FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

علامہ دانش کے ۶ کارنامے

 

 

معراج

 

 

انتخاب و پیشکش: محمد انیس الرحمٰن

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ  کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

فہرس

 

۱۔نارنجی بیل. 3

۲۔ پراسرار غار میں ​ 15

۳۔  ڈو ڈو کی تلاش.. 24

۴۔ چمکنے والے پھول​ 36

۵۔ سونٹے والا بھوت.. 45

۶۔بھُوتوں کی بستی. 56

 

 

 

 

 

۱۔نارنجی بیل

 

باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم سب برآمدے میں کھڑے بارش کا نظارہ کر رہے تھے۔ ایک ٹیکسی ہمارے دفتر کے باہر آ کر رکی اور اس میں سے ہمارے معزز دوست علامہ دانش اترے۔ انہوں نے حسبِ معمول برساتی کوٹ پہنا ہوا تھا، سر پر ترکی ٹوپی، پاؤں میں فل بوٹ، ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں چھتری تھی۔

علامہ کمرے میں داخل ہوئے، آزونا نے برساتی اتاری اور کھونٹی پر لٹکا دی۔ نصر نے پوچھا، "علامہ صاحب! خیریت تو ہے ؟”

علامہ نے جیب سے ایک لفافہ نکالا اور مرشد کی طرف بڑھا دیا۔

مرشد بلند آواز سے خط کا مضمون پڑھنے لگا۔ ؎”محترم علامہ صاحب!

ایک مریض جس کا نام رشید نوری ہے، سخت بیمار ہے اور وہ آپ سے ملنے کا بہت آرزومند ہے۔ مہربانی فرما کر آپ جلد تشریف لے آئیں۔

داروغہ پاگل خانہ فوزیہ، قاہرہ”

مرشد نے مسکرا کر کہا، "اللہ خیر کرے۔ اب تو پاگل خانے سے بھی خطوط آنے لگے۔ ”

علامہ نے تیز نظروں سے مرشد کو گھور کر دیکھا اور بولے، "رشید نوری ان لوگوں میں سے ہے جو تحقیق اور مطالعہ میں اپنی زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ میں تحقیقات کر رہے تھے کہ اچانک لا پتا ہو گئے۔ ڈیڑھ سال بعد اطلاع ملی کہ یہ پاگل خانے میں بند ہیں۔ ”

کپتان مرشد نے پوچھا، "اب آپ کا کیا ارادہ ہے ؟”

علامہ نے کہا، "اب ہمیں قاہرہ چلنا ہے۔ ”

موسم خوشگوار ہوتے ہی ہم قاہرہ کی طرف پرواز کرنے لگے۔ دو گھنٹے بعد ہمارا ہیلی کاپٹر قاہرہ کے ہوائی اڈے پر اترا۔ ہم رشید نوری سے ملے تو اس کا حال بہت خراب تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ تھوڑی دیر کا مہمان ہے۔

رشید نوری نے کہا، "علامہ صاحب! میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ کو وسطی افریقہ کے سفر کا حال سنا سکوں۔ ”

یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش رہا۔ پھر اس نے اپنی داستان شروع کی:

"میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کے سلسلے میں وسطی افریقہ کے جنگلوں میں کام کر رہا تھا کہ راستہ بھٹک کے غیر آباد اور سنسان صحرا کی طرف جا نکلا۔ صحرا کے اندر ایک پہاڑی سلسلہ تھا۔ میرے ساتھ جو قلی تھے ان میں عجیب طرح کی بے چینی پیدا ہو گئی۔ ایک قلی نے سواحلی زبان میں مجھے بتایا کہ ان پہاڑوں پے بھوت پریت رہتے ہیں جو لوگوں کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے مجھے آگے جانے سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں ہر صورت آگے جانا چاہتا ہوں تو ان جنگلی لوگوں نے سامان پھینک دیا اور وہاں سے بھاگ گئے۔ میں یہ صورت حال دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ میں نے اپنا سفر جاری رکھا اور پہاڑیوں کے پاس جا پہنچا۔ میں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ پہاڑی کے پاس دور دور تک خار دار پودے اگے ہوئے تھے، جو چھو جائیں تو جسم میں شدید جلن پیدا ہو جاتی ہے۔ میں ابھی ان پودوں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک کہیں سے عجیب الخلقت لوگوں کا ایک غول برآمد ہوا اور ان لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔ ان لوگوں کا رنگ سفید تھا، سنگ مرمر کی طرح سفید۔ لیکن اس میں زندگی کی گرمی کے بجائے موت کی زردی پائی جاتی تھی۔ ”

یہ کہہ کر رشید نوری کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ شاید وہ اتنی دیر بولتے بولتے تھک گیا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا، "وہ لوگ مجھے اپنے ساتھ پہاڑی پر لے گئے۔ وہاں زمین بالکل ہموار تھی اور وہاں پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ یہ لوگ ڈابو قبیلے کے تھے اور دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے کاشتکاری میں کمال حاصل کر لیا تھا اور ایسے ایسے پودے اور جڑی بوٹیاں دریافت کر لی تھیں جن کا علم دنیا والوں کو بھی نہیں تھا۔ انہوں نے ایسی طاقت بخش دوائیں تیار کر لی تھیں جن کے استعمال سے انسان کی صحت اور قوت بحال رہتی اور وہ بہت عرصے تک بڑھاپے سے محفوظ رہتا ہے۔ ”

یہ کہہ کے رشید نوری کچھ دیر کے لیے پھر خاموش ہو گیا۔

اس نے پھر کہا، "پھر ان کا بڑا پجاری آ گیا۔ اس نے ایک تیز نوکدار چیز میرے ماتھے میں چبھو دی۔ میں درد کی شدت سے بے ہوش ہو گیا۔

جب مجھے ہوش آیا تو پجاری نے کہا، "اب تم ہمیشہ کے لیے ہمارے غلام بن کر رہو گے۔ میں نے تمہارے سر میں ایک بیج کاشت کر دیا ہے۔ صرف ایک خاص عرق اس پودے کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔ جب تک تم یہ عرق پیتے رہو گے اس بیج کی نشو و نما رکی رہے گی۔ جب تم عرق پینا چھوڑ دو گے تو یہ پودا جڑ پکڑ لے گا۔ اس کی جڑیں تمہارے دماغ میں پیوست ہو جائیں گی اور تم سے پٹخ پٹخ کر مر جاؤ گے۔ ”

میں ایک سال تک ان لوگوں کے پاس مقیم رہا۔ میں نے ان لوگوں کے طور طریقے دیکھے۔ وہ جو عجیب و غریب پودے کاشت کرتے تھے۔ میں ان کی قید سے فرار ہو گیا۔ میں بہت تکلیفیں اٹھا کر ساحل تک پہنچا۔ وہاں سے ایک کشتی میں سوار ہو کر قاہرہ پہنچ گیا۔

یہاں پہنچتے ہی میرے سر میں تکلیف ہونے لگی۔ میں جان گیا کہ پجاری نے میرے سر میں جو بیج اگایا تھا، اس نے جڑ پکڑ لی ہے۔ میں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں سے علاج کروایا لیکن یہ مرض کسی کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ ایک ڈاکٹر نے فیصلہ دے دیا کہ جنگلوں میں مارے مارے پھرنے سے میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ چناں چہ لوگوں نے نے مجھے پاگل خانے میں بند کروا دیا۔ ”

یہ کہہ کے رشید نوری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ علامہ کا دل بھی بھر آیا۔ وہ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے رہے اور رشید نوری کو تسلی و تشفی دیتے رہے۔

جب ہم وہاں سے لوٹے تو علامہ کا مزاج بہت برہم تھا۔ داروغہ پاگل خانے نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو علامہ جھڑک کر بولے، "دنیا کے سب سے بڑے پاگل! اپنا ناپاک ہاتھ دور رکھ۔ تمہیں تو پاگل اور ہوش مند کا فرق تک معلوم نہیں ہے۔ ”

رشید نوری کو علامہ نے ایک بوٹی کھلائی جس سے اس بیج کا اثر زائل ہو گیا۔

راستے میں علامہ نے بار بار یہ مصرعہ پڑھا، "خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد”

علامہ دانش نے کہا، "میرا ارادہ ہے کہ میں وسطی افریقہ جا کر خود تحقیق کروں۔ مجھے نباتات سے بہت دلچسپی ہے اور پھر وہاں عجیب و غریب لوگ بھی تو ہیں جو کئی سو سالوں سے وہاں آباد ہیں۔ ”

آزونا نے دبی دبی آواز میں کہا، "کہیں ہمارا حشر بھی رشید نوری جیسا نہ ہو۔ ”

کپتان مرشد نے ڈانٹ کر کہا، "چپ نالائق! ایسی فضول باتیں نہیں کرتے۔ ”

کئی دن بعد ہم وسطی افریقہ پہنچے۔ یہ سفر خاصا دشوار ثابت ہوا۔ ہم بہت سا ضروری اور غیر ضروری سامان اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ رشید نوری نے بہت اچھی طرح ہمیں راستہ سمجھا دیا تھا۔ اس لیے صحرائی پہاڑیوں تک پہنچنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ پہاڑی کے چاروں طرف دلفریب گھنا جنگل تھا۔ درختوں اور پودوں کا رنگ بہت گہرا سبز تھا۔ ہم نے پہاڑی کے اوپر پرواز کی۔ اس پر ایک چھوٹی سی بستی آباد تھی۔ اس کے درمیان ایک مندر تھا۔ علامہ دانش نے کہا، "رشید نوری کی کہانی کا یہ حصہ تو صحیح ثابت ہوا۔ اب بستی کے لوگوں کے متعلق تحقیقات کرنا باقی ہیں۔ ”

ہم نے اپنا جہاز ریگستان میں اتار لیا۔ ہم جہاز سے نیچے اترے۔ ہمارے نزدیک ہی پہاڑی تھی۔ اس کے آس پاس بہت اونچے اونچے درخت اور بے حد سنز رنگ کے پودے اگے ہوئے تھے۔ علامہ دانش نے جیب سے نوٹ بک نکالی اور کچھ لکھنے میں مصروف ہو گئے۔ ہمارے سامنے ناگ پھنی کے بڑے بڑے پودے تھے جن کے کانٹے ایک گز لمبے تھے۔ بعض پودے تو اتنے بڑے تھے کہ انہیں دیکھ کر دہشت ہوتی تھی۔

میں ناگ پھنی کے پودوں کی طرف چلا۔ اچانک علامہ نے چیخ کر کہا، "ٹھہر جاؤ، آگے خطرہ ہے۔ ”

میں ٹھٹھک کر ٹھہر گیا۔ علامہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیا اور زمین کی طرف اشارہ کر کے بولے، "یہ بھی دیکھا ہے تم نے ؟”

میں نے غور سے زمین کی طرف دیکھا۔ اللہ کی پناہ، یوں لگتا تھا کہ جیسے بے شمار برچھیاں زمین سے سر نکالے کھڑی ہیں۔ علامہ دانش نے کہا، "اس کا نام ہسپانوی خنجر ہے۔ ویسے تو یہ ایک قسم کی گھاس ہے مگر تیزی میں خنجر و تلوار سے کم نہیں ہے۔ یہ موٹے سے موٹے چمڑے کو کاغذ کی طرح پھاڑ دیتا ہے۔ اگر تم ان پر پاؤں رکھ دیتے تو ایسا زخم پڑ جاتا جو بہت مشکل سے ٹھیک ہوتا۔ یہ گھاس پہاڑی کے دامن میں بیس فٹ چوڑائی میں پھیلی ہوئی تھی۔

میں نے کہا، "یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ پودے خود نہیں اگے، بلکہ انہیں باقاعدہ کاشت کیا گیا ہے۔ ”

مرشد نے کہا، "یہاں کسی ٹینک میں بیٹھ کر ہی گزرا جا سکتا ہے۔ ”

علامہ بولے، "ایک راستہ ان ہی کانٹے دار پودوں اور خنجر کھاس کے درمیان سے ہوتا ہوا پہاڑی کے اوپر جاتا ہے۔ ”

بہت مشکل سے ہم نے یہ راستہ تلاش کر لیا۔ یہ بہت ٹیڑھا ترچھا اور تنگ سا راستہ تھا۔ مرشد بولا، "میں ان پہاڑی لوگوں کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کوئی فوج بھی پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کرے تو اسے ایک قطار بنا کر یہاں سے گزرنا ہو گا۔ ”

علامہ بولے، "پھر اسے خاردار پودوں کے پاس سے گزرنا ہو گا۔ ان کے کانٹے ایسے زہریلے اور خطرناک ہیں کہ اگر کسی کو چبھ جائیں تو وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے گا لیکن اس کا علاج نہیں ہو سکے گا۔ ”

میں نے پوچھا، "اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہے ؟”

علامہ بولے، "زہر آلود گل لالہ، جو دیکھنے میں بے حد خوبصورت پھول ہے لیکن اس سے زہریلی گیس نکلتی ہے۔ ان کے پاس سے گزرنے والا چند منٹ میں بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ اس کے علاوہ آدم خور درخت ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کے پاس سے گزرنے کی غلطی کر بیٹھے تو اس کی شاخیں اسے چکڑ لیں گی اور ذرا سی دیر میں اس کا گوشت پوست کھا جائیں گی۔ بچھوا بوٹی ہے جو ڈنک مار کر ہلاک کر دیتی ہے اور۔۔۔ ”

مرشد گھبرا کر بولا، "آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں ان با توں سے آگاہ کر دیا۔ میرا ابھی خودکشی کا ارادہ نہیں ہے۔ میرا ارادہ تو یہ ہے کہ آپ ابھی جہاز پر تشریف لے چلیے۔ ”

علامہ دانش بولے، "کاش ہم ان لوگوں کو کسی طرح سمجھا سکتے کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔ ”

ہم نے خنجروں کی باڑ کے ارد گرد پھر دیکھا، لیکن ہمیں کوئی شخص نظر نہیں آیا۔

آزونا کانپتے ہوئے بالا، "مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہجیسے لوگ ہماری نگرانی کر رہے ہیں اور چھپ کر ہماری باتیں سن رہے ہیں۔ ”

رات کے وقت ہم بہت دیر تک گپ شپ کرتے رہے۔ جب نیند نے غلبہ کیا تو ہم سونے کے لیے بستروں پر لیٹ گئے۔ ارے صاحب! بستر کیسے ؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جہاز کے نیچے نرم نرم ریت پر کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے۔ ہم نے باری باری پہرا دینے کا فیصلہ کیا۔

سب سے پہلے آزونا کی باری تھی۔ اس نے آدھی رات کے وقت ہمیں جگایا۔ وہ بولا، "مجھے بے چینی محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ لیکن کیا؟ یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ”

جب علامہ نے دریافت کیا تو وہ بولا، "مجھے ایسی آواز سنائی دی کہ جیسے اولے پڑ رہے ہوں، حالاں کہ مطلع صاف ہے۔ ”

اس پر مرشد جھنجلا کر بولا، "تم نرے وہمی ہو۔ ”

آزونا قسم کھا کر بولا، "میری منہ پر مٹر کے دانے کے برابر کوئی چیز بہت زور سے ٹکرائی، پھر یوں محسوس ہوا جیسے اولے گر رہے ہوں۔ ”

ہم نے ٹارچ کی روشنی میں ادھر ادھر دیکھا لیکن ہمیں کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ اب مرشد کی باری تھی۔ وہ صبح تین بجے تک پہرا دیتا رہا۔ پھر اس نے مجھے جگایا۔ اس نے بھی کوئی بات نہیں دیکھی اور نہ کوئی آواز سنی۔ وہ بستر پر لیٹ کر سو گیا۔ اب میری باری تھی۔ میں ایک گھنٹے سے ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔ کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ میں جہاز کے پہیے پر بیٹھ گیا۔ صبح سے ذرا دیر پہلے میں نے عجیب سی آواز سنی۔ پتوں میں ہوا کے گزرنے سے جو سرسراہٹ ہوتی ہے، یہ آواز اس جیسی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ سرسراہٹ چاروں طرف سے سنائی دے رہی تھی۔ پھر کوئی چیز میرے پاؤں پر رینگنے لگی۔ میں نے جھک کر دیکھا، یہ کوئی کیڑا سا تھا، جو زمین سے باہر نکل رہا تھا۔ میں نے اسے کیچوا سمجھا اس لیے اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا۔ اب صبح کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلنے لگی تھی۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ اللہ کی پناہ، ایک دو نہیں ہزاروں کیڑے زمین سے نکل رہے تھے۔ میں نے جھک کر غور سے دیکھا تب معلوم ہوا کہ جنہیں میں کیڑے سمجھ رہا تھا وہ پودے تھے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہ پودے بڑھنے لگے اور ان سے شاخیں اور پتیاں پھوٹنے لگیں۔ میں نے کئی پودے دیکھے ہیں جو تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں۔ بانس کا پودا ایک دن میں ڈیڑھ دو فٹ تک بڑھ جاتا ہے لیکن ہمارے جہاز کے ارد گرد جو بیل اگ رہی تھی اس کے بڑھنے کی رفتار تو حیرت انگیز تھی۔ پہلے تو میں کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں ؟ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیلیں دو تین فٹ سے زیادہ لمبی ہو گئیں۔ کچھ بیلیں تو ہمارے جہاز پر چڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

پھر اچانک مجھے ہوش آ گیا۔ مجھ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آزونا نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ اس نے جو ژالہ باری کی آواز سنی تھی وہ ان بیجوں کا چھڑکاؤ تھا جو پہاڑی باشندوں نے اوپر سے پھینکے تھے۔

جب یہ بیج زمین پر گرے تو انہوں نے جڑ پکڑ لی اور اب یہ بیلیں طوفانی رفتار سے بڑھتی جاہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد یہ جہاز کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور اس کا اڑنا نا ممکن ہو جائے گا۔ میں نے ایک چیخ ماری جسے سن کر سب بیدار ہو گئے اور میری طرف دوڑنے۔

اب روشنی کافی پھیل چکی تھی اور ہر چیز صاف نظر آ رہی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ جہاں تک نظر جاتی تھی یہ نارنجی رنگ کی بیل زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہم نے دیوانوں کی طرح بیل اکھاڑ اکھاڑ کر پھینکنا شروع کیا لیکن ادھر ہم ایک طرف سے بیل اکھاڑتے یہ دوسری طرف سے جہاز پر چڑھنے لگتی۔ مرشد چلا کر بولا، "جہاز پر سوار ہو جاؤ۔ ہمیں فوراً پرواز کرنا ہے۔ ”

سب لوگ جہاز پر سوار ہو گئے۔ بدقسمتی سے میرا پاؤں بیل میں الجھ گیا اور میں دھڑام سے زمین پر جا گرا۔ اس سے پہلے میں زمین سے اٹھ کھڑا ہوتا، بیل کی شاخیں مجھے جکڑنے لگیں۔ میں نے بیل کو اکھاڑ اکھاڑ کے پھینکا اور گرتا پڑتا جہاز کی طرف بھاگا۔ میں بہت مشکل سے جہاز پر سوار ہو سکا۔

پیل کی لچھے دار شاخیں ابھی تک میرے گلے کا ہار بنی ہوئی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے میں کوئی بہادر سورما ہوں اور کسی جنگ سے فتح یاب ہو کر لوٹا ہوں۔

بہرحال، ہم جہاز پر سوار ہو گئے۔ کپتان مرشد نے جہاز اسٹارٹ کیا۔ جب جہاز نے پرواز کی تو اس کے طاقتور انجن نے ان بیلوں کے پڑخچے اڑا دیے۔ ہم نے اوپر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ نارنجی بیل دور دور تک پھیل چکی تھی اور اب پہاڑی کی طرف سیلاب کی طرح بڑھ رہی تھی۔

علامہ دانش نے کہا، "تم نے وہ مثل سنی ہو گی کہ چاہ کن راہ درپیش۔ یعنی جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود اس میں گر جاتا ہے۔ اب اگر تم ان لوگوں کی تباہی کا منظر دیکھنا چاہو تو کچھ دیر کے لیے اور رک جاؤ۔ ”

میں نے پوچھا، "پھر کیا ہو گا؟”

علامہ بولے، "یہ طوفانی بیل اب کسی سے رکنے والی نہیں ہے۔ ذرا دیر بعد یہ پہاڑی پر چڑھ جائے گی اور۔۔ ۔ ” علامہ دانش کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ پھر بولے، "یہ تباہی انہوں نے خود اپنے ہاتھوں مول لی ہے۔ ”

کچھ دیر بعد جب ہم ایک چکر کاٹ کر واپس لوٹے تو ہم نے عجیب دہشت ناک منظر دیکھا۔ بیلوں نے پہاڑی پر چڑھ کر پھیلنا شروع کر دیا تھا۔ وہاں سے لوگوں میں ایک عجیب سی بے چینی اور دہشت پائی جاتی تھی۔ ذرا دیر بعد بیلیں پہاڑی کے اوپر پھیلنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بیل آدمیوں سے لپٹنے لگی۔ وہ لوگ بے بسی کے عالم میں چیخ و پکار کر رہے تھے لیکن اب ان کی مدد کے لیے کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ علامہ ایک ٹھنڈا سانس بھر کر بولے، "افسوس، یہ لوگ خود ہی اپنی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ ”

جب ہم واپس لوٹے تو دور دور تک نارنجی بیل پھیلی ہوئی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

۲۔ پراسرار غار میں ​

 

ہم نے علامہ دانش کے ساتھ بہت سے سفر کئے۔ ہر دفعہ ہم کوئی نہ کوئی بات دریافت کر کے واپس لوٹے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ ہم کسی خبر کی تصدیق کے لئے اس جگہ پہنچے تو بات کچھ اور ہی نکلی۔

ایک دن علامہ نے اطلاع دی کہ ہمیں بورینو چلنا ہے۔

کپتان مرشد نے پوچھا، "کس لئے ؟”

علامہ نے اپنے بیگ سے ایک اخبار کا تراشہ نکالا۔ اس میں کسی صاحب نے جن کا نام رضوان شومیر تھا، ایک مضمون لکھا تھا۔ یہ ملایا میں کاشت کار تھے اور دریائے لی لانگ کے ساتھ ساتھ ان کا ربر کا فارم پھیلا ہوا تھا۔ مضمون میں لکھا تھا کہ ایک قریبی پہاڑ میں ایک غار ہے۔ ایسا غار دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ اس غار میں موجود ہر چیز سفید ہے، بالکل دودھیا سفید رنگ کی۔ یعنی جو چمگادڑیں غار میں رہتی ہیں وہ بالکل سفید ہیں۔ سانپ، کیڑے مکوڑے اور دوسرے حشرات بھی سفید رنگ کے ہیں۔ غار کے آس پاس جھاڑیاں، پودے، درخت، گھاس پھونس غرض یہ کہ ہر چیز بالکل دودھیا سفید ہے۔ جب یہ مضمون اخبار میں چھپا تو لوگوں نے اسے ایک دلچسپ افسانہ سمجھا اور اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔

کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا آپ کا ارادہ ملایا چلنے کا ہے ؟ ممکن ہے یہ غار والی بات نری بکواس ہو۔ ”

میں نے کہا، "یہ اخبار کا تراشہ بھی کوئی پچاس سال پرانا ہے۔ ممکن ہے کہ مضمون نگار اب تک مر کھپ چکا ہو۔ پھر اس بات کی تصدیق کون کرے گا؟”

علامہ دانش نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ پھر انہوں نے بیگ سے کچھ خطوط اور کاغذ نکالے اور بولے، "بھئی میں کسی کام میں تصدیق کئے بغیر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ میں نے حکومت ملایا سے رضوان شومیر کے متعلق دریافت کیا۔ وہاں سے یہ اطلاع ملی کہ وہ تو کچھ عرصہ پہلے انتقال کر چکا ہے۔ اس کا بیٹا فریدون شومیر اب ان زمینوں کا مالک ہے۔ پھر میں نے فریدون شومیر کو خطوط لکھے اور اس سے پوچھا کہ یہ پراسرار غار اب تک موجود ہے یا ختم ہو چکا؟ اگر یہ غار موجود ہے تو اس کے قریب کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہمارا ہیلی کاپٹر اتر سکے ؟”

کپتان مرشد نے پوچھا، "پھر اس خط کا کوئی جواب موصول ہوا؟”

علامہ بولے، "جی ہاں، فریدون شومیر نے لکھا ہے کہ وہ غار اب تک موجود ہے۔ اس نے غار کو خود نہیں دیکھا۔ اس کے فارم پر کام کرنے والے لوگ بھی غار کا رخ کرنے سے بچتے ہیں۔ فریدون شومیر کے گھر کے پاس ایک دریا گزرتا ہے۔ غار وہاں سے بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ہماری مہمان نوازی کر کے اسے خوشی ہو گی۔ ”

کپتان مرشد ہنس کر بولا، "لیجئے مسئلہ تو حل ہو گیا۔ اب کوئی دشواری باقی نہیں رہی۔ ”

میں نے پوچھا، "اب سفر کب شروع ہو گا؟”

علامہ بولے، "جلد ہی۔ ”

لیکن چھوٹے چھوٹے کام ایسے در پیش آئے کہ ہم ایک مہینے تک اس مہم پر نہ جا سکے۔ آخر ہم فریدون شو میر کے ہاں پہنچے۔ فریدون بہت ہی ملنسار اور خوش اخلاق شخص ثابت ہوا۔ وہ ہم سے مل کر بے حد خوش ہوا۔ اس نے کہا، "یہ غار یہاں سے کوئی بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہاں پہنچنے کا راستہ ایک جنگل سے گزرتا ہے۔ جنگل کے بعد وہ پہاڑ ہے جہاں یہ غار ہے۔ آٹھ ہزار فیٹ کی بلندی پر چڑھنے کے بعد دودھیا سفید رنگ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دور آگے جائیں تو غار نظر آنے لگتا ہے۔ ”

علامہ نے پوچھا، "کیا اس مہم پر آپ ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے ؟”

فریدون شومیر نے کہا، "مجھے ضروری کام سے شہر جانا ہے، اس لئے میں آپ کا ساتھ نہ دے سکوں گا۔ البتہ میرا گائڈ غار تک آپ کی رہنمائی کرے گا۔ ”

اگلے روز ہم غار کی تلاش میں نکلے۔ جنگل کا سفر بہت تکلیف دہ ثابت ہوا۔ گرمی بہت شدید تھی۔ ہمارے جسم سے پسینے کی دھاریں بہنے لگیں۔ بانس کا جنگل بہت گھنا تھا۔ اس میں سے گزرتے وقت مچھروں نے یلغار کر دی۔ سانپوں کی کثرت تھی، جس کی وجہ سے ہر ایک قدم احتیاط سے رکھنا پڑتا تھا۔ سب سے بڑی مصیبت جونکیں تھیں جو کپڑوں میں گھس جاتیں اور جسم سے چپک کر خون چوسنے لگتیں۔ ان سے چھٹکارا پانے کے لئے بار بار ٹھہرنا پڑتا۔

ہم نے وہاں قدرت کی گل کاریوں کا نمونہ دیکھا۔ بے شمار رنگوں کے لا تعداد پھول کھلے ہوئے تھے۔ ان پر تتلیاں منڈ لاتی تھیں۔ وہاں صراحی دار پودے بھی تھے۔ جوں ہی کوئی بھونرا یا تتلی ان پر بیٹھتی، صراحی کا ڈھکنا خود بخود بند ہو جاتا۔ صراحی دار پودا اسے ہڑپ کر جاتا۔

جنگل ختم ہوا تو پہاڑی سلسلہ شروع ہو گیا۔ چھ ہزار فٹ کی بلندی پر چڑھنے کے بعد اچھی خاصی سردی محسوس ہونے لگی۔ ایک جگہ پہنچ کر ہمارا گائڈ (راستہ دکھانے والا) ٹھہر گیا اور کپکپاتی ہوئی آواز بولا، "جناب، میں اس جگہ سے آگے نہیں جاؤں گا۔ ”

اس نے انگلی کے اشارے سے ہمیں راستہ بتایا اور کہا، "آپ اس راستے پر چلتے رہیں۔ وہ غار یہاں سے ایک کلو میٹر دور ہے۔ میں یہاں آپ کا انتظار کروں گا۔ اگر آپ شام تک واپس نہ لوٹے تو میں سمجھوں گا کہ آپ شیطان روحوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ ”

مرشد جھنجلا کر بولا، "تم لوگ پڑھ لکھ کر بھی جنگلی اور جاہل ہی رہے۔ ”

علامہ دانش بولے، "پہاڑی پر چڑھنے کی نسبت اترنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ہم تین بجے تک واپس لوٹ آئیں گے۔ ”

کپتان مرشد گھڑی میں وقت دیکھ کر بولے، "ہمارے پاس کام کرنے کے لئے تین گھنٹے کے قریب وقت ہے۔ ”

ہم تیزی سے پہاڑی راستے پر چلنے لگے۔ آخر ہم غار تک جا پہنچے۔ غار کے آس پاس دور دور تک سفید کاہی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ یہ کاہی ریت کی طرح نرم تھی۔ غار کے اندر سے ایک سفید رنگ کا اژدھا نکلا۔ یہ بھی سفید رنگ کا تھا۔ یہ کچھ بیمار سا معلوم دیتا تھا، اسی لئے بہت مشکل سے آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔ وہ ہم پر حملہ آور ہونے کے بجائے ایک طرف ہو کر چلا گیا۔ جلد ہی ہم پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ مرحوم رضوان شومیر نے اپنے مضمون میں جو کچھ لکھا تھا، وہ سو فیصد ٹھیک تھا۔ ہم نے اپنی ٹارچیں روشن کیں اور غار میں داخل ہو گئے۔ غار کے اندر ہر چیز دودھیا سفید رنگ کی تھی۔ میں ایک سفید جھاڑی میں جا گھسا، آزونا نے ایک سفید رنگ کے سانپ پر پاؤں رکھ دیا۔ وہ سانپ ہس ہس کرتا ہوا ایک طرف کو چلا گیا۔ روشنی کی وجہ سے چمگادڑیں پھڑ پھڑا کر اڑنے لگیں۔ دو تین سفید چمگادڑیں علامہ دانش سے ٹکرائیں۔ غار کی دیواروں پر کہیں کہیں سفید رنگ کی گھاس تھی۔ وہاں سفید رنگ کی مکھیاں، تتلیاں اور چھپکلیاں بھی تھیں۔ علامہ نے جھک کر ایک کیڑے کو اٹھایا اور ہتھیلی پر رکھ کر دیکھنے لگے۔ سفید غبار لگنے سے ان کی ہتھیلی سفید ہو گئی تھی۔ میں نے ایک سفید پتا توڑا۔ میرا ہاتھ بھی غبار لگنے سے بالکل سفید ہو گیا تھا۔

علامہ بولے، "میرے خیال میں یہ کوئی دھات ہے۔ ”

میں نے پوچھا، "کون سی؟”

علامہ بولے، "یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ ”

انہوں نے غار کی دیوار کو دو تین بار سونگھا اور بولے، "یہ دھات لوہے یا تانبے جیسی سخت ہے۔ ہم اس کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر لے چلتے ہیں تاکہ اس کا اچھی طرح معائنہ کر سکیں۔ ”

مرشد نے کلہاڑی مار کر ایک چھوٹا سا ٹکڑا دیوار سے توڑا۔ میں نے اسے اٹھانا چاہا۔ اللہ کی پناہ، یہ تو بہت بھاری ہے۔ میں نے علامہ سے کہا، "شاید آپ میری بات کا یقین نہ کریں گے۔ یہ ماچس کی ڈبیا کے برابر ٹکڑا تو کئی من وزنی ہے۔ ”

علامہ، مرشد اور آزونا نے باری باری اس ٹکڑے کو اٹھانا چاہا لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔

میں نے کہا، "شاید یہ دنیا کی سب سے بھاری دھات ہے ”

علامہ دانش کے منہ سے بے ساختہ نکلا، "آرچی کل دھات۔ دنیا کی وہ شے جو کئی برس سے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔ ”

میں اور آزونا، دونوں ماچس کی ڈبیا کے برابر ٹکڑے کو دھکیلتے ہوئے غار سے باہر لائے۔ اس کا جو حصہ باہر کی طرف تھا وہ دودھیا سفید رنگ کا تھا لیکن تازہ کٹا ہوا حصہ گہرا گلابی، بلکہ چمکدار سرخ رنگ کا تھا۔ یہ کسی قسم کی دھات ہی تھی۔

علامہ بار بار بڑبڑاتے، "آرچی کل دھات، دنیا کی نایاب ترین چیز۔ ”

میں نے غور سے علامہ کی طرف دیکھا۔ ان کا رنگ بھی دودھیا سفید ہو رہا تھا۔

کپتان مرشد نے میری طرف دیکھ کر پوچھا، "تم بہت خوف زدہ اور پریشان دکھائی دیتے ہو؟”

میں نے کہا، "تم سر سے پاؤں تک بالکل سفید ہو رہے ہو۔ ”

کپتان مرشد مسکرا کر بولا، "بہت خوب، کیا آپ نے اپنا رنگ بھی ملاحظہ فرمایا؟”

تب میں نے غور سے اپنے ہاتھ پاؤں کو دیکھا۔ وہ بھی دودھیا سفید ہو رہے تھے۔

علامہ دانش اچانک بولے، "یہ سب اسی دھات کا اثر ہے۔ اگر ہم کچھ دیر اور یہاں ٹھہریں گے تو اس کا غبار ہمارے اوپر جم جائے گا۔ ”

پھر ایک عجیب بات رونما ہوئی۔ دھات کے ٹکڑے سے دھواں نکلنے لگا۔ میں نے اسے ہاتھ لگا کر دیکھا اور میری چیخ نکل گئی۔ دھات کا وہ ٹکڑا بے حد گرم ہو رہا تھا۔ شاید روشنی اور حرارت کے اثر سے دھات نے آگ پکڑ لی تھی۔ چوں کہ غار کے اندر کافی ٹھنڈ تھی، شاید اس لئے وہاں دھات نہیں جلی تھی۔

مرشد نے تجویز پیش کی، "ہمیں یہاں سے فوراً چل دینا چاہئے۔ ”

علامہ بولے، "میں اس نایاب دھات کا ٹکڑا لئے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔ آرچی کل، جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔ ”

ہم نے غار کی طرف دیکھا تو ہمیں ایک اور صدمہ ہوا۔ غار کے اندر سے دھواں نکل رہا تھا۔ در اصل وہ جگہ جہاں سے ہم نے دھات کا ٹکڑا توڑا تھا روشنی یا ہوا لگنے سے جل اٹھا تھا۔ ادھر جو ٹکڑا ہم لائے تھے اس میں بھی آگ لگ رہی تھی، اس کی چنگاری کاہی کے ڈھیر پر پڑی وہ بھی دھڑا دھر جلنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دور اور نزدیک ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ ہمیں جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا۔ ہم بہت دور تک بھاگتے ہی چلے گئے۔ ایک جگہ رک کر ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اللہ کی پناہ، غار سے دودھیا رنگ کی تیز روشنی نکل رہی تھی۔ جس کو دیکھنے سے آنکھیں چوندھیائی جا رہی تھیں۔ ہمارے پیچھے پگھلا ہوا لاوا بہتا چلا آ رہا تھا۔ اب ایک اور مصیبت ہوئی۔ ہمارے جسموں پر جو سفید غبار لگا ہوا تھا، اس میں بھی سخت جلن ہونے لگی۔ کہیں کہیں پھنسیاں بن گئیں۔

ہم گرتے پڑتے پہاڑی سے نیچے اترے اور بہت مشکل سے فریدون کے بنگلے تک پہنچے۔ علامہ دانش نے بہت رنج اور افسوس سے کہا، "دوست، مثل مشہور ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ میں نے نادانی، بلکہ لا علمی سے تمہیں زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ آرچی کل دنیا کی سب سے مہنگی اور نایاب دھات صرف میری وجہ سے ناپید ہو گئی۔ ”

فریدون شومیر نے کہا، "جب تک آپ واپس اپنے ملک نہ پہنچ جائیں، اس بات کا تذکرہ کسی سے نہ کیجئے گا۔ ورنہ ممکن ہے کہ حکومت کے اہل کار آپ کو تنگ کریں۔ ”

اگلے دن اخبارات میں ایک آتش فشاں کے پھٹنے کی خبر چھپی۔ اس کے کچھ دن بعد ہم نے قاہرہ کے اخبارات میں ایک مضمون چھپنے کے لئے دیا، جس کا عنوان تھا:

آرچی کل___ وہ دھات جو اب ناپید ہو چکی ہے۔

سنا ہے ہمارے بعد وہاں کئی پارٹیاں "آرچی کل” کی تلاش میں گئیں اور ناکام و نامراد واپس لوٹیں۔ شاید پتھروں کے ڈھیر تلے اب تک آرچی کل کا کچھ ذخیرہ باقی ہو لیکن اس کے لئے اب کون اپنی جان جوکھوں میں ڈالے !

٭٭٭​

ہمدرد نونہال (۱۹۸۷ ء)​

 

 

 

۳۔  ڈو ڈو کی تلاش

 

چائے پینے کے بعد ہم گپ شپ میں مصروف تھے۔ اچانک علامہ دانش نے ایک سوال پوچھا، "اچھا یہ بتائیے کہ وہ کون سا پرندہ ہے جس کی نسل تھوڑے عرصے پہلے ہی ختم ہوئی ہے ؟”

مرشد نے الل ٹپ دو تین نام گنوائے۔ علامہ ہر بار مسکرا کر کہتے، "غلط، بالکل غلط۔ ”

آ کر ہم نے درخواست کی کہ آپ خود ہی اس پرندے کا نام بتا دیجیے۔ تب علامہ مسکرا کر بولے، "اس پرندے کا نام ڈوڈو ہے۔ ”

مرشد نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا، "یہ بھی کوئی نام ہوا؟ ڈو ڈو۔ ”

علامہ نے کہا، "اس پرندے کا یہ نام پرتگالیوں نے دیا۔ پرتگالی زبان میں ڈو ڈو کا مطلب ہے بے وقوف۔ یہ پرندہ بہت ہی بے وقوف ہوتا تھا۔ اگر کوئی اس پرندے کو پکڑنا چاہے تو یہ بالکل بھی مزاحمت نہیں کرتا۔ ”

یہ کہہ کر علامہ نے ایک موٹی سی کتاب نکالی اور ہمیں ڈوڈو کی تصویر دکھائی۔ یہ بہت ہی بھدا اور بے ڈھنگا سا پرندہ تھا۔ یہ بطخ سے کچھ بڑا تھا ا اور ٹرکی مرغ سے کچھ چھوٹا۔ اس کی ٹانگوں پر مچھلی کی طرح چھلکے تھے۔ دم مڑی ہوئی تھی۔ چونچ انڈے جیسی لمبوتری تھی۔ یہ شکل سے ہی احمق دکھائی دیتا تھا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کے پر تھے مگر یہ اڑ نہیں سکتا تھا۔

علامہ نے بتایا، "یہ پرندہ صرف ماریشس کے ساحل کے نزدیک پایا جاتا تھا۔ ایک پرتگالی سیاح کا بیان ہے کہ اس جزیرے پر یہ پرندہ بہت بڑی تعداد میں پایا جاتا تھا۔ جب آبادکار وہاں پہنچنے لگے تو انہوں نے اس پرندے کا بے حد شکار کیا۔ آخر ۱۷۰۰ء میں اس پرندے کی نسل مکمل طور سے ختم ہو گئی۔ دو تین ڈوڈو برطانیہ بھیجے گئے۔ وہ وہاں پہنچتے ہی مر گئے۔ ان پرندوں میں مصالحہ بھروا کر عجائب گھروں میں رکھ دیا گیا لیکن نا جانے نکس طرح یہ نمونے بھی غائب ہو گئے۔ اب دنیا میں اس پرندے کا وجود نہیں۔ جو کچھ ہمیں معلوم ہو سکا ہے وہ صرف پرانی تحریروں اور تصویروں کے ذریعے ہی معلوم ہو سکا ہے۔

مرشد بولا، "کتنی حیرت ناک بات ہے کہ یہ پرندہ ایک صرف ایک مخصوص جگہ پر پایا جاتا تھا اور اچانک ہی اس کی نسل کا خاتمہ ہو گیا۔ ”

علامہ ہنس کر بولے، "بھئی یہ تو کتابی بات تھی، حقیقت کچھ اور ہے۔ ”

اب ہمارے حیران ہونے کی باری تھی۔ میں نے کہا، "علامہ صاحب! آپ تو پہیلیاں بھجوانے لگے۔ ”

علامہ بولے، "میری عقل میں بھی یہ بات آج تک نہ آ سکی کہ اس پرندے کی نسل ختم کیسے ہو گئی؟ اگر اس کے پر نہیں تھے اور یہ اڑنے کے قابل نہیں تھا تو کیا ہوا؟ جب آباد کاروں نے اس کا شکار شروع کیا تو یہ تیر کر کسی دوسرے جزیرے جا سکتا تھا۔ بحر ہند میں جزیرہ ماریشس کے آس پاس بہت سے چھوٹے چھوٹے غیرآباد جزیرے ہیں، جو ڈوبتے اور ابھرتے رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج بھی کچھ ڈوڈو ان جزیروں میں رہتے ہیں۔ ”

یہ کہہ کر علامہ نے ایک بہت بڑا نقشہ میز پر پھیلا دیا اور ایک جگہ انگلی رکھ کر بولے، "یہ ہے ماریشس اور یہ اس کے آس پاس بارہ کے قریب جزیرے ہیں، جن میں ڈوڈو کی موجودگی کا امکان ہے ؟”

کپتان مرشد حیران ہو کر بولا، "کیا آپ کا ارادہ ان جزیروں میں جانے کا ہے ؟”

علامہ بہت پر جوش لہجے میں بولے، "بالکل درست کہا۔ میں ان جزیروں کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ ”

یہ سن کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ در اصل سیر و تفریح کیے ہوئے مدتیں گزر گئیں۔ پکنک منانے کے لیے ماریشس جیسے خوبصورت جزیرے سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔

اب اگر میں سفر کی تفصیل سنانے بیٹھوں تو بہت وقت درکار ہو گا۔ مختصر یہ کہ ہم ان جزیروں پر گئے۔ ان میں سے بہت سوں کے نام بھی مجھے یاد نہیں رہے۔ کوئی کوہان کی شکل کا تھا، کوئی خنجر جیسا نوکدار اور لمبوترا، کوئی انڈے کی طرح بیضوی اور کوئی بالکل گول۔ کئی ہفتوں تک ہم ان جزیروں کی خاک چھانتے رہے لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ آخر ہم تھک ہار کر مایوس ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈوڈو واقعی اب ناپید ہو چکے ہیں اور ان کا وجود باقی نہیں رہا۔ علامہ کے عزم و ہمت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہے۔

ایک دن کا ذکر ہے کہ ہم جزیرہ مڈغاسکر سے چلے۔ شروع شروع میں موسم بہت خوشگوار تھا۔ پھر اچانک موسم تبدیل ہونے لگا۔ آسمان پر گہرے بادل چھا گئے۔ سمندر ابھی تک پرسکون تھا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ طوفان آنے والا ہے۔ کپتان مرشد بہت فکرمند نظر آ رہا تھا۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو وہ بولا، "ہمارے پاس بہت تھوڑا سا پٹرول بچا ہے۔ اگر بدقسمتی سے ہم بھٹک گئے تو ممکن ہے کہ ہم افریقہ پہنچ جائیں یا ہو سکتا ہے کہ جہاز کو سمندر میں اتارنا پڑے۔

اچانک ہمیں ایک جزیرہ نظر آیا۔ یہ کوئی ایک میل لمبا، دو یا تین سو گز چوڑا اور سطح سمندر سے دس بارہ فیٹ اونچا تھا۔ اس کی سطح بالکل ہموار اور سپاٹ تھی۔

یہ جزیرہ دیکھ کر مرشد پھر فکر و پریشانی میں مبتلا ہو گیا۔ نقشے میں اس جگہ کسی جزیرے کا نشان نہیں تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہم اپنے راستے سے بھٹک گئے تھے۔ مرشد پیشانی سے پسینہ پونچھ کر بولا، "سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گڑبڑ کیسے ہو گئی۔ شاید قطب نما میں کچھ خرابی ہو گئی تھی۔ اب یہی مناسب ہے کہ ہم پٹرول ضائع کر کے کوئی خطرہ مول نہ لیں، بلکہ اسی جزیرے پر اتر جائیں اورآسمان کے صاف ہونے کا انتظار کریں۔ ”

ہم جزیرے کے پاس ہی سمندر میں اتر گئے۔ یہ جزیرہ بالکل صاف تھا۔ میرا مطلب ہے کہ اس جزیرے پر سبزہ یا گھاس وغیرہ بالکل نہیں تھا۔ مرشد نے جہاز کر جزیرے کے ساتھ لگا دیا۔ ہم کچھ دیر دم لینے کے بعد جزیرے پر اترے۔ تب وہ بات رونما ہوئی جس کا کوئی سان و گمان تک نہ تھا۔ شاید یہ درجہ حرارت میں فرق ہو جانے کے باعث ہوا یا ممکن ہے کہ اس کی کوئی اور وجہ ہو۔ ہوا یہ کہ اچانک ہی دھند چھا گئی۔ علامہ دانش بولے، "اس علاقے میں عام طور سے دھند نہیں چھایا کرتی۔ ”

مرشد نے کہا، "شکر کرو کہ ہم نے جہاز اتار لیا تھا، ورنہ اس دھند میں جہاز کو اتارنا بھی نا ممکن ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ دھند جلد ہی دور ہو جائے گی اور سورج دکھائی دینے لگے گا۔ ”

میں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ اتنی دیر ہم جزیرے پر چہل قدمی کریں اور پھر ایک ایک کپ گرما گرم چائے پئیں۔ ”

ہم جزیرے پر اتر گئے۔ کچھ دیر تک ادھر ادھر گھومنے پھرنے کے بعد ہم نے چائے پی۔ علامہ اور مرشد تو گپ شپ میں مصروف ہو گئے۔ میں ٹہلتا ٹہلتا دور نکل گیا۔ جزیرے پر کہیں کہیں سیپیاں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور چیز موجود نہیں تھی۔

میرا خیال تھا کہ دھند تھوڑی دیر میں چھٹ جائے گی مگر یہ تو اور زیادہ گہری ہو گئی۔ کچھ دیر بعد یہ عالم ہو گیا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میں واپس لوٹا اور اندھوں کی طرح راستہ ٹٹولتا ہوا جہاز تک پہنچا۔ ہم جہاز پر سوار ہو گئے۔

مرشد جہاز کو چلا کر کسی نہ کسی طرح خشکی پر لے گیا۔ ہم دھند چھٹنے کا انتظار کرنے لگے۔ رات ہو گئی اور گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔

میں نے کہا، "اگر اس وقت سمندر میں طوفان آ گیا تو بڑا غضب ہو گا۔ ”

کپتان مرشد نے کہا، "مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔ طوفان سے پہلے تیز ہوا چلے گی جو اس دھند کو اڑا لے جائے گی اور ہمیں راستہ دیکھنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ ”

ہم نے رات کے وقت باری باری پہرا دینے کا فیصلہ کیا۔ پہلے کپتان مرشد کی باری تھی۔ اس وقت تک کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔

پھر آزونا کی باری تھی۔ صبح چار بجے کے قریب اس نے مجھے جگایا۔ وہ کچھ فکرمند دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بولا، "مجھے کچھ عجیب سی سرسراتی ہوئی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سمندر کی لہروں کا شور نہیں تھا۔ اگر سمندر میں طوفانی لہریں اٹھتیں تو یہ شور مسلسل سنائی دیتا۔ ”

میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ مرشد کو جگاؤں یا نہ جگاؤں۔ دھند ابھی تک چھائی ہوئی تھی۔ میں جہاز کے پہیے پر بیٹھ گیا اور پہرا دینے لگا۔ موسم کچھ ٹھنڈا تھا۔ دھند اور تاریکی کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے مجھے شوں شوں شاں شاں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

پانچ بجے کے قریب ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔ صبح ہونے والی تھی۔ ہوا کے جھونکوں میں تیزی آنے لگی اور اس کے ساتھ ہی سمندر کی لہریں جزیرے کے ساحل سے ٹکرانے لگیں۔ میں اپنی ٹانگیں سیدھی کرنے کی غرض سے جزیرے پر اترا۔ کوئی نرم و لطیف چیز میرے پاؤں تلے آ گئی۔ اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ میرے ساتھیوں میں سے کسی کا کوٹ یا کمبل جزیرے پر پڑا رہ گیا ہے۔ میں نے دوسرا قدم زمین پر رکھا تو پھر کوئی نرم اور ملائم سی چیز میرے پاؤں تلے آ گئی۔ یہ کیا ہو سکتی ہے ؟ اچانک میرے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ کہیں یہ ہشت پا نہ ہو۔ یہ خیال میرے ذہن میں آنا تھا کہ میرا ایک ایک رواں کھڑا ہو گیا۔ میں جلدی سے جہاز پر سوار ہو گیا۔

خوش قسمتی سے اس وقت دھند بھی چھٹنے لگی اور صبح کی روشنی پھیلنے لگی۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اب کپتان مرشد اور دوسرے دوستوں کو بیدار کرنا چاہیے۔ اس خیال سے میں نے بتی جلائی۔ کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا سب ٹھیک ہے ؟”

میں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ ”

مرشد نے حیران ہو کر پوچھا، "تمہاری بات کا کیا مطلب ہے ؟”

میں نے کہا، "اب ہوا چل پڑی ہے دھند کا زور ٹوٹ رہا ہے اور سمندر میں تلاطم پیدا ہو چلا ہے لیکن جزیرے پر کوئی نرم نرم سی چیز پڑی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا ہو سکتی ہے ؟”

مرشد نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا، "میں سمجھا نہیں کہ تم کس نرم نرم چیز کا ذکر لے بیٹھے ہو۔ ”

میں نے کہا، "سمجھا تو میں بھی نہیں، اسی لیے تمہیں جگایا ہے۔ اب کافی روشنی ہے۔ اگر تم پسند کرو تو ہم باہر چل کر دیکھ لیں ؟”

مرشد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے جلدی سے اپنا سوئٹر پہنا اور میرے پیچھے پیچھے چل دیا۔

اب میں باہر کا نظارہ کیسے بیان کروں ؟ تیز ہوا دھند اڑا لے گئی تھی۔ مشرق سے سورج طلوع ہو رہا تھا۔ اس کی کرنوں سے ہر چیز نظر آ رہی تھی۔ ہم نے جزیرے پر نظر ڈالی تو ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ جزیرے پر دور دور تک ہزاروں کی تعداد میں سفید سفید رنگ کے سمندری پرندے موجود تھے۔ ان کی شکل ایسی تھی کہ دیکھتے ہی ہنسی آنے لگتی۔ ان کی بجلی کے بلب جیسی چونچ، مڑی ہوئی دم اور موٹا بھدا جسم تھا۔ وہ ہمارے جہاز کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے کھڑے تھے۔ وہ تعداد میں اتنے زیادہ سے تھے کہ جزیرے پر تل دھرنے کو جگہ نہیں رہی تھی۔

کپتان مرشد بولا، "یہ خواب ہے یا حقیقت؟ یہ پرندے تو ڈوڈو ہیں۔ ہم انہیں ڈھونڈنے نکلے تھے لیکن انہوں نے ہمیں ڈھونڈ نکالا۔ تم جا کر علامہ کو بلا لاؤ۔ کوئی شور نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ یہ پرندے ڈر کر اڑ جائیں اور علامہ ان کی دید سے محروم رہ جائیں۔ ”

میں کیبن میں گیا اور علامہ اور آزونا کو جگا کر یہ بات بتا دی۔ علامہ کا جوش اور مسرت سے برا حال تھا۔ وہ جلدی سے اپنی ڈائری لے کر باہر آئے اور بیس پچیس منٹ تک ڈوڈو کی ایک ایک چیز کی تفصیل لکھتے رہے۔

آخر کپتان مرشد بولا، "میں دخل اندازی کی معافی چاہتا ہوں۔ در اصل سمندری لہریں اب طوفانی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ ہمیں فوراً چل دینا چاہیے۔ ورنہ یہ لہریں ہمیں بہا لے جائیں گی۔ ”

میں نے تجویز پیش کی، "سب ڈو ڈو تقریباً ہم شکل ہیں۔ آپ دو تین ڈو ڈو پکڑ کر لے آئیے اور اطمینان سے ان کا مشاہدہ کرتے رہیے۔ ”

علامہ کو یہ تجویز پسند آئی۔ انہوں نے ایک پرندے کو منتخب کیا اور اسے گردن سے پکڑ کر اٹھا لیا۔ اس غریب پرندے نے کوئی شور شغب نہیں کیا۔ کپتان مرشد نے ہاتھ ہلا ہلا کر شور مچایا لیکن پرندوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ اسی طرح کھڑے رہے اور ہمیں دیکھتے رہے۔

ہم سب مل کر چیخے چلائے۔ آزونا ایک خالی پیپا اٹھا لایا۔ وہ بہت دیر تک پیپا پیٹ پیٹ کر شور مچاتا رہا۔ کپتان مرشد نے بندوق سے کئی ہوائی فائر کیے لیکن توبہ کیجیے، ان پرندوں پر تو ذرہ برابر بھی کوئی اثر نہ ہوا۔

تب علامہ قہقہہ مار کے ہنسے اور بولے، "کسی نے اس کا نام ٹھیک ہی رکھا ہے، ڈو ڈو یعنی بے عقل اور بے وقوف جانور۔ ”

میں اور آزونا بھی قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔ مرشد غصے سے چیخا، "آپ لوگوں کو ہنسی کی سوجھی ہے اور میری جان پر بنی ہوئی ہے۔ ان پرندوں کی وجہ سے راستہ رکا پڑا ہے۔ ادھر سمندر لمحہ بہ لمحہ چڑھتا جا رہا ہے۔ ”

تب ہمیں صورتحال کا اندازہ ہوا۔ معاملہ واقعی بہت نازک تھا۔ میں نے دو تیں ڈو ڈؤں کو ڈنڈے سے ہنکار کر دور کیا تو ان کی جگہ لینے کے لیے کچھ اور ڈو ڈو آگے آ گئے۔

ہم سب نے ڈنڈے سنبھال لیے اور ان پرندوں کو ہانک ہانک کر دور کرنے لگے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، یعنی ہمیں ان کوششوں میں ناکامی حاصل ہوئی۔ آخر ہم تھک ہار کر پسینے پسینے ہو گئے۔ مرشد جھنجھلا کر بندوق اٹھا لایا اور بولا، "میں انہیں مار مار کر صفایا کروں گا۔ ”

علامہ تحمل سے بولے، "بے وقوف نہ بنو۔ دیکھتے نہیں کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ انہیں مارنے کے لیے تمہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں بار گولی چلانا پڑے گی۔ ”

ہم نے بہت خطرناک مہموں میں حصہ لیا اور اپنی جان جوکھوں میں ڈالی لیکن یہ مہم تو سب سے زیادہ دشوار ثابت ہوئی۔

میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ دیکھتا کیا ہوں کہ دو تین ڈو ڈو اچھل کر جہاز کے پروں پر سوار ہو گئے۔ آزونا نے انہیں گرانا چاہا تو ان کمبختوں نے جہاز پر اپنے پنجے گاڑ دیے۔ جب آزونا نے انہیں جہاز سے نیچے گرایا تو اس کے ساتھ ہی جہاز کا ٹکڑا بھی ٹوٹ کر گر پڑا۔

مرشد نے چلا کر کہا، "اللہ کے لیے انہیں کچھ مت کہو ورنہ یہ جہاز کے پڑخچے اڑا دیں گے۔ ”

اب ڈو ڈو جہاز پر چڑھنے شروع ہو گئے تھے۔ اب ایک اور خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ میں نے کہا، "اگر یہ پرندے جہاز پر سوار ہو گئے تو ہمیں ڈبو دیں گے۔ ”

ادھر سمندر کی موجوں نے طوفانی شکل اختیار کر لی تھی۔ اب اگر جہاز کچھ دیر تک اور جزیرے پر رہتا تو موجیں اسے ساحل سے ٹکرا کر پاش پاش کر دیتیں۔

مرشد نے کہا، ” دوستو! ہمارے پاس صرف پانچ میٹ کا وقفہ ہے۔ آپ سب لوگ ڈنڈے لے کر ان پرندوں کو دور ہنکائیے۔ میں جہاز کو آہستہ آہستہ آگے بڑھاتا جاؤں گا۔ ”

لیکن اس کی نوبت ہی نہ آئی۔ مرشد نے جہاز کا انجن اسٹارٹ کیا۔ پرندے یا تو انجن کے شور سے یا پھر ہوا کے زور سے ادھر ادھر ہٹنے لگے۔ پرندے ایک دوسرے پر بری طرح گرے پڑتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے دھنکی ہوئی روئی کے گالے ایک دوسرے پر گرے جاتے ہوں۔ میں زندگی بھر یہ منظر نہیں بھولوں گا۔ کچھ ڈو ڈو کمر کے بل اور کچھ اپنے سروں کے بل ایک دوسرے پر لڑھک لڑھک کر گر رہے تھے۔ دو تین منٹ میں ہی ہمارے سامنے کافی دور تک میدان بالکل صاف تھا۔

تب مرشد نے جہاز کو چلانا شروع کیا۔ اللہ کی مہربانی سے راستہ خود بہ خود صاف ہو تو چلا گیا۔ جو دو چار بے وقوف ڈو ڈو جہاز کے راستے میں حائل ہوئے ان کے پڑخچے اڑ گئے۔

جب ہم ڈو ڈو پرندوں سے کافی دور آگے نکل آئے، تب مرشد نے جہاز کو اڑان دی۔ میں نے جہاز سے جھانک کر دیکھا، جزیرے پر دور دور تک پرندے نظر آ رہے تھے۔ کپتان مرشد نے قطب نما دیکھ کر راستہ متعین کیا اور ہمارا جہاز پرواز کرنے لگا۔ دو گھنٹے بعد ہم ماریشس پہنچ گئے۔ وہاں سے ہم نے جہاز میں ایندھن بھروایا۔ اس کے بعد ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ ہماری منزل استنبول تھی۔ ہم نے یہ پرندہ ڈو ڈو، وہاں چڑیا گھر کو تحفے میں دے دیا۔

ڈو ڈو کو وہاں کی ٹھنڈی ہوا راس نہ آئی۔ وہ اگلے روز ہی مر گیا۔ علامہ نے اس میں مصالحہ بھروا کر اسے توپ کاپی کے عجائب گھر میں رکھوا دیا۔

بدقسمتی سے وہاں چوروں نے نقب لگائی۔ وہ ہیرے جواہرات کے ساتھ یہ نادر اور نایاب پرندہ بھی اٹھا کر لے گئے۔ علامہ کو اس کا بے حد صدمہ ہوا۔ وہ بار بار کہتے تھے، "میں ڈو ڈو کے بدلے بڑی سے بڑی رقم دینے کو تیار ہوں۔ کاش یہ چور یہ ڈو ڈو میرے حوالے کر دے۔ ہیرے جواہرات کا کیا ہے ؟ کھو جائیں گے تو اور بہت سے مل جائیں گے لیکن یہ گم شدہ ڈو ڈو پھر کبھی نہ مل سکے گا۔ ”

اخبار الجمہوریہ میں کئی دن تک اشتہار چھپتا رہا لیکن ڈو ڈو واپس نہ مل سکا۔ اس کے بعد ہم نے ماریشس کے آس پاس سینکڑوں بار پرواز کی مگر وہ جزیرہ نہ مل سکا اور نہ ڈو ڈو کہیں نظر آئے۔ آج بھی مرشد آزونا کو کبھی کبھی پیار سے ڈو ڈو یعنی بے وقوف کہہ کر پکارتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ آزونا اس بات کا برا بھی نہیں مانتا۔

٭٭٭

 

 

 

 

۴۔ چمکنے والے پھول​

 

علامہ دانش سے بہت دنوں تک ملاقات نہیں ہوئی۔ ہم ان سے ملنے اور کوئی نیا معرکہ سرانجام دینے کے لئے بے تاب تھے۔ علامہ کے پاس نت نئی خبروں کا ذخیرہ رہتا تھا، لیکن وہ کسی مہم پر جانے سے پہلے اس خبر کے متعلق پوری تحقیق کر کے معلومات ضرور حاصل کیا کرتے۔ آخر ایک دن علامہ ہمارے دفتر میں پہنچے۔ ہم نے ان کا پر جوش استقبال کیا۔ علامہ نے اپنا بیگ کھول کر ایک اخبار کا تراشہ نکالا اور بولے، "برما کے شمال مشرقی حصے میں جنگل کے اندر ایک جھیل ہے، جس کے درمیان ایک ٹاپو (جزیرہ) ہے۔ اس جزیرے میں ایسے پھول کھلتے ہیں، جن کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ یہ پھول رات کے وقت چمکتے ہیں اور ان سے اچھی خاصی روشنی خارج ہوتی ہے۔ ”

کپتان مرشد نے مسکرا کر کہا، "آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم نے تو کبھی نہیں سنا کہ پھولوں سے روشنی نکلتی ہو۔ ”

علامہ سنجیدگی سے بولے، "شروع میں تو مجھے بھی اس بات پر یقین نہیں آیا۔ میں نے حکومت برما سے خط و کتابت کی۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ ” علامہ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے اور کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر بولے، "رات کے وقت جگنو کو چمکتے ہوئے آپ نے دیکھا ہے۔ کچھ مچھلیاں بھی چمکنے کی خاصیت رکھتی ہیں۔ بعض پودے ایسی گیسیں خارج کرتے ہیں، جو ہوا میں ملنے سے چمک پیدا کرتی ہیں۔ بعض سبزیوں میں فاسفورس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، چنانچہ جب وہ سبزیاں گلتی سڑتی ہیں تو ایسی گیسیں خارج کرتی ہیں، جن میں فاسفورس کی کچھ مقدار ہوتی ہے۔ یہ فاسفورس ہوا میں جلتا ہے تو روشنی پیدا ہوتی ہے۔ ”

میں نے کہا، "کیا اس قسم کی روشنی کے لئے فاسفورس کی موجودگی ضروری ہے ؟”

علامہ سر ہلا کر بولے، "بالکل صحیح، در اصل فاسفورس کے معنی ہیں، ‘میں چمکتا ہوں ‘۔ ایسی روشنی کے لئے فاسفورس کی موجودگی یقینی بات ہے۔ میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پودے فاسفورس کی گیس خارج کرتے ہیں یا پھر ان کے پھولوں میں فاسفورس کی مقدار موجود ہے۔

آزونا قہوہ لے آیا، ہم قہوہ پینے میں مصروف ہو گئے۔

اگلے ہفتے ہم برما پہنچے۔ برما کے جنگلوں میں بہت سی جھیلیں ہیں۔ ان میں صحیح جھیل کا تلاش کرنا بے حد دشوار ثابت ہوا۔ وہاں کے لوگ بے حد وہمی اور ڈرپوک نکلے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ جب ہم جھیل کے نزدیک پہنچتے تو لوگوں کی زبان گنگ ہو جاتی۔ وہ ہمیں کچھ بتانے سے بچتے اور ڈرے سہمے ہوئے رہتے۔ جب ہم جھیل سے بہت دور نکل جاتے تو ہمیں جھیل کے بارے میں سنی سنائی باتیں بتاتے۔ ہم بہت دقت اور دشواری کے بعد اس جھیل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جھیل کے آس پاس دور دور تک کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا۔ وہاں مکانات تو موجود تھے، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہاں لوگ آباد تھے لیکن جب پھولوں سے روشنی نکلنے لگی تو وہ اسے روحوں کا کارنامہ سمجھ کر خوف زدہ ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گئے۔

جھیل کے درمیان ایک ٹاپو تھا۔ اس میں ایک ٹوٹا پھوٹا مندر تھا۔ شاید یہاں بھی خوب چہل پہل رہتی ہو گی لیکن اب ویرانی کا دور دورہ تھا۔

ہم نے ایک مناسب جگہ دیکھ کر جہاز کو جھیل میں اتارا۔ میں جھیل کی خوبصورتی کو کیسے بیان کروں۔ نیلگوں پانی میں ابھرا ہوا جزیرہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑا ہوا نظر آتا تھا۔ جزیرے میں سبزہ بہت تھا۔ طرح طرح کے پھولدار پودے تھے۔ ناریل کے درخت جھرمٹ کی شکل میں جگہ جگہ تھے۔ شاید آپ اس منظر کو بہت خوبصورت اور دلکش سمجھتے ہوں گے۔ ذرا مجھ سے پوچھ کر دیکھئے تو میں بتاؤں کہ اس خوبصورتی کے ساتھ مچھروں کی کثرت، خون چوسنے والی جونکیں، زہریلی مکڑیاں اور خوف ناک سانپوں کے علاوہ بے شمار کیڑے مکوڑے بھی تھے۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا تھا، لیکن ہم تحقیق کے شوق میں نکلے تھے۔ ہمیں اپنی جان کی کوئی فکر اور پروا نہیں۔

مرشد نے کہا، "مجھے تو یہاں وہ پھول نظر نہیں آئے۔ ”

علامہ بولے، "یہ پھول رات کو چمکتے ہیں، اس لئے دن میں نظر نہیں آتے۔ ”

میں نے اکتا کر کہا، "میں بہت تھک گیا ہوں، میں جہاز پر واپس جا کر کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔ ”

آزونا اور مرشد نے بھی میری بات کی تائید کی۔ ہم سب جہاز پر واپس پہنچے۔ ہم نے چائے پی۔ کچھ دیر آرام کیا پھر رات کا اندھیرا چھانے لگا۔ آزونا کھانا لے آیا۔ ہم سب کھا پی کر فارغ ہوئے۔ علامہ اپنی کوئی داستان دھرانے لگے۔ اس دلچسپ گفتگو میں خاصی رات بیت گئی۔

علامہ دانش بولے، "پھولوں کی روشنی دیکھنے کے لئے یہ وقت بہت اچھا ہے۔ ”

کپتان مرشد نے کہا، "معاف کیجئے گا۔ شاید آپ بھول گئے ہیں کہ یہ جنگل جہاں دن کے وقت خاموشی طاری رہتی ہے، رات کے وقت کچھ قسم کے جانور، سانپ، چھپکلیاں اور دوسرے حشرات (کیڑے مکوڑے ) کھانے پینے کی تلاش میں باہر نکلتے ہیں۔ مجھے رات کی تاریکی میں جنگل کی سیر کرنے کا شوق نہیں۔ ”

میں نے بھی کپتان مرشد کی تائید کی اور کہا، "ممکن ہے کوئی اس اندھیرے میں سانپ یا بچھو پر پاؤں رکھ دے یا کہیں سے کوئی تیندوا نکل آئے۔ ان دریاؤں میں مگرمچھ بھی پائے جاتے ہیں۔ ”

علامہ فکر مند ہو کر بولے، "پھر کیا کیا جائے ؟ تم ہی کوئی ترکیب بتاؤ۔ ”

کپتان مرشد نے کہا، "اس وقت تو سب لوگ سوجائیں۔ دن نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے ہم جزیرے پر چلیں گے۔ ایک گھنٹے میں ہم کافی گھوم پھر لیں گے۔ اس کے بعد سورج نکل آئے گا تو ہم اپنا کام ختم کر کے واپس لوٹیں گے۔ ”

سب نے اس بات کو پسند کیا۔ ہم سب سوگئے۔ صبح ہونے سے ٹھیک ایک گھنٹے پہلے الارم بجنے لگا۔ ہم سب اس مہم پر چل دئیے۔ سب سے آگے کپتان مرشد تھا۔ اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔ اس کے پیچھے ہم سب تھے۔ ہر ایک کے پاس ضروری سامان تھا۔ راستے میں کوئی خاص بات پیش نہیں آئی۔ چوہے اور دوسرے جنگلی جانور ہمارے قدموں کی چاپ سن کر جھاڑیوں میں گھس جاتے۔ آخر ہم اس ویران مندر تک جا پہنچے۔ اچانک کپتان مرشد ٹھہر گیا اور غور سے مندر کی طرف دیکھنے لگا۔ کوئی بات ضرور تھی جو اس کی سمجھ نہ آ رہی تھی۔ ہم نے بھی مندر کی طرف دیکھا۔ وہاں عجیب ہی منظر تھا۔ مندر عجیب سی روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ یہ پراسرار روشنی کنول کے ان پھولوں سے نکل رہی تھی، جو مندر کے آس پاس اگے ہوئے تھے۔

یہ پھول بھی انوکھے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ پھول شفاف کاغذ کے بنے ہوئے ہوں اور ان کے اندر دور کہیں بلب روشن ہو۔ جن سے نیلی پیلی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں۔ ان پھولوں کی ہر پتی سے روشنی خارج ہو رہی تھی۔ ان کی ٹہنیاں اور ڈنٹھل نظر نہیں آ رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہ پھول ہوا میں تیر رہے ہوں۔

علامہ دانش نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کے منہ سے خوشی کی آواز نکلی۔ وہ دوڑتے ہوئے پھولوں کے پاس پہنچے۔ انہوں نے پھولوں کو پکڑا اور انہیں غور سے دیکھنے لگے۔ پھر انہوں نے پھولوں کو سونگھا۔ اچانک وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹے۔ پھولوں سے عجیب طرح کی بدبو نکل رہی تھی۔ یہ سڑے ہوئے انڈوں کی طرح تھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ بری۔ اس بدبو سے مجھے متلی ہونے لگی۔ ایسی بدبو مردم خور (انسانوں کو کھانے والے ) پودوں اور صراحی دار پودوں سے آتی ہے۔

جونہی علامہ دانش کی طبیعت ٹھیک ہوئی وہ پھر ان پھولوں کے پاس جا پہنچے اور ان کا مطالعہ کرنے لگے۔ میں، آزونا اور مرشد تو دور دور سے ہی ان پھولوں کا نظارا کرتے رہے۔ ہم پھولوں کے پاس جا کر کیا کرتے ؟ کچھ دیر بعد اس روشنی کو دیکھ دیکھ کر طبیعت اکتا گئی۔ بدبو کی وجہ سے مجھے متلی ہونے لگی، لیکن علامہ کے ذوق و شوق کا وہی عالم تھا۔ وہ اس اہم دریافت پر کوئی تقریر فرما رہے تھے۔ انہوں نے ایک پھول توڑا، اس کی روشنی اچانک جاتی رہی۔ انہوں نے ٹارچ کی روشنی میں پھول کا معائنہ کیا۔ اس کی پتیاں گندے اور ردی کاغذ جیسی تھیں۔ علامہ نے نفرت سے کہا، "اس پودے کے چپ چپے عرق سے میرے ہاتھ خراب ہو گئے ہیں۔ آزونا ذرا پانی لاؤ تاکہ میں اپنے ہاتھ دھو سکوں۔ ”

ہم نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا۔ علامہ کے ہاتھوں پر گاڑھا، سرخ اور چپ چپا عرق لگا ہوا تھا۔ میں تو یہ سمجھا کہ علامہ کا ہاتھ زخمی ہو گیا ہے۔ علامہ بھی یہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ انہوں نے جلدی جلدی گھاس اور پتوں سے یہ عرق پوچھا اور ہاتھوں کو صاف کیا۔

کپتان مرشد نے تجویز پیش کی کہ ہمیں جو دیکھنا تھا وہ دیکھ لیا، اب ہمیں واپس جہاز پر جانا چاہئے۔ سورج نکلنے کے بعد ہم دوبارہ یہاں آ جائیں گے۔

علامہ دانش بولے، "میں خالی ہاتھ واپس جانا پسند نہیں کرتا۔ میں کچھ پودے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ پھولوں کے چمکنے کا راز پودے کی جڑوں میں پوشیدہ ہے۔ ”

علامہ دانش کی بات ہمیں ٹھیک معلوم دی۔ ہم نے چاقو سے زمین کھودنی شروع کی، لیکن پودوں کی جڑیں تو بہت گہری تھیں۔

اب اچھا خاصا اجالا ہو گیا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ پھولوں کی چمک بھی ماند پڑتی جا رہی تھی۔ علامہ دانش بہت غور سے اس تبدیلی کو دیکھ رہے تھے۔ جوں ہی سورج نکلا، پھول مرجھا گئے کچھ پھول تو جھڑ کر گر پڑے۔

آزونا جہاز سے بیلچہ اور کدال لے آیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹا اور زمین کھودنے لگا۔ وہ بہت دیر تک کھدائی کرتا رہا لیکن ان پودوں کی جڑیں بہت گہرائی تک چلی گئی تھیں۔

ہم اس صورتحال سے تنگ آ چکے تھے۔ آزونا نے پوری قوت سے زمین میں بیلچہ مارا اور مٹی کی کافی مقدار نکال کر باہر پھینکی۔ یہ ٹھیک ہمارے قدموں کے پاس گری۔ جوں ہی یہ مٹی زمین پر گری، اس میں حرکت ہونے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے مٹی میں جان پڑ گئی ہو۔ ہم نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ بے شمار کیڑے ہیں، سرخی مائل بھورے رنگ کے۔ نہ جانے ان میں کس غضب کی طاقت تھی۔ یہ اپنے بدن کو سکیڑ کر ہوا میں چھلانگ لگاتے اور پانچ چھ فیٹ تک اچھلتے۔ ایک کیڑے نے کپتان مرشد کو کاٹ لیا۔ ایک قدر شناس کیڑا علامہ کی ناک سے چپک گیا۔ وہ چیخ مار کر دوڑے لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ علامہ اسی کیڑے کو ہاتھ میں پکڑے اس کا معائنہ فرما رہے تھے۔ ادھر آزونا نے ایک زوردار چیخ ماری۔ میں نے اسے کھینچ کر گڑھے سے باہر نکالا۔ اس کے پیچھے پیچھے سینکڑوں، ہزاروں کیڑوں کا ایک چشمہ بہتا ہوا چلا آ رہا تھا۔ ہم پوری تیز رفتاری سے دوڑے۔ علامہ ابھی تک کیڑوں کے اس سیلاب کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ کپتان مرشد نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، "دوڑئیے اپنی جان کو بچانے کے لئے دوڑئیے۔ ورنہ یہ کیڑے ہمیں چٹ کر جائیں گے۔ ”

علامہ اور مرشد بھی ہمارے پیچھے پیچھے تیز رفتاری سے دوڑنے لگے۔ ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کیڑوں کی فوج بھی اسی تیز رفتاری سے ہمارے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔ ہم پھر اندھا دھند بھاگنے لگے۔ ذرا غور فرمائیے۔ ہم کس چیز سے ڈر کر بھاگ رہے تھے۔ وہ نہ خونخوار جانور تھا نہ دشمن کی فوج۔ یہ تو حقیر اور بے حقیقت کیڑے تھے۔

جب ہم پانی کے پاس پہنچے تو ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جلدی سے جہاز پر سوار ہو گئے۔ کپتان مرشد نے جہاز کا انجن چلایا اور اسے کنارے سے کافی دور لے گیا۔ ہم نے دیکھا کہ کیڑوں کی فوج پانی کے پاس جا کر ٹھہر گئی۔ کچھ دیر بعد دور دور تک کیڑے ہی کیڑے نظر آنے لگے۔

کپتان مرشد نے کہا، "علامہ صاحب، اب آپ ان پودوں کی جڑیں حاصل نہ کر سکیں گے۔ ”

علامہ افسوس سے بولے، "شاید تم ٹھیک ہی کہتے۔ ان لاتعداد کیڑوں سے نمٹنا ہمارے لئے مشکل، بلکہ نا ممکن ہے۔ ”

ہم برما کے دارالحکومت رنگون گئے۔ وہاں ایک سرکاری افسر نے ہمیں بتایا کہ بہت عرصے پہلے یہ جزیرہ آباد تھا۔ پھر نہ جانے کہاں سے بہت سے مگرمچھ ادھر آ گئے اور جزیرے کے لوگوں کو ہڑپ کرنے لگے۔ ایک پجاری نے مگرمچھوں کو پکڑنے کے لئے ایک گہرا گڑھا کھودا اور اس میں ایک بیل باندھ دیا۔ مگرمچھ اس گڑھے میں اترنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ گڑھا ان مکروہ صورت جانوروں سے بھر گیا۔ پجاری نے باہر نکلنے کا راستہ بند کر دیا۔ وہ مگرمچھ گڑھے میں پھنس کر رہ گئے اور کچھ دن بعد وہیں مر کھپ گئے۔ ان کے مردہ جسموں سے سڑاند پھوٹنے لگی۔ لوگ اس بدبو سے گھبرا گئے اور جزیرہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد لوگوں میں یہ بعد مشہور ہو گئی کہ جزیرے میں روحیں رہتی ہیں۔

ہم اس مہم سے ناکام لوٹے۔ راستے میں علامہ دانش نے بتایا، "ان مگرمچھوں کے جسم گل سڑ کر کھاد بن گئے۔ اس میں فاسفورس کی بہت مقدار شامل تھی۔ یہی فاسفورس پھولوں میں چمکتا تھا۔ گلنے سڑنے کے عمل سے یہ لا تعداد کیڑے بھی پیدا ہو گئے۔ ”

میں نے کہا، "مردہ مگرمچھوں، ان کیڑوں اور پھولوں میں کیا تعلق تھا؟ یہ بات میری سمجھ میں تو آئی نہیں اور وہ کنول کے پھول ٹوٹتے ہی کیوں مرجھا جاتے تھے ؟”

علامہ مسکرا کر بولے، "یہ معمّا تو ابھی تک میں بھی حل نہیں کر سکا۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور سائنس دان اس راز کو حل کر لے۔ ”

٭٭٭​

ہمدرد نونہال (اکتوبر ۱۹۸۷ ء)​

 

 

 

۵۔ سونٹے والا بھوت

 

ہم برما کے سفر سے واپس لوٹے تو میز پر کچھ خطوط پڑے ہوئے تھے۔ علامہ نے ان خطوط کو پڑھا۔ ایک خط ان کے مطلب کا نکل آیا۔ یہ کسی جن بھوت کے متعلق تھا۔ اتفاق سے علامہ دانش ان دنوں بھوتوں میں بہت دلچسپی لے رہے تھے۔ علامہ نے کہا، "ایک اور سفر کی تیاری کیجیے۔ اب ہمیں جنوبی افریقہ سے دعوت نامہ ملا ہے۔ ”

مرشد نے کہا، "جی بہت خوب! ارشاد فرمائیے۔ ”

علامہ بولے، "افریقہ کے جنوب مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ بہت سے جزیرے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بالکل ویران اور غیر آباد ہیں۔ وہاں گھاس پھونس، سبزہ یا کسی قسم کی نباتات نہیں اگتی۔ وہاں سیل، پنگوئن، سمندری جانور اور پرندے رہتے ہیں۔ یہ جزیرے ڈوبتے اور ابھرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے اس علاقے میں جہاز رانی بے حد دشوار ہے۔ ان میں سے ایک جزیرہ والی رُو ہے۔ اس میں بے شمار غار ہیں۔ یوں سمجھو کہ جیسے اس جزیرے میں غاروں کا چھتا بنا ہوا ہے۔ اس سے پانچ میل دور ایک اور جزیرہ ہے۔ اس کا نام ریک ہے۔ یہاں ایک کمپنی نے اپنا ڈپو بنا رکھا ہے۔ اس کمپنی کے جہاز وہاں ٹھہرتے ہیں۔

جزیرہ والی رُو پہلے اچھا خاصا آباد تھا لیکن اب وہاں ایک بھوت نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کا قد بہت بڑا ہے، شکل بے حد خوفناک ہے اور جسم پر لمبے لمبے بال ہیں۔ وہ بہت زور زور سے چیختا چنگھاڑتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چھلانگیں لگاتا رہتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک موٹا سا سونٹا ہے۔ دن کے وقت وہ بھوت کہیں غائب رہتا ہے۔ رات ہوتے ہی وہ چیختا چنگھاڑتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔ لوگوں میں اس کی موجودگی سے بے حد دہشت پھیلی اور وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے۔ حکومت جنوبی افریقہ نے ہم لوگوں سے کہا ہے کہ ہم تحقیقات کریں۔ ”

میں نے ہنس کر کہا، "اس دفعہ ایک چیختے چنگھاڑتے بھوت سے ہمارا واسطہ پڑا ہے۔ ”

مرشد نے پوچھا، "وہاں جہاز اتارنے کے لیے کوئی مناسب جگہ بھی ہے یا نہیں ؟”

علامہ بولے، "میرا خیال ہے وہاں جہاز اتارنا کافی مشکل کام ہو گا۔ جزیرے پر بے شمار پرندے ہیں۔ ان میں سے بعض تو اچھے خاصے بھاری بھرکم اور موٹے تازے ہیں۔ ان میں سے اگر ایک پرندہ بھی جہاز سے ٹکرا جائے تو تباہی یقینی سمجھو۔ ”

ہم جزیرہ والی رو میں پہنچے۔ کپتان مرشد نے بہت مہارت اور ہوشیاری سے جہاز کو پانی میں اتارا۔ پھر وہ اسے چلاتا ہوا خشکی تک لے گیا۔ ہم جزیرے کا جائزہ لینے کے لیے چل پڑے۔ ہم میں آزونا اور مرشد تو مسلح تھے۔ علامہ دانش کا وہی حلیہ تھا۔ ان کے سر پر عمامہ، پاؤں میں فل بوٹ تھے اور برساتی کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ کندھے پر کیمرا لٹکا ہوا۔

علامہ نے حکم دیا، "بھوت پر ہرگز گولی مت چلانا۔ میں اسے زندہ پکڑنا چاہتا ہوں۔ اگر ہم اسے پکڑ نہ سکے تو میں اس کی ایک تصویر ضرور اتارنا چاہتا ہوں۔ ”

جزیرے پر پرندوں نے انڈے دے رکھے تھے۔ ہم بہت احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے ان کے گھونسلوں کے پاس سے گزرے۔ اگر غلطی سے کسی پنگوئن کے پاس قدم جا پڑتا تو وہ ٹھونگ مار کر بوٹی ہی نوچ لیتا۔

میں فطرتاً بزدل نہیں ہوں لیکن ایسی ویران و سنسان جگہ پر دل گھبرانے لگا۔ جب ہم قبرستان کے پاس سے گزرے تو ہم نے دیکھا کہ قبریں کھلی پڑی ہیں۔ مردوں کی ہڈیاں، ڈھانچے اور کھوپڑیاں ادھر ادھر بکھری ہوئی پڑی تھیں۔ یہ سب اسی مردم خور بھوت کی کارستانی تھی۔ یہ دیکھ کر میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آزونا تو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میں نے مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ نہ جانے کس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ البتہ علامہ ڈھانچوں اور کھوپڑیوں کی کھٹاکھٹ تصویریں اتار رہے تھے۔

مرشد نے کہا، "یہاں جو کچھ ہے، وہ ہم دیکھ چکے۔ اب ہمیں جزیرے کی دوسری جگہوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ”

کافی دیر تک ہم نے کوئی نئی چیز نہیں دیکھی۔ ایک سیل میرے قریب آیا۔ اس کا ارادہ مجھ پر حملہ کرنے کا تھا۔ اگر اس جزیرے پر سیل کا شکار منع نہیں ہوتا تو میں اسے گولی مار دیتا۔

ایک پہاڑی کا چکر کاٹ کر ہم دوسری طرف پہنچے۔ ایک تنگ کھاڑی دور تک چلی گئی تھی۔ ہم نے جو کچھ وہاں دیکھا، وہ ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔ وہ جگہ مذبح خانہ بنی ہوئی تھی۔ ہر طرف خون بکھرا پڑا تھا۔ ساحل کی ریت خون سے سرخ ہو رہی تھی۔ پہاڑی پر خون ہی خون تھا۔ ساحل کے ساتھ ساتھ سمندر کا پانی بھی خون سے لال ہو رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے یہاں خون کی ہولی کھیلی گئی ہو، لیکن خون کس کا تھا؟ دور و نزدیک کوئی زندہ یا مردہ چیز نہیں تھی۔ ہمیں وہاں صرف ایک جاندار مخلوق نظر آئی اور وہ تھی شارک۔ یہ شارکیں وہاں کافی تعداد میں موجود تھیں۔ پانی میں تیرتی ہوئی شارکوں کے پر دور دور تک نظر آ رہے تھے۔ میں نے کہا، "آپ نے پکنک کے لیے بہت خوب جگہ منتخب کی۔ ”

مرشد ہنس کر بولا، "نہانے کے لیے تو اس سے بہتر جگہ مل ہی نہیں سکتی۔ ایک غوطہ لگاؤ اور عدم آباد پہنچ جاؤ۔ ”

علامہ نے شارکوں کے دانت دیکھے تو ان کا رنگ بھی زرد پڑ گیا۔ وہ پریشان ہو کر بولے، "اللہ جانے یہاں کیا ہو رہا ہے ؟”

مرشد بولا، "بھوت اپنی سفاکی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایک بھوت اتنا قتل و خون نہیں کر سکتا۔ ”

یہ کہہ کر مرشد دو تین قدم آگے بڑھا۔ اس نے تازہ تازہ خون میں انگلی ڈبو کر اسے سونگھا۔ وہ کچھ نہیں بولا اور نہ ہم نے کچھ پوچھنا مناسب سمجھا۔ کہنے سننے کے لیے اب اور کیا باقی رہ گیا تھا؟ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں اسی وقت جہاز میں بیٹھ کر واپس ہو چکا ہوتا۔ اس بھوت سے نمٹنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔

جب ہم جہاز پر پہنچے تو شام کا دھندلکا چھا رہا تھا۔ کپتان مرشد کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ مرشد نے کہا، "سب لوگ جہاز میں سوار ہو جائیں، ہمیں اسی وقت واپس چلنا ہے۔ ”

میں نے خوش ہو کر کہا، "بھئی واہ! تم نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔ ”

مرشد نے گھور کر میری طرف دیکھا اور بولا، "اس خوش فہمی میں مت رہو کہ ہم واپس جا رہے ہیں۔ ”

میں نے حیران ہو کر پوچھا، "کیا مطلب؟”

مرشد نے کہا، "میں جہاز کو یہاں سے اڑا کر لے جاؤں گا اور اسے جزیرے کے نزدیک ہی اتار کر واپس آ جاؤں گا۔ ”

علامہ جزبز ہو کر بولے، "آخر اس کا مطلب؟”

کپتان مرشد نے کہا، "میں اس بھوت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سیر و تفریح کے لیے یہاں آئے تھے اور دن بھر پکنک منا کر واپس چلے گئے۔ بات در اصل یہ ہے کہ جب ہم یہاں آئے تو جہاز کے شور کی وجہ سے بھوت چوکنا ہو گیا۔ ممکن ہے کہ وہ کسی غار میں ہو اور ہماری سب حرکات دیکھ رہا ہو۔ جب وہ دیکھ لے گا کہ جہاز واپس چلا گیا ہے تو اسے اطمینان ہو جائے گا۔ وہ اپنے غار سے باہر نکلے گا اور بے فکر ہو کر گھومنے پھرنے لگے گا۔ بس میں یہی چاہتا ہوں۔ ”

علامہ خوش ہو کر بولے، "بھئی بہت خوب!”

مرشد نے اس منصوبے پر عمل کیا اور جہاز کو دور لے جا کر پانی میں اتارا اور اسے چلاتا ہوا جزیرے کے نزدیک جھاڑیوں میں لے گیا اور اسے وہاں چھپا دیا۔ ہم چھپتے چھپاتے گاؤں میں داخل ہوئے۔ پہلے یہاں کافی رونق رہتی ہو گی۔ اب مکان خالی اور ویران پڑے تھے۔ ہم ایک ایسے کمرے میں چھپ گئے، جس میں چاروں طرف کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں۔

رات کے پہلے وقت میں خاصا اندھیرا تھا، جب چاند نکل آیا تو ہر چیز صاف دکھائی دینے لگی۔ کوئی بارہ بجے کا عمل ہو گا کہ کپتان مرشد بہت آہستہ سے بولا، "وہ دیکھو، بھوت اس چوٹی پر کھڑا ہے۔ ”

ہم نے دیکھا، پہاڑی کی چوٹی پر ایک لمبا تڑنگا بھوت کھڑا تھا۔ اس کے سارے جسم پر لمبے لمبے بال تھے اور ہاتھ میں ایک موٹا سا سونتا تھا۔

علامہ نے آہستہ سے کہا، "آؤ اسے جا کر پکڑ لیں۔ ”

مرشد نے کہا، "کیا آپ نے اس کے ہاتھ میں سونٹا نہیں دیکھا؟ وہ سونٹا مار کر بھیجا نکال دے گا اور اگر ہم نے اسے گولی ماری تو قتل کے الزام میں دھر لیے جائیں گے۔ ”

تھوڑی دیر بعد وہ بھوت چلتا ہوا پہاڑی کی دوسری طرف چلا گیا اور ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

علامہ ہاتھ ملتے ہوئے بولے، "افسوس وہ بچ کر نکل گیا۔ ”

کپتان مرشد نے کہا، "آپ سب میرے پیچھے پیچھے آئیے۔ خبردار کوئی شور نہ ہو۔ ”

ہم چھپتے چھپاتے ہوئے اس طرف چلے جہاں بھوت گیا تھا۔ اس پہاڑی کے پیچھے ایک اور پہاڑی تھی۔ ہم نے اسے پار کیا۔ اس کے پیچھے تیسری پہاڑی تھی۔ ہم نے اسے بھی پار کیا۔ آہستہ آہستہ چلتے بلکہ رینگتے ہوئے ہمیں تین گھنٹے لگ گئے۔

اس تیسری پہاڑی کی چوٹی بہت اونچی تھی۔ نیچے ایک میدانی علاقہ تھا۔ ہم نے چوٹی سے جھک کر دیکھا۔ وہاں آگ جل رہی تھی۔ ہم حیران رہ گئے۔ مرشد نے پوچھا، "علامہ صاحب! کیا بھوت پریت آگ بھی جلاتے ہیں ؟”

علامہ چڑ کر بولے، "مجھے کیا معلوم؟ آج تک کسی بھوت سے میرا واسطہ نہیں پڑا۔ ”

مرشد ہنکارا بھر کر بولا، "ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھوت آگ جلانا جانتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کے علاوہ بھی وہ بہت کچھ جانتا ہے۔ ”

میں نے پوچھا، "آخر بھوت کو آگ جلانے کی کیا ضرورت تھی؟”

مرشد ہنس کر بولا، "میرا خیال ہے کہ وہ آگ پر بھون بھون کے تکے کباب کھاتا ہے۔ ذرا صبح ہو جائے تو اس کی مزاج پرسی کرتے ہیں۔ ”

آزونا ستاروں کی طرف دیکھ کر بولا، "صبح ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے۔ ”

دن نکلنے تک ہم اسی جگہ بیٹھے رہے۔ ہم نے پھر جھانک کر دیکھا۔ میں نے کچھ لوگوں کے بولنے کی آوازیں سنیں۔ کچھ دیر بعد چھے سات آدمی ایک چھوٹی سی کشتی کھیتے ہوئے ساحل پر آئے۔ میں نے مرشد کی طرف دیکھا۔ وہ یوں اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا کہجیسے اسے سب با توں کا پہلے سے علم تھا۔

وہاں کوئی گڑبڑ ضرور تھی لیکن کیاِ؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ وہ لوگ ایک غار میں گئے اور وہاں سے کسی چیز کے بنڈل اٹھا کے لائے اور انہیں ایک جگہ ڈھیر کر دیا۔

علامہ نے پوچھا، "یہ لوگ کون ہیں ؟”

کپتان مرشد کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ وہ بالا، "یہ لوگ سیل کے شکاری ہیں اور سیل کا ناجائز شکار کرتے ہیں۔ ”

علامہ نے پوچھا، "تمہارا مطلب ہے کہ ان بنڈلوں میں کھالیں ہیں ؟”

مرشد نے کہا، "آپ جانتے ہیں کہ اس علاقے میں سیل کا شکار کرنا منع ہے۔ یہ لوگ ایک جزیرے سے یہاں شکار کھیلنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ سونٹے والا بھوت ان کا کارندہ ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ لوگوں کو خوفزدہ کر کے یہاں سے دور رکھے۔ جب میں نے خون دیکھا تو مجھے اسی وقت شبہ ہو گیا تھا کہ یہاں سیل کو ذبح کیا جاتا ہے۔ اگر سیل کو گولی مارتے تو سیل کی کھال میں سوراخ ہو جاتا اور وہ بے کار ہو جاتی۔ اس لیے اسے سونٹے مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس کی کھال اتار کر گوشت سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ اسی لیے اس جگہ شارک مچھلیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ”

یہ کہہ کر مرشد تیزی سے پہاڑی سے نیچے اترنے لگا۔ وہ سیدھا اس جگہ پہنچا جہاں شکاریوں کی کشتی کھڑی تھی۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کشتی کے پیندے پر دے مارا۔ اس میں ایک بڑا سوراخ ہو گیا۔ کشتی فوراً ہی پانی میں ڈوب گئی۔ اس نے خوشی سے چہک کر کہا، "لیجیے ان کا کھیل ختم ہوا۔ اب وہ جزیرے پر قیدی ہیں۔ ”

کچھ دیر بعد شکاری، کھالوں کے بنڈل اٹھا کر کشتی کی طرف لے چلے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس جگہ لے گئے جہاں کشتی موجود تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ کشتی غائب ہے تو انہوں نے بہت شور مچایا۔ انہوں نے ڈوبی ہوئی کشتی کو باہر نکالا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ کشتی کے پیندے میں سوراخ ہے تو انہیں یقین ہو گیا کہ جزیرے پر کوئی اور بھی موجود ہے۔ انہوں نے ریوالور نکال لیے اور ہماری تلاش میں ادھر ادھر چل دیے۔

ہم نے بہت ہوشیاری سے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔ مرشد نے اونچی آواز میں کہا، "اپنے ہتھیار پھینک دو، تم ہمارے گھیرے میں ہو۔ ”

یہ کہتے ہی اس نے ایک ہوائی فائر بھی داغ دیا۔ وہ لوگ دھماکے سے اچھل ہی پڑے۔ انہوں نے مجبور ہو کر اپنے ہتھیار پھینک دیے اور ہاتھ اونچے کر کے کھڑے ہو گئے۔

ادھر ہمارے افریقی ملازم آزونا نے وائرلیس کے زریعہ سے جنوبی افریقہ کی حکومت کے بحری افسروں سے رابطہ قائم کیا۔ انہوں نے فوری طور پر دو موٹر لانچیں روانہ کر دیں۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد ہم نے ان مجرموں کو جرم کے ثبوت یعنی کھالوں کے بنڈلوں سمیت پولیس کے حوالے کر دیا۔

ان میں سے ایک سرکاری گواہ بن گیا۔ اس نے ساری حقیقت کا انکشاف کر دیا۔ ان نے کہا، "دوسرے جزیرے پر جہاز راں کمپنی نے جو ڈپو بنا رکھا تھا، وہ صرف حکومت کو دھوکا دینے کے لیے تھا۔ ورنہ وہ کمپنی دو سال سے سیل کا ناجائز شکار کر رہی تھی۔ اگر علامہ دانش دخل اندازی نہ کرتے تو یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا۔ ”

ان لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کے منصوبہ بنایا تھا۔ جزیرے پر رہنے والوں کی موجودگی میں سیل کا شکار کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے جزیرے کے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بھگا دینے کا منصوبہ بنایا۔ اس کام کے لیے انہوں نے ایک لمبا تڑنگا حبشی ملازم رکھا۔ اسے بالوں والا لباس پہنایا۔ وہ دن بھر کسی غار میں چھپا رہتا اور رات کے وقت باہر نکلتا۔ اسے حقیقی رنگ دینے کے لیے وہ ٹیپ ریکارڈر سے چیخوں اور چنگھاڑوں کی بہت خوفناک آوازیں نکالتا۔

یہ تھی اس سونٹے والے بھوت کی حقیقت، جسے جان کر علامہ دانش کو بہت مایوسی ہوئی۔ کپتان مرشد بھی اتنا ہی رنجیدہ اور مایوس تھا۔ حکومت نے ہمارے اس کارنامے کی تعریف کی اور ہمیں انعام و کرام سے نوازا۔ علامہ دانش کو ملک کا سب سے بڑا قومی اعزاز اسٹار آف افریقہ میرا مطلب ہے ستارہ افریقہ عطا کیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک لاکھ روپے کا انعام بھی تھا۔

مجھے، آزونا اور مرشد کو بھی حکومت نے انعامات عطا کیے۔ علامہ آج بھی کسی بھوت پریت سے ملنے کے لیے اتنے ہی آرزومند ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

۶۔بھُوتوں کی بستی

 

علّامہ دانش ان دنوں بھوتوں کے متعلق تحقیقات کر رہے تھے۔ اتفاق سے انہی دنوں آسٹریلیا کے اخباروں میں ایک دلچسپ خبر شائع ہوئی۔ وہاں ایک ویران بستی میں بھوتوں نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ اس کی تصدیق کئی لوگوں نے کی تھی۔ علّامہ نے ہمیں اخبار کا ایک تراشہ پڑھنے کے لیے دیا۔ اس میں یوں لکھا تھا:

بھُوتوں کی بستی

جنوبی آسٹریلیا میں دریائے کوپر کے کنارے ایک بستی جارج ٹاؤن آباد تھی۔ دریا کے دونوں طرف بہت اونچے اونچے درخت تھے اور اس کی وادی بے حد سرسبز و شاداب تھی۔ لوگوں نے وہاں مویشیوں کے فارم قائم کر رکھے تھے۔ بدقسمتی سے دریا نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا۔ اس کے کنارے بسنے والے گاؤں جارج ٹاؤن کے لوگ پانی کی تلاش میں اپنے گھربار چھوڑ کر دوسری جگہوں میں منتقل ہونے لگے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد یہ بستی بالکل ویران ہو کر رہ گئی۔ جو جانور وہاں باقی رہ گئے تھے، وہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے۔ آخر بھوک پیاس سے وہیں مر گئے۔ ہزاروں جانوروں کے ڈھانچے وہاں بکھرے پڑے ہیں۔ ایک خشک تالاب کے ارد گرد سینکڑوں جانوروں کے ڈھانچے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ پیاس سے مر گئے تھے۔ ان کا گوشت تو کب کا گل سڑ چکا تھا۔ صرف ہڈیوں کے ڈھانچے اور چمڑا رہ گیا تھا۔

بعض مکانات مٹی میں دفن ہو چکے ہیں، بعض گر چکے ہیں لیکن کچھ مکانات ابھی تک صحیح سالم موجود ہیں۔ ان کے رہنے والے جو میز، کرسیاں، کتابیں، کپڑے اور دوسری چیزیں جس طرح چھوڑ کر گئے تھے وہ جوں کی توں موجود ہیں۔ پہلے ان مکانوں میں انسان رہتے بستے تھے، مگر اب وہاں چوہوں، الّوؤں اور پہاڑی کوّوں کا بسیرا ہے۔ غرض پورا ماحول بے حد دہشت ناک ہے۔ کچھ عرصے بعد یہ افواہ سنی گئی کہ یہاں بھوتوں نے ڈیرا جما لیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ بھوت چیختے چلاتے ہیں اور انسانوں کی طرح بولتے ہیں۔

کچھ عرصے قبل ایک سفید فام شخص سونے چاندی کی تلاش میں اس بستی میں پہنچا۔ کچھ دنوں بعد وہ گرتا پڑتا واپس ایک آبادی میں پہنچا۔ وہ ڈر کے مارے پاگل سا ہو رہا تھا۔ اس نے بہت مشکل سے بھوتوں کے متعلق کچھ بتایا۔ وہ کچھ عرصے بخار میں مبتلا رہ کر چل بسا۔

ایک افسر بہت دلیر آدمی تھا۔ وہ اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے وہاں گیا۔ اس کا بھی بھوتوں سے واسطہ پڑا۔ بھوتوں نے اس کو اتنا ڈرا دیا کہ وہ بہت دن تک بیمار رہا۔ آخر وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر انگلستان چلا گیا۔

ہمارے اخباری نمائندوں کی ایک جماعت اس خبر کی سچائی معلوم کرنے کے لیے جارج ٹاون پہنچی۔ وہاں کا ماحول بے حد دہشت ناک ہے۔ ان کے وقت تو وہاں بالکل سناٹا طاری رہتا ہے۔ انہوں نے رات کے وقت بھوتوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنیں۔ وہ بھی دہشت زدہ ہو کر وہاں سے واپس لوٹے۔

میں نے اخبار علّامہ کو واپس دے دیا۔

علّامہ نے اخبار کو اپنے بیگ میں رکھا اور بولے، "میرا ارادہ ہے کہ آسٹریلیا جاؤں اور خود ان بھوتوں کے متعلق تحقیقات کروں۔ ”

اگلے ہفتے ہم آسٹریلیا پہنچے۔ جو اخبار میں لکھا ہوا تھا، وہ حرف بہ حرف درست نکلا۔ ویران اور غیر آباد مکانات دیکھ دیکھ کر وحشت ہونے گی۔ جگہ جگہ ہڈیوں کے ڈھیر اور ڈھانچے دیکھ کر طبیعت اور بھی زیادہ پریشان ہوئی۔ میں نے وہ تالاب بھی دیکھا، جس کے پاس سینکڑوں جانور بھوک پیاس سے مر گئے تھے اور ان کے ڈھانچے ابھی تک پڑے ہوئے تھے۔

دن کا وقت تو جیسے تیسے گذر گیا۔ رات آئی تو ڈر کے مارے میری بری حالت تھی۔ کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا بھوتوں کو دیکھنے کے لیے نہیں چلو گے ؟”

میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا، "مجھے معاف ہی رکھیے۔ مجھے بھوتوں سے ملنے کا کوئی شوق نہیں۔ ”

جب مرشد، آزونا اور علامہ دانش چلے گئے تو اور بھی زیادہ دہشت محسوس ہونے لگی۔ میں جہاز سے باہر نکلا، سوکھی جھاڑیاں اور گھاس پھونس اکھٹی کی اور چائے بنانے لگا۔ کچھ دیر بعد جب میں چائے پی رہا تھا تو کسی نے بہت آہستہ سے لیکن صاف اور واضح آواز میں کہا، "وہ سب مر گئے۔ ”

میرا رواں رواں خوف سے کھڑا ہو گیا۔ میں نے وہاں سے بھاگ جانا چاہا لیکن میرے پاؤں من من بھر کے ہو گئے تھے۔

پھر کسی نے بہت درد ناک آواز میں کہا، "پانی پانی، اللہ کے لیے مجھے پانی پلادو۔ ”

جواب میں کوئی قہقہہ مار کر ہنسا۔ پھر کسی نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا، "آہ، وہ سب مر گئے مر گئے مر گئے۔ ”

میں نے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہاں کوئی بھی تو نہ تھا۔ پھر کسی نے میرے سر کے بالکل اوپر چیخ مار کر کہا، "ہائے سب مر گئے، مر گئے۔ ”

میں نے اوپر نگاہ ڈالی، وہاں کوئی نہیں تھا۔ دور آسمان پر ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ مجھے پاگل بنانے کے لیے یہ بہت کافی تھا۔ میں نے خوف اور دہشت سے ایک چیخ ماری اور اپنے ساتھیوں کی تلاش میں دیوانوں کی طرح دوڑا۔ میں نے پوری قوّت سے آواز دی، "تم کہاں ہو؟ مرشد، آزونا، علّامہ۔ ”

کسی نے بہت قریب سے جواب دیا، "مر گئے، سب مر گئے، مر گئے۔ ” پھر کوئی سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔ میں کمزور اعصاب کا وہمی آدمی نہیں ہوں لیکن اس وقت خوف اور دہشت سے میرا حال بہت برا تھا۔ میں مدد کے لیے چیختا چلاتا ہوا دوڑتا چلا گیا۔ راستے میں ان جانوروں کے ڈھانچوں سے ٹکرا گیا جو تالاب کے کنارے پڑے تھے۔ میں تالاب میں جا گرا اور بہت سے ڈھانچے میرے اوپر آ گرے۔ گرتے وقت میرے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی۔ اس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا۔

جب مجھے ہوش آیا تو میرے سب ساتھی میرے پاس موجود تھے۔ انہوں نے ہی مجھے تالاب سے نکالا تھا۔ میں نے مختصر لفظوں میں اپنی کہانی سنادی۔ مرشد ہنس کر بولا، "یہ سب تمہارا وہم ہے۔ ہم بھی یہاں بہت دیر سے گھوم پھر رہے ہیں، ہمیں تو کوئی بھوت ملا نہیں۔ ” اس کی تسلی آمیز با توں سے میرے دل کو بھی ڈھارس ہوئی۔ میں نے کہا، "تم سب میرے ساتھ چلو۔ پھر خود ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میں سچ کہتا ہوں یا جھوٹ؟”

ہم اس جگہ پہنچے جہاں میں نے چائے بنائی تھی۔ اچانک کسی نے بہت گھٹی گھٹی آواز میں کہا، "پانی پانی، مجھے تھوڑا سا پانی پلا دو۔ ”

کوئی سامنے کے مکان سے قہقہہ مار کر ہنسا،۔ پھر کسی نے چیخ ماری اور دردناک آواز میں کہا، "سب مر گئے، آہ، مر گئے مر گئے۔ ”

ہمارا افریقی ملازم تو اچانک ہی بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ وہ بے چارا بہت دیر سے ہمّت کا مظاہرہ کر رہا تھا لیکن بھوتوں کی چیخ و پکار کی تاب نہ لا سکا۔ میں اس کی تیمار داری میں مصروف ہو گیا۔ کافی دیر بعد اسے ہوش آیا۔ مرشد تعجب سے بولا، "یہ بات تو بہت عجیب ہے !”

وہ جلدی سے جہاز میں گھس گیا اور وہاں سے بارہ بور کی رائفل اٹھا لایا۔ علّامہ تیزی سے بولے، "تم کیا کرنا چاہتے ہو؟”

مرشد بولا، "میں صرف یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ درجن بھر گولیاں کھا کر بھوت کیا کہتے ہیں۔ ”

علّامہ بولے، "بے وقوف مت بنو۔ بھوتوں پر ان گولیوں کا اثر نہیں ہو گا۔ ”

مرشد بولا، "یہ بھی دیکھا جائے گا۔ ”

کسی نے اس وقت عین ہمارے سر کے اوپر سے چلا کر کہا، "مر گئے، آہ سب مے گئے۔ ”

کپتان مرشد آواز کی سمت میں اندھا دھند گولیاں چلانے لگا۔

کسی نے بڑی خوف ناک چیخ ماری لیکن بھوت کا نام و نشان تک نظر نہیں آیا۔ میرے جسم پر ٹھنڈے پسینے کی دھاریں بہنے لگیں۔

کپتان مرشد نے کہا، "میں بھوتوں کو دیکھے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔ ”

اس نے اپنی بندوق میں گولیاں بھریں اور گاؤں کی طرف چلا۔ میں مرشد کے ساتھ ساتھ ہی رہا۔ راستے میں وہی دہشت ناک آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ کبھی کوئی نزدیک سے بولتا، کبھی آوازیں دور سے آتیں۔ کبھی یوں لگتا کہ بد روحیں ہر طرف منڈلاتی پھر رہی ہوں۔ آخر ہم ان ٹوٹے پھوٹے مکانات تک جا پہنچے۔ کپتان مرشد نے ٹارچ کی روشنی میں ایک مکان کے اندر دیکھا۔ وہاں چوہے، چمگادڑیں اور مکڑی کے جالوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں تھا۔ علّامہ دانش بولے، "تم نے روشنی کر کے بھوتوں کو بھگا دیا ہے۔ اب ذرا اس ٹارچ کو تھوڑی دیر کے لیے بجھا دو۔ ”

کپتان مرشد نے علّامہ کی ہدایت پر عمل کیا اور ٹارچ بجھا دی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اندھیرے میں مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔

کوئی پانچ منٹ بعد ہی کوئی ہمارے قریب قہقہہ مار کر ہنسا۔ کپتان مرشد نے اسی سمت میں ٹارچ سے روشنی پھینکی لیکن افسوس ذرا دیر ہو گئی تھی۔ ایک سایہ ہوا میں تیرتا ہوا کھڑکی سے باہر نکل گیا۔ مرشد نے فوراً اس طرف ایک فائر داغ دیا۔ باہر سے بہت سی چیخیں اور شور سنائی دیا۔ شاید بھوت ہماری بے بسی کا مذاق اڑا رہے تھے۔

میں نے آہستہ سے کہا، "میرا خیال بہت ہو چکا ہے۔ اب ان بھوتوں کا پیچھا چھوڑ دو۔ واپس چلو۔ ”

علّامہ بھی میرے ہم خیال تھے لیکن مرشد بہت عزم سے بولا، "واہ جی، اتنا روپیہ پیسہ خرچ کر کے ہم ان بھوتوں سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔ تم میں سے جو کوئی جانا چاہتا ہے، وہ بہت شوق سے واپس جائے۔ میں تو ان بھوتوں سے ملے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔ ”

علّامہ دانش نے کئی مرتبہ بڑبڑاتے ہوئے کہا، "کہ یہ سب کیا اسرار ہے۔ ”

مرشد نے مجھ سے کہا، "تم یہ ٹارچ سنبھال کر آگے آگے چلو۔ ”

میری تو جیسے جان ہی نکل گئی، لیکن مجھے کپتان مرشد کا حکم ماننا پڑا۔ ہم ایک کمرے میں پہنچے۔ وہاں پیانو رکھا ہوا تھا۔ جوں ہی میں نے کمرے میں قدم رکھنا چاہا۔ کوئی چیز بہت تیزی سے باہر کی طرف نکلی۔ اس نے بہت زور سے میرے منہ پر چانٹا مارا، میں لڑکھڑا کر گرا اور ساتھ ہی ٹارچ میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر دور جا گری۔

مرشد نے جلدی سے ٹارچ اٹھا کر اس کی روشنی میرے اوپر پھینکی اور پوچھا، "یہ کیا چیز تھی؟”

میں نے ہکلاتے ہوئے کہا، "میں خود نہیں جانتا، بس اتنا ضرور ہوا ہے کہ کسی نے بہت زور سے میرے منہ پر چانٹا مارا ہے۔ ”

میں نے محسوس کیا کہ میرا چہرہ گیلا ہو رہا ہے۔ علّامہ دانش نے ٹارچ کی روشنی میں میرا چہرہ دیکھا اور بولے، "ارے ! تمہارے منہ پر تو خون لگا ہوا ہے۔ ”

مرشد نے جلدی جلدی کپڑے سے میرا منہ پوچھا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے چہرے پر کوئی زخم نہیں آیا تھا۔

ہم نے کمرے میں قدم رکھا تو ہماری نظریں خون میں لت پت چوہے پر پڑیں۔

مرشد مسکرا کر بولا، "ایک بات تو معلوم ہو گئی۔ وہ یہ کہ تمہارے چہرے پر جو خون لگا ہوا تھا وہ اس چوہے کا تھا۔ ”

پھر وہ علّامہ سے مخاطب ہوا، "علامہ صاحب! کیا بھوت چوہے بھی کھاتے ہیں ؟”

علّامہ دانش جھنجھلا کر بولے، "ارے بھئی مجھے کیا معلوم، بھوت کیا کھاتے ہیں اور کیا نہیں کھاتے ! مجھے آج تک کسی بھوت سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ”

کپتان مرشد ہنس کر بولا، "کیا آپ بھوت سے ملنا پسند فرمائیں گے ؟”

مجھے محسوس ہوا کہ کپتان مرشد بھوتوں کی حقیقت جان چکے ہیں۔ مرشد نے کہا، "ذرا ایک منٹ ٹھہریے۔”

پھر اس نے ٹارچ میرے ہاتھوں میں تھما دی اور بولا، "جوں ہی میں آواز دوں تم ٹارچ کی روشنی چوہے پر پھینکنا۔ دیکھو، ایک منٹ کی تاخیر بھی کام بگاڑ سکتی ہے۔ بھوت ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے۔ ”

اب پھر انتظار کا دور شروع ہوا۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک ہم دم سادھے کھڑے رہے۔ اچانک مرشد نے آواز دی، "ٹارچ جلاؤ، جلدی۔ ”

میں نے ٹارچ کی روشنی مردہ چوہے پر پھینکی۔ دھائیں، مرشد کی بندوق سے گونج دار آواز نکلی۔ ہم دوڑتے ہوئے مکان سے باہر نکلے۔ وہاں مردہ چوہے کے برابر ایک پہاڑی کوّا پرا تھا۔

علّامہ ہنس کر بولے، "تم بھوت مارنے گئے تھے یا پہاڑی کوّے کو؟”

مرشد طنزیہ لہجے میں بولا، "اجی قبلہ، میں نے بھوت پر گولی چلائی تھی اور آپ کا بھوت یہی ہے۔ ”

مین نے کہا، "اب پہیلیاں تو نہ بھجواؤ۔ مجھے تمہاری با توں سے الجھن سی ہونے لگی ہے۔ ”

کپتان مرشد ہنس کر بولا، "ارے بھولے بادشاہ! یہی تو وہ بھوت ہے، جس سے ڈر کر تم بے ہوش ہو گئے تھے۔ کیا تم نے پہاڑی کوّوں کو بولتے نہیں سنا؟ سدھائے ہوئے پہاڑی کوّے طوطوں سے زیادہ بہتر اور صاف بول سکتے ہیں۔ ”

اب ساری بات صاف ہو گئی تھی۔ ہم اپنی حماقتوں پر دل کھول کر ہنسے۔ علّامہ دانش قہقہہ لگا کر بولے، "کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ ”

جب ہم جہاز پر پہنچے اس وقت بھی قہقہے لگا رہے تھے۔ آزونا ہمارا حال دیکھ کر بہت فکرمند ہوا۔ وہ سمجھا ہم سب پاگل ہو گئے ہیں۔ اپنی ہنسی پر بہت مشکل سے قابو پا کے مرشد نے آزونا کو سب بات بتا دی۔ وہ بھی بھوتوں کی حقیقت جان کر قہقہے لگانے لگا۔ وہ جہاز کے کیبن میں گیا اور چائے بنا کر لایا۔ کافی دیر بعد ہماری ہنسی اور قہقہوں کا طوفان تھما۔

علّامہ بولے، "کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ جسے ہم بے حد پراسرار راز سمجھتے تھے، حقیقت میں وہ کچھ بھی نہ تھا۔ البتہ کچھ باتیں میری سمجھ میں بھی نہیں آئیں۔ پہاڑی کوّا دن کا جانور ہے۔ اس میں کس طرح الوّؤں اور چمگادڑوں کی طرح رات میں دیکھنے اور دن میں اندھے پن کی خاصیت پیدا ہو گئی؟ ممکن ہے کبھی کوئی ساٗنسدان اس راز سے پردہ اٹھا دے۔ ”

اگلے دن ہم ان پہاڑی کوّوں کی تلاش میں نکلے۔ اندھیرے کونوں کھدروں میں ہم نے بہت سے کوّوں کو اونگھتے ہوئے دیکھا۔ ہم نے دو تین کوّوں کو پکڑ کر روشنی میں لا کر چھوڑ دیا۔ ان کی آنکھیں روشنی میں چندھیا گئیں اور وہ اندھوں کی طرح ہو گئے۔

علّامہ نے کہا، "جب لوگ یہاں آباد ہوئے اور بستیاں بنا کر رہنے لگے تو وہ لوگ یہ کوّے بھی اپنے ساتھ لائے ہوں گے۔ کچھ کوّے لوگوں نے اپنے گھر میں پال رکھے تھے۔ یہ طوطوں کی طرح انسانی آواز کی نقل اتار سکتے ہیں اور بہت جلدی بولنا سیکھ جاتے ہیں۔ جب دریائے کوپر خشک ہو گیا تو لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے۔ شاید دو تین لوگ یہاں کسی وجہ سے رہ گئے۔ وہ پیاس سے مرنے لگے تو کسی نے پکارا، "پانی پانی، اللہ کے واسطے مجھے پانی پلا دو۔ ” کوئی اور شخص سب لوگوں کی تباہی پر سسکیاں بھر کر رویا ہو گا اور بولا ہو گا، "مر گئے، آہ مر گئے، سب مر گئے۔ ”

اب اتفاق دیکھیے ان کوّوں نے آخری الفاظ یاد کر لیے۔ وہ یہی الفاظ بار بار دہراتے رہے۔ پھر انہوں نے انڈے دیے اور ان سے بچّے نکلے، انہوں نے بھی یہ سبق یاد کر لیا۔ اس طرح ہوتے ہوتے پہاڑی کوّوں کی ساری آبادی ان الفاظ کی نقل کرنے لگی۔ ان کوّوں کو ان با توں کا مطلب تو معلوم نہیں تھا، مگر جس سفید فام شخص نے انہیں سنا، اس کے حواس گم ہو گئے۔ یہی حال اس کے افسر کا ہوا۔ ”

کپتان مرشد قہقہہ لگا کر بولا، "اور یہی حال تمہارا ہوا۔ آزونا تو خیر سے ہے ہی وہمی۔ ”

میں نے جھینپ کر کہا، "مجھ ہی پر کیا موقوف ہے، یہاں تو بڑے بڑے پہلوانوں کا پِتّا پانی ہو جاتا ہے۔”

یوں علّامہ دانش کی ہر بات کی تہہ تک پہنچنے کی عادت اور مرشد کی بہادری کے سبب یہ راز سب پر ظاہر ہو گیا۔

٭٭٭

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ  کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

ماخذ: اردو محفل

نونہال، کراچی کے مختلف شماروں سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید