FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

بہشتی زیور

مصنف:حکیم الامت مجدد ملت مولانا

اشرف علی تھانوی

نور اللہ مرقدہ

 

  حصہ اول یہاں دیکھیں

حصہ سوم کے لیے یہاں کلک کریں


حصہ دوم

 

 

کوئی چیز پڑی پانے کا بیان

مسئلہ۔ کہیں راستہ گلی میں یا بیبیوں کی محفل میں یا اپنے یہاں کوئی مہمانداری ہوئی تھی یا وعظ کہلوایا تھا سب کے جانے کے بعد کچھ ملایا اور کہیں کوئی چیز پڑی پائی تو اس کو خود لے لینا درست نہیں حرام ہے اگر اٹھائے تو اس نیت سے اٹھائے کہ اس کے مالک کو تلاش کر کے دے دوں گی۔

مسئلہ۔ اگر کوئی چیز پائی اور اس کو نہ اٹھایا تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگر یہ ڈر ہو کہ اگر میں نہ اٹھاؤں گی تو کوئی اور لے لے گا اور جس کی چیز ہے اس کو نہ ملے گی تو اس کا اٹھا لینا اور مالک کو پہنچا دینا واجب ہے۔

مسئلہ۔ جب کسی نے پڑی ہوئی چیز اٹھائی تو اب مالک کا تلاش کرنا اور تلاش کر کے دے دینا اس کے ذمے ہو گیا اب اگر پھر وہیں ڈال دیں یا اٹھا کر اپنے گھر لے آئی لیکن مالک کو تلاش نہیں کیا تو گنہگار ہوئی۔ خواہ ایسی جگہ پڑی ہو کہ اٹھانا اس کے ذمے واجب نہ تھا یعنی کسی محفوظ جگہ پڑی تھی کہ ضائع ہو جانے کا ڈر نہیں تھا یا ایسی جگہ ہو کہ اٹھا لینا واجب تھا۔ دونوں کا یہی حکم ہے کہ اٹھا لینے کے بعد مالک کو تلاش کر کر پہنانا واجب ہو جاتا ہے پھر وہیں ڈال دینا جائز نہیں۔

مسئلہ۔ محفلوں میں مردوں اور عورتوں کے جماؤ جم گھٹے میں خوب پکارے تلاش کرے اگر مردوں میں خود نہ جا سکے نہ پکار سکے تو اپنے میاں وغیرہ کسی اور سے پکڑوائے اور خوب مشہور کرا دے کہ ہم نے ایک چیز پائی ہے جس کی ہو ہم سے کر لے لیوے یہ ٹھیک پتہ نہ دے کہ کیا چیز پائی ہے تاکہ کوئی جھوٹ فریب کر کے نہ لے سکے۔ البتہ کچھ گول مول ادھورا پتہ بتلا دینا چاہیے۔ مثلاً یہ کہ ایک زیور ہے یا ایک کپڑا ہے یا ایک بٹوا ہے جس میں کچھ نقد ہے۔ اگر کوئی آئے اور اپنی چیز کا ٹھیک ٹھیک پتہ دے دے تو اس کے حوالہ کر دینا چاہیے۔

مسئلہ۔ بہت تلاش کرنے اور مشہور کرنے کے بعد جب بالکل مایوسی ہو جائے کہ اب اس کا کوئی وارث نہ ملے گا تو اس چیز کو خیرات کر دے اپنے پاس نہ رکھے البتہ اگر وہ خود غریب محتاج ہو تو خود ہی اپنے کام میں لائے لیکن خیرات کرنے کے بعد اگر اس کا مالک گیا تو اس کے دام لے سکتاہے اور اگر خیرات کرنے کو منظور کر لیا تو اس کو اس خیرات کا ثواب مل جائے گا۔

مسئلہ۔ پالتو کبوتر یا طوطا مینا اور کوئی چڑیا اس کے گھر گر پڑی اور اس نے اس کو پکڑ لیا تو مالک کو تلاش کر کے پہنچانا واجب ہو گیا خود لے لینا حرام ہے۔

مسئلہ۔ باغ میں آیا امرود وغیرہ پڑے ہیں تو ان کو بلا اجازت اٹھانا اور کھانا حرام ہے البتہ اگر کوئی ایسی کم قدر چیز ہے کہ ایسی چیز کو کوئی تلاش نہیں کرتا اور نہ اس کے لینے کھانے سے کوئی برا مانتا ہے تو اس کو خرچ میں لانا درست ہے مثلاً راہ میں ایک بیر پڑا ملا یا ایک مٹھی چنے کے بوٹ ملے۔

مسئلہ۔ کسی مکان یا جنگل میں خزانہ یعنی کچھ گڑا ہوا مال نکل آیا تو اس کا بھی وہی حکم ہے جو پڑی ہوئی چیز کا حکم ہے خود لے لینا جائز نہیں تلاش و کوشش کرنے کے بعد اگر مالک کا پتہ نہ چلے تو اس کو خیرات کر دے اور غریب ہو تو خود بھی لے سکتی ہے۔

جن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور جن سے ٹوٹ جاتا ہے

مسئلہ۔ دن کو سو گئی ایسا خواب دیکھا جس سے نہانے کی ضرورت ہو گئی تو روزہ نہیں ٹوٹا۔

مسئلہ۔ مرد اور عورت کا ساتھ لیٹنا ہاتھ لگانا پیار کرنا یہ سب درست ہے لیکن اگر جوانی کا اتنا جوش ہو کہ ان باتوں سے صحبت کرنے کا ڈر ہو تو ایسا نہ کرنا چاہیے مکروہ ہے۔

مسئلہ۔ رات کو نہانے کی ضرورت ہوئی مگر غسل نہیں کیا دن کو نہائی تب بھی روزہ ہو گیا بلکہ اگر دن بھر نہ نہائے تب بھی روزہ نہیں جاتا البتہ اس کا گناہ الگ ہو گا۔

مسئلہ۔ اگر مرد سے ہمبستری ہوئی تب بھی روزہ جاتا رہا اس کی قضا بھی رکھے اور کفارہ بھی دے دے۔ جب مرد کے پیشاب کے مقام کی سپاری اندر چلی گئی تو روزہ ٹوٹ گیا اور قضا و کفارہ واجب ہو گئے چاہے منی نکلے یہ نہ نکلے۔

مسئلہ۔ اگر مرد نے پاخانہ کی جگہ اپنا عضو کر دیا اور سپاری اندر چلی گئی تب بھی عورت مرد دونوں کا روزہ جاتا رہا قضا و کفارہ دونوں واجب ہیں۔

مسئلہ۔ روزہ میں پیشاب کی جگہ کوئی دوا رکھنا یا تیل وغیرہ کوئی چیز ڈالنا درست نہیں اگر کسی نے دوا رکھ لی تو روزہ جاتا رہا قضا واجب ہے کفارہ واجب نہیں۔

مسئلہ۔ کسی ضرورت سے دائی نے پیشاب کی جگہ انگلی ڈالی یا خود سے اپنی انگلی ڈالی پھر ساری انگلی یاتھوڑی سی انگلی نکالنے کے بعد پھر کر دی تو روزہ جاتا رہا لیکن کفارہ واجب نہیں اور اگر نکالنے کے بعد پھر نہیں کی تو روزہ نہیں گیا ہاں اگر پہلے ہی سے پانی وغیرہ کسی چیز میں انگلی بھیگی ہوئی ہو تو اول ہی دفعہ کرنے سے روزہ جاتا رہے گا۔

مسئلہ۔ کوئی عورت غافل سو رہی تھی یا بیہوش پڑی تھی اس سے کسی نے صحبت کی تو روزہ جاتا رہا فقط قضا واجب ہے کفارہ واجب نہیں اور مرد پر کفارہ بھی واجب ہے۔

جن وجہوں سے روزہ نہ رکھنا جائز ہے ان کا بیان

مسئلہ۔ عورت کو حیض آ گیا یا بچہ پیدا ہوا اور نفاس ہو گیا تو حیض اور نفاس رہنے تک روزہ رکھنا درست نہیں۔

مسئلہ۔ اگر رات کو پاک ہو گئی تو اب صبح کو روزہ نہ چھوڑے۔ اگر رات کو نہ نہائی ہو تب بھی روزہ رکھ لے اور صبح کو نہا لے۔ اور اگر صبح ہونے کے بعد پاک ہوئی تو اب پاک ہونے کے بعد روزہ کی نیت کرنا درست نہیں۔ لیکن کچھ کھانا پینا بھی درست نہیں ہے اب دن بھر روزہ داروں کی طرح رہنا چاہیے۔

روزے کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کا سونا عبادت ہے اور اس کا خاموش رہنا تسبیح ہے یعنی روزہ دار اگر خاموش رہے تو اسے تسبیح یعنی سبحان اللہ پڑھنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کا عمل ثواب میں بڑھ جاتا ہے یعنی اس کے اعمال کا ثواب بہ نسبت اور دنوں کے ان مبارک دنوں میں زیادہ ہوتا ہے اور اس کی دعا مقبول ہے یعنی روزے کی حالت کو قبولیت دعا میں خاص دخل ہے اور اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں یعنی گناہ صغیرہ معاف ہو جاتے ہیں حدیث میں ہے کہ روزہ ڈھال ہے اور مضبوط قلعہ ہے دوزخ سے بچانے کے لیے یعنی جس طرح ڈھال اور مضبوط قلعہ سے انسان پناہ لیتا ہے اور دشمن سے بچتا ہے اسی طرح روزے کے ذریعہ سے دوزخ سے نجات حاصل ہوتی ہے اس طرح کہ انسان کی قوت گناہوں کی کمزور ہو جاتی ہے اور نیکی کا مادہ بڑھتا ہے سو جب انسان باقاعدہ روزہ دار رہے گا اور اچھی طرح روزے کے آداب بجا لائے گا تو گناہ اس سے چھوٹ جائیں گے اور دوزخ سے نجات ملے گی۔ حدیث میں ہے کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ نہ پھاڑے یعنی برباد نہ کرے روزہ دار اس کو جھوٹ غیبت سے یعنی روزہ ڈھال کا کام دیتا ہے جیساکہ اوپر بیان ہو چکا ہے مگر جبکہ اس کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور اگر روزہ رکھا اور غیبت اور جھوٹ وغیرہ گناہوں سے باز نہ آئے تو گو فرض ادا ہو جائے گا مگر بہت بڑا گناہ ہو گا۔ اور روزے کی جو برکت حاصل ہوتی اس سے محرومی ہو گی۔

حدیث میں ہے روزہ ڈھال ہے دوزخ سے سو جو شخص صبح کرے اس حال میں کہ وہ روزہ دار ہو پس نہ جہالت کرے اس روز اور جبکہ کوئی آدمی اس سے جہالت سے پیش آئے تو اسے بدلہ میں برا نہ کہے اور اس سے بری گفتگو نہ کرے اور چاہیے کہ کہہ دے تحقیق میں روزہ دار ہوں اور قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے بے شک بدبو روزہ دار کے منہ کی زیادہ محبوب ہے خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے یعنی قیامت کے روز اس بدبو کے عوض جو روزے کی حالت روزے دار کے منہ کے اندر دنیا میں پیدا ہوتی ہے وہ سبب ہے اس خوشبو کے حاصل ہونے کا جو قیامت کو میسر ہو گی۔ حدیث میں ہے کہ روزہ دار کو ہر افطار کے وقت ایک ایسی دعا کی اجازت ہوتی ہے جس کے قبول کرنے کا خاص وعدہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں سے فرمایا کہ تم روزہ رکھو اس لیے کہ روزہ ڈھال ہے دوزخ سے بچنے کے لیے اور زمانہ کی مصیبتوں سے بچنے کے لیے یعنی روزہ کی برکت سے دوزخ اور مصائب و تکالیف سے نجات ملتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ تین ایسے آدمی ہیں کہ ان سے کھانے کا حساب قیامت میں نہ ہو گا جو کچھ بھی کھائیں جبکہ وہ کھانا حلال ہو اور وہ روزہ دار ہے اور سحری کھانے والا اور محافظ خدا تعالی کے راستہ میں یعنی جو اسلام کی سرحد میں مقیم ہوا اور کافروں سے ملک اسلام کی حفاظت کرے یہاں سے بہت بڑی رعایت روزہ دار کی اور سحری کھانے والے کی ور محافظ اسلام کی ثابت ہوئی کہ ان سے کھانے کا حساب ہی معاف کر دیا گیا لیکن اس رعایت پر بہت سے لذیذ کھانوں میں مصروف نہ ہونا چاہیے۔ بہت سی لذتوں میں مصروف ہونے سے خدا کی یاد غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ کی قوت کو ترقی ہوتی ہے خوب سمجھ لو بلکہ خدا کی اس نعمت کی بہت قدر ہونی چاہیے اور اس کا شکر اس طرح ادا کرنا چاہیے کہ حق تعالی کی خوب اطاعت کرے۔۔

حدیث میں ہے کہ جو روزہ دار کو روزہ افطار کرائے تو اس روزہ افطار کرانے والے کو اس روزہ رکھنے والے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا بغیر اس بات کے کہ روزہ دار کا کچھ ثواب کم ہو یعنی روزہ دار کا ثواب کچھ کم نہ ہو گا بلکہ حق تعالی اپنے فضل و کرم سے اپنی طرف سے روزہ افطار کرانے والے کو اس روزہ دار کی برابر ثواب مرحمت فرمائیں گے اگرچہ کسی معمولی ہی کھانے سے روزہ افطار کرا دے گو وہ پانی ہی ہو۔

حدیث میں ہے بے شک اللہ تعالی نے ثواب مقرر کیا ہے بنی دم کی نیکیوں کا دس گنے سے سات سو گنے تک۔ فرماتا ہے اللہ تعالی مگر روزہ یعنی روزہ میں سات سو کی حد نہیں ہے اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اس سے روزہ کے ثواب کی عظمت کا اندازہ کرنا چاہیے کہ جس کا حساب ہی نہیں معلوم کہ وہ ثواب کس قدر ہے اور خود حق تعالی اس کو عطا فرمائیں گے اور اس کا بندوبست ملائکہ کے ذریعہ سے نہ ہو گا۔ سبحان اللہ کیا قدر دانی ہے حق تعالی کی تھوڑی سی محنت پر کس قدر عوض مرحمت فرماتے ہیں مگر یہ ضرور ہے کہ روزے کی یہ تمام فضیلتیں جب ہی اپنا اثر دکھلائیں گی جبکہ روزہ کا حق ادا کرے اور اس میں جھوٹ غیبت اور تمام گناہوں سے بچے۔ بعضے لوگ بالکل اور بعضے صبح کی نماز رمضان میں بے پروائی سے قضا کر دیتے ہیں ان کو اس قدر برکت اور ایسا ثواب میسر نہ ہو گا۔ اور اس حدیث سے یہ شبہ نہ ہو کہ روزہ نماز سے بھی افضل ہے اس لیے کہ نماز تمام عبادات میں افضل ہے۔ مراد اس مضمون سے یہ ہے کہ روزہ کا بہت بڑا ثواب ہے اور بس۔ یہ غرض نہیں ہے کہ تمام عبادتوں سے روزہ افضل ہے اور بے شک روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی جب ہوتی ہے جبکہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی قیامت کو ہو گی۔ خدا تعالی سے ملنے کے وقت جیسا کہ بعض احادیث میں تصریح بھی آئی ہے۔ حدیث میں ہے جبکہ رمضان مبارک کی پہلی رات ہوتی ہے کھول دئیے جاتے ہیں دروازے آسمان کے اور ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ رمضان کی آخر رات تک بھی بند نہیں کیا جاتا۔ اور ایسا کوئی مسلمان نہیں ہے کہ نماز پڑھے کسی رات میں رمضان کی راتوں میں سے مگر یہ بات ہے کہ لکھے گا اللہ تعالی اس کے لیے ڈھائی ہزار نیکیاں عوض ہر رکعت کے یعنی ایک رکعت کے عوض ڈھائی ہزار نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے اور بنا دے گا حق تعالی اس کے لیے ایک مکان جنت میں سرخ یاقوت سے جس کے ساٹھ دروازے ہوں گے اور ہر دروازے کے لیے ایک سونے کا محل ہو گا جو راستہ ہو گا سرخ یاقوت سے پھر جب روزہ دار روزہ رکھتا ہے رمضان کے پہلے دن کا تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں جو رمضان گذشتہ کی اس تاریخ تک کے ہیں۔ پچھلے رمضان کی پہلی تاریخ تک یعنی گناہ صغیرہ اس سال کے جو گزر گیا معاف کر دیئے جاتے ہیں اور مغفرت طلب کرتے ہیں اس کے لیے روز مرہ ستر ہزار فرشتے صبح کی نماز سے آیت چھپنے تک اور ملے گا اس کو بدلے میں ہر رکعت کے جس کو پڑھتا ہے رمضان کے مہینہ میں رات میں یا دن میں ایک درخت جنت میں ایسا جس کے سایہ میں سوار پانچ سو برس چل سکتا ہے۔ کس قدر بڑی فضیلت ہے روزے کی مسلمانو کبھی قضا نہ ہونے دو بلکہ ہمت ہو تو نفل روزوں سے بھی مشرف ہو لیا کرو اور اللہ تعالی سے پورے طور پر محبت کرو جس نے اس قدر رحمت سے کام لیا کہ معمولی محنت میں اس قدر ثواب مرحمت فرمایا۔ کم سے کم اپنے مطلب ہی کے لیے کہ جنت میں بڑی بڑی نعمتیں ملیں خدا کو اپنا محبوب بنا لو۔ حدیث میں ہے کہ بے شک جنت سجائی جاتی ہے ابتدائے سال سے آخر سال تک رمضان کے مہینے کے لیے اور بے شک حوریں بڑی بڑی آنکھوں والی بناؤ سنگار کرتی ہیں ابتدائے سال سے آخر سال تک رمضان کے روزہ داروں کے لیے۔ پس جبکہ رمضان آتا ہے جنت کہتی ہے اے اللہ میرے اندر داخل کر دے اس مہینہ میں اپنے بندوں کو یعنی حکم فرما دیجئے کہ قیامت کو میرے اندر داخل ہوں اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں کہتی ہیں اے اللہ مقرر فرما دے ہمارے لیے اس مہینہ میں خاوند اپنے بندوں میں سے۔

سو جس شخص نے نہ لگائی اس مہینہ میں کسی مسلمان کو تہمت اور نہ پی اس مہینہ میں کوئی نشہ لانے والی چیز۔ مٹا دے گا اللہ تعالی اس کے گناہ۔ اور جس شخص نے تہمت لگائی اس ماہ میں کسی مسلمان کو یا پی اس مہینہ میں کوئی نشہ والی چیز مٹا دے گا حق تعالی اس کے سال بھر کے نیک اعمال یعنی بہت گناہ ہو گا۔ کیونکہ بزرگ زمانہ میں جس طرح نیکیوں کا ثواب زیادہ ملتا ہے اسی طرح گناہوں کا عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ان لفظوں میں کس قدر دھمکی ہے غور تو کرو۔ سو ڈرو رمضان کے مہینے سے اس لیے کہ تحقیق وہ مہینہ اللہ کا ہے جس میں بندوں کو حکم ہوتا ہے کہ اللہ کی عادت اختیار کریں کھانا پینا چھوڑ دیں جیسا کہ اللہ تعالی ہمیشہ کھانے پینے سے پاک رہتا ہے اسی واسطے یہ مہینہ خاص کیا گیا حق تعالی کے ساتھ۔

ورنہ سب مہینے اللہ تعالی ہی کے ہیں تمہارے لیے گیارہ مہینے خدائے تعالی نے مقرر کر دیئے ہیں جن میں تم کھانا کھاتے ہو اور پانی پیتے ہو اور لذت حاصل کرتے ہو اور اپنی ذات کے لیے ایک مہینہ مقرر کیا ہے جس میں کھانے پینے وغیرہ سے تم کو روکا گیا ہے پس ڈرو رمضان کے مہینے سے اس لیے کہ بے شک وہ مہینہ اللہ تبارک و تعالی کا ہے تو اچھی طرح اس میں اطاعت حق بجا لاؤ اور گناہ نہ کرو اگرچہ اطاعت ہمیشہ ضرور ہے لیکن خاص جگہ جیسے مکہ معظمہ و مدینہ منورہ اور خاص ایام مثلاً رمضان مبارک وغیرہ میں نیکیوں کے کرنے اور گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ بزرگ جگہ اور بزرگ دنوں میں نیکیوں کا ثواب زیادہ اور اسی طرح گناہوں کا عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔حدیث۔میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے کھانا قریب کیا جائے اس حال میں کہ وہ روزہ دار ہو یعنی روزہ افطار کرنے کے لیے کوئی چیز اس کے پاس رکھی جائے تو چاہیے کہ کہے یعنی افطار سے پہلے یہ دعا پڑھے بسم اللہ والحمدللہ اللہم لک صمت وعلی رزک افطرت وعلیک توکلت سبحانک وبحمدک تقبل منی انک انت السمیع العلیم۔ حدیث میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو مناسب ہے کہ چھوہارے سے افطار کرے اس لیے کہ وہ برکت ہے۔ پھر اگر نہ پائے چھوہارہ تو مناسب ہے کہ افطار کرے پانی سے اس لیے کہ تحقیق وہ پاک کرنے والی چیز ہے۔ بعض احادیث میں پانی ملے ہوئے دودھ سے افطار کرنے کا بھی حکم وارد ہوا ہے۔۔

حدیث میں ہے کہ جس نے روزے رکھے چالیس دن اس حال میں کہ وہ نہیں طلب کرتا ہے اس روزہ رکھنے سے مگر خدا کی رضا مندی یعنی فقط رضائے الٰہی مطلوب ہو کوئی اور غرض ریا وغیرہ مطلوب نہ ہو تو نہ مانگے گا وہ اللہ سے کچھ مگر یہ بات ہے کہ دے گا اللہ اس کو وہ چیز یعنی چالیس دن محض حق تعالی کے راضی کرنے کے لیے روزے رکھنے سے دعاء قبول ہونے لگتی ہے اور ایسا شخص حق تعالی کا ایسا مقبول ہو جاتا ہے کہ اس کی ہر دعا جو اللہ کے نزدیک اس کے لیے بہتر ہو گی ضرور ہو گی۔ حضرات صوفیہ رضی اللہ عنہم نے چلہ نشینی تجویز فرمائی ہے یعنی چالیس روز تک تمام تعلقات دنیا کو چھوڑ کر کسی مسجد میں عبادت کرنا اور روزے سے رہنا اس سے بہت بڑا نفع ہوتا ہے دن کا۔ اور نیکیوں کی عمدہ قوت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی برکت سے اللہ پاک کی طرف سے خاص خاص علوم عطا ہوتے ہیں اور فہم عمدہ ہو جاتا ہے رواہ الدیلمی عن واثلۃ ولفظہ من صام اربعین صیاما مایریدبہ الاوجہ اللہ تعالی لم یسال اللہ تعالی شیئا الا اعطاہ۔ حدیث میں ہے کہ جس نے روزہ رکھا ہر محترم مہینہ میں جمعرات اور جمعہ اور سینچر کو لکھے گا اللہ تعالی اس کے لیے سات سو برس کی عبادت یعنی سات سو برس کی عبادت کا ثواب اس کے لیے لکھا جاتا ہے اور محترم مہینے یعنی عزت کے مہینے چار ہیں۔ رجب ذیقعدہ عشرہ ذی الحجہ یعنی بقر عید کے مہینے کے اول کے دس دن اور محترم مگر دسویں گیارہویں بارہویں تیرہویں ذی الحجہ کو روزہ رکھنا منع ہے۔ روا ابن شاہین فی الترغیب وابن عساکر عن انس بسند ضعیف ولفظہ من صام فی کل شہر حرام الخمیس والجمعۃ والسبت کتب اللہ تعالی لہ عبادۃ سبع مائۃ سنۃ۔

حدیث میں ہے کہ جس نے روزہ رکھا تین دن کسی محترم مہینے میں جمعرات اور جمعہ اور سینچر کے دن لکھے گا حق تعالی اس کے لیے دو سال کی عبادت یعنی اللہ تعالی اس کو دو سال کی عبادت کا ثواب ان تین روزوں کے عوض قیامت کے دن مرحمت فرمائیں گے اور اس وقت یہ ثواب نامہ اعمال میں لکھ لیا جائے گا۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابن عباس لفظ من صام ثلثۃ ایام من شہر حرام الخمیس والجمعۃ والسبت کتب اللہ تعالی لہ عبادۃ سنتین انتہی۔

نوٹ رسالہ فضائل رمضان مصنفہ حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث سہارنپور میں پوری تفصیلات ملاحظہ فرمائیں

اعتکاف کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے جس نے اعتکاف کیا دس دن اخیر عشرہ رمضان میں ہو گا وہ اعتکاف مثل دو حج اور دو عمروں کے یعنی اس کو دو حج اور دو عمروں کا ثواب ملے گا۔ حدیث میں ہے جس نے اعتکاف کیا اس کو دین کی عبادت یقین کر کے اور ثواب حاصل کرنے کے لیے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے یعنی گناہ صغیرہ۔ حدیث میں ہے کہ پوری حفاظت سرحد اسلام کی چالیس دن تک ہوتی ہے اور جو چالیس دن تک سرحد اسلام کی حفاظت کرے اس طرح کہ نہ فروخت کرے کچھ اور نہ خریدے اور نہ کرے کوئی بدعت پاک ہو جائے گا۔ اپنے گناہوں سے مثل گناہوں سے پاک ہونے اس دن کے جس دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا یعنی گناہوں سے بالکل پاک ہو جائے گا۔ اور حدیث میں حفاظت سرحد اسلام کی تشبیہا اس کو فرمایا ہے کہ رباط سے اسلامی سرحد پر ملک اسلام کے تمام علاقے دنیا کے چھوڑ کر روزے نماز وغیرہ میں مشغول ہونا اور نفس کی ظاہری و باطنی حفاظت کرنا اور گناہوں سے بچنا مراد ہے اور گناہوں سے صغیرہ گناہ مراد ہیں۔ اور یہی صورت چلہ نشینی کی صوفیہ کرام میں متعارف ہے۔ رواہ الطبرانی عن ابی امامۃ بلفظ تمام الرباط قال المناوی ای المرابطۃ یعنی مرابطۃ النفس بالاقامۃ علی مجاہد تہالتتبدل اخلاقہا الردینۃ بالحسنہ اربعون یوما ومن رابط اربعین یوما لم یبع ولم یشترولم یحدث حدثنا ای لم یفعل شیئا م الامور الدنیویۃ الغیر الضروریۃ خرج من ذنوبہ کیوم دلدلۃ امہ کذا فی شرح الجامع الصغیر العزیزی۔

لیلۃ القدر کی فضیلت کا بیان

حق تعالی فرماتے ہیں لیلۃ القدر خیر من الف شہر یعنی لیلۃ القدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے۔ مطلب یہ ہے کہ اس رات میں عبادت کرنے کا اس قدر ثواب ہے کہ اس کے سوا اور ایام میں ہزار مہینے کرنے سے بھی اس قدر ثواب نہیں میسر ہو سکتا جتنا ثواب کہ اس ایک رات عبادت کرنے میں مل جاتا ہے۔ اس آیت کا شان نزول امام سیوطی نے لباب النقول میں یہ نقل کیا ہے کہ تحقیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ایک مرد کا جو بنی اسرائیل کی قوم میں سے تھا اور جس نے ہزار مہینے اللہ تعالی کے راستے یعنی جہاد میں ہتھیار لگائے تھے پس تعجب کیا مسلمانوں نے اس بات سے اور افسوس کیا کہ ہم کو یہ نعمت کسی طرح میسر ہو سکتی ہے سو نازل فرمائیں اللہ تعالی نے یہ آیتیں انا انزلناہ فی لیلۃ القدر وما ادرک مالیلۃ القدر لیلۃ القدر خیر من الف شہر۔ یعنی یہ شب قدر بہتر ہے ان ہزار مہینوں سے جن میں اس مرد نے اللہ تعالی کے راستہ میں ہتھیار لگائے تھے یعنی جہاد کیا تھا اور دوسری روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مرد تھا جو رات کو عبادت کرتا تھا صبح تک پھر جہاد کرتا تھا یعنی لڑتا تھا دشمن دین سے دن میں شام تک سو عمل کیا اس نے ہزار مہینے یہی عمل کہ رات و عبادت کرتا تھا اور دن کو جہاد کرتا تھا پس نازل فرمائی اللہ تعالی نے آیۃ لیلۃ القدر خیر من الف شہر۔ یعنی ان ہزار مہینوں سے جن میں اس مرد نے عبادت و جہاد کیا تھا یہ رات بہتر ہے آؤ اے بھائیو اور بہنو اس مبارک رات کی قدر کرو کہ تھوڑی سی محنت میں کس قدر ثواب میسر ہوتا ہے اور اس رات میں خاص طور پر دعا قبول ہوتی ہے اگر تمام رات نہ جاگ سکو تو جس قدر بھی ہو سکے جاگو یہ نہ کرو کہ پست ہمتی سے بالکل ہی محروم رہو۔۔

حدیث میں ہے کہ یہ مہینہ یعنی رمضان تمہارے پاس آ گیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس رات کی برکت و اطاعت و عبادت سے محروم کیا گیا وہ تمام بھلائیوں سے محروم کیا گیا۔ اور انہیں محروم کیا جاتا ہے اس رات کی برکتوں سے مگر محروم یعنی ایسی بے بہا رات کی برکت جسے نہ ملی اور جس نے کچھ بھی عبادت اس شب میں نہ کی تو وہ بڑا بھاری محروم ہے جو ایسی نعمت سے محروم رہا۔ حدیث میں ہے کہ بے شک اگر اللہ چاہتا تو تم کو لیلۃ القدر پر مطلع کر دیتا لیکن بعض حکمتوں سے بالتعیین اس پر مطلع نہیں کیا اس کو رمضان کی سات اخیر راتوں میں تلاش کرو کہ ان راتوں میں غالب گمان شب قدر کا ہے اور تلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان راتوں میں جاگو اور عبادت کرو تاکہ لیلۃ القدر میسر ہو جائے۔ حدیث میں ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں شب رمضان کو ہوتی ہے اس رات کی تعیین میں بڑا اختلاف ہے مگر مشہور قول یہی ہے کہ ستائیسویں شب کو ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اگر ہمت اور قوت ہو تو اخیر کی دس راتوں میں جاگے اور اس میں یہ ضرور نہیں کہ کچھ نظر آئے جب ہی اس کی برکت میسر ہو بلکہ کچھ نظر آئے یا نہ آئے عبادت کرے اور برکت حاصل کرے۔ اور مقصود یہی ہے کہ اس رات کی برکت اور اس قدر ثواب جو مذکور ہوا حاصل کرے۔ کسی چیز کا نظر آنا مقصود نہیں۔

تراویح کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے کہ بے شک اللہ تعالی نے فرض کات ہے تم پر رمضان کا روزہ اور سنت کیا ہے اس کی رات کا قیام یعنی تراویح پڑھنا پس جو شخص اس کا روزہ رکھے اور اس کی رات میں قیام کرے یعنی تراویح پڑھے ایمان کے اعتبار سے یعنی روزے اور تراویح کو دین کا حکم سمجھے اور ثواب طلب کرنے کی نیت سے اور یقین ثواب کا سمجھ کر۔ تو ہو گا وہ یعنی روزہ اور تراویح کفارہ یعنی مٹانے والا اس کے لیے جو گذرا یعنی جو اس سے صغیرہ گناہ ہوئے وہ سب معاف ہو جائیں گے۔ پس اس مہینہ میں بہت نیکیاں کرنی چاہئیں۔ ایک فرض ادا کرنے سے ستر فرض کا اور نفل کام کرنے سے فرض کام کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔

عیدین کی راتوں کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے جو بیدار رہا عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات میں نہ مردہ ہو گا اس کا دل جس دن دل مردہ ہوں گے یعنی قیامت کے دن کی دہشتوں سے محفوظ رہے گا جس روز کہ لوگ قیامت کی سختیوں سے پریشان ہوں گے۔

خیرات کرنے کے ثواب کا بیان

حدیث میں ہے کہ سخاوت اللہ پاک کی بہت بڑی عادت ہے یعنی حق تعالی بہت بڑے سخی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ تحقیق بندہ صدقہ کرتا ہے روٹی کا ٹکڑا پھر وہ بڑھتا ہے اللہ کے نزدیک یہاں تک کہ ہو جاتا ہے مثل احد پہاڑ کے یعنی اللہ پاک اس کا ثواب بڑھاتے ہیں اور اس قدر ثواب بڑھ جاتا ہے جیسے کہ احد کی برابر خرچ کرتا اور اس کا ثواب اس کو ملتا۔ لہذا تھوڑے بہت کا خیال نہ چاہیے جو کچھ میسر ہو خیرات کر دے۔ حدیث میں ہے کہ دوزخ سے بچو اگرچہ ایک چھوارے کا ٹکڑا ہی دے کر یعنی اگرچہ تھوڑی ہی چیز ہو اس کو خیرات کرو اور یہ خیال نہ کرو تھوڑی سی چیز کیا خیرات کریں یہ بھی ذریعہ بن جائے گی دوزخ سے نجات حاصل کرنے کا۔ حدیث میں ہے روزی طلب کرو اللہ سے صدقہ کے ذریعہ سے یعنی خیرات کرو اس کی برکت سے روزی میں ترقی ہو گی۔ حدیث میں ہے کہ احسان کے کام بری ہلاکتوں سے بچاتے ہیں اور پوشیدہ خیرات دینا اللہ تعالی کے غصہ کو بجھاتا ہے۔ اور اہل قرابت سے سلوک کرنا عمر بڑھاتا ہے اگر نیک کام کرتے دیکھ کر دوسرے کو رغبت ہو تو ایسے موقع پر اس کام کا ظاہر طور پر کرنا بہتر ہے اور جو یہ امید نہ ہو تو خفیہ کرنا افضل ہے بشرطیکہ کوئی اور بھی خاص وجہ خفیہ یا ظاہر کرنے کی نہ ہو۔ حدیث میں ہے کہ سائل کا حق ہے اس پر جس سے کہ وہ سوال کرے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار آوے۔ یعنی اگر گھوڑے کا سوار سوال کرے اس کو بھی دینا چاہیے اس لیے کہ ایسا شخص بظاہر کسی مجبوری سے سوال کرے گا یہ خیال نہ کرے کہ اس کے پاس تو گھوڑا ہے سو یہ کیسے محتاج ہو سکتا ہے پھر ہم اس کو کیوں دیں ہاں اگر کسی قوم قرینہ سے معلوم ہو جائے کہ یہ شخص حقیقت میں محتاج نہیں ہے بلکہ اس نے کھانے کمانے کا یہی پیشہ کر لیا ہے کہ بھیک مانگتا ہے تو ایسے شخص کو خیرات دینا حرام ہے اور اس کو مانگنا بھی حرام ہے خوب سمجھ لو۔

حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی کریم ہے اور کرم کو پسند کرتا ہے اور دوست رکھتا ہے عالی اخلاق کو یعنی ہمت کے نیک کاموں کو جیسے خیرات کرنا ذلت سے بچنا دوسرے کی وجہ سے اپنی ذات پر تکلیف برداشت کرنا وغیرہ اور ناپسند کرتا ہے حقیر اخلاق و عادتوں کو جیسے پست ہمتی دینی امور ہیں۔ حدیث میں ہے کہ بے شک صدقہ بجھاتا ہے اپنے اہل سے یعنی صدقہ کرنے والے سے گرمی قبر کی اور ضرور یہی بات ہے کہ سایہ حاصل کرے گا مسلمان اپنے صدقہ کے سایہ میں قیامت کے روز یعنی صدقہ کی برکت سے قبر کی گرمی دور ہوتی ہے اور قامت کے دن سایہ میسر ہو گا۔ حدیث میں ہے کہ تحقیق اللہ تعالی کے خاص بندے ہیں جن کو اس نے خاص کیا ہے لوگوں کی حاجتوں کے پورا کرنے کے لیے اور مضطر ہوتے ہیں ان کی طرف لوگ اپنی حاجتوں میں یعنی لوگ مجبور ہو کر ان کے پاس جاتے ہیں اور حق جل شانہ نے ان حضرات کو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے منتخب فرما لیا ہے یہ لوگ حاجتوں کے پورا کرنے والے امن پانے والے ہیں۔ اللہ کے عذب سے۔ حدیث میں ہے کہ خرچ کر اے بلال اور مت اندیشہ کر عرش کے مالک سے کمی کا یعنی مناسب موقعوں پر خوب خرچ کرو اور تنگی کا اندیشہ حق تعالی سے نہ کرو اور اس جگہ عرش کی ملکیت اللہ تعالی کی خاص طور پر فرمائی گئی اگرچہ وہ تمام چیزوں کا مالک ہے سو یہ خصوصیت اس لیے فرمائی گئی کہ عرش نہایت عظیم الشان مخلوق ہے پس اس کو ذکر میں خاص کیا اور بتلا دیا کہ جس ذات کے قبضہ و تحت میں ایسی عظیم الشان چیز ہے اور وہ ایسی بڑی چیز کا مالک ہے تو اس سے تنگی کا اندیشہ نہ چاہیے۔ کیا یہ گمان ہو سکتا ہے کہ ایسا بادشاہ اپنے کسی بندے کو دو روٹی نہ دے گا ہرگز یہ گمان نہیں ہو سکتا اور اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بے حد ہر شخص خرچ کر ڈالے اور پھر پریشان ہو اور گھبرائے۔

غرض یہ ہے کہ جو لوگ دل کے پختہ ہیں اور صبر کی ان میں پوری قوت ہے تو وہ جس قدر چاہیں نیک کاموں میں صرف کریں کیونکہ وہ تکلیف سے پریشان نہیں ہوتے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جو قسمت میں لکھا ہے وہ تو ہم کو ضرور ملے گا خیرات سے کمی نہ ہو گی بلکہ برکت ہو گی تو ایسی ہمت کی حالت میں بشرطیکہ کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو ان کو اجازت ہے اور ان کے لیے یہی اچھا ہے کہ ہر طرح کے نیک کاموں میں خوب صرف کریں۔ اور جن کا دل کمزور ہے صبر کی ان میں قوت کم ہے آج خرچ کر دیں گے کل کو تنگی سے پریشان ہوں گے دل ڈاواں ڈول ہو گا اور نیت خراب ہو گی تو ایسے لوگ فقط ضروری موقعوں پر جیسے زکوٰۃ و صدقہ فطر وغیرہ اور مروت کے موقعوں پر صرف کریں اس سے کمی نہ کریں خوب سمجھ لو۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق خلیفہ اول جناب رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بار حضور کی خدمت میں تمام مال چندہ اسلامی میں پیش کر دیا۔ حضور نے فرمایا کہ کچھ گھر بھی باقی رکھا ہے یا نہیں۔ عرض کیا گھر تو اللہ و رسول کا نام چھوڑ آیا ہوں اور بس۔ آپ نے وہ تمام مال قبول کر لیا۔ کیونکہ حضرت خلیفہ اول نہایت دل کے پختہ اور با ہمت اور اعلی درجہ کے خدا تعالی کی راہ میں مال و جان نثار کرنے والے تھے ان سے یہ اندیشہ نہ تھا کہ پریشان ہوں گے اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ نے تھوڑا سا سونا اللہ کی راہ میں پیش کیا۔ آپ نے قبول نہ فرمایا اس وجہ سے کہ وہ کمزور دل کے تھے۔ اور اس قدر باہمت نہ تھے جیسے کہ حضرت ابوبکر تھے خوب سمجھ لو۔ حدیث میں ہے کہ ایک سائل ایک عورت کے پاس اس حالت میں آیا کہ اس عورت کے منہ میں لقمہ تھا سو اس عورت نے وہ لقمہ منہ سے نکالا اور اس سائل کو دے دیا اس کے پاس اور کچھ دینے کو نہ تھا اس لیے ایسا کیا پھر تھوڑی ہی مدت میں ایک لڑکا اس عورت کے پیدا ہوا۔ پھر جب وہ لڑکا کچھ بڑا ہوا تو ایک بھیڑیا یا اور اس کو اٹھا لے گیا پس نکلی وہ عورت دوڑتی ہوئی بھیڑئیے کے پیچھے اور کہتی ہوئی میرا بیٹا میرا بیٹا میرے بیٹے کو بھیڑیا لیے جاتا ہے جو مدد کر سکے اس کی مدد کرے۔ سو حکم فرمایا اللہ تعالی نے ایک فرشتے کو کہ بھیڑیئے کے پاس جا اور لڑکے کو اس کے منہ سے چھڑا لے اور فرمایا حق عز شانہ نے فرشتے سے اس کی ماں سے کہہ کہ اللہ تجھ کو سلام فرماتا ہے اور یہ بھی کہ یہ لقمہ بدلہ اس لقمہ کا ہے دیکھو صدقہ کی یہ برکت ہوئی کہ لڑکا جان سے بچ گیا اور ثواب بھی ہوا۔ خوب صدقہ کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں چین سے رہو۔

حدیث میں ہے کہ نیکی کی جگہ بتلانے والا مثل نیکی کرنے والے کے ثواب میں ہے یعنی جو شخص خود کوئی سلوک نہ کرے مگر اہل ضرور کو ایسی جگہ کا پتہ بتلا دے یا اس کی سفارش کر دے جہاں اس کا کام ہو جائے تو اس بتلانے والے کو مثل اس نیکی کرنے والے کے ثواب ملے گا جو خود اپنی ذات سے کسی کی مدد کرے۔ حدیث میں ہے کہ تین آدمی تھے جن میں سے ایک کے پاس دس دینار تھے سو صدقہ کر دیا اس نے ان میں سے ایک دینار۔ اور دوسرے کے پاس دس اوقیہ تھے۔ سو صدقہ کر دیا اس نے اس میں سے ایک اوقیہ۔ اور تیسرے کے پاس سو اوقیہ تھے سو صدقہ کر دیئے اس نے ان میں سے دس اوقیہ تو یہ سب لوگ ثواب میں برابر ہیں اس لیے کہ ہر ایک نے دسواں حصہ اپنے مال کا خیرات کیا ہے یعنی اگرچہ بظاہر خیرات ان میں سے بعضوں نے زیادہ کی ہے اور بعض نے کم مگر حق تعالی تو نیت پر ثواب دیتے ہیں۔ چونکہ ہر ایک نے اپنے مال کے اعتبار سے دسواں حصہ خیرات کیا اس لیے سب کو برابر ثواب ملے گا۔ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم چار آنے سے کچھ زائد کا اور اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے بڑھ گیا ایک درہم ایک لاکھ درہم سے اور وہ یہ صورت ہے کہ ایک شخص ہے کہ اس کے پاس دو درہم ہیں ان میں سے ایک درہم اس نے خیرات کر دیا۔ اور دوسرا شخص ہے کہ اس کے پاس بہت سا مال ہے پس اس نے اپنے مال میں سے ایک لاکھ درہم صدقہ کر دئے یعنی دونوں کے ثواب میں یہ فرق ہوا کہ پہلا شخص باوجود تھوڑا خیرات کرنے کے ثواب میں بڑھ گیا کیونکہ اپنا آدھا مال اس نے خیرات کر دیا۔ اور دوسرے نے اگرچہ ایک لاکھ صدقہ کی لیکن چونکہ یہ عدد اس کے مال کثیر کے مقابلے میں آدھے سے کم تھا اس لیے اس کو پہلے شخص سے کم ثواب ملا خوب سمجھ لو۔ حق تعالی کی کیسی رحمت ہے اس کی قدر کرو جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی سائل سے انکار نہیں فرمایا۔

اگر ہوا دے دیا ورنہ وعدہ فرما لیا کہ جب حق تعالی دے گا اس وقت تم کو دیں گے اور تا حیات آپ نے اور آپ کے اہلبیت نے دو روز برابر بھی شکم سیر ہو کر جو کی روٹی بھی نہیں کھائی۔ کیسی بے رحمی کی بات ہے کہ باوجود گنجائش کے اپنے بھائی مسلمانوں کی مدد نہ کرے اور خود چین کرے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کا ہدیہ ہے مومن کے لیے سائل اس کے دروازے پر اور ظاہر ہے کہ ہدیہ اچھی طرح قبول کرنا چاہیے خصوصاً اللہ تعالی کا ہدیہ پس سائل کی خوب خدمت کرنی چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ صدقہ کرو اور اپنے مریضوں کی دوا کرو صدقہ کے ذریعے سے اس لیے کہ صدقہ دفعہ کرتا ہے مرضوں کو اور بیماریوں کو اور وہ زیادتی کرتا ہے تمہاری عمروں اور نیکیوں میں۔ حدیث میں ہے کہ کوئی ولی اللہ عزوجل کا نہیں پیدا کیا گیا مگر سخاوت اور اچھی عادت پر (یعنی اللہ کے دوستوں میں سخاوت اور اچھی عادت ضرور ہوتی ہے۔)

حج کی فضیلت کا بیان

حدیث میں ہے کہ ملائکہ مصافحہ کرتے ہیں ان حاجیوں سے جو سواری پر جاتے ہیں اور معانقہ کرتے ہیں ان حاجیوں سے جو پیدل جاتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ سوار حاجی کے لیے ہر قدم پر کہ جس کو اس کی اونٹنی طے کرتی ہے اونٹنی ہو یا کوئی دوسری سواری ہو سب کا یہی حکم ہے ستر نیکیاں یعنی ستر نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ اور پیدل حاجی کے لیے ہر قدم پر جس کو وہ طے کرتا ہے سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں یعنی پیدل چلنے والے کو ہر قدم پر سات سو نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حج کرنے والے اور جہاد کرنے والے اللہ عزوجل کے مہمان ہیں اگر اس سے یعنی اللہ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرمائے اگر اس سے مغفرت طلب کریں تو ان کو بخش دے۔ حدیث میں ہے کہ حج کرنے والا چار سو آدمیوں کی اپنے اہل قرابت میں سے قیامت کے روز شفاعت کرے گا۔ اور وہ پاک ہو جاتا ہے اپنے گناہوں سے اس طرح جیسا کہ اس کا بدن پاک تھا جس دن کے اس کو اس کی ماں نے جنا تھا بشرطیکہ حج قبول ہو جائے پس چاہیے کہ ایسی بڑی نعمت کو حلال روپیہ صرف کر کے اور عمدہ طور پر اس کے احکام بجا لا کر حاصل کرے۔ اے اللہ مجھ کو بھی ایسا ہی حج نصیب فرما۔ آمین۔ اور معافی سے یہ مراد نہیں ہے کہ جو اعمال ایسے فوت ہو گئے تھے جن کی قضا ادا کر سکتا ہے یا اس پر قرض ہے ان سے بھی سبکدوش ہو گیا ان کی تو قضا کرنا ضرور ہے اس لیے کہ یہ حقوق ہیں گناہ نہیں ہیں۔ حدیث میں ہے جو حج کرے مال حرام سے پس کہے لبیک اللہ لبیک یہ دعا ہے جو حج میں پڑھی جاتی ہے۔

یعنی تیری تابعداری میں حاضر ہوں اے اللہ میں تیری تابعداری میں حاضر ہوں فرماتا ہے اللہ عز و جل لالبیک ولا سعدیک وحجک مردود علیک یعنی نہ تیری لبیک قبول ہے اور نہ سعدیک قبول ہے اور تیرا حج تیرے منہ پر مارا گیا مطلب یہ ہے کہ تو ہماری اطاعت میں حاضر نہیں ہے اس لیے کہ ہماری اطاعت میں حاضر ہوتا تو مال حلال خرچ کر کے آتا اور تیرا حج ہمارے عالی اور پاک دربار میں نجس مال کی وجہ سے مقبول نہیں اور اس کا پورا ثواب نہ ملے گا گو فرض ادا ہو جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ جب تو حاجی سے ملے تو اس کو سلام کر اور اس سے مصافحہ کر اور اس سے درخواست کر اس بات کی کہ وہ تیرے لیے مغفرت کی دعا کرے اس سے پہلے کہ وہ اپنے مکان میں داخل ہو۔ اس لیے کہ اس کے گناہ بخش دیئے گے پس وہ مقبول بارگاہ الٰہی ہے اس کی دعا مقبول ہونے کی خاص طور پر امید ہے اور جو دعا چاہے اس سے وہ دعا کرائے دن کی یا دنیا کی مگر اس کے مکان میں پہنچنے سے پہلے

ضمیمہ ثانیہ اصلی بہشتی زیور حصہ سوم مسمی بہ تصحیح الاغلاط و تنقیح الاغلاط

اصل۔ اگر دو رمضان کے کچھ کچھ روزے الخ تحقیق۔ وجوب تعیین کا حکم مختلف فیہ ہے

اور بہشتی زیور میں احتیاط کو مد نظر رکھ کر قول وجوب کو اختیار کیا ہے۔ پس اگر کسی نے بلا تعیین بہت سے روزے رکھ لیے اور اعادہ دشوار ہے تو دفعا للحرج قول عدم وجوب کو اختیار کیا جائے گا۔ اس مسئلہ کے متعلق سوال و جواب امداد الفتاوی مبوب کی جلد دوم کے ص 82 میں درج ہے۔

اصل ص۔ اگر فلانا کام کروں الخ صفحہ خدا کے سوا الخ تحقیق۔ درمختار میں ہے۔ الاصل ان الایمان مبنیۃ عند الشافعی علی الحقیقۃ اللغویۃ وعند مالک علی الاستعمال الفر وعند احمد علی النیۃ وعندنا علی العرف مالم ینوما یحتملہ اللفظ فلاحنث فی لایہدم بیتاببیت العنکبوت الابالنیۃ فتح الایمان مبنیۃ علی الالفاظ لا علی الاغراض فلو اغتاظ علی غیرہ وحلف ان لا یشتری لا شئا بفلس فاشتری لہ بدر ہم او اکثر شیئا لم یحنث اھ شامی نے لکھا ہے ان قاعدۃ بناء الایمان علی العرف معناہا ان المعتبر ہو المعنی المقصود فی العرف من اللفظ المسمی وانکان فی اللغۃ اوالشرع اعم من المعنی المتعارف ولما کانت ہذا القاعدۃ موہمۃ اعتبار الغرض العرفی وان کان زائد اعلی اللفظ المسمی وخارجا عن مدلولہ کما فی المسئلۃ الاخرۃ وکما فی المسائل الاربعۃ التی ذکرہا المصر دفعوا ذلک الوہو بذکر القاعدۃ الثانیۃ وخارجا عن مدلولہ کما فی المسئلۃ الاخرۃ وکما فی المسائل الاربعۃ التی ذکرہا المص دفعوا ذلک الوہم بذکر القاعدۃ الثانیۃ وہی بناء الایمان علی الالفاظ لا علی الاغراض فقولہم لا علی الاغراض دفعوابہ توہم اعتبار الغرض الزائد علی اللفظا لمسمی وارادو بالالفاظ الالفاظ العرفیۃ لقرآنیۃ القاعدۃ الاولی ولولاہا لتوہم اعتبار الا لفاظ ولو لغویۃ اوشرعیۃ فلاتنافی بین القاعد تین کما یتوہم کثیر من الناس حتی الرش نبلالی فحمل الاولی علی الدیانۃ والثانیۃ علی القضاء ولا تناقض بین الفروع التی ذکروہا ثم اعلم ان ہذا کلہ حیث لم یجعل اللفظ فی العرف مجازا عن معنی اخرکما فی لااضع قآدمی فی دار فلان فانہ صار مجازا عن الدخول مطلقا کماسیاتی ففی ہذا لایعتبر اللفظ صلاحتی لووضع قد مہ ولم یدخل لا یحنث لان اللفظ ہجر وصار المرادبہ معنی اخرالخ

اس تفصیل سے چند باتیں معلوم ہوئیں الفاظ کے مقابلہ میں نیت کا کچھ اعتبار نہیں یعنی اگر کوئی ایسی نیت کرے جس کے الفاظ اصلا مساعدت نہ کرتے ہوں تو اس کا کچھ اعتبار نہ ہو گا اگر کسی نے ایسے معنی مراد لیے جو الفاظ سے زائد ہوں یعنی الفاظ جزئی ہوں اور معنی مراد کلی یا معنی مراد کل ہوں اور الفاظ جزو تویہ مراد لینا بیکار ہو گا۔ اور اگر ایسے معنی مراد لیے جو الفاظ کافرو یا جو ہیں تو وہ معنی معتبر ہو سکتے ہیں مجاز عرفی اگر ایسا ہو کہ حقیقت بالکل چھوٹ گئی ہو تو اس مجاز عرفی کا اعتبار ہو گا۔ اور حقیقت لغویہ کا اعتبار نہ ہو گا۔

لیکن میرے نزدیک یہ تینوں باتیں صحیح نہیں۔ امر اول اس لیے کہ ایمان کا تعلق قصد و ارادہ سے بھی ہے نہ کہ طلاق و عتاق وغیرہ کی طرح صرف الفاظ سے کما یدل علیہ قولہ تعالی ولکن یواکذ کم بما کسبت قلوبکم وقولہ لکن یواخذ کم بما عقدتم الایمان۔ پس اگر کسی نے کسی خاص نیت سے کوئی قسم کھائی اور ایسے الفاظ بولے جو اس نیت کے مطابق نہیں ہیں تو دیانتہ اس قسم کا اعتبار ہونا چاہیے گو قضاء نہ ہو۔ کیونکہ اس وقت یہ اس کی اصطلاح خاص ہو گی اور اصطلاح خاص کے مقرر کرنے کا اسے اختیار ہے۔ امر دوم اس لیے کہ اگر مجاز عرفی حقیقت لغویہ کے مبائن ہو تو اس وقت اس کا اعتبار تو ہو سکتا ہے لیکن اگر معنی مجازی عرفی معنی لغوی سے عام ہوں تو ان کا اعتبار نہیں ہو سکتا۔ دونوں صورتوں میں وجہ فرق معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں معنی حقیقی بالکل چھوٹ گئے ہیں مگر ایک صورت میں معنی حقیقی مجازی کافرد یا اس کا جزو ہیں۔ اور دوسری صورت میں اس کے مبائن۔ سو یہ فرق کوئی موثر فرق نہیں ہے۔ اسی سے امر سوم کا مخدوش ہونا بھی ظاہر ہو گیا پس جبکہ وہ محمل مخدوش ہو گئے جو ان قواعد کے لیے علامہ شامی وغیرہ نے تجویز کیے تھے تو اب کہا جائے گا کہ الایمان مبنیۃ علی العرف اور الایمان مبنیۃ علی الالفاظ لا علے الاغراض دونوں متعلق بہ قضا ہیں اور الایمان مبنیۃ علی الالفاظ لا علی الاغراض کے معنی یہ ہیں کہ امان قضاء الفاظ عرفیہ پر مبنی ہیں نہ ان اغراض پر جو کہ خلاف عرف ہوں۔ پس ان دونوں قاعدوں میں کوئی تناقض نہیں ہرلا یہ امر کہ بعض جزئیات ان محامل کی تائید نہیں کرتے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اعتراض اس وقت ہو سکتا ہے جبکہ دو امر ثابت ہو جائیں۔ اول یہ کہ وہ جزئیات انھیں فقہا نے نکالی ہیں جنہوں نے یہ قواعد بنائے ہیں یا جن فقہائ نے یہ قواعد قائم کیے ہیں ان کو ان سے اتفاق ہے۔

دوم یہ کہ اس وقت سے اب تک عرف نہیں بدلا اور جو اس وقت عرف تھا جس وقت وہ نکالی گئی ہیں وہی عرف اب بھی ہے لیکن ان باتوں کا ثابت ہونا مشکل ہے اس لیے مخالفت بعض جزئیات سے ہمارے محامل کی تردید نہیں کی جا سکتی خصوصاً اس حالت میں جبکہ وہ موید بالدلائل ہوں۔ اور جو محامل ان کے بیان کیے گے ہیں محض بے دلیل ہوں۔ ایسی حالت میں مسائل بہشتی زیور متعلق بایمان کو عرف زمانہ حال کا لحاظ رکھ کے اصول مذکورہ سے استخراج کی ضرورت ہے اس کی ضرورت اس سے ظاہر ہو سکتی ہے کہ فقہاء نے کہا ہے کہ اگر کسی نے قسم کھائی ان فعلہ فعلیہ غصب اللہ اوسخطہ او لعنۃ اوہوزان اوسارق اوشارب خمر اواکل ربالایکون قسما لعدم التعارف فلوتعورف ہل یکون یمینا ظاہر کلامہم نعم و ظاہر کلام الکمال لا وتمامہ فی النہر۔ درمختار اس پر شامی نے لکھا ہے قولہ ظاہر کلامہم نعم فیہ نظر لانہم لم یقتصر وا علی التعلیل بالعتارف بل عللوابما یقتضے عدم کونہ یمینا مطلقا وہوکون علیہ غضبہ دعائ علی نفسہ لان الدعائ لا یستلزم الاجابۃ فلایقتضے الامتناع عن الفعل فلا یکون یمینا وکون ہوزان یحتمل النسخ ای الاباحۃ فلایکون حرمتہ حرمۃ اسم اللہ فلا یلحق بہ ثم عللوا بعدم التعارف لانہ عند عدم التعارف لایکون یمینا وان کان ممایمکن الحلف بہ فی غیر الاسم فکیف اذا کان مما لایکمن اھ بزیادۃ العبارات المقوسۃ۔

ولی کا بیان

لڑکی اور لڑکے کے نکاح کرنے کا جس کو اختیار ہوتا ہے اس کو ولی کہتے ہیں

مسئلہ1۔ لڑکی اور لڑکے کا ولی سب سے پہلے اس کا باپ ہے۔ اگر باپ نہ ہو تو دادا۔ وہ نہ ہو تو پردادا۔ اگر یہ لوگ کوئی نہ ہوں تو سگا بھائی۔ سگا بھائی نہ ہو تو سوتیلا بھائی یعنی باپ شریک بھائی پھر بھتیجا پھر بھتیجے کا لڑکا پھر بھتیجے کا پوتا یہ لوگ نہ ہوں تو سگا چچا پھر سوتیلا چچا یعنی باپ کا سوتیلا بھائی پھر سگے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا پھر سوتیلے چچا کا لڑکا پھر اس کا پوتا۔ یہ کوئی نہ ہوں تو باپ کا چچا ولی ہے۔ پھر اس کی اولاد۔ اگر باپ کا چچا اور اس کے لڑکے پوتے پڑپوتے کوئی نہ ہوں تو دادا کا چچا پھر اس کے لڑکے پوتے پھر پڑپوتے وغیرہ۔ یہ کوئی نہ ہوں تب ماں ولی ہے پھر دادی پھر نانی پھر نانا پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن جو باپ شریک ہو۔ پھر جو بھائی بہن ماں شریک ہوں۔ پھر پھوپھی۔ پھر ماموں پھر خالہ وغیرہ۔

مسئلہ2۔ نابالغ شخص کسی کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور کافر کسی مسلمان کا ولی نہیں ہو سکتا۔ اور مجنون پاگل بھی کسی کا ولی نہیں ہے۔

مسئلہ3۔ بالغ یعنی جوان عورت خود مختار ہے چاہے نکاح کرے چاہے نہ کرے۔ اور جس کے ساتھ جی چاہے کرے کوئی شخص اس پر زبردستی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ خود اپنا نکاح کسی سے کر لے تو نکاح ہو جائے گا۔ چاہے ولی کو خبر ہو چاہے نہ ہو۔ اور ولی چاہے خوش ہو یا ناخوش ہر طرح نکاح درست ہے۔ ہاں البتہ اگر اپنے میل میں نکاح نہیں کیا اپنے سے کم ذات والے سے نکاح کر لیا اور ولی خوش ہے فتوی اس پر ہے کہ نکاح درست نہ ہو گا۔ اور اگر نکاح تو اپنے میل ہی میں کیا لیکن جتنا مہر اس کے دادھیالی خاندان میں باندھا جاتا ہے جس کو شرع میں مہر مثل کہتے ہیں اس سے بہت کم پر نکاح کر لیا تو ان صورتوں میں نکاح تو ہو گیا لیکن اس کا ولی اس نکاح کو توڑوا سکتا ہے۔ مسلمان حاکم کے پاس فریاد کرے وہ نکاح توڑ دے۔ لیکن اس فریاد کا حق اس ولی کو ہے جس کا ذکر ماں سے پہلے آیا ہے۔ یعنی باپ سے لے کر دادا کے چچا کے بیٹوں پوتوں تک۔

مسئلہ4۔ کسی ولی نے جوان لڑکی کا نکاح بے اس سے پوچھے اور اجازت لیے کر دیا تو وہ نکاح اس کی جازت پر موقوف ہے۔ اگروہ لڑکی اجازت دے تو نکاح ہو گیا اور اگر وہ راضی نہ ہو اور اجازت نہ دے تو نہیں ہوا۔ اور اجازت کا طریقہ آگے آتا ہے۔

مسئلہ5۔ جوان کنواری لڑکی سے ولی نے کہا کہ میں تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کیے دیتا ہوں یا کر دیا ہے اس پر وہ چپ ہو رہی یا مسکرا دی یا رونے لگی تو بس ہی اجازت ہے۔ اب وہ ولی نکاح کر دے تو صحیح ہو جائے گا۔ یا کر چکا تھا تو صحیح ہو گیا۔ یہ بات نہیں ہے کہ جب زبان سے کہے تب ہی اجازت سمجھی جائے۔ جو لوگ زبردستی کر کے زبان سے قبول کراتے ہیں برا کرتے ہیں۔

مسئلہ6۔ ولی نے اجازت لیتے وقت شوہر کا نام نہیں لیا نہ اس کو پہلے سے معلوم ہے تو ایسے وقت چپ رہنے سے رضا مندی ثابت نہ ہو گی اور اجازت نہ سمجھیں گے بلکہ نام و نشان بتلانا ضروری ہے جس سے لڑکی اتنا سمجھ جائے کہ یہ فلانا شخص ہے۔ اسی طرح اگر مہر نہیں بتلایا اور مہر مثل سے بہت کم پر نکاح پڑھ دیا تو بدون اجازت عورت کے نکاح نہ ہو گا۔ اس کے لیے قاعدہ کے موافق پھر اجازت لینی چاہیے۔

مسئلہ7۔ اگر وہ لڑکی کنواری نہیں ہے بلکہ ایک نکاح پہلے ہو چکا ہے یہ دوسرا نکاح ہے اس سے اس کے ولی نے اجازت لی اور پوچھا تو فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی بلکہ زبان سے کہنا چاہیے اگر اس نے زبان سے نہیں کہا فقط چپ رہنے کی وجہ سے ولی نے نکاح کر دیا تو نکاح موقوف رہا بعد میں اگر وہ زبان سے منظور کر لے تو نکاح ہو گیا۔ اور اگر منظور نہ کرے تو نہیں ہوا۔

مسئلہ8۔ باپ کے ہوتے ہوئے چچا یا بھائی وغیرہ کسی اور ولی نے کنواری لڑکی سے اجازت مانگی تو اب فقط چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی بلکہ زبان سے اجازت دے دے تب اجازت ہو گی۔ ہاں اگر باپ ہی نے ان کو اجازت لینے کے واسطے بھیجا ہو تو فقط چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو ولی سب سے مقدم ہو اور شرع سے اسی کو پوچھنے کا حق ہو۔ جب وہ خود یا اس کا بھیجا ہوا آدمی اجازت لے تب چپ رہنے سے اجازت نہ ہو گی۔

مسئلہ9۔ ولی نے بے پوچھے اور بے اجازت لیے نکاح کر دیا۔ پھر نکاح کے بعد خود ولی نے یا اس کے بھیجے ہوئے کسی آدمی نے آ کر خبر کر دی کہ تمہارا نکاح فلانے کے ساتھ کر دیا گیا۔ تو اس صورت میں بھی چھپ رہنے سے اجازت ہو جائے گی اور نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اور اگر کسی نے خبر دی تو اگر وہ خبر دینے والا نیک معتبر آدمی ہے یا وہ شخص ہیں تب بھی چھپ رہنے سے نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اور اگر خبر دینے والا ایک شخص اور غیر معتبر ہے تو چپ رہنے سے نکاح صحیح نہ ہو گا بلکہ موقوف رہے گا۔ جب زبان سے اجازت دے دے یا کوئی اور ایسی بات پائی جائے جس سے اجازت سمجھ لی جائے تب نکاح صحیح ہو گا

مسئلہ11۔ یہی حکم لڑکے کا ہے کہ اگر جوان ہو تو اس پر زبردستی نہیں کرسکتے اور ولی بے اس کی اجازت کے نکاح نہیں کر سکتا اگر بے پوچھے نکاح کر دے گا تو اجازت پر موقوف رہے گا۔ اگر اجازت دے دی تو ہو گیا نہیں تو نہیں ہوا۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ لڑکے کے فقط چپ رہنے سے اجازت نہیں ہوتی۔ زبان سے کہنا اور بولنا چاہیے۔

مسئلہ12۔ اگر لڑکی یا لڑکا نابالغ ہو تو وہ خود مختار نہیں ہے۔ بغیر ولی کے اس کا نکاح نہیں ہوتا۔ اگر اس نے بے ولی کے اپنا نکاح کر لیا یا کسی اور نے کر دیا تو ولی کہ اجازت پر موقوف ہے اگر ولی اجازت دے گا تو نکاح ہو گا نہیں تو نہ ہو گا۔ اور ولی کو اس کے نکاح کرنے نہ کرنے کا پورا اختیار ہے۔ جس سے چاہے کر دے۔ نابالغ لڑکی اور لڑکے اس نکاح کو اس وقت رد نہیں کر سکتے چاہے وہ نابالغ لڑکی کنواری ہو یا پہلے کوئی اور نکاح ہو چکا ہو اور رخصتی بھی ہو چکی ہو۔ دونوں کا ایک حکم ہے۔

مسئلہ13۔ نابالغ لڑکی یا لڑکے کا نکاح اگر باپ نے یا دادا نے کیا ہے تو جوان ہونے کے بعد بھی اس نکاح کو رد نہیں کر سکتے۔ چاہے اپنے میل میں کیا ہو یا بے میل کم ذات والے سے کر دیا ہو۔ اور چاہے مہر مثل پر نکاح کیا ہو یا اس سے بہت کم پر نکاح کر دیا ہو ہر طرح نکاح صحیح ہے اور جوان ہونے کے بعد بھی وہ کچھ نہیں کر سکتے۔

مسئلہ14۔ اور اگر باپ دادا کے سوا کسی اور ولی نے نکاح کیا ہے اور جس کے ساتھ نکاح کیا ہے وہ لڑکا ذات میں برابر درجہ کا بھی ہے اور مہر بھی مہر مثل مقرر کیا ہے۔ اس صورت میں اس وقت تو نکاح صحیح ہو جائے گا لیکن جوان ہونے کے بعد ان کو اختیار ہے چاہے اس نکاح کو باقی رکھیں چاہے مسلمان حاکم کے پاس نالش کر کے توڑ ڈالیں اور اگر اس ولی نے لڑکی کا نکاح کم ذات والے مرد سے کر دیا۔ یا مہر مثل سے بہت کم پر نکاح کر دیا ہے یا لڑکے کا نکاح جس عورت سے کیا ہے اس کا مہر اس عورت کر مہر مثل سے بہت زیادہ مقرر کر دیا تو وہ نکاح نہیں ہوا

نوٹ۔ مسئلہ نمبر15،و نمبر 16ص 53 پر درج کئے گئے۔

مسئلہ17۔ قاعدے سے جس ولی کو نابالغہ کے نکاح کرنے کا حق ہے وہ پردیس میں ہے اور اتنی دور ہے کہ اگر اس کا انتظار کریں اور اس سے مشورہ لیں تو یہ موقع ہاتھ سے جاتا رہے گا اور پیغام دینے والا اتنا انتظار نہ کرے گا اور پھر ایسی جگہ مشکل سے ملے گی۔ تو ایسی صورت میں اس کے بعد والا ولی بھی نکاح کر سکتا ہے۔ اگر اس نے بے اس کے پوچھے نکاح کر دیا تو نکاح ہو گیا۔ اور اگر اتنی دور نہ ہو تو بغیر اس کی رائے لیے دوسرے ولی کو نکاح نہ کرنا چاہیے۔ اگر کرے گا تو اسی ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا جب وہ اجازت دے گا تب صحیح ہو گا۔

مسئلہ18۔ اسی طرح اگر حقدار ولی کے ہوتے دوسرے ولی نے نابالغ کا نکاح کر دیا جیسے حق تو تھا باپ کا اور نکاح کر دیا دادا نے اور باپ سے بالکل رائے نہیں لی تو وہ نکاح باپ کی اجازت پر موقوف رہے گا یا حق تو تھا بھائی کا اور نکاح کر دیا چچا نے بھائی کی اجازت پر موقوف ہے۔

مسئلہ19۔ کوئی عورت پاگل ہو گئی اور عقل جاتی رہی اور اس کا جو اب لڑکا بھی موجود ہے اور باپ بھی ہے۔ اس کا نکاح کرنا اگر منظور ہو تو اس کا ولی لڑا ہے کیونکہ ولی ہونے میں لڑکا باپ سے بھی مقدم ہے۔

مہر کا بیان

مسئلہ1۔ نکاح میں چاہے مہر کا کچھ ذکر کرے چاہے نہ کرے ہر حال میں نکاح ہو جائے گا۔ لیکن مہر دینا پڑے گا بلکہ اگر کوئی یہ شرط کر لے کہ ہم مہر نہ دیں گے بے مہر کا نکاح کرتے ہیں تب بھی مہر دینا پڑے گا۔

مسئلہ2۔ کم سے کم مہر کی مقدار تخمینا پونے تین روپے بھر چاندی ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں چاہے جتنا مقرر کرے لیکن مہر کا بہت بڑھانا اچھا نہیں۔ سو اگر کسی نے فقط ایک روپیہ بھر چاندی یا ایک روپیہ یا ایک اٹھنی مہر مقرر کر کے نکاح کیا تب بھی پونے تین روپے بھر چاندی دینی پڑے گی شریعت میں اس سے کم مہر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دے تو اس کا آدھا دے۔

مسئلہ7۔ اگر نکاح کے وقت مہر کا بالکل ذکر ہی نہیں کیا گیا کہ کتنا ہے یا اس شرط پر نکاح کیا کہ بغیر مہر کے نکاح کرتا ہوں کچھ مہر نہ دوں گا۔ پھر دونوں میں سے کوئی مر گیا یا ویسی تنہائی و یکجائی ہو گئی جو شرع میں معتبر ہے تب بھی مہر دلایا جائے گا اور اس صورت میں مہر مثل دینا ہو گا۔ اور اگر اس صورت میں ویسی تنہائی سے پہلے مرد نے طلاق دے دی تو مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ فقط ایک جوڑا کپڑا پائے گی اور یہ جوڑا دینا مرد پر واجب ہے نہ دے گا تو گنہگار ہو گا۔

مسئلہ8۔ جوڑے میں فقط چار کپڑے مرد پر واجب ہیں ایک کرتہ ایک سربند یعنی اوڑھنی ایک پائجامہ یا ساڑھی جس چیز کا دستور ہے۔ ایک بڑی چادر جس میں سر سے پیر تک لپٹ سکے اس کے سوا اور کوئی کپڑا واجب نہیں۔

مسئلہ9۔ مرد کی جیسی حیثیت ہو ویسے کپڑے دینا چاہیے۔ اگر معمولی غریب آدمی ہو تو سوتی کپڑے اور اگر بہت غریب آدمی نہیں لیکن بہت امیر بھی نہیں تو ٹسرکے۔ اور جو بہت امیر کبیر ہو تو عمدہ ریشمی کپڑے دینا چاہیے لیکن بہرحال اس میں یہ خیال رہے کہ اس جوڑے کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے نہ بڑھے اور ایک روپیہ چھ آنے یعنی ایک روپیہ اور ایک چونی اور ایک دونی بھر چاندی کے جتنے دام ہوں اس سے کم قیمت بھی نہ ہو۔ یعنی بہت قیمتی کپڑے جن کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے بڑھ جائے مرد پر واجب نہیں۔ یوں اپنی خوشی سے اگر وہ بہت قیمتی اس سے زیادہ بڑھیا کپڑے دے دے تو اور بات ہے۔

مسئلہ10۔ نکاح کے وقت تو کچھ مہر مقرر نہیں کیا گیا لیکن نکاح کے بعد میاں بی بی دونوں نے اپنی خوشی سے کچھ مقرر کر لیا تو اب مہر مثل نہ دلایا جائے گا بلکہ دونوں نے اپنی خوشی سے جتنا مقرر کر لیا ہے وہی دلایا جائے گا۔ البتہ اگر ویسی تنہائی و یکجائی ہونے سے پہلے ہی طلاق مل گئی تو اس صورت میں مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ صرف وہی جوڑا کپڑا ملے گا جس کا بیان اوپر ہو چکا ہے۔

مسئلہ11۔ سو روپے یا ہزار روپے اپنی حیثیت کے موافق مہر مقرر کیا۔ پھر شوہر نے اپنی خوشی سے کچھ مہر اور بڑھا دیا اور کہا کہ ہم سو روپے کی جگہ ڈیڑھ سو دے دیں گے تو جتنے روپے زیادہ دینے کو کہے اس میں وہ بھی واجب ہو گئے نہ دے گا تو گنہگار ہو گا۔ اور اگر ویسی تنہائی و یکجائی سے پہلے طلاق ہو گئی تو جس قدر اصل مہر تھا اسی کا آدھا دیا جائے گا جتنا بعد میں بڑھایا تھا اس کو شمار نہ کریں گے۔ اسی طرح عورت نے اپنی خوشی و رضامندی سے اگر کچھ مہر معاف کر دیا تو جتنا معاف کیا ہے اتنا معاف ہو گیا۔ اور اگر پورا معاف کر دیا تو پورا مہر معاف ہو گیا۔ اب اس کے پانے کی مستحق نہیں ہے۔

مسئلہ12۔ اگر شوہر نے کچھ دباؤ ڈال کر دھمکا کر دق کر کے معاف کر لیا تو اس معاف کرانے سے معاف نہیں ہوا۔ اب بھی اس کے ذمہ ادا کرنا واجب ہے۔

مسئلہ13۔ مہر میں روپیہ پیسہ سونا چاندی کچھ مقرر نہیں کیا بلکہ کوئی گاؤں یا کوئی باغ یا کچھ زمین مقرر ہوئی تو یہ بھی درست ہے۔ جو باغ وغیرہ مقرر کیا ہے وہی دینا پڑے گا۔

مسئلہ14۔ مہر میں کوئی گھوڑا یا ہاتھی یا اور کوئی جانور مقرر کیا لیکن یہ مقرر نہیں کیا کہ فلانا گھوڑا دوں گا یہ بھی درست ہے۔ ایک منجھولا گھوڑا جو نہ بہت بڑھیا ہو نہ بہت گھٹیا دینا چاہیے یا اس کی قیمت دے دے۔ البتہ اگر فقط اتنا ہی کہا کہ ایک جانور دے دوں گا۔ اور یہ نہیں بتلایا کہ کون سا جانور دوں گا تو یہ مہر مقرر کرنا صحیح نہیں ہوا۔ مہر مثل دینا پڑے گا۔

مسئلہ17۔ جہاں کہیں پہلی ہی رات کو سب مہر دے دینے کا دستور ہو وہاں اول ہی رات سارا مہر لے لینے کا عورت کو اختیار ہے۔ اگر اول رات نہ مانگا تو جب مانگے تب مرد کو دینا واجب ہے دیر نہ کر سکتا۔

مسئلہ18۔ ہندوستان میں دستور ہے کہ مہر کا لین دین طلاق کے بعد مر جانے کے بعد ہوتا ہے کہ جب طلاق مل جاتی ہے تب مہر کا دعوی کرتی ہے یا مرد مر گیا اور کچھ مال چھوڑ گیا تو اس مال میں سے لے لیتی ہے۔ اور اگر عورت مر گئی تو اس کے وارث مہر کے دعویدار ہوتے ہیں۔ اور جب تک میاں بی بی ساتھ رہتے ہیں تب تک نہ کوئی دیتا ہے نہ وہ مانگتی ہے تو ایسی جگہ اس دستور کی وجہ سے طلاق ملنے سے پہلے مہر کا دعوی نہیں کر سکتی۔ البتہ پہلی رات کو جتنے مہر کے پیشگی دینے کا دستور ہے اتنا مہر پہلے دینا واجب ہے ہاں اگر کسی قوم میں یہ دستور نہ ہو تو اس کا یہ حکم نہ ہو گا

مسئلہ20۔ مہر کی نیت سے شوہر نے کچھ دیا تو جتنا دیا ہے اتنا مہر ادا ہو گیا۔ دیتے وقت عورت سے یہ بتلانا ضروری نہیں ہے کہ میں مہر دے رہا ہوں۔

مسئلہ21۔ مرد نے کچھ دیا لیکن عورت تو کہتی ہے کہ یہ چیز تم نے مجھ کو یوں ہی دی۔ مہر میں نہیں دی اور مرد کہتا ہے کہ یہ میں نے مہر میں دیا ہے تو مرد ہی کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ اگر کھانے پینے کی کوئی چیز تھی تو اس کو مہر میں نہ سمجھیں گے اور مرد کی اس بات کا اعتبار نہ کریں گے۔

مہر مثل کا بیان

مسئلہ1۔ خاندانی مہر یعنی مہر مثل کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے باپ کے گھرانے میں سے کوئی دوسری عورت دیکھو جو اس کے مثل ہو یعنی اگر یہ کم عمر ہے تو وہ بھی نکاح کے وقت کم عمر ہو۔ اگر یہ خوبصورت ہے تو وہ بھی خوبصورت ہو۔ اس کا نکاح کنوارے پن میں ہوا اور اس کا نکاح بھی کنوارے پن میں ہوا ہو۔ نکاح کے وقت جتنی مالدار یہ ہے اتنی ہی وہ بھی تھی۔ جس کی یہ رہنے والی ہے اسی دیس کی وہ بھی ہے۔ اگر یہ دیندار ہوشیار سلیقہ دار پڑھی لکھی ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہو۔ غرض جس وقت اس کا نکاح ہوا ہے اس وقت ان باتوں میں وہ بھی اسی کے مثل تھی جس کا اب نکاح ہوا۔ تو جو مہر اس کا مقرر ہوا تھا وہی اس کا مہر مثل ہے۔

مسئلہ2۔ باپ کے گھرانے کی عورتوں سے مراد جیسے اس کی بہن پھوپھی۔ چچا زاد بہن وغیرہ یعنی اس کی دادھیالی لڑکیاں۔ مہر مثل کے دیکھنے میں ماں کا مہر نہ دیکھیں گے ہاں اگر ماں بھی باپ ہی کے گھرانے میں سے ہو جیسے باپ نے اپنے چچا کی لڑکی سے نکاح کر لیا تھا تو اس کا مہر بھی مہر مثل کہا جائے گا۔

کافروں کے نکاح کا بیان

مسئلہ1۔ کافر لوگ اپنے اپنے مذہب کے اعتبار سے جس طریقہ سے نکاح کرتے ہوں شریعت اس کو بھی معتبر رکھتی ہے اور اگر وہ دونوں ساتھ مسلمان ہو جائیں تو اب نکاح دہرانے کی کچھ ضرورت نہیں وہی نکاح اب بھی باقی ہے۔

مسئلہ2۔ اگر دونوں میں سے ایک مسلمان ہو گیا دوسرا نہیں ہوا تو نکاح جاتا رہا۔ اب میاں بی بی کی طرح رہنا سہنا درست ہیں۔

بیبیوں میں برابری کرنے کا بیان

مسئلہ1۔ جس کے کئی بیبیاں ہوں تو مرد پر واجب ہے کہ سب کو برابر رکھے جتنا ایک عورت کو دیا ہے دوسری بھی اتنے کی دعویدار ہو سکتی ہے۔ چاہے دونوں کنواری ہوں یا دونوں بیاہی ہوں۔ یا ایک تو کنواری ہو اور دوسری بیاہی بیاہ لایا۔ سب کا ایک حکم ہے۔ اگر ایک کے پاس ایک رات رہا تو دوسری کے پاس بھی ایک رات رہے۔ اس کے پاس دو یا تین راتیں رہا تو اس کے پاس بھی دو یا تین راتیں رہے۔ جتنا مال زیور کپڑے اس کو دیئے اتنے ہی کی دوسری عورت بھی دعویدار ہے۔

مسئلہ2۔ جس کا نیا نکاح ہوا اور جو پرانی ہو چکی دونوں کا حق برابر ہے کچھ فرق نہیں۔

مسئلہ3۔ برابری فقط رات کے رہنے میں ہے دن کے رہنے میں برابری ہونا ضروری نہیں۔ اگر دن میں ایک کے پاس زیادہ رہا اور دوسری کے پاس کم رہا تو کچھ حرج نہیں اور رات میں برابری واجب ہے۔ اگر ایک کے پاس مغرب کے بعد ہی آ گیا اور دوسری کے پاس عشاء کے بعد آیا تو گناہ ہوا۔ البتہ جو شخص رات کو نوکری میں لگا رہتا ہو اور دن کو گھر میں رہتا ہو جیسے چوکیدار پہرہ دار اس کے لیے دن کو برابری کا حکم ہے۔

مسئلہ5۔ مرد چاہے بیمار ہو چاہے تندرست بہرحال رہنے میں برابری کرے۔

مسئلہ6۔ ایک عورت سے زیادہ محبت ہے اور دوسری سے کم تو اس میں کچھ گناہ نہیں۔ چونکہ دل اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔

مسئلہ7۔ سفر میں جاتے وقت برابری واجب نہیں جس کو جی چاہے ساتھ لے جائے اور بہتر یہ ہے کہ نام نکال لے جس کا نام نکلے اس کو لے جائے تاکہ کوئی اپنے جی میں ناخوش نہ ہو۔

دودھ پینے اور پلانے کا بیان

مسئلہ1۔ جب بچہ پیدا ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب ہے۔ البتہ اگر باپ مال دار ہو اور کوئی انا تلاش کر سکے تو دودھ نہ پلانے میں کچھ گناہ بھی نہیں۔

مسئلہ2۔ کسی اور کے لڑکے کو بغیر میاں کی اجازت لیے دودھ پلانا درست نہیں ہاں البتہ اگر کوئی بچہ بھوک کے مارے تڑپتا ہو اور اس کے ضائع ہو جانے کا ڈر ہو تو ایسے وقت بے اجازت بھی دودھ پلا دے۔

مسئلہ3۔ زیادہ سے زیادہ دودھ پلانے کی مدت دو برس ہیں۔ دو سال کے بعد دودھ پلانا حرام ہے بالکل درست نہیں۔

مسئلہ4۔ اگر بچہ کچھ کھانے پینے لگا اور اس وجہ سے دو برس سے پہلے ہی دودھ چھڑا دیا تب بھی کچھ حرج نہیں۔

مسئلہ5۔ جب بچہ نے کسی اور عورت کا دودھ پیا تو وہ عورت اس کی ماں بن گئی۔ اور اس انا کا شوہر جس کے بچہ کا یہ دودھ ہے اس بچہ کا باپ ہو گیا اور اس کی اولاد اس کے دودھ شریکی بھائی بہن ہو گئے اور نکاح حرام ہو گیا اور جو رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہیں وہ رشتے دودھ کے اعتبار سے بھی حرام ہو جاتے ہیں لیکن بہت سے عالموں کے فتوے میں یہ حکم جب ہی ہے کہ بچہ نے دو برس کے اندر ہی اندر دودھ پیا ہو۔ اگر بچہ دو برس کا ہو چکا اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پیا تو اس پینے کا کچھ اعتبار نہیں نہ وہ پلانے والی ماں بنی اور نہ اس کی اولاد اس بچہ کے بھائی بہن ہوئے۔ اس لیے اگر آپس میں نکاح کر دیں تو درست ہے لیکن امام اعظم جو بہت بڑے امام ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر ڈھائی برس کے اندر اندر بھی دودھ پیا ہو تب بھی نکاح درست نہیں۔ البتہ اگر ڈھائی برس کے بعد دودھ پیا ہو تو اس کا بالکل اعتبار نہیں بے کھٹکے سب کے نزدیک نکاح درست ہے۔

مسئلہ6۔ جب بچہ کے حلق میں دودھ چلا گیا تو سب رشتے جو ہم نے اوپر لکھے ہیں حرام ہو گئے چاہے تھوڑا دودھ گیا ہو یا بہت اس کا کچھ اعتبار نہیں۔

مسئلہ7۔ اگر بچہ نے چھاتی سے دودھ نہیں پات بلکہ اس نے اپنا دودھ نکال کر اس کے حلق میں ڈال دیا تو اس سے بھی وہ سب رشتے حرام ہو گئے۔ اسی طرح اگر بچہ کی ناک میں دودھ ڈال دیا تب بھی سب رشتے حرام ہو گئے اور اگر کان میں ڈالا تو اس کا کچھ اعتبار نہیں۔

مسئلہ8۔ اگر عورت کا دودھ پانی میں یا کسی دوا میں ملا کر بچہ کو پلایا تو دیکھو کہ دودھ زیادہ ہے یا پانی یا دونوں برابر۔ اگر دودھ زیادہ ہو یا دونوں برابر ہوں تو جس عورت کا دودھ ہے وہ ماں ہو گئی اور سب رشتے حرام ہو گئے۔ اور اگر پانی یا دوا زیادہ ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں وہ عورت ماں نہیں بنی۔

مسئلہ9۔ عورت کا دودھ بکری یا گائے کے دودھ میں مل گیا اور بچہ نے کھا لیا تو دیکھو زیادہ کونسا ہے اگر عورت کا دودھ زیادہ یا دونوں برابر ہوں تو سب رشتے حرام ہو گئے اور جس عورت کا دودھ ہے یہ بچہ اس کی اولاد بن گیا۔ اور اگر بکری یا گائے کا دودھ زیادہ ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں ایسا سمجھیں گے کہ گویا اس نے پیا ہی نہیں۔

مسئلہ10۔ اگر کسی کنواری لڑکی کے دودھ اتر آیا۔ اس کو کسی بچہ نے پی لیا تو اس سے بھی سب رشتے حرام ہو گئے۔

مسئلہ11۔ مردہ عورت کا دودھ دوہ کر کسی بچہ کو پلا دیا۔ تو اس سے بھی سب رشتے حرام ہو گئے۔

مسئلہ12۔ دو لڑکوں نے ایک بکری یا ایک گائے کا دودھ پیا تو اس سے کچھ نہیں ہوتا وہ بھائی بہن نہیں ہوتے۔

مسئلہ13۔ جوان مرد نے اپنی بی بی کا دودھ پیا تو وہ حرام نہیں ہوئی۔ البتہ بہت گناہ ہوا۔ کیونکہ دو برس کے بعد دودھ پینا بالکل حرام ہے۔

مسئلہ14۔ ایک لڑکا ایک لڑکی ہے دونوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہے تو ان میں نکاح نہیں ہو سکتا خواہ ایک ہی زمانہ میں پیا ہو۔ یا ایک نے پہلے دوسرے نے کئی برس کے بعد دونوں کا ایک حکم ہے۔

مسئلہ15۔ ایک لڑکی نے باقر کی بیوی کا دودھ پیا تو اس لڑکی کا نکاح نہ باقر سے ہو سکتا ہے نہ اس کے باپ دادا کے ساتھ نہ باقر کی اولاد کے ساتھ بلکہ باقر کے جو اولاد دوسری بیوی سے ہے اس سے بھی نکاح درست نہیں۔

مسئلہ16۔ عباس نے خدیجہ کا دودھ پیا اور خدیجہ کے شوہر قادر کے ایک دوسری بی بی زینب تھی جس کو طلاق مل چکی ہے تو اب زینب بھی عباس سے نکاح نہیں کر سکتی۔ کیونکہ عباس زینب کے میاں کی اولاد ہے اور میاں کی اولاد سے نکاح درست نہیں۔ اسی طرح اگر عباس اپنی عورت کو چھوڑ دے تو وہ عورت قادر کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اس کا خسر ہوا۔ اور قادر کی بہن اور عباس کا نکاح نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ دونوں پھوپھی بھتیجے ہوئے۔ چاہے وہ قادر کی سگی بہن ہو یا دودھ شریک بہن ہو۔ دونوں کا ایک حکم ہے البتہ عباس کی بہن سے قادر نکاح کر سکتا ہے۔

مسئلہ17۔ عباس کی ایک بہن ساجدہ ہے۔ ساجدہ نے ایک عورت کا دودھ پیا۔ لیکن عباس نے نہیں پیا تو اس دودھ پلانے والی عورت کا نکاح عباس سے ہو سکتا ہے۔

مسئلہ18۔ عباس کے لڑکے نے زاہدہ کا دودھ پیا تو زاہدہ کا نکاح عباس کے ساتھ ہو سکتا ہے۔

مسئلہ19۔ قادر اور ذاکر دو بھائی ہیں۔ اور ذاکر کے ایک دودھ شریکی بہن ہے تو قادر کے ساتھ اس کا نکاح ہو سکتا ہے البتہ ذاکر کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ خوب اچھی طرح سمجھ لو۔ چونکہ اس قسم کے مسئلے مشکل ہیں کہ کم سمجھ میں آتے ہیں اس لیے ہم زیادہ نہیں لکھتے جب کبھی ضرورت پڑے تو کسی سمجھدار بڑے عالم سے سمجھ لینا چاہیے۔

مسئلہ20۔ کسی مرد کا کسی عورت سے رشتہ ہونے لگا۔ پھر ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میں نے تو ان دونوں کو دودھ پلایا ہے اور سوائے اس عورت کے کوئی اور اس دودھ پینے کو نہیں بیان کرتا تو فقط اس عورت کے کہنے سے دودھ کا رشتہ ثابت نہ ہو گا۔ ان دونوں کا نکاح درست ہے بلکہ جب دو معتبر اور دیندار مرد یا ایک دیندار مرد اور دو دیندار عورتیں دودھ پینے کی گواہی دیں تب اس رشتہ کا ثبوت ہو گا اب البتہ نکاح حرام ہو گیا۔ بے ایسی گواہی کے ثبوت نہ ہو گا لیکن اگر فقط ایک مرد یا ایک عورت کے کہنے سے یا دو تین عورتوں کے کہنے سے دل گواہی دینے لگے کہ یہ سچ کہتی ہوں گی ضرور ایسا ہوا ہو گا تو ایسے وقت نکاح نہ کرنا چاہیے کہ خواہ مخواہ شک میں پڑنے سے کیا فائدہ۔ اور اگر کسی نے کر لیا تب بھی خیر ہو گیا۔

مسئلہ21۔ عورت کا دودھ کسی دوا میں ڈالنا جائز نہیں۔ اور اگر ڈال دیا تو اب اس کا کھانا اور لگانا ناجائز اور حرام ہے۔ اسی طرح دوا کے لیے آنکھ میں یا کان میں دودھ ڈالنا بھی جائز نہیں۔ خلاصہ یہ کہ آدمی کے دودھ سے کسی طرح کا نفع اٹھانا اور اس کو اپنے کام میں لانا درست نہیں۔

طلاق کا بیان

مسئلہ1۔ جو شوہر جوان ہو چکا ہو اور دیوانہ پاگل نہ ہو اس کے طلاق دینے سے طلاق پڑ جائے گی۔ اور جو لڑکا ابھی جوان نہیں ہوا۔ اور دیوانہ پاگل جس کی عقل ٹھیک نہیں ان دونوں کے طلاق دینے سے طلاق نہیں پڑتی۔

مسئلہ2۔ سوتے ہوئے آدمی کے منہ سے نکلا کہ تجھ کو طلاق ہے یا یوں کہہ دیا کہ میری بی بی کو طلاق تو اس بڑبڑانے سے طلاق نہ پڑے گی۔

مسئلہ3۔ کسی نے زبردستی کسی سے طلاق دلوادی۔ بہت مارا کوٹا دھمکایا کہ طلاق دے دے نہیں تو تجھے مار ڈالوں گی اس مجبوری سے اس نے طلاق دے دی تب بھی طلاق پڑ گئی۔

مسئلہ4۔ کسی نے شراب وغیرہ کے نشہ میں اپنی بی بی کو طلاق دے دی جب ہوش آیا تو پشیمان ہوا تب بھی طلاق پڑ گئی۔ اسی طرح غصے میں طلاق دینے سے بھی طلاق پڑ جاتی ہے۔

مسئلہ5۔ شوہر کے سوا کسی اور کو طلاق دینے کا اختیار نہیں ہے البتہ اگر شوہر نے کہہ دیا ہو کہ تو اس کو طلاق دے تو وہ بھی دے سکتا ہے۔

طلاق دینے کا بیان

مسئلہ1۔ طلاق دینے کا اختیار فقط مرد کو ہے۔ جب مرد نے طلاق دے دی تو پڑ گئی۔ عورت کا اس میں کچھ بس نہیں چاہے منظور کرے چاہے نہ کرے ہر طرح طلاق ہو گئی۔ اور عورت اپنے مرد کو طلاق نہیں دے سکتی۔

مسئلہ2۔ مرد کو فقط تین طلاق دینے کا اختیار ہے اس سے زیادہ کا اختیار نہیں۔ تو اگر چار پانچ طلاق دے دیں تب بھی تین ہی طلاقیں ہوئیں۔

مسئلہ3۔ جب مرد نے زبان سے کہہ دیا کہ میں نے اپنی بی بی کو طلاق دے دی اور اتنے زور سے کہا کہ خود ان الفاظ کو سن لیا۔ بس اتنا کہتے ہی طلاق پڑ گئی چاہے کسی کے سامنے کہے چاہے تنہائی میں اور چاہے بی بی سنے یا نہ سنے ۔ ہر حال میں طلاق ہو گئی۔

مسئلہ4۔ طلاق تین قسم کی ہے۔ ایک تو ایسی طلاق جس میں نکاح بالکل ٹوٹ جاتا ہے اور بے نکاح کیے اس مرد کے پاس رہنا جائز نہیں۔ اگر پھر اسی کے پاس رہنا چاہے اور مرد بھی اس کو رکھنے پر راضی ہو تو پھر سے نکاح کرنا پڑے گا ایسی طلاق کو بائن طلاق کہتے ہیں۔ دوسری وہ جس میں نکاح ایسا ٹوٹا کہ دوبارہ نکاح بھی کرنا چاہیں تو بعد عدت کسی دوسرے سے اول نکاح کرنا پڑے گا اور جب وہاں طلاق ہو جائے تب بعد عدت اس سے نکاح ہو سکے گا۔ ایسی طلاق کو مغلظہ کہتے ہیں۔ تیسری وہ جس میں نکاح ابھی نہیں ٹوٹا صاف لفظوں میں ایک یا دو طلاق دینے کے بعد اگر مرد پشیمان ہوا تو پھر سے نکاح کرنا ضروری نہیں۔ بے نکاح کیے بھی اس کو رکھ سکتا ہے۔ پھر میاں بی بی کی طرح رہنے لگیں تو درست ہے البتہ اگر مرد طلاق دے کر اسی پر قائم رہا اور اس سے نہیں پھرا تو جب طلاق کی مدت گزر جائے گی تب نکاح ٹوٹ جائے گا اور عورت جدا ہو جائے گی۔ اور جب تک عدت نہ گزرے تب تک رکھنے نہ رکھنے دونوں باتوں کا اختیار ہے۔ ایسی طلاق کو رجعی طلاق کہتے ہیں۔ البتہ اگر تین طلاقیں دے دیں تو اب اختیار نہیں۔

مسئلہ5۔ طلاق دینے کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ میں نے تجھ کو طلاق دے دی یا یوں کہا کہ میں نے اپنی بی بی کو طلاق دے دی۔ غرضیکہ ایسی صاف بات کہہ دی جس میں طلاق دینے کے سوا کوئی اور معنی نہیں نکل سکتے ایسی طلاق کو صریح کہتے ہیں۔ دوسری قسم یہ کہ صاف صاف لفظ نہیں کہے بلکہ ایسے گول گول لفظ کہے جس میں طلاق کا مطلب بھی بن سکتا ہے اور طلاق کے سوا اور دوسرے معنے بھی نکل سکتے ہیں۔ جیسے کوئی کہے میں نے تجھ کو دور کر دیا۔ تو اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ میں نے تجھ کو طلاق دے دی۔ دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ طلاق تو نہیں دی لیکن اب تجھ کو اپنے پاس نہ رکھوں گا۔ ہمیشہ اپنے میکے میں پڑی رہ۔ تیری خبر نہ لوں گا۔ یا یوں کہے مجھ سے تجھ سے کچھ واسطہ نہیں۔ مجھ سے تجھ سے کچھ مطلب نہیں تو مجھ سے جدا ہو گئی۔ میں نے تجھ کو الگ کر دیا۔ جدا کر دیا میرے گھر سے چلی جا۔ نکل جا۔ ہٹ دور ہو۔ اپنے ماں باپ کے سرجا کے بیٹھ۔ اپنے گھر جا۔ میرا تیرا نباہ نہ ہو گا۔ اسی طرح کے اور الفاظ جن میں دونوں مطلب نکل سکتے ہیں ایسی طلاق کو کنایہ کہتے ہیں۔

مسئلہ6۔ اگر صاف صاف لفظوں میں طلاق دی تو زبان سے نکلتے ہی طلاق پڑ گئی۔ چاہے طلاق دینے کی نیت ہو چاہے نہ ہو۔ بلکہ ہنسی دل لگی میں کہا ہو ہر طرح طلاق ہو گئی اور صاف لفظوں میں طلاق دینے سے تیسری قسم کی طلاق پڑتی ہے یعنی عدت کے ختم ہونے تک اس کے رکھنے نہ رکھنے کا اختیار ہے اور ایک مرتبہ کہنے سے ایک ہی طلاق پڑے گی نہ دو پڑیں گی نہ تین۔ البتہ اگر تین دفعہ کہے یا یوں کہے تجھ کو تین طلاق دیں تو تین طلاقیں پڑیں۔

مسئلہ7۔ کسی نے ایک طلاق دی تو جب تک عورت عدت میں رہے تب تک دوسری طلاق اور تیسری طلاق اور دینے کا اختیار رہتا ہے اگر دے گا تو پڑ جائے گی۔

مسئلہ8۔ کسی نے یوں کہا تجھ کو طلاق دے دوں گا تو اس سے طلاق نہیں ہوئی۔ اسی طرح اگر کسی بات پر یوں کہا کہ اگر فلانا کام کرے گی تو طلاق دے دوں گا تب بھی طلاق نہیں ہوئی چاہے وہ کام کرے چاہے نہ کرے۔ ہاں اگر یوں کہہ دے اگر فلانا کام کرے تو طلاق ہے تو اس کے کرنے سے طلاق پڑ جائے گی۔

مسئلہ9۔ کسی نے طلاق دے کر اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دیا تو طلاق نہیں پڑی۔ اسی طرح اگر یوں کہا اگر خدا چاہے تو تجھ کو طلاق۔ اس سے بھی کسی قسم کی طلاق نہیں پڑتی۔

البتہ اگر طلاق دے کر ذرا ٹھیر گیا پھر انشاء اللہ کہا تو طلاق پڑ گئی۔

مسئلہ10۔ کسی نے اپنی بی بی کو طلاقن کہہ کر پکارا تب بھی طلاق پڑ گئی اگرچہ ہنسی میں کہا ہو۔

مسئلہ11۔ کسی نے کہا جب تو لکھنو جائے تو تجھ کو طلاق ہے تو جب تک لکھنو نہ جائے گی طلاق نہ پڑے گی جب وہاں جائے گی تب پڑے گی۔

مسئلہ12۔ اور اگر صاف صاف طلاق نہیں دی بلکہ گول گول الفاظ کہے اور اشارہ کنایہ سے طلاق دی تو ان لفظوں کے کہنے کے وقت اگر طلاق دینے کی نیت تھی تو طلاق ہو گئی اور اول قسم کی یعنی بائن طلاق ہوئی۔ اب بے نکاح کیے نہیں رکھ سکتا۔ اور اگر طلاق کی نیت نہ تھی بلکہ دوسرے معنی کے اعتبار سے کہا تھا تو طلاق نہیں ہوئی۔ البتہ اگر کہنے سے معلوم ہو جائے کہ طلاق ہی دینے کی نیت تھی اب وہ جھوٹ بکتا ہے تو اب عورت اس کے پاس نہ رہے اور یہی سمجھے کہ مجھے طلاق مل گئی۔ جیسے بی بی نے غصہ میں آ کر کہا کہ میرا تیرا نباہ نہ ہو گا مجھ کو طلاق دے دے اس نے کہا اچھا میں نے چھوڑ دیا تو یہاں عورت یہی سمجھے کہ مجھے طلاق دے دی۔

مسئلہ13۔ کسی نے تین دفعہ کہا کہ تجھ کو طلاق طلاق طلاق تو تینوں طلاقیں پڑ گئیں یا گول الفاظ میں تنئ مرتبہ کہا تب بھی تنی پڑ گئیں۔ لیکن اگر نیت ایک ہی طلاق کی کی ہے فقط مضبوطی کے لیے تین دفعہ کہا تھا کہ بات خوب پکی ہو جائے تو ایک طلاق ہوئی۔ لیکن عورت کو اس کے دل کا حال تو معلوم نہیں اس لیے یہی سمجھے کہ تین طلاقیں مل گئیں۔

رخصتی سے پہلے طلاق ہو جانے کا بیان

مسئلہ1۔ ابھی میاں کے پاس نہ جانے پائی تھی کہ اس نے طلاق دے دی۔ یا رخصتی تو ہو گئی لیکن ابھی میاں بی بی میں ویسی تنہائی نہیں ہونے پائی جو شرع میں معتبر ہے جس کا بیان مہر کے باب میں ہو چکا ہے۔ تنہائی و یکجائی رہنے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو طلاق بائن پڑی۔ چاہے صاف لفظوں سے دی ہو یا گول لفظوں میں۔ ایسی عورت کو جب طلاق دی جائے تو پہلی ہی قسم کی یعنی بائن طلاق پڑتی ہے اور ایسی عورت کے لیے طلاق کی عدت بھی کچھ نہیں ہے۔ طلاق ملنے کے بعد فورا دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور ایسی عورت کو ایک طلاق دینے کے بعد اب دوسری تیسری طلاق بھی دینے کا اختیار نہیں اگر دیوے گا تو نہ پڑے گی۔ البتہ اگر پہلی ہی دفعہ یوں کہہ دے کہ تجھ کو دو طلاق یا تین طلاق تو جتنی دی ہیں سب پڑ گئیں اور اگر یوں کہا تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے تب بھی ایسی عورت کو ایک ہی طلاق پڑے گی۔

تین طلاق دینے کا بیان

مسئلہ1۔ اگر کسی نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دے دیں تو اب وہ عورت بالکل اس مرد کے لیے حرام ہو گئی اب اگر پھر سے نکاح کرے تب بھی عورت کو اس مرد کے پاس رہنا حرام ہے اور یہ نکاح نہیں ہوا چاہے صاف لفظوں میں تین طلاقیں دی ہوں یا گول لفظوں میں سب کا ایک حکم ہے۔

مسئلہ2۔ تین طلاقیں ایک دم سے دے دیں۔ جیسے یوں کہہ دیا تجھ کو تین طلاق یا یوں کہا تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے یا الگ کر کے تین طلاقیں دیں جیسے ایک آج دی ایک کل ایک پرسوں۔ یا ایک اس مہینہ میں ایک دوسرے مہینہ میں ایک تیسرے میں یعنی عدت کے اندر اندر تینوں طلاقیں دے دیں سب کا ایک حکم ہے اور صاف لفظوں میں طلاق دے کر پھر روک رکھنے کا اختیار اس وقت ہوتا ہے جب تین طلاقیں نہ دے فقط ایک یا دو دے۔ جب تین طلاقیں دے دیں تو اب کچھ نہیں ہو سکتا۔

مسئلہ3۔ کسی نے اپنی عورت کو ایک طلاق رجعی دی۔ پھر میاں راضی ہو گیا اور روک رکھا۔ پھر دو چار برس میں کسی بات پر غصہ آیا تو ایک طلاق رجعی اور دے دی جس میں روک رکھنے کا اختیار ہوتا ہے۔ پھر جب غصہ اترا تو روک رکھا اور نہیں چھوڑا۔ یہ دو طلاقیں ہو چکیں اب اس کے بعد اگر کبھی ایک طلاق اور دے دے گا تو تین پوری ہو جائیں گی اور اس کا وہی حکم ہو گا کہ بے دوسرا خاوند کیے اس مرد سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر کسی نے طلاق بائن دی جس میں روک رکھنے کا اختیار نہیں ہوتا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر پشیمان ہوا اور میاں بی بی نے راضی ہو کر پھر سے نکاح پڑھوا لیا۔ کچھ زمانہ کے بعد پھر غصہ آیا اور ایک طلاق بائن دے دی اور غصہ اترنے کے بعد پھر نکاح پڑھوا لیا یہ دو طلاقیں ہوئیں۔ اب تیسری دفعہ اگر طلاق دے گا تو پھر وہی حکم ہے کہ بے دوسرا خاوند کیے اس سے نکاح نہیں کر سکتی۔

کسی شرط پر طلاق دینے کا بیان

مسئلہ1۔ نکاح کرنے سے پہلے کسی عورت کو کہا اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ کو طلاق ہے تو جب اس عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہی طلاق بائن پڑ جائے گی۔ اب بے نکاح کیے اس کو نہیں رکھ سکتا۔ اور اگر یوں کہا ہو اگر تجھ سے نکاح کروں تو تجھ پر دو طلاق۔ تو دو طلاق بائن پڑ گئیں اور اگر تین طلاق کو کہا تھا تو تینوں پڑ گئیں اور اب طلاق مغلظہ ہو گئی۔

مسئلہ2۔ نکاح ہوتے ہی جب اس پر طلاق پڑ گئی تو اس نے اسی عورت سے پھر نکاح کر لیا تو اب اس دوسرے نکاح کرنے سے طلاق نہ پڑے گی۔ ہاں اگر یوں کہا ہو جس دفعہ تجھ سے نکاح کروں ہر مرتبہ تجھ کو طلاق ہے تو جب نکاح کرے گا ہر دفعہ طلاق پڑ جایا کرے گی۔ اب اس عورت کو رکھنے کی کوئی صورت نہیں۔ دوسرا خاوند کر کے اگر اس مرد سے نکاح کرے گی تب بھی طلاق پڑ جائے گی۔

مسئلہ3۔ کسی نے کہا جس عورت سے نکاح کروں اس کو طلاق تو جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑ جائے گی۔ البتہ طلاق پڑنے کے بعد اگر پھر اسی عورت سے نکاح کر لیا تو طلاق نہیں پڑی۔

مسئلہ4۔ کسی غیر عورت سے جس سے ابھی نکاح نہیں کیا ہے اس طرح کہا اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق۔ اس کا کچھ اعتبار نہیں اگر اس سے نکاح کر لیا اور نکاح کے بعد اس نے وہی کام کیا تب بھی طلاق نہیں پڑی۔ کیونکہ غیر عورت کو طلاق دینے کی یہی صورت ہے کہ یوں کہے اگر تجھ سے نکاح کروں تو طلاق۔ کسی اور طرح طلاق نہیں پڑ سکتی۔

مسئلہ5۔ اور اگر اپنی بی بی سے کہا اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق اگر تو میرے پاس سے جائے تو تجھ کو طلاق۔ اگر تو اس گھر میں جائے تو تجھ کو طلاق یا اور کسی بات کے ہونے پر طلاق دی تو جب وہ کام کرے گی تب طلاق پڑ جائے گی اگر نہ کرے گی تو نہ پڑے گی اور طلاق رجعی پڑے گی جس میں بے نکاح بھی روک رکھنے کا اختیار ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی گول لفظ کہتا ہے جیسے یوں کہے اگر تو فلانا کام کرے تو مجھ تجھ سے کچھ واسطہ نہیں تو جب وہ کام کرے گی تب طلاق بائن پڑے گی بشرطیکہ مرد نے اس لفظ کے کہتے وقت طلاق کی نیت کی ہو۔

مسئلہ6۔ اگر یوں کہا اگر فلانا کام کرے تو تجھ کو دو طلاق یا تین طلاق تو جو طلاق کہی اتنی پڑیں گی۔

مسئلہ7۔ اپنی بی بی سے کہا تھا گر اس گھر میں جائے تو تجھ کو طلاق اور وہ چلی گئی اور طلاق پڑ گئی۔ پھر عدت کے اندر اندر اس نے روک رکھا یا پھر سے نکاح کر لیا تو اب پھر گھر میں جانے سے طلاق نہ پڑے گی۔ البتہ اگر یوں کہا ہو جتنی مرتبہ اس گھر میں جائے ہر مرتبہ تجھ کو طلاق۔ یا یوں کہا ہو جب کبھی تو گھر میں جائے ہر مرتبہ تجھ کو طلاق۔ تو اس صورت میں عدت کے اندر یا پھر نکاح کر لینے کے بعد دوسری مرتبہ گھر میں جانے سے دوسری طلاق ہو گئی پھر عدت کے اندر یا تیسرے نکاح کے بعد اگر تیسری دفعہ گھر میں جائے گی تو تیسری طلاق پڑ جائے گی۔ اب تین طلاق کے بعد اس سے نکاح درست نہیں۔ البتہ اگر دوسرا خاوند کر کے پھر اسی مرد سے نکاح کرے تو اب اس گھر میں جانے سے طلاق نہ پڑے گی۔

مسئلہ8۔ کسی نے اپنی عورت سے کہا اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق۔ ابھی اس نے وہ کام نہیں کیا تھا کہ اس نے اپنی طرف سے ایک اور طلاق دے دی اور چھوڑ دیا اور کچھ مدت بعد پھر اسی عورت سے نکاح کیا اور اس نکاح کے بعد اب اس نے وہی کام کیا تو پھر طلاق پڑ گئی۔ البتہ اگر طلاق پانے اور عدت گزر جانے کے بعد اس نکاح سے پہلے اس نے وہی کام کر لیا ہو تو اب اس نکاح کے بعد اس کام کے کرنے سے طلاق نہ پڑے گی۔ اور اگر طلاق پانے کے بعد عدت کے اندر اس نے وہی کام کیا ہو تب بھی دوسری طلاق پڑ گئی۔

مسئلہ10۔ اگر کسی نے بی بی سے کہا اگر تو روزہ رکھے تو تجھ کو طلاق تو روزہ رکھتے ہی فورا طلاق پڑی گئی البتہ اگر یوں کہا اگر تو ایک روزہ رکھے یا دن بھر کا روزہ رکھے تو تجھ کو طلاق۔ تو روزہ کے ختم پر طلاق پڑے گی۔ اگر روزہ توڑ ڈالے تو طلاق نہ پڑے گی۔

مسئلہ11۔ عورت نے گھر سے باہر جانے کا ارادہ کیا مرد نے کہا ابھی مت جاؤ۔ عورت نہ مانی۔ اس پر مرد نے کہا اگر تو باہر جائے تو تجھ کو طلاق۔ تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ابھی باہر جائے گی تو طلاق پڑے گی اور اگر ابھی نہ گئی کچھ دیر میں گئی تو طلاق نہ پڑے گی۔ کیونکہ اس کا مطلب یہی تھا کہ ابھی نہ جاؤ پھر جانا۔ یہ مطلب نہیں کہ عمر بھر کبھی نہ جانا۔

مسئلہ12۔ کسی نے یوں کہا جس دن تجھ سے نکاح کروں تجھ کو طلاق۔ پھررات کے وقت نکاح کیا تب بھی طلاق پڑ گئی۔ کیونکہ بول چال میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت تجھ سے نکاح کروں تجھ کو طلاق۔

بیمار کے طلاق دینے کا بیان

مسئلہ1۔ بیماری کی حالت میں کسی نے اپنی عورت کو طلاق دے دی پھر عورت کی عدت ابھی ختم نہ ہونے پائی تھی کہ اس بیماری میں مر گا۔ تو شوہر کے مال میں سے بی بی کا جتنا حصہ ہوتا ہے اتنا اس عورت کو بھی ملے گا چاہے ایک طلاق دی ہو یا دو تین۔ اور چاہے طلاق رجعی دی ہو یا بائن سب کا ایک حکم ہے۔ اگر عدت ختم ہو چکی تھی تب وہ مرا تو حصہ نہ پائے گی۔ اسی طرح اگر مرد اسی بیماری میں نہیں مرا بلکہ اس سے اچھا ہو گیا پھر بیمار ہو گیا تب بھی حصہ نہ پائے گی۔ چاہے عدت ختم ہو چکی ہو یا نہ ختم ہوئی ہو۔

مسئلہ2۔ عورت نے طلاق مانگی تھی اس لیے مرد نے طلاق دے دی۔ تب بھی عورت حصہ پانے کی مستحق نہیں چاہے عدت کے اندر مرے یا عدت کے بعد۔ دونوں کا ایک حکم ہے۔ البتہ اگر طلاق رجعی دی ہو اور عدت کے اندر مرے تو حصہ پائے گی۔

مسئلہ3۔ بیماری کی حالت میں عورت سے کہا اگر تو گھر سے باہر جائے تو تجھ کو بائن طلاق ہے۔ پھر عورت باہر گئی اور طلاق بائن پڑ گئی تو اس صورت میں حصہ نہ پائے گی کہ اس نے خود ایسا کام کیوں کیا جس سے طلاق پڑی۔ اور اگر یوں کہا اگر تو کھانا کھائے تو تجھ کو طلاق بائن ہے یا یوں کہا اگر تو نماز پڑھے تو تجھ کو طلاق بائن ہے ایسی صورت میں اگر وہ عدت کے اندر مر جائے گا تو عورت کو حصہ ملے گا کیونکہ عورت کے اختیار سے طلاق نہیں پڑی۔ کھانا کھانا اور نماز پڑھنا تو ضروری ہے اس کو کیسے چھوڑتی۔ اور اگر طلاق رجعی دی ہو تو پہلی صورت میں عدت کے اندر اندر مرنے سے حصہ پائے گی۔ غرضیکہ طلاق رجعی میں بہرحال حصہ ملتا ہے۔ بشرطیکہ عدت کے اندر مرا ہو۔

مسئلہ4۔ کسی بھلے چنگے آدمی نے کہا جب تو گھر سے باہر نکلے تو تجھ کو طلاق بائن ہے۔ پھر جس وقت وہ گھر سے باہر نکلی اس وقت وہ بیمار تھا اور اسی بیماری میں عدت کے اندر مر گیا تب بھی حصہ نہ پائے گی۔

مسئلہ5۔ تندرستی کے زمانہ میں کہا جب تیرا باپ پردیس سے آئے تو تجھ کو بائن طلاق۔ جب وہ پردیس سے آیا اس وقت مرد بیمار تھا اور اسی بیماری میں مر گیا تو حصہ نہ پائے گی۔ اور اگر بیماری کی حالت میں یہ کہا ہو اور اسی میں عدت کے اندر مر گیا ہو تو حصہ پائے گی۔

طلاق رجعی میں رجعت کر لینے یعنی روک رکھنے کا بیان

مسئلہ1۔ جب کسی نے رجعی ایک طلاق یا دو طلاقیں دیں تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مرد کو اختیار ہے کہ اس کو روک رکھے پھر سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور عورت چاہے راضی ہو یا راضی نہ ہو اس کو کچھ اختیار نہیں ہے اور اگر تین طلاقیں دیں دے تو اس کا حکم اوپر بیان ہو چکا اس میں یہ اختیار نہیں ہے۔

مسئلہ2۔ رجعت کرنے یعنی روک رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ یا یہ صاف صاف زبان سے کہہ دے کہ میں تجھ کو پھر رکھے لیتا ہوں تجھ کو نہ چھوڑوں گا۔ یا یوں کہہ دے کہ میں اپنے نکاح میں تجھ کو رجوع کرتا ہوں یا عورت سے نہیں کہا کسی اور سے کہا کہ میں نے اپنی بی بی کو پھر رکھ لیا اور طلاق سے باز آیا۔بس اتنا کہہ دینے سے وہ پھر اس کی بی بی ہو گئی۔

مسئلہ3۔ جب عورت کا روک رکھنا منظور ہو تو بہتر ہے کہ دو چار لوگوں کو گواہ بنا لے کہ شاید کبھی کچھ جھگڑا پڑے تو کوئی مکر نہ سکے۔ اگر کسی کو گواہ نہ بنایا تنہائی میں ایسا کر لیا تب بھی صحیح ہے۔ مطلب تو حاصل ہی ہو گیا۔

مسئلہ4۔ اگر عورت کی عدت گزر چکی تب ایسا کرنا چاہا تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب اگر عورت منظور کرے اور راضی ہو تو پھر سے نکاح کرنا پڑے گا بے نکاح کیے نہیں رکھ سکتا۔ اگر وہ رکھے بھی تو عورت کو اس کے پاس رہنا درست نہیں۔

مسئلہ8۔ جس عورت کو ایک یا دو طلاق رجعی ملی ہوں جس میں مرد کو طلاق سے باز آنے کا اختیار ہوتا ہے ایسی عورت کو مناسب ہے کہ خوب بناؤ سنگار کر کے رہا کرے کہ شاید مرد کا جی اس کی طرف جھک پڑے اور رجعت کرلے۔ اور مرد کا قصد اگر باز آنے کا نہ ہو تو اس کو مناسب ہے کہ جب گھر میں آئے تو کھانس کھنگار کے آئے کہ وہ اپنا بدن اگر کچھ کھلا ہو تو ڈھک لے اور کسی بے موقع جگہ نگاہ نہ پڑے۔ اور جب عدت پوری ہو چکے تو عورت کہیں اور جا کے رہے۔

مسئلہ9۔ اگر ابھی رجعت نہ کی ہو تو اس عورت کو اپنے ساتھ سفر میں لے جانا جائز نہیں اور عورت کو اس کے ساتھ جانا بھی درست نہیں۔

مسئلہ10۔ جس عورت کو ایک یا دو طلاق بائن دے دیں جس میں روک رکھنے کا اختیار نہیں ہوتا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی اور مرد سے نکاح کرنا چاہیے تو عدت کے بعد نکاح کرے۔ عدت کے اندر نکاح درست نہیں۔ اور خود اسی سے نکاح کرنا منظور ہو تو عدت کے اندر بھی ہو سکتا ہے۔

خلع کا بیان

مسئلہ1۔ اگر میاں بی بی میں کسی طرح نباہ نہ ہو سکے اور مرد طلاق بھی نہ دیتا ہو تو عورت کو جائز ہے کہ کچھ مال دے کر یا اپنا مہر دے کر اپنے مرد سے کہے کہ اتنا روپیہ لے کر میری جان چھوڑ دے۔ یا یوں کہے جو میرا مہر تیرے ذمہ ہے اس کے عوض میں میری جان چھوڑ دے۔ اس کے جواب میں مرد کہے میں نے چھوڑ دی تو اس سے عورت پر ایک طلاق بائن پڑ گئی۔ روک رکھنے کا اختیار مرد کو نہیں ہے البتہ اگر مرد نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے جواب نہیں دیا بلکہ اٹھ کھڑا ہوا یا مرد تو نہیں اٹھا عورت اٹھ کھڑی ہوئی تب مرد نے کہا اچھا میں نے چھوڑ دی تو اس سے کچھ نہیں ہوا۔ جواب سوال دونوں ایک ہی جگہ ہونے چاہیں۔ اس طرح جان چھڑانے کو شرع میں خلع کہتے ہیں۔

مسئلہ2۔ مرد نے کہا میں نے تجھ سے خلع کیا۔ عورت نے کہا میں نے قبول کیا تو خلع ہو گیا۔ البتہ اگر عورت نے اسی جگہ جواب نہ دیا ہو وہاں سے کھڑی ہو گئی ہو یا عورت نے قبول ہی نہیں کیا تو کچھ نہیں ہوا۔ لیکن عورت اگر اپنی جگہ بیٹھی رہی اور مرد یہ کہہ کر کھڑا ہوا اور عورت نے اس کے اٹھنے کے بعد قبول کیا تب بھی خلع ہو گیا۔

مسئلہ3۔ مرد نے فقط اتنا کہا میں نے تجھ سے خلع کیا اور عورت نے قبول کر لیا روپے پیسے کا ذکر نہ مرد نے کیا نہ عورت نے تب بھی جو حق مرد کا عورت پر ہے اور جو حق عورت کا مرد پر ہے سب معاف ہوا۔ اگر مرد کے ذمے مہرباقی ہو تو وہ بھی معاف ہو گیا۔ اور اگر عورت پا چکی ہے تو خیر اب اس کا پھیرنا واجب نہیں البتہ عدت کے ختم ہونے تک روٹی کپڑا اور رہنے کا گھر دینا پڑے گا۔ ہاں اگر عورت نے کہہ دیا ہو کہ عدت کا روٹی کپڑا اور رہنے کا گھر بھی تجھ سے نہ لوں گی تو وہ بھی معاف ہو گا۔

مسئلہ4۔ اور اگر اس کے ساتھ مال کا بھی ذکر کر دیا جیسے یوں کہا سو روپے کے عوض میں نے تجھ سے خلع کیا پھر عورت نے قبول کر لیا تو خلع ہو گیا اب عورت کے ذمے سو روپے دینے واجب ہو گئے۔ اپنا مہر پا چکی ہو تب بھی سو روپے دینے پڑیں گے اور اگر مہر ابھی نہ پایا ہو تب بھی دینے پڑیں گے اور مہر بھی نہ ملے گا کیونکہ وہ بوجہ خلع معاف ہو گیا۔

مسئلہ5۔ خلع میں اگر مرد کے ذمے مہر باقی ہو تو وہ بھی معاف نہیں ہوا۔

مسئلہ7۔ یہ سب باتیں اس وقت ہیں جب خلع کا لفظ کہا ہو یا یوں کہا ہو سو روپے پر یا ہزار روپے کے عوض میں میری جان چھوڑ دے یا یوں کہا میرے مہر کے عوض میں مجھ کو چھوڑ دے اور اگر اس طرح نہیں کہا بلکہ طلاق کا لفظ کہا جیسے یوں کہے سو روپے کے عوض میں مجھے طلاق دے دے تو اس کو خلع نہ کہیں گے اگر مرد نے اس مال کے عوض طلاق دے دی تو ایک طلاق بائن پڑ گئی اور اس میں کوئی حق معاف نہیں ہوا نہ وہ حق معاف ہوئے جو مرد کے اوپر ہیں نہ وہ جو عورت پر ہی مرد نے اگر مہر نہ دیا ہو تو وہ بھی معاف نہیں ہوا۔ عورت اس کی دعویدار ہو سکتی ہے اور مرد یہ سو روپے عورت سے لے لے گا۔

مسئلہ8۔ مرد نے کہا میں نے سو روپے کے عوض میں طلاق دی تو عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے۔ اگر نہ قبول کرے تو نہ پڑے گی اور اگر قبول کر لے تو ایک طلاق بائن پڑ گئی۔ لیکن اگر جگہ بدل جانے کے بعد قبول کیا تو طلاق نہیں پڑی۔

مسئلہ9۔ عورت نے کہا مجھے طلاق دے دے مرد نے کہا تو اپنا مہر وغیرہ اپنے سب حق معاف کر دے تو طلاق دے دوں۔ اس پر عورت نے کہا اچھا میں نے معاف کیا اس کے بعد مرد نے طلاق نہیں دی تو کچھ معاف نہیں ہوا۔ اور اگر اسی مجلس میں طلاق دے دی تو معاف ہو گیا۔

مسئلہ10۔ عورت نے کہا تین سو روپے کے عوض میں مجھ کو تین طلاقیں دے دے۔ اس پر مرد نے ایک ہی طلاق دی تو فقط ایک سو روپے مرد کو ملے گا۔ اور اگر دو طلاقیں دی ہوں تو دو سو روپے اور اگر تینوں دے دیں تو پورے تین سو روپے عورت سے دلائے جائیں گے اور سب صورتوں میں طلاق بائن پڑ گئی۔ کیونکہ مال کا بدلہ ہے۔

مسئلہ11۔ نابالغ لڑکا اور دیوانہ پاگل آدمی اپنی بی بی سے خلع نہیں کرسکتا۔

میاں کے لاپتہ ہو جانے کا بیان

جس کا شوہر بالکل لاپتہ ہو گیا معلوم نہیں مر گیا یا زندہ ہے تو وہ عورت اپنا دوسرا نکاح نہیں کر سکتی بلکہ انتظار کرتی ہے کہ شاید آ جائے۔ جب انتظار کرتے کرتے اتنی مدت گزر جائے کہ شوہر کی عمر نوے برس کی ہو جائے تو اب حکم لگا دیں گے کہ وہ مر گیا ہو گا۔ سو اگر وہ عورت ابھی جوان ہو اور نکاح کرنا چاہے تو شوہر کی عمر نوے برس کی ہونے کے بعد عدت پوری کر کے نکاح کر سکتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس لاپتہ مرد کے مرنے کا حکم کسی شرعی حاکم نے لگایا ہو۔

سوگ کرنے کا بیان

مسئلہ1۔ جس عورت کو طلاق رجعی ملی ہے اس کے عدت تو فقط یہی ہے کہ اتنی مدت تک گھر سے باہر نہ نکلے نہ کسی اور مرد سے نکاح کرے۔ اس کو بناؤ سنگار وغیرہ درست ہے اور جس کو تین طلاقیں مل گئیں یا ایک طلاق بائن ملی یا اور کسی طرح سے نکاح ٹوٹ گیا یا مرد مر گیا۔ ان سب صورتوں کا حکم یہ ہے کہ جب تک عدت میں رہے تب تک نہ تو گھر سے باہر نکلے نہ اپنا دوسرا نکاح کرے نہ کچھ بناؤ سنگار کرے یہ سب باتیں اس پر حرام ہیں۔ اس سنگار نہ کرنے اور میلے کچیلے رہنے کو سوگ کہتے ہیں۔

مسئلہ2۔ جب تک عدت ختم نہ ہو تب تک خوشبو لگانا کپڑے بسانا زیور گہنا پہننا پھول پہننا سرمہ لگانا پان کھا کر منہ لال کرنا مسی ملنا سر میں تیل ڈالنا کنگھی کرنا مہندی لگانا اچھے کپڑے پہننا ریشمی اور رنگے ہوئے بہار دار کپڑے پہننا یہ سب باتیں حرام ہیں۔ البتہ اگر بہار دار نہ ہوں تو درست ہے چاہے جیسا رنگ ہو مطلب یہ ہے کہ زینت کا کپڑا نہ ہو۔

مسئلہ3۔ سر میں درد ہونے کی وجہ سے تیل ڈالنے کی ضرورت پڑے تو جس میں خوشبو نہ ہو وہ تیل ڈالنا درست ہے۔ اسی طرح دوا کے لیے سرمہ لگانا بھی ضرورت کے وقت درست ہے لیکن رات کو لگائے اور دن کو پونچھ ڈالے۔ اور سر ملنا اور نہانا بھی درست ہے۔ ضرورت کے وقت کنگھی کرنا بھی درست ہے جیسے کسی نے سر ملایا جوں پڑ گئی۔ لیکن پٹی نہ جھکائے نہ باریک کنگھی سے کنگھی کرے جس میں بال چکنے ہو جاتے ہیں بلکہ موٹے دندانے والی کنگھی کرے کہ خوبصورتی نہ آنے پائے۔

مسئلہ4۔ سوگ کرنا اسی عورت پر واجب ہے جو بالغ ہو۔ نابالغ لڑکی پر واجب نہیں۔ اس کو یہ سب باتیں درست ہیں۔ البتہ گھر سے نکلنا اور دوسرا نکاح کرنا اس کو بھی درست نہیں۔

مسئلہ5۔ جس کا نکاح صحیح نہیں ہوا تھا بے قاعدہ ہو گیا تھا وہ توڑ دیا گیا یا مرد مر گیا تو ایسی عورت پر بھی سوگ کرنا واجب نہیں

مسئلہ6۔ شوہر کے علاوہ کسی اور کے مرنے پر سوگ کرنا درست نہیں۔ البتہ اگر شوہر منع نہ کرے تو اپنے عزیز اور رشتہ دار کے مرنے پر بھ تین دن تک بناؤ سنگار چھوڑ دینا درست ہے۔ اس سے زیادہ بالکل حرام ہے اور اگر منع کرے تو تین دن بھی نہ چھوڑے۔

روٹی کپڑے کا بیان

مسئلہ1۔ بی بی کا روٹی کپڑا مرد کے ذمہ واجب ہے کہ بی بی کے رہنے کے لیے کوئی اییا جگہ دے جس میں شوہر کا کوئی رشتہ دار نہ رہتا ہو بلکہ خالی ہو تاکہ میاں بی بی بالکل بے تکلفی سے رہ سکیں البتہ اگر عورت خود سب کے ساتھ رہنا گوارا کر لے تو ساجھے کے گھر میں بھی رکھنا درست ہے۔

مسئلہ2۔ گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کر دے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے کسی اور کو اس میں دخل نہ ہو۔ فقط عورت اسی کے قبضے میں رہے تو بس حق ادا ہو گیا۔ عورت کو اس سے زیادہ کا دعوی نہیں ہو سکتا اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کر دو۔

مسئلہ3۔ جس طرح عورت کو اختیار ہے کہ اپنے لیے کوئی الگ گھر مانگے جس میں مرد کا کوئی رشتہ دار نہ رہنے پائے فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے۔ اسی طرح مرد کو اختیار ہے کہ جس گھر میں عورت رہتی ہے وہاں اس کے رشتہ داروں کو نہ آنے دے نہ ماں کو نہ باپ کو نہ بھائی کو نہ کسی اور رشتہ دار کو۔

مسئلہ4۔ عورت اپنے ماں باپ کو دیکھنے کے لیے ہفتہ میں ایک دفعہ جا سکتی ہے۔ اور ماں باپ کے سوا اور رشتہ داروں کے لیے سال بھر میں ایک دفعہ اس سے زیادہ کا اختیار نہیں۔ اسی طرح اس کے ماں باپ بھی ہفتہ میں فقط ایک مرتبہ یہاں آ سکتے ہیں۔ مرد کو اختیار ہے کہ اس سے زیادہ جلدی جلدی نہ آنے دے۔ اور ماں باپ کے سوا اور رشتہ دار سال بھر میں فقط ایک دفعہ آ سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ آ نے کا اختیار نہیں۔ لیکن مرد کو اختیار ہے کہ زیادہ دیر نہ ٹھیرنے دے نہ ماں باپ کو نہ کسی اور کو اور جاننا چاہیے کہ رشتہ داروں سے مطلب وہ رشتہ دار ہیں جن سے نکاح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ اور جو ایسے نہ ہوں وہ شرع میں غیر کے برابر ہیں۔

مسئلہ5۔ اگر باپ بہت بیمار ہے اور اس کا کوئی خبر لینے والا نہیں تو ضرورت کے موافق وہاں روز جایا کرے اگر باپ بے دین کافر ہو تب بھی یہی حکم ہے بلکہ اگر شوہر منع بھی کرے تب بھی جانا چاہیے۔ لیکن شوہر کے منع کرنے پر جانے سے روٹی کپڑے کا حق نہ رہے گا۔

مسئلہ6۔ غیر لوگوں کے گھر نہ جانا چاہیے۔ اگر بیاہ شادی وغیرہ کی کوئی محفل ہو اور شوہر اجازت بھی دے تو بھی جانا درست نہیں۔ شوہر اجازت دے گا تو وہ بھی گنہگار ہو گا۔ بلکہ محفل کے زمانہ میں اپنے محرم رشتہ دار کے یہاں جانا بھی درست نہیں۔

مسئلہ7۔ جس عورت کو طلاق مل گئی وہ بھی عدت تک روٹی کپڑا اور رہنے کا گھر پانے کی مستحق ہے البتہ جس کا خاوند مر گیا اس کو روٹی کپڑا اور گھر ملنے کا حق نہیں۔ ہاں اس کو میراث سب چیزوں میں ملے گی۔

لڑکے کے حلالی ہونے کا بیان

مسئلہ1۔ جب کسی شوہر والی عورت کے اولاد ہو گی تو وہ اسی کے شوہر کی کہلائے گی کسی شبہ پر یہ کہنا کہ یہ لڑکا اس کے میاں کا نہیں ہے بلکہ فلانے کا ہے درست نہیں اور اس لڑکے کو حرامی کہنا بھی درست نہیں۔ اگر اسلام کی حکومت ہو تو ایسا کہنے والے کو کوڑے مارے جائیں۔

مسئلہ2۔ حمل کی مدت کم سے کم چھ مہینے ہیں اور زیادہ سے زیادہ دو برس یعنی کم سے کم چھ مہینے بچہ پیٹ میں رہتا ہے پھر پیدا ہوتا ہے۔ چھ مہینے سے پہلے نہیں پیدا ہوتا۔ اور زیادہ سے زیادہ دو برس پیٹ میں رہ سکتا ہے اس سے زیادہ پیٹ میں نہیں رہ سکتا۔

مسئلہ3۔ شریعت کا قاعدہ ہے کہ جب تک ہو سکے تب تک بچہ کو حرامی نہ کہیں گے جب بالکل مجبوری ہو جائے تب حرامی ہونے کا حکم لگائیں گے اور عورت کو گنہگار ٹھیرائیں گے۔

مسئلہ4۔ کسی نے اپنی بی بی کو طلاق رجعی دے دی۔ پھر دو برس سے کم میں اس کے کوئی بچہ پیدا ہوا تو لڑکا اسی شوہر کا ہے اس کو حرامی کہنا درست نہیں۔ شریعت سے اس کا نسب ٹھیک ہے۔ اگر دو برس سے ایک دن بھی کم ہو تب بھی یہی حکم ہے ایسا سمجھیں گے کہ طلاق سے پہلے کا پیٹ ہے اور دو برس تک بچہ پیٹ میں رہا اور اب بچہ ہونے کے بعد اس کی عدت ختم ہوئی اور نکاح سے الگ ہوئی۔ ہاں اگر وہ عورت اس جننے سے پہلے خود ہی اقرار کر چکی ہو کہ میری عدت ختم ہو گئی تو مجبوری ہے اب یہ بچہ حرامی ہے بلکہ ایسی عورت کے اگر دو برس کے بعد بچہ ہوا اور ابھی تک عورت نے اپنی عدت ختم ہونے کا اقرار نہیں کیا ہے تب بھی وہ بچہ اسی شوہر ہی کا ہے چاہے جس برس میں ہوا ہو۔ اور ایسا سمجھیں گے کہ طلاق دے دینے کے بعد عدت میں صحبت کی تھی اور طلاق سے باز آ گیا تھا اس لیے وہ عورت اب بچہ پیدا ہونے کے بعد اسی کی بی بی ہے اور نکاح دونوں کا نہیں ٹوٹا۔ اگر مرد کا بچہ نہ ہو تو وہ کہہ دے کہ میرا نہیں ہے اور جب انکار کرے گا تو لعان کا حکم ہو گا۔

مسئلہ5۔ اگر طلاق بائن دے دی تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر دو برس کے اندر اندر پیدا ہوا تب تو اسی مرد کا ہو گا اور اگر دو برس کے بعد ہو تو وہ حرامی ہے۔ ہاں اگر دو برس کے بعد پیدا ہونے پر بھی مرد دعوی کرے کہ یہ بچہ میرا ہے تو حرامی نہ ہو گا اور ایسا سمجھیں گے کہ عدت کے اندر دھوکے سے صحبت کر لی ہو گی اس سے پیٹ رہ گیا۔

مسئلہ6۔ اگر نابالغ لڑکی کو طلاق مل گئی جو ابھی جوان تو نہیں ہوئی لیکن جوانی کے قریب قریب ہو گئی ہے پھر طلاق کے بعد پورے نو مہینے میں بچہ پیدا ہوا تو وہ حرامی ہے اور اگر نو مہینے سے کم میں پیدا ہوا تو شوہر کا ہے۔ البتہ وہ لڑکی عدت کے اندر ہی یعنی تین مہینے سے پہلے اقرار کر لے کہ مجھ کو پیٹ ہے تو وہ بچہ حرامی نہ ہو گا۔ دو برس کے اندر اندر پیدا ہونے سے باپ کا کہلائے گا۔

مسئلہ7۔ کسی کا شوہر مر گیا تو مرنے کے وقت اسے اگر دو برس کے اندر بچہ پیدا ہوا تو وہ حرامی نہیں بلکہ شوہر کا بچہ ہے ہاں اگر وہ عورت اپنی عدت ختم ہو جانے کا اقرار کر چکی ہو تو مجبوری ہے۔ اب حرامی کہا جائے گا۔ اور اگر دو برس کے بعد پیدا ہوا تب بھی حرامی ہے۔

تنبیہ ان مسئلوں سے معلوم ہوا کہ جاہل لوگوں کی جو عادت ہے کہ کسی کے مرے پیچھے نو مہینہ سے ایک دو مہینہ بھی زیادہ گزر کر بچہ پیدا ہو تو اس عورت کو بدکار سمجھتے ہیں یہ بڑا گناہ ہے۔

مسئلہ8۔ نکاح کے بعد چھ مہینے سے کم میں بچہ پیدا ہوا تو وہ حرامی ہے اور اگر پورے چھ مہینے یا اس سے زیادہ مدت میں ہوا ہو تو وہ شوہر کا ہے اس پر بھی شبہ کرنا گناہ ہے۔ البتہ اگر شوہر انکار کرے اور کہے کہ میرا نہیں ہے تو لعان کا حکم ہو گا۔

مسئلہ9۔ نکاح تو ہو گیا لیکن ابھی (رواج کے موافق) رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ بچہ پیدا ہو گیا (اور شوہر انکار نہیں کرتا کہ میرا بچہ نہیں ہے) تو وہ بچہ شوہر ہی سے (کہا جائے گا) حرامی نہیں ( کہا جائے گا) اور( دوسروں کو) اس کا حرامی کہنا درست نہیں۔ اگر شوہر کا نہ ہو تو وہ انکار کرے اور انکار کرنے پر لعان کاحکم ہو گا۔

مسئلہ10۔ میاں پردیس میں ہے اور مدت ہو گئی برسیں گزر گئیں کہ گھر نہیں آ یا (اور یہاں لڑکا پیدا ہو گیا اور شوہر اس کو اپنا ہی بتاتا ہے) تب بھی وہ (از روئے قانون شرعی) حرامی نہیں اسی شوہر کا ہے۔ البتہ اگر شوہر پا کر انکار کرے گا تو لعان کا حکم ہو گا۔

رہنے کے لیے گھر ملنے کا بیان

مسئلہ8۔ اگر نکاح عورت ہی کی وجہ سے ٹوٹا جیسے سوتیلے لڑکے سے پھنس گئی یا جوانی کی خواہش سے فقط ہاتھ لگایا کچھ اور نہیں ہوا اس لیے مرد نے طلاق دے دی یا وہ بد دین کافر ہو گئی اسلام سے پھر گئی اس لیے نکاح ٹوٹ گیا تو ان سب صورتوں میں عدت کے اندر اس کو روٹی کپڑا نہ ملے گا البتہ رہنے کا گھر ملے گا ہاں اگر وہ خود ہی چلی جائے تو اور بات ہے پھر نہ دیا جائے گا۔

نکاح کی فضیلت اور اس کے حقوق کا بیان

حدیث میں ہے کہ دنیا صرف ایک استعمال کی چیز ہے اور دنیا کی استعمالی چیزوں میں سے کوئی چیز نیک عورت سے افضل نہیں یعنی دنیا میں اگر نیک عورت میسر جائے تو بہت بڑی غنیمت اور حق تعالی کی رحمت ہے کہ خاوند کی راحت اور اس کی فلاح دارین کا سبب ہے دنیا میں بھی ایسی عورت سے راحت میسر ہوتی ہے اور آخرت کے کاموں میں بھی مدد ملتی ہے حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح میرا طریقہ اور میری سنت موکدہ ہے سو جو نہ عمل کرے میری سنت موکدہ پر تو وہ مجھ سے نہیں ہے یعنی مجھ سے اور اس سے کوئی علاقہ نہیں۔ یہ زجر اور ڈانٹ ہے ایسے شخص کو جو سنت پر عمل نہ کرے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کا بیان ہے ایسے شخص پر سو اس سے بہت کچھ پرہیز لازم ہے اور مسلمان کو کیسے چین پڑسکتا ہے کہ ذرا دیر بھی جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ناراض رہیں اللہ اس دن سے پہلے موت دے دیں جس روز مسلمان کو اللہ و رسول کی ناراضی گوارا ہو اور حدیث میں ہے نکاح کرو اس لیے کہ میں فخر کروں گا قیامت میں تمہارے ذریعہ سے اور امتوں پر یعنی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت پسند ہے کہ آپ کی امت کثرت سے ہو اور دوسری امتوں سے زیادہ ہو تاکہ ان کی کثرت اعمال کی وجہ سے آپ کو بھی ثواب اور قرب الٰہی زیادہ میسر ہو۔ اس لیے کہ جو کوئی آپ کی امت میں جو کچھ بھی عمل کرتا ہے وہ آپ ہی کی تعلیم کے سبب کرتا ہے۔ پس جس قدر زیادہ عمل کرنے والے ہوں گے اسی قدر آپ کو ان کی تعلیم کرنے کا ثواب زیادہ ہو گا۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ جہاں تک بھی اور جس طرح بھی ہو سکے قرب الٰہی کے وسیلے اور اعمال کثرت سے اختیار کرے اور اس میں کوتاہی نہ کرے۔

اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن کل صفیں ایک سو بیس ہوں گی جن میں چالیس صفیں اور امتوں کے لوگوں کی ہوں گی اور اسی صفیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی ہوں گی۔ سبحان اللہ کیا دلداری منظور ہے حق تعالی کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور جو شخص صاحب وسعت ہو یعنی روزہ رکھے اس سے شہوت میں کمی ہو جائے گی پس بے شک روزہ اس کے لیے مثل رگ شہوت مل دینے کے ہے اگر عورت کی خواہش مرد کو بہت زیادہ نہ ہو بلکہ معتدل اور درمیانی درہ کی ہو اور عورت کے ضروری خرچ اٹھانے پر قادر ہو تو ایسے شخص کے لیے نکاح سنت موکدہ ہے۔ اور جس کو اعلی درجہ کا تقاضا ہو یعنی بہت خواہش ہو تو ایسے شخص کے لیے نکاح واجب اور ضروری ہے اس لیے کہ اندیشہ ہے خوانخواستہ زنا میں مبتلاہو گیا تو حرام کاری کا گناہ ہو گا۔ اور اگر باوجود سخت تقاضائے شہوت کے اس قدر طاقت نہیں کہ عورت کے ضروری حقوق ادا کر سکے گا تو یہ شخص کثرت سے روزے رکھے پھر جب اتنی گنجائش ہو جائے کہ عورت کے حقوق ادا کرنے پر قادر ہو تو نکاح کر لے حدیث میں ہے کہ اولاد جنت کا پھول ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت کے پھولوں سے جیسی مسرت اور فرحت حاصل ہو گی ویسی ہی راحت اور مسرت اولاد کو دیکھ کر حاصل ہتی ہے اور اولاد نکاح کے ذریعہ سے میسر تی ہے حدیث میں ہے کہ تحقیق آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جاتا ہے سو وہ کہتا ہے کہاں سے ہے میرے لیے یہ یعنی وہ کہتا ہے کہ یہ رتبہ مجھے کیسا ملا میں نے تو ایسا عمل کوئی نہیں کیا جس کا یہ ثواب ہو پس کہا جاتا ہے اس آدمی سے یہ بسبب مغفرت طلب کرنے تیری اولاد کے ہے تیرے لیے یعنی تیری اولاد نے ہم سے تیرے لیے استغفار کی اس کی بدولت یہ درجہ تجھ کو عنایت ہوا حدیث 5۔

میں ہے تحقیق وہ بچہ جو حمل سے گر جاتا ہے یعنی بغیر دن پورے ہوئے پیدا ہو جاتا ہے اپنے پروردگار سے جھگڑے گا جبکہ اس کے ماں باپ جہنم میں داخل ہوں گے یعنی حق تعالی سے مبالغہ کے ساتھ سفارش کرے گا کہ میرے والدین کو دوزخ سے نکال دو اور حق تعالی اپنی عنایت کی وجہ سے اس کے اس جھگڑنے کو قبول فرمائیں گے اور اس کی ناز برداری کریں گے پس کہا جائے گا اے سقط جھگڑا کرنے والے اپنے رب سے داخل کر دے اپنے والدین کو جنت میں۔ پس کھینچ لے گا بچہ ان دونوں کو اپنے نار سے یہاں تک کہ داخل کرے گا ان دونوں کو جنت میں معلوم ہوا کہ آخرت میں ایسی اولاد بھی کام آئے گی جو نکاح کا نتیجہ ہے

حدیث  میں ہے کہ بے شک جس وقت دیکھتا ہے مرد اپنی عورت کی طرف اور عورت دیکھتی ہے مرد کی طرف تو دیکھتا ہے اللہ تعالی دونوں کی طرف رحمت کی نظر سے۔ رواہ میسرۃ بن علی فے مشیختہ والرافعی فی تاریخہ عن ابن سعید مرفوعہ بلفظ ان الرجل اذا نظرالی امراتہ ونظرت الیہ نظر اللہ تعالی الیہما نظرۃ رحمۃ الخ حدیث  میں ہے کہ حق تعالی پر حق ہے یعنی حق تعالی نے اپنی رحمت سے اپنے ذمہ یہ بات مقرر فرمائی ہے مدد کرنی اس شخص کی جو نکاح کرے پاکدامنی حاصل کرنے کو اس چیز سے جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ یعنی زنا سے محفوظ رہنے کے لیے جو شادی کرے اور نیت اطاعت حق کی ہو تو خرچ وغیرہ میں اللہ تعالی اس کی مدد فرمائیں گے حدیث  میں ہے کہ عیالدار شخص کی دو رکعتیں نماز کی بہتر ہیں مجرد شخص کی بیاسی رکعتوں سے اور دوسری حدیث میں بجائے بیاسی کے ستر کا عدد یا ہے سو مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ستر اس شخص کے حق میں ہے جو ضروری حق اہل و عیال کا ادا کرے اور بیاسی اس کے حق میں ہیں جو ضروری حقوق سے زیادہ ان کی خدمت کرے جان اور مال اور اچھی عادت سے والحدیث رواۃ تمامر فی فوائدہ والضیائ عن انس مرفوعابلفظ رکعتان من المتاہل خیر من اثنین و تمانین رکعۃ من العرب وسندہ صحیح حدیث میں ہے بے شک بہت بڑا گناہ خدا کے نزدیک ضائع کرنا اور ان کی ضروری خدمت میں کمی کرنا ہے مرد کا ان لوگوں کو جن کا خرچ اس کے ذمہ ہے۔ رواہ الطبرانی عن ابن عمرو مرفوعا بلفظ ان اکبر الاثم عنداللہ ان یضیح الرجل من یقوت کذافی کنزالعمال حدیث  میں ہے کہ میں نے نہیں چھوڑا اپنے بعد کوئی فتنہ جو زیادہ ضرر دینے والا ہو مردوں کو عورتوں کے فتنہ سے یعنی مردوں کے حق میں عورت کے فتنہ سے بڑھ کر کوئی فتنہ ضرر دینے والا نہیں کہ ان کی محبت میں بے حس ہو جاتے ہیں اور خدا اور رسول کے حکم کی پرواہ نہیں کرتے۔

لہذا چاہیے کہ ایسی محبت عورتوں سے کرے کہ جس میں شریعت کے خلاف کام کرنے پڑیں مثلاً وہ مرد کی حیثیت سے زیادہ کھانے پہننے کو مانگیں تو ہرگز ان کی خاطر کرنے کو رشوت وغیرہ نہ لے بلکہ مال حلال سے جو اللہ تعالی دے ان کی خدمت کر دے۔ اور عورتوں کو تعلیم و تادیب کرتا رہے اور بیباک و گستاخ نہ کر دے۔ عورتوں کی عقل ناقص ہوتی ہے ان کی اصلاح کا خاص طور پر انتظام لازم ہے۔ حدیث  میں ہے کہ پیغام نکاح کا کوئی تم میں سے نہ دے اپنے بھائی کے پیغام پر یہاں تک کہ وہ بھائی نکاح کر لے یا چھوڑ دے یعنی جب ایک شخص نے کہیں پیغام نکاح کا دیا ہو اور ان لوگوں کی کچھ مرضی بھی پائی جاتی ہو کہ وہ اس شخص سے نکاح کرنے کو کچھ راضی ہیں تو دوسرے شخص کو اس جگہ ہرگز پیغام نہ دینا چاہیے۔ ہاں اگر وہ لوگ خود اس پہلے شخص کو انکار کر دیں یا وہ خود ہی وہاں سے اپنا ارادہ منقطع کر دے یا ان لوگوں کی ابھی بالکل مرضی اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے کی نہیں پائی جاتی تو اب دوسرے کو اس لڑکی کا پیغام دینا درست ہے۔ اور یہی حکم خرید و فروخت کے بھاؤ کرنے کا ہے کہ جب ایک شخص کسی سے خریدنے یا فروخت کرنے کا بھاؤ کر را ہے تو دوسرے کو جب تک اس کا معاملہ علیحدہ نہ ہو جائے اس کے بھاؤ پر بھاؤ کرنا نہیں چاہیے جبکہ باہم خریدو فروخت کی کچھ مرضی معلوم ہوتی ہو خوب سمجھ لو اور اس حکم میں کافر بھی داخل ہے۔ یعنی اگر کوئی کافر کسی سے لین دین کا بھاؤ کر را ہے اور دوسرے شخص کے معاملہ کرنے کی اس کے ساتھ کچھ مرضی بھی معلوم ہوتی ہے تو مسلمان کو زیبا نہیں کہ اس کافر کے بھاؤ پر اپنا بھاؤ پیش کرے۔

حدیث میں ہے کہ تحقیق عورت نکاح کی جاتی ہے اپنے دین کی وجہ سے اور اپنے مال کی وجہ سے اور اپنے حسن کی وجہ سے سو تو لازم پکڑ لے صاحب ن کو تیرے ہاتھ خاک میں ملیں یعنی کوئی مرد تو عورت دیندار پسند کرتا ہے اور کوئی مالدار اور کوئی خوبصورت تو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بد شکل ہے کہ طبیعت کسی طرح اسے قبول نہیں کرتی اور اندیشہ ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کیا جائے تو باہم میاں بی بی میں موافقت نہ رہے گی اور عورت کے حق ادا کرنے میں کوتاہی ہو گی تو ایسے وقت ایسی عورت سے نکاح نہ کرے اور تیرے ہاتھ خاک مل جائیں یہ عربی محاورہ ہے اور مختلف موقعوں پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں پر اس سے دیندار عورت کی رغبت دلانا مراد ہے۔ حدیث   میں ہے بیبیوں میں بہتر وہ بی بی ہے جس کا مہر بہت آسان ہو یعنی مرد سہولت سے اس کو ادا کر سکے۔ آجکل زیادتی مہر کا دستور بہت ہو گیا ہے لوگوں کو اس رسم سے بچنا چاہیے۔ حدیث  میں ہے کہ اپنے نطفوں کے لیے عمدہ محل وجہ پسند کرو اس لیے کہ عورتیں بچے جنتی ہیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مانند یعنی نیک بخت اور شریف خاندان کی عورت سے نکاح کرو اس لیے کہ اولاد میں ننھیال کی مشابہت ہوتی ہے اور گو باپ کا بھی اثر ہوتا ہے مگر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا اثر زیادہ ہوتا ہے تو اگر ماں ایسے لوگوں میں سے ہو گی جو بد اخلاق ہیں اور دیندار اور شریف نہیں ہیں تو اولاد بھی ان ہی لوگوں کی مثل پیدا ہو گی ورنہ اولاد اچھی اور نیک بخت ہو گی۔ رواہ ابن عدی و ابن عساکر عن عائشۃ مرفوعا بلفظ تخیر والنطفکم فان النساء یلدن اشباہ اخوانہن واخواتہن حدیث میں ہے کہ سب سے بڑا حق لوگوں میں خاوند کا ہے عورت پر اور مرد پر سب سے بڑا حق لوگوں میں اس کی ماں کا ہے یعنی بعد اللہ و رسول کے حقوق کے عورت کے ذمہ خاوند کا بہت بڑا حق ہے حتی کہ اس کے ماں باپ سے بھی خاوند کا زیادہ حق ہے اور مرد کے ذمہ سب سے زیادہ حق بعد اللہ و رسول کے حق کے ماں کا حق ہے اس سے معلوم ہوا کہ مرد کے ذمہ ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے رواہ الحاکم عن عائشۃ مرفوعا بلفظ اعظم الناس حقا علی المراۃ زوجہا واعظم الناس حقا علی الرجل امہ وسندہ صحیح۔ حدیث 16۔ میں ہے اگر کوئی تم میں ارادہ کرے اپنی بیوی سے ہم بستری کا تو کہے بسم اللہ جنبا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنا تو اگر ان کی تقدیر میں کوئی بچہ مقدر ہو گا اس صحبت سے نہ ضرر دے گا اس کو شیطان کبھی۔ حدیث۔ ایک لانبی حدیث  میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے فرمایا اولم ولوبشاۃ یعنی ولیمہ کرو اگرچہ ایک ہی بکری ہو۔ مطلب یہ ہے گو تھوڑا ہی سامان ہو مگر دینا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ عورت سے ہمبستری کرنے کے بعد ولیمہ کیا جائے گو بہت علماء نے صرف نکاح کے بعد بھی جائز فرمایا ہے اور ولیمہ مستحب ہے۔

طلاق کی مذمت کا بیان

حدیث میں ہے البغض الحلال الی اللہ الطلاق راہ الحاکم وابوداودو ابن ماجہ عن ابن عمر مرفوعا وسندہ صحیح یعنی زیاہ مبغوض اور زیادہ بری چیز حلال چیزوں میں خدا کے نزدیک طلاق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق حاجت کے وقت جائز رکھی گئی ہے اور حلال ہے مگر بلا حاجت بہت بری بات ہے اس کے لیے کہ نکاح تو باہم الفت و محبت اور زوج وزوجہ کی راحت کے واسطے ہوتا ہے اور طلاق سے یہ سب باتیں جاتی رہتی ہیں اور حق تعالی کی نعمت کی ناشکری ہوتی ہے ایک دوسرے کو کلفت ہوتی ہے باہم عداوت ہوتی ہے نیز اس کی وجہ سے بیوی کے اور اہل قرابت سے بھی عداوت پڑتی ہے۔ جہاں تک ہو سکے ہرگز ایسا قصد نہ کرنا چاہیے۔ میاں بیوی کو معاملات میں باہم ایک دوسرے کی برداست چاہیے اور خوب محبت سے رہنا چاہیے۔ جب کوئی صورت نباہ کی نہ ہو تو مضائقہ نہیں خوب سمجھ لو۔ حدیث میں ہے کہ نکاح کرو اور طلاق نہ دو یعنی بلا وجہ اس لیے کہ بے شک اللہ تعالی نہیں دوست رکھتا ہے بہت مزہ چکھنے والے مردوں اور بہت مزہ چکھنے والی عورتوں کو یعنی اللہ پاک کو یہ بات پسند نہیں کہ طلاق ہو بلا ضرورت اور میاں دوسرا نکاح کرے اور بی بی دوسرا نکاح کرے ہاں اگر کوئی ضرورت ہو تو کوئی مضائقہ نہیں حدیث میں ہے کہ نہ طلاق دی جائیں عورتیں مگر بدچلنی سے۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نہیں دوست رکھتا بہت مزہ چکھنے والے مردوں اور بہت مزہ چکھنے والی عورتوں کو اس سے معلوم ہوا کہ اگر اس کی پارسائی اور پاکدامنی کے باب میں کوئی خلل ہو جائے تو اس کی وجہ سے طلاق دے دینا درست ہے۔ اسی طرح اور بھی کوئی سبب ہو تو کچھ حرج نہیں حدیث میں ہے کہ نکاح کرو اور طلاق نہ دو اس لیے کہ طلاق دینے سے عرش ہلتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ شیطان اپنے تخت کو پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے لوگوں کے بہکانے کو پس زیادہ قریب ان لشکروں کے لوگوں میں از روئے رتبہ کے وہ شخص ہوتا ہے جو ان میں سب سے بڑا ہو از روئے فتنہ کے یعنی بڑا محبوب شیطان کو وہ شخص ہوتا ہے جو بہت بڑا فتنہ برپا کرتا ہے اس کے پاس ایک ان میں کا پھر کہتا ہے میں نے یہ کیا اور یہ کیا یعنی یہ فتنہ برپا کیا اور یہ فتنہ برپا کیا سو کہتا ہے شیطان تو نے کچھ نہیں کیا یعنی تو نے کوئی برا کام نہیں کیا اور کہتا ہے ایک ان میں کا پس کہتا ہے نہیں چھوڑا میں نے فلاں شخص کو یہاں تک کہ جدائی کر دی میں نے اس شوہر کے اور اس کی بیوی کے درمیان سو قریب کر لیتا ہے اس شخص کو اپنی ذات سے یعنی اپنے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بہت بڑا کام کیا یعنی شیطان کی بہت بڑی خوشی یہ ہے کہ میاں بی بی میں جدائی کر دی جائے۔ لہذا جہاں تک ہو سکے مسلمان شیطان کو خوش نہ کرے حدیث میں ہے کہ جو عورت خود طلاق طلب کرے بغیر سخت مجبوری کے تو جنت کی خوشبو اس پر حرام ہے۔ یعنی سخت گناہ ہو گا۔ گو بشرط اسلام پر خاتمہ ہونے کے اپنے اعمال کا بدلہ بھگت کر آخر میں جنت میں داخل ہو جائے گی حدیث  میں ہے کہ منتزعات اور مختلعات وہ منافعات ہیں (منتزعات وہ عورتیں جو اپنی ذات کو مرد کے قبضہ سے نکالیں شرارت کر کے یعنی ایسی حرکتیں کریں جس سے مرد ناراض ہو کر طلاق دے دے۔ اور مختلعات وہ عورتیں جو خاوندوں سے بلا مجبوری خلع طلب کریں۔ اور منافقات سے مراد یہ ہے کہ یہ خصلت منافقوں کی سی ہے کہ ظاہر کچھ باطن کچھ ظاہر تو نکاح ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے اور یہ اس میں جدائی طلب کرتی ہیں اس لیے گنہگار ہوں گی گو کافر نہ ہوں گی)۔

قران مجید پڑھنے کی فضیلت کا بیان

حدیث میں  ہے کہ جس وقت چاہے کوئی تم میں کا اپنے پروردگار سے گفتگو کرنا۔ سو چاہیے کہ قرآن پڑھے یعنی قرآن مجید کی تلاوت کرنا گویا حق تعالی سے بات چیت کرنا ہے زیادہ غنی لوگوں میں قرآن کے اٹھانے والے ہیں یعنی وہ لوگ کہ جن کے سینہ میں اللہ تعالی نے اس کو یعنی قرآن کو رکھا ہے مطلب یہ ہے کہ جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا اس سے بڑھ کر کوئی غنی نہیں۔ اس پر عمل کرنے کی برکت سے حق تعالی باطنی غنا مرحمت فرماتے ہیں اور ظاہری کشائش بھی میسر ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایات ہے کہ ایک مرد کثرت سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازے پر تا تھا دنیاوی حاجتوں کے لیے سو کہا حضرت عمر نے اس مرد سے کہ جا اور پڑھ خد اکی کتاب یعنی قرآن مجید سو چلا گیا وہ مرد پس نہ پایا اس کو حضرت عمر نے ۔ پھر آپ اس سے ملے اور آپ اس کے شاکی ہوئے یعنی اس وجہ سے کچھ شکایت فرمائی کہ تمہاری ہم کو تلاش تھی بلا اطلاع کہاں چلے گئے۔ جب کوئی کثرت سے آمد و رفت رکھتا ہو پھر دفعۃ نا چھوڑ دے تو انسان کو فکری ہو ہی جاتی ہے کہ نہ معلوم کہاں چلا گیا کس حال میں ہے سو اس نے جواب میں عرض کیا کہ میں نے اللہ کی کتاب میں وہ چیز پا لی جس نے مجھے عمر کے دروازے سے غنی اور بے پرواہکر دیا۔ یعنی قرآن مجید میں ایسی آیت مل گئی جس کی برکت سے میری نظر مخلوق سے ہٹ گئی اور خدا تعالی پر بھروسہ ہو گیا۔ تمہارے پاس دنیا کی حاجت کے لیے تا تھا اب کر کیا کروں۔ غالباً مراد اس سے اس قسم کے مضامین ہوں گے جو اس آیت میں مذکور ہیں وفی السماء رزقکم وما توعدون۔ یعنی تمہاری روزی آسمان ہی میں ہے اور جس چیز کا تم وعدہ کیے گئے ہو وہ بھی آسمان میں ہے یعنی تمہاری روزی وغیرہ سب کاموں کا بندوبست ہمارے ہی دربار سے ہوتا ہے پھر دوسری طرف متوجہ ہونے سے کیا نتیجہ۔ حدیث2،26۔

میں ہے کہ افضل عبادت قرآن کی قراۃ ہے یعنی بعد فرائض کے تمام نفل عبادت میں قرآن پڑھنا افضل ہے حدیث میں ہے کہ تعظیم کرو قرآن کے یاد رکھنے والوں کی جس نے ان کی تعظیم کی پس بے شک اس نے میری تعظیم کی اور آپ کی تعظیم کا واجب ہونا ظاہر ہے حدیث میں ہے تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جنھوں نے قرآن پڑھا اور قرآن پڑھایا۔ حدیث میں ہے جس نے قرآن پڑھایا اور عمل کیا اس چیز پر جو اس میں ہے یعنی اس کے احکام پر عمل کیا پہنائے جائیں گے اس والدین کو تاج قیامت کے دن جس کی روشنی زیادہ عمدہ ہو گی آیت کی روشنی سے دنیا کے مکانوں میں جبکہ وہ آیت تم میں ہو یعنی دنیا میں جبکہ تمہارے گھروں میں آیت روشن ہو جیسی اس کی روشنی ہوتی ہے اس سے بڑھ کر اس تاج کی روشنی ہو گی پس کیا گمان ہے تمہارا اس شخص کے ثواب کے بارے میں جس نے خود عمل کیا اس پر یعنی قرآن پر جس نے عمل کیا اس کا کیا کچھ بڑا درجہ ہو گا جبکہ اس کے طفیل سے اس کے والدین کو یہ رتبہ عنایت ہوا حدیث میں ہے جس نے قرآن پڑھا پھر خیال کیا اس نے کہ کوئی خدا کی مخلوق میں سے اس نعمت سے بڑھ کر نعمت دا گیا ہے جو جاننے والے کو تیزی کرنا اس شخص سے جو اس سے تیزی کرے اور نہ جہالت کرنا اس شخص سے جو اس سے جہالت کرے اور ایسا نہ کرے لیکن معاف کرے اور درگزر کرے بسبب عزت قرآن کے یعنی اہل علم اور قرآن کے جاننے والوں کو چاہیے کہ دنیا کی تمام نعمتوں سے قرآن کے علم کو اعلی اور افضل سمجھیں۔ اگر انہوں نے قرآن کو علم سے بڑھ کر کسی چیز کو سمجھا تو جس ویز کو خدا نے بڑا کیا تھا۔ اس کو حقیر کر دیا۔ اور حاکم جس چیز کو بڑا کرے اس کا حقیر کرنا کس قدر بڑا جرم ہے۔ اور اہل قرآن کو چاہیے کہ لوگوں سے جہالت اور بد اخلاقی سے پیش نہآئیں کہ قرآن کی عزت اور عظمت اسی بات کو چاہتی ہے اور اگر ان سے کوئی جہالت کرے تو اس کی جہالت کو معاف کریں۔ حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ قرآن زیادہ محبوب ہے اللہ تعالی کو سمانوں سے اور زمین سے اور ان لوگوں سے جو ان سمانوں اور زمین میں ہیں یعنی قرں مجید کا درجہ تمام مخلوق سے اعلی ہے اور قرآن مجید خدا تعالی کو سب سے زیادہ پیارا ہے رواہ ابو نعیم عن ابن عمر مرفوعا بلفظ القرآن احب الی اللہ من السموات والارض ومن فیہن

حدیث میں ہے جس نے سکھائی کسی اللہ کے بندے کو ایک آیت خدا کی کتاب کی۔ سو وہ یعنی سکھانے والا آقا ہو گیا اس پڑھنے والے کا نہیں لائق ہے اس طالب علم کو اس کی مدد نہ کرنا موقع پر اور نہ اس استاد پر کسی دوسرے کو ترجیح دینا جس کا رتبہ استاد سے بڑا نہ ہو پس اگر وہ یعنی طالب علم ایسا کرے تو اس نے توڑ دیا ایک حلقہ کو اسلام کے حلقوں میں سے یعنی ایسی حرکت کرنے سے اس نے اسلام میں بڑا فتنہ ڈالا اور بڑے عظیم الشان شریعت کے حکم کی تعمیل نہ کی جس کی بے برکتی اور سزا کا دارین میں سخت اندیشہ ہے حدیث میں ہے کہ تحقیق فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ہے میری امت سے وہ شخص جس نے نہ بزرگی کی ہمارے بڑے کی اور نہ رحم کیا ہمارے چھوٹے پر اور نہ پہچانا ہمارے عالم کا حق اور عالم کے اندر قرآن کے پڑھنے پڑھانے والے بھی گئے اور مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس کی یہ حالت ہو ہماری جماعت سے خارج ہے اور اس کا ایمان ضعیف ہے لہذا بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر رحم کرنا اور علماء کے حق پہچاننا اور ان کی تعظیم و خدمت کرنا ضرور چاہیے۔ رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر عن عبادۃ بن الصامت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لیس من امتی من لم یبجل کبیرنا ویرحم صغیرنا و یعرف لعالمنا حقہ واسنادہ حسن حدیث میں ہے جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تفسیر اور اس کے معنے سمجھے اور اس پر عمل نہ کیا تو دوزخ میں اپنا ٹھکانا بنایا یعنی قرآن پڑھ کر اس پر عمل نہ کرنا بہت بڑا سخت گناہ ہے مگر جاہل لوگ خوش نہ ہوں کہ ہم نے پڑھا ہی نہیں سو ہم اگر اس کے احکام پر عمل نہ کریں گے تو کچھ مضائقہ نہیں اس لیے کہ ایسے جاہل کو دو گناہ ہوں گے ایک علم حاصل نہ کرنے کا دوسرا عمل نہ کرنے کا حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ تحقیق فلاں شخص تمام رات قرآن پڑھتا ہے پھر جب صبح قریب ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔

آپ نے فرمایا عنقریب اس کو روک دے گا اس کا قرآن پڑھنا یعنی قرآن کی تلاوت کی برکت سے یہ حرکت چھوٹ جائے گی۔ رواہ سعید بن منصور عن جابر بلفظ قیل یا رسول اللہ ان فلانا یقرا باللیل کلہ فاذا اصبح سی ق قال سنتہاہ قرامتہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص قرآن شریف پڑھے اور اس کو حفظ کر لے اور اس کے حلال کو حلال سمجھے اور اس کے حرام کو حرام سمجھے داخل کرے گا اس کو اللہ تعالی جنت میں اور شفاعت قبول کرے گا اس کی دس آدمیوں کے حق میں اس کے خاندان والوں میں سے کہ ان میں سب کے سب ایسے ہوں گے کہ ان کے لیے دوزخ واجب ہو چکی ہو گی۔

حدیث میں ہے کہ جس نے سنا ایک حرف خدا کی کتاب سے با وضو لکھی جائیں گی اس کے لیے دس نیکیاں یعنی دس نیکیوں کا ثواب اور دور کر دیئے جائیں گے اس کے دن گناہ اور بلند کیے جائیں گے اس کے دس درجے اور جس نے پڑھا ایک حرف اللہ کی کتاب سے نماز میں بیٹھ کر یعنی جبکہ نماز بیٹھ کر پڑھے اور نماز نفل مراد ہے اس لیے کہ فرض نماز بغیر عذر بیٹھ کر جائز نہیں اور عذر کے ساتھ جائز ہے سو عذر کے ساتھ جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو کھڑے ہونے کے برابر ثواب ملتا ہے ہاں نفل نماز بھی اگر کسی عذر سے بیٹھ کر پڑھے تو کھڑے ہونے کی برابر ثواب ملتا ہے تو لکھی جائیں گی اس کے لیے پچاس نیکیاں یعنی اس قدر نیکیوں کا ثواب اور دور کر دیئے جائیں گے اس کے پچاس گناہ اور بلند کیے جائیں گے اس کے لیے پچاس درجے اور جس نے پڑھا اللہ کی کتاب میں سے ایک حرف کھڑے ہو کر لکھی جائیں گی اس کے لیے سو نیکیاں اور دور کیے جائیں گے اس کے سو گناہ اور بلند کیے جائیں گے اس کے سو درجے اور جس نے قرآن پڑھا اور اس کو ختم کیا لکھے گا اللہ تعالی اپنے پاس اس کے لیے ایک دعا جو فی الحال مقبول ہو جائے یا بعد چندے مقبول ہو۔ حدیث میں ہے جس نے قرآن پڑھا اور پروردگار کی حمد کی اور درود بھجا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور مغفرت مانگی اپنے پروردگار سے سو بے شک اس نے بھلائی کو مانگ لیا اس کے مقام سے مطلب یہ ہے کہ بھلائی کو اس کی جگہ سے طلب کر لیا۔ یعنی جو طریق دعا کے قبول ہونے کا تھا اس کو برتا جس سے دعا جلد قبول ہونے کی امید ہے۔ اور خدا کی تعریف میں خواہ الحمد للہ کہے یا کوئی اسی معنی کا کلمہ اور قرآن کی تلاوت کے بعد اس خاص طریقہ سے دعا مانگنا قبولیت میں خاص اثر رکھتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا

حدیث میں ہے کہ اپنی عورتوں کو سورہ واقعہ سکھلاؤ اس لیے کہ بے شک وہ سورۃ تونگری کی ہے یعنی اس کے پڑھنے سے تونگری میسر ہوتی ہے اور ضروری خرچ اچھی طرح میسر ہو جاتا ہے اور غنائے باطن بھی میسر ہوتا ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص سورہ واقعہ ہر شب کو پڑھے تو اس کو تنگی رزق کبھی نہ ہو گی اور عورتیں چونکہ ضعیف القلب ہوتی ہیں ذرا سی تنگی میں بہت پریشان ہو جاتی ہیں اس لیے ان کی خصوصیت فرمائی ورنہ اس کا پڑھنا غنا کے حاصل ہونے کے لیے سب کو مفید ہے خواہ مرد ہو یا عورت حدیث میں ہے کہ زیادہ اچھا لوگوں میں قرآن پڑھنے کے اعتبار سے وہ شخص ہے کہ جس وقت وہ قرآن پڑھے تو یہ سمجھے کہ وہ خدا سے ڈر رہا ہے یعنی تلاوت کرنے والے کو دیکھنے والا یہ سمجھے کہ وہ خدا سے ڈر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس طرح اہتمام سے پڑھے جیسے کہ ڈرنے والا اہتمام سے کلام کرتا ہے کہ کوئی حرکت حاکم کے سامنے بے موقع نہ ہو جائے اور قرآن مجید کے پڑھنے کا عمدہ طریق یہ ہے کہ با وضو قبلہ کی طرف بیٹھ کر عاجزی سے تلاوت کرے اور سمجھے کہ اللہ تعالی سے باتیں کر رہا ہوں اور اگر معنے جانتا ہو تو معنی پر غور کرے اور جہاں رحمت کی آیت آئے وہاں رحمت کی دعا مانگے اور جہاں عذاب کا ذکر ہو وہاں دوزخ سے پناہ مانگے اور جب تمام کر چکے تو خدا کی حمد اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ کے مغفرت طلب کرے اور جو چاہے دعا مانگے اور پھر درود شریف پڑھے اور حتی المقدور قرآن پڑھنے میں دوسرا خیال نہ آنے دے اگر کوئی خیال آئے تو ادھر توجہ نہ کرے وہ خیال خود جاتا رہے گا اور تلاوت کے وقت لباس بھی جہاں تک ہو سکے صاف پہنے ۔

مسئلے

مسئلہ 1۔ طلاق دینے کے جب کسی ضرورت سے طلاق دی جائے تین طریقے ہیں۔ ایک بہت اچھا دوسرا اچھا تیسرا بدعت اور حرام۔ سو بہت اچھا طریق یہ ہے کہ مرد بیوی کو پاکی کے زمانے میں یعنی ایسے وقت میں جس میں حیض وغیرہ سے عورت پاک ہو ایک طلاق دے مگر یہ بھی شرط ہے کہ اس تمام پاکی کے زمانہ میں صحبت نہ کی ہو اور عدت گزرنے تک پھر کوئی طلاق نہ دے عدت گزرنے سے خود ہی نکاح جاتا رہے گا ایک سے زیادہ طلاق دینے کی حاجت نہیں اس لیے کہ طلاق سخت مجبوری میں جائز رکھی گئی ہے لہذا بقدر ضرورت کافی ہے بہت سی طلاقوں کی کیا حاجت ہے اور اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس کو تین پاکی کے زمانوں میں تین طلاقں ا دے دو حیضوں کے درمیان جو پاکی رہتی ہے اس کو ایک زمانہ کی پاکی کہتے ہیں سو ہر پاکی کے زمانہ میں ایک طلاق دے اور ان پاکی کے زمانوں میں بھی صحبت نہ کرے اور بدعت اور حرام طریق وہ ہے جو ان دونوں صورتوں کے خلاف ہو مثلاً تین طلاق یکبارگی دے دے یا حیض کی حالت میں طلاق دے یا جس پاکی میں صحبت کی تھی اس میں طلاق دی تو اس اخیر قسم کی سب صورتوں میں گو طلاق واقع ہو جائے گی مگر گناہ ہو گا۔ خوب سمجھ لو اور یہ سب تفصیل اس صورت میں ہے کہ عورت سے صحبت یا خلوت صحیحہ ہوئی ہو اور جس سے ایسا تفاق نہ ہوا ہو اس کا حکم ابھی گے تا ہے۔ مسئلہ2۔ جس عورت سے نکاح کر لیا مگر صحبت نہیں کی ایسی عورت کو خواہ حیض کے زمانہ میں طلاق دے یا پاکی کے زمانہ میں ہر طرح درست ہے مگر ایک طلاق دے۔

ضمیمہ ثانیہ بہشتی زیور حصہ چہار مسماۃ بہ تصحیح الاغلاط

اصل صفحہ س۔ چاہے صاف لفظوں میں الخ۔ تحقیق۔ مطلب یہ ہے کہ جب طلاقیں تین پڑ جائیں گی خواہ صاف لفظوں سے پڑیں یا گول لفظوں سے حرمت مغلظہ ثابت ہو جائے گی اور یہ امر کو گول لفظوں کی تکرار سے کب تین طلاقیں ہوں گی کب نہ ہوں گی اس سے اس جگہ بحث نہیں پس اس پر وہ شبہ واقع نہیں ہوتا جو اس پر کیا گیا ہے اور نہ اس جواب کی ضرورت ہے جو دیا گیا ہے۔

اصل صفحہ س۔ کسی نے یوں کہا کہ تجھ کو رکھوں تو ماں کو رکھوں الخ تحقیق۔ عالمگیری میں ہے۔ لوقال ان وطئتک وطئت امی فلاشئی علیہ کذافی غایۃ السراجی اور مولوی احمد حسن صاحب نے اپنے حاشیہ میں لکھا ہے ان دونوں صورتوں کا یہ حکم کہ اس کہنے سے کچھ نہیں ہوا اس حالت میں ہے جبکہ کچھ نیت نہ ہو۔ اگر نیت طلاق کی ہو تو طلاق پڑ جائے گی اور جو نیت ظہار کی ہو تو ظہار ہو جائے گا انتہی۔ اور امداد الفتاوی مبوب کی جلد دوم کے ضمیمہ میں کتاب الطلاق میں مولانا نے عدم وقوع طلاق مطلقا ہی کو ترجیح دی ہے لیکن اس میں مراجعت الی العلمائ کا بھی مشورہ دیا ہے فلیتحقق۔

اس صورت میں اگر ایلاء کی نیت کی ہے تو ایلاء ہو جائے گا فی العالمگیریۃ اذا قال انت علی حرام کامی ونوی الطلاق اوالظہار اوالایلاء فہوعلی مانوی وان لم ینوشیئا یکون ظہار افی قول محمد وذکر الخصاف والصحیح من مذہب ابی حنیفۃ ماقال محمد کذا فی فتاوی قاضی خان۔ عالمگیریۃ۔

۔ نکاح ہو گیا لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی میاں پردیس میں ہے الخ تحقیق۔ ان دونوں مسئلوں پر بعض عوام اعتراض کیا کرتے ہیں لہذا ضرورت ہے کہ ان کی ضرورت توضیح کر دی جائے۔

توضیح مسئلہ 1۔ نکاح ہو گیا لیکن ابھی رواہ کے موافق رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ لڑکا پیدا ہو گیا اور شوہر انکار نہیں کرتا کہ بچہ میرا نہیں ہے تو وہ لڑکا شوہر ہی سے ہے حرامی نہیں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ کسی طریق سے خفیہ طور پر خاوند بیوی کے پاس پہنچ گیا ہو۔ اور گھر والوں کو یا غیروں کو اس کی خبر نہ ہوئی ہو اور اس کا حرامی کہنا درست نہیں کیونکہ یہ بلا حجت شرعی مرد کو جھٹلانا اور عورت پر زنا کی تہمت لگانا ہے ہاں اگر شوہر کا نہ ہو اور وہ جانتا ہو کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے اور میں اس عورت کے پاس نہیں گیا تو انکار کرے۔ انکار کرنے پر چونکہ وہ عورت پر زنا کا الزام لگاتا ہے اگر عورت اس الزام کو تسلیم نہ کرے اور لعان کی شرائط پائی جائیں تو لعان کا حکم ہو گا اور بعد تحقیقی لعان بچہ کا نسب شوہر سے منقطع کر دیا جائے گا اس توضیح کے بعد مطلب بہشی زیور بالکل صاف ہو گا اور اس پر کسی شبہ کی گنجائش نہ رہی۔

توضیح مسئلہ2۔ میاں پردیس میں ہے اور مدت ہو گئی برسیں گزر گئیں کہ گھر نہیں اور اس کے نے کی خبر کسی کو نہ ہوئی ہو۔ جیسے اشتہاری لوگ چھپ کر اپنے گھر جاتے ہیں اور لوگوں کو ان کے نے کی خبر نہیں ہوتی یا بذریعہ کسی عمل مثل تسخیر جن وغیرہ کے یا بذریعہ کرامت کسی بزرگ کے وہ اپنی بیوی کے پاس پہنچ گیا ہو۔ یا اپنی بیوی کو اپنے پاس بلا لیا ہو اور کسی کو اس کی خبر نہ ہوئی ہو پس جبکہ خاوند اس بچہ کے اپنا بیٹا ہونے سے انکار نہیں کرتا تو گویا وہ دعوی کرتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی سے صحبت کی ہے اور یہ شبہ کہ وہ تو پردیس میں تھا کیسے صحبت کر سکتا ہے اس لیے صحیح نہیں ہے کہ بذریعہ کرامت یا بذریعہ جن وغیرہ کے ایسا ہونا ممکن ہے تو شوہر کو جھوٹا نہ کہا جائے گا اور بچہ کو حرامی نہ کہا جائے گا۔ البتہ چونکہ شوہر کو علم ہے کہ میں نے صحبت کی ہے یا نہیں اس لیے اس کو انکار کا حق حاصل ہے اس بنا پر اگر وہ خبر پا کر انکار کرے گا تو چونکہ اس انکار میں عورت پر زنا کا الزام ہے اس لیے اگر زوجہ زنا سے انکار کرے اور دیگر شرائط لعان پائی جاتی ہیں تو لعان کا حکم ہو گا اور بعد لعان کے بچہ کا نسب شوہر سے منقطع کر دیا جائے گا اس توضیح کے بعد وسرے مسئلہ پر بھی شبہ نہیں ہو سکتا۔ یہ مختصر توضیح تھی ان دونوں مسئلوں کو جو انشاء اللہ سمجھدار اور غیر متعصب حضرات کی تشفی کے لیے کافی ہے۔

اگر کسی کو زیادہ تفصیل دیکھنا ہو تو رسالہ رفع الارتیاب مصنفہ مکرمی مولوی عبداللہ صاحب منگا کر دیکھے اس میں زیادہ تفصیل ملے گی نیز ان مسائل پر شبہ اور اس کا جواب حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کی طرف سے تتمہ اولی امداد الفتاوی صفحہ میں مذکور ہے اس کو بھی دیکھ لیا جائے۔ آخر میں کہا جاتا ہے کہ روافض خذلہم اللہ بھی بہشتی زیور کے یہ مسائل جاہل لوگوں کو دکھلا کر ان کو مذہب اسلام سے نفرت دلانا چاہتے ہیں اور اس طرح دھوکہ دے کر ان کو مذہب رفض کا پابند کرنا چاہتے ہیں جو کہ منافق یہودیوں کا بنایا ہوا دین ہے اور جاہل چونکہ نہ اپنے مذہب سے واقف ہوتے ہیں نہ رافضیوں کے اس لیے وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور ان کو جواب نہیں دینا پڑتا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی رافضی ان مسائل میں گفتگو کرے تو ان کو چاہیے کہ وہ بہشتی زیور کا مطلب سمجھا کر ان کے اعتراض کو دفع کریں اور ان سے کہیں کہ تمہارے مذہب میں یہ تین مسئلے بہشتی زیور سے زیادہ قابل اعتراض ہیں ان کا جواب دو۔

سوال۔ بہشتی زیور حصہ چہارم کے بیان لڑکے کے حلالی ہونے کے آخری دو مسئلوں نکاح ہو گیا لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی الخ و میاں پردیس میں ہے اور مدت ہو گئی برسیں گزر گئیں الخ پر لوگ مختلف خیال والے اعتراض کر رہے ہیں۔ براہ عنایت ہر دو مسائل کا مشرح و مدلل حال تحریر فرمائیے تاکہ معترضین کو چپ کیا جائے۔

الجواب۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ اب تک جس نے اس بارہ میں زبانی یا تحریری دریافت کیا اعتراض کے رنگ میں دریافت کیا اس لیے خطاب کرنے کو جی نہ چاہا۔ آپ کے الفاظ سے چونکہ سمجھنے کا قصد معلوم ہوتا ہے اس لیے جواب لکھتا ہوں ذرا غور سے سمجھئے۔ بہشتی زیور کے ان مسئلوں کا یہ مطلب نہیں کہ بدون صحبت کے حمل رہ جاتا ہے اور وہ حمل اس شوہر کا ہو جاتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان صورتوں میں اوپر کے دیکھنے والوں کو خود اسی کا یقین کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ ان میں صحبت نہیں ہوئی۔ پس ان کو شرعاً یہ اجازت نہیں کہ محض ظاہری دوری کو زن و شوہر میں دیکھ کر یہ کہہ دیں کہ جب ہمارے علم میں ان کے درمیان صحبت واقع نہیں ہوئی تو واقع میں بھی صحبت نہیں ہوئی اور یہ حمل حرام کا ہے اور یہ عورت حرام کار ہے اور یہ بچہ ولد الحرام۔ پس دیکھنے والوں کو یہ حکم لگانے کا حق نہیں۔ کیونکہ کسی کو حرام کار یا حرام زادہ کہنا بہت بڑی تہمت ہے۔ اور گناہ عظیم ہے اس کا منہ سے نکالنا بدون دلیل قطعی کے جائز نہیں۔ بلکہ جب تک بعید سے بعید احتمال بھی وقوع صحبت کا رہے گا یوں سمجھیں گے کہ شاید یہی بعید صورت صحبت کی واقع ہوئی ہو اور دوسروں کو اس کی اطلاع نہ ہوئی ہو اور وہ بعید احتمال یہاں دور ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی بزرگ کی کرامت سے زن و شوہر ایک جگہ جمع ہو گئے ہوں اور ان میں صحبت واقع ہوئی ہو۔ دوسرے یہ کہ کسی جن نے دونوں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہو اور صحبت ہو گئی ہو اور حمل رہ گیا ہو۔ اور بزرگوں کی کرامت اور جن کا تصرف اہل سنت و الجماعت کے نزدیک شرعاً و عقلاً وقوعاً ثابت ہے اور گو اس کا احتمال بعید ہی ہو مگر ہم مسلمان عورت کو تہمت سے بچانے کے لیے اور بچہ کو عار سے بچانے کے لیے اس احتمال کو ممکن مانیں گے اور یوں کہیں گے کہ شاید ایسی ہی صورت ہوئی ہو اور بعض صورتوں میں ممکن ہے۔

مسئلہ1۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاخانہ کے مقام میں صرف حشفہ داخل کر دے اور انزال ہو جائے اور اس عورت کے اس وقت چھ مہینے بعد انتہائی مدت حمل سے پہلے بچہ پیدا ہوا ہو تو وہ بچہ خاوند ہی کا ہے۔ ( بتلاؤ کہ پاخانہ کے مقام میں صحبت کرنے سے رحم میں نطفہ کیسے پہنچ گیا)

مسئلہ 2۔ اگر کوئی مرد اپنی عورت کے پاخانہ کے مقام میں حشفہ داخل کر دے اور انزال بھی نہ ہو تب بھی بچہ خاوند ہی کا ہو گا بشرطیکہ وہ چھ مہینے کے بعد اور انتہائی مدت حمل سے پہلے پیدا ہوا ہو بتلاؤ کہ پاخانہ کے مقام میں صحبت کرنے سے اور وہ بھی بغیر انزال ہوئے حمل کیسے قرار پا گیا۔

مسئلہ3۔ اگر کوئی مرد اپنی عورت سے آگے کی راہ سے صحبت کرے اور انزال نہ ہو تب بھی جو بچہ پیدا ہو گا وہ خاوند ہی کا ہو گا بشرطیکہ وہ چھ مہینے کے بعد اور انتہائی مدت حمل سے پہلے پیدا ہو۔ بتلاؤ کہ بدون انزال کے حمل کیسے رہ گیا۔ ان مسئلوں کا جواب ان سے کچھ نہ بن پڑے گا اور وہ فہت الذی کفر کا مصداق ہوں گے لیکن اگر وہ انکار کریں اور کہیں کہ ہمارے مذہب میں یہ مسئلے نہیں ہیں تو ان سے کہو کہ یہ تینوں مسئلے شرح و مشفیہ میں موجود ہیں اور عبارت اس کی یہ ہے

یلحق الولد بالزوج الدائم نکاحہ بالدخول بالزوجۃ ومضے ستت اشہر ہلالیۃ من حین الوطی والمرادبہ علی مایظہرمن اطلاقہم وصرح بہ المصنف فی قواعدہ غیبوبۃ الخشفۃ قبلا اودبراوان لم ینزل۔ ولا یخلو ذلک من اشکال ان لم یکن مجمعا علیہ علیہ للقطع بانتفائ التولد عادۃ فی کثیر من مواردہ ولم اقف علی شئی ینافی مانقلناہ و یعتمد علیہ وعدم تجاوز اقصے مدۃ الحمل وقد اختلف الاصحاب فی تحدیدہ فقیل تسعۃ اشہر وقیل عشرۃ وغایۃ ماقیل مافیہ عندنا سنۃ ومستند الکل مفہوم الروایات وعدل امص عن ترجیح قول لعدم دلیل قوی علی الترجیح ویمکن حمل الروایات علی اختلاف عادات النسائ فان بعضہن تلد لتسعۃ وبعضہن لعشرۃ وقدیتفق نادرابلوغ سنۃ واتفق الاصحاب علی انہ لایذید عن السنۃ مع انہم رووا ان النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم حملت بہ امہ ایام التشریق واتفقوا علی انہ ولدفی شہرربیع الاول فاقل مایکون لبث فی بطن امہ سنۃ وثلثۃ اشہر وما نقل احد من العلمائ انہ من خصائصہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اھ بلفظہ۔

اس عبارت میں یہ تینوں مسئلے موجود ہیں اور لطف یہ ہے کہ خود صاحب کتاب کا اقرار ہے کہ یہ مسائل ضرور قابل اعتراض ہیں ان صورتوں میں بچہ کا اس مرد سے پیدا ہونا عادتاً ناممکن ہے مگر کسی رافضی عالم کا قول مجھے ان کے مخالف نہیں ملا۔

ہذا ما عندنا واللہ یہدی من یشاء الی صراط مستقیم

کہ شوہر ایسی طرح خفیہ آیا ہو کہ کسی کو خبر نہ ہو جیسے بعض اشتہاری مجرم رات کو اپنے گھر جاتا ہے اور رات ہی کو چلا جاتا ہے اس لیے اس حمل کو اس شوہر کی طرف منسوب سمجھیں گے اور نسب کو ثابت مانیں گے البتہ خود شوہر کو اس کا علم قطعی ہو سکتا ہے کہ میں نے صحبت کی ہے یا نہیں۔ سو اس کو شرعاً مجبور نہیں کیا گیا کہ خواہ مخواہ تو اس بچہ کو اپنا ہی مان بلکہ اس کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر تو نے صحبت نہیں کی ہے تو اس نسب کو نفی کر سکتا ہے۔ مگر چونکہ حاکم شرع کو کسی دلیل قطعی سے خود شوہر کا راست گو ہونا یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکتا بلکہ احتمال ہے کہ کسی اور رنج و غصہ سے عورت کو بدنام کرتا ہو اس لیے اس کی نفی کرنے پر حاکم شرع سکوت نہ کرے گا بلکہ مقدمہ قائم کر کے لعان کا قانون نافذ کرے گا پھر لعان کے بعد دوسروں کو بھی شرعاً اجازت ہے کہ اس بچہ کو اس شوہر کا نہ کہیں گے کیونکہ قانون شرعی سے اس کا نسب قطع ہو چکا یعنی شرعاً جبر نہیں کہ اب بھی اسی کا مانو بلکہ قانوناً اس سے منقطع سمجھیں گے اور واقع کے اعتبار سے پھر بھی یوں کہیں گے کہ غیب کا علم خدا تعالی کو ہے اسی طرح عورت کی نسبت کہیں گے کہ خدا کو خبر ہے کہ مرد سچا ہے یا عورت۔

27شعبان 1328ھ

رخصتی سے پہلے طلاق ہو جانے کا بیان

جناب مولانا مولوی سعید احمد صاحب مرحوم مفتی مدرسہ عالیہ مظاہر علوم سہارنپور نے مندرجہ ذیل سوال حضرت حکیم الامۃ مولانا مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ کی خدمت اقدس میں روانہ کیا تھا حضرت نے اس کا جو جواب مرحمت فرمایا وہ ذیل میں درج ہے

سوال مسئلہ 2۔ ایسی عورت سے یوں کہا اگر فلانا کام کرے تو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے اور اس نے وہ کام کر لیا تو اس کے کرتے ہی تینوں طلاقیں پڑ گئیں۔

اس صورت میں تین طلاق پڑنے میں تامل ہے کیونکہ جس وقت شرط مقدم ہو اور طلاق کا لفظ مکرر ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک تکرار بذریعہ حرف عطف دوسرے بلا حرف عطف۔ اول صورت میں امام صاحب کے نزدیک شرط کے پائے جانے کے وقت ایک طلاق واقع ہوتی ہے اور باقی طلاقیں لغو ہو جاتی ہیں اور صاحبین کے نزدیک تینوں واقع ہوتی ہیں اور اگر تکرار بلا حرف عطف ہو جیسے کہ مولف نے کیا ہے تو اس صورت میں اول طلاق معلق ہوتی ہے اور دوسری فی الحال واقع ہوتی ہے اور تیسری لغو ہو جاتی ہے۔

وان علق الطلاق بالشرط ان کان الشرط مقدما فقال ان دخلت الدارفانت طالق و طالق وطالق وہی غیر مدخلولۃ بانت بواحدۃ عندوجود الشرط فے قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی و لغا الباقی وعدہما یقح الثلاث ہذا کلہ اذا ذکرہ بحرف العطف فان ذکرہ بغیر حرف العطف ان کان الشرط مقدما فقال ان دخلت الدارفانت طالق طالق طالق وہی غیر مدخلوۃ فالاول معلق بالشرط والثانی یقع للحال والثالث لغو ثم اذا تروجہاو دخلت الدار ینزل المعلق وان دخلت بعد البینونۃ قبل التزوج حنث ولا یقح شئی عالمگیری مختصر ص آج مصری وفی البحر آج ص وقید بحرف العطف لانہ لوذکر بغیر عطف اصلانحوان دخلت الدار فانت طالق واحدۃ واحدۃ ففی فتح القدیر یقح اتفاقا محمد وجود الشرط ویلغوما بعدہ لعدم مایوجب التشریک اھ وقال العلامۃ ابن عابدین علی قولہ وقید بحرف العطف فی ایمان البزازیۃ من الثالث فی یمین الطلاق ان دخلت الدارفانت طالق طالق طالق وہی غیر ملموسۃ فالاول معلق بالشرط والثانی ینزل فی الحال ویلغو الثالث وان تزوجہا ودخلت الدار نزل المعلق ولود خلت بعد البینونۃ قل التزوج انحل الیمین لا الی جزائ ولو موطوۃ تعلق الاول ونزل الثانی والثالث اھ وہذا کما تری مخالف لما نقلہ ہنا عن الفتح الا ان نفرق بین واحدۃ واحدۃ وطالق طالق وہو الظاہر اھ ہذا ماظہر لی واللہ اعلم بالصواب۔ اگر یہ اشکال صحیح ہے اور عبارت میں کسی ترمیم کی ضرورت ہے تو ترمیم فرما دی جائے تاکہ اصل مسئلہ کی جگہ لکھ کر اس پر حاشیہ میں نوٹ لکھ دیا جائے۔

سعید احمد غفرلہ 21 ربیع الاول56 ھ

جواب از حضرت حکیم الامۃ مولانا مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ

الجواب۔ ومنہ الصدق والصواب۔ طلاق ثلاث معلق میں باعتبار مطلقہ مدخول بہاوغیرہ مدخول بہاوباعتبار تقدیم شرط و تاخیر شرط و باعتبار عطف و عدم عطف بالواو آٹھ صورتیں ہیں جن کو ذیل میں اولا نقشہ کی شکل میں ثانیا عبارت میں ضبط کرتا ہوں پھر سب کے احکام نقل کر کے سوال کا جواب عرض کروں گا۔

عبارت یہ ہے: نمبر1: لغیر اللمدخول بابتقدیم الشرط مع العطف نمبر2: لغیر المدخول بہابتقدیم الشرط بلا عطف نمبر3: لغیر المدخول بہابتاخیر الشرط مع العطف نمبر4: لغیر المدخول خول بہابتا خیر الشرط بلاعطف نمبر5 للمدخول بہا بتقدیم الشرط مع العطف نمبر6 للمدخلو بہا بتقدیم الشرط بلاعطف نمبر 7 للمدخول بہا بتاخیر الشرط مع العطف نمبر8 للمدخول بہا بتا خیر الشرط بلا عطف۔

احکام یہ ہیں فی العالمگیریۃ الفصل الرابع من الباب الثانی من کتاب الطلاق وان علق الطلاق بالشرط ان کان الشرط مقدما نفقال ان دخلت الدار فانت طالق وطالق وطالق وہی غیر مدخولۃ وہی الصورۃ الاولی بانت بواحدۃ عندوجودالشرط فی قول ابی حنیفۃ والغاالباقی وعندہما یفع الثلث وان کانت مدخولۃ وہی الصورۃ الخامسۃ بانت بثلث اجماعا الا علی قول ابی حنیفۃ یتبع بعضہا بعضا فی الوقوع وعندہما یقح الثلاث جملۃ واحدۃ وان کان الشرط موخرا فقال انت طالق وطالق وطالق ان دخلت الدار وذکرہ بالفائ الظن انہا اومکان الواد فدخلت الدار بانت بثلث اجماعا سوئ کانت مدخلوۃ او غیر مدخولۃ وہی الصورۃ الثالثۃ والسابعۃ ہذا کلہ اذا ذکرہ بحرف العطف فان ذکرہ بغیر حرف العطف ان کان الشرط مقدما فقال ان دخلت الدار فانت طالق طالق طالق وہی غیر مدحولۃ وہی الصورۃ الثانیۃ المذکورۃ فی بہشتی زیور فلاول معلق بالشرط والثانی یقح للحال والحالث لغو وہوالذی ذکرہ المستفتی ثم اذا ترزوجہا و دخلت الدار ینزل المعلق وان دخلت بعد السینونۃ قبل التزوج حنث ولا یقح شئی وان کانت مدخولۃ وہی الصورۃ السادسۃ فالاول معلق بالشرط والثانی والثالث یقعان فی الحال وان اخرالشرط فقال انت طالق طالق طالق ان دخلت الداروہی غیر مدخولۃ وہی الصورۃ الرابعۃ فلاول ینزل المحال ولغا الباقی وان کانت مدحولۃ وہی الصورۃ الثانیۃ ینزل الاول والثانی للحال ویتعلق الثالث بالشرط کذافی السراج الوہاج وفی الدر المختار باب طلاق غیر المدخول بہا فی نظیر المسئلۃ وتقع واحدۃ ان قدم الشرط وفی ردالمختار ہذا عندہ ہما ثنتان ایضا ورجحہ الکمال فی فتح القدیر واقرہ فی البحراہ۔

اب سوال کا جواب عرض کرتا ہوں کہ بہشتی زیور کا مسئلہ مبحوث عنہا ظاہرا صورۃ ثانیہ ہے جس کا حکم یہ ہے کہ پہلی طلاق معلق ہو گی اور دوسری فی الحال واقع ہو گی اور تیسری لغو ہو گی جیسا سوال میں بھی بقل کیا گیا ہے اور روایات جواب میں بھی۔ اس بنائ پر بہشتی زیور کی عبارت پر اشکال صحیح اور اس کی تصحیح کے لیے عبارت کی ترمیم کافی نہیں بلکہ اس مسئلہ کو حذف ہی کر دینا چاہیے یہ امر قابل تامل ہے کہ اس حکم کی بنائ پر تکرار بلا عطف ہے جیسا صیغہ مفروضہ سے ظاہر ہے اور اردو کے محاورات میں عام اہل لسان اس صورت میں عطف ہی کا قصد کرتے ہیں ممکن ہے کہ مولف بہشتی زیور نے کہ مولوی احمد علی صاحب ہیں جیسا کہ احقر اپنی بعض تحریرات میں اس کو شائع بھی کر چکا ہے اس کو عطف ہی میں داخل کیا ہو جو صور ثمانیہ سے صورۃ اولی ہے اور اس میں امام صاحب اور صاحبین اختلاف کرتے ہیں مولف نے صاحبین کے قول کو راجح سمجھ کر کیا ہو۔ جیسا روایات بالا میں فتح القدیر و بحر سے اس کا راجح ہونا نقل کیا گیا ہے اس صورت میں اشکال رفع ہو جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ اس حکم مذکور بہشتی زیور کی صحت دو مقدموں پر موقوف ہے ایک یہ کہ عطف و عدم عطف ہمارے محاورہ میں یکساں ہیں دوسرے یہ کہ صاحبین کا قول راجح ہے پس اگر یہ مقدمات مسلم ہوں تو حکم صحیح ہے ورنہ غلط اور بہشتی زیور میں درمختار کے جس مقام کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مقام باوجود تلاش کے نہیں ملا۔ نہ مستفتی نے اس سے تعرض کیا ممکن ہے کہ اس کے دیکھنے سے مزید بصیرت حاصل ہو سکتی۔ بہرحال اگر ہذف کیا جائے تو کسی تکلف کی ضرورت نہیں۔ لیکن احتیاط یہ ہے کہ یہ حاشیہ کسی پاس والے مسئلہ پر لکھ دیا جائے کہ اس مقام پر ایک مسئلہ تھا جو ظاہر عبارات فقہاء کے خلاف تھا اس کو با اجازت اشرف علی حذف کر دیا گیا ہے۔ اس حاشیہ سے یہ فائدہ ہو گا کہ دوسرے نسخے دکھ کر یہ شبہ نہ ہو گا کہ شاید اس کو سہوا نہیں لکھا گیا۔

اور اگر باقی رکھا جائے تو ایک حاشیہ اس پر لکھ دیا جائے کہ یہ مسئلہ ظاہر عبارات فقہاء پر صحیح نہیں لیکن اگر محاورہ اردو کی بنا پر اس کو عطف میں بحذف عاطف داخل کیا جائے اور اس مسئلہ میں جو اختلاف ہے اس میں صاحبین کا قول لے لیا جائے تو اس توجیہ پر مسئلہ صحیح ہو سکتا ہے اب عوام کو چاہیے کہ اپنے معقتدفیہ عالم کے فتوے پر عمل کریں۔ واللہ اعلم۔ (26 ربیع الاول56 ) اشرف علی

بیچنے اور مول لینے کا بیان

مسئلہ 1۔جب ایک شخص نے کہا میں نے یہ چیز اتنے داموں پر بیچ دی اور دوسرے نے کہا میں نے لے لی تو وہ چیز بک گئی اور جس نے مول لیا ہے وہی اس کی مالک بن گئی۔ اب اگر وہ یہ چاہے کہ میں نہ بیچوں اپنے پاس ہی رہنے دوں۔ یا یہ چاہے کہ میں نہ خریدوں تو کچھ نہیں ہو سکتا ہے اس کو دینا پڑے گا اور اس کو لینا پڑے گا اور اس بک جانے کو بیع کہتے ہیں

مسئلہ2۔ ایک نے کہا کہ میں نے یہ چیز دو پیسے کو تمہارے ہاتھ بیچی۔ دوسری نے کہا مجھے منظور ہے یا یوں کہا میں اتنے داموں پر راضی ہوں اچھا میں نے لے لیا تو ان سب باتوں سے وہ چیز بک گئی۔ اب نہ تو بیچنے والے کو یہ اختیار ہے کہ نہ دے اور نہ لینے والے کو یہ اختیار ہے کہ نہ خریدے۔ لیکن یہ حکم اس وقت ہے کہ دونوں طرف سے یہ بات چیت ایک ہی جگہ بیٹے بیٹھے ہوئی ہو۔ اگر ایک نے کہا میں نے یہ چیز چار پیسے کو تمہارے ہاتھ بیچی اور وہ دوسری چار پیسے کا نام سن کر کچھ نہیں بولی اٹھ کھڑی ہوئی ہو یا کسی اور سے صلاح لینے چلی گئی یا اور کسی کام کو چلی گئی اور جگہ بدل گئی تب اس نے کہا اچھا میں نے چار پیسے کو خرید لی تو ابھی وہ چیز نہیں بکی۔ ہاں اگر اس کے بعد وہ بیچنے والی کنجڑن وغیرہ یوں کہہ دے کہ میں نے دے دی یا یوں کہے اچھا لے لو تو البتہ بک جائے گی اسی طرح اگر وہ کنجڑن اٹھ کھڑی ہوئی یا کسی کا م کو چل گئی تب دوسری نے کہا میں نے لے لیا تب بھی وہ چیز نہیں بکی۔ خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ جب ایک ہی جگہ دونوں طرف سے بات چیت ہو گئی تب وہ چیز بکے گی۔

مسئلہ 3۔ کسی نے کہا یہ چیز ایک پیسہ کو دے دو اس نے کہا میں نے دے دی اس میں بیع نہیں ہوئی البتہ اس کے بعد اگر مول لینے والی نے پھر کہہ دیا کہ میں نے لے لیا تو بک گئی۔ مسئلہ

4۔ کسی نے کہا یہ چیز ایک پیسہ کو میں نے لے لی اس نے کہا لے لو تو بیع ہو گئی۔

مسئلہ 5۔ کسی نے کسی چیز کے دام چکا کر اتنے دام اس کے ہاتھ پر رکھے اور وہ چیز اٹھا لی اور اس نے خوشی سے دام لے لیے پھر نہ اس نے زبان سے کہا کہ میں نے اتنے داموں پر یہ چیز بیچی نہ اس نے کہا میں نے خریدی تو اس لین دین ہو جانے سے بھی چیز بک جاتی ہے اور بیع درست ہو جاتی ہے۔

مسئلہ 6۔ کوئی کنجڑن امرود بیچنے آئی بے پوچھے گچھ بڑے بڑے چار امرود اس کی ٹوکری میں سے نکالے اور ایک پیسہ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اس نے خوشی سے پیسہ لے لیا تو بیع ہو گئی چاہے زبان سے کسی نے کچھ کہا ہو چاہے نہ کہا ہو۔ مسئلہ 7۔ کسی نے موتیوں کی ایک لڑی کو کہا یہ لڑی دس پیسہ کو تمہارے ہاتھ بیچی۔ اس پر خریدنے والی نے کہا اس میں سے انچ موتی میں نے لے لیے یا یوں کہا آدھے موتی میں نے خرید لیے تو جب تک وہ بیچنے والا اس پر راضی نہ ہو بیع نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس نے تو پوری لڑی کا مول کیا ہے تو جب تک وہ راضی نہ ہو لینے والے کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اس میں سے کچھ لے اور کچھ نہ لے اگر لیوے تو پوری لڑی لینا پڑے گی۔ ہاں البتہ اگر اس نے یہ کہہ دیا ہو کہ ہر موتی ایک ایک پیسے کو اس پر اس نے کہا اس میں سے پانچ موتی میں نے خریدے تو پانچ موتی بک گے۔ مسئلہ 8۔ کسی کے پاس چار چیزیں ہیں بجلی بالی بندے پتے۔ اس نے کہا یہ سب میں نے چار آنہ کو بیچا تو اس کی منظوری کے یہ اختیار نہیں ہے کہ بعضی چیزیں لیوے اور بعضی چھوڑ دے کیونکہ وہ سب کو ساتھ ملا کر بیچنا چاہتی ہے ہاں البتہ اگر ہر چیز کی قیمت الگ الگ بتلا دے تو اس میں سے ایک آدھ چیز بھی خرید سکتی ہے۔ مسئلہ 9۔ بیچنے اور مول لینے میں یہ بھی ضروری ہے کہ جو سودا خریدے ہر طرح اس کو صاف کر لے کوئی بات ایسی گول مول نہ رکھے جس سے جھگڑا بکھیڑا پڑے۔ اسی طرح قیمت بھی صاف صاف مقرر اور طے ہو جانا چاہیے۔ اگر دونوں میں سے ایک چیز بھی اچھی طرح معلوم اور طے نہ ہو گی تو بیع صحیح نہ ہو گی۔ مسئلہ 10۔ کسی نے روپے کی یا پیسے کی کوئی چیز خریدی اب وہ کہتی ہے پہلے تم روپے دو تب میں چیز دوں گی اور یہ کہتی ہے پہلے تو چیز دے دے تب میں روپے دوں گی۔

تو پہلے اس سے دام دلوائے جائیں گے جب یہ دام دے دے تو اس سے وہ چیز دلوا دیں گے دام کے وصول پانے تک اس چیز کے نہ دینے کو اس کو اختیار ہے اور اگر دونوں طرف ایک سی چیز ہے مثلاً دونوں طرف دام ہیں یا دونوں طرف سودا ہے۔ جیسے روپے کے پیسے لینے لگیں یا کپڑے کے بدلے کپڑا لینے لگیں اور دونوں میں یہی جھگڑا پن پڑے تو دونوں سے کہا جائے گا کہ تم اس کے ہاتھ پر رکھو اور وہ تمہارے ہاتھ پر رکھے۔

سودا معلوم ہونے کا بیان

مسئلہ۔ اناج غلہ وغیرہ سب چیزوں میں اختیار ہے چاہے تول کے حساب سے لے اور یوں کہہ دے کہ ایک روپے کے بیس سیر گیہوں میں نے خریدے اور چاہے یوں ہی مول کر کے لے لیوے اور یوں کہہ دے کہ گیہوں کی یہ ڈھیری میں نے ایک روپیہ کو خریدی پھر اس ڈھیری میں چاہے جتنے گیہوں نکلیں سب اسی کے ہیں۔ مسئلہ۔ کنڈے میں  امرود نارنگی وغیرہ میں بھی اختیار ہے کہ گنتی کے حساب سے لے یا ویسے ہی ڈھیر کاموں کو کر لے۔ اگر ایک ٹوکری کے سب آم اس نے خرید لیے اور گنتی اس کی کچھ معلوم نہیں کہ کتنے ہیں تو بیع درست ہے اور سب آم اسی کے ہیں چاہے کم نکلیں چاہے زیادہ۔ مسئلہ۔ کوئی عورت بیر وغیرہ کوئی چیز بیچنے آئی اس سے کہا کہ ایک پیسہ کو اس اینٹ کے برابر تول دے اور وہ بھی اس اینٹ کے برابر تول دینے پر راضی ہو گئی اور اس اینٹ کا وزن کسی کو نہیں معلوم کہ کتنی بھاری نکلے گی تو یہ بیع بھی درست ہے۔ مسئلہ۔ آم کا یا امرود نارنگی وغیرہ کا پورا ٹوکرا ایک روپے کو اس شرط پر خریدا کہ اس میں چار سو آم ہیں پھر جب گنے گئے تو اس میں تین سو ہی نکلے۔ لینے والی کو اختیار ہے چاہے لے چاہے نہ لے اگر لے گی تو پورا ایک روپیہ نہ دینا پڑے گا بلکہ ایک سیکڑے کے دام کم کر کے فقط بارہ نے دے اور اگر ساڑھے تین سو نکلیں تو چودہ آنے دے غرضیکہ جتنے آم کم ہوں اتنے دام بھی کم ہو جائیں گے اور اگر اس ٹوکرے میں چار سو سے زیادہ آم ہوں تو جتنے زیادہ ہیں وہ بیچنے والی کے ہیں اس کو چار سو سے زیادہ لینے کا حق نہیں ہے ہاں اگر پورا ٹوکرا خرید لیا اور کچھ مقرر نہیں کیا کہ اس میں کتنے آم ہیں تو جو کچھ نکلے سب اسی کا ہے چاہے کم نکلیں اور چاہے زیادہ۔ مسئلہ۔ بنارسی ڈوپٹہ یا چکن کا دوپٹہ یا پلنگ پوش یا زار بند وغیرہ کوئی ایسا کپڑا خریدا کہ اگر اس میں سے کچھ پھاڑ لیں تو نکما اور خراب ہو جائے گا۔

اور خریدتے وقت یہ شرط کر لی تھی کہ یہ دوپٹہ تین گزر کا ہے پھر جب ناپا تو کچھ کم نکلا تو جتنا کم نکلا ہے اس کے بدلے میں دام نہ کم ہوں گے بلکہ جتنے دام طے ہوئے ہیں وہ پورے دینا پڑیں گے۔ ہاں کم نکلنے کی وجہ سے بس اتنی رعایت کی جائے گی کہ دونوں طرف سے پکی بیع ہو جانے پر بھی اس کو اختیار ہے چاہے لے چاہے نہ لے اور اگر کچھ زیادہ نکلا تو وہ بھی اسی کا ہے اور اس کے بدلے میں دام کچھ زیادہ دینا نہ پڑیں گے۔ مسئلہ۔ کسی نے رات کو دو ریشمی ازار بند ایک روپے کے لیے جب صبح کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ان میں کا سوتی ہے تو دونوں کی بیع جائز نہیں ہوئی نہ ریشمی کی نہ سوتی کی۔ اسی طرح اگر دو انگوٹھیاں شرط کر کے خریدیں کہ دونوں کا رنگ فیروزہ کا ہے پھر معلوم ہوا کہ ایک میں فیروزہ نہیں ہے کچھ اور ہے تو دونوں کی بیع ناجائز ہے اب اگر ان میں سے ایک کا یا دونوں کا لینا منظور ہو تو اس کی ترکیب یہ ہے کہ پھر سے بات جیت کر کے خریدے۔

ادھار لینے کا بیان

مسئلہ۔ کسی نے اگر کوئی سودا ادھار خریدا تو یہ بھی درست ہے لیکن اتنی بات ضروری ہے کہ کچھ مدت مقرر کر کے کہہ دے کہ پندرہ دن میں یا مہینے بھر میں یا چار مہینے میں تمہارے دام دے دوں گی اگر کچھ مدت مقرر نہیں کی مطلقا اتنا کہہ دیا کہ ابھی دام نہیں ہیں پھر دے دوں گی۔ سو اگر یوں کہا ہے کہ میں اس شرط سے خریدتی ہوں کہ دام پھر دوں گی تو بیع فاسد ہو گئی اور اگر خریدنے کے اندر یہ شرط نہیں لگائی خرید کر کہہ دیا کہ دام پھر دوں گی تو کچھ ڈر نہیں اور اگر نہ خریدنے کے اندر کچھ کہا نہ خرید کر کچھ کہا تب بھی بیع درست ہو گئی۔ اور ان دونوں صورتوں میں اس چیز کے دام ابھی دینا پڑیں گے۔ ہاں اگر بیچنے والی کچھ دن کی مہلت دے دے تو اور بات ہے لیکن اگر مہلت نہ دے اور ابھی دام مانگے تو دینا پڑیں گے۔

مسئلہ۔ کسی نے خریدتے وقت یوں کہا کہ فلانی چیز ہم کو دے دو جب خرچ آئے گا تب آدا لے لینا یا یوں کہا جب میرا بھائی آئے گا تب دے دوں گی یا یوں کہا جب کھیتی کٹے گی تب دے دوں گی یا اس نے اس طرح کہا بی بی تم لے لو جب جی چاہے دام دے دینا یہ بیع فاسد ہو گئی بلکہ کچھ نہ کچھ مدت مقرر کر کے لینا چاہیے اور اگر خرید کر ایسی بات کہہ دی تو بیع ہو گئی اور سودے والی کو اختیار ہے کہ ابھی دام مانگ لے لیکن صرف کھیتی کٹنے کے مسئلہ میں کہ اس صورت میں کھیتی کٹنے سے پہلے نہیں مانگ سکتی۔

مسئلہ۔ نقد داموں پر ایک روپیہ کے بیس سیر گیہوں بکتے ہیں مگر کسی کو ادھار لینے کی وجہ سے اس نے روپیہ کے پندرہ سیر گیہوں دیئے تو یہ بیع درست ہے مگر اسی وقت معلوم ہو جانا چاہیے کہ ادھارمول لے گی۔ مسئلہ۔ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ خریدار سے اول پوچھ لیا ہو کہ نقد لو گے یا ادھار۔ اگر اس نے نقد کہا تو بیس سیر دے دیئے اور اگر ادھار کہا تو پندرہ سیر دے دیئے۔ اور اگر معاملہ اس طرح کیا کہ خریدار سے یوں کہا کہ اگر نقد لو گے تو ایک روپیہ کے بیس سیر ہوں گے اور ادھار لو گے تو پندرہ سیر ہوں گے یہ جائز نہیں۔

مسئلہ۔ ایک مہینے کے وعدے پر کوئی چیز خریدی پھر ایک مہینہ ہو چکا۔ تب کہہ سن کر کچھ اور مدت بڑھوالی کہ پندرہ دن کی مہلت اور دے دے تو تمہارے دام ادا کر دوں گا۔ اور وہ بیچنے والی بھی اس پر رضا مند ہو گئی تو پندرہ دن کی مہلت اور مل گئی اور اگر وہ راضی نہ ہو تو ابھی مانگ سکتی ہے۔

مسئلہ۔ جب اپنے پاس دام موجود ہوں تو ناحق کسی کو ٹالنا کہ آج نہیں کل آنا۔ اس وقت نہیں اس وقت آنا ابھی روپیہ توڑوایا نہیں ہے جب توڑوایا جائے گا تب دام ملیں گے یہ سب باتیں حرام ہیں جب وہ مانگے اسی وقت روپیہ توڑ کر دام دے دینا چاہیے۔ ہاں البتہ اگر ادھار خریدا ہے تو جتنے دن کے وعدے پر خریدا ہے اتنے دن کے بعد دینا واجب ہو گا اب وعدہ پورا ہونے کے بعد ٹالنا اور دوڑانا جائز نہیں ہے لیکن اگر سچ مچ اس کے پاس ہیں ہی نہیں۔ نہ کہیں سے بندوبست کر سکتی ہے تو مجبوری ہے جب آئے اس وقت نہ ٹالے۔

پھیر دینے کی شرط کر لینے کا بیان اور اس کو شرع میں خیار شرط کہتے ہیں

مسئلہ۔ خریدتے وقت یوں کہہ دیا کہ ایک دن یا دو دن یا تین دن تک ہم کو لینے نہ لینے کا اختیار ہے جی چاہے گا لے لیں گے نہیں تو پھرد دیں گے تو یہ درست ہے۔ جتنے دن کا اقرار کیا ہے اتنے دن تک پھیر دینے کا اختیار ہے چاہے لیوے چاہے پھیر دے۔ مسئلہ۔ کسی نے کہا کہ تین دن تک مجھ کو لینے نہ لینے کا اختیار ہے پھر تین دن گزر گئے اور اس نے کچھ نہیں جواب دیا نہ وہ چیز پھیری تو اب وہ چیزی لینی پڑے گی پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ ہاں اگر وہ رعایت کر کے پھیر لے تو خیر پھر دے۔ بے رضا مندی کے نہیں پھیر سکتی۔ مسئلہ۔ تین دن سے زیادہ کی شرط کرنا درست نہیں ہے اگر کسی نے چار یا پانچ دن کی شرط کی تو دیکھو تین دن کے اندر اس نے کچھ جواب دیا یا نہیں۔ اگر تین دن کے اندر اس نے پھیر دیا تو بیع پھر گئی اور اگر کہہ دیا کہ میں نے لے لیا تو بیع درست ہو گئی اور اگر تین دن گزر گئے اور کچھ حال معلوم نہ ہوا کہ لے لیوے گی یا نہ لے گی تو بیع فاسد ہو گئی۔ مسئلہ۔ اسی طرح بیچنے والی بھی کہہ سکتی ہے کہ تین دن تک مجھ کو اختیار ہے اگر چاہوں گی تو تین دن کے اندر پھیر لوں گی تو یہ بھی جائز ہے۔ مسئلہ۔ خریدتے وقت کہہ دیا تھا کہ تین دن تک مجھے پھیر دینے کا اختیار ہے پھر دوسرے دن آئی اور کہہ دیا کہ میں نے وہ چیز لے لی اب نہ پھیروں گی تو اب وہ اختیار جاتا رہا اب نہیں پھیر سکتی بلکہ اگر اپنے گھر میں آ کر کہہ دیا کہ میں نے یہ چیز لے لی اب نہ پھیروں گی تب بھی وہ اختیار جاتا رہا۔ اور جب بیع کا توڑنا اور پھیرنا منظور ہو تو بیچنے والے کے سامنے توڑنا چاہیے اس کی پیٹھ پیچھے توڑنا درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے کہا تین دن تک میری ماں کو اختیار ہے اگر کہے گی تو لے لوں گی نہیں تو پھیر دوں گی تو یہ بھی درست ہے اب تین دن کے اندر وہ یا اس کی ماں پھیر سکتی ہیں۔

اور اگر خود وہ یا اس کی ماں کہہ دے کہ میں نے لے لی اب نہ پھیروں گی تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ مسئلہ۔ دو یا تین تھان لیے اور کہا کہ تین دن تک ہم کو اختیار ہے کہ اس میں سے جو پسند ہو گا ایک تھان دس روپے کو لے لیں گے تو یہ درست ہے تین دن کے اندر اس میں سے ایک تھان پسند کر لے اور چار یا پانچ تھان اگر لیے اور کہا کہ اس میں سے ایک پسند کر لیں گے تو یہ بیع فاسد ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے تین دن تک پھیر دینے کی شرط ٹھیرالی تھی پھر وہ چیز اپنے گھر برتنا شروع کر دی جیسے اوڑھنے کی چیز تھی تو اوڑھنے لگی یا پہننے کی چیز تھی اس کو پہن لیا یا بچھانے کی چیز تھی اس کو بچھانے لگی تو اب پھیر دینے کا اختیار نہیں رہا۔ مسئلہ۔ ہاں اگر استعمال صرف دیکھنے کے واسطے ہوا ہے تو پھیر دینے کا حق ہے مثلاً سلا ہوا کرتا یا چادر یا دری خریدی تو یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ کرتہ ٹھیک بھی تا ہے یا نہیں ایک مرتبہ پہن کر دیکھا اور فورا اتار دیا۔ یا چادر کی لمبائی چوڑائی اوڑھ کر دیکھی یا دری کی لمبائی چوڑائی بچھا کر دیکھی تو بھر پھیر دینے کا حق حاصل ہے۔

بے دیکھی ہوئی چیز کے خریدنے کا بیان

مسئلہ۔ کسی نے کوئی چیز بے دیکھے ہوئے خرید لی تو یہ بیع درست ہے۔ لیکن جب دیکھے تو اس کو اختیار ہے پسند ہو تو رکھے نہیں تو پھیر دے اگرچہ اس میں کوئی عیب بھی نہ ہو۔ اور جیسی ٹھہرائی تھی ویسی ہی ہو تب بھی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے بے دیکھے اپنی چیز بیچ ڈالی تو اس بیچنے والی کو دیکھنے کے بعد پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے دیکھنے کے بعد اختیار فقط لنیے والی کو ہوتا ہے۔ مسئلہ۔ کوئی کنجڑن مٹر کی پھلیاں بیچنے کو لائی اس میں اوپر تو اچھی اچھی تھیں ان کو دیکھ کر پورا ٹوکرا لے لیا لیکن نیچے خراب نکلیں تو اب بھی اس کو پھیر دینے کا اختیار ہے البتہ اگر سب پھلیاں یکساں ہوں تو تھوڑی سی پھلیاں دیکھ لینا کافی ہے چاہے سب پھلیاں دیکھے چاہے نہ دیکھے پھیرنے کا اختیار نہ رہے گا۔ مسئلہ۔ امرود یا انار یا نارنگی وغیرہ کوئی ایسی چیز خریدی کہ سب یکساں نہیں ہوا کرتیں تو جب تک سب نہ دیکھے تب تک اختیار رہتا ہے تھوڑے کے دیکھ لینے سے اختیار نہیں جاتا۔ مسئلہ۔ اگر کوئی چیز کھانے پینے کی خریدی تو اس میں فقط دیکھ لینے سے اختیار نہیں جائے گا بلکہ چکھنا بھی چاہیے اگر چکھنے کے بعد ناپسند ٹھہرے تو پھیر دینے کا اختیار ہے۔ مسئلہ۔ بہت زمانہ ہو گیا کہ کوئی چیز دیکھی تھی اب آج اس کو خرید لیا لیکن ابھی دیکھا نہیں۔ پھر جب گھر لا کر دیکھا تو جیسی دیکھی تھی بالکل ویسی ہی اس کو پایا تو اب دیکھنے کے بعد پھیر دینے کا اختیار نہیں ہے۔ ہاں اگر اتنے دنوں میں کچھ فرق ہو گیا ہو تو دیکھنے کے بعد اس کے لینے نہ لینے کا اختیار ہو گا۔

سودے میں عیب نکل آنے کا بیان

مسئلہ۔ جب کوئی چیز بیچے تو واجب ہے جو کچھ اس میں عیب و خرابی ہو سب بتلا دے نہ بتلانا اور دھوکہ دے کر بیچ ڈالنا حرام ہے۔ مسئلہ۔ جب خرید چکی تو دیکھا اس میں کوئی عیب ہے جیسے تھان کو چوہوں نے کتر ڈالا ہے یا دوشالے میں کیڑا لگ گیا ہے یا اور کوئی عیب نکل آیا تو اب اس خریدنے والی کو اختیار ہے چاہے رکھ لے اور لے لیوے چاہے پھیر دے لیکن اگر رکھ لے تو پورے دام دینا پڑیں گے اس عیب کے عوض میں کچھ دام کاٹ لینا درست نہیں البتہ اگر دام کی کمی پردہ بیچنے والا بھی راضی ہو جائے تو کم کر کے دینا درست ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے کوئی تھان خرید کر رکھا تھا کہ کسی لڑکے نے اس کا ایک کونا پھاڑ ڈالا یا قینچی سے کتر ڈالا۔ اس کے بعد دیکھا کہ وہ اندر سے خراب ہے جا بجا چوہے کتر گئے ہیں تو اب اس کو نہیں پھیر سکتی کیونکہ ایک اور عیب تو اس کے گھر ہو گیا ہے البتہ اس عیب کے بدلے میں جو کہ بیچنے والی کے گھر کا ہے دام کم کر دیئے جائیں۔ لوگوں کو دکھایا جائے جو وہ تجویز کریں اتنا کم کر دو۔ مسئلہ۔ اسی طرح اگر کپڑا قطع کیا ہوا دے دو اور اپنے سب دام لے لو میں دام کم نہیں کرتی تو اس کو یہ اختیار حاصل ہے خریدنے والی انکار نہیں کر سکتی۔ اگر قطع کر کے سی بھی لیا تھا پھر عیب معلوم ہوا تو عیب کے بدلے دام کم کر دیئے جائیں گے اور بیچنے والی اس صورت میں اپنا کپڑا نہیں لے سکتی۔ اور اگر اس خریدنے والی نے وہ کپڑا بیچ ڈالا یا اپنے نابالغ بچہ کے پہنانے کی نیت سے قطع کر ڈالا بشرطیکہ بالکل اس کے دے ڈالنے کی نیت کی ہو اور پھر اس میں عیب نکلا تو اب دام کم نہیں کیے جائیں گے۔ اور اگر بالغ اولاد کی نیت سے قطع کیا تھا اور پھر عیب نکلا تو اب دام کم کر دیئے جائیں گے۔ مسئلہ۔ کسی نے فی انڈا ایک پیسہ کے حساب سے کچھ انڈے خریدے جب توڑے تو سب گندے نکلے بعضے اچھے تو گندوں کے دام پھیر سکتی ہے۔

اور اگر سی نے بیس پچیس انڈوں کے یکمشت دام لگا کر خرید لیے کہ یہ سب انڈے پانچ آنے کو میں نے لیے تو دیکھو کتنے خراب نکلے اگر سو میں پانچ چھ خراب نکلے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں اور اگر زیادہ خراب نکلے تو خراب کے دام حساب سے پھر لیے۔ مسئلہ۔ کھیرا ککڑی خربوزہ تربوز لوکی بادام اخروٹ وغیرہ کچھ خریدا۔ جب توڑے اندر سے بالکل خراب نکلے تو دیکھو کہ کام میں آ سکتے ہیں یا بالکل نکمے اور پھینک دینے کے قابل ہیں۔ اگر بالکل خراب اور نکمے ہوں تب تو یہ بیع بالکل صحیح نہیں ہوئی اپنے سب دام پھیر لے اور اگر کسی کام میں آ سکتے ہوں تو جتنے دام بازار میں لگیں اتنے دیئے جائیں پوری قیمت نہ دی جائے گی۔ مسئلہ۔ اگر سو بادام میں چار پانچ ہی خراب نکلے تو کچھ اعتبار نہیں۔ اور اگر زیادہ خراب نکلے تو جتنے خراب ہیں ان کے دام کاٹ لینے کا اختیار ہے۔ مسئلہ۔ ایک روپیہ کے پندرہ سیر گیہوں خریدے یا ایک روپیہ کا ڈیڑھ سیر گھی لیا۔ اس میں سے کچھ تو اچھا نکلا اور کچھ خراب نکلا تو یہ درست نہیں ہے کہ اچھا اچھا لوں ے اور خراب خراب پھیر دیوے اور خراب خراب پھیر دے بلکہ اگر لیوے تو سب لینا پڑے گا اور پھیرے تو سب پھیرے ہاں البتہ اگر بیچنے والی خود راضی ہو جائے کہ اچھا اچھا لے اور جتنا خراب ہے وہ پھیر دو تو ایسا کرنا درست ہے بے اس کی مرضی کے نہیں کر سکتی۔ مسئلہ۔ عیب نکلنے کے وقت پھیر دینے کا اختیار اس وقت ہے جبکہ عیب دار چیز کے لیے پر کسی طرح رضا مندی ثابت نہ ہوتی ہو اور اگر اسی کے لیے پر راضی ہو جائے تو اب اس کا پھیرنا جائز نہیں البتہ بیچنے والی خوشی سے پھیر لے تو پھیرنا درست ہے جیسے کسی نے ایک بکری یا گائے وغیرہ کوئی چیز خریدی جب گھر آئی تو معلوم ہوا کہ یہ بیمار ہے یا اس کے بدن میں کہیں زخم ہے پس اگر دیکھنے کے بعد اپنی رضا مندی ظاہر کرے کہ خیر ہم نے عیب دار ہی لے لی تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔

اور اگر زبان سے نہیں کہا لیکن ایسے کام کیے جس سے رضا مندی معلوم ہوتی ہے جیسے اس کی دوا علاج کرنے لگی تب بھی پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ مسئلہ۔ بکری کا گوشت خریدا پھر معلوم ہوا کہ بھیڑ کا گوشت ہے تو پھیر سکتی ہے۔ مسئلہ۔ موتیوں کا ہار یا اور کوئی زیور خریدا اور کسی وقت اس کو پہن لیا یا جوتہ خریدا اور پہنے پہنے چلنے پھرنے لگی تو اب عیب کی وجہ سے پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ ہاں اگر اس وجہ سے پہنا ہو کہ پاؤں میں دیکھوں آتا ہے یا نہیں اور پیر کو چلنے میں کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی تو اس آزمائش کے لیے ذرا دیر کے پہننے سے کچھ حرج نہیں اب بھی پھیر سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی چار پائی یا تخت خریدا اور کسی ضرورت سے اس کو بچھا کر بیٹھی یا تخت پر نماز پڑھی اور استعمال کرنے لگی تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں رہا۔ اسی طرح اور سب چیزوں کو سمجھ لو۔ اگر اس سے کام لینے لگے تو پھیرنے کا اختیار نہیں رہتا۔ مسئلہ۔ بیچتے وقت اس نے کہہ دیا کہ خوب دیکھ بھال لو اگر اس میں کچھ عیب نکلے یا خراب ہو تو میں ذمہ دار نہیں۔ اس کہنے پر بھی اس نے لے لیا تو اب چاہے جتنے عیب اس میں نکلیں پھیرنے کا اختیار نہیں ہے اور اس طرح بیچنا بھی درست ہے۔ اس کہہ دینے کے بعد عیب کا بتلانا واجب نہیں ہے

بیع باطل اور فاسد وغیرہ کا بیان

مسئلہ۔ جو بیع شرع میں بالکل ہی غیر معتبر اور لغو ہو اور ایسا سمجھیں کہ اس نے بالکل خریدا ہی نہیں۔ اور اس نے بیچا ہی نہیں اس کو باطل کہتے ہیں اس کا حکم یہ ہے کہ خرید نے والا اس کا مالک نہیں ہوا۔ وہ چیز اب تک اسی بیچنے والے کی ملک میں ہے اس لیے خرید نے والی کو نہ تو اس کا کھانا جائز نہ کسی کو دینا جائز۔ کسی طرح سے اپنے کام میں لانا درست نہیں۔ اور جو بیع ہو تو گئی ہو لیکن اس میں کچھ خرابی گئی ہے اس کو بیع فاسد کہتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک خریدنے والی کے قبضہ میں نہ آئے تب تک وہ خریدی ہوئی چیز اس کی ملک میں نہیں تی۔ اور جب قبضہ کر لیا تو ملک میں تو گئی لیکن حلال طیب نہیں ہے۔ اس لیے اس کو کھانا پینا یا کسی اور طرح سے اپنے کام میں لانا درست نہیں۔ بلکہ ایسی بیع کا توڑ دینا واجب ہے۔ لینا ہو تو پھر سے بیع کریں اور مول لیں۔ اگر یہ بیع نہیں توڑی بلکہ کسی اور کے ہاتھ وہ چیز بیچ ڈالی تو گناہ ہوا اور اس دوسری خریدنے والی کے لیے اس کا کھانا پینا اور استعمال کرنا جائز ہے اور یہ دوسری بیع درست ہو گئی۔ اگر نفع لے کر بیچا ہو تو نفع کا خیرات کر دینا واجب ہے اپنے کام میں لانا درست نہیں۔ مسئلہ۔ زمینداروں کے یہاں یہ جو دستور ہے کہ تالاب کی مچھلیاں بیچ دیتے ہیں یہ بیع باطل ہے۔ تالاب کے اندر جتنی مچھلیاں ہوتی ہیں جب تک شکار کر کے پکڑی نہ جائیں تب تک ان کا کوئی مالک نہیں ہے شکار کر کے جو کوئی پکڑے وہی ان کا مالک بن جاتا ہے۔ جب یہ بات سمجھ میں گئی تو اب سجھو کہ جب یہ زمیندار ان کا مالک ہی نہیں تو بیچنا کیسے درست ہو گا۔ ہاں اگر زمیندار خود مچھلیاں پکڑ کر بیچا کریں تو البتہ درست ہے۔ اگر کسی اور سے پکڑوا دیں گے تو وہی مالک بن جائے گا۔ زمیندار کا اس پکڑی ہوئی مچھلی میں کچھ حق نہیں ہے۔ اسی طرح مچھلیوں کے پکڑنے سے لوگوں کو منع کرنا بھی درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔

کسی کی زمین میں خود بخود گھاس اگی نہ اس نے لگایا نہ اس کو پانی دے کر سینچا تو یہ گھاس بھی کسی کی ملک نہیں ہے جس کا جی چاہے کاٹ لے جائے نہ اس کا بیچنا درست ہے اور نہ کاٹنے سے کسی کو منع کرنا درست ہے البتہ اگر پانی دے کر سینچا اور خدمت کی ہو تو اس کی ملک ہو جائے گی۔ اب بیچنا بھی جائز ہے اور لوگوں کو منع کرنا بھی درست ہے۔ مسئلہ۔ جانور کے پیٹ میں جو بچہ ہے پیدا ہونے سے پہلے اس بچہ کو بیچنا باطل ہے۔ اور اگر پورا جانور بیچ دیا تو درست ہے۔ لیکن اگر یوں کہہ دیا کہ میں یہ بکری تو بیچتی ہوں لیکن اس کے پیٹ کا بچہ نہیں بیچتی ہوں جب پیدا ہو تو وہ میرا ہے تو یہ بیع فاسد ہے۔ مسئلہ۔ جانور کے تھن میں جو دودھ بھرا ہوا ہے دوہنے کے پہلے اس کا بیچنا باطل ہے پہلے دوہ لے تب بیچے۔ اسی طرح بھیڑ دنبہ وغیرہ کے بال جب تک کاٹ نہ لے تب تک بالوں کا بیچنا جائز اور باطل ہے۔ مسئلہ۔ جو دہنی یا لکڑی مکان میں یا چھت میں لگی ہوئی ہے کھودنے یا نکالنے سے پہلے اس کا بیچنا درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔ آدمی کے ہاں اور ہڈی وغیرہ کسی چیز کا بیچنا جائز اور باطل ہے اور ان چیزوں کا اپنے کام میں لانا اور برتنا بھی درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔ بجز خنزیر کے دوسرے مردار کی ہڈی اور بال اور سینگ پاک ہیں ان سے کام لینا بھی جائز ہے اور بیچنا بھی جائز ہے۔ مسئلہ۔ تم نے ایک بکری یا اور کوئی چیز کسی سے پانچ روپے کو مول لی اور اس بکری پر قبضہ کر لیا اور اپنے گھر منگا کر بندھوا لی لیکن ابھی دام نہیں دیئے پھر اتفاق سے اس کے دام نہ دے سکی یا اب اس کا رکھنا منظور نہ ہوا اس لیے تم نے کہا کہ یہ بکری چار روپے میں لے جاؤ ایک روپیہ ہم تم کو اور دیں گے۔ یہ بیچنا اور لینا جائز نہیں جب تک اس کو روپے نہ دے چکے اس وقت تک کم داموں پر اس کے ہاتھ بیچنا درست نہیں ہے۔ مسئلہ۔ کسی نے اس شرط پر اپنا مکان بیچا کہ ایک مہینے تک ہم نہ دیں گے بلکہ خود اس میں رہیں گے۔

یا یہ شرط ٹھہرائی کہ اتنے روپے تم ہم کو قرض دے دو۔ یا کپڑا اس شرط پر خریدا کہ تم ہی قطع کر کے سی دینا۔ یا یہ شرط کی کہ ہمارے گھر تک پہنچا دینا۔ اور کوئی ایسی شرط مقر رکی جو شریعت سے واہیات اور ناجائز ہے تو یہ سب بیع فاسد ہے۔ مسئلہ۔ یہ شرط کر کے ایک گائے خریدی کہ یہ چار سیر دودھ دیتی ہے تو بیع فاسد ہے البتہ اگر کچھ مقدار نہیں مقرر کی فقط یہ شرط کی کہ یہ گائے بہت دودہیاری ہے تو بیع جائز ہے۔ مسئلہ۔ مٹی یا چینی کے کھلونے یعنی تصویریں بچوں کے لیے خریدے تو یہ بیع باطل ہے شرع میں ان کھلونوں کی کچھ قیمت نہیں لہذا اس کے کچھ دام نہ دلائے جائیں گے اگر کوئی توڑ دے تو کچھ تاوان بھی دینا نہ پڑے گا۔ مسئلہ۔ کچھ اناج گھی تیل وغیرہ روپے کے دس سیر یا اور کچھ نرخ طے کر کے خریدا تو دیکھو کہ اس بیع ہونے کے بعد اس نے تمہارے یا تمہارے بھیجے ہوئے آدمی کے سامنے تول کر دیا ہے یا تمہارے اور تمہارے بھیجے ہوئے آدمی کے سامنے نہیں تولا بلکہ کہا تم جاؤ ہم تول کر گھر بھیجے دیتے ہیں یا پہلے سے الگ تولا ہوا رکھا تھا اس نے اسی طرح اٹھا دیا پھر نہیں تولا۔ یہ تین صورتیں ہوئیں۔ پہلی صورت کا حکم یہ ہے کہ گھر میں لا کر اب اس کا تولنا ضروری نہیں ہے بغیر تولے بھی اس کا کھانا پینا بیچنا وغیرہ سب صحیح ہے۔ اور دوسری اور تیسری صورت کا حکم یہ ہے کہ جب تک خود نہ تول لے تب تک اس کا کھانا پینا بیچنا وغیرہ کچھ درست نہیں۔ اگر بے تولے بیچ دیا تو یہ بیع فاسد ہو گئی پھر اگر تول بھی لے تب بھی یہ بیع درست نہیں ہوئی۔

مسئلہ۔ بیچنے سے پہلے اس نے تول کر تم کو دکھایا اس کے بعد تم نے خرید لیا اور پھر دوبارہ اس نے نہیں تولا تو اس صورت میں بھی خریدنے والی کو پھر تولنا ضروری ہے بغیر تولے کھانا اور بیچنادرست نہیں۔ اور بیچنے سے پہلے اگرچہ اس نے تول کر دکھا دیا ہے لیکن اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ مسئلہ۔ زمین اور گاؤں اور مکان وغیرہ کے علاوہ اور جتنی چیزیں ہیں ان کے خریدنے کے بعد جب تک قبضہ نہ کر لے تب تک بیچنا درست نہیں۔ مسئلہ۔ ایک بکری یا اور کوئی چیز خریدی کچھ دن بعد ایک اور شخص یا اور کہا کہ یہ بکری تو میری ہے کسی نے یونہی پکڑ کر بیچ لی اس کی نہیں تھی تو اگر وہ اپنا دعوی قاضی مسلم کے یہاں دو گواہوں سے ثابت کر دے تو قضائے قاضی کے بعد بکری اسی کو دے دینا پڑے گی اور بکری کے دام سے کچھ نہیں لے سکتے بلکہ جب وہ بیچنے والا ملے تو اس سے اپنے دام وصول کرو اس آدمی سے کچھ نہیں لے سکتے۔ مسئلہ۔ کوئی مرغی یا بکری گائے وغیرہ مر گئی تو اس کی بیع حرام اور باطل ہے۔ بلکہ اس مری چیز کو بھنگی یا چمار کو کھانے کے لیے دینا بھی جائز نہیں۔ البتہ چمار بھنگیوں سے پھینکنے کے لیے اٹھوا دیا پھر انھوں نے کھا لیا تو تم پر کچھ الزام نہیں اور اس کی کھال نکلوا کر درست کر لینے اور بنا لینے کے بعد بیچنا اور اپنے کام میں لانا درست ہے جیسا کہ پہلے حصہ میں صفحہ پر ہم نے بیان کیا ہے وہاں دیکھ لو۔

مسئلہ۔ جب ایک نے مول تول کر کے ایک دام ٹھہرائے اور وہ بیچنے والا اتنے داموں پر رضا مند بھی ہو تو اس وقت کسی دوسرے کو دام بڑھا کر خود لے لینا جائز نہیں۔ اسی طرح یوں کہنا بھی درست نہیں کہ تم اس سے نہ لو ایسی چیز میں تم کو اس سے کم داموں پر دے دوں گی۔

مسئلہ۔ ایک کنجڑن نے تم کو پیسہ کے چار امرود دیئے پھر کسی نے زیادہ تکرار کر کے پیسہ کے پانچ لیے تو اب تم کو اس سے ایک امرود لینے کا حق نہیں زبردستی کر کے لینا ظلم اور حرام ہے جس سے جو کچھ طے ہو بس اتنا ہی لینے کا اختیار ہے۔

مسئلہ۔ کوئی شخص کچھ بیچتا ہے لیکن تمہارے ہاتھ بیچنے پر راضی نہیں ہوتا تو اس سے زبردستی لے کر دام دے دینا جائز نہیں کیونکہ وہ اپنی چیز کا مالک ہے چاہے بیچے یا نہ بیچے اور جس کے ہاتھ چاہے بیچے۔ پولیس والے اکثر زبردستی سے لے لیتے ہیں یہ بالکل حرام ہے۔ اگر کسی کا میاں پولیس میں نوکر ہو تو ایسے موقع پر میاں سے تحقیق کر لیا کرے یوں ہی نہ برت لے۔

مسئلہ۔ ٹکے کے سیر بھر لو لیے اس کے بعد تین چار لو زبردستی اور لے لیے یہ درست نہیں البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ اور دے دے تو اس کا لینا جائز ہے۔ اسی طرح جو دام طے کر لیے ہیں چیز لے لینے کے بعد اب اس سے کم دام دینا درست نہیں البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے کچھ کم کر دے تو کم دے سکتی ہے۔

مسئلہ۔ جس کے گھر میں شہد کا چھتہ لگا ہے وہی مالک ہے کسی غیر کو اس کا توڑنا اور لینا درست نہیں۔ اور اگر اس کے گھر میں کسی پرندے نے بچے دیئے تو وہ گھر والے کی ملک نہیں بلکہ جو پکڑے اسی کے ہیں لیکن بچوں کو پکڑنا اور ستانا درست نہیں ہے۔

نفع لے کر دام کے دام پر بیچنے کا بیان

مسئلہ۔ ایک چیز ہم نے ایک روپیہ کو خریدی تھی تو اب اپنی چیز کا ہم کو اختیار ہے چاہے ایک ہی روپیہ کو بیچ ڈالیں اور چاہے دس بیس روپے کو بیچیں اس میں کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اگر معاملہ اس طرح طے ہوا۔ کہ اس نے کہا ایک آنہ روپیہ منافع لے کر ہمارے ہاتھ بیچ ڈالو۔ اس پر تم نے کہا اچھا ہم نے روپے پیچھے ایک آنہ نفع پر بیچا تو اب ایک آنہ روپیہ سے زیادہ نفع لینا جائز نہیں۔ یا یوں ٹھہرا کہ جتنے کو خریدا ہے اس پر چار آنہ نفع لے لو۔ اب بھی ٹھیک دام بتلا دینا واجب ہے اور چار نے سے زیادہ نفع لینا درست نہیں۔ اسی طرح اگر تم نے کہا کہ یہ چیز ہم تم کو خرید کے دام پر دیں گے کچھ نفع نہ لیں گے۔ تو اب کچھ نفع لینا درست نہیں۔ خرید ہی کے دام ٹھیک ٹھیک بتلا دینا واجب ہے۔

مسئلہ۔ کسی سودے کا یوں مول کیا کہ ایک روپیہ کے نفع پر بیچ ڈالو۔ اس نے کہا کہ اچھا میں نے اتنے ہی نفع پر بیچا۔ یا تم نے کہا کہ جتنے کو لیا ہے اتنے ہی دام پر بیچ ڈالو۔ اس نے کہا اچھا تم وہی دے دو نفع کچھ نہ دینا لیکن اس نے ابھی یہ نہیں بتلایا کہ یہ چیز کتنے کی خرید ہے تو دیکھو اگر اسی جگہ اٹھنے سے پہلے وہ اپنی خرید کے دام بتلا دے تو تب تو یہ بیع صحیح ہے۔ اور اگر اسی جگہ نہ بتلا دے بلکہ یوں کہے آپ لے جائیے حساب دیکھ کر بتلایا جائے گا یا اور کچھ کہا تو وہ بیع فاسد ہے۔

مسئلہ۔ لینے کے بعد اگر معلوم ہوا کہ اس نے چالاکی سے اپنی خرید غلط بتلائی ہے اور نفع وعدہ سے زیادہ لیا ہے تو خریدنے والے کو دام کم دینے کا اختیار نہیں ہے بلکہ اگر خریدنا نامنظور ہے تو وہی دام دینا پڑیں گے جتنے کو اس نے بیچا ہے۔ البتہ یہ اختیار ہے کہ اگر لینا منظور نہ ہو تو پھیر دے۔ اور اگر خرید کے دام پے بیچ دینے کا اقرار تھا اور یہ وعدہ تھا کہ ہم نفع نہ لیں گے پھر اس نے اپنی خرید غلط او ر زیادہ بتلائی تو جتنا زیادہ بتلایا ہے اس کے لینے کا حق نہیں ہے لینے والی کو اختیار ہے کہ فقط خرید کے دام دے اور جو زیادہ بتلایا ہے وہ نہ دے۔

مسئلہ۔ کوئی چیز تم نے ادھار خریدی تو اب جب تک دوسرے خریدنے والے کو یہ نہ بتلا دو کہ بھائی ہم نے یہ چیز ادھار لی ہے اس وقت تک اس کو نفع پر بیچنا یا خرید کے دام پر بیچنا ناجائز ہے بلکہ بتلا دے کہ یہ چیز میں نے ادھار خریدی تھی پھر اس طرح نفع لے کر یا دام کے دام پر بیچنا درست ہے البتہ اگر اپنی خرید کے داموں کا کچھ ذکر نہ کرے پھر چاہے جتنے دام پر بیچ دے تو درست ہے۔

مسئلہ۔ ایک کپڑا ایک روپیہ کا خریدا۔ پھر چار نے دے کر اس کو رنگوایا۔ یا اس کو دھلوایا۔ یا سلوایا تو اب ایسا سمجھیں گے کہ سوا روپے کو اس نے مول لیا۔ لہذا اب سوا روپیہ اس کی اصلی قیمت ظاہر کر کے نفع لینا درست ہے مگر یوں نہ کہے کہ سوا روپے کو میں نے لیا ہے بلکہ یوں کہے کہ سوا روپے میں یہ چیز مجھ کو پڑی ہے تاکہ جھوٹ نہ ہونے پائے۔

مسئلہ۔ ایک بکری چار روپے کو مول لی۔ پھر مہینہ بھر تک رہی اور ایک روپیہ اس کی خوراک میں لگ گیا تو اب پانچ روپے اس کی اصلی قیمت ظاہر کر کے نفع لینا درست ہے۔ البتہ اگر وہ دودھ دیتی ہو تو جتنا دودھ دیا ہے اتنا گھٹا دینا پڑے گا۔ مثلاً اگر مہینہ بھر میں آٹھ آنے کا دودھ دیا ہے تو اب اصل قیمت ساڑھے چار روپے ظاہر کرے اور یوں کہے کہ ساڑھے چار مجھ کو پڑی۔ اور چونکہ عورتوں کو اس قسم کی ضرورت زیادہ نہیں پڑتی اس لیے ہم اور مسائل نہیں بیان کرتے۔

سودی لین دین کا بیان

سودی لین دین کا بڑا بھاری گناہ ہے۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں اس کی بڑی برائی اور اس سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود دینے والے اور لینے والے اور بیچ میں پڑ کے سود دلانے والے سودی دستاویز لکھنے والے گواہ شاہد وغیرہ سب پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ سود دینے والا اور لینے والا گناہ میں دونوں برابر ہیں اس لیے اس سے بہت بچنا چاہیے اس کے مسائل بہت نازک ہیں۔ ذرا ذرا سی بات میں سود کا گناہ ہو جاتا ہے اور انجان لوگوں کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کیا گناہ ہوا۔ ہم ضروری ضروری مسئلے یہاں بیان کرتے ہیں لین دین کے وقت ہمیشہ ان کا خیال رکھا کرو۔ مسئلہ۔ ہندو پاکستان کے رواج سے سب چیزیں چار قسم کی ہیں۔ ایک تو خود سونا چاندی یا ان کی بنی ہوئی چیز۔ دوسرے اس کے سوا اور وہ چیزیں جو تول کر بکتی ہیں جیسے اناج غلہ لوہا تانبہ روٹی ترکاری وغیرہ۔ تیسرے وہ چیزیں جو گز سے ناپ کر بکتی ہیں جیسے کپڑا چوتھے وہ جو گنتی کے حساب سے بکتی ہیں جیسے انڈے م امرود نارنگی بکری گائے گھوڑا وغیرہ۔ ان سب چیزوں کا حکم الگ الگ سمجھ لو۔

نوٹ بوقت تالیف بہشتی زیور روپیہ اور رپز گاری چاندی کے رائج تھے لہذا روپیہ وغیرہ سے چاندی وغیرہ خرید نے کے مسائل لکھے گئے تھے۔ اب چونکہ روپیہ اور ریزگاری دوسری دھات کے ہیں اس لیے موجودہ روپیہ سے اس کے وزن سے کم و بیش بھی خریدی جا سکتی ہے۔ ہاں ہاتھ در ہاتھ ہونا اب بھی شرط ہے اور ان مسائل کو اب بھی باقی اس لیے رکھا گیا ہے کہ اگر پھر کبھی روپیہ وغیرہ چاندی کا رائج ہو جائے تو مسائل معلوم رہیں۔ شبیر علی۔

سونے چاندی اور ان کی چیزوں کا بیان

مسئلہ۔ چاندی سونے کے خریدنے کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ چاندی کو چاندی سے اور سونے کو سونے سے خریدا۔ جیسے ایک روپیہ کی چاندی خریدنا منظور ہے یا آٹھ نے کی چاندی خریدی اور دام میں اٹھنی دی یا اشرفی سے سونا خریدا۔ غرض کہ دونوں طرف ایک ہی قسم کی چیز ہے تو ایسے وقت دو باتیں واجب ہیں ایک تو یہ کہ دونوں طرف کی چاندی یا دونوں طرف کا سونا برابر ہو۔ دوسرے یہ کہ جدا ہونے سے پہلے ہی پہلے دونوں طرف سے لین دین ہو جائے کچھ ادھار باقی نہ رہے اگر ان دونوں باتوں میں سے کسی بات کے خلاف کیا تو سود ہو گیا مثلاً ایک روپے کی چاندی تم نے لی تو وزن میں ایک روپے کے برابر لینا چاہیے اگر روپے بھر سے کم لی یا اس سے زیادہ لی تو یہ سود ہو گیا۔ اسی طرح اگر تم نے روپیہ تو دے دیا لیکن اس نے چاندی ابھی نہیں دی تھوڑی دیر میں تم سے الگ ہو کر دینے کا وعدہ کیا یا اسی طرح تم نے ابھی روپیہ نہیں دیا چاندی ادھار لے لی تو یہ بھی سود ہے۔

مسئلہ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں طرف ایک قسم کی چیز نہیں بلکہ ایک طرف چاندی اور ایک طرف سونا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ وزن کا برابر ہونا ضروری نہیں ایک روپے کا چاہے جتنا سونا ملے جائز ہے اسی طرح ایک اشرفی کی چاہے جتنی چاندی ملے جائز ہے لیکن جدا ہونے سے پہلے ہی لین دین ہو جانا کچھ ادھار نہ رہنا یہاں بھی واجب ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوا۔

مسئلہ۔ بازار میں چاندی کا بھاؤ بہت تیز ہے یعنی اٹھارہ آنے کی روپیہ بھر چاندی ملتی ہے روپے کی روپے بھر کوئی نہیں دیتا یا چاندی کا زی بہت عمدہ بنا ہوا ہے اور دس روپے بھر اس کا وزن ہے مگر بارہ سے کم میں نہیں ملتا تو سود سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ روپے سے نہ خریدو بلکہ پیسوں سے خریدو اور اگر زیادہ لینا ہو تو اشرفیوں سے خریدو یعنی اٹھارہ آنے پیسوں کی عوض میں روپیہ بھر چاندی لے لو یا کچھ ریزگاری یعنی ایک روپے سے کم اور کچھ پیسے دے کر خرید لو تو گناہ نہ ہو گا لیکن ایک روپیہ نقد اور دو نے پیسے نہ دینا چاہیے نہیں تو سود ہو جائے گا اسی طرح اگر آٹھ روپے بھر چاندی نو روپے میں لینا منظور ہے تو سات روپے اور دو روپے کے پیسے دے دو تو سات روپے کے عوض میں سات روپے بھر چاندی ہو گئی باقی سب چاندی ان پیسوں کی عوض میں گئی۔ اگر دو روپے کے پیسے نہ دو تو کم سے کم اٹھارہ آنے کے پیسے ضرور دینا چاہیے یعنی سات روپے اور چودہ آنے کی ریزگاری اور اٹھارہ آنے کے پیسے دیئے تو چاندی کے مقابلہ میں تو اسی کے برابر چاندی آئی جو کچھ بچی وہ سب پیسوں کی عوض میں ہو گئی اگر آٹھ روپے اور ایک روپے کے پیسے دو گی تو گناہ سے نہ بچ سکو گی کیونکہ آٹھ روپے کی عوض میں آٹھ روپے بھر چاندی ہونی چاہیے پھر یہ پیسے کیسے اس لیے سود ہو گیا۔ غرضیکہ اتنی بات ہمیشہ خیال میں رکھو کہ جتنی چاندی لی ہے تم اس سے کم چاندی دو اور باقی پیسے شامل کر دو تو سود نہ ہو گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ اس طرح ہرگز سود نہ طے کرو کہ نو روپے کی اتنی چاندی دے دو بلکہ یوں کہو کہ سات روپے اور دو۔ روپے کے پیسوں کے عوض میں یہ چاندی دے دو۔ اور اگر اس طرح کہا تو پھر سود ہو گیا خوب سمجھ لو۔

مسئلہ۔ اور اگر دونوں لینے دینے والے رضا مند ہو جائیں تو ایک آسان بات یہ ہے کہ جس طرف چاندی وزن میں کم ہو اس طرف پیسے شامل ہونے چائیں۔

مسئلہ۔ اور ایک اس سے بھی آسان بات یہ ہے کہ دونوں آدمی جتنے چاہیں روپے رکھیں اور جتنی چاہیں چاندی رکھیں مگر دونوں آدمی ایک ایک پیسہ بھی شامل کر دیں اور یوں کہہ دیں کہ ہم اس چاندی اور اس پیسہ کو اس روپے اور اس پیسہ کے بدلے لیتے ہیں سارے بکھیڑوں سے بچ جاؤ گی۔

مسئلہ۔ اگر چاندی سستی ہے اور ایک روپے کی ڈیڑھ روپیہ بھر ملت ہے روپے کی روپیہ بھر لینے میں اپنا نقصان ہے تو اس کے لینے اور سود سے بچنے کی یہ صورت ہے کہ داموں میں کچھ نہ کچھ پیسے ضرور ملا دو۔ کم سے کم دو ہی نے یا ایک نہ یا ایک پیسہ ہی سہی۔ مثلاً دس روپے کی چاندی پندرہ روپے بھر خریدی تو نو روپے اور ایک روپے کے پیسے دے دو یا دو ہی آنے کے پیسے دے دو۔ باقی روپے اور ریزگاری دے دو تو ایسا سمجھیں گے کہ چاندی کے عوض میں اس کے برابر چاندی لی باقی سب چاندی ان پیسوں کی عوض میں ہے اس طرح گناہ نہ ہو گا اور وہ بات یہاں بھی ضرور خیال رکھو کہ یوں نہ کہو کہ اس روپے کی چاندی دے دو بلکہ یوں کہو کہ نو روپے اور ایک روپے کے پیسوں کے عوض میں یہ چاندی دے دو۔ غرض جتنے پیسے شامل کرنا منظور ہیں معاملہ کرتے وقت ان کو صاف کہہ بھی دو ورنہ سود سے بچاؤ نہ ہو گا۔

مسئلہ۔ عورتیں اکثر بازار سے سچا گوٹہ ٹھپہ لچکہ خریدتی ہیں اس میں ان مسئلوں کا خیال رکھو کیونکہ وہ بھی چاندی ہے اور روپیہ چاندی کا اس کے عوض دیا جاتا ہے یہاں بھی آسان بات وہی ہے کہ دونوں طرف ایک ایک پیسہ ملا لیا جائے۔

مسئلہ۔ اگر چاندی یا سونے کی بنی ہوئی کوئی ایسی چیز خریدی جس میں فقط چاندی ہی چاندی ہے یا فقط سونا ہے کوئی اور چیز نہیں ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر سونے کی چیز چاندی یا روپوں سے خریدے یا چاندی کی چیز اشرفی سے خریدے تو وزن میں چاہے جتنی ہو جائز ہے فقط اتنا خیال رکھے کہ اسی وقت لین دین ہو جائے کسی کے ذمہ کچھ باقی نہ رہے۔ اور اگر چاندی کی چیز روپوں سے اور سونے کی چیز اشرفیوں سے خریدے تو وزن میں برابر ہونا واجب ہے اگر کسی طرف کچھ کمی بیشی ہو تو اسی ترکیب سے خریدو جو اوپر بیان ہوئی۔

مسئلہ۔ اور اگر کوئی ایسی چیز ہے کہ چاندی کے علاوہ اس میں کچھ اور بھی لگا ہوا ہے مثلاً جو شن کے اندر لاکھ بھری ہوئی ہے اور نو رنگوں پر رنگ جڑے ہیں انگوٹھیوں پر نگینے رکھے ہیں یا جوشنوں میں لاکھ تو نہیں ہے لیکن تاگوں میں گندھے ہوئے ہیں۔ ان چیزوں کو روپوں سے خریدا تو دیکھو اس چیز میں کتنی چاندی ہے وزن میں اتنے ہی روپوں کے برابر ہے جتنے کو تم نے خریدا ہے۔ یا اس سے کم ہے یا اس سے زیادہ اگر روپوں کی چاندی سے اس چیز کی چاندی یقیناً کم ہو تو یہ معاملہ جائز ہے اور اگر برابر یا زیادہ ہو تو سود ہو گیا اور اس سے بچنے کی وہی ترکیب ہے جو اوپر بیان ہوئی کہ دام کی چاندی اس زیور کی چاندی سے کم رکھو اور باقی پیسے شامل کر دو اور اسی وقت لین دین کا ہو جانا ان سب مسئلوں میں بھی شرط ہے۔

مسئلہ۔ اپنی انگوٹھی سے کسی کی انگوٹھی بدل لی تو دیکھو اگر دونوں پر نگ لگا ہو تب تو بہرحال یہ بدل لینا جائز ہے چاہے دونوں کی چاندی برابر ہو یا کم زیادہ سب درست ہے البتہ ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے اور اگر دونوں سادی یعنی بے رنگ کی ہوں تو برابر ہونا شرط ہے اگر ذرا بھی کمی بیشی ہو گئی تو سود ہو جائے گا اگر ایک پر رنگ ہے اور دوسری سادی تو اگر سادی میں زیادہ چاندی ہو تو یہ بدلنا جائز ہے ورنہ حرام اور سود ہے۔ اسی طرح اگر اسی وقت دونوں طرف سے لین دین نہ ہو ایک نے تو ابھی دے دی دوسری نے کہا بہن میں ذرا دیر میں دے دوں گی تو یہاں بھی سود ہو گیا۔

مسئلہ۔ جن مسئلوں میں اسی وقت لین دین ہونا شرط ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے جدا اور علیحدہ ہونے سے پہلے ہی پہلے لین دین ہو جائے اگر ایک آدمی دوسرے سے الگ ہو گیا اس کے بعد لین دین ہوا تو اس کا اعتبار نہیں یہ بھی سود میں داخل ہے مثلاً تم نے دس روپے کی چاندی یا سونا یا چاندی سونے کی کوئی چیز سنار سے خریدی تو تم کو چاہیے کہ روپے اسی وقت دے دو اور اس کو چاہیے کہ وہ چیز اس وقت دے دے۔ اگر سنار چاندی اپنے ساتھ نہیں لایا اور یوں کہا کہ میں گھر جا کر ابھی بھیج دوں گا تو یہ جائز نہیں بلکہ اس کو چاہیے کہ یہیں منگوا دے اور اس کے منگوانے تک لینے والا بھی وہاں سے نہ ہلے اور نہ اس کو اپنے سے الگ ہونے دے اگر اس نے کہا تم میرے ساتھ چلو میں گھر پہنچ کر دے دوں گا تو جہاں جہاں وہ جائے برابر اس کے ساتھ ساتھ رہنا چاہیے اگر وہ اندر چلا گیا یا اور کسی طرح الگ ہو گیا تو گناہ ہوا اور وہ بیع ناجائز ہو گئی اب پھر سے معاملہ کریں۔

مسئلہ۔ خریدنے کے بعد تم گھر میں روپیہ لینے آئیں یا وہ کہیں پیشاب وغیرہ کے لیے چلا گیا یا اپنی دوکان کے اندر ہی کسی کام کو گیا اور ایک دوسرے سے الگ ہو گیا تو یہ ناجائز اور سودی معاملہ ہو گیا۔

مسئلہ۔ اگر تمہارے پاس اس وقت روپیہ نہ ہو اور ادھار لینا چاہو تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ جتنے دام تم کو دینا چاہئیں اتنے روپے اس سے قرض لے کر اس خریدی ہوئی چیز کے دام بیباق کر دو قرض کی ادائیگی تمہارے ذمہ رہ جائے گی اس کو جب چاہے دے دینا۔

 مسئلہ۔ ایک کا مدار دوپٹہ یا ٹوپی وغیرہ دس روپے کو خریدا تو دیکھو اس میں کے روپے بھر چاندی نکلے گی جے روپے چاندی اس میں ہو اتنے روپے اسی وقت پاس رہتے رہتے دے دینا واجب ہیں باقی روپے جب چاہو دو۔ یہی حکم جڑاؤ زیوروں وغیرہ کی خرید کا ہے مثلاً پانچ روپے کا زیور خریدا اور اس میں دو روپے بھر چاندی ہے تو دو روپے اسی وقت دے دو باقی جب چاہے دینا۔

مسئلہ۔ ایک روپیہ یا کئی روپے کے پیسے لیے یا پیسے دے کر روپیہ لیا تو اس کا حکم یہ ہے کہ دونوں طرف سے لین دین ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ایک طرف سے ہو جانا کافی ہے مثلاً تم نے روپیہ تو اسی وقت دے دیا لیکن اس نے پیسے ذرا دیر بعد دیئے یا اس نے پیسے اسی وقت دے دیئے تم نے روپیہ علیحدہ ہونے کے بعد دیا یہ درست ہے البتہ اگر پیسوں کے ساتھ کچھ ریزگاری بھی لی ہو تو ان کا لین دین دونوں طرف سے اسی وقت ہو جانا چاہیے کہ یہ روپیہ دے دے اور وہ ریزگاری دے دے لیکن یاد رکھو کہ پیسوں کا یہ حکم اسی وقت ہے جب دوکاندار کے پاس پیسے ہیں تو سہی لیکن کسی وجہ سے دے نہیں سکتا یا گھر پر تھے وہاں جا کر لا دے گا تب دے گا۔ اور اگر پیسے نہیں تھے یوں کہا جب سودا بکے اور پیسےآئیں تو لے لینا یا کچھ پیسے ابھی دے دیئے اور باقی سبت کہا جب بکری ہو اور پیسےآئیں تو لے لینا یہ درست نہیں اور چونکہ اکثر پیسوں کے موجود نہ ہونے ہی سے یہ ادھار ہوتا ہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ بالکل پیسے ادھار کے نہ چھوڑے۔ اور اگر کبھی ایسی ضرورت پڑے تو یوں کرو کہ جتنے یہ پیسے موجود ہیں وہ قرض لے لو اور روپیہ امانت رکھا دو جب سب پیسے دے اس وقت بیع کر لینا۔

مسئلہ۔ اگر اشرفی دے کر روپے لیے تو دونوں طرف سے لین دین سامنے رہتے رہتے ہو جانا واجب ہے۔

مسئلہ۔ چاندی سونے کی چیز روپے یا اشرفیوں سے خریدی اور شرط کر لی کہ ایک دن تک یا تین دن تک ہم کو لینے نہ لینے کا اختیار ہے تو یہ جائز نہیں ایسے معاملہ میں یہ اقرار نہ کرنا چاہیے۔

جو چیزیں تل کر بکتی ہیں ان کا بیان

مسئلہ۔ اب ان چیزوں کا حکم سنو جو تول کر بکتی ہیں جیسے اناج گوشت لوہا تانبا ترکاری نمک وغیرہ اس قسم کی چیزوں میں سے اگر اک چیز کو اسی قسم کی چیز سے بیچنا اور بدلنا چاہو مثلاً ایک گیہوں دے کر دوسرے گیہوں لیے یا ایک دھان دے کر دوسرے دھان لیے یا آٹے کے عوض آٹا یا اسی طرح کوئی اور چیز غرضیکہ دونوں طرف ایک ہی قسم کی چیز ہے تو اس میں بھی ان دونوں باتوں کا خیال رکھنا واجب ہے ایک تو یہ کہ دونوں طرف بالکل برابر ہو ذرا بھی کسی طرف کمی بیشی نہ ہو ورنہ سود ہو جائے گا۔ دوسری یہ کہ اسی وقت ہاتھ در ہاتھ دونوں طرف سے لین دین اور قبضہ ہو جائے۔ اگر قبضہ نہ ہو تو کم سے کم اتنا ضرور ہو کہ دونوں گیہوں الگ کر کے رکھ دیئے جائیں تم اپنے گیہوں تول کر الگ رکھ دو کہ دیکھو یہ رکھے ہیں جب تمہارا جی چاہے لے جانا۔ اسی طرح وہ بھی اپنے گیہوں تول کر الگ کر دے اور کہہ دے کہ یہ تمہارے الگ رکھے ہیں جب چاہو لے جانا۔ اگر یہ بھی نہ کیا اور ایک دوسرے سے الگ ہو گئی تو سود کا گناہ ہوا۔ مسئلہ۔ خراب گیہوں دے کر اچھے گیہوں لینا منظور ہے یا برا آٹا دے کر اچھا آٹا لینا ہے اس لیے اس کے برابر کوئی نہیں دیتا تو سود سے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ اس گیہوں یا آٹے وغیرہ کو پیسوں سے بیچ دو کہ ہم نے اتنا آٹا دو نے کو بیچا۔ پھر اسی دو نے کے عوض اس سے وہ اچھے گیہوں یا آٹا لے لو یہ جائز ہے۔ مسئلہ۔ اور اگر ایسی چیزوں میں جو تول کر بکتی ہیں ایک طرح کی چیز نہ ہو جیسے گیہوں دے کر دھان لیے یا جو۔ چنا۔ جوار۔ نمک۔ گوشت۔

ترکاری وغیرہ کوئی اور چیز لی غرضیکہ ادھر اور چیز ہے اور ادھر اور چیز دونوں طرف ایک چیز نہیں تو اس صورت میں دونوں کا وزن برابر ہونا واجب نہیں۔ سیر بھر گیہوں دے کر چاہے دس سیر دھان وغیرہ لے لو یا چھٹانک ہی بھر لو تو سب جائز ہے۔ البتہ وہ دوسری بات یہاں بھی واجب ہے کہ سامنے رہتے رہتے دونوں طرف سے لین دین ہو جائے یا کم سے کم اتنا ہو کہ دونوں کی چیزیں الگ کر کے رکھ دی جائیں اگر ایسا نہ کیا تو سود کا گناہ ہو گیا۔ مسئلہ۔ سیر بھر چنے کے عوض میں کنجڑن سے کوئی ترکاری لی پھر گیہوں نکالنے کے لیے اندر کوٹھڑی میں گئی وہاں سے الگ ہو گئی تو یہ ناجائز اور حرام ہے اب پھر سے معاملہ کرے۔ مسئلہ۔ اگر اس قسم کی چیز جو تول کر بکتی ہے روپے پیسے سے خریدی یا کپڑے وغیرہ کسی ایسی چیز سے بدلی ہے جو تول کر نہیں بکتی بلکہ گز سے ناپ کر بکتی ہے یا گنتی سے بکتی ہے مثلاً ایک تھان کپڑا دے کر گیہوں وغیرہ لے یا گیہوں چنے دے کر امرود نارنگی ناشپاتی انڈے ایسی چیزیں لیں جو گن کر بکتی ہیں غرضیکہ ایک طرف ایسی چیز ہے جو تول کر بکتی ہے اور دوسری طرف گنتی سے یا گز سے ناپ کر بکنے والی چیز ہے تو اس صورت میں ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی واجب نہیں۔ ایک پیسہ کے چاہے جتنے گیہوں آٹا ترکاری خریدے اسی طرح کپڑا دے کر چاہے جتنا اناج لیوے گیہوں چنے وغیرہ دے کر چاہے جتنے امرود نارنگی وغیرہ لیوے اور چاہے اسی وقت اس جگہ رہتے رہتے لین دین ہو جائے اور چاہے الگ ہو نے کے بعد ہر طرح یہ معاملہ درست ہے۔ مسئلہ۔ ایک طرف چھنا ہوا آٹا ہے دوسری طرف بے چھنا یا ایک طرف موٹا ہے دوسری طرف باریک۔ تو بدلتے وقت ان دونوں کا برابر ہونا واجب ہے کمی زیادتی جائز نہیں اگر ضرورت پڑے تو اس کی وہی ترکیب ہے جو بیان ہوئی۔

اور اگر ایک طرف گیہوں کا آٹا ہے دوسری طرف چنے کا یا جوار وغیرہ کا تو اب وزن میں دونوں کا برابر ہونا واجب نہیں مگر وہ دوسری بات بہرحال واجب ہے کہ ہاتھ در ہاتھ لین دین ہو جائے۔ مسئلہ۔ گہوں کو ٹے سے بدلنا کسی طرح درست نہیں چاہے سیر بھر گیہوں دے کر سیر ہی بھر آٹا لو چاہے کچھ کم زیادہ لو۔ بہرحال ناجائز ہے البتہ اگر گیہوں دے کر گیہوں کا آٹا نہیں لیا بلکہ چنے وغیرہ کسی اور چیز کا آٹا لیا تو جائز ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ہو۔ مسئلہ۔ سرسوں دے کر سرسوں کا تیل لیا یا تل دے کر تلی کا تیل لیا تو دیکھو اگر یہ تیل جو تم نے لیا ہے یقیناً اس تیل سے زیادہ ہے جو اس سرسوں اور تل میں نکلے گا تو یہ بدلنا ہاتھ در ہاتھ صحیح ہے اور اگر اس کے برابر یا کم ہو یا شبہ ہو کہ شاید اس سے زیادہ نہ ہو تو درست نہیں بلکہ سود ہے۔

مسئلہ۔ گائے کا گوشت دے کر بکری کا گوشت لیا تو دونوں کا برابر ہونا واجب نہیں کمی بیشی جائز ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ہو۔ مسئلہ۔ اپنا لوٹا دے کر دوسرے کا لوٹا لیا یا لوٹے کو پتیلی وغیرہ کسی اور برتن سے بدلا تو وزن میں دونوں کا برابر ہونا اور ہاتھ در ہاتھ ہونا شرط ہے اگر ذرا بھی کمی بیشی ہوئی تو سود ہو گیا کیونکہ دونوں چیزیں تانبے کی ہیں اس لیے وہ ایک ہی قسم کی سمجھی جائیں گی۔ اسی طرح اگر وزن میں برابر ہو مگر ہاتھ در ہاتھ نہ ہوئی تب بھی سود ہوا۔ البتہ اگر ایک طرف تانبے کا برتن ہو دوسری طرف لوہے کا یا پیتل وغیرہ کا تو وزن کی کمی بیشی جائز ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ہو۔ مسئلہ۔ کسی سے سیر بھر گیہوں قرض لیے اور یوں کہا ہمارے پاس گیہوں تو ہیں نہیں ہم اس کے عوض دو سیر چنے دے دیں گے تو جائز نہیں کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ گیہوں کو چنے سے بدلتی ہے اور بدلتے وقت ایسی دونوں چیزوں کا اسی وقت لین دین ہو جانا چاہیے کچھ ادھار نہ رہنا چاہیے۔ اگر کبھی ایسی ضرورت پڑے تو یوں کرے کہ گیہوں ادھار لے جائے اس وقت یہ نہ کہے کہ اس کے بدلے ہم چنے دیں گے بلکہ کسی دوسرے وقت چنے لا کر کہے۔ بہن اس گیہوں کے بدلے تم یہ چنے لے لو یہ جائز ہے۔ مسئلہ۔ یہ جتنے مسئلے بیان ہوئے سب میں اسی وقت رہتے رہتے سامنے لین دین ہو جانا یا کم سے کم اسی وقت سامنے دونوں چیزیں الگ کر کے رکھ دینا شرط ہے۔ اگر ایسا نہ کیا تو سودی معاملہ ہوا۔

مسئلہ۔ جو چیزیں تول کر نہیں بکتیں بلکہ گز سے ناپ کر یا گن کر بکتی ہیں ان کا حکم یہ ہے کہ اگر ایک ہی قسم کی چیز دے کر اسی قسم کی چز لو جیسے امرود دے کر دوسرے امرود لے یا نارنگی دے کر نارنگی یا کپڑا دے کر دوسرا ویسا کپڑا لیا۔ تو برابر ہونا شرط نہیں کمی بیشی جائز ہے لیکن اسی وقت لین دین ہو جانا واجب ہے اور اگر ادھر اور چیز ہے اور اس طرف اور چیز مثلاً امرود دے کر نارنگی لی یا گیہوں دے کر امرود لیے یا تنزیب دے کر لٹھا یا گاڑھا لیا تو بہرحال جائز ہے نہ تو دونوں کا برابر ہونا واجب ہے اور نہ اسی وقت لین دین ہونا واجب ہے۔

مسئلہ۔ سب کا خلاصہ یہ ہوا کہ علاوہ چاندی سونے کے اگر دونوں طرف ایک ہی چیز ہو اور وہ چیز تول کر بکتی ہو جیسے گیہوں کے عوض گیہوں چنے کے عوض چنا وغیرہ تب تو وزن میں برابر ہونا بھی واجب ہے اور اسی وقت سامنے رہتے رہتے لین دن ہو جانا بھی واجب ہے اور اگر دونوں طرف ایک ہی چیز ہے اس طرف سے اور چیز لیکن دونوں تول کر بکتی ہیں جیسے گیہوں کے بدلے چنا چنے کے بدلے جوار لینا۔ ان دونوں صورتوں میں وزن میں برابر ہونا واجب نہیں۔ کمی بیشی جائز ہے البتہ اسی وقت لین دین ہونا واجب ہے اور جہاں دونوں باتیں نہ ہوں یعنی دونوں طرف ایک ہی چیز نہیں اس طرف کچھ اور ہے اس طرف کچھ اور۔ اور وہ دونوں وزن کے حساب سے بھی نہیں بکتیں وہاں کمی بیشی بھی جائز ہے اور اسی وقت لین دین کرنا بھی واجب نہیں جیسے امرود دے کر نارنگی لینا۔ خوب سمجھ لو۔

مسئلہ۔ چینی کا ایک برتن دوسرے چینی کے برتن سے بدل لیا۔ یا چینی کو تام چینی سے بدلا تو اس میں برابری واجب نہیں ایک کے بدلے دو لیوے تب بھی جائز ہے۔ اسی طرح ایک سوئی دے کر دو سوئیاں یا تین یا چار لینا بھی جائز ہے لیکن اگر دونوں طرف چینی یا دونوں طرف تام چینی ہو تو اس وقت سامنے رہتے ہوئے لین دین ہو جانا چاہیے اور اگر قسم بدل جائے مثلاً چینی سے تام چینی بدلی تو یہ بھی واجب نہیں۔

مسئلہ۔ تمہارے پاس پڑوسن آئی کہ تم نے جو سیر بھر آٹا پکایا ہے وہ روٹی ہم کو دے دو۔ ہمارے گھر مہمان آ گئے ہیں اور سیر بھر یا سوا سیر آٹا یا گیہوں لے لو یا اس وقت روٹی دے دو پھر ہم سے آٹا یا گیہوں لے لے لینا۔ یہ درست ہے۔

مسئلہ۔ اگر نوکر ماما سے کوئی چیز منگاؤ تو اس کو خوب سمجھا دو کہ اس چیز کو اس طرح خرید کر لانا کبھی ایسا نہ ہو کہ وہ بے قاعدہ خرید لائے جس میں سود ہو جائے پھر تم اور سب بال بچے اس کو کھائیں اور حرام کھانا کھانے کے وبال میں سب گرفتار ہوں اور جس جس کو تم کھلاؤ مثلاً میاں کو مہمان کو سب کا گناہ تمہارے اوپر پڑے۔

بیع سلم کا بیان

مسئلہ۔ فصل کٹنے سے پہلے یا کٹنے کے بعد کسی کو دس روپے دیئے اور یوں کہا کہ دو مہینے یا تین مہینے کے بعد فلانے مہینے میں فلاں تاریخ میں ہم تم سے ان دس روپے کے گیہوں لیں گے اور نرخ اسی وقت طے کر لیا کہ روپے کے پندرہ سیر یا روپے کے بیس سیر کے حساب سے لیں گے تو یہ بیع درست ہے جس مہینے کا وعدہ ہوا ہے اس مہینے میں اس کو اسی بھاؤ گیہوں دینا پڑیں گے چاہے بازار میں گراں بکیں چاہے سستے بازار کے بھاؤ کا کچھ اعتبار نہیں ہے اور اس بیع کو سلم کہتے ہیں لیکن اس کے جائز ہونے کی کئی شرطیں ہیں ان کو خوب غور سے سمجھو اول شرط یہ ہے کہ گیہوں وغیرہ کی کیفیت خوب صاف صاف ایسی طرح بتلا دے کہ لیتے وقت دونوں میں جھگڑا نہ پڑے مثلاً کہہ دے کہ فلاں قسم کا گیہوں دینا۔ بہت پتلا نہ ہو نہ پالا مارا ہوا ہو۔ عمدہ ہو خراب نہ ہو۔ اس میں کوئی اور چیز چنے مٹر وغیرہ نہ ملی ہو۔ خوب سوکھے ہوں گیلے نہ ہوں۔ غرضیکہ جس قسم کی چیز لینا ہو ویسی بتلا دینا چاہیے تاکہ اس وقت بکھیڑا نہ ہو۔ اگر اس وقت صرف اتنا کہہ دیا کہ دس روپے کے گیہوں دے دینا تو یہ ناجائز ہوا۔ یا یوں کہا کہ ان دس روپے کے دھان دے دینا یا چاول دے دینا اس کی قسم کچھ نہیں بتلائی یہ سب ناجائز ہے دوسری شرط یہ ہے کہ نرخ بھی اسی وقت طے کر لے کہ روپے کے پندرہ سیر یا بیس سیر کے حساب سے لے لیں گے۔ اگر یوں کہا کہ اس وقت جو بازار کا بھاؤ ہو اس حساب سے اس کو دینا یا اس سے دو سیر زیادہ دینا تو یہ جائز نہیں بازار کے بھاؤ کا کچھ اعتبار نہ کرو۔ اسی وقت اپنے لینے کا نرخ مقرر کر لو۔ وقت آنے پر اسی مقرر کیے ہوئے بھاؤ سے لے لو۔ تیسری شرط یہ ہے کہ جتنے روپے کے لینا ہوں اسی وقت بتلا دو کہ ہم دس روپے یا بیس روپے کے گیہوں لیں گے۔ اگر یہ نہیں بتلایا اور یوں ہی گول مول کہہ دیا کہ تھوڑے روپے کے ہم بھی لیں گے تو یہ صحیح نہیں۔

چوتھی شرط یہ ہے کہ اسی وقت اسی جگہ رہتے رہتے سب روپے دے دے اگر معاملہ کرنے کے بعد الگ ہو کر پھر روپے دیئے تو وہ معاملہ باطل ہو گیا اب پھر سے کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر پانچ روپے تو اسی وقت دے دیئے اور پانچ روپے دوسرے وقت دیئے تو پانچ روپے میں بیع سلم باقی رہی اور پانچ روپے میں باطل ہو گئی۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ اپنے لینے کی مدت کم سے کم ایک مہینہ مقرر کرے کہ ایک مہینے کے بعد فلانی تاریخ ہم گیہوں لیوں گے مہینے سے کم مدت مقرر کرنا صحیح نہیں اور زیادہ چاہیے جتنی مقرر کرے جائز ہے لیکن دن تاریخ مہینہ سب مقرر کر دے تاکہ بکھیڑا نہ پڑے کہ وہ کہے میں ابھی نہ دوں گا۔ تم کہو نہیں آج ہی دو۔ اس لیے پہلے ہی سے سب طے کر لو۔ اگر دن تاریخ مہینہ مقرر نہ کیا بلکہ یوں کہا کہ جب فصل کٹے گی تب دے دینا تو یہ صحیح نہیں۔ چھٹی شرط یہ ہے کہ یہ بھی مقرر کر دے کہ فلانی جگہ وہ گیہوں دینا یعنی اس شہر میں یا کسی دوسرے شہر میں جہاں لینا ہو وہاں پہنچانے کے لیے کہہ دے یا یوں کہہ دے کہ ہمارے گھر پہنچا دینا۔ غرضیکہ جو منظور ہو صاف بتلا دے۔ اگر یہ نہیں بتلایا تو صحیح نہیں۔ البتہ اگر کوئی ہلکی چیز ہو جس کے لانے اور لے جانے میں کچھ مزدوری نہیں لگتی مثلاً مشک خریدا یا سچے موتی یا اور کچھ تو لینے کی جگہ بتلانا ضروری نہیں۔ جہاں یہ ملے اس کو دے دے اگر ان شرطوں کے موافق کیا تو بیع سلم درست ہے۔ ورنہ درست نہیں۔

مسئلہ۔ گیہوں وغیرہ غلہ کے علاوہ اور جو چیزیں ایسی ہوں کہ ان کی کیفیت بیان کر کے مقرر کر دی جائے کہ لیتے وقت کچھ جھگڑا ہونے کا ڈر نہ رہے ان کی بیع سلم بھی درست ہے جیسے انڈے اینٹیں کپڑا مگر سب باتیں طے کر لے کہ اتنی بڑی اینٹ ہو۔ اتنی لمبی۔ اتنی چوڑی۔ کپڑا سوتی ہو اتنا باریک ہو اتنا موٹا ہو۔ دیسی ہو یا ولایتی ہو غرضیکہ سب باتیں بتا دینا چاہئیں۔ کچھ گنجلک باقی نہ رہے۔

مسئلہ۔ روپے کی پانچ گٹھڑی یا پانچ کھانچی کے حساب سے بھوسا بطور بیع سلم کے لیا تو یہ درست نہیں کیونکہ گٹھڑی اور کھانچی کی مقدار میں بہت فرق ہوتا ہے البتہ اگر کسی طرح سے سب کچھ مقرر اور طے کر لے یا وزن کے حساب سے بیع کرے تو درست ہے۔

مسئلہ۔ سلم کے صحیح ہونے کی یہ بھی شرط ہے کہ جس وقت معاملہ آیا ہے اس وقت سے لینے اور وصول پانے کے زمانے تک وہ چیز بازار میں ملتی رہے نایاب نہ ہو۔ اگر اس درمیان میں وہ چیز بالکل نایاب ہو جائے کہ اس ملک میں بازاروں میں نہ ملے گو دوسری جگہ سے بہت مصیبت جھیل کر منگوا سکے تو وہ بیع سلم باطل ہو گئی۔

مسئلہ۔ معاملہ کرتے وقت یہ شرط کر دی کہ فصل کے کٹنے پر فلاں مہینے میں ہم نئے گیہوں لیں گے یا فلانے کھیت کے گیہوں لیں گے تو یہ معاملہ جائز نہیں ہے اس لیے یہ شرط نہ کرنا چاہیے پھر وقت مقررہ پر اس کو اختیار ہے چاہے نئے دے یا پرانے ۔ البتہ اگر نئے گیہوں کٹ چکے ہوں تو نئے کی شرط کرنا بھی درست ہے۔

مسئلہ۔ تم نے دس روپے کے گیہوں لینے کا معاملہ کیا تھا وہ مدت گزر گئی بلکہ زیاد ہو گئی مگر اس نے اب تک گیہوں نہیں دیئے نہ دینے کی امید ہے تو اب یہ کہنا جائز نہیں کہ اچھا تم گیہوں نہ دو بلکہ اس گیہوں کے بدلے اتنے چنے یا اتنے دھان یا اتنی فلاں چیز دے دو۔ گیہوں کے عوض کسی اور چیز کا لینا جائز نہیں یا تو اس کو کچھ مہلت دے دو اور بعد مہلت گیہوں لو۔ یا اپنا روپیہ واپس لے لو۔ اسی طرح اگر بیع سلم کو تم دونوں نے توڑ دیا کہ ہم وہ معاملہ توڑتے ہیں گیہوں نہ لیں گے روپیہ واپس دے دیا یا تم نے نہیں توڑا بلکہ وہ معاملہ خود ہی ٹوٹ گیا جیسے وہ چیز نایاب ہو گئی کہیں نہیں ملتی تو اس صورت میں تم کو صرف روپے لینے کا اختیار ہے اس روپے کے عوض اس سے کوئی اور چیز لینا درست نہیں۔ پہلے روپیہ لیلو لینے کے بعد اس سے جو چیز چاہو خریدو۔

قرض لینے کا بیان

مسئلہ۔ جو چیز ایسی ہو کہ اس طرح کی چیز تم دے سکتے ہو اس کا قرض لینا درست ہے۔ جیسے اناج انڈے گوشت وغیرہ اور جو چیز ایسی ہو کہ اسی طرح کی چیز دینا مشکل ہے تو اس کا قرض لینا درست نہیں جیسے امرود نارنگی بکری مرغی وغیرہ۔

مسئلہ۔ جس زمانے میں روپے کے دس سیر گیہوں ملتے تھے اس وقت تم نے پانچ سیر گیہوں قرض لیے پھر گیہوں سستے ہو گئے اور روپے کے بیس سری ملنے لگے تو تم کو وہی پانچ سیر گیہوں دینا پڑیں گے۔ اسی طرح اگر گراں ہو گئے تب بھی جتنے لیے ہیں اتنے ہی دینا پڑیں گے۔

مسئلہ۔ جیسے گیہوں تم نے دیئے تھے اس نے اس سے اچھے گیہوں ادا کیے تو اس کا لینا جائز ہے یہ سود نہیں مگر قرض لینے کے وقت یہ کہنا درست نہیں کہ ہم اس سے اچھے لیں گے البتہ وزن میں زیادہ نہ ہونا چاہیے۔ اگر تم نے دیئے ہوئے گیہوں سے زیادہ لیے تو یہ ناجائز ہو گیا۔ خوب ٹھیک تول کر لینا دینا چاہیے لیکن اگر تھوڑا جھکتا تول دیا تو کچھ ڈر نہیں۔

مسئلہ۔ کسی سے کچھ روپیہ یا غلہ اس وعدہ پر قرض لیا کہ ایک مہینہ یا پندرہ دن کے بعد ہم ادا کر دیں گے اور اس نے منظور کر لیا تب بھی یہ مدت کا بیان کرنا لغو بلکہ ناجائز ہے۔ اگر اس کو مدت سے پہلے ضرورت پڑے اور تم سے مانگے یا بے ضرورت ہی مانگے تو تم کو ابھی دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ تم نے دو سیر گیہوں یا آٹا وغیرہ کچھ قرض لیا جب اس نے مانگا تو تم نے کہا بہن اس وقت گیہوں تو نہیں ہیں اس کے بدلے تم دو نہ پیسے لے لو اس نے کہا اچھا۔ تو یہ پیسے اسی وقت سامنے رہتے رہتے دے دینا چاہیے۔ اگر پیسے نکالنے اندر گئی اور اس کے پاس سے الگ ہو گئی تو وہ معاملہ باطل ہو گیا۔ اب پھر سے کہنا چاہیے کہ تم اس ادھار گیہوں کے بدلے دو آنے لے لو۔

مسئلہ۔ ایک روپے کے پیسے قرض لیے پھر پیسے گراں ہو گئے اور روپے کے ساڑھے پندرہ آنے چلنے لگے تو اب سولہ آنے دینا واجب نہیں ہیں بلکہ اس کے بدلے روپیہ دے دینا چاہیے۔ وہ یوں نہیں کہہ سکتی کہ میں روپیہ نہیں لیتی پیسے لیے تھے وہی لاؤ۔

مسئلہ۔ گھروں میں دستور ہے کہ دوسرے گھر سے اس وقت دس پانچ روٹی قرض منگا لی۔ پھر جب اپنے گھر پک گئی گن کر بھیج دی یہ درست ہے۔

کسی کی ذمہ داری کر لینے کا بیان

مسئلہ۔ نعیمہ کے ذمہ کسی کے کچھ روپے یا پیسے ہوتے تھے تم نے اس کی ذمہ داری کر لی کہ اگر یہ نہ دے گی تو ہم سے لے لینا یا یوں کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں یا دیندار ہیں یا اور کوئی ایسا لفظ کہا جس سے ذمہ داری معلوم ہوئی۔ اور اس حقدار نے تمہاری ذمہ داری منظور بھی کر لی تو اب اس کی ادائیگی تمہارے ذمہ واجب ہو گئی اگر نعیمہ نہ دے تو تم کو دینا پڑیں گے اور اس حقدار کو اختیار ہے جس سے چاہے تقاضا کرے چاہے تم سے اور چاہے نعیمہ سے۔ اب جب تک نعیمہ اپنا قرض ادا نہ کر دے یا معاف نہ کرا لے تب تک برابر تم ذمہ دار ہو گی۔ البتہ اگر وہ حقدار تمہاری ذمہ داری نہیں رہی اور اگر تمہاری ذمہ داری کے وقت ہی اس حق دار نے منظور نہیں کیا اور کہا تمہاری ذمہ داری کا ہم کو اعتبار نہیں یا اور کچھ کہا تو تم ذمہ داری نہیں ہوئیں۔

مسئلہ۔ تم نے کسی کی ذمہ داری کر لی تھی اور اس کے پاس روپے ابھی نہ تھے اس لیے تم کو دینا پڑے تو اگر تم نے اس قرض دار کے کہنے سے ذمہ داری کی ہے تب تو جتنا تم نے حقدار کو دیا ہے اس قرض دار سے لے سکتی ہو۔ اور اگر تم نے اپنی خوشی سے ذمہ داری کی ہے تو دیکھو تمہاری ذمہ داری کو پہلے کس نے منظور کیا ہے اس قرض دار نے یا حقدار نے اگر پہلے قرض دار نے منظور کیا تب تو ایسا ہی سمجھیں گے کہ تم نے اس کو کہنے سے ذمہ داری کی۔ لہذا اپنا روپیہ اس سے لے سکتی ہو اور اگر پہلے حق دار نے منظور کر لیا تو جو کچھ تم نے دیا ہے قرض دار سے لینے کا حق نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ تمہاری طرف سے احسان سمجھا جائے گا کہ ویسے ہی اس کا قرض تم نے ادا کر دیا وہ خود دے دے تو اور بات ہے۔

مسئلہ۔ اگر حقدار نے قرض دار کو مہینہ بھر یا پندرہ دن وغیرہ کی مہلت دے دی تو اب اتنے دن اس ذمہ داری کرنے والے سے بھی تقاضا نہیں کر سکتا۔

مسئلہ۔ اور اگر تم نے اپنے پاس سے دینے کی ذمہ داری نہیں کی تھی بلکہ اس قرض دار کا روپیہ تمہارے پاس امانت رکھا تھا اس لیے تم نے کہا تھا کہ ہمارے پاس اس شخص کی امانت رکھی ہے ہم اس میں سے دے دیں گے پھر وہ روپیہ چوری ہو گیا اور کسی طرح جاتا رہا تو اب تمہاری ذمہ داری نہیں رہی۔ نہ اب تم پر اس کا دینا واجب ہے اور نہ وہ حق دار تم سے تقاضا کر سکتا ہے۔

مسئلہ۔ کہیں جانے کے لیے تم نے کوئی یکہ یا بہلی کرایہ پر کی اور اس بہلی والے کی کسی نے ذمہ داری کر لی کہ اگر یہ نہ لے گیا تو میں اپنی بہلی دے دوں گا تو یہ ذمہ داری درست ہے اگر وہ نہ دے تو اس ذمہ دار کو دینا پڑے گی۔

مسئلہ۔ تم نے اپنی چیز کسی کو دی کہ جاؤ اس کو بیچ لاؤ۔ وہ بیچ آیا۔ لیکن دام نہیں لایا اور کہا کہ دام کہیں نہیں جا سکتے۔ دام کا میں ذمہ دار ہوں اس سے نہ ملیں تو مجھ سے لے لینا تو یہ ذمہ داری صحیح نہیں۔

مسئلہ۔ کسی نے کہا کہ اپنی مرغی اسی میں بند رہنے دو اگر بلی لے جائے تو میرا ذمہ مجھ سے لے لینا۔ یا بکری کو کہا اگر بھیڑیا لے جائے تو مجھ سے لے لینا تو یہ ذمہ داری صحیح نہیں۔

مسئلہ۔ نابالغ لڑکا یا لڑکی اگر کسی کی ذمہ داری کرے تو وہ ذمہ داری صحیح نہیں۔

کسی کو وکیل کر دینے کا بیان

مسئلہ۔ جس کام کو آدمی خود کر سکتا ہے اس میں یہ بھی اختیار ہے کہ کسی اور سے کہہ دے کہ تم ہمارا یہ کام کر دو۔ جیسے بیچنا مول لینا کرایہ پر لینا دینا نکاح کرنا وغیرہ۔ مثلاً ماما کو بازار سودا لینے بھیجا یا ماما کے ذریعہ سے کوئی چیز بکوائی یا یکہ بہلی کرایہ پر منگوایا۔ اور جس سے کام کرایا ہے شریعت میں اس کو وکیل کہتے ہیں ماما کو یا کسی نوکر کو سودا لینے بھیجا تو وہ تمہارا وکیل کہلائے گا۔

مسئلہ۔ تم نے ماما سے گوشت منگوایا وہ ادھار لے آئی تو گوشت والا تم سے دام کا تقاضا نہیں کر سکتا۔ اس ماما سے تقاضا کرے اور وہ ماما تم سے تقاضا کرے گی۔ اسی طرح اگر کوئی چیز تم نے ماما سے بکوائی تو اس لینے والے سے تم کو تقاضا کرنے اور دام کے وصول کرنے کا حق نہیں ہے اس نے جس سے چیز پائی ہے اس کو دام بھی دے گا اور اگر وہ خود تمہیں کو دام دے دے تب بھی جائز ہے مطلب یہ ہے کہ اگر وہ تم کو نہ دے تو تم زبردستی نہیں کر سکتیں۔

مسئلہ۔ تم نے نوکر سے کوئی چیز منگوائی وہ لے آیا تو اس کو اختیار ہے کہ جب تک تم سے دام نہ لے لیوے تب تک وہ چیز تم کو نہ دیوے چاہے اس نے اپنے پاس سے دام دے دیئے ہوں یا ابھی نہ دیئے ہوں دونوں کا ایک حکم ہے۔ البتہ اگر وہ دس پانچ دن کے وعدے پر ادھار لایا ہو تو جتنے دن کا وعدہ کر آیا ہے اس سے پہلے دام نہیں مانگ سکتا۔

مسئلہ۔ تم نے سیر بھر گوشت منگوایا تھا وہ ڈیڑھ سیر اٹھا لایا تو پورا ڈیڑھ سیر لینا واجب نہیں۔ اگر تم نہ لو تو آدھ سیر اس کو لینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ تم نے کسی سے کہا کہ فلانی بکری جو فلانے کے یہاں ہے اس کو جا کر دو روپے میں لے آؤ تو اب وہ وکیل وہی بکری خود اپنے لیے نہیں خرید سکتا۔ غرضیکہ جو چیز خاص تم مقرر کر کے بتلا دو اس وقت اس کو اپنے لیے خریدنا درست نہیں۔ البتہ جو دام تم نے بتلائے ہیں اس سے زیادہ میں خرید لیا تو اپنے لیے خریدنا درست ہے اور اگر تم نے کچھ دام نہ بتلائے ہوں تو کسی طرح اپنے لیے نہیں خرید سکتا۔

مسئلہ۔ اگر تم نے کوئی خاص بکری نہیں  بتلائی بس اتنا کہا کہ ایک بکری کی ضرورت ہے ہم کو خرید دو تو وہ اپنے لیے بھی خرید سکتا ہے جو بکری چاہے اپنے لیے خریدے اور جو چاہے تمہارے لیے۔ اگر خود لینے کی نیت سے خریدے تو اس کی ہوئی۔ اور اگر تمہاری نیت سے خریدے تو تمہاری ہوئی اور اگر تمہارے دئیے داموں سے خریدی تو بھی تمہاری ہوئی چاہے جس نیت سے خریدے۔

مسئلہ۔ تمہارے لیے اس نے بکری خریدی پھر ابھی تم کو دینے نہ پایا تھا کہ بکری مر گئی یا چوری ہو گئی تو اس بکری کے دام تم کو دینا پڑیں گے اگر تم کہو کہ تو نے اپنے لیے خریدی تھی ہمارے لیے نہیں خریدی تو اگر تم پہلے اس کو دام دے چکی ہو تو تمہارے گئے۔ اور اگر تم نے ابھی دام نہیں دیئے اور وہ اب دام مانتا ہے تو تم اگر قسم کھا جاؤ کہ تو نے اپنے لیے خریدی تھی تو اس کی بکری گئی اور اگر قسم نہ کھا سکو تو اس کی بات کا اعتبار کرو۔

مسئلہ۔ اگر نوکر یا ماما کوئی چیز گراں خرید لائی تو اگر تھوڑا ہی فرق ہو تب تو تم کو لینا پڑے گا اور دام دینا پڑیں گے اور اگر بہت زیادہ گراں لے آئی کہ اتنے دام کوئی نہیں لگا سکتا تو اس کا لینا واجب نہیں اگر نہ لو تو اس کو لینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ تم نے کسی کو کوئی چیز بیچنے کو دی تو اس کو یہ جائز نہیں کہ خود لے لے اور دام تم کو دیوے۔ اسی طرح اگر تم نے کچھ منگوایا کہ فلانی چیز خرید لاؤ تو وہ اپنی چیز تم کو نہیں دے سکتا۔ اگر اپنی چیز دینا یا خود لینا منظور ہو تو صاف صاف کہہ دے کہ یہ چیز میں لیتا ہوں مجھ کو دے دو یا یوں کہہ دے کہ یہ میری چیز تم لے لو۔ اور اتنے دام دے دو۔ بغیر بتلائے ہوئے ایسا کرنا جائز نہیں۔

مسئلہ۔ تم نے ماما سے بکری کا گوشت منگوایا وہ گائے کا لے آئی تو تم کو اختیار ہے چاہے لو چاہے نہ لو۔ اسی طرح تم نے آلو منگوائے وہ بھنڈی یا کچھ اور لے آئی تو اس کا لینا ضروری نہیں۔ اگر تم انکار کرو تو اس کو لینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ تم نے ایک پیسہ کی چیز منگوائی وہ دو پیسہ کی لے آئی تو تم کو اختیار ہے کہ ایک ہی پیسہ کے موافق لو۔ اور ایک پیسہ کی جو زائد لائی وہ اسی کے سر ڈالو۔

مسئلہ۔ تم نے دو شخصوں کو بھیجا کہ جاؤ فلانی چیز خرید لاؤ تو خریدتے وقت دونوں کو موجود رہنا چاہیے۔ فقط ایک آدمی کو خریدنا جائز نہیں اگر ایک ہی آدمی خریدے تو وہ بیع موقوف ہے جب تم منظور کر لو گی تو صحیح ہو جائے گی۔

مسئلہ۔ تم نے کسی سے کہا کہ ہمیں ایک گائے یا بکری یا اور کچھ کہا کہ فلانی چیز خرید لا دو۔ اس نے خود نہیں خریدا بلکہ کسی اور سے کہہ دیا اس نے خریدا تو اس کا لینا تمہارے ذمہ واجب نہیں۔ چاہے لو چاہے نہ لو۔ دونوں اختیار ہیں البتہ اگر وہ خود تمہارے لیے خریدے تو تم کو لینا پڑے گا۔

وکیل کے برطرف کر دینے کا بیان

وکیل کے موقوف اور برطرف کرنے کا تم کو ہر وقت اختیار ہے مثلاً تم نے کسی سے کہا تھا ہم کو ایک بکری کی ضرورت ہے کہیں مل جائے تو لے لینا۔ پھر منع کر دیا کہ اب نہ لینا تو اب اس کو لینے کا اختیار نہیں اگر اب لیوے گا تو اسی کے سر پڑے گی تم کو نہ لینا پڑے گی۔

مسئلہ۔ اگر خود اس کو نہیں منع کیا بلکہ خط لکھ بھیجا یا آدمی بھیج کر اطلاع کر دی کہ اب نہ لینا تب بھی وہ برطرف ہو گیا۔ اور اگر تم نے اطلاع نہیں دی کسی اور آدمی نے اپنے طور پر اس سے کہہ دیا کہ تم کو فلانے نے برطرف کر دیا ہے اب نہ خریدنا تو اگر دو آدمیوں نے اطلاع دی ہو یا ایک ہی نے اطلاع دی مگر وہ معتبر اور پابند شرع ہے تو برطرف ہو گیا۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو برطرف نہیں ہوا۔ اگر وہ خرید لے تو تم کو لینا پڑے گا۔

اپنا قرضہ دوسرے پر اتار دینے کا بیان

مسئلہ۔ شفیعہ کا تمہارے ذمہ کچھ قرض ہے اور رابعہ تمہاری قرض دار ہے۔ شفیعہ نے تم سے تقاضا کیا تم نے کہا کہ رابعہ ہماری قرض دار ہے تم اپنا قرضہ اسی سے لے لو۔ ہم سے نہ مانگو۔ اگر اسی وقت شفیعہ یہ بات منظور کر لے اور رابعہ بھی اس پر راضی ہو جائے تو شفیعہ کا قرضہ تمہارے ذمہ سے اتر گیا۔ اب شفیعہ تم سے بالکل تقاضا نہیں کر سکتی بلکہ اسی رابعہ سے مانگنے چاہے جب ملے اور جتنا قرضہ تم نے شفیعہ کو دلایا ہے اتنا اب تم رابعہ سے نہیں لے سکتیں۔ البتہ اگر رابعہ اس سے زیادہ کی قرض دار ہے تو جو کچھ زیادہ ہے وہ لے سکتی ہو۔ پھر اگر رابعہ نے شفیعہ کو دے دیا تب تو خیر اور اگر نہ دیا اور مر گئی تو جو کچھ مال و اسباب چھوڑا ہے وہ بیچ کر شفیعہ کو دلا دیں گے اور اگر اس نے کچھ مال نہیں چھوڑا جس سے قرضہ دلائیں یا اپنی زندگی ہی میں مکر گئی اور قسم کھا لی کہ تمہارے قرض سے مجھ سے کچھ واسطہ نہیں اور گواہ بھی نہیں ہیں تو اب اس صورت میں پھر شفیعہ تم سے تقاضا کر سکتی ہے اور اپنا قرضہ تم سے لے سکتی ہے اور اگر تمہارے کہنے پر شفیعہ رابعہ سے لینا منظور نہ کرے یا رابعہ اس کو دینے پر راضی نہ ہو تو قرضہ تم سے نہیں اترا۔

مسئلہ۔ رابعہ تمہاری قرض دار نہ تھی تم نے یوں ہی اپنا قرضہ اس پر اتار دیا اور رابعہ نے مان لیا اور شفیعہ نے بھی قبول و منظور کر لیا تب بھی تمہارے ذمہ سے شفیعہ کا قرض اتر کر رابعہ کے ذمہ ہو گیا اس لیے اس کا بھی وہی حکم ہے جو ابھی بیان ہوا اور جتنا روپیہ رابعہ کو دینا پڑے گا دینے کے بعد تم سے لے لیوے اور دینے سے پہلے ہی لے لینا کا حق نہیں ہے۔

مسئلہ۔ اگر رابعہ کے پاس تمہارے روپے امانت رکھے تھے اس لیے تم نے اپنا قرض رابعہ پر اتار دیا پھر وہ روپے کسی طرح ضائع ہو گئے تو اب رابعہ ذمہ دار نہیں رہی بلکہ اب شفیعہ تم ہی سے تقاضا کرے گی اور تم ہی سے لے گی۔ اب رابعہ سے مانگنے اور لینے کا حق نہیں رہا۔

مسئلہ۔ رابعہ پر قرضہ اتار دینے کے بعد اگر تم ہی وہ قرضہ ادا کر دو اور شفیعہ کو دے دو یہ بھی صحیح ہے۔ شفیعہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں تم سے نہ لوں گی بلکہ رابعہ ہی سے لوں گی۔

مضاربت کا بیان یعنی ایک کا روپیہ ایک کا کام

مسئلہ۔ تم نے تجارت کے لیے کسی کو کچھ روپے دیئے کہ اس سے تجارت کرو جو کچھ نفع ہو گا وہ ہم تم بانٹ لیں گے یہ جائز ہے اس کو مضاربت کہتے ہیں۔ لیکن اس کی کئی شرطیں ہیں اگر ان شرطوں کے موافق ہو تو صحیح ہے نہیں تو ناجائز اور فاسد ہے۔ ایک تو جتنا روپیہ دینا ہو وہ بتلا دو اور اس کو تجارت کے لیے دے بھی دو اپنے پاس نہ رکھو۔ اگر روپیہ اس کے حوالہ نہ کیا اپنے ہی پاس رکھا تو یہ معاملہ فاسد ہے۔ دوسرے یہ کہ نفع بانٹنے کی صورت طے کر لو اور بتلا دو کہ تم کو کتنا ملے گا اور اس کو کتنا۔ اگر یہ بات طے نہیں ہوئی بس اتنا ہی کہا کہ نفع ہم تم دونوں بانٹ لیں گے تو یہ فاسد ہے تیسرے یہ کہ نفع تقسیم کرنے کو اس طرح نہ طے کرو کہ جس قدر نفع ہو اس میں سے دس روپے ہمارے باقی تمہارے۔ یا دس روپے تمہارے باقی ہمارے۔ غرضیکہ کچھ خاص رقم مقرر نہ کرو کہ اتنی ہماری یا اتنی تمہاری بلکہ یوں طے کرو کہ آدھا ہمارا آدھا تمہارا۔ یا ایک حصہ اس کا دو حصے اس کے یا ایک حصہ ایک کا باقی تین حصے دوسرے کے۔ غرضیکہ نفع کی تقسیم حصوں کے اعتبار سے کرنا چاہیے نہیں تو معاملہ فاسد ہو جائے گا۔ اگر کچھ نفع ہو گا تب تو وہ کام کرنے والا اس سے اپنا حصہ پائے گا اور اگر کچھ نفع نہ ہوا تو کچھ نہ پائے گا۔ اگر یہ شرط کر لی کہ اگر نفع نہ ہوا تب بھی ہم تم کو اصل مال میں سے اتنا دیں گے تو یہ معاملہ فاسد ہے۔ اسی طرح اگر یہ شرط کی کہ اگر نقصان ہو گا تو اس کام کرنے والے کے ذمہ پڑے گا یا دونوں کے ذمہ ہو گا یہ بھی فاسد ہے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ جو کچھ نقصان ہو وہ مالک کے ذمہ ہے اسی کا روپیہ گیا۔

مسئلہ۔ جب تک اس کے پاس روپیہ موجود ہو اور اس نے اسباب نہ خریدا ہو تب تک تم کو اس کے موقوف کر دینے اور روپیہ واپس لے لینے کا اختیار ہے اور جب وہ مال خرید چکا تو اب موقوفی کا اختیار نہیں ہے۔

مسئلہ۔ اگر یہ شرط کی کہ تمہارے ساتھ ہم کام کریں گے یا ہمارا فلاں آدمی تمہارے ساتھ کام کرے گا تو یہ معاملہ فاسد ہے۔

مسئلہ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ معاملہ صحیح ہوا ہے کوئی واہیات شرط نہیں لگائی ہے تو نفع میں دونوں شریک ہیں جس طرح طے کیا ہو بانٹ لیں۔ اور اگر کچھ نفع نہ ہوا یا نقصان ہوا تو اس آدمی کو کچھ نہ ملے گا اور نقصان کا تاوان اس کو نہ دینا پڑے گا۔ اور اگر وہ معاملہ فاسد ہو گیا ہے تو پھر وہ کام کرنے والا نفع میں شریک نہیں ہے بلکہ وہ بمنزلہ نوکر کے ہے۔ یہ دیکھو کہ اگر ایسا آدمی نوکر رکھا جائے تو کتنی تنخواہ دینی پڑے گی بس اتنی ہی تنخواہ اس کو ملے گی نفع ہو تب بھی اور نہ ہو تب بھی بہرحال تنخواہ پائے گا اور نفع سب مالک کا ہے لیکن اگر تنخواہ زیادہ بیٹھتی ہے۔ اور جو نفع ٹھیرا تھا اگر اس کے حساب سے دیں تو کم بیٹھتا ہے تو اس صورت میں تنخواہ نہ دیں گے نفع بانٹ دیں گے۔

تنبیہ چونکہ اس قسم کے مسئلوں کی عورتوں کو نہایت کم ضرورت پڑتی ہے اس لیے ہم زیادہ نہیں لکھتے جب کبھی ایسا معاملہ ہوا کرے اس کی ہر بات کو کسی مولوی سے پوچھ لیا کرو تاکہ گناہ نہ ہو۔

 

 

امانت رکھنے اور رکھانے کا بیان

مسئلہ۔ کسی نے کوئی چیز تمہارے پاس امانت رکھائی اور تم نے لے لی۔ تو اب اس کی حفاظت کرنا تم پر واجب ہو گیا۔ اگر حفاظت میں کوتاہی کی اور وہ چیز ضائع ہو گئی تو اس کا تاوان یعنی ڈانڈ دینا پڑے گا۔ البتہ اگر حفاظت میں کوتاہی نہیں ہوئی پھر بھی کسی وجہ سے وہ چیز جاتی رہی مثلاً چوری ہو گئی یا گھر میں آگ لگ گئی اس میں جل گئی تو اس کا تاوان وہ نہیں لے سکتی بلکہ اگر امانت رکھتے وقت یہ اقرار کر لیا کہ اگر جاتی رہے تو میں ذمہ دار ہوں مجھ سے دام لے لینا تب بھی اس کو تاوان لینے کا اختیار نہیں یوں تم اپنی خوشی سے دے دو وہ اور بات ہے۔

مسئلہ۔ کسی نے کہا میں ذرا کام سے جاتی ہوں میری چیز رکھ لو۔ تو تم نے کہا اچھا رکھ دو تم کچھ نہیں بولیں وہ تمہارے پاس رکھ کر چلی گئی تو امانت ہو گئی۔ البتہ اگر تم نے صاف کہہ دیا کہ میں نہیں جانتی اور کسی کے پاس رکھا دو یا اور کچھ کہہ کے انکار کر دیا پھر بھی وہ رکھ کر چلی گئی تو اب وہ چیز تمہاری امانت میں نہیں ہے البتہ اگر اس کے چلے جانے کے بعد تم نے اٹھا کر رکھ لیا ہو تو اب امانت ہو جائے گی۔

مسئلہ۔ کئی عورتیں بیٹھی تھیں ان کے سپرد کر کے چلی گئی تو سب پر اس چیز کی حفاظت واجب ہے اگر وہ چھوڑ کر چلی گئیں اور وہ چیز جاتی رہی تو تاوان دینا پڑے گا۔ اور اگر سب ساتھ نہیں اٹھیں ایک ایک کر کے اٹھیں توجب سے خیر میں رہ گئی اسی کے ذمہ حفاظت ہو گئی۔ اب وہ اگر چلی گئی اور چیز جاتی رہی تو اسی سے تاوان لیا جائے گا۔

مسئلہ۔ جس کے پاس کوئی امانت ہو اس کو اختیار ہے کہ چاہے خود اپنے پاس حفاظت سے رکھے یا اپنی ماں بہن اپنے شوہر وغیرہ کسی ایسے رشتہ دار کے پاس رکھا دے کہ ایک ہی گھر میں اس کے ساتھ رہتے ہوں جن کے پاس اپنی چیز بھی ضرورت کے وقت رکھا دیتی ہو لیکن اگر کوئی دیانتدار نہ ہو تو اس کے پاس رکھنا درست نہیں۔ اگر جان بوجھ کے ایسے غیر معتبر کے پاس رکھ دیا تو ضائع ہو جانے پر تاوان دینا پڑے گا۔ اور ایسے رشتہ دار کے سوا کسی اور کے پاس بھی پرائی امانت رکھانا بدون مالک کی اجازت کے درست نہیں چاہے وہ بالکل غیر ہو یا کوئی رشتہ دار بھی لگتا ہو اگر اوروں کے پاس رکھا دیا تو بھی ضائع ہو جانے پر تاوان دینا پڑے گا البتہ وہ غیر اگر ایسا شخص ہے کہ یہ اپنی چیزیں بھی اس کے پاس رکھتی ہے تو درست ہے۔

مسئلہ۔ کسی نے کوئی چیز رکھائی اور تم بھول گئیں اسے وہیں چھوڑ کر چلی گئیں تو جاتے رہنے پر تاوان دینا پڑے گا یا کوٹھڑی صندوقچہ وغیرہ قفل کھول کر تم چلی گئیں اور وہاں ایرے غیرے سب جمع ہیں اور وہ چیز اییس ہے کہ عرفا بغیر قفل لگائے اس کی حفاظت نہیں ہو سکتی تب بھی ضائع ہو جانے سے تاوان دینا ہو گا۔

مسئلہ۔ گھر میں آگ لگ گئی تو ایسے وقت غیر کے پاس بھی پرائی امانت کا رکھا دینا جائز ہے لیکن جب وہ عذر جاتا رہا تو فورا لے لینا چاہیے۔ اگر اب واپس نہ لے گی تو تاوان دینا پڑے گا۔ اسی طرح مرتے وقت اگر کوئی اپنے گھر کا آدمی موجود نہ ہو تو پڑوسی کے سپرد کر دینا درست ہے۔ مسئلہ۔ اگر کسی نے کچھ روپے پیسے امانت رکھوائے تو بعینہ ان ہی روپے پیسوں کا حفاظت سے رکھنا واجب ہے نہ تو اپنے روپوں میں ان کا ملانا جائز ہے اور نہ ان کا خرچ کرنا جائز ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ روپیہ روپیہ سب برابر۔ لاؤ اس کو خرچ کر ڈالیں جب مانگے گی تو اپنا روپیہ دے دیں گے۔ البتہ اگر اس نے اجازت دے دی ہو تو ایسے وقت خرچ کرنا درست ہے لیکن اس کا یہ حکم ہے کہ اگر وہی روپیہ تم الگ رہنے دو تب تو امانت سمجھا جائے گا۔ اگر جاتا رہا تو تاوان نہ دینا پڑے گا۔ اور اگر تم نے اجازت لے کر اسے خرچ کر دیا تو اب وہ تمہارے ذمہ قرض ہو گیا امانت نہیں رہا۔ لہذا اب بہرحال تم کو دینا پڑے گا۔ اگر خرچ کرنے کے بعد تم نے اتنا ہی روپیہ اس کے نام سے الگ کر کے رکھ دیا تب بھی وہ امانت نہیں وہ تمہارا ہی روپیہ ہے اگر چوری گیا تو تمہارا گیا اس کو پھر دینا پڑے گا غرضیکہ خرچ کرنے کے بعد جب تک اس کو ادا نہ کرو گی تب تک تمہارے ذمہ رہے گا۔

مسئلہ۔ سو روپے کسی نے تمہارے پاس امانت رکھائے اس میں سے پچاس تم نے اجازت لے کر خرچ کر ڈالے تو پچاس روپے تمہارے ذمہ قرض ہو گئے اور پچاس امانت۔ اب جب تمہارے پاس روپے ہوں تو اپنے پاس کے پچاس روپے اس امانت کے پچاس روپے میں نہ ملاؤ اگر اس میں ملا دو گی تو وہ بھی امانت نہ رہیں گے یہ پورے سو روپے تمہارے ذمہ ہو جائیں گے اگر جاتے رہے تو پورے سو دینا پڑیں گے کیونکہ امانت کا روپیہ اپنے روپوں میں ملا دینے سے امانت نہیں رہتا بلکہ قرض ہو جاتا ہے اور ہر حال میں دینا پڑتا ہے۔

مسئلہ۔ تم نے اجازت لے کر اس کو سو روپے اپنے سو روپے میں ملا دئیے تو وہ سب روپیہ دونوں کی شرکت میں ہو گیا۔ اگر چوری ہو گیا تو دونوں کا گیا کچھ نہ دینا پڑے گا اور اگر اس میں سے کچھ چوری ہو گیا کچھ رہ گیا تب بھی آدھا اس کا گیا آدھا اس کا۔ اور اگر سو ایک کے ہوں دو سو ایک کے تو اس کے حصے کے موافق اس کا جائے گا اس کے حصے کے موافق اس کا۔ مثلاً اگر بارہ روپے جاتے رہے تو چار روپے ایک سو روپے والے کے گئے اور آٹھ روپے دو سو والے کے۔ یہ حکم اسی وقت ہے جب اجازت سے ملائے ہوں اور بغیر اجازت کے اپنے روپے میں ملا دیا ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو بیان ہو چکا کہ امانت کا روپیہ بلا اجازت اپنے روپوں میں ملا لینے سے قرض ہو جاتا ہے اس لیے اب وہ روپیہ امانت نہیں رہا جو کچھ گیا تمہارا گیا اس کا روپیہ اس کو بہرحال دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ کسی نے بکری یا گائے وغیرہ امانت رکھائی تو اس کا دودھ پینا یا کسی اور طرح اس سے کام لینا درست نہیں۔ البتہ اجازت سے یہ سب جائز ہو جاتا ہے بلا اجازت جتنا دودھ لیا ہے اس کے دام دینے پڑیں گے۔ مسئلہ۔ کسی نے ایک کپڑا یا زیور یا چارپائی وغیرہ رکھائی اس کی بلا اجازت اس کا برتنا درست نہیں اگر اس نے بلا اجازت کپڑا یا زیور پہنا یا چارپائی پر لیتی بیٹھی اور اس کے برتنے کے زمانہ میں وہ کپڑا پھٹ گیا یا چو لے گیا یا زیور چار پائی وغیرہ ٹوٹ گئی یا چوری ہو گئی تو تاوان دینا پڑے گا۔ البتہ اگر توبہ کر کے پھر اسی طرح حفاظت سے رکھ دیا پھر کسی طرح ضائع ہوا تو تاوان نہ دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ صندوق میں سے امانت کا کپڑا نکالا کہ شام کو یہی پہن کر فلانی جگہ جاؤں گی۔ پھر پہننے سے پہلے ہی وہ جاتا رہا تو بھی تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ امانت کی گائے یا بکری وغیرہ بیمار پڑ گئی تم نے اس کی دوا کی۔ اس دوا سے وہ مر گئی تو تاوان دینا پڑے گا۔ اور اگر دوا نہ کی اور مر گئی تو تاوان نہ دینا ہو گا۔

مسئلہ۔ کسی نے رکھنے کو روپیہ دیا تم نے بٹوے میں ڈال لیا یا ازار بند میں باندھ لیا لیکن ڈالتے وقت وہ روپیہ ازار بند یا بٹوے میں نہیں پڑا بلکہ نیچے گر گیا مگر تم یہی سمجھیں کہ میں نے بٹوے میں رکھ لیا تو تاوان نہ دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ جب وہ اپنی امانت مانگے تو فورا اس کو دے دینا واجب ہے بلا عذر نہ دینا اور دیر کرنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے اپنی امانت مانگی تم نے کہا بہن اس وقت ہاتھ خالی نہیں کل لے لینا۔ اس نے کہا اچھا کل ہی سہی تب تو خیر کچھ حرج نہیں اور اگر وہ کل کے لینے پر راضی نہ ہوئی اور نہ دینے سے خفا ہو کر چلی گئی تو اب وہ چیز امانت نہیں رہی۔ اب اگر جاتی رہے گی تو تم کو تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ کسی نے اپنا آدمی امانت مانگنے کے لیے بھیجا۔ تم کو اختیار ہے کہ اس آدمی کو نہ دو اور کہلا بھیجو کہ وہ خود ہی اپنی چیز لے جائیں ہم کسی اور کو نہ دیں گے اور اگر تم نے اس کو سچا سمجھ کر دے دیا اور پھر مالک نے کہا کہ میں نے اس کو نہ بھیجا تھا تم نے کیوں دے دیا۔ تو وہ تم سے لے سکتا ہے اور تم اس آدمی سے وہ شے لوٹا سکتی ہو۔ اور اگر اس کے پاس سے وہ شے جاتی رہی ہو تو تم اس سے دام نہیں لے سکتی ہو اور مالک تم سے دام لے گا۔

مانگے کی چیز کا بیان

مسئلہ۔ کسی سے کوئی کپڑا یا زیور یا چارپائی برتن وغیرہ کوئی چیز کچھ دن کے لیے مانگ لی کہ ضرورت نکل جانے کے بعد دی جائے گی تو اس کا حکم بھی امانت کی طرح ہے اب اس کو اچھی طرح حفاظت سے رکھنا واجب ہے اگر باوجود حفاظت کے جاتی رہے تو جس کی چیز ہے اس کو تاوان لینے کا حق نہیں بلکہ اگر تم نے اقرار کر لیا ہو کہ اگر جائے گی تو ہم سے دام لے لینا تب بھی تاوان لینا درست نہیں۔ البتہ اگر حفاظت نہ کی اس وجہ سے جاتی رہی تو تاوان دینا پڑے گا اور مالک کو ہر وقت اختیار ہے جب چاہے اپنی چیز لے لیوے تم کو انکار کرنا درست نہیں۔ اگر مانگنے پر نہ دی تو پھر ضائع ہو جانے پر تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ جس طرح برتنے کی اجازت مالک نے دی ہو اسی طرح برتنا جائز ہے اس کے خلاف کرنا درست نہیں اگر خلاف کرے گی تو جاتے رہنے پر تاوان دنا پڑے گا جیسے کسی نے اوڑھنے کو دوپٹہ دیا یہ اس کو بچھا کر لیٹی اس لیے وہ خراب ہو گیا یا چار پائی پر اتنے آدمی لد گئے کہ وہ ٹوٹ گئی یا شیشے کا برتن آگ پر رکھ دیا وہ ٹوٹ گیا یا اور کچھ ایسی خلاف بات کی تو تاوان دینا پڑےگا۔ اسی طرح اگر چیز مانگ لائی تو یہ بدنیتی کی کہ اب اس کو لوٹا کر نہ دوں گی بلکہ ہضم کر جاؤں گی تب بھی تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ ایک یا دو دن کے لیے کوئی چیز منگوائی تو اب ایک دو دن کے بعد پھیر دینا ضروری ہے جتنے دن کے وعدے پر لائی تھی اتنے دن کے بعد اگر نہ پھیرے گی تو جاتے رہنے پر تاوان دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ جو چیز مانگ لی ہے یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر مالک نے زبان سے صاف کہہ دیا کہ چاہو خود برتو۔ چاہو دوسرے کو دو۔ مانگنے والی کو درست ہے کہ دوسرے کو بھی برتنے کے لیے دے دے۔ اسی طرح اگر اس نے صاف تو نہیں کہا مگر اس سے میل جول ایسا ہے کہ اس کو یقین ہے کہ ہر طرح اس کی اجازت ہے تب بھی یہی حکم ہے اور اگر مالک نے صاف منع کر دیا کہ دیکھو تم خود برتنا کسی اور کو مت دینا تو اس صورت میں کسی طرح درست نہیں کہ دوسرے کو برتنے کے لیے دی جائے اور اگر مانگنے والی نے یہ کہہ کر منگائی ہے کہ میں برتوں گی اور مالک نے دوسرے کے برتنے سے منع نہ کیا اور صاف اجازت دی تو اس چیز کو دیکھو کیسی ہے اگر وہ ایسی ہے کہ سب برتنے والے اس کو ایک ہی طرح برتا کرتے ہیں برتنے میں فرق نہیں ہوتا تب تو خود بھی برتنا درست ہے اور دوسرے کو برتنے کے لیے دینا بھی درست ہے اور اگر وہ چیز ایسی ہے کہ سب برتنے والے اس کو ایک طرح نہیں برتا کرتے بلکہ کوئی اچھی طرح برتتا ہے کوئی بری طرح تو ایسی چیز تم دوسرے کو برتنے کے واسطے نہیں دے سکتی ہو۔ اسی طرح اگر یہ کہہ کر منگائی ہے کہ ہمارا فلانا رشتہ دار یا ملاقاتی برتے گا اور مالک نے تمہارے برتنے نہ برتنے کا ذکر نہیں کیا تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے کہ اول قسم کی چیز کو تم بھی برت سکتی ہو اور دوسری قسم کی چیز کو تم نہیں بر سکو گی صرف وہی برے گا جس کے برتنے کے نام سے منگائی ہے۔

اور اگر تم نے یوں ہی منگا بھیجی نہ اپنے برتنے کا نام لیا نہ دوسرے کے برتنے کا اور مالک نے بھی کچھ نہیں کہا تو اس کا حکم یہ ہے کہ اول قسم کی چیز کو تو تم بھی برت سکتی ہو اور دوسرے کو بھی برتنے کے لیے دے سکتی ہو اور دوسری قسم کی چیز میں یہ حکم ہے کہ اگر تم نے برتنا شروع کر دیا تب تو دوسرے کو برتنے کے واسطے نہیں دے سکتیں۔ اور اگر دوسرے سے برتوا لیا تو تم نہیں برت سکتیں خوب سمجھ لو۔

مسئلہ۔ ماں باپ وغیرہ کا کسی چھوٹے نابالغ کی چیز کا مانگے دینا جائز نہیں ہے اگر وہ چیز جاتی رہے تو تاوان دینا پڑے گا۔ اسی طرح اگر خود نابالغ اپنی چیز دے دے اس کا لینا بھی جائز نہیں۔

مسئلہ۔ کسی سے کوئی چیز مانگ کر لائی گئی پھر وہ مالک مر گیا تو اب مرنے کے بعد وہ مانگے کی چیز نہیں رہی اب اس سے کام لینا درست نہیں اسی طرح اگر وہ مانگنے والی مر گئی تو اس کے وارثوں کو اس سے نفع اٹھانا درست نہیں۔

ہبہ یعنی کسی کو کچھ دے دینے کا بیان

مسئلہ۔ تم نے کسی کو کوئی چیز دی اور اس نے منظور کر لیا یا منہ سے کچھ نہیں کہا بلکہ تم نے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اس نے لے لیا تو اب وہ چیز اسی کی ہو گئی اب تمہاری نہیں رہی بلکہ وہی اس کا مالک ہے اس کو شرع میں ہبہ کہتے ہیں۔ لیکن اس کی کئی شرطیں ہیں۔ ایک تو اس کے حوالہ کر دینا اور اس کا قبضہ کر لینا ہے اگر تم نے کہا یہ چیز ہم نے تم کو دے دی اس نے کہا ہم نے لے لی۔ لیکن ابھی تم نے اس کے حوالے نہیں کیا تو یہ دینا صحیح نہیں ہوا ابھی وہ چیز تمہاری ہی ملک ہے البتہ اگر اس نے اس چیز پر قبضہ کر لیا تو اب قبضہ کر لینے کے بعد اس کی مالک بنی۔

مسئلہ۔ تم نے وہ دی ہوئی چیز اس کے سامنے اس طرح رکھ دی کہ اگر وہ اٹھانا چاہے تو لے سکے اور کہہ دیا کہ لو اس کو لے لو تو اس پاس رکھ دینے سے بھی وہ مالک بن گئی۔ ایسا سمجھیں گے کہ اس نے اٹھا لیا اور قبضہ کر لیا۔

مسئلہ۔ بند صندوق میں کچھ کپڑے دے دیئے لیکن اس کی کنجی نہیں دی تو یہ قبضہ نہیں ہوا جب کنجی دے گی تب قبضہ ہو گا۔ اس وقت اس کی مالک بنے گی۔

مسئلہ۔ کسی بوتل میں تیل رکھا ہے یا اور کچھ رکھا ہے تم نے وہ بوتل کسی کو دے دی لیکن تیل نہیں دیا تو یہ دینا صحیح نہیں۔ اگر وہ قبضہ کر لے تب بھی اس کی مالک نہ ہو گی جب اپنا تیل نکال کے دو گی تب وہ مالک ہو گی۔ اور اگر تیل کسی کو دے دیا مگر بوتل نہیں دی اور اس نے بوتل سمیت لے لیا کہ ہم خالی کر کے پھیر دیں گے تو یہ تیل کا دینا صحیح ہے۔ قبضہ کر لینے کے بعد مالک بن جائے گی۔ غرضیکہ جب برتن وغیرہ کوئی چیز دو تو خالی کر کے دینا شرط ہے بغیر خالی کیے دینا صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح اگر اسی نے مکان دیا تو اپنا سارا مال اسباب نکال کے خود بھی اس گھر سے نکل کے دینا چاہیے۔

مسئلہ۔ اگر کسی کو آدھی یا تہائی یا چوتھائی چیز دو پوری چیز نہ دو تو اس کا حکم یہ ہے کہ دیکھو وہ کس قسم کی چیز ہے آدھی بانٹ دینے کے بعد بھی کام کی رہے گی یا نہ رہے گی۔ اگر بانٹ دینے کے بعد اس کام کی نہ رہے جیسے چکی کہ اگر بیچوں بیچ سے توڑ کے دے دو تو پسینے کے کام کی نہ رہے گی۔ اور جیسے چوکی پلنگ پتیل لوٹا کٹورہ پیالہ صندوق جانور وغیرہ ایسی چیزوں کو بغیر تقسیم کیے بھی آدھی تہائی جو کچھ دینا منظور ہو دینا جائز ہے اگر وہ قبضہ کر لے تو جتنا حصہ تم نے دیا ہے اس کی مالک بن گئی اور وہ چیز ساجھے میں ہو گئی۔ اور اگر وہ چیز ایسی ہے کہ تقسیم کرنے کے بعد بھی کام کی رہے جیسے زمین گھی کپڑے کا تھان جلانے کی لکڑ اناج غلہ دودھ دہی وغیرہ تو بغیر تقسیم کیے ان کا دینا صحیح نہیں ہے۔ اگر تم نے کسی سے کہا ہم نے اس برتن کا آدھا گھی تم کو دے دیا۔ وہ کہے ہم نے لے لیا تو یہ دینا صحیح نہیں ہوا بلکہ اگر وہ برتن پر قبضہ بھی کر لے تب بھی اس کی مالک نہیں ہوئی۔ ابھی سارا گھی تمہارا ہی ہے۔ ہاں اس کے بعد اگر اس میں آدھا گھی الگ کر کے اس کے حوالے کر دو تو اب البتہ اس کی مالک ہو جائے گی۔

مسئلہ۔ ایک تھان یا ایک مکان یا باغ وغیرہ دو آدمیوں نے مل کر آدھا آدھا خریدا تو جب تک تقسیم نہ کر لو تب تک اپنا آدھا حصہ کسی اور کو دے دینا صحیح نہیں۔

مسئلہ۔ آٹھ آنے یا بارہ آنے پیسے دو شخصوں کو دیئے کہ تم دونوں آدھے آدھے لے لو۔ یہ صحیح نہیں بلکہ آدھے آدھے تقسیم کر کے دینا چاہئیں۔ البتہ اگر وہ دونوں فقیر ہوں تو تقسیم کی ضرورت نہیں اور اگر ایک روپیہ یا ایک پیسہ دو آدمیوں کو دیا تو یہ دینا صحیح ہے۔

مسئلہ۔ بکری یا گائے وغیرہ کے پیٹ میں بچہ ہے تو پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا دے دینا صحیح نہیں ہے بلکہ اگر پیدا ہونے کے بعد وہ قبضہ بھی کر لے تب بھی مالک نہیں ہوئی۔ اگر دینا ہو تو پیدا ہونے کے بعد پھر سے دے۔

مسئلہ۔ کسی نے بکری دی اور کہا کہ اسی کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کو ہم نہیں دیتے وہ ہمارا ہے تو بکری اور بچہ دونوں اسی کے ہو گئے۔ پیدا ہونے کے بعد بچہ لے لینے کا اختیار نہیں ہے۔

مسئلہ۔ تمہاری کوئی چیز کسی کے پاس امانت رکھی ہے تم نے اسی کو دے دی تو اس صورت میں فقط اتنا کہہ دینے سے کہ میں نے لے لی اس کی مالک ہو جائے گی اب جا کر دوبارہ اس پر قبضہ کرنا شرط نہیں کیونکہ وہ چیز تو اس کے پاس ہی ہے۔

مسئلہ۔ نابالغ لڑکا یا لڑکی اپنی چیز اسی کو دے دی تو اس کا دینا صحیح نہیں ہے اور اس کی چیز لینا بھی ناجائز ہے۔ اس مسئلہ کو خوب یاد رکھو بہت لوگ اس میں مبتلا ہیں۔

بچوں کو دینے کا بیان

مسئلہ۔ ختنہ وغیرہ کسی تقریب میں چھوٹے بچوں کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس سے خاص اس بچہ کو دینا مقصود نہیں ہونا بلکہ ماں باپ کو دینا مقصود ہوتا ہے اس لیے وہ سب نتوے بچہ کی ملک نہیں بلکہ ماں باپ اس کے مالک ہیں جو چاہیں اس کو دیں۔ البتہ اگر کوئی شخص خاص بچہ ہی کو کوئی چیز دے تو پھر وہی بچہ اس کا مالک ہے اگر بچہ سمجھ دار ہے تو خود اسی کا قبضہ کر لینا کافی ہے جب قبضہ کر لیا تو مالک ہو گیا۔ اگر بچہ قبضہ نہ کرے یا قبضہ کرنے کے لائق نہ ہو گو اگر باپ نہ ہو تو دادا کے قبضہ کر لینے سے بچہ مالک ہو جائے گا۔ اگر باپ دادا موجود نہ ہوں تو وہ بچہ جس کی پرورش میں ہے اس کو قبضہ کرنا چاہیے اور باپ دادا کے ہوتے ماں نانی دادی وغیرہ اور کسی کا قبضہ کرنا معتبر نہیں ہے۔

مسئلہ۔ اگر باپ یا اس کے نہ ہونے کے وقت دادا اپنے بیٹے پوتے کو کوئی چیز دینا چاہے تو بس اتنا کہہ دینے سے ہبہ صحیح ہو جائے گا کہ میں نے اس کو یہ چیز دے دی۔ اور باپ دادا نہ ہو اس وقت ماں بھائی وغیرہ بھی اگر اس کو کچھ دینا چاہیں اور وہ بچہ ان کی پرورش میں بھی ہو۔ ان کے اس کہہ دینے سے بھی وہ بچہ مالک ہو گیا کسی کے قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مسئلہ۔ جو چیز ہو اپنی سب اولاد کو برابر برابر دینا چاہیے۔ لڑکا لڑکی سب کو برابر دے۔ اگر کبھی کسی کو کچھ زیادہ دے دیا تو بھی خیر کچھ حرج نہیں لیکن جسے کم دیا اس کو نقصان دینا مقصود نہ ہو نہیں تو کم دینا درست نہیں ہے۔

مسئلہ۔ جو چیز نابالغ کی ملک ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اسی بچے ہی کے کام میں لگانا چاہیے کسی کو اپنے کام میں لانا جائز نہیں خود ماں باپ بھی اپنے کام میں نہ لائیں نہ کسی اور بچہ کے کام میں لگائیں۔

مسئلہ۔ اگر ظاہر میں بچہ کو دیا مگر یقیناً معلوم ہے کہ منظور تو ماں باپ ہی کو دینا ہے مگر اس چیز کو حقیر سمجھ کر بچے ہی کے نام سے دے دیا تو ماں باپ کی ملک ہے وہ جو چاہیں کریں پھر اس میں بھی دیکھ لیں اگر ماں کے علاقہ داروں نے دیا ہے تو ماں کا ہے اگر باپ کے علاقہ داروں نے دیا ہے تو باپ کا ہے۔

مسئلہ۔ اپنے نابالغ لڑکے کے لیے کپڑے بنوائے تو وہ لڑکا مالک ہو گیا۔ یا نابالغ لڑکی کے لیے زیور گہنا بنوایا تو وہ لڑکی اس کی مالک ہو گئی۔ اب ان کپڑوں کا یا اس زیور کا کسی اور لڑکا لڑکی کو دینا درست نہیں جس کے لیے بنوائے ہیں اسی کو دے۔ البتہ اگر بنانے کے وقت صاف کہہ دیا کہ یہ میری ہی چیز ہے مانگے کے طور پر دیتا ہوں تو بنوانے والے کی رہے گی۔ اکثر دستور ہے کہ بڑی بہنیں بعض وقت چھوٹی نابالغ بہنوں سے یا خود اپنی لڑکی سے دوپٹہ وغیرہ کچھ مانگ لیتی ہیں تو ان کی چیز کا ذرا دیر کے لیے مانگ لینا بھی درست نہیں۔

مسئلہ۔ جس طرح خود بچہ اپنی چیز کسی کو دے نہیں سکتا اسی طرح باپ کو نابالغ اولا کی چیز دینے کا اختیار نہیں۔ اگر ماں باپ اس کی چیز کسی کو بالکل دے دیں یا ذرا دیر یا کچھ دن کے لیے مانگی دیں تو اس کا لینا درست نہیں۔ البتہ اگر ماں باپ کو نہایت ضرورت ہو اور وہ چیز کہیں اور سے ان کو نہ مل سکے تو مجبوری اور لاچاری کے وقت اپنی اولاد کی چیز لے لینا درست ہے۔

مسئلہ۔ ماں باپ وغیرہ کو بچے کا مال کسی کو قرض دینا بھی صحیح نہیں بلکہ خود قرض لینا بھی صحیح نہیں خوب یاد رکھو۔

دے کر پھیر لینے کا بیان

مسئلہ۔ کچھ دے کر پھیر لینا بڑا گناہ ہے۔ لیکن اگر کوئی واپس لے لیوے اور جس کو دی تھی وہ اپنی خوشی سے دے بھی دیوے تو اب پھر اس کی مالک بن جائے گی مگر بعضی باتیں ایسی ہیں جس سے پھیر لینے کا اختیار بالکل نہیں رہتا۔ مثلاً تم نے کسی کو بکری دی۔ اس نے کھلا پلا کر خوب موٹا تازہ کیا تو پھیرنے کا اختیار نہیں ہے یا کسی کو زمین دی اس میں اس نے گھر بنا لیا یا باغ لگایا تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں یا کپڑا دینے کے بعد اس نے کپڑے کو سی لیا یا رنگ لیا یا دھلوا لیا تو اب پھیرنے کا اختیار نہیں۔

مسئلہ۔ تم نے کسی کو بکری دی۔ اس کے دو ایک بچے ہوئے تو پھیرنے کا اختیار باقی ہے۔ لیکن اگر پھیرے تو صرف بکری پھیر سکتی ہے وہ بچے نہیں لے سکتی۔

مسئلہ۔ دینے کے بعد اگر دینے والا یا لینے والا مر جائے تب بھی پھیرنے کا اختیار نہیں رہتا۔

مسئلہ۔ تم کو کسی نے کوئی چیز دی۔ پھر اس کے بدلے میں تم نے بھی کوئی چیز اس کو دے دی اور کہہ دیا لو بہن اس کے عوض تم یہ لے لو تو بدلہ دینے کے بعد اب اس کو پھر لینے کا اختیار نہیں ہے۔ البتہ اگر تم نے یہ نہیں کہا ہم اس کے عوض میں دیتے ہیں تو وہ اپنی چیز پھیر سکتی ہے اور تم اپنی چیز بھی پھیر سکتی ہو۔

مسئلہ۔ بی بی نے اپنے میاں کو یا میاں نے اپنی بی بی کو کچھ دیا تو اس کے پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے ایسے رشتہ دار کو کچھ دیا جس سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے اور وہ رشتہ خون کا ہے جیسے بھائی بہن بھتیجا بھانجا وغیرہ تو اس سے پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے اور اگر قرابت اور رشتہ تو ہے لیکن نکاح حرام نہیں ہے۔ جیسے چچا زاد پھوپھی زاد بہن بھائی وغیرہ۔ یا نکاح حرام تو ہے لیکن نسب کے اعتبار سے قرابت نہیں یعنی وہ رشتہ خون کا نہیں بلکہ دودھ کا رشتہ یا اور کوئی رشتہ ہے جیسے دودھ شریک بھائی بہن وغیرہ یا داماد ساس خسر وغیرہ۔ تو ان سب سے پھیر لینے کا اختیار رہتا ہے۔

مسئلہ۔ جتنی صورتوں میں پھیر لینے کا اختیار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بھی پھیر دینے پر راضی ہو جائے اس وقت پھیر لینے کا اختیار ہے جیسا اوپر گزر چکا۔ لیکن گناہ اس میں بھی ہے اور اگر وہ راضی نہ ہو اور نہ پھیرے تو بدون قضاء قاضی کے زبردستی پھیر لینے کا اختیار نہیں اور اگر زبردستی بدون قضاء کے پھیر لیا تو یہ مالک نہ ہو گا۔

مسئلہ۔ جو کچھ ہبہ کر دینے کے حکم احکام بیان ہوئے ہیں اکثر خدا کی راہ میں خیرات دینے کے بھی وہی احکام ہیں۔ مثلاً بغیر قبضہ کیے فقیر کی ملک میں چیز نہیں جاتی۔ اور جس چیز کا تقسیم کے بعد دینا شرط ہے اس کا یہاں بھی تقسیم کے بعد دینا شرط ہے۔ جس چیز کا خالی کر کے دینا ضروری ہے یہاں بھی خالی کر کے دینا ضروری ہے البتہ دو با توں کا فرق ہے۔ ایک ہبہ میں رضا مندی سے پھیر لینے کا اختیار رہتا ہے اور یہاں پھیر لینے کا اختیار نہیں رہتا۔ دوسرے آٹھ دس آنے پیسے یا آٹھ دس روپے اگر دو فقیروں کو دے دو کہ تم دونوں بانٹ لینا تو یہ بھی درست ہے۔ اور ہبہ میں اس طرح درست نہیں ہوتا۔

مسئلہ۔ کسی فقیر کو پیسہ دینے لگے مگر دھوکے سے اٹھنی چلی گئی تو اس کے پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے۔

کرایہ پر لینے کا بیان

مسئلہ۔ جب تم نے مہینہ بھر کے لیے گھر کرایہ پر لیا اور اپنے قبضہ میں کر لیا تو مہینے کے بعد کرایہ دینا پڑے گا چاہے اس میں رہنے کا اتفاق ہوا ہو یا خالی پڑا رہا ہو۔ کرایہ بہرحال واجب ہے۔

مسئلہ۔ درزی کپڑا سی کر یا رنگریز رنگ کر یا دھوبی کپڑا دھو کر لایا تو اس کو اختیار ہے کہ جب تک تم سے اس کی مزدوری نہ لے لیوے تب تک تم کو کپڑا نہ دے۔ بغیر مزدوری دیئے اس سے زبردستی لینا درست نہیں۔ اور اگر کسی مزدور سے غلے کا ایک بورا ایک آنہ پیسہ کے وعدہ پر اٹھوایا تو وہ اپنی مزدوری مانگنے کے لیے تمہارا غلہ نہیں روک سکتا۔ کیونکہ وہاں سے لانے کی وجہ سے غلہ میں کوئی بات نہیں پیدا ہوئی۔ اور پہلی صورتوں میں ایک نئی بات کپڑے میں پیدا ہو گئی۔

مسئلہ۔ اگر کسی نے یہ شرط کر لی کہ میرا کپڑا تم ہی سینا یا تم ہی رنگنا یا تم ہی دھونا تو اس کو دوسرے سے دھلوانا درست نہیں۔ اور اگر یہ شرط نہیں کی تو کسی اور سے بھی وہ کام کرا سکتی ہے۔

اجارہ فاسد کا بیان

مسئلہ۔ اگر مکان کرایہ پر لیتے وقت کچھ مدت نہیں بیان کی کہ کتنے دن کے لیے کرایہ پر لیا ہے یا کرایہ نہیں مقرر کیا یوں ہی لے لیا۔ یا یہ شرط کر لی کہ جو کچھ اس میں گر پڑ جائے گا وہ بھی ہم اپنے پاس سے بنوا دیا کریں گے۔ یا کسی کو گھر اس وعدہ پر دیا کہ اس کی مرمت کرا دیا کرے اور اس کا یہی کرایہ ہے۔ یہ سب اجارہ فاسد ہے اور اگر یوں کہہ دے کہ تم اس گھر میں رہو اور مرمت کرا دیا کرو کرایہ کچھ نہیں تو یہ عاریت ہے اور جائز ہے۔

مسئلہ۔ کسی نے یہ کہہ کر مکان کرایہ پر لیا کہ دو روپے ماہوار کرایہ دیا کریں گے تو ایک ہی مہینے کے لیے اجارہ صحیح ہوا۔ مہینے کے بعد مالک کو اس میں سے اٹھا دینے کا اختیار ہے پھر جب دوسرے مہینے میں تم رہ پڑے تو ایک مہینے کا اجارہ اب اور صحیح ہو گیا۔ اسی طرح ہر مہینے میں نیا اجارہ ہوتا رہے گا۔ البتہ اگر یہ بھی کہہ دیا کہ چار مہینے یا چھ مہینے رہوں گا تو جتنی مدت بتلائی ہے اتنی مدت تک اجارہ صحیح ہوا۔ اس سے پہلے مالک تم کو نہیں اٹھا سکتا۔

مسئلہ۔ پیسے کے لیے کسی کو گیہوں دیئے اور کہا کہ اسی میں سے پاؤ بھر آٹا پسائی لے لینا۔ یا کھیت کٹوایا اور کہا کہ اسی میں سے اتنا غلہ مزدوری لے لینا یہ سب فاسد ہے۔

مسئلہ۔ اجارہ فاسد کا یہ حکم ہے کہ جو کچھ طے ہوا ہے وہ نہ دلایا جائے گا بلکہ اتنے کام کے لیے جتنی مزدوری کا دستور ہو یا ایسے گھر کے لیے جتنے کرایہ کا دستور ہو وہ دلایا جائے گا۔ لیکن اگر دستور زیادہ ہے اور طے کم ہوا تھا تو پھر دستور کے موافق نہ دیا جائے گا بلکہ وہی پائے گا جو طے ہوا ہے۔ غرضیکہ جو کم ہو اس کے پانے کا مستحق ہے۔

مسئلہ۔ گانے بجانے ناچنے بندر نچانے وغیرہ جتنی بیہودگیاں ہیں ان کا اجارہ صحیح نہیں بالکل باطل ہے اس لیے کچھ نہ دلایا جائے گا۔

مسئلہ۔ کسی حافظ کو نوکر رکھا کر اتنے دن تک فلانے کی قبر پر پڑھا کرو اور ثواب بخشا کرو۔ یہ صحیح نہیں باطل ہے نہ پڑھنے والے کو ثواب ملے گا نہ مردے کو اور یہ کچھ تنخواہ پانے کا مستحق نہیں۔ مسئلہ۔ پڑھنے کے لیے کوئی کتاب کرایہ پر لی تو یہ صحیح نہیں بلکہ باطل ہے۔

مسئلہ۔ یہ جو دستور ہے کہ بکری گائے بھینس کے گابھن کرنے میں جس کا بکرا بیل بھینسا ہوتا ہے وہ گابھن کرایہ لیتا ہے یہ بالکل حرام ہے۔

مسئلہ۔ بکری یا گائے بھینس کو دودھ پینے کے لیے کرایہ پر لینا درست نہیں۔

مسئلہ۔ جانور کو ادھیان پر دینا درست نہیں یعنی یوں کہنا کہ یہ مرغیاں یا بکریاں لے جاؤ اور پرورش سے اچھی طرح رکھو جو کچھ بچے ہوں وہ آدھے تمہارے آدھے ہمارے یہ درست نہیں ہے۔

مسئلہ۔ گھر سجانے کے لیے جھاڑ فانوس وغیرہ کرایہ پر لینا درست نہیں۔ اگر لایا بھی تو وہ دینے والا کرایہ پانے کا مستحق نہیں۔ البتہ اگر جھاڑ فانوس جلانے کے لیے لایا ہو تو درست ہے۔

مسئلہ۔ کوئی یکہ یا بہلی کرایہ پر کی تو معمولی سے زیادہ بہت آدمیوں کا لد جانا درست نہیں۔ اسی طرح ڈولی میں بلا کہاروں کی اجازت کے دو دو بیٹھ جانا درست نہیں۔

مسئلہ۔ کوئی چیز کھوئی گئی۔ اس نے کہا جو کوئی ہماری چیز بتلا دے کہ کہاں ہے اس کو ایک پیسہ دیں گے۔ تو اگر کوئی بتا دے تب بھی پیسہ پانے کی مستحق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اجارہ صحیح نہیں ہوا۔ اور اگر کسی خاص آدمی سے کہا ہو کہ اگر تو بتلا دے تو پیسہ دیں گے تو اگر اس نے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے یا کھڑے کھڑے بتلا دیا تو کچھ نہ پائے گی۔ اور اگر کچھ چل کے بتلایا ہو تو پیسہ دھیلا جو کچھ وعدہ تھا ملے گا۔

تاوان لینے کا بیان

مسئلہ۔ رنگریز۔ دھوبی۔ درزی وغیرہ کسی پیشہ ور سے کوئی کام کرایا تو وہ چیز جو اس کو دی ہے اس کے پاس امانت ہے اگر چوری ہو جائے یا اور کسی طرح بلا قصد مجبوری سے ضائع ہو جائے تو ان سے تاوان لینا درست نہیں۔ البتہ اگر اس نے اس طرح کندی کی کہ کپڑا پھٹ گیا یا عمدہ ریشمی کپڑا بھٹی پر چڑھا دیا وہ خراب ہو گیا تو اس کا تاوان لینا جائز ہے۔ اسی طرح جو کپڑا اس نے بدل دیا تو اس کا تاوان لینا بھی درست ہے۔ اور اگر کپڑا کھویا گیا اور وہ کہتا ہے معلوم نہیں کیونکہ گیا اور کیا ہوا۔ اس کا تاوان لینا بھی درست ہے۔ اور اگر وہ کہے کہ میرے یہاں چوری ہو گئی اس میں جاتا رہا تو تاوان لینا درست نہیں۔

مسئلہ۔ کسی مزدور کو گھی تیل وغیرہ گھر پہنچانے کو کہا۔ اس سے رستہ میں گر پڑا تو اس کا تاوان لینا جائز ہے۔

مسئلہ۔ اور جو پیشہ ور نہیں بلکہ خاص تمہارے ہی کام کے لیے ہے مثلاً نوکر چاکر یا وہ مزدور جس کو تم نے ایک دن یا دو چار دن کے لیے رکھا ہے اس کے ہاتھ سے جو کچھ جاتا رہے اس کا تاوان لینا جائز نہیں۔ البتہ اگر وہ خود قصداً نقصان کر دے تو تاوان لینا درست ہے۔

مسئلہ۔ لڑکا کھلانے پر جو نوکر ہے اس کی غفلت سے اگر بچے کا زیور یا اور کچھ جاتا رہے تو اس کاتاوان لینا درست نہیں۔

اجارہ کے توڑ دینے کا بیان

مسئلہ۔ کوئی گھر کرایہ پر لیا۔ وہ بہت ٹپکتا ہے یا کچھ حصہ اس کا گر پڑا۔ یا اور کوئی ایسا عیب نکل آیا جس سے اب رہنا مشکل ہے تو اجارہ کا توڑ دینا درست ہے اور اگر بالکل ہی گر پڑا تو خود ہی اجارہ ٹوٹ گیا تمہارے توڑنے اور مالک کے راضی ہونے کی ضرورت نہیں رہی۔

مسئلہ۔ جب کرایہ پر لینے والے اور دینے والے میں سے کوئی مر جائے تو اجارہ ٹوٹ جاتا ہے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی ایسا عذر پیدا ہو جائے کہ کرایہ کو توڑنا پڑے تو مجبوری کے وقت توڑ دینا صحیح ہے۔ مثلاً کہیں جانے کے لیے بہلی کو کرایہ پر کیا۔ پھر رائے بدل گئی اب جانے کا ارادہ نہیں رہا تو اجارہ توڑ دینا صحیح ہے۔

مسئلہ۔ یہ جو دستور ہے کہ کرایہ طے کر کے اس کو کچھ بیعانہ دے دیتے ہیں اگر جانا ہوا تو پھر اس کو پورا کر دیتے ہیں اور وہ بیعانہ اس کرایہ میں مجرا ہو جاتا ہے اور جو جانا نہ ہوا تو وہ بیعانہ ہضم کر لیتا ہے واپس نہیں دیتا یہ درست نہیں بلکہ اس کو واپس دینا چاہیے۔

مسئلہ۔ کوئی گھر کرایہ پر لیا۔ وہ بہت ٹپکتا ہے یا کچھ حصہ اس کا گر پڑا۔ یا اور کوئی ایسا عیب نکل آیا جس سے اب رہنا مشکل ہے تو اجارہ کا توڑ دینا درست ہے اور اگر بالکل ہی گر پڑا تو خود ہی اجارہ ٹوٹ گیا تمہارے توڑنے اور مالک کے راضی ہونے کی ضرورت نہیں رہی۔

مسئلہ۔ جب کرایہ پر لینے والے اور دینے والے میں سے کوئی مر جائے تو اجارہ ٹوٹ جاتا ہے۔

مسئلہ۔ اگر کوئی ایسا عذر پیدا ہو جائے کہ کرایہ کو توڑنا پڑے تو مجبوری کے وقت توڑ دینا صحیح ہے۔ مثلاً کہیں جانے کے لیے بہلی کو کرایہ پر کیا۔ پھر رائے بدل گئی اب جانے کا ارادہ نہیں رہا تو اجارہ توڑ دینا صحیح ہے۔

مسئلہ۔ یہ جو دستور ہے کہ کرایہ طے کر کے اس کو کچھ بیعانہ دے دیتے ہیں اگر جانا ہوا تو پھر اس کو پورا کر دیتے ہیں اور وہ بیعانہ اس کرایہ میں مجرا ہو جاتا ہے اور جو جانا نہ ہوا تو وہ بیعانہ ہضم کر لیتا ہے واپس نہیں دیتا یہ درست نہیں بلکہ اس کو واپس دینا چاہیے۔

بلا اجازت کسی کی چیز لے لینے کا بیان

مسئلہ۔ کسی کی چیز زبردستی لے لینا یا پیٹھ پیچھے اس کی بغیر اجازت کے لے لینا بڑا گناہ ہے بعضی عورتیں اپنے شوہر یا اور کسی عزیز کی چیز بلا اجازت لے لیتی ہیں یہ بھی درست نہیں ہے جو چیز بلا اجازت لے لی تو اگر وہ چیز ابھی موجود ہو تو بعینہ وہی پھیر دینا چاہیے۔ اور اگر خرچ ہو گئی ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ایسی چیز تھی کہ اسی کے مثل بازار میں مل سکتی ہے جیسے غلہ گھی تیل روپیہ پیسہ تو جیسی چیز لی ہے ویسی ہے منگا کر دے دینا واجب ہے۔ اور اگر کوئی ایسی چیز لے کر ضائع کر دی کہ اس کے مثل ملنا مشکل ہو تو اس کی قیمت دینا پڑے گی جیسے مرغی بکری امرود نارنگی ناشپاتی۔

مسئلہ۔ چار پائی کا ایک آدھ پاؤ ٹوٹ گیا یا پٹی یا چول ٹوٹ گئی یا اور کوئی چیز لے لی تھی وہ خراب ہو گئی تو خراب ہونے سے جتنا اس کا نقصان ہوا ہو دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ پرائے روپے سے بلا اجازت تجارت کی تو اس سے جو کچھ نفع ہوا اس کا لینا درست نہیں۔ بلکہ اصل روپیہ مالک کو واپس دے اور جو کچھ نفع ہو اس کو ایسے لوگوں کو خیرات کر دے جو بہت محتاج ہوں۔

مسئلہ۔ کسی کا کپڑا پھاڑ ڈالا۔ تو اگر تھوڑا پھٹا ہے تب تو جتنا نقصان ہوا ہے اتنا تاوان دلائیں گے۔ اور اگر ایسا پھاڑ ڈالا کہ اب اس کام کا نہیں رہا جس کام کے لیے پہلے تھا۔ مثلاً دوپٹہ ایسا پھاڑ ڈالا کہ اب دوپٹہ کے قابل نہیں رہا۔ کرتیاں البتہ بن سکتی ہیں تو یہ سب کپڑا اسی پھاڑنے والے کو دے دے اور ساری قیمت اس سے لے لے۔

مسئلہ۔ کسی کا نگینہ لے کر انگوٹھی پر رکھا لیا تو اب اس کی قیمت دینا پڑے گی۔ انگوٹھی توڑ کر نگینہ نکلوایا واجب نہیں۔

مسئلہ۔ کسی کا کپڑا لے کر رنگ لیا تو اس کو اختیار ہے چاہے رنگا رنگایا کپڑا لے لے اور رنگنے سے جتنے دام بڑھ گئے ہیں اتنے دام دے دے اور چاہے اپنے کپڑے کے دام لے لے اور کپڑا اسی کے پاس رہنے دے۔ مسئلہ۔ تاوان دینے کے بعد پھر اگر وہ چیز مل گئی تو دیکھنا چاہیے کہ تاوان اگر مالک کے بتلانے کے موافق دیا ہے اب اس کا پھیرنا واجب نہیں اب وہ چیز اس کی ہو گئی۔ اور اگر اس کے بتلانے سے کم دیا ہے تو اس کا تاوان پھیر کر اپنی چیز لے سکتی ہے۔

مسئلہ۔ پرائی بکری یا گائے گھر میں چلی آئی تو اس کا دودھ دوہنا حرام ہے۔ جتنا دودھ لیوے گی اس کے دام دینا پڑیں گے۔

مسئلہ۔ سوئی دھاگہ کپڑے کی چٹ پان تمباکو کتھا ڈلی کوئی چیز بغیر اجازت کے لینا درست نہیں۔ جو لیا ہے اس کو دام دینا واجب ہیں یا اس سے کہہ کے معاف کرا لیے نہیں تو قیامت میں دینا پڑے گا۔

مسئلہ۔ شوہر اپنے واسطے کوئی کپڑا لایا۔ قطع کرتے وقت کچھ اس میں سے بچا کر چورا رکھا اور اس کو نہیں بتایا یہ بھی جائز نہیں۔ جو کچھ لینا ہو کہہ کے لو اور اجازت نہ دے تو نہ لو۔

ساجھے کی چیز تقسیم کرنے کا بیان

مسئلہ۔ دو آدمیوں نے ملک کر بازار سے گیہوں منگوائے تو اب تقسیم کرتے وقت دونوں کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے دوسرا حصہ دار موجود نہ ہو تب بھی ٹھیک ٹھیک تول کر اس کا حصہ الگ کر کے اپنا حصہ الگ کر لینا درست ہے۔ جب اپنا حصہ الگ کر لیا تو کھاؤ پیو کسی کو دے دو جو چاہو سو کرو سب جائز ہے۔ اسی طرح گھی تیل انڈے وغیرہ کا بھی حکم ہے۔ غرضیکہ جو چیز ایسی ہو کہ اس میں کچھ فرق نہ ہوتا ہو جیسے کہ انڈے انڈے سب برابر ہیں یا گیہوں کے دو حصے کیے تو جیسا یہ حصہ ویسا وہ حصہ دونوں برابر۔ ایسی سب چیزوں کا یہی حکم ہے کہ دوسرے کے نہ ہوتے وقت بھی حصہ بانٹ کر لینا درست ہے لیکن اگر دوسری نے ابھی اپنا حصہ نہیں لیا تھا کہ کسی طرح جاتا رہا تو وہ نقصان دونوں کا ہو گا جیسے شرکت میں بیان ہوا۔ اور جن چیزوں میں فرق ہوا کرتا ہے جیسے امرود نارنگی وغیرہ ان کا حکم یہ ہے کہ جب تک دونوں حصہ دار موجود نہ ہوں حصہ باٹ کر لینا درست نہیں ہے۔

مسئلہ۔ دو لڑکیوں نے مل کر امرود وغیرہ کچھ منگوایا اور ایک کہیں چلی گئی تو اب اس میں سے کھانا درست نہیں جب وہ آ جائے اس کے سامنے اپنا حصہ الگ کرو تب کھاؤ نہیں تو بہت گناہ ہو گا۔ مسئلہ۔ دو نے مل کر چنے بھنوائے تو فقط اندازے سے تقسیم کرنا درست نہیں بلکہ خوب ٹھیک ٹھیک تولا کرو آدھا آدھا کرنا چاہیے اگر کسی طرف کمی بیشی ہو جائے گی تو سود ہو جائے گا۔

گروی رکھنے کا بیان

مسئلہ۔ تم نے کسی سے دس روپے قرض لیے اور اعتبار کے لیے اپنی کوئی چیز اس کے پاس رکھ دی کہ تجھے اعتبار نہ ہو تو میری یہ چیز اپنے پاس رکھ لے۔ جب روپے ادا کر دوں تو اپنی چیز لے لوں گی یہ جائز ہے اسی کو گروی کہتے ہیں لیکن سود دینا کسی طرح درست نہیں جیسا کہ آج کل مہاجن سود لے کر گروی رکھتے ہیں یہ درست نہیں۔ سود لینا اور دینا دونوں حرام ہیں۔

مسئلہ۔ جب تم نے کوئی چیز گروی رکھ دی تو اب بغیر قرضہ ادا کیے اپنی چیز کے مانگنے اور لے لینے کا حق نہیں ہے۔

مسئلہ۔ جو چیز تمہارے پاس کسی نے گروی رکھی تو اب اس چیز کو کام میں لانا اس سے کسی طرح کا نفع اٹھانا ایسے باغ کا پھل کھانا ایسی زمین کا غلہ یا روپیہ لے کر کھانا ایسے گھر میں رہنا کچھ درست نہیں ہے۔

مسئلہ۔ اگر بکری گائے وغیرہ گروی ہو تو اس کا دودھ بچہ وغیرہ جو کچھ ہو وہ بھی مالک ہی کے ہیں۔ جس کے پاس گروی ہے اس کو لینا درست نہیں۔ دودھ کو بیچ کر دام کو بھی گروی میں شامل کر دے۔ جب وہ تمہارا قرضہ ادا کر دے تو گروی کی چیز اور یہ دام دودھ کے سب واپس کر دو اور کھلائی کے دام کاٹ لو۔

مسئلہ۔ اگر تم نے اپنا روپیہ کچھ ادا کر دیا تب بھی گروی کی چیز نہیں لے سکتیں جب سب روپیہ ادا کرو گی تب وہ چیز ملے گی۔

مسئلہ۔ اگر تم نے دس روپے قرض لیے اور دس ہی روپے کی چیز یا پندرہ بیس روپے کی چیز گروی کر دی اور وہ چیز اس کے پاس سے جاتی رہی تو اب نہ تو وہ تم سے اپنا کچھ قرض لے سکتا ہے اور نہ تم اس سے اپنی گروی کی چیز کے دام لے سکتی ہو۔ تمہاری چیز گئی اور اس کا روپیہ گیا۔ اور اگر پانچ ہی روپے کی چیز گروی رکھی اور وہ جاتی رہی تو پانچ روپے تم کو دینا پڑیں گے پانچ روپے مجرا ہو گئے۔

وصیت کا بیان

مسئلہ۔ یہ کہنا کہ میرے مرنے کے بعد میرا اتنا مال فلانے آدمی کو یا فلانے کام میں دے دینا۔ یہ وصیت ہے چاہے تندرستی میں کہے چاہے بیماری میں۔ پھر چاہے اس بیماری میں مر جائے یا تندرست ہو جائے اور جو خود اپنے ہاتھ سے کہیں دے دیں کسی کو قرضہ معاف کر دے تو اس کا حکم یہ ہے کہ تندرستی میں ہر طرح دوست ہے اور اسی طرح جس بیماری سے شفا ہو جائے اس میں بھی درست ہے اور جس بیماری میں مر جائے وہ وصیت ہے جس کا حکم گے تا ہے۔

مسئلہ۔ اگر کسی کے ذمے نمازیں یا روزے یا زکوٰۃ یا قسم درد زہ وغیرہ کا کفارہ باقی رہ گیاہو اور اتنا مال بھی موجود ہو تو مرتے وقت اس کے لیے وصیت کر جانا ضروری اور واجب ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا کچھ قرض ہو یا کوئی امانت اس کے پاس رکھی ہو اس کی وصیت کر دینا بھی واجب ہے نہ کرے گی تو گنہگار ہو گی۔ اور اگر کچھ رشتہ دار غریب ہوں جن کو شرع سے کچھ میراث نہ پہنچتی ہو اور اس کے پاس بہت مال و دولت ہے تو ان کو کچھ دلا دینا اور وصیت کر جانا مستحب ہے اور باقی اور لوگوں کے لیے وصیت کرنے نہ کرنے کا اختیار ہے۔

مسئلہ۔ مرنے کے بعد مردے کے مال میں سے پہلے تو اس کی گوروکفن کا سامان کریں پھر جو کچھ بچے اس سے قرضہ ادا کر دیں۔ اگر مردے کا سارا مال قرضہ ادا کرنے میں لگ جائے تو سارا مال قرضہ میں لگا دیں گے وارثوں کو کچھ نہ ملے گا۔ اس لیے قرضہ ادا کرنے کی وصیت پر بہرحال عمل کریں گے۔ اگر سب مال اس وصیت کی وجہ سے خرچ ہو جائے تب بھی کچھ پروا نہیں بلکہ اگر وصیت بھی نہ کر جائے تب بھی قرضہ اول ادا کر دیں گے اور قرض کے سوا اور چیزوں کی وصیت کا اختیار فقط تہائی مال میں ہوتا ہے۔ یعنی جتنا مال چھوڑا ہے اس کی تہائی میں سے اگر وصیت پوری ہو جائے مثلاً کفن دفن اور قرضے میں لگا کر تین سو روپے اور سو روپے میں سب وصیتیں پوری ہو جائیں تب تو وصیت کو پورا کریں گے اور تہائی مال سے زیادہ لگانا وارثوں کے ذمہ واجب نہیں۔ تہائی میں سے جتنی وصیتیں پوری ہو جائیں اس کو پورا کریں باقی چھوڑ دیں۔ البتہ اگر سب وارث بخوشی رضا مند ہو جائیں کہ ہم اپنا اپنا حصہ نہ لیں گے تم اس کی وصیت میں لگا دو تو البتہ تہائی سے زیادہ بھی وصیت میں لگانا جائز ہے لیکن نابالغوں کی اجازت کا بالکل اعتبار نہیں ہے وہ اگر اجازت بھی دیں تب بھی ان کا حصہ خرچ کرنا درست نہیں۔

مسئلہ۔ جس شخص کو میراث میں مال ملنے والا ہو جیسے ماں باپ شوہر بیٹا وغیرہ اس کے لیے وصیت کرنا صحیح نہیں۔ اور جس رشتہ دار کا اس کے مال میں کچھ حصہ نہ ہو یا رشتہ دار ہی نہ ہو کوئی غیر ہو اس کے لیے وصیت کرنا درست ہے لیکن تہائی مال سے زیادہ دلانے کا اختیار نہیں۔ اگر کسی نے اپنے وارث کو وصیت کر دی کہ میرے بعد اس کو فلانی چیز دے دینا۔ یا اتنا مال دے دینا تو اس وصیت سے پانے کا اس کو کچھ حق نہیں ہے البتہ اگر اور سب وارث راضی ہوں جائیں تو دے دینا جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو تہائی سے زیادہ وصیت کر جائے اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر سب وارث بخوشی راضی ہو جائیں تو تہائی سے زیادہ ملے گا ورنہ فقط تہائی مال ملے گا اور نابالغوں کی اجازت کا کسی صورت میں اعتبار نہیں ہے ہر جگہ اس کا خیال رکھو ہم کہاں تک لکھیں۔

مسئلہ۔ اگرچہ تہائی مال میں وصیت کر جانے کا اختیار ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ پوری تہائی کی وصیت نہ کرے کم کی وصیت کرے بلکہ اگر بہت زیادہ مالدار نہ ہو تو وصیت ہی نہ کرے وارثوں کے لیے چھوڑ دے کہ اچھی طرح فراغت سے بسر کریں کیونکہ اپنے وارثوں کو فراغت اور سائش میں چھوڑ جانے میں بھی ثواب ملتا ہے۔ ہاں البتہ اگر ضروری وصیت ہو جیسے نماز روزہ کا فدیہ تو اس کی وصیت بہرحال کر جائے اور نہ گنہگار ہو گی۔

مسئلہ۔ کسی نے کہا میرے بعد میرے مال میں سے سو روپے خیرات کر دینا تو دیکھو گور و کفن اور قرض ادا کرنے کے بعد کتنا مال بچا ہے کہ تین سو یا اس سے زیادہ ہو تو پورے سو روپے دینا چاہئیں۔ اور جو کم ہو تو صرف تہائی دینا واجب ہے۔ ہاں اگر سب وارث بلا کسی دباؤ و لحاظ کے منظور کر لیں تو اور بات ہے۔

مسئلہ۔ اگر کسی کے کوئی وارث نہ ہو تو اس کو پورے مال کی وصیت کر دینا بھی درست ہے اور اگر صرف بیوی ہو تو تین چوتھائی کی وصیت درست ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے صرف میاں ہے تو آدھے مال کی وصیت درست ہے۔

مسئلہ۔ نابالغ کا وصیت کرنا درست نہیں۔

مسئلہ۔ یہ وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز فلاں شخص پڑھائے فلاں شہر میں یا فلانے قبرستان یا فلاں کی قبر کے پاس مجھ کو دفنانا۔ فلانے کپڑے کا کفن دینا۔ میری قبر پکی بنا دینا۔ قبر پر قبہ بنا دینا۔ قبر پر کوئی حافظ بٹھلا دینا کہ پڑھ پڑھ کے بخشا کرے تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں۔ بلکہ تین وصیتیں اخیر کی بالکل جائز نہیں۔ پورا کرنے والا گنہگار ہو گا۔

مسئلہ۔ اگر کوئی وصیت کر کے اپنی وصیت سے لوٹ جائے یعنی کہہ دے کہ اب مجھے ایسا منظور نہیں اس وصیت کا اعتبار نہ کرنا تو وہ وصیت باطل ہو گئی۔

مسئلہ۔ جس طرح تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کر جانا درست نہیں اسی طرح بیماری کی حالت میں اپنے مال کو تہائی سے زیادہ بجز اپنے ضروری خرچ کھانے پینے دوا دارو وغیرہ کے خرچ کرنا بھی درست نہیں۔ اگر تہائی سے زیادہ دے دیا تو بدون اجازت وارثوں کے یہ دنیا صحیح نہیں ہوا۔ جتنا تہائی سے زیادہ ہے وارثوں کو اس کے لے لینے کا اختیار ہے اور نابالغ اگر اجازت دیں تب بھی معتبر نہیں۔ اور وارث کو تہائی کے اندر بھی بدون سب وارثوں کی اجازت کے دینا درست نہیں اور یہ حکم جب ہے کہ اپنی زندگی میں دے کر قبضہ بھی کرا دیا ہو اور اگر دے تو دیا لیکن قبضہ ابھی نہیں ہوا تو مرنے کے بعد وہ دنیا بالکل ہی باطل ہے اس کو کچھ نہ ملے گا وہ سب مال وارثوں کا حق ہے اور یہی حکم ہے بیماری کی حالت میں خدا کی راہ میں دینے اور نیک کام میں لگانے کا۔ غرضیکہ تہائی سے زیادہ کسی طرح صرف کرنا جائز نہیں۔

مسئلہ۔ بیمار کے پاس بیمار پرسی کی رسم سے کچھ لوگ گئے اور کچھ دن یہیں لگ گئے کہ یہیں رہتے اور اس کے مال میں کھاتے پیتے ہیں تو اگر مریض کی خدمت کے لیے ان کے رہنے کی ضرورت ہو تو خیر کچھ حرج نہیں اور اگر ضرورت نہ ہو تو ان کی دعوت مدارات کھانے پینے میں بھی تہائی سے زیادہ لگانا جائز نہیں۔ اور اگر ضرورت بھی نہ ہو اور وہ لوگ وارث ہوں تو تہائی سے کم بھی بالکل جائز نہیں یعنی ان کو اس کے مال میں کھانا جائز نہیں۔ ہاں اگر سب وارث بخوشی اجازت دیں تو جائز ہے۔

مسئلہ۔ ایسی بیماری کی حالت میں جس میں بیمار مر جائے اپنا فرض معاف کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے۔ اگر کسی وارث پر قرض تھا اس کو معاف کیا تو معاف نہیں ہوا۔ اگر سب وارث یہ معانی منظور کریں اور بالغ ہوں تب معاف ہو گا۔ اور اگر غیر کو معاف کیا تو تہائی مال سے جتنا زیادہ ہو گا معاف نہ ہو گا۔ اکثر دستور ہے کہ بی بی مرتے وقت اپنا مہر معاف کر دیتی ہے یہ معاف کرنا صحیح نہیں۔

مسئلہ۔ حالت حمل میں درد شروع ہو جانے کے بعد اگر کسی کو کچھ دے یا مہر وغیرہ معاف کرے تو اس کا بھی وہی حکم ہے جو مرتے وقت دینے لینے کا ہے یعنی اگر خدا نہ کرے اس میں مر جائے تب تو یہ وصیت ہے کہ وارث کے لیے کچھ جائز نہیں اور غیر کے لیے تہائی سے زیادہ دینے اور معاف کرنے کا اختیار نہیں۔ البتہ اگر خیرو عافیت سے بچہ ہو گیا تو اب وہ دینا لینا اور معاف کرنا صحیح ہو گا۔ مسئلہ۔ مر جانے کے بعد اس کے مال میں گوروکفن کرو جو کچھ بچے تو سب سے پہلے اس کا قرض ادا کرنا چاہیے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ قرض کا ادا کرنا بہرحال مقدم ہے۔ بی بی کا مہر بھی قرضہ میں داخل ہے۔ اگر قرضہ نہ ہو یا قرضہ سے کچھ بچ رہے تو دیکھنا چاہیے کچھ وصیت تو نہیں کی ہے۔ اگر کی ہے تو تہائی میں وہ جاری ہو گی۔ اور اگر نہیں کی یا وصیت سے جو بچا ہے وہ سب وارثوں کا حق ہے شرع میں جن جن کا حصہ ہو کسی عالم سے پوچھ کر دے دینا چاہیے۔ یہ جو دستور ہے کہ جو جس کے ہاتھ لگا لے بھاگا۔ بڑا گناہ ہے یہاں نہ دو گے تو قیامت میں دینا پڑے گا جہاں روپے کے عوض نیکیاں دینا پڑیں گے۔ اسی طرح لڑکیوں کا صلہ بھی ضرور دینا چاہیے شرع سے ان کا بھی حق ہے۔ مسئلہ۔ مردے کے مال میں سے لوگوں کی مہمانداری والوں کی خاطر مدارات کھانا پلانا۔ صدقہ خیرات وغیرہ کچھ کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح مرنے کے بعد سے دفن کرنے تک جو کچھ اناج وغیرہ فقیروں کو دیا جاتا ہے مردہ کے مال میں سے اس کا دینا بھی حرام ہے۔ مردے کو ہرگز کچھ ثواب نہیں پہنچتا۔ بلکہ ثواب سمجھنا سخت گناہ ہے کیونکہ اب یہ سب مال تو وارثوں کا ہو گیا پرائی حق تلفی کر کے دینا ایسا ہے جیسے غیر کا مال چرا کے دے دینا۔

سب مال وارثوں کو بانٹ دینا چاہیے ان کو اختیار ہے اپنے اپنے حصہ میں سے چاہے شرع کے موافق کچھ کریں یہ نہ کریں بلکہ وارثوں سے اس خرچ کرنے اور خیرات کرنے کی اجازت بھی نہ لینا چاہیے کیونکہ اجازت لینے سے فقط ظاہر دل سے اجازت دیتے ہیں کہ اجازت نہ دینے میں بدنامی ہوئی۔ ایسی اجازت کا کچھ اعتبار نہیں۔

مسئلہ۔ اسی طرح یہ جو دستور ہے کہ اس کے استعمالی کپڑے خیرات کر دیئے جاتے ہیں یہ بھی بغیر اجازت وارثوں کے ہرگز جائز نہیں اور اگر وارثوں میں کوئی نابالغ ہو تب تو اجازت دینے پر بھی جائز نہیں پہلے مال تقسیم کر لو تب بالغ لوگ اپنے حصہ میں سے چاہیں دیں۔ بغیر تقسیم کیے ہرگز نہ دینا چاہیے۔

بہشتی جوہر ضمیمہ بہشتی زیور حصہ پنجم

حلال مال طلب کرنے کا بیان

حدیث میں ہے کہ حلال مال کا طلب کرنا فرض ہے بعد اور فرض کا مطلب یہ ہے کہ حلال مال کا حاصل کرنا فرض ہے بعد اور فرضوں کے یعنی ان فرضوں کے بعد جو ارکان اسلام ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ یعنی مال حلال کی طلب فرض تو ہے مگر اس فرض کا رتبہ دوسرے فرضوں سے کم ہے جو کہ ارکان اسلام ہیں اور یہ فرض اس شخص کے ذمہ ہے جو مال کا ضروری خرچ کے لیے محتاج ہو۔ خواہ اپنی ضرورت رفع کرنے کو یا اپنے اہل و عیال کی ضرورت رفع کرنے کو۔ اور جس شخص کے پاس بقدر ضرورت موجود ہے مثلاً صاحب جائداد ہے یا اور کسی طرح سے اس کو مال مل گیا تو اس کے ذمہ یہ فرض نہیں رہتا۔ اس لیے کہ مال کو حق تعالی نے حاجتوں کے رفع کرنے کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ بندہ ضروری حاجتیں پوری کر کے اللہ پاک کی عبادت میں مشغول ہو کیونکہ بغیر کھائے پئے عبادت نہیں ہو سکتی پس مال مقصود لذاتہ نہیں بلکہ مطلوب لغیرہ ہے۔ سو جب بقدر ضرورت کے میسر ہو گیا تو خواہ مخواہ حرص کی وجہ سے اس کو طلب کرنا اور بڑھانا نہ چاہیے پس جس کے پاس قدر ضرورت موجود ہو اس پر بڑھانا فرض نہیں۔ بلکہ مال کی حرص خدائے تعالی سے غافل کرنے والی اور اس کی کثرت گناہوں میں مبتلا کرنے والی ہے خوب سمجھ لو اور اس بات کا لحاظ رہے کہ مال حلال میسر آئے۔ حرام کی طرف مسلمانوں کی بالکل توجہ نہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ وہ مال بے برکت ہوتا ہے اور ایسا شخص جو کہ حرام خور ہو دین و دنیا میں ذلت اور خدا تعالی کی پھٹکار میں مبتلا رہتا ہے اور بعض جاہلوں کا یہ خیال کہ آجکل حلال مال کمانا غیر ممکن ہے اور حلال مال ملنے سے مایوسی ہے سراسر غلط اور شیطان کا دھوکہ ہے خوب یاد رکھو کہ شریعت پر عمل کرنے والے کی غیب سے مدد ہوتی ہے۔ جس کی نیت حلال کھانے اور حرام سے بچنے کی ہوتی ہے حق تعالی اس کو ایسا ہی مال مرحمت فرماتے ہیں اور یہ امر مشاہدہ سے ثابت ہے اور قرآن و حدیث میں تو جا بجا یہ وعدہ آیا ہے۔

اس نازک زمانہ میں جن خدا کے بندوں نے حرام اور شبہ کے مال سے اپنے نفس کو روک لیا ہے ان کو حق تعالی عمدہ حلال مال مرحمت فرماتے ہیں اور وہ لوگ حرام خوروں سے زیادہ راحت و عزت سے رہتے ہیں جو شخص اپنے ساتھ اور دوسرے حضرات کے ساتھ اللہ تعالی کا یہ معاملہ دیکھتا ہے اور جا بجا قرآن و حدیث میں یہ مضمون پاتا ہے وہ ایسے جاہلوں کے کہنے کی کچھ پرواہ نہیں کر سکتا۔ اور اگر کسی معتبر کتاب میں ایسی باتیں نظر سے گزریں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے جو جاہلوں نے سمجھ رکھا ہے۔ پس جب وہ مضمون دیکھو تو کسی پکے دیندار عالم سے اس کا مطلب دریافت کرو انشاء اللہ تعالی تمہاری تسلی ہو جائے گی۔ اور ایسی بیہودہ باتوں کا وسوسہ دل سے نکل جائے گا خوب سمجھ لو۔

لوگ مال کے باب میں بہت کم احتیاط کرتے ہیں۔ ناجائز نوکریاں کرتے ہیں دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں یہ سب حرام ہے اور خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالی کے یہاں کسی بات کی کمی نہیں۔ جس قدر تقدیر میں لکھا ہے وہ ضرور مل کر رہے گا۔ پھر بدنیتی کرنا اور دوزخ میں جانے کی تیاری کرنا کون سی عقل کی بات ہے چونکہ لوگوں کو مال حلال کی طرف توجہ بہت کم ہے اس لیے بار بار تاکید سے یہ مضمون بیان کیا گیا دنیا میں اصل مقصود انسان اور جن کی پیدائش سے یہ ہے کہ انسان اور جن حق تعالی کی عبادت کریں۔ لہذا اس بات کا ہر معاملہ میں خیال رکھو اور کھانا پینا اس لیے ہے کہ قوت پیدا ہو جس سے خدا کا نام لے سکے یہ مطلب نہیں ہے کہ شب و روز لذتوں میں مشغول رہے اور اللہ میاں کو بھول جائے اور ان کی نافرمانی کرے۔ بعضے جاہلوں کا یہ خیال کہ دنیا میں فقط کھانے پہننے اور لذتیں اڑانے کے لیے آئے ہیں سخت بد دینی کی بات ہے اللہ تعالی جہالت کا ناس کرے کیسی بری بلا ہے۔

حدیث میں ہے فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نے نہیں کھایا کوئی کھانا کبھی بہتر اس کھانے سے جو اپنے دونوں ہاتھوں کے عمل سے ہو اور بے شک خدا کے نبی حضرت داود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ہاتھوں کے عمل سے کھاتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے ہاتھ کی کمائی بہت عمدہ چیز ہے مثلاً کوئی پیشہ کرنا یا تجارت کرنا وغیرہ خواہ مخواہ کسی پر بوجھ ڈالنا نہ چاہیے اور پیشہ کو حقیر نہ سمجھنا چاہیے جب اس قسم کے کام حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے کیے ہیں تو اور کون ایسا شخص ہے جس کی آبرو ان حضرات سے بڑھ کر ہے بلکہ کسی کی آبرو ان حضرات کے برابر بھی نہیں ان سے بڑھ کر تو کیا ہوتی ایک حدیث میں آیا ہے کوئی نبی ایسے نہیں ہوئے جنہوں نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ خوب سمجھ لو اور جہالت سے بچو اور بعضے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس مال حلال ہو مگر اپنے ہاتھ کا کمایا ہوا نہ ہو بلکہ میراث میں ملا ہو یا کسی اور حلال ذریعہ سے میسر آیا ہو تو خواہ مخواہ اپنے کمانے کی فکر کرتے ہیں اور اس کو عبادت میں مشغول ہونے سے بہتر سمجھتے ہیں یہ سخت غلطی ہے بلکہ ایسے شخص کے لیے عبادت میں مشغول ہونا بہتر ہے جب اللہ نے اطمینان دیا اور رزق کی فکر سے فارغ البال کیا تو پھر بڑی ناشکری ہے کہ اس کا نام اچھی طرح نہ لے اور مال ہی کو بڑھائے جائے بلکہ مال حلال تو جس طرح سے میسر آئے بشرطیکہ کوئی ذات نہ اٹھانی پڑے وہ سب عمدہ ہے اور اللہ کی بڑی نعمت ہے اس کی بڑی قدر کرنی چاہیے اور انتظام سے خرچ کرنا چاہیے فضول نہ اڑانا چاہیے۔

اور حدیث کا مطلب تو یہ ہے کہ لوگ اپنا بار کسی پر نہ ڈالیں اور لوگوں سے بھیک نہ مانگیں جب تک کوئی خاص ایسی مجبوری نہ ہو جس کو شریعت نے مجبوری قرار دیا ہو اور پیشہ کو حقیر نہ سمجھیں اور حلال مال طلب کریں کمائی کو عیب نہ سمجھیں سو اس وجہ سے یہ مضمون مبالغہ کے طور پر بیان فرمایا گیا تاکہ لوگ اپنے ہاتھ سے کمانے کو برا نہ سمجھیں اور کمائیں اور کھائیں اور کھلائیں اور خیرات کریں حدیث کی یہ غرض نہیں ہے کہ سوائے اپنے ہاتھ کی کمائی کے اور کسی طرح سے جو حلال مال ملا ہو وہ حلال نہیں آیا ہاتھ کی کمائی کے برابر نہیں بلکہ بعض مال اپنے ہاتھ کی کمائی سے بڑھ کر ہوتا ہے اور بعضے ناواقف سچے خاصان خدا پر جو متوکل ہیں طعن کرتے ہیں اور دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں جو مذکور ہوئی کہ ان کو اپنے ہاتھ سے کمانا چاہیے۔ محض توکل پر بیٹھنا اور نذرانوں سے گزر کرنا اچھا نہیں۔ یہ ان کی سخت نادانی ہے اور یہ اعتراض جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ ڈرنا چاہیے سخت اندیشہ ہے کہ ان بزرگوں کو بے ادبی اور ان پر لعن و طعن سے دارین میں بلانا نازل ہوا اور طعن کرنے والوں کو ہلا کر دے بلکہ اولیاء اللہ کی بے ادبی سے ایمان جاتے رہنے اور برا خاتمہ ہونے کا اندیشہ ہے اللہ تعالی اس شخص کو اس دن سے پہلے ناپید کر دے جس دن بزرگوں پر اعتراض کرے کہ اس کے حق میں یہی بہتر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قرآن و حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے بشرطیکہ انصاف سے اور طلب حق کے لیے تامل کیا جائے کہ جس شخص میں توکل کی شرطیں پائی جائیں تو اس کے لیے توکل کرنا کمانے سے بدرجہا افضل ہے اور یہ اعلی مقام ہے مقامات ولایت سے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود متوکل تھے اور جو آمدنی متوکل کو ہوتی ہے وہ ہاتھ کی کمائی سے بہت بہتر ہے اور اس میں خاص برکت اور خاص نور ہے جسے اللہ تعالی نے یہ مرتبہ مرحمت فرمایا ہے اور بصیرت اور فہم اور نور عطا فرمایا ہے وہ کھلی آنکھوں اس کی برکت دیکھتا ہے اور اس کا تفصیلی بیان کسی خاص موقع پر کیا جائے گا۔ چونکہ یہ مختصر رسالہ ہے اس لیے طوالت کی گنجائش نہیں اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ یہ قول سراسر غلط ہے جیسا کہ بیان ہوا۔ اور بڑی بے انصافی کی بات ہے کہ ایک تو خود نیک کام سے محروم رہو اور دوسرا کرے تو اس پر لعن وطعن کرو۔ کیا حق تعالی کو منہ دکھاؤ گے جبکہ اس کے دوستوں کے درپے ہوتے ہو۔ اور علاوہ فائدہ مذکورہ کے توکل اختیار کرنے میں بہت سے دینی فائدے ہیں اور وہ متوکلین جو مخلوق کی تعلیم کرتے ہیں ان کی خدمت کرنا تو بقدر ان کے ضروری خرچ پورا ہونے کے فرض ہے سو اپنا حق نذرانہ سے لینا کیوں برا سمجھا گیا جبکہ غیر متوکلین بھی اپنے حقوق خوب مار دھاڑ سے لڑائی لڑ کر وصول کرتے ہیں حالانکہ متوکلین تو بہت تہذیب اور لوگوں کی بڑی آرزو کرنے سے اپنا حق قبول کرتے ہیں اور نذرانہ قبول کرنے میں جب کہ ذلت نہ ہو اور استغنا اور بے پروائی سے لیا جائے۔ خصوصاً جبکہ اس کے واپس کرنے میں دینے والے کی سخت دلشکنی ہو تو ظاہر ہے کہ اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے حقیقت یہ ہے کہ ایسے حضرات جو سچے متوکل ہیں ان کو بڑی عزت سے روزی میسر ہوتی ہے مگر ان کی نیت اور توجہ محض خدا کے بھروسہ پر ہوتی ہے مخلوق کی طرف نگاہ نہیں ہوتی اور جو طمع رکھے مخلوق سے اور نگاہ کرے ان کے مال پر وہ دغا باز ہے وہ ہمارے اس کلام سے خارج ہے۔ ہم نے تو سچے توکل والوں کی حالت بیان کی ہے کسی کو حقیر سمجھنا خصوصاً خاصان خدا کو بڑا سخت گناہ ہے اور ان حضرات کا اس میں کوئی ضرر نہیں بلکہ نفع ہے کہ برا کہنے والوں کی نیکیاں قیامت کے روز ان کو ملیں گی۔

تباہی تو ان کی ہے جو برا کہتے ہیں کہ دین و دنیا تباہ ہوتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ توکل کی اجازت ہر شخص کو شریعت نے نہیں دی ہے اس کی ہمت کرنا اور اس کی شرطوں کا پورا ہونا بہت دشوار ہے۔ اسی وجہ سے ایسے حضرات بہت کم پائے جاتے ہیں گویا کہ معدوم ہیں۔ اور بہت اچھی چیز ہمیشہ کم ہی ہوتی ہے۔ اللہ پاک کا بے حد شکر ہے کہ یہ مقام محض معمولی توجہ سے بہت عمدہ تحریر ہو گیا۔ اللہ تعالی ہم کو اور آپ کو عمل کی توفیق دیں آمین۔

حدیث میں ہے کہ تحقیق اللہ تعالی طیب ہے یعنی کمالات کے ساتھ موصوف اور تمام عیبوں سے پاک نہیں قبول کرتا ہے مگر طیب کو یعنی اللہ پاک طیب مال یعنی حلال مال قبول فرماتا ہے حرام مال وہاں مقبول نہیں بلکہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حرام مال خیرات کے ثواب کی امید رکھنا کفر ہے اور اللہ نے حکم کیا مومنوں کو اس چیز کا جس کا کہ حکم فرمایا مرسلین کو یعنی رسولوں کو پس فرمایا اے رسولو کھاؤ پاک چیزیں یعنی حلال اور عمل کرو اچھے اور فرمایا اللہ تعالی نے اے ایمان والو کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تم کو دی ہیں۔ پھر ذکر فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کا جو لمبا سفر کرتا ہے حج کرنے علم طلب کرنے وغیرہ کو اس حال میں کہ پراگندہ حال اور گرد آلود ہوتا ہے سفر کی مشقت سے اور ہاتھ بڑھاتا ہے آسمان کی طرف اور کہتا ہے اے میرے پروردگار اے میرے پروردگار یعنی اللہ پاک سے بار بار سوال کرتا ہے کہ رحم فرما کر مقصود عطا کر دے حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے اور اس کا پینا حرام ہے اور اس کا لباس حرام ہے یعنی خوردو نوش اور لباس مال حرام سے حاصل کرتا ہے اور پالا گیا مال حرام سے یعنی مال حرام سے گزر کرتا ہے اسی سے پرورش پاتا ہے ہاں جس کو والدین نے نابالغی کی حالت میں مال حرام سے پرورش کیا ہو اور بالغ ہو کر اس نے حلال مال حاصل کیا اور اس کو اپنی خورد و نوش و لباس میں صرف کیا تو وہ شخص اس حکم سے خارج ہے نابالغ ہونے کی حالت کا گناہ فقط والدین پر ہے پس کیونکر قبول کی جائے گی وہ دعا اس کے لیے رواہ مسلم یعنی باوجود اس قدر مشقتوں کے مال حرام کے استعمال کی وجہ سے ہرگز دعا مقبول نہ ہو گی۔

اور اگر کبھی مقصود حاصل بھی ہو گیا تو وہ دعا کے سبب سے نہیں بلکہ اس کا حاصل ہونا تقدیر الٰہی کی وجہ سے ہے جیسے رحمت کی وجہ سے اس کو اس کا مطلوب عطا فرمائیں اور اس طلب پر ثواب عنایت ہو سو یہ بات اسی کو میسر ہوتی ہے جو شریعت کا پابند اور اللہ پاک سے مقصود طلب کرے یہاں سے معلوم ہوا کہ حلال کھانے میں بڑے برکت ہے اور واقعی اس کی خاص تاثیر ہے اور ایسا مال کھانے سے نیکی کی قوت پیدا ہوتی ہے اعضاء عقل کی تابعداری کرتے ہیں۔ حضرت سیدنا و مولانا ابو حامد محمد غزالی نور اللہ مرقدہ ایک بہت بڑے درویش سے یعنی حضرت سہیل سے نقل فرماتے ہیں کہ جو حرام کھاتا ہے اعضاء اس کی عقل کی اطاعت چھوڑ دیتے ہیں یعنی عقل نیکی کا حکم کرتی ہے اور وہ اس کی اطاعت نہیں کرتے مگر یہ بات ان ہی حضرات کو معلوم ہوتی ہے جن کے دل کی آنکھیں روشن ہیں ورنہ جن کا دل سیاہ ہے وہ تو شب و روز اس میں مشغول رہتے ہیں اور خوب لذت اڑاتے ہیں اور ان کو کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی قلب کی حس اور دل کی بینائی اور بصیرت کو قائم رکھے آمین حضرت سیدنا عبداللہ بن مبارک جو بڑے عالم اور زاہد اور حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں کہ مجھے ایک درہم مشتبہ مال کا لوٹا دینا جو مجھے ملے خواہ ہدیہ کے ذریعہ سے یا کسی اور طرح زیادہ محبوب ہے چھ لاکھ درہم خیرات کرنے سے۔ یہاں سے اندازہ کرنا چاہیے کہ مشتبہ مال کی کیا قدر ہے۔ افسوس کہ لوگ صریح حرام بھی نہیں چھوڑتے۔ روپیہ ملے کسی طرح ملے۔ اور بزرگان دین مشتبہ مال کو اس قدر برا سمجھتے تھے حرام مال سے بچنا سب کے ذمہ ضرور ہے اس سے بہت بڑی احتیاط لازم ہے۔ برا مال کھانے سے بے حد خرابیاں نفس میں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ انسان کا ہلاک کرنے والا ہے۔

حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ کی چیزیں ہیں یعنی ان کے حلال اور حرام ہونے میں شبہ ہے بعضے اعتبار سے ان کا حلال ہونا معلوم ہوتا ہے اور بعضے اعتبار سے ان کا حرام ہونا معلوم ہوتا ہے جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ اور کم ہیں ایسے لوگ جو ان کو جانتے ہیں اور وہ بڑے بڑے عالم متقی ہیں جو اپنے علم پر اچھی طرح عمل کرتے ہیں پس جس شخص نے پرہیز کیا ہے شبہ کی چیزوں سے بچا لیا اس نے اپنے دین کو یعنی عذاب دوزخ سے پناہ مل گئی اور اپنی آبرو کو یعنی طعنہ دینے والوں سے اپنی آبرو بچا لی اس لیے کہ خلاف شرع شخص کو لوگ طعنہ دیتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ دین و دنیا کی بے عزتی سے بچنا ہر ذی عقل پر ضروری ہے اور جو شخص واقع ہوا شبہ کی چیزوں میں وہ واقع ہو گا حرام میں یعنی جو شخص شبہ کی باتوں سے پرہیز نہیں کرتا وہ رفتہ رفتہ صریح حرام باتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں نفس کو ذرا گنجائش دی گئی وہ رفتہ رفتہ اس قدر خرابی برپا کرتا ہے کہ خدا کی پناہ ہلاک ہی کر دیتا ہے۔ سو جو شخص مال کے بارے میں احتیاط نہ کرے جو ملے اس کو قبول کر لے کسی شبہ کی پرواہ ہی نہ کرے وہ عنقریب حرام کھانے لگے گا۔ نفس کو ہمیشہ شریعت کا قیدی بنا رکھنا چاہیے کبھی آزادی نہ دے۔ اور گو ایسے شبہ کا مال کھانا جس کا یہ حال معلوم نہ ہو کہ اس میں کتنا حلال ملا ہے اور کتنا حرام جائز ہے لیکن مکروہ ہے اور رفتہ رفتہ شبہ سے صریح حرام میں مبتلا ہونے کا سخت اندیشہ ہے۔ لہذا چاہیے کہ شبہ کی باتوں سے بھی بچے کہ اصل مقصود اور ہمت کی بات یہی ہے خوب سمجھ لو۔

مثل اس چرواہے کے جو چراتا ہے گرد اس چراگاہ کے جس کو بادشاہ نے اپنے جانور چرانے کے لیے خاص کر لیا ہے قریب ہے یہ کہ چراوے اس چراگاہ میں یعنی جو ایسی چراگاہ کے گرد چراتا ہے وہ عنقریب خاص چراگاہ ہی میں چرانے لگے گا یا تو اس طرح کہ جانوروں کا اس طریق پر چرانا کہ اس حد سے آگے نہ بڑھیں دشوار ہے یا اس طرح کہ خود چرواہے ہی کو عنقریب ایسی دلیری ہو جائے گی کہ وہ اس قدر احتیاط نہ کرے گا اسی طرح نفس کو احتیاط نہیں ہوتی اور کبھی تو ابتداء ہی سے جہاں شبہ کے درجہ پر پہنچا حرام میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور کبھی کچھ دنوں کے بعد یہ حالت ہوتی ہے۔ اور یاد رکھنا چاہیے کہ خود روگھاس کے چراگاہ کو صرف اپنے لیے خاص کر لینا اور دوسروں کو اس میں چرانے سے روکنا زمینداروں کو جائز نہیں اور یہاں تو فقط مثال بیان کرنا مقصود ہے آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے اور آگاہ رہو کہ اللہ کی چراگاہ جس کی حفاظت کی گئی ہے اس کے محارم ہیں یعنی جن چیزوں کو اس نے حرام فرما دیا ہے تو جو شخص ان حرام چیزوں میں واقع ہو گا وہ اللہ تعالی کی خیانت کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ بادشاہ کی خیانت کرنا بغاوت ہے اور حق تعالی چونکہ اعلی درجہ کے بادشاہ ہیں لہذا ان کی خیانت اعلی درجہ کی بغاوت ہے جس کی سزا بھی بہت بڑی ہے آگاہ رہو کہ انسان کے بدن میں ایک بوٹی ہے جبکہ وہ درست ہو گئی اور اس میں باطنی یا ظاہری خرابی نہ پیدا ہو گی کل بدن درست ہو گا اور جبکہ وہ فاسد اور خراب ہو گی تو خراب ہو گا تمام بدن آگاہ رہو وہ بوٹی دل ہے اخرجہ الشیخان یعنی دل سلطان البدن ہے۔ قلب کی درستی سے تمام اعضاء کی درستی رہتی ہے اور قلب کی درستی موقوف ہے اطاعت الٰہی پر۔ گناہ کرنے سے دل اندھا ہو جاتا ہے حاصل یہ ہوا کہ نیکیوں کا وجود موقوف ہے قلب کی درستی اور صفائی پر اور قلب کی صفائی میں اکل حلال کو خاص دخل ہے۔ پس اس سے ترغیب ہو گئی اہتمام اکل حلال پر۔

حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلاک کرے اللہ تعالی یہود کو حرام کی گئیں ان پر چربیاں یعنی گائے اور بکری کی چربی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے پس انہوں نے اس چربی کو گلا پھر انہوں نے اس کو فروخت کیا متفق علیہ یعنی حیلہ کیا کہ خود چربی نہیں کھائی بلکہ اس کے دام کھائے اور اس کو یہ سمجھے کہ یہ چربی کھانا نہیں ہے۔ حالانکہ اس حکم کا حاصل یہ تھا کہ چربی سے بالکل منتفع مت ہو اس میں بیچ کر دام کھانا بھی داخل تھا۔ آجکل بعضے سود خواروں نے اسی قسم کے حیلے پیدا کر لیے ہیں تاکہ ظاہر میں سود سے بچ جائیں اور حقیقت میں سود کھائیں لیکن حق تعالی عالم الغب  ہے نیت کو خوب جانتا ہے ہرگز ہرگز ایسے حیلے نکالنا روا نہیں۔ حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ہے یہ بات کہ کمائے بندہ مال حرام کو پس صدقہ دے اس میں سے سو اس سے قبول کیا جائے اور نہ یہ کہ رچ کرے اس میں سے پس برکت دی جائے اس کے لیے اس مال میں اور نہ یہ کہ چھوڑے اپنے پیچھے مگر ہو وہ چھوڑنا توشہ اس کے لیے۔ بلکہ ہو گا پہنچانے والا دوزخ کی طرف یعنی مال حرام کما کر اگر صدقہ کرے قبول نہ ہو گا اور خاک نہ ملے گا۔ بلکہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حرام مال خیرات کر کے ثواب کی امید رکھنا کفر ہے اور فقیر جس کو مال حرام دیا گیا ہے اس نیت سے کہ دینے والے کو ثواب ہو اگر جانتا ہے کہ یہ مال اس طرح کا مجھے دیا گیا ہے اور وہ باوجود جاننے کے خیرات دینے والے کو دعا دے تو وہ بھی ان علماء کے قول پر کافر ہو جائے گا اور اگر ایسا مال کسی اور خرچ میں لایا جائے تو بھی کچھ برکت نہ ہو گی اور اگر اپنے بعد ایسا مال چھوڑے گا تو اس کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو گا۔ کھائیں گے وارث اور عذاب میں مبتلا ہو گا۔

غرض مال حرام میں بجز ضرر کے کوئی نفع نہیں بے شک اللہ تعالی نہیں دور کرتا ہے برائی کو برائی کے ذریعہ سے پس چونکہ حرام مال خیرات کرنا منع ہے اور گناہ ہے سو اس گناہ کے ذریعہ سے اور گناہ نہیں معاف ہو سکتے لیکن دور کرتا ہے برائی کو بھلائی سے پس حلال مال صدقہ کرنا گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے جبکہ باقاعدہ اور شریعت کے موافق خیرات کرے تحقیق خبیث یعنی مال حرام نہیں دور کرتا ہے خبیث کو رواہ احمد منہ یعنی گناہ کو حدیث میں ہے جنت میں وہ گوشت نہ داخل ہو گا جو پلا ہے اور بڑھا ہے مال حرام سے اور ہر ایسا گوشت جو پلا بڑھا ہے مال حرام سے جہنم ہی اس کے لائق ہے۔ رواہ احمد وغیرہ یعنی حرام خور جنت میں بغیر سزا بھگتے داخل نہ ہو گا۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ کفار کی طرح کبھی داخل جنت نہ ہو گا بلکہ اگر وہ اسلام پر مرا تھا حرام خور تو اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اور اگر حرام کھانے سے توبہ کرے مرنے سے پہلے اور جس کا حق اس کے ذمہ ہو وہ ادا کر دے تو البتہ حق تعالی اس کا یہ گناہ معاف فرمائیں گے اور اس حدیث میں جو عذاب مذکور ہے اس سے محفوظ رہے گا۔

حدیث میں ہے کہ بندہ نہیں ہوتا ہے پورے پرہیز گاروں میں سے یہاں تک کہ چھوڑ دے اس چیز کو جس میں کچھ ڈر نہیں بسبب اس چیز کے جس میں اندیشہ ہے۔ رواہ الترمذی و ابن ماجہ یعنی کوئی چیز بالکل حلال ہے اور کوئی کام مباح اور جائز ہے۔ مگر اس میں متوجہ ہونے سے اور ایسے مال کے کھانے سے کسی گناہ ہو جانے کا ڈر اور احتمال ہے تو اس حلال مال کو بھی نہ کھائے اور ایسے جائز کام کو بھی نہ کرے اس لیے کہ اگرچہ یہ کام کرنا اور یہ مال کھانا گناہ نہیں مگر اس کے ذریعہ سے گناہ ہو جانے کا ڈر ہے اور برے کام کا ذریعہ بھی برا ہوتا ہے مثلاً عمدہ کھانے اور لباس میں مشغول ہونا جائز اور حلال ہے مگر چونکہ حد سے زیادہ لذتوں میں مشغول ہونے سے گناہوں کے صادر ہونے کا اندیشہ ہے اس لیے کمال تقوی اور اعلی درجہ کی پرہیز گاری یہ ہے کہ ایسے کاموں سے بھی بچے یا شبہ کا مال کھانا مکروہ ہے مگر اس میں ہمت کھانے کی کرنے سے اندیشہ ہے کہ عنقریب نفس ایسا ہے بے قابو ہو جائے گا کہ حرام کھانے لگے گا تو ایسے مال سے بھی بچنا چاہیے۔ حضرت عائشہ۔

سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کا ایک غلام تھا جو ان کو خراج دیتا تھا یہاں خراج سے وہ محصول مراد ہے جو غلام پر مقرر کیا جاتا ہے اس کی ساری کمائی میں سے کچھ کمائی مالک لیتا ہے پس حضرت ابوبکر وہ محصول اس غلام کا کھاتے تھے سو لایا وہ ایک دن کچھ کھانے کی چیز اور حضرت ابوبکر نے اس میں سے کچھ کھا لیا تو غلام نے کہا تمہیں معلوم ہے کیا تھی یہ چیز جسے تم نے کھایا اور کہاں سے آئی پس فرمایا حضرت ابوبکر نے کون سی چیز تھی وہ جسے میں نے کھا لیا اس نے کہا میں نے جاہلیت کے زمانہ میں یعنی اسلام سے پہلے ایک آدمی کو کاہنوں کے قاعدہ سے کوئی خبر دی تھی اور میں اس کام کو اچھی طرح نہیں جانتا تھا یعنی کاہن لوگ جس طرح کچھ باتیں بتلاتے ہیں اور وہ کبھی جھوٹ اور غلط اور کبھی سچ اور صحیح ہو جاتی ہیں اور اس کا سچ ماننا بھی منع ہے اور جو اس فن کے انہوں نے قاعدے مقرر کیے ہیں میں ان سے اچھی طرح واقف نہ تھا مگر بے شک میں نے اس آدمی کو دھوکہ دیا پھر وہ مجھے ملا سو اس نے مجھے وہ چیز جو آپ نے کھائی دی بذریعہ اس کے یعنی جو بات میں نے اس کو بتلا دی تھی اس کے عوض تو وہ یہ چیز ہے جس میں سے آپ نے کھایا۔ پس داخل فرمایا حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ حلق میں پھر قے فرمایا یعنی نکال دیا تمام اس چیز کو جو ان کے پیٹ میں تھا یعنی احتیاط اور کمال تقوی کی وجہ سے تمام کھانا پیٹ کے اندر کا نکال دیا کیونکہ خالص اس کھانے کا نکالنا تو غیر ممکن تھا سو تمام پیٹ خالی کر دیا حالانکہ اگر آپ قے نہ فرماتے جب بھی گناہ نہ ہوتا۔

حدیث میں ہے کہ جس نے کوئی کپڑا دس درہم کو خریدا اور اس میں ایک درہم حرام کا تھا نہ قبول فرمائے گا حق تعالی اس کی نماز جب تک کہ وہ کپڑا اس کے بدن پر رہے گا یعنی گو فرض ادا ہو جائے گا مگر نماز کا پورا ثواب نہ ملے گا اور اسی طرح اور اعمال کو بھی قیاس کر لو۔ خدا سے ڈرنا چاہیے کہ اول تو لوگوں سے عبادت ہی کیا ہوتی ہے اور جو ہوتی ہے وہ اس طرح ضائع ہو پھر کیا جواب دیا جائے گا قیامت کے روز اور کیسے عذاب دردناک کی برداشت ہو گی

حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شک میں ایسی چیز نہیں جانتا ہوں جو تمہیں جنت سے قریب کر دے اور دوزخ سے دور کر دے مگر یہ بات ہے کہ میں نے تم کو اس کا حکم کر دیا ہے یعنی جنت میں داخل کرنے والے اور دوزخ سے ہٹانے والے سب اعمال میں نے تم کو بتلا دیئے ہیں اور میں ایسی کوئی چیز نہیں جانتا جو تمہیں جنت سے دور کر دے اور دوزخ سے تم کو قریب کر دے مگر یہ بات ہے کہ میں نے تم کو اس سے منع کر دیا ہے یعنی دوزخ میں داخل کرنے والے اور جنت سے ہٹا دینے والے کاموں سے تم کو روک چکا ہوں کہ ایسے کام مت کرو اور بے شک روح الامین یعنی جبرائیل نے میرے دل میں ڈال دیا ہے کہ بے شک کوئی نفس ہرگز نہ مرے گا یہاں تک کہ پورا لے لے اپنا رزق یعنی تقدیر میں جو رزق ہر مخلوق کی لکھا جا چکا ہے بغرل اس قدر مل جانے کے پہلے کوئی نہیں مر سکتا اگرچہ وہ رزق دیر میں ملے یعنی اس پر بھروسہ کرو اور اس کے وعدے کا یقین کرو پس حرام کمانے سے بچو اور اختصار اختیار کرو طلب رزق میں یعنی بے حد دنیا کے کمانے میں مشغول نہ ہو حرص نہ کرو شرع کے خلاف کمائی سے بچو اور ہرگز نہ آمادہ کرے تم کو دیر لگنا رزق ملنے میں اس بات پر کہ تم طلب کرنے لگو اس کو خدا تعالی کی معصیت سے یعنی روزی ملنے میں اگر دیر ہو تو گناہ اور حرام ذریعوں سے رزق حاصل نہ کرو اس لیے کہ وقت سے پہلے ہرگز نہ ملے گا خواہ مخواہ گناہ بے لذت میں مبتلا ہو گئے اس لیے کہ بے شک اللہ تعالی کی یہ شان ہے کہ نہیں حاصل کی جا سکتی وہ چیز جو اس کے پاس ہے۔

رزق اور اس کے سوا جو چیز ہے اس کی معصیت کے ذریعہ سے رواہ ابن ابی الدنیا فی القناعۃ والبیہقی فی المدخل وقال انہ منقطع وانص الحدیث قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی لااعلم شیئا یقربکم من الجنۃ ویبعد کم من النار الا امرتکم بہ ولا اعلم شیئا یبعدکم من الجنۃ ویقربکم من النار والانہیتکم عنہ وان الروح الامین نفثہ فی روعی ان نفسا لن تموت حتی تستوفی رزقہا وان ابطا عنہا فاتقوا اللہ واجملوا فی الطلب ولا یحملنکم استبطاء شئی من الرزق ان تطلبوہ بمعصیۃ اللہ تعالی لا ینال ما عندہ من الرزق وغیرہ بمعصیۃ۔ حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس حصوں میں سے نو حصے رزق تجارت میں ہے یعنی تجارت بہت بڑی مدنی کا ذریعہ ہے اس کو اختیار کرو

حدیث میں ہے کہ حق تعالی دوست رکھتا ہے اس مومن کو جو محنتی ہو اور پیشہ ور ہو۔ نہیں پرواہ کرتا ہے کہ کیا پہنتا ہے یعنی محنت و مشقت میں معمولی میلے کپڑے پہنتا ہے اتنی فرصت نہیں اور ایسا موقع نہیں جو کپڑے زیادہ صاف رکھ سکے لیکن جو شخص مجبور نہ ہو اس کو سادگی کے ساتھ صاف رہنا چاہیے

حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میری طرف یہ وحی نہیں کی گئی کہ میں مال جمع کروں اور میں تجارت کرنے والوں میں سے ہوں اور لیکن یہ وحی کی گئی ہے مجھ کو کہ اللہ کی تسبیح پاکی بیان کرنا یعنی سبحان اللہ کہا کرو اس کی حمد کے ساتھ یعنی اس کی تعریف بیان کرو یعنی سبحان اللہ و بحمدہ پڑھو اور ہو جاؤ سجدہ کرنے والوں میں سے یعنی نماز پر ہمیشگی کرو اور ان لوگوں میں سے ہو جاؤ جو ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو یہاں تک کہ تم کو موت آ جائے یعنی حاجت سے زیادہ دنیا میں مشغول نہ ہو کیونکہ بقدر ضرورت معاش کا بندوبست کرنا سب پر واجب ہے۔ ہاں جس میں توکل کی قوت ہو اور سب شرطیں اس میں توکل کی جمع ہوں ایسا شخص البتہ سب کام چھوڑ کر محض عبادت علمیہ و عملیہ میں مشغول ہو وے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں فرمایا جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رحم کرے اللہ تعالی آدمی نرمی کرنے والے پر جس وقت کوئی چیز فروخت کرے اور جس وقت کچھ خریدے اور جس وقت طلب کرے سبحان اللہ خرید و فروخت اور قرض طلب کرنے کی حالت میں نرمی اور رعایت کرنے کا کس قدر بڑا درجہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کے حق میں خاص طور پر دعا فرماتے ہیں اور آپ کی دعا یقیناً مقبول ہے۔ اگر اس نرمی کے برتاؤ کی فقط یہی فضیلت ہوتی اور اس کے سوا کچھ ثواب نہ ملتا تو یہی بہت بڑی نعمت تھی۔ حالانکہ اس رعایت اور نرمی کا ثواب بھی ملے گا۔ لہذا تاجروں کو مناسب ہے کہ اس صحیح حدیث پر عمل کر کے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے محل کرم ہوں۔ نیز دنیا کا اس برتاؤ میں یہ نفع ہے کہ ایسے شخص کے معاملہ سے لوگ خوش ہوتے ہیں اور تجارت خوب چلتی ہے۔ لوگوں کا رجوع ایسے معاملے کرنے والے کی طرف بہت ہوتا ہے اور بعض اوقات خوش ہو کر دعا بھی دیتے ہیں۔

واقعی بات یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنے والا دین و دنیا میں گویا کہ بادشاہ ہو کر رہتا ہے اور بڑی راحت سے گزرتی ہے اس سے بڑھ کر خوش نصیب کون ہے کہ جس کو دارین کی برکتیں حاصل ہوں اور خدا کے نزدیک اور اکثر لوگوں کے نزدیک بھی محبوب اور عزیز ہے۔ رواہ البخاری بلفظ عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحم اللہ رجلا سمحا اذاباع واذا استری واذا اقتضے۔ حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچو تم زیادہ قسم کھانے سے بیچنے میں یعنی اس خیال سے کہ ہمارا مال خوب بکے بہت قسمیں نہ کھاؤ کیونکہ زیادہ قسم کھانے میں کوئی نہ کوئی قسم ضرور جھوٹی نکلے گی اور پھر اس سے بے برکتی ہوتی ہے اور اللہ کے نام کی بے ادبی ہوتی ہے ہاں کبھی اگر ایسا کرو تو مضائقہ نہیں اس لیے کہ تحقیق وہ کثرت سے قسم کھانا رواج دیتا ہے مال کو اور لوگوں کو قسم کی وجہ سے مال کے متعلق جو امور ہوتے ہیں ان کا اعتبار جاتا ہے پھر بے برکت کر دیتا ہے جس سے دین و دنیا کی منفعت سے محرومی ہوتی ہے۔

حدیث میں ہے کہ فرمایا جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کرنے والا بہت سچا گفتگو میں اور برتاؤ میں بڑا امانت دار قیامت میں انبیاء اور صدیقین یعنی جو بڑے بڑے خدا کے ولی ہیں اور جنہوں نے ہر قول اور ہر فعل میں اعلی درجہ کی سچائی اختیار کی ہے اور اللہ میاں کی نہایت اعلی درجہ کی اطاعت کی ہے اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا یعنی ایسے تاجر کو جس کی یہ صفتیں ہوں جو بیان کی گئیں قیامت کے روز حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور حضرات صدیقین رضی اللہ عنہم اور حضرات شہداء رحمہم اللہ تعالی کی ہمراہی اور دوزخ سے نجات میسر ہو گی۔ اور ساتھ ہونے سے یہ مراد نہیں کہ ان حضرات کے برابر رتبہ مل جائے گا بلکہ ایک خاص قسم کی بزرگی مراد ہے جو بڑوں کے ساتھ رہنے سے حاصل ہوتی ہے جیسے کہ کوئی شخص کسی بزرگ کی دنیا میں دعوت کرے اور ان کے ہمراہ ان کے خادموں کی بھی ضیافت کرے تو ظاہر ہے کہ ان بزرگ کے کھانا کھانے کی جگہ اور ان خدام کے کھانا کھانے کی جگہ نیز کھانا ایک ہی ہو گا لیکن جو درجہ ان لوگوں کے نزدیک ان بزرگ کا ہو گا وہ خادموں کا نہیں مگر ہمراہی کا شرف و عزت نیز کھانے اور مکان میں شرکت کا میسر آنا ایک بہت بڑا کمال ہے جو خادموں کو حاصل ہوا ہے خصوصاً جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی بہت بڑی دولت ہے۔ اگر فرض کرو کہ کھانا بھی میسر نہ ہو ہمراہی سے کچھ عزت بھی میسر نہ ہو فقط ہمراہی ہی میسر ہو تو آپ سے محبت کرنے والے مسلمان کے لیے فقط آپ کا دیدار اور آپ کی ہمراہی ہی بڑی دولت ہے بلکہ دیدار تو بڑی چیز ہے آپ کا پڑوس ہی بڑی نعمت ہے لہذا مسلمانوں کو جناب رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی اس دعا متبرک کا مستحق ہونا ضرور مناسب ہے۔

حدیث میں ہے کہ تجارت کرنے والے قیامت کے روز فاجر اور گنہگار اٹھائے جائیں گے مگر جو شخص ڈرا اور سچ بولا اور خرید و فروخت میں کوئی گناہ نہ کیا تو وہ اس وبال سے بچ جائے گا۔

ضمیمہ اولے اصلی بہشتی زیور حصہ پنجم ختم ہوا

٭٭٭

تشکر: اردو محفل کے رکن اسد، جنہوں نے متن کی فائل فرام کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید