FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

"The poetry of the earth is never dead"

Keats

 

 

لوک فنون  کی جمالیات

 

 

               شکیل الرحمن

 

 

 

 

 

اپنے پیارے بیٹے پروفیسرنصر شکیل رومی کے لئے

جنہوں نے

اس موضوع پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں

ایک شاندار بین الاقوامی ’سیمینار‘  کا

اہتمام کیا۔

دعائیں

(بابا سائیں )

 

 

 

 

البرٹ آئین سٹائین (Albert Einstein) نے کہا ہے ’’زندگی بسر کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ کہیں کوئی معجزہ نہیں ہے  دوسرا یہ کہ ہر عمل ہر واقعہ ایک معجزہ ہے‘‘!

 

 



’’تم خدا ہو؟‘‘ کسی نے بودھ سے سوال کیا۔

’’نہیں !‘‘

’’تو پھر کوئی فرشتہ ؟‘‘

’’نہیں !‘‘

’’کوئی درویش ہو؟‘‘

’’نہیں !‘‘

’’تو پھر تم کیا ہو؟‘‘

بودھ نے جواب دیا

’’میں جاگ پڑا ہوں ‘‘!!

 

کسی نے صوفی سے پوچھا

’’اللہ کہاں ہے؟‘‘

صوفی نے کہا ’’وہ پتھروں کے اندر سوتا ہے پودوں کے اندر خواب دیکھتا ہے، جانوروں میں حرکت پیدا کرتا ہے۔

اور انسان کے اندر جاگ پڑتا ہے۔

وہ ہر جگہ ہے ہر جگہ مکمل، ہر شئے کے اندر وہی بہتا رہتا ہے تیز خوشبو کی مانند

اللہ

ہر شئے کے باطن کی روشنی ہے

باطن کی گہرائیوں کے اندر وہی تو خوشبو اور روشنی ہے۔

صوفی کی اس وضاحت سے بودھ کی معنی خیز ’’سچّائی‘‘ کا طلسم کھلنے لگتا ہے اور ہم وجود کی گہرائیوں میں اترنے لگتے ہیں :-

 

 

 

            انسان کا دماغ انتہائی پُر اسرار طلسم ہے۔

جو بچّہ ماں کے پیٹ میں آتا ہے چند ہی مہینوں کے اندر اُس کا دماغ کام کرنے لگتا ہے، وہ ارتعاشات (Vibrations)کو محسوس کرنے لگتا ہے، دماغ آہستہ آہستہ متحرک ہونے لگتا ہے۔ خود آگہی یا ذات کی بیداری (Self Awakening)کا سلسلہ آہستہ آہستہ شروع ہونے لگتا ہے، بچّہ ننھا منّا بودھ (Buddha)(بوBu؍بُدھی؍) بن جاتا ہے۔ ’سائیکی، (Psyche) کی بیداری آہستہ آہستہ شروع ہو جاتی ہے۔ لا شعور وجود کا ایک چھوٹا سا حصّہ بننے لگتا ہے۔

ماں کے پیٹ میں ’’ننھا بودھ‘‘ تنہائی اور خاموشی میں خواب آلود فکشن (Dream Fiction)کا خالق بننے لگتا ہے یہ غالباً اس کا پہلا جمالیاتی تجربہ ہوتا ہے جو بہت حسیاتی، (Sensitive)ہوتا ہے۔

فلسفہ اور سائنس دونوں کے سبب ہمیں آج اس بات کی زیادہ خبر ہے کہ ماں کے پیٹ میں پرورش پاتا ’’ننھا بودھ‘‘ ارتعاشات (Vibrations)کو شدّت سے محسوس کرتا ہے جس سے دماغ میں نت نئی تصویریں بنتی رہتی ہیں۔ ان تصویروں کے پیچھے ہیجانات (Impulses) کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ دماغ کا کرشمہ ہے کہ آنکھوں کے اندر  Photo Sensitive Cells بیدار ہو جاتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ہلکے ہلکے پیکر اُبھرنے لگتے ہیں۔ رنگوں کا احساس بھی ملنے لگتا ہے۔ ’حرکت، کا شعور بھی پیدا ہونے لگتا ہے دماغ ان سب کو سمیٹنے لگتا ہے۔ انسان کے دماغ  میں ’امیجز‘ (Images) بننے لگتے ہیں ہر ننھا بودھ کہانیاں بننے لگتا ہے۔ جب بڑا ہو جاتا ہے تو اس کے لا شعور میں جانے کیا کیا جمع ہوتا ہے۔ شعور کے ساتھ لا شعور کا عمل دخل جاری رہتا ہے، عمر کے بڑھنے کے بعد بھی وہ لا شعور سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ معروف چینی فلسفی ’’ہُو آنگ پو‘‘ (Huang Po) نے کہا ہے:

"This pure mind, the source of everything shines forever and on all with the brilliance of its own perfection but the people of the world do not awake to it.”

دماغ دیکھتا ہے، سنتا ہے، محسوس کرتا ہے بہت پر اسرار ہے، اس کی انگنت جہات ہیں، قدرت کا سب سے بڑا معنی خیز تہہ دار طلسم ہے۔ قصّے کا جنم ننھے بودھ کے دماغ کی گہرائیوں میں ہوا ہے تب سے اس کا سفر جاری ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

‘The mind in it self is Buddha in himself’

’بدھی، (Bodhi)[جاگرتی، باطن کی روشنی] اور ’نروان (Nirvana) دونوں دماغ سے باہر نہیں ہیں۔ ’’ذات‘‘ دماغ ہے اور دماغ بودھ ہے!

 

بودھ کا شعور اوپر جانے کتنی بلندیوں پر ہے۔ یہ دماغ ہی کا کرشمہ ہے جو نروان حاصل ہوتا ہے اس لئے کہ یہ دماغ ہے جو بودھ ہے صرف بودھ  ہی دماغ ہے، بودھ دماغ کے باہر نہیں جاتا۔ دماغ کے باہر بودھ نہیں ہوتا، دماغ بودھ کے باہر نہیں ہوتا، شعور، لا شعور، نسلی شعور کائناتی شعور سب دماغ کے اندر ہیں۔ ماں کے پیٹ کے اندر چند ہی مہینوں میں ارتعاشات (Vibrations) دماغی توانائی، ہیجانات (Impulses) اور آہستہ آہستہ بڑھتی جسمانی قوّت وغیرہ کے سبب ’’فینتاسی‘‘ (Fantasy) جنم لینے لگتی ہے اور اس ’فینتاسی‘ کے بادلوں میں بچے کا ذہن کہانی بنّے لگتا ہے۔ ’فینتاسی‘ کی فضا آہستہ آہستہ ’ننھے بودھ‘ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

کون جانے لوک کہانیوں کی جڑیں بڑی گہرائیوں میں اتر کر ’فینتاسی‘ کی اسی دنیا میں پیوست ہوں !

٭٭

 

لوک کہانیوں کی جڑیں انسان کے دماغ کی گہرائیوں میں پیوست ہیں متحرک دماغ کی عمر اور لوک کہانیوں کی عمر ایک ہی ہے۔ پیدائش کے بعد دماغ کا خارجی سفر شروع ہوتا ہے، وہ سماج اور مختلف قسم کے کلچر اور ان کی جہات سے قریب آتا ہے۔ اسے لوک کہانیاں ملتی، ہیں ’پرانی مُتھ، اور پرانے نغمے ملتے ہیں، قدیم اور قدیم تر زبانی سفر کرتا ادب (Oral Literature) ملتا ہے، دیو، پریوں کے قصّے ملتے ہیں، مختلف کلچر اور ان کی جہات کی ہم آہنگی کا علم ہوتا ہے، ان سب کے جمالیاتی اثرات ہوتے ہیں۔

دماغ مادّی کلچر سماجی لوک رسم و رواج، زبانی سفر کرتی لوک شاعری، روایتی تجربوں اور مذہبی اور رومانی قصوں کہانیوں سے متاثر ہوتا اور بہت کچھ جاننے اور پانے کی کوشش میں متحرک رہتا ہے۔ پیدائش، شادی اور موت وغیرہ کے تجربے حاصل کرتا مختلف علاقوں کے رسم و رواج سے قربت حاصل کرتا ہے۔‘‘ کتھا سرت ساگر‘‘ (Katha Sarit Sagar) جانوروں کی کہانیاں ’پنچ تنتر، (Panch Tantra) اور ’جاتک (Jataka) کی کہانیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف علاقوں کی سینہ بہ سینہ سفر کرتی کہانیوں کے پیچھے لوک فسانوں کا کتنا بڑا خزانہ موجود رہا ہے۔

یہ دماغ ہی کا کرشمہ ہے کہ مختلف فنون اور مختلف عوامی زندگی کے نقوش پر لوک ادب کی چھاپ موجود ہے۔ فن تعمیر، رقص، موسیقی، رسم و رواج، برتنوں کی نقاشی، ڈراما سب ’لوک فکر و نظر، کو صدیوں صدیوں سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ پیکر سازی (Image making) میں دماغ کے تحرک کرنے ایک بڑی دنیا بنائی اور سجائی ہے۔ صرف فوق الفطری عناصر اور طلسمی دنیا کی سحر انگیزی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک کائنات حاصل ہو گی۔

لوک سنگیت اور رقص کو کلاسیکی اور نیم کلاسیکی روایات سے علیحدہ کر کے دیکھنا چاہئے ہندوستان جیسے بڑے ملک میں جہاں جانے کتنے علاقائی حدود اور علاقائی وحدتیں ہیں لوک سنگیت اور رقص کی انگنت صورتیں بھی موجود ہیں۔ لوک سنگیت اور رقص کا معاملہ ایسا ہے کہ یہ دونوں وحدتوں کو توڑ کر ایک دوسرے سے متاثر ہوتے رہے ہیں، دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا ہے۔ لوک سنگیت اور رقص کو قبائلی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ناگاؤں کے رقص اور لوک سنگیت نے دوسرے قبائلی فن کو متاثر کیا ہے۔ ان کا مشہور رقص ’کم بو‘ (Kimbu) ہو یا ’گارو، (Garo) کا رقص ’وانگالا‘ (Wangala) یا کاچھاری (Kacharis) کا ’دی ماسا‘ (Dimasa) سب پر ایک دوسرے کا اثر موجود ہے۔ زبانی لوک ادب (Oral Literature)کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اجتماعی سائیکی (Collective Psyche) کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ اجتماعی تخلیقی عمل کا ایک سلسلہ نظر آئے گا۔ فینتاسی (Fantasy)کی جمالیات میں ذہن کی نفسیاتی کیفیتیں بھی اُبھرتی نظر آتی ہیں۔ کبھی کبھی حیرت انگیز نفسیاتی جمالیاتی رجحان کا علم حاصل ہونے لگتا ہے مثلاً ’تخلیق،، زندگی، اور موت، آفتاب،  چاند اور ستارے وغیرہ ذہن کے ’فلسفیانہ، جمالیاتی رجحان کو اس طرح واضح کرتے ہیں کہ جلال  و جمال دونوں قابلِ توجہ بن جاتے ہیں۔ ایک قدیم ہندوستانی قبائلی لوک کہانی میں ’موت‘ اور ’روتے ‘ اور آنسو بہانے کے منظر کو پہلی باراِس طرح پیش کیا گیا ہے:

بہت بڑا طوفان آیا

جنگل کے درخت اکھڑ اکھڑ کر گر گئے

تانیؔ صبح صبح باہر نکلا

اُس نے دیکھا

اَن گنت درخت گر گئے ہیں

ایک بڑے درخت کو دیکھا جو رات کے طوفان میں راستے پر گرا پڑا تھا۔

تانیؔ ابھی اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ

ایک پرندے ’’لنگو ٹونگو‘‘ کے رونے کی آواز آئی۔

آواز میں بڑا درد تھا

ایسی المناک آواز تانیؔ نے کبھی سنی نہ تھی۔

اُسے درد بھری آواز بہت ہی اچھی لگی، آواز کی المناکی سے بہت متاثر ہوا، وہ اس المناکی کے حسن میں ڈوبا جا رہا تھا۔

اُس نے پرندے سے کہا ’’تمہارا رونا بہت دلفریب ہے میں اس کے حسن میں گم ہوتا جا رہا ہوں۔

تھوڑی سی اپنی تھوک مجھے دے دو میں اسے اپنے منھ میں رکھوں گا اور اسی طرح نغمہ سرا ہو جاؤں گا کہ جس طرح تم نغمہ سنا رہے ہو۔

پرندے ’’لنگو ٹونگو‘‘ نے کہا تم اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ اس کی اپنی غضبناکی اور شعلہ فشانی ہے! بہت وقت گزرا جب میں نے اس درخت پر اپنا گھونسلہ بنایا تھا، اس میں اپنے بچّوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس طوفان نے صرف اس پیڑ ہی کو نہیں گرایا میرے بچّوں کی بھی جان  لے لی۔ تم میری تھوک لو گے تو تمہارے بچّے بھی مر جائیں گے اور تم بھی میری طرح روتے رہو گے۔

تانیؔ نے بہت ضد کی، پرندے کو مار ڈالنے کی دھمکی دی۔

پرندہ ڈر گیا۔

ایک پتے پر اپنی تھوک تانیؔ کو دے دی۔

تانیؔ نے پتّے پر پڑی تھوک کی مدد سے دو ہار بنائے اور انہیں اپنے دونوں بچّوں کے گلے میں ڈال دئے۔

دوسرے دن دونوں بچّے مر گئے

اور تانیؔ کو اس کا علم حاصل ہوا کہ وہ کس طرح روئے، اس کے رونے میں بڑی غضبناکی تھی، شعلہ فشانی تھی۔

تب سے دنیا کو معلوم ہوا کہ موت کیا ہے اور ’ماتم، میں رونا کیا ہے!

—اس لوک کہانی میں جس قدر ڈوبتے جائیں گے اس کی پُر اسرار معنویت گرفت میں لیتی جائے گی۔ ’فینتاسی‘ (Fantasy) کے انتہائی گہرے دھوئیں میں یہ مکالمے جیسے دنیا کی تخلیق کے بعد پہلی بار سنائی دے رہے ہیں، کوئی جانتا نہ تھا کہ موت کیا ہے، رونا کیا ہے۔ غور کیجئے تو لگے جیسے یہ تخلیقی عمل کی نفسیات (Psychology of Creativity) کا پہلا تخلیقی نمونہ ہے ذہنی عمل پر غور کیجئے تو محسوس ہو گا کہ ’فینتاسی‘ کے خلق شدہ ’امیجز‘ (Images)کچھ اور دیکھنے کے لئے بنائی بخشتے جا رہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ لوک کہانی کب کی ہے سینہ بہ سینہ چلتی ہم تک آئی ہے، ’فینتاسی‘ کے خلق شدہ ایسے ہی ’امیجز کا اثر انیسویں صدی کے وسط میں ادبیات، مصورّی، موسیقی، علم الحساب اور علم طبعیات پر ہوا ہے۔

—اس لوک کہانی میں جلال و جمال کا جو معیار ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی ایک بے مثال علامتی جمالیاتی سطح ہے۔

—ٹریجیڈی اور اس کی جمالیات اس لوک کہانی کی رُوح ہے۔

— اور انگنت لوک قصوں کہانیوں کی طرح یہ کہانی بھی سماجی اور روحانی قدروں کی تشکیل کرتی نظر آتی ہے اور زندگی کو دیکھنے کے لئے ایک ’وژن، (Vision) عطا کرتی ہے۔

—تحت الشعور (Sub Consciousness Consciousness) ’فینتاسی‘ کا مرکز اور سرچشمہ ہے۔ جس سے خواب جیسے ’امیجز‘ (Dream Images)خلق ہوتے رہتے ہیں۔ جن کا تجزیہ کیجئے تو ذہن اساطیر کے پیچھے جانے کہاں پہنچ جائے۔

 

            لوک فنون کی ابتداء اُس وقت ہوئی جب انسان نے لکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ رقص قدیم ترین آرٹ ہے، لوک سنگیت اور لوک رقص کی ابتداء بہت پہلے ہوئی۔ شب میں الاؤ کے گرد بیٹھ کر گاتے اس کے گرد رقص کرتے، خوشیاں مناتے، چیختے چلاتے، آہستہ آہستہ چیخ پکار میں توازن پیدا ہوا۔ آوازوں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی گئی۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ آہنگ تبدیل ہوتے گئے، ہر نسل نے کچھ نہ کچھ اضافہ کیا۔ پرانے آہنگ کے ساتھ نئے آہنگ بھی جذب ہوتے گئے۔ زبان نہیں تھی اس لئے پتھروں پر نشانات بنائے جاتے رہے، مٹی کی چھوٹی بڑی تختیوں پر جو نشانات ڈالے گئے وہ آج بھی موجود ہیں۔ انہیں مٹی کی کتابوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسی چند کتابیں سرہنری لیارڈ  (Sir Henry Layard) کو دستیاب ہوئی تھیں ان میں ایک برٹش میوزیم لائبریری میں موجود ہے۔ کہا جاتا ہے یہ دنیا کی سب سے پرانی تحریر ہے جو غالباً چار ہزار سال قبل مسیح کی دین ہے۔ بائبل سے ہزاروں سال قبل قدیم ترین عبرانیوں (Hebrews) سے منسوب کیا جاتا ہے کہ جس میں طوفانِ نوح کا ذکر ہے۔

قدیم ترین عبرانیوں سے مصر کے ادب تک ایک بڑا زمانہ گزرا ہے، مصری کتابیں Papyrusپر لکھی جاتی تھیں جنہیں دریائے نیل کے پاس اُگی ہوئی گھاس اور وادیِ نیل میں پائی گئی بانسوں کی چھالیوں وغیرہ سے تیار کیا جاتا تھا۔ معروف کتاب The Book of the Deadاُس عہد کی یاد گار ہے جب مصر میں سب سے بڑا ابو الہول تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کتاب کا ایک نسخہ برٹش میوزیم لائبریری میں ہے اس کتاب کے متعلق ایک محقق جارج پٹنم (George Putnam) نے تحریر کیا کہ اس میں دیوتاؤں، روحوں، آنے والے زمانے میں جنم لینے والی روحوں پچھلی زندگی کے واقعات، ماضی کے تجربات وغیرہ پر اظہار خیال کیا گیا ہے جارج ’پٹنم نے لکھا ہے کہ اس کتاب میں عبادت گاہوں کا ذکر ہے کہ جن میں پچھلی زندگی اور آنے والی زندگی کی کہانیاں سنائی جاتی تھیں۔ مصر کے دیوتاؤں کے افسانوں پر روشنی ڈالی جاتی تھی۔

The Book of the Dead کے علاوہ ایک اور قدیم کتاب Ptah-Hotepکا ذکر کچھ ملتا ہے۔ تین ہزار پانچ سو پچاس سال قبل مسیح کی کہانیاں اور تجربے ملتے ہیں۔ یہ قدیم ترین کتاب حضرت موسیٰ کی آمد سے دو ہزار سال قبل لکھی گئی تھی۔

جو بات زیادہ غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ قدیم ترین رقص سے مصر کی ان کتابوں تک لوک کہانیوں کی انگنت صورتیں موجود ہیں۔ انسان کہانیاں سنائے بغیر کبھی رہا نہیں۔ وہ کہانیاں روحوں فرشتوں کی ہوں، پچھلے جنموں کی ہوں، آنے والے وقت کی ہوں، کہانیاں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔ تمام واقعات قصوں کہانیوں میں ’فینتاسی‘ (Fantasy)کی برقی قوت موجود ہے، سماجی اور روحانی قدروں کی تخلیق کی کوشش ہو یا ماضی کے واقعات اور آنے والے وقتوں میں رونما ہونے والے تجربات سب ’فینتاسی‘ کی خوبصورت دھند میں موجود ہیں۔

چینی ادب ہو یا مصر کا ادب، یونانی ادب ہو یا ہومرؔ (Homer)کا ادب، ویدی ادب ہو یا بودھ ادب، شیکسپیراور گیٹے کا ادب ہو یا ورجلؔ کا ادب، پس منظر میں ’فینتاسی‘ کے دھندلکوں میں لوک قصّوں کہانیوں کے وجود کی پہچان ہوتی رہتی ہے، لوک ادب نے کہانی دی، کردار دئے، ڈرامائی عمل اور کیفیتوں کا احساس بخشا، اساطیری ادب کے پسِ منظر میں سینہ بہ سینہ سرسراتی ہوئی کہانیوں کی پہچان مشکل نہیں ہے، اساطیر سے قبل لوک کہانیاں تھیں یہ دیوی دیوتا، اور دوسرے جانے کتنے پیکر حیرت انگیز واقعات و کردار پہلے سے موجود تھے۔

ہمیں اس بات کا علم یوروپی ادبیات سے ہزار و سال قبل چین میں کتابیں لکھی گئی تھیں۔ کنفیوشِیس (Confucius) نے حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے سیکڑوں برس پہلے چینی ادب اور اخلاقی نکات وغیرہ کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اُسی نے چینی ادب کی بنیاد رکھی۔

کہا جاتا ہے دو ہزار آٹھ سو سال قبل مسیح  چین کے ایک شہنشاہ ’فوہے‘ (Fu Hai) نے چینی تحریر کی ابتداء کی۔ اُس نے آٹھ علامتیں منتخب کیں کہ جن کا تعلق زمین، آگ اور پانی وغیرہ کے ساتھ تھا۔ آہستہ آہستہ یہ علامتیں اور پھیلتی گئیں اور بڑی چھوٹی تختیوں اور بعض دوسری اشیاء پر لکھی جانے لگیں مٹی کے برتنوں اور مویشیوں کی ہڈیوں پر چینی تحریروں کی مثالیں آج موجود ہیں۔

—پھر مذہبی علامتیں شامل ہوئیں، لوک کہانیاں تحریر ہونے لگیں۔

ما قبل تاریخ انسان بڑی مشکلوں اور آزمائشوں سے گزرا، حالات اور ماحول سے کشمکش کا ایک بڑا دور تجربوں کا حصّہ بنا، ’فینومینا، (Phenomena) سے زندگی مسلسل ٹکراتی رہی، پریشان کن مشکلوں سے ٹکراتے دماغ اور ذہانت دونوں کی ضرورت رہی، جانے کتنے سوالات گھیرتے رہے، ایندری یولینگ (Andrew Lang) نے ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ ما قبل تاریخ انسان کے سامنے اس نوعیت کے سوالات بھی تھے یہ چاند سورج چلتے کیوں ہیں ؟ جنگلی جانوروں سے تعلق کیا ہے، اس درخت کے سفید پھول پر کشش کیوں لگتے ہیں، ان پرندوں کی آوازوں میں ایسی کشش کیوں ہے۔ قبائلی رقص میں ایسے سوالات ضرور پیش کئے گئے ہوں گے۔ پرانے قبائلی رفتہ رفتہ یہ سوچنے لگے کہ وہ بہت کمزور ہیں، فطرت کی قوتوں کے سامنے بے بس ہیں۔ انہیں اس بات پر یقین آنے لگا کہ تمام جانوروں کی اپنی روحیں ہیں، مصر کے قدیم باشندے یہ سمجھتے کہ آگ زندہ خونخوار جانور ہے۔ ماقبل تاریخ یہ خیال موجود تھا کہ آسمان، سورج، سمندر، ہوا سب کی اپنی شخصیتیں ہیں، ان کے جانے کتنے بچّے ہیں۔

وقت کے گزرتے گزرتے، تجربات حاصل کرتے کرتے یہ سب کہانیاں بننے لگیں، اساطیر اور اساطیری ادب کے پس منظر میں ایسی کہانیاں موجود ہیں جو قبائلی تجربوں تک لے جاتی ہیں، اساطیر کی بنیاد میں یہ اور ایسی جانے کتنی کہانیاں لوک قصّے ذہنی اور روحانی فکر و نظر کو سمجھتے ہیں۔

یہ کہانیاں لکھی گئیں اور خوب لکھی گئیں، نسل در نسل چلتی رہیں۔ ہر نسل نے کچھ نہ کچھ اضافہ کیا، تبدیلیاں ہوتی رہیں لیکن کردار اپنی بہت سی خصوصیات کے ساتھ زندہ رہے۔ ’متھ، (Myth)کا مطالعہ کیا جائے تو قدیم ترین انسانوں کی کہانیوں کی روحانی تاریخ کا علم حاصل ہوتا جائے گا۔ لٹریچر کے وجود کے ساتھ یہ کہانیاں مختلف صورتوں میں نظر آئیں گی۔ پر اسرار زندگی اور موت کی پُر اسراریت کو  خاص طور پر موضوع بنایا گیا۔ لٹریچر کے وجود کے اندر بڑی گہرائیوں میں ان کی علامتیں موجود ہیں۔

اساطیر کے مطالعے سے قدیم انسان کی ذہنی تاریخ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اساطیر کی بنیاد سینہ بہ سینہ چلتی ہوئی کہانیوں پر بھی ہے، کہانیوں کو بار بار دہرانے اور ان میں ترمیم و اضافہ سے ان کی صورتیں تبدیل ہوتی گئی ہیں۔ زندگی آگے بڑھی تو دنیا اور انسان کی تخلیق پر نظر گئی، سورج چاند ستاروں اور زندگی اور موت کو اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کی گئی، عورت مرد کے تعلق سے رومانی کردار اور رومانی فسانے  وجود میں آنے لگے۔ اشیا و عناصر کو نام دئیے گئے۔ جانوروں کی شخصیتوں کی تشکیل شروع ہوئی۔ بہت سے دیوتا وجود میں آ گئے۔ دیوتاؤں کے عمل کو اہمیت دی گئی۔ مشرق اور مغرب کے نغمے وجود میں آئے، کہانیاں وجود میں آئیں، ایک دوسرے سے ملتی جلتی کہانیاں نظر آنے لگیں۔ ہندوستانی، ایرانی، یونانی جرمن، روسی کہانیوں کی مماثلت کا ذکر ہوتا رہتا ہے، آریوں کے سفر کے ساتھ ایک علاقے کا فسانہ، ایک ملک کے کردار دوسرے علاقوں اور ملکوں کے فسانوں اور کرداروں سے ملے، مختلف علاقوں میں فسانوں کرداروں کا رنگ ایک دوسرے پر چڑھتا رہا۔ اساطیری حصّوں کرداروں نے بڑے بڑے فنکاروں کو متاثر کیا۔وہ شیکسپئر، پوپ (Pope) اور ولیم مورس (William Morris) ہوں یا سوئین برن (Swinburne)اور لونگفیلو(Long Fellow) ہومر (Homer) اور اووڈ(Ovid)پر جو گہرے اثرات ہوئے اُن کی ہمیں خبر ہے۔ اپولو(Apollo) منروا (Minerva) یولائی سس (Ulysses)اِی کو(Echo) اور نارکیسس (Narcissus)وغیرہ ہمیشہ زندہ رہنے والے کردار ہیں، ان کی کہانیاں ہمیشہ زندہ رہنے والی کہانیاں ہیں۔

لوک کتھاؤں اور لوک فنُون کی جمالیات زندگی کی بڑی گہرائیوں میں ہے اس کی تلاش و جستجو آسان نہیں ہے۔ کہانی، موسیقی، رقص وغیرہ میں لوک فنون کی جمالیات کو تلاش کرتے رہنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے جانے کب تک جاری رہے اس لئے کہ لوک فنون کا جو ’انسائیکلو پیڈیا، (Encyclopedia) ہے وہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ عقاید اور رسم و رواج کی چھان بین میں جمالیاتی خصوصیات اور اقدار کی پہچان ہو گی اور چھان بین جان لیوا ہے، لوک فنون کو چھونا عوام کے مختلف طبقوں کی نبض پر انگلی رکھنا ہے، انگلی رکھتے ہی ایک بڑا  نبّاض بخوبی سمجھ لے گا کہ یہاں جمالیات میں ایسا انتشار ہے کہ ترتیب اور توازن پیدا ہونا آسان نہیں ہے بہت ہی مشکل ہے اور اکثر مقامات پر نا ممکن بھی ہے۔ سب سے پہلے ’فیتناسی، (Fantasy) سے واسطہ پڑتا ہے، اس کے حسن و جمال کی گہرائیوں میں اترتا اور لوک فنون کے جلال و جمال کو پانا غیر معمولی عمل ہو گا۔

لوک فنون کا مطالعہ عوام کی جمالیاتی فکر و نظر کا مطالعہ ہے۔ یہ جمالیات جینے کے انداز اور اخلاقی طرزِ عمل سے گہرا رشتہ رکھتی ہے، مختلف طبقوں اور مختلف نسلوں کے لوگوں نے اس جمالیات کو اپنے لہو سے اس طرح سینچا ہے کہ قدم قدم پر جذباتی اور نفسیاتی کیفیتوں کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ ہر عہد میں یہ ہوا ہے کہ مادّی زندگی اور اس کی سچائیاں انسانی تخیل سے ہمیشہ دور رہی ہیں، مادّی سچائیوں اور تخیل میں دوری رہی ہے، تخیل فینتاسی‘ (Fantasy)کی دنیا خلق کرتا رہتا ہے اور سامنے کی زندگی کا تقاضا کچھ اور ہوتا ہے، باہر کا حسن تخیل کے حسن سے علیحدہ نظر آتا ہے، تو فرد کی رومانیت بے چین ہو جاتی ہے اور ’فینتاسی‘ کی تخلیق شروع ہو جاتی ہے۔

لوک فنون کے ’فنکاروں‘ کی تعلیم بہت ہی معمولی ہوتی ہے، تھوڑی بہت تربیت ہوتی ہے، اَن پڑھ لوگ بھی ’فنکاری، کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ لوک گیت، لوک ناچ، لوک کہانیوں کا بیان یہ سب روایتوں کے سفر سے حاصل ہوئے ہیں۔ اَن پڑھ بچّے اپنے بزرگوں کی صحبت میں گھر کی روایات ہی سے سب کچھ سیکھتے رہے، روایتی علم سے ہی حاصل کیا کہ جو حاصل کیا۔ ان کے ماحول میں جانور، پرندے، پودے درخت، دریا، تالاب وغیرہ کی اہمیت زیادہ رہی ہے، اسی ماحول میں ان کی معصومانہ جمالیاتی حِس بیدار ہوئی ہے جس کے عمدہ نتائج سامنے آتے رہے ہیں، جمالیاتی حِس اس طرح بیدار ہوتی رہی کہ اظہارِ بیان پر اثر ہوا اور عمدہ پرکشش جمالیاتی حسیّات (Aesthetic Perception)قابلِ توجہ بن گئیں۔

لوک گیتوں کا معاملہ یہ ہے کہ یہ زبانی کہنے ’سنانے کا فن رہا ہے، نسل در نسل یہ گیت سفر کرتے رہے ہیں، تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، مختلف علاقوں کے اثرات ہوئے تو تبدیلی ہو گئی، آہنگ اور لہجے پر اتنا اثر ہوا کہ جتنا اثر لفظوں پر ہوا۔ مختلف علاقوں کے الفاظ شامل ہوئے، تہواروں کے لوک گیتوں مثلاً بیساکھی، دیوالی، اونم، درگا پوجا، اور شادی بیاہ کے گیتوں پر نظر رکھیں تو اس بات کی تصدیق ہو جائے گی۔

مختلف علاقوں کے اثرات سے  لوک گیتوں پر مختلف جمالیاتی ردِ عمل ہوتے رہے ہیں جمالیاتی ’امیجری، تک تبدیل ہوتی رہی ہے۔ جن لوگوں نے لوک گیتوں کا مطالعہ کیا ہے اُنہیں اس بات کا احساس ہو گا کہ نسل در نسل جو گیت سنائے گئے اُن میں جذبات کی گہرائی غیر معمولی ہے، احساسات میں گرمی نرمی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ’فینتاسی‘ کے دھندلکوں سے اقدارِ زندگی کا احساس ملتا رہتا ہے۔

لوک فنون میں مختلف عہد اور دور میں لوک مزاج اور رجحان کی تصویر یں جھلکتی رہتی ہیں، دنیا کو دیکھنے کی اپنی نظر (فنکارانہ نگاہ) ہے۔ ان کی جمالیات کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر فن میں جمالیاتی پیکر یا ’امیجز‘ (Images) اُبھرتے رہے ہیں وہ لوک ناچ ہو یا لوک گیت لوک کہانی ہو یا لوک سنگیت، ان پیکروں یا ’امیجز‘ نے مختلف علاقوں کا خوب سفر کیا اور لوگوں کو متاثر کیا، تاثرات قبول کرتے ہوئے خود یہ لوک فنون بھی مقامی خصوصیات سے متاثر ہوتے رہے۔

٭٭



حکایتوں کا ذکر کیجئے سولہویں صدی قبل مسیح کا اے سوپ (Aesop)یاد آ جاتا ہے جس نے مختلف مقامات سے حکایتیں جمع کی تھیں خصوصاً جانوروں کی حکایتیں جانوروں کے کرداروں کے ذریعہ انسان کی اخلاقی خصوصیات کو اجاگر کیا تھا، اخلاقی تربیت پر اصرار کیا تھا۔ کہا جاتا ہے ایسوپ غلام تھا جس نے مختصر ترین کہانیاں تحریر کی تھیں۔

حکایتوں کی تاریخ، اتنی ہی قدیم ہے کہ جتنی خود انسان کی زندگی، قدیم یونان حکایتوں کا ایک بڑا ملک رہا ہے۔ اسی طرح ہندوستان حکایتوں اور قصّوں کا ایک بڑا زرخیز علاقہ رہا ہے۔ یوروپ اور امریکہ میں ان دونوں ممالک کی قدیم حکایتیں مسلسل شائع ہوتی رہی ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ قدیم یونان اور قدیم ہندوستان کی کہانیاں بار بار سنی جاتی رہی ہیں بار بار لکھی جاتی رہی ہیں، ان کی اشاعت کا سلسلہ مسلسل قائم رہا ہے آج بھی قائم ہے۔ عموماً یہ حکایتیں اخلاقیات کا درس دیتی ہیں۔

جاتک (Jataka) [جنم، پیدائش]لوک ادب کا عظیم تحفہ ہے!

اس کی حکایتیں کہانیاں دنیائے ادب کے وہ روشن باب ہیں کہ جنہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

’’بودھ استوپ، (Stupas) اور غاروں کی مصوّری میں ’جاتک‘ کی اکثر حکایتیں کہانیاں ڈھل گئی ہیں، دنیا کے ادب پر ان کی گہری چھاپ ہے۔ جاپان کے ’ژن، (Zen) کہانیاں ہوں یا یونان کی اسے سوپ(Aesop) کی حکایتیں ’جاتک‘ کے واقعات و کردار موضوع اور فکر  و نظر کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ ’جاتک‘ نے چینی اور عجمی حکایتوں کو بھی متاثر کیا ہے اس طرح  وسطِ ایشیائی عجمی اور چینی حکایتوں نے ’جاتک‘ کہانیوں کو متاثر کیا ہے۔ آج اُن ملکوں میں کہ جہاں بودھوں کی آبادی زیادہ ہے موسیقی اور ڈرامے نے گہرا اثر قبول کیا ہے۔ ایشیا کے مختلف ملکوں میں یہ حکایتیں فنون کی گہرائیوں میں دکھائی دیتی ہیں۔

’جاتک‘ کی کل تعداد 547ہے، یہ ’بودھی ستو‘(Boddisatta) — کے ابتدائی زندگی اور سفر کا طویل فسانہ ہے۔

’انڈین میوزیم کلکتہ میں ’جاتک‘ کے کئی مناظر پتھروں کے اوپر نظر آئے۔ ان میں دوسری صدی قبل مسیح کا منظر جاذبِ نظر ہے۔ اس کے علاوہ

’مہا جنک جاتک، (Maha Janaka Jataka)

’مانک کنتھا جاتک، (Manikantha Jataka)

’ڈب باہا پپیا جاتک،  (Dabbaha Pappia Jataka)

’مہا اُمیگا جاتک، (Maha Ummega Jataka)

دوسری صدی قبل مسیح کا موگوپا کھانے جاتک‘‘ (Mugopakkhane Jataka) اور کئی دوسرے مناظر فنکاری  کے بھی اچھے نمونے ہیں اور جاتک  حکایتوں کی معنی خیزی کو بھی پیش کرتے ہیں۔

’جاتک‘ کی چھ جلدیں   برسوں میرے زیر مطالعہ رہی ہیں —— یہ سب انگریزی میں پالی زبان سے براہ راست ترجمہ ہیں۔ ترجمہ کرنے میں کئی لوگ شامل ہیں۔ ان جلدوں کو پروفیسر ای۔ بی۔ کووّل (E.B. Cowell) (1903—1826)نے مرتب کیا ہے۔

1880میں پروفیسر رایس ڈیوڈس (Rhys Davids)  نے ایک جاتک کا انگریزی ترجمہ کیا تھا۔ ایک جلد کی اشاعت کے بعد پیش رفت نہیں ہوئی، وہ اپنی مصروفیتوں کی وجہ سے کام بڑھا نہ سکے۔ عرصہ بعد ’جاتک، کے انگریزی تراجم شائع ہوئے، پالی زبان سے براہ راست ترجمہ کرنے والوں میں آکسفورڈ کے ’’اوریل کالج‘‘(Oriel College) کے R. Chalmers، کرائسٹ کالج کیمبرج کے W.H.D Rouseاور کیمبرج ہی کے H.T. Francis پیش پیش تھے۔ ان ترجموں سے بودھ ادب کی پہچان زیادہ سے زیادہ ہونے لگی۔ ’جاتک حکایتیں دور دراز ملکوں تک پہنچ گئیں۔ ’جاتک‘ کے پر کشش مناظر سانچی، امراؤوتی، بھارہت وغیرہ میں نظر آئے۔ تیسری صدی قبل مسیح ’جاتک‘ کی کہانیاں حکایتیں بہت مقبول ہو چکی تھیں۔ فاہیان (Fah-hian)  ۴۰۰ء میں سیلون (سری لنکا) گیا تھا، اُس کی تحریر کے مطابق اُس نے ’بودھی ستو‘کے پانچ سو پیکر دیکھے تھے۔ مختلف زمانے میں ’بودھی ستو‘کی زندگی کا نقش اُبھارے گئے تھے۔

فاہیان کے مطابق بودھ کے سفر کی پانچ سو صورتیں پچھلی پانچ سو منزلوں کی نشان دہی کرتی ہیں۔ ایک منزل بے پناہ روشنیوں کی ہے (Soutanou) دوسری منزل ہاتھیوں کے حاکم کی اور تیسری منزل ’بارہ سنگھا، (Antelope) کی۔

ای۔بی کووّل (E. B. Cowell) کی مرتب کی ہوئی ’جاتک‘ کی پہلی جلد میں 550جاتک ہیں۔ ترجمہ براہ راست پالی زبان سے ہے۔

پالی زبان میں سنائی گئیں، لکھی گئیں  یہ حکایتیں کم و بیش 300سال قبل مسیح کی ہیں۔ سب عقل کے دریچے وا کرتی ہیں، ماضی میں بودھی ستو (Boddisatta) کی شخصیت کا سفر ہے جسے دلچسپ استعاراتی اور علامتی سفر کہہ سکتے ہیں۔ یہ حکایتیں پہلے سینہ بہ سینہ چلتی رہی ہیں پھر تحریری صورت میں جلوہ گر ہوئیں۔ حکایتوں میں اخلاقی اقدار اور ان کے لئے ذات کی قربانی کی قدر و قیمت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، ’نروان، حاصل کرنے سے قبل تک بودھ نے جو تجربے حاصل کئے ہیں وہ خارجی کرداروں کے ٹھوس پیکروں میں اجاگر کئے گئے ہیں۔

ای۔بی۔کوول(E.B. Cowell) کے مرتب کئے ’جاتک‘ (Jataka) کی پہلی جلد میں 150’جاتک‘ ہیں یہ چند جاتک توجہ چاہتے ہیں :

(1)کٹ ہاہاری جاتک (Katthahari Jataka)

راجا نے اپنے بیٹے کو دیکھا کہا یہ میرا بیٹا نہیں ہے عورت نے یہ دعا کرتے ہوئے بچّے کو ہوا میں اچھال دیا کہ اگر یہ راجا کی اولاد نہیں ہے تو نیچے گر کر مر جائے گا اور اگر راجا کی اولاد ہے تو ہوا میں لٹکا رہے گا۔

بچہ ہوا میں لٹکا آرام کرتا رہا نیچے نہیں گرا۔ راجا کو یقین آ گیا کہ وہ اسی کی اولاد ہے۔

حکایت یوں ہے کہ کسی زمانے میں بنارس کے راجا برہم دَت گھومنے نکلے، بہار آئی ہوئی تھی، پیڑ پودوں پر پھل پھول آئے ہوئے تھے، وہ اس خوبصورت ماحول سے خوب لطف اندوز ہو رہے تھے کہ کسی عورت کے گانے کی آواز سنائی دینے لگی، آواز انتہائی سریلی تھی’ برہم دت نے دیکھا ایک عورت لکڑیاں چن رہی ہے اور پورے ماحول کو اپنی سحر انگیز سریلی آواز سے جیسے گرفت میں لئے ہوئی ہے۔ وہ اس عورت کے پاس آئے پہلی نظر میں پیار ہو گیا، دونوں قریب آئے اُسی وقت ’بودھی ستو‘نے ماں کی کوکھ میں اپنی جگہ بنا  لی۔ عورت نے جب راجا کو حقیقت بتائی تو راجا برہم دت نے اپنی انگلی سے ایک انگوٹھی اُتار کر عورت کی انگلی میں پنہا دی کہا اگر لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اس انگوٹھی کی قیمت حاصل کر کے اس کی پرورش کرنا اور اگر لڑکا جنم لے تو لڑکے اور انگوٹھی دونوں کو لے کر میرے پاس آنا۔

وقت پر  ۰۰ء  تبدیلی، کیل: اعجاز عبیدی فائل فراہم کی’بودھی ستو کا جنم ہوا۔ تھوڑی عمر بڑھی تو دریافت کیا ’’ماں میرا باپ کون ہے؟‘‘

ماں نے جواب دیا‘‘ میرے بچے تم بنارس کے راجا برہم ’’دت کے بیٹے ہو۔‘‘ بیٹے نے پوچھا ’’اس کا ثبوت کیا ہے؟‘‘

ماں نے جواب دیا ’’ثبوت یہ انگوٹھی ہے‘‘۔ پھر ’بودھی ستو‘کو ماجرا کہہ سنایا۔ جب ’بودھی ستو‘نے باپ سے ملنے کی ضد کی تو ماں اُسے راجا کے پاس لے گئی۔

راجا کو واقعہ یاد آ گیا۔ پھر بھی کہا ’’یہ میرا بیٹا نہیں ہے‘‘

عورت نے جواب دیا ’’اور یہ انگوٹھی یاد ہے؟‘‘ عورت نے راجا کی انگوٹھی دکھائی، راجا کی خاموشی اچھی نہیں لگی تو بُودھی ستو‘کی ماں نے کہا ’’میں یہ دعا کر کے بیٹے کو ہوا میں اُچھال دیتی ہوں کہ وہ اگر آپ کی اولاد نہیں ہے تو نیچے گر کر بودھی ستو مر جائے گا اور آپ کی اولاد ہے تو ہوا میں لٹکا نغمہ سناتا رہے گا۔

عورت نے دعا کی اور ’بودھی ستو‘کو ہوا میں اُچھال دیا، بودھی ستو ہوا میں لٹک گئے اور لگے خوبصورت نغمہ سنانے۔ راجا برہم دت دیکھ رہے تھے کہ اُن کا بیٹا آتی پاتی مارے ہوا کے درش پر بیٹھا نغمہ سنا رہا ہے۔ نغمے میں سچائی کا انکشاف تھا۔ نغمہ کچھ اس طرح تھا۔

’’راجا میں آپ کا بیٹا ہوں، راجا سب کو پیار کرتے ہیں اپنے بیٹے سے زیادہ‘‘

’بودھی ستو‘کے نغمے کا ایسا اثر ہوا کہ برہم دَت آسمان کی جانب ہاتھ پھیلا کر چخ پڑے ’’میرے بیٹے میرے پاس آ جاؤ، میں تمہارا باپ ہوں۔ ’بودھی ستو‘آہستہ آہستہ اوپر سے نیچے آ گئے اور راجا برہم دت کی گود میں بیٹھ گئے۔

اس حکایت کی جمالیات کئی لحاظ سے قابلِ غور ہے۔ برہم دَت کے باغ کا حُسن کشش رکھتا ہے۔ راجا کی ملاقات جس عورت سے ہوتی ہے وہ نغمہ سرا ہے دلنشین آواز رکھتی ہے، نغمے کی سحر انگیز آواز سے برہم دت متاثر ہوتا ہے آہستہ آہستہ آواز کی جانب بڑھتا ہے تو لکڑیاں چنتی ہوئی وہ عورت مل جاتی ہے۔ برہم دت پہلی نظر میں عاشق ہو جاتا ہے، جبلّی خواہش بیدار ہوتی ہے اور ’سکس، کا لطیف تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ ’بودھی ستو‘ماں کے پیٹ میں آ جاتے ہیں۔

اس حکایت کی جمالیات نے ’فینتاسی‘ کا سہارا لیا ہے حقیقت کے انکشاف کے لئے ’فینتاسی‘ (Fantasy) کا سہارا ضروری تھا اس کے ساتھ ہی جمالیات کے دائرے میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ ’بودھی ستو‘کا نغمہ جمالیاتی کیفیت میں اضافہ کرتا ہے، جمالیاتی کیف بڑھتا ہے۔ جب برہم دت کے اندر انسانی اقدار بیدار ہوتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بودھی ستو کے نغمے کی ٹریجیڈی نے اندر سے برہم دت کو بیدار کر دیا ہے۔ بچے کو آسمان کی جانب اُچھال دینے کا جو عمل ہے وہ ’فینتاسی‘ کا ایک ماحول بنا دیتا ہے اسی فینتاسی کی وجہ سے انسانی قدروں کا احساس اندر سے باہر آتا ہے اور برہم دت چیخ پڑتا ہے ’’تم میرے بیٹے ہو آ جاؤ میرے پاس‘‘ اور بودھی ستو باپ کی گود میں آ جاتے ہیں۔ حکایت کی جمالیات نے ایک ساتھ زندگی کی کئی صورتوں کو سامنے رکھ دیا ہے۔ حکایت زندگی اور اقدارِ زندگی کی جمالیات کی کئی صورتیں سامنے آ جاتی ہیں۔ مادّی زندگی اور وجدانی کیفیتوں کی ہم آہنگی سے حکایت میں جمالیاتی لذّت (Aesthetic Delight) پیدا ہو گئی ہے۔

(2)’مٹ ٹکا بھٹّا جاتک، (Matakabhatta-Jataka)

کسی زمانے میں بنارس میں برہم دَت کی حکومت تھی، برہم دت برہمن تھے، تین ویدوں کا مطالعہ کر کے استاد بن گئے تھے اور نو جوانوں کو ویدوں کی تعلیم دینے لگے تھے، انہوں نے سوچا کیوں نہیں ایک بھیڑ کی قربانی کی جائے یہ اُن کے لئے غذا ہو گی جو مر چکے ہیں۔ ایک بھیڑ لائے اپنے شاگردوں سے کہا میرے بچّو اس بھیڑ کو ندی کے پانی سے نہلا دو اس کی گردن میں پھول کی مالا ڈال دو اُسے کچھ کھانے کو دو اور پھر اسے میرے پاس لے آؤ، شاگردوں نے حکم کی تعمیل کی، بھیڑ کو لے کر ندی میں اترے اُسے اچھی طرح نہلایا، بھیڑ کی یاد تازہ ہو گئی اُسے اپنی پچھلی زندگی یاد آ گئی، بہت خوش ہوا، خوب ہنسا، اُس کے قہقہے کی آواز ہر جانب گونج گئی، پھر رونے لگا، سسک سسک کر رویا پھر چیخ چیخ کر رونے لگا۔ برہم دت کے شاگردوں نے بھیڑ سے دریافت کیا ’’جب ہم تمہیں نہلا رہے تھے تو تم قہقہے کیوں لگا رہے تھے اور پھر تم رونے کیوں لگے؟‘‘

بھیڑ نے جواب دیا  ’’ مجھے اپنے گرو کے پاس لے چلو اور یہی سوال کرو، میں  جواب دوں گا‘‘

شاگرد اُسے لے کر گرو برہم دت کے پاس گئے اور یہی دو سوالات بھیڑ کے سامنے رکھے۔

بھیڑ نے کہا ’’جب آپ کے شاگرد مجھے دریا میں نہلا رہے تھے اُس وقت اچانک مجھے اپنی پچھلی زندگی کی کئی منزلوں کی یاد آئی۔ ہر منزل پر میرا سر قلم ہوا ہے۔ پانچ سو برس سے یہی ہوا ہے، بس صرف ایک قتل باقی ہے جو ہو گا اس کے بعد میرا وجود ہی ختم ہو جائے گا، یہ آخری قتل ہو گا جسم سے سر الگ ہو جائے گا، میں اس وجہ سے ہنس رہا تھا قہقہہ لگا رہا تھا، برہم دت مہا راج، مجھے پانچ سو بار قتل ہونے کا تجربہ ہے آپ مجھے آخری بار قتل کریں گے، سر تن سے جدا کر دیں گے، میں رو رہا تھا آپ کا کیا ہو گا پچھلے جنموں میں جن برہمنوں نے مجھے قتل کیا اُن کے سر بھی تن سے جدا ہو گئے، میں آپ کا سر تن سے جدا نہیں کروں گا لیکن پچھلے پانچ  سو برس سے جو ہو رہا ہے وہ آج بھی ہوسکتا ہے، آپ کا سر بھی جدا ہو جائے گا آپ کے تن سے۔

برہم دت نے کہا ’’تم خوف زدہ نہ ہو، میں تمہیں  مار کر گناہ نہیں کروں گا۔‘‘ اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر کہا ’’اس بھیڑ کو لے جاؤ، میں نے آزاد کیا، اسے جنگل میں چھوڑ کر واپس آ جاؤ‘‘

بھیڑ کو آزادی مل گئی، لوگوں نے دیکھا بہت دور ایک پہاڑی پر ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں زلزلہ سا آیا، پہاڑی پر بجلی گری اور سب نے دیکھا اُس بھیڑ کی گردن اُڑ گئی تھی۔

’بودھی ستو‘کا جنم ہو چکا تھا، اپنی فوق الفطری طاقت سے ہوا پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے وہ نغمہ سرا تھے۔ گیت میں بتا رہے تھے کہ ہمیشہ سچائی کی راہ پر چلنے کی تلقین کرو۔ اخلاق کو تھامے رکھو۔ جہنم کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو۔

جمالیاتی نقطۂ نظر سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تخلیقی تخیل کے عمل کے سبب اس حکایت سے جمالیاتی انبساط (Aesthetic Pleasure) حاصل ہوتا ہے۔

’ہیومنزم، (Humanism) کا ایک خوبصورت تصور ملتا ہے جو ’سائیکی، (Psyche) کی گہرائیوں سے نکلا ہے۔ ’سینشن، (Sensation) جو جمالیات کی ایک بڑی خصوصیت ہے پوری حکایت کو گرفت میں لئے ہوئے ہے۔ ’سبلائم، (Sublime) اور ’بیوٹی فل، (Beautiful) دونوں کا توازن متاثر کرتا ہے۔ ’بودھی ستو‘کے فوق الفطری عمل سے ’فینتاسی‘ کی رومانیت متاثر کرتی ہے، ’سچائی، اور ’ہیومنزم، کو سمجھانے کے لئے بودھی ستو کے نغمے کا تاثر بھی کم اہم نہیں ہے۔

(3)  نکّا جاتک (Nacca-Jataka)

اس میں جو حکایت ہے وہ کم دلچسپ نہیں ہے، پرندوں کے بادشاہ کی بیٹی کی شادی کا معاملہ ہے، بیٹی باپ سے کہتی ہے اپنے شوہر کا انتخاب وہ خود کرے گی۔ پرندوں کا بادشاہ اجازت دے دیتا ہے۔ نو جوان پرندوں کو دعوت دی جاتی ہے، بادشاہ کی بیٹی انہیں دیکھتی ہے، مور اسے پسند آتا ہے، مور کو جب خبر ملتی ہے تو خوشی سے ناچنے لگتا ہے، مستانہ وار رقص کرتا ہے۔ رقص کرتے ہوئے اُس کا حسن اور نکھر جاتا ہے۔ ایسا رقص کب کسی نے دیکھا تھا، مور دنیا کا سب سے خوبصورت پرندہ ہے اور اس کا رقص — اس کا کیا کہنا، جس نے مور کا رقص دیکھا ہے وہی جانتا ہے کہ اس رقص کا جادو کیا ہے۔

پرندوں کے بادشاہ کو مور کا رقص پسند نہیں آیا، دربار میں کہا اِس بے حیائی سے رقص کرتے اُسے شرم نہیں آئی۔ اخلاق کو طاق پر رکھ دیا۔ اُسے پہلے اخلاق کا درس لینا چاہئے مور بہت اداس ہو گیا۔ پرندوں کے بادشاہ کی بیٹی کی شادی کسی اور سے ہو گئی۔

مور کے رقص کے جلال و جمال پر اخلاقیات کا دباؤ توجہ چاہتا ہے۔ مور کی حسن پسندی بھی قابلِ توجہ ہے۔

(4) ابھِن ہا جاتک (Abhinha-Jataka)

اس میں ایک ہاتھی نے ایک کتّے کو دوست بنا رکھا تھا، اسی کے ساتھ کھیلتا تھا، وہ کتّا غائب ہو گیا، ہاتھی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اُس وقت تک بھوکا رہا جب تک کتّا واپس نہیں آیا۔

(5) کنہا جاتک(Kanha Jatak)

اس حکایت میں ایک بیل پانچ سو گاڑیاں کھینچتا ہے تاکہ اپنی غریب مالکن کی مدد کرسکے۔

(6)سجاتا جاتک (Sujata-Jataka)

سانچی کے دروازے پر اس کا نقش اُبھارا گیا ہے۔

اس جاتک میں برہم دت بنارس کے راجا ہیں اور ’بودھی ستو‘ایک زمین دار کے گھر جنم لیتے ہیں، اُنہیں نو جوان سجاتا کہا جاتا ہے۔ کچھ بڑے ہوئے تو اُن کے دادا کا انتقال ہو گیا۔ اُن کے والد پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے، شمشان گھاٹ سے باپ کی ہڈیاں جمع کیں اور اُنہیں اپنے خوبصورت باغ میں دفن کر دیا اور سمادھی بنا دی۔ جب بھی باغ میں جاتے سمادھی پر پھول چڑھاتے پھول چڑھاتے ہوئے بہت روتے، بہت کمزور ہو گئے باپ کی جدائی برداشت نہیں ہو رہی تھی، کاروبار کی جانب بھی دیکھنا چھوڑ دیا۔ اُن کی یہ حالت ان کے بیٹے ’’نوجوان سجاتا’ (بودھی ستو) برداشت نہ کرسکے، اُنہیں ایک ترکیب سوجھی۔ شہر سے باہر ایک بیل کی لاش پڑی ہوئی تھی، تازہ گھاس اور پانی لے کر اس کے پاس گئے اور گھاس کھلانے اور پانی پلانے کی کوشش کرنے لگے لوگوں نے دیکھا تو اُنہیں سخت حیرت ہوئی، سجاتا کو کیا ہو گیا کہ وہ ایک مردہ بیل کو گھاس کھلانے اور پانی پلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بات سجاتا کے باپ تک پہنچی تو اُنہوں نے سجاتا سے دریافت کیا ’’یہ تم کیا کر رہے تھے لوگ کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘ تم دیوانے تو نہیں ہو گئے؟ تمہاری عقل کہاں چرنے چلی گئی ہے، تم ایک مرے ہوئے بیل کو گھاس کھلانے اور پانی پلانے کی کوشش کر رہے ہو مرا ہوا بیل گھاس کھائے گا کیا؟ سنا ہے تم چیخ چیخ کر کہتے ہو اُٹھو گھاس کھالو پانی پی لو بھلا مرا ہوا بیل کیسے اُٹھ جائے گا گھاس کھانے لگے گا پانی پینے لگے گا۔

سجاتا (بودھی ستو) نے کہا ’’جو مر جاتا ہے وہ مر جاتا ہے، وہ واپس نہیں آتا، کوئی احمق ہی سمادھی کو سجا سکتا ہے آپ کے علاوہ اور کون ہے اس دنیا میں دادا جی کی سمادھی پر پھول چڑھاتا اور روتا ہے۔

سجاتا کے باپ کے دماغ کا دریچہ اچانک کھل گیا ہو جیسے، عقل کی ہوا آنے جانے لگی۔ چیخ پڑے میرے بیٹے کی عقل نے مجھے سبق پڑھایا ہے، وہ بہت ہوشیار اور عقلمند ہے سچائی کو سمجھانے کے لئے اس نے ایک سچائی کا سہارا لیا ہے۔‘‘ آہستہ آہستہ سجاتا کے باپ کا غم جاتا رہا اور وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔

7)   ( بشاپپ ہا جاتک (Bhisapuppha-Jataka)

یہ دلچسپ حکایت پھول کی خوشبو کی چوری سے شروع ہوتی ہے۔

اس جاتک کی ابتدا، اس طرح ہوتی ہے۔

کسی زمانے میں جب بنارس کے راجا برہم دَت تھے تو ’بودھی ستو ‘ نے کاشی کے ایک گاؤں میں ایک برہمن کے گھر جنم لیا۔ جب بڑے ہوئے تو بہتر تعلیم و تربیت کے لئے ٹکسیلا گئے‘‘ تعلیم و تربیت کے بعد زاہد بن گئے اور ایک ایسے تالاب کے پاس رہنے لگے جس میں کنول کے پھول ہر جانب کھلے ہوئے تھے۔

ایک دِن ایسا ہوا کہ ’بودھی ستو‘تالاب میں اترے اور ایک خوبصورت ’کنول، کو سونگھنے لگے۔ پاس ہی ایک پری  بڑے پیڑ پر  رہتی تھی، اُس نے دیکھا ایک نو جوان ایک کنول کو سونگھے جا رہا ہے۔ پیڑ سے نیچے اتری کہا ’’کنول کا یہ پھول تمہیں دیا تو نہیں گیا ہے کہ تم اسے مسلسل سونگھے جا رہے ہو یہ تو خوشبو کی چوری ہے۔ بودھی ستونے حیرت سے پری کی جانب دیکھا ’’بھلا میں خوشبو کی چوری کیوں کروں، میں تو اس خوشبو …‘‘

’’اسی کو چوری کہتے ہیں، تم خوشبو کی چوری کر رہے ہو‘‘

اُسی وقت ’بودھی ستو‘کی نظر سامنے پڑی، انہوں نے دیکھا ایک شخص کنول کے پھولوں کو بڑی بے دردی سے کاٹ رہا ہے۔ اُنہوں نے پری سے کہا ’’میں نے کنول کے اس پھول کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، اسے تو ڑا نہیں، صرف اس کی خوشبو سونگھ رہا تھا اور وہ شخص جو کنول کے پھولوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اس کے متعلق تم کچھ نہیں کہتیں ‘‘وہ تو پھولوں کی جڑیں نکال رہا ہے۔ ‘‘

پری نے کہا ’’میں ایسے شخص سے کچھ بھی کہنا پسند نہیں کروں گی، وہ تو پریشان کُن حرکت کر رہا ہے  جِسے سلیقہ نہیں ہے بھلا اس سے کہا کیا جائے۔ میں اُس سے مخاطب ہوں جو مذہب اور اخلاق کا پیکر ہے۔ ‘‘

’بودھی ستو، نے کہا ’’اے پری مجھے معاف کر دو، جب بھی تم مجھے اس طرح کنول کو سونگھتے دیکھو تو مجھے  ضرور بتاؤ‘‘

پری نے کہا ’’میں یہاں اس لئے نہیں آئی کہ تمہیں بار بار بتاؤں کہ تم غلطی کر رہے ہو۔ آہستہ آہستہ تم خود اپنی راہ پر آ جاؤ گے۔ ‘‘ پری اُس درخت پر چڑھ گئی کہ جس پر رہتی تھی اور بودھی ستو عبادت میں مصروف ہو گئے — اتنی عبادت کی کہ بلندی پر چلے گئے ایک ایسی دنیا میں کہ جیسے ’برہم لوک، کہتے ہیں۔

(8) لوہا کمبھی جاتک (Lohakumbhi-Jataka)

کو سالہ کے راجا بے خبر سوئے ہوئے تھے کہ اچانک کچھ دور بھیانک چیخ پکار سے اُن کی آنکھیں کھل گئیں۔ دیر تک یہ بھیانک چیخ پکار سنتے رہے، پورے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی۔ حد درجہ خوف زدہ ہو گئے، چار آوازیں تھیں ایک آواز تھی، ڈُو، ڈُو، ڈُو، دوسری آواز تھی ’’سا سا سا ‘‘ تیری آواز تھی ’نا نا نا ‘ اور چوتھی آواز تھی ’’سو سو سو‘‘۔

کئی راتیں اسی طرح بے چینی میں گزر گئیں تو راجا نے اپنے ایک وزیر سے مشورہ کیا اور  یہ کہا کہ آوازیں چار گنہہ گاروں کی ہیں جو دوزخ کی آگ میں جل رہے ہیں، کرب میں مبتلا ہیں۔ چند جانوروں کی قربانی کرو تاکہ یہ آوازیں سنائی نہ دیں۔ چند بیل لے لو چند گھوڑے، چند ہاتھی، چند پرندوں کو لے لو، ان سب کی قربانی کر ڈالو تاکہ مجھے شب میں ان منحوس آوازوں سے نجات ملے۔ وزیروں نے جانوروں اور پرندوں کو جمع کیا اور ان کی قربانی کا انتظام شروع کر دیا، اُنہیں اس بات کی لالچ تھی کہ اس فرلیفے کو ادا کرنے کے بعد کو سالہ کے راجا اُنھیں مالا مال کر دیں گے۔ رانی تشریف لائیں اُنہوں نے راجا سے دریافت کیا ’’یہ کیا ہو رہا ہے یہ وزیر اتنے خوش کیوں ہیں۔ راجا نے پورا ماجرا سنایا تو رانی نے کہا ’’آپ کو ’دیوا‘ کی دنیا سے سب سے بڑے بودھ کو بلانا چاہئے، اُن سے مشورہ لینا چاہئے۔ راجا نے بودھی ستو‘کو یاد کیا ’بودھی ستو‘نے کاشی کے ایک گھر میں جنم لیا تھا جو برہمنوں کا گھرانہ تھا۔ وہ راہب بن گئے تھے، دنیا کی تمام آرام و آسائش کو چھوڑ دیا تھا۔ اُن میں فوق الفطری طاقت پیدا ہو چکی تھی۔ ہمالہ کے تمام علاقوں میں گھومتے رہتے اور ہواؤں میں اُڑتے ہوئے عبادت کرتے رہتے۔ ’بودھی ستو‘کو جہنم میں چیختے چلّاتے افراد کے متعلق ہر بات کی خبر مل چکی تھی۔ اُن کے گناہوں کا علم حاصل ہو چکا تھا۔ ’بودھی ستو‘نے راجا کو حالات سے واقف کر دیا۔ کہا یہ روحیں حد درجہ گنہ گار ہیں، جہنم میں اُنہیں سزا ملتی ہے تو وہ چیختے ہیں۔ یہ چار افراد بنارس کے پاس ہی کہیں جنم لیں گے اور تیس ہزار سال سزا پائیں گے۔ ان بد اخلاق لوگوں کی یہی سزا ہوتی ہے۔‘‘

یہ راہب ’بودھی ستو‘تھے، بہت بڑے عارف تھے۔ کہا ’’آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہو گی، اُن کا انجام ان کے عمل کے مطابق ہو گا۔‘‘

(9) گمبیا جاتک  (Gumbiya-Jataka)

یہ انسان دشمن آسیب گمبیّا کی حکایت ہے۔

یہ اُس دور کی کہانی ہے جب بنارس پر برہم دَت کی حکومت تھی۔ ’بودھی ستو‘نے ایک تاجر کے گھر میں جنم لیا تھا۔ جب بڑے ہوئے تو تاجروں کو لے کر مختلف علاقوں اور مقامات پر جانے لگے۔ اکثر ان کے ساتھ پانچ سو گاڑیاں ہوتیں جب وہ نکلتے یہ سمجھئے ایک بڑا کارواں نکلتا۔ راہ میں ایک جنگل پڑا، ’بودھی ستو‘نے تاجروں سے کہا ’’ہوشیار رہو، یہ راستے پر چو پتّے، پھول پھل پڑے ہیں وہ سب زہریلے ہیں، کسی بھی پھل کو کھانا نہیں، کسی بھی پتے پھول پھل کو چھونا تو مجھ سے مشورہ ضرور کرنا۔ یہ بتا کر وہ آگے بڑھ گئے کارواں پیچھے پیچھے چلتا رہا۔

ایک انسان دشمن آسیب تھا ’گم بیّا، ۔ اُس نے راہ میں شہد ڈالے اور اُس پر زہر ڈال دیا، چند تاجروں نے شہد دیکھا تو لگے چاٹنے، اُنہوں نے ’بودھی ستو‘سے کوئی مشورہ نہیں کیا جس تاجر نے شہد چکھا وہ اسی دم مر گیا۔ جو عقلمند تاجر تھے اُنہوں نے خود کو شہد سے دور رکھا۔ ’بودھی ستو‘نے کہا میں ہی بودھی ستو تھا اُس وقت ورنہ اتنے تاجر زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔

(10) سموگا جاتک (Samugga-Jataka)

کسی زمانے میں جب برہم دَت بنارس کے راجا تھے۔ ’بودھی ستو‘ایک عابد بن گئے تھے، ہمالہ میں اِدھر اُدھر گھومتے رہتے تھے، زندگی کی تمام آسائشوں کو تیاگ دے دیا تھا۔ جنگلی پھلوں پر گزارا کرتے تھے۔ ہمالہ ہی میں ایک جگہ اپنی کٹیا بنا رکھی تھی۔

’بودھی ستو‘کی کٹیا کے قریب ہی آسورا عفریت رہتا تھا، اتنا قد آور کہ دیکھئے تو سر چُر مُرا جائے اتنا موٹا کہ بڑی سے بڑی چیز نگل جائے۔

آسورا آسیب کو اس بات کا علم تھا کہ پاس ہی ’بودھی ستو‘کی جھونپڑی ہے وہ اس جھونپڑی میں عبادت کرتے رہتے ہیں، آسورا اُن سے کئی بار مل چکا تھا اُن پر نظر پڑتے ہی احتراماً جھک جاتا تھا۔

آسورا آسیب کی عادت یہ تھی کہ جس چیز کو پسند کرتا اُسے نگل جاتا، ایک دن ایسا ہوا، کاشی کے محل سے شہزادی کی سواری نکلی۔ شہزادی رتھ پر سوار تھی ساتھ بہت سے سپاہی تھے۔ آسورا نے شہزادی کو دیکھا اور اس کے حسن کو دیکھ کر دیوانہ سا ہو گیا۔ سامنے آ گیا اسے دیکھتے ہی تمام محافظ سپاہی خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔ آسورا نے شہزادی کو رتھ سے اُٹھا لیا، پہلی نظر میں محبت ہو گئی۔ اپنے غار میں لے آیا اور اسے اپنی بیوی بنا لیا۔ کھانے کے لئے بہت سی چیزیں لے آیا۔ چاول، مچھلی، گوشت، پکے ہوئے پھل اور جانے کیا کیا۔ قیمتی زیورات لایا، خوبصورت لباس پہنا کر دلہن کی طرح سجایا۔ پھر شہزادی کو ایک صندُوق میں بند کر نگل لیا، شہزادی صندوق کے ساتھ آسورا کے پیٹ میں چلی گئی۔

ایک دن آسورا کی خواہش ہوئی ’’کیوں نہ نہا لیا جائے، نہائے بہت دن ہو گئے۔ ‘‘ اس نے پیٹ سے صندوق نکالا، اسے کھول دیا، کہا میں نہانے جا رہا ہوں، تم آرام سے کھلی فضا میں سانس لو۔ آسورا نہانے کے لئے کچھ دور چلا گیا۔

کچھ ہی وقت گزرا ہو گا کہ ہوا کے دوش پر سوار ہوا کے بیٹے ’بودھی ستو‘کا گزر اُدھر سے ہوا۔ شہزادی کی نظر بودھی ستو پر بڑی تو اُس نے آواز دی۔ ظاہر کیا مصیبت میں ہوں مجھے بچا لو، ’بودھی ستو‘اپنی تپسیا عبادت سے ایک جادو گر بن چکے تھے، فوق الفطری طاقت بھی حاصل کر چکے تھے۔

’بودھی ستو‘نے نیچے شہزادی کو دیکھا سمجھ گئے وہ مصیبت میں ہے۔ نیچے آئے، ماجرا سنا، صندوق میں پہلے وہ لیٹ گئے اُن کے اوپر شہزادی لیٹ گئی۔

آسورا آیا، دیکھا بھی نہیں کہ شہزادی کے نیچے کوئی اور بھی ہے۔ اس نے صندوق بند کیا اور اُسے نگل لیا۔ چلا غار کے جانب کہ جہاں رہتا تھا۔ چلتے چلتے سوچنے لگا عرصہ ہوا میں نے اُس عابد کا نیاز حاصل نہیں کیا کہ جس کے پاس اکثر جاتا ہوں۔ آسورا ’بودھی ستو‘کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اُس کے دماغ میں ان کی آواز گونجنے لگی۔ اسے لگا وہ کہیں قریب ہی ہیں۔ اس نے صندوق کھولا اور ’’بودھی ستو‘‘ نظر آئے، وہ صندوق سے باہر آئے اور اخلاق کی تعلیم دی، اُنہوں نے کہا آسورا، تم نے جو کیا ہے وہ غلط ہے غیر اخلاقی حرکت ہے۔ اُنہوں نے ایک نغمہ سنایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ غیر اخلاقی حرکتوں کا انجام برا ہوتا ہے۔

آسورا نے بڑے ادب سے ’’بودھی ستو‘‘ کی باتیں سنیں۔ سوچا آخر میں شہزادی کی حفاظت کب تک کروں گا۔ بہتر ہے شہزادی کو آزاد کر دیا جائے اور بودھی ستو کے اخلاقی نصیحتوں پر عمل کیا جائے، اُس نے شہزادی کو آزاد کر دیا۔

(11)سوتانو جاتک (Sutano-Jataka)

یہ جاتک پڑھتے ہوئے مجھے اچانک بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ اس کا ذکر اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’آشرم‘‘ میں بھی کیا ہے۔

میں اسکول میں پڑھتا تھا جب موتی ہاری کے راکسی سنیما ہال میں ’حاتم طائی‘ فلم لگی تھی جو سات حصوں میں تھی، ہر حصّہ ایک ’ سوال‘ سے شروع ہوتا اور حاتم طائی اس کا جواب دیتا، ’جواب‘ حاتم طائی کا ڈراما ہوتا تھا۔ سات سوالات تھے جو حاتم طائی سے پوچھے گئے ان سب کا جواب حاتم کے مرکزی کردار کو لئے سامنے آتا۔ فلم رات بھر چلی ہم صبح تک دیکھتے رہے۔ معلوم نہیں یہ جاتک کب کا ہے، کس زبان سے آیا ہے کس وسط ایشیاء ملک سے تعلق ہے؟ یہ کہنا مشکل ہے، ہے بہت دلچسپ حکایت۔ ’جاتک‘ کی ابتداء اُسی طرح ہوتی ہے کہ جس طرح دوسری بہت سی حکایتوں کی ابتداء ہوتی ہے کسی زمانے میں بنارس پر برہم رت کی حکومت تھی، بودھی ستوکی پیدائش ایک غریب گھرانے میں ہوئی تھی، بودھی ستو کو لوگ ستانو (Sutano) کہتے تھے۔

’ستانو، ’ستانا‘ کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ جب بڑے ہوئے تو محنت  مزدوری کر کے پیٹ پالتے تھے، والدین سے بے حد محبت کرتے اور ان کی خدمت میں لگے رہتے۔ والد کا انتقال ہو گیا تو والدہ کی خدمت کو اپنا سب سے بڑا فرض جانا۔ برہم دَت کو شکار کھیلنے کا بڑا شوق تھا۔ شکار کے لئے ایک جنگل میں گئے، اعلان کیا ’’جہاں جہاں  میرے سپاہی ہرن کے شکار کے لئے کھڑے ہیں وہ سن لیں کہ ہرن ان کے پاس سے گزر کر نہ بھاگے، اگر ایسا ہوا تو  سپاہی کو ہرن کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ‘‘ سپاہیوں نے جنگل میں ہرنوں اور بارہ سنگھوں کو چیخ چیخ کر للکارا تاکہ وہ ان کے نزدیک آئیں، راجا نے ایک ہرن کو مارا اور تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ بہت سکون ملا، راجا بہت تھک گیا تھا اس لئے ایک بڑے درخت کے نیچے لیٹ کر آرام کرنے لگا۔ اسی درخت کے اوپر ایک بہت ہی خوفناک خونخوار آسیب یا راکشس رہتا تھا، اس نے دوسری بار جنم لیا تھا، وہ ’یاخا‘ (Yakkha) تھا، [حاتم طائی میں یہ بھیانک خطرناک آسیب ’یاخی یاخی‘‘ کہہ کر انسان کو کھینچتا، جس شخص کو کھینچتا وہ بے اختیار اس کے پاس آ جاتا اور آسیب کا لقمہ بن جاتا]’یاخا‘، روز زندہ لوگوں اور زندہ جانوروں کو اپنی خوراک بناتا تھا۔ اس نے کہا آج کچھ ملا نہیں ہے، بھوکا ہوں، میں تمہیں کھا جاؤں گا۔ راجا نے کہا ’’یاخا میں برہم دَت ہوں بنارس کا راجا، میں تمہیں روز غذا کے لئے ایک شخص کو بھیج دیا کروں گا، اگر تم مجھے کھا جاؤ گے تو کل سے غذا کون بھیجے گا؟‘‘ یاخا نے تھوڑی دیر غور کیا، کہا ’’تم ہر روز زندہ انسان بھیجو گے؟‘‘ راجا نے کہا ’’ہاں میں راجا ہوں میرا حکم کوئی ٹال نہیں سکتا۔‘‘ یاخانے راجا کو چھوڑ دیا اور اسی وقت سے لگا دوسری صبح کا انتظار کرنے۔ راجا جب واپس آیا تو اُس نے تمام لوگوں کو حالات سے آگاہ کیا۔ ’یاخا‘ سے جو واعدہ کیا تھا اسے پورا کرنا چاہتا تھا۔ ایک وزیر نے تجویز رکھی ’’مہا بلی جیل میں سیکڑوں قیدی بھرے پڑے ہیں روز ایک قیدی اور ایک پلیٹ چاول آسانی سے یاخا کو بھیج سکتے ہیں۔ جب جیل کے قیدیوں کی کمی ہونے لگی تو اسی وزیر نے راجا کے سامنے ایک تجویز رکھی ’’اگر مہا بلی ایسا کریں تو کتنا اچھا ہو۔ آپ جانتے ہیں دولت کی خواہش زندگی کی خواہش سے بڑی ہوتی ہے۔ آپ ایک بڑی رقم ہزاروں حصّوں میں تقسیم کر کے ہاتھی کے اوپر رکھ دیں اور نفیس چاول کی بوریاں بھی ساتھ ہوں یہ اعلان کیا جائے کہ جو شخص چاول کی بوریاں چاہتا ہے اس کثیر رقم کا حق دار ہو جانا چاہتا ہے وہ آگے آئے اور چاول کی بہت سی اور بوریاں ’یاخا‘ کے پاس پہنچا دے اور اسے اخلاق کا سبق دے آئے۔ ’بودھی ستو‘جو بہت غریب تھے اور اپنی ضعیف ماں کی بڑی مشکل سے دیکھ بھال کر رہے تھے ماں کے پاس آئے کہا ’’ماں میں ’یاخا‘ کے پاس جانا چاہتا ہوں کامیاب ہو جاؤں گا تو ہمیں بہت ہی بڑی رقم ملے گی، راجا کا اعلان ہے۔ ‘‘

ماں نے کہا ’’بیٹے، ہمیں دولت کی ضرورت نہیں، کسی طرح ہم دونوں کا پیٹ بھر رہا ہے ایسے خطرناک کام کی ذمہ داری نہ لو۔‘‘

’بودھی ستو‘نے ماں کو سمجھایا، کہا ’’آپ کی دعائیں ساتھ ہیں میرا کوئی نقصان نہ ہو گا میں کامیاب واپس آؤں گا ‘‘ جب واپس آؤں گا تو آپ کے آنسو تھم جائیں گے اور چہرے پر مسکراہٹ آ جائے گی، میں کامیاب لوٹا تو لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ جائے گی لوگوں کی زندگی محفوظ ہو جائے گی۔‘‘

ماں نے اجازت دے دی تو ’بودھی ستو‘راجا کے پاس آئے اور ’یاخا‘ کے پاس جانے کی خواہش ظاہر کی۔ راجا نے جب اجازت دے دی تو ’بودھی ستو‘نے کہا ’’مہا بلی، مجھے چند چیزیں درکار ہیں، ’یاخا‘  درخت کے نیچے بلاتا ہے اس درخت کے نیچے کہ جس پر رہتا ہے۔ درخت کی جڑ کے نیچے کھڑے ہوتے ہی انسان کمزور ہو جاتا ہے اس کے جسم میں تھر تھری سی آ جاتی ہے اور وہ اُسی وقت، یاخا‘ کا لقمہ بن جاتا ہے۔ اس کے لئے مجھے آپ کا شاہی چھاتا چاہئے، میں اُس درخت کے پاس جاؤں تو خطرہ نہ رہے، آپ کے چھاتے کا سہارا ہو گا تو میں محفوظ رہوں گا، آپ کی چمکتی ہوئی تلوار چاہئے، یہ آسیب تلوار سے ڈرتے ہیں آپ کی سونے کی تھالی چاہئے۔ اس میں ’یاخا‘ کے لئے کھانا لے کر جاؤں گا۔

راجا نے ’’بودھی ستو‘‘ کو وہ سب کچھ سونپ دیا جو وہ چاہتے تھے۔ چلتے ہوئے کہا ’’بہت جلد کامیاب واپس آؤں گا۔ اور خوشخبری دوں گا۔‘‘ ’بودھی ستو‘’یاخا‘ کے اُس درخت کے نیچے پہنچ گئے کہ جس کے اوپر وہ رہتا تھا، چھاتا کھول دیا، درخت کی پرچھائیں تک اُن سے دور رہی۔ تلوار نکالی اور اسے گھمانے لگے، تلوار کی چمک جیسے اُڑنے لگی ہر طرف۔ مہا بلی کے سونے کے برتن میں چاول سامنے رکھ دیا، کھا لو کھاؤ،

یاخا نے سوچا ’’یہ مختلف آدمی ہے‘‘

جب ’بودھی ستو‘نے چاول بڑھاتے ہوئے یہ شعر پڑھا۔

’’مہا بلی نے چاول بھیجے

ترے لئے اے ’یاخا‘‘

درخت سے اُتر کھا لے اسے‘‘

تو ’یاخا‘  بودھی ستو کے اندازِ بیان پر غور کرنے لگا، سوچا ایسا کوئی بھی شخص اب تک اُس کے پاس نہیں آیا تھا اور نہ کسی نے اس طرح گفتگو کی جرأت کی تھی ’یاخا‘ نے ایک چال چلنے کی کوشش کی، یہ شعر پڑھا۔

اندر آؤ اندر آؤ

پیڑ کے نیچے آؤ

جوان لہو کے مالک ہو

دیکھوں تو کیسے ہو؟

بودھی ستو نے جواب دیا۔

’’یاخا ! تم ایک بڑی چیز کھو رہے ہو۔

کل سے

موت کے ڈر سے

آئے گا نہ کوئی کھانا لے کے !

بودھی ستو نے کہا اے ’یاخا‘ تم نے بار بار گناہ کیا ہے، انسان کو کھاتے رہنا سب سے بڑا گناہ ہے۔ تم تو گنہ گاروں کی نسل بڑھاؤ گے کیا یہ کوئی اچھی بات ہے؟ چلو کہیں بنارس کے قریب رہنے کی جگہ دیدوں وہاں اپنے گناہوں سے دور رہو گے اور کھانے کے لئے چاول ملتا رہے گا۔‘‘

’یاخا ‘ نے سوچا یہ بندہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہے، میں نے بہت سے گناہ کئے ہیں اب یہ سلسلہ بند کر دینا چاہئے، راضی ہو گیا ’بودھی ستو‘کے ساتھ چلنے کے لئے، دونوں بنارس کے قریب پہنچ گئے۔ بودھی ستو کے پر راجا نے ’یاخا‘ کے رہنے کا انتظام کر دیا۔ راجا بھی تیار ہو گئے وہ ہر روز اُسے کھانے کے لئے چاول بھیجا کریں گے۔

بودھی ستو نے ’یاخا‘ کو اخلاقی سبق دئیے اور اسے گناہوں سے دور کر دیا۔ اپنے محسن سے ملنے ہزاروں لوگ آئے اور اُن کی نصیحتیں سنیں۔

بودھی ستو ماں کے پاس آئے، ماں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اب تو ’بودھی ستو‘کے پاس کافی دولت آ گئی تھی۔ ماں بیٹے ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

٭٭

 

 

’بودھی ستو، سے بودھ کی آفاقی بیداری تک ایک دلچسپ معنی خیز سفر ہے۔ دنیا کی حیرت انگیز حکایتوں، کہانیوں کا سفر نامہ ہے، فکشن کی کچھ اہم خصوصیتوں کو لئے ہر کہانی کچھ سرگوشیاں کرتی ہے، اسے مختلف منزلوں کا ایک روحانی سفر بھی کہہ سکتے ہیں ایک بڑے صوفی کا سفر ہے۔ آخری منزل پر کائناتی شعور (Cosmic Mind)کی جیسے ہی پہچان ہوتی ہے ایک کائناتی شخصیت کی پہچان ہو جاتی ہے۔ بودھ آخری منزل تک پہنچنے سے قبل جانے کتنے ڈرامائی تصادم سے گزرے ہیں ڈرامائی کشمکش اور تصادم کے سبب ہی ’ بودھی ستو‘کا عمل اور ردِ عمل پر کشش بنا ہے صرف روشنی ہی روشنی ہوتی تاریکی نہ ہوتی تو یہ سفر اور سفر کے تمام تجربے سپاٹ بن جاتے۔ ’بودھی ستو‘کے کردار نے ہر حکایت میں تحرک پیدا کیا، کشمکش اور تصادم کی شدّت کو کم کیا۔ مسائل نہ ہوتے اور مسائل کے نہ ہونے کی وجہ سے صرف معمولی تجربے حاصل ہوتے تو اتنی طویل کہانی میں کوئی لطف ہی نہ ہوتا۔

’بودھی ستو‘کے سفر کی ہر منزل پر محسوس ہوتا ہے کہ اگر تاریکی ہے تو اس تاریکی میں صرف بجلیوں کی چمک سے روشنی نہیں ہو رہی ہے بلکہ روشنی کے مختلف ’شیڈس، (Shades) بھی موجود ہیں۔ ہیرو نے اخلاق کی جمالیات سے گہرا رشتہ قائم کر رکھا ہے، ’اخلاق، حسن و جمال کی سب سے بڑی علامت ہے۔

’جاتکوں ‘ کی کہانی حکایت کا بغور مطالعہ کریں تو محسوس ہو گا کہ ہر کہانی ایک ’اسٹیج‘ ہے اور ہر اسٹیج پر ایک نیا فسانہ پیش کیا جا رہا ہے کہ جس میں ’سچائی، (Truth)ہے، کردار کا خوبصورت جلوہ ہے اخلاق کی جمالیات ہے۔

’بودھی ستو‘کی ہر حکایت میں متصوفانہ شعور موجود ہے۔ تصوف کی جمالیات کا ہی کرشمہ ہے کہ حکایت کے آخر میں روشنی پھیلتی ہے اس روشنی کے اندر اتر جائیے تو روشنی کا سمندر ٹھاٹیں مارتا آغوش میں لے لے گا۔ محسوس ہو گا جیسے سب سے عظیم روح کے حسن نے گرفت میں لے لیا ہے۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اس اسٹیج پر کہ جس پر ’بودھی ستو‘ہوتے ہیں وقت، ماحول، فطرت سب ظالم ہوتے ہیں کشمکش اور ڈرامائی تصادم کے ختم ہوتے ہی اخلاق کا جمال اُبھر کر سامنے آ جاتا ہے ’سچائی، (Truth)طلوعِ آفتاب کی روشنی لیے آ جاتی ہے حسن بکھرنے لگتا ہے کسی بڑے صوفی نے ایک کائناتی اخلاقی تنظیم (Cosmic Moral Order) قائم کر دی ہے۔ محبت اور اخلاق کی خوشبو ہر جانب پھیلنے لگی ہے۔

جاتک حکایتوں کا ذکر کرتے ہوئے Rhys Davids نے بڑی سچّی بات کہی ہے :

"…A priceless record of the childhood of our race.”

اپنی نسل کے بچپن کا ایسا ریکارڈ کہ جس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا جاتک حکایتوں کی صورت موجود ہے۔ جاتک حکایتیں تیسری صدی قبل مسیح کی دین ہیں، ان سے قدیم لوک فنون کہانیوں کا کوئی مجموعہ نہیں ملتا۔

جاتک حکایتوں میں بہت سی ایسی ہیں جو یونانی، لاطینی، عربی، فارسی اور کئی یوروپی ملکوں کی زبانوں میں بھی آئی ہیں۔ ان حکایتوں نے مشرق کو مغرب کے قریب پہنچایا اور مغربی ممالک کو شدّت سے متاثر کیا کیمبرج یونیورسٹی کے معروف سنسکرت پروفیسر ای۔ بی کوول (E.B. Cowell) نے 1895اور 1907میں، A Guild of Jataka Translators، اور More Jataka tales، لکھ کر جاتک کہانیوں کو قدر و قیمت سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کتابوں کی اشاعت کے بعد جاتک حکایتوں کی شہرت میں زبردست اضافہ ہوا۔ تبّت میں بھی ان کی مقبولیت بڑھی۔

تبّتی بودھ روایت میں جاتک حکایتوں کو تصویروں  میں پیش کیا گیا، خوبصورت رنگوں کا استعمال کیا گیا۔ آج بھی یہ روایت موجود ہے۔ تبّت کی زبان میں بہت سی حکایتیں بھی پیش ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایسی حکایتوں کی تعدادسو سے زیادہ ہیں۔

جن ملکوں میں بودھ ازم کو فروغ حاصل ہوا وہاں ’بودھی ستو‘کی تصویریں بھی بنائی گئیں، بودھ کے پچھلے جنموں کے پیکر پیش کئے گئے ساتھ ہی جاتک کہانیوں  قصّوں کے ترجمے بھی ہوئے۔ تخلیقی اظہار میں بڑی کشش ہے۔ بچوں کی کتابوں میں حکایتیں شامل ہوئیں، ’بودھی ستو‘کی تصویریں شامل کی گئیں، شاعری اور ڈراموں میں جاتک فسانے تخلیقی اظہار کے عمدہ نمونے پیش کرتے ہیں۔ بودھ وہاروں  اور خصوصاً تہواروں میں ’ بودھی ستو‘کے پیکر اپنے حسن و جمال سے متاثر کرتے ہیں۔

ان تمام چیزوں کا مطالعہ کیا جائے تو اخلاقیات اور اخلاقیات کی جمالیات کا ایک نظام سامنے آ جائے گا۔

پچھلے صفحات میں کہیں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’جاتک‘ نے چینی اور عجمی حکایتوں کو بھی متاثر کیا ہے اسی طرح وسط ایشیائی عجمی اور چینی حکایتوں نے بھی ’جاتک‘ کہانیوں کو متاثر کیا ہے۔

اس بات کی روشنی میں مندرجہ ذیل سچائیوں پر بھی نظر رکھنے کی  ضرورت  ہے:-

—(1)’جاتکوں، سے پہلے پالی زبان میں بہت سی حکایتیں موجود تھیں، ان حکایتوں سے بھی کچھ جاتکوں میں شامل ہوئیں۔

—(2)’جاتکوں، کے دورمیں بہت سی کہانیاں حکایتیں بکھری ہوئی تھیں ان میں سے بھی کچھ جاتکوں میں لی گئیں۔

(3) — کہانیوں حکایتوں میں ہندوستان کے قدیم پرانے قصّے بھی شامل ہوئے ساتھ ہی وسط ایشیا اور چین وغیرہ کے قصّے بھی آ گئے۔

—(4) جاتک حکایتوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان میں برہمنوں کے ادب کی جھلکیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔

— (5) رامائن کے رام کو بودھ کی جگہ رکھ کر پچھلی زندگی کے حالات  بھی لکھے جا چکے ہیں۔

—(6)پالی جاتک میں شاعری کے جو نمونے ملتے ہیں وہ بودھ ازم سے تعلق نہیں رکھتے۔

—(7)پالی جاتک اور مہا بھارت میں کئی مقامات پر مماثلت ہے۔

—(8) ’جاتک‘ کی چند حکایتوں پر چینی لٹریچر کا اثر ملتا ہے۔

—(9)  ’دسرتھ جاتک‘ میں ’بودھی ستو‘اور بودھ کی جگہ رام کا کردار ملتا ہے۔ اس میں سیتا کو رام کی بہن بتایا گیا ہے۔

(10)برما میں جو ’ جاتک، ہے اس میں رام کو ’بودھی ستو‘کا پیکر عطا کیا گیا ہے۔ لیکن وشنو کا اوتار بھی کہا گیا ہے۔

(11)جاپان میں جاتک حکایتوں کو بودھ کرداروں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

—(12) کئی ملکوں میں جہاں ’بودھی ستو‘کو رام کی صورت میں  پیش کیا گیا ہے انھیں ’میتر‘ (جیب ِ خدا؟) کہا گیا ہے۔

لوک فنون اور اُن کی جمالیات ’انسان کے عقاید، کلچر، زندگی کرنے کے طور طریقوں ان کی موسیقی، کہانیوں، رقص اور آرٹ وغیرہ پر روشنی ڈالتی ہے۔ ہم کہانیاں سناتے آئے ہیں اس لئے کہ ایک جاگی ہوئی  بیدار دنیا میں اپنے تخیل اور اپنی ’فینتاسی‘ سے ایک نئی دنیا خلق کریں۔ ایسے عمل میں یہ فطری بات ہے کہ دوسری حکایتوں کہانیوں سے مدد لیں، دوسرے علاقوں اور ملکوں کی موسیقی، رقص، مصورّی اور سنگ تراشی وغیرہ کی جمالیات سے روشنی حاصل کریں۔ اثرات قبول کرتے ہوئے جمالیات کی خوشبو کا سفر بھی جاری رہتا ہے۔ سماجی جمالیات کی خوشبو ہی سے نئے تجربے پر کشش بن جاتے ہیں۔ سماجی جمالیات کا مطالعہ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔

(1) انسان نفسیاتی ہنگاموں میں اتنا گم ہو جاتا ہے کہ وہ بہت کچھ فراموش کر جاتا ہے۔ اس کے تحت الشعور میں البتہ کبھی سچائیاں محفوظ رہتی ہیں جن سے نئی حکایتوں کی تشکیل میں بڑی مدد ملتی ہے۔ تحت الشعور ہی پچھلی کڑیوں سے تخیل کو جوڑنے میں مدد کرتا ہے۔

(2)یہ سوچنا غلط ہے کہ لوک حکایتیں کہانیاں عارضی ہوتی ہیں تحت الشعور کی مدد سے اچانک صدیوں میں پھیل جاتی ہیں۔

(3) لوک حکایتیں صرف اپنے وقت کے لئے نہیں ہوتیں۔ تخلیقی ذہن ’سائیکی، کی مدد سے انہیں پچھلی صدیوں میں پہنچا دیتا ہے اور پچھلی قدروں اور خصوصاً اخلاقیات کی جمالیات سے رشتہ قائم کر دیتا ہے۔

جاتکوں کے مطالعے سے اس بات کا احساس شدّت سے ہوتا ہے کہ ’نروان، پانے سے قبل تک بُدھ نے ظاہری اور باطنی طور پر کتنے جنم لئے اور ہر جنم میں کیسی قربانی دی ہر قربانی کتنی عظیم تھی، جنموں کا سلسلہ ایک کائناتی اخلاقی تنظیم کا نقش اُبھارتا ہے انسان کی بنائی دنیا میں اس کائناتی اخلاقی تنظیم (Cosmic Moral Order) کی جمالیات نے اخلاقی جلال و جمال کا کتنا اہم معیار قائم کیا ہے۔ سچائی (Truth) حُسن (Beauty) اور اخلاقی اقدار کی بلندی کا معیار ایسا ہے کہ وقت، ماحول اور سماج کی مخالفت کی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ بنیادی طور پر متصوفانہ شعور (Mystical Consciousness)کا کرشمہ ہے کہ جس میں روشنیوں اور خوشبوؤں سے بھری روح کا حسن ہوتا ہے۔ معروف صوفی دار و نے ’سچائی، کو بنیادی جلال و جمال سے تعبیر کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا جب میری آنکھ برہمن کی آنکھ بن جاتی ہے تو مجھے شدّت سے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے سچائی کے جمال کو پالیا ہے۔ ’نروان، حاصل کرنے کے بعد بودھ بہت بلند ہو جاتا ہے اور ایک گہری خاموشی میں ڈوب جاتا ہے۔ گٹیے (Goethe)کی یاد آتی ہے اس نے کہاتھا:

"The Highest is ever Silent”

اس خاموشی میں جمالیات کائناتی انسانی قدر بن جاتی ہے۔ ذات، روح اور ثقافت ایک دوسرے میں جذب ’سچائی، ’حسن و جمال، اور ’سیرت کی پاکیزگی، کی بڑی گہری علامت بن جاتی ہیں۔ مصر میں یہ اعتقاد تھا کہ زندگی سے ہی حُسن اور خوبصورتی کو سمجھا جا سکتا ہے، حُسن کیا ہے؟ زندگی اور اعلی اخلاقی اقدار کا جمال ہے، جدو جہد وہ روحانی ہو یا مادّی زندگی کا سب سے دلکش جلوہ ہے، آفاقی موزونیت ہی میں مظاہر حسن کو پایا جا سکتا ہے۔ کائناتی حسن تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ’بودھی ستو‘مسلسل جدو جہد کرتے رہے ہر منزل پر زندگی کے حسن کو حاصل کرتے رہے۔ اقدار، اخلاقیات میں جمالیاتی انبساط پاتے رہے، اقدارِ اخلاقیات میں رازِ حسن کو پایا، اسرارِ زندگی میں اسرارِ حسن کا تجربہ حاصل کرتے رہے۔

’بودھی ستو‘نے ہندوستان سے ترکستان کا سفر کیا، وسطِ ایشیا کے بعض ملکوں اور چین پہنچ گئے۔ ان کے ایسے پیکر بنائے گئے جن سے روحانی عظمت کے ساتھ فوق الفطری توانائی کو محسوس کیا گیا۔

’نروان حاصل کرنے کے بعد بودھ کے جو پیکر مختلف ملکوں میں ملتے ہیں وہ بعض اختلافات کے باوجود ایسا جو ہر لئے ہوئے ہیں جس کی چمک دمک میں بڑی یکسانیت ہے۔ ایسا ’آرچ ٹائپ، (Archtype) ہے جو نسلی لا شعور میں جانے کب سے موجود ہے۔ متھرا، سارناتھ، اجنتا، سری لنکا، جاوا، کمبوڈیا، جاپان، اور دوسرے علاقوں اور ملکوں میں جو پیکر ہیں وہ بند آنکھوں کے باوجود ایسی چمک دمک رکھتے ہیں کہ انہیں پہچاننا مشکل نہیں ہوتا۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے کہا جا سکتا ہے کہ انہیں دیکھتے ہی ایک جیسے بھو(Bhava) پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً رَتی بھَو، (Rati Bhava) یعنی محبت کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے پہلا روّیہ ہی محبت اور عقیدت کا رویّہ بن جاتا ہے، دوسرا بھَو ’’     سکھیا بھَو‘‘ (Sakhya Bhava) ہے، یعنی دوستی کا احساس اور تیسرا بھَو، سرینگار بھَو (Srinagara Bhava) ہے، عشق میں ڈوب ڈوب جانے گم ہو جانے کی خواہش۔

جاتک حکایتوں میں کئی ’رسوں، (Rasa) کی پہچان ہوتی ہے۔

مثلاً

(1) کرونارَس (Karuna Rasa)

(2) ادبھوت رَس (Adbhuta Rasa)

(3) رَدر رَس(Raudra Rasa)

(4) بھیانک رَس (Bhayanaka Rasa)

(5)شانت رس (Santa Rasa)

(6)سرینگار رس (Sringara Rasa)

(7)ہاسیارس (Hasya Rasa)

(8)ویر رس (Vira Rasa)

ناٹیہ شاستر کا مطابق ’کرونا رس‘ کا تعلق غم کے جذبے سے ہے۔ جدائی کے دکھ سے جو جذبہ اُبھرتا ہے اس کی پہچان ہوتی ہے، یہ ٹریجیڈی کی جمالیات سے تعلق رکھتا ہے۔

’ادبھت رس‘ تحیّر کے جذبے سے ٹپکتا ہے۔ تحیّر کارَس جمالیات میں غیر معمولی رَس ہے۔ تحیّر سے انبساط پانا بڑی بات ہے۔

’رود رس‘ وہاں ملتا ہے جہاں لفظوں میں ناراضگی کا اظہار ہو۔

’بھیانک رس، خوف کے جذبے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس رَس کے ٹپکنے سے روح میں کپکپی سی پیدا ہو جاتی ہے۔

شانت رس۔ پر سکوں حالات اور ماحول میں اس رَس کی پہچان ہوتی ہے۔

سرینگار رس۔ عشق و محبت ’کارَس ہے، جدائی کے لمحوں میں یہ رَس اپنی لطیف شیرینی سے پہچانا جاتا ہے۔

ہاسیا رس۔ اسے قدیم رس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ طنز و ظرافت کے احساس کے ساتھ اجاگر ہوتا ہے اور کامیڈی کا جوہر بن جاتا ہے۔

ویر رس۔ توانائی طاقت کے مظاہرے میں اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔

’رسوں کے بغیر فنون لطیفہ کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ’رس‘ کا مفہوم ہی ہے جمالیاتی انبساط پانا، جمالیاتی انبساط (Aesthetic Relish)پانا ہی بنیادی مقصد ہے۔

ہندوستانی جمالیات میں کاویہ، (شاعری) اور ’ناٹیہ، (تمثیل ڈراما) کو ابتداء سے اہمیت دی گئی ہے۔ بھَرت کے ناٹیہ شاستر سے جگن ناتھ کے ’’رس گنگا دھارا‘‘ (Rasaganga Dhara) تک ’رسوں، کو فنونِ لطیفہ کی روح سے تعبیر کیا گیا ہے۔

اسے جمالیاتی انبساط (Aesthetic Pleasure) پانے کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا ہے۔ بھَرت کے بعد سنکو کا (Sankuka) ممّت (Mammata) بھٹ لولیتا (Bhatta Lollata) آنندوردھن (Anand Vardhan) ابھی نو گپت(Abhinavgupta) رُدراٹا(Rudrata) کنٹک (Kuntaka) کوی راج (Kaviraja) اور جگن ناتھ پنڈت راجا (Jagannatha pandit raja) تمام علمائے جمالیات نے جمالیاتی انبساط (Aesthetic Pleasure)کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔

٭٭

 

لوک فنون کی جمالیات ہنوز ایک چیلنج کی صورت سامنے ہے۔ ہم اسے مختلف انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنی ذات کو اس کے پاس لا کر تپاتے ہیں تاکہ دماغ روشن رہے، لوک فنون ابھی تک بہت بلندی پر ہیں۔ آج عالم یہ ہے کہ ہم براہ راست ان کے اندر اُتر نہیں پاتے البتہ اس کے گرد چکر لگاتے جا رہے ہیں۔ ان کی انگنت جہتیں ہیں جن کا مطالعہ ضروری ہے، آنے والی نسلیں اپنے اپنے ’وژن، سے ان کی قدر و محبت کا اندازہ کرتی رہیں گی۔ سماجی تشریحوں کا جو تجزیہ ہوتا رہے گا وہ یقیناً بہت قیمتی ہو گا اس لئے کہ تمدنی فتوحات کی تشریحوں کا سلسلہ شروع ہو گا تو قائم بھی رہے گا۔ نئے ’وژن، سے حیرت انگیز نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔

’روحانی، ’فینومینا‘ (Spiritual Phenomena) کا مطالعہ ابھی باقی ہے اس کے ساتھ ہی بلند روحانی اقدار اور طبقاتی تصادم کا مطالعہ ضروری ہے لوک فنون خصوصاً لوک حکایتوں کی اندرونی منطق کو سمجھنے کے لئے ایک بڑی گہری نظر کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھنا اور سمجھنا بھی باقی ہے کہ کردار انتشار (Chaos)کی کیفیت سے باہر نکلتے ہیں تو ان کے عمل سے زندگی کی تشریح کس طرح ہوتی ہے۔

سماج کو زندہ اور محفوظ رکھنے میں جس طرح مذہب، فلسفہ اور سائنس وغیرہ مدد کرتے ہیں اسی طرح فنون بھی کرتے آئے ہیں اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ’سائیکی‘ کی پہلی سطح سے جو بات اُچھل کر آتی ہے صرف وہی اہم نہیں ہے۔ اندر جڑوں میں اور بھی سچائیاں ہوتی ہیں جو گہری جمالیاتی مسرّت (Aesthetic Pleasure) عطا کرتی ہیں۔

جمالیاتی تجربے میں تحیّر (Wonder) کے شامل ہوتے ہی ایک حیرت انگیز اُٹھان آ جاتی ہے۔ ’ادبھت رس‘ اور ’بھیانک رس‘ دونوں اپنی لذتوں کا احساس دینے لگتے ہیں۔ ایسی حکایتیں مختلف انداز سے سماجی شعور اور ’ہیومنزم، (Humanism) کو سمجھانے لگتی ہیں۔ ’ادبھت رس‘‘ اور بھیانک رس دونوں جمالیاتی لذت پانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔پر اسرار، واقعات کہ جن میں ٹریجیڈی اور اس کا حسن ہوتا ہے چونکا دیتے ہیں۔

ان رسوں کو لئے جو ادب پیدا ہوتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ جمالیات  فنون کی نفسیات ہے قاری کے احساس میں ہلچل سی پیدا ہو جاتی ہے۔ پڑھتے ہوئے ذہن کبھی بہت گہرائی میں اتر جاتا ہے اور کبھی بہت بلندی کی جانب پرواز کرتا ہے۔

فردوسی کی تخلیق شاہنامہ کے پس منظر میں لوک کہانیاں موجود ہیں۔ ’شاہنامہ، کی بنیاد بھی لوک حکایتوں کہانیوں پر ہے۔ رستم سہراب کیکاؤس، کوہِ قاف، وغیرہ سب قدیم کہانیوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اسی طرح پنجابی ادب میں ہیر رانجھا، سوہنی مہیوال، مرزا صاحبان وغیرہ لوک فنون کی جمالیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے تمام کردار اور مقامات کے واقعات، احساسات جذبات، عمل رد عمل لوک ادب سے رشتہ رکھتے ہیں۔

تبّت کی ایک حکایت اس طرح پڑھی تھی، کسی زمانے میں تبّت کے کسی علاقے میں ایک بڑی ریاست تھی، وہاں ایک دولت مند شخص کا بیٹا تھا، ایک ڈاکٹر کا بیٹا، ایک انگریز کا بیٹا، ایک نجومی کا بیٹا تھا، ایک بڑھئی کا اور ایک لوہار کا بیٹا۔ ان کے والدین نے انہیں زیادہ سے زیادہ پیار دے کر بگاڑ رکھا تھا۔ ان سب نے ایک روز آپس میں مشورہ کیا اور تبّت کی ایک دوسری ریاست میں چلے گئے۔ بہت دور چل کر نیچے ایک اجنبی وادی میں پہنچ گئے۔ سب نے ایک ایک پودا لگایا اور اسے ’’زندگی کا پودا کہا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ سب مختلف وادیوں میں چلے جائیں  کوئی کسی کے ساتھ نہ ہو۔ تنہا جائیں گے کچھ برس بعد جب سب واپس آئیں  اور کسی ایک دوست کو نہ پائیں، یہ دیکھیں گے کہ زندگی کا ایک پودا مر چکا ہے تو اُس دوست کی تلاش میں اِدھر اُدھر نکل جائیں۔ دولت مند شخص کا بیٹا ایک جنگل سے گزرا چلتے چلتے اُسے ایک چھوٹا سا گھر نظر آیا۔ دروازے پر پہنچا تو اُسے ایک ضعیف شخص نظر آیا، ساتھ ہی ایک ضعیف عورت دکھائی دی دونوں نے دریافت کیا ’’بیٹے تم کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جا رہے ہو‘‘ دولت مند شخص کے بیٹے نے جواب دیا‘‘ میں بہت دور سے آ رہا ہوں، بھوکا ہوں عرصہ ہوا جب کچھ کھایا تھا۔ ضعیف عورت نے کہا ’’بہت اچھا کیا جو یہاں آ گئے، ہم دونوں کا کوئی بیٹا نہیں ہے، صرف ایک بیٹی ہے جو بہت خوبصورت ہے اس نو جوان خوبصورت لڑکی کو اپنا بنا لو تو ہمیں بہت خوشی ہو گی‘‘ اُسی وقت اُن کی نو جوان خوبصورت لڑکی باہر آ گئی، دولت مند شخص کے بیٹے نے اُسے دیکھا پہلی نظر میں عاشق ہو گیا، اتنی خوبصورت دوشیزہ اُس نے کبھی دیکھی نہ تھی، اُس نے فیصلہ کر لیا کہ وہیں رہے گا ان دونوں بزرگ ہستیوں کا داماد بن کر۔ لڑکی کو بھی دولت مند شخص کا بیٹا بہت پسند آیا۔ لڑکا وہیں رہنے لگا۔

کچھ ہی دور ریاست کے راجا کا محل تھا، محل کے قریب ایک دریا تھا جس میں راجا کی خوشنودی کے لئے محل کے سپاہی کھیلتے تھے، ایک بار اسی طرح کھیلتے ہوئے ایک سپاہی کو ایک بہت خوبصورت قیمتی انگوٹھی ملی۔ انگوٹھی دیکھتے ہی راجا کو یقین آ گیا کہ جس کی انگلی میں یہ انگوٹھی ہو گی وہ یقیناً بہت ہی حسین ہو گی۔ راجا نے اپنے سپاہیوں کو دوڑایا ’’جاؤ تلاش کرو دیکھو وہ کون لڑکی ہے کہ جس کی انگلی میں یہ انگوٹھی تھی۔ سپاہیوں کو لڑکی مل گئی وہ وہی تھی کہ جس کے ساتھ دولت مند شخص کا بیٹا رہ  رہا تھا۔ لڑکی راجا کے پاس لائی گئی، راجا اُس کے حسن و جمال کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ کہنے لگا کہ تمام رانیوں میں سب سے خوبصورت یہ لڑکی ہے، یہ لڑکی نہیں حسن و جمال کا سب سے عمدہ نمونہ ہے۔ راجا کے حکم سے دولت مند شخص کے بیٹے کا قتل ہو گیا اور اسے ندی کے کنارے دفن کر دیا گیا اور ایک بڑے پتھر سے ڈھانپ دیا گیا۔  لڑکی اس کی یاد میں روتی رہی۔

چھ ماہ بعد دولت مند شخص کے بیٹے کے باقی دوست مختلف علاقوں سے واپس آئے ایک دوست یعنی دولت مند شخص کے بیٹے کی کمی محسوس ہوئی۔ اُنہوں نے دیکھا اس نے جو درخت لگایا تھا وہ مر چکا ہے۔ نجومی کے بیٹے نے جنم پتری دیکھی، کہا ’’دولت مند شخص کا بیٹا مر چکا ہے، ایک بھاری پتھر کے نیچے اس کی قبر ہے۔ ندی کے قریب ہی کہیں وہ پتھر ہے، سب وہاں گئے ایک بڑا پتھر موجود تھا لیکن اسے ہٹانا مشکل تھا، لوہار کے بیٹے نے اس پتھر کو اپنے اوزار سے توڑ دیا۔زمین کے اندر دولت مند شخص کے بیٹے کی لاش دیکھی، ڈاکٹر کے بیٹے نے زندگی بچانے والی دوا کا استعمال کیا اور وہ زندہ ہو گیا۔ دوستوں نے سوالات کیے دولت مند شخص کے بیٹے نے ہر سوال کا جواب دیا۔ سب نے سوچا وہ لڑکی واقعی بہت خوبصورت ہو گی۔ ہم لوگ اس لڑکی کو راجا کے چنگل سے بچا کر کیسے لے آئیں۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ بڑھئی کے بیٹے نے کہا ’’میں وشنو کا گرودا، بنا دیتا ہوں اُسے لے کر دولت مند شخص کا بیٹا راجا کے محل پر اُتر جائے، وہاں وہ لڑکی پرندوں کو کھانا دینے آئے گی تو اُسے اُٹھا لے۔ رنگریز کے بیٹے نے کہا میں ’گرودا، کو خوبصورت رنگ دیتا ہوں کہ جیسے دیکھ کر راجا بھی حیران ہو جائے گا۔

وہی ہوا، ’گرودا‘ راجا کے محل پر اُترا، لڑکی آئی اس نے اپنے محبوب کو اس پر بیٹھے دیکھا، فوراً ہی ساتھ بیٹھ گئی اور ’گرودا‘ واپس آ گیا۔‘‘ لڑکی نے دولت مند شخص کے بیٹے سے کہا ’’میں تم سے محبت کرتی ہوں، تمہیں چھوڑ کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ دولت مند شخص کے بیٹے نے اپنے دوستوں کا شکریہ ادا کیا، کہا ’’آپ سب کی اجازت ہو تو میں اس خوبصورت لڑکی سے ایک بار پھر شادی کر لوں ‘‘ یہ سن کر نجومی کے بیٹے نے کہا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے، میں نے ستاروں کی گردش کا جائزہ لیا، راستہ بتایا، میں نے راستہ بتایا نہ ہوتا تو بھلا یہاں تک کیسے پہنچتے؟اس سے شادی میں کروں گا۔ لوہار کے بیٹے نے کہا بھلا تم سے شادی کیوں ؟

میں اس سے شادی کروں گا۔ میں نے اتنے بڑے پتھر کو توڑا اور اپنے دوست کو باہر نکالا ہے۔‘‘ یہ سن کر ڈاکٹر کے بیٹے نے کہا ’’زندگی کی دوا دے کر میں نے زندہ کیا ہے اپنے ساتھی کو، اگر میں نے دوا نہ دی ہوتی تو وہ زندہ کب ہوتا؟ لہٰذا اس خوبصورت لڑکی سے میں شادی کروں گا۔‘‘ بڑھئی کے لڑکے نے کہا ’’اگر میں نے وشنو کا ’گرودا‘ نہ بنایا ہوتا تو اس لڑکی کو راجا کے محل سے لایا کیسے جا سکتا تھا۔‘‘ شادی تو میں کروں گا۔‘‘ یہ سب سن کر رنگریز کے بیٹے نے کہا ’’گرودا کو میں نے رنگ و روغن سے پر کشش بنایا، ایسا نہ کیا ہوتا تو بھلا لڑکی نے ’گرودا‘ کو دیکھا کب ہوتا۔ رنگوں کی چمک دمک اور خوبصورتی کی وجہ سے اس لڑکی نے اس پر بیٹھنا پسند کیا۔ تم لوگ سوچو’گرودا‘ اُڑتے ہوئے کتنا خوبصورت لگا، یہ تو میرا کرشمہ ہے لہٰذا لڑکی سے شادی میں کروں گا‘‘

جب بحث ختم ہو گئی تو سب نے کہا ’’یہ لڑکی ہی فساد کی جڑ ہے، ہم لوگ اسے مار ڈالیں۔

دولت مند شخص کے بیٹے نے سوچا ’’میں نے زبان کیوں کھولی بھلا‘‘ یہ لوگ اس پیاری سی خوبصورت لڑکی کو مار ڈالیں گے!‘‘۔ یہ کہہ کر وہ — جو ایک ڈھانچہ تھا اپنی قبر کے اندر چلا گیا۔‘‘

—بلا شبہ ادبھت رس (Adbhuta Rasa) اور بھیانک رس (Bhayanaka Rasa) کی وجہ سے اِس کہانی کی لذّت بہت بڑھ گئی ہے لیکن ساتھ ہی کئی اور رَس اس حکایت میں شامل ہو گئے ہیں جو اس قصّے کو زیادہ لذّت آمیز بناتے ہیں۔  ’کرونارَس (Karuna Rasa) جو جدائی اور غم کے احساس میں تازگی پیدا کر دیتا ہے۔ ٹریجیڈی کا حسن متاثر کرنے لگتا ہے۔ ہم تحیّر کے ٹپکتے رَس سے لطف اندوز تو ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی بھَیانک رس کی لذّت بھی ملنے لگتی ہے۔ ایک اور رَس جو شہد کے قطروں کی لذت دیتا ہے ’سرینگار رس‘ (Srinagara Ras) ہے جو عشق و محبت کا رس ہے، جو مردے میں بھی جان ڈال دیتا ہے۔ ان عام رسوں کا ایک حکایت میں جمع ہو کر جمالیاتی انبساط عطا کرنا بڑی بات ہے۔

یہ کہانی ’’ادبھت رَس‘‘ یعنی تحیّر کے حسن اور لذّت لئے اُبھرتی ہے اور جلد ہی ’سرینگار رس‘ ٹپکانے لگتی ہے، ضعیف مرد اور ضعیف خاتون کی گفتگو ہوتی ہے۔ اور دولت مند شخص کے بیٹے کے سامنے ان کی حد درجہ خوبصورت لڑکی سامنے آ جاتی ہے، پہلی نظر میں محبت ہو جاتی ہے اور دولت مند شخص کا بیٹا اس گھرانے میں رہنے لگتا ہے۔ حیرت اور تحیّر کی لذت کے ساتھ سرینگار رَس بھی ملنے لگتا ہے۔ یہاں Surprised Delight کا ایک حیرت انگیز احساس متاثر کرتا ہے۔ ’ناٹیہ شاستر، (VI.74) میں کہا گیا ہے کہ ہم جیسے ادبھت رس کہتے ہیں۔ جذبے کو اُبھارنے والا ایک مستقل احساس ہے، پرواز کرتے ہوئے، رتھ کو دیکھ کر جو حیرت ہو سکتی ہے کم و بیش اس قسم کی حیرت ہوتی ہے، اور جب سرینگارس اس میں شامل ہو جاتا ہے تو Love-In-Union کا معاملہ ہو جاتا ہے۔ ’ناٹیہ شاستر‘ (VI-45) میں اسے ’سمبھوگ سرینگار—، (Sambhoga Sringara) کہا گیا ہے۔ اس کہانی میں تحیّر کے شدید احساس کے ساتھ ’سمبھوگ سرینگار کا منظر بھی غیر شعوری طور پر کسمسانے لگتا ہے۔ کہانی کے آخر میں اچانک’’ بھیانک رس‘‘کے ملتے ہی پوری کہانی حد درجہ حیرت انگیز بن جاتی ہے۔ ایسا تحیّر پیدا ہوتا ہے کہ کہانی سننے والا کانپ جاتا ہے۔

—لیکن

اُسے ’آنند، بھی ملتا ہے یعنی جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے اس کہانی میں ایک نیا پن (Newness) ہے، ایک حیرت انگیز اجنبیت (Strangeness) ہے ۔

٭٭

 

            برِ صغیر میں قبائلی زندگی کی تاریخ کب سے شروع ہوتی ہے یہ بتانا نا ممکن ہی ہے۔ دس ہزار سال پہلے سے بھی سوچا جائے تو قبیلوں اور ان کی زندگی کے کلچر کے تعلق سے دھندلکوں میں کچھ دکھائی نہ دے۔ ہزاروں برس قبل آدم گڑھ، مدھیہ  پردیش کے غاروں کی بابت جو تحقیق سامنے آتی ہے وہ بھی گزرے ہوئے ہزاروں برسوں کی جانب ہلکے ہلکے اشارے کر کے خبر دیتی ہے۔ ابتداء میں قبائلی زندگی میں شکار کی اہمیت زیادہ تھی، پتھر کے زمانے میں گنگا کے آس پاس جو قبیلے آباد تھے شکار کے عاشق تھے، عورت مرد دونوں چھوٹے چھوٹے پتھروں اور ہڈیوں سے زیورات بناتے اور پہنتے، ماقبل تاریخ حسن کا ایک کلچر موجود تھا۔

بھیل (Bhil) تھارو (Tharu) ناگا (Naga) گُجر (Gujjar) گدّی (Gaddi) مُوریا (Muria) پہاڑی کھاریا (Kharia) بھوٹیا (Bhotia) تری پورہ کے قبائل، اُڑاؤں (Oraon)کھونڈ (Khond) منڈا (Munda) آسورا (Asura)اور جانے کتنے قبائل اس کلچر کو بنانے سنوارنے میں پیش پیش رہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ قبائلی عورتوں کی وجہ سے حسن کا معیار بلند ہوا ہے۔ وہ حسن کے معیار کو اوپر لے جانے میں مردوں سے آگے رہی ہیں۔ لباس، بالوں کی آرائش، زیورات اور گودنے (Tattooing)سے خود کو خوب سجایا اور اپنے دور کے حسن کی علامت بن گئیں۔ قبائلی عورتیں پھولوں کی عاشق رہی ہیں۔ آج بھی اُن کے بالوں میں کانٹوں اور لکڑی کی کنگھیوں کا استعمال موجود ہے۔

’الاؤ‘کے گرد بیٹھ کر قصے کہانی سنانے اور رقص اور گیتوں میں اپنے احساسات کو پیش کرتے رہنے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ کہانیوں اور رقص اور گیتوں کا تعلق عام زندگی کے تجربوں اور انسانی رشتوں سے بہت گہرا ہے۔ گانوں گیتوں اور موسیقی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی روایات بہت قدیم ہیں، مثلاً لڑی شاہ، (کشمیر) پے نا، (Pena) (منی پور)، کم سالے (کرناٹک) وغیرہ۔ لوک فنون میں رقص کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ معنیٰ اور اسلوب پر گہری نظر رکھیں تو اندازہ ہو گا کہ رقص کا دائرہ کافی پھیلا ہوا ہے۔ کم و بیش یہی حال موسیقی کا ہے، ہلکے پھلکے آہنگ سے ایک فضا بن جاتی ہے۔ قبائلی زندگی میں حکایتیں، ڈراما، رقص اور موسیقی سب ایک دوسرے میں جذب ہیں۔ قبائلی حلقوں کے رقص کو دیکھیں تو سادگی کا عجب احساس ملے گا، سادگی کا حسن متاثر کرتا رہے گا۔ ہر رقص میں موسیقی کے آہنگ سے عجب اُبال پیدا ہوتا ہے۔ کچھاری (Kacharis) کے رقص ’ دی ماسا، (Dimasa) گاروس(Garos)کے ’وانگلا‘ (Wangala)ناگا (Nagas) کے ’کمبو‘ (Kimbu) وغیرہ کے رقص کو دیکھیں تو سادگی اور پُر کاری دونوں کی پہچان شدّت سے ہو گی۔ کہتے ہیں لوک فنون  کہانیوں یا حکایتوں نے ڈراما کو جنم دیا اور ڈراما نے رقص اور موسیقی کو عروج پر پہنچا دیا۔ رقص، ڈراما اور موسیقی کے مترنم ہم آہنگی کو کیریلا کے ’’کتھا کلی‘‘مہا راشٹر کے ’تماشا، (Tamasha) اور کرناٹک کے ’’یاک سا گانا (Yaksagana) نے اس طرح قائم اور زندہ رکھا ہے کہ پس منظر میں لوک فَنُون کی تکنیک، موضوع اور اظہار کی پہچان بہت حد تک ہو جاتی ہے۔

قبیلوں کی ’فکری سطح، پر رومانیت ’فینتاسی‘ کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ کچھ قبیلوں میں یہ سوچ تھی کہ ابتداء میں کہیں کوئی ’صورت، موجود نہیں تھی، ہر جانب تاریکی پھیلی ہوئی تھی، آسمان (Sedi) اور زمین (Melo) ایک دوسرے میں جذب تھے۔ ان کے ملاپ کی وجہ سے تمام اشیاء و عناصر وجود میں آئے، آہستہ آہستہ روشنی ہونے لگی، پھر پہاڑ، زمین اور پانی سب دکھائی دینے لگے۔ یہ خیال آئندہ ہلکے پھُلکے فلسفے اور نیم مذہبی خیالات کی بنیاد بن گیا۔ کہیں کہیں اس خیال کی وضاحت اس طرح بھی ہوئی کہ زمین اور آسمان ایک دوسرے کے عاشق تھے، درخت، گھاس، جانور پرندے سب اسی محبت کی وجہ سے وجود میں آئے۔ آسمان اور زمین کو جدا ہونا تھا، اس لئے بھی کہ جو بچّے جنم لے رہے ہیں وہ کہاں رہیں گے۔

قبیلوں میں سیکڑوں کہانیاں حکایتیں مقبول رہی ہیں، ایک حکایت میں ایک بڑے پتھر سے تین اشخاص جنم لیتے ہیں، دو یتیم بچّوں کے پاس آتے ہیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی خاموش عبادت کرتے نظر آتے ہیں، ایک روح آسمان سے اترتی ہے، یتیم بچّوں سے معلوم کرتی ہے ’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ دونوں جواب دیتے ہیں ’’عبادت کر رہے ہیں تاکہ فصل اچھی ہو، روح شب بھر اُن بچّوں کے ساتھ رہتی ہے جاتے وقت اپنے جسم سے پیدا ہوئے اناج اُنہیں دیتی ہے اور گم ہو جاتی ہے۔ درمیان میں کچھ واقعات ہوتے ہیں، آخر میں دونوں یتیم بچّوں کے گھٹنوں سے کچھ پتھر نکلتے ہیں اور وہ انسان کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ایک کہانی اس طرح ہے کہ پوری دنیا میں صرف ایک ہی انسان تھا بہت مضبوط جسم کا مالک، جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ ایک بڑے دیوتا کی خوبصورت لڑکی کی نظر اس پر پڑی، عاشق ہو گئی اُس پر، زمین پر آ گئی اور اس شخص کی بیوی بن گئی۔ ان ہی دونوں کے ملاپ سے ایک بڑے قبیلے کا جنم ہوا۔

ہر قبیلہ ’تخلیق، اور تخلیقی عمل کی اپنی کہانی رکھتا ہے۔ کبھی یہ کہانی حکایتوں کی صورت ہوتی ہے اور کبھی منظوم۔ ایک معروف قبیلہ ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ غیب سے ایک پرندہ آیا اس کا نام ’’او۔پلیک  پی‘‘ (Wo-Plak-Pi) تھا، اسی کے انڈوں سے انسان نے جنم لیا۔ اس پرندے نے ہزاروں انڈے دئے۔ ہر انڈے سے ایک قبیلے کا جنم ہوا۔ اسی طرح انسان کی ہزاروں نسلوں کی پیدائش ہوئی۔ ’کار بس، (Karbis) قبیلے کا اعتقاد یہ ہے کہ دنیا  میں  بد روحوں اور دیوتاؤں وغیرہ کی کمی نہیں ہے۔ اس قبیلے کے لوگ بد روحوں، خبیثوں اور دیوؤں سے ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ ’اوپلیک پی، (Wo-Plak-Pi)  کے پہلے انڈوں سے پہلے انسانوں نے جنم لیا، لہٰذا آسام کے لوگ دنیا کے پہلے انسان ہیں۔ آسامی ’ناگا، کھاسی سب اسی پرندے کے انڈوں کے بچّے ہیں۔

کسی قبیلے کا یہ خیال کتنا لطیف ہے کہ ندیوں دریاؤں کے نرم آہنگ سے انسان نے ’میلوڈی‘ کا سبق پڑھا ہے، لوک آہنگ کی یہ پہلی منزل ہے۔

٭٭

 

            ہندوستان کے شمال مشرقی ریاستوں میں مختلف اقسام کے قبیلوں کی آبادی زیادہ ہے۔ اُڑیسہ، بہار، مدھ پردیش، راجستھان اور گجرات میں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آبادی میں کم و بیش چار سو قبائلی حلقے ہیں، ایک ہزار مردوں پر ساڑھے نو سو سے کچھ زیادہ عورتیں ہیں۔ ان میں اُس نسل کے افراد بھی ہیں جو شکار کھیلتے تھے اور وہ بھی جو اناج پیدا کرتے اور انہیں جمع کرتے ہیں۔ مثلاً منڈا، اُڑاؤں سنتھال اور بھیل وغیرہ، عورتیں محنتی جفا کش اور بعض علاقوں میں مردوں سے آگے بڑھ کر کام کرنے والی ہیں۔ گیتوں اور نغموں کی خالق ہیں، رقص اور سنگیت کے نئے نئے انداز پیدا کرتی رہی ہیں، پہاڑوں، ندیوں، جنگلوں، کھیتوں اور محبوبوں کے نغمے بس اُن سے سنیئے، رقص اور گیتوں میں ہر قبیلے کا اپنا انداز ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر قبیلے کی عورتوں کی اپنی اجتماعی یا نسلی ’سائیکی‘ (Psyche) ہے۔

قبائلی عورتیں گیت گاتی ہیں تو اپنے الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرتی ہیں کہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ اُن کا نغمہ ہے۔ مثلاً اُن کا گیت ہے۔

 

میں اپنی ماں کے گھر جانا چاہتی ہوں

لیکن میرے سسر بیمار ہیں

بہت ہی بے چین ہوں۔ اپنی ماں کے گھر جانا چاہتی ہوں

لیکن

اس کی اجازت نہیں ہے،

اس لئے کہ میں چلی گئی تو گھر میں کوئی اور نہ ہو گا!

 

دوسرا گیت سنئے:

میری ماں غریب ہے

میرا باپ بھی غریب ہے

مجھ سے زیادہ اور کون غریب ہے

ہاں میرا چھوٹا بھائی اور بھی غریب ہے

اس لئے کہ وہ سات جوڑے بیلوں سے ہل جوتتا ہے۔

 

یہ گیت خاص توجہ چاہتا ہے۔

بھول  جاؤ مجھے

اور میری محبت کو

تاکہ میرے ماں باپ کو اس کی خبر نہ ملے،

 

عمل: شاہینہ

میں اپنی ماں کو چھوڑ دوں گی

اور باپ کو بھی،

اپنے پیارے بھائی کو بھی چھوڑ دوں گی۔

بہتر ہے زہر کھالوں اور اس دنیا سے گزر جاؤں

تمہاری محبت اور تمہارے بغیر زندہ نہ رہ سکوں گی!

 

اور یہ گیت بھی توجہ طلب ہے:

میرے ساتھی ہم دونوں اُس بڑے پہاڑوں کے پار چلے جائیں

پھیلی ہوئی ندیوں کے پار پہنچ جائیں

مستقبل میں ہم دونوں ساتھ رہیں

جگہ ایسی ہو جہاں کوئی تکلیف میں نہ ہو سب خوش اور ہنستے رہیں۔

ایک لوک کہانی سے قبیلے کی نو جوان لڑکیوں کی نفسیات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ قصّہ یوں ہے کہ کسی زمانے میں ایک خوبصورت نو جوان مرد پتھر توڑ رہا تھا، بہت محنتی تھا، اُسے دیکھتے  بہت سی حسین لڑکیاں مچل مچل گئیں۔ سب چاہتیں کہ وہ مرد اُس کا بن جائے۔ ایک لڑکی تھی جو بہت ہوشیار تھی، اُس نے اس نو جوان خوبصورت لڑکے کی بہن سے دوستی کر لی۔ ایک روز جان بوجھ کر گر گئی جیسے اچانک پھسل گئی ہو اور لگی درد سے چیخنے۔ نو جوان لڑکے کی بہن نے بہت کوشش کی درد کم نہ ہوا۔ دوڑی اپنے بھائی کے پاس اُس سے گزارش کی کہ وہ جلد چل کر اس کی سہیلی کی حالت دیکھ لے، جب تک وہ واپس نہیں آئے گا وہ اُس کے بیلوں کی دیکھ بھال کرتی رہے گی۔ نو جوان مشکل سے راضی ہوا، اُس نو جوان لڑکی کو دیکھا وہ ٹانگوں کے درد سے آہ آہ کرتی جا رہی تھی، جب بھی اس جوان لڑکے نے جانا چاہا لڑکی نے کسی نہ کسی بہانے اُسے روک لیا۔ بہت وقت گزر گیا، اس درمیان میں اُس کے بیل پتھر میں تبدیل ہو گئے!!

ہر قبیلے میں عورتو ں کا احترام غیر معمولی نوعیت کا ہے، کہا جاتا ہے وہ جگہ کہ جہاں تاریکی دور ہو جاتی ہے اور روشنی وجود میں آتی ہے وہاں ندیوں اور دریاؤں کی دیکھ بھال مچھلی رانی کرتی ہے۔

کم و بیش تمام قبیلوں میں فوق الفطری عناصر پر اعتقاد بہت زیادہ ہے۔ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اُن کے چھو منتر سے بد روحیں دور بھاگ جاتی ہیں۔ کھیتوں کو کسی کی نظر نہ لگے، اناج اچھا ہو بیماریاں دور ہو جائیں، بچّوں کو بری نظر سے کوئی نہ دیکھے، وہ چھو منتر سے اور مختلف اقسام کی عبادتوں سے انہیں دور رکھتی ہیں۔ وہ ہر مشکل اور مصیبت میں سیاہ جادو ٹونے سے لڑتی رہتی ہیں۔ موسم اتنا خراب ہو کہ کھیتوں میں اچھی پیداوار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو عورتیں اپنے ’’سفید ٹٹکا ٹونے‘‘ کا استعمال کرتی ہیں وہ مختلف قسم کی بیماریوں کے لئے جڑی بوٹیوں سے دوائیں تیار کرتی ہیں۔ شادی سے پہلے مینڈکوں کی شادی کرنے کا رواج آج بھی موجود ہے۔ عورتوں کی وجہ سے قبیلوں میں ایک فوق الفطری ماحول بنا ہوا ہے کہ جس  سے مرد بھی کم متاثر نہیں ہیں۔

عورتوں کے چھوٹے چھوٹے بھگوان ہیں جو ان کی مدد کرتے ہیں، ہر بھگوان کا ایک نام ہے چند نام یہ ہیں، باک، چھامون، بیرا، بوکا کرما، وغیرہ۔ کوئی بھگوان  ندی میں رہتا ہے، کوئی بانسواری میں، ایک بھگوان کبھی کبھی بھینس بن جاتا ہے اور اپنی خطرناک صورت دکھاتا ہے۔ بد روحیں منڈلاتی رہتی ہیں، عورتیں ہی اُن کا حساب کتاب کرتی ہیں۔ سب سے خطرناک بد روح، بوکا کرما ہے جس کا سر نہیں ہوتا، اندھیری رات میں گھومتا پھرتا ہے، اس کی دو آنکھیں چمکتی ہوئی حد درجہ ڈراؤنی اس کے سینے پر ہوتی ہیں۔ عورتیں بچّوں کو ان بلاؤں اور بد روحوں سے بچائے رکھتی ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ بچّوں کو بری نظر لگ جاتی ہے لہٰذا بچّوں کی خاص حفاظت کرتی ہیں۔

قبیلوں کی عورتوں کے تین پیکر واضح ہیں :

بیٹی، بیوی، ساس

ان کے علاوہ اور بھی پیکر ہیں لیکن مرکزی پیکر یہی تین ہیں۔

لڑکیاں کھیل کود کی زندگی سے فارغ ہو جاتی ہیں تو گھر کے کام کاج میں جٹ جاتی ہیں۔ ماں کی مدد کرتی ہیں۔ جنگل سے لکڑیاں لاتی ہیں کنویں سے پانی نکالتی ہیں، چھوٹی بچیوں اور بچّوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، حیض یا ماہواری کے وقت  اُنہیں کئی کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے، لڑکوں سے دور رہتی ہیں۔ کھانا نہیں پکاتیں، کنویں سے پانی نہیں لاتیں۔ مہمانوں اور گھر والوں کے سامنے کھانا نہیں پروستیں۔ ماہواری کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ عورت بننے کو تیار ہو رہی ہیں، ماہواری پھول ہے جلد ہی پھل آئیں گے۔ بالوں میں تیل لگاتی ہیں اور اُن کے بال لکڑی کی کنگھی سے جھاڑے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد نو جوان لڑکوں کے ساتھ رقص کرتی ہیں گیت گاتی ہیں۔ اُنہیں آزادی محسوس ہوتی ہے، کھانا پکاتی ہیں کھیتوں میں کام کرتی ہیں، لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے محبتیں بھی کرتی ہیں، گاتی اور رقص کرتی ہیں، محبتوں میں جنسی کھیل بھی کھیلتی ہیں۔

شادی کے بعد زندگی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک دو ایسے قبیلوں کا ذکر پڑھا کہ شادی کے بعد اپنے شوہر کے بھائیوں کے ساتھ بھی جنسی رشتہ رکھتی ہیں۔ یہ عورت پر منحصر ہے کہ وہ اپنی پسند کے لڑکے کو پسند کرے۔

مختلف اقسام کے جنگلی پھلوں کو کشید کر کے شراب تیار کرتی ہیں۔ رات کے آتے ہی  پھلوں کے رسوں کو پیتے ہی رقص جاری ہو جاتا ہے، مرد بھی شامل رہتے ہیں عورتیں کھیتوں میں بہت کام کرتی ہیں، اناج کے لئے زمین ہموار کرنے، بیچ ڈالنے، کٹائی کرنے، اناج کو صاف کرنے کے لئے مردوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ ایک مرد کی کئی بیویاں ہوتی ہیں لہٰذا عورتوں کا فرض یہ بھی کہ وہ اپنی ساس کے علاوہ بڑی بیوی کی بھی خدمت کرے، ایک شادی سے زیادہ شادی کا رواج پہاڑی علاقوں کے قبیلوں میں زیادہ ہے مثلاً کھاسی، نیشی، لاکھیرس اور آکاس وغیرہ۔

قبیلوں کی لڑکیاں اور نو جوان عورتیں رومانی ذہن رکھتی ہیں۔

اُن کے رومانی گانے انگنت ہیں۔

 

ایک گیت سنئے۔

میں تیری جدائی شدّت سے محسوس کرتی ہوں۔

ہر لمحہ تجھے دیکھنا چاہتی ہوں۔

کسی سے کہتی ہوں وہ تمہیں میری جانب سے خط لکھ دے

ہزاروں منتوں کے باوجود وہ خط نہیں لکھتا۔

میں تیری جدائی شدت سے محسوس کرتی ہوں۔

 

جوان ہوتے ہی لڑکیاں اپنے بناؤ سنگھار میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ کوشش کرتی ہیں نو جوان مرد ان کی طرف راغب ہوتے رہیں۔

’کھوڈ، (Khond) منڈا (Munda) اراؤں (Oraon)آسورا (Asura) [چھوٹا ناگ پور ] ’بستر‘ (Bastar) [مدھیہ پردیش] میں خود کو سنوارنے نکھارنے اور پر کشش بنانے کا رواج زیادہ ہے۔ لباس، بالوں کی آرائش گودنا (Tattooing) اور معمولی زیورات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بالوں میں جنگلی پھولوں کا لگانا عام ہے۔ لکڑی کی کنگھیاں لڑکیوں کے سر پر عموماً نظر آتی ہیں۔ گیت اور رقص جیسے ان کی جبلّت کا تقاضا ہے۔ رنگین لباسوں میں منی پور کی لڑکیاں مختلف قسم کے رقص کا مظاہرہ کرتی ہیں، رقص میں بڑا وقار ہوتا ہے۔ سنتھال پرگنہ میں ’سوہر، نام کا  تہوار آتا ہے تو لڑکیاں عموماً یہ گیت گاتی ہیں۔

میری بہن میری بڑی بہن

چلو ہم چلتے ہیں

بہت بڑا تہوار  نزدیک آ رہا ہے۔

تمہارے ہاتھ میں ایک پیالے میں پانی ہو

اور میرے ہاتھ میں ایک چھوٹے برتن میں پانی ہو۔

ہم دونوں چلتے ہیں اس بڑے تہوار کو دیکھنے۔

کھلے دل سے اس بڑے تہوار کا استقبال کریں گے۔

 

ایک دلچسپ گیت سنئے:

اے میرے باپ

میری شادی کسی بوڑھے شخص  سے نہ کرو

اے میرے باپ

اگر تم نے کسی بوڑھے شخص سے میری شادی کر دی تو

میں بہت جلد بیوہ ہو جاؤں گی!

لڑکیاں رومانی گیت گاتے گاتے ماحول کی رومانیت پر بھی عاشق نظر آتی ہیں۔ ایک نغمہ یہ ہے:

میں محبت کرتی ہوں

پہاڑوں سے، ندیوں سے، خاموشی سے، دور بہت دور سے بنسری کی آواز سنائی دیتی ہے۔

لوک کہانیوں میں جانے کتنی دل چھو لینے والی حکاتیں ملتی ہیں۔ مثلاً یہ کہانی:

ایک بچّی کی ماں گزر گئی، اس کے باپ نے دوسری شادی کر لی، سوتیلی ماں اُسے پسند نہیں کرتی تھی، بات بات پر اُسے دکھ تکلیف دیتی ایک بار ایسا ہوا بچی کی سوتیلی ماں نے اُسے ایک باسکٹ میں بند کر دیا۔ کھانے کو کچھ بھی نہ دیا۔ چند پرندے آئے اُنہوں نے بچی کی حالت دیکھی اور رو پڑے۔ اُن پرندوں نے اپنے چند پَر بچّی کو دئے تاکہ وہ آزاد ہو جائے، چند ہی لمحوں میں وہ بچّی آزاد ہو گئی اور آسمان کی جانب اُڑ گئی جہاں اُس کی ملاقات اُن پرندوں سے ہوئی کہ جنہوں نے اُسے اپنے پَر دئیے تھے۔

بظاہر ایک ہلکی سی حکایت ہے لیکن دکھ درد اور اذیت سے پرے آزادی اور خوشی کے لمحوں کا احساس تازہ کرتی ہے۔

لوک کتھاؤں اور حکایتوں میں عام طور پر یہ موتف، (Motif) ملتے ہیں۔

1۔ وہ عورت کہ جسے شوہر نے چھوڑ دیا ہے۔

2۔ وہ بچّے جو سو تیلی ماں کی زیادتیوں سے بلکتے رہتے ہیں۔

3۔ بد دعائیں دیتی ہوئی عورتیں۔

4۔ پروں پر بیٹھ کر آسمان کی جانب اُڑ جانے والی بچیاں

5۔ ندی کے اندر ایک خوبصورت قلعہ۔

6۔ محبت کی انتہا۔

7۔ درخت پر چڑھ کر آسمان کی جانب پرواز۔

8۔ وحشت ناک ماحول میں زندہ رہنے کی کوشش

9۔ ایک عورت سے کئی مردوں کی شادی

10۔ انگوٹھی کے معجزے

11۔ مرد کا پھول بن جانا، خونخوار جانور بن جانا، چیونٹی بن جانا۔

12۔ برے کام کے برے انجام۔

13۔ سانپ، بلّی اور بندر۔ انتقام لینے کی سازشیں۔

14۔ رَب کی خوشنودی۔

15۔ بات کرنے والے پرندے، بات کرنے والے جانور اور پودے۔

16۔ کسی عورت پر مرد کے مظالم۔

17۔ عورت مینڈک کو جنم دیتی ہے۔

            آزادی سے پہلے سیاسی جدو جہد میں مختلف علاقوں کے قبیلوں نے برطانوی حکومت سے کئی بار ٹکر لی ہے، آزادی کے بعد ہر قبیلے میں سماجی زندگی کے مختلف شعبوں میں آ گئے بڑھنے کے حوصلے بڑھے ہیں۔ آج تو قبائلی طبقے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ نئی سیاسی اور تمدّنی زندگی میں ہر قدم پر آگے بڑھنے کی تمنّا جاگ اُٹھی ہے۔ اب تو بعض علاقوں میں سیاسی زندگی کو خوب پسند کیا جا رہا ہے، تعلیم و تربیت کے تئیں بیداری پیدا ہو چکی ہے، بچّے بڑے اسکول کالج جانے لگے ہیں، یونیورسٹیوں میں بھی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں، عورتوں میں بھی بیداری آئی ہے۔

1830 سے پہلے بھی عورتوں کو عوامی زندگی سے دور رکھنے اور زراعتی زندگی سے ہی وابستہ رکھنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ 1830میں سنگھ بھوم میں عورت کی عزّت آبرو کی حفاظت کی تحریک چلی یہ ایک بغاوت تھی اس میں عورتوں نے بھی حصّہ لیا، برطانوی سپاہی عورتوں کے ذریعہ مردوں کی تحریک کی خبریں حاصل کرتے تھے، عورتوں نے یہ سلسلہ ہی بند کر دیا۔ برطانوی سپاہیوں نے اُن پر بڑے مظالم دکھائے، عورتیں بھی گرفتار ہوئیں ماری بھی گئیں، بہت سی سنتھال عورتوں کو کم و بیش تیس ہزار مردوں کے ساتھ کلکتہ بھیج دیا گیا۔

اسی طرح گیا منڈل کی رہنمائی میں برطانوی سپاہیوں کے ساتھ زبردست ٹکر ہوئی کہ جس میں تلوار لاٹھی اور تیر کمان سب کا استعمال ہوا۔

قبیلوں میں بیوی کو مارنے پیٹنے اور زیادہ شراب پینے کے خلاف بھی ایک دلچسپ تحریک چلی ہے۔

جھارکھنڈ میں جو تحریک چلی اس میں مرد عورت سب شامل تھے۔

بہار اور جھار کھنڈ اور دوسرے کئی علاقوں میں مرد شکار کھیلتے اور عورتیں پھل بٹورتی رہی ہیں۔

عورتوں کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ ایسی جڑی بوٹیاں تلاش کریں جن سے علاج میں مدد ملے۔ زراعتی زندگی میں عورت اور مرد دونوں کی محنت ہی سے اناج پیدا ہوتا ہے۔ منڈا (Munda) اوڑاؤں (Oraon) سنتھال (Santhal) اور گونڈ قبیلوں کی عورتیں مردوں کے ساتھ مل کر کھیتوں میں محنت کرتی ہیں اور جب اچھا اناج پیدا ہوتا ہے تو مہوا کی شراب پی کر رات بھر ناچتی گاتی ہیں۔

قبیلوں میں غالباً ہر علاقے میں بڑے بزرگوں کی بہت عزّت کی جاتی ہے، بڑے چھوٹے معاملے میں اُن سے مشورے لئے جاتے ہیں، اُن کی پنچائیت ہوتی ہے، پنچائیت میں صرف مرد ہوتے ہیں عورتوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ بڑے فیصلوں میں صرف تجربہ کار قبائلی مرد ہی شامل رہتے ہیں۔ اُڑیسہ کے کسان، راجستھان کے بھیل وغیرہ کے سماج میں یہ رواج آج بھی موجود ہے۔ کھیتوں کھلیانوں میں عورتیں کام تو کرتی ہیں لیکن اُنہیں ہل چلانے کی اجازت نہیں ہے۔

قبیلوں میں آج بھی بچپن کی شادیوں کا رواج ہے۔ بھیل (Bhils) جو گجرات، مدھ پردیش، راجستھان اور مہا راشٹر میں پھیلے ہوئے ہیں بچّوں کی شادیاں کم عمر میں کر دیتے ہیں۔ ضعیف اور بوڑھی عورتوں سے عام لوگ اس لئے بھی خوفزدہ رہتے ہیں کہ اُنہیں شک ہوتا ہے کہ یہ ڈائن ہیں۔ جادو منتر کرتی ہیں۔ اکثر ضعیف عورتوں پر فوق الفطری طاقت ہوتی ہے، وہ جسے چاہتی ہیں بر باد کر دیتی ہیں۔ اُن کی دوستی بھوت پرتیوں سے ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

قبیلوں کی زندگی کا بغور مطالعہ کریں تو بہت سی عمدہ نفیس قدروں کی پہچان ہو گی قبیلے کے اندر سچائی کو پسند کرتے ہیں۔ جھوٹ بولنے کو برا سمجھتے ہیں، بہت صاف ستھری زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، اخلاقی قدروں کو عزیز تر جانتے ہیں، بہادر ہیں، تخلیق صلاحیتیں رکھتے ہیں۔

٭٭



 

لوک فنون کی جمالیات نے جمالیات میں بڑی وسعت اور تہہ داری پیدا کی ہے۔ کہانیوں حکایتوں سے قدروں کی کشمکش گیتوں اور موسیقی میں بچّوں جیسی معصومیت، کھیل کھیل میں زندگی کو سمجھ لینے کی کوشش، تاریک ماحول سے ٹکرانے کی اُمنگ، زندگی جیسی بھی ہو اُسے جیتے ہوئے زندگی پر سچّی تنقید، کردار اور ماحول کی پُر اسراریت، ایک خوشنما ماحول کو دیکھنے کی آرزو، ٹریجیڈی کے ہوتے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی کامیاب کوششیں، اخلاقیات کے وسیع تر احساس کو اُبھارتے رہنے کی آرزو، جمالیاتی انبساط حاصل کرنے کی خواہش — یہ باتیں ایسی ہیں کہ بلند روحانی قدروں کی پہچان ہونے لگتی ہے۔ حکایتوں، کہانیوں اور گیتوں میں موجود حالات کی تشریحوں کو سمجھنے اور کبھی کبھی علاقوں میں اندر جھانکنے کا تحرک پیدا ہوتا ہے۔ لوک فنون نے جو ’’روحانی فینومینا‘‘ (Spiritual Phenomena) عطا کیا ہے اُس کی جتنی بھی قدر کی جائے وہ کم ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید