FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

جوگندر پال کی ناولٹ نگاری

 

 

 

 

                   ڈاکٹر جہانگیر احمد

 

 


 

 

 

 

حرف آغاز

 

نحن نقص علیک احسن القصص(القرآن) اس بات کی دلیل ہے کہ قصہ گوئی اللہ کی سنت ہے اور جب تک چاند سورج اپنے مداروں میں گردش کر رہے ہیں اللہ کی یہ سنت دہرائی جاتی رہے گی۔ انسانی فطرت کچھ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ جب کوئی بات اسے قصے کہانی کی صورت میں بتائی جاتی ہے تو وہ اس کا اثر جلد قبول کرتی ہے۔ اسی لئے فطرت انسانی کے خالق و نباض اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں انسان کی رشد و ہدایت کے لئے بہت سے قصے بیان کئے ہیں۔ قصے کہانی کی کوئی بھی شکل ہو اس میں انسانی دلچسپی کا سامان ضرور ہوتا ہے۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں قصے کی مختلف شکلیں موجود ہیں۔ اردو میں داستان، ناول، ناولٹ، افسانہ اور منی افسانہ قصے کے مقبول عام اصناف ہیں۔ اردو ادب میں داستان، ناول اور افسانہ پر بہت بات ہو چکی ہے اور فنی طور پر یہ اتنے واضح ہیں کہ ان کی شناخت میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ہے۔ لیکن ناولٹ کی شناخت میں بسا اوقات دشواری پیش آتی ہے۔

اردو ادب میں ایک بیش بہا ذخیرہ ایساموجود ہے جس کو ناولٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے مگر فنی طور پر اس کے خدوخال واضح نہیں ہیں۔ تخلیق کار اور ناقدین دونوں ہی اس معاملے میں کوئی حتمی بات کہہ نے سے قاصر ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں اس کے فن پر وقتاً فوقتاً بات ہو تی رہی ہے اور کچھ تحقیقی کام بھی ہوئے ہیں لیکن ہنوز اس صنف کی خصوصیات پوری طرح واضح نہیں ہو سکی ہیں۔ میں نے اس مقالے میں ناولٹ کی فنی خصوصیات کو ہی واضح کرنے کی اپنی بساط بھر کوشش کی ہے۔ جوگندر پال کا نام عہد حاضر کے اردو تخلیق کاروں میں سر فہرست آتا ہے۔ ان کی تخلیقات میں چار خوبصورت ناولٹ موجود ہیں۔ جوگندر پال جیسے بڑے ادیب کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا کر میں خود کو بڑا خوش نصیب محسوس کرتا ہوں۔ میں نے اپنے اس مقالے کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ باب اول ’ناولٹ :مفہوم، فن اور آغاز‘ ہے۔ جس میں ذیلی عناوین ’ناولٹ کی تعریف‘ ناولٹ کا فن ‘ اور ’مغرب میں ناولٹ کا آغاز‘ ہیں۔ باب دوم ’اردو میں ناولٹ نگاری ‘ہے۔ اس میں ذیلی عناوین ’اردو میں ناولٹ کا آغاز و ارتقا‘ اور ’اردو میں غیر ملکی ناولٹ کے تراجم‘ ہیں۔ باب سوم’جوگندر پال کی ناولٹ نگاری کا فکری و فنی تجزیہ ‘ ہے۔ جس میں ذیلی عناوین ’جوگندر پال ایک تعارف ‘ بیانات‘ آمدورفت‘ خواب رو ‘ اور ’پار پرے‘ شامل ہیں۔

تحقیق کے پر پیچ اور خاردار وادی میں یہ میرا پہلا قدم ہے اس لئے اس میں بہتری کی پوری گنجائش ہے۔ میرے مشفق استاذ پروفیسر مظہر مہدی حسین نے اس کاوش میں میری ہر ممکن رہنمائی کی ہے اور انہی کی رہنمائی کی بدولت میں اس مقالے کو انجام تک پہنچا پایا ہوں۔ شکریہ جیسا رسمی جملہ ان کی شفقت کا بدل نہیں ہو سکتا۔ میں ان کا شکریہ ادا بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ استاذ اور شاگرد کا رشتہ روحانی باپ بیٹے کا رشتہ ہوتا ہے اور میں شکریہ جیسا ادنیٰ لفظ کہہ کر اس رشتے کی توہین نہیں کرنا چاہتا۔

اور اب میں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ اپنی ماں جو ہمیشہ میری کامیابیوں کے لیے دعا گو رہتی ہیں اور اپنے بھائیوں میں ڈاکٹر محمد محبوب انصاری، محمد نظام اوردوستوں میں ریشمہ پر وین، حافظ محمد جہانگیر اکرم، عبداللہ جاوید اور عبد الحئی وغیرہ کا شکریہ ادا کروں یا نہ کروں جن کا تعاون ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔

کبھی کبھی شدت سے اس کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارے وفور جذبات و احساسات کو الفاظ کے پیراہن اس گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ادا کر پانے سے قاصر ہیں جو در حقیقت ہمارے سینے میں موجزن ہوتے ہیں۔ میں اپنے بیٹے سفیان احمد کی معصوم مسکراہٹ اور لڑکھڑاتی زبان کا مشکور ہوں جو مجھے مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی زندگی کی جنگ لڑنے کا حوصلہ دیتے ہیں اور پائے ثبات میں لرزش نہیں آنے دیتے۔ میں اپنی شریک حیات نگینہ پروین کا بھی بے حد ممنون ہوں جو خانگی الجھنوں سے مجھے ممکن حد تک دور رکھتی ہے اور میرے کام خوش اسلوبی سے پورا کرنے میں میری مدد کر تی ہے۔

جہانگیر احمد

سینئرمانیٹر، الیکٹرانک میڈیا مانیٹرنگ سینٹر، وزارت اطلاعات و نشریات، سوچنا بھون، سی۔ جی۔ او۔ کامپلکس، نئی دہلی۔

 

ناولٹ: مفہوم، فن اور آغاز

 

                   ناولٹ کی تعریف

 

Novelette انگریزی لفظ Novelسے مشتق ہے اورNovelکا لفظ انگریزی میں اطالوی زبان کے لفظ Novellaسے اخذ کیا گیا ہے۔ The Oxford Advanced Learner’s Dictionary میں Novelette کا معنی”A short novel, especially a romantic novel, that is considered to be badly written” بتایا گیا ہے۔ یعنی ناولٹ وہ مختصر ناول ہے جو رومانی جذبات کا اظہاریہ ہو اور جس میں تحریری جھول رہ گیا ہو۔ A Dictionary of Literary Termsمیں ناولٹ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :

"A work of fiction shorter than a novel but longer than a short story, often used derogatorily of ”cheap” fiction, sentimental romances and thrillers of popular appeal but little literary merit. In America the term applies to a longer short story somewhere between the short story and novel.”(1)

اس تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ ناولٹ ضخامت میں ناول سے مختصر اور افسانہ سے طویل ہوتا ہے۔ یہاں ”cheap fiction” یا غیر معیاری ادب کی جو بات کہی گئی ہے وہ ایک زمانی یا مکانی تاثر ہے جس کا اشارہ بھی اس تعریف میں ہی موجود ہے کہ امریکا میں ناولٹ سے طویل مختصر افسانہ مراد لیا جاتا ہے جو کہ مختصر افسانہ اور ناول کی درمیانی کڑی ہے اور وہاں ہیجانی رومانس یا عوام کو متوجہ کرنے والی مقبول عام ادب جیسی کسی صفت سے یہ متصف نہیں ہے۔ اور یہ عین ممکن ہے کہ کسی اصطلاح کے معنی ایک ملک میں کچھ ہو اور دوسرے ملک میں کچھ اور۔ J. A. Cuddon کے A Hand Book of Literature میں ناولٹ کی تعریف یہ درج ہے :

"A work of prose fiction with intermediate length, longer than a short story and shorter than novel, since, however, there is little agreement on maximum length for any of three types, the distinction that in general the novelette displays, the customarily compact structure of the short story with the greater development of character, theme and action of the novel, is perhaps useful.”(2)

اس تعریف میں بھی ناولٹ کو ناول اور مختصر افسانہ کی درمیانی ضخامت رکھنے والی صنف ادب قرار دیا گیا ہے لیکن چونکہ ان تینوں اصناف کی ضخامت کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی، لہذا ناولٹ کو مختصر افسانہ اور ناول سے ممتاز اور منفرد ثابت کرنے کے لئے اس پر زور دیا گیا ہے کہ ناولٹ میں کہانی کا ارتقا بہت متوازن صورت میں ہوتا ہے اور کرداروں کو اس طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ موضوع بالکل واضح ہو جائے۔

انگریزی ادب میں طویل ناول کے ساتھ ساتھ جو مختصر ناول لکھے گئے ان کے لئے Novelette, Short Novel اور Small Novel کے نام وضع کیے گئے ہیں۔ ناولٹ کی جو تعریفیں کی گئی ہیں ان سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مغربی ادب میں ناولٹ کا وجود تو ہے مگر اسے علاحدہ صنف ادب کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے بلکہ چھوٹے ناولوں کے لئے اصطلاحاً ’’ناولٹ‘‘ لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ناول اور طویل کہانی کی فنی خصوصیات کے بارے میں انگریزی اور اردو میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن بعض اوقات ناولٹ کو ان اصناف سے مختلف ثابت کرنے میں دقتیں پیش آتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان دقتوں کا تعلق مختلف نثری اصناف کے درمیان پائی جانے والی داخلی مماثلتوں سے ہے، تحقیق اور تنقید کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ ان نثری ہیئتوں کے فرق کو نشان زد کیا جائے لیکن ہمارے مطالعہ کا ایک زاویہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان اصناف کے درمیان کسی نقطۂ اتصال کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ مغرب کے تقریباً سبھی نقادوں کی رائے یہی ہے کہ ناول اور طویل کہانی کے بیچ جو افسانوی ادب لکھا جاتا ہے اسے ہی ناولٹ کہا جاتا ہے۔ اطالوی ادب میں Novella جرمن ادب میں Novelle اور انگریزی ادب میں Novelette تقریباً ایک ہی مفہوم میں مستعمل رہے ہیں۔

Merriam Webster’s Encyclopedia of Literature میں ان تینوں کی جو تعریفیں کی گئی ہیں ان پر غور کرنے سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ Novella کی تعریف ان لفظوں میں کی گئی ہے :

"A story with a compact and pointed plot, often realistic and sataric in tone originating in Italy during the European Middle Ages, the novella was based on local events, humorous, political or amorous in nature, the individual tales often were gathered into collections along with anecdotes, legends and romantic tales.” (3)

اور Novelle کی تعریف اس طرح سے کی گئی ہے :

"Novellen are often encompassed within a frame story based on a striking news items (plague, war or flood) either real or imaginary. The individual tales are related by various reporter-narrators as a diversion from the present misfortune. Characterized by brevity, self-contained plots that end on a note of irony, a literate and facile style, restrained of emotions and objective rather than subjective presentation, these tales were a major stimulant to the development of the modern short story in Germany. The novelle also survived as a unique form, although unity of mood and style often replaced the traditional unity of action.” (4)

جبکہ Novelette کی تعریف یوں کی گئی ہے :

"A work of fiction intermediate in length or complexity between a short story and a novel.” (5)

اطالوی Novella کے لئے کہا گیا کہ یہ ایسی کہانی ہے جس کا پلاٹ عمدہ ہوتا ہے اور اس کا انداز عینیت پسندانہ اور کبھی ہجویہ بھی ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا عہد وسطی کے یوروپ میں اٹلی میں ہوئی، یہ کہانی مقامی واقعات پر مشتمل ہوتی تھی، یہ واقعات سیاسی، عشقیہ یا مزاحیہ ہوا کرتے تھے۔ مختلف کہانیوں کو ایک ساتھ جمع کر دیا جاتا تھا جس میں لطیفے، قومی واقعات اور رومانی کہانیاں بھی ہوتی تھیں اور جرمن Novelle کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کہانی اکثر ایک خاص فریم میں ہوتی ہے جو کسی اہم خبر پر مشتمل ہوتی ہے، جیسے طاعون، جنگ یا سیلاب وغیرہ۔ یہ واقعات حقیقی بھی ہو سکتے ہیں اور امیجینری بھی۔ یہ کہانیاں مختصر ہوتی ہیں ان کا اپنا پلاٹ ہوتا ہے اور ان میں ہلکی طنز کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ ادبیت اور رواں اسلوب ان کا خاصہ ہے نیز ان میں جذبات سے گریز ہوتا ہے۔ جب کہ انگریزی Novelette کے بارے میں وہی بات کہی گئی ہے جو عام طور پر کی جاتی ہے یعنی یہ ایسی تخلیق ہے جو درمیانی طوالت کی ہوتی ہے۔ اس کے پلاٹ میں پیچیدگی کم ہوتی ہے اور یہ افسانہ اور ناول کے درمیان کی کوئی چیز ہے۔ مذکورہ تعریفوں پر غور کرنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تینوں تقریباً ایک ہی تخلیقی صنف کے مختلف اظہاریے ہیں۔ اس بات کی تائید A Dictionary of Literature میں Novellaکی جو تعریف کی گئی ہے اس سے بھی ہوتی ہے۔ اس میں Novella کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :

"Nowadays the term is often used to distinguish a long short story from a short story and a novel from a full dress novel.” (6)

یعنیNoveletteکی طرح Novellaکی اصطلاح بھی طویل مختصر افسانے کو مختصر افسانے سے اور ایک مختصر ناول کو ایک مکمل اور طویل ناول سے ممتاز کرنے کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔

ناول اور افسانے کی طرح ناولٹ بھی اردو میں انگریزی ادب سے آیا ہے۔ اردو میں جب ناول نگاری شروع ہوئی تو اس کے ساتھ ناولٹ بھی لکھے گئے۔ مولوی نذیر احمد کا شمار اردو کے اولین ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی تخلیق ’’ایامیٰ‘‘ کو پہلا ناولٹ قرار دیا گیا ہے۔ جہاں اردو میں آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد اچھے ناول لکھے گئے وہیں بہترین ناولٹ بھی منظر عام پر آئے۔ لیکن اردو کے ناقدین نے ناولٹ کے فن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ پہلی بار ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ناولٹ پر قلم اٹھایا اور ایک مضمون ’ناولٹ کی تکنیک‘ لکھا، جو ’’نقوش‘‘ لاہور کے جون 1955 کے شمارہ میں شائع ہوا۔ اس سے قبل اردو میں ناولٹ کے فن اور تکنیک پر بحث شجر ممنوعہ سمجھا جاتا رہا۔ ساٹھ، ستر کی دہائی میں کئی رسالوں نے ناولٹ نمبر نکالے اور ناولٹ رفتہ رفتہ ایک تخلیقی صنف کے طور پر مقبول ہوتا گیا۔ اس کے باوجود اس پر تنقیدی کام نہیں ہو سکا۔ پہلی بار صدیق محی الدین نے 1989میں سینٹرل یونیورسٹی، حیدرآباد میں ’اردو ناولٹ کا مطالعہ‘ کے موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور ناولٹ کے فن پر ناقدانہ نظر ڈالی۔ 1996میں برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال میں صبا عارف نے ’اردو میں ناولٹ نگاری ‘کے عنوان سے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا اور ناولٹ کے فن اور تکنیک کو اجاگر کرنے کی سنجیدہ کوشش کی۔ ایک اور پی ایچ ڈی ’اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ‘ کے عنوان سے گورکھ پور یونیورسٹی، گورکھ پور سے ہوئی جس کے اس کالر سید وضاحت حسین رضوی ہیں۔ انہوں نے بڑی محنت سے کام کیا اور ناولٹ کے فن کو ناول اور طویل مختصر افسانے سے مختلف ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اردو میں ناولٹ نگاری (فن اور ارتقاء) کے عنوان سے ایک تحقیقی کام ڈاکٹر سید مہدی احمد رضوی نے بھی کیا ہے۔ ان تحقیقی کاوشوں کے بعد ناولٹ کا فن اتنا مبہم نہیں رہ گیا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اردو کے ان ناقدین نے ناولٹ کی کیا تعریف کی ہے۔

سید وضاحت حسین رضوی نے ناولٹ کی تعریف اس طرح کی ہے :

’’ناولٹ زندگی یا سماج کے کسی اہم مسئلہ اور اس کے خاص پہلوؤں کا مختصراً جائزہ لیتا ہے جس کی اپنی الگ تنظیم ہوتی ہے، جو ناول سے قدرے مختصر مگر طویل افسانے سے زیادہ طویل اور تفصیلی ہوتا ہے۔ ‘‘(7)

جبکہ صدیق محی الدین نے ناولٹ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :

’’فکشن کی ایسی نثری بیانیہ تخلیق جو کسی ایک کردار یا چند کرداروں کی زندگی کے کسی ایک پہلو، یا کچھ پہلوؤں کو واقعاتی پس منظر، زمانی و مکانی ارتباط اور حرکی و عملی اتحاد کے ساتھ اس طور تخلیق ہوتی ہو کہ اس سے کسی کہانی کا تاثر پیدا ہوتا ہو اور متعلقہ کردار و واقعات اس کہانی اور پلاٹ کا ناگزیر حصہ بنتے ہوں۔ ‘‘ (8)

مذکورہ تعریفوں سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کی پوری زندگی ناولٹ کا موضوع نہیں بنتی بلکہ اس میں زندگی کے کچھ خاص پہلوؤں کو ہی اجاگر کیا جاتا ہے اوراس کی ضخامت و طوالت کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ صنف، ناول اور افسانہ کی دو اہم اصناف کے درمیان اپنا ایک منفرد وجود رکھتی ہے۔ طوالت کی بے احتیاطی اسے ناول کی حدود میں شامل کر سکتی ہے اور اختصار کے معاملہ میں عدم توجہی پریہ افسانہ سے مل سکتا ہے۔ لہٰذا تخلیق کار کو ناولٹ لکھتے وقت بہت احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ تخلیق کار کو کچھ آسانیاں بھی فراہم ہو تی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی طویل فن پارہ تخلیق کار کی تخلیقی بصیرت کا امتحان بھی لیتا ہے۔ کسی موضوع کو دور تک تخلیقی عمل کا حصہ بنائے رکھنا اور اسے زندگی کے گھنے اور گہرے تجربے میں تبدیل کر دینا آسان نہیں، ایک فنکار کو زندگی کی تمام وسعتوں کو پیش کرنے میں وقت کے ساتھ زیادہ تخلیقی صلاحیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ناولٹ میں نسبتاًکم تخلیقی کاوش درکار ہوتی ہے۔ شہرت و ناموری کی خواہش انسانی فطرت میں شامل ہے۔ ایک فن کار ایک بہترین ناولٹ لکھ کر اپنی اس ازلی خواہش کو کم وقت میں پورا کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ معمولی صلاحیت کا آدمی بھی اچھا ناولٹ لکھ سکتا ہے، غور کرنے والی بنیا دی بات یہ ہے کہ کوئی تخلیق کار کس طرح اپنے موضوع اور مسئلے کو تخلیقیت میں تبدیل کرتا  ہے۔

 

                   ناولٹ کا فن

 

اردو میں ناولٹ کے آغاز اور تخلیقی جواز کے لئے بڑی حد تک برصغیر ہند و پاک کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات ذمہ دار ہیں۔ ادب میں کسی نئی صنف کا آغاز اکثر سیاسی، سماجی، معاشی، ثقافتی، مذہبی اور علمی و ادبی حالات و واقعات کے تغیرات سے ہی عبارت ہوتا ہے، یا پھر ادبی تجربے کے طور پر بھی کوئی نئی صنف وجود میں آتی ہے۔ اردو ناول کو جن حالات و واقعات نے جنم دیا، وہ اردو فکشن کی مجموعی تخلیقی روایت کا حصہ ہیں اور یہ ناولٹ و افسانے کے آغاز و ارتقا کے لئے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن اردو ناولٹ کے وجود کے لئے بیسویں صدی کے نصف اول کے ہندستانی حالات خاص طور سے اہم ہیں۔ جد و جہد آزادی نے جہاں حیات انسانی کے دیگر شعبوں کو متاثر کیا وہیں ادب پر بھی اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے، اور یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ ادب متوازی زندگی کا ہی دوسرانام ہے۔ ترقی پسندتحریک کے تحت ایسی شاعری کو اہمیت دی گئی جس میں جوش و ولولہ تھا، جو دلوں کو گرماتی تھی اور انسان کو عمل کے لئے اکساتی تھی۔ ترقی پسند ادیبوں کی پہلی کانفرنس اپریل1936 میں لکھنؤ میں منعقد ہوئی تھی، جس کے صدر منشی پریم چند تھے، انہوں نے اپنے خطبۂ صدارت میں اس بات پر زور دے کر کہا تھا:

’’ہمیں حسن کا معیار تبدیل کرنا ہو گا۔ ابھی تک اس کا معیار امیرانہ اور عیش پر ستانہ تھا․․․ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے۔ سلائے نہیں، کیونکہ زیادہ سونا موت کی علامت ہو گی۔ ‘‘

ترقی پسند ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں عملی طور پر حسن کے معیار کو بدلا بھی، اور یہ ان کی شاعری، ان کے ناول، ناولٹ، افسانوں اور ڈراموں میں جگ ظاہر ہے۔ اردو فکشن میں ناولٹ کا آغاز انہیں سیاسی، سماجی، معاشی وثقافتی حالات کا رہین منت ہے۔ جس طرح ناول کے فنی خصائص مغرب سے اخذ کئے گئے اور ناول نگاروں نے ہندستانی پس منظر اور اردو زبان کے لسانی و ادبی سیاق وسباق کے لحاظ سے انہیں برتا۔ اسی طرح ناولٹ کے فنی خصائص بھی بڑی حد تک اردو ناول کی خصوصیات ہی سے قریب ہیں۔ اگرچہ ناولٹ کی صنف مغرب سے اردو میں آئی، لیکن اس صنف کے فنی خصائص کے لئے اردو ناول کی تخلیقی روایت ہی زیادہ مددگار ثابت ہوئی۔ ایک الگ اور مستقل صنف کی حیثیت سے ناولٹ کی خصوصیات کی نشاندہی بہت کم ہی کی گئی ہے۔ ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے لئے ناولٹ، کا نام تو استعمال کیا لیکن ناقدین نے اس صنف کی خصوصیات کو ممتاز کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ ساٹھ، ستر کی دہائی میں کچھ مشہور و مقبول رسالوں نے جو ناولٹ نمبر شائع کئے، ان میں بھی صنفی وفنی جائزہ ناول کا ہی لیا گیا اور اس کے صنفی معیار قدرسے متعلق اوصاف کی جستجو کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ہیئت، موضوع اور اسلوب و مزاج کے اعتبار سے گرچہ ناول اور ناولٹ میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے اور تخلیقی سطح پر بھی ان دونوں کے مزاج و تکنیک میں یکسانیت ہے۔ لیکن ان سب حقائق کے باوجود ان دونوں کے درمیان ایک خط امتیاز بہر حال موجود ہے۔ ناولٹ کے فن کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اجزائے ترکیبی پر نظر ڈالی جائے۔ ناول کی طرح، ناولٹ کے اجزائے ترکیبی بھی قصہ، پلاٹ، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، منظر کشی اور اغراض و مقاصد ہی ہیں۔

 

قصہ:

 

قصہ کی تعریف عام طور پر یہ کی جاتی ہے کہ وہ کچھ ایسے واقعات و حرکات کا بیان ہے جو یکے بعد دیگرے ظاہر ہوئے ہوں اور کسی نتیجے پر پہنچتے ہوں۔ قصہ سے لطف اندوز ہونا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ انسان ہمیشہ سے قصہ میں دلچسپی لیتا رہا ہے۔ ہر قصہ میں ایک شروع کا واقعہ ہوتا ہے، پھر کچھ درمیانی واقعات ہوتے ہیں اور آخر میں کوئی خاص واقعہ ہوتا ہے جسے نتیجہ کہا جاتا ہے۔ ان واقعات کی پیش کش میں سلسلہ وقت کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے یعنی اس میں وقت کے اعتبار سے ترتیب ضروری ہے۔ قصہ ایسا ہونا چاہئے جو پڑھنے والے کو بالکل سچا معلوم ہو۔ قصہ جتنا جاندار ہو گا قاری کی دلچسپی اس میں اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اس کی صورت یہ ہونی چاہئے کہ کہانی اس طرح آگے بڑھے کہ پڑھنے والا یہ جاننے کا مشتاق رہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ قصہ میں انتظار یا تجسس کی خلش خاص چیز ہے۔ یہ خلش جتنی زیادہ ہو گی قصہ اتنا ہی دلچسپ ہو گا۔ ناول کا قصہ انسانی زندگی سے متعلق ہوتا ہے اور اس میں انسانی زندگی کی مکمل تصویر کشی کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن ناولٹ کا قصہ اس معنی میں ناول کے قصہ سے مختلف ہوتا ہے کہ اس میں صرف ایک ہی کہانی سنائی جا سکتی ہے کیونکہ اس کا پلاٹ سادہ ہوتا ہے۔ ناول نگار پیچیدہ اور مرکب پلاٹ سے لے کر پلاٹ در پلاٹ تک سبھی طریقے آزما سکتا ہے لیکن چونکہ ناولٹ کا میدان مختصر ہوتا ہے اس لئے اس میں پلاٹ در پلاٹ اور ذیلی پلاٹ برتے جانے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔

 

پلاٹ:

 

پلاٹ واقعات کے اس خاکہ کو کہتے ہیں جو فکشن نگار کے ذہن میں بنتا ہے۔ ایک کامیاب فن کار واقعات کواس طرح ترتیب دیتا ہے جیسے لڑی میں موتی پروئے جاتے ہیں۔ ان واقعات میں ایک منطقی ربط ہونا چاہئے تاکہ ایک کے بعد دوسرا واقعہ بالکل فطری معلوم ہو۔ پلاٹ بنانا ایک طرح کا فن تعمیر ہے۔ اچھے پلاٹ والے فکشن کا ہر حصہ اس طرح تعمیر ہوتا ہے جیسے کسی عمارت کے الگ الگ حصے۔ قصہ کی ساری دلچسپیاں اس کی ترتیب پر مبنی ہوتی ہیں۔ ایک سیدھے پلاٹ کے عموماً پانچ حصے ہوتے ہیں۔ پہلے حصے میں تمام کرداروں کا تعارف کرایا جاتا ہے، دوسرے حصے میں ان کرداروں کے معاملات میں پیچیدگیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ تیسرے حصے میں یہ پیچیدگیاں اس درجہ الجھ جاتی ہیں کہ ان کوسلجھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ چوتھے حصے میں یہ سب گتھیاں سلجھنے لگتی ہیں اور پانچویں حصے میں تمام معاملات انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ پلاٹ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے واقعہ میں کہیں نہ کہیں کوئی رکاوٹ ضرور پیدا ہو۔ کوئی رکاوٹ جس کے دور ہونے کے انتظار میں پڑھنے والا ایک خاص قسم کی لذت محسوس کرے۔ فکشن میں اس چیز کو کش مکش (Crisis) کہتے ہیں۔ پلاٹ کے لئے ضروری ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی Crisis ہو۔ فکشن کے پلاٹ میں جہاں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے وہیں سے قاری کی اصل دلچسپی بھی شروع ہوتی ہے۔ قاری یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ دیکھیں یہ رکاوٹ کس طرح دور ہوتی ہے۔ دیکھیں اس واقعہ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ تذبذب کی یہی کیفیت پلاٹ کو پلاٹ بناتی ہے۔ واقعات ایک دوسرے سے پوری طرح پیوست ہوں تو پلاٹ مربوط یا گٹھا ہوا کہلاتا ہے اور اس کے بر عکس ہو تو پلاٹ ڈھیلا ڈھالا کہا جاتا ہے۔ ڈھیلا ڈھالا پلاٹ فنی کمزوری کا اشاریہ ہے۔ ڈھیلا پلاٹ میں متعدد قسم کے واقعات ایک ہی شخص سے متعلق ہوتے ہیں اور ان واقعات میں ایک دوسرے سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا۔ گٹھے پلاٹ میں واقعات ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہوتے ہیں جیسے ایک مشین کے مختلف پرزے۔ نقادوں نے تین چیزوں کو پلاٹ کا سوت کہا ہے۔ فکشن کا پلاٹ انہیں تین سوتوں میں سے کسی ایک یا دو یا تین سے مل کر پھوٹتا ہے۔ یہ تین سوت کردار، واقعات اور ماحول ہیں۔ فکشن نگار کچھ کرداروں کو لے کر ان کی مصوری کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ واقعات اور مواقع و اماکن وضع کر کے کرداروں کا ارتقا دکھاتا ہے۔ یا پھر کوئی خاص ماحول یا فضا اسے متاثر کرتی ہے اور وہ اس ماحول یا فضا کی ترجمانی کے لئے کوئی موقع اور اس موقع پر عمل کرنے والے کردار تراشتا ہے اور ان دونوں چیزوں کی مدد سے اس ماحول یا فضا کا مجموعی تاثر پیدا کرتا ہے۔ پلاٹ کی تعمیر میں واقعات و کردار اور ماحول کے علاوہ منظر نگاری کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ جزئیات نگاری میں اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ حالات و واقعات کی وضاحت ہوتی رہے۔ عام طور پر کہانی میں خیر و شر کی کشمکش، دوستی، محبت، جنس اور نفسیات کے علاوہ انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے سبھی جذبات واحساسات کردار کے ذریعے تخلیق میں سمٹ آتے ہیں۔ لیکن اردو ناولٹ میں غربت وافلاس، سماجی ظلم واستحصال وغیرہ موضوعات سے ہی پلاٹ کی تعمیر کا کام لیا جاتا ہے۔ ہندی کے مشہور نقاد ڈاکٹر دھریندر ورما ناولٹ کے پلاٹ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ناول کی طرح اس میں ذیلی پلاٹ (Under plot) نہیں ہوتا اور حوالہ جات پلاٹ(Episode)بھی اتنے کم ہوتے ہیں کہ کہانی کی وحدت اور امتزاج میں رکاوٹ پیدا نہ کر سکیں۔ ‘‘ (9)

اردو میں جتنے ناولٹ وجود میں آئے ہیں ان میں عام طور پر اسی طرح کے پلاٹ کو برتا گیا ہے۔ ناول میں مرکزی کہانی کے ساتھ کچھ چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی چلتی رہتی ہیں۔ لیکن ناولٹ کے پلاٹ میں ضمنی کہانیوں کی اتنی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ ناولٹ نگار ضمنی کہانیوں کی بجائے حوالہ جات پلاٹ کو ناولٹ کے جسم کا حصہ بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ اس میں کامیابی انہی فن کاروں کو ملتی ہے جن میں فنی بصیرت بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہے۔

 

کردار نگاری:

 

فکشن کے وجود کے لئے قصہ اور پلاٹ جتنے اہم ہیں اتنے ہی بلکہ بعض حیثیتوں سے اس سے بھی زیادہ ضروری اس کے کردار ہیں۔ اس لئے کہ پلاٹ اور اس کی فنی ترتیب کا فکشن کے فن سے بڑا گہرا تعلق ہے لیکن اس فن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہمیں حقیقت کا ہی مرہون منت ہونا پڑتا ہے۔ ہم اس فن کی بنیاد کسی نہ کسی دنیاوی حقیقت پر رکھتے ہیں۔ یہ حقیقتیں انسانی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے فکشن کے فن کو تحریک میں لانے اور اسے پلاٹ کی منظم اور مربوط شکل دینے کے لئے ہمیں کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ فکشن میں جو واقعات پیش آتے ہیں ان کے مرکز کچھ جاندار ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ انسان ہی ہوں۔ حیوانوں سے بھی یہ کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ افراد قصہ کردار کہلاتے ہیں۔ فکشن نگار کو کردار نگاری پر پوری توجہ دینی چاہئے۔ ای، ایم، فاسٹر کہتے ہیں کہ ہماری زندگی دو زندگیوں سے مل کر بنی ہے۔ ایک زندگی وقت کے حساب سے اور دوسری زندگی کچھ خاص قدروں کے حساب سے۔ لیکن فکشن وہی اچھا ہوتا ہے جس میں دوسری قسم کی زندگی پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کے معنی ہی یہ ہیں کے فکشن کی ادبی اہمیت اس کی کردار نگاری پر منحصر ہے۔ فکشن میں کردار عموماً دو طریقوں سے ظاہر کئے جاتے ہیں۔ تشریحی طریقے سے اور ڈرامائی طریقے سے۔ تشریحی طریقے میں فکشن نگار کردار کے جذبات و خیالات، ارادے واحساسات کو بیان کرتا ہے اور ان پر رائے زنی کرتا ہے۔ ڈرامائی طریقے میں کردار خود اپنی بات چیت اور حرکات و سکنات سے خود کو قاری سے روشناس کراتا ہے۔ پہلی صورت میں ہماری توجہ کا مرکز فکشن نگار ہوتا ہے لیکن دوسری صورت میں فکشن نگار فراموش ہو جاتا ہے اور مجسم کردار ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ فکشن میں کوئی کردار ایک دم سے ہمارے سامنے نہیں آ جاتا بلکہ اس کے مختلف پہلو رفتہ رفتہ ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ فاسٹر نے کردار کی دو قسمیں کی ہیں۔ Flat یعنی سپاٹ کردار اورRound یعنی مکمل کردار۔ جو کردار ارتقا سے محروم ہوتے ہیں اور پوری کہانی میں ایک ہی سے رہتے ہیں وہ سپاٹ کردار کہلاتے ہیں۔ جن کرداروں میں ارتقا ہوتا ہے یعنی جو کردار حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں وہ راؤنڈ کردار کہلاتے ہیں۔ کردار کسی قسم کے بھی ہوں ان کے لیے زندگی کا جیتا جاگتا نمونہ ہونا ضروری ہے۔ وہ ہمارے دلوں کو اپنی طرف کھینچیں اور ان کی حرکات وسکنات وغیرہ سے ہم پر یہ ظاہر ہو کہ وہ جیتے جاگتے، چلتے پھرتے انسانوں کی طرح ہیں۔ ناول نگار کو زندہ کردار تخلیق کرنے کی بڑی آزادی رہتی ہے لیکن ناولٹ نگار کے لئے کردار وضع کرنا سخت ترین اور مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں سلیم اختر لکھتے ہیں :

’’ناول کا فارم جو آزادی مہیا کرتا ہے اس کی اہمیت مسلم ہے، ناولٹ میں اس کے بر عکس کافی پابندیاں ہوتی ہیں، مثلاً شمن کی پیدائش سے کرداری ارتقا، کا مطالعہ نا ممکن تو نہیں لیکن مشکل تو ضرور ہے اور وہ بھی اسی صورت میں جب کہ مصنف جزئیات نگاری کے فن کے تمام اسرارورموز سے آشنا ہو۔ ‘‘ (10)

اور ڈاکٹر پرتاپ نرائن ٹنڈن ناولٹ کی کردار نگاری پر اپنے خیالات اس طرح ظاہر کرتے ہیں :

’’ناولٹ کا مختصر اور گتھا ہوا مواد اور اس کے کرداروں کی محدود تعداداسے بڑی ٹھوس شکل دیتی ہے۔ جبکہ ناول کا مواد بکھرا بھی ہو سکتا ہے۔ ناولٹ میں تشخیص کی برتری ہوتی ہے جبکہ ضخیم ناول کے کرداروں میں ان کی انفرادیت غائب بھی ہو سکتی ہے۔ ‘‘ (11)

ناولٹ کی کردار نگاری پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے ڈاکٹر پریم شنکر لکھتے ہیں :

’’ناولٹ کے کرداروں، بالخصوص ہیرو کو بعض اوقات غیر معمولی بھی بنانا پڑتا ہے کیونکہ اس سے اس کی شخصیت کے خدوخال پوری طرح نمایاں ہو سکتے ہیں۔ اس کو خود سے کشمکش میں مبتلا کیا جا سکتا ہے اور اسی کشمکش میں اس کی شخصیت بکھری ہوئی دکھائی جا سکتی ہے۔ ‘‘ (12)

ان اقتباسات پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چونکہ ناولٹ میں کرداروں کی تعداد کم ہوتی ہے اس لئے وہاں کرداروں کا با مقصد ہونا ضروری ہے۔ ناولٹ کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس کی کردار نگاری پر ہے۔ یہاں ناولٹ نگار کو اپنا سارا زور صرف کرنا پڑتا ہے اور کرداروں پر ماہر نفسیات جیسی تیز نگاہ ڈالنی پڑتی ہے۔ ناولٹ کا کینوس بھلے ہی ناول کے کینوس سے چھوٹا ہوتا ہو مگر مشاق و ماہر فنکار اس میں بھی کردار کا حقیقی رنگ  روپ پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، کردار کا تجزیہ ماحول اور روزمرہ کے مشاغل و واقعات کی روشنی میں کیا جانا چاہئے۔ ناولٹ کی کردار نگاری میں سارازور مرکزی کردار پر صرف کرنا پڑتا ہے اور ضمنی کرداروں کو اسی لئے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خواص کو برقرار رکھتے ہوئے مرکزی کردار کی اہمیت و افادیت کو بڑھائیں۔

 

مکالمہ نگاری:

 

فکشن کے کردار آپس میں جو باتیں کرتے ہیں وہ مکالمہ کہلاتا ہے اسی بات چیت کے ذریعہ قصہ آگے بڑھتا ہے اور ہم کرداروں کے دلوں کا حال جانتے ہیں۔ اچھے مکالمے لکھنا ایک فن ہے۔ مکالمہ لکھتے وقت فکشن نگار پورے طور پر ڈرامہ نگاری کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ لیکن ڈرامہ اور ناولٹ کے مکالموں میں فرق ہوتا ہے کیونکہ ڈرامہ میں جذبات واحساسات کا اظہار چہرے کے اتار چڑھاؤ اور کردار کی حرکات وسکنات پر منحصر ہوتا ہے۔ یہاں جذبات نگاری کے مواقع میسر نہیں ہوتے لہذا مکالموں میں جذباتی تاثر پیدا کرنے کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں جن سے جذباتی کردار کی خصوصیات واضح ہو سکیں اور کردار کی شخصیت نمایاں ہو سکے۔ ناول میں جذباتی کیفیات، ذہنی الجھنیں اور تاثراتی فضا قائم کرنے کے لئے زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ اس لئے مکالمہ زندگی کی عام حقیقتوں سے قریب ہوتا ہے اور ناول نگار ڈرامائی تأثر پیدا کرنے کی مشقت سے محفوظ رہتا ہے۔ مکالمہ کے سلسلے میں دو باتیں بہت ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ مکالمے غیر ضروری طور پر طویل نہ ہوں کہ قاری انہیں پڑھنے میں اکتا جائے۔ دوسری یہ کہ مکالمہ جس کردار کی زبان سے ادا ہو رہا ہے اس کے حسب حال ہو۔ مکالمہ کے ذریعے سے پلاٹ کا ارتقا اور کردار کی خصوصیات کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔ اس لئے وہ مکالمہ جو پلاٹ یا کردار سے بے تعلق ہو، فضول ہے، مکالمہ فطری، صاف اور موقع و محل کے اعتبار سے موزوں ہونا چاہئے۔ ہر کردار کی گفتگو اور بات چیت کا رنگ جدا ہونا چاہئے کیونکہ اصل زندگی میں ہر شخص ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے اور اپنے اپنے اسٹائل اور انداز میں بات کرتا ہے۔ مکالمہ جتنا چست، بر محل، بر جستہ، فطری اور مختصر ہو گا، فکشن کی دلکشی میں اتنا ہی اضافہ ہو گا۔ مکالمہ کو واقعات میں اس طرح رچ بس جانا چاہئے کہ اس کا وہاں سے ہٹانا ایک امر محال ہو جائے۔ ناول میں مکالمے کے معاملہ میں بڑی آزادی ہوتی ہے اس میں لمبی تقریر، وعظ، خطبے وغیرہ آسانی سے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ناول کے برعکس ناولٹ کے مکالمہ میں بڑے غور و فکر سے کام لینا ہوتا ہے اور ذہن و شعور کی گہرائیوں میں اترنا پڑتا ہے۔ ناولٹ کے مکالمہ کے بارے میں ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی لکھتے ہیں :

’’ناولٹ کی اولین شرائط میں شامل ہے کہ مکالمے بر محل ہوں، طویل اور بے جا باتوں سے پرہیز کیا جائے، کیونکہ اگر ان چیزوں سے احتراز نہ کیا گیا تو ناولٹ کے مکالمے مجروح ہو کر بے جان ہو جائیں گے اور اپنا تاثر کھو دیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ناولٹ نگار کم الفاظ میں زیادہ تاثر اور واضح مفہوم دینے والے جملے پیش کرے اور رمز، اشارے، کنائے کی مدد سے اپنی زبان کو ترتیب دے۔ ‘‘ (13)

ناولٹ کے مکالمہ میں زیادہ توجہ اور غور و فکر کی ضرورت اس لئے ہے کہ اس کا کینوس محدود ہوتا ہے اور کرداروں کی تعداد بھی کم ہوتی ہے۔ ناولٹ نگار کو ان قیود کو نظر میں رکھتے ہوئے مکالمہ لکھنا ہوتا ہے۔ ناولٹ نگار کو تاثرات اجاگر کرنے پر بھی خاص دھیان دینا پڑتا ہے۔ ناولٹ کی انفرادیت کا دارومدار چست اور بر محل مکالمے پر ہی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر گھنشیام مدھوپ مکالمے کی اہمیت سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’کہانی کے ارتقا اور کردار نگاری، دونوں کو ظاہر کرنے میں ناولٹ کے مکالمے کافی اہم ہوتے ہیں۔ چونکہ اس کا پلاٹ مختصر ہوتا ہے۔ تفصیلی اور بیانیہ انداز تقریباً نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں سارے فرائض کے بار کو برداشت کرنے والوں میں مکالمے بہت سنجیدہ ہوتے ہیں۔ ‘‘(14)

ناولٹ کے مکالمے کی زبان اتنی اہم ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مکالمے کی زبان کو کرداروں کے حسب حال ترتیب دینا چاہئے۔ ویسے عام طور پر ناقدین کی رائے یہ ہے کہ اس میں بناؤ، سنگھار نہیں ہونا چاہئے۔ ورنہ قاری کی اصل توجہ واقعات سے بھٹک کر زبان کی آرائش میں الجھ جائے گی۔

 

 

 

منظر کشی:

 

منظر نگاری بھی فکشن کا اہم جز ہے۔ کامیاب منظر کشی سے فکشن کی دل کشی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور قصہ میں جان پڑ جاتی ہے۔ کامیاب منظر کشی سے مراد یہ ہے کہ فکشن نگار جس چیز کا منظر پیش کرے اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے کھنچ جائے۔ منظر کشی سے متعلق علی عباس حسینی لکھتے ہیں :

’’اس کی وجہ سے زمان و مکان کی تعئین ہوتی ہے۔ اوقات اور موسموں کا بیان، کمروں اور مکانوں کے خاکے، آبادیوں کے نقشے، اسباب ضرورت وزیست کی تصویروں، اور ناچ، رنگ، میلوں ٹھیلوں، جلسوں جلوسوں کے مرقعے اسی جز سے متعلق ہیں۔ ناول نگار کو چاہئے کہ وہ ان امور کو اس سلیقہ اور اس انداز سے بیان کرے کہ پڑھنے والے کے سامنے بالکل تصویر کھنچ جائے۔ ‘‘(15)

جو فکشن نگار کہانی میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے نہیں بلکہ صرف منظر نگاری کا کمال دکھانے کے لئے مختلف موسموں اور مقاموں کی تصویریں کھینچتے ہیں وہ فکشن کی سالمیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ منظر نگاری میں اس بات کا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس سے کرداروں کے مختلف سیرتی پہلو بھی اجاگر ہوں۔ ناول میں منظر کشی کے لئے وافر مواقع میسر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ناولٹ میں اس کے کم مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ چونکہ ناولٹ کا کینوس چھوٹا اور محدود ہوتا ہے اس لئے یہاں منظر کشی میں فنی مہارت کی ضرورت پڑتی ہے اور مختصر چھوٹے جملوں میں وہ تصویر کھینچنی ہوتی ہے جو کہانی کے ارتقا اور کرداروں کی سیرت کو نمایاں کر سکے۔ اس کے لئے رمز و کنایہ، استعارہ و تمثیل کی بھی ضرورت پیش آتی ہے۔

 

 

 

اغراض و مقاصد:

 

ہر فکشن نگار کا ایک نظریہ حیات ہوتا ہے، وہ کائنات کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھتا ہے اور لازما اس کی تخلیقات میں اس کا مخصوص نقطۂ نظر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ نقطۂ نظر کی یہی پیش کش اغراض و مقاصد میں شمار کی جاتی ہے۔ ناول کیا ہے ؟ کے مصنفین نے ناول میں نقطۂ نظر پیش کرنے کے دو طریقے بیان کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

’’ناول میں فلسفۂ حیات دو طریقوں پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ناول نگار زندگی کے ان معاملوں کو لیتا ہے جو خاص اخلاقی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ کردار کی حرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے پلاٹ کی ترتیب میں ان واقعات کو زیادہ روشن کرتا ہے جو اس کی زندگی کے خاص تجربات ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مختلف قسم کے بیانات میں ایک اخلاقی پہلو بھی پیدا کرتا ہے۔ اس طرح ناول نگار گویا ایک قسم کا خالق ہوتا ہے اور ناول اس کی خلق کردہ دنیا ہوتی ہے، جو ناول نگار کے اصول پر چلتی ہے اور اس طرح ناول نگار کا مکمل فلسفہ سامنے آ جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ جس سے ناول نگار اپنے فلسفہ کو ظاہر کرتا ہے یہ ہے کہ ناول میں جگہ جگہ کردار کی حرکات وغیرہ کی وضاحت کرتا جاتا ہے۔ کسی حرکت کو وہ ہمدردی سے بیان کرتا ہے۔ کسی کو اچھائی کے ساتھ اور کسی کو طنز کے ساتھ اور اس طرح ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ناول نگار کے خیالات زندگی کے مختلف پہلوؤں کی بابت کیا ہیں۔ ‘‘ (16)

ناول نگار کا کام زندگی کے نقشے پیش کرنا ہے اس لئے اسے زندگی کی اعلی قدروں سے الگ نہیں ہونا چاہئے ناول میں نقطۂ نظر کی پیش کش ناول کا ایک اہم جز ہے لیکن اس سے بھی اہم ہے پیش کش کا انداز۔ یہ جتنا دلفریب ہو گا تاثر بھی اتنا ہی گہرا ہو گا۔

تقریباً سبھی ناولٹ میں ایک نظریہ حیات اور نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ کیونکہ ناولٹ خلا میں پرورش نہیں پاتا، یہ بھی ہمارے سماج میں ہی تخلیق کیا جاتا ہے۔ ناولٹ میں نقطۂ نظر کی پیش کش ناول سے اس طور پر مختلف ہے کہ اس میں مقصد ابھر کر سامنے نہیں آتا بلکہ اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ناولٹ میں نقطۂ نظر کی اہمیت کے بارے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں :

’’ناولٹ کسی مخصوص فلسفہ حیات کے بغیر نہیں کہا جا سکتا، زندگی کے متعلق بغیر کسی واضح نقطۂ نظر کے اس کا ڈھانچہ تیار نہیں ہو سکتا اور اگر تیار بھی ہو جائے تو یہ عمارت استوار نہیں ہو سکتی بلکہ وہ واقعات کے مد و جزر، کرداروں کے اقوال و افعال اور حرکات وسکنات میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ ‘‘(17)

ناولٹ میں مقصد کی پیش کش کیسی ہونی چاہئے اس بارے میں ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی لکھتے ہیں :

’’ناولٹ میں مقصد کی پیش کش ایسی ہونی چاہئے کہ قاری کو سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کر دے۔ ناولٹ نگار بحیثیت رہنما یا سماجی کارکن کام نہیں کرتا بلکہ وہ جس معاشرے میں زندگی گزارتا ہے اسی سماج کے عصری زیر و بم کی عکاسی کرتا ہوا اس کے اہم اور مقدم مسئلے کو پیش کرنا ہی اس کا عین مقصد ہوتا ہے۔ ‘‘(18)

ناولٹ اختصار سے عبارت ہے اس لئے اس میں مکمل فلسفۂ حیات پیش کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ناولٹ نگار اپنے تجربات کا نچوڑ ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ چونکہ ناولٹ میں سماج اور زندگی کے کسی پیچیدہ اور عصری مسئلے کو پیش کیا جاتا ہے اس لئے ناولٹ نگار کو محتاط رہنا چاہئے کہ وہ مقصد کی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس مقصد میں صحت مند زندگی کی ترجمانی حقیقت پسندی سے کرے تاکہ ناولٹ کے جو فنی و تکنیکی اصول مرتب کئے گئے ہیں ان سے گریز نہ کرنا پڑے۔ ناولٹ کے اجزائے ترکیبی پر یہ بحث ہم پر واضح کرتی ہے کہ ناولٹ فکشن کی ایک خاص صنف ہے اور یہ ناول سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ناولٹ کا وجود انگریزی ادب میں ناول کے ساتھ ساتھ ہوا۔ اور اس کو Gothic Literature کا نام دیا گیا۔ چونکہ سری ادب دوسرے درجہ کی تخلیق شمار کیا جاتا رہا ہے۔ اس لئے انگریزی نقادوں نے اس فن کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور اس پر تنقیدی کام بہت کم ہوا۔ فکشن کے زیادہ تر فارم اردو میں انگریزی کے ہی توسط سے آئے ہیں۔ ناولٹ بھی انگریزی ہی سے اردو میں آیا۔ لیکن اردو ادب میں بھی اس فن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ حالانکہ ناولٹ برابر لکھے جاتے رہے اور عین انگریزی ادب کی طرح یہاں بھی ناولٹ عوام میں مقبولیت حاصل کرتے رہے۔ ناول کے علاوہ فکشن کی ایک اور صنف جس سے ناولٹ کے حدود کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے وہ ہے طویل مختصر افسانہ۔ ضروری ہے کہ اس پر بھی نظر ڈالی جائے کہ ناولٹ کے وہ کون سے اوصاف ہیں جو اسے طویل مختصر افسانہ سے ممتاز کرتے ہیں۔

ناول کی طرح مختصر افسانے کی صنف بھی براہ راست مغربی ادب کی دین ہے۔ اردو میں افسانہ نگاروں کی جو پہلی کھیپ منظر عام پر آئی۔ پریم چند اس کے عظیم رہنما ثابت ہوئے۔ منشی پریم چند نے جس افسانے کی بنیاد رکھی وہ مختصر تھا، لیکن ان کے بعد کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی نے طویل مختصر افسانے کو اردو ادب میں رائج کیا۔ ان کے علاوہ عزیز احمد، حیات اللہ انصاری، قاضی عبدالستار وغیرہ نے بھی طویل مختصر افسانے لکھے۔ جہاں تک طویل اور مختصر افسانے کا سوال ہے تو افسانوی پیرایۂ اظہار دونوں میں قدر مشترک ہے۔ آغاز و انجام بھی یکساں ہوتا ہے۔ دونوں میں وحدت تاثر کا عنصر بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ طویل یا مختصر افسانہ ایک ہی چیز ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو ناولٹ اور طویل مختصر فسانے کا فرق واضح ہو جائے گا۔ طویل مختصر افسانہ اور ناولٹ کے فرق کو واضح کرتے ہوئے وقار عظیم لکھتے ہیں :

’’غور سے دیکھا جائے تو طویل مختصر افسانہ اور ناولٹ دو الگ الگ اصناف ہیں اور فنی اعتبارسے جس طرح ناول اور مختصر افسانہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ اسی طرح طویل مختصر افسانے اور ناولٹ میں بھی بعض بنیادی فرق ہیں۔ ایک فرق تو وہی ہے جس طرف بار بار اشارہ کیا گیا اور وہ یہ کہ افسانے میں، خواہ وہ مختصر ہو یا طویل، موضوع کی وحدت ضروری ہے۔ اس کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو ناول اور ناولٹ سے ہم اس طرح کی وحدت کا مطالبہ نہیں کرتے۔ ناول میں زندگی کا پھیلاؤ بھی ہوتا ہے اور گہرائی بھی اور اس لئے اس کی فنی ترتیب ایسی سیدھی سادی اور ہموار نہیں ہوتی جیسی افسانے (مختصر یا طویل)کی۔ چنانچہ ناولٹ بھی ناول کے مقابلے میں مختصر ہونے کے باوجود وسیع تر اور عمیق تر زندگی کا احاطہ بھی کرتا ہے اور فنی اعتبار سے اسی طرح کے اتار چڑھاؤ میں سے گزرتا ہے جس میں سے ناول۔ ‘‘ (19)

وقار عظیم کے اس اقتباس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر موضوع کی وحدت کے ساتھ وحدت تأثر بھی ہو تو، وہ طویل مختصر افسانہ ہو گا، کیونکہ افسانہ چاہے طویل ہو یا مختصر اس میں وحدت تاثر ضروری ہے۔ لیکن اگر تخلیق میں مختلف موضوعات کو برتا گیا ہو، اور اس کے باوجود وحدت تاثر موجود ہو تو یہ ناولٹ ہے۔ اس فرق سے ناولٹ ناول سے بھی ممتاز ہو جاتا ہے کہ ناول میں موضوعات کی کثرت تو ہوتی ہے لیکن اس سے وحدت تاثر کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی افسانہ طویل سے طویل تر ہو جائے تو بھی وہ ضخامت کی وجہ سے ناولٹ نہیں ہو گا بلکہ وہ افسانہ ہی رہے گا۔ ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی نے سوال نامہ تیار کر کے اردو کے مختلف ناقدین اور تخلیق کاروں سے ناولٹ اور طویل مختصر افسانے کا فرق جاننے کی کوشش کی تھی۔ ان میں سے کچھ کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں تاکہ طویل مختصر افسانہ اور ناولٹ کا بنیادی فرق سامنے آ سکے۔ دونوں اصناف کا فرق بیان کرتے ہوئے پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں :

’’طویل افسانے اور ناولٹ میں فرق کرنا چاہئے، افسانہ جتنا بھی طویل ہو جائے اس میں موضوع کا ایک رخ نمایاں کیا جائے گا۔ مختصر افسانہ بھی زندگی کی بس ایک قاش سے عبارت ہے اور یہ بات ہے کہ اسی قاش کو نمایاں کرنے میں طویل افسانے میں تفصیلات زیادہ ہو گی۔ ناولٹ زندگی کے باب کا ایک چھوٹا سا رزمیہ ہے۔ جبکہ افسانہ اور طویل افسانہ اس مختصر رزمیے کے کسی ایک رخ پر محیط ہوتا ہے۔ ‘‘ (20)

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی طویل مختصر افسانہ اور ناولٹ کے درمیان کے فرق کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال سے سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں :

افسانہ زندگی کا خورد بین ہے اور دوسرا دوربین۔ طویل مختصر افسانہ ہمیں زندگی کا ایک چھوٹا پہلو ہی دکھا کر رہ جاتا ہے، ناولٹ زندگی کا مکمل نقشہ پیش کرتا ہے۔ ‘‘ (21)

ان اقتباسات پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ طویل مختصر افسانہ اور ناولٹ ایک نہیں بلکہ دو الگ الگ اصناف ہیں۔ ان دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے تاکہ التباس سے بچا جا سکے۔ سید وضاحت حسین رضوی ان بیانات پر غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں :

’’افسانے میں ایک خیال اور اس کا ایک ہی تأثر (وحدت تأثر) اہمیت رکھتا ہے۔ وہ زندگی کے کسی واقعہ یا کسی ایک پہلو کی عکاسی کرتا ہے جبکہ ناولٹ زندگی اور معاشرے دونوں کے کسی ایک نظریہ فکر کو اپنا مقصود بناتا ہے۔ متوسط سماج کے شادی بیاہ کی رسم، اس کے نتائج، اس کا حل، اپنے حصار میں ناولٹ کا موضوع بن سکتا ہے جبکہ جہیز کی رسم، انمل شادی یا لکڑی کی میز، کرسی کی طرح خریدوفروخت وغیرہ کے واقعات افسانے کے موضوع بن پائیں گے۔ ‘‘ (22)

ناولٹ کو ناول اور طویل مختصر افسانے سے ممتاز کرنے کی جویہ کوشش کی گئی اس سے اتنا تو واضح ہو جاتا ہے کہ ناول اور طویل مختصر افسانہ جس طرح اپنے امتیازی خصوصیات رکھتے ہیں۔ ناولٹ اس طرح سے امتیازی خصوصیات نہیں رکھتالیکن اتنی بات تو بہر حال ہے کہ یہ نہ تو مختصر ناول ہے اور نہ ہی طویل مختصر افسانہ۔ جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے۔ بلکہ یہ ناولٹ ہے جس کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ضرورت ہے ان خصوصیات پر غور و فکر کرنے کی۔ ناولٹ کے فن پر میں اپنی گفتگو ڈاکٹر سید مہدی احمد رضوی کے اس اقتباس پر ختم کرتا ہوں، جس میں انہوں نے ناولٹ کے فن کا عمومی جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’فنی طور پر ناولٹ، افسانے کے اختصار اور ناول کی طوالت کے بیچ کی کڑی ہے۔ با لعموم ایک ناولٹ کی ضخامت سو سوا سو صفحات سے زیادہ اور پچاس ساٹھ صفحات سے کم نہیں ہو سکتی۔ یہاں تاثر کی وحدت اتنی واضح اور مکمل ہوتی ہے کہ قارئین انجام پر کسی تذبذب یا انتشار میں مبتلا نہیں ہوتے۔ واقعات کی تشریح و تفصیل یہاں نہیں ہوتی۔ ایجاز و اختصار کے ساتھ علامتوں، اشاروں اور کنایوں میں زندگی کے وہ مختلف پہلو پیش کر دیئے جاتے ہیں جن کی پیش کش کو ناولٹ نگار ضروری سمجھتا ہے۔ ناولٹ کا پلاٹ گٹھے ہوئے مربوط واقعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ابتداء سے وسط تک کے مرحلے طے کرنے کے لئے واقعاتی الٹ پھیر بار بار رونما نہیں ہوتی اور نہ وسط سے انجام تک کے مرحلوں میں واقعات بار بار پیچھے مڑتے اور آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ ‘‘(23)

 

                   مغرب میں ناولٹ کا آغاز

 

ناولٹ فکشن کی ہی ایک شکل ہے جس کا فروغ نشأۃ  الثانیہ سے قبل مغرب میں ایک مخصوص رجحان و میلان کے تحت ناولٹ، ناولہ اور ناویلے کی شکل میں ہوا۔ مگر ناول کی مقبولیت کے بعد ان اصناف کا زوال ہونے لگا۔ مغربی ادب میں ناولٹ کا وجود تو ہے لیکن اس کا فارم بہت مبہم ہے۔ عام طور پر اسے علاحدہ صنف ادب کا درجہ نہیں دیا گیا بلکہ چھوٹے ناولوں کے لئے اصطلاحاً یہ لفظ رائج ہوا۔ تقریباً سبھی نقاد یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ناول اور طویل کہانی کے درمیان جو فکشن تخلیق کیا جاتا ہے، اسے ہی ناولٹ کہتے ہیں۔ پہلے ناول وجود میں آیا یا ناولٹ اس بارے میں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :

’’عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ناولٹ جدید دور کی پیداوار ہے۔ کسی حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ ناول سے قبل ناولٹ کا وجود ہی نہ تھا۔ مغربی افسانوی ادب پر نظر ڈالنے کے بعد اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ ناول سے پہلے ناولا، ناویلے (ناولٹ) اس کے بین ثبوت ہیں۔ جنہیں ناولٹ کی ابتدائی نقوش دھندلے ہی سہی ظہور میں آ چکے تھے۔ در اصل ناول سے قبل ناولٹ ظہور میں آئے۔ گو کہ آج ناولٹ کے لئے جو فنی ہیئتی لوازم اور اصول متعین کئے گئے ان پر پورے نہیں اترتے، مگر ناولٹ کے وجود سے منکر ہونا سراسر غلط ہو گا۔ ‘‘ (24)

مغربی ادب میں ناولٹ کے ابتدائی نقوش کا جائزہ لینے پر یہ واضح ہوتا ہے کہ ناولٹ کے ابتدائی نقوش ناول سے پہلے ہی وجود میں آ چکے تھے، لیکن ناول کے وجود میں آنے کے بعد ناولٹ کا ارتقا رک گیا۔ پھر جاگیردارانہ دور کے بعد وقت اور حالات کے بدل جانے سے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں رہ گیا کہ وہ طویل ناول پڑھیں۔ زندگی کے خاص مسئلوں اور ان مسئلوں کے خاص پہلوؤں میں ہی قاری کی دلچسپی بڑھنے لگی۔ قاری کی اس ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تخلیق کاروں نے بھی زندگی یا معاشرے کے کسی اہم مسئلے کے خاص پہلوؤں کو ندرت اور فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کرنے کے لئے ناولٹ کے فارم کو اپنایا اور اس کو بے حد دلچسپ بنایا۔ اس طرح ناولٹ اپنے ارتقائی منازل کی طرف گامزن ہوا۔

چودھویں اور سولہویں صدی کے درمیان اٹلی میں ناویلا لکھے گئے۔ جیوانی بکاشیو (Giovanni Boccaceio)اس عہد کا مشہور و معروف ادیب ہے۔ اس کے قصوں کو ناویلا سے مو سوم کیا جاتا ہے۔ ان کے قصوں میں ہیرو کی دلیری، شجاعت اور کامرانی کا تذکرہ ہوا ہے اور مذہبی اجارہ داروں کی مکاریوں اور چالاکیوں کو آشکار کیا گیا ہے۔ بوکاشیو کی پیدائش انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق 1313میں پیرس میں ہوئی۔ یوروپی ادب کی تاریخ میں بوکا شیو بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کی شہرت کا سبب اس کی شاہکار تصنیف Decameron ہے۔ اس میں سو کہانیاں ہیں۔ بوکاشیو کی یہ کہانیاں اس کے عہد کا آئینہ ہیں۔ اس آئینے میں نواب، امرا، پادری اور عوام سبھی کے چہرے نظر آتے ہیں۔ بوکاشیو کی کہانیوں کو ناولٹ کے اولین نقوش قرار دینے کی دلیل A Dictionary of Literary Termsکے مصنف J.A. Cuddon کی وہ وضاحت ہے جو انہوں نے ناویلا کے بارے میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’ناولہ بنیادی طور پر از قسم مختصر افسانہ ہے یہ نثر میں گویا رزمیہ داستان ہے جو بوکاشیو Boccaceioکے ذریعہ اپنی ارتقائی منزل تک پہونچی۔ ‘‘ (25)

بکاشیو کے بعد Ser Giovanniنے ایک مختصرضخامت کی کتاب IL Pecoroneلکھی۔ یہ کتاب پچاس کہانیوں پر مشتمل ہے۔ یہ ڈیکا میرن کا چربہ ہے لیکن Pecoroneکی کہانیوں میں صفائی اور شستگی زیادہ ہے۔ بکاشیو کے بعد جس طرز پر ناویلا (Novella)کا رواج ہوا اسے فروغ دینے میں ڈلیونی اور گرین کے بیانیہ قصوں کی شمولیت کے ساتھ ٹامس نیش(Thomas Nash) کیThe Unfortunate Traveller، فورڈ(Forde)کاIrnalus and Arlesia اور افرابن(Afra Behn)کا Oroonoca بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

یوروپ کی تاریخ میں نشاۃ الثانیہ ایک عظیم علمی انقلاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوا۔ یونان سے قریب ہونے اور روم کے جانشین ہونے کے نتیجے میں نشاۃ الثانیہ کا آغاز سب سے پہلے اٹلی میں ہوا۔ نشاۃ الثانیہ کا آفتاب جیوں ہی طلوع ہوا، افکار و اظہار کی دنیا میں ایک انقلاب آ گیا۔ ادب اور آرٹ ایک نئے آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن ہوئے اور اسی کے نتیجے میں فکشن میں حقیقت پسندی اور تخیل کے امتزاج کے ساتھ اٹلی میں ناویلا کا رواج شروع ہوا۔ اس حوالے سے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں لکھا ہے :

’’اطالوی لفظ Novellaجس کے معنی روایتی کہانی کے برعکس صرف انفرادیت کی حامل تخلیق کے نہیں بلکہ کم از کم موجودہ واقعات و حالات کو بھی پیش کرنے کا فریب دیتی ہے۔ یعنی روزمرہ کے حالات زندگی کی تشریح کرنے کا بھی فریب دیتی ہے۔ جب یہ لفظ انگریزی زبان میں منتقل ہوا تو اس نے کسی حد تک اپنا دوہرا پن قائم رکھا۔ اٹھارہویں صدی سے قبل جب ناول کے موجودہ معنی و تصور باقاعدہ تسلیم کر لئے گئے تو انگریزی زبان میں منتقل (جگہ پانے )ہونے کے باوجود اس کا پرانا دوہرا پن باعتبار اس کی تعریف قائم رہا۔ ‘‘ (26)

فرانس میں نشاۃ الثانیہ کی روشنی اس وقت پہنچی جب اٹلی کے ساتھ اس کی جنگ ہوئی۔ لوئی دواژدہم اور فرانسو اول کے عہد میں جو لڑائیاں ہوئیں ان کی وجہ سے فرانس کو اٹلی میں ادب و فنون کی سرگرمیوں کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ۱۶ویں صدی میں اطالوی اساتذہ کو فرانس آنے اور لکچرز دینے کی دعوت دی گئی۔ اس طرح فرانسیسی ادب میں بھی ناویلا کی شروعات ہوئی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی لکھتے ہیں :

’’سولہویں صدی کے فرنچ افسانوی ادب میں اس طرح کے قصوں کا ایک مجموعہ ’’ہپتامران‘‘ شائع کیا گیا۔ مارگیٹ نوائرMargrette Novarre اور اس کے ہم عصروں نے انہیں تخلیقات کی بنا پر فرنچ ادب میں موجودہ ناول اور قدیم ناویلا Novella کی شروعات کی۔ بکاشیو کے بعد تقریباً فرنچ اور انگریزی ادب میں اس طرز کے قصے رائج ہوتے رہے۔ ‘‘(27)

انہیں ناویلا کے اثرات سے انگریزی ادب میں طبع زاد افسانوی تخلیقات وجود میں آئیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور للی کی یوفیوز (Euphues)اور سڈنی کی آرکیڈیا (Arcadia) ہے۔ للی کے یوفیوز کے بارے میں انگریزی کے مشہور ناقد سینٹس بری کا کہنا ہے :

’’مجھے یوروپ کی کسی زبان میں کسی کتاب کا علم نہیں جس نے یوفیوز سے پہلے اس چیز (ناول، ناویلا) کے اتنے دھندلے اور نا مکمل امکانات اور خاکے پیش کئے ہوں جتنے اس کتاب میں موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یوفیوز کا یہی الجھاؤ اور اس کے گنجلک پہلو اسے موجودہ ناول کا مورث اعلی بناتے ہیں۔ اخلاقیات، سیاسیات اور تعلیم سے لوگوں کی دلچسپی، سوسائٹی کے ارتقا کا موجودہ فلسفہ، ادب کا ذوق، ان کے توہمات اور خیال آرائیاں یہ ساری باتیں اس کتاب میں موجود ہیں۔ ‘‘(28)

سڈنی کی آرکیڈیا میں یونانی رومانس کا اثر صاف ظاہر ہے۔ آرکیڈیا میں بہادری کی معرکہ آرائیاں درباروں سے نکال کر دیہاتوں میں پہنچا دی گئی ہیں اور اس میں کرداروسیرت کے مرقعے بھی دھندلے طور پر موجود ہیں۔ اس کتاب نے اپنے زمانے میں قبولیت عام کا درجہ پا کر عوام کو بہت حد تک ناول، ناولٹ کے لئے تیار کر دیا تھا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں ناول سے متعلق روشنی ڈالی گئی ہے۔ مگر ناولٹ کا الگ سے کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ ناول کے ضمن میں ناولٹ کو ضخامت کے اعتبار سے منفرد مقام دیا گیا ہے۔ اس میں لکھا ہے :

’’اس (ناول) کے علاوہ بھی طبع زاد نثر کی دو صنفیں اور ہیں۔ مختصر کہانی جو تقریباً ۵۰صفحے تک ضخیم ہو اور زیادہ ضخامت والی قسم جو مختصر کہانی(افسانہ) اور ناول کی درمیانی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے لئے انگریزی میں پیڈول طویل مختصر افسانہ کے علاوہ یا کریہہ آواز پیدا کرنے والے کم حیثیت لفظ ناولٹ کے علاوہ کوئی اصطلاح نہیں ہے اور اس کے لئے فرانسیسی لفظ Novelle بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ چیز بہر حال یاد رکھنی چاہئے کہ اطالوی لفظ Novella اور جرمن اصطلاح Novelleبھی اس ضمن میں مستعمل ہیں جنہیں ہم مختصر افسانہ کہتے ہیں۔ ‘‘ (29)

اس اقتباس سے اس کی دلیل مل جاتی ہے کہ اطالوی اور فرانسیسی ادب کے ساتھ اسی زمانے میں انگریزی ادب میں بھی ناولٹ کی داغ بیل پڑ چکی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ انگلینڈ میں صنف ناولٹ کی ترویج و اشاعت مختلف ناموں کے ساتھ ہوئی۔ کبھی اس صنف کو Small Novel تو کبھیShort Novel اور کبھی Noveletteکے نام سے موسوم کیا گیا۔ انگریزی ادب پر اطالوی اور فرانسیسی ادب کے تجربوں کے گہرے اثرات پڑنے کے باعث انگلینڈ کے فنکاروں نے بھی مختصر کینوس پر اپنے عصری معاشرے کے ناگزیر مسئلوں کو ان کے مخصوص پہلوؤں کے ساتھ نمایاں کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ Robert Green، Thomas Delone اور Thomas Nash وغیرہ کی تخلیقات کو ناولٹ کے زمرے میں ہی رکھنا مناسب ہے۔ Robert Louis Stevenson کا Strange Case of Dr Jekyll and Mr Hyde انگریزی ناولٹ کی ارتقا میں شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہنری جیمس نے (Henry James) اس صنف کو عام کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ Washington Square (1898)، The Turn of the Screw (1880) اور Daisy Millar (1878) کا شمار انگریزی کے نمائندہ ناولٹ میں کیا جاتا ہے۔ Thomas Hardyکی تخلیق The Woodlanders(1887)کو ایک اچھا ناولٹ کہا جا سکتا ہے۔ Rudyard Kiplingکے The Light that Failed (1891) اور Kim (1901)کو ناولٹ کہنا زیادہ درست ہو گا۔ James Joyceنے جہاں اپنے مخصوص تجربے سے انگریزی ناولوں کو فروغ دیا وہیں The Dead جیسا ناولٹ بھی تخلیق کیا۔

Joseph Conrad اور D.H. Lawrence نے ناولٹ کو علاحدہ صنف ادب ٹھہرانے کی پوری کوشش کی۔ Conradنے Youth(1898)، Heart of Darkness(1899)، Typhoon(1902) اور A Story of an Eastern River (1904) جیسے ناولٹ لکھ کر اس جدید فارم کو منتہائے کمال تک پہنچایا۔ انگریزی ادب میں D.H. Lawrence نے صنف ناولٹ کو علاحدہ فارم کا درجہ دلانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ انگریزی کے مشہور نقادLudwig Lewisohnنے LawrenceکوMaster of the Novelette in Englishکہا ہے۔ Keith Sagarنے 1982میں Lawrenceکے چھ ناولٹ کا ایک مجموعہ The Complete Short Novelsکے نام سے شائع کیا۔

روس کے بادشاہ پیٹر اعظم(1682-1725)نے اپنی کوششوں سے روس میں وہ کھڑکی کھول دی تھی جس سے یوروپی تہذیب و معاشرت کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ نتیجے کے طور پر روسی ادب میں فرانسیسی ادب اور کلاسیک کی تقلید کا رجحان عام ہوا۔ روسی افسانوی ادب گو کہ دوسرے مغربی ممالک کے افسانوی ادب کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن روسی ناولوں میں انقلاب اور تحریکات کی ترجمانی بڑے حقیقی انداز میں ہوئی ہے اور وہاں کے ادیبوں نے جہاں طویل ناول لکھ کر حقیقی زندگی کی ترجمانی کی، وہیں چھوٹے کینوس پر ناولٹ لکھ کر زندگی کے خاص مسئلوں کو بھی قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ روس میں ناولٹ کا فن بہت مقبول ہوا اور ہر بڑے فنکار نے تقریباً طویل ناول کے ساتھ ناولٹ بھی تخلیق کئے۔ Anton Pavlovich Chekhov کے ناولٹسA Boring Story(1889)، The Grasshopper (1892) اور The Lady with the Dog (1899) اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح Leo Tolstoy کے The Cossaack (1852)، The Polikushka(1863)، The Death of Ivan Ilyich (1886) اور Childhood (1909) اہم ناولٹ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ Enn Vetemaa کے Monument (1966)، Tiredness (1967) اور Chinese Eggs(1967)کافی مقبول ناولٹ ہیں۔ دوستووسکی کے ناولٹPoor People(1846) اور White Nights (1848) بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ مذکورہ تمام ناولٹ سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ روسی ادب میں ناولٹ کی شاندار روایت رہی ہے اور ہنوز اس صنف کا ارتقا روس میں بڑی تیزی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مغربی ادب میں عام طور پر ناولٹ کو صنف ادب کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ لیکن امریکی ادب میں ناولٹ کا شمار بحیثیت صنف ادب کیا گیا ہے۔ Encyclopedia Americana میں ناولٹ کے سلسلہ میں لکھا ہے :

’’ناولٹ ایک طبع زاد تخیلی تخلیق جو ایک ناول سے چھوٹی ہو اور جس کی جسامت عموماً 20000 سے 60000 الفاظ پر مشتمل ہو۔ کچھ نقاد ایسی تصانیف کو برائے نام Novella سے یاد کرنے پر ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ ابتداً یہ حقیقت پر مبنی طبع زاد اور اخلاقی حکایتوں سے عبارت تھا۔ جنہیں جیوانی بوکاشیو اور دیگر اطالوی مصنفین نے چودھویں اورسولہویں صدی عیسوی میں پروان چڑھایا۔ انیسویں صدی کے جرمن نقاد نثر کی ایسی تصانیف کے لئے جو ایک ناول سے ضخامت میں کم اور باعتبار تکنیک، شکل مختصر افسانہ سے زیادہ لچکدار ہوں Novella کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘ (30)

امریکی ادب میں ناولٹ اپنے مخصوص اسلوب و انداز میں تخلیق کئے گئے ہیں۔ امریکی ناولٹ نگاری کے ارتقا میں Nathaniel Hawthorneکا The Scarlet Letter (1850)اورAldous Huxleyکا Two or Three Grass (1926)اورKatherine Anne Porterکے تین ناولٹ کا مجموعہThe Short Novels (1939)کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی طرح Glenway Wescottکا ناولٹ Pilgrim Hawk: A Love Story (1940) اورJohn Steinbeck کاThe Moon is Down (1940) اور Cannery Row (1945)کو قبولیت عام حاصل ہو چکی ہے۔ Ernest Miller Hemingwayکا شمار نمائندہ ناولٹ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔ اس کا مشہورزمانہ ناولٹ The Oldman and the Sea (1952)فن اور تکنیک کے لحاظ سے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ H.E. Bates کا ناولٹThe Nature of Love (1953) اور Herman Melville کا ناولٹ Billy Buddکافی مقبول ہوئے۔ امریکی افسانوی ادب میں ناولٹ کا فن بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے اور وہاں کے تخلیق کار اس کے فن اور تکنیک کو مد نظر رکھتے ہوئے بہترین ناولٹ تخلیق کر رہے ہیں۔ Hortense Calisher کے دو ناولٹ The Railway Police اور The Last Trolley Ride (1966)اس کی زندہ مثال ہیں۔

عصر حاضر میں قصہ نگاری کے جو وسیلے رائج ہیں ان میں ناول، ناولٹ اور مختصر افسانہ ہی معروف و مقبول ہیں۔ مختصر افسانے سے قاری کی تسکین نہیں ہوتی، ناول کے راستے میں وقت کی قلت حائل ہے۔ ناولٹ ہی قصے کی وہ صنف ہے جو عصر حاضر کے قارئین کے ذوق مطالعہ کی سیرابی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ادبیات عالم میں ناولٹ بڑی تیزی سے تخلیق کئے جا رہے ہیں اور یہ قارئین میں اپنی مقبولیت بھی قائم رکھے ہوئے ہیں۔

 

                   حواشی

 

(1) A Dictionary of Literary Terms, By: J.A.Cuddon

(بحوالہ: صدیق محی الدین، اردو ناولٹ کا مطالعہ، (Thesis) سینٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد، 1989۔ صفحہ ۸۵)

(2)A Hand Book of Literature By: C.Huge Hollwan.Page No. 360-36

(3) Merriam Webster’s Encyclopedia of Literature: Merriam- Webster, Incorporated Publishers springfield, Massachusetts; USA. Page No. 820

(4) Ibid, Page No.820

Ibid, Page No.820(5)

(6)A Dictionary of Literary terms, By: J.A.Cuddon, Page No. 420

(7) ڈاکٹرسید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ، ناشر ڈاکٹرسید وضاحت حسین رضوی، ٹکیت رائے کالونی، لکھنو۔ 2001۔ صفحہ: ۲۶۰

(8)اردو ناولٹ کا مطالعہ، صفحہ، ۹۷

(9)ڈاکٹر دھریندر  ورما، ہندی ساہتیہ کوش۔ پہلا ایڈیشن، صفحہ، ۶۷۹

(10)ڈاکٹر سلیم اختر، افسانہ حقیقت سے علامت تک۔ اردورائٹرس گلڈ،  الہ آباد۔ بار اول ۱۹۸۰۔ صفحہ، ۱۲۰۔ ۱۱۹

(11)ڈاکٹر پرتاپ نرائن ٹنڈن، ہندی اپنیاس کلا۔ ہندی سمیتی، لکھنؤ۔ بار اول ۱۹۶۵۔ صفحہ۲۷

(12)ڈاکٹر پریم شنکر، آلوچنا، شمارہ ۱۳۔ اپنیاس انک۔ ص۱۶۶

(13)ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ، صفحہ۲۷۳

(14)ڈاکٹر گھنشیام مدھوپ، ہندی لگھو اپنیاس، صفحہ ۶۰

(15) علی عباس حسینی، ناول کی تاریخ اور تنقید۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس،  علی گڑھ۔ ۱۹۹۸۔ صفحہ ۶۶

(16) ڈاکٹر محمد احسن فاروقی و ڈاکٹر سید نورالحسن ہاشمی۔ ناول کیا ہے ؟۔ نسیم بک ڈپو، لکھنؤ۔ ۱۹۹۰۔ صفحہ۴۰

(17)ڈاکٹر عبادت بریلوی، ناولٹ کی تکنیک، ماہنامہ:نقوش، شمارہ ۱۹۔ ۲۰۔ صفحہ۲۰۷

(18) ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ، صفحہ۲۷۵

(19)وقار عظیم، فن افسانہ نگاری۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ ۱۹۹۷۔ صفحہ۴۲

(20) ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ، صفحہ۲۵۲

(21) ساقی، کراچی، پاکستان۔ جون ۱۹۶۵۔ ناولٹ نمبر، جلد ۶۵۔ صفحہ۶

(22) ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ، صفحہ۲۵۹

(23) ڈاکٹر سید مہدی احمد رضوی، اردو میں ناولٹ نگاری (فن اور ارتقا) کتابستان، مظفر پور۔ ۲۰۰۴۔ صفحہ۸۲

(24) ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ، صفحہ۱۹۰

(25) ایضاً، صفحہ۱۸۱

(26) Encyclopedia Britannica, Vol 1 6Page No.673

(27) ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ، صفحہ۱۸۲

(28)علی عباس حسینی، ناول کی تاریخ اور تنقید، صفحہ ۷۲

(29)Encyclopedia Britannica, Vol 1 6Page No.674

(30) Encyclopedia Americana,Vol 2 0Page No.525

 

 

 

اردو میں ناولٹ نگاری

 

                   اردو میں ناولٹ کا آغاز و ارتقا

 

1857کی پہلی جنگ آزادی ہندستانی تاریخ کا وہ باب ہے جس کے اثرات ہماری زندگی کے تمام گوشوں اور شعبوں پر پڑے۔ 1857کی 10 اور 11مئی کو سب سے پہلے میرٹھ میں آزادی کا جھنڈا بلند کیا گیا اور پورا ملک انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی اور انگریزوں نے اس پر قابو پانے کے بعد ہولناک انتقام لینا شروع کر دیا، خاص طور پر دہلی میں قیامت برپا کی گئی۔ دہلی کے چاندنی چوک میں پھانسیاں دی گئیں، حد تو یہ ہے کہ بچوں کو بھی پھانسی دی گئی۔ اس بربریت کے دور رس اثرات نمایاں ہوئے۔ اس جنگ کے بعد سیاسی و سماجی بیداری کی جو لہر چلی اس سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں سیاسی میدان میں بہت کچھ پیش رفت ہو چکی تھی اور آزادی کی تمنا اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکنے کا عزم پیدا ہو چکا تھا۔ انیسویں صدی میں جو سیاسی، قومی اور اصلاحی تحریکیں اٹھی تھیں وہ بیسویں صدی کے آغاز تک پہنچ کر بہت مستحکم ہو چکی تھیں۔ انگریزوں کو یہ بہت گراں گزرتا تھا اور انگریزوں کی استعماری حکومت نت نئے ہتھکنڈے استعمال کر کے ہندستانیوں میں اختلاف و انتشار کو ہوا دے رہی تھی اور طرح طرح کے قوانین نافذ کر کے ہندستان کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو پوری طرح پامال کر دینا چاہتی تھی۔ ان حالات نے ہر ہندستانی کو متٔاثر کیا اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں گھٹن کا احساس پیدا ہوا خاص طور سے ہندستانی دانشوروں اور اہل قلم نے ان ناگفتہ بہ حالات کی سنگینی کو محسوس کیا اور اس کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔

اس پر آشوب دور میں مسلمانوں کی رہبری و رہنمائی کی ذمہ داری سرسید احمد خاں نے اٹھائی اور ان کے رفقا نے ان کے اس مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا بھرپور تعاون دیا۔ ان کے رفقا میں مولوی نذیر احمد کا نام بہت نمایاں ہے۔ مولوی نذیر احمد نے اردو میں نئے ڈھنگ کے قصے لکھ کر جہاں معاشرے کی اصلاح کا کام انجام دیا وہیں سرسید کی اصلاحی تحریک کو بھی مضبوط بنیاد بخشی۔ نذیر احمد کے قصوں میں فوق فطری عناصر کے برعکس، انسانی معاشرے کی سچی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ڈاکٹر سید مہدی احمد رضوی کے بقول:

’’اردو کے قصوں نے پہلی مرتبہ فوق النظری عناصر سے نجات پائی۔ پہلی مرتبہ معاشرے میں زندگی گزارنے والے، حالات کے سردوگرم کا مقابلہ کرنے والے جیتے جاگتے انسان نذیر احمد کے قصوں کے ذریعہ سامنے آئے۔ ان قصوں میں خواب و خیال کی وادیوں کی جگہ پہلی مرتبہ محلوں کی گلیوں نے لی۔ توہمات پر تجربات نے فوقیت پائی اور مفروضات پر واقعات حاوی ہوئے۔ نذیر احمد کے قصوں کے ذریعہ انسانی سماج کے حالات کا انعکاس ہوا۔ داستانی رنگ و مزاج پر یہ پہلی کاری ضرب پڑی تھی۔ نذیر احمد کے ان قصوں میں رومانیت کے برعکس واقعیت کی فراوانی ہے۔ البتہ یہ واقعیت ناصحانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ان کی نصیحتیں خشک اور بے کیف تو ہیں لیکن ان کی اہمیت و افادیت سے ان کار ممکن نہیں کیونکہ یوں بھی اخلاقیات کے معاملوں کو ناول سے بالکل الگ تصور کرنا بے محل ہے۔ ‘‘ (1)

مولوی نذیر احمد کی تخلیقات میں ’مراۃالعروس، بنات النعش، توبۃ النصوح، فسانٔہ مبتلا، ابن الوقت، رویائے صادقہ، اور ’ایامیٰ‘ کو اہمیت حاصل ہوئی۔ سید وضاحت حسین رضوی نے ’ایامیٰ ‘ کو ہی پہلا ناولٹ قرار دیا ہے۔ انہوں نے ایک سوالنامے کے ذریعہ ناقدین سے یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ وہ اردو کا اولین ناولٹ کسے قرار دیتے ہیں۔ اس سوالنامہ کے جواب میں پروفیسر وہاب اشرفی نے ضیا عظیم آبادی کے ’افیونی ‘ کو اولین ناولٹ قرار دیا۔ ظ۔ انصاری نے عبدالحلیم شر ر کے ’بدرالنساء کی مصیبت ‘ کو پہلا ناولٹ مانا۔ سید مجاور حسین رضوی نے نیاز فتحپوری کے ’شہاب کی سرگزشت‘ کو اولین ناولٹ قرار دیا اور پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے شر ر کے ’فردوس بریں ‘کو پہلا ناولٹ گردانا۔ جبکہ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے اپنی کتاب’ اردو ناول کی تنقیدی تاریخ ‘ میں کشن پرشاد کول کے ’شاما ‘ کو اردو کا پہلا کامیاب ناولٹ مانا ہے۔ سید مہدی احمد رضوی نے نیاز فتحپوری کے ’ایک شاعر کا انجام ‘ کو پہلا ناولٹ کہا ہے اور صدیق محی الدین نے رتن ناتھ سرشار کے دو ناولٹ ’پی کہاں ‘ اور ’ہشو ‘ کو اردو ناولٹ کے نقوش اول قرار دیا ہے۔ لیکن ان میں سید وضاحت حسین رضوی کے علاوہ کسی نے بھی اولین ناولٹ قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں بیان کی ہے۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں :

’’اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ’ایامیٰ‘ کو ناول نہ کہہ ناولٹ کیوں تسلیم کیا جائے۔ مذکورہ مباحث کے پیش نظر دیکھا جائے تو ’ایامیٰ‘ میں وہ ساری خصوصیات موجود ہیں جو ناولٹ کے لئے ضروری ہیں البتہ غیر ضروری تفصیلات، بیجا پند و نصائح کے دفتر اور طول و طویل مکالمے ناولٹ کا بار برداشت نہیں کرتے لیکن اگر ’ایامیٰ‘ کے اسقام کو نظر انداز کرتے ہوے تکنیک کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ اسے اولیت دی جا سکتی ہے اور نذیر احمد کو ناولٹ کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (2)

’ایا میٰ‘ 1891میں شائع ہوا تھا۔ ایامیٰ کا موضوع بیوہ عورتوں کا عقد ثانی ہے۔ نذیر احمد سرسید احمد خاں کی اصلاحی تحریک سے وابستہ تھے اور اس دور کے مسلم معاشرے میں پرورش پا رہے تمام برائیوں سے واقف تھے۔ اس لئے انہوں نے ان مظلوم عورتوں پر قلم اٹھایا جو جوانی میں ہی بیوہ ہو جاتی ہیں۔ اس ناولٹ کی مرکزی کردار آزادی بیگم جوانی میں ہی بیوہ ہو گئی تھی اس نے بیوگی کا درد سہا تھا۔ اس لئے وہ خود کو بیواؤں کی خدمت کے لئے وقف کر دیتی ہے، لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کر تی ہے اور مرنے سے پہلے ان کی حالت زار پر ایک دردناک تقریر کر تی ہے۔ آزادی بیگم کہتی ہے :

’’اگر بیوہ عورتیں ایسا خیال کریں تو ان پر الزام کی بات کیا ہے۔ ان بیچاریوں کے شوہر فوت ہوئے ہیں نہ کہ وہ ضرورت فوت ہوئی ہے جس کی وجہ سے دنیا جہاں میں نکاح ہوتے ہیں اور جس کی وجہ سے خود ان کے نکاح ہوئے تھے۔ ‘‘ (3)

سید وضاحت حسین رضوی نے تفصیل سے ’ایامیٰ ‘ پر گفتگو کی ہے اور اس کو پہلا ناولٹ قرار دینے کی وجہ بتائی ہے۔ میں ان سے پوری طرح متفق ہوں اور مانتا ہوں کہ ’ایامیٰ ‘ ہی اردو کا اولین ناولٹ ہے۔ کسی بھی فن اور آرٹ کا نقش اول خامیوں سے خالی نہیں ہوتا۔ ’ ایامیٰ ‘ کو بھی جب ناولٹ کے اصولوں پر پرکھا جاتا ہے تو اس میں بہت ساری خامیاں نظر آتی ہیں لیکن ان کے باوجود اس میں ناولٹ کے اوصاف موجود ہیں۔ ناقدین نے اس کو نذیر احمد کا کمزور ناول قرار دیا ہے اور اس پر ان کی دوسری تخلیقات کے مقابلے میں کم توجہ دی گئی ہے۔ اگر اس کو ناولٹ کی کسوٹی پر پرکھا جاتا تو آج اس کی حیثیت مختلف ہو تی۔ ’ایامیٰ‘ میں موجود فنی خامیوں کے باوجود اس کو اردو کا اولین ناولٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔

مولوی نذیر احمد کے بعد اردو ناول میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کا نام آتا ہے۔ سرشار لکھنؤ کے ایک کشمیری برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے عربی، فارسی اور انگریزی تینوں زبانوں کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اردو اپنی خالص شکل میں ان کی مادری زبان تھی۔ سرشار نے لکھنؤ کے مشہور رسالے ’اودھ اخبار‘ کے مدیر کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ ان کی مشہور زمانہ کتاب ’فسانٔہ آزاد‘ اسی میں قسط وار شائع ہوئی تھی۔ سرشار کو شاعری سے بھی دلچسپی تھی اور لکھنؤ کے اچھے شعرا میں شمار کئے جاتے تھے مگر وہ اردو نثر کے بہت بڑے اہل قلم ہونے کے باعث ہی تاریخ میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں۔ سرشار کی طبع زاد تخلیقات میں فسانٔہ آزاد، جام سرشار، سیر کوہسار،  کامنی، بچھڑی دلہن، پی کہاں، ہشو، اور ’کڑم دھم‘ اہم ہیں۔

صدیق محی الدین نے ’پی کہاں ‘ کو ناولٹ قرار دیا ہے۔ لیکن سید وضاحت حسین رضوی نے ’ہشو‘ اور ’کڑم دھم‘ کو ناولٹ مانا ہے۔ در اصل ان تینوں میں ناولٹ کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس لئے میں ان تینوں کو ناولٹ تسلیم کرتا ہوں۔ ’ پی کہاں ‘ کی کہانی بڑی سیدھی سادی ہے۔ یہ عشق کی ایک مختصر داستان ہے جس میں عاشق و معشوق کی ایک دوسرے سے دوری ہی ان کی جان کی دشمن بن جاتی ہے۔ اس کا مرکزی کردار ’ شہزادہ راحت ‘ ایک امیر تعلقدار کا بیٹا ہے۔ جس کی دیکھ ریکھ کے لئے بہت ساری دوشیزائیں مقر ر ہیں۔ ایک رات شہزادہ پپیہے کی آواز ’پی کہاں ‘ سن کر جاگ اٹھتا ہے اور پھر وہی صدا دہرانے لگتا ہے۔ سارے ناولٹ میں کہانی کے ماحول اور فضا سے ’پی کہاں ‘کی صدا ہم آہنگ ہو جاتی ہے اور حزنیہ لے پیدا کر تی ہے۔ پریم پال اشک اس ناولٹ کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :

’’یہ سرشار کا ایک المیہ ناولٹ ہے۔ اس میں ایک ایسے شہزادے کی کہانی بیان کی گئی ہے جو دق کی بیماری میں مبتلا ہے اور اپنی آخری  گھڑیاں گن رہا ہے۔ وہ اپنے محبوب سے ملنا چاہتا ہے لیکن مل نہیں سکتا۔ آخر یہی حسرت دل میں لئے وہ موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ ‘‘(4)

’ہشو ‘ ایک مزاحیہ ناولٹ ہے۔ اس ناولٹ کے ذریعہ سرشار نے شراب نوشی کی لت اور اس کے برے نتائج کو بیان کیا ہے۔ ہشو کا کردار اپنے عصر کے رئیس زادوں کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ ہشو کے بارے میں سید وضاحت حسین رضوی نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے :

’’زبان و بیان کے لحاظ سے ’ہشو‘ ناولٹ کے فن پر پورا اترتا ہے۔ لکھنؤ کی با محاورہ زبان کو سرشار نے بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ کہانی کے درمیان اشعار کا بار بار استعمال کرنا ناولٹ کے لئے موزوں نہیں، ہر چند کہ فن و تکنیک کے لحاظ سے ’ہشو‘ میں موادفراہم نہیں ہوتے لیکن پھر بھی اسے ابتدائی دور کے ناولٹوں میں جگہ دی جا سکتی ہے۔ ‘‘ (5)

’کڑم دھم‘ بھی سرشار کا ایک مقبول ناولٹ ہے۔ یہ ایک نواب زادی کی کہانی ہے جس کے ذریعہ غیر شادی شدہ لڑکیوں کے جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ یہ لڑکیاں تعلیم یافتہ اور با شعور ہیں اور اپنی شادی اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتی ہیں۔ سرشار ایک فنکار اور زندگی کے بڑے ر مز شناس انسان تھے۔ مگر ان کا سحر یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات کو تخلیقات میں ابھر نے نہیں دیتے اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کس چیز کو پسند کرتے ہیں اور کس کو ناپسند کرتے ہیں۔

اس عہد کے دوسرے بڑے ناول نگار عبدالحلیم شر ر ہیں۔ وہ شاعرانہ نثر لکھتے تھے، یہ اسلوب اردو والوں کے لئے نیا تھا اس لئے وہ بہت جلد لوگوں میں مقبول ہو گئے۔ شر ر نے زیادہ تر تاریخی ناول لکھے، لیکن ان کی تخلیق ’بدرالنساکی مصیبت‘ کو ناولٹ کے ارتقا کی اگلی کڑی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس ناولٹ میں انہوں نے اپنے روش سے ہٹ کر مسلم سماج میں پردے کی پابندی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو بیان کیا ہے۔ شر ر نے اس ناولٹ میں ایک چھوٹے کینوس پر چند کرداروں کی مدد سے پردے کے مسئلے کو اس کے مخصوص پہلوؤں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس عہد کے اعتبار سے اس موضوع پر لکھنا ایک دلیرانہ قدم تھا جس کے لئے شر رکو طعن و تشنیع بھی سہنا پڑا۔

بیسویں صدی کی ابتدا میں رومانی تحریک زور پکڑ چکی تھی، اس تحریک کے تحت لکھنے والوں کا کوئی سماجی نقطۂ نظر نہیں تھا۔ وہ صرف دلچسپی پر نظر رکھتے تھے۔ ایسے لکھنے والوں میں سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتحپوری اور سلطان حیدر جوش کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ نیاز فتحپوری ابتدا میں اسی رنگ کے لکھنے والوں میں شامل تھے، گو کہ بعد میں ان کا نقطۂ نظر بدل گیا تھا مگر ان کی جن تخلیقات نے انہیں شہرت دوام بخشی وہ رومانی تحریک کے زیر اثر ہی لکھی گئی تھیں۔ ان میں ’ایک شاعر کا انجام، شہاب کی سرگزشت، نگارستان، اور’ جمالستان‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ’ایک شاعر کا انجام‘ اور ’شہاب کی سرگزشت‘ کو ناقدین نے ناولٹ مانا ہے۔ صدیق محی الدین، ڈاکٹر سید مہدی احمد رضوی، ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی اور ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے ان کو ناولٹ تسلیم کیا ہے۔ احسن فاروقی ان تخلیقات کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’یہ اتنی مختصر ہیں کہ ان کو زیادہ سے زیادہ ناولٹ ہی کہا جا سکتا ہے۔ ان کا مقصد سوشل ہے اور وہ خاص نئے اخلاقی نقطۂ نظر کو واضح کر تی ہیں۔ ‘‘ (6)

’ایک شاعر کا انجام‘ نیاز فتحپوری کا پہلا ناولٹ ہے جس کو انہوں نے 1913 میں لکھا تھا، لیکن اس کی اشاعت 1927میں دوسرے ناولٹ ’شہاب کی سرگزشت‘ کے بعد ہوئی۔ ’ایک شاعر کا انجام‘ کے ذریعہ زندگی اور سماج کے ایک مسئلہ بے جوڑ شادی اور محبت میں پیش آنے والی پریشانیوں کو اس کے مخصوص پہلوؤں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ’شہاب کی سرگزشت‘ پہلی بار ماہنامہ’ نگار ‘ میں قسط وار جولائی 1923سے جون 1924تک شائع ہوا۔ یہ ناولٹ بھی ’ ایک شاعر کا انجام ‘ کے طرز پر لکھا گیا ہے۔ اس میں محبت، ازدواج اور معاشرے کی تعمیر کے موضوع کو مختصر کینوس پر چند کرداروں کی مدد سے بیان کیا گیا ہے۔ ناقدین نے ’شہاب کی سرگزشت‘ کو ’ایک شاعر کا انجام ‘ پر فوقیت دی ہے۔ در اصل ’ایک شاعر کا انجام ‘ میں رومانیت و جذباتیت بھری پڑی ہے۔ ڈاکٹر یوسف سرمست نے ان دونوں ناولٹ کے بارے میں اپنا اظہار خیال اس طرح کیا ہے :

’’شہاب کی سرگزشت‘ میں شدید جذباتیت بھی نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیاز نے ’ایک شاعر کا انجام ‘ میں دل کی حکمرانی کو دکھانے کی کوشش کی ہے اور ’شہاب کی سرگزشت‘ میں دماغ کے تسلط کو ظاہر کیا ہے۔ ‘‘ (7)

ڈاکٹر احسن فاروقی، سید مہدی احمد رضوی اور سید وضاحت حسین رضوی نے کشن پرشاد کول کے ’ شاما ‘ کو ناولٹ کہا ہے۔ نیاز فتحپوری کے یہاں رومانی بغاوت کے جو رجحانات پائے جاتے ہیں، کشن پرشاد کول کے ’شاما‘ میں وہ واضح شکل و صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ’ شاما‘ میں ہندوسماج میں عورت کے طلاق کے حق سے محروم ہونے کے مسئلے کو اس کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک چودہ سال کی لڑکی ’شاما‘ کی کہانی ہے۔ انٹر پاس کر تے ہی اس کی شادی ایک لا ا بالی مرد سے کر دی جاتی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے لا پرواہ ہو کر رنگ رلیاں منانے میں مصروف رہتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد ’شاما‘ ایک بچی کو جنم دیتی ہے جس سے خفا ہو کر اس کی ساس اسے گھر سے نکال دیتی ہے۔ وہ اپنے میکے جاتی ہے جہاں اس کی تیمار داری اس کے بھائی کا ایک دوست ’پرکاش‘ کرتا ہے۔ شاما اور پرکاش میں محبت ہو جاتی ہے۔ لیکن شادی شدہ ہونے کی وجہ سے شاما مجبور ہے۔ اسی غم میں وہ بیمار ہو کر مر جاتی ہے۔ سیدوضاحت حسین رضوی ’شاما ‘ کے بارے میں اپنا اظہار خیال کرتے ہوے لکھتے ہیں :

’’کشن پرشاد کول نے ’شیاما‘ کو ناولٹ سمجھ کر نہیں لکھا بلکہ قصے کا پلاٹ اور کردار کے طویل کہانی سے زیادہ طویل اور تشریح طلب صنف اور ناول کے مقابلے میں انہیں کسی ایسی صنف کی تلاش تھی جہاں اختصار سے کام لیا جا سکے۔ غالباً انہوں نے غیر شعوری طور پر ’شیاما‘ کی تخلیق کی، یہ تو ان کی صلاحیت کا ثمرہ ہے کہ شیاما، ناولٹ کے فن کی کسوٹی پر کھرا اتر گیا جس کے نتیجہ میں کول کا شمار ناولٹ نگار کی فہرست میں داخل ہو گیا۔ ‘‘(8)

پریم چند اردو ناول کی ارتقامیں سب سے اہم نام ہے۔ وہ ہر لحاظ سے گزشتہ ناول نگاروں میں منفرد اور خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کی دو تخلیقات ’روٹھی رانی ‘ اور ’بیوہ‘ کو ناقدین نے ناولٹ قرار دیا ہے۔ پریم چند نے ’روٹھی رانی‘ میں اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے راجپوت سورماؤں کے کارناموں کو بیان کیا ہے۔ در اصل پریم چند کے ناولوں میں جہاں مختلف اور متضاد رجحانات سمٹ آئے ہیں وہیں ان کے یہاں روایات کا تحفظ بھی ملتا ہے۔ یہ ناولٹ اسی کی زندہ مثال ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان نسل اپنے بزرگوں کی شجاعت سے درس لیں۔ ’روٹھی رانی‘ کی سن اشاعت کے حوالے سے ڈاکٹر جعفر رضا لکھتے ہیں :

’’یہ ناولٹ پہلی بار ’زمانہ‘ اپریل تا اگست ۱۹۰۷ء قسط وار شائع ہوا۔ اردو ہندی دونوں میں آسانی سے ملتا ہے۔ اردو میں پہلی بار امرت لاجپت رائے اینڈ سنس لاہور سے شائع ہوا۔ ہندی میں پہلی بارا مرت رائے نے ہنس پرکاشن الہ آباد سے ۱۹۶۲ء میں شائع کیا۔ ‘‘ (9)

’روٹھی رانی ‘ ایک تاریخی ناولٹ ہے۔ گو کہ کشن پرشاد کول نے اس کا شمار افسانوں میں کیا ہے لیکن سید وضاحت حسین رضوی اسے ناولٹ قرار دیتے ہیں۔ وہ اس ناولٹ کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’در اصل یہ پریم چند کا روایتی انداز میں لکھا تاریخی ناولٹ ہے۔ انہوں نے اس ناولٹ کو لکھنے سے قبل راجستھان کے راجاؤں کی تاریخ اور ان کے اردگرد کے ماحول کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد اسے سپرد قلم کیا۔ تاریخی ناولٹ کی حیثیت سے ’روٹھی رانی ‘ کا اپنا ایک خاص مقام ہے۔ ‘‘ (10)

’بیوہ‘ کا شمار ناول کے ناقدین نے ان کے مشہور ناولوں میں کیا ہے۔ لیکن سید وضاحت حسین رضوی اسے ناولٹ تسلیم کر تے ہیں۔ در اصل ناولٹ کو اردو میں ایک صنف کا درجہ بہت بعد میں حاصل ہوا۔ اس لئے بہت ساری وہ تخلیقات جو ناولٹ کے فن پر پوری اترتی ہیں ان کو بھی یا تو ناول میں شامل کر لیا گیا یا پھر افسانوں میں۔ لیکن اب جب کہ ناولٹ کو ایک صنف کا درجہ حاصل ہو چکا ہے تو ضروری ہے کہ ان کو ناولٹ کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور اسی حوالے سے ان کا جائزہ لیا جائے۔ پریم چند کا ’بیوہ ‘ ابتدائی دور کے ناولٹ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اس ناولٹ میں پریم چند نے اس عہد کے ایک مخصوص مسئلے ’بیو گی‘ کو اس کے مخصوص پہلوؤں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بیوہ، کے بارے میں ڈاکٹر یوسف سر مست لکھتے ہیں :

’’بیوہ ‘ اصل میں ہندی میں ’پرتگیا‘ کے نام سے ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا۔ یہ ناول پریم چند کے ابتدائی ناول ’ہم خرما و ہم ثواب‘ پر استوار کیا گیا ہے۔ اگرچہ کہ پلاٹ اور کردار تقریباً وہی ہیں لیکن اس میں پریم چند نے جو بعض تبدیلیاں کی ہیں وہ ان کے فنی ارتقا اور پختگی کو ظاہر کر تی ہیں۔ ‘‘(11)

مولانا الطاف حسیں حالی کے وقت سے ہی ادب کو سماج کے پس منظر میں دیکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا مگر ترقی پسند تحریک کی شروعات کے بعد ہندستان کی پوری زندگی میں ترقی پسندی کے نقوش دکھائی دینے لگے اور ادب نئی راہ پر بڑھنے لگا۔ ادب کو زندگی سے قریب لانے اور اسے زندگی کا ترجمان بنانے میں علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک نے نمایاں کردار ادا کیا اور ناولٹ کو بھی بطور صنف ادب ارتقائی منازل تک پہچانے میں ترقی پسندوں نے نمایاں حصہ لیا۔ ترقی پسند تحریک کے روح رواں سجاد ظہیر نے ’لندن کی ایک رات‘ ناولٹ تحریر کیا۔ اس ناولٹ کو سجاد ظہیر نے 1936میں لکھا تھا لیکن اس کی اشاعت 1938 میں عمل میں آئی۔ اس ناولٹ میں شعور کی رو کی تکنیک سے کام لے کر لندن میں مقیم ہندستانی نوجوانوں کے ذہن، ان کے سوچنے کے انداز اور ان کے مختلف رجحانات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس ناولٹ میں، فن ناولٹ کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔

کرشن چندر کا شمار ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والے قلم کاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی تخلیقات کی تعداد80 کے قریب ہے۔ ان میں ناول، ناولٹ، افسانے، ڈرامے سبھی کچھ ہیں۔ ان کی زبان بڑی رنگیں، جذباتی اور شاندار ہوتی ہے۔ سیدوضاحت حسین رضوی نے ان کی تخلیق ’طوفان کی کلیاں ‘کو ناولٹ قرار دیا ہے، صدیق محی الدین نے ’جب کھیت جاگے ‘ کوناولٹ مانا ہے جبکہ ڈاکٹر صباعارف اور سید مہدی احمد رضوی نے ’پیار ایک خوشبو‘ کا شمار ناولٹ میں کیا ہے۔ در اصل کرشن چندرکی ان تینوں تخلیقات میں ناولٹ کے اوصاف موجود ہیں اس لئے میں ان تینوں کو ناولٹ تسلیم کرتا ہوں۔ ’طوفان کی کلیاں ‘ میں کرشن چندر نے مختصر کینوس پر کشمیر کے جاگیر دارانہ نظام کے ظلم واستحصال کی چکیوں میں پستے مزدوروں کی محرومیوں اور ان کے اندر ابھرتے باغیانہ شعور کی پیش کش بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے۔ ’جب کھیت جاگے ‘ میں کرشن چندر نے مزدوروں اور کسانوں پر زمینداروں اور ساہوکاروں کے استحصال کو دکھایا ہے۔ یہ ناولٹ آندھراپردیش کے تلنگانہ کی کسان تحریک کے مضمرات کا تخلیقی اظہار ہے۔ در اصل کرشن چندر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اس لئے ان کی تحریروں میں ہر جگہ ترقی پسند تحریک کے مقاصد کی جھلک نظر آتی ہے۔ ’پیار ایک خوشبو‘ عشق و محبت کی ایک درد بھری کہانی ہے۔ کرشن چندر نے خود لکھا ہے کہ یہ در اصل توہمات میں گھری ہوئی دو معصوم روحوں کے جذبہ صادق کی کہانی ہے۔ اس میں کشمیر کی وادیوں میں رہنے والے ایک توہم پرست قبیلے کے رسم و رواج کو پیش کیا گیا ہے۔ دو محبت کرنے والے وصال کے لئے تڑپتے رہتے ہیں مگر انہیں ملنے نہیں دیا جاتا بالآخر موت ان کے درد کا مداوا بنتی ہے۔ اس ناولٹ کا تعلق حقیقی زندگی سے کم اور توہمات سے زیادہ ہے۔ اس بارے میں سید مہدی احمد رضوی لکھتے ہیں :

’’کرشن چندر کایہ ناولٹ موضوع اور مقصد کے اعتبار سے کوئی امتیازی اہمیت نہیں رکھتا۔ ہماری موجودہ زندگی کے معاملات ومسائل سے ’پیار ایک خوشبو‘ کے پلاٹ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کشمیر کی جو علاقائی قبائلی زندگی ناولٹ میں پیش کی گئی ہے اس سے عام ہندستانیوں کی دیہاتی یا شہری زندگی کا واسطہ نہیں ہے۔ ‘‘ (12)

ان کے علاوہ ’دس روپیہ کا نوٹ، گلشن گلشن ڈھونڈا تجھ کو، غدار، میری یادوں کے چنار، زرگاؤں کی رانی، اور ’دادر پل کے بچے ‘ کو بھی سید وضاحت حسین رضوی نے ناولٹ قرار دیا ہے۔

ناولٹ نگاری کی تاریخ میں کرشن چندر کے بعد عصمت چغتائی کا نام آتا ہے۔ عصمت متوسط طبقے کے مسلم گھرانوں کی زندگی کی اتنی واقفیت رکھتی ہیں کہ ان کی تخلیقات کو پڑھ کر اس طبقے کے خاندانوں کی اخلاقی، معاشی اور معاشرتی زندگی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ ان کی تخلیقات میں ’ضدی‘ اور ’دل کی دنیا ‘ کا شمار ناولٹ میں ہوتا ہے۔ ’ضدی‘ عصمت چغتائی نے 1941میں لکھا۔ یہ ایک رومانی کہانی ہے جس میں ایک امیرزادہ کو ایک غریب لڑکی ’آشا ‘ سے پیار ہو جاتا ہے۔ لیکن لڑکے کی شادی کسی اور لڑکی سے کر دی جاتی ہے۔ لڑکا اپنی بیوی سے بے تعلق رہ کر آشا کے غم میں گھلتا رہتا ہے۔ انجام کار موت سے ذرا پہلے آشا بلائی جاتی ہے مگر وہ موت سے جنگ ہار جاتا ہے اور آشا اس کے ساتھ جل مرتی ہے۔ ’ دل کی دنیا‘ عصمت کا ایک اہم ناولٹ ہے۔ اس میں بھی عصمت نے مسلم گھرانے کے رسم و رواج میں جکڑی ہوئی عورت کے ہی ایک مسئلہ کو بیان کیا ہے۔ یہ ایک ’ شادی شدہ بیوہ‘ کی داستان غم ہے جو شوہر کے زندہ رہنے کے باوجود کنواری رہ کر فرسودہ رسم و رواج اور بے جا مذہبی پابندیوں میں گرفتار سارے مصائب جھیلتی رہتی ہے۔ اس ناولٹ کے بارے میں سید وضاحت حسین رضوی لکھتے ہیں :

’’پلاٹ سادہ اور منظم ہے۔ کردار نگاری کے لحاظ سے مصنفہ نے مرکزی کردار کی ذہنی کیفیات و دلی جذبات کے ساتھ ساتھ اس میں پیدا ہوئے ترقی پسندانہ اقدام کی تصویر کشی بڑے دلآویز پیرائے میں کی ہے۔ ایک چھوٹے سے کینوس پر مصنفہ نے اپنی فنی صلاحیت کو بڑی پیچیدگی کے ساتھ نمایاں کیا ہے۔ در اصل یہ ناولٹ ترقی پسندانہ نظریے کی توضیح کے ساتھ ہی ساتھ نئی قدروں کا خیر مقدم کرتا  ہے۔ اردو ناولٹ کے ارتقا میں ’دل کی دنیا‘ کی اہمیت و افادیت سے ان کار نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ (13)

عصمت کے ان دو ناولٹ کے علاوہ ’سودائی، سوری ممی، باندی، عجیب آدمی، اور ’جنگلی کبوتر‘ کو بھی سید وضاحت حسین رضوی نے ناولٹ قرار دیا ہے۔ عصمت کے بعد ناولٹ کی تاریخ میں اس فنکار کا نام آتا ہے جس نے ناولٹ کے فن کو فنی و فکری اعتبار سے بلندیوں تک پہنچا دیا۔ وہ فنکار راجندرسنگھ بیدی ہیں۔ ان کی تخلیق ’ایک چادر میلی سی‘ کا شمار اکثر ناقدین نے ناولٹ میں کیا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصل موضوع گھریلو زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتیں ہیں۔ رمزیت اور تہ داری ان کے فن کی اہم خصوصیت ہے۔ انسانی نفسیات سے ان کی گہری واقفیت اپنے کرداروں کے ذہن میں اتر جانے میں ان کی معاون ہوتی ہے۔ ’ ایک چادر میلی سی‘ 1962 میں شائع ہوا۔ راجندر سنگھ بیدی کا یہ ناولٹ اردو ادب کا شاہکار ہے۔ بیدی نے اس ناولٹ میں پنجاب کے ایک گاؤں ’کو ٹلیہ‘ کے چھوٹے کینوس پر پنجاب کے عوام کی زندگی کے بعض پہلوؤں کو بڑی فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس میں زندگی اور سماج کا ایک اہم مسئلہ عورت کی مظلومیت کے علاوہ عورت کی دوسری شادی، معاشرتی بے راہ روی اور غربت و جہالت وغیرہ مسائل کو بھی چند کرداروں کی مدد سے بڑی سلیقے کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے۔ اس ناولٹ کا اسلوب شگفتہ اور بے مثل و لاجواب ہے۔ تحریر میں ہلکی ظرافت کا عنصر بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر قمر رئیس اس ناولٹ کے بارے میں اپنا اظہار خیال کر تے ہوئے لکھتے ہیں :

’’بیدی کے اسلوب فن میں جو گہری رمزیت، نفسیاتی عمق، ماحول، رسم و رواج اور تہذیبی فضا کا احساس اور کہانی کی دھیمی دھیمی رو کے نیچے اشخاص کی شدید جذباتی اور ذہنی کشمکش کا جو شعور کار فرما ہے وہ اس تخلیق میں منتہائے کمال پر نظر آتا ہے۔ ‘‘ (14)

سعادت حسن منٹو کی تخلیق ’بغیر عنوان کے ‘ بھی ایک ناولٹ ہے۔ منٹو بہت بڑے افسانہ نگار تھے۔ وہ اپنے بارے میں کہا کرتے تھے، ’میں افسانہ نہیں لکھتا، افسانہ مجھے لکھتا ہے۔ ‘ منٹو نے ’ بغیر عنوان کے ‘ 1947 میں لکھا تھا۔ اس ناولٹ میں ایک نوجوان کی ذہنی کشمکش پیش کی گئی ہے۔ اس کے مرکزی کردار سعید کی نفسیاتی زندگی کو پیش کرنے کے لئے جدید علم نفسیات کا سہارا لیا گیا ہے اور اسی کے پیش نظر اس کردار کی نفسیاتی تحلیل کی گئی ہے۔

اوپندر ناتھ اشک پریم چنداسکول کے ایک اہم افسانہ نگار ہیں۔ اوپندر ناتھ اشک متوسط طبقے کے افراد کی معاشرتی زندگی اور جنسی الجھنوں کو بڑی خوبصورتی اور فنکاری سے اپنے افسانوں میں پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے ناول، ناولٹ، افسانے اور ڈرامے سبھی کچھ لکھے۔ ان کے دو ناولٹ ’بڑی بڑی آنکھیں ‘ اور ’ برف کا درد‘ ہیں۔ ’بڑی بڑی آنکھیں ‘ پنجاب کے پس منظر میں لکھا گیا ناولٹ ہے۔ اس میں ایک متوسط طبقہ کے نوجوان کی محبت میں ناکامی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ ’ برف کا درد‘ پہلے ہندی میں ’پتھر الپتھر‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ ’پتھر الپتھر‘ کشمیر میں گلمرگ کے اوپر کھلن مرگ اور اس کے پرے الپتھر کی منجمد جھیل پر مبنی ہے۔ اس میں غریبی کے مسئلے کو بھی باریک بینی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اشفاق احمد ایک اچھے افسانہ نگار ہیں۔ جہاں کہیں بھی اشفاق احمد کا نام آتا ہے ان کے افسانہ ’ گڈریا‘ کا ذکر ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس افسانے کا کردار ’داؤ جی‘ ایک ایسا کردار ہے جس کی حیثیت اردو افسانے میں لافانی ہو گئی ہے۔ اشفاق احمد نے ایک ناولٹ ’ زہریلا حسن‘ لکھا ہے۔ یہ ایک رومانی ناولٹ ہے جس میں انسان کی ذہنی و نفسیاتی جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔

خواجہ احمد عباس نے بھی کئی اچھے ناولٹ تحریر کئے ہیں۔ یوں تو وہ بحیثیت صحافی و افسانہ نگار ادب کی دنیا میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔ لیکن ناولٹ نگار کی حیثیت سے بھی ان کا نام اہم ہے۔ ان کی تخلیقات زندگی کے معمولی واقعات سے جنم لیتی ہیں۔ کبھی ان میں سماجی شعور کا احساس ہوتا ہے اور کبھی سیدھی سادی عشقیہ کہانی کا۔ ’ دو بوند پانی‘ اور ’ تین پہئے، ایک پرانا ٹب اور دنیا بھر کا کچڑا‘ کا شمار اہم ناولٹ میں ہوتا ہے۔ ’ دو بوند پانی‘ میں خواجہ احمد عباس نے راجستھان کی زندگی میں پانی کی قلت کے اہم مسئلے کو اس کے مخصوص پہلوؤں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ’تین پہئے، ایک پرانا ٹب اور دنیا بھر کا کچڑا‘ میں بمبئی کی معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں سیٹھوں، ساہوکاروں، فلم ڈائرکٹروں اور محنت، مزدوری کرنے والوں کی حقیقی زندگی کی تصویر نظر آتی ہے۔ اس ناولٹ کے بارے میں سید مہدی احمد رضوی لکھتے ہیں :

’’خواجہ احمد عباس کا یہ ناولٹ مجموعی طور پر بمبئی کے معاشرے کی تکمیل کی آئینہ داری کرتا  ہے۔ انہوں نے یہاں کی زندگی کے تمام پہلوؤں، رخوں اور رنگوں کا مطالعہ، مشاہدہ سچائی اور خلوص کے ساتھ کیا ہے۔ ان کے مشاہدے کی وسعت نے اور تجربوں کی رنگا رنگی نے ناولٹ میں بھی مصنوعی کشادگی پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے بمبئی کے جس جس طبقے کے افراد کو پلاٹ کے کردار کی حیثیت سے پیش کرنے کے لئے منتخب کیا ہے، ان کے مخصوص معاشرے اور تقاضوں کو پوری طرح سامنے رکھا ہے۔ ‘‘ (15)

ان دونوں تخلیقات کے علاوہ خواجہ احمد عباس کے ’ اندھیرا اجالا، سیاہ سورج سفید سائے، زندگی‘ اور ’ سلمہ وسمندر ‘ کو بھی سید وضاحت حسین رضوی نے ناولٹ قرار دیا ہے۔

سہیل عظیم آبادی بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ ان کا شمار ان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جو ہندستان، پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی زندگی، طبقاتی کشمکش، انسان کے داخلی جذبات اور ملک کی زبوں حالی سے واقف ہیں۔ یہ اپنے افسانوں میں ان لوگوں کی زندگی کی بہترین تصویر کشی کر تے ہیں۔ اپنے ناولٹ ’ بے جڑ کے پودے ‘ میں بھی انہوں نے بہار کے چھوٹا ناگپور خطے کی عوامی زندگی کے ایک خاص پہلو کو پیش کیا ہے۔ اس میں انہوں نے رفیوجی بچوں کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے اور دکھایا ہے کہ کیسے یہ بچے پے در پے الجھنوں کا شکار ہو کر مایوسیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ سید وضاحت حسین رضوی، صبا عارف، سید مہدی احمد رضوی اور صدیق محی الدین نے اس کو ناولٹ قرار دیا ہے۔ گو کہ اس کی ضخامت کم ہے اور اس اعتبار سے اسے طویل مختصر افسانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کو ناولٹ قرار دینا بالکل بجا ہے۔ ڈاکٹر صبا عارف اس کے بارے میں لکھتی ہیں :

’’بے جڑ کے پودے ‘ سہیل عظیم آبادی کا ایک بہترین ناولٹ ہے جسے ماہنامہ ’ شاعر‘ نے ناولٹ نمبر میں شائع کیا ہے۔ میگزین سائز کے ۱۷؍ صفحات پر مشتمل اس ناولٹ کی خوبی پلاٹ کی دروبست، زبان و بیان کی سلاست اور ڈرامائی اختتام میں ہے۔ کہانی گو کہ مختصر ہے مگر اپنے فطری انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ کہانی کی فضا بڑی رومانی ہے۔ واقعہ نگاری اور مشن کمپاؤنڈ کے اندر کی سادہ مگر دلکش زندگی کا بیان، عورت اور مرد کے فطری جذبوں اور آرزوؤں سے مہکتا ہے۔ اسلوب میں متانت اور سنجیدگی ہے۔ لیکن کہانی کی فضا اتنی ہموار ہے کہ سب کچھ جانا پہچانا لگتا ہے۔ ‘‘ (16)

عزیز احمد ایک شاعر، ناقد اور تخلیق کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ڈرامے، ناول، ناولٹ اور افسانے بھی لکھے۔ ان کی تخلیقات میں ’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘ اور ’ تیری دلبری کا بھرم‘ کو ناقدین نے ناولٹ قرار دیا ہے۔ ’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘ ایک تاریخی ناولٹ ہے جس میں حکومت و اقتدار اور جاہ و حشمت کے مسئلے کو بیان کیا گیا ہے۔ سلطنت مغلیہ کے پہلے تاجدار تیمور لنگ نے حکومت و اقتدار کو حاصل کرنے میں جن مشقتوں کا سامنا کیا یہ اسی کی رومان انگیز اور عبرت ناک کہانی ہے۔ ’تیری دلبری کا بھرم‘ ایک رومانی ناولٹ ہے۔ اس ناولٹ کے بارے میں سید وضاحت حسین رضوی لکھتے ہیں :

’’تیری دلبری کا بھرم‘(۱۹۶۱) عزیز احمد کا مقبول ناولٹ ہے۔ یہ ناولٹ بی بی سی لندن سے نشر ہونے کے بعد نیا دور کراچی (۲۶؍۲۵شمارہ)میں بھی شائع ہوا۔ مصنف نے زندگی کے ایک اہم مسئلہ یعنی محبت کے مسئلہ کو نمایاں کیا ہے۔ خواہ وہ ملکی ونسلی ہو یا جسمانی و روحانی ایک مختصر کینوس پر ڈاکٹر جمشید خاں اور ڈاکٹر کرسٹل خاں کے ماضی اور پھر مطب پر متواتر آنے والے مریضوں کے مخصوص مرض اور ان کے مخصوص رجحان کے محور پر پوری کہانی گردش کرتی ہے۔ ان مریضوں کی الگ الگ کیفیت و مزاج ہیں۔ کوئی عشق و محبت کی راہ میں ناکام ہوا ہے یا پھر کوئی نسلی تعصب اور وطن پرستی کی محبت میں اپنے کو مریض تصور کرنے لگے ہیں۔ ‘‘ (17)

مہندر ناتھ ایک اچھے افسانہ نگار ہیں، یہ اردو کے مشہور فنکار کرشن چندر کے بھائی ہیں۔ ان کے افسانوں میں ایک خاص انداز نظر آتا ہے جس میں زندگی کی دھوپ چھاؤں فنی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ان کی تخلیق ’لیڈر‘ ایک اوسط درجے کا ناولٹ ہے۔ ’لیڈر‘ میں عصری معاشرے کے لیڈروں کی مکاری اور نمائش کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اس ناولٹ میں دوسرے بہت سارے معاشرتی مسائل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً سماج کے فرسودہ رسم و رواج، نسلی امتیاز، صوبائی ٹکراؤ، زبان کے جھگڑے اور جنسی بے راہ روی وغیرہ۔ سید وضاحت حسین رضوی نے ’سلطان شہید‘ کو بھی ناولٹ قرار دیا ہے۔

بلونت سنگھ مشہور افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر عصری مسائل کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ان کی تخلیقات میں ’پہلا پتھر‘ اور ’ایک معمولی لڑکی‘ اچھے ناولٹ ہیں۔ ’پہلا پتھر‘ میں تقسیم ملک کے پر آشوب دور کے مسائل کو محور بنا یا گیا ہے اور اس پر آشوب دور میں عورتوں پر جو مظالم ہوئے ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔ ’ ایک معمولی لڑکی‘ بھی آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد ہونے والے فسادات پر مبنی ناولٹ ہے۔ اس میں سماجی عدم مساوات، محبت اور بے روزگاری جیسے مسائل بھی نمایاں کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ سید وضاحت حسین رضوی نے ’عہد نو میں ملازمت کے تیس دن ‘اور ’رات چور اور چاند‘ کو بھی ناولٹ قرار دیا ہے۔

جوگندر پال اردو کے ایک معتبر فکشن نگار ہیں۔ جوگندر پال کے یہاں پاکستان اور ہندستان کی مٹی سے بے حد لگاؤ صاف نظر آتا ہے۔ ان کے ناولٹ ’بیانات‘ آمدورفت‘ خواب رو‘ اور ’پار پرے ‘ ہیں۔ ان کے ناولٹ پر تفصیلی گفتگو تیسرے باب میں کی جائے گی۔

حیات اللہ انصاری بحیثیت افسانہ و ناول نگار معروف ہیں۔ ان کا شمار ترقی پسندوں میں ہوتا ہے۔ یہ گاندھیائی فلسفے سے بہت متاثر تھے۔ حیات اللہ انصاری کا ناول ’لہو کے پھول‘ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ ان کا ناولٹ ’مدار‘ اردو کا ایک اہم ناولٹ ہے۔ حیات اللہ انصاری نے اپنے اس ناولٹ میں زبان کے مسئلے کو اس کے تمام گوشوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس ناولٹ کے بارے میں سید وضاحت حسین رضوی لکھتے ہیں :

’’ایک چھوٹے سے کینوس پر حیات اللہ انصاری نے اپنے عصری معاشرے کے زبان جیسے اہم و ناگزیر مسئلہ اور اس کے مختلف النوع گوشوں کو اپنے مشاہدے اور فنی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جس میں ایک تنظیم پائی جاتی ہے۔ مصنف نے بڑے مؤثر اور دل پذیر پیرائے میں زبان کے اس مسئلہ کو نقطۂ عروج پر پہنچایا ہے۔ غالباً یہ اردو کا واحد ناولٹ ہے جو مسئلہ کی نوعیت سے منفرد اور اچھوتا ہے۔ ‘‘ (18)

رام لعل ایک زود نویس فنکار تھے، ان کی تخلیقات میں ناول، ناولٹ، ریڈیائی ڈرامے، اسٹیج ڈرامے، مضامین اور خاکے سبھی کچھ ہیں۔ رام لعل نے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا تھا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ رام لعل ترقی پسند تھے، لیکن معاشرے کی زبوں حالی انہیں ستاتی رہتی تھی، اس لئے انہوں نے زیادہ تر موضوعات ایسے ماحول سے اخذ کئے ہیں جو پسماندہ افراد سے متعلق ہیں۔ ان کے دو ناولٹ ’حریف آتش پنہاں ‘ اور ’مٹھی بھر دھوپ‘ عصری مسائل کو فنی پیرائے میں پیش کرتے ہیں۔ ’حریف آتش پنہاں ‘ میں زندگی کی نشیب و فراز کو بیان کیا گیا ہے۔ سید مہدی احمد رضوی اس ناولٹ کے بارے میں رقمطراز ہیں :

’’حریف آتش پنہاں ‘ میں رام لعل نے عصری زندگی کے بعض پہلوؤں کی دلکش ترجمانی کی ہے۔ ان کے اسلوب تحریر کی حقیقت پسندانہ روش نے عصری زندگی کی سچائیوں کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ سماجی نشیب و فراز کی بعض سطحیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ موجودہ ماحول میں ایسی ناہمواریوں اور گھریلو زندگی کی ایسی الجھنیں جن سے ہمیں اکثر و بیشتر واسطہ پڑتا رہتا ہے اس ناولٹ کا موضوع ہیں۔ ‘‘ (19)

’ مٹھی بھر دھوپ ‘ میں پیارو محبت کے مسئلہ کو ترقی یافتہ اور با شعور ماحول کے پس منظر میں بیان کیا گیا ہے۔ متوسط اور غریب طبقہ میں غیر شادی شدہ لڑکیاں بوجھ بن جاتی ہیں۔ اعلی طبقے کے افراد ایسی لڑکیوں کو شادی کی لالچ دے کر ان کا سب کچھ ان سے چھین لیتے ہیں۔ ان حالات سے مجبور لڑکیاں خود اپنے ہاتھوں اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتی ہیں۔

قاضی عبدالستار افسانہ و ناول نگار ہیں۔ قاضی صاحب ایک عرصہ تک ترقی پسندتحریک سے جڑے رہے مگر ان کی ترقی پسندی کچھ مختلف قسم کی ہے۔ انہوں نے جاگیر دارانہ نظام اور جاگیر داروں کے احوال کو جس طرح سے اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے وہ دوسرے ترقی پسندتخلیق کاروں سے مختلف ہے۔ بدلتے ہوے حالات میں زمینداروں کی کیا پوزیشن رہ گئی ہے اس پر قاضی صاحب کی بڑی گہری نظر ہے۔ ان کے اکثر ناولٹ کا پس منظر بھی زمیندارانہ زوال آمادہ تہذیب سے پیدا شدہ مسائل ہی ہیں۔ صدیق محی الدین اور سید وضاحت حسین رضوی نے ’ مجو بھیا، بادل، اور ’غبار شب‘ کو ناولٹ قرار دیا ہے۔ ’ مجو بھیا‘ میں قاضی عبدالستار نے یوپی کے ایک چھوٹے سے زمیندار ’مجو بھیا‘ کی کہانی بیان کی ہے اور اسی ضمن میں ان کے خاص عزیزوں اور ان سے متعلق ملازموں و کارندوں کے حالات بھی بیان کئے ہیں۔ ’ بادل‘ ایک Symbolicناولٹ ہے۔ بادل جو ایک ہاتھی کا نام ہے وہ استعارہ ہے زوال آمادہ تہذیب کا، وہ جس گھر میں بھی جاتا ہے وہ گھر اجڑ جاتا ہے۔ ’ غبار شب‘ تہذیب و ثقافت کے پس منظر میں لکھا گیا ناولٹ ہے۔ اس میں قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ’دارا شکوہ‘ کو بھی سید وضاحت حسین رضوی نے ناولٹ قرار دیا ہے۔

صالحہ عابد حسین اچھی فنکارہ ہیں۔ ان کے ناول، ناولٹ اور افسانوں میں انسان کی تہذیبی قدروں کی شناخت، عورتوں کے مسائل اور سماجی اصلاح کا جذبہ کار فر ما نظر آتا ہے۔ ان کا ناولٹ ’الجھی ڈور‘ ہے۔ مصنفہ نے اس ناولٹ کے دیباچہ میں خود لکھا ہے کہ یہ ان کا پہلا مختصر ناول ہے جسے آج کل ناولٹ کہا جاتا ہے۔ اس ناولٹ میں انہوں نے اپنے عہد کے لڑکے، لڑکیوں کی ذہنی کیفیات کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے معاشرتی پس منظر میں مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور جو ان کا نقطۂ نظر رہا ہے اسی بنیاد پر کر دار تخلیق کئے ہیں۔

آ منہ ابوالحسن اردو کی مشہور افسانہ نگار ہیں۔ یہ حیدرآباد میں پیدا ہوئیں اور وہیں انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ آمنہ ابوالحسن کا فن، زندگی کے چھوٹے چھوٹے مشاہدوں اور تجربوں سے عبارت ہے۔ حیدرآباد کی زندگی اور وہاں کا ماحول ان کے افسانوں کی بنیاد ہیں۔ ’ تم کون ہو‘ اور ’آخری آدمی‘ ان کے دو ناولٹ ہیں۔ ’ تم کون ہو‘ میں آمنہ ابوالحسن نے ازدواجی زندگی کے موضوع کو اس کے تمام گوشوں کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ اس میں مردوں کی جنس زدہ ذہنیت کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ جنسی معاملات کے بیان میں وہ ایک حد سے آگے نہیں نکلتیں۔ ’آخری آدمی‘ ان بھٹکے ہوئے نوجوانوں کی کہانی ہے جو اپنی جنس زدگی کی وجہ سے خود کو اس ڈگر پر ڈال دیتے ہیں جہاں سے ان کی واپسی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔

جیلانی بانو ایک کامیاب فنکارہ ہیں۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات شاعری سے کی تھی لیکن پھر افسانہ نگاری ان کا مرکزی فن بن گیا۔ جیلانی بانو ترقی پسند تحریک سے متاثر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں غریب، مجبور اور پسماندہ لوگوں سے ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اردو ناولٹ کے ارتقا میں بھی ان کا بڑا تعاون ہے۔ ’ نغمے کا سفر‘ اور ’ کیمیائے دل‘ ان کے ناولٹ ہیں۔ ’نغمے کا سفر‘ میں جیلانی بانو نے عورتوں کی آزادی کے مسئلے کو اس کے تمام گوشوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ سید وضاحت حسین رضوی نے اس ناولٹ کو اردو کا اہم ناولٹ قرار دیا ہے۔ ’کیمیائے دل‘ میں حیدرآباد کے انحطاط پذیر جاگیردارانہ تمدن کے ماحول میں پرورش یافتہ چند کرداروں کی جذباتی المناکیوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس ناولٹ کے بارے میں صبا عارف لکھتی ہیں :

’’جیلانی بانو اردو ادب کی ایک کامیاب ناولٹ نگار ہیں اور اپنے اسلوب بیان کی انفرادیت کے سبب اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔ اس ناولٹ ’ کیمیائے دل‘ میں انہوں نے اپنے عہد اور سماجی حالت کی ترجمانی بڑی فنکاری سے کی ہے۔ سماج کی بدلتی ہوئی تہذیبی قدروں کے انبار اور ذہنی کشمکش کے بوجھ تلے آج کا انسان دب کر رہ گیا ہے۔ مغربی تہذیب کی رنگینیوں میں نوجوان طبقہ گھر گیا ہے۔ ہندستانی اور مغربی تہذیبوں کے اسی تصادم کو جیلانی بانو نے اس ناولٹ میں پیش کیا ہے۔ ‘‘ (20)

ان کے علاوہ ’رات، جگنو اور ستارے ‘ اور ’ گڑیا کا گھر‘ کو بھی سید وضاحت حسین رضوی نے ناولٹ قرار دیا ہے۔

قرۃ العین حیدر اردو کی ممتاز فکشن نگار ہیں۔ قرۃ العین حیدر ہندستان کی آزادی تک خیالی رومانی قصے لکھتی رہیں مگر آزادی کے بعد کی صورتحال سے متاثر ہو کر جب انہوں نے اپنا پہلا ناول ’ میرے بھی صنم خانے ‘ لکھا تو ان کا نقطۂ نظر اور اسلوب تحریر دونوں ہی بدلے ہوے نظر آئے۔ قرۃالعین حیدر نے ہندستانی تہذیب و ثقافت کے علاوہ مغربی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے۔ انہیں زبان کے خوبصورت استعمال پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ قرۃالعین حیدر نے ناول اور افسانوں کے علاوہ ناولٹ میں بھی اپنے فکرو فن کا بہترین ثبوت دیا ہے اور اردو ناولٹ کو عروج تک پہچانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ان کے ناولٹ کا مجموعہ ’چار ناولٹ‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس مجموعے میں ’دلربا، سیتاہرن، چائے کے باغ اور ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘ ناولٹ شامل ہیں۔ ان کے دو اور ناولٹ ’ہاؤسنگ سوسائٹی ‘ اور ’فصل گل آئی یا اجل آئی‘ ہیں۔ ’دلربا‘ لکھنؤ کے زوال پذیر جاگیر دارانہ معاشرے کے پس منظر میں لکھا گیا ناولٹ ہے۔ ’سیتاہرن‘ میں قرۃالعین حیدر نے عورت کے المیے اور تہذیبی جڑوں کی تلاش کو موضوع بنایا ہے۔ ’چائے کے باغ‘ میں بھی محترمہ نے عورت کی ذات اور اس سے متعلق مسائل کو ہی تخلیقی گرفت میں لیا ہے۔ ’ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘ میں بھی قرۃالعین حیدر نے کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ’عورت‘ کے ہی مقدر اور اس کی محرومی کو بیان کیا ہے۔ ’ ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میں تقسیم کے بعد نئی قدروں سے پیدا شدہ سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل اور مختلف قسم کے کرپشن کے خطرناک نتائج کو پیش کیا گیا ہے جبکہ ’فصل گل آئی یا اجل آئی‘ تقسیم ملک کے پس منظر میں لکھا گیا ناولٹ ہے۔ ناقدین کا یہ عام خیال ہے کہ محترمہ کے فکشن کا موضوع زوال پذیر اودھ کا جاگیر دارانہ معاشرہ ہے۔ ان کے ناولٹس پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ اس بارے میں سید وضاحت حسین رضوی لکھتے ہیں :

’’قرۃالعین حیدر کے ناولٹس کا موضوع اودھ کا زوال آمادہ معاشرہ ہے۔ یہی وجہ کہ ان کے کردار اعلی طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مصنفہ اپنی نفسیاتی ژرف نگاہی اور مطالعہ سے اس طبقے کے مسائل کو پیش کرنے میں سماجی حقیقت نگاری سے کام لیتی ہیں۔ ‘‘ (21)

شکیلہ اختر اچھی افسانہ نگار ہیں۔ یہ اردو شعر و ادب کی جانی مانی شخصیت اختر اورینوی کی بیوی ہیں۔ ان کا تعلق بہار کے گیا ضلع سے ہے۔ یہ اپنے افسانوں میں بہار کے دیہات کے گھریلو معاملات کو خاص انداز میں پیش کرتی ہیں۔ ’تنکے کا سہارا‘شکیلہ اختر کے تین ناولٹوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعہ میں ’تنکے کا سہارا‘، ’سرحدیں ‘ اور ’منزل‘ ناولٹ شامل ہیں۔ ’تنکے کا سہارا‘ میں شکیلہ اختر نے وقت اور حالات کے ساتھ بدلتے انسانی رشتوں کو اپنا موضوع بنایا ہے اس میں جنس کے مسئلہ کے ساتھ ازدواجی زندگی کے متعدد پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ مسز لال اور ڈاکٹر کمار کی کہانی ہے جو ایک بچی کی ڈور سے بندھے ایک دوسرے کے قریب آ تے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ ’سرحدیں ‘ میں شکیلہ اختر نے گاؤں کے مجبور و بے بس لوگوں کی المناک زندگیوں کو نمایاں کیا ہے۔ اس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ کس طرح یہ غریب لوگ اپنی معمولی ضروریات کی تکمیل کے لئے بھی ترستے رہتے ہیں۔ بالآخر غربت و افلاس، بھوک، بیماری اور درد ناک موت ہی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ ’منزل‘ کامیابی و کامرانی کی خواہش پر مبنی ناولٹ ہے۔ ہر انسان خود کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے لیکن خارجی واقعات و حادثات بسا اوقات کسی بھی منزل پر ٹھہراؤ اور سکون میسر نہیں آنے دیتے۔ اس ناولٹ کا مرکزی کردار زاہدی بھی اتار چڑھاؤ کی پر خار وادیوں سے گزرتا ہے۔ کئی منزلوں پر اسے دوست وہم سفر بھی مل جاتے ہیں لیکن اسے کہیں بھی آسودگی نہیں مل پاتی۔

شوکت صدیقی اردو ناول کے فکری و فنی ارتقا کے سلسلے کا ایک اہم نام ہے۔ اردو میں ناولٹ نگاری کی روایتوں کو بھی حقیقت پسندانہ شعار سے قریب کرنے والوں میں شوکت صدیقی کا نام بہت اہم ہے۔ انہوں نے ناولٹ میں معاشرتی موضوعات کو جگہ دی ہے۔ شوکت صدیقی کے ناولٹ میں ہندستانی ذہن و تہذیب کی پوری جھلک نظر آتی ہے۔ ان کے ناولٹ ’کمین گاہ‘ اور ’ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ‘ ہیں۔ ’کمین گاہ‘ میں مختلف طبقے کے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ’کمین گاہ‘ کے بارے میں سید مہدی احمد رضوی لکھتے ہیں :

’’کمین گاہ‘ میں شوکت صدیقی نے ایک خاص دور کے لکھنؤی معاشرے کے مخصوص پہلوؤں کی عکاسی کی ہے۔ پلاٹ، کردار، واقعہ، نقطۂ نظر اور تأثراتی وحدت تمام جہتوں سے ’کمین گاہ‘ ایک مکمل اور مؤثر ناولٹ ہے۔ پلاٹ کی تشکیل اس نہج پر ہوئی ہے کہ ’قصہ پن‘ کا عنصر شروع سے آخر تک پڑھنے والوں کا انہماک اپنی طرف سمیٹے رکھتا ہے۔ ‘‘ (22)

’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ‘ کے بارے میں سید وضاحت حسین رضوی تحریر کرتے ہیں :

’’اسی عہد کا ایک ناولٹ ’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ‘ فن و تکنیک کے لحاظ سے اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ مصنف نے اپنے عہد کے گھناؤنے حقائق کو بڑی چابکدستی سے نمایاں کیا ہے۔ بغیر پلاٹ کا یہ ناولٹ اپنی منفرد ہیئت کے باوجود کافی مقبول ہوا۔ ناولٹ کے ساتھ مصنف کا لگایا نوٹس ’ ۱۹۵۴ء عنوان ہی کا حصہ ہے اسے نظر انداز نہ کیجئے ‘۔ اس عہد کے اہم مسائل کو حقیقی جامہ پہنا کر قارئین کے روبرو پیش کیا ہے۔ بلاشبہ اردو ناولٹ کی ترویج و تشریح میں اس ناولٹ کی اہمیت و افادیت ہے۔ ‘‘ (23)

ممتاز شیریں کا ناولٹ ’میگھ ملہار‘ ایک خوبصورت رومانی ناولٹ ہے۔ اس ناولٹ کی تخلیق ممتاز شیریں نے ہندستانی دیومالاؤں پرکی ہے۔ ہندو مذہب میں علم، فن اور موسیقی کی دیوی ’سرسوتی‘ ہے۔ ممتاز شیریں نے اسی دیومالائی کردار کے وسیلے سے ’میگھ ملہار‘ کی تخلیق کی ہے۔ ’میگھ ملہار‘ کے بارے میں سید مہدی احمد رضوی لکھتے ہیں ممتاز شیریں اردو ادب کا ایک بہت اہم نام ہے۔ گو کہ ان کا انتقال48 برس کی عمر میں ہی ہو گیا تھا لیکن ممتاز شیریں ایک با شعور اور با وقار ادیبہ کی حیثیت سے اردو ادب میں مخصوص جگہ رکھتی ہیں اور ان کے انتقال کے بعد ان کی شہرت ماند نہیں پڑی ہے۔ ممتاز شیریں افسانہ و ناولٹ نگار کے علاوہ نقاد اور مترجم کی حیثیت سے بھی جانی جاتی ہیں۔ :

’’اسلوب و ہیئت کے اعتبار سے ’میگھ ملہار‘ میں دلکشی بھی ہے، شاعرانہ لطافتیں اور حسی نزاکتیں بھی۔ ہندی کے مترنم، دلکش اور رواں الفاظ کے استعمال نے ’میگھ ملہار‘ کی اسطوری کیفیت کو اور زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔ تاثرات اور کیفیات کے نغموں کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔ اس اسلوبی انفرادیت اور ہیئتی شادابی نے ’میگھ ملہار‘ کی فنی اہمیت کو تو واضح کر دیا ہے مگر اس میں کوئی فکری تحریک نہیں ملتی۔ کرداروں میں اسطوری دلکشی تو ہے لیکن حقیقی توانائی اور تابناکی کہیں نہیں۔ ‘‘ (24)

انتظار حسین اردو کے نامور اور اہم فکشن نگار ہیں۔ انتظار حسین نے نئے لکھنے والوں پر اپنے بہت سارے اثرات ڈالے ہیں۔ ان کے اسلوب، ڈکشن اور تکنیک کی پیروی مسلسل کی جاتی رہی ہے۔ ان کے ناول، ناولٹ، افسانے، سفرنامے اور ڈرامے عام طور پر زیر بحث رہے ہیں اور کئی جہتوں سے ان کی اہمیت پر گفتگو کی جاتی رہی ہے۔ انتظار حسین کے یہاں بنیادی تجربہ ہجرت کا ہے۔ اس لئے انجیل، قرآن، قصص الانبیا اور دیومالا وغیرہ سے انہیں خوب مدد ملی ہے۔ انہوں نے ناولٹ نگاری میں بھی داستانی اسلوب سے کام لے کر ناولٹ کے فن کو اس اسلوب سے آشنا کیا۔ ’ دن‘ ان کا ناولٹ ہے۔ ’دن‘ میں ہندستان کے زوال پذیر جاگیردارانہ تہذیب و تمدن کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انتظار حسین کے داستانی اسلوب نے اس ناولٹ میں ایک عجیب حسن پیدا کر دیا ہے۔

غلام عباس اردو افسانے کے شروعاتی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر افسانے کسی نہ کسی مسئلہ کو موضوع بنا کر لکھا ہے۔ قدامت و جدے دیت کا امتزاج ان کے افسانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ غلام عباس نے افسانوں کے علاوہ ناول اور ناولٹ بھی لکھے۔ ان کا ناولٹ ’ جزیرہ سخن وراں ‘ ہے۔

رضیہ فصیح احمد بر صغیر کی ایک مشہور فکشن نگار ہیں۔ ان کی تخلیقات میں ناول، ناولٹ، افسانے، سفر نامے، طنز و مزاح اور شاعری شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً 20سال امریکہ میں گزارے۔ یہ انگریزی میں بھی طنز و مزاح لکھتی رہی ہیں۔ ان کا ناولٹ ’ انتظار موسم گل‘ ہے۔ رضیہ فصیح احمد نے اس ناولٹ میں نوزائیدہ ملک پاکستان کی تہذیب و معاشرت کے چند اہم پہلوؤں کو موضوع بنایا ہے۔ ان کا ایک اور ناولٹ ’ بھولی ہوئی منزل‘ ہے۔ اس میں ایک ایسے یتیم لڑکی کی نفسیاتی و جذباتی خواہشات اور ان کے رد عمل کو موضوع بنایا گیا ہے جس کی شادی غربت کی وجہ سے ایک ایسے مرد سے کر دی جاتی ہے جو دو بیویوں کا شوہر رہ چکا ہے اور اس کے کئی بچے بھی ہیں۔

اقبال متین ترقی پسندافسانہ نگار ہیں۔ یہ انجمن ترقی پسند مصنفین، آندھرا پردیش کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ جبرو استحصال ان کے افسانوں کا موضوع ہے۔ انہوں نے فکشن نگاری کے علاوہ شاعری بھی کی ہے۔ ان کا ناولٹ ’ چراغ تہ داماں ‘ ہے۔ اس ناولٹ کو آندھرا پردیش، اردو اکیڈمی نے ایک اہم تخلیق قرار دے کر اقبال متین کو انعام سے نوازا۔ اس ناولٹ میں اقبال متین نے جنس کو موضوع بنایا ہے۔ لیکن یہ ناولٹ جنسی جذبات کو ابھارتا نہیں ہے بلکہ جنسی جذبات کی گمراہیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

غلام الثقلین نقوی ایک اچھے افسانہ نگار کی حیثیت سے معروف ہیں۔ انسان اور انسانیت سے محبت ان کے افسانوں کا لب لباب ہے۔ غلام الثقلین کے افسانوں میں انسانی رشتے تخلیقی جہت اختیار کر تے ہیں۔ انہوں نے ناولٹ بھی لکھے ہیں۔ ان کے ناولٹ ’تین ناولٹ‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ اس میں ’چاند پور کی نینا‘،  ’شمہرا‘ اور ’جمعدار شہر زمان‘ شامل ہیں۔

عبداللہ حسین اردو فکشن کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں۔ ان کا ناول’ اداس نسلیں ‘ شہرت دوام حاصل کر چکا ہے۔ انہوں نے دو خوبصورت ناولٹ ’قید‘ اور ’رات ‘بھی لکھے ہیں۔ ’قید‘، ’سنگ میل‘ لاہورسے 2001میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ ’رات‘ بھی سنگ میل لاہور سے ہی 2002میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سید وضاحت حسین رضوی نے ’نشیب‘، ’ندی‘ اور’واپسی کا گھر‘ کو بھی ناولٹ قرار دیا ہے۔

جمیلہ ہاشمی اردو فکشن میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ اسلوب و فن کے اعتبار سے ان کے یہاں نئے تجربات نظر آتے ہیں۔ ’آتش رفتہ‘ ان کا مشہور ناولٹ ہے۔ اس ناولٹ میں ہندستانی تہذیب اور روایات کا ذکر خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سید وضاحت حسین رضوی نے ’داغ فراق، روحی، اور ’چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو‘ کو بھی ناولٹ تسلیم کیا ہے۔

واجدہ تبسم ایک اچھی افسانہ نگار ہیں۔ انہوں نے متوسط مسلم گھرانوں کے مسائل کو موضوع بنا یا ہے۔ ’تہہ خانہ‘ اور ’شہر ممنوع‘ ان کے بہترین افسانے ہیں۔ ان کے دو ناولٹ ’شعلے ‘ اور ’دھنک کے رنگ نہیں‘ ہیں۔ اے حمید کا شمار ان ناولٹ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ناولٹ کے فن پر خاص توجہ دی۔ ان کا ناولٹ ’ویران بہار‘ ہے۔ ’ویران بہار ‘ کے بارے میں ڈاکٹر صبا عارف لکھتی ہیں :

’’ویران بہار‘ ایک اجنبی بوڑھے پینٹر کی ماضی کی داستان پارینہ ہے۔ جو عمر کے آخری ایام میں قلم سنبھالے بیٹھا شعور اور لا شعور کی رو میں بہتا ماضی و حال کے حالات قلمبند کرتا جا رہا ہے۔ اس کی مخاطب ’رضیہ‘ ہے۔ جس کو پانے کی تمنا اور وصال کا غم اب بھی اس کے دل میں ایک کسک پیدا کرتا ہے۔ انداز بیان بے حد رومانی فضا کی تشکیل کرتا ہے۔ ناولٹ میں جا بجا جذباتی کشمکش اور وابستگی کے عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ‘‘(25)

مستنصر حسین تارڑ کا ناولٹ ’فاختہ‘ اردو کا ایک اہم ناولٹ ہے۔ اس میں عصری دنیا کے ایک اہم بلکہ سب سے اہم مسئلہ امن و جنگ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ محمد اشفاق عارف کا ناولٹ ’تلاش میں ہے سحر‘ بھی اردو کا ایک اچھا ناولٹ ہے۔ جس میں محبت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آفاق احمد کا ناولٹ ’اب چھوڑ دو‘ تکنیک کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں خطوط کے ذریعہ پلاٹ کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ سلیم اختر کا شمار اردو ادب میں نقاد اور افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوتا ہے لیکن ان کا ناولٹ ’ضبط کی دیوار‘ ان کا شمار ناولٹ نگاروں میں بھی کراتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے ناولٹ نگار ہیں جن میں سے کچھ کے نام اور ان کے ناولٹ ذیل میں مذکور ہیں۔

ش اختر، خون بہا۔ انور خواجہ، مرگ بہا۔ ممتاز مفتی، لوک ریتی۔ مسعود مفتی، کھلونے۔ ریاض پٹیالوی، سر گرم لہو۔ عوض سعید، شب گزیدہ۔ اختر جمال، کزن ہال۔ ام عمارہ، درد روشن ہے۔ صبیحہ افضل، انجم آرا۔ مرزا حامد بیگ، تار پر چلنے والی۔ س۔ کاشمیری، شری نگر۔ ضمیرالدین احمد، صراط المستقیم۔ مصطفے کریم، کرم دان۔ شام بارک پوری، آتشی چنار۔ یو گیش کمار، ٹوٹتے بکھرتے لوگ۔ عبد الصمد، مہاتما۔ کوثرمظہری، آنکھ جوسوچتی ہے۔ اقبال انصاری، آخری پٹھان، اور ’جنت‘ وغیرہ۔

 

                   اردو میں غیر ملکی ناولٹ کے تراجم

 

دنیا کا ہر حصہ اور خطہ اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، زبان و الفاظ اور فکر واحساس رکھتا ہے۔ لیکن زبانوں کا فرق ایک خطے کے لوگوں کا دوسرے خطے کے لوگوں کے ساتھ اختلاط و ارتباط میں ہمیشہ ایک منفی رول ادا کرتا رہا ہے اور ان کی اتحادو یگانگت کی راہ میں حائل رہا ہے۔ اس فرق اور رکاوٹ کو مٹانے اور بنی نوع انسان کے علم و آگہی کو عالمی میراث بنانے میں ترجمے نے اہم رول ادا کیا ہے۔ ترجمے نے ہر عہد میں نئے نئے افکار و نظریات کو ایک قوم سے دوسری قوم تک پہنچایا ہے اور ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے روشناس کرایا ہے۔ دوسری زبانوں کے علوم و فنون کے شاہکاروں کا ترجمہ ہی عالموں اور ادیبوں کو نئے علوم اور ادبی میلانوں اور فنی معیاروں کا احساس دلا کر نئے تجربات پر اکساتا ہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ انسانی علوم وفنون کو فروغ دینے میں جہاں اور بہت سے اسباب و عوامل رہے ہیں وہیں ترجمے نے بھی ایک محرک کا رول ادا کیا ہے۔ اردو زبان و ادب کے فروغ میں بھی ترجمے نے اہم رول ادا کیا ہے۔ بقول ڈاکٹر شہناز شاہین :

’’انگریزی و یوروپی علوم و ادب کے تراجم نے اپنی وسعت، گیرائی و گہرائی سے اردو زبان و ادب میں نئی روشنی پیدا کی۔ اس سے اردو ادب میں دوسری زبانوں کے علم و آگہی، جذبہ و شعور، فکر واحساس، تکنیک واسالیب کو سمجھنے کی قوت پیدا ہوئی۔ اس طرح ترجمے کے ذریعہ مغرب کے مختلف ادبی میلانات و فنی معیاروں کے علاوہ وہاں کی روشن خیالی، انسان دوستی، عقلیت پسندی اور سائنسی طرزو فکر کے رجحانات سے اردو زبان و ادب متواتر متاثر رہا۔ ‘‘ (26)

اردو زبان کو ملک گیر سطح پر مقبولیت عطا کرنے میں یوروپی علوم و ادب کے تراجم نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ابتدا میں مذہبی تعلیم و تبلیغ کی غرض سے علما و فقہا نے عربی وفارسی سے ترجمے کئے۔ بعد میں مشنری اداروں نے انگریزی سے مذہبی صحائف کے ترجمے کئے۔ ان ترجموں کا آغاز تو اٹھارہویں صدی کے وسط میں ہو گیا تھا لیکن اس کی رفتار میں تیزی انیسویں صدی کے نصف اول میں پیدا ہوئی۔ فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، دہلی ورنا کلر ٹرانسلیشن سوسائٹی، سائنٹیفک سوسائٹی اور اسکول بک سوسائٹی میں زیادہ تر علمی وسائنسی علوم کے ترجمے ہوئے۔ ان اداروں کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر بھی لوگ ترجمے کی طرف مائل ہوئے اور اہم تخلیقات کے ترجمے کرتے رہے۔ لیکن 1930 تک اردو شعر و ادب انگریزی ادب کا ہی خوشہ چیں رہا اور اسی سانچے میں ڈھلتا رہا۔ ان ترجمہ کرنے والوں میں شعرا اور نثر نگار دونوں شامل رہے۔ شعرا میں اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی، نادر کاکوروی، سرور جہاں آبادی، تلوک چند محروم، ضامن کنتوری وغیرہ نے انگریزی کے مشہور شعرا کی نظموں کے تراجم کئے۔ نثر کا ترجمہ کرنے والوں میں محمد حسین آزاد، سر سید احمد خان اور ان کے بعض رفقا کا نام شامل ہے۔ 1930 کے بعد یوروپ کی دوسری زبانوں کے ادب سے بھی ترجمے ہونے لگے۔ ان ترجمہ کرنے والوں میں سجاد حیدر یلدرم، عبدالرحمن بجنوری، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر عابد حسین، ڈاکٹر یوسف حسین خان، ڈاکٹر عبدالعلیم اور پروفیسر مجیب کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ ان تراجم کے طفیل میں اردو میں ناول اور افسانے کی تکنیک متعارف ہوئی اور اردو ادب کے افق میں وسعت آئی۔ ان ترجموں کے حوالے سے شہناز شاہین لکھتی ہیں :

’’ابتدا میں سر عبدالقادر، ظفر علی خان، سجاد حیدر یلدرم، تیرتھ رام فیروز پوری، عبدالمجید سالک اور نیاز فتحپوری وغیرہ نے مغربی افسانوں کے تراجم مختلف رسائل ’مخزن ‘ زمانہ‘، ’صلائے عام‘ وغیرہ میں شائع کئے تو مغربی تخلیق کاروں کے فنی معیار اردو ادیبوں کے سامنے آئے۔ 1930 کے بعد خواجہ منظور حسین، حامد علی خان، جلیل قدوائی، محشر بدایونی، فضل حق قریشی، اختر حسین رائے پوری، قاضی عبدالغفار، مجنوں گورکھپوری، محمد مجیب، سعادت حسن منٹو، اعظم کریوی وغیرہ نے روسی، فرانسیسی، جرمنی و انگریزی افسانوں کے ترجمے کر کے اردو قارئین کو پشکن، گوگول، ترگنیف، ٹالسٹائے، گورکی، موپاساں، فلابیر، ارونگ اور ہارڈی وغیرہ سے متعارف کرایا۔ ‘‘ (27)

ان ترجموں میں مختلف یوروپی ادب کے ناولٹ کے تراجم بھی شامل ہیں۔ ان ناولٹ کے تراجم نے اردو ناولٹ نگاری کو فکروفن کی جہتوں سے متأثر کیا اور اردو کے فنکاروں نے اپنی تخلیقی بصیرتوں اور فنی ندرتوں کو بروئے کار لا کر اردو میں ناولٹ کے بہترین نمونے پیش کئے۔ کچھ اہم ناولٹ کے تراجم کی تفصیلات یہ ہیں :۔

1۔ ’سیب کا درخت‘ Dame Daphne Du Maurier, Lady Browingکے ناولٹ The Apple Tree کا ترجمہ ہے۔ یہ ایک برطانوی خاتون فکشن نگار ہیں۔ The Apple Tree ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ان کے اس مجموعہ میں ایک ناولٹ بھی شامل ہے جس کا عنوان The Apple Treeہے۔ یہ مجموعہ 1952 میں شائع ہوا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ وشو مترا عادل نے کیا ہے۔ جس کو کتب پبلشرز لمیٹیڈ، بمبئی نے شائع کیا تھا۔ اس کی ضخامت 104 صفحے کی ہے۔ اس مجموعے میں تخلیق کار کا نام اور سن اشاعت صحیح نہیں ہے۔ اس میں مصنف کا نام جان گالذوردی دیا گیا ہے اور سن اشاعت 1949 لکھا گیا ہے۔ یہ دونوں غلط ہیں۔ اس ناولٹ کا ایک ترجمہ قاضی عبدالغفار نے بھی کیا ہے۔ ان کی تفصیل ’کتابیات تراجم‘ میں یہ ہے :

’’سیب کا درخت : گالذوردی، جان، ترجمہ: قاضی عبدالغفار، حیدرآباد دکن: اردو اکیڈمی، ناول۔ ’دی ایپل ٹری‘ کا ترجمہ مدیر پیام نے کیا ہے۔ ترجمہ ۱۹۳۹ سے قبل شائع ہوا۔ دوسری بار کریمی پریس لاہور نے شائع کیا۔ (28)

سیب کا درخت: گالذوردی، جان، ترجمہ: وشو مترا عادل، بمبئی: کتب پبلشرز لمیٹیڈ، ۱۹۴۹، ص: ۱۰۴ ناولٹ۔ ’The Apple Tree‘ کا ترجمہ۔ ‘‘(29)

اشاعت کی ان دونوں تاریخوں میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ مجموعہ پہلی بار 1952 میں شائع ہوا تھا جس کو Victor Gollancz Ltdنے شائع کیا تھا۔

2۔ ’زلفوں کے سائے میں ‘ Shih Yenکے ناولٹ ’It Happened at Willow Castle‘کا ترجمہ ہے۔ اس ناولٹ کو Cultural Press,Peking نے پہلی بار 1951میں شائع کیا تھا۔ یہ People’s Liberation Armyکے ایک جوان کی کہانی ہے جو ایک دہقان کی بیٹی کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ظ۔ انصاری نے کیا تھا۔ جس کو مکتبہ شاہراہ، دہلی نے 1953 میں شائع کیا، یہ82صفحات پر مشتمل تھا۔ اس ناولٹ کے بارے میں ’کتابیات تراجم‘ میں درج ہے :

’’زلفوں کے سائے میں : شہیدین، ترجمہ: ظ۔ انصاری، دہلی: مکتبہ شاہراہ، ۱۹۵۳ء، ص: ۸۲، ناولٹ۔ چینی ناولٹ کے انگریزی روپ لانگ مارچ کے دوران پنپنے والی محبت کی داستانIt Happened Castle willow۔ ‘‘(30)

اس میں مصنف کا نام غلط لکھا ہے۔ Shih Yenکو اس میں ’شہیدین‘ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ناولٹ کا پورا نام بھی صحیح نہیں ہے۔ اس میں ’At‘ چھوٹا ہوا ہے۔

3۔ ’داغ رسوائی‘ Nathaniel Hawthorne کے ناولٹ The Scarlet Letter کا ترجمہ ہے۔ اس ناولٹ کو پہلی بار Ticknor & Fields نے 1850 میں شائع کیا تھا۔ یہ اس مصنف کی شاہکار تخلیق مانی جاتی ہے۔ اس ناولٹ پر اب تک ہالی ووڈ میں بارہ بار فلم بن چکی ہے۔ پہلی فلم The Scarlet Letter کے ہی نام سے 1908 میں بنی تھی۔ جس میں Gene Gauntierاور Jack Conway نے کردار ادا کئے تھے۔ اس کے اردو ترجمے کے حوالے سے ’کتابیات تراجم‘ میں لکھا ہے :

’’داغ رسوائی: ناتھورن، نیتھینئل، ترجمہ: چندر موہن لانبہ، نئی دہلی: انڈین اکیڈمی، ۱۹۵۹، ص: ۲۳۲، ناول۔ امریکی ناول Scarlet Letter کا ترجمہ۔ ‘‘(31)

اس میں مصنف کا نام ’ہاتھورن ‘ کی جگہ ’ناتھورن‘ ہو گیا ہے۔ جبکہ ناولٹ کا نام The Scarlet Letter کی جگہ Scarlet Letter لکھا ہے جو غلط ہے۔ اس زمانہ میں چونکہ ناولٹ کی خصوصیات والی تخلیقات کو بھی ناول کہہ دیا جاتا تھا اس لئے اسے بھی ناول کہا گیا ہے۔

4۔ ’شکست ناتمام‘ John Stienbeck کے ناولٹ The Moon Is Down کا ترجمہ ہے۔ اس ناولٹ کوViking Press نے مارچ 1942 میں شائع کیا تھا۔ اس ناولٹ کی ضخامت 118 صفحات کی تھی۔ Wikipedia میں اس کو ’A Novella by John Steinbeck‘ کہا گیا ہے۔ یہ ترجمہ زہرہ سیدین نے کیا تھا جس کو مکتبہ جامعہ نے 1958 میں شائع کیا تھا۔ اس ترجمہ کے حوالے سے ’کتابیات تراجم‘ میں ہے :

’’شکست ناتمام: بک، جان سیٹن، ترجمہ : زہرہ سیدین، نئی دہلی: مکتبہ جامعہ، ۱۹۵۸، ص: ۱۷۲، ناول۔ The Moon Is Down کا ترجمہ۔ دوسرا ترجمہ ابن انشا نے ’شہر پناہ‘ کے نام سے کیا ہے۔ ‘‘ (32)

5۔ ’بیچارے لوگ‘ Fyodor Dostoevsky کے ناولٹ Poor Folk کا ترجمہ ہے۔ اس کا ترجمہ پہلے روسی زبان سے انگریزی میں Poor People کے نام سے ہوا۔ اس کا انگریزی ترجمہLena Milman نے کیا تھا۔ یہDostoevskyکی پہلی تصنیف ہے۔ اس کی اشاعت 1846 میں ہوئی تھی۔ یہ ناولٹ خطوط کے فارم میں لکھا گیا ہے۔ ناقدین نے اس کو کافی سراہا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ کس نے کیا ہے یہ معلوم نہیں۔ مگر اس کو بدیسی زبانوں کا اشاعت گھر، ماس کو نے شائع کیا تھا۔ ’ کتابیات تراجم‘ میں اس کی تفصیل یہ ہے :

’’بے چارے لوگ: دوستوفسکی، فیورو، ترجمہ: ن۔ ن۔ ماسکو: بدیسی زبانوں کا اشاعت گھر، س۔ ن۔ ص: ۳۴۰ ناول۔ روسی زبان سے براہ راست ترجمہ۔ مفلوک الحال لوگوں کی کہانی۔ ‘‘ (33)

اس کو سید وضاحت حسین رضوی نے ناولٹ کہا ہے۔ لیکن اس کی ضخامت اور اس کی تکنیک کو دیکھتے ہوئے اس کو ناولٹ کہنا مشکل ہے۔ ناقدین نے اس کا شمار دوستووسکی کے بہترین ناول میں کیا ہے۔ ’ کتابیات تراجم‘ میں مصنف کا نام’ فیورو دوستوفسکی‘ لکھا ہے۔ لیکن یہ ’فیورو‘ نہیں بلکہ’ فیودر‘ ہے۔

6۔ ’آدمی کا مقدر‘Mikhail Aleksandrovich Sholokhov کے ناولٹ The Fate of A Man کا ترجمہ ہے۔ اس ناولٹ کو میخائیل شولوخوف نے 1957 میں لکھا تھا۔ اس کا ترجمہ اردو کی مشہور ادیبہ قرۃالعین حیدر نے کیا ہے۔ جس کو مکتبہ جامعہ نے 1965 میں شائع کیا تھا۔ Sholokhovکے اس ناولٹ کو پہلی بار Foreign Languages Pub. Houseنے 1957میں شائع کیا تھا۔ ’کتابیات تراجم‘ میں اس کی یہ تفصیل موجود ہے :

’’آدمی کا مقدر: شولوخوف، میخائل، ترجمہ: قرۃالعین حیدر، دہلی: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، ۱۹۶۵، ص: ۵۳، ناولٹ۔ روسی ناولٹ کے انگریزی روپ The Fate of Manکا اردو ترجمہ۔ ‘‘(34)

7۔ ’زوال‘Albert Camus کے ناولٹ The Fall کا ترجمہ ہے۔ Albert Camus نے اس کوFrench میں La Chute کے نام سے لکھا تھا۔ جس کا ترجمہ انگریزی میں The Fall کے نام سے ہوا۔ یہ Camus کا آخری تخلیقی کام ہے۔ یہ ناولٹ 1956 میں شائع ہوا تھا۔ یہ ایک فلسفیانہ ناول ہے۔ جس میں معصومیت، جرم، آزادی اور انسانی زندگی کی بے مائے گی وغیرہ کو خود کلامی کے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ محمد عمر میمن نے کیا ہے۔ ’کتابیات تراجم‘ میں اس کی تفصیل یہ ہے :

’’زوال:کامیو، البیر، ترجمہ: محمد عمر میمن، بنگلور: رسالہ سوغات بنگلور نمبر۵۔ شمارہ ۶۔ ۵۔ ص:۸۰، ناول۔ The Fall کا ترجمہ۔ نظر ثانی محمود ایاز۔ ‘‘ (35)

8۔ ’ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ، Robert Louis Stevenson کے ناولٹ Strange Case of Dr Jekyll and Mr Hyde کا ترجمہ ہے۔ اسٹیونس اس کاٹ لینڈ کے رہنے والے تھے۔ ان کا یہ ناولٹ پہلی بار 1886 میں شائع ہوا تھا۔ اس ناولٹ میں Split Personality یعنی دوہری شخصیت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس ناولٹ نے کافی مقبولیت حاصل کی تھی۔ انگریزی میں اس ناولٹ کے اثر سے دوہری شخصیت کو ظاہر کرنے کے لئے Jekyll and Hyde کا محاورہ شروع ہو گیا۔ اس کا اردو ترجمہ محمد حسن نے کیا ہے۔ اس کی تفصیل ’کتابیات تراجم‘ میں یہ ہے :

’’ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ:سٹیونسن، آر، ایل، ترجمہ: محمد حسن، بمبئی: کتب پبلشرز لمیٹیڈ، ۱۹۵۰ء ص: ۱۰۰، ناول۔ پراسرار ناولDr Jakyu & Mr Hyde کا ترجمہ۔ ‘‘ (36 )

اس میں ناولٹ کا نام Jekyll کی جگہ پر Jakyu لکھا گیا ہے جو غلط ہے۔ اس ناولٹ پر مبنی بہت سارے اسٹیج ڈرامے کئے گئے ہیں اور متعدد فلمیں بھی بنی ہیں۔

9۔ ’صید زبوں ‘ Thomas Hardy کے ناولٹ The Woodlanders کا ترجمہ ہے۔ یہ ناولٹ پہلی بار 1887 میں شائع کیا گیا تھا۔ اس ناولٹ میں محبت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ ہارڈی کی تخلیقات میں کم درجہ تخلیق مانی جاتی ہے۔ در اصل اس وقت کے رواج کے مطابق اسے ناول مان کر اس کی قدر و قیمت کا تجزیہ کیا گیا جب کہ یہ ناولٹ کے فن پر پورا اترتا ہے۔ 1997 میں The Woodlanders کے ہی نام سے اس پر فلم بھی بن چکی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ مجنوں گورکھپوری نے کیا ہے۔ اس کی تفصیل’ کتابیات تراجم‘ میں یہ ہے :

’’صیدزبوں : ہارڈی، ٹامس، ترجمہ: مجنوں گورکھپوری، گورکھپور: ایوان پریس، نومبر۱۹۴۴، ص: ۱۴۰، ناول۔ Woodlander کا انگریزی سے ترجمہ۔ ‘‘ ( 37)

10۔ ’دلی کی شام‘Ahmad Ali کے ناولٹ Twilight in Delhi کا ترجمہ ہے۔ اس ناولٹ کو 1994میں New Directions Publishing Corporation نے دیدہ زیب شکل میں چھاپا ہے۔ احمد علی St.Stephen’s College, Delhi سے تعلیم یافتہ ہیں۔ جو بعد میں Cambridgeچلے گئے تھے۔ اس ناولٹ میں میر نہال کے حالات زندگی کے پس منظر میں اس وقت کی دلی کے سارے حالات بیان کر دیئے گئے ہیں۔ اس ناولٹ کی کہانی 1919اور اس کے بعد کے حالات پر مبنی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بلقیس جہاں نے کیا ہے۔ اس کی تفصیل ’ کتابیات تراجم‘ میں یہ ہے :

’’دلی کی شام: احمد علی، ترجمہ، بلقیس جہاں، کراچی : آکاش پریس ۱۹۶۳ ء، ناولٹ Twilight in Delhi کا ترجمہ۔ ‘‘ (38)

ان کے علاوہ کئی اور ناولٹ کے تراجم بھی ہوئے ہیں لیکن ان کی تفصیلات دستیاب نہیں ہو پا رہی ہیں۔ ’ کتابیات تراجم‘ میں ان کے بارے میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں، میں ان کو من و عن نقل کرتا ہوں :

11۔ ’’ نیلی نوٹ بک: کزاکیویج عمانویل، ترجمہ: انور سجاد، کراچی:مکتبہ دانیال، ۱۹۸۳ء، ناولٹ۔ لیلن کی زندگی سے متعلق روسی ناولٹ کا یہ تیسرا ترجمہ ہے۔ ‘‘ ’’ڈائری کا راز، اولین ترجمہ رئیس احمد جعفری کا تھا۔ ایک ترجمہ دہلی سے ۱۹۶۳ء میں ’ نیلی نوٹ بک‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ (39)

12۔ مالو: گورکی، میکسم، ترجمہ : نریش کمار شاد: دہلی: مکتبہ رنگین، ۱۹۵۴، ص:۱۲۷ ناولٹ۔ روسی زبان سے انگریزی کی معرفت ترجمہ۔ (40)

13۔ شیلا: موپاساں، گائے ڈی، ترجمہ: سخی حسن نقوی، لکھنؤ: نسیم بکڈپو۔ س۔ ن۔ ص:۲۹۹۔ ناولٹ۔ فضا اور مقام بدل دیئے گئے ہیں۔ (41)

14۔ دشمن: میرائی، تائی بور، ترجمہ: شاہد احمد دہلوی، کراچی، رسالہ’ ساقی‘، ناولٹ نمبر۱۹۶۰ء، ناولٹ فرد فرد اشتراکی زندگی کی تصویر کشی۔ روسی زبان سے انگریزی کی معرفت ترجمہ۔ (42)

15۔ بوسٹن کا سفر: ایلن چیز، میری، ترجمہ: محمود نظامی، دہلی: شہزاد بک ہاؤس، ۱۹۶۷ء، ص: ۱۱۲، ناولٹ۔ انگریزی سے ترجمہ۔ (43)

16۔ عزم جواں : رسل ہیرلڈوروزن، وکٹر، ترجمہ: رام نرائن، نئی دہلی: انڈین اکیدمی، ۱۹۵۷، ص: ۱۱۵، ناولٹ۔ دو مصنفین کی مشترکہ پیش کش کا انگریزی سے تر جمہ۔ ‘‘ (44)

اردو میں غیر ملکی ناولٹ کے تراجم کی ان تفصیلات سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ جس طرح اردو میں طبع زاد ناولٹ نے قارئین کو متأثر کیا اور ان میں اپنی جگہ بنائی اسی طرح غیر ملکی ناولٹ کے تراجم نے بھی قارئین میں اپنی جگہ بنائی۔ اردو کے طبع زاد ناولٹ اب بھی قارئین کے ذوق مطالعہ کی سیرابی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں مگر اب غیر ملکی ناولٹ کے تراجم کم ہوتے ہیں۔ در اصل جب سے انگریزی نے Lingua francaکی حیثیت اختیار کی ہے، بلاواسطہ قارئین کی رسائی انگریزی ادبیات تک ہونے لگی ہے۔ لیکن ناولٹ کی تخلیق میں کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ انگریزی ادب میں اب اور تیزی سے ناولٹ تخلیق کئے جا رہے ہیں۔

 

                   حواشی

 

(1)ڈاکٹر سید مہدی احمد رضوی، اردو میں ناولٹ نگاری(فن اور ارتقاء) کتابستان، مظفر پور۔ ۲۰۰۴۔ صفحہ۳۰

(2)ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ۔ ناشرڈاکٹرسید وضاحت حسین رضوی، ٹکیت رائے کالونی، لکھنؤ۔ ۱۰۰۲۔ صفحہ۲۹۲

(3)مولوی نذیر احمد، ایامیٰ۔ مطبع فیضی، دہلی۔ ۱۸۹۱۔ صفحہ۱۸۹

(4)پریم پال اشک، سرشار ایک مطالعہ۔ آزاد کتاب گھر، دہلی۔ بار اول۱۹۶۴۔ صفحہ۱۶۶

(5)ڈاکٹرسید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ۔ صفحہ۳۱۸

(6)ڈاکٹر احسن فاروقی، اردو ناول کی تنقیدی تاریخ۔ ادارہ فروغ اردو، لکھنؤ۔ بار دوم۱۹۶۲۔ صفحہ۲۰۳

(7)ڈاکٹر یوسف سرمست، بیسویں صدی میں اردو ناول۔ ترقی اردو بیورو، نئی دہلی۔ ۱۹۸۳۔ صفحہ۱۶۶

(8)ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ۔ صفحہ۳۴۳

(9)ڈاکٹر جعفر رضا، پریم چند اور تعمیر فن۔ شبستان، الہ آباد۔ بار دوم۱۹۸۰۔ صفحہ۱۰۰

(10)ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ۔ صفحہ۳۵۰

(11)ڈاکٹر یوسف سرمست، بیسویں صدی میں اردو ناول۔ صفحہ ۲۱۸

(12)ڈاکٹرسید مہدی احمد رضوی، اردو میں ناولٹ نگاری (فن اور ارتقاء)صفحہ۱۵۲

(13)ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ۔  صفحہ۵۲۱

(14)ڈاکٹر قمر رئیس، تلاش و توازن۔ ادارہ خرام پبلی کیشنز، دہلی۔ بار اول۱۹۶۸۔ صفحہ ۶۲

(15) ڈاکٹرسید مہدی احمد رضوی، اردو میں ناولٹ نگاری (فن اور ارتقاء)صفحہ۱۵۸

(16) ڈاکٹر صبا عارف، اردو میں ناولٹ نگاری۔ موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ ۲۰۰۳۔ صفحہ۱۵۵

(17) ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ۔ صفحہ۶۰۱

(18) ایضاً۔ صفحہ۵۸۵

(19) ڈاکٹرسید مہدی احمد رضوی، اردو میں ناولٹ نگاری (فن اور ارتقاء)صفحہ۱۹۹

(20) ڈاکٹر صبا عارف، اردو میں ناولٹ نگاری۔ صفحہ۱۳۹

(21) ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ۔ صفحہ۵۵۱

(22) ڈاکٹرسید مہدی احمد رضوی، اردو میں ناولٹ نگاری (فن اور ارتقاء)صفحہ۱۷۳

(23) ڈاکٹر سید وضاحت حسین رضوی، اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ۔ صفحہ۶۰۶

(24) ڈاکٹر سید مہدی احمد رضوی، اردو میں ناولٹ نگاری۔ (فن اور ارتقاء)صفحہ۱۳۴

(25) ڈاکٹر صبا عارف، اردو میں ناولٹ نگاری۔ صفحہ۱۵۲

(26) ڈاکٹر شہناز شاہین، اردو ناولوں اور افسانوں پر یورپی فکشن کے اثرات۔ سنہ اشاعت و مطبع ندارد۔ صفحہ۴۳

(27) ایضاً۔ صفحہ۴۵

(28) ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، کتابیات تراجم۔ (جلد دوم، نثری ادب )مقتدرہ قومی زبان، لاہور، پاکستان۔ ۱۹۸۷۔ صفحہ۲۳۰

(29) ایضاً۔ صفحہ۲۳۰

(30) ایضاً۔ صفحہ۲۲۰

(31) ایضاً۔ صفحہ۲۰۸

(32) ایضاً۔ صفحہ۲۳۴

(33) ایضاً۔ صفحہ۱۸۲

(34) ایضاً۔ صفحہ۱۶۴

(35) ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، کتابیات تراجم۔ (جلد دوم، نثری ادب )مقتدرہ قومی زبان، لاہور، پاکستان۔ ۱۹۸۷۔ صفحہ۲۲۱

(36) ایضاً۔ صفحہ۲۱۴

(37) ایضاً۔ صفحہ۲۳۷

(38) ایضاً۔ صفحہ۲۱۱

(39) ایضاً۔ صفحہ۲۷۸

(40) ایضاً۔ صفحہ۲۶۱

(41) ایضاً۔ صفحہ۲۳۶

(42) ایضاً۔ صفحہ۲۱۰

(43) ایضاً۔ صفحہ۱۷۹

(44) ایضاً۔ صفحہ۲۴۰

 

 

 

جو گندر پال ایک تعارف

 

اردو فکشن کی تاریخ میں جو گندر پال تکنیک، ہیئت، موضوعات، تلازمات اور تخلیقی جہات کے حوالے سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کی پیدائش 5ستمبر 1925کو سیالکوٹ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام لال چند سیٹھی تھا۔ لال چند سیٹھی معمولی پڑھے لکھے کاروباری آدمی تھے۔ جوگندر پال سات آٹھ سال کے ہی تھے کہ ان کے والد کو کاروباری نقصانات کا اس طرح سامنا کرنا پڑا کہ ان کا سب کچھ ختم ہو گیا۔ انہوں نے بڑی کسمپرسی کی حالت میں چھوٹا موٹا کام کر کے اپنے کنبے کی پرورش کی۔ جوگندر پال نے اپنا تعلیمی سفر بڑی غربت میں طے کیا۔ 1941 میں انہوں نے گنڈاسنگھ ہائی اسکول، سیالکوٹ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1945 میں مرے کالج، سیالکوٹ سے بی، اے، کی سند حاصل کی۔ اس دور میں اپنی تعلیمی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے انہیں کئی طرح کے جزوقتی کام کرنے پڑے۔ اس زمانے میں وہ ملٹری کے دفتر میں اکاؤنٹس کلرک کی حیثیت سے بھی بھرتی ہوئے۔ لیکن زیادہ دنوں تک نوکری نہ کر سکے اور اپنے ایک رشتہ دار کے امرتسرمیں واقع کاروباری دفتر میں کام کرنے لگے۔ اس درمیان194 7 میں ایم، اے۔ انگریزی میں داخلہ لے لیا جس کے بعد تقسیم ملک پر جو گندر پال کا خاندان ہندستان آ گیا۔ انبالہ شہر میں انہوں نے بود و باش اختیار کی اور ان کے والد نے دودھ کا کاروبار شروع کر لیا۔ جوگندر پال اس کاروبار میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے اور عنفوان شباب میں دودھیے بن گئے۔ وہ ہر روز صبح سویرے سائیکل کے دونوں طرف کیریئر پر بڑے بڑے کین باندھے آس پاس کے دیہاتوں میں دودھ لانے نکل جاتے اور لگ بھگ چالیس کلو میٹر کا سفر روز طے کرتے۔ پھر وقت نے کروٹ بدلا اور1948 میں ان کے والد اس دار فانی سے چل بسے۔ اب کنبے کی ساری ذمہ داری جو گندر پال پر آن پڑی۔ ان کے ایک دور کے رشتہ دار جو افریقہ میں جابسے تھے، 1948میں اپنی بیٹی کے لئے انبالہ چھاؤنی میں کسی لڑکے کو دیکھنے آئے، جوگندر پال اس لڑکے کی تلاش میں سارادن ان کے ساتھ سرگرداں رہے۔ وہ لڑکا تو انہیں نہیں ملا کیونکہ لڑکے کے حوالے سے جو معلومات فراہم کی گئی تھیں اس پتے پر ایسا کوئی لڑکا تھا ہی نہیں۔ مگر جو گندر پال ان کو اپنی بیٹی کے لئے پسند آ گئے۔ والد کے گزر جانے کے بعد جوگندر پال کے خاندان میں، ان کی چھوٹی بہن ’ سدرشنا‘ اور ماں ’مایا دیوی‘ ہی رہ گئے تھے۔ اسی سال اکلوتی بہن کی شادی بھی ہو گئی اور جوگندر پال اپنی شادی کی شرط پر ماں، سسر اور ہونے والی اہلیہ کے ساتھ کینیا روانہ ہو گئے۔ 1949میں جو گندر پال کو 508شلنگ ماہانہ تنخواہ پر نیروبی میں اسکول ماسٹر کی سرکاری نو کری مل گئی۔ جوگندر پال انگریزی کے ٹیچر تھے۔ معقول تنخواہ، محبت کرنے والی رفیق حیات، خوشحال اور پر سکون زندگی، یہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ کہانی لکھنے کا شوق جوگندر پال کو ابتدائی کلاسوں میں پڑھتے وقت ہی ہو گیا تھا۔ بی، اے تھرڈ ایئر کے دوران ان کی پہلی کہانی ’تعبیر‘ کالج میگزین میں چھپی تھی جو پسند کی گئی تھی۔ لیکن ان کے ادبی سفر کا با قاعدہ آغاز شاہد احمد دہلوی کے ماہنامہ ’ساقی‘ میں ان کی کہانی ’تیاگ سے پہلے ‘ کی اشاعت کے ساتھ ہوا۔ افریقہ کی پرسکون زندگی نے جوگندر پال کے ادبی ذوق کو جلا بخشی۔ جوگندر پال بہت حساس اور انسانی ہمدردی سے مملو تخلیق کار ہیں۔ وہ جہاں بھی رہے اپنی نظریں کھلی رکھیں۔ افریقہ میں گوری انگریز قوم کے ہاتھوں کالے افریقیوں پر ظلم واستحصال ان کی روح کو زخمی کر گیا۔ ’دھرتی کا کال‘ مجموعے کے گیارہ افسانے انہوں نے مظلوم سیاہ فام افریقیوں کے حالات سے متاثر ہو کر ہی لکھے ہیں۔ ان افسانوں سے اعلی انسانی قدروں میں جوگندر پال کے گہرے ایمان اور یقین کی شہادت ملتی ہے۔ ان میں ’ہرامبے ‘ جامبو رفیقی‘ اور ’معجزہ‘ برطانوی آمریت کے استحصال اور افریقی عوام کی مظلومیت کی زندہ مثالیں ہیں۔ جوگندر پال نے اپنی عمر عزیز کے چودہ طویل برس ہندستان سے باہر کینیا میں گزارے اور اس پورے عرصے میں ہندستان آنے کا جتن کرتے رہے مگر بات نہ بنتی تھی۔ بالآخر 1963 میں کینیا آزاد ہوا تو دوسرے غیر ملکی شہریوں کی طرح انہیں بھی یہ اختیار دیا گیا کہ یا تو وہ یہاں کی شہریت اختیار کر لیں یا قبل از وقت ملازمت سے پنشن لے لیں اور چاہیں تو لندن جا کر آباد ہو جائیں یا اپنے ملک واپس چلے جائیں۔ برسوں سے ہندستان واپس لوٹنے کی جوگندر پال کی خواہش گویا بر آئی اور انہوں نے لندن میں رہ کر خوشحالی اور فراغت کی زندگی کی بجائے ہندستان کی سختیوں کو گلے لگا لیا۔ 1964میں ہندستان واپس آ کر جوگندر پال نے حیدرآباد، دکن میں سکونت اختیار کی۔ یہاں عثمانیہ یونیورسٹی میں لکچر ر کی ایک اسامی خالی تھی جس کے بارے میں ان کے دوست سلیمان اریب نے ان کو یقین دلایا تھا کہ ان کو یہ جگہ مل جائے گی لیکن بی، اے، میں تھرڈ کلاس ہونے کی وجہ سے ان کو یہ جگہ نہیں مل سکی۔ در اصل عثمانیہ یونیورسٹی کے ضوابط کے تحت تھرڈ کلاس پاس امیدوار لکچر ر نہیں بن سکتا تھا۔ اتفاق سے ان کی ملاقات شری شراف نامی شخص سے ہو گئی۔ شری شراف اورنگ آباد کے ایس بی کالج کی گورننگ کونسل کے جنرل سکریٹری تھے۔ انہوں نے کالج کے شعبۂ انگریزی کے پروفیسر کی خدمات جوگندر پال کو سونپ دی۔ 1965 میں ایس بی کالج کی گورننگ کونسل نے پروفیسر شپ کے علاوہ کالج کی پرنسپل شپ کے فرائض بھی جوگندر پال کو سونپ دیئے۔ انہوں نے اس خوبصورت تاریخی شہر میں رہ کر محسوس کیا کہ اس شہر کی زمین سے ان کا روحانی رشتہ ہے۔ یہاں انہوں نے بحیثیت استاد سینکڑوں طلبا کی اس خلوص اور محبت کے ساتھ تربیت کی کہ پورا شہر ان کی محبت و عقیدت میں گرفتار ہو گیا۔ جوگندر پال اس شہر سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مولوی عبدالحق کے اس خوبصورت شہر اورنگ آباد دکن نے مجھے از سر نو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا۔ اہلیان اورنگ آباد نے مجھے بے انتہا محبت دی۔ میری اہلیتوں پر اتنا اعتماد کیا کہ واقعی اہل بننے کا جتن کئے بغیر میرے لئے کوئی اور چارہ ہی نہ رہا، یہاں مجھے بعض نہایت پیارے دوست نصیب ہوئے، ایک دفعہ عید کے روز میں نے مولوی یعقوب عثمانی کو’ ہم انہیں پیار سے بھیا کہا کرتے تھے ‘بتایا۔ میرے بھائیاں جی ہر میلے میں مجھے چونی دیا کرتے تھے۔ انہوں نے بھیگی بھیگی آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے ایک چونی میری ہتھیلی پر رکھ دی اور پھر آخری دم تک ہر سال دونوں عیدوں پر مجھے اپنی چونی دینا نہ بھولے۔ ‘‘ (1)

جوگندر پال کو اورنگ آباد سے بے حد پیار تھا۔ ان کو یہاں مولوی یعقوب عثمانی، یوسف بھیا، فضیل جعفری، ڈاکٹر عصمت جاوید، وحید اختر، ڈاکٹر معین شاکر، شاعر بشر نواز جیسے دوستوں اور پروفیسر صادق و پروفیسر عتیق اللہ جیسے با ذوق ارادت مندوں کا حلقہ ملا۔ اس شہر سے ان کی محبت کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے یہاں ایک خوبصورت مکان ’پارک ولا‘ بنوایا۔ مگر ان کی بیوی کرشنا پال کو یقین نہیں تھا کہ وہ صدا وہاں ٹک پائیں گے۔ اورنگ آبا دمیں ہی جوگندر پال نے اپنے دو ناولٹ ’بیانات ‘اور ’آمد و رفت‘ اور ایک درجن پسندیدہ کہانیاں لکھیں۔ ان کی حق گوئی، ایمانداری اور خوش خلقی کی پورے اورنگ آباد میں مثال دی جاتی تھی لیکن جوگندر پال کے اندر کا تخلیق کار انہیں کہیں اور جانے کے لئے اکسا رہا تھا۔ بالآخر انہوں نے عیش و آرام اور چین وسکون کی زندگی کو خیرباد کہہ کر کل وقتی قلم کار بن کر باقی ماندہ زندگی ادب کی خدمت میں گزار دینے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ انہوں نے ملازمت ترک کر دی اور 1978میں دہلی آ کر بس گئے۔ دہلی آ کر بسنے کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں :

’’1978میں، میں اورنگ آباد چھوڑ کر دہلی آ گیا۔ حالانکہ مجھے بخوبی علم ہے کہ دلی کے تو ایک دل نہیں، اس لئے اس نے نہ کبھی کسی بادشاہ کا ساتھ دیا ہے نہ فقیر کا۔ ‘‘ (2)

جوگندر پال کو اورنگ آباد سے دہلی آئے ہوے جھبیس سال ہونے کو ہیں لیکن اورنگ آباد آج بھی ان کے خوابوں میں آباد ہے۔ جوگندر پال اردو افسانہ نگاروں میں اپنے مخصوص لہجے اور منفرد اسلوب کی وجہ سے ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ جوگندر پال نے اسلوب کی سطح پر تو خود کو ممتاز بنایا ہی ہے، ساتھ ہی موضوعات اور تکنیک میں بھی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے فلسفہ اور استفہام کی آمیزش سے کہانی کو نئے جہان معانی سے روشناس کرایا ہے۔ جوگندر پال نے افسانے کے بندھے ٹکے اصولوں کو توڑا ہے اور اپنا راستہ خود نکالا ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی ان کے افسانوں کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’جوگندر پال کے افسانوں میں کہانی پن کی تلاش بے معنی ہو گی۔ ان کے افسانوں کے منتشر اجزا در اصل خیالات کی دھوپ چھاؤں میں متحد ہوتے ہیں۔ ان کا اتحاد معنوی ہے کہ ایسی معنوی تکمیل کے لئے روایتی اسلوب بیان شاید موزوں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوگندر پال کا افسانوی ماحول سطحی نظر میں افسانوی نہیں معلوم ہوتا۔ مجھے احساس ہے کہ وہ حضرات جو افسانے کو کومل، نازک، سیدھا سپاٹ فن سمجھتے آئے ہیں انہیں جوگندر پال کو پڑھ کر سخت مایوسی ہو گی لیکن جنہیں افسانے کے ارتقائی سفر کی خبر ہو گی اور اس کے اعلی منصب کا احساس ہو گا وہ بار بار اس طرف رجوع کریں گے۔ ‘‘ (3)

آج جوگندر پال کے قارئین کی تعداد بے شمار ہے۔ ہندستان، پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے پڑھنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ان کے افسانے ہندی، پنجابی، نارویجین کے علاوہ انگریزی اور جرمن میں ترجمہ ہو کر شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تخلیقات روح اور ضمیر کے معاملے میں بے حد سنجیدہ اور دیانت دار ہیں۔ وہ انسانیت کے مبلغ ہیں اور اس تبلیغ کے علاوہ وہ کسی اور دوسرے نظریہ کی تبلیغ نہیں کرتے۔ ان کی کہانیاں اپنی روح اور فکری قوتوں کے بل بوتے قاری کے شعور میں گھر کر لیتی ہیں۔ وہ صرف لفظوں سے نہیں کھیلتے، وہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں ان کی سوچ کا گہر اپن موجود ہوتا ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں :

’’بے ضمیر تحریریں کتنی بھی دلچسپ ہوں پوری ہوتے ہی پڑھنے والے کے ذہن سے کافور ہو جاتی ہیں۔ لٹریچر کے باب میں تو وہی کہانیاں آتی ہیں جو بارش کے قطروں کی طرح سوکھی زمین میں سرایت ہوتی چلی جائیں اور انہیں پڑھ لینے کے بعد آنکھوں میں سبزہ ابھر آنے کا احساس ہو۔ ایسی کہانیاں مصنف کے ضمیر سے قطرہ قطرہ بادلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ‘‘ (4)

جوگندر پال کی کہانیوں کو پڑھ کر عین اسی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ جوگندر پال آج شہرت و عظمت کے بلند ترین مقام پر پہنچنے کے باوجود عالمانہ غرور، دکھاوے اور بڑبولے پن سے کوسوں دور ہیں۔ ان سے ملنے ادب کا کوئی ادنی طالب علم پہنچے یا کوئی بڑا نقاد و ادیب وہ ہر کسی سے یکساں خلوص اور اپنائیت کے ساتھ ملتے ہیں۔ میں خود ان سے کئی بار مل چکا ہوں اور اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ جوگندر پال کی منفرد علمی، فنی و شخصی خوبیاں اور ان کے غیر معمولی تخلیقی کارنامے پوری دنیا میں مشہور و مقبول ہیں۔ ان کی کہانیاں غور و فکر کی دعوت دینے کے ساتھ انسانی زندگی کی پیچیدہ نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے کی صلاحیت بھی بخشتی ہیں۔ اب ذیل میں ان کی تخلیقات کی فہرست دے رہا ہوں تاکہ ان کی پوری ادبی زندگی قاری کے سامنے رہے۔

افسانوی مجموعے : سنہ اشاعت

دھرتی کا کال 1961

میں کیوں سوچوں 1962

رسائی 1969

مٹی کا ادراک 1970

لیکن 1977

بے محاورہ 1978

بے ارادہ 1981

کھلا 1989

کھودو بابا کا مقبرہ 1994

 

افسانچے :

سلوٹیں 1986

کتھا نگر 1986

 

ناول:

ایک بوند لہو کی 1962

نادید 1983

 

ناولٹ:

بیانات 1975

آمدورفت 1975

خواب رو 1991

پار پرے 2004

 

دیگر تخلیقات:

رابطہ(سفرنامہ اور مکالمے ) 1979

بے اصطلاح( مجموعہ مضامین) 1998

 

جوگندر پال کو دیئے گئے انعامات و اعزازات:

میر تقی میر ایوارڈ (برائے بے ارادہ) 1981

میر تقی میر ایوارڈ(برائے نادید) 1983

اردو ادب ایوارڈ (ہندی اردو ایوارڈ کمپنی، لکھنؤ) 1983

غالب ایوارڈ(غالب میموریل ویلفیئر سوسائٹی) 1983

دہلی اردو اکیڈمی ایوارڈ ( برائے اردو نثر) 1988

غالب ایوارڈ (برائے اردو نثر) 1989

ساحر ایوارڈ( ادیب انٹر نیشنل، لدھیانہ) 1990

شرومنی اردو ساہتیہ ایوارڈ( پنجاب سرکار) 1992

بہادر شاہ ظفر ایوارڈ (اردو اکادمی، دہلی) 1996

بنگال اردو اکادمی ایوارڈ (برائے پار پرے ) 2005

                   بیانات

 

’بیانات‘ جوگندر پال کا ایک خوبصورت ناولٹ ہے، اس میں جوگندر پال نے سائنس، فکشن اور زندگی کے باہمی رشتے اور تعلق کو علامتی انداز میں فنکارانہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ یہ ناولٹ جوگندر پال نے اپنے قیام اورنگ آباد کے دوران 1971 میں لکھا تھا۔ پہلی بار یہ 1971 میں ہی ’شب خون ‘میں چھپا تھا۔ کتابی شکل میں یہ ناولٹ 1975 میں شائع ہواجس کا ناشر انڈین بکس پبلیکیشنز، دلال واڑی، تلک روڑ، اورنگ آباد دکن ہے۔ 92 صفحات پر مشتمل یہ ناولٹ سائنس، فکشن اور زندگی کے باہمی رشتے کو جس طور پر تخلیقی گرفت میں لیتا ہے اس کی کوئی نظیر اردو میں نہیں ملتی۔ مختصر کینوس اور معدودے چند کرداروں کے ذریعہ جوگندر پال نے جس طرح اس ناولٹ کے پلاٹ کو بنا ہے وہ صرف انہیں کا خاصہ ہے۔ اردو میں عام طور پر اس طرح کے موضوعات کو کم برتا جاتا ہے۔ لیکن جوگندر پال نے اپنے ناولوں، ناولٹ، افسانوں اور افسانچوں میں گہرے سوچ و فکر والے موضوعات کو ہی اپنی فنی جولانیوں کی آماجگاہ بنایا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی اشاعت کے فوراً بعد قارئین و ناقدین نے اس ناولٹ پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر تنقیدی مضامین بالکل نظر نہیں آتے۔ جب کہ اس زمانے میں سائنس میں نت نئی ایجادات اور ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں تیزی سے ان کے حاوی ہونے کے سبب سائنس، فکشن اور زندگی میں توازن بہت تیزی کے ساتھ بگڑ رہا تھا اور پہلے سے بنا بنایا ڈھانچہ بکھر رہا تھا۔ جوگندر پال بڑی گہری سوچ و فکر کے مالک تخلیق کار ہیں۔ ان کی دوربین نگاہیں ان چیزوں تک جاتی ہیں اور ان باریکیوں کو دیکھ لیتی ہیں جن تک عام لوگوں کی نظر بڑی مشکل سے پہنچ پاتی ہے۔ انہوں نے اس بگڑتے توازن کو اپنے اندر جذب کیا اور پھر اسے تخلیقی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ لیکن ہم اردو والے غور و فکر سے بالکل عاری ہو چکے ہیں اور کسی بھی گہری چیز پر دھیان دینا اپنے حصے کی چیز نہیں سمجھتے۔ پروفیسر لطف الرحمن کو بھی یہ شکایت ہے کہ اس خوبصورت اور اہم ناولٹ پر قارئین و ناقدین نے توجہ نہیں دی۔ انہوں نے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے 1993 میں اس ناولٹ پر تیس صفحات پر مشتمل ایک طویل مضمون لکھا اور اس ناولٹ کی فکری و فنی خوبیوں کو بیان کیا۔ بظاہر یہ ناولٹ ایک لڑکی ’سیما‘ کی کہانی ہے جو بنارس میں فکشن کے کسی مسئلے پر ریسرچ کر رہی ہے جس میں اس کا سوپروائزر ’شنکر‘ ہے۔ ’سیما‘ کا ایک پسندیدہ کہانی نگار ’ساہو‘ ہے جو ’شنکر‘ کا دوست ہے۔ سیما شنکر کے ذریعہ ساہو سے ملتی ہے اور اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ ساہو جس کا ایک بیٹا ہے مگر اس کی بیوی کا انتقال ہو چکا ہے وہ بھی سیما سے محبت کرنے لگتا ہے لیکن اس سے اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا جبکہ دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ دو سال بعد سیما اپنا ریسرچ پورا کر کے اپنے گھر واپس چلی جاتی ہے۔ جہاں اس کے سائنس داں باپ ’ڈاکٹر رائے ‘ اس کی ملاقات اپنے ایک جونیئر شریک کار سائنس داں ’دلیپ‘ سے کرواتے ہیں۔ دلیپ اور سیما میں قربتیں بڑھتی ہیں اور دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد سیما اپنے فطری تخلیقی جذبے سے مغلوب ہو کر ماں بننا چاہتی ہے۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ دلیپ نے اپنا آپریشن کرا رکھا ہے۔ سیما اس حقیقت سے انجان ہے۔ ادھر ساہو سیما کی یاد میں بے چین رہتا ہے اور اس کی شادی کی پہلی سالگرہ پر اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ سیما اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے۔ پارٹی کے بعد سیما دلیپ سے ملتی ہے اور ماں بننے کی اپنی ازلی خواہش کا اظہار کرتی ہے تو دلیپ اسے حقیقت بتانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت جان کر سیما بے چین ہو جاتی ہے اور بغاوت پر اتر آتی ہے۔ صبح دلیپ کے آفس جانے کے بعد سیما ساہو کو پوری بات بتاتی ہے اور پھر دونوں کی دوریاں قربت میں بدل جاتی ہیں۔ سیما کو لگتا ہے کہ وہ ساہو کے پودے کو اپنی کوکھ میں سینچ رہی ہے۔ کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک علامتی ناولٹ ہے اور اس سیدھی سادی کہانی کے پیچھے تخلیق کار کا جو منشا ہے اسے سمجھنا ہی اس ناولٹ کی روح کو پانا ہے۔ یہ ناولٹ جدے دیت کا نمائندہ ناولٹ ہے۔ اس میں حقیقی اور غیر حقیقی زندگی کے مسئلے کوڈرامائی کشمکش کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ’جدے دیت کی جمالیات‘ میں پروفیسر لطف الرحمن اس ناولٹ کے موضوع کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’بیانات‘ کا بنیادی موضوع میکانکی اور مشینی سماج میں سائنس، فنون لطیفہ اور زندگی میں متوازن امتزاج وہم آہنگی کی نمایاں کمی بلکہ تضادو تناقض اور بعد و بے رشتگی ہے۔ سائنسی تعقل، فنکارانہ تخیل پسندی اور زندگی کی فطری تخلیقی بے ساختگی کے درمیان کوئی رشتہ ربط اور ترتیب و تنظیم باقی نہیں۔ جس نے عصری زندگی کو محرومی و محزونی، بے رفتاری و نامرادی، تنہائی و اجنبیت کے درد و کرب کا گہوارہ بنا دیا ہے۔ پال نے اس ناول میں عصری زندگی کی مختلف حسیات و کیفیات کی تخلیقی آئینہ داری کرتے ہوئے اپنے اساسی موضوع کی دلکش تعبیر کی ہے۔ ‘‘ (5)

اس ناولٹ کو جوگندر پال نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا’اس کا شوہر‘ دوسرا’اس کا عاشق‘ اور تیسرا حصہ ’وہ‘ ہے۔ پہلے حصے میں سیما کے شوہر دلیپ کے حالات و کیفیات اور اس کی سوچ و فکر کی سمت و جہت کو خود کلامی کے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ در اصل اس ناولٹ میں ہر کردار ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ناولٹ کی ہیروئن ’سیما‘ علامت ہے زندگی کی، سیما کا شوہر دلیپ علامت ہے سائنسی اور میکانکی تعقل کا اور ساہو، جو فنکارہے، علامت ہے زندگی کے تخلیقی محرک کا۔ ناولٹ کے پہلے حصے میں دلیپ کے خیالات کے ذریعہ فی زمانہ فنون و ادب کے متعلق جو خیالات و نظریات مادہ پرست اور میکانکی لوگوں کے ذہن و دماغ میں ہے اسے پیش کیا گیا ہے۔ سیما کا باپ ’ڈاکٹر رائے ‘ جب دلیپ کو بتاتا ہے کہ آج میری بیٹی آ رہی ہے۔ تو وہ سوچتا ہے :

’’ڈاکٹر رائے کی بیٹی بنارس میں پی ایچ، ڈی کے لئے فکشن کے کسی پرابلم پر کام کر رہی تھی۔ میں اکثر ہنسا کرتا  کہ محض فکشن سے کسی کو کیا پرابلم درپیش ہو سکتا ہے۔ ‘‘

مادہ پرستی کے اس دور میں ساری قدریں، سارے اصول اور اخلاقیات بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہاں کسی وعدے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وعدے کو نبھانے کے حوالے سے آج کی جینیریشن کیا سوچتی ہے اور اس کو کیسے جسٹی فائی کر تی ہے اس کی مثال دیکھئے :

’’کیا تم دلیپ چندر پتر گیان چندر ہمیشہ کے لئے اپنا سارے کا سارا سیما پتری امیس رائے کے حوالے کر تے ہو؟

یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں سداکے لئے اپنے آپ کو ایک ہی سیما کے حوالے کر دوں ؟ اس سیما کے پار ان گنت سیمائیں ہیں اور ان کے پار اور ان گنت سیمائیں، مگر میرے لمحاتی جذبے سے میری آنکھیں کھلی رہ گئیں ہیں اور میری اندھی اندھی گویائی نے بڑی معصومیت سے اقرار کر لیا ہے کہ مجھے یہی سیما سدا کے لئے قبول ہے۔ پر ایک ساعت کی بات سدا کی بات نہیں ہو تی، سدا کی بات تو ساعت ساعت بے ساعت ہو جاتی ہے میں چاہوں توبھی ایک پل کی کیفیت کو ہمیشہ کے لئے اپنے اوپر کیونکر طاری کئے رکھوں ؟ میرے سارے وعدے منھ سے نکلتے ہی اسی پل نبھ جاتے ہیں اور نہ بھی نبھیں تو میں ذمہ دار نہیں، کیونکہ ایک آدمی سدا وہی ایک نہیں ہو تا۔ بس اسی ایک پل وہی ایک ہوتا ہے، اپنا کو ئی وعدہ نبھانے کا جتن کئے جانا خواہ مخواہ کسی مر کھپ گئے شخص کے وعدہ کو اپنے اوپر لادے چلے جانا ہے۔ وعدہ کرنا شاید غیر فطری نہیں پر وعدہ نبھانا بڑا غیر فطری ہے۔ میں اپنے ایک ساعت کے جذبے کے لئے ساری عمر کیوں قربان کروں۔ ایک ہی سیما اتنی بڑی زندگی کو کیسے سمیٹ سکتی ہے۔ ‘‘

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موضوعی و داخلی اقدار حیات خالص مادہ پرستی کے اس دور میں بے معنی ہو کر رہ گئیں ہیں۔ بزرگوں کا تمسخر ان کے لئے عام بات ہے۔ ڈاکٹر رائے کے تئیں دلیپ کا رویہ دیکھئے :

’’تم اس سے مل کر بہت خوش ہو گے دلییپ‘‘ ڈاکٹر رائے کو مجھ سے اپنا کوئی پیپر پڑھوانا ہوتا تو وہ یہی کہتا ’’ اسے پڑھ کر تم بہت خوش ہو گے دلیپ‘‘ اور میں فوراً جواب دیتا ’’ میں اسے ضرور پڑھوں گا ڈاکٹر‘‘

’’میں اس سے ضرور ملوں گا ڈاکٹر‘‘۔

میرے بھولے اور بزرگ دوست کو میرے تعظیم آمیز تمسخر کا احساس نہ ہوا۔ ‘‘

اپنے بزرگوں کے ساتھ یہ رویہ اب بالکل عام بات ہے۔ دو مختلف ذہن و مزاج اور تہذیب و تمدن کے فرق کی بناپر ہی ڈاکٹر رائے کو دلیپ کے تمسخر کا احساس نہ ہو سکا۔ لیکن دلیپ جب سیما سے ملتا ہے تو سیما کے حسن سے اس کی آنکھیں خیرہ رہ جاتی ہیں۔ وہ سیما میں اس قدر کشش محسوس کرتا  ہے کہ اسے خود اپنے اوپر حیرت ہوتی ہے۔ بقول پروفیسر لطف الرحمن ’’ دلیپ پہلی ہی ملاقات میں اس کا اسیر سحر ہو جاتا ہے۔ پال نے سیما کی شخصیت وسیرت کی اس دل کشی اور سحر طرازی کے پس پردہ زندگی کو علامتی حیثیت دی ہے۔ بہ ظاہر دلیپ پر سیما کا جادو چلتا ہے۔ یہ کہانی کی عشقیہ سطح ہے۔ علامتی سطح پر دلیپ کے پس پردہ میکانکی تعقل ہے اور سیما کے پس پردہ متحرک، فعال، حسین اور دلکش زندگی ہے۔ ‘‘(6) سیما سے مل کر دلیپ کی کیا کیفیت ہو تی ہے، دیکھئے :

’’لیکن سیما کو دیکھ کر میں ٹھٹک کر رہ گیا، جیسے کیمرے کے دل پر یکلخت سامنے آئے ہوے شخص کی تصویر اتر آتی ہے۔ پر میرا دل کو ئی عام فوٹو کیمرہ نہیں، بلکہ ایکس رے مشین ہے۔ اس پر کسی لڑکی کی بیرونی شبیہ اتر نے کی بجائے اس کا بے شکل سا عکس دروں بنتا ہے اور بس۔ مگر تعجب ہے کہ سیما کا پورا ناک نقشہ میرے دل و دماغ کی سالم دیوار پر کھینچ آیا۔ کتھا کلی کی یہ ودیارتھی مجھے اتنی غیر حقیقی معلوم ہوئی کہ حقیقت پر میری گرفت از خود ڈھیلی پڑ گئی۔ وہ کسی ناقابل یقین افسانوی کردار کے مانند نہایت دلچسپ لگ رہی تھی۔ اتنی کہ مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ میں اس میں بھر پور دلچسپی لے رہا ہوں۔ میں نے یونہی ذرا دیکھنے کے لئے کتاب کا ایک ورق الٹا تھا پر دیکھتے دیکھتے کہانی میں الجھ کر رہ گیا۔ ‘‘

یہاں سارا تعقل، ساری میکانکیت زندگی کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے اور زندگی اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ زندگی کے ہی دم سے سارا ہنگامہ برپا ہے۔ یہاں زندگی کے سامنے معروضیت درہم برہم ہو جاتی ہے اور دلیپ سیما کے حسن کی سحر طرازیوں میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر جب ڈاکٹر رائے دلیپ سے پو چھتے ہیں :

’’بتاؤ بھئی، میری بیٹی سے شادی کرو گے ؟‘‘

تو اس کا جواب ہوتا ہے :

جی ہاں۔ میں نے بلا سوچے سمجھے جواب دیا، حالانکہ مجھے یقین ہے کہ سوچے سمجھے بغیر میں اپنے ماں باپ کے یہاں پیدا بھی نہ ہواہوں گا۔ ‘‘

کسی چیز کو کرنے سے پہلے جس کے سوچنے سمجھنے کی یہ کیفیت ہو، وہ اگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تو اسے زندگی کے جادو کے علاوہ اور کیا کہیں گے۔ جو گندر پال نے یہاں دکھایا ہے کہ زندگی کے ہی دم سے سب کچھ قائم ہے اور جب زندگی اپنی کشش دکھاتی ہے تو انسان سب کچھ بھول کر کشاں کشاں اس کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ سیما شادی کے بعد ماں بننا چاہتی ہے لیکن دلیپ آپریشن کے سبب تخم ریزی کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔ لیکن اس کو اس پر کسی طرح کی کو ئی عار محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کو صحیح ثابت کرنے اور جائز ٹھہرانے کے لئے اس کی اپنی دلیل ہے۔ دیکھئے :

’’میں سوچتا ہوں، میں نے آپریشن کیوں کروایا ہے کھیتوں کی طرف امنڈتے ہوے پانی کا رخ واپس پانی ہی کی طرف کیوں موڑ دیا؟ پانی مٹی میں جذب ہو ہو کر سیر ہوتا ہے۔ اپنے آپ میں ڈوب کر اس کی پیاس نہیں بجھتی۔ مگر کیا کروں مجھے ایک سیما یا دس سیماؤں کی آباد کاری کا کام بھی پسند نہیں۔ گھریلو بستروں کی سیماؤں کی آبادکاری سے پہلے ہی ہماری دنیا کے حاجت مندوں اور غلاموں کی تعداد بے حساب ہو رہی ہے۔ میں سائنس اور سچائی کو زیر کر کے انہیں ثمر آفریں بنانا چاہتا ہوں۔ مجھ جیسے لوگ نہ ہو تے تو سچائیاں بانجھ کی بانجھ رہ جاتیں، اور تو اور وہ اپنے جھوٹ بھی پیدا نہ کر پاتیں۔ ‘‘

وہ سو چتا ہے کہ انسانی آبادی پہلے ہی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ان کی ضروریات کی چیزیں دستیاب ہو نا مشکل ہو گئی ہیں اور لوگ ان ضروریات زندگی کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے غلاموں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ غلاموں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ سائنس اور سچائی کی تسخیر سے انسانوں کے لئے کوئی بڑا کارنامہ انجام دینا چاہتا ہے اور یہ ایک ’سیما‘ یا کئی ’سیماؤں ‘ کی آبادکاری سے نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ تو محض سائنس کی تسخیر سے ممکن ہے۔ اس لئے اسے اپنے اس عمل سے کوئی عار نہیں ہے۔ یہیں سے سائنس ایب نارمل ہو جاتا ہے۔ اگر دنیا کے سارے لوگ ایسا ہی سوچنے لگیں تو انسانی وجود ایک روز فنا کے گھاٹ اتر جائے گا۔ پھر سائنس کی ایجادات و اختراعات کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا۔ سیما سے دلیپ کا ازدواجی رشتہ بالکل میکانکی اور مشینی ہے۔ وہ سیما کو محض نیچر میک مارفیا سمجھتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سیما زندگی کے تخلیقی تقاضے سے سرشار ہے۔ تہذیب حاضر کا المیہ یہی ہے کہ سائنسی ایجادات و اختراعات اور انسانی جذبات واحساسات میں کو ئی ہم آہنگی نہیں ہے جس سے تہذیبی و اخلاقی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ آج کی مادہ پرستی اور میکا نکی ہوڑ میں تہذیب و اخلاق کے ساتھ مذہب کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ دیکھئے دلیپ مذہب کے متعلق کیا سو چتا ہے :

’’حالانکہ وہ صاف میری بات کا یقین کر رہی ہے لیکن میرا جی چاہا ہے کہ اسے یقین دلانے کے لئے اپنی بچپن کی عادت کے مطابق دھرم کی سوگندھ کھالوں۔ دھرم میں اب میرا یقین نہیں رہا لیکن بچپن میں مجھے دھرم کی قسم اور گلاب جامون کھا کھا کر بڑا مزہ آتا تھا۔ ‘‘

گویا دلیپ یہ کہنا چاہتا ہے کہ دھرم میں یقین اور وشواش بچکانہ باتیں ہیں۔ اسی لئے اس کے لئے دھرم کی قسم کھانا اور گلاب جامون کھانایکساں ہے۔ دلیپ سائنسی تہذیب کا نمائندہ ہے اور ایک ایسے نظام کی اتباع کرتا  ہے جس میں قدیم تہذیب، اقدار اور مذہب کے لئے کو ئی جگہ نہیں ہے۔ عصری معاشرے میں ان چیزوں پر عمل آوری دقیانوسی سمجھی جاتی ہے۔ جو گندر پال نے سیما میں دلیپ کی غیر معمولی کشش کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ زندگی میں سائنس کی دلچسپی کے بغیر سائنس کی بقا ممکن نہیں۔ سائنس نے بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں لیکن اس کے باوجود سائنس غیر محدود نہیں ہے۔ اس کی بھی ایک حد ہے جس سے آگے وہ نہیں جا سکتا۔ دیکھئے سیما جب اپنی خواہش کا اظہار کر تی ہے تو دلیپ خود کو کس طرح مجبور پاتا ہے :

’’میراجی چاہتا ہے کہ میں اب جلد ہی تمہارے بچے کی۔ ۔ ۔ ‘‘

(x1x1x1۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1=)

’’ ہاں کہو۔ ۔ ۔ ‘‘ سیما پھر چپ ہو گئی۔

’’اب اور کیا کہوں ؟ تم بڑے شریر ہو‘‘

’’در اصل وہ چاہتی ہے کہ میں بڑی شرافت سے اپنی شرارتوں سے اس کی گود بھر دوں پر ایک کو ایک سے ضرب دے کر میں دو کیسے بنا دوں۔ ۔ ‘‘

دلیپ کے اس عجز میں در اصل سائنس کا عجز چھپا ہوا ہے۔ علامتی سطح پر کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کے ہر مطالبے کو پورا کرنے کی صلاحیت سائنس میں نہیں ہے۔ اس لئے سائنس پر پورا پورا انحصار ہر درد کا مداوا نہیں ہے۔ ایسی ہی صورت میں کسی غیر بصری مافوق الفطری وجود پر انسان کا اعتقاد بڑھ جاتا ہے۔ سائنس کی کوشش یہ ہے کہ کوئی بھی چیز آزادانہ طور پر وجود میں نہ آئے بلکہ ہر چیز کو بنایا جائے :

’’تخلیق کو آزادانہ معرض وجود میں آنے سے روکو ورنہ تمہاری ساری تعمیر دھری رہ جائے گی۔ پیدا نہ ہونے دو، بناؤ، ہماری مہذب قدروں کا مستقبل صرف بنانے سے بنے گا۔ ‘‘

ناولٹ کے دوسرے حصے کا عنوان ’ اس کا عاشق‘ ہے۔ اس حصے میں قاری افسانہ نگار ساہو، اس کے دوست شنکر، ساہو کے بیٹے اجے، ساہو کی ملازمہ محبوبی اور تانگہ والے نور بابا سے متعارف ہوتا ہے۔ یہاں بھی کہانی کی دو سطحیں ہیں۔ علامتی سطح پر یہاں ان کرداروں سے کیا مراد ہے اس بارے میں پروفیسر لطف الرحمن لکھتے ہیں ’’ ساہو کا بیٹا اجے، ساہو کے ذاتی حصار کی علامت ہے۔ جس میں وہ سیما کے درد و ہجر سے پناہ لیتا ہے۔ شنکر عہد حاضر کے اس انسان کی علامت ہے جو زندگی کو خود غرضی کی سطح پر برتتا ہے اور ذمہ داریوں سے گریز کرتا  ہے۔ محبوبی اور نور بابا کے کر داروں کے پس پردہ پال نے پرانی تہذیبی و انسانی قدروں کی عظمت و شوکت کی آئینہ سامانی کی ہے۔ ‘‘(7) ساہو علامت ہے زندگی کے محرک کا، جو زندگی کو مشکل اور ناموافق حالات میں بھی رواں دواں رہنے پر اکساتا ہے۔ ساہو عصر حاضر کے تخلیق کاروں کی بھی بھر پور عکاسی کرتا  ہے جو اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل سے قاصر ہیں۔ آج فنکار بزدلی اور بے ہمتی کی وجہ سے زندگی کو حقیقی سطح پر دیکھنے اور اس کے برملا اظہار سے ڈر تا ہے۔ ترقی پسندتحریک کے منشور کے تحت اردو کے ادیبوں نے بڑی حد تک اس کی کوشش کی تھی لیکن بعد میں یہ اپنے راستے سے بھٹک گئے اور ان کی تخلیقات میں لفاظی اور سطحیت آ گئی۔ جو گندر پال نے ساہو کے کردار کے ذریعہ اس نکتہ کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ آج کا فنکار سچائی کا مدعی تو ہے لیکن سچائی کو سرعام پیش کرنے کے نتائج سے ڈرتا ہے۔ جو گندر پال نے عصر حاضر کے فنکا روں کی ریاکاری، بزدلی، بے عملی اور مصلحت کوشی پر طنز کیا ہے :

’’میں برف کا انسان ہوں اور میری بے عملی کی برفانی تہیں میرے جسم سے یک جان ہو گئی ہیں، لیکن میں اس لئے بدستور زندہ ہوں کہ میرے برفانی قالب کے اندر میری رگوں میں گرم گرم خون دوڑ تا رہتا ہے اگر مجھے قتل کر دیا جائے تو میری برف کی سفیدی سرخ ہو ہو کر پگھل جائے۔ ‘‘

آج کے فنکاروں کی بے عملی کی اس سے بہتر تصویر کشی اور کیا ہو سکتی ہے۔ غالب نے کہا تھا:

رگوں میں دوڑتے پھر نے کے ہم نہیں قائل

جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

آج یہ صورت نظر نہیں آتی۔ آج کو ئی ایسا منظر نہیں دکھتا جہاں لہو آنکھ سے ٹپکتا ہوا دکھائی دے۔ آج کا فن کار یاتو سچائی کو پیش ہی نہیں کرتا یا پھر ڈھانپ، چھپا کر اتنے پر دوں میں پیش کرتا  ہے کہ کسی کو سچائی کا پتہ ہی نہیں چل پاتا۔ آج کے فنکار کی ایک مثال اور دیکھئے :

’’عجیب قصہ ہے ! میں سیما کو حاصل کرنے کے لئے بے تاب رہتا ہوں مگر اسے حاصل کرنے کے لئے ایک قدم بڑھا تا ہوں تو ڈر اور جھجک سے دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔ سیما کے قریب رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ میں اسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کروں، جیسے ہے ویسے ہی رہنے دوں۔ مجھے دارو رسن سے بچ بچ کر اپنی سچائی سے محبت کرنا ہے، بہ الفاظ دیگر سچائی سے محبت کروں یا نہ کروں مجھے دارورسن سے بہر صورت بچنا ہے۔ ‘‘

آج کے فنکاروں کی یہ مصلحت کوشی انہیں ان کے منصب سے بہت نیچے گرا دیتی ہے۔ فنکار مقصود تو حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن دارورسن کو چومنے سے فراری ہے۔ فنکار خوف و دہشت، خود غرضی اور کم ہمتی کا مظاہرہ کرتا  ہے۔ جو گندر پال کو فن کار کا یہ بزدلانہ رویہ پسند نہیں اس لئے وہ ساہو کے پس پردہ آج کے فنکاروں کی انفعالیت اور جمودو تعطل پر طنز کر تے ہیں۔ شنکر سیما کا ریسرچ گائیڈ ہے۔ ساہو، سیما کا پسندیدہ افسانہ نگار ہے۔ وہ شنکر سے ساہو سے ملوانے کی ضد کر تی ہے۔ شنکر سیما کو لے کر ساہو کے پاس پہنچتا ہے۔ سیما کو دیکھ کر ساہو کی کیا حالت ہو تی ہے دیکھئے :

’’لو بھائی مل لو اپنے محبوب افسانہ نگار سے۔ ۔ ‘‘

’’ میں نے سر اٹھا کر اپنے دوست کی ساتھی کی طرف دیکھا تو میرے ذہن میں گویا کئی خوش رو، خوش پوش کہانیاں کھیلتی کھیلتی بے خیالی میں آ گئیں اور انہیں دیکھ دیکھ کر مجھے یہ بھی نہ سوجھی کہ انہیں مقید کر لوں۔ میں آزاد کہانیوں کو چپکے سے مقید کر لیتا ہوں اور پھر جب وہ باہر آنے کے لئے میرے ذہن کا دروازہ پیٹ پیٹ کر چلانا شروع کر دیتی ہیں تو انہیں حرف حرف آزاد کئے دیتا ہوں۔ مگر سیما سے ملتے ہوئے میں ان کھلنڈری کہانیوں کو دیکھتا رہ گیا یعنی ان کی جانب ایک ٹک دیکھتے چلے جانے پر بھی ان کی طرف میرا دھیان نہ گیا، اور وہ کھیلتی کھیلتی میرے ذہن میں داخل ہو کر میرے ذہن سے نکل بھی گئیں۔ ‘‘

سیماسے پہلی ہی ملاقات میں ساہو کی اس درجہ وارفتگی کے ذریعہ جو گندر پال نے علامتی سطح پر زندگی میں بے پناہ کشش کو دکھایا ہے۔ لیکن فن کار اپنی بزدلی کی وجہ سے کسی بھی عمل سے گریز کرتا  ہے اور ساہو اسی دم یہ تہیہ کر لیتا ہے :

’’نہیں سیما میں تمہیں اپنی نیت کی بھنک بھی نہیں پڑنے دوں گا، میں تمہیں اپنی درندہ صفت بلندیوں سے محفوظ رکھوں گا۔ نہیں۔ ‘‘

شنکرساہو کو سیماکو ہمیشہ کے لئے اپنا لینے کا مشورہ دیتا ہے، وہ ساہو کو سیما سے شادی کے لئے اکساتا ہے۔ شنکر کی شخصیت یہاں ایک نقاد کی سی ہو کر ابھری ہے جو فن کو زندگی سے ہمیشہ کے لئے ملانے کی کوشش کرتا  ہے۔ وہ ساہو کو رام کرنے کے لئے اس سے کہتا ہے :

’’ساہو، سیما تمہارے آرٹ کو تم سے بھی زیادہ سمجھتی ہے۔ اگر تمہاری شخصیت تمہارے آرٹ سے مختلف نہیں تو سیما کی بدولت تمہارے سارے کا سارا اپنا آپ تمہاری سمجھ میں آ جائے گا۔ ‘‘

ساہو یہ جانتا ہے کہ سیما سے مکمل ارتباط و اختلاط کے بغیر ہستی کی معنویت تک رسائی نہیں ہو سکتی، وہ محسوس کرتا  ہے :

’’ہاں، عورت وہی اپنی ہو تی ہے جسے گلے لگا کر ہماری ذات کے سارے بھید ہم پر واہو جائیں اور جینا کسی پرائمری ٹیکسٹ بک کے مانند سرل معلوم ہونے لگے۔ سیما کے سینے سے سینہ جوڑ کر بڑی بڑی باتیں میرے لئے عام فہم ہو جائیں گی، میری کہانیاں ازخودسطحوں پر آ جائیں گی اور پہنچے ہوئے درویشوں کی طرح میرا باہر باہر بھی باطن میں ڈوبا ڈوبا معلوم ہو گا۔ ‘‘

مگر ساہومیں عمل کا حوصلہ نہیں ہے۔ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتا ہے اس کے برعکس وہ چاہتا ہے کہ سیما یعنی زندگی خود آ کر اس سے بے اختیار لپٹ جائے اور اس کے منع کرنے کے باوجود اس سے کہے ’ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی‘۔ پروفیسر لطف الرحمن لکھتے ہیں :

’’ساہو کے لئے سیما کی وارفتگی اور سپردگی اوج شباب پر ہے۔ زندگی فن سے ہم آغوش ہونے کے لئے بے تاب و بیقرار ہے۔ لیکن ساہو بزدل ہے۔ فن کار اپنے تخیل کے بھول بھلیوں میں گم ہے۔ اکثر ایساہوا ہے کہ سیما اس سے ملنے آئی ہے وہ سیما کو دیکھتا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ وہ خیالی سیما کو دیکھ رہا ہے۔ حقیقت زندگی سے یہ بے خبری اور اپنے آپ میں گم شدگی کی یہ کیفیت عصر حاضر کی مخصوص حسیت ہے جس کی علامت ہے ساہو، یعنی فنکار۔ ‘‘ (8)

سیما، ساہو کے حوصلے بڑھاتی ہے، اسے اکساتی ہے کہ وہ آگے بڑھے، اس کی طرف قدم بڑھائے اور اسے ہمیشہ کے لئے اپنا لے۔ لیکن ساہو اپنی بے عملی اور بزدلی کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتا۔ اس میں سیما سے اپنی محبت کا اظہار کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ بالآخر سیما اپنا ریسرچ پورا کر کے اپنے گھر واپس جانے لگتی ہے اور جاتے ہوے آخری بار اپنی خود سپردگی کے جذبے کا اظہار کر تے ہوے کہتی ہے :

’’تم سے دور جا کر میں بہت اداس ہو جاؤں گی ساہو، مگر میری آنکھیں تمہاری کہانیوں کے حرف کو چھو چھوکر پڑھا کریں گی تو۔ ۔ ۔ ‘‘

اس لفظ ’تو‘ میں لامتناہی خود سپردگی چھپی ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی فن کار اپنی بے عملی سے باہر قدم نہیں نکال پارہا ہے۔ جو گندر پال نے کہانی کو بڑی خوبصورتی سے ارتقائی مرحلوں تک پہنچایا ہے۔ متعدد بار ’ سیما جا رہی ہے، میرا بیٹا آ رہا ہے ‘ جملے کی تکرار سے جوگندر پال نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ فن کار حقیقی وجود کی سطح پر زندگی سے رشتہ ہموار کرنے کی جرأت سے محروم ہے اور وہ ایک غم کو ایک خوشی سے مندمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ دونوں کی کیفیت بالکل مختلف ہے۔ ایک کا دوسرے سے کو ئی ناطہ نہیں۔ لیکن بے عملی کی انتہائی صورت یہی ہو تی ہے۔

ناولٹ کے تیسرے حصے کی انفرادیت اس معنی میں ہے کہ ہم اس حصے میں ناولٹ کے تینوں کرداروں کو ایک ساتھ دیکھتے ہیں۔ اس حصے میں کہانی سیما کی خود کلامی اور اس کی نفسیاتی تجزیے سے آگے بڑھتی ہے۔ اس میں سیما کی شادی کی سالگرہ کا منظر ہے۔ دلیپ، سیما کو ساہو کے آنے کی خبر دیتا ہے۔ آج سیما اور ساہو پورے ایک سال چار ماہ بعد مل رہے ہیں۔ ان کی گفتگو اس طرح شروع ہو تی ہے :

’’ہم پورے ایک سال چار ماہ بعد مل رہے ہیں ساہو۔ ‘‘

’ہاں، سیما۔ ‘

’اس دوران میں تمہیں اپنی کہانیوں سے فرصت کب ملتی ہو گی؟‘’کیا کرنے کی فرصت؟‘

’ میرے بارے میں سوچنے کی فرصت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’ میری سمجھ میں نہیں آتا سیما، تمہیں کیا جواب دوں۔ تمہارے بارے میں سوچ سوچ کر میں تمہاری اصل ذات کو بھول ہی گیا تھا۔ تم یہ سارا عرصہ یہاں تھیں مگر مجھے معلوم ہونے لگا تھا کہ سیما میرے دل ودماغ میں ہے۔ اس کے سوا اور کوئی سیما ہے ہی نہیں۔ ‘

’تو پھر تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟‘‘

بقول پروفیسر لطف الرحمن ’ ’سیما کا یہ رد عمل فطری ہے۔ خصوصیت کے ساتھ اس پس منظر میں کہ دلیپ اس کے فطری تخلیقی جذبے کی تسکین میں ناکام رہا ہے۔ ساہو بھی خیالوں کی دنیا کا اسیر ہے اور دلیپ بھی۔ یعنی خارجیت میں دونوں ڈوبے ہوے ہیں۔ ‘ ‘(9)جبکہ سیما، یعنی زندگی کو تلاش ہے اس سے ہمکنار ہونے والے کی، اسے سرشار کرنے والے کی، اس سے پیار کرنے والی کی۔ اس درمیان ساہو جواب دیتا ہے :

’’مجھے معلوم نہیں سیما، میں کیوں چلا آیا ہوں۔ ۔ ۔ اتنی خواہش ہو تو رک کر سوچنے کا خیال ہی نہیں آتا۔ ۔ ۔ اور آ کر ہی سوچ آتی ہے کہ کیوں آئے۔ ۔ ۔ ‘‘

لیکن سیما کو اپنی کشش کا احساس ہے، وہ سوچتی ہے :

’’مجھے معلوم ہے ساہو تم کیوں آئے ہو؟ ساہومجھے بڑا اچھا لگ رہا ہے اور اپنے لئے اس کی بے چینی محسوس کر کر کے مجھے چین مل رہا ہے۔ ‘‘

جب سیما اور دلیپ کی شادی ہوئی تھی تو شروع شروع میں دلیپ سیما میں بہت زیادہ دلچسپی لیتا تھا لیکن اب سیما میں اس کی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ جبکہ ساہو کی دلچسپی اور اس کی محبت سیما کے لئے بڑھ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سیما کے پاس کھنچا چلا آیا ہے۔ علامتی سطح پر سائنس کی دلچسپی زندگی میں کم ہو رہی ہے اور فکشن اور فنون لطیفہ کی دلچسپی زندگی میں گہری ہوتی جا رہی ہے۔ دلیپ کے رویے نے سیما میں بغاوت کا جذبہ پیدا کر دیا ہے :

’’ میں دلیپ کو اپنا جیلر بننے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اسے میرا ساتھی بننا ہو گا۔ اگر وہ میرا ساتھی بن جائے تو میں اس کے لئے سب کو چھوڑ سکتی ہوں۔ میں نے اپنے آپ کو یقین دلایا ہے کہ ساہو کو بھی چھوڑ سکتی ہوں۔ ‘‘

گویا کہ سیما کے لئے سب کچھ ساہوہی ہے۔ آج دلیپ کو جلدی گھر آنا تھا مگر پانچ بج جانے پر بھی وہ گھر نہیں پہنچا ہے ادھر سیما کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے ساتھ ہی دلیپ سے جذباتی طور پر دوری اور ساہو سے قربت بھی۔ اسی لئے اس نے پارٹی کے لئے اس سفید ساڑی کا انتخاب کیا ہے جس کے کنارے گہرے نیلے رنگ کے ہیں۔ دلیپ کو سفید رنگ پسند ہے اور ساہو کو گہرا نیلارنگ پسند ہے۔ سیما کو اپنی ساڑی کا نیلا بورڈر بڑا پیا را لگ رہا ہے۔ یہ شعوری طور پر ساہو کی طرف اس کے جھکاؤ کی علامت ہے۔ دلیپ کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی کچھ مہمان آ چکے ہیں اور سیما کی خفگی بڑھتی جا رہی ہے لیکن اس نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ آج دلیپ سے لڑے گی نہیں۔ سیما کے ممی، پاپا بھی آ گئے ہیں۔ اس کی ممی نے اسے ربر کی ایک گڑیا تحفے میں دیا ہے اور پوچھتی ہے :

’’ تمہیں یہ گڑیا بہت اچھی لگی ہے نا، بے بی؟‘‘

’’ہاں، بہت اچھی!‘‘ گڑیا کی وضع نو زائیدہ بچے کی ہے۔

’’ تو تم اپنے لئے ایسی ہی جیتی جاگتی گڑیا کیوں نہیں مہیا کر لیتیں ؟‘‘

میں نے ساہو کی طرف شکایتا دیکھا ہے گو یا میرے بچہ ہونے کی ذمہ داری اسی پر ہو۔ ‘‘

ماں کی گفتگو نے سیما میں تخلیق کی خواہش اور بڑھا دی ہے اور اس نے آج دلیپ سے اس کے بچے کی ماں بننے کے سلسلے میں فیصلہ کن بات کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ آج سیما بہت خوش ہے اور مہمانوں کا اسقبال پوری خوش دلی سے کر رہی ہے۔ لیکن اس کی ممی کی لائی ہوئی گڑیا بار بار اس کے ذہن میں آ جا رہی ہے۔ پروفیسر لطف الرحمن اس بارے میں لکھتے ہیں :

’’سیما کی نگاہوں میں ممی اور پاپا کی لائی ہوئی گڑیا رقص کر رہی ہے۔ جو دیکھنے میں بالکل نو زائیدہ بچے کی طرح ہے۔ خارجی اور داخلی منظر کشی میں مطابقت پال کی اختراعی ذہانت کا اظہار ہے۔ سیما کو آج دلیپ سے بچے کے مسئلے پر گفتگو کر نی ہے وہ یک جائی و تنہائی کی منتظر ہے۔ سیما کے دل و دماغ میں ایک ہل چل سی مچی ہوئی ہے۔ داخلی کش مکش نے اس کو قطعی فیصلے کی منزل کے قریب پہونچا دیا ہے۔ وہ طوفان جو سیما کے دل و دماغ میں پرورش پارہا تھا اچانک اس انکشاف سے ابل پڑتا ہے کہ دلیپ نے آپریشن کے ذریعہ تخلیقی صلاحیت سے خود کو محروم کر لیا ہے۔ ‘‘ (10)

اس انکشاف نے سیما کو بالکل بے چین کر دیا ہے۔ وہ غصے میں ساہو سے بتا رہی ہے کہ اس نے دلیپ سے صاف صاف بتا دیا ہے کہ اب ان دونوں کا اکٹھا رہنا ممکن نہیں ہے۔ اگر اس نے آپریشن کروا رکھا تھا تو شادی سے پہلے بتا یا کیوں نہیں۔ ساہو اس کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے ’ گھبراؤ نہیں سیما، سب ٹھیک ہو جائے گا ہم مل کر سوچیں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ‘ پروفیسر لطف الرحمن کہتے ہیں :

’’ساہو سیما میں عملی دلچسپی لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ فن کار زندگی سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ زندگی کی خاک بسری سے آنکھیں نہیں چراسکتا۔ زندگی پہل کرتی ہے یہاں تک کہ ساہو اپنی سوچ اور اپنے تخیل سے اور سیما دلیپ کی وفاداری کی گرفت سے نکل کر ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو جاتے ہیں۔ ‘‘(11)

ساہو بنارس واپس چلا جاتا ہے لیکن سیما کو وہم ہے کہ ساہو کا بچہ اس کی کوکھ میں پلنا شروع ہو گیا ہے۔ سیما کو دلیپ سے کو ئی عار محسوس نہیں ہو رہی ہے بلکہ وہ سوچتی کہ دلیپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ جب وہ اپنے بڑے بڑے کاموں میں الجھا ہوا تھا تو کسی اور نے اس کا یہ چھوٹا سا گھریلو کام انجام دے دیا۔ سیماسوچتی ہے :

’’مجھے یقین ہے ساہو اور میں ہمیشہ ایک دوسرے سے محبت کرتے رہیں گے، دلیپ اور میں بڑے مزے سے، چپکے سے شوہر اور بیوی بن کر گزار دیں گے۔ ۔ ۔ اور میں ساہو کے پودے کوسینچ سینچ کر اونچا کر تی رہوں گی اور دلیپ اپنی دھن میں سائنس کے معرکے سر کرتا  رہے گا۔

اور۔ ۔ ؟

اور کیا؟ جو ہے سو ہے ہی۔ ‘‘

ناولٹ ختم ہو جاتا ہے۔ جو گندر پال نے ناولٹ کو بڑی خوبصورتی سے نقطۂ اختتام تک پہنچایا ہے۔ اتنی گہری فکر سے مملو ناولٹ تخلیق کرنا جوگندر پال جیسی سوچ و فکر رکھنے والے تخلیق کار کا ہی حصہ ہے۔ اس ناولٹ میں Internal Siloloquy یعنی ’داخلی خود کلامی‘ کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ کر داروں کے شعور، لاشعور اور نفسیات کی ساری گتھیاں خود کلامی کے ذریعہ سلجھائی گئی ہیں۔ فکر و فلسفہ کا حسین امتزاج جوگندر پال کے فن کی بہت بڑی خوبی ہے۔ اس ناولٹ میں بھی اس کے بہترین نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کرداروں کے بالکل حسب حال مکالمے لکھنے میں جوگندر پال کو مہارت حاصل ہے۔ منظر کشی کر تے ہیں تو آنکھوں میں ہو بہو تصویر نظر آنے لگتی ہے۔ مثالیں دیکھئے :

’’اور مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ بادلوں کے خاموش جھرمٹ سے موسم نے اپنا سانس روک لیا ہے ․․․․․․دفعتاً بجلی کوندے گی، گھڑ گھڑاہٹ شروع ہو جائے گی، گھٹن ٹوٹ جائے گی اور بے تحاشہ پانی برسنا شروع ہو جائے گا، چارسو مکمل جل تھل۔

اس مین روڈ سے ایک تنگ سے راستے پر اتر کر مجھے لگا ہے کہ میرا خون ذہن کی جانب مڑ گیا ہے۔ یہ راستہ سیدھا اسٹیشن پر لا کھڑا کرتا ہے۔ یہاں بہت بھیڑ ہے۔ نور بابا کے جانور کی رفتار ٹوٹ چکی ہے، اور ٹوٹ ٹوٹ کر اب ایسے ہو گئی ہے جیسے کھڑی ہو․․․․․ اب اور آہستہ ․․․․․․اب ذرا کھلی راہ ملی ہے تو اچانک تیز․․․․․اب بھیڑ نے آ لیا ہے۔ وہ اسٹیشن کا گیٹ نظر آ رہا ہے۔ وہاں تک بھیڑ ہی بھیڑ ہے۔ نور بابا کا جانور لگام کی پیہم کھینچ ڈھیل سے ہانپ رہا ہے۔ اس عالم میں رفتار کا ردھم کہاں۔ ؟ اور ہم اسٹیشن آ پہنچے ہیں۔ ۔ ‘‘

کچھ پر فکر جملے دیکھئے :

’’در اصل ہم وہی ہوتے ہیں جو دوسروں کے ذہن میں ہوں، اور جو کچھ بھی دوسروں کے ذہن میں ہو تے ہیں وہ ہماری بجائے وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے ذہنوں میں ہم ہوں۔ ‘‘

 

’’جب ہم اتنی شدت سے کسی کو یاد کر تے ہیں تو کیا وہ جہاں بھی ہو وہیں رک کر بے اختیار ہونٹ ہلادیتا ہے ’’ہاں ‘‘ اور حیرت سے آس پاس دیکھنے لگتا ہے۔ ‘‘

 

’’ہر دم آدمی صرف اپنے ساتھ ہی رہتا ہے۔ دوسروں سے کبھی کبھار مل لیا، دو باتیں کر لیں، پچھلی ملاقات کو ذرا سادہرا کر خوش ہو لئے، بس کافی ہے۔ ‘‘ وغیرہ

’بیانات‘ موضوع، اسلوب اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اردو کا ایک بہترین ناولٹ ہے۔ اس کا ہندی ترجمہ جوگندر پال کی بیوی کرشنا پال نے کیا ہے۔ یہ ناولٹ ہندی میں بھی کافی مقبول ہے۔ جوگندر پال نے اس ناولٹ کے علاوہ اور کچھ نہ لکھا ہو تا، تو بھی اردو ادب کی تاریخ میں ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے یہ ناولٹ کافی تھا۔

 

 

 

 

                   آمدو رفت

 

’آمدو رفت‘ بھی جوگندر پال کا ایک خوبصورت ناولٹ ہے۔ اس کو بھی انہوں نے اپنے قیام اورنگ آباد کے دوران لکھا تھا۔ 1971میں پہلی بار یہ ناولٹ ’شاعر‘ کے ناولٹ نمبر میں شائع ہوا تھا۔ 1975میں اس کو انڈین بکس پبلیکیشنز، اورنگ آباد نے کتابی شکل میں پیش کیا۔ یہ ناولٹ 48صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں جوگندر پال نے مارگن اور شیلا کے کر داروں کے ذریعے بڑے طنزیہ انداز میں ہندستان کی تصویر کشی کی ہے اور یہاں کی معاشرتی تضادات، رجعت پسندانہ روایات، غربت و جہالت، فرقہ وارانہ فسادات، خشک سالی اور سیلاب وغیرہ مسائل کو بڑے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں تخلیقی صورت دی ہے۔ اس میں مرکزی کردار مارگن اور شیلا ہیں۔ مارگن کی ماں انگریز ہے اور باپ ہندستانی، لیکن اپنے باپ کی شفقت اسے کبھی نہیں مل سکی کیونکہ اس کی ولادت سے قبل ہی اس کی ماں نے اس کے ہندستانی باپ کو چھوڑ دیا تھا اور انگلینڈ واپس جا کر دوسری شادی کر لی تھی نیز اس نے اپنے انگریز شوہر کو یہ باور کرا دیا تھا کہ یہ بچہ اسی کا ہے۔ مارگن کو بھی اس کا علم اس کی ماں کے انتقال کے وقت تب ہوا جب اس کی ماں نے اپنے اعتراف نامے میں اس کا تذکرہ کیا۔ شیلا ایک ہندستانی نژاد، عیسائی لڑکی ہے جو ہندستان پر ریسرچ کرنا چاہتی ہے اور اپنے اس ریسرچ میں مارگن کو اپنا سوپروائزر بنانا چاہتی ہے۔ مارگن اس کا سوپروائزر بننا منظور کر لیتا ہے۔ پھر دونوں کے تعلقات میں گہرائی آتی ہے اور دونوں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور یہ طے کر تے ہیں کہ اپنا ہنی مون ہندستان میں منائیں گے۔ اسی سفر کے حوالے سے ہندستان کے حالات کو باریک بینی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس ناولٹ میں ہندستانی معاشرے کے احوال و آثار بڑی صفائی سے منعکس ہوئے ہیں۔ اس میں حقیقتوں کا گہرا ادراک بھی ہے اور احساس کی تیز لہریں بھی۔ اس میں ہندستانی زندگی کی پیچیدگیوں اور الجھنوں کو پیش کرنے کا جو خوبصورت اسلوب اختیار کیا گیا ہے یہ جوگندر پال کا خاصہ ہے۔ جو گندر پال کے دوسرے ناولٹ کے برعکس اس میں فلسفیانہ موشگافیاں نہیں ملتیں بلکہ سیدھے سادے، سلیس انداز میں کرداروں کے افکارو احساسات کے ذریعہ کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ ناولٹ کی پوری کہانی مارگن کے کردار کے توسط سے ہندستانی حالات کو محیط ہے۔ مارگن کو لاشعوری طور پر ہندستان سے گہری دلچسپی ہے۔ اس نے اپنی پہلی اور دوسری پی ایچ۔ ڈی کے مقالے بھی ہندستانی موضوعات پر ہی لکھے۔ انگلینڈ اوراقوام متحدہ کے با اثر حلقوں میں ہندستانی امور پر اس کی رائے اتھارٹی مانی جاتی ہے۔ مارگن انگلینڈ کے سب سے اہم اسکول آف انڈین اسٹڈیز کا ڈائرکٹر ہے۔ مارگن کی ماں نے اپنے ہندستانی شوہر سے طلاق کے بعد انگلینڈ لوٹ کر اس کی کوئی چٹھی، فوٹو یا کوئی بھی نشانی باقی نہ رہنے دی۔ اس لئے مارگن کو اپنے باپ کی شکل و شباہت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کا حقیقی باپ ابھی زندہ ہے یا  مر کھپ کر مٹی میں مل چکا ہے۔ لیکن اس کا اندازہ ہے کہ اس کا باپ کب کا مر کھپ گیا ہو گا کیونکہ اس کے خیال میں ہندستانیوں کی اوسط عمر تیس پنتیس برس ہو تی ہے یا پھر بہت زیادہ تو پچاس پچپن برس۔ مارگن سوچتا ہے کہ اس کی ماں کی طرح اس کے باپ نے بھی دوسری شادی کر لی ہو گی اور اس کے کم از کم ایک درجن بہن بھائی تو ضرور ہوں گے۔ لیکن چونکہ وہ ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، کسی کو بھی نہیں پہچانتا، اس لئے وہ پورے پچاس کروڑ ہندستانیوں کو اپنا نصف بہن بھائی مانتا ہے اور اگر ایسا کوئی مارگن آج کے زمانہ میں ہو تو پورے ایک ارب بیس کروڑ بہن بھائی۔ مارگن کو اپنے باپ کی شکل کچھ اس طرح نظر آتی ہے :

’’میرے لئے میرا باپ اپنا بھوت سا ہے جس کی پوری شکل مجھے دکھائی نہیں دیتی اب بڑی بڑی مونچھیں ہلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اب کٹے ہوے ہاتھ ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ اب صرف ناک ابھر آئی ہے۔ میرا پو را باپ مجھے آدھا بھی دکھائی نہیں دیتا ہے آدھا باپ کم از کم دیکھنے میں تو پورا تھا۔ ‘‘

مارگن کے اس جملے سے ’میرا پورا باپ مجھے آدھا بھی دکھائی نہیں دیتا، آدھا باپ کم از کم دیکھنے میں تو پورا تھا‘ اس کا کرب جھلکتا ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی شخص نے اپنی عمر کے چالیس برسوں تک جسے اپنا باپ سمجھا ہو، اس کے بارے میں اچانک یہ معلوم ہو جائے کہ یہ اس کا باپ نہیں ہے بلکہ اس کا باپ کوئی اور شخص ہے جس کی کوئی بھی نشانی موجود نہیں ہے، تو اس کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کیا ہو گی۔ کہانی آگے بڑھتی ہے مارگن کے نام ایک ہندستانی مداح کے خط کے ذریعہ۔ یہ مداح مارگن کے کسی مضمون سے بہت زیادہ متأثر ہو گیا ہے جس میں مارگن نے ہندستان کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ اس مداح کا اپنا ادراک یہ ہے کہ برٹش مصنفین جب ہندستان پر لکھتے ہیں تو یا تو وہ بڑے بھائی کا شفیق لہجہ اختیار کر لیتے ہیں یا انگلش پبلک اسکول کے کسی اولڈ ٹیچر کے مانند اپنی ہر سطر میں موٹی موٹی ججمنٹ اور وارننگ دینے کو بیتاب رہتے ہیں یا پھر انڈیا کے اولڈ برٹش سول سرونٹس کی طرح ہندستانیوں کو سرے سے انسانی برادری میں شامل ہی نہیں کر تے۔ مگر مارگن کا انداز مخلصانہ ہے۔ لیکن چونکہ مارگن نے خود ہندستان دیکھا نہیں ہے اس لئے یہاں کے صحیح حالات کا اسے اندازہ نہیں ہے اور ہندستان کے بارے میں اس کا مطالعہ اور ادراک اکادمی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ہندستانیوں کو متمدن نہیں سمجھتے، مگر اس ہندستانی مداح کا تہذیب و تمدن کے بارے میں یہ ماننا ہے :

’’ہماری مشکل یہ ہے کہ ابھی تک دنیا کے نمائندوں کے نزدیک تمدن کی پہچان بھی وہی ایک نہیں۔ کوئی تمدن کو کھانے اور اوڑھنے کی شئے سمجھتا ہے اور کوئی اسے سجا کر رکھنے کی۔ در اصل ہر شئے کی پہچان کے تعین کا انحصار لوگوں کی اپنی اپنی فوری ضرورت پر رہتا ہے۔ ‘‘

اس چیز کی وضاحت عصری حالات میں ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح سے بہت اچھی طرح ہو جاتی ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک اپنی اپنی فوری ضرورتوں کے تحت اس اصطلاح کے معنی و مفاہیم متعین کر لیتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، جاپان، کنیڈا، روس اور انڈیا نیو کلیائی ہتھیار بنائیں تو کو ئی دہشت گردی، کوئی جرم نہیں لیکن ایران بنانے کی کوشش بھی کرے تووہ دہشت گرد ہے۔ امریکہ دنیا کے کسی بھی ملک، کسی بھی خطے پر حملہ کرے تو کوئی دہشت گردی نہیں، لیکن فلسطینی اپنی دفاع کے لئے احتجاج بھی کریں تو وہ دہشت گرد ہیں۔ مارگن نے اپنے مضمون میں تاریخی شعورکو بڑی اہمیت دی ہے لیکن اس مداح کوہندستانیوں کے تاریخی شعور پر اعتبار نہیں ہے۔ وہ ہندستانیوں کے تاریخی شعور کا مذاق اس طرح اڑاتا ہے :

’’میرا ایک چچیرا بھائی ہے جو ہمارے ملک کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبہ کا صدر ہے۔ اس کی اسپیشل اسٹڈی ’پراچین بھارت میں ہندو راجیہ‘ ہے۔ اور میرا چچا یعنی اس کا باپ سنسکرت بھاشا کا مانا ہوا ودوان ہے۔ مجھے اپنے تاریخی شعور کے بیان سے بے اختیار اپنے چچیرے بھائی کا خیال آ گیا ہے جو نئے ہندستان کے مسائل کا حل پراچین ہندو راجیہ کے سیاق میں ڈھونڈھنے کا حامی ہے۔ ‘‘

جب ہندستان کی ایک بڑی یونیورسٹی کے تاریخ کے شعبہ کے صدر کے تاریخی شعور کا یہ عالم ہے تو عام ہندستانیوں کا عالم کیا ہو گا اور ان کے تاریخی شعور پر اعتبار و انحصار کہاں تک جائز ہو گا۔ جو گندر پال نے یہ تنقید اسّی کی دہائی کے ہندستان کے حوالے سے کی ہے۔ مگر آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے یہاں کچھ پولیٹکل پارٹیاں ایسی ہیں جو عصری ہندستان کے مسائل کا حل پراچین ہندو راجیہ کے سیاق میں ڈھونڈھنے کی حامی ہیں۔ مارگن کے اس ہندستانی مداح کا ماننا ہے کہ ہمارا تاریخی شعور ہمارے معاصرانہ اقدام کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ ہم جن آقاؤں کی پیروی کرتے ہیں ان کی صورتحال یہ ہے :

’’ہمارے آقاؤں کے پیٹوں نے ان کے آباء و اجداد کے تہذیبی ترکے کی گیسوں سے پھول پھول کر انہیں اپنی ہمت سے دو قدم چلنے کا بھی اہل نہیں رہنے دیا۔ اور ہم جن کے عمل کا انحصار انہی کی حکمت عملی پر ہے، ان کے پیچھے پیچھے چلنے کے لئے قدم قدم پر کئی کئی سال اس انتظار میں رکے رہتے ہیں کہ وہ اٹھیں اور ہماری رہبری کریں۔ ‘‘

مگر نہ وہ اٹھ سکیں گے اور نہ ہی ہماری رہبری کر سکیں گے۔ اس لئے مسٹر مارگن اگر آپ کو ہمارے قدیم ذہن کی ضرورت ہو تو لے لیجئے، بلکہ لے ہی لیجئے کہ اس سے آپ کے عجائب گھر کی توقیر بڑھ جائے گی۔ ہاں بدلے میں آپ ہمیں ہمارے روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اپنی حاضر دماغی دے دیجئے۔ یہ مداح مارگن کو ہندستان کی آبادی کے بارے میں لکھتے ہوئے بتاتا ہے کہ یہاں چاروں طرف روز افزوں آبادی کی بھیڑ دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم اجنتا کے غاروں میں گھوم رہے ہیں۔ یہاں ہر لمحہ ان گنت بچے پیدا ہو رہے ہیں اور مزید ان گنت بچے پیدا ہونے کے لئے کیو میں لٹکے ہوئے ہیں۔ مداح مارگن کو بتاتا ہے کہ ہمارے یہاں جب کوئی دلہن بیاہ کر لائی جاتی ہے تو بزرگ اسے اس طرح دعا دیتے ہیں :

’’تیرے آنگن میں اتنے بچے جمع ہو جائیں کہ تمہارے باہر جانے کا راستہ رک جائے تو وہ دھرم کرم کی ناری شردھا سے اس کے پاؤں چھونے کے لئے جھک جاتی ہے۔ ‘‘

مداح نے مارگن کو ہمارے مذہبی رہنماؤں کے بارے میں بھی تفصیل سے بتایا ہے کہ کیسے یہ خاص سمجھدار لوگ اس جیون میں بھی خوب سکھ لیتے ہیں اور بعد از مرگ تحفظ اور آرام کا سامان بھی یہیں سے بک کرا لیتے ہیں۔ ان کی عیاری و مکاری کے سبب بھگوان کے دیش کا ایکسچینج کنٹرول بھی ان کی راہ میں حائل نہیں ہوتا ہے۔ مداح ڈاکٹر مارگن کو بتاتا ہے کہ ہندستان مکمل طور پر ایک راز ہے۔ اس لئے آپ ہندستان آیئے اور دیکھئے کہ یہ کتنا عجیب و غریب ملک ہے۔ اب کہانی میں شیلا کی انٹری ہوتی ہے، شیلا پی ایچ۔ ڈی کی اسٹوڈنٹ ہے اور اس کے مقالے کا عنوان ہے ’دی ریلے ونس آف دا پریزنٹ انڈیا ٹو دا فیوچر آف دا ورلڈ سوسائٹی‘(The Relevance of the Present India to The Futurer of The World Society) جس میں ڈاکٹر مارگن کو وہ اپنا گائڈ منتخب کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندستانی مسئلے کے موضوع پر ڈاکٹر مارگن سے بہتر گائڈنس کون دے سکتا ہے۔ جب شیلا پہلی بار ڈاکٹر مارگن سے ملنے جاتی ہے تو اس کی سوچ اس طرح کی ہوتی ہے :

’’اگرچہ میں نے سوچا تھا کہ ڈاکٹر مارگن کوئی حواس باختہ بوڑھا کھوسٹ ہو گا تاہم میری خواہش تھی کہ وہ کوئی خوش باش جوان آدمی ہو۔ عورت پہلی بار جب اپنے آپ کو کسی اجنبی مرد سے۔ ۔ ۔ ۔ خواہ وہ مرد اس کے باپ کا کوئی ہم عمر دوست ہو۔ ۔ ۔ ملنے پر آمادہ کرتی ہے تو اس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کچھ اور ہو نہ ہو۔ ۔ دیکھنے میں پورا مرد ضرور ہو، کہ اسے دیکھ کر ہی طبیعت خوش ہو جائے۔ ‘‘

مارگن شیلا کی خواہش کے عین مطابق نکلا ہے وہ اتنا خوبصورت ہے کہ شیلا فوراً اس کے طرف مائل ہو جاتی ہے، مارگن کی دلچسپی بھی شیلا میں بڑھتی ہے اور چند ہی ملاقاتوں میں وہ دونوں ایک دوسرے کے بالکل قریب آ جاتے ہیں، مارگن شیلا سے پوچھتا ہے کہ کیا تمہاری یہ خواہش نہیں کہ اپنے باپ دادا کے دیش کو جا کے دیکھو؟ وہ کہتا ہے کہ تم چاہو تو ہم اپنا ہنی مون ہندستان میں ہی منائیں گے۔ شیلا ہندستان جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ مارگن اور شیلا کے سفر ہندستان کے ذریعہ ہی کہانی اپنی ارتقائی منزل تک پہنچتی ہے۔ اخبار کے ایک خبر کے مطابق مارگن اور شیلا ہندستان میں ایک سال تک رہیں گے اور یہاں کے سارے اہم مقامات کے علاوہ وہ ہندستانی طرز زندگی کا مطالعہ بھی کریں گے۔ خبر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مارگن اور شیلا کی خواہش ہے کہ ان کا پہلا بچہ ہندستان میں ہی پیدا ہو۔ ایئر پورٹ کے باہر مارگن اور شیلا کا خیر مقدم کرنے والوں میں اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز کے لیکچر ر ڈاکٹر رامجس بھی ہیں۔ رسمی بات چیت کے بعد مارگن سے وہ اپنی ایک خواہش کا اظہار کرتے ہیں :

’’میری ایک اور خواہش ہے ڈاکٹر: آپ ہمیں ہمارے ہندستان پرکم سے کم ون سیریز آف لیکچر ضرور دیجئے۔

لیکن میں تو اس لئے یہاں آیا ہوں کہ انڈین ایکسپرٹ ہندستان کے بارے میں میرے علم میں اضافہ کریں۔

ہم ناچیز کیا اضافہ کر سکتے ہیں ڈاکٹر مارگن؟ اپنے ملک کے تعلق سے ہمارا علم تو صرف نصاب و درس تک محدود ہے۔

؟!۔

آپ کا متعجب ہونا غلط نہیں۔ ہم ہندستان میں رہ ضرور رہے ہیں مگر ہندستان پر کوئی معقول ریسرچ کرنے کے لئے ہمیں انگلینڈ کے ماحول کی ضرورت ہے ڈاکٹر مارگن۔

تو پھر ریسرچ چھوڑ دیجئے اور اپنی روزمرہ کی انڈین لائف کا سیدھا سادہ مشاہدہ کر کے اپنے نتائج اخذ کیجئے۔

ہاں ڈاکٹر، یہ آپ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر مارگن کی گفتگو سے حقیقت پسندی جھلکتی ہے۔ تو ڈاکٹر رامجس کی گفتگو سے فرسٹریشن اور مایوسی۔ رامجس کی گفتگو کے ذریعہ جوگندر پال نے ہندستانی اس کالرس میں خود اعتمادی کی کمی اور اپنے علم و آگہی کو ہیچ سمجھنے کا جو رجحان پایا جاتا ہے اسے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ہمارے اندر دوسری اقوام سے مرعوب ہونے کی جو خو ہے وہ انتہائی مہلک ہے۔ ہمیں اپنے علم و آگہی پر پہلے خود اعتماد کرنا ہو گا تب ہی دنیا اسے قابل اعتنا سمجھے گی۔

آج ہندستان میں صوبائی عصبیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور صوبائی سیاسی پارٹیاں اس آگ کو اور بھی ہوا دے رہی ہیں۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں وفاقی حکومت قائم ہے۔ ہندستان کے کسی بھی شہری کو کسی بھی صوبے میں جانے، روزگار حاصل کرنے اور رہنے سہنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ لیکن 2008 میں مہاراشٹر میں یوپی اور بہار کے لوگوں کے ساتھ مہاراشٹر کے لوگوں نے وہاں کی کچھ سیاسی پارٹیوں کے بہکاوے میں جو سلوک روا رکھا اور حکومت کی اس پوری صورت حال پر سرد مہری کے ساتھ موک درشک بنے رہنے کے حوالے سے یا پھر 2008میں ہی آسام میں بہار کے لوگوں کے ساتھ جو بربریت ہوئی اس حوالے سے جوگندر پال کا یہ خوبصورت طنز دیکھئے :

’’کتنی بھیڑ ہے شیلی!

ہاں معلوم ہوتا ہے، سارا ہندستان ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو گیا ہے۔ تم ٹھیک کہتی ہو، آج سارا ہندستان یہاں ریلوے اسٹیشن پر جمع ہے اور کہیں جانے کا انتظار کر رہا ہے۔

کہاں جانے کا؟ یہ گاڑیاں تو جہاں بھی جائیں گی اسے کہیں اس کے اندر ہی لے جا کر ڈال دیں گی۔ ہندستان سے باہر تو نہ جائیں گی۔

ہاں، نادان لوگ ہیں، انہیں پتہ نہیں کہ یہاں سے وہاں تک سارا سفر طے کر کے ہندستان سے ہندستان ہی پہونچیں گے۔ ۔ ۔ ۔ مگر نہیں ٹھہرو! ہندستان میں ہندستان ہے کہاں ؟ ہندستان میں پنجاب ہے، مہاراشٹر ہے، آندھرا، تامل ناڈو یا بنگال ہے۔ ان سب گاڑیوں کو وہیں کہیں جانا ہے۔ انہیں ہندستان نہیں جانا ہے۔ ہندستان کہاں ہے ؟بتاؤ، ابھی تک کہیں نظر آیا۔ ‘‘

یہ صورتحال اسّی کے دہائی کی ہے۔ آج حالات اور خراب ہو چکے ہیں اور صوبائی عصبیت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے Communal accommodation اور Tolerance spirit جو ہندستان کی امتیازی خصوصیت تھی اب اس کا فقدان ہو چکا ہے۔ اب Regional languageآدمی کے استحقاق اور اس کے امتیاز کی علامت بن گئی ہے۔ آبادی جتنی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اسی تناسب سے بے روزگاری، مفلسی، ناداری اور بیماری بھی بڑھ رہی ہے۔ چور ا چکوں اور جیب کتروں کی یہاں بہتات ہے :

’’ارے ! میں تمہیں ایک بات بتانا بھول گیا شیلی، جب ہم پلیٹ فارم نمبر تین پر کھڑے تھے تو ایک آدمی، میری پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال رہا تھا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چھوڑ دیا، یہ سوچ کر کہ اتنی بھیڑ میں اس قدر جڑ کر کھڑے ہوں تو کیا پتہ چلتا ہے کہ اپنی پتلون کی جیب ہے یا کسی اور کی؟۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھا۔ بے چارہ شرمندہ ہو کر رہ جاتا۔ ۔ ارے میرا بٹوہ۔ شیلی وہ آدمی سچ مچ میرا بٹوہ اڑا لے گیا۔ ‘‘

ہندستان میں کسی بھی بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں، ریلوے اسٹیشن پر، بسوں میں اور کسی بھی پر ہجوم جگہ پر ایسا ہو نا بالکل عام بات ہے۔ جب کسی غیر ملکی زائر کے ساتھ ایساہوتا ہے تو ہماری پہلے سے ہی خراب شبیہ ان کی نظر میں اور بگڑ جاتی ہے۔ جوگندر پال نے ہندستان کے اور بھی کئی مسائل کو فنی پیرائے میں بڑی خوبی سے پیش کیا ہے اور ان مسائل سے بے توجہی پر طنز کیا ہے۔ مثلاً ہندستان میں ناخواندگی اور بچہ مزدوری کا مسئلہ، فرقہ وارانہ فسادات کا مسئلہ، یہاں کے لوگوں کی ماضی پرستی اور گھسی پٹی رسم و رواج میں ہی مگن رہنے کا مسئلہ۔ ان تمام چیزوں کو پیش کر کے جوگندر پال نے یہاں کے سیاسی رہنماؤں اور پالیسی میکرس کو جھنجھوڑنے کا کام کیا ہے۔ لیکن ان کی بے حسی اور غنو دگی اتنی گہری ہے کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ فسادات کے پس منظر میں یہ اقتباس دیکھئے :

’’رانچی کے پاگل خانے میں۔ ۔ ۔

وہ بوڑھا کون ہے ڈاکٹر؟۔ ۔ وہ جو سب سے الگ تھلگ بیٹھا ہے ؟

ایک مسلمان ہے بیچارہ، پچھلے سال ہندو مسلم فساد ہوا ڈاکٹر مارگن، تو اس کے گھر کے سبھی لوگ مارے گئے۔ اپنے ہاتھوں سے انہیں قبروں میں لٹا کر گھر پہنچتے پہنچتے پاگل ہو گیا۔ ‘‘

2002میں ہندستان کے صوبہ گجرات میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ ان کے کاروبار کو پوری طرح سے تباہ و برباد کیا گیا۔ ان کی ما ں، بہنوں، بیویوں کی آبروریزی کی گئی اور بالآخر انہیں جلا دیا گیا یا مار دیا گیا۔ ان تباہ حال لوگوں میں جو کچھ بچ گئے ان میں کتنے آپ کو ایسے مل جائیں گے جو غم کی وجہ سے پاگل ہو گئے۔ ایک فنکار کی نگاہ حال کے ساتھ ساتھ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی چیزوں کو بھی اپنی بصیرت سے دیکھ لیتی ہے۔ جوگندر پال گو یا ان چیزوں کو دیکھ رہے تھے۔ لیکن یہاں کے حکمرانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ان ظلم و زیادتی کرنے والوں سے آج تک مواخذہ نہیں کیا گیا۔ وہ آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں اور اپنی بربریت دکھانے کا شاید کو ئی اور موقع ڈھونڈھ رہے ہوں۔ ان جنو نی لوگوں کا رشتہ کسی مذہب و ملت سے نہیں ہوتا، یہ محض بربریت کے پجاری ہو تے ہیں۔ لیکن:

’’کو ئی بھی خون کر ے، انسان ہی خونی ہے۔ میں ہی خونی ہوں، مجھے سزا دو، سولی پر چڑھا دو اس وقت تک سولی پر چڑھائے رکھو، جب تک میرا ضمیر نہ جی اٹھے۔ ۔ ۔ مگر مجھے کو ئی سزا نہیں دیتا۔ میں آپ کے پاؤں پڑتا ہوں۔ مجھے سزادو۔ مجھے اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے۔ مجھے سخت سے سخت سزادیجئے۔ ‘‘

دنیا بھر میں ہندستان کی رسوائی کا سبب بننے والے گجرات فسادات کے دوران نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے نہ صرف بے قصور مسلمانوں کے قتل عام سے چشم پوشی کی تھی بلکہ انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم کے مرتکب ہونے والے ہندو انتہا پسندوں کی پشت پناہی بھی کی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گجرات فسادات کے دوران 1180لوگ ہلاک ہوئے تھے جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 3000سے زیادہ ہے۔ پاگل خانے کا بوڑھا خان بابا ایک فرقہ وارانہ فساد میں ہی اپنے عزیزوں کے مارے جانے کے غم سے پاگل ہو گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ مر کر جنت میں پہنچ گیا ہے۔ شیلا کی طرح اس کی بھی ایک نوجوان بیٹی تھی جس کو فسادیوں نے قتل کر دیا تھا۔ وہ شیلا کو ہی اپنی بیٹی سمجھ لیتا ہے اور کہتا ہے :

’’آؤ بیٹی آؤ میرے گلے لگ جاؤ۔ ۔ ۔ تمہاری ماں کہاں ہے ؟ محمود کہاں ہے ؟ وہ سب لوگ کہاں چھوڑ آئی ہو؟۔ ۔ بولو۔ ۔ مریں تو انہیں بھی کیوں نہ ساتھ لے آئیں۔ ۔ ۔ ان سے کہتیں وہ آنکھ جھپکنے میں تم سب کو بیک وقت ڈھیر کر کے رکھ دیتے۔ ان جنگجوؤں کے سامنے یہ کون سا بڑا کام تھا۔ بس یہ اب جی رہے ہو اور یہ اب مر گئے۔ ۔ شکر ہے اللہ کا مر گئے ہو ورنہ مجھے فکر لاحق تھی کہ کیسے جیو گے۔ ۔ ۔ چلو چھٹی ہوئی۔ خدا نے ہماری سن لی۔ ۔ ۔ بیٹی اس جنت میں یہ جو ڈاکٹر ہے نا۔ ۔ ہندو ہے۔ ہاں ہندو ہی ہے۔ ۔ ڈرو نہیں، اتنا شریف آدمی ہے کہ خدا نے اسے جنت کا ڈاکٹر بنا دیا ہے۔ ڈرو نہیں بڑا شریف آدمی ہے۔ اک ذرا نماز نہیں پڑھتا، ورنہ اس سے تمہاری شادی کر دیتا۔‘‘

جو گندر پال نے شعوری طور پر ہندو ڈاکٹر کے کردار کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ انتہاپسندی، ظلم اور بربریت کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے۔ یہ تو انسانی ذہن کی کج روی ہے جو انسان کو ایسے کاموں پر آمادہ کر دیتی ہے جس سے پوری انسانیت سرمشار ہو جاتی ہے۔ ہندستانی زندگی میں اور بھی بہت سے تضادات ہیں مثلاً ڈاکٹر مارگن اور شیلا کلکتہ کی ایک شاہراہ پر ایک سردرات چہل قدمی کرتے ہوے مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک بہت بڑی فرنشنگ کی دوکان کی ونڈو کے شیشے کے پیچھے ایک بڑا آرام دہ، بیڈ نما صوفہ بچھا ہوا ہے۔ صوفے پر ایک خوبصورت لڑکی کا بت نرم وگرم پلش کے کمبل میں لپیٹ کر اس طرح لٹایا گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مٹی کا بت ونڈو کے شیشے کے اندر حیات آفریں حدت سے جی اٹھا ہے۔ جبکہ ونڈو کے نیچے فٹ پاتھ پر ایک ننگا دھڑنگا، میلا کچیلا نوجوان لمبا ہوا پڑا ہے۔ اس کی بے سانس شکل پر کسی اچھے برے سپنے کا سایہ نہیں، بس بت کا بت ہے۔ جس بے جان مٹی کے بت پر سردی کا کوئی اثر نہیں ہے۔ دولت کی یہ غیر مساوی تقسیم ہی مسائل کو بڑھاتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہندستان میں 45فیصد لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ وہ باقی 55فیصد لوگوں کو زندگی بھر بٹھا کر کھلاسکتے ہیں۔ لیکن ناداروں اور مفلسوں پر کوئی رحم نہیں کھاتا اس کے برعکس ہر کوئی انہیں کا خون چوس کر اپنی دولت بڑھانے میں لگا ہوا ہے۔ جو گندر پال نے ہو ٹل مہاراجہ کے لاؤنج میں اسپیشل انڈین نائٹس کی شاندار پارٹی میں غیر ملکیوں کی اکثریت کے ذریعہ یہ طنز کیا ہے کہ آج بھی ہم ذہنی طور پر غلام ہیں اور گوری انگریز قوم آج بھی ہمارے آقا وحکمراں ہیں۔ ناولٹ کے آخری حصے کا عنوان ’مارگن‘ ہے۔ ہندستان کے متعلق مارگن کے احساسات کے نشیب و فراز کی عکاسی ہی ناولٹ کو مرحلہ انجام تک پہنچاتی ہے۔ مارگن کے احساسات کے بدلتے ہوئے نقوش، ہندستان سے متعلق اس کے تصورات کے کئی رنگوں کی ترجمانی کر تے ہیں :

’’نامعلوم میں کہاں بیٹھا ہوا ہوں، باہر یا کہیں اندر؟۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے اپنے سامنے ایک بوڑھا اجنبی نظر آ رہا ہے۔ اور نہ میں اس اجنبی سے باتیں کر رہا ہوں، نہ وہ اجنبی مجھ سے مگر اس وقت میرے ذہن میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ میری آنکھیں اس کے سر پر ٹکی ہوئی ہیں۔ یہ سارے کا سارا کرہ ارض، جسے میں گو یا اپنے راکٹ سے جھانک کر دیکھے جا رہا ہوں اور میرا راکٹ بڑی تیزی سے خلاؤں کو پارکر کے کرہ ارض کی جانب چلا آ رہا ہے۔ ابھی ابھی یہاں دھند ہی دھند تھی۔ کچھ بھی دکھائی نہ دے رہا تھا۔ اب پانی اور خشکی جدا جدا دکھائی دینے لگے ہیں۔ کتنا زیادہ پانی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی ہی پانی۔ ۔ ۔ موت کی اجنبی وسعتیں اور گہرائیاں، جنہوں نے زندگی کو گھیر رکھا ہے مگر زندگی کا باعث بھی ہیں۔ ہماری زمین غرقاب کے اس منظر میں بھر پور زندہ معلوم ہو تی ہے۔ بڑے بڑے پہاڑوں اور وادیوں اور میدانوں کی سانسوں سے آس پاس کا خلا بھی ذی جان سالگ رہا ہے۔ ۔ میں نے کرہ ارض کو چھو لیا ہے۔ ‘‘

جو گندر پال نے مارگن کی سوچ کے اس مونتاژ کے ذریعہ کئی مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مارگن بے خیالی اور بے خودی کے عالم میں بھی اپنے حقیقی باپ کے حصار سے باہر نہیں نکل پا رہا ہے۔ ہر وقت ایک نامانوس چہرہ اس کے سامنے آ جاتا ہے جس پر مارگن کو اپنے باپ کا چہرہ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ لیکن وہ اجنبی چہرہ مارگن سے اپنی شناسائی کا اظہار نہیں کرتا کہ مارگن کے بے قرار و بے چین دل کو قرار آ جائے۔ عناصر اربعہ سے تشکیل شدہ انسان ان عناصر کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتا ہے اور دھر تی سے کوسوں میل دور خلا میں بھی وہ پانی کے بارے میں سوچتا ہے کہ زمین کے تین چوتھائی حصہ پر پھیلے اس پانی پر ہی انسانی و جود منحصر ہے۔ لیکن پانی جہاں انسانی وجود کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہیں پانی انسانی وجود کے لئے تباہی و بربادی کا ذریعہ بھی ہے۔ سونامی، کٹرینا، ایلا، ہدہد اور نیلوفر جیسی نہ جانے کتنی تباہیاں پانی کی وجہ سے آ چکی ہیں۔ اللہ نے دھرتی بنائی تو انسانی قدم سے اسے زینت بخشا لیکن یہی انسان اس کی تباہی و بربادی کا باعث بھی ہے۔ یہ انسان امن وسکون سے رہے تو دھرتی جنت نشاں بن جاتی ہے اور جنگ و جدال پر اتر ائے تو یہی دھرتی جہنم بن جاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر امریکہ نے اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے ناگاساکی اور ہیروشیما پر جو ایٹم بم برسائے تھے اس سے زمین اتنی زہر آلود ہو گئی تھی کہ آج پچہّتر سال گزر جانے کے بعد بھی وہاں بچے لولے، لنگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ مارگن نے کرہ ارض کو چھو کر امن اور خاکساری کا پیغام دیا ہے۔ ہندستانیوں اور تمام پسماندہ ممالک کو یہ بھی پیغام دیا ہے کہ اپنی مٹی اور اپنے خمیر سے مایوس مت ہو۔ بقول علامہ اقبال:

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیر ہے ساقی

مارگن کا یہ پیغام استعاراتی انداز میں اس طرح اپنے اختتام کو پہنچتا ہے :

’’مارگی!۔ ۔ ما۔ ۔ ر۔ ۔ ۔ !

مجھے بہت دور سے سنائی دیا ہے اور اپنے وجود سے باہر نکل کر میں نے دیکھا ہے کہ شیلی میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہے اور بڑی اچھی لگ رہی ہے اور میں نے اس کے گلے میں باہیں ڈال کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا ہے اور زرخیز دھر تی سونگھ سونگھ کر مجھے بے اختیار خواہش ہونے لگی ہے کہ ہل چلانا شروع کر دوں۔ اور دھر تی نے شرما کر اپنا سر جھکا لیا ہے اور اپنے خیال ہی خیال میں دیکھ رہی ہے کہ اس کے خوبصورت چہرے پر نئی زندگی کا بور پھوٹ رہا ہے۔ ‘‘

یہ رجائیت ہی جوگندر پال کی شخصیت کا وہ خاص وصف ہے جسے وہ اپنے قارئین تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ صبر و استقلال کے ساتھ جہد پیہم اور عمل مسلسل ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ آج ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں داخل ہو چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ ہندستان نے اقوام عالم میں اپنا ایک وقار حاصل کر لیا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک ہندستان کی جانب رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور اس کی معاشی و سیاسی پالیسیوں کو اپنے لئے نمونہ عمل تصور کر رہے ہیں۔ یہ ایک خوش آئند مستقبل کا واضح اشارہ ہے۔ جو گندر پال کے اس ناولٹ کی فنی ندرت اس کے پلاٹ میں ہے۔ ہندستان کی اس کہانی کو پیش کرنے کے لئے انہوں نے بڑی فن کاری کے ساتھ پلاٹ کا تانا بانا بنا ہے۔ سید مہدی احمد رضوی اس کے پلاٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’آمد آمد‘ کے پلاٹ کی تشکیل میں فنی شعور کی ندرتیں سامنے آتی ہیں۔ اس ناولٹ کی سب سے اہم خصوصیت اس کی تکنیکی شادابی اور اسلوبی ندرت ہے۔ جوگندر پال نے ناولٹ کے پلاٹ کو شعور کی رو تکنیک کے جزوی استعمال کا پابند رکھا ہے۔ مارگن کے خیالات اور اس کے احساسات کی لہریں ہی ناولٹ کے پلاٹ کی تشکیل کرتی ہے۔ ناولٹ نگار کے اپنے بیانات کہیں نہیں ملتے۔ پلاٹ سے وابستہ واقعات کے بہاؤ کا وسیلہ بھی خیال اور احساس کی رو ہے۔ ان واقعوں میں سرگرمئی عمل نہیں ہے، سرگرمِی احساس اور سرگرمیِ خیال ہے۔ ‘‘(12)

یہ ناولٹ 1971میں ماہنامہ شاعر کے ناولٹ نمبر میں ’آمد آمد ‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا لیکن 1975میں جب اس کو کتابی شکل دی گئی تو اس کا نام ’آمدو رفت‘ کر دیا گیا۔ سید مہدی احمد رضوی نے  ’آمدورفت‘ کو ’بیانات‘ کے مقابلے میں زیادہ اچھا ناولٹ قرار دیا ہے لیکن میرے نزدیک ’بیانات‘ اس سے بہتر ناولٹ ہے۔ ’بیانات‘ پورے طور پر علامتی ناولٹ ہے جو استعاراتی انداز میں لکھا گیا ہے جبکہ ’آمدورفت‘ سیدھے سادے انداز میں لکھا گیا ناولٹ ہے اس میں مسائل کو کھلے لفظوں میں پیش کیا گیا ہے اور کہیں کسی طرح کی پیچیدگی اور الجھاؤ نہیں ہے۔ لیکن اس کی تکنیک ’بیانات‘ کے مقابلے میں کمزور ہے۔ حالانکہ دونوں ہی ناولٹ میں شعور کی رو کا جزوی استعمال ہوا ہے لیکن ’بیانات‘ میں ’داخلی خود کلامی‘ کی جو تکنیک استعمال کی گئی ہے وہ اسے ممتاز کر تی ہے۔

 

 

 

 

                   خواب رو

 

جوگندر پال کے ناولٹ نگاری کی اگلی کڑی ’خواب رو ‘ ہے۔ اس ناولٹ کو 1991میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کیا۔ یہ ناولٹ 107 صفحات پر مشتمل ہے۔ جوگندر پال کا یہ خوبصورت ناولٹ تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت، نئی زمین پر مہاجرین کے مسائل اور دو تہذیبوں اور ثقافتوں کے مابین آمیزش اور ٹکراؤ کے بنیادی موضوع کو تخلیقی گرفت میں لیتا ہے۔ ’خواب رو‘ ایک پختہ سن نواب مرزا کمال الدین کی کہانی ہے جو تقسیم ہند کے بعد فسادات کے سانحے سے دوچار ہو کر ہندستان کے لکھنؤ سے پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن اپنی مٹی اور تہذیبی جڑوں سے بچھڑ نے کا غم انہیں حال کے شعور سے پوری طرح محروم کر دیتا ہے اور وہ ایک قسم کے دیوانے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے کراچی میں رہنے کے باوجود انہیں یہ لگتا ہے کہ بدستور لکھنؤ میں رہ رہے ہیں۔ ماضی کی یاد یں ان کے ذہن پر اس طرح اثر انداز ہو چکی ہیں کہ سب کچھ بدل جانے کے باوجود انہیں لگتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ہر علاقے اور جغرافیائی خطے میں کو ئی نہ کوئی تہذیبی نظام جاری رہتا ہے جس میں معاشی، لسانی اور اقتصادی پہلو قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے اور اس مخصوص علاقے کے رسو مات اور اخلاقی اقدار وغیرہ اس تہذیبی نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں بسنے والا انسان وہاں کے تہذیبی نظام کو پو ری طرح اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور اس کو اپنا قیمتی اثاثہ اور سرمایہ مانتا ہے جس سے وہ کسی طرح الگ نہیں ہو نا چاہتا۔ لیکن جب کسی بڑے سیاسی واقعے، جنگ یا قدرتی آفات کے سبب انسان کو نقل مکانی پر مجبور ہو نا پڑتا ہے تو اس سے اس کا یہ تہذیبی سرمایہ چھن جاتا ہے ایسی صورت میں انسان بکھر جاتا ہے اور اپنے گرد ایک قسم کا خود ساختہ حصار بنا لیتا ہے جس سے وہ باہر نہیں نکلنا چاہتا۔ نواب مرزا کمال الدین بھی تقسیم اور ہجرت کے کربناک حادثہ سے گزر نے کے بعد ایک قسم کے دیوانے پن میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور لکھنؤسے ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہو جانے کے باوجود اپنے خود ساختہ حصار کے سبب انہیں کراچی بھی لکھنؤ ہی معلوم ہونے لگتا ہے۔ جوگندر پال نے نواب مرزا کمال الدین کی صورت میں ان ہزاروں لاکھوں معصوم انسانوں کی زندگی اور ان کی ذہنی و جذباتی کیفیات اور صورت حال کی عکاسی کی ہے جنہیں تقسیم کے بھیانک نتائج کا احساس نہ تھا اور نہ یہ اندیشہ تھا کہ اپنے آبائی گھر بار کو خیر آباد کہنے کے بعد کی صورت حال کتنی غیر متوقع ہو گی۔ طبقاتی آویزش، لسانی امتیاز، احساس برتری و کمتری، سرمایہ داری و غریبی اور غلط فہمی و خوش گمانی کا سامنا ہندستان سے ہجرت کر کے پاکستان جا کر بسنے والوں کو کرنا پڑا اور وہاں حصول اقتدار کی کوششوں نے دونوں طرف کے لوگوں کے مابین رشتے کو سازگار بنانے کی بجائے اس کو اور زیادہ پیچیدہ بنا دیاجس سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو گئی اور مقامی اور غیر مقامی کا سوال اٹھ کھڑا ہوا۔ ناولٹ کا مرکزی کردار نواب مرزا کمال الدین ہیں جن کو ان کی بیوی، اچھی بیگم، دیوانے مولوی صاحب کہہ کر پکارتی ہیں اور وہ اپنے اس نام کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اگر کوئی انہیں مرزا نواب کمال الدین کہہ کر پکا رے تو ان کو لگتا ہے کہ بیچارے کو ان کی شناخت میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہندستان سے ہجرت کر کے کراچی پہنچنے والوں کے ساتھ جب دیوانے مولوی صاحب بھی اپنے خاندان سمیت کراچی پہنچے تو دوسرے ہی دن انہوں نے لکھنؤ واپس ہونے کی ضد شروع کر دی کیونکہ وہ جس شان و شوکت کے پروردہ تھے ان کو یہاں میسر نہ تھا۔ لیکن مہاجرین نے قلیل عرصے میں ہی کراچی میں ایک ایسا لکھنؤ آباد کر لیا کہ جس پر دیوانے مولوی صاحب کو وہی پرانا لکھنؤ ہونے کا یقین ہو گیا اور وہ ایک طرح کے سپنے اور خواب میں جینے لگے۔ دیوانے مولوی کے بڑے بیٹے نواب مرزا نے اپنے والد کی دیوانگی کا علاج کروانا چاہا تو اچھی بیگم نے اپنے بیٹے کو سختی سے منع کر دیا، کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ دیوانے مولوی صاحب حقیقی دنیا کی تلخیوں کا سامنا کریں۔ ناولٹ کے آخر میں دیوانے مولوی صاحب کی دیوانگی کا سلسلہ اس وقت ٹوٹتا ہے جب ان کی حویلی میں ایک بھیانک دھماکہ ہوتا ہے جس میں اچھی بیگم، نواب مرزا، نواب مرزا کی بیوی چاند بی بی اور اس کی پیاری بیٹی ثریا دب کر زندہ دفن ہو جاتے ہیں۔ دیوانے مولوی صاحب کو یہاں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے لکھنؤ میں نہیں بلکہ پاکستان کے کراچی میں ہیں۔ لیکن کہانی کے اس مقام پر ان پر ایک دوسری قسم کی دیوانگی طاری ہو جاتی ہے اور وہ سوچنے لگتے ہیں کہ وہ اپنے پوتے سلیم اور پوتی دلنواز کے ساتھ یہاں چند دنوں کے لئے اپنے چھوٹے بیٹے اسحاق مرزا اور ان کی بیوی بچوں سے ملنے آئے ہیں اور وہ پھر جلد سے جلد لکھنؤ لوٹ جانے کی ضد کرنے لگتے ہیں۔ گو یا کہ دیوانے مولوی صاحب ایک خواب سے آزاد ہو کر دوسرے خواب میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ تقسیم کے بعد اردو کے بہت سے ناولوں اور افسانوں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی ہجرتوں اور ان کے گو نا گوں مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ جوگندر پال نے بھی ’خواب رو ‘ میں اسی مسئلے کو پیش کیا ہے۔ جوگندر پال کو ’خواب رو‘ لکھنے کی تحریک کہاں سے ملی اس بارے میں ’خواب رو‘ پر لکھے اپنے ایک انگریزی مضمون On writing Sleepwalkers میں وہ خود لکھتے ہیں :

"Once, well past midnight, Ali and I happened to visit a restaurant in the Lucknow of mohajirs. The restaurant was as astir with activity then as it must be in its peak hours. My friend remarked that "Lucknavis” were in the habits of walking out of their dreams at night to come straight to the Chowk. He assured me that these sleepwalkers would keep popping in till the small hours. ‘Khwabrau’ was thus born in my mind. And, months later, when it became ripe for delivery, I prepared myself for what I knew would be a hassle-free labour.”(13)

جوگندر پال نے ’خواب رو‘ میں ہندستان کے لکھنؤ سے مہاجرت کر کے کراچی میں جا کر بسنے والے مہاجروں کے ذہنی رویوں، ثقافتی قدروں اور تہذیبی المیوں کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ہندستان سے ہجرت کر کے پاکستان جانے والوں میں صرف لکھنؤ کے لوگ نہیں تھے بلکہ ہندستان کے تقریباً تمام حصوں سے ہجرت کر کے لوگ پاکستان گئے تھے لیکن جو گندر پال نے صرف لکھنؤ کے مہاجروں کو نظر میں رکھ کر اپنا یہ تخلیق پیش کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ جوگندر پال نے لکھنؤ کے مہاجرین کو محض ایکsymbolاور استعارے کے طور پر پیش کیا ہے ورنہ تو صورت حال یہ ہے کہ لوگ دنیا کے کسی بھی خطے سے ہجرت کر کے کسی بھی خطے میں جا کر بسیں انہیں یہی ساری مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں اور انہیں کربوں سے گزرنا پڑ تا ہے۔ جوگندر پال ’خواب رو‘ کی ابتدا اس طرح کر تے ہیں :

’’یہ لکھنؤ ہے ‘‘

ملک کی تقسیم پر جب لکھنؤ کے مہا جرین کراچی چلے آئے تو ذرا سنبھلتے ہی انہوں نے یہاں بھی وہی امین آباد کا چوک کھڑا کر لیا۔ ویسے ہی یہاں بھی چھ سات راستے ٹوپیاں ٹیڑھی کئے ادھر ادھر سے بیک وقت آ داخل ہوتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا ادھر ہی چلی آ رہی ہے۔ امین آباد میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی اور مہاجرین امین آباد کے گرد و پیش پاؤں جمانے لگے، اور اس طرح ہو تے ہوتے پو را لکھنؤ آباد ہو گیا۔ صرف پر انا شہر ہی نہیں، پرانے شہر کے بطن سے پیدا ہو کر نیا نویلا شہر بھی نواح میں اپنی کھلواڑ کا سماں باندھنے لگا۔ ‘‘

اپنی مٹی اور اپنی جڑوں سے بچھڑ نے کا درد آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتا۔ لہذا مہاجرین نے کراچی میں سب سے پہلے اپنی چھوڑی ہوئی یا چھٹی ہوئی بستیاں آباد کیں۔ انہوں نے اپنی بستیاں اس طرح آباد کیں کہ لکھنوی تہذیب، زبان، طرز زندگی اور طرز معاشرت کی ہو بہو عکس ان میں نظر آنے لگا۔ مہاجرین کے ساتھ ایک بڑا مسئلہIdentity اور شناخت کا ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے ہجرت کے بعد چھوڑی ہوئی تہذیب، گھر بار اور آب و ہوا کی بازیافت نفسیاتی اور سماجی ضرورت بن جاتی ہے۔ لہذا یہاں بھی مہاجرین نے اپنے ماضی کی بازیافت اس طرح کی:

’’کہتے ہیں کہ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں مگر مقامات ہمیشہ وہیں مقام کئے رہتے ہیں، مگر یہاں تو مہاجرین دل ہی دل میں شہر کا شہر اٹھا لائے، کوئی اپنے گھر کی اینٹیں، کوئی جوں کا توں پو را گھر، کوئی ساری گلی، کوئی گلی سے باہر تیز تیز چلتی ہوئی سڑک۔ جو بھی جس کے دل میں سماپایا، اور جب کراچی پہنچ کران کی سانس میں سانس آئی تو انہوں نے دلوں سے اینٹ اینٹ سارا شہر بر آمد کر لیا۔ خدا جانے جہاں یہ شہر واقع تھا وہاں اب کیا رہ گیا ہو گا۔ یہاں تو اس کی پھبن کا یہ عالم ہے کہ کوئی کراچی کی سیر کو آئے تواس سے بار بار پوچھا جاتا ہے، کراچی میں لکھنؤ دیکھا۔ ‘‘

جوگندر پال نے ’خواب رو‘ میں بنیادی طور پر کراچی کا منظر نامہ پیش کیا ہے اور ہندستان سے ہجرت کر کے کراچی میں آباد ہونے والے مہاجرین کی تمناؤں اور امنگوں کے پھلنے پھولنے اور تاراج ہونے کی کہانی پیش کی ہے۔ مہاجرین نے کراچی میں صرف لکھنؤ ہی نہیں بسایا بلکہ اس کے اطراف میں ملیح آباد، میرٹھ، مرادآباد، اعظم گڑھ اور الہ آباد بھی آباد کر لئے۔ لیکن ان سب کے باوجود انہیں یہاں اجنبیت اور غیریت کا احساس ہوتا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ یہاں کی مٹی، آب و ہوا اور فضا و ماحول انہیں پہچانتے نہیں اور ان سے کٹے کٹے سے رہتے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر دیوانے مولوی صاحب سارے لکھنؤ کو دیوانہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ارے میاں ‘‘ وہ دورو نزد کے گھروں میں باری باری سمجھانے جاتے ہیں۔ ’’اللہ سے رجوع کرو اور پانچوں نمازیں دل لگا کے پڑھا کرو۔ اس سے بڑھ کے کیا عذاب ہو گا کہ اپنے ہی گھر میں ہمہ وقت محسوس ہوتا رہے ہم کہیں اور بیٹھے ہیں۔ ‘‘

لیکن اس کیفیت کے باوجود مہاجرین نے خوب ترقی کی اور معاشی طور پر تو وہ بعض اعتبار سے نہ صرف سندھیوں بلکہ دوسرے مقامی باشندوں سے بھی بازی لے گئے اور محنت اور حکمت عملی سے صوبائی اور قومی سطح پر تجارت، کارخانہ داری، سرمایہ کاری اور نوکر شاہی میں برابر حاوی ہوتے چلے گئے اور اتنے حاوی ہو گئے کہ طاقت کا توازن بگڑنے کے سبب مقامی اور غیر مقامی کا اختلاف و نزاع اٹھ کھڑا ہوا۔ بر صغیر کی آزادی اور تقسیم کی ہڑبونگ میں تو یہ شور دبا رہا، تاہم اس ہمہ گیر ہڑبونگ کے بعد جب پہرے اور پولیس کے ضوابط کا انعقاد ہونے لگا اور مہاجرین کے پاؤں جمنے لگے تو اس شور و شغب کے علاوہ اور کچھ سنائی نہیں دینے لگا۔ تہذیبی و معاشرتی طور پر بھی ان میں نزاع اور اختلاف شروع ہو گیا کیونکہ ہندستان سے پاکستان ہجرت کرنے والوں کا تعلق گنگا جمنی مشترکہ تہذیب سے تھا جبکہ کراچی کی تہذیب گنگا جمنی مشترکہ تہذیب سے خاصی مختلف تھی۔ مہاجر تہذیب اگر فاتح کی حیثیت سے کسی علاقے میں داخل ہوتی ہے تو صورت حال کچھ اور ہو تی ہے لیکن اگر رفیوجی، جلاوطن اور مہاجروں کے ہمراہ وارد ہو تو حالات مختلف ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اتفاق و ہم آہنگی کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ مہاجر تہذیب مقامی تہذیب سے اخذ و  ماخوذ کا سلسلہ قائم کرے گو کہ مہاجر تہذیب مقامی تہذیب سے زیادہ ترقی یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن کراچی میں ایسا نہ ہوا اور ہوا بھی تو کافی سست رفتاری سے جس کے نتیجے میں ٹکراؤ اور اختلاف بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس نفرت کے سناٹے میں کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوئے جنہوں نے حالات کے تقاضے کو سمجھا اور نفرت کی اس خلیج کو محبت سے پاٹنے کی کوشش کی۔ ان میں سر فہرست نظر آتے ہیں دیوانے مولوی صاحب کے چھوٹے بیٹے اسحاق مرزا۔ اسحاق مرزا کو موجودہ تمام نا ہم آہنگیوں کا گہرا شعور ہے اور انہیں نا ہم آہنگیوں کو کم کرنے کے لئے، وہ تمام مخالفتوں کے باوجود ایک سندھی لڑکی سے شادی کر لیتا ہے، یہی نہیں بلکہ سندھیوں کے محلے میں جا کر بس بھی جاتا ہے۔ وہ اپنے اس رشتہ ازدواج سے پوری طرح مطمئن بھی ہے۔ اسی طرح اسحاق مرزا کا ماموں زاد بھائی ہاشم علی بھی ترقی پسند واقع ہوا ہے اور مقامی لوگوں سے تعلقات استوار کرنے کا قائل ہے جبھی وہ اپنی بڑی بیٹی شہزادی کے ایک سندھی سے شادی رچا لینے پر احتجاج نہیں کرتا  بلکہ ان کو خوش آمدید کہتا ہے اور احتجاج کرنے پر اپنے والد کو جواب دیتا ہے :

’’نہیں، ابا حضور، اپنی گریجویٹ لڑکی کو کیا میں کسی قلم گھسیٹ چھٹ بھیے کے گلے باندھ دوں ؟ نہیں جو ہوا، سو ٹھیک ہوا۔ ‘‘

حقیقت پسندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آدمی حالات کے مطابق کام کرے اور اختلاف و انتشار کو کم کر کے محبت و یگانگت کی فضا ہموار کرے۔ غریب طبقے میں بھی کچھ لوگ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں جیسے کہ عزیزو، جو کہ مہاجر ہے مگر اس کی بیوی کا تعلق بھی ایک سندھی خاندان سے ہے۔ بقائے باہم اور Co-existence کے اصول پر عمل  آوری کے ذریعہ ہی ایک پر سکون معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ خوشحالی اور ترقی کے لئے بھی امن و سکون کے ساتھ ایک دوسرے پر بھروسہ اور اعتماد ضروری ہے۔ اگر بھروسہ اور اعتماد نہ کیا جائے اور ایک ہی سماج کے لوگ مقامیوں اور غیر مقامیوں میں بٹ کر رہ جائیں تو فرقہ واریت ایک مستقل عذاب کی صورت کھڑی کئے رہتی ہے۔ مثلاً غیر مقامی جب مقامی ہو جاتے ہیں تو مقامیوں کے غیر مقامی ہونے کی باری آ جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے :

’’اگر ہمیں کھلے کھلے سانس لینا ہے تو اس کے سوا کو ئی تدبیر نہیں کہ اپنے ہر نئے مقام پر ہم فوری طور پر مقامی ہو جائیں، اتنے کہ ہم سے نفرت کرتے ہوے مقامیوں کو محسوس ہو کہ وہ اپنے آپ سے ہی نفرت کر رہے ہیں۔ ‘‘

یہ خیالات اسحاق مرز اکے ہیں۔ لیکن اسحاق مرزا جیسے افراد مہاجروں کے درمیان معدودے چند ہیں۔ مہاجروں اور مقامی لوگوں کے درمیان دوری کئی سارے معاشرتی اور اقتصادی مسائل کھڑی کرتی ہے لیکن اس کا احساس نہ تو عوام کو ہے اور نہ ہی سیاست دانوں کو۔ تقسیم ہند کے سانحے کے نتیجے میں پاکستان کا قیام تو عمل میں آ گیا اور ایک الگ ملک حاصل کر کے مسلمانوں نے اطمینان و سکون کی سانس بھی لی، لیکن یہ اطمینان و سکون کی مدت بے حد مختصر تھی کیونکہ مقامی اور غیر مقامی کی تفریق نے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور اس طرح بدامنی اور انتشار کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہانی آگے بڑھتی ہے دیوانے مولوی صاحب کی حویلی ’نواب محل‘ میں ایک سندھی باورچی سائیں بابا کے داخلے سے۔ سندھیوں اور مہاجروں کے اختلافات نے آپس کے اعتماد وبھروسے کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر بالکل اعتبار نہیں کرتے۔ اسی لئے اچھی بیگم اور ان کی بڑی بہو چاند بی بی کو سائیں بابا کو نو کری پر رکھنے میں تردد ہے۔ لیکن باورچی کی اشد ضرورت کے سبب، پس و پیش کے باوجود وہ سائیں بابا کو نو کری پر رکھ لیتی ہیں۔ اندرون ملک مہاجروں اور سندھیوں میں ناچاقی کی وجہ شک و شبہ تو ہے ہی، ہندستان و پاکستان کے درمیان نا اتفاقی کی وجہ بھی شک و شبہ ہی ہے :

’’ہمارے دونوں ملکوں کے ساجھے مرض کی ایک نمایاں علامت شک و شبہ ہے جو ہم ایک دوسرے سے بے سبب برتنے سے بھی گریز نہیں کر تے ؟ آئندہ نسلوں کا چھٹکا رہ یوں ہی ہو سکتا ہے کہ دونوں جوانب کے نو عمر اکثر ملا کریں اور لڑنا بھی ہو تو قومی لڑائیاں لڑ نے کی بجائے صرف نجی طور پر لڑیں جھگڑیں، خوب لڑیں جھگڑیں، پیار سے یا غصے سے مگر ملتے رہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہماری سرکاروں کی اولین ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہو نا چاہئے ہاشم کہ اپنے اپنے ہنگامی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دونوں طرف داخلے میں ڈھیل چھوڑ دیں، ورنہ خوفزدہ عوام کی فطری صلاحیتیں پنپیں گی تو کیا، سلب ہو کر رہ جائیں گی۔ ‘‘

لیکن تقسیم کے پینسٹھ سال بعد بھی آج حالات بدستور ویسے ہی ہیں۔ دونوں طرف کی حکومتیں وقتاً فوقتاً اپنے سیاسی مفادات کی حصولیابی کے لئے اختلافات کو اور بھی ہوا دیتی رہتی ہیں۔ گو کہ اب دونوں طرف کی عوام با شعور ہو گئی ہے اور وہ حکومتوں کی چالوں کو سمجھنے لگے ہیں لیکن عوامی سطح پر کچھ بھی کر پانے سے قاصر ہیں۔ بم کی تباہ کاریاں موجودہ عہد کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ دیوانے مولوی صاحب نواب محل سے کوئی ڈیڑھ فرلانگ کی دوری پر حکیم معز الدین کے مطب میں بیٹھے ان سے گپ شپ کر رہے ہیں کہ نواب محل کے اطراف سے ایک فلک شگاف دھماکہ سنائی دیتا ہے۔ دھماکہ کی آواز سن کر دیوانے مولوی صاحب حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ در اصل انہیں واہمہ ہو جاتا ہے کہ دھماکہ کہیں نواب محل میں ہی نہ ہوا ہو۔ وہ متوحش اور بے تحاشہ پن سے آگے پیچھے قدم اٹھاتے ہوے نواب محل کا رخ کر تے ہیں۔ انہوں نے دور سے جو کچھ دیکھا ہے اس پر یقین نہ آنے پر آنکھوں پر بار بار زور ڈالا ہے :

’’نواب محل کے پائیں باغ میں پھٹنے والا بم اتنا طاقتور تھا کہ کوئی کہہ رہا تھا یہاں امین آباد میں پھٹا ہے، کوئی نذیر آباد اور کوئی ماموں کی قبر میں۔ سبھی لکھنؤ والوں کو لگا کہ انہی کے گرد و نواح میں کہیں دھماکا ہوا ہے۔ شہر بھرمیں کہرام سامچ گیا۔ ‘‘

دیوانے مولوی صاحب کا بھرا پرا خاندان دیکھتے ہی دیکھتے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کو چھوڑ کر بیشتر لوگ اس سانحے کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ پورے گھر سے نواب مرزا کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی بچ جاتے ہیں۔ اتفاق تھا کہ وہ دونوں اس وقت پائیں باغ سے کا فی فاصلے پر لکن چھپن کھیلنے میں مگن تھے :

’’دیوانے مولوی صاحب جب حکیم معز الدین کے مطب سے لوٹ کر نواب محل کے اردگرد کی بھیڑ کو چیرتے ہوئے محل میں داخل ہوئے تھے تو ان کے غم کا انسداد کرنے والے ان کے غم کا اسباب کر کے پرلوک سدھار چکے تھے۔ ان کی اچھی بیگم اور نواب بیٹا اور چاند بہو اور چہیتی ثریا ملبے کی قبر میں دفن تھے اور ان اپنوں کی بجائے ایک غیر شخص، ان کا باورچی، جس کے ہم ذاتوں کے باعث یہ بلا نازل ہوئی تھی انہیں سہارا دینے کے لئے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب اور کو ئی نہ ہو اور دشمن ہی سہارا دینے کے لئے بڑھ آئے تو محبوب سا لگتا ہے اور اسی کی بغلوں میں سر دے کر پھوٹ پھوٹ کے رو دینے سے چین آ جاتا ہے، سو دیوانے مولوی صاحب بھی بے اختیار سائیں با با کے سینے سے آ لگے اور اتنا روئے کہ ان کے ہوش و حواس بحال ہونے لگے۔ ‘‘

سچ کہتے ہیں کہ مصیبت میں ڈھارس بندھانے والا دشمن بھی محبوب لگنے لگتا ہے۔ ایک طرف دیوانے مولوی صاحب اپنے سندھی باورچی کے سینے سے آ لگے ہیں تو دوسری طرف ان کی سندھی بہو، ان کے بچے کچے خاندان کو سنبھال لیتی ہے۔ اسحاق مرزا سندھی کالونی سے نواب محل میں اٹھ آیا ہے اوراس کی سندھی بیوی سلمی بیگم نے دونوں یتیم بچوں کو اپنی نگرانی میں لے کر اتنا پیار دیا ہے کہ سلیم اور دلنواز اپنے آپ ہی اسے امی کہہ کر پکارنے لگے ہیں اور سلمی بیگم ان کے اس معصوم جذبے کو تقویت پہچانے کے ذرائع کو وسیع کئے جانے کی سوچتی رہتی ہے۔ لیکن دیوانے مولوی صاحب کے ذہن پر اس سانحے کا اثر یوں ہوا ہے کہ وہ سوچنے لگے ہیں کہ وہ کراچی چند دنوں کے لئے ملنے ملانے کے لئے آئے ہیں اور وہ جلد از جلد لکھنؤ لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ لکھنؤ میں اچھی بیگم، نواب مرزا، چاند بی بی اور ثریا بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سانحے میں انہوں نے ان لوگوں کو سداکے لئے کھو دیا ہے۔ دیوانے مولوی صاحب کی یہ عجیب و غریب ذہنیت اور زندگی کے تئیں ان کا یہ رد عمل ذہنی اذیتوں کی ایک ایسی داستان ہے جو حساس ذہنوں کا مقدر بن چکا ہے۔ ناولٹ اس طرح اپنے اختتام کو پہنچتا ہے :

’’تیار ہو جاؤ بیٹے، آج ہم جا رہے ہیں۔

کہاں، بڑے ابو؟

لکھنؤ، بیٹے، ہمارا لکھنؤ۔

سلیم کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اس کے ابو کس لکھنؤ کا ذکر کر رہے ہیں۔ وہ کھڑے کھڑے گیند سے کھیلنے لگا ہے جو اچانک کمرے سے باہر اچھل گئی ہے اور وہ یہ جواب دے کر گیند کے پیچھے بھاگ گیا ہے۔

لکھنؤ یہیں تو ہے بڑے ابو!۔ ‘‘

ناولٹ کی یہ آخری سطریں پڑھ کر قاری کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آتے ہیں اور ہمیں دیوانے مولوی صاحب سے یک گونہ ہمدردی محسوس ہونے لگتی ہے کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ خواب ہی میں گزر جاتا ہے۔ وہ اپنے خواب میں سلیم اور دلنواز کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے وزیر آغا لکھتے ہیں :

’’دیوانے مولوی صاحب لکھنؤ سے اکھڑے تو انہوں نے کراچی کو لکھنؤ بنا لیا۔ کراچی کا یہ لکھنؤ پاش پاش ہوا تو انہوں نے اسے اپنے خوابوں میں بسالیا اور ایک نئے سفر کی تیاری کرنے لگے مگر وہ اس سفر میں سلیم اور دلنواز کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں جو در حقیقت مستقبل کے چراغ ہیں۔ امکان اس بات کا ہے کہ وہ انہیں تاریک راہوں میں زیادہ دیر تک بھٹکنے نہیں دیں گے بلکہ خواب کی جنت سے نکال کر ہمہ وقت تبدیل ہوتی اس دنیا میں واپس لے آئیں گے جس کے اپنے خواب ہیں۔ ‘‘(14)

جو گندر پال کے اس خوبصورت ناولٹ میں دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والے حساس مہاجر کو اپنی ہی داستان نظر آتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مٹی اور اپنی تہذیبی جڑوں سے اکھڑ کر وہ بھی ایک خواب کی سی کیفیت میں جی رہا ہے۔ جوگندر پال کے اس ناولٹ کو پڑھ کر برلن میں رہنے والی ایک مہاجر عورت کا تأثر کیا ہوتا ہے اسے بیان کر تے ہوے جوگندر پال اپنے انگریزی مضمون On writing Sleepwalkers میں لکھتے ہیں :

"A German Indologist visited me with her husband about the time I had just completed the novella. Reading a few pages of the manuscript while I had been busy talking to her husband, she suddenly let out what sounded like a sob.

"Why.۔ ..?” Alarmed, I asked her in my most persuasive voice. "But this is my story” the tear-stricken lady controlled herself to speak. "This is the story of all of us living on the either side of the Berlin Wall. Let me tell you what happened to our family.۔ ..”

I knew for certain that she was not feigning interest. She had indeed gone through the same terrible experience in different circumstances. So, shall I say, it is not always the same events but the same emotional impact of the events that accounts for literary authenticity.” (15)

سچ ہے کہ واقعات ہر جگہ چاہے ایک جیسے پیش نہ آتے ہوں لیکن ان کا ذہنی و جذباتی تأثر ہمیشہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور مہاجرت و جلا وطنی کی زندگی گزارنے والا انسان ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر تا رہتا ہے۔ وہ انسان اپنے بکھراؤ کو کبھی خوابوں کے ذریعے سمیٹنے کی کوشش کرتا  ہے اور کبھی حقیقت کے ذریعے۔ جس میں اسے سنگلاخ گزر گاہوں سے گزرنا پڑ تا ہے اور بسا اوقات ٹھو کریں بھی کھانی پڑتی ہیں۔ لیکن یہ زندگی کی کشش ہی ہے کہ انسان ان تمام مصیبتوں سے گزر کر بھی کہتا ہوا نظر آتا ہے :

کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا

 

’خواب رو‘ پر فنی لحاظ سے بات کر یں تو اس میں جوگندر پال نے بیانیہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ وہ قصے کے راوی کی حیثیت سے ساری وضاحتیں بیانہ کی تکنیک میں بیان کر تے ہیں لیکن کہانی بیان کرنے کے دوران جو گندر پال موقع و محل کی ضرورت کے مطابق بیانیہ سے اچانک مکالمے کی جانب مراجعت بھی کر جاتے ہیں جس سے قصے کا راوی اور کہانی کے کرداروں کے درمیان کو ئی حد فاصل قائم نہیں ہوتا بلکہ کرداروں کے مکالموں کے ذریعہ سے اس میں ایک فطری بہاؤ آ جاتا ہے۔ جو گندر پال نے اس میں مکاتیب کے اسلوب کو بھی برتا ہے اور تجسیم کی گنجائش بھی نکالی ہے۔ دیوانے مولوی صاحب باغ کے پھولوں سے گفتگو کر تے ہیں اور گلہری سے ہم کلام ہو تے ہیں۔ ’خواب رو‘ کے اسلوب کے بارے میں شفیق احمد شفیق لکھتے ہیں :

’’پوری کتاب میں مصنف کا بیانیہ اتنا مضبوط، منظم اور مبسوط ہے کہ صفحات کے صفحات پڑھتے چلے جائیں، اظہار میں ذرا بھی جھول کا گمان نہیں ہو تا، ہر لفظ اپنی جگہ فطری اور ضروری محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس کتاب میں جمالیاتی انسلاکات کا مظاہرہ ان معنوں میں نظر نہیں آتا کہ انہوں نے زلف و رخ، قد و قامت، قرب و وصال کی لذت اور تالابوں یا جھیلوں میں اشنان کرتی ہوئی گوپیوں کا قصہ رقم نہیں کیا اور نہ اس سے لذت اندوزی کی کو ئی سبیل نکالی ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ان کے یہاں جمالیاتی اہتمام کسی نمائشی جذبے کے تحت موجود نہیں۔ ان کا احساس جمال اتنا توانا اور فطری ہے کہ جب وہ کچھ لکھتے ہیں تو جملوں اور عبارتوں کی تنظیم کے دوران از خود ان کی تخلیقات کا جزء لاینفک بن جاتا ہے، جو لکھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی چیز ہے۔ ‘‘(16)

جوگندر پال کے اس قول ’بہ حیثیت ادیب میں اپنی ذات میں بے شناخت ہوں یا میری شناخت کے نقوش کائنات کے سب ہی مظاہر میں مضمر ہیں، میں جو کچھ بھی دیکھتا ہوں وہی بن جاتا ہوں یہی میری شناخت ہے۔ ‘ کی مکمل تعبیر ہے ان کا یہ ناولٹ۔ کبھی دیوانے مولوی صاحب میں جوگندر پال کی جھلک دکھتی ہے تو کبھی اسحاق مرزا میں۔ وہ اپنی کہانیوں کے کر داروں میں اپنی ذات کو گم کر دیتے ہیں اور پھر ہمیں ہر کر دار میں ان کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ خود اس بارے میں لکھتے ہیں :

"I do believe I am no other than Deewane Maulvi Sahab of Khwabrau and, living here in India, I did experience every detail of his life in Pakistan.” (17)

جو گندر پال پاکستان کے سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور عین نوجوانی کے عالم میں ہجرت کر کے ان کو ہندستان آنا پڑا اور پھر کچھ ہی دنوں بعد انہیں کینیا جانا پڑ گیا جہاں انہوں نے اپنی عمر عزیز کے چودہ برس ذہنی جلاوطنی کے عالم میں گزارے۔ اپنی جڑوں سے کٹنے کا درد جوگندر پال سے بہتر کون محسوس کر سکتا ہے۔ اس لئے ان کا یہ ناولٹ ان کی آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ اس خوبصورت ناولٹ کا انگریزی ترجمہ سنیل تریویدی اور سکریتا پال کمار نے کیا ہے، جس کو ’کتھاسوسائٹی ‘ نے مارچ1998/میں کتابی شکل میں شائع کیا۔ اس ناولٹ میں جوگندر پال نے ہجرت کرنے والے افراد کے نفسیا تی و ذہنی کرب کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس سے نجات پانے کا طریقہ بھی بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس میں روزمرہ کی روانی وسلاست موجود ہے اور ہندی و انگریزی الفاظ کا استعمال اتنی خوبصورتی سے کیا گیا ہے کہ کسی طرح کی کوئی گرانی محسوس نہیں ہو تی ہے۔

 

 

                   پار پرے

 

جو گندر پال کا چوتھا اور آخری ناولٹ ’پار پرے ‘ ہے۔ اس ناولٹ کو 2004میں انشا پبلی کیشنز، کولکاتا نے شائع کیا۔ یہ 132صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں 16خاکے بھی شامل ہیں۔ یہ خاکے ساگر، کمل چکرورتی اور نکھل کے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ خاکے 14پورے پورے صفحات پر بنے ہوئے ہیں۔ اس طرح ان14اور شروع کے 5انتساب وغیرہ کے صفحات کو نکال دیا جائے تو ناولٹ کی ضخامت 113صفحات کی رہ جاتی ہے۔ جوگندر پال کی اس تخلیق پر ناول لکھا ہوا ہے لیکن میں اسے ناولٹ مانتا ہوں، کیونکہ یہ اپنی ضخامت، موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے ناولٹ کے فن پر پوری اتر تی ہے۔ ناولٹ میں سماج کے کسی اہم مسئلے اور اشو کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ اس ناولٹ میں بھی جوگندر پال نے ایک بہت اہم مسئلے کو موضوع بنایا ہے۔ کسی بھی جمہوری طرز حکومت میں جمہوریت کے تینوں ستون انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کی حیثیت بالکل برابر ہوتی ہے اور جمہوری حکومت کو چلانے کے لئے ان کے عمل میں شفافیت بہت ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کسی میں بھی کرپشن آ جائے یا اس کے عمل میں خامیاں پیدا ہو جائیں تو جمہوری حکومت کے قدم خود بخود ڈگمگانے شروع ہو جاتے ہیں۔ برطانوی دور اقتدار میں عدلیہ میں جوLoop holes اور خامیاں رہ گئی تھیں، سوئے قسمت ہے کہ وہ خامیاں آزاد ہندستان میں بھی جوں کی توں برقرار ہیں جن کی وجہ سے بے قصور مجرم اور مجرم بے قصور قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ ہمعصر ہندستانی قانونی عمل کے اسی بے ڈھنگے پن پر جو گندر پال نے بھر پور طنز کیا ہے اور دکھایا ہے کہ کس طرح نسل در نسل کسی کی غلطی کسی اور کے سر منڈھ دی جا تی ہے جبکہ اصل مجرم سرے عام آزادی کے ساتھ گھومتا رہتا ہے۔ ہندستانی قانون میں گیم پلان کی بہت زیادہ گنجائش ہے کہ جو پکڑا نہ جائے وہی بے گناہ ہے۔ اسی کا فائدہ اٹھا کر مجرم دھڑ لے سے جرم کر تے ہیں اور اپنے تمام ذرائع کو استعمال کر کے پکڑے جا نے سے بھی بچ جاتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر کوئی بے قصور اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے کے لئے دھر لیا جاتا ہے۔ ہمارا انصاف کا عملی معیار گھٹ گھٹ کر اس سطح پر آ گیا ہے کہ مجرموں کی جرم کی ترغیب کا اسباب ہو تے رہتے ہیں اور غیر مجرم جرم کے ارتکاب کے بغیر ہی سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال عدلیہ میں در آئے کرپشن کی وجہ سے اور بھی سنگین ہو گئی ہے۔ Centre for Media Studies (CMS)نے Corruption in Judiciaryپر2005 میں ایک سروے India Corruption Study 200 5To Improve Governance کے نام سے کرایا ہے۔ اس سروے کے کچھ Key Highlights یہ ہیں :

٭Value of corruption in the Judiciary in the entire country is estimated at Rs.2630/- crore per annum.

٭80% of those who have interacted with courts agreed that there was corruption in the Judiciary.

٭Almost 54% respondents took the alternate process like using influence or paying bribes for getting their work done.

٭Of those who paid bribes, 61% had paid money to a lawyer, whereas 29% paid money to court officials, while 15% paid money to middlemen to get their work done.(18)

انHighlights کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کس طرح دولت و طاقت کا استعمال انصاف کے عمل کو متأثر کرتا  ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ جوگندر پال بہت حساس ذہن و دل کے تخلیق کار ہیں۔ اس لئے ان کی نظر ان موضوعات پر پڑتی ہے جو گہرے غور و فکر کا تقاضا کر تی ہیں۔ اپنے اس ناولٹ میں انہوں نے انصاف کے پر پیچ عمل کو exploreکیا ہے اور ایک سوالیہ نشان لگا یا ہے کہ آخر کب تک معصوم لوگ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتے رہیں گے۔ ’پار پرے ‘ کی کہانی ان لوگوں کی زندگیوں کے ارد گرد گھومتی ہے جن کو انگریزی دور اقتدار میں چوری، قتل اور بغاوت کے مبینہ جرائم کے تحت کالا پانی کی سزا دی گئی تھی۔ اپنی سزا پوری کر لینے کے بعد یہ لوگ وہیں بس گئے اور ایک نئی زندگی شروع کی اور ایک ایسے سماج کو پروان چڑھایا جس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری تھی۔ ان لوگوں نے اپنے پر درد ماضی کو بھلا کر ایک صحت مند معاشرے کو جنم دیا لیکن ایک موقع ایسابھی آیا کہ فرقہ وارانہ طاقتیں ان امن پسندوں پر حاوی ہو گئیں اور انڈیمان نیکوبار جزیرے کے حالات بھی مین لینڈ کی طرح خراب ہو گئے۔ ’پار پرے ‘ کی کہانی آزادی کے چند دہے قبل سے لے کر چند دہے بعد تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا مرکزی کردار بابا لالو ہے۔ بابا لالو ایک لا وارث لڑکا ہے جس کو اپنے ماں باپ کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ لوگ کہتے ہیں جو اپنے ماں باپ یا کم سے کم ماں کو نہ پہچانتا ہو اسے ہم آدم کی اولاد میں کیونکر شامل کر سکتے ہیں۔ مگر بابا لالو کو کیا پڑی تھی کہ وہ خود کو آدم کی اولاد ثابت کرنے کی تدبیر کرتا ۔ وہ تو یوں ہوا کہ اوپر بادلوں میں اڑتے اڑتے کسی آوارہ فرشتے کی ایک حور سے مڈبھیڑ ہو گئی اور ان کے اختلاط پر بابا لالو حور کی کوکھ میں ٹھہر گیا۔ نہیں، ٹھہر کیا گیا، اپنے مافوق الفطرت والدین کی اطلاع کے بغیر کسی بادل میں جا اٹکا۔ پھر رم جھم کا سماں بندھا تو وہ بوندوں میں گھرا چپکے سے کسی جنگل میں ٹپک آیا۔ جنگل میں کسی ریچھنی نے اسے اپنا دودھ پلاپلا کر قدموں پر کھڑا کر دیا اور پھر ریچھنی تو اپنی راہ چل دی مگر بابا لالو کسی بھیڑیے کی دم پکڑ کر کھیلتے کھیلتے جنگل سے بستی میں آ نکلا۔ اس بستی میں ایک بوڑھا اور تنہا اسکول ماسٹربابو اللہ دتا تھا۔ جس کو باپ بننے کی بڑی تمنا تھی مگر بیوی کے بغیر اس کی یہ تمنا کیونکر بر آتی، اس لئے اس نے موقع کو غنیمت جانا اور بابا لالو کو بیٹا بنا کر گھر میں رکھ لیا۔ لیکن وہ اپنی جنسی بھوک سے اتنا تنگ تھا کہ وہ اس سے اپنی جنسی بھوک مٹانے لگا لیکن وہ اسے کھلاتا پلاتا اور پڑھا تا بھی تھا۔ ابھی بابا لالو نویں جماعت بھی پاس نہیں کر پایا تھا کہ بابو اللہ دتا چل بسا۔ بابا لالو پر ترس کھا کر اس کے اسکول کی لیڈی منیجر ستیہ وتی نے اس کو اپنے گھر میں کام کاج کے لئے رکھ لیا۔ جنسی نا آسو گی اور فرسٹریشن میں وہ بابو اللہ دتا سے بھی آگے نکلی اور اس کا جنسی استحصال شروع کر دیا۔ ستیہ وتی کا شوہر بزنس کے معاملے میں اکثر باہر رہا کرتا تھا اور جب گھر پر ہوتا تھا تو دونوں میاں بیوی اکثر جھگڑتے رہتے تھے۔ آگے کیا ہوا بابا لالو کی زبانی سنئے :

’’اسی طرح میرے ڈھائی تین سال بیت گئے اور پھر ایک رات کیا ہوا کہ میاں بیوی کا جھگڑا طول پکڑ گیا، میں نے کوئی دھیان نہیں دیا، اس رات کی ڈیوٹی سے چھٹی پا کر میں مزے سے سونے کی تیاری کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں مجھے بندوق کی گولی چلنے کی آواز سنائی دی، میری شامت آئی تھی کہ میں دوڑا ان کے کمرے میں جا پہنچا، بس پھر کیا؟ ستیہ وتی کے شوہر کے خون کے الزام میں دھر لیا گیا۔ ‘‘

اس طرح قانون کی بھول بھلیوں میں پھنس کر بابا لالو سیدھا کالا پانی جا پہنچا۔ برطانوی دور اقتدار میں کالا پانی Inhuman behaviourاورسخت سے سخت سزاکے لئے جانا جاتا تھا اور لوگ کالا پانی کا نام سن کر ہی خوف سے کانپ اٹھتے تھے۔ کالا پانی یعنی سیلولر جیل ہندستان کی یونین ٹیریٹوری انڈیمان نیکوبار جزیرے میں واقع ہے۔ گو کہ باقاعدہ طور پر اس کو ایک جیل کی حیثیت 1896میں دی گئی تھی لیکن قیدیوں کو یہاں بھیجے جانے اور رکھنے کا سلسلہ انگریز حکمرانوں نے ہندستان کی پہلی جنگ آزادی 1857کے بعد سے شروع کر دیا تھا۔ 1857کی جنگ کے بعد 200مجاہدین آزادی کو میجر جیمس پٹسن واکر (Major James Pittison Walker) کے زیر حراست کالا پانی بھیجا گیا تھا۔ ان قیدیوں میں کچھ اہم نام ڈاکٹر دیوان سنگھ کالے پانی، مولانا فضل حق خیر آبادی، یوگندر سکلا، مولانا احمد اللہ، مولوی عبد الرحیم صادق پوری، وینایک دامودر ساورکر، بھائی پرمانند، سوہن سنگھ، رمن راؤ جوشی اور نند گوپال وغیرہ کے ہیں۔ یہاں کالا پانی پہنچنے پر بابا لالو کو کچھ عرصے تو جیل میں بیڑیوں میں رکھا گیا لیکن خوش قسمتی سے چند ہفتوں میں ہی اس کی بیڑیاں کھول دی گئیں۔ پہلے ڈیڑھ سال تک تو وہ بیرکوں میں پتھر کوٹتا رہا مگر بقیہ سالوں میں اسے مستقل طور پر بیرکوں کے میس میں باورچی کی ڈیوٹی سونپ دی گئی۔ وہیں اس کی ملاقات گوراں چاچی سے ہوئی۔ قید سے دونوں کی رہا ئی آس پاس ہی ہوئی اور دونوں نے شادی کر کے نئے سرے سے زندگی جینے کا فیصلہ کر لیا۔ حکومت کی ایک اسکیم کے تحت ان دنوں ان قیدیوں کو زمین دی جاتی تھی جو پورٹ بلیئر میں ہی بس جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ بابا لالو اور گوراں چاچی کو بھی سرکار نے اتنی زمین الاٹ کی تھی کہ تین کمرے آسانی سے بن جائیں لیکن اتنی پونجی نہیں ہونے کی وجہ سے اپنے دوست مہنت جالم سنگھ کی مدد کے باوجود وہ بمشکل ایک کمرہ کھڑا کر سکے۔ لیکن وہ خوش تھے اور زندگی خوشی خوشی گزرنے لگی۔ بابا لالو نے پرچون سودے کی ایک چھوٹی سی دکان بھی کھول لی جو خوب چل پڑی۔ پھر ان کے یہاں ان کا پہلا بیٹا بیکل سنگھ پیدا ہوا اور پھر ان کا دوسرا بیٹا محمد علی۔ بیکل نے میٹرک پاس کر کے دکان سنبھال لی اور اس چھوٹی سی پرچون کی دکان کو ایک بڑے پروویژن اسٹور میں بدل دیا۔ بیکل بلو سے پیار کرنے لگا اور بابا لالو، گوراں چاچی اور مہنت جالم سنگھ نے اس کی شادی بلو سے کر دی۔ ان کا دوسرا بیٹا محمد علی جو بالی عمر میں بڑا ہنسوڑ اور کھلنڈرا تھا پانچویں جماعت تک آتے آتے بڑا سنجیدہ نکل آیا اور اپنی پڑھائی میں اتنا مگن رہنے لگا کہ اسے کتابوں کے سواکچھ سوجھتا ہی نہ تھا۔ بی، اے، کے بعد اپنی اسکول ٹیچری کے ساتھ اس نے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ایل ایل بی کی تیاری شروع کر دی۔ محمد علی کا اعتقاد قانون پر سے متزلزل ہو رہا تھا اور اس کی کیفیت کچھ اس طرح ہوتی تھی:

’’ہمعصر ہندستانی، قانونی عمل کے بے ڈھنگے پن پر اس کی سنجیدگی میں اکثر غصہ بھر آتا اور اپنے کالج کی بحثوں میں وہ بیشتر ایسے سوال اٹھایا کرتا جن سے یہ پوچھنا مطلوب ہوتا کہ ہمارا انصاف کا عملی معیار گھٹ گھٹ اس سطح پر آ گیا ہے کہ مجرموں کی جرم کی ترغیب کا اسباب ہوتا رہے اور غیر مجرم جرم کے ارتکاب کے بغیر اپنا دفاع نہ کر پائیں۔ ‘‘

یہی سوال ناولٹ کاthrust اور اس کا ماحصل ہے۔ جوگندر پال نے اس کہانی کے پلاٹ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصہ کا عنوان ’کتاب ایک‘ اور دوسرے کا ’کتاب دو‘ ہے۔ کتاب ایک میں کہانی اپنی ارتقائی مراحل تک پہنچتی ہے اور کتاب دو میں اپنے اختتام تک۔ بابا لالو نے جس محلے میں اپنا گھر بنایا ہے وہ قصوں والی گلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قصوں والی گلی کے تقریباً سارے گھر کچھ اس طرح سٹے ہوے یا آمنے سامنے ہیں گویا ساری گلی میں ایک ہی کنبہ بساہواہو۔ در اصل یہ ہے بھی ایک ہی کنبہ، کالا پانی کی سزا کاٹے ہوئے لوگوں کا کنبہ۔ یہاں ہر شخص کی ایک کہانی ہے۔ بلیاکا ڈاکے والا، باؤ لی دادی، کالے خان، لالہ چھبیل داس اور شبو چور وغیرہ۔ قصوں والی گلی کے موجودہ مکین عام طور پر کھاتے پیتے لوگ ہیں اور جن کا ہاتھ تنگ ہے ان کی مدد گلی والے بڑی اپنائیت کے ساتھ کر تے ہیں۔ اولین مکینوں میں بیشتر یکے بعد دیگرے اٹھ گئے اور جو باقی بچے ہیں ان کا بھی اب بابا لالو کی طرح چل چلاؤ ہے۔ قصوں والی گلی نے اب دوسری اور تیسری نسل کے قصے بننا شروع کر دیا ہے۔ قصوں والی گلی کے سارے مکین فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے جیتے جاگتے نمونے ہیں۔ خود بابا لالو کے گھر میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی مذاہب کے پیروؤں کا حسیں امتزاج نظر آتا ہے۔ بابا لالو اوران کا چھوٹا بیٹا محمد علی اسلام کے اصولوں پر عمل پیراں ہیں تو ان کی بیوی گوراں چاچی ہندو مذہب کو مانتی ہے۔ بابا لالو کا بڑا بیٹابیکل سنگھ سکھ ہے تو اس کی بیوی بلو عیسائی دھرم پر چلتی ہے۔ مختلف اقوام کا ایک دوسرے سے دوقالب یک جاں ہو جانے کی مثال بھی قصوں والی گلی میں موجود ہے مثلاً پٹسن صاحب انگریز ہیں توان کی بیوی ششی ایک ہندستانی ہے۔ قصوں والی گلی جوگندر پال کے تخیل کی وہ بستی ہے جسے وہ ہندستان کے طول و عرض میں ہر طرف بسی ہوئی دیکھنا چاہتے ہیں۔ عصری دنیامیں عالمی بھائی چارے کی بڑھتی ضرورت کے پیش نظر جو گندرپال کے تخیل کی یہ بستی کتنی ضروری محسوس ہونے لگتی ہے۔

وہ کیسے لوگ تھے یارب جنہوں نے پا لیا تجھ کو

ہمیں تو ہو گیا دشوار اک انسان کا ملنا

 

سچ ہے کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ قصوں والی گلی میں بھی کچھ مطلب پرست لوگ پیدا ہو گئے ہیں جن کو قصوں والی گلی کی یہ بھائی چارا اور محبت اپنے مطلب کی برآوری میں روڑہ نظر آنے لگتی ہے۔ لہذا صدیوں سے آزمودہ ہتھیار مذہب کو استعمال کر کے اس فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے ماحول کو زہر آلود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پورٹ بلیئر میں جو آریہ سماج مندر ہے وہ صرف اس حد تک مندر ہے کہ ہر اتوار کی صبح کو کسی نہ کسی دھرم کا کو ئی مقامی نیتا اپنے دھرم پر بھاشن کرنے کے لئے چلا آتا ہے جسے سننے کے لئے کچھ لوگ جمع ہو ہی جاتے ہیں۔ بابا لالو آج آٹھ ساڑھے آٹھ بجے صبح ہی آریہ سماج مندر جانے کے لئے گھر سے نکل پڑا ہے۔ مولوی منظور احمد نے اسے پیغام بھیجا تھا کہ ایک ضروری کام ہے۔ مولوی منظور احمد بابا لالو کو آریہ سماج کے ہال میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور اپنی سیٹ سے ہی چلا آیا ہے۔ بابا لالو اس سے پوچھتے ہیں :

’’جلدی بتاؤ، کیوں بلایا ہے ؟

اپنا پنڈت تلسی دھر ہے نا، وہ اتر پردیش سے کسی ہندو لیڈر کو یہاں بلا رہا ہے۔

تو کیا ہوا؟ ہم بھی اسے سنیں گے۔ مگراس کے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔

نہیں وہ لیڈر صرف ہندوؤں سے رابطہ کرنے کے لئے آئے گا۔ بابا لالو کا ما تھا ٹھنکا ہے مگر اس نے اپنا سر جھٹک دیا ہے۔

تو بھی کیا ہوا مولوی منظور ؟ ہم نہیں سنیں گے اور اپنی بامن بیوی کو سننے کے لئے بھیج دیں گے۔

میری بات کا مذاق مت اڑاؤ، مولوی منظور احمد نے اپنے خالی منھ کو پھر سے چنوں سے بھر لیا ہے۔ وہ یہاں ہندوؤں کو یہ بتانے آ رہا ہے کہ مسلمان پچھلی صدی میں ہندوؤں پر کیا ظلم ڈھاتے رہے ہیں، اور یہ، کہ اب وقت آ گیا ہے، ہندو کمر کس لیں۔

اور کمر کس کر کیا کریں ؟ بابا لالو اپنا غصہ دبانے کی بے سود کوشش کرنے لگا ہے۔

اگر یہاں کا ماحول بھی مین لینڈ کی طرح بگڑ گیا بابا، تو ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہ کر پاؤ گے۔ ‘‘

بابا لالو، مولوی منظور احمد، حکیم کرشن دیو اور شیو شنکر حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پنڈت تلسی دھر پر بریک لگا دینے کی سوچ رہے ہیں۔ محمد علی لوکل بار ایسو سی ایشن کا ممبر ہے۔ ایسو سی ایشن کے ممبروں کو بگڑتے حالات کی خبر لگ گئی ہے اور ایسو سی ایشن کے انتظامیہ کی میٹنگ کا انعقاد عین وقت پر ہوا ہے۔ اراکین پورٹ بلیئر کے مقامی نوجوانوں اور چند ایک لڑکیوں پر مشتمل ہیں۔ میٹنگ دو ڈھائی گھنٹے تک چلتی رہی ہے اور اتنی خفیہ رکھی گئی ہے کہ کسی کو خبر نہیں کہ کیا فیصلے لئے گئے ہیں۔ لیکن ان کے ہاؤ بھاؤ سے لگتا ہے کہ کچھ اہم فیصلے لئے گئے ہیں۔ دوسری طرف پنڈت تلسی دھر، سیٹھ گر دھر، ایسر سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے بلاوے پر پنڈت چکر ورتی لکھنؤ سے پورٹ بلیئر  آ پہنچا ہے۔ اگلے روز اتوار کی صبح کو آریہ سماج کے میدان میں اتنے لوگ جمع ہیں کہ اس سے پہلے کبھی جمع نہیں ہوئے تھے۔ اس مجمع میں پنڈت کو سننے کے لئے سیٹھ گردھر کے حلیف بھی ہیں اور حریف بھی۔ محمد علی اور اس کے لوکل بار کے ساتھی بھی حاضرین میں پنڈت کے بھاشن کے منتظر بیٹھے ہیں۔ پنڈت چکرورتی نے اپنے بھاشن کے لئے کھڑے ہو تے ہی ہندوؤں کو اشتعال دلانے کے لئے تاریخ کے صفحوں سے مسلمانوں کے مظالم دہرانے شروع کر دیا ہے۔ علی اچانک اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور پنڈت کو روک کر بہ آواز بلند اس سے پو چھنے لگتا ہے :

’’کیا آپ اس وقت تاریخ کے پنوں میں سانس لے رہے ہیں، یا بیسویں صدی کے خاتمے پر یہاں پورٹ بلیئر میں ؟ آپ آخر کیا چاہتے ہیں ؟ ۔ ۔ ۔ فرقہ وارانہ فساد؟۔ ۔ ۔ مارا پیٹی؟۔ ۔ ۔ وحشیانہ قوت؟۔ ۔ ۔ کیا؟۔ ۔ ۔ کیا چاہتے ہیں آپ؟۔ ۔ ۔ ہماری جانیں ؟‘‘

پنڈت تلسی دھر کے حلیف اپنی جگہوں سے علی کی جانب دوڑے ہیں جس پر لوکل بار کے ممبران علی کی ڈھال بن کر اس کے ارد گرد کھڑے ہو گئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے لڑنے لگے ہیں اور حالات کو بگڑتے ہوئے دیکھ کر پولس انسپکٹر نے اپنا پستول کھول لیا ہے اور فائرنگ شروع کر دی ہے اور اسٹیج کے قریب ہی گردھر کا ایک ساتھی گولی سے ڈھیر ہو گیا ہے۔ بالآخر فساد پر قابو پا لیا گیا ہے۔ پولس نے علی اور اس کے چند لوکل بار کے لوگوں کے ساتھ پنڈت تلسی دھر اور سیٹھ گردھر کے بعض لوگوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ پولس نے اپنی تفتیش کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ پنڈت چکرورتی کے جلسے میں ان کی گولی سے موت واقع نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ کام علی کی سر کر دگی میں لوکل بار ایسو سی ایشن کے امرسنگھ یا کسی اور رکن نے انجام دیا ہے۔ وہ شہادتیں اکٹھی کر رہے ہیں اور چونکہ سبھی حالات علی کو عین مرکز میں کھڑا رکھے ہوئے ہیں اس لئے اس کا کیس لمبا اور پیچیدہ ہو کر آگے ہی بڑھتا جا رہا ہے۔ لوکل بار ایسوسی ایشن کے ممبران بار بار میٹنگیں کر کے علی اور امر سنگھ کی دفاع کی تدبیریں کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ جلسے کر کے عوام کو سمجھابھی رہے ہیں جس کے اثر سے وہ بہت سارے لوگ جو گمراہ ہو گئے تھے وہ بھی ان سے پہلے کی طرح آن ملے ہیں۔ مگر پولس نے چھ ماہ کی عدالتی پیشیوں میں پکی قانونی شہادتوں کی مدد سے بالآخر ثابت کر دیا ہے کہ علی کی شہ پر امر سنگھ نے گولی چلائی تھی:

’’علی اور امر سنگھ کو عمر قید کی سزا ہو گئی ہے۔ مزید، پورٹ بلیئر کے امن عامہ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے عدالت نے اپنے فیصلے میں شامل کیا ہے کہ علی اور امر سنگھ کو بمبئی جیل میں رکھا جائے۔ ‘‘

جوگندر پال کا یہ بھر پور طنز اورIronyدیکھئے کہ جس پورٹ بلیئر میں غیرسماجی عناصر کو سماج سے الگ تھلگ رکھنے کے لئے کالا پانی کی سزا دی جاتی تھی اب وہیں کے مبینہ غیر سماجی عناصر کو ممبئی جیل بھیجا جا رہا ہے۔ ہمارے انصاف کے معیار کو دیکھئے کہ کس طرح بے قصور کو مجرم اور مجرم کو بے قصور قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ بابا لالو پر ستیہ وتی کے جرم کو تھوپ کر اسے کالا پانی بھیج دیا گیا اور اس کے بیٹے علی کو پولس نے اپنا دامن بچانے کے لئے قاتل ثابت کر دیا۔ اگر انصاف کا یہی معیار ہے تو اس انصاف پر لوگوں کا اعتماد کب تک برقرار رہ پائے گا۔ آج ہم اچھی طرح سے واقف ہیں کہ کس طرح طاقت و ثروت کا استعمال کر کے انصاف کے عمل کو متأثر کیا جاتا ہے۔ ذیلی عدالتوں میں تو یہ عام بات تھی ہی لیکن حالیہ برسوں میں ہائی کورٹ کے منصفوں پر بدعنوانی کے جو الزامات لگے ہیں، ان سے اس بات کا واضح اشارہ ملتا ہے کہ ہمارا عدلیہ بالکل کرپٹ ہو چکا ہے۔ ایسے میں ہی کو ئی علی کہہ اٹھتا ہے :

’’آپ فکر مت کیجئے بابا، بس انتظار کیجئے۔

انتظار؟۔ ۔ ۔

اس بات کا، بابا، کہ میں کب مروجہ قانون کو پھانسی پر چڑھا پاتا ہوں۔

مگر بیٹا علی۔ ۔ ۔

یاپھرآپ چاہتے ہیں تو میں ہی پھانسی پر لٹک جاؤں گا۔ ‘‘

ہمارا کامل یقین ہے کہ بے گناہوں کا خون ضرور رنگ لائے گا اور ایک دن گناہگار اپنے کیفر کردار تک پہنچیں گے۔ لیکن اس کے لئے عوام کو بیدار ہونا پڑے گا اور عزم مصمم کرنا پڑے گا کہ ہم اس وقت تک ہار نہیں مانیں گے جب تک کہ انصاف حاصل نہیں کر لیتے۔ جو گندر پال نے کالا پانی کے قیدیوں کی زندگی کے پس منظر میں انصاف کے معیار و مقدار پر جو سوال اٹھایا ہے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس پر یہاں کے حکمرانوں کا غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے۔ بصورت دیگر کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور انصاف پر سے عوام کا اعتماد ہی اٹھ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو لا اینڈ آرڈر کا ایسا بحران شروع ہو جائے گا جس پر قابو پانا حکومت کے لئے آسان نہیں ہو گا۔ اس لئے ضرورت ہے اس بات کی کہ وقت رہتے ہی حالات کو درست کر لیا جائے۔ جوگندر پال نے اس ناولٹ میں بہت سے تاریخی حقائق بھی پیش کئے ہیں :

’’۱۹۳۸کے آس پاس کا زمانہ تھا جب ہندوستان کی آزادی کی تحریک خوب زوروں پر تھی۔ انہی دنوں ہندوستان میں یہ تحریک بھی زور پکڑ گئی کہ کالے پانی کے سیاسی قیدیوں کو رہا کر کے واپس ہندوستان بھیج دیا جائے۔

انڈیمان کے ہندوستانیوں کو پہلے تو یہی لگا کہ یہ محض افواہ ہے کہ سبھاش چندر بوس پورٹ بلیئر آ رہے ہیں اور یہ کہ یہاں آ کر اپنے ہاتھوں سے آزاد ہندوستان کا جھنڈا لہرائیں گے، مگر جب جاپانی سرکار نے تصدیق کر دی کہ بوس واقعی وہاں ۲۹ دسمبر ۱۹۴۳ کو پہنچ رہے ہیں تو ان کے جھکے سر از خود اوپر اٹھ آئے اور انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ سارا دن ایک بڑے تہوار کی طرح جی لیا جسے ابھی آنا تھا۔

۳۰ دسمبر ۱۹۴۳، کو سبھاش چندر بوس نے جے ہند کے فلک شگاف نعروں میں آزاد ہندوستان کا جھنڈا بلند کیا اور ہندوستانی قیدیوں کے اس شہر میں آزادی کے ترنگے کو لہراتے ہوے دیکھ دیکھ کر یہاں کے مکینوں کے اٹکے اٹکے سانس کھل گئے اور وہ بھی گویا تین رنگوں میں ہوا میں لہرانے لگے، سرشار، کہ کل ہندوستان میں سب سے پہلے وہی آزاد ہوے جو بندی بنا کر یہاں کالے کوسوں بھیجے گئے تھے۔

بہر حال ۱۹۴۵ء میں انڈیمان میں انگریزوں کے دوبارہ قبضے تک جاپانیوں نے بھائی سری رام اور دوسرے بہت سے ہندوستانیوں پر اپنی نظر رکھے رکھی، اور انگریزی قبضے کے بعد جب انگریزی سلطنت اور مین لینڈ کے ہندوستانی اماموں میں حکومت کی باگ ڈور ہندوستانیوں کو سونپنے کی بات چیت شروع ہونے لگی تو ایک روز اچانک بھائی سری رام نے ایک جلسے میں ایسے اعتراضات کئے جو کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھے۔ ‘‘

1938میں کالے پانی میں قید ہندستانی سیاسی قیدیوں کی رہائی کی پر زور تحریک، 1942میں جاپانی فوج کا انگریزوں کو انڈیمان نیکو بار سے بے دخل کر کے اس پر قبضہ کر لینا، 1943میں جاپانی فوج کی مدد سے سبھاش چندر بوس کا انڈیمان نیکوبار میں پہلی بار آزاد ہندستان کا جھنڈا بلند کرنا اور 1945میں انڈیمان نیکوبار  پر انگریزوں کا دوبارہ قبضہ یہ ایسے حقائق ہیں جو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہو چکے ہیں۔ تاریخی حقائق کو من و عن نقل کرنے کا رجحان فکشن میں شاذو نادر ہی نظر آتا ہے۔ لیکن یہ جو گندر پال کا کمال فن ہے کہ تاریخ پیش کرنے کے باوجود فکشن میں کسی طرح کا کو ئی جھول نہیں پیدا ہوا ہے۔ جوگندر پال نے اس ناولٹ میں کئی چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی پیش کی ہیں۔ دیکھئے ایک کہانی:

’’ایک انڈیمانی گارڈ ہوا کرتا تھا بی بی۔ جاروا قبیلے کا تھا۔ جاروا باہر کے لوگوں سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے اور اپنے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں قطعاً الگ تھلگ رہتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ جاروا گارڈ انگریزوں کے ہاتھ کیسے آ گیا۔ یہ لوگ اپنے جزیروں میں ننگ دھڑنگ گھومتے پھرتے ہیں۔ ۔ ۔

ایک دفعہ میں نے جارواؤں کی تیراکی کی بہت تعریف کی تو وہ یہ کہانی سنانے لگا: ہم جاروا در اصل مچھلیوں کی اولاد ہیں۔ صدیوں پہلے ایک دفعہ ایک نہایت بھیانک سمندری طوفان نے مچھلیوں کے پشتوں کے پشتے مغربی گھاٹ کے جزیروں کے گھٹا ٹوپ بھیتر لا پھینکے، بے شمار مچھلیوں نے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا، اور جو مرنے سے بچ گئیں وہ اس لئے کہ انہیں جئے جانے کی شدید خواہش تھی۔ یوں پانی کے یہ باسی خشکی پر ہی بس گئے اور جب انہیں بسے بسے ہزاروں سال گزر گئے تو آپ ہی آپ مرد اور عورت کے جسموں ڈھل آئے۔ جارواؤں کو انسانی روپ تو مل گیا مگر ان کی خوئیں بدستور مچھلیوں کی سی تھیں۔ انسانی یاد داشت کے بغیر ماں بیٹے کوہی شوہر مان کر اس سے لپٹ کر پڑی رہتی، یا بیٹی سے باپ کی اولاد پیدا ہو جاتی، یا پھر جو جیسے بھی ہو جائے۔ یاد داشت نہ ہونے کے کارن ان کے یہاں رشتوں کی پہچان بس انہی پلوں کی تھی جو وہ جی رہے ہوتے اور بس۔ جارواؤں کے بڑے بوڑھوں نے آخر رشتے باندھنے کا یہ طریقہ نکالا کہ جب کوئی مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہیں تو ساری برادری کے سامنے ان کے بیاہ کی رسم ادا کی جائے اور اس رسم سے سات سورج پہلے۔ ۔ ۔ وہ ایک دن کو ایک سورج قرار دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ہاں سات سورج پہلے مرد اور عورت بلا ناغہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنے بیٹھے رہیں۔ جارواؤں کے بڑے بوڑھے بڑے دور اندیش تھے۔ انہوں نے یہ شرط بھی لگا دی کہ بیاہ کے بعد ایک سو سورج کے اندر اندر ہر وواہت جوڑا کسی بارش کے دن اپنے جزیرے سے ایک سیدھ میں مچھلیوں کی طرح تیر کر سمندر بابا کے دل تک جا پہنچے اور وہاں وہ دونوں ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈال کر اپنے منھ آسمان کی طرف پورے کھول لیں اور بارش کے ان چھوئے شفاف قطرے حلق سے اتار لیں۔ بڑے بوڑھوں نے وردان دیا کہ ہر جنم میں ایسا کرنے پر وہ اگلے جنم میں بھی اپنے بچوں کے ماں باپ بنیں گے۔ ‘‘

جوگندر پال نے اس ناولٹ میں بیانیہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ زبان اتنی سادہ، سہل اور عام فہم استعمال کی ہے کہ قاری کو کہیں کسی طرح کی دشواری پیش نہیں آتی ہے۔ ناولٹ کے سنجیدہ موضوع کے پیش نظر بیانیہ اسلوب اور سلیس زبان اس کی اہم ضرورت تھی جس کو جوگندر پال نے خوش اسلوبی کے ساتھ برتا ہے۔ مکالمے کرداروں کے بالکل حسب حال ہیں اور نقطۂ نظر اور مقصد کی پیش کش اس طرح ہوئی ہے کہ یہ ناولٹ میں زیریں لہر کے طور پر ہر جگہ موجود ہے مگر سطح پر ابھر کر کہیں سامنے نہیں آتا ہے جس نے ناولٹ کو پروپیگنڈہ ہونے سے محفوظ رکھا ہے اوراس کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ ہندی اور انگریزی کے سبک اور رواں الفاظ کے خوبصورت استعمال نے زبان کی چاشنی بڑھا دی ہے۔ یہ ناولٹ جوگندر پال کے فن کی عظمت کی زندہ جاوید مثال ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ Beyond Black Watersکے نام سے Vibha S. Chauhanنے کیا ہے جس کو اکتوبر 2007میں Penguin Book Indiaنے شائع کیا ہے۔ جوگندر پال کی بیشتر تخلیقات کی طرح یہ ناولٹ بھی ہند و پاک اور دوسرے ممالک میں ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔

 

                   حواشی

 

(1) ڈاکٹر ارتضی کریم(مرتب)، جو گندر پال، ذکر، فکر، فن۔ موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی۔ ۱۹۹۹۔ صفحہ۶۷

(2) ایضاً۔ صفحہ۶۷

(3) پروفیسر وہاب اشرفی، تاریخ ادب اردو(جلد سوم)ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ صفحہ۱۲۲۲

(4) ڈاکٹر ارتضی کریم، جو گندر پال، ذکر، فکر، فن۔ صفحہ۱۹

(5) پروفیسر لطف الرحمن، جدے دیت کی جمالیات۔ صائمہ پبلی کیشن، بھیوندڈی، تھانہ۔ ۱۹۹۳۔ صفحہ۲۱۴

(6) ایضاً۔ صفحہ۲۱۹

(7) ایضاً۔ صفحہ۲۲۴

(8) ایضاً۔ صفحہ۲۳۰

(9) ایضاً۔ صفحہ۲۳۳

(10) ایضاً۔ صفحہ۲۴۰

(11) ایضاً۔ صفحہ۲۴۱

(12) ڈاکٹر سید مہدی احمد رضوی، اردو میں ناولٹ نگاری(فن اور ارتقاء)۔ کتابستان، مظفر پور، بہار۔ 2004۔ صفحہ۱۹۸

(13) جوگندر پال، Sleepwalkers، کتھا پرسپکٹیو، سری اوربندو مارگ، نئی دہلی۔ ۱۹۹۸۔ صفحہ۱۱۴

(14) ڈاکٹر ارتضی کریم(مرتب)، جوگندر پال، ذکر، فکر، فن۔ صفحہ۴۴۸

(15) جوگندر پال، Sleepwalkers۔ صفحہ۱۱۷

(16) ڈاکٹر ارتضی کریم(مرتب)، جوگندر پال، ذکر، فکر، فن۔ موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی۔ ۱۹۹۹۔ صفحہ۴۶۸

(17) جوگندر پال، Sleepwalkers، کتھا پرسپکٹیو، سری اوربندومارگ، نئی دہلی۔ ۱۹۹۸۔ صفحہ۱۱۸

(18) India Corruption Study 200 5To Improve Governance, Page-3. Study designed and conducted by Centre for Media Studies, Saket, New Delhi-110017.

 

 

 

ماحصل

 

 

ماحولیاتی، اقتصادی، سیاسی و معاشرتی ہر سطح پر دنیا آج جس تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ترقی کی دوڑ اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ہوڑ میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک نے ماحولیاتی آلودگیوں کی اندیکھی کرتے ہوئے گرین ہاؤس گیسوں کا جو اخراج کیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ گلیشیر تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں، موسم تبدیل ہو رہے ہیں، بے موسم برسات ہو رہی ہے اور سمندری طوفان آ رہے ہیں۔ اقتصادی سطح پر بات کریں تو دنیا آج بھی معاشی بحران سے دوچار ہے۔ دنیا کے مختلف بر اعظموں میں سیاسی و معاشرتی اتھل پتھل بھی ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ ایسے ماحول میں استحکام کی بات کر پانا بہت مشکل ہے۔ لیکن اس ماحول میں بھی ایک چیز ایسی ہے جس کے بارے میں، میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ مستحکم تھی، ہے اور رہے گی۔ وہ انوکھی چیز ہے قصے میں بنی نوع انسان کی دلچسپی۔ انسان ہمیشہ سے قصے میں دلچسپی لیتا رہا ہے اور اس کی یہ دلچسپی رہتی دنیا تک برقرار رہے گی۔ دنیا کی ہر زبان میں قصے کا وجود ہے۔ ہاں اس کی شکلیں ضرور بدلتی رہی ہیں۔ اردو زبان کی بات کریں تو پہلے داستانوں کا دور چلا، پھر ناول آئے، قصے نے کروٹ بدلی تو ناولٹ، افسانے اور منی افسانے کا وجود ہوا، لیکن قصے کا عنصر ان میں ہمیشہ موجود رہا۔

اصناف قصہ میں ’ناولٹ ‘کا مغرب کی مختلف زبانوں میں وجود اور روایت و استحکام کا جائزہ لیتے ہوئے میں نے اپنے اس مقالے میں اردو زبان و ادب میں بھی اس کی بہترین روایت کا جائزہ لیا ہے۔ مولوی نذیر احمد کی ’ایامیٰ‘سے شروع ہو کر اردو ناولٹ نگاری کا فن ارتقائی مراحل کی طرف گامزن ہوا تو سجاد ظہیر نے ’لندن کی ایک رات‘ راجندر سنگھ بیدی نے ’ایک چادر میلی سی‘ اور قرۃ العین حیدر نے ’سیتاہرن‘ چائے کے باغِ، اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، اور’ہاؤسنگ سوسائٹی‘ وغیرہ بہترین ناولٹ تخلیق کئے۔ ان ناولٹ میں موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے تبدیلیاں آتی رہیں اور اسلوب و انداز کے اعتبار سے بھی ان میں رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ ناولٹ نگاری کی اس مستحکم روایت کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھایا ہے جوگندر پال نے۔ جوگندر پال کی تخلیقات نے ابتدا سے ہی سماجیاتی و جمالیاتی ہر دو سطح پر قارئین و ناقدین کو متوجہ کیا ہے۔ ان کے اظہاریہ کی انفرادیت نے ان کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں اور ممتاز کیا ہے۔ ان کی ایک بڑی خوبی فلسفہ کو کہانی میں یا کہانی کو فلسفے میں پیش کرنے کی صلاحیت ہے۔ جوگندر پال کی تخلیقات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کو سمیٹنے کی انہوں نے بھر پور کوشش کی ہے۔ افسانہ نگاروں سے متعلق کہی ہوئی ان کی بات خود ان پر حرف حرف صادق آتی ہے  ’اس کی بے باکیِ فکر کی بدولت متمدن زندگی کے نقشہ کا کینوس اور پھیل جاتا ہے اور سچائیوں کی مزید سچائی وا ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے اور انسانی نسل اپنے علم و فکر سے بور نہیں ہوتی۔ ‘ ان کے ناولٹ اس حقیقت کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔ ’بیانات‘ میں انہوں نے سائنس و ٹکنالوجی سے انسانی زندگی کے رشتے کی نوعیت و کیفیت کو استعاراتی انداز میں پیش کیا ہے اور میکانکیت اور میکا نکی سوچ و فکر کے برے نتائج کو ظاہر کیا ہے۔ توازن کی ضرورت و اہمیت یوں تو زندگی کے ہر شعبے میں ہے مگر جب بات سائنس و ٹکنالوجی اور زندگی سے اس کے رشتے کی آ جائے تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ’آمدو رفت‘ میں جوگندر پال نے ہندستانی زندگی کی ناہمواریوں کو پیش کر تے ہوئے یہاں کے حکمرانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ جوگندر پال کی حساس فطرت اور کھوجی نظر سے کوئی بھی ناہمواری بچ کر نہیں نکل پاتی ہے۔ وہ ہر چیز کو باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور اس سے نتائج تک پہنچنے کی کوشش کر تے ہیں۔ ’خواب رو‘ میں انہوں نے جلاوطنی اور ہجرت کے کرب و درد کو بیان کیا ہے۔ اپنی مٹی اور اپنی تہذیبی جڑوں سے بچھڑ کر انسان شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے کی مانند ہو جاتا ہے جو ہوا کے دوش پر کہیں سے کہیں اڑتا چلا جاتا ہے۔ ہجرت و جلاوطنی عہد حاضر کا ایک اجتماعی کرب ہے جس سے آج کا انسان دوچار ہے۔ لیکن ہجرت آج ایک ناگزیر شئے ہوتی جا رہی ہے جو ایک ملک سے دوسرے ملک تک نہ بھی ہو تو ایک شہر سے دوسرے شہر تک تو ہو ہی جاتی ہے۔ اس لئے اس کرب سے بچنے کا نسخہ بتاتے ہوئے جوگندر پال اپنے قارئین سے کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک اور شہر میں بس کر فوراً اتنے مقامی ہو جاؤ کہ مقامیوں کو تم سے نفرت کرتے ہوئے لگے کہ وہ خود سے ہی نفرت کر رہے ہیں۔ ’پار پرے ‘ میں جوگندر پال نے کالا پانی کی سزایافتہ قیدیوں کی زندگی کے پس پردہ ہندستانی عدالتی نظام پر سوالیہ نشان لگایا ہے اور دکھایا ہے کہ کس طرح عدلیہ میں خامیوں کے سبب مجرم بے قصور اور بے قصور مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ نسل در نسل چلا آ رہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ عدلیہ کی خامیوں کو ختم کیا جائے تاکہ انصاف کا ترازو کبھی ٹیڑھا نہ ہو۔ جوگندر پال نے ان تمام ناولٹ میں موضوع اور مواد کے اعتبار سے اسلوب و تکنیک اختیار کیا ہے اور ہر ناولٹ کو اس خوش اسلوبی کے ساتھ انجام تک پہنچایا ہے کہ یہ قاری پر بھر پور اثر اور چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔ جوگندر پال اپنی زندگی کے آخری پڑاؤ سے گزر رہے ہیں اور اب ان سے کسی بڑی تخلیق کی توقع شاید بے جا ہو گی۔ لیکن با لعموم اردو فکشن اور با لخصوص اردو ناولٹ میں انہوں نے جو یوگ دان دیا ہے وہ قابل رشک ہے۔ ان کے فن کی تقلید بہت کم ہو سکی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے فن کی تقلید کے لئے جس ہمہ گیر صلاحیت کی ضرورت ہے وہ کم تخلیق کاروں میں پائی جاتی ہے۔ اردو ناولٹ کا قافلہ جوگندر پال سے پہلے بھی جاری تھا، ان کے ساتھ بھی جاری ہے اور ان کے بعد بھی جاری رہے گا۔ عصر حاضر میں لوگوں کے پاس وقت کی قلت ہے جس کے سبب وہ طویل ناول پڑھ پانے سے قاصر ہیں، افسانے سے ان کے ذوق مطالعہ کی سیرابی نہیں ہو پاتی ہے۔ ایسی صورت میں ناولٹ ان کے لئے بہتر متبادل ہیں۔ ناولٹ کی ترقی اور مقبولیت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ ناولٹ نگاروں نے تخلیقی موضوعات کی تلاش و جستجو میں زندگی کے مختلف پہلوؤں تک رسائی کی کوشش کی ہے مگر اب بھی عصر حاضر کے بہت سے موضوعات ایسے ہیں جن کو تخلیقی گرفت میں لینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً تشدد اور فرقہ واریت کا مسئلہ، رشوت خوری اور کرپشن کا مسئلہ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور خودکشی کا مسئلہ، ماحولیاتی آلودگی اور درجہ حرارت بڑھنے کا مسئلہ وغیرہ۔ ناولٹ نے اپنے عہد کے ان چبھتے سوالوں اور مسئلوں کو اپنا موضوع بنایا تو توقع ہے کہ یہ عوام میں اور زیادہ مقبولیت حاصل کر یں گے۔ آج ضخیم کتابوں کی اشاعت بہت مشکل کام ہے اس اعتبار سے بھی ناولٹ کے لئے ماحول سازگار اور ہموار ہے۔ اس لئے میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں ناولٹ نگاری کے لئے ارتقائی امکانات روشن ہیں۔

 

 

 

 

کتابیات

 

 

(الف) بنیادی مآخذ:

 

(1) پال، جوگندر۔ بیانات۔ انڈین بکس پبلی کیشنز، اورنگ آباد۔ 1975۔

(2)پال، جوگندر۔ آمدو رفت۔ انڈین بکس پبلی کیشنز، اورنگ آباد۔ 1975۔

(3) پال، جوگندر۔ خواب رو۔ ایجو کیشنل پبلی شنگ ہاؤس، دہلی۔ 1991۔

(4) پال، جوگندر۔ پار پرے۔ انشا پبلی کیشنز، کولکاتا۔ 2004۔

 

(ب) ثانوی مآخذ:

 

(5) رضوی، سید وضاحت حسین۔ اردو ناولٹ کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ۔ مکتبہ جامعہ، نئی دہلی۔ 2001۔

(6) رضوی، سید مہدی احمد۔ اردو میں ناولٹ نگاری(فن اور ارتقاء)۔ کتابستان، مظفر پور، بہار۔ 2004۔

(7) صبا عارف۔ اردو میں ناولٹ نگاری۔ موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ 2003۔

(8) محی الدین، صدیق۔ اردو ناولٹ کا مطالعہ(Thesis)۔ سینٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد۔ 1989۔

(9) فاروقی، احسن۔ اردو ناول کی تنقیدی تاریخ۔ ادارہ فروغ اردو، لکھنؤ۔ باردوم1962۔

(10) نورالحق۔ اردو ناولوں میں ہیئت کے تجربے (Thesis)۔ جواہرلعل نہرو یونیورسٹی، دہلی۔ 1994۔

(11) فاروقی، شمس الرحمن۔ انداز گفتگو کیا ہے۔ مکتبہ جامعہ، نئی دہلی۔ 1993۔

(12) شاہین، شہناز۔ اردو ناولوں اور افسانوں پر یورپی فکشن کے اثرات۔ سن اشاعت و مطبع ندارد۔

(13) احتشام حسین، سید۔ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ۔ ترقی اردو بیورو، نئی دہلی۔ 1983۔

(14) اختر، سلیم۔ افسانہ حقیقت سے علامت تک۔ اردو رائٹرس گلڈ، الہ آباد۔ باراول1980۔

(15) احمد، مولوی نذیر۔ ایامیٰ۔ مطبع فیضی، دہلی۔ 1891۔

(16) سرمست، یوسف۔ بیسویں صدی میں اردو ناول۔ ترقی اردو بیورو، نئی دہلی۔ 1995۔

(17) رضا، جعفر۔ پریم چند اور تعمیر فن۔ شبستان، الہ آباد۔ باردوم1980۔

(18) اشرفی، وہاب۔ تاریخ ادبیات عالم۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ 1991۔

(19) اشرفی، وہاب۔ تاریخ ادب اردو(جلدسوم)۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔

(20) رئیس، قمر۔ تلاش و توازن۔ ادارہ خرام پبلیکیشنز، دہلی۔ باراول1968۔

(21) رئیس، قمر۔ تنقیدی تناظر۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ 1978۔

(22) حامد بیگ، مرزا۔ کتابیات تراجم(جلد دوم، نثری ادب)۔ مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، پاکستان۔ 1987۔

(23) کریم، ارتضیٰ(مرتب)۔ جوگندر پال ذکر، فکر، فن۔ موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی۔ 1999۔

(24) لطف الرحمن۔ جدیدیت کی جمالیات۔ صائمہ پبلی کیشن، بھیونڈی، تھانہ۔ 1993۔

(25) اشک، پریم پال۔ سرشار ایک مطالعہ۔ آزاد کتاب گھر، دہلی۔ باراول1964۔

(26) عباس حسینی، علی۔ ناول کی تاریخ اور تنقید۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ 1998۔

(27) فاروقی، احسن و ہاشمی، نورالحسن۔ ناول کیا ہے ؟، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ۔ 1990۔

(28) عظیم، وقار۔ فن افسانہ نگاری۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ 1997۔

(29)Abrams.M.H.A glossary of Literary Terms. 3rd ed. Macmillan, Delhi; 1978

(30) Encyclopaedia Britanica Vol l 13791 6

(31) Encyclopaedia Americana Vol l 20691 0

(32)Merriam Webster’s Encyclopaedia of Literature: Marriam-Webster Incorporated, Publishers springfield, Massachusetts; USA

(33)Knott. William C. The Craft of Fiction. Reston Publishing,Virginia;1973

34) Paul. Joginder. Sleepwalkers. Katha Perspective, Sri Aurbindo Marg, New Delhi;1998

ماخذ:

http://www.punjnud.com/ViewPage.aspx?BookID=14698&BookPageID=332652&BookTitle=Joginder%20Paul%20ki%20Novelett%20Nigari

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید