرف سے ان کی اسلامی حمیت خدمت اور قومی ہمدردی کا اعتراف کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ نوجوانوں کے دلوں میں بھی دین و ملت کی خدمت کا جذبہ بیدار ہو رہا ہے۔ اس نظم میں ظفر علی خاں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :

بلقان و طرابلس میں ناگاہ

اٹھا ستم و جفا کا طوفان

ہمدردیِ اہل دیں نے آخر

 جوہر ترے کر دیے نمایاں

ڈالا یہ تری پکار نے غل

جی اٹھے وہ مردے جو تھے بے جان

جو دل غم قوم سے تھے بے حس

 چلنے لگیں ان دلوں پہ چھریاں

اسلام کی سمجھے اب حقیقت

 جو نام کے تھے فقط مسلماں

ہاں اس میں نہیں مبالغہ کچھ

سنتا بھی ہے اے ظفر علی خاں

نازاں ہے وہ درس گاہ تجھ پر

تعلیم پہ جس کی تو ہے نازاں

کاش ایسے جنے سدا وہ فرزند

جو قوم کے درد کے ہوں درماں

سوز غم دین حق سے جن کے

سینے ہوں کباب دل ہوں بریاں

جو ملک و وطن کے ہوں فدائی

 جو قوم کے نام پہ ہوں قرباں

مشرق میں ہوں درد دل سے بے چین

 مغرب میں سنیں جو رنج اخواں

اسلامی اخوت کا تصور جس کی رو سے ہندستان کے مسلمان دنیائے اسلام کا جز سمجھے جاتے تھے، حالی کے یہاں بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک راسخ عقیدے کی صورت میں شروع سے آخر تک جھلکتا رہتا ہے۔ اور اگر اوپر کے شعر میں وہ رنج اخواں کی تشریح کرتے تو غالباً انھیں وہی الفاظ دہرانے پڑتے جو اس موقع پر وقار الملک کے قلم سے نکلے تھے۔

’’ جو مصیبت ترکوں پر نازل ہو رہی ہے وہ ترکوں پر ہی نہیں، بلکہ اسلام پر ہے اور اگر ترکی قوت کمزور ہو گئی اور اس قابل نہ رہی کہ اپنے اماکن متبرکہ، مکہ معظمہ و مدینہ منورہ زادہم اللہ شرفاً و تعظیماً اور اسی طرح دیگر اماکن مقدسہ کی حفاظت تو مسلمانوں کو وہ دن دیکھنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے کہ ایک دن بلاد عرب و شام پر کسی نہ کسی یورپین سلطنت کا جھنڈا لہراتا ہو گا۔‘‘

اس زمانے میں پین اسلامزم کی تحریک خاصی زوروں پرتھی۔ جمال الدین افغانی کے خیالات کا اثر ہو رہا تھا۔ ترکوں سے عقیدت بڑھ رہی تھی اور اسلامی ممالک میں اقوام یورپ کی چیرہ دستی پر نعرہ احتجاج بلند ہونے لگا تھا۔ حالی اتحاد اسلامی کے علم بردار تو نہیں کہے جا سکتے، مگر ان کے یہاں اس سے کچھ ہمدردی کا جذبہ ضرور ملتا ہے۔ خصوصاً اس میں انگریزوں کی سیاست کا جو شعور ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

 ٭٭٭

 

کتابیات

1  کلیات نظم حالی(جلد اول)۔ خواجہ الطاف حسین حالی۔عزیزی پریس آگرہ۔جنوری 1924

۔2۔کلیات نظم حالی(جلد دوم)۔خواجہ الطاف حسین حالی۔آرٹ پریس آگرہ۔جون1929

3۔مجموعہ نظم حالی۔خواجہ الطاف حسین حالی۔گرودت ہاؤس لاہور

4۔مسدس حالی(صدی ایڈیشن)۔خواجہ الطاف حسین حالی۔جامعہ پریس دہلی۔1944

5۔دیوان حالی۔خواجہ الطاف حسین حالی۔جامعہ پریس دہلی۔1944

6۔بیوہ کی مناجات۔خواجہ الطاف حسین حالی۔الناظر پریس لکھنؤ

7۔مقالات حالی(حصہ اول)۔خواجہ الطاف حسین حالی۔جامعہ پریس دہلی۔1934

8۔مقالات حالی(حصہ دوم)۔خواجہ الطاف حسین حالی۔جامعہ پریس دہلی۔1934

9۔مکاتیب حالی۔شیخ محمد اسمٰعیل(مرتبہ)۔ادبی پریس کراچی۔1950۔

10۔مکتوبات حالی(حصہ دوم)۔خواجہ سجاد حسین(مرتبہ)۔حالی پریس پانی پت۔1925

11۔مثنوی حقوق اولاد۔خواجہ الطاف حسین حالی۔صحافی لاہور1887

12۔حیات جاوید۔خواجہ الطاف حسین حالی۔انجمن ترقی اردو دہلی۔1939

13۔تہذیب الاخلاق(جلد دوم)۔ملک فضل الدین ککے زئی۔(مرتبہ)۔1313ھ

14۔اسباب بغاوت ہند۔سر سید احمد خاں ۔

15۔الخطبات الاحمدیہ۔سر سید احمد خاں ۔فیض عام آگرہ 1900

16۔مجموعہ ہائے لکچر۔سر سید احمد خاں ۔ساڑھورہ 1892

17۔خطوط سر سید۔سید راس مسعود(مرتبہ)۔بدایوں 1931

18۔ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب ’ہندستان کے مسلمان‘ پر سید احمد کی نکتہ چینی۔سر سید احمد خاں ۔لندن 1872

19۔ابطال غلامی۔سر سید احمد خاں ۔آگرہ 1893

20۔سرکشی ضلع بجنور۔سر سید احمد خاں ۔آگرہ 1858

21۔رسالہ خیر خواہان مسلمان۔سر سید احمد خاں ۔میرٹھ 1860

22۔تبئین الکلام۔سر سید احمد خاں

23۔سید احمد خاں کا سفر نامہ پنجاب۔سید اقبال علی (مولفہ)۔انسٹی ٹیوٹ گزٹ۔علی گڑھ1884

24۔شاہ ولی اللہ دہلوی کے سیاسی مکتوبات۔خلیق احمد نظامی(مرتبہ)۔علی گڑھ

25۔شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک۔عبید اللہ سندھی۔لاہور 1945

26۔ذاتی ڈائری۔عبید اللہ سندھی۔لاہور1946

27۔مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے ناقد۔سعید احمد۔لاہور 1946

28۔مولانا عبید اللہ سندھی۔محمد سرور۔لاہور 1943

29۔سیرت سید احمد شہید۔سید ابوالحسن ندوی۔لکھنؤ 1941

30۔ہندستان کی پہلی اسلامی تحریک۔مسعود عالم ندوی۔حیدر آباد دکن 1946

31۔ہمارے ہندستانی مسلمان۔ڈبلیو  ڈبلیو ہنٹر۔(مترجم: ڈاکٹر صادق حسین)۔لاہور

32۔داستان غدر۔ظہیر دہلوی۔لاہور

33۔باغی ہندستان (الثورۃ الہندیہ)۔فضل حق خیر آبادی۔مترجم:۔(مولانا محمد عبد الشاہد خاں شیروانی)۔بجنور1947

34۔غدر کے چند علما۔مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی۔دہلی

35۔ایسٹ انڈیا کمپنی اور باغی علما۔مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی۔دہلی

36۔آثار جمال الدین افغانی۔قاضی عبدالغفار۔انجمن ترقی اردو، دہلی

37۔مضامین جمال الدین افغانی۔جمال الدین افغانی۔(مترجم: محمد عبدالقدوس قاسمی)۔لاہور

38۔حیات محسن۔محمد امین زبیری (مرتب)۔مسلم یونیورسٹی۔پریس علی گڑھ1934

39۔وقار حیات۔محمد اکرام اللہ خاں ۔علی گڑھ1925

40۔مضامین محمد علی۔محمد سرور(مرتب)۔دہلی 1928

41۔مضامین محمد علی(حصہ اول و دوم)۔محمد علی۔1940

42۔مسلمان اور غیر مسلم حکومت۔�محمد علی، محمد سرور(مرتب)۔لاہور 1947

43۔میری کہانی (حصہ اول و دوم)۔جواہر لال نہرو۔دہلی1946

44۔مسلمانوں کا روشن مستقبل۔سید طفیل احمد منگلوری۔دہلی 1945

45۔حکومت خود اختیاری اور ۔ہندو مسلم مسئلہ کا حل۔احمد منگلوری۔علی گڑھ 1940

46۔موج کوثر۔شیخ محمد اکرام۔ممبئی

47۔نیا ہندستان۔(حصہ اول۔ دوم۔ سوم)۔رجنی پام دت۔علی سردار جعفری و محمد کلیم اللہ (ترجمہ)۔ممبئی

48۔نیا ہندستان(حصہ چہارم)۔رجنی پام دت۔مترجم: محمد کلیم اللہ۔ممبئی

49۔ہندستان کے سیاسیات۔اسلامی نقطہ نظر سے۔اعجاز حسین سید۔حیدر آباد دکن 1925

50۔انگریزی عہد میں ۔ہندستان کے تمدن کی تاریخ۔عبداللہ یوسف علی۔الٰہ آباد 1936

51۔ہندستانی قومیت اور قومی تہذیب (تین جلدوں میں )۔ڈاکٹر سید عابد حسین۔مکتبہ جامعہ دہلی اکتوبر 1946

52۔مارکسزم اور مسئلہ قومیت۔اسٹالن۔مترجم : ل۔ احمد منظر رضوی۔ممبئی

53۔مارکس اور ہندستان۔مارکس کارل (مترجم: شرف عالم)۔ممبئی

54۔یادگار حالی۔صالحہ عابد حسین۔انجمن ترقی اردو علی گڑھ۔1950

55۔حالی محب وطن۔ڈاکٹر ذاکر حسین۔جمال پریس۔ دہلی۔1943

56۔نئے اور پرانے چراغ۔آل احمد سرور۔لکھنؤ 1946

57۔جدید اردو شاعری۔عبدالقادر سروری۔حیدر آباد۔ دکن1939

58۔رسالہ اردو(اپریل) حالی نمبر۔ ۔کراچی1952

59۔رسالہ اردو(جنوری)۔ ۔کراچی 1954۔60۔الفرقان (شاہ ولی اللہ نمبر)۔دوسرا ایڈیشن۔مرتب : محمد منظور نعمانی۔بریلی 1941

61The Economic History of India: Romesh. Dutt-2 Vols. London-1908

62 A Sketch of the History of India: Henry Dodwell-London-1925

63 Hindu Muslim Cultural Accord : Dr. Syed Mahmud-Bombay.۔

64 Rise of the Christian Power in India: B.D. Basu-Calcutta 1931

65 Empire in Asia (How we came by it) : W.M. Torrens- London-1872.

66 A History of the Sepoy War in India: J.W.Kaye 3 Vols. London

67 Two Native Narratives of the Mutiny in Delhi: Charles Theophilus Metcalfe-Translation- Westminister- 1898

68 The Indian War of Independence: V.D.Sawarkar-Bombay-194

69 The Indian Mutiny in Perspective: Sir George Mac Mann.London.1931

70 A History of our own Times: Justin McCarthy-4Vols London. 1857

71 The Great Rebellion: Asoka Mehta- Bombay

72 Modern Islam in India: W.C. Smith-London-1946

 73 India struggles for Freedom: H.Mukerjee-Bombay-1948

74Modern Trends in Islam:H.A.R.Gibb-Chicago-1947

75 Makers of Pakistan:A.H.Albiruni

76 The Modern Quarterly-Vol. 5, No. 3,summer 1950 (Marxism and Ethics by John Lewis

77 Islamic Culture-Vol.XXVII; No. 4, Oct. 1953 Sir Syed Ahmed Khan-A Study in Social Thought: Dr.I. Topa

78 Eminent Mussalmans(1st Ed.)–G.A.Natesan& Co., Publishers, Madras–Jan. 1926.

٭٭٭

ماخذ:

http://urducouncil.nic.in/ebooks/Hali-ka-Siyasi-Shaor.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید