FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

بیانات

 

 

 

               ڈاکٹر عتیق اللہ

 

 

 

 

’’لندن کی ایک رات‘‘ ایک نوآبادیاتی مطالعہ

 

اس بحث سے قطع نظر کہ ’’لندن کی ایک رات‘‘ ناول ہے یا ناولٹ میں اسے اردو ناول کے اُس پیش رو اور مروجہ فارمیٹ کو توڑنے کے ایک تجربے سے موسوم کرتا ہوں، جس کی اشاعت شرر اور پریم چند کے ذریعے عمل میں آئی تھی۔ یوں بھی ناول یا افسانہ یا نظم کا فن کوئی ایسی بندھی ٹکی ہیئت سے عبارت نہیں ہوتا، جسے مرجح قرار دیا جاسکے۔ سجاد ظہیر کے افسانے یا ان کا رپورتاژ  یا پگھلا نیلم کی شاعری، ان مسلمہ قواعد سے انکارکا نام ہے جنہیں ہم معیاری ہی نہیں مثالی بھی قرار دیتے آئے ہیں۔ مجھے سجاد ظہیر کے اس عمل کے پیچھے کسی شعوری کاوش کے بجائے ان کے تخلیقی وفور کا دخل زیادہ نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر صنفی تجربے میں تخیل کی سرگرمی کسی بھی موجود اور قائم شدہ تحدید کو التفات کے لائق نہیں سمجھتی۔ یہ سوال بھی بار بار گفتگو کا موضوع بنا ہے کہ ’’لندن کی ایک رات‘‘ کے حوالے سے سجاد ظہیر کو اپنی مخصوص آئیڈیولوجی کی اشاعت ہی مقصود تھی۔ پہلی بات تو یہ کہ تمام اصنافِ ادب میں ناول ہی ایک ایسا فارم ہے جس میں ہزاروں ہزار پردہ داریوں کے باوجود ناول نگار کی زندگی فہمی اور اس کا ذہنی، جذباتی اور تہذیبی تناظر جا بجا اپنا اثر دکھا ہی جاتا ہے۔ ناول جیسے فارمیٹ میں محض تجرید کاری کو شروع سے آخر تک اس طرح سنبھالے رکھنا بڑا مشکل کام ہے جو پڑھنے والے کی رغبتوں کو بھی قائم رکھ سکے۔ پڑھنے والے ہی کی نہیں لکھنے والے کی بھی اپنی کچھ ذہنی ترجیحات اور تعصبات ہوتے ہیں، جو بغیر ارادے کے بھی اپنی گھس پیٹھ سے باز نہیں آتے۔

 

ہمارے اس پس نوآبادیاتی عہد میں ’’لندن کی ایک رات‘‘ کا مطالعہ اس ذہن کو سمجھنے میں بڑا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ جس کے خمیر کی تیاری میں ایک صدی سے زیادہ وقتوں کی کارفرمائی شامل تھی۔ اگرچہ ’’لندن کی ایک رات‘‘ کے اکثر سوالات اور شبہات وہی ہیں جنہیں سر سید نے بھی محسوس کیا تھا، لیکن سر سید کے مقتضیات، ایک جبر کا حکم رکھتے تھے۔ جن سے صرف نظر کرنے کے معنی مزید ذہنی پس ماندگی کو راہ دینے کے تھے۔ سر سید کے سامنے ایسا کوئی مستحکم فلسفیانہ لائحۂ عمل بھی نہ تھا، جس کے عملاً اطلاق ہی سے انہیں سروکار ہوتا، ایک محدود بساط میں انہوں نے خود نظریہ سازی کی تھی۔ دور دیس کی علمی اور اقتصادی ترقی ہی نے نہیں بلکہ روزمرہ کی اخلاقیات میں ایک ضابطہ بند تہذیبی رکھ رکھاؤ نے بھی انہیں زیست بسری کا ایک نیا خاکہ مہیا کیا تھا، جس کی رنگ آمیزی میں انہوں نے اپنی ساری زندگی داؤ پر لگا دی تھی۔

 

سجاد ظہیر کے سامنے ایک مستحکم لائحۂ عمل تھا۔ ایک ایسے سامراج سے ان کا ٹکراؤ تھا جس کے پاس فوکو کے لفظوں میں knowledge is power یعنی علم و فہم کی وہ طاقت تھی جو عقل، دانش اور تجربے کی بنیاد پر باخبری اور آگہی کا دوسرا نام تھا، نیز جو کم علم، جاہل اور بے خبروں کو اپنے قبضۂ قدرت میں رکھنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اس فقرے کو knowledge is colonisation میں بدل کر اسے استعمار پسندانہ نظام کو فروغ دینے والی حکمت عملی سے تعبیر کیا ہے۔

 

’’لندن کی ایک رات‘‘ کے دوسرے باب میں انگریز مزدوروں کی بات چیت اور نشے کی حالت میں ان کے خیالات سے جن دو اہم باتوں کا سراغ ملتا ہے وہ یہ ہیں:

 

1۔ انگلستان میں بھی تمام ترقیات کے باوجود انگریز مزدور طبقہ حاشیہ نشین ہی تھا۔ اس کے مطالبات کو میڈیا مسخ کر کے پیش کرتا ہے اور میڈیا پاور کی آئیڈیولوجی کے مطابق ہی اپنی راہ کا تعین بھی کرتا ہے۔

 

2۔ بیش تر انگریز مزدور انگلستان کی استعمار پسندانہ حکمت عملی سے باخبر ہیں کہ کس طرح ایک امپریلسٹ طاقت ہندوستانیوں پر جور و استبداد سے کام لے رہی ہے اور کس طور پر اہلِ انگلستان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کا یہ عمل امن پسندوں کے حق میں کیونکر نا گزیر ہے۔ وہاں بھی میڈیا ہمارے جاں نثارانِ وطن کو دہشت گرد کے طور پر ہی پیش کرتا ہے۔

 

راؤ کو یکبارگی ہندوستانیوں کی ایک بھیڑ نظر آتی ہے جو بے بس، غریب اور ننگے بھوکے لوگ ہیں، جن کے اردگرد گورے بندوقیں تانے کھڑے ہوئے ہیں۔ ذرا سامراجیت کا احساس جاگتا ہے اور وہ دیکھتا ہے:

 

’’وہ اکیلامیدان میں کھڑا ہوا ہے، سارا مجمع غائب ہو گیا۔ سامنے گورے کھڑے ہیں اور چاروں طرف اِدھر اُدھر خون کے دھبے، گرم تازہ خون اور زخمی انسان اور مردے، کوئی منھ کے بل پڑا ہے اور اس کے ہاتھ پیٹ کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ کوئی چت پڑا ہے۔ اس کے سرپر گولی لگی ہے۔ آنکھیں دہشت زدہ ، دیدوں سے پھٹی پڑتی ہیں۔ منھ کھلا ہوا۔ اس کے چہرے پر ،گردن پر میلے کرتے پر، لال لال خون کے بڑے بڑے دھبے۔ ایک زخمی جس کے پاؤں پر گولی لگی ہے اور جو درد کی شدت سے چلا رہا ہے۔‘‘

 

سجاد ظہیر نے یہاں نام لئے بغیر جلیانہ والا باغ کی لہولہان تصویر سی کھینچ دی ہے۔ البرٹ میمی نے (1965) The Coloniser And The colonised میں نوآباد کاراستعماریوں اور دیسی آبادیوں کا بڑے تفصیل کے ساتھ معروضی اور نفسیاتی مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ:

 

’’یہ خیال ہی بے بنیاد ہے کہ نوآباد کار، نئی کالونیوں کے لئے کوئی تہذیبی یااخلاقی مشن لے کر آئے تھے۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا اقتصادی ، وہ اپنی اس دوہری قانونی خلاف ورزی سے بخوبی آگاہ تھے کہ انہوں نے اپنے لئے ایک دوسری سرزمین کو اپنا جائے مقام بنایا ہے۔ جس سے انہیں غیر معمولی دولت حاصل ہوئی ہے۔ اور یہ سرزمین وہ ہے جسے انہوں نے اس کے قدیم باشندوں سے بالقوت غصب کیا ہے،کیونکہ وہ غصب ہی کے لائق تھے۔ ان کی کاہلی، اقتصادی عدم فہمی ،حسد و رقابت کے جذبے اور مذہبی جنون وغیرہ نے انہیں اس قدر کم زور بنادیا کہ تحفظ ان کے لئے ناگزیر تھا۔‘‘

 

راؤ کے کردار میں غصہ وری اورتندی بھری ہوئی ہے۔ وہ اپنے ہم وطنوں کی ناعاقبت اندیشی اور ان کی کاہلی اور آپسی نفرت اور تنازعوں سے اس قدر ہلکان ہے کہ cynicism اس کے اندر گھر کر لیتا ہے وہ طنزاً سارے ہندوستانیوں کو کیڑوں مکوڑوں کے برابر کہتا ہے جو آپس میں ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں، انگریزوں کے خوشامدی ہیں۔ اس کے لئے یہ احساس شدید اذیت ناک ہے کہ ہمیں بڑی حقارت کے ساتھ کالے لوگ اور نیٹیوز کہا جاتا ہے اور جو غلاموں سے بھی بدتر سمجھے جاتے ہیں۔ فرانزفینن نے (1967) black skins white masks میں اسی موقف کو دہرایا ہے کہ:

 

’’نو آبادوں یعنی colonised کے مقامی کلچر کی خلقیت (اور ’لندن کےیجنلٹی) کو موت کے گھاٹ اتار نے اور اسے زمینوں کے اندر دفنانے کے باعث ہی ان میں احساسِ کمتری بھی پیدا ہوا ہے۔ ان کی حالت ایک جنونی کی سی ہو گئی ہے کیونکہ نوآباد کار ان کے انفرادیت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی حیثیت محض ایک بے جان چیز یا معدوم ہستی کی ہو کر رہ گئی ہے جیسے وہ انسان سے کم تر کسی اور وجود کے حامل ہوں۔‘‘

 

"لندن کی ایک رات” کا ایک کردار ٹام بھی یہی کہتا ہے کہ جب وہ ہندوستان میں تھا تب ’’برٹش ایمپائر کا خیال کر کے اس کی رگوں میں خون تیزی سے دوڑنے لگتا تھا۔ وہ ہندوستانیوں کو کالا لوگ، نگرو اور نیٹیو کہہ کر خطاب کرتا تھا۔ وہ ہندوستانیوں کو جانوروں سے بدتر سمجھتا تھا۔ کیونکہ "اسے فوج میں یہی سکھایا جاتا تھا، فینن کا بھی یہی خیال ہے کہ نوآباد کار نیٹیوز کے بارے میں مستقلاً حیوانیاتی اصطلاحات Zoological Terms میں گفتگو کرتے تھے، جو مضر اور شرّی واقع ہوئے ہیں۔ جنہیں نہ تو اخلاق کی تمیز ہے نہ قدروں کا احساس۔ آدمی صرف گورے ہیں، جن کی اقدار بھی اعلیٰ ہیں۔ باقی سارے کالے لوگ ان حقیر جانوروں سے مماثل ہیں جن میں زہر بھرا ہوا ہے جیسے سانپ یا خون چوسنے والے حشرات الارض۔ اس طرح دیسی باشندے ان کے نزدیک بشریت کش معروض کا حکم رکھتے تھے۔

 

سجاد ظہیر نے ٹام کے لفظوں میں انگریزوں کے پھیلائے ہوئے اس مغالطے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے ہی ہندوستان میں امن قائم کر رکھا ہے۔ ان کی پولیس، ان کی انتظامیہ اور ان کے قوانین ہی ان کے تحفظ کی ضمانت ہیں۔ فینن نے اسے law of the father والد کے قانون  سے موسوم کیا ہے گویا سارے نیٹیوز بچے ہیں اور نو آباد کار باپ کا حکم بجا لانا ان پر فرض ہے۔ او۔ مَنونی نے اسے dependency complex کہا ہے کہ نیٹیوز یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ صرف نو آباد کاروں ہی سے ممکن ہے۔ بلکہ بعض دیسی باشندوں کے نزدیک انگریز نجات دہندہ بھی تھے، جنہوں نے عہدِ تاریک کی محکومی جہالت اور اوہام سے نجات دلائی۔ عارف جیسے کردار کے نزدیک انگریزی زبان، انگریزی تہذیب اور انگریزوں کے احکام کی بجا آوری  اور ہندوستان میں صاحب کہلانے کی خواہش سب سے بیش بہا ہے۔ احسان جب اس سے پوچھتا ہے کہ عارف صاحب اگر آپ کسی ضلع میں مجسٹریٹ ہوئے اور ہم لوگوں نے وہاں سیاسی شورش شروع کی تو آپ ہمیں جیل خانے بھیجیں گے یا نہیں؟ آپ ہمارے جلوسوں پر گولی چلانے کا حکم دیں گے یا نہیں؟ عارف کا جواب تھا ’ڈیوٹی از ڈیوٹی‘۔

 

سجاد ظہیر نے عارف کے حوالے سے ان نوجوانوں کی ذہنی حالت سے پردہ اٹھایا ہے جنہیں ملک و قوم کے ان اجتماعی مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے، جن سے پورا محکوم ہندوستان جوجھ رہا ہے۔ انہوں نے اپنے مقاصد کا تعین اپنے ذاتی اغراض کے ساتھ وابستہ کر لیا ہے۔ جو خود بھی اپنے اربابِ وطن کو گنوار، قبائلی بے وقوف اور نکمے خیال کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ خیال گھر کر گیا ہے کہ اعلیٰ تہذیب اور اعلیٰ اخلاق کا تصور انگریز قوم ہی مہیا کر سکتی ہے۔ سجاد ظہیر نے عارف کو مثال بنا کر ایسے ہزاروں نوجوانوں کے احساسِ کم تری کی طرف بھی متوجہ کیا ہے جو اعلیٰ تعلیم پاکر بھی زندگی کا عرفان حاصل نہیں کر سکے۔ عارف کے بارے میں ان کا تجزیہ اس عہد کی ذہنیت ہی کو آشکار نہیں کرتا بلکہ موجودہ پس نوآبادیاتی صارفی سماج پر اس کا پہلے سے کچھ زیادہ ہی اطلاق ہوتا ہے۔

 

’’عارف لیلائے سروس کا مجنوں تھا۔ خچر کی طرح وہ بھی ایک سیدھے راستے پر لگا ہوا کام کرتا چلا جاتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن میں یہ بات بھی سما گئی تھی کی انگریزی کپڑے اچھی طرح پہننا، انگریزی زبان انگریزی لہجے میں بولنا، سنیما کی تصویروں کے بارے میں اور ہولی ووڈ کے ایکٹروں اور ایکٹریسوں کے ذاتی معاملات، ان کی شادیوں اور طلاقوں کی تازہ ترین خبروں سے واقف رہنا اور ان پر بات چیت کرنا کلکٹری کے امیدوار کا فرض ہے۔ وہ ان لوگوں کا جانشین ہونے والا تھا، جن کو اس پر فخر تھا کہ انہیں اپنی مادری زبان اچھی طرح بولنی نہیں آتی۔‘‘

 

البرٹ میمی، کو لونائزڈ کے لئے دو راستے بتاتا ہے۔ ایک assimilation کی طرف جاتا ہے، جو سماجی اور تہذیبی طور پر پوری طرح ڈھل جانے کی ترغیب دیتا ہے۔ دوسرے کا رخ petrifactionکی طرف ہے جو متحجر حالت کی نشان دہی کرتا ہے۔ اسے ایک جمود کی کیفیت کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ نہ تو وہ پوری طرح غیر تہذیبی ڈھانچے میں ضم ہو سکتا ہے اور نہ غیر تہذیبی ڈھانچہ اسے پوری طرح ہضم کر سکتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ اپنے آپ کو صرف اور صرف صیغۂ حاضر تک محدود کرنے پر اکتفا کر لیتا ہے۔ میمی کہتا ہے کہ :

 

”وہ اپنے رہنماؤں کو یاد کرتا ہے نہ انہیں تسلیم کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنی یادداشت تک کھو بیٹھتا ہے۔ وہ ساری چیزیں جن کا تعلق اس کے ماضی سے تھا وہ آہستہ آہستہ محو ہونے لگتی ہیں اور پھر اس کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ نو آباد کار کے تہذیبی اور سیاسی اداروں کی طرف رجوع کرے۔ وہ مجبوراً نو آباد کاروں کی تعطیلات اور ان کے تہوار منانے لگتا ہے۔ پھر اس کے لئے اس کی مادری زبان جیسے گراں قدر روحانی ورثے کی بھی کوئی قیمت نہیں رہ جاتی۔ اس کے بدلے وہ نو آباد کار کی زبان کو قبول کر لیتا ہے۔ دراصل اس کا لسانیاتی اشتباہ ، تہذیبی اشتباہ ہے۔‘‘

 

میمی کہتا ہے کہ اب اسے المیہ کہیں کہ قولِ محال، وہ اپنی زبان سے دست بردار ہو کر جہالت کے الزام سے بچ جاتا ہے۔

 

نگوگی واتھیونگ او Ngugi Wa Thiong’o نے زبان اور تہذیب کے تعلق سے مغرب کے تہذیبی بم cultural bomb کو سب سے بڑا ہتھیار بتایا ہے، جو سب سے پہلے مقامی تہذیبی شناخت کو تہس نہس کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ لوگ یہ باور کرنے لگتے ہیں کہ ان کا ماضی محض ایک خرابہ تھا، بے مصرف، بے ثمر، بے آب و گیاہ ماضی۔ ان کی شناخت صرف اور صرف دوسرے لوگوں کی زبان اور کلچر کو قبول کرنے اور ان کی پیروی ہی سے ممکن ہے۔ نگوگی اہلِ یورپ کی اس سازش کو بھی یہ کہہ کر بے نقاب کرتا ہے کہ نو آباد کاروں کے لئے دیسی باشندوں پر تسلط جمانے کی سب سے اہم اقلیم ذہنی قلمرو ہی ہے۔ ذہنوں پر قبضہ جمانے کے معنی دیسی باشندوں کے کلچر ، فن اور ادب وغیرہ کو کوتاہ قرار دینے یا اس ورثے کو تہس نہس کر دینے اور اس کے برخلاف نوآباد کار کی زبان اور کلچر کو نفیس ، ترقی یافتہ اور مکمل ثابت کرنے کے ہیں۔ نتیجے کے طور پر عارف ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جسے یہ بھی احساس نہیں رہتا کہ وہ اپنے ہی فطری اور سماجی ماحول سے بے گانہ ہوتا جا رہا ہے۔ جسے نگوگی نے نوآبادیاتی بیگانگی colonial alienationکی اصطلاح سے موسوم کیا ہے۔

 

’’لندن کی ایک رات‘‘ میں سجاد ظہیر نے نوآبادیاتی ذہن کے ہر  دو پہلو کو  اجتماعِ ضدّینbinary opposition کے طور پر پیش کیا ہے۔ اعظم جیسا کردار ہے جو اپنی دنیا میں آپ مگن ہے۔ اس کی پسند بھی گوری چمڑی ہے۔ عارف جیسا موقعہ پرست ہے۔ جس انگریز لڑکی سے اس کا واسطہ پڑتا ہے، اس کے ساتھ شب بسری کی کوشش بھی کرتا ہے۔ نعیم جیسا فربہ اور کاہل مگر مجلسی زندگی کا دلدادہ کردار بھی ہے جو ہر اس انگریز لڑکی پر ریجھ جاتا ہے جو اس کے ساتھ دو منٹ ہمدردانہ فہم کے ساتھ گفتگو کرنے لگتی ہے۔ دوسری طرف راؤ جیسا حقیقت پسند، معاملہ فہم مگر بے عمل اور cynic کردار ہے، جسے ہندوستانیوں کی کم عقلی، ناعاقبت اندیشی اور آپسی رقابتوں سے بڑی چڑ ہے۔ یہی وہ کمزوریاں ہیں جن کا فائدہ بیرونی غاصب اٹھا رہے ہیں۔ راؤ کو ہندوستانیوں کی غربت، جہالت، اوہام پرستی اور حسد و رقابت کی فہم ضرور ہے لیکن اس صورت حال سے متصادم ہونے اور ایک نئی منزل کے سراغ کی اس کے پاس کوئی کلید ہے نہ فارمولا نہ اسٹریٹیجی۔ جبکہ احسان اور ہیرن پال کا ذہن اپنے مشن کے تعلق سے واضح ہے۔ احسان عقلیت پسند ہے، انسانی نفسیات کی باریکیوں کو خوب سمجھتا ہے اور دوسروں کے بھرم چاک کرنے میں بڑا لطف لیتا ہے۔ حالات کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے تصادم اور پھر تبدیلی اس کی ترجیح ہے۔ لیکن ابھی وہ ہندوستان سے باہر استعمار پسند ملک میں مقیم ہے اور اپنی بحثوں سے دوسروں کی زبان گنگ کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ جبکہ ہیرن پال اپنے عشق کو تج کر اپنے وطنِ عزیز کی طر ف لوٹ گیا ہے۔ اپنے مقصد میں اس کی محویت اسے کہاں لے گئی ہے اور وہ کس مقام پر ہے اس کا علم خود اس کی محبوبہ شیلا گرین کو بھی نہیں ہے۔

 

سجاد ظہیر نے نوآبادیاتی ذہن اور اس کی کشاکش و کشمکش کے ایسے بہت سے پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے جو اسے تذبذب و تعلیق میں بھی رکھتے ہیں اور جن سے چھٹکارا پانے کی ایک سعیِ خاموش بھی اس میں تہہ بہ تہہ کہیں کا ر فرما نظر آتی ہے۔ آخر میں ہیرن پال کا اپنے مشن پر نکل جانا، اسی امید افزا موڑ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے بعد ہم کسی منزل کے سراغ اور اسے سر کرنے کے امکان کے بھی متحمل ہو سکتے ہیں۔

 

 

منٹو فہمی کا مسئلہ اور مظفر علی سید

 

’’۔ ۔ ۔ تجزیہ نفس کرنے والے اس خوف کو بے نقاب کرتے ہیں جو سب سے بڑا خوف ہے ، انسان کے ازلی ترین نفسِ باطن کا خوف، جس میں خدا ہے ،اگر خدا نہیں ہے۔ حقیقی آدم یعنی پر اسرار فطری آدمی کا خوف جو زمانۂ قدیم سے بنی اسرائیل میں پایا جاتا ہے۔ تجزیۂ نفس میں چیخنے کی حد تک بلند ہو گیا ہے۔ اس مادر زاد دیوانے کی طرح جس کے منہ سے جھاگ نکلتا ہے ، اور جو اپنی کلائیوں کو کاٹ کا ٹ کر لہو لہان کر دیتا ہے۔ قدیم ترین حقیقی آدم جس سے خدا کی ذات اب تک جدا نہیں ہوئی۔ فرائڈ اس آدم سے اس قدر نفرت کر تا ہے اسے محض انحراف کے ہیبت ناک ہیولے کی شکل میں دیکھتا ہے خود تولید سانپوں کا ایک گچھا ، خوفناک حد تک گرہ درہ گرہ۔ یہ تصویر رام شدہ فاسد آدمی کی منحرف تصویر ہے جو ہزاروں شرمناک برسوں سے رام ہو چکا ہے۔ قدیم آدم کسی وقت بھی رام نہیں ہو سکا اور رام شدہ مخلوق ہمیشہ اس سے نفرت کرتی رہی ہے۔ خوفناک نفرت کی دہشت کے ساتھ۔ مگر جو بے خوف ہیں انہوں نے اس کو تہِ دل سے محترم سمجھا ہے۔

قدیم آدم کے قدیم ترین پیکر میں خدا تھا۔ اس کے سینے کی تاریک دیوار کے عقب میں ناف کی مہر تلے۔  پھر آدمی کو اپنے آپ سے گھن آنے لگی اور خدا اس سے جدا ہو کر خارجی ترین فضا میں مقیم ہو گیا۔

مگر اب ہمیں واپس جانا ہے۔ اب پھر قدیم آدم کو اپنا چہرہ اور اپنا سینہ اوپر کو اٹھانا ہے اور خود کو پھر سے اصیل بنا نا ہے۔ شرارت اور لا ابالی پن کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی دیواروں کے درمیان خدا کے ساتھ جسم کے تاریک ترین برِّاعظم میں خدا موجود ہے اور اسی سے ہمارے محسوسات کی تاریک شعاعیں پھوٹتی ہیں،لفظ کے بغیر اور لفظ سے کاملاً پیشتر۔ عمیق ترین باطن کی شعاعیں اولین پیغام کی حامل ہمارے وجود کی محترم اور ازلی حیوانی شکلیں جن کی آوازیں ہماری روح کے تاریک ترین ایوانوں میں لفظ کے بغیر ،گونجتی ہیں مگر طاقت ور کلام سے بھرپور ہوتی ہیں ہمارے اپنے باطنی مفہوم سے بھرپور۔‘‘(محسوسات اور ناول : ڈی۔ ایچ لارنس ، ترجمہ : مظفر علی سید )

استعاروں کی زبان میں کیا منٹو کی باطنی جستجو قدیم ترین حقیقی آدم کے تقریباً فنا پذیر تصور کی از سرِ نو تشکیل کی سمت راجع نہیں ہے؟  لارنس کی طرح کیا منٹو بھی وجود کے تاریک ترین برِّاعظم میں اس خدا کی موجودگی کی توثیق نہیں کرتا جس سے محسوسات کی تاریک شعاعیں پھوٹتی ہیں ؟ منٹو کی آوازوں میں بھی ا تھاہ اور مہیب سکوت جاگزیں ہے۔ لارنس کے نفس باطن کا خوف ہی منٹو کی دہشت ناک تخلیقی کائنات کا محرّک بھی ہے۔ منٹو کے قریب الفہم اور سہل المعنی متن کی تہہ میں جو متن دیگر مخفی ہے اس کی دہشت بہ ظاہر متن سے پیدا ہونے والے دہشت کے احساس سے کہیں زیادہ بھیانک تاثر فراہم کرتی ہے۔ اسی کے پہلو بہ پہلو درد مندی کی وہ کیفیت بھی شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے جو خوف اور دہشت ہی کی کوکھ سے نمو پاتی ہے۔ تضاد کے انہیں پہلوؤں میں وہ ایسے بہت سے سوال ،حل طلب اور مقدر چھوڑ جاتا ہے جو اپنی بیشتر صورتوں میں انسانی بے حسی اور انسانی  سفاّکی کو منتج ہوتے ہیں۔ انہیں مقدّرات میں وہ دھند بھی تہہ نشین ہے جسے ابہام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

ممتاز شیریں نے کہیں لکھا ہے کہ :

’’منٹو کے افسانوں میں کوئی ابہام نہیں ، نہ کوئی پوشیدہ اشارے ہیں۔ نہ کوئی پوشیدہ گتھیاں ہیں کہ ان کے سلجھانے میں دقت محسوس ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی تشریحیں اور تفسیریں ہوں ، تہہ در تہہ معانی نکالے جائیں۔ یہ صاف کھلی سیدھی اور براہِ راست نوعیت کی تحریریں ہیں ، جن کا پیغام واضح ہے۔‘‘

دراصل ادب کا معاملہ ہی کچھ ایسا ہے کہ ادبیت اور ادبی روایت کا جبر معانیِ ما فی الضمیر کو ہمیشہ پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ آخری تجزیے میں چیزیں کچھ کی کچھ شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ افسانوی اقلیم میں جہاں زمان اور مکان کا اکثر سارا PHENOMENON واضح ہوتا ہے اور جو افسانے کو ایک واحد ے میں ڈھالنے کے ضمن میں بالعموم ایک اہم عقبی کردار ادا کرتا ہے۔ اس ابہام کو کم کرنے کے بجائے زیادہ شدید کرنے کی طرف مائل رہتا ہے جو افسانہ نگار کے داخلی تجزیوں ،جا اور بے جا ، گہانی اور ناگہانی مداخلتوں اور کبھی کبھی اکتشافی نوعیت کے مابعد الطبیعاتی اور نفسیاتی بیانوں میں مضمر ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کے لئے یہ فریب دینے کے بڑے سہارے کہلاتے ہیں۔ پھر یہ کہ اس ابہام کی نوعیت تو شعری ابہام کا درجہ رکھتی ہے جو کردار کے تفاعل سے نمو پاتا ہے جس کے لئے قاری ذہنی طور پر تیار اور آمادہ نہیں تھا۔ وہیں ابہام بھی ،ہر قاری کے ساتھ ایک علاحدہ ذہنی واقعے کے طور پر اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔

ممتاز شیریں کے اس خیال کے بر خلاف مظفر علی سید کے نزدیک منٹو اتنا واضح اور اتنا دو ٹوک نہیں ہے کہ آن کی آن میں اپنے آپ کو دوسروں پر عیاں کر کے طمانیت کے نشے میں سرشار ہو جائے۔ منٹو تو مستقل ڈسڑب کرنے کا نام ہے۔

منٹو نے نام نہاد مہذب و مقطع حضرات سے لے کر یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور عدلیہ کے اربابِ حل و عقد کو جس طور پر ڈسڑب کیا ، اس کی نوعیت اور فکشن کے قاری میں disturbanceکی نوعیت میں بڑا فرق ہے۔ فکشن کا یہ قاری وہ ہے جو محض ذہنی طمانیت اور جمالیاتی اور روحانی آسودگی کے لئے ادب نہیں پڑھتا بلکہ زندگی میں یک دم کسی واقعے کی رونمائی اور ناگہانی و اتفاقی وارداتوں سے پیدا ہونے والے کشف کے تجربے یا ذہن و دل کو یک لخت صدمہ پہنچانے والے وقوعوں اور ثانیوں میں جو زندگی کے غیر معمولی پن کا درک اسے حاصل ہوتا ہے۔ اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور جو تھپکی دے دے کر سلانے کے بجائے ہماری بے چینیوں میں اضافے کا موجب ہی بنتا ہے۔ مظفر علی سید نے جس کیفیت کو دانستہ تغافل برتنے سے تعبیر کیا ہے وہ اصلاً اسی صدمے کا ردِّ عمل ہے اور جس کا اثر اتنا کاری ہے کہ منٹو کو انگیز کرنا اب بھی ہم میں سے بہتوں کیلئے مشکل نظر آتا ہے۔

یہ خیال بے حد تکلیف دہ ہے کہ کسی تخلیقی فن کار کے اچھے بُرے معمولات کی روشنی میں اس کے فکر و فن کے محاسبے کی روش تا ہنوز قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ میرؔ،غالبؔ، جوشؔ، اور یگانہؔ وغیرہ کو بھی اکثر ان کی زندگی کی نا مقبول پہلوؤں کو بنیاد بنا کر بار ہا تختۂ مشق بنایا گیا۔ اسی بنیاد پر حالیؔ بڑی تاخیر کے بعد اور معذرت کے ساتھ بلکہ با دلِ ناخواستہ ’’یاد گارِ غالبؔ‘‘ کی اشاعت کے لئے راضی ہوئے۔ یہ  ضرور ہے کہ ہمارے اکثر فکشن کے سمیناروں میں منٹو کا نام بڑے افتخار سے لیا جاتا ہے بلکہ اردو معاشرے کے لئے وہ ایک status symbolکا حکم رکھتا ہے۔ بالخصوص ہندوستان میں تواب یہ خیال جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ ہماری کوئی بھی زبان نہ تو غالب جیسا شاعر پید ا کر سکی ہے اور نہ منٹو جیسا کہانی کا ر۔ لیکن آئرنی (irony)یہ کہ یہ آوازیں جامعات کے اس تعلیمی ماحول میں بھی بلند ہوتی ہیں جہاں منٹو کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر کسی دباؤ کے تحت اسے شامل کر بھی لیا جاتا ہے تو بات نیا قانون اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آگے نہیں بڑھتی۔ مظفر علی سید کا یہ خیال قطعاً درست ہے کہ

’’ہماری یونی ورسٹیوں میں اور سرکاری سطح پر منٹو ابھی تک شجر ممنوعہ ہے۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں بقول مظفر علی سید کہ ’’ساری زندگی اس پر مقدمے چلتے رہے یا چلائے جاتے رہے اور کسی نہ کسی شکل میں اب بھی چل رہے ہیں۔ ان مقدموں نے اس کی زندگی اجیرن کر دی اور وہ ملول ہو کر بار بار خود فراموشی کی طرف لپکتا رہا‘‘۔ منٹو نے ردِّ عمل کے طور پر خود فراموشی کو تو کبھی ترجیح نہیں دی۔ البتہ اس کے رویےّ میں چڑ چڑ ا ہٹ ،ضد اور ہٹ دھرمی جیسی کیفیات ضرور شامل ہو گئی تھیں بلکہ میں اسے اینگری ینگ مین کی غصہ وری اور برافروختگی کا نام دوں گا۔ ایک ایسا ینگ مین  جو بے حد کم زور واقع ہوا ہے اور مختلف سماجی قوتوں کے اجبار compulsions اور شدید دباؤ کے تحت جس کی ترجیح محض اپنے آپ سے نبرد آزما ہونے پر ہے۔ اسی لئے اس نے اپنے احباب کا حلقہ بھی بہت محدود کر رکھا تھا۔ اس کے خلق کردہ کر دار ہی اس کی انجمن سازی کے لئے کا فی تھے۔

ایک مستقل نا آہنگی جو اندر اور باہر کے درمیان واقع تھی اور جو مستقلاً منٹو کے ذہنی اور روحانی تناؤ اور نفاق کا بھی سبب تھی اس کے افسانوی فن میں واقع ضبط اور وحدت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اس وحدت اور ضبط کو قائم رکھنے کی ا یک صورت غالب ؔ کے یہاں دکھائی دیتی ہے جو خارج کے نفاق کو اس طور پر انگیز کر تا ہے کہ شعر کی مجموعی صلابت متاثر نہیں ہوتی۔ میں نے ایک مضمون میں غالبؔ کے اس فنیّ عمل کو تطابق بہ نفی کے عمل سے موسوم کیا تھا جس کا اطلاق من و عن منٹو کے فن پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ گردش جس کے پیروں میں ہو ، آمدنی کی راہیں جس پر  مسدود ہوں ،تس پر مسلسل مقدمے بازی جس پر عائد کر دی جائے۔ ا س کے ذہنی انتشار اور روحانی نفاق کو سوائے عذاب کے کچھ اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ مظفر علی سید نے اسی لئے منٹو کو ذاتی زندگی میں ناکام قرار دیا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ منٹو کے افسانوی فن پراس بحران کی چھوٹ کیوں نہیں پڑی۔ اس قسم کے حالات میں فن کار جذبوں کے غیر معمولی دباؤ کے تحت لمحوں میں جینے پر قانع ہو جاتا ہے۔ فنی بافت جگہ جگہ سے کھلنے لگتی ہے۔ دراصل منٹوں تخلیقی لمحوں میں اپنے آپ کو ایک مرکز پر مجتمع کر لیتا ہے اور اپنی بوہیمین اسپرٹ کو پرکھنے کی توفیق سے بھی کا م لیتا ہے تاکہ افسانے کی تخلیقی ہئیت اور تکنیک پر باہر کا نفاق اثر انداز نہ ہو سکے۔

جہاں تک فیض کے بیان کا تعلق ہے وہ ان کی فکشن کی جمالیات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ فیضؔ اردو شاعری کی تاریخ کے تناظر میں عظیم شاعر ہوں یا نہ ہوں۔ البتہ ہمارے عہد کے دو تین بڑے شعر ا میں ان کا شمار کیا جانا چاہیے۔ منٹو کے فن کے بارے میں اسی شخص کی رائے کو کوئی معنی دیے جا سکتے ہیں جو فکشن کے تقاضوں اور فکشن کی تاریخ کے مختلف مراحل اور ادوار میں فن کے تفاعل کا علم رکھتا ہو۔ عبدالماجد دریآبادی  یا  ماہرالقادری ،نعیم صدیقی یا چودھری محمد حسین تو خیر قابل معافی ہیں سردار جعفری تک فکشن کی جمالیات اور اس کے تخلیقی تقاضوں اور تکنیکی مطالبوں کی فہم کم رکھتے تھے۔ عزیز احمد سے یقیناً منٹو کو سمجھنے میں بڑی چوک ہوئی۔ جس عہد کا یہ قصہ ہے اس میں سوائے ممتاز شیریں کے (وہ بھی بعد میں ) کوئی اور منٹو اور فکشن کی فہم کی اہلیت نہیں رکھتا تھا ،اہلیت رکھتے تھے محمد حسن عسکری،لیکن وہ منٹو کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال سکے ادھر ادھر کی باتیں بگھاریں اور آہستہ سے پتلی گلی سے پھوٹ نکلے۔

ہم اپنے ادیبوں کو کیا کہیں وکٹورین عہد میں ہیون برن کی Poems and balladsپر جان ہارلی نے کم ضرر رساں قسم کی تنقید نہیں کی۔ لٹن ہی نے نہیں رسکن جیسے سخت قسم کے اخلاقی نقاد نے اسے قطعی بے ضرر ٹھہرایا۔ لیکن یہ وہی ہیون برن تھا جس نے شیکسپئیر کے Venus and Adonisکو مذ موم قرار دیا تھا اور باڈ لر کی تلخیص کی پذیرائی کی تھی جس میں ان اجزا کو نکال دیا گیا تھا جو بچوں کے اخلاق کو بگاڑ سکتے تھے۔ ڈاکٹر جانسن نے اسٹرن کے ناول Tristram Shandyکو بعض اجزا کے پیش نظر ناشائستہ مبتذل اور عامیانہ تک قرار دیا تھا۔ اس قسم کی صورتیں ادیبوں کے نظریاتی اختلافات کے باعث ہمیشہ پیدا ہو تی رہی ہیں۔

مظفر علی سید کا یہ سوال یقیناً توجہ طلب ہے :

’’اس پرسی کیوشن کی بہت سی جہتیں میں اور اس میں برطانوی سرکار کے اہل کاروں کے ادبی نظریات کے علاوہ دوسرے عناصر بھی شامل ہیں۔ پنجاب کے اخبار تو چو دھری صاحب کی مٹھی میں تھے لیکن دہلی اور بمبئی کے اخبارات نے کس کے زیر اثر یہی پرسی کیوشن کیوں اختیار کی ؟‘‘

سب سے پہلے برطانوی اہل کاروں کو لیا جائے۔ میرے نزدیک جن کے اپنے کوئی ادبی نظریات ہی نہیں تھے۔ اپنی حکومت بچانے کے لئے غلط صحیح عمومی رائے کو وہ ان معنوں میں ترجیح دیتے تھے کہ ایک چھوٹی سی بات کہیں بتنگڑ نہ بن جائے اور احتجاج ، بغاوت کی شکل نہ اختیار کر لے۔ دوسرے یہ کہ برطانیہ میں سرکاری احتساب کی تاریخ تقریباً ساڑھے چار سو پانچ سو برس پرانی ہے۔ ۱۷۱۹ء  میں جان میتھیوز کو ایک سرکار مخالف جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ ہمارے یہاں فرخ سیر پر پھبتی کسنے کے الزام میں جعفر ز ٹلی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور بدر الاسلام عباسی بدایونی کو انگریزوں کے خلاف ایک نظم لکھنے پر سولی کی سزا بھگتنی پڑی تھی۔ ڈینیل  ڈفو کو ۱۷۰۳ء میں اور ولیم کوبے کو  ۱۸۱۰ء میں سخت سزا کا سامنا کر ناپڑا۔ Puritansتو تھیڑ ہی کے سخت خلاف تھے بالکل اسی طرح جیسے ہندو اور مسلم بنیاد پرستوں کی ہمارے دور میں بن آئی ہے۔ سرکاری خردہ گیری اور حرف گیری کی ان مثالوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا تعلق سابق سوویت روس ، ہنگری ، چیکوسلو یکیہ ،رومانیہ اور البانیہ سے ہے ۲۰ویں صدی میں اینگلو امریکی عدلیوں میں یولیسس ،روتھ،لیڈی چٹر لیز لوور اور دی لیڈیز ڈائریکٹری پر جو مقدمات چلے ان سے یوروپی ادب میں آزادی اظہارکو زبردست تقویت ملی جب کہ لیڈی چٹر لیز لوور کی فروخت پر اسی Hicklinقانون کے تحت ہماری سپریم کورٹ نے پابندی لگا دی جسے یونائیڈ اسٹیٹس نے بہت پہلے منسوخ کر دیا تھا۔ منٹو کو ان برطانوی دفعات کا سامنا تھا جنہیں حکومت برطانیہ نے اپنی نوآبادیات پر نافذ کر رکھا تھا۔ ہندوستانی پینل کو ڈ ۲۹۲ کے تحت ہر وہ تحریر و تصنیف احتساب کی مستحق قرار دی جا سکتی ہے جو فحش ،ناشائستہ ،تہذیب و اخلاق کے مقررہ معیاروں کے خلاف ہو یا جو شہوت انگیز ہو یا جس سے سوسائٹی کے کسی طبقہ یا گروہ کے مذہبی عقائد و جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ لیکن ہمارے عدلیہ نے اس نکتے کی طرف توجہ نہیں کی کہ منٹو کے تقسیم وطن سے قبل جن تین افسانوں (کالی شلوار ،دھواں اور بو) اور ٹھنڈا گوشت پر  پاکستان میں مقدمات چلے وہ اپنے پورے متون کے تناظر میں بحیثیت عام اور مروج مفہوم کے فحش نہیں تھے۔ محض بعض جزئیاتی تفصیلات کی روشنی میں انہیں احتساب کے لائق ٹھہرایا گیا تھا۔ اس امر پر غور نہیں کیا  گیا کہ مجموعاً ان کی ادبی قدو قیمت کیا ہے ؟ مجموعاً قاریانہ تاثر کی نوعیت کیا ہے ؟ جب ہندوستان میں لیڈی چٹرلیز لو ور پر مقدمہ چل رہا تھا تب ملک راج آنند نے اپنی expert رائے میں یہ دلیل دی تھی کہ ناول ہذا ایک اہم ادبی کارنامہ بلکہ کلاسیک ہے۔ انہوں نے اسے فحش ماننے سے تو انکار کیا لیکن تھیم کے لحاظ سے ناشائستہ بھی ٹھہرایا۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ ہر ادیب اپنی ایک میزانِ قدر بھی رکھتا ہے۔ اسی نسبت سے فیصلوں اور ترجیحات میں بھی کہیں کم کہیں زیادہ بے حد زیادہ بُعد بھی پیدا ہو جاتا ہے۔

منٹو نے چچا سام کے نام ایک خط بابت مورخہ ۱۶/ دسمبر ۱۹۵۱ء میں ارسکاٹن گولڈول کے ناول کا بھی ذکر کیا ہے۔ جس کے ناول  ’’گوڈز لٹل ایکڑ‘‘ پر فحاشی کے الزام میں مقدمہ بھی چلا تھا۔ پاکستان جیسی اسلامی مملکت میں منٹو اپنے فحاشی کے الزام کو عین ممکنات میں سے بتاتا ہے لیکن اسے اس بات پر سخت حیرت تھی کہ چچا سام کی امریکی جمہوریت کو کیا ہو گیا ہے۔ بعد ازاں گولڈ ول بری بھی کر دیا جاتا ہے۔ منٹو اس جج کو غائبانہ طور پر عقیدت مندانہ سلام بھی پہنچاتا ہے اور فیصلے کے آخری سطور کی تعریف کرتے ہوئے انہیں دہراتا بھی ہے۔ اگر پس نو آبادیاتی عدلیہ ان سطور ہی کو اپنی میز ان بنا لے تو بہت سی کتابیں مرگھٹ کی راکھ بننے سے بچائی جا سکتی ہیں۔

’’میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ایسی کتابوں کو سختی سے دبا دینے پر پڑھنے والوں میں خواہ مخواہ تجسس اور استعجاب پیدا ہوتا ہے جو انہیں شہوت پسندی کی ٹوہ لگانے کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ حالاں کہ اصل کتاب کا یہ منشا نہیں ہے مجھے پورا یقین ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے صرف وہی چیز منتخب کی ہے جسے وہ امریکی زندگی کے کسی مخصوص طبقے کے متعلق سچا خیال کرتا ہے۔ میری رائے میں سچائی کو ادب کے لئے ہمیشہ جائز قرار دینا چاہیے۔‘‘

( جب کہ منٹو کو تین ماہ قید با مشقت  اور تین سو روپے کی سزا دینے والے جج کی رائے تھی کہ ’’سچائی کو ادب سے ہمیشہ دور رکھنا چاہیے )

مظفر علی سید کے اس خیال سے میں پوری طرف متفق ہوں کہ منٹو فن کار کی آزادی کا نقیب تھا۔ حلقہ ارباب ذوق کے ساتھ منٹو یا راشد کی ذہنی ہم آہنگی ضرور تھی لیکن محض حلقے کے رکن بننے پر منٹو زیادہ سے زیادہ اعجاز بٹالوی بن سکتا تھا اور راشد کی شخصیت یوسف ظفر اور قیوم نظر سے زیادہ گہری اور گمبھیر نہیں بن سکتی تھی۔ اس عہد میں جو فن کا ر ان دونوں تحریکات کے بین بین چلے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی آزادانہ سطح پر نشو و نما ہو ئی اور انہوں نے زیادہ بہتر طور پر اپنے تجربات کے سلسلے کو بر قرار و قائم رکھا۔ منٹو ،راشد اور مجید امجد ہی نہیں اختر الایمان کو بھی اسی زمرے میں شامل سمجھنا چاہیے۔ ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربابِ ذوق دونوں سے قبل ایک ایسی نسل وجود میں آ چکی تھی جسے ذہن و ضمیر کی آزادیاں عزیز تھیں اور جو روایت کی رسمی پیروی کے برخلاف نئے امکانات کی جستجو میں تھی۔ البتہ ترقی پسند تحریک نے بین الاقوامی سطح پر ادیبوں کے مابین باہمی روابط اور ان کے مسائل کی فہم کے لئے ایک راہ ضرور دکھائی۔ روایت شکنی کے دعاوی کے باوجود لسانیات شعری کے لحاظ سے اہم ترقی پسند شعرا کلاسیکی آداب کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سیاسی مسائل اور انسانیت کشی جیسے موضوعات کو بنیاد بنا کر شعر کے موضوعاتی کینوس کو نہایت وسیع بھی کیا۔ حلقے نے خارجی مسائل سے پہلو تہی تو اختیار نہیں کی لیکن ان کا اپنی بیش تر صورتوں میں اصرار داخلی غواصی پر ہی تھا۔ اسی باعث ان کے تجربات میں دھند ،افسر دگی ،اور کہیں کہیں سریت ایک حاوی کیفیت کے طور پر محیط ہو جاتی ہے۔ حلقے نے ہی نا راست زبان کو ادبی زبان کے طور پر قایم کیا اور نئے اسالیب کے لئے راہیں بھی ہم وار کیں۔ ہیئت کی طرف خاص توجہ کے باوجود میرا جی نے لوک روایت ،کلاسیکی ادبیت کے شعار فرانسیسی علامتی شاعری کے میلان اور ذہنی گرہوں اور اعمال کے تعلق سے نئی نفسیاتی تحقیقات کے ایک وسیع تناظر سے اپنی تخلیقی سرگرمی کو نئے معنی فراہم کرنے کی سعی کی۔ ایک لحاظ سے ممتاز شیریں ،حسن عسکری اور انتظار حسین کے حوصلوں کو تازہ دم رکھنے کا سراغ میرا جی اور ان کے حلقے ہی سے ملتا ہے۔ تھوڑے بہت انسانی نفس اور کردار کی جو علاحدہ محسوس ہو تی ہوئی شناخت منٹو کے یہاں دستیاب ہے اسے میرا جی سے ذہنی قربت کا نتیجہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ محض داخلی غواصی کا عمل یا نفسیاتی اور مابعد الطبیعاتی نیز سیاسی و سماجی مسائل پر انحصار کے معنی ان لا محدود امکانات پر قد غن لگا دینے کے تھے جو بالعموم ذہنی آزادیوں کی فضا میں نمو پاتے ہیں۔ موضوعات کی جو تحدید و تکرار ترقی پسند اور حلقہ اربابِ ذوق ہر دو تحریک سے وابستہ فن کاروں کے یہاں نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے منٹو ،راشد اور اختر الایمان نے اس سے دہ چند دوری برقرار رکھی۔ ادبی تجربات کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ تجربہ کرنے والے اکثر نقصان میں رہتے ہیں۔ ان کے بعد کی نسلیں اپنے پیش روؤں کے ناکام یا کچے پکے تجربات سے کامیابیوں کا فن سیکھتی ہیں یا وقت کا فاصلہ بصیرتوں اور وجدان کو جس طو ر پر حساس تر بناتا ہے۔ اس حساسیت سے تجربہ کرنے والی نسل اکثر محروم رہتی ہے۔ حالیؔ اور آزادؔ کے تجربات نے اقبالؔ اور میراؔ جی اور ترقی پسند شاعری کے ناکام تجربات نے راشد اور اختر الایمان کو زیادہ بہتر تناظر فراہم کیا۔ مسائل کی نوعیت مختلف ہونے کے با وصف منٹو حقیقت اور زندگی سے بہ باطن ہی نہیں بہ ظاہر بھی اتنا ہی قریب تھا جتنا کہ ترقی پسند فکشن نگار تھے۔ میرے نزدیک دونوں تحریکات سے اس کا ایک ایسا معنوی رشتہ ضرور تھا جو بعد اور یگانگت کے خطرات اور امکانات کی فہم کا زائدہ تھا۔ مظفر علی سید بھی یہی کہتے ہیں کہ:

’’منٹو کسی بھی ادبی تنظیم کی پیدا وار نہیں تھا نہ کوئی سماجی یا ادبی اشاعتی یا سرکاری ادارہ کسی سچے ادیب کو جنم دے سکتا ہے۔ ادبی اور فکری تنظیم ایک تربیتی کردار یقیناً  ادا کر سکتی ہے اور یہ فریضہ حلقۂ ارباب ذوق نے اپنی آز اد بحث کے ذریعے ضرور انجام دیا‘‘۔

میں یہاں حلقہ اربابِ ذوق کے ساتھ ترقی پسند تحریک کے نام کا اضافہ ضرور کرنا چاہوں گا۔ جس کے نا راست اثر نے منٹو کو محض لفظوں کے جنگل میں گم ہو نے سے بچا لیا۔ مظفر علی سید کا یہ خیال بھی درست ہے کہ باری علیگ کی صحبتوں اور روسی ادب کے تراجم نے اس کے ذہن کو حقیقت فہمی کے ایک نئے اسلوب کی طرف پہلے ہی یعنی ترقی پسند تحریک سے قبل ہی مائل کر دیا تھا۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تحریک سے قبل انگارے کی اشاعت (۱۹۳۲)بھی عمل میں آ چکی تھی۔ کفن ، پد ما ، دو بیل اور پوس کی رات جیسے افسانے پریم چند کے قلم سے ادا ہو چکے تھے۔ پریم چند اپنے بعض اداریوں اور مضامین میں گور کی ، ٹالسٹائے او رپشکن وغیرہ کے بدلتے ہوئے محاورے کی طرف توجہ لا چکے تھے۔ خود اختر حسین رائے پوری کا مقالہ ادب اور زندگی ، تحریک سے پہلے بنگالی اور پھر اردو میں منظر عام پر آ چکا تھا۔ گویا منٹو کے لئے حقیقت کو نئے طرز احساس کے ساتھ انگیز کرنے اور افسانوی تکنیک کو مختلف طور پر برتنے کا ہنر اسی phenomenonکی دین تھا۔

کرشن چندر نے جن الفاظ میں اور جس دور میں ’ہتک‘ کی تعریف کی ہے وہ ان کی فکشن کی تنقیدی فہم کی بہترین دلیل ہے۔ انہوں نے سوگندھی کی معصومیت اور عورت پنے کی طرف جو اشارہ کیا ہے۔ اسی میں ’ہتک‘ کی گنجانیت کا راز بھی مضمر ہے۔ ’ ہتک‘ کی افسانوی تکنیک انفرادیت ہے جس نے اس افسانے کو ایک مختصر رزمیے میں بدل دیا ہے۔ بو، دھواں اور ہتک کی جزئیاتی تفصیلات میں اجمال اور تلازموں کے بہترین موقعیتی عمل نے اکثر و بیش تر جملوں میں جیسے electronsبھر دیے ہوں۔ اور جیسے چقماق کے چھوٹے چھوٹے ذرات آپس میں خود بخود ٹکرا رہے ہوں اور روشنیوں کے فوارے چھوڑتے جا رہے ہوں۔ مظفر علی سید نے یہ کہہ کر کہ۔ ۔ ۔ افسانہ نگار محض اپنی سر گذشت نہیں سناتا ناقابل تصدیق سچی کہانیاں نہیں کہتا، لیکن اس طرح سناتا ہے کہ کسی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور نہ کسی خارجی شہادت کی ، سید عابد علی ،اوپندر ناتھ اشک وزیر آغا،رشید جہاں اور انتظار حسین کا کافی و شافی جواب فراہم کر دیا ہے۔

مظفر علی سید کی طرح میرا بھی یہی خیال ہے کہ منٹو کی دنیا کو محدود کہنے والوں نے یا تو منٹو کو پوری طرح پڑھا نہیں ہے اگر پڑھا ہے تو وہ فکشن کی فہم رکھنے والے قاری نہیں ہیں۔ جن افسانوں کا حوالہ سید صاحب نے دیا ہے ان کے علاوہ بھی ایک اور بھری پری کائنات موجود ہے جس میں تنوع ہی تنوع ہے۔ میں تنوع محض موضوعات کے حوالے سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس کی تکنیکوں میں بھی بڑا تنوع ہے۔ آپ جنہیں خاکے کہتے ہیں جنہیں خطوط کے نام سے موسوم کرتے ہیں وہ منٹو کے افسانوی فن ہی کی کرشمہ سازی ہے۔ رام کھلاون ، موتری، سڑک کے کنارے ، خوشیا،  دودا پہلوان ، یزید، گورکھ سنگھ کی وصیت ،جانکی ،باسط، شاردا، بلونت سنگھ مجیٹھا، آنکھیں، تقی کاتب ، کتے کی دعا ، ہار تا چلا گیا ، شریفین اور شیر آیا شیر آیا ، دوڑنا وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو تکنیک اور کردار سازی میں ہتک ہی کی طرح توجہ طلب ہیں۔

جہاں تک سمر سٹ مام کا تعلق ہے وہ دوسری سے چھٹی دہائی تک انگریزی کا مقبول عام فکشن نگار رہا ہے اس نے تھوڑا بہت موپاساں کا بھی اثر قبول کیا تھا لیکن وہ cynicبھی تھا موپاساں کے یہاں ایک بے دردانہ فہم ضرور قایم رہتی ہے جو اس کی غیر جذباتیت کی دلیل ہے۔ مام کے یہاں غیر جذباتیت سگ خوئی تک پہنچ جاتی ہے۔ منٹو کے تھیم کتنے ہی دماغ پاش ہوں، وہ اظہار و اسلوب میں ہر جگہ ضبط و ار ٭ی تشکیل: اعجاز عبیداورای بک ؂یی تشکیل: اعجاز عبیدےکیا گیا ہے،

تکاز کو بر قرار رکھتا ہے۔ مظفر صاحب نے منٹو کی نثر کی جس کٹیلی خوبی کا ذکر کیا ہے وہ البتہ فلابیر اور موپاساں کی یاد دلاتی ہے۔ یہی وہ نثر ہے جسے فکشن کی مثالی نثر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور خلاّقی جس کے ایک ایک مسام میں رچی بسی ہوئی ہے۔

اوہنری کی سی انسان دوستی ،حسِّ مزاح،درد مندی ا ور سبک طنز منٹو کے اسلوب کا بھی خاصّہ ہیں لیکن تھوڑی سی زہر خند اور واسوخت کی اس صورت نے تحت المتن میں جگہ ضرور بنا لی ہے جو اکثر مام کے یہاں اونچی آواز میں لعن طعن کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ بالخصوص چچا سام کے خطوط میں سیاسی آئرنی کو جس طور پر منٹو نے نمایاں کیا ہے اور بار بار پاکستان اور امریکہ کے اقتصادی ،اخلاقی ،سیاسی اور تہذیبی افتراق کو نمایاں کیا ہے ،اس کا اطلاق پوری نام نہاد تیسری دنیا کی اقتصادی بدحالی و  پس ماندگی پر کیا جا سکتا ہے۔ منٹو ،بقول مظفر علی سید ،اپدیش نہیں دیتا،اسباب نہیں بتاتا صرف صورتِ حال پیش کر دیتا ہے۔

یہ خیال اور بحث کوئی معنی نہیں رکھتی کہ منٹو نے کوئی بڑا ناول کیوں نہیں لکھا۔ پو یا اوہنری یا موپاساں یا  چیخف سے کسی مغربی نقاد نے اس قسم کا سوال نہیں کیا۔ کیا یہ سوال قایم کیے جا سکتے ہیں کہ ن.م.راشد یا اختر الایمان نے غزل کیوں نہیں لکھی ؟ یا یہ سوال کہ مجروح ؔیا  فانیؔ نے کوئی نظم کیوں نہیں لکھی؟ غالبؔ کو کوئی ایک مکمل مرثیہ تو لکھنا ہی تھا ؟ وغیرہ وغیرہ یہ تمام سوالات بے محل بلکہ لا یعنی ہیں۔

لارنس نے یہ ضرور کہا تھا کہ اپنے قریبی معاصر ین سے منافرت برتنا چاہیے۔ لیکن یہ کوئی کلیہ نہیں ہے۔ ہیر لڈ بلوم نے اپنی تصنیف کا نام ہی The anxiety of influence(1973)رکھا ہے۔ اس کا تجزیہ تحلیل نفسی کی بنیاد پروان چڑھنا بڑا مشکل ہو تا ہے۔ بیٹے کو اپنی جگہ بنانے کے لئے باپ کو ’ مخالف ‘کے طور پر دیکھنا لازمی ہو جاتا ہے جب ہی وہ اپنے انفراد کو قایم کر سکتا ہے بالعموم شاعر اپنے ماضی کے بڑے شاعر سے پوری قوت کے ساتھ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف اسے عقیدت مندانہ محبت کا دم بھرتے ہیں بلکہ ا س سے منافرت بھی کرتے ہیں ،اس سے خوف بھی کھا تے ہیں۔ بلوم کہتا ہے کہ منافرت اور خوف کا یہ رویہ ہی پس رو شاعر کو رد و انکار کے عقب کے لئے اکساتا ہے تاکہ اس کی اپنی انفرادیت کی راہیں روشن ہو سکیں۔ دراصل انکار کے عقب ہی میں اقرار بھی چھپا ہو تا ہے۔ کوئی ایک متن ہی نہیں بلکہ تاریخ ادب کے تقریباً تمام اہم متون تہ بہ تہ روایت کے تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے متون پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ کہیں اثر کاری کی نوعیت انتہائی غیر محسوس اور غیر شعوری کی بلکہ لاشعوری ہو تی ہے۔ اور کہیں شعوری ہر متن جو قرأت کے تجربے سے گزرتا ہے تخلیق کا رکے وجدان کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کے ذرات جا بجا ہانٹ کرتے ہیں اور دیگر متون کے رگ و پے میں سرایت کر جاتے ہیں۔ اس بنیاد پر نہ تو منافرت کو کلیہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ عقیدت کو۔

منٹو کوئی پیغام نہیں دیتا۔ اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ادب کی تخلیقی نفسیات ہی سے ناواقف ہے۔ منٹو کی خلق کردہ عورت بھی کوئی پیغام نہیں ہے۔ وہ تواسی طرح مخلوق ہے جس طرح کہ باسط ہے ،بابو گوپی ناتھ ہے ،شنکر اور ودوا پہلوان ہے۔ اس کے ہر کردار میں کوئی خامی ضرور ہے۔ وہ کبھی انکشاف بن جاتا ہے اور کبھی سوال۔ داخلی ہی نہیں اکثر خارجی جبر بھی اس کے کردار کو مخدوش کرنے کا موجب بن جاتا ہے۔ تضاد ہی آئرنی کے تاثر کو گہرے معنی بھی عطا کر تا ہے اور یہ چیز منٹو کے تقریباً ہر افسانے کے اسلوب میں جو ہر کی طرح بر سر کار ہے۔

 

 

راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں نامانوس علاحدگیوں اور رفاقتوں کا تناؤ

 

ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنےtypes کے سینے حوصلے سے بھر دینے کی سعی کی تھی کہ انھیں بالآخر ایک چو مکھی جنگ لڑنا ہے۔ ایسے کردار اکثر اپنے آپ میں پیراڈکس کی عبرتناک مثال بن گئے ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی نے جس انسان پر فوکس کیا ہے وہ عام ہے، نزدیک ہے لیکن ایک محسوس ترین فصل کا حامل بھی ہے۔ انھوں نے کرشن چندر کے مضبوط کاٹھی کے انسان کی باطنی دراڑوں پر نگاہ ڈالی ہے۔ کرشن چندر نے اس پر بہ یک وقت کئی محاذ کھول دئیے تھے۔ ان سے قبل پریم چند نے اپنے کرداروں کو مسلح اور شاطر دشمنوں کے بیچ چھوڑ دیا تھا۔ مگر انھیں جنگ کے اصول سکھائے تھے نہ بلند حوصلگی کا درس دیا تھا۔ وہ خوف زدہ اور کمزور ہیں، ان کی حدود متعین ہیں، ان کی راہ مبہم، پریم چند کبھی کبھی ان کا نفسیاتی تجزیہ ضرور کرتے ہیں لیکن کردار خود اپنے آپ کے نفس اور فطرت و کائنات کے پس منظر میں اپنی خودی، اپنے وجود اور اپنی اہمیت، حتی کہ اپنی قدر کا احساس کر پاتے ہیں نہ سراغ لگا پاتے ہیں۔ کہیں کہیں مثلاً ’’پوس کی رات‘‘، ’’مس پدما‘‘ اور ’’کفن‘‘ وغیرہ میں ایک دوسری ہی دنیا بسی بسی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں دھارے ایک دوسرے کو کاٹتے بھی ہیں۔ کہیں کہیں اپنے اناء اور اپنے ہونے کا ہلکا سا شعور بھی روشن ہو تا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر پریم چند کا انسان پس ماندہ ہے اور سارا دکھ یہ ہے کہ وہ معاشی سطح پر ہی پس ماندگی کا شکار نہیں ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی پس ماندہ ہے۔ وہ اگر باغی ہے تو اس قدر کہ سارا جلال اس میں سمٹ آتا ہے اور پورا افسانہ انتہائی سطحی جذباتیت کا شکار ہو کر sensational یا میلوڈرامٹک شکل اختیار کر لیتا ہے یا پھر اس کے کردار فرسودہ اخلاقی قدروں پر خود کو بڑی آسانی اور بڑی سہولت کے ساتھ قربان کر دیتے ہیں۔ پریم چند کے کردار خواہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑیں یا مشترکہ خاندان کے لازمی تناؤ سے گزریں، کسی بھی جنگ کے بعد جب ان کی موت واقع ہوتی ہے تو وہ موت فطری محسوس نہیں ہوتی بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے اسے ان پر مسلط کیا گیا ہے اور اس طور پر وہ ناگہانی کم خود کشی کے مترادف زیادہ ہے۔ پریم چند انھیں یہ سبق نہیں دے سکے کہ کب جبر ظلم بن جاتا ہے اور برداشت گناہ۔ مزاحمت کی موت بہر حال سپردگی کی موت سے کئی درجہ بلند ہے۔

بیدی نے پریم چند سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ کہیں کہیں یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ پریم چند کے کرداروں نے ایک نیا جنم لے لیا ہے۔ مثلاً ’’گرہن‘‘، ’’من کی من میں‘‘، ’’دیوالہ‘‘ اور ’’منگل اشٹکا‘‘ وغیرہ کہانیوں میں پریم چند کے دکھی دل کی پکار عود کر آئی ہے۔ نیم متوسط اور نچلے طبقے کے اپنے اوہام اور شکوک، تنازعے، شکایتیں، محبتیں اور نفرتیں۔ ان میں اور ان کے علاوہ دیگر چند کہانیوں میں مشترک ہیں۔ لیکن بیدی اپنی درمیانی ساعتوں میں رمز آگیں تعطلات، غیر متوقع cuts اور وقت کی الٹ پلٹ، نفسیاتی توضیحات اور علامتی تلازموں سے اس طور پر کام لیتے ہیں کہ پریم چند کے افسانے کا مجموعی اسٹرکچر بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایک اچھا افسانہ اپنے آخری لمحوں میں ادراک کی غیر معمولی قوت کا مطالبہ کرتا ہے اور اس لحاظ سے پریم چند کی آسودگی پسند طبیعت نتیجے کی افسانویت کو قائم رکھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ بیدی کے افراد کا رُخ اس نواح میں باطن کی طرف ہے اور وہ اپنی خودی سے ایک نئی نہج سے متعارف ہوتے ہیں کہ ایک نئے اخلاقی سیاق میں انھیں ایک مختلف طور پر زندگی کرنا اور زندگی کی تعذیب جھیلنا ہے۔ یہ رشتے مختلف ہیں اور ان کا سارا پس منظر ہی مختلف ہے۔ زندگی نہ تو اتنی سادہ رہی کہ پریم چند کی نظر اس کی ساری مکاریوں اور پہلو داریوں کو اپنی فہم کا حصّہ بنا سکے اور نہ اتنی مستقیم کہ پہلی نظر میں اس کے سارے انسلاکات اور اس کی ساری پیچیدگی سے آگہی حاصل ہو جائے۔ بیدی نے پریم چند کی خلقت کو تربیت نہیں دی ہے بس انھیں ایک دوسرے جہنم میں جھونک دیا ہے۔ اس جہنم کے مسائل پریم چند کے جہنم سے مختلف اور پیچیدہ ہیں۔ پریم چند کے افراد نے صعوبت پائی تھی تعذیب نہیں۔ انہوں نے جسمانی عذاب جھیلے تھے۔ ذہنی اور نفسیاتی زلزلوں سے ان کا گزر کم ہی ہوا تھا۔

بیدی کے یہاں رشتوں کی ساری منطق ہی بدل گئی ہے۔ متوسط اور نیم متوسط درجے کے خاندان ان کی اقتصادی بد حالی، ان کی جذباتی کشاکشیں، ان کی شیطانی مگر فطری ہیجانات، وقت و حالات کی ستم ظریفیوں کے مابین اپنی انفرادیت کی جستجو، خارج کے ایک مختلف دباؤ اور اس کے سامنے باطن کی اپنی آواز، متداول اخلاقی قدروں سے ذہن و ضمیر کی نا وابستگی، واہمے کا تانڈو ناچ، اتفاقات کی ہمیشہ یک طرفہ عمل داری، یہ ہیں بیدی کے افسانوی فینو مینا کے چند پہلو نیز یہ کہ حقیقت کے المناک پہلو انھیں کبھی نہیں بھولتے۔ پریم چند نے اپنے المیے کی حدود، مختلف رکھی تھیں۔ ان کے کردار اپنا سراغ نہیں لگا پائے تھے۔ ان کا جسم (مگر نصف) ان کی سب سے بڑی مملکت تھا۔ عزت نفس کا مسئلہ تھا مگر ایک خاص حد رکھتا تھا۔ انا کا احساس تھا مگر اس کا راستہ سوکھے ہوئے شکم سے ہو کر جاتا تھا۔ عظیم انسانی المیوں اور پسپائیوں کے بجائے پریم چند کی مخلوق کا مسئلہ جس قدر اجتماعی تھا اسی قدر ذاتی بھی تھا۔ پریم چند نے انھیں بھرپور زندگی جینے کا درس نہیں دیا تھا۔ بیدی نے بھی بھرپور زندگی جینے کا درس نہیں دیا ہے اور وہ ان نا مانوس علاحدگیوں اور رفاقتوں سے آگاہ بھی نہیں ہیں۔ جنھیں پہلے بھی بھوگا گیا تھا مگر انھیں کوئی نام نہیں دیا گیا تھا۔ بیدی اپنی پہلی سطح پر ایک دوسرے سے وابستہ اور ایک دوسرے میں شامل افراد کی بستیاں آباد کرتے ہیں۔ انھیں خوابوں کا حوصلہ دیتے ہیں یقین کی چمک دکھاتے ہیں حتی کہ ان کے سینے دھڑکنے لگتے ہیں۔ ان کے مساموں سے آنچ آنے لگتی ہے۔ وہ اپنی زندگی جینے کے درپے نظر آتے ہیں اور پھر دوسرے ہی مرحلے پر بیدی کی وہ جانبدار فطرت بیدار ہو جاتی ہے جسے زندگی کی نامانوس علاحدگیاں رقم کرنے میں لطف آتا ہے۔ زخموں کے کھرنڈ چھیلنے میں جسے تسکین ملتی ہے۔ آن کی آن میں تقدیر کا دھارا اپنا رُخ موڑ لیتا ہے۔ اختیار دھرے رہ جاتے ہیں اور بیدی کی نگاہ انسان کی کوتاہیوں، مجبوریوں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ انسانوں سے بھرے پرے معاشرے میں ایک فرد کی بے بسی، علاحدگی، بے گانگی اور نا طاقتی، روحانی، نظری یا ماورائی سطح پر نہیں بلکہ واقعی سطح پر ایک عظیم آئرنی کا احساس دلانے لگتی ہے۔ بیدی خارج کا کردار understood مان کر چلتے ہیں۔ وہ تمام قوتیں جو باہر سے اثر انداز ہوتی ہیں اور اندر ہی اندر آدمی کو توڑ تی بکھیرتی رہتی ہیں بیدی انھیں نام نہیں دیتے بلکہ نتائج کے ذریعے ان تک پہنچنے اور انھیں جاننے کی ترغیب دیتے ہیں۔

اُردو افسانے کی تاریخ میں بیدی سے قبل کسی نے انسانوں کے مابین نامانوس علاحدگیوں اور رفاقتوں کی طرف اشارہ نہیں کیا تھا اور نہ کسی نے انھیں مسئلہ بنایا تھا۔ انسانی وابستگیوں کی منطق سیدھی اور ستواں نہیں ہوتی۔ ایک رشتہ کبھی کبھی بغیر کسی سبب دوسرے رشتے پر اثر انداز ہو جاتا ہے اور پرانی وفاداریاں، پُرانے لفظ بے اوقات ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انسانی شرکتیں اپنی تمام نیک نیتی کے باوجود مکمل نہیں ہوتیں۔ ان میں بہ ظاہر ایک استقلال ایک استحکام کا شائبہ ہوتا ہے۔ وہ رفاقتیں ہمیں اپنے اٹوٹ پن کا یقین دلاتی ہیں اور ہم اس خارجی مدنی نظم کو انسانیات کی سب سے بڑی عطا گرداننے لگتے ہیں۔ اصلاً ہر انسان کی اپنی ذات کا سیاق اپنی تخلیق کردہ اخلاقیات پر منتج ہے۔ معاشرے کی متداول اخلاقیات ہمیشہ ایک آگاہ و نیم آگاہ ذات کے لیے مسئلہ بنی رہتی ہے۔ بیدی نے اس مسئلہ کو بے حد واقعی اور محسوس سطح پر اخذ کیا ہے۔ گویا یہ مسئلہ محض مذکورہ بالا آگاہ و نیم آگاہ ذات ہی سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ایک عام آدمی بھی از سرِ نو اپنے تجربے کی کوکھ سے جنم لے سکتا ہے۔ وہ کبھی آہستہ آہستہ بے خبری سے با خبری کی حدود میں داخل ہوتا ہے اور کبھی یکایک اس پر بلوغت کے دروازے واہو جاتے ہیں۔ چیزوں کا ایک نیا رُخ اس کے سامنے آجاتا ہے۔ حقائق کی نئی سطحیں اس پر روشن ہو جاتی ہیں۔ سچ کے سارے جھوٹ اور جھوٹ کے سارے سچ اس پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ زندگی ایک دوسری زندگی کا روپ دھارن کر لیتی ہے۔ آسان بھی مشکل بھی۔ اپنے طور پر جینا یا اپنی فطرت کے مطابق زندگی کرنا رشتے بنانا یا رشتے قائم کرنا تہذیبی تناسب کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ اپنی شناخت اپنی سزا ہے۔

بیدی نے اپنے کرداروں کے مابین جہاں ایک نا آہنگی سی قائم کر رکھی ہے۔ اس کی بنا کرداروں کا اپنا تخلیق کردہ طریق رسائی بھی ہو سکتا ہے۔ اپنی فطرت کی کوئی خامی بھی باہمی غلط فہمی یا دوسرے کی ذات پر مکمل اعتقاد و اعتماد بھی کہیں اپنے طور پر جینے کا عمل انسان کو ایک ساتھ کئی رشتوں سے کاٹ دیتا ہے اور وہ کمزور محض ہو کر رہ جاتا ہے۔ کہیں آگہی کی ایک روشن لکیر اس طور پر نمودار ہوتی ہے کہ انسان کو ایک نئی راہ لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بیدی نے علاحدگیوں کے المیے بیان نہیں کیے ہیں بلکہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ اس تناؤ کو پیش کیا ہے جو انسانی رشتوں اور رفاقتوں کے مابین آپ ہی آپ جگہ بنا لیتا ہے اور ایک نقطہ آہستہ آہستہ پھیل کر پوری انسانی سائیکی اور رابطوں پر محیط ہو جاتا ہے۔

’’من کی من میں‘‘ مادھو کلکارنی اور امبو مل کر ایک ترکون بناتے ہیں۔ کلکارنی کا مسئلہ امبو ہے۔ امبو کا مسئلہ مین میڈ سوسائٹی جہاں عورت دیوی بھی ہے اور داسی بھی، مرد کا حصہ انصاف ہے اور عورت رحم، مرد جلال اور غضب ہے، عورت جمال اور معافی ہے۔ گھر کے اندر وہ کلموہی حالاں کہ اسے مہیلا بھی کہا گیا ہے اور مہہ کے معنی پوجا کے ہیں اور وہ جو عبادت کے لائق ہے۔ وہ جو ایک طاقت ہے، آنند ہی آنند ہے۔ جس کا ایک خفیف سا تبسم تخلیق کا ایک لازوال سرچشمہ ہے اور جس کی ذہانت کا لوہا رشی منی مانتے آئے ہیں۔ وہی عورت کبھی رانو بن کر حالات کی دھری پر بے محابا گردش کرنے پر مجبور محض دکھائی دیتی ہے۔ کبھی امبو بن کر بد نصیب، خانماں برباد، سوت کہلانے لگتی ہے۔ کلکارنی ایک کم فہم، رسوم کی ماری ہوئی وہم پرست عورت ہے۔ امبو کو اس کی بیوگی نے زندگی کو ایک دوسرے انداز سے سمجھنے والی نگاہ عطا کی ہے۔ اس کے دائیں بائیں کوئی نہ تھا وہ اکیلی تھی اس لیے قدم قدم پر اسے اپنی سوچ سے کام لینا پڑتا ہے۔ کوئی بھی سہارا یا سہارے کی امید آدمی کو کمزور اور کاہل بنا دیتی ہے۔ آدمی ذمہ داریوں سے بچنا چاہتا ہے۔ چاروں طرف سے کٹا ہوا انسان بے حد حساس، دوربین اور معاملہ فہم ہوتا ہے۔ وہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ انسانی احتیاج و اغراض ہی انسان کو ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھتے ہیں کہ انسان اپنی انفرادیت میں بے بس اور بے چارہ ہی ہے۔ لیکن جب کوئی اپنے کو مرکوز و محدود کر لے اپنے نفس کو مارنے لگے، خواہشیں پروان نہ چڑھائے، ضرورتوں کی ایک حد قائم کر لے تو واقعتاً ایسا انسان خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ مطلق اور خود کار بھی۔ امبو کی حد یہ نہیں ہے۔ وہ بے بس اور تنہا ہے اور با شعور ہے۔ مادھو اس کا ہمدرد بن جاتا ہے اور یہ ہمدردی جو ایک مرد کی ہمدردی ہے امبو کی زندگی امبو کی طاقت بن جاتی ہے۔ کلکارنی کا غضب اور مادھو کے لیے موت۔ مادھو کی ہمدردانہ فہم اس کا فیٹل فلا ہے جو یقیناً تعظیم کے قابل ہے۔ تحسین کے لائق ہے۔ لیکن مادھو مکر سے بعید ہے معاملہ فہمی سے عاری۔ اگر وہ کلکارنی کے ساتھ مکر سے کام لیتا تو یقیناً بہت دیر اور دور تک وہ امبو کا ساتھ دے سکتا تھا۔ کلکارنی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جانتی کہ مادھو اس کا حق ہے مگر مادھو نے جس طور پر اپنا سراغ لگایا ہے وہ اسی کے مطابق زندگی جینا چاہتا ہے۔ اس کا سراغ اس کا اپنا اندرونی دباؤ اور اندرونی کش مکش ہے۔ ایک مستقل تناؤ کے بیچ اس کا وجود ہچکولے کھا رہا ہے۔ کلکارنی کو وہ educate نہیں کر سکتا تھا مگر مکر کے ذریعے دھوکے اور دھند میں ضرور رکھ سکتا تھا۔ امبو سے وہ جس شرافت سے پیش آتا ہے کلکارنی کے باب میں اس کی ضرورت نہ تھی۔ اور یہ شرافت ہی کلکارنی اور اس کے بیچ ایک فصلی خط کھینچ دیتی ہے۔

’’چھوکری کی لوٹ‘‘ اصلاً ایک اِنی سیشن افسانہ ہے۔ پرسادی رام ایک بڑے عرصے تک اپنی کیفیت کے اصل نا معلوم جز کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ ایک خاص عمر اور اس عمر کا جذباتی تناؤ اسے حقیقت کے اس حیرتناک پہلو سے آگاہ کرتا ہے جو بعد ازاں اس کے ’’معلوم‘‘ کا حصہ بننے پر تذبذب کے ایک دوسرے تجربے سے دوچار کراتا ہے۔ البتہ یہ ’’معلوم‘‘  کا تذبذب اور حیرانی نا معلوم کے تذبذب اور حیرانی سے قدرے کم تر ہے۔ صرف ایک آگہی پرسادی کے تصور کو تبدیل کر دیتی ہے، ایک تجربہ اپنے پیش رو تجربے سے متصادم ہوتا ہے۔ حقیقت کی ایک نئی سطح اجاگر ہوتی ہے۔ اپنے آپ سے ایک نیا تعارف ہوتا ہے۔ حیات و کائنات سے ایک نئے تعلق کی راہ پیدا ہوتی ہے۔ پرسادی رام کے بالمقابل رتنی  پر آگہی کا باب بہت پہلے وا ہو چکا ہے۔ وہ اپنی ارد گرد کی نا آہنگیوں میں ایک آہنگ کی تلاش میں سرگرداں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی لوٹ کے بعد وہ پرسادی رام کے تناؤ کو سمجھ نہیں پاتی۔ لیکن پرسادی رام ہی وہ ہے جس نے ماضی میں برقت اسے اپنے آپ سے آگاہ بھی کیا ہے اور اس کے لیے ڈھال بھی بنا ہے۔ اسی لیے شادی کے کچھ دنوں کے بعد جب وہ اپنے گھر لوٹ کر آتی ہے تو بے تحاشا پرسادی رام کو چومتی ہے، پیار کرتی ہے اور ساری رات اسے پیار سے بھینچتی رہتی ہے۔ پرسادی رام کی بے نام سی جذباتی کشمکش اصلاً اس کی عدم شناخت کا نتیجہ ہے۔ اسی عدم شناخت کے باعث پرسادی رام کے دل میں رتنی کے تئیں شکوک و وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ رتنی (جو کہ غیر ذات بھی ہے) اور خود کے مابین رسمی فصل کو کوئی نام نہیں دے پاتا جو بہر حال ان دونوں کو علاحدہ کر رہا ہے۔ اسی لیے اپنی نامانوس علاحدگی، پر سادی رام کا ایک ایسا جذباتی مسئلہ بن کر ابھرتی ہے جس سے رتنی کی شادی کے بعد ہی چھٹکارا ملتا ہے۔

’’تلا دان‘‘ کے  بابو کا سارا کرب درجہ بندیوں اور دوسرے لفظوں میں علاحدگیوں کا کرب ہے۔ قبل از وقت اسے اپنی سطح کی شناخت ہو جاتی ہے اور اس شناخت کا سرچشمہ سکھ نندن ہے۔ دونوں ہم عمر اور ہم سایے ہیں۔ آگہی اور نا آگہی کے فصل کو بابو ایک جست میں طے نہیں کر لیتا بلکہ آہستہ آہستہ مگر قبل از وقت وہ دو گھروں، دو افراد کے مابین واقع ہونے والے خط تنسیخ کو محسوس کرتا ہے۔ اگر سکھ نندن کی رفاقت اسے میسر نہ آتی تو اسے اپنی کم حدود اور اپنے ماں باپ کی بے بضاعتی کا احساس اتنی جلد نہ ہوتا۔ بیدی کا فن شیشہ گری کا فن ہے ’’تلا دان‘‘ میں بیدی نے بڑی سلیقگی اور باریکی کے ساتھ افسانوی گراف خلق کیا ہے۔ سکھ نندن ہی نہیں بابو کی ماں کا بھی یہ المیہ ہے کہ وہ بابو کے اصل تنازعے کو سمجھنے والی نگاہ سے محروم ہے بابو ایک ٹائپ طبقے سے وابستہ ہونے کے باوجود اپنی انفرادیت کے راز کو پا لیتا ہے اور یہ انفرادیت اس کی آگہی ہے جس نے اسے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ با بو کا المیہ یہ ہے کہ وہ معاشی جبر کی اس مطلقیت سے نا آگاہ ہے جس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ماضی میں تقدیر کا نام دے کر اپنی پسماندگی ،پسپائی اور کمتری کو قبول کر لیا جاتا تھا مگر جدید صنعتی فروغ کے ادوار میں انا کے انکشاف نے ان وجوہ کا عرفان بھی کرایا ہے جو معاشی عدم مساوات کے پس پشت کام کر رہے ہیں۔ معاشرہ جب تغیری دور transition سے گزرتا ہے تو اس سے وابستہ نسلوں کو بہر حال بڑے نقصانات بھوگنا پڑتے ہیں۔ ’’گؤ دان‘‘ کے گوبر کی مصیبت اور ’’تلا دان‘‘ کے بابو کا عذاب اسی تغیری دور کا لازمی نتیجہ ہے۔ بابو اپنے خارج سے مفاہمت نہیں کر پاتا۔ نتیجتہً اس کا ذہنی اور جذباتی عذاب اس کی زندگی کو ایک ناقابلِ برداشت بوجھ میں بدل دیتا ہے۔ سارا طبقاتی تفاوت اور عدم مساویت اس کے لاشعور میں اس وقت بھی کام کرتی رہتی ہے جب وہ نزع کے عالم میں ہوتا ہے۔

’’دو تین دن تو بابو نے پہلو تک نہ بدلا ایک دن ذرا افاقہ سا ہوا صرف اتنا کہ وہ آنکھیں کھول کر دیکھ سکتا تھا۔ آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا، سکھی اور اس کی ماں دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ سیٹھانی نے ناک پر دوپٹہ لے رکھا تھا۔ در اصل وہ دروازے میں اس لیے بیٹھے تھے کہ کہیں بو نہ پکڑ لیں۔ مگر بابو نے سمجھا آج ان لوگوں کا غرور ٹوٹا ہے۔ اس نے دل میں ایک خوشی کی لہر محسوس کی۔‘‘

بابو اور اس کے والدین کے درمیان نفسیاتی سطح پر، نسلی فصل کا مسئلہ ضرور موجود ہے،لیکن معاشی جبر کی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔ بابو کی ماں اور سادھو رام کی فہم کا محور غیر مبدل ہے۔ ان کی فہم کو ایک خاص قسم کے معاشی اور معاشرتی دباؤ نے منقبض کر رکھا ہے۔ بابو کی داخلی کشمکش اس کی ماں کی فہم سے بعید ہے اور خود بابو اپنی شناخت کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ یہ باہمی علاحدگیاں قاری کے نزدیک ایک فکر انگیز جواز بھی رکھتی ہیں مگر خود ان افراد کے لیے نامانوس ہیں جن سے وہ بذات خود دوچار ہیں۔

’’ہڈیاں اور پھول‘‘ میں بیدی کا کرافٹ بے حد مضبوط ہے۔ ملم کی کاٹھ دار صحت اور گوری اس کے سامنے ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ۔ جیسے ایک تندرست و توانا کتا کسی مریل سی کھجیلی کتیا سے محبت کا دم بھر رہا ہو۔ بعد ازاں وہی گوری جو ملم کے مسلسل زد و کوب اور اس کی طبیعت سے نالاں ہو کر اپنے مائکے بھاگ جاتی ہے۔ واپس لوٹنے پر ایک تنومند بھرے بھرے سے جسم والی گوری بن جاتی ہے۔ تندرست و توانا کتیا اور ایک مسلسل ہجر بھوگا ہوا ملم اس کھجیلے اور مریل کتے کا روپ دھارن کر لیتا ہے جس سے محلے کی ساری کتیائیں آٹھ آٹھ گز دور بھاگتی ہیں۔ تاہم ملم کی سختی میں ایک نہایت نرم گوشہ بھی ہے کہ وہ گوری کی مفارقت زیادہ دن تک برداشت نہیں کر سکتا۔

’’گوری ایک دفعہ تو بول، دیکھ میں کتنی دھوپ میں، کتنی دور سے پاپیادہ تیری سمادھی پر آیا ہوں۔ جنڈ کی چتکبری چھانو موت کی آواز بن کر کہتی ہے۔ میں مرے ہوؤں سے انسان کا سا عارضی پیار نہیں کرتی۔ ملم کہتا ہے۔ گوری ایک دفعہ تو جی لے۔ میں نے رنڈوے ہو کر بہت دکھ پایا ہے۔‘‘

بیدی نے ملم کی فطرت کے حوالے سے انسان کی اُس عجیب و غریب سائیکی کو برہنہ کر دکھایا ہے جو دوسروں کے لیے ہی نہیں خود اپنے لیے بھی ایک معمہ ہے۔ وہ جو کچھ کہ حاصل ہے قدرت میں ہے، آدمی اسے درگزر کرتا ہے اس کے نزدیک ’’حاصل‘‘ کی قدر و قیمت کم ہو جاتی ہے اور وہ جو دور ہے، رسا سے باہر ہے اسے مسخر کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ بیدی کے لفظوں میں۔

’’جب اس (ملم) کی بیوی دلہن بن کر آئی تو ملم اس کی جوانی اور خوبصورتی کی بے طرح پاسبانی کرنے لگا۔ وہ اسے دروازے میں بھی کھڑی دیکھتا تو پیٹنے لگتا۔ یہ شک و شبہ کی عادت ابھی تک باقی تھی۔ اس وقت کہ گوری کا جسم توانا اور بھرا ہوا تھا۔ وہ اسے کہتا رہا مجھے ایک پتلی نازک عورت پسند ہے اور جب وہ دُبلی ہو گئی تو کہنے لگا مجھے تم سی مریل عورتوں سے سخت نفرت ہے۔‘‘

اور یہی مریل سی عورت جب اپنے میکے چلی جاتی ہے تو ملم کے لیے اس کی مفارقت سوہان جان بن جاتی ہے۔ کبھی اسے گوری کا کوئی دکھ بھرا گیت یاد آتا ہے اور اس کے دکھ کو شدید کر جاتا ہے۔ کبھی وہ کھونٹی پر لٹکے ہوئے اس چٹلے کو اتار کر بڑی بے اختیاری کے ساتھ پیار کرتا ہے جسے گوری اپنے ساتھ لے جانا بھول گئی تھی۔ کبھی گوری کے دوپٹے کو اپنی چھاتی سے بھینچنے لگتا ہے۔ کبھی اسے آنکھوں سے لگاتا اور زار و قطار رونے لگتا ہے۔

’’رات کے نو ساڑھے نو بجے کا وقت تھا، میں اور یٰسین چھجے پر کھڑے ملم کو دیکھ رہے تھے۔ مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں ملم نے ہمارے دیکھتے دیکھتے سب کپڑے اتار دیے اور ننگا کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے کہیں سے اپنی بیوی کی سرخ صدری بر آمد کی اور اس چار پائی پر جس کے نیچے شراب کی خالی بوتلیں اور ڈھکنے پڑے رہتے تھے۔ وہ اکیلی صدری پہن کر سو گیا۔‘‘

یہی وہ مقام ہے جہاں بیدی کے کرداروں کے سارے عیب درگزر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ملم کی پیچیدہ سائیکی خود ملم کے لیے ناقابل ادراک ہے۔ اس کا ایک عمل جہاں نفرین کے قابل ہے وہاں دوسرا اس کے لیے ہمدردی پیدا کر دیتا ہے۔ ہمیں اس کے عیب بھی بھلے معلوم ہونے لگتے ہیں، اس کی خطائیں عزیز، ان کا کوئی فیٹل فلا،اس کی بدبختی کا سارا عمل خود کار سا معلوم ہوتا ہے۔ جس کے پیچھے نہ تو کسی بدنیتی کا دخل ہوتا ہے۔ نہ کوئی فوری منفعت کے حصول کا سرکش جذبہ کام کرتا ہے۔ وہ طبعاً معصوم ہوتے ہیں اور اپنی خطاؤں کے باوجود ہمیں ان کی رفاقت ایک تجسس آگیں آسودگی بہم پہنچاتی ہے۔ وہ نامانوس علاحدگی جو ملم اور گوری کے درمیان جگہ بنا لیتی ہے اور جو خود ملم کے اندر بھی موجود ہے جو اسے اپنی اصل فطرت کے تعارف سے باز رکھتی ہے۔ قاری کے لیے ذہنی کرب کا سبب بنی رہتی ہے۔ ایک لمبے ہجر کی واردات ملم کو گوری کے نزدیک تر کر دیتی ہے اور وہ اس کی شدید ضرورت محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسے کھونے سے پانے کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ مگر اپنی طبیعت کے اس بنیادی نفاق کو وہ سمجھ نہیں پاتا جس کے باعث وہ دولخت ہو گیا ہے۔ اسی نامانوس علاحدگی سے نا آگہی بالآخر گوری کی واپسی پر اسے پہلے کے سخت و سرکش حصے سے دوبارہ جوڑ دیتی ہے کہ افسانہ پھر اپنی ابتدا کی راہ لیتا ہے۔ ۔

’’گھر میں بازار میں‘‘ میں نامانوس علاحدگی بڑے ستم ظریفانہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ ایک نو بیاہتا جوڑے کی کہانی ہے۔ درشی خود کو ایک اچھی بیوی ثابت کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے شوہر رتن کو معاشی سطح پر پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ اسی لیے کچھ عرصے تک اپنی خواہشات کو دبائے رکھتی ہے اور رتن کی خوشنودی کے لیے جی جان سے لگی رہتی ہے۔ آہستہ آہستہ ورشی یہ محسوس کرنے لگتی ہے کہ رتن کو کسی بات کی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔ دفتری کاموں سے اسے اتنی فرصت نہیں کہ وہ ورشی کے ساتھ بازار جا کر برساتی کوٹ یا جھومر خرید سکے۔ جب رتن خود ہی جھومر خرید کر لے آتا ہے تو اسے ناگوار گزرتا ہے۔ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ

’’مرد کبھی بھی عورت کی فرمائش پر زیور خرید نا پسند نہیں کرتے بلکہ ان کو اپنے لیے سجانے کو خریدتے ہیں۔‘‘

یہ وہی درشی ہے جو ایک معمولی قسم کے جھومر خریدنے کی آرزو مند ہے اور جس کے لیے وہ خود رتن سے پیسے مانگنا نہیں چاہتی بلکہ رتن سے یہ توقع کرتی ہے کہ وہ خود ورشی کے ہاتھوں میں پیسے رکھ کر اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے۔ مگر جب رتن ایک دفعہ اپنی تمام نقدی نکال کر درشی کے قدموں میں ڈال دیتا ہے تو درشی اسے اپنے لیے سب سے بڑی گالی سمجھتی ہے جیسے اسے کسی نے بیسوا کہہ دیا ہو۔

دو ایک سال بیت جانے پر بھی رتن اور درشی کے مابین علاحدہ کرنے والی باریک سی لکیر جوں کی توں قائم رہتی ہے۔ رتن یہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ درشی کا اصل نفسیاتی مسئلہ کیا ہے۔ اس کے اندر کون سی گرہ ہے جو آہستہ آہستہ اس کی پوری سائیکی پر محیط ہو چکی ہے اور بالآخر درشی اپنے تناؤ سے رتن کے سامنے یہ کہہ کر چھٹکارا پا لیتی ہے کہ وہ بیسوا (جس کا ذکر رتن نے بڑی حقارت کے ساتھ درشی سے کیا تھا) کسی گرہستن سے کیا بری ہے؟

’’رتن لال کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ مشکوک نگاہوں سے اس نے درشی کے چہرے کا مطالعہ کرتے ہوئے کہا:

تو تمھارا مطلب ہے۔ ۔ ۔ اُس جگہ اور اس جگہ میں کوئی فرق نہیں؟ درشی نے اسی طرح بپھرے ہوئے کہا۔ ’فرق کیوں نہیں۔ ۔ ۔ یہاں بازار کی نسبت شور کم ہوتا ہے۔‘‘

اس موڑ کے بعد وہ سارا تناؤ جو درشی کا تھا رتن کی تقدیر بن جاتا ہے۔ اور ایسا ہونا ایک فطری امر ہے۔ کیوں کہ رتن اور درشی کے مابین جو نا مانوس علاحدگی آہستہ آہستہ جگہ بناتی چلی جاتی ہے۔ اس کی گنجائش دونوں ہی فراہم کرتے ہیں۔ دونوں ہی اپنے درمیانی تفاوت کے ذمہ دار ہیں۔ درشی کی سوچ یک طرفہ ہے اور وہ ایک جھوٹے بھرم کے ساتھ اپنے طور پر اپنے اندر زندگی جینے کے درپے ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ کسی بھی ذاتِ دگر کے ساتھ اپنے نج کی رفاقت ایک خاص حد کی رفاقت ہوتی ہے۔ وہ نہ تو مکمل سپردگی ہوتی ہے اور نہ مکمل سپردگی ممکن ہے۔ درشی کا مکمل سپردگی کا بھرم بالآخر آہستہ آہستہ درہم برہم ہونے لگتا ہے اور وہ اپنے کرب میں قطعی تنہا نظر آنے لگتی ہے۔ وہ طبعاً معصوم اور صابر ہے۔ لیکن وہ جو اس کا اپنا کلچر ہے۔ اس کے مطابق وہ اپنے شوہر سے بھی متوقع ہے کہ رتن وہ کردار ادا کرے جو اس کے ذہن میں مجرد تصور کے طور پر تہہ نشین ہے۔ جب کہ رتن کا مسئلہ بڑی حد تک معاشی ہے۔ وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے سامنے حقیقت بیانی سے کام نہیں لیتا۔ اپنے اصل مسئلے سے درشی کو آگاہ نہیں کرتا۔ وہ یقیناً ایک فرض شناس شوہر ہے لیکن اس کی آمدنی اتنی قلیل ہے کہ وہ اپنے گھر کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتا۔ درشی رتن کی حدود کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنے کو بیسوا سمجھنے لگتی ہے حتی کہ جھومر کو بھی و ہ مرد کی ضرورت کا نام دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو دونوں غلط فہمی کے شکار ہیں۔ دونوں کا flaw __یہ ہے کہ وہ مستقل ایک ایلوژن میں جی رہے ہیں۔ حقیقت کے ادراک سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ دو ٹوک اور واضح انداز سے ایک دوسرے میں شریک ہو کر جینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اشیا ان کے رشتوں کے تقدس کو مسخ کرتی ہیں۔ ان کی معصومیتوں کے درمیان ایک بڑی طاقت بن جاتی ہیں۔ دونوں کی علاحدہ علاحدہ انفرادیتیں ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی تفہیم سے باز رکھتی ہیں۔ نتیجتہً ایک معمولی سا ایک بے نام سا جذباتی کومپلیکس آخر آخر میں ایک تنا ور مسئلے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور انھیں آپس میں جوڑنے والی کڑیاں بکھر جاتی ہیں۔ بیدی نے کہانی کا اختتام ایک ایسے موڑ پر کیا ہے جو اختتامیہ بھی نہیں ہے بلکہ افسانے کا آغاز ہی ہے، ایک ایسا مقام جہاں ساری وضاحتیں بے معنی اور سارے جواز غیر متعلق معلوم ہوتے ہیں۔ وہ سلاست جو درشی میں ہے اور وہ سادگی جو رتن میں ہے۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے دونوں کی دنیا دارانہ فہم نا پختہ ہے اور یہی ناپختگی ان کے مابین ایک بے نام سی علاحدگی کی لکیر کھینچ دیتی ہے۔

’’جب میں چھوٹا تھا‘‘ میں ضمیر متکلم (نندی) کی داخلی حقیقی فطرت پر استاد نے بڑی چالاکی سے ایک مہذّب ملّمع چڑھا دیا تھا اور یہ ملّمع غیر محسوس طور پر نندی پر اس قدر محیط ہو جاتا ہے کہ اسے قائم رکھنے کے لیے وہ اپنی حقیقی آزادی کو بھی قربان کر دیتا ہے۔ بلکہ وہ اپنی فہم اپنی سوچ اپنی فکر سے کام نہیں لیتا یہی وجہ ہے کہ اس کی غیر مشروط حوالگی اس کے لیے تشنج کا سبب بن جاتی ہے اور ایک روز وہ کروندوں اور سنگاڑوں کے لیے پیسے چرا کر اپنے نشان کو حقارت کے ساتھ پھاڑ دیتا ہے۔

’’اب قرنطین سے باہر وہ سبز خاموش سپاہی مجھے دیکھ کر مسکرائے تھے میری جرات کی داد دیتے تھے میرا دل بے پایاں آسمان کی طرح کھل رہا تھا۔‘‘

اگرچہ ’’جب میں چھوٹا تھا‘‘ کے پراٹا گونسٹ کا پہلی بار اس چوری کے بعد اپنے آپ سے تعارف ہوتا ہے۔ اسے اپنے آپ کا سراغ بھی یہیں سے ملتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ آزادی کے کیا معنی ہیں۔ لکڑی کے بڑے بڑے لٹھوں کو پانی میں دھکیل دینے اور پھر ان پر منہ کے بل لیٹ کر ہاتھ اور پاؤں کو چپو کی طرح چلانے میں جو طمانیت ملتی ہے وہ اس سزا سے کم ہے جو ایسا کرنے پر بالمکند یا کسی اور بچے کو دی جاتی ہے۔ شانتی اور سوماں کا مٹی میں کھیلنا پھر اسے تعجب خیز نہیں گزرتا۔ یہ خود یافتگی، حقیقت کی ایک نئی سطح کا سراغ، اس کہانی کو انی سیشن کہانیوں کے ذیل میں لے آتا ہے۔ لیکن انی سیشن یہاں مکمل نہیں ہوتا۔ مکمل اس وقت ہوتا ہے جب نندی کو یہ علم ہوتا ہے کہ بابا نے بھی بچپن میں کبھی چوری کی تھی اور انھوں نے اپنی ماں کے سامنے اس کا آج تک اعتراف نہیں کیا ہے۔ دراصل نندی کے ضمیر کی تربیت استاد اور فرسودہ اخلاقی اقدار کے مارے ہوئے معاشرے کے حق میں ہے لیکن اس ذات کے لیے نقصان کا سودا جو ابھی خود پر منکشف ہوئی ہے نہ جس کی شخصیت نے آزادانہ طور پر اپنا سراغ ہی لگایا ہے۔ نندی کا باپ جو کم و بیش ایسے ہی تجربات سے گزر چکا ہے۔ نندی کے حقیقی تناؤ کو سمجھ لیتا ہے اور وہ نا مانوس علاحدگی جسے نندی کوئی نام نہیں دے سکا تھا۔ اس کا عرفان پہلے مرحلے میں خود اس کے چوری کے عمل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنے اندر ایک ربط محسوس کرتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں نندی کا باپ اپنے جھوٹ کو اس پر ظاہر کر کے اسے ضمیر کے ناقابل برداشت تناؤ سے نجات دلاتا ہے کیونکہ وہ ایک معلوم فہم بھی رکھتا ہے مگر ’’تلا دان‘‘ میں بابو کے والدین کی رسائی اس فہم تک ممکن نہیں تھی کہ وہ جس طبقے سے متعلق ہیں اس میں ایک محکومانہ جبلّت بھی بڑا طاقتور کردار ادا کرتی ہے اور جو گو یا انہیں اپنی وراثت میں ملتی ہے۔ اسی وجہ سے بابو کے والدین بروقت بابو کے کرب کا ازالہ نہیں کر پاتے اور بڑی بے چینی کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے اس کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ نندی کا باپ نندی کو بچا لیتا ہے مگر بابو کا باپ بابو کو بچانے میں ناکام ثابت ہو تا ہے۔

’’دوسرا کنارہ‘‘ میں سندر اور اس کے بھائیوں کے اصل کرب کو ان کا باپ نہیں سمجھ پاتا نہ ہی زینو کے اصل نفسیاتی مسئلے کو ’’زین العابدین‘‘ کے افسانے کے ’’میں‘‘ نے سمجھا۔ ان سب کے درمیان بھی ایک نامانوس علاحدگی کا م کر تی رہتی ہے ان میں مشترک نسب نما کی کمی ہے۔ اپنی زندگی جینے کے انداز کو دوسرے پر عائد کرنے کی ضد ہے۔ ان کی رفاقتیں مشترک قدر سے عاری ہونے کے باعث عارضی اور جھوٹی معلوم ہو تی ہیں۔ رفاقتیں دیر اور دور تک اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہیں اور رہتی ہیں جب تک ان میں معروضی تطبیق کی گنجائش موجود ہے ’’معاون اور میں‘‘  کا وہ لڑکا جس کے بارے میں بیدی نے لکھا ہے :

’’بہت کچھ استفسار کے بعد مجھے یہ پتہ چلا کہ میرے مقابل کھڑا ہوا لڑکا ایک خود دار انسان ہے۔ کسی ناجائز بات کو نہیں مانتا اس لئے دو تین جگہ جہاں بھی اس نے کام کیا اپنی خود داری کو ٹھیس لگنے سے چھوڑ دیا۔ اب وہ عرصے سے بیکار تھا۔‘‘

یہی لڑکا (پتمبر لال ) جو کہ جبلّی طور پر آزادانہ فطرت لے کر آیا ہے اور جس کی خاموشی یہ ظاہر کر تی ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی اخلاقیات سے سخت نالاں ہے۔ اس کی غصہ وری کا سبب قطعاً نفسیاتی نہیں ہے بلکہ وہ استحصالی قوتیں ہیں جنہوں نے مجبور نوجوانوں سے ان کی محنت ہی خرید نہیں کی ہے بلکہ ان کے ذہن، ان کی فکر اور ان کی آزاد روش کو بھی محکوم بنا لیا ہے۔ پتمبر لال کی شب و روز کی خدمات کا جواب مدیر کے یہ مکر آمیز الفاظ ہیں کہ

’’ایک معاون رکھ کر میں نے اپنے رسالے پر جو کہ عمر کی اوّلین منازل طے کر رہا ہے۔ ایک ناقابلِ برداشت بوجھ ڈال دیا ہے۔‘‘

پتمبر لال ان نوجوانوں میں سے ہے جن کا نصیب محنت ہے اور جو اپنی سخت کوشی اور انتھک خدمات کو ایک ایسی ڈھال بنائے رکھتے ہیں جن سے ان کی انا کا تحفظ قائم رہ سکے۔ کم از کم وہ اپنے اندر اپنے طور پر اوقات بسر کر سکیں۔ لیکن پتمبر لال کو اپنی مسلسل خدمات کا جواب چیلنج کی صورت میں ملتا ہے۔ آخر آخر میں جب وہ بالکل ٹوٹنے لگتا ہے تو پھر اپنی ٹوٹن کے لئے کوئی مرہم تلاش نہیں کرتا۔ بلکہ ضمیر کی طمانیت سے سرشار ہو کر مدیر سے آن کی آن میں قطع تعلق کر لیتا ہے ’’معاون اور میں‘‘ کے مابین بہر حال ایک کارو باری رشتہ تھا مگر ’’زین العابدین‘‘ کے میں اور زینو میں کوئی کارو باری اشتراک نہیں تھا۔ ان کی رفاقت میں ایک نفسیاتی ربط ہے۔ زینو خود ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جس کی تفہیم افسانے کے ’’میں‘‘ کے نزدیک بہت مشکل ہے زینو کی سائیکی جیسی جو کچھ بھی ہے۔ اس کے بچپن کے حالات کی زائیدہ و پروردہ ہے۔ زینو کے کردار میں الجھاؤ بھی ہے ٹیڑھ بھی۔ وہ خود اپنی معمولی سے معمولی حرکات کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ اکثر مقامات پر اس کے عیب محترم اور اس کی خطائیں معصوم نظر آتی ہیں۔ ہمیں وہ اس کی پوری totality میں عزیز ہے۔ افسانے کے ’’میں‘‘ کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ زینو اپنی کمزوریوں ،اپنی تمام غلط کاریوں کے باوجود آہستہ آہستہ اس کے جسم کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ زینو اس کی عادت ہے ،اس کا سوال ہے ، اس کا موضوع ہے۔ معاون بھی افسانے کے ’’میں‘‘ کی ایک عادت ہی نہیں بن چکا تھا۔ بلکہ اس کا استاد،اس کا ہدایت کا ر تھا۔ دونوں اپنی عادت سے مجبور ہیں لیکن انا کی ان پُر فریب حدود سے تجاوز نہیں کر پاتے جنھوں نے ان کے درمیان لمبی لمبی فصیلیں کھینچ دی ہیں۔ زینو کے چلے جانے کے بعد افسانے کے ’’میں‘‘ پریہ راز وا ہو تا ہے۔

’’جب ہم اپنے اردگرد غور سے دیکھتے ہیں تو محسوس کر تے ہیں ،نہ کوئی کسی کا باپ نہ بیٹا ، بہنوئی ہے نہ سالا،ماموں ہے نہ بھانجا گویا سب رشتے ناطے ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘

’’معاون اور میں‘‘ کے ’’میں‘‘ اور ’’زین العابدین‘‘ کے ’’میں‘‘ کو جہاں اپنی انا سے پرے ہونا تھا نہ ہوئے نتیجۃً انہیں ایک بہت بڑے جذباتی صدمے سے دوچار ہونا پڑتا ہے ’’۔ معاون اور میں‘‘ میں بہ ظاہر ’’میں‘‘ کا کاروباری خمیازہ ایک حد تک اہمیت ض۔ رور رکھتا ہے لیکن یہی کل حقیقت نہیں ہے۔ اصلاً معاون کی رفاقت ، اس کا احساسِ ذات، اس کی خودی مدیر کا مکتب تھا۔ معاون کی علاحدگی پر یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ مدیر کے لئے کس قدر نا گزیر تھا۔ اگر مدیر کاروباری منفعت کو ذہن میں رکھتا تو ’’بے کار خدا‘‘ کے مراری کی طرح دنیا داری کا ثبوت دے سکتا تھا۔ مراری نے نتھو کو اپنی تمام غلط کاریوں ، بد معاشیوں  اور عیوب کے ساتھ قبول کر لیا تھا لیکن مدیر اور زین العابدین کا مسئلہ خود ان کی تربیت یافتہ ذات بھی تھی۔ اور اس ذات کے اپنے مطالبے بھی تھے۔ یہی مطالبے ایک کمزور لمحے میں ان پر اتنے محیط ہو جاتے ہیں کہ ان سے چشم پوشی برتنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ اس قسم کی علاحدگیاں بھی قطعاً نا مانوس ہیں کہ کردار ایک خاص فہم رکھنے کے باوجود اپنے اعمال میں مجبورِ محض ہیں۔ انہیں کوئی عزیز تھا تو کیوں تھا ؟ اور پھر یکا یک دوسرے سے علاحدگی کے کیا معنی ہیں ؟ اور پھر یہ کہ ہر رفاقت ایک دو طرفہ عمل ہے۔ ایک رفیق کا فوری لمحاتی عمل ، دوسرے کے لئے قطعی اور حتمی کیسے بن جاتا ہے ؟ کیا ایسے آزمائشی لمحوں میں دوسرے پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟کیا واقعتاً رفاقتیں یک لخت ٹوٹ سکتی ہیں؟ ہر علاحدگی کی پشت پر ایک بہت بڑا شکایتوں سے بھرا پرا ماضی ہوتا ہے۔ ایک رفیق کے نزدیک جو ایک لمحے کا عمل ہے دوسرے کے نزدیک اس کا بہت بڑا ماضی ایک بہت بڑا پس منظر ہے۔ اور جو عمل ہے اصلاً وہ ردِّ عمل ہے۔ جتنا حیرت خیز ہے اتنا ہی منطقی اور متوقع بھی ہے۔ ان معنوں میں علاحدگیاں ہی اجنبی نہیں ہوتیں بلکہ رفاقتیں بھی بڑی نامانوس اور بے نام سی ہوتی ہے۔ اس ذیل میں ’’لاجونتی‘‘ اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ اور ’’ٹرمینس سے پرے ‘‘اور ’’صرف ایک سگریٹ‘‘ جیسے افسانے غور طلب ہیں۔

’’لاجونتی ‘‘بھی ’’گرہن‘‘ کی ہولی اور ’’ہڈیاں اور پھول‘‘ کی گوری کی طرح اس typical ہندوستانی عورت کی مثال ہے جسے مرد کا تسلط عزیز ہے اور مرد کے بغیر جو اپنے وجود کو غیر محفوظ بلکہ بے معنیٰ خیال کرتی ہے مرد کی خدمت ،غلامی اور خوش نودی اس کے نجات کے ذرائع ہیں۔ بھوکوں مرنا شوہر کی لاتیں اور گھونسے کھانا تس پر رات میں بستر کی طرح بچھ جانا ، اپنی ہڈیوں کی دشمن، اپنی رسموں کی غلام ،وہی کبھی ہولی بن جاتی ہے ،تو کبھی گوری۔ لاجونتی کا سند ر لال اتنی فہم نہیں رکھتا کہ لاجو کے اصل دکھ کو جان سکے وہ لاجو کے اغوا سے قبل لاجو کی سپر دگی کو کوئی اعزاز دے سکا نہ اغوا کے بعد کی دیوی کے اس کرب کو سمجھ سکا کہ بھری بھری یہ آبادیاں اندر سے کتنی کچھ خالی ہیں ؟ اس کے آنسوؤں کے اندر کون سی آگ موجزن ہے ؟اس کی آہوں میں کیسی چیخیں پیوست ہیں ؟ وہ تو سندر لال ہی کی پرانی لاجو ہو جانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑ پڑتی اور مولی سے مان جاتی۔ لاجو کی باز یافت کے بعد سندر لال کا تکلف اس کے لئے قطعاً نامانوس تھا اور وہ جیسی کہ سندر لال کے لئے پرانی لاجو نہ رہی تھی۔ اسی طرح سندر لال بھی اب وہ سندر لال نہ رہا تھا۔ دونوں کی رفاقتوں کے مابین ایک نامانوس سی علاحدگی جگہ پا لیتی ہے اور اس علاحدگی کو دونوں کوئی نام نہیں دے پاتے۔

’’کون تھا وہ ؟‘‘

لاجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا۔ ’’جُمّاں‘‘۔ ۔ ۔ پھر وہ اپنی نگاہیں سندر لال کے چہرے پر جمائے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندر لال ایک عجیب سی نظروں سے لاجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا۔ لاجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کر لیں اور سندر لال نے پوچھا :

’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ ؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’مارتا تو نہیں تھا ؟‘‘

لاجونتی نے اپنا سر سندر لال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں‘‘ اور پھر بولی ’’وہ مارتا نہیں تھا ، پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔ تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی۔ ۔ ۔ اب تو نہ مارو گے ؟‘‘

سندر لال کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا۔ ’’نہیں دیوی ! اب نہیں۔ ۔ ۔ نہیں ماروں گا۔ ۔ ۔‘‘

’’دیوی!‘‘لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔

’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کی اندو بہ ظاہر ایک عام سی گھریلو عورت ہے۔ مدن بھی ایک عام سا کچھ کچاّ کچھ پکاّ آدمی ہے۔ اندو نے سارا اپنا آپ شوہر اور اس کے بہن بھائیوں اور بوڑھے باپ کے اوپر لٹا دیا تھا۔ اور اس لوٹ سے جو کچھ بچا تھا۔ مدن کے لئے وہ کم تر تھا کہ اسے ایک ایسی عورت مطلوب تھی جو پور پور سے اس کی ہو ،اس کے اوقات میں لمحہ لمحہ جیتی ہو۔ وہ جب چاہے شکن شکن بستر میں ڈھل جاۓ وہ جب چاہے ٹوٹے ،بنے ،بکھر جائے۔ وہ بدن نہیں جو مدن کے باپ کو اس کی دائم المریض، سوکھے ٹھونٹھ کی طرح ماں کی صورت میں ملا تھا۔ ایسا جسم جو ریشے ریشے سے بولتا ہو،پھوٹتا ہو سر تا پا پھڑکتا ہو۔ چاروں طرف زندگی کی قوتیں سی بکھیر دے ، صرف بچے ہی پیدا نہ کرے بلکہ بار بار مدن کو ایک نقطے میں سمیٹ کر اپنی کوکھ میں ا گائے۔ اور بار بار باہر نکالے تاوقتیکہ اس کی تکمیل نہ ہو جائے ،مدن کو ہریش چندر کی بیٹی نہیں ہنسنے لجانے اور آن کی آن میں بچھ جانے والی آدم کی بیٹی اندو درکار تھی۔ اور اندو اپنے شوہر کے دکھوں کو بانٹنے میں اتنی کھو گئی کہ اسے یہ بھی خیال نہیں رہا کہ اس کے پا س مدتوں کا ایک اور خزانہ بھی ہے اور جس پر مدن اور صرف مدن کا حق ہے۔ دکھوں کا ایک پہاڑ بھی ہو تو اس کے جسم سے مس ہو کر لخت لخت ہو جائے۔ اسے اپنے اس جادو کا عرفان ہوا بھی تو کب جب لمحے برسوں میں بدل گئے اور عمریں اپنے زوال کی راہ لینے لگیں۔

اندو بولی۔ ۔ ۔ ’’یاد ہے شادی کی رات ، میں نے تم سے کچھ مانگا تھا ؟‘‘

’’ہاں‘‘۔ ۔ ۔ مدن بولا۔ ۔ ۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو۔‘‘

’’تم نے تو کچھ نہیں مانگا مجھ سے۔‘‘

’’میں نے ؟‘‘ مدن نے حیران ہو تے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ’’میں کیا مانگتا ؟

میں تو جو کچھ مانگ سکتا تھا وہ سب تم نے دے دیا۔ میرے عزیزوں سے پیار،ان کی تعلیم ،بیاہ شادی۔ ۔ ۔ یہ پیارے پیارے بچے۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ تم نے دے دیا۔‘‘

’’میں بھی یہی سمجھتی تھی‘‘ اندو بولی۔ ۔ ۔ ’’لیکن اب جا کر پتہ چلا ،ایسا نہیں۔‘‘

’’کیا مطلب ؟‘‘

’’کچھ نہیں‘‘ پھر اندو نے رک کر کہا۔ ۔ ۔ ’’میں نے بھی ایک چیز رکھ لی۔‘‘

’’کیا چیز رکھ لی ؟‘‘

اندو کچھ دیر چپ رہی اور پھر اپنا منہ پرے کر تے ہوئے بولی۔ ’’اپنی لاج ، اپنی خوشی ،اس وقت تم بھی کہہ دیتے۔ اپنے سکھ مجھے دے دو۔ تومیں۔ ۔ ۔‘‘ اور اندو کا گلا رندھ گیا۔

اور کچھ دیر بعد وہ بولی۔ ۔ ۔ ’’اب تو میرے پاس کچھ نہیں رہا۔‘‘

اندو کو اسی بات کی خوشی تھی کہ اس نے اپنی لاج رکھ لی۔ یہ اس کا کلچر تھا۔ اس کی تربیت ،اس کا ایمان تھا۔ اس نے یہ مفروضہ قائم کر لیا تھا کہ مرد اور اس کے عزیزوں کی نگہداشت ، کنبہ پروری ،خدمت گزاری اور گھریلو الجھنوں سے اپنے خدا کو دور رکھنا ہی عورت کا دھرم ہے۔ اندو اَن پڑھ ہے لیکن بیدی نے اس میں بلا کی سوجھ بوجھ بھر دی ہے۔ جب وہ کسی ناگہانی واردات سے گزرتی ہے تو اس کا ایک ایک لفظ تاب کاریوں سے معمور ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ ایک معمولی سی گھریلو عورت کے بجائے ایک ایسی ذات میں بدل جاتی جو حّساس بھی ہے، آگاہ بھی اور جس نے محض اپنے شوہر کی خوشنودی کی خاطر اپنی ذات کے مطالبوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ پرے کر دیا ہے۔ شاید اسے یہ علم نہ تھا کہ یہ جو کچھ اس نے کیا  تھا یا وہ کر رہی تھی وہ اس کا اپنا کلچر تھا اور کلچر کے مطابق اس کا برتاؤ ا س کی مجبوری تھی۔ اس وسیلے سے وہ روحانی طمانیت پاتی ہے۔ سارے گھر بھر کی دادو تحسین وصول کرتی ہے۔ مگر وہ جس کے لئے اس نے اپنا آپ فنا کر دیا تھا اسے وہ پوری طرح سمجھ سکی نہ ا س کے وجود میں سرایت کر سکی۔ اس نے اپنے کرم سے دیوی کا درجہ ضرور پا لیا تھا اور وہ مدن کی نظروں میں واقعتاً پوجا کے لائق بھی تھی لیکن اندو کو کیا خبر تھی کہ اب اس کا مقام طاق تھا اور وہ بھی طاق نسیان جو مدن کے جسم کا حصہ بننے کے لئے آئی تھی مگر اس کے لئے اپنے شباب کے بہترین لمحوں کا بہترین استعمال محض خدمت تھا۔ وہ خدمت جس نے ایک روز اسے دیوی بنا دیا تھا۔ لاجونتی کی لاجو  کو دیوی بننے سے انکار تھا اور اندو نے اپنی ساری زندگی کی خوشیاں قربان کر کے دیوی کا لقب حاصل کیا تھا پھر بھی غیر عورتوں کے ساتھ مدن کی راہ و رسم اس کی نسائیت پر ایک الزام تھا۔ اس نے محسوس کر لیا کہ روح کی عظمت کو پا نے میں اس کا جسم کئی بر س پیچھے رہ گیا ہے اور کوئی بھی لمبی سی لمبی جست اس درمیانی فصل کو پاٹ نہیں سکتی۔

’’شادی کے پندرہ برس گزر جانے کے بعد اندو کو آج فرصت ملی تھی۔ اور وہ بھی اس وقت جبکہ چہرے پر جھائیاں ابھر آئی تھیں۔ ناک پر ایک سیاہ سی کاٹھی بن گئی تھی اور بلاؤز کے نیچے ،ننگے پیٹ کے پا س کمر پر چربی کی دو تین تہیں دکھائی دینے لگی تھیں۔ اس سے پہلے کہ مدن اندو کی طرف ہاتھ بڑھاتا ، اندو خود ہی مدن سے لپٹ گئی پھر مدن نے ہاتھ سے اندو کی ٹھوڑی اوپر اٹھائی اور دیکھنے لگا۔ اس نے کیا کھویا کیا پایا ہے ! اندو نے ایک نظر مدن کے سیاہ ہوتے ہوئے چہرے کی طرف پھینکی اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

’’یہ کیا ؟‘‘ مدن نے چونکتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ’’تمہاری آنکھیں سوجی ہوئی ہیں۔‘‘

’’یونہی‘‘ اندو نے کہا اور بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ ’’رات بھر جگایا ہے اس چڑیل میاّ نے۔‘‘

یہ ہے وہ اندو جو ساری رات اپنے خمیازے پر روتی رہی ہے لیکن مدن سے شکایت کا ایک لفظ نہیں کہتی۔ الٹے اپنے آپ پر کڑھتی ہے کہ اس نے مدن کے دکھ تو بانٹ لیے لیکن سکھ نہیں دے سکی۔ وہ مدن کے بوڑھے باپ دھنی رام کی اتنی سیوا کرتی ہے کہ دھنی رام کو اپنی بیوی کی کمی تک نہیں کھلتی۔ مدن کی بہن اور بھائی کو اپنے جی جان سے لگا کے رکھتی ہے کہ انہیں اپنی ماں کا دھیان تک نہیں آتا۔ پس اگر اسے یاد نہیں رہتا تو یہ کہ مدن اس کا شوہر ہے اور وہ مدن کی بیوی ہے۔ دونوں کی رفاقت بالآخر بے گانہ وار ثابت ہوتی ہے۔ انہیں خود اپنی علاحدگیوں اور نا وابستگیوں کا بعد میں جا کر احساس ہوتا ہے یہاں پہنچ کر شادی کا بندھن محض مشینی نوع کا احساس دلاتا ہے۔ رشتے کس طرح ایک مقام پر پہنچ کر غیر محسوس بن جاتے ہیں اور ان میں ایک میکنزم  سا در آتا ہے۔ اس میکنزم کو ’’ٹرمینس سے پرے‘‘ میں جب اچلا اور موہن جام توڑنا چاہتے ہیں تو ان کی رفاقتوں میں ایک تناؤ سا پیدا ہونے لگتا ہے۔ اخلاقیات کا دباؤ بالآخر انہیں مراجعت پر مجبور کر دیتا ہے۔ اچلا، موہن جام کی کمی رام گدکری (اچلا کا شوہر ) کے پیار سے پورا کرنے پر مجبور ہے اور موہن جام کے لئے آہ سر د بھرکر اچلا سے رخصت لینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔

’’صرف ایک سگریٹ‘‘ میں یہ باہمی رشتے بڑی عبرتناک صورتِ حال سے گزرتے ہیں۔ ایک بیوی اپنے شوہر کے لئے اجنبی ہے ، باپ اپنے بیٹے کے لئے عجوبہ، بیٹا، باپ کے نزدیک بے گانہ اور شادی شدہ بیٹی کیلئے اپنا باپ بے وقعت۔ معاً پریم چند کی کہانی ’’شکوہ شکایت‘‘ کا خیال آتا ہے۔ وہاں ایک بیوی کا واسوخت ہے اور یہاں ایک باپ کی اپنی اجنبیت کی دہائی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سارے رشتے ضرورتوں کے مدار پر گردش کرتے ہیں۔ جب تک آپ کسی کی کمی کو پورا کرتے ہیں نا گزیر ہیں۔ جب زائد ہونے لگتے ہیں تو غیر متعلق۔ ہمارے اپنے امکانات دوسروں کے لئے ہمیں عزیز بنا دیتے ہیں۔ امکانات سے عاری باپ، بیٹے کے لیے حشو ہے اور شوہر بیوی کے لیے۔ مگر ’’صرف ایک سگریٹ‘‘ کے سنت رام کا المیہ یہ ہے کہ ا س نے یہ مفروضہ قائم کر لیا ہے کہ اب وہ آہستہ آہستہ سارے گھر بھر کے لئے غیر ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ ا س کی وفاداری کا کوئی صلہ ہے نہ بے لوثی کا کوئی انعام۔ حتی کہ اپنے بیٹے کی ایک سگریٹ پی لینا اس کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ وہ اپنے خیالات کے دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور یہ کامپلیکس اس قدر فروغ پاتا ہے کہ اس کی سوچ محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ بس ایک ہی تکرار کہ وہ سارے اپنوں کے لیے غیر ضروری اور زائد ہو گیا ہے۔ جب کہ اس کے بیٹے کے اندر اپنے باپ کے لیے کوئی ایسا جذبہ نہیں جس سے اس کی تکریم پر کوئی حرف آتا ہو۔ اس کے اپنے مسئلے ،اپنے غم ہیں۔ اس کا اپنا ایک نج ہے ، ذات کا ایک دائرہ ہے جس کے اپنے صرف و حاصل، نفع و نقصان ہیں۔ اس کی خاموشی کے اپنے اسباب ہیں اس کی بے توجہی کی اپنی وجوہ ہیں۔ سنت رام کے دل میں چور تھا، جس نے اسے حقیقت کی فہم سے دور کر دیا تھا۔ بیٹا اپنے باپ کی رفاقت کے تناؤ کو سمجھ نہیں پاتا۔ بلکہ باپ میں شکوک پیدا کرنے کی گنجائش بھی خود فراہم کرتا ہے۔ جب کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے انتہائی محترم ،انتہائی معزز، انتہائی محبی ہیں۔

بیدی نے جہاں کہیں رشتوں کی بے حرمتی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ وہاں افسانہ نے پیچیدہ راہ اختیار کر لی ہے۔ وہ پھر اتنا سلیس اور سادہ نہیں رہ جاتا اور اندر ہی اندر الجھتا اور الجھاتا چلا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ’’دیوالہ‘‘ ’’باری کا بخار‘‘ ’’کش مکش‘‘ ’’ایک عورت‘‘ ’’غلامی‘ ‘’’لاروے‘‘ اور ’’ایک باپ بکاؤ ہے‘‘ جیسے افسانے خصوصی طور پر مطالعے کے لائق ہیں۔

 

 

 

 

ستیار تھی کی یادوں سے ایک مکالمہ

 

یہ بات ۷۷۔ ۱۹۷۶ء کی ہے۔ سرما کی شدّت میں کمی آ گئی تھی۔ موہن سنگھ پیلیس کے کافی ہاؤس میں چاروں طرف کی بند کھڑکیاں اب تازہ ہواؤں کے لئے کھلنے لگی تھیں۔ زیادہ تر ادیب اور فن کار ٹیرس میں بیٹھنے لگے تھے۔ اِدھر جرنلسٹوں کی ہاؤ ہو، ادھر شاعروں ، کویوں اور مصوّروں کے درمیان محبت و نفرت آمیز جھڑپیں۔ کافی پر کافی ،سگریٹ پر سگریٹ، شکایتیں ، بحثیں، رودادیں ،تنازعے ،مجادلے، مناظرے ، سیاست ، شاعری، جدیدیت، ترقی پسندی ،نیا،پرانا،کہاں کیا چھپا ہے ،کس نے کس کے لئے کیا کہا ہے۔ کون کس خیمے میں ہے ، کس لابی کا بول بالا ہے۔ اور اس گہماگہمی میں سگریٹ کے دھوئیں کو چیرتی ہوئی دور کونے میں ایک ڈاڑھی ہوا سے پینگیں بڑھاتی ہوئی لہلہا رہی تھی۔ جسے دیکھ  کر معاً رابندر ناتھ ٹیگور کی ڈاڑھی یاد  آ گئی۔ جو شخصیت کا ایک ناگزیر حصہ بن کر رہ گئی تھی۔ چہرہ کیا تھا ، صرف ڈاڑھی تھی۔ میں نے بانی سے پوچھا کیا وہی دیوندر ستیار تھی ہیں۔

’’ہاں ابھی ابھی پنجاب سے آئے ہیں۔ کل دوستوں نے انہیں بہت تنگ کیا ، اسی لئے خاموش بیٹھے ہیں۔ چلو گرو دیو سے کچھ چہلیں ہو جائیں۔‘‘

بانی مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ مطالعے کے جو یا ، بے نیاز، مرنجاں مرنج مگر چھیڑ چھاڑ سے باز نہیں آتے تھے۔ کنور سین ان کے داہنے ہاتھ تھے بلکہ ایک تازیانہ ،جس طرف باگ موڑ دی مڑ گئے۔

’گرو دیو نمستے ‘کیوں بھائی کیا ہم سے بھی ناراض ہو۔ یہ عتیق ہے ،عتیق جانتے ہو نا  اسے ،ابھی پچھلے سال ہی دلّی آیا ہے۔

ہا ں۔ ہاں جانتا ہوں بلراج ورما نے ذکر کیا تھا۔ یہ دونوں ’’تناظر‘‘ نکالنے والے ہیں۔ اور کہو کیسے ہو؟

دیوندر ستیار تھی سے دو گھنٹے گفتگو ہو تی رہی۔ بالکل ان کے افسانوں کی زبان میں، یہ نئے دیوتا یا ہرے رنگ کی چڑیا والے ہی ستیارتھی تھے۔ مگر اب اس ستیارتھی نے اپنے اندر بڑی گہرائی میں اپنی جگہ بنا لی ہے اور مستقل اپنی جڑوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لاہور ان کی سب سے بڑی کمزوری بن چکا تھا۔ ان کے وہ دشمن بھی انہیں بے حد عزیز تھے جن سے ماضی میں انہیں بڑی شکایت تھی ، بلکہ اکثر ان کی زبان پر انہیں ناموں کا ورد زیادہ رہا کرتا تھا جنہیں ہم آج کے محاورے میں بڑی آسانی سے دشمن کہہ سکتے ہیں۔

’بانی! یہ تم نے کیا کہا ‘میں کیوں کسی سے ناراض ہو نے لگا۔ انسانیت دکھی ہے۔ تم بھی بہت دکھی ہو، میرے یار‘ میں جانتا ہوں۔ میں تو اپنے آپ سے بھی خفا نہیں ہوتا‘۔

’کیوں نہیں ہوتا ‘ کیا منٹو سے بھی نہیں‘۔ میں نے بیچ ہی میں ستیار تھی کی بات کاٹ دی۔ ’ منٹو نے ’ ترقی پسند‘ لکھی اور یہ ترقی پسند آپ ہی تھے جس پر منٹو نے بڑے تیکھے وار کئے تھے اور پھر آپ نے نئے دیوتا جیسی کہانی لکھی جو منٹو پر تھی‘۔

’عتیق ! میں نے بھی کوئی گہرا اثر نہیں لیا تھا۔ اور مجھے امید ہے کہ منٹو پر بھی اس کا زیادہ اثر نہیں ہو تا اگر ہمارے درمیان کچھ ہمارے احباب اسے ہوا نہیں دیتے‘۔

’تو کیا آپ خفا نہیں ہوئے ؟‘

’ار ے دوست خفا ہونے کا ایک الگ مزہ ہے۔ پیار ،محبت اور دوستی ،اس سے پکی ہو تی ہے۔ میں سچ بتاؤں جھوٹ مو ٹ ہی منہ بنا لیا کر تا تھا۔ ورنہ منٹو اس کے بعد بھی مجھے بہت عزیز تھا۔ میں ناراض نہیں تھا ہاں پیار بھری خفگی ضرور تھی ،جوانی کا زمانہ تھا۔ آج کا ستیارتھی تو تھا نہیں۔ شاید اسی لئے نئے دیوتا بھی لکھ پایا ‘۔

’’سنا ہے آپ نے منٹو کی بڑی منت سماجت کی تھی تاکہ اس کی خفگی ناراضگی دور ہو جائے۔‘‘

’دوستی بنتے بنتے بنتی ہے۔ اسے بگڑنے میں دیر نہیں لگتی۔ منٹو کتنا ہی بڑا فنکار کیوں نہ ہو۔ کہیں کہیں بہت چھوٹا ہو جاتا تھا۔ معاف بہت مشکل سے کرتا تھا۔ اس کے اپنے complexesتھے۔ کسی کی بڑائی یا خود کی ہنسائی اسے بالکل گوارہ نہیں تھی۔ پھر بھی منٹو بہت پیار ا تھا۔ سر تا پا ایک جینون فن کار، کیا میر کیا میرا جی  اور کیا منٹو‘۔

’اور کیا دیوندر ستیارتھی‘۔ بانی نے لقمہ دیا۔

’ہاں اور کیا؟ میں ،ہم سب فطری انسان ہیں‘۔

دیوندر ستیارتھی فطری انسان کتنے ہیں۔ اس کے بارے میں تو مجھ سے زیادہ ان کے احباب ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ فطر تnature ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔

ایک شام میں نے ان سے دریافت کیا ‘ گرو دیو! پہلے تو آپ کی کہانیوں میں قطعی پلاٹ ہو ا کرتا تھا، آپ اس کی بنت پر بھی بہت محنت کیا کرتے تھے۔ کم از کم آپ کی انّ دیوتا، ستلج پھر بپھرا ،لا وارث ، جشن ، پرانے ہل ، دو راہا اور نئے دیوتا جیسی کہانیوں سے یہی تاثر ابھرتا تھا۔ مگر اب آپ کی کہانیوں میں پلاٹ دھندلا گیا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ آپ کی کہانی میں آپ کے سوانح اور فطرت کی رنگا رنگی کا عنصر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے ‘۔

’دوست ! جوں جوں میں بوڑھا ہو تا جا رہا ہوں ،ماضی کے کھٹے میٹھے دن پانو کی زنجیر سے بنتے جار ہے ہیں۔ وہ ساری وارداتیں میرے خوابوں سے اتر کر میرے پنوں پر بکھرتی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی تو اپنے ماضی کو اور ماضی کیا وہی لاہور سے امرتسر تک کے ہزاروں ہزار میلوں کے فاصلے کو یاد کر کے مجھے رونا آ جاتا ہے۔

’پتہ ہے پچھلے دو ہفتوں سے مجھے نیند نہیں آئی۔ میں نے ایک کہانی شروع کر رکھی ہے۔ ’پل کنجری ‘لکھنے بیٹھا تو سمجھ رہا تھا چار پانچ صفحوں میں پوری ہو جائے گی۔ مگر یہ بڑھتی جار ہی ہے اور میں اس کے اندر اور اندر اترتا جا رہا ہوں‘۔

’’گھر کی طرح کہانی کا بھی پچھواڑا ہوتا ہے۔ اچھا متی کی لہریں ہماری بھول پر آج تک رو رہی ہیں۔

کاش دست گیر کی باتوں میں آنے کی بجائے شہر یا رکے دماغ پر درویش کی چھاپ رہتی۔

ناٹک تو ہوتا ہی رہے گا۔ ہم کہیں تو گہرائی میں ڈبکی لگائیں۔

رتن کٹوری گھی جلے ،چولھے جلے کسار

گھونگھٹ میں گوری جلے، جا کے مورکھ بھرتا ر

نتھ کا موتی کہاں گرا؟ گوری اداس ہو گئی۔ کون کہے رانی آگا ڈھانپ۔ تم گاؤ گے اور ہم سنیں گے راگ دیش۔ اب کے ساون گھر آ جا۔ ۔ ۔ من کی تلیا سوکھی پڑی ہے ایک بوند برسا جا۔

صبح کی چائے سب کو جگائے۔ ۔ ۔ جاگو ! جاگو! جاگو!

رات کا پیالہ سب کو سلائے سو جاؤ سپنوں کی دنیا میں کھو جاؤ۔

پیلا موسم ،ہریالا سپنا،  کالا ناگ ،سب ساتھ، آس پاس، گھاٹ پڑا ملتا۔

کارواں کی وہی بات۔ آنکھ اوٹ ،پہاڑ اوٹ

کیا ہم اپنے آپ کو معاف کر دیں؟ کہاں لکھو گے شلا لیکھ؟کوئی پتھر نظر نہیں آتا۔

گونگے بہرے مہاوت کے آگے فائلوں کے ڈھیر پڑے رہے۔

علی امام مارا گیا۔ رفو کر تے کرتے کون جانے دنیا سے جاتے وقت وہ کس کس کی چادر کے گھاؤ بے سلے چھوڑ گیا۔

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ لاہور اور لاہور سے وابستہ کھٹی میٹھی یادوں کا ایک نا پیدا کنار سلسلہ ہے جو دیوندر ستیارتھی کو ہانٹ کر تا رہتا ہے۔ پہلے یہ لے قدرے دھیمی تھی ، اب کافی تیز ہو گئی ہے۔ انہوں نے بیس برس پہلے یہ بات کہی تھی کہ ان سے ماضی اور وہ بھی تقسیم وطن کے اردو گرد کا ماضی اور اس سے جڑی ہوئی بھلی بری زندگی بھلائے نہیں بھولتی۔ تقسیم وطن کی واردات کا زخم جب تب ہرا ہو جاتا ہے اور وہ کبھی اپنے ذہن کدے میں سرحد کے پار کے مو سموں کے جشن منانے لگتے ہیں۔ کبھی وہاں کے کھیتوں کھلیان میں دوڑ نے بھاگنے لگتے ہیں۔ کبھی ہوک اٹھتی ہے کبھی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جا تی ہے۔ کبھی قصیدہ کبھی مرثیہ۔ یہی رنگ ان کے تازہ افسانوں میں رچا بسا ہوا ہے۔ مگر اب میں دیکھ رہا ہوں کہ لفظوں سے ان کی گرفت ڈھیلی ہو تی جا رہی ہے۔ یادوں میں تناؤ تو ہے مگر بکھر اؤ زیادہ ہو گیا ہے۔ ایک ساتھ اتنی زیادہ یادوں کا دباؤ کہ جیسے ساغر چھلکنے لگے۔ پڑھنے والے کو کہیں انشائیہ کا لطف آتا ہے۔ کہیں سوانح کا کہیں یادداشت ناموں memoirsکا ،کہیں ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری رعایت تمام چیزوں کو بہ یک وقت باندھ دیتی ہے۔ حتیٰ کہ زمانے کا سلسلہ بھی بار بار ٹوٹ جاتا ہے ، مکان یا مقام بھی بہت دیر تک ایک صورت میں قائم نہیں رہتا۔ مگر لاہور بار بار عود کر آتا ہے۔

’’ہیلو لاہور،تیرے رنگ ہزار۔ میں کون؟مان کا دیو۔ دیو گندھار۔

جھک گیا آسمان۔ ہم قربان!کتھا سرکس عرف صدیوں پہ پھیلا فاصلہ سنت نگر وشنو گلی۔ گھوڑا اسپتال کہاں کا ؟

لاہور کا ،اور کہاں کا ؟

سپنے میں دیکھا ‘نیلا گنبد۔ دیوگندھار کا ایک نام۔ امریان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرپٹ میدان،گھوڑا ندارد۔ اس کے باوجود میں ہوں اپنی شکست کی آواز !

۔ ۔ ۔ نگری نگری پھرا مسافر ،گھر کا رستہ بھول گیا۔

میں ہوں خانہ بدوش‘۔ ۔ ۔ ۔ امرت یان کی کتاب۔ میاں بشیر احمد ایڈیٹر ’’ہمایوں‘‘ نے اس کتاب کا دیباچہ لکھنے کے لئے لاہور سے کراچی جا کر سمندر کے کنارے بیٹھ کر قلم کا سفر طے کرنا مناسب سمجھا۔ ہاں ہاں لاہور سے چھپی تھی یہ کتاب۔ آزادی سے سات برس پہلے اب کون سا الاپ شروع کیا جائے۔

میری تیری اس کی بات ،ایک اور سوغات امرت یان کی ایک کتاب گائے جا ہندوستان!

الخاموشی نیم رضا!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا!‘‘

دیوندر ستیارتھی کے لئے لاہور شہروں کا شہر ہے۔ جہاں گیر اور نور جہاں کا شہر۔ نورجہاں نے خود ایک خط میں شاہ جہاں کو یہ شعر لکھا تھا۔

لاہور را بہ جانِ برابر خریدہ ایم جاں دادہ ایم و جنتِ دیگر خریدہ ایم

مغلوں نے دہلی ، آگرہ اور لاہور میں سمر قند اور بخار ا بسائے تھے۔ ان شہروں کو انہوں نے اپنے ذہنوں میں آباد کر رکھا تھا۔ انہیں کا عکس ان کے منصوبوں میں دکھائی دیتا ہے۔ خواہ وہ دلکش باغ جیسی شکل میں ہو کہ تاج محل یا لال قلعہ کی شکل میں۔ ہر جگہ وہی نفاست ،ذوق جمال کی تسکین کا سامان ،تہذیبی خوش آہنگی کی جستجو۔

’’ارے بھئی یہ میں نہیں کہتا ‘ یہ دعویٰ تو لاہور والے ہی نہیں۔ ادھر سارے مشرقی پنجاب والے بھی کر تے آئے ہیں ‘‘ستیارتھی نے کہا کیا آپ لوگوں نے نہیں سنا ‘ نئیں ایسا شہر لاہور دیاں‘۔ (کوئی شہر لاہور کی برابری نہیں کر سکتا) اور ان کا یہ دعویٰ تو ہر زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ تقسیم کے بعد بھی کیا ادھر کیا ادھر۔ کسی کا بس ہو تو یہ محاورہ تقسیم کر دے ’’جیڑا لاہو ر نئیں دیکھا او جنمائی نئیں‘‘(جس نے شہر لاہور نہیں دیکھا گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ )

دیوندرستیارتھی کے لئے اس دھرتی کے عظیم تہذیبی ورثے ناقابل تقسیم ہیں۔ خواہ وہ ہڑپاّ اور موہن جو داڑو ہوں یا کھجوراہو، ایلورہ اجنتا ہو کہ اردو زبان یا کسی بھی علاقے کی لوک روایت اور اس کی رنگا رنگ وراثت یعنی ہماری شناخت۔ دیوندر ستیارتھی نے اپنی عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ لوک گیتوں کو جمع کر نے میں صرف کیا ہے۔ وہ بستی بستی گھومے ہیں۔ فطرت کے آغوش میں پلنے بڑھنے والے معصوم دیہاتیوں اور قبائلیوں کے ساتھ ان کے غموں اور خوشیوں میں شریک ہوئے ہیں۔ ایک بنجارے کی طرح ،بندہ عشقم و ازہر دو جہان آزادم کے مصداق ہزاروں کو س کے سفر طے کئے ہیں اور وہ جہان اندر جہان بھی دیکھے ہیں جو میر کے لفظوں میں ’ جہانِ دیگر‘ تھے۔ ستیار تھی نے ان عوامی نغمات میں جو آفاقیت چھپی ہوئی ہے، یعنی انسانی روح کہ آفاقیت اسے ڈھونڈ ھ نکالنے کی سعی کی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں لوک گیتوں کو پرو پرو کر بات کہی ہے اور اس تکنیک میں وہ اپنے سارے معاصرین سے مختلف ہیں۔ لاہور کی طرح یہ لوک ورثہ بھی ان کی یادداشت اور ان کے ضمیر کے تہ کدوں میں محفوظ ہو گیا ہے۔ ماضیِ قریب و بعید کی یادوں کے ساتھ لوک گیتوں میں مضمر خواب اور خواہشیں، ملنے اور بچھڑنے ،کے سکھ اور دکھ کے ننھے منے جذبے، انسانی بنیادی نیکی اور معصومیت کے احوال انہیں تہ کدوں میں گھل مل گئے ہیں۔ ایک یاد دوسری کی اور دوسری، تیسری کی محرّک اس طرح یکے بعد دیگر کئی یادیں بر انگیخت ہو جاتی ہیں۔ یہاں یاد ماضی عذاب ہی نہیں ہے بلکہ ایک خوش کن اور راحت آگیں تجربہ بھی ہے۔ اس توسط سے ستیارتھی وقت کو اپنے سارے پھیلاؤ کے باوجود اکائی میں دیکھتے ہیں۔ ا س طرح ان کے گزشتہ بیس پچیس برسوں میں لکھے ہوئے افسانوں میں مصوری کا وہ عمل اپنی حاوی صورت میں نظر آتا ہے جس کے ایک سے زیادہ نام ہیں۔ آپ اسے مونتاژ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کولاژ بھی، اور اسمبلاژ بھی۔ فنی تکنیک کے لحاظ سے آزاد تلازمہ خیال یا نفسیاتی اصلاح میں یاد آوری، باز آوری anamnasis اور خواب آوری سے بھی یاد کر سکتے ہیں۔

اس تکنیک میں بیک وقت کئی گوناگوں تجربات اور وارداتیں ایک واحدے میں ڈھل جاتی ہیں یا ان کے بکھراؤ کے تاثر کو ارادتاً برقرار رکھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ ستیارتھی کے افسانوں میں ماضی کی یادیں اور لوک گیت بہ باطن تو مربوط ہیں یا انہیں ذہانت کے ساتھ ربط دیا جا سکتا ہے مگر بہ بظاہر ان میں کوئی باہمی تال میل دکھائی نہیں دیتا یا یہ کہیے کہ کم سے کم دکھائی دیتا ہے۔

ساتویں دہائی تک کے افسانوں میں پلاٹ ،کردار اور تکنیک بالکل واضح ہے۔ کہانی جو ڑ جوڑ سے کسی بندھی ہے۔ سلسلہ بہت کم ٹوٹتا ہے آدھا ادھورا کہیں نہیں چھوٹتا۔ ستیارتھی نے ان افسانوں میں لوک گیتوں کے لئے پلاٹ میں ایسی گنجائشیں نکالی ہیں کہ وہ سلسلے کے تحت از خود نمایاں ہوتے ہوئے نظر آئیں۔ مثلاً ہرے رنگ کی گڑیا ۱۹۵۵ ء میں صوفیا نام کی ایک لڑکی ہے جس کا باپ مصوّر ہے، وہ کٹھمنڈو میں پیدا ہوئی، بچپن کے ابتدائی برسوں میں اس کی ایک انڈونیشیائی آیا تھی جو اسے انڈونیشیا ئی لوک گیت سنایا کر تی تھی۔ سات برس کی عمر سے اسے نیپالی لوک گیت سننے کا موقع ملا۔ صوفیا خود بھی بہت اچھی مصور ہے۔ اسے بھی مختلف خطّوں میں پروان چڑھنے والے لوک گیت بے حد پسند ہیں وہ خود بھی اپنے دوستوں کے درمیان لوک گیت سناتی ہے اور دوسری اجنبی بولیوں کے گیت بڑے چاؤ سے سنتی ہے۔

میرے ساتھی نے اس شرط پر ایک ڈوگری لوک گیت پیش کر نا منظور کیا کہ صوفیا ایک انڈونیشیا ئی لوری سنائے اور ایک نیپالی لوک گیت جس میں نیپال کی روح بول رہی ہو۔

’’ہاں ہاں منظور ہے‘‘ صوفیا نے وعدہ کیا

میرے ساتھی نے وہ گیت سنایا جس میں کوئی بھگت اپنے بھگوان سے شکایت کرتا ہے۔

ہر یا میں کئیاں کری جہاں تیرے نام ؟

گھراں جو رو ، بنائی لیندی کامے!

ڈنگر ے گی چھڈی آیاں دھارا

منوآں کھڈیاں

نہوئی دھوئی لگیاں رسوئی

اجّ آؤ نائی منوئے دے مامے!

ہر یا! میں کئیاں کراں جہاں تیرے نامے !‘‘

’’ہے ہری ! میں کس طرح تیرا نام جپوں ؟ گھر میں جورو، مجھے غلام بنائے رکھتی ہے۔ ڈھور، ڈنگروں کو سامنے والی پہاڑی چھوڑا (اب جورو کہتی ہے) منے کو کھلاؤ  نہا دھوکر رسوئی کا کام شروع کر دو۔ آج منے کے ماموں نے ہمارے ہاں آنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ہے ہری ! میں تمہارا نام کیسے جپوں!۔ ۔ ۔ گیت کا مفہوم بتایا گیا تو صوفیا  دیر تک کھلکھلا کر ہنستی رہی۔ میں نے سوچا کہ نیلے لباس والی یہ جدید قسم کی جل پری جب بیاہ کرے گی تو شاید اپنے شوہر کو اتنا غلام نہیں بنائے گی جتنا کہ ڈوگری گیت میں ایک شوہر کی تصویر پیش کر تے وقت کسی لوک کوی نے دکھانے کی کوشش کی تھی‘‘۔

اقتباسِ ہٰذا ایک واضح سیاق و سباق رکھتا ہے۔ یہاں ستیار تھی نے تمام چیزوں کو ایک مرکز پر سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ آپ محسوس کریں گے کہ افسانہ نگار اپنی افسانوی اہلیتcompetency کا بہتر سے بہتر طور پر اظہار  و استعمال کرنا چاہتا ہے۔ مگر اہلیت کی بھی اپنی حدیں ہیں۔ ستیارتھی نے ان حدوں کو کبھی توڑنے کی سعی نہیں کی۔ انہیں کے معاصرین میں عزیز احمد،حسن عسکری ،ممتاز شیریں، منٹو،بیدی اور عصمت چغتائی نے اپنے انفراد کے نقش کو جس طرح نمایاں کیا ہے وہ صورت ستیارتھی کے یہاں بہت کم نمایاں ہوتی ہے۔ تاہم ۷۰ کے بعد کے افسانوں میں جس طور پر انتشار کی صورت اجاگر ہوتی ہے۔ وہ ان کے گزشتہ افسانوں میں نظر نہیں آتی اور یہی چیز ان کو دوسرے افسانوں سے ممتاز بھی کرتی ہے۔ ۷۰ کے بعد کا افسانہ پل کنجری اسی نوعیت کا افسانہ ہے اس میں بھی ان کا پاشان یا تری افسانے میں سوتر دھار بنا ہوا ہے۔ پاشان یا تری کون ہے ؟سوائے ستیارتھی کے ،جس کی روح تاریخ کے مختلف ادوار اور ان کے نشانات میں رچ بس جانا چاہتی ہے۔ بلکہ رچی بسی ہوئی ہے۔ پل کنجری کا آغاز ان لفظوں سے ہوتا ہے۔

’’آج پھرپاشان یاتری کو تاج محل کے سامنے ریت کے گھروندے بناتے دیکھا۔ ۔ ۔ موہن جوداڑو کو سر پر اٹھائے او ر کھجوراہو بغل میں دبائے۔ ۔ ۔ ہمیں تو موہن جوداڑو اور کھجوراہو میں بھی تاج محل نظر آتا ہے۔

گھٹنوں پر کہانیاں، ہتھیلیوں میں چہرہ کیا بانو، کیا دیو یانی۔ اندھا ہاتھی سنے گا تو ہنس دے گا پل کی طرف کھلی رہے گھر کی کھڑکی۔

جے ہو! جے ہو ! پل کنجری تیری جے ہو۔‘‘

’’کہانی میں پل کنجری۔ جیسے آئینے کے سامنے بصرے کی حور،بانو آپا۔ ۔ ۔ یہی تو میں کہہ رہی تھی۔ دیویانی کہ آنکھ کا پانی سوکھنے نہ پائے۔‘‘ آندھی کہاں سے اُٹھی؟ملتان سے،جہاں مورا کنجری کا جنم ہوا۔ واہ ری موراں !تیری آنکھ کا جادو۔

رات بھرتھرکتی رہی موراں:

’’عشقے دی گلی کوچوں کوئی کوئی لنگھ دا‘‘

مہاراجہ کے خزانے میں آیا کوہِ نور اور رنواس میں موراں۔ ۔ ۔

گھنگھرو کی جھنکار ،سکہ تیرے نام کا واہ ری موراں!

گھوڑے نہیں ہاتھی بیچ کر سوئے اوتار اور شہریار۔ ان کی زبان پر بچپن کا گیت:

اٹکن بٹکن دہی چٹاکن

اگلا جھولے، بگلا جھولے

ساون میں کریلا پھولے

رفو گر امام علی کی اور بات جس کے لئے درویش کی بات پتھر کی لکیر، شلا لیکھ پر درویش کے ساتھ تین بندر۔ یہ تصویر دیکھتے دیکھتے وہ سوئی میں دھاگا پروتا اور کپڑے کے گھاؤ سیتے ہوئے گنگناتا:

پیسے کا لوبھی فرنگیا

دھوئیں کی گاڑی اڑائے لئے جائے

’’گھاٹ پر جانے سے پہلے جوتے مت اتارو‘‘ درویش نے کہا تھا۔‘‘

اس اقتباس کو آپ ایک سے زیادہ بار پڑھیں۔ تب بھی کہانی کو اپنے دماغ ہی میں سہی ایک سلسلے میں پرونا مشکل نظر آتا ہے۔ ہر پیرا گراف میں بات کا رخ بدل جاتا ہے۔ بات جملوں میں نہیں کہی گئی ہے بلکہ فقروں کا تواتر ہے۔ افسانہ نگار اشاروں اور کنایوں میں اپنا تاثر بیان کر رہا ہے۔ پوری کہانی سے جو تاثر ابھرتا ہے وہ اسی تقسیم کے کرب اور تقسیم کے المیے کا ردّ عمل ہے۔ جسے اپنے ذہن سے جھٹکنا ستیارتھی کے بس میں نہیں۔ یادوں کی جھڑی سی لگی ہوئی ہے۔ مگر افسانہ نگار کو پھر بھی تھوڑا بہت انہیں باندھنے کی اہلیت ہے۔ جب کہ ادھر پانچ دس برسوں کے افسانوں میں مصوّرانہ اسمبلاژ و کو لاژ کا عمل دخل زیاد ہ ہو گیا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ کولاژ میں ارادہ کام کر تا ہے اور جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ستیار تھی کے یہاں محض ایک رَوکا م کر رہی ہے۔ جو اپنی راہ آپ بناتی ہوئی جا رہی ہے۔ ان کہانیوں میں ستیارتھی کے مختلف نام بھی تواتر کے ساتھ آتے ہیں۔ پاشان یاتری کے علاوہ امرت یان اور ستیہ کام وغیرہ، ایک ازلی مسافر۔

’’دائرہ در دائرہ ‘دائرے میں ایک سیدھی لکیر۔

امرت یان کا ایک نام ستیہ کام۔ وقت کروٹ بدلتا ہے کہو اب کون سی تصویر دیکھو گے ؟

میرا نام ،تیرا نام۔ اَن کہی سرگوشیاں ،قلم قبیلہ،‘کتھا سرکس جو ڈراتا ہے ،خود اپنے سے پوچھتا ہے۔ کیا تمہیں ہنسنا نہیں آتا ؟کہیں موسم خراب نہ ہو جائے ،کویتا کی ماں!

گفتگو میں جستجو ،جستجو میں آرزو۔

آرزو میں کتھا سرکس۔ ہم چشم دید تماشائی۔ بس یہی سوچتے رہتے ہیں کہ زندہ رہنے کا کیا مقصد ہے! اس کے باوجود!وجود مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔

سڑک پر چلا رہا ہے اخبار کا ہاکر۔ ۔ ۔ ۔ پنچم سے بلند آواز میں۔ ۔ ۔

میرا نام تیرا نام۔ ۔ ۔ ویت نام۔ ۔ قصہ ادھورا ہی رہا۔ کبھی کبھی کتھا سرکس اداس ہو جاتا ہے۔ صبح کا تازہ اخبار آج نہیں آیا۔ ہم جانتے ہیں،ہم کیا ہیں۔ ایک نہ ایک معصوم سوال۔ کیا ہم اپنے آپ میں گم ہیں۔‘‘

اس اقتباس میں گزشتہ اقتباس سے زیادہ بکھراؤ ہے۔ یہ پاشان یا تری کا اندر اور باہر کا طویل تر سفر ہے۔ جہاں ٹھہراؤ کے لمحے کم ہی آتے ہیں۔ جیسے مختلف رنگوں کی تصویروں کو گڈ مڈ کر کے کسی کینوس پر جو ڑ دیا جائے۔ تحریر میں اس طرح کی صورت کو نحوی بے قاعدگی anacoluthon کا نام دیا جاتا ہے۔ افسانے میں اگر اس قسم کی صورت کہیں کہیں پیدا ہو جا تی ہے۔ تو کوئی مضائقہ نہیں مگر کتھا سرکس ‘ پل کنجری ‘ کفن، ایک سو ایک سال اور جے امرت شان میں ریزہ خیالی اپنی انتہا پر ہے۔ ادھر ادھر سارے بکھرے ہوئے سروں کر جوڑ کر چلنے کا کام قاری کا ہے۔ وہ جوڑ کر کیسا پیکر بنا تا ہے۔ یہ اس کی اہلیت اور صلاحیت پر مبنی ہے۔

ستیارتھی کو اب صرف اپنے سوانح پر دھیان دینا چاہئے کہ وہ اب بھی لکھ رہے ہیں اور سوچنے کے عمل سے کسی نہ کسی حد تک جڑے ہوئے ہیں۔

(یہ مضمون ستیارتھی کے انتقال سے پہلے لکھا گیا تھا)

 

 

 

جوگندر پال کے ناول : خواب رو میں آئرنی کی نوعیت

 

’’خواب رو‘‘ کا تھیم جوگیندر پال کا مرغوب ترین تھیم ہے، جسے انہوں نے افریقی کہانیوں سے لے کر ’’آمدورفت‘‘ اور ’’کھلا‘‘ تک کے اکثر طویل و مختصر افسانوں میں برتا ہے۔ یہ تھیم، دراصل ان کا اور ان کی معاصر نسلوں کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ ہجرت بالجبر ہو کہ بخوشی، آدمی جسمانی سطح پر ہی اپنی سر زمینوں سے علاحدہ نہیں ہو جاتا بلکہ اس کا پورا ذہنی اور تہذیبی وجود ہی علاحدگی کے عذاب سے دوچار ہوتا ہے۔ کہیں دوسرے اجنبی دیس اس کے لیے ایک نئی آب و ہوا، ایک نیا جائے وقوع مہیا کرتے ہیں اور وہ بہ باطن ایک مسلسل تنہائی کے گہرے غار میں اترتا چلا جاتا ہے اور کہیں اپنے ہی دیس میں اسے ایک بالجبر زندگی کرنی پڑتی ہے۔ اسے جب اپنی ہی قوم شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اس کی تہذیب اور اس کے عقائد کو جھٹلانے کے نت نئے بہانے تلاش کرتی ہے، روزگار کے باب اس پربند کر دیے جاتے ہیں اور محض ذلت، بھوک، خوف اور بے یقینی اور یکے بعد دیگرے ہجرت کے دکھ اس کی تقدیر کے دوسرے نام بن جاتے ہیں تب اسے اپنے پیروں تلے زمین کا بالشت بھر ٹکڑا بھی دھوکا معلوم ہوتا ہے۔ وہ کسے اپنا وطن کہے، کسے اپنا رفیق ، کسے اپنا رہنما۔

جوگندر پال نے اس مسئلے کو ایک تلخ ترین حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس حقیقت کا ایک سراغ انتظار حسین کے فن میں ملتا ہے۔ ان کے اکثر افسانے اور بالخصوص ان کا ناول ’’بستی‘‘ اسی تھیم کا دوسرا عنوان ہے۔ انتظار حسین اور جوگندر پال کے فنی برتاؤ میں قطبین کا فرق ہے۔ مگر بعض اعتبار سے دونوں میں بلیغ مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ دونوں معاصر ہیں، دونوں مہاجر، فن کی حدود میں دونوں تجربہ پسند، جہاں تک ادائیگیِ تھیم اور تلفیظ(ڈکشن) اور ماضی فہمی کا تعلق ہے دونوں کے احساس و ادراک کے طرز میں ترجیح کی بنا ایک دوسرے کی ضد پر قائم ہے۔ یہی سبب ہے کہ انتظار حسین جہاں فاصلے کو وسیع سے وسیع تر کر دیتے ہیں وہاں جوگندر پال فاصلے کی ہمیشہ ایک حد قائم کر لیتے ہیں۔ حال جوگندر پال کا مرغوب صیغہ ہے اسی نسبت سے ان کی افسانوی دنیا کا سارا کا سارا تناظر انتہائی قریب ترین اور سامنے کا محسوس ہوتا ہے۔ جہاں کہیں انہوں نے ماضی کی طرف نگاہ کی ہے۔ نگاہ ہر بار لوٹ کر اپنی پتلی میں جذب ہو جاتی ہے۔ انتظار حسین کی طرح ماضی بعید سے نت نئے رشتے نہیں قائم کرتی۔ باوجود اس کے دونوں کا کرب اور دکھ یکساں ہے۔

جوگندر پال نے ایک قدم آگے جست لگائی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ میں ڈوبنے کے بجائے دوسروں میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا ہے کہ وقت یا سیاست کی ماری ہوئی خلقت جہاں کہیں بھی ہے اس سے ان کا درد کا رشتہ ہے۔ یہی وہ قدرِ مشترک ہے جسے پال نے اپنی اکثر کہانیوں کا تھیم بنایا ہے۔

’’خواب رو‘‘ میں شروع سے آخر تک ایک آئرنی ہے۔ اور یہ آئرنی anachronistic perspective کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ جہاں وقت ہی گڈ مڈ نہیں ہو گیا ہے۔ بلکہ مقامات کی وحدتیں بھی تہس نہس ہو گئی ہیں۔ یہ صورت عملِ حقیقت سے کم عملِ خواب سے زیادہ نزدیک ہے۔ خواب میں وقت کی رو کا اپنا رخ اور اپنی رفتار ہوتی ہے۔ جس طرح کسی چیز کے یکایک غیاب میں چلے جانے کا کوئی جواز واضح نہیں ہوتا اسی طرح یکایک کسی چیز یا واقعے کی رونمائی کی پشت پر بھی کوئی صاف صورت دکھائی نہیں دیتی۔ بہت کچھ دکھائی دینے کے باوجود بہت کچھ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اور دیکھنے والی ہماری خارجی آنکھیں نہیں ہوتیں بلکہ داخلی بینشں ہوتی ہے۔ چوں کہ سارے مشاہدے اور تجربے کی اساس ہی داخلی بینشں پر ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے ردہائے عمل بھی ہماری روزمرہ کی زندگی سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔

جوگندر پال کے ناول کی ساخت میں خواب اور حقیقت ایک دوسرے میں اتنے گُتھ گئے ہیں کہ ایک کو دوسرے علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ قیاس بھی مشکل ہے کہ خواب کہاں تک خواب ہے۔ اور حقیقت کس حد تک حقیقت ہے۔ پال نے دونوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا ہے۔ ایک لکھنؤ محض خواب ہے اور دوسرا حقیقت، جو دوسرا حقیقت ہے وہ بھی محض ایک خواب ہے۔ جوگندر پال نے دیوانے مولوی صاحب کے حوالے سے آئرنی کے اس تضاد کو بڑی فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ ابھارا ہے۔ جو تلخ بلکہ انتہائی تلخ بلکہ ضرب کار اور حوصلہ شکن ہے۔

دیوانے مولوی صاحب ان لاکھوں انسانوں میں سے محض ایک ہیں۔ جنہوں نے ایک نئی مملکت کے خواب دیکھے، اس خواب کو اپنے ذہنوں میں مدتوں رچایا اور بسایا اور جب اس کی تعبیر ان کی تقدیر بنی تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ یہاں اگر سحر، شب گزیدہ تھی تو اس کی وجوہ کچھ اور تھیں، اجالے اگر داغ داغ تھے تو ان کے اسباب بھی قطعی مختلف تھے۔ اسباب خواہ کچھ ہوں، وطن عزیز کی تقسیم ایک زندہ حقیقت کے طور پر عمل میں آ کے رہی۔

جوگندر پال نے دیوانے مولوی صاحب کی صورت میں ان ہزاروں لاکھوں معصوم انسانوں کی زندگی اور ان کی ذہنی و جذباتی کیفیات اور صورتِ حالات کی ترجمانی کی ہے۔ جنہیں تقسیم کے بھیانک نتائج کا احساس تھا نہ اس بات کا علم کہ اپنے پیروں تلے کی مٹی کو تج دینے کے بعد کی صورت کتنی غیر متوقع ہو گی۔ المیہ اور وہ بھی بھیانک المیہ یہ کہ مولوی صاحب جیسے حساس اور طبعاً نیک انسانوں کو اس غیر متوقع صورت کا احساس بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ وطن عزیز تو اب بھی ان کی یادداشت میں محفوظ ہے۔ جو ان کا معمول ہے، ان کی عادت ہے ان کی شناخت ہے اس سے بچھڑنے کے معنی اپنی شناخت کھو دینے کے ہیں۔ ا ور شناخت کھو دینا اپنے حواس سے منقطع ہو جانا ہے۔ آئرنی یہ کہ مولوی صاحب اپنے تئیں لکھنؤ ہی میں بسر کر رہے ہیں اور ان کے حواس بھی خبط ہیں۔

مولوی صاحب انہیں لوگوں میں سے ایک ہیں۔ جنہوں نے ایک نئی مملکت کا نعرہ بلند کیا ہو یا نہ کیا ہو بہ باطن انہیں یہ یقین ہی نہیں تھا کہ بالآخر ایک نئے ملک کی ولادت ہو گی۔ اور انہیں آن کی آن میں اپنے تہذیبی اور موروثی اثاثوں، روز مرہ کی معمولی اشیا، قریب و دور کے رشتوں ، عزیزوں اور پرکھوں کی قبروں اور دیگر ان تمام حوالوں کو خیر باد کہہ دینا پڑے گا جن سے ان کی ذات اپنی پہچان قائم کرتی تھی۔ خوشیوں کا اپنا طور تھا۔ دکھوں کی اپنی لذت تھی۔ مولوی صاحب کے علاوہ اور ہزاروں ہزار افراد ہیں جنہیں ہجر ت کے اس شدید کرب سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ مگر خیر ہو زندہ یاد داشتوں کی کہ ان کا حیدر آباد، ان کا دہلی، ان کا امروہہ ، ان کا الٰہ آباد اور ان کا لکھنؤ ان کی سانسوں میں رچ بس گیا ہے۔ وہی گلی کوچے وہی دکانیں، وہی شور، وہی سکوت ،وہی آداب، وہی انداز گویا مملکتوں کو قطع کرنے والے خطوط ذہن کی آباد وحدتوں کو ریزہ ریزہ نہیں کر سکے۔

بقول جوگندر پال:

’’لوگ آتے جاتے رہتے ہیں مگر مقامات ہمیشہ وہیں مقام کیے رہتے ہیں‘‘۔

مگر حقیقت تو کچھ اور ہی ہے۔ مولوی صاحب اپنے خواب میں مست ہیں۔ ان کی محبوب بیوی اچھی بیگم بھی ان کی دیوانگی سے پوری طرح واقف ہیں۔ مگر وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ نیندوں میں بسر کرنا خواہ کتنا ہی فریب دہ عمل ہو، حقیقت کے سفّاک ترین عمل سے اس کی مدت اور اس کا نقصان کم ہی ہے۔ مولوی صاحب کا پودا اب ایک ایسی سرزمین میں لگا دیا گیا ہے۔ جہاں کی آب و ہوا، جہاں کی مٹی کی خوشبو، جہاں کے نشوونما کے آداب قطعی مختلف ہیں۔ اس منطقے میں نہ تو ان کی زبان کو سمجھنے اور برتنے والے ہیں نہ ان کی تہذیب اور ان کے آدابِ زندگی کے قدر شناس ہیں۔ وہ تو وہاں کے قدیم باشندوں پر بس تھوپ دیے گئے ہیں۔

اچھی بیگم نہیں چاہتیں کہ مولوی صاحب کے ارد گرد جو التباس کی چادر تنی ہوئی ہے۔ اس میں چاک پیدا ہو جائیں کیوں کہ مولوی صاحب حقیقتِ حال کی کڑواہٹوں اور ظلمتوں کو انگیز نہیں کر پائیں گے۔ اچھی بیگم ان کی محبت ہیں اور وہ اچھی بیگم کی جانِ عزیز ،اچھی بیگم کو ان کی نیندیں ان کا طویل ترین مسلسل خواب بلکہ ان کا پاگل پن بھی عزیز ہے کہ پاگل پن ان کے بہت سے غموں کا دافع ہے۔ حتّٰی کہ مولوی صاحب کا چھوٹا صاحبزادہ اسحق مرزا جیسا حقیقت پسند آدمی بھی اپنے ابّو کی دیوانگی کو ابّو کے حق میں ایک رحمت قرار دیتا ہے۔ اس کا یہ خیال بھی کم عبرت ناک نہیں کہ:

’’جو مہاجرین اپنے چھٹے ہوئے مقامات کی دید کو ترستے رہتے ہیں انہیں زبردستی پاگل پن کے ٹیکے لگا دیئے جائیں۔ ایک لمحے کی چبھن ہی تو ہے، جس کے بعد سرکاری شعبوں کے ضابطے سے آزاد ہو کر وہ اپنے اولین مقامات پر ہنستے کھیلتے بسر کرنے لگیں گے۔‘‘

یہاں دونوں نسلوں کا فرقgeneration gap واضح ہے۔ ایک مولوی صاحب کی صورت میں جو تقسیمِ وطن سے قبل کی پیداوار ہیں۔ ا ور دوسری اسحٰق مرزا ور ہاشم علی کی شکل میں جن کا مؤلد ارضِ پاکستان ہے۔ خواب کی بھی آخر ایک حد ہے۔ اس لمبی نیند کو بالآخر کسی نہ کسی لمحے پر ٹوٹنا ہی تھا۔ دیوانے مولوی صاحب کے ساتھ بھی خواب شکنی کا حادثہ ہو کر رہا۔ تقسیم کے بعد وہ اپنے لکھنؤ میں بھی کہاں سکون سے تھے۔ کبھی کسی جگہ مقامی اور غیر مقامی کے مابین تلواریں چل جاتی ہیں۔ کہیں خنجر زنی کی وارداتیں، کہیں لوٹ مار، چوری ڈکیتی اور کہیں بم کے دھماکے۔ مولوی صاحب کے نزدیک اس ساری افراتفری اور خلفشار کے پیچھے ان سندھیوں اور پنجابیوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے مقامی آبادی کا توازن بگاڑ دیا ہے (کتنی بڑی آئرنی ہے کہ مولوی صاحب خود اس الزام کے مورد ٹھہرتے ہیں) ایک دن نواب محل کے پائیں باغ میں ایک طاقتور بم کا دھماکہ ہوتا ہے اور چشم زدن میں مولوی صاحب کا ہرا بھرا خاندان تہس نہس ہو جاتا ہے۔ ان کی دکھ درد کی شریک بیوی اچھی بیگم، نواب بیٹا، بہو چاند بی بی اور ان کی لاڈلی نواسی ثریّا زندہ درگو رہو جاتے ہیں۔ جیسے کوئی یکایک کسی بھیانک خواب سے دو چار ہو اور چیخ مار کر بستر سے اٹھ جائے۔ مولوی صاحب بھی یک دم نیند سے چونک پڑے۔ اب انہیں پتہ چلا کہ وہ فی الواقعہ کراچی ہی میں ہیں۔ جیسے وہ ابھی ابھی لکھنؤ سے کراچی آئے ہیں۔ جوگندر پال نے اس آئرنی کو رفع نہیں ہونے دیا ہے۔ آئرنی تو مولوی صاحب کی بحالی ہوش کے بعد بھی برقرار ہے۔ اس معنی میں کہ مولوی صاحب کے لیے ان کی چہیتی بیوی، نواب مرزا، چاند بی بی اور ننھی سی جان ثریّا اب بھی لکھنؤ میں ان کی واپسی کے منتظر ہیں۔ ایک خواب کے بعد یہ دوسرا جو پہلے سے بھی زیادہ بھیانک خواب کا آغاز یہ ہے کہ اب تو وہ عزیز از جان افراد خانہ بھی ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکے ہیں، جنہیں ان کی دیوانگی بھی عزیز تھی، جو ان کے بے لوث درد مند تھے جو ان کے صحیح معنی میں رفیق و شفیق تھے۔ جوگندر پال نے آئرنی کے اس پہلو کو بڑی فنکاری اور چابک دستی کے ساتھ ابھارا ہے۔

جوگندر پال نے تمام صورتِ حالات کا بشری نقطۂ نظر سے جائزہ لیا ہے یہ نقطۂ نظر ہی ان کے ناول کا پلاٹ ہے۔ جس میں ظالم نہ تو ظالم ہے اور نہ مظلوم اتنا مظلوم۔ کیوں کہ جس صورتِ حالات کے شکنجے میں وہ پھنسے ہوئے ہیں وہ ان کیdestiny ہے۔ جو آہستہ آہستہ ایک پورے اجتماع کو کسی نا معلوم catastrophe کی طرف کھینچے لیے جا رہی ہے۔ بلکہ اسے ایک وسیع ترironical situation کہنا زیادہ درست ہو گا۔ جس میں ساری کی ساری خلقت دو مختلف دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ اور دونوں دھڑے ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے غلط، ایک دوسرے کے دشمن، ایک دوسرے کے مقابل و متقابل۔

یہ بوالعجبی ہی ہے کہ اتنے بہت سے برسوں کے بعد بھی سندھی اور مہاجر کے مابین تہذیبی دوئی برقرار ہے۔ اس دوئی نے ہی تفرقوں کی گہری خلیجیں پیدا کر دی ہیں۔ جہاں فاصلہ ہے وہاں شکوک ہی پروان چڑھتے ہیں اور ہر دو فریق ایک دوسرے کے حق میں آسیب بن جاتے ہیں۔ جوگندر پال نے اس صورتِ حال کی آئرنی کو اجاگر ضرور کیا ہے اور چوں کہ ہر دو فریق کی پوری سیچویشن ہی ironical ہے۔ جوگندر پال ایک کے حق میں دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے بلکہ اس زبردست تضاد کو نمایاں کر کے دکھانا ہی ان کا مقصودِ فن ہے جو ایک مخصوص صورتِ حال کی ہر سطح پر قائم ہے۔ بشری باہمی عدم فہمی ہی اس بے حسی کی زائدہ ہے جس نے انسانی رشتوں کی حِسِّ تمیز ہی کو معطل کر دیا ہے۔

اسی صورتِ حالات میں اسحٰق مرزا بھی ہے جو دیوانے مولوی صاحب جیسے مہاجر کا چھوٹا لڑکا ہے۔ اسحٰق مرزا کو موجود نا آہنگیوں کا گہرا شعور ہے اس نے تمام نفرتوں اور مخالفتوں کے باوجود ایک سندھی لڑکی سے شادی کر لی ہے اور اس رشتہ زوجیت سے پوری طرح مطمئن بھی ہے۔ نواب مرزا کی فیکٹری میں اکثریت سندھی کارکنان کی ہے۔ حکیم جمال الدین (مہاجر) کا بیٹا ہاشم علی بھی قدرے ترقی پسند واقع ہوا ہے، اس کی بیٹی شہزادی ایک سندھی سے شادی رچا لیتی ہے اور وہ دونوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اسحٰق مرزا کی ایک سالی کلثوم کی شادی کسی پنجابی سے ہوتی ہے۔ اسحٰق مرزا کا عزیز تر ین یار غار یاور فقیر محمد ایک پنجابی ہے۔ حتّٰی کہ غریب طبقے میں بھی اسی طرح کے رشتے پروان چڑھ رہے ہیں۔ جیسے عزیز جو کہ مہاجر ہے اس کی بیوی کا تعلق ایک سندھی خاندان سے ہے۔ یہ رشتے جو نئی رفاقتوں اور نئی آہنگیوں کے مظہر ہیں اسی فضا میں نشوونما پا رہے ہیں۔ جہاں نفرتوں نے ایک کو دوسرے کا نقیض بنا دیا ہے۔

اس آئرنی کا سب سے عبرت ناک پہلو ناول کے آخر میں نمایاں ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کے نواب محل میں جب بم دھماکہ ہوتا ہے۔ اور ان کے بیش تر عزیز و اقارب اس حادثے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ایسے بحرانی حالات میں ان کا باورچی سائیں بابا ہی ان کی ڈھارس بنتا ہے۔ جو نسلاً سندھی ہے۔

’’ان کی اچھی بیگم اور نواب بیٹا اور چاند بی بی اور چہیتی ثریّا ملبے کی قبر میں دفن تھے اور ان کے اپنوں کے بجائے ایک غیر شخص، ان کا باورچی، جس کے ہم ذاتوں کے باعث یہ بلا نازل ہوئی تھی انہیں سہارا دینے کے لیے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب اور کوئی نہ ہو اور دشمن ہی سہارا دینے کے لیے بڑھ آئے تو محبوب سا لگتا ہے اور اسی کی بغلوں میں سر دے کر پھوٹ پھوٹ کر رو دینے سے چین آ جاتا ہے، سو دیوا نے مولوی صاحب بھی بے اختیار سائیں بابا کے سینے سے آ لگے اور اتنا روئے کہ ان کے ہوش و حواس بہ حال ہونے لگے‘‘۔

دوسری طرف باقیات میں سے ان کی چھوٹی بہو سلمیٰ تھی جو سندھی گھرانے سے آئی تھی۔ وہ سلمیٰ ہی ہے جو بڑوں میں تنہا خاتونِ خانہ ہے۔ جس نے مولوی صاحب اور ان کے بچے کھچے چھوٹے بڑے افراد کو اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ اس کی مادرانہ شفقت اور احساس ذمہ داری تمام مغالطوں کی دافع ہے۔ انسان دراصل اپنی کلیت میں انسان ہی ہے۔ جوگندر پال انسان کی بنیادی نیکی اور معصومیت کو برحق ، اس کی وحشت ناکی، اس کے حرص و آز اور اس کی بدی کو طویل عرصہ رواں کا محض ایک کمزور ترین لمحہ قرار دیتے ہیں۔ آئرنی یہ کہ انسان، بشری فہم سے عاری ہوتا جا رہا ہے اسے اپنی ضدوں، اپنی سائیکی کی پیچیدگی اور اپنی صورتِ حال کی دو  لختی اور نا آہنگیوں کا شعور ہی نہیں ہے جس کے باعث وہ اپنی سر زمین پر ہی کسی اجنبی کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

جوگندر پال نے ایک نہایت ہی نازک ترین مسئلے کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے، قدم قدم پر ان کے بہک جانے کا ڈر تھا مگر جس کامیابی بلکہ فن کارانہ کامیابی کے ساتھ وہ اپنے موضوع سے عہدہ بر آ ہوئے ہیں۔ وہ انہی کا حصہ ہے۔ ان کے تجربے میں بڑی گہرائی ،پختگی اور صلابت ہے۔ ناول نگار کا فن وہاں اپنے عروج پر ہوتا ہے جہاں ناول نگار اپنے نقطۂ نظر میں واضح اور دو ٹوک ہو نیز اس کا نقطۂ نظر اس کے فن میں ایک دوسرے کی تکمیل کی صورت میں حل ہو جائے۔ ’’خواب رو‘‘ اسی فنی ارتکاز، دھیمے آہنگ اور لمحہ سکوت کی ایک شکیل ترین صورت ہے۔

 

 

 

اردو ناول: تکنیک اور ہئیت کے تجربے

 

ناول ادب کی ایک اہم ترین صنف ہے۔ ہمارے یہاں ناول کی تاریخ زیادہ سے زیادہ سو سوا سو برسوں اور مغرب میں ڈھائی تین سو برسوں پر محیط ہے۔ تاہم یہ سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے کہ ناول کے خصوصی فن میں کون سی ہئیت یا کہانی ادا کرنے کی کون سی تکنیک معیاری کہی جا سکتی ہے یعنی شاعری کی شعریات کے علاوہ فکشن کی اپنی افسانویت کیا ہے یا اسے کس طرح مرتّب یا مدوّن کیا جا سکتا ہے۔ شاعری محض اسلوب کے نام پر زندہ رہ سکتی ہے، اس کے پاس لفظوں کو بے قاعدہ ، بے اصولے طریقے سے برتنے اور لفظوں کے نئے معنیاتی قرینے خلق کرنے کے اپنے جواز ہوتے ہیں۔ جب کہ فکشن میں زبان کے اندر اور اندر چھپے ہوئے لامحدود تخلیقی اور تخئیلی امکانات کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ لیکن زبان کے قواعد کو شاعری کے مقابلے پر توڑنا کم ہی ممکن ہوتا ہے۔ شعور کی رو کی تکنیک کے تحت مغرب کی مثالوں میں تو یہ ٹوٹ پھوٹ بہت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں کسی بھی ناول نگار نے نہ تو اوقاف ، نہ واوین، نہ اشاراتِ ضمیر اور نہ حروفِ عطف وغیرہ کو ذہنی و فطری عملِ اقتباس کی رو میں حذف کرنے کی سعی کی اور نہ ہیcapital letters کا کوئی تصوّر ہمارے یہاں قائم ہو سکتا ہے جس کے تحت اسماء و ضمائر کی تخصیص متعین کی جائے۔

تھوڑے بہت فقروں اور جملوں کے درمیان فطریpauses یا بے ربطیاں یا پر سکوت وقفے ضرور واضح ہو جاتے ہیں مگر اس عمل میں بھی (فہیم اعظمی کے ناول جنم کنڈلی کے استثنا کے ساتھ) شدت کم سے کم ہے۔ لغات سے چھیڑ چھاڑ یا لفظوں کے نئے قرینے وضع کرنا تو بہت دور کی بات ہے، مروجہ لغات کے علاوہ انہی نئے قرائن کا استعمال ضرور کیا گیا ہے جو عوام میں رائج ہو چکے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاعری زمان و مکان کا ایک دھندلا سیا ق و سباق رکھنے کے باوجود اسے اپنے لیے شرط کے طور پر قبول نہیں کرتی۔ شاعری میں کئی زمانوں کا سفر لمحوں میں طے کر لیا جاتا ہے اور اس منطقے میں زبان جو اندر سے دھند قائم کرتی ہے، باہر کی روشنیوں سے زیادہ چکا چوند کرنے والی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس فکشن میں زبان کا عمل کئی دوسرے تکنیکی مقاصد کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ اسی لیے شاعری جس قدر آزادیاں اور کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کرتی ہے ، فکشن کی فطرت سے بعید تر ہے۔ شاعری میں زبان اپنے بہترین تخلیقی جوہر کے ساتھ وارد ہوتی ہے جب کہ فکشن میں تخلیق کے اس جوہر کی کمی کو اس میں نمو پانے والے واقعات و کردار کے رمز آگیں اور اکثر مبہم اور غیر یقینی رشتے ا ور علامتی معنویتوں سے بھری ہوئی situations اور ان کے سیاق و سباق پرُ کرتے ہیں۔ ان ذیلی حقائق کے باوجود ناول کی ہئیت اور تکنیک کی معیار بندی ایک مشکل تر عمل ہے۔

حجم کے لحاظ سے اگر عزیز احمد کے طویل افسانوں کے علاوہ ہاؤسنگ سوسائٹی ایک ناول ہے تو ندی یا پانی کو کیوں محض ایک ناولٹ قرار دے کر ناول کے زمرے سے الگ رکھا جا سکتا ہے۔ ناول تو لہو کے پھول بھی ہے جس کی اپنی ایک دستاویزی حیثیت ہے اور کارِ جہاں دراز بھی ایک نوعیت میں دستاویزی ہے۔ جو اپنا مواد سوانح سے اخذ کرتا ہے اور حجم میں کئی اہم ترین ناولوں سے ضخیم بھی ہے بسیط بھی۔ ان کی نسبت کیا گیان سنگھ شاطر یا ندا فاضلی کے دیواروں کے بیچ کو ہم ناول میں شمار نہیں کریں گے۔ عبداللہ حسین کے ناول باگھ کے آخری ڈیڑھ دو سو صفحات میں شعریت کوٹ کوٹ کر بھری ہے لیکن واقعاتی رو میں یہ حصہ ضرورت سے زیادہ طویل ہو گیا ہے، تاہم یہ بھی ایک اہم ناول ہے اور ابتدائی دو ڈھائی سو صفحات پر مشتمل تاریخ و تہذیب اور فلسفوں کی انضمامی جز رسی کے باوجود ’’آگ کا دریا‘‘ ناول کی تاریخ میں ایک اہم ترین واقعہ ہے۔ اسباب و علل کے قطعی سلسلے کے مطابق لکھے گئے ایک چارد میلی سی ، مکان ، گھروندہ، یا شب گزیدہ یا دو گز زمین جیسے ناولوں کا اپنا ایک مقام ہے تو اسی قطعیت سے بے دردانہ انحراف کی مثالوں میں سنگم، کاروانِ وجود یا خواب رو جیسے ناولوں کا اپنا ایک فنی کردار ہے۔ کوئی ناول جیسے علی پور کا ایلی، گھروندہ،(شہاب) ایک چادر میلی سی(رانو) یا مکان(نیر ا)کسی ایک کردار کے تلازمے سے زندگی کی حیرتوں ، المناکیوں اور بوالعجبیوں کو اسی طور پر اخذ کرتا ہے کہ فن اور زندگی کے مابین فکشن کی گہری یا دھندلی سی لکیر بھی محو ہو جاتی ہے۔ تذکرہ، بستی، اداس نسلیں اور آخر شب کے ہم سفر کے بے شمار کرداروں کے جھرمٹ بھی اپنے عمل و ردہائے عمل کے ایک ایسے جہانِ افتاں و خیزاں کے مظہر ہیں، جہاں اندیشہ و امکان کی کوئی لکیر سیدھی، صاف اور مسطّح نہیں دکھائی دیتی۔ گویا ناول کا فن اپنی ہئیت میں اتنا سیّال اور اتنا وسیع ہے اور اس کی تکنیکیں اتنی متنوّع اور تغیر پذیر ہیں کہ انہیں کسی ایک عنوان کے تحت اخذ کرنا کچھ کم دقت طلب نہیں۔

ایک معنی میں تو ہر ناول ایک نیا تجربہ ہے کہ مواد کو جذب و قبول کرنے اور ایک دوسرے قالب میں ڈھالنے کے موہوم ہی سہی اس کے کچھ اپنے طریقے اور قرینے ہیں۔ دوسرے معنی میں اگر کوئی صنف اپنی ہئیت کے بعض مخصوص اور صاف پہچان میں آنے والے معیار و اصول سے عاری ہے جیسے نظم، افسانہ اور خود ناول تو وہ بادی النظر میں جتنی سہل دکھائی دے گی اس کو عملاً برتنا اتنا ہی دشوار گزار ہو گا۔ گزشتہ چار پانچ دہوں میں لکھے ہوئے ناول اس لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان میں کسی ایک خاص ہئیت، کسی ایک خاص اسلوب یا کسی ایک خاص تکنیک کو آزمانے سے بالعموم اجتناب برتا گیا ہے۔ بلکہ وہ تکنیکیں جو خاصی مروج ہو چکی تھیں اور جنہیں ہمارے قریب ترین پیش روؤں نے بالتکرار استعمال کیا تھا، نئی نسلوں نے انہیں یا تو التفات کے لایق کم سمجھا یا اپنے ادراکات پر بھروسہ کر کے انکار و اقرار کے اپنے حدود قائم کیے اور اپنی ترجیحات کی طرف زیادہ توجہ دی۔ ان برسوں میں جو ہئیت و تکنیک کے تجربے کیے گئے انہیں واضح طور پر دو شقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

وہ ناول جن میں پلاٹ کو بنیادی تنظیمی اور ساختیstructural اصولوں کے مطابق اخذ کیا گیا ہے اور جن میں زمان اپنی رو کے اعتبا ر سے ایک فطری رفتار رکھتا ہے اور جو ناول کو ایک خاص خارجی نوع کی ہئیت بھی مہیا کرتا ہے۔ جیسے آنگن ، تلاشِ بہاراں، چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو، دشتِ سوس، زمین، خوابوں کا سویرا، دارا شکوہ اور غالب وغیرہ، روٗسی ہئیت پسندوں کی اصطلاح میں پلاٹ کی یہ بُنّت fabula یعنی قصہ و کہانی سے مختلف معنی کی حامل ہے۔ روسی ہئیت پسند recit ا ور histoire کو معنی کے دو علیحدہ علیحدہ خانوں میں رکھتے ہیں۔ recit کسی بھی متن / بیانیہ میں واقعات کی سلسلہ وار تنظیم سے عبارت ہے جب کہ histoire وہ سلسلہ ہے جس میں زمان کے مطابق واقعات اپنی حقیقی صورت میں واضح ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ناول کا فن زمان کے اس سلسلے اور واقعات کی رونمائی کی اس ترتیب کی نفی کرتا ہے جو فکشن اور فینتیسی کے رد پر استوار ہے۔ ایوانِ غزل، فرار،کسی دن اور نا دید ہی نہیں مکان اور فائر ایریا کے پلاٹ میں بھی تنظیم کا جچا تلا تصور کارفرما ہے حتیٰ کہ گیان سنگھ شاطر اور مدار میں بھی زمان کی رو معین اور واضح سی ہے۔ کیا اس معین اور واضح صورت کے باوجود ہم ان ناولوں کو من و عن تاریخ وار کہہ سکتے ہیں۔ یعنی جن میں حقیقی وقوعوں کو تاریخی ترتیب کے ساتھ جگہ دی گئی ہو۔ ظاہر ہے یہ بھی ہمارا ایک بھرم ہی ہے۔ ان ناولوں میں بھی راوی جو کہیں ظاہر اور کہیں مخفی ہے، داخلی تجزیوں interior analysis میں وقت کی باطنی رو کے مطابق عمل کرتا ہے یا یہ کہیے کہ ذہن کی نفسیاتی منطق کی کارکردگی وقوعاتی منطق کو رد کرتی ہے اور یہ عمل ناول میں بڑی خاموشی اور اکثر غیر محسوس طور پر جاری رہتا ہے۔

دوسری شق ان ناولوں سے عبارت ہے جن میں خارجی بنت کی ذمہ داری قاری کے سر منڈھ دی جاتی ہے۔ ناول کے عادی قاری کے لیے مختلف انمل پارچوں کو اپنے ذہن میں اپنے طور پر جوڑتے ہوئے چلنا ایک معمول کا حکم رکھتا ہے۔ خوشیوں کا باغ، موجِ ہوا پیچاں، خوش بو بن کر لوٹیں گے۔ بیانات اور خواب رو جیسے ناول واضح طور پلاٹ کی روایتی تنظیم سے گریز مختلف مُضمنوں episodes کے جماؤ میں بے ترتیبی ، اعمال و  معروضات  کے سیاق و سباق کی تفصیلات کے کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ بیان ، اکثر فقروں اور وقوعوں کی تکرار اور کہیں کہیں قواعدِ زبان سے انحراف کی مثالیں بھی مہیا کرتے ہیں۔ غضنفر کے ناول پانی میں طریق کار تمثیلی اور اکثر کردار adopted ہیں لیکن تمثیل کے اندر جو علامتی رو ہے اس کا سلسلہ ناول کے عادی قاری کے لیے رسمی نوعیت ہی رکھتا ہے۔ اگر غضنفر یا مستنصر حسین تارڑ اپنے ناول فاختہ کو ایک طویل بساط پر پھیلا دیتے تو ناول کیconsistency خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ حالاں کہ اس قسم کے ناول روایتی consistency کے تصور کے منافی ہی ہوتے ہیں۔ موجِ ہو ا پیچاں ، اپنے اسی حجم میں جوڑ جوڑ سے کسا بندھا ہوا ناول ہے۔ کیوں کہ داخلی کلامی میں ذہنی رو کی اپنی ایک آزادانہ منطق کام کرتی ہے اور پھر وہ اور دیکھتی ہے نہ چھو ر۔ ناول کے اندر کی رو پر ساجدہ زیدی کی گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے موجِ ہوا پیچاں، جگہ جگہ سے لخت لخت ہونے سے بچ گیا۔ اس قسم کی تکنیکوں کو طویل ناولوں میں صرف اور صرف قرۃ العین نے کامیابی سے برتا ہے یا علامتی سطح پر عبداللہ حسین کا باگھ ایک کامیاب ترین مثال ہے۔ جوگندر پال اپنے حدود سے تجاوز نہیں کر پاتے اور انتظار حسین کبھی اپنا دامنِ وصل اتنا نہیں پھیلاتے کہ اسے سمیٹنا مشکل ہو جائے۔ خطرات مول لینے کا سودا تو قرۃ العین ہی کو آتا ہے۔ جو بکھرنا ہی نہیں سمیٹنا بھی جانتی ہیں، توڑتی ہیں تو بنانے کے فن سے بھی واقف ہیں۔ انہیں شوخ و شنگ دریاؤں کے سفر سے زیادہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے زندگی سے معمور سمندروں کی سیاحت مرغوب ہے جہاں ہر لہر ایک لطمۂ موج ہے اور ہر موج ایک نشانِ خطر۔

بالعموم اس قسم کی تکنیکیں جو پلاٹ کے خارجی نظم کو شکست و ریخت سے گزارتی ہیں،ان کا راوی بہ ظاہر یا بہ باطن خود مصنف ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنی بکھری ہوئی معلومات، یادوں memoirs ، ذاتی، نجی، اور نفسی تجربوں ، انسانی رشتوں کی آگاہیوں، گناہوں، ناکردہ گناہوں، عدمِ تکمیل خواہشوں، ناکام ارادوں ، کامیابیوں ، اور ناکامیوں جیسے تجربوں کے اژدہام کو کبھی صبر اور کبھی بڑی بے صبری اور عجلت کے ساتھ پلاٹ میں ضم کرنے کی سعی کرتا ہے۔ نتیجتہً زمانے گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ بہ ظاہر وقت تنگ بہ باطن اس کی بساط ایک دور یا کئی ادوار تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ یادِ ماضی کبھی عذاب بن کر ابھرتی ہے اور کبھی جذباتی نا آہنگیوں اور نا آسودگیوں کے درمیان طمانیت کا بہانہ، بیانات میں یکے بعد دیگر تین راویوں سے سابقہ پڑتا ہے تینوں راویوں کی پشت پر ایک ہمہ بین و ہمہ دان راوی اور بھی ہے جو بیان کنندہ ہے اور عدم موجود ہے۔ لیکن ایسا عدم موجود جو بہ یک وقت heterodiegetic یعنی غائب متکلم بھی ہے اور autodigetic یعنی بیانیہ میں حاوی موجود کردار بھی۔ جسے تینوں راویوں کی معصومیتوں ، کمینگیوں ، ترددات اور تاملات کا بخوبی علم ہے۔ جو چیزوں کو جتنا سلجھا تا ہے اتنا بلکہ اس سے زیادہ الجھاتا بھی جاتا ہے۔ چوتھے راوی کی شمولیت سے جہاں کہانی کے تانے بانے بگڑنے کا ڈر لاحق تھا وہیں مصنف ایک سوتر دھار کی طرح بڑی خوش مذ اقی اور بغیر کسی ذہنی تحفظ اور شعوری کوشش کے اسے چست و درست بھی کر لیتا ہے۔ یہی صورت خواب رو کی ہے۔

آخرِ شب کے ہم سفر میں ایک سیاحتی ذہن برسرِ کار ہے جو بہ یک وقت کئی ذہنوں اور روحوں کے اندر گھس کر ان کا مشاہدہ کرتا ہے۔ وقت جگہ جگہ سے الٹ پلٹ دیا جاتا ہے۔ ایک مضمنےepisode کا گم کردہ سلسلہ بہت دیر اور دور جا کر دوسرے مضمنے سے جا ملتا ہے۔ کرداروں کا اژ دہام ہے، جو جتنا واضح ہے اتنا ہی مبہم بھی ہے۔ باز کشی flashback اور بعد کشیflash forward اور متواتر cuts کے ذریعے فلمی اور مصورانہ طریقے سے بہ ظاہر مختلف اور بے جوڑ ٹکڑے بڑی خوبی سے ایک واحدے میں ڈھل جاتے ہیں۔ دیوندر اسر اور انور سجاد بھی اسمبلاژ اور کولاژ کی مصورانہ تکنیکوں کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن ان تجربوں کا کینوس محدود ہے۔ قرۃالعین، کا رجہاں دراز ہے، یا گردشِ رنگ چمن میں جتنی autodiegetic ہیں۔ آخرِ شب کے ہم سفر میں ان کی شمولیت اتنی نہیں، تاہم غیاب کے پردے میں بھی ان کی گونج صاف اور بہت صاف سنائی دیتی ہے۔ چوں کہ اس گونج سے ہم جیسے قاری بخوبی واقف ہیں اس لیے وہ اب ہمیں نہ تو نامانوس معلوم ہوتی ہے اور نہ کہیں بے جوڑ اور زائد۔ قرۃالعین کا ’’میں‘‘ ان کی تحریروں میں ہمیشہ یہ تاثر فراہم کرتا ہے کہ وہ محض ذاتِ واحد ہی کا استعارہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک مکمل ہستی ہے جو کئی ہستیوں کا حاصل جمع ہے، جسے لسانیات کی اصطلاح میں aggregate of the self یعنی مجموعی ذات کا نام دینا زیادہ درست ہو گا۔ قرۃ العین کے انہی تجربات اور بالخصوص آگ کے دریا جیسے ناول شکن تجربے نے جو مثال قایم کی تھی فہیم اعظمی کا ناول ’’جنم کنڈلی‘‘۱۹۸۴ ء اس کا یقیناً اگلا بہت اگلا قدم ہے۔ جس میں تاریخ ، سیاست ، فلسفہ اور مذہب اور ان سے وابستہ تصورات، روایات اور وارداتیں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک مختلف ضمائر کے اشارے ذہن میں کردار نہیں کردار کے ہیولے کھینچ دیتے ہیں۔ اور وہ بھی ایک دوسرے سے اجنبی۔ جن کی داخلی یا باہمی گفتگوئیں، تناقضات و تضادات اور مختلف علمی اور تلمیحی کنایوں سے معمور ہوتی ہیں۔ کہیں خواب گونی کی گہری گاڑھی دھند کے پس نظر سے پھوٹتے ہوئے خود کلامیے، بحث مباحثے، تکرار، تاریخی و نیم تاریخی اسماء اور allusion کے جمگھٹے ، لفظی تلازمات کی بے ہنگم رو، شکوک ہی شکوک ، سوال ہی سوال جیسے کسی لمحے کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ انہی لمحوں سے جوجھتا ہوا انسانی وجود محسوس تر ہستی کا حامل بھی ہے اور طوفان بلا خیز کی زد میں آیا ہوا ایک کمزور تنکا بھی۔ پورا ناول انہی تلازموں اور طنز و تضحیک سے آلودہ فقروں اور بیانوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہر باب کے شروع میں سرئیلی طرز کی تجریدی پینٹنگ کے نیچے کسی ایک وجودی مفکر کا قول درج ہے جو اس باب کی باطنی فضا کے لیے forshadowingیعنی پیش سایہ افگنی کا کام کرتا ہے۔ یہ ناول بیانیہ کی تکنیک کو پوری طرح رد تو نہیں کرتا لیکن جز بہ جز، لمحہ بہ لمحہ انحراف ضرور کرتا ہے۔ چمارن اور کشکول کی علامت کی بنیاد پر محض ایک مسلسل اور طویل صورتِ حال سے سابقہ پڑتا ہے جو ایک یا ایک سے زیادہ کہانیاں قاری کے ذہن میں برانگیخت کر دیتی ہے۔ بیان اور بیانیہ کی بحث سے قطع نظر فہیم اعظمی کا یہ ناول، ناول کے فن کو ایک نئی راہ ضرور سجھاتا ہے۔

تاریخ کو ناول کے فن میں ضم کرنا ہمیشہ ایک اہم تکنیکی مسئلہ رہا ہے۔ خواہ تاریخ بادشاہوں اور شہزادوں سے متعلق ہو، ان ادوار یا ان ادوار کی اہم اور نمایاں شخصیات کی۔ تاریخ اور ناول یعنی فیکٹ اور فکشن میں کیف و کم کے اعتبار سے حدود قائم کرنا اور ان کا لحاظ رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔ تاریخ خود ایک رومانی منطقہ ہے جو جتنا نمایاں اور واضح ہے اس سے زیادہ مخفی اور مسخ بھی ہے۔ ہر تاریخی ناول نگار تاریخ کے انتخاب میں اپنا ایک مقصد رکھتا ہے جس سے اس کے نقطۂ نظر کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس لیے بھی کہ تاریخی ناول نگار کے لیے تاریخ محض ایک خواب کا نام ہے جو ہمیشہformative process میں ہوتا ہے دیکھنے والے کی صوابدید بلکہ اس کے آئیڈیل پر مبنی ہے کہ وہ تاریخ کو کس طرح دیکھتا اور اسے کس طرح پیش کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح تاریخ اس کو دکھائی دیتی ہے یا جس طرح اسے دیکھنا چاہتا ہے بس وہی تاریخ ہے اور وہی چیز تاریخ کے اندر ناول کے موضوع کا تعین بھی کرتی ہے۔ دارا شکوہ، صلاح الدین ، منصور حلاج، قرۃالعین طاہرہ یا ا میر تیمور محض کردار نہیں ہیں۔ نقط ہائے نظر اور فنی معروضی تلازمے بھی ہیں۔ جن کے حوالے سے ہم ایک ان کہی اور ان لکھی تاریخ سے متعارف ہوتے ہیں۔ ان کہی تاریخ ہی ان نمونوں کا تحت المتن بھی ہے کہ دارا شکوہ ہمارے عہد کے ضمیر کے قریب تر ہے۔ منصور حلاج اور قرۃ العین طاہرہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ مصنفہ کی آمرانہ مملکتوں میں اگر آج بھی زندہ ہوتے تو بالآخر رسن و دار ہی ان کی تقدیر ہوتا۔ انیس ناگی، عبدالصمد،امراؤ طارق، اعجاز راہی، فخر زماں ، انور سجاد اور حسین الحق کے کردار اور ان کا سیاق و سباق اس عظیم انسانی آئرنی کو پوری آواز کی بلندی کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ جو تاریخ سے زیادہ موجودہ سیاست کے بے چہرگی اور عوامی بے حسی پر منتج ہے۔ مجموعاً ایک وسیع پیمانے پر انسانی زندگیوں کی بے حرمتی اور بے وقعتی ہی نہیں تذلیل کا ڈرامہ اندر ڈرامہ، ان ناولوں کی تکنیک کا خاص پہلو ہے۔ جہاں معنی کا ایک جز گم ہے وہاں بھی ہیرلڈ پنٹر کے لفظوں میں The pressure behind the words ہمیں کئی ناگہانی آگاہیاں فراہم کرتا ہے۔ اسی دباؤ کے تحت پلاٹ کی ایک خاص نوع کی شکل متعین ہوتی ہے اور امیجری کے قماشات کا امکان بھی اسی میں مضمر ہے،ان ناولوں کے متون کا مافیہ جتنا شعوری ہے اس سے زیادہ لاشعوری ہے۔ لاشعوری اس لیے بھی کہ طاقت کے مختلف زمروں اور صیغوں کا جبر اس کی معصومیت کو خراب و پامال کر دیتا ہے یا توڑ مروڑ دیتا ہے۔ ان معنوں میں متن کے سیاسی لاشعور کے تصور کا اطلاق ہم محولہ بالا ناولوں پر بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ خطوط، ڈائری ، رپورٹس، داخلی تجزیوں،ڈرامائی اور امیجری سے مملو جزئیائی تفصیلات ، خواب گوں یادداشتوں، حوالوں، اسطوری اور تاریخی و نیم تاریخیallusions کی مدد سے یقیناً ہمارے نالوں کا داخلی کینوس کافی وسیع ہوا ہے۔

داخلی کلامی،شعور کی رو، اور مختلف مصورانہ اور بار بار افقی اور عمودی یا دائیں بائیں جانب فوکس کرنے یا گڈ مڈ امیج قایم کرنے کی فلمی تکنیکوں حتّٰی کے موسیقی کی علامتوں سے بھی جا بجا مدد لی گئی ہے۔ پیش و پس آفرینی کے نت نئے طریقے آزمائے گئے ہیں۔ کردار اور کردار کے ان ہزار پہلوؤں کا بڑی دقت کے ساتھ scansion کیا گیا ہے جو اپنی بیش تر صورتوں میں عام انسانی بصارتوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں جیسے اکثر پاکستان کے سیاسی ناولوں میں سارا تناظر ہی ایک ہولناک کردار کا روپ دھارن کرلیتا ہے۔ اس قسم کے متنوع تجربات نے ناول کی ہئیت کے رسمی پن پر کاری ضرب لگائی ہے اور نت نئے قالب کے آثار رونما ہوئے ہیں۔

 

 

موجِ ہَوا پیچاں: ناول یا ناول کا محض ایک امکان

 

گذشتہ پانچ سات برسوں میں جن ناولوں کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے، انہیں بڑی آسانی کے ساتھ دو شقوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔

اول وہ ناول جن میں داخلیت کی رو گہری ہے اور جن میں مخاطبہ اندر کی طرف ہے۔ اس قسم کے ناولوں میں بالعموم بیانیہ کی روایت سے انحراف کیا گیا ہے یا داخلی رو کے شدید دباؤ کے تحت ناول نے اپنی شکل آپ بنائی ہے۔ خود یافتگی کی یہ صورت autotalic نوعیت کی ہوتی ہے۔

اسی شق کے تحت ان ناولوں کا بھی شمار کیا جانا چاہیے جن میں خود یافتگی کی صورت تو نمایاں نہیں ہے مگر دانستہ ایسی تدابیر کا استعمال کیا گیا ہے کہ وہ خود یافتہ معلوم ہوں، یعنی وہ ایسا شائبہ دیں جیسے ان کی تشکیل و تکمیل میں کسی پیش بند ارادے کو دخل نہیں تھا۔ انور سجاد کا ’’خوشیوں کا باغ‘‘ اور دیویندر اسّر کا ناول ’’خوش بو بن کر لوٹیں گے‘‘ میں اسمبلاژ اور کولاژ کی مصورانہ تکنیک کا دخل ہے۔ قرۃ العین کے ناول ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ میں بھی ا سمبلاژ کی صورت جا بجا نمایاں ہے مگر اسے ہم خود یافتہ ناول نہیں قرار دے سکتے۔

وہ ناول جن میں بدیعیت پر بنائے ترجیح رکھی گئی ہے جیسے غضنفر کا ناول پانی۔ اور جن میں کردار سے ہی نہیں فضا تک میں استعارہ و تمثیل کی ہنر مندیوں کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ ان میں قدیمیات یا روایتی اسالیب اظہار سے ایک خاص نسبت کا پتہ چلتا ہے باوجود اس کے معنی و مقصد وہ اپنے عہد ہی سے اخذ کرتے ہیں اس لیے ان کا شمار بھی تجرباتی ناول ہی میں کرنا چاہیے۔

دوم وہ ناول ہیں اور ایسے ناولوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے، جن میں مخاطبہ باہر کی طرف ہے اور جن میں histreographical element دوسرے اجزا کے مقابلے میں جلی عنوان کا حکم رکھتا ہے۔ یہ وہی روایت ہے جس کی پہلی خشت عبداللہ حسین، قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی اور خدیجہ مستور نے ۱۹۶۰کے ارد گرد رکھی تھی۔ عبدالصمد کے ناول ’’دو گز زمین‘‘ نے اس روایت کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ ان ناولوں میں مسائل کی نوعیت قومی یا اجتماعی ہے اس قسم کے ناولوں کی تکنیکوں میں نمایاں فرق ہے مگر یہ تکنیکیں ادبی ناول کے قاری کے لیے معمول کا حکم رکھتی ہیں۔ ان میں ہمارے حقائق و مسائل کے ذہنی اور وجودی تجربات اس طرح ہم آمیز ہو گئے ہیں کہ حقیقت ، فن کے قالب میں ڈھلنے کے باوجود اپنے کسی بھی تاثر میں وہ حقیقت ہی ہے۔

آپ ذرا سوچیں جہاں ایک طرف’’ فائر ایریا‘‘ کی بو دور دور تک پھیلی ہوئی ہو اور انھیں دو چار برسوں کے دوران مستنصر حسین تارڑ کا ’’بہاؤ‘‘ جیسا صدیوں پر پھیلا ہوا ناول منظرِ عام پر آیا ہو۔ وہاں ’’موجِ ہوا پیچاں‘‘ کی کیا قیمت؟ ان معنوں میں کہ ناول کا فن، شاعری اور افسانے کے مقابلے پر زندگی کے وسیع تر تجربے، تاریخ، سیاست اور افراد کی نفسیات ،ان کے عمل و ر دہائے عمل، ان کی توفیق و بد توفیقی، ان کے حدود اور ان کے اجبار وغیرہ کے گہرے علم کا مطالبہ کرتا ہے۔ ناول، داخل و خارج کے تصادمات کی ایک معتبر دستاویز بھی اسی وقت بنتا ہے جب ناول نگار کو اپنے جذبات و احساسات کے بے محابا وفور پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ جہاں چاہے وہ اپنی رفتار پر قدغن لگا دے اور جس جگہ چاہے انائے دگر میں ضم ہو جائے، معروضیت کی ایک حد بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی داخلیت کی، تب ہی ناول میں زندگی کا سارا زہر اتر سکتا ہے، ساری چمک ڈھل سکتی ہے، اسی بنیاد پر ہم اسے اپنے عہدوں کا رزمیہ بھی کہتے ہیں۔

موجِ ہوا پیچاں، میں یقیناً ایسا کچھ نہیں ہے یہ ناول نہیں ناول کا محض ایک امکان ہے۔ نہ تو اس میں زمان و مکان کا کینوس وسیع ہے، نہ زندگیوں کا اژدحام ہے۔ نہ ذہنی اور نفسیاتی کشاکشوں اور کشمکشوں کو اپنے تناظرات میں ایک مناسب مہلت تک پھیلایا گیا ہے۔ جن افراد کے نام درمیان میں آتے ہیں ان کی شخصیت و کردار کے محض چند جذباتی پہلوؤں تک تو ہماری رسائی ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے ہم ان کے دیگر متعلقاتِ زندگی سے کم ہی واقف ہوتے ہیں۔ میں یہاں پلاٹ کی بات نہیں کروں گا۔ کیوں کہ پلاٹ کی ایک ہزار تعریفیں ہیں ، اور ناول نگار اپنے طور پر کہانی بیان کرتا ہے یا کوئی روداد رقم کرتا ہے۔ جدید ناولوں میں، بالخصوص وہ ناول جنہیں تجرباتی کہا جاتا ہے اور جن میں کہانی کہنے کی منطق روایتی ہئیتوں، سانچوں اور طریقوں کو بے دردی سے توڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ان میں پلاٹ ناول کی گہری ساخت میں پروان چڑھتا ہے بلکہ بیش تر اوقات پلاٹ سازی کی ذمہ داری کا بار قاری کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اتنا ہی نہیں ہر قاری کے اسباب و علل اور محرکات و عوامل کے اپنے پیمانے ہوتے ہیں، نیز اپنی فہم، اپنے علم اور اپنے تجربے کے مطابق وہ پلاٹ کو بنتا ہے۔ اس قسم کے پلاٹ کو رولاں بارتھ کے لفظوں میں مصنفانہ  writerly : سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اس معنی میں ’’موجِ ہوا پیچاں‘‘ کو آپ ایک مصنفانہ ناول بھی کہہ سکتے ہیں مگر ہے یہ محض ایک ناول کا امکان۔

’’موجِ ہوا پیچاں‘‘ کو اس معنی میں تو تجرباتی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی نئی تکنیک سے ہمیں متعارف کراتا ہے، کیوں کہ داخلی کلامی کی تکنیک، خواہ اس میں شعور کی رو یا آزاد تلازمۂ خیال کا استعمال کیا گیا ہو اب ہمارے لیے قطعی نامانوس نہیں رہی۔ اکثر ٹھیٹھ حقیقت پسند ناولوں میں بھی اسے جزواً بلکہ معمولاً استعمال کر لیا جاتا ہے۔ دراصل ہمارے ناولوں میں ایسا کوئی ناول نہیں ہے جسے اول تا آخر شعور کی رو کا نمونہ کہا جائے۔ اس قسم کے ناولوں میں بلا شبہ ایک سے زیادہ تکنیکوں کا استعمال کیا گیا ہے۔

اکثر ناول نگار ابواب کی تقسیم میں زمان یا مکان کو سیدھی منطق کے ساتھ بروئے کار نہیں لاتے۔ ابواب کے درمیان طویل سکوت بیز وقفوں کو قاری اپنی بصیرتوں کے مطابق پُر کرتا جاتا ہے۔ اس طرح بہ ظاہر بے تعلقی میں تحت اندر تحت ایک تعلق کی راہ پیدا ہو جاتی ہے۔ قرۃ العین کے تقریباً ہر ناول میں اس قسم کی صورت موجود ہے۔ ’’موجِ ہوا پیچاں‘‘ چھ ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب اپنے سابقے اور لاحقے سے کٹا ہوا ہے۔ مگر ابواب اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں ہم بڑی آسانی کے ساتھ اپنے ذہن کدوں میں ایک دوسرے سے جوڑ کر آگے کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔

’’موجِ ہوا پیچاں‘‘ میں ابواب ہی نہیں، ایک ہی باب میں تواتر کے ساتھ منظر بدلتے جاتے ہیں۔ بڑی سرعت سے ایک سیاق دوسرے سیاق میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک مضمنہ یعنی episode ہی میں دوسری مضمنے کے برگ و بار پھوٹ پڑتے ہیں۔ کہیں کوئی ایک لفظ، رعایت کا کام کرتا ہے اور اسی لفظ سے ملتی جلتی وارداتیں رقم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ رعایت ،تطابق کے ساتھ مغائرت کی صورتیں بھی نکالتی ہے اور اس طرح ایک دوسرے سے متضاد اور موافق انسلاکات کا سلسلہ تابہ دیر قایم رہتا ہے۔ اسی تکنیک کو ہم آزاد تلازمۂ خیال سے تعبیر کرتے ہیں۔ ساجدہ زیدی نے اپنے ناول میں اس تکنیک کو بڑی کامیابی سے برتا ہے۔ بنیادی طور پروہ ایک شاعرہ ہیں۔ افسانوی ادب کے میدان میں یہ ان کا پہلا قدم ہے۔ ا سی سبب ان میں خفیف ترین لمحے کو ایک طویل مدت تک پھیلانے یا کسی صدمے کو کچھ دیر اپنے اندر سنبھالنے اور ٹھہرانے یا sustain کرنے کی صلاحیت کم سے کم ہے۔ جس طرح شاعری میں چھوٹے چھوٹے جذبوں کی رفاقت ایک لطیف ترین سیاق مہیا کر دیتی ہے اور شاعری سننے یا پڑھنے والا قاری تقریباً اس قسم کے تجربوں کا عادی ہوتا ہے اس لیے اسے نہ تو وہ اجنبی محسوس ہوتے ہیں اور نہ گراں بلکہ عین اس کی توقع کے مطابق ہوتے ہیں۔ ناول کے قاری کا مسئلہ دوسرا ہے وہ تعمیم اور تجزیہ چاہتا ہے وہ ایک ضخیم ناول میں تو اس طرح کے شعری وقفوں، شاعرانہ بیانات، خود کلامی کی صورتوں اور ناول اور ناول نگار کے جا بجا عدمِ تحمل کو برداشت کر سکتا ہے۔ مگر ایک مختصر ناول میں شروع سے آخر تک جذباتی ہیجان کی ایک ہی سطح کو برقرار رکھنے سے ناول بہت سی کشادگیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ ساجدہ زیدی کے ناول کی کمزوری بھی یہی ہے کہ جہاں وہ بے حد کامیاب ہیں وہاں ناول اپنی کلیت میں ناکام ہے۔ کیوں کہ پورا ناول اسی قسم کی ایک طویل ترین جذباتی گفتار و اظہار کا نمونہ بن گیا ہے۔ یقیناً ساجدہ کی جذباتی، سلیس اور دل و دماغ کو پوری شدت کے ساتھ مسحور کرنے والی زبان اور بے محابا طرزِ اظہار ہمارے ذہنوں کو بے حد متاثر کرتا ہے۔ مگر المیہ یہ کہ ناول محض اس عنصر ہی کو مسلسل برقرار رکھنے کا نام نہیں ہے۔ ناول کا فن اب پہلے سے زیادہ علم، زیادہ تجربے اور زیادہ تحمل و انہماک کا مطالبہ کرتا ہے۔

’’موجِ ہوا پیچاں‘‘ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں محض کسی ایک تکنیک پر قایم نہیں ہے۔ مجموعاً یہ ایک طویل داخلی کلامی interior monologuing ہے۔ مصنفہ نے کہیں خطوط، کہیں ڈائری، کہیں مختلف مشعرات  allusions، Philosophication اور کہیں اپنی یادوں memoires کے سہارے اسے ایک داخلی تسلسل عطا کرنے کی ضرور کوشش کی ہے ،مگر اس کوشش کے باوجود پورے ناول میں بڑی یکساں روی ہے، تکرار ہے، لفظوں کا بے جا صرف ہے۔ ناول کا فن کتنا ہی سیال اور آزاد کیوں نہ ہو بعض صنفی تقاضوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے اور یہ تقاضے وہ ہیں جنہیں بہ و جوہ ریکارڈ نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ناول کے ساتھ اس کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔

ساجدہ زیدی نے ا پنے ناول کا عنوان میر تقی میر کے اس شعر سے اخذ کیا ہے:

پھر موجِ ہوا پیچاں اے میر نظر آئی   شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی

زنجیر کی استعاراتی معنویت کو ذہن میں رکھیں تو راویہ، صوفیہ، اور زینو کی ننھی منی آرزوؤں، ان کی محرومیوں ، مجبوریوں اور ان کی پابستگی کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا ایک محبس ہے۔ ان میں سے ہر ایک اعلیٰ متوسط طبقے کی نمائندہ ہے اور اسی نسبت سے اس کی زندگی میں ہل چل ہے ،پیچ و تاب ہے، یقینی و بے یقینی کا کہرام مچا ہوا ہے۔ قرۃ العین کے ابتدائی افسانوی مجموعہ ، ستاروں سے آگے، اور ان کے دونوں ابتدائی ناولوں کے نسوانی کرداروں میں بھی اس قسم کی رومانی اداسیوں اور پر تکلف کشمکشوں نے زیادہ بار پایا ہے۔

ساجدہ زیدی نے اس زندگی کے محض چند پہلوؤں ہی کی طرف لطیف اشارے کیے ہیں۔ انہوں نے قرۃ العین کی طرح وقت کو ایک زبردست کردار کے طور پر حاضر و ناظر جانا ہے۔ جو کہیں اندھا اور بہر ا ہو گیا ہے ، کہیں پیچھے کی طرف دوڑ رہا ہے، کہیں برف کی طرح جم جاتا ہے، کہیں وہ صرف ایک واہمہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کہیں مر جاتا ہے۔ وقت کے تیزی کے ساتھ روند کر آگے نکلنے کا دکھ اور موت کے تصور سے حیات و کائنات کی بے معنویت کا شدید تر احساس تما م چیزوں کو واہمے میں بدل دیتا ہے۔

مصنفہ نے زندگی اور موت کے درمیان پروان چڑھنے والی محبتوں ، آرزوؤں اور مختلف رشتوں کو بہت سے نام دینے کی کوشش کی ہے۔ ان میں مردو عورت کا رشتہ ہی نہیں ہے بلکہ عورت کا عورت سے رشتہ بھی ہے۔ عصمت نے بہت پہلے بڑی بلا خوفی کے ساتھ اس رشتے کے جنسی پہلو کو اپنا موضوع بنایا تھا۔ ساجدہ کا پیرایہ بڑا مہذب ہے۔ راویہ اور صوفیہ یا راویہ اور زینو کے رشتے کی نوعیت اردو ناول میں پہلی مرتبہ ایک لطیف تجربہ بلکہ ایک نازک مسئلہ بن کر ابھرتی ہے۔ یہی پہلو اس ناول کو دوسرے ناولوں سے ممتاز بھی کرتا ہے۔ ساجدہ نے ایک طرف اس سوشل آئرنی کے تاثر کو ابھارنے کی کوشش کی ہے جو عورت اور مرد کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیتی ہے۔ جہاں عورت اور مرد کے مابین رفاقتوں ہی پر قدغن نہیں لگائی جاتی بلکہ ایک عورت کے لیے کسی دوسری عورت کا لمس اور ایک مرد کے لیے کسی دوسرے مرد کا لمس بھی اخلاقی تقاضوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ جاگیرداری معاشرے اور اعلیٰ متوسط طبقے میں مرد و عورت کے لیے اخلاقی ضابطے بھی مختلف تھے۔ مرد جہاں آزاد ہے وہاں عورت، عورت سے رشتہ قایم کرنے پر مجبور ہے۔ حالاں کہ راویہ کی زندگی میں اس کی بہن صوفیہ کے بعد راہیل نام کا ایک مرد بھی واقع ہوتا ہے مگر جس شدت سے راویہ اسے چاہتی ہے راہیل میں اس شدت کی کمی ہے۔ صوفیہ اپنے غموں میں گرفتار ہو جاتی ہے اور راہیل کسی دوسری لڑکی سے شادی رچا لیتا ہے پھر راویہ کی زندگی میں راہیل سے بھی زیادہ قوی ہستی کے طور پر اگر کوئی ابھرتا ہے تو وہ ہے زینو دونوں ایک دوسرے کے لیے ایک جان دو قالب ہیں۔ ایک دوسرے کے رفیق، ایک دوسرے کے شریک ، روز و شب کے ساتھی، وصل و ہجر کے ہم راز۔ ان کی دوستی اور ان کی رفاقت کو ایک سے زیادہ نام دیے جا سکتے ہیں۔ مگر اصل مسئلہ نہ تو رفاقت ہے اور نہ باہمی انس۔ بلکہ وہ مفارقت ہے جس کی طرف خود ساجدہ نے اشارہ کیا ہے۔

’’ہر چند کہ محبت کسی بھی عنوان ہو انسان کو رشتہ زندگی میں پروتی چلی جاتی ہے۔ لیکن ……… شاید اپنی مکمل معنویت کے ساتھ دوام اسے بھی نہیں …… کہ زماں کی گزر گاہ کو تو اسے بھی عبور کرنا پڑتا ہے۔‘‘

کبھی موت بن کر وقت اس محبت کے آڑے آ جاتا ہے اور کبھی ایک کی محبتیں دوسرے کی محبتوں کو محو کر دیتی ہیں۔ گویا انسان بہ یک وقت ایک سے زیادہ انسانوں سے محبت کر سکتا ہے۔ خواہ وہ مرد و عورت کے مابین رشتۂ محبت ہی کیوں نہ ہو۔ موجِ ہوا پیچاں میں راویہ اور زینو کا رشتہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ راویہ راہیل کے ساتھ زینو کو بھی عزیز از جان رکھتی ہے اور زینو،روایہ کے ساتھ اصغر کا ساتھ بھی نباہتی ہے اگرچہ وہ اپنے ا ور اصغر کے رشتے کو کوئی نام دینے سے قاصر ہے۔ وہ کہتی ہے:

’’وہ (یعنی اصغر) میرے لاشعور کی آواز ہے…… میں عورت ہوں ……. وہ مرد ہے……. مجھے مرد کی خواہش تھی یہ جاننے کی کہ مرد کا قرب کیا ہوتا ہے…… ہم متوسط طبقے کی لڑکیاں مردوں سے کتنی دور رکھی جاتی ہیں……یہی دوری میری خواہش بن گئی۔‘‘

بالآخر یہ خواہش اصغر اور زینو کو ایک دوسرے کے جسمانی قرب تک لے آتی ہے۔ باوجود اس کے زینو جس کی پہلی رفیق و شریک راویہ تھی ، اصغر سے وفا نہیں کر پاتی بقول اصغر اس نے ڈیوڈ سے بھی وفا نہیں کی تھی۔ اس بے وفائی کا سبب غالباً راویہ کی وہ ذات ہے جو بار بار زینو اور اصغر،زینو اور ڈیوڈ کے درمیان مانع آتی رہتی ہے۔ زینو اصغر کی کم زوری بن جاتی ہے مگر زینو اس کی رفاقتوں کی شدت سے تقریباً بیگانہ وار ہے۔ ایک انسانی درد کا رشتہ ضرور ہے جو زینو کو اصغر سے علاحدہ نہیں ہونے دیتا۔ ناول کے پورے سیاق میں راویہ ہی وہ ہستی ہے جو ایک ایک کر کے اپنے تمام احباب سے بچھڑتی چلی جاتی ہے اور دوسروں کی طرح اپنے خلا کو کسی اور امکان یا ہستی سے پرُ نہیں کرتی۔ اس ضمن میں راویہ کا زینو سے درج ذیل مکالمہ جو مکالمے سے زیادہ داخلی کلامی ہے توجہ طلب ہے:

’’خواہشات کی دنیا حقیقی نہیں زینو …….. عشق کی دنیا بھی اپنا فریب آپ آشکار کر دیتی ہے…… رفاقت کا خواب محض تصور کے دھوکے ہیں…… شاید وہ دنیا جس کی تلاش میں ہم تم اور ہم جیسے بہت سے لوگ ……. ازل سے سرگرداں ہیں ……. محض واہمہ ہے …… شاید تمہاری دوستی و رفاقت محض میرا تصور تھا…. شاید راہیل محض میری اندھی خواہش تھا…… شاید اصغر سے وابستگی محض تمہاری تلاش ہے……. کچھ کر دکھانے کی تلاش…… ہم سب اپنے اپنے روز و شب میں جکڑے ہوئے ہیں…… راہیل کو بھی اس کی عام زندگی نے آواز دی ہے……. آخر میں نے اس کے لیے ……. تمہارے لیے …….. اپنی عام زندگی سے کیوں رو گردانی کی…….. اپنے خالص غموں سے کیوں غداری کی؟؟ …….. ہاں وہ غم جن میں زہر نہیں ہوتا …….تلخیاں نہیں ہوتیں…….. زندگی کی زیادہ بڑی حقیقتیں ہیں۔‘‘

راویہ کی یہ فریب شکستگی کی منزل اس کے اعتراف مگر انتہائے ملال کی منزل ہے۔ خواب شکنی اور التباس شکنی کی منزل ہے۔ یہ اعتراف اپنے انا اور انائے دگر کا اعتراف ہے۔ زندگی کو اس کے پورے وجود اور دوسرے رشتوں کے تناظر میں دیکھنے، سمجھنے اور قبول کرنے کی طرف پہلا اقدام ہے۔ مگر اس ثانیے پر یہ حقیقت فہمی اور زندگی سے نئی معاملت اور رشتوں کے تعلق سے نئی آگہی، راویہ کے حق میں ایک نئے زہر، ایک نئے زخم کا حکم بھی رکھتی ہے کہ وقت اب نہ تو پیچھے کی طرف مڑ سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ :

’’وقت ،ہر کیفیت سے بے نیاز گزر رہا ہے زینو……. سلسلۂ روز و شب واہمہ ہے……شاید واہمہ….. نہیں ……سلسلہِ روز و شب بڑی سنگین حقیقت ہے ……‘‘

ناول کے آخری کلمات میں سلسلہ روز و شب جو پہلے واہمہ تھا اب ایک بڑی سنگین حقیقت میں بدل جاتا ہے اور حقیقت کی سنگینی کا اعتراف ہی زندگی کی سب سے بڑی آئرنی ہے۔ جسے قبول کر کے ہی اپنے اختیار کو کوئی معنی دیے جا سکتے ہیں، اپنی آزادیوں کی کوئی حد متعین کی جا سکتی ہے۔

 

 

 

رشید احمد صدیقی اور لسانی جمالیت

 

رشید احمد صدیقی کو نہ تو خالص مزاح نگار اور نہ ہی خالص طنز نگار کہا جا سکتا ہے۔ دونوں کا لطیف امتزاج ان کے مقصد کا تعین کرتا ہے۔ اس ہر دو عمل میں ایک عالمانہ وقار اور عالمانہ شان پائی جاتی ہے۔ وہ فلسفی نہیں ہیں مگر فلسفیانہ مغالطے ضرور پیدا کرتے ہیں۔ فقرہ بازی اور فقرہ سازی سے طبعی لگاؤ ہے۔ مگر اکثر تصنع اور تکلف کا دباؤ ان فقروں کو عوام کے بجائے خواص کی گفتگو کا موضوع بنا دیتا ہے۔ اور پھر آناً فاناً یہی فقرے مجلسی تہذیب کے روح رواں بن جاتے ہیں۔ رشید صاحب کا اپنا ایک اسلوبِ حیات ہے اور ایک اسلوبِ فکر بھی۔ جس پر مشرقی اخلاقیات کا نقش گہرا ہے۔ وہ بات کسی کی اور کہیں سے بھی شروع کریں اپنی تربیت کا رنگ اور تربیت کے رنگ سے ذرا بچے تو علی گڑھ کا رنگ اس میں ضرور شامل کر دیتے ہیں۔ وہ اخلاق پرست سے زیادہ اخلاق مند تھے اور ان قدروں کو عزیز رکھتے تھے جن سے بشریت کا وقار بلند ہوتا ہے اور زندگی کی حرمت محفوظ۔ ترقی پسندی کو قبولیت نہیں بخشی مگر ایسے قدامت پسند بھی نہ تھے کہ انہیں اپنے عہد کے تقاضوں کا علم و احساس ہی نہ تھا۔ انہیں بعض صالح روایات پر مضبوط اعتقاد تھا، تاہم وہ روایتی نہ تھے کم از کم اس حد تک نہ تھے جس حد تک اکبرؔ الٰہ آبادی کو ہم سمجھتے آ رہے ہیں۔

رشید صاحب کی ملفوظی وراثت انشائیہ ، خاکہ، تنقید اور خطبات پر مشتمل ہے۔ انشائیہ ان کی داخلی ترغیب ہے، جس میں وہ زیادہ سے زیادہ ذہنی آزادیوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ خاکہ اپنے رفقاء کے نزدیک و دور نیز دو ایک مثالوں کو چھوڑ کر ان فضلیت مآب معاصرین کی شخصیات کو محیط ہے، جن کے ذکرو فکر کو وہ اپنے اوپر قرض خیال کرتے تھے کہ بہر حال رشید صاحب اگلی شرافت کے نمونے تھے اور قرض کی رعایت کو دیکھتے ہوئے عاقبت کی انہیں فکر تھی اور بالآخر ایک دن خدا کو انہیں منہ بھی دکھانا تھا۔ یہ ایک علیحدہ گفتگو ہے کہ ان کے اسماء الرجال کے محضر پر کندن جیسے عامی شخص کے دستخط کی گنجائش کیسے نکل آئی اور کیوں کر ہم نفسانِ رفتہ و صاحبانِ عز و جاہ نے معرضِ ابد سے صدائے احتجاج بلند نہیں کی (اگرچہ رشید احمد صدیقی کی بیش تر تحریریں دوستوں کی فرمائش پر لکھی گئی ہیں) تنقید، ان کی پیشہ ورانہ ضرورت تھی، جسے ان کے فوری تاثرات کی رمق ، چمک نے دیدہ زیب اور سامعہ نواز ضرور بنا دیا ہے مگر سوائے فریب نظر کے وہ بہت دیر اور دور تک ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ پتہ نہیں یہ ہماری بے بصری ہے کہ رشید صاحب کی محرومی۔ جہاں تک خطبات کا تعلق ہے،وہ ایک سراپا استاد بن کر مخاطبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ دردمندی، فکر اور زندگی کے تلخ و شیریں تجربات او ر اندیشوں سے معمور یہی خطبات ہیں۔ اس نواح میں وہ ایک رقیق القلب بزرگ استاد کا فرض نبھاتے ہوئے طنز کے کئی حربے استعمال کرتے ہیں، تھوڑا سا آہنگ بھی بلند ہو جاتا ہے، کہیں لعن ہے کہیں طعن،کہیں صلاح ہے، کہیں اصلاح ، کہیں برق دم ہے کہیں ورقِ گل۔ وہ سترہویں صدی کے کردار نگاروں کے نثری آہنگ، ذکاوت اور جامعیت کے امین ہیں تو اس سسیروئی کلام یاciceronian sentence کے اثر سے بھی بری نہیں جس میں آخری فقرے تک اصل خیال، ارادہ اور مفہوم معرضِ اِلتواء میں رہتا ہے۔ یہ چیز رشید صاحب کے انشائیوں اور شخصیت نگاری کے نمونوں میں برقرار ہے۔ ان جملوں کی ساخت ستم ظریفانہ ذہانت سے تونگر ضرو ر ہے۔ لیکن صنعت گری یا انشائے مرصع کی وہ نظیر جو یوفیت euphuism نے قائم کی تھی یا سقراط کی وہ جملہ سازی جس میں تعلّی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ رشید صاحب کے مذاقِ سخن سے قطعی میل نہیں کھاتی۔

۱۔ حاجی صاحب شعر کہتے ہیں اور بسکٹ بیچتے ہیں۔ شعر اور بسکٹ دونوں خستہ۔

۲۔ علی گڑھ میں نوکر کو آقا ہی نہیں آقائے نام دار بھی کہتے ہیں اور وہ لوگ کہتے ہیں جو آج کل خود آقا کہلاتے ہیں یعنی طلبہ۔

۳۔ دیوتاؤں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جسے عزیز رکھتے ہیں اسے دنیا سے جلد اٹھا لیتے ہیں۔ دیویوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ جس کو عزیز رکھتی ہیں اسے کہیں کا نہیں رکھتیں۔

۴۔ چارپائی او ر مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

۵۔ ارہر کا کھیت دیہات کی زنانہ پارلیمینٹ ہے۔ کونسل اور اسمبلی کا تصور یہیں سے لیا گیا ہے۔

۶۔ ہندوستانی کسان کو دیکھتے ہوئے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس کے بال بچے مویشیان ہیں یا مویشیان اس کے بال بچے۔

اس قسم کے جملوں سے شروع ہونے والی عبارتوں میں مبالغہ اتنے وثوق کے ساتھ آمیز کیا گیا ہے کہ ہم بغیر ارادے کے اپنے تعقل کو کچھ وقفوں کے لیے معرضِ اِلتواء میں ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح کے تحیر ز ا فقرے ذہنی پیش منظری mental : foregrounding کا بھی کام کرتے ہیں۔ ا ور کئی چھوٹے چھوٹے climaxes کے بعد پیراگراف کے عین آخری جملے پر پہنچ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ رشید احمد صدیقی کا قصد کس سمت اور کس کی طرف تھا۔ دراصل آخری جملہ ہی وسیع الذیل کلائمکس کا حکم بھی رکھتا ہے۔

’’اسلام کا نظریۂ نکاح مشتبہ ہے۔ اتنا بیان دے کر حاجی صاحب نے داڑھی کو اس طرح تکان دی کہ ایک ایک بال باہمہ و بے ہمہ ہو گیا۔ پیشانی پر شکنیں پڑنی شروع ہوئیں تو کُرۂ سر کے خط استوا پر جا کر ختم ہوئیں اور آنکھیں شاہ نامۂ فردوسی بن گئیں۔‘‘

لفظ اپنے انفراد سے نہیں کسی جملے، مصرعے یا فقرے میں اپنے استعمال سے پہچانا جاتا ہے۔ لفظ کے مطالب و معنی جہاں دیگر لفظوں کے تال میل سے اپنی تعبیر میں مختلف ہوتے جاتے ہیں وہاں تخلیقِ معنی کے ضمن میں لکھنے والے کا نقطہ نظر بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ا س طرح طنز و مزاح کی تحریر میں مصنف کسی ایسے خاص ہنر کو بروئے کار لاتا ہے کہ اخذ کردہ مطالب بڑی سرعت کے ساتھ اپنے ان فوق المعنی سلسلوں میں گم ہو جاتے ہیں جو اپنے خصوص میں عموم سے علاقہ رکھتے ہیں اور ہم ان کے اطلاقات کے معروض بھی جا بجا اور موقع بہ موقع بڑی آسانی کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں اس قسم کی صورتیں تضاد، تناقض، مشابہت اور مغائرت قائم کرنے کے دوران نمایاں ہوتی ہیں۔ اور خیال کی تدریجی صورتوں کی ترتیب کو یکسر الٹ پلٹ دیتی ہیں۔

’’ہاں تو ہم موڑ پر اس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے جیسے پیکر کوہ کسی ناگ کے فشار آغوش میں راستہ خشک اور خنک منظر، حسن و شباب کا تصور، اور تصویر سردی بڑھتی جاتی تھی، نشیب سے گہرا اور ابر کی فضائیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ دیکھتے دیکھتے زمان و مکان جسم و جان پر برودت سی مستولی ہو گئی اور سارا ماحول ایک المناک دھند میں تبدیل ہو گیا۔‘‘

دراصل جنہیں ہم معنی معدوم کا نام دیتے ہیں۔ وہی پیرے ماشیرے کی اصطلاح میں تحت المتن sub-text کا جواز بھی رکھتے ہیں۔ اظہار کی منطق ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ کبھی مکمل، مکمل بہ معنی مکمل موافق بہ خیال نہیں ہوتا اور جسے ہم خیال کہتے ہیں وہ بھی خود ہمارے ذہن میں ایک نا مکمل ابلاغ کی صورت ہوتی ہے۔ ادائیگی سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے اور جو رہ جاتا ہے تحریر میں وہی جوف اور وقفے قاری کو نئی متن کاری کے لیے اکساتے ہیں۔ ان غیر تکنیکی مگر متنی توقّفات کے لیے پیرے ماشیرے سکوتیے اور وقفے جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ سکوتیے صرف خارج کے اجبار ہی کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ داخلی و لسانی جبر، نیز لکھنے والے کے نقطۂ نظر کا جبر بھی انہیں قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک نقاد اس جبر اور ان اسباب کا پتہ لگانے کی سعی کرتا ہے۔ جو متن کے اندر ہی اس کے اپنے لاشعور میں تہہِ نشست ہوتے ہیں۔ یوں بھی ظرافت کے باب میں لفظوں کے کھیل کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ اس طرح مزاح نگار کہیں جبر کے تحت اور کہیں پوری دانست کے ساتھ تسلسل کو توڑتا اور تخیل کو مغالطے میں ڈالے رکھتا ہے کہ قاری کی توقع شکنی بھی اس کے بہت سے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔

آمدم برسرِ مطلب: ایک طرف رشید صاحب کی جملہ سازی کا فن ہے۔ ا ور دوسری طرف ان کی ادائیگی میں وہ سکوتیے اور وقفے ہماری توجہ کے مستحق ہیں جو متعلق ہونے کے باوجود ایک ایسا تناظر ہمارے ذہن کو مہیا کر دیتے ہیں جو شاید رشید صاحب کا مدعا و منصب ہو سکتا ہے مگر متن کے سیا ق میں وہ غیر موجود ہوتا ہے۔

میں یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا۔ ’’چارپائی‘‘ رشید صاحب کا ایک معروف ترین انشائیہ ہے بظاہر مزاح بہ باطن طنز کی ایک بہترین مثال جس میں ڈرامائیت اور فنتاسیہ نے مل کر مزاح کو بہت تہِ دار اور فعال بنا دیا ہے۔ اسی لیے بعض حضرات کے نزدیک چارپائی، خالص مزاح کا ایک نادر نمونہ ہے۔ جیسے پطرس کی سائیکل یا سید محمد جعفری کی مسدس بعنوان موٹر۔ مگر چارپائی میں جو رعایتیں قائم کی گئی ہیں ، جن مشعرات : allusions کا استعمال کیا گیا ہے، جن سیاسی تلازمات کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اپنے قاری کی تربیت بھی مطلوب ہے اور وہ اس کی آگاہیوں کو بھی وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ چارپائی محض ایک objective correlative ہے۔

ایک قصباتی چارپائی جیسے ہندوستانی برگشتہ نصیب مسلمان کی چرمراتی ہڈیوں سے اُس کی بُنائی کی گئی ہو ، جیسے پوری ایک قوم کی نفسیات ، اس کی معاشرت اس کی بے حالی و بد حالی، اس کی بے حسی و کسمپرسی کا مرثیہ ہو، مرثیہ نہ سہی طربیہ، طربیہ نہ سہی چربہ : caricature

’’چارپائی ہی کھانے کا کمرہ بھی ہوتی ہے۔ باورچی خانے سے کھانا چلا اور اس کے ساتھ پان سات چھوٹے بڑے بچے ، اتنی ہی مرغیاں ، دو ایک کتے، بلی اور بے شمار مکھیاں آ پہنچیں۔ سب اپنے قرینے سے بیٹھ گئیں۔ صاحبِ خانہ صدرِ دستر خوان ہیں۔ ایک بچہ زیادہ کھانے پر مار کھاتا ہے، دوسرا بد تمیزی سے کھانے پر، تیسرا کم کھانے پر ، چوتھا زیادہ کھانے پر اور بقیہ اس پر کہ ان کو مکھیاں کھائے جاتی ہیں۔ دوسری طرف بیوی مکھی اڑاتی جاتی ہے اور شوہر کی بد زبانی سنتی اور بد تمیزی سہتی جاتی ہے۔ کھانا ختم ہوا۔ شوہر شاعر ہوئے تو ہاتھ دھو کر فکر سخن میں چارپائی ہی پر لیٹ گئے۔ کہیں دفتر میں ملازم ہوئے تو اس طرح جان لے کر بھاگے جیسے گھر میں آگ لگی ہے اور کوئی مذہبی آدمی ہوئے تو اللہ کی یاد میں قیلولہ کرنے لگے۔ بیوی بچے بدن دبانے اور بد دعائیں سننے لگے۔‘‘

رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں لطافت اور ذکاوت انہی مہین مہین اخفائی شقوں سے قائم ہوئی ہے اور یہ پڑھنے والے کے ذہن کو تابہ دیر بر انگیخت رکھتی ہیں۔ مصنف ہی نہیں قاری بھی جہاں ذرا سا چوکا وہیں اس کا وہ مجتمع اور مرتب تاثر تہس نہس ہو جاتا ہے، جسے اس نے تدریجاً یعنی فقرہ بہ فقرہ اور جملہ بہ جملہ اپنے تجربے اور فہم کا حصہ بنایا تھا۔ اس معنی میں رشید احمد صدیقی کی عبارتوں اور بالخصوص طویل عبارتوں میں آخری جملہ یا جملے کا موخر جزو ہماری حیرتوں کو ایک نئی نظم ایک نئی ترتیب سے دوچار کراتا ہے اور یہی آخری جزو اکثر ان کے طنز کے اسلوب کا تعین بھی کر دیتا ہے کہ اپنے قصد و ہدف میں اس کی نوعیت کیا ہے۔

نواب محمد اسمٰعیل خاں مرحوم کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’مولانا ان ہستیوں میں تھے جو اپنے عہد سے بڑی تھیں، وہ آفرینندۂ عہد تھے اس لیے ان کی کشمکش ایسے لوگوں سے رہتی جو زایئدۂ عہد ہوتے اور ہماری تاریخ، ہماری تہذیب اور ہمارے علوم کا اعتبار و افتخار تھے، اس کا احساس آج ہو رہا ہے جب وہ ہم میں نہیں رہے کیا کیا جائے ایسا احساس بھی ایسے ہی وقت ہوتا ہے۔‘‘

اس اقتباس کے مؤخر جملہ پر غور فرمائیں، یہاں طنز میں عبرت کا پہلو بھی مضمر ہے یعنی ہم بہ حیثیت مجموع کس قدر خود اپنی مذمت و ملامت کے مستحق ہیں۔ جیسے ہماری حِس معطّل ہو چکی ہو، بصارتیں معدوم اور سماعتیں کند۔ رشید احمد صدیقی ایسے لمحوں میں بڑے سکوت مگر پورے اعتماد کے ساتھ طعن و تشنیع سے بھی گریز نہیں کرتے کہ تحت المتن میں ہم ان کی آواز کو پوری بلندی کے ساتھ سن لیتے ہیں محسوس کر لیتے ہیں۔

مزاح نگار کے لیے زبان بہت بڑا آلہ ہوتی ہے۔ وہ وقوعے جو یکایک اور بے ساختہ نمو پاتے ہیں اور جو بالعموم معمول کے رد پر منتج ہوتے ہیں، وہی مزاح نگار کے لیے مواد کا بہترین مخرج بھی کہلاتے ہیں۔ اسی طرح ان کے type جیسے شاعر اور مولوی وغیرہ یا دیگر پیشہ ور افراد اور ان کے کردار کے بعض خارج و داخل ، محسوس و کم محسوس خصائص جو شاید کسی دوسرے کے لیے اتنی توجہ کے لائق نہ ہوں مگر ایک مزاح نگار ان میں طنزیہ بُعد کے جن پہلوؤں کا مشاہدہ کر لیتا ہے وہ نتیجہ ہوتا ہے اس کی باریک بینی اور غیر معمولی حساسیت کا۔ جو چیزوں کو ان کے تمام تضادات و تناقضات کے ساتھ دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رشید صاحب نے اوّل الذکر نوعیت کے ساتھ بعدہٗ نوعیت سے بھی اکثر فائدہ اٹھایا ہے۔ مگر ان دونوں صورتوں کو جس چیز نے نہایت جلا بخشی اور کاری بنایا ہے وہ ان کا اپنا ادراکِ حقیقت کا طرز اور زبان کو قطعی تہذیبی نفاست کے ساتھ برتنے کا عمل ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں کسی مزاح نگار کے مخاطبے discourse میں مشمولات کی صورت اختیار کر لیتی ہیں، وہاں طنز خود اپنی حدیں قائم کر لیتا ہے اور مزاح اپنی حد سے تجاوز کرنے کے باوجود حدِ ادب سے پرے نہیں جاتا۔ یہ وصف رشید صاحب کی اپنی توفیق ہے، اور جو اس نکتے سے بخوبی آگاہ ہیں کہ طنز کن چیزوں سے آلودہ ہو کر دشنام بن جاتا ہے اور مزاح، مسخرگی کی تعمیل۔

’’برسات کی سڑی گرمی پڑ رہی ہو۔ کسی گھریلو تقریب میں آپ دیکھیں گے کہ محلہ نہیں سارے قصبے کی عورتیں خواہ وہ کسی سائز، عمر، مزاج یا مصرف کی ہوں، رونق افروز ہیں،اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہر عورت کی گود میں دو ایک بچے اور زبان پر پانچ سات کلماتِ خیر ضرور ہوں گے۔ کتنی زیادہ عورتیں کتنی کم جگہ میں آ جاتی ہیں، اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا ، جب تک چارپائی کے بعد کسی یکہ اور تانگے پر ان کو سفر کرتے نہ دیکھ چکا ہو۔ یہ اللہ کی مصلحت اور ایجاد کرنے والے کی پیش بینی ہے کہ ہانکنے والے اور گھوڑے دونوں کی پشت سواریوں کی طرف ہوتی ہے، اگر کہیں یہ سواریوں کو دیکھتے ہوتے تو یقیناً غش کھا کر گر پڑتے۔‘‘(چارپائی: مضامینِ رشید ص۸۶)

مزاح کی دوسری صورت ملاحظہ فرمائیں، اس اقتباس میں موقع کی مناسبت بلکہ نزاکت کے پیشِ نظر یکے بعد دیگرے کئی ڈرامائی مشابہتوں سے کام لیا گیا ہے۔ یہاں عبرت کا نقش معدوم ، طنز کی لَے دھیمی اور مزاح کا سُر اونچا ہے۔ سارا زور آخری جملے پر ہے جہاں پہنچ کر سارے جستہ جستہ تاثرات ایک وسیع الذیل تاثر میں ڈھل جاتے ہیں۔ وہ معاشرت جس کی تصویر گہرے، تیکھے رنگوں سے چارپائی میں کھینچی گئی ہے، اس کے دوسرے رخ کو ’’شیطان کی آنت‘‘ میں حکیم صاحب کے تانگے سے اس طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔

’’حکیم صاحب کے تانگے پر بیٹھ کر کوئی شخص نہ اپنے آپ کو محفوظ خیال کر سکتا تھا نہ دوسروں کو جو سڑک پر چل رہے ہوں یا دکان پر بیٹھے ہوں۔ چال جیسے کڑی کمان کا تیر، تیور جیسے کسی دیہاتی تھانے کا تھانیدار۔ کسی کو نہیں معلوم کس وقت یہ سڑک چھوڑ کر کسی دکان میں داخل ہو جائے گا، یا تانگے سمیت، بالا خانے پر چڑھ جائے گا۔ گومتی سے متصل سڑک پر اس بے پناہ رفتار سے چلا جا رہا تھا جیسے رفتار کا ریکارڈ قائم کرنے کے لیے کوئی شخص سمندر کے کنارے ریت پر موٹر چلا رہا ہو۔ جادۂ مستقیم سے ذرا انحراف ہو جائے تو یہ تانگہ اپنی مشمولات کے ساتھ دریا میں جا رہے۔ لکھنؤ میونسپل بورڈ نے سڑک اور دریا کے درمیان کوئی آڑ نہیں قائم کی ہے۔ اس فروگذاشت کا جو شخص ذمہ دار ہو اسے حکیم صاحب کے اس تانگے پر سوار کر کے ریور بنک روڈ کی طرف ہانک دینا چاہیے۔‘‘

اس اقتباس میں تخیل، مشاہدے، ادراک اور معاملہ فہمی کی خصوصیات و اہلیت ایک درست توازن کے ساتھ کار فرما ہے۔ ان تمام خصائص کو ایک خاص لسانی جمالیت سے ادا کرنا اور طویل تر عبارتوں میں بھی ارتکاز اور صلابت کے جوہر کو قائم رکھنا اتنا آسان کام نہ تھا۔

اس لسانی عمل کی دوسری بہترین صورت ان کلمات، فقروں اور جملوں میں دکھائی دیتی ہے جو چستی و برجستگی، جامعیت اور ذکاوت کے جوہر سے مالا مال ہیں۔ رشید صاحب کو neologism یعنی لفظ گڑھنے، نئی ترکیبیں وضع کرنے، نامانوس لاحقے اور سابقے لگانے کا ہنر بھی خوب آتا ہے جیسے محاربۂ الیکشن یا بھبھوتیائی آرٹ یا گھاگھیات اور گھاگھس وغیرہ۔ مبالغہ جو کہیں فنتاسیہ بلکہ افسانوی غلو اور افسانوی التباس کا تاثر بھی پیدا کرتا ہے، ان کلمات کی روح ہے۔ یہ کلمات کبھی بے اختیار ہنسی پر آمادہ کرتے ہیں، کبھی زیرِ لب خفیف سے تبسم کے لیے اکساتے ہیں اور کبھی ہمارے احساسِ حیرت کو کافی دیر تک برانگیخت رکھتے ہیں ،کہیں یہ کلمات دانائی کے گُر کی مانند ہیں، کہیں پارہِ حکمت اور ضابطہ اخلاق و عمل جنہیں مسلمات و کلیات کی طرح رہنما اصول کے طور پر اخذ کیا جا سکتا ہے اور کہیں محض لفظی الٹ پھیر، من کی موج اور صرف خوش طبعی کا نمونہ۔ مگر یہ صورتیں بھی وہ ہیں جو بے محابا دامنِ دل کھینچ لیتی ہیں اور ہمارے تخیل کو مسلسل حرکت میں رکھتی ہیں۔ ہمیں بہرِ صورت یہ بھی عزیز ہیں اور وہ بھی عزیز۔

۱۔ جو عبادت خدمتِ خلق سے عاری ہو وہ عمر رائیگاں ہے۔

۲۔ جہاں طالبِ علم صحت مند ہے وہاں کا معاشرہ معتبر و مستحکم ہے۔

۳۔ اگر انسان کو بد ترین دشمن کی تلاش ہو تو اس کو اپنے عزیزوں میں مل جائیں گے۔

۴۔ نشاط بری چیز نہیں ہے بلکہ نشاط سے مغلوب یا اس کا محتاج ہونا بزدلی اور کم مائیگی ہے۔

۵۔ خدا نے اپنی نجات انسانوں کے سپرد نہیں کی ہے بلکہ انسانوں کی نجات انسانوں کے سپرد کی ہے۔

۶۔ جو قوم صرف افسانے کہنے سننے پر اتر آتی ہے وہ جلد ہی خود افسانہ بن جاتی ہے۔

یہ مثالیں رشید صاحب کے اپنے طرزِ بیان کی نمائندہ تو ہیں ہی، مگر ان کا پورا سیاق ان کے کشید کیے ہوئے اخلاقی نقطہ نظر کا زائیدہ و آفریدہ ہے۔

دوسری مثالیں ملاحظہ فرمائیں جو محض خوش وقتی کا نمونہ ہیں مگر ادراک کی تیزی اور نگاہ کی باریکی ان سے بھی مترشح ہے۔ یہ کم نہیں ہے کہ جب بھی ہم انہیں دہراتے ہیں تھوڑے وقتوں کے لیے ہی سہی حقیقت کے تئیں ہماری ہوش مندی معطل ہو جاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

۱۔ میں نے آج تک کسی دھوبی کو میلے کپڑے پہنے نہیں دیکھا اور نہ اس کو خود اپنے کپڑے پہنے دیکھا، البتہ اپنا کپڑا پہنے ہوئے اکثر دیکھا ہے۔

۲۔ میری زندگی میں شاعرِ انقلاب پیدا ہونے لگے تھے لیکن جس وقت میں نے ان کو چھوڑا ہے تو وہ سر بہ کف تھے اور انقلاب سر بہ گریباں!

۳۔ چارپائی ہندوستانیوں کی آخری جائے پناہ ہے۔ فتح ہو یا شکست وہ رخ کرے گا ہمیشہ چارپائی کی طرف۔

۴۔ چارپائی ہندوستان کی آب و ہوا، تمدن و معاشرت، ضرورت اور ایجاد کا سب سے بھرپور نمونہ ہے۔

۵۔ تجسّس عورت کی فطرت ہے اور پاسبانی اس کی عادت، ان کا سدِ راہ نہ پردہ ہے نہ پیانو۔

۶۔ ہائیڈ پارک کی خوش فعلیاں آرٹ یا اس کی عریانیوں پر ختم ہو جاتی ہیں، ارہر کے کھیت کی خوش فعلیاں اکثر واٹر لو پر تمام ہوتی ہیں۔

۷۔ موت کا وقت معین ہے مگر موکل کا نہیں۔

رشید صاحب کی تخیل کے اس خاص عمل پر تاکید اً توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو فنتاسی کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے۔ رشید صاحب اپنے انشائیوں ہی میں نہیں بلکہ اپنے مرقعوں میں بھی اکثر حقیقت کو بڑی نیک نیتی، اور سادہ دلی سے مسخ کر کے یا اسے بڑی حد تک گھٹا بڑھا کر کچھ اس طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر پیکرِ تصویر ایک کاغذی پیرہن میں اپنے خالق کی شوخی تحریر کا عبرت ناک نمونہ بن جاتا ہے۔ اسے عبرت ناک کہیں یا مضحکہ خیز، بہر حال وہ بار بار ہماری مروجہ لسانی ساختوں کو توڑتے ہیں، صورتیں بناتے ہیں پھر بگاڑتے ہیں۔ اس طرح کی توڑ پھوڑ سے انہیں بڑی لذت حاصل ہوتی ہے۔ یہ مسوکیت ہے نہ سادیت بلکہ فنتاسی کی وہ صورت ہے جو حقیقت سے ایک مختلف طور پر متعارف کراتی ہے۔ مثلاً:

’’مغالطے کی تحقیق و تفتیش میں میرے پاس وہی مواد ہے جو سودا کو اپنے گھوڑے کے سلسلے میں دستیاب ہوا تھا۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ ان کے گھوڑے پر شیطان سوار ہو کر جنت سے نکلا تھا اور بڑی تحقیقات سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ مغالطہ خود شیطان پر سوار ہو کر دنیا میں آیا ہے۔‘‘

’’خلفشار کم ہوا۔ دیا سلائی جلائی گئی تو دیکھتے ہیں کہ حاجی بلغ العلٰی ، بہ شکل سینٹ کلاویز وارد ہیں بس یوں کہہ لیجئے کہ ایک ڈاڑھی اور کمل پر حاجی صاحب اس طور پر مسلط ہیں،جس طرح سارے ہندوستان پر یونین جیک۔ جہاں تک حاجی صاحب کے چلنے کا تعلق ہے۔ بہت کم لوگ اس راز سے آشنا ہوں گے کہ فی الحقیقت ڈاڑھی اور مکمل حاجی صاحب پر مسلط نہیں ہوتے بلکہ خود حاجی صاحب ڈاڑھی اور کمل پر مسلط ہیں۔‘‘

ان اقتباسات میں صرف زبان سے گڑھنے ہی کا کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے ، حقیقت سے وابستگی کے ایک نئے طور کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ رشید صاحب شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ذہن میں جو ایک معیاری اور مثالی دنیا آباد ہے حقیقی دنیا اس کے منافی ہے۔ چاروں طرف حسن، نظم اور یگانگت کا فقدان ہے۔ نتیجہ اس مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے جو انہیں فنتاسیہ کے لیے اکساتا ہے اور وہ حقیقت کے تخیلی متبادلات پیش کرنے لگتے ہیں۔ گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انسانی ذہن میں یہ قوت ہے کہ وہ کسی وجود کے تجربے ہی کا تصور نہیں کرتا بلکہ تخیلی متبادل بھی خلق کر سکتا ہے کیوں کہ ہر حقیقت ایک سے زیادہ متبادلات کی حامل ہوتی ہے۔ اسی طرح رشید صاحب ایسے لمحوں میں جہاں بعض معائر کو مسترد کرتے ہیں وہاں بعض نئے معائر کی بنیادیں بھی فراہم کرتے ہیں۔

 

 

 مجتبیٰ حسین کا اسلوبِ مزاح

 

 

میں ہی نہیں ہمارے اکثر معاصرین کو یہ شکایت ہے اور بجا ہے کہ ہم آہستہ آہستہ ہنسنا اور مسکرانا بھولتے جا رہے ہیں۔ ہنسی ایک فطری عمل و ردِّ عمل کا نام ہے، لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اب ہمیں ہنسی کی بات پر بھی دوسرے کو گدگدی چلا کر ہنسانا پڑتا ہے۔ جس قوم کے روز مرہ سے ہنسی کا عنصر ہی غائب ہونے لگے تو اسے شانزوفرینیا جیسے نفسیاتی عارضے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ جہاں تک میرا سوال ہے میں یہ سوچ سوچ کر اکثر بہت ملول ہو جاتا ہوں کہ ہم میں اس قدر غم و غصہ کیوں بھرا ہوا ہے۔ ہم ذرا ذرا سی اہم اور غیر اہم، متعلق اور غیر متعلق باتوں کا جواب لاتوں سے کیوں دینا چاہتے ہیں۔ ایک ذرا سا دھکا لگتا ہے اور تمام  معافیوں اور معذرتوں کے جواب میں ہمیں ایک آدھ تھپڑ نہیں تو گالیوں کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ میں تو یہی کہوں گا اور بہ اصرار اور بالتکرار کہنا چاہوں گا کہ وہ قیمتی نعمت جسے عرف عام میں حسِ مزاح یا sense of humour کہا جاتا ہے، ہم اس سے محروم ہو چکے ہیں۔ آئرنی یہ کہ ہمیں اس محرومی کا کوئی احساس بھی نہیں ہے کیونکہ حسِ مزاح کی محرومی کے معنی میرے نزدیک بے حسی ہی کے ہیں۔ جو قوم حسِ مزاح کو گنوا بیٹھتی ہے اس کا کردار عجلت پسندی ، ہٹ دھرمی، نا عاقبت اندیشی ،تشکیک،     خود رائی، بے رحمی اور صحیح پسندی جیسے خاصوں کا تابعِ مہمل بن کر رہ جاتا ہے۔

 

مجتبیٰ حسین کی حسِ مزاح کو موضوع بناتے ہوئے ایک سوال اور میرے ذہن پر بار بار دستک دے رہا ہے کہ ہمارے ادب ہی میں نہیں دیگر اہم ترقی یافتہ زبانوں میں بھی مزاحیہ ادب کے سوتے کیوں خشک ہوتے جا رہے ہیں؟ انگریزی میں17ویں صدی کے بعد ہی سے مزاحیہ ادب مسلسل زوال پذیر ہے۔ بیسویں صدی کے ربعِ آخر تک پہنچتے پہنچتے مزاح کی تقریباً موت واقع ہو چکی ہے۔ خدا، انسان، نظریہ، تاریخ اور مصنف کی یکے بعد دیگرے اموات کے بعد غالباً اب مزاح کا نمبر ہے۔ بعض جدید ہندوستانی زبانوں کے ادب میں لعن طعن اور طنز و تعریض نے غیر معمولی فروغ پایا ہے، لیکن جسے مزاح اور ظرافت کا نام دیا جاتا ہے، اس میں ابتذال کی وہ سطح نمایاں دکھائی دیتی ہے، جو ہمارے بازاری بے فکرے اور نکمے لوگوں کا کھاجا ہے۔ بعض صوبائی زبانوں کے مزاح نگاروں میں مسابقت کا میلان اس قدر حاوی ہے اور قارئین کے لئے لذت کے سامان فراہم کرنے کی ایسی ہوڑ لگی ہے کہ مزاح نگار اور نٹ میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے اردو کی لسانی تہذیب کے تکلفات اور اس کی وضع کی اپنی ایک ایسی روایت رہی ہے جس کے باعث مزاح نگار ایک حد تک ہی آزادی کے ساتھ کُھل کھیل سکتا ہے۔ کم از کم ہمارے مقتدر مزاح نگاروں نے تفکر اور تفنّن کے اشتراک کی جو مثال قائم کی ہے اور جو ہمارے مزاح کی ایک مستحکم روایت بن چکی ہے، اس کا سلسلہ پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی سے ہوتا ہوا مجتبیٰ حسین تک پہنچتا ہے۔

 

مجتبیٰ حسین بہت حساس واقع ہوئے ہیں۔ شخصیت فہمی ، جس گہرے نفسیاتی درک اور باریک بینی کا مطالبہ کرتی ہے اور بالخصوص ایک مزاح نگار کو جس طور پر بڑے وثوق اور بڑے اعتماد کے ساتھ اسے دلچسپ اور توجہ خیز بنانا پڑتا ہے۔ مجتبیٰ کے خاکے، گروہی stock یا انفرادی کردار انہیں ترجیحات کے حامل ہیں۔ البتہ آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا ڈر انہیں بے حد محتاط بھی بنا دیتا ہے۔ یہی پاسِ احتیاط جہاں طنز کے آہنگ کو ایک خاص سطح سے بلند نہیں ہونے دیتا وہیں مزاح کے لئے گنجائش پیدا کرنے یا بے خطر راہ نکالنے میں انہیں یقیناً بڑی کشاکشوں سے بھی گزرنا پڑتا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ خالص کشتگان شعر و ادب کے مقابلے میں بالانشینانِ عہدِ رواں اور دانش ورانِ قہر ساماں کے خاکوں میں قلم کی رفتار اور شوخئ گفتار میں بڑا فرق ہے۔ تاہم کوئی بھی تحریر مجتبیٰ کے بلیغ جملوں اور ایسی عبارتوں سے خالی نہیں ہوتی، جن میں ظاہر اور باطن کا تضاد قومِ محال کو راہ نہ دیتا ہو یا دونوں سطحوں کے مابین کسی متوقع معنی یا منشا کے فریب میں مبتلا کرنے والی جہت برقرار نہ ہوتی ہو۔ اس قسم کی عبارتوں میں پہلی سطح پر جس نفی یا اثبات کی کیفیت سے ہم دوچار ہوتے ہیں، دوسرے ہی لمحے اس کی ضد سے واسطہ پڑتا ہے، پھر ضد کی ایک اور ضدِ اثبات یا نفی کی صورت میں واقع ہوتی ہے۔ گویا ہاں اور نہیں کا یہ فریب طنز  ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ مجتبیٰ حسین کے یہاں مزاح کی آمیزش اسے ایک متوازن کیفیت میں بدل دیتی ہے۔

 

’’اگر آپ پندرہ دن پرانا اخبار بھی پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے آپ آج کا اخبار پڑھ رہے ہیں۔ وہی فسادات، وہی ہنگامے ، وہی مار دھاڑ، سیاست دانوں کی وہی بدعنوانیاں اور کارستانیاں، حادثے، زنا، اغوا اور ڈکیتی کے ویسے ہی واقعات۔ بری خبروں میں بھی اتنی یکسانیت پیدا ہو گئی ہے کہ اگر کسی روز پچاس ساٹھ آدمی یوں ہی بلاوجہ نہیں مر جاتے تو لگتا ہے کہ یہ دن تو بس یونہی ضائع ہو گیا۔‘‘(کیا نیا سال آگیا؟)

 

’’کسی نے سچ کہا ہے کہ استاد اور طالب علم کی عمروں میں کم از کم پندرہ برس کا فرق ضرور ہونا چاہئے ورنہ تعلیم خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جوان عورت کا بوڑھا شوہر جتنا بھلا لگتا ہے، اتنا ہی ایک طالب علم کو جوان استاد برا لگتا ہے۔‘‘(پروفیسر علی محمد خسرو)

 

’’سیاست دانوں کو یہ آزادی ملی ہوئی ہے کہ وہ جتنی چاہیں پارٹیاں بدلیں۔ جب جی چاہے اپنے نظریات بدل دیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سیاسی پارٹیوں کی حیثیت ’ٹی پارٹیوں‘ کی سی ہو گئی ہے کہ چائے پی لی اور دوسری پارٹی کی طرف چلے گئے۔ بعض لیڈروں کو تو اب یہ بھی یاد نہیں رہا کہ آزادی کے بعد وہ کتنی پارٹیاں بدل چکے ہیں۔ ایک زمانے میں لیڈر کسی پارٹی میں شامل ہوتا تھا تو اس پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے ہی اس کا جنازہ اٹھتا تھا۔ اب لیڈر کے جنازے کو کندھا دینے والے ایک ہی پارٹی کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ مخلوط جنازے نکلتے ہیں۔‘‘ (یومِ آزادی)

 

افلاطون کے بارے میں ہم خوب واقف ہیں کہ مزاحیہ شعرا کو بھی اُس کی مثالی ریاست میں دوسرے شہریوں پر ہنسنے ہنسانے کی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ مزاح (طربیہ) کی مسرت خیزی، اس کے نزدیک کینہ توز مسرت ہے۔ اور ہنسی کا ایک حد سے بڑھنا متشدد ردعمل کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ (افلاطون کا موخر بیان کسی حد تک غور طلب ہے) افلاطون یہ بھی کہتا ہے کہ مزاحیہ شاعری (ادب) کو ہر سطح پر استدلال کے وقار اور حکم رانی کو برقرار رکھنا چاہئے۔ کیونکہ طرب و الم کی جو دو متضاد کیفیات ہیں، دونوں کی یکجائی انسان کی خود ضبطی کی قوت کو کم زور کرتی ہے۔ مجتبیٰ حسین کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے مخاطبوں میں طرب و الم یا تفکر و تفنّن جیسی متضاد کیفیتوں کی یک جائی، ان کی خود ضبطی کو کہیں اور کبھی کم زور نہیں کر پاتی۔ ان کی طبیعت میں گہری سنجیدگی اور اخلاص کا جو عنصر ہے وہ ان کی تحریروں میں اس قدر یکساں روی کے ساتھ قائم رہتا ہے کہ اس میں تفنن کی راہ نکالنا اور وقت کی یکساں روی سے پیدا ہونے والی اکتاہٹ سے تھوڑی دیر کے لئے چھٹکارا پانے کی مہلتیں فراہم کرنا، مجتبیٰ حسین ہی کا کمالِ فن ہے۔ افلاطون نے مزاحیہ شاعری میں المیہ پہلوؤں کو ہدفِ نقد بناتے ہوئے اس قسم کے لمحوں کے ورود کو استدلال کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے تعبیر کیا ہے کہ وہی شخص جو ابھی آنسو بہا رہا تھا، آہیں بھر رہا تھا، اچانک ہنسی کا فوارہ چھوڑ دیتا ہے  اور یہ تمام اعمال وہ ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم جذبے کے غلام ہیں۔ مجتبیٰ حسین کے حسِ مزاح کے تفاعل کے مدِ نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہی شخص جو ابھی ہنس رہا تھا، محظوظ ہو رہا تھا، یک لخت آہیں بھرنے لگتا ہے یا گہری سنجیدگی اختیار کر لیتا ہے۔ یہ جذبے کی غلامی نہیں جذبے کی آزاد روی اور جذبے کی یک جہتی پر قدغن لگانے کا عمل ہے۔ مجتبیٰ حسین نے ایک جگہ لکھا ہے:

 

’’سچا مزاح وہی ہے جس کی حدیں سچے غموں کی حدوں کے بعد شروع ہوتی ہیں۔ زندگی کی ساری تلخیوں اور اس کی تیزابیت کو اپنے اندر جذب کر لینے کے بعد جو آدمی قہقہے لگا سکتا ہے،  ہنسنے کے لئے جس قدر گہرے شعور اور ادراک کی ضرورت ہوتی ہے، اتنے گہرے شعور کی ضرورت شاید رونے کے لئے نہیں ہوتی۔‘‘( قصہ مختصر)

 

تفکر اور تفنن یا ہنسنا اور رونا دونوں اعمال نہ تو ایک دوسرے کا ضمیمہ ہیں اور نہ تکملہ بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اور تخلیقی سطح پر ضدوں کو اس طور پر مجتمع کرنا کہ ان کی دولختی ایک جمالیاتی واحدے میں ڈھل جائے، کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے مزاح نگار کو اپنے شعور کی ایک خاص سطح پر تربیت کرنی پڑتی ہے۔ یہ کسی فلم یا ٹیلی وژن سیریل کے فلیش بیک یا فارورڈ فلیش کی تکنیک سے زیادہ مشکل کام ہے۔ مزاح نگار کو تخلیقی لمحات کے دوران ہی اپنی تحریر کو ایڈیٹنگ سے گزارنا پڑتا ہے تب ہی وہ وقت کی الٹ پھیر کو ایک فطری روکا احساس دلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور دو مختلف کیفیتوں کو ایک ایسی وحدت میں ڈھال سکتا ہے، جسے bathos یا تنزل یا اینٹی کلائمیکس کے روایتی تصور کا رد کہہ سکتے ہیں۔ پوپ کا خیال تھا کہ اینٹی کلائمیکس کی وہ شکل قابل گرفت ہے جس کا مقصود مزاح ہوتا ہے۔ عظمت کے بعد ایک دم زوال کا رونما ہونا، مضحکہ خیز صورت حال سے تو دوچار کر سکتا ہے، دردمندی یا ترحم کے جذبات کو برانگیختہ نہیں کر سکتا۔ مجتبیٰ حسین اور یوسفی کا فن پوپ کے اس کلیے کی نفی پر استوار ہے۔ یوں تو مجتبیٰ حسن اور مشتاق احمدیوسفی کے لسانی استعمالات اور چیزوں کو دیکھنے اور انہیں اپنے فن میں سمونے، سمیٹنے اور انہیں تحریف و تقلیب کے ساتھ ایک خاص وضع دینے کے طریقوں میں بڑا فرق ہے، لیکن دونوں کو ضدوں یا دو مختلف کیفیتوں اور صورتِ حالات کو یکجا  کرنے اور افسانے کو ڈرامہ بنانے پر بڑی قدرت حاصل ہے۔

مجتبیٰ حسین نے راجندر سنگھ بیدی کی رقیق القلبی اور حسِ مزاح کو ان کی شخصیت کے ایک ایسے بُعد کا نام دیا ہے جو کم ہی انسانوں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ان کم انسانوں میں میرا خیال ہے مجتبیٰ حسین کا شمار کر کے بیدی کا ثانی تلاش کرنے کی زحمت سے ہم اپنے آپ کو ضرور بچا سکتے ہیں۔ بیدی کے بارے میں ان کے ان خیالات کا اطلاق بہ آسانی خود مجتبیٰ حسین کی ذات پر کیا جا سکتا ہے۔

 

’’بات دراصل یہ ہے کہ بیدی صاحب ہمیشہ جذبوں کی سرحد پر رہتے ہیں اور سیکنڈوں میں سرحد کو اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر عبور کر لیتے ہیں۔ ان کی ذات جھٹپٹے کا وقت ہے۔ برسات کے موسم میں آپ نے کبھی یہ منظر دیکھا ہو گا کہ ایک طرف تو ہلکی سی پھوار پڑ رہی ہے اور دوسری طرف آسمان پر دھلا دھلایا سورج چھما چھم چمک رہا ہے۔ اس منظر کو اپنے ذہن میں تازہ کر لیجئے تو سمجھئے کہ آپ اس منظر میں نہیں بیدی صاحب کی شخصیت میں دور تک چلے گئے ہیں۔ ان کی ذات میں ہر دم سورج اسی طرح چمکتا ہے اور اسی طرح ہلکی سی پھوار پڑ رہی ہوتی ہے۔ ایسا منظر شاذونادر ہی دکھائی دیتا ہے اور یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ بیدی صاحب جیسی شخصیتیں بھی اس دنیا میں شاذونادر ہی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘

 

آپ اس اقتباس میں بیدی کے نام کو مجتبیٰ حسین کے نام سے بدل دیں تو مجتبیٰ کی شخصیت ہی نہیں ان کے فن کی گرہ کشائی کی راہ بھی ہمارے لئے آسان ہو سکتی ہے۔ مجتبیٰ حسن نے عزیز قیسی کے خاکے میں ان کی شخصیت کے دردمندانہ پہلو کو ان کی ایک خاص شناخت کے نام سے یاد کیا ہے۔ جیسا کہ مجتبیٰ کا طریقِ کار ہے، بڑی آہستہ روی کے ساتھ پہلے وہ عزیز قیسی کی حساس اور گداز طبیعت کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر انہیں ایک اندر سے ترشے ہوئے unfinished مجسمے کا نام دیتے ہیں بعد ازاں دوسرے ہی لمحے میں ایک اسطوری مضمنے (ایپی سوڈ) کے حوالے سے اپنے بیان پر استدلال کا رنگ چڑھا دیتے ہیں۔ استدلال بھی ایسا جو قاری کی چشمِ حیرت کو نم ناک کرنے کے لئے کافی ہے۔ بات تفنن سے شروع ہوتی ہے اور ختم ہوتی ہے تفکر پر۔ گویا بقول یوسفی ’’وہ مزاح کہ جو آپ کو سوچنے پر مجبور نہ کرے نا پخت ہے۔‘‘

 

’’میں عزیز قیسی کا بڑا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ بڑا دردمند اور حساس دل رکھتے ہیں۔ اٹھارہ سال پہلے میں نے انہیں دیکھ کر کہا تھا ’’یہ شخص تو بالکل پتھر کا مجسمہ ہے اور وہ بھی unfinished مجسمہ ‘‘اب بھی مجھے عزیز قیسی کبھی کبھی پتھر کے مجسمے کی طرح نظر آتے ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ مجسمہ اندر سے ترشا ہوا ہے باہر سے نہیں۔‘‘

 

میں نے اپنے بچپن میں ایک قدیم یونانی کہانی پڑھی تھی کہ پتھر کا ایک مجسمہ شہر کے چوک میں عرصہ سے گم صم کھڑا تھا۔ وہ اس کے پاس سے گزرنے والوں کی سرگرمیوں کا چپ چاپ جائزہ لیا کرتا تھا مگر وہ نہ مسکراتا تھا اور نہ رو سکتا تھا۔ ایک دن ایک بڑھیا کا اکلوتا بیٹا مرگیا۔ بڑھیا پاگل ہو گئی اور پتھر کے اس مجسمے سے لپٹ کر کہنے لگی بیٹا کچھ تو بولو، خاموش کیوں ہو؟ اور بڑھیا کے اس پاگل پن کا جواب دینے کے لیے پتھر کے مجسمے کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

 

مجھے اس غیر فطری کہانی پر ہنسی آئی تھی۔ آخر پتھر کا آدمی کس طرح رو سکتا ہے مگر عزیز قیسی کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ جھوٹی کہانی بالکل سچی معلوم ہوتی ہے۔‘‘

 

مجتبیٰ حسین کی سب سے بڑی کمزوری، کمزوری جسے ان کی طاقت بھی کہا جا سکتا ہے، ان کی طبیعت کی نرمی ہی ہے جسے نبھا کر چلنا ایک مزاح نگار کے لئے کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔ ایک لمبی پریکٹس کے بعد اذیت برداشت کرنا ان کے لئے ہنسی کھیل بن گیا ہے۔ قیاس کہتا ہے کہ مجتبیٰ حسین نے اندرونی تخلیقی دباؤ کے تحت کم ہی خاکے لکھے ہیں اور اگر مجتبیٰ صاحب مجھے کہنے کی اجازت دیں تو یہ کم کا لفظ بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ بعض حضرات تو یقیناً اس لائق تھے اور ہیں کہ ان پر خاکہ لکھنے کے معنی اپنے قلم کو آزمائش میں ڈالنے کے تھے یا اپنے قلم کو کچھ زیادہ ہی عزت بخشنے کے تھے۔ بعض غیر اہم حضرات کی غیر معروفیت کو مجتبیٰ حسین ہی سے غیر معمولی شہرت بھی ملی۔ جو اپنی زندگی میں ہی مردنی کے عالم میں بسر کر رہا ہو، اس کے لئے مجتبیٰ حسین کا قلم قم باذنِ اللہ سے کم طاقت نہیں رکھتا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ مجتبیٰ حسین کی سب سے بڑی کمزوری ان کی طبیعت کا گداز ہے، جسے ان کی شخصیت کے خاص جوہر کا نام دینا زیادہ درست ہو گا۔ پچھلے پچاس برسوں کی ان کی تحریروں کا دفتر اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے اس گداز اور اس نرمی اور اس اخلاص کے جوہر سے کہیں فرار اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی۔

 

مزاح میں طنز کے لمحوں کا در آنا ایک عمومی سی بات ہے۔ مزاح نگار کے اندر اگر تھوڑا بہت بھی بے دردی کا عنصر ہے تو وہ بے دھڑک آتشِ نمرود میں کودنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ مجتبیٰ حسین آتش کو اور زیادہ مشتعل کرنے کے بجائے ایک ایسے گر سے کام لینا جانتے ہیں کہ آتشِ نمرود میں کودے بغیر ہی وہ آگ گل گلزار میں بدل جاتی ہے۔ اس سلسلے میں حیدرآباد کا جو ذکر کیا، چار مینار اور چار سو برس، کچھ حیدرآبادیوں کے بارے میں، قیام الدین کے گھر ہمارا قیام اور دیس سے جانے والے بتا، وغیرہ جیسے انشائیوں میں مزاح کا رنگ نہ صرف گہرا اور دیرپا ہے بلکہ رشید احمد صدیقی کے علی گڑھ اور مشتاق احمد یوسفی کے کراچی اور ماضی کی طرف نکل جائیں  تو سرشار کے لکھنؤ سے نظر بازی کی جرأت بھی رکھتا ہے۔ مجتبیٰ حسین کا حیدرآباد تو کراچی، لندن، شکاگو اور ٹورنٹو ہی میں نہیں دوبئی ،مسقط اور سعودی عرب میں بھی جلوہ فگن ہے۔ حیدرآباد کے مہاجرین میں ناسٹلجیا کی وبا عام ہے۔ اس کا علاج بھی انہیں معلوم ہے کہ جہاں جاؤ حیدرآباد کو اپنے تمام دوستوں اور دشمنوں ،قورموں اور کبابوں، بریانیوں اور بگھارے بینگنوں، کھٹی بھاجیوں اور گوشت اور مچھلی کے اچاروں کے ساتھ لے جاؤ۔ پھر کیا جنت اور کیا دوزخ (بقول مجتبیٰ) ’ ملکی ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘  بلاشبہ مجتبیٰ کے ان مشاہدات میں بڑا تنوع ہے۔ انہوں نے جس بے تکلفی اور بلاتحفظی کے ساتھ حیدرآباد کو رقم کیا ہے، حیدرآباد ایک زندہ اور متحرک ہستی کے طور پر ہمارے ذہنوں میں گشت کرنے لگتا ہے۔ یہ بات اس دہلی پر کم ہی صادق آتی ہے جس کی دھجیاں انہوں نے دہلی کے جنگلی جانور اور حضرت خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط، ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی بات چیت، پردہ فاش ریلی سے گریباں چاک ریلی تک،    الفریب اور ہمارا  الطنز  و المزاح اور جامعہ سے ظالمیا تک کے علاوہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر خوب بکھیری ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے یہاں کے موسموں کی کجی اور سختی، یہاں کے انتظامیہ کی بے حسی، ارباب حل و عقد کی غفلت شعاری، سڑکوں کی خستہ حالی، سیاست کی پارہ صفتی اور نیتاؤں کی موقع پرستی کو جا بجا ہدفِ ملامت بنایا ہے۔ طنز نے کہیں تعریض کی حدوں کو چھو لیا ہے تو کہیں غم کی کیفیت غصے میں بدل گئی ہے۔ کہیں کہیں تو  وہ دل جلے عاشقانِ دہلی کی طرح واسوخت پر بھی اتر آتے ہیں۔ حیدرآباد کے انتظامیہ کو بھی انہوں نے کئی جگہ آڑے ہاتھوں لیا ہے تاہم جب کوئی حیدرآبادی شخصیت درمیان آتا ہے  یا حیدرآباد کی مجلسی زندگی کا یا ان پکوانوں کا جو ہمارے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے حق میں کچھ زیادہ ہی مفید مطلب ہیں، مجتبیٰ کے لئے لمحۂ راحت سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔ دہلی کی سخت و درشت زندگی کے تناظر میں اسے ہم comic relief کا نام دے سکتے ہیں۔

 

’’جب شاذ کسی ترنم اور ڈرامہ بازی کے بغیر دونوں ہاتھوں سے مشاعرہ لوٹنے لگتا تھا تو میرے تصور میں چار مینار کے مینار کچھ اور اونچے ہو جاتے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کی عمارت کچھ اور بھی پر شکوہ نظر آنے لگتی تھی۔ نوبت پہاڑ ہمالیہ کی طرح اونچا دکھائی دینے لگتا تھا۔ دکن دیس کی سانولی شاموں کا حسن کچھ اور بھی نکھر آتا تھا۔‘‘ (شاذ تمکنت)

 

لطف کی بات یہ ہے کہ شاذ اپنی غزل دہلی کے مشاعرہ میں سنا رہے ہیں، جس پر داد و تحسین کی وہ بوچھاڑیں پڑتی ہیں کہ حیدرآباد کا حیدرآباد نہال ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں "حیدرآباد کا جو ذکر کیا” کے دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیں کہ حیدرآباد والے حیدرآباد ہی میں نہیں حیدرآباد سے دور دیسوں میں بھی پیٹ پر جان فدا کرنے کے لئے کتنے اتاؤلے ہوتے ہیں۔

 

’’ہم نے کہا یار لندن میں آئے ہوئے بیس دن ہو گئے۔ ان بیس دنوں میں اتنے حیدرآبادی کھانے کھائے ہیں کہ خود حیدرآباد میں بھی پچھلے تیرہ برسوں میں نہ کھائے ہوں گے۔ کھلانا ہی ہو تو انگریزی کھانا کھلاؤ۔ میں تو انگریزی کھانا کھانے کے لئے ترس گیا ہوں۔ مجید بولا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دو حیدرآبادی پردیس میں ملیں اور بگھارے بینگن بیچ میں نہ آئیں۔‘‘

 

’’لندن تو خیر لندن ہے، پیرس میں ہم چار دن کے قیام کے لئے اپنے دوست مسرور خورشید کے یہاں پہنچے تو انہوں نے جاتے ہی اپنا ریفریجریٹر کھول کر دکھایا کہ بھیّا! میں نے اس میں پورے ایک ہفتہ کے لئے حیدرآبادی کھانے پکا کر رکھ دیئے  تم صرف چار دن کیوں رہتے ہو؟ ایک ہفتہ رہو۔ یہ رہی نہاری، یہ رہے بگھارے بینگن، یہ رہی دہی کی چٹنی، یہ رہی کھچڑی اور یہ رہی۔ ۔ ۔ ، ہم نے اپنے اور ان کے منھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، خدا کے لئے اب حیدرآبادی کھانوں کا ذکر نہ کیجئے  مجھے ابکائی آ رہی ہے۔ کیا حیدرآبادی تہذیب اب صرف پکوان میں ہی اٹک کر رہ گئی ہے۔‘‘

 

مجتبیٰ حسین کا فن صرف اور صرف خوشی بانٹنے سے عبارت ہے۔ اس میں عبرت کے اپنے مقامات ہیں جہاں تھوڑا سا شکوَہ ہے تھوڑی سی برہمی، تھوڑی سی تنقید ہے تھوڑی سی عیب جوئی تاہم پردہ داری زیادہ ہے پردہ دری کم؛ کیونکہ زندگی خود اتنی اذیت ناک ہے کہ اسے اور اذیت ناک بنانے میں مجتبیٰ کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجتبیٰ کا مزاح زندگی کو اس کی تمام تر خامیوں ،کج رویوں اور بد ہیئتوں کے ساتھ قابلِ قبول بنانے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ وہ ہمیں بار بار اپنی بھولی ہوئی ہنسی کی یاد دلاتا ہے کہ زندگی کا سب سے صحت بخش اسلوب بھی یہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت تیز رفتاری سے بہت آگے اور آگے نکل جائے اور ہماری زبان پر محض یہ شعر چپک کر رہ جائے۔

زندہ رہنے کے تھے جتنے اسلوب

زندگی کٹ گئی تب یاد آئے

***

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور احمد امتیاز کے تشکّر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

پروف ریڈنگ: جویریہ مسعود، اعجاز عبید