FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

معاصر تھیوری اور تعینِ قدر

 

 

اصل کتاب سے بلوچی اور پشتو ادب کے مضامین علاحدہ کر دئے گے ہیں۔ جو دو الگ برقی کتب لے طور پر شائع کئے جا رہے ہیں

 

 

 

                         دانیال طریر

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کمپوزنگ: انجیل صحیفہ، وصاف باسط

تزئین: صائمہ طریر، بطاش ولید

رابطہ  :

مکان نمبر ۲۸۶، ایل۵، بلاک ۴، سٹیلائٹ ٹاؤن، کوئٹہ

۰۳۴۶۸۳۶۲۱۳۶

tareer@yahoo.com

 

 

 

 

                   ابو کے نام

 

 

 

 

 

 

ابتدائیہ

’’معاصر تھیوری اور تعین قدر‘‘ اس مجموعے کا اساسی مقالہ ہے جس کے نظری مباحث تمام مقالات،مضامین اور تجزیات میں روح رواں کی طرح موجود ہیں اس لیے اس مقالے کی حیثیت بڑی حد تک اس مجموعے کے تنقیدی مزاج اور ناقدانہ نظام کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مجموعے کا نام بھی  ’’معاصر تھیوری اور تعین قدر‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔

اس مجموعے میں شامل تمام مقالات، مضامین اور تجزیات میں معاصر تھیوری کے مباحث کو پیش نظر رکھا گیا ہے تاہم ان مباحث کو زیادہ اہمیت دی گئی ہیں جنھیں معاصر ادب کی تشکیل میں زیادہ نمایاں نیز اس کی فکری رو ح سے زیادہ قریں محسو س کیا گیا ہے بعض مباحث اس لیے بھی غالب محسوس ہوں گے کہ ان کی غلط تعبیرات و نامناسب اطلاق نے معاصر ادب کی حقیقی معنویت کو نمودار نہیں ہونے دیا۔ اس مجموعے میں کوشش کی گئی ہے کہ معاصر تھیوری اور معاصر ادب کے مابین پائے جانے والے فاصلے اور مغائرت کے احساس کو کم کیا جائے اور معاصر تنقیدی تھیوری کے جوہر کو گرفت میں لے کر معاصر ادب کے مطالعات پیش کیے جائیں اور یہ ثابت کیا جائے کہ ادبی تھیوری اپنے اطلاق ہی کے ذریعے اپنی اہمیت اور افادیت ثابت کرنے کی اہل ہو سکتی ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ اطلاق میں ان نظریات کو محض اپنی علمیت ظاہر کرنے کے لیے اتنا ابھار دیا جائے کہ زیر تجزیہ متون ثانوی حیثیت اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

معاصر تھیوری کے مباحث میں اردو ناقدین کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے کیوں کہ معاصر اردو ادب عالمی تنقیدی مباحث سے زیادہ ان نظریات سے متاثر ہوا ہے جن کی ترویج میں اردو ناقدین کا کردار اساسی ہے۔ اردو ناقدین کے نظری تصورات جنھیں معاصر تھیوری کی اندھی تقلید کے مترادف تصور کرنا چاہیے ان کی عملی تنقید پر اس قدر حاوی نظر آتے ہیں کہ اکثر ادبی متون کی اپنی ساخت میں شامل عناصر زیر تجزیہ نہیں آ پاتے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اردو ناقدین کے نظری تصورات کو پرکھا جائے اور ان قضیوں کی نشان دہی کی جائے جو ادبی متون کی معنوی جہات اور ان جہات کے تشکیلی عمل کی گرفت نیز تعین قدر جیسے اساسی تنقیدی وظیفے کی انجام دہی میں حائل رہے ہیں۔

بلوچستان کے معاصر ادب پر شامل مقالات اردو ادب کی ہم عصر صورت حال کو ادب کے نام نہاد مراکز کے علاوہ مختلف جغرافیائی تناظر میں دیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور یہ احساس بھی ابھارتے ہیں کہ مضافات کا ادب کسی بھی طرح بڑے مراکز کے ادب سے کم معیاری نہیں ہوتا۔

معاصر پشتو ادب نیز بلوچستان کی قومی زبانوں کے ادب پر شامل مقالات، مضامین اور حوالہ جات جملہ قومی زبانوں سے صورت پذیر ہونے والی ہماری مجموعی ادبی فضا کی تفہیم میں معاونت کرتے ہیں نیز ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہمارا حقیقی ادبی منظر نامہ تمام قومی زبانوں کے ادب کے تذکرے کے بغیر کسی طور مکمل نہیں ہو سکتا اس لیے ضروری ہے کہ ہم علاقائی ادب سے وابستگی پیدا کریں تاکہ مجموعی ادبی منظر نامے کی شناخت ممکن ہو سکے کیوں کہ یہی فکر مابعد جدیدیت کی عین روح بھی ہے اور عصر حاضر کی اساسی ضرورت بھی۔

 

دانیال طریر

 

 

اظہارِ تشکر

میں اس مجموعے کے مقالات، مضامین اور تجزیات پر ناقدانہ غور و فکر کے لیے اپنے والد محترم سعید گوہر کا، بعض اہم امور اور ضروری نکات کی تعبیر کے سلسلے میں چچا محمود ایاز، باجی قندیل بدر اور جناب راحت ملک کا، اپنی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں پر حوصلہ افزائی کے لیے ماموں سرور سودائی، سید ایاز محمود، جلیل عالی، ضیاء الحسن، ناصر عباس نیر، رفیق سندیلوی، محمود ایاز، اختر رضا سلیمی، آغا محمد ناصر، بیرم غوری، سرور جاوید، افضل مراد،علی بابا تاج، رفیق سنگت اور اے آر داد کا، اس مجموعے پر اپنی بیش قیمت رائے سے نوازنے کے لیے جناب ناصر عباس نیر کا جب کہ اس کے اشاعتی اہتمام کے لیے برادرم عابد میر اور پروین ناز کا دل کی گہرائی سے شکر گزار ہو ں۔

 

دانیال طریر

 

 

 

 

 

 

مضامین

 

معاصر تھیوری اور تعینِ قدر

کیا غالبؔ اور ذوقؔ کو ایک مقام اور مرتبے کا شاعر قرار دیا جا سکتا ہے؟

اس نوعیت کے کسی استفہامیے کو معاصر تھیوری کے تناظر میں کیا حیثیت حا صل ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس استفہامیے کا جواب اقداری فیصلے کے اظہار کے بغیر نہیں دیا جا سکتا جس سے معاصر تھیوری گریز کرتی چلی آ رہی ہے اگر  اسے گریز نہ بھی کہا جائے تب بھی یقیناً بلاواسطہ انداز میں اس استفہامیے  کا جواب دینا شاید معاصر تھیوری کے لیے ممکن نہ ہو ، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نوعیت کے استفہامیے ادب کی تفہیم کے لیے اہم اور ضروری نہیں رہے یا پھر معاصر تھیوری نے اس نوع کے استفہامیوں کے لیے اصول بندی اور نقطۂ نظر ہی کی تشکیل نہیں کی۔ اس حوالے سے معاصر تھیوری کے مطالعے کے دوران یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس نے اپنے نقطۂ نظر کو تشکیل دیتے ہوئے بالخصوص تعینِ قدر سے گریز برتا ہے بل کہ اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ اپنے نقطۂ نظر کو تشکیل دیتے ہوئے اس نے تعینِ قد ر کے استردادپر خاصا زور صرف کیا ہے اور اقداری فیصلے کو غیر ضروری سمجھنے کے رجحان کو درست تصور کرتے ہوئے اس کو شعوری طور پر عدم رائج کرنے کی خوب کوشش کی ہے اور یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی کہ تعینِ قدر ایک غیر ناقدانہ عمل ہے جس کا تنقید کی شعر یا ت سے کوئی تعلق نہیں۔ بہ قول فہیم اعظمی ؛

۱؎       ’’ہم کسی بھی فن پارے پر بغیر حتمی فیصلہ دیے ہوئے یا بغیر کسی مطلق نظریہ کو  سامنے رکھے ہوئے فن پارے کی تحلیل کر سکتے ہیں یہ مطالعہ کا طریقہ بھی ہو گا اور تنقید بھی۔ اس میں مختلف مطالعہ کے طریقے،  تنقیدی اصول جہاں بھی وضع کیے گئے یا عملاً اختیار کیے گئے شامل ہوتے ہیں ہم اس کو اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہی آزاد مطالعہ   اور تنقید ہے جو کسی بھی اقدار اور معیار کے فیصلے سے بلند ہو کر ہمیں ہر تنقیدی ڈسپلن اور ہر فلسفہ اور  سائنسی اصول سے استفادہ کرنے کا  موقع فراہم کرتی ہے، یہی طریقہ پس  ساختیاتی اور ڈی کنسٹرکشن  کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے۔ جس میں  انہدام کے بجائے انصرام و انطباق کا عمل زیادہ ہوتا ہے اور شاید یہی ڈاکٹر وزیر آغا کی اصطلاح میں امتزاجی تنقید کے لیے جواز بھی فراہم کرتا ہے۔ ‘‘

یہاں یہ نقطۂ نظر واضح ہے کہ فن پارے کی تحلیل کے لیے اقدار اور معیار کو پیش نظر رکھنا قطعاً غیر ضروری فعل ہے اور اس غیر ضروری فعل سے بالا تر ہو کر ہی حقیقی معنوں میں تنقید کا حق ادا کیا جا سکتا ہے کیوں کہ تنقید در حقیقت متن میں معنی تلاش کرتی ہے اور معنی کی تلاش کے لیے کسی معیار کو پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ وہ لکھتے ہیں ؛

۲؎      ’’متن کے اندر جھانک کر یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں کوئی ایسے معنی تو نہیں جنہیں التوا میں ڈال دیا گیا ہو اور جو متن کو زیادہ با معنی بنا دیں۔ معنی تلاش کرنے کے عمل میں کسی قسم کے  اقداری فیصلے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ‘‘

اس بیان کو یعنی معنی کی تلاش میں اقداری فیصلے کی عدم ضرورت کو صرف اس صورت میں درست مانا جا سکتا ہے جب تمام متون کو یک ساں حیثیت کا حا مل قرار دیا جا سکے اور یہ طے ہو جائے کہ کوئی متن کسی دوسرے متن سے کسی بھی حوالے سے ممتاز و مختلف نہیں ہوتا اگر ایسا ہے تو فہیم اعظمی فن پارہ کسے قرار دیتے ہیں کیا ان کی نظر میں تمام متون فن پارے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو آخر معیار اور قدر کے بغیر انھوں نے کسی متن کو فن پارہ کیسے اور کس بناء پر قرار دیا ہے۔ انھیں خود بھی تحریروں کے مختلف اور ایک دوسرے سے ممتاز ہو نے کا احساس ہے، لکھتے ہیں ؛

۳؎      ’’ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ تحریروں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ چاہے وہ ناول ہو یا تنقید  یا کسی  موضوع پر وضاحتی مضمون۔ لیکن اسے قبول کرنا مشکل ہے کیوں کہ موضوعی اور مقصدی مضمون شعری یا نثری تخلیق سے مختلف ہوتا ہے۔ ایسی تخلیق میں غزلیں، نظمیں، انشائیہ اور خاکہ آسکتا ہے، لیکن مقالے اور مضامین کی نوعیت دوسری ہوتی ہے اس تحلیلی تنقید  میں جمالیات کے عنصر کو واضح کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  ’’شعری زبان ‘‘  تلاش کی جائے۔ یہ شعری زبان جو ہر تخلیقی  صنف کی زبان ہوتی ہے لفظوں کے علامتی  اور استعاراتی استعمال سے وجود میں آتی  ہے نہ کہ کسی ماورائی موضوع کو زیرِ بحث لانے سے۔ ‘‘

فہیم اعظمی کا نقطۂ نظر یہاں پوری طرح واضح ہے کہ وہ جمالیاتی اور غیر جمالیاتی متون کو زبان کے علامتی اور استعاراتی استعمال کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ممتاز اور مختلف تصور کرتے ہیں بل کہ غزل، نظم، انشائیہ اور خاکہ جیسی ادبی اصناف کے نام الگ الگ گنوانے سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ یقیناً ان اصناف میں بھی فرق ضرور روا رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ قدر اور معیار کو تسلیم نہیں کرتے بل کہ نارتھروپ فرائی کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیتے ہیں ؛

۴؎      ’’کناڈا کا مشہور نقاد اور ادیب نارتھروپ فرائی اس قسم کے اقداری فیصلوں کو یا متعینہ اقدار و معیار کی بنیاد پر کسی تنقید کو اس لیے  پسند نہیں کرتا تھا کہ وہ محض نقاد کے ذوق پر منحصر ہوتی ہے اور اس ذوق کے ساتھ ساتھ نقاد کے نظریات اور نفسیات پر یا تعصبات پر۔ ‘‘

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمالیاتی اور غیر جمالیاتی متون کا فرق اور استعاراتی اور غیر استعاراتی زبان کے امتیازات نیز غزل، نظم، انشائیہ اور خاکہ وغیرہ کی جداگانہ شعریات صرف نقاد کے ذوق، نظریات، نفسیات اور تعصبات کی پیدا کردہ ہیں اور ان کے پسِ منظر میں قدر اور معیار کا کوئی تصور کار فرما نہیں ہے یہاں شاید اس وضاحت کی ضرورت باقی نہ رہی ہو کہ معاصر تھیوری تعینِ قدر کو استعمال کرنے کے باوجوداسے شعوری طور پر اپنے نقطۂ نظر سے خارج کرنے کے درپے نظر آتی ہے اور اس غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتی کہ تنقید کسی بھی طور تعینِ قدر سے نہیں بچ سکتی۔ معنی کی تلاش کے لیے متن کا انتخاب بھی اقداری فیصلہ ہے اور تلاشِ معنی کے لیے زبان کو استعاراتی و علامتی یا غیر استعاراتی و غیر علامتی سمجھنا بھی اس کی قدر کا تعین کرنا ہے بہ قول شمس الرحمن فاروقی:

۵؎      ’’ادب کے بارے میں کوئی بیان ایسا نہیں ہوسکتا جو فیصلے سے خالی ہو۔ یعنی جب ہم کسی شعر کے بارے میں کہیں کہ یہ غزل کاشعر ہے۔ بلکہ کسی متن کے بارے میں کہیں کہ یہ شعر ہے تو ہم  ایک  فیصلہ کرتے ہیں جس کی نوعیت اقداری ہوتی ہے، یعنی جب ہم نے کہا کہ فلاں تحریر شعر ہے تو ہم نے اسے ان تمام تحریروں سے الگ کر لیا جنہیں ہم نثر کہتے ہیں اور اگر ہم نثر کو شعرسے کم تر کوئی چیز سمجھتے ہیں تو کسی متن کے بارے میں ہماری یہ رائے کہ یہ شعر ہے، ایک مزید فیصلہ ہے  اور یہ ہمارے پچھلے فیصلے سے زیادہ اقداری ہے، دوسری بات یہ  ہے کہ جہاں فیصلہ ہے وہاں کسی  چیز کی مخالفت  اور کسی چیز کی موافقت لازمی ہے۔ لہذا  کوئی بھی  قرأت بالکل غیر جانب  دارانہ،  بالکل Neutral نہیں  ہو سکتی ہے، اگر آپ  بالکل غیر جانب دار  ہو کر پڑھیں  گے تو متن کو سمجھ ہی نہ سکیں گے۔ غیر جانب دار ہو کر پڑھنا خالی الذہن ہو کر پڑھنا ہے مثلاً اگر آپ پڑھتے وقت فیصلہ نہ کر سکیں کہ جو متن آپ پڑھ رہے ہیں  وہ اخبار ہے  یا تاریخ کی کتاب، نثر ہے کہ نظم، غزل ہے کہ افسانہ تو آپ اس  کے بارے میں کچھ بھی نہ جان سکیں گے اور اگر اس کے باوجود اس متن کے بارے میں کوئی فیصلہ آپ کریں گے تو وہ مہمل ہو گا۔ ‘‘

تنقید کو ہر گز کوئی مہمل عمل قرار نہیں دیا جا سکتا لہذا یہ بات واضح ہے کہ جسے تنقید کہا جاتا ہے وہ تعینِ قدر سے گریز نہیں کرسکتی تو پھر درج بالا استفہامیے کے جواب سے گریز کیوں ؟

معاصر تھیوری نے لکھاری کو جس طرح متن کے تشکیلی عمل سے خارج کر دیا ہے اس کے بعد اس نوع کے استفہامیوں کو یہ کہ کر بھی رد کیا جا سکتا ہے کہ نئی تھیوری جب متن کی تشکیل یا ساخت بندی میں لکھاری کے کردار ہی کی نفی کرتی ہے تو لکھاری کی اساسیت کو کیوں کر تسلیم کر سکتی ہے اور اس اساسیت کو تسلیم کیے بغیر کوئی اقداری فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ضمیر علی بدایونی، رولاں بارت ؔ کے حوالے سے رقم طراز ہیں ؛

۶؎      ’’متن اپنے وجود کے تارو پود خود ہی بنتا ہے۔ مصنف تو ایک قصۂ پارینہ ہے اور شہر متن میں اس کی حیثیت ایک اجنبی اور ایک واہمے سے زیادہ نہیں۔ ‘‘

چوں کہ معاصر تھیوری، لکھاری کو شہرِ متن میں ایک اجنبی اور ایک واہمے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی اس لیے سرِ دست اپنے استفہامیے میں ذرا ترمیم کر کے اسے کچھ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ، کیا غالب اور ذوق کے شعری متون کی اہمیت یا مقام اور مرتبہ ایک جیسا ہے ؟اب چوں کہ یہ استفہامیہ لکھاری کے بہ جائے متن کی اساسیت کے حوالے سے تعینِ قدر کا تقاضا کر رہا ہے لہٰذا معاصر تھیوری کے رویے میں بھی ذرا تبدیلی لازم ہے۔ متن کو معاصر تھیوری اس کے لسانی رابطوں سے نمو یاب ہونے والی معنوی کثرت، تنوعات اور جہات کا مجموعہ سمجھتی ہے اور معنی کے استخراجی عمل میں تمام تر اہمیت قاری اور اس کے استعداد قرأت کو دیتی ہے یہاں ایک بار پھر ضمیر علی بدایونی کی زبانی رولاں بارت کے خیالات پیش کرنا ضروری ہیں ؛

۷؎      ’’رولاں بارت متن سے باہر نہیں جھانکتا۔ اس کی  ساری کائنات متن کی  اپنی دنیا ہے،  اس کے نزدیک عالمِ کثرت کا تجربہ متن کی ہزار  رنگی ہے۔ متن گویا  ایک ایسا آئنہ ہے جس میں  ہر قاری اپنی ہی  تصویر دیکھتا ہے۔ متن کے فریم میں معنی کی  جگہ خلا ہے جو ہر دیکھنے والا  اپنے طور پر پُر کرتا ہے۔ جس طرح پیغام کی ترسیل میں شور سب سے بڑی رکاوٹ ہے اسی طرح ادب پارے میں ابہام یا لفظوں کا ہیر پھیر ) equivocation (معنی کے ابلاغ میں ایک مزاحمت یا ایک رکاوٹ ہے۔ لفظ  چکنے  پتھروں کی  طرح  ہیں جن پر چل کر قاری پھسل جاتا ہے  اور معنی  یا ابلاغ کی بہ جائے رد ابلاغ Counter Communication تک پہنچ جاتا ہے اوراس طرح مصنف کی ارادی معنویت زبان و بیان کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہے۔ معنی کا سفر مستقبل کی  جا نب ہے، لیکن ہم اسے مصنف کی معنویت یا ماضی میں تلاش کرتے ہیں، صورتِ حال یہ ہے کہ مصنف اپنی  ارادی معنویت کو لفظوں  میں کبھی منتقل نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ الفاظ معروضی طور پر موجود ہیں۔ قاری کی مخصوص  داخلیت کے ساتھ مل کر وہ نئی ہسیتوں کو جنم دیتے ہیں اور نئی معنویت کی تخلیق کرتے ہیں۔ اس طرح معنویت کا عمل پراسرار نقش و نگار بنانے پر خود ہی قادر ہو جاتا ہے۔ قاری کی دریافت کردہ معنویت خود اس کی اپنی دین یا Contribution ہے، جس طرح آئنے میں خلا کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اسی طرح متن اپنے خلا کی تکرار سے کبھی فارغ نہیں ہوتا اس کے در و دیوار سے ایک شور ٹکراتا رہتا ہے  اور مختلف آوازیں گونجتی رہتی ہیں جو معنی کے چہرے کو مسخ اور زخمی کر دیتی ہیں۔ ‘‘

ان استفہامیوں پر بحث  اٹھائے بغیر کہ کیا تمام متون کا خلا ایک جیسا ہوتا ہے اور کیا تمام متون معروضی طور پر موجود الفاظ کو ایک جیسی قوتِ  تخلیق استعمال کرتے ہوئے چکنے پتھروں کے روپ میں ڈھال دیتے ہیں اور اتنا صیقل کر دیتے ہیں کہ وہ آئنہ صفت ہو کر اپنی معنویت کے لیے کلی طور پر قاری اور اس کی استعدادِ قرأت کے مرہون ہو جاتے ہیں۔ اور کیا ارادی معنویت کو لفظوں میں نہ منتقل کر پانے کی وجہ سے مصنف کی دیگر حیثیتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں ؟یہ اقتباس غالباً یہی نقطۂ نظر پیش کرتا نظر آتا ہے کہ ایک جیسے قاری مختلف متون میں وہی معنویت دیکھ سکتے ہیں جو خود ا ن کی اپنی دین ہے یعنی اگر ایک جیسی  استعدادِ قرأت  کے حامل قاری غالب و ذوق کے شعری متون کا مطالعہ کریں گے تو بہ معیار  و مقدار لسانی رابطوں سے ایک سی معنوی کثرت، تنوعات اور جہات ظہور کریں گی۔ بل کہ شاید دو مختلف قارئین کا انتخاب بھی جائز نہ ہو اس لیے اگر ایک ہی قاری دونوں شعری متون کو تجزیاتی عمل سے گزارے تو کیا یک ساں نتائج سامنے آئیں گے؟

اس استفہامیے کا جواب اثبات میں دینا ممکن نہیں، آخر اس کی وجوہات کیا ہیں ؟کیا معاصر تھیور ی نے اس مسئلے پر غور و خوض کیا ہے ؟یقیناً اس حوالے سے بلا واسطہ طور پر نہ سہی لیکن بالواسطہ طور پر مباحث سامنے آئے ہیں لیکن پوری وضاحت کے ساتھ کوئی اطمینان بخش نقطۂ نظر سامنے نہیں آیا۔ اس حوالے سے بالواسطہ سامنے آنے والے مباحث کے بعض پہلو ناصر عباس نیر کے اس اقتباس میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں ؛

۸؎      ’’ما بعد جدید تنقیدی نظریات نے قاری اور قرأت کے تفاعل کو متن کی معنی آفرینی کے عمل میں مرکزی اہمیت  تفویض کی ہے اور یہ احساس عام ہوا ہے کہ یہ قاری ہے جو بہ طرز مسیحا  متن کے  ’’تنِ مردہ ‘‘  میں جان ڈالتا ہے اور  یہ قرأت کا عمل ہے جو متن کی مخفی اور زیریں تہوں کو منکشف کرتا، خاموشیوں  کو سنتا،  ان کہی کو کہی میں بدلتا  اور متن کے قرب و جوار تک رسائی حاصل کرتا ہے قاری محض ایک شخص نہیں ایک ثقافتی شخصیت/ تشکیل ہے  اور قرأت ایک منفعل سرگرمی نہیں جسارت مندانہ عمل ہے جو ان تمام داخلی اور  خارجی تناظرات کو متن سے ہم رشتہ کرتا ہے  جن کےTraces متن کے  اندر مضمر ہوتے ہیں جب ثقافتی  شخصیت /تشکیل اور تناظرات متن کے معنی کے  روبرو ہوتے ہیں تو متن Decentre ہو جاتا ہے  متن کے معنی کی  وحدت پارہ پارہ  ہو جاتی ہے اور ضمیر متن میں متعدد معانی کی  قندیلیں فروزاں ہو جاتی ہیں اور ایک متن کے اندر کئی ذیلی متون کے ہیولے ابھرنا شروع  ہو جاتے ہیں یوں  قرأت کا تفاعل متن کی تہوں، متن کے زاویوں اور روزنوں میں موجود تجلیات کے خاموش سلسلے کو متحرک  کرتا ہے پیشِ نظر رہے کہ نئی تنقیدی تھیوری، تجزیے اور تفلسف سے کام لیتی ہے اس لیے بالعموم سمجھا گیا ہے کہ یہ تنقید کے ایک بنیادی  وظیفے، تعین قدر سے سروکار نہیں رکھتی مگر یہ مغالطہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ نئی تھیوری اس متن کے لیے زیادہ کارگر ہے جس  میں معنی کی فقط چنگاری کے بہ جائے تجلیات کا کوئی سلسلہ ہو۔ اور  ’’تجلیات کا سلسلہ‘‘  متن کی  جمالیاتی و علامتی  تشکیل سے وابستہ ہے۔ لہٰذا کثرتِ معنی ہی متن کے کم تر یا ارفع ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ‘‘

یہاں سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کیا واقعی یہ کوئی مغالطہ ہے کہ نئی تھیوری تعینِ قدر سے سروکار نہیں رکھتی، حقیقت یہ ہے کہ تنقید، تعینِ قدر سے بالا تر نہیں ہو سکتی جس کا اعتراف ناصر عباس نیرؔ نے نے بھی اس کو  ’’بنیادی وظیفہ ‘‘  کہہ کر کیا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی تھیوری نے اس بنیادی وظیفے سے با لخصوص گریز کیا ہے یہاں تک کہ تنقید کی اصطلاح کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش محض اس لیے کی گئی ہے کہ تنقید کی اصطلاح کو تعینِ قدر سے الگ کرنا کسی طرح ممکن نہیں بہ قول فہیم اعظمی   ؛

۹؎      ’’تنقید‘‘  کی اصطلاح  اپنا کام ختم کر چکی ہے۔ تنقید سے ہم ہمیشہ Value judgment مراد لیتے ہیں اس لیے یہ تنقید کرنے والے اور زیرِ تنقید فن پارے کے مصنف دونوں کے جذبات اور تاثرات یعنی Taste اور انانیت پر براہِ  راست اثرانداز ہوتی ہے اور فن پارے کی صفات کو معروضی طور پر بیان کرنے اور معنی کی تہیں تلاش کرنے کاجو عمل ہوتا ہے۔ نقاد کی پسند نا پسند اور مصنف کی خوشی اور غصہ کا شکار ہو جاتا ہے،  ہو سکتا ہے تجزیاتی مطالعہ، تنقید سے بہتر اصطلاح  ہو۔ ‘‘

یہاں  ’’ تنقید ‘‘  کی اصطلاح کو  ’’تجزیاتی مطالعہ‘‘  کی اصطلاح سے بدلنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اُسے تعینِ قدر جیسے بنیادی اور اہم ناقدانہ وظیفے سے چھٹکارہ دلایا جا سکے۔ کیا اس وضاحت کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعینِ قدر سے سروکار نہ رکھنا، نئی تنقیدی تھیوری کے حوالے سے کوئی مغالطہ ہے یقیناً نہیں مگر ناصر صاحب کی وضاحت اپنی جگہ درست ہے کہ معاصر تھیوری تعینِ قدر کا اظہار مصنف کے بہ جائے متن کے حوالے سے کرتی ہے اور بلا واسطہ کے بہ جائے بالواسطہ طریقہ کار اپناتی ہے یعنی صرف اُن متون سے سروکار رکھتی ہے جو تجلیات کا کوئی سلسلہ پیش کرنے میں کام یاب ٹھہرتے ہیں۔

مگر کیا متن میں  ’’تجلیات کا سلسلہ‘‘  یا اس کی جمالیاتی و علامتی تشکیل خود بہ خود سامنے آ جاتی ہے اور اگر ایسا ہے تو دوسرے متن میں  ’’تجلیات کا سلسلے‘‘ کے بہ جائے محض چنگاری ہی کیوں موجود ہوتی ہے اور مختلف متون میں مختلف سطح کی  ’’جمالیاتی و علامتی تشکیل‘‘  یا  ’’تجلیات کا سلسلے‘‘  کیوں اور کیسے قائم ہو جاتے ہیں اس اعتبار سے غور و خوض نہ کرنے کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ معنی کی تکثیریت پر گفتگو اور مباحث پیش کرتے ہوئے بالعموم اس نکتہ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ معنی کا استخراج لفظ (sign)کے دال Signifierسے کیا جاتا ہے اور لفظ، متن کے لسانی رابطوں کے نظام کا جزو ہے۔ لہذا اگر لفظ کو لسانی رابطوں کے کسی ایسے نظام کا پابند نہ بنایا گیا ہو جو اس کی معنوی  ابعاد میں اضافہ کر سکے یا اگر لفظ کو دوسرے لفظ سے اس طرح نہ ملایا گیا ہو کہ وہ معنوی ابعاد کو بڑھانے والے لسانی نظام کو تشکیل دے سکے تو قاری کی استعداد قرأت معنی کی تکثیریت کا مشاہدہ ہرگز نہ کر سکے گی کیوں کہ متن کا مجموعی لسانی نظام بہ ذاتِ خود مفرد لفظ کے برتاوے پر منحصر ہے کیا تنقیدکے تجزیاتی مطالعے اور تحلیلی رویے کو اس مفرد لفظ سے آزاد قرار دیا جا سکتا ہے یقیناً ایسا ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ مفرد لفظ بہ طور دال (Signifier) اس لسانی نظام کی تشکیل کرتا ہے جس میں ہر دال (Signifier) بہ یک وقت کئی مدلول (Signified) کی طرف اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے اور قاری ایک اشارے کی روشنی میں سفر تمام کرتا ہے تو دوسرا اشارہ روشن ہو جاتا ہے اور اس طرح متن کے اندر قاری کا سفر کسی مقام پر ٹھہر تا نہیں، مگر قاری کے ناتمام سفر اور متن کے ملتوی ہوتے ہوئے معانی تو ہمارا موضوعِ بحث بنے ہیں مگر وہ مفرد لفظ بہ طور دال (Signifier) ہماری توجہ حاصل نہیں کر سکا جس نے یہ پورا منظر نامہ تشکیل دیا ہے لفظ کو نظر انداز کرنے کے حوالے سے فہیم اعظمی کے مندرجہ اقتباس کا مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں ؛

۱۰؎     ’’تنقید میں تحلیلی رویہ رچرڈز، ایمپسن، ایلیٹ وغیرہ کے وقت سے کسی حد تک شروع ہو گیا تھا مگر ساختیات، پسِ ساختیات اور ڈی کنسٹرکشن نے اسے فروغ دیا۔ اب فن پارے کی valueپر یا کسی متعینہ اور مقررہ معیار پر اسے نہیں پرکھا جا سکتا بلکہ اس لسانی سسٹم سے بنائی ہوئی کائنات میں اس کا وجود اس کی معنویت کی سطحیں، لسانیات کے کوڈز کے اندر اس  کی تشریح، اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ، اس میں التوا میں ڈالی ہوئی باتوں اور متضاد بیانات کی نشاندہی وغیرہ منطقی انداز میں کی جاتی ہے سوا چند صفات کے تحریر کا اسلوب کا کوئی متعین طریقہ نہیں ہوتا اس لیے ایسی تنقید پر اسلوبیات کا اطلاق بھی ہوتا ہے مگر اس حد تک کہ تحلیل کے ذریعہ اسلوب کی نشاندہی کی جائے۔ غرض یہ کہ ادب پارے کی تمام صفات کو اجاگر کیا جاتا ہے لیکن کسی مطلق یا فیصلہ کُن حکم سے گریز کیا جاتا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ آپ کوئی زیور سنار کے پاس لے جائیں اور اس سے پوچھیں کہ اس کے بارے میں بتاؤ تو وہ کسوٹی پر رکھ کر یہ بتائے گا کہ اس میں کتنا کیرات سونا ہے، نگ  کتنے جڑے ہوئے ہیں، اگر ٹانکا لگا ہوا ہے تو کس طرح کا وغیرہ، اب یہ آپ پر ہے کہ اسے خوبصورت کہیں یا نہ کہیں،  وہ بھی شاید اسی  وقت ممکن ہے جب  زیور پہن کر کوئی آپ کو دکھائے پھر بھی اس کے اچھے بُرے کا تعین محض مشاہدے پر نہیں بلکہ ادراک پر منحصر ہو گا۔ لیکن وہ بھی  مطلق نہیں ہو گا کیوں کہ یہ زیور پہننے والے پر اور دیکھنے والے کے ذوق اور تاثیر پر منحصر ہو گا اس لیے نقاد کا  کام تحلیل و تشریح ہے، معنویت کی تلاش ہے، کچھ تھیوری  اور نظریات کے مطابق جو  خود مطلق  نہیں ہیں صفا ت کا  بیان ہیں جن کو ڈی کنسٹرکشن کے مطابق رد بھی کیا جا سکتا ہے، ان کہی کی تلاش ہے لیکن ایسی  تنقید میں یہ بھی  ضروری ہے کہ آ پ کسی فریم ورک یا فارمولا کو نہ اپنائیں۔ اگر فن پارے کی صفات کی تحلیل، نفسیات،  نسائی تنقید، کلچرل تنقید یا نئی تاریخیت کے اصول کے تحت ممکن ہے تو وہ بھی اس تنقید کا حصہ بن سکتی ہے وہ اس لیے کہ اب جو  تنقید ی جہت ہمارے سامنے آ رہی ہے وہ Post Modern یا ما بعد جدید تنقید ہے۔ جس میں مظہریات،  نئی تاریخیت، نسوانی تنقید، ڈی کنسٹرکشن وغیرہ سب شامل ہیں۔ ‘‘

فن پارے کو کسی مقررہ معیار پر نہیں پرکھا جا تا لیکن سونے کے کیرات کو کسوٹی پر جانچا جاتا ہے اگر اس تضاد کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی یہ بات ضرور قابلِ غور ہے کہ فن پارہ ان  تمام صفات کا حامل کیسے بن جاتا ہے جس کے ذریعے اُس پر مختلف تنقیدی مہارتیں استعمال کر کے معنویت کی نئی نئی اور مختلف و متضاد سطحیں بر آمد کی جاتی ہے اور تشکیل رد تشکیل کا سامان خود بہم پہنچا دیتی ہے یقیناً اس پر بات کا انحصار لسانی سسٹم کی بنائی ہوئی کائنات پر ہے اور ظاہر ہے کہ لسانی سسٹم کی بنائی ہوئی یہ کائنات، ہر فن پارہ میں ایک سی نہیں ہوتی اور کُل کی یہ تبدیلی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک جزو نہ بدل دیا جائے اگر کوئی شخص ایک ہی جملہ کاغذ پر کئی بار لکھ دے تو کیا ہر جملے کو الگ متن تصور کیا جائے گا یقیناً نہیں اب اگر اس جملے کو بدلنا مقصود ہو یعنی اگر لسانی سسٹم میں تبدیلی کرنا ہو تو کم از کم اُس میں کسی ایک دال (Signifier) کو تبدیل کر دیا جائے گاپس یہ بات صاف ہے کہ معنی کی تکثیریت کا انحصار متن کے لسانی نظام پر ہے جب کہ لسانی نظام مفرد لفظ کے برتاوے پر منحصر ہے۔ مگر مفرد لفظ کے برتاوے میں متن کو خود مختار قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو تمام متون الفاظ کو ایک ہی سطح پر برتنے کی اہلیت رکھتے نتیجتاً جمالیاتی اور غیر جمالیاتی متون کا افتراق ختم ہو جاتا ہے اور تمام تر متون اور ان سے حاصل ہونے والے معانی اورمسرت بہ معیار و مقدار یک ساں ہوتی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو تمام تر متون ایک جیسی معنوی تکثیریت کے حامل ہوتے ہیں اور نہ تمام متون سے ایک جیسی مسرت کا اکتساب ممکن ہے اور ایسا محض اس لیے ہے کہ متن، لفظ کے تخلیقی برتاوے میں خود مختار نہیں اور نہ ہی کلیتاً  ثقافت کو اس کا منبع قرار دیا جا سکتا ہے جو ان کو ڈز اور کنونشنز سے عبارت ہے جو شعریات کو تشکیل دیتی ہیں جیسا کہ بہ حوالہ رولاں بارت وزیر آغا لکھتے ہیں ؛

۱۱؎      ’’متن کو مصنف تخلیق نہیں کرتا، متن خود اپنے آپ کو تخلیق کرتا ہے بارت کے الفاظ تھےWriting writes not the writer۔ گویا ایلیٹ نے تخلیق کار تو نہیں، اس کی بھاری بھرکم شخصیت کو منہا کیا تھا مگر  بارت نے تخلیقی کار ہی پر خطِ تنسیخ کھینچ دیا۔ دراصل بارت، ماہرِ لسانیات سوسیور کے اس موقف کی روشنی میں بات کر رہا  تھا جوبیسویں صدی کے ابتدائی دور میں سامنے آیا تھا سوسیور نے زبان کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا یعنی  لانگ  اور پارول میں، لانگ، زبان کا وہ سسٹم تھا جو نظر نہیں آتا تھا لیکن جس کی کارکردگی کو پارول یعنی جملوں کی ساخت میں  دیکھا جا سکتا  تھا  یوں کہنا  بھی  غلط  نہ  ہو گا کہ جس طرح ہاکی اور گیند کیinteractionسے جو  کارکردگی وجود میں آتی ہے  وہ تو  پارول کی صورت کی ہے مگر کھیل کے  ’’جملوں ‘‘  کے عقب  یا بطون میں  کھیل کی جو گرامر یا سسٹم کارفرما ہوتا ہے وہ لانگ کے مشابہ ہے۔ رولاں بارت نے تخلیق کا رکے حوالے سے  سے لانگ کے بجائے  شعریات یا poetics کا ذکر کیا اور کہا کہ متن کو مصنف تخلیق نہیں کرتا،  شعریات تخلیق کرتی ہے جو ثقافتی کوڈز اور کنونشنز سے عبارت  ہوتی ہے بلکہ  یہ کہنا چاہیے کہ شعریات جو نظروں سے اوجھل ہیں، متن کے ذریعے اپنی تجسیم کرتی ہے تاکہ نظر آنے لگے یوں  بارت نے متن یا writing کے حوالے  سے مصنف یا writer   کی کارکردگی کی نفی کر دی۔ واضح رہے کہ جب بارت متن کا ذکر کرتا ہے  تو درحقیقت متن کے  غیب (شعریات)اور ظاہر (جملوں کے نظام) یعنی text کو اکائی کے طور پر پیش کرتا ہے، گویا اس کی نظر میں یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ‘‘

یہاں ایک سامنے کی بات یہ ہے کہ ہر عہد کی اپنی شعریاتی حدود ہوتی ہیں جن کا تعین ثقافتی کوڈز اور کنونشنز کرتی ہیں اور ثقافتی کوڈز اور کنونشنز اپنا ایک دائرہ رکھتی ہیں جو اسے دوسرے ثقافتی دائرے سے ممتاز کرتی ہیں اسی وجہ سے ایک ثقافت میں تخلیق پذیر ہونے والے متون دوسری ثقافت میں تخلیق پذیر ہونے والے متون سے مختلف ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر نئی تھیوری نے ادب کے آفاقی معیار کو رد کیا ہے اور ادب کے تجزیے کے لیے علاقائی اور مقامی تناظر کو پیشِ نظر رکھنے کی روایت پیدا کی ہے۔

دوسری بات جو یہاں اہمیت رکھتی ہے  وہ یہ ہے کہ ایک ثقافتی دائرے اور شعریاتی محیط میں صورت پذیر ہونے والے متون ایک دوسرے سے کیوں اور کیسے مختلف ہو جاتے ہیں اور کہیں کہیں کوئی متن کیوں اپنے عہد کی شعریاتی حدود کے تناظر میں نا قابلِ فہم محسوس ہوتا ہے یا کیوں اپنے عہد کی شعریات ایک خاص متن کے لیے تو کافی ہوتی ہے لیکن دوسرے متن کو ڈی کوڈ ہی نہیں کر پاتی یہاں یہ الزام قاری کی استعدادِ قرأت پر نہیں ڈالا جا سکتا کیوں کہ اکثر ایک ہی قاری ایک ہی عہد میں تخلیق پذیر ہونے والے دو متون کو ایک جیسے تجزیاتی عمل سے گزارنے سے قاصر رہتا ہے تو آخر ایک مخصوص ثقافت میں تخلیق ہونے والے دو متون ایک دوسرے سے اس قدر اجنبی اور مختلف کیوں کر ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے  ’’شطرنج‘‘  کی دو بازیوں کے اختلاف کی مثال پیش کرنا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ’’شطرنج‘‘  کی بازی جس گرامر کے تابع ہے اسے یہ بازی کھیلنے والا بہ خوبی جانتا ہے وہ اپنی چالوں کی حدود سے پہلے ہی واقف ہوتا ہے  اور ایک خاص منزل کو دھیان میں رکھتے ہوئے وہ اپنی چالوں کو ترتیب دیتا ہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بازی میں آگے بڑھتا یا پیچھے ہٹتا ہے جب کہ متن کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں ہوتا اور اپنی گرامر سے شطرنج کے کھلاڑی کی طرح آگاہ بھی نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ہر عہد میں کوئی ایک ایسا متن سامنے آ جاتا ہے جس کی تفہیم کے لیے اس عہد کی شعریات ناکافی ہو جاتی ہے ظاہر ہے کہ تفہیمی شعریات، تخلیقی شعریات  سے وابستہ و پیوستہ ہو تی ہے کہ تنقید  بہ ہر حال  ’’کوڈ‘‘   کو   ’’ڈی کوڈ‘‘  کرنے کا  بنیادی فریضہ سر انجام دیتی ہے متن میں  ’’کوڈ‘‘  کی حیثیت لفظ یعنی نشان (Sign) کو حاصل ہے جو دال (Signifier)  اور مدلول Signified) )کا مجموعہ ہے، لفظ کے تخلیقی برتاوے یعنی اسے علامتی و جمالیاتی حیثیت عطا کرنے میں شعریات کو  خود مختار قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو خاص زمانی و مکانی تناظر میں شعریات ایک سطح کے تخلیقی  برتاوے کے حامل کوڈز تشکیل دیتی جب کہ حقیقت اس کے بر خلاف ہے تو اگر شعریات کوڈز کی تشکیل کے لیے خود مختار نہیں ہے تو کوڈ کی تشکیل میں کس کے کردار کو اساسی قرار دیا جا سکتا ہے؟

لفظ کا تخلیقی برتاوا بہ ہر طور لکھاری کے تابع ہے یہ لکھاری کا شعور ہی ہے جو لفظ کو ایک تخلیقی لمس دے کر اس کی معنوی استعداد کو بڑھاتا ہے اور متن کے اس لسانی نظام کی تشکیل کرتا ہے جہاں لفظ کی یہ انفرادی معنوی استعداد مزید پیچیدگی، ابہام  اور تکثیریت کی حامل ہو جاتی ہے ؛

گنجینۂ معنی  کا  طلسم  اس  کو  سمجھئے

جو  لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے  ۱۲؎

یہ شعر، لکھاری کے اعلی اور غیر معمولی تخلیقی بل کہ ناقدانہ شعور پر دال ہے اور صاف ظاہر کرتا ہے کہ لکھاری لفظ کو اپنے تخلیقی لمس سے گنجینہ ء معنی کا طلسم بنا رہا ہے اور وہ اس تخلیقی عمل کا پورا پورا شعور رکھتا ہے، بہ قول ناصر عباس نیر ؔ  ؛

۱۳؎    ’’ایک حقیقی مفکر (اور تخلیق کار) کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ موجود اصطلاحات (اور الفاظ)کو جب مَس کرتا ہے تو انھیں  چیزے دیگر بنا دیتا ہے۔ دراصل ہر اصطلاح (اور لفظ)کے ساتھ پہلے سے وابستہ معانی مختلف شعاؤں کی صورت  اور مختلف طولِ موج کے ہوتے ہیں۔ کوئی بڑا تخلیقی ذہن لفظ کے کسی ایک یا زیادہ معانی کی شعاع کو لے کر اس کا طول موج ہی بدل دیتا ہے اور پھر یہی معانی اس لفظ کی نئی پہچان بن جاتے ہیں، تا آنکہ کوئی اور مفکر یا تخلیق کار اس لفظ پر یہی عمل نہیں آزماتا۔ ‘‘

اس شعور سے ضو یاب تخلیقی عمل کے نتیجے میں جو متن تشکیل پاتا ہے اس کی جمالیاتی سطح غیر معمولی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کا شعری متن ہر نئے عہد میں نئی معنویت بل کہ نئی معنویت کے کثیر سلسلوں کے ساتھ سامنے آتا ہے جب کہ ذوق کا شعری متن اگر اپنے عہد کے مقابلے میں آج  زیادہ معانی منعکس بھی کرتا ہے تو اس کی تکثیریت، غالب کے شعری متن کے مقابلے میں یقیناً بدر جہا کم ہے لہذا  لکھاری کی اور کوئی اہمیت ہو نہ ہو یہ اہمیت بہ ہر حال ہے کہ وہ لفظ کو لغوی معنی سے اوپر اٹھا کر جدلیاتی لفظ کے طور پر رائج کرتا ہے اور یہی جدلیاتی لفظ متن کی لسانی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور اسے معنی کی اس تکثیریت کا حامل بناتا ہے جس تک رسائی قاری کو اپنا کارنامہ دکھائی دیتا ہے حال آن کہ اگر لکھاری سخن کے طرفین چار چار نہ رکھے۱۴؎  تو قاری کی استعدادِقرأت دھری کی دھری رہ جائے، بہ قول وزیر آغا؛

۱۵؎     ’’ معنی کو اپنی ترسیل کے لیے آواز درکار ہے۔ معنی کو اگر ایک مسافر کہا جائے  تو آواز وہ ناؤ ہے جس میں بیٹھ کر وہ سفر کرتا ہے مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ معنی نے آواز کی ناؤ کہیں باہر سے حاصل نہیں کی بلکہ اپنی ہی پسلی سے برآمد کی ہے ہر حرف یا   Phoneme  ایک آواز ہے مگر  جب حروف  جڑ کر لفظ یا Morpheme بناتے ہیں تو دراصل نشان یا Sign بن جاتے ہیں اور نشاندہی کرنے لگتے ہیں زبان کا خالص روپ یعنی حرف ایک ایسا مظہر ہے جس میں Signification تو ہے  مگر وہ خود نشان نہیں ہے یہ وہ دال Signifier ہے جو ہمیشہ مدلول یعنی Signified کی طرف اشارہ  کرتا ہے گویا ایک خاص معنی کی پیدائش کا سبب بنتا ہے مگر  ’’دال‘‘  معنی نہیں بلکہ معنویت ہے۔ یہی فرق نشان  اور علامت میں بھی ہے۔ نشان وہ معنی ہے  جو دال  پہ ثبت  ہو گیا ہے مگر جب دال پر کوئی معنی ثبت نہ ہو بلکہ وہ معنویت کی اطراف کھول دے تو علامتی کہلائے گا۔ کسی بھی لفظ یا شے کو ہم علامت نہیں کَہ سکتے ہیں لیکن اگر تخلیقی عمل کی مدد سے کوئی لفظ یا شے اتنی صیقل ہو جائے کہ منعکس کرنے لگے تو ہم کہیں گے کہ اب یہ لفظ یا شے علامتی ہو گئی ہے۔ ‘‘

وزیر آغا نے جسے علامتی کہا ہے وہ جدلیاتی لفظ ہے جس کی خوبی یہی ہے کہ وہ انعکاس کرنے لگتا ہے ا و ر یہیں ایک لکھاری کا تخلیقی شعور دوسرے لکھاری سے جُدا اور مختلف ہو جاتا ہے سب لکھاری لفظ کو صیقل کرنے میں ایک جیسا کردار ادا کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ اس بات کو میثل فوکو نے بھی محسوس کیا تھا اور اس خوبی کی وجہ سے Tel Quel گروپ کے ادیبوں کو سراہا تھا بہ قول ناصر عباس نیرؔ ؛

۱۶؎     ’’ یہ ادب  ہی ہے  جو معلوم اور نا معلوم  کو ایک ہی  وقت میں گرفت  میں  لے سکتا ہے۔ وہ (میثل فوکو)بالخصوص فرانس  کے  Tel Quel گروپ کا  ذکر کرتا  ہے  جس سے  وابستہ  ادبا  زبان کوNon representational صورت میں استعمال کرتے ہیں۔ لفظ کو اس کے حقیقی وجود کے پورے اسرار کے ساتھ برتتے ہیں۔ یعنی دال اور مدلول کی ثنویت  اور ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دیے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ نیز وہ لفظ کو ذریعہ نہیں، مقصد خیال کرتے ہیں Ecrivant کی مانند! مگر ادب کی یہ بصیرت اسی  پر روشن  ہو سکتی ہے جو اس کے لیے پہلے سے فلسفیانہ  طور پر  تیار ہو۔ یعنی جس نے ادب کی شعریات کو جذب کر رکھا ہو اور اس شعریات کے اصولوں سے ادبی اور جمالیاتی ادراک کو متشکل کیا ہو۔ ‘‘

اسی انجذاب کے نتیجے میں معنی کی تکثیریت اور مقدار مسرت میں اختلاف در آتا ہے اور یہ ضرورت پیش آتی ہے کہ اعلی تخلیقی شعور کے حامل لکھاری کو معمولی تخلیقی شعور کے حامل لکھاری سے ممتاز کیا جائے اور اس امتیاز کا ذکر واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کیا جائے تاکہ جمالیاتی قدر کے اعتبار سے بہتر متن کو رائج اور کہتر متن کو خارج کرنے کی راہ ہم وار ہو سکے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ لکھاری کے کردار کو متن سازی کے عمل میں اس سے زیادہ دخیل تصور کرنا اور متن سے معنی کے استخراجی عمل میں لکھاری کی ذات پر غیر ضروری انحصار یا اس کی ذات  کو منبع معنی تصور کر لینا یقیناً ضرر رساں عمل ہے۔ لکھاری متن کی تخلیق کے بعد اس کی لسانی تشکیل کی جمالیاتی سطح میں تحلیل ہو جاتا ہے تاہم متن کی لسانی تشکیل جس جمالیاتی سطح کو قائم کرتی ہے اس میں جدلیاتی الفاظ کے ساتھ ساتھ وہ خلا بھی پورا پورا کردار ادا کرتا ہے جسے لکھاری کا شعور یا لا شعور جدلیاتی الفاظ کے ما بین یا اُن کے اندر قائم کرتا ہے جیسا کہ گوپی چند نارنگ نے بہ حوالہ مر لیو لپونٹی Marleauponty رقم کیا ہے ؛

۱۷؎

"But what if language speaks as much what is between words as by the words themselves ? As much by what it does not say as by what it says.”

یعنی اس کا کیا کیا جائے کہ زبان کا خاصا ہے کہ جتنا یہ لفظوں کے ذریعے کہتی ہے۔ اتنا لفظوں کے بیچ میں جو خلا ہوتا ہے اس کے ذریعے بھی کہتی ہے۔ غالباً معنی کے نقطۂ نظر سے خلا (Space  )کا یہ پہلا واضح تصور ہے۔

ہماری مشرقی جمالیاتی روایت میں  ’’ بین السطور‘‘  کا ذکر اس کا کھلا ہوا اقرار ہے۔ لیکن مشرقی روایت میں کسی نے اس کو ضابطہ بند کیا ہو یا ادبی نظریے کا حصہ بنا یا ہو شاید ایسا  نہیں ہے بات صرف لفظوں یا سطروں کے درمیان فاصلوں کی نہیں ہے بلکہ خود  لفظوں  کی بھی ہے مکر لیو لپونٹی کے  قول کو دوبارہ پڑھیں تو یہ اشارہ بھی ہے کہ لفظ جو ظاہر کرتے ہیں اس سے بھی اظہار کرتے ہیں  اور جو کچھ  ظاہر نہیں کرتے اس سے بھی اظہار کرتے ہیں۔ گویا زبان کے روشن خطوں کے ساتھ اس کے تاریک خطے بھی معنی خیزی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔‘‘

یہاں یہ بات صاف ہے کہ زبان کی یہ کارکردگی جمالیاتی متون میں غیر جمالیاتی متون سے زیادہ ہوتی ہے اور جمالیاتی متون میں بھی اس حوالے سے مقدار تناسب کا واضح فرق پایا جاتا ہے جس کے پس منظر یا مآخذ کی تلاش ہمیں ایک بار پھر لکھاری کے مدمقابل لے آتی ہے جو  ’’سطور‘‘  اور  ’’بین السطور‘‘  دونوں کا اہتمام کرتا ہے لہذا متن کی لسانی تشکیل اور اس سے پیدا ہونے والی جمالیاتی سطح ہر اعتبار سے لکھاری کی مرہون ٹھہرتی ہے جب کہ قاری کی سطح اور استعدادِ قرأت کا تعین بھی بڑی حد تک یہی لسانی تشکیل کرتی ہے۔ لہذا جب تک اس خاص استعدادِ قرأت کا حامل قاری جس کا تقاضا متن کی لسانی تشکیل کر رہی ہے متن کے مدِ مقابل نہ آ جائے متن سے معنی در معنی کا استخراجی عمل آغا ز ہی نہیں ہو سکتا۔ متن کے مقابل آنے والے قاری کی ایک خاص استعداد بہ ہر حال ہونی چاہیے کہ اس کے بغیر متن اور قاری کے بیچ تفاعل کے امکانات کو پوری طرح حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ہر متن مختلف سطح کے قاری کا مطالبہ کرتا ہے اور ضروری نہیں کہ متن کو اسی سطح کا قاری میسر بھی آ جائے اکہری سطح کے متن کو غیر معمولی استعداد قرأت کا حامل قاری تہ دار نہیں بنا سکتا بالکل اسی طرح تہ دار متن کو معمولی استعدادقرأت کا حامل قاری  ’’ڈی کوڈ‘‘ ہی نہیں کر پائے گا۔ لہٰذا جب تک متن اور قاری کی سطح ایک دوسرے کے موافق نہ ہو بات نہ بنے گی۔

نہ  ستائش  کی  تمنا  نہ  صلے  کی  پروا

گر نہیں ہیں  مرے  اشعار میں معنی نہ سہی  ۱۸؎

اور……

ہرگز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ

ہوں میں کلام  نغز  ولے  نا شنیدہ   ہوں      ۱۹؎

اس نوع کے اشعار قاری کی ناموافق استعداد قرأت ہی کا المیہ پیش کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قاری کی استعداد کو معیار متن کی تشکیل سے مطابقت ہونی چاہیے ورنہ تکثیریت معنی تو کجا ٰ!متن معنی آفریں ہی نہیں رہے گا۔ قاری میں یہ استعداد لازم ہونی چاہیے کہ وہ متن سازی کے عمل کو پوری طرح گرفت میں لے سکے، متن میں موجود tracesکو دیکھ سکے، اس کی ان کہی کو سن سکے، الفاظ کے بیچ اور اندرون موجو د خلا سے کلام کر سکے، معنی کی ہر پرت کے نیچے موجود دوسری پرت تک رسائی حاصل کر سکے، متن میں دیگر متون کی کار فرمائی مشاہدہ کر سکے۔ اس خاص استعداد قرأت کا ایک نہایت فکر انگیز اور بصیرت افروز خاکہ جو پڑھنے اور غور کرنے سے تعلق رکھتا ہے رفیق سندیلوی نے بہ حوالہ امتزاجی نقاد پیش کیا ہے ؛

۲۰؎      ’’امتزاجی نقاد (قاری) متن کے غائب حصوں کو حیطۂ نظر میں لاتا ہے، تخلیق کے ماورائی و کائناتی منطقوں کو چھوتا ہے اور اس کی یکتائی و انفرادیت کا احترام کرتا ہے، علوم و افکار اور ثقافت کی منور تہوں سے نسبت رکھتا ہے، ان کے رفیع تر انضمام کا آرزو مند رہتا ہے اور ترکیبی لطافت کے عالم میں اسے ایک گسٹالٹ کے عالم میں ڈھالتا ہے،  انکشاف و جمال سے  لطف  لیتا ہے اور منعکس و منقلب ہونے کے  عوالم پیدا کرتا ہے، شعریات کے عمیق ادراک کو بروئے کار لا کر  افزائش معنی کے  وسیلے سے متن  کو عبور کرتا ہے، شگافوں اور درزوں کو بھرنے کا اہتمام کرتا ہے اور انشراح کلام کے مطابق پرکھ کے طریقے کا تعین کرتا ہے، زبان کی عدم شفافیت و تفریقیت اور بیان کی ایمائیت و رمزیت کا قائل ہوتا ہے۔ قطرے میں موج اور موج میں قطرے کا نظارہ کرتا ہے اور سیدھی لکیر کے بجائے کروٹوں اور لہروں کے جزر و مد کا منظر دیکھتا اور دکھاتا ہے اور تخلیق کی اندرونی تجلیوں کا احاطہ کرتا ہے، معنی کے تکثیر و التوا کا سامنا ممکنہ قوت سے کرتا ہے مگر احسا س کی سطح پر اس عمل کو لا کنار سمجھتا ہے، قلب کی وسعت اور متخیلہ کی فعلیت کے ساتھ متن تک رسائی کے لیے کمند آوری کے مختلف طریقے اور زاویے آزماتا ہے، تعارف و تشریح کے بجائے متن اور قرأت کے تفاعل کی لیلا رچاتا ہے اور متن کے اندر سے ایک اور متن خلق کرتا ہے، تخلیق کو کائنات، حسن، وجود، کلچر، زبان، علامت، دماغ اور تنقید کے ساختیوں کی طرح ایک ہی ساختیے کا پیٹرن مانتا ہے، بصیرت کی مقامی و آفاقی اور میکرو  اور مائیکرو روش کو ملحوظ رکھتا ہے، متن کا عابد بنتا ہے نہ اسے معبود گردانتا ہے، مساوی سطح کے مکاشفے اور معانقے کو عمل میں لاتا ہے، مدح و ہجوسے بے نیاز ہو کر، تخلیق کی کنہ میں اترتا ہے اور اس کی کرنوں کو اپنی ذات پر از خود طلوع ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، قرأتی عمل کو تعمق و تموج سے آشنا کرتا ہے بیک وقت چشم  و دل کی برقی  رو سے کام لیتا ہے، تسلسل اور عدم تسلسل کا  عرفان رکھتا ہے، مصنوعیت سے گریز کر کے  فطری نمو کاری  کا مظاہرہ کرتا ہے، حافظے کی لچک  اور وجدان کی چمک سے مطالعے کو جہات میں پھیلنے  اور عمق میں اترنے کی ترغیب دیتا ہے،  ایک ہی شبد کی جاپ اور ایک ہی کلمے کے  ورد سے باہر نکل کر گفت و کلام کی نو ع بہ نوع  صورتیں ایجاد کرتا ہے، نظریے کی  قطعیت و تکراریت کو توڑتا، مسلمات و تعقلات سے نبرد آزما ہوتا، مسلسل سوالات اٹھاتا، جوابات ڈھونڈتا او ر فکرو نظر کے وفور کی بدولت اطمینان و اضطراب کی  لذتوں  سے ہمکنار ہوتا ہے، تغیر کو لازمۂ حیات جانتا ہے  اور ادب کی سرشت و افتاد کو مقرب سمجھتا ہے، زندگی  کی ثنویت، قطبینیت اور کثرتیت کو ایک دوسرے کے اندر لا کر فاش کرتا ہے، متن کو ہیئت اور مواد کے خانوں میں نہیں بانٹتا، اس کے  کمالات کو پرزوں کے مانند نہیں کھولتا اور اس کے وجود کو بوٹیوں کی شکل میں نہیں کاٹتا، اس کے مکمل و سالم اور نا قابل تصفیہ ہونے کا احترام کرتا ہے۔ امتزاجی  نقاد(قاری) کرتب بازی، اٹکل پچو اور حیلہ سازی سے اغماض برتتا ہے اور تجزیے کی ایسی مرئی صداقت کو وجود میں لاتا ہے جو از خود کرشمہ ہوتی ہے۔ ‘‘

یہ بات باعث حیرت ہے کہ معاصر تھیوری پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کرنے والے رولاں بارت کے ہاں مصنف، متن، قاری ہر حوالے سے تعین قدر کے لیے اصطلاحات موجود ہیں اس نے مصنف کوecrivan اور ecrivantمیں متن کو writterly اور readerlyمیں جب کہ قاری کو استعداد قرأت کی بنیاد پر متن سے مسرت کی کشید میں، مسرت کے لیے jouissanceاور plaiserکی اصطلاحات وضع کر کے فرق اور تمیز پیدا کی جب کہ plaiser, readerly, ecrivantپر jouissance, writterly, ecrivanکو بہتر اور بر تر تصور کرتے ہوئے اقداری فیصلے کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ بات معاصر تھیوری کے پیش کاروں سے کسی طرح پوشیدہ نہیں بہ قول ناصر عباس نیر ؛

۲۱؎     ’’بارت نے نہ صرف اعلیٰ و ادنیٰ متن میں فرق روا رکھا اور منفعل اور فعال قرأت اور نتیجتاً معمولی اور غیر معمولی لذت اورمسرت میں امتیاز قائم کیا بلکہ متن میں مضمر کوڈز کی دریافت سے افزائش معنی کے سسٹم کا اقرار کیا۔ ‘‘

اس حقیقت سے آگاہی کے باوجود معاصر تھیوری نے تعین قدر جیسے اہم تنقیدی وظیفے سے اغماض برتا ہے تا ہم یہ اغماض بلا سبب اور ہمارے اپنے ناقدین کی اختراع فکر تو کسی طور نہیں در اصل تعین قدر سے گریز ژاک دریدا کے فکری ثمرات میں سے ہے بہ قول ناصر عباس نیر؛

۲۲؎    ’’دریداسسٹم کی موجودگی ہی کا منکر ہے اور متن کے سلسلے میں بھی کسی امتیاز کا قائل نہیں۔ اس کی نظر میں تاریخ، فلسفہ، ادب ہر طرح کے متن میں معنی خیزی کی یکساں صورت حال ہے۔ ‘‘

حقیقت یہ ہے کہ دریدا کسی تضاد کا نہیں بل کہ ایک فکری مغالطے کا شکار ہوا جب کہ ہمارے اکثر اور مغرب کے بعض ناقدین تضاد کا شکار اس لیے ہو گئے کہ ایک طرف تو انھوں نے بارت کی متنی تفریق قائم رکھی اور دوسری طرف دریدا سے بھی متاثر ہوتے ہوئے تضادات کو نظر انداز کر دیا اور اقداری فیصلے سے گریز کو اپنا تنقیدی موقف بنا لیا نتیجتاً تضادات سے بھر پور تصورات کے انبار لگتے چلے گئے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم معاصر تھیوری کو اس اہم تنقیدی وظیفے کی شمولیت کے بعد ازسرنو غور و فکر کے تجزیاتی عمل سے گزارتے ہوئے تضادات سے پاک کریں اور یہ حقیقت تسلیم کریں کہ لکھاری ہو، متن یا قاری، تعینِ قدر کے بغیر معاصر تھیوری کے لیے زندگی کی معنویت میں ادب کے کردار کی اہمیت ثابت کرنا کسی طور ممکن نہیں۔

 

 

                   حواشی

 

۱۔ فہیم اعظمی: ’’آراء۔ ۲‘‘ ، کراچی، مکتبۂ صریر، ۱۹۹۷ع، ص۲۶۰

۲۔ ایضاً،      ص۲۵۹

۳۔ ایضاً، ص۲۶۰

۴۔ ایضاً، ص۲۵۸

۵۔ شمس الرحمن فاروقی: ’’تعبیر کی شرح‘‘ ، کراچی، اکادمی بازیافت، ۲۰۰۴ع، ص۸۶۔ ۸۷

۶۔ ضمیر علی بدایونی : ’’جدیدیت اور ما بعد جدیدیت ‘‘ ، کراچی، اختر مطبوعات، ۱۹۹۹ع، ص۱۲۳

۷۔ ایضاً، ص۱۲۴۔ ۱۲۵

۸۔ ناصر عباس نیر: ’’راشد کی نظم، زندگی اک پیرہ زن، کا پس ساختیاتی مطالعہ‘‘ ، مشمولہ، مابعد            جدیدیت: اطلاقی جہات، مرتبہ، ڈاکٹر ناصرعباس نیر، لاہور، مغربی پاکستان، اردو اکیڈمی،          ۲۰۰۸ع، ص۱۳۴۔ ۱۳۵

۹۔ فہیم اعظمی :ص۲۴۶

۱۰۔ ایضاً، ص۲۴۴۔ ۲۴۵

۱۱۔ وزیر آغا : ’’امتزاجی تنقید کا سائنسی اور فکری تناظر‘‘ ، لاہور، اردو سائنس  بورڈ، ۲۰۰۷، ص۱۲۳، ۱۲۴

۱۲۔ اسد اللہ خاں غالب، مرزا : ’’دیوان غالب کامل ‘‘ ، کالی داس گپتارضا(مرتبہ)، کراچی، انجمن ترقی    اردو، طبع سوم۱۹۹۶۔ ۹۷ع، ص۲۸۰

۱۳۔ ناصر عباس نیر : ’’جدید اور ما بعد جدید تنقید ‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ۲۰۰۴ع، ص۲۳۶

۱۴۔ طرفیں رکھے ہیں ایک سخن چار چار میرؔ

کیا کیا کہا کریں ہیں زُبانِ قلم سے ہم

میر تقی میر: ’’انتخاب کلیات میر ‘‘ ، احمد جاوید(انتخاب)، اسلام آباد، الحمرا پبلشنگ، ۲۰۰۰ع، ص۴۳۶

۱۵۔ وزیر آغا : ’’معنی اور تناظر‘‘ ، سرگودھا، مکتبۂ نردبان، ۱۹۹۸ع، ص۲۸۳

۱۶۔  ’’جدید اور ما بعد جدید تنقید‘‘ ، ص۲۳۴

۱۷۔ گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر: ’’جدیدیت کے بعد ‘‘ ، لاہور، سنگ میل پبلیکیشنز، ۲۰۰۶ع، ص۲۳۶

۱۸۔  ’’دیوان غالب کامل‘‘ ، ص۲۴۵

۱۹۔ ایضاً، ص۳۶۴

۲۰۔ رفیق سندیلوی: ’’امتزاجی تنقید کی شعریات‘‘ ، لاہور، کاغذی پیرہن، ۲۰۰۳ع، ص۱۷۔ ۱۸۔ ۱۹

۲۱۔  ’’جدید اور ما بعد جدید تنقید ‘‘ ، ص۲۱۷

۲۲۔ ایضاً، ص۲۱۷

٭٭٭

 

 

 

 

اصنافِ ادب کا امتیاز … ایک نیا مسئلہ

معاصر ادب کے مطالعے کے دوران یہ بات قاری با آسانی محسوس کر سکتا ہے کہ اب اصناف ادب کی حد فاصل بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے۔ یہ نقص ابھی اردو ادب میں پور ی شدت سے تو داخل نہیں ہوا مگر اکیسویں صدی کے ادب میں اس مسئلے کے پیچیدہ آثار کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان آثار کو تخلیقی ادب میں بھی دیکھا جا سکتا ہے لیکن اسے تلاش کرنے میں زیادہ آسانی وہ مضامین فراہم کرتے ہیں جن میں اصناف کے مابین تقابل کیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر اصنافِ ادب کی حدِ فاصل واضح اور معین ہے تو پھر مقابلے کی ضرورت کیوں کر پیش آتی ہے ؟ تقابل کے لیے عموماً اصناف کی مقبولیت اور عدم مقبولیت کو بھی جواز بنا کر پیش کیا گیا ہے اور کسی ایک صنف کی مقبولیت کو دوسری اصناف کی عدم مقبولیت کا سبب سمجھا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر مقبول اصناف ختم کر دی جائیں تو عدم مقبول اصناف قبولیت حاصل کر لیں گی ؟ اگر کوئی صنف اپنی واضح شعریات رکھتی ہے اور ادب کا قاری اس سے باخبر ہے تو اس کے نظر انداز کیے جانے کا سبب کوئی دوسری صنف کیوں کر ہو سکتی ہے ؟ اس سوال کو عموماً درج بالا نقطۂ نظر تشکیل دیتے ہوئے مد نظر نہیں رکھا گیا۔ عاصم بٹ کی رائے ملاحظہ فرمائیے۔

۱؎     ’’اردو ادب کی تاریخ میں مجموعی طور پر اختصار پسند اصناف ہی کا بول بالا رہا۔ اردو میں ناول کے بر عکس مختصر افسانہ کے باب میں بہت قابلِ  ذکر تخلیقات سامنے آئیں۔ اسی طرح شاعروں میں بھی وہ اصناف جیسے مثنوی، ، مرثیہ وغیرہ نہیں پنپ سکیں ، جو ناول نگاری ہی کی طرح لمبے سانس اور وضاحتی پیرایۂ اظہارکا تقاضا کرتی ہیں۔ مقبولیت کا تاج ہر دور میں غزل کے سر پر ہی رکھا گیا۔ ‘‘

چوں کہ مقبولیت کا تاج ہر دور میں غزل کے سر پر رہا، اس لیے غزل تمام تر اصناف کی عدم مقبولیت کا سبب ہے؟ کیا اس مفروضے سے کسی بھی طرح اتفاق کیا جا سکتا ہے ؟یقیناً نہیں، کیوں کہ اردو ادب کی تاریخ کا مطالعہ رکھنے والا طالب علم اس حقیقت سے بہ خوبی واقف ہے کہ غزل کی آمد کے وقت اردو ادب میں نہ صرف بہت سی اصناف موجود تھیں بل کہ عوامی سطح پر مقبول بھی تھیں اور سرسری مطالعہ بھی یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان میں سے اکثر اصناف وضاحتی پیرایے کی حامل تھیں۔ غزل نے اپنے لیے جگہ اپنی تخلیقی استعداد کی بنا پر حاصل کی مگر ایسا نہیں کہ اس کے مقبول ہونے کے بعد دیگر اصناف غیر مقبول ہو گئیں۔ جب بھی کسی صنف میں بہتر تخلیقی اظہار سامنے آیا ہے اُسے مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اقبال اور جوش کی نظمیں اپنے دور کے غزل گو شعراء سے زیادہ مقبول رہیں، راشد، میرا جی اور فیض کی مقبولیت غزل کے شعراء سے کبھی کم نہیں رہی، جس کی وجہ ان تخلیق کاروں کی استعداد تھی۔ جن کا مقابلہ اُن کے معاصر غزل گو تخلیقی سطح پر نہ کر سکے۔ داستانوں کی مقبولیت اور اہم ناولوں کی شہرت کیا غزل کی عدم موجودگی کی عطا ہیں ؟ یا اگر ہمارا مزاج غزل ہی سے مناسبت رکھتا ہے تو دیگر اصناف کا بہتر تخلیقی کام کیوں کر قبولِ عام کی سند حاصل کرنے میں کام یاب رہا ہے؟

اصنافِ  ادب کی عدم واضح حدِ فاصل نے ایک طرف اصناف کے تقابل کا مسئلہ پیدا کیا تو دوسری طرف استعداد اصناف پر بحث کی نا معقول صورت بھی پیدا کی۔ قاسم یعقوب کی رائے پر غور فرمائیے :

۲؎        ’’بیسویں صدی کے شعری آرٹ کا طاقت ور اظہار نظم میں آیا جب کہ غزل اپنے سانچوں کو کسی بیرونی امداد کے بغیر کھلا کرنے میں مصروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنف میں کسی بڑے فکری اور جمالیاتی آرٹ کے امکان بہت مشکل نظر آتے ہیں۔ ادب کی سماجی سطح پر ہم نظم کے بہت قریب ہو تے جا رہے ہیں۔ غزل ایک Supportive صنف کے طور پر ہمیشہ موجود رہے گی مگر تخلیقی سطح پر اس صنف کی اُٹھان نظم سے آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ ‘‘

یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ نظم ،غزل کے مقابلے میں تخلیقیت کو سمونے کی زیادہ استعداد رکھتی ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو نظم اپنی استعدادِ  تخلیق کی بنیاد پر غزل سے بہتر صنف سمجھی جائے گی اور اگر یہ بات مان لی جائے تو اس سے یہی نتیجہ نکلے گا کہ غزل کا سب سے بہتر شاعر، نظم کے سب سے کہتر شاعر سے کم تر حیثیت و مقام کا حامل ہے کیوں کہ اس نے اظہار کے لیے محدود استعدادِ  تخلیق کی حامل صنف کو استعمال کیا ہے؟کیا اس نامعقولیت کو کسی بھی طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟اس سوال کا جواب ادب کے معقول قاری کے سپرد ہے۔ البتہ اس نوع کی آراء کے پس منظر میں اصناف ادب کی حدِ فاصل کے عدم تعین کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسئلے کا آغاز پوری شدت کے ساتھ اس وقت ہوا جب شاعروں نے اظہار کے لیے نثری نظم کا پیرایہ اپنایا۔ نثری نظم کا پیرا ڈاکس (قول محال)تو ہنوز حل نہیں ہوا مگر اس پیرایۂ اظہار کی کثرت استعمال یا وفور تخلیق اس کے وجودی اثبات کی ایک قوی دلیل ہے جس سے انکار کو تنقیدی زبان میں  ’’عدم آگاہی ‘‘  اور  ’’نا معقولیت ‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی، نثری نظم کے آغاز پر ناقدین نے پہلی مرتبہ یہ بات محسوس کی کہ نثر اور نظم کے پُرانے امتیا زات یعنی موزونیت اور آہنگ اب باقی نہیں ر ہے، با لخصوص ان کے اساسی امتیاز کی حیثیت اب ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت اس بات پر غور و خوض کا آغاز ہوا کہ اب ان اصناف یعنی نثر و نظم کا اساسی امتیاز کیا ہو گا ؟یہ فیصلہ ابھی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا۔ مختصر یہ کہ نثری نظم کا آغاز نثر و نظم کے  ’’پرا نے امتیاز‘‘ کا اختتام تھا۔ یہاں میں نے پرانے امتیاز کا ذکر شعوری طور پر کیا ہے تا کہ قاری پر یہ بات واضح رہے کہ  ’’پرانے امتیاز ‘‘  کے ختم ہونے سے یہ نتیجہ قطعی نہیں نکلتا کہ ان میں امتیاز کے قیام کا مسئلہ ہی باقی نہیں رہا۔

ہم ایک صنف کو دوسری صنف پر برتری اسی لیے دیتے آئے ہیں کہ ہم نے ان کے مابین امتیاز کی درست نشان دہی نہیں کی۔ اگر ان کے مابین حدِ فاصل واضح ہو جاتی تو ہر صنف اپنا تخلیقی جواز پیش کرنے میں پوری طرح کام یاب ہوتی نیز فوقیت کا مسئلہ انفرادی شناخت کے ذریعے حل ہو جاتا۔ معید رشیدی نے درست لکھا ہے کہ:

۳؎        ’’شاعری کے لیے کوئی مخصوص پیرایہ لازم نہیں یہ اپنی خاص زبان سے پہچانی جاتی ہے اس کا اپنا مزاج ہے جس کی پاس داری ضروری ہے دیگر شعری اصناف کی طرح نثری نظم بھی ایک صنف ہے۔ ایک صنف پر دوسری صنف کو فوقیت دینا حماقت ہے۔ ہر صنف کے اپنے تقاضے ہیں اس لیے اس کی شعریات کی روشنی ہی میں اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ ‘‘

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم اصناف کی شعریات کے تعین میں ناکام یاب رہے ہیں۔ فی الحقیقت ہم نے اصناف میں امتیاز کے قیام کے لیے معصومانہ ذہانت اور طفلانہ منطق سے کام لیا تھا اور ظاہر ہے کہ ان بنیادوں پر قائم امتیاز عصری بصیرتوں کے مقابل باقی رہنے کی استعداد نہیں رکھتا۔ آج تغیر کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ ہم معاصر عہد کے لیے  ’’ای ایج‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور اس ’ای ایج‘‘  میں اب سرحدوں اور ریاستوں کی حد فاصل بھی وہ نہیں رہی، جس بنیاد پر اسے قائم کیا گیا ہے۔ گلوبل ولیج کی اصطلاح بھی بنیادی طور پر امتیازات کے اختتام ہی کا اعلان تھا۔ یہ اشارہ یہاں اس لیے ضروری تھا کہ یہ واضح ہو سکے کہ اصناف اد ب کے امتیاز کی عدم وضاحت معروضی صورت حال سے لا تعلق نہیں۔

معاصر ادب میں اگر ایک طرف نثر اور نظم کا پرانا فرق باقی نہیں رہا تو اس کے ساتھ غزل اور نظم کی فضا بھی استعارے اور امیجز کی مماثلت کی بنا پر الگ نظر نہیں آتی۔ دونوں کے درمیان حد فاصل قائم کرنے والی داخلیت اور خارجیت کی نمائندگی تو پہلے ہی ختم ہو چکی تھی اور اب تو عمومیت اور خصوصیت کے اوصاف بھی ایک دوسرے میں مدغم ہو چکے ہیں۔ ہائیکو کے تینوں مصرعوں کے مساوی و نا مساوی ہونے کا قضیہ بھی حل نہیں ہو سکا اور ثلاثی نیز دیگر سہ مصرعی اصناف کے امتیاز پر بھی تسلی بخش کام سامنے نہیں آ یا، خاص طور پر نظم میں کہانی کی شمولیت یا غیر شمولیت کا نظری مسئلہ تو مرکز توجہ ہی نہ بن سکا۔ حالاں کہ یہ مسئلہ منظوم اظہار کے آغاز ہی سے موجود رہا، یہاں تک کہ میرا جی او راشد نے نظم جدید کی بنیاد رکھتے ہوئے بھی اس کے کہانی پن پر سوال نہیں اٹھایا بل کہ اسے نظم کی شعریات تصور کیا بہ قول وزیر آغا:

۴؎     ’’میرا جی نے جب حلقہ ٔ ارباب ذوق میں نظم کے تجزیاتی مطالعہ کا سلسلہ شروع کیا تھا تو اس کا پہلا جملہ ہی یہ ہوتا تھا کہ آؤ نظم کی کہانی دریافت کریں۔ ایک بار کہانی دریافت ہو جاتی تو پھر اس کے اعماق میں چھپی لا تعداد کہانیوں کے پر پھڑپھڑانے لگتے اور معنی آفرینی کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ‘‘

اسی مسئلے نے بعد میں نثری نظم اور افسانوی اظہار بہ طور خاص علامتی اور تجریدی افسانے سے اس کی حد فاصل کو دھندلا دیا تھا۔ فکشن کا مطالعہ کیجیے تو سفر نامے میں افسانوی عناصر عام ہو چکے ہیں افسانہ طوالت اختیار کرتے ہوئے ناولٹ جب کہ ناول مختصر ہوتے ہوئے طویل افسانے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ڈرامہ جسے اب کتابی اشاعت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی وہ بھی ٹی وی پر پیش کش میں مکالموں سے زیادہ پس منظر موسیقی اور گانوں پر تخلیقی توانائیاں صرف کرتا ہے۔ اس مجموعی صورت حال میں یہ کہنا کہ ادب ان اصناف کا حامل ہے اور ان اصناف میں یہ امتیازات ہیں، قطعی غیر علمی رویہ ہے۔

اب شاید اس بات کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں رہی کہ معاصر ادب کے تناظر میں اصناف ادب کا پرانا امتیاز اپنی حد فاصل قائم نہیں رکھ سکا۔ یہاں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ یہ مسئلہ ادیبوں کی عدم آگاہی اور عدم احتیاط کی وجہ سے پیدا ہوا ہے یا اس کا کوئی دوسرا تناظر بھی ہے ؟ کافی حد تک تو اس مسئلے کو تخلیق میں تقلیدی رجحان کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے مگر در حقیقت بین الاقوامی سطح پر یہ قضیہ خاص نظری اور فلسفیانہ تناظر کا حامل ہے۔ اس نظری اور فلسفیانہ تناظر کی تفہیم کے لیے بیسو یں صدی میں ہونے والی لسانی پیش رفت کا مطالعہ ازبس لازم ہے۔ اس لسانی پیش رفت نے لسانی تجزیے کو بیسویں صدی کی اہم ترین علمی سرگرمی بنا دیا  بہ قول ناصر عباس نیرؔ :

۵؎        ’’لسانی تجزیہ‘‘ ۲۰ویں صدی کے مغربی فلسفے کا محبوب موضوع ہے۔ ‘‘

ادبی تناظر میں اس پیش رفت کے تین مرحلے ہیں

اول:   ادب ایک ایسی متنی ساخت ہے جو مرکز واحد کی حامل ہے۔

دوم:   ادب ایک ایسا متن ہے جو ایک خاص ساخت کا حامل ہے  اوراس ساخت میں ہر مقام کی حیثیت مرکزی ہے۔

سوم:   ادب دیگر متون کی طرح ایک متن ہے جو کسی خاص ساخت کا  حامل نہیں اور ساخت کی عدم موجودگی، مرکز کی عدم موجودگی ہے۔

مندرجہ مراحل میں پہلے اور دوسرے مرحلے کی حد تک تو ادبی و غیر ادبی متن کا فرق بھی قائم تھا اور اصناف ادب کے امتیاز کا جواز بھی موجود تھا لیکن تیسرے مر حلے میں نہ صرف اصناف ادب کے امتیاز کا جواز ختم ہو گیا بل کہ ادبی اور غیر ادبی متون کا فرق بھی باقی نہ رہا، نتیجتاً ہر متن ایک فری پلے میں بدل گیا اور بہ قول ناصر عباس نیرؔ ؛

۶؎        ’’ڈی کنسٹرکشن محض ایک اُصول قرأت نہیں ہے فلسفہ ٔ معانی بھی ہے۔ لہذا یہ ادبی متن میں معانی کی وحدت کے تصور پر کاری ضرب تو لگاتا ہی ہے۔ وحدت کے مذہبی اور فلسفیانہ تصور کو بھی مسترد کرتا ہے۔ وحدت کے تصور کے ساتھ مطلق، اٹل، عظمت، تقدیس، مقصدِ جلیلہ ایسے جو تلازمات وابستہ ہیں ، ڈی کنسٹرکشن ان پر بھی سوالیہ نشان لگاتی ہے اور ان کی جگہ کثرت کے ایسے تصور کو استوار کرتی نظر آتی ہے ، جو محض ایکFree Play ہے۔ ‘‘

اس فری پلے میں شامل تمام عناصر اپنے انفرادی اوصاف سے عاری ہیں نتیجتاً یہ کثرت عناصر کی عدم شناخت کے علاوہ کوئی وصف مشترک نہیں رکھتی۔ یہ علمی اور فکری تناظر جو علم لسانیات کے ارتقا ء کا نتیجہ تھا، بین الاقوامی نقد و نظر پر اثر انداز ہوا، اور اس تنقیدی تبدیلی کی وجہ سے ادب کا آزاد تخلیقی عمل تنقید کے زیر اثر ہوتا گیا نیز یہ تغیرات تیزی سے ادب میں داخل ہوتے گئے۔ ہر تحریری اظہار جہانِ معنی بن گیا، امتیاز اور فرق کا مسئلہ اور سوال ناقدانہ مباحث میں نظر انداز کر دیا گیا مگر نتائج مثبت برآمد نہ ہو سکے۔

اصناف ادب کا امتیاز ایک سنجیدہ مسئلہ تھاجسے آغاز ہی سے سنجیدگی سے طے نہ کیا گیا۔ ہمارے ادیب تو شاید ہیئت اور صنف کا فرق بھی پوری وضاحت و صراحت سے بیان کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ پرانی وضاحتیں اگر مکمل طور پر ضائع نہ بھی ہوئی ہوں تو نصف بے کار ضرور ہو چکی ہیں۔ ہم معاصر ادب کو اس اعتبار سے نظر انداز نہیں کر سکتے کہ یہ پرانے معیارات پر پورا نہیں اترتا کیوں کہ نیا ادب نئے معیارات کا تقاضا کرتا ہے، نئے تقاضوں کی روشنی میں اصناف ادب کے امتیاز کا تعین انتہائی اہم مسئلہ ہے جسے فوری طور پر حل کیا جا نا چاہئیے۔ اصناف کے تعین کا پرانا طریقہ ہیئت و موضوع کا تعین تھا۔ بہ قول شمیم احمد؛

۷؎      ’’ کسی خاص صنف سخن کی شناخت میں ہم اصولاً موضوع کو بنائے ترجیح قرار دیں یا محض ہیئت کو۔ ‘‘

عموماً ان دونوں ہی کو صنف کے تعین میں اساسی اہمیت دی گئی مثلاً مثنوی کا مو ضو ع  ’’داستان محبت‘‘ جب کہ بہ لحاظ ہیئت ہر شعر غزل کے مطلع کے مماثل تھا، یعنی ہر دو مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا لازم تھا۔ موضوعاتی تبدیلیوں کی حد تک تو مثنوی قابلِ قبول تھی مگر ہیئت میں تبدیلی کی گنجائش نہ تھی۔ نتیجتاً مثنویاں ادب میں تخلیقی زندگی سے محروم ہوتے ہوئے ختم ہو گئیں۔ غزل میں غم، تصوف اور عشق کی باتیں موضوعات جب کہ ہیئت میں مساوی الوزان دو مصرعوں کے اشعار پر مشتمل کم از کم پانچ یا سات اشعار نیز مطلع اور مقطع کا اہتمام ضروری تھا مگر موضوعاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ غزل میں آزاد غزل کے تجربات بھی ہوئے۔ یعنی اصل مسئلہ اصناف کے تعین کا معیار تھا۔ یہ معیار نہایت سادہ، معصومانہ اور طفلانہ تھا۔ اس لیے تخلیقی عمل کی وسعتوں نیز عصری بصیرتوں کے تقاضے پورے نہ کر سکا۔

اصناف ادب کا تعین صرف موضوع اور ہیئت کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا۔ ہر صنف خاص مزاج اور گرامر (شعریات) رکھتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر صنف کے تاریخی ارتقا کا مطالعہ کریں اور صنف کے مزاج اور گرامر کے تعین کی کوشش کریں، ورنہ یہ کسی طور ممکن نہ ہو گا کہ ہم اصناف کو ،ممیز کر سکیں۔ ضروری بات یہ ہے کہ یہ صرف اصناف ادب کے امتیاز کا مسئلہ نہیں بل کہ ابلاغ ادب کا مسئلہ بھی ہے۔ لفظ کے معنی کا تعین اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک صنف کا تعین نہ کیا جائے مثلاً  ’’میں تنہا ہوں ‘‘ یہ لسانی مظہر غزل کی ردیف کے طور پہ الگ معنی رکھتا ہے، جب کہ نظم کے عنوان کے طور پر الگ معنویت کا حامل ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ غزل کی ردیف کی گرامر اور مزاج نظم کے عنوان کی گرامر اور مزاج سے ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لسانی اظہار یعنی  ’’ میں تنہا ہوں ‘‘ اپنے معنی کے تعین کے لیے سیاق کا محتاج ہے اور سیاق کی موجودگی کے بغیر اس کے معنی کا درست تعین کسی طور ممکن نہیں۔ اس طرح ہر لفظ غزل، نظم، افسانہ، کالم اور روزمرہ استعمال میں فرق کا حامل اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے ذہن میں غزل، نظم، افسانہ، کالم اور روزمرہ ابلاغ کے لیے مختلف اصول اور قواعد موجود ہیں۔ اگر یہ اصول و قواعد موجود نہ ہوں تو صرف صوت و صورت کی بنیاد پر لفظ کے معنی کا تعین نا ممکن ہے۔ ذہن میں موجود ان اصول و قواعد کو  ’’تنقیدی نظریے‘‘  سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جن کے بغیر با معنی عمل قرأت کا  بہ روئے کار لانا نا ممکن ہے۔ بہ قول شمس الرحمن فاروقی:

۸؎    ’’پڑھنے کا فیصلہ کرنا اور فن پارے سے کچھ تقاضے کرنا اپنے آپ میں ایسا عمل ہے جو کسی تنقیدی نظریے کی روشنی میں انجام پاتا ہے۔ ‘‘

اصناف کے سلسلے میں یہ بات صاف ہے کہ اگر ہمارے ذہن میں ان کے حوالے سے کوئی تنقیدی نظریہ نہیں ہو گا تو ہم عمل قرأت کو بامعنی عمل کے طور برتنے کے اہل نہیں رہیں گے اور شاید اب ہم ادب سے پوری معنویت کے حصول میں اسی لیے ناکام نظر آتے ہیں کہ اصناف ادب کے حوالے سے ہمارے ذہن میں موجود اصول و قواعد اب اپنی حد فاصل کھو چکے ہیں۔ اس لیے ہم عصر ادب کا ابلاغ قاری کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آج کا ادب اپنی لسانی ساخت کے اعتبار سے اس لسانی پیچیدگی کا مظہر ہے جو اکیسویں صدی کی صورت حال کا اختصاص ہے۔ اس پیچیدہ صورت حال کا حل بھی کوئی آسان کام نہیں جب کہ ہم نے تو اس دشواری میں اصناف ادب کے خدوخال ختم کر کے اپنے لیے مزید دشواری پیدا کر لی ہے۔

اصناف ادب کے عدم تعین نے ایک طرف ادب کے لیے بے معنویت کا الزام پیدا کیا ہے تو دوسری طرف تعین قدر جیسے اساسی تنقیدی وظیفے کے حوالے سے بھی مسائل پیدا کیے ہیں، اس لیے تو آج ہر ادیب غالب کی ہم سری کا دعوی رکھتا ہے اور ہمارے ناقدین اس نظری منصب سے دست بردار ہو چکے ہیں کہ ان کے دعوے کو درست یا غلط ثابت کرنے کا تجزیاتی عمل اور اقداری فیصلہ سر انجام دے سکیں کیوں کہ معاصر تھیوری نے اپنے نظریات کے تشکیلی مراحل میں تعین قدر کو نظر انداز کر دیا ہے۔

ایک حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اگر آج ہم صنف کے تعین کی استعداد نہیں رکھتے تو میر کو  ’’خدائے سخن‘‘ اور حسرت کو  ’’رئیس المتغزلین ‘‘  کس بنیاد پر کہتے ہیں ؟اس استفہامیے کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ غزل کی صنف کے پرانے تعینات کی بنیاد پر ہم نے یہ فیصلے کیے ہیں، مگر کیا اس بات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ آج غزل کی صنف کے پرانے تعینات ناکافی ثابت ہو چکے ہیں اور نئے تعینات ابھی تک نہیں ہو سکے، تو دریں صورت حال میر اور حسرت کے حوالے سے اقداری فیصلے کیوں کر تسلیم کیے جا سکتے ہیں، اگر ہم مزاج اور گرامر (شعریات )کی بنیاد پر غزل کی نئی شناخت قائم کریں تو ہو سکتا ہے کہ میر کا منصب سودا کو اور حسرت کا منصب یگانہ کو تفویض ہو جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اصناف ادب کے تعین میں عدم دل چسپی کی وجہ ہماری بُت پرستی ہے اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ جو بت ہم نے تعمیر کیے ہیں انھیں توڑنا پڑ جائے اور ان کی جگہ نئے بت تعمیر کرنا پڑیں۔ اگر بات واقعی یہی ہے تو پھر ہمیں علمی اکتساب سے دست بردار ہو جانا چاہیے کیوں کہ علمی رویہ بت پرستی کی حمایت کسی طور نہیں کر سکتا ، پھر غزل کے بارے میں تو وزیر آغا کی یہ رائے خاص طور پر اہم ہے کہ ؛

۹؎     ’’غزل بت پرستی کی ایک صورت بھی ہے اور بت شکنی کا ایک عمل بھی۔ ‘‘

تعجب کی بات یہ ہے کہ غزل کی صنف کے اس مزاج سے غزل کی تنقید قطعی نابلد دکھائی دیتی ہے کیوں کہ اس نے غزل کی شعریات سے لے کر غزل گو شاعروں کے مقام و مرتبے کے تعین تک صرف بت پرستی ہی سے کام لیا ہے، بت شکنی کا مظاہرہ شاذونادر دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کی وجہ علمی رویے سے نا آشنائی کے سوا کچھ نہیں۔ علم صرف مستقبل نہیں بدلتا ماضی کو بھی بدلتا ہے اور ماضی کو بدلنے کا مطلب یہی ہے کہ معیارات اور تعینات بدل دیے جائیں۔ روایتی، جدید اور ما بعد جدید نیز مشہور اور اعلی ادب کا فرق معلوم ہو سکے۔ میں نے غالب کا نام قلم برداشتہ نہیں لکھا۔

۱۰؎     ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور

اگر ہم واقعی اصناف ادب کے تعین کے حوالے سے اپنی ادبی تار یخ یعنی قدر اور معیار کے فیصلے از سر نو طے کریں تو نہ صرف ماضی کا ادب حال کے وجود کا حصہ بن سکے گا بل کہ ادبی ارتقا کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ صنف کے مزاج اور گرامر کا تعین صرف صنف کے ارتقائی مراحل کے تناظر میں نہیں کیا جا سکتا۔ ثقافتی مطالعے کے بغیر نہ تو مزاج متعین کیا جا سکتا ہے اور نہ گرامر کا طے کرنا ممکن ہے کیوں کہ کسی بھی صنف کی اختراع صرف ایک تخلیقی احتیاج نہیں بل کہ ایک ثقافتی ضرورت بھی ہے۔ بہ قول گوپی چند نارنگ :

۱۱؎     ’’ادب کو متشکل کرنے میں بعض آفاقی اصول ضرور کار گر رہتے ہیں لیکن ادب کی تخصیص مقامی اصولوں ہی سے طے پاتی ہے۔ ہر زبان کے ادب کی جان اس کی شعریات ہے، جو قائم ہوتی ہے ملکوں اور قوموں کے ذہن و مزاج اور ان کی تاریخ و تہذیب سے، جن کے سانچے میں ادب ڈھلتا ہے۔ ‘‘

اصناف کی تشکیل یا درآمد ثقافتی افعال ہی کی صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ در آمد شدہ اصناف بھی مختلف ثقافتی ماحول میں اپنا آب و رنگ تبدیل ککر لیتی ہیں۔ بل کہ ان اصناف کا بہ غور مطالعہ ان کی نئی اور مختلف شعریات کی جانب بھی متوجہ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایک صنف مختلف ثقافتی تناظرات میں مختلف مزاج کی حامل ہو جاتی ہے کیوں کہ ثقافت کا جوہر امتیاز ہے اور جب تک ثقافت کا وجود باقی رہے گا۔ افتراق اور امتیاز کی ضرورت بھی باقی رہے گی اور جب تک افتراق اور امتیاز کا تصور موجود رہے گا اس وقت تک تعین قدر یعنی اچھے بُرے، اعلی و ادنی، کلاسیک اور پاپولر نیز نثر اور نظم کا امتیاز بھی قائم رہے گا۔

میرے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ ثقافت کی اصطلاح کو وسعت دینے والا اور ادب کی اساس کی حیثیت سے ثقافت کی موجودگی کا ادراک کرنے والا نا بغہ طبقہ اس حقیقت سے غیر آگاہ کیوں کر رہ سکتا ہے کہ ثقافت کا جوہر امتیاز ہے اور جوہر امتیاز کی اساس پر قائم ثقافت جب اساسِ  ادب بنتی ہے تو اصنافِ ادب کا امتیاز کیوں اور کیسے ختم ہو سکتا ہے۔

 

                   حواشی

 

۱۔ محمد عاصم بٹ،  ’’اردو میں ناول نگاری اور غزل کی روایت‘‘ ، مشمولہ، حرف، کوئٹہ، شمارہ  ۱، ستمبر تا دسمبر ۲۰۱۰ء، ص۴۰

۲۔ قاسم یعقوب،  ’’نظم اور غزل کے تخلیقی محرک میں امتیاز‘‘ ، مشمولہ، نقاط، فیصل آباد، دسمبر ۲۰۰۹ء، ص۸۸

۳۔ معید رشیدی،  ’’عروض، معروض اور نئی بوطیقا‘‘ ، مشمولہ، سمبل، راول پنڈی، جولائی ۲۰۰۹ء، جون۲۰۱۰ء، ص۱۱۰

۴۔ وزیر آغا، ڈاکٹر،  ’’خطبۂ صدارت‘‘ ، مشمولہ، ادب اور عصر حاضر، راول پنڈی، نومبر۲۰۰۸ء ، ص۱۶

۵۔ ناصر عباس نیر، ۲۰۰۴ء،  ’’جدید اور ما بعد جدید تنقید‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ص۸۸

۶۔ ایضاً، ص۲۱۸

۷۔ شمیم احمد، سن ندارد،  ’’اصناف سخن اور شعری ہیئتیں ‘‘ ، لاہور، تخلیق مرکز، ص۱۳

۸۔ شمس الرحمن فاروقی،  ’’قرأت، تعبیر، تنقید‘‘ ، مشمولہ، دنیا زاد، کتاب۱۹، مارچ ۲۰۰۷ء، ص۱۵

۹۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، ۱۹۹۸ء،  ’’معنی و تناظر‘‘ ، سرگودھا، مکتبہ نردبان، ص۲۵۲

۱۰۔ کالی داس گپتا رضا، ۱۹۹۶ء۔ ۱۹۹۷ء،     ’’دیوان غالب کامل‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ص۳۱۱

۱۱۔ گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر، ۲۰۰۵ء ،  ’’اردو غزل اور ہندستانی ذہن و تہذیب‘‘ ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ص۱۹

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

وزیر آغا کا تنقیدی نظام

تنقید تخلیقی پراسس کو دریافت کرنے کی ایک کوشش، اس پراسس کے حوالے سے اپنا ایک نقطۂ نظر بنانے کے تخلیقی و علمی اقدام نیز اس پراسس کی پر اسراریت کو معروضیت میں منتقل کے ایک مسلسل، تغیر پذیر اور مائل بہ ارتقا عمل کا نام ہے۔ جس کی بنیادی شرائط میں مسلسل، وسیع اور کثیر الابعاد مطالعے کے ساتھ وجدانی بصیرتوں سے مکالمہ بھی شامل ہے۔ اس لیے وہ تمام افراد ناقدین کی فہرست میں شامل نہیں کیے جا سکتے جو یہ اساسی ناقدانہ وظائف سر انجام دینے کی استعداد نہیں رکھتے۔ یہ استعداد بہ یک وقت وہبی و اکتسابی علم و دانش کا تقاضا کرتی ہے تاہم صرف یہ علم و دانش ہی نقاد کو غیر معمولی نہیں بناتے اس کے لیے اُس میں بعض انتہائی غیر معمولی صلاحیتیں بھی ہونی چاہئیں جنھیں نکتۂ تفہیم کے نزولِ  کشف اور نزولِ کشف کے بیان کی علمی استعداد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ اس تمام عمل میں اعتماد نیز استناد کے حصول کے علمی تناظر کی موجودگی لازم ٹھہرتی ہے۔

وزیر آغا اُن ناقدین میں شامل ہیں۔ جنھوں نے ان تنقیدی شرائط کو حتی المقدور نبھایا اور تا دمِ  آخر ہم عصر تھیوری کے ساتھ تخلیقی اظہار سے بھی ارتباط قائم رکھا۔ اُ ن کے پورے تنقیدی سفر کا مرکزی وصف ان کی اس کمٹ منٹ اور خلاقانہ جست و جسارت کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ غیر معمولی نکتے تک رسائی کو اپنی اساسی تجزیاتی سرگرمی تصور کیا اور اکثر وہ اس کاوش میں سرخرو رہے۔ یہ خوبی تنقید کے اس سہ ابعادی عمل کے پہلے ابعاد میں یک ساں طور پر موجود و کار گر رہی جس کا ذکر میں نے آغاز میں کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی ہر نئی تنقیدی تصنیف تخلیقی تازگی کے وفوری احساس سے لبریز ہوتی تھی، مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ علوم کی پیش رفت کے تناظرات کو تنقیدی نظر سے ہم آہنگ کرتے ہوئے وہ کبھی اپنی ناقدانہ مزاج کی اساس میں تبدیلی کے خطاکار نہیں بنے۔ لیکن اس اساس پر تعمیر جہانِ فکر برابر اپنی وسعتوں میں تخلیقی اضافے کرتا رہا، جس کا سر چشمہ بلاشبہ ان کے تخلیقی باطن کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ نکتہ وزیر آغا پر عیاں تھا اسی لیے تو رفیق سندیلوی نے ان کے اپنے اس اعتراف کے حوالے سے لکھا ہے کہ :

۱؎      ’’اگر مجھے شعر کہنے کی سعادت نصیب نہ ہوتی تو میں کسی بھی صنف ادب میں کچھ نہ کر سکتا، ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شاعری کو اپنے تمام ادبی کارناموں کا ماخذ و منبع گردانتے ہیں اور یہ کہ ان کی علمیت در اصل ان کی تخلیقیت کے بطن سے پھوٹی  ہے۔ ‘‘

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان کا جہان فکر ان کی تخلیقی استعداد کے تابع و ماتحت رہا ہے لیکن ان کی تخلیقی شخصیت شاعر اور انشائیہ نگار کی صورت میں دو مختلف منطقوں کے بیچ سفر کرتی نظر آتی ہے۔ ا س لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کا جہان فکر ان کی شاعرانہ شخصیت سے زیادہ ان کی انشائیہ نگاری کے تابع رہا ہے جس کی ایک وجہ تو یہ دکھائی دیتی ہے کہ ان کی ناقدانہ شخصیت غیر معمولی اوصاف کی حامل ہے جن کی تلاش ان کی شاعری سے زیادہ ان کی انشائیہ نگاری میں کام یابی سے ہم کنار ہوتی ہے۔ بہ حیثیت شاعر وہ قطعاً کوئی غیر معمولی تخلیق کا ر نہیں لیکن بہ حیثیت انشائیہ نگار ان کے مقابلے کی دوسری مثال ہی پیش کرنا مشکل ہے۔ لہذا یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ ان کی غیر معمولی ناقدانہ شخصیت اپنی تعمیر میں بہ حیثیت شاعر ان کی معمولی شخصیت کے تابع رہی ہو، دوسری وجہ نثری اظہار کی دوسری نثری اظہار سے قربت جب کہ شعری اظہار سے مغائرت کو قرار دیا جا سکتا ہے، تیسری اور سب سے اہم وجہ ان کے ناقدانہ مزاج اور انشائیہ نگار کی حیثیت سے ان کے مرکزی رجحان کا اشتراک ہے۔ بہ حیثیت نقاد اور بہ حیثیت انشائیہ نگار اعماق تک رسائی کی تمنا ان کا غالب رجحان ہے اور رسائی کی اس تمنا میں منظر اکثر مقامات پر بالکل معدوم ہو تا ہوا محسوس ہوتا ہے جب کہ ان کے شاعرانہ عمل میں منظر کی معدومیت کے برعکس اس کو خلق کرنے یا تعمیر کرنے کا رویہ عام ہے۔ اس لیے مجھے ان کی ناقدانہ شخصیت ان کی انشائیہ نگاری کے تابع نظر آتی ہے۔ شاید وزیر آغا کے درج بالا اعتراف میں انشائیے کے برعکس شعری حوالہ اس لیے ظاہر ہو گیا ہو کہ انھیں لا شعوری طور پر خود بھی اپنی تخلیقی شخصیت کے شعری رخ کی کم زوری کا احساس ہو جسے وہ اس نوع کے اظہار سے کم کرنا چاہتے ہوں۔ تاہم زیادہ اہم بات یہی ہے کہ ان کی علمیت تخلیقیت کے بطن سے جنم لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

وزیر آغا کے تنقیدی نظام کی تفہیم اسی صورت میں کی جا سکتی ہے جب ان کے ناقدانہ مزاج کی اساس کو دریافت کر لیا جائے۔ یہ اساس بہ یک وقت تخلیقی پراسس کے اعماق تک رسائی کی کوشش اور اس کے تناظراتی انسلا کا ت تک پہنچ کی جستجو کا نام  ہے۔ یہ تخلیق کے دروں اور بروں تمام تر جہتوں میں سے ایک سی رفتار کے ساتھ سفر کرنے اور ایک سے انہماک کے ساتھ اس کی گہرائیوں تک اترنے کا عمل ہے۔ یہ ایک ایسے پراسرار عمل کے مقابل ڈٹنے کا جسارت مندانہ اقدام ہے جو اس عمل کو کافی حد تک معروضیت میں بدل دینے پر قادر ہو سکتا ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وزیر آغا کے تنقیدی نظام کا اساسی نکتہ یہ تھا کہ تخلیق کے بارے میں معلوم علمی یافت سے روشنی تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر اس معلوم علمی یافت کی توثیق و تردید کے لیے جو جزوی یا کلی ہو سکتی ہے تخلیق کے اعماق تک رسائی لازم ہے اس لیے تا دم آخر وہ معلوم سے جڑے رہے تاکہ اس کی روشنی میں تخلیقی پراسس کا متواتر تجزیہ جاری رکھ سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ معاصر تھیوری کے شارح بھی رہے اور ناقد بھی۔ تھیوری نے ان کے تنقیدی نظام  کے مقابل نئے چیلنجز بھی رکھے اور نتیجتاًاس کا توسیعی عمل بھی جاری رہا۔ اساس کی نفی نہ کرنے کے سبب ان کے تنقیدی نظام میں کار گر علوم و افکار جس اتصال و انسلاک کی غمازی کرتے ہیں اس کی دوسری مثال اردو تنقید میں مشکل ہی سے دست یاب ہو سکے گی۔ اس خوبی کو ان کی تنقید کے نامیاتی ارتقا سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

یہاں ناصر عباس نیر کی یہ رائے غور طلب ہے کہ؛

۲؎      ’’نصف صدی پر محیط فکری اور ذہنی سفر میں ایک ہی ’’ تھیوری ‘‘  کے نموئی عمل سے رشتہ استوار رکھنا کوئی منصوبہ بند فعل نہیں ہوسکتا بلاشبہ یہ وہبی عمل ہے۔ ‘‘

یہاں جس تھیوری کی بات ہو رہی ہے اس پر گفتگو میں ابھی ذرا تاخیر ہے البتہ  ’’وہبی عمل‘‘  محلِ  نظر ہے۔ تنقید کو وہبی عمل کسی طور قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم یہ بات بالکل درست ہے کہ وزیر آغا نے اپنی ناقدانہ اساس کے نمو ئی عمل سے رشتہ استوار رکھا تاہم تکرار ان کا ناقدانہ وصف نہیں، ان کا تنقیدی عمل ارتقائی رہا ہے۔ جس میں انھوں نے تخلیقیت اور تعمیریت سے کا م لیتے ہوئے اپنی شخصیت کی فطری اساس کو نظر انداز نہیں کیا۔ اگر ان کا تنقیدی عمل وہبی ہوتا تو یہ عین ممکن تھا کہ وہ اپنی اساس سے روگردانی یا اس کی تبدیلی کا موجب بنتے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی تنقیدی اساس کے حوالے سے ان کا شعور ہمیشہ بیدار رہا اور بہ حیثیت نقاد یہ ان کی بہت بڑی خوبی ہے جسے وہبی عمل قرار دینے سے ان کی اس محنت کے ضائع ہو جانے کا احتمال ہے۔

وزیر آغا اپنے تنقیدی نظام کے معمار بھی تھے اور خالق بھی۔ یہاں معمار اور خالق وہ الفاظ ہیں جن کی کارکردگی کے اپنے اپنے دائرے ہیں اور وزیر آغا کی حد تک یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ انھوں نے ان دونوں کرداروں کی معاونت سے اپنے ناقدانہ تشخص کی معرفت کے مراحل طے کیے۔ معمار کی حیثیت میں انھوں نے تعمیراتی عناصر کے حصول کے لیے عمر بھر مطالعاتی مشغولیت کو اپنا شعار بنایا جب کہ خالق کی حیثیت سے انھوں نے موجود تعمیراتی عناصر میں روحِ  تخلیق پھونک کر متشکل ہونے والی ساخت کو محض اپنے اجزائے ترکیبی کا مجموعہ نہیں رہنے دیا بل کہ اس میں وہ تخلیقی پر اسراریت پیدا کر دی جس کی تفہیم کے لیے اسی نوع کی ناقدانہ دانش درکار ہے جس نوع کی ناقدانہ دانش اسرارِ  تخلیق کی عقدہ کشائی کے لیے لازم ہوتی ہے۔

وزیر آغا کے تنقیدی نظام کی تفہیم کے لیے لازم ہے کہ ان کے تنقیدی نظام کی تشکیل میں معاون تعمیراتی افکار کا احاطہ کیا جائے جن سے بہ حیثیت معمار انھوں نے استفادہ کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ دریافت بھی لازم ہے کہ آخر ان افکار میں ان کا خلاقانہ اضافہ کیا ہے؟ یعنی بہ حیثیت خالق اس نظام کی ساخت بندی میں ان کا کردار کیا رہا ہے۔

جہاں تک بہ حیثیت معمار تعمیراتی علوم و افکار سے استفادے کا تعلق ہے تو ایک بات تو ان کے تنقیدی نظام کے سرسری مطالعے ہی سے عیاں ہو جاتی ہے کہ انھوں نے سائنسی، سماجی اور مابعد الطبعیاتی علمیات اور فکریات کے ارتقائی سفر سے کشید دانش اور شعور سازی کا عمل تسلسل سے جاری رکھا۔ بہ طور خاص ہر وہ علمی پیش رفت ان کی نظر میں رہی جو ادبی تھیوری پر اثر انداز ہوئی یا جو تخلیقی پراسس کی تفہیم میں معاونت کے امکانات رکھتی تھی مگر متضاد و متناقض افکار و علوم میں مشابہت و اشتراک کی اقدار تلاش کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا وہ کسی بھی دانش کی ان ابعاد تک با آسانی پہنچ جاتے تھے جن سے ان کے مرکزی مفروضے کے اثبات میں معیت مل سکتی ہو۔ اس عمل کو ان کے ذہن کی ممزوجی صلاحیت سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے تنقیدی نظام کو امتزاجی کہا گیا ہے جس کی شعریات وزیر آغا ہی کے تنقیدی نظام کی تفہیم کی کوشش کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نکات پر مشتمل ہے۔ بہ قول ناصر عباس نیر:

۳؎      ’’امتزاجی تنقید کے بنیاد گزار وزیر آغا کے فکری دوائر کا عمیق مطالعہ کیے بغیر اس تنقید کی شعریات کو بہ تمام و کمال مرتب کرنا ممکن نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رفیق سندیلوی نے امتزاجی تنقید کے منہاج اور رد و قبول کے مطالعات کو محیط میں جب کہ وزیر آغا کے تنقیدی نظام کو مرکز میں رکھا ہے۔ ‘‘

ناصر صاحب نے وزیر آغا کے حوالے سے جس تھیوری کا ذکر کیا تھا وہ یہی امتزاجی تنقید ہے۔ تاہم یہ نقطہ ابھی پوری طرح واضح نہیں ہوسکا کہ امتزاجی تنقید کی شعریات کی حیثیت وزیر آغا کے تنقیدی نظام کی منہائی کے بعد کیا وقعت و قدر و قیمت رکھتی ہے؟اگر امتزاجی تنقید کی شعریاتی منطق کے تحت تنقیدی تھیوری کی شعریات قائم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تو کیا یہ ممکن نہ ہو گا کہ ہر اہم نقاد کے تنقیدی نظام سے حاصل بصیرتوں کو عنوان دے کر نئی تنقیدی شعریات کی تخلیق کا کارنامہ سر انجام دے دیا جائے۔

امتزاجی تنقید کی شعریات کا بہ غور مطالعہ یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ہر قابلِ قدر نقاد اپنے تنقیدی نظام کی وضع سازی میں اسی نوع کے ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے بالآخر کسی ایسی ساخت کے حصول میں کام یاب ٹھہرتا ہے جسے باآسانی امتزاج سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ امتزاجی تنقید کے حوالے سے ذرا ناصر صاحب کی اس رائے پر غور فرمائیے۔

۴؎      ’’امتزاجی تنقید سراسر شعور ی اور ارادی فعل نہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ چند نظریات کو لیا انھیں کسی ہا ون دستے سے پیسا اور فرمایا کہ لیجیے  ’’ امتزاجی تنقید کا مسالا تیار ہے۔ ‘‘

امتزاجی تنقید کا تفاعل تخلیقی عمل سے ملتا جلتا ہے یعنی بہ یک وقت بے خودی و ہوش یاری کا طالب ہے ایک طرف مطالعے کی وسعت، تفکر کی باقاعدگی درکار ہے، ہر تنقیدی نظریے کی بنیادی بصیرت، اس کی مخصوص تجزیاتی زد اور ادبی متن کے ساتھ اس کی موزونیت کا شعور لازم ہے تو دوسری طرف متنوع مطالعے کو جذب کرنا مطلوب ہے تاکہ نقاد کی باطنی شخصیت تہ دار اور کثیر الجہات بنے اور جب نقاد کسی متن کے رو برو آئے تو متن کی جملہ پرتوں کو منکشف کر سکے۔ ‘‘

کیا اس اقتباس سے یہ گمان نہیں گزرتا کہ ہر وہ نقاد جو اپنی ناقدانہ شخصیت کے ارتقا کے لیے کو شاں اور ہمہ دم منہمک رہتا ہے با لآخر اپنے علمی اکتساب اور فطری ذوق کی تحلیل میں کام یاب ہو کر ایک گہری، دور بیں اور اعماق تک رسائی حاصل کرنے والی بصیرت کے حصول میں کام یاب ٹھہرتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس امتزاجی اساس پر قائم ساخت کی تعمیر میں شامل عناصر کی ماہیت، نوعیت اور مقداری تناسب مختلف ہو سکتے ہیں۔

وزیر آغا کو خود بھی ان عناصر ترکیبی کے مختلف ہونے کا پورا پورا احساس تھا اگر بات اشتراک عناصر کی ہوتی تو شاید امتزاجی تنقید کسی شکل و شباہت کے حصول میں کام یاب ہو جاتی مگر اس کا اصرار تو اشتراک عناصر کے برعکس تحلیل اور فیوژن کی جانب رہا۔ بہ قول وزیر آغا :

۵؎      ’’آج جو امتزاجی تنقید ابھر رہی ہے وہ بھی ایک طرح کے Fusion کی پیداوار ہے اس نے بھی تخلیقی انرجی پیدا کی ہے یہ تنقید کسی خاص شعبۂ علم یا نظریہ کی مہیا کردہ Device   تک خود کو محدود نہیں رکھتی بل کہ یہ جانتے ہوئے کہ تمام علوم طبعیات، حیاتیات، عمل الانسان، فلسفہ، نفسیات، لسانیات، مارکسیت نیز ما بعد الطبعیات اور مذہبیات، ان سب کا رخ پر اسراریت کے رومۃ الکبری کی طرف جاتا ہے وہ ان کی مہیا کردہ Devices کو جب اور جہاں چاہے متن کے اعماق میں موجود اسرار تک پہنچنے کے لیے بہ روئے کار لا رہی ہے۔ یہ نئی تنقید کی Close reading سے بہت آگے کی بات ہے اسے تنقید کیComprehensive Reading   کا نام ملنا چاہیے جو ایک بڑے وژن کی زائیدہ بھی ہے اور محرک بھی۔ ‘‘

یہاں یہ سوال نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کیا ہر متن اپنے اعماق میں موجود اسرار تک رسائی کے لیے ہر طرح کی devices کے استعمال کی اجازت دیتا ہے؟میرے خیال میں یہ وہ نکتہ ہے جہاں وزیر آغا اور ان کے مقلدین بھٹک گئے۔ اصل بات متن کی ساخت بندی میں کار فرما عناصر کی ہے، اگر تخلیقی شعریات، تعبیری شعریات کے مطابق نہ ہوں تو اس کے اعماق تک رسائی کسی طور ممکن نہیں ہوتی، ایسی ناقدانہ تعبیر عموماً متن سے غیر متعلق ہو کر صرف نقاد کی گہری شخصیت کی تہ داری کا پرتو تو پیش کرتی ہے مگر متن اس تعبیری عمل میں اپنی وجودی معنویت کھو بیٹھتا ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علمی تعبیر کو وجودی تعبیر کے مطابق ہونا چاہیے جس سے ہماری تنقید نظر چراتی رہی ہے۔ وزیر آغا کی عملی تنقید ان کی نظری تنقید کے مقابلے میں اسی وجہ سے زیادہ متاثر کن ثابت نہیں ہوئی کیوں کہ اکثر وہ متن کو وجودی اعتبار سے نظر انداز کرتے ہوئے تنقیدیDevices استعمال کرتے رہے۔ اس نوع کے استعمال نے متون کے افتراق کو کافی حد تک دھندلا دیا نتیجتاً اقداری فیصلے کی ضرورت بھی باقی نہ رہی، یوں بھی وزیر آغا کے تنقیدی نظام میں  ’’تعین قدر‘‘ کوئی اہم ناقدانہ وظیفہ نہیں رہی۔ اعماق تک رسائی کی تمنا اکثر انھیں اس مقام تک لے گئی جہاں کثرت وحدت میں ڈھل جاتی ہے اور امتیازات کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں، مگر ایسا نہیں کہ انھوں نے  ’’تعین قدر‘‘ سے بالکل سروکار نہ رکھا ہو۔ فیض احمد فیض کے بارے میں ان کی ناقدانہ آراء ان کے اقداری فیصلے کی بھر پور غمازی کرتی ہیں مگر یہاں شاید وہ اقداری فیصلے کی جانب اس لیے مائل ہو گئے کہ فیض ترقی پسند تحریک کے سب سے توانا شاعر تھے اور ترقی پسند ناقدین پر اپنی ناقدانہ برتری ثابت کرنا ضروری تھا۔ یہاں میں قطعاً یہ نہیں کہنا چاہتا کہ فیض کے متعلق وزیر آغا کی آراء غلط تھیں مگر اتنا ضرور ہے کہ جس لب و لہجہ میں انھوں نے فیض پر بات کی ہے وہ ان کا عام تنقیدی لب و لہجہ نہیں تھا اور جس اعتماد اور استناد کے ساتھ فیض کے بارے میں انھوں نے  ’’تعین قدر‘‘  کا مظاہرہ کیا ہے اس کے ہم پلہ کوئی دوسری مثال ان کی تنقید میں دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے فیض پر ان کی تنقید کو غیر جانب دارانہ کسی طور قرار نہیں دیا جا سکتا، جس کی ایک بڑی وجہ تخلیقی شعریات اور تعبیری شعریات کی عدم موافقت ہے۔ جسے وہ عملی طور پر کوئی غیر مستحسن ناقدانہ اقدام تصور نہیں کرتے لہذا جب، جہاں جس تنقیدی Device کو استعمال کرنا چاہیں کر گزرتے ہیں اور اس بات کو کافی حد تک نظر انداز کر بیٹھتے ہیں کہ متن بھی ایک زندہ وجود ہے جس کا ہر Codeاپنی Decodingکے کچھ معیار اور اصول و ضوابط رکھتا ہے، ناقدانہ عمل متن سے اتنا بالا تر قطعی نہیں ہو سکتاکہ متن کی تعبیر کے لیے متن ہی سے بے گانہ ہو جائے۔

وزیر آغا کی ناقدانہ شخصیت کی تعمیر میں سب عناصر یک ساں مقداری تناسب نہیں رکھتے۔ یہ تناسب ادب کے مزاج کے تعین میں شامل عناصر کے متوازی ان کی شخصیت میں شامل ہوتے رہے۔ ان کی ناقدانہ شخصیت کا نکتہ ء کمال بھی یہی تھا کہ وہ تخلیقی ادب میں ان تمام عناصر کو منقلب تصور کرتے تھے جن کی روشنی میں وہ تعبیر ادب کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی علمی کشادگی ان کی کائناتِ  ادب کی توسیعات میں اضافے کا باعث بنتی رہی، توسیعاتی عمل یقیناً اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب مختلف بصیرتوں میں روحِ  مشترک دریافت کر لی جائے۔ تاہم یہ سوال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ روحِ مشترک، مشابہت کی جستجو رکھنے والے ذہن کا انعکاس ہوتی ہے یا فی الحقیقت ایک موجود وجود؟

وزیر آغا کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ وہ کثرت میں وحدت کی تلاش کا فطری ذوق رکھتے تھے، شاید یہ فطری ذوق تخلیق کار کے لیے لازم بھی ہوتا ہے کیوں کہ متخیلہ کی قوت بڑی حد تک یہی فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ مگر ناقدانہ سطح پر اسے وزیر آغا کی غیر معمولی ذہانت سے تعبیر کیا جانا  چاہیے کہ انھوں نے مختلف علوم کی روح مشترک تک رسائی حاصل کی مگر اس میں ان کی جستجوئے وحدت کا فطری ذوق بھی شامل رہا۔ اگر یہ ذوق ان کی شخصیت میں فطری طور پر موجود نہ ہوتا تو شاید مماثلت و مشابہت کے برعکس اختلافات و تضادات ان کا حاصلِ مطالعہ ٹھہرتے۔ یہاں یہ بحث غیر ضروری ہے کہ کثرت میں وحدت کی تلاش مستحسن عمل ہے یا نہیں، بل کہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے فطری تقاضے کو نظر انداز کرنے یا دبانے کے برعکس اسے اپنی تعمیری قوت کے طور پر استعمال کیا جس نے ان کے تنقیدی نظام کی اساس اور مرکزیت کو ضعف سے محفوظ رکھا۔

وزیر آغا کے ہاں اس کی کئی مثالیں با آسانی پیش کی جا سکتی ہیں۔ مگر علوم کی بصیرتیں ان کے ناقدانہ مزاج کی تشکیل میں کس طرح معاون رہیں ؟کس طرح وہ مشابہت اور اشتراک تک رسائی میں کام یاب رہے؟اور کس طرح کثرتیں ان کے ہاں وحدت کی جستجو میں مگن ان کے فطری وجود کے مقابل اکائی میں ڈھل گئیں ؟ ان استفہامیوں کے جواب کے لیے یہ ایک مثال ہی کافی ہے۔

۶؎      ’’ڈی مسٹی فکیشنDemystification  کا عمل کس طرح اسرا ریا Mystryکو مزید گہرا کرتا ہے اس کی بہترین مثال طبعیات کی سٹرنگ تھیوری  نے مہیا کی ہے اس تھیوری نے تکو ین کائنات کے رائج تصورات کوDemystify کر کے بگ بینگ اور زیرو ٹائم کے درمیانی وقفے کی جان کاری جس انداز سے مہیا کی ہے اس سے کائنات کی پراسراریت کم ہونے کے بجائے کئی گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ زیرو ٹائم اور پلانک ٹائم کے درمیان ایک موہوم ترین  ’’نقطہ‘‘  موجود ہے جو بہ یک وقت Murkyبھی ہے اورMatrix بھی, Mystryبھی ہے اور Magicبھی۔ اسے طبعیات میں ایم تھیوری کہا گیا ہے یہ وہ مقام ہے جہاں زمان و مکان ناپید ہیں۔ تمام ابعاد اور چاروں قوتیں باطل اور ریاضی کے جملہ کلیے اور قاعدے معدوم ہیں۔ تھیوری کے مطابق بگ بینگ سے پہلے کا یہ مقام ٹھنڈا اور لا محدود تھا پھر اس لا محدودیت میں نہ جانے کیسے Instabilityپیدا ہوئی اور تمامPoints ایک دوسرے سے دور ہٹنے لگے جس کے نتیجے میں مکان یعنیSpace کی Curveنمودار ہوئی گویا کسی نے اپنی مٹھی بند کر لی اور تمام Pointsکا Fusionہو گیا جس نے بے پناہ حرارت یا انرجی پیدا کر دی یہ بگ بینگ تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کے جس منظر نامے کو سٹرنگ تھیوری نے پیش کیا ہے وہاں سائنس اور مذہب، روحانی تجربات اور تخلیقی تجربات …یہ سب اکائی میں ڈھلتے ہوئے صاف دکھائی دیتے ہیں ‘‘ ۔

یہاں وحدت تک رسائی کے لیے کتنی کثرتوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور کس طرح پر اسراریت کو موجود حقیقتوں پر غالب اور مقدم ٹھہرا دیا گیا اس کی وضاحت غیر ضروری ہے۔ مضمون کے آغاز میں سہ ا بعادی تنقیدی عمل کا ذکر کرتے ہوئے میں نے وزیر آغا کو صرف  ابعاد تک اسی لیے محدود کر دیا تھا کہ وہ تخلیقی پراسس کی پراسراریت کو معروضیت میں مبدل کرنے پر ایقان نہیں رکھتے بل کہ ان کی کوشش رہتی ہے کہ اس پراسس کی پر اسراریت قائم رہے بل کہ اس میں مزید اضافہ ہو۔ تنقیدی ڈ سپلن میں اس کی گنجائش کتنی بنتی ہے ؟ اس سے ادب کے قارئین بہ خوبی آگاہ ہیں۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ عدم خواہش اور عدم کوشش کے باوجود وہ اس پراسس کو ایک خاص حد تک معروضیت میں ڈھالنے میں کام یاب رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ تنقید لکھتے ہوئے وہ خود بھی اس کی گرامر کے تابع ہو جاتے ہیں۔

وزیر آغا اپنے تنقیدی مزاج میں بالائی ساخت سے زیادہ زیریں ساخت تک رسائی کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ جسے وہ حقیقی ساخت بھی تصور کرتے ہیں تاہم یہ نقطہ نظر انداز ہونے کا احساس بھی دلاتا ہے کہ زیریں ساخت تک رسائی اسے ایک بالا ئی ساخت میں تبدیل کرتے ہوئے ایک دوسری زیریں ساخت کے قائم و موجود ہونے کا احساس دلانے لگتی ہے مگر اس بات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کہ ناقدانہ عمل میں زیریں ساخت تک رسائی زیادہ اہم تنقیدی سرگرمی ہے اور انھوں نے کم اہم سرگرمی کے برعکس زیادہ اہم سرگرمی کی قبولیت اور بر تاؤ کو اہمیت دی ہے۔ شاید بالائی ساخت کی تشکیل میں موجود متفرق و متضاد عناصر نے بھی اسے ان کے لیے زیادہ پرکشش بننے نہیں دیا کیوں کہ افتراق کی تلاش ان کا ناقدانہ مزاج ہی نہ تھا۔

مشابہت اور اکائی تک رسائی کی جستجو انھیں سطح سے اعماق تک رسائی کی جانب کھینچتی رہی اور اعماق تک رسائی کے بعد انھیں تخلیقی پراسس عناصر کی تحلیل کا وہ ترکیبی عمل محسوس ہوا جس کے تجزیے کے لیے بھی اس اکائی کو تقسیم کرنا روح تخلیق کو مجروح کرنے کے مترادف ٹھہرا۔ امتزاجی تنقید کی شعریات میں تخلیق کی اکائی کا احترام ایک انتہا ئی اہم شق ہے۔ جسے وزیر آغا کے تنقیدی نظام ہی کی عطا قرار دیا جا سکتا ہے تاہم یہ نقطہ بہ حیثیت طالب علم مجھ پر نہیں کھلتا کہ وہ کون سا طریقہ کار ہے جس میں اعماق تک رسائی بغیر تجزیاتی عمل کے معرضِ وجود میں آسکتی ہے ؟نیز وہ کون سا تجزیاتی عمل ہے جس میں تخلیقی وحدت کی تقسیم گناہِ کبیرہ تصور ہوتی ہے ؟یہاں رفیق سندیلوی کی یہ وضاحت غور طلب ہے۔

۷؎      ’’امتزاج کا مطلب یہ نہیں کہ عناصر یا ضوابط کو لازماً مخلوط کیا جائے اور ایک کھچڑی یا ملغوبہ بنا دیا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک گرہ سے دوسری گرہ اور ایک رشتے سے دوسرے رشتے کے تہ در تہ، پر اسرار تعلق کو نشان زد کیا جائے اور یوں کل کے بے پایاں احساس کو گرفت میں لینے کی کوشش کی جائے۔ امتزاجی تنقید کی مستقبل گیریت اس میں ہے کہ یہ ساخت کے دائرے میں اپنے کل کو مزید اجزاء کے متحرک انضمام سے وسیع تر کرتی رہتی ہے بالکل جیسے غبارہ اندر سے پھولتا چلا جاتا ہے۔ ‘‘

یعنی امتزاجی تنقید تخلیق کی گرہ کشائی کے بجائے اسے پھلانے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور باعث تعجب یہ ہے کہ اس کے باوجود تنقیدی ڈسپلن کہلائے جانے پر بھی مصر ہے۔ تنقید، تخلیق کے حظ میں کمی کے بجائے اضافہ کرتی ہے، یہی امتزاجی تنقید کا موقف ہے مگر تخلیقی حظ اور تنقیدی حظ میں حدِ فاصل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، عملی تنقید لکھتے ہوئے وزیر آغا اس فرق کو قائم رکھنے میں ناکام رہے ہیں اور امتزاجی تنقید کو بہ طور ڈسپلن رائج کرنے کی کوششوں میں اس فرق کو نظر انداز کرنے کے باعث ان کے مقلدین بھی۔ امتزاجی تنقید کی شعریات کا تعین کرتے ہوئے یہ ضروری تھا کہ تاثراتی تنقید پر ہونے والے اعتراضات کو پیشِ نظر رکھا جاتا تو شاید وہ معائب پیدا نہ ہوتے جو تاثراتی تنقید ہی پر اعتراضات کی صورت سامنے آ کر قبولِ عام حاصل کر چکے تھے۔

مصنف کو معاصر تھیوری نے در خور اعتنا نہ سمجھا اس کے با وجود کہ امتزاجی تنقید مصنف کو اس طرح نظر انداز نہیں کرتی مگر اپنی عملی مثالوں میں مصنف کی موجودگی کا کوئی واضح احساس بھی نہیں دلاتی، تمام تر اہمیت بہ ہر حال قاری کو تفویض ہے۔ مگر امتزاجی تنقید کی شعریات میں وزیر آغا کو بہ طور مصنف جو اہمیت دی گئی ہے وہ قابلِ رشک ہے۔ مصنف متن کے معنی کا خالق نہیں مگر وزیر آغا کی تنقید کو امتزاجی تنقید کی شعریات کے تناظر میں پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کو مصنف کی مقتدر حیثیت کی غمازی کے بجائے استحقاقِ متن قرار دیا جائے یا استعدادِ قاری؟حقیقت یہ ہے کہ امتزاجی تنقید کو وزیر آغا کے تنقیدی نظام کے عنوان کے طور پر تو قبول کیا جا سکتا ہے مگر اسے کسی الگ تنقیدی ڈسپلن کے طور پر قبول کرنا ممکن نہیں اور اگر ممکن ہے تو شاید ہر قابلِ قدر نقاد اپنے ارتقائی ناقدانہ سفر میں امتزاجی ہی کہلائے گا۔ اس فرق کے ساتھ کہ اس کی شخصیت کی تعمیر میں معاون عناصر وزیر آغا کی شخصیت کی تعمیر میں معاون عناصر سے مختلف ہوں گے تاہم جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ امتزاجی تنقید کا اصرار تعمیری عناصر کے برعکس فیوژن پر زیادہ ہے اور شاید بہ طور تنقیدی ڈسپلن یہی اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔

ان باتوں کا ذکر اس لیے بھی ضروری تھا کہ انھیں وزیر آغا کی ناقدانہ رسائیوں کے مقابلے میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ یقیناً ان کی علمی شخصیت سے مرعوبیت کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان باتوں کا مقصد یہ قطعاً نہیں کہ وزیر آغا کے قد و قامت کو کم کیا جائے۔ وزیر آغا بلاشبہ اردو کے اہم ترین ناقدین میں سے ایک ہیں۔ تھیوری کو اردو میں متعارف کروانے کے سلسلے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ انھوں نے تھیوری کے مشکل اور پیچیدہ مباحث کو جس آسانی کے ساتھ اردو قارئین کے سامنے پیش کیا وہ قابلِ تحسین ہے بل کہ شاید تھیوری کی تفہیم کے اعتبار سے وہ اپنے معاصرین میں سب سے ممتاز ناقد رہے۔ انھوں نے حتی المقدور خود کو تھیوری کی اندھی تقلید سے بھی بچایا اور اپنے فطری میلان اور تنقیدی نظام کی روشنی میں اس کے کئی نکات کو مسترد بھی کیا۔ تھیوری کی تعبیر میں انھوں نے اپنی تخلیقیت سے بھی بھر پور استفادہ کیا، تمثیل کی مدد سے ناقدانہ افکار کی پیش کش میں ان کا کوئی ثانی نہیں، بہ حیثیت خالق انھوں نے تعمیراتی افکار کی وضاحت و تشریح کے لیے جتنی غیر معمولی تمثیل نگاری سے کام لیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے معاصرین میں ابلاغ کے لحاظ سے سب سے کام یاب ٹھہرے یہاں ہم عصر تھیوری کی غیر معمولی تفہیم اور ان کی تمثیل نگاری کی ندرت کی پیش کش کے لیے یہ ایک مثال ہی کافی ہے۔

۸؎      ’’بیسویں صدی کی مغربی تنقید کی کہانی بہت طویل ہے۔ اگر اسے ایک تمثیل کی مدد سے بیان کیا جائے  (ہر چند کہ ایسا کرنے سے مغربی تنقید کا محض ایک ادھورا سا خاکہ ہی ابھرے گا)‘تو ایک عام قاری کو شاید اس بارے میں کچھ جان کاری مہیا ہو سکے۔

فرض کیجیے کہ ’’ تصنیف‘‘ ایک موٹر کار کی مانند ہے!

آج سے کم و بیش ۱۰۰ برس پہلے کی  ’’تاریخی سوانحی تنقید‘‘ اس بات پر غور کرے گی کہ اس کار کا بنانے والا کون ہے اور تاریخی تناظر میں وہ کس مقام پر کھڑا ہے مزید یہ کہ کار، خود کس تدریجی تاریخی عمل کی زائدہ ہے گویا کار تو نظر انداز ہو جائے گی اور اس کا بنانے والا (مصنف) زیرِ بحث آ جائے گا۔ تاریخی سوانحی تنقید کے بعد  ’’روسی فارم اِزم کی جو تحریک روس سے ابھری وہ کار کے بنانے والے سے کوئی سروکار نہیں رکھے گی وہ صرف کار کی میکانکی ساخت کو اہمیت دے گی اور کار کو لوہے کا ایک ٹکڑا قرار دینے کے بجائے اس کی انوکھی ساخت پر توجہ مبذول کرے گی (جو لوہے کے کار بننے کی صورت میں ظاہر ہوئی) چنانچہ وہ زیادہ زور نامانوس یا انوکھے بنانے کے عمل پر دے گی۔ دوسری طرف  ’’نئی تنقید ‘‘ کار کے خالق نیز کار کی تخلیق کے تاریخی پس منظر کو مسترد کر دے گی اور کار کو ایک خود کار اور خود کفیل اکائی قرار دے کر اس کے کل پرزوں کی باہمی کارکردگی کو بہ نظر غائر دیکھے گی اور یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ اس کی کار کردگی سے کیسے کیسے معانی پھوٹ رہے ہیں ! اس کے مقابلے میں  ’’ساختیاتی تنقید‘‘  کار کے کل پرزوں کی کارکردگی (یعنی کار کی بالائی ساخت)پر توجہ مبذول کرنے کے بجائے اس کے بطون میں موجود گہری ساخت یعنی کوڈز اور قاعدوں سے عبارت سسٹم (شعریات) پر غور کرے گی اور دیکھنا چاہے گی کہ کس طرح اس سسٹم کے مطابق کارکردگی وجود میں آ رہی ہے ساختیات کار کے ڈرائیور (قاری) کی بہ طور خاص خاطر تواضع کرے گی اور کار کی موجودگی بل کہ کارکردگی کو ڈرائیور کی اس تخلیقی اپج کے کھاتے میں ڈال دے گی جس کے تحت وہ کار کے سسٹم کو پڑھتا ہے اس پر  ’’ساخت شکن تنقید‘‘ شور مچا دے گی اور کہے گی کہ ساختیات نے پرانی شراب نئے مٹکوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس نے  ’’خالق‘‘  کی جگہ  ’’سسٹم‘‘  کو دے کر دراصل کار (Text ) کے بنانے والے کی موجودگی ہی کا اقرارکیا ہے مزید کہے گی کہ ساختیات دعوی تو کرتی ہے کہ اس نے کار بنانے والے کو کار سے نیچے اتار دیا لیکن دراصل اس نے کار بنانے والے کا حلیہ تبدیل کر کے اسے کار کے اندر چھپا دیا ہے خود ساخت شکن تنقید کار کی رفتار سے ابھرنے والے منظر نامے پر توجہ مبذول کرے گی یعنی یہ کہے گی کہ یہ نہ دیکھو کہ کار کس نے بنائی ہے یا اس کی مشینری کیسے کام کرتی ہے یا وہ کس نظام کے تحت چل رہی ہے اس کے بجائے یہ دیکھو کہ کار کے چلنے سے کس طرح چاروں طرف ہمہ وقت تبدیل ہوتے منظر نامے کے اندر سے نئے مناظر اور ان مناظر کے اندر سے مزید نئے مناظر کی جھلکیاں نظر آ رہی ہیں۔ کوئی ایک منظر، کوئی ایک معنی بھی مقرر یا دائمی نہیں تمھاری نظریں کسی ایک منظر (معنی)پر ٹھہر نہیں پا رہیں یہ معانی کے جنگل کو پرت اندر پرت کھولتے یعنی Disentangle کرتے چلے جا رہے ہیں، کیا تمھیں مکانی طور پر منظر دوسرے منظر سے مختلف اور زمانی طور پر ملتوی ہوتے نظر نہیں آ رہا۔ تم بند اور مقرر معانی کی قید سے نکلو اور کار کی کھڑکیوں میں سے نظر آنے والے گنجلک منظر نامے کے گہراؤ (Abyss)میں جھانکتے چلے جاؤ اس لیے نہیں کہ کوئی منظر (معنی) تمھارے ہاتھ لگے گا صرف اس لیے کہ چشمِ بینا کی کبھی ختم نہ ہونے والی یہ سیاحت بہ جائے خود ایک بہت بڑا انعام ہے۔ ساخت شکنی (Deconstruction) کی یہ بات سن کر اِیکو مسکرائے گا اور پوچھے گا کہ تم لوگ تشریحی انداز کو دور کی کوڑی لانے یعنی Ver interpretation کی سطح پر کیوں لے آئے ہو ؟ جواباً جو ناتھن کلر کہے گا کہ ایسا کرنا ہی تو اصل بات ہے کہ اس کی مدد سے انسان منظر نامے کی تہوں میں اتر سکتا ہے تہ در تہ منظر نامے کے ذکر پر مارکسی زاویے والا بھڑک اٹھے گا اور اسے با آوازِ بلند مسترد کرتے ہوئے کار کی ساری کھڑکیوں پر سُرخ پردے لٹکا دے گا تا کہ نظر ارد گرد کے ہمہ وقت تبدیل ہوتے منظر نامے پر نہ پڑے صرف سامنے کی ونڈ سکرین سے دور نظر آنے والی اس ایک منزل ( یعنی مقرر معنی یا جامد تصویری منظر ) پر مرکوز رہے جہاں اسے پہنچنا ہے۔ مگر ’’ نئی تاریخیت‘‘ کا علم بردار نقاد ( بالخصوص فوکو)تاریخیت کے روایتی نام لیواؤں کی اس بات کو مسترد کر دے گا کہ تاریخ باہر کے کسی متعین اور دائمی اصول تاریخ (Historical a Priori) کے تابع ہو کر تسلسلِ  زماں کا مظاہرہ کرتی اور ساخت شکن نقادوں کی اس بات سے بھی متفق نہیں کہ سارا منظر نامہ محض ایک گورکھ دھندا ہے جس میں تاریخی عمل کی کوئی گنجائش نہیں :وہ کہے گا کہ آپ کار کی کھڑکیوں سے مختلف مناظر کو نہ تو کسی  ’’مثالی منظر‘‘  کے حوالے سے دیکھیں اور نہ انھیں مناظر کے گورکھ دھندے کا حصہ بنتے محسوس کریں آپ انھیں اس طور دیکھیں کہ ان میں سے ہر منظر اپنے وجود کو بھی برقرار رکھتا نظر آئے اور دوسرے مناظر کے ساتھ مربوط ہو کر حرکت کرتا بھی دکھائی دے‘‘ !

یہ طویل اقتباس وزیر آغا کے ناقدانہ مزاج کی تفہیم کے لیے منشور کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ بہ حیثیت معمار اپنے تنقیدی نظام کی تشکیل کے لیے انھوں نے تھیوری کے ارتقائی سفر پر جس طرح گرفت قائم رکھی ہے اس کی مثال ہماری سہل پسندانہ تنقیدی روایت سے پیش کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ یہی اقتباس ان تخلیقی اضافوں کی جانب متوجہ کرنے کے لیے بھی کافی ہے جسے وزیر آغا کی خلاقیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ تنقید میں تمثیل نگاری کے تخلیقی وصف کو جس خوبی سے وزیر آغا نے برتا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وزیر آغا بلا شبہ انفرادی طور پر بھی اردو تنقید کی ایک پوری روایت اور ایک زندہ تحریک کی حیثیت رکھتے ہیں اس تحریک نے اردو تنقید کو اس بحرِ بے کراں سے ملا دیا ہے جس کی جانب ہمارے ناقدین کبھی رشک سے تو کبھی حسد سے دیکھتے رہے ہیں مگر کسی کوا ن گہرائیوں تک اس کی شناوری کا اعزاز حاصل نہیں ہوا جن گہرائیوں تک وزیر آغا نے نہ صرف سفر کیا بل کہ صدف ریزوں اور خذف ریزوں کی جداگانہ پرکھ سے ان گہر ہائے تاب دار سے ہمیں متعارف کروایا جن کی پہچان میں ایک پوری ادبی نسل کی عمریں صرف ہو جاتی ہیں۔ ان کے اس احسان کے لیے اردو تنقید اور اردو ادب کے مجھ ایسے طالب علم ہمیشہ ان کے احسان مند اور مقروض رہیں گے۔ اگر اردو تنقید اپنا مستقبل روشن ثابت کرنے میں کام یاب رہی تو وزیر آغا کی حیثیت یقیناًاس سورج کی ہو گی جس نے پہلی مرتبہ پوری آب و تاب سے اندھیرے کے مقابل ڈٹنے اور اس کا سینہ چیرنے کا قصد کیا اور جس کے حصے میں سرخ رو ہو کر غروب ہونے کا اعزاز بھی آیا۔

                   حواشی

 

۱۔ رفیق سندیلوی : ’’ڈاکٹر  وزیر آغا شخصیت اور فن‘‘ ، اسلام آباد، اکادمی ادبیات پاکستان، ۲۰۰۶ء، ص، ۱۹

۲۔ رفیق سندیلوی : ’’امتزاجی تنقید کی شعریات ‘‘ ، لاہور، کاغذی پیرہن، ۲۰۰۳ء، ص۱۰

۳۔ ایضاً، ص ۹

۴۔ ایضاً، ص ۱۰، ۱۱

۵۔ عابد سیال(مرتب): ’’ادب اور عصر حاضر‘‘ ، راول پنڈی، نقش گر، ۲۰۰۸ء، ص۱۹

۶۔ ایضاً، ص۱۸، ۱۹

۷۔ ایضاً  :  ’’امتزاجی تنقید کی شعریات‘‘ ، ص ۱۷

۸۔ وزیر آغا: ’’مغربی تنقید کے سو سال‘‘ ، مشمولہ، کاغذی پیرہن۔ ۱۸، لاہور، مارچ۔ اپریل ۲۰۰۸ء، ص۹، ۱۰

٭٭٭

 

 

 

 

 

ما بعد جدیدیت اور ثروت حسین

مابعد جدیدیت ادب کو ثقافت کا زائیدہ تصور کرتی ہے اور ادب کی پرکھ کے لیے آفاقی معیارات کو مسترد کرتے ہوئے مقامیت اور علاقائیت کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔ اس کے نزدیک ادب اپنی مٹی، اپنی زمین کی خوشبو اور اس کی تحدیدات سے ماورا نہیں ہوتا۔ ثقافت ادب کی مآخذ بھی ہے اور اس کی معنویت کی تشکیل کا منبع بھی۔ یہاں ثقافت کو ادب پر باہر سے مسلط نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ ما بعد جدیدیت ادب کے خالق اور قاری دونوں کو یعنی دونوں کی تخلیقی اور غیر تخلیقی ذات کے کل کو ایک ثقافتی تشکیل تصور کرتی ہے۔ لہذا یہ ذات جو اد ب تخلیق کرتی ہے اس کے تارو پود میں ثقافتی عناصر فطری طور پر شامل ہوتے ہیں بل کہ یہ سمجھنا چاہیے کہ ثقافت ادب کی ساخت بندی میں روحِ رواں کی طرح موجود ہوتی ہے اگر ادب کو لانگ (Langue (اور پارول (Parole) کا مجموعہ سمجھا جائے تو ثقافت کی حیثیت لانگ کی ہو گی جو پاور ل کی بوقلمونی، تنوع اور ابلاغ کو ممکن بناتی ہے تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ لانگ تک رسائی پارول کے بغیر ممکن نہیں مگر یہ پارول کی برتری ہرگز نہیں ہے کیوں کہ اس کی تما م حا ضر و غائب اور موجود و ممکنہ صورتیں سب لانگ کی مرہونِ منت ہیں۔ ادب کے ابلا غ کا دارومدار، لانگ پر ہوتا ہے اگر کوئی شخص پارول کو ممکن بنانے والے نظام یا گرامر یعنی لانگ سے نابلد ہے تو اس کے لیے وہ مخصوص متن جو بہ رائے قرأت اس کے پیش نظر ہے ، بے معنی ہو گا۔ ناصر عباس نیر نے درست فرمایا ہے:

۱؎         ’’لانگ جہاں ابلاغ کو ممکن بناتی ہے وہاں یہ اظہار کے لا محدود امکانات کی تخلیق کا سر چشمہ ہے‘‘

مابعد جدیدیت ثقافت کو ادب کا لانگ تصور کرتی ہے اور اس کی اظہاری صورتوں کو لا تعداد و بے کنار مانتی ہے۔ لہذا ثقافت چھوٹی ہو یا بڑی، وہ لاتعداد تخلیقی صورتوں کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اپنی اس استعداد میں کوئی ثقافت دوسری ثقافت سے اہم اور برتر نہیں ہوسکتی۔ مگر ادب کے ثقافتی ہونے کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ وہ اپنا آفاقی پن برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اصل یہ ہے کہ اس کا ثقافتی ہونا ہی اس کے آفاقی ہونے کی دلیل ہے۔ بہ قول وہاب اشرفی ؛

۲؎     ’’ Globalisation کے اس زمانے میں جہاں ادب آفاقی نظر آتا ہے وہاں اس امر کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے مضمرات میں اپنے ملک کے حوالے بہ ہر طور موجود ہوتے ہیں۔ آداب زندگی، طور طریقے یہاں تک کہ مجلسی زندگی کا انداز بھی اسی کا حصہ ہے، جو ہم جیتے رہتے ہیں اور جو ہماری اپنی مٹی کا خمیر رکھتا ہے۔‘‘

ہم کسی غیر زمینی یا ناآشنا زمینی فضا میں نہیں جیتے۔ آفاق سے ہمارا جو بھی تعلق اور رشتہ بنتا ہے وہ اپنی زمین سے وابستگی کے ساتھ بنتا ہے۔ لہذا کسی ایسی آفاقیت کا تصور محال ہے جو علاقائیت سے محروم ہو، بہ قول ابو الکلام قاسمی ؛

۳؎         ’’مقامی یا لسانی بنیادوں پر قائم چھوٹی چھوٹی ثقافتیں بھی اپنی حیثیت کا اثبات کر سکتی ہیں اور تمام ثقافتیں ایک دوسرے سے ہم آمیز ہو کر معاون ثقافتیں بن سکتی ہیں۔ اس صورت حال میں ہندوستان کی برہمنی ثقافت یا پاکستان میں پاکستانی مسلم ثقافت اگر چھوٹی چھوٹی لسانی، مذہبی یا علاقائی ثقافتوں کو اپنے تسلط میں رکھنا چاہیں تو اس عمل کو مابعد جدید فکر مسترد کرتی ہے کہ مختلف ثقافتیں مل کر ایک بسیط ثقافتی نظریے کی تشکیل میں معاون ہو سکتی ہیں۔ ‘‘

شعری متن کو مابعد جدید اسی صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے جب ما بعد جدید تصورات میں اساسی اور مرکزی اہمیت (۴)رکھنے والی ثقافت کو متن کے روحِ رواں کی حیثیت حاصل ہو۔ ثروت حسین کی شاعری کو مابعد جدید کہنے اور اسے ما بعد جدید تصورات کے تناظر میں مطالعہ کرنے کی سب سے بنیادی وجہ درحقیقت اس کی شاعری کا زمینی حوالہ ہے۔ زمین ہمیشہ سے مشرقی افکار کا ایک اساسی حوالہ رہی ہے اور یہاں تخلیق پذیر ہونے والے شعری متون میں بہ طور روحِ رواں کار فرما بھی رہی ہے۔ تاہم یہاں کی دیگر زبانوں کے بر عکس اردو کا دامن اس سے مقا بلتاً خالی نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو شاعری کی ابتدا بھر پور زمینی رشتے سے ہوئی مگر بعد ازاں فارسیت نے اسے مقامی پن سے دور کر دیا۔ وقتاً فوقتاً تخلیقی اذہان اس جانب راغب ہوئے مگر کوئی مجموعی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ ثروت حسین تک سفر کرنے والی اردو شاعری میں زمین سے ایک رشتۂ تقدس صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ زمین کو ماں تصور کرنا اسی رشتہ ء تقدس کا اظہار کرتا ہے مگر ثروت حسین کی شاعری کو نیرنگی عطا کرنے والی سندھ کی زمین سے اس کا رشتہ احترام سے زیادہ انسیت کا ہے اس حقیقت کا انکشاف سہیل احمد نے اس کے شعری مجموعے  ’’آدھے سیارے پر ‘‘ کے پیش لفظ میں بھی کیا ہے، لکھتے ہیں ؛

۵؎                                                     ’’جب ثروت حسین کو ملازمت کے سلسلے میں اندرون سندھ جانا پڑا تواس نے ایک با ر پارک ٹی ہاؤس کے باہر فٹ پاتھ پر مجھے اس تجربے کے تاثر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ؛ ’’زمین کو دیکھنا عجیب سا تجربہ ہے لوگ کہتے ہیں زمین ماں ہے، ماں بھی ہو گی مگر مجھے تو ا س سفر میں یہ محبوبہ کی طرح دکھائی دی‘‘  ماں ہو یا محبوبہ، یہ عورت ہی کے رو پ ہیں مگر ثروت نے زمین سے شفقت سے زیادہ رفاقت طلب کی ہے اور شاید رفاقت سے بھی زیادہ اسے اپنی عاشقانہ وارفتگی سے سروکار ہے۔ ‘‘

ثروت حسین کی شاعری اسی وارفتگی کا کرشمہ ہے۔ جسے اس کے ثقافتی وجود سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ما بعد جدیدیت، ثقافت کو بہ ہر صورت تخلیق کے تار و پود میں شامل تصور کرتی ہے مگر ثروت نے اسے اپنے تجربات کا مرکز و محور بنا لیا تھا لہذا یہ کیوں کر ممکن تھا کہ اس کا تخلیقی تجربہ، اس کے تجربات کے اس مرکزی حوالے کی عکس ریزی سے تہی دامن ہوتا بل کہ تخلیقی تجربے نے تو اس رنگ کو صد رنگ اور اس ایک پھول کے مضمون کو سَو طرح اظہار کے سانچوں میں ڈھال کر اس کے حسن اور کیف کو دو چند کر دیا ہے۔ تخلیقی تجربے نے تجربے کے اس مرکز ی و محور ی سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے مگراسے صرف اپنا یا اور دہرایا نہیں ہے اسے اجنبیایا بھی ہے کہ اس کے بغیر تخلیق کے لیے اپنا ا ثبات ممکن نہیں رہتا، اس رنگِ صد رنگ کی کچھ جھلکیاں ثروت کی شاعری سے ملاحظہ ہوں۔

۶؎      قندیل مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا

کچھ اس سے زیادہ ہے میرا خاک پہ ہونا

۷؎      زمین میرے لیے پھول لے کے آتی ہے

بساطِ معرکہ صبر آزما سے ادھر

۸؎      دروازوں میں لوگ کھڑے تھے اور ہماری آنکھوں نے

پانی کا چہرہ دیکھا تھا مٹی کی تمثالوں میں

۹؎      ثروت یہ درخت یہ ستارے

مٹی سے اگر رہا نہ ہوتے

 

۱۰؎     وہی ایک چراغ دمکتا ہے

گندم کی بالی بالی پر

 

۱۱      ؎        مجھے اپنا سیّارہ تبدیل کرنے کی خواہش ہی کیوں ہو

کہ اب بھی زمیں پر بڑا حسن ہے اور گمبھیرتا ہے

۱۲؎     کانٹوں کا ملبوس پہن کر آتا ہوں باہر

اور مٹی پر پھول بنانے لگتا ہوں

۱۳؎    وہ مرے جسم کی مٹی میں نہاں ہے ثروتؔ

بیج میں جیسے شجر، دیکھنے والے کے لیے

۱۴؎   میری دسترس میں ہے آسمان مٹی کا

اک لکیر کھینچی ہے دیکھ ہم شجر میں نے

جل اٹھا اندھیرے میں انبساط کا پتھر

جب زمین کو دیکھا اس کو دیکھ کر میں نے

۱۵؎     دو ہی چیزیں اس دھرتی پر دیکھنے والی ہیں

مٹی کی سندرتا دیکھو اور مجھے دیکھو

۱۶؎     میں کتاب خاک کھولوں تو کھلے

کیا نہیں موجود کیا موجود ہے

۱۷؎  کشش تھی آگ جیسی خاک داں میں

کہ وہ ابر رواں اُترا زمیں پر

یہ وہ مقام ہے جہاں معاصر تنقید تعینِ قدر کے بغیر اپنی معنویت کے مکمل اظہار سے قاصر نظر آتی ہے کیوں کہ تخلیق صرف اپنانے اور دہرانے کا عمل نہیں ہے، اجنبیانے کا عمل بھی ہے۔ متون میں بہ ہر حال یہ فرق اور امتیاز موجود ہوتا ہے کہ بعض صرف اپنانے اور دہرانے تک محدود ہوتے ہیں اس لیے ان کی جمالیاتی قدر ان متون کے مقابلے میں کم تر ہوتی ہے جو اپنانے اور دہرانے کے عمل کو اجنبیانے کے عمل کے تابع رکھتے ہیں۔ یہیں دونوں طرح کے متون کی استعاراتی و علامتی تشکیل ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتی ہے اور یہیں معنی کی تکثیریت میں افتراق در آتا ہے۔ یہیں ثقافت اور ادب کے رشتے میں مصنف کا تخلیقی شعور اہم اور ایک دوسرے سے ممتاز نظر آنے لگتا ہے اور مصنف کی موت کے اعلانات اپنی معنویت کھوتے نظر آتے ہیں نیز تنقیدی عمل کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ معمولی اور غیر معمولی استعداد کے حامل تخلیق کاروں کو اقداری فیصلے کے ذریعے ممتاز کرے۔

ثروت حسین ایک غیر معمولی تخلیقی استعداد کا حامل لکھاری اکریوین (Ecrivain) کہلانے کا استحقاق رکھتا ہے کہ اس نے صرف ثقافت کو اپنایا اور دہرایا نہیں ہے بل کہ اسے اپنا تخلیقی تجربہ بھی بنایا ہے اور اسے اجنبیانے کا فریضہ بھی بہ حسن و خوبی سرانجام دیا ہے۔

 

۱۸؎     ٹوٹ گئی چھاؤں

دودھیا منڈیر ہے

میدانوں، مکانوں میں سویر ہے

چھاج پھٹکتی ہوئی کلائی سنگیت ہے

بانس کی کھپچیوں پہ بیلوں کے جھکاؤ میں

آسمانی پلوؤں پہ دھوپ ہے

کھیتیوں سے کھیلتی کھجور کی چٹائیاں

بھید بھرے پتھروں پہ

گونجتی کھڑاؤں !

(ٹوٹ گئی چھاؤں )

اس نظم میں جہاں ایک طرف منڈیر، سویر، چھاج، کھپچی، چٹائی اور کھڑاؤں جیسے الفاظ پارول کو تشکیل دیتے ہوئے ثقافت کی بہ طور لانگ موجودگی پر دال ہیں۔ وہیں منڈیر کا دودھیا پن، کلائی کی سنگیت پروری، پلوؤں پر دھوپ، چٹائیوں کا کھیتیوں سے کھیلنا اور پتھروں کا بھید بھرا ہونا، اس ثقافتی اظہار کو اجنبیانے کے تخلیقی عمل سے بھی گزار رہے ہیں  ؛

۱۹؎     سندھڑی تیرا دل، شاہ لطیف کا باغ

شاہ لطیف کا باغ، جیسے غیب کی بات

جیسے غیب کی بات، مٹی میں مستور

مٹی میں مستور، پانی کا اک پھول

پانی کا اک پھول، شہزادے کے پاس

شہزادے کے پاس، ایک عجیب طلسم

ایک عجیب طلسم، شہزادے کا جسم

شہزادے کا جسم، سب سے پہلا اسم

(بیت)

پچھلی نظم کی طرح یہ نظم بھی پارول کے ذریعے اپنے ثقافتی حوالے صاف ظاہر کر رہی ہے مگر یہاں بھی ثقافت کو صرف دہرایا نہیں گیا اجنبیایا گیا ہے، اجنبیانے کا انحصار دال (Signifier) پر ہے اس لیے ما بعد جدیدیت نے مدلول؎ (Signified) کے برعکس دال کو زیادہ اہمیت دی ہے ایک طرف ثقافت خود کو اس نظم میں منبع معنی ثابت کر رہی ہے وہیں اس کی استعاراتی، علامتی تشکیل اس کی معنوی تکثیریت کی جانب بھی کھینچتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ صورتِ  حال ثروت حسین کی ایک دو نظموں تک محدود نہیں ہے بل کہ اس کی شاعری کا مجموعی رنگ ہے۔ اس کی شاعری کا یہ مجموعی رنگ اس کے اسلوب کا عکاس ہے جس کی ثقافتی وابستگی بہ ہر طور عیاں ہے ثروت کے اسلوب کو متشکل کرنے والی اس کی شعری تمثالوں کی کسی نئی فہرست کو مرتب کرنے سے بہتر ہو گا کہ سہیل احمد کی مرتب کردہ فہرست کا حوالہ اشعار کے ساتھ پیش کر دیا جائے کہ اس طرح بھی تنقیدی جائزے کو باآسانی بین المتونی بنایا جا سکتا ہے جو ما بعد جدید تصورات کی ایک اہم شق ہے۔

’’ثروت حسین کی شعری تمثالوں کے کئی علاقے ہیں ایک طرف ان کا تعلق کائنات کی فطری حالت سے ہے گردش سیّارگان، ثابت و سیّار، کہکشاں، آسماں، لہریں لیتا دریا، جزیرہ نما، پہنائے بحر  وب ر، ہوائیں، سمندر، دشت و در، دریا، ستارے، درخت، پرندے اس طرح کی تمثالیں اس کی شاعری کے گرد حاشیہ کھینچتی ہیں پھر اس ماحول میں انسانی تلازمات ظاہر ہوتے ہیں مضافات، گاؤں، لڑکیاں، محنت کرنے والے ہاتھ، اچھے لوگ، بندرگاہوں پر کام میں مصروف انسان، منڈیریں، چھاج پھٹکتی ہوئی کلائیاں، مگن مکھ جھونپڑیوں میں جلتے چولہے، کھیلتے گرد اڑاتے بچے، ماہی گیر، نانبائی، گڈریے، کسان اس حاشیے کے اندر مختلف تصویروں کی صورت ظاہر ہوتے ہیں، پھر ایسی تمثالیں ہیں جو تہذیبی جہت رکھتی ہیں ؛

قریب میں کسی خیمے سے آگ پوچھتی ہے

کہ اس شکوہ سے کس قرطبہ کو جاتا ہوں

 

اسی جزیرہ جائے نماز پر ثروت

زمانہ ہو گیا دست دعا بلند کیے

 

گونجتی گلیوں میں ہے ان کے خیالوں کی چاپ

گشت و گلیم آشنا، پاک پیمبر ترے

 

کوئی نور ظہور کرے ثروت

اسی حمد الحمد کی جالی پر

اس جہت کے ساتھ، اس جہت کی تمثالیں جن کا تعلق قریبی سندھ کی سر زمین سے ہے (بنگال کے حوالے سے اس کی نظم ’’ایک انسان کی موت ‘‘ کتنی پر تاثیر ہے)مہران کا پانی، کوہ یارا، وائی اور کافی کا اسلوب، ان عناصر نے ثروت حسین کے رویاء میں ایک نئی معنویت بھر دی ہے ’’زمین، زمین، کا نعرہ لگانے والے شاعر تو بہت مل جائیں گے مگر زمین کو اتنی متنوع جہتوں میں دیکھنے والے شاعروں کی تعداد زیادہ نہیں۔ ‘‘ ۲۰؎

زمین کو ثروت حسین نے صرف متنوع جہتوں میں دیکھا ہی نہیں، خلق بھی کیا ہے اور اس تخلیقی عمل میں ان شعری متون کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے جن کی وابستگی اسی ثقافتی و زمینی روح کی حامل ہے جو اس کے اپنے تجربات کی بہ جا طور پر مرکزو محور کہلانے کی مستحق ہے۔ مابعد جدیدیت، بین المتونیت کو جو اہمیت دیتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے مطابق کسی متن کو کلیتاً خود مختار قرار نہیں دیا جا سکتابل کہ ہر متن موجود یعنی معاصر اور سابق متون سے استفادہ کرتا ہے اور ہر متن میں ان دیگر ذیلی متون کو نشان زد کیا جا سکتا ہے یا ان کے Tracesکی موجودگی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یقیناً ثروت حسین کا شعری متن بھی اس سے مبرا نہیں مگر جیسا کہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ اس کے ہاں اجنبیانے کا عمل مسلسل اور پوری توانائی کے ساتھ کار فرما رہا ہے اس لیے ان ذیلی متون کی روح اس کی اپنی شاعری کی روح میں اس طرح شامل ہو گئی ہے کہ سرسری مطالعہ کرنے پر ان رنگوں کی شناخت آسان نہیں جن سے مل کر ثروت کی شعری دھنک ظہور پذیر ہوئی ہے مگر اس سلسلے میں زیادہ خاص بات یہ ہے کہ اس نے انھی شاعروں سے زیادہ اثر قبول کیا ہے جن کے ہاں زمین صرف تجربہ نہیں بل کہ تخلیقی تجربہ بنی ہے۔ شاعر کے تخلیقی شعور میں اگر اپنی ذہنی ساخت کے مطابق اخذ و انتخاب کی صلاحیت مفقود ہو تو اس کی اپنی شاعری کوئی مکمل اور منفرد خدوخال رکھنے والی صورت کی پیش کش میں ناکام ہو جاتی ہے لہذا استفادے کے لیے ذہنی، جمالیاتی اور فطری مطابقت از بس لازم ہے۔ ورنہ متن میں دوسرے متن کے اجزا تو ضرور جوڑے جا سکتے ہیں لیکن دونوں متون کی باہم تحلیل سے کوئی منفرد صورت خلق نہیں کی جا سکتی۔ اس کے باوجود کہ ما بعد جدیدیت کے پیش کاروں نے اس باریک فرق کو زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے دونوں طرح کے متون یعنی وہ جو دوسرے متون کے اجزا بغیر انضمام شامل کر لیتے ہیں اور وہ جو دوسرے متون کے اجزا کو تحلیل کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، کو ایک ہی صف میں جگہ دی ہے جب کہ فی الحقیقت کوئی بھی تخلیقی متن، دوسرے متون کو اپنے وجود میں تحلیل کیے بغیر فریضۂ تخلیق سے کماحقہ سبک دوش نہیں ہو سکتا۔ ثروت نے یہ حق ادا کیا ہے مگر ایسا نہیں کہ اس کا شعری متن ایسی انفرادیت کا حا مل ہے جس پر کسی کا سایہ تک محسوس نہ کیا جا سکے اس نے بہت سے تخلیق کاروں سے استفادہ کیا ہے بہ قول سہیل احمد ؛

۲۱؎                                                      ’’تخلیقی طور پر ثروت حسین نے منیر نیازی، ناصر کاظمی، محمد سلیم الرحمن، اور کہیں کہیں مجید امجدکے بعض شعری عناصر اور احمد مشتاق سے ذہنی قربت محسوس کی ہے اور ہسپانوی زبان کے شعراء میں اسے لور کاکی نظموں میں تخلیقی کرب اور نشاطِ تخلیق کی کش مکش اور اس کی نظموں کے زمینی مناظر نے مسحور کیا ہے۔ پابلو نرودا کے ہاں چھوٹی چھو ٹی زمینی اشیاسے مسرّتوں کا رس نچوڑ لینے کی ادا اور ان اشیا کو کائناتی عمل میں پرو کر دیکھنے کی ادا سے بھی وہ متحیر ہوا ہے۔ ‘‘

حیرت کی بات یہ ہے کہ سہیل احمد نے ثروت کی شاعری پر میرا جی کے اثرات نہیں دیکھے جو زمین کے ساتھ جنسی حوالے بھی رکھتے ہیں اور غالب کے اثرات بھی ان کی نظروں سے اوجھل رہے جن کی جانب ایک واضح اشارہ تو خود ثروت کی  ’’نذر غالب‘‘  غزلیات بھی کر رہی ہیں۔ کسی شاعر کی زمین میں غزل لکھنے کا تجربہ بھی تو در حقیقت متن پر متن قائم کرنے ہی کی صورت ہے کہ اس طرح سیرتی جزو نہ سہی، صوری و صوتی اجزا یقیناً متن سازی میں معاون متون کی بازیافت پر مجبور کرتے ہیں۔ غالب کی زمینوں میں ثروت کی غزلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ثروت غالب کے آہنگ اور دال (Signifier) کے استعمال سے متا ثر ہوا ہے اور غالب کی زمین میں ثروت کی آگے درج کی جانے والی غزل تو اس وقت تک آنند کی مکمل ترسیل ہی نہیں کرتی جب تک غالب کی غزل قاری کی نظروں سے نہ گزر چکی ہو۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادب پارہ معنی کی تشکیل صرف سیرتی جزو کے ذریعے نہیں کرتا بل کہ صوری اور صوتی عناصر بھی اس عمل میں برابر کار فرما ہوتے ہیں۔ لہذا بین المتونی مطالعے کو صرف کلام کے سیرتی جزو تک محدود تصور ککر لینا ہمارے ناقدین کی شعری بصیرت کی کم مائیگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ زمینِ  غالب میں ثروت کی اس غزل کا مطالعہ اس لحاظ سے اور دل چسپ ہو جاتا ہے کہ سیرتی جزو کی عدم مطابقت و عدم مشابہت کے باوجود ثروت کا شعری متن اپنے مکمل معنی کی ترسیل کے لیے غالب کے شعری متن کا مرہون رہتا ہے کیوں کہ بہ ہر حال مسرتِ متن کو معنی متن سے مکمل طور پر آزاد تصور کرنا روحِ ادب سے ناآشنائی کے سوا اور کیا کہلا سکتا ہے۔

۲۲؎    ابتدائے فصلِ گل ہے اور حصارِ نغمہ ہے

آتشِ آئندگاں کو انتظارِ نغمہ ہے

کُنجِ آشفتہ سری میں رنگِ لالہ کے تئیں

لرزشِ دستِ حنائی انتشارِ نغمہ ہے

طائرانِ سُرخ سے اک بات کہنی ہے مجھے

اب کہاں، کس جا پہ وہ پروردگارِ نغمہ ہے

منتظر بیٹھا ہوں بچپن کے پرندے کے لیے

دو گلابوں سے ادھر اک جوئبارِ نغمہ ہے

زمزمہ پیرا ہے شاعر اور صحرا کے یہ پھول

دور تک ان وادیوں میں اعتبارِ نغمہ ہے

 

یہاں میرؔ کے دو مصرعوں سے شعر کی تشکیل اور اُسے غزلیہ متن کا جزو بنانے کی بین المتونی مثال بھی دیکھتے چلئے ۔

۲۳؎    ہے مکان و سرا و جا خالی

تُو کہاں منہ اُٹھائے جاتا ہے

ثروت کی شاعری، صوفیانہ مسلک کی شاعری و فکریات سے بھی متاثر ہوئی ہے اور یہ اثرات تو الفاظ، ہیئت، خیال اور آہنگ تک میں در آئے ہیں۔ جو اس کی شاعری کو ما بعد جدیدیت کی روح میں رنگ دیتے ہیں اس حوالے سے ایک دو شاعروں کے اسماء گنوانا اس لیے مناسب نہیں کہ صوفیا نہ شاعری کی شعریات سب شاعروں کو ایک تار میں پروتے ہوئے ہر متن کو پوری صوفیانہ فکر کی بازیافت بنا دیتی ہے۔ ثروت کی شاعری میں یہ اثر گہرائی تک موجود ہے مگر سرِدست اس کے مشاہدے کے لیے اس ایک غزل کا مطالعہ بھی کافی ہو سکتا ہے۔

۲۴؎    لال ہوا فوارہ ہُو

یار نے خنجر مارا ہُو

ہویا میں آوارہ ہُو

کل عالم بنجارہ ہُو

شام کا پہلا تارہ ہُو

من اندر دوبارہ ہُو

جینے دا اُجیارہ ہُو

بدل دا اندھیارہ ہُو

یار مرے نے آتش لائی

من اندر لشکارا ہُو

پیر کھڑاؤں تپتی چھاؤں

ہتھ وچ ہُن اکتارہ ہُو

شور قدیمی چمٹے دا

بول پیا اکتارہ ہُو

ورقے نور کتاباں والے

مٹی دا سی پارہ ہُو

سچا سائیں منارے والا

تن من تجھ پہ وارا ہُو

ست رنگا باغیچہ ثروت

نیل فلک مہ پارہ ہُو

صوفیانہ شعری متون سے استفادے کے اظہار کے ساتھ یہ غزل علاقائی زبان و الفاظ کو جس طرح رائج کر رہی ہے وہ اس مابعد جدید رجحان کا صاف اظہار ہے جس کے مطابق کوئی علاقائی زبان کسی مرکزی زبان سے تخلیقی استعدادمیں کم تر نہیں ہوتی بل کہ مرکزی زبان انھی علاقائی زبانوں سے استفادے کے بعد انھیں حاشیے پر دھکیل دیتی ہے۔ و ہاب اشرفی نے صحیح لکھا ہے؛

۲۵؎    ’’ مابعد جدیدیت تمام علاقائی زبانوں کے فروغ کے سلسلے میں واضح نقطۂ نظر رکھتی ہے اور یہ بھی کہ علاقائی زبانیں نہ تو کم زور ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کا ادب سطحی ہوتا ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ کسی وسیع زبان کی ارتقائی صورت میں ایسی تمام علاقائی زبانوں پر یا بولیوں پر قدغن لگاتی نظر آتی ہے جس سے خود وہ زبان جسے ہم بڑی زبان کہتے ہیں متاثر ہوتی رہتی ہے اور علاقائی ادب ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ ‘‘

ثروت حسین نے علاقائی زبان و ادب سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی بل کہ اس سے بالاستعیاب استفادہ کیا ہے اور اس استفادے کو پوشیدہ رکھنے کے بجائے اسے اپنے شعری منظر نامے میں نمایاں جگہ دی ہے۔ علاقائی ادب کے اثرات اُس کے وجودِ شعر کا جزوِ لاینفک ہیں۔ اس کی شاعری کا مجموعی نظام یعنی صوتی، صوری اور سیرتی اجزا اس رنگ کی تابانی سے ضو یاب نظر آتے ہیں۔ کہیں یہ رنگ اس کی شاعری کے دیگر رنگوں کو دباتا ہوا منظر پر آ جاتا ہے اور کہیں زیر سطح موجود رہ کر با لائی سطح پر موجود دیگر رنگوں میں کوئی ایسی لہر پیدا کر دیتا ہے جو قاری کو زیریں سطح پر موجود رنگِ  صد ر نگ تک رسائی پر مجبور کر تا نظر آتا ہے کہ اس کے بغیر اُس کی متنی ساخت بندی کے عمل پر گرفت کسی طور ممکن نہیں رہتی۔

۲۶؎     مہران، مجھے دو

آواز کا اک پنکھ

مہران، مجھے دو

 

ٹوٹے ہوئے رشتے

پُرکھوں کے نوشتے

مہران، مجھے دو

نوخیز کنارا

یہ ہاتھ تمھارا

گرم اور سنہرا

مہران، مجھے دو

اُمید اور پانی

(مہران مجھے دو)

 

۲۷؎    کوہ یارا، کوہ یارا

دیکھ پچھم کے کنارے

چیختے رنگوں کا دھارا

کوہ یارا، کوہ یارا

دور نیچے بستیوں سے

لہلہاتی پستیوں سے

دیکھتا ہے گھر تمھارا

کوہ یارا، کوہ یارا

 

رات آ جاتی ہے پل میں

کوئی کہتا ہے جبل میں

دور ہے اب بھی ستارہ

کوہ یارا، کوہ یارا

(وائی)

 

۲۸؎    کیا طنبور کہے

مٹی کا اندھیاؤ اندر

کیا طنبور کہے

مٹی،پانی کا سیارہ

گونج رہا ا کتارہ

کیا کیا نور کہے

مٹی کا اندھیاؤ اندر

کیا کیا نور کہے

دل اندر دریاؤ سائیں

آؤ سائیں

مٹی کی تہ داری اندر

کیاری اندر

زرد زبور کہے

مٹی کا اندھیاؤ اندر

کیا طنبور کہے!

(کافی)

بین المتونیت کو صرف درج بالا مباحث اور مثالوں تک محدود نہ سمجھنا چاہیے کیوں کہ اس کے معنی اس سے کہیں زیادہ وسعت رکھتے ہیں۔ مابعد جدیدیت میں اسے جو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے وہ صرف درج بالا حوالوں سے ثابت نہیں کی جا سکتی اور نہ صرف ان چند حوالوں کی موجودگی کسی شعری متن کی بین المتونیت کے لیے کافی ہو سکتے ہیں۔ یہ سامنے کی چند باتیں ہر متن میں موجود ہو سکتی ہیں اور غیر تخلیقی عمل کے ذریعے بھی اس نوع کی بعض صورتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ لہذا صرف اس تناظر میں بین المتونیت کو دیکھنا اور پیش کرنا اس اصطلاح کو محدود کر دینے کے مترادف ہو گا جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ بہ قول ابوالکلام قاسمی؛

۲۹؎    ’’بین المتونیت اتنی وسیع اور جامع اصطلاح ہے کہ اس کے دائرہ کار میں محض کتابی اور تحریری متن نہیں آتا بل کہ لسانی اظہار کے ساتھ سماجی یا ثقافتی مظاہر ،لفظوں کی گرفت میں آنے والے حقائق کے علاوہ معرضِ  اظہار میں نہ آنے والا اظہار ،ماضی کے مسلمات ، ثقافتی طور پر رائج تصورات ،نسلی حافظہ اور کہاوتوں یا تلمیحوں کے نام سے متداول قصوں اور کہانیوں جیسے اظہار و بیان کے سارے اسالیب ،اس طریق کار کے ذریعے متن کے طور استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ‘‘

درج بالا تناظر میں اساطیری و دیو مالائی عناصر کو شامل کر لیا جائے تو بات بڑی حد تک مکمل ہو جاتی ہے اور گرفتِ موجود کے ساتھ ماضی کی بازیافت کا مابعد جدید تصور بھی اپنی موجودگی اور اہمیت کا احساس دلانے لگتا ہے۔ اس تناظر میں ثروت حسین کی شاعری الگ مطالعے کی متقاضی ہے۔ یہاں صرف چند واضح اور غیر واضح اشارات کے حامل وہ اشعار نقل کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے ماضی کی بازیافت اور حال میں اس کے زندہ و موجود ہونے کا اثبات کیا گیا ہے۔

۳۰؎    فرات فاصلہ و دجلہ دُعا سے ادھر

کوئی پکارتا ہے دشتِ نینوا سے ادھر

۳۱؎     اسی کنارۂ حیرت سرا کو جاتا ہوں

میں اک سوار ہوں کوہِ ندا کو جاتا ہوں

۳۲؎  شہزادی تجھے کون بتائے تیرے چراغ کدے تک

کتنی   محرابیں    پڑتی    ہیں   کتنے   د ر   آتے   ہیں

۳۳؎    اُڑتے بالوں کی اوٹ کیے، ہاتھوں میں زرد چراغ لیے

اس ٹھنڈے فرش کے صحرا پر کوئی ننگے پیر چلا ہو گا

۳۴؎    چہرۂ بلقیس پر آنکھ ٹھہرتی نہیں

صبح یمن کا سماں خوب ہے اپنی جگہ

۳۵؎    پہاڑ کاٹتے ہیں ، جوئے شیر کھینچتے ہیں

زمیں خاک پہ ہم بھی لکیر کھینچتے ہیں

۳۶؎    رات باغیچے پہ تھی اور روشنی پتھر میں تھی

اک صحیفے کی تلاوت ذہنِ پیغمبر میں تھی

آدمی کی بند مٹھی میں ستارا تھا کوئی

ایک جادوئی کہانی صبح کے منتر میں تھی

ایک رخشِ سنگ تھا آتش کدے کے سامنے

ایک نیلی موم بتی دستِ آہن گر میں تھی

۳۷؎    جب چاند نمودار ہوا دور افق پر

ہم نے بھی پری زاد کو پتھر سے نکالا

اُس مردِ شفق فام نے اک اسم پڑھا اور

شہزادی کو دیوار کے اندر سے نکالا

۳۸؎    جتنے تراشیدہ پیکر تھے ابراہیم نے توڑ دیے

ثروت اس بُت خانۂ شب میں آنکھ لگی جو آذر کی

۳۹؎     یہ رسمِ انبیاء زندہ ہمی سادات رکھیں گے

جہاں پر آگ دیکھیں گے وہیں پر ہاتھ رکھیں گے

نہیں ہے کربلا سے واپسی کا راستہ کوئی

جہاں بھی جائیں گے شہزادیوں کو ساتھ رکھیں گے

۴۰؎                فلک سے گلستاں اترا زمیں پر

سلیماں نغمہ خواں اترا زمیں پر

کنیزیں کہہ رہی تھیں آؤ دیکھو

سفیرِ آسماں اترا زمیں پر

صحائف اور تحائف کے جلو میں

یمن کا میہماں اترا زمیں پر

مابعد جدید متن کے تقاضے صرف بین المتونیت ہی سے پورے نہیں ہوتے۔ بل کہ اس کے لیے ایک ایسی لسانی ساخت کی پیش کش ازبس لازم ہے جس میں الفاظ نشان (Sign) کے طور پر نہیں بل کہ علامت (Symbol) کے طور پر برتے گئے ہوں یعنی دال(Signifier)کسی خاص مدلول (Signified) کی جانب اشارہ کرنے کے بجائے درِ معنویت وا کرنے کا رجحان رکھتے ہوں اور کسی طے شدہ معنویت کی ترسیل کے بجائے یعنی حقیقت کو خارجی تصور کرتے ہوئے الفاظ کو محض ان کی نمائندگی کا فریضہ دینے کے بجائے اس حقیقت کو پیش کرنے کی جانب مائل ہوں جس کی خالق خود زبان ہوا کرتی ہے، ایسی زبان میں ابہام اور رمزیت کی مقدار جتنی زیادہ ہو گی تکثیریتِ معنی یعنی کثیر الجہت حقیقت کو تخلیق کرنے کے امکانات اُتنے زیادہ ہوں گے۔ یہ زبان دال (Signifier) کو مدلول (Signified) سے زیادہ اہم بنا کر پیش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ الفاظ کی بصری ، صوتی اور معنوی تکرار کے ذریعے بھی متن اپنے ما بعد جدید ہونے کا اثبات کرتا ہے۔ اس حوالے سے  ’’بیت‘‘ کے زیرِ عنواں ثروت کی نظم اس مطالعے میں پیش کی جا چکی ہے۔ تکراری حوالے سے یہاں صرف ایک نظم مزید پیش کرنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے جب کہ نمونے کے طور پر بعض ایسے اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔ جنھیں مابعد جدید متن کی لسانی تشکیل کی مثال اور تکثیریتِ  معنی کے اعتبار سے ثروت کے نمائندہ اشعار کہا جا سکتا ہے۔

۴۱؎     منھ زور گھوڑے

ہواؤں کے منھ زور گھوڑے

ہواؤں ،صداؤں کے منھ زور گھوڑے

ہواؤں ،صداؤں ،گھٹاؤں کے منھ زور گھوڑے

ہواؤں ،صداؤں ،گھٹاؤں ،دشاؤں کے منھ زور گھوڑے

ہواؤں ،صداؤں ،گھٹاؤں ،دشاؤں ،خلاؤں کے منھ زور گھوڑے

(منھ زور گھوڑے)

 

۴۲؎            یا ایک ستارے کا گزرنا کسی در سے

یا ایک پیالے کا کسی چاک پہ ہونا

۴۳؎    میں راکھ ہو گیا طاؤسِ رنگ کو چھو کر

عجیب رقص تھا دیوار پیش پا سے ادھر

۴۴؎    ردائے ریشمیں اوڑھے ہوئے گزرے گی مشعل

نشستِ سنگ پر ہر صبح گل دستہ ملے گا

۴۵؎    مٹی پہ نمودار ہیں پانی کے جزیرے

ان میں کوئی عورت سے زیادہ نہیں گہرا

۴۶؎    تہِ زمین کسی اژدھے نے جنبش کی

بساطِ خاک پہ منظر مرا بدلنے لگا

۴۷؎    میں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں

اک اژدھا چراغ کی لو کو نگل گیا

۴۸؎    یہی مٹی جو کنارے پہ نظر آتی ہے

اور ہو جاتی ہے پانی میں اُتر کے لوگو

ما بعد جدیدیت متن، معنویت کی تلاش کے لیے فرد کے داخل میں نہیں جھانکتی بل کہ خارجیت سے سروکار رکھتی ہے نیز یہ زندگی کے کسی قنوطی تصور کی قبولیت کے بجائے رجائی تصورِ حیات کی پیش کار نظر آتی ہے۔ یہ دونوں خصوصیات ما بعد جدید متن کو جدید متن سے ممتاز کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ تاہم ان دونوں رویوں کو متن سازی کے مجموعی عمل میں شریک تصور کرنا ہی درست عمل ہو گا کہ ان کے زیرِ اثر متن کی استعاراتی و علامتی تشکیل کی ترکیب ہی بدل جاتی ہے۔ مثبت انسانی اقدار کی تلاش اور تحفظ نیز ان کی بقا کے لیے ہر سطح کے استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا مابعد جدیدیت کی شعریات میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدیدیت نے سیام فاموں، دلتوں اور عورتوں کے ادب کو نیز علاقائی زبانوں اور بولیوں میں لکھے جانے والے ادب کو جو اہمیت دی ہے اس کی مثال اس سے قبل نظر نہیں آتی۔ لوک ادب کی معنویت اور قدر و قیمت کا احساس بھی شاید اس سے پہلے کبھی اس طرح نہیں دلایا گیا۔ حاشیے پر زندگی گزارنے والی اقوام مابعد جدیدیت میں خاص مقام رکھتی ہیں۔ یہ ان اقوام کی ثقافت کو بھی اتنا ہی اہم گردانتی ہے جتنا کہ مرکزیت کی دعوے دار اقوام کی ثقافت، کیوں کہ حاشیے پر ان کی موجودگی ان کی تخلیقی استعداد یا اہمیت و معنویت کی کمی کی علامت نہیں بل کہ استحصال کی علامت ہے۔ اس لیے ما بعد جدیدیت جس نئی شعریات کو پیش کرتی ہے اس میں اپنی جڑوں ،اپنی زمین اور اپنی ثقافت سے جڑت انتہائی اہمیت اختیار کر جاتی ہے اور یقیناً یہ جڑت داخل کی دنیا سے باہر نکلے بغیر اور زندگی کی مثبتیت میں اعتقاد رکھے بنا کسی طرح ممکن نہیں۔ وہاب اشرفی نے درست لکھا ہے؛

۴۹؎     ’’نئی شعریات ایک بار ہمیں اپنی جڑوں سے وابستہ کرنے، اپنی تہذیب و ثقافت کا امین اور محافظ بننے، اپنی علاقائی بولی ٹھولی اور دوسری وراثتوں کا تحفظ کرنے، رنگ و نسل کی بنیاد پر مصنوعی درجات کو ختم کرنے، اپنی ذات میں گم ہو کر ذہنی پژمردگی اور قنوطیت کے خلاف صف آراء ہو کر مثبت اندازِ زندگی اختیار کرنے، اجتماعی راہ و رسم بڑھانے، منجمد سچائیوں سے ٹکرانے اور ان کے متنوع اور بدلتے ہوئے پہلوؤں پر نگاہ رکھنے کی تلقین کرتی ہے۔ یہ سارے امور ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں اور ہم تکنیکی مباحث میں الجھ کر جدید ترین شعریات کے کھلے ہوئے مثبت پہلوؤں سے بے خبر رہتے ہیں۔ میرا اپنا خیال ہے کہ ما بعد جدیدیت کی کوئی شعریات ہے تو اس کی تعبیر زندگی اور اس کے اثبات سے ہوتی ہے اور اس فکر کا کوئی رد ممکن نہیں۔ ‘‘

یہاں یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ متن سازی میں ان تکنیکی امور کے ساتھ جب تک متن زندگی کے درج بالا مثبت پہلوؤں کا پیش کار نہ ہو وہ مابعد جدید کہلانے کا حق دار نہ ہو گا۔ امن، آزادی، ایثار، مساوات، محبت اور رجائیت جیسی مثبت قدروں کی جستجو اور آرزو ہی مابعد جدید شاعری کی بنیاد ہوسکتی ہے۔ ثروت حسین کی شاعری اس حوالے سے جس ثروت مندی کا احساس دلاتی ہے اس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ گڈریے، کسان اور نانبائی جیسے سماجی کردار ہوں یا حاشیے پر موجود زندگی کی دیگر حقیقتیں، اس نے کسی کو نظر انداز نہیں کیا۔ اسے اپنے ارد گرد موجود زندگی سے بے حد اور بے لوث محبت ہے۔ تنگ نظری اور تنگ دلی کا بالواسطہ اظہار بھی اس کی شاعری میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کی شاعری کا مطالعہ بل کہ شاید سرسری مطالعہ بھی یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ وہ زندگی کا کوئی قنوطی تصور نہیں رکھتا اور نہ زندگی کو اپنی داخلی کیفیات و احساسات تک محدود سمجھتا ہے۔ اس نے زندگی کو جتنے کھلے دل اور کشادہ نظری سے قبول کیا ہے اس کی مثال اردو شاعری میں بہت کم ملتی ہے۔ زندگی کی رونق اور خوب صورتی پر یقین کے ساتھ وہ اسے صرف اپنی ذات یا بعض مقتدر افراد و اقوام تک محدود نہیں دیکھنا چاہتا بل کہ اسے ہر انسان اور قوم کے لیے قابلِ دست رس بنانا اس کی خواہش اور عزم نظر آتا ہے۔

۵۰؎    غنچہ و گل کا شمار، سب کے لیے کیوں نہیں

دامنِ ابرِ بہار سب کے لیے کیوں نہیں

چشمہ ء آبِ صفا تیرے تصرف میں کیوں

اے مرے ناقہ سوار ،سب کے لیے کیوں نہیں

باغ کی بنیاد میں سب کا لہو ہے تو پھر

ذائقہ برگ و بار،سب کے لیے کیوں نہیں

چند گھرانوں تلک تیرے کرم کی جھلک

جنبشِ ابروئے یار، سب کے لیے کیوں نہیں

تیری عنایت کے در مجھ پہ کھلے ہیں مگر

اے مرے پروردگار،سب کے لیے کیوں نہیں

اس سے بہتر مثبت تصورِ  حیات کی مثال کیا پیش کی جا سکتی ہے۔ یہ تصورِ حیات اس غزل تک محدود نہیں بل کہ ثروت کا شعری مزاج یہی ہے جس کے بارے میں محمد سلیم الرحمن لکھتے ہیں۔

۵۱؎     ’’اتنی پر امید، پر حوصلہ اور زندگی کو من مانی شرطیں عائد کیے بغیر، دل سے قبول کرنے والی شاعری روز روز پڑھنے کو کہاں ملتی ہے اس پُر آشوب عہد میں، جہاں بعض دفعہ دن دہاڑے بھی شب کی سیاہی کا سماں ہوتا ہے، یہ درد مند آواز جس میں انسانوں کو زندہ و سیراب رکھنے والے ہر مظہر کو چاہنے اور سینت رکھنے کی اتنی سکت ہے ؛کسی چراغاں سے کم نہیں۔ ثروت نے اس دنیا کو اپنی میراث بل کہ امانت جانا ہے۔ اپنا سیارہ تبدیل کرنے کی اسے کوئی تمنا نہیں۔ رنج ہو یا راحت، امیری ہو یا فقیری، اس کا آب و دانہ یہیں ہے۔ ‘‘

زمین سے یہی محبت اور زندگی سے یہی پیار، ما بعد جدید تصورِ حیات کی شناخت ہے اور یہ شناخت جتنی توانا اور صحت مند ہونے کا احساس ثروت حسین کی شاعری میں دلاتی ہے اُس کی کوئی دوسری نظیراس کے ہم عصروں میں پیش کرنا بہت مشکل ہے۔ قمر جمیل کا یہ اظہار کتنی سچائی کا حامل ہے۔

۵۲؎    ’’ملیر میں پیدا ہونے والا یہ شاعر اپنی روح میں اسپین، تیونس اور بیت المقدس کی محبت رکھتا ہے اور اس کے باوجود قدیم سنسکرت شاعر امارو سے اس کا پیار اٹوٹ ہے اور جنگل کی زندگی اس کے لیے بن باس نہیں بل کہ شہر اس کے لیے بن باس ہے۔ اس کا بنیادی احساس خوب صورتی اور بنیادی جذبہ خدمت ہے۔ اس کی شاعری کائنات کے نام ایک محبت بھرا خط ہے۔ ‘‘

ثروت حسین کی بیش تر تخلیقات، مابعد جدید تصورات کا اثبات کرتی نظر آتی ہیں مگر اس مطالعے کا اختتام ،  مَیں اس کے ایک ایسے شعر پر کر رہا ہوں جو اس کی زندگی کی وہ تلخ حقیقت ہے جس کا احساس اُس کی شہد آ گیں شاعری کے ذائقے کو کسیلا کر دیتا ہے۔ یہ شعر اس مطالعے میں پیش کیے گئے تھیسس کا اینٹی تھیسس مہیا کرتے ہوئے اس کی شاعری کے حوالے سے اس مطالعاتی تشکیل کی ردّ تشکیل کا زاویہ بھی مہیا کرتا ہے جس سے گھبرانا اس لیے بھی نہیں چاہیے کہ ردّ تشکیل خود ما بعد جدیدڈسکورس کی ایک نہایت اہم اور قابلِ قدر شق ہے۔

۵۳؎    موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروؔت

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں

 

                   حواشی

 

۱۔ ناصر عباس نیر: ’’جدید اور مابعد جدید تنقید‘‘ ، کراچی، انجمن ترقی اردو، ۲۰۰۴ء، ص۷۷

۲۔ وہاب اشرفی: ’’مابعد جدیدیت، مضمرات و ممکنات‘‘ ، اسلام آباد، پورب اکادمی، ۲۰۰۷ء، ص۲۴۵

۳۔ ایضاً، ص۲۴۶

۴۔ مابعد جدیدیت  ’’مرکز‘‘ میں اعتقاد نہیں رکھتی تاہم ثقافت کو اس کے تصورات میں جو اہمیت حاصل    ہے اس کے پیش نظر اسے مابعد جدید تصورات کا مرکز ہی کہنا مناسب ہو گا۔

۵۔ ثروت حسین: ’’آدھے سیارے پر‘‘ ، لاہور، اردو آرٹ پریس، ۱۹۸۷ء، ص۱۴، ۱۵

۶۔ ایضاً، ص ۸۳

۷۔ ایضاً، ص ۸۵

۸۔  ایضاً، ص۹۵

۹۔  ایضاً، ص۱۰۳

۱۰۔ ایضاً، ص۱۱۸

۱۱۔ ایضاً، ص۱۲۳

۱۲۔   ایضاً، ص۱۲۴

۱۳۔ ایضاً، ص۱۲۵

۱۴۔ ایضاً، ص۱۳۰

۱۵۔ ایضاً، ص۱۳۳

۱۶۔ ایضاً، ص۱۳۹

۱۷۔ ایضاً  :  ’’خاک دان‘‘ ، اسلام آباد، دوست پبلی کیشنز، ۱۹۹۸ع، ص۳۲

۸ا۔ ایضاً  : ’’آدھے سیارے پر‘‘ ، ص۳۶

۱۹۔ ایضاً، ص ۷۶

۲۰۔ ایضاً، ص۱۶، ۱۷

۲۱۔ ایضاً، ص۱۶

۲۲۔ ایضاً، ص۱۴۴

۲۳۔ ایضاً   : ’’خاک دان‘‘ ، ص۱۸

۲۴۔ ایضاً   :  ’’آدھے سیارے پر‘‘ ، ص۱۴۰، ۱۴۱

۲۵۔ وہاب اشرفی:ص۱۸۲

۲۶۔ ایضاً  : ’’آدھے سیارے پر‘‘ ، ص۶۲

۲۷۔ ایضاً، ص۶۳

۲۸۔ ایضاً، ص۶۴

۲۹۔ ابو الکلام قاسمی: ’’مابعد جدید تنقید:اصول اور طریق کار کی جستجو‘‘ ، مشمولہ، اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ،

مرتبہ، گوپی چند نارنگ، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ع، ص۳۴۶

۳۰۔ ایضاً  : ’’آدھے سیارے پر‘‘ ، ص۸۵

۳۱۔ ایضاً، ص۸۶

۳۲۔ ایضاً، ص۹۱

۳۳۔ ایضاً، ص۱۰۰

۳۴۔ ایضاً، ص۱۲۲

۳۵۔ ایضاً، ص۱۳۱

۳۶۔ ایضاً، ص ۱۴۲

۳۷۔ ایضاً   :  ’’ خاک دان‘‘ ، ص۱۳

۳۸۔ ایضاً، ص۶۱

۳۹۔ ایضاً، ص۷۰

۴۰۔ ایضاً، ص۳۱

۴۱۔  ایضاً، ص۱۰۴

۴۲۔ ایضاً  : ’’آدھے سیارے پر‘‘ ، ص۸۳

۴۳۔ ایضاً، ص۸۵

۴۴۔ ایضاً، ص۸۹

۴۵۔ ایضاً، ص۱۲۸

۴۶۔ ایضاً، ص۱۳۴

۴۷۔ ایضاً   : ’’ خاک دان ‘‘ ، ص۲۲

۴۸۔ ایضاً، ص ۵۲

۴۔ وہاب اشرفی:ص۱۵۶، ۱۵۷

۵۰۔ ثروت حسین :  ’’خاک دان‘‘ ، ص۵۴،

۵۱۔ ایضاً   :  ’’ آدھے سیارے پر‘‘ ، (فلیپ)

۵۲۔ ایضاً، ص۱۴۷

۵۳۔ ایضاً   : ’’خاک دان ‘‘ ،    ص۶۵

٭٭٭

 

 

 

تبصرے اور تجزیے

 

 

جوش کے تخلیقی تجربے کی ساخت

اک زمانے سے جدا جذبات کی ترتیب ہے

غیر معمولی عناصر سے مری ترکیب ہے

یہ ہوش مندانہ جوش بھری آواز جوش ملیح آبادی کی ہے۔ بیسویں صدی کی توانا ترین آوازوں میں شامل یہ آواز اپنے رنگ و آہنگ میں جداگانہ حیثیت کی حامل ہونے کا شرف رکھتی ہے۔ اس آواز کو آوازوں کے جھرمٹ میں باآسانی شناخت کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اپنی نغمگی، زیر  وبم، روانی، جھنکار اور بلند آہنگی میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ یہ آواز اپنی تمام تر قوت، جدت اور انفرادیت کے باوجود سب سماعتوں میں یک ساں مقبول نہ ہو سکی۔ جہاں اس آواز نے اپنی گونج سے ہندوستان کے طول و عرض کو اپنا اسیر و مداح بنایا۔ وہیں اسے ہدف تنقید بھی بنایا گیا۔ جوش نے شاعری کے بیانیہ انداز کو اپنا یا اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی تفہیم و تعبیر میں دقت اور دشواری کے باعث ناقدین کی آرا متضاد صورتوں کی حامل ہو گئیں۔ کیوں کہ وہ راست اسلوب کے شاعر تھے اس لیے ان کا شمار شاعروں کی اس فہرست میں نہیں کیا جا نا چاہیے جن کے بارے میں اختلاف رائے کا سبب ان کا اپنا مبہم اسلو ب ٹھہرتا ہے۔

جوش کے بارے میں یہ متضاد آرا شاعری کو اپنے اجزائے ترکیبی کی غیر منقسم تحلیل نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ ناقدین نے ان کی شاعری کو ٹکڑوں میں بانٹ کر دیکھا۔ اس تقسیم نے جوش کی شاعری کے اجزائے ترکیبی میں موجود توازن کو عدم توازن ثابت کر دیا۔ کیوں کہ ان اجزائے ترکیبی کو الگ الگ بانٹ کر ان میں توازن کو جس روایتی فارمولے کے تحت جانچا اور پرکھا جا تا تھا ان کی شاعری میں توازن اس فارمولے کے تحت قائم نہیں کیا گیا تھا۔ جوش ہر حوالے سے ایک خود آگاہ شخصیت کے مالک تھے۔ یوں بھی اسلوب سازی میں شعوری کا وش کی شمولیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ جوش اپنی وجدانی رو میں لکھتے چلے گئے اور انھیں اپنی شاعری کے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع میسر نہ آیا درست نہ ہو گا۔ اگر ان کی شاعری کے ارتقائی مراحل کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہ سکے گی کہ انھوں نے جس طرز پر شاعری کی ابتدا کی تھی آخر تک اس پر قائم رہے جب کہ ان پر ہونے والے اعتراضات ان کی زندگی میں شائع ہو کر ان کے سامنے آ چکے تھے اگر وہ ان اعتراضات کو اپنی شاعری کے حوالے سے درست سمجھتے تو شعوری سطح پر نہ سہی لاشعوری طور پر ان کا اثر شاعری میں نظر آ جاتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ انھوں نے جو، جیسا اور جس انداز میں لکھا وہ اپنے تخلیقی عمل پرکسی جبر کا نتیجہ نہ تھا بل کہ انھوں نے اپنے تخلیقی تجربے سے مکمل آگاہی کی تمام بنیادی منازل طے کر رکھی تھیں جس نے انھیں پر اعتماد بنا دیا تھا۔

جوش کی شاعری درحقیقت اپنی صوت، صورت اور سیرت کے عناصر میں غیر معمولی ترکیبی  عمل سے متشکل ہوئی تھی۔ ان عناصر کی نسبت ترکیبی معمول کے کسی روایتی فارمولے کی تقلید نہ تھی بل کہ ان کی اپنی اختراع تھی۔ ان کا حقیقی قد و قامت اس وقت تک متعین نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ان کی اس اختراع کا کماحقہ تجزیہ نہ کیا جائے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے اجزائے ترکیبی میں صوتی جزو کو جس غیر روایتی انداز میں برتا ہے اس کی کوئی مثال اردو کے ناقدین کے سامنے موجو د نہ تھی۔ نظیر و انیس سے قربت نیز سودا سے مشابہت کو کسی گہرے صوتیاتی تجزیے کا نتیجہ نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ اول الذکر سے قربت ذخیرہ الفاظ، ثانی الذکر سے لفظوں کے استعمال جب کہ آخر الذکر سے یہ ہم آہنگی لہجے کی نشاطیہ لے سے آگے نہیں بڑھتی۔ جوش ان شاعروں سے متاثر ضرور ہوئے  مگر یہ عناصر کسی کی تقلید سے پیدا نہیں ہوئے۔ ان کا تخلیقی تجربہ مستعار نہ تھا مگر ان کی انفرادیت کا واویلا کرنے والوں نے بھی ان کی انفرادیت کو داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔                               جوش کے بارے میں ایک عام مغالطہ یہ ہے کہ ان کے کلام کا صوتی جز و، سیرتی جزو سے توازن نہیں رکھتا۔ یعنی فکر کے حساب سے الفاظ غیر ضروری طور پر زیادہ ہیں۔ میرے خیال سے اول تو ان اجزا کو تقسیم کرنا تخلیقی تجربہ کی حقیقت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ دوسرا ان الفاظ کا تصور تک محال ہے جو توسیع معنی کا فریضہ سر انجام نہ دیتے ہوں۔ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ وہ مترادفات کے انبار لگاتے جاتے ہیں تب بھی یہ مترادفات صوتی آہنگ میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوں گے اور صوتی آہنگ کو مرتب کرنے والا ہر لفظ کلام کے سیرتی جزو پر اثر انداز ہو گا۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ شاعری کے مطالعے میں ہمارا مرکز نظر کلام کا سیرتی جزو رہتا ہے۔ دوسرے اجزا صرف اس جز و کی ترسیل کے فرائض سر انجام دیتے ہیں جب کہ فی الحقیقت شاعری صرف سیرتی جزو کا نام نہیں اور نہ ہی سیرتی جز و دوسرے اجزاء کے مقابلے میں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ جو ش کا قصور یہی ہے کہ انھوں نے شاعری کے صوتی اور صورتی اجزا سے بھی ویسا ہی کام لیا ہے جیسا کہ سیرتی جزو سے لیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم سیرتی جزو کی طرح ان کے صوتی جزو کا بھی مطالعہ و تجزیہ کرتے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے کہ ان کے تخلیقی تجربے میں صوتی جزو نے دوسرے اجزا پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں اور مجموعی طور پر شاعری میں کیا اضافے کیے ہیں لیکن ہو ا یہ کہ ان کا اختصاص ان کا عیب بن گیا۔ جنھوں نے جوش کے اس رخ کو پسند بھی کیا وہ بھی کھوکھلی توصیفات سے باہر نہ نکل سکے۔

ہم جوش کی غزل دشمنی کا واویلا تو بہت کرتے ہیں لیکن یہ سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ لفظوں کے اصراف کی جانب مائل جوش نے اپنی فکری سطحیت اور محدودیت کے اظہار کے لیے غزل کو کیوں منتخب نہ کیا۔ حالاں کہ غزل کو صنف واحد کے طور پر منتخب کرنے سے شاید ان کے کلام میں وہ توازن بھی پیدا ہو جاتا جس کوان کے مخالفین تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے غزلیں کہیں اور یہ غزلیں تعداد میں اتنی کم بھی نہیں کہ ان کے مقام و مرتبہ کے تعین میں مددگار ثابت نہ ہو سکیں لیکن ہم ان کے مقام کے تعین میں غزلیات کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ کیوں ؟ خیر غزل کو چھوڑ بھی دیا جائے تب بھی ان کی رباعیات میں یقیناً ان کی شاعری کے صوتی اور سیرتی اجزا کے عدم توازن کو تلاش کرنا مشکل ہو گا لیکن رباعیات بھی ان کے حقیقی مقام متعین کرنے میں قابل تشفی ثابت نہیں ہوتیں۔ جدید مرثیے میں تو شاید ان کا کوئی ثانی بھی نہیں لیکن کیا ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کا تخلیقی وفور اپنے تمام جلال و جمال کے ساتھ مرثیے میں تحلیل ہو گیا ہے ؟ شاید نہیں، بل کہ یقیناً نہیں کیوں کہ بہ ہر طور ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ نظم کے شاعر تھے۔ نظم کے علاوہ دیگر اصناف اور ہیئتوں کے استعمال نے ان کی تخلیقی شخصیت کو وسعت ضرور دی ہے مگر ان کی تخلیقی شخصیت کی شناخت کہلانے کی حق دار نظم کے علاوہ کوئی دوسری صنف نہیں ہو سکتی کیوں کہ وہ تخلیقی تجربہ جو ان کی شناخت بنا ہے اپنی تمام تر وسعتوں سمیت کسی اور صنف میں تحلیل نہ ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر اصناف ان کے مقام کے تعین میں صنف واحد کے طور پر وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جو نظم نے ادا کیا ہے۔ اگر ان کا تخلیقی تجربہ اپنے اجزا کی ناقابل تقسیم اکائی نہ ہو تا یا کسی ایک جز و کو دوسرے اجزا پر فوقیت ہوتی مثلاً اگر وہ صرف افکار  و تصورات کے شاعر ہوتے اور زبان و صنف کو محض اس سیرتی جزو کی ترسیل کے لیے استعمال کرتے تو ہر صنف ان کی نمائندہ ہوتی اور وہ محدود لفظیات سے بھی اپنا کام چلا لیتے جیسا کہ اکثر شاعر چلا لیتے ہیں مگر ان کا معاملہ اور تھا وہ خود فرماتے ہیں۔

مجھ سا، کوئی مے کدے میں ہے بھی ساقی

جس میں ہو گرج بھی اور لے بھی ساقی

میرے لہجے کے طرفہ زیر و بم سے

چھنتا ہے لہو بھی، رنگ مے بھی ساقی

یا پھر……

اشعار کو زرتار قبا دیتا ہوں

افکار کو آہنگ بنا دیتا ہوں

الفاظ کو بخشتا ہوں روئے اصنام

آواز کو، آنکھوں سے دکھا دیتا ہوں

یہاں میں ایک مصرع کو دوہرانا چاہوں گا ؛

افکار کو آہنگ بنا دیتا ہوں

’’ جوش ڈکشنری کے شاعر ہیں ڈکشن کے نہیں ‘‘  افسوس کہ مجاز اور ان کے علاوہ اسی بات کو رنگ رنگ سے ادا کرنے والے دیگر ناقدین نے اس امر پر غور ہی نہیں کیا کہ شاعر تو لفظوں سے راگ بھی بناتے ہیں اور رنگ بھی۔ جوش کا کوئی بھی تجزیہ اس رنگ اور آہنگ کے تجزیے کے بغیر نامکمل ہے۔ ہر بڑا شاعر اپنے تنقیدی اصول خود فراہم کرتا ہے۔ ان کے کلام میں اس حوالے سے بکھرے ہوئے اشارات کو سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کا مطالعہ لسانیاتی اور اسلوبیاتی حوالوں سے کیا جانا چاہیے لیکن اردو ناقدین کے لسانیاتی اور اسلوبیاتی تجزیے کی سطح آغاز سے کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی اور جوش کا المیہ یہ ہے کہ ان کی شاعری کی حقیقی تفہیم لسانیاتی اور اسلوبیاتی تجزیات کے بغیر مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

گل زار کی غیر معمولی متخیلہ

 

معیاری ادب بالخصوص معیاری شاعری غیر معمولی متخیلہ کی متقاضی ہوتی ہے۔ متخیلہ وہ قوت ہے جو فکر کو احساس میں بدل کر زبان کے ذریعے اس کا اظہار ممکن بناتی ہے۔ معیاری شاعری کی شناخت قوت متخیلہ تک رسائی کے بغیر امکان نہیں رکھتی۔ قاری کا کام عمل قرأت کو بہ روئے کار لا کر متخیلہ کی کارکردگی کی تفہیم کے سوا اور کچھ نہیں۔ تاہم قوت متخیلہ تک رسائی کا عمل آسان نہیں۔ فکر سے احساس اور احساس سے اظہار تک کی منازل قاری کو الٹے پاؤں طے کرنی پڑتی ہیں۔ اسے تخلیق کی باز آفرینی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی تخلیق، فکر سے اظہار تک جب کہ تنقید اظہار سے فکر تک کے مراحل طے کرنے کا نام ہے۔ جس طرح لکھا ری کو فکر سے اظہار تک رسائی کے لیے قوت متخیلہ کی مدد درکار ہوتی ہے۔ اسی طرح قاری کے لیے بھی اظہار سے فکر تک رسائی قوت متخیلہ کے بغیر نا ممکن ہے۔ تخلیق، لکھاری اور قاری دونوں کی متخیلہ سے گزرے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ تکمیل کا یہ تصور لکھاری، قاری اور تخلیق کو ایک ناقابل تقسیم وحدت میں ڈھالنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کوئی ایک قاری اپنے یک رنگ انداز قرأت کی بنا پر تخلیق کو مکمل کر سکتا ہے۔ تخلیق یک رخی اور جامد نہیں ہوتی۔ اپنی تکمیل کے لیے مختلف انداز ہائے قرأت اور قارئین کی کثیر تعداد کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کے باوجود ضروری نہیں کہ تخلیق کی تکمیل ہو جائے کیوں کہ تخلیق کا معاملہ کائنات جیسا ہے جو بہ ذات خود ایک شان دار تخلیق ہے اور بقول اقبال؛

یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید

کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

آفاقی تخلیق کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ اس سے نئے معانی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم  ’’اوڈیسی‘‘  ’’شکنتلا‘‘  اور دیگر قدیم اور آفاقی تخلیقات میں سے کسی کی تکمیل کا دعوی نہیں کرسکتے البتہ تخلیق کی تفہیم کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ تخلیق کے مکمل نہ ہونے کا سبب اس کی بالواسطہ زبان ہے۔ کیوں کہ اگر زبان بلا واسطہ ہو گی تو قاری اور وقت کے بدل جانے سے اس کے معنی پر کوئی فرق نہ پڑے گا۔ تخلیق کی تفہیم کا تعلق زبان کی بالواسطگی سے ہے جو فکر و احساس کے ابلاغ کا ذریعہ ہے غیر معمولی متخیلہ اپنا اظہار زبان کے ذریعے کرتی ہے۔

قاری اپنے اعلی لسانی شعور کی بنیاد پر شاعر کی متخیلہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر قاری سے یہ تقاضا کر ے کیوں کہ اکثر شاعر بنی بنائی زبان کے استعمال پر انحصار کرتے ہیں۔ بنی بنائی زبان متعین معنی کی حامل ہوتی ہے۔ اس لیے جذباتی سطح پر متاثر کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔ زبان جو لفظ، معنی اور تناظر کے رشتے سے بنتی ہے۔ تناظر بدلنے سے الفاظ اور معانی خود بہ خود بدل جاتے ہیں۔ ہر عہد اپنے اظہار کے لیے زبان کو بدلتا ہے۔ معیاری شاعر اپنے عہد کا مکمل ادر اک رکھتا ہے۔ اس کے تقاضوں کو سمجھتا ہے اور انھی تقاضوں کے مطابق زبان کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں تک کی بحث کو نکات کی صورت میں کچھ یوں سمیٹا جا سکتا ہے کہ

۱۔ معیاری شاعری غیر معمولی متخیلہ کی حامل ہوتی ہے۔

۲۔ معیاری تخلیق کو یک رنگ انداز قرأت سے سمجھا نہیں جا سکتا۔

۳۔ معیاری تخلیق سے وقت کے ساتھ نئے معانی جنم لیتے ہیں۔

۴۔ نئے معنی کی جنم دہی زبان کی بالواسطگی پر منحصر ہے۔

۵۔ معیاری تخلیق کی تکمیل نہیں ہوتی۔

۶۔ غیر معمولی متخیلہ اپنا اظہار زبان کے غیر معمولی استعمال کے ذریعے کرتی ہے۔

۷۔ زبان کی تبدیلی کا تعلق عہد سے ہے۔

۸۔ ہر عہد کی شاعری اپنے اظہار کے لیے زبان کے نظام کو بدلتی ہے۔

۹۔ معیاری شاعر عہد اور اس کے تقاضوں کو سمجھتا ہے۔

۱۰ٍ۔ معیاری شاعر زبان کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

گل زار غیر معمولی متخیلہ کا شاعر ہے اور جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ غیر معمولی متخیلہ کا اظہار زبان کے غیر معمولی استعمال سے ہوتا ہے جب ہم اردو شاعری کا تسلسل سے مطالعہ کرتے ہوئے گل زار تک آتے ہیں تو ہمارا سامنا ایک بدلی ہوئی لسانی فضا سے ہوتا ہے۔ اس بدلی ہوئی لسانی فضا کو ہمارے ہاں عموماً روایت سے بغاوت کا نام دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ محض زبان کی تبدیلی روایت شکنی نہیں ہوسکتی کہ ہر معیاری شاعر اپنی فکری ضرورت کے پیش نظر زبان کو بدلتا ہے۔ ماسوائے ان شعراء کے جنھیں اپنی فکری احتیاج کا احساس تک نہیں ہوتا۔ فکری سطح پر روایت کے تسلسل کو توڑنا ناممکن ہے۔ کیوں کہ زندہ روایت حال کے وجود میں تحلیل ہوتی ہے۔ البتہ جس طرح ماضی حال کو صورت دیتا ہے اسی طرح حال بھی ماضی کو بدلتا ہے۔  شاعر حال میں جیتا ہے لیکن اس کے حال میں ماضی اور مستقبل دونوں موجود ہوتے ہیں۔ حال میں ماضی اور مستقبل کی موجودگی کا احساس عہد کا ادراک کہلاتا ہے جو شاعر اپنے عہد کا ادراک رکھتا ہے۔ اور اپنا اظہار چاہتا ہے وہ کبھی بنی بنائی زبان پر اکتفا نہیں کرتا۔ گل زار کو بھی اپنے عہد کا ادراک ہے اس لیے اس نے بنی بنائی زبان پر اکتفا نہیں کیا بل کہ اپنے عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے وہ زبان تخلیق کی ہے جس میں تازگی بھی ہے اور اثر انگیزی بھی۔

گل زار کی بدلی ہوئی لسانی فضا معمول زدہ قاری کو چونکاتی ہے پہلی قرأت پر یہ زبان نامانوس محسوس ہوتی ہے مگر احساس کی لے سے ہم آہنگی جلد قاری پر اس کے اسرار کھولنے لگتی ہے۔ دوسری اور تیسری قرأت پر یہ زبان قاری کے احساس کا حصہ بن جاتی ہے اب رفتہ رفتہ وہ گل زار کے تخلیقی عمل کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ اس کی متخیلہ کے غیر معمولی پن کوسمجھنے لگتا ہے۔ متخیلہ تک رسائی کے بعد گل زار کے فکر اور کرب سے مکالمے کی منزل آتی ہے۔ بار بار کی قرأت کا یہ عمل قاری کو مسرت کی متنوع اشکال سے گزارتے ہوئے وہاں تک لے جاتا ہے جہاں لکھاری، قاری اور تخلیق ایک ہو جاتے ہیں۔ یہی منزل فن کی معراج ہے انسان، کائنات اور خدا کی تثلیث شایداسی منزل تک رسائی کی تمنائی ہے۔

عقل اور عشق کی ہم راہی میں تہذیبی سفر کی منازل طے کرتے ہوئے انسان نے اچانک اپنی رفتار کو اتنا تیز کر دیا کہ عشق عہد پارینہ کی داستان بن گیا۔ یہیں کہیں اس نے زندگی نے معنی کھو دیے، لکھاری کے المیے نے اسی دن جنم لیا۔ یہی المیہ روپ بدل بدل کر ہمارے سامنے آتا رہا، شدید تر ہوتا رہا۔ مگر ہمیں بے حسی کے محبس سے نکلنے کی فرصت نہ ملی۔ ۔ اپنی حساسیت اور انسان کی بے حسی لکھاریوں کے لیے جہنم بن گئی۔ وہ اسی جہنم میں جلتے رہے اور ادب و شعر کی صورت اپنی چیخیں رقم کرتے رہے۔ گل زار بھی انھی جہنمیوں میں سے ایک ہے، وہ بھی آگہی اور احساس کی آگ میں جل رہا ہے، چیخ رہا ہے۔

جی میں آتا ہے کہ اس کان سے سوراخ کروں

کھینچ کر دوسری جانب سے نکالوں اس کو

ساری کی ساری نچوڑوں یہ رگیں، صاف کروں

بھر دوں ریشم کی جلائی ہوئی بکی ان میں

اور اس ہنستی ہوئی بھیڑ میں شامل ہو کر

میں بھی اک بار ہنسوں، خوب ہنسوں، خوب ہنسوں

(گھٹن)

اس نظم میں موجود  ’’ہنستی ہوئی بھیڑ‘‘  زندگی سے مطمئن اور آسودہ انسانوں کا اجتماع نہیں، بل کہ بے حس انسانوں کا وہ ہجوم ہے جن میں شامل ہو کر شاعر اس کے ساتھ نہیں بل کہ ان کے انتشار اور بے حسی پر ہنسنا چاہتا ہے۔ اس شدید طنز کے ساتھ نظم میں شاعر کا کرب صاف جھلکتا ہے۔ گل زار کے کرب کی تلخی کا شعری جمالیات کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اظہار پا جانا اس کی تخلیقی قوت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس نے زندگی کا جو منظر نامہ پیش کیا ہے اس میں نا خوش گواریت کا پہلو کم ہے تاہم زندگی کی نا خوش گواریت کی پیش کش میں اس نے شعری جمالیات کی قربانی نہیں دی بل کہ اس نے اظہار کے لیے زیادہ خوب صورت لفظوں کی تلاش جاری رکھی ہے۔

لفظ کاغذ پہ بیٹھے ہی نہیں

اڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح

(نامکمل نظم)

زندگی کی ناخوش گواریت کو تتلیوں جیسے خوب صورت الفاظ میں پیش کرنے کی خواہش اور کوشش گل زار ہمیشہ کرتا رہا مگر زندگی کی سفاکی اور بے رحمی اسے ایسے مقامات تک بھی لائی جہاں اس کے لیے اپنے کرب کو جھیلنا ممکن نہ رہا اور زیست کرنے کے راستے مسدود ہو گئے۔

یہ شاعر جو جنم سے ساتھ ہے میرے

کبھی کہتا تھا مجھ کو ’’درد سے پہچان ملتی ہے‘‘

یہ شاعر آج اپنے درد سے گھبرا گیا ایسا

مجھے کہتا ہے  ’’آ، اب خود کشی کر لیں ‘‘

(مشورہ)

مگر جمال پرست گل زار کے لیے زندگی کی تلخی سے فرار ہو کر خود کشی کرنے کا یہ مشورہ قابل قبول نہیں کیوں کہ وہ تو حسن کی تلاش و جستجو کو اصل حیات سمجھتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس زندگی کی کوئی سلوٹ موت کے پاک صاف چہرے کے ساتھ جائے۔ اسے تو حسن تک رسائی کی کو شش میں مرنے کی آرزو ہے۔

ہاں وہی، وہ عجیب سا شاعر

رات کو اٹھ کے کہنیوں کے بل

چاند کی ٹھوڑی چوما کرتا تھا

چاند سے گر کے مرگیا ہے وہ

لوگ کہتے ہیں خود کشی کی ہے

(وہ جو شاعر تھا)

گل زار کو تخلیقی عمل کے کرب سے محبت ہے۔ اتنی محبت کہ زندگی اور موت کا کوئی تصور اسے اپنے تخلیقی عمل سے دور نہیں کر سکتا۔ وہ تخلیقی عمل میں منہمک رہ کر زندگی اور موت کا سامنا کرنا چاہتا ہے۔

اپنی ہی سانسوں کا قیدی

ریشم کا یہ شاعر اک دن

اپنے ہی تاگوں میں گھٹ کر مر جائے گا

(ریشم کا یہ شاعر )

یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ گل زار بار بار موت کی طرف کیوں بڑھتا ہے؟زندگی پر موت کو ترجیح کیوں دیتا ہے؟وہ زندگی سے اتنا مایوس کیوں ہے؟کیا مایوس ہونے اور زندگی سے فرار اختیار کر کے خودکشی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ؟وہ خود کہتا ہے۔

سب پہ آتی ہے سب کی باری سے

موت انصاف کی علامت ہے

زندگی سب پہ کیوں نہیں آتی؟

اس کے معنی یہ ہوئے کہ گل زار موت کو زندگی پر ترجیح نہیں دیتا بل کہ غیر منصفی کے مقابلے میں انصاف کا انتخاب کرتا ہے۔ گل زار محسوس کرتا ہے کہ زندگی میں زندگی کا احساس باقی نہیں رہا۔ ۔ انسان نے اپنے تہذیبی سفر میں زندگی کے معنی کھو دیے ہیں وہ اسی معنی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں

یہیں کہیں زندگی کے معنی گرے ہیں اور گرکے کھو گئے ہیں

ٖ                                                        (کھنڈر)

زندگی کی معنویت کی گم شدگی نے عمل حیات کو سانسوں کے بے معنی تسلسل میں بدل دیا ہے وسیع پیمانے پر انسانوں کی بے حسی اور بے سمتی اسی سانحے کا نتیجہ ہے۔ انسان ایک ایسے رستے پر محوِسفر ہیں جس میں فکرِ منزل تو کجا انھیں تو تھکاوٹ کا بھی احساس نہیں کئی صدیاں زندگی کے احساس سے عاری اسی سفر کی نذر ہو گئی ہیں اور نہ جا نے کتنی صدیوں تک یہی بے معنی تسلسل انسان کا مقدر بنا رہے گا۔

سانس لینا بھی کیسی عادت ہے

جیے جانا بھی کیا روایت ہے

کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں

کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں

پاؤں بے حس ہیں چلتے جاتے ہیں

اک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے

کتنے برسوں سے کتنی صدیوں سے

سانس لیتے ہیں جیتے جاتے ہیں

عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں

(عادت)

زندگی کے احساس سے عاری سانسوں کے بے معنی تسلسل نے حساس انسانوں کی روحوں پر کیا کچھ رقم کیا ہے، کیسے کیسے زخم دیے ہیں، اپنے اور دوسروں کے دکھ کی آگ میں کتنا جلایا ہے، زندگی کی بوند بوند کے لیے کتنا ترسایا ہے، کیسے در در بھٹکنے پر مجبور کیا ہے، کیسے سرد سناٹوں اور تنہائیوں کی اذیت سے گزارا ہے، کتنی بے یقینی میں رکھا ہے، کیسی مایوسی سے دوچار کیا ہے، کس قدر بھیانک نفسیاتی الجھنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ہے، عذاب کی حد تک بیدار کر کے کیسے بے دست و پا رہنے کی سزادی ہے، کتنے گہرے اندھیرے بچھانے والی روشنیاں پھیلا دی ہیں، کتنی دعاؤں کو بد دعاؤں میں بدل دیا ہے، کتنی بے رحمی سے انسانی وجود میں موجود زندگی کی ایک ایک چنگاری کو چن کر اسے برف کی سل بنا دیا ہے۔ گل زار کی شاعری خارج کی داخل پر لکھی ہوئی اسی غم ناک داستان کا ارژنگ ہے۔

ایک چنگاری نہیں جلتی کہیں ٹھنڈے بدن میں میرے

بانجھ ہو گی وہ کوئی جس نے مجھے جنم دیا

(جمود)

کوئی صورت بھی مجھے پوری نظر آتی نہیں

آنکھ کے شیشے مرے چٹخے ہوئے ہیں کب سے

ٹکڑوں ٹکڑوں میں سبھی لوگ ملے ہیں مجھ کو

لوگ اپنے اپنے جسموں کی قبروں میں بس مٹی اوڑھے دفن پڑے ہیں

(قبرستان )

ہمارے عہد نے زندگی کی بے معنویت کے احساس میں دہشت کے رنگ بھر کر رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ لہو کے رنگ نے زندگی کی بے رنگی پر غلبہ پا لیا۔ خوف نے باقی ماندہ خوابوں کو کچل دیا۔ موہوم امیدیں مزید موہوم ہو گئیں۔ نظم، ’’ابھی نہ پردہ گراؤ‘‘ میں امید کی قندیل روشن کرنے والے گل زار نے  ’’گرا دو پردہ‘‘ لکھ کر خود اپنی امید کی تردید کر دی۔ گھر گھر خون میں لت پت پہنچے والے اخباروں نے گل زار کے اندر موجود غم و غصہ کی چنگاری کو جوالا مکھی بنا دیا۔

اکھاڑ دو مل کے شہر سارا

کہ اینٹ گارے سے گھر بنے ہیں نہ بن سکیں گے

کہ گھر وہی ہے جسے پنہ گاہ کہہ سکیں ہم

(گھر)

دنیا انسانوں کی پناہ گاہ نہیں رہی۔ سرحد سرحد خوابوں کا خون ہونے لگا۔ مرد، عورت، بزرگ و طفل سب قتل ہونے لگے؟ مندر اور مسجدیں جلائی جانے لگیں، سچائی سنگ سار ہوئی، سب جل گیا، بھسم ہو گیا مگر کوئی معجزہ نہ ہوا۔ ۔ دنیا کھنڈر بن گئی اور انسان اس کھنڈر کا تماشا دیکھنے کے لیے تنہا رہ گیا۔

اب کھنڈر میں کھڑا ہوں میں تنہا

ایک جھینگر کی آ رہی ہے صدا

(وقت)

تیرگی اور لہو نے مل کر رات کو مزید خوف ناک کر دیا۔ انسان فلک کی جانب دیکھ کر روشنی روشنی چلاتا رہا مگر روشنی کے بجائے زلزلے، سیلاب اور بھونچال آئے۔ انسان کا خدا کی ذات پر سے یقین اٹھ گیا، دعاؤں پروشواس ختم ہو گیا۔ گل زار کے ہاں موجود خدا کی ذات پر بے یقینی اور شکوہ اس کے عہد کے انسان کی بے یقینی اور شکوہ ہے۔

دعا کرو

عجیب سا عمل ہے یہ

یہ ایک فرضی گفتگو

اور ایک طرفہ…ایک ایسے شخص سے

خیال جس کی شکل ہے

خیال ہی ثبوت ہے

(خدا)

گل زار نے سائنسی شعور کے عہد میں آنکھیں کھولی ہیں۔ خدا کی ذات کو مجموعی انسانی صورت حال کے تناظر میں سمجھنے کے علاوہ گل زار نے تصور خدا پر سائنسی شعور کی روشنی میں خوب غور و فکر کیا ہے۔ اپنی نظم  ’’زمین پر پڑاؤ‘‘ میں گل زار نے جو سوالات خدا کی ذات کے حوالے سے اٹھائے ہیں۔ انھیں خدا کے متعلق سائنسی عہد کے سوالات بھی کہا جا سکتا ہے۔ خدا کی ذات کے علاوہ کائنات، تخلیق اور وقت گل زار کی مستقل دل چسپی سے متعلق موضوعات ہیں۔ مندرجہ بالا نظم میں کائنات اور سرشٹی بھی موضوع تخلیق بنے ہیں۔ سائنسی شعور کی روشنی میں زمین اور ماورائے زمین حقائق کی تفہیم کے جو جتن گل زار نے تخلیقی سطح پر کیے ہیں وہ اس کا خاص امتیاز ہیں۔ ۔

سائنس کو گل زار نے رحمت اور زحمت دونوں پہلوؤں سے فکر کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ گل زار کو یہ اعتراف ہے کہ سائنس نے انسان کو نیا شعور عطا کیا اور اس کے گلے میں ڈالے گئے گریویٹی کے پٹے سے اسے نجات دلا کر اس کی کائناتی وسعتوں کو وسیع تر کر دیا۔ تاہم اس کے نزدیک انسان کے تہذیبی سفر میں علم کی سرحدوں پر سائنس کے قدم پڑنا وہ الم ناک سانحہ بھی ہے جس نے انسان کو زندگی کی روح سے دور کر دیا۔ زندگی کی روح ّ(معنی) کھو دینے کے اثرات کا مشاہدہ گل زار نے دو جہتوں میں کیا ہے پہلی جہت انسان کی ذات پر اس کا اثر ہے۔ زندگی کی روح سے دوری نے انسان کو اس کے اعلیٰ و ارفع مقام سے نیچے گرا کر بے حسی، بے منزلی اور خود غرضی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ انسان کی گراوٹ کا اثر انسانی رشتوں پربھی پڑا ہے یہ دوسری جہت ہے۔ گل زار کے ہاں انسانی رشتوں کے کم زور پڑ جانے کا المیہ اس شدومد سے پیش ہوا ہے کہ یہی المیہ آج کے عہد کا المیہ دکھائی دیتا ہے۔ گل زار نے انسانی رشتوں میں موجود تصنع کا جس باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے اور طنز کی جس کٹھاس اور مٹھاس کے امتزاج سے نظم میں پیش کیا ہے۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔

رات بھر پھونکوں سے ہر لو کو جگائے رکھا

اور دو جسموں کے ایندھن کو جلائے رکھا

رات بھر بجھتے ہوئے رشتے کو تاپا ہم نے

(الاؤ)

برسوں پالے ہوئے بے برگ سے رشتے کی طرح

جس کی شاخیں تو ہری رہتی ہیں، لیکن اس پر

پھول پھل آتے نہیں

(بے ثمر)

نظم  ’’اعتراف‘‘ میں نظر آتی ہوئی گرہوں سے جوڑے ہوئے رشتوں کا بیان بھی اس حوالے سے خوب صورت پیش کش ہے۔ دنیا کے غیر محفوظ گھر، زندگی کی بے معنویت، رشتوں کی بے رشتگی، شرف انسانیت سے گرے ہوئے بے حس، بے منزل اور خود غرض انسانوں نیز آگ اور لہو کے سمندر میں محبت کا جزیرہ گل زار کی جنت ہے، اس کی پناہ گاہ ہے، محبوب کی قربت اس کے لیے قربِ خداوند کے مترادف ہے، جو سرشاری اور بے خودی اس قربت میں ہے۔ وہ بھری دنیا میں اور کہیں نہیں، اس جزیرے میں محبوب کی آنکھیں، دن اور رات تخلیق کرتی ہیں۔ حیات کو نئے معنی دیتی ہیں، روح سے جسم کا بوجھ اتار دیتی ہیں، یہاں محبوب کے غم کا نمک چکھ کر زندگی کا ذائقہ میٹھا لگنے لگتا ہے، یہاں احساس کی سطح پر صرف محبوب کا تصور برستا ہے، یہاں مخلوق، ہنگامے، آوازیں کچھ دکھائی سنائی نہیں دیتا۔ صرف مدہوشی رہ جاتی ہے۔

دو سوندھے سوندھے سے جسم جس وقت ایک مٹھی میں سو رہے تھے

بتا تو اس وقت میں کہاں تھا؟

بتا تو اس وقت تو کہاں تھا؟

(بے خودی)

محبت گل زار کے ہاں ایک ایسا احساس ہے جس میں محبت کرنے والے دو نہیں رہتے، ایک ہو جاتے ہیں۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں جسموں کے ملاپ کا لمحہ جنسی نہیں بل کہ ایک دوسرے کے وجود میں تحلیل ہونے کا طلسمی احساس ہے۔ یہاں غم تیرا میرا نہیں اپنا ہو جاتا ہے۔ یہاں ہجر اور وصال کے معنی بدل جاتے ہیں یہاں احساس کی سطح پر وہ کرشمے ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

یاد ہے اک دن

میرے میز پہ بیٹھے بیٹھے

سگریٹ کی ڈبیہ پر تم نے

چھوٹے سے اک پودے کا

ایک اسکیچ بنایا تھا

آ کر دیکھو اس پودے پر پھول آیا ہے

(اسکیچ)

گل زار کے لیے زندگی کے معنی محبت کے ہیں۔ گل زار جب محبت کے جزیرے سے باہر نکلتا ہے تو اس کا سامنا زندگی کے احساس سے عاری روبوٹ کی طرح چلتے پھرتے ان انسانوں سے ہوتا ہے جنھیں غم اور خوشی کے معنی تک نہیں معلوم، انھوں نے کبھی محبت دیکھی ہی نہیں، انھوں نے رشتوں کی حرارت کو محسوس ہی نہیں کیا، انھیں معصومیت اور فطرت سے قریب تر جینے کی کوئی ساعت میسر ہی نہیں آئی، انھیں ہاتھ تھام کر چلنے کی راحت اور بیچ سفر ہاتھ چھوٹنے کے کرب کا اندازہ ہی نہیں، اب ان مشینوں کے مابین زیست کرنے کے دکھ کو کون سمجھ سکتا ہے۔

گل زار کے ہاں زندگی کے معنی کیا ہیں ؟ اس کا اظہار بالواسطہ تو اس مضمون میں کئی بار ہو چکا ہے۔ پھر بھی بلاواسطہ زندگی کے معنی سمجھنے کے لیے اس کی نظم ’’ایک ڈائری کا مونتاج‘‘ کو بہ غور پڑھ لینا ضروری ہے اس نظم میں موجود کردار گاؤں سے شہر روزگار کی تلاش میں آتا ہے۔ یہ کردار، اس کا ذہنی کرب، داخلی اضطراب اور گاؤں سے شہر کی جانب ہجر ت کا اشارہ گل زار کے تصور زندگی کو سمجھنے کے لیے کلید فراہم کرتا ہے۔ اس نظم میں گل زار نے گاؤں کے سادہ زرعی نظام حیات کو آئیڈیل بنا کر پیش کیا ہے جب کہ صنعتی نظام حیات کو اس جابر کے روپ میں دکھایا ہے جو انسان سے اس کا اعلیٰ مقام چھین کر پہلے اسے مشین کا پرزہ بنا دیتا ہے اور بالآخر اسے کیڑے مکوڑے میں بدل کر زہریلے دھوئیں سے ہلاک کر دیتا ہے۔

گاؤں کا سادہ، فطرت سے قریب تر، اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل، محبت سے بھرپور، رشتہ داری میں اخلاص اور قربانی کے جذبات کا محافظ، مادیت پرستی سے دور، عذابِ عقلیت سے بے پروا معاشرہ گل زار کے لیے زندگی کی معنویت سے لبریز ہے۔ اس کی نظموں میں جہاں دیہی ثقافت کا ذکر آتا ہے اس کا تخلیقی باطن محبت اور مسرت سے سرشار ہو جاتا ہے وہ اتنے خوب صورت پیرایے میں دیہی زندگی کے رنگ پیش کرتا ہے کہ شہری تصنع اور میکانیت سے نفرت ہونے لگتی ہے؛

ہنستا ہنستا سورج روز سویرے آ کر

گوبر کے اپلوں پر کھیلا کرتا تھا

رات کو آنگن میں جب چولہا جلتا تھا

ہم سب اس کو گھیر کے بیٹھے رہتے تھے

(چل چلاؤ)

گوبر کے اپلوں کو زندگی کی معنویت کی علامت بنا دینا گل زار کی غیر معمولی متخیلہ کا کرشمہ ہے۔ نظم  ’’خواب کی دستک ‘‘ میں گل زار نے زندگی کے معنی کو تنور، مکی کے روٹ اور گڑ کے الفاظ میں بند کر دیا ہے۔ گل زار کی یہ خوبی کہ وہ بلند فکر کو گھن گرج سے بھر پور الفاظ کے حوالے نہیں کرتا بل کہ زندگی سے جڑے ہوئے ان الفاظ میں سمو دیتا ہے جنھیں اکثر شاعر لغوی سطح پر بھی استعمال کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ گل زار نے ان لفظیات کو بہ کثرت برتا ہے اور اپنی غیر معمولی متخیلہ کے ذریعے ان میں علامتی معنویت کے وہ رنگ بھرے ہیں کہ اردو شاعری اس خدمت کے لیے اس کی ہمیشہ احسان مند رہے گی۔

نظم  ’’ریفیوجی‘‘ میں بھمیری اور لاٹو کا استعمال علامتی معنویت کے حوالے سے بے مثال اور لا جواب ہے۔

میں نے اپنی ایک ’’بھمیری‘‘  اور اک  ’’لاٹو‘‘

پاجامے میں اڑس لیا تھا

لیکن میں نے سرحد نے سناٹوں کے صحراؤں میں اکثر دیکھا ہے

ایک  ’’بھمیری‘‘ اب بھی ناچا کرتی ہے

اور ایک  ’’لاٹو‘‘  اب بھی گھوما کرتا ہے

گل زار بالواسطہ اظہار کا قائل ہے۔ اظہار کی بالواسطگی کو اس نے ہر طرح قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ علامت ہو یا استعارہ، تشبیہ ہو یا پیکر تراشی گل زار نے سب سے خوب کام لیا ہے۔ گل زار کی غیر معمولی متخیلہ نے تزئین کے ان وسیلوں کو تحلیل کے عمل سے گزار کر محض سجاوٹ کے ذرائع نہیں رہنے دیا بل کہ فکرو احساس کا جزو لاینفک بنا دیا ہے۔ پیکر تراشی کے حوالے سے گل زار کی متخیلہ نے اپنے غیر معمولی ہونے کے وہ مظاہرے پیش کیے ہیں کہ اس بنیاد پراس کی شاعری الگ شناخت کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہاں میں گل زار کے لفظی پیکروں یا محاکاتی استعاروں کی طویل فہرست درج کر رہا ہوں جن کے بغیر اس کی شناخت، انفرادیت اور امتیاز کچھ بھی ثابت کرنا ممکن نہیں۔

پکھراج کا چاند؛ پشمینے کی رات، بونا سا سورج، گلے میں گریویٹی کا پٹہ، منہ ہی منہ میں دریا کی بڑبڑاہٹ، خون میں گھلے ہوئے دن اور رات، بادل کی گیلے پنجوں سے دروازے پر دستک، صفحہ پلٹنے پر سسکی کی آواز، تارپن تیل میں گھولی ہوئی دھوپ کی ڈلیاں، آنکھوں پر مایوسی کی جھلی، کھلونے کو عمر لگنا، نچے چھیلے ہوئے کہسار، آنگن میں پڑے بے کفن دن، زانو پر سر رکھے دہلیز پر بیٹھی ہوئی رات، فرش پر پڑے آواز کے ٹکڑے، خاموشی کا سنگِ مرمر، بادلوں میں اڑتی ہوئی بھیڑوں، دنبوں اور بھالو کی کشتی، دیودار کا بادل کو پگڑی کی طرح باندھنا اور دوشالے کی طرح اوڑھنا، شیشم اور کیکر کی لڑائی، نیم کا چاندنی سے عشق، سفیدہ چیل کا پہاڑوں کو پرانی داستانیں سنانا، جسم سے سرسبز گیلے پیڑ کی خوشبو نکلنا، دریا میں کروٹ بدلنے سے پڑنے والے بل، پیپل کے سوکھے پتے ساچاند، دن کا کیکر، آکاش کا چہرا، الفاظ کے ناخن، چاند کی چکی، گرم لوہے کے توے جیسی غمگین اداس آنکھیں، پلکوں کا شام کی طرح زمین پر اترنا، پگڈنڈی کی کچلی ہوئی ادھ موئی لاش اور قدموں تلے اس کی کرلاہٹ، شعلہ زبان دیو کا فلک چاٹنا، آسمان کے تاگوں سے لٹکے ہوئے ستارے، نظر سے چپکے روشنی کے چکنے چکنے دھبے، آنکھوں میں چبھتی روشنی کی کرنیں، ہونٹوں سے سانسوں کی آیتیں چننا، دیواروں کے ٹھنڈے سینے، پیٹھ پھیرے ہوئے دروازے، فرش میں دفن دن کی آہٹیں، غصے کا پیر کے پنجے سے اچھلنا، پیٹ میں آنا ناک سے نکلنا اور کان پکڑ کر سر پر چڑھنا، غم کا سر سے اترنا آنکھ سے ٹپکنا، شریانوں میں بہنا اور ٹھنڈے بوجھل لاوے کی طرح گھٹنوں، ٹخنوں اور جوڑوں میں جا ٹھہرنا، نشے کا تالو سے نکلنا اور لٹو جیسا جھوم جھوم کر سر پر ناچنا، نظم کے ٹکڑے کا سانسوں میں سرکنا، آنکھ کی آہٹ، چہرے کا شور، روح کا بدن کو بانسری جان کر چلے آنا، دھوپ کا آنکھوں پر تیزاب کے چھینٹے مارنا، ماتھے کی لکیروں کا آندھیاں توڑ کر بھاگنا، چاند کی پیشانی سے دھوئیں کا اٹھنا، سینے میں الجھی وزنی سانسیں، کیکر کے سوکھے شاخچوں سی پسلیاں، ریشم کی ڈور سے انگلی کا کٹنا، گیلی دھوپ کے گچھے، چراغ کی مدھم اداس آنکھیں، چاند کی چمکیلی اٹھنی، وقت کے پہیے سے بندھی مجرم روحیں، چاندنی کی ریت بھر بھر کر سینے میں ڈالنا، سینے میں سانسوں کا گچھا ہونا، نیلی رات کی چنری کے سائے، ماضی کی خشک شاخیں، گزرے لمحوں کے پتے، آنکھوں کے مانجے، ہاتھوں کی باسی لکیریں، رات کے جالے، گہنائے ہوئے چاند کی دھجی، دماغ کی گیلی سوچیں، سانس کا گرم لوبان، جسم کی ٹھنڈی سی تاریک سیہ قبر، گیلی سی نور کی بوندیں، چاند کی ٹھوڑی، سیپ سی رات، غمگیں نمازی جیسی آنکھیں، پہلو میں پڑی لکڑی سی بے حس رات، سانسوں کے ٹوٹے تاگے، سورج کے زخموں سے رستالال لہو، کرنوں کا مٹی پھانکنا، چاند کے پرچم کا لہرانا، تیز بجلی جیسی حساس رگیں، شام کا پگھلا ہوا سرخ سنہری روغن، کسیلی رات کے ہاتھ پر رکھی چاند کی مصری، نیند کی چادر، دھجی دھجی نیند، شب کے نیلے گنبد، شفاف کانچ کا دریا، پلکیں جھپکا کے تکتی شمعیں، گنگناتے فانوس، آندھی کی آنتیں، آنکھوں کا جبڑے کھولے بھونکنا، ابر کی میلی گٹھڑی، قدیم راتوں کی ٹوٹی قبریں، دنوں کی ٹوٹی صلیبیں، شفق کی ٹھنڈی چتائیں، وقت کا چور گرز، مقدس ہتھیلیوں سے گری مہندی، دیوں کی زنگ آلود لویں اور سپاٹ چہروں کے خالی پتے وغیرہ۔

گل زار کے محاکاتی استعارے اس کی جدیدحسیت کی غمازی کرتے ہیں۔ انھی لفظی تصویروں میں اس کی متخیلہ کا غیر معمولی پن جھلکتا ہے۔ انھی پیکروں کی تحلیل ہمیں اس کے فکرواحساس تک لے جاتی ہے۔ امیجری کی یہی تازگی اس کی شاعری سے نئے نئے معانی کے جنم دہی کے در وا کرتی ہے۔ اس کی شاعری کا یہی پہلو اسے قابل رشک بناتا ہے۔

گل زار تازگی کا متلاشی ہے۔ نظم کی ٹریٹ منٹ کے حوالے سے بھی اس کی کوشش قابل ستائش ہے۔ نظم کی ٹریٹ منٹ کے گل زار کے ہاں درج ذیل طریقے پائے جاتے ہیں۔

۱۔ بجھارتیں کے عنوان تلے لکھی گئی نظمیں اور وہ نظمیں جنھیں بجھارت نما قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان نظموں سے اگر عنوان ہٹا دیا جائے تو معنی کا تعین نہیں ہوتا۔

۲۔ افسانوی طرز پر برتی گئی نظمیں۔

۳۔ شخصی خاکے۔

۴۔ پینٹنگ کی صورت میں خیال کی پیش کش۔

۵۔ مکالمے کا انداز۔

۶۔ خود کلامی۔

۷۔ شعور کی رو۔

۸۔ ڈائری نویسی۔

۹۔ مشاہدے کا بہ راہ راست اظہار۔

۱۰۔ تخلیق نظم پر لکھی گئی نظمیں، وغیرہ

ترائیلے اور تروینیاں تازگی کے متلاشی گل زار کے تخلیقی و تجرباتی وفور کا کرشمہ اور اس کی اجتہادی فطرت کی بہترین عکاس ہیں۔ صنف غزل میں بھی قوافی سے برتی گئی بے پروائی سے قطع نظر اس کی مجتہدانہ کاوشیں خوب رنگ لائی ہیں۔ چند رنگ ملاحظہ ہوں۔

جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں

اس نے صدیوں کی جدائی دی ہے

 

سولی چڑھنے لگی ہے خاموشی

لوگ آئے ہیں سن کے میلوں سے

 

آدمی خود ہی دوڑے جاتا ہے

خود ہی چابک بدست ہے بھائی

اک گھنی چھاؤں پی رہا ہوں میں

کتنا ٹھنڈا درخت ہے بھائی

 

چھو کے دیکھا تو گرم تھا ما تھا

دھوپ میں کھیلتا رہا ہے چاند

 

جس کی آواز میں سلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن

ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے

 

کاغذ کا اک چاند لگا کر رات اندھیری کھڑکی میں

دل میں کتنے خوش تھے اپنی فرقت کی آرائش پر

 

ایک گولی گئی تھی سوئے فلک

اک پرندے کے بال و پر آئے

 

شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں

چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں

 

ہر طرف دھول دھول اڑتی ہے

آسمان جب لپیٹتی ہے رات

ایسا نہیں کہ گل زار کے ہاں خامیاں نہیں ہیں۔ لیکن گل زار کی خوبیوں نے اس کی خامیاں بخشوا لی ہیں۔ زندگی سے قربت اور تخلیقی عمل سے محبت نے اس کے ہاں جو سچائی اور سنجیدگی پیدا کی ہے وہ آج کل کم ہوتی جا رہی ہے۔ گل زار کی شاعری میں موجود کرب مستعار نہیں بل کہ اس کا اپنا تجربہ ہے۔ اجتماعیت سے جڑی ہوئی انفرادیت اور روایت سے پیوست جدت ذاتی تجربے کا ثمر ہیں۔ گل زار کو معلوم ہے کہ شاعری کے آب و رنگ کی نمود خون جگر چاہتی ہے۔ قارئین کے دلوں میں بسنے، احساس میں اترنے اور روح میں مہکنے کا ہنر ان کے پاس ہوتا ہے جو خون جگر سے اس بے آب و گیاہ دشت کو گل زار بنا سکتے ہیں۔

مجھے یقین ہے جب تک پشمینے کی رات پر پکھراج کا چاند چمکتا رہے گا گل زار کی شاعری ترو تازہ، تابندہ اور زندہ رہے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

جلیل عالی  کادائروی ارتقا

 

اپنی آزادی اور پراسرایت پر مصر تخلیقی عمل، پابند شعری ہیئتوں اور فکر و نظر کی تحدیدات سے ہم آہنگ ہو کر شعری قالب میں کب اور کیسے ڈھل جاتا ہے ؟ کون جان سکا ہے ؟ اور کون ہے جو یہ جاننے کی تمنا نہیں رکھتا۔ شاعری کی قرأت میری اسی تمنا کی تکمیل کا ایک عملی اقدام ہے اس لیے میں اس عمل کو پوری سچائی اور دیانت داری سے نبھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ تاہم یہ قرأت ہمیشہ تنقیدی نہیں ہوتی یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ بیش تر شاعری مجھے تنقیدی قرأت پر مجبور نہیں کرتی لیکن اس بیش تر شاعری کی وضاحت سے زیادہ سہولت مجھے اس امر کی وضاحت میں ہو گی کہ تنقیدی قرأت میرے لیے کیا معنی رکھتی ہے ؟ میرے لیے ہر وہ قرأت تنقیدی قرأت کا درجہ رکھتی ہے جس کے لیے سابقہ مطالعات سے اخذ کیے گئے اصول ناکافی ثابت ہوں۔ تاہم یہاں ناکافی ہونے سے میری مراد ناکارہ ثابت ہونا ہر گز نہیں ہے۔ کیوں کہ بہ ہر حال قرأت کے آغاز اور ایک خاص مقام تک رسائی کے لیے یہی اصول میری معاونت کرتے ہیں مگر اس خاص مقام تک رسائی کے بعد یہ اصول شعری تخلیق کے مزید اسرار کھولنے کی کلید فراہم نہیں کر پاتے۔ یہیں سے تنقیدی قرأت  کے عمل آغاز ہوتا ہے جو بنیادی طور پر ان اصولوں کی تشکیل کا عمل ہے جس کے بغیر زیر قرأت تخلیق اپنے ہونے کا جواز اور معنی کھو بیٹھتی ہے۔ مختصراً یہ کہ میرے لیے ہر وہ شعری تخلیق اہم اور معتبر ہے جو مجھے تنقیدی قرأت کے تجرباتی عمل سے ہم کنار کر سکتی ہو۔

ہے منظر وہی

پر

جہاں سے اسے

میں نے دیکھا ہے

تم بھی

وہاں پر کھڑے ہو کے دیکھو

تو کچھ ایسے اسرار کھلنے لگیں گے

کہ شائد تمھیں

سارے منظر کے بارے میں

پہلا تاثر بدلنا پڑے

(زاویہ )

یہی نظم ہے جس نے جلیل عالی کی شاعری کو میرے لیے اہم بنا دیا تھا۔ حالاں کہ اس نظم میں وہ بات تو موجود نہ تھی کہ جس کے لیے قرأت کے اصول ناکافی محسوس ہوں پھر بھی اس میں موجود تخلیقی تجربہ اپنی انفرادیت پر جو اصرار کر رہا تھا۔ اس میں ایک جاذبیت پوشیدہ تھی جو یہ صاف صاف بتا رہی تھی کہ اس نظم میں جتنی بات ہے، بات صرف اتنی نہیں ہے تو آخر اس نظم میں بات کیا ہے ؟یہی وہ سوال ہے جس کا جواب میں جلیل عالی کی شاعری میں تلاش کرتا رہا ہوں۔ اسی سوال نے ان کی کسی بھی تخلیق کے لیے میری قرأت کو ناکافی ثابت کیا ہے اور ہمیشہ مجھے تنقیدی قرأت پر مجبور رکھا ہے۔

یہ نظم اپنے ظاہر اور باطن میں ایک خاص جمالیاتی فاصلہ قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہی جمالیاتی فاصلہ جلیل عالی کی انفرادیت کا نقش نمایاں اور ان کی تنقیدی قرأت کا بنیادی اصول ہے۔ جلیل عالی کی شاعری میں یہ جمالیاتی فاصلہ آغاز سے موجود رہا ہے۔ جس کا اظہار ان کے پہلے شعری مجموعے  ’’خواب دریچہ‘‘  میں کچھ اس طرح ہوا ہے۔

عالیؔ طلوع فن کی نشانی یہی تو ہے

لفظوں میں ان کہی کا اثر جاگنے لگے

اس جمالیاتی فاصلے کا تجزیہ عالی صاحب کے ہاں تسلسل سے برتے گئے بے اضافت ترکیبوں کے تجربے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ان تراکیب کی فہرست مرتب کیے بغیر ان کے ابتدائی شعری مجموعوں کے نام پیش کیے جا رہے ہیں۔  ’’ خواب دریچہ ‘‘  اور  ’’ شوق ستارہ‘‘ دریچۂ خواب اور ستارۂ شوق کی تراکیب اپنے معنیاتی سلسلے میں خواب دریچہ اور شوق ستارہ جتنے مفاہیم بہ حسن و خوبی ادا کر رہی ہیں مگر اضافت ختم کرنے سے ترکیب میں موجود لفظوں کے مابین جو فاصلہ پیدا ہوا ہے اس نے ایک طرف جمالیاتی جہت پیدا کر دی ہے تو دوسری طرف عمل قرأت کو تنقیدی قرأت سے بدلنے کا تقاضا بھی پیش کر دیا ہے۔ کیوں کہ دریچۂ خواب اور ستارۂ شوق کی عادی قرأت خواب دریچہ اور شوق ستارہ کے جمالیاتی حظ اور معنیاتی فریم ورک کو گرفت میں لینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ لہٰذا اگر جلیل عالی کی شاعری میں آغاز سے تا حال آنے والی بے اضافت ترکیبوں کا کماحقہ تجزیہ کر لیا جائے تو یہ بات باآسانی ثابت ہو جائے گی کہ ان کی شاعری میں بات جتنی نظر آ رہی ہے۔ صرف اتنی نہیں ہے کیوں کہ ان کی شاعری میں کہی اور ان کہی کا فاصلہ قائم کیا گیا ہے جو ان کے اشعار کو اجمال اور ابہام کی شعری صفات سے متصف کرتا ہے۔ یہ دونوں شعری صفات غزل کے مزاج کو سمجھنے کی کلید ہیں بقول غالب۔

میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدق توضیح

میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ابہام کا تعلق شعر کے معنوی جب کہ اجمال کا تعلق شعر کے صوری پہلو سے ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اجمال شعر میں ابہام یا ابہام شعر میں اجمال پیدا کرنے کا سبب بنے یعنی ان دونوں صفات کا اہتمام الگ سے کیا جائے گا۔ ابہام اور اجمال دونوں کے بارے میں ہمارے ہاں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ اس لیے یہ مناسب ہو گا کہ میں کم سے کم لفظوں میں ان اصطلاحات کی وہ وضاحت پیش کروں جو ان کے استعمال کو اس تجزیے کی حد تک زیادہ با معنی بنا سکیں۔ ابہام شعر کی وہ صفت ہے جو خیال کی تمام پر توں کو بہ یک وقت گرفت میں لینے کی قدرت رکھتی ہے۔ اس صفت کا حامل شعر اکہرے معنی کا حامل نہیں ہوتا اور نہ کوئی ایسی صورت حال سامنے لاتا ہے جو شعر کے معنی تک رسائی ناممکن بنا دے بل کہ یہ صفت تو معنی در معنی کی فضا بناتے ہوئے شعر کے امکانات لامحدود کر دیتی ہے۔ اجمال کا تعلق شعر کی لسانی ساخت سے ہے یہ کم الفاظ میں زیادہ معنی سمونے کا ہنر بھی ہے اور لفظ کے دوسرے لفظ سے صوتی، صوری اور معنوی ربط کا فن بھی، یعنی خیال کے ا بلاغ کے لیے مناسب اور متناسب الفاظ کا ستعمال اجمال ہے۔

ابہام اور اجمال کی صورتیں عالی صاحب کے ہاں بدستور موجود اور بدلتی رہی ہیں۔ انھی بدلتی ہوئی صورتوں نے ان کے ہاں جمالیاتی فاصلے کو مختلف شکلیں دیتے ہوئے شعری ارتقا کا خاکہ مرتب کرنے میں مدد دی ہے۔

جلیل عالی کے اولین شعری مجموعے خواب دریچہ میں ابہام اور اجمال لفظوں میں ان کہی کا اثر پیدا کرنے کی کاوش کا ثمر ہے۔ اس مجموعے کی حد تک الفاظ اشارہ (Indicate) کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

پروں میں مضطرب کن آسمانوں کی اڑانیں ہیں

تمنا کس بہشت شوق کے منظر بناتی ہے

 

پس چہرہ بھی جو ہر عکس کو پہچانتے ہیں

وہ آئینے کبھی رستوں کے پتھر دیکھ لیں گے

 

لہو میں گونجتی ہے خامشی کتنے مناظر کی

نظر وادی سے باہر جو ابھی اسرار صورت ہیں

 

تیری میری آنکھ میں روشن ایک ہی منظر

ایک ہی روشن خواب دریچہ تیرا میرا

 

تجھ سے جدا ہوئے تو ’من و تو‘ کے درمیان

بے نام رابطوں کے سفر جاگنے لگے

ان شعروں کے زیادہ تر معانی اشعار کے باہر پڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں مگر یہ ان اشعار خوبی اس لیے ہے کہ ان کے اندر کے معانی باہر کے معانی کی جانب متوجہ کر کے خود دھندلے پڑ جاتے ہیں۔

جلیل عالی صاحب کے دوسرے شعری مجموعے میں جمالیاتی فاصلے کی نوعیت مختلف ہے اس مجموعے کے اشعار ان اجزا کی طرح ہیں جو اپنے کل کی تمام تر صفات اپنے اندر سمو لیتے ہیں۔ یعنی دجلہ قطرے میں سما جاتا ہے مگر مقصود کم و سعتوں سے زیادہ وسعتوں تک رسائی ہوتی ہے۔

یہ دل شب و روز اس کی گلیوں میں گھومتا ہے

وہ شہر جو بس رہا ہے دشت نظر سے آگے

 

پروں میں بے تابیاں ہیں پرواز لامکاں کی

سروں پہ روز ازل سے سات آسماں کھلے ہیں

 

انھیں خبر کیا لہو کے موسم بدل چکے ہیں

وہ چشم سادہ سے صرف منظر فضا کے دیکھیں

 

حد خواہش میں جینا ہے تو جاؤ راہ اپنی

نہ دشت شوق کی وسعت سے گھبراؤ تو آؤ

 

ایک پرچھائیں کے پیچھے ہیں ازل سے عالیؔ

یہ تعاقب ہمیں کیا جانے کہاں لے جائے

ان اشعار میں سمت نمائی کے ساتھ جزوی معانی بھی موجود ہیں مگر ان شعروں کا ابہام اور اجمال اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ جز و سے کل تک کا سفر طے کیا جائے۔

عالیؔ صاحب کے تیسرے اور اب تک کے آخری شعری مجموعے میں جمالیاتی فاصلے کی صورت بڑی حد مجموعے کے نام سے ظاہر ہو جاتی ہے  ’’عرض ہنر سے آگے‘‘  اس مجموعے کا نام عالیؔ صاحب نے دوسرے مجموعہ کلام شوق ستارہ کے ایک شعر سے اخذ کیا ہے۔

طلسم عکس و صدا سے نکلے تو دل نے جانا

یہ حرف کچھ کہہ رہے ہیں عرض ہنر سے آگے

اس مجموعے کے اشعار میں موجود جمالیاتی فاصلہ نہ تو الفاظ کے ایسے استعمال کی عطا ہے کہ ان کے بیش تر معانی ان سے باہر موجود ہوں نہ یہ اشعار جزو اور کل کی کوئی صورت ہیں بل کہ ان اشعار کا اجمال اور ابہام ان شعروں کی مابعد الطبعیاتی جہت سے پیدا ہوا ہے۔

 

آہنگ شب و روز کے نیرنگ سے آگے

دل ایک گل خواب کی خوشبو میں بسا ہے

 

گوندھ کر ڈھال کسی صورت یکتائی میں

جان و تن، قلب و نظر تیرے حوالے ہوئے ہیں

 

شب اپنے ساتھ رفاقت کے نور لمحوں میں

زمیں سے دور زمانوں کا اک سفر ہوا ہے

 

ہم کہ اک اسم کے سائے میں رواں ہیں ورنہ

اس گماں زار میں سو رنگ کے ڈر بنتے ہیں

 

بس ایک پل کو کہیں بادلوں کے ساتھ اڑے

پھر ایسی ساعت احساس ہی نہیں آئی

جلیل عالی صاحب کی شاعری میں موجود جمالیاتی فاصلے سے بننے والا یہ ارتقائی خاکہ مجمل اور مبہم ہے۔ جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کی شاعری میں موجود جمالیاتی فاصلہ اجمال اور ابہام سے قائم ہوا ہے۔ دراصل عالی صاحب کا تجزیہ خط مستقیم پر سفر کرنے والے شاعر کے برعکس دائرے میں سفر کرنے والے شاعر کی طرح ہونا چاہیے ایک ایسا دائرہ جو وقت کے ساتھ وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

رفیق سندیلوی کا تخلیقی وجدان

 

نظم کے سنجیدہ قاری پر ایک بات تو رفیق سندیلوی کی نظموں کی اوّلین قرأت ہی پر ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ نظمیں اُس کے ہم عصر نظم نگاروں سے مختلف ہیں، لیکن اوّلین قرأت پر دکھائی دینے والا یہ اختلاف اُس کی نظموں کے ظاہر کا اختلاف ہے۔ باطن تک رسائی پہلی قرأت کے بس کی بات نہیں، ہونی بھی نہیں چاہیے کیوں کہ اگر نظم پہلی قرأت پر اپنے اسرار کھول دے تو اس کو جدید تر نظم کے طور پر قبول کرنے میں ہم سب کو تامل ہو گا۔

اوّلین قرأت پر یہ نظمیں قاری کو زرعی و صنعتی فضا سے دور کہیں صحرا میں یا دامن کوہسار کے ملگجے میں بیٹھے لوگوں کے ایک گروہ میں شامل کر دیتی ہے۔ جہاں ایک فرد مختصر  و طویل، مربوط و غیر مربوط مختلف النوع واقعات پر مشتمل، مشترک روح کی حامل ایک داستان سُنارہا ہے۔ پہلی سطح پر صرف تجسس اور حیرت و ابہام کی کم گہری دھند ہے۔ جس سے معنی کی روشنی کبھی چھنتی ہے تو کبھی دھند کی اوڑھنی اوڑھ لیتی ہے۔ پہلی سطح پر اِس داستان کا سامع یہی محسوس کرتا ہے کہ جیسے یہ داستان اپنی تفہیم اور تکمیل کے لیے اُسے اپنا ایک کردار بنانا چاہتی ہے۔ ایک فعال کردار، مگر ہمارا سامع تو اب تک صرف داستانیں سننے کا عادی ہے۔ داستان کا کردار بن کر سُنانے کے عمل میں شریک ہونے کی خُو یہ سامع اب تک نہیں ڈال سکا۔ محض سامع کی حیثیت میں یہ داستان آپ کو غنودگی کے کیف اور کبھی کبھی بے کیفی سے تو ہم کنار کر سکتی ہے مگر اِس مقام پر رہ کر پوری نیند اور پوری بیداری سے سرشار ہونے کی توقع پوری نہیں کر سکتی۔

پہلی سطح پر یہ نظمیں پُر آہنگ تصویر یں ہیں مگر اِس آہنگ کے عقب میں موجود غنائیت کا شعور، تصویروں کے پسِ منظر میں موجود خیال و احساس، رنگ و روغن اور ارتباط  و انسلاک کے رموز نیز مربوط و منسلک کرنے کے وسائل، المختصر شعری محرک سے تخلیقی تجربے کی کُنہ تک رسائی قاری کی فعال شرکت کی حاجت مند ہے۔ البتہ قاری کی فعال شمولیت سے پیش تر بھی رفیق سند یلوی کی نظمیں اپنی فن کارانہ تازگی کے با وصف اُس کے دوسرے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ کیف آگیں اور اثر آفریں ہیں۔

آج لکھی جانے والی بیش تر نظم جن وجوہات کی بنا پر یک سانیت زدگی کا احساس پیدا کرتی ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

۱۔ آج کی بیش تر نظم عموماً داخلیت سے عاری مخصوص نوعیت کے خارجی آہنگ کی حامل ہے، وہ آہنگ جو ذاتی خیال و احساس، تخلیقی کرب اور عصر ی شعور کی دین ہوتا ہے۔ قریب قریب اکثریت کے ہاں مفقود ہے۔

۲۔ مخصوص اور محدود لفظی ذخیرے کے باعث اکثر نظم نگاروں کی نظم لفظیاتی اور استعارا تی یک سانیت کی شکار دکھائی دیتی ہے۔ ایسی تکرار مکدر کر دینے کا باعث بنتی ہے۔

۳۔ ایک ہی نظم میں جد ید کہلائے جانے والے سبھی موضوعات کو بغیر از تحلیل سمونے کی کوشش تقریباً سب کے ہاں یک ساں طور پر موجود ہے، جب کہ کم فہمی کے باعث اِسے تکثیریت معنی سمجھ لیا جاتا ہے۔

۴۔ روحِ عصر کو نہ پا سکنے والے نظم نگار عصری شعور کا اظہار فرض سمجھتے ہیں۔ خبر کو نظمانے کا شوق انھیں اپنے اصل سوالوں کی طرف بھی متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ نتیجتاً تخلیق سطحیت اور بناوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔

۵۔ امیج سازی میں بھی تقلیدی روش عام ہے۔ تجربے سے پھوٹتے امیجزاِس لیے بھی کم دکھائی دیتے ہیں کہ اکثر لکھنے والوں کے پاس اپنا تجربہ ہی نہیں ہوتا۔ بیش تر دو سروں کے تجربات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

۶۔ نظم کے آغاز، عروج، اختتامیے نیز مصرعوں کی لمبائی چوڑائی تک میں یک سانیت در آئی ہے۔

۷۔ درونِ نظم قوافی کا استعمال سامنے کے قافیوں سے ہٹ کر اس لیے بھی دکھائی نہیں دیتا کہ نظم نگاروں کو غزل دشمنی نے شعورِ غزل ہی سے بے گانہ کر دیا ہے۔

۸۔ خارجیت کی یلغار میں داخلیت کا تحفظ بھی اکثر نظم نگاروں کے ہاں ناپید ہے۔

۹۔ محدود اور موجود کے علاوہ کسی جہانِ دیگر کی تلاش آج کے بیش تر نظم نگاروں کا مسئلہ ہی نہیں، جس نے نظم میں ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔

۱۰۔ آج کی بیش تر نظم ہر دوسرے شاعر کے ہاں جُز و تو بنتی ہے مگر کسی تخلیقی کُل سے ملاپ کا احساس نہیں دلاتی۔ یعنی کثرت کسی وحدت میں منقلب ہوتی یا اِس جانب پیش قدمی کا تاثر نہیں اُبھارتی۔

مندرجہ نکات کی روشنی میں جب رفیق سندیلوی کا نظم کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ایک بدلی ہوئی فضا دکھائی دیتی ہے۔ رفیق سندیلوی کی ہر نظم ایک الگ اکائی ہونے کے باوجود ایک کُل کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کا یہ تاثر ریاضت اور اپنی تخلیقی ذات کی مکمل آ گہی کے بغیر پید ا نہیں ہوتا۔ رفیق سندیلوی اپنے مرکز سے دور جانے پر بھی اِس سے لاتعلق نہیں ہوتا۔

رفیق سندیلوی نے خود کو موجود تک محدود نہیں کیا بل کہ نامعلوم کو معلوم کرنے کے لیے فکری اور شعری سطح پر قابلِ تعریف جتن کیے ہیں۔ اس کے ہاں موجود نامانوسیت اور اجنبیت اسی سبب پیدا ہوئی ہے۔

رفیق سندیلوی کے سوال موضوعیت کے حامل ہیں۔ اِن سوالوں کی معروضی اہمیت اپنی جگہ، مگر رفیق سندیلوی نے اِنھیں اپنی داخلی دنیاؤں سے چُنا ہے۔ اس لیے یہ سوال ابدیت کے لمس کے باوجود اس کے اپنے سوال معلوم ہوتے ہیں۔ یہ اس کی بڑی کام یابی ہے۔ رفیق سندیلوی کو ہم عصر نظم نگاروں میں ممتاز کرنے والی خوبی اس کا شعورِ غزل ہے۔ اُس کی نظموں میں آنے والے اچھوتے قوافی اور انھیں برتنے کا سلیقہ، رفیق سندیلوی کی غزل کی تخلیقی مشق کی دین ہے جس نے اُس کی نظم کے آہنگ اور صورت دونوں کو ترتیب دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

رفیق سندیلوی نے اپنی نظم کو مصرعوں کی طوالت، آغاز، اُٹھان اور اختتام ہر حوالے سے معمول کی نظم سے الگ اور مختلف بنانے کی کوشش کی ہے اور اِس میں وہ خاصا کام یاب نظر آتا ہے۔

رفیق سندیلوی کی شاعری اُس کے اپنے تجربے کی دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی امیجری اپنی ساخت پرداخت میں انفرادیت کی حامل ہے۔ تجربے سے منسلک تمثالیت کی ایسی مثالیں ہماری شاعری میں بہت ہی کم ہیں۔

رفیق سندیلوی کے ہاں مجھے سطحی نوعیت کا وہ عصری شعور بھی نظر نہیں آتا جس پر اِس دور کے متعدد شاعر مفتخر دکھائی دیتے ہیں۔ رفیق سندیلوی نے روحِ عصر کے انجذاب کے بعد اِن سوالوں کو بڑے سوالات یعنی ہمیشہ کے سوالات کے ساتھ جوڑ کر اپنی فکری تشکیل کی ہے۔ تاہم اُس کی نظم میں فکر براہِ راست اظہار کے بجائے حسی تمثالوں میں خود کو منقلب کر کے اپنی موجودگی ثابت کرتی ہے۔

رفیق سندیلوی کے ہاں موضوعاتی غدر کے بجائے ایک مرکزی سوال یا خیال کی پیش کش کا رویّہ عام ہے۔ وہ ایک مرکز کے گرد دائرہ در دائرہ پھیل کر مرکز کی طرف پلٹ آتا ہے مگر جلو میں کئی نئے خیالات اور سوالات اس کے ہم راہ ہوتے ہیں۔ اُس کی نظم معنوی جہات کی حامل ہے مگر یہ معنوی جہات موضوعات کی بے جا کثرت کی وجہ سے نہیں بل کہ موضوع یا سوال کے اعماق تک رسائی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔

رفیق سندیلوی کا لفظی ذخیرہ بھی دوسرے نظم نگاروں کے مقابلے میں زیادہ کثیر ہے۔ معمول کے بر خلاف لفظیات کے استعمال نے اُس کی نظم کو صوری و معنوی حوالوں سے مختلف بنانے کے ساتھ اس کی نظم کو روانی اور غنائیت ایسی خوبیوں سے متصف کر دیا ہے۔ اُس کی نظم رُک رُک کر، ہانپ ہانپ کر اور ٹوٹ ٹوٹ کر آگے بڑھنے کے بجائے میٹر کے تسلسل میں میانہ رفتار کے ساتھ تکمیل کے مراحل طے کرتی ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظم کا آہنگ اُس کی تخلیقی شخصیت کی اکائی سے انسلاک کی جو مثال پیش کرتا ہے وہ اُسے ایک بے مثال شاعر کے طور پر متعارف کرنے کا وسیلہ بنتے ہوئے قاری کے لیے اُس کی شاعری کی بالائی سطح سے زیریں سطح تک پہنچنے کے رستے بھی اُجالتا چلا جاتا ہے۔

رفیق سندیلوی نے اپنی نظموں میں زمان و مکاں کے پھیلاؤ کو کم اور زیادہ کرتے ہوئے وجود و عدم کے معنی متعین کرنے کی تخلیقی کاوش کی ہے۔ عموماً ان موضوعات پر غور و فکر کرنے والے شاعر شاعری کی حدود سے باہر نکل کر دیگر علوم کے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن رفیق سندیلوی نے خود کو شاعری کی حدود میں رکھتے ہوئے فلسفیانہ اور نیم فلسفیانہ سوالات کے جواب تلاش کرنے کی قابلِ ستائش کوشش کی ہے۔ رفیق سندیلوی کی بیش تر نظمیں، لوک کہانی اور اساطیری فضا میں وقت نا وقت، خواب و حقیقت، وجود و عدم، مکاں لا مکاں، من و تُو، جبر و اختیار نیز وحدت و کثرت کے معنی تلاش کرتے ہوئے نت نئی تمثالیں گھڑتی اور پیش کرتی چلی جاتی ہیں۔ چوں کہ اِن سوالوں کے سرے کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جڑتے ہوئے ایک مرکزِ واحد کی جانب سفر کرتے محسوس ہوتے ہیں اس لیے رفیق سندیلوی کی نظموں کے سرے بھی کہیں نہ کہیں ایک دوسرے سے جڑتے  جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ نظمیں مرکز گریز ہو کر بھی مرکز مائل نظر آتی ہیں۔ اِن تمام نظموں کا مرکز خود شاعرکا تخلیقی وجود ہے اور اِن نظموں کا محرک بھی یہی تخلیقی وجود ہے۔ اِن نظموں کی توانائی، آب و تاب، بوقلمونی اور نیرنگی سب اِسی وجود کی عطا ہے۔

ہر اعلا تخلیق کار کے راستے میں غیر تخلیقی وجود ایک رکاوٹ ہوتا ہے مگر اِسے مکمل طور پر راستے سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔ رفیق سندیلوی کی نظموں میں فن کی سطح پر تخلیقی وجودا ور غیر تخلیقی وجود کا تصادم نظر آتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اِسی تصادم نے رفیق سندیلوی کے تخلیقی وجود کو اُن بے اعتدالیوں سے بچایا ہے جو اس کے دوسرے ہم عصروں میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ رفیق سندیلوی اِس امر سے آگاہ ہے کہ لطافت میں کثافت کی کتنی مقدارسے جلوہ پیدا ہو جاتا ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظمیں اچھی بھی ہیں ا ور اچھوتی بھی، اِن نظموں کا رنگ بھی نیا ہے اور آہنگ بھی، یہ نظمیں فنی طور پر چابک دست بھی ہیں اور زبردست بھی، یہ نظمیں بامعنی بھی ہیں ا ور لاثانی بھی۔ اس لیے یہ پڑھے جانے اور بار بار پڑھے جانے کا استحقاق رکھتی ہیں۔ سنجیدہ فکری سوالات اور تازہ تر شعر ی جمالیات کی حامل ہونے کے با وصف اُس کی شاعری تا دیر قارئین کے لیے آنند کا باعث رہے گی۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ رفیق سندیلوی کو نظم کے اہم لکھنے والوں میں گِنا جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

ارشد معراج کا بالواسطہ اظہار

صورت حال سے عدم اطمینان کا جنم ، صد رنگ منظر نامے کے پس منظر میں موجود بے رنگی کے مشاہدے اور دوڑتے ہوئے وقت کے اندر پائے جانے والے ٹھہراؤ کے تجزیے کے بغیر ناممکن ہے۔ مشاہدے اور تجزیئے کی یہ صلاحیت تاریخ کی سفاکیوں اور ہولناکیوں کے شعور سے گہرائی اور قوت حاصل کرتی اور نمو یاب ہوتی ہے۔ ارشد معراج اسی نمو یاب مشاہداتی اور تجزیاتی صلاحیت کا حامل شاعر ہے۔ اس نے اپنی نظموں میں زمانے کے ایک مقام پر انجماد کی دل دہلا دینے والی منظر کشی کے ذریعے اس سوچ کو ابھارنے کی کوشش کی ہے کہ یہ صورت حال کسی ایک واقعے کا نتیجہ نہیں بل کہ اس تاریخی جبر کا تسلسل ہے جو انسان کے لہو سے ہولی کھیلنے، اس کے خوابوں کو توڑنے اور بکھیرنے، اس کے جسم کو اندھیروں کا ایندھن بنانے اوراس کو اپنی منزل تک رسائی سے پہلے سپرد فنا کر دینے سے عبارت ہے۔

گھڑی کی سوئیاں ازلی بہاؤ بھول بیٹھی ہیں

کلینڈر سے لہو رسنے لگا ہے

راستوں میں خواب آنکھوں کے تڑخ جانے سے

ہر سو کانچ بکھرا ہے

(خواب سے خالی پنجرے)

جسم ایندھن بنے

پھر بھی چاروں طرف رات ہی رات ہے

(ممکنات سے مکالمہ)’

راتیں اندھی ہو جاتی ہیں

سپنے جون بدل لیتے ہیں

آنکھیں اندر دھنس جاتی ہیں

دن سازش پر اتراتا ہے

سورج ہاتھ پہ اُگ آتا ہے

رستے راہی کھا جاتے ہیں

(کُتے بازی لے جاتے ہیں )

ارشد معراج جب وقت کے کینوس پر نراشا کے رنگ دیکھتا ہے تو اس کے اندر اور باہر اندھیرے بڑھ جاتے ہیں اور وہ ایک ایسی رُت آنے کا خوف محسوس کرنے لگتا ہے جو حیرانی کو ویرانی میں تبدیل کر دیتی ہے اور رشتوں کی حدّت کو برف میں۔ اس کی نظمیں  پڑھتے ہوئے ایک ایسے شخص کی تصویر اُبھرتی ہے۔ جس کی آنکھیں تو وقت کی آگ میں جل رہی ہیں لیکن دل مایوسی اور نا امیدی کی ہوا سے بجھ چکا ہے۔

دیکھنا اک دن برف پڑے گی

اور خوابوں کی پلکوں پر بیٹھی حیرانی

ویرانی ہو جائے گی

(رُت بدلنے کے بعد)

عجب یہ سوگواری ہے

نہ شامیں سرمئی رنگت، نہ صبحیں نور بنتی ہیں

نہ راتیں نیند کے مشکیزے لاتی ہیں

………

………

اداسی خون خلیوں میں مسلسل رقص کرتی ہے

ہماری نظم کی ہر سطر میں تنہائی روتی ہے

(کینوس پہ پھیلی اداسی)

اس کے لیے کل، آج اور کل ایک ہی دن میں دکھائے جانے والے ایک ہی فلم کے تین شوز کی طرح ہیں جس میں سے ایک شو وہ دیکھ چکا ہے، دوسرا دیکھ رہا ہے اور تیسرا دیکھنے کے لیے تیار ہے۔

ایک دوپہر توسر پہ کھڑی ہے

ایک دوپہر گزاری ہے

آنے والی دوپہر کا دھڑکا کھائے جاتا ہے

(سناٹا سبز ہونے لگا)

زندگی کی حقیقت اور یک سانیت جب بصارت اور بصیرت پہ کھل جائیں تو کچھ کر گزرنے کی خواہش دم توڑ دیتی ہے اور انسان وقت کے بہتے دھارے میں بہتا چلا جاتا ہے یہی ارشد کے ساتھ ہوا ہے جس کا اظہار وہ برملا کرتا ہے۔

لحظہ ہر لحظہ اسی درد کے مشکیزے کو

بھرتے جانا ہے مجھے اور چلے جانا ہے

(عکس دھندلاتا ہے)

ارشد معراج کی نظموں کو بے جھجک فکر انگیز قرار دیا جا سکتا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ خوبی اس کی شعوری کاوش اور شعر و ادب کے افادی اور مقصدی پہلو سے رغبت کے سبب پیدا ہوئی ہے اس نے اپنی فکر کو نعرہ بازی اورمسلط کر دینے والے پیرائے میں بیان نہیں کیا بل کہ دبیز علامات اور استعارات کو اپنی ذات میں اس طرح جذب کر لیا ہے کہ نظم کا کوئی مصرع برہنہ دکھائی نہیں دیتا اس کے خیالات میں سوال آمیز قطعیت پائی جاتی ہے اور یہی سوال آمیز  قطعیت جب نظم کی سطور میں ظہور کر تی ہے تو کئی در وا کرتے ہوئے قرأت کے عمل کو روک دیتی ہے اور فکر کو مہمیز لگاتی ہے۔

ہمارے تن کے برتن میں

مقدس جل نہیں کیچڑ بھرا ہے

(مجاور کنٹوپ سے آگے نہیں بڑھتے )

تماشا گھر میں لازم ہے

کہ پتلی دوسروں کی انگلیوں پر خود کو تھرکائے

( اٹھو رخت سفر باندھو)

وہ جو معلوم تھا، ہم کنارا کیے

جو نہیں جانتے تھے وہ معلوم کرنے کی خواہش نہ کی

دور تک دیکھنے کی تمنا تھی سو

پاس کی چیز کو مسترد کر دیا

(تماشائی تماشے سے باہر نہیں )

وہ زندگی کو ا س کی وسعتوں سمیت دیکھنے کا تمنائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت ہو یا ہوس، جسم ہو یاروح، سیاست ہو یا معیشت، میڈیا ہو یا مذہب، تاریخ ہو یا تہذیب، تصوف ہو یا فلسفہ، خواب ہو یا حقیقت اس کی نظموں میں کم یا زیادہ جھلک ضرور دکھا جاتے ہیں۔

ارشد کی نظمیں شعریت کے تقاضے پورے کرتی ہیں۔ لیکن یہ شعریت وہ نہیں جو شاعر کے داخلی آہنگ اور نظم کے آہنگ کے ملاپ سے پیدا ہوتی ہے بل کہ وہ ہے جس کے بغیر آزاد نظم ناقابل قرأت اور صوتی حسن سے عاری محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس کو ابھی اپنے داخلی آہنگ کو دریافت کرنے اور نظم آزاد کے آہنگ سے وابستہ کرنے کے مراحل سے گزرنا ہو گا۔ جہاں تک اس کی نظموں کے اسلوب کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ نظمیں نئی نظم کے اجتماعی اسلوب کی عکاسی کرتی ہیں اور کئی دوسرے نظم نگاروں کی طرح اس کے ہاں بھی انفرادیت نامونوس الفاظ کے بہتر برتاوے کی حد تک تو ضرور پائی جاتی ہے لیکن موضوع، ہیئت اور شخصیت کے گھلاؤ اور رچاؤ سے پیدا ہونے والی انفرادیت کے نقوش ابھی مدھم ہیں۔ میری خواہش ہے کہ وہ ان مدھم نقوش کو جلد از جلد اجالنے میں کام یاب ہو جائے ورنہ انبوہ میں فنا ہوتے دیر نہیں لگتی۔

ارشد معراج نظم کے بہاؤ کو توڑنے ، موڑنے اور موضوع سے دوبارہ جوڑنے کی ہنر وری سے آگاہ ہے۔ اس کے ہاں کیفیاتی یک سانیت کے باوجود موضوعاتی تنوع دکھائی دیتا ہے۔ وہ پرانی بات کو جدید پیرائے میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسے نظم بنانے اور سنوارنے کا سلیقہ آتا ہے، اس کی فکر میں سنجیدگی اور اظہار میں ابلاغ کی خصوصیات موجود ہیں، وہ علامت، استعارے اور تمثال کا استعمال جانتا ہے، وہ موضوع کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل سکتا ہے، وہ عنوان کے کردار سے واقف ہے۔ اس لیے مجھے وہ اس چمکتے ہوئے تخت پر براجمان دکھائی دے رہا ہے جس پر بیٹھنے کی خواہش تو سب کو ہوتی ہے لیکن بیٹھنا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

تابش کمال کا فکری سلسلہ

 

ٍ        شاعر اپنے تیز مشاہدے، گہرے تجزیے کی فطری صلاحیت اور بے انتہا حساسیت کے باعث عصر میں موجود خیر وشر کی جملہ صورتوں کو نشان زد کرتا ہے اور ایسا پیرایہ اظہار اپناتا ہے کہ تاریخ کی کارفرمائی اور مستقبل کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ یہی خوبی اسے اہل دانش میں ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ تاہم اگر نظم فکر کی ترسیل کا وسیلہ بنے اور جمالیاتی مسرت مہیا نہ کر پائے تو اسے دائرہ شعر سے خارج تصور کیا جائے گا۔ لہٰذا شاعر کے لیے فکر و فن کے اس مقام تک رسائی ضروری ہے جہاں فن پارہ ان دونوں خصوصیات کا حامل بھی ہو اور دوئی کا احساس بھی باقی نہ رہے۔ اس مقام تک رسائی ریاضت کے بغیر ممکن نہیں۔ تابش کمال ریاضت کے عمل سے گزرتا ہوا ایسا شاعر ہے جس کا مستقبل ابھی سے روشن اور تاب ناک دکھائی دے رہا ہے۔

تابش کمال نے اپنی بیش تر نظموں میں جبر کے خلاف مزاحم تخلیق کو موضوع بنایا ہے اور دونوں کے تاریخی تعلق کو نظم اور رات کے استعاروں میں ہنر مندی سے پیش کیا ہے۔ وہ نظم کو شب زدوں کی زبان قرار دیتا ہے۔ لفظوں کی روشنی میں رات کاٹتا ہے اور رات کی کرچیوں سے نظم ترتیب دیتا ہے۔

رات آئی

(یگوں پھیلتی رات آئی)

مگر نظم چلتی رہی

…………

…………

نظم اب تک رواں ہے

مرے اور مرے جیسے کچھ شب زدوں کی زباں ہے

(نظم فسانہ)

انہی لفظوں کی لو میں رات کٹتی ہے جنھیں آنکھوں نے تصویرا

(آؤ)

میں کمرے میں آیا

تو بستر پہ لیٹی ہوئی رات کی سسکیاں

میرے احساس میں رچ گئیں

اور جو کرچیاں رات کے ہاتھ سے بچ گئیں

ان کو میں نے سمیٹا

تو یہ نظم ترتیب دی

(طوفان کے بعد)

زمانے کی منفی قوتوں کا استعارہ بنتی رات، جب اس کی نظم  ’’قصہ شب‘‘  تک پہنچتی ہے تو حسن اور بدصورتی کی تمام شکلیں جمالیات شب میں اس طرح یک جاہو جاتی ہیں کہ قرأت کے دوران نہ تو بدصورتیوں سے نفرت محسوس ہوتی ہے نہ خوب صورتیوں سے محبت، بل کہ رات جیسی کہ وہ ہے اسی صورت قابل قبول محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ منفرد نظر تصوف سے اس کی فکری مناسبت، دلی لگاؤ اور اٹوٹ تعلق کی دین ہے۔

تابش کمال بین الاقوامی مسائل پر سوچتا ہے اور ان کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی نظموں  ’’ساربان‘‘ ،  ’’ کہا نہیں تھا‘‘  اور  ’’اپنے خلاف‘‘ میں اس نے صورت حال کی تجزیے کی حد تک عکس بندی کر کے انھیں عصر کی نمائندگی کرنے والی دوسری نظموں سے بہت مختلف، موثر اور Thought Provokingبنا دیا ہے۔ وضاحت ان نظموں کی وہ خوبی ہے جو ان موضوعات پر لکھی جانے والی بیش تر نظموں کو نصیب نہیں ہوئی۔ تابش کمال کی نظموں کو اگر جدید نظم کے تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس کی انفرادیت اس کی نظموں میں موجود مثبت فکر اور رجائیت پسندی میں مضمر نظر آئے گی۔ اس نے دوسرے نظم نگاروں کی طرح مایوسیوں اور نا  امیدیوں کی پیش کش پر اکتفا نہیں کیا بل کہ آنے والے روشن دنوں کی نوید بھی دی ہے۔ یہ نکتہ نظریوں تو اس کی بہت سی نظموں میں موجود ہے لیکن اس کی نظم  ’’ نئے دن کا نصاب‘‘  اس موضوع پر اس کی سب سے موثر نظم ہے۔

رات کے قافلے سے ادھر اک دمکتی ہوئی صبح ہے

مردہ تاروں کی پھیکی ہنسی،

چاند کا زرد افسوں،

ہوا کے سلگتے ہوئے بین، ہستی کا آخر نہیں

………

………

وہ سورج ( گئے دن کے سورج کا وارث)

نئی تاب سے تخت مشرق پہ بیٹھے گا

………

………

نغمہ گر اپنے الفاظ میں روشنی کے ترانے لکھیں گے

صبا  ٭٭اہش ہے کہ وہ ان مدہعصرکی ثنا میں قصیدے کہیں گے

شب جبر کتنی ہی پھیلے

مگر ایک خورشید کے فاصلے پر ہے ہنستا ہوا روز روشن

وہی دن ہماری کتابوں،

ہمارے نصابوں،

ہمارے لہو میں رواں ہے

تابش کمال بعض مقامات پر فکری تضاد کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ یہ تضاد آنے والے وقت کی پیش گوئی کرتی ہوئی اس کی دو نظموں  ’’ مستقبل کا ایک منظر‘‘  اور  ’’ نئے دن کا نصاب‘‘  میں واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ شاعر کو بھی اپنی فکر کی دونوں سمتوں کی موجودگی کا احساس ہے اسی لیے تو وہ اپنی نظم  ’’ Dimensions‘‘  کی آخری سطروں میں کہتا ہے۔

کبھی کوئی پھول مسکرائے

کبھی کوئی خار دل دکھائے

تو مجھ تک آنا

یہ نظم دونوں کا ماجرا ہے

تابش کمال نے اپنی نظموں میں بے شمار نئے نئے خوب صورت امیجز تخلیق کیے ہیں اور خیال رکھا ہے کہ شاعری اور غیر شاعری میں حدِ فاصل قائم رہے۔ موسیقیت ان نظموں میں فطری روانی کے ساتھ موجود ہے اور فن اور فکر دونوں حوالوں سے وہ ایک محتاط شاعر کے طور پر سامنے آیا ہے اس کا شعری سفر اسی احتیاط سے جاری رہا تو جلد ہی اس کا شمار نئی نظم کے چند اہم، تازہ کار اور جان دار شاعروں میں ہونے لگے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

خلیق الرحمان کی مصورانہ نظر

نئی نظم، موضوع اور ہیئت کے جن تجربات کی پیش کش کے لیے کوشاں ہے مستقبل میں اس کے استحسان کی صورت کیا ہو گی؟اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا، البتہ اس حقیقت سے مفر ناممکن ہے کہ نئی نظم نے زندگی کے جزو اور کل سے جڑتے ہوئے شعری مدارج کو طے کرنے سعی کی ہے اور یہ سعی یقیناً قابل ستائش ہے۔ آج جہاں ایک طرف اہم شاعروں کے موضوعات اور تکنیک کے تقلیدی برتاؤ نے یک سانیت کا احساس پیدا کیا ہے وہاں کبھی کبھار نئے فکری میلان اور تازہ شعری جمالیات کے حامل شاعر سے ملاقات باعث حیرت بھی ہوتی ہے اور وجہ طمانیت بھی۔ خلیق الرحمن کو پہلی مرتبہ ’’کنول جھیل کا گیت‘‘  اور دوسری مرتبہ  ’’دامن کوہ میں شام‘‘ میں پڑھ کر مجھے انھی احساسات کا سامنا رہا۔ وہ مقلدین کے انبوہ میں اپنی الگ شناخت کا مطالبہ کرتا ہے، وہ نئے آہنگ، لفظوں سے تخلیق ہونے والی خوش رنگ تمثالوں، مثبت طرز فکر و احساس، زندگی سے جڑے ہوئے موضوعات، ہندی لفظیات، ہندی متھالوجی اور گیت سے قریب تر صوتی اثر کے ساتھ منظر عام پر آیا ہے۔ وہ چونکانے یا مرعوب کرنے کے کوشش نہیں کرتا بل کہ ہم درد اور غم گساربن کر دل میں اتر جاتا ہے۔ وہ شعری ذوق کے حامل ہر قاری کو اپنی زمین اور اپنی ثقافت سے جڑا ہوا اپنا شاعر لگتا ہے۔ اس کی شاعری سے غیریت کی مہک نہیں اپنائیت کی خوشبو آتی ہے۔

خلیق داخل اور خارج، موضوع اور ہیئت، خیال اور زبان اور فکر اور اسلوب میں بٹا ہوا شاعر نہیں ہے۔ اس کے ہاں امتزاج اور انجذاب کے رویے نے اس دوئی کو وحدت میں بدل دیا ہے۔ نظم اس کے لیے ایک اکائی ہے جس میں تمام خصائص شعر یک جاہو کر خوبی پیدا کرتے ہیں۔ وہ ترسیل کا قائل ہے۔ اسلوب اس کی نظم کا لبادہ نہیں بل کہ جزو لاینفک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حسی سطح تک ابلاغ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نئی نظم میں ابلاغ کی یہ خوبی خال خال نظر آتی ہے اسی لیے آج لکھی جانے والی نظم کے تقابل میں اس کی نظم سادہ معلوم ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ اپنے سچے اور سُچے، صاف شفاف اور خالص وپر خلوص جذبات کی پیش کش میں وہ آرٹ اور کرافٹ کو نظر انداز کر دیتا ہے لیکن در حقیقت بنت کا ڈھنگ اور آہنگ، استعارے اور تمثالیں، بہ ظاہر سادہ دکھائی دینے والی اس کی نظموں کو معانی سے بھر پور اور حسن سے لبریز بناتی ہیں۔ اس خوبی کے پس منظر میں شعری ریاضت، انفرادیت کی تلاش، ذات، حیات اور کائنات کے سربستہ رازوں تک رسائی کی آرزو اور ایک ایسا طرز اظہار اپنانے کی جستجو کار فرما دکھائی دیتی ہے جو قلب و ذہن، فکر و جذبہ، عقل وجدان، شعری تشنگی، اور ذوقِ جمال کی بہ یک وقت تسکین کا ذریعہ بن سکے۔

خلیق زندگی کے مسئلوں، بد رنگ و دہشت انگیز منظروں، غیر انسانی رویوں اور نا ختم دکھوں کو موضوع بناتا ہے، لیکن نظم کونہ تقریر بننے دیتا ہے نہ نوحہ، اس کا رویہ خالصتا معروضی نہیں ہے اس لیے ہر دکھ اس کا اپنا دکھ بنتا محسوس ہوتا ہے۔ وہ سب کے درد کو اپنا دردسمجھتا ہے۔ یہ غیر متعصبانہ رویہ انسانیت سے اس کی ہمدردی اور اس کے دکھ کے آفاقی ہونے کا پتا دیتا ہے۔ تاہم وہ امن، خوش حالی اور مسرت بھرے دنوں کے خواب دیکھتا ہے، وہ مایوس نہیں۔ وہ منظر نامہ جس نے آج کے تخلیق کاروں کو اندھیروں کا قیدی بنا دیا ہے۔ وہ منظر نامہ خلیق کو روشن مستقبل کی نوید دیتا ہے۔ مایوس کن صورت حال اور ابتر حالات میں بھی وہ اپنا ذہنی اور قلبی اعتدال نہیں کھوتا وہ زندگی سے پیار کرتا ہے۔ یہی محبت، موت اور فنا کو اس کے لیے ایک ماندگی کا وقفہ بنا دیتی ہے۔

خلیق حیات و کائنات کو تسخیر کرنا چاہتا ہے۔ وہ آسمانوں کی بے انتہا وسعتوں سے ملنے کے لیے روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کا متمنی ہے، وہ آنے والے زمانوں میں وقوع ہونے والی تبدیلی کو جاننے کا خواہش مند ہے، وہ ماضی کے کھنڈر محل کی داستان کا کردار بننے کی آرزو رکھتا ہے، ایک پیاس ہے جو نہ بجھتی ہے اور نہ اسے ٹھہرنے دیتی ہے وہ اپنے مخصوص وژن کو ساتھ لیے مسلسل سفر کرتا رہتا ہے۔ اس کے رستے میں پیچ و خم، نشیب و فراز، ڈھلوانیں اور چٹانیں، جنگل اور سمندر آتے ہیں لیکن وہ اپنے عزم اور حوصلے کے بل بوتے پر انھیں پار کرتا جاتا ہے کیوں کہ اس کی منزل خیر کا خوب صورت جزیرہ ہے جس کا خواب وہ تمام انسانیت کے لیے دیکھتا ہے۔

خلیق کی شاعری میں اس کا ماضی اس کی زندگی کا خوش گوار دور بن کر ابھرتا ہے۔ جہاں معصومیت، محبت اور ماں، اس کے ہم راہی اور سانجھی ہیں جہاں زندگی کے آلام و مصائب اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے، لیکن ماں، محبت اور معصومیت کے بچھڑنے پر وہ بکھر گیا ہے۔ وہ بار بار انھیں یاد کرتا ہے، ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کی تصویریں بناتا ہے، ان پر نظمیں لکھتا ہے، نیر بہاتا ہے لیکن ہار کر بیٹھ نہیں جاتا، بل کہ ان دنوں کی یادوں سے زیست کرنے کی قوت حاصل کرتا ہے۔ یادیں اسے دکھی کرتی ہیں لیکن مایوس نہیں کرتی بل کہ جینے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔

خلیق ناسٹلجک ہونے کے باوجود معروض سے لا تعلق نہیں ہے۔ اس کے ہاں عصری آشوب سے آگاہی کا بھر پور احساس ہو تا ہے۔ اس کے دل میں بھٹکتے ستاروں کی آکاش منزل تک پہنچنے کی خواہش موجود ہے۔ یہ خواہش اس کے افلا کی رویہ کی طرف متوجہ کرتی ہے لیکن اپنی کئی نظموں میں اس کا احساس خالصتا خاکی ہے۔ وہ زمین، تہذیب، تمدن اور ان کے المیوں سے جڑا ہوا شاعر ہے۔ اسے ہو جانے والے سانحوں کا دکھ ہے اور آیندہ ہوسکنے والے سانحوں کا اندیشہ۔ اس کے ہاں دنیا ایٹمی جزیرے اور آسیب بستی کے روپ میں ظاہر ہو کر دوچار لمحوں کے لیے خوف زدہ کرتی ہے لیکن وہ بڑے غیر محسوس انداز میں بد رنگ دنیا سے ہمیں اپنی خوش رنگ دنیا میں لے جاتا ہے جہان سکون، خوشبو، رنگ اور گیت ہیں۔ جہاں فطرت کے بے شمار دل فریب مناظر ہیں۔ جنھیں اس کی مصورانہ نظر نے اور دلکش بنا دیا ہے۔ جہاں پنچھیوں کی میٹھی رس بھری بولیاں ہیں جنھیں اس کے شعور موسیقی نے اور د ل گداز اور پر سوز کر دیا ہے وہ بد صورت کو کم بدصورت اور حسیں کو حسیں تر کرنے کے عمل میں مشغول ہے۔ یہی وصف اس کی نظموں میں ڈھلتا ہے تو اس دنیا میں ایک اور دنیا تخلیق ہوتی جاتی ہے جو اس دنیا سے زیادہ خوب صورت ہے۔

خلیق نے خوب صورت دنیا کو مزید خوب صورت بنانے کے لیے فطرت اور اپنے گہرے شاعرانہ شعور سے خوب کام لیا ہے۔ فطرت جب اس کے شعری باطن کا حصہ بنتی ہے تو جذبات اور احساسات کے بہت سے ان چھوئے رنگ بھی اس میں حل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح حسن اور احساس کا جو محلول تیار ہو کر موسیقانہ اثر کے ساتھ نظم کے قالب میں ڈھلتا ہے وہ ان اجزاء کے علاحدہ علاحدہ تاثر سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے، اثر انگیزی کا یہ بڑھاوا خلیق کی نظم کا ممتاز وصف ہے۔

اپنی بہت سی نظموں میں خلیق ایسے اسرار کو مس کرتا ہوا نظر آتا ہے جن کی قربت بل کہ قربت کا احساس تک لرزا دیتا ہے وہ زندگی سے اس سے کہیں قریب ہے جتنا کہ وہ بہ ظاہر دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ حقائق اس پر ظاہر ہوتے جاتے ہیں اور وہ اپنی حیرت اور معصومیت میں ان کا اظہار کرتا جاتا ہے شاید بھید جانتے ہیں کہ انھیں کن پر کھلنا ہے۔ اس جانب اس کی پیش قدمی خوف زدہ کر دیتی ہے مگر یہی پیش قدمی اس کے شعری مستقبل کے کثیر امکانات کو بھی محیط ہے۔

خلیق کی نظموں کے بارے میں جو معروضات میں نے پیش کی ہیں۔ اس کی مثالوں سے اس کے دونوں مجموعہ ہائے نظم بھرے پڑے ہیں۔ اس لیے میں چند نظموں کے اقتباسات دے کر باقی نظموں سے نا انصافی نہیں کرنا چاہتا۔ ایسا نہیں کہ اس کی نظموں میں معائب نہیں ہیں البتہ محاسن کے مقابلے میں وہ اتنے قلیل یا معمولی ہیں کہ انھیں نظر انداز کرنے کو جی چاہتا ہے۔ سو وہی کر رہا ہوں۔

خلیق کا اب تک شعری سفر قابل رشک ہے۔ اس سفرکو جاری رہنا ہے امید یہی کی جاتی ہے یہ سفرمائل بہ ارتقا ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اختر رضا سلیمی کا محتاط رویہ

روح شعر کیا ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جسے ہر شاعر اپنے لیے خود دریافت کرتا ہے۔ بل کہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اسے ہر شاعر کو اپنے لیے خود دریافت کرنا چاہیے۔ کیوں کہ جو شاعر دوسروں کی دریافتوں پر انحصار کرتے ہیں ان کا کلام ان کی شناخت نہیں بن پاتا۔ نتیجتاً ان کی طرح ان کا فن بھی رزق خاک ہو جاتا ہے۔ میں کوئی ان ہونی نہیں بل کہ سامنے کی بات بیان کر رہا ہوں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس سامنے کی بات کو ہمارے بہت کم شاعر سمجھتے ہیں۔ ان کم شاعروں میں ایک شاعر اختر رضا سلیمی بھی ہے۔ جو اپنے لیے روح شعر کی دریافت کے عمل میں منہمک ہے۔ اس کی اب تک کی شاعری یہ بات ثابت کرتی ہے کہ وہ اس حوالے سے کام یاب رہا ہے۔ آگے کے شعر ی سفر کی صورت کیا ہو گی ؟ یقین سے کچھ کہنا مشکل ہو گا۔ البتہ آثار بتاتے ہیں کہ وہ اپنے لیے ایک اچھا مقام بنانے میں کام یاب ہو جائے گا۔

اختر رضا سلیمی عام شاعر نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کی شاعری غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے شعر خالی نہیں ہیں۔ بھرے ہوئے ہیں بل کہ چھلک رہے ہیں۔ اس کی شاعری کی روح اتنی توانا ہے کہ جسدِ  لفظ و ہیئت محبس اور قفس کی سی تنگی کا احساس دلاتا ہے۔ شعر کو برتنے کے حوالے سے اس کا یہی رویہ اس کا اختصاص بنتا نظر آتا ہے۔

اختر رضا سلیمی کا مسئلہ وجود کے معنی کی دریافت ہے۔ اپنے زمانے سے مختلف ہونے کے احساس نے اس کے لیے وجود کی موجودگی کا جو قضیہ پیدا کیا ہے۔ اس کی بیش تر شاعری اس قضیے کا حل تلاشتی محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے وجود کو حال میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کے علاوہ گزشتہ و آیندہ کے حوالوں سے بھی ڈھونڈتا ہوا نظر آتا ہے لیکن اپنے وجود کے بہ راہ راست اثبات کے بجائے ایک دوسرے کی جستجو بھی اسے گھیرے ہوئے ہے جو اس کے اپنے وجود کے اثبات کے لیے لازم ہے یا جسے اس نے اپنے وجود کے اثبات کے لیے لازم تصور کر رکھا ہے۔

یہ دوسرا کون ہے ؟کہاں ہے؟ کن صفات کا حامل ہے؟ وہم ہے، یقین ہے یا خواب؟ اس دوسرے کی موجودگی مقام کی محتاج ہے یا نہیں ؟ یہ دوسرا مستقل ہے یا تغیر و ارتقا پذیر؟ اس دوسرے کی قوت و اختیار کا دائرہ کیا ہے ؟ یہ اور اس جیسے کئی دوسرے سوالات اختر رضا سلیمی کی ہر غزل میں اٹھائے گئے ہیں۔ وہ زیادہ تر وقت انھی سوالوں پر غور و فکر کرتے ہوئے نیز سامنے کی باتوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے گزارتا ہے کہ شاید کہیں سے کوئی کلید اس کے ہاتھ لگ جائے۔ یہ سوال بار بار رنگ بدل بدل کر اس کے کلام میں ظاہر ہوتے ہیں کہیں لبادہ تشکیک کا ہے تو کہیں تیقن کا، کہیں وہ حسن سے مکالمے کے پس منظر میں اسے سوچتا ہے تو کہیں وصل و ہجر کی وارداتوں میں اس کی کھوج لگاتا ہے، کہیں مجاز حقیقت کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں حقیقت خود مجاز کا روپ دھار لیتی ہے۔ بالائی سطح پر نمودار ہوتی یہ چھوٹی بڑی لہریں دراصل زیریں سطح پر موجود وسعت کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ جب قاری زیر سطح اترتا ہے تو اس کی ملاقات شاعر کے بجائے مابعد الطبعیات پر غور و فکر کرنے والے مفکر سے ہوتی ہے۔ تاہم یہ مفکر  تا حال اپنے مرکزی سوال کے گرد دوسرے جزوی سوالات کے دائرے بنانے میں مشغول ہے۔ جواب ابھی اس کے لیے باعث تشفی نہیں۔ ابھی وہ اپنے سوال کی وسعت و ہمہ گیریت کی تلاش میں ہے۔ اس کا شعری سفر جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے اس کے سوالوں کی گہرائی و گیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوال اختر رضا سلیمی کی اختراع ہیں اور ان کی گہرائی و گیرائی میں اضافہ اس کا ارتفاع۔

’’ اختراع‘‘  سے ’’ ارتفاع‘‘  تک کے شعری سفر میں اس نے اپنا راستہ نہیں بدلا بل کہ منتخب رستے پر ایک قدم آگے بڑھا یا ہے۔ جس رستے کا انتخاب اس نے کیا ہے اس پر ایک دو قدم آگے بڑھنا معمولی پیش رفت نہیں۔ اس اعتبار سے اختر رضا سلیمی فکری پیش رفت کا شاعر بنتا ہے اور فکر ہی آج کے شعری اظہار کی اساس ہے۔ اختر رضا سلیمی کا فن اس کی فکر سے جلا پاتا اور نکھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

اختر رضا سلیمی نے اپنی فکری تشنگی کے اظہار کے لیے صنف غزل کو منتخب کیا ہے۔ غزل کے سنجیدہ مطالعے میں گزشتہ دو تین عشروں کے دوران جو کمی آئی ہے اس کے بعد کسی نئے شاعر کا اس جانب توجہ کرنا اور اسے اپنے اظہار کے لیے اساسی صنف کے طور پر منتخب کرنا باعث حیرت بھی ہے اور باعث اطمینان بھی۔ باعث حیرت اس لیے کہ اسے یہ خدشہ نہیں کہ اس کی غزل کا سنجیدگی سے مطالعہ نہیں کیا جائے گا اور باعث اطمینان یوں کہ وہ رواج پذیر صنف کے مقابلے میں اس صنف کی اہمیت سے آگاہ ہے جو اس کی فکری تشنگی کے اظہار سے زیادہ گہری وابستگی کی حامل ہے۔ اختر رضا سلیمی کو جو معجز نما فکر شعر کی طرف مائل کر تی ہے۔ اس کے لیے غزل سے بہتر کوئی صنف نہیں کیوں کہ غزل وہ واحد صنف ہے جس کا ایجاز ہی اس کا اعجاز ہے۔ اپنی فکری مناسبت اور ضرورت کے مطابق غزل کی صنف کے انتخاب نے اختر رضا سلیمی کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچایا بل کہ اسے غزل کی شاعروں کی صف میں ایک نمایاں مقام بھی عطا کیا ہے۔ یہی اس کے فنی شعور کی بالیدگی کا ثبوت ہے۔

اختر رضا سلیمی کی شاعری میں تازگی کے برعکس ٹھہراؤ اور انسانی فکر کے تاریخی تسلسل سے ارتباط زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ا س لیے اس نے زبان کے جدید تر رویوں کے بر خلاف زبان کے کلاسیکی رچاؤ کی جانب جست بھری ہے۔ اس کے باوجود اس نے خود کو فارسیت کے غلبے سے بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی شاعری کی فنی خوبیوں میں سب سے نمایاں خوبی اس کی کفایت لفظی ہے۔ وہ نہ تو خود کو ضرورت سے زیادہ خرچ کرتا نظر آتا ہے نہ ہی الفاظ کو۔ اس کے اشعار تعداد میں چند اور بندش میں چاق و چوبند ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اس کا یہی وصف اسے شعرائے غزل میں ممتاز کرتا ہے۔

مجھے اختر رضا سلیمی کا محتاط رویہ اپنے قریب بھی کرتا ہے اور خود سے دور بھی۔ اس کی احتیاط پسندی مجھے اس کے قریب اس لیے لے جاتی ہے کہ آج کی شاعری اس محتاط رویے سے نابلد ہونے کا احساس دلاتی ہے جب کہ اس کا یہی رویہ مجھے اس سے دور اس لیے کر دیتا ہے کہ میں جس کھلی ڈلی فضا میں سانس لینا چاہتا ہوں وہ مجھے اس کی شاعری میں نہیں ملتی۔ اس کے محتاط رویے نے اسے ابتذال سے بچا لیا ہے مگر اسے اوجِ کمال تک پہنچنے بھی نہیں دیا۔ اسے اپنے محتاط رویے کو برقرار بھی رکھنا ہے اور اس میں وہ لچک بھی پیدا کرنی ہے جو اسے نئی بلندیوں سے آشنا کر سکے۔

اختر رضا سلیمی ادب کے سنجیدہ قاری کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب ہو چکا ہے۔ یہ پہلامرحلہ اس نے وقت پر طے کر لیا ہے لیکن آگے کے مراحل زیادہ صبر آزما اور محنت طلب ہیں۔ تعریف و توصیف کے باوجود اسے ابھی ٹھہرنا نہیں ہے۔ اس نے اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں کم وقت میں زیادہ حاصل کیا ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے لا حاصل کی تمنا ترک کر دینی چاہیے۔ میں اس تجزیے کو اختر رضا سلیمی کے لیے ایک مصرع پر ختم کرتا ہوں ؛

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہزاد نیر کا فنی رچاؤ

اپنے وسائل اور مسائل کے با وصف نئی نظم آج اصناف شعری میں اپنے لیے ایک ممتاز اور مستند مقام حاصل کر چکی ہے یہی وجہ ہے کہ تقریباً سبھی نو وار دان شاعری نے نظم کو وسیلۂ اظہار بنا رکھا ہے جب کہ اکثر نے تو نظم کو ہی بہترین ذریعہ تصور کرتے ہوئے باقی اصناف سے نہ صرف ناتا توڑ لیا ہے بل کہ ان کی جڑیں کاٹنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ تاہم معتدل اذہان اور متوازن ذوق کے حامل شعراء کی بھی کمی نہیں۔ شہزاد نیر کا شمار انھی شعراء میں ہوتا ہے۔ اپنے ذہنی و ذوقی اعتدال و توازن کے باوجود منصہ شہود پر آنے والا شہزاد نیر کا اولین مجموعہ صرف نظموں پر مشتمل ہے جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کا جوہر جس قوت، شدت اور جدت سے نظموں میں ظہور کرتا ہے دوسری اصناف میں اس توانائی سے نہیں کھلتا۔ لفظوں کے انتخاب میں کفایت شعاری، منظر نگاری، شعریت، روانی، وحدت تاثر اور امیجز کی فراوانی شہزاد کی نظموں کی وہ خصوصیات ہیں جن سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ اس کی نظموں میں موجود نغمگی اور روانی قاری کو مجبور کرتی ہے کہ نظم کی مکمل قرأت کی جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نے اپنی اس خوبی پر طویل نظم ’’خاک‘‘ میں بھی کوئی حرف نہیں آنے دیا۔ اتنی ساری خصوصیات کا کسی ایک شاعر میں مجتمع ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں یقیناً ان خوبیوں کے پس منظر میں شاعر کی فن سے آشنائی کی طویل ریاضت اور کڑی محنت کار فرما رہی ہو گی۔

شہزاد نیر کے مجموعی فکری و فنی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ ہمیں تعقل پسندی اور حسن کاری کے شوق میں مشغول دکھائی دیتا ہے وہ درون و بیرونِ ذات رونما ہونے والے کسی بھی واقعے کو فکر کی کسوٹی پر پرکھے بغیر سپرد قلم نہیں کرتا۔ اس کے اندر بیٹھا عقلیہ واقعے کا تجزیہ کرتا ہے جب کہ شاعر واقعے کو تمثالوں میں اس طرح ڈھالتا ہے کہ وہ اپنی ادنیٰ سطح سے اوپر اٹھ کر نظم کی اعلیٰ سطح کومس کرتا دکھائی دیتا ہے۔  ’’برفاب‘‘ کا منظوم پیش لفظ  ’’اعترافیہ ‘‘ شہزاد کے علمی رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

روز بڑھتا علم

گھٹتا امن

زخمی ضابطے

بنتے بگڑتے نظریے

مرتی روایت

آخری سانسوں پہ آئے فن

گھٹتی زندگی

اڑتی اجل

پھٹتے ہوئے جوہر

سلگتی سوچ میں تپتے سوالوں کا دھواں

(اعترافیہ)

علم سے متعلق لوگوں کے ایک اچھوتے احساس کو شہزاد نے اپنی نظم  ’’غائب‘‘ میں جس طرح اپنی گرفت میں لیا ہے اور جس تازگی اور نفاست کے ساتھ اسے لفظوں میں ڈھالا ہے وہ علمی تشنگی سے محروم کسی ایسے شخص کا بیان نہیں ہوسکتا جس پر یہ واردات نہ بیتی ہو۔

عقل مینار پر

دور بیں آگہی سے

اندھیروں کی وسعت میں بکھرے ہوئے

کائناتی مظاہر کو دیکھا

تو میں اور چھوٹا ہوا

جتنا آگے بڑھا

اس قدر میری تصغیر ہوتی گئی

اب میں پوروں میں ہوں

(غائب)

شہزاد کی بنت کاری کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جدا جدا اور مکمل مصرعوں کے ملاپ سے تدریجی مراحل طے کرنے والی آزاد نظم کے بجائے ایک دوسرے میں جذب ہوتے مصرعوں کے تسلسل سے تشکیل نظم کا قائل ہے۔ مصرعوں کی باہم جڑت کا عمل اس کی سبھی منظومات میں نمایاں ہے اس اعتبار سے وہ میراجی کی روایت کا نظم گو بنتا ہے۔

شہزاد کی تمثالیں واحدانی ہیں، یعنی وہ خیال کی کسی ایک پرت کو تمثال در تمثال کے بجائے ایک ہی امیج کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ مصرع سازی میں بھی اسی سبب ایک سطر میں ایک ہی امیج بنتا نظر آتا ہے۔ اس کی تمثالوں کی دوسری خاصیت ان کا متحرک ہونا ہے۔ ساکن تمثالیں اس کے ہاں نہ ہونے کے برابر ہیں تا ہم تمثالوں کی حرکت دوڑنے کے بجائے سرکاؤ اور آہستہ آہستہ پیش قدمی سے زیادہ قریب محسوس ہوتی ہے۔

اندھیرا سرکتا ہے

مٹی کے ملبوس والے گھروں

لڑکھڑا ہٹ میں اک دوسرے سے الجھتی ہوئی

ٹیڑھی گلیوں میں بہتا ہوا

(بے نیاز مکاں )

میں چپکے سے قدم دھروں تو رستے بولنے لگ جاتے ہیں

گلی کی روشن قندیلیں بھی ایک شرارت سے تکتی ہیں

جلتے بجھتے سائن بورڈ تو یوں آنکھیں جھپکاتے ہیں

جیسے وہ سب کہہ دیں گے

(رستہ سہل نہیں ہے)

ماورا سے ہم کلام نظموں  ’’گریزاں ‘‘ اور ’’وہی بے چارگی ہے‘‘ سے قطع نظر شہزاد اپنے موضوعات گردو پیش سے لیتا ہے۔ انسان کو درپیش آلام، مسائل اور محرومیاں اس کی کئی نظموں کا موضوع بنی ہیں۔ وہ نظریاتی طور پر ترقی پسند نہ سہی مگر ’’انسان دوست‘‘ شاعر ہے۔ کائنات کا دریافتی پھیلاؤ اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے عالمی حالات اسے متاثر کرتے ہیں وہ ان پر سوچتا ہے تاہم اس کی نظموں میں اس جانب بڑھنے کے اشارے تو ملتے ہیں واضح پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ حالات کی پیدا کردہ گھٹن، ہونے نہ ہونے کے، وجودی بھید تک رسائی کی آرزو، بے مصرفیت کا کرب، زمانی تسلسل میں رائیگانی کا احساس، آفات کی صورت نازل ہونے والا جبر، سرحدوں کی حفاظت کے لیے عسکری جدوجہد اور زمینی تقسیم کی بے معنویت اس کی نظم کے نمایاں موضوعات ہیں۔

شہزاد نیر کی شعری کائنات کا مرکزہ ’’برف‘‘ ہے۔ برف جو تمام تر سیاسی، سماجی، سائنسی، اور تہذیبی ترفع کے باوجود بے تحرک زندگی کا استعارہ بنتی ہے۔ سمٹتی ہوئی دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے سے علمی، فکری، جمالیاتی اور حسیاتی جڑت کے باوجود جمود و انجماد حیات و ذات کے حوالے کا غالب فکریات و حسیات ہو جانا، ہماری طرح خود شہزاد کا بھی سب سے اہم اور بنیا دی سوال بن کر ابھر ا ہے۔ شہزاد اپنے اس سوال کا جواب برفیلے راستوں، جمی ہوئی آوازوں، یخ بستہ خوابوں، برف بنے جسموں اور منفی سے منفی تر ہوتے درجہ حرارت میں کھلی ہوئی آنکھوں سے تلاش کرتا ہے۔ میں جب اس کی تلاش کی کیفیتی سرگزشت میں اس کے ہم راہ چلتا ہوں تو وہ مجھے  ’’برفاب‘‘ کی اذیت سرائے میں لے جاتا ہے اور مجھے اپنی آنکھوں دیکھے، جسم گزارے، روح بتائے یہ منظر دکھا تا ہے۔

جہاں میں ہوں

وہاں پر برف اندر برف اگتی ہے

جہاں اتنی بلندی ہے کہ سانسیں ڈگمگا اٹھیں

ہوائیں بے حیات اتنی کہ موسم تھرتھرا اٹھیں

جہاں پر زندگی کرنے کے امکاں ٹوٹ جاتے ہیں

(سیاچین)

میں اک برفانی تودہ ہوں

کھڑا ہوں منجمد صدیوں سے

اب کوئی بھی موسم ہو

ہوا، نا مہرباں …میرے

لرزتے کانپتے شانے پہ ٹھنڈا ہاتھ رکھتی ہے

(گلیشیئر)

سرد مہری کے گالے

اداسی کی یخ بستگی کے تلے

دل زمیں پر جمی سرد حرفوں کی تہ

اور موٹی ہوئی

خواب ٹھٹھرے، لرزنے لگے

(منجمد خواب)

بار ہا ایسی کوئی گم نام سی پر سوزلے

درد کی صورت

مرے سینے میں جم کر رہ گئی

(صدائے منجمد)

بدن اپنے کم زور بازو سے

برفانی طوفاں سے لڑتا رہا

آنکھ نے نیند کو برف میں دفن کر ڈالا

بیداری پہروں کھڑی ہی رہی

(کارگل)

مندرجات بالا یہ باور کرانے کے لیے کافی ہیں کہ شہزادکس اذیت ناک برفیلے تجربے سے گزرا ہے۔ اس اذیت کی سفا کی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ خدا کو اپنی اذیت کی مشارکت سے محروم تصور کرتا ہے اور اس سے شاکی ہے کہ اس کی آسمانی بادشاہت (جسے وہ برف کہتا ہے )اس کا سبز آیندہ جلا دیتی ہے۔

خدائے بے نیاز موسم و آب و ہوائے دل

ہمارے دکھ تجھے محسوس کیسے ہوں

ادھر چھت آسماں ہو

اور بدن پر برف پڑ جائے

تو کیسے رات کٹتی ہے

خداوندا

تجھے سردی نہیں لگتی

(جس تن لاگے)

لیکن ہمارا سبز آیندہ جلاتی

آسمانی بادشاہت برف ہے

(آتش)

شہزاد کی مختصر نظموں میں بننے والا یہ برفیلا منظر نامہ، اس کی طویل نظم ’’خاک‘‘ میں اپنے پورے جلال و جمال کو ظاہر کرتا دکھائی دیتا ہے۔  ’’خاک‘‘ دراصل ایک خاکی وجود کی برف سے ہم کلام اور محو جدل ہونے کی منظوم داستان ہے۔ اس نظم میں برف اپنے تمام تر معنیاتی و استعارتی پھیلاؤ کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے۔ برف اور خاکی وجود کی باہم آویزش و آمیزش اس پر برف میں زیست کرنے کے عمل کو موت اور خاک کو خاک سے جوڑتی موت کو بہ صورت حیات منکشف کرتی ہے۔ اس نظم کے سنجیدہ مطالعے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ شہزاد نے برف کو ایک وسیع تناظر کی بے کیفی، اذیت، یک سانیت، جمود اور جبر کے معنوں میں دیکھا اور دکھایا ہے۔ اس نے برف سے کئی اسرار و رموز حیات و ذات اخذ کیے ہیں اور اپنا تعلق ابدی زندگی سے بحال رکھتے ہوئے دست مہر سے لمس حرارت زا کا طالب رہا ہے۔

برف کا اثر دہا

جا بہ جا، اپنے جبڑوں کو کھولے

پہاڑوں کے پیروں سے لپٹا ہوا تھا

زمیں برف تھی آسماں برف تھا

اور ہوا، برف کی دھول کا روپ تھی

 

سب زماں و مکاں

لازماں، لامکاں برف تھے

برف کالی رداؤں میں مستور تھی

پھر بھی موجود تھی

موت یخ بستگی ریڑھ ہڈی سے ہو کر گزرنے لگی

زندگی کا سرا میرے جمتے ہوئے ہاتھ سے دور تھا

دور اتنا کہ جیسے ازل سے ابد

آسماں سے زمیں

 

اے اجل، سن ذرا

برف کے روپ میں چار جانب کھڑی

بے مروت اجل سن ذرا

موت……سردی

حرارت……حیات آفریں

 

منجمدجسم چلنے لگا

گرم مٹی کی چادر کی چاہت میں

کھنچتا ہوا

جھولتا، جھومتا

چار شانوں پہ چلنے لگا

(خاک)

معائب کی طرف نگاہ ڈالیں تو نئی نظم سے انسلاک کی آرزو مند شہزاد نیر کی نظمیں اپنی تشکیل میں تقلید سے آگے نہیں بڑھتیں نہ ہی وہ درون نظم کوئی ایسا آہنگ دریافت کر پاتی ہیں جنھیں دوسرے نظم گو شعراء سے ممیز کیا جا سکے۔  ’’عذاب آنکھیں ‘‘  اور بعض دیگر نظمیں جان دار اور پر اثر اختتامیوں سے محروم ہیں عنوانات میں  ’’Surrogation‘‘  اور ’’ جس تن لاگے‘‘ کے علاوہ اکثر نہ تو کلید نظم کا کام دیتے ہیں نہ ہی نظم میں توسیع معانی کا فریضہ سر انجام دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ طویل نظم  ’’خاک‘‘ میں بے جا طوالت اور امیجری کی یک سانیت اس خوب صورت نظم کے مجموعی تاثر پر برے اثرات ڈالتی ہے۔ ان معائب کی طرف اشارہ کرنا میں اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ مجھے شہزاد میں آگے بڑھنے کی لگن اور دوسروں سے مختلف ہونے کی دھن نظر آتی ہے۔ شاید یہ اشارے اس کے آگے کے سفر میں اس کے معاون و مدد گار ثابت ہوں۔

’’کبھی سورج بھی نکلے گا‘‘  ’’وہی بے چارگی ہے‘‘ Surrogation اور ’’جس تن لاگے‘‘ شہزاد کے فکری ابعاد، موضوعاتی جہتوں اور کیفیاتی تنوع کی جانب اشارہ کرتی ہوئی ایسی نظمیں ہیں جن سے اس کا شعری مستقبل جھلکتا ہے۔ آج کل بیش تر نظم گو اپنی نظم کے معنوی اور صوتی دائرے کو شعوری طور پر نامکمل رکھتے ہیں لیکن شہزاد کا رویہ مختلف ہے۔ اس نے کوشش کی ہے نظم اپنی تکمیلیت کا احساس دلائے اور مجھے وہ اس کوشش میں کام یاب دکھائی دیتا ہے۔ لسانی سطح پر بھی اس نے نئی نظم کی بے اعتدالیوں سے بچ کر چلنے کی کوشش ہے۔ علم سے وابستگی، فن سے لگاؤ، گردو پیش سے جڑت خدا سے مکالمہ، تبصرے کے بجائے تجزیے کی کوشش، سطر بندی کا شعور، معتدل اضطراب، جرأت اظہار اور صداقت اس کی ایسی خوبیاں ہیں جو اسے ہمہ وقت آگے بڑھنے پر مجبور کرتی رہیں گی میری خواہش ہے کہ اس کی تمام خوبیوں کی قوت اور شعری قد و قامت میں مسلسل اضافہ ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

سروش کی شاعرانہ دانش

حزقی ایل سروش صاحب سے میرا پہلا تعارف  ’’ یادوں کا نگر‘‘  ہے۔ اس مجموعہ کلام کے نام سے مجھے سخت ناخوش گواریت کا احساس ہوا اور میں اس مجموعے کو ذاتی تجربے سے نابلد رومانی احساسات کا مکدر کر دینے والا غیر تخلیقی اظہار سمجھا، بے دلی سے کتاب کھولی، چند صفحات پلٹے تو  ’’پہلا حرف … نذیر قیصر‘‘  کے عنوان پر نظر پڑی۔ اپنے مجموعہ ہائے کلام پر لکھوانے کے لیے شاعر اکثر نام نہاد سکہ بند لکھاریوں کی تلاش میں رہتے ہیں جب کہ نذیر قیصر تو اپنی مصورانہ سوچ کے ساتھ  ’’ جنت جمال ‘‘  میں رہنے والا سچا شاعر ہے۔ آخر سروش صاحب نے عمومیت کا احساس دلانے والے عنوان کے حامل اس شعری مجموعے پر اظہار رائے کے لیے ایک منفرد شاعر کا انتخاب کیوں کیا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ سروش صاحب نے یہ انتخاب نذیر قیصر سے اپنی  ’’ جمالیاتی مشارکت‘‘  کے سبب کیا ہو؟

اس استفہامیے نے مجموعے کو میرے لیے پرکشش بنا دیا لیکن اس سے پہلے کہ میں مجموعہ پڑھتا مجھے نذیر قیصر کی رائے پڑھنے کا اشتیاق ہوا۔ یہ رائے پڑھنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ شاید میرے سوال کا جواب مجھے یہیں مل جاتا یا یہیں اس کی تر دید ہو جاتی۔

’’حزقی ایل سروش میرے عزیز ترین دوست ہیں ‘‘

یہ پہلا جملہ پڑھ کر میں شدید مایوس ہوا۔ مجھے ایسا لگا کہ  ’’جمالیاتی مشارکت‘‘  کا جو مفروضہ میں نے قائم کیا تھا وہ اس پہلے جملے سے غلط ثابت ہو گیا۔ تاہم قرأت جاری رکھی۔

’’ہم دونوں کے زخم یسوع کے زخم ہیں … حزقی ایل سروش نے یسوع کے زخموں کواپنے دل پر محسوس کیا ہے۔ بھائی حزقی ایل سروش کی بشارت میں ان مقدس زخموں کی دھنک تمام رنگوں اور روشنیوں کے ساتھ جھلملاتی ہے۔ ‘‘

ان جملوں نے میرے مفروضے کو استحکام بخشا اور اب مجھے یقین ہونے لگا کہ اس مجموعہ کلام کے نام نے جو تاثر پیدا کیا ہے مجموعہ یقیناً اس سے مختلف ذائقے کا حامل ہو گا۔

’’ انھوں نے اپنی بشارت، اپنی موسیقی اور اپنی شاعری کے ذریعے انسان اور فطرت کو خوب صورت بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ کوشش اس وقت تک کام یاب نہیں ہوتی جب تک اس کوشش میں محبت شامل نہ ہو۔ ‘‘

یہ جملے پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ یہ تاثرات حزقی ایل سروش کے بارے میں نہیں بل کہ نذیر قیصر نے اپنے بارے میں رقم کیے ہیں۔ میرے لیے یہ بات بھی باعث حیرت تھی کہ نذیر قیصر نے اس تاثر میں حزقی ایل کا کوئی شعر نہیں دیا جب کہ اپنے ایک شعر کے حوالے سے ساری بات بڑی سہولت سے کہہ دی ہے۔

بچہ حرف کو چھو کر زندہ کر دیتا ہے

ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں

اس شعر کی شرح کرتا نیز حزقی ایل صاحب کے تخلیقی عمل کی جانب در وا کرتا ہوا س مختصر تاثر کا آخری اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

’’ حزقی ایل سروش اپنا جال کشتی میں چھوڑ کر یسوع کے پیچھے چل پڑے ہیں۔ انھوں نے یسوع کی پیروی میں لفظ اور خیال سے آدم گری بھی کی ہے، اور آدم گیری بھی۔ شاعری میں یہی تخلیقی عمل ہے اور محبت بھی، کیوں کہ محبت کے بغیر کسی ہاتھ میں وہ لمس نہیں اترتا جو لفظ کو چھو کر اسے زندہ کر سکے۔ ‘‘

الغرض اس تاثر نے میرے قائم کیے ہوئے  ’’جمالیاتی مشارکت‘‘  کے مفروضے کو بڑی حد تک صحیح ثابت کر دیا۔ اس تاثر نے مجھے حزقی ایل سروش صاحب کی شاعری کی تنقیدی قرأت کے لیے ایک کلید بھی فراہم کی اور وہ یہ کہ  ’’ سروش صاحب نے لفظوں کو تخلیقی لمس سے زندگی عطا کی ہے۔ ‘‘

نذیر قیصر صاحب نے اس تخلیقی لمس کے لیے طفلانہ معصومیت کو ضروری خیال کیا ہے جب کہ میں اس کے لیے دانش ورانہ معصومیت کو ضروری سمجھتا ہوں۔ اس مختصر تجزیے میں  ’’ دانش ورانہ معصومیت‘‘  کے پس منظر میں موجود تنقیدی وژن کو مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا البتہ کالرج کا ایک قول ضرور پیش کیا جا سکتا ہے جس پر غور و خوض یقیناً نتائج سے خالی نہ ہو گا ’’ شاعر کے اندر بہ یک وقت ایک بچہ بھی رہتا ہے اور فلسفی بھی ‘‘  بچے اور فلسفی کا اتصال شاعر کو دانشورانہ معصومیت کا حامل بناتا ہے جس کے بغیر لفظوں کو تخلیقی لمس سے نئی زندگی عطا کرنا بعید از امکان ہے۔

اب دیکھنا یہ تھا کہ جو کلید مجھے تنقیدی قرأت کے لیے حاصل ہوئی تھی وہ سروش صاحب کا قفل سخن کھول بھی پاتی ہے یا نہیں ؟ تاہم شعری تجزیئے سے پہلے اس کلید میں موجود تنقیدی اصول کی وضاحت ضروری ہے۔

شاعری درحقیقت لفظوں کو تخلیقی سطح پر نئی زندگی دینے کا فن ہے۔ لفظ کثرت استعمال سے اپنے اردگرد محدود معانی کا ایک حصار قائم کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر ارتعاش پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ مخصوص معانی کی ترسیل کا فریضہ تو سرانجام دیتے ہیں مگر احساسات کو بیدار کر کے فکر کو مہمیز کرنے کا وصف کھو بیٹھتے ہیں۔ یہیں لفظوں کے لیے شاعر کا تخلیقی لمس ضروری ہو جاتا ہے۔ شاعر لفظوں کے گرد موجود محدود معانی کے حصار کو توڑتا ہوا استعاراتی معانی کی حامل فضا تشکیل دیتا ہے۔ نتیجتاً لفظ کی معنوی وسعتوں اور امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی تبدیلی اور حصار شکنی لفظوں کی نئی زندگی کہلاتی ہے۔ یہ فریضہ ہر زبان کے شاعر سر انجام دیتے ہیں اور شاعر کی اہمیت اور مقام کا انحصار بڑی حد تک اسی صلاحیت پر ہوتا ہے۔

کیا واقعی سروش صاحب نے الفاظ کو نئی زندگی دی ہے؟ چند اشعار دیکھئے۔

جیتے جی بھی لوگ سروش

قبریں بھرتے جاتے ہیں

 

جس کے نغمے ابد کے نغمے ہیں

ہاتھ میں یہ رباب سا کیا ہے

 

ٹوٹ کر آسماں کا حرف ہوا

اک ستارہ جو خاکدان سے تھا

 

جاگتے میں یہ کیا کیا ہم نے

اور اک خواب چھو لیا ہم نے

ان اشعار میں بالترتیب قبریں، رباب، ستارہ اور خواب وہ الفاظ ہیں جو اپنی معنوی وسعتوں میں اضافے کا احساس دلاتے ہیں جب کہ اس مجموعے کی آخر ی غزل جس کا مطلع ہے۔

رنگ، خوشبو، صبا محبت ہے

زندگی کی صدا محبت ہے

لفظ  ’’ محبت‘‘  کے معنوی امکانات میں اضافہ کرتی ہے۔ حزقی ایل سروش صاحب استعارہ گر بھی ہیں اور استعارے کی توسیع کا ہنر بھی جانتے ہیں مگر ان کی شاعری اب تک وہ استعارے سامنے لانے میں کام یاب دکھائی نہیں دیتی جن سے ان کے تخلیقی تجربے تک رسائی آسان ہو سکے۔ وہ استعارے بدلتے رہتے ہیں جو کوئی بری بات نہیں مگر مجھے ان کی شاعری میں مستقل جگہ رکھنے والے ان استعاروں کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے جن کے گرد کوئی شاعر اپنا نظام فکر و ضع کرتا ہے۔

لفظ کی تو سیعات معنی کے علاوہ سروش صاحب کا عام رویہ مصورانہ ہے۔ وہ اپنے خیالات کی ترسیل کے لیے مفرد الفاظ کے بجائے شعر کولسانی تصویر بنانے میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ یہ بامعنی تصویر یں اپنے اردگرد وہ دھند بھری فضا بناتی محسوس ہوتی ہیں جس سے شعر کی معنوی ابعاد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان کے ارژنگ سے کچھ تصویریں ملاحظہ ہوں۔

ٹوٹے خواب کی ٹہنی پر

ایک دیا سا جلتا ہے

 

سورج ڈوب رہا ہے سروش

اب تو کھڑکی بند کرو

 

سپنے دیکھنے والا بھی

آنکھیں ملتا جاتا ہے

 

ہاتھ جلتے ہیں جس کو چھوتے ہوئے

شاخ پر یہ گلاب سا کیا ہے

 

رات ہے، سایہ اور چراغ

باتیں کرتے جاتے ہیں

 

ہر سمت ستارے ٹوٹتے ہیں

اور درمیاں آدمی کھڑا ہے

 

ایک گملے میں ایک تنہا پھول

سارا منظر سجائے رکھتا ہے

 

اپنے گھر کی اداس کھڑکی میں

اک ستارا دکھائی دیتا ہے

 

شاخ کی مشعل میں شعلہ اور ہے

آنکھ میں رنگ تماشا اور ہے

ان لفظی تصویروں میں فطرت کی جلوہ نمائی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ فطرت کے حوالے سے حزقی صاحب کے نظریے کو انگریز شاعر ایڈورڈینگ کے ان مصرعوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

Read Nature  , Nature is a friend to truth

Nature is christian, preaches to mankind

یا پھر شیخ سعدی کے اس شعر میں۔

برگ درختان سبز در نظر ہوشیار

ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار

فطرت کے حوالے سے حزقی صاحب کے زاویہ نظر کے مترشح یہ اشعار دیکھئے۔

 

صبح دم روشنی کی ٹہنی پر

پھول کھلتا ہوا محبت ہے

رنگوں کے سناٹے میں

خوشبوؤں کا نغمہ ہے

 

ہم بھی تھے راز آسمانوں کے

آسمانوں میں کھو گئے ہم بھی

 

ستارے کے تعاقب میں چلا ہوں

کہاں جانا ہے میں یہ جانتا ہوں

 

چاند ابھرتا جاتا ہے

دشت سنورتے جاتے ہیں

فطرت سے اس لگاؤ اور الفاظ ولسانی تصاویر کے تخلیقی استعمال کے علاوہ سروش صاحب کی شاعری کا ایک اور متاثر کن پہلو  ’’ ماضی کی یاد‘‘  ہے۔ یہ ماضی ان کی ذات کے حوالے سے اظہار ضرور پاتا ہے مگر یہ کسی فرد واحد کا اثاثہ نہیں۔ سروش صاحب کے مجموعے کا نام  ’’ یادوں کا نگر ‘‘  ذاتی زندگی سے جڑی ہوئی رومانی یادوں کے برعکس مذہبی زندگی سے جڑی ہوئی انسانی یادوں کا عکاس ہے۔

تم یاد آئے اور تمھارے ساتھ ہمیں

کتنے لوگ اور کتنے زمانے یاد آئے

 

مدت سے ہم جن کو بھلائے بیٹھے تھے

آج وہی ماضی کے فسانے یاد آئے

اس ماضی کی یادوں نے ان کے سیدھے سادے اشعار کو بھی ایک تلمیحاتی سطح تفویض کر کے ان کی انفرادیت کا رنگ گہرا کر دیا ہے۔ سروش صاحب لطافتوں کے شاعر ہیں۔ انھوں نے محبت، فطرت اور صداقت کے جمال کو شعری زبان دی ہے۔ ان کے لیے جو حسین ہے وہ باعث خیر بھی ہے اور لطیف بھی۔ ان کی شاعری کثافتوں کو لطافتوں میں بدلنے کی خواہشوں اور خوابوں کا ناتمام سلسلہ ہے۔ یہی رنگ ان کا امتیاز بنتا ہے ان کے اشعار سہل ممتنع کی خوب صورت مثالیں قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں سہل ممتنع کی رائج اصطلاح کے تمام صورتی اور سیرتی پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ہو گا۔

اس مجموعے کی نظمیں، غزلوں جیسا تاثر بنانے میں کام یاب نہیں ہوئیں اور تعداد کی کمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شاعر کو اس صنف سے کوئی خاص شغف بھی نہیں تاہم مستقبل کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اس مجموعے کے کچھ اشعار اور کچھ مصرعوں کی وزنی اغلاط گراں گزرتی ہیں۔ البتہ جدید شاعری اپنی تمام تر رنگینیوں کے باوجود تکرار اور یک سانیت کا جو احساس پید ا کرتی ہے وہ اس مجموعے کو پڑھ کر رفع ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور یہ کام یابی معمولی کام یابی ہر گز نہیں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

تعبیراتِ نظم

 

 ’’جھلملاتی ہوئی نیند، سن‘‘  کی تنقیدی قرأت

 

رفیق سند یلوی کی زیر تجزیہ نظم  ’’ جھلملاتی ہوئی نیند، سُن‘‘  پڑھ کر جو پہلی مشکل مجھے درپیش ہے وہ اس نظم کی مخاطب ہستی سے متعلق ہے۔ مجھے یہ طے کرنا ہے کہ آیا اس نظم کی مخاطب ہستی کوئی پتھر کی مورتی ہے یا کوئی تصوراتی دیوی، اس مخاطب ہستی پر مجھے پتھر کی مورتی کا گمان یوں گزرا ہے کہ بہ ظاہر یہ ہستی فعالیت سے قطعی طور پر عاری ہے اور اس کی تمام تر فعالیت کا دارومدار خطاب کرنے والی ہستی کی تمناؤں پر ہے جب کہ تصوراتی دیوی کا خیال مجھے اس لیے آیا ہے کہ خطاب کرنے والے کی تمنائیں اس مخاطب ہستی اور اس کی قوتوں پر کسی غیر یقینی اظہار کی پیش کش کے برعکس مکمل اعتقاد کی حامل ہیں۔ خطاب کرنے والے کو یقین ہے کہ وہ اس دیوی کے چرنوں سے مایوس نہیں لوٹے گاجو یہ ظاہر کر رہا ہے کہ خطاب کرنے والا اس دیوی کی تعمیر ی فعالیت سے پوری طرح آگاہ ہے اور اپنی حالت زار کے ذریعے اس کی فعالیت (جو فی الوقت عدم فعال ہے ) کو کرشمہ سازی پر مائل کرنا چاہتا ہے۔

ان دو قیاسات میں میرا کون سا قیاس زیادہ قرین عقل اور نظم کی ساختیاتی معنویت سے مناسبت رکھتا ہے اس کا فیصلہ مجھے ابھی کرنا ہے لیکن اس فیصلے کے لیے اس نظم کے فاعل اور مفعول کا تعین ناگزیر ہے۔ یہ نظم دو ہستیوں کے مابین مکالماتی انداز کی حامل ضرور ہے مگر بڑی حد تک اسے مونولاگ تصور کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اس نظم کی مخاطب ہستی مکالمے میں صرف سامع کا کردار ادا کر رہی ہے اوربہ ظاہر نظم کی مفعول ہے۔ اس نظم کی متکلم ہستی نظم کا فاعل کہی جا سکتی ہے مگر ظاہراً قابل مشاہدہ اس صورت حال کی تصدیق یا تردید کے لیے یہ ضروری ہے کہ نظم میں موجود افعال کی جہات فعلیت کو سامنے رکھا جائے۔ نظم کی اولین تین سطور پر غور کیجئے۔

اے چراغوں کی لوکی طرح

جھلملاتی ہوئی نیند سن!

میرا ادھڑا ہوا جسم بن

ان سطور میں جہت فعلیت یہ صاف ظاہر کر رہی ہے کہ نظم کا متکلم مفعول ہے جو مخاطب ہستی کو اپنے وجود پر تعمیری عمل کے لیے متوجہ کرنا چاہتا ہے چوں کہ تمام افعال متکلم پر ہونا ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ میں مخاطب ہستی کو پتھر کی مورتی کے بجائے تصوراتی دیوی مان کر نظم کی قرأت کے عمل کو آگے بڑھاؤں۔ نظم کی اگلی نو سطریں اس تصوراتی دیوی کی کرشمہ ساز قوتوں کی جانب متکلم کی تمناؤں کی صورت کچھ اس طرح اشارہ کناں ہیں۔

خواب سے جوڑ

لہروں میں ڈھال

اک تسلسل میں لا

نقش مربوط کر

نرم، ابر یشمیں کیف سے

میری درزوں کو بھر

میری مٹی کے ذرے اٹھا

میری وحشت کے بکھرے ہوئے

سنگ ریزوں کو چن

میں نے اس کو تصوراتی دیوی اس لیے کہا ہے کہ نظم میں اس کے لیے نیند کا استعارہ پیش کیا گیا ہے۔ جو ایک طرف روشنی سے مشابہتی رشتہ قائم کیے ہوئے ہے تو دوسری طرف جھلملاہٹ کے باعث شفافیت کھو بیٹھا ہے۔ یہ استعارہ، روشنی کی وضاحت اور جھلملا ہٹ کے ابہام کے مابین ایک خاص توازن رکھ کر قائم کیا گیا ہے۔ جس نے اسے کثیر المعنی بنا دیا ہے۔ معنی کی اس کثرتیت کو برقرار رکھنے اور ہر قاری کی فعال شرکت کا حق محفوظ رکھنے کی خاطر میں نے اس استعارے کی تفہیم کے لیے تصوراتی دیوی کی علامت سے کام لیا ہے۔ یہ علامت کسی ’’ تخلیقی لمحے ‘‘ کے معنی کی حامل ہے (جو متکلم (شاعر) کے وجود کو منتشر اور مضمحل کر دینے والی عدم تخلیقیت کی اذیت کو ختم کر کے اسے خواب سے جوڑنے ، تسلسل میں لانے اور تاج روئیدگی سے سجانے کے فرائض سرانجام دے سکتی ہے ) یا ’’ موت‘‘  کی (جو وجودی کرب کی حامل صورت حال سے نکلنے کے لیے متکلم کا انتخاب ہے اور شاید اس انتخاب کے علاوہ اب اس کے پاس کوئی دوسری صورت نہیں بچی جو اسے آزاد رہنے کی سزا سے نجات دلا سکے۔ ) کسی  ’’مابعد الطبعیاتی ہستی کی‘‘ ( جس سے متکلم کا مکالمہ عقیدت مندانہ تمناؤں سے عبارت ہے اس ہستی پر اعتقاد متکلم کی قوت ہے یہی قوت اسے جینے کا حوصلہ دیتی ہے اور شکستگی کے باوجود اسے نومیدی کے دلدل میں دھنسنے سے بچا لیتی ہے ) یا پھر کسی اور  ’’معنی ‘‘  کی۔ اس کا تعین ہر قاری کا حق ہے جس کا چھیننا عمل تنقید کے منافی ہو گا۔ تا ہم متکلم کا لہجہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مخاطب ہستی اس کی بدحالی کا سبب نہیں بل کہ اس کا مداوا ہے۔ آخر متکلم ہستی کی زبوں حالی کا سبب کیا ہے ؟ کیا یہ کوئی  ’’وجودی کرب ‘‘  ہے ؟یعنی کیا یہ ہستی اپنی آزادی انتخاب کے بھیانک نتائج بھگت رہی ہے یا معروضی حالات کی ناگفتہ بہ صورت نے اسے بے حال کر رکھا ہے ؟ میرا خیال ہے جس کرب میں اس نظم کا متکلم مبتلا ہے وہ کوئی وجودی کرب نہیں ہو سکتا کیوں کہ وجودی کرب کی صورت میں کسی تصوراتی دیوی یا وجود سے باہر کسی قوت کو مدد کے لیے آواز دینا بے معنی ہو جاتا ہے لیکن اگر تصوراتی دیوی کی علامت کو  ’’موت‘‘ کے طور پر قبول کر لیا جائے تو متکلم کے کرب کو  ’’وجودی کرب‘‘  کہا جا سکتا ہے۔ جہاں تک غیر موافق معروضی حالات کی بات ہے تو اس حوالے سے اس نظم میں کوئی واضح اشارہ دست یاب نہیں ہے مگر نظم کی مزید نو سطور کی قرأت، شاید کسی نتیجے تک پہنچنے میں ہماری معاونت کر سکے۔

کوئی لوری دے

جھولا جھلا

پوٹلی کھول ، رمزوں کی

مجھ پر کہانی کی ابرک چھڑک

 

میرا کاندھا تھپک

آ مجھے تاج روئیدگی سے سجا

اک تسلسل میں لا

لو کے اکتارے پر

چھیڑدے کوئی دھن

ان سطور میں لوری، دھن اور کہانی سننے کے تقاضے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حقیقت سفاک ہو چکی ہے۔ متکلم کسی لمحہ سکوں کی، کسی طمانیت بھری ساعت کی، کسی پر کیف پل کی تلاش میں ہے۔ جو اس کی بے ربطی مربوط کر دے، اس کے عدم تسلسل میں تسلسل پیدا کر دے اور اس کی بے خواب آنکھوں میں خواب کی جوت جگا دے۔ نظم کی ابتدائی تین سطور مجموعی طور پر تین بار دہرائی گئی ہیں۔ یہ سہ بار گی عمل متکلم کے کرب کی شدت کا اظہار بھی ہے اور مخاطب ہستی کی بے پروائی کا ثبوت بھی، آخر یہ مخاطب ہستی اس قدر بے پروا کیوں ہے ؟ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سوال کو اس نظم کا حاصل سمجھنے پر مجبور ہوں کہ یہی سوال متکلم کے کرب کو انفرادیت کے دائرے سے نکال کر اجتماع میں موجود ہر فرد کے دکھ کی آواز بنا رہا ہے اور شاید دکھوں کے اظہار کی یہی مشارکت، برق رفتار عہد میں شاعری کا جواز مہیا کرتی ہے اور ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم انسانی زندگی کی معنویت میں اضافہ کر رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 ’’نوحہ گر‘‘  کی تفہیمی جہات

 

شہزاد نیر کی تخلیقات ایک تسلسل سے میری نظر سے گزرتی رہی ہیں اور میری کوشش رہی ہے کہ میں اس کی تخلیقات کو اس کی شعری شخصیت کے کل کی روشنی میں رکھتے ہوئے تجزیاتی عمل سے گزارتا رہوں اور یہ دیکھنے کے جتن کرتا رہوں کہ کب، کہاں اور کیسے اس کی تخلیقات اس کی شعری شخصیت سے ضو یاب ہوتے ہوئے، خود شخصیت کی وسعت پذیری میں معاون ہونے لگتی ہیں۔ کیوں کہ تخلیق صرف شعور سے منور نہیں ہوتی بل کہ تخلیقی عمل کے دوران کوئی وجدانی لہر اچانک اس طرح ابھر کر سامنے آ جاتی ہے کہ شعور کی روشنی میں ایک نیا رنگ تحلیل ہو جاتا ہے۔ اور وہ سارا تناظر بدل جاتا ہے جس کے ذریعے شعور تخلیق پر اقتدار حاصل کر نے کی آرزو مندی کا اظہار کر تا ہے۔ یہ اصول تنقیدی عمومیت ا س لیے نہیں رکھتا کہ اسے صرف ان شاعروں کی پرکھ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جن کی شاعری کو  ’’فکر اسا س ‘‘  کہنے میں کسی طرح کا تامل نہ ہو۔ شہزاد نیر کو میں فکر اساس شاعر سمجھتا ہوں۔ یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ فکر اساس شاعری کو تجربہ اساس شاعری سے مختلف اور الگ تصور کرنا چاہیے کیوں کہ فکر اساس شاعری تجربے کو اپنی کسوٹی پر پرکھے بغیر تخلیقی عمل کے سپرد نہیں کرتی۔ فکر اساس شاعری جلوہ نما کثرت میں کسی پنہاں وحدت کا سراغ ضرور دے جاتی ہے جس تک رسائی کے بعد مفرد تخلیقات کے مختلف رنگ منکے ایک تار میں پروئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ شہزاد نیر کی شاعری میں جلوہ نما کثرت مجھے ہمیشہ کسی پنہاں وحدت کی جانب متوجہ کرتی رہی ہے۔ اس پنہاں وحدت کو اب تک اگر میں کسی ایک لفظ میں سمو سکا ہوں تو وہ لفظ  ’’تشکیک ‘‘ ہے۔ وہ اپنے ارد گرد موجود تعینات، تعقلات، توہمات اور اعتقادات کو اپنی تشکیکی فکر کی میزان پر پرکھتا رہتا ہے اور یہی تشکیک اس کا تخلیقی محرک بنتی ہے۔ مجھے اس کی نظموں کے مختلف رنگ منکے اسی تار میں پروئے لگتے ہیں۔ شہزاد نیر نہ تو ترقی پسند وں کی طرح کسی پابند تخلیقی عمل کا قائل نظر آتا ہے اور نہ جدیدیت کے حامیوں کی طرح آزاد تخلیقی عمل کا داعی۔ اس کے تخلیقی عمل کا اسپ کبھی تشکیک کی لگام کی گرفت سے آزاد نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بے سمت بھٹکنے سے بچ جاتا ہے مگر ابھی وہ مقام بھی نہیں آیا کہ اس نے کسی نئی سمت کو دریافت کر لیا ہو۔ وہ نظم کا شاعر ہے اور نظم نگاری میں اس کے رجحان کو تخلیقی کے بجائے تعمیری قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں تعمیری کو موزونی نہیں سمجھنا چاہیے جو کسی طے شدہ پروگرام یا منصوبہ بندی کے تحت مضمون کو بہ ذریعہ الفاظ تخلیقی ہیئتوں میں پرونے کا عمل ہے۔ شہزاد نظم کسی منصوبہ بندی کے تحت نہیں کہتا اس لیے وہ موزونی شاعر نہیں ہے مگر وہ تخلیقی شاعروں کی طرح اپنی استعداد کو استعارے کی تخلیق پر بھی صرف نہیں کرتا۔ تخلیقی اور تعمیری عمل کے فرق کو استعارے کی تخلیق میں بہ طور محرک  ’’تجربے ‘‘  اور  ’’فکر ‘‘  کی موجودگی سے بھی ممتاز کیا جا سکتا ہے۔ تجربہ، استعارے کے استعمال کے بجائے اس میں منقلب ہونے کا رجحان رکھتا ہے جب کہ فکر استعارے میں تقلیب کے بجائے اسے اپنی روشنی سے منور کر دیتی ہے۔ یہیں  ’’فکر اساس ‘‘ اور  ’’تجربہ اساس ‘‘ شاعری کی معنوی جہات بھی مختلف ہو جاتی ہیں۔ تجربہ اساس شاعری ابہام کی جو مقدار قبول کر سکتی ہے۔ فکر اساس شاعری یقیناً اس کی متحمل نہیں ہوتی اور اس کا اصرار یقیناً  ان معانی کی جانب نسبتاً زیادہ ہوتا ہے جو تخلیقی شخصیت کے کُل سے منسلک ہوتے ہیں۔ شہزاد نیر مجھے ان ہی معنوں میں تعمیری شاعر لگتا ہے یہاں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ تعمیری عمل کے دوران تخلیقی لہریں وقفے وقفے سے مگر تسلسل کے ساتھ شہزاد کے ہاں پیدا ہوتی رہتی ہیں جن کی مقدار کبھی کبھار تعمیری عمل کو دبا بھی دیتی ہے۔ مگر بیش تر اس کی نظم میں تعمیریت، تخلیقیت پر غالب رہتی ہے طویل نظموں کی فہرست میں  ’’آئینہ خانہ‘‘  اور  ’’رخصتی ‘‘ کو چھوڑ کر باقی نظموں میں تعمیری عمل ،تخلیقی عمل پر غالب رہا ہے یہاں یہ قطعاً نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان نظموں میں تخلیقیت کی مقدار سِرے سے موجود ہی نہیں ہے بل کہ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مقدار تناسب میں تعمیریت، تخلیقیت سے بہ ہر حال زیادہ بنتی ہے جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ طویل نظم بہ ہر حال صرف استعاروں کی تخلیق کے زور پر قائم نہیں کی جا سکتی۔  ’’آئینہ خانہ‘‘ اور  ’’رخصتی ‘‘ استعارے کی تخلیقیت کے معیار میں واضح فرق کے ساتھ اس کی استشنائی صورتیں ہیں یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ اول الذکر میں استعارے کی تخلیقیت کا معیار ثانی الذکر کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے۔

طویل نظم استعاروں کی تخلیق کے پس منظر میں فکر کی بہ طور اساس موجودگی کا جو بنیادی تقاضا کرتی ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اور عموماً وہی تخلیق کار طویل نظم کہنے کی جانب تخلیقی رغبت محسوس کرتے ہیں جن کا فکری وژن مختصر نظموں میں سمٹنے کو تیار نہیں ہوتا۔ شہزاد نیر کی زیرِ تجزیہ نظم اس کی دوسری طویل نظم ہے۔ یہاں یہ بات میرے لیے باعث حیرت ہے کہ اس نے اپنی پہلی طویل نظم  ’’خاک‘‘  کو تعمیریت کے بجائے تخلیقیت کے ذریعے قائم کرنے کی کوشش کی تھی اس نظم میں تعمیریت اور تخلیقیت کے تعاملی تناسب میں کوئی زیادہ فرق تو نہیں تھا لیکن تخلیقیت کی مقدار تھوڑی زیادہ ضرور تھی۔ البتہ اس دوسری نظم  ’’نوحہ گر‘‘  میں اس کا رویہ خاصا مختلف ہے۔ یہاں تعمیریت کی مقدار تخلیقیت کے مقابلے میں سبقت حاصل کیے ہوئے ہے یہ نظم خود کو استعا روں کی وفور تخلیق کے برعکس فکر کے تشکیکی محرک کے زیرِ اثر پروان چڑھنے والےWorld out look  (جسے میں کائناتی نظر کہتا ہوں )کے تناظر میں مذہبی اعتقادات کا محاسبہ پیش کرتی نظر آتی ہے اور انسانی خون ریزی کے پس منظر میں سبب کے طور پر مذہبی اعتقاد کی موجودگی ثابت کرتی ہے۔

وہ خدا جس کو دیکھا نہیں

اس کی اک اک صفت پر ہزاروں خدا تھے

جو ہنستے ہوئے

 

ننھے بچوں کی چیخوں میں ڈوبے ہوئے

خوں چڑھاوے کو مقبول کرتے رہے

گریہ واجب ہوا

مذہبی اعتقاد کو اس نظم کے فریم ورک میں انسانی تعقلات و توہمات ہی کی تشکیل قرار دیا گیا ہے۔

اپنے زور توہم سے افلاک آباد کرتے رہے

بے یقینی کے پہروں میں

فطرت کی بڑھتی ہوئی دشمنی کے جوانب

میں بکھرے  ہوئے

خوف کے آب و گل سے خدا کو بنایا

یہاں سے وہاں

جس قدر طاقتیں بھی میسرہوئیں

سب اسے سونپ بیٹھے۔ ۔ ۔ تو ڈرنے لگے

ماننا ہو تو وحشت بھری آنکھ کو کوئی پتھر خدا ہے!

گماں خوش ہوا ……سر جھکایا

صفاتی مرکب بنائے

ہزاروں برس تک بناتے، بڑھاتے رہے

حمد کا تخت جوڑا……اسے لا بٹھا یا

 

مگر مرد طاقت میں تھے ……سو اسے بھی مذکر رکھا

دستِ رس میں نہ آ جائے

اس کو فلک پر بٹھایا

اپنے اس بنیادی تھیسس (Thesis)کو پیش کرنے کے لیے یہ نظم سائنسی تعقلات کے تناظر میں تخلیق کائنات کے عمل سے آغاز کرتی ہے اور اس کے بعد اساطیر کی روشنی میں، انسانی تہذیبی سفر کو کہیں سائنسی، کہیں مادی جدلیت اور کہیں خالص تخیلاتی تناظر میں شعری قالب میں ڈھالتی چلی جاتی ہے اور استعارے اپنی معنویت کو اسی فکری پس منظر کی تحدیدات میں ڈھالتے محسوس ہوتے ہیں۔

اس نظم کی استعاراتی لسانی تشکیل کس طرح فکر بل کہ مکتبِ فکر سے ضویاب ہوتی ہے اس کا تجزیہ الگ مطالعے کا متقاضی ہے تاہم یہاں محض ایک اشارے کے لیے نظم سے وہ اقتباسات نقل کیے جا رہے ہیں جس کی استعاراتی تشکیل سائنسی فکریات بل کہ اصطلاحات سے ضویاب ہوئی ہے۔

دیکھتا تھا…نہ ہونے سے ہونا

خلا سے فضا  ’’کچھ نہیں ‘‘ سے  ’’بہت کچھ ‘‘  اُچھلتے ہوئے

اک دھوئیں سے فلک کو نکلتے ہوئے

میری آنکھوں سے دیکھو

وہ گولہ یہیں تھا……جسے

 

اپنے شعلہ فشانی گھماؤ کی آتش زنی کی خبر بھی نہیں تھی

یہیں ذرہ باری ہوئی

حادثاتی جدائی کا غصہ تپِ جاودانی میں بدلا

تو سوزِ نہانی کمائی ہوئی

آگ پانی میں پہلی جدائی ہوئی

مفردوں کا تنوع مرکب ہوا……اور ہوتا رہا

آگ داسی تھی……ترکیب میں کام آتی رہی

سبز سیال میں تیرتے تھے زمان و مکاں

پھر اک بار چھوٹوں نے بستی بسائی

اور ان میں سے دوچار نے

اگلے پیروں کو ہاتھوں میں بدلا

لرزتے ہوئے ایستادہ ہوئے

اور کہنے لگے ’’ہم کو مٹی نے پیدا کیا‘‘

نظم میں بعض مقامات پر انسانی تہذیب کی انتہائی اہم کروٹوں کو جس اختصار اور شعری ایمائیت کے ساتھ جزو نظم بنایا گیا ہے اس کا ذکر نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔ بالخصوص ستر پوشی، جنسی جبلت اور تخیل کے اولیں احساسات کے ادراک کو جس طرح صرف دو دومصروں میں سمیٹا گیا ہے وہ شاعر کی ہنر مندی پر ناقابل تردید دلالت کرتا ہے۔

دائیں بائیں کو پرکھا

تو وہ آگے پیچھے کو ڈھکنے لگے

پھر بھی اندر کوئی بھوک تھی

اور آنکھوں کے اندر سے ہٹتی نہ تھی

ٍ

ایستادہ ہوئے تو فلک پر نگاہیں گئیں

……     یہ تخیل کا آغاز تھا

پوری نظم میں شاعر ایک کردار کے طور پر دکھائی دیتا ہے جس کی آنکھیں جگہ جگہ انسانی غم سے نم ناک ہو جاتی ہیں مگر شاعر کی شخصیت میں متشکک کی موجودگی غم کے اظہار پر اکتفا نہیں کرتی بل کہ اس جبر کا تاریخی جبر کے تناظر میں دست یاب علوم کی وساطت سے تجزیہ کرتی چلی جاتی ہے۔ اور اس سبب تک رسائی حاصل کرتی ہے جسے اس جبر کا مآخذ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس مآخذ کو نظم ’’ خدا ‘‘ کے روپ میں پیش کرتی ہے۔

دہائی!دہائی!

بہت قتل ہوتے رہے

 

لوگ میرے……ترے نام پر

قتل کرتے رہے……قتل ہوتے رہے

ڈھنگ بدلے گئے……رنگ بدلا نہیں

ترے چرنوں پہ چڑھتے چڑھاوے لہو رنگ تھے

میں نے تجھ کو بنایا……مری بھول تھی

میرے دل سے نکل!

میرے سر سے اُتر!

یہ نظم خدا کو ایک ایسا لفظ قرار دیتی ہے جس کے گرد پہلے انسان خود عقیدے اور عقیدت کا ہالہ بناتا ہے اور پھر اس عقیدے اور عقیدت کی آڑ میں زر اور زمین کی ہوس میں  ’’انسانی بقا‘‘ کے ساتھ وہ جابرانہ اور سفاکانہ کھیل کھیلتا ہے جسے تاریخ اپنی تمام کوششوں کے باوجود دبانے اور چھپانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ یہ کردار بہ یک وقت قدیمی بھی ہے اور نوحہ گر بھی۔ اس کی ایک حیثیت متشکک ناظر کی ہے اور دوسری شاعر کی۔ ایک برابر تجزیے میں مصروف ہے اور دوسری برابر ماتم میں۔ اس دوہری کیفیت نے پوری نظم کے تاروپور کو تشکیل دیا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں اس نظم کا فکری مواد شعری قالب میں ڈھلتا محسوس ہوتا ہے۔

نظم لا وجودیت سے موجودیت اور قنوطیت سے رجائیت کی طرف سفر کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ نظم میں رجائیت کی اساس سراسر  ’’علم‘‘ کو قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں  ’’تعقلیت‘‘ کو انسانی آزادی کی بنیاد بنایا گیا ہے جس میں اس کی ابدی مسرت اور ازلی مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔

اس نظم کی ایک قرأت تانیثی تنقید کے حوالے سے بھی ممکن ہے جو اسے نئی سطح پر ڈی کوڈ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ تاہم اس قرأت کا خاص پہلوبہ حوالۂ نظم یہی ہو سکتا ہے کہ انسان نے تہذیبی سفر کے ارتقا میں خدا کے حوالے سے فکریات کی تشکیل کے دوران اس کے لیے  ’’صیغۂ تذکیر‘‘  تجویز کر کے  ’’مرد مذکر معاشرے‘‘ کے قیام کی راہ ہم وار کر دی تھی۔ لیکن اگر ایسا ہے تو مختلف تہذیبی ادوار میں  ’’زن مرکز معاشرے‘‘ کیسے اور کیوں قائم ہو گئے؟

اس نظم کی تشکیل میں ان عناصر کی بھی کمی نہیں جن کو بروئے کار لا کر اس کی رد تشکیل کی جا سکے۔ جیسا کہ مذہبی اعتقاد کو دائرہ تشکیک میں لانے کے باوجود مذہبی اعتقاد سے سر شار تاریخی کرداروں کو نظم میں حریت کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کیا ادبی استعاروں کے طور پر قائم ہو نے کے بعد تاریخی کرداروں کا مذہبی حوالہ نفی ہو جاتا ہے؟

آخر میں یہ وضاحت بھی پیش کرتا چلوں کہ اس نظم نے جو سوالات اٹھائے ہیں اور جن جوابات تک رسائی حاصل کی ہے نہ تو وہ سوالات کوئی نئے سوالات ہیں اور نہ ان جوابات کو خالصتاً اختراعِ شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔ تو آخر اس نظم کی اہمیت کیا ہے ؟نظم کی اہمیت کسی نئے سوال کی اختراع یا اس کے جواب کی دریافت میں نہیں ہے بل کہ نظم کا کام کثرت کو ایک نئی وحدت میں منقلب کر دینا ہے اور یہ کام اس نظم نے بہ خوبی سر انجام دیا ہے اس لیے یہ نظم پڑھے جانے بل کہ بہ غور پڑھے جانے کا استحقاق رکھتی ہے۔

٭٭٭

تشکر: سدرہ سحر عمران جن سے فائل کا حصول ہوا

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید