FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

    تنقید، منطق، سائنس

اور دوسرے مضامین

 

 

 

               ڈاکٹر سلیم اختر

 جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

    تنقید، منطق، سائنس

 

 

ادب کی اپنی تہذیب ہوتی ہے جس کا ایک جزو کتاب کا کلچر ہوتا ہے جب کہ تنقید ادب کی تہذیب کے تقاضے مد نظر رکھتے ہوئے تخلیق کی خوشبو عام کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی واضح رہے کہ تخلیق معاشرہ کی ادبی تہذیب کی مظہر، ترجمان اور سمت نما ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ٹیبوز، روحانی اقدار، مذہبی قواعد، سیاسی منظر نامہ، سماجی رویئے، عمومی صورتِ حال، اقتصادی امور یہ سب بھی کسی نہ کسی صورت میں تخلیق پر منفی یا مثبت طور پر باالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ ادھر تخلیق کار مخصوص ہیئت کے معاشرہ کا فرد ہوتا ہے۔ وہ معاشرہ اور اس کے ٹیبوز کو پسند کرے یا نہ کرے مگر وہ معاشرہ میں زیست کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

اس صورتِ حال کے بارے میں تخلیق کار کے دو ممکنہ ردِ عمل ہوسکتے ہیں

(۱) صورتِ حال کو تسلیم کر کے ہم نوا ہو جانا۔

(۲) صورتِ حال کے خلاف ردِ عمل، غصہ، احتجاج اور بغاوت۔

اس ضمن میں ردِ عمل کے انداز و اسالیب میں خاصہ تنوع پایا جاتا ہے اور پھر ان اہلِ قلم کی بھی کمی نہیں جو کسی معاشرہ VSقلم کے قائل ہی نہیں یعنی تخلیق برائے مقصد کے قائل نہیں ہوتے اور ادب سے صرف جمالیاتی حظ حاصل کرنا کافی سمجھتے ہیں۔

بحیثیت ادیب کی ادبی بصیرت اور اس سے جنم لینے والی، ناپسند ترجیحات بلکہ تعصبات تک شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تنقید ادب کی تہذیب کے تناظر میں عصری صورتِ حال کے محدّب شیشہ میں سے تخلیقات کی چھان پھٹک کرتے ہوئے کتاب کلچر کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔

اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ مروج کلچر اور کتاب کلچر ریل کی پٹریوں کی مانند متوازی نہیں ہوتے بلکہ عمل اور ردِ عمل کی صورت میں باہم اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ معاشرہ کا کلچر توانا ہو تو تخلیق اس کا آئینہ ثابت ہو گی برعکس صورت میں یعنی کلچر توانائی سے عاری ہو، فکری اعتبار سے تہی دست ہو، زندگی تصورات کے مقابلہ میں ماضی پرستی، مردہ کلیثے اقوال زریں بن جائیں اور ماضی پرستی کا جواز مردہ روایات قرار پا جائیں تب تخلیق Distorting Mirror میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اس لئے Status Quo کو کبھی بھی پسند نہیں کیا گیا جبکہ روایت پرست معاشرہ کے حامی اہلِ قلم ماضی کا کلٹ بنا کر فکرِ نو، اجتہاد، جدت پسندی، تغیر و تبدیلی کی مخالفت کر کے اپنی دانست میں معاشرہ کو پاک صاف رکھتے ہیں یہ بھول کر کہ بہتے پانی کے مقابلہ میں جوہڑ ہمیشہ گندا اور بدبو دار ہی رہتا ہے اور وہ صورتِ حال ہوتی ہے جس میں تنقید، تخلیقات کے معیار بہتر کرتے ہوئے تخلیق کار کے لئے رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ ماضی میں یہ فریضہ صرف ترقی پسند ادب کی تحریک سے وابستہ ناقدین نے ادا کیا اس لیے کہ بلحاظِ مزاج وہ مارکسی تھے، تبدیلی اور بغاوت ان کا موٹو تھی مگر ترقی پسند مصنفین سے کہیں پہلے علامہ اقبال بھی یہ کہہ چکے ہیں:

آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

تنقید کے بارے میں یہ حقیقت ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ تنقید تخلیق کے بعد معرض وجود میں آتی ہے۔

تنقید کے ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ مختلف علوم کے زیرِ اثر تنقید کے مختلف رویوں، اسالیب بلکہ دبستانوں نے جنم لیا ہے جیسے مارکسی تنقید، عمرانی تنقید، نفسیاتی تنقید، جمالیاتی تنقید، تاریخی تنقید، رومانی تنقید وغیرہ یا پھر ہر نوع اور نظریہ سازی سے عاری تشریحی تنقید۔ نقاد کسی بھی علمی تصور، نظریہ یا اسلوب نقد کا حامل ہوسکتا ہے لیکن نقاد کا تنقیدی عمل اس کے تنقیدی فیصلہ پر منتج ہو گا۔ یہ فیصلہ کبھی تخلیق کے حسن و قبح گنوانے کے مترادف ہوتا ہے تو کبھی جمالیاتی اوصاف پر روشنی ڈالتا ہے۔ کبھی کسی علمی نظریہ پر مبنی تنقیدی تصور (جیسے مارکسی، نفسیاتی، عمرانی) کی روشنی میں تخلیقات کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو کبھی صرف اشعار کی تشریح و توضیح ہوتی ہے۔ نقاد اپنے تنقیدی عمل کے لئے جس معیار، اساس، تصور اور فکر کو چاہے پسند کر کے اس سے اپنی کنڈیشننگ کرسکتا ہے لیکن ادب کی تہذیب نے جس تناظر کی تشکیل کی ہوتی ہے اسے ہر حالت میں ملحوظ رکھنا ہو گا۔ ورنہ پاؤں زمین پر باآسانی نہ ٹکیں گے اور نقاد خلا میں بے وزنی کے عالم میں معلق رہے گا۔

جب تخلیق کار اظہار کے لئے کسی خاص صنف کو استعمال کرتا ہے تو پہلے اس کے اصول و ضوابط کا درس نہیں لیتا اور نہ ہی سبق کی مانند انہیں یاد کرتا ہے۔ وہ آمد، کیفیت، وجدان، الہام، جذب و جذبہ (جو لفظ بھی چاہیں استعمال کرسکتا ہے) کے زیرِ اثر مائل تخلیق ہوتا ہے اور بس۔ تخلیق کی تکمیل کے بعد نقاد کا کام شروع ہوتا ہے۔ تنقید کا عملInductionکے اصول کے مطابق ہوا ہو گا یعنی مختلف النوع تخلیقات کے تجزیاتی مطالعہ کے بعد ان میں سے ایسی مشترک خصوصیات اخذ کی گئی ہوں گی جنہیں اصول قرار دے کر ان کی روشنی میں صنف کے قواعد و ضوابط مدون کئے ہوں گے۔ Inductionکے اس عمل میں مروج علوم بھی مددگار ثابت ہوئے ہوں گے۔ یوں جب کچھ اصول طے پا گئے تو ان کی راہنمائی میں لفظ کے جمال، اسلوب کی جمالیات اور معنی کی تہہ داری کا مطالعہ ممکن ہوا ہو گا۔

تنقید کے عمل میں مددگار ثابت ہونے والے علوم کی کمی نہیں جبکہ مختلف تنقیدی رویوں سے مخصوص اصول و ضوابط میں خاصہ تنوع اور وسعت بھی ملتی ہے۔ ہمارے لئے آج اس ابتدائی صورتِ حال کا تصور ناممکن ہے جب Inductionکے زیرِ اثر تنقید نہیں ہو رہی تھی۔ بیشتر نقاد آج بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر Inductionسے مشابہ طریقہ اپناتے ہیں یعنی کلام، افسانہ، ناول کے مطالعہ کے بعد ان میں ایسے مشترک نکات کی تلاش جنہیں "خصوصیات”  کا نام دے کر مقالہ قلم بند کیا جاتا ہے اور یہی وہ رویہ ہے جسے "تجزیہ” اور "تجزیاتی مطالعہ” قرار دیا جاتا ہے۔ "علامہ اقبال کے کلام کی خصوصیات”  اور "مرزا غالب کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ”  جیسے مقالات اس ضمن میں بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس صورت کو Deductiveقرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی پہلے سے متعین اصول و ضوابط کی درستی اور حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں معیار بنا کر ان کی روشنی میں تخلیقات کا مطالعہ۔ یہ صورت Inductionکے برعکس ہے کہ اصول و ضوابط تخلیق سے اخذ کرنے کے برعکس پہلے سے متعین، درست، تسلیم کردہ اور اسی لئے طے شدہ سمجھے جاتے ہیں۔ مارکسی، عمرانی، نفسیاتی، تاثراتی، رومانی، جمالیاتی انداز نقد اس کی معروف مثالیں ہیں۔ ان سے وابستہ ناقدین نہ صرف یہ کہ اپنے ہی راستہ کی صراط مستقیم سمجھتے ہیں بلکہ دوسرے انداز نقد کو خاطر میں بھی نہیں لاتے۔ Inductionکے طریقہ میں لچک ملتی ہے۔ کیونکہ پہلے سے کچھ بھی طے نہیں ہوتا جبکہ اس کے برعکسDeductionکی صورت میں کیونکہ اصول و ضوابط نہ صرف طے شدہ سمجھے جاتے ہیں بلکہ صرف ان ہی کو درست اور راہنما تصور کرتے ہوئے دیگر اسالیب نقد کر مسترد کر دیا جاتا ہے اس لئے اپنی اساس میں یہ بے لچک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ Inductionکی انتہا پسندانہ صورت میں ہر تصنیف کا جداگانہ معیار نقد قرار پائے گا اور بالآخر ایسے مشترک اصول و ضوابط نہ رہیں گے جنہیں ہر نوع کی تخلیق کے لئے راہنما قرار دیا جا سکے، یہ اچھا بھی ہے اور برا بھی۔ اس کا فیصلہ انفرادی ہو گا۔

کچھ ایسا ہی عالم معیار نقد کا بھی ہے جس کی دو صورتیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ ایک معیار تو تاریخِ ادب کے تناظر میں طے پائے گا۔ یعنی ماضی کے تمام بڑے شعراء کا کلام پیش نگاہ رکھ کر کسی شاعر کی پرکھ کا معیار جبکہ دوسرا معیار خود شاعر کے کلام کے Inductiveتجزیہ کے بعد اس کے کلام میں سے اخذ کیا جائے گا اور پھر اسی اخذ شدہ معیار پر اس کے بقیہ کلام کی پرکھ کرنا۔ دونوں کے انفرادی تذکرے کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ہوا بند ڈبوں کی مانند جدا ہیں، یہ دونوں باہم آمیز ہو کر معیارِ نقد قرار پاتے ہیں۔ اول الذکر کو "افقی” اور موخرالذکر کو "عمودی” معیار قرار دیا جائے سکتا ہے۔

Deductionکی اساس بالعموم ماضی کے اصول و ضوابط ، روایات، کسی بڑے نقاد، فلسفی، دانشور کے اقوال پر استوار ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی فلسفہ، تھیوری، نظریہ پر اعتماد ہو تو اسے بھی درست اور تسلیم شدہ باور کیا جاتا ہے۔ وجوہ میں خاصہ تنوع مل سکتا ہے لیکن بنیاد کے طور پر پہلے سے ہی یہ طے شدہ ہوتا ہے کہ صرف یہی درست ہے جبکہ اس کے برعکسInduction کی خوبی ہی یہی ہے کہ اس میں پہلے سے کچھ بھی درستِ حقیقی، بنیادی اور لازم نہیں ہوتا۔ اول الذکر میں فیصلہ پہلے سے طے شدہ اصول کی روشنی میں ہوتا ہے۔ اس لئے اس فیصلہ کو پہلے سے طے شدہ اصول کی ضمنی پیداوار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسے اس مثال سے سمجھئے کہ مارکسی نقاد مارکس کی تعلیمات کو قطعی اور درست تسلیم کرنے کے بعد تخلیق کے بارے میں جو نتیجہ اخذ کرے گا وہ مارکس کی تعلیمات کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتا کیونکہ ایسا کرنے کے نتیجہ میں نقاد کا اندازِ نظر مارکسی نہ رہے گا کچھ اور ہو جائے گا۔ اسی انداز پر نفسیاتی، جمالیاتی، تاریخی، عمرانی اور دیگر تنقیدی دبستانوں سے وابستہ ناقدین کی آراء کا بھی مطالعہ کرتے ہوئے ان کی حدود امکانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

Deductive Logicکے اصول ارسطو نے مدون کئے تھے۔ جیسا کہ لکھا گیا اس میں مفروضہ نہیں ہوتا بلکہ کسی امر کو پہلے سے طے شدہ اور قطعی قرار دے کر اس سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ اس کی معروف مثال یہ ہے:

انسان فانی ہے

انسان ہے

اس لئے وہ فانی ہے۔

صدیوں تک اس طرزِ استدلال کا فکریات میں سکہ چلتا رہا جبکہ مشرق میں تو اب بھی اسی منطق کا راج ہے جس کی سب سے خوفناک مثال ہم پیش کرتے ہیں۔انسان فانی ہے کو اس سے بدل دیں اس عقیدہ ،مسلک،سوچ،نظریہ کے حامل کافر ہیں لہٰذا انھیں قتل کرنا جائز بلکہ لازم ہے۔ کیونکہ وہ اس عقیدہ، مسلک، سوچ، نظریہ کا حامل ہے لہٰذا وہ واجب القتل ہے۔

اسی منطق نے بنیاد پرستی، ملائیت، مذہبی دہشت گردی اور ان کے تلخ ثمرات کے طور پر تعصب، نفرت، خشونت اور قتل کو ضروری اور جائز بلکہ قابلِ تعریف بھی قرار دے دیا۔ اس رویہ کا حامل کبھی بھی عقل عامہ، شعور، مثبت سوچ، دوسرے کے وجود اور حقوق کو تسلیم کرنے کی بات نہ کرے گا۔ کیونکہ اس کی اپنی عقلِ عامہ، شعور، مثبت سوچ سبھی کچھ اس کی اپنی منطق کے مطابق درست بلکہ صرف وہی درست ہے اور باقی سب غلط۔ غلط کی گنجائش نہیں اس لئے اس کا نام و نشان مٹا دو۔ یہی منطق ہے جنگجو طالبان کی۔ جدید تعلیم کفر ہے لہٰذا تعلیمی درس گاہیں اڑا دو۔ بے پردہ عورت بدکار ہے، گردن ماردو۔ امریکی کافر ہیں لہٰذا ان کا ساتھ دینے والوں کو نیست و نابود کر دو۔ ادب و نقد میں بھی اس تصور نے بڑا غدر برپا کیا جیسے ترقی پسند مصنفین اور ناقدین کیونکہ مارکس کے نظریات ہی کو درست سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے غیر ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کو نہ کبھی تسلیم کیا اور نہ ان کی تحسین کی۔ میرا جی، ن م راشد، محمد حسن عسکری کے بارے میں ترقی پسند ناقدین کی آراءبطور مثال پیش کی جا سکتی ہیں، یہ تھی تنقیدی بنیاد پرستی!

یہ بیکن تھا جس نے Deductionکے بارے میں سوالات اٹھائے اور پھر منطق کی اس صورت کو سامنے لایا جسے Inductionکہا جاتا ہے۔ اس منطق میں پہلے سے کچھ بھی طے نہیں ہوتا بلکہ شواہد، کوائف، معلومات، مثالوں اور مشاہدات کے ذریعہ سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے یعنی:

اب جد سب مر گئے

یہ سب انسان تھے

انسان فانی ہے

نتیجہ وہی ہے جو Deductionسے حاصل ہوا تھا لیکن اس تک پہنچنے کا طریق کار برعکس ہو گیا اور رویہ سائنس اور اس کی تحقیقات کی بنیاد بنا۔ یعنی مشاہدات، تجربات، آلات ہر ممکنہ ذریعہ سے نتیجہ اخذ کرنا۔ اس کی خوبی یہ بھی ہے کہ نئے مشاہدات، تجربات اور آلات کے ذریعہ سے پہلے سے حاصل کردہ نتائج کو غلط بھی ثابت کیا جا سکتا ہے اور یہی سائنٹفک طریق کار ہے۔ سائنس کی دنیا میں کسی نظریہ، تصور، تھیوری کو اس وقت تک قطعی تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس پر تمام ممکنہ اعتراضات نہ ہو جائیں اور ان کے تشفی بخش جوابات نہ مل جائیں۔ اسی لئے سائنسی تحقیقات کا عمل کبھی بھی نہیں رکتا کہ یہاں ثبات نہیں، تغیرات ہیں اور اسی وجہ سے سائنس سائنس ہے اور قابلِ عزت بھی (مغرب میں، ہمارے ہاں نہیں۔ ہمارے لئے تو یہ غیر ضروری بلکہ غیر مذہبی ہے)۔

جو نقاد اس طریقہ پر اپنی تنقید استوار کرے گا اس کے لئے لازم ہو گا کہ کسی ایک نظریہ، تصور اور تھیوری کی پابندی نہ کرے بلکہ تمام نظریات، تصورات اور تھیوریز کو مد نظر رکھ کر تخلیق کا مطالعہ کرے۔ تخلیق کی تفہیم و تعیین کے لئے جہاں سے بھی کارآمد مواد حاصل ہو اسے بروئے کار لائے، اس مقصد کے لئے ہر نظریہ، تصور اور تھیوری کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کرنا لازم ہو گا۔ کیونکہ نقاد کا کوئی ذاتی نظریہ، تصور یا تھیوری نہ ہو گی اس لئے ہر نوع کے نظریات و تصورات اور تھیوریز اس کی ہوں گی۔ یہ وہی طریقِ کار ہے جو "Eclectic” کہلاتا ہے۔ اردو ناقدین کی اکثریت بالعموم اسی طریقہ پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ یہ ناقدین کیونکہ کسی مخصوص نظریہ کے پابند نہیں ہوتے اس لئے وہ متنوع تصورات اور نظریات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

افلاطون اور ارسطو کی صورت میں دو ایسے فلاسفر ملتے ہیں جو آج بھی ہمیں کسی نہ کسی طرح سے متاثر کرتے ہیں۔ ان دونوں کا فلسفہDeductionاور Inductionکی عملی مثال پیش کرتا ہے۔ افلاطون کا طریقہ اول الذکر تھا یعنی اس نے کوائف، شواہد، مثالیں اور مواد حاصل کئے بغیر پہلے سے یہ طے کر لیا کہ اس جہان سے ماورا ایک عالم(World Of ideas) ہے۔ ہمارا جہان جس کی نقل ہے۔ شاعر اور ڈرامہ نگار کرداروں اور ان کے اعمال کے ذریعہ سے اس نقل کی نقل کرتا ہے۔ اس لئے وہ اصل، حقیقت اور صداقت سے دور ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اس نے ڈراما اور شاعری کو ناپسند کیا۔ اس نے پہلے ایک آئیڈیل معاشرہ کا تصور وضع کیا اور پھر اسی کے مطابق اپنی "جمہوریہ” سے شعراء کو جلا وطن کر دیا۔ پہلے یہ طے کیا کہ فلسفہ سب سے افضل ہے اور پھر "فلاسفر بادشاہ” کا تصور پیش کیا۔

ارسطو کا طریقِ کار اس کے برعکس تھا اس نے معاصر "المیہ” اور "رزمیہ” کا مطالعہ کر کے ان میں مشترک ما بہ الامتیاز عناصر دریافت ک رکے "Poetics” میں ڈراما کے اجزائے ترکیبی بیان کئے۔ وہ ڈرامے میں انسانی کردار و اعمال کا باعث نقل (Nemesis) قرار دیتا ہے مگر نقل کو ما بعد الطبیعات کی قلم رو میں نہیں لے جاتا۔ یعنی اس نے معاصر ڈراموں کے تجزیہ سے ان کے اصول اخذ کئے اس لئے اس کی معترضین نے یہ بھی کہا کہ اگر ارسطو شیکسپیئر کے عہد میں ہوتا تو اس نے المیہ اور طربیہ کا جداگانہ تذکرہ نہ کیا ہوتا۔ دونوں کا اندازِ تدریس بھی اسی انداز کا تھا۔ افلاطون اپنی "اکیڈمی” میں ایک جگہ بیٹھا ہوتا جبکہ شاگرد اس کے سامنے بیٹھتے تھے یعنی جو کلاس کا ماحول ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ارسطو اپنی درس گاہ "لائینرم” میں ایک جگہ بیٹھنے کے بجائے چلتا پھرتا گفتگو کرتا جاتا۔ اس کا شاگرد سکندر جن ممالک کو فتح کرتا وہاں کی مختلف النوع اشیاء دھاتیں، پھل پھول وغیرہ اسے بھجواتا رہتا۔ یوں ارسطو کی درس گاہ ایک طرح لیبارٹری میں تبدیل ہو گئی جہاں وہ اپنے شاگردوں کو زندہ مثالوں سے بات سمجھاتا۔ ارسطو سائنس دان نہ تھا لیکن تدریس میں سائنسی طریقِ کار اپنا رکھا تھا۔

افلاطون کے فلسفیانہ تصوراتDeductiveطریقِ کار کی واحد مثال نہیں بلکہ بیشتر فلاسفروں کا یہی طریقہ رہا ہے کہ کسی ایک تصور کو اساس مان کر اس پر افکار کی عمارت کی تعمیر۔ اس میں خرابی یہ ہے کہ اساس غلط ثابت ہونے پر اس پر جمع تصورات کا محل، تاش محل کی طرح گر جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی یہی کیا، انہوں نے زندگی معاشرہ، فنونِ لطیفہ، علوم، عقل، فلسفہ وغیرہ کے بارے میں افکار کا جو نظام شمسی ترتیب دیا خودی اس میں شمس کی مانند ہے کہ سبھی تصورات خودی سے کسب ضیا اور ثبات حاصل کرتے ہیں۔

مارکس کی صورت میں ایسا دانشور ملتا ہے جس نےInductionکے اصول کے باعث سرمایہ دارانہ نظام کے عناصر ترکیبی کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے "زائد قدر” (Surplus Value) کی صورت میں سرمایہ دار کا استحصالی طریقِ کار واضح کیا۔

فلاسفروں کے بعد دنیائے نقد میں واپس آئیں تو بعض اوقات یہاں بھی افلاطون کے رویہ سے مشابہ عمل کی مثالیں مل جاتی ہیں۔

مولانا شبلی نعمانی نے پہلے یہ طے کر لیا کہ انیس اور دبیر کا ایک سانس میں نام نہیں لیا جا سکتا۔ وہ "موازنۂ انیس و دبیر” کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:

"میر انیس کا کلام شاعری کی تمام اصناف کا بہتر سے بہتر نمونہ ہے لیکن ان کی قدر دانی کا طغرائے امتیاز صرف اس قدر ہے کہ کلام فصیح ہوتا ہے اور بین اچھے لکھتے ہیں۔ بد مذاقی کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اور مرزا دبیر حریف مقابل قرار دیئے گئے اور مدت ہائے دراز کی غور و فکر، کدو کاوش، بحث و تکرار کے بعد بھی فیصلہ نہ ہوسکا کہ ترجیح کا مسند نشین کس کو کہا جائے۔” (ص: ۳)

یوں انہوں نے قوم کی بد مذاقی کو "درست مذاقی” میں تبدیل کرنے کے لئے جب میزانِ نقد سنبھالی تو انیس کو ترجیح کا مسند نشین بنانے میں ڈنڈی مار گئے۔ اس ضمن میں سید احتشام حسین نے نکتہ کی بات کی کہ شبلی بنیادی طور پر مورخ تھے جس طرح ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے اسی طرح شبلی نے بھی دبیر پر انیس کی فوقیت ثابت کرنے کی سعی کی۔ "موازنۂ انیس و دبیر” کے مطالعہ سے "تقابلی تنقید” کی کوتاہی بلکہ ناکامی بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ دراصل کسی ایک صنف، کسی ایک دبستان، کسی ایک عہد، کسی شہر میں رہائش یا کسی ایک نظریہ سے متعلق ہونے کے باوجود بھی دو شاعروں، اہلِ قلم، دانشوروں میں تقابل سودمند ثابت نہیں ہوسکتا اس لئے کہ تخلیق کے عمل پر عصری میلانات، سماجی، صورت حال اور امر و نہی، ادبی اور سماجی ٹیبوز کے ساتھ ساتھ خود تخلیق کار کی شخصیت کی نفسی اساس بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی لئے  لکھنؤ میں رہائش اور مرثیہ نگاری کے باوجود بھی انیس اور دبیر کا موازنہ اور اس کی بنیاد پر فیصلہ بے سود ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح غالباً عبد الرحمن بجنوری کے ذہن میں بھی پہلے یہ فقرہ نازل ہوا ہو گا کہ:

"ہندوستان میں دو ہی الہامی کتابیں ہیں۔ وید مقدس اور دیوان غالب۔”

یہ دعویٰ ثابت کرنے کے لئے بجنوری نے دنیا بھر کے فلاسفروں، دانشوروں سے غالب کا موازنہ کرڈالا اس امر کے باوجود کہ لفظ فلاسفر سے وابستہ مفہوم کے مطابق غالب فلسفی تھا ہی نہیں۔

سلیم احمد نے بھی پہلے یہ طے کر لیا:

"عورت کی طرح شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے۔”

اس کے بعد اسے ثابت کرنے کے لیے پوری کتاب "نئی نظم اور پورا آدمی” لکھ دی۔ اختر شیرانی، ن م راشد، فیض احمد فیض، میرا جی وغیرہ کی تحلیل نفسی کے بعد ایسے (بلکہ ایسے ویسے) نتائج برآمد کئے:

"منٹو پورا آدمی تھا جبکہ اختر شیرانی کا صرف اوپر کا دھڑ تھا۔” (ص ۴۴)

جبکہ مولانا الطاف حسین حالی کے بارے میں یہ لکھا:

"حالی جب مولوی بنا تو اسے سچ مچ اپنے نچلے دھڑ سے شرم آنے لگی، ظاہر ہے کہ اس کے بعد عورت کا عشق اپنے آپ بے حیائی اور بے غیرتی بن گیا۔ گوشت پوست کی محبوبہ کو چھوڑ کر حالی نے قوم کو محبوبہ بنا لیا”۔ (ص۹۸)

یہ صرف چند مثالیں ہیں، اس انداز کی مزید مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔

اگرچہ اس نوع کے تنقیدی رویے سے حاصل کردہ نتائج انوکھے یا چونکا دینے والے ثابت ہوسکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ فرمہ پر ٹوپی فٹ کرنے کی کوشش میں ٹوپی کے ٹانکے بھی ادھڑ سکتے ہیں۔ جہاں تک پورے مرد کا تعلق ہے تو جنسی جبلت (فرائیڈ کا لیبڈو) کی قوت اور ہمہ گیری پر کسی کو بھی شک نہ ہو گا۔ لیکن کیا صرف زیادہ جنسی قوت کا حامل ہی ہمیشہ پورا مرد ثابت ہوتا ہے جب کہ تاریخ ادب میں متعدد ایسے نامور تخلیق کار ملتے ہیں جن کی جنسی استعداد یا تو کم تھی یا سرے سے نفی میں تھی۔ تخلیق جنس پیما ثابت ہوسکتی ہے مگر کسی حد تک۔ اگر نچلے دھڑ کی کار گزاری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پھر کا سا نوا سب سے بڑا تخلیق کار ثابت ہو گا جبکہ فرائیڈ کے بموجب تو کچلی ہوئی ناآسودہ جنسیت ارتفاع کے عمل کے ذریعہ سے تخلیق کا محرک ثابت ہوتی ہے۔ یہ رویہ اس منطق کی ضمنی پیداوار ہے:

کامیاب تخلیق کا جنس سے گہرا تعلق ہے

’الف‘ جنسی نہیں

لہٰذا ’الف ‘ کامیاب تخلیق کار نہیں

جب بنیاد پرست امرو نہی پر زور دیتا ہے تو وہ غلط نہیں ہوتا۔ لیکن خرابی اس وقت جنم لیتی ہے جب وہ صرف خود ہی کو صحیح سمجھتے ہوئے خود سے مختلف یا برعکس کو نہ صرف یہ کہ درست ہی نہیں سمجھتا بلکہ ملیامیٹ اور نیست و نابود کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، مردود قرار دیتے ہوئے۔

اردو زبان کے سلسلہ میں لکھنؤ اور دہلی کی آویزش تاریخ ادب کا حصہ ہے۔ دونوں شہروں کے سخن دان ایک دوسرے کے الفاظ، تذکیر و تانیث اور واحد جمع پر اعتراضات کرتے رہتے تھے۔ جب میرا مَن نے سادہ اسلوب میں "باغ و بہار” لکھی اور اس کے دیباچہ میں خود کو "دلّی کا روڑا” لکھا تو رجب بیگ سرور نے اس کے اسلوب کو کم تر ثابت کرنے کے لئے "فسانۂ عجائب” قلم بندی کر دی اور یہ کہہ کر کہ دلّی کے روڑے ہیں، محاورات کے ہاتھ منہ توڑے ہیں۔ میر امَن کا مذاق اُڑایا۔

علامہ اقبال پر اہلِ زبان کے اعتراضات بھی اسی نوعیت کے تھے۔ اہلِ زبان کے لئے اردو مادری زبان تھی۔ جب زبان کا بت بنا لیا گیا تو پھر ان کے لیے اس کے پجاری کا کردار ادا کرنا لازم تھا۔ اہل زبان کے پاس کوئی تنقیدی تھیوری نہ تھی اس لیئے وہ صرف حرمت زبان تک محدود تھے کہ زبان ہی ان کی تنقیدی تھیوری تھی۔ان کے لیے زبان ہی سب کچھ تھی اسی لیے انھوں نے علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی ،تصورزیست ، پیغام پر توجہ دینے کے بر عکس الفاظ کے استعمال تک خود کو محدود رکھا۔جن اصحاب کو دہلی یا لکھنؤ جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس امر کی گواہی دیں گے کہ آج زبان کے ان مراکز میں ہم جیسی اردو بھی نہیں بولی جاتی۔ ان میں وہی اردو بولی جاتی ہے جو ان کی فلموں کے کردار بولتے ہیں۔اس لئے آج اہل زبان کی اصطلاح غیر ضروری اور اہل زبان کا روز مرہ متروک قرار پاتا ہے۔

ہمارے بنیاد پرستوں نے مسلک غیرسے جو منفی سلوک روا رکھا وہ اتنا عام ہے کہ اب بطور خاص اس کا نوٹس ہی نہیں لیا جاتا،ہم اس منفی سلوک کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کے خلاف کبھی صدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔

تنقید میں بنیادی پرستی کا اس وقت مظاہرہ ہوتا ہے جب نقاد اپنے نقطۂ نظر ،تصور ادب اور نظریۂ فن ہی کو درست تصور کرتے ہوئے مخالف یا بر عکس نقطۂ نظر ،تصور یا نظریہ کے خلاف قلمی محاذ قائم کر لیتا ہے۔ترقی پسند مصنفین ادب برائے زندگی ادب برائے مقصد ادب برائے افادہ کے حامی تھے اس لیے وہ ادب برائے ادب کے حامی اہلِ قلم کے خلاف مورچہ بند رہے۔ اب جب کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد سوشلزم کے ضمن میں وہ جذباتی فضا نہیں رہی جو کبھی تھی ۔اب ہماری تنقید میں سے ادب برائے زندگی ،ادب برائے ادب کی بحثیں ختم ہو چکی ہیں۔میں ذاتی طور پر ادب برائے زندگی کا حامی ہوں لیکن میں اس کا بھی قائل ہوں کہ بر عکس تصور کے حامل کو بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔اس کا حقہ پانی بند کرنے کی ضرورت نہیں۔جیسا کہ ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کے موقع پر ایک قرارداد کے ذریعہ کیا گیا ۔سرکاری جرائد اور ریڈیو کے بائیکاٹ اور ترقی پسند پرچوں میں غیر ترقی پسند ادیبوں کی تخلیقات شائع نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس پر ادبی حلقوں نے شدید احتجاج کیا۔سوال یہ ہے کہ کیا محمد حسن عسکری،ممتاز شیریں،سلیم احمد،انتظار حسین نے بُرا ادب تخلیق کیا؟بلکہ اس ضمن میں تو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ نظریہ کے تحت جو تخلیق وجود میں آتی ہے کیا وہ غیر نظریاتی تخلیق کے مقابلہ میں واقعی افضل ہوتی ہے۔کیا فیض اس لئے بڑے شاعر ہیں کہ وہ ترقی پسند تھے؟

تنقید کا ایک اور روپ بھی معروف ہے یعنی کسی خاص ادبی شخصیت کے بارے میں غُلو برتتے ہوئے اسے ہر لحاظ سے فوقیت دی جاتی ہو جیسے شمس الرحمن فاروقی نے احمد مشتاق کو فراق گورکھ پوری پر فوقیت دی تو ڈاکٹر وزیر آغا نے رحمان مذنب کو سعادت حسن منٹو پر۔یوں شخصیت کا ایک سومنات بنا کر نقاداس کا بھگت بن جاتا ہے۔اس انداز کا عامیانہ رویہ ادبی گروہ بندیوں میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں مافیا کا ڈون ہی اصلی تے وڈّا قرار دیا جاتا ہے جبکہ ڈون کو ماننے والوں کا انتقامی تحریروں کے ذریعہ سے گویا منہ کالا کیا جاتا ہے۔

اس رویہ کا ایک اور روپ بھی ہے جب کسی خاص صنفِ ادب کونہ تسلیم کرنے والے اس کی افادیت کے بارے میں کسی طرح کی دلیل تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔جوش ملیح آبادی کی مثال نمایاں ہے جنھوں نے اپنی ذہانت اور ادبی سوجھ بوجھ کے باوجود بھی غزل کو کبھی تسلیم نہ کیا اسی طرح ایسے اصحاب کی کمی نہیں جنھوں نے پہلے آزاد نظم اور پھر نثری نظم کو قبول نہ کیا۔جب یہ تسلیم نہیں کرنا تو پھر شاعری کرنے والوں کو تو شاعر تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ہم کیونکہ انتہا پسند ہیں اسی لئے پُر امن بقائے باہمی کے قائل نہیں ، بالکل اسی طرح تنقیدی تصورات اور ذوق کے پیمانوں کے معاملہ میں بھی ہم پُر امن بقائے باہمی کے قائل نہیں۔ زندگی، ادب، تنقید، نظریات، تصورات، اصول و ضوابط اپنے محور کے لحاظ سے سبھی درست ہوتے ہیں۔ ان سب میں قطعی طور پر کچھ بھی "قطعی” نہیں۔ سبھی جزوی صداقت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لئے جزو کو جزو ہی سمجھنا چاہئے۔ جزو کو کلی تسلیم کر لینا گمراہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لئے ادبی تنقید میں مخالف اور برعکس نظریات میں بھی پُر امن بقائے باہمی ہونی چاہئے۔

گزشتہ سطور میں تنقید میں Inductionکے کردار پر روشنی ڈالی گئی تھی اسی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تنقید سائنس ہوسکتی ہے؟ یعنی کیا تنقید میں سائنس جیسی قطعی معروضیت پیدا کی جا سکتی ہے؟ اور کیا اس معروضیت کے نتیجہ میں تنقید ریاضیاتی قطعیت جیسا نتیجہ فراہم کرسکتی ہے؟ جس طرح دو جمع دومساوی چار کی قطعیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح تنقیدی نتائج بھی اتنے ہی قطعی ہوسکتے ہیں؟ اتنے قطعی کہ اپنی قطعیت میں سائنسی کلیوں کی مانند بے لچک اور دائمی ثابت ہوسکیں، سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا نقاد سائنس دان کی مانند غیر جذباتی بھی ہوسکتا ہے؟ اور اتنا غیر جانبدار کہ تنقیدی عمل میں سے اس کی ذات خارج ہو جائے اور تخلیق لیبارٹری کے تجربی مواد جیسی صورت اختیار کر لے؟

ان سوالات کا جواب ہاں میں نہیں دیا جا سکتا اس لئے کہ تخلیق لیبارٹری کا DATAنہیں ہوتی بلکہ تخلیق کار کی ذات و صفات، شخصیت اور اس کے شعور بلکہ لاشعور تک کی مظہر ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے وجود میں زندہ وقوعہ ہے، ریاضی کے اعداد نہیں۔ تنقیدی عمل سے نقاد کی ذات کی نفی ممکن نہیں۔ نقاد کی ادبی پسند، ناپسند، تعصب، کسی خاص نظریہ سے وابستگی یا عدم وابستگی یہ سب کسی نہ کسی طرح اس کے تنقیدی آرا پر بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں کسی خاص تصور ادب یا تصورِ زیست سے نقاد کی وابستگی بھی کردار ادا کرسکتی ہے۔

تخلیق انسانوں اور ان کے جذبات و احساسات، افعال و اعمال، باطنی کیفیات، قلب و نظر، ذہن و اعصاب پر استوار ہوتی ہے جو فرد کی شخصیت کے لحاظ سے منفرد ہوتے ہیں۔ اس پر مستزاد لاشعوری محرکات کی پیدا کردہ الجھنیں اور پیچیدگیاں یہ سب لیبارٹری کے Dataکی مانند نہیں۔ Dataکے بارے میں پیش گوئی کی جا سکتی ہے لیکن انسان اور اس کے اعمال و افعال کے بارے میں یہ ممکن نہیں۔

مزید براں لیبارٹری کا ماحول طے شدہ، مقرر، متعین اور کنٹرولڈ ہوتا ہے جبکہ تخلیق ذہنی اعمال سے مشروط ہے جس کا مشاہدہ، مطالعہ اور تجزیہ ممکن نہیں۔ تخلیق تخلیقی عمل کا چمتکار ہے جس کی کارکردگی اسرار اور اخفا کے پردوں میں نہاں ہے۔ اعمال ذہن اور تخلیقی عمل ہر لحاظ سے لیبارٹری کی ضد ہیں۔

قوانین فطرت میں تسلسل ہے اور اسی لئے یکسانیت ملتی ہے۔ ایسی یکسانیت کہ کروڑوں سیارے، ستارے، کششِ ثقل، روشنی کی رفتار اور دیگر مظاہرِ فطرت جس اساسی اصول کے تحت عمل پیرا ہوں وہ دائمی اور ابدی ہے۔ اس لئے ان کے بارے میں پیش گوئی ممکن ہے۔ ایک طرف کو جھکی ہوئی زمین اپنا چاند لئے، اپنے محور پر گردش اور اپنے مدار پر سورج کے گرد اپنا سفر طے کرتی ہے، اسی طرح سیارے بھی گردش کناں ہیں۔ پھر یہ پورا نظام شمسی جس "ملکی وے” کہکشاں کا جزو ہے وہ تیز رفتاری سے خلا کی مسافر ہے اور اسی طرح دیگر کہکشائیں بھی خلا کے سفر کی منزلیں سر کر رہی ہیں۔ کوئی کسی سے ٹکراتی نہیں۔ کوئی کسی کا راستہ نہیں روکتی، کوئی مزاحم نہیں، ہم ان کے طرز عمل کے بارے میں وثوق سے پیش گوئی کرسکتے ہیں اور اسی لئے ہمیں اگلے دن سورج کے طلوع ہونے کا یقین ہوتا ہے۔

یہ قوانین فطرت کی دائمی استواری اور تسلسل ہی تھا جس کی بنا پر کلوننگ کے ذریعہ سے لیبارٹری میں بھیڑ پیدا کی گئی جس کا نام ڈولی رکھا گیا اور جو کئی برس تک زندہ رہی تھی۔ کلوننگ کی اگلی منزل انسان بنانا تھا مگر تمام حکومتوں نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ انسان، اس کے ذہن، اس کے اعصاب کے بارے میں کچھ بھی طے نہیں کیا جا سکتا اسی لئے تو ابنارمل سائیکولوجی میں "نارمل” کا کوئی تصور نہیں۔ تخلیق بھی اسی معمہ انسان کی شخصیت کا اظہار ہے جو وضع، انداز، اطوار اور کردار و عمل میں منفرد ہے۔

کائنات کا نظام تبدیل نہیں ہوتا، ہوسکتا ہی نہیں، جس دن اس میں خلل پیدا ہوا وہ روزِ قیامت ہو گا مگر انسان تو قیامت بداماں ہے اور اس لئے حشر برپا کرتا رہتا ہے۔ اس سے تخلیق اور Dataمیں فرق پیدا ہوتا ہے۔ قوانین فطرت کے تسلسل کے باعثTest Tube Babyممکن ہوا مگر Test Tube Poetryممکن نہیں اس امر کے باوجود کہ زیادہ تر شاعر Test Tube Babyہی محسوس ہوتے ہیں۔

سائنس دان کا طریقِ کار ایسا ہے کہ وہ غیر جذباتی انداز میں غیر جانبدار رہتے ہوئے مشاہدہ اور تجربہ کرسکتا ہے لیکن تخلیق کار ایسا نہیں کرسکتا۔ سائنس دان گلاب کے پھول کا تجزیہ کر کے یہ دریافت کرے گا کہ یہ سرخ کیوں ہے، اس میں خوشبو کیوں ہے، پنکھڑیوں کی ساخت ایسی کیوں ہے جبکہ شاعر کو ان امور سے کچھ لینا دینا نہیں، لہٰذا یہ کہہ کر اس کا کام ختم ہو جاتا ہے:

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میر

بلبل پکاری دیکھ کر صاحب پرے پرے

سائنس دان آلات کے ذریعہ پیمائش کر کے بتاتا ہے کہ ہمالیہ کی ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی 8850میٹر ہے جبکہ شاعر کے لئے یہ کہ دینا کافی:

اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں

چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں

سائنس دان پھول کے مرجھانے کے اسباب سمجھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن شاعر کے لئے یہ کہہ دینا کافی ہے:

کس کس زباں سے اے گلِ پژمردہ تجھ کو گل کہوں

کس طرح تجھ کو تمنائے دلِ بلبل کہوں

("گلِ پژمردہ” از علامہ اقبال)

نقاد سائنس دان کی مانند غیر جذباتی اور غیر جانبدار ہوئے بغیر تخلیق کے بارے میں رائے زنی نہیں کرسکتا۔ اس کا موضوعی ہونا لازم ہے، اس کا علم و فضل اور وسعتِ مطالعہ بھی اس کی موضوعیت سے مشروط ہیں۔ نقاد کی پسند، ناپسند، تعصبات، نقطۂ نظر، تصورِ ادب یہ سب مل کر اس رائے کی تشکیل کرتے ہیں جو بالآخر سوچ کا محور ثابت ہوتی ہے بلکہ تاثراتی تنقید کی تو اساس ہی ذاتی تاثرات پر استوار ہے۔

سائنس کی زبان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تخلیق بھی عضویت(Organism) کی مانند نامیاتی کل ہے جس میں الفاظ خلیوں کا کردار ادا کرتے ہیں تو ان میں مخفی معانی جینز کا۔ نبض شناسی کے بعد نقاد تخلیق کے حسن و قبح کی بات کرتا ہے لیکن سائنسی اصطلاحات اور سائنسی اسلوب جیسی ریاضیاتی قطعیت کے حوالہ سے ہر ناقد کا ذوق بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ اسے تنقید پر اعتراض اور نقاد کی کوتاہی نہ سمجھا جائے۔ اندازِ نظر کے اس تنوع اور اس سے جنم لینے والی بوقلمونی ہی میں تنقید کا مزا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ سائنس کی بنیاد مشاہدات اور تجربات سے حاصل کردہ Dataپر ہوتی ہے اور سائنسی ایجاد خواہ وہ کتنی ہی عجیب (بلکہ عجیب و غریب) محیرالعقول، پُراسرار بلکہ چمتکار ہی کیوں نہ محسوس ہو لیکن ان کی ساخت اور کارکردگی کے اصول کو سمجھ لیں تو عام فہم نظر آتی ہے۔ لیکن جو تخلیقی عمل تخلیق کو جنم دیتا ہے وہ ہنوز بھی ناقابلِ فہم ہے۔ تخلیقی عمل کو اساطیر، فلسفہ، نفسیات وغیرہ کے ذریعہ سے سمجھنے کی کوششیں کی گئیں لیکن بات نہ بنی۔ اس لئے کہ تخلیقی عمل کے زیرِ اثر تخلیق کرنے والا تخلیق کار بھی اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا سوائے اس کے کہ:

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

مگر "غیب” کو سمجھنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یوں تخلیقی عمل طبیعات کی تجربی دنیا سے ماورا ہو کر اپنی جداگانہ مابعدالطبیعات کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کی تفہیم کا در وا کرنے والی کلید یعنی اسم اعظم دستیاب نہیں ہے۔ تاہم یہ جداگانہ امر کہ بعض اوقات بلحاظ تاثیر تخلیق کے الفاظ اسم اعظم ثابت ہوں۔

سائنس اپنے اصولوں کی اسیر ہے وہ آلات، تجربات اور لیبارٹری سے باہر نہیں جا سکتی جبکہ تخلیقی عمل ان سب سے بے نیاز ہے وہ ان کا مرہونِ منت نہیں بلکہ قائم بالذات، خود مختار اور خودکار ہے اور اس لئے نالہ پابندِ نے نہیں اور نالہ پابندِ لے بھی نہیں اس پر مستزاد یہ سوال:

از کجا می آید ایں آوازِ دوست؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

زبان کے تیور

 

 

 

وقت کے بہاؤ کو بالعموم دریا سے تشبیہ دی جاتی ہے واقعات کے لہر در لہر سلسلوں کی بِنا پر ، وقت غیر مرئی ہے اس لئے کہہ نہیں سکتے کہ یہ تشبیہ مناسب ہے یا نہیں لیکن زبان کے آغاز اور اس کے تشکیلی مراحل کے بارے میں دریا کی تشبیہہ کارآمد محسوس ہوتی ہے۔ ہمالیہ کے سلسلہ کوہ میں ایک گلیشیر گنگا کا منبع ہے۔ گنگا کی مناسبت سے اس گلیشیر کو "گنگوتری” کا نام دیا گیا ہے۔ صاف شفاف،موتی سادمکتا پانی، کوہستانی سفر ختم کر کے جب میدان میں داخل ہوتا ہے تو اساطیر کے بموجب شیو کی جٹاؤں سے نکلنے سے پوتر دریا سب سے آلودہ دریا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جلے ہوئے مُردوں کی راکھ اس میں ڈالی جاتی ، کھانے پینے کی اشیا، مٹھائیاں، پھل پھول بطورِ نذر اس میں پھینکے جاتے ہیں۔ مٹی کے جلتے ہوئے دیئے اس میں تیرتے ہیں، حتیٰ کہ جو غریب شمشان میں جلایا نہیں جا سکتا دریا برد ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ رام تیری گنگا میلی وہ پاپیوں کے پاپ دھوتی ہے، یوں لاتعداد گندے مرد و زن اس میں نہا کر اپنے جسم کی میل، پسینہ، بُو اس میں شامل کرنے کے بعد اس میں سے پوتر ہوکر نکلتے ہیں۔

زبان کا آغاز بھی اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جب زبان محدود ذخیرۂ الفاظ سے جنم لیتی ہے تو سادہ و سلیس ہوتی ہے۔ اظہار واضح اور دو ٹوک، تشبیہیں برائے نام، استعارہ ناپید، صنعتیں معدوم۔ اسلوب سادہ ترین، جمالیات ناآشنا۔ جس طرح دریا میں ندی نالے شامل ہو کر اس کے پانی میں اضافہ اور بہاؤ میں تیزی کا باعث بنتے ہیں، اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زبان میں بھی اردگرد کی زبانوں اور بولیوں کے الفاظ شامل ہو کر ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرتے جاتے ہیں بلکہ اس کا بھی امکان ہے کہ دیگر زبانوں کے الفاظ کی کثرت کے باعث زبان اپنی اصل صورت گنوا دے، یوں کہ اصل صورت بھی نہ پہچانی جا سکے۔ اس وقوعہ کا مشاہدہ آج بھی ممکن ہے، گاؤں کی پنجابی اور شہر کی پنجابی میں الفاظ کے استعمال سے۔ شہر کی پنجابی میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی کا استعمال عام ہے جبکہ دیہاتی ایسا نہ کرے گا جب ورڈز ورتھ نے یہ کہا کہ شاعری گاؤں والوں کی زبان میں ہونی چاہئے تو اس سوچ کے پیچھے بھی یہی تصور کارفرما تھا۔ دوسری زبانوں کی آمیزش سے زبان اپنی اصل سے دور ہو جاتی ہے۔ شہر کے تعلیم یافتہ افراد کے نئے نئے الفاظ شامل کرنے کے باعث زبان اپنی اصل سے دور ہو جاتی ہے۔ شہر کے تعلیم یافتہ افراد کے نئے نئے الفاظ شامل کرنے کے باعث زبان اپنی اساس گنوا کر کچھ کی کچھ بن جاتی ہے۔ اہلِ زبان کے زمانہ میں یہ باور کیا جاتا تھا کہ عورتیں کیونکہ گھر سے باہر جا کر دوسری زبان والوں سے بات چیت کر کے ان کی زبانوں کے الفاظ اخذ نہیں کرتیں اس لئے ان کی زبان اصل کے قریب تر لہٰذا زیادہ تر ملاوٹ شدہ نہ ہوتی تھی۔ روایت ہے کہ جب انیس کے بعض الفاظ پر اعتراضات ہوئے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ہمارے گھر کی خواتین اس طرح بولتی ہیں۔ میر تقی میر کی زبان پر جب اہلِ لکھنو نے اعتراض کئے تو میر نے کہا کہ دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اسی طرح بولتے ہیں۔

جہاں تک تلفظ کا تعلق ہے تو لسانی تنوع کے حامل ہندوستان جیسے ملک میں تلفظ کا کوئی معیار طے کرنا ناممکن اور اسی لئے کارِ لاحاصل ہے۔ تلفظ فرد کے Vocal Cord (آلاتِ صوت) یعنی ہونٹوں، زبان، حلق اور تالو کی حرکات سے مشروط ہے جس کا کسی حد تک کسی نسل یا جغرافیہ اور عمومی لسانی صورتحال سے خاصا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اسی لئے مختلف نسلوں اور علاقوں کے افراد مختلف اصوات (حروف) کی ادائیگی سے قاصر ہوتے ہیں۔ جیسے ہندی بولنے والے خ کو کھ، غ کو گ سے بدل دیتے ہیں، یوں خوبصورت کھوبصورت، شرمیلی سرمیلی اور غالب گالب بن جاتا ہے۔ بنگالی ج کو ذ بولتے ہیں یوں جلیل ذلیل ہو جاتا ہے۔ حیدرآباد (دکن) والے ق کا خ بولتے ہیں وہاں قبر خبر بن جاتی ہے۔بحیثیت مجموعی ہم عربی لہجہ میں ق اور ع ادا کرنے کے اہل نہیں اسی لئے اقبال کو اک بال اور عربی کو اربی بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح ایرانی اور فرانسیسی T کوت بولتے ہیں جرمن میں D,T میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ عرب پ کو ب اور و کو ف بولتے ہیں۔ یہ نالائقی نہیں بلکہ صوتی مجبوری ہے۔

اس انداز کی مزید مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔ انسانی حلق جن اصوات کی ادائیگی کا اہل ہوتا ہے وہ حروف کی شکل میں ظاہر کی جاتی ہیں۔ حروف تہجی اس امر کے مظہر ہیں کہ زبان میں ان اصوات کی ادائیگی ممکن ہے۔ اس سے یہ لسانی سبق ملتا ہے کہ ہر زبان کا لہجہ اور لحن اسی زبان کے لحاظ سے درست ہے لہٰذا زبانوں کا تقابل بے سود ہے۔ تلفظ، لہجہ اور لحن اضافی ہیں، مطلق نہیں، اس لئے کسی ایک زبان کو دوسری پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ اسی لئے تلفظ کا کوئی عالمی معیار بھی نہیں۔ زبانوں کی اصوات اور ان سے بننے والے حروف مقامی جغرافیائی اور عمرانی صورت حال کی مناسبت سے ہیں وہ صورت حال جو آلاتِ صوت سے مشروط ہے۔

آب حیات میں مولانا محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ میر جب دہلی سے لکھنو¿ چلے تو ایک صاحب کے ساتھ گاڑی میں بیٹھنا پڑا۔ اس شخص نے جب میر صاحب سے ہم کلام ہونے کی کوشش کی تو میر صاحب نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا کہ میں تمہارے ساتھ بات کر کے اپنی زبان خراب نہیں کرنا چاہتا۔

زبان والوں میں ہمیشہ سے ایک ایسا طبقہ رہا ہے جو زبان کی طہارت پر اصرار کرتا رہا ہے۔ یہ رویہ شدت اختیار کرتا ہے تو اُسی انتہا پسندانہ سوچ کو جنم دیتا ہے جس کے نتیجہ میں زبان سومنات میں تبدیل ہو جاتی ہے، لسانیات مندر قرار پاتی ہے۔ یوں زبان دان پجاری میں تبدیل ہو جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زبان پر بند باندھ کر اس کے بہاؤ کو روکنا ناممکن ہے اس لئے کہ یہ اصول فطرت کے خلاف ہے۔ جس طرح فطرت خودبخود لالہ کی حنا بندی کرتی ہے، اسی طرح کسی بھی زبان کی نشوونما کے تشکیلی مراحل خود کار ہوتے ہیں۔ کسی بھی زبان کی نشوونما کو روکنے یا اس میں مزاحم ہونے کے نتیجہ میں زبان کا وہی حال ہوتا ہے جو جوہڑ یا تالاب کے بند پانی کا ہوتا ہے۔ سنسکرت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو دیو بانی بنا دیئے جانے کے بعد عوام سے یوں کٹی کہ سورگباش ہو گئی۔

لفظ اپنی شکتی رکھتا ہے جو اسے سرسوتی سے نہیں ملتی بلکہ اس کی باطنی قوت سے مشروط ہوتی ہے اور اس داخلی توانائی کو تقویت ملتی ہے اُسے استعمال کرنے والے عوام سے۔

زبان عوام پیدا کرتے ہیں، عوام بناتے اور سنوارتے ہیں، عوام اس میں تبدیلیاں لاتے ہیں اور عوام ہی اس کی موت کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے زبان اور عوام لازم و ملزوم ہیں۔ اُسے اس مثال سے سمجھئے کہ ایک سہانی صبح اگر تمام لوگ ایک زبان بولنے سے انکار کر دیں تو وہ زبان صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گی۔

لفظ کا جینا مرنا افراد کے طرز عمل سے مشروط ہے۔ جب تک لفظ عوام کی زبان پر رہتا ہے وہ زندہ رہتاہے جیسے ہی زبان سے اترا متروک بلکہ مرحوم ہو گیا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ہماری عام بول چال کا حصہ یہ الفاظ آج سے تقریباً چھ ہزار برس قدیم (اور مردہ) "منڈاوی” زبان کے ہیں: "نانا، نانی،ماما، مامی، پھوپھا، پھوپھی، سالی ، مولسی (بمعنی دولہا) پیڑھی (بمعنی نسل)، نتھ، گہنا، آنچل، دُھسّہ، توڑا، ببول، بڑ، دھتورا، ککڑی، کریلا، نیم، پستہ، بھٹی، پیندا، آرا، ڈنڈا، برچھا، ڈھال، بوہنی، کھوجی، پٹڑی، دالان، پھاٹک، بھاڑا، چھیلا، چتر، دھندا، ڈھیلا، ڈھارس، گیرو، لاگ، متر، مورکھ، منڈی، ناٹا، اڑوس پڑوس، دھوم دھام، کھٹ پٹ (بحوالہ عین الحق فرید کوٹی، "اردو زبان کی قدیم تاریخ” ص 104)

رشید اختر ندوی مُنڈا کے بار ے میں یہ معلومات بہم پہنچاتے ہیں:

"ارض پاکستان کے سب سے پہلے آبادکار وہ سیاہ فام لوگ تھے جو برفانی عہد میں افریقہ اور ملیشیا سے یہاں پہنچے اور کسی ایک حصہ میں نہیں بلکہ پورے ملک میں پھیل گئے تھے۔ ارض پاکستان کی سب سے پہلی آبادیاں ان لوگوں کی تھیں جو کہ میری یا مُنڈا زبانیں بولتے تھے۔ اور جو انڈو چائنا نسل کے ایک گروہ مون گھمیر سے متعلق تھے۔” (بحوالہ رشید اختر ندوی، "ارض پاکستان کی تاریخ” ص ۷۹- ۶۹)

مُنڈا لوگوں کی گنتی صرف 20 تک تھی جسے وہ کوڑی کہتے تھے۔ آج بھی پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے دیہات میں 20 کے لئے لفظ کوڑی مروج ہے۔ (بحوالہ خاطر غزنوی، "اردو زبان کا ماخذ: ہندکو” ص ۶۳)

اگر عوام زبان کو متروک (بلکہ مردہ) قرار دے سکتے ہیں تو عوام مردہ زبان کو حیاتِ نو بھی دے سکتے ہیں ۔ عبرانی مرحوم ہو چکی تھی یہ بن یہودہ تھا جس نے اُسے زندہ کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ آغاز یوں کیا گیا کہ سب یہودی اپنے یورپین نام ترک کر کے عبرانی نام رکھ لیں۔ اس کے بعد عبرانی کی لغت مدون کی گئی اور ترقی کرتے کرتے اس سطح تک پہنچ گئی کہ جب ریاست اسرائیل قائم ہوئی تو کاروبارِ مملکت چلانے کے لئے عبرانی تیار تھی۔ جو اس وقت عوام اور حکومت کی زبان ہے ہمارے برعکس۔

زبان عمرانی زندگی کا ایسا وقوعہ ہے جو ہمیشہ زیرِ ساخت، زیرِ تعمیر اور زیرِ تغیر رہتا ہے کہ زبان اور ثبات برعکس ہیں۔ زبان نے باہم انسانی رابطوں اور ان سے جنم لینے والی انسانی ضروریات کی بنا پر جنم لیا بوتل میں بند انسان کو زبان کی ضرورت نہیں کہ وہ سب سے منقطع زیست کر رہا ہے جس دن بوتل سے باہر آیا اس دن اظہار، ترسیل اور ابلاغ کے مسائل پیدا ہوں گے۔ کیا کلام کروں کے مقابلہ میں کیسے کلام کروں، یہ مسئلہ زیادہ اہم ہو گا۔

زبان کثیر المقاصد ہے اس کے سو انداز ہیں اور ہر انداز سو ڈھنگ کا حامل ہے۔ شاعرانہ اسلوب میں الفاظ کو پھولوں سے تشبیہہ دیں تو پھر زبان ایسے پھولوں کا گلدستہ جس کا ہر پھول گلشن بداماں ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ پھول کی تازگی اور مہک اس کی عمر اور جغرافیائی حالات سے مشروط ہے جب کہ لفظ اپنی داخلی توانائی کا حامل ہوتا ہے۔ باطن میں خوابیدہ معانی کو قلم کار برآمد کرتا ہے۔ ایسے ہی جیسے مجسمہ ساز پتھر کے ٹکڑے میں سے شبیہہ برآمد کرتا ہے۔نامور مجسمہ ساز مائیکل اینجلو نے یہی کہا تھا کہ شبیہہ پتھر میں موجود ہوتی ہے میں تو صرف یہ کرتا ہوں کہ اُسے پتھر سے باہر نکال دیتا ہوں۔ مجسمہ ساز کی تشبیہہ کی مانند تیشہ¿ لفظ بھی یہی کردار ادا کرتا ہے۔ پیدائش کے وقت انسان فطرت کے عین مطابق اور اس لئے سادہ ترین صورت میں یعنی بے لباس پیدا ہوتا ہے اور پھر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ تہذیبی عوامل اور کلچر کے اثرات کے زیرِ اثر وہ خود کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت بنانے کی سعی کرتا ہے۔ حقیقی(غسل) اور مصنوعی (میک اپ) طریقوں سے وہ خود کو خوش جمال بنانے کی سعی کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح زبان بھی آغاز کی سادگی، سلاست، فطری پن سے بتدریج دور ہوتی جاتی ہے۔ آغاز کی سادگی، فطری پن، سلاست،براہِ راست اور دو ٹوک اندازِ اظہار کے مصنوعی طریقوں کی بالادستی کے سامنے بتدریج پسپائی اختیار کرتا جاتا ہے۔

زبان کے استعمال کی دو صورتیں ہیں جو اتنی عام اور واضح ہیں کہ بطورِ خاص ان کا نوٹس نہیں لیا جاتا یہ دو ہیں مکالمہ اور تخلیق۔ مکالمہ باہمی کلام کی اساس اور معاشرہ کے مختلف افراد کے درمیان رابطہ کا کردار ادا کرتا ہے۔مکالمہ میں اتنا ہی تنوع ملے گا جتنا کہ معاشرہ میں موجود ہو گا۔ اس میں اتنی ہی بوقلمونی ہو گی جتنی کہ خود زندگی میں۔ سادہ اور صاف زندگی میں مکالمہ بھی سادہ، صاف اور براہِ راست ہو گا۔ انتھروپولو جی ہمیں بتاتی ہے کہ غیر متمدن، کم ترقی یافتہ اور وحشی معاشروں کی زبان ( جسے بولی کہنا زیادہ مناسب ہو گا) کا ذخیرۂ الفاظ مختصر اور محدود ہوتا ہے اور بالعموم لفظ واحد معنی کا حامل ہوتا ہے جذبات احساسات اور حسیات کا براہِ راست اظہار ہوتا ہے اس لئے وہ بھی بالواسطہ اسلوب میں دو ٹوک قسم کے الفاظ سے ہو پاتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے معاشرہ پیچیدگی اختیار کرتا جائے گا زبان بھی پیچیدگی اختیار کرتی جائے گی۔ یوں دو ٹوک الفاظ میں براہِ راست اظہار مشکل تر ہوتا جائے گا۔ زیادہ دور کی مثالوں کی ضرورت نہیں مدارات کے لئے آرائشی اور اسی لئے مصنوعی الفاظ سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے خیر مقدمی الفاظ جن کا میزبان کے جذبات سے کسی طرح کا بھی تعلق نہیں ہوتا، معاشرہ میں تہذیب و تمدن اور کلچر جتنی زیادہ پیچیدگیوں کے حامل ہوں گے آرائش کے لئے الفاظ بھی اسی مناسبت سے پیچیدگیاں اختیار کرتے جائیں گے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑ رہے کہ خود معاشرہ کے تہذیب و تمدن اور کلچر میں زرِ خالص، کھوٹ اور ملمع کا تناسب کتنا ہے۔ معاشرہ میں زرِ خالص، کھوٹ اور ملمع کی نسبت سے آرائشی اور تہذیبی الفاظ کا تناسب طے پائے گا۔ فطری اور حقیقی الفاظ کے مقابلہ میں جمالیاتی خوبیوں اور صوتی دلکشی کے باوجود بھی یہ ایک نوع کی لسانی آلودگی ہے مگر اس سے مفر بھی نہیں کہ یہ غیر حقیقی معاشرہ اور اس کے مصنوعی کلچر سے مشروط ہے۔

انسانی روابط اور ضرورت اور اہمیت نے زبان کی تشکیل کی اس لئے زبان افراد سے باہر نہیں جا سکتی۔ افراد جس نوع کی تمدنی، سیاسی، اور اقتصادی اور عمرانی صورتحال سے دوچار ہوں گے زبان اس کے اثرات اخذ کرے گی وہ جو کسی نے کہا تھا کہ انگریزی کاروبار کی زبان ہے جرمن فلسفہ کی اور فرانسیسی رومانس کی تو یہ لیبلنگ اسی باعث ممکن ہوسکی ہو گی۔ اس ضمن میں بائرن کا یہ مصرع بھی یاد آ رہا ہے جو اس نے اطالوی کے بارے میں لکھا تھا:

"It flows like kisses from a female mouth.”

حروف اصوات کے باعث ہیں، یہی اصوات منظم اور مرتب کر کے موسیقی کے سُروں میں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جیسے سا = آ، رے = ب، یہ تو ہوئی سادہ ترین مثال لیکن راگوں اور راگنیوں کی مختلف صورتوں میں سُر اور الفاظ کے تال میل سے ہر تان میں دیپک والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

الفاظ کی اصوات کی غنائی اہمیت اور یہی شاعری میں مترنم بحروں اور الفاظ کی حسنِ ترتیب کے باعث شاعری میں موزونیت پیدا کرنے کا بھی باعث بنتی ہے۔

اس کے برعکس مثال سائنسی موضوعات کی تحریر کا اسلوب ہے۔ سائنس کا مقصد علمی حقائق و کوائف اور معلومات کا بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ اس لئے سائنسی زبان میں ہر لحاظ سے قطعیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر تخلیق تحریر یا شعر میں سے ایک سے زائد مفاہیم برآمد ہوں تو یہ اس کی خوبی ہو گی لیکن سائنسی تحریر میں یہ عیب ہو گا۔ اس لئے زبان قطعی ہونے کے عمل سے گزرتی ہوئی ایسی صورت اختیار کر لتی ہے جس میں فارمولے، اشارات (Signs) اور اعداد کلیدی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ زبان کا یہ روپ غیر تخلیقی مگر سو فیصد قطعی ابلاغ کا حامل ہوتا ہے۔

جہاں تک ایجادات، اختراعات، سائنسی معلومات، علمی نظریات اور مختلف تصورات سے وابستہ مخصوص اصطلاحات کا تعلق ہے تو یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ اگر اپنی اصل صورت میں یہ قبول کر لی جائیں تو زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کا موجب بنتی ہیں، لیکن اگر اپنی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے تو پھر نہیں، اسے اس مثال سے سمجھئے: ٹیلی وژن کو اس طرح استعمال کیا تو نیا لفظ ملا لیکن دور درشن کہنے پر نیا لفظ حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ دور اور درشن پہلے سے زبان میں موجود ہیں۔ اپنے دو الفاظ جوڑ کر ترجمہ کر لیا گیا لیکن ذخیرۂ الفاظ کی گنتی میں اضافہ نہ ہوا۔

بلحاظِ استعمال زبان کا عام واضح اور دو ٹوک استعمال عام لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے والی زبان ہے۔ تعلیم یافتہ سے لے کر ان پڑھ جاہل تک زبان کو روز مرہ کے معمولات، گفتگو، لین دین وغیرہ کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس صورت میں زبان کے الفاظ اپنی سادہ صورت میں ابلاغ کا باعث بنتے ہیں۔ سیدھی بات، براہِ راست اظہاریہ زبان کا عملی استعمال (Functional) ہے۔

عملی استعمال میں ذخیرۂ الفاظ خاصا محدود ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے شماریاتی کوائف نہیں جن کی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ عام آدمی روز کتنے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ معمولات کے الفاظ کی تعداد ڈیڑھ دوسو الفاظ کے سہارے بسر کر دیتا ہے۔ گویا ضرورت کی مناسبت سے فرد کے زیرِ استعمال الفاظ کی تعداد کا تعین ہو گا۔ جتنی کم ضرورت اتنے ہی کم الفاظ۔

عام آدمی کی روز مرہ کی گفتگو میں لفظ کے حسن اور اسلوب کی جمالیات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ بعض اوقات تو لفظ کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا اور نہ ہی قواعد کی بطور خاص پابندی کی جاتی ہے۔ عام آدمی زبان کی باریکیوں اور استعمال کی نزاکتوں سے واقف نہیں ہوتا۔ اس نے تو صرف دوسروں کو اپنی بات سمجھانی اور دوسرے کی بات سمجھنا ہے اس لئے اُسے اہلِ زبان کے روز مرہ، محاوروں کے برمحل استعمال اور لفظ کے تخلیقی استعمال سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اہلِ زبان کے روز مرہ کے مطابق مجھے کھانا کھانا ہے، مجھے کراچی جانا ہے درست ہے لیکن عام آدمی یوں نہیں بلکہ اس طرح بولے گا، میں نے کھانا کھانا ہے، میں نے کراچی جانا ہے۔

گزشتہ پون صدی کے حالات نے زبان کے مراکز اور اہلِ زبان ختم کر دیئے۔ اب سند دہلی اور لکھنو¿ سے نہ ملے گی کہ ان شہروں کی اردو کا ہم سے بھی برا حال ہے۔ اب وہاں عام آدمی وہ "اردو” بول رہا ہے جو بھارت کی فلموں کے کردار بولتے ہیں اور جسے ہندی کہا جاتا ہے۔ تو ایسے میں جب اہلِ زبان نہ رہے تو ان کا روز مرہ، محاورات، ان کا تلفظ، ان کی تذکیر و تانیث، ان کا مخصوص لسانی لہجہ کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ پشتو، بلوچی، براہوی، سرائیکی بولنے والے سے اہلِ لکھنو¿ کے لہجہ کی ادائیگی اور روز مرہ کی پابندی کی توقع عبث ہے۔ بدلے حالات روز مرہ جیسی اصطلاحات کو متروک قرار دے رہے ہیں۔ اس لیے زبان کو دہلی اور لکھنو کے برعکس اب اس طرح دیکھنا ہو گا کہ ملتان، بہاولپور، کوئٹہ، پشاور ، ڈیرہ غازی خان، جام شورو، لاڑکانہ، گوجرہ میں یہ کیسے بولی جا رہی ہے۔

دہلی اور لکھنو کی اشرافیہ کے پاس زبان اور شاعری کے علاوہ اور کچھ بھی نہ تھا اور اسی کے وہ محافظ بنے رہے اور ان ہی تک زبان کی فصاحت اور لطافت محدود رہی۔ لہٰذا اس کا قوی امکان ہے کہ عام، عوام اور ان پڑھ عورتیں اپنے ڈھنگ کی زبان بولتی ہوں گی۔ زبان کا برتر اور اعلیٰ استعمال تخلیقات کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لئے اسلوب کی جمالیات تشکیل پاتی ہے۔ استعاروں،تشبیہات، علامات اور صنعتوں سے کام لیا جاتا ہے۔ یوں کہ میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔

جہاں تک تخلیقات کے لئے مستعمل تخلیقی زبان کا تعلق ہے تو وہ بول چال کی عام زبان سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ اس امر کے باوجود کہ اس کے الفاظ عام بول چال کی زبان سے الگ، مختلف یا جداگانہ نہیں ہوتے۔ الفاظ وہی ہوتے ہیں لیکن استعمال کے قرینے ان میں مفاہیم کے جہانِ نو پیدا کر دیتے ہیں۔ استعارہ اور علامت اس کی معروف مثالیں ہیں۔ استعارہ کی صورت میں لفظ بنیادی معنی کے ساتھ ساتھ لفظ دائمی بقا بھی حاصل کر لیتا ہے کہ مفہوم کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ خود ہی مفہوم بھی بن جاتا ہے۔

تخلیقی مقاصد کے لئے زبان کو بروئے کار لانے کے سلسلہ میں زبان کو جمالیاتی اوصاف سے مزین کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے مختلف صنعتوں سے کام لیتے ہوئے اسلوب کی جمالیات سے ابلاغ کو دلکش بنانے کی سعی کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ زبان کی جمالیات اپنی دلکشی اور حسن آفرینی کے باوجود سادگی سے دور ہوتی جاتی ہے اور غُلو برتنے کے نتیجہ میں اس کا بھی امکان ہے کہ صرف حسن ہی حاصل ہو، معانی اور مفہوم حسن کاری میں گم ہو جائیں۔

لیکن یہ بھی طے ہے کہ یہ تخلیقی استعمال ہی ہے جس کے باعث لفظ اپنی داخلی توانائی اجاگر کرسکتا ہے۔ یوں کہ معانی لو دے کر جگمگانے لگیں۔ پرانی داستانوں کا اسمِ اعظم بھی یہی تھا اور ساحر کے منتر بھی، ماں کی لوری اور گورو کا اشیر باد بھی، دعا، بددعا، شراپ سبھی لفظ ہیں اور یہی لفظ موسیقی کے سُر میں تبدیل ہو کر اعصاب کے ستار کے لئے مضراب کا کام کرتا ہے۔ شاید اسی لئے بائبل میں لکھا گیا:

سب سے پہلے Logos/ لفظ/ کلمہ تھا۔

لفظ کے سلسلہ میں حضرت علی کا بصیرت افروز قول ملاحظہ کیجئے:

 

"الفاظ انسان کے غلام ہوتے ہیں لیکن بولنے سے پہلے، بولے جانے کے بعد انسان اپنے الفاظ کا غلام ہو جاتا ہے۔”

 

عام آدمی کے برعکس واعظ اور سیاست دان کی تقریر کا مقصد واحد ہوتا ہے لیکن خطابت کی ہنڈیا میں "مزا” پیدا کرنے کے لئے مترادفات کا تڑکا لگاتا ہے۔ اگر آپ واعظ اور سیاست دان کی تقاریر کاغذ پر لکھ کر ان میں سے مترادف حذف کر دیں تو ۔۔۔۔۔ افسوس حاصل کا!

زبان کے حوالے سے ان دنوں میڈیا زیرِ عتاب ہے۔ بالخصوص ٹیلی وژن کے اینکر پرسن اور نیچے چلنے والی خبروں کی پٹی ناقص تلفظ اور غلط املا کی وافر مثالیں پیش کرتی ہیں۔ اگرچہ ایسا نہ ہونا چاہئے کہ عوام کے لئے یہ ایک طرح کے معلم ہوتے ہیں۔ اس کی ایک یہ وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ٹیلی وژن پر زبان تخلیقی، جمالیاتی، آرائشی نہیں بلکہ Functional ہوتی ہے۔ یعنی سیدھے سادہ بلاواسطہ اسلوب میں کوائف اور معلومات کی فراہمی۔ جب کہ زبان کو ادبی بنانا مقصود ہو تو پھر اس مقصد کے لئے اشعار سے کام لیا جاتا ہے بالعموم جن کی ادائیگی غیر معیاری ہوتی ہے۔ ان دنوں اخبارات کی سرخیوں اور خبروں میں انگریزی الفاظ کا بے تحاشہ اور بے محابانہ استعمال بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ حالانکہ انگریزی الفاظ کے اردو مترادفات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود انگریزی کی مسلسل یلغار کے سامنے اردو اپنے مورچوں سے پسپائی اختیار کر رہی ہے جس کا غلامانہ ذہنیت کے بنیادی سبب کے بعد دوسری وجہ انگلش میڈیم اسکولوں کی کثرت ہے۔

دراصل یہ اور اس انداز کی دیگر مثالیں اردو زبان کے بدلتے تیور کے باعث ہیں۔ اردو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش آج کا وقوعہ نہیں بلکہ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی انگریزی الفاظ گفتگو اور تحریر و تقریر میں شامل ہونے لگے حتیٰ کہ اردو غزل میں بھی انگریزی الفاظ کے استعمال کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ جیسے مصحفی کے یہ اشعار:

 

عشق کے ہاتھوں نالاں ہیں سبھی خورد و بزرگ

ہیں کلیجے سینکڑوں کھائے ہوئے اس ڈاگ کے

 

یارانِ سخن گوئی ہے وہ کمپنی اپنی

نت جس کی سلامی لے فرانسیں کی ٹوپی

 

صفوں کی صف اُڑا دیتے ہیں جس دم فیر بولے

یہ گورے کرتے ہیں ایسی ہی الحق آتش افروزی

 

زخمِ شمشیر، نگاہ حیف کہ یہ اچھا نہ ہوا

کرنے کو اس کی دوا ڈاکٹر انگریز آیا

 

آرگن کے تئیں جس نے بنایا ہے، رکھے ہے

ہر پردے میں سو ساز، مقامات کی آواز

 

اس نے پروانے جلائے اس نے مرغان ہوا

ایک سا کیا بنا تھا اس رفل کا سنگ و شمع

 

جلو میں رہتی تھی لالے کی سرخ پلٹن بھی

چمن کے تخت پہ تھی جبکہ بادشاہیِ گُل

 

انشاءاللہ خان انشاء جدت پسند شاعر تھے۔ انہوں نے اپنے ایک قصیدہ میں متعدد انگریزی الفاظ سے کام لیا، مطلع پیش ہے:

 

بگھیاں پھولوں کی تیار کر اے بوئے سمن

کہ ہوا کھانے کو نکلیں گے جوانانِ چمن

 

اس قصیدہ میں انگریزی کے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں:

پاؤڈر، کوچ، گیلاس (گلاس) ارگن، ٹفن۔

یہ سرسید احمد خان اور ان کے رفقائے کار تھے جنہوں نے شعوری طور پر اور غالباً منصوبہ کے تحت اردو نثر میں انگریزی الفاظ کی آمیزش شروع کی۔ کیا اس کی وجہ قومی احساسِ کمتری تھا؟ اظہارِ علم مقصود تھا یا انگریزی کے الفاظ سے اردو با ثروت بنانے کی سعی تھی؟ میرے خیال میں تینوں وجوہ ہی محرک قرار دی جا سکتی ہیں۔

اس عمل پر تحفظات ہونے کے باوجود یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ بدلے سیاسی حالات میں اردو میں انگریزی الفاظ کی شمولیت اردو کے امتزاجی مزاج کے عین مطابق تھی۔ اردو کی اسی خصوصیت کا فخریہ بیان کیا جاتا ہے کہ اردو ہر زبان کے ہر نوع کے الفاظ اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔ اس لحاظ سے سرسید احمد خاں، مولانا الطاف حسین حالی اور دیگر اہلِ قلم نے اپنے اسلوب میں نئے رنگوں کی آمیزش کے لئے انگریزی الفاظ استعمال کئے تو کچھ غلط نہ کیا۔ لیکن آج جس تیز رفتاری سے اردو انگلش بنتی جا رہی ہے تو اندیشہ ہے کہ کہیں یہ نہ ہو کل کو انگریزی زبان ہی اردو قرار پا جائے۔کیا 1857 کی وجوہ 2014 میں بھی جائز ہیں؟

ہماری مانند دنیا کی دیگر زبانوں کو بھی انگریزی کی بالادستی کے خطرہ کا احساس ہے اور بعض ممالک جیسے ایران، چین، فرانس، حتیٰ کہ بنگلہ دیش نے اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر اپنی زبان میں انگریزی الفاظ کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اخبار اردو (اسلام آباد جنوری 2011) میں مطبوعہ خبر پیش ہے:

"چین کے اشاعت عامہ کے سرکاری ادارہ”جنرل ایڈمنسٹریشن آف پریس اینڈ پبلی کیشنز” نے حال ہی میں جاری کردہ اپنے نئے قواعد و ضوابط میں ملک کے اندر چینی اخبارات، کتابوں اور ویب سائٹوں میں انگریزی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور چینی زبان کو اس سے درپیش لسانی خطرات کے باعث انگریزی الفاظ اور محاورات کے استعمال پر فوری پابندی عائد کر دی ہے۔ چینی قواعد و ضوابط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ روز مرہ چینی زبان کے الفاظ اور مخففات میں انگریزی کا بے جا استعمال لسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ پر موجود اطلاعات کے مطابق واضح کیا گیا ہے کہ انگریزی کے بے محابہ استعمال سے چینی زبان اور ثقافتی ماحول میں ملکی ہم آہنگی اور لسانی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ ان قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کے ذمہ داران کو سخت سزا دی جائے گی۔”

روزنامہ جنگ (لاہور ، 30 جولائی 2006) سے یہ خبر بھی ملاحظہ ہو:

"تہران (آن لائن) ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے سرکاری اور دیگر ثقافتی تنظیموں اور اداروں کو حکم جاری کیا ہے کہ فارسی زبان سے تمام غیر ملکی الفاظ ختم کروائے جائیں۔ خبررساںادارے کے مطابق احمدی نژاد نے یہ حکم مہینہ رواں کے شروع میں جاری کیا۔”

یہودیوں نے مردہ عبرانی کو حیات نو دے کر قومی اور سرکاری زبان بنا لیا جبکہ ہم زندہ زبان کو مردہ بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ کبھی انگریز اردو سیکھتے تھے۔ فورٹ ولیم کالج کا قیام اسی ضرورت کے تحت عمل میں لایا گیا تھا۔ اور ایک ہم ہیں کہ انگلش میڈیم اسکولوں کے ذریعے سے انگریزی کی یلغار، ہر شہر میں عام بول چال کی انگریزی سکھانے کے لئے اکیڈمیاں فعال ہیں۔ علامہ اقبال نے بڑے دکھ سے کہا تھا :

حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے

یہاں تو پوری قوم ہی بے حمیت ہو چکی ہے۔ اس لئے زندہ زبان کو درگور کرنے کی فکر میں ہیں۔ یہ فراموش کر کے زبان، تہذیب، ثقافت، تخلیقات کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرتے ہوئے مستقبل کے لئے سمت نما بھی ہوتی ہے مگر ہمارا کیوں کہ کوئی مستقبل نہیں اس لئے زبان کی راہنمائی اور سمت نمائی کی بھی ضرورت نہیں۔

زبان کے بدلتے تیور بلکہ تیوروں کے ضمن میں اساسی سوال، زبان، میں دوسری زبانوں کے الفاظ کیوں اور کیسے شامل ہو جاتے ہیں۔ اس سوال اور اس سے وابستہ امور کی دو صدیوں کو خارجی اور داخلی قرار دیا جا سکتا ہے۔ دو زبانوں کا بوجوہ سنگم ہو تو زیادہ ترقی یافتہ زبان کم ترقی یافتہ زبان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس صورت میں کہ کم ترقی یافتہ زبان ترقی یافتہ زبان سے حسبِ ضرورت الفاظ اخذ کر کے با ثروت ہوتی ہے۔ کسی علم، علمی نظریہ، سے وابستہ مخصوص اصطلاحات زبان کا حصہ بن جاتی ہیں جیسے اردو میں نفسیات، معاشیات، عمرانیات، سائنسی اور طبی اصطلاحات کا مروج ہونا۔

ایجادات، آلات، اشیاء جب معاشرہ میں متعارف ہوتی ہیں تو ساتھ ہی ان سے وابستہ الفاظ بھی عام بول چال کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہی ٹرانسسٹر، VCR، ٹیلی وژن، کیسٹ، موبائل، کمپیوٹر سے وابستہ متعدد الفاظ زبان میں شامل ہو گئے یوں کہ وہ اجنبی بھی نہیں محسوس ہوتے۔ داخلی صورت حال البتہ اتنی واضح نہیں۔ الفاظ کی کثرت استعمال اور قلت استعمال سے متعلق زبان زد عوام الفاظ حیاتِ مسلسل کے حامی ہوتے ہیں اور کثرت استعمال ہی میں ان کی بقا ہے۔ جبکہ عوام کی زبان سے بالعموم خارج رہنے والے الفاظ لغت میں خوابیدہ رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک نوع کا متروکات کا عمل ہے جو الفاظ کے عدم استعمال سے مشروط ہوتا ہے۔ الفاظ کا استعمال، کم استعمال، عدم استعمال مروج زبان کے مزاج/ انداز/ لہجہ/ تیور/ اسلوب کا تعین کرتا ہے۔

ہم بالعموم سہ لسانی ہیں گھر پر اپنے علاقے کی زبان (پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، ہندکو وغیرہ) بولتے ہیں۔ عام بول چال اور رابطہ کے لئے اردو زبان جبکہ دفتری امور کے لئے انگریزی۔

تحریر اور تقریر میں ان تینوں ہی سے کام لیتے ہیں۔ اس وقت اردو میں دوسری قومی زبانوں کے متعدد الفاظ استعمال ہو رہے ہیں بلکہ اب تو انڈین فلموں اور ڈراموں کے باعث ہندی الفاظ بھی بولے جا رہے ہیں۔

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پیزا (رشین)، پاستا/ برگر (اٹالین)، ڈونٹ/ کوکا کولا( امریکی) شوارما (عربی) سویاساس (جاپانی) روز مرہ بول چال میں شامل ہو گئے۔ جبکہ سعودی عرب یا خلیج ریاستوں میں آباد پاکستانیوں کی لڑکیوں کے عربی نام رکھے جا رہے ہیں جو اردو کا حصہ بن چکے ہیں، اس انداز کی مثالوں کی کمی نہیں۔ انگریزی یا دیگر زبانوں کے متعدد الفاظ کثرت سے ہماری زبان پر چڑھ کر اردو میں شامل ہو رہے ہیں بلکہ کثرت استعمال کے باعث غیر ملکی الفاظ بھی اردو ہی کے الفاظ بن جاتے ہیں۔ اس سے ایک اور الجھن جنم لیتی ہے کہ ان بدیشی الفاظ کا تلفظ، املا اور محل استعمال کیا ہو؟ اس ضمن میں بعض حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں کہ ایسے الفاظ کو ان کی اصل زبان کے مطابق ہی لکھو، بولو اور بروئے کار لاؤ تاکہ وہ اپنی اصل کے مطابق اپنا تشخص برقرار رکھ سکیں۔ لیکن اس کے برعکس ایسے حضرات کی بھی کمی نہیں جو اردو میں ان کے متغیر املا اور استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں۔ دیکھئے دو سوبرس قبل لکھنو میں انشاءاللہ خان انشا نے "دریائے لطافت” میں کیا معقول بات کی:

"جو لفظ اردو میں مشہور ہے اور مستعمل ہو گا خواہ عربی ہو یا فارسی، ترکی یا سریانی، پنجابی ہو یا پوربی، اپنی اصل کی رو سے غلط ہو یا صحیح اب وہ لفظ بہرحال اردو ہے اگر اصل کے موافق مستعمل ہو تو صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہو تو بھی صحیح، اس کا صحیح ہونا اردو کے استعمال پر منحصر ہے۔ اس لئے کہ جو لفظ اردو کے مزاج کے موافق نہیں، اصل کے لحاظ سے درست کیوں نہ ہو اور جو چیز اردو کے موافق ہے وہ صحیح ہے خواہ اصل کے لحاظ سے غلط ہی کیوں نہ ہو۔”

انشاء سے قبل خان آرزو بھی ایسی ہی رائے کا اظہار کر کے تھے۔ "نوادر الالفاظ” کے مقدمے میں ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:

"دخیل الفاظ کے تلفظ اور املا کے سلسلے میں خان آرزو کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں لفظ کی وہ صورت (مکتوبی یا ملفوفی) اختیار کی جائے جو اہلِ زبان (عوام اور خواص دونوں) میں رواج پذیر ہو چکی ہو۔ ایسے لفظوں کے لئے اصل زبان کی پیروی ضروری نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ نئی زبان میں اس کی وہ صورت سامنے رہنی چاہیئے جو صرف عوام میں ہی مروج نہ ہو بلکہ عام خاص سب کے نزدیک تسلیم ہو چکی ہو۔” (ص 37)

خود انگریزی زبان بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں۔ جس میں یونانی، لاطینی، عربی، فارسی، اردو اور بھارت کی متعدد زبانوں کے الفاظ شامل ہو چکے ہیں۔ اس کا ایک سبب برطانیہ میں کثیر تعداد میں آباد مسلم، ہندو اور سکھ ہیں جن کے اشیائے خورد و نوش، لباس وغیرہ کے نام ہیں جب کہ اس سے قبل جب ہندوستان برطانوی تسلط کے زیر اثر تھا تو لاتعداد انگریزوں نے ہندوستانی کھانوں، مشروبات، ملبوسات، عام استعمال کی اشیاء وغیرہ کے نام سنے، سیکھے اور پھر اپنی تحریر و تقریر میں انہیں استعمال کیا یوں مقامی الفاظ انگریزی میں شامل ہو گئے۔ شروع شروع میں لب ولہجہ کے اختلاف کے باعث ایسے الفاظ نامانوس محسوس ہوئے ہوں گے لیکن مسلسل سننے کے باعث کان ان سے مانوس ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے پشاور، کوئٹہ، لاڑکانہ وغیرہ میں رہنے والے بلوچی، پشتو اور سندھی کے لہجہ اور الفاظ سے مانوس ہو جاتے ہیں۔

اسی سے ہم غریب/ دخیل الفاظ کی طرف آتے ہیں۔ دوسری زبانوں کے وہ الفاظ جو بوجوہ زبان کا حصہ نہیں بن پائے، یوں فصاحت کے محل میں داخلہ نہیں ملتا، رئیس کے گھر غریب رشتہ داروں کی مانند۔ غریب یا دخیل الفاظ دوسری زبانوں کے ایسے الفاظ ہیں جو زبان کے مرکزی دھارے میں بوجوہ شمولیت سے محروم رہتے ہیں۔ ایک وجہ نا ملائم صوتی آہنگ ہوسکتی ہے تو دوسری کسی خاص نوع کے معانی و مفاہیم کی عدم ادائیگی یا پھر کسی عام، مروج اور مقبول لفظ سے مشابہ یا مترادف ہونا۔ دخیل کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں زبردستی زبان میں داخل کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں لیکن یہ بھی ہے کہ ان کا خوش دلی سے استقبال بھی نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا زبان میں ہونے کے باوجود زبان کا حصہ نہیں بن پاتے۔

مدت ہوئی اشفاق احمد نے "اردو کے خوابیدہ الفاظ” کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب مرتب کی تھی جو ایسے الفاظ پر مشتمل تھی بظاہر تو وہ پنجابی اور سندھی کے محسوس ہوتے ہیں لیکن ہیں اردو ہی کے۔ اس ضمن میں اشفاق احمد لکھتے ہیں:

"…. تحریرو تقریر میں تو اب کم استعمال ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی علاقائی زبانوں میں اظہار کا اہم حصہ ہیں۔ ان الفاظ نے خدا جانے کب اور کس وجہ سے اپنی حرکی قوت کھودی کہ انہیں لغت کے اوراق میں روپوش ہونا پڑا اور ان کی روپوشی کے بعد کوئی انہیں اپنے بیان کی داستان سرائے میں واپس نہیں لا سکا۔ یہ الفاظ خوابیدہ ضرور ہیں متروک نہیں۔”

ہم نے زبان کے لئے دریا کی مثال سے مضمون کا آغاز کیا تھا اور اسی پر اختتام کر رہے ہیں۔

دریا اپنے زور سے راستے کی تمام رکاوٹوں پر قابو پا کر اپنا سفر جاری رکھتا ہے لیکن اگر دریا کی روانی پُر قوت نہیں تو راستہ میں دم توڑ دیتا ہے۔ جیسے ویدک عہد کا دریا سرسوتی (گھاگھرا بھی کہا گیا) چولستان کا صحرا عبور نہ کرسکا ، ریگستان میں جذب ہو گیا۔ اسی طرح زبانیں بھی اپنی توانائی سے آگے بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہیں۔ نئے الفاظ انہیں جوان رکھتے ہیں اور افکارِ نو اس کا رشتہ آنے والے زمانوں سے بھی استوار رکھتے ہیں۔ زبان زمانہ نہ سہی لیکن زمانہ کے سرمایہ کی حامل اور محافظ تو ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

    افسانہ: پس منظر و پیش منظر

 

 

افسانہ نگاری کے کسی بھی نوع کے مطالعہ کے ضمن میں اس اساسی سوال کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ کیا افسانہ کے ارتقائی مدارج کا مطالعہ معروف افسانہ نگاروں کے انفرادی فن کے حوالہ سے مفید ثابت ہو گا کہ اس کے برعکس افسانہ نگاری کے انداز اور اسلوب میں تغیرات کا موجب بننے والے رجحانات کا تجزیہ و تحلیل زیادہ ضروری ہے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ سب سے پہلے ان رجحانات و میلانات کا تعین زیادہ ضروری ہے جو افسانہ نگاروں کو مروج اور خصوصی انداز تبدیل کرنے کے لیے محرک بن جاتے ہیں۔ جہاں تک رجحانات، میلانات اور ان کی باہمی اثر انگیزی کا تعلق ہے تو یہ سب معاشرہ میں کارفرما اجتماعی رویوں، اقتصادی صورت حال، روحانی اقدار، تہذیبی عناصر، ثقافتی ترجیحات، ٹیبوز اور متعدد دیگر عوامل و محرکات سے مشروط ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ان داخلی تضادات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے جو ہر معاشرہ میں پائے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ داخلی تضادات لہر در لہر اور دائرہ در دائرہ ہوتے ہیں۔ پرسکون اور عدم تناؤ والے معاشرہ میں داخلی تضادات زیادہ فعال نہیں ہوتے لیکن ہمارے پُر تناؤ معاشرہ میں یہ نسبتاً زیادہ فعال اور انتہا پسندی کی صورت میں تو زیادہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثال کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، وافر مثالیں پیش کرنے کے لیے اپنا معاشرہ ہی کافی ہے۔

معاشرہ کی اجتماعی صورت حال سے مرتب ہونے والا "گیسٹالٹ” ہی وہ تناظر ہے جس میں افسانہ نگاری سمیت دیگر تخلیقی اصناف کا تجزیہ و تحلیل ہونی چاہیے۔

اردو افسانہ کی صدی، افسانہ نگاری کے حوالہ سے ثمر مند قرار دی جا سکتی ہے۔ معروف افسانہ نگاروں کے تابندہ اسماءکی ایسی کہکشاں ملتی ہے جو فنِ افسانہ نگاری کے کڑے سے کڑے معیار پر بھی "کم عیار” نہ ثابت ہو گی۔ نہ جانے یہ ادوار بندی درست ہے یا نہیں لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ افسانہ نگاری کے بدلتے رجحانات، میلانات اور انداز و اسلوب کے تجربات کے لحاظ سے افسانہ نگاری کے یہ دور طے کیے جا سکتے ہیں۔ (۱) پریم چند سے آغاز کر کے ترقی پسند ادب کی تحریک (۶۳۹۱) تک اس دور میں سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری ، مجنون گورکھ پوری کے ہاں حسن کاری کا وہ اسلوب ملتا ہے جسے "رومانیت” کہا جاتا ہے۔

(۲) ۶۳۹۱ءسے ترقی پسند ادب کی تحریک کا آغاز ہوا جسے پاکستان میں جبراً بند کیا گیا مگر جو بھارت میں ہنوز بھی فعال اور متحرک ہے۔ ترقی پسند ادب کی تحریک آزادی، احتجاج، ٹیبو شکنی، بغاوت اور ادب برائے زندگی کی تحریک تھی "انگارے” (۶۳۹۱) کے افسانے فنی لحاظ سے اتنے جاندار نہ تھے جتنا توانا ان کا احتجاج تھا اور دیکھا جائے تو اردو افسانہ کے بڑے رجحان ساز اور اسلوب گر افسانہ نگار اسی تحریک سے وابستہ تھے۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، یہ محض چند نام نہیں بلکہ افسانہ کے ارتقا کی کڑیاں ہیں۔ ان کے متوازی ممتاز مفتی، محمد حسن عسکری، غلام عباس، ممتاز شیریں، بانو قدسیہ، اشفاق احمد ہیں جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں زندگی کی موثر ترجمانی کرتے ہوئے اردو افسانہ کو ثروت مند بنایا۔

(۳) انتظار حسین، انور سجاد، عبداللہ حسین، خالدہ حسین، محمد منشا یاد، اسد محمد خاں سے وہ دور شروع ہوتا ہے جسے بالعموم علامت اور تجرید سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس امر کے باوجود کہ سبھی نہ تو علامت نگار تھے اور نہ ہی تجرید پسند بلکہ حق تو یہ ہے کہ سب کچھ کہہ سن کر بھی ابھی تک یہ نہ طے پا سکا کہ علامت اور تجرید ہیں کیا، ہر نقاد اپنے مطالعہ کی روشنی میں علامت اور تجرید کی تعریف اور اس کی حدود طے کرتا ہے اور بہت لکھا جانے کے بعد بات اسی پر ختم ہوتی ہے کہ علامت انتظار حسین کی تخصیص ہے اور تجرید انور سجاد کی۔ اس ضمن میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انور سجاد نے گزشتہ پندرہ برس سے کوئی افسانہ نہ لکھا۔

یہ جو چند نام لیے گئے تو تکنیک و اسلوب میں انفرادیت اور زندگی ، عصر اور معاشرہ کے بارے میں ان کے نقطہ نظر میں اتنے اختلافات ہیں کہ انہیں ایک مالا میں پرویا نہیں جا سکتا ہے۔

ادب میں دائمی شہرت کا مسئلہ بھی عجب ہے کہ کسی کو بن مانگے ملتی ہے تو کوئی عمر بھر سرسوتی کا بھگت بنا رہے مگر توجہ سے محروم رہتا ہے۔ یہاں تک لکھ پایا تھا کہ دہلی کے "ایوان اردو” (نومبر۲۰۱۳) کا شمارہ ملا جس میں ڈاکٹر مبشر احمد قادری کا مقالہ "لطف الرحمن کی تنقید افسانوں کے حوالے سے” شائع ہوا ہے۔ جس میں مقالہ نگار کے بقول "عابد سہیل کے رسالہ ماہنامہ "کتاب” (لکھنؤ) نے اپنے قارئین سے اردو کے افسانہ نگاروں کی مقبولیت سے متعلق ایک سروے کرایا تھا اور سروے کا جو نتیجہ سامنے آیا تھا وہ اس طرح تھا: اول کرشن چندر، دوئم راجندر سنگھ بیدی، سوئم غیاث احمد گدی اور چہارم قرة العین حیدر”۔ ہمارے ہاں صورت حال اس سروے کے برعکس ہے۔ شاید ہی افسانہ کے بارے میں تنقیدی مقالات میں کبھی کرشن چندر یا راجندر سنگھ بیدی کا نام لیا جاتا ہو بلکہ قرة العین حیدر صرف ناولوں کے باعث معروف ہیں۔

ہمارے ہاں اگر ایسا سروے کرایا جائے تو اول سعادت حسن منٹو اور دوئم انتظار حسین ہوں گے۔ جبکہ سوئم کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ اپنی پسند کے افسانہ نگار کا نام لکھ سکتے ہیں۔

اس سروے سے یہ نکتہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار (یا کسی بھی ادیب شاعر) کی مقبولیت کا گراف عمودی سے افقی بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے حال کی شہرت (جس میں کئی غیر تخلیقی وجوہ بھی شامل ہوتی ہیں) پر اترانا بے کار ہے کہ چڑھی پتنگ ایک ثانیہ میں کاغذ کے چیتھڑے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا!

تکنیک اور اسلوب میں کچھ تجربات کے باوجود بھی بنیادی حقیقت یہی ہے کہ پریم چند سے افسانہ نگاری میں بیانیہ کا آغاز ہوا تو یہ انداز ہنوز بھی کارآمد اور اس لیے مقبول رہا ہے کہ جب علامت اور تجرید کا غلغلہ تھا تو اس کے متوازی بھی بیانیہ افسانہ لکھا جاتا رہا اور یہ کہنا غلط یا مبالغہ نہ ہو گا کہ افسانہ کے قارئین کی بیانیہ افسانہ سے جو کنڈیشننگ ہو چکی، اتنی مضبوط ہے کہ اب ڈی کنڈیشننگ آسان نہیں ہے۔ بیانیہ سے کانوں کی کنڈیشننگ محض افسانہ کے مطالعہ کے باعث نہیں ہوتی بلکہ ماں دادی نانی کے بچوں کو کہانی سنانے سے شروع ہوتی ہے۔ اس طرح نفسیاتی تحقیقات سے یہ بھی ثابت کیا جا چکا ہے کہ جن بچوں نے کم سنی میں لوریاں سنی ہوتی ہیں انہیں آواز اور سُر سے نسبتاً زیادہ رغبت ہوتی ہے۔

پلاٹ، کردار، زبان (بصورت اسلوب ، مکالمات، بیانات) کو افسانہ کی اساس تصور کیا جاتا رہا ہے جو کہ غلط نہیں کہ ان ہی کے فن کارانہ استعمال سے معمولی سا واقعہ افسانہ بن جاتا ہے اور عام سا فرد افسانہ میں Larger Than Life کردار ثابت ہوتا ہے۔ افسانہ کے آغاز، واقعات کے ظہور، کرداروں کے تعارف اور ان کی کشمکش اور اس کے نتیجہ میں جنم لینے والا نقطۂ عروج اور بالآخر افسانہ کا اختتام یہ سب متعین اور اسی لیے طے شدہ سمجھے جاتے تھے چنانچہ افسانہ کی تشکیل کو گراف کی صورت میں یوں واضح کیا جاتا تھا۔

ج

د      ب_____ا

الف تا ب افسانے کا آغاز، کرداروں کا تعارف اور واقعات کا آغاز۔ ب تا ج کرداروں کی باہمی کشمش اور واقعات کے الجھاؤ سے جنم لینے والا نقطۂ عروج (ج) اس کے بعد بتدریج افسانہ کا اختتام (د)۔

یہ گراف واحد اور قطعی نہ تھا ۔ افسانہ کے موضوع کے لحاظ سے گراف میں تبدیلیاں ہوتی رہتی تھیں جبکہ مہماتی، جاسوسی افسانوں میں ایک سے زائد نقطۂ عروج بھی ہو سکتے تھے۔

افسانہ میں پلاٹ پر بہت زیادہ زور دیا جاتا تھا چنانچہ پلاٹ میں جھول ناپسندیدہ تھا۔ واقعات کی مربوط کڑیاں اچھے پلاٹ کے لیے لازم تھیں لیکن کب تک۔ کرشن چندر کا "دو فرلانگ لمبی سڑک” سعادت حسن منٹو کا "پُھندنے” میرزا ادیب کا "درونِ تیرگی”، غلام عباس کا "بہروپیا” بغیر پلاٹ کے افسانے تھے اور یہ باور کرانے کی اولین کوشش کہ پلاٹ کے بغیر بھی اچھا افسانہ لکھا جا سکتا ہے۔ اگر بغیر پلاٹ کے افسانے نہ لکھے جا چکے ہوتے تو افسانہ میں شعور کی رو ، تلازم خیال، آزاد تلازمہ اور فینٹسی کے استعمال کے تجربات بھی نہ ہوتے۔

بغیر پلاٹ کے افسانوں کا ذکر ہوا تو راشدالخیری کا "نصیر و خدیجہ” بھی بغیر پلاٹ کے افسانہ کی اولین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسے اردو کا پہلا افسانہ بھی قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اس میں پلاٹ، کردار، واقعہ کچھ بھی نہیں ملتا۔ یہ اڑھائی تین صفحات کا خط ہے جس میں بہن بھائی سے عدم توجہی کی شکایت کرتی ہے۔ ایسا خط جو غالباً ہزاروں بہنوں نے بھائیوں کو لکھا ہو گا اور لکھتی رہیں گی۔

ترقی پسند افسانہ نگاروں نے انسان کا کلٹ بنا کر خارجی حقیقت نگاری پر اتنا زور دیا کہ انسان کے باطن اور سائیکی کو فراموش کر دیا گیا اس کمی کو علامتی اور تجریدی افسانہ نے پورا کیا۔ اس انداز کا افسانہ اس لیے لکھنے کی سہولت حاصل ہوئی کہ شعور کی رو، تلازم خیال، آزاد تلازمہ اور فینٹسی کے باعث افسانہ کے بیانیہ کو ایسے آلات مل گئے کہ ذہن کے بحران، سائیکی کے نہاں خانہ، اعصاب کے دھمال اور روح کے حشر کی تصویر کشی آسان ہو گئی ۔ ادھر فرائیڈین تحلیل نفسی اور لاشعور کے تصور نے بھی پہلی مرتبہ یہ احساس کرایا کہ لاشعور شعور سے زیادہ قوی ہی نہیں بلکہ تخلیقات کے لیے قوی محرک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں اگر ژونگ کے اجتماعی لاشعور ، آرکی ٹائپس اور Primordial Images کو بھی شامل کر لیں تو بات قدیم ترین انسانی آباء ۂ۰۱۳اور تاریخ کے بعید ترین گوشوں تک جا پہنچتی ہے۔ یقیناً تمام افسانہ نگار انہیں بروئے کار نہ لائیں گے تاہم اتنا تو طے ہے کہ اب افسانہ نگاروں کے پاس جدید ترین نفسی آلات موجود ہیں۔

شعور کی رو کا ذکر ہوا تو اس ضمن میں عرض ہے کہ فکشن کی تنقید میں اس اصطلاح کا استعمال عام ہے لیکن ایک خرابی یہ ہے کہ انگریزی اصطلاحات کے ناقص ترجمہ یا غلط تشریح کی وجہ سے اصطلاح اس مفہوم سے دور ہو جاتی ہے جو اس کی روح ہوتا ہے اور جس میں اس کے استعمال کا جواز مضمر ہوتا ہے۔

شعور کی رو (Stream of Conscious) کا نظریہ امریکی ماہر نفسیات ولیم جیمز کی مایہ ناز کتاب (Principles of Psychology 1890) میں پہلی مرتبہ مدون کیا گیا۔ ولیم جیمز نے دلائل سے ثابت کیا کہ انسان کا شعور ٹھوس ، ساکت، پرسکون اور جامد نہیں بلکہ یہ دریا کی موجوں کی مانند ہر وقت متحرک رہتا ہے۔ لہر کے بعد لہر کی مانند شعور میں بھی خیالات کے دھارے، سوچ کی لہریں اور تصورات کی روئیں ملتی ہیں۔ شعور کبھی بھی ساکت نہیں ہوتا بلکہ دریا کی مانند مسلسل بہاؤ میں رہتا ہے۔

ولیم جیمز نے شعور کی رو کی چار خصوصیات بیان کی ہیں:

۱۔ ہر ذہنی حالت کسی ذاتی شعور کا جزو ہوتی ہے۔

۲۔ ذاتی شعور سے وابستہ تمام ذہنی کیفیات ہر دم متغیر رہتی ہیں۔

۳۔ ذاتی شعور کی ہر حالت میں تسلسل ہوتا ہے ۔

۴۔ ذاتی شعور کی ہر حالت اشیا اور وقوعات میں رد و بدل کرنے کے باعث بعض میں تو دل چسپی ظاہر کی جاتی ہے جب کہ بعض کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔

اب مندرجہ بالا کو ذہن میں رکھ کر فکشن کی تنقید میں شعور کی رو کے استعمال کو دیکھئے تو اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح اس اصطلاح کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ خاص طور پر قرة العین حیدر کے "آگ کا دریا” کے ضمن میں جیمز جوائس نے ULYSES میں شعور کی رو کا ماہرانہ استعمال کیا ہے۔ ناول کے اختتام پر جب مولی ہر آن خاوند کی پائنتی لیٹی ہوئی "سوچ” رہی ہے۔ جیمز جوائس نے اس عبارت میں نہ تو کومہ اور فل سٹاپ استعمال کیا اور نہ ہی کوئی فقرہ کیپٹل لیٹر سے شروع ہوتا ہے۔ یوں کئی صفحات کی "سوچ” ایک طویل پیراگراف کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ادھر ہم جب "سوچتے” ہیں تو شعور کی رو کا عمل مسلسل ہوتا ہے ہم پنکچویشن، پیراگرافس اور کیپٹل لیٹرز کی صورت میں نہیں "سوچتے” اسی لیے جیمز جوائس نے بھی کردار کی "سوچ” کو ذہن میں شعور کی رو کی مانند "سیّال” رکھا۔

جہاں تک تلازم خیال (Association of Idea) کا تعلق ہے تو اسے کارل گستاؤ ژونگ نے اعصابی خلل کے مریضوں کی علامات کی تشخیص کے لیے سب سے پہلے استعمال کیا، بعد ازاں فکشن رائٹرز بھی اسے بروئے کار لائے مگر خالص صورت میں اس کا استعمال ممکن نہ تھا لہٰذا اسے داخلی خود کلامی کے لیے استعمال کیا گیا۔

تلازم خیال شعور کے مطالعہ اور شخصیت پر اس کے اثرات کے مطالعہ کا ایک انداز ہے، جس طرح چراغ سے چراغ جلتا ہے اسی طرح لاشعوری اثرات کے باعث لفظ سے خاص مفہوم وابستہ ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا اپنے مزاج، دلچسپی، ذوق، نفسی کیفیات اور اعصابی تموج کے زیر اثر ایک ہی لفظ مختلف انداز میں مخالف، برعکس بلکہ متنوع تہییحات کا باعث بنے گا جیسے :

۱۔ سفید ۔ سفید چاک، تختہ سیاہ، کلاس رو م، سکول، حرامی ہیڈ ماسٹر

۲۔ سفید۔ گوری لڑکی، سفید دوپٹہ، سفید بال، سفیدی (دیوار کی)

۳۔ سفید۔ سفید چادر ، پلنگ، کمرہ، شادی، بچے

تلازم خیال کے ٹیسٹ میں ایک لفظ دے کر کہا جاتا ہے کہ اس لفظ سے جو بھی الفاظ ذہن میں آئیں، رکے اور سوچے بغیر ، انہیں بولتے جانا ہے۔ لیکن لفظ بولتے بولتے ایک مقام ایسا آتا ہے جب ذہن خالی ہو جاتا ہے اور مزید کوئی لفظ نہیں سوجھتا اور اسی سے لاشعور کی مزاحمت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اسے ذہن میں رکھ کر دیکھیں تو ہمارے کسی افسانہ نگار نے بھی تلازم خیال کو اس کی درست نفسیاتی صورت کے مطابق استعمال نہیں کیا لہٰذا ہمارے افسانہ میں خود کلامی، باطنی سوچ، تلازم خیال قرار پائی جب یہ عالم ہو تو پھر آزاد تلازمہ (Free Association) اور فینٹسی کا تو ذکر ہی کیا۔

اردو افسانہ کی صدی کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ترقی پسند ادب کی صورت میں ایسی فعال، توانا، پر مقصد تحریک ملتی ہے جس نے پہلی مرتبہ احتجاج اور بغاوت کے قرینے سکھائے۔ ترقی پسند ادیبوں نے منفی، اقدار، ٹیبوز، ظلم، جبر، غلامی، استحصال کو اہداف قرار دیا اور تمام تخلیقی اصناف کو انقلاب آشنا کر دیا۔ پاکستان میں تحریک کی جبری بندش کے باوجود بھی نظریہ کے طور پر ترقی پسندی کے تصورات ہنوز بھی کارآمد اور موثر ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جب تک ظلم، جبر، استحصال، مذہبی انتہا پسندی ، جاگیرداری، بنیاد پرستی، مُلائیت اور اسی نوع کی "منفیت” کا چلن رہے گا اس وقت تک ترقی پسندانہ سوچ اور اس پر مبنی رد  تنا تو طے ہے کہ اب افسانہ نگار عمل بھی ہوتا رہے گا لیکن اور یہ "لیکن” بہت بڑی ہے کہ احتجاج اور بغاوت کے لیے اہداف مقرر اور مخصوص نہیں بلکہ ہر معاشرہ کی مخصوص صورت حال ان اہداف کا تعین کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ تاریخی، سیاسی اور عمرانی عوامل و محرکات کے زیر اثر اہداف تبدیل بھی ہو سکتے ہیں جیسے ترقی پسندوں کے روایتی ظالم جاگیردار اور استحصال کرنے والے سرمایہ دار کے مقابلہ میں آج مذہبی انتہا پسندی، اجتماعی جنون (جس کا مظاہرہ قتل و غارت گری اور آتش زنی کی صورت میں ہوتا رہتا ہے)، دہشت گردی، بنیاد پرستی خرد دشمنی، مُلائیت کہیں زیادہ خوف ناک ہیں مگر تیکنیک کی مہارت، اسلوب کی چابک دستی اور نیت کی نیکی کے باوجود بھی (بوجوہ) خوف ناک معاصر صورت حال کی تشریح اور اسباب و علل کے تجزیہ پر خود کو قادر نہیں پاتے ۔۔ نہ بھائی ہماری تو ہمت نہیں!

کہتے ہیں کہ تاریک سرنگ میں سفر کے اختتام پر روشنی کا دائرہ استقبال کر کے تاریکی میں سفر کا "انعام” ثابت ہوتا ہے مگر ہم جو تاریک راہوں میں مارے جا رہے ہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ کس جرم کی پاداش میں مارے جا رہے ہیں۔ تاریکی میں بے سمت سفر کرنے والوں کو اختتام پر روشنی کے برعکس مزید تاریکی ہی کا انعام ملے گا۔

معافی چاہتا ہوں کہ حالات کے ڈیپریشن نے مجھے تو قنوطی بنا دیا ہے۔ یہی خون آشامی ، اجتماعی جنون، عقیدہ اور مسلک کی نفرت، بنیادی پرستی کی کانٹوں بھری فصل اور ان سب کا پیدا کردہ خوف، اس خوف کا پیدا کردہ تناؤ اور اس تناؤ کا پیدا کردہ اعصابی خلل تو یہ ہے آج کے افسانہ نگار کے لیے چیلنج اور تخلیقی تناظر۔

کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق؟

٭٭٭

ماخذ: سہ ماہی اجراء ، کراچی

http://ijrakarachi.wordpress.com/tag/dr-saleem-akhtar/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید