FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ماخذ

۱۔اردو انسائکلو پیڈیا، کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان، حکومتِ ہند

۲۔ویب پر ’اردو پیڈیا‘

http://urdupedia.in

 

روسی زبان و ادب

روسی زبان و ادب روسی زبان روسی زبان بھی روسی نسل کی طرح کئی یورپی اور ایشیائی نسلوں کا مرکب ہے۔  اور سلاف خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔  پچھلے دو ہزار برسوں کے دوران بحیرۂ بالٹک کے شمالی ساحل والے ’’فن‘‘ پھر وسطی روس کے ’’جرمن‘‘ اور بعد میں منگولیا سے لے کر اسٹیپی تک کے ’’منگول تاتار‘‘ قبیلوں کا خون سلافوں میں سرایت کر گیا ہے جو خاص روس میں آباد ہیں اور روسی زبان کی عہد بہ عہد تبدیلیوں اور ترقیوں کے جائز وارث ہیں۔  اگر تحقیق اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ ’’فن‘‘ باشندے حتمی طور پر چین اور منگولیا کی طرف سے چلے تھے تو روسی زبان کا ایشیا سے دوہرا رشتہ ثابت ہو جائے گا۔  زبانوں کے ہند یورپی خاندان کی تین بڑی شاخیں سلاف سے تعلق رکھتی ہیں۔  مغربی سلافی، جنوبی سلافی اور مشرقی سلافی، ان ہی مشرقی سلافی زبانوں میں یوکرینی بیلو (سفید) روسی اور روسی زبانیں شامل ہیں۔  شمال میں بالٹک سے لے کر جنوب میں اوڈیسہ کی بندرگاہ تک اور مغرب میں پولینڈ کی سرحدوں سے لے کر جاپان کی طرف جزائر کیورائل اور سخالین تک گیارہ کروڑ سے زیادہ روسی آبادی اس زبان کو اپنی مادری زبان شمار کرتی ہے یوکرینی اور بیلو روسی ٹھیک اسی طرح سمجھ لیتے ہیں جیسے پنجاب ہماچل اور راجستھان کے شہری لوگ اردو کو۔

سوویت یونین کے وہ باشندے جن کی مادری زبان روسی نہیں اسے اپنی تعلیمی اور ملکی کڑی (لنگوافرانکا) کی حیثیت دیتے ہیں۔  مشرقی روپ کے کئی ملکوں میں اسے کم و بیش وہی سرکاری درجہ میسر آ گیا ہے۔  جو کامن ویلتھ کے ملکوں میں انگریزی کو۔  یو این او (اقوام متحدہ کی انجمن) میں اسے دنیا کی پانچ بڑی زبانوں میں گنا جاتا ہے۔  رسائل اور کتابوں کی تعداد اشاعت کے لحاظ سے دنیا میں روسی زبان کا نمبر دوسرا ہے۔  ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں نے اس کی تعلیم اپنے نصاب میں شامل کر لی ہے۔  سوویت یونین سے باہر روسی زبان کی تعلیم و اشاعت امریکا (U.S.A) میں سب سے زیادہ ہے۔

روسی زبان کے ارتقا میں شروع سے ہمواری نہیں رہی سیاسی تاریخ کے بے ہنگم جھٹکوں کا مادی قوتوں اور وسیلوں کی بد نظمی کا بھی اس زبان کی جڑ بنیاد اور اٹھان پر گہرا اثر پڑا ہے۔  مسیحی سن کے شروع ۹۰۰ برس میں قدیم روسی زبان کی شکل صورت کیا تھی اور کیوں کر اس کی تین بڑی شاخیں ہو گئیں۔  علمائے لسانیات میں اس پر اختلاف ہے۔  تاہم یہ حقیقت ہے کہ زبان کی صرف و نحو ہجے اور تلفظ کے اعتبار سے یوگو سلاویہ اور بلغاریہ سے لے کر یورال تک کی مشرقی سلافی زبانوں میں موجود یگانگی اور یک رنگی قدیمی رشتے کا پتہ دیتی ہے۔  زبان کی ساخت اور داستانوں ، سفرناموں اور وقائع (Annals & Letopisi) کی پرداخت سے یہ ضرور ثابت ہو چکا ہے کہ قدیم روسی ریاست ماسکوراج قایم ہونے سے بہت پہلے جب روس کا سیاسی اور تہذیبی پائے تخت شہر کیف تھا۔  نویں کے آخر اور دسویں صدی عیسوی میں قدیم روسی زبان پر مقامی لہجوں لفظوں اور بولیوں کا اثر بڑھتا گیا۔  مقامی بولیوں نے خاص وہیں کے معاشی اور تہذیبی رشتوں کے سائے میں جیسے چلنا سکھا دیا زبان ویسے چلی اور یوں ایک طرف تو وہ رنگا رنگی کی بدولت مالامال اور تازہ دم ہوتی گئی دوسری طرف سے مرکزی حالت نے اس کی شاخیں الگ الگ کر دیں۔

 بولی کی سطح سے اٹھ کر اور پھیل کر روسی زبان کو تحریری حروف (تہجی) کب ملے؟  غالباً دسویں صدی کے آغاز میں کیف میں جہاں کیف راج اور یونانیوں کے درمیان عہد نامہ لکھا گیا (۹۱۱۔  ۹۴۵ء) اینٹوں ، پتھروں ، پتروں اور برتنوں پر کیف اور اس کے بعد شہر نو ودگرد میں جو عہد نامے یا تاریخیں درج ہوئی ہیں (اور حال میں ہی ملی ہیں ) یہ بتانے کو کافی ہیں کہ دسویں صدی کے دوران کارندوں کاری گروں اور امرا میں لکھنے پڑھنے کا رواج ہو چلا تھا۔  کیف شہر یورپ اور ایشیائی خطوں کے درمیان ایک تجارتی شاہراہ پر واقع ہونے کی بدولت تہذیبی اور سیاسی مرکز بن کر اٹھا تو یونان کے علم، روم کے مذہب، باز نطینی مرکز، مسیحیت سے گہرے رشتے استوار ہونے کے ساتھ ترکوں ، عربوں اور ایرانیوں کے مذہب اور تہذیب سے بھی سابقہ پڑا۔  ان کے پختہ اور منجھے ہوئے زبان و بیان اور اثر قبول کرنا لازم تھا۔  روسی زبان کے ارتقا کی یہ بھی ایک اہم کڑی ہے۔

دسویں صدی ختم ہوتے ہوتے شاہ روس ولادیر نے قسطنطنیہ کے ’’سچے مذہب مسیح‘‘ کو خود بھی اختیار کیا اور اس کی عام تبلیغ بھی شروع کر دی۔  تبلیغ کے جوش میں یونانی حروف اور مذہبی کتب کو روسی تحریر کے لیے نمونہ قرار د یا گیا۔  پادری مبلغ تعلیم یافتہ تھے انہوں نے روسی زبان کو آغوش تربیت میں لیا تو قدیم رنگ کو جدید لہجہ ملا۔  عبادتوں ، مذہبی داستانوں ، ادب آداب کے بیانوں میں انجیل کے الفاظ و استعارات دخیل ہوتے گئے یہاں تک کہ لکھت کی زبان بولی سے دور اور زیادہ شائستہ بنتی گئی۔  گیارہویں صدی کے وسط تک روسی زبان بولنے والی آبادی قدیم بے میل سچے مسیحی مذہب میں داخل اور انجیل قصص الانبیا کی زبان سے (براہ راست ترجموں کے ذریعے ) مانوس بلکہ مالا مال ہو چلی تھی۔  آج تک روسی زبان پر اس کے باقیات کا اثر ملتا ہے حروف تہجی اور تراکیب کے تشکیلی زمانے میں (۱۱۰۶ء سے ۱۱۰۸ء) کے درمیان سولہ مہینے پر ائرڈینل (Daniel) نے صلیبی فاتحان یورپ کے ساتھ فلسطین میں گزارے اور ’’مقامات مقدسہ کا سفر نامہ‘‘ لکھا۔  یہ سفرنامہ روسی زبان کی اولین تحریر میں شمار ہوتا ہے۔

شاہ کیف ولادیمر مونوماخ نے جو تمام روس کا بادشاہ مانا گیا اولاد کو  نصیحت اور اخلاق کی تلقین کے لیے نیم مذہبی نیم ادبی دستاویز لکھی۔  یہ بھی ایک نمونہ ہے اس ابتدائی دور کی تحریری روسی زبان کا مگر وہ مکمل اور معتبر تصنیف جس سے گویا روسی ادب کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔  ’’ایگور کے حملے کا بیان‘‘ (Chubo Onochy Vrapebe) ہے یہ رزمیہ داستان جو شیخ سعدی کی گلستاں سے نصف صدی پہلے (بارہویں صدی کے آخر میں) تصنیف ہوئی، روسی شہزادے کی فوجی شکست کے اس نثر و نظم ملے پر جوش بیان میں روسی زبان کی والین فتوحات کا اشارہ ملتا ہے ۔  ادبی شان دکھانے کے باوجود مصنف (جو اپنے ہم عصر ہندوستانی بھاٹ چندر بردائی کی طرح) شاعرانہ مبالغے اور نثر کے تسلسل دونوں سے بیک وقت کام لیتا ہے۔  مذہبی احتیاط سے بے پروا ہو کر عوامی رسموں ، عقیدوں ، دیوی دیوتاؤں ، راہبوں ، واہموں اور موسم کی دل فریبیوں میں گم ہو جاتا ہے۔  یوں ہمیں روسی زبان کی ابتدائی ترقی کے تینوں رنگ یکجا مل جاتے ہیں۔  روز مرہ کے واقعات اور معاملات کی زبان ادبی چاشنی والی جس میں شاعر یا مصنف اپنے تخیل سے کام لے اور مذہبی خیالات اور اخلاقی تعلیمات کی جچی تلی زبان جو قدیم سلاف زبان پر روسی بولی کے غلبے کی نشاندہی کرتی ہے۔

 مذہبی مبلغوں اور درس گاہوں نے عوام کو وہم پرستی جنگ و جدل اور بد اخلاقی سے نکالنے کے لیے ان کی عام زبان کو وسیلہ بنایا تھا۔  اصلاحی کوششیں اور میدانوں میں کامیاب ہوتیں یا ناکام مگر ایک بکھری ہوئی بولی ضرورتاً  ’’ریختہ‘‘ ہوتے ہوتے اتنی ادبی توانائی اختیار کر گئی کہ نظم کے ساتھ ساتھ نثر کا بار اٹھا کر قدم بڑھا سکے۔  سورماؤں اور رجواڑوں کے باہمی اختلاف نے کیف کی مرکزیت توڑ دی طوائف الملوکی میں نووودگر ابھرا، ریاستیں ابھریں ، ایشیائی خانہ بدوش پولو فتسی بت پرست جنگ آزما قبیلوں کی یلغار بڑھ گئی یہاں تک کہ ۱۲۲۳ء میں ہولناک منگول حملہ اور وں نے دریائے کالکا کے کنارے روسیوں کو تباہ کن شکست دے کر مرکزی ریاست، ترقی یافتہ مذہبی سماج اور ترقی پذیر زبان کی ساری امنگوں پر پانی پھیر دیا۔  اور آج اس ہمت شکن دور سے پہلے کی صرف دو تین تحریری شہادتیں باقی رہ گئی ہیں۔  منگول تاتار شہسواروں نے وسط ایشیا سے گھن گھور آندھی کی طرح اٹھ کر ملتان سے صرف بغداد تک ہی بربادی نہیں پھیلائی، نو

ےہ لے ( کا اشارہ ملتا ہے ) خیز روسی ریاست اور زبان و ادب کو بھی مسل ڈالا۔  ہر محاذ پر پسپائی اور بالآخر تاتاری زریں خیل (Golden Hordes) کی غلامی قبول کیے ابھی سو سال نہ گزرے تھے کہ روسیوں میں سر اٹھانے اور اپنا سیاسی فوجی اور تہذیبی بچاؤ کرنے کا جذبہ شدت سے ابھرا اس جذبے کو صحیح رخ دینے والی شخصیتیں بھی ابھر آئیں۔  نوووگرد کے پرنس (راجہ) الیگزینڈر نے شمال میں دریائے نیوا کے کنارے سویڈن کے زبردست لشکر کو شکست دے کر شمالی حملوں کا سلسلہ بند کرد یا اور نووگرد کو ہوشیار سیاست کی بدولت تاتاری یلغار سے صاف بچا لیا۔  کیف کی جگہ ماسکو، نوووگرد، تولا اور ریازان کے گڑھ بننے لگے۔  ماسکو ریاست کا بنیاد پتھر پرنس دنیل نے تیرہویں صدی کے آخر میں رکھا اور ۱۳۶۷ء میں ماسکو قلعے (کریمیلن) کی سنگین فصیل بن کر تیار ہو گئی۔  اسقف اعظم نے ماسکوکو ’’سچے سلاف کلیسا‘‘ کا مرکز مقرر کر کے یہیں ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔  ۱۳۸۰ء میں تاتاری سپہ سالار مامائی کے زبردست لشکر نے کولی کووا کے میدان جنگ میں روسیوں کے ہاتھ پہلی شکست کھائی۔  روسی سپہ سالار دیمتری (جودانسکوئے (Danckou/کے لقب سے مشہور ہے اس میدان کا فاتح سورما تھا اور اس کی داستان عوامی گیتوں اور داستانوں کا رنگ لیے ہوئے گاؤں گاؤں پھیل گئی۔  یہاں تک کہ ’’ایگور کے حملے ‘‘ والی داستان کی طرح اس کی بھی نثر و نظم میں ملی جلی داستان تصنیف ہوئی۔

زدون شچینا جو ریازان کے پادری سفوینا نے ایک نسل بعد تاریخی واقعے پر لکھی تھی۔  لیکن روسی زبان و ادب میں اسے فتح کی یادگار کی حیثیت ملی۔  اور جب نیاروس تاتاریوں کی پورے ڈھائی سو برس کے غلامی کا جوا اتار کر اٹھا تو اس نے اپنی ادبی زبان کی نئی اٹھان کے لیے نمونے یہیں سے لیے۔  البتہ اب اس زبان میں تاتاری دربار اور میدان کارزار کے الفاظ اصطلاحات اور بعض جملے بھی شامل ہو گئے تھے جن میں سے کئی سو اب تک زندہ ہیں۔  ماسکو کے اختیار، اعتبار اور مدار بڑھنے میں اس کی جغرافیائی مرکزیت کو ہی نہیں لسانی مرکزیت کو بھی دخل تھا۔  کئی بولیاں ولادیمر، رستوف، سوزدل اور تویر علاقوں کا مقامی رنگ لیے ہوئے ماسکو تک پہنچتی اور ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔  ریاست کا دائرہ عمل جتنا بڑھتا گیا ماسکو اس ابھرتی اور نکھرتی ہوئی زبان کی ٹکسال بنتا گیا۔  شکست خوردہ فاتح سورماؤں کے گن گان کی رزمیہ منظوم داستانیں لکھیں تو کم گئیں ، اکتارے یا پرانی وضع کی، سارنگی پر گاؤ ں گاؤں سنائی گئیں بہت۔  ہندوستانی بھاٹوں اور قصہ خوانوں یا داستان گویوں کے یہ روسی ہمزاد کیف کے دو ولادیمروں کو ایک بنا کر رستم کی زور اور ی کے اڑتے ہوئے واقعات کو ایلیا مورمز سے جوڑ کر یونانی دیو مالا کے قصوں کو اپنے ممدوح سے نسبت دے کر کچھ حکایات کچھ تخیل اور زبان دانی کی گوٹ لگا کر ’’مقدس روس‘‘کے کافر تاتاری دشمنوں کے حلاف جذبات جگاتے اور گیتوں کی دھن پر زبان و ادب کی سوکھی کھیتی کو پانی دیتے پھرتے ہوں گے کہ آخر ان کی داستانوں کا نام ہی ’’بیلینی‘‘ پڑ گیا یعنی بیتی باتیں جو تیوہاروں یا شادی بیاہ کی تقریبوں میں نوٹنکی (یا برہ کتھا) کے طور پر سنائی جاتی تھیں۔  ان کے علاوہ منظوم میلادِ مسیح کی محفلیں جمتی تھیں۔  روحانی کلام بھی ’’بیلینی‘‘ کی طرح اکثر زبانی اور کسی قدر تحریری پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔

 مذہب نے جس زبان کو پال پوس کر کسی قابل کیا تھا اب وہ شوخ ہو گئی تھی اور مذہبی اخلاقی قصوں گیتوں اور نصیحتوں کے درمیان روسی عادتوں کی چھوٹ، ساقی نہ، تیوہار نامہ اور شادی نامہ بھی چپکا دیتی تھی۔  کہیں کہیں اس میں مفلسی اور تباہ حال روس کا شکوہ اور جاگیرداروں اور کارندوں پر چوٹ بھی کی جانے لگی۔  رزمیہ، بزمیہ اور اخلاقی روحانی۔  تینوں قسم کی ’’بیلینی‘‘ کم و بیش تین صدی تک سینہ بہ سینہ چلتی اور گھٹتی بڑھتی رہیں کہا جا سکتا ہے کہ پندرہویں صدی کے خاتمے تک روسیزبان کے ارتقائی درجوں کا نشان کہیں ملتا ہے تو ان شاعرانہ داستانوں اور اخلاقی قصوں میں جن کے موضوع رزمیہ، بزمیہ (تفریح، تیوہار) اور مذہبی یا روحانی رہے اور جو سینہ بہ سینہ تھوڑی بہت مقامی یا لسانی بیانی تبدیلیوں کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتے گئے۔  دیوی دیوتاؤں تاتاریوں اور سوئیڈن والوں سے جنگ کے مبالغہ آمیز رجزیہ بیان کے علاوہ ان میں تثلیث (ماں ، بیٹا، روح القدس) کی دیسی تعلیم بھی پائی جاتی ہے، جیسی گیتوں میں رچ کر زبان زد ہوسکے۔

 سترہویں صدی کے وسط سے جب چھاپے کی مشین غیرملکی زبانوں خصوصاً لاطینی و یونانی زبانوں سے تراجم لغات اور سوانح و واقعات کی ترتیب کا کام سرکاری اور کلیسائی مخلوط سرپرستی میں آ کر پھیلنے لگا تو روسی زبان اور روسی ادب کی تاریخ کا تسلسل قائم ہو جاتا ہے۔  اس سے پیشتر کی نثر و نظم ملی داستانوں اور مذہبی تحریروں کو یکجا کر کے یہ نتیجے نکالنا غلط نہیں کہ (ا) روسی زبان کے ارتقا میں مذہبی لٹریچر کا اور اس کے عالموں کا بڑا ہاتھ رہا۔  چودہویں صدی تک کے ۷۰۸ عنوانات میں صرف ۲۰ قطعی غیر مذہبی ہیں۔  (ب) روسیوں کے طبعی اور سیاسی حالات نے ان میں مظلومیت، محرومی، جبر اور فطرت پرستی کا جو مزاج پیدا کر رکھا تھا زبان و ادب کو (بلکہ آرٹ کو بھی) فطرت یا ارضی حقیقت پسندی کے نزدیک رکھا۔  (ج) زبان و ادب اور دینیات کے کئی عالم آزاد خیالی کے کارن ’’بدعتی‘‘ ہونے کے الزام میں سزا یاب ہوئے مثلاً یونان سے یہ عالم کتب دینی میکم یا پادر اواکوم نے جنہوں نے روسی زبان کی پہلی آپ بیتی لکھی پہلے کئی برس سزا کاٹی اور پھر ۱۶۸۲ء میں انہیں زندہ جلادیا گیا۔  (د) سترہویں صدی کے وسط سے (جب سرفڈم یا نیم غلام کسان رکھنے کا قانونی حق جاگیرداروں کو ملا) پیٹر اعظم تک روسی زبان میں نثر کا رواج برائے نام تھا۔  چند نثری قصے ’’پودستی‘‘ اور ’’رسکازی‘‘ جن پر اور سورما کے خیالی بیان میں بھی عوامی گیتوں اور تک بندیوں کا اثر لیے ہوئے ہیں نثر کے منطقی ربط اور تسلسل کی ادھوری کامیابی کا پتہ دیتے ہیں۔

یونانی شاعروں اور نثر کے ترجموں نے ہمسایہ ممالک خصوصاً سوئیڈن، پولینڈ کے ادب اور تہذیبی اثرات نے روسی دانش مندوں میں گیت اور دھن کی شاعری سے آزاد ہو کر نثر لکھنے کی امنگ پیدا کر دی تھی۔  کلیسائی سلافیائی گرامر اور سلافیائی یوکرینی لغت کی اشاعت کے علاوہ (۱۶۷۲ء میں قایم ہونے والے ) پہلے روسی تھیٹر کا قیام بھی مدد گار ثابت ہوا۔  تھیٹر اگرچہ شاہی خاندان کے لیے تیار ہوا تھا ڈرامے بھی جرمن زبان میں اور جرمن ایکٹر نے پیش کیے مگر فی الجملہ روسی نثر کے لیے نشانِ راہ ثابت ہوئے۔  پیلوتراول (یا پیٹر اعظم) نے یورپ کے تاریخی سفر سے (جہاں اس نے جہاز رانی اور جہاز مازی کی تربیت حاصل کی) واپسی پر جمود کی شکار روسی زندگی کو نیا چولا بدلوایا۔  حوصلہ مند اور بے دریغ بادشاہ نے نہ صرف کلیسا پر سے پیٹر یارک (اسقفِ اعظم) کا اقتدار ہٹا کر قدیم امرا کی داڑھیاں اور چوغے اتروا کر بلکہ یورپ کے شمالی سمندر کی طرف روس کا پھاٹک کھول کر (۱۷۰۳ء میں سینٹ پیٹرزبرگ کی بنیاد رکھی گئی اور دس سال مسلسل روم اور وینس کے طرز پر اٹھایا ہوا یہ شہر روس کا پائے تخت قرار دیا گیا) معاشرتی اصلاحات کے ذریعہ موڈرن روس اور اس کے جدید زبان و ادب کے لیے ٹھوس سماجی بنیاد مہیا کر دی۔  ’’پولش یورپی لہر سے ہو کر یوکرینی زبان میں دخیل بین الاقوامی اصطلاحات و تراکیب نے روسی ادب، زبان کی لغت کا سرمایہ بڑھا دیا۔  روس کی علمی اصطلاحات میں لاطینی زبان کا تعلیمی تہذیبی رول بڑھتا گیا۔  اور یوں روس کی سائنسی تکنیکی اصطلاحوں کا مغربی یورپ کی انٹر نیشنل علمی اصطلاحوں اور زبان سے قریبی رشتہ بنے کی زمین ہموار ہو گئی۔

  پیٹر اعظم کے دورِ آخر (۱۷۰۳-۱۷۲۵ء) میں جرمن سوئیڈن اور فرانسیسی اہلِ علم و فن خصوصاً ڈاکٹروں ، بیوپاریوں ، مستریوں ، کارخانہ داروں اور فنکاروں کی قدردانی اور ہمت افزائی کی بدولت یہ تعلق اور بڑھا روسی رہن سہن پر اور زبان و ادب پر اس کا اثر بڑھا اور نئے روس میں وہ تعلیم یافتہ طبقہ بڑھتا چلا گیا۔  جس کی پشت ایشیا سے لگی ہوئی اور منہ یورپ کی طرف تھا۔  پچھلے ڈھائی سو سال روسی زبان کی تاریخ اسی اجمال کی تفصیل ہے۔

 اٹھارہویں صدی روسی زبان میں نظم و نثر کے نئے اٹھان کا قدیم و جدید الفاظ و انداز بیان کے درمیان آویزش اور آمیزش کا زبان میں فصاحت کے نئے معیار قایم کرنے کا زمانہ ہے اور اسی دور میں یہ تحریک بھی چلی کہ زبان کو عوامی اور اشرافی کے مابین ایک معتدل قومی رن دیا جائے۔  ثقیل بے لطف لغات اور بازاری الفاظ و تراکیب خارج کر کے اس میں غیر ملکی خصوصاً ایسے فرانسیسی الفاظ واستعارے استعمال کیے جائیں جو روسی لب و لہجہ سے قربت یا ہم آہنگی رکھتے ہوں۔  اردو میں سراج الدین علی خان آرزو کے ہم عصر اے پی سومارکوف نے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ یہ تحریک چلائی۔  یہ زبان کو صاف کرنے کی تحریک تھی۔  اے۔  دَ۔  کان تمسر کی لِسانی تحریک اس سے مختلف سمت میں اور فرانسیسی علم و ادب کے ماہرو۔  ل۔  تردیا کوف کی تحریک علمی ضابطہ بندی کی جانب تھی مگر وہ ادبی شخصیت جس نے نظم و نثر، رجزیہ اور منطقی، علمی اور افسانوی تمام شعبوں کا احاطہ کر لیا جس کی واحد شخصیت پوری ایک اکادمی تھی آزاد خیال سائنسی اور فنکارانہ کمالات کا سنگم وہ میخائیل مونوسف ہے۔  اس نے فرنچ اور جرمن الفاظ اپنانے کے اصول بھی مرتب کیے ، سائنسی ترقی کی راہ میں ان کی اہمیت بھی جتائی اور خود اپنے سائنسی اور ادبی کارناموں کے ذریعے ان کے علمی نمونے بھی پیش کر دیئے۔

  اٹھارہویں صدی کے نصف آخر اور انیسویں صدی کے اول کے دانشور اہل قلم میں چند نام ایسے ہیں جو بیک وقت کئی زبانوں ادبوں اور علوم سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور انہوں نے روسی زبان و ادب کو علمی، تکنیکی اور تخلیقی تینوں سمتوں میں عوامی اشرافی اور قومی یا معتدل تینوں رنگوں میں اور نثر عاری، نچر مرصّع اور بیانیہ، فصاحت آمیز نثر، تینوں طرزوں میں تیزی سے آگے بڑھایا اور یورپ کی ترقی یافتہ زبانوں کے پہلو میں پہنچا دیا۔  یہ نام ہیں۔  اے این رادیش چیف، د۔  ای۔  فون ویزن، ن۔  ای۔  نووی کوف، گ۔  ز۔  درژاویں ، ای۔  اے۔  کری لوف۔  ان روشن ستاروں کو علم و فن کی قدر داں ملکہ کیتھرائن کا زمانہ ملا، خوش حالی کی فضا اور شاہی سرپرستی کی چھاؤں میسر آئی ملکہ اور صاحب اقتدار طبقے نے قومیت کی ترقی کے جوش میں آزاد خیالی اور ہنر مندی، فلسفیانہ نکتہ طرازی اور بے ضرر طنز گوئی کو تو بڑھاوا دیا آزاد خیالوں کی سرگرمی اور اہلِ قلم کی بے باکی کو ’’حد سے گزرنے ‘‘ نہیں دیا۔  طنز نگار صحافی اور ادبی نووی کوف قید ہوا۔  ڈرامے کا بانی فون ویزن اپنے اثر و رسوخ کی بدولت بچ گیا۔  درژاویں قصائد لکھنے کے صلے میں ملک الشعرا قرار دیا گیا۔  لومونوسف نے تمام ترکوششیں ماسکو یونیورسٹی قیام کرنے پر لگا دیں۔  نووی کوف نے روسی زبان کے اہل قلم کا جو پہلا روسی تذکر رہ لکھا ہے اس میں ۳۱۷ نام ہیں ان میں تاریخ ادب نے جنہیں آج تک نوازا وہ سب کے سب اپنے عہد کے بہترین ترجمان تھے ، تاہم روشن خیال دربار ان سے ہمیشہ بد گمان رہا۔

  شیکسپیئر کے ڈرامے بڑے اہتمام سے ترجمہ کئے گئے۔  لومونوسف اور تردیا کوفسکی کو ملک کی اکادمی علوم کا پہلا روسی ممبر چنا گیا جہاں جرمن راج کرتے تھے۔  سومارکوف نے پہلا روسی تھیٹر پائے تخت میں قائم کیا۔  ملکہ نے بڑے شوق سے دار الترجمہ کھلوایا۔  غیر ملکی ماہرین بلوائے جو غیر زبانوں سے اپنی نگرانی میں علمی ادبی فنی کتابوں کے ترجمے کرائیں۔  اہلِ دربار کی تفریح کے لئے مزاحیہ رسالہ نکلوایا۔  شعرا کو انعام و اکرام سے نوازا۔  ان سرگرمیوں کی بدولت شہری تہذیبی مرکزوں میں ادبی رسائل و کتب خرید کر پڑھنے والے ہزاروں خاندان سامنے آئے اور قصباتی جاگیروں میں خادموں اور مصاحبوں ، ہنر مندوں اور غیر ملکی اتالیقوں کے دم سے جا بجا تھیڑی شوق کو فروغ ہوا۔  اوپیرا ٹریجڈی اسٹیج کرنے کا رواج گویا پائے تخت کے ذوق کی تائید یا تقلید محسوب ہونے لگا اور قصباتی امراء نے اسے اپنا لیا۔  روس میں کلاسیکی اسیٹج کی ترقی لگن اور عام مقبولیت کا یہ بھی ایک سبب ہے۔  اس میں جاگیرداری نظام بالواسطہ شریک تھا۔  قصبات اور شہروں میں بکھری ہوئی صلاحیتوں نے تمثیل کے اسٹیج اور کتب بینی کے بڑھتے ہوئے شوق کے ذریعہ ایک نیا ماحول پیدا کر دیا۔  اسی ماحول میں ادیب اور ادب کو سماجی اعتراف میسر آیا جس کے نتیجہ میں اہل قلم نے خود کو اس کام کے لیے وقف کر دیا۔

تاتاری نسل اور روسی تربیت میں پلنے والا شاعر میرؔ کا ہم عصر انہیں کی طرح نازک مزاج صاحب طراز اور اپنے وقت کا ناخدائے سخن در ژادیں نے انیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوتے روسی زبان و ادب کو وہ مقام عطا کر دیا کہ یورپ کی تمام بڑی بڑی زبانوں میں روسی کتابوں کے ترجمے شائع ہونے لگے۔  لومونوسف کی نثر و نظم، رادیش چیف کا سفرنامہ ’’پیترسیورگ تاماسکو‘‘ درژادیں کی نیم فلسفیانہ نظمیں ’’فے لیت سا‘‘ اور ’’خدا‘‘ فون ویزن کے سماجی طنزیہ ڈرامے صرف روسی زبان و ادب کے تین اہم طرزوں کے ارتقا کا نمونہ ہی نہیں ہیں بلکہ اس دور کے سماجی مسائل احتجاج اور مباحثوں کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔  مگر وہ شخص جس نے اس دور کی تمام ترامنگوں ، ترقیوں ، مباحث اور لسانی ادبی ارتقا کو اپنی تحریروں میں سمیٹ لیا روس کا پہلا معتبر مورخ کرافرین ہے جس نے شیکسپیئر کے لفظ بہ لفظ ترجمے سے ادبی زندگی شروع کی۔  ماہنامہ ’’ماسکو‘‘ نکالا (۱۷۹۱ء) ا ور موت سے چند گھنٹے پہلے تک ( ۱۸۲۶ء) ’’تاریخِ ریاست روس‘‘ کی بارہ جلدیں مکمل کر دیں ۱۸ ۱۸ء میں اس کی آٹھ جلدیں چھپ کر روسی زبان و ادب اور سماجی مسائل کا اہم مبحث بن چکی تھیں۔

 کرافین نے اپنے ماہنامے ، مضامین، ناولٹ ’’غریب لیزا‘‘ اور پھر تاریخ کی اولین جلدوں میں اس نکتے پر زور دیا کہ روسی زبان کو ایسی قومی شائستہ زبان بنایا جائے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی سمجھ میں آئے اور اس طرح کتابی اور روزمرہ کی زبان کا فاصلہ ختم ہو جائے ’’جیسے بولتے ہیں ویسے لکھیں ، جیسے لکھتے ہیں ویسے بولیں ‘‘۔  مگر خود کرافرین نے جرمن پروفیسر سے تعلیم لی تھی۔  مغربی یورپ کا طالب علمانہ سفر کیا تھا، فرنچ پر عبور پایا تھا، اپنی تاریخ اور تصانیف میں جو غیر معمولی موڈرن زبان اختیار کی اس نے قدیم ثقیل الفاظ ترک کر دیئے فصاحت کو غیرملکی سانچوں میں ڈھالا تو انیسویں صدی شروع ہوتے ہوتے روسی تہذیبی دنیا دو حلقوں میں بٹ گئی۔

  سلافی چلن کے حامی جدید حیثیت والے ترقی پسند۔  دربار داراشراف بیشتر اول حلقے میں شامل ہو گئے۔  درژاویں بھی ان کے حامی تھے۔  زوکوفکی دوسرے کے۔  انیسویں صدی کے اول چالیس سال روسی زبان و ادب کے نہایت اہم اور فیصلہ کن سال ہیں۔  ان میں اگرچہ اخبارات و رسائل اشاعت گھروں۔  ادبی حلقوں ، بحثوں پھبتیوں کی دھوم رہی تاہم نثر پر نثر حاوی ہو گئی۔  اس دور میں روسی شاعری نے یورپ کو جالیا ور اپنے استاد فرانسیسی اور انگریز رومانی شاعروں سے آگے نہیں نکلی تو پیچھے بھی نہیں رہی۔  اور پھر یہ ہماہمی سو سال نصیب نہ ہوئی۔

۱۸۰۳- ۱۸۴۴ء کا یہ مختصر زمانہ دو بادشاہوں ، دو سازشوں دو بغاوتوں اور دو نسلوں کے ساتھ مستقبل کے روس کی نشاندہی کرنے والا زمانہ ہے۔  شاعر زوکوفکی نے انگریزی، فارسی، جرمن اور فرنچ شعرا کے بے مثال ترجموں سے نسلِ حاضر کے سامنے نئی کائنات کھول کر رکھ دی۔  اس عاشق مزاج شاہی اتالیق اور خوش کلام شاعر نے منظوم ترجموں کو روسی ادبیات کی ایک مستقل صنف کا مرتبہ دلوایا تب سے یہ رواج اب تک چلا آ رہا ہے۔  زوکوفکی نے گرے سودی، گوئٹے اور بائرن کے منظوم ترجموں کو اصل کی پوری کیفیت بخش کر اپنے جوہر کا اضافہ کر دیا۔  تبھی سے روس کا ہر ایک پختہ کار شاعر اس خوش گوار رسم کی پابندی میں طبع آزمائی ضرور کرتا ہے۔  ’’سلاف دوست‘‘ اور ’’یورپ دوست‘‘ حلقے رفتہ رفتہ وسیع اور احاطہ دار ہوتے گئے۔  لیکن جدید سماجی سیاسی تصورات نے دانشوروں اور فوجیوں کے خفیہ حلقوں کی نئی نسل کو بلند بانگ بنا دیا۔  جس طرح سائنسی تکنیکی عبارتوں پر جرمن جدید کا اثر ہو رہا تھا شاعرانہ ادبی روسی زبان پر نوک پلک والی منجھی ہوئی فرنچ کا اثر پڑا اور آرٹ کی زبان پر اطالوی سروسامان کا اخباری کاروباری عدالتی زبان کے فروغ میں انگریزی شریک ہونے لگی۔

  نسلِ حاضر کی آگاہی میں سارا یورپ آن ملا۔  جن دنوں زوکوفکی جدید روسی شاعری کے علم بردار کی حیثیت سے سامنے آ رہا تھا تبھی دانائے روس ایوان کری لوف کھردری دیہاتی زبان پر ہلکی سی ادبی پالش کر کے قصے کہانیاں لکھ رہا تھا۔  گاؤں گاؤں پھر کر ارضی حقیقت اور جدید حسیّت کو یکجا کر کے اس نے ٹھیٹھ روسی کو ادب عالیہ کی صف میں پہنچا دیا۔  دربار نشین دیمترئیف بھی جس نے کری لوف کا حوصلہ بڑھایا حکایتیں لکھتا تھا مگر سعدی کی سی اخلاقی ادبی جرأت کرنے کو کری لوف نے پر پھیلائے اس کی کوششیں آج تک روسی ادب کے لئے قابل تقلید پرواز کی مثال ہیں۔  اس دور میں ڈیلونگ (Delving) اور بے لینسکی جیسے ناقدیزی کوف، چیوچیف، باتیوشکوف، براتینسکی، ویاریمسکی، ونے ویتی نف، کولتسوف الکسئے ٹالسٹائے ، لیر منتوف جیسے بے قرار پیش قدم، ندرت پسند حقیقی شعرا، گری بائیدف اور ارتیروف جیسے شاعر ڈرامہ نویس کری لوف جیسے شاعر مزاج حکایت نویس اور چادائیف جیسا فلسفیانہ بصیرت رکھنے والا مضمون نگار منظر پر دمک رہے ہیں۔  ان میں سے ہر ایک اپنے فن خاص میں یکتا ہے۔  ہر ایک نے ٹریڈیشن کا درجہ پا لیا ہے۔

 لیکن وہ شخص جو اپنے شعر، نثر، ناول ، افسانے ، منظوم، ڈرامے ، حکایات، تنقید تاریخ، انشایئے ، چٹکلے اور سیاسی یا ذاتی ہجو نگاری سے تمام ہم عصروں میں ممتاز اور تمام رنگوں پر حاوی اور اپنے عہد کا سب سے شوخ رنگ اور گہرا ترجمان ہے وہ الیگزینڈر سرگے یچ پشکن جس کا نام دراصل روس کے قومی ادب میں وہی مقام رکھتا ہے جو فردوسی اور حافظ ایران میں اس کا اہم عصر گوئٹے جرمنی میں اور غالب اردو میں۔  پشکن کے ہاتھ روسی شاعری نے گویا انیسویں صدی کے تمام مراحل طے کر لیے۔  پشکن اور اس کے ہم عصروں نے روسی زبان ’ادب کے تیز رفتار ارتقا میں ادب کے سماجی شعور اور شہری فریضے کو اتنا اہم مقام دیا کہ شاعری کی قوت نثری کی جانب بہہ نکلی۔  خود پشکن نے زندگی کے آخر دور میں نثر ہی زیادہ لکھی اور اس کے روحانی شاگردوں (مثلاً گوگول) نے نثر کے ارتقا اور نکھار پر اپنی تمام صلاحیت صرف کر دی۔

طنز، تنقید، افسانہ، ناول ، ڈرامہ اور سیاسی فلسفیانہ مضامین کا گویا ایک سیلاب انیسویں صدی کے وسط میں روس کے وسیع میدانوں پر اتر پڑا۔  نثری تحریروں کے اس سیلاب کا ایک بڑا سبب ’’سلاف دوست‘‘ اور ’’یورپ دوست‘‘ دانشوروں کے مباحث اور مقالات تو تھے ہی ’’منکروں ‘‘ (Nihilist) کی وہ سیاسی تحریک بھی تھی جو تمام قدیم قدروں سے عملی نجات پانے کے لئے دہشت پسندی، بغاوت اور قتل پر اتر آئی تھی۔  اس تحریک نے جس کی رہنمائی باکوتن جیسی شہرۂ آفاق ہستی کے ہاتھ میں تھی جدید ادبی قدروں کے تعین کی راہ ہموار کی۔  وہ خود یا اس کے ہمنوا تو بڑا ادب نہ دے سکے لیکن ہرتسن جیسے انقلابی بیلنسکی جیسے ناقد لافروف چرنے شیفنکی اور یساروف جیسے مفکر اہلِ قلم روسی ادب کو بخشے۔

پچاس برس کے دوران شاعری کا علم بلند رکھنے میں افاناسی فیت، تیوچیف اور نکراسوف کا ہاتھ ہے ادب میں افادیت اور سماجی مقصد پر اس قدر زور دیا جانے لگا تھا کہ الکسئے ٹالسٹائے نے فن برائے فن، شعر برائے تاثّر موسیقی و سخنوری برائے لطافتِ اظہار کا نعرہ بھی لگایا اور اپنی شعری تخلیق سے اس کا ثبوت بھی مہیا کیا۔  نکراسوف بالکل دوسری سمت میں سرگرم تھا۔  اس نے قصباتی زندگی، کاشت کار طبقے کی مظلومیت روس کی دکھی روح کو اعلیٰ درجے کے شاعرانہ اسلوب سے بے نیاز ہو کر گیتوں کہانیوں ، قصوں کا شاعرانہ رنگ دے دیا۔  پشکن کی ٹریڈیشن کو نئی زندگی عطا کر کے خود نکراسوف نے اپنے لیے حیات جاوداں خرید لی۔  وہ آج بھی اس دور کا نمائندہ اور عوامی شاعر شمار ہوتا ہے۔

 نکولائی گوگول ( ۱۸۰۹- ۱۸۵۲ء) جس نے طنزیہ افسانوں اور ناولوں کے ذریعہ عالمی شہرت پائی۔  معاصر روسی سماج کا سب سے بڑا نقاد ہے۔  اسی کے دور میں دستوئئیفسکی جیسے عالمی شہرت و عظمت کے ناول نگار نے روسی زبان و ادب میں پہلا نادر تجربہ (بچارے لوگ) پیش کیا۔  انیسویں صدی کے آٹھویں عشرت تک دونوں محاذوں یا حلقوں نے اپنے بہترین اہل قلم آگے بڑھا دیئے۔  ’’ روسی قسم کے نقاد گری گورووچ (دیمتری) پی سسکی، گنچاروف، تورگنیف اور سالتی کوف ہیں اور اس کے وکیل اکسا کوف دستوتیفکی، لسکوف اور ٹالسٹائے دونوں طرز کے ناول نویس حقیقت نگار اور نکتہ چیں تھے لیکن ’’یورپ دوست‘‘ اپنی قوم اور اس کے طرز معاشرت و خیالات کی خامیاں اور برائیاں دکھا کر رہ جاتے ہیں ’’سلاف دوست‘‘ اپنے مشاہدے سے نتیجے نکالتے ہیں اپنی قوم کی تمام خامیوں کو تسلیم کر کے ان کی توجیہہ کرتے ہیں اور ان کی کوشش یہ ہے کہ ایک فلسفۂ حیات تعمیر کریں ایک قومی نصب العین قائم کریں جو روسی فطرت سے مناسبت رکھتا ہو۔  وہ ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ روسی قوم اپنی زندگی کی تشکیل اور اعلیٰ اصولوں کی پیروی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

 تورگنیف، گوگول، گنچاروف اور ومتوتیفسکی نے ڈرامے کو اپنا ادبی ہتھیار نہیں بنایا تھا لیکن ان کے ہم عصر الیگزینڈر استروفسکی (۱۸۲۳- ۱۸۸۶ء) نے ڈرامے پر خاص توجہ کی، ۴۴ ڈرامے لکھے اور ایکٹروں ، ڈائرکٹروں کی نئی نسل پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ روس میں کلاسیکی اصولوں سے ہٹ کر نئے قسم کے تھیٹر کی داغ بیل پڑ گئی۔  ماسکوآرٹ تھیٹر پی سمیسکی، پوتے خن، تورگنیف اور گوگول نے اولین کامیاب طرز جدید کے ڈرامے اسی جدید اسٹیج پر پیش کیے۔

انیسویں صدی کے اکثر روسی افسانہ و ناول نگاروں کو اسٹیج کے ذریعہ زبان زد اور موثر بنانے کی سرگرمی اس تھیٹر نے نہ صرف جاری رکھی بلکہ اور وں کے لئے مثال قائم کر دی۔  روسی ادب میں حقیقت نگاری کی جڑیں زندہ رکھنے والی زبردست تصانیف میں دستوتیفسکی، تورگنیف، سچدرین (طنز نگار) اور لیوٹالسٹائے کا نام انیسویں صدی کا نمائندہ ہے۔  لیوٹالسٹائے نے تین جلدوں میں اپنی سوانح حیات ( ۱۸۵۲- ۱۸۵۷ء) لکھکر ادب کی اس صنف کی آب یاری کی۔  سوانح میں حقیقت و افسانہ کی آمیزش نثر کے علاوہ نظم پر اثر انداز ہوئی۔  صدی ختم ہوتے ہوتے روسی ادب، تورگنیف، ٹالسٹائے ، استروفسکی، لیکوف، دستوتیفسکی اور کرولینکو کے جدا جدا فلسفہ حیات اور طرز انشا سے مالا مال اور رنگا رنگ ہو چکا تھا۔  حقیقت نگاری پر زور دے چکا تھا ،عالمی ادب میں با عزت مقام پاچکا تھا، تب آنتوں چے خف کے مضامین اور افسانے اور شاعری میں سمبولزم (علامت نگاری) کی تحریک نمودار ہوئی۔

صحافت سے ابتدا کر کے چھوٹے بڑے افسانوں اور بالآخر ڈراموں اور جدید تر ڈرامے کی بنیاد رکھنے والا آنتون چے خف سماجی مسائل کو اپنے فن کا موضوع بنانے سے منکر اور انسانی فطرت کا گہرا نبّاض تھا۔  صفِ اول کے روسی افسانہ نگاروں اور ناول نویسوں کے درمیان ابھرنے والے چے خف نے کسی ایک معمولی سی صورتحال، کسی غیر معمولی واقعے ، معمولی سے آدمی اور کسی ایک موڈ کی سوانح عمری لکھ کر اپنی راہ الگ نکالی۔  بیسویں صدی کے آغاز میں وہ اور ٹالسٹائے روسی زبان و ادب کے ارتقا میں سب سے بلند رتبہ اور قبول عام حاصل کر چکے تھے۔  ٹالسٹائے اپنے فلسفہ ’’اہنسا‘‘اور پُر امن عدم تعاون کو ادبی نقش دینے کی بدولت (اس فلسفے اور طرز حیات نے گاندھی جی کو راہ دکھائی) چے خف اپنے مشاہدہ فرد اور خلوت میں انجمن تلاش کر لینے کے سبب، دستوئیفسکی مشاہدۂ نفس اور سماجی حقیقت کے شعور میں پلاٹ کی پیچدار بناوٹ اور بیان کی تہ دار سادگی میں ان دونوں کا پیش رَو بلکہ رہنما ثابت ہوا۔  کہا جا سکتا ہے کہ روسی زبان و ادب نے انیسویں صدی کے آخر میں اپنے ما قبل انقلاب عروج کا دور گزارا۔

اس دورِ عروج میں روسی اہلِ قلم میں یہ توقع سرایت کر چکی تھی کہ فرنچ اور  انگریزی ادب و تہذیب اپنے آخر معیاروں کو پہنچ کے ہیں نئے معیار تلاش اور پیش کرنا اب روسیوں کو مقدّر ہو گا۔  اس کے آثار شعر و نثر میں ظاہر ہو رہے تھے کہ ۱۹۰۵ء کا انقلاب ۱۸۲۵ء کی دسمبر بغاوت کی طرح ناکام ہو گیا اور کئی اہلِ قلم کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔  سمبولزم کی تحریک نے فرانسیسی فنکاروں اور شاعروں کے اثر سے روسی شاعری کو (اور اصناف کے مقابلے میں ) زیادہ اپنی گرفت میں لیا۔  شاعر بریوسف، وسلویوف، ایوانوف، مرزکوفسکی، زنائیداہی یس، بالمونت اینسکی اور الیگزینڈر بلوک کے ناموں اور کارناموں نے روسی شاعر کو پھر ایک بار اپنے یورپی ہم زبانوں کا ہم قد کر دیا۔  اس تحریک کو جو مذہب، تصوّف، علامت، استعارہ اور خوش گوار با معنی آوازوں کو اپنا کر اٹھی تھی بریوسف اور بالمونت نے علی الاعلان نئی اور تازہ دم تحریک کہہ کر پیش کیا مگر اس کا سب سے بڑا اور خاموش اثر انداز ترجمان الیگزینڈر بلوک ہے جس نے اپنے ہم عصر شاعر آندرے بیلی کی طرح انقلاب ۱۹۱۷ء میں مسیح موعود کی واپسی دیکھی اور جب وہ ہاتھ نہ آئی تو اداس اور مطعون ہو گیا۔

  علامت نگاروں کی اس کہکشاں سے منہ پھیرنے کی وجہ کچھ انقلابی حالات تھے اور کچھ بلوک کی اداس پر وقار، فکر مند شاعرانہ فضا اور ادبی، فنی، تحریک۔  ایک مضمون بعنوان ’’وضاحت بیانی کی شانِ حسن‘‘ چھپا اور ’’شاعر برادری‘‘ قائم ہوئی۔  یہ لوگ اپنے سے پہلے تمام استعاراتی رمزیہ مبہم فکری طرزوں کے خلاف لفظوں کو ان کے دو ٹوک اور بے باک معانی دینے کے قائل اور موسیقی کے سوتیلے رشتے سے انکاری تھے ۸۰، ۱۰ برس ان کا اثڑ رہا تاہم ’’پوئٹ گلڈ‘‘ میں شریک ہونے والے درجنوں شاعروں سے صرف تین نام اور ان کے جداگانہ طرز کا نمونہ ہائے کلام اب تک اس تحریک کی اہمیت جتاتے ہیں اور وہ ہیں : نکولائی گومیلیوف اس کی پہلی بیوی آننا احمتووا اور اوسپ منڈل اسٹام اس عبوری دورکے نثر نگاروں میں تین عبوری مگر اثر انگیز فکر خیزا دیبوں کا نام لیے بغیر روسی ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔  الیگزانڈر کو پرن، آندرتیف اور ایوان بوکین جو مختلف ادبی تحریکوں اور سماجی موجوں کے درمیان جھکولے کھاتے ہوئے وزنی ادبی کارنامے اچھالتے رہے۔  ۱۹۱۱- ۱۹۱۲ء نوجوان شعرا اوراہلِ قلم نے ایک سانس میں تمام گذشتہ ’’ہیرا پھیری‘‘ اور ’’خوش ذوقی‘‘ کو قلم زد کرنے کا اعلان کیا۔

چار اہلِ قلم، و خلیب نیکوف، مایا کوفسکی ایل کروچونیخ اور دوید بورلیوک نے اپنے دستخطوں سے مینی فیسٹو نکالا عنوان تھا ’’طمانچہ بر رخسارِ ذوق سخن‘‘ انہوں نے شاعر کا للکارا کہ بادلوں سے اتر کر زمین پر قدم رکھے ، دھندلکے سے بچ کر کھُردری صنعتی و سیاسی حقیقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ، پرانی تشبیہات و استعارات سے دامن بچا کر، موسیقی کے اثرات سے پاک رہ کر، نئے درست اور جاندار الفاظ کی پوشیدہ موسیقی کو ابھارے لفظوں کے لغوی معنی سے قطع نظر کر کے اور کسی لفظ سے شرمائے نہیں۔  یہ ادبی تحریک مستقبل پسندی (Futurism) کہلائی۔  اس ہجوم میں جسے زمانے کی ساز گاری نصیب ہوئی۔  سب سے قد اور شخصیت شاعر مایا کوفسکی کی ہے۔  خودرو اور مقبول عام قصباتی شاعر سرگئے نی بیسے نِن بھی اس تحریک سے متاثر ہوا لیکن وہ اپنی نرم گفتار غنائی شاعری سے آزاد نہ ہوسکا۔  مایا کوفیسکی نے اپنی وہ روش ترک کر دی۔  روسی ادب کو متاثر کیا اس نے ہر طرح کے الفاظ اور رجزیہ انداز کو قبول عام بخشا اور بالآخر اس تحریک کا رنگ اڑنے سے پہلے دونوں نے خودکشی کر لی۔  ۱۹ ۱۸- ۱۹۲۰ء کازمانہ خانہ جنگی میں گزار ہنگامی ادب کے شور میں درمیان بیدنی جیسے نیم ادبی شرا اور بگدانوف جیسے ایجی ٹیٹر قلم کا رمنظر پر چھا  گئے۔  پرولتاری تہذیب (پرولت کلت) کا غلغلہ بلند رہا جس کی دین یہ ہے کہ جن لوگوں نے کبھی قلم نہیں پکڑا تھا وہ بھی انقلابی اور تعمیری جوش میں روسی زبان و ادب میں اپنے اچھوتے مشاہدات اور اپنی دیسی بیان لے کر آ گئے۔

 یہ سلسلہ دوسری جنگ کے خاتمے تک چلا اور اس کی تنظیمی شکل کل روسی انجمن مصنفین (R.A.P.P) کہلائی۔  عین اسی زمانے میں شاعری کے تقاضوں کی آڑمیں ایک ادبی رجحان پل رہا تھا۔  تصور و تمثیل نگاری کا Imaginismکے نام سے جس کے اکثر حامی آگے چل کر یا خاموش ہو گئے یا نکالے گئے۔  ورنہ سرکاری اجازت نامے لے کر ہجرت کر گئے۔  لیسے نن کو اسی تحریک سے منسوب کیا جاتا ہے۔  شاعر پاسترناک بھی اسی تحریک سے متاثر رہا ہے۔  بلکہ اس کا صحیح نمائندہ ہے۔

خانہ جنگی کا دور ختم ہوتے ہوتے تعمیر پسند مصنفین کا آہنگ نثر و نظم میں ابھرتا ہے ، اور تیسرے عشرے میں وہ تعمیرت (Constructionism) کے نام سے حاوی رہتا ہے۔  اس نے شاعری کو ایلیا سلوینسکی اور باگر اتیسکی اور کسی حد تک زابو لیتسکی دیے۔  مگر ادبی پسند اختیار کرنے اور ادب کا ذوق رکھنے والوں کی روز افزوں اور بے اندازہ تعدا دمیں ایزاکبیبل اور میکسم گور کی سب سے نمایاں ہیں۔  ا ول نے حقیقت کے ہیجان انگیز روپ کو اپنی سادہ بیانیہ نثر اور بیانیہ نثر اور غنائی نظموں میں اسیر کیا اور آخر الذکر نے بیان کی تمام قوتوں کو انقلاب اور اشتراکیت کے تعمیری پروگرام کے سپرد کر دیا۔  دونوں عوامی نکتہ چینی کا شکار ہوئے بیبل خفیہ پولیس کی حوالات میں مرگیا گو ر کی نے لینن کے مشورے سے انجمن سازی کے مضامین لکھے اور بالآخر اشتراکی حقیقت پسندی کا نعرہ بلند کیا ( ۱۹۳۲- ۱۹۳۴ء) ۔  فرمانوف اور ع پلنیاک نے خانہ جنگی کے کرداروں کی زندگی معرکے سفرنامے رزم نامے اور ربوتاژ لکھ کر اس نعرے کی عملی تفسیر پیش کی۔  ۱۹۳۴ء سے ۱۹۵۴ء تک کے بین ان روسی زبان و ادب میں ایک جانب خلفشار اور زبان بندی کے دوسرے جانب نئے تجربات اور بیباک فنی امنگوں کے سال ہیں۔  ادب نے اگرچہ نئی سمت قدم نہیں بڑھایا تاہم زبان دوہری مشق کی بدولت عوامی اور زیادہ علمی بن گئی۔  ایک تو پرانے الفاظ کی سکہ بندی اور صیقل سے ، دوسرے غیر ملکی اصطلاحوں کی یلغار اور بیانیہ گنجائشوں کے اختیار کرنے سے۔  اس زمانے کا ادب اور ادیب حقیقت پسندی کے مختلف ہلکے ہلکے گہرے غنائی اور جارحانہ رنگوں کے ساتھ الگ سے تفصیل طلب ہے اور اس نے خود کو بیشتر نثری کارناموں میں ظاہر کیا ہے۔

سرافیمی (Serapion) بھائیوں یعنی اہلِ قلم کی وہ ٹولی جو سرکاری لائن کی پابندی قبول نہیں کرتی تھی۔  زمیائن وایوانوف ’م‘ زوشجینکو اور سلانمیسکی کے سرکش قلم کے دم سے اپنا اثر ظاہر کرتی رہی پھر بھی اشتراکی حقیقت پسندوں یا انقلابی حقیقت نگاروں کا اثر مذاق عام پر طاری ہو گیا۔  ناول نگار فدئیف پلیناک، پوالیوشا اور لیونڈ لیونف زندگی اور فن کے نشیب و فراز کے باوجود اس دور کے ’’مستند ادبی رجحان‘‘ کی ترجمانی کرتے رہے۔  یہاں تک کہ کئی لاکھ چھپنے والے ناول ’’مادایا گواردیا‘‘ (قافلہ شہیدوں کا) کے مصنف فدئیف نے ۱۹۵۶ء میں خود کشی کر لی۔  گورکی کے انتقال ( ۱۹۳۶ء) کے بعد معتوب یا مشکوک ادیبوں کا کوئی وکیل صفائی نہ رہا جو ادب و سیاست کے حلقوں پر اثر انداز ہوسکے۔  اور احتساب بڑھ گیا۔  اس احتسابی شدت سے الگ تھلگ روسی زبان میں ’’شبہ سے بالاتر‘‘ غیر ملکی کلاسیکوں کا ترجمہ ہوتا رہا اور بعض اہم شخصیتوں نے ادب کی لو اونچی رکھی۔  ان میں میخائیل شولوخف، الکسئے ٹالسٹائے ، پاوستوفسکی، پاستر ناک، ایلیا اہرن بورگ، پرشی وین اور شاعروں میں زبولوتسکی، تو دوفسکی، انتا کولسکی، سلوخن، اپنے سائے میں شاعرانہ صداقت کے ان جواہر پاروں کو بچائے رہے جن سے ۱۹۵۴ء کے بعد روسی زبان و ادب کو روشنی اور قدروقیمت ملتی تھی۔  روسی ادب کے ہاتھ سے کسی وقت بھی کلاسیکی وضع کی جری حقیقت پسندی کا دامن نہیں چھوٹا۔  یہاں تک کہ مارچ ۱۹۵۳ء کو اسٹالین کے انتقال کے بعد روسی ادب کی نئی آوازوں نے باہر کی دنیا کو یہ تاثر دینا شروع کیا گویا روس کے نوجوان دانشور اور اہل قلم اس نظام سے بے زار ہیں۔  حالانکہ دراصل وہ دل کا غبار نکالنے میں مصروف تھے۔

بیسویں پارٹی کانگریس (مارچ ۱۹۵۶ء) کے ساتھ ہی نہ صرف جدید ( ۱۹۲۴ء کے بعد ولادت کے ) شعرا نے کھلے مجمعوں میں اپنا طنزیہ فریادی یا غنائی کلام سنانا شروع کیا بلکہ جن شعرا کو سرکاری طور پر رد کیا جا چکا تھا ان کا کلام بھی منظر عام پر لایا جانے لگا۔  مثلاً آننا احمتووا، زوشجنکو، پاسترناک یونین مارینا سوئتا ئیو اور گیور کی ایوانوف۔  وامی شہ ملی تو شاعری کی آواز نثر سے اونچی ہو گئی۔  دو دینت سیف (V.Dudintsev) کا ناول صرف روٹی سے نہیں ‘‘۔  ایلیا اہرن بورگ کا ناول ’’پگھلاؤ‘‘ (The Thaw) لٹسو گرانین پنفیورف کے ناول اور بالآخر ’’ڈاکٹڑ زواگو‘‘ نے ادبی دنیا میں ہلچل مچادی۔  سرکاری ادبی پالیسی کی تائید یا تعبیر میں لکھنے والے نکولائی خنوف کیجے توف، سفرانوف وغیرہ شاعر صحافی اور ڈرامہ نگار اپنی عام مقبولیت کھونے لگے۔  روسی شاعر نے ایک نئی کروٹ لی اور انیسویں صدی کے کلاسیکی شعرا اور جدید شاعرانہ کارناموں سے رنگ و آہنگ لے کر تقریباً بے لاگ و بے باک شاعری کو یہاں تک قبول عام بخشا کہ مشرق سے زیادہ مغرب میں اس کا چرچا ہوا۔

  آندرے وزنے سینسکی، ایوتوشینکو، رابرٹ رزوسیت وینسکی، یلا احمد اللینا، وناکوروف کا تازہ کلام روس کے نوجوانوں میں بھی اسی قدر مقبول ہے جتنا ملک کی مغربی سرحدوں کے پار۔  ان کے ہاں جدید مغربی طرز سخن کی جھلک ایشیائی شاعری کی دیواروں سے دور اور فن کی جدید ترین لہروں پر رقص کرتی نظر آتی ہے۔  جدید تر روسی ادب تقلید سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہا ہے یہ بات وزنے سینسکی اور رژویست وینسکی کے کلام میں زیادہ نمایاں ہے نثر نے سائنسی رنگ پکڑا ہے۔  سامترے ، نتسن اور ابرام توز وغیرہ کے ناول معتوب ہونے کے باوجود روس کے تازہ ترین ادب میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید