FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

تفسیر آسان قرآن

 

 

 

محمد تقی عثمانی

 

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

 

یہاں نمونے کے لیے فاتحہ اور بقرہ کی ۱۵۰ آیات شامل کی گئی ہیں۔ مکمل تفسیر ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھی جا سکتی ہے جن کو ۸ حصوں میں اپ لوڈ کیا جا رہا ہے۔

 

حصہ اول.۔ فاتحہ ۔ نساء

کنڈل فائل

حصہ دوم ۔ مائدہ ۔ آنفال

 

حصہ سوم، توبہ تا الحجر

 حصہ چہارم، النحل تا الحج

ورڈ فائل 

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ پنجم، مومنون تا روم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ ششم، لقمان تا غافر

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حصہ ہفتم، حٰم سجدہ تا واقعہ

حصہ ہشتم، حدید تا ناس

 

 

 

۱۔ سورۃ فاتحہ

 

تعارف

 

سورة فاتحہ نہ صرف قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے، بلکہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو مکمل طور پر نازل ہوئی، اس سے پہلے کوئی سورت پوری نہیں نازل ہوئی تھی، بلکہ بعض سورتوں کی کچھ آیتیں آئی تھیں، اس سورت کو قرآن کریم کے شروع میں رکھنے کا منشا بظاہر یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہو اسے سب سے پہلے اپنے خالق و مالک کی صفات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک حق کے طلب گار کی طرح اسی سے ہدایت مانگنی چاہیے، چنانچہ اس میں بندوں کو وہ دعا سکھائی گئی ہے جو ایک طالب حق کو اللہ سے مانگنی چاہیے، یعنی سیدھے راستے کی دعا، اس طرح اس سورت میں صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی جو دعا مانگی گئی ہے پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھاراستہ کیا ہے؟

 

آیت ۱

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان

 

تفسیر

 

، عربی کے قاعدے سے "رحمن” کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت وسیع (Extensive) ہو، یعنی اس رحمت کا فائدہ سب کو پہنچتا ہو اور "رحیم” کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت زیادہ (Intensive) ہو، یعنی جس پر ہو مکمل طور پر ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں سب کو پہنچتی ہے، جس سے مومن کافر سب فیضیاب ہو کر رزق پاتے ہیں اور دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور آخرت میں اگرچہ کافروں پر رحمت نہیں ہو گی، لیکن جس کسی پر (یعنی مومنوں پر) ہو گی، مکمل ہو گی کہ نعمتوں کے ساتھ کسی تکلیف کا کوئی شائبہ نہیں ہو گا۔  رحمن اور رحیم کے معنی میں جو یہ فرق ہے اس کو ظاہر کرنے کے لئے رحمن کا ترجمہ سب پر مہربان اور رحیم کا ترجمہ بہت مہربان کیا گیا ہے۔

 

آیت ۲

 

ترجمہ

 

تمام جہانوں کا پروردگار ہے

 

تفسیر

 

اگر آپ کسی عمارت کی تعریف کریں تو در حقیقت وہ اس کے بنانے والے کی تعریف ہوتی ہے، لہذا اس کائنات میں جس کسی چیز کی تعریف کی جائے وہ بالآخر اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے؛ کیونکہ وہ چیز اسی کی بنائی ہوئی ہے، تمام جہانوں کا پروردگار کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، انسانوں کا جہان ہو یا جانوروں کا، سب کی تخلیق اور پرورش اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور ان جہانوں میں جو کوئی چیز قابل تعریف ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور شان ربوبیت کی وجہ سے ہے۔

 

آیت ۳، ۴

 

ترجمہ

 

جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

جو روز جزا کا مالک ہے

 

تفسیر

 

روز جزا کا مطلب ہے وہ دن جب تمام بندوں کو ان کے دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، یوں تو روز جزا سے پہلے بھی کائنات کی ہر چیز کا اصلی مالک اللہ تعالیٰ ہے، لیکن یہاں خاص طور پر روز جزا کے مالک ہونے کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہی انسانوں کو بہت سی چیزوں کا مالک بنایا ہوا ہے، یہ ملکیت اگرچہ ناقص اور عارضی ہے تاہم ظاہری صورت کے لحاظ سے ملکیت ہی ہے، لیکن قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ جزا و سزا کا مرحلہ آئے گا تو یہ ناقص اور عارضی ملکیتیں بھی ختم ہو جائیں گی، اس وقت ظاہری ملکیت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہ ہو گی۔

 

آیت ۵

 

ترجمہ

 

(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں

 

تفسیر

 

یہاں سے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کا طریقہ سکھایا جا رہا ہے اور اسی کے ساتھ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی قسم کی عبادت کے لائق نہیں، نیز ہر کام میں حقیقی مدد اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہیے، کیونکہ صحیح معنی میں کار ساز اس کے سوا کوئی نہیں، دنیا کے بہت سے کاموں میں بعض اوقات کسی انسان سے جو مدد مانگی جاتی ہے، وہ اسے کارساز سمجھ کر نہیں، بلکہ ایک ظاہری سبب سمجھ کر مانگی جاتی ہے۔

 

آیت ۶، ۷

 

ترجمہ

 

ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما

ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۲۔ سورۃ البقرہ

 

تعارف

 

یہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورت ہے، اس کی آیات ۶۷ تا ۷۳ میں اس گائے کا واقعہ مذکور ہے جسے ذبح کرنے کا حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام سورة البقرۃ ہے، کیونکہ بقرہ عربی میں گائے کو کہتے ہیں، سورت کا آغاز اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے بیان سے ہوا ہے، اسی ضمن میں انسانوں کی تین قسمیں یعنی، مومن، کافر اور منافق بیان کی گئی ہیں، پھر حضرت آدمؑ کی تخلیق کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے، تاکہ انسان کو اپنی پیدائش کا مقصد معلوم ہو، اس کے بعد آیات کے ایک طویل سلسلہ میں بنیادی طور پر خطاب یہودیوں سے ہے جو بڑی تعداد میں مدینہ منورہ کے آس پاس آباد تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں نازل فرمائیں اور جس طرح انہوں نے ناشکری اور نافرمانی سے کام لیا اس کا مفصل بیان ہے، پہلے پارہ کے تقریباً آخر میں حضرت ابراہیمؑ کا تذکرہ ہے، اس لئے کہ انہیں نہ صرف یہودی اور عیسائی بلکہ عرب کے بت پرست بھی اپنا پیشوا مانتے تھے، ان سب کو یاد دلایا گیا کہ وہ خالص توحید کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی کسی قسم کی شرک کو گوارہ نہیں کیا، اسی ضمن میں بیت اللہ کی تعمیر اور اسے قبلہ بنانے کا موضوع زیر بحث آیا ہے، دوسرے پارہ کے شروع میں اس کے مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس سورت میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں جن میں عبادت سے لے کر معاشرت، خاندانی امور اور حکمرانی سے متعلق بہت سے مسائل داخل ہیں۔

یہ سورت مدنی ہے اور اس میں ۲۸۶ آیتیں اور ۴۰ رکوع ہیں

 

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

 

آیت ۱

 

ترجمہ

 

الم

تفسیر

 

مختلف سورتوں کے شروع میں یہ حروف اسی طرح الگ الگ نازل ہوئے تھے، ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا ایک راز ہے جس کی تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور عقیدے یا عمل کا کوئی مسئلہ ان کے سمجھنے پر موقوف نہیں۔

 

آیت ۲

 

ترجمہ

 

یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے ان کے ڈر رکھنے والوں کے لئے

 

تفسیر

 

یعنی اس کتاب کی ہر بات کسی شک و شبہ کے بغیر درست ہے، انسان کی لکھی ہوئی کسی کتاب کو سوفیصد شک سے بالاتر نہیں سمجھاجا سکتا، کیونکہ انسان کتنا ہی بڑا عالم ہو اس کا علم محدود ہوتا ہے اور اکثر اس کی کتاب اس کے ذاتی گمان پر مبنی ہوتی ہے، لیکن چونکہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی ہے جس کا علم لامحدود بھی ہے اور سو فیصد یقینی بھی، اس لئے اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، کسی کو شک ہو تو یہ اس کی ناسمجھی کی وجہ سے ہو گا کتاب کی کوئی بات شبہ والی نہیں۔

اگرچہ قرآن کریم نے صحیح راستہ ہر ایک کو دکھایا ہے خواہ وہ مومن ہو یا کافر اس لئے اس معنی کے لحاظ سے اس کی ہدایت سب کے لئے ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس ہدایت کا فائدہ انہی پہنچتا ہے جو اس کی بات کو مان کر اس کے تمام احکام اور تعلیمات پر عمل کریں، اس لئے فرمایا گیا کہ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں، پرہیز گاری اور ڈر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ اسے ایک دن اللہ کے حضور اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے لہذا مجھے کوئی کام ایسا نہ کرنا چاہئے جو اس کی ناراضی کا باعث ہو اسی خوف اور دھیان کا نام تقویٰ ہے۔ ‘‘ بے دیکھی چیزوں‘‘ کے لئے قرآن کریم نے‘‘ غیب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتیں، نہ ہاتھ سے چھو کر یا ناک سے سونگھ کر انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں، یعنی یا تو قرآن کریم میں ان کا ذکر ہے یا آنحضرتﷺ نے وحی کے ذریعے وہ باتیں معلوم کر کے ہمیں بتائی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفات، جنت و دوزخ کے حالات، فرشتے وغیرہ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ان متقی بندوں کی تعریف کی جا رہی ہے جو غیب کی چیزوں کو بغیر دیکھے صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے ارشادات پر یقین کر کے دل سے مانتے ہیں جو انہوں نے آنکھوں سے نہیں دیکھیں، یہ دنیا چونکہ امتحان کی جگہ ہے، اس لئے اگر یہ چیزیں آنکھوں سے نظر آ جاتیں اور پھر کوئی شخص ان پر ایمان لاتا تو کوئی امتحان نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو انسان کی نگاہ سے پوشیدہ رکھا ہے لیکن ان کے وجود کے بیشمار دلائل مہیا فرما دئے ہیں کہ جب کوئی شخص ذرا انصاف سے غور کرے گا تو ان باتوں پر ایمان لے آئے گا اور امتحان میں کامیاب ہو گا۔  قرآن کریم نے بھی وہ دلائل بیان فرمائے ہیں جو انشاء اللہ آگے آتے رہیں گے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ قرآن کریم کو حق طلبی کے جذبے سے غیر جانبدار ہو کر پڑھا جائے اور یہ خیال دل میں رکھا جائے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اس میں لاپروائی برتی جائے۔  یہ انسان کی ہمیشہ کی زندگی کی بہتری اور تباہی کا معاملہ ہے۔  لہٰذا یہ ڈر دل میں ہونا چاہیے کہ کہیں میری نفسانی خواہشات قرآن کریم کے دلائل ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں رکاوٹ نہ بن جائیں اس لئے مجھے اس کی دی ہوئی ہدایت کو تلاش حق کے جذبے سے پڑھنا چاہیے، اور پہلے سے دل میں جمے ہوئے خیالات سے ذہن کو خالی کر کے پڑھنا چاہیے تاکہ مجھے واقعی ہدایت نصیب ہو۔ ‘‘ یہ ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لئے‘‘ کا ایک مطلب یہ بھی ہے۔

 

آیت ۳

 

ترجمہ

 

جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔

 

تفسیر

 

جو لوگ قرآن کریم کی ہادیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں یہاں ان کی صفات بیان فرمائی گئ ہیں ان میں سے سب سے پہلی صفت تو یہ ہے کہ وہ‘‘ غیب‘‘ یا ان دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں۔  جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی۔  اس میں تمام ایمانیات داخل ہو گئے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا، یا جو کچھ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اس سب پر ایمان لاتے ہیں۔  دوسری چیز نماز قائم کرنا بیان کی گئی ہے جو بدنی عبادتوں میں سب سے اہم ہے اور تیسری چیز اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا جس میں زکوٰۃ و صدقات آ جاتے ہیں جو مالی عبادت ہے۔

 

آیت ۴

 

ترجمہ

 

اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں

 

تفسیر

 

یعنی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کے جو وحی حضور اکرمﷺ پر اتاری گئی وہ بھی بالکل سچی ہے اور جو آپ سے پہلے انبیائے کرامؑ مثلاً حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰؑ وغیرہ پر نازل کی گئی تھی وہ بھی بالکل سچی تھی اگرچہ بعد میں لوگوں نے اسے ٹھیک ٹھیک محفوظ نہ رکھا بلکہ اس میں تحریف کر دی۔

اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کر دیا گیا کہ وحی کا سلسلہ حضور اکرمﷺ پر ختم ہو گیا، آپﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہو گا جس پر وحی آئے یا اسے پیغمبر بنایا جائے، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرتﷺ پر نازل ہونے والی وحی اور آپ سے پہلے کے انبیاءؑ پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر فرمایا ہے آپ کے بعد کی کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا۔  اگر آپ کے بعد بھی کوئی نیا پیغمبر آنے والا ہوتا یا اس کی وحی پر ایمان لانا ضروری ہوتا تو اس کو بھی یہاں بیان فرمایا جاتا جیسا کہ پچھلے پیغمبروں سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ آپ حضرات کے بعد حضور نبی کریمﷺ تشریف لانے والے ہیں آپ کو ان پر بھی ایمان رکھنا ہو گا۔  (دیکھئے قرآن کریم سورة آل عمران آیت ۸۱)

آخرت سے مراد وہ زندگی ہے جو مرنے کے بعد حاصل ہو گی اور جو ہمیشہ کے لئے ہو گی اور اس میں ہر بندے کو دنیا میں کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور اسی کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہو گا کہ وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں، اگرچہ یہ آخرت بھی غیب یعنی ان دیکھی چیزوں میں شامل ہے جس پر ایمان لانے کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا تھا، لیکن آخر میں اسے علیحدہ کر کے خصوصی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کا عقیدہ ہی در حقیقت انسان کی سوچ اور اس کی عملی زندگی کو صحیح راستے پر رکھتا ہے جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ ایک دن مجھے اللہ کے سامنے پیش ہو کر اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے وہ کسی گناہ یا جرم کا ارتکاب پر کبھی ڈھٹائی کے ساتھ آمادہ نہیں ہو گا۔

 

آیت ۵، ۶

 

ترجمہ

 

یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔

بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں، چاہے آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے

 

تفسیر

 

یہاں ان کافروں کا ذکر ہو رہا ہے جنہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ چاہے کتنے واضح اور روشن دلائل ان کے سامنے آ جائیں وہ کبھی آنحضرتﷺ کی دعوت پر ایمان نہیں لائیں گے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کفر پر اڑ گئے ہیں۔‘‘ ترجمے میں‘‘ کفر اپنا لیا ہے‘‘ کے الفاظ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔

‘‘ ڈرانا‘‘ انذار کا ترجمہ کیا گیا ہے۔  قرآن کریم نے انبیائے کرامؑ کی دعوت کو بکثرت‘‘ ڈرانے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔  کیونکہ انبیاء کرامؑ لوگوں کو کفر اور بداعمالیوں کے برے انجام سے ڈراتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ کوئی بات ماننی نہیں ہے، ان کو برے انجام سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

 

آیت ۷

 

ترجمہ

 

اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے۔

 

تفسیر

 

اس آیت میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی بڑی خطرناک چیز ہے، اگر کوئی شخص نا واقفیت یا غفلت وغیرہ کی وجہ سے کسی غلطی کا ارتکاب کرے تو اس کی اصلاح کی امید ہو سکتی ہے، لیکن جو شخص غلطی پر اڑ جائے اور تہیہ کر لے کہ کسی بھی حالت میں بات نہیں ماننا ہے، تو اس کی ضد کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کے بعد اس سے حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس حالت سے محفوظ رکھے، لہذا اس پر شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب خود اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر مہر لگا دی تو معذور ہو گئے اس لئے کہ یہ مہر لگانا خود انہی کی ضد اور تہیہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ حق بات نہیں ماننی۔

 

آیت ۸

 

ترجمہ

 

کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں

 

تفسیر

 

سورت کے شروع میں مومنوں کے اوصاف اور ان کا انجام خیر بیان فرمایا گیا، پھر ان لوگوں کا ذکر ہوا جو کھلے کافر ہیں، اب یہاں سے ایک تیسرے گروہ کا بیان ہو رہا ہے جسے منافق کہا جاتا ہے یہ لوگ ظاہر میں تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے مگر دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔

 

آیت ۹

 

ترجمہ

 

وہ اللہ کو اور ان لوگوں کو جو (واقعی) ایمان لا  چکے ہیں دھوکا دیتے ہیں اور (حقیقت تو یہ ہے کہ) وہ اپنے سوا کسی اور کو دھوکا نہیں دے رہے لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے

 

تفسیر

 

یعنی بظاہر تو وہ اللہ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، کیونکہ اس دھوکے کا انجام خود ان کے حق میں برا ہو گا، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے وہ کفر کے دنیوی انجام سے بچ گئے، حالانکہ آخرت میں ان کو جو عذاب ہو گا وہ دنیا کے عذاب سے زیادہ سنگین ہے۔

 

آیت ۱۰

 

ترجمہ

 

ان کے دلوں میں روگ ہے چنانچہ اللہ نے ان کے روگ میں اور اضافہ کر دیا ہے اور ان کے لئے دردناک سزا تیار ہے، کیونکہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے

 

تفسیر

 

یہ وہی بات ہے جو پیچھے آیت نمبر ۷ میں کہی گئی تھی۔  یعنی شروع میں انہوں نے اپنے اختیار سے اس گمراہی کو اپنایا اور اس پر اڑ گئے، یہ ان کے دل کی بیماری تھی، پھر ان کی ضد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا کہ اب انہیں واقعی ایمان لانے کی توفیق نہیں ہو گی۔

 

آیت ۱۱ ۔ ۱۴

 

ترجمہ

 

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔

یاد رکھو یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لے آؤ جیسے دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جیسے بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟ خوب اچھی طرح سن لو کہ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے

اور جب یہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لا  چکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب یہ اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مذاق کر رہے تھے

 

تفسیر

 

’’اپنے شیطانوں‘‘ سے مراد وہ سردار ہیں جو ان منافقین کی سازشوں میں ان کے سربراہ اور رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔

 

آیت ۱۵

 

ترجمہ

 

اللہ ان سے مذاق (کا معاملہ) کرتا ہے اور انہیں ایسی ڈھیل دیتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں

تفسیر

 

یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی رسی دراز کر رکھی ہے کہ ان کے دوغلے پن کی فوری سزا دنیا میں انہیں نہیں مل رہی ہے، جس سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہماری تدبیر کارگر ہو گئی، چنانچہ وہ اپنی اس گمراہی میں اور پختہ ہوتے جا رہے ہیں، آخرت میں انہیں ایک دم پکڑ لیا جائے گا، چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ عمل ان کے مذاق کا نتیجہ تھا اسے یہاں اللہ ان سے مذاق کرتا ہے کے عنوان سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔

 

آیت ۱۶، ۱۷

 

ترجمہ

 

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوا اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوا۔

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ روشن کی پھر جب اس (آگ نے) اس کے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا

 

تفسیر

 

یہاں سے ان منافقوں کی مثال دی جا رہی ہے جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود نفاق کی گمراہی میں پھنسے رہے، اسلام کے واضح دلائل کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح اس روشنی سے ماحول کی چیزیں صاف نظر آنے لگتی ہیں اسی طرح اسلام کے دلائل سے حقیقت ان پر واضح ہو گئی، لیکن پھر ضد اور عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ روشنی ان سے سلب کر لی اور وہ دیکھنے کی قوت سے محروم ہو گئے۔

 

آیت ۱۸

 

ترجمہ

 

وہ بہرے ہیں گونگے ہیں، اندھے ہیں چنانچہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔۱

یا پھر ان (مناففوں) کی مثال ایسی ہے ۲ جیسے آسمان سے برستی ایک بارش ہو، جس میں اندھیریاں بھی ہوں اور گرج بھی اور چمک بھی۔  وہ کڑکوں کی آواز پر موت کے خوف سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیتے ہیں۔  اور اللہ نے کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے

 

تفسیر

 

۱۔ منافقوں کی پہلی مثال تو ان منافقین سے متعلق تھی جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود خوب سوچ سمجھ کر کفر اور نفاق کا راستہ اختیار کئے ہوئے تھے، اب منافقین کے اس گروہ کی مثال دی جا رہی ہے جو اسلام لانے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا، جب اسلام کی حقانیت کے دلائل سامنے آئے تو ان کے دل میں اسلام کی طرف جھکاؤ پیدا ہوتا اور وہ اسلام کی طرف بڑھنے لگتے، لیکن جب اسلامی احکام کی ذمہ داریاں اور حلال و حرام کی باتیں سامنے آتیں تو وہ اپنی خود غرضی کی وجہ سے رک جاتے، یہاں اسلام کو ایک برستی ہوئی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس میں کفر و شرک کی خرابیوں کا جو بیان ہے اسے اندھیریوں سے اور اس میں کفر و شرک پر عذاب کی جو دھمکیاں دی گئی ہیں انہیں گرج سے تشبیہ دی گئی ہے۔  نیز قرآن کریم میں حق کے جو دلائل اور حق کو تھامنے والوں کے لئے جنت کے جو وعدے کئے گئے ہیں، انہیں بجلی کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے، جب یہ روشنی ان منافقین کے سامنے چمکتی ہے تو وہ چل پڑتے ہیں مگر کچھ دیر میں ان کی خواہشات کی ظلمت ان پر چھا جاتی ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں۔

۲۔ یعنی جب قرآن کریم کفر اور فسق پر عذاب کی وعیدیں سناتا ہے تو یہ اپنے کان بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عذاب سے محفوظ ہو گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہ اس سے بچ کر نہیں جا سکتے۔

 

آیت ۲۰ ۔ ۲۲

 

ترجمہ

 

ایسا لگتا ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو اچک لے جائے گی جب بھی ان کے لئے روشنی کر دیتی ہے وہ اس (روشنی) میں چل پڑتے ہیں اور جب وہ ان پر اندھیرا کر دیتی ہے تو وہ کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے سننے اور دیکھنے کی طاقتیں چھین لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

اے لوگو اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔

(وہ پروردگار) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا، اور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل نکالے، لہذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم (یہ سب باتیں) جانتے ہو۔

 

تفسیر

 

ان دو آیتوں (آیت نمبر  ۲۱ اور ۲۲) میں اسلام کے بنیادی عقیدے توحید کی دعوت دی گئی ہے اور مختصر انداز میں اس کی دلیل بھی بیان کر دی گئی ہے اہل عرب یہ مانتے تھے کہ ساری کائنات کو پیدا کرنا، زمین و آسمان کی تخلیق اور آسمان سے بارش برسانا اور اس سے پیداوار اگانا، یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں، اس کے باوجود یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے کام بتوں کے سپرد کر رکھے ہیں اور وہ بت اپنے کاموں میں براہ راست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہذا وہ ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے تھے کہ وہ ان کی مدد کریں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہر چیز پیدا کرنے والے ہم ہیں اور ہمیں کائنات چلانے کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں تو عبادت کسی اور کی کرنا کتنے بڑے ظلم کی بات ہے۔

 

آیت ۲۳، ۲۴

 

ترجمہ

 

اور اگر تم اس (قرآن) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔  اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مدد گاروں کو بلا لو۔

پھر بھی اگر تم یہ کام نہ کر سکو اور یقیناً کبھی نہیں کر سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

 

تفسیر

 

پچھلی آیات میں توحید کا بیان تھا اب اسلام کے دوسرے اہم عقیدے یعنی آنحضرتﷺ کی رسالت کا بیان ہے اور عرب کے جو لوگ قرآن پر ایمان لانے کے بجائے یہ الزام لگاتے تھے کہ آنحضرتﷺ شاعر ہیں اور انہوں نے اپنی طرف سے یہ کلام بنا لیا ہے، انہیں زبردست چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر ایسا کلام کوئی انسان بنا سکتا ہے تو تم بڑے فصیح و بلیغ ہو، تم سب مل کر قرآن جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ، ساتھ ہی قرآن نے دعوی کیا ہے کہ تم سب مل کر بھی ایسا نہیں کر سکو گے اور واقعہ یہی ہے کہ اہل عرب جو اپنی زبان و ادب پر ناز کرتے تھے ان سب کو اس چیلنج کے بعد سانپ سونگھ گیا اور کوئی شخص یہ چیلنج قبول کرنے کے لئے آگے نہ بڑھا بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے اس خدائی کلام کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور اس طرح آنحضرتﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح ثابت اور واضح ہو گئی۔

 

آیت ۲۵

 

ترجمہ

 

اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغات (تیار) ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جب کبھی ان کو ان (باغات) میں سے کوئی پھل رزق کے طور پر دیا جائے گا تو وہ کہیں گے‘‘ یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا گیا تھا‘‘ اور انہیں وہ رزق ایسا ہی دیا جائے گا جو دیکھنے میں ملتا جلتا ہو گا اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (باغات) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

 

تفسیر

 

یہ اسلام کے تیسرے عقیدے یعنی آخرت پر ایمان کا بیان ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی آنے والی ہے جس میں ہر انسان کو اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہو گا اگر ایمان کے ساتھ نیک عمل کئے ہوں گے تو وہ جنت نصیب ہو گی جس کی ایک جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے۔

اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جنت میں جب اہل جنت کو پھل دیا جائے گا تو وہ کہیں گے  یہ وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے کھانے کو دیا گیا، اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جنت میں وقفہ وقفہ سے ایسے پھل دئے جائیں گے جو دیکھنے میں بالکل ملتے جلتے ہوں گے، مگر لذت اور ذائقے میں ہر پھل نیا ہو گا اور دوسرا مطلب یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے پھل دیکھنے میں دنیا کے پھلوں کی طرح ہوں گے اس لئے انہیں دیکھ کر جنتی یہ کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں پہلے یعنی دنیا میں ملے تھے، لیکن جنت میں ان کی لذت اور خصوصیات دنیا کے پھلوں سے کہیں زیادہ ہوں گی۔

 

آیت ۲۶

 

ترجمہ

 

بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لئے) کوئی بھی مثال دے، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے۔  البتہ جو لوگ کافر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے اللہ کا کیا مطلب ہے؟ (اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں۔

 

تفسیر

 

بعض کافروں نے قرآن کریم پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اس میں کچھ مثالیں مکھی، مچھر، مکڑی وغیرہ کی دی گئی ہیں، اگر یہ واقعی خدا کا کلام ہوتا تو اس میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر نہ ہوتا، ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بڑا بے تکا اعتراض تھا کیونکہ مثال ہمیشہ مضمون کی مناسبت سے دی جاتی ہے اگر کسی حقیر و ذلیل کی مثال دینی ہو تو ایسی ہی کسی چیز سے دی جائے گی جو حقیر و ذلیل ہو، یہ کسی کلام کا عیب تو کیا ہوتا اس کی فصاحت و بلاغت کی دلیل ہے مگر یہ بات انہی کی سمجھ میں آتی ہے جو طالب حق ہوں اور حق پر ایمان لا  چکے ہوں لیکن جنہوں نے کفر کی قسم کھا رکھی ہے انہیں تو ہر بات پر ہر حالت میں اعتراض کرنا ہے اس لئے ایسی بے تکی باتیں کہتے ہیں۔

قرآن کریم کی یہی آیتیں جو طالب حق کو ہدایت بخشتی ہیں ایسے لوگوں کے لئے مزید گمراہی کا سبب بن جاتی ہیں جنہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ کر یہ طے کر لیا ہے کہ حق بات ماننی نہیں ہے کیونکہ وہ ہر نئی آیت کا انکار کرتے ہیں اور ہر آیت کا انکار ایک مستقل گمراہی ہے۔

 

آیت ۲۷

 

ترجمہ

 

وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد ۱ کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ۲ انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔

 

تفسیر

 

۱۔ عہد سے مراد اکثر مفسرین نے وہ عہد الست لیا ہے جس کا ذکر سورة اعراف (۷  ۱۷۲) میں ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا کرنے سے بہت پہلے آنے والی تمام روحوں کو جمع کر کے ان سے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، سب نے اللہ تعالیٰ کے پروردگار ہونے کا اقرار کر کے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے، پھر اس آیت میں عہد کو پختہ کرنے سے مراد بظاہر یہ ہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے رسول آتے رہے جو اس عہد کو یاد دلا کر اللہ تعالیٰ کے خالق و مالک ہونے پر دلائل قائم کرتے رہے۔

اس عہد کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد وہ عملی اور خاموش عہد (tacit covenant) ہے جو ہر انسان پیدا ہوتے ہی اپنے خالق و مالک سے کرتا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے ہر شخص جو کسی ملک میں پیدا ہوتا ہے وہ اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے یہ خاموش عہد کرتا ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین کا پابند ہو گا خواہ زبان سے اس نے کچھ نہ کہا ہو لیکن اس کا کسی ملک میں پیدا ہونا ہی اس عہد کے قائم مقام ہے، اسی طرح کائنات میں جو شخص بھی پیدا ہوتا ہے وہ خود بخود اس عہد کا پابند ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارے گا۔  اس عہد کے لئے زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔  غالباً اسی وجہ سے اگلی آیت میں باری تعالیٰ نے فوراً یہ ارشاد فرمایا کہ‘‘ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا طرز عمل آخر کیسے اختیار کر لیتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے، اسی نے تمہیں زندگی بخشی‘‘ یعنی اگر ذرا غور کرو تو تنہا یہ بات کہ کسی نے تمہیں پیدا کیا ہے، تمہاری طرف سے یہ عہد و پیمان ہے کہ تمہارے لئے ان کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنا لازمی ہو گا۔  ورنہ یہ کونسی عقل اور کونسا انصاف ہے کہ پیدا تو اللہ تعالیٰ کرے، اور فرمانبرداری اس کے بجائے کی اور کی کی جائے، پھر اس خاموش عہد کو مزید پختہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ذریعے متواتر تمہیں اس عہد کی یاد دہانی کراتا رہا ہے اور ان پیغمبروں نے وہ مضبوط دلائل تمہارے سامنے پیش کئے ہیں جن سے یہ عہد مزید پختہ ہو گیا ہے کہ انسان کو ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی ہے۔

۲۔ اس سے مراد رشتہ داروں کے وہ حقوق پامال کرنا ہے جنہیں صلہ رحمی کہا جاتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی تین صفات بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ اللہ سے کیا ہوا عہد توڑتے ہیں دوسرے یہ کہ وہ رشتہ داروں کے حقوق پامال کرتے ہیں اور تیسرے یہ کہ زمین میں فساد مچاتے ہیں، ان میں سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتا ہے جو رکھنا چاہئے اور نہ اس کی وہ عبادت کرتا ہے جو ان پر فرض ہے، دوسری اور تیسری چیز کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اللہ تعالیٰ نے مختلف رشتوں کے جو حقوق مقرر فرمائے ہیں، ان کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی سے ہی ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے، اگر ان رشتوں کو کاٹ کر باپ، بیٹے، بھائی بھائی، شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق پامال کرنا شروع کر دیں تو وہ خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے جس پر ایک صحت مند تمدن کی بنیاد قائم ہوتی ہے، لہذا اس کا لازمی نتیجہ زمین میں فساد کی صورت میں نکلتا ہے اسی لئے قرآن کریم نے رشتوں کو کاٹنے اور زمین میں فساد مچانے کو سورة محمد (۲۶  ۲۲) میں بھی ایک ساتھ ملا کر ذکر فرمایا ہے . آیت فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم۔

 

آیت ۲۸

 

ترجمہ

 

تم اللہ کے ساتھ کفر کا طرز عمل آخر کیسے اختیار کر لیتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اسی نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تم کو (دوبارہ) زندہ کرے گا اور پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے

تفسیر

 

آیت ۲۹

 

ترجمہ

 

وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، چنانچہ ان کو سات آسمانوں کی شکل میں ٹھیک ٹھیک بنا دیا، اور وہ ہر چیز کا پورا علم رکھنے والا ہے۔

تفسیر

 

۲۶  انسان کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ وہ کائنات کی جتنی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی عطا فرمائی ہوئی ہیں، ان میں سے ہر چیز اس کی توحید کی گواہی دے رہی ہے اس کے باوجود اس کے ساتھ کفر کارویہ اختیار کرنا کتنی بڑی ناشکری ہے، اسی آیت سے فقہاء نے یہ اصول بھی مستنبط کیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اصل میں حلال ہے اور جب تک کسی چیز کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ہو اس وقت تک اس کو حلال ہی سمجھا جائے گا۔

 

آیت ۳۰

 

ترجمہ

 

اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں وہ کہنے لگے۔  کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون خرابہ کرے حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں اللہ نے کہا  میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے

تفسیر

 

۲۷  آیت نمبر ۲۲ میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت واجب ہونے کی نہایت مختصر اور سادہ مگر مضبوط دلیل یہ دی گئی تھی کہ جس نے تمہیں وہی عبادت کا مستحق ہے۔  آیت نمبر ۲۸ میں کافروں کے کفر پر تعجب کا اظہار بھی اسی بنا پر کیا گیا تھا۔  اب انسان کی پیدائش کا پورا واقعہ بیان کر کے اس دلیل کو مزید پختہ کیا جا رہا ہے آیت میں خلیفہ سے مراد انسان ہے اور اس کے خلیفہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور اپنی طاقت کے مطابق دوسروں سے بھی عمل کروانے کی کوشش کرے۔

۲۸  فرشتوں کے اس سوال کا منشاء خدا نخواستہ کوئی اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ وہ حیرت کر رہے تھے کہ ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جو نیکی کے ساتھ بدی کی صلاحیت بھی رکھتی ہو گی جس کے نتیجے میں زمین پر فساد پھیلنے کا امکان ہو گا،، مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر جنات پیدا کیا گئے تھے اور انہوں نے آپس میں لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو ختم کر ڈالا تھا، فرشتوں نے سوچا کہ شاید انسان کا انجام بھی ایسا ہی ہو۔

 

آیت ۳۱

 

ترجمہ

 

اور آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھا دیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور (ان سے) کہا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔

تفسیر

 

۲۹  ناموں سے مراد کائنات میں پائی جانے والی چیزوں کے نام ان کی خاصیتیں اور انسان کو پیش آنے والی مختلف کیفیات کا علم ہے مثلاً بھوک، پیاس، صحت اور بیماری وغیرہ، اگرچہ آدمؑ کو ان چیزوں کی تعلیم دیتے وقت فرشتے بھی موجود تھے، لیکن چونکہ ان کی فطرت میں ان چیزوں کی پوری سمجھ نہیں تھی اس لئے جب ان کا امتحان لیا گیا تو وہ جواب نہیں دے سکے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر انہیں باور کرا دیا کہ جو کام اس نئی مخلوق سے لینا مقصود ہے وہ فرشتے انجام نہیں دے سکتے۔

 

آیت ۳۲

 

ترجمہ

 

وہ بول اٹھے آپ ہی کی ذات پاک ہے جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں

تفسیر

 

۳۰  بظاہر ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام صرف حضرت آدمؑ کو سکھائے گئے تھے اور فرشتے اس تعلیم میں شریک نہیں تھے، اس صورت میں اس سے ناموں کے بارے میں پوچھنا یہ بتانے کے لئے تھا کہ تم میں وہ صلاحیت نہیں رکھی گئی جو آدمؑ کی تخلیق سے مقصود ہے، دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ آدمؑ کو سکھاتے وقت فرشتے موجود تھے، لیکن چونکہ ان میں ان باتوں کو سمجھنے یا یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے وہ امتحان کے وقت جواب نے دے سکے، اس صورت میں ان کے جواب کا حاصل یہ ہو گا کہ ہمیں وہی علم حاصل ہو سکتا ہے جو آپ ہمیں دینا چاہیں اور اس کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا کر دیں۔

 

آیت ۳۳

 

ترجمہ

 

اللہ نے کہا آدم تم ان کو ان چیزوں کے نام بتادو چنانچہ جب اس نے ان کے نام ان کو بتا دیئے تو اللہ نے (فرشتوں سے) کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو مجھے اس سب کا علم ہے

تفسیر

 

آیت ۳۴

 

ترجمہ

 

اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو چنانچہ سب نے سجد کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہو گیا،

تفسیر

 

۳۱  فرشتوں کے سامنے آدمؑ کی عظمت کا علمی مظاہرہ اور ان کا امتحان لینے کے لئے انہیں آدمؑ کو سجدہ کرنے حکم دیا گیا یہ سجدہ عبادت کا نہیں تعظیم کا سجدہ تھا جو بعض پچھلی شریعتوں میں جائز تھا بعد میں تعظیم کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی سختی سے ممانعت کر دی گئی تاکہ شرک کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہ ہو، یہ سجدہ کروانا اس بات کا بھی مظاہرہ تھا کہ فرشتوں کو اس بات کی تلقین کی جا رہی ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ان کے اختیار میں دی گئی ہیں وہ انسان کے لئے مسخر کر دی جائیں تاکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ ان کو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط۔

۳۲  اگرچہ براہ راست سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا مگر اس میں تمام جاندار مخلوقات بھی شامل تھیں لہذا ابلیس جو جنات میں سے تھا اس پر بھی اس حکم کی تعمیل لازم تھی لیکن جیسا کہ خود قرآن کریم نے دوسری جگہ بیان فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے افضل ہوں میں اسے کیوں سجدہ کروں (اعراف ۷  ۲۲) اس واقعہ سے دو سبق ملتے ہیں ایک یہ کہ اپنے آپ کو بذات خود دوسروں سے بڑا سمجھنا اور اپنی بڑائی بگھارنا کتنا بڑا گناہ ہے اور دوسرا سبق یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم آ جائے تو بندے کا کام یہ ہے کہ اس حکم کو دل وجان سے بجا لائے، چاہے اس کی حکمت اور فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے

 

آیت ۳۵

 

ترجمہ

 

اور ہم نے کہا آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاؤ مگر اس درخت کے پاس بھی مت جانا ورنہ تم ظالموں میں شمار ہو گے

تفسیر

 

۳۳  یہ کونسا درخت تھا؟ قرآن کریم نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی نہ اس کے جاننے کی ضرورت ہے اتنا جان لینا کافی ہے کہ جنت کے درختوں میں ایک درخت ایسا تھا جس کا پھل کھانے سے انہیں روک دیا گیا تھا، بعض روایات میں ہے کہ یہ گندم کا درخت تھا بعض میں انگور کا ذکر ہے مگر کوئی روایت ایسی نہیں جس پر پورا بھروسہ کیا جا سکے۔

 

آیت ۳۶

 

ترجمہ

 

پھر ہوا یہ کہ شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے ڈگمگا دیا ۱ اور جس (عیش) میں وہ تھے اس سے انہیں نکال کر رہا اور ہم نے (آدم، ان کی بیوی اور ابلیس سے) کہا  اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے، اور تمہارے لئے ایک مدت تک زمین میں ٹھہرنا اور کسی قدر فائدہ اٹھانا (طے کر دیا گیا) ہے ۲

 

تفسیر

 

۱۔ یعنی شیطان نے انہیں بہکا کر اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر دیا اور بہانہ یہ بنایا کہ یوں تو یہ درخت بڑا مفید ہے کیونکہ اس کو کھانے سے ابدی زندگی حاصل ہو جاتی ہے، لیکن شروع میں آپ کو اس لئے منع کیا گیا تھا کہ آپ کی جسمانی کیفیت اس کو برداشت نہ کر سکتی تھی اب چونکہ آپ جنت کے ماحول کے عادی ہو گئے ہیں اور آپ کے قوی مضبوط ہو چکے ہیں اس لئے اب وہ ممانعت باقی نہیں رہی۔  اس واقعے کی مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورة اعراف (۷:  ۱۹ تا ۲۳) اور سورة طہ (۲۰:  ۱۲۰)

۲۔ مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے نتیجے میں آدمؑ اور ان کی اہلیہ کو جنت سے اور شیطان کو آسمانوں سے نیچے زمین پر اترنے کا حکم دے دیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا کہ انسان اور شیطان کے درمیان رہتی دنیا تک دشمنی قائم رہے گی اور زمین کا یہ قیام ایک معین مدت تک ہو گا جس میں کچھ دنیوی فائدے اٹھانے کے بعد سب کو بالآخر اللہ تعالیٰ کے پاس دوبارہ پیش ہونا ہو گا۔

 

آیت ۳۷

 

ترجمہ

 

پھر آدم نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے) کچھ الفاظ سیکھ لیے (جن کے ذریعے انہوں نے توبہ مانگی) چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی بیشک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے

 

تفسیر

 

جب آدمؑ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ پریشان ہو گئے لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے کن الفاظ میں معافی مانگیں، اس لئے زبان سے کچھ نکل نہیں رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کے حال سے بھی خوب واقف ہے اور رحیم و کریم بھی ہے ان کی اس کیفیت کے پیش نظر خود ہی ان کو توبہ کے الفاظ سکھائے جو سورة اعراف میں مذکور ہیں  قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آیت نمبر  ۲۳) اے ہمارے پروردگار ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھیجنے سے پہلے انسان کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کبھی نفسانی خواہشات یا شیطان کے بہکاوے میں آ کر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اسے فوراً اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہئے اور اگرچہ توبہ کے لئے کوئی خاص الفاظ لازمی نہیں ہیں بلکہ ہر وہ جملہ جس میں اپنے کئے پر ندامت اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ شامل ہو، اس کے ذریعہ توبہ ممکن ہے لیکن چونکہ یہ الفاظ خود اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے ہیں اس لئے ان الفاظ میں توبہ کرنے سے قبولیت کی زیادہ امید ہے۔

یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جیسا کہ پیچھے آیٰت ۳۰ سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے آدمؑ کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجنے کے لئے پیدا فرمایا تھا لیکن زمین پر بھیجنے سے پہلے انہیں جنت میں رکھنے اور اس کے بعد کے واقعات کا تکوینی مقصد بظاہر یہ تھا کہ ایک طرف حضرت آدمؑ جنت کی نعمتوں کا خود تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ ان کی اصل منزل کیا ہے اور زمین پر پہنچنے کے بعد اس منزل کے حصول میں کس قسم کی رکاوٹیں پیش آ سکتی ہیں اور ان سے نجات پانے کا کیا طریقہ ہو گا؟ چونکہ فرشتوں کے مقابلے میں انسان کا امتیاز ہی یہ تھا کہ اس میں اچھائی اور برائی دونوں کی صلاحیت رکھی گئی تھی اس لئے ضروری تھا کہ اسے زمین پر بھیجنے سے پہلے ایسے تجربے سے گزارا جائے پیغمبر چونکہ معصوم ہوتے ہیں اور ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد نہیں ہو سکتا اس لئے حضرت آدمؑ کی یہ غلطی در حقیقت اجتہادی غلطی (Bonafide Mistake تھی یعنی سوچ کی یہ غلطی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو شیطان کے بہکانے سے ایک خاص وقت تک محدود سمجھ لیا، ورنہ اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانی کا ہرگز ان سے تصور نہیں کیا جا سکتا تاہم چونکہ یہ قصور بھی ایک پیغمبر کے شایان شان نہ تھا اس لئے اسے بعض آیات میں گناہ یا حکم عدولی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس پر توبہ کی تلقین فرمائی گئی ہے۔  ساتھ ہی زیر نظر آیت میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور اس طرح اس عیسائی عقیدہ کی تردید فرما دی گئی جس کا کہنا یہ ہے کہ آدمؑ کا یہ گناہ ہمیشہ کے لئے انسان کی سرشت میں داخل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں ہر بچہ ماں کے پیٹ سے گناہگار پیدا ہوتا ہے اور اس مشکل کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ کو اپنا بیٹا دنیا میں بھیج کر اسے قربان کرنا پڑا تاکہ وہ ساری دنیا کے لئے کفارہ بن سکے، قرآن کریم نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرما دیا کے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی تھی اس لئے نہ وہ گناہ باقی رہا تھا نہ اس کے اولاد آدم کی طرف منتقل ہونے کا سوال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون عدل میں ایک شخص کے گناہ کا بوجھ دوسرے کے سر پر نہیں ڈالا جاتا۔

 

آیت ۳۸

 

ترجمہ

 

ہم نے کہا اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تمہیں پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے

تفسیر

 

آیت ۳۹

 

ترجمہ

 

اور جو لوگ کفر کا ارتکاب کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے

تفسیر

 

آیت ۴۰

 

ترجمہ

 

اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھے سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں، اور تم (کسی اور سے نہیں، بلکہ) صرف مجھی سے ڈرو (۳۷)

تفسیر

 

ف ۳۷ اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا دوسرا نام ہے ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے، تمام تر یہودی اور اکثر عیسائی اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے، مدینہ منورہ میں یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی اور رسول اکرمﷺ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد نہ صرف ان کو اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ان سے امن کا معاہدہ بھی فرمایا تھا، لہذا اس مدنی سورت میں زیرنظر آیت سے آیت نمبر  ۱۴۳ تک مسلسل بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، جس میں انہیں اسلام کی دعوت بھی دی گئی ہے اور ان کو نصیحت کرنے کے ساتھ ان کی بد عنوانیوں پر متنبہ بھی کیا گیا ہے، شروع میں ان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کیسے کیسے انعامات فرمائے تھے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہو کر اس عہد کو پورا کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا کہ وہ تورات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے اور اللہ کے بھیجے ہوئے ہر نبی پر ایمان لائیں گے، لیکن انہوں نے تورات پر عمل کرنے کے بجائے اس کو من مانی تاویلیں شروع کر دیں اور اس کے احکام کو بدل ڈالا، چونکہ اس طرز عمل کی وجہ یہ بھی تھی کہ حق کو قبول کرنے کی صورت میں انہیں اپنے ہم مذہب لوگوں کا ڈر تھا کہ وہ کہیں ان سے بد ظن نہ ہو جائیں اس لئے اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ مخلوق سے ڈرنے کے بجائے انہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف دل میں نہیں رکھنا چاہئے۔

 

آیت ۴۱

 

ترجمہ

 

اور جو کلام میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ جبکہ وہ اس کتاب (یعنی تورات) کی تصدیق بھی کر رہا ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ اور میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور (کسی اور کے بجائے) صرف میرا خوف دل میں رکھو۔

 

تفسیر

 

بنی اسرائیل کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم وہی دعوت لے کر آیا ہے جو تورات اور انجیل کی دعوت تھی اور جن آسمانی کتابوں پر وہ ایمان رکھتے ہیں قرآن کریم انہیں جھٹلانے کے بجائے دو طرح سے ان کی تصدیق کرتا ہے ایک اس لحاظ سے کہ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ کتابیں اللہ ہی کی نازل کی ہوئی تھیں (یہ اور بات ہے کہ بعد کے لوگوں نے ان میں کافی رد و بدل کر ڈالا جس کی حقیقت قرآن نے واضح فرمائی) اور دوسرے قرآن اس حیثیت سے ان کتابوں کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کتابوں میں آخری نبی کی تشریف آوری کی جو پیشین گوئیاں کی گئی تھیں قرآن کریم نے انہیں سچا کر دکھایا اس کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل عرب کے بت پرستوں سے پہلے اس پر ایمان لاتے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جس تیز رفتاری سے بت پرست اسلام لا رہے ہیں اس رفتار سے یہودی ایمان نہیں لا رہے ہیں اور اس طرح گویا بنی اسرائیل قرآن کی تکذیب کرنے میں پیش پیش ہیں اس لئے کہا گیا کہ تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ، بعض یہودیوں کا طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ رشوت لے کر تورات کی تشریح عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق کر دیا کرتے تھے اور بعض اوقات اس کے احکام کو چھپا لیتے تھے ان کے اس طرز عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ نہ کرو اور نہ حق بات کو چھپاؤ۔

 

آیت ۴۲

 

ترجمہ

 

اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ (اصل حقیقت) تم اچھی طرح جانتے ہو

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو

 

تفسیر

 

رکوع کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع نہیں ہوتا تھا۔

 

آیت ۴۴ ۔ ۴۹

 

ترجمہ

 

کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں

اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں

جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے

اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی

اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص بھی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ لیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی

اور وہ (وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس ساری صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا۔

 

تفسیر

 

فرعون مصر کا بادشاہ تھا جہاں بنی اسرائیل بڑی تعداد میں آباد تھے، اور فرعون کی غلامی میں دن گزار رہے تھے، فرعون کے سامنے کسی نجومی نے یہ پیشین گوئی کر دی کہ اس سال بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جو اس کی بادشاہی کا خاتمہ کر دے گا، یہ سن کر اس نے یہ حکم دے دیا کے اسرائیلیوں میں جو کوئی بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے، البتہ لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ ان سے خدمت لی جا سکے، اس طرح بہت سے نو زائیدہ بچے قتل کئے گئے، اگرچہ حضرت موسیٰؑ اسی سال پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا، اس کا مفصل واقعہ سورة طہ اور سورة القصص میں خود قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔

 

آیت ۵۰

 

ترجمہ

 

اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ ڈالا تھا چنانچہ تم سب کو بچا لیا تھا اور فرعون کے لوگوں کو (سمندر میں) غرق کر ڈالا تھا اور تم یہ سارا نظام دیکھ رہے تھے

 

تفسیر

 

اس کا واقعہ بھی مذکورہ بالا دو سورتوں میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔

 

آیت ۵۱

 

ترجمہ

 

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ ٹھہرایا تھا پھر تم نے ان کے پیچھے (اپنی جانوں پر) ظلم کر کے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔

 

تفسیر

 

حضرت موسیٰؑ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ کوہ طور پر آ کر چالیس دن اعتکاف کریں تو انہیں تورات عطا کی جائے گی، چنانچہ حضرت موسیٰؑ کوہ طور پر تشریف لے گئے، ان کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری جادوگر نے ایک گائے کا بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل کو اسے اپنا معبود قرار دینے اور اس کی عبادت کرنے پر آمادہ کر لیا اور اس طرح وہ شرک میں مبتلا ہو گئے، حضرت موسیٰؑ کو اطلاع ہوئی وہ گھبرا کر واپس تشریف لائے اور بنی اسرائیل کو توبہ کی تلقین فرمائی، اس توبہ کا ایک حصہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے تھے وہ ملوث ہونے والوں کو قتل کریں، چنانچہ ان کی ایک بڑی تعداد قتل کی گئی اور اس طرح ان کی توبہ قبول ہوئی۔  یہ واقعات انشاء اللہ تفصیل سے سورہ اعراف اور سورة طہ میں آئیں گے۔

 

آیت ۵۲ ۔ ۵۶

 

ترجمہ

 

پھر اس سب کے بعد ہم نے تم کو معاف کر دیا تاکہ تم شکر ادا کرو

اور (یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور حق و باطل میں تمیز کا معیار (بخشا) تاکہ تم راہ راست پر آؤ۔

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ‘‘ اے میری قوم! حقیقت میں تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر خود اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو تمہارے خالق کے نزدیک یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اس طرح اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔  بیشک وہی ہے جو اتنا معاف کرنے والا، اتنا رحم کرنے والا ہے

اور جب تم نے کہا تھا اے موسیٰ ہم اس وقت تک ہرگز تمہارا یقین نہیں کریں گے جب تک اللہ کو ہم خود کھلی آنکھوں نہ دیکھ لیں‘‘

نتیجہ یہ ہوا کہ کڑکے نے تمہیں اس طرح آپکڑا کہ تم دیکھتے رہ گئے پھر ہم نے تمہیں تمہارے مرنے کے بعد دوسری زندگی دی تاکہ تم شکر گزار بنو۔

 

تفسیر

 

جب حضرت موسیٰؑ کوہ طور سے تورات لے کر تشریف لائے تو بنی اسرائیل نے ان سے کہا کہ ہمیں کیسے یقین آئے کہ واقعی اللہ نے ہمیں اس کتاب پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے، شروع میں ان پر حجت تمام کرنے کے لئے انہیں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خطاب فرما کر تورات پر عمل کا حکم دیا مگر وہ کہنے لگے کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے ہمیں یقین نہ آئے گا، ان کے اس گستاخانہ طرز عمل پر ایک بجلی کے کڑکے نے انہیں آ گھیرا اور وہ بعض روایات کے مطابق مر گئے اور بعض روایات کے مطابق بے ہوش ہو گئے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی دی۔  اس واقعے کی تفصیل بھی انشاء اللہ سورة اعراف میں آئے گی۔

 

آیت ۵۷

 

ترجمہ

 

اور ہم نے تم کو بادل کا سایہ عطا کیا اور تم پر من و سلویٰ نازل کیا (اور کہا کہ) جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں بخشا ہے (شوق سے) کھاؤ اور یہ (نافرمانیاں کر کے) انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے

 

تفسیر

 

جیسا کے سورة آل عمران میں آئے گا، بنی اسرائیل نے جہاد کے ایک حکم کی نافرمانی کی تھی جس کی پاداش میں انہیں صحرائے سینا میں مقید کر دیا گیا تھا، لیکن اس سزا یابی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں جن نعمتوں سے نوازا یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے، صحرا میں چونکہ کوئی چھت ان کے سروں پر نہیں تھی اس لئے ان کو دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے غیب سے یہ انتظام فرمایا کہ ایک بادل ان پر مسلسل سایہ کئے رہتا تھا اسی صحرا میں جہاں کوئی غذا دستیاب نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے غیب سے من و سلویٰ کی شکل میں انہیں بہترین خوراک مہیا فرمائی، بعض روایات کے مطابق من سے مراد ترنجبین ہے جو اس علاقے میں افراط سے پیدا کر دی گئی تھی اور  سلویٰ سے مراد بٹیریں ہیں جو بنی اسرائیل کی قیام گاہوں کے آس پاس کثرت سے منڈلاتی رہتیں اور کوئی انہیں پکڑنا چاہتا تو وہ بالکل مزاحمت نہیں کرتی تھیں، بنی اسرائیل نے ان تمام نعمتوں کی بری طرح ناقدری کی اور اس طرح خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔

 

آیت ۵۸، ۵۹

 

ترجمہ

 

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ‘‘ اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور اس جہاں سے چاہو جی بھر کر کھاؤ اور (بستی کے) دروازے میں جھکے سروں سے داخل ہونا اور یہ کہتے جانا کہ (یا اللہ) ہم آپ کی بخشش کے طلب گار ہیں (اس طرح) ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے۔

مگر ہوا یہ کہ جو بات ان سے کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر ایک اور بات بنا لی نتیجہ یہ کہ جو نافرمانیاں وہ کرتے آ رہے تھے ہم نے ان کی سزا میں ان ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا

 

تفسیر

 

اسی صحرا میں رہتے ہوئے جب مدت گزر گئی اور بنی اسرائیل من و سلویٰ سے بھی اکتا گئے تو انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر گزارہ نہیں کر سکتے، ہم زمین کی ترکاریاں وغیرہ کھانا چاہتے ہیں، ان کا یہ مطالبہ آگے آیت نمبر  ۶۱ میں آ رہا ہے، اس موقع پر ان کی یہ خواہش بھی پوری کی گئی اور یہ اعلان فرمایا گیا کہ اب تمہیں صحرا کی خاک چھاننے سے نجات دی جاتی ہے، سامنے ایک شہر ہے اس میں چلے جاؤ؛ لیکن اپنے گناہوں پر ندامت کے اظہار کے طور پر سر جھکائے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہو، وہاں اپنی رغبت کے مطابق جو حلال غذا چاہو کھاس کو گے، لیکن ان ظالموں نے پھر ضد کا مظاہرہ کیا، شہر میں داخل ہوتے ہوئے سر تو کیا جھکاتے سینے تان تان کر داخل ہوئے اور معافی مانگنے کے لئے انہیں جو الفاظ کہنے کی تلقین کی گئی تھی ان کا مذاق بنا کر ان سے ملتے جلتے ایسے نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے جس کا مقصد مسخرہ پن کے سوا کچھ نہ تھا، جو لفظ انہیں معافی مانگنے کے لئے سکھایا گیا تھا وہ تھا "حطۃ” (یا اللہ ہمارے گناہ بخش دے) انہوں نے اسے بدل کر جس لفظ کے نعرے لگائے تھے وہ تھا "حنطۃ” یعنی گندم۔

 

آیت ۶۰

 

ترجمہ

 

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو‘‘ چنانچہ اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ہر ایک قبیلے نے اپنے پانی لینے کی جگہ معلوم کر لی (ہم نے کہا) اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ، اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرنا۔

 

تفسیر

 

یہ واقعہ بھی اس وقت کا ہے جب بنی اسرائیل میدان تیہ (صحرائے سینا) میں محصور تھے وہاں پانی کا کوئی چشمہ نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ کے طور پر بارہ چشمے پیدا فرما دئے، حضرت یعقوب (اسرائیل)ؑ کے بارہ بیٹے تھے ہر بیٹے کی اولاد ایک مستقل قبیلہ بن گئی اور اس طرح بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں تقسیم ہو گئے، اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلے کے لئے الگ چشمہ جاری فرما دیا تاکہ کوئی الجھن پیش نہ آئے۔

 

آیت ۶۱

 

ترجمہ

 

اور (وہ وقت بھی) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کر سکتے لہذا اپنے پروردگار سے مانگیے کہ وہ ہمارے لئے کچھ وہ چیزیں پیدا کرے جو زمین اگایا کرتی ہے یعنی زمین کی ترکاریاں، اس کی ککڑیاں، اس کا گندم، اس کی دالیں اور اس کی پیاز۔  موسیٰ نے کہا‘‘ جو (غذا) بہتر تھی کیا تم اس کو ایسی چیزوں سے بدلنا چاہتے ہو جو گھٹیا درجے کی ہیں؟ (خیر!) ایک شہر میں جا اترو۔  تو وہاں تمہیں وہ چیزیں مل جائیں گی جو تم نے مانگی ہیں اور ان (یہودیوں پر ذلت اور بیکسی کا ٹھپہ لگا دیا گیا، اور وہ اللہ تعالیٰ کا غضب لے کر لوٹے۔  یہ سب اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کر دیتے تھے۔  یہ سب اس لئے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ بے حد زیادتیاں کرتے تھے۔

 

تفسیر

 

یہ وہی واقعہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔

 

آیت ۶۲

 

ترجمہ

 

حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا نصرانی یا صابی، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے وہ اللہ کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے اور ان کو نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔

 

تفسیر

 

بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ان کی نافرمانیوں کے تذکرے کے بیچ میں یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے ایک باطل گھمنڈ کی تردید کے لئے آئی ہے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف انہی کی نسل اللہ کے منتخب اور لاڈلے بندوں پر مشتمل ہے، ان کے خاندان سے باہر کا کوئی آدمی اللہ کے انعامات کا مستحق نہیں ہے، (آج بھی یہودیوں کا یہی عقیدہ ہے، اسی لئے یہودی مذہب ایک نسل پرست مذہب ہے اور اس نسل کے باہر کا کوئی شخص یہودی مذہب اختیار کرنا بھی چاہے تو اختیار کر ہی نہیں سکتا، یا ان کے حقوق کا مستحق نہیں ہو سکتا جو ایک نسلی یہودی کو حاصل ہیں) اس آیت نے واضح فرمایا کہ حق کسی ایک نسل میں محدود نہیں ہے، اصل اہمیت ایمان اور نیک عمل کو حاصل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی بنیادی شرطیں پوری کر دے گا خواہ وہ پہلے کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہو گا، یہودیوں اور نصرانیوں کے علاوہ عرب میں کچھ ستارہ پرست لوگ رہتے تھے جنہیں صابی کہا جاتا تھا اس لئے ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اللہ پر ایمان لانے میں اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے، لہذا نجات پانے کے لئے رسول اکرمﷺ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، چنانچہ پیچھے آیت ۴۰۔  ۴۱ میں اسی لئے تمام بنی اسرائیل کو آنحضرتﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔  مزید دیکھئے قرآن کریم کی آیات ۵  ۶۵ تا ۶۸، ۷  ۱۵۵ تا ۱۵۷۔

 

آیت ۶۳

 

ترجمہ

 

اور وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے (تورات پر عمل کرنے کا) عہد لیا تھا، اور کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھا کھڑا کیا تھا۔  (کہ) جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور اس میں جو کچھ (لکھا) ہے اس کو یاد رکھو، تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو

 

تفسیر

 

جب حضرت موسیٰؑ تورات لے کر آئے تو بنی اسرائیل نے دیکھا کہ اس کے بعض احکام بہت سخت ہیں، اس لئے اس سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دئے، پہلے تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خود کہے کہ تورات پر عمل کرنا ضروری ہے، مطالبہ اگرچہ نامعقول تھا مگر ان پر حجت تمام کرنے کے لئے ان میں سے ستر آدمی منتخب کر کے حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کوہ طور پر بھیجے گئے (اعراف، ۷  ۱۵۵) جن کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست تورات پر عمل کا حکم دیا، مگر جب یہ واپس لوٹے تو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے تصدیق تو کی کہ اللہ تعالیٰ نے تورات پر عمل کا حکم دیا ہے، لیکن ایک بات اپنی طرف سے بڑھا دی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جتنا تم سے ہو سکے اتنا عمل کر لینا، لیکن جو نہ ہو سکے وہ ہم معاف کر دیں گے، چنانچہ تورات کے جس حکم میں بھی انہیں کچھ مشکل نظر آتی وہ یہ بہانہ تراش لیتے کہ یہ حکم بھی اسی چھوٹ میں داخل ہے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کوہ طور ان کے سروں پر بلند کر دیا کہ تورات کے تمام احکام کو تسلیم کرو، جب انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں پہاڑ ان پر گرانہ دیا جائے تب ان لوگوں نے تورات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا عہد کیا۔  اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کوہ طور کو ان کے سروں پر بلند کرنے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا کر ان کے سروں پر معلق کر دیا گیا ہو، جیسا کہ حافظ ابن جریر ؒ نے متعدد تابعین سے نقل کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ کچھ بھی بعید نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور ایسی صورت پیدا فرما دی گئی ہو کہ ان لوگوں کو ایسا محسوس ہوا ہو کہ پہاڑ ان پر آگرے گا مثلاً کوئی زلزلہ آ گیا ہو جس سے انہیں ایسا لگا کہ پہاڑ گرنے والا ہے چنانچہ سورة اعراف (آیت ۱۷۱) میں اس واقعے کے بارے میں الفاظ یہ ہیں واذنتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ وظنوا انہ واقع بھم اس میں لفظ‘‘ نتق‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی لغت میں زور زور سے ہلانے کے آتے ہیں (دیکھئے قاموس اور مفردات القرآن) لہٰذا آیت کا یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ‘‘ جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر زور سے اس طرح ہلایا کہ ان کو گمان ہوا کہ وہ ان پر گر پڑے گا یہاں یہ بات واضح رہے کہ کسی شخص کو ایمان قبول کرنے پر تو زبردستی مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن جب ایک شخص ایمان لے آئے تو اسے نافرمانی پر سزا بھی دی جا سکتی ہے اور ڈرا دھمکا کر حکم ماننے پر آمادہ بھی کیا جا سکتا ہے بنی اسرائیل چونکہ ایمان پہلے ہی لا  چکے تھے اس لئے ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرا کر فرمانبرداری پر آمادہ کیا گیا۔

 

آیت ۶۴، ۶۵

 

ترجمہ

 

اس سب کے باوجود تم دوبارہ (راہ راست سے) پھر گئے چنانچہ اگر اللہ کا فضل اور رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم ضرور سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جاتے۔

اور تم اپنے لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہو جو سنیچر (سبت) کے معاملے میں حد سے گزر گئے تھے چنانچہ ہم نے ان سے کہا تھا کہ تم دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔

 

تفسیر

 

سنیچر (ہفتہ) کو عربی اور عبرانی زبان میں سبت کہتے ہیں، یہودیوں کے لئے اسے ایک مقدس دن قرار دیا گیا تھا، جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیاں ممنوع تھیں، جن یہودیوں کا یہاں ذکر ہے وہ (غالباً حضرت داؤدؑ کے زمانے میں) کسی سمندر کے کنارے رہتے تھے اور مچھلیاں پکڑا کرتے تھے، سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنا ان کے لئے ناجائز تھا مگر شروع میں انہوں نے کچھ حیلے کر کے اس حکم کی خلاف ورزی کرنی چاہی اور پھر کھلم کھلا مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں، کچھ نیک لوگوں نے انہیں سمجھایا مگر باز نہ آئے، بالآخر ان پر عذاب آیا اور ان کی صورتیں مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا۔  (اس واقعہ کی تفصیل  اعراف، ۷  ۱۶۳ تا ۱۶۶)۔  میں آنے والی ہے۔

 

آیت ۶۶، ۶۷

 

ترجمہ

 

پھر ہم نے اس واقعے کو اس زمانے کے اور اس کے بعد کے لوگوں کے لئے عبرت اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت کا سامان بنا دیا

اور (وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو۔  وہ کہنے لگے کہ کیا آپ ہمارا مذاق بناتے ہیں موسیٰ نے کہا  میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں (ایسے) نادانوں میں شامل ہوں (جو مذاق میں جھوٹ بولیں)

 

تفسیر

 

جیسا کہ نیچے آیت ۷۲ میں آ رہا ہے، یہ حکم ایک مقتول کا قاتل دریافت کرنے کے لئے دیا گیا تھا اس لئے بنی اسرائیل نے کو مذاق سمجھا کہ گائے ذبح کرنے سے قاتل کیسے معلوم ہو گا؟

 

آیت ۶۸ ۔ ۷۱

 

ترجمہ

 

انہوں نے کہا کہ آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ اس نے کہا  اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو کہ نہ بہت بوڑھی ہو بہ بالکل بچی (بلکہ) ان دونوں کے بیچ بیچ میں ہو۔  بس اب جو حکم تمہیں دیا گیا ہے اس پر عمل کر لو۔

کہنے لگے آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسے تیز زرد رنگ کی گائے ہو جو دیکھنے والوں کا دل خوش کر دے۔

انہوں نے (پھر) کہا کہ آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ اس گائے نے تو ہمیں شبہ میں ڈال دیا ہے اور اللہ نے چاہا تو ہم ضرور اس کا پتہ لگا لیں گے۔

موسیٰ نے کہا  اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو جو کام میں جت کر زمین نہ گا ہتی ہو، اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو، پوری طرح صحیح سالم ہو جس میں کوئی داغ نہ ہو۔  انہوں نے کہا  ہاں! اب آپ ٹھیک ٹھیک پتہ لے کر آئے۔  اس کے بعد انہوں نے اسے ذبح کیا، جبکہ لگتا نہیں تھا کہ وہ کر پائیں گے۔

 

تفسیر

 

مطلب یہ ہے کہ شروع میں جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا تو کسی خاص قسم کی گائے نہیں بتائی گئی تھی چنانچہ وہ کوئی بھی گائے ذبح کر دیتے تو حکم پورا ہو جاتا لیکن انہوں نے خواہ مخواہ کھود کرید شروع کر دی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بھی نت نئی شرطیں عائد فرما لیں اور ایسی گائے تلاش کرنا مشکل ہو گیا جو ان شرطوں کو پورا کرتی ہو۔  یہاں تک کہ ایک مرحلے میں ایسا محسوس ہونے لگا کہ شاید وہ ایسی گائے تلاش کر کے ذبح کرنے کے قابل نہ ہوں۔  اس واقعے میں سبق یہ دیا گیا ہے کہ بلا وجہ غیر ضروری کھوج میں پڑنا ٹھیک نہیں جو بات جتنی سادہ ہو اس پر اتنی ہی سادگی عمل کر لینا چاہیے۔

 

آیت ۷۲، ۷۳

 

ترجمہ

 

اور (یاد کرو) جب تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، اور اس کے بعد اس کا الزام ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے، اور اللہ کو وہ راز نکال باہر کرنا تھا جو تم چھپائے ہوئے تھے۔

چنانچہ ہم نے کہا کہ اس (مقتول) کو اس (گائے) کے ایک حصے سے مارو۔  اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور تمہیں (اپنی قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔

 

تفسیر

 

اس واقعہ کی تفصیل تاریخی روایات میں یہ آئی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے اپنے ایک بھائی کو اس کی میراث حاصل کرنے کی خاطر قتل کیا اور اس کی لاش سڑک پر ڈال دی، پھر خود ہی حضرت موسیٰؑ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گیا کہ قاتل کو پکڑ کر سزا دی جائے، اس موقع پر حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں گائے ذبح کرنے کو کہا، جس کا واقعہ اوپر گذرا۔  جب گائے ذبح ہو گئی تو آپ نے فرمایا کہ گائے کا کوئی عضو اٹھا کر مقتول کی لاش پر مارو تو وہ زندہ ہو کر قاتل کا نام بتادے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس طرح قاتل کا پول کھل گیا اور وہ پکڑا گیا، قاتل کی دریافت کے لئے یہ طریقہ اختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مردوں کو زندہ کرنے کی خدائی طاقت کا عملی مظاہرہ کر کے ان لوگوں کی زبانیں بند کر دیں گئیں جو دوسری زندگی کو نا ممکن سمجھتے تھے۔  غالباً اس واقعے کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ طریقہ جاری ہوا کہ جب کوئی شخص مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چل رہا ہو تو ایک گائے ذبح کر کے اس پر اپنے ہاتھ دھوئیں اور قسم کھائیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا جس کا ذکر بائبل کی کتاب استثناء ۱۲-۱ تا ۸ میں آیا ہے۔

 

آیت ۷۴

 

ترجمہ

 

اس سب کے بعد تمہارے دل پھر سخت ہو گئے، یہاں تک کہ وہ ایسے ہو گئے جیسے پتھر! بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی زیادہ۔  (کیونکہ) پتھروں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ بہتی ہیں، اور انہی میں سے کچھ وہ ہوتے ہیں جو خود پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور انہی میں وہ (پتھر) بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں۔  اور (اس کے برخلاف) جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔

 

تفسیر

 

یعنی بعض مرتبہ تو پتھروں سے چشمے نکل آتے ہیں جیسا کہ بنی اسرائیل خود دیکھ چکے تھے کہ کس طرح ایک سنگلاخ چٹان سے پانی کے چشمے بہہ پڑے تھے (دیکھئے پیچھے آیت نمبر ۶۰) اور بعض اوقات بھاری مقدار میں تو پانی نہیں نکلتا مگر پتھر شق ہو کر تھوڑا بہت پانی نکال دیتا ہے اور کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک بھی پڑتے ہیں مگر ان کے دل ایسے سخت ہیں کہ ذرا نہیں پسیجتے۔  کسی زمانے میں یہ بات کچھ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ پتھر جیسی بے جان چیز میں خوف کا کیا تصور ہو سکتا ہے؟ لیکن قرآن کریم نے کئی جگہوں پر یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ جن چیزوں کو ہم بظاہر بے جان یا بے شعور سمجھتے ہیں ان میں بھی کچھ نہ کچھ شعور موجود ہوتا ہے مثلاً دیکھئے سورة بنی اسرائیل (۲۷: ۳۳) اور سورة احزاب (۲۷: ۳۳) لہذا اگر اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے آج تو سائنس بھی رفتہ رفتہ اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ جمادات میں بھی نمو اور شعور کی کچھ نہ کچھ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

 

آیت ۷۵، ۷۶

 

ترجمہ

 

(مسلمانو!) کیا اب بھی تمہیں یہ لالچ ہے کہ یہ لوگ تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اللہ کا کلام سنتے تھے، پھر اس کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد بھی جانتے بوجھتے اس میں تحریف کر ڈالتے تھے۔

اور جب یہ لوگ ان (مسلمانوں) سے ملتے ہیں جو پہلے ایمان لا  چکے ہیں تو (زبان سے) کہہ دیتے ہیں کہ ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں، اور جب یہ ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں جاتے ہیں تو (آپس میں ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ  کیا تم ان (مسلمانوں) کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ یہ (مسلمان) تمہارے پروردگار کے پاس جا کر انہیں تمہارے خلاف دلیل کے طور پر پیش کریں؟ کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں؟

 

تفسیر

 

تورات میں آخر زمانے میں آنے والے نبی کی جو پیشین گوئیاں موجود تھیں وہ تمام تر نبی کریمﷺ پر صادق آتی تھیں، بعض منافق یہودی جو مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے یہ پیشین گوئیاں مسلمانوں کو سنا دیتے تھے اس پر دوسرے یہودی تنہائی میں ان کو ملامت کرتے تھے کہ مسلمان ان پیشین گوئیاں کو جان لیں گے تو قیامت میں ہمارے خلاف استعمال کریں گے اور ہمارے پاس ان کا کوئی جواب نہ ہو گا، ظاہر ہے کہ یہ انتہائی بے وقوفی کی بات تھی، کیونکہ اگر مسلمانوں سے یہ پیشین گوئیاں چھپا بھی لی جائیں تو اللہ سے تو نہیں چھپ سکتیں۔

 

آیت ۷۷ ۔ ۷۹

 

ترجمہ

 

کیا یہ لوگ (جو ایسی باتیں کرتے ہیں) یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو ان ساری باتوں کا خوب علم ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں؟

اور ان میں سے کچھ لوگ ان پڑھ ہیں جو کتاب (تورات) کا علم تو رکھتے نہیں، البتہ کچھ آرزوئیں پکائے بیٹھے ہیں، اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔

لہذا تباہی ہے ان لوگوں کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر (لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی آمدنی کما لیں۔  پس تباہی ہے ان لوگوں پر اس تحریر کی وجہ سے بھی جو ان کے ہاتھوں نے لکھی، اور تباہی ہے ان پر اس آمدنی کی وجہ سے بھی جو وہ کماتے ہیں۔

 

تفسیر

 

یہاں قرآن کریم نے ترتیب یہ رکھی ہے کہ پہلے ان یہودی علماء کا ذکر فرمایا ہے جو تورات میں جان بوجھ کر رد و بدل کرتے تھے پھران ان پڑھ یہودیوں کا جنہیں تورات کا علم تو تھا نہیں مگر انہیں مذکورہ بالا علماء نے ان جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کر رکھا تھا کہ سارے یہودی اللہ کے لاڈلے ہیں اور وہ بہر صورت جنت میں جائیں گے، ان کا ساراعلم اسی قسم کے گمانوں پر مشتمل تھا، چونکہ ان کے اس گمان کی بنیادی وجہ علماء کی تحریفات تھیں اس لئے آٰت نمبر ۹۶ میں ان کی تباہی کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔

 

آیت ۸۰، ۸۱

 

ترجمہ

 

اور یہودیوں نے کہا ہے کہ ہمیں گنتی کے چند دنوں کے علاوہ آگ ہرگز نہیں چھوئے گی۔  آپ ان سے کہیے کہ کیا تم نے اللہ کی طرف سے کوئی عہد لے رکھا ہے جس کی بنا پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، یا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگا رہے ہو جس کا تمہیں کچھ پتہ نہیں؟

(آگ تمہیں) کیوں نہیں (چھوئے گی)؟ جو لوگ بھی بدی کماتے ہیں اور ان کی بدی انہیں گھیر لیتی ہے تو ایسے لوگ ہی دوزخ کے باسی ہیں۔  وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

 

تفسیر

 

بدی کے گھیرے میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایسے گناہ ارتکاب کریں جس کے بعد کوئی نیک عمل آخرت میں کار آمد نہ ہو، اور وہ گناہ کفر اور شرک ہے۔

 

آیت ۸۲ ۔ ۸۵

 

ترجمہ

 

اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں تو وہ جنت کے باسی ہیں۔  وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیا تھا کہ  تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے، اور رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں اور مسکینوں سے بھی۔  اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا۔  (مگر) پھر تم میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا باقی سب (اس عہد سے) منہ موڑ کر پھر گئے۔

اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے پکا عہد لیا تھا کہ  تم ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور اپنے آدمیوں کو اپنے گھروں سے نہیں نکالو گے، پھر تم نے اقرار کیا تھا اور تم خود اس کے گواہ ہو۔

اس کے بعد (آج) تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنے ہی آدمیوں کو قتل کرتے ہو، اور اپنے ہی میں سے کچھ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرتے ہو، اور ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کا ارتکاب کر کے (ان کے دشمنوں کی) مدد کرتے ہو، اور اگر وہ (دشمنوں کے) قیدی بن کر تمہارے پاس آ جاتے ہیں تو تم ان کو فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو، حالانکہ ان کو (گھر سے) نکالنا ہی تمہارے لیے حرام تھا۔  تو کیا تم کتاب (تورات) کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟ اب بتاؤ کہ جو شخص ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیوی زندگی میں اس کی رسوائی ہو؟ اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف بھیج دیا جائے گا۔  اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔

 

تفسیر

 

اس کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو قبیلے آباد تھے، بنو قریظہ اور بنو نضیر، دوسری طرف بت پرستوں کے بھی دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، قریظہ کی دوستی اوس قبیلے سے تھی، اور بنو نضیر کی خزرج سے، جب اوس و خزرج میں لڑائی ہوئی تو قریظہ اوس کا ساتھ دیتے اور بنو نضیر خزرج کا، نتیجہ یہ کہ یہودیوں کے دونوں قبیلے بالواسطہ ایک دوسرے کے مدمقابل آ جاتے اور ان لڑائیوں میں جہاں اوس اور خزرج کے آدمی مارے جاتے وہاں قریظہ اور نضیر کے یہودی بھی قتل ہوتے یا اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوتے، اس طرح اگرچہ بنو قریظہ اور بنو نضیر دونوں قبیلے یہودی تھے مگر وہ ایک دوسرے کے دشمنوں کی امداد کر کے آپس میں ایک دوسرے کے قتل اور خانماں بربادی میں حصہ دار ہوتے تھے، ہاں اگر کوئی یہودی دشمن کے ہاتھوں قید ہو جاتا تو وہ سب مل کر اس کا فدیہ ادا کرتے اور اسے چھڑا لیتے جس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں تورات نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی یہودی دشمن کی قید میں چلا جائے تو اسے چھڑائیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جس تورات نے یہ حکم دیا ہے اسی نے یہ حکم بھی تو دیا تھا کہ نہ ایک دوسرے کو قتل کرنا نہ ایک دوسرے کو گھر سے نکالنا، ان احکام کو تو تم نے چھوڑ دیا اور صرف فدیہ کے حکم پر عمل کر لیا۔

 

آیت ۸۶، ۸۷

 

ترجمہ

 

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، لہذا نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے۔  اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کی۔  پھر یہ آخر کیا معاملہ ہے کہ جب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی بات لے کر آیا جو تمہاری نفسانی خواہشات کو پسند نہیں تھی تو تم اکڑ گئے؟ چنانچہ بعض (انبیاء) کو تم نے جھٹلایا، اور بعض کو قتل کرتے رہے۔

 

تفسیر

 

۵۹ ‘‘ روح القدس‘‘ کے لفظی معنی ہیں مقدس روح اور قرآن کریم میں یہ لقب حضرت جبرئیلؑ کے لئے استعمال کیا گیا ہے (دیکھئے سورة نحل آیت ۱۰۲: ۱۶) حضرت عیسیٰؑ کو جب جبرئیلؑ کی یہ تائید حاصل تھی کہ وہ ان دشمنوں سے ان کی حفاظت کے لئے ان کے ساتھ رہتے تھے

 

آیت ۸۸

 

ترجمہ

 

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ  ہمارے دل غلاف میں ہیں۔  نہیں! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

 

تفسیر

 

ان کے اس جملے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شیخی بگھارتے تھے کہ ہمارے دلوں پر ایک حفاظتی غلاف ہے جس کی وجہ سے کوئی غلط بات ہمارے دلوں میں گھر نہیں کر سکتی اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے آپ سے مایوس کرنے کے لئے طنزاً یہ کہتے تھے کہ آپ تو بس یہ سمجھ لو کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھا ہوا ہے اور ہمیں اسلام کی دعوت دینے کی فکر میں نہ پڑو۔

 

آیت ۸۹

 

ترجمہ

 

اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آئی (یعنی قرآن) جو اس (تورات) کی تصدیق بھی کرتی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے (تو ان کا طرز عمل دیکھو) باوجودیکہ یہ خود شروع میں کافروں (یعنی بت پرستوں) کے خلاف (اس کتاب کے حوالے سے) اللہ سے فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔  مگر جب وہ چیز ان کے پاس آ گئی جسے انہوں نے پہچان بھی لیا، تو اس کا انکار کر بیٹھے۔  پس چھٹکار ہے اللہ کی ایسے کافروں پر۔

 

تفسیر

 

جب یہودیوں کی بت پرستوں سے جنگ ہوتی یا بحث و مباحثہ ہوتا تو وہ یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ! آپ نے تورات میں جس آخری نبی کی خبر دی ہے اسے جلدی بھیج دیجئے تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر بت پرستوں پر فتح حاصل کریں، مگر جب وہ نبی (حضرت محمدﷺ تشریف لے آئے تو وہ حسد میں مبتلا ہو گئے کہ انہیں بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں کیوں بھیجا گیا؟ چنانچہ یہ جان لینے کے باوجود کہ آنحضرتﷺ پر وہ ساری علامتیں صادق آتی ہیں جو تورات میں نبی آخرالزماں کی بیان کی گئی ہیں انہوں نے آپ کو ماننے سے سے انکار کر دیا۔

 

آیت ۹۰

 

ترجمہ

 

بری ہے وہ قیمت جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے، کہ یہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کا صرف اس جلن کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ اپنے فضل کا کوئی حصہ (یعنی وحی) اپنے بندوں میں سے جس پر چاہ رہا ہے (کیوں) اتار رہا ہے؟ چنانچہ یہ (اپنی اس جلن کی وجہ سے) غضب بالائے غضب لے کر لوٹے ہیں۔  اور کافر لوگ ذلت آمیز سزا کے مستحق ہیں۔

 

تفسیر

 

یعنی ایک غضب کے مستحق تو وہ اپنے کفر کی وجہ سے تھے دوسرا غضب ان پر حسد اور ضد کی وجہ سے ہوا۔

 

آیت ۹۱ ۔ ۹۳

 

ترجمہ

 

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کلام اتارا ہے اس پر ایمان لے آؤ، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (صرف) اسی کلام پر ایمان رکھیں گے جو ہم پر نازل کیا گیا، (یعنی تورات) اور وہ اس کے سوا (دوسری آسمانی کتابوں) کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ بھی حق ہیں (اور) جو کتاب ان کے پاس ہے وہ اس کی تصدیق بھی کرتی ہیں۔  (اے پیغمبر) تم ان سے کہو کہ اگر تم واقعی (تورات) پر ایمان رکھتے تھے تو اللہ کے نبیوں کو پہلے زمانے میں کیوں قتل کرتے رہے؟

اور خود موسیٰ تمہارے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے، پھر تم نے ان کے پیٹھ پیچھے یہ ستم ڈھایا کہ گائے کے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔

اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر طور کو بلند کر دیا (اور یہ کہا کہ) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور (جو کچھ کہا جائے اسے ہوش سے) سنو۔  کہنے لگے  ہم نے (پہلے بھی) سن لیا تھا، مگر عمل نہیں کیا تھا (اب بھی ایسا ہی کریں گے) اور (در اصل) ان کے کفر کی نحوست سے ان کے دلوں میں بچھڑا بسا ہوا تھا۔  آپ (ان سے) کہیے کہ اگر تم مومن ہو تو کتنی بری ہیں وہ باتیں جو تمہارا ایمان تمہیں تلقین کر رہا ہے۔

 

تفسیر

 

اس واقعے کی تفصیل اسی سورت میں پیچھے آیت نمبر ۶۳ کے حاشیہ میں گذر چکی اور بچھڑے کا واقعہ آیت ۵۳ کے تحت۔

 

آیت ۹۴، ۹۵

 

ترجمہ

 

آپ (ان سے) کہیے کہ  اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے (جیسا کہ تمہارا کہنا ہے) تو موت کی تمنا تو کر کے دکھاؤ، اگر واقعی سچے ہو۔

اور (ہم بتائے دیتے ہیں کہ) انہوں نے اپنے جو کرتوت آگے بھیج رکھے ہیں، ان کی وجہ سے یہ کبھی ایسی تمنا نہیں کریں گے۔  اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

 

تفسیر

 

یہ بھی قرآن کریم کی طرف سے ایک چیلنج تھا جسے قبول کر لینا ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا وہ بآسانی کم از کم زبان سے علی الاعلان موت کی تمنا کر کے دکھا سکتے تھے لیکن چونکہ وہ جانتے تھے تھے کہ یہ خدائی چیلنج ہے اس لئے ایسی تمنا کا اظہار انہیں فوراً قبر میں پہنچا دے گا اس لئے کسی نے ایسی جرات نہیں کی۔

 

آیت ۹۶، ۹۷

 

ترجمہ

 

(بلکہ) یقیناً تم ان لوگوں کو پاؤ گے کہ انہیں زندہ رہنے کی حرص دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ مشرکین سے بھی زیادہ۔  ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے، حالانکہ کسی کا بڑی عمر پا لینا اسے عذاب سے دور نہیں کر سکتا۔  اور یہ جو عمل بھی کرتے ہیں اللہ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔

(اے پیغمبر) کہہ دو کہ اگر کوئی شخص جبرئیل کا دشمن ہے تو (ہوا کرے) انہوں نے تو یہ کلام اللہ کی اجازت سے تمہارے دل پر اتارا ہے جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کر رہا ہے، اور ایمان والوں کے لیے مجسم ہدایت اور خوشخبری ہے۔

 

تفسیر

 

بعض یہودیوں نے آنحضرتﷺ سے کہا تھا کہ آپ کہ پاس جبرئیلؑ وحی لاتے ہیں وہ چونکہ ہمارے لئے بڑے سخت احکام لایا کرتے تھے اس لئے ہم انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اگر کوئی اور فرشتہ وحی لا رہا ہو تو ہم کچھ غور کر سکتے تھے، یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور جواب کا حاصل یہ ہے کہ جبرئیلؑ تو محض پیغام پہچانے والے ہیں، جو کچھ لاتے ہیں اللہ کے حکم سے لاتے ہیں، لہذا نہ ان سے دشمنی کی کوئی معقول وجہ ہے اور نہ اس کی و جہ سے اللہ کے کلام کو رد کرنے کا کوئی معنی ہے۔

 

آیت ۹۸ ۔ ۱۰۲

 

ترجمہ

 

اگر کوئی شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں اور رسولوں کا، اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہے تو (وہ سن رکھے کہ) اللہ کافروں کا دشمن ہے۔

اور بیشک ہم نے آپ پر ایسی آیتیں اتاری ہیں جو حق کو آشکار کرنے والی ہیں، اور ان کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو نافرمان ہیں۔

یہ آخر کیا معاملہ ہے کہ ان لوگوں نے جب کوئی عہد کیا، ان کے ایک گروہ نے اسے ہمیشہ توڑ پھینکا؟ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ ایمان لاتے ہی نہیں۔۱

اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول آئے جو اس (تورات) کی تصدیق کر رہے تھے جو ان کے پاس ہے، تو اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب (تورات و انجیل) کو اس طرح پس پشت ڈال دیا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے (کہ اس میں نبی آخر الزماںﷺ کے بارے میں کیا ہدایات دی گئی تھیں)

اور یہ (بنی اسرائیل) ان (منتروں) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمانؑ کی سلطنت کے زمانے میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔  اور سلیمانؑ نے کوئی کفر نہیں کیا تھا، البتہ شیاطین لوگوں کو جادو کی تعلیم دے کر کفر کا ارتکاب کرتے تھے۔  نیز (یہ بنی اسرائیل) اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شہر بابل ۲ میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔  یہ دو فرشتے کسی کو اس وقت تک کوئی تعلیم نہیں دیتے تھے جب تک اس سے یہ نہ کہہ دیں گے کہ  ہم محض آزمائش کے لیے (بھیجے گئے) ہیں، لہذا تم (جادو کے پیچھے لگ کر) کفر اختیار نہ کرنا۔  پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیزیں سیکھتے تھے جس کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی پیدا کر دیں۔  ۳ (ویسے یہ واضح رہے کہ) وہ اس کے ذریعے کسی کو اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔  (مگر) وہ ایسی باتیں سیکھتے تھے جو ان کے لیے نقصان دہ تھیں اور فائدہ مند نہ تھیں۔  اور وہ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ جو شخص ان چیزوں کا خریدار بنے گا، آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔  اور حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز بہت بری تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالیں۔  کاش کہ ان کو (اس بات کا حقیقی) علم ہوتا۔ ۴

 

تفسیر

 

۱۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی ایک اور بد عملی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ کہ جادو ٹونے کے پیچھے لگنا ناجائز تھا، بالخصوص اگر جادو میں شرکیہ کلمات منتر کے طور پر پڑھے جائیں تو ایسا جادو کفر کے مرادف ہے، حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں کچھ شیاطین نے، جن میں انسان اور جنات دونوں شامل ہو سکتے ہیں، بعض یہودیوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ حضرت سلیمانؑ کی سلطنت کا سارا راز جادو میں مضمر ہے اور اگر جادو سیکھ لو گے تو تمہیں بھی حیرت انگیز اقتدار نصیب ہو گا، چنانچہ یہ لوگ جادو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے میں لگ گئے، حالانکہ جادو پر عمل کرنا نہ صرف ناجائز تھا، بلکہ اس کی بعض قسمیں کفر تک پہنچتی تھیں، دوسرا غضب یہودیوں نے یہ کیا کہ خود حضرت سلیمانؑ کو جادو گر قرار دے کر ان کے بارے میں یہ مشہور کر دیا کہ انہوں نے آخری عمر میں بتوں کو پوجنا شروع کر دیا تھا، ان کے بارے میں یہ جھوٹی داستانیں انہوں نے اپنی مقدس کتابوں میں شامل کر دیں جو آج تک بائبل میں درج چلی آتی ہیں، چنانچہ بائبل کی کتاب سلاطین اول ۱۱۔  ۱ تا ۲۱ میں ان کے معاذ اللہ مرتد ہونے کا بیان آج بھی موجود ہے، قرآن کریم نے اس آیت میں حضرت سلیمانؑ پر اس ناپاک بہتان کی تردید فرمائی ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جن لوگوں نے قرآن کریم پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں سے ماخوذ ہے وہ کتنا غلط الزام ہے، یہاں قرآن کریم صریح الفاظ میں یہود و نصاریٰ کی کتابوں کی تردید کر رہا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ یہ خود معلوم کر سکتے کہ یہودیوں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے، اس بات کا علم آپﷺ کو وحی کے سوا کسی اور راستہ سے نہیں ہو سکتا تھا، لہذا یہ آیت بذات خود آپ کے صاحب وحی رسول ہونے کی واضح دلیل ہے کہ آپ نے نہ صرف یہ بتلایا کہ یہودیوں کی کتابوں میں حضرت سلیمانؑ پر کیا بہتان لگایا گیا ہے، بلکہ اس قدر جم کر اس کی تردید فرمائی ہے۔

۲۔ بابل عراق کا مشہور شہر تھا، ایک زمانے میں وہاں جادو کا بڑا چرچا ہو گیا تھا، اور یہودی بھی اس ناجائز کام میں بری طرح ملوث ہو گئے تھے، انبیاء کرام اور دوسرے نیک لوگ انہیں جادو سے منع کرتے تھے تو وہ بات نہ مانتے تھے، اس سے بھی خطرناک بات یہ تھی کہ لوگوں نے جادوگروں کے شعبدوں کو معجزے سمجھ کر انہیں اپنا دینی مقتدا بنا لیا تھا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دو فرشتے جن کا نام ہاروت وماروت تھا دنیا میں انسانی شکل میں بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو جادو کی حقیقت سے آگاہ کریں اور یہ بتائیں کہ خدائی معجزات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، معجزہ براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جس میں کسی ظاہری سبب کا کوئی دخل نہیں ہوتا، اس کے برعکس جادو کے ذریعے جو کوئی شعبدہ دکھایا جاتا ہے وہ اسی عالم اسباب کا ایک حصہ ہے، یہ بات واضح کرنے کے لئے ان فرشتوں کو جادو کے محتلف طریقے بھی بتانے پڑتے تھے، تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ کس طرح وہ سبب اور مسبب کے رشتے سے منسلک ہیں، لیکن جب وہ ان طریقوں کی تشریح کرتے تو ساتھ ساتھ لوگوں کو متنبہ بھی کر دیتے تھے کہ یاد رکھو! یہ طریقے ہم اس لئے نہیں بتا رہے ہیں کہ تم ان پر عمل شروع کر دو، بلکہ اس لئے بتا رہے ہیں کہ تم پر جادو اور معجزے کا فرق واضح ہو اور تم جادو سے پرہیز کرو اس لحاظ سے ہمارا وجود تمہارے لئے ایک امتحان ہے کہ ہماری باتوں کو سمجھ کر تم جادو سے پرہیز کرتے ہو یا ہم سے جادو کے طریقے سیکھ کر ان پر عمل شروع کر دیتے ہو، یہ کام انبیاء کے بجائے فرشتوں سے بظاہر اس بنا پر لیا گیا کہ جادو کے فارمولے بتانا خواہ وہ صحیح مقصد سے کیوں نہ ہو، انبیائے کرام کو زیب نہیں دیتا تھا، اس کے برعکس فرشتے چونکہ غیر مکلف ہوتے ہیں اس لئے ان سے بہت سے تکوینی کام لئے جا سکتے ہیں بہر حال نافرمان لوگوں نے ان فرشتوں کی طرف سے کہی ہوئی باتوں کو تو نظر انداز کر دیا اور ان کے بتائے ہوئے فارمولوں کو جادو کرنے میں استعمال کیا اور وہ بھی ایسے گھناؤنے مقاصد کے لئے جو ویسے بھی حرام تھے مثلاً میاں بیوی میں پھوٹ ڈال کر نوبت طلاق تک پہنچا دینا۔

۳۔ یہاں سے جملۂ معترضہ کے طور پر ایک اور اصولی غلطی پر متنبہ کیا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ جادو پر ایمان رکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ جادو میں بذات خود ایسی تاثیر موجود ہے جس سے مطلوبہ نتیجہ خود بخود اللہ کے حکم کے بغیر بھی برآمد ہو جاتا ہے، گویا اللہ چاہے یا نہ چاہے وہ نتیجہ پیدا ہو کر رہے گا، یہ عقیدہ بذات خود کفر تھا، اس لئے واضح کر دیا گیا کہ دنیا کے دوسرے اسباب کی طرح جادو بھی محض ایک سبب ہے اور دنیا میں کوئی سبب بھی اپنا سبب یا نتیجہ اس وقت تک ظاہر نہیں کر سکتا جب تک اللہ کی مشیت اس کے ساتھ متعلق نہ ہو، کائنات کی کسی چیز میں بذات خود نہ کسی کو نفع پہچانے کی طاقت ہے نہ نقصان پہچانے کی، لہذا اگر کوئی ظالم کسی پر ظلم کرنا چاہتا ہے تو وہ اللہ کی قدرت اور مشیت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا، البتہ چونکہ یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے، اس لئے یہاں اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کوئی گناہ کرنا چاہتا ہے یا کسی پر ظلم کرنا چاہتا ہے تو اگر اللہ تعالیٰ تکوینی مصلحت کے مطابق سمجھتا ہے تو اپنی مشیت سے وہ کام کرا دیتا ہے، اسی کے نتجے میں ظالم کو گناہ اور مظلوم کو ثواب ملتا ہے، ورنہ اگر اللہ اسے کام کی قدرت ہی نہ دے تو امتحان کیسے ہو؟ لہذا جتنے گناہ کے کام دنیا میں ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور مشیت سے ہوتے ہیں، اگرچہ اس کی رضا مندی ان کو حاصل نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی رضا مندی میں فرق یہی ہے کہ مشیت اچھے برے ہر کام سے متعلق ہو سکتی ہے، مگر رضامندی صرف جائز اور ثواب کے کاموں سے مخصوص ہے۔

۴۔ اس آیت کے شروع میں تو یہ کہا گیا ہے کہ وہ حقیقت جانتے ہیں کہ جو مشرکانہ جادو کا خریدار ہو گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں لیکن آیت کے آخری حصہ میں فرمایا ہے کہ کاش وہ علم رکھتے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس حقیقت کا علم نہیں ہے، بظاہر دونوں باتیں متضاد لگتی ہیں لیکن در حقیقت اس انداز بیان سے یہ عظیم سبق دیا گیا ہے کہ نرا علم جس پر عمل نہ ہو حقیقت میں علم کہلانے کا مستحق نہیں بلکہ وہ کالعدم ہے، لہذا اگر وہ یہ بات جانتے تو ہیں مگر ان کا عمل اس کے برخلاف ہے تو وہ علم کس کام کا؟ کاش کہ وہ حقیقی علم رکھتے تو اس پر ان کا عمل بھی ہوتا۔

 

آیت ۱۰۳، ۱۰۴

 

ترجمہ

 

اور (اس کے بر عکس) اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے پاس سے ملنے والا ثواب یقیناً کہیں زیادہ بہتر ہوتا۔  کاش کہ ان کو (اس بات کا بھی حقیقی) علم ہوتا۔

ایمان والو! (رسول اللہﷺ سے مخاطب ہو کر) راعنا نہ کہا کرو، اور انظرنا کہہ دیا کرو۔  اور سنا کرو۔  اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

 

تفسیر

 

مدینہ میں رہنے والے بعض یہودیوں کی ایک شرارت یہ تھی کہ وہ جب حضور اکرمﷺ سے ملتے تو آپ سے کہتے تھے‘‘ راعنا‘‘ عربی میں اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری رعایت فرمائیے، اس لحاظ سے یہ لفظ ٹھیک تھا اور اس میں گستاخی کے کوئی معنی نہیں تھے لیکن عبرانی زبان میں جو یہودیوں کی مذہبی زبان تھی اس سے ملتا جلتا ایک لفظ بدعا اور گالی کے طور پر استعمال ہوتا تھا نیز اگر اسی لفظ میں عین کو ذرا کھینچ کر بولا جائے تو وہ راعینا بن جاتا ہے، جس کے معنی ہیں‘‘ ہمارے چروا ہے‘‘ غرض یہودیوں کی اصل نیت لفظ کو خراب معنی میں استعمال کرنے کی تھی، لیکن چونکہ عربی میں بظاہر اس کا مطلب ٹھیک تھا اس لئے بعض مخلص مسلمانوں نے بھی یہ لفظ بولنا شروع کر دیا، یہودی اس بات سے بڑے خوش ہوتے اور اندر اندر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، اس لئے اس آیت نے مسلمانوں کو اس شرارت پر متنبہ بھی کر دیا، آئندہ اس لفظ کے استعمال پر پابندی بھی لگا دی اور یہ سبق بھی دے دیا کہ ایسے الفاظ کا استعمال مناسب نہیں ہے جن میں کسی غلط مفہوم کا احتمال ہو یا ان سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہو، نیز اگلی آیت میں اس سارے عناد کی اصل وجہ بھی بتا دی کہ در حقیقت ان کو یہ حسد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی نعمت آنحضرتﷺ کو کیوں عطا فرما دی ہے۔

 

آیت ۱۰۵۔ ۱۰۶

 

ترجمہ

 

کافر لوگ خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے، یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے کوئی بھلائی تم پر نازل ہو، حالانکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص فرما لیتا ہے۔  اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔

ہم جب بھی کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی جیسی (آیت) لے آتے ہیں۔  کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟

 

تفسیر

 

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ محتلف زمانوں کے حالات کی مناسبت سے شریعت کے فروعی احکام میں تبدیلی فرماتے رہے ہیں، اگرچہ دین کے بنیادی عقائد مثلاً توحید رسالت آخرت وغیرہ ہر دور میں ایک رہے ہیں لیکن جو عملی احکام حضرت موسیٰؑ کو دئے گئے تھے، ان میں سے بعض حضرت عیسیٰؑ کے دور میں تبدیل کر دئے گئے اور آنحضرتﷺ کے زمانے میں ان میں مزید تبدیلیاں واقع ہوئیں، اسی طرح جب آنحضرتﷺ کو شروع میں نبوت عطا ہوئی تو آپ کی دعوت کو مختلف مراحل سے گزرنا تھا، مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل درپیش تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے احکام میں تدریج اختیار فرمائی، کسی وقت ایک حکم دیا گیا بعد میں اس کی جگہ دوسرا حکم آ گیا، جیسا کہ قبلے کی تعین میں احکام بدلے گئے، جن کی کچھ تفصیل آگے آیت ۱۱۵ میں آ رہی ہے، فروعی احکام میں ان حکیمانہ تبدیلیوں کو اصطلاح میں‘‘ نسخ‘‘ کہتے ہیں، یہودیوں نے بالخصوص اور دوسرے کافروں نے بالعموم اس پر یہ اعتراض اٹھایا کہ اگر یہ سارے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو ان میں یہ تبدیلیاں کیوں ہو رہی ہیں، یہ آیت کریمہ اس سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق بدلتے ہوئے حالات میں یہ تبدیلیاں کرتے ہیں اور جو حکم بھی منسوخ کیا جاتا ہے اس کی جگہ ایسا حکم لایا جاتا ہے جو بدلے ہوئے حالات میں زیادہ مناسب اور بہتر ہوتا ہے یا کم از کم اتنا ہی بہتر ہوتا ہے جتنا بہتر پہلا حکم تھا۔

 

آیت ۱۰۷، ۱۰۸

 

ترجمہ

 

کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ وہ ذات ہے کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت تنہا اسی کی ہے، اور اللہ کے سوا نہ کوئی تمہارا رکھوالا ہے نہ مددگار؟

کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے اسی قسم کے سوال کرو جیسے پہلے موسیٰ سے کیے جا  چکے ہیں؟ اور جو شخص ایمان کے بدلے کفر اختیار کرے وہ یقیناً سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔

 

تفسیر

 

یہ خطاب یہودیوں کو بھی ہے جو آنحضرتﷺ پر ایمان لانے کے بجائے طرح طرح کے مطالبے پیش کرتے تھے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰؑ پر ایمان لانے کے باوجود یہودی ان سے نامعقول اور غیر ضروری سوالات اور مطالبے کرتے رہے، تم ایسا نہ کرنا۔

 

آیت ۱۰۹ ۔ ۱۱۱

 

ترجمہ

 

(مسلمانو) بہت سے اہل کتاب اپنے دلوں کے حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہیں پلٹا کر پھر کافر بنا دیں، باوجودیکہ حق ان پر واضح ہو چکا ہے۔  چنانچہ تم معاف کرو اور درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود اپنا فیصلہ بھیج دے۔  بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، اور (یاد رکھو کہ) جو بھلائی کا عمل بھی تم خود اپنے فائدے کے لیے آگے بھیج دو گے اس کو اللہ کے پاس پاؤ گے بیشک جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

اور یہ (یعنی یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ  جنت میں سوائے یہودیوں یا عیسائیوں کے کوئی بھی ہرگز داخل نہیں ہو گا۔  یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں۔۱  آپ ان سے کہے کہ اگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے کر آؤ۔

 

تفسیر

 

۱۔ یعنی یہودی کہتے ہیں کہ صرف یہودی جنت میں جائیں گے اور عیسائی کہتے ہیں کہ صرف عیسائی۔

 

آیت ۱۱۲ ۔ ۱۱۴

 

ترجمہ

 

کیوں نہیں؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو شخص بھی اپنا رخ اللہ کے آگے جھکا دے، اور وہ نیک عمل کرنے والا ہو، اسے اپنا اجر اپنے پروردگار کے پاس ملے گا۔  اور ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں، اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں، حالانکہ یہ سب (آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں۔  اسی طرح وہ (مشرکین) جن کے پاس کوئی (آسمانی) علم ہی سرے سے نہیں ہے، انہوں نے بھی ان (اہل کتاب) کی جیسی باتیں کہنی شروع کر دی ہیں۔  چنانچہ اللہ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔

اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔  ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔  ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہو گا۔

 

تفسیر

 

اوپر یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب تینوں گروہوں کا ذکر آیا ہے، یہ تینوں گروہ کسی نہ کسی زمانے میں اور کسی نہ کسی شکل میں اللہ تعالیٰ کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے ہیں، مثلاً عیسائیوں نے شاہ طیطوس کے زمانے میں بیت المقدس پر حملہ کر کے اسے تاخت و تاراج کیا، ابرہہ نے جو عیسائی ہونے کا مدعی تھا بیت اللہ پر حملہ کر کے اسے ویران کرنے کی کوشش کی، مشرکین مکہ مسلمانوں کو مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے روکتے رہے اور یہودیوں نے بیت اللہ کے تقدس سے انکار کر کے عملاً لوگوں کو اس کی طرف رخ کرنے سے روکا، قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک طرف ان میں سے ہر ایک کا دعوی یہ ہے کہ تنہا وہی جنت کا حق دار ہے اور دوسری طرف ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت میں رکاوٹ ڈالنے یا عبادت گاہوں کو ویران کرنے کے درپے رہے ہیں، اسی آیت کا اگلا جملہ ذو معنی ہے اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ حق تو یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا خوف لے کر داخل ہوتے، نہ یہ کہ متکبرانہ انداز میں انہیں ویران کریں یا لوگوں کو وہاں اللہ کی عبادت سے روکیں، لیکن ساتھ ہی یہ لطیف اشارہ بھی ہے ہو سکتا ہے کہ عنقریب وہ وقت آنے ولا ہے جب یہ متکبر لوگ جو اللہ کی مسجدوں سے لوگوں کو روک رہے ہیں حق پرستوں کے سامنے ایسے مغلوب ہوں گے کہ انہیں خود ان کی جگہوں پر ڈر ڈر کر داخل ہونا پڑے گا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کے ساتھ یہی صورت پیش آئی۔

 

آیت ۱۱۵

 

ترجمہ

 

اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کی ہیں۔  لہذا جس طرف بھی تم رخ کرو گے، وہیں اللہ کا رخ ہے۔  بیشک اللہ بہت وسعت والا، بڑا علم رکھنے والا ہے۔

 

تفسیر

 

اوپر جن تین گروہوں کا ذکر ہوا ہے ان کے درمیان ایک اختلاف قبلے کا بھی تھا، اہل کتاب بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اور مشرکین بیت اللہ کو قبلہ سمجھتے تھے، مسلمان بھی اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور یہ بات یہودیوں کو ناگوار تھی، ایک مختصر عرصے کے لئے مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تو یہودیوں نے حکم دیا گیا تو یہودیوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ دیکھو! مسلمان ہماری بات ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں، پھر دوبارہ بیت اللہ کو مستقل قبلہ بنا دیا گیا، جس کی تفصیل انشاء اللہ اگلے پارہ کے شروع میں آنے والی ہے، یہ آیت بظاہر اس موقع پر نازل ہوئی ہے جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے، بتلانا یہ مقصود ہے کہ کوئی بھی سمت اپنی ذات میں کسی تقدس کی حامل نہیں، کسی بھی جگہ یا کسی بھی سمت میں اگر کوئی تقدس آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے آتا ہے، مشرق و مغرب سب اللہ کی مخلوق اور اسی کی تابع فرمان ہیں، اللہ تعالیٰ کسی ایک جہت میں محدود نہیں وہ ہر جگہ موجود ہے، چنانچہ وہ جس سمت کی طرف رخ کرنے کا حکم دیدے بندوں کا کام ہے کہ اسی حکم کی تعمیل کریں۔  یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ ہو جہاں قبلے کی صحیح سمت پتہ نہ چل رہی ہو تو وہاں وہ اپنے اندازے سے جس سمت کو قبلہ سمجھ کر نماز پڑھے گا اس کی نماز ہو جائے گی یہاں تک کہ اگر بعد میں پتہ چلے کہ جس رخ پر نماز پڑھی ہے وہ صحیح رخ نہیں تھا تب بھی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس شخص نے اپنی طاقت کے مطابق اللہ کے حکم کی تعمیل کر لی۔  در اصل کسی بھی جگہ یا کسی بھی سمت میں اگر کوئی تقدس آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے آتا ہے لہذا اگر اللہ تعالیٰ قبلے کے تعین میں اپنے احکام بدل رہا ہے تو اس میں کسی فریق کی ہار جیت کا سوال نہیں۔  یہ تبدیلی یہی دکھانے کے لئے آ رہی ہے کہ کوئی سمت اپنی ذات میں مقصود نہیں۔  مقصود اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی ہے۔  اگر آئندہ اللہ تعالیٰ دوبارہ بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیدے تو یہ بات نہ قابل تعجب ہونی چاہیے نہ قابل اعتراض۔

 

آیت ۱۱۶، ۱۱۷

 

ترجمہ

 

یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے کوئی بیٹا بنایا ہوا ہے۔  (حالانکہ) اس کی ذات (اس قسم کی چیزوں سے) پاک ہے، بلکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔  سب کے سب اس کے فرمانبردار ہیں۔

وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے بارے میں بس اتنا کہتا ہے کہ  ہو جا۔  چنانچہ وہ ہو جاتی ہے۔

 

تفسیر

 

عیسائی تو حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا کہتے ہی ہیں، بعض یہودی حضرت عزیرؑ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، اور مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، یہ آیت ان سب کی تردید کر رہی ہے، مطلب یہ ہے کہ اولاد کی ضرورت اسے ہو سکتی ہے جو دوسروں کی مدد کا محتاج ہو، اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ہے اور اسے کسی کام میں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، پھر وہ اولاد کا محتاج کیوں ہو؟ اسی دلیل کو اگر منطقی پیرائے میں بیان کیا جائے تو وہ اس طرح ہو گی کہ اولاد اپنے باپ کا جزء ہوتی ہے اور ہر کل اپنے جزء کا محتاج ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ چونکہ ہر احتیاج سے پاک ہے اس لئے اس کی ذات بسیط ہے جسے کسی جزء کی حاجت نہیں، لہذا اس کی طرف اولاد منسوب کرنا اسے محتاج قرار دینے کے مرادف ہے۔

 

آیت ۱۱۸ ۔ ۱۲۰

 

ترجمہ

 

اور جو لوگ علم نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ  اللہ ہم سے (براہ راست) کیوں بات نہیں کرتا؟ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں وہ بھی اسی طرح کی باتیں کہتے تھے جیسے یہ کہتے ہیں۔  ان سب کے دل ایک جیسے ہیں۔  حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ یقین کرنا چاہیں ان کے لیے ہم نشانیاں پہلے ہی واضح کر چکے ہیں۔

(اے پیغمبر) بیشک ہم نے تمہیں کو حق دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم (جنت کی) خوشخبری دو اور (جہنم سے) ڈراؤ) اور جو لوگ (اپنی مرضی سے) جہنم (کا راستہ) اختیار کر چکے ہیں ان کے بارے میں آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔

اور یہود و نصاریٰ تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔  کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔  اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آ گیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کر لی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔

 

تفسیر

 

اگرچہ حضور رسالت مآبﷺ سے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ آپ کفار کی خواہشات کے پیچھے چلیں، لیکن اس آیت نے فرض محال کے طور پر یہ بات کہہ کر اصول یہ بتلا دیا کہ اللہ کے نزدیک شخصیات کی اہمیت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں، بلکہ اللہ کی اطاعت کی وجہ سے ہوتی ہے، آنحضرتﷺ ساری مخلوقات میں سب سے افضل اسی بنا پر ہیں کہ اللہ کے سب سے زیادہ فرمانبردار ہیں۔

 

آیت ۱۲۱

 

ترجمہ

 

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی، جبکہ وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہوں جیسا اس کی تلاوت کا حق ہے، تو وہ لوگ ہی (در حقیقت) اس پر ایمان رکھتے ہیں۔  اور جو اس کا انکار کرتے ہوں تو ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

 

تفسیر

 

بنی اسرائیل میں جہاں سرکش لوگ بڑی تعداد میں تھے وہاں بہت سے لوگ ایسے مخلص بھی تھے جنہوں نے تورات اور انجیل کو صرف پڑھا ہی نہیں تھا، بلکہ اس کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے حق کی ہر بات کو قبول کرنے کے لئے اپنے سینوں کو کشادہ رکھا تھا، چنانچہ جب ان کو آنحضرتﷺ کی دعوت پہنچی تو انہوں نے کسی عناد کے بغیر اسے قبول کیا، اس آیت میں ان حضرات کی تعریف کی گئی ہے اور سبق یہ دیا گیا ہے کہ کسی آسمانی کتاب کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ اس کے تمام احکام کو دل سے مان کر ان کی تعمیل کی جائے، در حقیقت تورات پر ایمان رکھنے والے وہی ہیں جو اس کے احکام کی تعمیل میں آنحضرتﷺ پر ایمان لاتے ہیں۔

 

آیت ۱۲۲، ۱۲۳

 

ترجمہ

 

اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی، اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی۔

اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص بھی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا، نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ قبول کیا جائے گا، نہ اس کو کوئی سفارش فائدہ دے گی اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی۔

 

تفسیر

 

بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور ان کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا جو ذکر اوپر سے چلا آ رہا ہے اس کا آغاز آیت ۴۷ اور ۴۸ میں تقریباً انہی الفاظ سے کیا گیا تھا، اب سارے واقعات تفصیل سے یاد دلانے کے بعد پھر وہی بات ناصحانہ انداز میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ ان سب باتوں کو یاد دلانے کا اصل مقصد تمہاری خیر خواہی ہے اور تمہیں ان واقعات سے اس نتیجے تک پہنچ جانا چاہئے۔

 

آیت ۱۲۴

 

ترجمہ

 

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا، اور انہوں نے وہ ساری باتیں کیں، اللہ نے (ان سے) کہا  میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔  ابراہیم نے پوچھا  اور میری اولاد میں سے؟ اللہ نے فرمایا میرا (یہ) عہد ظالموں کو شامل نہیں ہے۔

 

تفسیر

 

یہاں سے حضرت ابراہیمؑ کے کچھ حالات و واقعات شروع ہو رہے ہیں اور پچھلی آیتوں سے ان واقعات کا دو طرح گہرا تعلق ہے، ایک بات تو یہ ہے کہ یہودی عیسائی اور عرب کے بت پرست یعنی تینوں گروہ جن کا ذکر اوپر آیا ہے حضرت ابراہیمؑ کو اپنا پیشوا مانتے تھے، مگر ہر گروہ یہ دعوی کرتا تھا کہ وہ اسی کے مذہب کے حامی تھے، لہذا ضروری تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں صحیح صورت حال واضح کی جائے، قرآن کریم نے یہاں یہ بتلایا ہے کہ ان کا تینوں گروہوں کے باطل عقائد سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان کی ساری زندگی توحید کی تبلیغ میں خرچ ہوئی اور انہیں اس راستے میں بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا جن میں وہ پورے اترے، دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹے تھے، حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ ہی کے بیٹے حضرت یعقوبؑ تھے جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا، نبی کریمﷺ سے پہلے نبوت کا سلسلہ انہی کی اولاد یعنی بنی اسرائیل میں چلا آ رہا تھا، جس کی بنا پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا بھر کی پیشوائی کا حق صرف انہی کو حاصل ہے، کسی اور نسل میں کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو ان کے لئے واجب الاتباع ہو، قرآن کریم نے یہاں یہ غلط فہمی دور کرتے ہوئے یہ واضح فرمایا ہے کہ دینی پیشوائی کا منصب کسی خاندان کی لازمی میراث نہیں ہے اور یہ بات خود حضرت ابراہیمؑ سے صریح لفظوں میں کہہ دی گئی تھی انہیں جب اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے آزما لیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بڑی سے بڑی قربانی کے لئے ہمیشہ تیار ہیں، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا بھر کی پیشوائی کا منصب دینے کا اعلان فرمایا، اسی موقع پر جب انہوں نے اپنی اولاد کے بارے میں پوچھا تو صاف طور پر بتلا دیا گیا کہ ان میں جو لوگ ظالم ہوں گے یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے اپنی جانوں پر ظلم کریں گے وہ اس منصب کے حق دار نہیں ہوں گے بنی اسرائیل کو صدیوں آزمانے کے بعد ثابت یہ ہوا کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ قیامت تک پوری انسانیت کی دینی پیشوائی ان کو دی جائے اس لئے نبی آخر الزمانﷺ اب حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے صاحبزادے یعنی حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں بھیجے جا رہے ہیں جن کے لئے حضرت ابراہیمؑ نے دعا کی تھی کہ وہ اہل مکہ میں سے بھیجے جائیں۔  اب چونکہ دینی پیشوائی منتقل کی جا رہی ہے اس لئے اب قبلہ بھی اس بیت اللہ کو بنایا جائے والا ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیلؑ نے تعمیر کیا تھا اس مناسبت سے آگے تعمیر کعبہ کا واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے یہاں سے آیت نمبر آیت ۱۵۲ تک جو سلسلہ کلام آ رہا ہے اس کو اس پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔

 

آیت ۱۲۵

 

ترجمہ

 

اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ایسی جگہ بنایا جس کی طرف وہ لوٹ لوٹ کر جائیں اور جو سراپا امن ہو۔ ۱   اور تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو۔  اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو یہ تاکید کی کہ  تم دونوں میرے گھر کو ان لوگوں کے لیے پاک کرو جو (یہاں) طواف کریں اور اعتکاف میں بیٹھیں اور رکوع اور سجدہ بجا لائیں۔۲

 

تفسیر

 

۱۔ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی یہ حرمت رکھی ہے کہ نہ صرف مسجد حرام میں بلکہ اس کے ارد گرد کے وسیع علاقے میں جسے حرم کہا جاتا ہے، نہ کسی انسان کو قتل کیا جا سکتا ہے نہ شدید دفاعی ضرورت کے بغیر جنگ کرنا جائز ہے، نہ کسی جانور کا شکار حلال ہے، نہ کوئی خود رو پودا اکھاڑنے کی اجازت ہے، نہ کسی جانور کو قید رکھا جا سکتا ہے، اس طرح یہ صرف انسانوں کے لئے ہی نہیں حیوانات اور نباتات کے لئے بھی امن کی جگہ ہے۔

۲۔ مقام ابراہیم اس پتھر کا نام ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ تعمیر کیا تھا، یہ پتھر آج بھی موجود ہے اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو بیت اللہ کا طواف کرے سات چکر لگانے کے بعد اس پتھر کے سامنے کھڑا ہو کر بیت اللہ کا رخ کرے اور دو رکعتیں پڑھے ان رکعتوں کا اسی جگہ پڑھنا افضل ہے۔

 

آیت ۱۲۶، ۱۲۷

 

ترجمہ

 

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ  اے میرے پروردگار! اس کو ایک پر امن شہر بنا دیجیے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں انہیں قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمایے۔  اللہ نے کہا  اور جو کفر اختیار کرے گا اس کو بھی میں کچھ عرصے کے لیے لطف اٹھانے کا موقع دوں گا، (مگر) پھر اسے دوزخ کے عذاب کی طرف کھینچ لے جاؤں گا۔  اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔

اور اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور اسماعیل بھی (ان کے ساتھ شریک تھے، اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے۔  بیشک تو اور صرف تو ہی، ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے۔

 

تفسیر

 

بیت اللہ جسے کعبہ بھی کہتے ہیں در حقیقت حضرت آدمؑ کے وقت سے تعمیر چلا آتا ہے لیکن حضرت ابراہیمؑ کے دور میں وہ حوادث روزگار سے منہدم ہو چکا تھا، حضرت ابراہیمؑ کو اسے از سر نو انہی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا حکم ہوا تھا جو پہلے سے موجود تھیں اور اللہ تعالیٰ نے بذریعۂ وحی آپ کو بتا دی تھیں، اسی لئے قرآن کریم نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وہ بیت اللہ تعمیر کر رہے تھے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ اس کی بنیادیں اٹھا رہے تھے

 

آیت ۱۲۸، ۱۲۹

 

ترجمہ

 

اے ہمارے پروردگار! ہم دونوں کو اپنا مکمل فرمانبردار بنا لے اور ہماری نسل سے بھی ایسی امت پیدا کر جو تیری پوری تابع دار ہو اور ہم کو ہماری عبادتوں کے طریقے سکھا دے اور ہماری توبہ قبول فرما لے۔  بیشک تو اور صرف تو ہی معاف کر دینے کا خوگر (اور) بڑی رحمت کا مالک ہے۔

اور ہمارے پروردگار! ان میں ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کو پاکیزہ بنائے۔  بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کی حکمت بھی کامل۔

 

تفسیر

 

دل سے نکلی ہوئی اس دعا کی تاثیر کسی ترجمے کے ذریعے دوسری زبان میں منتقل نہیں کی جا سکتی چنانچہ ترجمہ صرف اس کا مفہوم ہی ادا کر سکتا ہے یہاں اس دعا کو نقل کرنے کا مقصد ایک تو یہ دکھانا ہے کہ انبیاء اپنے بڑے سے کارنامے پر بھی مغرور ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور اور زیادہ عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے فرماتے ہیں اور اپنے کارنامے کا تذکرہ کرنے کے بجائے اپنی ان کوتاہیوں پر توبہ مانگتے ہیں جو اس کام کی ادائیگی میں ان سے سرزد ہونے کا امکان ہو دوسرے ان کا ہر کام صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہوتا ہے لہذا وہ اس پر مخلوق سے تعریف کرانے کی فکر کے بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا مانگتے ہیں۔  تیسرے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آنحضرتﷺ کی تشریف آوری حضرت ابراہیمؑ کی دعا میں شامل تھی اور اس طرح خود حضرت ابراہیمؑ نے یہ تجویز دی تھی کہ آپ بنی اسماعیل میں سے مبعوث ہوں نہ کہ بنی اسرائیل میں سے۔  اس دعا میں حضرت ابراہیمؑ کی زبان سے حضور نبی کریمﷺ کی تشریف آوری کے بنیادی مقاصد بھی بیان فرما دیئے ہیں ان مقاصد کو قرآن کریم نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے اور ان کی تشریح انشاء اللہ آگے اسی سورت کی آیت آیت ۱۵۱ میں آئے گی۔

 

آیت ۱۳۰، ۱۳۱

 

ترجمہ

 

اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے؟ سوائے اس شخص کے جو خود اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کر چکا ہو۔  حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں انہیں (اپنے لیے) چن لیا تھا، اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہو گا۔

جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ  سر تسلیم خم کر دو! تو وہ (فوراً) بولے  میں نے رب العالمین کے (ہر حکم کے) آگے سر جھکا دیا۔

 

تفسیر

 

یہاں سر تسلیم خم کے نے کے لئے قرآن کریم نے‘‘ اسلام‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے لفظی معنی سر جھکانے اور کسی کے مکمل تابع فرمان ہو جانے کے ہیں۔  ہمارے دین کا نام اسلام اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ ہی کا تابعدار بنے۔  حضرت ابراہیمؑ چونکہ شروع ہی سے مومن تھے اس لئے یہاں اللہ تعالیٰ کا مقصد ان کو ایمان لانے کی تلقین کرنا نہیں تھا اسی لئے یہاں اس لفظ کا ترجمہ اسلام لانے سے نہیں کیا گیا البتہ اگلی آیت میں حضرت ابراہیمؑ کی جو وصیت اپنی اولاد کے لئے مذکور ہے وہاں اسلام کے مفہوم میں دونوں باتیں داخل ہیں، دین برحق پر ایمان رکھنا بھی اور اس کے بعد اللہ کے ہر حکم کی تابعداری بھی۔  اس لئے وہاں لفظ‘‘ مسلم‘‘ ہی استعمال کیا گیا ہے۔

 

آیت ۱۳۲، ۱۳۳

 

ترجمہ

 

اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ  اے میرے بیٹو! اللہ نے یہ دین تمہارے لیے منتخب فرما لیا ہے، لہذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میں آئے کہ تم مسلم ہو۔

کیا اس وقت تم خود موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا۔  جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ ان سب نے کہا تھا کہ  ہم اسی ایک خدا کی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے۔  اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔

 

تفسیر

 

بعض یہودیوں نے کہا تھا کہ حضرت یعقوب (اسرائیل)ؑ نے اپنے انتقال کے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ وہ یہودیت کے دین پر رہیں، یہ آیت اس کا جواب ہے۔  اس آیت کو سورة آل عمران کی آیت ۶۵ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔

 

آیت ۱۳۴ ۔ ۱۳۸

 

ترجمہ

 

وہ ایک امت تھی جو گزر گئی، جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کا ہے اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارا ہے، اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے تھے۔

اور یہ (یہودی اور عیسائی مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ  تم یہودی یا عیسائی ہو جاؤ راہ راست پر آ جاؤ گے۔  کہہ دو کہ  نہیں بلکہ (ہم تو) ابراہیم کے دین کی پیروی کریں گے جو ٹھیک ٹھیک سیدھی راہ پر تھے، اور وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔

(مسلمانو) کہہ دو کہ  ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس کلام پر بھی جو ہم پر اتارا گیا اور اس پر بھی جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد پر اتارا گیا، اور اس پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور اس پر بھی جو دوسرے پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے عطا ہوا۔  ہم ان پیغمبروں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے، اور ہم اسی (ایک خدا) کے تابع فرمان ہیں۔

اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آ جائیں گے۔  اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو در حقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔  اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔

(اے مسلمانو! کہہ دو کہ) ہم پر تو اللہ نے اپنا رنگ چڑھا دیا ہے اور کون ہے جو اللہ سے بہتر رنگ چڑھائے؟ اور ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔

 

تفسیر

 

اس میں عیسائیوں کی رسم بپتسمہ (Baptism) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جسے اصطباغ (رنگ چڑھانا) بھی کہا جاتا ہے، کسی شخص کو عیسائی بنتے وقت وہ اسے غسل دیتے ہیں جو بعض اوقات رنگا ہوا پانی ہوتا ہے، ان کے خیال میں اس طرح اس پر عیسائی مذہب کا رنگ چڑھ جاتا ہے، یہ بپتسمہ پیدا ہونے والے بچوں کو بھی دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ہر بچہ ماں کے پیٹ سے گنہگار پیدا ہوتا ہے اور جب تک وہ بپتسمہ نہ لے گا گنہگار رہتا ہے اور یسوع مسیح کے کفارے کا حق دار نہیں ہوتا، قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ اس بے سر و پا خیال کی کوئی حقیقت نہیں، رنگ چڑھانا ہے تو اللہ کا رنگ چڑھاؤ جو توحید خالص کا رنگ ہے۔

 

آیت ۱۳۹، ۱۴۰

 

ترجمہ

 

کہہ دو کہ  کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو؟ حالانکہ وہ ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار (یہ) اور (بات ہے کہ) ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں، اور تمہارے عمل تمہارے لیے۔  اور ہم نے تو اپنی بندگی اسی کے لیے خالص کر لی ہے۔

بھلا کیا تم یہ کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولادیں یہودی یا نصرانی تھیں؟ (مسلمانو! ان سے) کہو  کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو ایسی شہادت کو چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے پہنچی ہو؟ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔

 

تفسیر

 

یہ حقیقت در اصل ان کو بھی معلوم ہے کہ یہ تمام انبیاء کرام توحید خالص کا درس دیتے رہے ہیں اور ان بے بنیاد عقیدوں سے انبیاء کرام کا کوئی تعلق نہیں ہے خود ان کی کتابوں میں یہ حقیقت واضح طور پر لکھی ہوئی موجود ہے اور ان میں نبی آخر الزمانﷺ کی بشارتیں بھی موجود ہیں جو ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی شہادت کا درجہ رکھتی ہیں، مگر یہ ظالم ان کو چھپائے بیٹھے ہیں۔

 

آیت ۱۴۱، ۱۴۲

 

ترجمہ

 

(بہرحال) وہ ایک امت تھی جو گزر گئی۔  جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کا ہے، اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارا ہے، اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے تھے؟

اب یہ بیوقوف لوگ کہیں گے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس نے ان (مسلمانوں) کو قبلے سے رخ پھیرنے پر آمادہ کر دیا جس کی طرف وہ منہ کرتے چلے آ رہے تھے؟ آپ کہہ دیجیے کہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کی ہیں۔  وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دیتا ہے۔

 

تفسیر

 

یہاں سے قبلے کی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا تفصیلی بیان شروع ہو رہا ہے، واقعات کا پس منظر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں آنحضرتﷺ بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے، جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کو بیت المقدس کا رخ کرنے کا حکم دیا گیا، جس پر آپ تقریباً سترہ مہینے تک عمل کرتے رہے، اس کے بعد دوبارہ بیت اللہ شریف کو قبلہ قرار دے دیا گیا، تبدیلی کا یہ حکم آگے آیت نمبر  ۱۴۴ میں آ رہا ہے، یہ آیت پیشین گوئی کر رہی ہے کہ یہودی اور عیسائی اس تبدیلی پر بڑے اعتراضات کریں گے، حالانکہ یہ حقیقت اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لئے کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ قبلہ کی کوئی خاص سمت مقرر کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قبلے کی سمت میں تشریف فرما ہیں، وہ تو ہر سمت اور ہر جگہ موجود ہے اور مشرق ہو یا مغرب شمال ہو یا جنوب، یہ ساری جہتیں اسی کی بنائی ہوئی ہیں، البتہ چونکہ مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرتے وقت تمام مومنوں کے لئے کوئی ایک سمت مقرر کر دی جائے، اس لئے یہ مقصود ہے، جو کچھ تقدس کسی قبلہ یا اس کی سمت میں آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے آتا ہے، چنانچہ وہ اپنی حکمت کے مطابق جب چاہے جس سمت کو چاہے قبلہ قرار دے سکتا ہے، ایک مومن کا سیدھا راستہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ کر اللہ کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دے، آیت کے آخر میں سیدھی راہ کا جو ذکر ہے اس سے مراد اسی حقیقت کا ادراک ہے۔

 

آیت ۱۴۳

 

ترجمہ

 

اور (مسلمانو) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو، اور رسول تم پر گواہ بنے اور جس قبلے پر تم پہلے کار بند تھے،۱  اسے ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں، بلکہ صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کا حکم مانتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ۲؟ اور اس میں شک نہیں کہ یہ بات تھی بڑی مشکل، لیکن ان لوگوں کے لیے (ذرا بھی مشکل نہ ہوئی) جن کو اللہ نے ہدایت دے دی تھی۔ ۳ اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کر دے۔  در حقیقت اللہ لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

 

تفسیر

 

۱۔ یعنی جس طرح ہم نے اس آخری زمانے میں دوسری جہتوں کو چھوڑ کر کعبہ کی سمت کو قبلہ بننے کا شرف عطا فرمایا اور تمہیں اسے دل و جان سے قبول کرنے کی ہدایت دی، اسی طرح ہم نے تم کو دوسری امتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ معتدل اور متوازن امت بنایا ہے (تفسیر کبیر) چنانچہ اس امت کی شریعت میں ایسے مناسب احکام رکھے گئے ہیں جو قیام قیامت تک انسانیت کی صحیح رہنمائی کر سکیں، معتدل امت کی یہ خصوصیت بھی اس آیت میں بیان فرمائی گئی ہے کہ اس امت کو قیامت کے دن انبیاء کرام کے گواہ کے طور پر پیش کیا جائے گا، اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ جب پچھلے انبیاء کرام کی امتوں میں سے کافر لوگ صاف انکار کر دیں گے کہ ہمارے پاس کوئی نبی نہیں آیا تھا تو امت محمدیہ کے لوگ انبیائے کرام کے حق میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے رسالت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی اپنی امتوں کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور اگرچہ ہم خود اس موقع پر موجود نہیں تھے، لیکن ہمارے نبی کریمﷺ محمد مصطفیٰﷺ نے وحی سے باخبر ہو کر ہم کو یہ بات بتلا دی تھی اور ہمیں ان کی بات پر اپنے ذاتی مشاہدے سے زیادہ اعتماد ہے۔

دوسری طرف رسول کریمﷺ اپنی امت کی اس بات کی تصدیق فرمائیں گے، نیز مفسرین نے امت محمدیہ کے گواہ ہونے کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ شہادت سے مراد حق کی دعوت وتبلیغ ہے اور یہ امت پوری انسانیت کو اسی طرح حق کا پیغام پہنچائے گی جس طرح آنحضرتﷺ نے ان کو پہنچایا تھا۔  باتیں دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور ان میں کوئی تعارض بھی نہیں۔

۲، مطلب یہ ہے کہ پہلے کچھ عرصے کے لئے بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا جو حکم ہم نے دیا تھا اس کا مقصد یہ امتحان لینا تھا کہ کون قبلے کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور کون ہے جو کسی ایک قبلے کو بذات خود ہمیشہ کے لئے مقدس مان کر اللہ کے بجائے اسی کی عبادت شروع کر دیتا ہے، قبلے کی تبدیلی سے یہی واضح کرنا مقصود تھا کہ عبادت بیت اللہ کی نہیں اللہ کی کرنی ہے، ورنہ اس میں اور بت پرستی میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اگلے جملے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ جو لوگ صدیوں سے بیت اللہ کو قبلہ مانتے چلے آ رہے تھے ان کے لئے اچانک بیت المقدس کی طرف رخ موڑ دینا کوئی آسان بات نہ تھی، کیونکہ صدیوں سے دلوں پر حکمرانی کرنے والے اعتقادات کو یکایک بدل لینا بڑا مشکل ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کو اللہ نے یہ سمجھ عطا فرمائی کہ کسی بھی چیز میں کوئی ذاتی تقدس نہیں اور اصل تقدس اللہ تعالیٰ کے حکم کو حاصل ہے ان کو نئے قبلے کی طرف رخ کرنے میں ذرا بھی دقت پیش نہیں آئی، کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم پہلے بھی اللہ کے بندے اور اس کے تابع فرمان تھے اور آج بھی اسی کے حکم پر ایسا کر رہے ہیں۔

۳، اس سلسلہ کلام میں اس جملے کا ایک مطلب تو حضرت حسن بصریؒ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ نئے قبلے کو اختیار کر لینا مشکل تھا، لیکن جن لوگوں نے اپنی قوت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اسے بے چون و چرا مان لیا اللہ تعالیٰ ان کے اس ایمانی جذبے کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ انہیں اس کا عظیم اجر ملے گا (تفسیر کبیر) دوسرے یہ جملہ ایک سوال کا جواب بھی ہے جو بعض صحابہ کے دل میں پیدا ہوا تھا اور وہ یہ کہ جو مسلمان اس وقت انتقال فرما گئے تھے جب قبلہ بیت المقدس تھا تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی وہ نمازیں جو انہوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی تھیں قبلے کی تبدیلی کے بعد ضائع اور کالعدم ہو جائیں؟ آیت نے جواب دے دیا کہ نہیں چونکہ انہوں نے اپنے ایمانی جذبے کے تحت وہ نمازیں اللہ ہی کے حکم کی تعمیل میں پڑھی تھیں اس لئے وہ نمازیں ضائع نہیں ہوں گی۔

 

آیت ۱۴۴

 

ترجمہ

 

(اے پیغمبر) ہم تمہارے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔  چنانچہ ہم تمہارا رخ ضرور اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے ۱ جو تمہیں پسند ہے لو اب اپنا رخ مسجد حرام کی سمت کر لو، اور (آئندہ) جہاں کہیں تم ہو اپنے چہروں کا رخ (نماز پڑھتے ہوئے) اسی کی طرف رکھا کرو۔  اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہی بات حق ہے ۲ جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔

 

تفسیر

 

۱۔ جب بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تو آنحضرتﷺ کو یہ اندازہ تھا کہ یہ حکم عارضی ہے اور چونکہ بیت اللہ بیت المقدس کے مقابلے میں زیادہ قدیم بھی تھا اور اس سے حضرت ابراہیمؑ کی یادیں بھی وابستہ تھیں، اس لئے آپ کی طبعی خواہش بھی یہی تھی کے اسی کو قبلہ بنایا جائے، چنانچہ آنحضرتﷺ قبلے کی تبدیلی کے انتظار اور اشتیاق میں کبھی کبھی آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دیکھتے تھے، اس آیت میں آپ کی اسی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔

۲۔ یعنی اہل کتاب اچھی طرح جانتے ہیں کہ قبلے کی تبدیلی کا جو حکم دیا گیا ہے وہ بالکل برحق ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ لوگ حضرت ابراہیمؑ کو مانتے تھے اور یہ بات تاریخی طور پر ثابت تھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ میں کعبہ تعمیر کیا تھا بلکہ بعض مورخین نے خود تورات کے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی تمام اولاد (بشمول حضرت اسحاقؑ) کا قبلہ کعبہ ہی تھا۔

 

آیت ۱۴۵

 

ترجمہ

 

اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھیا گر تم ان کے پاس ہر قسم کی نشانیاں لے آؤ تب بھی یہ تمہارے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے۔  اور نہ تم ان کے قبلے پر عمل کرنے والے ہو، نہ یہ ایک دوسرے کے قبلے پر عمل کرنے والے ہیں اور جو علم تمہارے پاس آ چکا ہے اس کے بعد اگر کہیں تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کر لی تو اس صورت میں یقیناً تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔

 

تفسیر

 

وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ، میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب قیامت تک کے لئے آپ کا قبلہ بیت اللہ ہی رہے گا، اس سے یہود و نصاریٰ کے ان خیالات کا قطع کرنا مقصود تھا کہ مسلمانوں کے قبلہ کو تو کوئی قرار نہیں۔

وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاءَہُمْ، یہ خطاب رسول اللہﷺ کو بطور فرض محال کے ہے جس کے وقوع کا کوئی احتمال نہیں، اور در اصل سنانا امت محمدیہ کو ہے کہ اس کی خلاف ورزی نہ کریں۔

 

آیت ۱۴۶

 

ترجمہ

 

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو اتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔  اور یقین جانو کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے حق کو جان بوجھ کر چھپا رکھا ہے۔

 

تفسیر

 

اس آیت میں رسول کریمﷺ کو بحیثیت رسول پہچاننے کی تشبیہ اپنے بیٹوں کو پہچاننے کے ساتھ دی گئی ہے، کہ یہ لوگ جس طرح اپنے بیٹوں کو پوری طرح پہچانتے ہیں، ان میں کبھی شبہ و اشتباہ نہیں ہوتا، اسی طرح تورات و انجیل میں جو رسول اللہﷺ کی بشارت اور آپﷺ کی واضح علامات و نشانات کا ذکر آیا ہے، اس کے ذریعے یہ لوگ رسول اللہﷺ کو بھی یقینی طور سے جانتے پہچانتے ہیں ان کا انکار محض عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے۔

 

آیت ۱۴۷، ۱۴۸

 

ترجمہ

 

اور حق وہی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے آیا ہے، لہذا شک کرنے والوں میں ہرگز شامل نہ ہو جانا۔

اور ہر گروہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔  لہذا تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔  تم جہاں بھی ہو گے اللہ تم سب کو (اپنے پاس) لے آئے گا۔  یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 

تفسیر

 

جو لوگ قبلے کی تبدیلی پر اعتراض کر رہے تھے ان پر حجت تمام کرنے کے بعد مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں نے اپنے اپنے قبلے الگ الگ بنا رکھے ہیں اور تمہارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا میں ان کو کسی ایک قبلے پر جمع کر سکو، لہذا اب ان لوگوں سے قبلے کی بحث میں پڑنے کے بجائے تمہیں اپنے کام میں لگ جانا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اپنے نامہ اعمال میں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا اضافہ کرو اور اس کام میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو، آخری انجام یہ ہو گا کہ تمام مذہبوں والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلائے گا اور اس وقت ان سب کی ترکی تمام ہو جائے گی وہاں سب کا قبلہ ایک ہی ہو جائے گا، کیونکہ سب اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

 

آیت ۱۴۹

 

ترجمہ

 

اور تم جہاں سے بھی (سفر کے لیے) نکلو، اپنا منہ (نماز کے وقت) مسجد حرام کی طرف کرو، اور یقیناً یہی بات ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے آئی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔

 

تفسیر

 

اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام کی طرف رخ کرنے کا حکم ان آیتوں میں تین مرتبہ دہرایا ہے، اس سے ایک تو حکم کی اہمیت اور تاکید جتلانی مقصود ہے، دوسرے یہ بھی بتانا ہے کہ قبلے کا رخ کرنا صرف اس حالت میں نہیں ہے جب کوئی شخص بیت اللہ کے سامنے موجود ہو، بلکہ جب مکہ مکرمہ سے نکلا ہوا ہو تب بھی یہی حکم ہے اور کہیں دور چلا جائے تب بھی یہ فریضہ ختم نہیں ہوتا، البتہ یہاں اللہ تعالیٰ نے سمت کا لفظ استعمال فرما کر اس طرف بھی اشارہ کر دیا ہے کہ کعبے کا رخ کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان کعبے کی سوفیصد سیدھ میں ہو بلکہ اگر سمت وہی ہے تو کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم پورا ہو جائے گا اور انسان اس معاملے میں اتنا ہی مکلف ہے کہ وہ اپنے بہترین ذرائع استعمال کر کے سمت صحیح متعین کر لے ایسا کر لینے کے بعد اس کی نماز ہو جائے گی۔

 

آیت ۱۵۰

 

ترجمہ

 

اور جہاں سے بھی تم نکلو، اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو، اور تم جہاں کہیں ہو اپنے چہرے اسی کی طرف رکھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف حجت بازی کا موقع نہ ملے البتہ ان میں جو لوگ ظلم کے خوگر ہیں (وہ کبھی خاموش نہ ہوں گے) سو ان کا کچھ خوف نہ رکھو، ہاں میرا خوف رکھ اور تاکہ میں تم پر اپنا انعام مکمل کر دو اور تاکہ تم ہدایت حاصل کر لو۔

 

ماخذ: مکتبہ جبرئیل

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

حصہ اول.۔ فاتحہ ۔ نساء

کنڈل فائل

حصہ دوم ۔ مائدہ ۔ آنفال

حصہ سوم، توبہ تا الحجر

 حصہ چہارم، النحل تا الحج

ورڈ فائل 

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ پنجم، مومنون تا روم

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

حصہ ششم، لقمان تا غافر

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

حصہ ہفتم، حٰم سجدہ تا واقعہ

حصہ ہشتم، حدید تا ناس