FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

معاصر بلوچی اور پشتو ادب

 

                         دانیال طریر

 

کتاب ’’ معاصر تھیوری اور تعینِ قدر‘‘ کا ایک حصہ جو اس کی برقی کتاب سے علیٰحدہ کر لیا گیا

 

 

 

 

 

 مابعد نائن الیون بلوچستان کا ادب

 

بلوچستان بلا شبہ ان خطوں میں سے ہے جو نائن الیون کے مابعد واقعات کے رد عمل سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر نہ صرف متاثر ہوئے ہیں بل کہ اس اثر پذیری نے باقی دنیا کی طرح اس کے اپنے معاملات ومسائل کی تفہیم و تجزیے کا تناظر بھی بدل دیا ہے۔ موجودہ بلوچستانی صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو بہت سے قضیوں کے سرے کہیں نہ کہیں نائن الیون سے پیوستہ نظر آئیں گے۔ یعنی اس بات پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ بلوچستان پر نائن الیون کے اثرات انتہائی گہرے بھی ہیں اور پیچیدہ بھی ، پیچیدہ اس لیے بھی کہ بلوچستان کے خالصتاً نجی معاملات جو کہ نائن الیون سے قبل بھی موجود تھے ان واقعات کے بعد اپنی نوعیت کے لحاظ سے مکمل طور پر نہ سہی مگر بڑی حد تک تبدیل ہو گئے ہیں۔ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان معاملات کے تاریخی تجزیے میں نائن الیون کے زیر اثر پیدا ہونے والے سیاسی ، معاشی اور سماجی بحران کو پیش نظر رکھا جائے بہ صورت دیگر درست نتائج تک رسائی کسی طور ممکن نہ ہو گی۔ بلوچستان کی افغانستان کے ساتھ جغرافیائی قربت اور ایک خاص حد تک ثقافتی مماثلت اس تجزیے کو مزید اہم بناتی ہے۔ معدنی وسائل کے اعتبار سے بلوچستان کی زرخیزی نائن الیون کے واقعات کو دولت کے حصول کے تناظر میں سمجھنے والے تجزیہ نگاروں کو نئے اور انتہائی اہم سوالوں سے دوچار کر رہی ہے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر و فعالیت میں التوا کو بھی اس تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر مروج دہشت گر دی کے خاتمے کے تصور و موقف سے ہٹ کر افغانستان پر امریکی جارحیت کا جائزہ لیا جائے تو بہ راستہ افغانستان بلوچستان تک رسائی کی اغراض بھی ظاہر ہو سکتی ہیں اور موجودہ بلوچستانی صورت حال وہ شواہد فراہم کرنے میں بھی معاون ہو سکتی ہے۔ جس سے یہ مفروضہ شک اور امکان کی حدود سے آگے نکل کر انتہائی سنجیدہ سوال کی حیثیت اختیار کر لینے کا قوی امکان رکھتا ہے اور کیا افغانستان پر امریکی حملوں کے لیے پاکستانی و بلوچستانی حدود کے وسیع علاقے پر امریکی فوجی با لادستی یہاں قبضے کی علامتی نشان دہی نہیں ہے ؟

نائن الیون کے واقعات کے بعد دہشت گر دی کے خاتمے کے نام پر جس جوابی اور زیادہ خطرناک دہشت گر دی کے عہد کا آغاز ہوا اس میں پاکستان کو کس شدید دباؤ کے تحت اپنا حلیف بنایا گیا اور بہ طور حلیف اس کے کردار کو کس طرح متعین کیا گیا۔ ان استفہامیوں کے ضمن میں نائن الیون کے واقعات کے بعد جب ابھی حملوں کی صورت امریکی رد عمل سامنے نہیں آیا تھا ریڈیو بی کے لیے نوم چومسکی سے ایک انٹرویو میں ممکنہ امریکی رد عمل کے خوف سے متعلق سوال پر ان کے بصیرت افروز جواب سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیے جو پاکستان کے بہ طور حلیف کردار کی بہ خوبی وضاحت کرتے ہیں۔

۱؎       ’’امریکہ پاکستان سے پہلے ہی مطالبہ کر چکا ہے کہ خوراک اور دوسرے سامان رسد کی فراہمی روک دے جو افغانستان کے کچھ بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اگر اس مطالبے کو پورا کر دیا جاتا ہے تو بہت سے انسان، جن کا دہشت گر دی سے دور کا بھی واسطہ نہیں، ہلاک ہو جائیں گے۔ غالباً لاکھوں افراد … میں پھر دہراتا ہوں۔ امریکا نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لاکھوں افراد کو مار دے جو خود طالبان کا شکار ہیں اور یہ معاملہ اخلاقیات کی انتہائی نچلی سطح سے تعلق رکھتا ہے۔ ‘‘

اخلاقیات کی انتہائی نچلی سطح کے حامل اس کردار کے ساتھ پاکستان پر شدت دباؤ کا اندازہ اسی جواب کے حسب ذیل بیان سے کیا جا سکتا ہے۔

۲؎      ’’اگر پاکستان امریکا کا یہ مطالبہ اور دیگر مطالبات پورے نہیں کرتا تو خود وہ بہ راہ راست حملے کی زد میں آ سکتا ہے اور جس کے اثرات نہ جانے کیا ہوں۔ اگر پاکستان امریکی مطالبات تسلیم کر لیتا ہے۔ تو یہ بات ناممکن نہیں کہ وہاں کی حکومت کا تختہ ان قوتوں کے ہاتھوں الٹ دیا جائے جو طالبان سے ملتی جلتی ہیں اور اس صورت میں ان کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہوں گے۔ اس کا اثر سارے خطے بہ شمول تیل پیدا کرنے والی ریاستوں پر پڑسکتا ہے۔ اس وقت ہم جس جنگ کے امکان پر غور کر رہے ہیں وہ ا نسانی معاشرے کی اکثریت کو تباہ کر سکتی ہے۔ ‘‘

اس جواب میں بیان کی گئی پاکستانی صورت حال بعد میں جس شدید دباؤ اور جن مزید پیچیدہ مراحل سے گزری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بلوچستان بھی ا س دباؤ اور پیچیدگی کے زیر اثر رہا ہے۔ بہ طور حلیف کردار ادا کرنے کا جو خمیازہ پاکستان بھگت رہا ہے اور آنے والے وقت میں جو مزید ابتر ہو تا دکھائی دیتا ہے وہ حیرت انگیز حد تک پریشان کن ہے اور یہ بات غور طلب ہے کہ جس عالمی ریاست کے لیے ہماری ریاست نے دہشت گر دی کے خاتمے کے لیے اخلاقیات کی نچلی سطح پر خدمات سر انجام دیں اب وہی یہاں لگائی گئی آگ کو بجھانے میں مدد کرنے کے بر خلاف اسے بھڑکانے میں بہ طور ایندھن اورعمل انگیز اپنا کردار ادا کر رہی ہے ؟ بلوچستان بھی پاکستان کی مجموعی صورت حال کا ناگزیر حصہ ہے۔ اس لیے یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ بلوچستان میں نائن الیون کے واقعات کے مابعد اثرات کے نفوذ کا سلسلہ سادہ اور اکہرا ہونے کے برعکس پیچیدہ اور تہ دار ہے مگر رواں دہائی انسانی تاریخ میں تغیرات کے اعتبار سے وہ تیز رفتار دہائی ہے کہ جس کا تجزیہ اس معروض کے طور پر قطعی ممکن نہیں جو اپنی ساخت کے ضابطے طے کر چکا ہو بہ قول ناصر عباس نیر:

۳؎    ’’بدلتی ہوئی دنیا کی قطعی اور سائنسی تفہیم نہایت مشکل ہے بدل چکی دنیا یعنی تاریخ کی تفہیم نسبتاً آسان ہے مگر تاریخ جب بن رہی ہوتی ہے تو یہ بقول ہیرا کلی تو بس بہتے ہوئے دریا کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی رفتار اور تغیر کے عمل کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے باطن میں مضمر و رواں جملہ عوامل کو جاننا محال ہوتا ہے۔ ‘‘

ظاہر ہے کہ جب تک کوئی عہد اپنے قاعدے اور ضابطے طے نہیں کر لیتا وہ مکمل ساخت سامنے نہیں آتی جسے بہ طور معروض معرض تجزیہ میں لایا جا سکے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم رواں عصر کا تجزیہ اور اس پر غور و فکر کے عمل ہی کو ترک کر دیں کہ بہ ہر حال یہی غور و فکر اور تجزیاتی عمل ہمیں تیزرفتار بہاؤ کے مقابل ڈٹنے کا حوصلہ عطا کر تا ہے اور ہمیں انفعالیت کے گراں بار احساس سے بچاتا ہے نیز اسی غورو فکر کے دوران بعض حقائق ایسے بھی مہیا ہو جاتے ہیں جن میں تبدل اس عہد کے مکمل ہونے پر بھی واقع نہیں ہوتا۔ نائن الیون کے واقعات بلا شبہ انسانی تاریخ کے غیر معمولی واقعات تھے مگر یہ واقعات کس اعتبار سے غیر معمولی قرار دیے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں ؟ کیا یہ واقعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے عدیم المثال تھے یا ان واقعات جیسی شدت دوسرے تاریخی واقعات میں موجود نہ تھی یا ان کے غیر معمولی پن کا سبب کچھ اور تھا؟ ایک قابل غور سوال یہ بھی ہے کہ کیا واقعی دنیا ان واقعات کے بعد بدل گئی ؟ یا پھر صرف اس کے جبر میں مزید شدت اور برہنگی و درندگی کا ظہور ہوا۔ ان سوالات کے جوابات کے لیے ایک مرتبہ پھر نوم چومسکی کے متذکرہ انٹرویو کے ایک اور جواب سے اقتباس پیش کرنا ضروری ہے۔ جس میں ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا گیارہ ستمبر کے بعد دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گئی ؟ یہاں یہ بات بالخصوص قابل توجہ ہے کہ نوم چومسکی اور ان کے دوسرے رفقاء اور ہم خیال ساتھی نائن الیون کے بعد جن امکانات کی نشان دہی کر رہے تھے۔ ان کی عملی صورت دیکھنے کے لیے دنیا کو صدیوں تک انتظار نہیں کرنا پڑا بل کہ ایک دہائی کے اندر اندر وہ تمام واقعات رونما ہو تے چلے گئے اور دنیا وہ اثرات دیکھنے لگی جن کے صرف امکان ہی کی بات ہو رہی تھی۔ یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان رواں وقت کے سامنے اس قدر بے دست و پا بھی نہیں ہوتا جتنا کہ وہ خود کو محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ جواب ملا خطہ ہو :

۴؎      ’’ منگل کے ہول ناک حملے عالمی امور میں ایک نئی قسم کی چیز ہیں۔ اپنی شدت اور نوعیت کے حوالے سے نہیں بل کہ ہدف کے حوالے سے۔ ۱۸۱۲ء کے بعد پہلی مرتبہ امریکا کا اپنا کوئی علاقہ حملے بل کہ خطرے کے زد میں آیا ہے۔ امریکا کی نو آبادیوں کو نشانہ بنایا جا تا رہا ہے مگر اس کی سرزمین کو کبھی نہیں۔ ان برسوں کے دوران امریکا نے اپنے ملک میں مقامی آبادی کو تقریباً نابود کر دیا۔ آدھے میکسیکو کو فتح کیا۔ اردگرد کے خطے میں متشددانہ مداخلت کی۔ ہوائی اور فل پین کو فتح کیا اور اس دوران سینکڑوں ہزاروں فل پنیوکو قتل کر دیا۔ اور خصوصاً گزشتہ نصف صدی کے دوران باقی ماندہ دنیا کے زیادہ تر حصے میں طاقت کا استعمال کیا۔ جو لوگ اس کی زد میں آئے ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اب پہلی مرتبہ بندوق کا رخ دوسری طرف ہوا ہے۔ ‘‘

نوم چومسکی کا یہ نکتہ انتہائی فکر انگیز تھا کہ نائن ا لیون کے واقعات اپنے ہدف کے اعتبار سے غیر معمولی تھے اور یہیں سے نائن الیون کے واقعات کے حقیقت یا تشکیلی حقیقت (ہائیپر ریلیٹی) ہونے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ جس نوعیت کی صورت حال رواں دہائی میں سامنے آئی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ واقعات خود امریکی حکمت عملی کا ایک ناگزیر حصہ تھے۔ جن کے ذریعے اسے بعض ایسے مقاصد کا حصول درکار تھا جو کسی دوسرے ذریعے سے ممکن نہ ہو سکتے تھے۔ ان مقاصد میں بلوچستان کا حصہ کیا اور کتنا بنتا ہے۔ اس کی جانب آغاز میں بعض اہم اشارے کیے جا چکے ہیں۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد عالمی سلطنت کی درندگی پوری برہنگی کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے اور یہ درندگی جس طرح افغانستان کی پامالی کا سبب بنی ہے اس سے وہ تمام اقوام اور ریاستیں جو افغانستان سے جغرافیائی، ثقافتی، لسانی اور مذہبی اشتراک و اتصال رکھتی ہیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان سب سے بڑھ کر ان اثرات کے زیر اثر رہا ہے۔ بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان اس سیل بلا کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔

نائن الیون کے واقعات کو دہشت گر دی کا نام دیا گیا۔ اس لیے رواں دہائی میں جو سوالات عالمی فکر کو متاثر کرتے رہے اور جن پر انسانی اذہان بالخصوص غور و فکر سے دوچار رہے ان میں حسب ذیل استفہامیوں کو پیش نظر رکھنا از بس ضروری ہے۔

۱۔ دہشت کے معنی کیا ہیں ؟

۲۔ دہشت گر دی کی کیا تعریف ممکن ہے ؟

۳۔ دہشت گرد کون ہے اور کیا دہشت گرد متفقہ طور پر سب کے لیے اور ہمیشہ  کے لیے   دہشت گرد ہوتا ہے؟

۴۔ کیا دہشت کا جواب صرف دہشت ہی کے ذریعے ممکن ہے ؟

۵۔ کیا دہشت گر دی صرف مذہبی انتہا پسندی ہی کی دین ہے ؟

۶۔ مذہبی انتہا پسندی کے معنی کیا ہیں ؟

۷۔ کیا مذاہب انسانیت کا حامل کوئی اخلاقی ضابطہ نہیں رکھتے ؟

۸۔ مذہب کی تفہیم کا معیار کیا اور کیسا ہے ؟

۹۔ دہشت گر دی کی ابتدا کب سے اور کہاں سے کی جا سکتی ہے ؟

۱۰۔ دہشت گر دی میں ملوث افراد، تنظیموں اور ریاستوں کے مقاصد کیا ہیں ؟ اور کیا وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کام یاب ہیں ؟

۱۱۔  ’’خود کش‘‘  کیسے تیار کیے جاتے ہیں ؟

۱۲۔ خودکشی کی سیاسی، سماجی، مذہبی اور نفسیاتی وجوہات کیا ہیں ؟

۱۳۔ کیا جنگ ہی واحد راستہ ہے؟

۱۴۔ کیا اسے تہذیبوں کے تصادم کا نام دیا جا سکتا ہے ؟

۱۵۔  کیا یہ صلیبی جنگوں کی کوئی صورت ہے یا تیسری عالمی جنگ کی علامتی ابتداء؟

۱۶۔ کیا جنگ کے کوئی اخلاقی ضابطے موجود اور کارگر ہیں ؟

۱۷۔ ہم عصر حالات میں جمہوری، آزاد اور ترقی یافتہ کہلانے والے معاشروں اور ریاستوں کا کردار کیا ہونا چاہئے ؟

یہ اور اس نوعیت کے لاتعداد استفہامیے رواں دہائی میں انسانی سوچ بچار کا مرکز رہے ہیں اور انسانی فکر کے جمالیاتی اور غیر جمالیاتی اظہا رکی جملہ صورتیں شعوری یا غیر شعوری طور پر انھی استفہامیوں اور ان کے تلازمات کے گرد گھومتی رہی ہیں۔ یہی موجودہ صورت حال خوف، تشویش، بے یقینی، اضطراب، قنوطیت، ملال، تشکیک، واہمے، جھنجھلاہٹ، بے دلی و غیر ہم کو غالب انسانی احساسات کے روپ میں ظاہر کرنے کا سبب ہے اور دنیا بھر کے ادب کی طرح پاکستان اور بلوچستان کا ادب بھی گزشتہ صفحات میں پیش کیے گئے بعض اختصاصی تناظرات کے ساتھ خوف زدہ کر دینے والی اسی فضا کا پیش کار رہا ہے۔ مگر اس پیش کش کے مطالعے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ادب نے ان واقعات اور اس کے مابعد صورت حال کے تناظر میں کس رد عمل کا اظہار کیا ہے یا اسے کس رد عمل کا اظہار کرنا چاہئے تھا؟ یہ دونوں استفہامیے بڑی حد آئیڈیا لوجیکل ہیں جن کے جواب تک رسائی کے لیے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ ہم ادب اور ہم عصر صورت حال کو کس طرح ہم رشتہ و مربوط کرتے ہیں۔ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ادب کو ہم عصر صورت حال کا انعکاس کرنا چاہئے ؟ کیا ہم ادب کو صرف نمائندگی اور ترجمانی تک محدود تصور کرتے ہیں ؟ کیا نمائندگی، ترجمانی اور انعکاس تخلیق کا مفہوم ادا کرنے میں کام یاب ٹھہرتے ہیں ؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں دیا جائے تو پھر اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ادب ہنوز افلاطون کے تصور نقل کے حصار سے باہر نہیں نکل سکا لہٰذا ادیب اسی سلوک کے حق دار ٹھہرتے ہیں جو ان کے لیے افلاطون نے تجویز کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ادب جس تخلیقی عمل کا نام ہے اس کا مفہوم انعکاس، ترجمانی اور نمائندگی جیسے الفاظ سے کسی طور ادا نہیں کیا جا سکتا۔ واقعہ اور صورت حال ادب کے نزدیک حقیقت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (حقیقت کے تصور میں تشکیلی حقیقت کو بھی شامل سمجھنا چاہئے )لہذا اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ ادیب اس حقیقت(متن) کے لیے بہ طور قاری قرأت کے کس عمل کو بروئے کار لاتا ہے۔ کیا وہ اس متن کو اکہرا اور صرف سطحی معنی کے حامل تصور کرتا ہے یا اسے تہ در تہ اور گہرے معنی کا حامل گردانتا ہے۔ پہلی صورت میں حقیقت یک رخے اور سطحی متن کے روپ میں جلوہ گر ہو گی۔ جب کہ دوسری صورت میں وہ کثیر الابعاد اور کثرت معنی کے حامل متن کی شکل اختیار کرے گی۔ اسی مقام پر ادیب محرر اور تخلیق کار میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ محرر چوں کہ حقیقت کی قرأت ایک ایسے متن کے طور پر کرتا ہے جو صرف بالائی سطح پر قائم ہوتا ہے اور اس کا وجود اتنا سالم اور مکمل ہوتا ہے کہ بہ طور قاری، ادیب کا کردار صرف اس کے انعکاس یا نمائندگی و ترجمانی تک محدود ہو جاتا ہے مگر دراصل یہ مسئلہ خود حقیقت کے اکہرے اور سطحی ہونے کے برعکس ادیب کے بہ طور قاری استعداد کا ہے۔ ادیب اپنی محدود اور ناقص استعداد قرأت کی بنا پر حقیقت کی تمام ممکنہ صورتوں اور جہات کو گرفت میں لینے کا اہل نہیں ہوتا نتیجتاً خود حقیقت اکہری ہو جاتی ہے اور اس طرح جو ادب سامنے آتا ہے وہ گہرائی و پیچیدگی سے عاری ہو نے کے ساتھ تخلقیت سے بھی عاری ہوتا ہے۔ اس صورت میں ادیب زبان و بیان اور ادبیت کے صرف موجود اور معلوم و سائل کو بہ روئے کار لاتا ہے۔ لہٰذا انعکاس اور نمائندگی و ترجمانی کا فریضہ تو ادا ہو جاتا ہے مگر ادب کی حقیقی روح زائل ہو جاتی ہے۔ تاہم یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ادب کی حقیقی روح کیا ہے ؟

ادب کو یا تو صورت حال کے زیر اثر یا نتیجے کے طور پر صورت پذیر ہونے والے مظہر کے روپ میں قبول کیا جاتا ہے یا اسے ایک قائم بالذات شے سمجھا جاتا ہے۔ جوا پنے عمل میں خود مختار ہے پہلی صورت میں اس کی حیثیت واقعے کی بنتی ہے جب کہ دوسری صورت میں کلامیے کی۔ بہ قول ناصر عباس نیر:

۵؎     ’’ ادب اگر واقعہ ہے تو یہ طفیلیہ ہے۔ یہ محض موجود و دست یاب کو منعکس کرتا ہے۔ یہ فقط آئنہ ہے، دنیا کو بدلنے میں اس کا کوئی کردار نہیں کہ دنیا کو بدلنے کے لیے دنیا کی موجودہ صورت حال سے ہٹ کر موقف اختیار کرنا پڑتا ہے اور دنیا کی عکاسی کرتے ہوئے یہ کیوں کر ممکن ہے اور اگر ادب کلامیہ ہے تو اس کے اپنے ضابطے، اقدار کا اپنا نظام ہے۔ ہر کلامیے کی طرح ادب دنیا سے متعلق تو ہو تا ہے مگر دنیا کو منعکس کرتے ہوئے بھی یہ اپنے ضوابط کو اولیت دیتا ہے۔ نتیجتاً ادب میں وہ دنیا پیش نہیں ہوتی جو ہمارے حواس کی گرفت میں آتی ہے بل کہ وہ دنیا پیش ہوتی ہے جو تخلیق کار کی متخیلہ کی گرفت میں آتی ہے۔ ‘‘

محرر ادب کو واقعہ تصور کرتا ہے اور اسے صرف اسی حد تک پیش کرتا ہے جتنا کہ وہ حواس کے ذریعے اسے حاصل کرتا ہے جب کہ تخلیق کار اپنی استعداد قرأت میں غیر معمولی ہوتا ہے وہ حقیقت کی قرأت ایک ایسے متن کے طور پر کرتا ہے جو تہ دار اور غیر معمولی طور پر گہرا ہے یہ متن صرف بالائی سطح پر قائم نہیں ہوتا اور نہ اتنا سالم اور مکمل ہوتا ہے کہ قاری کی شمولیت کے امکانات ختم ہو جائیں۔ بل کہ یہ متن تو تہ در تہ اور خلا در خلا کا حامل ہوتا ہے جسے قاری کی شمولیت کے بغیر مکمل ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ادیب بہ طور قاری حقیقت کی محض قرأت نہیں کرتا بل کہ اسے تخلیق کرتا ہے وہ ا س حقیقت میں موجود خلاؤں کو عبور کرتا ہے اور شگافوں کو بھرتا ہے وہ محض حسی سطح پر اس سے مکالمہ نہیں کرتا بل کہ بہ یک وقت حس اور فکر کو فعال بناتے ہوئے متخیلہ کی غیر معمولی قوت کو بہ روئے کار لاتا ہے وہ حقیقت کو اس کے تمام تر امکانات اور جہات کے ساتھ گرفت میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا جو متن سامنے آتا ہے وہ گہرائی و پیچیدگی کے ساتھ پوری تخلیقیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس صورت میں ادیب کے لیے زبان و بیان اور ادبیت کے صرف موجود اور معلوم و سائل کافی نہیں ہوتے لہٰذا وہ اپنی تخلیقی ضرورتوں کے مطابق اختراعات اور تجربات کے عمل سے گزرتے ہوئے زبان وبیان کے وسائل کو بدلتا اور وسیع کرتا ہے اور ادبیت کے نئے معیارات متعارف کرواتا ہے وہ چوں کہ ادب کو کلامیہ تصور کرتا ہے اس لیے محض حواس کی گرفت میں آنے والی صورت حال کی پیش کش کو ناکافی سمجھتا ہے۔ اس لیے عموماً اس ادب کے بارے میں ہم یہی رائے قائم کرتے ہیں کہ یہ ہم عصر زندگی سے لاتعلق ہے حالاں کہ یہی ادب اپنی حقیقی روح کو قائم و برقرار رکھتے ہوئے معاصر صورت حال سے زیادہ گہری سطح پر تعلق استوار کرتا ہے مگر چوں کہ یہ صرف انعکاس اور نمائندگی و ترجمانی تک محدود نہیں ہوتا اس لیے ادب کی حقیقی اساس سے عدم آشنا قارئین کے لیے یہ ان کو درپیش حالات کا پیش کار بھی نہیں ہوتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چوں کہ یہ ادب زبان و بیان اور ادبیت کے وسائل کو بڑے پیمانے پر تبدیل کر دیتا ہے۔ اس لیے اجنبیت اور نامانوسیت ادب اور صورت حال کے مابین حائل ہو جاتی ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جو قارئین اس اجنبیت اور نامانوسیت کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یعنی جو حقیقی معنوں میں ادب کے قارئین ہوتے ہیں وہ اس غیر محسوس مگر نسبتاً زیادہ گہرے اور تخلیقی تعلق کو شناخت کر لیتے ہیں جو کہ مسرت کی ترسیل کرتے ہوئے ادب کو ہم عصر زندگی سے مربوط دکھاتا ہے بل کہ ہم عصر زندگی سے متعلق ادب کا حقیقی رد عمل بھی پیش کرتا  ہے۔ یہ ادب صرف واقعہ کو موزوں یا منظوم نہیں کرتا بل کہ واقعے کے مقابل دوسرا واقعہ اور صورت حال کے مقابل دوسری صورت حال بھی خلق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ بھی یوں کہ درپیش صورت حال کی حقیقت از خود منکشف ہو جاتی ہے اور واقعہ اپنے مضمر عوامل اور پراسراریت کے ساتھ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ ادب اپنی اساسی جمہوری اقدار، اور آزادی کا تحفظ کرتے ہوئے سچی مسرت کے ذریعے لوگوں میں وہ شعور بیدار کرتا ہے جو مقتدر قوتوں کے رائج کردہ کلامیوں کے زیر اثر تحریر و تخلیق و تصویر ہونے والی دوسری انسانی سرگرمیوں سے کسی طرح ممکن نہیں اور یہی وہ حقیقی شعور ہے جو اقتدار پسند قوتوں کی راہ میں حائل ہونے اور انسان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

نائن الیون کے واقعات اور ان واقعات کے بعد پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال کو دونوں طرح کے ادب میں پیش کیا گیا ہے۔ مگر واقعات نائن الیون کے ہوں یا اٹھارہ سو ستاون کے یا کوئی اور، ہمارے ہاں بالعموم حقیقی ادب کو نظر انداز کر کے محض اس ادب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جس نے خود کو صرف واقعات کے حسی ادراک تک محدود رکھتے ہوئے ان کی عکاسی اور نمائندگی و ترجمانی کا فریضہ وضاحتی انداز کے اشارات، استعارات اور علامات کی صورت پیش کیا ہے۔ وہ ادب عام طور پر ادبی مطالعات کا حصہ نہیں بنا جس نے حقیقی معنوں میں روح عصر پر گرفت کی ہے اور حقیقی شعور کو بیدار کر کے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس نے واقعہ اور صورت حال کو صرف آئنے کی طرح منعکس نہیں کیا بل کہ پرزم کی طرح اسے اس کے تمام حقیقی رنگوں میں ڈھال دیا ہے  نیز اس کی تمام جہات و ممکنات کو خلق کیا ہے۔ حقیقی ادب کے نظر انداز ہونے کی ایک بڑی وجہ ہمارے محققین و ناقدین کی تفہیمی و تطبیقی استعداد کی کمی ہے جو اکثر و بیش تر ادب کو بہ طور ادب قائم کرنے والی اجنبیت اور نامانوسیت ہی کو عبور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نتیجتاً اس نوع کے مطالعات ادبی معیار بلند کرنے کے بہ جائے پست کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس طرح ادب کے نام پر منظوم خبروں یا منثور کالموں کے انبار لگانے کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، اور یہ امید رکھی جاتی ہے کہ آیندہ کے مطالعات میں ان منظوم خبروں اور منثور کالموں کو ادب کے شاہکار کے طور پر پیش کیا جائے گا اور عام طور پر یہ امید یں بر آتی ہیں اس لیے ہر عہد کے ذوق اپنے عہد کے غالب پر غالب بھی ہوتے ہیں اور شاہ کے مصاحب بھی۔

اس بحث سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ بلوچستان میں تخلیق ہونے والا تمام ادب حقیقی طور پر تخلیقی ہے یقیناً یہاں بھی رواں دہائی کے دوران دونوں طرح کا ادب لکھا گیا ہے اور باقی دنیا کی طرح یہاں بھی حقیقی معنوں میں تخلیقی ادب کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے یا شاید اس سے بھی کم۔ مگر چوں کہ بلوچستان میں ادب کم از کم پانچ زبانوں میں تخلیق کیا گیا ہے اس لیے یہاں اس کے رنگ اور ذائقے زیادہ بھی ہیں اور مختلف بھی۔ تاہم بلوچستان کے ادب کی پیش کش سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس ادب کو نائن الیون کے اثرات کا حامل قرار دیا جا رہا ہے اور کیوں ؟

ادب پر نائن الیون کے اثرات تین طریقوں سے مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔

اول:یہ دیکھا جائے کہ وہ کون سے تخلیق کار ہیں جنھوں نے نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والے تغیرات اور بحران پر غیر ادبی ذرائع استعمال کرتے ہوئے اپنا نظریاتی یا غیر نظریاتی موقف پیش کیا ہے۔

دوم:یہ دیکھا جائے کہ ان واقعات کے بعد ادبی متن سازی کے عمل میں کیا بنیادی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور یہ تبدیلیاں کس حد تک نائن الیون کے ثمرات کہلانے کا استحقاق رکھتی ہیں۔

سوم :قاری اپنی استعداد قرأت کی بنا پر یہ فیصلہ کرے کہ کون سا ادب نائن  الیون کے  اثرات کا حامل ہے اور وہ کون سے تاثرات یا تجربات ہیں جن کی بنا پر اس ادب کو نائن الیون کے اثرات کا حامل قرار دیا جائے۔

ان تینوں نکات کا جائزہ لیا جائے تو پہلی صورت میں مطالعہ، ادب سے زیادہ ادیب کی پیش کش پر مبنی ہو گا اور ادیب کی وابستگی کو ادب کی وابستگی تصور کر لیا جائے گا۔ لہٰذا نتیجہ ترقی پسند ادب کے مطالعات سے مشابہ ہو گا جہاں ادیب کے اشتراکی ہونے کو ادب کا اشتراکی ہونا تصور کیا گیا اور ادب سے زیادہ ادیب کے شخصی کوائف اور یادداشتیں محل نظر رہیں۔ ہمارا مقصد چوں کہ ادب پر نائن الیون کے اثرات کا جائزہ پیش کرنا ہے اس لیے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ادیب کا غیر ادبی ذرائع کے استعمال سے موجودہ حالات پرکیا موقف سامنے آیا ہے اور کوئی موقف سامنے آیا بھی ہے یا نہیں۔ کیوں کہ اگر ادب ان اثرات کی پیش کش سے عاری ہے تو ادیب کی وابستگی یا عدم وابستگی کم از کم ہمارے مطالعے سے سروکار نہیں رکھتی۔

دوسری صورت میں مطالعہ اول ادب میں تبدیلیوں کا احاطہ کر ے گا اور پھر ان کی نائن الیون سے وابستگی دیکھی جائے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا ادب بغیر کسی قابل مشاہدہ تبدیلی کے اثرات قبول نہیں کر سکتا یا کیا یہ ضروری ہے کہ ہر تبدیلی لازما صورت حال ہی کی دین ہو۔ تبدیلی محض تخلیق کار کی جدت طبع کی دین بھی تو ہو سکتی ہے۔ لہٰذا یہ خدشہ بہ ہر حال موجود رہے گا کہ یہ مطالعہ محض تبدیلیوں کے جائزے تک محدود ہو کر نہ رہ جائے اور تبدیلیوں کی صورت حال سے وابستگی میکانکی انداز نہ اختیار کر جائے تاہم متن سازی کے عمل پر گرفت اس مطالعے کی اہم ضروریات میں سے ہے۔

تیسری صورت میں مطالعہ ادب کے ایک قاری کی حیثیت سے راقم کی استعداد قرأت کی نذر ہو جائے گا اور یہ عین ممکن ہے کہ راقم کو اٹھارویں صدی کا بیش تر ادب موجودہ صورت حال کا  نمائندہ معلوم ہو تو کیا اس صورت میں پیش کیے گئے مطالعے کو نائن الیون کے اثرات کا حامل ادب مان لیا جائے گا ؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا نا مناسب ہے حالاں کہ یہ بات کسی طرح روح ادب کے منافی نہیں کیوں کہ وہی ادب زندہ ادب کہلانے کا استحقاق رکھتا ہے جو بدلتے ہوئے تناظرات میں اپنی معنویت اور اہمیت برقرار رکھ سکے۔ مگر یہاں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اگر تخلیق شدہ ادب تمام زمانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے تو مزید ادبی تخلیقات کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جب کہ فی الحقیقت ادبی تخلیق کے تسلسل کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ انسان گزشتہ ادب کو حسی، فکری یا بہ الفاظِ دیگر عصری ضروریات کے مطابق و موافق نہیں پاتا۔ لہٰذا یہ کسی طور مناسب نہیں کہ ہم عصر ادب کو نظر انداز کر کے گزشتہ ادب کو نائن الیون سے مربوط کیا جائے۔

تینوں نکات کے تجزیے کے بعد بھی یہ مسئلہ اپنی جگہ قائم ہے کہ آخر کس ادب کو نائن الیون کے اثرات کا حامل ادب قرار دیا جائے اور اس کے لیے کیا منطقی اساس پیش کی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مابعد نائن الیون ادب کا جائزہ ہی نائن الیون کے اثرات کی پیش کش میں معاونت کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ مختلف زاویے مہیا ہو سکتے ہیں جنھیں نائن الیون کے واقعات، اثرات اور مابعد صورت حال و بحران سے جوڑا اور ہم آہنگ کیا جانا ممکن ہو گا اور صرف اسی طرح اس جبری کاوش سے بھی بچا جا سکتا ہے جو عموماً اس نوع کے مطالعات میں اثرات دکھانے کے لیے بہ روئے کار لائی جا تی ہے۔ تا ہم اس مطالعے کے حقیقی نتائج تک رسائی کے لیے رواں دہائی میں بلوچستان کی پانچوں نمائندہ تخلیقی زبانوں اردو، پشتو، بلوچی، براہوئی اور ہزارگی کے تمام ادب کا مطالعہ و تجزیہ ناگزیر ہے۔ جس کا یہ مختصر مطالعہ متحمل و دعوے دار نہیں ہو سکتا۔ اس مطالعے میں نمونے کے طور پر جو تخلیق پارے پیش کیے جائیں گے ان کے انتخاب میں حسب ذیل باتوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

اول:ادب پارہ نائن الیون کے بعد تخلیق کیا گیا ہو اور متن سازی میں فکری و حسی سطح پر کم از کم کوئی ایک جہت ایسی نمودار ہوتی ہو جسے ہم عصر زندگی سے متعلق محسوس کیا جا سکے۔

دوم:ادب پارے کی وابستگی ان سوالات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر پائی جاتی ہو جن کا ذکر اس مقالے میں کیا گیا ہے تا ہم اس وابستگی سے ادبی روح کا مجروح نہ ہونا لازم ہے۔

سوم :ادب پارہ ان غالب احساسات کی ترجمانی کرتا ہو جنھیں ہم عصر زندگی کی دین قرار دینے میں کسی کو تامل نہ ہو۔

چہارم:ادب پارہ کسی ایک ایسے اشارے کی فراہمی میں کام یاب ٹھہرے جس سے تخلیقیت کو ضعف بھی نہ پہنچتا ہو اور وابستگی کا اظہار بھی ہو جائے۔

اس سے قبل کہ مندرجہ نکات کی روشنی سے معمور بلوچستانی ادب پر نگاہ ڈالی جائے۔ معین نظامی کی فارسی سے ترجمہ کی گئی افشین تاجیان کی نظم پیش کی جاتی ہے۔ جسے راقم نے بڑی حد تک درجہ بالا نکات کی پیش کش میں مثالی پایا ہے۔ یاد رہے کہ یہ نظم نائن الیون کے واقعات کے بعد تخلیق کی گئی ہے۔ نظم ملاحظہ ہو :

۶؎      ’’ اس کے آنسوؤں کے شفاف قطرے

درخت کے پتوں پہ شبنم بن گئے ……

سفید کبوتر کی بے یقین نظر یں

ان سر بہ فلک عمارتوں کی تباہی پہ جمی ہوئی تھیں

جو اپنی عظمت میں شکست و ریخت کا شکار ہو گئیں

تب اس کی لرزتی ہوئی آواز نے

چیری کے پودے سے کہا:

’’ لگتا ہے لوہے کے پرندے

درخت پر بیٹھنے کا سلیقہ نہیں جانتے

افسوس پرندوں پر !

پودے نے حسرت بھری آہ کی اور جواب دیا :

’’ نہیں ! سنگ و خشت کے درختوں پر

کسی پرندے کے بیٹھنے کے لیے کوئی شاخ نہیں ہوتی …‘‘                                                               (کبوتر اور درخت)

اس نظم نے جس طرح فطری مناظر کی محاکات کو نائن الیون کے پر ہول واقعات سے ہم آمیز کر کے شعری استعاراتی زبان کی صورت پیدا کی ہے اور اپنی تمام تر نامانوسیت اور اجنبیت کے باوجود جس طرح خود کو تناظر سے جوڑے رکھا ہے اور جس طرح صرف واقعے کی منظومیت اور حسی پیش کش پر اکتفا نہ کرتے ہوئے پوری ایمائیت سے اپنا فکری موقف پیش کیا ہے نیز سیاسی تناظر کو جس ہنر مندی سے ادبی ڈسکورس کے تابع کر دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس نوع کے مطالعات میں ادب پاروں کا انتخاب کرتے ہوئے اس معیار کی تخلیقات کو پیش نظر رکھنا از بس لازم ہے کیوں کہ بہ صورت دیگر ادبیت کو برقرار رکھنا کسی طور ممکن نہ ہو گا تاہم اس پیش کش کے لیے تخلیقات کی دست یابی شرط لازم کی حیثیت رکھتی ہے۔

بلوچستان کی ادبی فضا پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کی رنگینی و نیرنگی کا فی حد تک ہماری مجموعی ادبی فضا کی طرح فکشن کے برعکس شعر کی مرہون ہے۔ رواں دہائی میں بلوچستان کی پانچوں نمائندہ تخلیقی زبانوں میں فکشن کے مقابلے میں شعر کی سطح پر بدرجہا زیادہ کام ہوا ہے۔ فکشن کا کام نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر معیار کو بھی پیش نظر رکھا جائے تو شاید یہ انگلیوں پر گنی جا سکنے والی تعداد مزید کم ہو جائے گی۔ تاہم پیش کیا گیا تناظر فکشن کے مطالعہ و تجزیے کی حدود فراہم کرتا ہے۔ اس تناظر میں اردو زبان میں نوجوان کہانی کار عابد میر کا افسانوی مجموعہ  ’’جنگ، محبت اور کہانی ‘‘ خاص اہمیت اس لیے رکھتا ہے کہ اس میں نائن الیون کے اثرات کو بہ راہ راست بھی پیش کیا گیا ہے اور بلوچستان کی صورت حال سے جوڑ کر بھی اس کی پیش کش کی کو شش کی گئی ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ کہانیاں زیادہ پختہ کاری کی حامل نہیں مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان کے اردو فکشن میں نائن الیون کو مرکز بنا کر کہانیوں کی ایک مکمل کتاب عابد میر ہی نے پیش کی ہے۔ اردو فکشن کے دیگر لکھاریوں میں آغا گل اور ہاشم ندیم خان کے ہاں ان اثرات کے موہوم اشارے دست یاب ہوسکتے ہیں۔

پشتو زبان میں فاروق سرور نے مکمل فنی چابک دستی سے نائن الیون کے اثرات کو سمیٹا ہے۔ ان کا ناول  ’’کتے پالنے والا‘‘ اور ان کا افسانوی مجموعہ  ’’گنجی چڑیا ‘‘  نائن الیون پر بلوچستانی فکشن کی نمائندہ کاوشیں قرار دی جا سکتی ہیں۔ اپنے مخصوص علامتی ٹریٹ منٹ کی وجہ سے فاروق سرور کا ناول اور افسانے وہ تخلیقی رچاؤ بھی حاصل کرنے میں کام یاب ٹھہرتے ہیں۔ جو اس نوع کے فکشن میں عموماً دست یاب نہیں ہوتے۔ فکشن میں نائن الیون کو مرکزی حوالہ بناتے ہوئے کہانیوں کی پیش کش میں فاروق سرور بلوچستان کے سب سے کام یاب لکھاری ہیں۔ پشتو فکشن کے دیگر لکھاریوں میں افضل شوق اور راز محمد راز نے بھی ان اثرات کی تخلیقی پیش کش کی قابل تحسین کوشش کی ہے۔ بلوچی اور براہوی فکشن میں نائن الیون کسی مرکزی حوالے کے طور پر تو قطعی موجود نہیں بل کہ بڑی حد تک اس واقعے کو اس لیے بھی نظر انداز کیا گیا ہے کہ یہ بلوچستان کی سیاسی صورت حال سے غیر متعلق ہے۔ ایک عام تاثر یہی ہے کہ بلوچستان کا سیاسی مسئلہ یا مسائل نائن الیون سے قبل بھی موجود تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ یا مسائل نائن الیون سے قبل بھی موجود تھے تاہم نائن الیون کے بعد ان کی شدت میں اضافہ ضرور ہوا ہے جسے نائن الیون کے بعد بلوچی اور براہوی فکشن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر نائن الیون سے قبل اور بعد کے فکشن کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو یقیناً ان اثرات کی پیش کش میں آسانی ہو گی جس کے پس منظر میں بہ طور محرک نائن الیون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ اس اعتبار سے بلوچی میں منیر بادینی، غنی پرواز اور حکیم بلوچ جب کہ براہوی میں وحید ذہیر، ڈاکٹر سرور پرکانی اور عارف ضیا کے فکشن کا مطالعہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ہزارگی میں اس دہائی کے دوران فکشن کی سطح پر کوئی قابل ذکر کام اور نام سامنے نہیں آیا البتہ تلاش پر ایک دو فن پاروں کی دست یابی کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

رواں دہائی میں تخلیق پذیر ہونے والی بلوچستانی شاعری نے انتہائی غیر محسوس انداز سے معاصر زندگی کے اثرات کو عمل انجذاب سے گزارا ہے۔ غزل جسے نمائندہ صنف قرار دیا جا سکتا ہے ان اثرات کے عمل انجذاب میں انتہائی محتاط رویے کی حامل رہی ہے مگر تسلسل سے بلوچستان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر رواں دہائی میں داخل ہوا جائے تو یہ بات با آسانی عیاں ہو جاتی ہے کہ رواں دہائی کی شاعری گزشتہ شعری روایت سے عمل انقطاع کا شکار نہ ہونے کے باوجود اسالیب اظہار اور موضوعات میں قابل مشاہدہ بدلاؤ سے دوچار ہوئی ہے۔ جس نوع کا عصری شعور اس دہائی کے شاعری میں دکھائی دیتا ہے وہ اس شدت تاثر کا حامل پہلے کبھی نہیں رہا بل کہ اس دہائی کی شعری اساس بڑی حد تک سیاسی بصیرت ہی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات صرف بلوچستان کے ادب پر نہیں بل کہ مجموعی ادبی صورت حال پر بھی صادق آتی ہے۔ شعری زبان کی بالواسطگی نے رواں دہائی میں اپنی معنویت کے تعین کو بڑی حد تک سیاسی بصیرتوں کے تابع کر دیا ہے اور التوائے معنی بھی تناظر کی انہی جہات میں گردش کرتا نظر آتا ہے۔ جس نوع کا خوف، پژمردگی، قنوطیت اور بے یقینی اس دہائی کے شعری فضا میں گہرے نقش ثبت کرتی نظر آتی ہے۔ اس کا فکری پس منظر ان استفہامیوں سے تیار ہوا ہے جن کا ذکر اس مطالعے میں شامل کیا جا چکا ہے۔ تاہم مزاحمت بلوچستانی ثقافتوں کے مزاج میں شامل وہ رنگ خاص ہے جس نے یہاں کے ادبی اظہارات کو قنوطیت کی انتہا پسندی سے ہمیشہ محفوظ رکھا ہے۔ رواں دہائی کے شعری اظہاریوں میں مزاحمتی لہجہ بلوچستانی شاعری کا وصف امتیاز معلوم ہوتا ہے تاہم اس کی مقدار میں کمی بیشی حالات کی سنگینی کے تابع رہی ہے۔ بلوچستانی شاعری نے رواں دہائی کے بحران کی شعری پیش کش کے ساتھ ادبی ڈسکور س کے تابع فکری موقف کا اظہار بھی کیا ہے۔ ایک حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اردو زبان سے زیادہ تخلیقی رچاؤ یہاں کی قومی زبانوں کے ادب میں ظاہر ہوا ہے جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان زبانوں کی ثقافتی وابستگی موجودہ سنگین حالات میں بھی نہ صرف برقرار رہی ہے بل کہ ہر نوع کے فکری یلغار کا مقابلہ بھی انھوں نے پوری قوت سے کیا ہے اور بالآخر اپنی جڑوں کو تخلیقی اظہاریوں میں مزید گہرائی اور تقویت عطا کی ہے اردو شعر و ادب بھی ان دیگر قومی زبانوں کی خلاقیت سے اثر پذیر ہوا ہے بالخصوص شعری اسالیب پر بلوچستانی ثقافتوں کے اثرات نہایت گہرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی اردو شعر و ادب کے تناظر میں بلوچستانی شعر و ادب اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ رواں دہائی میں جو تخلیقی فضا بلوچستان میں قائم ہوئی ہے۔ اس میں مجموعی اردو شعر و ادب جیسی اسلوبی یک سانیت کہیں نظر نہیں آتی۔ یہاں جس کثرت اسالیب کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے وہ شاید کہیں اور ممکن نہ ہو جس کی ایک اہم وجہ مختلف ثقافتوں کے نقطہ اتصال پر جنم لینے والا تخلیقی اظہار ہے۔ جس کی نسبت ترکیبی ہر دوسرے شاعر و ادیب کے ہاں تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اسی نسبت ترکیبی کے فرق نے یہاں ادبی زبان کے برتاوے میں نیرنگی اور انفرادیت کی بے شمار صورتیں پیدا کی ہیں۔ صورت حال اور تناظر کی یک سانی اپنی جگہ البتہ ادبی اظہار میں یہ یک سانی اتنے مختلف قالبوں میں ڈھل کر نمودار ہوئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے اس لیے یہاں کے شعرو ادب سے لہجے کی یک سانیت کے حامل اشعار و اقتباسات کی وہ فہرستیں تیار نہیں کی جا سکتیں جو اس نوع کے مطالعات کا تقاضا ہو تی ہیں اور نہ یہاں شعری و ادبی، لسانی و سائل کے استعمال کی وہ تقلیدی روش عام ہے جس کی بنا ء پر مماثل استعاراتی نظام کے حامل ادبی اظہاریوں کو یک جا کیا جا سکے۔ ان باتوں کی نشان دہی سے میرا مقصود یہ ہر گز نہیں کہ یہاں کا ادبی معیار مجموعی ادبی معیار سے بلند ہے بل کہ مقصود صرف یہ ہے کہ اس مطالعے کے قاری اس سہولت کی امید ہر گز نہ رکھیں جو عموماً اس نوع کے مطالعات میں دست یاب ہو جایا کرتی ہے۔ یہاں اس بات کا اعادہ کرتا چلوں کہ راقم کا مقصود مماثلات فکر و اسلوب کی بنا پر کسی فہرست کی پیش کش نہیں بل کہ کوشش ان اشعار اور نظموں کی پیش کش کی ہے جن سے یہاں کی شعری قوس قزح کے تمام رنگوں کا مشاہدہ ممکن ہو پائے نیز رواں دہائی کی بحرانی صورت حال کا تخلیقی روپ بھی قارئین کے سامنے آ جائے مگر یہاں یہ وضاحت لازم ہے کہ اس انتخاب کے لیے روایتی مماثلتی و تشبہیی انداز کے استعمال کے برعکس متناقض و متضاد کی منطق سے کام لیا گیا ہے کہ یہی منطق رواں عصر کی تخلیقی تفہیم کا حق بہتر طو ر پر ادا کر سکتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مختلف اصناف میں تجربوں کی تقلیب کی صورتیں مختلف ہوا کرتی ہیں یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ مختلف اصناف کی شعریات موضوعاتی تقلیب کے مختلف قاعدوں کو بہ روئے عمل لاتی ہیں لہٰذا یہ قطعی ممکن نہیں کہ رواں دہائی کے تناظرات مختلف شعری و ادبی اصناف میں ایک ہی طرح کے تخلیقی عمل سے گزرتے ہوئے ادب کا روپ اختیار کر گئے ہوں۔ بلوچستان میں بھی مختلف اصناف نے اپنی شعریات کو قائم و برقرار رکھتے ہوئے نئے ذائقوں کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔ غزل یہاں کی سب سے خلاقانہ ادبی صنف کہلانے کی بجا طور پر حق دار ہے۔ یہاں کے ادبی اظہار کا کثیر سرمایہ اسی صنف میں محفوظ ہے۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد بھی اس صنف نے سب سے زیادہ اور ایک خاص حد تک سب سے موثر انداز میں یہاں کے تخلیقی رویوں کو پیش کیا ہے۔ غزل کے بارے میں ایک عام تاثر یہی ہے کہ یہ معروضی صورت حال سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں سست رو واقع ہوئی ہے اور اس کی عمومیت پسندی واقعاتی وابستگی کا اظہار دوسری شعری اصناف بالخصوص نظم کی طرح پیش کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ مگر یہ تاثر نظری اعتبار سے درست نہیں۔ بلوچستان کی غزل نے رواں دہائی میں جس طرح بدلتے ہوئے تقاضوں کی رفتار سے خود کو ہم آہنگ رکھا ہے اور جس طرح عمومیت کے باوجود خود کو لمحہ موجود سے مربوط رکھا ہے وہ غزل کے بارے میں غلط تاثرات عام کرنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور یہ بات صرف بلوچستان ہی نہیں مجموعی اردو غزل کے بارے میں بھی پورے اعتماد سے کہی جا سکتی ہے۔ بلوچستان میں رواں دہائی کے دوران جو اردو غزل خلق ہوئی ہے وہ یوں تو مجموعی اردو غزل سے غیر مربوط نہیں البتہ بعض اختصاصی پہلو نشان زد کیے جا سکتے  ہیں۔

قریب ہر غزل گو نے معاصر زندگی کے تجربات کو خالصتاً ذاتی تجربہ بنا کر تخلیقی تجربہ پیش کیا ہے۔ اس لیے ہر قابل ذکر شاعر دوسرے سے اسلوبی تشخص کی بنا پر ایک قابل مشاہدہ فاصلہ قائم کیے ہوئے ہے۔

مزاحمتی رویہ یہاں غزل میں نسبتاً زیادہ تخلیقی وفور کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔

بلوچستانیت یہاں کی غزل کی شعریات میں شامل ایک مرکزی حوالے کی حیثیت رکھتی ہے جسے اس دوران بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔

معاصر زندگی کی پیچیدگی یہاں کی غزل میں ابہام کی حد تک پیچیدہ ہوتی دکھائی نہیں دیتی تاہم ایک دو شاعروں کو استثناء قرار دیا جا سکتا ہے۔

بلوچستانی پینوراما سے جڑے استعارے یہاں کی غزل کا امتیاز ہیں۔ جو ہم عصر سیاسی بصیرت سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔

زمین شعر کی تخلیق میں یہاں کی روش مقلدانہ ہونے کے برعکس اختراعی ہے جس کا آہنگ عصری آہنگ کے تابع ہے۔

صوفیانہ انفعالیت کی تبلیغ یہاں کی غزل میں تقریباً مفقود ہے۔

ابتر حالات کے باوجود خدا کی ذات پر عقیدت مندانہ اعتقاد اور مسائل کے حل کے لیے اس کی قدرت پر ایقان یہاں کی غزل میں حمدیہ رنگ کو گہرا کرتا نظر آتا ہے۔

ان مسائل کا اور اک و اظہار یہاں کی غزل میں عام ہے جو نائن الیون سے قبل بھی یہاں کی پس ماندگی کے اسباب تھے اور آج بھی یہاں کے بنیادی انسانی مسائل ہیں۔

۷؎      کی ہی نہیں جب جادہ طرازی

پھر یہ ملال منزل کیوں ہے

اتنی دلکش ہوتے ہوئے بھی

افسردہ یہ محفل کیوں ہی‘‘

ٓٓ                                                 (عین سلام)

۸؎      جیسی ہے اک گھٹن، جیسی بیزاری بھی

ہر طلب کیوں نہ باد بہاری کی ہو

کن کے ہاتھوں ہوا کن کے ہاتھوں یہ ہے

ہر فضا جیسے اب گولہ باری کی ہو‘‘

(رب نواز مائل)

۹؎      خودکشی بھی جرم گوہر ! سرکشی بھی جرم ہے

جس قفس میں ہم ہیں اس  میں زندگی بھی جرم ہے

کس عدالت میں کھڑا ہوں میں کہ سچ کہنا محال

گفتنی بھی ناروا ! ناگفتنی بھی جرم ہے

بارگاہ شاہ عالی جاہ میں تو چپ ہے کیوں

بول! بول!! اس وقت تیری خامشی بھی جرم ہے

(سعید گوہر)

۱۰؎     رات نے جس کو مار دیا تھا سب سے پہلے

میں نے اس کا خواب لکھا تھا سب سے پہلے

ہمیں خبر تھی آزادی سے جینا کیا ہے

ہم نے اس کا نام لیا تھا سب سے پہلے

(بیرم غوری)

۱۱؎      کل ملا کر دو قبیلے ! وہ بھی ہر دم مشتعل

کیا کوئی ہابیل سے ہو، کیا کوئی قابیل سے

جس کو میری خود کشی بھی کچھ نہیں سمجھا سکی

بات کیا اس کی سمجھ میں آئے گی تمثیل سے

(عرفان الحق صائم)

۱۲؎     تمھارے ساتھ سکھ کی منزلوں پہ ہم نہ ہوں گے

کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کو خسارا دیکھنا تھا

مری آنکھوں کو بینائی سے بڑھ کر کچھ عطا کر

اندھیرا کس نے سینوں میں اتارا دیکھنا تھا

(سرور جاوید)

۱۳؎     کوئی سودا نہ اس پر بات واجہ

ترے باعث ہے ہم پر رات واجہ

بسر ہوتے ہیں دن سولی پہ جیسے

وہی اب تک مرے حالات واجہ

مرے رستوں پہ میرے ساحلوں پر

لگا رکھی ہے تو نے گھات واجہ

(افضل مراد)

۱۴؎     اندھیرے میں سفر ہوتا رہا تو کون دیکھے گا

تھکن سے رہنما بیٹھا کہ پہلے لوگ بیٹھے ہیں

اب اس بستی کے ہر گوشے پہ اس کی ہے عمل داری

اب اس بستی کے ہر ناکے پہ اس کے لوگ بیٹھے ہیں

(راغب تحسین)

۱۵؎     نہ جانے کب سے تیری مئے تلخ پی رہے ہیں

غم زمانہ ! ہمیں ترا زہر مار دے گا

اگرچہ ہم سلطنت سے محروم ہو چکے ہیں

مگر خداوند پھر ہمیں اقتدار دے گا

(ڈاکٹر عصمت درانی)

۱۶؎     پھر چلا ہوں رستے پر پتھروں کی بستی کے

اور جسم کے اندر خواب کا چھناکا ہے

چل رہی ہیں وادی میں پھر ہوائیں برفیلی

یہ اثر منیر اپنی دھوپ کی دعا کا ہے

(منیر رئیسانی )

۱۷؎     کہیں یہ آخری منظر بھی معجزہ تو نہیں

ہوائیں تیز ہیں لیکن دیا جلا ہوا ہے

عجیب شہر طلسمات ہے کہ جس میں نوید

کہیں چراغ، کہیں آئینہ پڑا ہوا ہے

(نوید حیدر ہاشمی)

۱۸؎     اک نئے موسم کا کفارہ ادا ہوتا ہوا

دیکھتا ہوں شاخ سے پتہ جدا ہوتا ہوا

میر کے اشکوں میں میری زندگی ڈھلتی ہوئی

اور مجھ سے میرا ہم سایہ خفا ہوتا ہوا

(محسن چنگیزی)

۱۹؎     ترا فراق دل و جاں کو راکھ کر دے گا

مرے حبیب اب اتنا بھی خوش گمان نہ ہو

ذرا سی دیر میں سیلاب گھر تک آ پہنچا

ذرا سی دیر میں ممکن ہے یہ مکان نہ ہو

(طالب حسین طالب)

۲۰؎    اتنا آساں نہیں منظر کا نیا ہو جانا

تم اگر دیکھتے رہنا تو فنا ہو جانا

مشتہر کرنا بھرے شہر میں خود کو غائب

اور چپکے سے کہیں جلوہ نما ہو جانا

(احمد شہریار)

۲۱؎     بدن جلاؤ کہ اب اور کوئی چارہ نہیں

ستم گزیدہ شب اور کوئی چارہ نہیں

ہمیں خبر ہے کہ اب جان سے گزرنا ہے

ہمیں خبر ہے کہ اب اور کوئی چارہ نہیں

(احمد وقاص)

یہ اشعار اس حقیقت کے غماز ہیں کہ غزل نے اپنی استعاراتی تشکیل کی معنویت کو عصری تناظرات سے وابستہ کر رکھا ہے لہٰذا رواں دہائی کی غزل کسی بھی طرح اس دہائی کے منظر نامے سے غیر وابستہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ ایک حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ غزل کے تسلسل سے چلے آ رہے استعاروں نے بھی موجودہ صورت حال میں اپنی معنویت کی نئی جہات دریافت کی ہیں۔ تلازمات اگر تبدیل نہیں بھی ہوئے تو بھی ان کا سلسلہ معانی ضرور بدل گیا ہے۔ غزل اپنی اس تخلیقی استعداد میں کوئی ثانی نہیں رکھتی کہ اس نے کم ذخیرہ الفاظ اور محدود استعاروں سے لامحدود کام لیے ہیں۔ اس خوبی کو عام طور پر مطالعات غزل میں نظر انداز کر کے اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔

نظم نے بھی رواں دہائی کے بحران کو تخلیقی محرک کے طور پر استعمال کیا ہے اور واقعات کے تناظر میں فوری رد عمل سے تخلیقی رد عمل تک کے تمام مراحل شدومد سے طے کیے ہیں۔ نظم نے اپنی ہیئتی لچک، جزئیات نگاری اور فضا بندی کی خصوصیات سے بہ طور خاص استفادہ کرتے ہوئے عصر رواں کی صورت حال کے مقابل تخلیقی صورت حال کی پیش کش کے ذریعے تفہیم، تردید اور تعمیر کے زاویے مہیا کیے ہیں اور رواں دہائی کے اہم فکری استفہامیوں کے مقابل تخلیقی استفہامیے قائم کرنے کی روایت کو نئی زندگی دی ہے۔ جس سے ادبی روایت مستحکم ہوئی ہے اور پیچیدہ تر ہوتی ہوئی انسانی زندگی میں تہذیبی عمل کو سمجھنے اور گرفت میں لینے کی ادبی استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

بلوچستان میں غزل کے مقابلے میں نظم کم لکھی گئی ہے تاہم رواں دہائی کی تخلیقی ضرورتوں نے یہاں نظم کے لیے فضا ہم وار کرنے میں خاص کردار ادا کیا ہے۔ نظم کو رواں دہائی کی اس نمائندہ تخلیقی صنف کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ جس نے معاصر رجحانات سے فکری و تخلیقی مکالمہ پیدا کیا ہے۔ یہ مکالمہ غزل میں اشارات کی صورت جب کہ نظم میں پوری صراحت کے ساتھ منقلب ہوا ہے۔

۲۲؎    حاضرین، حاضرین

معزز حاضرین

مصوری میں آزادی اظہار کا اعلی ترین تمغہ وصول کرتے ہوئے

میں سوچتا ہوں

اے کا ش میں اپنے خطہ مولود کا وہ جبر بھی پینٹ کر سکتا

جس کی جھلک معاشرے کی ادھ کھلی کھڑکی کے پردے کے سرکنے سے                           اک شب اچانک

آسماں پر میں نے دیکھا

عجیب منظر تھا حاضرین

کہ میں نے دیکھا

دو سہیلیاں

سورج اور سماج کی اقدار کی پاس داری کے تئیں

اپنے گھر کی چھت سے

آسماں کی تاریکی میں

ایک سفید پتنگ اڑانے کی کوشش کر رہی ہیں

معزز … حاضرین

کالے آسمان پر سفیدپتنگ!!

تیز ہوا میں کسی آزاد پرندے کی طرح اڑنے کی خواہش

تاریکی کے دیو زاد سے معصومانہ لڑنے کی خواہش

دو سہیلیوں کی امن و محبت سے جینے کی خواہش!

خواہش کا پر تو

کسی کرن کی لو

کاش میں پینٹ کر سکتا

آسمان کی سیاہی

اور اس میں اڑتی ایک سفید پتنگ

حاضرین! معزز حاضرین !

الجھے لوگوں کی نظم (محسن شکیل )

…………………………

۲۳؎    خواب بیچنے والے

شہر میں بہت ہیں پر

مشتری بنے ان کا

اس لیے

کہ سارے خواب

ہیں وہی پرانے اور

عہد نو کی تعبیر یں

ان میں

مل نہیں پاتیں

پرانے خواب( ڈاکٹر علی کمیل قزلباش)

…………………………

۲۴؎    نوا حلقوم میں اٹکی

معانی و مطالب کی گھٹن آزردگی میں

موت کا منظر لیے ہے

 

چشم بینا کی تھکن کی تیرگی کا

روشنی میں ڈوبا سایہ سوچتا ہے

 

ہر صدائے لاحد و امکاں کی الجھن

لڑکھڑاتی ہے مرے سینے کے بن میں

اور بے مفہوم میری قید سانسیں

تنگ آواز یں کوئی مفہوم یا تو ضیح نہیں رکھتیں

(کوئی توجیہ نہیں ممکن)

نوا حلقوم میں اٹکی

بعید سمے کی بات(علی بابا تاج)

…………………………

۲۵؎    دھواں اٹھنے لگا ہے گنبدوں سے

جلائی جا رہی ہیں پاک روحیں

مساجد کے در و دیوار پر چھینٹے لہو کے

فضا ماتم کناں ہے

ہوا شوریدہ سر ہے

موذن خاک کی چادر لپیٹے سو رہے ہیں

خدا ناراض توکل تک نہیں تھا

مگر اب رابطے سب منقطع ہیں

نہ جانے کون سی سازش ہوئی ہے آسماں پر

جو آدم بٹ رہے ہیں

ہمارے اپنے تن سے اپنے ہی سرکٹ رہے ہیں

کہانی ایک ہی لکھی گئی تھی

فقط کردار بدلے جا رہے تھے

اچانک کیا ہوا ہے

ملایا جا رہا ہے خیر و شر کو

مٹایا جا رہا ہے بحر و بر کو

زمانے کے قدم تھکنے لگے ہیں

خدا اگلی کہانی لکھ رہا ہے

پردہ گرنے والا ہے ( قندیل بدر)

بلوچستان کی دیگر تخلیقی زبانوں کا منظر نامہ اردو سے زیادہ مختلف نہیں مگر مقامی ثقافت کے اثرات کے باعث ان کا ذائقہ قدرے مختلف ضرور ہے۔ ثقافتی وابستگی نے ان زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب میں وہ رچاؤ پیدا کیا ہے جو بڑی حد تک اردو ادب میں کم یاب ہے۔ بلوچستان کی ہر قوم چوں کہ اپنا منفرد ثقافتی اور تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ اس لیے جذباتی رد عمل اور فکری تجزیے میں ہر زبان بعض اختصاصی زاویوں کی حامل نظر آتی ہے۔ انھی اختصاصی زاویوں نے تخلیقی تحلیل و انجذاب کے بعد ان زبانوں کا ادبی منظر نامہ ترتیب دیا ہے۔ یہاں ان تمام زبانوں کے تخلیقی سرمایے کا احاطہ ممکن نہیں نہ ان سب زبانوں کے ادب کا تجزیہ پیش کرنا مقصود ہے۔ تاہم ہر زبان سے تخلیقات کے تراجم یہ باور کرانے میں مددگار ہو سکتے ہیں کہ ان زبانوں نے رواں دہائی کی صورت حال کو حسی اور فکری فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تخلیقی عمل کا حصہ بنایا ہے اور یہ تخلیقی سرمایہ کسی طرح بھی پاکستان اور دنیا کی دیگر تخلیقی زبانوں سے کم تر نہیں۔

۲۶؎     شک کی مٹی اور دھول

مسلسل

اپنے بدن سے جھاڑ رہا ہوں

شاید اپنے وجود کے لیے دعا مانگ رہا ہوں

شاید اپنے وجود کے لیے بقا مانگ رہا ہوں

جب زرد پتے دیکھتا ہوں

آنکھیں بند کر لیتا ہوں

ہست و نیست کے

مبہم دائرے میں کھڑا ہوں

میں یقین کی جنت کے

نیم وا دروازے میں کھڑا ہوں

نیم وا دروازے میں منتظر(پشتو)محمود ایاز

…………………………

۲۷؎    میری نظم کی دہلیز کے سائے میں

جو چٹائی کے نشاں ہیں

ان پر

دو چڑیوں کے کٹے پر ہیں

اور آنسوؤں کی دو بوندیں

تم لوگوں کی شکایت کس سے کرو گے!

میں نادار کوئی آدم زاد

میری نظم کی دہلیز کے سائے میں

میرے سہمے ہوئے خوابوں کا ہجوم

ستم زدہ

عصمت گنوائی ہوئی دوشیزہ کی طرح برہنہ

یہ خاک میں لتھڑے ہوئے الفاظ

تجھے آشا کی کرن دکھلائیں

تو چلے آؤ

میری نظم کی دہلیز کے سائے میں

میری نظم کی دہلیز کے سائے میں (بلوچی)قاسم فراز

…………………………

۲۸؎    خوف نے چاروں جانب گھیرا تنگ کیا ہے

میری بستی میں وبائی مرض کی طرح

پھیل گیا ہے

میں اس کے خلاف ہواؤں سے لڑ رہا ہوں

یہ خوف کس کی پیداوار ہے

کہاں سے کن راستوں سے

میرے خون میں سرایت کر گیا ہے

جسم میں رواں خوف تھمنے لگا ہے

سانس اکھڑنے لگا ہے

آؤ چاروں جانب پھیلے

سناٹے سے کچھ تو بولیں

سناٹا (براہوی ) وحید زہیر

…………………………

۲۹؎     مجھے اس رات کی نیت پر شک ہے

بہت تاریک ہے

مرے مظلوم دوستو!

آج اپنے گھر کے دروازے

کواڑ، چٹخنیاں، ذرا مضبوط رکھنا

اور پھر سونے نہ دینا اپنی آنکھوں کو

ہمیں آج اپنا حوصلہ

اپنی بیداری دکھانی ہے

اندھیرا حد سے زیادہ ہے

اندھیرے کی سپاہ

آج بھیڑیے اور باؤلے کتے

نکل آئیں گے پھر

آوارہ گر دی کرنے

اپنے اپنے غاروں سے

مجھے اس رات کی نیت پر شک ہے

بہت زیادہ اندھیری ہے

آج کی رات

آنکھیں سونے مت دینا (براہوی )افضل مراد

…………………………

۳۰؎    یہ دنیا زور آور کی دنیا ہے لوگو

یہاں کم زور جتنے بھی ہیں

سارے

کفن پہنے ہوئے

قبروں سے باہر ہی کھڑے ہیں

مرے خطے میں رہنے والے انسان

بہت مظلوم ہیں

کہ اس دنیا نے آنکھیں موڑ لی ہیں

کہ اس کے کانوں سے

مظلوم کی فریاد ٹکراتی نہیں ہے

کہیں پر جہل کا بازار ہے گرم

کہیں پر ظلم رکتا ہی نہیں ہے

ہمارا آج نامعلوم

ہمیں کل کی خبر بھی کچھ نہیں ہے

کہ ہم کم زور ٹھہرے                                                                              زور آور دنیا (ہزارگی) قادر نائل

مابعد نائن الیون بلوچستان کی زبانوں میں تخلیق کیے جانے والے ادب نے رواں دہائی میں انسانی جذبات و احساسات اور فہم و بصیرت کے جمالیاتی اظہار کی عالمی صورتوں سے اپنے انفرادی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے رشتہ ارتباط قائم کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تمام ادب کی تفہیم و تعبیر کے ذریعے ان پہلوؤں تک رسائی حاصل کی جائے جن کے ذریعے ادب نے ہم عصر صورت حال کی تفہیم و تعبیر اور تقلیب کے مراحل طے کیے ہیں اور بہ جائے یہ دیکھنے کہ کہاں معروض بے کم و کاست موزوں و منظوم ہو گیا ہے یہ دیکھا جائے کہ معروض کو موضوع اور موضوع کو معروض میں تحلیل کرنے والے تخلیقی عمل نے کتنے بہروپ دھارے ہیں اور سیرتی، صورتی اور صوتی عناصر کی نسبت ترکیبی نے کس طرح تبدیل ہوتے ہوئے ادبی منظر نامے کو نیرنگی عطا کی ہے نیز اجنبیت اور نامانوسیت کی مقدار میں کمی اور اضافے نے کس طرح عصری وابستگی اور روح ادب میں توازن و ہم آہنگی پیدا کرنے میں معاونت کی ہے۔ نیز کس طرح تخلیق کاروں نے رائج بصیرتوں کے مقابل ادبی ڈسکورس کے تابع موقف اختیار کرنے کا جرأت مندانہ تخلیقی اقدام کیا ہے۔ رواں دہائی کے ادب میں ا نھی استفہامیوں کے جوابات کی تلاش اس حقیقت تک رسائی میں ہماری مددگار ہو گی کہ زیادہ اہم تخلیقی کام عصر کے تابع نہیں بل کہ عصر زیادہ اہم تخلیقی کام کے تابع ہوا کرتا ہے۔ ادب تینوں زمانوں کو محیط ہوتا ہے۔ بل کہ زمان و مکاں کے ساتھ لازماں و لامکاں بھی اس کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ ادب کا اپنے قائم کیے ہوئے اسی معیار پر پورا اترنا ضروری ہے کہ اسی طرح آیندہ کی تعمیر درست نہج پر ہو سکتی ہے۔

 

                   حواشی

 

۱۔ نوم چومسکی :  ’’دہشت گر دی کی ثقافت ‘‘ ، مترجم، سید کاشف رضا، کراچی، شہر زاد، ۲۰۰۳ء، ص ۴۸

۲۔ ایضاً، ص۴۸، ۴۹

۳۔ ناصر عباس نیر: ’’مابعد جدیدیت، نظری مباحث‘‘ ، حصہ اول، لاہور، مغربی پاکستان، اردو اکیڈیمی،  سن ندارد، ص ۲۶۸

۴۔ نوم چومسکی :ص ۴۹

۵۔ ناصر عباس نیر:ص ۲۷۴، ۲۷۵

۶۔  ’’دنیا زاد، ۶‘‘ ، ترتیب و تالیف، آصف فرخی، کراچی، شہرزاد، مئی ۲۰۰۲، ص ۱۵۶، ۱۵۷

۷۔ ماہنامہ  ’’جواز‘‘  کوئٹہ، مدیر اعلیٰ، راحت ملک، کوئٹہ، سپنزر پرنٹرز، جولائی ۲۰۰۷ء جلد ۱، شمارہ ۸، ص پس سرورق

۸۔ ایضاً: اکتوبر ۲۰۰۷ء، جلد ۱، شمارہ ۱۱، ص ۲۵

۹۔ ایضاً: جولائی ۲۰۰۷ء ، ص ۴۰

۱۰۔ کتابی سلسلہ ’’حرف‘‘ ، مدیر، سید نوید حیدر ہاشمی، کوئٹہ، رائٹرز فورم، ستمبر۔ دسمبر۲۰۱۰ء، جلد۱، شمارہ ۱، ص ۲۰۷

۱۱۔ سہ ماہی  ’’ قلم قبیلہ ‘‘  کوئٹہ، مدیر، بیرم غوری، کوئٹہ، قلم قبیلہ ادبی ٹرسٹ جنوری۔ مارچ ۲۰۰۲ء، جلد۱۲، ص ۱۵۴

۱۲۔ ایضاً:ص ۱۵۵

۱۳۔ افضل مراد:  ’’ برف پر جلتے دیے ‘‘ ، کوئٹہ، قلات پبلشرز، ۲۰۰۷ء، ص ۹۷، ۹۸

۱۴۔ ماہنامہ  ’’ جواز‘‘ ، کوئٹہ، اکتوبر ۲۰۰۷ء، ص ۲۹

۱۵۔ عصمت درانی، ڈاکٹر،  ’’دھوپ کی آواز‘‘ ، لاہور، عکس پرنٹرز، ۲۰۰۷ء  ، ص۱۱۰، ۱۱۱

۱۶۔ منیر رئیسانی، ڈاکٹر،  ’’ روشنی گلابوں پر ‘‘ ، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، ۲۰۰۷ء، ص ۱۱۱

۱۷۔ کتابی سلسلہ ’’حرف‘‘ ، کوئٹہ، ستمبر، دسمبر۲۰۱۰ء، جلد۱، شمارہ ۱، ص ۲۲۶

۱۸۔  ’’ دبستان‘‘  لاہور، ۶، سرپرست، مرتضی بکر لاس، لاہور، العصر پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء، ص۷۲

۱۹۔ ماہنامہ  ’’ جواز‘‘ ، کوئٹہ، اکتوبر ۲۰۰۷ء ، ص ۲۷

۲۰۔ ماہنامہ  ’’ سنگت‘‘ ، کوئٹہ، مدیر شاہ محمد مری، کوئٹہ، سپنزر پرنٹرز، ستمبر ۲۰۰۸ء، جلد ۱۰، شمارہ  ۱۱، ص ۳۶

۲۱۔ احمد وقاص،  ’’ ستارے منتظر ہیں ‘‘ ، لاہور، الحمد پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء، ص ۱۴۱، ۱۴۲

۲۲۔ سہ ماہی ادبیات، (خصوصی شمارہ : نثری نظم )، مدیر، محمد عاصم بٹ، اکتوبر۲۰۰۷، مارچ ۲۰۰۸، جلد    ۱۸، شمارہ ۷۷۔ ۷۸، ص۱۱۹

۲۳۔ ایضاً:ص ۱۴۱

۲۴۔ علی بابا تاج،  ’’ مٹھی میں کچھ سانسیں ‘‘ ، کوئٹہ، فکر و عمل، ۲۰۰۷ء، ص ۵۴

۲۵۔ ماہنامہ  ’’ جواز‘‘ ، کوئٹہ، اگست/ ستمبر  ۲۰۰۷ء، ص ۵۰

۲۶۔ محمود ایاز،  ’’ بیازہ ہم پہ سایہ بدل شوم‘‘ ، کوئٹہ، سکام ادبی اکیڈیمی، ۲۰۰۶ء، ص ۱۰۵

۲۷۔  ’’ پاکستانی ادب‘‘ ۲۰۰۳ء (شاعری)، مرتبین، سحرانصاری، شاہدہ حسن، اسلام آباد، اکادمی                ادبیات، ۲۰۰۴ء، ص ۲۲۴

۲۸۔ سہ ماہی  ’’ ادبیات‘‘ :ص۴۶۵

۲۹۔  ’’ پاکستانی ادب‘‘ :۲۰۰۶ئ(شاعری )، مرتبین، عباس تابش، ڈاکٹر ابرار احمد، اسلام آباد،

اکادمی ادبیات، ۲۰۰۱ء، ص ۲۴۱

۳۰۔  ’’ سہ ماہی منجی ‘‘ ، کوئٹہ، فروری ۲۰۱۰ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

معاصر پشتو غزل اور حمزہ شنواری

 

تنقید اپنے آسان ترین مفہوم میں بھی معنی کی تلاش کا عمل ہے اور اس بات سے ادب کا ہر سچا قاری بہ خوبی واقف ہے کہ تلاش معنی، شعری متن میں نثری متن سے زیادہ مسائل اور مشکلات رکھتی ہے نیز یہ مسئلہ اور مشکل اس وقت اور بھی مشکلات پیدا کر دیتی ہے جب تنقیدی عمل کے لیے موجود شعری متن اس زمانے سے تعلق نہ رکھتا ہو جس زمانے سے متن کے قاری کا تعلق ہو، اس لیے کہ قاری کے شعور کا ارتقا مختلف تقاضوں کے زیر اثر ہوتا ہے جب کہ شاعر نے شعور کے ارتقائی مراحل دیگر تقاضوں کے زیر اثر طے کیے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے۔ کہ جب تک قاری اور شاعر کے شعور میں مطابقت پیدا نہ ہو تنقیدی عمل کا اجرا امکان نہیں رکھتا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ مطابقت کس طرح پیدا کی جا سکتی ہے ؟یا تو یہ ممکن ہے کہ قاری اس زمانے کے شعور تک رسائی حاصل کرے جس میں شاعر شعری بلوغت کی منزل تک پہنچا ہو اور یہ بھی جاننے کی کوشش کرے کہ اس زمانے تک شعری عمل کن مراحل سے گزر چکا تھا اور اس کی شعریات (گرامر)کیا تھی؟یا پھر یہ ممکن ہے کہ قاری شعری متن کا مطالعہ اپنے زمانے کے شعری مزاج، تنقیدی معیارات اور عصری بصیرتوں کی روشنی میں کرے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ دونوں طریقوں میں کون سا طریقہ زیادہ موزوں نیز زیادہ تنقیدی معقولیت رکھتا ہے؟

ادبی تھیوری کے طالب علم اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہیں کہ ہر شے کا مطالعہ موضوع کے بجائے معروضی حیثیت سے کرنا بہتر منطقی رویہ ہے اور معروضی مطالعے کا تقاضا یہی ہے کہ ہم پرانے متن کا مطالعہ موجودہ تقاضوں کے مطابق کریں کیوں کہ اسی طرح ہم پرانے متن کو تنقید کے معروضی مطالعے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

آج کا شعری مزاج، تنقیدی معیارات اور عصری بصیرتیں کیا ہیں ؟اس سوال کا جواب فراہم کرنے کی مجھے یہ مضمون اجازت نہیں دیتا پھر بھی میں خود کو اس فریضے کی ادائیگی سے دست بردار نہیں سمجھتا، البتہ یہاں نثری وضاحتوں کے بجائے ہم عصر شاعری سے چند مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جو آج کے شعری مزاج، تنقیدی معیارات اور عصری بصیرتوں کی تخلیقی ترجمانی کرتی ہیں۔

۱؎       پتھر لوگ، ثابت سالم گھر سے نکلتے ہیں

تم دیکھنا، ریزہ ریزہ مسمار ہو کر لوٹیں گے

(سعید گوہر)

۲؎      اگر لوگوں سے چھپنا چاہتے ہو تو روشنی میں آ جاؤ

تم ستارے کی طرح نمایاں ہو کیوں کہ اندھیرے میں رہتے ہو

(درویش درانی)

۳؎؎      یا تو رستے کا انتخاب غلط ہے

یا پھر منزل تک بسیں اور ہیں

(سہیل جعفر)

۴؎      انھیں ایک کفن میں چھپا دو، ایک قبر میں دفنا دو

میرے سامنے پورے شہر کی دیواروں کے مردے پڑے ہیں

(محمود ایاز)

۵؎      اگر میں رات کے سکوت کی زبان سیکھ سکا

تو درخت کی طرح چپ رہ کر سب قصے سنا دوں گا

(راز محمد راز)

۶؎              کس رستے پر جائیں ؟ ہر رستے میں تو کھڑا ہے

تیرے وجود کے سائے سے آدمی کس طرح باہر نکل سکتا ہے

(ریاض تسنیم)

۷؎      آسمان کا گھر ہماری پگڑی کے پیچ کی اوج پر رکھا ہے

بات کا آغاز ہی مونچھوں کے ترچھے پن سے درست نہیں کیا جاتا

(رازق فہیم)

۸؎      قدم قدم ہمارا سامنا نظر کے حادثوں سے ہے

ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں

(نور الاسلام سنگر)

۹؎      پھر کسی کے کمرے میں آگ لگی ہے

پھر آدھی رات کو بستی کے بیچ شور ہے

(عبدالرؤف عارف)

۱۰؎     عجیب سفر ہے جب انتہا کے نقطے تک پہنچتا ہوں

تو وہ ایک اور سفر کی ابتدا نکل آتی ہے

(قیصر آفریدی)

۱۱؎      طائر نے اس گرد بادوں کی فضا میں

اپنے نقش قدم کا اشتہار سلامت رکھا ہے

(طائر زلاند)

یہ اشعار میں نے کوئی زیادہ محنت سے منتخب نہیں کیے لیکن پھر بھی ان کی ساخت اس عصر کی نمائندگی کا فریضہ پورے حسن سے ادا کرتی ہے۔ آخر یہ اشعار کس معیار کی وجہ سے آج کا شعری اظہار ہیں ؟پہلی بات تو یہ ہے کہ ان اشعار میں سے ایک شعر بھی بہ راہ راست اظہار کا پیرایہ نہیں رکھتا یعنی ہر شعر نے اظہار کی استعاراتی زبان کو برتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان اشعار میں استعارے صرف مشابہتی منطق کے تحت استعمال نہیں ہوئے، ۔ تیسری بات یہ کہ ہر شعر کا کلیدی استعارہ ہم عصر زندگی کے ایک اہم مسئلے کی نمائندگی بھی کرتا ہے یعنی عصری ترجمانی کے باوجود بھی یہ اشعار اپنے مفاہیم لفظوں پر چسپاں کرنے کا رویہ نہیں رکھتے بل کہ لفظ کے معنوی ابعاد وا رکھتے ہیں۔ ان اشعار کے خالق اپنے شعروں پر اقتدار کی خواہش نہیں رکھتے بل کہ نئے زمانے کے ذہین قاری کی تفہیمی استعداد کی قدر کرتے ہیں اس لیے یہ اشعار تناظر کی تبدیلی پر اپنے معانی میں غیر معمولی وسعت پیدا کرتے ہیں۔

یہ دعویٰ ان اشعار کے تجزیے کا تقاضا کرتا ہے لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے میں یہ تجزیہ سہیل جعفر کے شعر کے ایک استعارے تک محدود رکھتا ہوں۔  ’’بس‘‘  صنعتی پیش رفت کا ایک معمولی یعنی معمول کا استعارہ ہے لیکن شاعر نے اس استعارے کے ذریعے ہم عصر سیاسی صورت حال کی عکاسی بھی کی ہے، ما بعد الطبیعاتی جہت کے انتخاب کا سوال بھی اٹھایا ہے، رومانی رسائی یعنی وصال محبوب کی منزل تک رسائی کے لیے ذریعے کی عدم سعادنت کا گلہ بھی کیا ہے اور روز مرہ زندگی کی مصروفیات میں گھرے ہوئے ایک بد حواس فرد کا المیہ بھی واضح کیا ہے نیز اسی طرح نہ جانے کتنے مفاہیم اور بھی اس استعارے کے ذریعے بیان ہوئے ہیں۔ اب اگر ان تمام تناظرات میں شعر کا تجزیہ کیا جائے تو یقیناً اس کی کتاب برابر تشریح با آسانی کی جا سکتی ہے۔

نئی غزل کے اس معیار پر اور اس تناظر میں حمزہ کی غزل کیا معنوی اور اقداری قدر و قیمت رکھتی ہے؟ان سوالوں کا جواب آسان نہیں۔ ان سوالوں کا جواب فراہم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ حمزہ کے حوالے سے پشتو ناقدین کی آرا کا اجمالی جائزہ پیش کیا جائے۔

۱۲؎     ’’ہر قوم اور عوام اپنی تہذیب اور ثقافت رکھتی ہے اور اس لیے ایک قوم اور اجتماع کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے۔ حمزہ بابا پشتو زبان کے وہ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے پشتو غزل اور نظم کو پشتون تہذیب اور ثقافت کی اصطلاحات عطا کی ہیں مثلاً شملہ، پٹکے، جرگہ، تیژہ، ننواتی، بدرگہ اور پشتون ولی وغیرہ اور انھیں اس ہنر سے برتا ہے کہ غزل اور نظم کی جبیں پر شکن تو چہ جائے کہ اس کا رنگ اور حظ اور بڑھ گیا ہے۔ دنیا میں کئی بڑے بڑے لکھنے والے گزرے ہیں جنھوں نے فن و ادب کا معیار بلند رکھا ہے مثلاشیکسپیئر، شیلے، ورڈزورتھ، کیٹس، چیخوف، موپساں، ٹالسٹائی، غالب، علامہ اقبال، جوش اور فیض وغیرہ لیکن ان میں ایک نے بھی اپنی تہذیب و ثقافت کو فن و ادب کی زبان عطا نہیں کی۔ حمزہ بابا دنیا کا وہ آفاقی اور نابغہ ادیب ہے جس نے اپنی تہذیب و ثقافت کو فن و ادب کی شیریں و گداز زبان عطا کی۔ ‘‘

یہ نا قدانہ رائے حمزہ سے عقیدت کے اظہار اور بعض ثقافتی اصطلاحات کی نشان دہی کے لحاظ سے تو درست ہے مگر دیگر ادبا سے تقابل کے اعتبار سے کوئی ناقدانہ وقعت نہیں رکھتی بل کہ ناقدانہ نا انصافی کہلائی جا سکتی ہے۔ در حقیقت یہ مسئلہ اصطلاحات سے عدم واقفیت کے سبب پیدا ہوا ہے شاید نقاد تہذیب و ثقافت کے حقیقی مفاہیم سے آگاہ نہیں ورنہ وہ اتنے اہم ادبا پر الزام نہ لگاتا اور صرف بعض اصطلاحات کے استعمال کی بنا پر حمزہ کو تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کا شرف دیتے ہوئے بین الاقوامی تناظر میں ممتاز بھی نہ ٹھہراتا۔

یہ بات حمزہ کی غزل کے حوالے سے بالکل درست ہے کہ وہ ثقافتی اصطلاحات کے استعمال کے اعتبار جداگانہ تشخص رکھتے ہیں البتہ اس اعتبار سے خوشحال سے ان کے تقابلی مطالعے کی ضرورت بہ ہر حال محسوس ہوتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ثقافتی اصطلاحات متعین مفہوم کی حامل ہوتی ہیں اور تخلیقی اضافوں اور تخیل کی کارکردگی کی گنجائش کم کم فراہم کرتی ہیں لہذا در ایں صورت حال جو شعر ثقافتی اصطلاح کی اساس پر قائم کیا جائے گا وہ معنوی وسعت سے عاری ہو گا اور اس کی معنوی جہتیں ایک جہت تک محدود ہو کر رہ جائیں گی نتیجتاً تناظر کی تبدیلی سے اس میں کوئی معنوی اضافہ نہیں ہو گا۔ لہذا اس بات کو ہم عصر شاعری کے تناظر میں قابل تحسین قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری بات یہ کہ شعری زبان اصطلاحات کے استعمال کے نتیجے میں بہ راہ راست اظہار سے قریں تر ہو جاتی ہے جب کہ اعلی شاعری بہ راہ راست زبان کا استعمال نہیں کرتی لہذا اس بنا پر تو حمزہ کو آفاقی شاعر کسی طرح قرار نہیں دیا جا سکتا۔ درحقیقت پشتو شاعری سیاست کے زیر اثر رہی ہے اس لیے ان کی شاعری کے اس پہلو کو دیگر پہلوؤں پر فوقیت دی گئی ہے۔ سیاسی اہمیت اپنی جگہ مگران کی شاعری کا یہ پہلو ہم عصر شعری مزاج میں تحلیل نہیں ہوا اور یہ بات صاف ہے کہ وہی غزل اہم کہلائی جاتی ہے جو وقت کے ساتھ سفر کی استعداد رکھتی ہو نیز جس کے معنوی امکانات زیادہ سے زیادہ ہوں۔ جب کہ پشتون ولی کے حوالے سے ان کے اکثر اشعار معنوی امکانات کے لحاظ سے محدود نظر آتے ہیں لیکن اس معنوی تحدید کے باوجود حمزہ کی شاعری کا یہ پہلو اس لیے قابل تحسین ہے کیوں کہ خوشحال کے بعد پشتون قوم میں قومی شعور اور اجتماعی اتحاد کے حوالے سے ان کی شاعری نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ حمزہ کے حوالے سے ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ ان کی غزل میں معروضی اظہار بھی ہے اور روایت و جدت کا امتزاج بھی۔

۱۳؎     ’’حمزہ کی شاعری قدیم وجدید اور نئی طرز کا خوب صورت امتزاج ہے نیز غزل کی روایتی صنف میں حمزہ کے تجربے اور جدتیں تحسین کی مستحق ہیں۔ وہ اپنے دل کے تاروں پر جو گیت گاتا ہے اس میں ایک طرف گزری صدیوں کے سازوں کی آواز گونجتی ہے اور دوسری طرف موجودہ صدی کی صدائیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ ‘‘

یہ رائے حمزو کی غزل کے حوالے سے اختصاصی اس لیے نہیں ہے کیوں کہ مدلل وضاحت نہیں رکھتی۔  ’’جدید‘‘ کا لفظ جدیدیت سے اخذ کردہ ہے اور ان کی شاعری میں جدت تو ہے مگر جدیدیت ہر گز نہیں۔ اصل میں متذکرہ رائے مکمل معروضی تنقید کا تقاضا کرتی ہے جسے اب تک پشتو تنقید کا غالب رجحان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے اگر قدیم و جدید کے امتزاج کی بات اور عصری بصیرت کی موجودگی کا دعویٰ درست بھی ہو تو اس رائے کی حد تک اسے تنقیدی رائے نہیں کہا جا سکتا یہ منطقی دلیل سے عاری محض ایک تبصرہ ہے۔ حمزہ اور دیگر پشتون لکھاریوں کے بارے میں دی گئی آرا اکثر منطقی دلائل سے عاری ہیں۔ اس لیے پشتون شعراء کی درجہ بندی پر یقین کرنا غیر علمی اور غیر تنقیدی رویہ ہے۔ حمزہ کے حوالے سے ایک اور تبصرہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ان کے ما بعد تقریبا ہر شاعر ان کا مقلد ہے اور حقیقی جو ہر ایک بھی تخلیق کار میں صحیح طور پر موجود نہیں، دوسری بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ خوشحال کے بعد پشتو غزل کا واحد معتبر اور اہم نام حمزہ شنواری کا ہے۔

۱۴؎     ’’بیسویں صدی اس اعتبار سے بھی نہایت اہم اور خوش بخت ہے کہ اس نے پشتو ن عوام، پشتو زبان اور پشتو ادب کو خوشحال بابا کی طرح حمزہ بابا کی صورت میں ایک نابغہ (Genius)سے نوازا۔ فی الحقیقت حمزہ شنواری کا نام اور کام نہ تو ضائع ہوسکتا ہے نہ ہی فراموش کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کلام اور پیغام ایک ابدی اور آفاقی رنگ اور آہنگ کا حامل ہے۔ ان کی فکر کی شعاعیں پورے پشتو نخوا پر دھوپ کی طرح پھیلی ہوئی ہیں جس سے ہر شخص مستفید ہوا ہے اور جس کا ہر کوئی مقلد ہے۔ جب تک پشتون زندہ ہیں وہ بھی ان کے ہم راہ زندہ رہیں گے۔‘‘

اس تنقیدی رائے پر بعض استفہامیے قائم کرنا میں نہایت ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلا یہ کہ کیا واقعی حمزہ خوشحال کے بعد واحد اہم شاعر ہیں اور ان کی حیثیت نابغہ کی ہے؟دوسرا یہ کہ حمزہ کے کلام کے آفاقی اور ابدی معیار کی دلیل کیا ہے؟تیسرا یہ کہ کیا واقعی ہر شاعران سے مستفید ہوا ہے اور ہر ایک نے ان کی تقلید کی ہے؟اور چوتھا اور آخری سوال یہ کہ حمزہ کے زندہ رہنے کا امکان ماضی یعنی تاریخ کی ایک شخصیت کی حیثیت سے درست ہے یا معاصر شاعروں کے ہم عصر کی حیثیت سے؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ حمزہ کو خوشحال کے فکری مکتب کے ارتقا کے لحاظ سے تو خوشحال کے بعد نمائندہ شاعر کہا جا سکتا ہے مگر پوری پشتو شاعری کے تناظر میں یہ بات تنقیدی استناد اور جواز کی حامل نہیں، دوسری بات یہ ان کی ساری شاعری ابدیت اور آفاقیت کے معیار پر پوری نہیں اترتی ہمیں ان کی شاعری کے اس حصے کا تعین کرنا چاہئیے جو فی الحقیقت ابدی اور آفاقی ہے، تیسری بات یہ کہ معاصر شاعروں میں درویش درانی کی قومی اور سیاسی رنگ کی شاعری کے علاوہ میں کسی بھی شاعر کو ان کے رنگ کلام سے متاثر نہیں سمجھتا کیوں متذکرہ تمام شاعر ان سے تخلیقی اساس کی سطح ہی پر مختلف ہو جاتے ہیں، چوتھے اور آخری سوال کا جواب یہ ہے ان کے کلام کا بڑا حصہ ماضی کا حصہ ہے اور مختصر حصہ معاصر شعری معیار پر پورا اترتا ہے جس کا ذکر آخر میں کیا جائے گا۔

حمزہ بابا کے موضوعات کے حوالے سے بھی ان کے ناقدین سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔

۱۵؎     ’’پشتو اور پشتون ولی‘‘

۱۶؎     ’’تصوف‘‘

۱۷؎     ’’اصلاحی و اخلاقی شاعری‘‘

۱۸؎     ’’وطن اور قوم سے محبت‘‘

۱۹؎     ’’اتفاق اور اتحاد‘‘

۲۰؎    ’’تحریک و عمل، ہمت و استقلال‘‘

ٔؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐؐ        ۲۱؎       ’’خود داری و بردباری‘‘

۲۲؎    ’’تاریخی شاعری‘‘

۲۳؎    ’’عشقیہ شاعری‘‘

۲۴؎    ’’منظر نگاری اور فطرتی شاعری‘‘

ان موضوعات کا تذکرہ حمزہ کی نظم کے حوالے سے کیا گیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہی ان کی غزل کے غالب موضوعات بھی ہیں اس لیے کہ ان کی نظم کے حوالے  سے ان موضوعات کا تذکرہ کرنے والے نقاد نے ان کی غزل و نظم کے باب میں جو بات کی ہے وہ ان دونوں اصناف کے موضوعات کی عدم مماثلت کا اظہار نہیں کرتی۔

۲۵؎    ’’جس طرح حمزہ غزل کے کارواں میں سب آگے ہے اسی طرح ان کی نظم بھی نمائندہ حیثیت رکھتی ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ غزل کے ساتھ ساتھ انھوں نے نظم کو بھی نیا رنگ اور آہنگ دیا اور اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایک طرف نئی اور پشتون غزل کا ہار بیسویں صدی کے گلے میں ہے تو اسی طرح نظم کے ارتقا کا تاج بھی اسی صدی کے سر پر ہے۔ ‘‘

یہاں یہ بات واضح ہے کہ رنگ اور آہنگ میں موضوع کے افتراق کو شامل نہیں کیا گیا۔ اب اگر ہم ایک نظر درج کیے گئے موضوعات کی فہرست پر ڈالیں تو شاید ان میں سے ایک موضوع بھی ایسا نہ ہو گا جس کی مثال ہر دور کی پشتو غزل کے معمولی سے معمولی شاعر میں بھی تلاش نہ کی جا سکتی ہو یعنی ان موضوعات کی بنیاد پر ہم حمزہ کے اختصاص کو ثابت نہیں کرسکتے۔ حمزہ کے لیے پشتو تنقید کا خراج صرف ان اوصاف اور انھی اوصاف کی تکرار تک محدود ہے جس میں بہ طور خاص  ’’پشتون غزل‘‘ کو رائج کرنے کی کوشش کی تحسین کی گئی ہے۔

۲۶؎     ’’حمزہ صاحب نے پشتو غزل کو پشتون رنگ دینے کا بنیادی کام کیا ہے۔ ان کی غزل کی اور خصوصیات اپنی جگہ ہیں مگر فن کے ذریعے پشتون کے جمالیاتی ذوق، نفسی کیفیات، زندگی کی بود و باش، طور طریقے، روایات، تاریخ اور ثقافت کے الگ الگ پہلوؤں کا انعکاس وہ رنگ ہے جسے پشتون کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مشکل اصطلاح نظر آتی ہے اور ادبی تنقید کی اصطلاحوں میں اس کے لیے جگہ بنانا آسان نہیں لیکن اگر ہم غزل کے لطیف فن میں پشتون غزل کی ترویج کے اس عمل پر غور کریں تو بات واضح ہو سکتی ہے۔ ‘‘

شاید  ’’پشتون غزل ‘‘ کو رائج کرنے کی کوشش وہ اساسی تخلیقی وظیفہ بھی ہے جس کے لیے ہم نے حمزہ کو  ’’بابائے غزل‘‘  کا خطاب دیا تھا لیکن مجھ پر ان کی تنقید سے یہ نکتہ واضح نہیں ہوا کہ اگر  ’’پشتون غزل‘‘  کی گرامر کا تعین کرنے کا اعزاز ان کے سر ہے تو پھر خوشحال نے غزل کے میدان میں کون سا اساسی تجربہ کیا تھا؟ اور اگر انھوں نے صرف خوشحال کی روایت میں اضافہ کیا ہے تو پھر شاید یہ امتیازی وصف بھی ان کی غزل کا اختصاص قرار نہیں دیا جا سکتا یہاں ایک اہم بات بل کہ تنقیدی نکتہ یہ بھی ہے کہ  ’’بابا‘‘  کا خطاب عموماً اس شاعر کو دیا جاتا ہے جو کسی صنف کی گرامر میں کوئی خاص اضافہ کرتا ہے جو موضوع کے اضافے سے زیادہ پورے تخلیقی جہاں کا اضافہ ہے۔ پشتو تنقید کا المیہ یہ ہے کہ ہر وہ شاعر جسے عوام کی پذیرائی ملی یا جسے سیاسی حلقے کی سرپرستی حاصل رہی، اسے تخلیقی اعتبار سے بھی اعلی شاعر سمجھا گیا اور منطقی دلائل کی عدم موجودگی کے باوجود ہم نے جذباتی تبصروں کو تنقیدی استناد کا مقام دیا۔

یہاں تک میں نے جو تجزیہ پیش کیا ہے اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ حمزہ غیر اہم یا غیر معتبر شاعر ہے لیکن جس ناقدانہ بنیاد پر ہم نے انھیں اعلی مقام دیا ہے وہ تنقیدی بنیاد، تنقیدی نظریات اور تنقید کی منطقی زبان کے اعتبار سے استناد نہیں رکھتی۔ یہ سب باتیں پشتو کے ہر اہم شاعر کے حوالے سے کی جا سکتی ہیں اس لیے کہ یہ غیر معروضی تبصرے ہیں جو تجزیے کے موجودہ تقاضے پورے کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ مکمل پشتو ادب، نئے تنقیدی معیارات پر از سرنو تجزیے کا تقاضا کرتا ہے اور جب تک یہ تجزیہ نہ کیا جائے تب تک موجودہ درجہ بندی کو تسلیم کرنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔

میں یہاں یہ کوشش کروں گا کہ حمزہ کی غزل کے حوالے سے وہ نقطہ پیش کر سکوں جسے بہ جا طور پر حمزہ کا اختصاص کہاجا سکے اور اس نقطے کی نشان دہی کے لیے میں ذاتی پسند و نا پسند کی جگہ تنقیدی نظر سے استفادہ کروں گا اس لیے کہ یہی ناقدانہ معروضیت اور دیانت کا تقاضا ہے اور اسی طرح حمزہ کی غزل کے ان اوصاف کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جو عصری شاعری کے وجود میں تحلیل ہو چکے ہیں۔

یہاں تک کی بحث سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ معاصر پشتو غزل نے حمزہ شنواری کی غزل کے لسانی رویے سے استفادہ نہیں کیا اور لسانی استعمال میں دونوں کے مابین اساسی نوعیت کا فرق ہے لیکن یہ بات ان کی غزل کے لسانی رویے کے عمومی مزاج کے حوالے سے کی جا رہی ہے کیوں کہ یقیناً ان کی شاعری میں ایسے اشعار بھی ہیں جو معاصر غزل کے لسانی اوصاف سے کچھ نہ کچھ مماثلت بھی رکھتے ہیں تاہم یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ معاصر غزل نے اپنی لسانی ساخت ان سے مستعار لی ہے کیوں کہ مماثلات ان کی غزل میں اتفاقی طور پر پیدا ہوئی ہیں۔ ان کی غزل کا یہ لسانی پہلو ان کے تخلیقی عمل کی ساخت سے مطابقت نہیں رکھتا، دوسری بات یہ کہ ان کی یہ مماثلت جزوی ہے کلی نہیں۔ حمزہ لسانی ساخت کے حوالے سے ترقی پسند تحریک کے لسانی اعتقادات سے متاثر دکھائی دیتے ہیں جب کہ معاصر پشتو غزل جدید اور مابعد جدید رویے سے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ حمزہ کی غزل اساسی طور پر ترقی پسندانہ نہیں لیکن شعری زبان کے لحاظ سے اسے ترقی پسند مکتب سے متاثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں وہ بعض مثالیں پیش کرنا ضروری ہیں جہاں ان کی غزل میں معاصر غزل کا لسانی رنگ جھلکتا ہے۔ اسی رنگ کلام سے مماثل حصے کو معاصر شعری معیار پر پورا قرار دیا جا سکتا ہے۔

۲۷؎    زود رنجی آئینہ دلوں کی صفت ہے

صافی نے کتنا غبار جذب کیا ہے

۲۸؎    میں حسن کی حقیقتوں کے لیے سراپا فکر ہوں

میں اڑان بھروں گا اور عنقا کے بیضے چنوں گا

 

۲۹؎     پلکوں کی بیداری دیدنی ہوتی ہے

اس وقت جب تم سو رہی ہوتی ہو

 

۳۰؎    اگرچہ تیرا خیال میرے دل کی گرہ نہیں کھولتا

مگر تیرے تصور نے میری بصارت کا دروازہ کھول دیا ہے

 

۳۱؎     دل کی کائنات یہ ایک آہ ہے

کیا رہ جائے گا اگر یہ بھی نکل گئی

 

۳۲؎    تیری گلی میرے ہر قدم سے آگے بھاگتی ہے

میں پہنچ چکا ہوں مگر کیا میں پہنچا

 

۳۳؎    کچھ لمحے پہلے میں تیری آنکھوں میں تھا

اب میں نظر نہیں آ رہا، تو نے مجھے کہاں کھو دیا

 

۳۴؎    میں نے انتظار کی شمع کو آنسوؤں کا روغن دیا

اس کے بعد میری آنکھوں سے طویل سیاہ راتیں ٹپکنے لگیں

 

۳۵؎    دل سوالات کے وفور سے آئینے جیسا ہو جاتا ہے

جیسے رات کے انتظار میں دن حیران ہو جاتے ہیں

۳۶؎    مجھ سے بہ غور دیکھنے کی فرمائش نہ کرو

تمھارے پستانوں پر دھوپ پھیل جائے گی

 

۳۷؎    شبنمی پھول، ہنسی اور آنسوؤں کا آئینہ بن گیا ہے

اضداد میں یہ وحدت شاید حیرانی کے دن ہیں

 

۳۸؎    میرے خیال کی اڑان کائنات سے ماورا ہے

روشنی کی رفتار محسوسات سے باہر نہیں نکل سکتی

 

۳۹؎     ہر منزل پر میرے نقش قدم ہیں

اس لیے مجھے کئی قافلے چھوڑ گئے

 

۴۰؎    جب بھی مضطرب ہوتا ہوں خود کو اذیت دیتا ہوں

میں جہان کے آئینے میں اپنے لیے بھی غیر ہوں

۴۱؎             ان میں الفاظ نہیں صرف مفہوم ہے

آہوں کی طرح باتیں کرتا ہوں

 

۴۲؎            تمہاری آمد کی باتیں پھر ہوں گی

ابھی میں اپنا انتظار کر رہا ہوں

 

۴۳؎    تیری دید کے لیے میں فنا ہو چکا ہوں

میرے بدن میں صرف آنکھیں رہ گئی ہیں

۴۴؎    جس کے اظہار کے لیے لفظ نہیں ملتے

خیال میں وہ مضمون آیا ہے

 

۴۵؎    جب ہر شے سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اس میں کچھ نہیں بچتا

تخیل کا عدم آئینے کا وجود رکھتا ہے

۴۶؎    ہر چند کہ چاند نے اسے نقرئی لباس دیا

انتظار میں میری راتوں کی عریانی جھلکتی ہے

 

۴۷؎    مجھے شکار کی بڑی حرص تھی میں نے قناعت کا غار کھو دیا

ہستی کا جنگل طویل ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں حمزہ ہوں

ان اشعار کا مطالعہ حمزہ کی غزل کے اس پہلو کو ظاہر کرتا ہے جسے معاصر غزل کے تناظر میں اہمیت نہ دینا تنقید ی بد دیانتی ہو گی مگر معاصر غزل کی شعریات میں ان کا اصل کارنامہ اور خدمت لسانی پہلو سے زیادہ فکری جہاں سے ارتباط رکھتی ہے۔

حمزہ کے تخلیقی عمل کی ساخت نے اپنی تشکیل میں شعور کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ ایک فکری نظام، آئیڈیالوجی اور اپنے اقداری فیصلوں سے، آزاد تخلیقی عمل کے دوران انصاف کرنا اور تخلیقی عمل کی غنودگی کی کیفیت میں اس لحاظ سے خود کو بیدار رکھنا نیز اپنے تخلیقی عمل کی سمت اور رفتار پر شعور کی آنکھ سے نظر رکھنا، وہ تخلیقی رجحان ہے جو معاصر غزل کی شعریات میں تحلیل ہو چکا ہے۔ ان کی یہ خدمت پشتو شاعری میں اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی اہمیت اردو شاعری میں فیض کو دی جاتی ہے اور اسی کام کے لیے حمزہ ’’بابائے غزل‘‘ کا خطاب حاصل کرنے کا مکمل استحقاق بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ اس طرح کے خطابات ان تخلیق کاروں کو دیے جاتے ہیں جو کسی صنف کی شعریات میں وسعت پیدا کرتے ہیں اور ان کے اس کام کو بلاشبہ شعریات کی وسعت میں اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

حمزہ ’’بابائے غزل‘‘  ہیں مگر اس تناظر میں قطعی نہیں جس تناظر میں پشتو ناقدین نے انھیں  ’’بابائے غزل‘‘ قرار دیا ہے کیوں کہ اس تناظر میں حقیقی تخلیقی وظیفہ خوشحال بابا نے سرانجام دیا ہے۔ حمزہ نے صرف خوشحال کی ہم وار کردہ راہ پر چند ارتقائی قدم اٹھائے ہیں۔ یہ ارتقائی اقدامات بھی کم اہم نہیں مگر اہم کام اور اساسی کام میں بڑا فرق ہے اور  ’’بابا‘‘  کا خطاب اس تخلیق کار کے حصے میں آتا ہے جس نے کسی شعریاتی پہلو کے حوالے سے اساسی کام کیا ہو۔  ’’پشتو اور پشتون ولی‘‘  پر اساسی کام کرنے والا نابغہ ہمیشہ خوشحال بابا رہے گا۔ غزل کی شعریات کے تناظر میں حمزہ بابا کے اساسی کام کی نشان دہی میں کر چکا ہوں۔ جب بھی معاصر پشتو غزل کی شعریات کا تعین کیا جائے گا تو اس میں ان کا کام ضرور شامل ہو گا۔ معاصر پشتو غزل اپنے انفراد کے باوجود ان کی احسان مند دکھائی دیتی ہے لیکن معاصر پشتو غزل نے تخلیق عمل میں شعور کی مرکزیت تسلیم کرنے کے باوجود اس مرکزیت کے اظہار کے لیے ان سے مختلف اور بدر جہا بہترین رستہ منتخب کیا ہے۔ پشتو غزل کا سفر ارتقائی رخ پر جاری ہے۔ حمزہ بابا پشتو غزل کی ارتقا کا ایک انتہا ئی اہم پڑاؤ ہے۔ غزل کے تاریخی و تدریجی ارتقا کا مطالعہ ان کے بغیر نامکمل ہے البتہ مابعد جدید حسیت کے تمام تقاضے پورے کرنے کی استعداد ان کی غزل میں نہیں اور یہ کوئی معیوب بات نہیں کیوں کہ ہر نسل اپنے عہد کے تقاضے پورے کرنے کا استحقاق اور استعداد رکھتی ہے البتہ وہ یہ حق ضرور رکھتے ہے کہ معاصر شاعران کی تخلیقی قرأت کریں۔ ہر زبان کے کلاسیک شاعر اس وقت تک معاصرانہ اہمیت کے حامل نہیں ہوسکتے جب تک معاصر شاعر اپنے عصر کے تقاضوں کے مطابق ان کی تجدید نہ کریں معاصر پشتو شعراء نے ایک دوا ستثنائی مثالوں کو چھوڑ کر اپنے سرمایے کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ اس لیے کئی کلاسیک شعراء کی تاریخی اہمیت تو برقرار ہے مگر ان کی عصری ضرورت ختم ہو چکی ہے، اگر معاصر شاعر آنے والے زمانوں میں اپنے ہنر کی زندگی کے خواہش مند ہیں تو انھیں اپنے کلاسیک شعراء سے روا رکھے ہوئے اپنے تخلیقی رویے کا احتساب کرنا ہو گا، نہیں تو حمزہ کی طرح کل ان کی اہمیت بھی صرف تاریخی ہو کر رہ جائے گی۔ تخلیق کار کی زندگی آنے والے زمانوں کے تخلیق کاروں کی تخلیق میں اپنا وجودی اثبات چاہتی ہے۔ حمزہ بابا اپنی زندگی کے وجودی اثبات کے لیے معاصر شعراء کے ان تخلیق پاروں کا انتظار کر رہے ہیں جو عصری ضرورتیں بھی پوری کریں گے اور اپنی روایت کا تخلیقی سرمایہ بھی صرف ماضی کے طاقچوں تک محدود نہیں ہونے دیں گے۔ اگر معاصر پشتو شاعر اس حوالے سے پیش رفت کر پائے تو پھر مجھے یقین ہے کہ زریں انئحور کی یہ رائے ہر زمانے میں اپنی صداقت قائم رکھے گی کہ ؛

۴۸؎    ’’استاد حمزہ شنواری، ان کے شعری آثار اور ان کی غزلیں پشتو کی معاصر ادبیات کے لیے وہ قابل فخر امتیازات ہیں۔ جو زمانے کے طویل سفر میں اپنی قدر و قیمت برقرار رکھیں گے۔ ہماری قوم کی زندگی کی روانی کے الگ الگ شعبوں میں ان کی غزلیں، اشعار ہمارے ساتھ ہوں گے اور ہمیشہ اس وجہ سے ان کا نام زندہ رہے گا۔ ‘‘

 

                   حواشی

 

۱۔ سعید گوہر : ’’پہ سیری لمن کشی امید ‘‘ ، کوئٹہ، سکام ادبی اکیڈمی، ۲۰۰۰ء، ص۳۱

۲۔ درویش درانی : ’’ہوا او چراغونہ‘‘ ، لاہور، سویرہ آرٹ پریس، ۱۹۹۵ء، ص۱۲۳

۳۔ سہیل جعفر: ’’د یاد پہ جزیرہ کشی‘‘ ، کوئٹہ، سکام ادبی اکیڈمی، ۲۰۰۴ء ، ص۱۲۶

۴۔ محمود ایاز: ’’بیا زہ ہم پہ سایہ بدل شوم‘‘ ، کوئٹہ، سکام ادبی اکیڈمی، ۲۰۰۶ء ، ص۴۳

۵۔ راز محمد راز: ’’د صلیب پہ دائرہ کشی مات وزری زانی ژاڑی‘‘ ، ۱۹۹۹،         ص۲۳۳

۶۔ ریاض تسنیم: ’’دا کوم رنگ می کشید کڑے‘‘ ، کراچی، احمد برادرز ناظم آباد نمبر ۲، ۲۰۰۴ء، ص۱۶

۷۔ رازق فہیم : ’’یوہ پیالہ رنا‘‘ ، لورالائی، پشتو ادبی ملگری، ۲۰۰۲ء، ص۵۸

۸۔ نورالاسلام سنگر: ’’د نیمی شپے پورہ سپوزمی‘‘ ، کراچی، جرس ادبی جرگہ، ۲۰۰۲ء، ص۷۹

۹۔ عبدالرؤف عارف: ’’گمان‘‘ ، مردان، د ادبی دوستانو مرکہ، ۲۰۰۹ء ، ص۱۷۲

۱۰۔ قیصر آفریدے: ’’د مات کودی ریحان‘‘ ، کراچی، جرس ادبی جرگہ، ۲۰۰۳ء، ص۱۲۴

۱۱۔ طائر زلاند: ’’خوشبو نہ وینہ د رنگونو ساسی‘‘ ، کوہاٹ، پشتو ٹولنہ ننگرہار، ۱۴۲۹ھ، ص۷۸

۱۲۔ اقبال آفریدے: ’’حمزہ اوپشتوغزل ‘‘ ، (مشمولہ)جرس، مرتبین، طاہر آفریدی، فہیم سرحدی ، کراچی

جرس ادبی جرگہ، اشاعت اکتوبر، دسمبر۱۹۹۱ء، ص۷۶

۱۳۔ ڈاکٹر محمد اعظم اعظم: ’’غزل او د حمزہ فکر ‘‘ ، (مشمولہ)جرس، مرتبین، طاہر آفریدی، فہیم سرحدی،

کراچی، جرس ادبی جرگہ، اشاعت اپریل، جون۱۹۹۱ء ، ص۱۳

۱۴۔ داور خان داؤد: ’’پشتو نظم کشی د حمزہ برخہ ‘‘ ، (مشمولہ)جرس، مرتبین، طاہر آفریدی، فہیم سرحدی،

کراچی، جرس ادبی جرگہ، اشاعت اپریل، جون۱۹۹۷ء، ص۴۴

۱۵۔ وزیر شادان: ’’حمزہ بابا، یو نظم گو شاعر ‘‘ ، (مشمولہ)جرس، مدیر اعلیٰ، طاہر آفریدی، کراچی،

جرس ادبی جرگہ، اشاعت اکتوبر، دسمبر۱۹۹۵ء، ص۱۵

۱۶۔ ایضاً، ص۱۹

۱۷۔ ایضاً، ص۲۰

۱۸۔ ۱۹۔ ایضاً، ص۲۳

۲۰۔ ایضاً، ص۲۴

۲۱۔ ایضاً، ص۲۵

۲۲۔ ۲۳۔ ایضاً، ص۲۷

۲۴۔ ایضاً، ص۲۸

۲۵۔ ایضاً، ص۳۲

۲۶۔ ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک : ’’پشتون غزل ‘‘ ، (مشمولہ)گلبن، ترتیب، تنویر شاہ کمال، حضرت زبیر       زبیر، مردان، یوسفزئی، پرنٹنگ پریس، اشاعت اپریل، جون۱۹۹۸، ص۱۵

۲۷۔ حمزہ شنواری : ’’غزونے‘‘ ، صوبہ سرحد، محکمہ ثقافت، ۱۹۹۱ئ(دسواں ایڈیشن)، ص۵

۲۸۔ ایضاً، ص۴۴

۲۹۔ ایضاً، ص۱۷۹

۳۰۔ ایضاً، ص۱۲

۳۱۔ حمزہ شنواری : ’’پرے وونے‘‘ ، پشاور، جدون پریس، ۱۹۸۶ئ(دوسرا ایڈیشن)، ص۴۰

۳۲۔ ایضاً، ص۴۴

۳۳۔ ایضاً، ص۶۴

۳۴۔ ایضاً، ص۱۰۱

۳۵۔ حمزہ شنواری: ’’بھیر‘‘ ،     پشاور، جدون پریس، ۱۹۸۳ء ، ص۴۲

۳۶۔ ایضاً، ص۵۱

۳۷۔ ایضاً، ص۲۲۴

۳۸۔ حمزہ شنواری : ’’یون ‘‘ ،   د قومونو او قبائلو وزارت د نشراتو او فرہنگی چارو ریاست، ص۱۱۹

۳۹۔ ایضاً، ص۸۵

۴۰۔ حمزہ شنواری : ’’سپکر لی پہ آئینہ کشی‘‘ ، پشاور، جدون پریس، ۱۹۸۶ء ،      غزل نمبر ۱

۴۱۔ ایضاً، غزل نمبر۷۴

۴۲۔ ایضاً، غزل نمبر۱۳۶

۴۳۔ ایضاً، غزل نمبر۱۵۷

۴۴۔ ایضاً، غزل نمبر۱۸۲

۴۵۔ ایضاً، غزل نمبر۸۳

۴۶۔ ایضاً، غزل نمبر۱۱۰

۴۷۔ ایضاً، غزل نمبر۹۲

۴۸۔ زرین انئحور : ’’پہ معاصرو پشتو ادبیاتو کشی د استاد حمزہ د شعر زانگڑتیاوی، (مشمولہ)د حمزہ یاد، د قومونو      او قبائل و وزارت د  نشراتو او فرہنگی چارو ریاست، ص۴۴

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عصری شعور کا علامتی اظہار

 

(فاروق سرور کے افسانوی مجموعہ  ’’گنجی چڑیا‘‘  پر ایک تنقیدی نظر)

 

معروض کی سطح پر موجود بدامنی، خوف، انتشار، انتہاپسندی، قتل و غارت گری، سیاسی و سماجی اتھل پتھل، سائنسی ایجادات، نت نئی دریافتیں، علمی پیش رفت، الیکٹرانک میڈیا کے اثرات، ثقافتوں کو لاحق خطرات اور تیز رفتار تغیرات سے متشکل ہونے والا موضوع، تخلیقی عمل کی پراسرار دنیاؤں سے گزرنے کے بعد جب ظہور کرتا ہے تو ا س کی تفہیم میں پیچیدگیوں اور گتھیوں میں الجھاوے پیدا ہونے پر حیرت نہیں ہو نی چاہیے آج کا بیش تر ادب انھی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے عبارت ہے۔

اظہار میں پیچیدگی ہو یا وضاحت تمام معاصر ادب نے عصری صورت حال سے اپنا رابطہ استوار رکھا ہے تاہم باقی اصناف کی طرح نئے افسانے میں بھی اس رابطے کی دو لہریں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک عصریت کی ظاہری یا اوپری لہر، جس کا تعلق ایسے حالات و واقعات کی منظر کشی سے ہے جس سے عصر کے بالائی خدوخال ابھرتے ہیں اور دوسری روح عصر کی باطنی یا زیریں لہر، جس کا رشتہ ان احساسات، خیالات اور نفسیاتی و فکری رویوں کی تخلیق سے ہے جوا ن حالات و واقعات کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوتے ہیں اور عصر کے تہ در تہ نقوش بناتے ہیں۔

فاروق سرور  ’’ گنجی چڑیا‘‘  کی صورت میں جو افسانے منظر عام پکر لایا ہے، وہ سب کے سب عصریت سے اس کی گہری واقفیت اور روح عصر سے فکری وابستگی کے غماز ہیں۔ وہ ایک ذہین تخلیقی کار ہے اور اس بات سے بہ خوبی آشنا ہے کہ جن موضوعات پر وہ لکھنا چاہتا ہے انھیں انجذاب ذات کے لیے پورا پورا وقت چاہیے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے اپنے موضوعات کو مقررہ وقت سے پہلے تخلیقی عمل کے سپرد کر دیا تو اس کے افسانوں میں ابلاغ اور اثر انگیزی کی وہ خصوصیات پیدا نہ ہو سکیں گی جن کا وہ خواہش مند ہے۔ اسی لیے اس کے اس تازہ افسانوی مجموعے میں جو اس کی چھ سالہ محنت کا ثمر ہے۔ صرف سات افسانے شامل ہیں۔ جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے ہر افسانے کے موضوع کو اپنے وجود میں حل ہونے کے لیے بھرپور وقت دیا ہے اور افسانوں کی کرافٹنگ پر پوری محنت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان افسانوں میں خوبیاں بے شمار اور خامیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

فاروق سرور کے افسانوں کا موضوع بڑی طاقتوں کی وہ سازشیں ہیں۔ جن سے عام انسان کی فکر، زندگی اور سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ بہ ظاہر آزاد نظر آنے والے وہ معاشرے ہیں، جو کٹھ پتلیوں کے اسٹیج بن چکے ہیں، وہ فکر و عمل ہے جس میں فرد بہ ظاہر تو خود مختار دکھائی دیتا ہے لیکن جن کی صورت پذیری میں نادیدہ اور با اثر طاقتوں کا ہاتھ ہے، وہ افراد اور اقوام ہیں جو لاشعوری اور غیر ارادی طور پر ایسی قوتوں کے زیر تسلط آ چکے ہیں جو انھیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے اشاروں پر چلنے کے لیے مجبور ہیں کیوں کہ انکار یا بغاوت کی صورت میں انھیں تباہیوں اور بربادیوں کے ایسے دہشت انگیز مناظر دیکھنے پڑتے ہیں جن کے تصور ہی سے روحیں تک لرز جاتی ہیں۔ معیشت اور دہشت اور مجبوری اور کم زوری کے یہی سیاسی پہلو اس کے افسانے کی رگ رگ میں سرایت کر چکے ہیں۔ یہی وہ مرکزہ ہے جس کے گرد دائرہ در دائرہ اس کی کہانیاں اور کہانیوں کے کردار گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مسائل کی بہ راہ راست پیش کش میں ادبی حسن کے زائل ہونے کا اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے۔ اسی لیے اس فکر کے حامل تخلیق کار زیادہ تر علامتی اور اشاراتی پیرایہ اظہار اپناتے ہیں۔ فاروق سرور نے بھی اپنے مخصوص فکری رویہ کے اظہار کے لیے علامتی پیرایہ اپنایا ہے۔

علامتی افسانے سے عدم ترسیل کی شکایت قارئین اور ناقدین کو ہمیشہ رہی ہے لیکن فاروق سرور سے یہ شکایت نہیں کی جا سکتی کیوں کہ ا س کی علامتیں کہانی کے ساتھ ساتھ کھلتی جاتی ہیں۔ حالاں کہ اکثر اس کی علامات اکہری نہیں ہوتیں اور معانی کی مختلف پرتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ا س کا ہر افسانہ اپنی کہانی، مرکزی کرداروں، معاون کرداروں، مناظر، اشیاء اور جزئیات کے ایک وسیع اور پھیلے ہوئے علامتی جال کی طرح ہوتا ہے۔ وہ چھوٹے علامتی دائروں سے قاری کو آہستہ آہستہ بڑے اور مرکزی علامتی دائرے تک لے جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ ایک علامتی کہانی کے اندر دوسری علامتی کہانی بھی تخلیق کرتا ہے لیکن اس دوسری کہانی کی تخلیق کا مقصد مرکزی کہانی میں ابہام پیدا کرنا نہیں ہوتا بل کہ یہ کہانی اس مرکزی کہانی کے ابلاغ میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔

فاروق سرور نے فطرت اور تمدن دونوں سے اپنی علامتیں چُنی ہیں اس کے افسانوں میں جانور ،پودے، پرندے، دیہات، بے در و دیوار مکانات، انسانی طبقات ، مشرق، مغرب اور کہانی بیان کرنے والے کی ذات تک کہانی کا ہر جزو علامت بنتا ہے لیکن حیوانی علامتوں کے استعمال میں اسے خصوصی مہارت حاصل ہے۔ تیسری دنیا کی سیاسی و سماجی صورت حال کو حیوانی علامتوں کے ذریعے جس قدرت سے اس نے بیان کیا ہے شاید ہی کسی اور نے کیا ہو گا۔ حیوانات اس کے ہاں بہت سے دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح صرف جنسی خصائل اور ظلم اور بربریت کے اظہار کے لیے علامتی طور پر استعمال نہیں ہوئے بل کہ مظلومیت، بے چارگی، حسن و قبح، خواہشات اور  ’’گنجی چڑیا‘‘ کی صورت میں انسانی ضمیر ایسی نادر علامات بھی بنے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فاروق سرور بین الاقوامی مسائل پر سوچنے والا تخلیق کار ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی زمین، اپنی قوم، اپنی ثقافت اور اپنی زبان سے رشتہ نہیں توڑا۔ اس نے اپنی قوم پر ہونے والے جبر و تشدد کو ہر اس قوم کی علامت بنایا ہے جو استبداد اور استحصال کی شکار ہے۔ اپنی کہانیوں کے لیے اس نے جو ماحول منتخب کیا ہے وہ اس کے لیے اجنبی نہیں بل کہ اس نے اسی ماحول میں آنکھیں کھولی ہیں اور بچپن سے جوانی تک کی منزلیں طے کی ہیں۔ یہی معاملہ زبان کا بھی ہے۔ اس نے اپنے مادری لہجے ہی کو اپنی افسانوی زبان بنایا ہے۔ زبان کے ساتھ ساتھ اس نے پشتون ثقافت کی بھی تصویر کشی کی ہے لیکن یہ سب عناصر کسی شعوری کوشش کے ذریعے اس کے افسانے کا حصہ نہیں بنے۔ یہی سبب ہے کہ ان کہانیوں میں وہ مٹھاس پیدا ہو گئی ہے جو بچپن میں بزرگوں کی زبانی سنے گئے قصوں میں ہوا کرتی تھی۔ علامتی افسانے میں ایسی اپنائیت اور مانوسیت کا تاثر ابھارنا آسان نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک کہانی کار آغاز ہی سے اس کے ساتھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ عمر کی سیڑھیاں چڑھتا اور زندگی کے تلخ و شیریں تجربات سے گزرتا رہا ہے۔ اس کے افسانوں سے بیگانگی اور اجنبیت کا احساس تک نہیں ہوتا اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کے فن کا تمام جمال و کمال اسی خوبی کی دین ہے۔

مختصراً یہ کہ فاروق سرور کے افسانوں کے مختصر اور موثر جملے، کرداروں کا بھر پور ارتقا، بلیغ، جاندار اور گہرے عصری شعور کی حامل علامتیں، حیرت میں مبتلا کر دینے والے اختتامیے، کہانیوں میں خوابوں کے کردار اور اپنے عہد کی علامتی تاریخ ایسے حوالے ہیں جو اسے پشتو ادب کا ایک ایسا ممتاز لکھاری بناتے ہیں جس پر نہ صرف پشتو زبان فخر کرسکتی ہے بل کہ نہایت اعتماد کے ساتھ اس کی تخلیقات کو دوسری ملکی اور عالمی زبانوں کی تخلیقات کے مقابل رکھ اور پرکھ سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

متشکک مجذوب کا گیان

 

(محمود ایاز کے شعری مجموعے ’’پھر میں بھی سایے میں بدل گیا‘‘ پر تنقیدی نظر)

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں ،ہیروشیما اور ناگا ساکی کی سفاک حقیقتیں اور ظلم اور بربریت سے لبریز تاریخی داستانیں، ابھی انسانی حافظے میں دھندلائی نہیں تھیں کہ نائن الیون اور اس کے بعد کی صورت حال نے جنگ و جدل اور قتل و قتال کے نقوش کو اور واضح کر دیا۔ ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی میں تیسری جنگ عظیم کے آثار کا نمایاں ہونا، سوچنے والے اذہان اور حساس باطنوں کے لیے کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ گزشتہ چند برسوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں ان کے زیر اثر انسانی ذہن جن سوالات میں الجھا رہا ہے اور اس کا باطن جس اضطراب، کرب اور اذیت کا شکار رہا ہے محمود ایاز کا شعری مجموعہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر میں بھی سایے میں بدل گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا مختصر لیکن مؤثر، درد آمیز اور فکر انگیز اظہار ہے۔ اس مجموعہ پر گفتگو سے قبل جرمن شاعر ہانس ماًگنس کی نظم  ’’سایوں کا کھیل‘‘  ملاحظہ ہو۔

سایے میرے سایے میں

مدغم ہو جاتے ہیں

کل کی جنگیں

سایوں کی جنگیں ہیں

کل کی عورتیں

عورتوں کے سایے ہیں

آ سمان محض کل کے سایوں کا آسمان ہے

سایے میرے سال ہیں

فریب، دوستانہ، قاتلانہ

پہلے وقتوں میں

اب سایوں کی مانند

میرے پیچھے

کل کی چیخیں

ہوا کے سایوں میں

میرے پیچھے چہرے

سایوں کے رنگ

سایے میری راتیں ہیں

راتوں کے سایے ہیں

 

تخلیقات بھی سایے ہیں

اور میں بھی ایک سایہ ہوں

دوسری راتوں

دوسرے چہروں

کے سامنے نئی تخلیقات پھینکتا ہوں

میری تخلیقات سایے ہیں

سایوں کا وجودوں اور وجودوں کا سایوں میں مدغم ہوتا منظر نامہ پیش کرتی یہ نظم مجھے محمود ایاز کی شعری فضا کے بہت قریب محسوس ہوتی ہے۔ اس نظم کے کئی منظر کہیں کہیں ہو بہو اور کہیں تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ محمود ایاز کے شعری کینوس پر جھلملاتے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ جرمن شاعر ہانس ماگنس اس کیفیت سے کن حالات میں دو چار ہوا، لیکن محمود ایاز نے جس عالمی تناظر میں ان مناظر کو پینٹ کیا ہے اس میں ان کی معنویت اور اثر انگیزی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس میں اجتماعی شعور کا عکس جھلکنے لگا ہے۔ اس کی نظم ’’پھر میں سائے میں بدل گیا‘‘  ملاحظہ ہو۔

جب باہر نکلا، گھبرا گیا

اندر آیا تو تنہا تھا

میں نے کمرے کی ساری کھلی کھڑکیاں

بند کر دیں

جب اچانک اپنے سائے کو دیکھا

خوش ہو گیا

اس حالت میں کسی نے

میرے وہم کا دروازہ زور سے کھٹکھٹایا

ہست و نیست کے دار پر کھڑا

میں پسینے میں ڈوب گیا

میں اتنا تنہا تھا

کہ اپنی جلی ہوئی چیخیں نہیں

سن سکتا تھا

میرے کمرے میں

دو گھبرائے ہوئے سایے کھڑے تھے

اس نظم میں اندر کی تنہائی اور باہر کا خوف، کھلی کھڑکیوں کا بند کرنا، سایے کو دیکھ کر اظہار مسرت کرنا، ، وہم کے دروازے پر دستک ہونا، ہست و نیست کے دار پر پسینے میں شرابور ہو جانا، اپنی جلی ہوئی چیخیں نہ سننا اور بالآخر جسم کا سایے میں بدل جانا، اجتماعی شعور میں موجود اس خوف کی جانب بلیغ اشارے ہیں جو ابھی تک مکمل طور پر آشکار تو نہیں ہوا لیکن اصناف ادب خصوصاً شاعری اور دیگر فنون لطیفہ بالخصوص مصوری میں اس نے اپنے نا مکمل علامتی و تجریدی اظہار کا آغاز کر دیا ہے۔

محمود ایاز کے ہاں یہ خوف اس کے خیال سے اس کے خوابوں تک پھیلا ہوا ہے اس خوف نے اس کے خیال کو سرخ آندھی میں بدل دیا ہے۔ جس میں تھکا ماندہ وقت اپنے کاندھوں پر سورج کا جنازہ لیے جا رہا ہے۔

خیال کی سرخ آندھی میں

تھکے ماندے وقت نے اپنے کاندھوں پر

سورج کا جنازہ

اٹھایا ہوا ہے

(سورج کا جنازہ)

سورج کا جنازہ درحقیقت خیر کا جنازہ ہے۔ شاعر دنیا سے خیر کی رخصتی کا اعلان کر رہا ہے۔ تو کیا شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ دنیا میں صرف شر باقی رہے گا؟نہیں، لیکن وہ اتنا ضرور کہہ رہا ہے کہ شر خیر کے بعد رخصت ہو گا۔

فنا کے خیال نے محمود ایاز کو خوف زدہ کر رکھا ہے لیکن اس فنا کی نوعیت مختلف ہے یہاں اجسام کے ساتھ کے ان کے سایے بھی فنا ہو رہے ہیں۔

میں بد حواس ہوں، بہت ڈرتا ہوں

کہ ان سرخ دوپہروں میں

ہمارے تھکے ہوئے وجودوں کے ساتھ

ہمارے سایے بھی پگھل نہ جائیں

(بہت ڈرتا ہوں )

محمود ایاز کی شاعری میں استعمال ہونے والا سرخ رنگ اور پگھلاؤ کا احساس، موجودہ خوں آشام شام اور ان مہلک ہتھیاروں کی تباہی کے استعارے ہیں۔ جنھوں نے انسان کو وسیع پیمانے پر فنا کے خوف میں محصور کر دیا ہے اس نے کہیں اس گرد و غبار کو اجاگر کیا ہے جو اسے خوابوں میں دکھائی دیتا ہے اور اسے دہشت زدہ کیے رکھا ہے اور کہیں اس نے اس فنا کا تماشا منہدم شہروں کی صورت دکھایا ہے اور اس  عمارت کی اجتماعی تدفین کی خواہش ظاہر کی ہے

ایسا لگتا ہے کہ گاؤں کی طرف کوئی بد بختی آ رہی ہے

میں رات کو خوابوں میں اکثر گرد و غبار دیکھتا ہوں

انھیں ایک کفن میں چھپا دو اور ایک قبر میں دفنا دو

میرے سامنے پورے شہر کی دیواروں کی لاشیں پڑی ہیں

ان اشعار میں گاؤں اور شہر کے الفاظ محمود ایاز کے ذاتی وطن نہیں بل کہ گلوبل ویلج(Global Village)کی جانب اشارے ہیں محمود ایاز کی شاعری میں کئی سوالیہ نشان ابھرتے ہیں لیکن سب سے بڑا سوالیہ نشان انسان کی بقا پر دکھائی دیتا ہے اور انسان کی بقا کا سوال ہی وہ بنیادی سوال ہے جو نائن الیون کے بعد اپنی پوری شدت اور معنویت کے ساتھ ابھرا ہے۔ اس سوال کے ساتھ خیالات اور احساسات کا ایک ہجوم ہے جو اس مجموعے کی مجموعی فضا تشکیل دیتا ہے ایک مخصوص شعری فضا کے حوالے سے محمود ایاز کا یہ مجموعہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ عصری آگاہی، جدید حسیت، تازہ شعری جمالیات، مخصوص لفظیات، استعارات، علامات اور تمثالیں اس مجموعے کو جدید پشتو شاعری کا نمائندہ مجموعہ بناتی ہیں اس کے اس مجموعے میں تازہ زمین ہائے شعر کی تخلیق بھی ہے  ہیئتی تنوع بھی، فکری تجزیے بھی، نئی محاکات بھی اور لفظ و معنی کی جدت طرازی بھی، اس مجموعے کا ایک نمایاں پہلو اس میں شامل اضداد ہیں محمود ایاز کا پورا شعری فکری نظام دراصل انھی اضدادسے متشکل ہے جس نے محمود ایاز کو مسائل کے حل اور عصری الجھنوں کی تفہیم کے راستے سجھائے ہیں وجود اور عدم، فنا اور بقاء، شک اور یقین، خیر اور شر، آس اوریاس، محبت اور نفرت، ہوا اور چراغ نیز جسم اور سایہ، محمود ایاز کے ہاں مسلسل تصادم کے عمل سے گزر رہے ہیں اور بہ ظاہر عدم، فنا، شک، شر، یاس، نفرت اورسایے کے حوالے غالب آتے دکھائی دیتے ہیں لیکن شاعر کسی نتیجے پر پہنچنے کے بجائے ان اضداد کے مابین معلق دکھائی دیتا ہے اس کی نظم ’’نیم وا دروازے میں کھڑا ہوں ‘‘  اسی کیفیت اور کش مکش کا اظہار ہے۔

شک کا گرد ئ٭٭و غبار

جو مسلسل

اپنے وجود سے جھاڑتا ہوں

جیسے اپنے وجود کے لیے دعا مانگتا ہوں

جیسے اپنے وجود کے لیے بقا مانگتا ہوں

جب پیلے پتے دیکھتا ہوں

دونوں آنکھیں بند کر لیتا ہوں

میں ہست و نیست کے

ایک مبہم دائرے میں کھڑا ہوں

میں یقین کی جنت کے

نیم وا دروازے میں کھڑا ہوں

ہست و نیست کے اس مبہم دائرے میں قیام نے محمود ایاز کو شک میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ اپنے خیال میں شک سے بھرے ایک ایسے سفر پر نکل پڑا ہے جس کی گرد نے یقین کے رنگوں کو دھند لا دیا ہے۔

سفر کی گرد میں یقین کے رنگ کھو گئے ہیں

میں خیال کی انتہا میں مسلسل کس طرف جا رہا ہوں

محمود ایاز اپنی اس کیفیت کے لیے عصر کو ذمہ دار تصور کرتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ وقت کے کسی ایسے منطقے میں داخل ہو گیا ہے جہاں اس سے خدا کھو گیا ہے اور وہ اس گمان آباد کو، اس کی ہر شے کو شک بھری آنکھوں سے دیکھتا ہے؛

کیسے کالے دن آ گئے ہیں

ایاز! مجھ سے میرا خدا کھو گیا ہے

 

میں اس گمان آباد کو اس لیے شک سے دیکھتا ہوں

یہاں زندگی کے خدوخال ہی نہیں رنگ بھی مرتے ہیں

محمود ایاز کو اپنا آپ ہی نہیں ہر شخص شک میں مبتلا، پریشان، حیران اور خوف زدہ دکھائی دیتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ سب کے وجود میں شک کے سوال رہتے ہیں اور ان سوالوں کی اذیت نے سب کے جسموں کو نیلا کر دیا ہے۔ اسے انسان، انسان نہیں سایے اور تصویریں دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی تصویریں جن پر شک کی گرد پڑی ہے۔

ایاز ہم بد حواس ہیں یا حالات ایسے ہیں

ہمارے نیلے وجود میں شک سے متعلق سوال رہتے ہیں

یہ جو ہر دل میں عجیب سا ڈر موجود ہے

سب تصویروں پر شک کی گرد پڑی ہے

محمود ایاز اپنے وجود پر (جسے وہ قبر کہتا ہے)شک کرتا ہے اسے اپنا وجود، اپنا میلا بدن اپنا نہیں لگتا۔ وہ اپنے ہونے نہ ہونے کے سوال میں الجھا ہوا ہے، اسے لگتا ہے کہ اس نے اپنا میلا بدن، اپنا قبر جیسا وجود محض چند دن کے لیے پہن رکھا ہے وہ صرف چند دن کے لیے ہے اور صرف چند دن کے لیے ہونے کو وہ ہونا تصور نہیں کرتا۔

ہے کہ نہیں ایک شک میں مبتلا ہے

ایک آدمی اپنے وجود کے سوال میں کھویا ہوا ہے

سچ بات یہ ہے کہ مجھے یہ علم نہیں ہوتا

مجھے اپنے وجود کی قبر اپنی نہیں لگتی

اپنے وجود پر شک کی اسی کیفیت کو اس نے اپنی نظم  ’’یہ میلا بدن واقعی میرا ہے ‘‘ میں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

عمروں سے شک کی دہلیز پر

کیوں پریشان ہوں

کیوں ہوس سے

یقین کا گریبان پکڑتا ہوں

کیا یہ دھول اٹا

میلا بدن واقعی میرا ہے؟

گھمنڈسے بے باک

مسافر کی طرح محو سفر ہوں

یا یہ بدن

میں نے چند دنوں کے لیے پہن رکھا ہے

محمود ایاز اپنے اس شک کے ساتھ جینا نہیں چاہتا۔ وہ اپنے یقین سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ وہ شک کی دوپہروں میں امکان کے سایے تلاش کر کے تھک چکا ہے۔ اب وہ ان دیواروں کو عبور کرنا چاہتا ہے اور اسے یقین کی مدد درکار ہے۔

شک کی سرخ دوپہروں میں خیال کی

اے یقین ! امکان کا سایہ تلاش کر

اے یقین! پر پھیلا تاکہ ہم اس پر سے گزر سکیں

وقت نے قدم قدم پر شک کی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں

شاعر جانتا ہے کہ وہ اس شک میں اپنی کم علمی اور جہالت کے باعث گرفتار ہے اس لیے وہ خرد سے دانائی کی بھیک مانگتا ہے تاکہ اسے نجات مل سکے۔

اے خرد کے کشکول !مجھے ذرا سی دانائی پھر سے عطا کر دے

میں جہالت کے باعث شک کے گھوڑے پر سوار ہوں

محمود ایاز نے اپنی شاعری میں خود کو ایک متشکک مجذوب کے روپ میں پیش کیا ہے۔ جو انسان کی بقا کے لیے عصری حالات کے ساتھ ساتھ خدا سے بھی جنگ کرتا ہے۔

جو خدا سے جنگ کر رہا ہے وہی مجذوب

سروں کی بقا کے لیے دعا مانگ رہا ہے

لیکن صرف جنگ نہیں کرتا دعا مانگتا ہے اس یقیں کے ساتھ کہ وہ قبول ہو گی۔

میں یقین کے

دہکتے ہوئے انگاروں پر کھڑا

ایک دعا مانگتا ہوں

 

عظیم خدا!میرے سرپر

اپنے غیبی ہاتھ رکھ دے

میرے ویران ماتھے پر

لکھی تمنا پڑھ لے

میری آنکھوں کے

آنسو دیکھ لے

اپنی یہ دعا

میں بھول گیا تھا

(ایک دعا مانگتا ہوں )

محمود ایاز کے ویران ماتھے پر لکھی تمنا اور آنکھوں میں تیرتے آنسو انسان کی بقا چاہتے ہیں، اس کا تحفظ چاہتے ہیں، اس کی زندگی میں یقین کے رنگوں کی واپسی چاہتے ہیں ،اس کے سر اور گھر کی خیر اور سلامتی چاہتے ہیں ، امن چاہتے ہیں اور میں اس کی اس دعا میں شریک ہوں۔

عجیب خواب تھا میں جس کے معنی تک نہ پہنچ سکا

میں نے روشنی کے ہاتھ میں ایک بجھا ہوا چراغ دیکھا

میری دعا ہے کہ وہ اس خواب کی تعبیر تک پہنچنے سے پہلے ایک اور خواب دیکھے جس میں تیرگی کے ہاتھ میں جلا ہوا چراغ ہو اور ہم سب اس خواب کی تعبیر تک رسائی حاصل کریں۔

٭٭٭

ماخذ: مصنف کی کتاب "معاصر تھیوری اور تعینِ قدر”

تشکر: سدرہ سحر عمران جن سے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید