FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

حق گوئی و بے باکی

رؤف خیرؔ

 

 

 

 

ادب کے تئیں میرا نقطۂ نظر

        اصل میں تنقید اک نقطۂ نظر کے اظہار سے عبارت ہے اور یہ نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے کوئی فن پارہ ضروری ہے۔فی الحال ہم شعرو ادب سے اپنے آپ کو وابستہ رکھتے ہوئے تنقید کے امکانات کا جائزہ لیں گے۔ تخلیق کار جن الفاظ میں اک خیال پیش کرتا ہے اس کی ترسیل اگر قاری یا سامع تک ہوتی ہے تو اس خیال کو رد و قبول کرنے کا اختیار بھی قاری یا سامع کو ہے۔ جس طرح فن پارہ پیش کرنے میں تخلیق کار آزاد ہے اسی طرح اس کی معنویت کے ادراک میں مخاطَب آزاد ہے۔اور مخاطب کو تنقید کا حق ہے۔نقاد پیش کردہ تخلیق کو اس کی face valueلفظی اعتبار سے بھی لیتا ہے اور بین السطور مفاہیم کا اندازہ بھی لگا تا ہے جس طرح تخلیق کار اپنے مافی الضمیر کو الفاظ و معانی کے حوالے کرتا ہے اسی طرح نقاد اپنے نقطۂ نظر سے اس تخلیق کا جائزہ لیتا ہے۔اور اس کے مرتبے کا تعین بھی کرتا ہے۔ آئیڈ یالوجی، فلسفہ، ازم، مذہب، سماجی ذمہ داریاں وغیرہ ایک تخلیق کار کے ذہن میں کار فرما ہوتی ہیں وہ ان میں سے سب سے یا کسی خاص مسلک سے متاثر ہوسکتا ہے اور اسی مسلک کی ترویج و اشاعت میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔

        تخلیق کار ظاہر ہے خلا میں نہیں رہتا۔اس کی تخلیق اسی مٹی سے پھوٹتی ہے جس میں وہ سانس لیتا ہے۔تنقید نگار اسی لیے کسی تخلیق کا احاطہ کرتے ہوئے سیاق و سباق پر بھی نظر رکھتا ہے۔تخلیق کار کے ذہن کو پڑھتے ہوئے ناقد اپنا ذہن بھی واضح کرتا ہے۔

        مثلاً شعر کا جائزہ لیتے ہوئے شاعر کی فکری وابستگی تلاش کی جاتی ہے۔علم عروض اور زبان و بیان پر اس کی دسترس دیکھی جاتی ہے۔شعری اسلوب کے ساتھ ساتھ فنی لوازمات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اور ان سارے امور پر گفتگو کا حق اسی کو مل سکتا ہے جو ان امور پر خود بھی دسترس رکھتا ہو۔کم از کم میں اسی خیال کا حامی ہوں جب کہ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ ضروری نہیں کہ نقاد بھی اسی اسطح کا تخلیق کا ر بھی ہو۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ کسی آرٹسٹ نے ایک تصویر بنائی اور سرراہ لٹکا دی اس گزارش کے ساتھ کہ اس میں عیوب کی نشاندہی کی جائے چند ہی دنوں میں اس میں ا تنے کیڑے نکالے گئے کہ تصویر بدصورت ہو کر رہ گئی دوسری دفعہ اسی مصور نے ایک تصویر لٹکاتے ہوئے یہ گزارش کی کہ اس کو اچھی تصویر بنانے کے لیے اس کی اصلاح کی جائے اور اس سے اچھی تصویر بنا کر دکھا یا جائے۔تب کسی نے اس تصویر پر کسی قسم کا حرف نہیں رکھا۔بڑی لکیر کھینچنے کا جگر رکھنے والے کو کسی لکیر پر حرف رکھنے کی اجازت ہونی چاہئیے مگر ہمارے ہاں شعرو ادب میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔نیاز فتح پوری نے اپنے رسالے ’’نگار‘‘ میں ’’مالہٗ و ماعلیہ‘‘ اور ’’انتقادیات ‘‘ کے حوالے سے جوش، فراق، جگر، سیماب اکبرآبادی وغیرہ پر بڑی کڑی تنقید کی۔ علی اختر کو جو ش سے بہتر قرار دینے کی بہت کوشش کی۔ اسی طرح کلیم الدین احمد نے غزل کو وحشی صنف قرار تو دیا ہی تھا اپنے والد عظیم احمد کو عظیم شاعر ثابت کرنے کے بہت جتن کیے۔   آل احمد سرور کا ذوق و جنوں سرور نہ بخش سکا۔اور تو اور گیان چند جین نے بھی ’’شاعری‘‘ فرمائی ہے۔اس سلسلے میں کئی نام لیے جا سکتے ہیں کہ ہر نقاد اپنے آپ کو شاعر کے روپ میں بھی پیش کرنے کا جذبہ رکھتا ہے شاید اس احساس کے تحت کہ اگر ہم کسی کے فن پارے پر تنقید کرتے ہیں تو خود بھی ’’اچھا‘‘ فن پارہ پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔نقاد کتنی اہلیت رکھتا ہے وہ تو شاعر ہی جانتا ہے یا پھر کوئی اور نقاد کیونکہ ہر نقاد کے اوپر ایک اور نقاد بیٹھا ہوتا ہے جو اس کے نقد و نظر پر نظر رکھتا ہے۔

        مولانا محمد حسین آزاد نے ’’آب حیات‘‘ میں اپنے استاد شیخ ابراہیم ذوق کو اس دور کے ہر شاعر سے بہترو برتر ثابت کرنا چاہا مگر آگے چل کر اربابِ نظر نے غالب کو علیٰ کل غالب قرار دیا ویسے اس میں خود غالب کا کمال ہے اگر غالب ہی بے ہنر ہوتے تو کس میں یہ بوتا ہوتا کہ انھیں آسمانِ ادب پر بٹھاتا یہ ایسی ہی غلطی ہوتی جیسی محمد حسین آزاد سے سرزد ہوئی۔

        ترقی پسند تحریک کی یہ خوبی رہی ہے کہ وہ ہر اس ادیب و شاعر کو اچھالتی رہی ہے جو اس تحریک سے وابستہ رہا ہے۔مجاز کو ہیرو بنا ڈالا۔عصمت کی ٹیڑھی لکیر کو چغتائی آرٹ کا نمونہ قرار دیا کرشن کی سرگذشت کو تزک بابری جانا۔ہر عاشق ہے سردار یہاں ہر معشوقہ سلطانہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب کو گل و بلبل کے چونچلوں سے نجات دی، دلی کی بربادی اور دل کی بربادی میں تمیز سکھائی۔ناول اور افسانے کو عالمی ادب سے آنکھ ملانا سکھایا۔اسی طرح تنقیدی بصیرت سے ادب کو آشنا کیا ہر چند کہ یہ تنقیدی بصیرت ایک مخصوص منشور کے محدب عد سے سے گزاری جاتی تھی۔اس کے باوجود تاثراتی تنقید، جمالیاتی تنقید، سائنٹفک تنقید وغیرہ وغیرہ کے دبستان وجود میں آئے۔اختر حسین رائے پوری، مجنوں گورکھپوری، احتشام حسین، آل احمد سرور وغیرہ پیدا ہوئے جنھوں نے ترقی پسند نقطۂ نظر کی حمایت بھی کی اور ادبی اقدار کی درجہ بندی کی۔کلا سیکی روایات کی قدر بھی کی۔انسانیت اور سچائی کے علم بردار ہو کر انھوں نے معروضی اظہار کو ادب کہا۔ڈپٹی نذیر احمد اور پریم چند میں یہی تو فرق ہے کہ ڈپٹی ندیر احمد کے کیرکٹر (کردار) وعظ کرتے لگتے ہیں جب کہ یہی باتیں پریم چند کے دیہاتی کرداروں کے منہ سے کچھ اور مزہ دیتی ہیں۔پھر یوں ہوا کہ محنت و سرمایہ، کاشت کاری اور استعماری طاقتوں کی رسہ کشی ایک کلیشے CLICHEبن گئی۔اس صورت حال کے جواب میں جدیدیت اٹھی جس میں فرد کو ہر قسم کی آزادی دی گئی۔زندگی گزارنے کی بھی اور اس انفرادی زندگی کے نشیب و فراز کو اپنے طور پر بیان کرنے کی آزادی بھی۔ن۔م۔راشد کا لا= انسان ماورائے تنقید ہو کر ایران میں اجنبی ہی نہیں ہندو پاک میں بھی ’’گماں کا ممکن‘‘ ہو کر رہ گیا۔میراجی ہاتھوں میں گولے لے کر جوئے بار کے کنارے میرا کے خواب دیکھتے رہ گئے۔

        ادب پر جو شب خون مارا گیا وہ اظہر من الشمس ہے فاروقی کی تنقیدی بصیرت کا یہ حال ہے کہ وہ خود تو زبان و بیان کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں لیکن اپنے حواریوں کو ہر قسم کے رطب و یابس کی چھوٹ دے رکھی تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ ادب کے نام پر ہر بے ادبی کو ایک تجربہ کا نام دیا گیا۔ایسے ایسے ’’نئے نام ‘‘ افق پر  دُم دار  ستاروں کی طرح دکھائی دیئے جو ’’نظام شمسی ‘‘ کا حصہ ہو کر رہ گئے۔

        کسی نے کہا کہ تنقیدی کتاب کی عمر بہت لمبی نہیں ہوتی۔نظریات بدلتے ہی پرانی کتاب ’’طاقِ نسیاں ‘‘ کی زینت ہو کر رہ جاتی ہے بقول شمس الرحمن فاروقی ’’جدید تہذیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ متروکیت (OBSOLESCENCE) کی تہذیب ہے۔یہاں اشیاء جلد جلد پرانی ہوتی ہیں۔۔۔علم و دانش کی دنیا عام طور پر مترو کیت سے مصؤن رہتی آئی ہے لیکن آج مغربی علم و دانش کی فیشن ایبل دنیا میں متروکیت کا دور دورہ ہم اسقدر دیکھتے ہیں کہ کیا عالم اور کیا طالبِ علم سب اس پھیر میں ہیں کہ کوئی ’’نئی بات‘‘ پیدا کی جائے اور اگر کوئی ’’نیا نظریہ ‘‘ پیش کیا جا سکے تو پھر کیا کہنا۔اس بات سے ہمیں غرض نہ ہونا چاہیئے کہ اس ’’نئے نظریئے‘‘ کو ثبات کتنا ہو گا؟ کسی نئی بات کو صحیح یا تقریباً یا کم و بیش صحیح ثابت ہونے کے لیے بھی کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے لیکن جب چند دن بعد ایک اور ’’نیا نظریہ ‘‘ سامنے آنے والا ہی ہے تو پھر یہ شرط غیر ضروری ہے کہ ’’نئے نظریۂ کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے کو قائم کرسکے ‘‘۔       (سہ ماہی ’’اثبات ‘‘ شمارہ جون تا اگسٹ ۲۰۰۸ء)

        جدیدیت کے تعلق سے ایک دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ محمد حسن عسکری جیسے نابغۂ روزگار نے جدیدیت کو مغربی گمراہیوں کا خاکہ قرار دے کر جو کتاب لکھی تو ان کا منشا یہ تھا کہ نئی نسل کے ادیب شاعر اور خاص طور پر دارالعلوم کراچی کے طلبہ مغرب کی ان تمام گمراہیوں سے واقف ہوں جو جدیدیت کے نام سے پوری دنیا میں پھیلائے جا رہے ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے محمد حسن عسکری کے تعلق سے یہ انکشاف اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے جو ’’اردو چینل‘‘ ستمبر ۲۰۰۷ء  کے شمارے میں شائع ہوا۔یہ شمارہ مختلف ادیبوں شاعروں اور نقادوں سے انٹرویو ز ہی پر مبنی ہے۔

        محمد حسن عسکری نے جدیدیت کے نام سے مغربی گمراہیوں کو اردو ادب میں پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنے اک نظام خیال کی تشکیل کی کوشش کی۔پھر انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’محض نظریہ اچھا ہویا برا۔اس سے کام نہیں چلتا۔اصل چیز تو تخلیق ہے۔برے نظریئے کے تحت بھی اچھی تخلیق ممکن ہے۔بشرطیکہ لکھنے والے میں صلاحیت ہو‘‘ گویا ہر پھر کر بات وہیں آ جاتی ہے کہ شعرو ادب پہلے شعر و ادب کے معیار پر پورا اترے فنی لوازمات کا سلیقۂ اظہار اس میں ہو۔منٹو کی کہانیوں میں فحش کو اگر فی الحال فرض کربھی لیا جائے تو اس برے نظرئیے کے تحت بھی تو منٹو نے بروں کی نفسیات پیش کر کے برائی سے اور فحاشی سے نفرت دلانے کی کوشش کی ہے یا کم از کم مجبوراً برائی میں ملوث رہنے والے سے ہمدردی سکھائی ہے۔بنیادی بات یہ کہ منٹو کی کہانی نہ وعظ ہے اور نہ اشتہار وہ ادب کا شاہ کار ہوتی ہے۔

        جو  خاکے  منٹو نے لکھے وہ بھی اپنی جگہ ادب کا سنگِ میل ہیں۔اس نے بتایا کہ خاکے کیسے لکھے جاتے ہیں۔مختصر یہ کہ ادب کی بنیادی شرط ادب ہی ہے۔

جدیدیت میں اپنی ذات یا شخصیت کا اظہار اہم سمجھا جاتا ہے مگر مجنوں گور کھپوری اسے ’’مریضانہ فعل‘‘ قرار دیتے ہیں۔اپنے آپ کو ننگا کرنا ادب نہیں ہے بلکہ ادب اک تہذیب کا نمائندہ ہے اور تہذیب کا تقاضہ بھی کرتا ہے۔ میرے خیال میں ہر مکتب فکر کے ہر اچھے خیال سے استفادہ ایک اچھے ادیب و شاعر کا وتیرہ ہونا چاہئیے۔اسے نہ متعصب ہونا چاہئیے نہ حد سے زیادہ آزادہ رو۔ اب جدیدیت بھی کئی روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔مردوں کے ساتھ ساتھ عورت کی انفرادیت بھی سراٹھانے لگی۔تانیثیت (FEMINISM) اور پھر ہم جنس عورت LESBIANکی طرح ادھر کچھ دنوں سے GAY LITERATUREبھی اپنی شناخت چاہتا ہے۔نارمل آدمی گے GAYسے یوں ہمدردانہ۔ نرم گوشہ رکھتا ہے کہ یہ لوگ اک کرب سے گزر رہے ہیں اس کے بر خلاف گے اپنے آپ کو منوانے کے لیے ہم جنسی کو شادی کی سند دلانے پر آمادہ ہیں۔

        مغرب میں مرد سے مرد کی شادی اور عورت سے عورت کی شادی اب عیب نہیں رہ گئیGAY اور LESBIANادیب اور شاعر بھی ہوتے ہیں اس طرح ان کی فکر اپنے اپنے موقف کی عکاسی پر مصر ہے۔ادب کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔میر صاحب کو اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی اجازت ہے جس کے سبب وہ بیمار ہوئے تو اس لونڈے کو بھی حق ملنا چاہئیے کہ ’’جوارشِ جامنحوس‘‘ کے ذائقے سے ادب کو زردائے۔  ایک مکتب تنقید ETHICSاور MORALITY  یعنی اخلاقیات اور حسن عمل پر بھی زور دیتا ہے۔فرانسیسی مورخ فرانسوا داسہ FRACOIS DOSSEکے فلسفے کو HISTORY OF STRUCTURALISMمیں پیش کیا گیا ہے۔گویا یہ ادب کی ایک بالکل ہی متضاد صورت حال  ہے۔

        لاتشکیل DECONSTRUCTIONکا فلسفہ بھی تنقید میں شعرو ادب کے ساتھ در آیا۔ہمارے نقادوں کا یہ حال ہے کہ مغرب سے ایسے تمام فلسفوں کو کھینچ تان کر اردو ادب پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اردو کے شاعروں ادیبوں کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے مغربی فلسفوں کے حوالے فیشن کے طور پیش کرتے ہیں۔آڈن نے کہا تھا POETRY MAKES NOTHING HAPPENیعنی شاعری و اعری سے کچھ ہونے والا نہیں تو پھر تنقید کہاں ٹکے گی ؟

        مابعد جدیدیت کے ہم نوا یہ کہتے ہیں کہ اس فلسفے میں ادیب شاعر کو مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی ازم، مسلک کا پیرو ہوسکتا ہے اور کسی بھی مکتب فکر سے وابستہ ہوسکتا ہے پھر اپنے شعرو ادب میں یعنی تخلیقات میں اپنے احساسات کے اظہار کا حق رکھتا ہے۔ کوئی منشور کوئی ضابطہ اسے روک نہیں سکتا۔مابعد جدیدیت کے تین عناصر سمجھے جاتے ہیں :

۱:۔ تکثیریت۔  ۲:۔ارتباط با ہم        اور                 ۳:۔تشکیلی حقیقت

۱:۔ ’’تکثیریت کا مطلب ہے مابعد جدیدیت کسی واحد بیانیے، نظریئے، کسی ایک ثقافت اور حصول علم کے کسی ایک ذریعے کو حتمی خیال نہیں کرتی ‘‘۔ ۲:۔ارتباط باہم کا مطلب ہے علوم کے مابین مغائرت کو دور کرنا اور INTER DISCIPLINARYمطالعات کو رائج کرنے پر زور دینا۔‘‘

۳:۔تشکیلی حقیقت نے ہماری (قوت) متخیلہ کو بے دخل کرنے کی کوشش کی ہے اور یوں ہمیں انفعالیت کا شکار کیا ہے ‘‘ (بدلتی دنیا میں ادب اور تنقید نا صر عباس۔اثبات (جون تا اگسٹ ۲۰۰۸ء)

فرد کی آزادی کو بنیاد بنا کر جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی بحث ہوتی رہتی ہے۔لیکن اک اور تحریک بھی ہے جس نے فرد کو کھلا نہیں چھوڑ دیا۔ اسے صالح معاشرے کا ایک صالح فرد بننا سکھایا۔جس طرح شعر کے لیے الفاظ کا فنّی رچاؤ، موضوع کی جدت اور فنی لوازمات کا لحا ظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح  تحریک ادبِ اسلامی، فرد کو صالح فکری نظام سے جوڑنے کے جتن کرتی ہے۔یہ ایک ایسی فکری جہت ہے جس میں انسان بجائے خود سب کچھ نہیں ہوتا بلکہ اس کے سامنے ایک ایسا نظام ہوتا ہے جس کا وہ فرد ہے۔جب ترقی پسند تحریک کے ادیب و شاعر ایک خاص منشور کے مطابق تخلیقی صلاحیتیں پیش کرتے ہیں تو انھیں تو ادب کا شاہ کار سمجھا جاتا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہر ٹیڑھی لکیر چغتائی آرٹ کا نمونہ، پتے پھینٹنے والے سردار کے لیے ٹھنڈا گوشت بھی خوش ذائقہ۔

تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

جیسے شعر ادب کی آواز۔یہ ادب کی آواز نہیں بلکہ بے ادبی کا آغاز ہے۔کیونکہ روٹی کی طرح عورت بھی ان کے ہاں مل بانٹ کراستعمال کرنے کی چیز ہے۔عورت پر قدغن ان کے ہاں دقیانوسیت ہے۔حجاب کے بجائے بے حجابی میں حسن ہے۔فرد کی آزادی کے نام پر ’’آمری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘ ہی ادب ہو کر رہ گیا ہے۔ایسے میں اگر سنجیدگی کے ساتھ ایک آئیڈیل انسان کی پیروی کرتے ہوئے مرد مومن کی شان پیدا کرنے کی بات کی جائے تو آخر کیوں صدا بصحرا ٹھیرے گی۔یقیناً تحریک اسلامی فرد کو شتر بے مہار کی طرح بے سمت چرنے چگنے کے لیے چھوڑ نہیں دیتی۔اس پر اگر صالحیت کی پابندی عائد کرتی ہے تو یہ اس کے حق میں مفید مطلب ہی تو ہے۔یہ تحریک عورت کو تسلیمہ بننے نہیں دیتی بلکہ اس کی عصمت کی ضمانت دیتی ہے۔یہ اس کو رشدی بننے نہیں دیتی بلکہ رشدو ہدایت کا راستہ دکھاتی ہے۔

٭٭٭

 

اچھی نثر کی خصوصیات

        میرے خیال میں نثر لکھنا غزل کہنے سے زیادہ مشکل ہے۔ کیوں کہ غزل میں قافیہ و ردیف کے سہارے خوش آہنگی پیدا ہوہی جاتی ہے اور ہر شعر کا کچھ نہ کچھ مطلب نکالا ہی جا سکتا ہے جب کہ نثر وضاحت اور منطقی جواز سے عبارت ہوتی ہے۔ ایک شعر کے کئی معنے نکالے جا سکتے ہیں یہی سبب ہے کہ غالب کے کلام کی شرحیں آج تک لکھی جا رہی ہیں مگر نثر کے ہر جملے کا عموماً ایک ہی متعین مطلب ہوتا ہے۔ ذو معنویت دراصل زبان کا حسن ہے۔ یہ کہنے اور سننے یا لکھنے اور پڑھنے والے کی خوش ذوقی کا غماز ہوتا ہے۔ فقرہ بازی کا یہی تو مزہ ہے کہ بات دل پر اثر ضرور کرے مگر دل نہ توڑے۔ یہ ہنر زبان و بیان پر دسترس سے آتا ہے۔ مثلاً غالبؔ کے لطیفے جیسے آم بیزار شخص جب غالب سے کہتا ہے کہ آم تو ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا۔ جواباً غالب کہتے ہیں کہ ’’ہاں گدھے آم نہیں کھاتے‘‘ اس فقرے میں بلاغت کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس میں شک نہیں بعض شعر بھی فصاحت و بلاغت کے شاہکار ہوتے ہیں جیسے:

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب  کوئی  دوسرا نہیں ہوتا

یا پھر:

ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے

کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے

سہلِ ممتنع کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ ایسا شعر جو نثر سے اتنا قریب ہو کہ اس کی مزید نثر نہ کی جا سکتی ہو یہی اس کا حسن ہے۔ گویا نثر کا حسن شعر پر غالب ہے۔

میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ شعر تو گلی کا ہر وہ شاعر جو قافیہ و ردیف سے آگہی رکھتا ہو، کہہ لیتا ہے مگر مصرع کہنا بہت مشکل ہے۔ مصرع کہنا ایک ہنر ہے۔ میرا مطلع ہے:

شعر کہنا  اگر  آ جائے تو  مصرع کہنا

آتے آتے تمھیں آ جائے گا مطلع کہنا

اسی طرح اچھی نثر لکھنا بھی ایسا ہی کما ل ہے۔ ہر لکھنے والے کو لکھنا نہیں آتا:

ہر ایک شخص کو لکھنا کہاں یہ آتا ہے

ہماری طرح لکھا کر اگر ہے کچھ لکھنا

شاعر کو تو خود یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اگلا شعر وہ کیا کہنے والا ہے۔ جب شعر اس سے ہو جاتا ہے تب خود اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ بات اس کے شعر سے برآمد ہوتی ہے جب کہ نثر لکھنے والا جو سوچتا ہے اسی کو الفاظ کے حوالے کرتا ہے یعنی اس کی فکر طے شدہ ہوتی ہے ’’جو قافیے پہ بیت گئی وہ  توسنادی‘‘ والا معاملہ نہیں ہوتا۔ گویا نثر کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ موضوع و منشا طے شدہ ہوتا ہے۔یہ کوئی مصرع طرح پر کہی جانے والی غزل نہیں ہوتی۔

نثر کی دوسری بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ تکلف و تصنع سے عاری ہوتی ہے۔ دو ٹوک انداز میں جو بات دل سے نکلتی ہے وہ ظاہر ہے دل پر اثر بھی کرتی ہے۔ لچھے دار پر تکلف گفتگو کرنے والے کو سننے والے طرح دے جاتے ہیں دل میں جگہ نہیں دیتے جیسے لیڈروں کی تقریریں۔ مولوی کو چاہیے کہ وہ حکایاتِ بے سند نہ سنائے۔ اسرائیلیات سے بچے اور اپنی ہر بات کی دلیل قرآن و سنت سے دے۔ فٹ پاتھی دوا فروشوں اور مداریوں کی باتیں دلچسپی سے سنی تو جا سکتی ہیں مگر ان پر یقین کرنے والا دھوکا کھا جاتا ہے۔ گویا نثر کی خوبی یہ ہے کہ یہ سنی سنائی پر ایمان نہیں لاتی بلکہ پکی تحریر کا تقاضا کرتی ہے۔ اسی لیے ایک عام محاورہ ہے سو بکے ایک لکھے۔ بات جب تحریر میں آ جاتی ہے تو پھر مصدقہ ہو جاتی ہے اور تحریر گنجلک اور مبہم نہ ہو۔ ابہام بھلے ہی شعر کے لیے حسن کا درجہ رکھتا ہو، نثر کے لیے عیب ہے۔ نثر تحقیق سے عبارت ہے اور تحقیق کبھی مبہم نہیں ہوا کرتی۔

        شعر میں تعقید شاعرانہ مجبوری کا نام ہے کہ بحر کے تقاضے پورے کرنے کے لیے شاعر الفاظ کو آگے پیچھے کرنے پر مجبور ہوتا ہے مگر نثر میں تعقید بہت بڑا عیب ہے۔ بغیر کسی کاوش کے جو مثال ہاتھ لگی میں وہ پیش کرتا ہوں۔

مرزا فرحت اللہ بیگ ’’ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں فرماتے ہیں :

 ’’محاوروں کے استعمال کا شوق مولوی صاحب کو حد سے زیادہ تھا‘‘ میرے خیال میں یہ جملہ یوں ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا ’’مولوی صاحب کو محاوروں کے استعمال کا حد سے زیادہ شوق تھا‘‘۔ معاف کرنا میں ذرا جسارتِ بے جا سے کام لے رہا ہوں کہ اہلِ زبان پر گرفت کرنے لگا ہوں۔ ڈھونڈنے والوں کو خود اس مضمون میں کئی خامیاں مل جائیں گی۔ آدمی لکھتے وقت ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دھیان دینے لگے تو اصل موضوع رہ جائے لیکن نثر کی خوبی و خرابی کی نشاندہی بھی تو ضروری ہے۔

میرے خیال میں اچھی نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جملے چھوٹے چھوٹے ہوں اور اپنی جگہ پر مکمل ہوں۔ مرکب جملے Complex Sentences نثر کے حسن کو متاثر کرتے ہیں۔ مولانا علی میاں ابوالحسن علی ندوی کی تحریروں میں مرکب جملے بہت کھلتے ہیں غالباً یہ عربی اثر ہے۔ آپ اگر عقیدت کو اک ذرا پرے رکھ کر ا ن کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو کئی مثالیں مل جائیں گی۔ Randomly میں نے سہ ماہی ’’آمد‘‘ کا صفحہ ۵۰۱ کھولا تو وصیہ عرفانہ کے مضمون کا پہلا ہی جملہ کچھ یوں دکھائی دیا:

 ’’بیسویں صدی کے نصف اول میں ہی جب کہ مختصر افسانے کے نین و نقش ابھر رہے تھے اور مختصر افسانہ رومانی حکایات اور خواب آگیں فضا کے سائے میں اپنی صنفی پہچان قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ترقی پسند تحریک نے اسے حقیقت پسندی اور سماجی صداقت نگاری کے اثر انگیز لطف سے آشنا کرایا‘‘۔

یہ دراصل تین جملے ہیں جو خواہ مخواہ ( جبکہ) (اور) (کہ) کے ذریعے جوڑ دیے گئے ہیں۔ یہ تین الفاظ نکال دیں تو تحریر رواں ہو جائے۔ مخفی مباد کہ ہندی لفظ کے ساتھ واو عطف استعمال نہیں کیا جاتا۔ (نین و نقش) کہنا  نامناسب ہے۔

گویا اچھی نثر چھوٹے چھوٹے جملوں میں ہی مزہ دیتی ہے۔ ہر جملہ اپنی جگہ مکمل بھی ہوتا ہے اور اپنے اگلے جملے سے مربوط بھی ہوتا ہے۔

نثر علمیت سے بھرپور ہوتی ہے اور جہاں علمیت ختم ہوتی ہے وہاں سے غنائیت سے بھرپور شعریت شروع ہوتی ہے جس میں نئے نئے معانی و مفاہیم فرض کر لیے جا سکتے ہیں۔ نثر میں ہر بات کی دلیل دینی پڑتی ہے ورنہ بات ناقابلِ اعتنا ٹھہرتی ہے۔ ویسے دعویٰ اور دلیل کی ہم آہنگی ہی سے اچھا شعر بھی وجود میں آتا ہے۔

نثر زیادہ تر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اس لیے پڑھنے والا زبان و بیان اور موضوع سب پر نظر رکھتا ہے جب کہ شاعری عموماً سننے میں زیادہ مزہ دیتی ہے کہ اس میں جو غنائی پہلو ہے وہ پہلے سماعت کو متاثر کرتا ہے تب کہیں دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر نہ بھی سنیں تو قاری خود بہ آواز بلند اسے پڑھتے ہوئے اس کی خوش آہنگی سے لطف اندوز ہوتا جاتا ہے۔ نثر میں غنائی عنصر نہیں ہوتا بلکہ علمی جواز ہوتا ہے جو قلمکار و قاری دونوں سے تفکر و تدبر کا تقاضا کرتا ہے اور وہی تحریر معتبر ٹھہرتی ہے جو یہ تقاضے پورے کرتی ہے۔

ردیف کی مجبوری کی وجہ سے بعض وقت شاعر ایسے الفاظ استعمال کر جاتا ہے جو حشو و زوائد شمار ہوتے ہیں۔ جیسے جہان میں ہے، مکان میں ہے، خاندان میں ہے وغیرہ وغیرہ کے ساتھ ’’درمیان میں ہے‘‘ کہہ دیتا ہے جب کہ ’’درمیان‘‘ کے ساتھ ’ میں‘ کی ضرورت نہیں۔ نثر لکھتے ہوئے ’میں‘ حذف کرنا پڑے گا جیسے ’’دونوں کے درمیان معاہدہ طے پایا‘‘ نثر میں حشو و زوائد سے آسانی سے بچا جا سکتا ہے کہ کوئی شعری مجبوری نہیں ہوتی۔

ابن صفی کے تمام ناولوں میں لفظ ’ دوران‘ کے ساتھ بھی ’ میں‘ استعمال ہوا ہے جب کہ یہاں بھی لفظ  ’میں‘ غیر ضروری ہے۔ ’’اس دوران پولیس آ گئی‘‘ لکھنا کافی ہے ’’اس دوران میں پولیس آ گئی‘‘ نامناسب ہے۔ مگر ابن صفی نے ہمیشہ دوران کے ساتھ ’ میں‘) کا استعمال کیا ہے۔ ابن صفی بہت اچھی زبان لکھتے تھے مگر ایسے جملے مجھے کھل جاتے تھے۔

اسی طرح  ’ذریعے‘ کے ساتھ اکثر قلمکار ’سے‘ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہاں بھی ’ سے‘ حشو ہے۔ ان کے ذریعے معاملہ طے پا گیا کہنا کافی ہے۔ ’ذریعے سے‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔

ایک صاحب نے اپنے مضمون میں لکھا:

 ’’نام نہاد ناقد اور مبصر اپنی سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے بغیر کتاب پڑھے۔۔۔ فوراً تبصرہ لکھ کر متعلقہ مصنف کی خدمت میں بھیج دیتا ہے یا کسی اخبار یا رسالے کے حوالے کر دیتا ہے‘‘۔

اس جملے میں لفظ ’اپنی‘ کھلتا ہے اور ’بغیر کتاب پڑھے‘ کہنے کے بجائے ’کتاب پڑھے بغیر‘ لکھنا چاہیے تھا۔

آپ نے کسی کے بارے میں یہ لکھا دیکھا ہو گا کہ سات سال کی عمر میں ان کے والد کا یا والدہ کا انتقال ہو گیا۔ لکھنے والا کہنا یہ چاہتا ہے کہ لڑکا جب سات سال کا تھا اس وقت اس کے والدہ یا والد کا انتقال ہو گیا۔ مگر مضحکہ خیز جملہ لکھ گیا۔ ذرا سوچیے جب والد یا والدہ ہی سات سال کی عمر میں فوت ہو گئے تو پھر موصوف کیسے پیدا ہوئے؟ نثر میں ایسے جملے مذاق کا نمونہ بن جاتے ہیں۔

بہرحال زبان و بیان کا خاص خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ سورۂ بقرہ  (قرآن) میں ہے : صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کیا کرو بے شک نماز بھاری بار ہے  (مگر اللہ سے ڈرنے والوں پر نہیں جو اللہ سے ملاقات کے متمنی اور اس کی طرف لوٹنے والے ہیں) یہاں مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں فرمایا کہ اللہ سے ڈرنے والوں پر تو نماز کا نہیں پڑھنا بار گزرتا ہے۔

اہلِ علم کے بعض جملے بھی ضرب المثل اشعار ہی کی طرح مقبولِ خاص و عام ہیں۔ جیسے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ایک شاعر کی شاعری کے تعلق سے رائے دیتے ہوئے کہا تھا:

 ’’ان کے شعر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی خرابی نہیں اور خرابی یہ ہے کہ کوئی خوبی نہیں ہے‘‘۔

کئی کمزور شاعر ایسے بھی گزرے ہیں جن کا ایک آدھ شعر ہی مشہور ہو گیا۔ ایسی ہی صورتِ حال کے بارے میں جگر مرادآبادی نے اظہارِ خیال کیا تھا:

 ’’اللہ کسی شاعر کو سزا دینا چاہتا ہے تو اس پر برے شعر نازل کرتا ہے اور اگر کسی اچھے شعر کو سزا دینا چاہتا ہے تو اسے کسی معمولی شاعر پر نازل کرتا ہے‘‘۔

یہ جملہ بھی اکثر ترجمے کے حسن و قبح کے بارے میں کہا جاتا ہے:

 ’’ترجمہ اک ایسی عورت کی طرح ہے جو وفادار ہو تو حسین نہیں ہوتی اور اگر حسین ہو تو وفادار نہیں ہوتی‘‘۔

طنز و مزاح کے تعلق سے بھی مشہور ہے:

 ’’طنز و مزاح دو دھاری تلوار ہے جو کسی اناڑی کے ہاتھ آ جائے تو خود تلوار چلانے والے کو زخمی کر دیتی ہے‘‘۔

دلیپ کمار نے ایک نئے اداکار سے کہا تھا کہ انکار یعنی No بولنا بھی سیکھو۔ یہی بات جاں نثار اختر نے بھی کہی تھی ہر ’’نہیں‘‘ ہاں سے بڑی ہے۔ بقول خیرؔ:

ہر بات مان لینے کی عادت خراب ہے

نا قابلِ  قبول  کو  رد  بھی  کیا کرو

اسی طرح ہری چند اختر نے کہا تھا:

 ’’یہ تو بہتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا لکھنا ہے لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہوتی ہے کہ کیا نہیں لکھنا ہے‘‘۔

جو بات ’’بین السطور‘‘ ہوتی ہے دراصل وہی کہنے کی بات ہے جو ان کہی ہو کر بھی کہی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑا کمال ہے۔ یہ آتے آتے آتا ہے۔

اچھی نثر لکھنے کے لیے زبان و بیان پر دسترس بے حد ضروری ہے۔ لکھنے کا کوئی جواز ہونا چاہیے۔ زبان عامیانہ نہیں بلکہ علمی ہونی چاہیے۔ جس موضوع پر لکھنا ہو اس کا حق ادا ہونا چاہیے۔ واضح اور دو ٹوک انداز اختیار کرنا چاہیے تاکہ منشا و مقصد مبہم نہ رہ جائے لیکن اس سلیقے سے کہ ان کہی بھی کھل جائے۔ Details are Dirty تکرار بہت بڑا عیب ہے۔ اس سے ہر سطح پر بچنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک ہی قسم کے الفاظ بار بار دہرائے جا رہے ہوں تو لکھنے والا اپنے ذخیرۂ الفاظ کی کوتاہی کی نشاندہی کر لیتا ہے اور اگر موضوع ہی کو دہراتا ہے تو گویا اپنی علمیت کے فقدان کی خبر دیتا ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ جب میں کوئی لفظ ایک بار استعمال کرتا ہوں تو وہ لفظ میرے لیے مر جاتا ہے میں دوبارہ اسے نہیں برتتا اسی طرح ایک موضوع پر جب قلم اٹھایا تو پھر اسے کبھی نہیں چھونا چاہیے۔ ہر بار نیا موضوع اور ہر بار نئے محاورے میں گفتگو کرنا ہی کمال ہے تبھی شاعر و ادیب زندہ رہ سکتا ہے۔

منشی پریم چند نے لکھا کہ انھوں نے اپنی ایک ایک کہانی کو چودہ  چودہ  مرتبہ لکھا ہے تب کہیں جا کر وہ کہانی ہو پائی ہے۔ اسی لیے اگر کوئی شاعر ہے تو بہتر سے بہتر مصرع کہنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اسی طرح نثر نگار کو چاہیے کہ وہ زبان و بیان کو مانجھتا رہے تا آں کہ بہتر سے بہتر اسلوب میں اپنے موضوع کا حق ادا ہو جائے۔میں نے اپنے اس مضمون میں یہی کچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔

        نثر کی جتنی اقسام ہیں اتنے ہی اس کے تقاضے بھی ہیں۔ افسانے میں ایک چھوٹا سا واقعہ محدود کرداروں کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے جب کہ ناول میں کئی ذیلی کردار اپنے اپنے مسائل کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ ناول کی خوبی یہ ہے کہ ہر  رۂے کے بجائے (یل: اعجاز عبیدگل ٹرانسلیٹ کی کردار سے انصاف کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک کردار جھلک تو دکھائے مگر اچانک غائب ہو جائے۔اس کی آمد کا جواز بھی ہونا چاہیے اور منظر سے اس کے غائب ہو جانے کا سبب بھی ہونا چاہیے۔

        خود ناول کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ جاسوسی ناول کا دارومدار تجسس (Suspense) پر ہوتا ہے۔ سماجی ناول کی بھی یہی خوبی ہوتی ہے۔ اگر ناول کی ابتدا ہی میں اس کے انجام کا اندازہ ہو جائے تو پھر قاری کی دلچسپی ہی ختم ہو جائے۔یہی ناول کی ناکامی ہے۔ طلسمی دنیا، تاریخی ناول، قصۂ ہوش ربا وغیرہ کی بنیاد ہی تجسس پر رکھی جاتی ہے۔ داستانیں عموماً سینکڑوں صفحات پر پھیلی ہونے کے باوجود اسی تجسس کی وجہ سے بڑے شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ یہی حال فلم کا ہے۔ اگر فلم کے ابتدائی مرحلے ہی میں اس کی پوری کہانی کھل جائے تو فلم دیکھنے میں بھلا دلچسپی کیا خاک رہ جائے گی۔

        مقالہ و مضمون میں تفصیل و اجمال کا فرق ہے۔ مقالے میں اپنے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے جب کہ مضمون میں اشاروں کنایوں میں اپنی بات مکمل کر لی جاتی ہے۔ اگر تحریر بے جواز و بے دلیل ہو اور زبان و بیان میں جھول ہو تو وہ قاری یا سامع کو بور کر دیے گی۔

        خاکہ نگاری کے لیے ممدوح سے خاکہ نگار کی قربت اور بے تکلفی ضروری ہے۔

        انشائیہ، فکاہیہ، طنزیہ و مزاحیہ مضامین میں زبان و بیان ہی سے تو کام لیا جاتا ہے۔ ویسے شعر و ادب سارے کا سارا لفظوں ہی کا کھیل ہے مگر طنز و مزاح میں لفظ کا تخلیقی استعمال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔طنز و مزاح دودھاری تلوار ہے۔ اگر یہ کسی اناڑی کے ہاتھ میں ہو تو دوسروں کے ساتھ ساتھ خود طنز و مزاح نگار کو بھی زخمی کر کے رکھ دیتی ہے۔ رعایتِ لفظی سے فائدہ اٹھانے کے لیے زبان و بیان پر دسترس لازمی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ موضوع کے بغیر الفاظ سے کھیلنے کی کوئی صورت ہی نہیں رہ جاتی۔ ادب کے منظر و پس منظر سے قاری کا واقف ہونا بھی ضروری ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور خامہ بگوش ( مشفق خواجہ) کی تحریروں سے لطف اٹھانے کے لیے آدمی کا پڑھا لکھا ہونا بے حد ضروری ہے۔

        اپنے ایک مضمون میں رتن ٹاٹا کے تعلق سے صابرسیوانی نے  (روزنامہ سیاست،۲۷؍نومبر۲۰۱۱ء کو) لکھا

 ’’نمک سازی سے فولاد سازی تک ٹاٹا گروپ نے صنعت سازی میں اپنا لوہا منوایا ہے‘‘

    کیسا تہہ دار جملہ ہے۔ صنعت سازی میں لوہا منوانا۔ کیسی کیسی رعایتوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔

        اچھی نثر کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ صرف Data Collection  نہیں ہوتی، معلومات بہم پہنچانا صحافت کا کام ہے۔ ادب میں معلومات فراہم کرتے ہوئے ادیب کو بھی داخل رہنا چاہیے۔ ادب و صحافت میں یہی تو فرق ہے۔ شاعری میں بعض شاعروں نے اپنا منفرد اسلوب بنا لیا ہے جیسے علامہ اقبال، جوش، میر و غالب، انیس، امجد وغیرہ۔ اگر کوئی شاعر ان کی پیروی کرتا ہے تو گویا ان کے اسلوب میں خود کو گم کر دیتا ہے۔ اسی طرح نثر میں منشی پریم چند، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، مولانا ابوالکلام آزاد کا خاص اسلوب ہے۔ ان کے رنگ میں اگر کوئی لکھتا ہے تو اس کی اپنی پہچان قائم نہیں ہو پاتی۔ اسی لیے اپنا طرز آپ ایجاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جس طرح شاعری میں سرقہ و توارد کی مثالیں مل جاتی ہیں اسی طرح نثر میں بھی یہ روایت پائی جاتی ہے۔ پروفیسرابومحمدسحر کا تحقیقی مقالہ ہے ’’مطالعۂ  امیر مینائی‘‘ اسی مقالے کو سامنے رکھ کر ایک صاحب محمد علی زیدی نے ’’مطالعۂ داغ‘‘ لکھ ڈالا۔ صرف اتنا کیا کہ جہاں جہاں امیر مینائی کے اشعار مثال میں دیے گئے تھے وہاں وہاں انھوں نے داغ کے شعر ڈال دیے اور یوں ڈاکٹریٹ کر لی۔ ظہیر آباد کے رہنے والے ایک نوجوان نوید نے خورشید احمد جامی اور شاذ تمکنت پر لکھے ہوئے ہمارے مضامین (جو ہماری کتاب ’’دکن کے رتن اور اربابِ فن‘‘ میں بھی شامل ہیں) اپنے نام سے چھپوا دیے اور دیدہ دلیری تو دیکھیے حیدرآباد ہی کے روزنامہ ’’منصف‘‘ میں چھپوائے۔ ہم نے اس چوری کی ( ثبوت کے ساتھ) پول کھول دی تو اخبار نے نوید میاں کو بلیک لسٹ Black List  کر دیا۔

بلیک لسٹ پر یاد آیا کہ اردو لکھتے ہوئے ہندی یا انگریزی کا لفظ اس وقت تک استعمال نہیں کرنا چاہیے جب تک اس کا مترادف اردو میں موجود ہے۔ ناگزیر صورتِ حال ہی میں ہندی یا انگریزی لفظ برتا جا سکتا ہے مگر کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ اردو ہی کے برمحل محاورے میں منشا و مقصد ادا ہو جائے وہ ادیب ہی کیا جو اپنا ما فی الضمیر اپنی ہی زبان میں ادا نہ کرسکتا ہو۔

میرے خیال میں کسی ادب پارے کی تلخیص دراصل تخلیق اور تخلیق کار دونوں کی توہین ہے۔ نظم ہو کہ نثر بسیار گوئی کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ قافیے کے امکانات چمکانے کے چکر میں فراق گورکھپوری ترسٹھ ترسٹھ شعر کی سہ غزلہ کہا کرتے تھے جس میں بمشکل تین چار شعر ہی کام کے ہوتے تھے۔ تخلص بھوپالی کی خالہ کے لمبے چوڑے پاندان کے بالمقابل پطرس بخاری کی چھالیہ کے دس بارہ ٹکڑے آج تک زیادہ مزہ دیتے ہیں۔ ناول ہو کہ افسانہ، مضمون ہو کہ مقالہ طویل ہو جائے تو اپنا لطف کھو دیتا ہے۔ لمبی لمبی نظموں غزلوں کی جگہ دو تین یا چار چھ مصرعوں کی نظمیں زیادہ پسند کی جانے لگی ہیں۔ حتیٰ کہ یک مصرعی نظمیں تک کہی جانے لگی ہیں (جس کا موجد راقم الحروف رؤف خیر خود ہے) اسی طرح ناول و افسانہ کی جگہ افسانچے فروغ پا رہے ہیں۔ مصروفیت اور الیکٹرانک میڈیا کے اس برق رفتار دور میں اختصار ہی کی ہرسو پذیرائی ہوئی ہے۔ طوالت عموماً ادب سے زیادہ بے ادبی کو دعوت دیتی ہے۔ شعر کی ہوس جس طرح شاعر کو ہوٹ کرواتی ہے اسی طرح نثر کی حرص نثرنگار کو لے ڈوبتی ہے اسی لیے میں اپنا یہ مختصر سا مضمون یہیں ختم کرتا ہوں۔

٭٭٭

 

قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر کے بیچ رنجش

        اردو ادب میں خاتون قلم کاروں کی پذیرائی جی کھول کر اور بانہیں پھیلا کرکی گئی ہے مگر اس کے لیے ان خواتین کا بے باک ہونا شرط اول ہے۔عصمت لحاف سے باہر نکل کر ٹیٹرھی لکیر پر چل پڑتی ہیں۔رشید جہاں انگار ے ہاتھوں میں لینے کا حوصلہ رکھتی ہیں وہیں انھی انگاروں سے فہمیدہ اور رضیہ سجا د ظہیر کے ساتھ ساتھ یکے از زیدیان اپنے سگریٹ سلگاتی ہیں اور ان کا ساتھ دینے میں تسلیمہ ’’لجا‘‘ محسوس نہیں کرتیں۔کشور کشائی میں اک غیرت ناہید نے اپنی بری کتھا لکھنے میں کوئی عار نہیں سمجھا یا پھر کوئی بانو اپنے    دستر خوان کے ذریعے مشہور و ممتاز سمجھے جانے والے ادیبوں شاعروں ناقدوں کو نان و نمک پیش کر کے ایوان ادب میں داخل ہوتی ہیں، مشاعرہ باز متشاعرات کا ذکر ہی یہاں مقصود نہیں کہ یہ زیریں لہر صرف متنظمین مشاعرہ اور عوام کو متاثر کرتی ہے اور ان کی زلف سخن خاصان ’’ نظم‘‘ کے شانوں پر اور عامیانِ غزل کی آنکھوں پر لہراتی ہے۔

        مگر بعض ایسی ٹھوس قلم کا ر خواتین بھی ہیں جنہوں نے اپنے قلم کا لوہا منوایا ہے انھی میں قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر بھی ہیں۔قرۃالعین حیدر ۲۰، جنوری ۱۹۲۷ کو   علی گڑھ میں اپنے زمانے کے منفرد  ادیب سید سجاد حیدر یلدرم کے گھر پیدا ہوئیں (ان کی پیدائش کے سال میں اکثر رسائل نے اختلاف کا اظہار کیا ہے کہیں ۱۹۲۶ء تو کہیں ۱۹۲۸ء بھی چھپا ہے) ۔ روشن خیال آزادہ رو خاندان کی فرد ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے قلم کو شتر بے مہار ہونے نہیں دیا۔مغربی تہذیب کی دلدادہ ہونے کے باوجود نہ وہ ’’اوہ امریکہ‘‘۔۔۔۔۔۔کہتی ہیں نہ اپنی عنبریں کی نتھ اترواتی ہیں نہ کسی کردار کو اترن پہنا کر لطیفے کو کہانی بناتی ہیں۔ ان کی چاندنی بیگم چائے کے باغ کے کنارے ہاؤسنگ سوسائٹی میں گردش رنگ چمن پر گہری نظر ڈالتی ہیں تو کبھی ستمبر کے چاند کا لطف لینے کے لیے سفینۂ غم د ل میں بیٹھ کر آخر شب کے ہمسفر کے ساتھ آگ کا دریا پار کرنے کی کوشش کرتی ہوئی جہانِ دیگر پہنچتی ہیں۔

        اردو ادب میں علامہ اقبال سے زیادہ پڑھا لکھا شاعر نہ پیدا ہوا ہے نہ ہو گا اسی طرح قرۃ العین حیدر سے بڑی ادیبہ نہ ہوئی ہے نہ ہو گی۔

        قرۃ العین حیدر کی علمیت کا اعتراف نہ کرنا اپنی لاعلمیت کا ثبوت دینا ہے۔ان کی تعلیم لکھنو ئ، سے لے کر کیمرج یونیورسٹی اور لندن کے مایہ ناز اسکولوں میں ہوئی۔ظاہر ہے یہ سار ا پس منظر ان کا مزاج بنانے میں اپنا حصہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر انھیں اپنے معیار پر پورا اترنے والا کوئی فرد ملا ہی نہیں اس لیے انھوں نے زندگی کا سفر تنہا ہی طے کرنے کی ٹھانی۔اسی لیے مزاج میں خود سری (DOGMATISM) تھی۔

        بعض وقت وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خفا ہو جاتی تھیں۔انٹر ویو دینے سے تو بہت گریز کرتی رہیں۔فوٹو کھنچوانے کے سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ڈاکٹر ابرار رحمانی نے بیان کیا ہے کہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘ (دہلی) کے دفتر میں وہ محو گفتگو تھیں کہ سرکاری فوٹو گرافر نے فوٹو کھینچ لیا۔ ’’پھر کیا تھا تھوڑی دیر کے لیے ان کی خو ش کلامی کو بریک سالگ گیا اور سخت ناراضگی کے آثار ان کے چہرے پر نظر آنے لگے۔۔۔کچھ دیر تک وہ بھڑاس نکالتی رہیں جب بھڑاس نکال چکیں تو اپنے پرس سے آئینہ اور کنگھی نکالی اور رخ زیبا سنوارنے لگیں۔تھوڑی سی لپ سٹک بھی لگائی تب چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ’’اب تصویر کھینچئے۔ (ماہنامہ ایوان اردو جنوری ۲۰۰۸ء)

        اپنے آپ سے پیار کس کو نہیں ہوتا ہے۔منظر میں رہنا ہر شخص چاہتا ہے۔فن کا رتو ہوتا ہی منظر کے لیے ہے۔بلکہ بعض نام نہاد فن کاروں اور متشاعروں کے پس منظر میں بھی فن کا ر ہی ہوتے ہیں۔قرۃالعین حیدر اپنی شرطوں پر جینے کی عادی تھیں۔وہ اپنی بات منوا کر رہتی تھیں۔ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ (ممبئی) جنوری ۲۰۰۸ء  میں افتخار امام صدیقی نے اک دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ قرۃالعین حیدر کی زندگی میں وہ ان پر فضیل جعفری اور سلمٰی صدیقی سے مضامین لکھوا رہے تھے۔

         ’’میں نے اپنی پریشانیوں کا آغاز کیا کہ عینی آپا کو بتا دیا کہ فیضل جعفری (کذا) اور سلمٰی صدیقی صاحبہ نے اپنے اپنے مقالے لکھ کر اشاعت کے لیے دیئے۔اب عینی آپا بضد کہ پہلے وہ دونوں مضامین پڑھیں گی اس کے بعد ہی وہ شائع ہوں گے۔مذکورہ دونوں قلم کاروں کا اصرار کہ ہمارے مضامین عینی آپا کو دکھائے بغیر ہی شائع کئے جائیں۔عینی آپا کی دھمکیاں شروع ہو گئیں کہ پریس اور ’’ شاعر‘‘ دونوں بند کر وا دوں گی، میرے پڑھے بغیر مضامین کی اشاعت ہر گز نہ ہو۔‘‘

         ’’شاہد احمد دہلوی۔۔۔پکچر گیلری کی ایک تصویر ‘‘ کے عنوان سے لکھے ہوئے اپنے خاکے میں قرۃالعین حیدر نے خود ہی بیان کیا کہ :

         ’’میرے بھانجے عاصم زیدی نے ایک روز مجھے بتایا کہ آپ کے متعلق ایک نہایت بے ہودہ مضمون ’’ساقی ‘‘ میں شائع ہوا ہے۔کسی نے لوسی فر کے فرضی نام سے لکھا ہے۔۔۔۔وہ مضمون میں آج پڑھتی تو بے حد ہنسی آتی لیکن اس وقت شدید غصہ آیا۔اس وقت تک شاہد صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔میں نے انھیں ریڈیو سٹیشن پر فو ن کیا۔میں نے ان سے کہا کہ آپ جیسے مہذب انسان سے یہ توقع نہ تھی۔۔وغیرہ وغیرہ انھوں نے بھی کافی سختی سے جواب دیا۔میں نے کہا بالکل بلاوجہ آپ میرے خلاف اس قسم کا بے بنیاد مضمون کیوں چھاپ رہے ہیں۔پھر میں نے کہا ’’ساقی ‘‘ یہاں مالی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور شاید آپ کا خیال ہے کہ اس طرح کے سنسنی خیز مضامین سے پر چہ بک جائے گا مگر مجھ غریب کو بے قصور نشانہ کیوں بنائیے؟ (شاہد احمد) کہنے لگے اچھا کل آپ ریڈیو سٹیشن آئیے۔وہاں وہ مجھ سے پھر الجھ گئے اور کہنے لگے اچھا اب ہماری آپ کی ملاقات عدالت میں ہو گی۔میں حیران پریشان۔دوسرے روز وہ مضمون کا پروف لے کر آئے۔مگر پروف شاہد صاحب نے اسی وقت پھاڑ دیئے۔‘‘

         (سہ ماہی ’’سفیر اردو ‘‘ اکتالیسواں شمارہ جولائی، ستمبر ۲۰۰۷،   لندن)

        یہ وہی شاہد احمد ہیں جن کے بارے میں قرۃ العین نے اپنے اسی مضمون میں یہ بھی لکھا :  ’’ بہت ممکن تھا کہ TEENAGE HOBBYکی حیثیت سے تھوڑے بہت افسانے لکھ کر چھوڑ دیتی مگر شاہد احمد صاحب کی مسلسل فرمائش اور اصرار سے بڑی سخت ہمت افزائی ہوئی۔ میرے پہلے افسانے کا تذکرہ انھوں نے اپنے ایڈیٹوریل میں کیا‘‘۔  ایسے کئی واقعات ہیں جہاں قرۃ العین حیدر دو ٹوک انداز میں اپنی خفگی کا اظہار کرتی ہیں۔ اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پروین شاکر بھی ان کی زد میں آئیں۔

        پروین شاکر ۱۹۵۲ء  میں کراچی میں پیدا  ہوئیں یعنے قرۃ العین حیدر سے عمر میں تقریباً پچیس ۲۵ برس چھوٹی تھیں۔ پروین کے والدین بہاری تھے۔ (جناب مظہر امام کے لیے ناز فرمانے کا ایک اور موقع ہے ڈاکٹر وہاب اشرفی کے لیے بھی یہ خبر باعثِ افتخار ہی ہو گی کہ ان کا ’’مباحثہ‘‘ بڑا پر بِہار ہوتا ہے) ۔ بہار کے (ب) کو کسرہ ہے) ۔ ایک کرم فرما جناب مضطر اپنی تفنن مجازی سے (تفنن مزاجی بھی کہا جا سکتا ہے) پروین شاکر کو عورتوں کی اختر شیرانی تک کہتے ہیں مگر وہ اپنے خیال سے رجوع بھی کسی بھی وقت کرسکتے ہیں۔ مگر سچ پوچھئے تو پروین شاکر کی طرح شعر کہنے کاسلیقہ بہت ہی کم شاعرات اور بہت کم شاعروں کو ملا ہے۔ کچھ تو اللہ نے انھیں صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا اور کچھ تو انھیں GODFATHERS بھی اچھے مل گئے، وہ چل نکلیں۔کم عمری میں انھیں کئی تجربات سے گزرنا پڑا۔ کئی اعزازات بھی ملے۔ اس ماہ تمام کی رویتِ ہلال<<۱۹ء   میں ’’ خوشبو ‘‘ سے ہوئی۔ پھر تو یہ گلِ صد برگ اپنی بہار دکھانے لگا۔ایم اے   (انگریزی لسانیات) کرنے کے بعد وہ انگریزی لکچرر ہو گئیں۔ ۱۹۸۲ء میں پاکستان سِول سرویس کا امتحان کامیاب کر کے حکومت کے اس اہم شعبے میں آ گئیں۔ پاکستان ٹی وی کے لیے انھوں نے کئی مشاہیر سے انٹرویو لیے جو بہت مقبول ہوئے۔ ۱۹۷۶ء میں ان کی شادی ان کے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔پروین شاکر ۱۹۷۹ء میں ایک بیٹے کی ماں بنیں اب وہ بیٹا تیس سال کا ہو چکا ہے۔ وہ بامراد پتہ نہیں اپنی ماں پر شاکر ہے یا اپنے باپ کی نصرت کر رہا ہے۔ جانے کیا بات ہوئی کہ صرف دس گیارہ سال تک ہی پروین شاکر اور نصیر ساتھ ساتھ نباہ کرسکے۔ ۱۹۸۷ء  میں دونوں میں طلاق ہو گئی۔اس ’’کفِ آئینہ‘‘ کے پیچھے ’’انکار‘‘ و اثبات کے زنگار سے فی الحال ہمیں کوئی علاقہ نہیں کہ ہم تو اس ’’ماہ تمام‘‘ کے مہتابِ  سخن کی ’’خوش کلامی‘‘ کے گرویدہ ہیں۔پروین شاکر نے عورت کی نفسیات اور ماقبل و مابعد بلوغت کے احساسات کو جس بلاغت سے پیش کیا ہے وہ کسی اور شاعر کے پاس ایسے تہذیبی پیرایۂ اظہار میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔پروین شاکر کے لب و لہجہ میں حسن کی تہذیب بھی ہے اور تہذیب کا حسن بھی ہے۔

        فکشن میں قرۃ العین حیدر جتنی مقبول و ممتاز ہیں شعر و ادب میں پروین شاکر بھی اتنی ہی مقبول ہیں۔ زندگی نے وفا نہ کی ورنہ بہت ممکن تھا کہ وہ کئی اور شاہ کار اردو ادب کو دے جاتیں۔ ۲۶؍ڈسمبر۱۹۹۴ء  کو کار کے ایک حادثے میں وہ جاں بحق ہو گئیں۔ گویا صرف ۴۲ بیالیس بہاریں ہی وہ دیکھ پائیں۔ مگر شہرت ان کے قدم چومتی تھی۔

        اصل موضوع کی طرف میں آتا ہوں کہ  ۷۸ ۱۹ء   کے اواخر میں وہ ہندوستان آئی تھیں۔ واپس جا کر انھوں نے اپنے سفر کی یاد گار کے طور کئی نظمیں لکھیں جن میں تین نظمیں بطور خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ تاج محل۔فراق گورکھپوری۔اور قرۃ العین حیدر پر لکھی ہوئی وہ نظمیں ’’سیپ‘‘ کراچی۔شمارہ  ۳۸ (اکٹوبر نومبر ۱۹۷۸ء   میں شائع ہوئی تھیں) ۔

         ’’سیپ کا یہ شمارہ جب قرۃ العین حیدر صاحبہ تک پہنچا تو انھوں نے اپنے اوپر لکھی گئی نظم کے رد عمل کے طور پر مدیر ’’سیپ‘‘ نسیم درانی  اور پروین شاکر کے نام الگ الگ دو خطوط ارسال کئے۔ پروین شاکر کے نام خط یوں تھا:

        ممبئی۔۔۔۳؍ جنوری ۱۹۷۹ء

                محترمہ پروین شاکر صاحبہ

        سیپ میں آپ کی نظم دیکھی جس میں آپ نے اپنی شاعری اور تخیل کے جوہر دکھائے ہیں۔ میں آپ سے بہت خلوص اور اپنائیت سے ملی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا آپ نے میرے متعلق اس قدر لچر الفاظ کس طرح اور کیوں استعمال کیے اور آپ کو میں کس طور پر ایسی FIGURE OF THE TRAGEDY  &  FRUSTATION   نظر آئی    یا اس قسم کی SICK نظمیں لکھ کر آپ اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔آپ شاید بھولتی ہیں اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔میں چھ ۶ تاریخ کو تین ماہ کے لیے دلی جا رہی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ مندرجہ ذیل پتے پر مجھے لکھیں گی کہ آپ نے یہ نظم کیا سوچ کر لکھی یا آپ کی واقعی اتنیSICK ذہنیت ہے کہ آپ میری شخصیت کو اس طرح مسخ کر کے پیش کریں۔نہ میری آپ سے پرانی  دوستی ہے نہ آپ میری ہم عمر ہیں۔ آپ نے دو تین بار کی سرسری ملاقات کے بعد میرے طرز زندگی پر جو قطعی میرا اپنا انتخاب اور میرا معاملہ ہے فیصلے صادر کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ یا آپ بمبئی آ کر بوکھلا گئی تھیں –

OR YOU MUST BE RIGHT OUT OF YOUR MIND

                                                        قرۃ العین حیدر

        دوسرا خط مدیر ’’سیپ‘‘ نسیم درانی کے نام یوں تھا :

        جناب مدیرسیپ نسیم درانی صاحب تسلیم!

        آپ کے رسالے میں پروین شاکر صاحبہ کی نظم دیکھ کر افسوس ہوا اور تعجب بھی۔ادیبوں کی شخصیت کو بلاوجہ اور بلا جواز Unprovokedمسخ کر کے پیش کرنا یا ان پر کیچڑ اچھالنا ہمارے اردو رسالوں کا وطیرہ (کذا) بن گیا ہے اور یہ وبا عام ہو چکی ہے۔اس قسم کی Viciousnessکی وجہ کیا ہے۔یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔امید ہے آپ مجھے بتائیں گے۔والسلام

        پتہ دیا تھا :  معرفت مسٹر ایم آئی قدوائی، وائس چانسلر س ہاؤس، جامعہ ملیہ اسلامیہ پی۔او جامعہ نگر۔اوکھلا۔نئی دہلی۔۲۵

        قرۃالعین حیدر کا خط پا کر پروین شاکر حیران ہوئیں کہ خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی ہوئی نظم کا یہ الٹا اثر ہوا۔انھوں نے تمام تر احترام ملحوظ رکھتے ہوئے قرۃ العین حیدر کو جواب دیا اور اس کی ایک نقل مدیر سیپ نسیم درانی کو بھی بھیج دی۔نسیم درانی نے مدیرانہ ذمہ داری اور مدیرانہ تہذیب کے پیش نظر وہ خطوط اس وقت شائع نہیں کیے مگر سیپ کی ایک خاص اشاعت شمارہ ۷۵۔ ۲۰۰۶ء  میں دونوں قلم کار خواتین کے خطوط شائع کرتے ہوئے یہ نوٹ لگایا :

         ’’ادارے نے اپنی مدیرانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ان خطوط کو اس وقت اس لیے شائع نہیں کیا کہ اردو کی سب سے عظیم نثرنگار اور ایک حساس شاعرہ کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش ایک مستقل نزاع کی صورت نہ اختیار کر لے۔‘‘

        اب جب کہ نہ پروین شاکر ہی سلامت ہیں نہ قرۃالعین حیدر، یہ خطوط ان کے مزاج کو سمجھنے کی دستاویز ہو کر رہ گئے ہیں۔پروین شاکر کا خط پڑھنے سے پہلے آیئے اک نظر اس نظم پر ڈال لیں جس کا قرۃالعین حیدر نے منفی تاثر قبول کیا :نظم کا عنوان ہے :

                                قرۃالعین حیدر

جیون زہر کو متھ پر امرت نکالنے والی موہنی

بھرا پیالہ ہاتھوں میں لیے پیاسی بیٹھی ہے

وقت کا راہو گھونٹ پہ گھونٹ بھرے جاتا ہے

دیوی بے بس دیکھ رہی ہے

پیاس سے بے کل۔۔۔۔۔۔اور چپ ہے

ایسی پیاس کہ جیسے

اس کے ساتوں جنم کی جیبھ پہ کانٹے گڑے رہے ہوں

ساگر اس کا جنم بھون

اور جل کو اس سے بیر

ریت پہ چلتے چلتے اب تو جلنے لگے ہیں پیر

ریت بھی ایسی جس کی چمک سے آنکھیں جھلس گئی ہیں

آب زر سے نام لکھے جانے کی تمنا پوری ہوئی پر

پیاسی آتما سونا کیسے پی لے

اک سنسار کو روشنی بانٹنے والا سورج

اپنے برج کی تاریکی کو کس ناخن سے چھیلے

      شام آتے آتے کالی دیوار پھر اونچی ہو جاتی ہے

 (سیپ شمارہ ۳۸ اکتوبر، نومبر ۱۹۷۸ء)

        اس نظم کے رد عمل کے طور پر ۳، جنوری ۱۹۷۹ء   کو جو خط قرۃالعین حیدر نے پروین شاکر کو لکھا تھا اس کا جواب ۱۸ فبروری۱۹۷۹ء  کو پروین شاکر نے دے دیا تھا۔چونکہ انھیں خط مدیر سیپ نسیم درانی کی معرفت ملا تھا، انھوں نے اس خط کی ایک نقل مدیر سیپ کو بھی بھیجی تھی۔ پروین شاکر کا یہ خط بجائے خود ان کی خوش سخنی و خو ش کرداری کا غماز بھی ہے :

        عینی آپا۔آداب

        معذرت خواہ ہوں کہ میری کوئی تحریر آپ کی دل آزاری کا سبب بنی۔یقین کیجئے میرا ہر گز یہ منشا نہیں تھا۔نہ نظم میں نے آپ کو خو ش کرنے کے لیے لکھی نہ ناراض کرنے کے لیے۔یوں جان لیں کہ یہ ایک تاثراتی قسم کی چیز تھی۔آپ بہت بڑی ادیب ہیں، ہم نے تو آپ کی تحریروں سے لکھنا سیکھا۔آپ مجھ سے خلوص اور اپنائیت سے ملیں، بڑا کرم کیا۔یقیناً یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔مگر میری سمجھ میں نہیں آتا میں نے اس نظم میں کسی قسم کا لچر لفظ کہاں استعمال کیا ہے (کیوں اور کس طرح کا سوال تو بعد میں اٹھتا ہے) آپ تو مجھے بہت پیاری، بہت گہری خاتون لگی تھیں Frustratedاور Sick-Figuresلوگ ایسے تو نہیں ہوتے۔ہاں جہاں تک Tragedyکا تعلق ہے تو اپنا یہ تاثر میں Ownکرتی ہوں۔دکھ کس کی زندگی میں نہیں ہوتے، فرق یہ ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ ظرف لوگ اسے جھیلنا جانتے ہیں، آنسو کو موتی بنا دیتے ہیں، ہماری طرح اسے رزقِ خاک نہیں ہونے دیتے، لیکن آپ اگر اس بات سے انکاری ہیں تو چلئے یہی سہی۔آپ خوش رہیں، آپ کے عقیدت مندوں کی اس کے سوا دعا ہے بھی کیا ؟

        نہیں عینی آپا، جسارت کر رہی ہوں مگر غلط فہمی ہی ہو گی آگر آپ یہ سمجھیں کہ اس قسم کی نظمیں لکھ کر میں اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہوں۔شہرت تو محبت کی طرح روح کی اپنی کمائی ہوتی ہے، کسی نام کی زکوٰۃ نہیں (مولانا الطاف حسین حالی اور جیمس باسویل کبھی میرے آئیڈیل نہیں رہے !)

        آپ کا کہنا درست ہے کہ ’’اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں ‘‘۔مجھ سمیت کوئی ذی نفس جس کی پہچان حرف ہے، آپ کے قلم کی طاقت سے بے خبر نہیں، بسم اللہ۔

        چونکہ آپ نے سوال اٹھا یا ہے اور جواب نہ دینا گستاخی ہو گی لہذا یہ وضاحت مجھ پر لازم ہو گئی ہے کہ میں نے نظم کسی خاص محرک کے تحت نہیں لکھی۔ہندوستان سے واپسی کے بعد جب ذہن سے سفر کی گرد  اتری تو سونے کے کچھ ذرات میری سوچ کی انگلیوں پر لگے رہ گئے۔تاج محل، گنگاسے، اے جگ کے رنگ ریز (امیر خسرو) بوئے  یا سمین باقیست۔قرۃالعین حیدر اور سلمٰی کرشن۔یہ میری وہ نظمیں ہیں جو اس سفر کا عطیہ ہیں۔رہی میری ذہنیت کے Sickہونے کی بات تو اس کا فیصلہ تو کوئی سائیکاٹرسٹ ہی کر سکتا ہے لیکن اگر آپ حرف کی حرمت پر یقین رکھتی ہیں تو میری بات مان لیجئے کہ ان تمام نظموں میں آپ سمیت کسی شخصیت یا عمارت کو مسخ کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی ہے۔

        اب بات آتی ہے میرے اور آپ کے تعلقات کی۔۔۔۔۔۔۔ تو عینی آپا آپ سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ نظم دوبارہ پڑھیں، کہیں بھی نئی یا پرانی کسی دوستی کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔ہم عمر ہونے میں تو تاریخی اور طبعی عوامل بھی حائل ہیں !  وہ ملاقاتیں یقیناً سرسری ہی تھیں اور آپ کے طرز زندگی پر جو قطعی طور پر آپ کا اپنا انتخاب اور اپنا معاملہ ہے طویل اور گہری ملاقاتوں کا اعزاز حاصل کرنے والے بھی فیصلہ صادر کرنے کا حق نہیں رکھتے !

        Out of Mindہونے کے متعلق فیصلہ میں پہلے ہی ایک تیسرے شخص کے ہاتھ میں دے چکی ہوں البتہ ایک بات واضح کرتی چلوں کہ بمبئی اتنا بڑا شہر بہر حال نہیں ہے کہ کراچی کا کوئی رہنے والا وہاں جا کر بوکھلا جائے۔خدا میرے پاکستان کو سلامت رکھے، کبھی فرصت ملے تو ذرا علی سردار جعفری صاحب سے پوچھئے گا کہ آپ کے شہر کے بارے میں میرے تاثرات کیا ہیں ؟

        نظم کی ناپسند ید گی پر شرمندہ ہوں اور در گز ر کی خواستگار !

        میں ذاتی خطوط کی نقلیں مدیران جرائد کو دینے کی قائل نہیں ہوں مگر چونکہ آپ نے لکھا ہے کہ اس خط کی نقل مدیر ’’سیپ ‘‘ کو بھیجی جا رہی ہے لہذا میں نے بھی مجبوراً یہی قدم اٹھایا ہے لیکن اتنا اطمینان رکھیں کہ آپ کی رضامندی کے بغیر یہ خط کہیں شائع نہیں ہو گا۔کہئیے کیا حکم ہے ؟

        ہاں یاد آیا۔یہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں کہ ’’کار جہاں دراز ہے ‘‘ کی رائلٹی یہاں پاکستان میں آپ کے کس رشتہ دار کو دی جائے ؟

                امید ہے مزاج بخیر ہوں گے

                        نیازمند

                        پروین شاکر

                 ’’برائے سیپ‘‘

        پتہ نہیں پروین شاکر کا یہ خط پڑھ کر قرۃالعین حیدر پر کیا گزری تھی۔

اشاریہ

        ۱۔ سہ ماہی ’’ سیپ‘‘ (کراچی) شمارہ ۳۸۔اکتوبر، نومبر ۱۹۷۸ء

        ۲۔ماہنامہ ’’ ایوان ارد و ‘‘ (دہلی) جنوری ۲۰۰۸ء

        ۳۔ ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ (بمبئی) جنوری ۲۰۰۸ء

        ۴۔ سہ ماہی ’’سفیر اردو ‘‘ (لندن) جولائی، ستمبر ۲۰۰۷

        ۵۔ سہ ماہی ’’سیپ ‘‘ خاص نمبر ۲۰۰۶ء  شمارہ ۷۵

٭٭٭

 

رالف رسل کی حق گوئی و بے با کی

        اردو زبان و ادب پر جان گل کرائسٹ کا بڑا احسان ہے۔انہوں نے اپنے ہم ہم وطنوں کو اردو سکھانے کے جو جتن کیئے تھے وہی ہندوستانیوں کے کام آئے اس طرح اردو ادب عالمی شاہ کاروں سے مزین ہو تا گیا۔رالف رسل نے بھی اردو سکھا نے کے لیے ایک عام فہم قاعدہ                                                     FOR LEARNERS IN BRITAIN   ترتیب دیا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ’’یہ کورس ہندوستان اور پاکستان میں اردو سیکھنے والوں کے لیے استعما ل میں لایا جاتا تو ذخیرۂ الفاظ کے باعث کافی مفید ثابت ہوتا ‘‘

        معروف و ممتاز ادیب و نقاد محمود ہاشمی سے بھی انہوں نے ’’اردو کا ایک قاعدہ ‘‘ لکھوا کر ہی دم لیا جو ’’گنج گراں مایہ ‘‘ ثابت ہوا۔

        ۲۱، مئی ۱۹۱۸ء  کو پیدا ہونے والے اور ۱۴، ستمبر ۲۰۰۸ء  کو انتقال کر ۂ ئہب سے پو لوص اور اپنا جانے والے رالف رسل کی نوے سالہ زندگی کادو تہائی حصہ اردو کی خدمت میں گزرا۔  رالف کو مثانہ کا کینسر ہو گیا تھا جوجگر تک پھیل کر لاعلاج ہو چکا تھا۔لاعلاج مریضوں کو دواخانے سے نکال کر ایک ایسے مقام پر رکھا جاتا ہے جہاں صرف PAIN KILLERدوائیں دے کر لمحہ لمحہ مرتے ہوئے مریض کو راحت پہنچانے کا ناٹک کیا جاتا ہے۔اس مقام کو HOSPICEکہا جاتا ہے۔اس کے لیے میں نے ایک نیا لفظ COINکیا ہے۔مرزخ۔ (بروزنِ  برزخ) رالف رسل کو ۵، ستمبر سے ان کے مرنے تک ایسے ہی HOSPICE  مرزخ   میں رکھا گیا تھا۔

        رالف رسل اصول پسند زندگی گزارتے تھے۔ان کے کھانے، پینے، لکھنے، پڑھنے اور سونے کے اوقات متعین تھے۔وہ اپنی ڈائری دیکھ کر ملنے کا وقت دیا کرتے تھے یا ملنے کے لیے وقت لیا کرتے تھے۔بعض اردو ادیبوں شاعروں کے ساتھ ان کے قریبی روا بط تھے۔جیسے کرشن چندر، علی سردار جعفری، احمد ندیم قاسمی،  فیض احمد فیض، شوکت تھا ۷۶نوی وغیرہ۔ایک دن اپنے ایک دوست احمد بشیر احمد سے فون پر کہا کہ وہ دو پہر کا کھانا کھا کر سوا دو بجے ان کے گھر پہنچیں گے، قیلولہ ان کے ہاں کریں گے، پانچ بجے بیٹھک ہو گی، رات دس بجے سونے کے لیے چلے جائیں گے۔صبح سات بجے اٹھیں گے، آٹھ بجے ناشتہ کریں گے اور دس بجے اپنے گھرواپس روانہ ہو جائیں گے۔وہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی ان کا استقبال کرنے کے لیے اسٹیشن پر آئے یا وداع کرنے کی خاطر سٹیشن تک آئے۔

        وہ ۱۹۸۰ء  سے تا دم آخر پابندی کے ساتھ روز نامچہ لکھا کرتے تھے۔وہ کبھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ کوئی پبلشر ان کا ایک لفظ بھی بدل دے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کی تحریر اسی صورت میں شائع ہو جیسی کہ انہوں نے لکھی ہے۔ردو بد ل کے وہ سخت مخالف تھے۔یہاں ہمارے بعض اخبارات و رسائل کے ’’اربابِ مجاز ‘‘ کا یہ حال ہے کہ مختلف مجبور یوں کے نام پر بے تکی کتر بیونت سے شائع شدہ تخلیق کو تخلیق کار کے لیے باعثِ  کوفت بنا کے چھوڑ تے ہیں :

غزل تو خیرؔ  جنابِ   مدیر  نے  چھاپی

ملال یہ ہے کہ بیت الغزل ہی کاٹ دیا

        رالف رسل ہر کس و ناکس سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے بھلے ہی وہ ان کا مداح ہو۔ایک دفعہ احمد بشیر نے رسل صاحب کی اجازت کے بغیر ان سے ملاقات کے لیے ایک انگریز خاتون کو جو فرانسیسی کی ریٹائرڈ پروفیسر تھیں اپنے گھر مدعو کر لیا۔ وہ جرمن اور روسی زبانیں بھی بخوبی جانتی تھیں۔رسل صاحب آئے۔اس انگریز خاتون کو پانچ منٹ تک قوالی سنائی اور دس منٹ بعد اپنا بیگ اٹھا کر واپس ہو گئے۔ بشیر صاحب دیکھتے رہ گئے۔

        رسل صاحب اپنی نجی زندگی کے تعلق سے بھی صاف گوئی سے کام لیتے ہیں کہ ۱۹۴۸ء   میں ان کی شادی ہوئی تھی مگر چالیس سالہ رفاقت کے باوجود تعلیم اور مزاج کے فرق کی وجہ سے ۱۹۸۹ء میں بیوی سے علاحدگی ہو گئی تب سے وہ تا دمِ  آخر تنہا زندگی گزارتے رہے۔

        رالف پکے کمیونسٹ تھے۔۱۹۳۶ء  ہی کے آس پاس وہ کمیونسٹ ہو گئے تھے۔۱۹۴۶ء  میں وہ پارٹی ممبر بنے مگر کمیونسٹ پارٹی کے بارے میں انہوں نے    جو کچھ کھل کر کہا وہ حیرت انگیز ہے :۔

                 ’’اگر چہ ایسے کمیونسٹ سپاہی کا فی تعداد میں موجود تھے جو میرے تصور کے مطابق تھے لیکن بیشتر تعداد ان کی تھی جو ایسے نہیں تھے اور  رہے لیڈر تو اِ ن میں سے اکثر ایسے تھے جو صحیح معنوں میں کمیونسٹ کہلانے کے مستحق نہیں تھے۔اب بہت عرصہ بعد میرا  یہ پکا خیال ہو گیا ہے کہ ہر ملک کی ہر سیاسی پارٹی کا ہر لیڈر جھوٹا، بے ایمان اور ظالم ہوتا ہے اور جو خود زیاد ہ ظلم نہیں کرتے وہ ظالموں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کا ظلم چھپاتے ہیں اس کلیے سے کمیونسٹ لیڈر کسی طرح بھی مستثنیٰ نہیں ‘‘۔  (ملاحظہ ہو ’’چہارسو ‘‘ راولپنڈی  مئی جو ن ۲۰۰۸ء)

        یہ الگ بات ہے کہ اہلِ سیاست رالف سے اتفاق نہ کریں۔

        رالف رسل شاو نزم سے سخت نالاں تھے۔انہوں نے صاف صاف کہا :

                 ’’مجھے ہر قسم کے شاو نزم سے نفرت ہے چاہے وہ ہندو، مسلم شاو نزم ہو یا کوئی اور مجھے اس کی بابت سوچ کر ہی سخت تکلیف ہوتی ہے اور میں ایسے لوگوں سے شدید نفرت کرتا ہوں جو انسانوں سے ان کی شناخت کے حوالے سے نفرت کرتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسے لوگ گولی مار دینے کے لائق ہیں۔I HATE THEM‘‘

        شدید قوم پرستی، فرقہ پرستی اور جارحانہ عصبیت کی نمائندگی کرنے والا یہ لفظ CHAUVINISM دراصل نپولین کے ایک فوجی کے نام پر ڈھالا (COINکیا) گیا ہے۔     اس کی مزید معنوی تہ داری جاننے کے لیے ممبئی کے کسی ’خان‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

         رالف رسل بجائے خود انگریز ہیں مگر ان کی صاف گوئی تو دیکھیئے، کہتے ہیں :۔

 ’’انگریز شاونز م میری تنقید کا ہمیشہ نشانہ رہا ہے۔میری لڑائی ہمیشہ ان لوگوں کے خلاف رہی ہے جو انگلینڈ میں کالے اور گوروں کے درمیان تفریق کرتے ہیں ‘‘۔

یہاں چودہ سو سال پہلے کا فرمانِ رسول اکرم ﷺ یاد آتا ہے کہ کسی گورے کو کالے پر یا کالے کو گورے پر، عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں اور اگر ہے تو بحوالۂ قرآن صرف تقوے کی بنیاد پر۔اِنّ اکرمکم عنداللہ اتقاکم

        رالف رسل کسی سے مرعوب کبھی نہیں ہوتے تھے۔حتیٰ کہ وہ اپنے اساتذہ کو بھی ’’سر‘‘ SIRکہہ کر مخاطب نہیں کیا کرتے تھے اور نہ گفتگو میں بے جا  تکلفات سے کام لیا کرتے تھے۔ ’’میں نے عرض کیا ‘‘ کی جگہ ’’میں نے کہا ‘‘ اور ’’راقم الحروف ’’کے بجائے سیدھے سادے لہجے میں ’’میں ‘‘ کہا اور لکھا کرتے تھے۔

        رسل نے ہندو پاک کے دو قد آور سیاست دانوں کے بارے میں اپنے خیالات بغیر کسی لاگ لپیٹ کے بیان کیے جس میں سے ایک کو مہاتما اور دوسرے کو بابائے قوم  ؍  قائد اعظم  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔گاندھی جی کے بارے میں وہ کہتے ہیں :

         ’’بنیاد ی طور پر گاندھی زمینداروں اور سرمایہ داروں کے حق میں تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو اپنے ملازمین کی طرف ہمدردانہ برتاؤ کرنا چاہئیے۔گاندھی ایسا کہتے ضرور تھے مگر وہ زمینداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کو بھی کوئی نقصان پہنچا نا نہیں چاہتے تھے۔میں سمجھتا ہوں وہ ایک بزرگ اور ولی کی مانند تھے۔ ہندومسلم فسادات کے دوران انہوں نے جس عمل کا مظاہرہ کیا ساری دنیا کو اس کے لیے ان کی عزت کرنا چاہیئے ‘‘۔

        سر سید احمد خان کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی علمی تحریک صرف طبقۂ اشرافیہ کے لیے مخصوص تھی۔

        محمد علی جناح کے بارے میں بھی رسل کی رائے دو ٹوک تھی۔وہ کہتے ہیں :۔

         ’’ جناح صاحب ایک سچے لیڈر اور بڑے قانون داں تھے مگر میرے لیے ان کی آئیڈ یالوجی سے اتفاق کرنا قدرے دشوار ہے۔میرے خیال میں جناح صاحب کی پالیسیاں ان کی قوم کے حق میں نہ جا سکیں۔پاکستان کی آزادی کے وقت بنگالی اپنے لیے ایک آزاد ریاست چاہتے تھے  لیکن جناح صاحب نے یہ منظور نہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک ریاست آزاد ہو گی جس کی زبان اردو ہو گی جو کہ بنگالیوں کے ساتھ نا انصافی تھی جب کہ جناح صاحب بذاتِ خود اردو بولنے اور لکھنے پر قادر نہ تھے۔ ‘‘

رالف رسل کی رائے سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے مگر نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں ہمارے سامنے ہے

        مدیر چہار سو (راولپنڈی) جناب گلزار جاوید کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے رالف رسل نے بعض ممتاز قلم کاروں کے بارے میں اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کیا۔کرشن چندر کے بارے میں رسل کہتے ہیں :

         ’’ ان کی زیادہ تر تخلیقات میرے خیال میں فضول ہیں مگر وہ انسان بہت عمدہ تھے میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ ان کی تخلیقات کا تین چوتھائی حصہ ضائع بھی کر دیں تو اردو ادب کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔جو حصہ بچے گا اس میں ان کی بہت عمدہ تخلیقات یقیناً شامل ہوں گی ‘‘

        کرشن چندر کے فکرو فن پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر بیگ احساس کا اس معاملے میں پتہ نہیں کیا احساس ہے۔جب کبھی رسل ممبئی جاتے تو کرشن چندر ہی کے ہاں قیام کرتے تھے۔اس کے باوجود انہوں نے ان کے فکر و فن پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا۔چونکہ رالف شاونزم کے سخت خلاف تھے۔انہوں کے کرشن چندر کی ایک مقبول عام کہانی ’’کالو بھنگی ‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا جو انھیں بہت پسند تھی۔

        مشہور و ممتاز نابغۂ روزگار عزیز احمد بھی چونکہ SOAS   (SCHOOL OF ORIENTAL AND AFRICAN STUDIES) میں پڑھاتے تھے رالف رسل نے انھیں اپنا  کولیگ  لکھتے ہوئے ان کی علمیت کی داد دی ہے اور ان کے ایک مشہور ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ کا The shore and the Wave   کے نام سے انگریزی ترجمہ بھی کیا تھا۔ عزیز احمد کی وفات ۱۶؍ڈسمبر ۱۹۷۸ء ٹورنٹو میں ہوئی۔ انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے احباب اور شاگردوں نے تاثراتی مضامین لکھے جنھیں ملٹن اسرائیل اور این کے واگلے نے ۱۹۸۳ء میں کتابی صورت دی۔اس کتاب میں شامل اپنے ایک مضمون ’’عزیز احمد، جنوبی ایشیائ، اسلام اور اردو‘‘ میں رالف رسل نے عزیز احمد کے تعلق سے بڑی بے باکی سے یوں رائے دی :-

         ’’ عزیز احمد نے (ایسی بلندی ایسی پستی) کے علاوہ کئی ناول لکھے ان کے اپنے وطن میں اس کام کے سلسلے میں انھیں کافی شہرت تو نہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ کافی بدنامی ملی کیونکہ ان کی تحریروں کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ ناشائستہ اور غیر اخلاقی ہوتی ہیں۔ در حقیقت ان میں  ان خواتین و حضرات کی ذاتی زندگیوں کی تصویر کشی ایسی جھلکیوں میں پیش کی جاتی تھی کہ جو بھی مصنف کے اور اس کے جان پہچان والوں کے بارے میں تھوڑی بھی معلومات رکھتے ہو ں وہ آسانی سے پہچان جاتے تھے کہ ان کے کردار کہاں سے لیے گئے ہیں ‘‘

 (ترجمہ از ہادیہ شبنم)

یہی سبب ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کی اردو کی ایک پروفیسر نے عزیز احمد کے خلاف بہت کچھ لکھا جو ان کے ایک ناول کی ہیروئن تھیں۔ عزیز احمد کے تعلق سے عام تاثر کے حوالے سے ان پر ناشائستگی اور غیر اخلاقیت کا الزام در اصل عزیز احمد کے ساتھ زیادتی ہے۔ انھوں نے ان کرداروں کو اپنے ناولوں کے ذریعے زندگی بخشی۔ یوں بھی ہر ناول نگار کے ہر ناول کا ہر کردار محض فرضی اور اس کے دماغ کی پیداوار نہیں ہوتا۔ یہ کردار و واقعات زندگی ہی سے تو اٹھائے جاتے ہیں۔

        انگریزی صحافت سے وابستہ اردو ادب کی قد آور قلم کار قرۃ العین حیدر کی انگریزی دانی پر بھی رالف رسل نے حرف رکھا ہے  :

         ’’ انھوں نے حسین شاہ کے ناول ’نشتر‘ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ اس میں جگہ جگہ ایسے انگریزی الفاظ لکھے ہیں جو با محاورہ ضرور ہیں مگر ایسے موقعوں پر استعمال کئے گئے ہیں جہاں وہ بالکل موزوں نہیں۔ ایک نمونہ ہی کافی ہو گا۔ کسی نے ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ نے کافی رقم ان لوگوں کو دی ہے؟  تو اس کے جواب میں ان صاحب نے کہا  "They will get it tonight with knobs on”

        ‘With knobs on’   پڑھ کر ہنسی آئی۔ میں سوچتا ہوں کہ قرۃ العین حیدر دل میں کہتی ہوں گی کہ دیکھئے مجھے کتنی با محاورہ انگریزی آتی ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں محسوس کرتیں کہ اس موقعے پر اس محاورہ کی گنجائش بالکل نہیں اس موقعے کے لیے یہ بالکل موزوں نہیں ‘‘

        رالف رسل کے قرۃ العین حیدر پر اس کڑے ریمارک کے بعد میں نے شان الحق حقی کی مرتّبہ آکس فورڈ انگلش اردو ڈکشنری سے رجوع کیا تو اس میں ‘with knobs on’  کے محاورہ کے بارے میں صاف صاف لکھا دیکھا : مع۔مزید۔علیہ۔ بیش باد۔ کسی ہتک کے جواب میں بڑھ چڑھ کر جواب۔

‘ And the same to you with knobs on’  روپے پیسے کے لین دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

 اس پر یاد آیا کہ غیر مسلموں کے السلام علیکم  کی جگہ السام علیکم کہنے پر جواباً  صرف وعلیکم کہنے کی کیوں تاکید آئی ہے۔

   یہ ناول ’ نشتر ‘ وہی ہے جس کے بارے میں عزیز احمد نے مدیر نقوش محمد طفیل کے نام ایک خط مورخہ ۲۶ فروری ۱۹۵۰ء کو لکھا تھا کہ یہ ایک بڑا بے مثل ناول ہے جو ’ امراؤ جان ادا ‘ سے بھی بہت پہلے لکھا گیا تھاجس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایڈیٹنگ کرنے اور اس پر مقدمہ لکھنے کا معاوضہ وہ ان سے دو سو روپے طلب کرتے ہیں مگر محمد طفیل سے یہ سودا پٹ نہ سکا۔ شاید اس ناول کی اہمیت ہی نے بعد میں قرۃالعین حیدر  قیناً کو اس کا انگریزی ترجمہ کرنے پر آمادہ کیا۔

        رالف رسل نے اردو کے تنقید نگاروں کے بارے میں بھی اپنی آزادانہ رائے دی۔احتشام حسین کی تنقید نگاری کو وہ بالکل بے کار سمجھتے تھے۔آل احمد سرور کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ’’وہ (سرور) یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہوں نے انگریزی ادب اور تنقید کا کافی مطالعہ کیا ہے ‘‘

رالف رسل نے بین السطور ترقی پسند نقطہ نظر پر چوٹ کرتے ہوئے صنفِ  غزل کے حق میں کہا :

                 ’’ تیس کی دہائی سے بہت سے لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ غزل کا کوئی مستقبل نہیں ہے، مگر میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اردو غزل ایک توانا صنف ہے اور اس کو باقی رہنا چاہیئے ‘‘۔

        رالف رسل نے علامہ اقبال کے فکرو فن پر بھی کھل کر لکھا ہے۔یہاں اقبال کے تعلق سے ان کی بے باکانہ رائے پیش کی جاتی ہے۔ضرور ی نہیں کہ اقبال کو رحمۃ اللہ علیہ کی کھونٹی پر ٹانگنے والے ان سے اتفاق ہی کریں :        رسل کہتے ہیں :

         ’’ اقبال کے خودی کے نظریئے سے تو میں متفق ہوں لیکن مسلمان تاریخ کے بارے میں ان کا نظریہ میری سمجھ سے بالا تر ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ وہ اٹھارویں صدی میں جی رہے ہیں۔اس کی مثال میں اس طرح دینا چاہوں گا کہ ان کا زیادہ کلام فارسی میں ہے۔اقبال سمجھتے تھے کہ ہندوستان سے لے کر ایران تک سب لوگ فارسی کو اہمیت دیں گے لیکن ایرانی کسی ہندوستانی شاعر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔  جاوید نامہ پڑھئیے تو پتہ چلتا ہے کہ اقبال طاقت سے کافی مرعوب ہوتے تھے یعنی نادر شاہ جس نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا قتل کیا، ان کے نزدیک ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان تھا ‘‘

                                 ( ’’چہار سو ‘‘ مئی۔ جون ۲۰۰۸ء)

فارسی ادب کے سکالرز جانتے ہیں کہ ایرانی نقاد تو عرفی اور خسرو کو بھی ’سبک ہندی‘ کے شاعر کہہ کر چشم کم سے دیکھتے رہے ہیں جبکہ سعدی شیرازی جیسا شاعر خسرو کی شاعرانہ حیثیت سے متاثر ہو کر ان سے ملنے کے لیے ہندوستان آتا ہے۔خود غالب و اقبال کی پذیرائی ایران میں کتنی ہو سکی ہے۔اس میں شک نہیں علی شریعتی نے اقبال کی قدر کی۔بس۔

        اردو زبان و ادب کے ارتقا کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں جو کچھ رالف رسل نے کہا اس کو جھوٹ ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔رسل کا خیال ہے :

                 ’’انڈیا میں اردو زوال پذیر ہے۔ ’’It will not survive in any meaningful way‘‘

        پاکستان میں اردو کے تعلق سے جو رویہ اختیار کیا گیا ہے اس پر بھی رسل چوٹ کرتے ہوئے نظام دکن کی مسّاعی جمیلہ پر بھی سخت گرفت کرتے ہیں :۔

         ’’ میرے خیال میں پاکستان کا حکمراں طبقہ انگریزی کو اولیت دینا چاہتا ہے۔۔۔لیکن چونکہ اردو پاکستان کی قومی زبان قرار دی گئی ہے اس لیے دکھانے کے لیے اردو کی سر پرستی کرتا ہے جس کی ایک مثال ’’مقتدرہ قومی زبان ‘‘ کا قیام ہے۔۔۔ میں نے ابھی قومی انگریزی اردو لعنت میں دیکھا جسے ڈاکٹر جمیل جالبی نے ایڈٹ کیا ہے اور مقتدرہ نے شائع کیا ہے کہ سوشیالوجی کا ترجمہ ’’عمرانیات ‘‘ دیا گیا ہے اور اینتھرو و پالوجی کا ’ بشریات‘۔حالانکہ سو شیالوجی کا صحیح اردو ترجمہ سوشیالوجی ہے اور اینتھرو پالوجی کا ’اینتھر و پالوجی ‘۔یہ بری روایت اصل میں عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ نے قریب ایک صدی پہلے قائم کی تھی جس کا نظریہ یہ تھا کہ عربی و فارسی کے سوا اردو کو کسی غیرملکی یا غیر اسلامی زبان کا کوئی لفظ اپنا نا نہیں چاہیئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ زبان بھی اس کے ترجمے آسانی سے پڑھ نہیں سکے۔ ‘‘

        طبعیات، کیمیا، ریاضی، عاد اعظم مشترک، ذو اضعاف اقل، لامتناہی، آلۂ مقیاس الحرارت، جیسی اصطلاحات تو دور کی بات ہے آج اخبارات سے وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم تک غائب ہو گئے ہیں۔تو کیا واقعی ترجمے کی روایت کو مشکل اصطلاحات سے ماورا ہو جانا چاہییے۔اب جب کہ علمی و ادبی زبان لکھنے اور سمجھنے والے ہی ناپید ہوتے جا رہے ہیں کیا ہمیں رالف رسل کی ہمنوائی پر آمادہ ہو جانا چاہیئے؟ وزیر اعلی ٰ کی جگہ چیف منسٹر اور وزیر اعظم کی جگہ پرائم منسٹر، صدر کی جگہ پریسڈنٹ اور معتمد کی جگہ سکریٹری ہی اختیار کر لینا چاہیے ؟ اردو کی اپنی شناخت آخر کیسے قائم رکھی جا سکے گی ؟

        رالف رسل اردو والوں کے مزاج میں شامل مبالغے کو پسند نہیں کرتے۔ان کا خیال ہے کہ ’’ آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا  ‘‘ کی جگہ ’ آپ کا خط ملا ‘۔اور۔ ’’کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوئی ‘‘ کے بجائے ’’ کتاب چھپی ‘‘ کہنا کافی ہے۔

        میرے خیال میں ہر زبان کی ایک تہذیب ہوتی ہے۔یہ روایت تو  انگریز ی میں بھی ہے  جیسے  May I know your good name please?مگر اسے وقت کا زیاں سمجھا جانے لگا ہے۔

        اردو والوں کی ایک کمزوری پر رالف رسل نے گرفت کی ہے۔وہ لکھتے ہیں :

         ’’ جب میں اردو کی دنیا میں کچھ مشہور ہو گیا، اکثر یہ ہوتا رہا ہے کہ ہندوستانی مصنف اپنی تصانیف میرے پاس اس خواہش کے ساتھ بھیجتے رہے ہیں کہ میں اپنی ’قیمتی رائے ‘ سے اُن کو سرفراز کروں۔عام طور پر یہ بہت جلد معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ میری قیمتی رائے کی توقع نہیں کرتے بلکہ اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں۔بعض یہ کہ جب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ میری رائے ان کے حق میں نہیں تو ان کی نظر میں میری رائے کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی ‘‘

        شاعروں ادیبوں کے اسی رویئے سے تنگ آ کر گیان چند جین نے ایک مضمون ہی لکھا تھا ’’میری تعریف کرو۔ایک مذموم مطالبہ ‘‘۔ ( ’’ذکرو فکر‘‘ ۱۹۸۰ء)

        مختصر یہ کہ رالف رسل اپنی صاف گوئی کے لیے شہرت رکھتے تھے، اصول  پسند تھے اور اپنی شرطوں پہ جیتے تھے۔

اشاریات

        ۱۔      مخزن (۸) مرتب مقصود الہی شیخ۔بریڈ فورڈ۔برطانیہ

        ۲۔     چہارسو (مئی جون ۲۰۰۸ء) مدیر گلزار جاوید۔راولپنڈی پاکستان

        ۳۔     ادب ساز۔ (شمارہ   ۹۔۸) ستمبر تا دسمبر ۲۰۰۸ء۔مدیر نصرت ظہیر۔دہلی

    ۴۔    تحقیق نامہ (معاصرین کے مکاتیب مدیر نقوش محمد طفیل کے نام) خصوصی        شمارہ  ۰۶۔۲۰۰۵ شعبہ اردو جی سی یونیورسٹی، لاہور، پاکستان

           ۵۔ ISLAMIC SOCIETY & CULTURE  ( Essays in honour of Prof. Aziz Ahmed) Edited by MILTON ISRAEL & N.K. WAGLE Published by Ramesh Jain, Manohar Publications, Ansari Road, Darya Gunj, New Delhi – 110002

          ۶۔         آکسفورڈ انگلش اردوڈکشنری، آکسفورڈ پریس  پہلی اشاعت۲۰۰۳ء

        ۷۔         ذکرو فکر ڈاکٹر گیان چند جین (مطبوعہ۱۹۸۰ء) شاہین پبلیشرز، حسن منزل الہ آباد۔۲۱۱۰۰۳

٭٭٭

 

یوتھینیزیا   EUTHANASIA  کہانیاں

        بالکل انوکھے موضوع پر برطانیہ کے ڈاکٹر صفات علوی نے یہ انوکھی کتاب مرتب کر کے لمحۂ فکر دیا ہے۔اس میں نہ صرف اس موثر موضوع پر تفصیلی مضامین شامل ہیں بلکہ لندن، امریکہ، ہندو پاک کے کہانی کاروں کی شاہ کار کہانیاں بھی ہیں جسے BOOK CENTRE  WHITE  ABBEY ROAD  BRADFORD WEST YORKSHIRE BD 8 8EJ UKکے پبلشر نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔

        بوڑھے ماں باپ کے ساتھ جو سلوک آج کل اولاد  روا  رکھتی ہے وہ اب عام ہوتا جا رہا ہے۔مغرب کی قید نہیں رہ گئی۔مشرقی اقدار کے زوال نے گناہ و ثواب کا تصور ہی ختم کر دیا۔بوڑھے ماں باپ اب ہندو پاک میں بھی بوجھ سمجھے جانے لگے ہیں۔شادی کے چند سال بعد ہی لڑکا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ انھیں رکھنے پر آمادہ نہیں رہتا۔بیشتر لڑکے بیرون ملک رہ کر ان کی مالی مدد کر دینے ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں جب کہ انھیں شخصی توجہ کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔اسلام نے اسی لیے دستور حیات قرآن مجید کے ذریعے ماں باپ کی اہمیت اس قدر دلائی کہ خالق حقیقی کے بعد ان کا درجہ رکھا اور یہ دعا بھی سکھائی        رب الرحمھما کما  ربینی صغیرہ   یعنی اے اللہ میرے ماں باپ پر ایسے ہی رحم فرماجس طرح انھوں نے میرے چھوٹے پن میں مجھ پر رحم فرمایا تھا۔ بچے کو کم سنی میں ماں باپ کی ریکھ دیکھ کی بے حد ضرورت ہوتی ہے یہی حال بڑھاپے میں والدین کا ہو جاتا ہے کہ انھیں کبرسنی میں کسی نہ کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔     مغرب میں تو بوڑھے ماں باپ کو نکال پھینکا جاتا ہی تھا اب یہ وبا عام ہو گئی ہے۔خاص طور پر ایسی حالت میں کہ جب ماں یا باپ کسی خطرناک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوں۔اولاد ان سے جلد از جلد چھٹکارا پانا چاہتی ہے۔ایسے میں بیمار والدین خود بھی اپنی زندگی سے بیزار آ جاتے ہیں۔    تو کیا ایسی صورت میں انھیں چپکے سے ختم کر دینا چاہیئے یا خود انھیں اپنی زندگی کے خاتمے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔دنیا کا کوئی ملک یا مذہب اس کی اجازت بھلے ہی نہ دے سوئٹزرلینڈ SWITZERLANDکے شہر  ZURICHمیں یوتھینیزیا (MERCY KILLING) کا ایک ادارہ ڈگنی ٹاس DIGNITASکے نام سے قانونی طور پر قائم ہے جہاں رکن بن جانے پر ڈاکٹر کی تفصیلی میڈیکل رپورٹ او ر کاغذ ی کارروائی مکمل ہونے کے بعد مریض کو ایک انجکشن کے ذریعے دن رات کے کرب ناک لمحات سے نجات دلائی جاتی ہے اور مریض آسانی سے موت کو بکال پھینکا جاتا ہی تھا اب یہ وبگلے لگا لیتا ہے کہیں کہیں یہ کام نیند کے پچاس کیپسول CAPSULEگھول کر ملائے ہوئے ایپل سوس (سیب کا مربّہ) کے ذریعے بھی انجام دیا جاتا ہے۔بوڑھے ماں باپ ہی نہیں، لاعلاج معذور  اولاد  کے معاملے میں بھی یہی رویہ اپنایا جاتا ہے۔

        ہر شخص اس قسم کی ہلاکت خیزی کو حرام قرار دیتا ہے مگر جو مریض اس کرب سے گزر رہا ہے یا جو تیمار دار عاجز آ چکے ہوں ان کے نقطۂ نظر سے یہ اہمیت کی حامل قرار دی جا سکتی ہے۔مفتی تو بہر حال اپنی گردن بچانا ہی چاہے گا۔حکومت بھی اس بے رحمی کی ذمہ دار ی اپنے سر قبول نہیں کرنا چاہے گی۔بہر حال یہ ایک نازک موضوع ہے جس پر مسلسل مذاکرات کی ضرورت ہے۔ویسے مرنا کوئی نہیں چاہتا لیکن جو واقعی مرنا چاہتا ہے کیا اسے اجازت دی جا سکتی ہے ؟

        اسلام میں خود کشی حرام ہے۔ایک صحابی میدان کارزار میں سخت زخمی ہو گئے تھے۔وہ اگر زخموں سے جان بر نہ ہو پاتے تو ممکن تھا کہ شہید کہلاتے مگر انھوں نے زخموں کی تکلیف کی تاب نہ لا کر خودکشی کر لی جس پر رسول اللہ  ﷺ نے انھیں دوزخی قرار دیا۔اسلام میں موت کی تمنا کرنے سے تک منع کیا گیا ہے چہ جائیکہ موت !

   بہر حال نازک و ناگفتہ بہ حالات سے جو لوگ گزر رہے ہیں ان کے دل سے پوچھیئے زندگی کیا چیز ہے۔ایسی زندگی پر وہ کچھ یوں ہی موت کو ترجیح نہیں دیتے !۔مرنا تو کسی حال ہے ہی۔اک موہوم امکان بھی ہے کہ شاید زندگی پھر نصیب ہو جائے۔زندگی سے مایوس ہو جانا اللہ کی ذات سے کفر (انکار) سمجھا جاتا ہے۔اس نازک موضوع پر  ۲۰۱۰ء  میں سنجے لیلا بھنسالی نے فلم ’’گزارش ‘‘ بنائی تھی جس میں رہتک روشن نے لاعلاج معذور اور ایشوریہ رائے نے تیمار دار کا رول نبھا یا تھا۔

        یوتھینیزیا دراصل یونانی زبان کے دو الفاظ کا مرکب ہے۔ (EUA) کہتے ہیں آسان کو اور (THANATHOS) کے معنے ہیں موت۔ انگریزی زبان میں PAINLESS DEATH۔اس کا آسان ترجمہ کچھ لوگوں نے ’’مرگِ بے اذیت ‘‘ کیا ہے۔

        بقراط نے تقریباً تین چار سوسال قبل مسیح اپنے پہلے حلف نامے میں HYPOCRATIC DEATHکے عنوان سے کہا تھا :

         ’’میں کسی شخص کی خوشنودی کے لیے کوئی مہلک دوا تجویز نہیں کروں گا اور نہ ایسا کوئی      مشورہ دوں گا جس سے اس کی موت واقع ہو جائے ‘‘

اس کے باوجود قدیم یونانیوں اور رومیوں میں ایسا کوئی اعتقاد نہیں تھا کہ زندگی کو ہر حال میں برقرار رکھا جائے۔یہ ان لوگوں کی خودکشی کے بارے میں نرم رویہ رکھتے تھے جو لاعلاج حالت سے تنگ آ کر مر جانا چاہتے تھے۔سرتھامس مور SIR THOMAS MOOREنے 1500 ء میں یوٹو پیا (EUTHOPIA) میں ایک مثالی معاشرہ کا خاکہ کھینچتے ہوئے لکھا :

         ’’ایسی کمیونٹی میں ان لوگوں کی موت کو سہل بنا یا جانا چاہیئے جو اذیت اور مسلسل درد کے ہاتھوں لاچار ہو چکے ہوں ‘‘  (صفہ186حوالہ : ڈاکٹر سلیم الرحمن۔یوتھینیزیا)

        ریورنڈڈیوڈ آئسن ( REV.DAVID ISON) DEAN OF BRADFORD نے اپنے ایک معرکۃ الآرا مضمون میں یوتھینیزیا کے بارے میں عیسائی نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون ’’ WHAT DO WE MEAN BY EUTHANASIA ‘‘ میں لکھا  ہے

"It was in 1967 with the opening of the first modern hospice, St.  Christopher’s in south London that the importance of proper care for dying people found a focus”

اس سے پہلے عیسائی نقطۂ نظر انسانی جان سے متعلق یہ تھا کہ یہ عطیۂ الہی ہے چاہے اپنی جان ہو کہ کسی دوسرے انسان کی جان، اس کا احترام کیا جانا چاہیئے۔ ہمیں اپنی حیات کے آغاز و انجام پر مکمل دسترس بلا شرکتِ  غیرے نہیں بلکہ معبود اور دیگر مخلوقات سے اپنے تعلق کو استوار رکھنے ہی سے ہماری حیات با معنیٰ اور کامیاب ٹھیرتی ہے۔اس کی بہترین مثال مدرٹریسا کی زندگی ہے۔

        بریڈفورڈ۔یارک شائر (ویسٹ) برطانیہ کے ایک قابل ڈاکٹر شری پتی اوپاد ھیا نے ہندوستانی غیر ابراہیمی مذاہب میں اس مرگِ بے اذیت EUTHANASIAکے بارے میں پائے جانے والے نظریات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندو دھرم، بدھ مت یا جین مت میں یوتھینیزیا کا کوئی تذکرہ یا تصور ہی پایا نہیں جاتا۔البتہ آتما کے نروان کی نیت سے خود کوئی شخص بالقصد موت (VOLUNTARY DEATH) کو گلے لگا سکتا ہے۔ (ملاحظہ ہو صفحہ  232-233یوتھینیزیا)

        اس سلسلے میں متضاد خیالات بھی سامنے آئے ہیں جیسے :

۱۔      کسی کو تکلیف بھری زندگی سے نجات پانے میں مدد بھی پن (نیکی) ہے۔

۲۔     آسان موت کے لیے کسی کی مدد کرنا گویا تناسخ (پنر جنم) کے اوقات میں خلل انداز ہونا بھی ہے اور یوں یہ پن نہیں بلکہ پاپ ہے۔

        اس طرح ہندو دھرم میں خودکشی کی سخت ممانعت ہے کیونکہ اس سے عمل تناسخ کے دورانیے میں خلل واقع ہوتا ہے۔خودکشی آتما کے حق میں تباہ کن نتائج کی حامل ہے ‘‘ مکشا/مکتی MOKSHA / MUKTI کا دارو مدار انسان کے کرم پر ہے۔کسی بھی ذی حیات کو اپنے عمل سے دکھ درد نہ پہنچانا خواہ جسمانی ہویا ذہنی یا نفسیاتی ’’اہنسا‘‘ ہے۔مذکورہ تینوں مذاہب میں ’’اہنسا‘‘ سب سے بڑی نیکی ہے۔اس لحاظ سے خودکشی یا مرگِ بے اذیت میں مدد اہنسا کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ہندومت اور بدھ مت میں تمام حیاتی اشکال خواہ حیوانی ہوں یا نباتی کرمی پنر ۔ جنم KARMIC RE-BIRTHیعنی تناسخ کا مظہر ہیں۔بس انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ’’اہنسا‘‘ کو اعلی ترین اور اہم ترین عزت و عبدیت کا مقام دے کہ یہ قانونِ  فطرت ہے۔اہنسا کا قریب ترین متبادل مغرب میں تقدسِ  حیات (SANCTITY OF LIFE) کا نظریہ ہے ’’ (ملاحظہ ہو یوتھینیزیا) صفحہ235لیکن وہ لوگ جو   ’’آتم سماپتی ‘‘ کسی روحانی نیت کے تحت کرتے ہیں ان کا معاملہ دوسرا ہے۔یعنیPRAYOPAVASAکی اجازت صرف سادھوؤں، سنتوں اور مہاتماؤں کو مخصوص حالات و شرائط کے تحت حاصل ہوتی ہے۔ (یوتھینیزیا 237)

   بہرحال ہندو دھرم، بدھ مت اور جین مت میں یوتھینیزیا کی اجازت ہے بھی نہیں بھی۔تفصیلات کے لیے ان مذاہب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے مگر نتائج بڑے پیچیدہ اور متضاد  برآمد ہوتے ہیں۔

        جہاں تک اسلامی نقطہ نظر کا معاملہ ہے تو ڈاکٹر الہی بخش اعوان نے یوتھینیزیا کے سلسلے میں تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا :

         ’’قرآنی آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کرۂ ارض پر ’’زندگی ‘‘ کو اللہ نے تخلیق کیا ہے اور وہ ہی اس کا مالک و مختار ہے -یہ انسان کی بھول ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندگی اور موت پر خود مختار سمجھتا ہے۔زندگی اللہ کی امانت ہے جو انسان کو دی گئی ہے۔ لیکن اس پر اس کو اختیار نہیں دیا گیا۔۔۔امین کا فرض ہے کہ وہ امانت کی ہر حال میں حفاظت کرے خواہ اس میں اسے مشقت کا  سامنا بھی ہو۔اس مشقت سے انسا ن کو دل برداشتہ ہو نا نہیں چاہیئے کہ اللہ کسی کو اس کی برداشت سے باہر مشقت نہیں دیتا۔وہ معاشرہ جو صلۂ رحمی کے اصول پر قائم ہو اس معاشرے میں مشکل ترین حالات میں بھی کوئی انسان اپنی زندگی کو ختم کرنے کے لیے نہیں سوچ سکتا بلکہ جسمانی ہو یا ذہنی ہر تکلیف کو صبر و شکر سے برداشت کرنے کی صلاحیت اس میں ہو گی ‘‘۔ (یوتھینیزیا صفحہ 278)

        قرآن جہاں یہ کہتا ہے کہ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا  (اللہ کسی جان کو اس کی طاقت (برداشت) سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا) ۔وہیں وہ یہ بھی کہتا ہے : لیس للانسان الا ماسعی  یعنی انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی کچھ جس کے لیے اس نے کوشش کی۔بیشتر حالات میں انسان کی تکلیف دراصل اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے۔پھر بھی اللہ اسے ہمت بندھاتا ہے۔لاتقنطوا من رحمۃاللہ۔ (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں) ۔یہ ہمارا آپ کا مشاہدہ ہے کہ ایسے ایسے لوگ پھر جی اٹھے جن کی زندگی کی کوئی توقع ہی نہیں تھی۔ان الانسان خلق ھلوعا۔اذامسہ الشرجزوعا۔۔ (سورہ المعارج آیات ۲۰۔۔۱۹)

        بے شک انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے۔جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑ بڑا اٹھتا ہے۔

اس طرح جلد بازی میں اپنا نقصان آپ کر لیتا ہے اور ایسی ہی کسی جلد بازی میں کسی کمزور دل کی غیر انسانی مدد (ہمدردی کے نام پر) کرنا گویا اس کی تباہی میں حصہ لینا ہے۔

        اپنی کتاب ’’یوتھینیزیا ‘‘ میں ڈاکٹر صفات علوی نے بڑے ذمہ دار  دانشوروں سے ان کا نقطۂ نظر اگلوایا ہے۔ڈاکٹر سلیم الرحمن، ڈاکٹر الہی بخش اعوان، ڈاکٹر شری پتی اپوپادھیا، غلام قدر آزاد ار ڈیوڈ آئسن جیسے سنجیدہ قلم حضرات نے اس موضوع پر مثبت و منفی نقطۂ نظر سے بحث کی ہے۔

        لندن میں عموماً لا علاج مریضوں کو دوا خانے سے نکال کر ایک ایسے مقام پر رکھا جاتا ہے جسے HOSPICEکہا جاتا ہے جہاں PAIN KILLERدوائیں دے دے کر لمحہ لمحہ مرتے ہوئے مریضوں کو راحت پہنچانے کا ناٹک کیا جاتا ہے۔HOSPICEکے لیے میں نے ایک نیا لفظ COINکیا ہے ’’مرزخ‘‘ (بر وزن ’’برزخ) ۔مرزخ کے آگے کی منزل ظاہر ہے برزخ ہی ہو گی۔ڈاکٹر الہی بخش اعوان نے یوتھینیزیا کے سلسلے میں اسلامی موقف، ڈیوڈ آئسن نے عیسانیت کا نقطۂ نظر اور ڈاکٹر شری پتی اپوپادھیا نے ہندوستانی غیر ابراہیمی مذاہب کا خیال پیش کیا ہے۔ڈاکٹر صفات علوی نے ان دانشوروں سے نہ صرف مذہبی نقطہ نظر پر روشنی ڈلوائی بلکہ طبی نقطۂ نظر بھی پیش کروایا۔یہ سارے مباحث پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔اس انوکھے موضوع پر کہانیاں بھی خاص طور پر لکھوائی گئی ہیں۔سولہ دلچسپ کہانیوں میں تین ہندوستانی کہانی کار ہیں ساجد رشید، رونق جمال اور رؤف خیر۔تمام کہانیوں میں رونق جمال کی کہانی اتنی متاثر کن ہے کہ ہر وہ آنکھ رو پڑے گی جو مصنوعی نہ ہو۔یہ اس دور کی کہانی ہے جب ٹیلی فون اکسچینج کا آپریٹر گفتگو کے لیے لائن دیا کرتا تھا اور خود ان کی گفتگو سن بھی سکتا تھا۔ (اب تو سیل فون کا زمانہ ہے) ۔ایسے ہی ایک معاملے میں وہ ایک گاؤں میں بے یارو مددگار رہنے والے ماں باپ اور بیرونِ ملک رہنے والے ان کے بیٹے کی گفتگو سنتا ہے۔بیٹا ماں باپ کے لیے پیسہ تو بھیجتا ہے مگر ان کی خدمت کرنے کا اسے کوئی موقع حاصل نہیں۔ بیٹے کی طرف سے اپنے ماں باپ کے لیے بھیجی ہوئی رقم بھی لالچی بیٹی داماد ہڑپ کر جاتے ہیں۔بڈھے اور بڈھی کے بدن میں آخرکار کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ٹیلی فون آپریٹر کو وہ بلاتے ہیں اور انھیں مار ڈالنے کی گزارش کرتے ہیں تاکہ اس اذیت سے نجات مل سکے۔وہ ٹیلی فون آپریٹر ایمبولنس کو فون کر کے سماج سیوک تنظیم کے انھیں حوالے کرواتا ہے اور خود گھر پہنچ کر اپنے بوڑھے ماں باپ کے پیروں کو بوسہ دے کر ان کی دعائیں حاصل کرتا ہے۔

 ساجد رشید نے اپنی کہانی ’’موت کے لیے ایک اپیل ‘‘ میں اسی طرح کے ایک بے یارو مدد گار لاچار بوڑھے کا خاکہ کھینچا ہے جسے عزیزو اقارب دوسری شادی کرنے بھی نہیں دیتے اور نہ اس کی ریکھ دیکھ ہی کرتے ہیں۔اسی صورتِ  حال کے پیش نظر وہ عدالت سے موت کے لیے اپیل کرتا ہے۔

        رؤف خیر کی کہانی میں بیٹا اپنے زخمی باپ سے چھٹکارا پانے کے لیے اس کے دودھ میں زہر ملا دیتا ہے جسے پینے کے بعد باپ مرنے سے پہلے یہ نوٹ لکھ کر مرتا ہے کہ اس نے خود یہ زہر خوشی سے پیا ہے۔اس کے لیے کوئی اور ذمہ دار نہیں جب یہ نوٹ دودھ میں زہر ملانے والے بیٹے کو ملتا ہے تو اسے بڑا شاک لگتا ہے۔

        لاہور کی فرخ صابری کی کہانی میں سوتیلے نواسہ نواسی تو بیمار نانی کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کا سگا بیٹا ہی اپنی بوڑھی ماں کو برقی شاک دے کر مار ڈالتا ہے۔

        لندن میں مقیم جیتندر بلو کی کہانی کا بیمار باپ بالآخر سوئزرلینڈ جا کر قانونی طور پر MERCY KILLINGکے تحت مر جاتا ہے تاکہ اپنے خاندان پر مزید بوجھ نہ بنے۔

        جاوید اختر چودھری بر منگھم (یوکے) کی کہانی بہت دلچسپ ہے کہ بوالہوس شخص کا اس کی محبوبہ ہی کے ہاتھوں کام تمام ہوتا ہے جس نے محبوبہ کی ماں اور ساس دونوں کے ساتھ عیش کیا۔ایسی ہی عیاشیوں کے سبب وہ لاعلاج مرض میں گرفتار ہو گیا تھا۔

        ڈاکٹر فیروز عالم (USA) کی کہانی میں ڈاکٹر ایک معذور لڑکی کو نیند کی پچاس گولیاں گھول کر ملایا ہوا ایپل سوس کھلاتا ہے تاکہ اس کی معذوری کا خاتمہ ہو جائے۔

   گلشن کھنہ (ہونسلو مڈل سکس یوکے) نے اس نازک موضوع کو افسانوی رنگ دیا۔ان کی کہانی کے کردار کو پولیس گرفتار کر کے مقدمہ چلاتی ہے کہ اس نے اپنی بیمار ماں کو مرنے میں مدد کی تھی۔وہ کردار اپنی صفائی میں کہتا ہے کہ اس نے تو سانسوں میں اٹکی ہوئی بے قرار روح کو آزاد کروایا ہے۔

        نورالصباح سیمیں برلاس (لندن۔یوکے) کی کہانی اس موضوع پر اک نئے زاوئیے سے روشنی ڈالتی ہے کہ معذور خاتون کا بیٹا علاج معالجے کا خرچ برداشت کرتے کرتے تنگ آ گیا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ ماں ابدی نیند سوجائے تاکہ اسے بھی نجات ملے۔ادھر اس کی ماں کا مورفین ڈوز بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ وہ ختم ہو جائے مگر وہ جو مرنے کی آرزو میں مری جا رہی تھی جینا چاہتی ہے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

ان کے علاوہ احمد سعید انور، سرور غزالی، صفیہ صدیقی، راشد اشرف، ڈاکٹر عمران مشتاق، ڈاکٹر مصطفے کریم کی کہانیاں بھی اس موضوع سے انصاف کرتی ہیں۔

        بہر حال ’’یوتھینیزیا‘‘ میں شامل کہانیاں بہت متاثر کرنے والی ہیں ہی اس نازک موضوع پر سوچنے پر مجبور کرنے والی بھی ہیں۔ڈاکٹر صفات علوی قابلِ  مبارکباد ہیں کہ انھوں نے گھسی پٹی کہانیوں کے بجائے چونکانے والے موضوع پر چونکانے والے مضامین، حیران کن کہانیاں جمع کر کے حیرت ناک کارنامہ انجام دیا ہے۔

٭٭٭


رومی۔۔۔نکلسن کے حوالے سے

        ہمارا خدائے سخن اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتا رہا جس کے سبب وہ بیمار ہوا کرتا تھا علامہ اقبال کو بھی ہم نے رحمۃ اللہ علیہ کی کھونٹی پر ٹانگ دیا اور خلد آشیانی قرار دیا۔حالانکہ وہ جنت و دوزخ ہی کے قائل نہیں تھے ہمارے ہاں اورنگ زیب عالمگیر بھی رحم اللہ علیہ ہے جس نے بقول ابنِ انشا ’’شاہ اورنگ زیب عالم گیر بہت لائق اور متدین بادشاہ۔دین اور دنیا دونوں پر نظر رکھتا تھا۔اس نے کبھی کوئی نماز قضا نہ کی اور کسی بھائی کو زندہ نہ چھوڑا ‘‘ (اردو کی آخر ی کتاب۔لاہور اکاڈمی) صفحہ ۷۴

  شاعروں اور بادشاہوں کے تئیں عقیدت کا یہ حال ہے تو ان کے سلسلے میں عقیدت میں مبالغہ قرین قیاس ہے جن کا تصوف سے کچھ نہ کچھ واسطہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں منصور حلاج ہمارا ہیرو ہے، سچائی کا علم بر دار شمار ہوتا ہے جس نے اناالحق کا نعرہ لگا یا تھا۔یعنی میں خدا ہوں۔بایز ید بسطامی نے فرمایا ’’میں پاک ہوں، میری شان بلند ہے میں شہنشاہ ہوں ‘‘ (سبحانی مااعظم شانی و انا سلطان السلاطین) جنید بغدادی فرماتے ہیں ’’میرے جبے میں سوائے اللہ کے کوئی نہیں ہے۔ابوالحسن خرقانی نے کہا ’’میں اللہ سے صرف دو سال چھوٹا ہوں ‘‘ (ملاحظہ ہو دینِ تصوف و طریقت از مولانا حافظ محمد علی حسینی مولوی کا مل جامعہ نظامیہ حیدرآباد۔الاوراق پبلیشر ز سعید آباد حیدرآباد)

        مذکورہ بالا بزرگانِ دین سب کے سب رحمۃ اللہ علیہ ہی سے یاد کئے جاتے ہیں۔ہزار تا ویلات کے ذریعے ہماری عقیدت ان کے حق میں دفاعی صورت اختیار کرتی ہے۔ہمارے بعض بزرگ تو اپنے نام کا کلمہ تک پڑھوا نے میں عارمحسوس نہیں کرتے تھے۔کئی بزرگ بڑی آسانی سے ردائے الٰہی میں گھسے جا رہے ہیں اور بے چارہ غلام احمد قادیانی کالی کملی میں گھس کر دنیا بھر کا معتوب ٹھیرا۔عقیدت و نفرت کے یہ دوہرے معیارات عجیب ہیں۔ (حاشا د کلا شری غلام احمد قادیانی کی تائید میرا منشا نہیں)  نعوذ باللہ۔

        جلال الدین رومی ؔ کے سلسلے  میں بھی ہماری عقیدت اپنے نقطۂ عروج پر ہے۔مگر ڈاکٹر رینالڈ اے نکلسن نے رومی کو بشری پیکر میں دیکھا اور دکھایا۔جناب عبدالمالک آروی کے نام ایک خط (مورخہ ۹ نومبر ۱۹۲۹ء) میں ڈاکٹر نکلسن نے لکھا :

        میں ۱۸۶۸ء  میں پیدا ہوا۔کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔۱۹۰۲ء   سے ۱۹۲۶ء  تک وہیں فارسی زبان کا خطیب رہا اور اب عربی کا پروفیسر ہوں۔پروفیسر  ای جی براؤن فارسی میں میرے استاد تھے جن کا میں بہت زیادہ ممنونِ احسان ہوں اور جن کا میں عربی میں جانشین ہوا۔بقول عبدالمالک آروی ۱۹۲۹ء  تک ڈاکٹر رینالڈ اے نکلسن کی سترہ تصنیفات منظر عام پر آ چکی تھیں۔

۱۔      منتخبات دیوان شمس تبریز (مطبوعہ ۱۸۹۸ء)

۲۔     تذکرۃ الاولیاء مصنفہ فرید الدین عطار۔فارسی سے ترجمہ مع تنقیدی شرح۔

۳۔     تاریخ ادب عربی

۴۔     ابتدائی عربی حصہ اول، دوم، سوم مع شرح و فرہنگ

۵۔     مقدمہ و شرح رباعیاتِ  عمر خیام مترجمہ فٹز جیرالڈ

۶۔     ترجمان الاشواق (محی الدین ابنِ عربی کی غزلیات کا مجموعہ) عربی سے انگریزی میں ترجمہ

۷۔     علی ہجویری کی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ فارسی سے ترجمہ

۸۔     صوفیائے اسلام۔ڈاکٹر نکلسن کی اپنی کتاب جو انگریزی میں ہے

۹۔     ابو نصر السراج کی عربی میں لکھی ہوئی کتاب ’’کتاب اللمع فی التصوف ‘‘ کی تنقید و شرح

۱۰۔    علامہ اقبال کی فلسفانہ نظم ’’اسرار خودی ‘‘ کا فارسی سے انگریزی میں ترجمہ مع مقدمہ و

        شرح ( نکلسن اقبال کا اولین مترجم جس نے اس کا ترجمہ  ۱۹۲۲ء  میں کیا تھا)

۱۱۔     ابن البلخی کے ’’قارس نامہ ‘‘ کا ترجمہ

۱۲۔    اسلامی شعار کا مطالعہ۔انگریزی میں (کیمبرج یونیورسٹی پریس کے لیے)

۱۳۔    تصوفِ  اسلامیہ کا مطالعہ۔انگریزی میں

۱۴۔    مشرقی معلومات۔ (ای جی براؤن کی ساٹھویں سالگرہ پر علمی تحفہ)

۱۵۔    ترجمہ نظم و نثر مشرقیہ

۱۶۔    تصوف میں شخصیت کا تخیل۔ (لندن یونیورسٹی میں دیئے ہوئے تین خطبات پر مشتمل)

۱۷۔    مثنوی جلال الدین رومی۔نکلسن کا یہ انگریزی ترجمہ تین جلدوں میں ان کا سب سے

        بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے

        ڈاکٹر نکلسن جیسے نابغہ روزگار کے مختصر سے تعارف کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ نکلسن نے جہاں فارسی، عربی کے شاہ کاروں کو انگریزی میں منتقل کیا وہیں ان کی شرح بھی کی اور اپنے طور پر مناسب تنقید بھی کی۔ان کے مرتب کردہ منتخبات شمس تبریز مطبوعہ ۱۸۹۸ء  کا تفصیلی جائزہ عبدالمالک آروی نے لیا ہے جس کے پیش لفظ مورخہ ۱۴ء ڈسمبر ۱۹۳۱ء  بروز دو شنبہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب ۱۹۳۲ء  میں احمد صدیق مجنوں گورکھپوری پبلیشر نے آسی پریس گورکھپور میں چھپو ا کر دفتر ایوانِ اشاعت گورکھپور سے شائع کی۔عبدالمالک آروی کے مقالات ’’نگار‘‘ جیسے مشہور و ممتاز تحقیقی رسالے میں شائع ہوتے رہتے تھے۔نیاز فتح پوری یوں بھی متنازعہ controversialموضوعات میں بڑی دلچسپی دکھایا کرتے تھے۔عبدالمالک آروی کی راست ڈاکٹر نکلسن سے مراسلت بھی رہی ہے چنانچہ نکلسن کے خط مورخہ  ۹، نومبر ۱۹۲۹ء  کا حوالہ بھی کتاب میں درج ہے۔

        ڈاکٹر نکلسن نے جو دیوانِ شمس تبریز مرتب کیا ہے وہ دراصل ایک انتخاب ہے اور نکلسن کی خوش ذوقی کا نمونہ ہے۔اصل متنِ دیوان اور انگریزی میں ترجمہ متوازی رکھا گیا ہے پہلے صفحے پر بہترین ٹائپ میں فارسی غزلیات ہیں اور دوسرے صفحے پر انگریزی میں نثری ترجمہ ہے۔یہ سلسلہ صفحہ ۲ سے صفحہ ۱۹۵  تک چلتا ہے اس کے بعد ان اشعار کی شرح کی گئی ہے جو صفحہ ۳۱۸ تک پھیلی ہوئی ہے مزید شرح صفحہ ۳۳۰ تک کی گئی ہے۔آخر میں چار  تتمے بھی دیئے گئے ہیں جن میں نکلسن نے اپنی تحقیقی کادشیں بیان کی ہیں جن سے کچھ اہم تاریخی نتائج نکالے گئے ہیں۔

        اپنے مرتبہ دیوانِ شمس تبریز کے دیبا چے میں ڈاکٹر نکلسن نے لکھا ہے :

         ’’میں نے جب ٹرینٹی کالج TRINITY COLLEGEکی فیلوشپ (FELLOWSHIP) کی امیدواری کے موقع پر اپنے مہربان اور بے لوث استاد پروفیسررابرٹسن اسمتھ سے مشورہ کیا کہ کو نسا مضمون پیش کروں توا نھوں نے دیوانِ شمس تبریز  یا  بہ الفاظ دیگر جلال الدین رومی کا انتخاب کیا میں بھی بہت مستعدی کے ساتھ ان کا مشورہ ماننے کے لیے تیار ہو گیا ‘‘

 (بہ حوالہ انتخاب دیوانِ شمس تبریز از ڈاکٹر رینالڈ اے نکلسن مرتبہ عبدالمالک آروی) ڈاکٹر نکلسن نے جودیوانِ شمس تبریز مرتب کیا اس کے مقدمے میں اپنی کا وشوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ دیوان کے تمام قلمی اور مطبوعہ نسخوں کے متن کا جائزہ لیتے ہوئے لیڈن، وائنا اور برٹش میوزیم لندن میں موجود نسخوں سے تقابل، لکھنو اور تبریز کے مطبوعہ نسخوں سے مقابلہ کر کے اس کا متن نہایت عرق ریزی تحقیق و تجسس سے سات قلمی اور دو مطبوعہ نسخوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔بقول عبدالمالک

         ’’صحت میں صرف یہی نہیں کہ عہد جدید میں فارسی لٹریچر کا مایہ ناز ہے بلکہ دنیا کے تمام

        نسخوں سے نکلسن کا یہ مرتبہ دیوان زیادہ صحیح اور مستند ہے ‘‘

        ڈاکٹر نکلسن نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ جلال الدین رومی اور شمس تبریز کے حالات جمع کیے اس سلسلے میں انہوں نے جلال الدین رومی کے پوتے عارفؔ کے شاگرد افلاکی کی کتاب مناقب العارفین، دولت شاہ بن بختی شاہ سمر قندی کا ’’تذکرۃ الشعراء‘‘ اور مولانا عبدالرحمن جامیؔ کی ’’نفحات الانس ‘‘ جیسے مستند ماخذوں سے استفادہ کیا۔

        اتنی ساری تمہید کا مقصد صرف اتنا ہے کہ حیات رومی کا جو گوشہ بھی سامنے آئے گا وہ مستند حوالوں کا مرہون منت ہو گا۔اول تو ڈاکٹر نکلسن خود بڑا محقق و مستشرق ہے اس نے جن اکابرین سے کوئی بات لی ہے تو وہ بھی اپنی جگہ مصدقہ حیثیت رکھتے ہیں۔

        ڈاکٹر نکلسن کی تحقیق کے مطابق جلال الدین رومی ۶، ربیع الاول ۶۰۴ھ  مطابق ۳۰ستمبر ۱۲۰۷ء  کو بمقام بلخ پیدا ہوئے اور ۵جمادی الآخر ۶۷۲ھ  مطابق ۱۶ ڈسمبر ۱۲۷۳ء  بمقام قونیہ وفات پائی۔ رومی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چھے سال کی عمر ہی میں خواب دیکھنے لگے تھے، اپنے ساتھ کھیلنے والے لڑکوں کو فلسفے کا درس دینے لگے تھے ۶۲۸ھ  میں جب ان کے عالم باپ بہاؤ الدین کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ رومی نے لے لی، تصوف کا درس دینے لگے اور وحدت فی الکثرت کے عقیدے کی تشہیر و تبلیغ کرنے لگے۔

        ڈاکٹر نکلسن نے جامی اور  افلاکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ  ۶ جمادی الآخر ۶۴۲ھ  مطابق ۲۸ نومبر ۱۲۴۴ء  کوشمس تبریز سے رومی کی ملاقات ہوئی البتہ دیوانِ شمس تبریز کے ایک مرتب رضا علی خان کا خیال ہے کہ شمس تبریز اور رومی کی ملاقات اس وقت ہوئی جب رومی باسٹھ برس کے تھے جسے نکلسن نے رد کیا ہے۔

        جامی ؔنے  نفحات الانس میں شمس تبریز کو  نرا  جاہل لکھا ہے۔شمس اس قدر مغرور تھے کہ اپنے عالم و فاضل حاضرین کو بھی بیل اور گدھا کہا کرتے تھے۔مگر رومی فرطِ عقیدت سے انھیں خدا کا اوتار سمجھتے تھے۔ڈاکٹر نکلسن نے رومی ہی کے اس شعر سے رومی کی شمس پرستی کا ثبوت دیا ہے

آں بادشاہ اعظم دربستہ بود محکم   ٭   پوشیدہ دلقِ مردم امرو زبردرآمد

بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ :

مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم    ٭   تا غلامِ شمس تبریز ی نہ شد

        مناقب العارفین میں افلاکی نے یہ حکایت بیان کی ہے کہ کوئی عقیدت کا مارا ایک دن بازار میں لا الہ الا اللہ شمس الدین رسول اللہ کہنے لگا، لوگوں نے اس کو مار ڈالنا چاہا تو شمس تبریز نے بچا لیا اور اسے سمجھایا کہ ’’میاں میرا ایک نام محمد بھی ہے تم محمد رسول اللہ بھی کہہ سکتے تھے۔کیونکہ لوگ غیر مسکوک زر قبول نہیں کرتے ‘‘۔دیکھا آپ نے شمس کس سلیقے سے دفاع کرتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔مخفی مباد کہ شمس تبریز کا اصلی نام محمد بن علی بن ملک داد ہے البتہ نسب نا معلوم۔ (ملاحظہ ہوا بوالحسن علی ندوی کی کتاب تاریخ دعوت و عزیمت صفحہ ۳۴۳مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام، نددۃ العلماء لکھنوء مطبوعہ ۱۹۷۹ء باردوم) ۔

     ڈاکٹر نکلسن نے رومی کی شمس تبریز سے عقیدت کا احوال مدلل لکھا ہے۔مولانا عبدالرحمن جامی کی نفحات الانس کے حوالے سے ڈاکٹر نکلسن نے لکھا کہ شمس تبریز کی شاہد بازی کی پیاس بجھانے کے لیے جلال الدین رومی نے اپنے بیٹے سلطان ولد کو ان کی خدمت میں پیش کیا۔مگر یہ حرکت رومی کے بڑے لڑکے علاء الدین محمد سے برداشت نہ ہوسکی۔دوستوں کے ساتھ مل کر اس نے شمس تبریز کا قتل کر دیا۔ قتل ہوتے ہوئے شمس تبریز نے ایسی خوفناک چیخ ماری کہ ان کے قاتل بہرے ہو گئے۔ ان میں علاء الدین بھی تھا جس سے رومی تا عمر خفا رہے۔ایک عجیب و غریب مرض میں مبتلا ہو کر وہ جب مرا تو رومی اس کی تجہیز و تکفین میں بھی شامل نہیں ہوئے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شمس کو کسی کنویں میں پھینک دیا گیا تھا۔یہاں ایک بات کا ذکر بہتر سمجھتا ہوں کہ علامہ شبلی نعمانی کو تسامح ہوا ہے۔انہوں نے سلطان ولد کو رومی کا بڑا لڑکا قرار دیا۔ (ملاحظہ ہو سوانح مولانا روم از شبلی)

        رومی نے شمس تبریز کی یاد میں فرقہ مولویہ کی بنیاد ڈالی۔انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں شمس تبریز اور علاء الدین کی یاد میں اس فرقے کی بنیا د ڈالنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب کہ رومی کو اپنے بیٹے علاء الدین سے سخت نفرت ہو گئی تھی کہ اس نے رومی کے پیرو مرشد شمس تبریز کا قتل کر دیا تھا۔رومی تو اس کی نمازِ جنازہ میں تک شریک نہیں ہوئے وہ بھلا اس کی یاد میں کسی فرقے کی بنیاد کیا ڈالیں گے۔اسی لیے ڈاکٹر نکلسن نے جامی کے حوالے سے صاف لکھا ہے کہ فرقۂ مولویہ کی بنیاد کا مقصد شمس کا غم منانا تھا۔اس مسلک میں خاص عبائے غم زیبِ تن کی جاتی ہے، غم انگیز موسیقی کی لے پر صوفیانہ رقص کیا جاتا ہے۔ان کے عقیدے کی رؤ سے ان کا رقص ظاہری اعتبار سے سیاروں کی گردش کی علامت ہے اور باطنی اعتبار سے روح کی گردش کا مظہر ہے۔صوفیہ کا یہ مسلک ترکی میں آج بھی مروج ہے۔ابھی پچھلے دنوں روزنامہ ’’منصف ‘ ‘ حیدرآباد میں فرقہ، مولویہ کے تعلق سے بڑا تفصیلی مضمون شائع ہوا تھا۔

        شمس تبریز کے نام سے جو کچھ کلام دستیاب ہے وہ یقیناً رومی کا کہا ہوا ہے فرطِ عقیدت سے رومی نے اپنی غزلیات شمس تبریز کے نا م کر دی ہیں۔ان کی حیات ہی میں ایسی عقیدت کا اظہار شروع ہو چکا تھا۔اس تعلق سے ابوالحسن علی ندوی تاریخ دعوت و عزیمت میں رقم طراز ہیں :۔

         ’’حضرت شمس کے غائب ہو جانے کے بعد مولانا نے دو روز ہر طرف آپ کی تلاش کی مگر جب کسی طرح آپ کا پتہ نہ چلا تو مولانا رومی کی حالت متغیر ہونا شروع ہوئی۔طریقِ سماع تو آپ پہلے ہی اختیار کرچکے تھے۔اب یہ حالت ہوئی کہ ایک دم (پل) سماع کے بغیر نہیں گزرتا تھا۔مدرسے میں ٹہلا کرتے تھے اور آشکار و نہاں شورو فریاد کرتے تھے۔تمام شہر میں غلغلہ پڑگیا۔اسی زمانے میں مولانا رومیؔ نے شمس کے فراق میں بہت کثرت سے اور نہایت دل دوز غزلیں کہیں۔آپ کی درد انگیز فراقیہ غزلیں زیادہ تر اسی زمانے کی ہیں ‘‘  وہ آگے یہ بھی لکھتے ہیں :

         ’’چند برس قونیہ میں قیام فرمایا مگر پھر عشق نے جوش کیا اور کچھ لوگوں کو لے کر دمشق کی طرف روانہ ہوئے اور آخر پھر قونیہ تشریف فرما ہوئے اور اس مرتبہ یہ  خیال لے کر آئے کہ میں خود عین شمس ہوں، شمس کی جستجو کیا تھی درحقیقت خودا پنی ہی جستجو کر رہا تھا۔اس مرتبہ قونیہ اس خیال کے ساتھ واپس آئے کہ شمس میں جو کچھ تھا وہ خود مجھ میں موجود ہے ‘‘۔

 (تاریخ دعوت و عزیمت صفحہ  ۳۵۰  اور  ۳۵۱)

    شمس کے قتل کے بعد اس میں مزید شدت پیدا ہوئی اس طرح دیوانِ شمس تبریز و جود پزیر ہوا۔

        ہر انسان خطا و نسیان کا پیکر ہے۔اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی انسان کو مافوق الفطرت ہستی سمجھنے لگتی ہے۔رومی اور شمس تبریز کے تعلقات کی تحقیق و تنقید میں ڈاکٹر نکلسن پر مستشرقی تعصب کا الزام یا کسی خطا کا امکان اسی وقت قابل قبول ہوسکتا ہے جب کوئی محقق اپنے نتائج تحقیق مدلل پیش کرے۔ (صلائے عام ہے یارانِ فکر و تحقیق کے لیے)

مثنویِ معنوی مولویِ    ٭   ہست قرآں درزبانِ پہلوی

اور

مازِ قرآں برگز یدم مغزرا   ٭   استخواں پیشِ سگاں انداختیم

والی گوشت پوست کی یہ شخصیت بھی ان کے عقیدت مندوں کے پیشِ نظر رہنی چاہیے

پس سخن کو تاہ با یدو السلام

اشاریات

۱۔      انتخاب دیوانِ شمس تبریز ڈاکٹر رینالڈ اے نکلسن مرتبہ عبدالمالک آروی ۱۹۳۲ء  جسے احمد صدیق مجنوں گورکھپوری نے آسی پریس گورکھپوری میں چھپوا کر دفتر  ایوانِ اشاعت گورکھپور سے شائع کیا۔

۲۔     تاریخ دعوت و عزیمت از ابوالحسن علی ندوی بارِ دوم  ۱۹۷۹ء

۳۔     انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا

۴۔     اردو کی آخری کتاب از ابنِ انشاء لاہور اکاڈمی بار دوم ۱۹۸۱ء

۵۔     دین تصوف و طریقت از مولانا حافظ سید محمد علی حسینی مولوی کامل جامعہ نظامیہ، الادراق پبلیشرز، سعیدآباد حیدرآباد

۶۔     Reconstruction of religious thought in Islam – IQBAL

٭٭٭

ریختی

امیر خسرو سے زبیر رضوی تک

        ریختی ہر دو ر میں مقبول خاص و عام صنف رہی ہے۔بعض حضرات اس کی اولیت کا سہرا کبھی انشاء اللہ خاں انشاء، تو کبھی سعادت یار خاں رنگیں کے سرباندھتے ہیں۔ خود انشاء نے ’’

دریا ے لطافت‘‘ میں بقول محمد مبین نقوی مزا حا ً  لکھا کہ ’’طہماس بیگ خاں کے بیٹے سعادت یار خاں رنگیں نے ریختے سے ریختی نکالی مگر شیخ امام بخش صہبائی نے GHOST WRITINGکرتے ہوئے بظاہر مرزا قادر بخش بہادر صابر کے نام سے چھپنے والے تذکرہ گلستان سخن (مطبوعہ ۱۲۷۱ ھ)  میں لکھا کہ ’’انشا ء اللہ خاں انشاء نے ریختی کی اول بناڈالی‘‘۔

        ریختی انشاء و رنگیں سے بہت پہلے عالم و جود میں آ چکی تھی۔عادل شاہی دور کے ہاشمی بیجاپوری نے ریختی میں ہزاروں شعر کہہ ڈالے یوں بھی ہندی شاعری کا محبوب مرد اور محب عورت ہوا کرتی ہے۔مگر اس اسلوب میں بیگماتی زبان کی جزئیات طنز و مزاح کے ساتھ بیان کرتے ہوئے آغا جان عیش، رنگیں، بیگم، نسبت وغیرہ وغیرہ نے اسے سر خروئی عطا کی۔

        امیر خسرو (۶۵۲ھ   تا  ۷۲۵ھ) کے مشہور زمانہ اشعار بھی تو اسی صنفِ  سخن کی عکاسی کرتے ہیں

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف زمانِ وصلت چو عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یہ پوری غزل ہی ریختی کا نمونہ لگتی ہے۔اس کے علاوہ بھی خسرو کے ہاں ایسے اشعار بہ کثرت پائے جاتے ہیں :

خسرو رین سہاگ کی جاگی پی کے سنگ   ٭   تن میرو من پیو کو دو ؤ بھئے ایک انگ

گو یا  ریختی کی طرز کے موجد امیر خسرو ٹھہرتے ہیں۔ (متوفی ۷۲۵ مطابق 1325ء)

        ویسے دیکھا جائے تو دکنی شاعری میں ریختی کہنے والے زیادہ ہیں جیسے علی عادل شاہ ثانی شاہی، قلی قطب شاہ، غواصی، عبداللہ قطب شاہ، شوقی، نصرتی، سلطان معظم، ولی وغیرہ کے پاس بھی ریختی کے نمونے مل ہی جاتے ہیں۔

        ہاشمی بیجاپوری (متوفٰی 1698ء۔مطابق1109ھ) نے ذوالفقار خاں کی تعریف میں ایک طویل قصیدہ لکھا جب ارکاٹ کا قلعہ فتح ہوا تھا۔چنجی کے اس قلعے پر مرہٹے قابض تھے۔ذوالفقار خاں نے اس کا محاصرہ کر کے پانچ سال کی جد و جہد کے بعد اسے بالآخر فتح کیا۔ ہاشمی نے زنانہ لب و لہجہ میں اس فتح کی تعریف محبوبانہ انداز میں کی ہے۔ (ملاحظہ ہو ’’دکنی شاعری تحقیق و تنقید ڈاکٹر محمد علی اثر مطبوعہ جنوری۱۹۸۸ء) حیدرآباد۔

        علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ کی ریختی کا یہ شعر بہت رواں ہے

میں چھاؤں ہو پیاسنگ لاگی رہی ہوں دائم

یک پل جدا نہ ہونا وصلت اسے کتے ہیں

 (کتے ہیں۔دراصل کہتے ہیں ’’کی ابتدائی دکنی شکل ہے)

غواصی کی زبان سے بھی دو شعر دیکھئے۔

دو تن ملالیے تھے ولے اس وقت پہ میں

موں کھول بول کچھ نہ سکی وقتِ خواب تھا

 غواص کل وصال کی لذت تھے میرا دل

مقصود ہور مراد سوں خوش کامیاب تھا

 (تھے یعنی سے)

         ’’چھٹی ‘‘ دہائی میں اپنی ’’ ملی جلی‘‘ آواز کے اتار چڑھاؤ سے محفل میں رنگ جمانے والے زبیر رضوی کے ہاں بھی ریختی کے اثرات پائے جاتے ہیں :

سن ری سکھی میں تجھ کو بتاؤں کون مرا من میت

روپ سلونا اس کے گلے میں جھرنوں کا سنگیت

اردو میں وہ نظمیں لکھے اور ہندی میں گیت

بوجھ سکھی کیا نام ہے اس کا کون مرا من میت

زبیر رضوی کے پاس آتے آتے ریختی کے اسلوب میں کافی نکھار آ گیا۔انہوں نے اسے جدید پیرایۂ اظہار عطا کیا۔غواصی کی لذتِ  وصال یہاں الگ روپ دھارتی ہے

شاید مجھی میں بند تھے سورج بھی چاند بھی

لمحہ بہ لمحہ کوئی مجھے کھولتا رہا

زبیر رضوی جب بھوپالی ترنم میں پڑھتے تھے

گرمیِ بازارِ  لالہ رخاں ہم سے

غنچہ دہاں ہم سے، سرو قداں ہم سے

ہم پہ ستم ان کا، ہم پہ جفا ان کی

لے کے گئے تھے جو تیرو کماں ہم سے

 تو محفل پر ’’کیفؔ‘‘ چھا جاتا تھا۔

بارہ پیاریوں میں گھرا ہونے کے باوجود محمد قلی قطب شاہ بھی ریختی کے لہجے میں عورت کے جذبات کی عکاسی یوں کرتا ہے :

تج بن پیارے نیند ٹک نیناں میں منج آتی نہیں

رینی اندھاری ہے کٹھن تج بن کٹی جاتی نہیں

بقول محمد علی اثر، دکنی شاعر۔ملا و جہی (صاحبِ ’سب رس‘) کی ریختی میں محمد قلی یا ہاشمی بیجاپوری کی ریختی کی طرح چوما چاٹی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ وجہی کی ریختی زیادہ تر فراق کی کیفیت کی غماز ہے جیسے :

سہیلی یا ر بچھڑ ا ہے مجھے وہ یار یاد آتا

بسر نئیں سکتی اک تل میانے دوسو بار یاد آتا

        دکنی شاعری پر حرفِ  استناد کا درجہ رکھنے والے ڈاکٹر محمد علی اثر نے کتب خانہ سالار جنگ کے گنجینۂ مخطوطات سے محمد امین ایاغی کی ریختی ’’فراق نامہ ‘‘ ڈھونڈ نکالی۔ایاغی عادل شاہی دور کا وہ مشہور شاعر ہے جس کی شہرت اس کی مذہبی مثنوی ’نجات نامہ‘ سے ہے۔ایاغی نے اپنی ریختی ’’فراق نامہ ‘‘ میں ایک ایسی عورت کے جذبا ت کی عکاسی کی ہے جو اپنے محبوب کے التفات کی منتظر ہے مگر وہ کسی اور جگہ رنگ رلیاں منا رہا ہے۔

ایسا مکر پیا آج میرے سنگات کرگئے

باتاں مٹھیاں لگا کر کئی بھانت سوں نتر گئے

سب رین جاگتی تھی آویں گے کر سریجن

میرے مندھر نہ آئے دوتن کی سیج پر گئے

سچ بولتے ہیں لوگاں ہے بے وفا سریجن

دوتن کی بات پر مجھے کیوں داغ داغ کرگئے

        ریختی کی اس روایت کو زبیر رضوی نے زندہ رکھتے ہوئے اپنے ’’مخصوص ‘‘ ’’ہنکاری ‘‘ ترنم میں ایسی ہی بے وفائی کا خاکہ کھینچتے ہوئے اپنی ایک نظم ’’شریف زادہ ‘‘ میں ایسی ہی ایک صورت حال پیش کرتے ہوئے اپنے محبوب کو غیرت دلانے کی کوشش کی ہے۔ادبی منچ پر زبیر رضوی کرشن کی بہ نسبت ’’گوپی کرشن ‘‘ کی بھومیکا زیادہ نباہتے دکھائی دیتے ہیں :

        سنو کل تمہیں ہم نے مدراس کیفے میں

او باش لوگوں کے ہمراہ دیکھا

        وہ سب لڑکیاں بد چلن تھیں جنھیں تم

سلیقے سے کافی کے کپ دے رہے تھے

        بہت فحش اور مبتذل ناچ تھا وہ

کہ جس کے ریکارڈوں کی گھٹیا دھنوں پر

        تھرکتی مچلتی ہوئی لڑکیوں نے

تمھیں اپنی بانہوں کی جنت میں رکھا

        بہت دکھ ہوا

تم نے ہوٹل میں کمرہ کرایے پہ لے کر

        ان اوباش لوگوں اور ان لڑکیوں کے ہجوم طرب میں

گئی رات تک جشنِ صہبا منایا

        بہت دکھ ہوا خاندانی شرافت

بزرگوں کی بانکی سجیلی وجاہت کو

        تم نے سرعام یوں روند ڈالا                       (شریف زادہ)

        اس نظم میں لڑکیوں کے ہجوم کے ساتھ ساتھ ’’اوباش لوگوں ‘‘ کی موجود گی بھی ’’صحبتِ  غیرجنس ‘‘ کی نشاندہی نہیں کرتی۔آگے کے مصرعے  ع     ’’بزرگوں کی بانکی سجیلی وجاہت‘‘ سے بھی موروثی ذوق کا پتہ چلتا ہے۔

        داغ دہلوی کا خیال ہے کہ ریختی کہنے والے کم علم اور کم استعداد ہوتے ہیں اور ان کی شاعری قابلِ اعتنا نہیں۔

         (ملاحظہ ہو تاریخ ریختی مع دیوان جان صاحب مرتبہ سید محمد مبین نقوی الہ آبادی مطبوعہ  مطبع انوارِ احمدی الہ آبادی)

مگر ہمارا خیال ہے داغؔ نے زیادتی کی ہے ورنہ، امیر خسرو سے لے کر زبیر رضوی تک شمال اور دکن میں ریختی گویوں کی ایک کہکشاں بکھری ہوئی ہے جنھوں نے نسائی جذبات و احساسات کو زبان دے کر اردو ادب اور دکنی ادب میں اضافہ کیا۔خود جان صاحب نے جو بیگماتی زبان میں ریختیاں کہی ہیں وہ زبان و بیان کے معاملے میں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ریختی میں مختلف رشتوں اور مخصوص الفاظ و اصطلاحات کا صحیح استعمال دکھا یا گیا ہے جیسے :

        مغلانی =    امیروں کے گھر کی وہ ملازمہ جس کے سپرد کپڑے سینے کی خدمت ہو

الہی کو ڑھ ٹپکے ایسی مغلانی کے ہاتھوں میں

کتر کے کر دیا غارت مری انگیا کے بازو کو

        انگیا=    سینہ بند۔چھوٹا کپڑا جسے عورتیں چھاتیوں کے چھپانے اور تنے اور کھنچے رہنے کے لیے پہنتی ہیں۔مشہور ہے کہ سب سے پہلے اس کو اورنگ زیب عالم گیر کی بیٹی زیب النساء نے زیب تن کیا تھا۔

اے پری تو نے جو پہنی ہے سنہری انگیا

آج آتی ہے نظر سونے کی چڑیا مجھ کو

        انگیا کی چڑیا =      وہ سیون جو دونوں کٹوریوں کے بیچ ہوتا ہے

اس کی انگیا کی کٹوری کو ہوا دیکھ کے مست

ساقیا اب نہ دکھا ساغرِ صہبا مجھ کو

ایک سودا ؔ ہیں جو کبھی کہتے تھے۔

        کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ

ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

        دگانہ =    جڑواں پھل وغیرہ دے کر دوستی کرنے والی۔ہمراز

        کوکہ=    دودھ شریک بھائی

        گوئیاں =    رازدار سہیلیاں

           ددا=    بوڑھی لونڈی، کنیز جس نے بچپن میں خدمت کی ہو۔

        ایسی مخصوص اصطلاحات کے علاوہ لکھنوی یا دہلوی بیگماتی زبان کے نمونے بھی ریختی میں بہ کثرت پائے جائے ہیں۔خاص طور پر جانؔصاحب نے تو زبان و بیان کے استناد میں حصہ لیا ہے۔اور بعض محاورات کو اپنے شعر میں اس خوبی سے باندھا کہ اردو ادب ناز کرے۔

        جان صاحب کی شعری خصوصیات گناتے ہوئے تاریخ ریختی، میں باپ، ماں، بھائی بہن، بھاوج، دیور، سوت، ساس، نند، آشنا وغیرہ کے رشتوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

        جان صاحب کی ولادت فرخ آباد میں غالباً ۱۲۳۴ھ  میں ہوئی تھی۔نام تو ان کا میر یار علی تھا مگر عرفیت جان صاحب تھی اس لیے ریختی کی رعایت سے اسی عرف کو تخلص قرار دے لیا۔

        جب تک وہ لکھنؤ میں رہے نوابوں کے یہاں ریختی سنانے کو اکثر طلب ہوتے اور خوب خوب انعام پاتے۔۔۔۔۔۔ پھر وہ دہلی چلے گئے وہاں حالات موافق محسوس نہ ہوئے تو بھوپال کا سفر کیا۔بھوپال میں سچی قدر نہ ہوسکی تو پھر لکھنؤ لوٹ آئے۔۱۸۵۷ء  میں جب غدر ہوا تو وہ لکھنؤ ہی میں رہے، بھاگ کر کہیں نہیں گئے۔

جان صاحب نے اپنا پہلا دیوان مطبع مرتضوی لکھنؤ میں ۱۲۶۲ھ  میں مطابق 1845ء  میں چھپوا یا تھا اور اس کی تاریخ کے لیے قطعہ کہتے ہوئے کہا :

میں صدقے گئی آ کے یہ قطعہ دیکھو

مرے جان صاحب نے لکھا ہے باجی

چھٹی نبض بیمار کی مل گئی ہے

اگر دور سے شعر دیکھا ہے باجی

دوا کی ہے تاثیر ہر لفظ رکھتی (رکھتا)

جو ہے حرف وہ قرص گویا ہے باجی

غذا قافیہ بحر ہر ایک پانی

ردیفوں کو پرہیز باندھا ہے باجی

اجی اس کی تاریخ بیت الشفاء ہے

یہ دیوان چاہت کا نسخہ ہے باجی

آخری مصرعے سے تاریخ  1262ھ برآمد ہوتی ہے۔

        ویسے خود جان صاحب اپنے پہلے دیوان سے مطمئن نہیں تھے۔سو انہوں نے دوسرا دیوان شائع کرواتے ہوئے اعتراف کیا۔

پہلا دیوان سب غلط میرا

اس میں ظاہر یہ تین چار ہیں عیب

شعر موزوں تو قافیہ مہمل

سب پہ چھپنے کے آشکار ہیں عیب

یہ دوسرا دیوان مطبع بلینی صاحب میں حافظ محمد باقر معروف بہ (اچھے صاحب) کے زیر اہتمام 1279ء میں چھپا جس میں پہلا دیوان تصحیح شدہ بھی شامل رکھا گیا خود جان صاحب نے اپنے اس تازہ (دو دھاری) دیوان کی تاریخ یوں کہی :

بی جان کہی جانؔ نے تاریخ بھی اچھی

دیوان بہت خوب چھپے صاحبو دونو

اس کے دوسرے مصرعے کے اعداد نکلتے ہیں 1279ء۔

اپنے نئے دیوان کی طباعت پر ریختی کا ایک شعر بھی انہوں نے کہا۔

لیتے آنا چوک سے مرزا کروں گی سیر میں

جانؔ صاحب کا چھپا ہے دوسرا دیوان اب

     یہاں پھر زبیرؔ رضوی یاد آتے ہیں جب وہ لہک لہک کر اپنی ’’ملی جلی ‘‘ آواز میں کہتے ہیں۔

مرے لیے موسم کا کوئی پھل لانا

یہاں جان صاحب کی چاہنے والی کی خوش ذوقی کی داد دینے کو جی کرتا ہے کہ دیوان منگو ا رہی ہے جب کہ زبیرؔ رضوی ’’موسمی پھل‘‘ پر گزارا کر رہے ہیں۔

        زمانے کے ساتھ ساتھ ریختی میں انقلاب در آیا ہے۔زبیر رضوی آج سے چالیس پچاس سال پہلے اپنی آواز اور حرکات و سکنات سے مشاعروں میں رنگ جمانے میں بڑے ’’پاپلر‘‘ تھے (پاپلر میرٹھی کی طرح) ۔فضل تابش نے ماہنامہ ’’مزاج‘‘ بھوپال میں ’’ لہر لہر ندیا گہری ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے زبیرؔ کی اسی سماعی و حرکیاتی حیثیت پر زور دیا تھا۔اور کہا تھا کہ ’’زبیرؔ رضوی کی پوری شاعری پڑھنے کی کم سنانے کی زیادہ ہے۔ملاحظہ ہو متاعِ سخن (مرتبہ اسلم پرویز) ۔

        ہمارے خیال میں خود زبیر رضوی جس طرح اپنی شاعری لہک لہک کر سناتے ہیں وہ انہی کے منہ سے اچھی لگتی ہے۔یہ کوئی منہ دیکھے کی تعریف نہیں۔فضل تابش کے ذوق سماعت نے جو محسوس کیا اس کا اظہار کیا مگر اس کے جواب میں محمود ہاشمی اور شاذ تمکنت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کی شاعری پڑھنے سے بھی تعلق کرتی ہے۔یقیناً ہم ان حضرات سے متفق ہیں اب انشاء، رنگین، جان صاحب کو سننے کا کوئی موقع ہی کہاں رہ گیا۔ان کی ریختیاں آج بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ نواب سعادت علی خان کو خوش کرنے کے لیے انشاء نے ناک پر انگلی رکھ کر دوپٹہ سرپر ڈال کر شعر پڑھا تھا  اب ریختی پڑھتے ہوئے تصور کیجئے:

میں ترے صدقے نہ رکھ اے مری پیاری روزہ

بندی رکھ لے گی ترے بدلے ہزاری روزہ

ایک ’’خشتِ  دیوار‘‘ سے پوری دیوار کا پتہ چل جاتا ہے اور لہر لہر سے اندازہ لگ جاتا ہے کہ ندیا گہری ہے کہ پایاب!

        سعادت یار خاں رنگیں ؔکی ریختی کا ایک شعر ملاحظہ فرمایئے:

میں تو وہ اوڑھنے کی نہیں کل کی اوڑھنی

باجی مجھے اڑھا دو جھلا جھل کی اوڑھنی

انشاءؔ کی ریختی کے کچھ خوب صورت شعر اور سن لیجئے:

رات بھر اپنا ترستا ہی رہا جی باجی

اب تو نوبت، بجی اٹھو اجی باجی باجی

اے لو اس کو ٹھری میں میرے ڈرانے کے لیے

اک عبا اوڑھ کے بن بیٹھے ہیں حاجی باجی

کان کی لو میں گھسے موٹی سی بالی کیونکر

جس کا ہو سوئی کے ناکے سے بھی ننھا سوراخ

یوں جھکا مجھ پہ کوئی رات کا جاگا جیسے

تم تو وہ چاہتے ہو سوئی میں دھاگا جیسے

جان صاحب کی ریختی کے چند اشعار پڑھتے ہوئے لکھنؤ کے ماحول، زبان و بیان اور اس دور کے مذاق کا اندازہ لگایئے:

نکاحی بیاہی کو چھوڑ بیٹھے متاعی رنڈی کو گھر میں ڈالا

بنایا صاحب امام باڑہ خدا کی مسجد کو تم نے ڈھا کر

کر کے ننگا اس نے سرڈھانکا زبردستی مرا

کشتیاں لڑ لڑ کے میں نے لاکھ مارے ہاتھ پاؤں

اندھیرے منہ جو اٹھا گھر سے ہو گیا چمپت

ملا ہے یار موا صبح خیز یہ کیسا

دونوں آنکھیں بیٹھ کر دیدے پٹم ہو جائیں گے

چھوٹی دائی گر بڑی روٹی اٹھائی جھوٹ سچ

بڑ ی روٹی اٹھانا =در اصل قرآن سرپر رکھ کر قسم کھانے کو کہتے ہیں۔

        مثالیں بہت ہیں۔ریختی کو چشم کم سے نہیں دیکھا جا سکتا۔داغ نے ریختی کہنے والوں کو کم علم و کم استعداد کہا تھا اور ان کی ریختی گوئی کو قابل اعتنا نہ سمجھاتو    عابد مرزا بیگم لکھنوی نے بڑا تفصیلی منظوم جواب دے کر داغؔ کے دانت کھٹے کر دیئے تھے۔

میں اپنے وقت کی زیب انساء ہوں

جواب اپنا کوئی لائے کہاں سے

        ریختی کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی ’’اوں ہوں ‘‘ کے نسائی لہجے میں غزل سنا کر مشاعرے لوٹے جا رہے ہیں  یا پھر ریختی نے Gay poetry  کا   روپ دھار لیا ہے۔

٭٭

 

اشاریات

 (۱)   تاریخ ریختی مع دیوانِ  جان صاحب مرتبہ مولوی سید محمد مبین نقوی الہ آبادی مطبع انوار

        احمدی الہ آباد (سن اشاعت ندارد)

 (۲)   خسرو شناسی NCPUL مرتبہ ڈاکٹر ظ۔انصاری و ابوالفیض سحر۔تیسرا ایڈیشن 1998ء

 (۳)   دکنی شاعری تحقیق و تنقید۔ڈاکٹر محمد علی اثر۔دائرہ پریس حیدرآباد۔جنوری 1988ء

 (۴)    ’’متاع سخن‘‘۔مرتبہ اسلم پرویز۔پیش کش ذہن جدید۔نئی دہلی۔2009ء

٭٭٭

 


آج کے منظر نامے میں نظم

        یہ طے ہے کہ غزل کے بالمقابل نظم میں وسعتِ اظہار زیادہ ہے۔کسی موضوع یا کسی عنوان سے انصاف کرنے کے زیادہ مواقع ہیں ۔شاعر صرف دو مصروں کا پابند ہوکے نہیں رہ جاتا بلکہ دو سے زیادہ مصرعوں میں وہ اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لیے آزاد رہتا ہے۔اسی آزادی اظہارنے سیکڑوں ہزاروں اشعار پر مشتمل مثنویوں کا روپ دھارا تو کبھی سیرتِ رسول پاک کا منظر و پس منظر بیان کرنے کے لیے مسدس کی ہئیت استعمال کی گئی۔مدو جزر اسلام (مسدس حالی) شاہ نامۂ اسلام (حفیظ جالندھری) ۔علامہ اقبال کے شکوہ و جوابِ  شکوہ سے لے کر چندربھان خیال کی’ لولاک‘ تک نظم نگاری کا یک اسلوب مقبولِ خاص و عام ثابت ہوا۔حمد’نعت’منقبت سلام قصیدہ وغیرہ مختلف اصناف نے نظم کو پروان چڑھایا ان تمام اصنافِ  سخن میں قافیہ و ردیف کی پابندی جہاں شاعر کی زبان و بیان پر دسترس کی غماز ہوا کرتی تھی وہیں خوش ذوق سامعین کے دل و دماغ کو متاثر بھی کرتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ غزل کے اشعار ہی کی طرح مسدس حالی، شاہ نامۂ اسلام، شکوہ جوابِ شکوہ کے کچھ بند اصحابِ ذوق کو یاد بھی ہو جایا کرتے تھے۔ ( حالانکہ لولاک کی روایت کسی متداول حدیث سے ثابت نہیں)

        نظم میں تجربات ہونے لگے۔دیگر زبانوں سے استفادہ کیا جانے لگا چودہ مصرعوں کی مخصوص ترتیب سے سانیٹ لکھا جانے لگا یا پھر آٹھ مصرعوں کی الٹ پھیر سے فرانسیسی صنفِ سخن ترائیلے کی اردو میں پذیرائی ہوئی۔مگریہ مذکورہ اصناف بہرحال بحر، قافیہ و ردیف کی پابندی ہی سے عبارت ہیں ۔آزاد نظم کے بانیوں میں شمار ہونے والے شاعر  ن۔م۔راشد نے بھی ابتداء میں سانیٹ لکھے۔اختر جوناگڈھی، اختر شیرانی، نریش کمار شاد، عزیز تمنائی سے لے کر علیم صبا نویدی اور رؤف خیر تک کئی شاعروں نے سانیٹ لکھے۔اردو میں ترائیلے بھی لکھے گئے۔نریش کمار شادنے ابتداء میں کئی ترائیلے لکھے پھر فرحت کیفی کا مجموعۂ کلام  ۱۹۷۷ء  میں ’’پتہ پتہ بوٹابوٹا‘‘ اور رؤ ف خیر کا مجموعۂ کلام ’’ایلاف‘‘ ۱۹۸۲ء  میں منظر عام پر آیا جس میں ترائیلے تھے۔

        پابند اصناف میں قطعات رباعیات کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ اختر انصاری، عبدالحمید عدم، نریش کمار شاد کے مجموعے شائع ہوئے جنھیں مقبولیت نصیب ہوئی۔جنوبی ہند میں ’’رباعی گوئی ‘‘ کے نام سے سید مظفر الدین خاں صاحب نے ایک تذکرۃ الشعراء ہی ترتیب دیا۔ امجد حیدرآبادیؔ، انیسؔ، جوش ملیح آبادیؔ، فراقؔ، جاں نثاراختر وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان دنوں رباعی گوئی کا احیاء بھی ہوا ہے اور بعض شاعروں نے تو حروفِ تہجی کے اعتبار سے اپنے مجموعے تک ترتیب دے ڈالے۔ رباعی گوکو ایک سہولت یہ حاصل ہے کہ وہ اپنی ہر رباعی کے ہر مصرعے کوکسی نہ کسی بحر میں ثابت کر کے دکھا سکتا ہے بقول یاس یگانہ چنگیزی جو خود رباعی گو تھے۔

چت بھی اپنی ہے پٹ بھی اپنی ہے

  میں  کہاں  ہار  ماننے   والا

        تین تین مصرعوں کے ہر بند کے ختم پر ایک ٹیپ کا مصرع ’’اے غم دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں ‘‘ کہہ کر مجازؔ نے نظم کو بامِ عروج پر پہنچا یا۔

        فی الحال میں پابند نظموں کی بات کررہا ہوں ۔اختصار پسند وں نے ایک قدم اور پیچھے ہٹ کر بجائے چار، اب صرف تین مصرعوں کی ثلاثی پر اکتفا کر لیا۔

ثلاثی میں تینوں مصرعے ہم وزن ہوتے ہیں ۔البتہ قافیہ و ردیف کی پابندی صرف کہیں پہلے اور تیسرے مصرے میں برقرار رکھی جاتی ہے۔بحر چھوٹی بڑی ہو سکتی ہے۔

 گزرا تھا ابھی کون سڑک سے کہ ابھی تک  /   ہاتھوں میں ہے بنیئے کے اسی طرح ترازو

        درزی کی سوئی پہلے جہاں تھی ہے وہیں پر   (مخمور جالندھری)

        علامہ اقبال نے دودو مصرعوں کے ختم پر ’’اپنی خودی پہچان  او غافل افغان‘‘ جیسا آفاقی نعرہ دیا تھا جو آج بھی ضرب کلیم ثابت ہوسکتا ہے۔

        مساوی الاوز ان مصرعوں پر مشتمل ثلاثی کے مجموعے حمایت علی شاعر نے ’’مٹی کا قرض‘‘ کی صورت میں اور قمر اقبال نے ’’تتلیاں ‘‘ کے روپ میں ادب کو دیئے۔

        کوئی تازہ شعر اے ربِ جلیل

ذہن کے غارِ حرا میں کب سے ہے

        فکر محوِ انتظارِ  جبرئیل۔۔۔ (حمایت علی شاعرؔ)

                یادہے وہ فساد کا منظر

رورہی تھی گلی میں اک بچی

اپنی گڑیا کو گودمیں لے کر۔۔۔ (قمر اقبال)

    میرٹھ چھاؤنی کے دیپک قمر کا مجموعہ ’’ہلّے ہلارے‘‘ 1991ء میں اردو ماہیوں کے نام سے شائع ہوا مگر تقریباً پندرہ سو تخلیقات پر مشتمل یہ مجموعہ مساوی الاوزان مصرعوں پر مبنی ہے جوثلاثی کا خاصہ ہے۔پنجابی صنف ماہیئے میں درمیانی مصرع اپنے پہلے اور دوسرے مصرعے کی بہ نسبت ایک سبب کم ہوا کرتا ہے۔یہی اس کی پہچان بھی ہے۔مفعول مفاعیلن/فا ع مفاعیلن/مفعول مفاعیلن۔

ماہیئے دراصل پنجابی لوک گیت ہے۔اسے فلموں کے ذریعے کافی مقبولیت ملی۔

تم روٹھ کے مت جانا

مجھ سے کیا شکوہ

دیوانہ ہے دیوانہ

                                 (قمر جلال آبادی۔فلم پھاگن)

دل لے کے دغا دیں گے

یار ہیں مطلب کے

یہ دیں گے توکیا دیں گے                                           (ساحر لدھیانوی۔فلم نیا دور)

        جرمنی سے ’’جدید ادب‘‘ نکالنے والے حیدر قریشی نے اردو میں ماہیوں کو بہت بڑھا وا  دیا۔ان کی تحقیق کے مطابق ہمت رائے شرما  اردو میں ماہیا نگاری کے بانی ہیں ۔ حیدر قریشی کی ایماء پر کئی احباب نے ماہیا نگاری میں سنجیدگی دکھائی اور کئی مجموعے شائع ہوئے جیسے :  موسم سبھی ایک جیسے۔ ( عاصی کا شمیری) ۔    ’’محبت کے پھول‘‘ اور عمر گریزاں  (حیدرقریشی) ، چھیاں چھیاں (فراغ روہوی) ، ’’سوماہیئے‘‘ (شاہد جمیل)  ریگِ رواں (نذیر فتح پوری)  رُتیں (طاہر رزاقی) ۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے گیارہ ماہیا نگاروں کے ماہیوں پر مشتمل ایک مجموعہ ’’رم جھم‘‘ ترتیب دیا تو شمیم انجم وارثی نے ’’مغربی بنگال میں ماہیا نگاری کے نام سے چونتیس 34 ماہیا نگاروں کے فی کس بیس بیس ماہیئے جمع کر کے ایک کتاب شائع کی۔اس کے علاوہ دو ماہی ’’ گلبن ‘‘ (احمد آباد۔اب۔لکھنؤ) اور سہ ماہی ’’قرطاس‘‘ (ناگپور) نے ماہیا نمبر شائع کیے۔

        گرچہ ہے یہ  نادانی

دل کی مگر میں نے

ہر بات سدامانی   (عاصی کا شمیری)

        افسوس تو کیا کرنا

زہر کا عادی تھا

لازم تھا اسے مرنا  (رؤف خیر)

        حیدرآباد دکن کے قمر ساحری برسوں پہلے ہجرت کر کے پاکستان جابسے تھے انھوں نے حروفِ تہجی کو بنیاد بنا کر ماہیئے کہے  اور ’’بادسبز‘‘ مجموعہ ادب کو دیا۔اس کی خوبی یہ ہے کہ قمر ساحری نے الف بے تے ثے جیم سے ماہیئے کے پہلے مصرعے کہے۔

        آواز کہاں تک دیں

ساتھ تمہارے ہیں

تم ساتھ جہاں تک دیں

        بانہوں میں نہیں نرمی

سرد ہوئے جذبے

بوسوں سے گئی گرمی

        تین ہی مصرعوں پر مشتمل ہائیکو بھی جاپانی صنف سخن ہے جو اردو میں درآئی۔اس میں سترہ سلیبلز SYLLABLES  میں پانچ سات پانچ کی ترتیب سے مصرعے کہے جاتے ہیں ۔ہائیکو کو بڑھا وا دینے میں ماہنامہ ’’ساقی ‘‘ (دہلی) کے جاپان نمبر جنوری 1936ء کابڑا دخل ہے۔محسن بھوپالی نے جاپانی قونصل خانے کے تعاون سے کراچی میں ہائیکو کے کئی مشاعرے کروا ڈالے۔

کیا بتلائیں حال

ذہن و دل میں پھیلے ہیں

اندیشوں کے جال    (سہیل غازی پوری)

باتیں خوابوں کی

لکھے گا تو لکھنے پر

پابندی ہو گی                 (رؤف خیر)

عموماً یہ ہائیکو  فعلن فعلن فع /فعلن فعلن فعلن فع/ فعلن فعلن فع کے وزن پر لکھے جاتے ہیں ۔

        گلزار نے ابتداء میں پیش کردہ خیال کو آخری میں الٹ دینے کا انداز اختیار کرتے ہوئے ایک صنف تروینی کو فروغ دیا۔ ان کی تروینی ہے۔

سانپ جتنا بھی خوب صورت ہو

اپنی فطرت بدل نہیں سکتا

اس لیے کینچلی بدلتا ہے

بہر حال مصرعوں کی ترتیب میں حذف واضافہ سے تجربے کیے گئے ہیں ۔

        اردو میں دوہے بھی بہت لکھے جارہے ہیں ۔ندافاضلی، بھگوان داس اعجاز، فراز حامدی وغیرہ نے اس صنف کو اپنا یا ہے۔فراز حامدی نے تو دوہاگیت، دوہا حمد، دوہا نعت کے تجربے بھی کیئے۔پابند نظم کی یہ چند مختلف صورتیں ہیں ۔

        صرف یک مصرعی نظمیں بھی لکھی گئی ہیں ۔راقم الحروف (رؤف خیر) نے ایک ہی مصرعے میں مکمل ایک خیال کو بیان کر دینے کا تجربہ کیااور کئی یک مصرعی نظمیں لکھیں جو شعری مجموعہ ’’ شہداب ‘‘ (1993) سے لے کر خیریات (2010) تک پھیلی ہوئی ہیں اور جو کئی رسالوں میں شائع بھی ہوئیں ۔

        سفارش۔       ہر سند سے بڑی سفارش ہے

        سرکاری مسلمان۔        دفتر کی کنجیوں میں قلم رکھ کے آگئے

        ATM کا چوکیدار۔      بیٹھا ہوا ہے پیاسا کنویں کے منڈیر پر

        کچھ شاعروں نے مزیدسہولت برتتے ہوئے بحر کی قید سے عاری یک سطری نظمیں لکھیں جیسے مغنی تبسمؔ، یوسف قادریؔ،  محسن جلگانوی علی، اعظم راہی وغیرہ۔

   کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قافیہ و ردیف کی پابندی کے ساتھ نظم پیش کرنے میں ہی شاعر کا کمال ہے۔قافیے کو سلیقے سے برتنے ہی میں شاعر کی ہنر مندی بولتی ہے۔انیس و دبیر کے مرثیے۔جوش، اختر شیرانی، مجازؔ کی نظمیں آج بھی لطف دیتی ہیں پوری نظم کسی ایک بحر ہی میں ہوتی ہے۔شاعر کی خلاقانہ فکر اسے شاہ کار بناتی ہے جیسے علامہ اقبال کی مسجد قرطبہ،  ذوق و شوق، والدہ مرحوم کے نام نظم و غیرہ وغیرہ البتہ ساحر لدھیانوی نے اپنی ’’نظم‘‘ پر چھائیاں ‘‘ میں بحر کی تبدیلی کا تجربہ کیا ہے۔

        برطانیہ کے انور شیخ نے نظم میں کئی تجربے کیے۔ان کی تکونیاں کافی مقبول ہوئیں ۔ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ہندوپاک کے بعض شاعروں سے تکونیاں کہلوا کر پور ا ایک مجموعہ ہی ترتیب دے ڈالا۔ تکونی قافیہ و ردیف کی پابندی سے کہی جاتی ہے۔اس میں پہلے دو مختلف کردار پیش کیے جاتے ہیں اور تیسرا کردار بہ حیثیتِ  مبصر ان دونوں کرداروں کا جائزہ لیتا ہے۔

        کچھ آزاد خیال شاعروں کا یہ احساس تھا کہ قافیہ و ردیف کے چکر میں اصل موضوع پیش کرنے میں دشواری ہورہی تھی۔ ’’جو قافیئے پر بیت گئی وہ تو سنادی‘‘ والا معاملہ تھا۔ابتداء میں ایک ہی بحر کا لزوم بر قرار رکھا گیا یعنے ایک ہی آہنگ میں قافیہ و ردیف کی پابندی کے بغیر نظمیں کہی جانے لگیں ۔ن۔م۔ راشد، میراجی وغیرہ نے اسے فروغ دیا۔ان نظموں میں زبان و بیان ہی کی نہیں بلکہ ہر قسم کی چھوٹ برتی گئی۔ن۔م۔راشد کا ’’سفر نامہ ‘‘ چونکا تا ہے کبھی ن۔م۔راشد نے کہا تھا ’’فرشتے خدا کا جنازہ لیے جارہے ہیں ‘‘ اور پھر وہ دن بھی آیا کہ خود ان کا جنازہ برقی دوزخ  (الیکٹرک بھٹی) کی خوراک ہوکر رہ گیا۔

        اسے ضدکہ نور کے ناشتے میں شریک ہوں

ہمیں خوف تھا سحرِ ازل کہ وہ خود پرست نہ روک لے

ہمیں اپنی راہِ دراز سے

کہیں کامرانیِ  نو کے عیش و سرور میں

        ہمیں روک لے نہ خلا کے پہلے جہاز سے جو زمیں کی سمت رحیل تھا

        ۔ہمیں اور کتنے ہی کام تھے  (تمھیں یاد ہے ؟)

        ابھی پاسپورٹ لیے نہ تھے

ابھی ریزگاری کا انتظار تھا

        سوٹ کیس بھی ہم نے بند کیئے نہ تھے

اسے ضد کہ نور کے ناشتے میں شریک ہوں

بہر حال اسی طرح نظم آگے بڑھتی ہے اور شاعر آخر میں کہتا ہے :

       بڑی بھاگ دوڑ میں ہم جہاز پکڑ سکے

اسی انتشار میں کتنی چیزیں ہماری عرش پہ رہ گئیں

        وہ تمام عشق۔۔۔ وہ حوصلے۔۔۔وہ مسرتیں ۔۔۔ وہ تمام خواب جو سوٹ کیسوں میں بندتھے !

        ماوراء ، لا=انسان، ایران میں اجنبی، گماں کا ممکن وغیرہ میں اسی طرح کی ماورائی نظمیں ن م راشد کی خاص شناخت بن کر سامنے آئیں ۔

        میراجی اپنے ہاتھوں میں لوہے کے گولوں کے بجائے کم سے کم ربر کے گولے رکھتے۔

آزاد نظم کے بنیاد گزاروں میں دوسرا بڑا اور اہم نام میراجی کا سمجھا جاتا ہے۔ان کی ایک نظم  ’’تکیے کا غلاف‘‘ کچھ یوں ہے :۔

      یہاں سرتھا

یہاں بکھرے ہوئے گیسو

پریشاں سانپ جو مندر کی بنیادوں سے نکلے تھے

        ہوا کے نرم جھونکے ان کو لہراتے ہی جاتے تھے

        میں ان کو اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے سمٹنے کو تو کہتا تھا

        مگر وہ بل پہ بل کھاتے ہی جاتے تھے  ؍  وہ ضد ی تھے

          میں کہتا تھا اگر تم ایک لمحے کے لیے بیٹھے رہو چپکے

                تو میں ان سرخ گالوں سے کہوں

پیاسا

ہر اک پیاسا ہمیشہ ایک ہی منزل پہ جاتا ہے

        میں پیاسا ہوں

گھنے جنگل میں سر ہے ایک سندر باؤلی بھی پاس ہی ہو گی

   آزاد نظم کا ایک روپ معرانظم بھی ہے۔خاص طور پر اختر الاایمان نے کئی معرا نظمیں کہیں ۔ ’’ایک لڑکا ‘‘ ان کی مشہور و مقبول نظم ہے۔ یہاں وحید اختر کے ’’ پتھروں کا مغنّی‘‘ شاذ تمکنت کے آب و گِل سے ہوتا ہوا عزیز قیسی کے ’’ آئینہ در آئینہ‘‘ تک پہنچتا ہے۔ترقی پسند شاعروں میں فیض، سردار جعفری، کیفی اعظمی، مخدوم وغیرہ اور جدید شاعروں میں عادل منصوری، محمد علوی، افتخار جالب، وزیرآغا، مجید امجد اربابِ ذوق کے قیو م نظر، یوسف ظفر،  ظہیر کا شمیری، وغیرہ کا ذکر بہت ہوتا ہے۔ان کے بغیر یقینا نظم کا باب ادھورا ہے۔ہمارے مضمون نگار ندا فاضلی، ساقی فاروقی تک آ کر رک جاتے ہیں ستیہ پال آنند اور اردو نظم ایک جان دو قالب ہیں ۔پاسباں مل گئے کعبے کو ضم خانے سے۔جینت پر مارنے جو کچھ ’’پنسل‘‘ سے لکھا ہے وہ کسی ربر سے مٹنے والا نہیں ہے کتے کی دم اور سور کی تھوتھنی سے کھیلنے سے فارغ ہوں تو ساقی فاروقی کو پتہ چلے کہ مینڈک میں نون لکھا جائے کہ نہیں ۔

        1960ء کے بعد ترقی پسندی پر ’’شب خون‘‘ مارنے کے لیے جدیدیت کا ایک لشکر ’’ ضرار‘‘ ترتیب دیا گیا جس کے سپہ سالار شمس الرحمن فاروقی تو عروض، زبان و بیان کا بھر پور خود  زر ہ بکتر  زیب تن کیے ہوئے تھے مگر اپنے سپاہیوں کو زبان و بیان سے کھلواڑ کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔سپہ سالار کا ایک دانت بھی شہید نہیں ہوتا تھا مگر سپاہی ہلاک ’’رطب ویابِس ‘‘ ہورہے تھے۔غزل اور نظم کے نام پر عجیب و غریب اوٹ پٹانگ تخلیقات خوش ذوق قاری کا مزاج پوچھنے لگی تھیں ۔عادل منصوری کا الف نون سے ملنے جارہا تھا تو محمد علوی کا لی بھینس کے تھنوں سے اپنی ’’شہوت ‘‘ پوری کررہے تھے اور ان کے پیچھے کھڑے افتخار جالب یہ دیکھ رہے تھے کہ ’’سرخ گوشت کی لمبی نوک جانے کہاں تلک جاتی ہے ‘‘    (یہ ایک نظم کا مصرع ہے) ۔ایسی ہی بے سروپا نظموں کے انتخاب ’’نئے نام ‘‘ نے ادب پر شب خون مارا۔ حالانکہ سپہ سالار نے خود اپنے ایک مضمون میں فرمایا کہ ’’نیا‘‘ کبھی ’’اچھا ‘‘ کا ہم معنی نہیں ہوتا‘‘

          مگر اپنے سپہ سالار کی فراخ دلانہ پشت پناہی کی بدولت ہر پیادہ ادب کا کرنل ہو گیا۔ ادبی مارشل لاء کے تحت جن شاعروں کا کورٹ مارشل ہونا چاہیئے تھا انھیں بڑے بڑے تمغوں سے نوازا گیا۔کسی کو فراقؔ سے بڑا شاعر قرار دیا گیا تو کسی کو انور شعور و محبوب خزاں کاہم منصب بنا دیا گیا۔کبھی ظفر اقبال کو آسمان پر بٹھا یا جارہا ہے تو فیض کو نیچا دکھا یا جارہا ہے۔مخفی مباد کہ سپہ سالار صاحب اپنے موقف پر جمے نہیں رہتے بلکہ ان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔

        اول تو اردو زبان سے نئی نسل کی دوری ہی غضب ہے اوپر سے اس قسم کی معماتی تخلیقاتِ  نظم و نثر نے قاری کو شعرو ادب سے کوسوں دور کر دیا۔مزے کی بات یہ کہ جدیدیت کے غالی مبلغ اور شب خون کے سپہ سالار کبھی داغ ؔ کی ماں و زیرخانم کے پلومیں منہ چھپا رہے ہیں تو کبھی افرا سیاب کی تلاش میں طلسمی دنیا کے ہوش ربا سفر کی خاطر پرانے دور کے اڑن کھٹولے میں سوار ہیں ۔

یہ ترقی معکوس بھی حیران کن ہے

  ع  لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو۔

        یو ں تو آج کے منظر نامے کی نظم کے حوالے سے ہندو پاک میں کئی نام سامنے آتے ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔اور لکھا جارہا ہے۔میں اس مقالے میں چند ایسے اچھے شاعروں کا ذکر کرنا چاہوں گا جن کا تذکرہ کم کم ہی کیا جاتا ہے بلکہ اکثر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ہمارے بیشتر تنقید نگاروں نے علاقہ و اریت سے کام لیا ہے۔اپنے آس پاس کے شاعروں کے ذکر کے ساتھ ان کا تذکرہ اختتام کو پہنچتا ہے۔اس میں شک نہیں حیدرآباد کے شاعر تخلیقات کی اشاعت کے معاملے میں بڑے کاہل واقع ہوئے ہیں ۔ کچھ لوگ کوئی ٹھوس کارنامہ پیش کرنے کے بجائے شرر شعلہ پوری کے فرضی نام سے ’’مثنوی ا برِ شرربار ‘‘ لکھ کر خوش ہولیتے ہیں یا پھر فتنہ فساد آبادی کے نام سے انجمن فتنہ پردازان سخن، فساد آباد جیسے ’’شہر فنا‘‘ کی بنیاد ڈالتے ہیں ۔جن کا منہ بند  کر نے کے لیے چاول کی دو روٹیاں کافی ہوتی ہیں ۔

        دیگر علاقوں کے قلم کار ایک دوسرے کو بڑھا چڑھا کر من تراحاجی بگویم تو مراحاجی بگو پر عمل کرتے ہیں اور حیدرآباد ی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں اپنی   توانائیاں صرف کرتے ہیں ۔یقینا حق گوئی و بے باکی سے کام لینا چاہیئے۔مگر مسموم ذہنیت کب تک ؟

        دکن میں نظم اور اچھی نظم کہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔مخدوم محی الدین کو کمیونزم کا نقارچی یا ڈھنڈور چی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے اپنے مشرب و مسلک سے ہٹ کر بھی نظمیں کہی ہیں مثلاً ان کی نظم ’’اپنا شہر ‘‘ ۔

یہ شہر

اپنا عجب شہر ہے کہ

راتوں میں

سڑک پہ چلیئے تو

سرگوشیاں سی کرتا ہے

 وہ لاکے زخم دکھاتا ہے

رازِ دل کی طرح

دریچے بند

گلی چپ

نڈھال دیواریں

کواڑ مہربلب

گھروں میں میّتیں ٹھیری ہوئی ہیں برسوں سے

کرائے پر۔

         شاذ تمکنت نے خاص طور پر معرا نظمیں خوب کہی ہیں ۔اس دور کے مروجہ اسلوب میں انھوں نے اپنے الفاظ کا اثاثۂ زرتاب ان نظموں میں جھونک دیا ہے۔ تراشیدہ، بیاضِ  شام، نیم خواب، ورق انتخاب کی کئی نظمیں متوجہ کرتی ہیں ۔عزیز قیسی نے بھی ’’آئینہ درآئینہ‘‘ اپنا احساس دلایا ہے۔

        سکندر علی وجد نے اندراگاندھی کا قصیدہ نہ بھی لکھا ہوتا تو ’’اجنتا‘‘ ایلورا، عبدالرزاق لاری، جامعہ عثمانیہ کے مزدور وں کا گیت انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔

        سلیمان اریب کی شہرت محض ماہ نامہ ’’صبا‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے نہیں بلکہ انھوں نے جدید اسلوب اپنا کر زندگی سے بھر پور نظمیں بھی کہیں ۔خاص طور پر زندگی و موت کی کشمکش سے

 گزر تے ہوئے انھوں نے جو نظم کہی وہ زہر کے ذائقے کے اظہار کے مماثل ہے :

        زہر کی لہر ہے یا موت کی کڑوی خوشبو

لمحہ لمحہ مرے جی جاں سے گزر جاتی ہے

پیتھیڈین لینے سے کچھ دیر کو نیند آتی ہے (PATHADENE)

 ’’چراغِ  دیر‘‘ (غالب) کے مترجم اختر حسن، مغنی تبسم، اقبال متین، وحیداختر، قاضی سلیم، بشرنواز، عارف خورشید، جاوید ناصر، اسلم مرزا وغیرہ نے اپنے اپنے تجربات و مشاہدات کو خوب صورت پیرایۂ اظہار دیا ہے۔شاعرات میں پروین شاکر، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، ترنم ریاض، شہناز نبی وغیرہ کی نظموں پر لکھنے والوں نے لکھ کر ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔شفیق فاطمہ شعریٰ کی نظموں پر مشتمل ایک مجموعہ (غالباً آفاقِ نوا‘‘) کی رسم اجراء کے موقع پر مغنی تبسم صاحب نے فرمایا تھا کہ علامہ اقبال کے بعد اردو نظم کی سب سے بڑی شاعرہ یہی فاطمہ شعریٰ ہیں اور پھر اگلی ہی سانس میں یہ بھی کہا کہ ان کی نظمیں بار بار پڑھنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتیں ۔یہی بات اسی جلسے میں مضطر مجاز نے بھی کہی تھی۔جس شاعرہ کی نظمیں سمجھنے میں دشوار ی ہوتی ہو اسے علامہ اقبال کے بعد بڑی شاعرہ قراردینا ایک مذاق سے کم نہیں ۔نظر انداز ی کے بالمقابل پذیرائی کی یہ بھی ایک انتہا ہے۔

        ڈاکٹر وزیر آغا نئی نظم کا ایک اہم نام ہے۔منیر نیازی، مجید امجد، سلیم احمد وغیرہ کی نظمیں اپنا خاص رنگ و آہنگ رکھتی ہیں ۔فضا ابن فیصی نے پابند نظموں میں اسلامی فکر پیش کی۔ان کا  ذکر کوئی نقاد نہیں کرتا۔افتخار نسیم  علی الاعلان اپنےGAY  ہونے کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ GAY POETRYکو اردو میں روشناس بھی کروایا۔وہ اندھیرے سے ڈرتے ہیں ’’اور اپنے بابا سے سوال کرتے ہیں ۔

  ’’میں جو بالکل آپ پہ ہوں

تو پھرمیری ترجیحِ  جنس

آپ سے کیوں اس درجہ الگ ہے ‘‘

 شہریار، بلراج کومل، کمارپاشی، پرکاش فکری، وہاب دانش، عمیق حنفی، خلیل الرحمن اعظمی، سلیم شہزاد نے بھی جدید نظم میں اپنی پہچان بنائی۔اردو کا ہر شاعر نظم ضرور لکھتا ہے۔ ایک ایک شاعر کی ایک ایک نظم بھی مثال میں دی جائے تو مقالہ طویل ہو جائے گا۔اس لیے صرف چند نام گنوادیئے گئے ہیں ۔ان دنوں شکیل اعظمی گھر یلو قسم کی علامتی نظمیں لکھ رہے ہیں ۔ سہیل اختر بھی غز ل کے ساتھ ساتھ اچھی نظمیں لکھتے ہیں ۔اڑیہ نظموں کا ترجمہ بھی انھوں نے کیا ہے۔ان کی ایک نظم ’’اصول‘‘ کا اقتباس ہے :

         ’’قبول کرنے تھے ہم کو سارے اصول اس کے

        یہ کھیل شاید و ہی تھا جس میں

ہمیں بہرحال ہارنا تھا ‘‘

نئی نظم چونکہ اپنے گرد و پیش ہی سے اٹھائی جارہی ہے اس لیے اس کا محاور ہ بھی یکسر نیا اور قدرے نثری ہوتا جارہا ہے۔صلاح الدین پرو یز کی نظم ان کا اپنا شناس نامہ ’’IDENTITY CARD‘‘ ہوا کرتی ہے۔ایک فلسطینی لڑکی کی پینٹنگز PAINTINGS  دیکھنے کے بعد پرویز نے جونظم کہی وہ نثری سہی بڑی متاثر کرتی ہے۔

         ’’میں ابابیلوں کی مدح سرائی کرو ں گا

میرے اپنے ہی اونٹ

کھجور کی شراب پی کر

        پیرس کے نائٹ کلبوں میں

فجور فجور گارہے ہیں

یروشلم ان کے لیے صرف ایک

ڈکشن بن کر رہ گیا ہے

اور وہ ایڈز کی ماری ہوئی عورتوں کی گود میں بیٹھے

         اسے مسلسل ڈسکس کررہے ہیں

ذرا یاد کرو  صور  اسرافیل۔۔۔۔

MERCI KILLINGآج کے دور کی ایک کڑوی حقیقت ہے۔اس اچھوتے موضوع پر ایک سفاک نظم ہے :

        تم اپنے حصے کی زندگی جی چکے ہو

کب تک اب اپنے بچوں پہ بوجھ بن کر جیا کروگے

تمہاری دولت پہ ان کا حق تھا

جسے تم اپنی حماقتوں سے گنوا چکے ہو

        اب ان کی گاڑھی کمائی برباد کر رہے ہو

تمھیں اٹھانے بٹھانے والے بھی تھک گئے ہیں

مروتاً کہہ نہیں رہے ہیں مگریہ سچ ہے

        تم اپنے رستے میں خود ہی دیوار بن گئے ہو۔ (آگے اس نظم کا مریض کہتا ہے)

        تو کیا کرو ں میں

کہ مجھ میں مرنے کی بھی سکت تو نہیں رہی ہے

        کسی طرح کی کسی سے امید بھی نہیں ہے

وہ جس نے پھونکی تھی روح مجھ میں

        وہ جانِ جاں اب کہاں ملے گا

کہ یہ امانت بصد تشکر

اسی کی خدمت میں پیش کر دوں

بدن بھلے ہی کٹا پھٹا ہے

مگر امانت تو ہے سلامت

        کہیں خیانت نہ ہونے پائے        ۔  (رؤ ف خیر)

        حیدرآباد ہی کے ایک فراموش کردہ شاعر تاج مہجورنے ٹی ایس ایلیٹ کی نظم HOLLOW MENکا منظوم ترجمہ کیا تھا۔ان کا مجموعۂ کلام ’’لمس کا صحرا‘‘ اچھی نظموں سے بھرا پڑا ہے ’’سالِ  نو‘‘ کے عنوان سے کہی ہوئی ان کی نظم شاہ کار کہی جا سکتی ہے :

        زندگی بھوکی بھکارن

کشمکش کی بھیڑ میں

دم بدم سنگِ نفس کی ٹھوکریں کھاتی ہوئی

گرتی پڑتی دوڑتی ہے

آس کا کاسہ لیئے

آنے والی ساعتوں کی بند مٹھی کی طرف

        جس طرح کہانی بے ماجرا ہوکر غیر مقبول ہو گئی اسی طرح نظموں میں لایعنیت اور ابہام ABSURDITYنے نظم کو نقصان پہنچا یا ہے۔کہانی کا آغاز و انجام اگر قاری پر واضح نہیں ہوتا ہے تو یہ ترسیل کی ناکامی دراصل کہانی کا ر کی بھی ناکامی ہے اسی طرح اگر کوئی نظم اپنے پڑھنے والے پر کھلتی نہیں ہے تو وہ نظم ہی کیا۔۔۔۔؟  میرے خیال میں کہانی یا نظم محض قاری کا امتحان لینے کے لیے لکھی جائے تو پھر، یہ سوچنا چاہیئے کہ قاری کا مبلغِ  علم اب اس کا متحمل نہیں رہ گیا ہے۔غالب و اقبال کی تخلیقات کی شرحیں لکھی جاتی رہی ہیں اسی طرح ان نظموں کی بھی شرح لکھنی پڑے گی۔اگر ہم کسی سے کچھ کہنا چاہتے ہیں اور وہ سمجھ ہی نہیں پارہا ہے تو کہنے سننے کا مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے۔  اس میں شک نہیں استعارے اور علامات میں اپنی بات رکھنا ہی فن کاری ہے۔مگر یہ فن قاری کے دل و دماغ میں اترنا بھی چاہیئے۔

        حیدرآباد کے نظم نگاروں میں رؤف خلش، حسن فرخ، علی ظہیر، غیاث متین، نوید، محسن جلگانوی، مصحف وغیرہ کو بھلا یا نہیں جا سکتا۔ناچیز (رؤ ف خیر) نے مختلف اصنافِ  سخن میں کچھ کر دکھانے کی کوشش کی ہے۔بعض نظمیں بہت پسند کی گئیں ۔جیسے ’’بونوں کا خواب‘‘

        ساحلی علاقوں پر رہنے والے بونوں نے

ریت کے گھروندوں سے سر نکال کر دیکھا

لمبے چوڑے شہروں کے اونچے اونچے محلوں میں

خوش ادا و قد آور بعض لوگ رہتے ہیں

سارے لوگ عزت سے جن کا نام لیتے ہیں

          ساحلی علاقوں پر رہنے ولے بونوں کے چہرے تمتما اٹھے

        جیسے ان کے سینوں میں کوئی پھانس چبھتی ہو

        ایک روز بونوں نے جمع اک جگہ ہو کر فیصلہ یہ فرمایا

ایک ایک قد آور قتل کر دیا جائے

        خوش ادا و قد آور قتل ہو گئے لیکن

  مسکراتے بونوں کا قدتو پھر بھی چھوٹا ہے

        ان دنوں سہولتوں کا دور دورہ ہے۔زبان و بیان پر دسترس کا فقدان بھی نثری نظم کی طرف راغب کرنے کا سبب سمجھا جا سکتا ہے۔مغنی تبسم نے یک سطری نظموں پر مشتمل پورا ایک مجموعہ ’’پہلی کرن کا بوجھ‘‘ اردو ادب کو دیا۔اعظم راہی کی نثری نظمیں ’’ملبے میں دبا موسم‘‘ کے روپ میں منظرعام پر آئیں ۔آج کے عالمی منظر نامے میں نظم نگاری کے حوالے سے حیدرآباد کے قلم کاروں کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جانا چاہئیے۔

        کیا آج بھی کوئی دن ہے

کوئی تاریخ ہے

یا خدا۔ (مغنی تبسم)

        کچھ دیر خدا سے ہم کلامی

پھر وہی من مانی

یہی ہے زندگانی (اعظم راہی)

        یہ دنیا ایک ہوٹل ہے

یہاں پر

ہر قسم کا گوشت ملتا ہے  (اعظم راہی)

        راشد آزر نظم، غزل اور رباعی میں اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔انھوں نے نئے نئے موضوعات کو زبان دی ہے۔ان کی ایک طویل نظم ’’پیوندکاری اور نئی امید‘‘ اچھوتے موضوع پر اچھوتی نظم ہے۔

        نئے زمانے میں کیسی کیسی جراحتوں کے نقوش ابھرے

یہ زخم کس کو دکھائیں جا کر

مرا بدن کتنے اور جسموں کا ایک مجموعہ بن گیا ہے

مرا خود اپنا بچا ہی کیا ہے

میں جب بھی دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں

        تو کوئی چپکے سے میرے شانے ہلا کے کہتا ہے

        راشد آزر

تمہاری آنکھیں تمہاری آنکھیں کہاں رہی ہیں

        تمہاری آنکھوں کے دونوں حلقوں میں

        جس کے دیدے جڑے ہوئے ہیں

وہ دیکھتا ہے۔۔۔۔

        علی ظہیر نظم کے شاعر ہی کی حیثیت سے معروف ہیں ۔ ’’رات کے ہزار ہاتھ ‘‘ اور ’’انگلیوں سے خون‘‘ ان کے مجموعے ہیں ۔ان کی فکر پر ایرانی اثرات بھی چھائے ہوئے ہیں ۔ان کی نظم ہے :

        رات بھر رگوں میں

جیسے چیو نٹیاں سی بھر گئیں

آنکھیں سرخ ہو گئیں

         ہاتھ پھر ٹٹولنے لگا

گولیوں کی نیند

ہاتھ پھر ٹٹولنے لگا

         کالے جسم کا پرند

کائیں کائیں کر کے کب کا جاچکا

کویلیوں  سے گررہے تھے

خشک پتے نیم کے

نبولیوں سے بھر گیا

مرے مکاں کا صحن

        میں جارہا تھا کام پر ٹکڑے ٹکڑے جسم کو سمیٹا

        بھاری بھاری سر کو اپنے دوش پر سنبھالتا۔            (نظم ایک رات ایک صبح)

                غیاث متین نے بھی اپنی نظموں ہی کے ذریعے اپنی پہچان بنائی۔ان کی نظمیں زیادہ تر تلمیحاتی ہوتی تھیں ’’زینہ زینہ راکھ ‘‘ اور ’’دھوپ دیواریں سمندر آئینہ‘‘ ان کی یادگار ہیں ۔ان کی ایک نظم ملا حظہ فرمائیے ’’کھل جا سم سم ‘‘

        لکڑہارے چلو اس شہر سے اور شہر کے لوگوں سے  جتنی دور ممکن ہو نکل جائیں

        اسی جنگل کی جانب

جہاں سے آئے تھے ہم تم۔۔۔

لکڑہارے یہاں تو

        علی بابا اور اس کا بھائی قاسم

وہ مرجینا ہویا ہو مصطفیٰ درزی

کہ ہوں چالیس ڈاکو

سبھی اس شہر کی دیوار میں محصور  سم سم بھول بیٹھے ہیں

لکڑہارے

        طلسم شہر میں ان کو

یونہی حیراں پریشاں

چھوڑ کر نکلیں

اسی جنگل کی جانب

        جہاں پر

پرندے ہیں مگر ایسے نہیں ہیں

درندے ہیں

مگر ایسے نہیں ہیں

        مصحف اقبال توصیفی کی تخلیقات ہندو پاک کے معیاری رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ان کے ہاں گھر آنگن کی کیفیت لفظوں میں ڈھل کر مزہ دیتی ہے۔ ان کی نظم ’’وہ لوگ ‘‘ ایسی ہی کیفیت کی غماز ہے :

        تم کو سانس بھی لینے پر ٹوکا کرتے تھے

میں آؤں تو مجھ کو دروازے پر روکا کرتے تھے

ہونٹ ہلانے سے پہلے

آواز وں کا رخ

        بہتی ہوائیں دیکھنے والے

رونے اور ہنسنے سے پہلے

دائیں بائیں دیکھنے والے

میں نے تو ان لوگوں سے کب کا ناتا توڑ لیا ہے

اچھا ہے۔تم نے بھی ان کو اپنا کہنا چھوڑ دیا ہے۔

        حمید الماس، حامد اکمل، جبار جمیل، خالد سعید، حمید سہروردی، ڈاکٹر راہی فدائی، عقیل جامد، ساغر جیدی، سلیمان خمار، علیم صبا نویدی، کاوش بدری، دانش فرازی وغیرہ وغیرہ نے بھی اپنی نظموں سے اپنے ہونے کا احساس دلایا ہے۔مختصر سے مقالے میں سب کا ذکر ممکن نہیں ہے۔کئی نام چھوٹ بھی سکتے ہیں ۔بہرحال میں نے اس مردم خیز سرزمین کی تخلیقی جہات کا احساس دلانے کی بحد خیر کوشش کی ہے کہ یہاں اچھی اور سمجھ میں آنے والی نظمیں کہنے والوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔           ٭٭٭

مولانا ابوالکلام آزاد

        مولانا ابوالکلام آزاد ۱۷  اگست  ۱۸۸۸ ء کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ان کا تاریخی نام ’’فیروز بخت ‘‘ رکھا گیا تھا۔جس سے ہجری سال ۱۳۰۵ھ برآمد ہوتا ہے ان کے والد خیرالدین مشائخ گھرانے کے مشہور بزرگ تھے۔ان کی پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اس لیے وہ علاج کی غرض سے ہندوستان آ گئے اور یہیں کلکتے میں مستقلاً بس گئے۔

        سماجی اعتبار سے ابوالکلام آزاد کا گھرانہ با عزت گھرانہ سمجھا جاتا تھا۔اس خاندان میں پیری مریدی کا سلسلہ جاری تھا۔خیرالدین کے بے شمار مرید دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اس لئے ابوالکلام آزاد شروع ہی سے اکرام و تکریم کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔مگر جب مولانا آزاد نے علمی تحقیق کے میدان سر کئے اور بڑی بڑی جیّد شخصیتوں کی تحقیقات سے بہرہ مند ہوئے تو انھوں نے والد کے مسلک سے اختلاف کیا۔جمال الدین افغانی، امام ابنِ تیمیہ، ابنِ رشد اور امام غزالی جیسی نابغۂ روزگار شخصیتوں سے آزاد  متاثر ہوئے اور اس ماحول کے وہ فرد نہ رہ سکے جس کی تشکیل میں ان کے والد نے حصہ لیا تھا۔ابوالکلام نے اپنا ماحول آپ پیدا کیا۔

  علمی اعتبار سے ابوالکلام آزاد کی قابلیت کا وہ عالم تھا کہ سولہ سترہ سال کی عمر ہی میں انھوں نے اپنے مضامین کے ذریعے ہندوستان بھر کے علمی حلقوں کو متاثر کیا بلکہ اپنا گرویدہ بنا لیا۔حتیٰ کہ شبلی نعمانی جیسا قابل آدمی ابوالکلام آزاد سے ملاقات کا خواہش مند ہو ا، شبلی نے پہلی ملاقات میں ابوالکلام کی کم سنی کی وجہ سے انھیں ابوالکلام کا بیٹا سمجھا۔ مگر جب ابوالکلام نے بتایا کہ وہ خود آزاد ہیں تو شبلی حیرت ناک مسرت سے دوچار ہوئے۔کمسن آزاد نے صحافت کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔  آزاد نے ۱۹۰۳ء  میں ’’درسِ نظامی ‘‘ سے فراغت پائی۔ عربی و فارسی تو انھوں نے خود اپنے ہی والد سے سیکھی۔کسی بڑی جامعہ سے فارغ نہ ہونے کے باوجود آزاد نے اپنے ذاتی مطالعے کی وجہ سے وہ قابلیت پیدا کر لی تھی کہ اس دور کے بڑے بڑے قابل لوگ ان کی تحقیق کی داد دیا کرتے تھے۔آزاد کے مضامین تحقیقی ہوا کرتے تھے۔ امام ابنِ تیمیہ سے بیشتر علماء ناواقف تھے۔آزاد نے سب سے پہلے امام ابنِ تیمیہ پر قلم اٹھا کر ان کی علمی قد آوری سے عوام و خواص کو متعارف کروایا۔

        آزاد شروع ہی سے نرگسیت کا شکار رہے۔گھر میں بھائی بہنوں کو جمع کرتے، خود کو کسی اونچے مقام پر کھڑا کرتے اور تقریریں کرتے۔بچپن کا یہ کھیل ان کی زندگی میں بنیادی حیثیت اختیار کر گیا۔ آزاد کی تقریر سننے کے لیے عوام و خواص کی کثیر تعداد جمع ہو جایا کرتی تھی۔آزاد کا طرزِ استدلال ایسا دل نشیں تھا کہ لوگ اپنی رائے بدل دیا کرتے تھے۔چنانچہ تقسیم ہند کے موقع پر آزاد کی وجہ سے کئی مسلمانوں نے ہجرت سے خود کو روکے رکھا۔

        ابوالکلام آزاد کی مدیرانہ صلاحیتوں کا یہ عالم تھا کہ صرف گیارہ سال کی عمر میں انھوں نے کلکتے سے ’’نیرنگِ خیال‘‘ جاری کیا۔تیرہ سال کی عمر میں ’’المصباح‘‘ اور چودہ سال کی عمر میں ’’احسن الاخبار‘‘ جاری کیا ۱۹۱۲ء  میں آزاد نے ’’الہلال ‘‘ جاری کیا، جس نے آزادی کی ایک نئی روح قوم میں پھونکی۔انگریزی حکومت نے اس پر کئی دفعہ پابندیاں عائد کیں۔بعض شمارے ضبط بھی کیے۔آخر کار آزاد نے اسے بند ہی کر دیا۔مگر آزاد کی طبیعت تحریرو تقریر کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی چنانچہ انھوں نے ’’البلاغ‘‘ جاری کیا۔ایک سال بعد اسے بھی بند کرنا پڑا۔ان کے الہلال و البلاغ کی مقبولیت کا وہ عالم تھا کہ عوام و خواص ہر شمارے کا انتظار کرتے تھے۔ آزاد نے آزادی کی لڑائی میں جو خدمات انجام دیں وہ بھی ناقابلِ فراموش ہیں بلکہ بنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔گاندھی جی، نہرو، سردارپٹیل وغیرہ کے   ہم قدم مولانا ابوالکلام نے خود کو آزادی کے لئے وقف کر دیا تھا۔اس کے لئے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔وہ کانگریس کی صدارت ہو کہ مسئلہ خلافت ہر جگہ آزاد کا اپنا نقطۂ نظر تھا، جس پر وہ کھل کر اظہار کیا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے تیس سال بعد منظر عام پر آنے والے صفحات میں انھوں نے اپنی بعض سیاسی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا۔یہ بھی ان کی اعلیٰ ظرفی کی ایک مثال ہے۔

        قید و بند بھی ابوالکلام آزاد کے جذبۂ تصنیف و تالیف پر پہرہ نہ بٹھا سکے، چنانچہ انھوں نے اپنی معرکۃ الآرا کتابیں ’’تذکرہ‘‘ اور ’’غبارِ خاطر‘‘ جیل ہی میں لکھیں۔ ’’تذکرہ ‘‘ کئی علماء و محققین کے ذکر پر مشتمل ہے جس میں خود آزاد کی مختصر سی سوانح بھی آ گئی ہے۔ان کے خاندانی پس منظر پرا س کتاب سے بڑی روشنی پڑتی ہے۔ ’’غبارِ خاطر‘‘ دراصل ایسے خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے اپنے دوست حبیب الرحمن خان شیرانی صدر یار جنگ کے نام ۱۹۴۲ء  سے ۱۹۴۵ء  کے درمیان لکھے تھے جب وہ احمد نگر جیل میں قید و بند کی زندگی گزار رہے تھے۔یہ خطوط اگر چہ خطوط کی تعریف پر پورے نہیں اترتے بلکہ انشایئے ESSAYSسمجھے جاتے ہیں، بہر حال معلومات کا خزانہ ہیں۔ان سے ابوالکلام کی علمیت اور ان کے حافظے MEMORYکی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔

        بغیر کسی حوالے کے مولانا نے بے شمار مسائل پر تفصیلی رائے دی ہے۔عربی و فارسی کے بے شمار شعر بھی QUOTEکئے ہیں۔اس میں شک نہیں کہیں کہیں ان سے بھول چوک بھی ہوئی ہے۔ ’’مکتوباتی ادب ‘‘ میں ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’غبارِ خاطر‘‘ بہر حال اپنی نوعیت کا ایک شاہ کار ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ’’خط ‘‘ دلی حالات و کیفیات کے اظہار کا نام ہے، دماغ سے ابل پڑنے والے لاوے کا نام نہیں۔اس کے باوجود آزاد کے خطوط ادبی شان کی وجہ سے ایک روایت کے بانی ہیں۔آزاد نے چوں کہ علمی ماحول میں آنکھیں کھولیں شعر و ادب ان کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے۔آزاد نے ابتدائی دور میں بعض مشاعرے بھی پڑھے۔انھوں نے ’’آزاد ‘‘ تخلص اختیار کرنے کا یہ سبب بتایا تھا کہ اس دور میں حروفِ تہجی کے اعتبار سے شائع ہونے والے شعری گل دستوں میں ان کا کلام اولیت پا سکے۔آزاد نے بہت کم اشعار کہے ہیں مگر ان اشعار سے بھی آزاد کی ذہانت جھانکتی دکھائی دیتی ہے۔INDIA WINS FREEDDME  مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک ایسی کتاب ہے جو ان کے ملفوظات پر مشتمل ہے جسے پروفیسر ہمایوں کبیر نے انگریزی میں تحریر کیا ہے۔اس کتاب میں ہندوستان میں آزادی کی لڑائی کی دلچسپ روداد مولانا آزاد کے نقطۂ نظر سے بیان ہوئی ہے۔اس کے تیس صفحات آزاد نے محفوظ کروا دیئے تھے جو  ان کی وصیت کے مطابق ان کے مرنے کے تیس سال بعد شائع ہوئے۔ان صفحات میں بعض نزاعی معاملات پر آزاد نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے جو حق ہے۔مختصر یہ کہ مولانا ابوالکلام آزادسماجی، سیاسی، علمی و ادبی ہر سطح پر قد آور شخصیت کا نام ہے۔جن کی دوراندیشی اور مسائل کو سلجھانے کی صلاحیت کا دشمن بھی لوہا مانتے ہیں۔اعتراف کرنے میں بخل سے ہر دو رمیں کام لیا گیا ہے میر کو اپنے دو ر میں کوئی گھاس نہیں ڈالی گئی، غالب کی ناقدری ہوئی، اقبال کے خلاف فتوے صادر ہوئے مگر دنیا ان کے علمی قد و قامت پر پردے نہ ڈال سکی۔آج میر، غالب اور اقبال جس طرح اردو ادب کی آبرو شمار ہوتے ہیں اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کی بصیرت کی بھی ایک دنیا قائل ہو گئی۔آزادی کے جاں باز سپاہیوں میں اگر کوئی ابوالکلام کا نام نہیں لیتا تو اسے اپنی کم علمی کا  ماتم کرنا چاہئیے اور اس کی نا آگہی سے مولانا آزاد کی بلند فکری پر کوئی آنچ نہیں آتی کہ اس ملک کے رگ و ریشہ میں مولانا ابوالکلام آزاد کا خون بھی رواں ہے۔۲۲، فبروری ۱۹۵۸ء  کو آزاد نے قیدِ  حیات سے رہائی پائی اور جامع مسجد دہلی کے روبرو (اردو پارک) میں تدفین عمل میں آئی۔

٭٭٭


رومیؔ۔غزلوں کے حوالے سے

        مولانا خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی مسدس ’’ مدو جزرِ اسلام‘‘ اس قدر مقبول ہوئی کہ حالی کی پہچان یہی مسدس ٹھیری حالانکہ ان کی غزلیں بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں۔

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

 اب ٹھیرتی ہے دیکھیئے جا کر نظر کہاں

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور

 عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں

آنے لگا تھا اس کی تمنا میں کچھ مزہ

 لوگوں نے کہا دیا کہ یہ خانہ خراب ہے

        سعدی شیرازی کی گلستا ن و بوستان کا وہ شہرہ ہوا کہ ان کی غزلیں دب گئیں محی الدین ابن عربی جنھیں شیخ اکبر بھی کہاں جاتا ہے تصوف کے امام سمجھے جاتے ہیں  ’’ فصوص الحِکم‘‘ ان کا شناس نامہ ٹھیری جب کہ وہ غزل کے اچھے شاعر بھی تھے ان کے دیوانِ غزلیات ’’ ترجمان الاشواق‘‘ سے علمی حلقہ کم کم ہی واقف ہے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں۔ یہی حال مولانا جلال الدین رومی کا بھی ہے ان کی مثنوی نے وہ شہرت پائی کہ ان کی غزلیات کا وافر ذخیرہ اربابِ ذوق سے کم ہی داد پا سکا البتہ علامہ اقبال نے ان سے خوب استفادہ کیا ہے۔ ویسے بھی رومی کی غزلیات شمس تبریز کے کھاتے میں ڈال دی گئی ہیں۔سینکڑوں اشعار پر مشتمل دیوانِ غزلیات پر رومی کے پیر شمس تبریز کا نام شائع ہوا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اپنے پیر کے قدموں میں انہوں نے اپنا اثاثۂ زر تاب رکھ دیا۔

        مشہور ممتازمستشرق ڈاکٹر رینالڈ اے نکلسن نے رومی کی غزلیات پر مشتمل جو ’’ دیوانِ شمس تبریز ‘‘ مرتب کیا ہے اس کے مقدمے میں انہوں نے اپنی کاوشوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ دیوان کے تمام قلمی اور مطبوعہ نسخوں سے تقابل، لکھنو اور تبریز کے مطبوعہ نسخوں سے مقابلہ کر کے اس کا متن نہایت عرق ریزی، تحقیق و تجسّس سے سات (۷) قلمی اور دو (۲) مطبوعہ نسخوں کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ وہ نکلسن ہیں جنھوں نے عربی فارسی ادب کے شاہ کاروں کو انگریزی ادب میں منتقل کیا۔ خاص طور پر علامہ اقبال کی شاہ کار تخلیق ’’ اسرارِ خودی‘‘ کا ۱۹۲۲ء میں انگریزی میں ترجمہ کر کے اقبال کی آفاقیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ نکلسن نے منتخبات شمس تبریزی۱۸۹۸ء کے علاوہ فریدالدین عطارؔ کی تذکرۃالاولیا، علی ہجویری کی کشف المحجوب، ابوالنصر السراج کی ’’ کتاب اللمع فی التصوف ‘‘ کا انگریزی میں نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ اس کی تنقید و شرح بھی لکھی ہے۔ تصوف سے خاص لگاؤ نکلسن کو تھا۔ انہوں نے لندن یونیورسٹی میں جو تین خطبات دیئے تھے وہ ’’ تصوف میں شخصیت کا تخیل‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کیمبرج یونیورسٹی پر یس کے لیے بھی انہوں نے ’’ تصوفِ اسلامیہ کا مطالعہ ‘‘ اور ’’ صوفیائے اسلام‘‘ مرتب کر کے دی تھی۔ مثنوی جلال الدین رومی کا انگریزی ترجمہ تین جلدوں پر مشتمل ہے جو نکلسن کا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔

        نکلسن نے رومی کی غزلیات پر مشتمل جو دیوان شمس تبریز مرتب کیا ہے اس کے بارے میں اپنے دور کے مشہور و ممتاز نقاد عبدالمالک آروی فرماتے ہیں :

         ’’ صحت میں صرف یہی نہیں کہ عہد جدید میں فارسی لٹریچر کا مایہ ناز ہے بلکہ دنیا کے تمام نسخوں سے نکلسن کا یہ مرتبہ دیوان زیادہ صحیح اور مستند ہے‘‘

         (ملاحظہ ہو انتخاب دیوانِ  شمس تبریز ازڈاکٹر رینالڈاے نکلسن ۱۹۳۲ء مرتبہ عبدالمالک آروی جسے مجنون گورکھپوری نے آسی پریس گورکھپور سے شائع کیا)

        ڈاکٹر نکلسن نے مولانا عبدالرحمن جامی کی ’’ نفحات الانس ‘‘ اور جلال الدین رومی کے پوتے عارفؔ کے شاگرد افلاکی کی کتاب ’’ مناقب العارفین ‘‘ کے حوالے سے لکھا کہ ۶ جمادی الآخر ۶۴۲ھ مطابق ۲۸ ؍نومبر ۱۲۴۴ء کو شمس تبریزی اور رومی کی ملاقات ہوئی۔ اس وقت رومی صرف ۳۸ برس کے تھے۔رومی کے بیٹے علاء الدین محمد نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شمس تبریزی کا ۶۴۵ھ میں قتل کر دیا۔ (قتل کی وجوہات جاننے کے لیے مذکورہ کتابوں سے رجوع کیا جائے) جس کی وجہ سے رومی اپنے بیٹے علاء الدین سے عمر بھر خفا رہے بلکہ جب وہ کسی مرض میں مبتلا ہو کر مرگیا تو اس کی تجہیز و تکفین میں بھی حصہ نہیں لیا اور نہ ہی اس کی نمازِ  جنازہ ادا کی۔صرف تین سالہ صحبتِ شمس نے رومی کی کا یا پلٹ دی۔شمس کے تعلق سے رومی ؔ کہتے ہیں !

آں بادشاہِ  اعظم دربستہ بود محکم

   پوشیدہ دلقِ مردم امروز بر در آمد

          رومی ؔ نے شمس تبریز کے فراق میں بہت کثرت سے اور نہایت د ل دوز غزلیں کہیں بقول ابوالحسن علی ندوی ’’ اس طرح دیوانِ شمس تبریز و جود پذیر ہوا‘‘    (تاریخ دعوت و عزیمت) عقیدتاً رومی ؔ نے اپنی غزلیں شمس ہی کے نام کر دیں اور وہ شمس تبریز کے نام ہی سے شائع ہوئیں۔

        رومی ؔ کی فکر پر تصوف اور فلسفے کی چھاپ ضرور ہے لیکن غزلوں میں وہ ایسے بشری پیکر میں جلوہ گر ہیں جس کے قلم سے خون کے آنسو ٹپکتے ہیں۔

        رومی کی سیکٹروں غزلیات کا جائزہ لینا اس مختصر سے مقالے میں ممکن بھی نہیں البتہ رومی کی اک دو خصوصیات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ان کے اسلوب کی پیروی ان کے ہم عصر اور بعد آنے والے شاعروں نے بھی کی :مثلاً ان کی بہت دلچسپ غزل ہے:

گفتا کہ چند رانی گفتم کہ تا بخوانی

  گفتا کہ چند جوشی گفتم کہ تا قیامت

گفتا برائے دعویٰ قاضی گواہ خواہد

  گفتم گواہ اشکم  زردیِّ رخ علامت

گفتا چہ عزم داری گفتم و فاو یاری

  گفتا زِ من چہ خواہی گفتم کہ لطفِ  عامت

گفتا کجاست آفت گفتم بکوئے عشقت

  گفتا چگونی آں جا گفتم دراستقا مت

گفتا کجاست ایمن گفتم بہ زہدو تقویٰ

  گفتا کہ زہد چہ بود گفتم رہِ سلامت

   تو فیق حیدرآبادی اور ابنِ انشا نے بھی اسی انداز کی غزلیں کہی ہیں :

        کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چر چا تیرا

                 کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ ترا        (ابنِ انشاء)

        اس نے کہا ظلمت ہے کیا ؟ میں نے کہا گیسو ترے

        اس نے کہا پھر روشنی؟ میں نے کہا چہرہ ترا

        اس نے کہا وہ کون تھا؟ میں نے کہا توفیق تھا

        میں نے کہا وہ کون ہے؟ میں نے کہا شیدا ترا     (توفیق حیدرآبادی)

رومی ؔ کے ذہن و دل پر ہر چند کہ جدائی کے اس عرصے میں شمس تبریز چھائے ہوتے تھے مگر اُن کے اشعار میں مجازی پردوں سے محبوب اصلی بھی جھانکتا دکھا ئی دیتا ہے:

من ازعالم تُرا تنہا گزینم

  روا داری کہ من غمگیں نشینم

دلِ من چوں قلم اندر کفِ تست

  زتست ار شاد مانم ور حزینم

بجز آ ں چہ تو خواہی من چہ خواہم

  بجزآں چہ نمائی من چہ بینم

مرا گر تو چناں داری چنانم

   مرا گر تو چنیں خواہی چُنینم

بجز چیزے کہ دادی من چہ دارم

  چہ می جوئی زجیب و آستینم

        علامہ اقبال نے رومی کو اپنا پیر کچھ یوں ہی نہیں بنا لیا۔ اقبال جیسے بے انتہا پڑھے لکھے (well Versed) شاعر کا رومی سے متاثر ہونا تعجب کی بات ہے۔ یعنی رومی کی اقتدا اختیار کرنے کا اقبال کے پاس کوئی جواز ہے اسی طرح رومی جیسے قلم کے دھنی کا شمس تبریز کے حوالے اپنے آپ کو کر دینا یقیناً کوئی وجہ ضرور رکھتا ہے۔ صرف کتابوں کو پانی بھرے حوض میں پھینک کر انھیں صحیح سلامت نکال کر رومی کو واپس کر دینا شمس کا دیوانہ بنا دینے کے لیے کافی نہیں ۶۴۲ ھ سے  ۶۴۵ ء کے مختصر ترین تین سالہ دور میں رومی پر شمس کا جادو اپنا کام کر گیا۔

چہ تدبیر اے مسلماناں کہ من خود رانمی دانم

  نہ تر سانے یہودم من نہ گبرم نے مسلمانم

     نہ شر قیم نہ غربیم نہ بّر یم نہ بحریم

    نہ ازکانِ طبیعیتم نہ ازا فلاک گردانم

نہ از خاکم نہ از آبم نہ از بادم نہ ازآتش

  نہ از عرشم نہ از فرشم نہ از کونم نہ از کانم

نہ از ہندم نہ از چینم نہ از بلغارو سقسینم

   نہ از ملکِ عراقیم نہ از خاکِ  خراسانم

مکانم لامکاں باشد نشانم بے نشان باشد

نہ تن باشد نہ جاں باشد کہ من از جانِ جانانم

ہوا لاول ہوا لآخر ہوا لظاہر ہوا لباطن

  بجز یا ہوو یا من ہو کسے دیگر نمی دانم

الا اے شمس تبریزی چنین مستم دریں عالم

  کہ جز مستی و قلاشی نبا شد ہیچ دستانم

اب آپ خسرو اور اقبال پر اس کے اثرات دیکھ سکتے ہیں :

من تو شدم تومن شدی من تن شدم تو جاں شدی

  تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

        اور اقبال فرماتے ہیں :

درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی

  گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمر قند

        اسی سے ملتی جلتی کیفیت کا حامل ایک قطعہ لالۂ طور (پیام مشرق) میں بھی شامل ہے

ہنوز از بندِ آب وگل نہ رستی

   تو گوئی رومی و افعانیم من

من اول آدمِ بے رنگ و بویم

  ازاں پس ہندی و تورانیم من

راقم الحروف (رؤف خیر) نے اس کا یوں منظوم اردو ترجمہ کیا ہے :

نہ چھوٹا بند آب و گل نہ چھوٹا

  تیرا یہ رومی و افغانی کہنا

میں پہلے آدمِ بے رنگ و بو اقتدا تو کے کہتا ہے ؍ اٹھے ؍    ہوں

  مجھے پھر ہندی و تورانی کہنا

        اقبال تو خیر پیر رومی ہی کی زیر قیادت مختلف مقامات کی سیر کرتے اور کراتے ہیں جاوید نامہ اس کا بیّن ثبوت ہے۔

        رومی کی غزل زیادہ تر مربوط اور مسلسل ہوا کرتی ہے۔ یہ کوئی روایتی غزل نہیں جس کا ایک شعر دوسرے سے بے تعلق ہو کر اپنی جگہ خود مکتفی ہوتا ہے۔ رومی کے پاس ایک زیر ین لہر پوری غزل میں رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے فلسفیانہ خیالات کا بہاؤ صرف ایک شعر میں سمٹ نہ پایا۔ رومی کے تخیل کی یہ خوش خرامی مطلع سے مقطع تک دل و دماغ پرا پنے نقش چھوڑتی ہے۔

اند ردوکون جانا بے تو طرب ندیدم

  دیدم بسے عجائب چوں تو عجب ندیدم

گونید سو زآتش باشد نصیبِ  کافر

     محروم از آتش تو جز بو لہب ندیدم

اے شیر وا ے شکر تو اے شمس و اے قمر تو

  اے مادر و پدر تو جز تو نسب ندیدم

اے عشقِ بے تباہی اے مطربِ الہی

  ہم پشتِ و ہم پناہی کفوت لقبِ ندیدم

خاموش اے برادر فضل و ادب رہا کن

  تا تو ادب نخواندی جز تو ادب ندیدم

        مختصر یہ کہ مثنویِ معنوی مولوی کے ساتھ ساتھ رومی کی غزلیات پربھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں یکجہتی اور آفاقیت کا پیام ہے۔

٭٭٭

 

ولی دکنی۔اردو غزل کا  باوا  آدم

        ولی دکن کا ایسا کوہ نور تھا جس کی چمک دمک کو شمالیوں نے حیران ہو کر دیکھا۔جہاں تک شعرو ادب کا معاملہ ہے شمالیوں کو ہمیشہ یہ زعم رہا ہے کہ وہی سربلند ہیں۔ لیکن تحقیق نے ثابت کر دیا کہ اہل دکن کی خدمات بھی کسی سے کم نہیں۔قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے تو اردو کا آخری قاری بھی اسی دکن ہی کا ہو گا۔ولی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے دیوان کے 118مخطوطات کا پتہ چلا ہے۔بقول ڈاکٹر محمد علی اثر جناب مشفق خواجہ نے مزید 19مخطوطات ڈھونڈ نکالے ہیں اس طرح جملہ 137ایک سو سینتیس مخطوطات اس کے دیوان کے مختلف کتب خانوں میں پائے جاتے ہیں۔چارسو سال پہلے اگر طباعت و اشاعت کی ایسی سہولتیں حاصل ہوتیں جیسی آج ہیں تو اس کے دیوان کے کئی ایڈیشن شائع ہو گئے ہوتے۔اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ولی اورنگ آبادی ۱۷۰۰ء  میں دہلی گئے تھے۔ولی کی مقبولیت کی وجہ سے ہر علاقے والے ولی کو اپنے علاقے کا فرد ثابت کرنے پر تلے ہیں۔کچھ لوگ اسے گجراتی تک ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل سترھیوں صدی عیسوی کے وسط میں اورنگ آباد میں پیدا ہوا۔یہیں پلا بڑھا البتہ شوق سیاحت میں کبھی احمد آباد کبھی سورت تو کبھی دہلی بھی گیا۔اس کے فکر و فن کے چرچے ہر طرف تھے۔ اس کے دہلی جانے اور اہل شمال شعراء کو متاثر کرنے کا احوال تقریباً ہر تذکرہ نگار نے ضرور بیان کیا ہے۔دہلی میں اس کی ملاقات سعد اللہ گلشن سے ہوئی انھوں نے فارسی سرمایہ شعر سے استفادے کا مشورہ دیا جب کہ خود ارباب شمال نے اس دکنی بچے کی شاعری کا اثر قبول کیا۔بقول رؤف خیرؔ۔

اثر پذیر ہوئے اتنے قافئے سے مرے

دیئے جلائے ہیں یاروں نے بھی دئیے سے مرے

        ریختہ کو ہیچ پوچ سمجھنے والے دہلوی شعراء نے ولی کے لہجے اور اسلوب کو خوب اپنایا۔تقریباً ہر قابل ذکر شاعر نے ولی کی زمینوں میں غزلیں کہیں ڈاکٹر محمد علی اثر نے اپنی کتاب ’’ تحقیقی نقوش‘‘  میں بے شمار مثالوں سے واضح کیا کہ ولی کے خوشہ چیں کیسے کیسے شاعر ہوئے ہیں۔حالانکہ قائم چاند پوری دکنی اردو شاعری کے بارے میں بڑی خراب رائے رکھتے تھے۔انہوں نے کہا تھا (ع) اک بات لچرسی بہ زبان دکنی تھی۔، مگر پھر یہ حال ہوا کہ ولی کی غزلوں پر غزلیں ان لوگوں نے کہیں اور ولی کو خراج عقیدت بھی پیش کیا جیسے حاتم دہلوی نے کہا۔

حاتم یہ فن شعر میں کچھ  تو بھی کم نہیں

  لیکن ولی ولی ہے جہان سخن کے بیچ

یہاں تک کہ میر جیسے خود سرشاعر نے بھی ولی کا اعتراف کیا ہے۔

خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے

معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا

ولی کا دیوان دیکھ کر ہی دہلی والوں کو اپنے مجموعے شائع کروانے کا خیال آیاولی سے استفادہ کرنے والے بہت شاعر گزرے ہیں۔ولی نے کہا :

پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا

   شاید کہ مرا حال اسے یاد نہ آیا۔

       مجھ پاس کبھی وہ قد شمشاد نہ آیا

   اس گھر منے وہ دلبر استاد نہ آیا         (فائزؔ)

ولی کہتے ہیں :

تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا

  جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا

بے تابی دل آج میں دلبر سوں کہوں گا

  ذرے کی تپش لہر منور سوں کہوں گا  (آبروؔ)

ولی کی ایک غزل کی زمین میں تو تین چار شاعروں نے غزلیں کہیں :  ولی کا مطلع ہے :

خوب رد خوب کام کرتے ہیں

  یک نگہ میں غلام کرتے ہیں

جب سجیلے خرام کرتے ہیں

   ہر طرف قتل عام کرتے ہیں         (فائزؔ)

نازنیں جب خرام کرتے ہیں

   تب قیامت کا کام کرتے ہیں          (آبروؔ)

خوش قداں جب خرام کرتے ہیں

  فتنہ برپا تمام کرتے ہیں      (یک روؔ)

        ولی نے دیکھا کہ دہلی میں سرکاری و درباری اثرات کی وجہ سے فارسی کا چلن عام ہے انھوں نے بھی اپنی دکنی اردو میں فارسی الفاظ و محاورات کے ایسے جوڑ لگائے کہ اک نیا اسلوب ان کا شناس نامہ سمجھا جانے لگا۔ولی نے بعض خوب صورت تراکیب بھی ـCOINکیں جیسے گوش کرنا، پنجۂ خورشید، خنجر خورشید، خنجر مژگاں کی باڑھ، غمزۂ آہو پچھاڑ، شیریں بچن، ساغرنین، آب نین وغیرہ وغیرہ۔ان معاملات میں بھی بعض دہلوی شعراء نے ولی کی اتباع کی ہے ولی کے اجتہاد نے اجتہادات کے دروازے کھول دیئے اس طرح اردو کا ذخیرہ الفاظ ولی کا مرہون منت ہے ولی کہتے ہیں۔

اک بار مری بات اگر گوش کرے تو

  ملنے کو رقیباں کے فراموش کرے تو

فائز نے اسی زمین میں غزل کہتے ہوئے مطلع کہا

اے یار نصیحت کو اگر گوش کرے تو

  یہ طور طریق اپنے فراموش کرے تو

        ولی کی نقالی کرنے والوں نے ولی کا لوہا مان لیا۔ظاہر ہے نقل کبھی اصل سے آگے نہیں جاتی الا ماشاء اللہ۔ولی بہر حال کئی شاعروں کو متاثر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔اوران کی پیروی کرنے والے ان کے پیچھے ہی رہے۔ولی کا مطلع ہے

سرود عیش گاویں ہم اگر وہ عشوہ ساز آوے

  بجاویں طبل شادی کے اگر وہ دل نواز آوے

ا س زمین میں یک رؤ کا مطلع ولی کی لکیر کے سامنے بڑی لکیر کھینچنے کی کوشش ہے :

مبارک عید ہو ہم کو اگر وہ جلوہ ساز آوے

  کروں میں جان کو قرباں اگر ہو دلنواز آوے

مگر ولی کی طرح مقطع کہنا آسان نہ تھا ولی نے اس مقطع میں اپنی پہچان رکھ دی ہے :

ولی اس گوہر کا ن حیا کی کیا کہوں خوبی

  مرے گھر اس طرح آتا ہے جوں سینے میں راز آوے

ولی کے لب و لہجہ کے اثرات اس دور کے شعراء تک ہی محدود نہ تھے بلکہ بعد آنے والے شعراء کے کلام میں بھی ولی کے اشعار کی گونج سنائی دیتی ہے۔ولی کا شعر ہے :

ہوں گرچہ خاکسار  ولے از رہِ ادب

  دامن کو تیرے ہاتھ لگایا نہیں ہنوز

میر نے اس لکیر کے مقابل یقیناً بڑی لکیر کھینچی ہے مگر اولیت تو دلی ہی کو رہے گی۔

دور بیٹھا غبار میر اس سے

  عشق بن یہ ادب نہیں آتا

ولی کے ایک شعر کے چراغ سے شاہ حاتم اور مرزا غالب دونوں نے چراغ جلائے ہیں

اگر چہ ہر سخن تیرا ہے آب خضر سوں شیریں

  ولے لذت نرالی ہے پیا تجھ لب کی گالی میں     (ولیؔ)

حق میں عاشق کے تجھ لباں کے بچن

  قند ہے،  نیشکر ہے، شکر ہے          (شاہ حاتمؔ)

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

  گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا      (غالبؔ)

        بیشتر تذکرہ نگاروں نے ولی کا سن وفات 1707ء  دیا ہے لیکن ماہر دکنیات ڈاکٹر محمد علی اثر نے اپنی کتاب، تحقیقی نقوش، میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی مرتبہ، تاریخ ادب اردو، جلد اول کے حوالے سے لکھا ہے کہ ولی کا انتقال 1720یا 1725کے درمیان کسی سال ہوا۔ولی نے بڑی لمبی عمر نہیں پائی لیکن بڑے کارنامے چھوڑے ہیں انھیں اردو غزل کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔

٭٭٭


اقبال۔ ادبِ  اسلامی کا نقیب

        ہر شاعر اپنے اسلوب سے پہچانا جاتا ہے۔جیسا کہ مشہور مقولہ ہے اسلوب ہی شخصیت ہے Style is the person۔جس کا اپنا اسلوب ہوتا ہے وہی منفرد ہوتا ہے۔یہی انفرادیت اس کی پہچان ہوتی ہے۔ورنہ کہنے کو تو دہلی سے لے کر مدراس تک قلم کاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔جب ایک خاص اسلوب اک خاص شاعر ادیب سے منسوب ہو جاتا ہے تو اس کے طرز پر کہنے والے اس خاص شاعر یا ادیب کے خوشہ چیں شمار ہونے لگتے ہیں یا پھر اس کی خوشہ چینی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھنے لگتے ہیں۔میرؔ کا اسلوب اس قدر بے مثال سمجھا گیا کہ اس کی نقل بھی ممکن نہ ہوسکی۔غالب کا انداز اختیار کرنا تو لوہے کے چنے چبانے کے مترادف سمجھا گیا یہی حال اقبال کی طرزِ  فکر کا ہے۔اقبال کی پیروی کرنے کا یارا  صرف اسی کو حاصل سکتا ہے جو اقبال ہی کی طرح بے انتہا پڑھا لکھا  Well Versed  ہو۔ظاہر ہے اقبال کی علمیت ان کے فکرو فن میں بولتی دکھائی دیتی ہے۔اقبال کا کوئی ثانی پیدا نہ ہوسکا۔

        یہ بات طے ہے کہ اقبال کا سرچشمہ قرآن و سنت ہے۔مغرب و مشرق کے دیگر فلسفے بھی اقبال کے پاس آ کر مشرف بہ اسلام ہو جاتے ہیں کیونکہ فراست کی بات مومن کا کھویا ہوا خزانہ ہے۔بچوں کے لیے نظمیں لکھتے ہوئے اقبال نے بعض انگریزی نظموں کے مرکزی خیال سے استفادہ کرتے ہوئے اسے مشرقی رنگ روپ دے کر گویا اپنا لیا ہے۔اگر خود اقبال نے ان انگریزی نظموں کی نشاندہی نہ کی ہوتی تو ہر کس و ناکس کی رسائی ان تک ممکن نہ رہ جاتی مگر اقبال نے ایمانداری کے تقاضے کے طور پر اپنے ماخذات و مراجع کی خود نشاندہی کر کے مخالفین و حاسد ین کے منہ بند کر دیئے۔مغربی مفکرین سے استفادہ کرتے ہوئے بھی اقبال نے یہی رویہ اختیار کیا جیسے گوئٹے کے دیوانِ مغربی کے جواب میں ’’پیام مشرق ‘‘ یا دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کے جواب میں ’’جاوید نامہ ‘‘۔

        دراصل جو عالمی اقدار ہیں وہی اسلامی اقدار بھی ہیں۔اسلام کو یوں بھی دینِ فطرت کہا گیا ہے۔فطرت بہرحال حسن و خیر پر مائل ہوتی ہے۔ اقبال یقیناًً مومن تھے۔مومن ہونے کے ناتے قرآن کو اللہ کا کلام سمجھتے تھے جو انسانوں کی رہبری کے لیے نازل ہوا ہے اور ایک ’’مرد کامل ‘‘ ساری انسانیت کے لیے ’’اسوۃ حسنہ ‘‘ کا نمونہ بنا کر بھیجا گیا ہے جو اقبال کا ہیرو بھی ہے۔

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

  اگر بہ اؤ نرسیدی تمام بو لہبیست

        ایک اور جگہ اقبال حدیثِ قدسی کے انداز میں کہتے ہیں :

کی محمدسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

  یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

         ’’ادبِ اسلامی ‘‘ کی اصطلاحً دہلی سے لے کر مدراس تک قلم کا عبید پر ناک بھوں چڑھانے والے اس تقسیم و تحدید کی مخالفت پر کمر بستہ ہو کر اپنے سیکولر ہونے کا ثبوت دینا چاہتے ہیں۔اقبال سے بڑا سیکولر اور کون ہوسکتا ہے جس نے رام کو ’’امام ہند‘‘ کا نام دیا۔گرو نانک کو پنجاب کی سرزمین سے اٹھنے والا موحد قرار دیا۔گائتری کے چند اشلوک کا منظوم روپ ’’آفتاب ‘‘ کے نام سے اردو ادب کو دیا۔بھرتری ہری کے نرم و نازک خیال کی پذیرائی کی۔کارل مارکس کی تعریف میں کہا   ع  نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب، اور و ہ مجذوب، فرنگی کو مقامِ کبریا بتلانے کے جتن بھی کرتے ہیں۔اقبال کا پیش کردہ فلسفۂ خودی اسی طرح رازِ غیر سر بستہ Open Secret ہے جس طرح اللہ کا کلام ہے یا رسول اللہ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔قرآن یا رسول اللہ کوئی مسلمانوں کی جاگیر نہیں ہیں۔رب العالمین اور رحمۃ اللعالمین کو محدود کرنے والے ہم کون ؟  اقبال نے یہی کیا کہ قرآن و سنت کے پیغام کو عام کیا۔یہی ادبِ اسلامی ہے۔

        انفرادی یا اجتماعی یعنی سماجی، سیاسی، تمدنی، تہذیبی، مذہبی، قانونی ہر سطح پر ایک نقطۂ نظر کے ماننے والے آپس میں قریب آتے ہیں اسی طرح اقبال نے ہر معاملے میں اسلامی نقطۂ نظر کی تلاش کی اور ا س کی ترویج و اشاعت علی الاعلان کی۔جس نقطۂ نظر کو وہ بہتر سمجھتے تھے اس کو پھیلانا بھی چاہتے تھے۔ اقبال جہد و عمل کی حرکیاتی شخصیت کا نام ہے غلط نظریئے کا رد بھی انہوں نے کھل کر کیا ہے۔مثلاً وطن پرستی کے راگ الاپنے والا اقبال، وطن کو بہت بڑا بت بھی قرار دیتا ہے۔اس طرح اپنے آپ کو رد کرنے کا حوصلہ بھی تو اقبال میں تھا۔شکوہ اور جوابِ  شکوہ اس رد و قبول کی بہترین مثال ہے۔

        ہمارے بعض روشن خیال احباب اقبال کو ادبِ اسلامی کا نقیب قرار دینے کو اقبال کو محدود کر دینے کے مترادف سمجھتے ہیں حالانکہ اسلام کب محدود نظریۂ حیات ہے یہ تو آفاقی نقطۂ نظر پیش کرتا ہے اس طرح اگر اقبال ادبِ اسلامی کا نمائندہ شاعر ہے تو گویا آفاقی نظریۂ حیات کا نقیب ٹھیرا۔اسلامی اصول و ضو ابط کی عکاسی بھلے ہی نام نہاد روشن خیال لوگوں کو کھلے مگر یہ روشن خیالی بجائے خود تنگ نظر ی کی غماز ہے۔اسلام ایک آفاقی سچائی ہے اس سچائی کا کھل کر اظہار کرنے والا بھی آفاقی فکر کا حامل کہلانے کا مستحق ہے۔حق کا اظہار فی زمانہ جہاد سے کم نہیں اور اقبال اپنے دور کے سب سے بڑے مجاہد گزرے ہیں۔

        ویسے اقبال سے اک ذرا پہلے مولانا خواجہ الطاف حسین حالی او ر مومن خان مومن اور اقبال کے ہم عصروں میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، مولانا ابوالکلام آزاد یہی کارنامے انجام دیتے رہے ہیں۔البتہ اپنے اپنے اسلوب کے فرق کے ساتھ ان کی اپنی جدو جہد فنی رچاؤ اور حسنِ معنی کی فراوانی سے شاہ کا ر ثابت ہوتی رہی ہے۔ظاہر ہے موعظۃِ حسنہ اور شاعرانہ لب و لہجہ میں بڑا فر ق ہوتا ہے۔یہی فرق شاعر کی درجہ بندی کی بنیاد بنتا ہے۔زرخیز ذہن  Fertile mind  کے نمونے انیس و دبیر، دیا شنکر نسیم، میرحسن، محسن کاکوروی، ریاض خیر آبادی، داغ ؔ و امیر کے پا س وافر تعداد میں مل جاتے ہیں۔علامہ اقبال نے مرد مومن کی خودی کی تربیت کے سامان کر کے اسے ’’مرد کامل ‘‘ کے روپ میں دیکھنے کی آرزو کی ہے۔

        ادبِ اسلامی کا نقیب ہونا ہی اقبال کو اقبال بنا تا ہے ورنہ وہ بھی میر یا غالب یا داغ کی طرح کے کوئی شاعر ہوکے رہ جاتے جن کے ہاں شعر بہر حال شعر ہے۔اپنے مشاہدات و تجربات کو قافیہ و ردیف کے حوالے کرنے کی مساعی ہے جب کہ اقبال نے تمام تر فنی رچاؤ کے ساتھ ایک اعلی و ارفع مقصد کے اظہار کا وسیلہ اپنے شعر کو بنایا ہے جو ان کی کامیابی کی دلیل بھی ہے یہی فکر اسلامی اقبال کی پہچان ہے۔

        ادب میں اشتراکی فکر کی نمائندگی کرنے والے شاعروں ادیبوں کو تو لوگ سرپر بٹھانے کو تیار ہیں فیض و فراق و فراز، کیفی، ساحر پر جان نثار کرنے آمادہ ہیں، مخدوم کے گل تر کو سرخ سویرے میں کھلا دیکھنا چاہتے ہیں اور ہر عاشق ہے سردار یہاں ہر معشوقہ سلطانہ ہے یا پھر پیچھے کی طرف لوٹ کر قصہ کہانیوں، داستانوں، مرثیوں اور مثنویوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں، انھیں ادب اور کلا سیکی ادب کا درجہ دینے میں پیش پیش ہیں مگر تکلیف ہوتی ہے تو اقبال کی فکر سے اور اقبال کے حرکیاتی فلسفے سے جو سلانے کے بجائے بیداری کا پیغام دیتا ہے کیا یہی روشن خیالی ہے ؟

        اقبال کو روشن خیال ماننے میں آخر تامل کیوں ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی زندہ فکر، زندہ اسلوب میں آج بھی زندگی کا پیغام دے رہی ہے۔ایک خاص منشور کے تحت مزدور اور کسان کی ہم نوائی کرنے والے خوش حال لوگ جو ’’ماسکو ‘‘ کو اپنا قبلہ سمجھتے تھے بکھر چکے ہیں روس کی شکست و ریخت کے بعد یہ لوگ تحویل قبلہ پر آمادہ ہو کر جدیدیئے ہو گئے اور اپنی ذات کی پرتیں کھولنے کی آزادی کے نام پر اپنے آپ ہی پر ’’شب خون ‘‘ مارتے مارتے تھک گئے۔

        ثابت یہ ہوا کہ جتنے فلسفے ہیں سب محدود ہیں ان کے تحت تخلیق پانے والا ادب محدود دور میں محدود نقطۂ نظر کا عکاس ہوا کرتا تھا۔ادبِ اسلامی لامحدود ہے۔جب تک انسان باقی ہے اور جب تک انسان کا خالق زندہ ہے اس رشتے کے حوالے سے انفس و آفاق پر اظہار رائے ہوتا رہے گا اور اسی سچ، حسن اور خیر کی نمائندگی ہوتی رہے گی جو کبھی بدلنے والا نہیں اور جو کسی انسانی دماغ کی پیداوار نہیں بلکہ خالقِ  کائنات کا عطا کردہ ہے اور اسی نقطۂ نظر کے حامل

 ادبِ اسلامی کا نمائندہ اقبال ہے۔

٭٭٭

 

بہ فیضِ  اقبال

        گوئٹے کا دیوان مغرب   1819 West Osticher Divanء  میں شائع ہوا تھا جس کے جواب میں علامہ اقبال ؔ کا ’’پیامِ  مشرق ‘‘ تقریباً ایک سو سال بعد عالم و جود میں آیا۔اپنے مجموعے کے سرنامے کے طور پر اقبالؔ نے ’’ولللہ المشرق و المغرب ‘‘ لکھ کر گویا یہ ثابت کیا کہ مشرق و مغرب کی فرماں روائی الہ واحد ہی کا حق ہے جو زمان و مکان کی قید سے ماورا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کہیں گوئٹے کی وجہ سے اقبال زیر بحث ہیں تو کہیں اقبال کی وجہ سے گوئٹے کے فکرو فن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔فلسفہ، تنقید، شعریات اور تہذیب کا یہ ایک زندہ موضوع بن گیا ہے۔ڈاکٹر اکرام چغتائی نے اس موضوع پر دنیا بھر کی مختلف زبانو ں میں شائع ہونے والی لگ بھگ تین سو کتابوں کی فہرست شائع کی ہے۔

        بیشتر شعر اء و ادباء نے نظم و نثر میں اقبال کے فارسی کلام کا ترجمہ کیا ہے۔فیض احمد فیض نے ’’پیام مشرق ‘‘ میں شامل ایک سو تر سٹھ قطعات ’’لالۂ طور ‘‘ میں سے صر ف چند قطعات کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔انھوں نے چند ایسے ہی قطعات کا انتخاب کیا ہے جو ان کی ’’فکر ‘‘ سے قریب انھیں لگے۔اقبال کو ترقی پسند بڑا شاعر ماننے پر مجبور ضرور ہوئے مگر کلی طور پر ہم نوائی پر آمادہ نہ ہوسکے۔مگر فیض نے علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جن چند قطعات کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے وہ ان کی کشادہ دلی کا مظہر ہے۔

        فیض نے بعض قطعات کا ترجمہ کرتے ہوئے اس بحر کا التزام برقرار نہیں رکھا جس بحر میں اقبال کے قطعات ہیں جیسے ’’لالۂ طور ‘‘ کا باسٹھواں قطعہ ہے :

مگو از مدعا ے زندگانی

ترا  برشیوہ ہاے اونگہ نیست

من از ذوقِ  سفر آنگونہ مستم

کہ منزل پیش من جز سنگِ رہ نیست

فیضؔ نے اس کا منظوم ترجمہ یوں کیا ہے :

نہ کہہ کہ مقصد و مقصودِ  زندگی کیا ہے

  کہ اس کی رمز و ادا پر تری نگاہ نہیں

وہ مستِ ذوقِ  سفر ہوں، مرے لیے منزل

ملے جو راہ میں، جُز ایک سنگِ راہ نہیں

اپنی طرف سے چند الفاظ کا اضافہ کر کے دراصل فیضؔ نے اقبال کی پوری فکر کو سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ناچیز رؤف خیر نے اپنی سی کوشش کی ہے کہ منظوم ترجمے میں علامہ اقبال کی استعمال کردہ بحر بھی قائم رہے اور ترجمے کا حق بھی ادا ہو۔ (ملاحظہ ہو ’’قنطار ‘‘)

نہ کہہ کچھ مدعائے زندگی پر

اداؤں سے تو اس کی بے خبر ہے

میں ہوں ذوقِ سفر میں مست اتنا

مجھے منزل بھی سنگِ رہگزر ہے

اقبال کے مندرجہ ذیل قطعے کا ترجمہ فیض نے اس قدر رواں کیا ہے کہ بے ساختہ داد نکل جاتی ہے۔

مپرس از عشق و ازنیر نگی عشق

  بہر رنگے کہ خواہی سربر آرد

درونِ  سینہ بیش از نقطۂ نیست

  چو آید بر زباں پایاں ندارد

فیض کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :

عجب ہے عشق اور نیرنگی عشق

  یہ سو سو رنگ میں جلوہ دکھائے

اگر د ل میں رہے تو ایک نقطہ

  ہے بے پایاں اگر کہنے میں آئے

ناچیز رؤف خیر کے ترجمے پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے :

نہ پوچھ اب عشق کا ہے کیا کرشمہ

  کہ ہے ہر رنگ میں وہ جلوہ فرما

نہیں سینے میں نقطے سے زیادہ

  زباں پر آئے تو ہو بے احاطہ

علامہ اقبال کے ایک قطعے کا فیض نے بڑا دل نشیں ترجمہ کیا ہے :

مشو اے غنچہ ء نورستہ دل گیر

  ازیں بستاں سرا دیگر چہ خواہی

لبِ  جو، بزم گل، مرغ چمن سیر

  صبا، شبنم، نوائے صبح گاہی

فیض کہتے ہیں :

نہ ہو دل گیر اے نورستہ غنچے

  تجھے اس گلستاں میں چاہیئے کیا

لب جو، سبزہ و بزمِ  عنادل

  صبا، شبنم، ترانہ صبح گل کا

اب ذرا ایک نظر رؤف خیر کے ترجمے پر بھی فرمائیے :

نہ ہو غمگین اتنا تازہ غنچے

  تجھے کیا چاہیئے اب اس چمن سے

لب جو، بزم گل، طائر چہکتے

  صبا، شبنم کہ نغمے صبح دم کے

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اقبال کے کسی کسی قطعے کا ترجمہ کرتے ہوئے فیض نے اقبال کی بحر کا لزوم بر قرار نہیں رکھا اور اپنی سہولت سے ان کی ترجمانی کی ہے۔جیسے اقبال کا قطعہ ہے :

بہ پاے خود مزن زنجیر تقدیر

  تہِ  ایں گنبد گرداں رہے ہست

اگر باور نہ داری خیز و دریاب

  کہ چوں پا واکنی جولا نہگے ہست

فیض نے شاعرانہ لائسنس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے :

تقدیر کو ہرگز نہ بنا پاؤں کی زنجیر

  یہ گنبد گرداں کوئی زنداں تو نہیں ہے

باور نہیں گر تجھ کو تو اٹھ پاؤں ذرا کھول

  چلنے کے لیے تیرے فقط راہ یہیں ہے

ناچیز نے علامہ اقبال کے پورے ایک سو ترسٹھ قطعات ’’لالۂ طور ‘‘ کا منظوم ترجمہ جو کیا ہے وہ ’’قنطار ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے جس کے اب تک تین ایڈیشن نکل چکے ہیں۔مذکورہ قطعے کا جو ترجمہ راقم الحروف رؤف خیر نے کیا ہے وہ اس طرح ہے جس میں اقبال کی بحر کی پابندی کی گئی ہے :

کبھی تقدیر کا پابند مت ہو

  یہاں ہر سمت ہے رستہ ہی رستہ

اگر باور نہ آئے، دیکھ اٹھ کر

  کہ پیروں سے ہے جولاں گاہ بستہ

علامہ اقبال کے ’’لالۂ طور ‘‘ کا یہ قطعہ ان کے خاص اسلوب کا نمائندہ ہے

شنیدم در عدم پروانہ می گفت

  دمے از زندگی تاب و تبم بخش

پریشاں کن سحر خاکسترم را

  ولیکن سوز و سازِ یک شبم بخش

فیض نے اس کا ترجمہ بھی اپنے دل نشیں اسلوب میں کیا ہے جوان کی پہچان ہے

یہ پروانہ عدم میں کہہ رہا تھا

مجھے تابندگی کا راز دے دے

بکھر جائے سحر کو راکھ میری

  مگر شب بھر کا سوزو ساز دے دے

رؤف خیر نے ’’قنطار‘‘ میں جو اس کا ترجمہ کیا ہے وہ بھی اربابِ  نظر کی نذر ہے :

سنا، پروانہ کہتا تھا عدم میں

  مجھے پل بھر حیات تاب و تب دے

پریشاں کر گجر دم خاک میری

  مگر بھر پور سوزو سازِ شب دے

علامہ اقبال کا فلسفۂ خودی اس قطعے میں بڑے سلیقے سے پیش کیا گیا ہے :

ترا یک نکتۂ سربستہ گویم

  اگر درسِ  حیات از من بگیر ی

بمیری گربہ تن جانے نہ داری

  وگر جانے بہ تن داری، نمیری

فیض نے اس کا ترجمہ بھی اسی آب و تاب سے کیا ہے جس کا وہ متقاضی ہے :

بتاؤں میں تمھیں اک نکتۂ راز

  جو سرّ زندگی مجھ سے سنو گے

اگر بے جاں ہے تن تو مردنی ہے

  اگر تن میں ہے جاں زندہ رہو گے

ناچیز رؤف خیر نے اس قطعے کا ترجمہ کرتے ہوئے اپنا ہنر دکھایا ہے جو پیش ہے :

کہوں اک نکتۂ سربستہ تجھ سے

  سمجھ یہ مجھ سے درسِ  زندگانی

بدن بے کار ہے، بے جان ہے گر

  ہے جاں، روحِ حیاتِ جاودانی

علامہ اقبال  نے ہمیشہ انسان کو ’’مرد کامل ‘‘ کے طور پر دیکھنا پسند کیا ہے۔ان کے خیال میں ایسا ہی مرد مومن، مقصد الہی ہے :

گداے جلوہ رفتی برسرِ طور

  کہ جانِ  تو زخود نامحر مے ہست

قدم درجستجو ے آدمے زن

  خدا ہم درتلاشِ آدمے ہست

فیض نے اس کا بڑ ا خو ب صورت ترجمہ کیا ہے کیونکہ ان کے پیش نظر ایسا ہی آدمی ترقی پسند کہلانے کا مستحق بھی تو ہوتا ہے :

تو جلوہ ڈھونڈنے پہنچا سرِطور

  کہ اپنے سے تجھے نامحرمی ہے

ذرا بڑھ کر تلاشِ آدمی کر

     خدا کو بھی تلاشِ آدمی ہے

راقم الحروف رؤف خیر نے بھی اس قطعے کا اپنے طور پر بہتر ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔جو اہلِ نظر کی خدمت میں پیش ہے :

گیا ہے طور پر جلوے کا طالب

  خود اپنی ذات سے نا آگہی ہے

قدم دھر آدمی کی جستجو میں

    خدا کو خود تلاشِ آدمی ہے

علامہ اقبال کے ایک اور قطعے میں شاعر سے خطاب ہے۔

زمن با شاعر رنگیں بیاں گوے

  چہ سود  ا ز سوز اگر چوں لالہ سوزی

نہ خود رامی گدازی زاتشِ خویش

  نہ شامِ درد مندے بر فروزی

فیض نے اپنے مخصوص لہجے میں اس کا بڑا اچھا رواں ترجمہ کیا ہے

یہ کہہ دو شاعرِ رنگیں بیاں سے

  عبث ہے تو مثالِ لالہ سوزاں

نہ اس آتش میں تو خود ہی جلا ہے

  نہ روشن اس سے شامِ درد منداں

 ’’قنطار ‘‘ میں اس قطعے کا ترجمہ رؤف خیر نے اپنے انداز میں کچھ اس طرح کیا ہے :

کہو یہ شاعرِ رنگیں بیاں سے

   بطر زِ لالہ جلنا بھی ہے جلنا؟

نہ چمکا ناکسی محتاج کی شام

  نہ اپنی آگ میں خود ہی پگھلنا

        علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے تراجم ہندو پاک میں بہت ہوئے ہیں۔اور ہر فن کار نے اپنی بساط کے مطابق اپنے ترجمے کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش ہے۔تاکہ دیگر تراجم کے سامنے وہ پھیکے نہ پڑ جائیں۔یہی کوشش ناچیز رؤف خیر کی بھی رہی ہے کہ علامہ اقبال کا منشا پوری طرف حرف بہ حرف گرفت میں آ جائے اور اس میں اپنی طرف سے کوئی حذف و اضافہ ممکنہ حد تک ہونے نہ پائے۔قابل و مشاق مترجمین کے قدو قامت علمی کا اعتراف اپنی جگہ، اور یہ حسارت اپنی جگہ۔ارباب کمال سے داد کا امیدوار ایک مبتدی بھی تو ہوتا ہے ورنہ کہاں اقبال، کہاں فیض اور کہاں رؤف خیر۔!

٭٭٭

سالار جنگ سوم کی مدح میں  شہیدؔ کو سگوی کا غیر منقوط قصیدہ

        میر یوسف علی خاں جنھیں دنیا سالار جنگ سوم سے جانتی ہے ۱۳؍ جون ۱۸۸۹ء کو حیدر آباد دکن جیسے مردم خیز علاقے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد شروع ہی سے آصف جاہی سلطنت کے وفادار تھے۔ چنانچہ آصف جاہ سادس میر محبوب علی خاں جب کمسنی میں تخت نشین ہوئے تو زمامِ حکومت مختار الملک مدار المہام کے ہاتھ میں تھی۔

سالار جنگ سوم میر یوسف علی خان نے اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹۱۲ء سے ۱۹۱۴ء تک فرماں روائے دکن میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع کے وزیر اعظم کی حیثیت سے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ شاہی سطح پر آپ کے آبا و اجداد کے تعلقات بھی دیگر علاقوں کے راجاؤں، مہاراجاؤں، نوابوں سے قائم تھے جن سے نایاب و نادر تحفے تحائف انھیں ملا کرتے تھے۔ خود سالار جنگ سوم بھی نوادرات کے بڑے شوقین تھے چنانچہ انھوں نے اپنے ذاتی سرمائے کا بڑا حصّہ ہر قسم کے نوادرات، مخطوطات و مطبوعات، تصاویر وغیرہ جمع کرنے پر صرف کیا۔ نوادِر فروش آپ کی قدردانی سے فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ آج سالار جنگ میوزیم حیدر آباد دکن کی شناخت بن گیا ہے۔ ملک و بیرونِ ملک کے بے شمار سیاح روزانہ سالار جنگ میوزیم دیکھ کر نواب میر یوسف علی خاں سالار جنگ سوم کی خوش ذوقی اور دریا دلی کی داد دیا کرتے ہیں۔ یہاں سنگ مرمر کا ایک ایسا خوبصورت مجسمہ ہے جس کا نام ریبیکا Rebeccaہے۔ یہ ایک ایسی حسین لڑکی کا پیکر ہے جس کے بدن کا حسن سنگ مرمر ہی کی چادر سے جھلک رہا ہے مجسمہ ساز کے کمال کا یہ شاہکار دیکھنے والے کو حیران کر کے رکھ دیتا ہے کہ آخر فنکار نے سنگ مرمر کی چادر کے اندر اس حسینہ کے خطوطِ بدن کس طرح ابھارے ہوں گے؟

اسی طرح لکڑی کا ایک مجسمہ ہے جس کو پیچھے سے دیکھیے تو لگتا ہے ایک خوبصورت شرمیلی حسینہ سر جھکائے کھڑی ہے اور آگے سے دیکھیے تو گویا ایک جوانِ رعنا سینہ تانے کھڑا ہے۔ ایک نایاب گھڑی ہے جس میں سے ہر گھنٹے کے وقفے سے ایک آدمی نکلتا ہے اور گھنٹے مار کر چار چھے دس گیارہ بارہ بجنے کی خبر دیتا ہے۔ ہر قسم کے نایاب ہتھیار بھی ہیں ہاتھی دانت کے مجسمے بھی ہیں، حیران کن آئینے شیشے ہیں۔ قرآن مجید کے نایاب نسخے ہیں جن پر مغل بادشاہ جہانگیر، شاہجہاں، اورنگ زیب وغیرہ کے دستخط بھی ثبت ہیں۔

حسن سالار جنگ کی کمزوری تھا۔ جہاں کہیں وہ حسن دیکھتے اسے اپنا بنانے کے جتن کر ڈالتے تھے اور مجبوری یہ تھی کہ جس پر مرتے تھے اسے مار رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ اس یوسف کے دامن پر کسی زلیخا نے ہاتھ ہی نہیں ڈالا۔ چنانچہ وہ دامن سلامت تجرد کی زندگی گزار کر تو مرے لیکن لا وارث نہیں مرے۔ ان کے وہ ارکانِ خاندان جن کا سالار جنگ کی جائیداد میں ایک آدھ آنے ک ابھی حصّہ نکلتا تھا انھیں ہزاروں روپے حاصل ہوئے۔

دامن اُس یوسف کا آیا ٹکڑے ہو کر ہاتھ میں

اُڑ گئی  سونے  کی چڑیا رہ  گئے  پر  ہاتھ میں

نظام حیدر آباد کے ممالک محروسہ عالی کے تحت کوسگی ایک ایسی جاگیر تھی جو سرسالار جنگ سوم میر یوسف علی خان کے زیر انتظام تھی۔ کرنول کے قریب کی یہ جاگیر آصفیہ دورِ حکومت کے اختتام تک برقرار رہی۔ اس جاگیر میں تحصیل بھی تھی اور عدالت بھی گویا کوسگی کی حیثیت تعلقے کی تھی۔ اسی تعلقے میں سید عبداللہ شاہ حسینی شہیدؔ کوسگوی وکالت کیا کرتے تھے۔ پورے علاقے کے قاضی بھی یہی تھے اور جامع مسجد کوسگی میں امامت بھی کیا کرتے تھے۔ اردو اورفارسی پریکساں دسترس تھی۔ جمعہ اور عیدین کے موقع پر خطابت کے جوہر بھی دکھاتے تھے غرض اپنے تعلقے کی ہر دلعزیز  شخصیت شمار ہوتے تھے۔ شہید کوسگوی اردو فارسی میں شعر بھی کہا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ داغؔ دہلوی کے شاگرد تھے۔ پہلے یہ حریفؔ کوسگوی تخلص اختیار کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ لالہ سری رام نے اپنے مرتبہ تذکرہ ’’خم خانۂ جاوید‘‘ (جلد دوم) میں حروف تہجی (ح) کی ذیل میں حریفؔ کوسگوی کا ذکر بہ حیثیت شاگردِ داغ کیا ہے۔

حریفؔ نے اپنے احباب کے مشورے پر اپنا تخلص بدلا اور شہیدؔ کوسگوی اختیار کیا تھا۔اسعد بدایونی نے اپنی کتاب ’’داغ کے اہم تلامذہ‘‘ میں کسی حریفؔ یا کسی شہیدؔ کوسگوی کا ذکر ہی نہیں کیا۔ ڈاکٹر ابو محمد سحر کے مقالے ’’مطالعۂ امیر مینائی‘‘ کی طرز واداپر لکھی ہوئی کتاب ’’مطالعۂ داغ‘‘ میں سید محمد علی زیدی نے داغ کے ایک سو چالیس تلامذہ کی جو فہرست دی ہے اس میں بھی حریفؔ یا شہیدؔ کوسگوی کا نام بار نہیں پاتا ہے۔ تاہم ’’خم خانۂ جاوید‘‘ (جلد دوم) میں ان کا ذکر مصدقہ حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر اسعد بدایونی نے ’’داغ کے صرف اہم تلامذہ‘‘ سے تعلق رکھا ہے اور سید محمد علی زیدی کے مقالہ ’’مطالعۂ داغ‘‘ کی جو ادبی حیثیت ہے، اس سے اربابِ نظر خوب واقف ہیں۔

        سید عبداللہ حسینی حریف (شہید) کوسگوی ماہِ ربیع الاول ۱۲۹۱ھ میں بمقام کوسگی (ضلع محبوب نگر) پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں محبوب نگر کے بجائے ناگر کرنول ضلع ہوا کرتا تھا۔ ابتدائی تعلیم کوسگوی ہی میں حاصل کی۔ پھر حصول تعلیم کے لیے حید رآباد کا رُخ کیا۔ جوانی حیدر آباد ہی میں گزری۔ شعر کا چسکا لگا اور اپنے دور کے مشہور و ممتاز شاعر داغ دہلوی سے رجوع ہو کر ان کے تلامذہ میں داخل ہو گئے۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی نعت، منقبت، قصیدہ و مسدس، غزلیں نظمیں آج بھی ان کے سوادِ خط میں ان کے ورثاء کے پاس محفوظ ہیں۔ اس دور کے بعض گل دستوں میں بھی ان کی تخلیقات پائی جاتی ہیں۔ ’’تاریخ کوسگوی‘‘ میں بھی ان کا تذکرہ پایا جاتا ہے ہر چند کہ کسی گل دستے یا تاریخ کوسگوی تک راقم الحروف کی رسائی نہیں ہوئی ہے البتہ شہید کوسگوی کے سوادِ خط میں ایک غیر منقوط فارسی قصیدہ (تہنیت نامہ) ان کے بڑے فرزند سید عثمان حسینی، داروغۂ محبس (Sub Jail) بشیر آباد پائیگاہ کی وساطت سے جناب ضرر وصفی تک پہنچا جو عثمان حسینی صاحب کے فرزند اور شہید کوسگوی کے پوتے ہوتے ہیں۔ یہ غیر منقوط قصیدہ سرسالار جنگ سوم میر یوسف علی خاں کی مدح میں لکھا گیا تھا اور جب وہ اپنی جاگیر کوسگی تشریف لائے تھے تو ان کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس قصیدے کے صلے میں جس میں مقطع نہیں ہے شہید کوسگوی کوسرسالار جنگ سوم نے انعام و اکرام سے بھی نواز ا تھا۔ شہید کوسگوی علامہ اقبال کے ہم عصر تھے۔ ان کا انتقال ۱۲، شوال ۱۳۵۷ھ ہجری کو ہوا اور تدفین بمقام بشیر آباد پائے گاہ (حالیہ ضلع رنگا ریڈی) عمل میں آئی۔

شہید کوسگوی کے ورثا کے مطابق یہ فارسی غیر منقوط قصیدہ ان کی دیگر تخلیقات کے ذخیرے سے دستیاب ہوا ہے۔ یہ صرف ایک ہی صفحے پر لکھے ہوئے بارہ اشعار پر مشتمل ہے جس کا راقم الحروف نے منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔ فارسی متن کے ساتھ منظوم اردو ترجمہ بھی اہلِ نظر کی ضیافتِ طبع کی خاطر پیش ہے۔

قصیدہ صفت غیر منقوط درشانِ عالی جناب مع القاب آقا ولی نعمت نواب سالار جنگ بہادر دام اقبالہ، وجلالہ

سرورِ محمود سالارِ سوم

مصدرِ مہر و عطا ماہِ کرم

حاکمِ مصر اسمِ او گِرد مدام

داور امحکوم گردِ ملک ہم

طالعِ مسعود آمد کام گار

ہر گدارا داد صددام و درم

سرورِ سالارِ ما ممدوحِ ما

حاکمِ والا ہمم داراہمم

اُوکہ سالارِ ہمہ در معرکہ

ہم مَلک مسرور گردد مُلک ہم

اہلِ عالم محوِ مدحِ اومدام

در عطا و داد اسم اُوعلم

صدر عالم آمد و سالارِ کل

صدر دہر و صدرِ ہر اہلِ کرم

مدح گو را مدح او گردد محال

در دعا دارد دواماً کلک دم

حاصل ممدوح ماصد سالہ عمر

ہر سحر در دو دعاہا کردہ ام

*کردگارا درا ردا گرد مراد

عمر او ممدود اعدا در عدم

بہر طالع ساطع ولا مع مدام

دارد او را حاکم کلّ الحکم

مدح گورا ہم صلہ گردد عطا

سرورِ  اہلِ کرم  والا ہمم

یہ مصرع شاعر کے سوادِ خط میں ایسا ہی لکھا ہوا ملا ہے۔خیرؔ

قصیدۂ بے نقط در مدحِ سالارِ سوم از شہید کوسگوی

منظوم ترجمہ از  ر ؤف  خیرؔ

مرجعِ تعریف، سالار سوم

منبعِ لطف و عطا، ماہِ کرم

مصر کے حاکم کے لب پر نام ہو

یا الٰہی ملک بھی انعام ہو

عزم دینے کا جو دریا دل کریں

ہر گدا کو دام و درہم بخش دیں

ہیں مرے ممدوح سالارِ زماں

عالی ہمت ہیں یہ دارائے جہاں

وہ کہ ہیں سالار ہر اک جنگ میں

خوش، مَلک اور مُلک بھی ہر رنگ میں

ساری دنیا مدح میں ان کی مگن

وہ علم بردارِ داد و قدرِ فن

آئے وہ سالارِ ملکِ ذی حشم

پیشوائے دہر و اربابِ کرم

مدح گو کی مدح ٹھیرے کم سے کم

مدح، گو کرتا رہے ہر دم قلم

عمر سو سالہ جیئے ممدوح یوں

دو دعائیں روز میں کرتا رہوں

یا الٰہی یہ تو ٹھیریں با مراد

ان کے دشمن بے نشاں ہو ں نامراد

ان کی قسمت ہر گھڑی روشن رہے

حاکموں کا حاکم ان کو خوش رکھے

مدح گو  کو بھی  عطا ہو  کچھ صلہ

بندہ پرور  کو  کرم  کا  واسطہ

٭٭٭

 

فدا ئے حُسن۔ایم۔ایف حُسین

        پدم شری و پدم بھوشن مقبول فدا حسین جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے آخر کار ہندوستان سے بہت دور لندن کے ROYAL BROMPTON HOSPITALمیں ۹، جون۲۰۱۱  کو حسنِ حقیقی سے جا ملے۔اس طرح جدید آرٹ کا بے مثال نام اور عالم گیر شہرت یافتہ فن کار اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ خاموش ہو گیا۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔مگر فن کار کہیں مرتا ہے ؟ میر و غالب کہاں مرے۔ مانی و بہزاد کہاں مرے!  چغتائی کہاں مرسکے تو ایم۔ایف حسین کیسے مریں گے؟  وہ آرٹ کی دنیا میں یاد رکھے جائیں گے۔

        ایم۔ایف حسین نے خاص طور پر ’’گھوڑوں ‘‘ کو اپنے فن کا ذریعۂ اظہار بنایا تھا۔ ’’گھوڑا ‘‘ جو مردانہ وجاہت، طاقت، پھرتی اور وفاداری کی علامت ہے۔اور یہی گھوڑا حسین کے فکر و فن کی پہچان بن گیا۔یہ الگ بات کہ کچھ اور جونیر یا ہم عصر آرٹسٹوں نے ان کی اتباع میں ’’گھوڑ دوڑ‘‘ میں حصہ لیا مگر ظاہر ہے گھوڑے اور ’’ گھوڑ پھوڑ ‘‘ میں بہر حال فرق ہوتا ہے۔ہر چند گھوڑ پھوڑ بھی طاقت کا سر چشمہ ہی ہے کچھ طاقت بیزار اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔یہ ایسے ہی مسلمان ہیں جو قوتِ  باہ میں اضافے کے سو جتن کرتے ہوئے مختلف قسم کے کشتے تو کھاتے ہیں یہاں تک کہ کیچوے بھی کھا جاتے ہیں مگر کپوروں یا بکرے کے ’’سبیلین‘‘ کو مکروہ قرار دیتے ہیں کہ ان کے کھانے سے جنسی خواہش میں اضافہ ہوتا ہے۔ حلال کو حرام کر لینے کا عجیب فلسفہ ہے۔

        ایم ایف حسین بس ایک آرٹسٹ تھے۔فن کار تھے۔جسن نواز تھے اور حسن کار تھے۔جہاں کہیں انھوں نے حسن دیکھا اس کی قدر کی۔انھیں ہندوستانی فلم اکٹریس مادھوری ڈکشٹ میں حسن دکھائی دیا اور وہ اس کے گرویدہ ہو گئے بے شمار تصاویر مادھوری کی بنا ڈالیں۔خود مادھوری نے بھی ان کے جذبۂ وفا کی قدر کی بلکہ پذیرائی کہ۔ایم۔ ایف حسین جیسا عالمی سطح کا عاشق اسے کہاں مل پاتا اور پھر بقول غالب، اس کا بگڑنا ہی کیا تھا۔

میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی

اے وہ خلوت نہیں جلوت ہی سہی

شبلی نعمانی جسے رحمۃ اللہ علیہ کی کھونٹی پہ ٹانگ دیا گیا تھا، عطیہ فیضی کے عشق میں اتنا گرفتار تھا کہ اسے منظر عام پر لانا چاہتا تھا اور کہتا تھا ’’انا اول العابدین‘‘ یعنی میں تمہارے پجاریوں میں پہل کرنے والوں میں ہوں۔ تو بھائی عشق کے لیے عمر کی قید نہیں ہوتی۔عاشق و معشوق دونوں اس قید سے آزاد ہیں۔

        ایم۔ایف حسین نے اپنے آرٹ کا لوہا منوا کر ہی چھوڑا۔بال ٹھاکرے خود اچھے آرٹسٹ ہیں۔انھوں نے ایم ایف حسین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی موت کو ہندوستان کا اک زبردست نقصان قرار دیا (ملاحظہ ہو دس جون ۲۰۱۱  کے اخبارات) ۔ حسین کو ہندوستانیوں نے خواہ مخواہ مسلمان سمجھ رکھا تھا۔فن کار بس فن کار ہوتا ہے۔اسے مذہب سے جوڑنا انتہا پسندی ہے وہ چاہے ہندوؤں کی طرف سے ہویا مسلمانوں کی طرف سے۔سلمان خان ہرسال گنیش پوجا کا اہتمام کرتے ہیں، شاہ رخ خان یا عامر خان ہندوؤں کے داماد ہیں انھیں قومی یکجہتی کا علم بردار سمجھنا چاہیئے۔مسلمانوں کے مفتی ان کو فقہ کی میزان پر تولتے ہیں کفر کے فتوے دیتے ہیں ادھر ہندو انتہا پسند بھی انھیں قبول نہیں کرتے۔

زاہد تنگ نظر مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

        حسین کے اندر کا فن کار دیویوں دیوتاؤں کو بے لباس دیکھتا اور دکھاتا ہے تو انتہا پسند اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ’’حسین ‘‘ ہے۔وہ تو صرف ایک آرٹسٹ ہے یوں بھی ’’دیوبند‘‘ کی نظر میں شیعہ قوم کی شاخ بواہیر کا اسلام کس درجہ کا اسلام ہے سب خوب جانتے ہیں۔اسی لیے فن کار کو صرف فن کار ہی سمجھنا کافی ہو گا۔

        مقبول فدا حسین (ایم۔ایف حسین) سترہ ستمبر 1915کو پنڈھر پور مہاراشٹرا (ضلع شولا پور) میں پیدا ہوئے۔وہ جب صرف دو سال کے تھے ان کی والدہ زینب انتقال کر گئیں یہ لڑکا مقبول آگے چل کر اتنا مقبول ہو گا کس کو انداز ہ تھا۔یہ اسم بامسمّی ثابت ہوئے۔مقبول کے والد فدا حسین بوہرہ فرقے کے عام آدمی تھے۔یہ لوگ 1930میں ممبئی آ گئے1935میں مقبول فدا حسین نے جے جے اسکول آف آرٹ ممبئی میں داخلہ لیا۔اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے مقبول میاں نے کافی تک و دو کی۔ٹیلرنگ بھی کی۔گھر گھر جا کر گھی بیچا۔بہرحال کسی طرح تعلیم مکمل کی۔مقبول کی انگلیوں میں جادو تھا وہ منٹوں میں کسی کی بھی تصویر بنا دیا کرتے تھے۔چنانچہ انھیں بڑے بڑے فلمی پوسٹرس بنانے کا کا م مل گیا اسی پر ان کی گزر بسر تھی۔ (ملاحظہ ہو مقبول فدا حسین کی سوانح حیات جو یامنی تال کرنے لکھی ہے۔)

        مقبول فدا حسین کو ناز ہے کہ وہ حیدرآباد کے داماد ہیں۔کوچۂ بواہیر، حسینی علم حیدرآباد کا مشہور محلہ ہے جہاں بوہیرہ فرقے کی کثیر آبادی ہے۔اسی محلے کی ایک لڑکی فاضلہ سے مقبول فدا حسین کی شادی 1941میں ہوئی۔آرٹ سے ان کا لگاؤ بڑھتا گیا یوں بھی جدید آرٹ کی نمائشیں ہونے لگی تھیں۔حسین بھی پروگریسیو آرٹ گروپ PROGRESSIVE ART GROUPکے ممبر ہو گئے۔ اسی دور کا ادبی حلقہ ترقی پسند ادب کے نام پر ادبی دنیا میں تہلکہ مچایا ہوا تھا۔آرٹ کی دنیا میں بھی انقلاب آ گیا ممبئی آرٹ سوسائیٹی کے زیر اہتمام ’’سنہرا سنسار‘‘ کی آرٹ ایگزیشن EXHIBITIONمیں حسین نے بھی حصہ لیا۔فرانسس نیوٹن کے مشورے پر وہ پروگریسیو آرٹ گروپ کے ممبر 1946میں تو بن ہی چکے تھے۔حسین کی اپنی پینتنگس PAINTINGSکی ایک سولو ایگزیبشنSOLO EXHIBITION  1952میں ہوئی۔آخر کار للت کلا اکاڈمی دہلی نے ان کی فن کارانہ خدمات کا اعتراف کیا۔یہاں تک کہ حکومتِ  ہند نے انھیں پدم شری اور پدم بھوشن کے اعزازات سے 1955اور 1966میں نوازا۔

 (ملاحظہ ہو روزنامہ ’’سیاست ‘‘ حیدرآباد۔۱۲، جون۲۰۱۱۔)

        ایم۔ایف حسین نے 1962میں ایک ڈاکو مینٹری فلم THROUGH THE EYES OF PAINTER بھی بنائی تھی۔جسے برلن فلم فسٹول میں GOLDEN BEERکے اعزاز سے نوازا گیا۔آرٹسٹ اپنے آپ کو ہر طرح منوانا چاہتا ہے۔چنانچہ ایم ایف حسین نے پینٹنگس کے ساتھ ساتھ نثری شاعری PROSE POETRYبھی کی۔ان کی بعض نثری نظمیں مختلف رسائل میں شائع بھی ہوئیں۔ انھوں نے بعض ادیبوں شاعروں کی کتابوں کے لیے سرورق TITLEبھی بنائے جو اپنی معنویت کے لحاظ سے شاعر ادیب اور اس کے فن کی عکاسی بھی کرتے تھے۔

        ایم ایف حسین عموماً سوٹ ہی پہنا کرتے تھے یا پھر پنجابی لباس زیب تن کرتے۔مگر وہ ہمیشہ ننگے پیر رہا کرتے تھے۔ان سے انٹرویو لیا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ دراصل زمین کی مختلف کیفیات کو محسوس کرنا چاہتے تھے۔وہ ہر تقریب میں ننگے پاؤں ہی شریک ہوتے تھے۔

        1996سے ایم ایف حسین کے لیے آزمائش کا دور شروع ہوا۔انھوں نے کچھ دیوی دیوتاؤں کو فطری حالت میں دکھا دیا تھا۔حالانکہ اجنتا ایلورا، کھجورا ہو، رامپا کے مندروں میں جنسی عمل کے آسن مندروں کے درو دیوار پر بلا تکلف بنائے گئے ہیں فروری کے ہندی ماہ نامہ ’’وچار ممانسا‘‘ میں ایم ایف حسین کے خلاف ایک مضمون لکھا گیا تھا۔ایم ایف حسین ایک پینٹر PAINTERیا قصائی BUTCHER‘‘ چنانچہ اس مضمون کی اشاعت کے ساتھ ہی حسین کے خلاف ہندوانتہاپسندوں کی نفرت یلغار کا روپ دھار گئی۔ان پر آٹھ مقدمات دائر کئے گئے، قاتلانہ حملے کئے گئے اور ان کی نایاب تصاویر PAINTINGSجلادی گئیں۔حسین کو جلاوطنی

 ا ختیار کرنی پڑی۔قطر کی شہریت قبول کرنے کے باوجود حسین اپنا زیادہ تر وقت لندن ہی میں گزارا کرتے تھے اور آخری سانس بھی وہیں لی۔حسین جس مسلک و مشرب کے آدمی ہیں وہ عرب تہذیب کے بجائے عجمی تمدن سے قریب ہے اسی لیے ان کے آرٹ میں عربی تہذیب کی جگہ عجم کی نمائندگی ہوتی ہے۔ یوں بھی عرب میں اسلامی فکری انقلاب کے بعد تصویر کشی ہی حرا م قرار دی گئی اسی لیے عرب فن کاروں نے اپنی فن کاری کے اظہار کے لیے خطاطی میں نئے نئے تجربات کیے اور کئی شاہ کار دنیا کو دیئے۔ابنِ مقلہ سے لے کر صادقین تک قرآن کی آیات ان کی فن کاری کا مظہر بن کر سامنے آئیں۔حسین نے اپنے لیے جو الگ عجمی راہ اپنائی وہ ان کے مزاج سے ہم آہنگ ثابت ہوئی۔               مادھوری ڈکشت سے بہت پہلے 1948ء  میں (یعنی ہندوستان کی آزادی سے بھی پہلے) حسین کو چیکو سلواکیہ کی ماریا سے بے انتہا محبت ہو گئی تھی۔عاشق مزاج حسین نے اپنی کئی خوب صورت تصاویر PAINTINGSماریا کو تحفتاً دی تھیں جو حسین کی فن کاری کی غماز تھیں۔جن میں، کسانوں، ماں، بچے اور دیومالائی فکر اور موسیقاروں کی عکاسی کی گئی تھی۔ایم۔ایف حسین اور ماریا آپس میں عشق تو کرتے تھے مگر شادی نہ کرسکے اور تقریباً ساٹھ سال بعد ماریا نے وہ تمام تصاویر PAINTINGS صحیح و سالم صورت میں واپس کر دیں۔حسین چاہتے تھے کہ وہ انھیں کلکتہ جیسے سیکولر شہر میں محفوظ رکھیں مگر آخر کار لندن کے ایک قدردان نے وہ تمام تصاویر اکیلے خرید لیں۔اس طرح ہندوستانی فن کار کی فن کاری انگلینڈ پہنچ گئی۔یوں بھی ایم ایف حسین میرے خیال میں وہ واحد آرٹسٹ ہے جس کی ایک ایک پینٹنگ لاکھوں ڈالروں میں بکتی رہی ہے۔حسین کے ایک غیر معمولی مداح کرسٹی کے مطابق جنوبی ایشیا جدید معاصر آرٹSOUTH ASIAN MODERN-CONTEMPORARYکے عالمی ہراج میں حسین کی پینٹنگ کی قیمت سولہ سونولاکھ ڈالر لگائی گئی جو ریکارڈ بولی ہے۔ان کی کئی تصاویر ساتویں دہائی 1971-72ہی میں چھے تا آٹھ لاکھ ڈالر فی تصویر کے حساب سے بکتی رہی ہیں۔

        مسٹررومیش سوبٹی، مینیجنگ ڈائرکٹر انڈسٹریل بنک، لوکھنڈوالا برانچ ممبئی کے مطابق ایم ایف حسین سے ایک سو تصاویر کا معاہدہ ایک سو کروڑ روپیوں میں طے پایا تھا اور حسین کی پچیس 25 تصاویر آج بھی بنک کے لا کر میں محفوظ ہیں۔حسین چاہتے تھے کہ اس وقت کے وزیر اعلی مہاراشٹرا  ولاس راؤ دیش مکھ  مداخلت کر کے ان تصاویر کے پیسے بنک سے دلا دیں تاکہ کملا نہرو پارک ممبئی میں ایک آرٹ گیلری ART GALLERYقائم کی جا سکے (ملاحظہ ہو دکن کرانیکل حیدرآباد مورخہ ۱۰ جون ۲۰۱۱ء) ۔

        مختصر یہ کہ ہندوستان کے اس مایہ ناز آرٹسٹ کی قدر یقینا خوب ہوئی۔ان کی ملاقات اپنے دور کے منفرد آرٹسٹ پکاسو سے بھی ہوئی۔مگر ایم ایف حسین بجائے خود پکاسو  سے کم رتبے کے فن کار نہیں ہیں۔آج انتہا پسند بھی ان کی جدائی کو ہندوستان کا عظیم نقصان شمار کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

بس ایک تبسم کے لیے۔۔۔

        پچھلے دنوں دسمبر ۲۰۱۰ء  میں واجدہ تبسم اعلی الھا مقامھا کی مرگِ حسرت آیات پران کے کچھ چاہنے والے ہمارا مطلب ہے ان کی تحریروں کے رسیاان کو خراجِ تبسم پیش کرنے کے لیے تعزیتی جلسے کا انعقاد کرنا چاہتے تھے مگر براہو طالبانِ رجعت پسند کا کہ تبسم پسندوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ایسی کوششوں کونا کام بنادیا۔شہر بھر میں ایسا کوئی جلسہ منعقد ہی نہیں ہوا  ورنہ ہم ضرور شریک ہو کر  ا ن کے لیے ’’خراجِ حقیقت ‘‘ پیش کرتے۔ہندوستان کے سب سے زیادہ چھپنے والے رسالے ماہنامہ ’’شمع‘‘ میں ان کی کہانیاں جو بڑے اہتمام سے شائع ہوتی تھیں ہم نے بھی پڑھی ہیں اور بزرگوں کی نظر بچا کر پڑھی ہیں یہ الگ بات کہ خود بزرگ بھی واجدہ تبسم کی گرم گرم کہانیاں چھوٹوں کی نظر بچا کر ان سے پہلے ہی پڑھ لیا کرتے تھے جو سنا ان کے لیے ’’تحریک ‘‘ کا کام کرتی تھیں اور خود ’’ شمع‘‘ کو تو اپنا الوسیدھا کرنا تھا۔تجارتی نقطۂ نظر سے رسالے کی مقبولیت میں اضافہ کے لیے وہ کسی وہی وہانوی کی خدمات تو علی الاعلان حاصل نہیں کرسکتے تھے، انھوں نے قدرے آسان طریقہ یہ نکالا کہ واجدہ تبسم کو پردے سے باہر کھینچ نکالا جس نے مجاز کے مشورے پر عمل کیا :

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

  تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

        مارچ 1935ء  میں امراوتی مہارشٹرا میں پیدا ہونے والی واجدہ تبسم کا خاندان تقسیم ہند 1947کے موقع پر پھوٹ پڑنے والے فسادات میں لٹ پٹ کرامراوتی سے بیل بنڈیوں میں سوار حیدرآباد آ گیا تھا۔اس وقت یہ تیرہ چودہ سال کی کچی کلی حیدرآبادی نوابوں کی رنگیلی طبیعتوں کی چشم دید گواہ بنی اور اس نے بقول ساحر:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

  جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

کے مصداق پردے کے پیچھے کی کہانیوں پر سے پردہ اٹھانا شروع کیا اور یہ کام وہی بخوبی انجام دے سکتی تھیں۔

ادب کے نام پہ کیا رہ گیا ہے کہنے کو

  مگر وہ بات جو میں چپ رہوں تو رہ جائے

اللہ مرحومہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے انھوں نے اپنی کہانیوں میں نہ صرف عیاش مردوں کی نفسانیت کے زیر جامہ پر ہاتھ ڈالا بلکہ عورت کی خود سپردگی کو بھی بے محرم کیا۔ وہ خود بڑی لحیم شحیم خوب صورت بدن کی مالک رہی ہیں اسی لیے انھوں نے اپنی ایک کہانی میں حسن کا یہ معیار بتا یا کہ  ’’عورت کا سینہ ایسا بھرا بھرا ہو کہ اگر وہ کھڑی ہو کر اپنے ہی پاؤں کے انگوٹھے دیکھنا چاہے تو دیکھ نہ  سکے ‘‘۔

اگر اتفاق سے مرحومہ کا گزر جنت میں ہو جائے تو حوریں بھی ان سے شرمانے لگیں گی کہ ان کے سینوں کی ایسی تعریف تو  خود اللہ میاں نے بھی نہیں کی۔ صرف انگور کے خوشے کہہ کر نقشہ کھینچا ہے۔مرحومہ نے اپنے کردار کی پیکر تراشی میں شرحِ صدر سے کام لیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ

 ’’کرتے کے اندر گویا دو کبوتر پھڑ پھڑ ا رہے تھے جن کی لال لال چونچیں مردانہ انگلیوں میں سرکشی پر آمادہ تھیں‘‘۔

        علامہ اقبال کے ’’قلم ‘‘ سے نکلا تھا  ’’وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ‘‘ مگر یہی بات اپنی ایک کہانی ’’اوہ امریکہ ‘‘ میں واجدہ تبسم نے اپنے ’’دواتی ‘‘ اسلوب میں یوں کہی کہ  ’’اللہ میاں نے عورت کو چاہے کتنی ہی غریب کیوں نہ بنایا ہو، ’’صاحبِ جائیداد ‘‘ بنایا ہے ‘‘۔ان کا یہ جملہ پڑھتے ہوئے خواہ مخوا ہتھیلی پھیل جاتی ہے اور اگلی دو انگلیاں ذرا کھل کر (v) کا نشان بنانے لگتی ہیں۔مرحومہ نے اس ایک جملے میں تبرج و تفرج اور قابتِ جنسی کی پوری کہانی بیان کر دی جو فاروقی کی چہیتی ’’کئی چاند تھے سرِ آسمان‘‘ کی ہیروئین وزیر خانم (داغ کی ماں) سے بھی عبارت ہے جس نے اپنی اسی جائیداد کے ذریعے کبھی مارسٹن بلیک، کبھی نواب لوہاروشمس الدین خان، کبھی آغا مرزا تراب علی اور کبھی شہزادہ مرزا فخر و کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔اور  چاروں برحق۔

        اللہ مغفرت کرے عورت ہو کر بھی واجدہ تبسم نے عورت کے ناقص العقل ہونے کا بڑے دانش مندانہ انداز میں مذاق اڑایا۔اپنی ایک کہانی ’’اترن‘‘ میں اپنی مالکن کی اترن پہن کر جوان ہونے والی خادمہ مالکن کے ہونے والے دولھے سے اپنا پردۂ بکارت چاک کروا کر خوش ہوتی ہے اور انتقاما کہتی ہے۔ ’’لے۔اب زندگی بھر میری اترن پہنتی رہ ‘‘۔ یہ ’’اترن ‘‘ ’’شمع‘‘ کے قارئین کے ذہن پر چڑھ گئی تھی اور وہ سوچتے تھے کاش انھیں بھی ایسی کسی حوصلہ مند خاتون سے سابقہ پڑ جائے۔یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے۔مرحومہ کو اللہ جوارِ  رحمت میں جگہ دے کیسے لطیفے کو انھوں نے کہانی کا روپ دے کر پروانوں سے داد چاہی اور پروانے بھی ایک تبسم پر نثار ہونے کے لیے آمادہ رہتے تھے۔

        مرحومہ کو چونکہ حیدرآباد ی نوابوں کو قریب سے بلکہ بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا، انہوں نے حویلیوں کی زبان بھی سیکھ لی تھی۔بھلے ہی یہ زبان خادمہ یا دھوبن ہی کیوں نہ بولتی ہو۔عموماً نوابی خاندان کی لڑکی کو بھی نوکرانیاں ’’پاشا‘‘ کہہ کر بلاتی تھیں۔ایسی ہی کسی پاشا کے شلوار پر حسبِ معمول ماہواری دھبہ نہیں لگتا ہے تو دھوبن کھسر پسر کرنے لگتی ہے۔خادمہ اس پاشا کی حمایت میں جو جملہ کہتی ہے وہ واجدہ تبسم کی ایک کہانی کا سرنامہ بن جاتا ہے کہ  ’’کون چھنال بولی پاشا پیٹ سے ہیں ؟‘‘

ماہ نامہ ’’شمع‘‘ کے پروانے ایسی ہر کہانی کا چٹخارہ لیتے تھے اور ’’شمع‘‘ ہاتھوں ہاتھ بکتا تھا۔ہائے افسوس، شمع سے اپنی کہانیوں کا پیشگی معاوضہ لے کر ایسی اندرونی باتیں لکھنے والی کہانی کار سے ہم جیتے جی محروم ہو گئے تھے۔ایک تو (اندرونی خلفشار کی وجہ سے) ’’شمع‘‘ بجھ گئی اور شمع کے ساتھ تبسم بھی خاموش! یہ بھی اک معما ہے۔

  مرحومہ نے عورت کی نفسیات بیان کرتے ہوئے ماں اور بیٹی دونوں کی سوچ بڑے سلیقے سے دکھائی ہے۔اپنی کہانی ’’نولکھا ہار ‘‘ کی جوان ماں اپنی نوجوان بیٹی کا رشتہ ایک جوان سے طے کرتی ہے اور اپنے سینے سے پلو ہٹا کر اسے بتاتی ہے کہ جہیز میں اس کا پہنا ہوا یہ نولکھا ہار بھی لڑکی کو دیا جائے گا۔ہونے والا داماد جوان ساس کے ابھرے ہوئے اور آدھے آدھے نمایاں سینے سے کھیلتے ہوئے آخر کار فتح کا جھنڈا بھی ’’زمینِ کفر‘‘ میں نصب کر دیتا ہے۔گویا ماں اپنی ہی بیٹی کو اپنی اترن پیش کرتی ہے۔شادی کے دوسرے دن وہ پھر داماد کے آگے سینے سے پلو ہٹا کر اپنا ہار دکھاتی ہے تو داماد انجان ہو جاتا ہے کہ اس نے رات ہی اسی ساس کی خوب صورت بیٹی کی چمپا کلی سے استفادہ جو کیا تھا۔

        واجدہ نے ایسی کہانی لکھ کر بیٹیوں کو گویا چوکنا کر دیا تھا کہ وہ اپنی ماؤں پر بھی بھروسہ نہ کریں۔کہیں وہی ان کی خوشیوں میں آڑے نہ آ جائیں۔مرحومہ کس قدر دور اندیش تھیں۔اللہ ان کی مغفرت کرے۔

         ’’ہو ر  اُپر‘‘ تو مرحومہ کی وہ کہانی ہے جس کے اوپر وہی دہانوی کی تحریر بھی کم کم ہی جگہ پائے گی۔نواب صاحب گھر سے باہر عیش کیا کرتے ہیں ادھر بی پاشاہ اپنے گنوار نوجوان نوکر سے پاؤں دبواتے ہوئے ہور  اپر۔ہو ر  اپر۔کی منزل سے گزرتے ہوئے آخر کار چوٹی سرکرواہی لیتی ہیں مگر بے چارہ نوجوان ہچکچا تا ہے تو حکم ہوتا ہے کہ اسے روز گھی کے پراٹے ناشتے میں کھلائے جائیں تاکہ اس میں دم خم آ جائے۔بہر حال ایسی دم خم کی کہانی کار سے دنیا خالی ہو گئی ہے۔کہاں تک ان کی کہانیوں کا ذکر کیا جائے۔ان کی تقریباً ہر کہانی مزے دار ہوا کرتی تھی۔ادب میں اس سے اضافہ ہو نہ ہو شمع کے سر کلیشن میں ضرور اضافہ ہوا تھا اور خود مرحومہ نے اپنی دنیا بھی بنا لی تھی ’’شمع‘‘ والوں نے ان کی کتابوں کی انھیں اتنی رائلٹی دی جتنی بے چارے کرشن چندر کو بھی نہ ملی ہو گی۔ کرشن چندر نے ایسی کہانیاں لکھیں بھی تو نہیں۔ لکھنؤ کے ہونی انہونی بک ڈپو والوں نے وہی وہانوی کو بھی اتنی رائلٹی کیا خاک دی ہو گی جتنی اربابِ شمع نے تبسم پر نثار کر دی۔

        سعادت حسن منٹو کا ایشر سنگھ اگر پتہ پھینکنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کے ذہن پر ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ مسلط رہتا ہے جس کی وجہ سے منٹو کو عدالت میں صفائی دینی پڑی تھی یہاں مرحومہ کی گرم گرم کہانیاں گرم کیک ہی کی طرح بکتی رہیں۔ادھر منٹو جوان گھاٹن کی چولی کی گرہ منہ سے کھولتا ہے تو بے چارہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا ادھر خوش دامن خود نیچی تراش کا بلوز پہن کر داماد کو دعوت دست و گریباں دیتی ہے تو بصد تبسم ’’نولکھاہار ‘‘ نصیب ہوتا ہے۔اپنی اپنی قسمت ہے۔منٹو غریب پائی پائی کوترس ترس کر چالیس بیالیس سال کی عمر ’’خالی بوتلیں خالی ڈبے ‘‘ اٹھائے گنجے فرشتوں کے پیچھے پیچھے سرکھجا تا پھرتا تھا۔ زندگی بھر کالی شلواروں کی سلوٹیں گننے والا ان کی نتھ اترائی کا قصہ نہ لکھ سکا ادھر مرحومہ چہرے پر تبسم سجائے ’’نتھ اتروائی ‘‘ کی رائلٹی سے زندگی بھر مگن رہیں۔ادب میں بھلے ہی ان کا کوئی ذکر نہ کرے وہ کشیدہ قامت کھڑی کھڑی اپنے ہی سرکش کبوتروں کے پھڑ پھڑانے سے اپنے انگوٹھے دیکھنے کی کوشش میں ناکام ہی سہی، کامیابی تو ان کے قدم چومتی رہی۔THANKS TO SHAMA

        باقر مہدی بے چارہ کالی غزل کالی نظم کے نام پر کاغذ ات کالے کر کر کے منہ کالا کر گیا مگر مسز تبسم نے اپنا لال قلم گاڑھے خون میں ڈبو کر ماہواری شمع میں جو کچھ نیلا (BLUE) لکھا وہ پروانوں کے دلوں پران مٹ نقش چھوڑ گیا یہ الگ بات کہ نوابی تہذیب کے ایک رخ کو داغ دار بھی کر گیا۔حق مغفرت کرے مرحومہ کے لکھنے کا جو خاص اسلوب (STYLE) تھا انھیں ہر اعتبار سے سرخ روکر گیا۔وہ بڑی تجربہ کار کہانی کار تھیں۔ایسا بھی نہیں کہ مرحومہ نے کوئی ’’سنگِ ملامت‘‘ الٹ پلٹ کر کے نہ چھوڑ اہوا۔SHE LEFT NO STONE UNTURNED۔اللہ انھیں انعام و اکرام اور دیگر ایوارڈ سے سرفراز فرمائے انھوں نے مزید سرخ روئی کی خاطر فلم بھی بنائی تھی۔کہانی تو ظاہر ہے خود انہی کی تھی میوزک ان کے ایک بیٹے کی، ہدایت ان کے اک اور بیٹے کی اور ہیرو بھی ان کا بیٹا تھا۔ (شوہر نامدار ضرور پروڈیوسر رہے ہوں گے) اس طرح پورا ’’جیالا ‘‘ خاندان اس فلم میں جتا ہوا تھا۔ افسوس کہ شمع کی طرح کا کوئی نا شر ؤکے ہونی انہونی بک ڈپو واوسے تبنہ مل سکا اور وہ فلم ڈبے میں بندہی رہ گئی۔مرحومہ بڑے ٹھسے کی خاتون تھیں، ممکن ہے کہ اس میں کوئی رول اگر ساس کا رہا ہو گا تو ضرور انھوں نے ہی نبھایا ہو گا کہ وہ ’’نولکھاہار‘‘ کی قیمت جانتی تھیں اور اسے پہننے کے قابل بھی تھیں۔اس مضمون کی وجہ سے آپ ہماری آوارہ خوانی پر شک بھی کر نے لگے ہوں گے۔مطالعے کا شوق کبھی کبھی ’’شہر ممنوع ‘‘ کے الا بلا سے بھی گزاردیتا ہے۔تجربے کے طور پر ایک آدھ کتاب وہی وہانوی کی بھر نظر سے گزری تھی مگر سر اتنا چکرایا تھا کہ ادھوری کتاب ہی صاحبِ کتاب کو لوٹا دینا پڑا تھا اور پھر کبھی ہمت نہیں ہوئی۔درحقیقت ہم ادب کے طالبِ  علم ہیں اور ادب کی راہ میں ایسی بے ادبی بھی آہی جاتی ہے۔روایت، ترقی پسند، ابہام و اہمال، وجودیت، جدیدیت، مابعدِ  جدیدیت کو ہم پھلانگ چکے ہیں۔آخر میں ہم مرحومہ کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ اے صاحبِ  لوح و قلم انھیں جوارِ رحمت میں جگہ دے کہ ان کی لکھی ہوئی کتابیں طاقِ نسیاں کی زینت ہو گئی ہیں ورنہ ’’صدقۂ جاریہ‘‘ کا کام کرتیں۔اس دور کے پروانے تو ’’یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے ’’کہہ کر ان کی کہانیوں پر گزارا کر لیتے تھے مگر آج کی نسل کے لیے تو وہ کہانیاں از کار رفتہ (OUT OF DATE) ہو گئی ہوتیں کہ اب تو انٹرنیٹ پر جلوہ ہائے زیروزبر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں رہ گئی۔ان کا سیل فون ہی ’’جام جہاں نما‘‘ بنا ہوا ہے کہ اک ذرا گردن جھکالی دیکھ لی۔مرحومہ کے عقیدت مندوں کو چاہیئے کہ وہ مرحومہ کے لیے جلسہ ء تعزیت کا بندوبست ضرور کریں تاکہ ہم وہاں اپنا یہ خراجِ تحسین پیش کرسکیں اور تبسم نوازوں کو چاہیئے کہ اپنے اپنے رسالے میں ان کے گوشے نکالیں جہاں یہ چھپ بھی سکے۔

٭٭٭

 

غازی علم الدین کے لسانی مطالعے

        مقتدرہ قومی زبان پاکستان ہمیشہ تحقیقی کتابیں شائع کیا کرتا ہے جو علمیت سے بھرپور ہوا کرتی ہیں۔پروفیسر غازی علم الدین (علیم نہیں) میر پور آزاد کشمیر کے ماہر لسانیات ہیں۔آپ کی تحریروں سے ’’علمیت ‘‘ بولتی ہے۔حق گوئی و بے باکی کے معاملے میں وہ ہمارے پیش رو ہیں۔ہند و پاک میں اردو کی جو موجودہ صورتِ حال ہے وہ بڑی مایوس کن ہے۔انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنا اعزاز سمجھا جانا لگا ہے۔خود اردو والے اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے۔کم از کم زبانِ  دوم کے طور پر ہی سہی اردو پڑھائی جاتی تو مادری زبان کا حق ادا ہو جاتا ورنہ اردو ان بچوں کو اپنا دودھ نہیں بخشے گی۔صورتِ حال یہ ہے کہ اتر پردیش کے بیشتر علاقوں میں (بہ شمول لکھنو) اردو ’’ بولی‘‘ ہو کر رہ گئی۔نئی نسل اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔عام بول چال میں انگریزی اور ہندی الفاظ کی بھرمار ہوتی ہے۔نئی نسل کی مادری زبان سے دوری افسوس ناک ہے۔جو شخص اپنی مادری زبان اچھی طرح نہیں جانتا وہ دنیا کی کوئی بھی زبان بہتر انداز میں نہیں سیکھ سکتا۔دیگر زبانوں کے محاوروں کا لطف آدمی اسی وقت اٹھا سکتا ہے جب ان محاوروں کے اردو مترادفات سے واقف ہو جیسے SOMETHING FISHY  یا  SMELLING RAT  دال میں کالا کے محاورے کا جاننے والا مذکورہ  IDIOMS  میں بیان کردہ  FISH  اور RATکی حقیقت سے آگہی رکھ سکتا ہے۔

        ناواقفیت کی اس صورتِ حال سے ہٹ کر حقیقتِ حال سے عدم واقفیت بھی لا علمی کے گل کھلاتی ہے۔آدمی لاشعوری طور پر منافقینِ  ادب کی سازش کا شکار ہو جاتا ہے۔

        پروفیسر غازی علم الدین کہتے ہیں :

         ’’شطحیات (کفر یہ الفاظ) کو تصوف سے اور تصوف کو ادب سے کیسے جدا کیا جا سکتا ہے۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ شطحیات نے زبان و ادب پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔لوگوں کے دینی و فکری رجحانات پر کس قدر اثر ڈالا۔زبان و ادب میں دخیل شطحیات پر مبنی (کفریہ) کلمات، الفاظ و تراکیب، اشعار و محاورات لوگوں کے قلب و ذہن و عقائد میں کس طرح (کذا) سرایت کر گئے ‘‘

        جیسے منصور حلاج خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے ’’اناالحق ‘‘ کہتا ہے پھر بھی وہ صوفیہ کا سرخیل اور شعرو ادب میں ہیرو بنا ہوا ہے۔بایزید بسطامی کہتے ہیں ’’سبحانی ما اعظم شانی و انا سلطان السلاطین‘‘ یعنی میں پاک ہوں، میری شان بلند ہے اور میں بادشاہوں کا بادشاہ ہوں ‘‘ اس کے باوجود سب انھیں رحمۃ اللہ علیہ سے یاد کرتے ہیں۔ایسی کئی مثالیں ہیں جو پھیلانے والوں نے سوچ سمجھ کر پھیلائیں مگر عوام نے انھیں غیر شعوری طور پر قبول کر لیا۔

        غازی صاحب نے اردو میں مروج کئی محاوروں کی بھی پول کھول دی ہے جیسے صلواتیں سنانا یعنی گالیاں دنیا طعن و تشنیع، برا بھلا کہنا۔جب کہ یہ لفظ صلوٰۃ (نماز) سے مشتق ہے۔فاتحہ پڑھنا یعنی مردے کو ثواب پہنچانا حالانکہ فاتحہ ام الکتاب ہے جس میں اللہ کی تعریف کے ساتھ ساتھ اپنے لیے صراطِ مستقیم کی ہدایت طلب کرنا ہے۔پروفیسر غازی صاحب شاید بھول گئے کہ لوگ قطع تعلق کرنے کے لیے بھی فاتحہ پڑھ دینے کا محاورہ استعمال کر کے ام الکتاب کی غیر شعوری طور پر توہین کرتے ہیں۔یہی حال آیتوں کے قل ھو اللہ پڑھنے کا ہے  اور  لاحول بھیجنے کا ہے۔کسی کے عشق میں گرفتار ہونے کے لیے ’’اس کا کلمہ پڑھنا ‘‘ کہنا گویا اسلام کی بنیاد ڈھانا ہے۔پروفیسر غازی کے خیال میں لکھنؤی بیگماتی لفظ ’’نوج‘‘ (خدا نخواستہ مبادا) دراصل ( نعوذ باللہ) کی تارید ہے۔اسی طرح الم نشرح کرنا یعنی پول کھولنا گویا ایک سورت کا مذاق اڑانا ہے۔قرآنِ  مجید کے ساتھ اس قسم کا کھلواڑ نام نہاد مسلمانوں ہی کے ذریعے ہوتا رہتا ہے۔جو اپنے ہر بزرگ کو قبلہ کہہ کر کعبۃ اللہ کی توہین کرتے ہیں۔

        پروفیسر غازی کی نظر بعض ہندسوں پر نہیں گئی جن کو برے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے تین تیرہ نو اٹھارہ ہونا۔یہ دراصل جنگ بدر کے تین سو تیرہ جاں نثار صحابہ کی شان میں گستاخی ہے جنھوں نے ایک ہزار سے زیادہ کفار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔یہی حال سات سو چھیاسی کے استعمال کا ہے کہ ایک حسنِ آغاز کو ہندسوں میں ڈھال کر بے برکت بنا دیا گیا ہے۔کسی کام کی شروعات اگر اچھی نہ ہو تو اس کے لیے ’’بسم اللہ ہی غلط‘‘ کہنا گویا قرآنی آیت اور رسول اکرم کی تعلیمات کی ہنسی اڑانا ہے۔

        پروفیسر غازی علم الدین نے عربی الفاظ و محاورات کے بے جا استعمال پر کافی روشنی ڈالی ہے۔یہاں ہم ان کی توجہ ایسے الفاظ کی طرف بھی دلانا چاہتے ہیں جو عوام کالاانعام کے ساتھ ساتھ علمائے سو کی زبانوں پر بھی قرآن و حدیث کے نام پر چڑھے ہوئے ہیں جیسے ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ یہ روایت حدیث کے کسی بھی متداول ذخیرے میں نہیں پائی جاتی یہ تو موضوعاتِ کبیر کا حصہ ہے مگر اکثر لوگوں کی زبان سے حدیثِ قدسی کی طرح بیان ہوتی ہے۔

        چندربھان خیال نامی ایک ارد و شاعر نے سیرتِ  طیبہ منظوم کی تو اپنی کتاب کا نام ہی ’’لولاک ‘‘ رکھا۔علامہ اقبال سے لے کر چندر بھان خیال تک ’’لولاک‘‘ کی گونج ہے یہ دراصل صوفیہ کی اختراع ہے جو سماع میں مزہ دیتی ہے۔اطلاعاً عرض ہے کہ ’’انا مدینۃ العلم و علی بابھا ‘‘ (میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں) یہ فقرہ بھی حدیث کی طرح گردش میں ہے۔جن کو گھڑنا تھا انہوں نے یہ جملہ تو گھڑ دیا مگر علمِ  لدنّی کے فقرا نے اسے غیر شعور ی طور پر پھیلا دیا۔اگر وہ ذرا بھی غور کرتے تو انھیں فقرہ باز کی نیت کا اندازہ ہو جاتا۔یہ سمجھ رہے ہیں کہ علم اسی دروازے سے باہر آتا ہے حالانکہ کہنے والا یہ کہنا چاہتا ہے کہ علم تو اسی دروازے سے اندر بھی گیا تھا یعنی وہی خیال کہ جبرائیل کو پہنچانا کہیں تھا پہنچا کہیں دیا۔ دیکھا آپ نے، اس جملے کی زد نہ صرف جبرائیل علیہ السلام پر پڑتی ہے بلکہ اللہ میاں کی بے بسی بھی (نعوذ باللہ) ظاہر ہوتی ہے کہ ایسے کارندے رکھ چھوڑے جو دروازوں کا صحیح شعور نہیں رکھتے۔مذکورہ بالا فقرہ بھی حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ملے گا۔

        پروفیسر غازی علم الدین نے اردو میں غلط طور پر برتے جانے والے الفاظ کا صحیح املا بھی دکھا دیا ہے جیسے اکثر لوگ ’’انشاء اللہ ‘‘ لکھتے ہیں۔انشاء کے معنے اردو میں عبارت کی خوبی، طرزِ تحریر ہے جب کہ ’’اگر اللہ نے چاہا ‘‘ کہنا ہو  تو ’’اِن شاء اللہ ‘‘ لکھنا ہو گا۔ (ان) کے معنے اگر (شاء اللہ) کے معنے اللہ چاہے۔

        انھوں نے کئی ایسے الفاظ کی نشان دہی بھی کی ہے جو عربی الاصل ہیں مگر اردو میں آ کر کچھ کا کچھ ہو گئے ہیں جیسے اتفاق کے معنے ہیں باہم ملنا، موافقت، مطابقت مگر اردو میں یہ یکا یک اور خلاف توقع کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔احتجاج کے معنے ہیں حجت دلیل پیش کرنا مگر اردو میں مخالفانہ آواز، اعراض، اظہارِ  ناپسندیدگی کے معنوں میں برتا جاتا ہے۔استعفاکے معنے ہیں معافی مانگنا مگر اردو والے ترکِ ملازمت، ترکِ خدمت کے لیے بولتے ہیں۔ایسے کئی الفاظ کا فرق غازی صاحب نے سمجھایا ہے۔آپ نے بعض عربی الفاظ کا صحیح تلفظ بھی دکھایا ہے جیسے استبداد، استخراج، استقبال، استغفار، استصواب، استدلال، استدعا، استغناء وغیرہ میں (ت) پر فتح (زبر) نہیں بلکہ کسرہ (زیر) آئے گا۔ایک عام غلطی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر غازی نے کہا کہ مُبلغ دس روپے کی جگہ مَبلغ دس روپے کہنا چاہیئے مگر ہم نے اکثر قاضی کو بھی مہر کی رقم کے سلسلے میں مبلّغ پچاس ہزار روپے جیسے الفاظ ادا کرتے ہوئے بڑی بے مہری سے مبلغ کے (ل) پر تشدید لگواتے ہوئے بھی سنا ہے۔حالانکہ مبلّغ تبلیغ کرنے والے کو کہتے ہیں۔

        آپ نے صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین وغیرہ کے ناموں کا صحیح املا، تلفظ اور تعارف بھی کرایا ہے۔ابولہب کی لونڈی جس نے رسولِ اکرم کو بچپن میں دودھ بھی پلایا تھا اور جسے حضور اکرم کی پیدائش کی خوش خبری سنانے پر ابولہب نے آزاد کر دیا تھا اور جس نے ایمان قبول کیا تھا اس لونڈی کا نام تھا ثویبہ مگر اکثر لوگ اسے ثوبیہ کہتے ہیں۔

         ابوحنیفہ کے تعارف میں پروفیسر غازی علم الدین نے لکھا :۔

         ’’نعمان بن ثابت (۸۰ھ  تا  ۱۵۰ھ) علم فقہ کے امام، فقہ حنفی کے بانی، لقب امام اعظم، بڑے معاملہ فہم۔ان کا مسلک اول قرآن وسنت تھا، پھر اقوالِ  صحابہ اس کے بعد اجتہاد۔خلیفہ منصور کی قید میں فوت ہوئے ‘‘

        پروفیسر غازی نے لفظ کے آخر میں تائے تانیث  کے اضافے سے معنے بدل جانے کی کئی مثالیں دی ہیں جیسے ارادہ کے معنے عزم قصد، منصوبہ وغیرہ مگر ارادت کے معنے ہیں عقیدت، دلی لگاؤ وغیرہ  جمہوریہ۔وہ ریاست جہاں عوام کی حکومت قائم ہوREPUBLICاور جمہوریت یعنی عوامی نمائندوں کی حکومت Democracy مگر بیشتر الفاظ کے معنے ملتے جلتے ہی ہیں

        پروفیسر صاحب نے الفاظ کو خواہ مخواہ ملا کر لکھنے کا رد کرتے ہوئے ان کی مضحکہ خیزی نمایاں کی ہے۔جیسے کسمپرسی اصل میں کس مپرسی ہے۔ملا کر لکھے ہوئے لفظ کو لوگ  کسم پرسی بھی پڑھ لیا کرتے ہیں جو بے معنے ہو کر رہ جاتا ہے۔ہم نے بھی دیکھا اور سنا کہ کشمیر کے محلے بارہ مولا کو بار ہمولا لکھا اور بولا جاتا ہے۔دل برداشتہ کو دلبر ۔۔داشتہ لکھتے ہوئے محبوبہ کو داشتہ بنا دیا جاتا ہے۔

        پروفیسر غازی نے ریڈیو، ٹی وی وغیرہ پر خبریں سنانے والوں کی خوب خبر لی ہے جو غلط تلفظ سے قیامت ڈھاتے ہیں۔جو ’’ استفادہ حاصل کرنا‘‘ ، ’’ایصال ثواب پہنچانے کے لیے‘‘ ، ’’دونوں فریقین‘‘ اور ’’ درمیان میں ‘‘ استعمال کرتے نہیں شرماتے۔

        مختصر یہ کہ زبان و بیان کی اصلاح کے لیے یہ کتاب بے انتہا مفید ہے۔ہر گھر اور ہر کتب خانے میں اسے ہونا چاہئیے۔پروفیسر غازی نے اردو کو شہید ہونے سے بچانے کے جہاد میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔

٭٭٭

 

پوپ کہانی  !

        کسی بھی صنف سخن کا جواز اس وقت پیدا ہوسکتا ہے جب پہلے سے موجود صنف سخن سے وہ بہر حال الگ ہو جیسے غزل کے بر خلاف آزاد غزل جو ایک ناکام تجربے سے زیادہ وقعت نہیں رکھ سکی۔ پابند نظم کی جگہ آزاد نظم، پھر آزاد نظم میں بھی معرا نظم جس کے مصرعے مساوی تو ہوتے ہیں مگر قافیے سے عاری ہوتے ہیں۔یہ صنف مقبول تو ہوئی حتیٰ کہ مخدوم اپنی آزاد نظمیں بھی دل نشیں ترنم میں سنا کر مشاعرے لوٹتے پھرتے تھے۔پابند نظموں میں سانیٹ چودہ  مصرعوں پر مخصوص ترتیب کا حامل رہا اور تجربے کا حصہ ہو کر رہ گیا۔اسے بہر حال وہ مقبولیت اردو میں نہ مل سکی جو انگریزی میں حاصل تھی۔یہی حال ترائیلے کا ہے۔فرانسیسی صنف سخن ترائیلے آٹھ مصرعوں کی پابند نظم ہے جس کے ابتدائی دو مصرعے  درمیانِ نظم اور آخر میں دہرائے جاتے ہیں۔یہ بھی اک تجربے سے زیادہ وقعت کی حامل نہ رہی۔مثنوی ایک منظوم کہانی ہے جس کا ہر شعر مطلع ہوتا ہے۔مرثیہ دراصل ہر مرنے والے کی تعریف میں کہی جانے والی نظم ہے جو عموماً پابند ہوا کرتی ہے۔جاپانی صنف سخن ہائیکو سات پانچ سات (جملہ سترہ) سلے بلز Sylablesکی پابند ی کے ساتھ اک نئی صنف ہے۔پنجابی صنف ماہیے تین مصرعوں کی ایسی نظم جس کا درمیانی مصرع پہلے اور تیسرے مصرعے کی بہ نسبت اک سبب کم ہوتا ہے یعنی مفعول مفاعیلن، فاع مفاعیلن، مفعول مفاعیلن وغیرہ وغیرہ۔

        اردو نثر میں مضامین، مقالہ جات، ناول، ناولٹ، افسانہ، منی افسانہ، انشائیہ اپنی اپنی خصوصیات کی وجہ سے اپنی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔مختصر کہانی short story کی مزید مختصر صورت کے طور پر افسانچہ یامنی افسانہ اردو ادب میں موجود ہے۔سعادت حسن منٹو نے چھوٹے چھوٹے طنزیہ افسانچے لکھ کر اپنی جدت پسندی کا ثبوت دیا۔ان کے افسانوں ہی کی طرح ان کے افسانچے بھی بھر پور ہوا کرتے ہیں۔ویسے افسانچے کی یہ روایت خلیل جبران کی خلاقی کی مظہر رہی ہے۔مختصر ترین کہانی کی روایت ادب لطیف کی بہترین مثال کے طور پر خلیل جبران سے ہوتی ہوئی سعادت حسن منٹو پھر جوگندر پال تک پہنچی پھر تو یہ سلسلہ چل پڑا۔ماہنامہ ’’شاعر‘‘ نے مئی ۲۰۱۱ء  کا پورا شمارہ اسی صنف کے حوالے کر دیا ہے۔مختصر ترین کہانی یا افسانچے میں ایک اچھے شعر کا ساحسن ہوتو وہ کامیاب ہے۔ورنہ لطیفوں اور اقوال زرین کو افسانچوں کا روپ دینا اس صنف سے مذاق کے مترادف ہے۔

        جہاں تک پوپ کہانی کا تعلق ہے مقصود الٰہی شیخ مدیر ’’مخزن ‘‘ (لندن) نے فرمایا کہ :

 ’’اس کے ذریعے ذرا نازک، سہل اور فوری تاثر پیدا ہوتا ہے۔یہ زندگی کے ہر گوشے کو زیر قلم لانے میں معاون و مددگار ہے۔ہمارے ارد گرد اور ہمارے اندر کی دنیا میں جو گزر رہا ہے اسے لطافت نزاکت اور حساس طریقے پر بے با کی سے ادا کرنے سے ایک پوپ کہانی و جود میں آتی ہے۔‘‘

شیخ صاحب اسے افسانہ یا افسانچہ نہیں سمجھتے لیکن اسی قبیلے کا جوان رعنا یا نئی نویلی قرار دیتے ہیں۔

        یہ تعریف بہر حال ہر صنف سخن پر پوری اترتی ہے جو اپنی شناخت بنانا چاہتی ہے۔اچھا شعر اچھی نظم ہوکہ اچھا افسانہ یا افسانچہ ایسی ہی خوبی سے منفرد ٹھہرتا ہے ورنہ بھیڑ میں کھو جاتا ہے۔

        Pop دراصل Popular کا مخفف ہے۔پاپولر ادب ایک زمانے میں ابن صفی کی جاسوسی کہانیوں یا شاہد اختر، دت بھارتی، عادل رشید، عارف مارہروی، گلشن نندہ، شمع خاتون، اے آر خاتون، رضیہ بٹ وغیرہ کے ناولوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ماہنامہ شمع، بیسویں صدی، روبی، خاتون مشرق وغیرہ اسی قسم کی کہانیاں شائع کیا کرتے تھے۔

        مقصود الٰہی شیخ نے چھوٹی چھوٹی کہانیوں کو پوپ کہانیوں کا نام دے کران میں دراصل مغربی تہذیب کی موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کی ہے۔جہاں ایک بے باک معاشرے میں رشتوں کی شکست و ریخت یا تعلقات کی ناپائیداری یا زندگی گزارنے کی بے دستور کھلی آزاد ی کی باڑھ آئی ہوئی ہے۔جس طرح پوپ میوزک میں، آوازوں کا بے ہنگم شور ہوتا ہے مگر اس پر جسم تھرک اٹھتے ہیں اسی طرح شیخ صاحب نے ایسی ہی نا پائیدار صورت حال کو چھوٹی چھوٹی طنزیہ کہانیوں کا روپ دیا ہے۔انسانی نفسیات مختلف مرحلوں پر مختلف احساسات کی غماز ہوا کرتی ہے جن کا جائزہ بڑا دلچسپ ہوا کرتا ہے۔

        مقصود الٰہی شیخ کی ایک پوپ کہانی ہے، تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ؟ جس میں چار کردار ہیں۔اے، بی، ایکس اور وائی۔ایک پارک میں اے اور بی ایک دوسرے کے پاس بنچ پر بیٹھے ہیں پھر قریب آ جاتے ہیں۔یہاں تک کہ Living inپارٹنر کی طرح رہنے لگتے ہیں۔بی کا پر انا عاشق ایکس اپنی ہیئتِ کذائی سے اسلامسٹ لگتا ہے جس پر بی ہنس پڑتی ہے۔اے انکشاف کرتا ہے کہ اس کا بھی ایک بوائے فرینڈ ہے (وائی) جس نے بڑا گہرا میک اپ کر رکھا ہے۔بی کو اے کے اس بوائے فرینڈ پر کوئی اعتراض نہیں وہ اسے گے Gayسمجھتی ہے۔مگر ایک دن گھر پہنچتی ہے تو اے اور وائی کو بے تکلفی کی حالت میں دیکھ کر بی کو شاک گزرتا ہے۔کہ وائی (ہی) نہیں بلکہ (شی) ہے۔تب وہ اے سے کہتی ہے کہ یہ چیٹنگ Cheatingہے۔تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ؟

مغربی تہذیب کی گراوٹ پیش کرتے ہوئے شیخ صاحب نے جگہ جگہ انگریزی الفاظ برتے جو کہانی کے اعتبار سے ضروری بھی تھے۔مگر ایسی ہی پوپ کہانیوں کی وجہ سے اردو الفاظ مرتے جا رہے ہیں جس طرح دوہا لکھتے ہوئے اردو کا شاعر خواہ مخواہ ہندی کے محاورے اور الفاظ بلا تکلف برتنے پر مجبور ہے۔اسی لیے دوہے کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ اردو کو ہند یا نے کی سازش ہے۔اب ایسی پوپ کہانیاں پڑھتے ہوئے بھی یہی تاثر ابھر تا ہے کہ کہیں یہ اردو کے تابوت میں ایک اور کیل تو ثابت نہ ہوں گی۔مگر مغربی تہذیب کی عکاسی کرتے ہوئے انگریزی الفاظ کا استعمال ناگزیر ہی ہے

        پوپ کہانی ہمارے خیال میں ایک ایسے شعر کی طرح ہو جو سہل ممتنع میں کہا گیا ہو۔سہل ممتنع کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ نثر سے اتنا قریب شعر کہ جس کی مزید نثر ممکن نہ ہو۔ ایسا شعر اردو ادب کا لا زوال سرمایہ شمار ہوتا ہے جیسے۔

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

    جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

        پوپ کہانی ایسی ہونی چاہیے جس کی تلخیص ممکن نہ ہو۔کرشن چند ر کی کہانیوں کی بڑی آسانی سے تلخیص کی جا سکتی ہے اور ان کے ناولوں کو افسانوں میں ڈھال دیا جا سکتا ہے لیکن سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کا ایک جملہ بھی حذف نہیں کیا جا سکتا چہ جائے کہ ان کا افسانچہ۔

        ہمارے خیال میں پوپ کہانی کی دوسری بڑی خوبی اس کی ’’تیزابیت‘‘ ہونی چاہیے۔جامع الفاظ میں بغیر کسی حشو کے موضوع پر ایسی گہرائی سے روشنی ڈالی گئی ہو کہ شدید تاثر ابھر کر آئے جس طرح تیز اب اپنا اثر دکھا تا ہے۔ایک تلگو فلم جس کا مجھے نام یاد نہیں رہ گیا مزاحیہ ادا کار علی کی ملاقات اس لڑکی سے سرِراہے  ہوتی ہے جس سے وہ منسوب ہے۔علی بے تکلفی سے اس کے پرس کا جائزہ لیتا ہے تو اس میں سگریٹ کا پیکٹ نکلتا ہے۔علی پوچھتا ہے یہ کیا ؟  وہ کہتی ہے ’’اے  اپوڈو اپوڈو ‘‘ یعنی کبھی کبھی۔۔۔پھر پرس میں سے شراب کی بوتل نکلتی ہے۔علی کے پوچھنے پر لڑکی پھر وہی جواب دیتی ہے۔اے  اپوڈو  اپوڈو  (یعنی کبھی کبھی) پھر پرس میں سے کنڈوم کا پیکٹ نکلتا ہے تو علی حیرانی سے پوچھتا ہے تو پھر لڑکی وہی جواب دیتی ہے۔ ’’اے  اپوڈو۔اپوڈو ‘‘ علی اس سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔یہ بھی ایک پوپ کہانی کہی جا سکتی ہے۔ایسی کئی کہانیاں ہمارے آس پاس بکھری ہوئی ہیں۔خاص طور پر فلموں اور ناولوں میں ایسی ذیلی کہانیاں بہت متاثر کرتی ہیں جو پوری فلم یا پوری ناول کی جان ہوا کرتی ہیں۔بہر حال اس صنف کو ابھی اچھے لکھنے والوں کی ضرورت ہے۔

        ناچیز رؤف خیر کی چند پوپ کہانیاں پیش ہیں۔

کیرکٹر  ( CHARACTER)

         ’’ہیلو ۔۔  سلّو  ‘‘

         ’’ہائے آشی۔۔۔تم آ گئیں۔ہسبنڈ کو کیا پتا چل گیا ؟‘‘

         ’’ارے سلّو۔۔۔کیا خاک پتا چلتا۔میں ابارشن کر ا کر جو گئی تھی۔‘‘

         ’’یار۔۔۔تم سے مل کر تین چار مہینے ہو گئے۔اب آ جاؤں کیا ؟‘‘

         ’’ابھی نہیں۔۔۔ابھی پاپا گھر پر ہی ہیں۔میں بعد میں فون کروں گی۔ویسے اب میں واپس نہیں جارہی ہوں۔‘‘

         ’’کیا۔۔۔؟ کیا ہوا آشی۔۔۔کیا وہ NILہے کیا ؟‘‘

         ’’ارے ارے ایسا بھی نہیں ہے مگر ان کے کیریکٹر ٹھیک نہیں ہیں۔‘‘

ونڈر فل

         ’’برادر تم بہت ونڈر فل ہو۔

        فادر کے بجائے تم سے پیار کر کے مزہ آ جاتا ہے۔‘‘

         ’’میرے بارے میں ممی کا بھی یہی خیال ہے سسٹر۔‘‘

عجیب قوم

            ’’یہ یہودی عجیب قوم ہے۔ان کے ہاں ائمہ یا اولیا ء اللہ کا تصور ہی نہیں ہے۔‘‘

            ’’کیا ہند و پاک کیا ایران عراق ہر جگہ اپنے امام اور اولیاء اللہ پھیلے ہوئے ہیں۔

              جو مانگو عطا کرتے ہیں۔ایک دو  راتیں ان کے مزارات کی حاضری دلاؤ

              اگر عورت کو بچہ نہ ہو تو تھوک دو۔‘‘

         ’’ہاں ان کے نام پر بچوں کے نام تک رکھے جاتے ہیں۔‘‘

         ’’یہودیوں کے پورے علاقے میں ایک بھی مزار نہیں ملے گا۔یہاں تک کہ ان کے موسیٰ علیہ السلام کا مزار بھی نہیں ہے۔‘‘

  ’’یہ یہودی عجیب قوم ہے۔‘‘

امی کی جگہ۔۔۔

 (پہلا سین)

         ’’کیا بیٹی خیریت ؟‘‘

         ’’ہاں پپا اللہ کا فضل ہے۔شوہر اچھا ہے۔دیور  نندوں کا کوئی جگاڑ ہی نہیں ہے۔البتہ ساس بڑی جلاد ہے۔اسی واسطے اس کا شوہر اسے چھوڑ کر دوسری شادی کر کے       کہیں کسی گاؤں میں جابسا ہے۔گھر میں ساس کو اکیلی رہنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور ہم نئے نویلے جوڑے کا ہنسنا بولنا اسے پسند نہیں آتا۔ہماری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ارے کچھ تو خیال کرنا چاہیئے تھا۔میری امی نہیں ہیں۔ میں تو انھیں امی کی جگہ سمجھتی ہوں ‘‘

         ’’خیر۔بیٹی تم فکر مت کرو۔میں سنبھال لوں گا ‘‘

 (  دوسرا  سین )

         ’’کیا بیٹی خیریت؟‘‘

         ’’الحمدللہ پا پا۔اب ساس مجھ پر بڑی مہربان ہیں۔انھوں نے خود مجھے میکہ جانے کی اجازت دی ہے۔آپ کی بڑی تعریف کر رہی تھیں۔پتہ نہیں آپ نے کیا جادو کر دیا ہے۔‘‘

         ’’کچھ نہیں بیٹی۔انھیں پیار کی ضرور ت ہے۔تم ادھر گھر آ گئی تھیں ادھر میں کچھ تحفے تحائف لے کر ان کے گھر گیا تھا اور انھیں ’’پیار ‘‘ سے سمجھا یا کہ وہ تمہاری امی کی جگہ ہیں۔

        بس مان گئیں۔پیار میں بڑی برکت ہے بیٹی ‘‘۔

                                         (مطبوعہ ماہنامہ ’’شاعر ‘‘ ممبئی، مئی ۲۰۱۱ء)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم  کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید