FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اسلم جمشید پوری کے دیہی افسانے

 

 

               مرتبہ: فرقان سنبھلی


 

 

 

 

انتساب

 

دیہی افسانوں کے

بنیاد گذار

 اور  اردو افسانے کے بابا آدم

منشی پریم چند

کی نذر

کہ جن کے افسانوں نے دیہات کی زندگی

کو بھی افسانے کا موضوع بنایا۔


 

 

 

پیش لفظ

 

جولائی2010میں اسلم جمشیدپوری نے مجھے فون کر کے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں منعقد ہو رہے عالمی اردوفیسٹیول میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور   پہنچ گیا میرٹھ۔ چار روزہ اردوفیسٹیول کے دوران متعدد پروگرام منعقد ہوئے۔ 1985کے بعداردوافسانہ کے تعلق سے سیمینارہوا۔ شام افسانہ کا انعقادہواجس میں ایک افسانہ میں نے بھی پڑھا۔ مشاعرہ کا انعقاد،محفل غزل سرائی اور   ڈرامہ اسٹیج کی گیا۔ اردو فیسٹیول میں شرکت کے لیے اردو کے موقر نقاد،افسانہ نگار اور   شاعر جمع ہوئے تھے۔ ان میں معروف نقادشمس الرحمن فاروقی،معروف افسانہ نگارسیدمحمد اشرف،پیغام آفاقی، شوکت حیات، نورالحسنین، احمد صغیر، مشرف عالم ذوقی،مشتاق صدف، مولابخش،انور پاشا وغیرہ ملک بھرکی علمی شخصیات موجود تھیں۔ ڈاکٹراسلم جمشید پوری سے ان چار دنوں کے دوران ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ بہترین منتظم بھی ہیں یہ اسی دوران پتہ چلا تمام اسٹاف کے ساتھ خود فرداً فرداًسب مہمانان سے رابطہ رکھنا اور   ان کے مسائل کو فوری طور پر حل کرانا۔ سیمینارکے تمام سیشن بر وقت مکمل ہوں اس کی فکرموسم کی خرابی کے باوجود مہمانوں کوکسی طرح کی پریشانی نہ ہونے دینا یہ تمام کام اسلم جمشیدپوری بخوبی نبھا رہے تھے۔ شعبہ کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیاکس محنت اور   جذبۂ خلوص کے ساتھ انھوں نے شعبہ کا قیام عمل میں لایا ہے یقیناً یہ قابل تحسین ہے۔

وقت گذرنے کے ساتھ اسلم جمشیدپوری سے تعلق مضبوط ہوا اور   اکثر فون پربھی گفتگو ہوتی رہتی۔ انھوں نے مجھے اپنے افسانوی مجموعے ’’ لینڈرا‘‘ اور   ’’افق کی مسکراہٹ‘‘ بھیجے۔ اس سے قبل کئی افسانے موقر ادبی رسالوں میں پڑھ چکا تھا۔ ان کا اسلوب اور   افسانوں کا ٹریٹمنٹ اس قدر متاثر کن ہے کہ میں نے دونوں مجموعے کئی مرتبہ پڑھے۔ ہر مرتبہ نئے معنی دریافت ہوئے۔ ان کے کئی افسانے معنی کی تہہ داری کے بہترین نمونے ہیں۔ اسلم جمشیدپوری نے اپنی افسانوی کائنات اپنے اردگرد کے ماحول پر قائم کی ہے۔ ان کے کردار ہمارے اردگرد کے حقیقی کردار ہیں۔ ہم ان کرداروں کو اپنے آس پاس سسکتے اٹھلاتے اور   زندگی کے مسائل کو چیلنج کی طرح لیتے دیکھ سکتے ہیں حالانکہ ان کی باطنی زندگی کوسمجھنے کے لیے ہمیں اسلم جمشیدپوری کے افسانوں کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا پڑے گا۔

اسلم جمشیدپوری نے شہری اور   دیہی زندگی اور   ان کے مسائل دونوں کے تعلق سے افسانے لکھے ہیں۔ ان کے افسانوں کو میں اسی طرح Categorizeکرناپسندکرتاہوں۔ وجہ صاف ہے کہ اسلم جمشیدپوری کے افسانوں میں اس قدر موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے کہ موضوع کی بنیاد پر ان کے افسانوں کی تقسیم مشکل دکھائی دیتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ اسلم جمشیدپوری کے دیہی ماحول کی عکاسی کرنے والے افسانے بے حد پسندہیں۔ انھوں نے دیہات کا عمیق مطالعہ کیا ہے اور   ان کا مشاہدہ بھی اتنا ہی زبردست ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کا خام مواد اپنے مطالعہ و مشاہدہ کی بنیاد پر ہی جمع کیا ہے۔ پھر ان کو مختلف تکنیکوں کے ذریعے افسانوی قالب میں ڈھالا ہے۔ ان افسانوں میں دیہات کے دلکش مناظر، یہاں کی زندگی کے مسائل، مشترک کلچر، کرداروں کی باطنی و خارجی کیفیت اور   متاثر کن اسلوب نے ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کا احساس کرایا ہے۔

دیہات کے افسانوں کے تعلق سے پریم چند کی افسانہ نگاری کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کی کوشش اسلم جمشیدپوری کے افسانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ اسلم جمشیدپوری کسی تحریک یا رجحان کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیتے ہیں۔ ان کے موضوعات حقیقی ماحول کی پیداوار ہیں۔ اس لیے وہ کسی بھی ازم سے دور رہ کر اپنی افسانوی دنیا میں قائم ہیں۔ یہی نہیں اپنے سے بعد کی نسل کو بھی تحریک دے رہے ہیں۔ اسلم جمشیدپوری کے دیہات پر مبنی افسانوں نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں نے طے کیا کہ اسلم جمشیدپوری کے دیہی مسائل پر مبنی افسانوں کا ایک کلیکشن شائع کروں۔ مجھے خوشی ہے کہ میری خواہش کے عین مطابق یہ مجموعہ شائع ہو رہا ہے۔

ایک ہی موضوع کے تعلق سے مجموعہ شائع کرنے میں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ افسانے یک رنگی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ لیکن اسلم جمشیدپوری کے ان افسانوں میں جس طرح کی رنگا رنگی ہے وہ یکسانیت کے رنگ کو غالب نہیں ہونے دیتی۔ مجھے امید ہے کہ مجموعے کے تمام افسانے پڑھنے کے بعد کہیں بھی یک رنگی کا احساس نہیں ہو گا۔ مجموعے کے افسانے دیہات کے کرب کو منفرد انداز میں سامنے لاتے ہیں اور   آج کے گاؤں کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔

ناسپاسی ہو گی اگراس مجموعے کی تیاری میں معاون حضرات کا شکریہ ادانہ کیا جائے۔ اسلم جمشیدپوری کا بے حد شکریہ کہ انھوں نے میری خواہش کے احترام میں اس بات کی اجازت دے دی کہ ان کے افسانوں میں سے دیہی افسانوں کا انتخاب کر کے شائع کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ ان تمام دوستوں،کرم فرماؤں اور   معاونین کا بے حد شکریہ  جنھوں نے کسی طور بھی میری مدد فرمائی۔ اپنے عزیزدوست عبد الرازق کا بھی بے حد ممنون و مشکور ہوں کہ انھوں نے تمام تر مصروفیات کے باوجود کمپوزنگ کا کام نہایت خوش اسلوبی اور   کم وقت میں مکمل کر دیا۔ شریک حیات شمیم فاطمہ اور  پیارے بچوں عاطر اور   عہد اللہ کا بے حد شکریہ جنھوں نے مجھے اس مجموعے کی اشاعت تک کے مرحلے میں اہم تعاون دیا اور   اپنے اس واجب وقت کا مطالبہ نہیں کیا جو کہ ان کا حق تھا۔ شریک حیات شمیم فاطمہ ایڈووکیٹ نے اپنے قیمتی مشوروں کے ذریعے انتخاب کی ترتیب میں آسانیاں پیدا کیں۔ جس کے لیے ان کا بے حد ممنون و مشکور ہوں۔ مجموعے پر قارئین کی رائے کا ہمیشہ کی طرح انتظار رہے گا کہ انہی آراء کے ذریعے مجھے اپنی آئندہ کی ادبی سرگرمیاں طے کرنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔

 شکریہ    

انجنیئر محمد فرقان سنبھلی

 ۱۶ جولائی ۲۰۱۴


 

اردوافسانے کی دیہی روایت

 

               انجینئیر فرقان سنبھلی

 

ہندوستان کی ۸۰فیصدی آبادی گاؤں میں رہتی ہے شایداسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کا دل گاؤں میں بستا ہے۔ گاؤں کے ماحول اور معاشرے کی تصویر ہی بنیادی طورپرہندوستان کی اصل تصویرتسلیم کی جاتی ہے۔ ہندوستان کی دیہی زندگی، یہاں کے مسائل اور تہذیب شہرسے یکسرمختلف ہے۔ دراصل گاؤں کا تصور کھیت کھلیان کے بغیر ادھورا ہے۔ مٹی کو فصلوں کے لیے تیار کرنا، آب پاشی کے لیے بارش کا انتظار کرنا، فصلوں کے پکنے کا انتظار۔ ۔ یہ گاؤں کی زندگی کا اہم حصہ ہیں ۔ اگر وقت پر بارش ہو گئی تو فصل پکنے پر خوشیوں کے گیت سننے کو ملیں اور اگر بارش وقت پرنہ ہوئی تو بھوک اور افلاس کی آہیں گاؤں کوسوناکردیں ۔ گاؤں کے سادہ دل لوگوں کی جذباتی زندگی میں خوشی بلاشبہ اہمیت رکھتی ہے اور غم کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ۔

قدیم گاؤں کے معاشرے میں جاگیردارانہ نظام نافذتھاجس نے گاؤں کی فضا میں ایسے کردار پیدا کیے جن کی وجہ سے سماجی اورنفسیاتی مطالعے کا منفرد مواد فراہم ہوتا ہے۔ ادب چونکہ سماج اور ماحول کا آئینہ دار ہوتا ہے اس لیے ہر دور میں ادب اپنے ماحول اور معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ تمام شعری اور نثری ادب میں شہر کے ساتھ ساتھ گاؤں کی زندگی، یہاں کی فضا اور ماحول کو پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اردوافسانہ اپنے آغازسے اب تک ہندوستان کے ماحول اور معاشرے کابڑاسچاعکاس رہا ہے اردوافسانے میں گاؤں کی فضا، عوامی جذبات ومسائل کے انتہائی واضح اور روشن نقوش بہت ہی نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔

اردوافسانے کاآغازبیسویں صدی کی ابتدا میں ہوا۔ اس وقت سجادحیدریلدرم رومانی رجحان کے قافلہ سالار بن کرا بھرے ان کے ساتھ ساتھ نیاز فتحپوری، سلطان حیدر جوش، مجنوں گورکھپوری وغیرہ افسانہ نگاروں نے رومان کی وادی میں سیرکی لیکن باوجوداس کے اپنے ملک کی فضاؤں اور گاؤں کی زندگی کی عکاسی ان کے یہاں بھی کسی نہ کسی طور موجود ہے۔ سلطان حیدر جوش رومانی تحریک سے وابستہ افسانہ نگار ہیں جنھوں نے بدایوں اور روہیل کھنڈ کے علاقوں خصوصاً دیہات کی پیش کش اپنے افسانوں میں عمدہ پیرائے میں کی ہے۔ ان کے دو مجموعے ’’فسانۂ جوش‘‘ اور ’’فکر جوش‘‘ کے زیادہ افسانے دیہی زندگی کے عکاس ہیں ۔ پریم چند نے دیہی تہذیب اور دیہی مسائل پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ ان کے افسانوں میں گاؤں کی زندگی اپنی تمام تر جزئیات اور اپنے سارے رنگوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ پریم چند کی روش کو اختیار کرنے والوں میں اعظم کریوی، پنڈت سدرشن اور علی عباس حسینی وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔ انھوں نے بھی پریم چند کی طرح گاؤں کی زندگی اور مسائل کوسچائی اور دیانت داری کے ساتھ اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ افسانوی مجموعے ’’انگارے‘‘ کی اشاعت اور اس کی ضبطی نے اردو ادب کو ترقی پسندی کی راہ پر ڈال دیا تھا۔

پریم چند کے عہد کے بعد۱۹۶۰ء تک اردوافسانہ نگاری ترقی پسندتحریک کے زیر اثر ہی رہی۔ اردوافسانہ نگاری پراس ادبی تحریک کے زبردست اثرات مرتب ہوئے۔ اردوافسانہ نگاری کا یہ زریں دورتھاجس دور میں کرشن چندر، منٹو، بیدی، عصمت چغتائی، خواجہ احمدعباس، حیات اللہ انصاری وغیرہ افسانہ نگاروں نے ترقی پسندادبی تحریک کے زیر اثر اعلی ترین ادب کے نمونے پیش کیے۔ ان میں بہت سے افسانے ہندوستانی گاؤں کی زندگی اورمسائل کے عکاس ہیں ۔

۱۹۶۰ء کے بعد جدیدیت کا رجحان پیدا ہوا۔ جس کے زیراثراردوافسانے نے نئی کروٹ لی۔ صنعتی عہد میں انسانی اقدار کی شکست و ریخت اوراس سے پیدا ہونے والی فرد کی داخلی الجھنوں کو علامتی انداز میں پیش کرنا اس عہد کے افسانہ نگاروں کا خاص کارنامہ تھا۔ سریندرپرکاش، بلراج مین را، سلام بن رزاق وغیرہ اس دور کے اہم افسانہ نگار ہیں ۔ یہ افسانہ نگار بھی اپنی تمام تر جدیدیت کے باوجود ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز نہیں رہ سکے۔ اس لیے ان کے افسانوں میں بھی گاؤں کا ماحول در آیا ہے۔ حالانکہ گاؤں کاعکس ان کے یہاں بہت کم ہے۔

انیسویں صدی میں انگریزوں نے ملک پر اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے تھے۔ انگریزاس حقیقت سے بھی کماحقہ واقف ہو چکے تھے کہ ملک کے نظم و ضبط کواستحکام دینے کے لیے چند مخصوص شہروں کو مرکزی حیثیت دینی ہوگی۔ اس لیے کچھ شہروں کو صنعتی ترقی کے مراکز میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس طرح ۸۰فیصدی گاؤں کی آبادی والے ہندوستان کا نظم و ضبط شہرسے ہونے لگا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ملک متعدد معاشی اور ذہنی تبدیلیوں ، سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی تحریکوں سے دو چار ہوا۔ سماجی، سیاسی اور معاشی بیداری، جدید تعلیم کے عام ہونے اور جدید صنعتوں کے قیام کے باعث مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملاجس سے ان میں ملک کے علاوہ دور دراز ممالک کے مسائل اور وہاں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھنے سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ اس طرح زندگی کے نئے مسائل سامنے آنے لگے۔ نئی تحریکیں وجود میں آئیں اور عوام میں بیداری پیدا ہوئی نیز ان کی قوت مشاہدہ میں بھی اضافہ ہوا۔

اردوافسانہ کے اولین دور میں گاؤں کو خاصی اہمیت حاصل ہوئی۔ اردو کے اہم ترین افسانہ نگار پریم چند نے اپنے فن کا اولین نقش گاؤں کے افسانے کی اساس پرہی مرتب کیا۔ ایک طرح سے یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ اردوافسانے میں گاؤں کو پیش کرنے کی صحت مند روایت کا آغاز پریم چندسے ہی ہوا۔ پریم چند نے اردگردسے مواد حاصل کر کے  افسانے لکھے۔ انھوں نے گاؤں کی طرف نگاہ کی اور دیکھا کہ گاؤں تہذیبی ترقی سے کوسوں دور ہیں لیکن ان کا داخلی نظام بے حد مضبوط ہے۔ پریم چند نے عوام اور عوامی زندگی کے مسائل کو خواص کے مسائل پر ترجیح دی۔ محنت کش طبقہ، غریب مزدور کسان اورایسے ہی دبے کچلے کردار ان کے افسانوں میں اپنی تمام تر محرومیوں کے ساتھ موجود ہیں پریم چند نے جاگیرداروں ، صنعتی نظام کی کمزوریوں اوراستحصالی حربوں کو بے نقاب کیا۔

پریم چند نے گاؤں میں آنکھ کھولی اور ان کی تربیت بھی گاؤں کے ماحول میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کاآغازمدرس کے طور پر کیا۔ لیکن وہ جلد ہی اس سے اوب گئے۔ والد کی ملازمت، اپنی نوکری اور پچپن کی زندگی کے دوران انھیں گاؤں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پریم چند کی تخلیقی زندگی کاآغازایسے دور میں ہوا تھا جب کہ پورا بر صغیر ہنگامہ خیز، متحرک اورسیاسی بیداری کے معاملات میں الجھا ہوا تھا۔ سماج جمود توڑ کر نئی کروٹ لے رہا تھا اور انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں ۔

پریم چند کے افسانے ’’راہِ نجات ‘‘کا بُدھو اور جھینگر بر صغیر کے گاؤں کے نمائندہ کردار ہیں ۔ بُدھو چرواہا ہے جو کہ اپنی بھیڑوں پر فخر کرتا ہے اورجھینگرکسان ہے جو کہ اپنے کھیت پر مغرور ہے۔ دونوں کے درمیان ان کے اہم ہونے کی وجہ سے ٹکراؤ ہو جاتا ہے۔ جس میں جھینگر کا کھیت اور بُدھو کے بھیڑ دونوں برباد ہو جاتے ہیں ۔ انتقام کی آگ ان کی پرسکون زندگیوں کو انتشار اور بربادی کے راستے پر ڈال دیتی ہے۔ حالت یہ ہوتی ہے کہ جھینگر کو بیلداری کرنی پڑتی ہے اور بدھو کو مزدوری۔ حالات ان کے درمیان کی انتقامی آگ کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیتے ہیں کیونکہ اب دونوں پچھتاوے کے عمل سے گزر رہے ہیں :

’’تمہاری ایکھ میں آگ میں نے لگائی تھی‘‘

جھینگر مذاق آمیز لہجے میں کہتا ہے ’’میں جانتا ہوں ‘‘ ذرا دیر بعد جھینگر کا ضمیر بھی جاگ اٹھتا ہے وہ داخلی ملامت برداشت نہیں کر پاتا اور گو ہتیا کا الزام اپنے سرلینے کے لیے کہتا ہے۔

’’بچھیا میں نے ہی باندھی تھی اور ہری ہرنے اسے کچھ کھلا دیا تھا‘‘

بدھواسی لہجے میں کہتا ہے ’’جانتا ہوں ‘‘

          (افسانوی مجموعہ فردوس خیال ص۷۲)

اور پھر دونوں سکون کی نیند سوجاتے ہیں کہ دونوں نے اپنے سرکابوجھ اتار دیا تھا۔ ان کا اعتراف گناہ انھیں ’’راہِ نجات ‘‘دلا دیتا ہے۔

پریم چند نے پہلی جنگ آزادی کے اثرات پرافسانے لکھے ان کا افسانہ ’’قربانی‘‘ میں ’’ہرکھو‘‘ کی کایا پلٹ میں جنگ اور معاشی پالیسی کے اثرات نمایاں ہیں ۔ ہرکھو اپنی زراعت اور شکر کی دیہی صنعت کی بنیاد پر اہم شخصیت تھا اس کی صنعت سے گاؤں کے کئی کسان وابستہ تھے جو کہ شکر کی صنعت کی وجہ سے ہی زندہ تھے۔ لیکن اس کی تباہی سے گاؤں کے بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں ۔ دراصل بدیسی شکر کی آمد نے ’’ہرکھو‘‘ کی صنعت کو بہت بڑا نقصان پہنچایا تھا۔ کئی گھروں میں روٹی کے لالے پڑ گئے تھے خود ہرکھو کی تباہی، اس کی موت اوراس کے لڑکے گردھاری کی انتہائی مفلسی کی زندگی دیہی علاقے کے اس خاندان کا مرثیہ ہے جس پر نوحہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں بچا ہے حالت یہ ہے کہ زمیندار بھی حالات کا فائدہ اٹھا کر ہرکھو کی جائداد کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔

پریم چند کے افسانے ’’مشعلِ ہدایت‘‘، ’’بانکا زمیندار‘‘، ’’پوس کی رات ‘‘، ’’بڑے گھرکی بیٹی‘‘، ’’دودھ کی قیمت‘‘، ’’کفن‘‘ اور ’’بیٹی کا دھن‘‘ گاؤں پر لکھے ان کے اہم افسانے ہیں ۔ پریم چند نے گاؤں کی عکاسی میں بڑے کارنامے انجام دیے۔ انھوں نے گاؤں کومستقل موضوع کی حیثیت دی اور گاؤں کو اخلاقی برتری کی علامت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کے افسانوں میں خیر و شر کی آمیزش بے حد نمایاں ہے۔ یہ پریم چند ہی ہیں جن کے افسانوں میں ہندوستانی معاشرہ اپنے تمام ترمسائل اور رویّوں کے ساتھ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

علی عباس حسینی، سدرشن اور اعظم کریوی نے پریم چند کی روش اختیار کی۔ علی عباس حسینی نے شروع میں رومانیت کے اثر کو قبول کیا تھا اور ’’جذب کامل ‘‘، ’’رفیق تنہائی‘‘ میں رومانیت کا اثر غالب بھی ہے لیکن اس کے بعد انھوں نے ’’آئی سی ایس، باسی پھول‘‘ وغیرہ میں بالکل نیا  انداز اپنایا۔ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کرتے ہوئے مزدوروں اورکسانوں کے بنیادی مسائل اپنے افسانوں میں پیش کرنے لگے تھے۔ کہیں کہیں اوسط طبقے کی ذہنی الجھنوں کا بیان بھی افسانوں میں دکھائی دیتا ہے۔

پنڈت سدرشن کے افسانوں میں گاؤں کی سماجی بیداری کے نقوش واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس اعظم کریوی کا گاؤں لاچاری اور مجبوری کامجسمہ نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں محبت اور ملائمت کے عناصر بھی پائے جاتے ہیں ۔ انھوں نے گاؤں کی معصومیت کو مثالی انداز عطا کیا تو غربت اور بے چارگی پربھی آنسوبہائے ہیں ۔ اعظم کے یہاں گاؤں ایک خود کفیل کائنات ہے۔ یہاں کا کردار حالات سے گھبرا کر شہر کا رخ نہیں کرتا بلکہ گاؤں میں ہی رہ کرقسمت آزمائی کرتا ہے۔ افسانہ ’’مایا‘‘ ایک ایسی بیوہ کی کہانی ہے جو کہ ۲۲سال کی عمر میں بیوہ ہو جاتی ہے اور اپنے داخلی احساسات کی بھٹی میں تپ کروہ اپنی بہن کے شوہر کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ اعظم کریوی نے انسانی مجبوری اور بے بضاعتی کو فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔

علی عباس حسینی، سدرشن اور اعظم کریوی وغیرہ کے مقابلے زیادہ طبع ذہن اور جدت پسندتھے اس لیے انھوں نے پریم چند کی راہ کو قبول تو کیا لیکن ساتھ ساتھ اپنے فن کے ذریعے نئی راہ بھی نکالی۔ پریم چند نے نچلے طبقے کو نیکی کا  مظہر جانا تھا لیکن علی عباس حسینی نے گاؤں کے اونچے طبقے کے کرداروں میں خیر کے نقوش تلاش کیے۔ پریم چند کے افسانوں میں جنسی جذبہ کے ابھار پروہ شادی کو بطور ٹول(Tool) کواستعمال کر لیتے ہیں لیکن حسینی کے یہاں جنس زندگی کی حقیقت ہے وہ جنس کی پیشکش بلا روک ٹوک کر جاتے ہیں ۔ ’’میلہ گھومنی‘‘افسانہ میں بنجارن شادی کے بعد بھی جوانی کے بند کو باندھنے میں ناکام رہتی ہے۔ میرؔ صاحب جو کہ گاؤں میں اونچی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ گاؤں کے معاشرتی اخلاق کے محافظ ہیں اور معاشرہ کی ہر کروٹ کو بھی پہچانتے ہیں لیکن وہ بنجارن کے مزاج کو نہیں بدل پاتے اور بنجارن دو خاوندوں کی موت کے بعد ایک نوجوان کے ساتھ میلہ گھومنے چلی جاتی ہے:

’’اب میرے بعد تم کو کون خوش رکھے گا‘‘۔

اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ چنّو کی فاتحہ کے تیسرے دن اس کی خوش نہ ہونے والی بیوہ گاؤں کے ایک نوجوان کے ساتھ کنبھ کا میلہ گھومنے الٰہ آباد چلی گئی ‘‘۔

                            (اردوکلاسک، جلد نمبر۱، ممبئی ص۳۳)

پریم چند کی طرح سدرشن قوم پرست تھے اور ان پر گاندھی جی کے اثرات صاف دکھائی دیتے تھے انھوں نے ہندوؤں کے سماجی مسائل کو زیادہ ہمدردانہ رویے کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی۔ غربت، افلاس اور تنگ دستی ان کے گاؤں کے افسانوں کے اساسی موضوعات ہیں ۔ انھوں نے بیواؤں کی شادی، اچھوتوں سے ہمدردی، دیہات سدھار، چھوٹی عمر کی شادیوں وغیرہ موضوعات پر عمدہ افسانے لکھے ہیں ۔

ابوالفضل صدیقی نے گاؤں کے مختلف مسائل کے ساتھ دیہی زندگی کو بے حد قریب سے دیکھا اور وقیع مشاہدہ کی بناپرافسانے تخلیق کیے۔ ہرچند کہ ان کے افسانے طویل ہوتے ہیں لیکن ان میں گاؤں کی فضا، منظر کشی اور ماحول کے ساتھ تہذیب بھی ابھرکرسامنے آ جاتی ہے۔ ابوالفضل صدیقی فصل کی کاشت، شکار، باغبانی سے لے کر دیہی زندگی کے اندر پنپنے والے جنسی معاملات اور گاؤں کے جاگیردارانہ نظام کے خلاف افسانے لکھتے رہے۔ ان کے یہاں پیٹ کی بھوک کے ساتھ جنسی اور مذہبی بھوک کو بھی اجاگر کیا  گیا ہے۔ باپ، جوالا مکھ، ستاروں کی چال، گلاب خاص، گر رہا ہو جائے، مامتا کا ٹکراؤ، چھلانگ وغیرہ ان کے دیہی پس منظر میں لکھے گئے اہم افسانے ہیں ۔ ابوالفضل صدیقی نے زیادہ تر روہیل کھنڈ کے گاؤں کی زندگی اور یہاں کے مسائل کو موضوع بنایا ہے لیکن ان کی فن کارانہ پیش کش کا کمال یہ ہے کہ یہ اکثرکسی مخصوص علاقہ کی جگہ ملک کے ہر گاؤں کی تصویر پیش کر دیتے ہیں ۔

ترقی پسندافسانہ نگاروں میں اختر اورینوی اچھے مشاہدہ کے ذریعے خارجی اور داخلی قسم کی مصوری کے ماہر تو تھے ہی ساتھ ہی کردارنویسی بھی ان کے فن کا خاصہ ہے۔ اختر اورینوی کے ان افسانوں کو کامیابی ملی جس میں بہار کی دیہی زندگی کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے۔ بہار کے سردوگرم اور طوفانی موسم، قحط، زلزلے اورسیلاب کی تباہ کاریوں سے جوجھتے۔ انسان کی قدرت کے سامنے بے دست و پا، بے بس زندگی اوراس کے جذبات واحساسات کو اختر اورینوی نے فن کارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ بہار کے کسانوں کے بنیادی مسائل کو اختر اورینوی نے بڑے ہی حقیقی روپ میں پیش کیا ہے۔

سہیل عظیم آبادی کا بھی صوبہ بہارسے تعلق ہے۔ وہ ترقی پسندتحریک سے پہلی کانفرنس کے بعدوابستہ ہوئے وہ  میں بھی بہار کی دیہی زندگی کی عکاسی کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ پریم چند کے افسانوں کی مہک ان کے افسانوں میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ سہیل عظیم آبادی کا افسانہ ’’الاؤ‘‘ گاؤں کی سیاسی بیداری کے اردگرد بنا گیا ہے۔ افسانہ میں گاؤں کی استحصالی طاقتوں کے نرغے میں پھنس کر الاؤ کا ایندھن بن جاتا ہے۔ اس افسانے میں پٹواری استحصال کا نمائندہ اور منفی قوت کی علامت بن جاتا ہے۔ گاؤں کے محنت کش کسانوں میں جرأت پیدا ہو رہی تھی وہ اپنی بدحالی کو خوش حالی میں تبدیل کرنے کا خوب دیکھنے لگے تھے۔ پریم چند کے دور میں کاشت کاروں میں جو اتحاد  پیدا نہیں ہوسکا تھا وہ اب سہیل عظیم آبادی کے یہاں پیدا ہو چکا تھا۔ ’’الاؤ‘‘ میں سہیل عظیم آبادی نے کسانوں کی فطری کوتاہیوں کی کھل کر نشان دہی کی ہے۔ روٹی کا ٹکڑا، سرلاکابیاہ، مصنف کی زندگی اور جہیز وغیرہ افسانوں میں بھی سہیل عظیم آبادی غریبوں کے ہمدرد اور بہی خواہ نظر آتے ہیں ۔

کرشن چندر ترقی پسندتحریک کے بڑے افسانہ نگارتسلیم کیے گئے ہیں ۔ وہ پریم چنداسکول کی حقیقت نگاری سے قدر مختلف رجحان کی طرف مائل ہوئے۔ ’’طلسم خیال‘‘سے ’’دسواں پل‘‘ تک مختلف مجموعوں میں کرشن چندر نے کشمیر کے دیہات کی زندگی، یہاں کی بھوک اور غربت کو موضوع بناکرافسانے لکھے۔ کرشن چندر نے مربوط پلاٹ کے افسانے لکھنے پر زور نہیں دیا۔ کرشن چندر نے محبت کے جنسی زاویے کو ابھارا اوراسے بالواسطہ طور پر پیٹ کی بھوک سے جوڑ دیا۔ ان کے افسانوں میں فطرت ایک زبردست اورپراسرارقوت کے روپ میں ابھرتی ہے۔ کرشن چندر نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاؤں کی بعض اقدار کے خلاف آواز بلند کی۔ کرشن چندر کے کردار عموماً سماج کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آہنگی، زندگی کے موڑ پر، پورے چاند کی رات، گرجن کی ایک شام وغیرہ کرشن چندر کے اہم افسانے ہیں ۔

احمد ندیم قاسمی نے پنجاب کے دیہات کوافسانوں کا موضوع بنایا ہے انھوں نے ان دیہی علاقوں کی زندگی، اس کے مسائل کے ساتھ تقسیم کے بعد کے مسائل اور قیام پاکستان کے بعد کے دیہات کی پیش کش سے افسانوی کینوس پر رنگ اُکیرے ہیں ۔ پنجاب کی خوبصورت سرزمین وہاں کی چھوٹی چھوٹی ندیاں اور چراگاہیں اور وہاں پیدا ہونے والے مخصوص قسم کے پیڑ پودے اور جھاڑیوں کا ذکر ان کے افسانوں میں خوب ملتا ہے۔ اس پس منظر میں پنجابی دوشیزہ کاحسن ان کے افسانوں کو دل کشی بخشتا ہے۔ ندیم نے کسانوں کی زندگی کو بھی افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’بگولے‘‘کسانوں کی دنیا کا نئی جہت سے مطالعہ کرتا ہے۔

حیات اللہ انصاری نے اپنے افسانوں میں زندگی کی سفاک حقیقت کو غیر جانب داری کے ساتھ سادگی سے پیش کیا ہے۔ حیات اللہ انصاری کا شاہ کارافسانہ ’’آخری کوشش‘‘ گاؤں کے پس منظر میں پروان چڑھتا ہے۔ حیات اللہ انصاری نے اس افسانے میں گاؤں کاحسّی مطالعہ بڑی باریک بینی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے گھسیٹے اور فقیرے کے کرداروں کے ذریعے محروم انسانوں کی جذبات نگاری حقیقی انداز میں کی ہے۔ حیات اللہ انصاری نے اپنے افسانوں میں سماج کے کچلے ہوئے طبقے کواس کے واجب سیاق و سباق میں حقیقی خدوخال کے ساتھ پیش کیا ہے۔ پریم چند کے ’’کفن‘‘ کی طرح حیات اللہ انصاری کا افسانہ ’’آخری کوشش‘‘ بھی زندگی کے سفاک اور بے رحم مراحل سے گزرتا ہے۔ افسانہ میں گاؤں کی روح جس فنی چابک دستی سے پیش کی گئی ہے اس نے حیات اللہ انصاری کو گاؤں کی عکاسی میں اعلیٰ منصب پر فائز کر دیا ہے۔

راجندرسنگھ بیدی کے افسانوں میں بھی گاؤں کی عکاسی فن کارانہ انداز میں دکھائی دیتی ہے۔ بیدی کے فن میں ’’بھولا‘‘سے لے کر ’’ایک باپ بکاؤ ہے ‘‘تک فنی ارتقاء نظر آتا ہے انھوں نے ان افسانوں میں موضوعاتی طور پر گاؤں سے قصبے اور قصبے سے شہر کی طرف سفرکیا ہے۔ بیدی کے افسانوں میں کسانوں اور محروم انسانوں کا درد صاف طور پر نظر آتا ہے بیدی سماجی نا برابری کو پیش کرتے وقت بھی رومانی پہلو متوازن انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ بیدی  گاؤں اوراس کی معاشرت زندگی کے دو متضاد رویوں کو گرفت میں لیتے محسوس ہوتے ہیں ۔ پہلے کی مثال ’’بھولا‘‘ ہے جو کہ ایک دیہاتی بچے کی کہانی ہے۔ جو کہ دن میں کہانی سننے پر ماموں کے راستہ بھول جانے جیسے مفروضے کوسچ کر دکھاتا ہے۔ بیدی کا امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ زندگی کی ظاہر حقیقتوں کے ساتھ ساتھ اس کی پرت در پرت زیریں صداقتوں کو بھی پیش کرتے ہیں ۔ بیدی بچوں کی نفسیات کے علاوہ عورت کے سماجی، جنسی اور رومانی رویوں کو بھی مہارت کے ساتھ پیش کرنے کے ہنرسے واقف ہیں ۔ بیدی کے دیہاتی افسانوں میں دیہی افراد معصومیت کے غلاف میں لپٹے ہوتے ہیں افسانہ ’’من کی من میں ‘‘دیہاتی معاشرہ کے روشن اور تاریک پہلو جڑواں نظر آتے ہیں ۔ بیدی کے دیہی افسانوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن ان کے افسانوں کی پر خلوص سادگی دیہاتی معاشرہ کی عطا کردہ معلوم ہوتی ہے۔

بلونت سنگھ نے اپنے دیہی افسانوں میں پنجاب کے دیہاتوں کے بدحال کسانوں ، جابر زمین داروں کو پیش کیا ہے۔ زراعت کے صدیوں پرانے طریقے جاگیردارانہ معیشت، جہالت، مفلسی اور ان سے پیدا ہونے والا دباؤ جو کہ انسان کو جرائم کی طرف لے جاتا ہے بلونت سنگھ کے افسانوں میں موجود ہے۔ تین چور، پکا  اور گرنتھی جیسے افسانے انہی موضوعات پر لکھے گئے ہیں ۔

بلونت سنگھ نے پنجاب کے گاؤں کواس کے اصل رنگ میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ دیہات کی عکاسی اس انداز میں کرتے ہیں :

’’دھوپ ہلکی پڑ چکی تھی لیکن گرمی اب بھی کافی تھی۔ سڑک بڑے کھیتوں سے ہو کر جاتی تھی۔ راستے میں سڑک سے ذرا پرے ہٹ کر جا بجا رہٹ چلتے دکھائی دے رہے تھے۔ کنووں کا  صاف و شفاف پانی۔ جھالوں میں گرتا ہوا کس قدر بھلا معلوم ہوتا تھا۔ ان کنوؤں کے گرد قینچی سے کترے ہوئے داڑھیوں والے کسان موٹے سوتی کپڑے کے تہہ بند باندھے بڑے سرورکے عالم میں حقے گڑگڑاتے نظر آئے۔ ‘‘

                                         (افسانہ البیلا)

بلونت سنگھ دیہاتی زندگی کی ان حقیقتوں کے ترجمان ہی جن کی تہذیب ابھی تک پامال نہیں ہوئی۔ ان کے افسانوں کے کردار اپنی قوت بازوپربھروسہ رکھنے والے انسان ہیں ۔

۱۹۶۰ء کے بعد کی افسانہ نگاری کے دیہات کی عکاسی کرنے والوں میں ہرچرن چاولہ کا نام قابل ذکر ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں میاں والی کے وہ دیہات آباد کیے ہیں جہاں سوال کی زبان چاقو اور جواب کی زبان پستول ہے۔ اس گاؤں کے نوجوان کا میکہ گاؤں ہے لیکن سسرال جیل ہے۔ یہاں لڑکا جوان ہوتا ہے تو جب تک قتل اور اغوا کی دو چار وارداتیں نہ کر لیں گاؤں والے اس کی جوانی کوتسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہرچرن چاولہ نے شہر اور دیہات کی خارجی آمیزش کو نمایاں کرنے کے علاوہ دیہات کی داخلی کش مکش کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے اور طبقاتی تضاد کو ابھارنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ انھوں نے جنسی برتری کو دیہاتی قوت کا نمائشی پہلو قرار دیا ہے۔ ’’دوسہ اور آخری قدم سے پہلے ‘‘افسانہ اس کی عمدہ مثال ہے۔

 جدیدافسانے کے دور میں بھی دیہات کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ سریندرپرکاش کا افسانہ ’’بجوکا‘‘ دیہی ماحول کا بہترین عکاس ہے افسانہ میں چوکیدار کی علامت نہایت معنی خیز ہے۔ یہ کردار ایک تلخ حقیقت کو صداقت کے ساتھ پیش کر دیتا ہے۔ یہ افسانہ علامتی انداز میں دیہاتی زندگی کے متعدد زاویے اور بے شمار معنی سمیٹے ہوئے ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اردوافسانے میں گاؤں کی عکاسی میں بالخصوص علامت کا اتنا عمدہ استعمال پہلے نہیں ہوا تھا۔

جوگیندر پال کے افسانوں میں گاؤں کی عکاسی کی بہترین مثال ’’بازدید‘‘ ہے جس میں جوگیندر پال اپنی گم شدہ جنت کی بازیافت کرتے ہیں ۔ یہ گم شدہ جنت ان کا گاؤں ہے ’’بازدید‘‘ گاؤں کی عکاسی کا ایک نیا زاویہ پیش کرتا ہے جو کہ جدیدیت کی طرف جوگیندر پال کے قدم بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

غیاث احمد گدی کا افسانہ ’’رونے کی آواز‘‘ دیہات کی پاک مٹی کے خمیرسے اٹھا ہوا افسانہ ہے۔ انھوں نے گاؤں کی جو فضا قائم کی ہے اس میں تذبذب بھی ہے اور بے یقینی بھی۔ غیاث احمد گدی اپنے افسانے کو خوبصورتی کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں اور قاری پر ایک نیا جہانِ معنی کھلتا جاتا ہے۔

رتن سنگھ کا افسانہ ’’پچھتاوا‘‘ گاؤں کی عکاسی کا بہترین نمونہ ہے رتن سنگھ چھوٹے چھوٹے جملوں ، محدودکینوس میں لا محدود باتیں کہہ دینے کے ہنرسے بخوبی واقف ہیں ۔ ان کے یہاں بڑی تخلیقی صلاحیت ہے اور وہ تجربات کا بھی پورا اعادہ کرتے ہیں ۔

انجم عثمانی نے پریم چند کی روش کو نئے لہجے کے ساتھ اختیار کیا ہے دیہاتی زندگی کی عریاں تصاویر کے منظر ان کے افسانوی مجموعہ ’’شب آشنا‘‘ میں موجود ہیں ۔ گناہ کی واپسی، آخری نوٹ، مکتی اورناسور وغیرہ اسی حقیقت پر مبنی عمدہ افسانے ہیں ۔

 مشرقی یوپی کے افسانہ نگار اشتیاق سعیدنے متعددافسانے لکھے ہیں جن میں دیہی زندگی کی سچی تصویر پیش کی گئی ہے۔ اشتیاق سعیدکے افسانوی مجموعے ’’ہل جوتا‘‘ اور ’’حاضر غائب‘‘ شائع ہو کر بڑے مقبول ہوئے ہیں ان مجموعوں میں شامل افسانوں میں انھوں نے مشرقی یوپی کے دیہات کے مسائل کی بخوبی عکاسی کی ہے۔ بھوجپوری الفاظ ان کے افسانوں کی زبان کی خاصیت ہیں ۔ سوکھا، سیلاب، کسانوں کی مصروفیات، باہمی رشتوں میں انسیت، اخوت اور کش مکش ان کے افسانوں میں جا بجا دکھائی دیتی ہے۔

اشرف جہاں کا تذکرہ کیے بغیر یہ مضمون تشنہ رہے گا۔ اشرف جہاں نے ’’نرملا‘‘افسانے کو آج کے پس منظر میں نہایت فن کارانہ طور پر پیش کیا ہے۔ ’’آج کی نرملا‘‘ حال ہی میں اردو رسالہ ’’شاعر‘‘ میں شائع ہوا ہے اور بین المتونیت کی روایت کا یہ بہترین افسانہ ہے۔ اشرف جہاں نے بھی دیہی روایت سے خود کو مضبوطی کے ساتھ منسلک رکھا ہے ان کے یہاں دیہاتی رشتوں کی تپش خاص موضوعات میں شامل ہے۔

اس سب کے باوجود  اردو کے بہت سے نامورافسانہ نگارایسے ہیں جن کے یہاں دیہات کے مسائل اور دیہی زندگی کے متعلق موضوعات پرمستقل افسانے نہیں ملتے۔ تاہم بعض نے اس کی اہمیت کو پہچانا اوراس موضوع پر کچھ افسانے تخلیق کیے۔ گربچن سنگھ کا افسانہ ’’کنیا دان‘‘، سلام بن رزاق کا افسانہ ’’کام دھنیو‘‘، عشرت ظہیر  کا ’’تیسرالمحہ‘‘وغیرہ افسانے قابل ذکر ہیں ۔ عجب اتفاق کہیے یا  اردو زبان کی کم نصیبی کہ اس کا رشتہ دور جدید میں گاؤں کے ساتھ بڑی حد تک استوارنہیں رہا ہے اردوافسانہ ۱۹۶۰ء تک گاؤں کاجس طرح عکاس تھاویسابعدمیں نہیں رہا۔ جب کہ آج بھی ہندوستان کی زندگی گاؤں سے ہی عبارت سمجھی جاتی ہے۔

٭٭٭ 



 

 

اسلم جمشیدپوری کے افسانوں میں دیہات

 

اسلم جمشیدپوری کا شمار دور حاضر کے کامیاب افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے جن موضوعات پر افسانے لکھے ہیں وہ نہ صرف شہر بلکہ گاؤں کے مسائل کو بہ خوبی متعارف کراتے ہیں۔ اسلم جمشیدپوری نے فنی لوازمات کا لحاظ رکھتے ہوئے افسانے لکھے ہیں جس کی وجہ سے افسانے نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ سماجی، عصری مسائل کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ وہ جس نوع کے افسانہ نگار ہیں اس میں افسانوں کا Categorization تو ممکن نہیں پھر بھی الجھن کو دور کرنے کے لیے موٹے طور پر دو زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک وہ افسانے جو شہر کی زندگی اور  اس کے مسائل پر مبنی ہیں اور  دوسرے وہ جو پریم چند کی روایت کا حصہ ہیں ساتھ ہی دیہی مسائل اور   دیہی زندگی کے عکاس ہیں۔

اسلم جمشیدپوری نے دیہی زندگی کے تعلق سے جوافسانے تخلیق کیے ہیں ان میں سے ’’لینڈرا‘‘،’’عیدگاہ سے واپسی‘‘،’’شبراتی‘‘،’’بدلتا ہے رنگ‘‘،’’دن کے اندھیرے رات کے اجالے ‘‘،’’اندھیرا ابھی زندہ ہے ‘‘،’’نہ بجھنے والا سورج‘‘وغیرہ اہم افسانے ہیں۔ جنھوں نے نہ صرف مقبولیت حاصل کی ہے بلکہ ادب میں بھی گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ ان تمام افسانوں میں گاؤں کی زندگی کے مختلف شیڈ پیش کیے گئے ہیں جس طرح کی حقیقت نگاری ان افسانوں میں دکھائی دیتی ہے وہ ان افسانوں کو پریم چند کی روایت کا حصہ بنا دیتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انھوں نے ان افسانوں میں اکثر انہی تکنیک کو اپنے انداز میں برتا ہے جو کہ پریم چند کا خاصہ ہیں۔ ان افسانوں کا اختتام بھی تقریباً اسی اسٹائل میں ہوتا ہے جیساکہ پریم چند نے اپنے بہت سے افسانوں کا اختتام کیا ہے۔ مثلاً

’’ہائے اللہ ……‘‘

ایک دلدوز و دلخراش چیخ کے ساتھ شبراتن شبراتی کے بے جان جسم سے لپٹ گئی۔ اس کے دونوں بچے بھی روتے ہوئے لاش پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔

گاؤں والوں کی زبانوں پر تالے پڑ گئے تھے۔ ان کے سروں پر مانو منوں بوجھ تھا کہ سب کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں۔ گاؤں سے دکھ نکل گیا تھا۔

شبراتی کے دونوں بچے اپنی ماں کا دامن کھینچ رہے تھے گویا کہہ رہے ہوں، ماں ہمارے گھر میں گھسے دکھ کو کون نکالے گا…؟‘‘

                                    (کہانی محل۔ ص98)

’’لینڈرا‘‘اسلم جمشیدپوری کا نہایت اہم افسانہ ہے جو کہ لینڈرا کے کردار کی ذہنی و فکری کشمکش اور  اس کے نفسیاتی پہلوپراس انداز میں روشنی ڈالتا ہے کہ دیہی زندگی کا مکمل سچ ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ افسانے کا تانا بانا نہایت چابک دستی کے ساتھ بنا گیا ہے۔ کہانی ایک ربط کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور   جزئیات و مفاہیم کی دنیا آباد ہونے لگتی ہے۔ لینڈرا کا کرداراسلم جمشیدپوری کے عمیق مطالعہ و مشاہدہ کی طرف اشارہ کرتا ہے چونکہ لینڈرا کے حقیقی کردارسے اسلم جمشیدپوری کاواسطہ پڑ چکا تھا اس لیے کردار کی پیش کش اور  زیادہ حقیقی بن گئی ہے۔ لینڈرا پر ہونے والے ظلم،اس کے خلاف لینڈرا کا بے نیازانہ عمل اور  پھر اچانک خودی کے جاگنے پرخودکوانسانی جبلت کے عین مطابق پیش کش نے لینڈرا  کو آفاقی کردار بنا دیا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’’کون ہے …؟

آواز کلوا کے ماموں کی شادی شدہ بہن کی تھی۔ جو شادی میں شریک ہونے ایک ہفتے سے آئی ہوئی تھی۔

’’میں …میں …‘‘

’’میں کون…لینڈرا…‘‘

’’ہاں …چلم بھرنے آیوتھو۔ (آیا تھا)‘‘

لینڈرا کہنے پراس کے تن بدن میں آگ لگ گئی گویا چلم کی آگ نے اس کے بدن کے حقّے کوسلگادیاہو۔ نجانے کیوں وہ ایک عورت کے منہ سے لینڈراسن کر جل گیا تھا۔ ‘‘

                                     (کہانی محل۔ ص32)

لینڈرا کے ذریعے اسلم جمشیدپوری نے اس گاؤں کی زندگی کی بہترین عکاسی کی ہے جو کہ دلہن کے ساتھ جہیز میں آئے بچے کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ لینڈرا ایک چڑھ بن جاتی ہے اور  فقیر محمد ’’لینڈرا‘‘ کے نام سے ہی مشہور ہو جاتا ہے۔ مصنف نے ’’لینڈرا‘‘ کے آغاز میں لینڈرا کو بے ضرر اور شریف النفس انسان بنا کر پیش کیا ہے جو کہ موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اور  بے نیازی کے ساتھ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو برداشت کر جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پورے گاؤں کا بے اجرت مزدور بن جاتا ہے۔ گاؤں کی عورتیں اور  نوجوان لڑکیاں بھی اس سے خوب گھلی ملی رہتی تھیں اور  تمام ظاہر اور خفیہ کام بھی کرواتی رہتی تھیں :

’’گاؤں کی عورتیں جن میں بزرگ عورتیں بھی شامل تھیں اور  نوجوان لڑکیاں اور  بہوئیں بھی۔ سب لینڈرا سے ایسے گھلی ملی تھیں جیسے لینڈرا انھیں کی نسل کاہو۔ کسی کو لینڈرا کے مرد ہونے کا یقین نہیں تھا۔ وہ اس کی موجودگی میں اپنی خفیہ باتیں بھی کر لیتیں۔ بغیر دوپٹے اس کے سامنے آ جاتیں۔ لینڈراسے نہانے کا گرم پانی غسل خانے میں رکھوا لیتیں۔ کبھی کبھی ہاتھ پاؤں بھی دبوا لیتیں ‘‘۔

                                     (کہانی محل 30)

لینڈرا کا بے ضرر اور مخلصانہ رویہ دراصل گاؤں کے مرد عورتوں کو بے حس بنا دیتا ہے اور  وہ اس کی نفسی خواہشات کی طرف سے اس قدر لاپروا ہو جاتے ہیں کہ گھر والے اس کی شادی تک کے بارے میں خیال نہیں کرتے۔ سب خودساختہ طور پر مان لیتے ہیں کہ لینڈرا شادی کے لائق ہی نہیں ہے ؟یہی بات لینڈرا کے ذہن میں ٹھہر جاتی ہے۔ پھر جب اس کے بھائی کلوا کی ممیری بہن اس کو ’لینڈرا‘ کہتی ہے تواس کے اندر کا مرد جاگنے لگتا ہے۔ وہ جب اس کی ٹانگیں دبانے لگتا ہے تو پہلی مرتبہ اسے اپنے اندرجنسی تلذذ کا احساس جاگتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جب کلوا اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعداس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو حلالہ کے لیے لینڈرا کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ لینڈرا کا نکاح ہو جاتا ہے اور  اسے حجلۂ عروسی میں رات گذارنے کے لیے بند کر دیا جاتا ہے انسانی فطرت کے عین مطابق اچانک لینڈرا کے اندر دبی نفرت کی چنگاری سلگ اٹھتی ہے وہ اپنے اوپر ہوئے ظلم کو یاد کرتا ہے اور  گاؤں والوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر غور کرتا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کا ذہن بیدار ہوتا ہے۔ اس کے اندر شادی کی پہلی رات کاتجسس،ظلم کے بدلے کی چنگاری، جنسی تلذذ کی خواہش جیسے جذبات ایک ساتھ ابھرتے ہیں۔ انہی جذبات سے مغلوب ہو کر وہ خود کو مرد ثابت کر دیتا ہے۔

’’لینڈرا‘‘افسانے کا پورا ماحول دیہی زندگی کا نمونہ ہے اسلم جمشیدپوری نے اس افسانے میں جزئیات پر خاصا زور دیا ہے۔ انھوں نے گاؤں کی تہذیب اور  فضا کی بڑی حقیقی تصویر کشی کی ہے۔ فقیر محمد عرف لینڈرا کے پیچیدہ کردار میں بڑی جاذبیت ہے۔ وہ جب انتقام بھی لیتا ہے تو قاری اس کے عمل کو ہمدردی کے ساتھ دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ سماج ہی توہے جس نے اس کی طرف سے بے حسانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا اور  اسے توڑنے کی صورت شایداس کے پاس کوئی اور   نہیں تھی۔ افسانے کا پلاٹ مربوط ہے جس کی وجہ سے تجسس کی فضامسلسل برقرار رہتی ہے۔ حالانکہ اختتام بے حد فطری ہے۔ آخری حصے میں لینڈرا کے پھرسے فقیر محمد بن جانے کے احساس اور  ذہنی کشمکش کواسلم جمشیدپوری نے خوبصورت بیانیہ کے ذریعے پیش کیا ہے۔ لینڈرا نے مواقع ملنے کے باوجود بھی گناہ نہیں کیے تھے جس کی وجہ سے اس کے بارے میں غلط فہمی یا یوں کہیں کہ بے حسی کا رویہ عام ہو گیا تھا۔ اختتام پروہ اپنے جائز حق کا استعمال کر کے نہ صرف خود کو مکمل مرد ثابت کر دیتا ہے بلکہ کیا ہوا وعدہ بھی نبھا دیتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’’کتنا اطمینان ہے حرام زادی کے چہرے پر…کیوں ہے یہ اطمینان،صرف اس لیے نا کہ میں لینڈرا ہوں۔ لینڈرا جو شاید مرد نہیں ہوتا۔ گاؤں کی ساری عورتیں مجھے یہی سمجھتی ہیں نا۔ انھیں یہ نہیں پتہ لینڈرا،مرد ہے، لیکن بد کردار نہیں۔ کبھی کسی لڑکی کو نہیں چھیڑا، کسی عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھاتواس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں مرد نہیں … نامرد ہوں۔ سارے گھرکو،پورے گاؤں کو اطمینان ہے۔ سب مجھے نامردسمجھتے ہیں …آؤ،گاؤں والو دیکھ لو…میں نامرد نہیں ہوں۔

رات کے پچھلے پہر لینڈرا کے کمرے سے ابھرنے والی چیخوں اور  کراہوں نے فضا میں ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔ صبح کی نماز کے بعد لینڈرا،نہیں فقیر محمد، جو آج بادشاہ وقت سے کم نہ تھا، نے حسب وعدہ گہنا چکے چاند پر اپنے دروازے ہمیشہ کے لیے مقفل کر دیے۔ ‘‘

                                     (کہانی محل۔ ص38)

’’شبراتی‘‘افسانہ اسلم جمشیدپوری کا دیہی پس منظر میں لکھا گیا ایسا افسانہ ہے جو کہ گاؤں کے سیدھے سادے عوام میں اندھ وشواس اور  ٹونے ٹوٹکے کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کی کوششوں پر چوٹ کرتا ہے۔ ’شبراتی،کا مرکزی کردار شبراتی ہے جو کہ مشترکہ تہذیب کی علامت ہے اور  گاؤں سے دکھ نکلوانے کی خاطر خود کی جان گنوا دیتا ہے۔ افسانہ کا آغاز گاؤں کے لوگوں کی اس فکر کے ساتھ ہوتا ہے کہ ان کے جانورکسی نامعلوم بیماری کی وجہ سے مرتے جا رہے ہیں گاؤں والے اس بیماری سے نجات پانے کے لیے طوفانی رات میں شبراتی کو گاؤں سے باہر دکھ سے بھرے گھڑے کو دفنانے بھیج دیتے ہیں۔ شبراتی گاؤں سے دکھ نکالنے کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اس مشن پر جاتا ہے۔ اس مشن میں اس کے ساتھ بھیجے گئے دوسرے لوگ طوفانی بارش سے گھبرا کر چپ چاپ اسے اکیلا چھوڑ کر گاؤں واپس چلے آتے ہیں لیکن شبراتی کام کو کامیابی کے ساتھ مکمل کر کے واپس لوٹتے وقت ٹیوب ویل کی نالی میں گر کر ڈوب جاتا ہے اور  اس کی موت ہو جاتی ہے۔ افسانے کا اختتام قاری کوسوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ پورے گاؤں کے دکھوں کو ختم کرنے والے کے گھر میں در آئے دکھ کو اب کون نکالے گا۔ شبراتی کی لاش کے پاس شبراتن اور  اس کے دونوں بچے بین کر رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں سوال کرتی ہیں جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اسلم جمشیدپوری نے افسانے کو فنی چابک دستی کے ذریعے نہایت متاثر کن انداز میں پیش کیا ہے۔ ہندو اکثریتی گاؤں میں مسلمان شبراتی کوہی کیوں اس خطرناک کام کے لیے چنا جاتا ہے یہ واضح نہیں ہو پاتا۔ افسانے میں اندھے یقین کی روایت، طوفانی رات کا بیان اور   منظر کشی کو بہترین ڈسکرپشن کہا جا سکتا ہے جو کہ افسانہ کے بیانیہ کوبڑی تقویت دیتا ہے۔ یہ افسانہ آج کے حالات میں بھی بے حدموثرافسانہ ہے جو کہ گاؤں کی زندگی میں پنپنے والے اندھ وشواس کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے۔ افسانے کی زبان میں برج بھاشا کا اثر دکھائی دیتا ہے جو کہ گاؤں دھنورا(بلند شہر)کی عام بول چال سے میل کھاتا ہے۔ افسانے کے مکالمے فطری ہیں جو کہ گاؤں کی زبان میں ہی پیش کیے گئے ہیں۔ مثلاً:

’’رات تاریک تھی۔ چاروں طرف ایک ہو کا عالم تھا۔ آسمان کالے کالے بادلوں سے بھرا تھا۔ کبھی کبھی بجلی کی چمک اور  بادلوں کی گرج ماحول کو پر ہول بنا رہی تھی۔ ملکھان سنگھ کی بیٹھک پر گہماگہمی تھی۔ گاؤں کے نوجوان اور   بوڑھے جمع تھے۔ شبراتی نے سر پر منڈاسہ (پگڑی) اور دھوتی کو لنگوٹ کی صورت پہن رکھا تھا۔ اس کے پورے جسم پر کالی سیاہی ملی ہوئی تھی۔ چہرہ بھی کالک سے پوت دیا گیا تھا۔ دس ہٹے کٹے نوجوان بھی کچھ اسی قسم کا حلیہ بنائے ہوئے تھے۔ ان سب کے ہاتھوں میں لاٹھی اور  بلم تھے۔ تیاری مکمل تھی۔ بس مکھیا کی اجازت دینے کی دیر تھی ‘‘۔

                                     (کہانی محل۔ ص94)

 شبراتن کے کچھ مکالمے ضرور اٹپٹے محسوس ہوتے ہیں جیسے :

’’اے اللہ میرے پتی کوسپھل واپس لائیو‘‘

مسلمان گھروں کی خواتین اس زبان کا استعمال گاؤں میں بھی نہیں کرتی ہیں۔ زبان کے معاملے میں یہ اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ کچھ ادیب ہندی الفاظ کے زیادہ استعمال کو بھی برا نہیں مانتے جب کہ زیادہ ترکی رائے ہے کہ اردو زبان لکھتے وقت صرف اسی حالت میں غیر زبان کا لفظ استعمال کیا جائے جب کہ اس کا متبادل اردو میں موجود نہ ہو۔ لیکن گاؤں کی زبان کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس پر برج اور  کھڑی بولی کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کے سبب ہندی کے الفاظ اور  گؤ، آگو، میروپتی جیسے الفاظ بھی افسانے میں استعمال ہوئے ہیں۔ اسلم جمشیدپوری نے شبراتی کے کردار میں حقیقت کے خوب رنگ بھرے ہیں۔ اس کے کردار کی مضبوطی اسے آئڈیل کردار بنا دیتی ہے جو کہ اپنے کام کے لیے خود کو پوری طرح وقف کر دیتا ہے گاؤں اور  گاؤں کے لوگوں کے لیے اس کی عقیدت دور حاضر کے مشترک تہذیب والے گاؤں کے لیے مثال بن جاتی ہے۔

’’مکھیا جی کی رہنمائی میں ساراگاؤں پنڈت گوپال کے کھیت کی طرف چل پڑا۔ چاروں طرف پانی کی حکومت تھی۔ گوپال کا کھیت بھی پانی سے لبالب تھا۔ شبراتی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اچانک کسی کے زورسے چلانے کی آواز آئی۔

’’شب……شبراتی ……!!

سب اس طرف لپکے۔ جمن کاکاسرکاری نالی پر کھڑے تھے۔ وہاں شبراتی کا بے جان جسم پڑا تھا۔ اس کاجسم پھول کر کافی موٹا ہو چکا تھا۔ جا بجا کالک لگا اس کاجسم بہت ہی ڈراؤنا لگ رہا تھا۔ نالی کے گہرے پانی سے بڑی مشکل سے اس کی لاش کو نکالا گیا۔ لوگوں کی آنکھوں سے زاروقطارآنسوبہہ رہے تھے ‘‘۔

                                    (کہانی محل۔ ص98)

’’عید گاہ سے واپسی‘‘بین المتونیت کی عمدہ مثال ہے۔ پریم چند کے افسانے ’عیدگاہ‘کواسلم جمشیدپوری نے آگے بڑھایا ہے اور  اسے دور حاضر کے حالات میں بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ پریم چند کا ’حامد‘ دادی کی موت کے بعدپڑوس کے باباسکھ دیوکی گود میں پرورش و تربیت پاتا ہے۔ وہ اب 70سال کا بوڑھا ہو چکا ہے اور  تیزی سے بدلتے معاشرے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ وہ تب کے گاؤں اور  اب کے گاؤں کے فرق کو واضح طور پرمحسوس کرتا ہے۔ اسلم جمشیدپوری نے شہری مشترک تہذیب اور  گاؤں کی مشترک تہذیب کے درمیان کے فرق کواس افسانے کے ذریعے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ شہر میں ہندومسلم فسادہوتا ہے اور  اس میں میاں حامد کا بیٹا واحد اپنے ساتھی ہندو مزدوروں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے لیکن جب اس کی لاش گاؤں آتی ہے تو تمام ہندو نہ صرف خودکواس کے قتل کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں بلکہ اس کے دفن کا انتظام بھی خود ہی کرتے ہیں۔ اسلم جمشیدپوری ان واقعات کے ذریعے شہر میں فرقہ وارانہ منافرت اور  گاؤں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فرق کو واضح لکیر کھینچ کرسمجھادیتے ہیں۔ دیگر دیہی پس منظر والی کہانیوں کی طرح اس افسانے میں بھی انھوں نے جزئیات اور  منظر نگاری میں گاؤں کی فضا کو بھر پور انداز میں پیش کیا ہے۔ افسانہ آگے بڑھتا ہے اور  مختلف رنگ بدلنے لگتا ہے گاؤں کی فضا پر شہر کا رنگ چڑھنے لگتا ہے شہر کی طرح گاؤں بھی ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ ساتھ ہی شہر کی طرح کی منافرت گاؤں کی تہذیب کو بھی آلود ہ کر دیتی ہے۔ اب گاؤں میں بزرگوں کی شفقت تو موجود ہے لیکن بچوں کے دلوں میں بڑوں کی عزت ندارد ہے۔ مذہبی منافرت نے نونہالوں کے ذہنوں کو کس طرح گندہ کرنا شروع کر دیا ہے اس کا نمونہ میاں حامد کو تب دیکھنے کو ملتا ہے جب کہ وہ عید گاہ جا رہے ہوتے ہیں اور   راستے میں موٹرسائیکل پرسواربچے ان پر کچھ اس طرح طنز کرتے ہیں :

’’ابے اے کٹوؤ!کہاں جا رہے ہو……؟۔ ‘‘

                                    (کہانی محل۔ ص72)

حامد میاں جب پوتے کے ساتھ نمازسے فارغ ہو کر عید گاہ سے واپس ہوتے ہیں تبھی کانوڑ یاترا پر نکلے ہندوؤں اور  گاؤں کے مسلمانون کے درمیان فسادہو جاتا ہے۔ یہ فسادکئی گاؤں سے ہوتا ہوا ان کے گاؤں بھی پہنچ جاتا ہے میاں حامد اور ان کاپوتاساجدجیسے تیسے دوڑتے ہوئے گاؤں پہنچتے ہیں لیکن ٹھیک اسی طرح موت کا شکار ہو جاتے ہیں جیسے ان کا بیٹا ہوا تھا۔ مرتے وقت میاں حامد کی آنکھوں میں حیرانی تھی کہ یہ گاؤں بھی اب فرقہ وارانہ منافرت کا گڑھ بن گیا جو کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال تھا۔ اقتباس:

’’ساجد کے جسم کو پار کرتی ہوئی گولی میاں حامد کے سینے میں پیوست ہو گئی تھی۔ گولی نے اس طرح معصوم ساجد کا جسم پار کر کے میاں حامد کو زمین کا پیوند بنا دیا تھاجیسے حرملہ کا تیر معصوم علی اصغر کے حلق سے ہوتا ہوا امام حسین کے بازو میں ترازو ہو گیا تھا۔ دونوں زمین پر آ رہے۔ خون کا فوارہ دونوں جسموں سے بلند ہو رہا تھا۔ زمین ساکت تھی۔ آسمان خاموش تھا۔ ہواسانس لینا بھول گئی تھی۔ گاؤں کے باہر دونوں کے خون میں لت پت لاشے پڑے تھے اور   تھوڑی ہی دوری پرساجدکی کار، نازو کی گڑیا، بہوکاسوٹ، دھوتی اور   چھوٹی سی پیتل کی ایک لٹیا پڑی تھی، جو میاں حامدباباسکھ دیو کے گھر والوں کے لیے لائے تھے۔ ‘‘

                                    (کہانی محل۔ ص78)

اسلم جمشیدپوری نے شہروں کے ساتھ تیزی سے گاؤں میں پاؤں پسارتے فرقہ وارانہ منافرت کے حالات کوبڑی بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے افسانے میں گاؤں کی مشترک تہذیب کو بھی پیش کیا ہے اور  وقت کے گذرنے کے ساتھ گاؤں تک پہنچی منافرت کی آگ کو بھی واضح طور پر پیش کیا ہے۔ چند ماہ قبل مظفرنگر میں ہوئے فسادات نے اسلم جمشیدپوری کے اس شبہ کو تقویت دی ہے کہ گاؤں بھی اب نفرت گاہ بنتے جا رہے ہیں۔

’’بدلتا ہے رنگ‘‘افسانہ دہشت گردی کو ٹول کی طرح استعمال کرنے جیسے عصری مسائل کو گاؤں کے پس منظر میں بیان کرتا ہے۔ دہشت گردی کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا استحصال کس طرح اس دور میں کیا جا رہا ہے اس کی بہترین عکاسی اسلم جمشیدپوری نے اس افسانے میں کی ہے۔ ظفرو  جو کہ ایک بہروپیا ہے کھیل تماشے دکھا کر لوگوں کو محظوظ کرتا رہتا ہے کوپولس دہشت گرد بتا  کر گرفتار کر لیتی ہے۔ افسانہ کا آغاز گاؤں میں بارات آنے سے ہوتا ہے جس کوہندومسلم بنا امتیاز اپنے گھرکی شادی کی طرح سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ گاؤں کے بزرگ بابا اسماعیل کو بزرگ ہونے کے ناتے بارات کے استقبال کے لیے بھیجتے ہیں اس سے گاؤں کی مشترک تہذیب کا احساس ہوتا ہے۔ ظفرو بارات میں پہنچ کر گولے داغنے کے بدلے دوسوروپے ٹھگ لیتا ہے۔ اسی طرح ظفرو ہر بارات میں پہنچ جاتا ہے اور  اپنے بہروپ کے ذریعے خوب پیسہ بٹور لیتا ہے۔ لیکن آخر میں وہ ڈاکوؤں کا بہروپ بنا کر میلے میں گبر کا رول نبھا رہا  تھا کہ پولس اسے پاکستانی دہشت گرد بتا  کر گرفتار کر لیتی ہے۔ افسانہ جس رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اس سے قاری بندھ جاتا ہے اور  اس کی دلچسپی برقرار رہتی ہے :

’’کون ہے بھئی مہندرسنگھ …‘‘تم نے کس کی آ گیاسے دھنورہ گاؤں میں گولے داغے ‘‘

اپنی اسٹک گھماتا ہوا وہ چار پائیوں کے ادھر اُدھر غضبناک نظروں سے ایک ایک چہرے کو دیکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ چھوٹے بچوں کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ ان کی گھگھی بندھ گئی تھی……کسی ایک نے مہندرسنگھ کی طرف اشارہ کر کے بتا دیا۔ پولس والا لپکا۔ اسٹک کو چارپائی پر مارتا ہوا دہاڑا۔

’’ہاں بے سمدھی،بتا بارات نے گولے کیوں داغے۔ ‘‘

’’حضور گلطی ہو گئی۔ معاف کر دیو۔ ‘‘سمدھی نے گھبرا کر معافی مانگ لی۔

’’کوئی معافی وافی نہیں۔ جرمانہ بھرو…لاؤدوسوروپے نکالو۔ ‘‘

                                    (کہانی محل۔ ص117)

پلاٹ اختتام پر آ کر کچھ ڈھیلا ڈھالا ہو جاتا ہے۔ اختتام بھی کچھ غیر متوقع نہیں معلوم ہوتا۔ افسانہ جس طرح ختم ہوتا ہے اس سے قاری کوسوچنے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔

’’نہ بجھنے والاسورج‘‘اسلم جمشیدپوری کا ایک اور  ایسا افسانہ ہے جس میں عورت کو بہت بلند کردار بنا  کر پیش کیا گیا ہے۔ بانو جو کہ اپنے شوہر کا  انتظار کر رہی ہے اور  شوہر کے شہید ہونے کے بعد اپنے بیٹے کو بھی فوجی بنانے کا عزم پورا کرتی ہے اس افسانے کی اہم کردار ہے۔ وہ ان پڑھ ہونے کے باوجود تمام امور میں ماہر،بے حدسمجھدار اور ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ حالات سے لڑنے کا قوی حوصلہ رکھتی ہے۔ افسانہ شہید کی عظمت کو تو واضح کرتا ہی ہے ساتھ ہی گاؤں کے مناظر کی بھی دلکش عکاسی کرتا ہے۔ حب الوطنی سے عظیم کوئی جذبہ نہیں ہے اس بات کو تھیم بنا کرافسانہ لکھا گیا ہے۔ تسنیم فاطمہ امروہوی لکھتی ہیں :

’’ملک پر قربان ہونے والے فوجی آخری دم تک دشمنوں کے روبرو مقابلہ کرتے رہتے ہیں کیوں کہ ان کے پیچھے ان کے جذبات کو حب الوطنی سے سرشارکرنے والی عورت کھڑی ہے۔ خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ (ماں،بہن، بیوی یادوست)کسی صورت میں ہو وہ مردوں کے حوصلے بلند کرتی ہیں۔ ان کوInspireکرتی ہیں ان کاMood بناتی ہیں ان کوMotivateکرتی ہیں۔ افسانہ ایک پیغام ہے بلکہ ایک سبق ہے۔ کہ صرف تعلیم کو ذہن میں رکھ انسانوں کے درمیان فاصلہ پیدا نہ کریں۔ اچھائی برائی، سمجھداری اور  ناسمجھی کے معیار کا پیمانہ تعلیم کونہ بنائیں،کیوں کہ ان پڑھ لڑکی بانواس کہانی میں بہت سمجھدارہے اور  ذمہ دار بھی اور  اس پر قابل قدر بات کہ وہ اپنے سبھی کاموں میں ماہر ہے اور  ان کو بخوبی انجام دیتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کسی کو بھی کمتر نہیں سمجھناچاہیے ‘‘۔

(’’اسلم جمشیدپوری بحیثیت افسانہ نگار۔ ایک جائزہ‘‘۔ ص 93)

رشتوں کے درد کو ٹٹولتا اسلم جمشیدپوری کا افسانہ ’’افق کی مسکراہٹ‘‘گاؤں کی زندگی کے ایک مختلف زاویے کی عکاسی کرتا ہے۔ افسانہ میں مصنف نے معاشرہ میں پھیلی برائیوں کی طرف انگشت نمائی کی ہے۔ اس میں اصلاحی پہلو بھی شامل ہیں۔ الفاظ کا نایاب ذخیرہ، مربوط پلاٹ، مکالموں کا بے باک اظہارافسانے کی خصوصیات میں سے ہیں۔ منظر نگاری عمدہ ہے جیساکہ ان کی تمام دیہی افسانوں کی خاصیت ہے۔ افسانہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ زیادہ رونا یا زیادہ ہنسناقابل اعتبار ماحول پیدا نہیں کرتے۔ افسانے کی زبان نہایت عمدہ ہے اور  منظر کشی حقیقی معلوم ہوتی ہے۔ انسانی فطرت کی عکاسی اور  رشتوں کی اہمیت پربھی خاصا زور دیا گیا ہے۔ بظاہر گاؤں کی ایک چھوٹی سی روایت کو دھیان میں رکھ کر یہ افسانہ لکھا گیا ہے۔ جو کہ بہت پہلے تک گاؤں میں رائج تھی۔ ممکن ہے آج بھی کچھ گاؤں کے لوگ اس بات پر یقین کرتے ہوں کہ لال روشنائی سے اگر پتہ لکھا گیا ہے تو خبر غم کی ہی ہو گی۔ اسی تھیم پر یہ افسانہ لکھا گیا ہے جو کہ ایک ایسے رواج کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کہ فرسودہ خیال کیا جاتا ہے۔ تسنیم فاطمہ امروہوی لکھتی ہیں :

’’اہم پیغام اس کہانی کا یہ ہے کہ لال رنگ کی کیا اہمیت ہے۔ کہانی کے آخری جملے سے ثابت ہوتی ہے اور  یہ بھی کہ معاشرے نے اس کوکس طرح کا نشان بنا دیا ہے۔ کہ بغیر ہوئی بات کولے کر لوگ محض اندیشے کی بنا پر کیا کیا الٹا سیدھاسوچنے لگتے ہیں۔ مصنف نے یہاں اداسی کی تصویر کو جذبات کی گہرائی سے پیش کیا ہے۔

’’صورتیں لٹکی ہوئی،آنکھوں میں آنسو۔ ۔ ۔ ۔ وہ ٹھٹھک گیا۔

کہیں بابا کا انتقال…

یہ خیال اس کے دماغ میں بجلی کی طرح کوندا اور  اسے بری طرح لرزا گیا۔ ‘‘

(’’اسلم جمشیدپوری بحیثیت افسانہ نگار۔ ایک جائزہ‘‘۔ ص 48)

اسلم جمشیدپوری کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے افسانوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح طور پرسامنے آتی ہے کہ ان کے افسانے ان کے اپنے گاؤں دھنورا کی زندگی سے ماخوذ ہیں۔ حالانکہ اسلم جمشیدپوری نے ان کواس فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے کہ یہ ہندوستان کے ہر گاؤں کی کہانی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں تنوع ہے اسلوب دلکش ہے زبان عام طور پرسادہ وسلیس ہے لیکن گاؤں دیہات میں بولے جانے والے خاص الفاظ کو بے ہچک پیش کیا گیا ہے۔ ان کے افسانوں میں کردار، منظر نگاری اور  مربوط پلاٹ کے ساتھ فضا اور  ماحول کی عکاسی بھی عمدہ پیرائے میں ملتی ہے۔

’’دن کے اندھیرے،رات کے اجالے ‘‘اسلم جمشیدپوری کا ایک اور  قابل ذکرافسانہ ہے جس میں گاؤں دھنورا کی سیاست،ہندومسلم بھائی چارہ،اپنوں کے درمیان کشیدگی اور  اس کے اثرات کو بیان کیا گیا ہے۔ اسلم جمشیدپوری نے افسانے کاروائی ایک قدیم قبرستان کو بنایا ہے جو کہ اپنی ویرانی پر ماتم کناں ہے۔ قبرستان جو کبھی گاؤں کی مخلوق کے ہر طرح کام آتا تھا شادی بیاہ کے ٹینٹ لگنے سے لے کر فصلوں کو رکھنے اور  جانوروں کے باندھنے تک قبرستان کا استعمال ہوتا تھا وہ اب ایک واقعے کے بعد سے ویران ہوتا چلا گیا۔ راوی کچھ اس طرح کہانی بیان کرتا ہے کہ گاؤں دھنورا جو کہ ہندومسلم اتحاد کی مثال تھا وہاں قبرستان کی چہار دیواری کو بنانے کا خیال ’’بابوجی‘‘کواس لیے آیا کہ فرقہ ورانہ کشیدگی کا ماحول صوبائی سطح پر تیزی سے پنپ رہا تھا اور  قبرستان پر گوجر قبضہ کرسکتے تھے۔ بہرحال جب بابوجی گاؤں کے ہندومسلمانوں کوسمجھا کر  دیوار بنانے کا کام شروع کراتے ہیں تو کچھ مسلمان ہی اس کام میں اڑچن پیدا کر دیتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ قبرستان کی زمین کو ذاتی مصرف میں لیتے رہے تھے اور  اب دیوار بن جانے سے ان کے مفاد کو چوٹ پہنچ رہی تھی اس لیے الیاس اور  عزیزجیسے مسلمان ہی دیوار کی تعمیر کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے :

’’’’یو دوال میری لاش پر بنے گی۔ ‘‘

عزیز بھائی کی آواز پر پورا مجمع چونک کر انھیں دیکھنے لگا تھا۔ وہ غصہ سے آگ ببولا، اپنی دھوتی کو گھٹنے سے اوپر کئے۔ دیوار کی کھدی ہوئی بنیاد میں کھڑے تھے۔ ان کے تیور اور   بزرگی کو دیکھتے ہوئے،بابوجی نے بھیڑ کو روکا، پھر پیچھے گھوم کر دیوار بنا رہے مزدوروں سے بولے۔

’’بھئی کام روک لو۔ ذرا دیر سانس لے لو۔ ‘‘

کام رک گیا تھا۔ سب حیرانی سے بنیاد کی نالی میں کھڑے عزیز بھائی کو دیکھ رہے تھے۔ دراصل دھنورا کے قبرستان کی چہار دیواری کا کام چل رہا تھا۔ زمانے سے قبرستان کی اراضی یوں ہی پڑی تھی۔ ایک کونے میں قبریں بنائی جاتیں، برسوں بعد دوسرے کونے کی باری آتی۔ ‘‘

             (دن کے اندھیرے رات کے اجالے۔ )

بہرحال بابوجی کی حکمت عملی سے دیوار تعمیر کرا دی جاتی ہے لیکن اس دیوار کی تعمیرسے گاؤں کے لوگوں میں دراڑ پڑ جاتی ہے یہ تعمیراس کے لیے زہر کا کام کرتی ہے اور  وہ اسی غم میں انتقال کر جاتا ہے کہ دیوار کی تعمیر نے اس پر ظلم کر دیا ہے۔ اسے قبرستان کی جگہ اس کے کھیت میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ یہیں سے یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ لوگ اپنے مردوں کو اپنی زمینوں میں دفن کرنے لگتے ہیں اور  قبرستان ویران ہوتا چلا جاتا ہے اس طرح قبرستان اتحادسے عداوت تک کی عبرتناک مثال بن کر رہ جاتا ہے۔ وقت گزرتا ہے جس قبرستان کو بچانے کی خاطر بابوجی اپنے مسلم بھائیوں تک سے لڑ گئے تھے اس کی ویرانی کا فائدہ اٹھا کر مرکزی حکومت یہاں پ اور پلانٹ لگانے کا منصوبہ  منظور کر لیتی ہے۔ اس طرح راوی اپنے قصے کو پورا کر دیتا ہے اور  ایک عبرتناک انجام کے ذریعے ایک پیغام بھی چھوڑ جاتا ہے :

’’اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ کوئی میرے آنسو پونچھنے والا بھی نہیں۔

جنازے میرے پاس سے گزر کر کھیتوں والے علاقے کو آباد کرتے ہیں میرے دامن کی قبریں اپنا ظاہری وجود بھی کھو چکی ہیں۔ چار دیواری کی اینٹیں لوگ حسبِ ضرورت اپنے گھروں میں لے جا چکے ہیں۔ میں ایک چٹیل میدان ہو گیا ہوں۔ کبھی کبھار بچے کرکٹ کھیلنے آ جاتے ہیں۔ میری شناخت ختم ہو گئی ہے۔ شاید یہ میرا آخری وقت ہے۔ ہر شئے کو موت آتی ہے۔ لیکن شاید مجھے آسانی سے موت نہیں آئے گی۔ وقت ابھی پورا نہیں ہوا ہے مجھے انتظار ہے، خاندان کے اس وسیع و عریض آنگن والے مکان میں اٹھنے والی دیواروں کی طرح اپنے قریے اور   خطے میں اگنے والی دیواروں کا۔ جب مجھے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے بلند و بالا عمارتوں کی آماجگاہ بنا دیا جائے گا۔ وہ شاید میری داستان کا آخری صفحہ ہو۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مرکزی حکومت کے منصوبے کے مطابق این سی آر میں آس پاس کے علاقے کو شامل کرتے ہی خالی پڑی زمینوں کی قسمت جاگ اٹھی۔ صدیوں سے مردہ پڑی دھنورا قبرستان کی زمین،آس پاس کی زمینوں کے ساتھ ایک بڑے Power Plant کے لئے منتخب کی جا چکی تھی۔ اندھیرے دن کے اجالے میں ضم ہو کر رات کی کوکھ سے نئی روشنی کی شکل میں نمودار ہو رہے تھے۔ ‘‘

                        (دن کے اندھیرے رات کے اجالے۔ )

افسانہ ’’بنتے مٹتے دائرے ‘‘گاؤں کی کہانی ہے اور  بڑے وسیع کینوس پر پھیلی ہوئی ہے۔ افسانے کاآغازاسکول میں مکھیاگری راج کی بیٹی منجو اور ماتادین مہتر کی بیٹی آشا کی لڑائی سے ہوتا ہے۔ اس لڑائی کا انجام یہ ہوتا ہے کہ منجو کی غلطی کے باوجود مکھیا کے خوف سے ماسٹرصاحب آشا کو ہی ڈانٹ دیتے ہیں۔ جس کی شکایت اس کی ماں ماسٹر صاحب سے کرتی ہے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ افسانہ فلیش بیک میں چلا جاتا ہے اور  آشا کی ماں شربتی گزرے زمانے کویاد کرنے لگتی ہے جبکہ اس کے ساتھ بھی مکھیا نے ظلم کیا تھا لیکن تب وہ احتجاج نہیں کر پائی تھی، آج بیٹی کے ساتھ ہوئی زیادتی کو وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔

تب وہ خواب میں خود کو مکھیا بنا دیکھتا ہے اور  موجودہ مکھیاگری راج کو اپنا غلام۔ لیکن حقیقت میں مکھیا کے آدمی اس کے خواب کو چکنا چور کر دیتے ہیں اور  اس کی پٹائی کرتے ہیں کہ وہ کام کرنے کی جگہ سورہا تھا:

’’ ماتا دین نے کمر سیدھی کر نے کو خود کو زمین سے ملا دیا تھا۔ پیڑ کی چھاؤں، ہلکی ہلکی پچھوا ہوا، ویسے تو ہوا گرم تھی لیکن پیڑ کے نیچے آ رام پہنچا رہی تھی، ماتا دین کو نیند آ گئی تھی۔

ماتا دین خواب کی حسین وادیوں میں تھا۔ وہ گاؤں کا مکھیا تھا۔ اس کی بڑی سی بیٹھک پر مجمع لگا ہے۔ گاؤں کے امیر اور   رئیس بیٹھے ہیں۔ گری راج بھی ایک کونے میں بیٹھا ہے۔ ما تا دین نے گری راج کو پکارا۔

’’ گری راج___وہاں کیوں بیٹھا ہے۔ ادھر آ۔ ‘‘

’’ جی سر کار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

گری راج کے پاس آ نے پر ما تا دین نے اپنا دا ہنا پاؤں اس کے کندھے پر ٹکادیا۔

’’ لے داب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 اور  گری راج پاؤں دابنے لگا تھا۔

’’ اور   گری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل سے تم گھر کا کام بھی سنبھال لو۔ میری ما لش کا کام تم خود کرو گے۔ اپنے بیٹوں کو بھی لگا لینا۔ ‘‘

’’ جی حضور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ اور   اپنی لوگائی کو بھی مالکن کی کھدمت کے لئے بھیج دینا۔ ‘‘

گری راج کی گردن ہل ہل کر جی کہہ رہی تھی۔ ‘‘

اچانک ایک زور کی آواز ہو ئی۔ ماتا دین درد سے بلبلا تا ہوا جاگ پڑا تھا۔ مکھیا کے آ دمی ادھر آ گئے تھے اور   ان میں سے ایک نے اس کے بہت زور کی لات ماری تھی۔

’’ کیوں بے حرام خور، کام چھوڑ کے مزے سے سو رہا ہے۔ ‘‘

بے چا رہ درد سے کراہتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ ‘‘

                                     (بنتے مٹتے دائرے )

 فلیش بیک ختم ہوتا ہے تو آشا کی ماں شربتی بھگوان سے شکایت کرتی ہے :

’’ہے بھگوان تو نے ہمیں، اتنا چھوٹا کیوں بنایا۔ ہمیں بھی برہمن بنا دیتا تو تیرا کیا بگڑ جاتا۔ دنیا ہمیں بھنگی کہتی ہے۔ زبردستی کام کرواتی ہے۔ مزدوری بھی پوری نہیں دیتے۔ اوپر سے نفرت کرتے ہیں۔ حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ہے بھگوان کیا ہمارا خون اور   ان کا خون الگ ہے۔ کیا ہماری کا ٹھی اور   ان کی کا ٹھی میں فرق ہے۔ ہے بھگوان میں نے بہت سہہ لیا۔ تونے نیچ ذات میں پیدا کیا، میں کچھ نہیں بو لی۔ تو نے ما تا دین سے بیاہ دیا، جس کے گھر کوئی سکھ نہیں ملا، میں کچھ نہیں بو لی۔ اپنی نظروں سے پتی کو جو توں سے پٹتے دیکھا، میں کچھ نہیں بو لی۔ لیکن آ ج میری بیٹی کو مارا گیا ہے۔ اب حد ہو گئی ہے اب میں بو لوں گی۔ ‘‘

                                     (بنتے مٹتے دائرے۔ )

آشا جوان ہو کر خود کو اتنا مضبوط بنا  لیتی ہے کہ دبے کچلے لوگوں کی مدد کرتی ہے لڑکیوں کو لڑکوں کی نازیبا حرکتوں سے بچاتی ہے۔ شربتی اس کے کارناموں سے خائف ہے وہ نہیں چاہتی کہ آشا بے وجہ دشمنی مول لے اور  اسے کوئی نقصان پہنچے۔ وہ اپنے پرانے دن یاد کرتی ہے کہ کس طرح شادی کے بعد پردھان کے بیٹے کاجبراسے برداشت کرنا پڑا تھا۔ گری راج نے توسیدھے اسے اس کے شوہرسے ہی مانگ لیا تھا اپنی بیوی کی خدمت کرانے کے بہانے۔ تب شربتی میں احتجاج کا دم تھا اور  نہ ہی ماتادین میں۔

آشا گاؤں کے پنڈت لڑکے چندرموہن سے محبت کر بیٹھتی ہے۔ مکھیا ماتادین کواس کے لیے سخت سست سنا تا ہے عشق کے مارے آشا اور  چندرموہن گاؤں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مکھیا کے بیٹے دونوں کو گھیر لیتے ہیں اور  آشا کے ساتھ زنا بالجبر کرتے ہیں ساتھ ہی چندرموہن کی بھی خوب پٹائی کرتے ہیں۔ دباؤ کی وجہ سے پولس کو مکھیا اور   اس کے بیٹوں پر مقدمہ قائم کرنا پڑتا ہے اور  ملزمان گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ آشا شہر پہنچ جاتی ہے اور  تعلیم حاصل کر کے گاؤں کی پردھان بن جاتی ہے دراصل اس درمیان مقدمہ لڑتے لڑتے مکھیا کمزور پڑ جاتا ہے اور  گاؤں کی ایس سی /ایس ٹی کے لیے رزروسیٹ پر آشا کامیاب ہو جاتی ہے۔ چندرموہن بھی اعلی تعلیم حاصل کر کے گاؤں واپس آتا ہے اور  آشا سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن یہاں پھر ایک بار برادری واد ان کی راہ میں اڑچن پیدا کر دیتا ہے اور  سیاست کی خاطر آشا چندر موہن سے شادی سے انکار کر دیتی ہے۔

برادری کے دباؤ میں آشا کا اپنی محبت سے دستبردارہو جانا آج کے سماجی حالات اور  برادری کی نئی سوچ کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں ذاتی مفاد اب اوپر ہو جاتے ہیں اور   عشق کہیں گڈھے میں دفن ہو جاتا ہے ظاہرہے مادیت پسندآج کی دنیا میں یہ فطری اختتام ہے جوافسانہ کو منطقی انجام تک پہنچا دیتا ہے۔

اسلم جمشیدپوری کا تازہ افسانہ ’’ایک ادھوری کہانی‘‘داستانی انداز کا افسانہ ہے جس میں دنیا کی بے ثباتی کو مرکزی موضوع بنایا گیا ہے۔ دنیا میں آنے والے انسان خواہ یہ تصور کرتے ہوں کہ ان کے بغیر دنیا پھیکی ہو جائے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے کاروبار یوں ہی چلتے رہتے ہیں۔ افسانہ میں دادی شادمانی بیگم اپنے پوتے پوتی اور  نواسے نواسیوں کو شہزادے اور  شہزادی کی کہانی سناتی ہیں۔ قصہ گو شادمانی بیگم بتاتی ہیں کہ شہزادہ جو بے حد وجیہہ مرد ہے آئی اے ایس امتحان میں کامیاب ہونے کے باوجود گھر کے حالات کی وجہ سے نوکری جوائن نہیں کرتا اور  گھریلو کاروبار کو بھی فروغ دیتا ہے۔ اس کے پاس دولت اور  شہرت کی کمی نہیں ہے وہ تیندؤے سے بھی لڑسکتا ہے اور  بزنس کو بھی سنبھال سکتا ہے ایسے میں وہ داستانی کردارجیسالگنے لگتا ہے۔ اس کی شہرت آس پاس کے گاؤں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اب دادی بچوں کو شہزادی کی کہانی سناتی ہیں جو کہ بے انتہاحسین ہے اس کی شادی شہزادے سے طے ہو جاتی ہے اور  یہ شادی مثالی ثابت ہوتی ہے۔ بارات کے آنے جانے اور  تمام رسوم کی ادائیگی کواسلم جمشیدپوری نے اس خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ لگتا ہے پردے پر فلم دیکھ رہے ہوں۔ جزئیات پر خاصا زور دیا گیا ہے یہاں تک کہ بارات کے کھانے اور  رسومات کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔ بہرحال یہ شادی بہت کامیاب رہتی ہے افسانے میں نیا موڑ تب آتا ہے جبکہ اچانک شہزاد ے کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو جاتا ہے اور  اس کا بیان اس قدرسوزناک ہے کہ دادی کہانی سناتے سناتے خود بے حد غم گین ہو جاتی ہیں اور  بچے بھی رو اٹھتے ہیں۔ دادی کی حالت اچانک بگڑتی ہے اور  وہ انتقال کر جاتی ہیں۔ تب قصہ گو تبدیل ہو جاتا ہے۔ لمبا وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا اور  شادمانی بیگم کی پوتی سمیہ جو کہ اب خود دادی بن چکی ہے ادھوری کہانی کو پورا کرتی ہے اس طرح کہانی سنانے کا یہ سلسلہ سمیہ نے شروع کر دیا ہے۔ افسانہ داستانی طرز کا ہے اور  اس میں عصری حالات کو بھی جگہ جگہ استعمال کیا گیا ہے مثلامظفرنگرفسادات اور  کانوڑ نکلنے اور   رمضان کے ساتھ پڑنے کی وجہ سے فسادات ہونے کا خوف وغیرہ۔ افسانہ میں جو کہانی بیان کی گئی ہے وہ پہلے سے جاری ہے اور  بعد میں بھی جاری رہتی ہے۔ اس طرح اسلم جمشید پوری نے قدیم و جدید دور کے درمیان کی کڑی کو مرکزی موضوع کی حیثیت سے برتا ہے۔ اختتام بھی بے حد فطری ہے :

’’سچی کہانی ہے یہ بچو !شادمانی بیگم کو ہم نے دیکھا تھا۔ ہم نے ان کے منہ سے کہانیاں سنی تھیں۔ لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہماری دادی شادمانی بیگم ہی دراصل شہزادی تھیں۔ وہ اپنی اصل کہانی سنا رہی تھیں اور   ہم شہزادے،شہزادی کی کہانی میں گم تھے۔ ‘‘

سمیہ تھوڑی دیر کو رکی تو اس کے نواسے، نواسیاں، پوتے، پوتیاں ایک ساتھ بول پڑے۔

’’پھر کیا ہوا۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘

’’پھر یہ ہوا کہ شہزادے کے انتقال کا واقعہ سناتے سناتے شہزادی بھی اپنے شہزادے کے پاس چلی گئی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’بچو چلو۔ سو جاؤ۔ آج کہانی یہیں ختم،باقی کہانی کل پوری کروں گی ‘‘

                                     (ایک ادھوری کہانی)

اسلم جمشید پوری کے افسانے موضوعات،تکنیک، وحدت تاثر، اسلوب اور  فکر و فن کے لحاظ سے انفرادی اہمیت کے حامل ہیں اور  یہ افسانے پریم چند کی روایت کے سچے امین ہیں۔ اسلم جمشید پوری نے اپنی کہانیوں کے لیے افسانوں کا خمیر برصغیر کی تہذیبی اور  معاشرتی زندگی سے اٹھایا ہے۔ انھوں نے اپنے وسیع مطالعہ و مشاہدہ کے ذریعے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھانے کی سعی کی ہے۔ ان افسانوں میں طبقاتی اور  معاشرتی وغیرہ تضادات کے افسانے پر قاری چونک اٹھتا ہے۔ معاشی، معاشرتی اور  طبقاتی تضادات سے لے کر اشخاص کی نفسیات، رویوں، رجحانات،جذبوں اور   احساسات کا ان کے افسانوں میں بے لاگ تبصرہ و تذکرہ موجود ہے۔ اسلم جمشید پوری کے افسانے ان سے پہلے کے افسانہ نگاروں اور   نئی نسل کے افسانہ نگاروں کے درمیان ربط پیدا کرنے کا انفرادی ذریعہ ہیں۔ وہ پرانے افسانہ نگاروں کے ذہنی اور  تخلیقی رویوں کے ارتقاء میں تعاون کرتے ہیں اور  نئی نسل کے افسانہ نگاروں کو دعوت غور و فکر دیتے ہیں۔

٭٭٭


 

 

شبراتی

 

بیلوں کو آنگن میں نیم کے نیچے باندھ کر اس نے ہل اسارے کے نیچے کھڑا کر دیا۔ سیدھا کھڑا ہو تے ہوئے کمر کو سیدھا کیا۔ ہا تھ میں پانی کا خالی گھڑا لیے وہ اندر پہنچا۔ شبراتن کو دیکھ کر بو لا۔

’’ اری شبراتن آج کچھ جادہ ہی تھک گیا ہوں۔ جوڑ جوڑ دکھ رو(رہا) ہے اوپر والو(وا لا) کھیت دو بار جو تو(جو تا) ہے۔ جرا(ذرا) ایک گلاس گرم گرم دودھ پلا اور   ہاں دودھ میں میٹھا مت ڈالیو۔ بس گڑ کا ایک ٹکڑا لی آئیو۔ ‘‘

شبراتن نے دودھ کا گلاس بھرا، گڑ کے بھیلا سے تھوڑا گڑ پھو ڑ کر شبراتی کے پاس آئی۔ ایک ہا تھ میں دودھ بھرا گلاس اور   ایک میں گڑ دیتے ہوئے وہ شبراتی سے بو لی۔

’’سنتے ہو! نائی آیو تھو(آیا تھا) بلا وہ دے گو ہے ( بلا وہ دے گیا ہے )۔ چار بجے سانجھ کو اسکول میں پنچایت ہے۔ تمہیں بھیجنے کو کہہ گیو(گیا) ہے اور   ہاں تم نے سنو( سنا) کلوا کی نئی بھینس مر گئی ہے۔ ‘‘

شبراتی ایک گھونٹ دودھ کا بھرتا اور   پھر تھوڑا سا گڑ کاٹ کر کھا تا۔ پورا دودھ پینے کے بعد اس نے کہا۔

’’ہاں شبراتن۔ بے چارے کلوا کی بھینس مر گئی۔ موئے بڑو( بڑا) دکھ ہے۔ اس گریب نے ابھی جمے کی پینٹھ سے تو لی تھی‘‘

زور سے ڈکارتے ہوئے وہ اٹھا اور   نل کے پاس جا کر ہاتھ پاؤں دھوئے۔ با ہر بیٹھک میں رکھے حقے کی چلم اٹھا ئی۔ اس کی راکھ کو کوڑے پر گرایا۔ نئے تمباکو کا ایک گولا بنایا اور   اسے چلم کے ٹھیک بیچوں بیچ سجا تے ہوئے رکھا اور   اس کے اوپر ایک ٹوٹا ہوا کھٹا(کھپریل کا ٹکڑا)رکھا اور   آگ لینے کے لیے گھر گیا۔

’’ شبراتن، آگ ہے گی۔ ؟‘‘

’’ ہاں دیکھے تو ہے۔ پر تھوڑی سی ہوئے گی۔ لاؤ میں رکھ دوں۔ ‘‘

تھوڑی دیر بعد وہ بیٹھک کے باہر نیم کے نیچے چار پا ئی پر لیٹ کر حقہ کی نے منھ میں دبائے لمبے لمبے کش لینے لگا۔ مو سم گرم تھا۔ لیکن با ہر نیم کے نیچے اسے کچھ راحت ملی۔ حقہ پیتے پیتے وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

****

 

گاؤں کے اسکول میں لوگ جمع تھے۔ جمن کاکا،شری گر چاچا، کنور پال، مہا بیر، مہندر ٹھا کر،پنڈت گوپال، شبراتی، مکھیا ملکھان سنگھ اور   بہت سے لوگ۔ روز بروز کی بڑھتی ہوئی جانوروں کی بیماریوں سے تنگ آ کر گاؤں کے مکھیا ملکھان، پنڈت گوپال اور   مہندر ٹھاکر جیسے بڑے لو گوں نے ایک ہنگامی پنچایت بلوا ئی تھی۔

مکھیا ملکھان سنگھ نے کھڑے ہو کر کہا۔

’’ بھا ئیو۔ آپ کو تو پتوی(پتہ) ہے کہ آج گاؤں کے جانوروں میں بیماری گھسی ہو ئی ہے۔ جا نور مرتے جا رہے ہیں، ہمیں اس سمسیا کو(کا) سما دھان کرنو (کرنا) ہے۔ ‘‘

’’ ہاں ملکھان چاچا ای بہت جروری ہے۔ کل بے چارے کلوا کی نئی بھینس مر گئی۔ ‘‘

ملکھان سنگھ کی بات کے بیچ ہی مہا بیر بول پڑا۔

’’ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ مکھیا جی۔ ۔ ۔ ۔ ہماری گائیں بھینس تو بالکل سوکھ گئی ہیں۔ دودھ جیسے تھنوں میں سوکھ گیو( گیا) ہے۔ کچھ اپائے کرو مکھیا جی‘‘ کنور پال کی بات سب نے سنی۔

’’ ہاں،ہاں۔ ۔ ۔ ۔ کچھ ہو نو ( ہونا) چیے ( چا ہیے )‘‘

بہت سی آوازیں ایک سا تھ بلند ہوئیں۔ پنڈت گوپال نے حقے کا ایک لمبا کش لے کر دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔

’’ گاؤں میں دکھ گھس گیا ہے۔ ہمیں ہر سمبھو یا سو( اس سے ) چھٹکا رو چیے (چھٹکارا چا ہیے )‘‘

جمن کاکا جو بڑے دھیان سے سن رہے تھے بو لے۔

’’ہاں ! پنڈت جی،ہمیں دکھ نکلوا نو( نکلوانا)ہے۔ آپ کو ئی بڑھیو سو( اچھا سا) دن رکھ دیں ‘‘

پنڈت گوپال نے اپنی پو تھی کھو لی۔ لوگ آ پس میں باتیں کر نے لگے۔ تھوڑی دیر بعد پنڈت جی کی آواز بلند ہو ئی۔

’’پردھان جی۔ آج بدھوار ہے۔ ایسا کرتے ہیں روی وار کو رکھتے ہیں۔ روی وار کی رات شبھ رہے گی۔ ‘‘

ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘

ایک ساتھ کئی آوازوں کا شور بلند ہوا۔ مکھیا جی اور   ٹھا کر مہندر نے کچھ مشورہ کیا اور   پھر مکھیا جی کی آواز گونجی۔ خاموشی پھر چھا گئی۔

’’ بھائیو! روی وار کی رات دکھ نکلوا یا جائے گا۔ آپ سب تیار رہیو اور   ہاں اس بار آگ کا کروا( مٹی کا گھڑا نما برتن) شبراتی سنبھا لے گو ( گا) کیا شبراتی یا کو( اس کے لیے ) تیار ہے ؟‘‘

مکھیا جی کے سوال پر پوری پنچایت میں موت کی سی خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر ایسا محسوس ہو تا رہا گو یا کسی جا دو گر نے گاؤں کے سبھی لوگو ں کو مٹی کا بنا دیا ہو۔ ایک کو نے میں بیٹھے شبراتی نے بیڑی کا ایک لمبا کش لیا اور   بیڑی کو زمین پر رگڑ کر بجھایا، بچی ہو ئی بیڑی کو کان کے اوپر لگا تے ہوئے کھڑا ہوا اور   انکساری سے بولا۔

’’ مکھیا جی۔ یو میرو( یہ میرا) سو بھاگیہ ہے جو موئے یا ( مجھے اس ) کام کو (کے لیے ) چنو گیو( چنا گیا)۔ اللہ نے چا ہو تو میں اچھی طرح اپنو کام نبھاؤں گو( گا)۔ ‘‘ اتنا کہہ کر شبراتی خاموش ہو گیا۔ مکھیا جی نے ایک بار پھر بہ آواز بلند پورا پرو گرام سنایا اور   پھر پنچایت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

****

 

دھنورا، اتر پردیش کے ضلع بلند شہر کا ایک چھوٹا سا گاؤ ں تھا جہاں کسانوں اور   مزدوروں کی آ با دی رہا کرتی تھی۔ گاؤں میں مختلف مذاہب اور   برا دریوں کے لوگ صدیوں سے سا تھ ساتھ رہتے آ رہے تھے۔ گاؤں کا انحصار کھیتی پر تھا اور   کھیتی کے لیے کسانوں کی امیدیں صرف آسمان کے بادلوں سے تھیں،جس سال بارش نہ ہو تی، کھانے کے لالے پڑ جاتے۔ سینچا ئی کا کو ئی معقول انتظام نہ تھا۔ ادھر چند برسوں میں چھ سات ٹیوب ویل لگ گئے تھے۔ جن میں دو سرکاری تھے۔ سر کاری کیا تھے مکھیا ملکھان سنگھ، ٹھا کر مہندر اور   پنڈت گوپال ہی اس کے کرتا دھرتا تھے۔ کسی کو پانی لینا ہو تا تو ہفتوں ان کے تیل لگاتا۔ با رش کے بغیر جانوروں کے چارے کی بھی قلت ہو جاتی اور   کیوں نہ ہو۔ جب انسانوں کو کھانے کے لیے نہیں تو جانوروں کی تو بات ہی کیا۔ برسوں قبل قحط پڑا تھا جس میں سینکڑوں لوگ بھو کے موت کے منھ میں چلے گئے تھے۔ نئی نئی بیماریاں خود ساختہ لیڈروں کی مانند ابل پڑی تھیں۔ جانوروں میں ایک خاص قسم کی بیماری نے گھر کر لیا تھا۔ دودھ تھنوں میں سوکھ گیا تھا اور   جانوروں کی شرح اموات بڑھ گئی تھی۔ گاؤں وا لوں نے اس بیماری کا نام دکھ رکھا تھا۔

شبراتی نے دھنورا ہی میں آنکھ کھو لی تھی۔ اس نے جب ہو ش سنبھا لا تھا تو صرف اپنی ماں کو دیکھا تھا۔ اس کے وا لد ایک بیماری میں لقمہ اجل بن گئے تھے اور   اپنے پیچھے دکھوں اور   غموں کے بے شمار لقمے چھو ڑ گئے تھے۔ انہیں لقموں کو تہہ در تہہ اپنے پیٹ میں اتار کر شبراتی بڑا ہوا تھا۔ لوگوں کی زبانی اس نے سنا تھا کہ اس کے بابا نیک اور   شریف آ دمی تھے، کبھی کسی سے لڑا ئی نہ جھگڑا۔ بس اپنے کام سے کام۔ دن بھر باہر ٹھیے پر بیٹھے کام کرتے رہتے۔ کبھی کسی کا ہل بنا رہے ہیں تو کبھی کسی کی چو کھٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمین تو تھی نہیں بس کسانوں کے رحم و کرم پر گزر بسر ہو رہی تھی۔ کبھی کو ئی من بھر گیہوں دے جاتا۔ کبھی کسی کے یہاں سے گڑ آ جاتا۔ کوئی اپنے کھیت سے چارا کاٹنے کو کہہ دیتا۔

وہ اپنے والد کو یاد کر کے غم زدہ ہو جایا کرتا۔ اس نے بڑے ہو کر اپنے وا لد کا ہی پیشہ اختیار کر لیا۔ وا لد کے چھوڑے ہوئے اوزار تھے اور   بندھے ہوئے کسان۔ بچپن گزرا، جوانی آ ئی، شا دی ہو ئی کہ اچانک ایک دن ماں کا انتقال ہو گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے دو بچے آ گئے۔ اکثر اسے اللہ کے نظام پر رشک آ تا کہ اس نے اس کی زندگی کو دکھ اور   سکھ کے ترا زو میں بڑا متوا زن رکھا تھا بلکہ دکھوں کا پلڑا ہی اکثر جھکا رہا۔ وہ بڑی مشکل سے زندگی کی گاڑی کو محنت کے بیلوں کے سہارے کھینچ رہا تھا۔ گاؤں کے فیصلے کے آ گے اس نے اپنا سر خم کر دیا تھا۔ جب کہ اس کی بیوی نے دبے لفظوں، اس کی مخالفت بھی کی تھی۔

****

 

رات تاریک تھی۔ چاروں طرف ایک ہو کا عالم تھا۔ آسمان کالے کالے بادلوں سے بھرا تھا۔ کبھی کبھی بجلی کی چمک اور   بادلوں کی گرج ماحول کو پر ہول بنا رہی تھی۔ ملکھان سنگھ کی بیٹھک پر گہما گہمی تھی۔ گاؤں کے نو جوان اور   بوڑھے جمع تھے۔ شبراتی نے سر پر منڈاسہ( پگڑی) اور   دھوتی کو لنگوٹ کی صورت پہن رکھا تھا۔ اس کے پورے جسم پر کالی سیاہی ملی ہو ئی تھی۔ چہرہ بھی کالک سے پوت دیا گیا تھا۔ دس ہٹے کٹے نوجوان بھی کچھ اسی قسم کا حلیہ بنائے ہوئے تھے۔ ان سب کے ہاتھوں میں لا ٹھی اور   بلم تھے۔ تیاری مکمل تھی۔ بس مکھیا کی اجازت دینے کی دیر تھی۔ تھوڑی دیر بعد مکھیا کی آواز گونجی۔

’’ہے بھگوان ہم تیرو نام لے کر اپنے گاؤں میں گھسے دکھ کو نکال رہے ہیں۔ ‘‘

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ شبراتی اور   اس کے گروہ سے مخاطب ہوئے۔

’’بھگوان کا نام لے کر آپ لو گ شروع کرو۔ ‘‘

اتنا سننا تھا کہ شبراتی، جس کو بالکل کالا بھوت بنا دیا گیا تھا۔ ہا تھ میں کروا لیے، جس میں دہکتی ہو ئی آ گ تھی، آ گے بڑھا۔ اس کے پیچھے اس گروہ کے دس نوجوان تھے سبھی’’ہو۔ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘کی عجیب و غریب آوازیں نکالتے جا رہے تھے۔ پورا ماحول ایک عجیب سے شور سے گونجنے لگا۔ قا فلہ گاؤں کی ایک ایک گلی سے گزرنے لگا۔ گاؤں وا لوں نے رات ہی کو اپنے اپنے دروازوں پر ایک ایک خالی گھڑا رکھ دیا تھا۔ شبراتی کے پیچھے چلنے والے نو جوان جس گھر کے سامنے سے گزرتے وہاں رکھے گھڑے کو لا ٹھی مار کر پھوڑتے جاتے۔ شبراتی گھر گھر جا کر جانوروں کے پاس سے آ گ کے کروے کو گھما تا ہوا اپنا کام بڑی ہی تندہی سے کر رہا تھا۔ ایک طرف’’ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شو‘‘ اور   گھڑوں کے پھوٹنے کی آوازیں تھیں تو دوسری طرف گاؤں کے بے شمار لوگ جا بجا جامد و ساکت کھڑے دکھ نکالتے ہوئے قا لے کو دیکھ رہے تھے۔ شبراتی کی بیوی بھی اپنے گھر کے باہر کھڑی تھی۔ جب شبراتی وہاں سے گزرا تو وہ ایک لمحے کو اپنے شو ہر کو عجیب بھیس میں دیکھ کر ڈر ہی گئی تھی۔ شبراتن دل ہی دل میں شبراتی کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔

’’ اے اللہ میرے پتی کو سپھل وا پس لا ئیو۔ ‘‘

گاؤں کی ایک ایک گلی سے دکھ نکالتا ہوا یہ قا فلہ رواں دواں تھا۔ آگے آ گے شبراتی اور   پیچھے سا تھی نوجوان۔ شبراتی تیز تیز قدم بڑھا رہا تھا۔ اس کے سا تھی اس سے دس بارہ قدم پیچھے تھے۔ اب وہ لوگ گاؤں کی آ با دی سے با ہر نکل آئے تھے۔ اچانک بڑے زور سے با دل گرجے اور   پورا آ سمان روشنی میں نہا گیا۔ گو یا گاؤں وا لو ں کے عقیدے پر آسمان زور سے ہنسا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے بارش ہو نے لگی۔ شبراتی ہا تھ میں آ گ کا برتن لیے تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ بارش نے طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس قدر تیز بارش تھی کہ لگتا تھا گاؤں کو بہا لے جائے گی۔ تھوڑی ہی دیر میں چاروں طرف پانی بھر نے لگا۔ شبراتی با رش اور   طوفان کی پروا ہ کیے بغیر آ گے بڑھتا رہا۔ اس کے بر تن کی آ گ کچھ دیر تو بارش کے پانی سے جدو جہد کرتی رہی پھر اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ طوفان کا زور بڑھتا جا رہا تھا۔ کھیتوں میں پانی دکھا ئی دینے لگا۔ کچھ دیر تک شبراتی کو اپنے پیچھے پانی میں چھپ چھپ کی آوازیں آ تی رہیں۔ اس نے پیچھے گھوم کر دیکھا۔ چاروں طرف سوائے اندھیرے کے کچھ نہ تھا۔ اب اس کے ساتھیوں کے چلنے کی آواز اس تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ شبراتی نے سوچا وہ کچھ فاصلے پر خاموش آ رہے ہو ں گے۔ طوفان کی شدت لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی۔ ایک بار اس کے دل میں آ یا کہ وا پس گاؤں لوٹ جائے مگر واپس جا کر گاؤں وا لوں سے کیا کہے گا؟ منزل تھوڑی ہی دور تو تھی اور  وہ پھر پوری قوت سے آ گے بڑھنے لگا۔ مٹی کے برتن کو مضبوطی سے پکڑے وہ اندازے سے آ گے بڑھتا رہا۔ چاروں طرف سیا ہی ہی سیا ہی تھی۔ کھیتوں میں گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا تھا۔ راستے کے تمام نام و نشان ڈوب چکے تھے۔ شبراتی کو گاؤں کی سرحد پار مٹی کے کروے کو زمین میں گاڑ کر وا پس لو ٹنا تھا۔

با رش زوروں پر تھی۔ سرد ہوائیں سائیں سائیں کر رہی تھیں۔ سردی کے مارے اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ٹھنڈ کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں پھیل گئی تھی۔ اس نے اپنے اوسان جمع کیے اور   گاؤں کی سرحد کی طرف بڑھنے لگا۔ اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعداس نے اندازہ لگایا گو یا یہی پنڈت گو پال کا کھیت ہے۔ گوپال کے کھیت کے پا ر دوسرے گاؤں کے کھیت تھے۔ وہ بجلی کی سی سرعت سے گوپال کے کھیت میں داخل ہو گیا۔ کھیت کے پار سرکاری ٹیوب ویل کی گہری پختہ نالی تھی جو جا بجا ٹوٹی ہو ئی تھی۔ کئی جگہ خطر ناک حد تک گہری ہو چکی تھی۔ اس نے بڑی احتیاط سے قدم رکھتے ہوئے نالی کو پار کیا۔ اب وہ دوسرے گاؤں کی سرحد میں داخل ہو چکا تھا۔ وہ ایک لمحہ کو رکا اور   بلند آواز میں چیخا۔

’’جا دکھ جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے گاؤں سو جا۔ ‘‘

تین بار زور سے کہنے کے بعد اس نے اپنے قدموں کے پاس پانی کے اندر مٹی ہٹا کر گڈھا بنایا اور   مٹی کے کروے کو اس میں داب دیا۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور   وا پس ہو لیا۔ طوفان کا زور تھا مے نہیں تھم رہا تھا۔ اسے آسمان پر کالی چا در نظر آ رہی تھی اور   زمین پر دور تک پانی ہی پانی۔ درخت بڑے بڑے بھوت اور   جن کی مانند لگ رہے تھے گو یا اس کی واپسی کے منتظر ہوں۔

****

 

شبراتن کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ اس نے تقریباً۱۱/ بجے اپنے شو ہر کو وداع کیا تھا۔ اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ بار بار خدا سے اپنے شو ہر کی کامیابی کی دعائیں کر رہی تھی۔ اس کے دونوں بچے گہری نیند سو رہے تھے۔ رات تین بجے تک شبراتی وا پس نہیں آ یا تو اس کا انتظار پریشانی میں بدل گیا۔ کبھی دروازے تک آ تی اور   کبھی بچوں کے پاس لیٹتی۔ نہ جانے کس پہر اس کی نیند سے بوجھل آنکھوں میں سکون کے بادل چھا گئے اور   وہ نیند کے ا تھاہ سمندر میں غوطہ زن ہو گئی۔

****

 

صبح آسمان بالکل صاف تھا۔ گاؤں کے تمام راستے پانی سے لبریز تھے جو رات کے طوفان کے چشم دید گواہ تھے۔ مکھیا ملکھان سنگھ کی بیٹھک پر مجمع لگا تھا۔ کئی بڑے بڑے ڈرام رکھے تھے۔ جن میں پانی بھرا ہوا تھا۔ پنڈت گو پال اشلوک پڑھتے جا رہے تھے اور   ڈراموں میں گنگا جل ملا رہے تھے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں سے تھوڑا دودھ لے کر آ تے، ڈرام میں ڈالتے اور   ملا کر لے جاتے۔ پنڈت گو پال لوگوں سے کہہ رہے تھے۔

’’اپنے اپنے جانوروں پر یا دودھ کی چھینٹیں مارو۔ اب کو ئی چنتا نہ کریں۔ دکھ نکل گو( گیا ہے ) اب ساری بیماریاں ختم ہو جائیں گی۔ ‘‘

جمن کاکا، کنور پال، مہندر ٹھا کر،شری گر چاچا اور   دو سرے گاؤں کے بڑے لوگ وہاں موجود تھے۔ اتنے میں شبراتن رو تی ہو ئی آئی۔

’’ مکھیا جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرو پتی ابھی تک گھر نہیں آ یو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

وہ زور سے روئے جا رہی تھی۔ اس کی آواز پر بیٹھک پر موجود سبھی کے کان کھڑے ہو گئے۔ مکھیا کی آواز گونجی۔

’’ارے کنور پال تمہا رو لڑکا بھی تو شبراتی کے سا تھ تھوَ۔ کیا وہ وا پس آ گو؟‘‘

’’ہاں وے سب تو رات ایک بجے ہی واپس آ گئے ہے۔ ‘‘

’’ ہائے میرو پتی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

کنور پال کا جملہ پورا ہو نے سے پہلے ہی شبراتن دہاڑیں مارنے لگی۔ سبھی کے چہرے مرجھا گئے تھے۔ خبر جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً پورے گاؤں میں پھیل گئی کہ رات شبراتی وا پس نہیں آ یا۔

مکھیا جی کی رہنمائی میں سارا گاؤں پنڈت گوپال کے کھیت کی طرف چل پڑا۔ چاروں طرف پانی کی حکو مت تھی۔ گو پال کا کھیت بھی پانی سے لبالب تھا۔ شبراتی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ سب کے چہروں پر ہوا ئیاں اڑ رہی تھیں۔ اچانک کسی کے زور سے چلا نے کی آواز آئی۔

’’شب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شبراتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!‘‘

سب اس طرف لپکے۔ جمن کاکا سرکاری نالی پر کھڑے تھے۔ وہاں شبراتی کا بے جان جسم پڑا تھا۔ اس کا جسم پھول کر کا فی موٹا ہو چکا تھا۔ جا بجا کالک لگا اس کا جسم بہت ہی ڈراؤنا لگ رہا تھا۔ نالی کے گہرے پانی سے بڑی مشکل سے اس کی لاش کو نکالا گیا۔ لوگوں کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے تھے۔

            ’’ہائے اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ایک دل دوز و دل خراش چیخ کے سا تھ شبراتن شبراتی کے بے جان جسم سے لپٹ گئی۔ اس کے دونوں بچے بھی رو تے ہوئے لاش پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔

گاؤں وا لوں کی زبانوں پر تا لے پڑ گئے تھے۔ ان کے سروں پر مانو منوں بوجھ تھا کہ سب کی گردنیں جھکی ہو ئی تھیں۔ ابھی کچھ دیر قبل گاؤں میں خوشیاں منا ئی جا رہی تھیں۔ گاؤں سے دکھ نکل گیا تھا۔

شبراتی کے دونوں بچے اپنی ماں کا دامن کھینچ رہے تھے گو یا کہہ رہے ہوں،ماں ہمارے گھر میں گھسے دکھ کو کون نکالے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

٭٭٭


 

 

 

لینڈرا

 

’’ارے او  فقیرے۔ ۔ ۔ ۔ جرا انگئے کو (ذرا ادھر) آنا۔ ‘‘

بابا رحیم کی آواز پر فقیر محمد، دوڑتا ہوا آیا۔

’’جی بابا۔ کا کئے ریو(کیا کہہ رہے ہو؟)‘‘

’’ارے جرا حقہ بھر لا— اور   تاجا بھی کر لائیو—‘‘

بابا کے کہنے پر اس نے حقے کی پیتل کی فرشی کو اس کی گردن سے پکڑ کر اٹھایا۔ بڑی احتیاط سے چلم کو نہچے سے اتارا۔ نہچے کو فرشی کی گردن سے الگ کیا۔ نہچے کی بناوٹ بالکل بندوق جیسی تھی۔ فقیر محمد کے دل میں لمحے بھر کو ایک خیال آیا۔ اس نے حقے کے نہچے کو بندوق کی طرح پکڑ لیا اور   تصور میں اپنے سبھی دشمنوں کو ٹھائیں ٹھائیں۔ ۔ ۔ ۔ کر دیا۔ اس کو گاؤں کے ہر اس شخص سے نفرت تھی جو اسے لینڈرا کہتا تھا۔ کتنی نفرت اور   حقارت ہوتی تھی ان کے لہجے میں۔ اسے وہ دن بھی یاد تھا جب وہ پہلی بار گاؤں صدر پور میں اپنی ماں کے ساتھ آیا تھا۔

فقیر محمد، اپنی ماں کے ساتھ سلیم پور گاؤں میں رہتا تھا۔ اس کی عمر ۵ /سال تھی۔ اس کے والد ٹی بی کے مریض تھے۔ انھیں خون کی الٹیاں ہوتی تھیں۔ ایک دن بیماری نے انھیں شکست دے دی۔ لوگوں نے والد صاحب کو خاک کے سپرد کر دیا۔ وہ اور   اس کی ماں روتے رہ گئے۔ وہ دونوں بھری دوپہری میں بے سایہ ہو کر رہ گئے تھے۔ غریبی کا زمانہ تھا۔ لوگوں کے پاس کھانے کو وافر مقدار میں اناج نہیں ہوتا تھا۔ گیہوں کی روٹی کم لوگوں کو نصیب ہوتی تھی۔ گیہوں کا آٹا مہمانوں کے لیے رکھا جاتا تھا۔ باقی دنوں گھر کے لوگ جَو،بے جھڑ،مٹر اور   باجرے کی روٹیاں کھاتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقیر محمد کو گیہوں کی روٹی ہی اچھی لگتی تھی۔ اسے جَو اور   باجرے کی روٹی بالکل پسند نہیں تھی۔ جب کبھی مہمان آتے، تو وہ انتظار میں بھوکا رہتا۔ کاش مہمانوں کے آگے سے روٹی کا کوئی ٹکڑا بچ جائے۔ بچا ہوا ٹکڑا ماں اسے ہی دیا کرتی تھی۔ بعد میں وہ، مجبوری میں جَو کی روٹی سے پیٹ بھرتا تھا۔

فقیر محمد کے والد کے انتقال کے بعد عدت پوری ہوتے ہی اس کے ماما ان دونوں کو اپنے گاؤں مہیپے لے آئے تھے۔ نانا کا انتقال پہلے ہی ہو چکا تھا۔ بوڑھی نانی— اور   دو ماموں — مائیں اور   ان کے بچے ——سب نے ان کے غم میں برابر کا شریک ہوتے ہوئے ان سے ہمدردی جتائی تھی۔ بڑے ماموں افسردہ لہجے میں بولے۔

’’اب جیسی اوپر والے کی مرجی— ایک دن تو سب کو، جانوَ(سب کو جانا) ہے۔ ‘‘

نانی کی آواز بمشکل گلے سے نکل رہی تھی۔

’’بٹیا ہمار کو تو بھاگیہ ہی پھوٹ گیو(ہمارا توبھاگیہ ہی پھوٹ گیا)۔ ‘‘

مائیں نے فقیر محمد کو گود میں اٹھا لیا اور   پیار کرنے لگی تھیں۔

نانی اور   امی، مائیں اور   امی، باری باری گلے مل کر روئیں تھیں۔ کچھ دیر بعد حالات معمول پر آنے لگے تھے۔ ہر شخص فقیر محمد اور   اس کی ماں کا خیال رکھتا۔

وقت پرواز کرتا رہا۔ فقیر محمد اب ۱۰/ برس کا ہو گیا تھا۔ وہ ماموں کے ساتھ کھیت کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتا۔ اس کی امی گھر کے کام کاج میں جٹی رہتیں۔ ان سب کے باوجود گھر کے ماحول میں ایک زبردست تبدیلی پیدا ہو گئی تھی۔ نانی کے علاوہ گھر کے سبھی افراد ان دونوں سے اندر اندر کڑھنے لگے تھے۔ کئی بار فقیر محمد نے خود اپنی مائیوں کو آپس میں باتیں کرتے سنا۔

’’ہماری چھاتی پر آ پڑی ہے۔ ‘‘

’’پتہ نہ کب ٹلن گے (ٹلیں گے ) یہاں سو۔ ‘‘

حد تو اس وقت ہو گئی جب ماموں کے رویے میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ ان کے بچے بھی اب فقیر محمد کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ بلکہ اس کی توہین اور   بے عزتی کرنے کا موقعہ تلاش کرتے رہتے۔ ایک بار فقیر محمد اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ساتھ میں ان کے دوست بھی تھے۔ بال کسی پڑوسی کے گھر چلی گئی تھی۔ ماموں زاد نے بڑی حقارت اور   تحکمانہ انداز میں کہا۔

’’او، فقیر— جا بال لی آ—‘‘

فقیر محمد کو بہت برا لگا۔ وہ اپنی جگہ کھڑا رہا۔ ماموں زاد بد تمیزی پر اتر آیا۔

’’ ابے او۔ جا وے کہ نا۔ ۔ ۔ سالے بہت مارن گو(ماروں گا)— ‘‘

 اور  اسے اس کے دوستوں نے بھی گھیر لیا تھا۔ وہ قہر اً جبراً بال کے لیے چلا گیا تھا۔

فقیر محمد کو اس وقت بہت غصہ آتا جب کوئی اس کی ماں کوبرا بھلا کہتا۔ جی میں آتا کہ کہنے والے کا منھ نوچ لے۔ لیکن بے بس ہو کر رہ جاتا۔ ابھی اس کی عمر کم تھی دوسرے وہ ان کے رحم و کرم پہ ہی تو تھے۔ دراصل انسان کی پہچان، برے وقت میں ہی ہوتی ہے۔ برا وقت جب کسی پر آتا ہے تو رشتہ دار اور   احباب کچھ ہی دن اس سے ہمدردی جتاتے ہیں۔ پھر ایک ایک کر کے اچھے دنوں کی مانند رخصت ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک تو عام بات ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمدردی جتانے والے اقربا اور   احباب شدید نفرت کرنے لگتے ہیں۔ مخالف ہو جاتے ہیں۔ نقصان پہنچانے کے منصوبے بنانے لگتے ہیں۔ ماں بیٹے پر ایسا ہی وقت آ گیا تھا— فقیر محمد سب سمجھنے لگا تھا۔ اب وہ دونوں نانہال میں بوجھ بن گئے تھے۔ پر وہ کرتا بھی تو کیا۔ ابھی تو اس کی عمر ہی کم تھی۔ دل مسوس کر رہ جاتا۔ بس اﷲ سے دل ہی دل میں دعا کرتا۔

’’اے اﷲ،ہمارے اوپر رحم کریو—‘‘

****

 

گاؤں صدر پور میں رحمت اور   رمضان دو بھائی رہتے تھے۔ دونوں کے پاس گزارے لائق زمین تھی۔ رحمت کی بیوی کو کینسر ہو گیا تھا۔ غریبی اور   کینسر جیسی بیماری — غریب تو بیمار ی کا نام سن کر ہی مر لیتا ہے۔ یہی ہوا، رحمت کی بیوی علاج کے فقدان میں وقت سے قبل ہی موت کی آغوش میں سماگئی۔ رحمت کے پاؤں میں لنگ تھا۔ انھیں زیادہ تر لوگ رحمت لنگڑے، لنگڑا اور   لنگڑے بابا کہہ کر پکارتے تھے۔ رحمت کی عمر بھی کوئی ۳ کم چالیس رہی ہو گی۔ لیکن غربت نے انھیں، جلد ہی بوڑھا کر دیا تھا۔ ان کی لنگڑاہٹ کا بھی ایک قصہ تھا۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ گاؤں میں ایکھ(گنّے کا کھیت) شباب پر تھی۔ کولہو لگ چکے تھے۔ کولہوؤں پر رات دن کام ہوتا تھا۔ رات کو کولہو کے کڑھاؤ کے پاس لوگوں کی بھیڑ ہوتی۔ کچھ توسردی دور کرنے اور   کچھ گڑ کی خوشبو لینے آ جاتے – گڑ کے بھیلے بنائے جا رہے ہوتے۔ کولہو کے آس پاس زندگی ہی زندگی نظر آتی۔

کولہو پر اب رحمت اور   رمضان کی ایکھ کی باری تھی۔ دونوں بھائیوں نے گانڈے (گنّے ) ڈھو کر پہلے ہی کولہو کے پاس ڈھیر لگادیا تھا۔ رحمت نے کولہو میں گانڈے لگانے کا کام لے لیا اور   رمضان بیلوں کو ہانک رہا تھا۔ رحمت تین۔ تین،چار۔ چار گانڈے ایک ساتھ لگاتا۔ گانڈے لگانے پر کولہو کے بیلن ٹائٹ ہو جاتے۔ بیلو ں پر بھی زو ر پڑتا لیکن اگلے لمحے ہی رس دھار کی شکل میں نکلتا۔ لکڑی کے پتنالے سے ہوتا ہوا گول (گھڑے نما برتن)میں جا گرتا۔ جو کہ گڈھے میں رکھی ہوتی۔ دوسری طرف گانڈے کی کھوئی نکل کر گرتی۔ کھوئی جمع ہوتے ہوتے ایک چھوٹا سا پہاڑ بن جاتا۔ رحمت باربار اُسے کولہو سے دور کرتا رہتا۔ رحمت کولہو میں گانڈے پیلتا اکثر سوچتا۔ انسان کی زندگی بھی کولہو کی طرح ہے، جسے گانڈے کی شکل میں ہر وقت خوراک چاہیے ورنہ، رَس کہاں سے نکلے گا، اور   رَس نہیں نکلے گا تو گڑ کہاں سے آئے گا۔ چینی کیسے بنے گی۔ یعنی زندگی میں مٹھاس کہاں سے آئے گی؟ ہم سب زندگی میں کبھی کولہو کے بیل ہو جاتے ہیں۔ کبھی کولہو میں گانڈے پیلتے ہیں۔ کبھی بیلوں کو ہانکتے ہیں۔ کبھی کڑھاؤ کے نیچے بنے جھوک میں آگ سلگاتے ہیں اور   کبھی رس کو کَھولاتے ہیں۔ طرح طرح کے پاؤڈر ڈال کر اسے صاف کرتے ہیں اور   روادار بناتے ہیں۔ یہ سب کام ایک شخص کا نہیں ہے۔ کولہو مشترکہ نظام زندگی ہے۔ لوگوں کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ اکیلا آدمی سارے کام خود نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکیلا آدمی زندگی کی دوڑ میں بھی کبھی کبھی ناکام رہ جاتا ہے —

’’ابے رحمت! دوسری طرف سے کھوئی ہٹا— کہاں کھویو(کھویا ) ہے ؟‘‘

رمضان کی آوا ز پر رحمت چونکا۔ اُس نے بیٹھے بیٹھے ہی اپنی ایک ٹانگ کھوئی کے چھوٹے سے پہاڑ پر ماری۔ اس سے قبل کے وہ اپنی ٹانگ کو کھینچ پاتا۔ اس کا توازن بگڑ گیا اور   اس کی ٹانگ کولہو کے بیلن میں آ گئی۔

 ’’کڑاک۔ ‘‘

 ٹانگ کا نچلا حصہ ہڈیوں سمیت پس گیا۔ اور   ایک فلک شگاف، جگر خراش چیخ بلند ہوئی۔

رمضان بیلوں کو چھوڑ، رحمت کی طرف لپکا۔ آس پاس کے لوگ گرتے پڑتے، دوڑے، رحمت کا خون گانڈے کے رس میں تحلیل ہو کر گول میں جا پہنچا تھا۔ اور   اس نے رس کی رنگت تبدیل کر دی تھی۔ سرمئی رنگ بھی خون میں مل کر گہرا لال ہو چکا تھا بلکہ کچھ کچھ کتھئی— ایسا لگ رہا تھا گویا کسی جاگیر دار نے گاؤں کے کسانوں اور   مزدوروں کو کولہو میں پیل کے ان کا رس نکال دیا ہو۔

رحمت کو فوراً بُگی میں ڈال کر شہر لے جایا گیا۔ جہاں ڈاکٹر نے اس کی ٹانگ کا آپریشن کیا۔ زہر پھیلنے سے بچانے کے لیے رحمت کی ٹانگ کو گھٹنے کے نیچے سے کاٹا گیا۔ غریبی کا زمانہ تھا آپریشن اور علاج معالجے میں ہزاروں روپے کا صرفہ آیا، رحمت کے بابا نے دو بیگھہ زمین پر رحمت کو فوقیت دی۔

رحمت ایک مہینے سے زیادہ اسپتال میں رہا۔ اسپتال سے آنے کے بعد کچھ دن لوگوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ رہیں۔ لوگ اس سے اسپتال کا حال پوچھتے۔ حادثے کے بارے میں جاننا چاہتے۔ وہ صرف اتنا ہی کہتا۔

’’ہونی کو کون ٹال سکے َ—‘‘

لوگوں کی ہمدردیاں آہستہ آہستہ مذاق کا روپ دھار چکی تھیں۔ اب لوگ اسے دور سے ہی آوازیں لگاتے۔

’’رحمت لنگڑے —‘‘

’’او لنگڑے —‘‘

’’ابے لنگڑے کی اولاد—‘‘

رحمت کے دل پر گھونسے پڑ تے۔ پر وہ مجبور تھا۔ رحمت کی غریبی کا مذاق اس وقت مزید اُڑا، جب دو سال بعد ہی اس کی بیوی کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر اس کا سا تھ چھوڑ گئی، وہ بھری پری دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا۔ لوگ اُس سے طرح طرح کا مذاق کرتے۔

’’ لنگڑے تو، رنڈوا ہو گوَ‘‘

’’اب کون تیرے دانت دیکھیَ گوَ‘‘

لو گوں کے جملے اس کے زخموں کو ہوا دیتے، وہ تلملا کر رہ جاتا۔

عرصے بعد رحمت کی زندگی میں خوشی کا کوئی پیغام آ یا تھا۔ اُسے پتہ چلا کہ اس کے بابا نے اس کی دوسری شادی کی بات کی ہے۔ لڑکی کا شو ہر مر چکا ہے۔ ایک بیٹا ہے۔ بابا نے لڑ کی کے بیٹے کو اپنے یہاں لانے سے منع کر دیا۔ لیکن لڑکی کے بھائیوں وغیرہ نے شا دی کی شرط ہی لڑکے کے ساتھ بدائی رکھ دی تھی۔ کا فی گفتگو اور   تبادلۂ خیال کے بعد رحمت کے بابا کو لڑکی وا لوں کی شرط ماننی پڑی۔

سادہ طریقے سے نکاح ہو گیا۔ فقیر محمد اپنی ماں کے ہمراہ رحمت کے گھر آ گیا۔

****

 

گاؤں صدر پور میں یہ پہلا وا قعہ تھا جب کسی عورت کے سا تھ، اس کا بیٹا بھی جہیز میں آیا ہو۔ جیسے رحمت نے شا دی نہ کی ہو بلکہ گلاؤ ٹھی کی پینٹھ سے ایک بھینس، کٹرے سمیت خرید لایا ہو۔ پورے گاؤں بلکہ آس پاس کے گاؤں میں بھی فقیر محمد کے چرچے پھیل گئے۔ لوگ بے سبب بھی فقیر محمد کو دیکھنے آ نے لگے۔ پہلی بار گاؤں میں ایسا ہوا کہ دلہن کی بجائے لوگ فقیر محمد کو دیکھنے آرہے تھے۔ گویا فقیر محمد دنیا کی نئی نویلی خوبصورت دلہن ہو، اور   رحمت کی شادی اس کی ماں سے نہیں فقیر محمد سے ہو ئی ہو۔

تقریباً دس برس کا فقیر محمد، ان سب باتوں سے زیادہ با خبر نہیں تھا۔ اُسے تو یہ پتہ تھا کہ اُسے ماموں کے گھر سے نجات ملی ہے۔ لیکن لوگ اُسے حیرانی سے کیوں دیکھ رہے تھے۔ اس کے اندر ایسی کون سی بات تھی۔ اُسے خود پتہ نہیں تھا۔ اُس دن اُسے بڑی حیرانی ہوئی جب گاؤں کے ایک بے حد مذا قیہ ملکھان چاچا ان کے گھر آئے۔ اور   آواز لگائی۔

’’ ابے رحمت! کہاں ہے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

رحمت کے بجائے فقیر محمد باہر آ یا۔

’’اچھا، تو، تو ہے۔ لو نڈے، لینڈرا۔ ‘‘

فقیر محمد کچھ نہیں سمجھ پا یا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ اس دن کے بعد سے گاؤں میں اس کا نام لینڈرا پڑ گیا۔ چھو ٹے،بڑے سبھی اُسے لینڈرا پکا رتے۔

’’اولینڈرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

تخا طب میں حقا رت شامل ہو تی۔

فقیر لینڈرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کام کردے۔ ‘‘

’’ اپنی ماں کے دہیج میں آ یوَ لینڈرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ہر نسل اور   ہر شخص کا اپنا الگ انداز ہو تا۔ شروع شروع میں تو اُسے عجیب سا لگتا۔ اس کی شریانوں میں گرمی سی آ جاتی۔ غصے کی ایک رمق چہرے کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچ جاتی۔ لیکن جلد ہی رفو چکر بھی ہو جاتی۔ وہ بے بس تھا۔

****

 

وقت کا دریا بہتا رہا۔ لینڈرے کی ماں نے یکے بعد دیگرے دو بیٹے پیدا کیے۔ بھورا اور   کلوا۔ بتا نے کی ضرورت نہیں کہ ان کے نام ان کے رنگوں کے اعتبار سے گاؤں کے ان پڑھ لوگوں نے رکھ دیے تھے۔ رحمت کو اتنا ہوش کہا ں تھا کہ وہ اپنی لنگڑی زندگی سے فرصت کے لمحات نکالتا اور   دماغ کو اچھے ناموں کے لیے استعمال کرتا۔

بھورا بڑا تھا اور   کلوا چھو ٹا۔ دونوں بھا ئی اب جوانی کی سر حد میں دا خل ہو رہے تھے۔ جوانی تو لینڈرا پر بھی آ ئی تھی، پر کب آ ئی،کب گذر گئی،اس کے نشان بھی با قی نہیں تھے۔ لینڈرا، سب کے لیے لینڈرا تھا۔ اس کے چھو ٹے بھا ئی بھی اُسے لینڈرا ہی پکا رتے۔ طرح طرح کے کاموں کے لیے حکم دیتے۔ لینڈرا پورے گاؤں کا بے اُجرت مزدور تھا۔ کوئی اُس سے حقہ بھرواتا،کوئی بونگے سے بُھس نکلوا تا، کو ئی اپنی داڑھی بنوا تا،کسی کی گائے بھینس، ہری کروا نے لے جاتا، کسی کے کھیت سے برسن لاتا،کسی کے بچوں کو ٹیکہ لگواتا۔ عورتیں بھی لینڈرا سے اپنے ذا تی کام کرواتیں۔ لینڈرا سے کو ئی عورت پردہ نہیں کرتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بازار جاتا تو سارے محلے کے گھروں کا سامان لاتا۔ حتیٰ کہ لینڈرا سے عورتیں میک اَپ کا سامان اور   دیگر خفیہ چیزیں بھی منگوا لیتیں۔ لینڈرا سب کے سا مان الگ الگ لاتا۔ کسی کا سامان رِلتا نہیں تھا،کسی کی چھان ٹوٹ جاتی تو لینڈرا مزدوروں کے ساتھ جٹ جاتا۔ شا دی بیاہ تو لینڈرا کی موجود گی کے بغیر تقریباً نا ممکن تھے۔ ہر شادی میں اس کا ہو نا ضروری تھا۔ برتن صاف کرنا،دستر خوان لگانا۔ کھانا شروع ہو جائے تو کھانا کھلوانا۔ کسی کوکھیت میں پانی لگوا نا ہو تا تو لینڈرا ہی کام آتا۔ حتیٰ کہ میّت کے بہت سارے کام بھی و ہی کرتا۔ ان تمام کاموں کے صلے میں کوئی بچا ہوا کھانا دے دیتا۔ کسی کے یہاں سے دھوتی مل جاتی۔ کسی کے یہاں سے کُرتا۔ چائے تو وہ کسی کے بھی گھر پی لیتا تھا۔ ہر گھر کے اندر اس کا آ نا جانا بے روک ٹوک تھا۔

اس کے اپنے گھر میں بھی بھورا اور   کلوا زیادہ تر کام لینڈرا سے ہی کروا تے۔ حتیٰ کہ بھورا اور   کلوا کی شا دی کے وقت بھی لینڈرا ہی آ گے آ گے تھا۔ وہ بھا ئیوں کی ایک سا تھ شادی پر بہت خوش تھا۔ گو یا اس کی ہی شا دی ہو رہی ہو۔ ٹھیک یاد آ یا۔ اس بیچارے کی شادی کی تو بات بھی پیدا نہیں ہوئی۔ گھر،گاؤں اور   پورے سماج نے پہلے ہی سے مان لیا تھا کہ لینڈرا شا دی کے لائق نہیں ہے۔

گاؤں کی عورتیں، جن میں بزرگ عورتیں بھی شا مل تھیں اور   نو جوان لڑ کیاں اور   بہوئیں بھی،سب لینڈرا سے ایسی گھلی ملی تھیں جیسے لینڈرا انہیں کی نسل کا ہو۔ کسی کو لینڈرا کے مرد ہو نے کا یقین نہیں تھا۔ وہ اس کی موجود گی میں اپنی خفیہ باتیں بھی کر لیتیں،بغیر دو پٹے اس کے سامنے آ جاتیں۔ لینڈرا سے نہا نے کا گرم پانی غسل خانے میں رکھواتیں۔ کبھی کبھی ہاتھ پاؤں بھی دبوا لیتیں۔

****

 

بھورا اور   کلوا کی شا دی میں لینڈرا نے آ گے بڑھ کے خوب کام کیا۔ سب لوگ بارات کے ساتھ گئے تھے اور   لینڈرا کو گھر کی عورتوں کی رکھوالی کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ عورتوں اور   لینڈرا نے مل کر دُلہنوں کے استقبال کی تیاری کی۔ دو کمرے صاف کر کے سجائے گئے۔ بستروں پر خوبصورت چادر اور   پھولدار غلاف وا لے تکیے۔ لینڈرا نے گیندے اور   گلاب کے پھول اور   کچھ ہری پتیاں لا کر انہیں بستروں پر بکھیرا اور   گلاب جل بھی چھڑکا۔

رات کو ۱۲/ بجے کے قریب بارات دُلہنوں سمیت وا پس آ ئی۔ رسموں کی ادائیگی کے بعد سب نے اپنے اپنے بستر پکڑ لیے۔ دُلہنوں کے کمرے بند ہو چکے تھے۔ بارات کا گھر تھا،کام کر کے سب تھک گئے تھے۔ جلد ہی گھوڑے بیچ کر سو گئے۔ لینڈرا جاگتا رہا۔ وہ سب کے بستروں کا انتظام کرتا رہا۔ کسی کے پائنتیں چادر،کسی کے سرہانے تکیہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں پانی کا لو ٹا،بھر کے رکھا۔

’’ارے او فقیرا‘‘

بابا کی آواز پر وہ یادوں سے با ہر نکل آیا ’’جی بابا‘‘ کہتا ہوا بھا گا۔ بابا نے اُسے حقہ بھرنے اور   تا زہ کر نے کو کہا تھا۔ اُسے بابا بہت اچھے لگتے تھے۔ وہ اُسے فقیرا کہتے تو اُسے برا نہیں لگتا۔ بابا رحیم،رحمت کے وا لد تھے۔ وہ لینڈرا سے محبت کرتے تھے۔ اسی لیے جہاں ساری دنیا اُسے لینڈرا کہتی تھی، بابا اُسے فقیرا کہتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُسے ان کی چھوٹی سی سفید داڑھی بہت اچھی لگتی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات کے دو بج رہے تھے۔ بابا کو بھی نیند نہیں آ رہی تھی۔ ویسے بھی وہ رات کو جاگتے تھے اور   دن میں بیٹھک میں پڑے خراٹے بھرتے رہتے۔ وہ حقہ لیے اندر آنگن میں آ یا۔ ہر طرف چار پائیاں بچھی تھیں۔ کسی پر ایک کسی پر دو دو لوگ سورہے تھے۔ نل کے چبوترے پر حقہ رکھ کر اس کی فرشی کو اٹھا کر پانی گرا یا۔ نل سے پانی کھینچ کر اُس نے فرشی کو خوب رگڑ رگڑ دھو یا۔ نہچے کے ایک سرے سے پانی ڈالنا شروع کیا اور   دوسرے سرے پر انگوٹھا رکھ لیا۔ پانی بھرنے کے بعد اُسے خوب آگے پیچھے ہلایا اور   انگوٹھا ہٹا دیا۔ پورا پانی ایک رفتار کے ساتھ پیچھے آ رہا گویا پتنالے کی مٹی ہٹا دی گئی ہو۔ فرشی اور   نہچے کو خوب اچھی طرح تازہ کر کے اس نے برآمدے میں رکھا۔ تمباکو کی تھیلی سے تمباکو لیا اس کا گولا سا بنایا۔ چلم کے بیچوں بیچ رکھی چغل پر رکھ کر اس کے اوپر توا رکھ دیا،جس کی پتلی سی زنجیر چلم کی گردن سے جڑی ہو تی تھی۔ اُسے یہ پتلی سی زنجیر بہت اچھی لگتی تھی۔ چلم کو سجا کر وہ اُسارے کے اُس حصے کی طرف بڑھا جدھر مٹی کا چولہا اور   بروسی ہو تی تھی۔ بروسی میں ہر وقت آگ ہوا کرتی تھی۔ اس کی ماں رات کو بروسی میں اُپلے داب دیا کرتی تھی۔ پھر شا دی کی رات تو چولہے بھی دیر تک گرم تھے۔ اس کا اندازہ تھا کہ آ گ ضرور مل جائے گی۔ وہ اطمینان سے چولہے میں آگ تلاش کر رہا تھا۔ آگ میں تپے سرخ اُپلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے کچھ کام تو بنا لیکن ابھی آگ کی کمی تھی۔ اس نے بروسی میں آگ ٹٹولی۔ چلم میں آگ پوری طرح رکھ کر جیسے ہی وہ پلٹا، اس کا پاؤں چمٹے پر پڑا۔ ’’پڑاک‘‘ کی آواز کے سا تھ ایسا لگا گویا کسی نے خاموشی کی کمر میں خنجر اتار دیا ہو۔ پاس ہی چار پائی پر حرکت ہو ئی پھر کسی نے پکارا۔

’’کون ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

آواز کلوا کے ماموں کی شادی شدہ بہن کی تھی۔ جو شا دی میں شریک ہو نے ایک ہفتے سے آئی ہو ئی تھی۔

’’میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’میں کون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لینڈرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلم بھرنے آیو تھو۔ (آیا تھا)‘‘

لینڈرا کہنے پر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی گویا چلم کی آ گ نے اس کے بدن کے حُقّے کو سلگا دیا ہو۔ نجانے کیوں وہ ایک عورت کے منہ سے لینڈرا سن کر جل گیا تھا۔

’’ادھر کو آ نا لینڈرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

وہ چار پائی کے پاس چلا گیا۔ پورا گھر محو خواب تھا۔ سناٹے اور   خاموشی کی حکومت تھی۔ لینڈرا کے پاس آ نے پر، پھر حکم ہوا،

’’حُقہ رکھ دے اور   جرا مری ٹانگیں داب۔ ‘‘

لینڈرا رو بوٹ کی طرح شروع ہو گیا تھا۔ عورتوں کی ٹانگیں دبانے کا اس کا یہ کو ئی پہلا موقع نہیں تھا۔ وہ اکثر اپنی اماں کی ٹانگیں دبایا کرتا تھا۔ اُسے اچھا لگتا تھا۔ اُسے خدمت کر کے خوشی ہو تی تھی۔

’’لینڈرے جرا جور سے دبا۔ اور   اوپر تک۔ ‘‘

لینڈرا زور زور سے ٹانگیں دبا نے لگا۔ اوپر کی طرف جب اس کے ہاتھ گئے تو اس کے بدن میں عجب سی چینٹیاں رینگنے لگیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ لینڈرا کو لگا جیسے اُسے ہلکا ہلکا بخار ہونے لگا ہے اور   اس کے ہاتھوں میں جان نہیں ہے۔

’’ارے کہاں مرگوَا فقیرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘           

بابا کی آواز پر لینڈرا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حقہ لے کر با ہر آ گیا۔ بابا نے حقہ کے انتظار میں ایک جھپکی لے لی تھی۔ حقہ دے کر وہ باہر ہی کو نے میں پڑی جھنگولہ کھاٹ میں پڑ گیا۔ نجانے کب اس کا بخار کم ہوا اور   کب نیند نے اُسے بے خبر کر دیا۔

اگلے دن گھر میں خاصی چہل پہل تھی۔ مہمان رخصت ہو رہے تھے۔ لینڈرا کو کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ خواب کی طرح وہ سب کچھ بھول گیا تھا۔

****

 

وقت کی ہوا کب رکتی ہے۔ پچھوا ہوا کی طرح،فصلوں کو جلد پکا دیتی ہے۔ بچوں کو جوان اور   جوانوں کو بوڑھا کرنا اس کا معمول ہو تا ہے۔ لینڈرا پچاس کے لپیٹے میں آ چکا تھا۔ اس کے بابا، اور   اس کی ماں اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ کلوا اور   بھورا اپنی اپنی زندگی گذار رہے تھے۔ لینڈرا کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آ یا تھا۔ وہ آج بھی گاؤں کے لیے لینڈرا ہی تھا۔ گاؤں میں کسی کے بھی چھول پڑتی، لینڈرا، بل کٹی لیے کھیت میں ملتا۔ کھیت بو نے کا وقت ہو یا فصل کاٹنے کا۔ کھلیان میں اناج نکالنے کی بات ہو،یا اناج کو دھڑی کے با ٹوں سے تولنے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لینڈرا ہر جگہ موجود ہوتا۔ لینڈرا کو کبھی کبھی ایسا محسوس ہو تا گو یا پورا گاؤں ہی اس کا کُنبہ ہے۔ لیکن اگلے ہی پل اُسے لینڈرا کہنے وا لے کچھ لوگ، برے بھی لگتے تھے۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اُن سب سے کہے کہ میں ہی اکیلا لینڈرا نہیں ہوں بلکہ تم سب لینڈرے ہو۔ تم سب اپنے باپوں کی اولاد نہیں ہو۔ تم سب کم اصل ہو۔ لیکن وہ یہ بات دل کے اندر ہی اندر کہتا اور   سکون حاصل کر لیتا۔

ایک دن اس کے گھر میں کہرام مچا تھا۔ کلوا اور   اس کی بیوی میں لڑا ئی ہو رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محلہ اکٹھا ہو گیا تھا۔ کسی نے کلوا کو کہہ دیا تھا کہ تمہاری بیوی رامو کے بیٹے کے سا تھ کھیت میں رنگ رلیاں منا رہی تھی۔ کلوا نے بنا تحقیق کیے گالیاں دینا شروع کر دیا تھا۔ اس کی بیوی اپنی صفائی دے رہی تھی۔

’’میں کھیت پر گئی ہی۔ نیار کاٹ کر گٹھری باندھ تو لیٔ پر موسو، اُٹھی نا۔ پاس ہی رامو کا بیٹا کھیت میں پانی لگا رؤ تھوَ۔ میں نے گٹھری اُٹھوانے کو کہو۔ بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گٹھری اُٹھوانا جُرَم ہے۔ ؟‘‘

کلوا کچھ سننے کو تیار نہیں تھا۔

’’چلی جا حرام جادی۔ جا میں نے تجھے طلاق دی۔ ‘‘

’’طلاق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طلاق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طلاق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

طلاق کا گولہ منھ کی توپ سے نکل چکا تھا۔ گولے کی آواز اس قدر شدید تھی کہ اُس نے پورے گاؤں کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔ گاؤں کارُخ رحمت کے گھر کی طرف ہو گیا۔ بات گھر سے گاؤں پھر کھلیانوں اور   کھیتوں سے ہو تی ہوئی جنگل اور   دوسرے گاؤں میں پھیل گئی۔ علاقے میں پہلی بار کسی نے طلاق دی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گاؤں کے بزرگ کلوا کو لعن طعن کر رہے تھے۔

’’پہلے جانچ پرکھ لینو چیئے۔ ‘‘

’’طلاق تو کھدا کو بھی بُری لگے ہے ‘‘

’’اب جرور گاؤں پر آپھت آوے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

جتنے منہ اتنی باتیں۔ شام ہو تے ہو تے بات کا فی سنجیدہ ہو چکی تھی۔ لوگوں کے سمجھانے اور   بُرا بھلا کہنے کا اثر کلوا پر بھی ہوا۔ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو نے لگا تھا۔ اُسے لگا جیسے اُس نے اپنی بیوی پر زیادتی کی ہے۔ پر اب کیا ہو؟ کسی طرح معاملہ رفع دفع ہونا چاہیے۔ گاؤں کے سمجھ دار اور   ہوش مند لوگوں کی میٹنگ ہو ئی۔

’’تین بار طلاق،کہنے سے بھی ایک ہی طلاق ہو تی ہے۔ ‘‘

حافظ الیاس نے اپنی رائے دی۔

’’امام صاحب سو، پوچھ لیو۔ وہ کا کہویں۔ ‘‘

’’اہل حدیث کے کائی مولانا کے پاس چلو۔ ‘‘

باہم مشورے سے طے پا یا، جس میں امام صا حب بھی شامل تھے،کہ طلاق تو ہو گئی ہے۔ اب عدت پوری کی جائے۔ اور   اس کے بعد حلالہ کرا کے دو بارہ کلوا کا گھر بسا دیا جائے۔

کلوا کی سسرال والے اپنی بیٹی کو لینے آئے تھے لیکن گاؤں کے لوگوں نے منع کر دیا۔ اور   عدت بھورا کے گھر پوری کرنے کی بات طے ہو گئی۔

****

 

کلینڈر کے تین ورق پلٹے جا چکے تھے۔ عدت پوری ہو نے وا لی تھی۔ گاؤں کے بزرگوں کا اجتماع پھر ہوا اور   گاؤں کے کسی ایک شخص کی تلاش شروع ہوئی جو بڑی عمر کا ہو، نکاح کے بعد کی رات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے بعد طلاق دے دے۔ لوگوں کی نظریں کئی اشخاص پر گئیں۔ خوبیوں اور   برائیوں پر بحث ہو ئی۔ مسجد کے امام پر سب کی رضا مندی ہو نے ہی والی تھی کہ کسی بزرگ کی چشمِ تصور نے لینڈرے کو دیکھ لیا۔ بس پھر کیا تھا۔ سب خوشی خوشی تیار ہو گئے۔ لینڈرا سے بہتر کوئی اور   اس کام کے لیے نہیں ہو سکتا تھا۔ گھر کے گھر میں بات رہے گی اور   لینڈرا سب کچھ ہمارے مطابق کر بھی دے گا۔

عشاء کے بعد امام صاحب نے لینڈرا کا نکاح پڑھوا دیا۔ دس پندرہ افراد کی موجودگی میں سب کچھ انجام پذیر ہو گیا۔ گاؤں کے بزرگوں نے کئی کئی بار لینڈرا کو سب کچھ سمجھا دیا تھا۔ گاؤں کی عورتوں میں بھی کھسر پسر ہو رہی تھی۔ سبھی عورتوں کی رائے تھی لینڈرا تو لینڈرا ہے۔ کلوا کی قسمت اچھی ہے کہ حلالہ ہو کے بھی اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔

لینڈرا کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے بستر میں سو نے جا رہا تھا کہ ایک بزرگ نے کہا۔

’’یاں نہیں۔ آج تو،تُوے،اندر سو نو ہے۔ ‘‘

 اور  مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق لینڈرا دُلہن کے کمرے میں آ گیا۔ کمرے کی کنڈی لگاتے ہوئے وہ بستر پر آ کر ایک طرف کو لیٹ گیا۔ دوسری طرف منھ کیے دُلہن لیٹی تھی۔ لینڈرا کو کلوا کی شادی کی رات یاد آ گئی۔ اس کے جسم میں چیونٹیاں چلنے لگی تھیں اور   وہ بخا ر میں تپ گیا تھا۔ بابا نے آواز نہ دی ہو تی تو نجانے اس کا کیا ہو تا۔ اس دن لڑکی نے اُسے اپنی طرف پُکارا تھا۔ آج لڑکی منھ اُدھر کیے لیٹی تھی۔ شا ید اُسے لینڈرا سے ڈر تھا۔ مارے خوف کے وہ دوسری جانب منھ کیے تھی۔ نہیں وہ لینڈرا سے خوف زدہ نہیں تھی،بلکہ انتہائی مطمئن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ لینڈرا بھی کو ئی مرد ہے ؟اس اطمینان کے باعث وہ آ رام سے منھ پھیرے لیٹی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر لینڈرا تو اس کا جیٹھ لگتا تھا۔

لینڈرا سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن نیند اُس سے کو سوں دور تھی۔ جب کہ وہ بستر میں گرتے ہی سو جایا کرتا تھا۔ اس کی زندگی کا یہ پہلا موقع تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب نیند اس سے دور تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلا ہی موقع تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس کی شادی ہو ئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شادی کیا ہو تی ہے ؟ لینڈرا کو اس کا علم نہیں تھا۔ نہیں،علم تو تھا پر ادھورا ادھورا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُڑی اُڑی باتیں اُس نے سن رکھی تھیں۔ پہلی رات، یہ بھی اس کی زندگی کی شاید پہلی رات تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں شاید آخری بھی۔ پہلا موقع تھا جب اُسے گاؤں کی عزت کا واسطہ دیا گیا تھا۔ رحمت نے اُسے اپنے خاندان کی عزت کی دُہائی دی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رحمت،اس کی ماں کا شو ہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے اُسے نئی زندگی دی تھی،نہ صرف اُسے بلکہ اس کی ماں کو بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو آج بالکل قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کلوا بھی تو اس کا بھا ئی ہی تھا، اس کی ماں کا بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نکاح کے وقت کلوا کی آنکھوں میں تیرتے آ نسو جو التجا کر رہے تھے،اُسے سب یاد تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُسے تو بس آج رات گزار کر، گاؤں کی عزت، گاؤں کے حوا لے کرنی تھی۔ وقت نے کیسی کروٹ بدلی تھی۔ آج وہ گاؤں کی عزت کا محافظ بن گیا تھا۔ اب سب کچھ اس کے ہا تھ میں تھا۔ گاؤں کے بڑے، جوان، عورتیں سب کو اُمید تھی، ہونا وہی ہے جس کا سب کو اندازہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لینڈرا کا انتخاب اسی پس منظر میں کیا گیا تھا۔ گاؤں کے بزرگوں نے دنیا دیکھی تھی، ان کی نظروں میں لینڈرا اس کام کے لیے مناسب ترین شخص تھا۔ لینڈرا کے تقریباً ۴۰سال ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ ۔ ۔ ۔ اُس نے کبھی کسی لڑکی کو نظر بھر کا بھی نہیں دیکھا تھا۔

چار پائی نما پلنگ کی نواڑ میں سرسراہٹ ہوئی۔ دُلہن نے شا ید کروٹ لی تھی۔ لینڈرا کا دل تیز دھڑکنے لگا تھا۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اس کے اندر اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ کروٹ بدل کر دیکھ لے کہ دُلہن کس کروٹ لیٹ چکی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہستہ آہستہ اس کی حا لت ٹھیک ہونے لگی۔ دل کی دھڑکنیں سست ہونے لگیں۔ دل نے سمجھا یا دیکھو تو سہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کیا کر رہی ہے ؟سو رہی ہے یا سو نے کی ایکٹنگ کر رہی ہے یا پھر میری طرح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری طرح کیسے ہو گی۔ وہ تو اس دور سے گذر چکی ہے۔ ہم بستری کا بھی اس کا یہ پہلا موقع نہیں۔ نہیں وہ میری طرح تو نہیں ہو گی۔

اپنی تمام قوت کوسمیٹتے ہوئے اُس نے سر گھما کر دیکھا۔ پھر فوراً سر کو واپس موڑ لیا۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اُسے دیکھتے ہوئے نہ دیکھ لے۔ لینڈرا نے دیکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ دُلہن نے کروٹ بدل کر رُخ سیدھا کر لیا تھا۔ اب اس کا منھ اور   سامنے کا حصہ چھت کی طرف اور   پشت پلنگ پر تھی۔ اور   وہ مزے سے سو رہی تھی۔ سو تے میں اس کی سا نسوں کی آمد و رفت سے اس کا سینہ کچھ اس طرح اوپر نیچے ہو رہا تھا کہ لینڈرا کی سانسیں تھمنے لگیں۔ حلق خشک ہو گیا۔ اگر اُس نے فورا سر نہ گھما لیا ہو تا تو شاید اس کا دل، دھڑکنا بھول جاتا۔ بڑی مشکل سے اُس نے اپنے آپ پر قا بو پایا۔ اُسے کیا پتہ تھا عورت کی قربت کیا ہو تی ہے۔ قربت کی تپش کیسی ہو تی ہے۔ کیسے وہ اچھے اچھوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ اُسے بھی جلا ہی تو دیا تھا۔ اس کا بدن تپنے لگا تھا۔ اُسے زندگی میں اتنی گرمی کبھی نہیں لگی تھی۔ جیٹھ کی بھری دوپہری میں کھیتوں میں کام کرتے وقت بھی اُسے اتنی گرمی کا احساس کبھی نہیں ہوا تھا۔

اچانک اس کے اندر برسوں پرانا فقیر محمد، بیدار ہو گیا۔ اُسے یا د آ نے لگا، سارا گاؤں اُسے لینڈرا کہتا تھا۔ جب شروع میں لوگوں نے اُسے لینڈرا کہنا شروع کیا تھا تو اُسے بہت غصہ آتا تھا۔ لیکن اس کی بے چارگی اور   بے بسی نے انہیں مزید تقویت پہنچا ئی تھی۔ آج لوگ اس کے اصل نام کو بھی بھول گئے تھے اور   لوگوں کا کیا وہ خود فقیر محمد سے دور ہو گیا تھا۔ آہستہ آہستہ سب کچھ عام ہوتا گیا،لیکن کہیں نہ کہیں اس کے دل میں نفرت کی ایک چنگاری تھی جو برسوں سے دبی پڑی تھی۔ اچانک چنگاری سُلگ اُٹھی۔ لینڈرا،کے اندر خود اعتمادی، حوصلہ اور   ہمت آ گئی تھی۔ گاؤں والے اُسے ذلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہمیشہ اس کی تضحیک کرتے۔ لینڈرا کہتے وقت ان کے لہجے میں کیسی حقا رت ہو تی تھی۔ فقیر محمد بے بس تھا۔ لیکن انسان ہمیشہ بے بس نہیں ہو تا۔

اللہ تعالیٰ ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی دولت، شہرت،موقع،ہمت اور   حوصلہ ضرور عطا کرتا ہے۔ آج فقیر محمد کو خدا نے وہ موقع دیا تھا۔ خدا نے آج اسے فقیر سے بادشاہ بنا دیا تھا۔ اُسے ایک رات کی بادشاہت ملی تھی۔ فقیر محمد نے طے کر لیا کہ وہ انتقام لے گا۔ وہ گاؤں والوں کو بتائے گا کہ لینڈرا کسے کہتے ہیں۔ اُسی بچے کو نا، جو اپنی ماں کے سا تھ جہیز میں آتا ہے۔ آج میں بتاؤں گا۔ عزت کیا ہو تی ہے۔ کلوا،جو میرا بھا ئی ہے۔ اس نے بھی کیا کمی کی۔ وہ بھی مجھے لینڈرا کہتا ہے۔ اُسے آج پتہ چلے گا کہ لینڈرا کیا ہو تا ہے۔ لینڈرا بزدل، کمزور اور   ڈرپوک نہیں ہوتا۔ آج میری ہمت دیکھنا کلوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور   کلوا کی بیوی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج رات کی اس کی دُلہن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنے اطمینان سے محوِ خواب ہے۔ گو یا شادی کی پہلی رات، کو ئی بات ہی نہ ہو۔ کتنا اطمینان ہے حرام زادی کے چہرے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ہے یہ اطمینان،صرف اس لیے نا کہ میں لینڈرا ہوں۔ لینڈرا جو شاید مرد نہیں ہوتا۔ گاؤں کی ساری عورتیں مجھے یہی سمجھتی ہیں نا۔ انہیں یہ نہیں پتہ لینڈرا، مرد ہے،لیکن بد کردار نہیں۔ کبھی کسی لڑکی کو نہیں چھیڑا، کسی عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں مرد نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامرد ہوں۔ سارے گھر کو،پورے گاؤں کو اطمینان ہے۔ سب مجھے نامرد سمجھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آؤ، گاؤں وا لو دیکھ لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نا مرد نہیں ہوں۔

رات کے پچھلے پہر لینڈرا کے کمرے سے ابھر نے وا لی چیخوں اور   کرا ہوں نے فضا میں ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔ صُبح کی نماز کے بعد لینڈرا، نہیں فقیر محمد، جو آج بادشاہِ وقت سے کم نہ تھا، نے حسبِ وعدہ گہنا چکے چاند پر اپنے دروازے ہمیشہ کے لیے مقفل کر دیے۔

٭٭٭


 

 

اندھیرا ابھی زندہ ہے

 

تانگے کے پہیوں اور   گھوڑے کی ٹاپوں کی آوازیں مل کر بڑی مدھر مو سیقی پیدا کر رہی تھیں۔ مو سم بھی شباب پر تھا اور   اپنی مستی لٹا رہا تھا۔ با دلوں کے کچھ آوارہ جھنڈ نیل گگن میں آوارگی اور   سو رج کے ساتھ آنکھ مچو لی کے کھیل میں مگن تھے۔ پچھوا ہوا کے جھونکے جسم کو فرحت اور   تازگی بخش رہے تھے۔ سڑک کی دونوں جانب تا حد نگاہ گندم ہی گندم نظر آ رہا تھا۔ فصل پکی کھڑی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا۔ گو یا زمین پر سو نے کی پا لش کر دی گئی ہو۔

’’ اور  کتنی دور ہے مہاراج پور؟‘‘

’’ ارے بابو! بس آ نے وا لا ہے۔ یہ سہکاری نگر دکھ رہا ہے نا اس کے ایک میل بعد مہاراج پو ر ہے۔ کا پہلی بار جا رہے ہو؟‘‘

’’نہیں کئی سال بعد آ یا ہوں کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے۔ ‘‘

’’ کا بابو! آپ بھی گجب ہیں۔ کا بدلا ہے کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ وہی کھیت، وہی کسان۔ وہی سڑک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 اور  پھر تانگے وا لا شروع ہو گیا۔ جا وید کچھ کھسیانا سا ہو گیا۔ دوسری سواریاں بھی اسے دیکھنے لگی تھیں۔ اس نے اپنی نظروں کو دور بہت دور افق پر مرکوز کر دیا۔ آہستہ آہستہ تانگے اور   گھوڑے کی آواز کا جادو اس کی سماعت سے دور ہو تا گیا اور   وہ سوچ نگر میں داخل ہو گیا۔

****

 

دھنورا گاؤں میں اس کا بچپن گزرا تھا۔ جب وہ پڑھنے کے لائق ہوا تو اس کے والد، جنہیں لوگ’’ بابوجی‘‘ کہتے تھے، بہت دور شہر میں پڑھنے کے لیے لے گئے۔ اس نے سنا تھا کہ اس کے بابو جی گاؤں کے پہلے شخص تھے، جنہوں نے ملازمت کی تلا ش میں گاؤں چھوڑا تھا اور   دور دراز کے شہر ٹا ٹا نگر میں جا بسے تھے۔ شروع شروع میں تو وہ کئی سال تک گاؤں وا پس نہ آئے پھر جب کام چل نکلا تو گاؤں آ نے لگے۔ وہاں سے گاؤں تک آ نے میں انہیں تین دن لگتے، جب کبھی وہ گاؤں آتے گاؤں کے لوگ انہیں گھیر لیتے اور   ان سے شہر کے بارے میں طرح طرح کی باتیں پو چھتے اور   انہیں ایک بہت ہی قا بل شخص سمجھ کر خاموشی سے ان کی باتیں سنتے، جب کہ وہ معمولی پڑھے لکھے تھے۔ جب وہ شہر گیا تو اسے بابوجی نے ایک اسکول میں دا خل کرا دیا۔ ہر سال کامیابی کی پیٹھ پر سوار وہ آ گے ہی آگے بڑھتا گیا۔ پہلی بار جب اس نے گاؤں میں دادا کے نام خط لکھا تو گاؤں میں سب نے خوشی منائی تھی پھر تو جیسے خطوط کا سلسلہ ہی شروع ہو گیا۔ با بو جی نے خود خط لکھنا بند کر دیا۔ وہ اکثر اسی سے خط لکھوا تے۔

با بو جی کے شہر جانے سے اس کا خاندان دو حصوں میں منقسم ہو گیا تھا۔ گاؤں میں دادا، دادی، امی، چھوٹی بہن اور   بڑے بھا ئی تھے اور   شہر میں بابوجی، وہ اور   ایک چھوٹا بھائی۔ اب سال میں ایک دو بار شہر سے گاؤں آنا جانا ہو نے لگا تھا۔ بابو جی دو مہینے قبل ہی گاؤں گئے تھے۔ لیکن جب وہ گاؤں سے وا پس آئے تو بیماری بھی جونک کی طرح ان سے چمٹی چلی آئی تھی۔ انہیں ٹی بی کا مرض ہو گیا تھا۔ گاؤں میں وہ کہہ کر آئے تھے کہ شہر میں علاج کراؤں گا اور   آ کر انہوں نے علاج بھی کر وایا۔ طبیعت سنبھل گئی تھی۔ طبیعت ٹھیک ہو نے کے بعد انہوں نے خط لکھنے کو کہا کہ خیریت نامہ بھیج دو۔ اس کے امتحان چل رہے تھے۔ عدیم الفرصتی کی وجہ سے اس نے کئی دن بعد خط ڈالا تھا۔ خط ڈالے ہفتہ ہوا ہو گا کہ اس کے امتحان ختم ہو گئے۔ بابوجی نے کہا۔

’’ تم گھر ہی چلے جاؤ۔ ‘‘

اسے بھی ماں کی یاد آ رہی تھی۔ اسے گاؤں گئے ہوئے بھی کئی سال ہو گئے تھے۔

’’بابو! کیا سو گئے۔ مہا راج پو ر آ گیا۔ ‘‘

تانگے وا لے کی آواز نے اسے سوچ نگر سے نکال کر مہا راج پو ر میں لا کھڑا کیا۔ وہ جلدی سے تانگے سے اترا۔ اپنا سا مان لیا اور   کچے راستے پر ہو لیا۔ شام ہو نے وا لی تھی۔ سورج مارے شرم کے افق کی گود میں سمائے جا رہا تھا، لیکن اس کی سرخی آسمان کو سرخاب کر رہی تھی۔ پکی سڑک سے گاؤں کو ئی دو کلو میٹر ہو گا۔ پہلے اسے یہ دوری کئی سو میل لگا کرتی تھی، لیکن آ ج اس کے قدموں میں نہ جانے کہا ں سے طاقت آ گئی تھی۔ شا ید ماں سے ملنے کی شدید آرزو اسے رفتار بخش رہی تھی۔ در اصل انسان جب کسی آرزو یا امید کا دامن تھا مے چلتا ہے، تو راستے سمٹ جاتے ہیں اور   طویل سفر بھی لمحوں میں طے ہو جاتا ہے۔

کاندھے پر وزنی بیگ لٹکائے جا وید جب اپنے گھر پہنچا تو اسے عجیب منظر نظر آیا۔ ہر طرف اداسی، مایوسی اور   تنہا ئی کا عالم تھا۔ بیٹھک پر، جہا ں ہر وقت چہل پہل رہا کرتی تھی، سناٹا پہرہ دے رہا تھا۔ پہلے جب وہ آ تا تھا تو اس کے چھوٹے بھا ئی بہن،دوست سب دور ہی سے خوشی سے چلا اٹھتے تھے۔ بابا دوڑ کر اسے گود میں اٹھا لیتے تھے۔ ماں باہر آ کر سر پر ہا تھ پھیرا کرتی تھی اور   بوڑھی دادی تو دعاؤں کی پو ٹلی کھول کر بیٹھ جا تی تھیں۔ آ ج وہ بیٹھک تک بھی پہنچ گیا تھا، لیکن اب تک اسے کو ئی نظر نہیں آ یا۔ بیٹھک سے گزر کر جب وہ اندر آنگن میں پہنچا تو وہاں لوگوں کو جمع پا یا۔ صورتیں لٹکی ہو ئی، آنکھوں میں آ نسو۔ ۔ ۔ ۔ وہ ٹھٹھک گیا۔

’’ کہیں بابا کا انتقال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

یہ خیال اس کے دماغ میں بجلی کی طرح کوندا اور   اسے بری طرح لرزا گیا۔ گھر میں داخل ہو تے ہی وہ زور سے سلام کیا کرتا تھا۔ جیسے ہی اس نے سلام کر نے کو منہ کھولا۔ چھو ٹی بہن کی نظر اس پر پڑ گئی۔

’’بھیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

وہ بہت زور سے چیخی اور   زار و قطار رو نے لگی۔ پھر کیا تھا سب نے اسے گھیر لیا اور   زور شور سے رو نے اور   آہ و بکا کر نے لگے۔ وہ معاملے کو سمجھ نہیں پایا اور   خود بھی گریہ و زاری میں شا مل ہو گیا۔

کسی بھی چیز کی ایک حد ہو تی ہے،ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو ختم ہو جاتا ہے، ہنسی بھی جب حد سے زیادہ ہو جاتی ہے تب رو نے کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور   جب آ دمی خوب رو تا ہے تو آ نسو خشک ہو جاتے ہیں، گلا سا تھ نہیں دیتا۔ پھر انسان خو د کو عام حا لات کی طرف موڑ لیتا ہے۔ جب رو رو کر آنکھیں خشک ہو گئیں،آواز بیٹھ گئی تو فضا میں خاموشی کا سکہ جمنے لگا اور   آ ہستہ آ ہستہ ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ سبھو ں نے اپنے آ نسو پونچھ لیے، لیکن اب خاموشی نے جو سکہ جما یا تو ہٹنے کا نام نہیں لیا۔ سبھی خاموش تھے۔ گو یا کسی جا دو گر نے انہیں پتھر کا بنا دیا ہو، کسی میں خاموشی کو تو ڑ نے کی ہمت اور   جرأت نہ تھی۔ بالآخر جا وید نے خاموشی کو گو یا ئی سے ہمکنار کیا اور   بڑے بھا ئی سے مخا طب ہوا۔

’’ کیا بات ہے یا مین بھا ئی؟ بات تو بتایئے۔ ‘‘

’’وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہا را۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خط۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

وہ بات پوری نہیں کر پائے اور   رو نے لگے۔

’’ ہاں میرا خط۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہوا اسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ آ ج ہی آ یا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ با بو جی کا انتقا ل ہو گیا نا۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’ ایں ! کیا کہا؟ میں تو انہیں کل تک ٹھیک ٹھاک چھو ڑ کر آ یا تھا۔ ‘‘

جا وید کے اس جملے پر سب کے کان کھڑے ہو گئے۔ بابا نے اسے پکڑ لیا۔

’’ تو ٹھیک کہہ رہا ہے نا۔ میرا بیٹا زندہ ہے ؟‘‘

’’ میرا لعل زندہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

بوڑھی ماں کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔

’’جا وید تیرے بابو جی زندہ ہیں نا۔ ۔ ؟‘‘

ماں کی آواز حلق کے اندر سے آ ئی۔

’’ ہاں بھا ئی سب ٹھیک ہے۔ ان کا علاج چل رہا تھا۔ اب وہ بالکل صحت مند ہیں اور   میں نے خط میں ان کی خیریت ہی لکھی تھی۔ ‘‘

’’تم نے پتہ لال روشنائی سے لکھا تھا ہم سمجھ گئے کہ بابو جی کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اتنا پڑھ لکھ گئے، لیکن عقل نہیں آ ئی۔ اتنا بھی نہیں جانتے کہ لال روشنائی سے صرف موت کی خبریں ہی بھیجی جا تی ہیں۔ ‘‘

وہ حیرت سے اپنی یا دوسروں کی کم عقلی کا ماتم کر رہا تھا اور   دور افق پر سرخ رنگ مسکرا رہا تھا۔

٭٭٭


 

 

 دن کے اندھیرے،رات کے اجالے

 

میں قبرستان ہوں۔ آپ مجھے ضرور جانتے پہچانتے ہوں گے۔ کبھی نہ کبھی آپ ضرور یہاں آئے ہوں گے۔ آپ کسی جنازے کے ساتھ میرے احاطے میں آئے ہوں گے، شب برات میں تو ضرور کسی قبر پر فاتحہ پڑھنے یا چراغاں کرنے آئے ہوں گے۔ میری ویرانی کو دیکھ کر آپ کو ڈر بھی لگا ہو گا۔ موت یاد آئی ہو گی۔ آپ نے گناہوں سے توبہ کے لئے استغفار کیا ہو گا۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ مجھ سے دور ہونے پر آپ نے ساری قسمیں اور   وعدے، توڑ ڈالے ہوں گے۔ کوئی بات نہیں، یہ دنیا اور   زندگی تو عمل کی جگہ ہے۔ آپ جیسا عمل کریں گے، بعد میں ویسا ہی اجر پائیں گے۔ ایک راز کی بات بتاؤں۔ غور سے سننا۔ اچھا پہلے میں اپنا تفصیلی تعارف کرا دوں۔ میں بلند شہر کے گاؤں دھنورا کا قبرستان ہوں۔ میری عمر یہی کوئی ۴۰۰  سال ہو گی۔ ابھی کم عمری ہی میں، میرا سینہ فخر سے بلند ہے کہ میرے سینے میں ہزاروں راز دفن ہیں۔ میں گاؤں کے مغربی کنارے پر آباد ہوں۔ ویسے تو میرا سینہ اندرونی طور پرمسلمانوں سے آباد ہے لیکن باہری سطح پر مسلم اور   غیر مسلم دونوں نے میری ظاہری ویرانی کو کم کر رکھا ہے۔ صدیوں سے گاؤں کے لوگ میرے سینے پر مونگ دلتے۔ ۔ ۔ نہ۔ ۔ ۔ نا۔ ۔ ۔ میری زبان پھسل گئی، گاؤں کے لوگ اپنے روز مرہ کے کام کاج کرتے آ رہے ہیں۔ میں انہیں کھیلتا کودتا دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہوں کہ چلو کچھ دن کھیل لو، پھر تو میرے سینے میں ہی ہمیشگی کی زندگی گذارنی ہے۔

ہاں تو، لو آج میں تمھیں اپنی داستان سناتا ہوں۔ غور سے سنو! کوئی درمیان میں نہیں بولے گا۔ جب تک میں خود ہی آپ کو مخاطب نہ کروں۔

سبھی خاموش ہو گئے۔ زمین، آسمان۔ ہوائیں گھٹائیں، چرند، پرند، انسان … سب خاموش اور   ہمہ تن گوش ہو گئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

’’یو دوال میری لاش پر بنے گی۔ ‘‘

عزیز بھائی کی آواز پر پورا مجمع چونک کر انھیں دیکھنے لگا تھا۔ وہ غصہ سے آگ ببولا، اپنی دھوتی کو گھٹنے سے اوپر کئے۔ دیوار کی کھدی ہوئی بنیاد میں کھڑے تھے۔ ان کے تیور اور   بزرگی کو دیکھتے ہوئے،بابوجی نے بھیڑ کو روکا، پھر پیچھے گھوم کر دیوار بنا رہے مزدوروں سے بولے۔

’’بھئی کام روک لو۔ ذرا دیر سانس لے لو۔ ‘‘

کام رک گیا تھا۔ سب حیرانی سے بنیاد کی نالی میں کھڑے عزیز بھائی کو دیکھ رہے تھے۔ دراصل دھنورا کے قبرستان کی چہار دیواری کا کام چل رہا تھا۔ زمانے سے قبرستان کی اراضی یوں ہی پڑی تھی۔ ایک کونے میں قبریں بنائی جاتیں، برسوں بعد دوسرے کونے کی باری آتی۔ قبرستان کی زمین دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ قبریں بہت کم تھیں۔ زیادہ تر قبریں کچی مٹی کی تھیں اسی لئے جلد برابر ہو جاتی تھیں۔ قبرستان میں صرف ایک پختہ قبر تھی۔ یہ گاؤں کے منشی سجادحسین کی قبر تھی۔ سنا ہے کہ بہت پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ پاس کے قصبہ کے اسکول میں مدرس تھے۔ بڑے نیک دل اور   خدا ترس انسان تھے۔ بے شمار شاگردوں کو پڑھا لکھا کر زندگی گذارنے کے لائق بنا دیا۔ ان کی قبر کے چاروں طرف نو انچ کی اینٹوں کی دیوار تھی اور   ایک طرف لوہے کا گیٹ لگا تھا۔ اندر بیلا کے پیڑ تھے۔ جن پر بارہ مہینے سفید پھول کھلا کرتے تھے۔ لوگ صبح صبح قبرستان آتے تو منشی جی کی قبر سے پھول ضرور لے کر جاتے۔ قبرستان، دھنورا کے لوگوں کے دلوں کی طرح کشادہ تھا۔ قبرستان میں لوگوں نے اپنے اپنے بونگے، بٹورے، کوڑیاں بنا رکھی تھیں قبرستان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے بھی استعمال میں آتا تھا۔ بیساکھ آتا تو گیہوں کی پولیوں کے انبار قبرستان میں ہر طرف دکھائی دیتے۔ کیا ہندو، کیا مسلمان۔ سب کے لانک(فصل کے انبار) قبرستان میں رکھے جاتے۔ پہلے تو بیلوں سے لانک سے گیہوں نکلوانے کا کام کیا جاتا تھا۔ کئی کئی دن کی دائیں (بیلوں کے ذریعہ اناج نکالنے کا عمل) کے بعد بیلوں کے پیروں سے گیہوں کی سوکھی پولیوں کا چورا ہو جاتا تھا پھر اسے تیز ہوا کے رخ پر برسا کر بھس اور   گیہوں کو الگ کیا جاتا۔ قبرستان کے پورب میں گاؤں کے گڈریے رہتے تھے، اتر کی طرف دگڑا (کچا راستہ) اور   اس کے بعد مسلمان لوہار، بڑھیوں کے مکان تھے۔ دکھن کی طرف گوجروں کے کھیت تھے۔ جبکہ پچھم کی طرف گسائیوں آباد تھے۔ صدیوں سے قبرستان گاؤں کی خوشحالی کا ذریعہ بنا ہوا تھا۔ کسی کی موت ہوتی تو ضرور غم کا ماحول چھا جاتا۔ خود ہی قبر کھودتے اور   مردے دفناتے۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ لیکن خدا سیاست دانوں کو غارت کرے۔ فرقہ پرستی کا ایسا زہر گھولا کہ نفرتوں کی فصل ہر طرف لہلہانے لگی۔ صدیوں سے آپسی میل جول سے رہتے آ رہے گاؤں کے سیدھے سچے لوگوں میں بھی نفرت، خوف ڈر، دہشت، مذہبی جنون اور   فرقہ پرستی کے سنپولیے پلنے لگے۔

’’بابوجی اب کیا ہوئے گو؟‘‘

کنور پال نے بابوجی کو آواز لگائی تو وہ خیالات کے دھندلکے سے باہر آئے اور   آہستہ آہستہ چلتے ہوئے عزیز بھائی کی طرف بڑھے۔ ان کے پیچھے پیچھے چاچا ملکھان، سری گر چاچا، رام چندر کے علاوہ دس بارہ ہٹے کٹے نوجوان لاٹھی بلم لیے ساتھ ہو لیے۔ رام چندر نے لاٹھی کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے بڑے غصے سے کہا۔

’’بابو جی۔ آپ اک اور   کو ہو جاؤ۔ میں ابھی گرا دن گو،یا کی لاش……دوا ل تو بن کر رے گی۔ ‘‘

ایک ہاتھ سے رام پال کی لاٹھی پکڑتے ہوئے بابوجی نے رام پال کو ڈانٹا۔

’’پاگل نہ بنو۔ خون خرابے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ‘‘پھر وہ عزیز بھائی سے مخاطب ہوئے۔

’’ہاں بھئی کیا بات ہے ؟ جب تمہیں سمجھا دیا تھا تو پھر کیا آفت آ گئی۔ دیکھو یہ قبرستان کا کام ہے۔ ثواب کے بدلے میں گناہ نہ کما۔ ‘‘

عزیز بھائی اب بھی بنیاد کی نالی میں کھڑے تھے۔

’’پہلے میری کوڑی کو کوئی انتجام کرو۔ جب بنن دن گو۔ ‘‘

عزیز بھائی کی بات پر ایسے اور   بھی مسلمان سامنے آ گئے تھے جن کے کام قبرستان میں ہوا کرتے تھے۔ غریب مسلمانوں کے پاس تھوڑی سی زمینیں تھیں۔ کچھ دوسروں کے کھیتوں پر کام کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ چہار دیواری نہ ہونے سے قبرستان کی زمین سب کا سہارا بنی ہوئی تھی۔ دو بٹیا بھی قبرستان کے بیچوں بیچ سے گذرتی تھیں۔ شادی بیاہ ہوتے تو قبرستان کی زمین کا استعمال کیا جاتا۔

گاؤں دھنورا ضلع بلند شہر کا ایک ہندو اکثریتی گاؤں تھا۔ یوں تو گاؤں میں گوجر، گسائیں، گڈریے، ہریجن، ٹھاکر، شیخ، لوہار، بڑھئی، دھوبی سبھی رہتے تھے لیکن گاؤں میں گوجروں کا دبدبہ تھا۔ ایک تو گوجر تعداد میں زیادہ تھے دوسرے مال و دولت، زمین جائیداد کے معاملے میں وہ دوسری قوموں سے کہیں آگے تھے۔ اسی سبب دھنورا، آس پاس کے علاقے میں گوجروں کے گاؤں کے نام سے بھی مشہور تھا۔

دھنورا میں مسلمان کم تعداد میں تھے۔ یہاں کے آبائی مسلم باشندے شیخ، لوہار اور   بڑھئی تھے۔ شیخ خاندان کے لوگ سوانگ، نوٹنکی، گانے بجائے اور   حقہ کے نہچے بنانے کا کام کرتے تھے۔ جبکہ لوہار اور   بڑھئی گاؤں والوں کے کھیتی کے اوزار اور   روز مرہ کے سامان بناتے تھے۔ یہ کام دو طرح کی اجرت پر ہوتے تھے۔ زیادہ تر کسان سال بھر اپنا سامان بنواتے اور   فصل کے وقت دو من یا چار من اناج بطور اجرت دیا کرتے۔ اناج کے علاوہ بھس،ہرا چارہ، اور   دیگر سامان بھی کسان کبھی کبھار بھیج دیا کرتے تھے۔ دوسرے چھوٹے موٹے کام، بہت سے لوگ نقد بنوا لیتے۔ جن کے بدلے فوری طور پر اناج یا کوئی دوسرا سامان دے جاتے۔

گاؤں میں آپسی میل جول بہت تھا۔ صدیوں سے ہندو مسلم شیر و شکر کی طرح رہتے آئے تھے۔ شادی بیاہ میں ایسی شرکت کرتے کہ لگتا ہی نہیں دو ہیں۔ گاؤں کے دامادوں کی یکساں خاطر ہوتی۔ مسلمانوں کی بیٹی اور   داماد آتے تو غیر مسلم اپنے بیٹی داماد جیسا سلوک کرتے۔ مسلمان کسی گاؤں میں جاتے تو وہاں گاؤں کی بیاہی بہن۔ بیٹی کو تحفے اور   نذرانے دے کر آتے۔ بچے گاؤں کے سبھی بڑوں کو چاچا، تاؤ، بابا کہہ کر پکارتے۔ گاؤں میں کسی کے ایکھ بونے کا وقت ہو تاتوپورے گاؤں میں چہل پہل ہوتی۔ کچھ دن قبل ہی کی بات ہے ترکھا بابا کے یہاں ایکھ بوئی جانے والی تھی۔ ایک دن پہلے ہی گاؤں میں خبر کر دی گئی۔

’’بھئی کل، باگ والے کھیت میں ایکھ بووئے گی۔ جرور آئیو۔ ‘‘

 اور  اگلے دن صبح صبح بابا ترکھا کے کھیت پر خاصی بھیڑ موجود تھی، کئی لوگ مل کر گانڈے (گنے ) کے ایک ایک فٹ کے ٹکڑے، بیج کیلئے کاٹ کر ڈھیر لگا رہے تھے۔ بیلوں کی چار جوڑیاں کھیت جوت رہی تھیں۔ ان کے پیچھے پیچھے چار لوگ گانڈے کے ٹکڑے ڈالتے اور   پیر سے دابتے چلے جاتے۔ کچھ لوگ گانڈے کے ڈھیر سے،ایکھ بونے والوں کو گانڈے لالا کر دے رہے تھے۔ چار بیگھہ کھیت میں ایکھ بونے کا کام دس بجے تک پورا ہو گیا تھا۔ آخر میں کھیت میں بکھرے کوڑ کباڑ اور   اوزاروں کو اکٹھا کیا گیا۔ اتنے میں ترکھا بابا کی آواز گونجی۔

 ’’سب گھر چلن گے۔ کھیر پوری کی دعوت ہے۔ ‘‘

بس پھر کیا تھا۔ بچے بوڑھے مرد عورتیں سب اپنا اپنا سامان سمیٹ کر گاؤں کی طرف چل پڑے۔ ترکھابابا کے گھر ایک دن پہلے ہی سے ایکھ کی دعوت کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔ کئی گھروں سے دودھ، رات ہی میں جمع کر لیا گیا تھا۔ صبح صبح گاؤں کی عورتیں اور   ترکھا بابا کی بہوویں کھیر اور   پوری کی تیاری میں لگ گئی تھیں۔ بیٹھک کی زمین کو ایک دن پہلے ہی گوبر اور   مٹی سے اچھی طرح لیپ دیا گیا تھا۔ بیٹھک کا فرش ایسا لگ رہا تھا گویا پورے فرش پر سونے کا پانی چڑھا دیا گیا ہو۔ جلد جلدی لوگ آمنے سامنے قطاروں میں اکڑوں بیٹھ گئے تھے۔ تھوڑی دیر میں کھانا کھلانے والے آ گئے تھے۔ کوئی پتل بچھا رہا تھا۔ کوئی بالٹی سے کھیر نکال کر پتل پر انڈیل رہا تھا۔ اس کے پیچھے پوریاں دینے والے تھے۔ مٹی کے سکوروں میں پانی رکھ دیا گیا تھا۔

بابوجی کی گرج دار آواز سنائی دی۔

’’جس کے پاس نہ آیا ہو وہ مانگ لے۔ باقی پڑھو بسم اللہ۔ ‘‘

سب نے کھانا شروع کر دیا تھا۔ یہ نظارہ شادی کے کھانوں کے وقت بھی نظر آتا تھا۔

گاؤں میں کسی ہندو کی موت ہو جاتی تو مسلمان ہندو سب مل کر ارتھی تیار کرتے اور   کاندھا دیتے ہوئے شمشان گھاٹ جاتے۔ عجیب اتفاق تھا کہ گاؤں میں شمشان گھاٹ کی زمین پر آس پاس کے ہندوؤں نے ہی آہستہ آہستہ قبضہ کر لیا تھا۔ اب کھڑنجے پر انتم سنسکار ہوا کرتا تھا۔ بہت کوششوں کے بعد بھی شمشان کی زمین نہیں مل پائی تھی۔ گاؤں میں دو مندر تھے، مسجد نہیں تھی۔ لیکن قبرستان بہت پہلے سے تھا۔ کسی مسلم کی موت ہوتی تو ہندو مسلم مل کر قبر کھودتے۔ قبرستان کے ہی درختوں کی موٹی شاخیں کاٹی جاتیں، ان کے موٹے موٹے ٹکڑوں کو میت کے اوپر قبر کے بگدے میں لگایا جاتا، پھر گھاس پھوس سے لکڑیوں کے درمیان کی درج کو بھرا جاتا اور   مٹی ڈالی جاتی۔ سرہانے کسی سائے دار پیڑ کی ٹہنی لگا دی جاتی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

قبرستان کی چہار دیواری کا سلسلہ بابوجی نے اٹھایا تھا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو ملک کا ماحول خراب ہوتا جا رہا تھا، ایسے میں قبرستانوں اور   مساجد کی حفاظت بہت ضروری ہو گئی تھی۔ دوسرے قبرستان کے دکھن میں گوجروں کے کھیت تھے۔ جن میں کئی نے اپنے گھیر اور   گھر بنانا شروع کر دئے تھے۔ اس بات کا خطرہ بڑھ گیا تھا کہ دکھن کی طرف سے آہستہ آہستہ قبرستان سکڑنے نہ لگے۔ لیکن قبرستان کی چہار دیواری کی بات پر گاؤں میں نئی قسم کی ہلچل شرو ہو گئی تھی۔ کچھ مسلمانوں نے ہی اس کی مخالفت شروع کر دی تھی۔ گاؤں کے بزرگ اور   سمجھدار مسلمانوں کو بابوجی نے اس بات کی اہمیت سمجھائی۔

’’دیکھو بھئی… ملک کے حالات روز بروز بگڑ تے جا رہے ہیں۔ ہندو مسلم منافرت پھیلتی جا رہی ہے۔ گاؤں میں تو خیر ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ پھر بھی قبرستان کو آگے تک بچانا ہے تو اس کی چار دیواری کرانی ہو گی۔ ‘‘

’’بات تو سہی کہو ہو بابوجی۔ ، بابا بشیر بولے۔

’’دھرم ویرنے قبرستان کی پلی اور   اپنا گھر بھی بنوا لیو ہے۔ موئے تو وا کی نیت پر شک ہوے ہے۔ ‘‘ چاچا نثار دور کی کوڑی لائے تھے۔

’’ٹھیک ہے تو یا کام کو جلد شروع کرواؤ باؤجی۔ ‘‘ نئی عمر کے مشتاق بھائی نے جوش میں آتے ہوئے کہا۔

بابوجی گاؤں کے پہلے ایسے شخص تھے جنہوں نے دسویں پاس کی تھی،ہندی کے ساتھ ساتھ اردو بھی جانتے تھے۔ وہ دور شہر میں چالیس برس نوکری کرنے کے بعد اب گاؤں میں رہنے لگے تھے۔ ان کے بیٹے بھی دلی میں اپنے اپنے پیروں پر کھڑے تھے۔ بابوجی ہر وقت گاؤں کی خدمت میں لگے رہتے۔ زمین کی پیمائش کا کام تو بابوجی کے علاوہ کوئی نہیں کرپا تا تھا۔ ادھر بابوجی نے انجکشن لگانا بھی سیکھ لیا تھا۔ اب وہ گاؤں کے بیماروں کے انجکشن بھی لگا دیا کرتے تھے۔ لڑائی جھگڑوں کے فیصلے کے لئے گاؤں والے بابوجی کے پاس ہی جاتے۔ سب ان کے فیصلے کا احترام کرتے تھے۔ وہ بہت دور رس تھے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد انھیں محسوس ہونے لگا تھا کہ دراصل نئی نسل کے ذہنوں کو سیاسی جماعت والے جلدی متاثر کر لیتے ہیں۔ ویسے تو گاؤں میں ماحول ٹھیک ہی تھا لیکن مستقبل کا کیا پتہ۔ بابوجی نے حکمت سے گاؤں کے ہندوؤں کو بھی قبرستان کی چار دیواری کے لئے تیار کر لیا تھا۔ بلکہ ان میں سے کئی تو اس کام کے لئے ہر وقت بابوجی کے ساتھ تھے۔ انہوں نے قبرستان کا استعمال کرنے والے ناراض ہندوؤں کو بھی قبرستان خالی کرنے کے لئے راضی کر لیا تھا۔ لیکن معاملہ اس وقت بہت نازک ہو گیا تھا جب قبرستان کا ذاتی استعمال کرنے والے کچھ مسلمانوں نے قبرستان خالی کرنے سے بالکل انکار کر دیا تھا۔

’’باؤجی…کچھ بھی ہو جائے ہم چار دواری نہ بنن دن گے۔ ‘‘ عزیز بھائی نے بابوجی سے انتہائی غصہ کی حالت میں کہا۔

’’ہم اپنے جانور کہاں باندھیں گے ؟ کوڑی کہاں ڈلے گی؟ ناج کہاں نکلے گو؟‘‘

’’ہاں ہاں عزیز بھائی۔ میں بھی تمہارے سنگ ہوں۔ ‘‘ الیاس بیچ میں ہی بول پڑا۔

پھر تو کئی آوازیں ایک ساتھ مخالفت میں بلند ہونے لگی تھیں۔ بابوجی کو اپنی محنت پر پانی پھرتا دکھائی دیا۔ انہوں نے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی۔

’’بھئی دیکھو۔ یہ کوئی میرا ذاتی کام تو نہیں۔ یہ تو ثواب کا کام ہے۔ خود سوچو ہم برسوں سے قبرستان کی بے حرمتی کرتے آرہے ہیں۔ یہاں ہمارے بزرگ دفن ہیں اور   ہم قبروں پر نہ صرف چلتے پھرتے ہیں بلکہ جانور گندگی بھی کرتے ہیں۔ موت تو برحق ہے۔ سب کو آنی ہے۔ قبرستان نہیں رہے گا تو دفن کے لئے کہاں جاؤ گے ؟ سمشان گھاٹ کے بغیر مردے سڑک پر جلائے جا سکتے ہیں لیکن قبرستان کے بغیر……؟ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

آواز رک گئی تھی۔ خاموشی…… ہر طرف خاموشی۔

سناٹا طویل ہوتا گیا تھا۔ اس سے قبل کہ چہ مے گوئیاں شروع ہوتیں، قصہ گو کی آواز پھر بلند ہوئی۔

’’داستان درمیان میں روکنے کا بھی ایک سبب ہے۔

میں کئی صدی سے اس گاؤں میں آباد ہوں۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پہلے لوگ میرے نام سے ہی ڈرتے تھے۔ میرے آس پاس کوئی آبادی نہیں تھی۔ ویرانی، وحشت، خاموشی، تنہائی، سناٹے میرے گہرے دوست ہوا کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ بہت خوش تھا۔ کوئی قبر کھودی جاتی تو مجھے مسرت کا احساس ہوتا۔ جنازہ لئے جب لوگ میرے دامن میں آتے، مجھے خوشی ہوتی، ہر طرف سے لا ا لٰہ الا اللہ اور   اللہ اکبر کے کلمات بلند ہوتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے۔ گاؤں میں امیبا کی طرح جب خاندان بڑھنے لگے تو مکانات، قدموں قدموں،چلتے گاؤں کے باہر بھی نکل آئے تھے۔ میرے آس پاس بھی گھر آباد ہونے لگے۔ ہندو اور   مسلم دونوں نے اپنی زندگی آمیز حرکات و سکنات سے میرے احباب ویرانی، وحشت، خاموشی، تنہائی اور   سناٹے کو یکے بعد دیگرے اپنی موت آپ مرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ لوگو ں نے میرے اوپر سے راستے بنا لیے۔ اپنے بونگے، بٹورے، کوڑی بنانا اور   دوسرے کام شروع کر دئے۔ جانور باندھے جانے لگے۔ کھیت سے فصل کٹتی اور   میرے اوپر کھلیان بنائے جاتے۔ حتی کہ شادی بیاہ میں بھی میرا استعمال ہونے لگا۔ میں کیا کرتا؟ کس سے شکایت کرتا؟ ان سب کے باوجود مجھے سب سے اچھا گاؤں کا اتفاق و اتحاد لگتا تھا۔ میں اپنی بے عزتی بے حرمتی اور   پامالی پر خون کے گھونٹ پی کر یہی سوچتا رہ جاتا کہ خدا نہیں کبھی تو عقل و فہم دے گا اور   انہیں کبھی تو میرا خیال آئے گا۔

سنو! ذرا غور سے سنو!

میری داستان میں اب عروج آنے والا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

’’ہمیں کچھ نہ پتو، جب مرن گے جب دیکھن گے۔ ‘‘

عزیز بھائی اپنے موقف پر اٹل تھے۔ بابوجی کے سمجھانے سے بہت سے مخالفین مان گئے تھے لیکن دیوار کے سلسلہ میں کوئی چندہ یا مدد دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بابوجی نے گاؤں اور   شہروں سے چندہ جمع کر کے اینٹیں منگوا لی تھیں۔ سیمنٹ بھی آ گیا تھا۔ پوری تیاریاں ہونے کے بعد چہار دیواری کے لئے جمعہ کا دن منتخب ہوا تھا۔ گاؤں کے سمجھ دار قسم کے ہندو بھی بابوجی کے ساتھ تھے۔

’’باؤجی آپ پھکر نہ کرو۔ کام جوڑو۔ پھر دیکھن گے کس میں کتنو دم ہے۔ ‘‘

’’چار دیواری کا کام دکھن کی طرف سے شروع ہو گیا تھا۔ جہاں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ لیکن گاؤں میں آہستہ آہستہ افواہیں گرم تھیں کہ عزیز بھائی اور   ان کے بیٹے بلم اور  کٹے وغیرہ کا انتظام کر رہے ہیں،ان کے گھر کے سامنے خون خرابہ ہو سکتا ہے۔

بابوجی اور   عزیز بھائی ایک ہی خاندان کے افراد تھے۔ دو بھائیوں کی اولادیں تھیں۔ بڑے بھائی کے پانچ اور   چھوٹے کے تین بیٹے تھے۔ بڑے بھائی کے پانچوں بیٹوں کے بیٹے، پوتے،پوتیاں تقریباً پچاس لوگوں کا کنبہ تھا جو قبرستان کی مخالفت پر آمادہ عزیز بھائی کا طرف دار ہو سکتا تھا۔ سب ایک ہی تھے۔ ایک ساتھ کھاتے پیتے۔ کام کرتے۔ بڑا سا آنگن تھا جس کے چاروں طرف مکانات تھے۔ ہر کام ایک ساتھ۔ دانت کاٹی روٹی، ایک اپنے گھر کھانا کھاتا تو بابوجی کے یہاں پانی پیتا۔ رشتہ داریوں میں جاتے تو بابوجی خود بڑھ کر سب کا کرایہ ادا کرتے۔ کوئی معاملہ الجھ جاتا تو بابوجی منٹوں میں سلجھا دیتے۔ دور دور تک لوگ بابوجی کو احترام کی نظر سے دیکھتے۔ بابوجی کہہ کر پکارتے۔

ایک بار کا ذکر ہے۔ قبرستان اور   دگڑے کے بیچ میں ایک کوئیاں تھی۔ چھوٹی سی کوئیاں۔ بیس بائیس فٹ گہری اور   چار فٹ گولائی والی۔ کوئیاں کی صفائی چل رہی تھی کہ اچانک بابا صدیق کا بڑا بیٹا اختر نجانے کیسے کوئیاں میں گر پڑا۔ پاس ہی بابوجی کھڑے تھے۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ خود کوئیاں میں چھلانگ لگا دی اور   اس سے قبل کہ کوئیاں کا پانی بچے کو نقصان پہنچاتا، بابوجی نے بچے کو بچا لیا۔ بعد میں اوپر سے ٹوکرا، رسی سے باندھ کر لٹکایا گیا اور   بچے کو صحیح سلامت نکالا گیا۔ سب نے بابوجی کی بہت تعریف کی تھی۔ ایسے سینکڑوں معاملات و واقعات تھے جب بابوجی نے اپنی عزت داؤ پر لگا کر گاؤں کی عزت بچائی تھی۔ بڑے بابا کے بچوں کا بٹوارہ ہوا تو بابا صدیق کو انھوں نے زمین جائیداد سے الگ کر دیا تھا۔ اس وقت بابا صدیق گاؤں چھوڑ کر جانے کو تیار تھے۔

’’میں تو گاؤں چھوڈ کر جارا اوں۔ ‘‘

بابا صدیق کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسمٰعیل بابا نے بہت سمجھایا تھا۔ لیکن وہ کسی قیمت پر رکنے کو تیار نہ تھے۔ ایسے میں بابوجی نے اپنی قربانی دے کر معاملے کو سنبھالا تھا۔

’’صدیق بھائی تم گاؤں نہیں چھوڑ و گے۔ زمین کی ہی بات ہے نا۔ لو میرے حصے کی اس زمین میں گھر بنا لو۔ ‘‘ اور   انہوں نے اپنے حصے کی زمین پر بابا صدیق کا گھر بنوایا دیا تھا۔

قبرستان کی چار دیواری کے معاملے کو تین سال ہو گئے تھے۔ پتھر کی سلوں کی طرح مضبوط و مستحکم دلوں میں شگاف پڑ گئے تھے۔ ذاتی مفاد، تعلقات کی زمین کھود رہے تھے۔ لیکن کہتے ہیں نا ہوتا وہی ہے جو قدرت کو منظور ہوتا ہے۔ عزیز بھائی کو لاکھ سمجھایا گیا لیکن وہ نہیں مانے۔

’’نا میں نا بنن دن گو…‘‘

گاؤں کے غیر مسلم بزرگوں اور   نوجوانوں نے عزیز بھائی کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور   مزدوروں نے جلدی جلدی دیوار چن دی تھی۔ کچھ دیر بعد عزیز بھائی نے بھی ہارے ہوئے جواری کی طرح سپر ڈال دی تھی۔ انہیں اپنی شکست کا اتنا زبردست صدمہ پہنچا تھا کہ انہوں نے چار پائی پکڑ لی تھی اور   کچھ دن بعد چار پائی نے ڈولے کی شکل اختیار کر لی۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں اپنے کھیت کے ایک کونے میں دفنایا گیا۔ آپسی محبتیں نفرتوں، بغض و عداوت اور   دشمنی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ وقت کے ساتھ سب کچھ بدلتا چلا گیا۔ چہار دیواری کرانے والے بزرگ اللہ کے یہاں چلے گئے تھے اور   ان کی اولادیں زیادہ تر شہروں میں جابسی تھیں۔ اُدھر عزیز بھائی کے کھیت کا کونا وسیع ہو تا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آواز بند ہو گئی تھی……

خاموشی نے مارشل لا لگا دیا تھا۔

اچانک کسی کے سسکنے کی آواز بلند ہوئی۔

میں ……میں ……پھر ویران ہو گیا ہوں۔

اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ کوئی میرے آنسو پونچھنے والا بھی نہیں۔

جنازے میرے پاس سے گزر کر کھیتوں والے علاقے کو آباد کرتے ہیں میرے دامن کی قبریں اپنا ظاہری وجود بھی کھو چکی ہیں۔ چار دیواری کی اینٹیں لوگ حسبِ ضرورت اپنے گھروں میں لے جا چکے ہیں۔ میں ایک چٹیل میدان ہو گیا ہوں۔ کبھی کبھار بچے کرکٹ کھیلنے آ جاتے ہیں۔ میری شناخت ختم ہو گئی ہے۔ شاید یہ میرا آخری وقت ہے۔ ہرشئے کو موت آتی ہے۔ لیکن شاید مجھے آسانی سے موت نہیں آئے گی۔ وقت ابھی پورا نہیں ہوا ہے مجھے انتظار ہے، خاندان کے اس وسیع عریض آنگن والے مکان میں اٹھنے والی دیواروں کی طرح اپنے قریے اور   خطے میں اگنے والی دیواروں کا۔ جب مجھے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے بلند و بالا عمارتوں کی آماجگاہ بنا دیا جائے گا۔ وہ شاید میری داستان کا آخری صفحہ ہو۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

مرکزی حکومت کے منصوبے کے مطابق این سی آر میں آس پاس کے علاقے کو شامل کرتے ہی خالی پڑی زمینوں کی قسمت جاگ اٹھی۔ صدیوں سے مردہ پڑی دھنورا قبرستان کی زمین،آس پاس کی زمینوں کے ساتھ ایک بڑے Power Plant کے لئے منتخب کی جا چکی تھی۔ اندھیرے دن کے اجالے میں ضم ہو کر رات کی کوکھ سے نئی روشنی کی شکل میں نمودار ہو رہے تھے۔

٭٭٭


 

 

 

بنتے مٹتے دائرے

 

وہ خصوصی طور پر آسمان سے نہیں اتری تھی۔ اسی گاؤں میں پیدا ہوئی۔ بڑی ہوئی اور   اب گاؤں کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ گاؤں کی پہلی لڑ کی تھی جس نے ظلم سہا اور   آہستہ آ ہستہ خود کو ظلم کے خلاف کھڑا بھی کیا۔ ۔ وہ عام سی لڑکی تھی۔

وہ، ما تا دین اور   شربتی کی اکلو تی اولاد تھی۔ بچپن ہی سے وہ لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنی ہو ئی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی لیکن نین نقش ایسے کہ چہرے پر کشش اور   بھولپن ہمیشہ طاری رہتا۔ دس با رہ سال کی عمر تک تو وہ توتلی بھی تھی۔ زیادہ تر لوگ اسے سننے کے لیے بے سبب بھی چھیڑتے۔

’’کہاں دالی ہے لڑ کی؟‘‘ گاؤں کے چاچا البشر نے اسے چھیڑا۔

’’ کہیں نا دالی، بت‘‘اس کے جواب پر لوگ ہنس پڑے۔

’’ الے کوٗ دانت پھار لیے ہو؟‘‘ وہ تھوڑا طیش میں آ گئی۔

البشر چاچا، رامو، جو گندر، موہن سب مزید ہنسنے لگے۔

’’ میں تھمالی چھکایت کر لوں گی۔ بابا چھے ‘‘ وہ ان کی ہنسی سے تنگ آتے ہوئے بو لی۔

’’ دا بول دے، بابا چھوٗ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ رامو اس کی نقل کرتے ہوئے بو لا تو سب ایک بار پھر ہنس پڑے۔ اتنے میں ما تا دین وہاں آ گیا۔ ماتا دین بھنگی تھا۔ اسے ویسے بھی گاؤں کے لوگ بہت کمتر سمجھتے تھے۔ اکثر تو اس سے دور دور ہی رہتے۔ ما تا دین بڑا محنتی اور   ایماندار تھا۔ وہ گاؤں کے گھروں میں کام کرتا تھا۔ اس کی بیوی شربتی بھی گاؤں میں کام کیا کرتی تھی۔ دونوں نے اپنی بیٹی کو بڑے جتن سے پا لا تھا۔ وہ دونوں اپنی بیٹی کو، اپنے کام سے دور رکھنا چاہتے تھے اور   اسے پڑھانا بھی چاہتے تھے۔ بڑی منت سماجت کے بعد انہوں نے اپنی بیٹی کا نام گاؤں کے اسکول میں لکھوا دیا تھا۔ آشا،ہاں یہی نام تھا اس کا۔ آ شا اسکول جا نے لگی تھی۔ عمر میں تو وہ سات آٹھ سا ل کی ہو گی جب اسے اسکول میں بٹھایا گیا۔ اپنی کلاس میں وہ سب سے بڑی تھی۔

’’ بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیتھو۔ یہ سب مدے تنگ کر لے ہیں۔ ‘‘ آ شا نے ماتا دین کو دیکھ کر آواز لگائی۔ ماتا دین نے چاچا البشر اور   دوسرے لڑکوں سے نرمی سے کہا۔

’’ اسے تنگ نہ کرو، جاؤ اپنا کام کرو۔ ‘‘

 اور  سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ آشا محنت کرنا جانتی تھی۔ اسکول میں بھی وہ خوب دل لگا کر پڑھتی۔ لیکن دوسرے بچے اسے دھتکارتے رہتے۔ کبھی کبھی تو استاد بھی اس کے خلاف ہو جاتے۔

’’ سل، دیتھو، یہ مندو(منجو) مجھے تنگ کل لئی ہے۔ ‘‘

اس نے منجو نامی اپنی کلاس میٹ کی شکایت ٹیچر سے کی۔ منجو گاؤں کے مکھیا کی بیٹی تھی۔ مکھیا کا گاؤں پر راج تھا۔ اس کے دو ہٹے کٹے بیٹے تھے، پھر چار پانچ مشٹنڈے بھی ہر وقت بیٹھک پر پہرہ دیتے رہتے تھے۔ مکھیا گری راج برہمن تھا اور   اس کے پاس قریب ۱۰۰ بیگھے زمین تھی۔ اتنی زمین تو گاؤں کے اور   بھی کئی لو گوں کے پاس تھی، مگر گری راج دبنگ قسم کا آدمی تھا۔ وہ کئی بار سے الیکشن جیت رہا تھا۔ گاؤں کے آدھے سے زیادہ لوگ اس کے ووٹر تھے۔ با قی ماندہ، غریب، مزدور اور   کمین، اس کے رعب داب کے آگے آواز تک نہیں نکال سکتے تھے۔ ماتا دین تو بے چا رہ غریب گاؤں کی گندگی صاف کر نے کا کام کرتا تھا۔ کام کے بدلے لوگ اسے اناج دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک چیز اور   دیتے تھے نفرت، حقارت اور   پھٹکار، ماتا دین اور   اس کی بیوی شربتی ایسی ہی بے عزتی، نفرت اور   حقارت کے اپنے پیٹ میں بطور لقمے اتار اتار کر زندگی گذار رہے تھے، مکھیا تو اسے اکثر ذلیل کرتا رہتا تھا۔

’’ کیوں بے ماتا دین، دو دن سے صفائی کے لیے نہیں آیا۔ کہاں مر گیا تھا۔ ‘‘

’’ سر کار، میں شربتی کے گاؤں چلا گیا تھا، کچھ کام تھا۔ ‘‘

’’ بتایا کیوں نہیں۔ یہ کام کو ن کرے گا تیرا باپ۔ ‘‘

’’ ہمیں کریں گے سر کار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 اور  وہ مکھیا کے گھر کےٹا ئلٹ اور   باتھ روم صاف کر کے ہی گھر وا پس جاتا۔ گاؤں میں اب ترقی ہونے لگی تھی۔ گاؤں کی سڑ کیں بھی اچھی ہو گئی تھیں،کھیتی بھی اب بیلوں کے بجائے ٹریکٹر اور   دوسری مشینوں سے ہو نے لگی تھی۔ گاؤں کے مکھیا اور   اس جیسے امیر گھروں میں نیا فیشن آ گیا تھا۔ مو ٹر سائیکلیں، کاریں، کولر وغیرہ لگ گئے تھے۔ ٹائلٹ اور   باتھ روم بن گئے تھے۔ اب دیر سویر مردوں، عورتوں کو جنگل جانا نہیں پڑ تا تھا۔ لیکن گاؤں کی تقریباً نصف سے زیادہ آ بادی آج بھی سو سال پیچھے ہی تھی۔ گاؤں میں ایک ہی اسکول تھا۔ اسکول کے لیے بھی گری راج ہی نے سر کار کو زمین دی تھی۔ اسکول کے ما سٹر بھی مکھیا کو سلامی مارتے تھے۔ مکھیا کی بیٹی منجو اور   آ شا ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں۔ منجو کا اسکول میں سکہ چلتا تھا۔ وہ سب پر سواری کرتی تھی۔ ماسٹر بھی اسے کبھی کچھ نہیں کہتے۔ بچے بھی اس کی شکایت ما سٹر سے کر نے کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ وہ آ شا کو اکثر چھیڑ تی رہتی تھی۔ ایک بار آ شا نے جب منجو کی شکایت ماسٹر سے کی تو منجو کو بہت غصہ آ یا۔ اس ما سٹر کے سامنے ہی آشا کی چٹیا پکڑ کر اسے زمین پر گرا دیا۔ آشا کو اس اچانک حملے کی امید نہیں تھی۔ وہ گر تو گئی پر اٹھتے ہی اس نے منجو کے بال پکڑ لیے۔ اس سے قبل کے منجو، آ شا کے قابو میں آ جا تی، ماسٹر نے منجو کو بچا لیا اور   آشا کو پکڑ لیا۔ آشا کے ما سٹر کی گرفت میں آ تے ہی منجو نے آ شا کو ایک زبردست گھونسہ رسید کر دیا۔ آ شا کی ناک سے خون نکل آ یا۔ ما سٹر نے بیچ بچاؤ کراتے ہوئے آ شا کو ڈانٹا۔

’’ تم بے کار میں لڑ نے لگتی ہو___‘‘

’’ سل اس نے میلی ربر تو ڑ دی تھی اور   یہ مجھے دھولتی رہتی ہے۔ ‘‘ ( اور  یہ مجھے گھورتی رہتی ہے )

’’ مجھے منجو نے بتایا تم نے اسے گا لی دی تھی۔ ‘‘

’’ اب آ ئندہ اگر کسی سے بھی لڑیں خاص کر منجو سے تو تمہارا نام کاٹ دیا جائے گا۔

آ شا ہکّا بکّا سی ما سٹر کو دیکھ رہی تھی۔ ایک تو اس کی غلطی نہیں تھی۔ دوسرے اسی کو مارا بھی گیا اور   ما سٹر کی ڈانٹ بھی اسی کے حصے میں۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب کیا ہے ؟ اسے پتہ نہیں تھا کہ سماج میں کیا ہو رہا ہے ؟ کون بڑا ہے، کون چھو ٹا؟ اس کے بابا اور   ماتا کو گاؤں میں سب برا کیوں سمجھتے ہیں ؟ آ شا ان باتوں سے بے خبر تھی۔ اسے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ مکھیا کیا ہو تا ہے ؟ کیوں ہو تا ہے ؟ پھر منجو کیوں اس کو ہمیشہ برا سمجھتی ہے۔ اس سے دور دور رہتی ہے۔

گھر آ کر جب اس نے اپنی ماں سے سب کچھ بتایا تو شربتی نے اسے سمجھایا۔

’’ بیٹا تم اپنے کام سے کام رکھو۔ ‘‘

’’ وہ مدے ما لتی ہے۔ میں بھی اُتھے ما لوں گی۔ ‘‘

’’ نہیں بیٹا، اس کے پاپا مکھیا ہیں۔ ان کے پاس طاقت ہے ‘‘

’’ میلے پاپا بھی تا کت ول ہیں۔ میں بھی تم نہیں ہوں۔ مجھ میں بھی تا کت ہے۔ ‘‘

وہ بے چاری وہی سوچ رہی تھی اور   کہہ رہی تھی، جو جانتی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ طاقت کیا ہو تی ہے۔ گاؤں کا مکھیا یا پردھان کتنا طاقت ور ہو تا ہے۔ اسے علم ہی نہیں تھا۔ شر بتی نے اپنی بیٹی کو لپٹا لیا اور   بے تحاشہ پیار کر نے لگی۔ اس کے زخم کو اپنے دو پٹے سے صاف کرنے لگی۔ ۔ شربتی بیٹی کو پیار کرتے کرتے ماضی کے آنگن میں جا کو دی۔

گرمی کے دن تھے۔ دن میں لو چلتی تھی۔ راتیں بھی گرم تھیں۔ ایسے میں گیہوں کے کٹا ئی کے دن بھی آ گئے۔ دن دن بھر تپتی دو پہر میں کھیت کا ٹنا آسان کام نہ تھا۔ ماتا دین، اس کے بابا طوطا رام، شربتی اور   ان کی اکلو تی بیٹی آ شا۔ ماتا دین اور   طوطا رام تو پو پھٹنے سے پہلے ہی کھیتوں میں پہنچ جاتے اور   کٹا ئی شروع کر دیتے۔ شربتی سورج نکلنے کے بعد گھر کا کام کاج نپٹا نے اور   دونوں کا کھانا تیار کر کے آ شا کو گود میں لے کر شربتی کھیت پر جاتی تو اسے پیڑ کی چھاؤں میں بٹھا دیتی۔ وہ کھیلتی رہتی اور   سب کھیت کاٹنے میں مصروف ہو جاتے۔ مکھیا کے کھیت میں کام کرتے یہ ان کی تیسری پیڑھی تھی۔ بارہ مہینہ، تیسوں دن کام۔ کبھی کھیت کی جتائی تو کبھی بوائی___کبھی سردی کی ٹھٹھرتی راتوں میں پانی لگانا، فصل کاٹنا، اناج نکالنا۔ کام تھا کہ ختم ہی نہیں ہو تا تھا۔ اسی کام اور   کھیت میں ماتا دین کے دادا، ان کے بھائی اور   ما تا دین کے چاچا اور   بابا نے عمریں کھپا دیں تھیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے مگر کام تھا کہ قابو میں ہی نہیں آتا تھا۔ کبھی کبھی ماتا دین سر پکڑ کر سوچا کرتا، بھگوان کا بھی کیا نیائے ہے۔ ہمیں نسل درنسل دوسروں کی غلامی اور   مزدوری اور   مکھیا کے خاندان کو نسلوں سے نوابی اور   عیش ___ ہے بھگوان یہ کیا ہے ؟ کیا ہم اور   ہماری نسلیں اسی پر کار دوسروں کے گھر اور   کھیت پر کام کرتے کرتے مٹی میں مل جائیں گے۔ کیا ہماری نسل میں کوئی پڑھا لکھا نہیں ہو گا۔

’’ارے ما تا دین، کہاں کھو گیا۔ دیکھ تیری مانگ تو پیچھے رہ گئی۔ ‘‘

 اور  ماتا دین سوچ کی بستی سے با ہر آ جاتا۔ جلدی جلدی اپنے حصے کی مانگ پوری کرتا۔ سر کا پسینہ خود راہ بناتے، پورے جسم کا سفر طے کرتے کرتے تانگوں تک پہنچ جاتا۔ سورج دیوتا کو ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ کم از کم تھوڑی دیر کے لیے بادلوں میں منہ چھپا لے۔ ہمیشہ آ گ برسا تا رہتا۔ وہ اور   شربتی تھو دی دیر سستا نے کے لیے پیڑ کے نیچے بچی کے پاس چلے گئے تھے۔ طوطا رام کا م کرتے رہے۔ ۔ ماتا دین نے کمر سیدھی کر نے کو خود کو زمین سے ملا دیا تھا۔ پیڑ کی چھاؤں، ہلکی ہلکی پچھوا ہوا، ویسے تو ہوا گرم تھی لیکن پیڑ کے نیچے آ رام پہنچا رہی تھی، ماتا دین کو نیند آ گئی تھی۔

ماتا دین خواب کی حسین وادیوں میں تھا۔ وہ گاؤں کا مکھیا تھا۔ اس کی بڑی سی بیٹھک پر مجمع لگا ہے۔ گاؤں کے امیر اور   رئیس بیٹھے ہیں۔ گری راج بھی ایک کونے میں بیٹھا ہے۔ ما تا دین نے گری راج کو پکارا۔

’’ گری راج___وہاں کیوں بیٹھا ہے۔ ادھر آؤ۔ ‘‘

’’ جی سر کار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

گری راج کے پاس آ نے پر ما تا دین نے اپنا داہنا پاؤں اس کے کندھے پر لٹکا دیا۔

’’ لے داب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 اور  گری راج پاؤں دابنے لگا تھا۔

’’ اور   گری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کل سے تم گھر کا کام بھی سنبھال لو۔ میری ما لش کا کام تم خود کرو گے۔ اپنے بیٹوں کو بھی لگا لینا۔ ‘‘

’’ جی حضور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اچانک ایک زور کی آواز ہو ئی۔ ماتا دین درد سے بلبلا تا ہوا جاگ پڑا تھا۔ مکھیا کے آ دمی ادھر آ گئے تھے اور   ان میں سے ایک نے اس کے بہت زور کی لات ماری تھی۔

’’ کیوں بے حرام خور، کام چھوڑ کے مزے سے سو رہا ہے۔ ‘‘

بے چا رہ درد سے کراہتا ہوا اٹھ بیٹھا۔

’’ حرام کی توڑ تا ہے اور   اپنی لو گائی کو بھی آرام کراتا ہے۔ ‘‘

’’ معاپھ کر دو۔ جرا سی آنکھ لگ گئی تھی۔ ‘‘ ماتا دین گڑ گڑا یا۔

اس سے قبل کے مکھیا کے دوسرے آ دمی کی لات ما تا دین کے جسم کو چاٹتی، شربتی بیچ میں آ گئی اور   گڑ گڑا تے ہوئے بولی۔

’’ ہجور گلطی ہو گئی۔ ہم ابھی کام پر جا رہے ہیں۔ ‘‘

 اور  شربتی نے جلدی سے آشا کو اٹھا یا، ماتا دین کا ہاتھ پکڑا اور   چلچلاتی دھو پ میں بابا طوطا رام کی طرف چل پڑی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ ماتا دین سے پہلے طوطا رام اور   ان کے پتا جی بھی اسی طرح کی زندگی گذار چکے تھے۔ ہر وقت کام ہی کام۔ کام کے بد لے بس، با سی اور   بچا کھچا، کھانا___لیکن محنت کے بعد تو یہ کھانا بھی ایسا ہی لگتا جیسے من و سلویٰ ہو۔ ایسے ہی بے شرمی کے نوا لے تہہ در تہہ اپنے پیٹو ں میں اتار کر ما تا دین کی پوری نسل پہلے جوان، پھر بوڑھی اور   پھر اپنی انتم یا ترا تک پہنچی تھی۔

            ’’ ماں، او ماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھا نا دو نا، بھوت لدی ہے۔ ‘‘

آشا کے جملوں نے شربتی کو ماضی کے آنگن سے نکال کر حال کے کمرے میں لا دیا۔ آج جب اس کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تو اسے اپنے آ پ پر بہت غصہ آ یا۔ اسے بھگوان پر بھی غصہ آ یا۔

ہے بھگوان تو نے ہمیں، اتنا چھوٹا کیوں بنایا۔ ہمیں بھی برہمن بنا تا۔ دنیا ہمیں بھنگی کہتی ہے۔ زبردستی کام کرواتی ہے۔ مزدوری بھی پوری نہیں دیتے۔ اوپر سے نفرت کرتے ہیں۔ حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ہے بھگوان کیا ہمارا خون اور   ان کا خون الگ ہے۔ کیا ہماری کا ٹھی اور   ان کی کا ٹھی میں فرق ہے۔ ہے بھگوان میں نے بہت سہہ لیا۔ تو نے نیچ ذات میں پیدا کیا، میں کچھ نہیں بو لی۔ تو نے ما تا دین سے بیاہ دیا، جس کے گھر کوئی سکھ نہیں ملا، میں کچھ نہیں بو لی۔ اپنی نظروں سے پتی کو جو توں سے پٹتے دیکھا، میں کچھ نہیں بولی۔ لیکن آ ج میری بیٹی کو مارا گیا ہے۔ اب حد ہو گئی ہے اب میں بو لوں گی۔ میں اپنی بیٹی کی بے عزتی نہیں سہہ سکتی۔ میں اپنی بیٹی کو غلام نہیں بننے دوں گی۔ اسے پڑھاؤں گی، لکھاؤں گی۔ یہ پڑھ لکھ کر بڑی بنے گی۔ کسی کے گھر بے کار نہیں کرے گی۔ ایک دن لوگ میری بیٹی کے آ گے پیچھے گھومیں گے۔

آشا کی دو بارہ آواز پر وہ وا پس ہو ئی اور   اسے کھانے کو دیا۔

اگلے دن شربتی، آشا کو چھوڑنے اسکول گئی تو ما سٹر سے الجھ گئی۔

’’ ماسٹر صاحب! کل آپ نے میری بیٹی کو پٹوا یا۔ ‘‘

’’ ارے شربتی، تجھے پتہ ہے تو کیا بول رہی ہے۔ مکھیا کی بیٹی ہے وہ۔

’’ ہاں ! ہاں ! مجھے پتہ ہے پر میری بیٹی کا کوئی کسور ہو تب نا__‘‘

شر بتی اپنا احتجاج درج کرا کے جا چکی تھی۔ اسے وہ دن بھی یاد آ رہا تھا جب اس نے آشا کے داخلے کے لیے ماسٹر سے بات کی تھی۔ پہلے تو ماسٹر نے منع ہی کر دیا تھا۔ پھر جب اس نے ماسٹر کی خوشامد کی تو وہ تیار ہوا۔ لیکن مکھیا سے پوچھنے کے بعد داخلہ لینے کی بات کی اور   ایک دن جب مکھیا اسکول میں آئے تو ما سٹر نے آ شا کے داخلے کی بات رکھی۔

’’ہا۔ ہا۔ ۔ ۔ بھئی واہ۔ اب یہ بھی پڑھیں گے۔ چلو یہ بھی کر لو۔ ما سٹر کر لو بھئی داخلہ۔ پڑھ کر کیا کریں گے۔ ہم بھی دیکھیں گے۔ کرنا تو ہماری غلامی ہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

مکھیا کے لہجے میں تمسخر اور   حقارت تھی۔

شربتی کو اس سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ تو آشا کا داخلہ چاہتی تھی بس۔ شروع شروع تو آ شا کواسکول میں بڑی پریشانی ہو ئی۔ ایک تو اس کا توتلہ لہجہ، دوسرے سب کچھ نیا نیا۔ پھر کچھ دنوں بعد آ شا کا دل پڑھا ئی میں لگنے لگا تھا۔

وقت گذرتا گیا۔ چار پانچ سال کیسے ہوا ہوئے، پتہ نہیں چلا۔ اب آ شا جوانی کی دہلیز پر پوری آ ب و تاب کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کا رنگ سانولا ضرور تھا مگر چہرے کی ساخت غضب کی تھی۔ آنکھیں بڑی حسین تھیں۔ ایک کشش تھی اس کی آنکھوں میں گو یا کوئی مقناطیسی قوت بھری ہو۔ قد بھی اچھا تھا۔ کھلے بال جب ہوا کے دوش پر لہراتے تو نہ جانے کتنے دلوں پر بجلی گرتی۔ گاؤں میں آ شا کے چرچے ہو نے لگے تھے۔ گاؤں کے آوا رہ لڑکے اسے دیکھ کر آ ہیں بھرتے۔ لیکن مجال ہے کسی کی جو اس سے کچھ کہہ دے۔ آ شا مضبوط قوت ارادی کی لڑ کی تھی۔ وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف لڑنے کو تیار ہو جاتی تھی۔ بچپن سے جوانی تک بہت سے واقعات تھے جب آ شا نے دوسروں کی مدد کی۔ لڑ کیوں کو لڑکوں سے بچانا اور   دبے کچلوں کی مدد کرنا، اس کا شوق تھا۔ وہ کبھی کسی سے ڈرتی نہیں تھی۔ ایک بار وہ اسکول سے لوٹ رہی تھی۔ اس نے دیکھا راستے میں گاؤں کے دو آوا رہ لڑ کے، اس کی چچا زاد بہن مینا کو پریشان کر رہے تھے۔ آ شا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، وہ ان لڑکوں میں سے ایک سے بھڑ گئی۔ اس نے اس پر گھو نسوں کی با رش کر دی۔ دوسرا لڑ کا بھیڑ جمع ہو تے دیکھ رفو چکر ہو لیا تھا۔

شربتی کو بیٹی کی جوانی سے خوف آ نے لگا تھا۔ وہ جانتی تھی زمانہ کتنا خراب ہے۔ دوسرے نچلے ذات کی عورتوں اور   لڑ کیوں کو تو لوگ مالِ مفت سمجھتے ہیں۔ اسے اپنی جوانی یاد آ گئی تھی۔ جب وہ جوانی کی دہلیز پر تھی تو اس کے گاؤں کے پردھان کے بیٹے کی نظر اس پر پڑی تھی۔ بس پھر کیا تھا۔ وہ ہر وقت اس کے پیچھے پیچھے رہا کرتا۔ شربتی، پردھان کے گھر کام کاج کے لیے جاتی تھی۔ اپنا بہت خیال رکھتی لیکن طاقت کے آ گے سب بے سود ہو تا ہے۔ پردھان کے بیٹے نے ایک دن اس کا منہ دبا کر اپنے کمرے میں بند کر لیا۔ وہ رو تی رہی اور   اس کی قسمت اس پر ہنستی رہی۔ طاقت کے نشے نے اس کے چپے چپے پر تباہی مچا ئی تھی۔ اسے تو کچھ بھی ہوش نہیں تھا۔ ہوش آ نے پر وہ بے سدھ سی پڑی تھی۔ پردھان کا لڑ کا سامنے تھا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔

’’ کسی سے کہا تو تجھے اور   تیرے خاندان کو خاک میں ملا دوں گا۔ ‘‘

 اور  شربتی نے اس معاملے کو اپنے گنا ہ کی طرح چھپا لیا تھا۔ اسے پتہ تھا پردھان اور   اس کے بیٹے کتنے طاقت ور ہیں۔ کچھ مہینوں بعد اس کی شادی ما تا دین سے ہوئی تو وہ مرسینا گاؤں سے فراد پور آ گئی تھی۔ غریبی، بے بسی اور   بے غیرتی اس سے چمٹی یوں چلی آئی تھیں گو یا وہ اس کے جہیز کا حصہ ہوں۔ ماتا دین کے گھر کے لوگ بھی مزدور پیشہ تھے اور   مکھیا گری راج کے یہاں کام کرتے تھے۔ شادی کے کچھ دن بعد ہی شربتی کو بھی مکھیا کے گھر کام کاج کے لیے جانا پڑا تھا۔ نیا ہمیشہ نیا ہو تا ہے، وہ بھی نئی نویلی دلہن ہی تو تھی۔ اس پر بھی دلکشی سوار تھی۔ جو بن پھوٹا پڑ رہا تھا۔ مکھیا نے اسے ایک بار دیکھا، تو دیکھتا ہی رہ گیا۔

’’ ماتا دین تیری جورو تو بڑی شاندار لگے ہے۔ تو نے بتایا نہیں تیرا وواہ کب ہوا؟

ما تا دین شرماتا ہوا اپنے اندر سمایا جا رہا تھا

’’ جی سر کار، بس پچھلے ہفتے ہی تو ہوا ہے۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے آج رات اسے یہیں چھوڑ دو۔ مالکن کی خد مت کے لیے۔ ‘‘

ماتا دین نے تو رو بوٹ کی طرح ہر حکم پر سر ہلانا سیکھا تھا۔ کیا کرتا۔ شربتی اسے التجا بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ مگر سب بے سود تھا۔

 اور  وہ رات مالکن کے بجائے، اسے مالک کی خدمت کرنی پڑی۔ غم، غصہ اور   جنون اس کے اندر ابال مار رہا تھا۔ پر کیا کرتی۔ بڑے لوگوں سے ٹکرانا، خود ریزہ ریزہ ہو جانا ہے۔ یہ تو دنیا میں نہ جانے کب سے چلے آ رہے سلسلے میں غریب بے چارہ مجبور و بے کس ہوتا ہے۔ صحیح کہا ہے کہ غریب کی جورو سب کی جورو ہو تی ہے۔ اگلے دن جب وہ گھر پہنچی تو ماتا دین نے پو چھا۔

’’ مالکن کی کھد مت کی نا تم نے۔ ‘‘

’’ ہاں مالک نے خوب کھدمت لی ہے۔ ‘‘

بے چا رہ ماتا دین سمجھتے ہوئے بھی نا سمجھ بن گیا تھا کہ یہی چارہ تھا وہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ مالک کی خد مت کیا ہو تی ہے۔ مالکن کی خد مت تو بہانا ہو تا ہے۔ مکھیا اس سے قبل بھی اس کی برا دری کی بہوؤں اور   بیٹیوں سے خدمت لے چکا تھا۔ ماتا دین کے دل میں کبھی کبھی بہت جوش آ تا۔ غصے کے مارے اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا، ہاتھوں کی مٹھیاں بھنچ جاتیں۔ جی چاہتا مکھیا کے کئی ہزار ٹکڑے کر دے اور   با ہر میدان میں چیل کوؤں کے آ گے ڈال دے۔

وقت دبے قدموں پرواز کرتا رہا۔ شربتی ایک بچی کی ماں بنی۔ بچی کا نام آ شا رکھا۔ آ شا تھی تو سانولی لیکن چہرہ بہت دلکش تھا۔ آ شا، ما تا دین، بابا طوطا رام اور   شربتی کے کاندھوں، کاندھوں بڑی ہو تی گئی۔ شروع شروع میں تتلا ہٹ نے کا فی پریشان کیا بعد میں وہ بھی غائب ہو گئی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

آشا جب سولہ سال کی ہوئی تو اس کی جوانی کے چرچے گاؤں میں پھیل گئے تھے۔ اس نے دسویں کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ پر اب آگے کی پڑھا ئی کی بات تھی۔ آ شا چاہتی تھی آ گے پڑھے۔ لیکن ماتا دین اس کا بیاہ کرنا چاہتا تھا۔ اسی دوران یہ ہوا کہ گاؤں کے پنڈت مدن کا لڑ کا چندر موہن اس کی طرف بڑھنے لگا۔ آ شا کا دل بھی چند ر موہن کے لیے دھڑکنے لگا۔ دونوں اسکول، گھر،کھیت، کھلیان میں چھپے چوری ملنے لگے۔

’’ آ شا۔ ‘‘

’’ ہوں۔ ‘‘

’’تم بہت خوبصورت ہو۔ ‘‘

’’ جھوٹے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مجھے پتہ ہے میں کتنی خو بصورت ہوں۔ ‘‘ آ شا چندر موہن کو ٹکا سا جواب دیتی۔

’’ آ شا، خوبصورتی صرف رنگ کی نہیں ہو تی۔ خوبصورتی من کی ہو تی ہے۔ پھر رنگ ہے ہی کیا، اصل تو نین نقش ہوتے ہیں، بناوٹ ہو تی ہے، روپ ہو تا ہے اور   اس میں تم لا جواب ہو۔ پھر تمہارا نام، لاکھوں کروڑوں میں ایک ہے۔ ‘‘ چندر موہن حسن کے دریا کو عبور کر رہا تھا۔

’’ اچھا۔ کیا ہے میرے نام میں۔ ‘‘ آ شا مزے لیتی ہو ئی بو لی۔

’’ آشا۔ یعنی امید، بھرو سہ، قرار۔ ایک ایسی امید تمہارے نام میں چھپی ہے کہ نا امیدیں رفو چکر ہو جاتی ہیں۔ جگ کی آ شا ہو تم۔ نرا شا کے اندھیارے میں ایک کرن ہو تم، ایک روشنی ہو، نراش لوگوں کے لیے۔ جہاں ناکامی اپنے جھنڈے گاڑ دیتی ہے، جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آ تا وہاں تم ایک روشنی بن کر آ تی ہو۔ تم سنسار کی ناکا می، نا مرادی، مایوسی، نا امیدی اور   کم ہمتی کے لیے راستہ بن جاتی ہو۔ آ شا یعنی نرا شا کے ایک یگ کا خاتمہ۔ آ شا یعنی نئے یگ کی شروعات۔

’’اچھا بابا بس کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم تو کویتا لکھنے لگے۔ ‘‘

 اور  پھر دو بے چین روحیں، فاصلے برداشت نہ کر سکیں۔ ان کے پس و حال سے موسم تبدیل ہو گیا، ہوا مہک گئی۔ چرند پرند مست ہو کر جھومنے لگے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

مکھیا کی بیٹھک پر مجمع لگا تھا۔ ایک تازہ مسئلہ زیر بحث تھا۔

’’ مکھیا جی۔ ماتا دین کی لڑ کی اور   پنڈت مدن کے لڑ کے میں جبر دست اشک چل رہا ہے ‘‘ گاؤں کے ایک ادھیڑ کنور سین نے بتایا۔

’’اوہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لونڈیا کے پر نکل آئے ہیں۔ ‘‘

’’ سر کار دونوں اکثر ادھر ادھر دکھائی دیتے ہیں۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھو متے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’ جاؤ ما تا دین کو بلا لاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مکھیا کے حکم پر اس کے مشٹنڈوں میں سے ایک، ماتا دین کے گھر چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں ماتا دین ہاتھ جوڑے حا ضر تھا۔

’’ ہاں بھئی ماتا دین، ہم کیا سن رہے ہیں، تیری لونڈیا پنڈت کے لڑ کے سے عشق لڑا رہی ہے۔ ‘‘

’’ سر کار ہم سجھا دیں گے اسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ ہاں اسے سمجھا دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ورنہ تو ہمیں جانتا ہے۔ ‘‘

’’ جی سر کار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ماتا دین نے گھر آ کر شربتی کو سب کچھ بتایا۔ شربتی دونوں کے معاملات سے واقف تھی۔ اسے چندر موہن اچھا لگتا تھا۔ لیکن وہ معاملے کے انجام سے بھی ڈرتی تھی۔ اس نے کئی بار آ شا کو سمجھایا تھا۔

’’ آ شا۔ بیٹا تمہارا یہ خواب پورا نہیں ہو پائے گا۔ ایسے خواب مت دیکھو۔ ‘‘

’’ ماں، چندر موہن کچھ دن بعد با ہر پڑھنے چلا جائے گا۔ میں بھی چلی جاؤں گی۔ پھر ہر خواب پورا ہو گا۔ ‘‘ آشا کے حوصلوں کے آ گے شربتی جھک جاتی تھی۔ وہ چندر موہن سے بھی بات کر چکی تھی۔ چندر موہن اٹل تھا۔ وہ تو سماج سے لڑ جانے کو بھی تیار تھا۔ شربتی نے مکھیا وا لی بات بھی دونوں کو بتا دی تھی۔ دونوں نے جلد ہی گاؤں چھوڑنے اور   شہر جا کر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 ایک دن شام کا وقت تھا۔ آ شا اور   چندر موہن گاؤں کے با ہر کھیت میں گھوم گھوم کر باتیں کر رہے تھے۔ مکا، جوار اور   باجرے کے کھیت اب بھرے بھرے لگنے لگے تھے۔ پورے علاقے میں ایک خوشبو سی پھیلی ہو ئی تھی۔ موسم سہانا تھا۔ گرمی رخصت ہو رہی تھی اور   برسات کی آ مد آ مد تھی۔ دو ایک بار بارش ہو چکی تھی۔ آسمان پر بادل کے چھوٹے موٹے ٹکڑے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ چاند آ ہستہ آ ہستہ روشن ہو رہا تھا، چندر موہن آ شا کے پاس تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا گویا چندر موہن چاند ہے اور   وہ چاندنی اور   چندر موہن سے نکلتے ہوئے وہ سنسار پر چھا ئی ہو ئی ہے۔ سب کو دودھیا کر رہی ہے۔ وہ چندر موہن کو پا کر خوش تھی۔ اس کی اندھیری زندگی میں چندر نے جو چاندنی پھیلا ئی تھی، وہ اسے منور اور   مخمور کیے ہوئے تھی۔ ڈھلتی سہانی شام کا مدھم ہو تا اجالا رات سے گلے ملنے کو بے تاب تھا۔ پرندے اپنے ٹھکانوں کی جانب لوٹ چکے تھے۔ ہوا بھی رکی رکی سی تھی۔ کھیتوں پر خاموشی کی ایک چادر سی بچھی تھی۔ گاؤں کے راستے پر اکا دکا بیل گاڑی اور   کسان آ تے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ چندر موہن آج زیادہ ہی رو مانی ہو رہا تھا۔ آشا آؤ، اپنے چاند میں سما جاؤ اور   آشا نے، نہیں چاندنی نے، خود کو چاند میں سمو دیا تھا۔ ابھی کوئی پل ہی گذرا ہو گا کہ اچانک منظر بدل گیا۔ ایک برق رفتار گاڑی وہاں آ کر رکی۔ بریک کی آواز نے سناٹے کے تھپڑ رسید کر دیا تھا۔ گاڑی میں سے چار پانچ ہٹے کٹے غنڈہ نما لڑ کے اترے اور   عجیب تیوروں سے دونوں کی جانب بڑھنے لگے۔ چندر موہن اور   آ شا کی زندگی پر اچانک کثیف با دلوں کے سائے لہرا نے لگے۔ دونوں نے خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ وہ لوگ قریب آئے تو پتہ چلا ان میں دو مکھیا کے بیٹے اور   باقی ان کے ساتھی تھے۔ دونوں خطرہ بھانپتے ہوئے ایک طرف کو بھاگنے لگے لیکن وہ کہتے ہیں نا بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ان لوگوں نے دونوں کو گھیر لیا۔ دو تو چندر موہن پر ایسے جھپٹے،جیسے چیل اپنے شکار پر لپکتی ہے،دونوں نے چندر موہن کو لاتوں اور   گھونسوں کی زد پر لے لیا۔ اس سے قبل کہ آ شا کی چیخیں خاموشی کا قتل کرتیں، باقی لڑکوں نے آ شا کو دبوچ کر اس کا منہ دبا دیا اور   شا ہرا سے دور ایک گنے کے کھیت کی طرف لے گئے۔ چندر موہن کو بے ہوشی کی حا لت میں چھو ڑ کر وہ بھی مشن میں شامل ہو گئے۔ آشا آسانی سے ہار ماننے وا لی نہیں تھی۔ اس نے پوری طاقت لگا کر ایک لڑ کے کے لات ماری۔ دوسرے کے ہاتھ میں کاٹ لیا۔ مگر تعداد پھر بھی اہم ہو تی ہے اور   پھر مرد کے مقابلے صنفِ نازک۔ آشا بھی مشٹنڈوں کے گھونسوں اور   تھپڑوں کے آگے زیر ہو گئی تھی اور   پھر چاروں پانچوں نے آشا کی آشاؤں کو نراشا  میں بدلنا شروع کر دیا۔ ہوس کا شیطان اپنا سفر طے کرتا رہا۔ آ شا روندی جاتی رہی بالآخر وہ بے ہوش ہو گئی۔ کافی دیر بعد کسی کسان نے انہیں نیم مردہ حا لت میں دیکھ کر شور مچا نا شروع کیا۔ سارا گاؤں، کھیتوں کی طرف دوڑ پڑا۔ ماتا دین اور   شربتی کی دنیا ویران ہو چکی تھی۔ آ شا مردہ حا لت میں بے سدھ سی پڑی تھی۔ کچھ ہی دوری پر پنڈت مدن کا لڑ کا چندر موہن بھی زخم خوردہ، مردہ سا پڑا تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے دونوں کو گاڑی میں ڈال کر شہر کے سرکارہ اسپتال میں داخل کرا دیا۔ پو لیس بھی حر کت میں آ گئی تھی۔ شربتی کو ہوش نہیں تھا۔ اس کا سب کچھ خاک میں مل گیا تھا۔ ہوش آنے پراس نے پولیس چوکی پر رپورٹ لکھوا دی تھی۔ رپورٹ تو بے نام تھی۔ لیکن سب کو شک تھا کہ یہ کام مکھیا کے بیٹوں کا ہی ہے۔ پو لیس نے چھا ن بین شروع کر دی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ پو لیس کپتان پچھلے ہفتے ہی بدلا تھا۔ اس نے سارے تھانوں کی پولیس کو ٹائٹ کر دیا تھا۔ معاملہ دبا نے کی بھی کوششیں جاری تھیں۔ لیکن بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جا رہی تھی۔ اگلے دن اخبارات کی سرخی پر بھی آ شا کے زخم اور   چندر موہن کے خون کے قطرے نظر آ رہے تھے۔ مکھیا اور   اس کے بیٹے گھر چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ پو لیس نے دن رات محنت کر کے ایک مجرم کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس نے تھرڈ ڈگری سے گذرتے ہوئے سب کچھ بتا دیا تھا کہ کس طرح مکھیا اور   اس کے بیٹو نے آ شا کے ساتھ اس گھنونے کھیل کا منصوبہ بنایا تھا۔

شربتی اتنی ٹوٹ چکی تھی کہ اب کچھ بچا نہیں تھا۔ آ شا زیر علاج تھی۔ شربتی نے ٹھان لیا تھا کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ وہ اپنی لڑا ئی لڑ رہی تھی۔ گاؤں کے اس کی برادری کے لوگ اس کے ساتھ تھے۔ سب ایک ہو گئے تھے آس پاس کے گاؤں کے دلت بھی ساتھ آ گئے تھے اور   ایک طاقت بن چکے تھے۔ آہستہ آ ہستہ معاملہ تحریک بنتا جا رہا تھا۔ پولیس پر دباؤ بڑھنے لگا تھا اور   پھر ایک دن سارے مجرم گرفتار ہو کر جیل چلے گئے تھے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

ادھر آشا اور   چندر موہن صحت مند ہو کر شہر ہی میں پڑھنے لگے تھے۔ آشا نے گرلز کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور   ہوسٹل میں رہنے لگی تھی۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ پہلے وہ تعلیم حاصل کرے گی پھر اپنے قدموں پر کھڑی ہو کر سماج میں پھیلے درندوں سے لڑے گی۔ ادھر چندر موہن نے انجینئرنگ کالج جوائن کر لیا تھا۔ دونوں کی کبھی کبھار ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ مکھیا کے تیور ڈھیلے پڑ نے لگے تھے۔ اس نے ماتا دین اور   شربتی پر سمجھوتے کا دباؤ بنایا۔ لالچ بھی دیا۔ جب کوئی ترکیب کام نہ آ ئی تو دھمکیاں دیں۔ یہی نہیں ایک بار عدالت میں تاریخ کے وقت شربتی پر قاتلانہ حملہ بھی کروا یا گیا۔ وہ تو شر بتی کی زندگی تھی جو وہ بچ گئی۔

وقت مسکراتا ہوا فراد پو ر سے گذرتا گیا۔ آ شا نے کسی طرح گریجویشن کر لیا تھا، بی ایڈ بھی مکمل کر چکی تھی۔ اسی دوران پردھانی کے الیکشن آ گئے۔ فراد پو ر گاؤں ایس سی ایس ٹی کے لیے ریزرو کر دیا گیا تھا۔

ماتا دین کی برادر، کے لوگوں نے میٹنگ کی۔

’’ بھئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب بہت ہو گیا اب ہم اور   اپمان نہیں سہیں گے۔ چناؤ سر پر ہیں۔ سیٹ بھی ریزرو ہو گئی ہے۔ ہمیں اپنا امیدوار کھڑا کرنا ہے۔ مشورہ دو کسے کھڑا کیا جائے۔ ‘‘

بابا لکھی رام نے برادری کی میٹنگ میں جب شروعات کی تو سب میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ کئی نام آنے پر اتفاق نہیں ہو پایا۔

’’ کوئی اور  نام ہو____‘‘ دھرم جاٹو بو لا

’’ارے، آشا کو کھڑا کرو۔ وہ پڑھی لکھی بھی ہے __

’’ہاں ! ہاں !‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں۔

’’ پر وہ تو شہر میں ہے۔ کیا وہ تیار ہو جائے گی‘‘ ایک آواز ابھری۔

’’ ہاں کیوں نہیں ہم منا لیں گے اسے ‘‘ ایک بزرگ نے بات سنبھالی۔

آشا کے سامنے جب بات آئی تو اس نے بہت غور کیا۔ اسے لگا اب اس کے مشن کا صحیح وقت آ گیا ہے۔ اس نے برادری وا لوں کی آشا کو پورا کر نے کے لیے حامی بھر لی۔ فراد پور گاؤں میں تقریباً دو ہزار ووٹ تھے۔ 700 سے زیادہ دلت ووٹ تھے جب کہ برہمن، پنڈت،گو جر ووٹ بھی آٹھ سو کے آس پاس تھے۔ مسلمان بھی ایک آدھ سو تھے۔ مالی، کمہار اور   گڑریے ملا کر دو ہزار بائیس ووٹ بنتے تھے۔ مکھیا کے زیر اثر برہمن، پنڈت اور   گو جر تو تھے ہی۔ رعب داب کی وجہ سے ما لی گو جر، کمہار اور   مسلمان بھی اسے ووٹ دیتے تھے۔ پر اس بر نقشہ بد ل چکا تھا۔ دلتوں کے ساتھ مسلمان بھی آ گئے تھے۔ مالی، کمہار بھی بھی مکھیا سے پریشان تھے۔ گو جر اور   پنڈت برادری کے کیچھ لوگ اندر اندر مکھیا کو ہرا نا چاہتے تھے۔ گاؤں میں دو ہی امیدوار کھڑے ہوئے۔ مکھیا نے اپنے امید وار کے لیے بہت کوششیں کیں، بڑی زور آزمائی ہو تی رہی۔ الیکشن کے دن خون خرابے کے بھی مواقع تھے لیکن چپے چپے پر موجود پو لیس نے حالات پر قابو رکھا۔ ریزلٹ آ تے ہی آشا کا پرچم بلند ہو گیا تھا۔ مکھیا کے ارمانوں اور   آشاؤں کو آشا نے نراشا میں بدل دیا تھا۔ اب سیاسی طاقت پسماندہ لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی تھی۔ ریاست میں بھی، اقتدار میں تبدیل ہو ئی تھی اور   دلت حمایت والی سر کار، حکومت میں آ گئی تھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

شربتی، ماتا دین اور   اس کی برادری کے لوگوں میں نیا جوش آ گیا تھا۔ دوسری طرف مقدمات الجھتے الجھتے مکھیا گری راج کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی گئی۔ پہلے بیٹو اور   اس کے ساتھیوں کو عمر قید ہوئی پھر زمینیں بکنے شروع ہو گئیں۔ دن بہ دن مکھیا کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا تھا۔

آ شا نے گاؤں کو ہر طرح سے سدھارنے کی کوشش کی تھی۔ اسکول کو خوب فروغ دیا۔ لڑ کیوں کا الگ سے ایک اسکول بھی بنوایا۔ فراد پور آس پاس کے ضلعوں میں بھی مشہور ہو گیا تھا۔ لوگ اسے آشا کے نام سے پہچانتے تھے۔ ایک دن آشا کی چندر موہن سے ملاقات ہوئی۔

’’تم،آج بھی آشا بن کر سب کو موہ رہی ہو۔ ‘‘

شاعری نہیں کرو، یہ بتاؤ یہ چاند آج کل کس کے آنگن میں چمک رہا ہے۔ ‘‘

کہیں نہیں۔ آج بھی آنگن کی تلا ش۔ اس تلاش میں چاند، اپنی چاندنی تک آیا ہے۔ ‘‘

اوہ یہ بات ہے۔ ‘‘آشا کے چہرے پر خوشی کے ہلکے سے سائے تھے۔

’’میں اپنے بابا سے مشورہ کروں گی‘‘

’’کیوں یہ تو تمہارا ذاتی معاملہ ہے۔ ‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے۔ لیکن ہم لوگ ابھی اتنے ایڈوانس نہیں ہے۔ ‘‘

ماتا دین نے برادری کے بزرگوں کے سامنے آ شا اور   چندر موہن کی شادی کی بات رکھی تو برادری کے لوگوں میں ابال آ گیا تھا۔ فوراً ایک میٹنگ رکھی گئی۔ برادری کے ایک بزرگ نے کہا

’’آشا ہماری شان ہے۔ آن اور   بان ہے وغیرہ برادری میں کیسے شادی کر سکتی ہے

سب خاموش ہو گئے تھے۔ ایک پڑھے لکھے نو جوان نے کہا۔

’’ آشا پڑھی لکھی ہے۔ شادی میں اس کی مرضی شامل ہونی چاہیے۔ ‘‘

بہت دیر کے بحث و مباحثے کے بعد برادری نے ماتا دین کو سمجھا دیا تھا کہ برادری برادری ہوتی ہے اور   اس سے باہر جانا نہ صرف برادری سے غداری ہے بلکہ صدیوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔

 اور آشا کے آکاش پر سیاہ کثیف بادلوں نے چاند اور   چاندنی کے درمیان ہمیشہ کے لئے پردہ کر دیا تھا۔

٭٭٭


 

 

 

نہ بجھنے وا لا سو رج

 

دوپہر کا وقت تھا۔ آسمان صاف تھا۔ با رش بند ہو گئی تھی۔ دھوپ مسکرا نے لگی تھی۔ ۔ ہر چیز دھل کر صاف ستھری اور   نکھری نکھری ہو گئی تھی۔ بانو بیل، بھینس کو با ہر کھور پر باندھ کر ان کے چارے کا انتظام کرنے لگی۔ اتنے میں با ہر سے آواز آ ئی۔

’’چٹھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ اری بانو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ او بانو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چٹھی آ ئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لے لے۔ ضرور آفتاب کی ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بڑھیا رمضانو بولی۔

اتنا سنتے ہی بانو جو کہ جانوروں کا گو بر اٹھا رہی تھی۔ بغیر ہاتھ دھوئے چلاتی ہو ئی باہر کو بھا گی۔ ۔ ۔

’’ لاؤ___بابو لاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری چٹھی۔ ۔ ۔ ‘‘

 اور  ڈاکیہ سے چٹھی لے کر دوڑ تی ہوئی گھر میں آئی۔

’’ماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ منا کدھر ہے۔ ذرا اس سے چٹھی پڑھواتی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ ارے ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منا تو کھیت کی طرف گیا ہے۔ آ تا ہی ہو گا بس ذرا سی دیر میں۔ ‘‘ رمضانو بو لی۔

مگر خوشی کے مارے بے چین با نو چٹھی لے کر کھیت کی جانب چل پڑی۔ راستے میں اسے دور سے منا آ تا ہوا دکھائی دیا۔ وہ خوشی کے مارے وہیں سے چلائی۔

’’ منا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھ چٹھی آئی ہے۔ ‘‘

قریب آ تے ہوئے منے کو وہ خط دیتی ہو ئی بو لی۔

’’ دیکھ تو کس کی ہے ؟ کہاں سے آئی ہے ؟ مجھے تو تیرے بھیا کی لگتی ہے۔ ضرور ان کی ہی ہو گی، ہے نا۔ ‘‘

وہ ایک ہی سانس میں کہے چلی گئی۔ منا چٹھی پڑھنے لگا۔

’’ ارے زور سے پڑھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا لکھا ہے۔ میں بھی تو سنوں۔ ‘‘وہ بو لی۔

’’ بھا بی___ بھیا کا خط ہے۔ لکھا ہے کہ وہ اس مہینے کی۱۲/ تاریخ کو گھر آ رہے ہیں۔ ‘‘ منا ہنستا ہوا بو لا۔

’’ سچ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سچ۔ ۔ ۔ ۔ تو صحیح کہہ رہا ہے نا___یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ اب کے پورے دو سال بعد آ رہے ہیں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے منا کے گال کو چوم لیا۔

’’ ارے آ ج تو ۶  تاریخ ہے۔ بس پانچ دن ہیں ان کے آ نے کے۔ ‘‘

گاؤں شاہ پور میں، مٹی کے کچے سے مکان میں ایک چھوٹا سا خاندان رہتا تھا۔ بڑھیا رمضانو اور   اس کے دو بیٹے آفتاب اور   مہتاب۔ آفتاب کی شادی بانو سے ہوئی تھی۔ شادی کو کئی سال گزر گئے تھے مگر اب تک ان کی محبت کا گلشن ویران پڑا تھا۔ آفتاب بی ایس ایف میں نو کری کرتا تھا۔ ادھر دو برسوں سے دشمن ملک سے جنگ چل رہی تھی۔ اس لیے اسے گھر آ نے کی فرصت نہیں ملی تھی۔ خط میں وہ کئی بار لکھ چکا تھا، بلکہ آنے کی تاریخ بھی دے چکا تھا۔ مگر فو جی اور   ڈاکٹر کا ہر پل ادھار ہو تا ہے۔ اس کا سونا جاگنا سب دوسروں کے لیے وقف ہو تا ہے۔ اس کی نظر میں اس کا فرض ہی سب سے بڑا رشتہ ہو تا ہے۔

اس بار کمانڈر نے اسے بڑی مشکل سے ایک ہفتے کی چٹھی دی تھی۔ اس نے چھوٹے بھائی مہتاب کو خط کے ذریعہ اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔ مہتاب نویں کلاس کا طالب علم تھا۔ بانو پڑھی لکھی نہیں تھی۔ سا نو لی سی مگر تیکھے ناک نقشہ وا لی، آنکھیں بڑی بڑی، ہو نٹ پتلے پتلے، دونوں ہونٹوں کے درمیان چمکتے مو تی سے دانت، ہستی تو یوں گمان ہو تا، جیسے سرمئی بادلوں سے بجلی چمک رہی ہے۔ آفتاب کو وہ بہت پسند تھی۔ رمضانو سے تو کچھ ہو تا نہ تھا۔ بانو ہی گھر اور   باہر کا کام سنبھالتی تھی۔ رو ٹی پکانا، برتن مانجھنا، کپڑے دھونا، جانوروں کا خیال کرنا، گو بر کے اپلے بنانا اور   کھیت سے گھاس کاٹ کر لانا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہر کام میں ما ہر ہو۔ ادھر دو سال سے وہ اپنے شو ہر کی یاد میں سو کھ کر کانٹا ہو گئی تھی۔ اسے ہمیشہ اپنے آفتاب کی جان کا خدشہ لگا رہتا۔ کہیں آفتاب غروب نہ ہو جائے اور   اندھیرا ہی اندھیرا پھیل جائے۔

آج سارا گھر بہت خوش تھا۔ بانو تو پھولے نہیں سما رہی تھی۔ گھنٹوں آئینے کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے میں خود کو سنوارتی رہی۔ آج اس نے نئے نئے کپڑے پہنے تھے جو آفتاب نے اسے پچھلی بار دہلی سے لا کر دئیے تھے اور   جنہیں آفتاب بہت پسند کرتا تھا۔ اس نے مانگ میں سیندور، کانوں میں بالی، ناک میں لونگ، ہاتھوں میں چوڑیاں، غرض وہ تمام معمولی زیورات جو اس کی شادی کے تھے۔ زیب تن کر لیے تھے۔ وہ بالکل نئی نویلی دلہن لگ رہی تھی جیسے آج اس کی برات آ رہی ہو۔ رمضانو بھی بڑی خوش تھی۔ آج اس کا بیٹا آنے وا لا تھا۔ اس نے رس کی کھیر پکائی تھی۔ آفتاب بڑے چاؤ سے رس کی کھیر کھایا کرتا تھا۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ اس کا کوئی بیٹا سر حد پر لڑ نے اور   وطن کی آ برو کے لیے جان دینے وا لا سپاہی بنے۔ اسی لیے اس نے آفتاب کو فوج میں بھرتی کرا دیا تھا۔ دھوپ تیز ہو گئی تھی۔ شا ید بارہ بج رہے تھے۔ مگر ابھی تک آفتاب نہیں آ یا تھا۔ گھر کے تمام لوگ پریشان تھے۔ بانو کبھی سڑک پر آ تی اور   کبھی اندر گھر میں چلی جاتی۔ ملن کی خوشی اس کے روم روم میں بسی تھی۔ اس کا پورا جسم آنکھوں اور   کانوں میں سمٹ آ یا تھا۔

انتظار کے پھول مرجھا گئے اور   شام کے وقت دروازے پر ڈاکیے کی آواز گو نجی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’ چٹھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

مہتاب نے دوڑ کر خط لے لیا اور   پڑھنے لگا۔

پیارے مہتاب!

            خوش رہو

مجھے افسوس ہے کہ میں اس تاریخ میں نہ آ سکوں گا۔ ادھر جنگ پھر بہت زوروں پر ہے۔ ہماری سرحد پر دشمن فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ زندگی نے سا تھ دیا تو اور   خدا کی مرضی رہی تو پھر ملیں گے۔ ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فقط      

تمہارا بھائی

آفتاب

خط سنتے ہی بانو کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ کھلا ہوا گلاب مرجھا گیا اور   ملن کی خوشی کو ہجر کے ناگ نے ڈس لیا۔ اس کی ساس نے اسے سمجھایا____

            ’’ بہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مت رو__کیوں روتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ سے دعا کر کہ وہ مارے ملک کو فتح نصیب فر مائے۔ مجھے بھی تو دیکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھری جوانی میں بیوہ ہو گئی۔ وہ بھی فوج میں مارے گئے۔ مگر وصیت میں لکھ گئے تھے کہ آفتاب کو فوج میں داخل کروانا___ اور   میں نے آفتاب کو فوج میں داخل کروا دیا۔ اس دن سے آ ج تک دیکھ کتنی خوش ہوں۔ میرا تو وہ بیٹا ہے۔ میں نے دو سال سے اس کی صورت نہیں دیکھی___‘‘

لاکھ ضبط کے با وجود بوڑھی آنکھیں بھر آ ئی تھیں۔ بانو غمگین ہو گئی۔ اس کے دل میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ اس کا آفتاب بادلوں میں چھپ گیا تھا۔ بو جھل دل سے کام کاج میں لگ گئی۔

رات اس نے خواب میں سورج گرہن دیکھا۔ روشن سورج آہستہ آہستہ دھندلکوں میں کھو رہا تھا۔ اس کی زندگی، اس کی روشنی ختم ہو تی جا رہی تھی اور   وہ لمحہ بھی اس نے دیکھا جب پورا سو رج اندھیروں میں اپنی روشنی سمیت تحلیل ہو گیا تھا۔ سورج کا وجود ختم ہو گیا تھا۔ چاروں طرف مکمل طور پر اندھیرے کی حکومت تھی۔

صبح ہی سے اس کا دل گھبرا رہا تھا۔ ریڈیو سے خبریں نشر ہو رہی تھیں۔ غیر ملکی فوجیں ناکام ہو گئی تھیں۔ ملک کے جوانوں نے بہت بہادری دکھائی تھی۔ کتنے ہی نو جوان شہید ہوئے تھے۔ فہرست میں آفتاب بھی شامل تھا۔

سارے گاؤں میں یہ خبر جنگل کی آ گ کی طرح پھیل گئی تھی کہ رمضانو کا بڑا لڑ کا آفتاب سرحد پر لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ رمضانو نے جب سنا تو بے ساختہ اس کی زبان سے ’’ اللہ تیرا شکر ہے ‘‘ نکلا۔ بانو کو معلوم ہوا تو اس کی سانس رکنے لگی،اسے ایسا محسوس ہونے لگا گویا کسی نے اس کبوتر کی گردن مروڑ نی شروع کر دی ہے جس میں اس کی جان تھی، وہ زار و قطار رو نے لگی۔ آنسوؤں کی قطاریں چہرے پر پھیلنے لگیں۔ یہ دیکھ کر رمضانو بولی:

’’ ارے پگلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو رو رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج تو ہنسنے کا دن ہے۔ ہمارا ملک جیت گیا۔ دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ تو کیوں روتی ہے۔ تیرا آفتاب چھپا نہیں ہے۔ یہ تو عارضی موت ہے۔ وہ شہید ہو کر اور   بھی روشن ہو گیا ہے۔ وہ ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ اس کا نام امر ہو گیا ہے۔ دعا کرو ملک کا ہر نو جوان محب وطن ہو، ملک پر جان دینے وا لا ہو، بیٹی جب وطن کی عزت و آبرو کا سوال ہو تا ہے تو رشتے ناطے نہیں دیکھے جاتے۔ آنسو نہیں بہائے جاتے بلکہ ہمت کے بازوؤں سے کام لیا جاتا ہے۔ آفتاب تو ہمیشہ ملک کے آسمان پر چمکتا رہے گا۔ ‘‘

٭٭٭


 

 

ایک ادھوری کہانی

           

’’ پھر یوں ہو کہ اچانک شہزادہ غائب ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

شادمانی بیگم سانس لینے کو رکیں تو بچوں کے سوالوں کی بوچھار ہو نے لگی۔

’’ نانی آپا ! ایسا کیسے ہو گیا۔ ۔ ؟ ‘‘ ریحان کا تجسس اس کی زبان پر آ گیا۔

’’ دادی آپا ! شہزادہ کہاں چلا گیا؟ کیا پری اسے لے گئی؟ ‘‘ سمیہ کی حیرانی بڑھ گئی تھی۔

’’کیا وہ اب کبھی نہیں آئے گا ‘‘حمیرا نے بھی اپنا سوال چھوڑا۔ وہ آنکھیں پھاڑے بیگم شادمانی کو دیکھ رہی تھی۔ سبحان اور   حیا بھی گم صم سے بیٹھے تھے۔

بیگم شادمانی اپنے پو تے۔ پوتیوں،نواسے۔ نواسیوں کے درمیان گھری بیٹھی تھیں۔ بچے ان سے ضد کر کے کہانی سن رہے تھے۔ بیگم شادمانی کہانی سنانے میں ماہر تھیں۔ بچے ان سے بہت مانوس تھے۔ وہ جب بھی رات کو نماز اور   کھانے سے فارغ ہو کر اپنے بستر میں جاتیں،بچے ایک ایک کر کے ان کے بستر میں آ دھمکتے۔ بیگم شادمانی بچوں کو راجا۔ رانی،دیو۔ جن،پری،شہزادہ۔ شہزادی کی دلچسپ کہانیاں سناتیں اور   بچے بڑے انہماک سے سنتے۔ بعض بچے تو سنتے سنتے نیند کی وادی میں چلے جاتے۔ بعض کو نیند کے جھونکے آتے رہتے،مگر وہاں سے جانے کو راضی نہ ہوتے۔ دیر رات ان کی مائیں اپنے بچوں کو اپنے کمروں اور   بستروں میں لے جاتیں۔ اکثر بیگم شادمانی سے کہانی سننے کے بعد ہی بچوں کو نیند آتی۔ انہیں زیادہ تر لوگ شادمانی آپا کہتے۔ ’آپا،ان کے نام کے ساتھ ایسا جڑا گویا ان کی کنیت ہو۔ کیا بچے،کیا بڑے،سبھی انہیں آ پا کہتے۔ حد تو یہ ہو گئی کہ کوئی انہیں شادمانی آپا کہتا،تو کوئی انہیں پھوپھی آپا، پو تے۔ پوتیاں،نواسے۔ نواسیاں تو انہیں نانی آپا اور   دادی آپا کہتے۔ ابھی کل ہی تو وہ ایک دلچسپ کہانی سنا رہی تھیں کہ ان کی لاڈلی پو تی سمیہ،جو چھ سال کی تھی ضد کرنے لگی۔

’’ دادی آپا،دادی آپا،ہمیں اپنی کہانی سناؤ نا! ہمیں آپ کی کہانی سننی ہے۔ ‘‘

پوتی کے منہ سے یہ سن کر شادمانی بیگم لمحہ بھر کو چونک گئی تھیں۔ وہ ماضی جو وہ بھول گئی تھیں اور   جسے یاد کرنے کی نہ ہمت تھی نہ ضرورت۔ بچی کی فرمائش پر پہلے تو انہوں نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔

’’ بیٹا میری کوئی کہانی نہیں،میں تمہیں ’سمارا، پری کی کہانی سناتی ہوں ‘‘

’’ نہیں دادی آپا!ہم نہیں سنتے۔ ‘‘سمیہ نے اس طرح منہ بنایا اور   دوسری طرف گھوم گئی،گویا ناراض ہو گئی ہو۔ کتنی پٹاخہ تھی،شیطان کی نانی کہیں کی۔

’’ نانی آپا ! ہم تو آپ کی کہانی سنیں گے بس‘‘ ریحان نے معاملے کو اور   الجھا دیا۔

’’ اچھا میں کل سناؤں گی…… ‘‘بیگم شادمانی نے پھر ٹالنے کی کوشش کی۔

’’او کے نانی آپا……‘‘ ریحان بولا۔

’’ میری پیاری نانی آپا….. ‘‘حمیرہ نے بھی ساتھ دیا۔ حنا تو لپک کر ان کی گود میں بیٹھ گئی۔

اس دن تو بات ٹل گئی تھی۔ لیکن بچے کہاں ماننے والے تھے۔ انہوں نے بیگم شادمانی کو اگلے دن وقت مقررہ پر پکڑ ہی لیا۔ بیگم شادمانی بمشکل تمام اس سخت مرحلے کے لئے تیار ہوئیں۔

’’اچھا تو لو سنو۔ ۔ میں تمھیں ایک شہزادے کی،سچ مچ کے شہزادے کی کہانی سناتی ہوں۔ ۔ ۔ ایک نا شہزادہ تھا،واقعی شہزادہ تھا وہ،وہ رنگ میں تو سانولا تھا مگر ذہن اور   عقل و فہم میں،اخلاق و کردار میں،خدا ترسی میں،غریب پروری میں اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کے پردادا انگریزوں کے زمانے میں ایس پی تھے۔ ان کی انگریزوں سے خوب چھنتی تھی۔ ‘‘

’’دادی، یہ چھنتی،کیا ہو تا ہے ؟‘‘

سمیہ نے بیچ میں ٹوک دیا۔ معصوم سے سوال پر بیگم شادمانی کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور   سمیہ کا گال تھپتھپا تے ہوئے بولیں۔

’’چھنتی کا مطلب ……. ہو تا ہے۔ دوستی ہونا،سمجھیں ؟‘‘

’’انگریز تو انگریزی بولتے ہوں گے پھر وہ کیسے سمجھتے ہوں گے ؟‘‘سبحان بھی بول پڑا ’’ارے بھیا،ان کے پردادا بھی انگریزی جانتے تھے اور   انگریز ی میں باتیں کرتے تھے۔ ‘‘

’’اچھا سنو ! وہ شہزادہ ریاست دولت پور کا رہنے والا تھا۔ دولت پور بہت بڑا قصبہ تھا۔ اور   سیدوں کا قصبہ کہلاتا تھا۔ وہاں زیادہ تر سید آباد تھے۔ اور   سب کے سب رئیس تھے۔ دولت پور باغات کے لئے مشہور تھا۔ آم کے باغات میں دسہری،لنگڑا،گلاب جامن، چوسا اور   رٹول کی فصل ہوتی۔ آم کے علاوہ لیچی اور   امرود کے باغات بھی تھے۔ دولت پور کے نچلے طبقے کے لوگ اور   غریب مزدور باغات میں محنت مزدوری کرتے۔ باغات کے علاوہ کھیتی باڑی بھی ہوتی۔ سال میں دو بار فصلیں اگاتے۔ گیہوں، چاول اور   مکا کے علاوہ یہ علاقہ گنے کے لئے بھی مشہور تھا چھوٹے بڑے ہر طرح کے کسان تھے۔ کچھ تو خود اپنی کھیتی کرتے۔ زیادہ تر نچلے طبقے کے لوگ امیروں اور   رئیسوں کے باغات اور   کھیتوں میں کام کرتے۔ باغات کی فصل کا جب موسم آتا تو علاقے کی رونق دیکھنے لائق ہوتی۔ ہر طرف آم ہی آم۔ باغ کے ٹھیکے دو سال کے لئے چھوڑ جاتے۔ ٹھیکے میں سو پچاس پیٹی آم مالک کو الگ سے ملتے۔ جن کا استعمال اکثر لوگ سرکاری افسروں اور  دوست احباب کے یہاں تحفے بھیجنے میں کرتے ہیں۔ اس طرح جاڑوں کے موسم میں جب گنے کا موسم ہوتا تو پورے علاقے کی رونق دو بالا ہو جاتی۔ زیادہ تر کسان اپنا گنا،چینی ملوں میں لے جاتے وہاں سے پرچی ملتی،پرچی سے بعد میں بینکوں سے پیسے مل جاتے۔ بہت سے کسانوں نے کو لہو بھی لگا رکھے تھے۔ کو لہوؤں پر گنے سے گڑ تیار کیا جاتا۔ جب گڑ کڑھاؤ میں کھولتا تو اس کی میٹھی میٹھی خوشبو سے پورا علاقہ معطر ہو جاتا۔

میں جس شہزادے کی کہانی تمہیں سُنارہی ہوں۔ اس کا گھر اور  اس کا خاندان دولت پور کے پڑھے لکھے لوگوں اور   سرکاری عہدوں کی وجہ سے بڑے بڑے دولت مندوں سے زیادہ مشہور تھا۔

’’بچو پتہ ہے اس شہزادے کا نام کیا تھا۔ ؟‘‘

’’نہیں نہیں۔ آپ بتاؤ نا!‘‘ ایک ساتھ سبھی بول پڑے

’’اس کا نام سید قمر الدین تھا۔ قمر یعنی چاند،واقعی وہ شہزادہ پورے علاقے میں چاند جیسا ہی تھا۔ ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ اس کے پردادا سید عبد الحئی انگریزوں کے دوست تھے۔ اور   ضلع کی ایس پی تھے۔ اکثر انگریز ان کے گھر مہمان ہوتے۔ جب بھی انگریز آتے۔ عبدالحئی کے گھر دیکھنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی۔ سفید چٹے اور   سرخ سفید رنگت والے انگریزوں کو لوگ یوں دیکھتے گویا نئی مخلوق ایلنز دنیا میں آ گئی ہو۔ انگریز دن میں وسیع و عریض دالانوں میں آرام فرماتے۔ ان کے آرام کے لئے نوکر چاکروں کی پوری ٹیم لگی ہوئی تھی۔ مشروب آرہے ہیں۔ کھانے کی انواع و اقسام حاضر ہیں۔ انگریز ویسے تو سگار کے شوقین تھے لیکن دولت پور آ کر انہیں حقہ اتنا پسند آیا کہ انہیں اس کی لت لگ گئی تھی۔ ہر دم حقہ تازہ کیا جاتا۔ چلم بھری جاتی رہتی اور   انگریز خوبصورت چادر بچھی چارپائیوں اور   نواڑ کے پلنگوں پر لیٹے اور   بیٹھے حقے کی لمبی سی نے،منہ میں دبائے حقہ گڑ گڑا تے رہتے۔ انہیں حقے کا گڑ گڑانا بہت اچھا لگتا تھا۔ انگریز جب ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی بولتے تو گاؤں اور   قصبے کے لوگ ہنسا کرتے۔

’’ اومین! ٹم کیا کرٹا۔ ۔ ‘‘

’’ٹم وہائی،ہنسٹا۔ ۔ ‘‘

 اور   لوگوں کے پیٹوں میں ہنستے ہنستے بل پڑ جاتے۔ رات کو عبد الحئی انگریزوں کو شکار پر لے جاتے۔ گھنے جنگلوں میں بارہ سنگھا،ہرن،نیلا،سانبھر،پہاڑا اور   کبھی کبھی تیندوے کا بھی شکار ہو جاتا۔ انگریزوں کی بندوقیں بہت اچھی تھیں۔ ایک بھی فائر نشانے پر لگتا تو جانور ڈھیر ہو جاتا تھا۔ جانور کے گرتے ہی ملازمین جا کر اسے ذبح کرتے اور   گوشت بنا تے۔ انگریزوں کو گوشت کا بڑا شوق تھا۔ وہ بھنا ہوا گوشت اور   کباب بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ شکار کے جانوروں کی کھال سکھا ئی جاتی،پھر اس میں دوائیاں اور   مسالے لگائے جاتے،بعد میں ان میں بھس اور   دوسری ہلکی چیزیں بھر کر ایسا بنا دیا جاتا گویا دوبارہ زندہ ہو اٹھے ہوں۔ پورا جانور،جانوروں کے سر، اور  ان کی کھالوں کو مہمان خانے کے بیچ میں،دیواروں پر اور   کونوں میں سجایا جاتا۔ مہمان خانے میں داخل ہوتے ہی بعض لوگ تو ڈر ہی جاتے۔ ان سے کیا رعب قائم ہو تا تھا،کیا شان ٹپکتی تھی۔ شکار،دولت پور کے زیادہ تر سیدوں کا شوق بھی تھا اور   کمزوری بھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

۔

شہزادہ قمرالدین کے دادا سید نجم الدین اپنے وقت کے بہت بڑے ڈاکٹر تھے۔ دولت پور اور   آس پاس کے لوگوں کا علاج کرتے۔ پھر جب جنگِ آزادی کی لڑائی میں گاندھی جی نے ’عدم تعاون ، تحریک چلائی تو سید نجم الدین بھی اس تحریک میں شریک ہو گئے۔

’’دادی،دادی،یہ عدم تعاون تحریک کیا ہے ؟’’حمیرا نے اپنا تجسس ظاہر کیا

بیگم شادمانی مسکرائیں۔ اور   بولیں۔

’’بچو تمہیں یہ تو پتہ ہے کہ ہمارے ملک پر انگریزوں کا قبضہ تھا؟‘‘

’’جی ! دادی‘‘

’’انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہمارے لیڈروں نے بڑی بڑی تحریکیں چلائیں۔ انہیں میں سے ایک تحریک جو گاندھی جی نے چلائی تھی،اس کا نام عدم تعاون تحریک ہے۔ عدم تعاون یعنی ہم ہر کام میں اب آپ کی مدد نہیں کریں گے۔ جب گاندھی جی نے یہ نعرہ دیا تو لوگوں نے سرکاری عہدے چھوڑ دئیے۔ وکیلوں نے وکالت چھوڈدی۔ سرکارکی مدد کرنے اور   اس کی مدد لینا،دونوں کام چھوڑ کر لوگ میدان میں آ گئے۔ بچو،اس سے آزادی کی لڑائی کو بہت طاقت ملی۔ ۔ ۔ اونہ۔ ۔ انکھو ۔ ۔ اکھ۔ ۔ کھا ‘‘ اور   بیگم شادمانی کو کھانسی آ گئی،کھانسی پر قابو پاتے ہوئے انہوں نے دوبارہ کہانی شروع کی۔

 ’’شہزادہ کے والد بہت بڑے تاجر یعنی بزنس مین تھے۔ ‘‘

’’دادی،جلدی سے شہزادے کے بارے میں بتائے نا !’’بچوں نے یک زبان کہا۔

’’بتاتی ہوں !شہزادہ اپنے گھر کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے تین بہنیں تھیں۔ بچپن ہی سے شہزادہ بہت ذہین،تیز طرار اور   شرارتی تھا۔ شہزادے کی دادی بھی بڑی نیک اور   گھریلو خاتون تھیں شہزادے کی ماں معمولی پڑھی لکھی تھیں۔ مگر انہیں پڑھنے کا خوب شوق تھا۔ افسانے اور   ناول پڑھنا ان کا جنون تھا۔ وہ خود بھی کہانیاں لکھا کرتی تھیں۔ بہت سمجھ دار خاتون تھیں۔ عورتوں کی تعلیم کی حامی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بچپن ہی سے شہزادے اور  اس کی بہنوں کو علم کے زیور سے آراستہ کیا۔ شہزادے کو دہلی کی جامعہ میں اور   اس کی بہنوں کو علی گڑھ تعلیم کے لئے بھیجا۔ شہزادے نے جامعہ میں خوب نام کمایا۔ ہر طرح کے مقابلوں میں ہمیشہ اول آتا۔ بیت بازی کا ماہر تھا اور   خود بھی شعر کہنے لگا تھا۔ اس کی نظمیں تو بڑی پر اثر ہوتی تھیں۔ پھر شعر پڑھنے کا اس کا الگ انداز۔ جامعہ سے پڑھنے کے دوران ہی شہزادے کے والد کا انتقال ہو گیا۔ شہزادہ مشکل سے پندرہ سال کا ہو گا۔ اچانک سر سے سایہ اُٹھ جانے سے شہزادے کو بہت رنج و ملال ہوا۔ مگر مرضی ِالٰہی کے آگے سر جھکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ شہزادے پر اب گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی آ گیا تھا تین تین بہنیں اور   ماں،اب سب کچھ اسے ہی دیکھنا تھا۔ اسی لئے اس نے دہلی سے پڑھائی ختم کر کے دولت پور میں ہی پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔

کہانی سناتے سناتے بیگم شادمانی نے دیکھا سمیہ سو گئی ہے۔ حیا اور   سبحان بھی اونگھ رہے ہیں۔ باقی بچے بھی کچھ جاگے کچھ سوئے لگ رہے تھے۔

’’ بچو چلو اب اپنے اپنے بستروں میں جاؤ۔ اب کہانی کل ہو گی‘‘

بیگم شادمانی کے کہانی بیچ میں روکنے کے فیصلے سے ناراض ریحان،آنکھوں میں نیند لئے وہاں سے جانے تو لگا مگر جاتے جاتے بولا۔

’’ نانی آپا ! میں نا کل ضرور شہزادے کی آگے کی کہانی سنوں گا‘‘

’’ تھیک ہے۔ خدا حافظ، شب بخیر۔ ۔ ۔ سب کہئے۔ ۔ شب بخیر۔ ۔ ‘‘

’’شب بخیر۔ ۔ ‘‘

سارے بچے ایک ساتھ بول پڑے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

بچے جا چکے تھے۔ بیگم شادمانی اپنے بستر پر تنہا رہ گئی تھیں۔ انہیں یاد آیا آج تو انہوں نے عشاء کی نماز بھی نہیں پڑھی۔ گھڑی دیکھی رات کے بارہ بجنے والے تھے۔ انہوں نے وضو کیا اور   نماز کی چوکی سنبھال لی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگنے لگیں۔

’’اے اللہ تو اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرنا۔ اللہ ہم سب کو بخش دینا،میرے بچوں کو نیک راہ پر چلانا۔ ‘‘

بیگم شادمانی کے ایک بیٹا سید ضیاء الدین اور   ایک بیٹی سید صبا قمر تھی۔ بیٹی ایک پرائیویٹ کمپنی میں بڑے عہدے پر تھی۔ اس کے شوہر سید غفران ایک بڑی کمپنی میں جی ایم تھے۔ ان کے دو بچے،سبحان اور   حیا تھے۔ بیٹا ضیاء میڈیکل کالج میں پروفیسر تھا۔ اس کی دو بیٹیاں سمیہ اور   حمیرا اور   ایک بیٹا ریحان تھا۔ سارے بچے چھوٹے تھے۔ چار سال سے دس سال تک کے بچے،جب کبھی گرمی کی چھٹیاں ہوتیں،صبا بھی آ جاتی اور   سارے بچے مل کے گھر سر پر اُٹھا لیتے،ساتھ میں دادی اور   نانی یعنی بیگم شادمانی کو بھی ساتھ لئے پھرتے۔ بیگم شادمانی پوتے پوتیوں اور   نواسے نواسیوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو تی رہتیں۔ کہانی سنانا ان کا بچپن کا شوق تھا۔ جب وہ چھوٹی تھیں تو اپنی دادی اور   نانی سے خوب کہانیاں سنتی تھیں۔ اور   اب جب بزرگی نے اپنا لیا تو کہانیاں سنانا،ان کا محبوب مشغلہ بن گیا تھا۔ وہ اپنی دادی۔ نانی کی ادھوری کہانیوں کو پورا کرتیں اور   دلچسپ انداز میں کہانیاں سنایا کرتیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ابھی پانچ چھ سال قبل ہی ہوا تھا۔ بھر ا پرا گھر، آندھی میں تنکوں کی طرح بکھر کے رہ گیا تھا۔ بیٹا جاب کے سلسلے میں باہر تھا۔ بیٹی کی شادی ہو چکی تھی،وہ بھی دوسرے شہر میں تھی۔ شوہر کے انتقال کے بعد اب ان کا کوئی نہیں تھا۔ یوں تو ان کا میکہ بھی دولت پور میں ہی تھا۔ بھائی،بھابھیاں،والدین،سب تھے مگر ان کی ذاتی تنہائی دور کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اس بار علاقے کے حالات خراب تھے۔ مظفر نگر فسادات نے گاؤں دیہات اور   قصبات میں بھی نفرت کے بیج بو دیے تھے۔ فرقہ پرستی ہر طرف اپنے ہاتھ پاؤں پھیلا رہی تھی۔ شہزادے نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی تھی۔ وہ تو انسان دوست تھا۔ غیر مسلموں کے ساتھ اس کی بڑی دوستی تھی۔ پھر وہ سب کی مدد کر نے کے بھی عادی تھے۔ غیر مسلم طلبہ و طالبات کی بھی مدد کرتے۔ انہوں نے آئی اے ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔ لیکن گھریلو مجبوریوں اور   ذمہ داریوں نے قدموں میں زنجیر ڈال رکھی تھی۔ باغات کی رکھوالی،بہنوں کی شادی،ضعیف ماں کی امیدیں، جائداد کی دیکھ ریکھ، اور  والد کے چھوڑے کاروبار کی نگرانی،اوپر سے ٹرانسفر کے جھمیلے۔ بالآخر انہوں نے نوکری جوائن نہیں کی۔ ویسے بھی شہزادے کو کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ آگے پیچھے نوکر چاکر،باغات کی لاکھوں روپے کی آمدنی، کھیتی کی زمینوں کی آمد الگ،پھر والد کے چھوڑے کاروبارسے بھی معقول آمدنی کاسلسلہ تھا۔ گھر پر گائے،بھینسیں،گھوڑے،رتھ،بگھیاں اور   موٹر تک موجود تھی۔

شہزادے کا ذہن بہت وسیع تھا۔ وہ دل کے بھی بڑے تھے۔ غریبوں، محتاجوں، بیماروں،کی ہر ممکن مدد کرنا ان کا شوق تھا۔

’’ہر ہر مہا دیو۔ ۔ ۔ بول بم۔ ۔ ۔ بول بم۔ ۔ ۔ ‘‘

باہر سے آتی نعروں کی آواز پر بیگم شادمانی یادوں کے کارواں کو چھوڑ کر حال میں واپس آئیں۔ دراصل باہر کا یہ شور کانوڑ یاترا کا شور تھا۔ کیا شہر،کیا قصبہ،کیا دیہات۔ ۔ ،ہر جگہ زعفرانی رنگ اور   کان پھوڑتی آوازیں۔

’’بول بم۔ ۔ ۔ بول بم۔ ۔ ۔ ‘‘

اتفاق سے اس بار کانوڑ یاترا اور   رمضان ایک ہی وقت آ گئے تھے۔ مسلمان روزے رکھتے،نمازیں پڑھتے، اور  ہندو کانوڑ کے لئے ہری دوار جاتے اور   بڑی عقیدت کے ساتھ وہاں سے گنگا کا پانی لا کر شو لنگ پر چڑھاتے۔ ویسے تو سب ٹھیک تھا مگر پولس انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے،کہیں کچھ گڑبڑ نہ ہو جائے۔

شادمانی بیگم،اپنے بچوں کی طرف سے بڑی فکر مند تھیں۔ اب تو یہ بچے ہی ان کی کائنات تھے۔ وہ ان سب کے لئے اور   ملک کے لئے ہمیشہ دعا کرتیں۔

’’اے پروردگار! میرے بچوں کی حفاظت فرما،تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ ہمارے ملک میں امن و امان قائم فرما یا خدا! تجھے تیرے نبی کا واسطہ۔ ۔ ۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اگلے دن شام ہوتے ہی ریحان ان کے آس پاس منڈلانے لگا تھا۔

’’ بیٹا ابھی جاؤ،کچھ پڑھائی کر لو۔ ‘‘

سمیہ پڑھائی کی شوقین تھی۔ حنا کو بھی پڑھنا اچھا لگتا تھا،وہ دونوں خود کتابیں لے کر بیٹھ جاتیں۔ تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ اچانک شور ہوا اور   ضیا اور   صبا، ان کے بچے وغیرہ سبھی آ دھمکے۔ بچوں نے اپنے والدین کو بتا دیا تھا کہ دادی آپا،شہزادے کی سچی کہانی سنارہی ہیں۔ تو بچے اپنے والدین کو بھی گھسیٹ لائے۔

’’ امی! ہم بھی سنیں گے کہانی۔ ۔ ۔ ‘‘ ضیا نے جب کہا تو بیگم شادمانی جذباتی ہو گئیں،انہیں اپنے شوہر کی یاد آ گئی۔ وہ اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے بولیں۔

’’کیوں نہیں بیٹا! آؤ، تم بھی بیٹھ جاؤ۔ ۔ ‘‘

’’ ارے حنا، ذرا امی کے لئے ایک کپ چائے لیتی آنا۔ ‘‘

ضیا ء نے اپنی بیوی کو پکارا۔ حنا چائے لے کر آئی تو خود بھی مجلس میں بیٹھ گئی۔ صبا بھی کاموں سے فارغ ہو کر شامل ہو چکی تھی۔

’’ لو سنو! تو بچو ہوا یہ کہ و الد کے انتقال کے بعد شہزادے نے سب کچھ سنبھال لیا۔ پڑھائی بھی کرنی اور   کاروبار بھی دیکھنا۔ ۔ کھیتی باڑی،باغات،نوکر چاکر۔ ۔ سب پر انہوں نے اپنا کنٹرول کر لیا تھا۔ شہزادے کو شکار کا بہت شوق تھا۔ انہوں نے بچپن ہی میں بندوق چلانے اور   نشانہ بازی سیکھ لی تھی۔ دراصل دولت پور کے سیدوں میں شکار کے ساتھ ساتھ نشانہ بازی کا بھی شوق تھا۔ کئی بچے تو نشانہ بازی میں قومی اور   بین الاقوامی سطح پر نام کما چکے تھے۔

اکژ شہزادہ رات کو شکار پر نکل جاتا۔ صبح تک شکار کھیلتے اور   کئی جانور شکار کر لاتے۔ ذبح کر کے گوشت پورے محلے میں تقسیم کر دیا جاتا۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جاتا۔ ایک بار کی بات ہے۔ ۔ ۔ شہزادہ رات میں شکار کھیل رہا تھا۔ ساتھ میں ان کے دوست جو نیپال سے آئے ہوئے تھے، اور  ملازمین بھی تھے۔ ایک بارہ سنگھا کے پیچھے جیپ دوڑ رہی تھی۔ اچانک گاڑی کی ہیڈ لائٹس کے سامنے تیندوا آ گیا۔ ڈرائیور مہندر نے زور سے بریک لگائے۔ سارے لوگ آگے کی طرف جھک سے گئے تھے۔ تیندوے کو دیکھ کر سبھی خوفزدہ سے تھے۔ شہزادے نے بندوق سنبھالی، نشانہ لگایا اور   فائر کر دیا۔ جنگل کی خاموشی اور   تیندوا،دونوں نے دم توڑ دیا۔ شہزادہ جیپ سے کود کر تیندوے کی طرف دوڑ پڑا۔ اچانک مردہ تیندوے میں جان پڑ گئی،وہ زخمی حا لت میں ہی شہزادے پر جھپٹ پڑا۔ ملازمین اور   شہزادے کے نیپالی دوست ہکا بکا سے جیپ میں بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ شہزادے کی مدد کرتا۔ شہزادہ تیندوے سے متصادم تھا۔ تیندوے کی دہاڑ پورے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علاقے کو دہلا رہی تھی۔ ‘‘

بیگم شادمانی تھوڑی دیر کے لئے چائے لینے کو رک گئیں۔ تو ایک ساتھ سوالوں کی بو چھا رہونے لگی۔

’’آگے کیا ہوا دادی…..‘‘

’’کیا شہزادہ مر گیا ……‘‘

’’کیا شہزادے کو تیندوے نے کاٹ لیا۔ ‘‘

’’بس کرو۔ میں بتاتی ہوں۔ شہزادے کے ہاتھ میں بندوق ضرور تھی لیکن اس کے کارتوس ختم ہو چکے تھے۔ شہزادہ بہت ہمت والا تھا۔ اس نے بندوق کو لاٹھی کی طرح استعمال کر لیا۔ دو تین وار زخمی تیندوے پر کئی وار خاصے سخت تھے۔ تیندوا خطر ناک دہاڑوں کے ساتھ زمین بوس ہو گیا۔ پیچھے سے ملازمین دوڑے اور   زخمی شہزادے کو جیپ میں ڈال کر فوراً استپال لے آئے۔

’’پھر کیا ہوا…… ‘‘سوال نے پھر ہمت کی۔

’’کیا شہزادہ بچ گیا ……. ‘‘دوسراسوال بھی قطار میں لگ گیا تھا۔

’’کئی ہفتے کے علاج کے بعد شہزادے کے زخم بھر گئے تھے۔ اب وہ پہلے کی طرح صحت مند ہو گیا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ شہزادے کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اب تو شہزادہ راتوں رات ا سٹار بن گیا تھا بس … کہانی ختم … ‘‘

’’نہیں۔ نہیں کہانی اتنی جلدی کیسے ختم ہو گئی۔ ‘‘حمیرا نے احتجاج درج کیا

’’دادی یہ تو چیٹنگ ہے …. ’’سمیہ بھی بول پڑی۔ ’’ہم تو پوری کہانی سنیں گے۔ ‘‘

’’شہزادے کی شادی ہوئی یا نہیں دادی…….‘‘ بچوں نے اور   ساتھ ہی بچوں کے والدین نے بھی شور مچانا شروع کر دیا۔

’’ اچھا،چلو تم کہتے ہو تو اس کی شادی بھی کردا دیتے ہیں۔ ‘‘

بیگم شادمانی یہ کہتے ہوئے ایک عجیب سے جذبے سے معمور ہو گئی تھیں۔ ان کی آواز رندھنے لگی تھی۔

’’بچو !شہزادے کی شادی کی کہانی سنو گے ؟‘‘

’’ ہاں۔ سنیں گے …. ‘‘ سب یک زبان تھے۔

’’تو سنو،اس سے قبل کہ شہزادے کی شادی ہو میں تمہیں شہزادے کی ہونے والی بیوی،یعنی شہزادی کی کہانی سناتی ہوں …. …. ‘‘

’’ واہ ! ۔ اب آئے گا مزہ ……… ‘‘ریحان خوشی سے بے قابو ہو رہا تھا۔ وہ اپنی امی کی گود میں چڑھ کر بیٹھ گیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

جس دولت آباد کا میں ذکر کر رہی تھی۔ اسی میں سیدوں کا ایک اور   باوقار گھر انہ تھا،سید سلیم الدین کا پورے علاقے میں چرچا تھا۔ ان کا بڑا رعب داب تھا۔ ان کے والد سید اللہ راضی بہت بڑے زمین دار تھے۔ ان کے گھر پر ہی عدالت لگا کرتی تھی۔ اس خاندان میں پیسہ بھی تھا اور   سیاسی قوت بھی۔ آس پاس کے علاقے میں شہرت تھی، جب دولت پور میں پنچایتی انتخاب شروع ہوئے تو اسی گھرانے کے لوگ چیرمین چنے گئے۔ نصف صدی سے بھی زائد سے اس گھرانے کے لوگ چیرمین بنتے آئے ہیں۔ سیدنسیم الدین کے دو بیٹیاں اور   دو بیٹے تھے۔ سید نسیم الدین بہت ملنسار،خوش اخلاق،ماہر سیاست داں اور   بڑے زمین دار تھے۔ وہ عبادت و ریاضت میں کافی آگے نکل چکے تھے۔ ان کی بزرگی کے بھی بہت چرچے تھے۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی شادیہ بے حد خوبصورت تھی۔ بارہ۔ تیرہ سال کی ہی تھی کہ اس کی خوبصورتی اس قدر نکھری کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے تھے۔ گول مٹول سا چہرہ،پتلے پتلے ہونٹ،موتی جیسے چمکتے دانت،آنکھیں گویا پیالوں میں سمندر،بوٹا سا قد،بالکل گوری چٹی،ٹھوڑی پر کا لا مسہ گویا قدرت نے نظر بد سے بچا نے کو ہمیشہ کے لئے لگا دیا ہو۔ کالے سیاہ لہراتے بال جیسے برسات کے موسم میں آسمان پر لہراتا بادل کا ٹکڑا۔ چال میں پھرتی،ہرن بھی شرما جائے۔ کام میں چستی،وقت خود پر لجائے۔ آواز میں مٹھاس اور   سریلاپن ایسا جو سنے،سنتا ہی رہ جائے۔ وہ واقعی شہزادی تھی۔ نہیں دولت پور کی سرزمین پر اُتر آئی ایک پری تھی۔ وہ ننھال کی طرف سے بھی بڑے زمین دار سید غلام مصطفٰی کے خاندان اور   ددھیال کی طرف سے بھی نامور خاندان سے تھی۔ دونوں خاندانوں میں بلکہ پورے دولت پور میں کوئی لڑکی اس کے ہمسر نہیں تھی۔ گاؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہزادی کو علی گڑھ بھیچ دیا گیا۔ وہاں بھی شہزادی نے سب کا دل موہ لیا۔ استانیاں اس کے حسن پر فدا تھیں۔ سہیلیاں اسے دیکھ کے عش عش کرتیں۔

’’دادی ……. ذرا رکو،نا…….. یہ بتاؤ کیا وہ آپ سے بھی خوب صورت تھی؟‘‘سمیہ نے معصومیت سے ایسا سوال کیا کہ بیگم شادمانی،ایک لمحے تو چکر اکے رہ گئیں۔ پھر سنبھل کر بولیں۔

’’سمیہ بیٹا،میں کوئی خوبصورت ہوں۔ میری عمر دیکھو پھر اس کی عمر ……. کتنا فرق ہے ؟‘‘

سمیہ نے غلط نہیں کہا تھا۔ بیگم شادمانی ساٹھ کی ہونے کے بعد بھی بہت خوبصورت اور  چاق چوبند تھیں۔ ان کے چہرے سے نور ٹپکتا تھا۔ ان کی آنکھیں بہت پر کشش تھیں۔

’’اچھا بچو! چلو بس۔ ۔ اب کہانی یہیں ختم۔ ۔ پھر کل ملیں گے۔ ‘‘

’’دادی، دادی۔ ۔ ‘‘ سمیہ برا سا منہ بنا کر بولی۔

’’نانی۔ ۔ ۔ اور   کہو نا۔ ۔ ۔ شہزادی کے بارے میں اور  بتاؤ نا۔ ۔ ۔ ‘‘ حنا نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔

’’ نہیں اب کل۔ ۔ ۔ چلو۔ ۔ سب اپنے بستروں میں،کل اسکول بھی جانا ہے۔ ‘‘

 اور  سب ایک ایک کر کے یوں چلے گئے،جیسے میلے کی دوکانیں اُٹھ گئی ہوں۔ بیگم شادمانی نے نماز چوکی سنبھال لی۔ دیر رات تک عبادت میں مشغول رہیں اور  پھر نیند نے انہیں اپنی نرم گرم بانہوں میں چھپا لیا۔

 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

انہوں نے دیکھا وہ ایک دکان کے اندر کھڑی ہے۔

’’ ذرا وہ سوٹ دکھا دیں۔ ہاں وہی ہرے رنگ کا۔ ‘‘

’’ یہ کس ریٹ کا ہے ؟ ‘‘

’’بہن جی ! یہی ہزار روپے کی رینج کا ہے۔ آپ کو جو کچھ بھی چاہئے لے لیجئے،مناسب پیسے لگ جائیں گے۔ ‘‘

’’اچھا تو وہ سفید،سیلف والا، اور  وہ،ہلکا نیلا بھی نکال دیں۔ ان سب کے پیسے بتا دیں ‘‘

’’ بہن جی چار ہزار دو سو ہوتے ہیں،آپ چار ہزار دے دیں۔ ‘‘

وہ ابھی پیسے گن ہی رہی تھی کہ ایک آواز نے اسے حیران کر دیا۔

’’ میرے لئے بھی ایک شرٹ لے لو۔ ۔ ‘‘

یہ آواز تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔ ابھی ایک حیرت سے پردہ اُٹھا بھی نہیں تھا کہ انہوں نے دیکھا،ضیا ء کے ابو دوکان میں داخل ہو رہے ہیں۔ وہ بہت کمزور لگ رہے تھے۔ وہ مبہوت سی انہیں دیکھے جا رہی تھی کہ اچانک وہ باہر کی طرف چلے گئے۔ دوکان دار کی آواز نے انہیں چونکا دیا۔

’’ بہن جی! یہ بل ہے آپ کا‘‘

دوکاندار نے بل اور   لفافے تھما دئے تھے،وہ جلدی سے دوکان کی سیڑھیاں اترتی ہوئی باہر آئی، اور  ایک طرف کو چل دی،ادھر ادھر دیکھتے ہوئے وہ ان کو تلاش کرتی رہی۔ مگر ان کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ یا خدا یہ کیا تھا؟ بہت زور کے بریک لگنے اور   ہورن کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ وہ ایک کار سے ٹکراتے ٹکراتے بچی، اور   اس کا خواب ادھورا رہ گیا۔

اگلے دن اس نے غریبوں میں کپڑے صدقے کر دئے تھے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

ایک صبح جب وہ فجر کی اذان پر سو کر اُٹھیں تو انہیں ہلکا ہلکا بخار تھا۔ نماز پڑھ کروہ پھر بستر میں بیٹھ گئیں اور   تسبیح پڑھنے لگیں۔ اتنے میں ضیاء ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔

’’ السلامُ علیکم امی جان۔ ‘‘

شادمانی بیگم نے سلام کا جواب دیا۔ بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرا،ہاتھ ذرا چہرے سے چھوا تو ضیاء اچانک اچھل گئے۔

’’ارے امی! آپ کو تو بخار ہے۔ آپ لیٹ جائیں۔ چائے وغیرہ پی کر دوا لے لیں۔ میں ابھی حنا کو بھیجتا ہوں ‘‘

 اور  تھوڑی دیر میں حنا ٹکوزی میں چائے،دودھ،چینی اور   بسکٹ لئے حاضر ہو گئی۔

’’امی لیجئے ! چائے لیجئے۔ ‘‘ حنا نے چائے بنا کر شادمانی بیگم کو دی اور   خود بھی چائے لے کر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔

’’امی اب آپ آرام کیا کریں۔ آپ کی عمر ایسی نہیں ہے۔ ‘‘

’’ میں کیا کرتی ہوں بیٹا،بس تھوڑا ٹہل لیتی ہوں،دو ایک گھنٹے تلاوت،نمازیں اور   بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتی ہوں،بس۔ ۔ یہ بھی کوئی کام ہیں۔ ‘‘

’’امی اب آپ کو زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔ ان چھوٹے موٹے کاموں سے بھی تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔ بستر پر ہی نماز ادا کر لیا کریں۔ اور   یہ کہانی وہانی سنانا آج سے بند۔ دو تین گھنٹے آپ بے آرام رہتی ہیں۔ ‘‘حنا کو اپنی خوش دامن جو اس کی پھوپھی بھی تھیں،کا بہت خیال تھا۔

’’نہیں بیٹا! اس طرح تو میں اکیلی ہو جاؤں گی اور   زیادہ بیمار پڑ جاؤں گی،پھر مجھے تنہائی اور   اکیلا پن کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ ‘‘

’’اچھا اب آپ آرام کریں۔ اور   یہ دوا لے لیں ‘‘

حنا نے شادمانی بیگم کو تازہ پانی سے دوا کھلائی اور   اپنے کمرے میں چلی گئی۔ شادمانی بیگم نے بہو کو دعائیں دیں۔ اور   بستر پر دراز ہو گئیں۔ انہیں اپنی بہو،حنا پر بڑا ناز تھا۔ خود مانگ کر لائی تھیں بھائی سے۔ حنا نے واقعی گھر سنبھال لیا تھا۔ حنا کی شادی سے، ان کے میکے سے رشتہ داری ایک بار پھر نئی ہو گئی تھی۔ شروع شروع تو حنا انہیں پھوپھی آپا ہی کہتی تھی۔ لیکن شادمانی بیگم نے امی کہلوانا شروع کیا تو پھر حنا امی کہنے لگی تھی۔ شادمانی بیگم کو لگتا ان کے ایک نہیں دو بیٹیاں ہیں۔ وہ دونوں میں کوئی فرق نہیں پاتیں،بلکہ حنا خدمت کے معاملے میں صبا سے بہت آگے تھی۔ روزانہ ان کے پاؤں دبانا،کھانے پینے کا خیال رکھنا،کپڑے دھلوا کر،پریس کروانا، اور  ہمیشہ طبیعت کے بارے میں پوچھتے رہنا،حنا کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اسکول سے آنے اور   کھانے سے فارغ ہو نے کے بعد سمیہ دادی کے پاس آ گئی اور   بولی۔

’’ دادی آپا ! اب آپ کی طبیعت کیسی ہے۔ ؟‘‘ پھر وہ اپنے ہاتھ جوڑ کر خدا سے دعا مانگنے لگی۔

’’ اے اللہ میاں،ہماری دادی کو ٹھیک کر دے،ورنہ ہماری کہانی،بیچ میں رہ جائے گی۔ ‘‘

شادمانی بیگم کو سمیہ پر بہت پیار آیا۔ انہو نے سمیہ کو سینے سے بھینچ لیا، اور  خوب پیار کیا۔ اللہ نے سمیہ کی دعا سن لی تھی۔ اور   اس رات ایک بار محفل پھر سجی۔ بچے بڑے سبھوں نے شادمانی بیگم کو گھیر لیا تھا۔ اور   حنا کے منع کرنے کے باوجود شادمانی بیگم،بچوں کی فرمائش اور   اپنی کہانی سنانے کی خواہش کو دبا نہیں پائیں۔ ایک ادھوری کہانی پھر شروع ہو گئی۔

’’ ہاں تو بچو! میں کہہ رہی تھی کہ شہزادی ابھی پڑھ ہی رہی تھی کہ اس کے رشتے آنے لگے۔ پر شہزادی کے والدین ابھی تیار نہیں تھے۔ مگر جب شہزادہ کا رشتہ آ یا تو سب نہ صرف تیار ہو گئے بلکہ بے انتہا خوش بھی۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں رقص کرنے لگیں۔ رشتہ منظور کر لیا گیا۔ شہزادی چودہ سال کی ہی تھیں کہ ان کی منگنی کی رسم ادا کر دی گئی۔

کیا شاندار پروگرام منعقد ہوا۔ شہزادے کی بہنیں آئیں۔ حویلی کو خوب سجایا گیا۔ دولت پور میں شہرت ہو گئی۔ شہزادی نے گہرے نیلے رنگ پر سنہرے رنگ کے کام والا بے حد دیدہ زیب لباس پہنا تھا۔ طلائی زیور خود پر رشک کر رہے تھے۔ ان کا حسن آنکھوں میں اترا جا رہا تھا۔ مانو دولت پور کے اندھیری زمین پر،آسمان سے چاند اتر آیا ہو۔ جو بھی دیکھتا،دیکھتا ہی رہ جاتا۔ شہزادے کی بہنیں تو ان پر واری واری جا رہی تھیں۔ دولت پور کی میراثنیں،ڈھولک پر تال لینے لگیں۔ باہر بینڈ باجے کا شور،ادھر شہزادے کی کو ٹھی میں رونق اور   شادابی نے ہر طرف شامیانے لگا رکھے تھے۔ بجلی کے قمقمے،رنگ برنگی روشنیاں، آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔ شاندار دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہزاروں مہمان مدعو تھے۔ دولت پور کے ہر خاص و عام کی موجودگی۔ ایسا لگ رہا تھا گویا لنگرِ عام ہو،جوق در جوق لوگ آ اور   جا رہے تھے۔ شہزادے نے زر دوزی والی سفیدشیروانی پہنی تھی،جس میں ان کے مردانہ وقار میں اضافہ ہو گیا تھا۔ پورے دولت پور میں شہزادے اور  شہزادی کی منگنی کی دھوم تھی۔

شہزادی اتنی خوبصورت لگ رہی تھی گویا ابھی ابھی پرستان سے اتر ی ہو۔ گھر کی بزرگ عورتوں نے انگلیاں چٹخا کر بلائیں لیں۔

’’ خد آپ کو ہمیشہ محفوظ رکھے۔ ‘‘

ہم عمر سہیلیاں اسے چھیڑ رہی تھیں۔ کوئی کچھ کہتی تو کوئی کچھ۔ ۔

’’ او،شہزادے کی شہزادی۔ ۔ ۔ چاند کی چاندنی۔ ۔ ۔ ‘‘

شہزادی، جب شہزادے کے بارے میں سوچتی تو اس کی آنکھیں جھک جاتیں۔ چہرے پر حیا کے رنگ محوِ سفر ہو جاتے۔ اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ شہزادہ اس کی قسمت میں ہو گا۔ ہاں تصور میں ضرور شہزادے کو بسا رکھا تھا۔ شہزادے کی شرافت،وضع داری اور  اخلاق و اطوار کے قصے اس نے بہت سنے تھے۔ منگنی کے کچھ دن بعد،شاید عید کا موقع تھا۔ شہزادہ قمرالدین،شہزادی کے محلے میں آئے تھے۔ ان کے گھر بھی آ گئے۔ وہ زنان خانے سے اپنی ہی دھن میں نکل رہی تھی کہ اچانک شہزادے سے سامنا ہو گیا۔

’’ ارے آپ !ہماری تو عید ہو گئی۔ ۔ ۔ ‘‘

 شہزادی نے سر نیچے جھکا لیا تھا۔ اس نے آج پہلی با ر شہزادے کو اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ اسے تو کچھ بھی ہوش نہیں تھا۔ وہ تو شہزادے کے شرارت بھرے جملے پر چونکی۔

’’حضور آپ تو واقعی عید کا چاند لگ رہی ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘

شہزادے کی حاضر جوابی کے بھی چرچے اس نے سنے تھے۔ وہ بھی کوئی کم نہیں تھی۔ اس نے سوچا جب قمر مخاطب ہے تو چاندنی کو بھی ساتھ دینا چاہیے۔

’’ جی! ویسے چاند تو آپ کے نام کا حصہ ہے ‘‘

شہزادہ کہاں ہار ماننے والا تھا۔ اس نے نہلے پر دہلہ مارتے ہوئے جواب دیا۔

’’ جی،ہاں اب وہ میری زندگی کا بھی حصہ بننے والا ہے۔ ‘‘

 اور  شہزادی،شرم کے مارے سرخ ہو گئی تھی۔ کوئی جواب نہیں بن پڑا تو کمان سے نکلے تیر کی مانند واپس زنان خانے میں سما گئی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

منگنی کے بعد شہزادی کے دل میں،شہزادے کی محبت روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر وقت شہزادے کا خیال،مستقبل کے منصوبے بنانے لگتی کہ شہزادے کے ساتھ پہاڑوں پر گھومنے جائے گی۔ باہر ملکوں میں گھومے گی۔

پھر وہ دن بھی آ گیا جب دونوں گھرانوں میں شادی کے شادیانے بجنے لگے۔ شادی کے وقت شہزادی عمر اٹھارہ سال کی ہی تھی جبکہ شہزادے خاصی پختہ عمر میں داخل ہو چکے تھے۔ ان کی عمر ستائس اٹھائس رہی ہو گی۔ سہیلیوں کے شہزادے کی عمر پر تبصرہ کرنے پر وہ کہتی۔

’’عمر سے کچھ نہیں ہوتا،مردوں کی عمر تو ان کی پختگی اور   ذمہ دار ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ ‘‘

’’بھئی کوئی ایک گلاس پانی پلا دو۔ ۔ ‘‘شادمانی بیگم کا گلا سوکھ رہا تھا۔ پانی پینے کے بعد انہوں نے کہانی پھر شروع کر دی۔

’’ شادی کا کیا بیان کروں۔ ۔ ؟ پورا دولت پور شادی کے جشن میں ڈوبا ہوا تھا۔ کئی کئی دن قبل سے دونوں طرف رسومات کا سلسلہ جاری تھا۔ عورتیں رات رات بھر شادی کے گیت گاتیں۔

’’ بنو تیرا جھومر لاکھ کا ری۔ ۔ ۔ ‘‘

’’بنو تیرا ٹیکہ ہے ہزاری۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ کونے میں کیوں بیٹھی لاڈو،آنگن میں پکار ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

’’کار ہے دروازے کھڑی دولہا بھی تیار ہے۔ ۔ ۔ ‘‘

کبھی ہلدی کی رسم ہو رہی ہے،تو کبھی مہندی لگائی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ گانے بھی بدل رہے ہیں۔ فلمی گانوں پر جھوم جھوم کر ملا زمائیں اور   ان کی لڑکیاں،رقص کر رہی ہیں۔ عورتوں کا ہجوم ہے۔ زنان خانے میں پاؤں رکھنے کو جگہ نہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے کاموں کے علاوہ ہنسی مذاق،چھیڑ چھاڑ اور   عشق و معاشقے میں بھی کونے کھدروں کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ آخر بارات کا دن آ گیا۔ سید نسیم الدین کی حویلی اور   آس پاس کی عمارتوں کو سجا یا گیا تھا۔ ہر طرف روشنی کی چادر پھیلی ہوئی تھی،دن کا سا سماں تھا۔ بارات اور   مہمانوں کے استقبال کا شاندار اہتمام کیا گیا تھا۔ مرکزی وزراء،ایم پی، ریاستی وزیر،ایم ایل اے،میئر،کمشنر،کے علاوہ پولس انتظامیہ اور  سیاسی پارٹیوں کے لوگوں کا جمِ غفیر تھا۔ انواع و اقسام کے کھانوں کے اسٹال لگے تھے۔ ویج اور   نان ویج کے علاقے الگ الگ۔ پھر خواتین کا انتظام بالکل الگ۔ کبابوں کے الگ اسٹال،آیس کریم الگ، میٹھے کئی اقسام کے۔ چائے کافی،چاٹ پکوڑی،بچوں کے کھانے اور   کھیلنے کے سامان الگ،مشروبات کی تو بات ہی کیا؟پنواڑی،خوشبو دار پان کھلا رہے ہیں۔ شہنائی بجانے والے،اپنی دھنوں پر لوگوں کو مست کر رہے ہیں۔ اُدھر شہزادے کے گھر بارات کا اہتمام جاری ہے۔ ہاتھی،گھوڑے،بگھی،رتھ،موٹر کار،سج دھج کے تیار ہیں۔ گولن دار،بارات کے آگے آگے گولے داغتے جاتے ہیں۔ بارات ایک طویل قافلے کی شکل میں جب سید نسیم الدین کی حویلی پہنچی تو اس کا شانداراستقبال کیا گیا۔

دو،رویہ قطاروں میں ایک ہی رنگ کے کپڑے پہنے لڑکوں نے بارات کا سلامی کرتے ہوئے استقبال کیا۔ ہر باراتی کو گلاب کا ایک پھول پیش کیا جاتا اور   فضا میں خوشبو کے فوارے چھوڑے جاتے۔ وسیع و عریض احاطے،میں جس کے تین ا طراف دالان تھے۔ درمیان میں شامیانے لگے تھے۔ بیچوں بیچ ایک اسٹیج بنایا گیا تھا۔ باراتیوں کے بیٹھنے کے لئے صوفے اور  کرسیاں موجود تھیں۔ بارات کے نشست اختیار کر نے کے بعد مشروبات کا دور شروع ہوا۔ جو کافی دیر تک چلتا رہا۔ نکاح کا وقت آیا تو بڑی سادگی سے سارے مراحل پورے ہوئے۔ دونوں طرف کے لوگوں نے اپنی اپنی بندوقوں کا مظاہرہ کیا۔ فضا گولیوں کے دھماکوں سے گونج اُٹھی۔ کھانے سے فارغ ہو کر رخصتی کی تیاری ہوئی۔ رخصتی سے قبل دولہے میاں کو اندر زنان خانے میں سلامی کے لئے لے جا یا گیا۔ عورتوں کے ہجوم میں شہزادے کو دیکھنے کی اور   تحفے دینے کی ہوڑ سی لگی تھی۔ چلنے کو ہوئے تو پتہ چلا کہ جوتے چوری ہو گئے ہیں۔ شہزادی کی سالیاں آ گئیں۔

’’ ہم تو بہت سارے پیسے لیں گے،تب جوتے دیں گے۔ ‘‘

شہزادے کی حسِ مزاح بھڑک اُٹھی۔

’’ ٹھیک ہے آپ جوتے رکھ لیں،ہم دوسرا جوڑا بھی لائے ہیں۔ ‘‘

 اور  یہ کہتے ہوئے انہوں نے ساتھ آئے ملازمین سے دوسرا جوڑا لانے کو کہا۔

’’ چل ہٹ! یہ نہیں چلے گا۔ ۔ ‘‘ شہزادی کی پھوپھی زاد نے نوکر کو ڈانٹا۔

’’ پیسے نکالو۔ ۔ ۔ پورے دس ہزار لوں گی۔ ۔ ۔ ‘‘ پھر وہ شہزادے سے مطالبہ کرنے لگیں۔

’’ ذرا سا ریٹ کم ہو سکتا ہے۔ ۔ ؟‘‘

’’ بالکل نہیں ! ہم اتنی پیاری شہزادی جو دے رہے ہیں۔ ‘‘

’’ چیک چلے گا۔ ۔ ‘‘ شہزادہ شرارت کا کوئی موقع گنواتا نہیں تھا۔

’’ شہزادی بھی ادھار رہی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’اچھا بابا۔ ۔ ‘‘

 اور  شہزادے نے روپے نکال کر دئے اور   پھر جوتے ان کے قدموں میں آ گئے۔

 شہزادی کے لئے ایک بہت خوبصورت ڈولی کا انتظام کیا گیا تھا۔ کہاروں نے ڈولی اُٹھائی۔ شہزادی کی بہنیں آئیں اور   شہزادی کو آخری بار ڈولی میں پانی پلا کر رخصت کیا۔ بارات دھوم دھام سے شہزادے کے محلے میں آئی تو یہاں شہزادی کے استقبال میں زمین و آسمان ایک کر دئے گئے۔ آتش بازی اور   بندوقوں کے فائر ہوتے رہے اور   شہزادی کو عورتوں کا ایک گروہ کوٹھی کے اندر لے کر چلا۔ شہزادہ بھی ساتھ ساتھ تھا۔ اچانک شہزادے کی بہنوں نے راستہ روک لیا اور   بولیں۔

’’بھیا،پہلے ہمارا نیگ دو،نہیں تو ہم اندر جانے نہیں جانے دیں گے۔ راستہ بند….. ‘‘

شہزادے نے اپنے گلے سے سونے کی چین اتاری اور   نوٹوں کی ایک گڈی بڑھاتے ہوئے کہا۔

’’لیجئے اب تو راستہ مل جائے گا۔ ‘‘

 اور  اس طرح شہزادی کو ان کے کمرے تک پہنچا دیا گیا۔ کمرہ اس طرح سجایا گیا تھا کہ ہر طرف سے خوشبو کے جھونکے آرہے تھے۔ موتیا اور   موگرا کے پھولوں کی لڑیاں الگ سماں پیش کر ر ہی تھیں۔ گلاب کے پھولوں کا رنگ اور   خوشبو فرحت بخش رہی تھی۔ محلے کی عورتوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ ہر عورت شہزادی کو دیکھ کر کہتی

’’چاند کا ٹکڑا ہے۔ اللہ دونوں کو خوش رکھے۔ ‘‘

منھ دکھائی میں زیورات اور   پیسوں کی بو چھار ہو رہی تھی۔

’’ارے،ذرا پانی لاؤ،میرا تو حلق خشک ہو گیا۔ ‘‘اچانک شہزادی بیگم رک گئی تھیں۔

کہانی نے سب کو مٹی کی مورتیوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ سب اتنے محو تھے کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ رات کے بارہ بج چکے ہیں۔

حنا نے پانی لا کر دیا۔ اور   کہا

’’امّی اب بس کیجئے۔ پھر کل سن لیں گے۔ ‘‘   

’’ نہیں۔ نہیں۔ ہم تو آج ہی سنیں گے۔ ‘‘ بچے مچل گئے۔

’’نہیں چلو۔ صبح اسکول بھی جانا ہے۔ دیر سے سوؤ گے تو آنکھ نہیں کھلے گی ‘‘ اور   بحالتِ مجبوری، مجلس برخواست ہو گئی۔ سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے گئے۔ شادمانی بیگم نے بھی اللہ سے لو لگا لی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

’’ہاں تو یہ ہوا کہ ….. ‘‘

اگلے دن شادمانی بیگم نے کہانی کو یوں شروع کیا۔

حجلۂ عروسی میں شہزادے اور   شہزادی کا ملن ہوا۔ ایک طرف ٹیپ رکاڈر سے گانے بج رہے تھے۔ محمد رفیع کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی۔

’’دو ستاروں کا زمین پر ہے ملن آج کی رات ……. ‘‘

واقعی آج دو ستاروں کا ملن تھا۔ دو بڑے گھرانوں کا ملن تھا۔ دولت پور کے لئے تاریخی دن تھا۔ پورے علاقے میں اس شادی کولے کر خوب چرچے تھے۔ کوئی دعوت کا ذکر کرتا،تو کوئی بارات کی رونق کی بات کرتا۔ کسی کی زبان پر شہزادی اور   شہزادے کی جوڈی کی تعریف …….. ہر طرف خوشیوں کا رقص،جذبات اور   امنگوں کے میلے،بہنوں اور   ماں کے ارمانوں کی تعبیریں تھیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

وقت کا پرندہ،پرواز کرتا رہا،دولت پور دن بہ دن ترقی کرتا گیا،شہزادہ اور   شہزادی میں اتنی محبت تھی کہ دوسروں کے لئے مثال تھی۔ شہزادہ ہر وقت شہزادی کا خیال رکھتا۔ جہاں شہزادی قدم رکھتی،شہزادہ اپنی پلکیں بچھا دیتا۔ شہزادی نے بھی اپنے حسن اور   اخلاق و کردار سے شہزادے کی والدہ اور   ان کی بہنوں اور   دیگر افراد کا دل جیت لیا تھا۔ دونوں نے مل کر شہزادے کی سبھی بہنوں کی شادی کے فرایض بھی ادا کئے۔ شہزادی اور   شہزادے کو خوشی سجدے کرتی رہی۔ ان کے دو بچے ایک بیٹا اور   ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ بچے بہت خوبصورت تھے۔ شہزادے کے گھر رونق میں اضافہ ہوتا رہا۔ وہ ان سبھی خوشیوں کے لئے شہزادی کا احسان مند ہوتا کہ جب سے شہزادی نے اس گھر میں قدم رنجہ فرمائے ہیں گھر خوشیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔

دولت پور کے پاس کوئی ۲۰ کلو میٹر پر جہانگیر آباد تھا۔ شہزادے نے بچوں کی تعلیم کے سبب اپنی ایک رہائش شہر بنا لی تھی۔ اب زمانہ بدل چکا تھا۔ پُرانے اسکول کا لج،واقعی پرانے ہو گئے تھے۔ اب انگریزی کا زمانہ تھا۔ انگلش میڈیم اسکولوں کا بول بالا تھا۔ شہزادے نے دونوں کا داخلہ کانوینٹ اسکول میں کرا دیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

’’پھر ایک دن وہ سیاہ رات آئی۔ جس کی سیاہی بہت خطر ناک تھی۔ وہ رات،وہ رات۔ ۔ ۔ ‘‘

کہتے کہتے بیگم شادمانی کی آواز بند ہو گئی۔

’’نانی۔ ۔ ۔ نانی…… کیا ہوا۔ ‘‘

ریحان نے آگے بڑھ کر نانی کی پیٹھ سہلائی۔ اور   حنا جلدی سے ایک گلاس پانی لے آئی۔ پانی پی کر شادمانی بیگم تازہ دم ہوئیں۔ جذبات پر قابو پاتے ہوئے انہوں نے کہانی کو جاری رکھا ……

’’وہ رات بہت خطر ناک تھی۔ شہزادہ کھانا کھا کر چہل قدمی کر رہا تھا۔ کہ اچانک انہیں دل کا شدید دورہ پڑا۔ کسی طرح سنبھل کر وہ وہیں بیٹھ گئے۔ انہیں گھر لایا گیا۔ ان کی حالت خراب ہو رہی تھی انھیں پسینہ آ رہا تھا۔ ڈاکٹر ز کو بلا یا گیا۔ اسپتال کے ہارٹ سیکشن میں انہیں مصنوعی سانس پہچانے کی کوشش کی گئی۔ بجلی کے شاک سے بھی کام لیا گیا۔ مگر سب بے سود ثابت ہوا۔ شہزادے کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی تھی۔ ہر طرف کہرام مچ گیا۔ اسپتال سے جب جسدِ خاکی لایا گیا۔ تو حویلی میں پاؤں رکھنے کو جگہ نہیں تھی۔ ہر کوئی شہزادے کا دیدار کرنا چاہتا تھا۔ شہزادی کا تو بہت ہی برا حال تھا۔ وہ اس اچانک افتاد سے ایسی ہو گئی گو یا سانپ نے ڈس لیا ہو۔ آواز بند،چہرے کا رنگ زرد،آنکھوں میں ویرانی ہی ویرانی۔ انہیں کچھ بھی احساس نہیں تھا کہ کیا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے شہزادے کا جامد وساکت جسم دیکھا،تو اچانک جیسے ندی پر لگا باندھ ٹوٹ گیا ہو،شہزادی نے دہاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا تھا۔ لوگ انہیں سنبھال رہے تھے مگر لوگوں کو کیا پتہ شہزادی کا کیا کھو گیا تھا۔ وہ تو تہی دامن ہو گئی تھی۔ بھیڑ میں تنہا کی مثال شہزادی پر فٹ ہو رہی تھی۔

اگلے دن جنازے میں ہزاروں کی بھیڑ۔ ۔ ۔ دولت پور میں ایسا جنازہ کبھی نہیں ہوا۔ جنازہ جب قصبے سے باہر نکلا تو دکاندار،ٹھیلے والے،کاریگر،مزدور، جوق در جوق جنازے میں شریک ہوتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا دولت پور کی سب سے قیمتی دولت ہمیشہ کے لئے رخصت ہو کر جا رہی ہے۔ ۔ دولت پور کے محلے ویران تھے۔ ہر طرف شہزادے کا ذکر،اس کے اخلاق و کردار کے تذکرے،مزدوروں،کام والوں،کی زبانوں پر ان کے احسانات کا بیان۔ ہر زبان پر یہی تھا۔

’’بھیا ایسے تھے،بھیا ویسے تھے،بھیا نے ہمیں زندگی دی۔ ‘‘

تین بہنوں کا بھائی،ماں کی آنکھوں کا اکیلا ٹمٹماتا چراغ …..اندھیرے سے لڑتے لڑتے،روشنی پھیلاتے پھیلاتے اچانک غائب ہو گیا تھا۔ ایک سورج کو گھنے سیاہ بادلوں نے ڈھانپ لیا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

شادمانی بیگم کی آواز رندھ گئی تھی۔ بچے بھی رونے لگے تھے۔ صبا،ضیا، اور  حنا کی بھی ہچکی بندھ گئی تھی۔

اچانک شادمانی بیگم نے زور کی ہچکی لی۔ اور   وہ ایک طرف کو لڑھک گئیں۔

’’امّی!!! ‘‘ ضیا،حنا اور   صبا ان کے بستر کی طرف لپکے۔

’’دادی۔ ۔ دادی۔ ۔ نانی۔ ۔ نانی‘‘ بچے بلک پڑے

فوراً ڈاکٹر کو بلا یا گیا۔ ڈاکٹروں نے گردنیں جھکا لیں تھیں۔

گھر میں کہرام مچ گیا۔ قصّہ گو خاموش ہو گیا تھا۔ کیسی کہانی ؟کہاں کے قصے سنانے والے ؟کیسے سامع ؟سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ بچوں کی چیخیں،عورتوں کی آہیں،کوٹھی انسانوں کے سمندر کی آماجگاہ بن گئی تھی۔ سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

وقت دبے قدموں گذرتا رہا۔ دن،مہینے، اور  مہینے سال تبدیل ہو تے رہے

سمیہ پہلے بیگم سمیہ اور   پھر سمیہ دادی بن گئی تھی۔ اور   اسے بچوں نے گھیر رکھا۔ اس نے کہانی شروع کی

’’ایک تھی شہزادی ……. ‘‘

’’ہاں ایک تھی شہزادی،اس کا نام تھا شادمانی ……. ‘‘

’’سچی کہانی ہے یہ بچو !شادمانی بیگم کو ہم نے دیکھا تھا۔ ہم نے ان کے منہ سے کہانیاں سنی تھیں۔ لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہماری دادی شادمانی بیگم ہی دراصل شہزادی تھیں۔ وہ اپنی اصل کہانی سنا رہی تھیں اور   ہم شہزادے،شہزادی کی کہانی میں گم تھے۔ ‘‘

سمیہ تھوڑی دیر کو رکی تو اس کے نواسے،نواسیاں،پوتے،پوتیاں ایک ساتھ بول پڑے۔

’’پھر کیا ہوا۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘

’’پھر یہ ہوا کہ شہزادے کے انتقال کا واقعہ سناتے سناتے شہزادی بھی اپنے شہزادے کے پاس چلی گئی۔ ۔ ۔ ‘‘

’’بچو چلو۔ سو جاؤ۔ آج کہانی یہیں ختم،باقی کہانی کل پوری کروں گی۔ ۔ ۔ ‘‘

٭٭٭


 

 

 

عید گاہ سے وا پسی

 

پریم چند کا ننھا حامد ستر سال کا بزرگ میاں حامد ہو گیا تھا۔ اسے اپنے بچپن کا ہر واقعہ یاد تھا۔ اُسے یہ بھی یا د تھا کہ وہ بچپن میں عید کی نماز کے لیے گیا تھا تو وا پسی میں تین پیسے کا چمٹا خرید کر لا یا تھا۔ اُس وقت اس کے دوستوں نے اس کا مذاق بنایا تھا۔ لیکن اس کے دو ستوں کے خریدے کھلونے یکے بعد دیگرے میدان چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ اس کے چمٹے کی ایک ضرب نے سب کو بے کا ر کر دیا تھا۔ گھر آ نے پر اس کی دادی پہلے اس سے ناراض ہوئی تھیں اور پھر اُسے خوب پیار کیا اور   دعائیں دی تھیں۔ اس کے والدین بچپن ہی میں اللہ کے یہاں چلے گئے تھے، اُسے ان کی صورتیں بھی یا د نہیں تھیں۔ بعد میں دادی نے اُسے غریبی، مجبوری، بے بسی اور   لا چاری کے لقمے کھلا کھلا کر پالا تھا۔ اس کا بچپن دو سرے بچوں سے مختلف تھا۔ دونوں دادی پو تے ایک دو سرے کی کائنات تھے۔ اُسے وہ دن بھی یا د تھا جب قیامت صغریٰ نے اُسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ ایک رات جب وہ سو رہا تھا۔ بہت تیز آندھی آئی تھی۔ ہوا اور   پانی نے طوفان کی شکل اختیار کر لی تھی۔ بہت سے پیڑ، پھوس کی چھتیں، کچی دیواریں اور   جھونپڑے زمین سے اپنا رشتہ ختم کر چکے تھے۔ ایسے میں اس کی دادی جو گھر کے اسارے میں محو خواب تھیں، چھان گرنے سے دب کر اپنے بچوں کے پاس چلی گئی تھیں۔ وہ دادی دادی کرتا رو تا رہ گیا تھا۔ گاؤں کے ہی لوگوں نے دفن وغیرہ کا انتظام کیا تھا۔ وہ تقریباً پندرہ سال کا تھا۔ اس کا حال ایسا تھا گویا زندگی کی دوڑ میں تنہا رہ گیا ہو۔ اس کا اس بھری پری دنیا میں دادی کے سوا کوئی نہیں تھا۔ ان کے جانے کے بعد پڑوس کے بابا سکھ دیو نے اس کی ہمت بندھا ئی تھی۔ وہ اُسے اپنے گھر لے گئے اور   اُسے اپنے بچے کی طرح پالا پوسا۔ گاؤں کے اسکول سے پانچویں تک پڑھنے کے بعد اُس نے پاس کے ایک چینی مل میں مزدوری کا کام شروع کر دیا تھا۔

’’بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے بیلون لینا ہے ‘‘

اس کے آٹھ سالہ پو تے سا جد نے ایک غبارے وا لے کو دیکھ کر اسے ہا تھ پکڑ کر جھنجھوڑا تو وہ ماضی کے صحرا میں چلتے چلتے اچانک رک گیا تھا، ماضی کے واقعات بھی چھلاوے کی طرح غائب ہو گئے تھے۔ وہ اپنے اکلوتے پو تے کے ساتھ عید گاہ جا رہا تھا۔ عیدیں تو ہر سال آ تی رہتی ہیں اور ہر سال وہ عید کی نماز ادا کرتا تھا لیکن اس با ر وہ اپنے پوتے کے ساتھ پہلی دفعہ عید گاہ جا رہا تھا۔

’’بیٹا ابھی نہیں، واپسی پر لینا۔ ابھی نماز کے لیے جا رہے ہیں۔ ‘‘

اس کے گاؤں سے عید گاہ تقریباً 5کلو میٹر دور تھی۔ اس کا اپنا گاؤں ہندو اکثریتی گاؤں تھا وہاں مسجد نہیں تھی پاس کے گاؤں میں مسجد تھی۔ اکثر مسلمان جمعہ اور   عید۔ بقر عید کی نما زوں کے لیے وہیں چلے جاتے تھے۔ حا مد کو عید گاہ میں ہی عید کی نماز پڑھنا اچھا لگتا تھا۔ لیکن کبھی موسم کی خرابی، کبھی وقت کی تنگی اور   کبھی کام کی فرا وانی کے باعث وہ ہر سال عید گاہ نہیں جا پاتا تھا۔ اس بار وہ کافی عرصے بعد عید گاہ کے لیے اپنے پو تے سا جد کے ہمراہ نکلا تھا۔ گاؤں سے نماز کے لیے ایک ٹولہ روانہ ہوا۔ کچھ نو جوان اسکوٹر اور   بائک سے نکلے تھے۔ کچھ پیدل ہی چل رہے تھے۔ کتنی خوشی اور   رونق تھی ان کے چہروں پر۔ واقعی عید اللہ کا انعام ہے۔ ایک ماہ کے روزے رکھنے کے بعد،عید کی خوشی کا عالم ہی کچھ اور   ہوتا ہے۔ اللہ مسلمانوں کی محنت، صبر، لگن اور   للہیت کے بدلے عید کے دن ان کے گناہ بخش دیتا ہے۔ میاں حا مد نے رمضان کے پورے روزے رکھے تھے۔ گھر میں اس کی بہو بھی روزے کی پابندی کرتی تھی۔ ایک پوتا اور   ایک پو تی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس یہی کائنات تھی اس کی۔ بیٹا وا حد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گذشتہ دنوں ہونے وا لے ہندو مسلم فساد کی نذر ہو گیا تھا۔ بیٹے کی یاد آ تے ہی اچانک ذہن کے سا توں طبق روشن ہو گئے۔ چار سال قبل،پس منظر کا حصہ بن چکے مناظر، یکے بعد دیگرے نظروں کے سامنے آ نے لگے۔

ملک پر بڑا برا دن آ یا تھا۔ سرخ آندھی اس بار شہروں سے اُٹھی تھی جو شہروں، شہروں قصبات اور   دیہات میں پھیل گئی تھی۔ ہندو مسلم منافرت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کے خون کے پیا سے لوگ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبا دت گا ہوں کو مسمار کر نے کا جنون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا عبادت گاہوں کی مسماری سے کوئی قوم ختم ہو جاتی ہے ؟یہ وہی ہندو مسلم تھے جنہوں نے شا نے سے شا نہ ملا کر ملک کو آزاد کرایا تھا۔ آج کیا ہو گیا ہے ان کو؟کیوں ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہیں۔ واحد بے چارہ ان حالات سے بے خبر تھا،اس نے تو گاؤں میں آنکھ کھو لی تو اپنے باباسکھ دیو، چاچا بلدیو اور   اپنے ہم عمر دوست رام اور   کنور پال کو دیکھا تھا۔ وہ تو انہیں کے درمیان کھیلتا ہو ا بڑا ہوا تھا۔ پاس کے ہی شہر میں وہ ایک بیکری میں مزدوری کا کام کرتا تھا۔ اس کی تنخواہ اور   گاؤں کی محنت مزدوری سے میاں حامد کسی طرح گھر چلا رہے تھے۔ شہر میں آنے وا لی سرخ آندھی نے بڑی تباہیاں مچا ئی تھیں۔ واحد بھی اس سرخ آندھی کی زد میں آ گیا تھا۔ اسے اس کے ہی ساتھیوں نے تہہ ِتیغ کر دیا تھا۔ غضب تو اس وقت ہوا جب واحد کی لاش گاؤں پہنچی۔

’’ میاں حامد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میاں حامد۔ ۔ ۔ ۔ واحد کی لاش۔ ۔ ۔ ۔ آئی ہے ‘‘بلدیو نے میاں حا مد کو خبر دی تو اُسے جیسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ یا۔ وہ بلدیو کو پکڑ کر چلا یا۔

’’ یہ کیا مذاق ہے۔ ‘‘

ابھی وہ بلدیو کے کاندھوں کو پکڑ کر ہلا ہی رہا تھا کہ ایک گاڑی دروازے پر رکی۔ گاڑی کا دروازہ کھلا اور   اسٹریچر پر واحد کی لا ش لیے دو لوگ اندر داخل ہوئے۔ لاش کو چار پائی پر لٹا کر الٹے قدموں لوٹ گئے۔ کسی میں ان سے وا حد کی موت کے بارے میں پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔ سارے گاؤں وا لوں کے سر جھکے ہوئے تھے۔ ایک ایک کر کے سب کو پتہ چل گیا تھا کہ وا حد کو شہر میں اس کے سا تھی مزدوروں نے کاٹ ڈا لا تھا۔ گاؤں کے ہندو، خود کو وا حد کا قاتل محسوس کر رہے تھے۔ میاں حا مد کی حا لت عجیب تھی،ان پر سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ آواز بند ہو گئی تھی۔ وہ لاش کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہے تھے۔ گویا انہیں امید ہو کہ واحد اب اٹھا اور   تب اٹھا۔ اور   اٹھتے ہی بابا کہتا ہوا ان سے لپٹ جائے گا۔ اچانک بہت زور سے چیختے ہوئے میاں حامد زمین پر بے سدھ گر پڑے اور   بے ہوش ہو گئے۔ واحد کی بیوی شکیلہ پر بھی بے ہوشی کے دور ے پڑ رہے تھے۔ ساجد اور   نازو اپنی ماں کے بے ہوش جسم سے لپٹے رو رہے تھے۔ بلدیو اور   گاؤں کے پردھان ٹھاکر امر پال نے تدفین کا انتظام کیا۔ واحد کے جانے کے بعد سے میاں حامد کی حالت اس بوڑھے کی سی ہو گئی تھی جو لاغر ہو، کمر جھکی ہو اور   اس کی لاٹھی اس سے چھین لی گئی ہو۔ میاں حامد نے بچپن سے ہی بڑے نازک حالات دیکھے تھے۔ قحط پڑتا تھا تو کھانے کے لالے پڑ جاتے۔ مٹر، باجرہ، بے جھڑ اور   جو کی روٹیاں بھی دن میں ایک وقت مل جاتیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے۔ گھر، گھر کیا تھا۔ بس ایک کمرہ اور   اسارا تھا۔ کھیتی کی زمین نہیں تھی۔ اس کے باپ دادا نے بھی دوسروں کے یہاں محنت مزدوری کر کے اپنا اور   اپنے بچوں کا پیٹ پالا تھا اور   ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا تھا۔ شروع میں باباسکھ دیو کے گھر سے ہی اسے وقت بے وقت کھانا ملتا تھا بعد میں اس نے خود بھی کھانا بنانا شروع کر دیا تھا۔

’’بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ او بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تتلی پکڑ دو نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنی اچھی ہے وہ ‘‘

ساجد کی آواز نے ایک بار پھر انہیں سوچ نگر کی گلیوں سے حقیقت آباد کے کچے راستوں پر لا دیا تھا۔ اس کا پوتا ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ تتلی کبھی ادھر کبھی ادھر جاتی، لیکن ساجد کے پہنچتے ہی اڑ جاتی۔ انہیں ایک پل کو لگا جیسے تتلی ان کی خوشی ہو، جو ہمیشہ اس سے آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے۔ لمحہ بھر کو لگتا کہ اب ہاتھ آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب آئی۔ لیکن پھِر پھُرسے اڑ جاتی۔ بے چارے ساجد کو کیا پتہ کہ یہ تتلی ہماری قسمت میں نہیں ؟ہماری قسمت میں تو ہمیشہ کے دکھ ہیں جو سردی کی راتوں جیسے طویل ہوتے ہیں۔

’’ساجد بیٹے۔ نہیں۔ تتلی کے پیچھے نہ بھاگو۔ گر پڑو گے۔ کپڑے خراب ہو جائیں گے۔ ‘‘

کپڑے،کپڑے تو ساجد نے پہنے تھے مگر نئے نہیں تھے۔ جبکہ ساجد نے پچھلے ہفتے ضد کی تھی۔

’’بابا مجھے بھی نئے کپڑے سلواؤ نا،میں بھی حشمت کی طرح نئے کپڑوں میں عید گاہ جاؤں گا۔ ‘‘

’’اچھا بیٹا۔ ۔ ۔ لادیں گے ‘‘بوڑھے حامد میاں نے مجبوراً کہا۔

 اور  انہوں نے ساجد کو پرانے کپڑوں کے ڈھیر میں سے ٹھیک ٹھاک سے کپڑے لادیے تھے۔ اتفاق سے چینی مل کے باہر پرانے سستے کپڑوں کا ایک ٹھیلہ عید کے سبب لگا تھا۔ اس نے سرخ رنگ کی شرٹ اور   نیلی پینٹ لے جا کر بہو کو دیے۔

’’بہو انہیں دھو دینا۔ اور   تہہ کر کے نیچے رکھ کر اس پر پہلے پھونس پھر بستربچھا دینا۔ میں سو جاؤں گا۔ کپڑوں پر استری ہو جائے گی۔ ‘‘

بہو نے ایسا ہی کیا تھا۔ ساجد کو ماں اور   دادا نے بہکا لیا تھا۔ چھوٹی نازو کی طبیعت خراب تھی اسے ماتا نکل آئی تھی۔ وہ بہت کمزور ہو گئی تھی۔ ہر وقت روتی رہتی۔ مکھیاں اسے پریشان کرتیں۔ حامد مکھیوں کو دیکھ کر کئی بار سوچتا۔ ’’اللہ نے مکھیاں کیوں پیدا کی ہیں۔ یہ تو سب کو پریشان ہی کرتی ہیں۔ ‘‘پر پھر خود ہی دل ہی دل میں اللہ سے معافی مانگتا کہ اللہ نے ہر چیز سوچ سمجھ کر ہی پیدا کی ہے۔

عید سے دو دن پہلے گاؤں کے حاجی لطیف ان کے پاس آئے تھے اور   زکوٰۃ کے تین سو روپے دے گئے تھے۔ انہوں نے کچھ پیسوں سے گھر کی ضروریات کو پورا کیا تھا۔ ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ نازو کی بیماری اور   گھر کے خرچے میں لگ جاتا تھا۔ عید کے لیے پیسے کہاں سے آتے۔ زکوٰۃ کے پیسوں سے انہیں کچھ راحت ملی تھی۔ انہوں نے سوچا تھا کہ اب کی عید پر وہ ساجد کو ریموٹ سے چلنے والی کار اور   نازو کو پلک جھپکنے والی گڑیا خرید کر لائیں گے۔ بہو جو جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھی ، کے لیے ایک سوٹ لائیں گے۔ عید گاہ جانے سے پہلے انہوں نے نہا کر اپنے پرانے دھلے کپڑے پہنے۔ پھر ساجد کو تیار کیا۔ ساجد کی ماں اسے عید گاہ بھیجنے کو تیار نہ تھی۔ لیکن ساجد کی ضد اور   میاں حامد کی مرضی کے آگے وہ مجبور ہو گئی تھی۔ شوہر کی موت کے بعد اسے تو ہر وقت خدشہ لگا رہتا تھا کہیں اس کے بیٹے کو کچھ نہ ہو جائے۔ گاؤں کے لوگ ساجد کو بہت پیار کرتے تھے،وہ تھا ہی بہت پیارا۔ عید گاہ چلنے سے پہلے انہوں نے سویّاں کھائیں۔ پھر ایک ایک روپیہ سب کو عیدی کے دیے۔ انہوں نے بلدیو کے بچوں کو بھی عیدی دی تھی۔ وہ ہر سال ان کے بچوں کو عیدی دیا کرتے تھے۔ ساجد نے اپنے اور   نازو کے روپے اپنی جیب میں رکھ لیے تھے۔ گاؤں کے دس بارہ بڑے بوڑھوں، بچوں پر مشتمل یہ ٹولہ سفید کرتا پاجا مے میں ملبوس سرپر ٹوپیاں لگائے عید گاہ کے لیے نکلا تھا۔ عید گاہ تک جانے کے لیے تین گاؤں کو پار کرنا پڑتا تھا۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ راستے کے دونوں جانب ہری فصلیں لہلہا رہی تھیں۔ گیہوں کے کھیتوں پر شباب کا رنگ تھا۔ سرسوں پھول رہی تھی۔ ہرے اور   پیلے رنگ نے زمین کو اس کنواری دوشیزہ سا بنا دیا تھا جس نے سبز رنگ کے کپڑوں پر پیلا دوپٹہ اوڑھ رکھا ہو، بلکہ ایسا بھی گمان ہو رہا تھا گویا قدرت زمین کے ہاتھ پیلے کرنے کی تیاری کر رہی ہو۔ بَٹیا کے دونوں جانب فصلوں کی مہک دیوانہ بنا رہی تھی۔ کہیں مٹر کے سفید اور   جامنی پھول، کہیں ایکھ کے کھیت۔ گاؤں میں ایک آدھ کولہو بھی نظر آ جاتا۔ کولہو سے گڑ کی بھینی بھینی خوشبو پھیل رہی تھی۔ ویسے اب زیادہ تر کسان شوگر ملوں میں ہی گنا ڈالتے تھے اور   نقد روپے لے آتے۔ اب گاؤں میں بھی بہت کچھ بدل گیا تھا۔ گاؤں کی نئی نسل کے بچے جب سے پڑھ لکھ گئے تھے اور   کچھ نے باہر سروس شروع کر دی تھی گاؤں کا ماحول تبدیل ہونے لگا تھا۔ اب وہ پہلے جیسی بے لوث محبت نہیں رہی تھی۔ پہلے گاؤں کے کسی ایک شخص کا داماد سارے گاؤں کا داماد ہوتا تھا۔ اس کی اتنی خاطر کی جاتی کہ وہ خاطر سے پریشان ہو جاتا تھا۔ ہندو مسلم شیر و شکر کی طرح مل جل کر رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہونا، ایک دوسرے کے کام کروانا۔ چھان اٹھوانا، ایکھ بُوانا، شادی بیاہ میں ہاتھ بٹانا ان کا معمول تھا۔

’’میاں حامد۔ ۔ ۔ ۔ میاں۔ ۔ ۔ ۔ تنک سستائے لیو۔ ۔ ۔ ۔ رس پی لیو۔ گرم گڑ کھالیؤ۔ ‘‘

مُراد پور گاؤں کے کولہو والے بزرگ چاچا ایشور نے عید گاہ جاتے قافلے کو روک لیا تھا۔ مُراد پور کے گاؤں کے مسلم بھی عید گاہ جانے کو تیار تھے۔ جلد ی جلدی قافلے کی خاطر کی گئی۔ قافلہ پھر آگے بڑھ گیا۔ حامد کو سکون ہوا کہ چلو ابھی بڑے بزرگوں میں کم از کم اتنی محبت اور   خلوص تو باقی ہے۔ قافلہ اب پکی سڑک پر آ گیا تھا۔

میاں حامد نے اپنے پوتے ساجد کو کندھے پر بٹھا لیا تھا۔ قافلہ پکی سڑک کی ایک جانب قطار بنا کر چل رہا تھا۔ اچانک ایک تیز رفتار بس قافلے کے کے نزدیک سے گذری۔ سب لوگ جلدی سے ایک طرف کو نہ ہو گئے ہوتے تو معاملہ خراب ہو سکتا تھا۔

’’ابے اے کٹوؤ!کہاں جا رہے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

موٹر سائکل پر سوار تین کم عمر اوباش قسم کے نوجوان، زور سے چلّا تے ہوئے برق رفتاری سے گذر گئے۔ ننھا ساجد چونک گیا۔

’’بابا یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کٹوا کیا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’کچھ نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ گندے بچے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم ایسے نہ بننا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

میاں حامد کے چہرے پر ناگوار ی کے تاثرات تھے۔ زمانہ کتنا بدل گیا تھا۔ بڑے چھوٹوں کا امتیاز ہی نہ رہا۔ بیٹے،باپ کے سامنے بیٹھتے بھی نہیں تھے۔ میاں بیوی کسی کی موجود گی میں ساتھ بیٹھنے سے بھی کتراتے تھے۔ بہو،ساس سسر کا احترام کرتی تھی۔ آج سب الٹ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ سب فلموں اور   فیشن سے ہوا تھا۔ بچوں میں فلموں کا شوق دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ وہیں سے خرافات سیکھتے ہیں۔ فیشن اللہ توبہ ! لڑکیاں بھی پتلون پہننے لگی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بازو کی قمیضیں۔ دوپٹا یا تو گلے میں پٹے کی صورت یا پھر ندارد۔ گاؤں بھی تبدیل ہو گئے تھے۔ کچے مکانوں کی جگہ پختہ اور   بڑے مکان، موٹر سائیکلیں اور   کاریں اب اکثر دکھائی دیتیں۔ پہلے کسی کے گھر کار  ہوتی تو اسے بڑا رئیس مانا جاتا، لوگ اس کی مثالیں دیتے تھے۔ گاؤں کو شاہراہوں سے ملانے والی کچی سڑکیں کھڑنجے یا تار کول کی بننے لگی تھیں۔ علاقے میں فیکٹریاں اور   مل لگنے لگے تھے۔ ترقی اور   تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانیت ختم ہوتی جا رہی تھی۔

’’بابا عید گاہ کب آئے گی۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’بس بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ وہ جو گاؤں دکھ رہا ہے نا۔ ۔ ۔ ۔ بس اسی گاؤں میں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’بھئی ذرا جلدی چلو۔ ۔ ۔ ۔ کہیں ایسا نہ ہو نماز چھوٹ جائے۔ رمضان کی ساری محنت ڈوب جائے گی۔ ‘‘

میاں حامد نے قافلے کے بڑے، چھوٹوں، سب کو نصیحت کی۔ اور   سب جلدی جلدی قدم بڑھانے لگے۔ کچھ ہی دیر میں وہ اسلام پور کی سرحد میں داخل ہو گئے تھے۔ اسلام پورمسلم اکثریتی گاؤں تھا۔ عید گاہ کے راستے پر دونوں طرف میلہ لگا تھا۔ ساجد تو بے چین ہوا  جارہا تھا۔ کہیں جھولے والے آواز لگا رہے تھے۔ کہیں غبارے دھاگوں سے بندھے ہوا میں جھوم رہے تھے۔ گول گپے والے، چاٹ پکوڑی والے، چھولے کی چاٹ، دہی بڑے،بتاشے والے، مکا کی کھیلوں والے، کھلونوں کی تو بہت سی دکانیں تھیں،کسی دکان پر ہر مال پانچ روپے، کسی پر ہر مال دس روپے کا بورڈ لگا تھا۔ ساجد کی نظریں چاروں طرف بکھری بازار کی رونقوں کو دیکھ کر ہونق ہوئی جا رہی تھیں وہ سب کچھ خرید لینا چاہتا تھا۔

’’بھیا آ جاؤ۔ جلدی آؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز کھڑی ہونے والی ہے۔ ‘‘

عید گاہ سے کئی لوگ راستے میں آنے والوں کو پکار رہے تھے۔

قافلے نے لپک کر عید گاہ میں قدم رکھا۔ عید گاہ بہت بڑی نہیں تھی۔ مغرب کی طرف مسجد جیسی عمارت کی تقریباً بیس فٹ اونچی دیوار تھی جس میں کنگورے کٹے ہوئے تھے دیوار کے آخری سروں پر دو بلند مینار تھے۔ باقی دور تک خالی زمین جو سال میں دو نمازوں کے لیے اپنا دامن پھیلائے رہتی تھی۔ عید میں بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ اسلام پور کے علاوہ آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی یہیں نماز پڑھنے آتے تھے۔ میاں حامد بچپن سے اب تک نجانے کتنی بار عید گاہ آئے تھے۔ نماز کے بعد لوگ ایک دوسرے سے گلے ملتے تو ایسا لگتا گویا فرشتے زمین پر اتر آئے ہوں۔ نماز کے بعد اسلام پور کے لوگ آس پاس کے لوگوں کو بغیر کچھ کھائے پیئے واپس جانے نہ دیتے میاں حامد کے ساتھ کئی بار بلدیو چاچا کے بچے بھی آ جاتے تھے۔ مسلمان نماز پڑھتے اور   وہ سب کے جوتے چپلوں کی رکھوالی کرتے بعد میں عید گاہ میلے سے میاں حامد ان کے لیے کچھ نہ کچھ تحفے ضرور خریدتے۔ وہ سب اپنے بھائی ہی تو تھے۔ وہ سب میاں حامد سے چھوٹے تھے۔ میاں حامد کو اچھی طرح یاد تھا کہ ایک بار بلدیو چاچا نے اپنی ٹریکٹر ٹرالی نکالی تھی اور   گاؤں کے سارے مسلمانوں کو بھرکر عید گاہ لائے تھے۔ کتنا میل ملاپ تھا لوگوں میں۔ گاؤں میں امن و امان تھا۔ گاؤں کے حالات سیاست سے بدلے تھے۔ اب گاؤں میں بھی سیاست بڑھنے لگی تھی، پردھان اور   گاؤں کے امیر لوگ ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے رہتے۔ رات کو موٹر چور ی کرواتے، صبح کو ہمدردی جتانے پہنچ جاتے۔ اور   دو ایک دن بعد موٹر کہیں سے بر آمد ہو جاتی۔ اسی طرح بیل اور   بھینس بھی غائب ہو جاتیں۔ انہیں اچانک دس سال قبل کا وہ واقعہ یاد آ گیا جب اس نے ایک رات بابا سکھ دیوکی بھینس چراتے مکھیا کے بڑے لڑکے کو دیکھ لیا تھا۔

’’چور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو بھینس لے جا رہا رہے۔ چاچا۔ ۔ ۔ او بابا، بھیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اس کی آواز پر بھینس کو بیچ میں چھوڑ کر چور فرار ہو گئے تھے۔ مگر اس نے ایک چور کو پہچان لیا تھا۔ اور   غضب تو اس وقت ہو گیا جب اگلے دن پنچایت میں اس نے مکھیا کے بیٹے کا نام سب کے سامنے کہہ دیا۔ مکھیا کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔

’’تم جھوٹ بولت ہو۔ ۔ ۔ ۔ میرا بیٹا نہیں کوئی اور   ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’نہیں۔ ۔ ۔ ۔ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے بیر پال کو دیکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

’’پنچوں یہ مسلمان ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہندوؤں میں پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

میاں حامد نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ بات اس کے کردار پر آ جائے گی۔ نفرت کیا ہوتی ہے، اسے پتہ ہی نہ تھا۔ اس نے تو کبھی کسی کو بری نظر سے بھی نہیں دیکھا۔ کیا ہندو، کیا مسلمان۔ وہ تو بچپن سے ہی بابا سکھ دیو کے گھر رہ کر بڑا ہوا تھا۔ انہوں نے ہی اس کی شادی کروائی تھی۔ گاؤں کے کئی مسلمانوں نے اسے سمجھایابھی تھا کہ سکھ دیو کے گھر نہ رہے لیکن اس نے کسی کی نہ سنی تھی۔ پھر بابا اسے بیٹا ہی تو مانتے تھے۔ ہمیشہ اس کے دکھ سکھ میں شریک رہتے۔ مکھیا کے جملے نے تو جیسے میاں حامد کے سینے کو گرم سلاخوں سے داغ دیا تھا۔ اس کو اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ گم سم ہو گیا۔ مانوں اس کی زبان کاٹ دی گئی ہو۔ لیکن اگلے ہی لمحے سکھ دیو اور   ان کے خاندان والوں نے مکھیا اور   اس کے بیٹے پر لاٹھیاں برسانا شروع کر دی تھیں۔ دونوں طرف سے زور دار حملے ہو رہے تھے۔ اس سے قبل کے کچھ انرتھ ہو جاتا، حامد میاں نے ایک زور کی چیخ ماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’بند کرو خدا کے لیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

 اور  واقعی لڑائی کو اچانک بریک لگ گئے تھے۔

’’تم لوگ میرے اوپر لڑ رہے ہونا۔ چلو میں گاؤں چھوڑ کر ہی چلا جاتا ہوں۔ ‘‘

میاں حامد کی آنکھوں سے آنسو روا ں تھے، انہوں نے اپنا منھ دونوں ہتھیلیوں میں چھپا رکھا تھا۔ ان کے اتنا کہتے ہی مکھیا اور   بلدیو چاچا ایک ساتھ ان کی اور   لپکے تھے۔

’’نہیں حامد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم گاؤں نہیں چھوڑو گے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

 اور  پھر وہ ہوا جو گاؤں والوں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ مکھیا نے اپنے بیٹے بیر پال کو سب کے سامنے مارنا شروع کر دیا۔

’’اس کے کارن سب کچھ ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

بڑی مشکل معاملہ رفع دفع ہوا تھا۔ گاؤں میں حامد کی الگ پہچان تھی۔ وہ ایک ایماندار مسلمان تھا۔ جو جتنا مسلمانوں کا ہمدرد تھا اتنا ہی ہندوؤں کا بھی۔

’’اللہ اکبر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

امام صاحب نے نیت باندھ لی تھی سب نے دو رکعت نماز ادا کی۔ خطبہ سنا اور   دعا مانگنے لگے۔ میاں حامد نے خدا کی بار گاہ میں ہاتھ اٹھائے۔ ان کے لب تھر تھرا رہے تھے،ہاتھ بھی لرزنے لگے۔ ’’اے خدا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے خدا۔ ۔ ۔ ۔ ہم بڑے گنہ گار ہیں۔ اے خدا ہمیں مسلمان کے ساتھ ساتھ انسا ن بھی بنا۔ مجھے انسانوں کی خدمت کرنا سکھا۔ یہ جو ایک عجیب قسم کی آندھی شہروں سے گاؤں کی طرف چلی آ رہی ہے ہمیں اس سے محفوظ رکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

دعا کے بعد سب ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔ میاں حامد جھک کر اپنے پوتے ساجد سے گلے ملے۔ گلے ملتے وقت انہیں بے پناہ طمانیت اور   مسرت کا احساس ہوا۔ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ ساجد کے اندر سرایت کر گئے ہیں۔ ایک چھوٹا بچہ بن گئے ہیں بچہ جو معصوم ہوتا ہے جو فرشتہ صفت ہوتا ہے۔

’’بابا۔ ۔ ۔ ۔ بابا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آؤ نا کھلونا لیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ساجد نے ان کا ہاتھ کھینچا تو وہ دکانوں کی طرف چل دیے۔ ساجد نے بہت سے کھلونے دیکھے۔ سب کو فیل کرتا گیا۔ آخر میں اسے اسے ریموٹ سے آگے پیچھے ہونے والی ایک خوبصورت سی کار پسند آ گئی۔ ساجد نے ضد کر لی بابا میں تو اسے ہی لوں گا۔

’’بھیا کتنے کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

’’بابا پورے سو روپے کی ‘‘

’’سوروپے۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘میاں حامد کا منھ حیرت سے کھل گیا تھا۔

وہ سوچ میں پڑ گئے۔ ان کی جیب میں کل ڈیڑھ سو روپے رکھے تھے۔ اگر وہ کھلونا خرید لیتے تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ لیکن وہ پوتے کا دل بھی نہ توڑنا چاہتے تھے۔ آخر کار ساجد کی ضد جیت گئی۔ مول بھاؤ کے بعد سودا پچاس روپے میں ہو گیا۔ پھر دونوں نے نازو کے لیے ایک آنکھیں مٹکاتی گڑیا خریدی،بابا سکھ دیو کے بچوں کے لیے بھی کھلونے اور   دوسراسامان خریدا۔ سامان لے کر وہ نکل ہی رہے تھے کہ اچانک گولیوں کے دھماکوں سے فضا گونج اٹھی۔ اور   پھر بھگدڑ مچ گئی۔ در اصل اس بار عید اور   کانوڑ یاترا آس پاس ہی تھے۔ سارے علاقے میں دہشت تھی۔ ہر طرف زعفرانی رنگ لہرا رہا تھا۔ پتہ چلا کہ کانوڑیوں کا ایک جتھا اسلام پورسے گذر رہا تھا۔ ان پر کسی مسلمان نوجوان نے پتھر مار دیا تھا بس کیا تھا۔ کارسیوکوں نے مسلمانوں کو مارنا شروع کر دیا تھا۔ خبر پھیلتے ہی گاؤں کے مسلمانوں نے گولیاں چلانی شروع کر دی تھیں۔ کارسیوکوں کی حمایت میں بھی بندوقوں نے گولیاں اگلنی شروع کر دی تھیں۔ گولیوں کا نشانہ بن کر کئی لوگ لاشوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔

میاں حامد نے ساجد کو گود میں اٹھا لیا اور   ایک طرف کو بھاگنا شروع کر دیا۔ انہوں نے قافلے کے دوسرے لوگوں کو ادھر ادھر دیکھا بھی، لیکن وہ ایک لمحہ بھی انتظار میں گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ گاؤں کے حاجی شوکت نے حامد میاں کو اسلام پور میں ہی رکنے کو کہا۔ اسلام پور مسلمانوں کا بڑا گاؤں تھا۔ مگر حامد میاں نے منع کر دیا اور   ایک طرف بھاگنے لگے۔ وہ بہت تیز دوڑ رہے تھے۔ ساجد کے ہاتھوں میں کار، گڑیا اور   دوسرا سامان تھا۔ ننھے ساجد کو پتہ نہیں تھا اس نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ میاں حامد پکی سڑک تک آ گئے تھے۔ ان کے بوڑھے قدموں میں نجانے کہا ں سے طاقت آ گئی تھی۔ در اصل موت کا ڈر۔ خود ایک زبر دست طاقت عطا کر تا ہے۔ ان کو ڈر تھا کہ اسلام پور کا معاملہ جب دوسرے گاؤں پہنچے گا تو ظلم ہو جائے گا۔ وہ اس لمحے کے آنے سے قبل ہی اپنے گاؤں پہنچ جانا چاہتے تھے۔ سڑٖک پر پیچھے سے شور کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا ایک بھیڑ بے تحاشہ بھاگی آ رہی تھی۔ لوگوں کے ہاتھوں میں تلواریں، لاٹھیاں اور   بلّم تھے۔ انہوں نے سڑک سے کھیتوں میں بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ اب بس ایک گاؤں پار کرنا رہ گیا تھا، جس کے پار ان کا گاؤں تھا۔ دوڑتے دوڑتے وہ تھک گئے تھے۔ گاؤں کے ایک ویران پڑے ٹیوب ویل کے پاس وہ سانس لینے کو رکے۔ انہوں نے راستے سے خود کو چھپا لیا تھا تاکہ کوئی گذرے تو دیکھ نہ پائے۔

’’بابا۔ ۔ ۔ کیا ہوا۔ آپ کیوں بھاگ رہے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘

’’چپ۔ ۔ ۔ ۔ پ۔ ۔ ۔ ‘‘

میاں حامد نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ کہیں کوئی آواز نہ سن لے۔ اتنے میں گاؤں میں زبر دست دھماکہ ہوا۔ لگا جیسے کہیں کوئی بم پھٹا ہو۔ اسلام پور سے اٹھنے والی آندھی سرخ ہوتی جا رہی تھی۔ موقع ملتے ہی چنگاری، شعلہ بن رہی تھی۔ آگ گاؤں گاؤں پھیلتی جا رہی تھی۔ میاں حامد کے جسم میں خوف کا ناگ بری طرح لہرایا تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنا راستہ تبدیل کیا۔ اب وہ گاؤں سے نہ گذر کر کھیتوں کھیتوں اپنے گاؤں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ دوڑتے دوڑتے وہ اپنے گاؤں کی سرحد میں داخل ہو گئے تھے۔ ساجد کو نیچے اتار کر انہوں نے ایک لمبی سانس لی۔ ان کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا پر انہیں اطمینان ہو گیا تھا کہ اب وہ اپنے گاؤں میں آ گئے ہیں وہ گاؤں جہاں ان کی اور  ان کے باپ دادا کی عمریں گذری تھیں۔ وہ اطمینان سے ساجد کی انگلی پکڑے گاؤں کی طرف چل پڑے۔ ابھی وہ گاؤں میں داخل ہی ہوئے تھے کہ گاؤں سے ایک شور بلند ہوا۔

’’مارو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکڑو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اس سے قبل کہ میاں حامد کچھ سمجھ پاتے ایک جتھا سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ خون کی پیاسی تلواریں، قتل و غارت کا جنون اور  دہشت پیدا کرنے والی آوازیں۔ انہوں نے پلک جھپکتے ہی ساجد کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور   جیسے ہی ایک طرف کو بھاگنا چاہا مکھیا کے بیٹے بیر پال کی دو نالی سے نکلنے والی ایک بے رحم گولی نے ساجد کو نشانہ بنا لیا۔

ساجد کے جسم کو پار کرتی ہوئی گولی میاں حامد کے سینے میں پیوست ہو گئی تھی۔ گولی نے اس طرح معصوم ساجد کا جسم پار کر کے میاں حامد کو زمین کا پیوند بنا دیا تھا جیسے حرملہ کا تیر معصوم علی اصغر کے حلق سے ہوتا ہوا امام حسین کے بازو میں ترازو ہو گیا تھا۔ دونوں زمین پر آ رہے۔ خون کا فوارہ دونوں جسموں سے بلند ہو رہا تھا۔ زمین ساکت تھی۔ آسمان خاموش تھا۔ ہوا سانس لینا بھول گئی تھی۔ دونوں کے خون میں لت پت لاشے پڑے تھے اور  تھوڑی ہی دوری پر ساجدکی کار، نازو کی گڑیا،بہو کا سوٹ،ایک دھوتی اور   ایک چھوٹی سی پیتل کی لٹیا پڑی تھی، جو میاں حامد بابا سکھ دیو کے گھر والوں کے لیے لائے تھے۔

٭٭٭


 

 

 

بدلتا ہے رنگ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

بہت تیز آواز کے ساتھ ایک گو لا آسمان کی بلندیوں میں جا کر پھٹا۔ آسمان پر رنگ برنگے ستارے دائرے میں پھیل گئے گو یا ستاروں سے سجی ایک بہت بڑی گیند آسمان پر لمحہ بھر کو ٹھہر گئی ہو۔

’’ ارے شر پھو! او شر پھو، دیکھ بارات آ گئی ہے۔ ‘‘

’’ ہاں سامو! گولے تو بڑے جاندار لگیے ہیں۔ کتنی جبر دست آواج ہے اور   کتنی لپٹ آکاس پر پھوٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

گاؤں کے دو کم عمر ہندو۔ مسلم دوستوں نے گاؤں میں بارات کی آ مد کی خبر پاتے ہی، پہلے اپنی ٹو لی اور   پھر ٹو لی نے سارے گاؤں میں خبر پھیلا دی، رام دین کی بیٹی آ شا کی بارات آ گئی ہے۔

گاؤں دھنورا، میں بارات آ نے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ ہزاروں باراتیں آ چکی تھیں، ایک سے بڑھ کر ایک۔ ۔ ۔ کسی بارات میں گلاؤٹھی کا مشہور بینڈ، کسی میں جہانگیر آ با د کی نوٹنکی،کسی میں نچکیّے لا جواب، کسی میں گھوڑ سوار بینڈ باجے۔ ۔ ۔ ۔ بارات کے گاؤں کی سر حد میں داخل ہو تے ہی، گو لے داغ کر با رات کی آ مد کی خبر دی جاتی۔ گاؤں کے لوگ جو کئی دن سے با رات کی آ مد کی راہ دیکھ رہے ہو تے ہیں، گو لے کی آواز پر بزرگوں اور   نو جوانوں کا ایک گروہ بارات کو لینے کے لیے، گاؤں کے باہر جاتا ہے۔

’’ارے رام دین! بابا اسماعیل کہاں ہیں ؟ با رات کی اگوا ئی کو انہیں لے چلو، اُن سُو بَڑَو تو کوئی اور   نہ دِیکھَے ہے۔ ‘‘

’’ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کاکا بلدیو، اسما عیل بابا کو اور   اور  ن کو بھی لے لیؤ۔ ‘‘

بابا اسما عیل، کاکا بلدیو، ترکھا بابا، رام پال سنگھ فو جی، آ شا رام تیا گی، شیخ نثار احمد اور   نو جوانوں کا ایک ٹولہ با رات کے استقبال کے لیے روا نہ ہوا۔

گاؤں کے باہر بارات کے لوگوں سے ہاتھ ملائے گئے۔ بابا اسما عیل سب سے بڑے تھے، انہوں نے شگن کے سوا روپے رام دین کے سمدھی، مہندر سنگھ کے ہاتھوں میں رکھے اور   بولے۔

’’آ جاؤ بھئی۔ گام میں آپ کو، سوا گت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ایک ساتھ کئی گولے آسمان کو آواز اور   روشنی سے چیرتے چلے گئے۔ کچھ نے کانوں میں انگلیاں دے لیں تو کچھ نے اچھلنا کودنا شروع کر دیا۔ بارات سج چکی تھی۔ آ گے آگے سروں پر ہنڈوں کو لیے دو طرفہ قطار میں مزدور مرد۔ عورت، ان کے پیچھے ڈھول تاشے لیے با جے وا لے، ان کے پیچھے نو جوانوں کی ڈانس کرتی ٹو لی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کے پیچھے آر کے شرما بینڈ پر آواز کے ساتھ ناچتے گاتے نوجوان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے پیچھے لڑ کیوں کی ناچتی ہو ئی دو جوڑیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب جانتے تھے کہ یہ لڑکیاں تو بس نقلی ہیں، اصل میں یہ لڑکے ہو تے تھے جو لڑکیوں کا بھیس بدل کر خوب ناچتے اور   نوٹ بٹورتے تھے۔ ان کے پیچھے ایک بڑی بگھّی میں دولہے راجا اور   ان کی بغل میں ان کا پیارا سا کم عمر بھانجا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے پیچھے بزرگ۔ ۔ ۔ ۔ گانوں، باجوں، ناچ کھیل کے ساتھ بارات دھوم دھام سے سارے گاؤں کی گلیوں سے گذرتی رہی۔ چھتوں پر لڑکیاں اور   عورتیں ایک کے اوپر ایک، بارات کی دھوم دھام اور   دولہے کو دیکھنے کے لیے بے تاب کھڑی تھیں۔

شام کو گاؤں میں داخل ہو نے والی بارات گھنٹوں گاؤں کی گلیوں اور   چوراہوں سے گذرتی ہو ئی اسکول کے احاطے میں آ گئی تھی۔ جہاں پہلے ہی سے پچاسوں چار پائیاں (جو گاؤں کے ایک ایک گھر سے جمع کی گئی تھیں )،اُن پر گاؤں کے گھروں سے اکٹھا کی گئی چوتئی اور   دو تئی بچھائی گئی تھیں۔ بیچ میں بڑے سے حصے میں زمین پر کپڑے بچھائے گئے تھے۔ اسکول میں داخل ہو تے ہی بارات کے گانے، ڈھول تاشے سب اچانک بند ہو گئے تھے گو یا بجلی ٹرانسفارمر جل گیا ہو۔ سر پر سے مانو شور کی ایک چادر سی اتر گئی تھی۔ اسکول کے احاطے میں آ تے ہی سب نے لپک کر چار پائیاں ہتھیا لی تھیں۔ بزرگوں نے خود کو ایک طرف کر لیا تھا۔ حقّہ بجانے وا لے آمنے سامنے کی چار پائیوں پر قبضہ جما چکے تھے۔ چار پائیوں کے درمیان میں حقے رکھے تھے،جو تازہ دم بھی تھے اور   چلم میں سلگتی ہو ئی آگ بھی۔ جنہیں چار پائی نہیں ملی وہ بیچ کے حصے میں زمین پر پسر گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں بالٹیوں اور   گلاسوں کے ساتھ لڑکوں کا ایک ٹولہ آ یا۔ کسی بالٹی میں دودھ، کسی میں پانی اور   کسی میں دو دھ۔ روح افزا کا شربت، بارات کا سواگت ہو رہا ہے۔ اپنی اپنی پسند کے مشروب پئے جا رہے ہیں۔ حقے کی گڑ گڑا ہٹ اور   دھوئیں کے ننھے ننھے بادل ادھر اُدھر اُڑ رہے تھے۔

’’ یہ کون نا ہنجار ہے جو دھنو رہ میں بارات لے کر آ یا ہے۔ ‘‘

ایک تیز چیختی ہو ئی آواز نے خاموشی کے چہرے پر طمانچہ رسید کر دیا تھا۔ باراتیوں نے دیکھا ایک پولس والا، خاکی وردی میں ملبوس، شانے پر تھری اسٹار، سر پر خوبصورت سی کیپ،کمر میں روالور کی پٹی اور   ہاتھ میں چمچماتی ہو ئی بینت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چھ فٹ کا دراز قد، خوبرو نوجوان، اپنے ہاتھ کی اسٹک کو گھماتا ہوا دولہے کے باپ کو تلاش کر رہا تھا۔

’’ کون ہے بھئی مہندر سنگھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ تم نے کس کی آ گیا سے دھنو رہ گاؤں میں گولے داغے۔ ‘‘

اپنی اسٹک گھماتا ہوا وہ چار پائیوں کے ادھر اُدھر غضبناک نظروں سے ایک ایک چہرے کو دیکھتا ہوا آ گے بڑھ رہا تھا۔ چھوٹے بچوں کی حا لت خراب ہو رہی تھی۔ ان کی گھگھی بند گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی ایک نے مہندر سنگھ کی طرف اشارہ کر کے بتا دیا۔ ۔ ۔ پو لس وا لا لپکا۔ اسٹک کو چار پائی پر مارتا ہوا دہاڑا۔

’’ ہاں بے سمدھی،بتا بارات نے گولے کیوں داغے۔ ‘‘

’’ حضور گلطی ہو گئی۔ معاف کر دیو۔ ‘‘سمدھی نے گھبرا کر معافی مانگ لی۔

’’کوئی معافی وافی نہیں۔ جرمانہ بھرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاؤ دو سو روپے نکالو۔ ‘‘

مہندر سنگھ نے دھو تی کی انٹی میں رکھے رو پے نکالے اور   گن کر پو لس وا لے کے حوا لے کر دیے۔

’’ ٹھیک ہے بھئی سمدھی،اب پٹاخے چھوڑ سکتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

پو لس وا لا پاؤں پٹختا ہوا، اسکول سے با ہر چلا گیا۔

اتنے میں گاؤں کے لڑکوں کی ایک ٹو لی آ ئی۔

’’ آ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بن گئے۔ ۔ اُلّو، ارے وہ کوئی پو لس وا لا نہ تھا وہ تو اپنا جفرو تھا۔ ،ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ٹولی چلی گئی تھی۔ باراتی خود کو لٹا ہوا محسوس کر رہے تھے گویا کسی نے سارے باراتیوں کی جیب پر ہاتھ صاف کر دیے ہوں۔

ظفر الدین، گاؤں دھنورا میں آباد شیخ خاندان کا ایک لڑ کا تھا۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگ اُسے جفرو(ظفرو) کہتے تھے۔ ظفرالدین نے جب سے ہوش سنبھا لا تھا، اس نے اپنے باپ فقرو(فخر الدین) کو دو کام کرتے دیکھا تھا۔ ایک تو وہ پورے گاؤں کے حقوں کے نہچے باندھنے کا کام کرتے تھے۔ ان کے بنائے ہوئے نہچے بہت خوبصورت ہو تے تھے۔ وہ حقے کی ساخت اور   سائز کے مطابق نہچے تیار کرتے تھے۔ پہلے ایک پتلے بانس کی نلکی کو دوسرے سے جوڑتے، ایک نلکی جس پر چلم رکھی جاتی اس کی گردن موٹی ہو تی تھی۔ دو سری نلکی حقہ پینے وا لے کے منہ کی طرف جاتی تھی،وہ اتنی لمبی ہو تی تھی کہ چار پائی پر بیٹھ کر آسانی سے حقہ گڑ گڑیا جا سکے۔ دونوں نلکیوں کا میل حقے کی فرشی میں ہو تا تھا۔ نلکی کے اوپر رنگ برنگے کپڑے لپیٹے جاتے اور   پھر ریشم کے خو بصورت دھاگوں سے کپڑے کو سختی سے باندھا جاتا۔ فخرو کے بندھے نہچے کئی بار انعام جیت چکے تھے۔ اس کے وا لد کا دوسرا کام ’بہروپیئے ، کا تھا۔ وہ شادیوں، سوانگ، نوٹنکی وغیرہ میں مختلف بھیس بدل بدل کر بہروپیئے کا رول کرتے تھے۔ ان دو کاموں سے ہی فقرو نے آٹھ آٹھ اولادوں کو پا لا تھا۔ ظفرو بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ اُس نے اپنے وا لد سے بہروپیئے کا ہنر سیکھا تھا۔ شروع شروع میں تو وہ گھبرا جاتا تھا۔ آواز ساتھ نہیں دیتی تھی۔ جب پہلی بار اس کے والد نے اُسے شرا بی کے بھیس میں گھر پر ہی رول کر وایا تو وہ بیچ میں ہی اٹک گیا تھا۔ لیکن بعد میں اس نے بولنے کی خوب مشق کی تھی۔ اب وہ کسی بھی جلسے میں تابڑ توڑ بول سکتا تھا۔ ابھی پچھلے ماہ اس نے ایک نو ٹنکی میں جو کر کا کردار ادا کیا تھا۔

’’ حضور، حضرات، مہر بان، قدر دان، بندہ آپ کو آ داب بجا لاتا ہے۔ میں ایک جو کر ہوں،۔ جو، کر یعنی، جو کہتا ہوں، کرتا ہوں، جی ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ کو اپنی اصلیت بتاتا ہوں۔ میں ایک بہت بڑا رئیس ہوں۔ میرے گھر پر تین ہزار چھپکلیاں، دو ہزار مینڈکیاں، ایک ہزار چوہیاں،دو دودھ کی نہریں بہتی ہیں۔ نہر میں ہزاروں مچھر اور   مکھیاں ڈبکیاں لگا لگا کر نہا تے ہیں لیکن دودھ پھر بھی صاف رہتا ہے۔ دروازے پر لاکھوں مچھر پہرہ دیتے ہیں،مجال ہے جو کوئی بھی مکڑی یا مکڑا گھر کے اندر داخل ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘تالیوں کی گڑگڑاہٹ اور   واہ وا ہی کے درمیان وہ اسٹیج سے اتر آ یا تھا۔ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ایک تو اس کا لباس، گویا بانس پر کپڑے ٹانگ دیے ہوں، دوسرے اس کا تیز ترین رفتار سے بولنا، سارا گاؤں، بلکہ آس پاس کے علاقے میں اس کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا تھا۔ اب اُسے کام بھی خوب ملنے لگا تھا۔ گاؤں میں آ نے وا لی باراتوں میں تو وہ کسی نہ کسی بھیس میں ضرور جاتا تھا اور   اپنا ہنر دکھا کر خوب پیسے بٹورتا۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنے وا لد کا نام روشن کرنا چاہتا تھا۔ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کو پڑھانا چاہتا تھا۔ وہ خود تو بالکل نہیں پڑھ پایا تھا،بس تقریر کی مشق نے اُسے مختلف لب و لہجے میں بولنے میں مہا رت عطا کر دی تھی، جو اس کا ذریعۂ معاش تھا۔ وہ اپنے کام سے کوئی سمجھو تہ نہیں کرتا تھا۔ دور دراز کے گاؤں سے اُسے نیوتا آ تا تو وہ ضرور جاتا۔ ایک دن گاؤں میں ایک سیا سی لیڈر کا جلسہ تھا۔ پارٹی کے لوگوں نے ظفرو کو پہلے ہی خبر کر دی تھی۔ انہیں بھیڑ جٹا نے سے مطلب تھا۔ ظفرو کو پیسے چاہئیے تھے۔ اُس نے عام دنوں سے زیادہ پیسوں کی مانگ کی تھی، جسے منظور کر لیا گیا تھا۔

گاؤں کی چو پال پر اسٹیج بنایا گیا تھا۔ اسٹیج کے سامنے کچھ چار پائیاں پڑی تھیں۔ سامنے دری بچھی تھی۔ لوگ آہستہ آ ہستہ آنے لگے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچانک اسٹیج پر ظفرو نمو دار ہوا۔ آج اُس نے قصہ گو چور کا روپ دھارا تھا۔

ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ظفرو اسٹیج پر وارد ہوا۔ تالیوں سے استقبال کیا گیا۔ اس کا حلیہ بڑا عجیب لگ رہا تھا۔ اس نے سفید دھوتی کے اوپر لال شرٹ پہن رکھی تھی۔ سر پر منڈا سہ، بڑی بڑی مونچھیں اور   پیر میں دو پٹی کی چپل۔ ۔

’’ ہاں تو میرے مہربان، قدردان بھائیو اور   بہنو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لو میں تمہیں ایک قصہ سنا تا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ‘‘

لوگوں کی بھیڑ ظفرو کو سننے کے لیے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ ظفرو اسٹیج پر تھا اور   سامنے سینکڑوں لوگ بیٹھے تھے۔ لڑکوں کا ٹو لہ الگ، بڑے بوڑھوں کا گروہ الگ، لڑ کیوں اور   عورتوں کی ٹو لی الگ۔ سب کی نظر یں ظفرو کی حرکات پر تھیں۔

’’ ایک دفعہ میں ایک شکار پر گیا۔ گھنا جنگل اور   میں اکیلا۔ شائیں شائیں کرتی ہوا۔ پتوں کی کھڑ کھڑا ہٹ دل میں دہشت پیدا کر رہی تھی۔ شام کا وقت ہو چلا تھا اچانک پاس کی جھاڑیوں میں حرکت ہو ئی، میں فوراً پیچھے گھو ما( یہ کہتے ہوئے وہ اچانک پیچھے کی جانب گھوم گیا)ڈر کا جھونکا مجمع پر ادھر سے اُدھر گذر گیا۔ کیا دیکھتا ہوں ایک خو بصورت ہرن، قلانچیں بھرتا دور کو بھا گ رہا ہے۔ میں نے ہرن کے پیچھے اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ ‘‘

قصہ سناتے سناتے وہ اسٹیج سے نیچے اتر آ یا۔ ٹہلتا ٹہلتا وہ لوگوں کے درمیان جاپہنچا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’ ہاں تو میں کہہ رہا تھا۔ میں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی، گھوڑا برق رفتار ہو گیا تھا، لیکن ہرن گھوڑے سے خاصا آگے دوڑ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوڑتے دوڑتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچانک ہرن کو ٹھوکر لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گر پڑا، میں اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا۔ ہرن کے قریب پہنچا تو دیکھا ہرن زخمی ہو ا پڑا ہے۔ میں گھوڑے سے اترا، گھوڑے کو چھوڑا۔ آہستہ آہستہ دبے قدموں، ہرن کی طرف بڑھنے لگا۔ ‘‘پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا۔ ظفرو ان کے درمیان آہستہ آ ہستہ قدم بڑھا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا فلم کا کوئی منظر نظروں کے سامنے زندہ ہو گیا ہو۔

’’ارے یہ کیا۔ میں نے دیکھا ہرن اچانک غائب ہو گیا تھا۔ میرے تو ہو ش اُڑ گئے۔ آس پاس سے عجیب و غریب آوازیں آ رہی تھیں۔ میرے جسم پر خوف کے کانٹے اُگ آئے تھے۔ میں تھر تھر کانپنے لگا۔ پیچھے گھومنے کی ہمت نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے پیچھے دیکھا تو میں بے ہو ش ہوتے ہوتے بچا، میرا گھوڑا بھی غا ئب تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

قصہ گو سے اُٹھنے وا لی ڈر کی لہروں نے سا معین کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ سارا مجمع مانوں پتھر کے بتوں میں تبدیل ہو چکا تھا۔ سب نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ ظفرو نے خاموشی اور   سناٹے کا فائدہ اُٹھا کر کئی لوگوں کی گھڑیاں اور   دوسرے قیمتی سامان صاف کر دیے تھے۔

’’ لو قصہ ختم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ظفرو نے زور سے آواز لگائی۔ آنکھوں نے دیکھا ظفرو اسٹیج پر چہل قدمی کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں چرا یا گیا سامان تھا۔ لوگ حیران تھے۔ انہیں علم ہی نہیں ہوا کب ظفرو نے ہاتھ کی صفا ئی دکھا دی۔ ظفرو نے سب کا سا مان واپس کر دیا۔ لوگ اپنی مرضی اور   خوشی سے ظفرو پر پیسو ں کی بارش کر رہے تھے۔ ادھر نیتا جی کی گاڑی سائرن بجاتی ہو ئی آ گئی۔

وقت گذرتا رہا۔ ظفرو کی شادی ہو گئی تھی۔ اس کے وا لد اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ بہن بھائیوں کی بھی شادی کسی طرح ظفرو نے کر دی تھی۔ ظفرو کی بیوی نوری نے دو خوبصورت جڑ واں بیٹے پیدا کیے۔ دونوں بہت خو بصورت تھے۔ ظفرو اپنی بیوی، بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتا تھا۔ اس نے سر کس اور   میلوں میں بھی اپنے کرتب دکھانے شروع کر دیے تھے۔

ظفرو نے میلے میں اپنا شو شروع کیا۔

اس نے ڈکیتوں کے ایک گروہ کا منظر پیش کیا تھا۔ وہ خود گبر سنگھ بنا تھا۔ اپنے کئی دوستوں کو ڈکیت ساتھی بنایا تھا۔ سارے گروپ کا بہروپ ڈکیتوں جیسا بنانے پر ظفرو نے خاصی محنت کی تھی۔ اس نے لکڑیوں کی بندو قیں اور   گولیوں کی پیٹی بنوا ئی تھی۔ اُس نے اسٹیج پر ٹہلنا شروع کیا۔ فوجی بیلٹ کا ایک سرا اس کے ہاتھ میں تھا اور   وہ گرج رہا تھا۔

’’ سور کے بچو!سو چا تھا سردار سباشی دے گا۔ سارا نام مٹی میں ملائے دیو۔ ۔ ۔ تمہیں سزا ملے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ضرور ملے گی۔ ‘‘

’’سر کار ہم نے آ پ کا نمک کھایا ہے۔ ‘‘

’’ تو اب گولیاں کھاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

ظفرو نے اپنے نقلی روالور سے گو لی داغی۔ گولی کی آواز، دھماکہ بن کر چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ لوگ تالیاں بجا رہے تھے،اُچھل رہے تھے۔ عین اُسی وقت میلے میں ایک اور   دھماکہ ہو ا۔ شہر کی معروف ہستی حا جی سبحان کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ پورے میلے میں بھگدڑ مچ گئی، جس کا سر جہاں سمارہا تھا، بھاگ رہا تھا۔ کہاں کا اسٹیج،کہاں کا گبر۔ کھیل دکھانے وا لے رہے نہ دیکھنے وا لے۔ میلے میں دہشت پھیل گئی۔ پولس نے میلوں کے راستوں پر پہرہ سخت کر دیا۔ دھر پکڑ اور   گرفتاری میں ظفرو پولس کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ اس نے بہت منت سماجت کی کہ وہ تو تما شہ دکھا رہا تھا۔ گبر کا رول کر رہا تھا۔ لیکن پو لس نے ایک نہ سنی، ظفرو کا ڈکیتوں وا لا لباس، روالور اور   گو لیاں ثبوت کے لیے کافی تھے۔

اگلے دن اخبارات کی سرخیاں تھیں۔

’’ پاکستانی دہشت گرد ظفر گرفتار۔ ‘‘

’’ حاجی سبحان کا قتل کر نے وا لا پاکستانی گرفتار۔ ‘‘

’’ آئی ایس آئی کے ایجنٹ کی گرفتاری، میلے میں فائرنگ کر شہر میں فساد کرا نے کا منصو بہ تھا۔ ‘‘

پو لس ریمانڈ میں ظفرو کو جو اذیتیں دی گئیں، ان سے مزید نہ گذرنے کے لیے اُس نے اقبال جرم کر لیا تھا کہ زندگی کے نجانے کتنے روپ ہیں اور   ابھی اُسے کتنے بہروپ اختیار کرنے ہیں، اُسے پتہ نہیں تھا۔

٭٭ ٭


 

 

 

 مرتب کا تعارف

 

نام        :           محمد فرقان

قلمی نام   :           انجینئر محمد فرقان سنبھلی

تاریخِ پیدائش    :           20،جون1973

ولدیت :           مرحوم محمد غفران

پتہ        :           محلہ دیپا سرائے چوک سنبھل ضلع سنبھل (یو پی)

                        Pin- 244302

                        Email id – f.sambhli@gmail.com

                        mfurqan.rs@amu.ac.in

                        Website – www.f.sambhli.weebly.com

                        Mobile – 09568860786

تعلیم     :           ایم اے (اردو)،نیٹ (NET)، ڈپلومہ سول انجینئرنگ

مشغلہ    :           صحافت (روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو)

                        مدیر (ہفتہ وار قومی فکر اور   وقار)، مدیر (ویب میگزین مشعل)

مطبوعہ کتب       :           (۱) مصر قدیم (2003) ،(۲)آئینہ فلکیات (2004)

                        (۳) اردو صحافت اور   ضلع مرادآباد (2008)

                        (۴) آبِ حیات (افسانوی مجموعہ)(2010)

                        (۵) نقوش قلم (مجموعہ مضامین) (2013)

                        (۶) ترک اور   سرکار سنبھل (ترجمہ)(2013)

زیرِ ترتیب          :           (۱) طوطا مینا کی قبر (آثار قدیمہ)

                        (۲) مسلم معاشرہ میں لوک گیتو ں کی روایت

 زیر طباعت (۱) طلسم(افسانوی مجموعہ )

انعامات و اعزازات          :           (۱) اتر پردیش اردو اکادمی(2005 & 2008)

                        (۲) بہار اردو اکادمی( 2010 & 2005)

                        (۳) سرسوتی ایوارڈ (2005)

                         (۴) یووالیکھک ایوارڈ (2007)

                        (۵) مرحوم عبد الرحمن،بجنوری ایوارڈ ضلع بجنور (2011)

                        (۶) مانو ادھیکار جن نگرانی سمیتی اور   شہر کانگریس سنبھل

                        (۷) اتر پردیش سامنیا گیان پرتیوگیتا سمیتی ایوارڈ

                        (۸) بہار اردو اکادمی کا اختر اور  ینوی ایوارڈ (2010)وغیرہ

مقالات :           فکر و نظر(علی گڑھ)، تہذیب الاخلاق(علی گڑھ)،    عالمی سہارا (دہلی)،ضیاء وجیہ

مضامین :           رہنمائے تعلیم(دہلی)، صوت القرآن (گجرات)،

                         خبر دار جدید (النور رامپور)،

                        سمت(انٹر نیٹ میگزین)وغیرہ کے ساتھ ساتھ روزنامہ

                         سہارا اردو،

                        صحافت،ہمارا سماج وغیرہ اخبارات میں تقریباً 300سے زائد

                        مقالے، مضامین شائع ہوئے ہیں۔ ہنوز جاری ہیں۔

تبصرے :           (۱) کتاب سلطان الشہدا مصنف انجینئر سمیع الدین

                        (شائع ضیاء وجیہ ماہنامہ)

                        (۲) علی جواد زیدی شخص اور   شاعر مصنف ڈاکٹر عابد حسین حیدری

                        (شائع صحافت)

                        (۳) جعفر ساہنی کے شعری مجموعہ ’’شاید‘‘ پر تبصرہ ’’روح ادب ‘‘بنگال میں

                        (۴) ’’غالب اور   بدایوں ‘‘ کتاب پر تبصرہ ’’غالب نامہ‘‘ میں وغیرہ

مقالات برائے سیمینار      :           انٹرنیشنل- (۱)چودھری چرن سنگھ یونی ورسٹی میرٹھ (اردو افسانہ

                                                                         1985کے بعد)

                        (۲) ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی آگرہ (آگرہ فارسی مآخذ میں )

                        (۳) مرکز تحقیقات فارسی اے ایم یو علی گڑھ

                                                             (داستان گوئی ادبیات فارسی)

                        (۴) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (صوفی ازم)

                        (۵) مرکز تحقیقات اے ایم یو علی گڑھ (تذکرہ نویسی)

                        (۶) رامپور رضا لائبریری رامپور (تاریخی و تہذیبی ماخذ)

                        نیشنل- (۱) میرٹھ،  الہٰ آباد،علی گڑھ یونیورسٹیز کے ساتھ ساتھ

                        مرادآباد، سنبھل،

                        آگرہ،رامپور وغیرہ میں تقریباً ۴۲/ سیمینار میں مقالے پیش کئے۔

کانفرنس/ورکشاپ         :           (۱) عالمی اردو کانفرنس آندھرا بھون دہلی

                        (۲) میڈیا اور   مسلمان ورکشاپ، مرزا غالب ریسرچ اکادمی آگرہ

                        (۳) آرٹی آئی قانون، زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا رامپور

                         ان کے علاوہ بھی کئی شہروں میں کانفرنس ورکشاپ میں شرکت

تنظیم/اداروں سے وابستگی:          (۱) نائب صدر منتظمہ کمیٹی عاشق پبلک لائبریری،سنبھل

                        (۲) جنرل سکریٹری ڈاکٹر عند لیب شادانی میموریل اکادمی، سنبھل

                        (۳) جنرل سکریٹری مصور سبزواری ادبی سوسائٹی،سنبھل

                        (۴) سینئر نائب صدر پترکار سنگھ ضلع سنبھل

                        (۵) صدر ریڈیو پیراڈائز لِسنرس کلب، سنبھل

٭٭٭

 

اسلم جمشیدپوری کی کتابوں پر ایک نظر

 

تخلیق

 

۰          افق کی مسکراہٹ ۱۹۹۷

۰          ممتا کی آواز         ۱۹۹۷

۰ عقلمند لڑکا ( ہندی)        ۲۰۰۰

۰ جاگتی آنکھوں کا خواب(ہندی)    ۲۰۰۴

۰ لینڈرا  ۲۰۰۹

۰ دکھ نکلوا ( ہندی )         ۲۰۱۳

۰ لینڈرا ( پاکٹ بک)      ۲۰۱۴

۰ کولاژ ( افسانچے )          ۲۰۱۴

 

تنقید

 

۰ جدیدیت اور   اردو افسانہ ۲۰۰۱

۰ ترقی پسند اردو افسانہ اور   چند اہم افسانہ نگار    ۲۰۰۲

۰ اردو افسانہ : تعبیر و تنقید             ۲۰۰۶ اور   ۲۰۰۷

۰ اردو فکشن : تنقید و تجزیہ ۲۰۱۲

۰ تفہیمِ شعر         ۲۰۱۴

 

 

ترجمہ

 

 ۰         آ دھا گاؤں         ۲۰۰۳

 ۰         اکی

۰          فرقہ وارانہ فسادات اور   ہندوستانی پولس

 

ترتیب و تالیف

 

 ۰         آزادی کے بعد اردو افسانہ،جلد اول             ۲۰۰۳

۰          آزادی کے بعد اردو افسانہ،جلد دوم ۲۰۰۳

۰          کائناتِ اردو( جلد اول تا ہفتم)    ۲۰۰۴

۰          احمد ندیم قاسمی کے نمائندہ افسانے   ۲۰۰۷

۰          تحریکِ آزادی     ۲۰۰۸

٭٭٭

مرتب کے تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید