FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

تاریخ ہند: برطانوی راج سے علی گڑھ تحریک تک

               معین احسن جذبی

یہ کتاب جذبی صاحب کی کتاب ’حالی کا سیاسی شعور‘  کے پہلے تین ابواب پر مشتمل ہے۔ کتاب کا بقیہ حصہ ۔بشمول ’تقریظ‘، ’تعارف‘، ’حرفِ اول‘ اور  ’کتابیات‘۔ ’حالی اور سیاست‘ نامی برقی کتاب میں ملاحظہ کریں

 

برطانوی تسخیر کے اثرات

انیسویں صدی کے نصف اول میں صنعتی ا ستحصال اور لوٹ کھسوٹ کی پالیسی کے باوجود ہندستان میں برطانوی حکومت کا کردار بعض اعتبار سے ترقی پسندانہ تھا۔ ملکی توسیع کے سلسلے میں سیکڑوں جاگیریں اور ریاستیں مٹیں اور انحطاط پذیر جاگیری نظام پر بڑی کاری ضرب پڑی۔ دیہی نظام کی شکست نے گاؤں کی ہزاروں سال پرانی جامد زندگی میں ہلچل ڈال دی۔ سماجی اصلاحات کے لحاظ سے ستی، ٹھگی، غلامی اور بچہ کشی کو ختم کر نے کی وسیع پیمانے پر کوششیں کی گئیں۔ اس کے علاوہ مغربی تعلیم کے رواج اور اخبارات کی آزادی سے ایک نیا شعور پیدا ہو ا۔ ان تمام ترقی پسندانہ اقدامات میں برطانوی متوسط طبقے کے معاشرتی اور مذہبی تصورات کو بہت کچھ دخل تھا۔ یہ تصورات در اصل انیسویں صدی کے سر مایہ دارانہ دور کی پیدا وار تھے اور برطانیہ کا متوسط طبقہ انھیں خلاصۂ انسانیت سمجھتا تھا۔ ہندستان کے انگریز حکام بھی اسی طبقے کے افراد تھے، اس لیے ان کی اصلاحات کی تہ میں ان ہی عقائد کی کار فرمائی تھی۔ اس زمانہ میں ہندستان کے ترقی پسند طبقے نے بھی ان اصلاحات کو سراہا اور ان کا خیر مقدم کیا۔

دوسری طرف ہندستان کے سماجی ڈھانچے کی شکست اور انگریز سرمایہ داروں کی لوٹ کے نتیجے میں سارا ملک افلاس اور بے روزگاری سے دو چار تھا۔  انیسویں صدی کے نصف اول میں سات بار قحط آئے اور تقریباً پندرہ لاکھ جانیں تلف ہوئیں۔ عوام کی بے چینی بڑھتی رہی اور اس کا اظہار بد امنی کی صورت میں بھی ہو تا رہا۔ لیکن سنہ1857کی بغاوت ہر طبقے اور ہر پیشے کی مجموعی بے اطمینانی کا مظہر تھی۔ یہ اگر چہ نا کام رہی لیکن اس نے برطانوی سیاست دانوں کی آنکھیں کھول دیں اور انھیں اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے ایک نئی پالیسی وضع کر نے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

یہ نئی پالیسی جو انیسویں صدی کے نصف آخر میں اور اس کے بعد بھی برابر جا ری رہی، انتہائی رجعت پسندانہ عناصر کی حامل تھی۔ سنہ1857کی بغاوت میں انگریزوں کو دیسی ریاستوں کی اہمیت کا اندازہ ہوا تھا جو کیننگ  کے الفاظ میں اس سیلاب کے لیے بند ثابت ہوئی تھیں۔ چنانچہ بغاوت کے بعد، برطانوی ہند میں دیسی ریاستوں کے مزید الحاق کا سلسلہ ختم کر دیا گیا اور انھیں ناقص و نا فرجام روایتوں کے ساتھ نہ صرف بر قرار رکھا بلکہ ان کو اندرونی آزادی دے کر تاج برطانیہ کے مفاد کو ان کے مفاد کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا اور اس طرح ان کی جڑیں اور بھی گہری کر دی گئیں، نیز تعلقہ داروں اور زمینداروں کو بعض مراعات دے کر ایک ایسا طبقہ وجود میں لایا گیا جو انگریزی سامراج کے زیر سایہ ہی پنپ سکتا تھا۔ چنانچہ انگریزوں کی توقعات کے مطابق ان وفاداروں نے ہمیشہ اپنے آقاؤں ہی کا ساتھ دیا اور آزادی کی راہ میں سنگ گراں بن گئے۔ برطانوی مدبروں نے اسی پر بس نہیں کیا۔ غیر جانب داری اور مذہبی عدم مداخلت کی آڑ میں انھوں نے سماجی اصلاحات سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی اور اسی طرح مذہبی تعصبات، لا یعنی رسوم اور ہرقسم کی رجعت پسندی کو ابھر نے کا پورا پورا موقع دیا۔

سنہ1857کی بغاوت کے بعد ہندستان پر برطانیہ کا اقتدار شمشیر کے زور سے قائم ہوا۔ کچھ عرصے کے بعد اس شمشیر کی نمایش ختم کر دی گئی، لیکن اس کا سایہ ہر جگہ محسوس ہو تا تھا۔ ڈاڈ ول کے بیان کے مطابق انگریز مبلغوں اور تاجروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ حکومت کی توسیع و ترقی کے سلسلے میں انگریز عہدے دار بھی کثرت سے بڑھائے گئے، لیکن کام کی نوعیت نے ہر جگہ انھیں اپنی میزوں تک محدود کر دیا۔ ایک باقاعدہ نظام حکومت Rule of systemنے شخصی حکومت کی جگہ لے لی۔ حکومت کی مستعدی تو بڑھ گئی لیکن اس میں میکانکی انداز پیدا ہو گیا۔ گرمی سے بچنے کے لیے پہاڑوں کی رسائی پہلے کی بہ نسبت آسان ہو گئی۔ رسل و رسائل کی جتنی زیادہ سہولتیں پیدا ہوئیں انگریز حکام اتنی ہی کثرت سے رخصت لے کر اپنے وطن جانے لگے۔ ہندستانی جو پہلے سرکاری کاموں میں استعمال ہو تی تھی اب ان کی زبانوں پر اتنی روانی سے نہ آتی۔ سرکاری دنیا کی اس بڑھتی ہوئی بے تعلقی پر اگر ایک حد تک پر دہ پڑا ہوا تھا تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ ہندستانیوں نے انگریزی زبان اختیار کر لی تھی۔

 اور ان تمام تغیرات پر بغاوت کی تلخ یاد کا سایہ بھی تھا۔ پہلے پہل اس کا اثر صرف یو رپینوں پر تھا۔ بغاوت کے بعد ابتدائی سالوں میں ہندستان کے ساتھ ان کی پرانی ہمدردی نفرت میں بدل گئی۔ وہ پہلے جس اطمینان سے ہندستان میں کام کر تے اور زندگی گزارتے تھے یا ہندستان کے مسائل کوہندستانی نقطۂ نظر سے سمجھتے تھے وہ اطمینان جاتا رہا۔ اس کے بجائے وہ اب ہندستان میں اتنے ہی عرصے قیام کرتے جتنا کہ لازمی تھا۔ ان میں ہندستان کے مسائل کو انگریزی معیار سے جانچنے کا رجحان بھی زیادہ بڑھتا گیا۔ اس کا ردّ عمل ہندستانی ذہنوں پر لازمی تھا اور بعد کو جوں جوں غدر کی ہولناکیوں کی یاد انگریزوں کے ذہن میں دھندلی ہوتی گئی اسی قدر غدر کو فرو کر نے میں جس شدید سختی سے کام لیا گیا تھا اس کا شعور ہندستانی ذہنوں میں بڑھتا گیا نیز لوگوں میں غدر کو حق بجانب اور اس کے مقاصد کو صحیح سمجھنے کا رجحان پیدا ہونے لگا اس کے سا تھ ساتھ حکومت کی مادی طاقت کے ثبوت کی نمایش میں کمی ہونے لگی اور لوگوں کے دلوں میں انگریزی حکومت کی طاقت اور خیر و برکت کے سلسلے میں شبہات پیدا ہونے لگے۔

سنہ1857 کے بعد ہندستان اور انگلستان کی حکومتوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت میں بھی بہت بڑی تبدیلی رو نما ہوئی۔ کمپنی کے دور میں گورنر جنرل کو ہندستان میں اختیارات کلی حاصل تھے لیکن بغاوت کے بعد جب سے برقی اور بحری تار کا سلسلہ ہندستان اور انگلستان کے درمیان قائم ہوا ان اختیارات میں وزیر ہند کی مداخلت روز بروز بڑھتی گئی۔ اس طرح ریلوے اور تار برقی کی بدولت حکومت ہند گورنروں اور گورنر اپنے ما تحت افسروں کے معاملات میں زیادہ دخیل ہو گئے۔ اس سے حکومت میں ایک مرکزیت پیدا ہو گئی اور مرکزیت سے سارے ملک میں یکساں پالیسی کا نفاذ ہونے لگا۔ لیکن ڈاڈول کے قول کے مطابق ایک ایسے ملک میں جیسا کہ ہندستان ہے اور جہاں ایک خطے کے لوگ دوسرے خطے کے لوگوں سے قطعی مختلف ہیں۔ ایک سی پالیسی فائدہ بخش ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو تی ہے اور پھر اس مضرت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب حکومت کا اصل مر کز ہندستان میں نہیں بلکہ ہندستان سے سیکڑوں میل دور واقع ہو۔

برطانوی تسخیر و اقتدار کاہندستان کے مختلف فرقوں اور طبقوں کے باہمی تعلقات پر جو اثر پڑا اور ہندستانی تہذیب و معاشرت جس حد تک متاثر ہوئی اس کا اجمالی خاکہ ڈاکٹر سید محمود کے یہاں ملتا ہے  ۔ موصوف کے خیال کے مطابق برطانوی تسخیر سے پہلے ہندستانی سماج دو طبقوں � پر مشتمل تھا ان میں سے ایک کا کام قیادت تھا دوسرے کا تقلید۔ اول الذکر کئی جماعتوں میں بٹا ہوا تھا۔ اہل علم اور اہل مذہب (پنڈت، مولوی، درویش اور سادھو)۔ عامل اور زمینی جائداد کے مالک (ریاست کے فوجی اور سول حکام اور زمیندار)۔ اہل دولت (مہاجن، سوداگر اور چودھری)۔ دوسرے طبقے میں صناع، دستکار، کسان اور مزدور تھے۔ سوسائٹی میں لوگوں کو استحقاق کا درجہ علم و تعلم میں انہماک، ریاست کی خدمت اور جائداد کی ملکیت کی بنا پر حاصل تھا۔ لیکن یہ استحقاق ان پر تہذیبی اور سیاسی قیادت کے فرائض بھی عائد کرتا تھا۔ قرون وسطیٰ کی تہذیب کے معمار ان ہی جماعتوں سے متعلق تھے لیکن ہندستان پر انگریزوں کے تسلط نے انھیں تباہ و برباد کر ڈالا۔

اس کے بعد ڈاکٹر محمود ان مختلف جماعتوں کی تباہی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ قدیم علوم کے جاننے والوں کے سلسلے میں ان کا بیان یہ ہے کہ مغربی تعلیم کے اجرا نے ایک انقلاب بر پا کر دیا تھا۔ چنانچہ ان کا سماج سے جو ایک حیاتی اور نامیاتی رشتہ تھا وہ ٹوٹنے لگا اور وہ پست اور کاسہ لیس ہو گئے۔ ان کے بجائے جو نیا تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوا وہ ایسے تصورات کا حامل تھا، جنھوں نے اس کے اور عوام کے درمیان ایک خلیج حائل کر دی۔ اس اکھڑے ہوئے طبقہ کا رویہ ہندستانی زندگی کی روایات سے ایک مدت تک غیر ہمدردانہ رہا۔ اس کے نزدیک مغرب کی کورانہ تقلید ہی زندگی کا مقصد و منتہا تھی۔

جہاں تک اس جماعت کا تعلق ہے جو سوشل اور پولٹیکل لیڈروں، ریاست کے موروثی ملازموں اور زمینداروں  پر مشتمل تھی، وہ بقول ڈاکٹر محمود سیاسی قوت کی شکست کے ساتھ بر باد ہو گئی۔ ان کے لڑکے جو اس تباہی سے بچ گئے تھے عام طور سے پست ہمتی کا شکار ہو کر کاہلی اور بد چلنی کی زندگی بسر کر نے لگے اور ملکیت کے عوض میں جو خدمات ان پر واجب تھیں ان سے تقریباً کنارہ کشی اختیار کر لی۔ یہ موروثی بے منصب جائدادوں کے مالک جو اولو العزمی کے جو ہر سے محروم ہو چکے تھے، نئے سیاسی نظام کے سر گرم حامی بن گئے کیوں کہ یہ نیا نظام ان کے لیے شہرت طلبی یا اقتدار پسندی سے دور ایک تن آسان زندگی کا ضامن تھا۔

اہل سرمایہ ڈاکٹر مو صوف کے نزدیک اس لیے تباہ ہوئے کہ تجارت برطانوی سوداگروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اس میں برطانوی پالیسی کو بھی دخل تھا جو ہندستان کی تجارت اور صنعت کا گلا اس لیے گھوٹنا چاہتی تھی کہ وہ انگلستان کے لیے کچا مال فراہم کر نے والی ایک وسیع نو آباد ی بن جائے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی مقابلہ کا کوئی امکان نہ رہے۔

لیکن ہندستان پر برطانوی تسلط کا بد ترین اثر ڈاکٹر محمود کے الفاظ میں یہ ہوا کہ عوام کی ترکیبی وحدت بر باد ہو گئی۔ مختلف فرقوں نے جو اس ملک میں بستے آئے تھے رہنے سہنے کا ایک مشترکہ طریقہ مر تب کر لیا تھا، اس میں ہر فرقہ دوسرے کے سہارے کا محتاج تھا۔ ہر ذات یا جماعت اپنے اپنے پیشے میں لگی رہتی لیکن اس کے باوجود وہ کل کا جز تھی۔ پیشوں کے اختلاف سے وہ مقابلے یا مجادلے سے بچتے اور سماجی ڈھانچے کی تعمیر کا کام تکمیل تک پہنچاتے، مذہب اس میں مانع نہ آتا تھا لیکن برطانوی تسلط نے اس ڈھانچے کو توڑ دیا۔ برطانوی ہاتھوں میں اقتدار اور سر پرستانہ اختیارات کے مر کوز ہونے سے مختلف فرقوں کے باہمی انحصار کی غایت ہی جاتی رہی اور وہ ایک دوسرے سے دور ہو نے لگے۔ ایک فاتح کی کامیابی مبنی ہو تی ہے مفتوح کی کمزوری اور نا اتفاقی پر اور اس کی حکومت کی بقا کا انحصار ان ہی چیزوں کے بر قرار رکھنے پر ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ حکومت کا پرانا آزمایا ہوا اصول ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمود نے فارن افیرز(Foreign Affairs)میں سے سرجان مینرڈ (Sir John Maynard)کا قول پیش کیا ہے۔

یہ یقیناً صحیح ہے کہ برطانوی اقتدار نہ تو قائم ہو سکتا تھا اور نہ آج ہی بر قرار رہ سکتا ہے اگر وہ انتشاری میلان جس کا ایک مظہر ہندو مسلم مخالفت ہے یہاں نہ پایا جاتا۔ نیز یہ حقیقت ہے کہ ہندو مسلم عوام کی رقابت کی ابتدا برطانوی دور حکومت میں ہوئی۔

اس طرح وہ اندرونی میلانات جو ہندستانی سماج کی شکست میں، ممد و معاون تھے انھیں تازہ تقویت پہنچی اور ہندستان کے باشندے مختلف الخیال جماعتوں کی ایک غیر منظم اکثریت میں تبدیل ہو گئے۔

الغرض برطانوی تسلط سے جو نتائج مر تب ہوئے ان کے بارے میں ڈاکٹر محمود کی رائے حسب ذیل ہے:۔

انیسویں صدی میں ہندستان کی اقتصادی زندگی جو قرون وسطیٰ سے متعلق تھی ختم ہو گئی۔ یعنی خود کفالتی اور جامد اقتصادی نظام کا خاتمہ ہو گیا۔ عالمی قوتوں کے اثرات اور صنعت میں نئی تکنیک کے رواج نے اسے ایک ایسا نظام بنا دیا جس میں ایک مفرد اقتصادی وحدت کارفرما تھی اور جو اپنے آپ کو قومی بنیاد پر منظم کر نے اور دیہی خطوں کے جمود و خود کفالت اور موروثی جماعتی تنظیموں کو توڑنے کی جدو جہد کر رہا تھا۔ یہ صورت حال سیاسی و سماجی حالات میں بھی اسی قدر تبدیلیوں کی مقتضی تھی اور اس نے سیاسی اور سماجی ترقیوں کے لیے قوت عمل فراہم کی۔

اقتصادی ترقی کو غیر ملکی حکومت کی تائید حاصل نہ ہو سکی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اس کی مزاحم تھی۔ چنانچہ انیسویں صدی میں مغربی یو رپ ترقی کی جس منتہا تک پہنچا وہ ہندستان کو نصیب نہ ہو سکی۔ سیاسی اور سماجی قوتوں کو حکمت عملی سے اس طرح کام میں لایا گیا کہ سماجی انتشار ایک مستقل صورت اختیار کرے اور مرکز گریز رجحان کو تقویت پہنچے۔

ہندستان میں انگریزی دور حکومت کے آغاز ہی سے برطانوی پالیسی کی تہ میں جو جذبہ کام کر رہا تھا وہ اپنے اقتدار کا قیام تھا۔ وہ اختلافات جو ایک جماعت کو دوسری جماعت سے اور ایک فرقے کو دوسرے فرقے سے تھے اور بھی شدید ہو گئے۔

انگریزوں کی یہ سیاست تاریخی حالات کی بنا پر مسلمانوں کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی۔ انگریزوں کو ہندستان میں قدم جمانے کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں ہی سے لڑنا پڑا۔ یہ انھوں نے ابتدا ہی سے سمجھ لیا تھا کہ ان کے اصل دشمن مسلمان ہیں اور انھیں پوری طرح مٹائے بغیر وہ یہاں اطمینان سے حکومت نہیں کر سکتے۔ سنہ 1843میں ہندستان کا گور نر جنرل لارڈ النبرا صاف صاف کہتا ہے :۔

میں اس عقیدے کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا کہ یہ قوم(مسلمان ) بنیادی طور پر ہماری مخالف ہے۔ اس لیے ہماری صحیح پالیسی یہ ہے کہ ہم ہندوؤں کو اپنا طرفدار بنائیں۔

یہ سنہ 1843کی بات ہے لیکن یہ پالیسی سنہ 1870تک چلتی رہی۔ سنہ 1857 کے واقعات نے اس میں اور بھی شدت پیدا کر دی۔ بغاوت کی ساری ذمہ داری مسلمانوں کے سر گئی اور انتقام اپنی تمام قہرمانی قوتوں کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑا۔ مسلمان انگریزی بارگاہ میں مردود تو پہلے ہی سے تھے اب باغی اور حکومت کے بدترین دشمن بھی سمجھے جانے لگے۔ ہندوؤں کی یہ کیفیت نہ تھی۔ ہنٹر سنہ 1870 میں لکھتا ہے:

مسلمانان ہندستان اب بھی اور اس سے بہت عرصے پہلے بھی ہندستان کی انگریزی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی نہ کسی وجہ سے وہ ہمارے طور طریقوں سے بالکل الگ تھلک رہے اور ان تمام تبدیلیوں کو جن میں زمانہ ساز ہندو بڑی خوشی سے حصہ لے رہا ہے اپنے لیے بہت بڑی قومی بے عزتی تصور کرتے ہیں۔

 اور یہ حقیقت بھی تھی۔ مسلمان صدیوں سے ہندستان کے حاکم اور حکومت کے خوگر تھے۔ وہ اپنا شاندار ماضی اور اپنی جاہ و حشمت کے زمانے یکایک کیسے بھول جاتے۔ محکومی کی زندگی ان کے لیے ناقابل برداشت ذلت تھی۔ انھیں یہ بھی یاد تھا کہ کس طرح انگریزوں نے شہنشاہ دہلی کے ملازم کی حیثیت سے بنگال اور بہار میں اپنا قدم جمایا اور پھر معاہدے کے خلاف شرعی، تعلیمی اور ملکی نظام میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ مسلمان اعلیٰ عہدوں، منصبوں اور جائدادوں سے بے دخل اور محروم ہوتے چلے گئے۔ افلاس، محرومی اور محکومی کی ذلتوں کو دھونے کے لیے انھوں نے سنہ 1857میں ایک آخری کوشش کی اور اس کی پاداش میں وہ اس طرح تباہ کیے گئے کہ جو کچھ رہا سہا تھا وہ بھی جاتا رہا لیکن نفرت کی خلیج کچھ اور وسیع ہو گئی۔ غم، غصہ اور ذلت کے احساس نے انھیں ایک عرصے تک غیر ملکی غاصبوں کے آگے سر نہ جھکا نے دیا۔ یہ ناسور آسانی سے مندمل ہونے والا نہ تھا۔ آج تقریباً سو سال بعد ان کے مجروح دل و دماغ کو سمجھنا آسان کام نہیں۔ وہ اپنی ہلاکت اور تباہی اور انگریزوں کے جابرانہ اور تشدد آمیز رویہ کو جس شدت سے محسوس کرتے تھے اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہنٹر کے ان الفاظ میں نظر آتی ہے:

اس حقیقت سے چشم پوشی بے سود ہے کہ مسلمان ہم پر کیسے کیسے شدید الزام عائد کرتے ہیں، ایسے الزام جو شاید ہی کسی حکومت پر عائد کیے گئے ہوں۔ وہ ہمیں اس بات کا ملزم ٹھہراتے ہیں کہ ہم نے ان پر ہر قسم کی با عزت زندگی کا دروازہ بند کر دیا وہ ہمیں اس بات کا ملزم ٹھہراتے ہیں کہ ہم نے ایک ایسا طریقہ تعلیم رائج کر دیا ہے جس سے ان کی قوم بہرہ ور نہیں ہوسکتی اور جو ان کی ذلت و خواری کا سبب بن گیا ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی الزام دیتے ہیں کہ ہم نے مسلمان قاضیوں کی برطرفی سے ہزار ہا خاندانوں کو مبتلائے آفات کر دیا  ہے ہمارا بڑا جرم ان کے نزدیک یہ ہے کہ ہم نے مسلمانوں کے مذہبی اوقاف میں بددیانتی سے کام لیتے ہوئے ان کے سب سے بڑے تعلیمی سرمایے کا غلط استعمال کیا۔ ان مخصوص الزامات کے علاوہ جن کے متعلق ان کو یقین ہے کہ بہ آسانی ثابت کیے جا سکتے ہیں اور بھی بہت سی شکایات ہیں جو جذبات پر مبنی ہیں اور شاید انگریزوں کے تصور سے قاصر دماغ پر کوئی اثر نہ ڈال سکیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم نے بنگال میں قدم رکھا تو مسلمانوں کے ملازمین کی حیثیت سے لیکن اپنی فتح و نصرت کے وقت ان کی مطلق پروا نہ کی اور نو دولت طبقے کی گستاخانہ ذہنیت کے ساتھ اپنے سابق آقاؤں کو پاؤں تلے روند ڈالا۔ مختصر یہ کہ ہندستانی مسلمان برطانوی حکومت کو غفلت اور بے اعتنائی کا مجرم، جذبات شجاعت سے معرا اور سرمایہ میں کمینوں کی طرح بددیانتی سے کام لینے والے اور دیگر بڑی بڑی نا انصافیوں کا جن کا سلسلہ سو سال تک پھیلا ہوا ہے، مرتکب ٹھہراتے ہیں۔ اس کے جواب میں یہ کہنا کہ یہ سب کچھ نتیجہ ہے ان کے اپنے انحطاط کا، عذر گناہ بد تر از گناہ کا مصداق ہو گا کیونکہ ان کا انحطاط بھی تو ہماری ہی سیاسی غفلت اور بے پروائی سے مرتب ہوا ہے یہ وہ قوم ہے جسے برطانوی حکومت کے ماتحت تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔

 اور پھر ہنٹر اس تباہی اور بربادی کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتا ہے کہ انگریزی حکومت کے ابتدائی دور میں مسلمان دیوانی، پولس، عدالت اور فوج میں چھائے ہوئے تھے اور یہ محکمے ان کی دولت اور آمدنی کے سب سے بڑے ذرائع تھے۔ لیکن انگریزوں نے ان کے نظام کو ختم کر کے ان پر سرکاری ملازمتوں کے تمام دروازے بند کر دیے�۔ طبابت، وکالت اور دیگر غیر سرکاری پیشے جن پر مسلمان تمام و کمال قابض تھے وہ بھی حکومت کی مسلم کش پالیسی، انگریزی تعلیم اور طب مغربی کے اجرا کی بدولت مسلمانوں کے ہاتھ سے جاتے رہے اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر کچھ اسامیاں خالی ہوتیں تو اشتہار میں اس بات کی وضاحت کر دی جاتی کہ ہندوؤں کے علاوہ یہ کسی اور کو نہیں دی جائیں گی۔ یعنی جہاں تک ملازمتوں کا تعلق ہے مسلمانوں کی اہلیت یا نااہلی کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ ہنٹر نے بہت ہی واضح طور پر لکھا ہے:۔

حقیقت یہ ہے کہ جب یہ ملک ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان ہی سب سے اعلیٰ قوم تھی۔ وہ دل کی مضبوطی اور بازوؤں کی توانائی ہی میں برتر نہ تھے بلکہ سیاسیات اور حکمت عملی کے علم میں بھی سب سے افضل تھے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں پر حکومت کی ملازمتوں کا دروازہ بالکل بند ہے۔ غیرسرکاری ذرائع زندگی میں بھی کوئی نمایاں جگہ حاصل نہیں ۔

الغرض ہندستان کی تسخیر کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ انگریزوں نے مسلمانوں کو عمداً اور دیدہ ودانستہ تباہ کیا۔ اس کا ردّ عمل مسلمانوں میں دو مختلف و متضاد تحریکوں میں نظر آتا ہے۔ ایک تحریک جو انگریزی حکومت کے خلاف سنہ1872تک چلتی رہی۔ وہابی تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کے اصل ہیرو سید احمد شہید ہیں اگرچہ اس کا سلسلہ شاہ ولی اللہ سے ملتا ہے۔ دوسری تحریک جوسنہ 1870 کے لگ بھگ شروع ہوتی ہے انگریزوں اور مسلمانوں میں مفاہمت کی جویا ہے۔ یہ سر سید سے منسوب ہے۔

٭٭٭

 

مسلمانوں کی طرف سے انگریزی تسلط کی مخالفت

               ( وہابی تحریک )

ہندستان کے مسلمانوں کی تاریخ یہاں کے عام سیاسی اور معاشی حالات ہی کے ساتھ وابستہ ہے۔ مسلمان ایک فاتح کی حیثیت سے ہندستان میں داخل ہوئے اور اپنی برتر تہذیب، نظام حکومت اور فوجی اہلیت کی بدولت آٹھ سو سال تک برسرِ حکومت رہے۔ وہ غیر ملکی ضرور تھے لیکن ہندستان میں آنے کے بعد یہیں کے ہو رہے۔ ہندستان ان کا وطن اور ہندستان کا مفاد ان کا اپنا مفاد بن گیا۔ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا آپس کی مغائرت کم ہوتی گئی اور دو مختلف تہذیبیں ایک دوسرے سے گلے ملنے لگیں۔ لیکن ایک حکمراں قوم کی حیثیت سے مسلمانوں کو معاشی اور سیاسی اعتبار سے امتیازی درجہ حاصل تھا۔ اور ظاہر ہے یہ امتیاز اسی وقت تک قائم رہ سکتا تھا جب تک مسلمانوں کی حکومت باقی رہتی۔ اور نگ زیب کی وفات کے بعد مرکزی حکومت کی کمزوری، صوبے داروں کی خودمختاری، مرہٹوں کا عروج، جاٹوں اور سکھوں کے ہنگامے، نادر شاہ کا حملہ اور انگریزوں کی ریشہ دوانیاں، یہ تمام باتیں ایسی نہ تھیں کہ مسلمان دیکھتے اور خاموش رہتے۔ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ سلطنت مغلیہ زوال کی آخری منزلیں طے کر رہی ہے۔ جاگیر داری نظام کا انحطاط تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سوداگروں اور دستکاروں کا طبقہ ابھرنا چاہتا ہے لیکن انتشار اور بد امنی کا سیل ِ بے امان اس کو ابھرنے نہیں دیتا۔ اس افراتفری کی زد میں مسلمان بھی تھے۔ شاہ ولی اللہ (1702-1762)کی تحریک اس دور میں اسی انتشار و اضطراب کی ترجمان ہے۔

شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کی بنیاد یوں تو مذہب اور اخلاق پر ہے لیکن اس سلسلے میں وہ جن اصولوں کو لے کر اٹھے وہ براہ راست اس دور کے سیاسی اور معاشی حالات ہی کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ ان کے اخلاقی نظام میں مرکزی حیثیت عدالت کی ہے اور اس کے بارے میں ان کا نظریہ یہ ہے کہ

’’کسی سوسائٹی میں عدالت و انصاف پیدا نہیں ہوسکتا جب تک رزق کمانے والی جماعتوں پران کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے احتراز کلی نہ برتا جائے‘‘ ۔

حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب پہلے مسلمان مفکر ہیں جنھوں نے اپنے فکری نظام میں اقتصادیات کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ اس نقطۂ نظر سے وہ قوموں کے عروج و زوال کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔ اخلاقی انحطاط بھی ان کے نزدیک اقتصادی انحطاط ہی کا نتیجہ ہے۔ حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں :۔

’’اگرکسی قوم میں تمدن کی مسلسل ترقی جاری رہے تو اس کی صنعت و حرفت اعلیٰ کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر حکمراں جماعت آرام وآسائش اور زینت و تفاخر کو اپنا شعار بنا لے تواس کا بوجھ قوم کے کاریگر طبقات پر اتنا بڑھ جائے گا کہ سوسائٹی کا اکثر حصہ حیوانوں جیسی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہو گا۔ انسانیت کے اجتماعی اخلاق اس وقت برباد ہو جاتے ہیں جب کسی جبر سے ان کو اقتصادی تنگی پر مجبور کر دیا جائے۔ اس وقت وہ گدھوں اور بیلوں کی طرح صرف روٹی کمانے کے لیے کام کریں گے‘‘۔  ۔

شاہ صاحب نے اپنے دور میں جس طرح جاگیرداری نظام کی فرسودگی اور شہنشاہیت سے پیدا ہونے والی خرابیوں کومحسوس کیا اس سے ان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ جاگیر داری نظام میں اب اتنی سکت نہیں کہ اس دور کی معاشی ابتری کودورکرسکے۔ لیکن چونکہ اس وقت کوئی ایسا با شعور اور جاندار طبقہ موجود نہ تھا جو جاگیر دار طبقے کی جگہ لے سکتا اس لیے انھوں نے جاگیرداری نظام کے خاکے ہی میں اپنا سیاسی نظام مرتب کیا۔ وہ ان تمام خرابیوں کی اصلاح چاہتے تھے جوسلطنت مغلیہ کو گھن کی طرح کھائے جا رہی تھیں مثلاً ان کی نظر میں جاگیروں کی کثرت سلطنت کے زوال کا باعث تھی اور اس بنا پر وہ چھوٹی چھوٹی جاگیروں کے بجائے صرف بڑی بڑی جاگیروں کے قائل تھے۔ اسی طرح مرکزی حکومت کے استحکام پران کا خاص زور تھا۔ نیز بدلتے ہوئے حالات میں وہ حکومت کو بادشاہ کی مطلق العنانی سے آزاد رکھنا چاہتے تھے۔

ان تمام اصلاحات کے باوجود شاہ صاحب کو یہ بھی احساس تھا کہ جاگیرداری نظام میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے اور نہ جاگیردار طبقے میں کاروبارسنبھالنے کی اہلیت۔ ان کی حقیقت بیں نگاہیں اس طبقے پر پڑ رہی تھیں جواس پر آشوب دور میں ابھرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھا۔ یہ طبقہ کاریگروں اور سوداگروں کا تھا جسے اگرساز گار حالات میسر آتے تو جاگیردار طبقے کو ہٹا کر حکومت کی باگ ڈورسنبھال لیتا۔ شاہ صاحب کی نظر میں اس طبقے کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ اسے ملک کی اقتصادیات کا مرکزی نقطہ سمجھتے تھے۔ خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں :۔

’’شاہ صاحب کوجس طبقے کی تباہی اور بربادی کاسب سے زیادہ خیال تھا وہ سوداگروں اور اہل حرفت ہی کا تھا۔ وہ اس طبقے کو ملک کی اقتصادیات کا مرکزی نقطہ سمجھتے تھے۔ ملک کی عام اقتصادی حالت پران کے خیالات اور بنیادی تصورات پر مجموعی حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ اس طبقے کی بربادی کو ملک کی بربادی سے تعبیر کرتے تھے‘‘۔

شاہ ولی اللہ کی تحریک دراصل سوداگروں اور کاریگروں کی تحریک تھی۔ یہ طبقہ ہمیشہ سے جاگیرداروں اور امیروں کے رحم و کرم پرتھا۔ شاہ صاحب کے بنیادی اصولوں پر نظر ڈالیے تو یہ معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اسے کمتری کے احساس اور طبقۂ اعلیٰ کے دستبردسے نکالنے اور اسے سوسائٹی میں صحیح جگہ دینے کی کوشش کر رہے ہوں۔ مثلاً وہ قرآنی تعلیمات کے مطابق زندگی بسرکرنے پرسب سے زیادہ زور دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیمات، اخوت ومساوات کے اصولوں کو اہمیت دیتی ہیں۔ اسی طرح وہ اجتماعی اخلاق کو اقتصادی حالات کے تابع قرار دیتے ہوئے اقتصادی توازن یا مساوات کی اہمیت ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں۔ خلافت راشدہ کے عہد کی سادہ معاشرت اختیار کرنے کی تلقین میں بھی یہی نکتہ پوشیدہ ہے کہ صنعتی طبقہ اپنا معیار زندگی اتنا کم کر دے کہ دوسروں کادست نگر نہ رہے۔ الغرض اخوت ومساوات کی یہ انقلاب آفریں تحریک جاگیرداروں کی مطلق العنانی پر بڑی کاری ضر ب تھی۔ اور جب شاہ صاحب نے قرآن کو عوام تک پہنچانے کی کوشش میں اس کا ترجمہ فارسی میں کیا تو ان جاگیرداروں نے جواب تک مذہب کے بھی اجارہ دار تھے شاہ صاحب کے خلاف ایک زبردست ہنگامہ برپا کر دیا۔

شاہ ولی اللہ کی تحریک ان کی حیات میں فروغ نہ پا سکی اور یہ اس قدر جلد ممکن بھی نہ تھا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دور کے سیاسی اور اقتصادی حالات کا صحیح تجزیہ کیا اور اس پس منظر میں ایسے اصول مرتب کیے جو صنعتی طبقے کی غلامانہ ذہنیت کو دور کر کے اسے جاگیرداروں کے مقابلے میں ابھارسکیں۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شاہ ولی اللہ ان تمام مساویانہ اصولوں کے باوجود اسلامی حکومت ہی کا قیام چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں اس کی کوشش بھی کی۔ احمد شاہ ابدالی کوہندستان پر حملہ کرنے کی دعوت اسی نیت سے دی کہ مرہٹوں، جاٹوں اور سکھوں کا زور توڑ کرہندستان میں نئے سرے سے اسلامی حکومت کا اقتدار قائم کیا جائے۔ شاہ صاحب کی اسکیم کے ماتحت احمد شاہ ابدالی نے یہاں کی دیسی تحریکوں کا خاتمہ توکر دیا لیکن اس سے مغل بادشاہ اور ارباب حکومت کی جاگیردارانہ ذہنیتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ جاگیرداری نظام گل ہو چکا تھا۔ اس میں نمو کی قوت نہ تھی۔ کوئی نیا اقتصادی پروگرام بھی جاگیرداروں کے مفاد کے خلاف نہ تھا۔ چنانچہ احمد شاہ ابدالی کے جانے کے بعد حکومت کی تمام کمزوریاں ابھر آئیں اور انگریزوں نے ان ہی کمزوریوں پر اپنی سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔

شاہ صاحب کواسلامی سلطنت کے قیام کے سلسلے میں صرف مرہٹوں، سکھوں اور جاٹوں ہی سے اندیشہ نہ تھا، بلکہ وہ انگریزوں کی بڑھتی ہوئی قوت کو بھی ایک خطرہ سمجھتے تھے۔ خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں :۔

جس وقت احمد شاہ ابدالی نے حملہ کیا تھا شاہ عالم ثانی بہار میں تھا۔ پانی پت کے میدان کے بعد احمد شاہ ابدالی نے شاہ عالم کو دہلی بلانے کی بے حد کوشش کی اور اپنا آدمی بھیجا۔ جب نہ آیا تو احمد شاہ ابدالی نے شاہ عالم کی والدہ نواب زینت محل سے خط لکھوایا معلوم ایسا ہوتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے انگریزوں کو بھی لکھا کہ وہ شاہ عالم کو دہلی پہنچنے کے لیے ہرقسم کی سہولت دیں شاہ عالم کو وہاں سے بلانے کی کوشش اس لیے تھی کہ وہ انگریزوں کے اثر سے نکل آئے اور دہلی آ کر احمد شاہ کی موجودگی میں اپنی طاقت کا استحکام کرے ۔

شاہ صاحب نے جس تحریک کا پودا اپنے زمانے میں لگایا تھا وہ ان کے جانشین شاہ عبدالعزیز (1746-1824) کے دور میں ایک تن اور درخت بن گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سیاسی اور معاشی حالات روز بہ روز ابتر ہوتے چلے گئے۔ شاہ عبدالعزیز کا عہدایسٹ انڈیا کمپنی کی بیدردانہ زر کشی اور ملکی توسیع کا دور تھا۔ سنہ1764 میں بکسر کی لڑائی میں شاہ عالم کو انگریزوں کے مقابلے میں شکست ہوئی اور بنگال اور بہار کی دیوانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ آ گئی۔ شاہ عالم کے بعد اکبر ثانی کے عہد میں مغلوں کی سلطنت دلی کے گرد و نواح تک محدود ہو گئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اب ہندستان کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ کلکتے سے لے کر دلی تک سارا علاقہ انگریزوں کے تصرف میں تھا۔ مسلمان حاکم سے محکوم بن گئے۔ اعلیٰ طبقے کے ہاتھ سے حکومت کے ساتھ ساتھ منصب، جاگیریں اور ملازمتیں نکلنے لگیں۔ علما پر معاش کے وسائل تنگ ہو گئے۔ لگان کے اضافے سے کسانوں کی حالت پہلے ہی خراب تھی اب برطانیہ کے مشینی مال کی درآمد نے ہندستانی کاریگروں کی کمر توڑ دی، بے اطمینانی اور معاشی ابتری کی اس فضا میں ولی اللہ تحریک کا شاہ عبدالعزیز کی قیادت میں آگ کی طرح پھیل جانا ایک قدرتی بات تھی۔

شاہ عبدالعزیز کا اصل مقصد اپنے والد شاہ ولی اللہ کی طرح اسلامی حکومت کا قیام تھا اور اس کے لیے وہ ساٹھ سال تک جدوجہد کرتے رہے لیکن انگریزی حکومت میں کھلم کھلا بغاوت کی تبلیغ ممکن نہ تھی۔ دوسرے جاگیری دور میں کوئی سیاسی یا معاشی تحریک اس وقت تک مقبول نہیں ہوسکتی تھی جب تک اسے مذہبی رنگ میں نہ پیش کیا جائے۔ چنانچہ شاہ صاحب کی مذہبی اصلاح کی تحریک کی نوعیت بھی یہی تھی۔ شاہ صاحب کے شاگرد اور مرید شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ترک بدعات اور اتباع سنت پر بڑے جوش و خروش سے وعظ کہتے، لیکن درپردہ ان کا مقصد عام مسلمانوں کو ملی اور سیاسی اعتبار سے بیدار اور منظم کرنا تھا۔

شاہ ولی اللہ نے قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا تھا، لیکن شاہ عبدالعزیز کے زمانے میں فارسی کے بجائے اردو کا رواج عام ہو گیا تھا۔ اس تبدیلی کو دیکھتے ہوئے شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین نے جو شاہ عبدالعزیز کے بھائی تھے، اردو میں قرآن کے ترجمے کیے۔ صرف یہی نہیں شاہ عبدالعزیز کے بھتیجے شاہ محمد اسمٰعیل نے اردو میں مذہبی کتابیں تحریر کیں۔ اس طرح عام مسلمانوں پر مذہب کے وہ دروازے کھل گئے جو صدیوں سے ان کے لیے بند تھے۔ ان ہی دروازوں سے شاہ عبدالعزیز اور ان کے شاگرد انھیں اسلام کی اس شاہراہ پرلے گئے جو قربانی اور جہاد کی سمت جاتی ہے۔

الغرض تبلیغ و اشاعت اور اصلاح و تنظیم کے بعد وہ نقطۂ عروج بھی آ پہنچا، جب شاہ عبدالعزیز اور ان کے ایک قریبی عزیز مولانا عبدالحیٔ نے بڑی جرأت اور بیباکی کے ساتھ اپنے فتووں میں کلکتے سے لے کر دلی تک کا سارا علاقہ جواس وقت انگریزوں کے زیر اقتدار تھا، دار الحرب قرار دے دیا۔ شاہ عبدالعزیز نے سنہ 1824 میں وفات پائی۔

لیکن اس دوران میں پنجاب میں سکھوں کی ایک طاقتور حکومت قائم ہو چکی تھی جس کے مظالم نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔ ان مظالم کو دیکھتے ہوئے شاہ عبدالعزیز کے مرید سید احمد شہید نے سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا اور شاہ اسمٰعیل اور مولوی عبدالحیٔ کے ساتھ جہاد کی تنظیم میں مصروف ہو گئے۔ ان حضرات نے بنگال سے لے کر دہلی تک تمام بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں اپنی گرمیِ زبان سے ایک آگ بھڑکا دی۔

جہاد کی یہ تمام تیاریاں انگریزی عملداری میں ہو رہی تھیں۔ انگریزوں کا رویہ بظاہر غیر جانبدارانہ تھا لیکن درپردہ وہ اس تحریک کی تائید میں تھے کیونکہ اس جنگ میں انھیں ہندستان کی دو طاقتوں کے کمزور یا پاش پاش ہو جانے کی توقع تھی، جس کے بعد وہ فاتح اور مفتوح دونوں پر آسانی سے غلبہ حاصل کرسکتے تھے۔

قصہ مختصر سید احمد شہید مجاہدین کے ساتھ سرحد پہنچے اور وہاں افغانی قبائل کی امداد و اعانت سے اسلامی حکومت بھی قائم کر لی۔ لیکن بعد میں ان ہی افغانی قبائل کی غداری ان کی شکست کاسبب بھی بنی۔ سنہ 1831میں بالا کوٹ کی لڑائی میں سید احمد، شاہ اسمٰعیل اور بہت سے مجاہدین سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جو زندہ بچے انھوں نے ستھانہ میں اپنا مرکز قائم کر لیا۔

لیکن ان واقعات سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ سید احمد شہید کی تحریک کا اصل مقصدمسلمانوں کو سکھوں کی دستبرد سے بچانا تھا۔ یہ تحریک دراصل غیرملکی حکمرانوں کے خلاف تھی اور اسی بنا پر شاہ عبدالعزیز اور مولانا عبدالحیٔ اپنے فتووں میں ہندستان کودار الحرب قرار دے چکے تھے۔ اس کے علاوہ سید احمد شہید کا چھ سال تک فوجی تربیت کی غرض سے والیۂ ٹونک کے یہاں مقیم رہنا جو ان دنوں انگریزوں اور بعض ہندو راجاؤں سے لڑ رہے تھے اور پھر نواب کی انگریزوں سے مصالحت پر رنجیدہ ہو کر دہلی چلا آنا اس قیاس کو اور بھی تقویت دیتا ہے۔ اس ضمن میں وہ شاہ عبدالعزیز کو لکھتے ہیں :۔

’خاکسار قدم بوسی کو حاضر ہوتا ہے۔ یہاں لشکر کا کارخانہ درہم برہم ہو گیا۔ نواب صاحب انگریزوں سے مل گئے۔ اب یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘۔

سید احمد شہید کے بعض خطوط سے بھی تحریک جہاد کی اصل نوعیت واضح ہوتی ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں :۔

’’ہمارا جھگڑا امرا وروسا اسلام سے نہیں بلکہ ہم کو لانبے بال والوں اور تمام فتنہ انگیز کافروں سے جنگ کرنا ہے نہ کہ اپنے کلمہ گو بھائیوں اور ہم مذہب مسلمانوں سے‘‘۔

لیکن ایک اور خط میں تو وہ بالکل ہی کھل جاتے ہیں۔

’’تقدیر سے چند سال سے ہندستان کی حکومت و سلطنت کا یہ حال ہو گیا ہے کہ عیسائی اور ہندوؤں نے ہندستان کے اکثر حصے پر غلبہ حاصل کر لیا ہے اور ظلم و بیداد شروع کر دیا ہے۔ کفر و شرک کی رسومات کا غلبہ ہو گیا ہے اور شعائر اسلام اٹھ گئے۔ یہ حال دیکھ کر دل کو بڑا صدمہ ہوا۔ ہجرت کا شوق دامن گیر ہوا۔ دل میں غیرت ایمانی اور سر میں جہاد کا جوش و خروش ہے ‘‘۔

غالباً اسکیم یہ تھی کہ سرحد میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے بعد جنگجو افغانوں کی مدد سے ہندستان کو انگریزوں سے نجات دلائی جائے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ اسکیم مولانا عبیداللہ سندھی کے خیال کے مطابق پہلے پہل شاہ عبدالعزیز کے ذہن میں آئی ہو اور سید احمد شہید اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے مامور کیے گئے ہوں۔ بہر حال یہ تحریک تھی انگریزی حکومت کے خلاف جس کے لیے ایک دلیل یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ بالا کوٹ کی لڑائی پراس کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ کچھ عرصے کے بعد یہ اپنے اصل حریف کے مقابل آ گئی۔

سید احمد شہید کے بعد مولانا ولایت علی نے جوسید صاحب کے خلفا میں تھے اپنے بھائی مولانا عنایت علی اور سیدصاحب کے بعض دوسرے مریدوں کی مدد سے اس شیرازے کو جو بکھر چکا تھا دو بارہ مرتب کیا اور جہاد کی تنظیم از سر  نو شروع کی۔ پٹنہ ان کا مرکز تھا جہاں سے وہ اپنے مریدوں کو ملک کے تمام اطراف و جوانب میں تبلیغ و اشاعت کی غرض سے بھیجتے تھے لیکن یہ تحریک سب سے زیادہ بہار اور بنگال کے دیہی علاقوں میں مقبول ہوئی۔

صادق پور کے سرفروشوں کی جماعت جسے انگریزوں نے عام مسلمانوں کو بد ظن کرنے کے لیے وہابی جماعت کے نام سے مشہور کر دیا تھا، تھوڑے ہی عرصے میں ستھانہ کیمپ کی امداد کے قابل ہو گئی اور خفیہ طور پر روپے اور مجاہد بھیجنے لگی۔ اس مقصد کے لیے بنگال سے سرحد تک ایک نظام قائم تھا۔ ابتدا میں سرحدی مجاہدین سکھوں سے اُلجھتے رہے لیکن سنہ1849میں جب پنجاب انگریزی مملکت میں شامل کر لیا گیا تو وہ باریک پردہ بھی اُٹھ گیا جو انگریزوں اور مجاہدین کے درمیان حائل تھا۔ اس کے بعدسے سرحدی لڑائیوں کا جوسلسلہ شروع ہوا وہ سنہ1869میں جا کر کہیں ختم ہوا۔ ان کی شدت اور نوعیت کے بارے میں ہنٹر لکھتا ہے:۔

’’میں ان بے عزتیوں، حملوں اور قتل و غارت کی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا جو 1858میں سرحدی جنگ کا باعث ہوئے۔ اس دوران میں مذہبی دیوانوں نے سرحدی قبائل کو انگریزی حکومت کے خلاف اکسائے رکھا۔ ایک ہی واقعہ تمام حالات کو واضح کر دے گا۔ یعنی سنہ1850سے سنہ 1857 تک ہم علاحدہ علاحدہ سولہ فوجی مہمیں بھیجنے پر مجبور ہوئے جس سے باقاعدہ فوج کی تعداد تینتیس ہزار ہو گئی اور سنہ 1850سے سنہ 1862تک ان مہمات کی گنتی بیس تک اور باقاعدہ فوج کی مجموعی تعدادساٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔ …… بے قاعدہ فوج اور پولیس اس کے علاوہ تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کے رُخ سے اگر مذہب کی نقاب اٹھا دی جائے تو ابتدا ہی سے یہ غیرملکی حکمرانوں کے معاشی استحصال کے خلاف ایک زبردست بغاوت کا اظہار نظر آتی ہے۔ وہابیوں کی وحدانیت اور مساوات کی تعلیم کے زیر اثر بنگال کے مسلمان کسانوں اور کاری گروں میں مذہبی بیداری ہی نہیں سیاسی بیداری بھی پیدا ہوئی۔ جب سید احمد شہید نے سنہ1830 میں پش اور فتح کیا تو ادھر جنوبی بنگال کے مسلمان کسان حکومت اور زمین داروں کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، یہ زمین دار جواستمراری بندوبست کی پیداوار تھے عام طور سے ہندو تھے۔ ان کا مفاد انگریزی حکومت کے استحکام سے وابستہ تھا۔ چنانچہ اس بغاوت میں زیادہ تر ہندو زمین دار ہی کسانوں کے غم و غصہ کا شکار ہوئے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ انھوں نے مسلمان زمین داروں کو بخش دیا۔ ہنٹر لکھتا ہے:

’’سنہ 1831میں کلکتہ کے گرد و نواح میں جو بغاوت ہوئی اس میں یہ لوگ بلا امتیاز ہندو اور مسلمان زمین داروں کے گھروں میں گھس گئے اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمان زمینداروں کو کہیں زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ان لٹیروں کی عادت تھی کہ بعض اوقات اپنے کسی بدعقیدہ ہم مذہب کی لڑکی کو بدعات سے نجات دلانے کے خیال سے زبردستی اٹھا کر لے جاتے اور اپنے کسی ڈاکو سردار سے اس کا نکاح کر دیتے‘‘ ۔

اوپر کے اقتباس سے ظاہر ہے کہ اس بغاوت میں فرقہ وارانہ ذہنیت کو دخل نہ تھا، بلکہ اس کا رُخ دراصل برسراقتدار طبقے کے خلاف تھا اور اس میں ایک عوامی پہلو بھی شامل تھا۔ اس کا مذہبی رنگ خالص جاگیرداری دور کی خصوصیت ہے۔ بہرحال اس بغاوت کو حکومت نے انتہائی سختی اور بربریت کے ساتھ دبا دیا۔

لیکن یہ چنگاری اندر ہی اندر سلگتی رہی اور صادق پوری جماعت کے اثرسے ایک اور جماعت ’فرائضی‘ کے نام سے تیا رہو گئی۔ ان فرائضیوں کے بارے میں ہنٹر کا بیان ہے کہ

’’دہانۂ گنگا کے متعصب مسلمان اپنے آپ کو وہابی نہیں بلکہ فرائضی کہتے ہیں یعنی زیادہ اعلیٰ مذہب کے پیرو۔ وہ اپنے آپ کو نومسلم کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔ کلکتہ کے مشرقی اضلاع میں وہ ایک بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ہم پہلے دیکھ آئے ہیں کہ سنہ1831میں ایک مقامی لیڈر نے تین چار ہزار آدمیوں کو اپنے گرد جمع کر لیا تھا اور کلکتہ کی ملیشیا کی ایک جماعت کوشکست بھی دی تھی۔ یہاں تک کہ باقاعدہ فوج ہی کی مدد سے ان کو دبایا جا سکا۔ سنہ 1843میں اس جماعت نے ایک خطرناک صورت اختیار کر لی اور حکومت کواس کی بالخصوص تحقیقات کرنا پڑی۔ بنگال کے پولیس افسر کی رپورٹ تھی کہ ان کے صرف ایک واعظ نے اسّی ہزار مرید جمع کر رکھے ہیں جوآپس میں پورا پورا بھائی چارہ رکھتے ہیں اور ایک کے مقصد کوساری جماعت کا مقصد سمجھتے ہیں۔ بعد کے خلفا خصوصاً یحییٰ علی نے جنوبی بنگال کے فرائضیوں کو شمالی ہندستان کے وہابیوں میں مدغم کر دیا تھا اور گزشتہ تیرہ برس سے ہم ان کو میدان جنگ کے مقتولین اور عدالتوں کے کٹہروں میں ساتھ ساتھ کھڑا دیکھتے ہیں‘‘

بنگال کی یہ عام بغاوتیں جوکسانوں کی معاشی ابتری کا نتیجہ تھیں اور سرحد کی لڑائیاں جو مشرقی اور شمالی ہندستان کے مسلمانوں کی مدد سے جاری تھیں دراصل وہابیوں ہی کے جوش و خروش اور سعی و تنظیم کی رہین منت تھیں۔ ان مجاہدوں نے سنہ1868تک علم بغاوت بلند رکھا لیکن برطانیہ کے جدید اسلحہ جات کے مقابلے میں جاگیرداری دور کے پرانے ہتھیار کیا کام دیتے۔ اس کے علاوہ حکومت نے بنگال اور سرحد کی شورشوں سے خوف زدہ ہو کر داروگیر شروع کر دی۔ سنہ1864 میں مولوی یحییٰ علی، مولانا احمد اللہ عظیم آبادی، مولانا جعفر تھانیسری وغیرہ جواس بغاوت کے روح رواں تھے گرفتار کر لیے گئے اور انھیں دائم الحبس بہ عبور دریائے شور کی سزادی گئی۔ بنگال اور بہار میں گرفتاریوں کا سلسلہ سنہ1872تک جاری رہا۔ اس طرح غیرملکی حکومت کے خلاف مسلمانوں کی ایک انتہائی باغیانہ تحریک کا خاتمہ ہوا۔

اس تحریک کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ یہ اپنی مذہبی نوعیت کی بنا پر صرف مسلمانوں تک محدود رہی۔ اس کے علم برداروں نے اسلامی حکومت قائم کرنے کی فکر میں ہندوؤں کو اپنے ساتھ لانے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ عام ہندو بھی اس غیرملکی حکومت کوا تنی ہی نفرت سے دیکھتا تھا جتنا کہ مسلمان۔

لیکن دوسری طرف اس تحریک نے انگریزوں کومسلمانوں کے مسائل پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے پر مجبور کیا۔ ہنٹر سنہ1871میں اپنی مشہور کتا ’ہمارے ہندستانی مسلمان‘ میں ان تمام حالات و واقعات کا جائزہ لیتا ہے جومسلمانوں کی بے اطمینانی کا باعث تھے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہابیوں یا عام مسلمانوں میں باغیانہ رجحانات کی پرورش اس وقت تک ہوتی رہے گی جب تک وہ معاشی ابتری اور حکومت کی بے اعتنائی کا شکار رہیں گے۔ جہاں تک سرکاری ملازمت کا تعلق ہے ترجیح ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو انگریزی تعلیم سے بہرہ یاب ہیں۔ لیکن مسلمان عام طور پر انگریزی تعلیم سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی طریقہ تعلیم مسلمانوں کی مذہبی روایات کے خلاف ہے۔ ہنٹر حکومت سے مسلمانوں کی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے طریقۂ تعلیم میں تبدیلیوں کی سفارش کرتا ہے تاکہ انھیں انگریزی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی عذر باقی نہ رہے۔ وہ حکومت کو مشورہ دیتا ہے کہ مسلمانوں کی جانب دوستی اور سرپرستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ پرانی معاندانہ پالیسی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تین کروڑ مسلمان ہمیشہ کے لیے حکومت کے دشمن ہو جائیں۔ ایسی صورت میں انگریزوں کا سکون و اطمینان سے حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ہنٹر کی ان سفارشات میں کافی وزن تھا۔ بعض با اثر انگریز حکام بھی مسلمانوں کے متعلق حکومت کی پالیسی کو موجودہ حالت کے مطابق نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن خود حکومت بھی صورت حال کا جائزہ لے رہی تھی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ مسلمان حکومت کے انتہائی تشدد کے باوجود اپنی باغیانہ روش پر قائم ہیں اور وہ لوگ بھی وہابیوں کی تحریک سے ہمدردی رکھتے ہیں جو عملی حیثیت سے شریک نہیں۔ ان حالات نے بالآخر حکومت کو سنہ1871میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ مخالفانہ اور معاندانہ روش سرپرستانہ اور ہمدردانہ رویہ میں بدل گئی۔ مسلمانوں کے لیے تعلیمی سہولتیں فراہم کی گئیں اور ان کے طبقۂ اعلیٰ یا علما کے ان افراد کی کوششوں کوسراہا گیا جو برطانوی حکومت سے تعاون کر چکے تھے اور جن کے نزدیک انگریزوں سے جہاد کرنا مذہباً جائز نہ تھا۔ مثال کے طور پر طبقۂ اعلیٰ کے نمائندوں میں مولوی عبد اللطیف خان بہادر سکریٹری محمڈن لٹریری سوسائٹی کلکتہ انگریزی حکومت سے تعاون اور انگریزی تعلیم کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ اسی طرح طبقۂ علما میں سید احمد شہید کے مرید مولوی کرامت علی جون پوری قابل ذکر ہیں جنھوں نے اپنے فتوے میں جہاد کو ناجائز قرار دیا تھا۔ لیکن اس خیال کے لوگوں میں سب سے زیادہ اہم اور قابل ذکرہستی سر سید کی ہے جن سے مسلمانوں کی قومی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔

٭٭٭

 

انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش

               (سر سید کی تحریک)

سر سید کی تحریک کے بارے میں مختلف رائیں ملتی ہیں۔ کوئی اسے مذہبی سمجھتا ہے کوئی معاشرتی اور کوئی تعلیمی۔ ذاتی طور پر میں کچھ اس طرح سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک بڑی حد تک سیاسی تھی جسے مسلمانوں کے عام سماجی حالات نے پیدا کیا تھا۔ اس پر مذہب، معاشرت اور تعلیم کے جتنے دبیز یا ہلکے پردے پڑے ہوے ہیں ان سے عموماً دھوکا ہوتا ہے۔ حالی لکھتے ہیں :۔

’’اگرچہ بظاہر سر سید کے پولیٹکل ورکس میں چند تحریروں اور اسپیچوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا مگر درحقیقت جیسا کہ ان کی بائیوگرافی سے ثابت ہوتا ہے سنہ 1857کے بعد جو کچھ انھوں نے لکھا یا کہا یا کیا اس کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں کی پالیٹکل حالت کی اصلاح سے علاقہ رکھتا ہے۔

سر سید کی زندگی کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک حقیقت پسند انسان تھے۔ یہ خصوصیت ان میں ابتدا ہی سے نظر آتی ہے۔ اکیس سال کی عمر میں جب ان کے سامنے یہ سوال آیا کہ وہ انگریزی حکومت کی ملازمت اختیار کریں یا بہادر شاہ کی، تو انھوں نے اول الذ کر کی ملازمت کو ترجیح دی۔ ان کے اس ارادے میں نہ تو ان کے خاندان والوں کی مخالفت حائل ہوسکی اور نہ یہ کمزوری کہ ان کے بزرگ ایک عرصے تک دربار شاہی سے متوسل اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے تھے۔ انگریزوں کے روز افزوں اقتدار کو دیکھتے ہوئے انھیں شروع سے یقین تھا کہ بہادر شاہ کی حکومت جو صرف قلعے کی چہار دیواری تک محدود تھی کوئی دن کی مہمان ہے۔ ہندستان میں اب کوئی اگر حکومت کا اہل ہے تو وہ صرف انگریز ہیں اور ان کی حکومت قائم ہوکے رہے گی۔ ان کا یہ عقیدہ 1857کے پُر آشوب زمانے میں بھی متزلزل نہیں ہوا جبکہ ہندستان میں خود انگریزی حکومت کی بنیادیں متزلزل تھیں۔ حالی کے قول کے مطابق عقل ان کی طبیعت پر غالب تھی۔ اس لیے نہ تو فاتح کی حکومت انھیں ناگوار گزری اور نہ قومی تعصبات مغلوب کرسکے۔

سر سید نے1857کی بغاوت میں مسلمانوں کی تباہی کو دو باتوں پر محمول کیا۔ پہلی یہ کہ ان میں تعلیم و تربیت نہیں تھی۔ دوسری یہ کہ انگریزوں سے جن کو خدا نے ہم پرمسلط کیا ہے میل جول اور اتحاد نہ تھا اور باہم ان دونوں میں مذہبی اور رسمی منافرت بلکہ مثل آب زیر کا ہ عداوت کا ہونا تھا۔ چنانچہ انھوں نے مسلمانوں کی عام بہبودی کے لیے تعلیم و تربیت اور انگریزوں سے ربط و اتحاد پر خاص طورسے زور دیا۔

سب سے پہلے ہم ان کے انگریزوں سےاصلی اتحاد ودوستی  کے نظریے کوسمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ ابتدا ہی سے حقیقت پسند تھے اور اس حقیقت پسندی نے انھیں انگریزی حکومت کا بہی خواہ اور وفا دار بنا دیا تھا۔ وہ اپنی ایک تقریر میں ہندستان کو بیوہ سے تشبیہ دیتے ہیں جس نے خود انگلش نیشن کو اپنا شوہر بنانا پسند کیا تھا۔ ان کے خیال کے مطابق ہندستان میں ہم نے اپنے ملک کی بھلائی کے لیے انگلش حکومت قائم کی۔ ملک کی بھلائی سے ان کی مراد ملک کی ترقی تھی اور اس کے لیے وہ امن و امان کو ضروری تصور کرتے تھے۔ لیکن یہ امن و امان ان کے نزدیک ہندو اور مسلمانوں کی رقابت کے ہوتے قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ بڑ ے وثوق سے کہتے ہیں کہ ’’ہندستان کے لیے ناممکن ہے کہ ہندو یا مسلمانوں میں سے کوئی حاکم ہو اور امن قائم رکھ سکے۔ پھر یہی ہونا ہے کہ کوئی دوسری قوم ہم پر حکمراں ہو‘‘۔ الغرض ان تمام دلائل کی بنا پر وہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہیں کہ انگلش گورنمنٹ کا بہت دنوں تک بلکہ ہمیشہ کے لیے رہنا ضروری ہے ۔

لیکن انگریزی حکومت کو دوام اسی صورت میں نصیب ہوسکتا تھا جب وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو۔ سر سید کواس کی فکر انگریزوں سے کم نہ تھی کیونکہ ان کے سارے منصوبوں کا دارومدار اسی پرتھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سنہ1858میں حکومت کو ہندوؤں اور مسلمانوں کی الگ الگ فوج رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ بغاوت کی صورت میں ایک کی سرکوبی دوسرے سے کی جا سکے ۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ان کی مراد یہ ہے کہ حکومت اپنے استحکام کی خاطر فرقہ وارانہ اختلاف سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتی۔ اس استحکام کی خاطر انھوں نے ہندستان کی مفلسی کو بھی نظرانداز کر کے حکومت کے ٹیکسوں کو جائز  قرار دیا  ۔ کانگریس کی مخالفت کے متعدد وجوہ میں ایک وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اسے حکومت کی پاے داری کے لیے ایک مستقل خطرہ تصور کرتے تھے۔

لیکن سر سید یہ بھی جانتے تھے کہ صرف تلوار کے زور سے کسی حکومت کواستحکام حاصل نہیں ہوسکتا، اس کے لیے حاکم کے دل میں ہمدردی اور محکوم کے دل میں وفاداری کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔ یہ ان کی نظر میں اصلی اتحادودوستی کی بنیاد تھی اور اسی میں انھیں مسلمانوں کے معاشی اور سیاسی مسائل کا حل بھی نظر آتا تھا۔ اس نظریہ کے تحت وہ تمام عمر مسلمانوں اور انگریزوں کی باہمی عداوت و نفرت کو مٹانے اور ایک کودوسرے سے قریب تر کرنے میں مصروف رہے۔ ان کی تعلیمی، مذہبی اور معاشرتی سرگرمیوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمانوں میں حکومت کی طرف سے وفاداری کا گہرا جذبہ پیدا ہو۔ یہ وفاداری استحکام ِ سلطنت کے لیے بہت بڑی خدمت تھی جس کے صلے میں سر سید مسلمانوں کے لیے اعلیٰ ملازمتیں اور اعلیٰ ملازمتوں کے ذریعہ سیاسی حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اگرچہ سر سید کی تحریک سنہ1870یعنی تہذیب الاخلاق کی اشاعت سے شروع ہوتی ہے لیکن ان کی جدوجہد کا آغاز سنہ1858سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے انگریزوں کے ذہن سے یہ خیال دور کرنے کی کوشش کی کہ مسلمان بغاوت کے اصل ذمہ دار ہیں۔ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ ان کی اس کوشش کا نتیجہ ہے۔ ان کے خیال میں ہندستانیوں کا لیجسلیٹو کونسل میں شریک نہ ہونا بغاوت کا اصل سبب تھا۔ اس کے علاوہ جواسباب انھوں نے بتائے ہیں ان میں بڑی صداقت ہے۔ مثلاً امور مذہبی میں مداخلت، زمین داریوں اور تعلقوں کی ضبطی، عدالتوں کی بد انتظامی، طریقۂ تعلیم کی خرابی، نامناسب آئین، مفلسی، اعلیٰ ملازمتوں سے محرومی، مسلمانوں کی بے روزگاری اور ان کی نفسیاتی کیفیت وغیرہ۔ اس میں شک نہیں کہ انھوں نے اس پُر آشوب دور میں جبکہ مسلمانوں پر حکومت کا شدید عتاب نازل ہو رہا تھا، بڑی جرأت سے کام لیا اور بغاوت کی ساری ذمہ داری خود انگریزی حکومت کی خامیوں اور بدعنوانیوں کے سرڈال دی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے بغاوت کے کردار کومسخ کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ بغاوت قومی نہیں تھی۔ اس حقیقت کو جھٹلانا ہے کہ اس میں ہر مذہب، ہر ملت اور ہر طبقے کے لوگ شریک تھے۔ اسی طرح جہاد کے فتوے کو جعلی قرار دینا اصل واقعہ پر پردہ ڈالنا ہے۔ سیکڑوں عالموں کوپھانسی اور حبس دوام کی سزائیں اور پھر مولانا فضل حق خیرآبادی کا انگریزی عدالت میں یہ بیان حقیقت کے رُخ سے نقاب اٹھانے کے لیے کافی ہے:۔

’’وہ فتویٰ صحیح ہے۔ میرا لکھا ہوا ہے اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے‘‘۔

اس فتوے کے سلسلے میں مفتی صدر الدین خاں آزردہ بھی ماخوذ تھے لیکن وہ ’بالحر‘  کو ’بالجبر‘  بتا کر اپنی جان بچا لے گئے۔ لیکن ایسے عالموں کی مثالیں کم یاب ہیں۔

مسلمانوں کو بری کرنے کی کوشش میں سر سید نے یہ بھی کیا کہ بغاوت کی تمام تر ذمہ داری ہندوؤں سے منسوب کر دی۔ بدر الدین طیب جی کو لکھتے ہیں کہ’’ غدر کیا ہوا؟ ہندوؤں نے شروع کیا۔ مسلمان دل جلے تھے۔ وہ بیچ میں کود پڑے۔ ہندو تو گنگا نہا کرجیسے تھے ویسے ہی ہو گئے مگر مسلمانوں کے تمام خاندان تباہ و برباد ہو گئے ‘‘۔ اس قسم کی باتوں سے سر سید کا منشا یہ تھا کہ انگریز صرف مسلمانوں ہی کو بغاوت کا مجرم نہ سمجھیں۔

سر سید نے لائل محمڈنز آف انڈیا کا جوسلسلہ شروع کیا تھا وہ صرف اس لیے تھا کہ انگریزوں کی نظر تصویر کے دوسرے رُخ پربھی پڑے۔ اس رسالے میں وہ ان مسلمانوں کے کارنامے پیش کرتے ہیں جنھوں نے بغاوت میں انتہائی خطرات کے باوجود انگریزوں کا ساتھ دیا تھا اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بغاوت میں مسلمانوں کی شرکت قومی حیثیت نہیں رکھتی۔ حکومت کے عتاب کی مستحق ساری قوم نہیں بلکہ صرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے واقعی بغاوت میں حصہ لے کر ’نمک حرامی اور ناشکری‘ کا ثبوت دیا تھا۔

سر سید انگریزوں کو یہ بھی یقین دلانا چاہتے تھے کہ اسلام تلوار کا مذہب نہیں۔ وہ نہ تو ظلم و خون ریزی سکھاتا ہے اور نہ تعصب کی تعلیم دیتا ہے۔ نیز مذہب کی رُو سے مسلمان عیسائیوں یا عیسائی حکومت کے بدخواہ نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ بائبل کی تفسیر کی غرض و غایت یہی تھی کہ عیسائیوں کو دکھایا جائے کہ دنیا میں اگر کوئی مذہب عیسائی مذہب کا دوست ہوسکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہو سکتا ہے اور بس۔ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب ’ہمارے مسلمان‘ پروہ اس لیے کڑی تنقید کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو مذہب کی روسے انگریز دشمن بتاتا ہے، اور اسی روشنی میں وہابی تحریک کو دیکھتا ہے۔ اس سلسلے میں سر سید وہابی تحریک کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ صرف مذہبی اصلاح کی تحریک نظر آنے لگتی ہے جسے انگریزوں کی مخالفت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ہنٹر کے ایک سوال کے جواب میں وہ یہ کہنے میں مطلق تامل نہیں کرتے کہ ’’انگریزوں کی امان سے علاحدہ ہونا اور غنیم کو مدد دیناکسی حالت میں کسی مسلمان کا مذہبی فرض نہیں ہے۔‘‘

اسی طرح  ’’خطبات احمدیہ‘‘ میں وہ انگریزوں پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام حقیقتاً تہذیب، شائستگی اور معقولیت کا مذہب ہے۔ سر سید کی اس نوع کی کوششوں سے عام انگریزوں کی رائے مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ تبدیل ہوئی۔

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ سر سید نے اپنی پالیسی کے بموجب مسلمانوں کو وفا شعار بنانے اور انھیں پستی سے اُبھارنے میں کن تدابیر سے کام لیا۔ اس ضمن میں ان کے تمام کاموں کو عموماً تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اخلاق و معاشرت، تعلیم اور مذہب۔

پہلے اخلاق و معاشرت کو لیجیے۔ سر سید نے’اسباب بغاوت ہند‘ میں بغاوت کا ایک سبب حاکم و محکوم میں سوشل تعلقات کی عدم موجودگی کو قرار دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ ہمیشہ مسلمانوں اور انگریزوں کے ربط واتحاد اور معاشرتی اختلاط کی اہمیت پرزور دیتے رہے۔ سنہ 1866میں ان کارسالہ�احکام طعام اہل کتاب� اس سلسلے کی کڑی ہے۔ اس میں انھوں نے مسلمانوں اور انگریزوں کے ایک ساتھ کھانے پینے کا شرعی جوازپیش کیا۔ سنہ 1869میں انگلستان کے دورانِ قیام میں انھیں برطانوی تہذیب ومعاشرت کے مطالعے کا موقع ملا اور وہ اس کی برتری سے کچھ اتنے مرعوب ہوئے کہ ہندستانیوں کوانگریزوں کے مقابلے میں جانورتصور کرنے لگے ۔ وہیں انھیں مسلمانوں کی اصلاح معاشرت کا خیال پیدا ہوا اور اس مقصد کی خاطر انھوں نے سنہ1870 میں تہذیب الاخلاق جاری کیا۔

تہذیب الاخلاق نے جاگیرداری دورکی زوال آمادہ تہذیب ومعاشرت پرسخت حملے کیے اور مسلمانوں کومغربی تہذیب اختیار کرنے پرمائل کیا۔ انیسویں صدی کے مغرب کی تہذیب لبرل تہذیب تھی جسے سرمایہ دارانہ دور نے پیدا کیا تھا۔ اس کے بنیادی عناصر میں عقلیت، نیچر اور � انسان دوستی کے تصورات کوبڑی اہمیت حاصل تھی۔ سر سید جانتے تھے کہ آج قوموں کی ترقی کا مدار عقلیت اور سائنس پر ہے اور مسلمانوں کواگر اپنی موجودہ پستی سے اُبھرنا ہے تولبرل تہذیب کوجوان تصورات کی حامل ہے اپنائے بغیرچارہ نہیں۔ اس خیال کے تحت انھوں نے جاگیرداری دورکے فرسودہ اخلاق ومعاشرت کوعقلیت اور نیچر کی کسوٹی پرپرکھا۔ اُنیسویں صدی کے مغرب کی قدروں کوسامنے رکھ کر جہاد، غلامی اور عورتوں کی محکومی کی مذمت کی اور اس طرح تعصب، تقلید اور بیہودہ رسم ورواج کی بندشوں کوڈھیلا کیا۔ سر سید کو اس سلسلے میں اپنے دوستوں سے بھی بڑی مدد ملی جن کے مضامین تہذیب الاخلاق کے صفحات میں ان کی تائید اور حمایت کرتے تھے۔ تہذیب الاخلاق اگرچہ معاشرت کی اصلاح سے متعلق تھا لیکن مذہبی نقطۂ نظر سے بھی اس کی اہمیت ثابت کرنا ضروری تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جاگیری معاشرت کا پروردہ مسلمان دین ودنیا کی ہربات میں شرعی جواز طلب کرتا تھا۔

تہذیب الاخلاق نے کافی گہرے نقوش چھوڑے لیکن اس کا دائرۂ اثر محدود تھا۔ ادنیٰ طبقہ اپنی جہالت اور پسماندگی کے باعث اس سے مستفید نہ ہوسکتا تھا اور ادنیٰ طبقے کے لیے یہ تھا بھی نہیں۔ مولوی اور عالم اپنے سیاسی اور مذہبی خیالات اور غالباً اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر عمداً اس سے بیگانہ رہے۔ امرا کوآسائشوں کے ہوتے اس پر توجہ دینے کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ ا س کا اثر صرف متوسط درجے کے لوگوں میں محدود رہا جو نہ محض جاہل تھے اور نہ جامع۔ علوم عقلیہ و نقلیہ اور مقدور کے لحاظ سے نہ نہایت پست حالت میں تھے اور نہ اعلیٰ درجے میں۔ پھر خاص کر دلی اور لکھنؤ اور ان کے نواح میں جہاں مسلمانوں کی قدیم شائستگی کے کچھ دھندلے نشان باقی تھے اس کا اثر بہت کم ہوا۔ باوجود اس کے چونکہ اس کی آواز زمانے کی گونج کے موافق تھی، اس نے توقع سے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی ۔

سر سید کے کارناموں میں سب سے زیادہ اہمیت ان کی تعلیمی تحریک کو حاصل ہے۔ انھوں نے ابتدا ہی میں یہ اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی مسائل انگریزی تعلیم سے وابستہ ہیں۔ حالی لکھتے ہیں :۔

’’انھوں نے تمام خرابیوں کی اصلاح اور تمام مشکلات کا حل اس بات میں دیکھا کہ قوم میں تعلیم کی اشاعت کی جائے مگر قومی تعلیم و تربیت خود ایک عظیم الشان کام تھا جس کے لیے صدیاں درکار تھیں۔ اس لیے انھوں نے خیال کیا کہ سب سے مقدم، مسلمانوں کو پولیٹکل بے وقعتی سے نکالنا اور ملک کی حکومت میں جس قدر حصہ لینے کا گورنمنٹ نے ان کو بحیثیت ہندستان کی رعایا ہونے کے حق دیا ہے، اس میں ان کا استحقاق پیدا کرنا ہے جوبغیراس کے، قوم میں ایک مناسب تعدادہندستان اور انگلستان کی یونیورسٹیوں کے گریجویٹس کی پیدا ہو جائے کسی طرح ممکن نہیں‘‘ ۔

انگریزوں اور مسلمانوں میں سوشل تعلقات پیدا کرنے اور مسلمانوں میں انگریزوں کی طرف سے اجنبیت، غیریت اور بیگانگی کے احساس کو دور کرنے کے لیے بھی یہ نہایت ضروری تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں انگریزی نظام کی خیر و برکت کا سکہ بٹھایا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ انگریزی تعلیم پر موقوف تھا۔

سر سیدنے ان مقاصد کے پیش نظر سب سے پہلے سنہ 1863میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی جو اپنے اراکین کے اعتبار سے غیر فرقہ وارانہ تھی۔ اس سوسائٹی کا کام مختلف انگریزی علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا تاکہ ہندستانیوں میں عموماً اور مسلمانوں میں خصوصاً انگریزی علم و ادب کا مذاق پیدا ہو۔ اور وہ اس طرح خودبخود انگریزی تعلیم کی طرف راغب ہوں۔ یہ گویا انگریزی تعلیم کے لیے میدان ہموار کرنے کی تیاری تھی۔ لیکن اس سلسلے میں تہذیب الاخلاق نے تبلیغ و اشاعت میں اور مسلمانوں کے مذہبی موانعات دور کرنے میں جو کام کیا وہ کسی اور ذریعہ سے نہ ہوسکا۔

سنہ 1875میں سر سید کی انتھک تعلیمی کوششوں کا نتیجہ علی گڑھ اسکو ل کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور سنہ 1877میں علی گڑھ کالج کی بنیاد پڑی۔ اس میں ایک طرف انگلستان کی یونیورسٹیوں کی طرز تعلیم کی نقل اتاری گئی، دوسری طرف مذہبی تعلیم کو ایک لازمی عنصر قرار دیا گیا تاکہ مسلمانوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی عذر نہ ہو۔ لیکن خود انگلستان کے اسکولوں میں جس قسم کی تعلیم رائج تھی اس کی وضاحت ڈاڈول ان الفاظ میں کرتا ہے:۔

’’ان اداروں میں طلبہ کوسمجھوتے کی ضرورت اور مل جل کر کام کرنے کے فوائد کا احساس ہوتا تھا۔ وہ لیڈری کے فن سے آشنا ہوتے اور رائے عامہ کوتسلیم کرنے کے خوگر بھی بنائے جاتے۔ اس سخت تربیت کے اثر سے جواوسط درجے کے افراد کے لیے موزوں اور مفید تھی ایسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے سلطنت کی تعمیر اور استحکام میں مدد دی۔ برطانوی تجارت کی بنیاد ڈالی اور انگریزوں کی سیاسی زندگی کی تشکیل کی اور اسے آگے بڑھایا۔ لیکن ان کی تربیت جتنی ذہنی تھی اس سے کہیں زیادہ اخلاقی تھی۔ تبحر علمی کے لیے اتنی مناسب نہ تھی جتنی کہ عملی صفات پیدا کرنے کے لیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے لیے فارغ البالی اور نازک صلاحیتوں کا ہونا ضروری تھا جواوسط آدمی نہ تو ترکہ میں پاتا ہے اور نہ خود ہی حاصل کرسکتا ہے‘‘۔

سر سید کا کالج بھی دراصل ایسے ہی خوش حال لوگوں کے لیے تھا۔ جوہر قابل پیدا کرنا جب برطانوی یونیورسٹیوں کا مقصد نہ تھا تو پھر ان کی نقل یعنی علی گڑھ کالج میں تو یہ سوال سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ سر سید کا سارازور تربیت پرتھا جو عام طورسے انگریزی کھیلوں، انگریزی طرز معاشرت اور آدابِ مجلس کے حصول پر منحصر تھی۔

سیاسی اعتبار سے کالج کا مقصد مسلمانوں کو تاجِ برطانیہ کی کارآمد اور وفادار رعایا بنانا تھا۔ اس لیے کالج کے قواعد میں یورپین اسٹاف کو کالج کا ایک لازمی عنصر قرار دیا گیا تاکہ مسلمانوں اور انگریزوں میں اتحاد و یک جہتی پیدا ہو اور حکومت کو بھی کالج کی خیر خواہی پراعتماد رہے۔ طلبا میں جہاں جسمانی صحت، وقت کی قدر اور فرض کا احساس پیدا کیا جاتا وہاں اطاعت کی بھی مشق کرائی جاتی  کیوں کہ سر سید کے نزدیک یہ محکوم قوم کا زیور تھا۔ پھر ملازمتوں کے لیے بھی سب سے زیادہ اسی خصوصیت کی ضرورت تھی۔ �سر سیدکے تعلیمی مشن کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی تائید اور سرپرستی تھی۔ خودسر سید نے بھی اپنے اثرورسوخ سے کافی کام لیا۔ اس سے لوگوں میں کافی بد ظنی پیدا ہوئی۔ حالی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’ہزاروں یہ خیال کرتے تھے کہ مدرسہ قوم کے فائدے کے لیے قائم نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ انگریزی سلطنت کو زیادہ استحکام ہو۔ اس خیال کا دوسرا جز صحیح تھا مگر پہلا جز اس لیے غلط تھا کہ حالت موجودہ میں مسلمانوں کی قومی زندگی اس بات پر موقوف ہے کہ انگریزی سلطنت کو زیادہ استحکام ہو‘‘۔

سر سید کو اپنے مذہبی خیالات کی بنا پر بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مذہبی بحثوں میں نہیں پڑنا چاہتے تھے لیکن اس کے بغیر چارہ بھی نہ تھا۔ حالی اس کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں :۔

’’اگرچہ سر سید کا اصل مقصد مسلمانوں کی پولیٹکل اور سوشل حالت کا درست کرنا تھا لیکن چونکہ مسلمان اپنے مذہب کو ہمیشہ سے دین و دنیا دونوں کا رہبرسمجھتے رہے ہیں اور کسی بات کو خواہ دینی ہو خواہ دنیوی جب تک کہ اس کا ثبوت مذہب کی روسے نہ دیا جائے تسلیم نہیں کرتے اور نیز مسلمانوں کی پالیٹکل حالت کو بہت کچھ تعلق ان کے مذہب کے ساتھ تھا، اس لیے سر سید کوسنہ 1857کے بعد سے اخیر دم تک برابر مذہبی مباحث میں مشغول رہنا پڑا‘‘ ۔

سر سید انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی تنفر کی خلیج سے خوب واقف تھے۔ ایک انیسویں صدی کی مغربی قدروں سے اسلام کو پرکھتا اور اسے دنیاوی ترقی کا سب سے بڑا مانع،  جنگجو اور غیر شائستہ مذہب ثابت کرتا تودوسرا عیسائیت کو اسلام سے کمتر ٹھہراتا اور انجیل کے موجودہ نسخے کو اصل کے مطابق نہ سمجھتا۔ چنانچہ انگریزوں اور مسلمانوں میں صلح کرانے کے لیے ضروری تھا کہ عیسائیت اور اسلام میں صلح کرائی جائے۔ سر سید کی ’’تبیین الکلام‘‘ کی غرض و غایت یہی تھی۔ یہ بائبل کی پہلی تفسیر تھی جو اصول اسلام کے مطابق لکھی گئی اور جس میں سر سید نے یہ ثابت کیا کہ اسلام اور عیسائیت اصولی اعتبار سے ایک ہیں۔ نیز تمام مذاہب میں صرف اسلام ہی عیسائیت کا دوست ہوسکتا ہے۔ ’’خطبات احمدیہ‘‘ میں سرولیم میور کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوے انھوں نے مغرب کی جدید قدروں کواسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور جس کسوٹی سے انگریزوں کا تعلیم یافتہ طبقہ اسلام کو حقارت سے دیکھتا تھااُسی کسوٹی سے اسے مہذب اور شائستہ ثابت کیا۔ قرآن کی تفسیر بھی سر سید نے اسی نقطۂ نظرسے لکھی۔

�سر سید نے مروّجہ اسلام پر بڑی سخت تنقید کی ہے۔ مذہب کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا رجحان شاہ ولی اللہ کی تصنیفات سے پیدا ہو گیا تھا۔ اسے سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل نے جن سے وہابی تحریک منسوب کی جاتی ہے، اور بھی تقویت پہنچائی۔ وہابی زوائد اور بدعات کے سخت مخالف تھے اور قرآن کو مذہبی تعلیم کا اصل منبع تصور کرتے تھے۔ سر سید بھی ان ہی عقائد کولے کر اٹھے۔ وہ بھی مسلمانوں کو مذموم رسموں اور تقلید کی زنجیروں سے آزاد اور اجتہاد اور تنقید سے آشنا کرنا چاہتے تھے۔ لیکن مذہب کی بقا کے سلسلے میں انھیں مسلمانوں کی موجود ہ حالت سے اتنا خوف نہ تھا جتنا مشنری عیسائیوں کی جانب سے تھا کیونکہ ان کے جدیدسائنٹفک تصورات تعلیم یافتہ مسلمانوں کو تشکیک میں مبتلا کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقلیت اور سائنس کے حملوں سے ہندستان میں اسلام کو وہی خطرہ تھا جوسترہویں اور اٹھارھویں صدی میں عیسائیت کوانگلستان میں پیش آیا تھا۔ انگلستان میں ایک مدت تک سائنس اور مذہب کی کشاکش جاری رہی اور آخر کارعیسائی عالموں کو مذہب کی بقا کی خاطر عقلیت اور سائنس سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔ ہندستان میں اسلام کی یہی کیفیت اُنیسویں صدی کے نصف آخر حصے میں تھی اور سر سید کواس دور میں مذہب کو بچانے کے لیے وہی کرنا پڑا جواس سے پہلے سائنس کی ترقی کی وجہ سے یورپ کے مذہبی حلقوں کو کرنا پڑا تھا۔ یعنی مذہب کی ترجمانی عقل و نیچر کے مطابق۔ اس ضمن میں سر سید نے صرف قرآن کو مذہب کا اصل سرچشمہ قرار دیا اور اس کی ایک جدید تفسیر پیش کی۔ قرآن کو خدا کا قول اور نیچر کو خدا کا فعل مان کر قول اور فعل میں تطبیق کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح مذہب اسلام پہلی بار سائنس کے سانچے میں ڈھالا گیا۔

سر سید نے مغربی تہذیب کا مطالعہ بڑی گہری نظر سے کیا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مذہب کی حیثیت اتنی جماعتی نہیں رہتی جتنی کہ انفرادی ہو جاتی ہے۔ سر سید نے بھی دین و دنیا  کو الگ کر کے مذہب کو ایک انفرادی چیز بنا دیا بلکہ اتنا زور دیا کہ اس کے مقابلے میں دین کی کوئی اہمیت نہ رہی۔ مثلاً ’’پیٹ ایسی چیز ہے کہ دین رہے یا جاوے خدا ملے یا نہ ملے ، اس کو بھرنا چاہیے‘‘۔ ’’ دین چھوڑنے سے دنیا نہیں جاتی مگر دنیا چھوڑنے سے دین جاتا رہتا ہے‘‘ ۔ ’’ مذہبی تعلیم عقبیٰ کی تعلیم کے لیے ہے، دنیوی تعلیم دنیوی ترقی کے لیے‘‘ ۔

لیکن اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہ کرنا چاہیے کہ سر سید سے پہلے مسلم سوسائٹی میں دنیوی عنصر سرے سے مفقود تھا۔ یہ عنصر کم و بیش ہر دور میں موجود تھا۔ صوفیوں کی اخلاقی اور روحانی تعلیمات اس کے اثرات زائل کرنے میں برابر مصروف رہیں اور دنیا کو دین پر غالب ہونے سے روکتی رہیں۔ سر سید نے اسی دنیوی عنصر کو دوبارہ ابھارنے کی کوشش کی جو صوفیا کے اثرسے دب گیا تھا۔

مسلمانوں کو انگریزوں کا طرفدار اور وفادار بنانے میں سر سید کے پاس سب سے بڑا آلہ مذہب ہی تھا۔ وہ مسلمانوں کے باغیانہ جذبات سے بہت خائف تھے۔ اس لیے سنہ 1857کے بعد سے جہاد کے مسئلے کو بار بار اپنی تحریر و تقریر میں اٹھاتے رہے۔ خطبات احمدیہ بھی اس ذکر سے خالی نہیں۔ لیکن تفسیر القرآن میں انھوں نے خاص طور سے اس پر زور دیا اور ثابت کیا کہ :۔

’’اسلام فساد اور غدر کی اجازت نہیں دیتا جس نے ان کو(یعنی مسلمانوں کو) امن دیا ہو مسلمان ہو یا کافراس کی اطاعت و احسان مندی کی ہدایت کرتا ہے‘‘ ۔

اس سے سر سید کا اصل منشا انگریزوں کے ذہن سے جہاد کے خوف ناک تصور کا دور کرنا ہی نہیں بلکہ مسلمانوں میں ایک ایسا مذہبی عقیدہ بھی پیدا کرنا تھا جس کے ہوتے وہ کبھی بھی انگریزوں کے خلاف تلوار نہ اٹھا سکیں۔

سر سید براہ راست سیاست میں حصہ لیتے ہوئے کتراتے تھے لیکن آخر عمر میں انھیں نیشنل کانگریس کے قیام کے بعدسیاسی اکھاڑے میں کودنا ہی پڑا۔ یہیں سے ان کے بارے میں دو رائیں ہو گئیں۔ ایک انھیں ہیروسمجھنے لگا۔ دوسرا فرقہ پرست۔ لیکن اس قسم کی یک طرفہ رائے قائم کر لینے سے پہلے ہمیں سر سید کی پوری سیاسی زندگی اور بدلتے ہوئے حالات پربھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

سر سید نے مسلمانوں کے بارے میں جوپالیسی وضع کی تھی اس کا ذکر ابتدا میں آ چکا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ برطانوی حکومت کے استحکام کو امن کے لیے اور امن کو ملکی ترقی کے لیے لازمی سمجھتے تھے۔ ان کی نظر میں ملکی ترقی تعلیمی ترقی کے مترادف تھی جس پر اعلیٰ ملازمتوں کا دارومدار تھا اور اعلیٰ ملازمتیں اس لیے ضروری تھیں کہ ان کے بغیر مسلمانوں کو کوئی سیاسی درجہ حاصل نہ ہوسکتا تھا۔ سر سید کی کوشش یہی تھی کہ مسلمان جلد سے جلد موجودہ نظام حکومت میں ایک سیاسی حیثیت کے مالک ہو جائیں۔ اس لیے وہ ان کی تمام تر توجہ انگریزی تعلیم پر مرکوز رکھتے تھے۔ انھیں اندیشہ تھا کہ مسلمان کسی اور مسئلے میں الجھ گئے تو یہ توجہ بٹ جائے گی اور ان کے تعلیمی پروگرام اور سیاسی منصوبے کی راہ میں سخت رکاوٹیں حائل ہو جائیں گی۔

سر سید نے اس پالیسی کو ہمیشہ نظر کے سامنے رکھا اور بدلتے ہوئے حالات میں بھی اس پرسختی کے ساتھ پابند رہے۔ وہ اس پالیسی کو عام طور سے ہندستان کے تمام باشندوں کے لیے مفید سمجھتے تھے لیکن ان کے صحیح مخاطب دراصل مسلمان ہی تھے۔ وہ فطرتاً تنگ دل تھے نہ تنگ نظر، بلکہ اس کے برعکس ان میں انتہائی رواداری اور کشادہ دلی تھی۔ بغاوت کے بعد وہ ایک عرصے تک ہندستان کے تمام باشندوں کو ایک قوم تصور کرتے رہے اور قوم کی خصوصیت کے واسطے مذہب، فرقہ یا گروہ کے امتیازات کوناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا کیے۔  سنہ1861میں وائسرائے کی کونسل میں ہندستانی ممبروں کی نامزدگی بھی بڑی حد تک ’’اسباب بغاوت‘‘ کی رہین منت تھی جس میں انھوں نے وائسرائے کی کونسل میں ہندستانی ممبروں کی عدم موجودگی کو بغاوت کا اصل سبب بتایا تھا۔ وہ دو بار خود بھی وائسرائے کی لیجسلیٹو کونسل کے ممبر رہے اور اس حیثیت میں ان کی خدمات کو عام طورسے پسند کیا گیا۔ البرٹ بل کے سلسلے میں ملکی اور غیرملکی امتیازات کے بارے میں جو انھوں نے تقریر کی تھی اس نے تو انھیں ہندو اور مسلمان دونوں کا متفقہ طور پر لیڈر بنا دیا تھا۔ سنہ1884میں جب سریندر ناتھ بنرجی ہندستان میں سول سروس کے امتحان کی تحریک کے سلسلے میں دورہ کرتے ہوئے علی گڑھ آئے تو سر سید نے بڑے جوش  و خروش سے ان کے اعزاز میں جلسہ کیا۔ کالج فنڈ میں ہندوؤں کی امداد بھی ان کی قومی بے تعصبی کی ایک دلیل ہے۔ بہر حال وہ سنہ1884تک ہندومسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی نظر آتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے سنہ1867میں بنارس کے ہندوؤں کی اردو دشمنی نے ان میں یہ احساس پیدا کر دیا تھا کہ ہندومسلمان ایک ساتھ مل کر کام نہیں کرسکتے۔ زبان کے مسئلے پر ان کا ردّ عمل ایک خط سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو انھوں نے سنہ1870میں لندن سے محسن الملک کو لکھا تھا۔ اس میں وہ سائنٹفک سوسائٹی کے اخبار اور ترجموں کو ہندی میں چھاپنے کی تحریک کی بابت لکھتے ہیں :۔

’’مسلمان ہرگز ہندی پر متفق نہ ہوں گے اور نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ ہندو علاحدہ مسلمان علاحدہ ہو جائیں گے۔ یہاں تک تو کچھ اندیشہ نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگرمسلمان ہندوؤں سے علاحدہ ہو کر اپنا کاروبار کریں گے تو مسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہو گا اور ہندو نقصان میں رہیں گے اور اس میں صرف دو امر کا خیال ہے۔ ایک خاص اپنی طبیعت کے سبب سے کہ میں کل ہند(کیا ہندو کیا مسلمان) کی بھلائی چاہتا ہوں۔ دوسرا بڑا خوف اس بات کا ہے کہ مسلمانوں پر نہایت بد اقبالی اور ادبار چھایا ہوا ہے۔ وہ جھوٹے اور لغو تعصب میں مبتلا ہیں، اور کسی قدر مفلس بھی ہیں ‘‘۔

لیکن کچھ عرصے بعدسنہ1882میں جبکہ سر سید وائسرائے کی لیجسلیٹو کونسل کے ممبر تھے ایجوکیشن کمیشن میں ہندوؤں کو اردو کی مخالفت کا پھر موقع ملا۔ اس دفعہ پہلے سے بھی زیادہ زور شور کے ساتھ شمالی مغربی اضلاع اور پنجاب کے ہندوؤں نے اردو زبان اور فارسی خط کی مخالفت میں کوشش کی ۔ اس تنگ نظری کو دیکھتے ہوئے یہ خیال کہ مسلمان ہندوؤں سے علاحدہ ہو کر اپنا کاروبار کریں گے تومسلمانوں کو زیادہ فائدہ ہو گا سر سید کے ذہن میں روزبروز جڑ پکڑتا گیا۔ یہاں تک کہ سنہ1883میں قانون لوکل سلف گورنمنٹ جب مجلس قانون ساز میں آیا تو انھوں نے خالص فرقہ وارانہ نقطۂ نظر سے اس امر پر زور دیا کہ حکومت اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایک ثلث ممبروں کا تقرر اپنے ہاتھ میں رکھے۔ یہیں سے ہندو اور مسلمانوں کی سیاست کے دھارے الگ الگ رنگ اختیار کرنے لگے۔ یہ ابھی اچھی طرح نمایاں نہیں ہوئے تھے۔ لیکن سنہ 1887 اور 1888میں سر سید کی دو تقریروں سے جن میں مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس سے الگ رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا یہ رنگ کافی نمایاں اور گہرا ہو گیا۔

انڈین نیشنل کانگریس سنہ1885میں قائم ہوئی۔ اس کی بنیاد سرکاری طور پر ایک انگریز افسراے۔ او۔ ہیوم نے رکھی جوسنہ1882تک انگریزی ملازمت میں تھا۔ اس سلسلے میں رجنی پام دت لکھتے ہیں کہ

’’ہیوم جب سرکاری ملازم تھا تو اسے اپنے عہدے کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں خفیہ پولیس کی تمام ضخیم رپورٹیں ملی تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ عوام میں بے چینی کس طرح پھیل رہی ہے اور خفیہ سازشی انجمنیں قائم ہو رہی ہیں۔ سنہ 1870 اور اس کے بعد کے دس سال کا زمانہ بڑے بڑے قحطوں اور سخت تباہیوں کا زمانہ تھا اور عوام میں بے چینی بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی جس کی ایک مثال دکن کے کسانوں کی بغاوت تھی۔ سنہ 1877 کے اتنے بڑے وحشت ناک قحط کے زمانے ہی میں ملکہ وکٹوریہ کا دربار ہوا جس میں ان کے ملکۂ ہندستان بننے کا اعلان کیا گیا اور روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا اور اسی زمانے میں افغانوں سے دوسری لڑائی بھی ہوئی۔ بے چینی کو جبر و تشدد سے کچل دیا گیا۔ سنہ1878میں ہندستانی اخباروں کا قانون بنایا گیا۔ جس کی روسے اخباروں کی ساری آزادی سلب کر لی گئی اور اس کے ایک سال بعد ہتھیاروں کا قانون بنا جس کی رُو سے ہرقسم کے ہتھیار رکھنا منع کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ کسان جانوروں سے اپنی حفاظت کے لیے بھی کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتے تھے۔ عام جلسے کرنے کے حقوق بہت زیادہ محدود کر دیے گئے۔‘‘ ہیوم کے سوانح نگار نے لکھا ہے:۔

’’رجعت پرستوں نے ایک طرف تو اتنے بہت سے منحوس قانون بنائے اور ساتھ ہی پولیس نے ظلم و تشدد کے وہ طریقے اختیار کیے جوزارروس کیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ سے ہندستان کی باگ ڈور لارڈ لٹن کے ہاتھ میں اس زمانے میں دی گئی جبکہ وہ انقلابی بغاوت کے بالکل کنارے پہنچ گیا اور ٹھیک اسی وقت ہیوم اور ان کے ہندستانی مشیروں نے بہت با موقعہ یہ محسوس کیا کہ مداخلت کرنی چاہیے۔‘‘

سرولیم ویڈربرن نے آگے چل کر اس مداخلت کا سبب بھی بیان کر دیا ہے:۔

’’وائسرائے لارڈ لٹن کے آخر ی دور میں یعنی 1878 اور 1879 کے قریب مسٹر ہیوم نے یہ محسوس کیا کہ اب یہ ضروری ہے کہ اس بڑھتی ہوئی بے چینی کو دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا  جائے۔ ملک کے مختلف حصوں میں حکومت کے جو بہی خواہ تھے انھوں نے ہر جگہ سے انھیں متنبہ کیا کہ حکومت کو اور ہندستان کے مستقبل کو عوام کی معاشی تباہ حالی اور تعلیم یافتہ طبقے کی بے چینی اور باغیانہ جذبات سے سخت خطرہ لاحق ہے ‘‘۔

اسی خطرے کو دور کرنے کے لیے کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔  لارڈ ڈفرن کا مقصد یہ تھا کہ کانگریس کے ذریعے ہندستان کے تعلیم یافتہ اور بیدار طبقوں کو حکومت کا موید بنایا جائے اور اس کے لیے وفادار اور انتہا پسند گروہوں میں دیوار کھڑی کر دی جائے ۔فوری نتائج سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مقصد میں پوری کامیابی حاصل ہو گی۔ کانگریس کے پہلے اجلاس نے نہایت فدویانہ طرز عمل کا اظہار کیا اس میں نو قرار دادیں منظور ہوئیں جن میں نظم ونسق کی صرف تفصیلات میں اصلاح کی تجاویز پیش کی گئیں تھیں۔ کسی قرار داد میں قومی جمہوری مطالبہ کی ذرا سی بھی جھلک تھی تو وہ قرارداد تھی جس میں یہ درخواست کی گئی تھی کہ قانون ساز کونسل میں چند منتخبہ ممبر بھی لے لیے جائیں ۔ اس کے بعد نیشنل کانگریس تقریباً بیس سال تک اسی ڈھرے پر چلتی رہی جس پر اس کے بانیوں نے اسے لگا دیا تھا۔ ان بیس سالوں میں سلف گورنمنٹ (خود مختاری) کا کسی شکل میں کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔ یعنی اس کی تجویز میں کوئی بنیادی قومی مطالبہ پیش نہیں کیا گیا۔ بلکہ صرف یہ مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی حکومت کی اس موجودہ مشینری میں ہندستانیوں کو زیادہ نمائندگی دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ جو مطالبہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ نمائندے ادارے قائم کیے جائیں۔ ہندستانیوں کی خودمختاری کا کہیں مطالبہ نہیں کیا گیا ۔

اس قومی سیاسی جماعت میں بڑے درمیانی طبقے کے افراد، ترقی پسند جاگیردار، نئے صنعتی سرمایہ دار اور خوش حال تعلیم یافتہ لوگ شریک تھے۔ یہ تحریک ساحلی علاقوں یعنی ممبئی، مدراس اور بنگال کے متوسط طبقے کی تحریک تھی۔ اس کا سبب ڈبلیو، سی اسمتھ کے تجزیہ کے مطابق یہ تھا کہ برطانوی تہذیب کے اثرات سب سے پہلے ساحلی علاقوں میں پھیلے۔ ان ہی علاقوں میں سب سے پہلے مغربی تعلیم اور ہندستانی صنعت کا آغاز ہوا۔ اس طرح ایک متوسط طبقہ پیدا ہو گیا جواتفاق سے ہندوتھا۔ ممبئی اور مدراس میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن صرف دیہی باشندوں میں۔ شہری آبادی میں ہندو ہی غالب ہیں۔ اس لیے بنگال میں بھی مسلمانوں کے بجائے ہندوؤں ہی کا متوسط طبقہ پیدا ہوا۔ اسی طرح شمالی مغربی صوبے جومسلم اشرافیہ کے مراکز تھے سب سے آخر میں برطانوی اثرات سے دوچار ہوے اسی طبقے سے مسلمان اپنا متوسط طبقہ پیدا کرسکتے تھے لیکن تاریخی اسباب کی بنا پرسنہ 1870سے پہلے نہ توحکومت کی تشددآمیز پالیسی ہی بدلی اور نہ مسلمان ہی حکومت سے تعاون پرآماد ہ ہوسکے۔ بہرحال کانگریس میں ہندو اکثریت اسمتھ کے الفاظ میں ایک اتفاقی امر تھا۔ کانگریس ہندوبورژوا طبقے کی نمائندہ تھی جوتعلیم اور ملازمت کی دوڑ میں مسلمانوں سے کہیں آگے بڑھ گیا تھا۔ سنہ1870کے بعد تک ملک میں اس کاکوئی حریف نہ تھا۔ لیکن حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسی نے جب اس پرملازمتوں کے دروازے بند کیے اور مسلمانوں کونوازنا شروع کیا توتعلیم یافتہ ہندوؤں میں حکومت کے خلاف ایک عام بے چینی پیدا ہوئی اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے رشک ورقابت کا جذبہ بھی پیدا ہوا۔ بنگالی اخبارات نے اس موقع پر بڑی لے دے مچائی اور حکومت کومسلمانوں کی باغیانہ سرگرمیاں یاددلائیں۔ مسلمانوں سے مفاہمت کی کوشش کو نادانی سے تعبیر کیا۔ ��یہیں سے ایک مستقل شک کا آغاز ہوا۔ بہت سے مسلمان لیڈر جن میں قومی رجحانات شدت سے پائے جاتے تھے علاحدگی پسند ہو گئے��

کانگریس کی ابتدائی نیاز مندانہ اور وفادارانہ روش اور اس کے نرم مطالبات کودیکھتے ہوئے خودکانگریس کے بانی ہیوم بھی سر سید کی مخالفت کوسمجھنے سے قاصر تھے۔ لیکن سر سید کے ذہنی پس منظر� میں زبان کا جھگڑا، گاؤکشی کا قضیہ، بنگالی اخبارات کی مسلم دشمنی اور اس قسم کی نہ جانے کتنی باتیں تھیں۔ دوسرے وہ ہندوؤں کو صنعتی اور تجارتی اعتبار سے اُبھرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ پھران کی نظر میں یہ بھی تھا کہ ہندو اپنی وفاداری اور انگریزی تعلیم کی بدولت حکومت کی مشینری میں دخیل ہوتے جارہے ہیں اور اس طرح ملک کی سیاست میں انھیں خاصا مرتبہ حاصل ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف مسلمان صنعت وتجارت کاتوذکر ہی کیا تعلیم وملازمت میں بھی اتنے پیچھے ہیں کہ انھیں کوئی سیاسی اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ سر سید نے بڑی کوششوں اور مصیبتوں کے بعد مسلمانوں کوتعلیم پر مائل کیا تھا۔ انھیں اندیشہ تھا کہ مسلمان کانگریس میں شریک ہو کر کہیں تعلیم سے ہاتھ نہ اٹھا لیں اور انگریزوں کی مخالفت انھیں ایک بار پھرسیاسی اور معاشی اعتبار سے سنہ 1857 کی سطح پرنہ پہنچا دے اور اس طرح ان کے سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے۔

الغرض سنہ 1857کی خوف ناک یاد اور ہندوؤں کے سیاسی اور معاشی غلبے کا خوف وہ محرکات تھے جوسر سید کے لیے کانگریس کی مخالفت کا سبب بنے۔ انھوں نے لکھنؤ اور میرٹھ کی تقریروں میں مسلمانوں کوکانگریس سے الگ رہنے کا مشورہ دیا، اس لیے کہ کانگریس کے بنیادی مطالبات ان کے نزدیک مسلمانوں کے حق میں انتہائی مضر تھے۔ انھوں نے ہندستان میں سول سروس کے امتحان کی مخالفت اس لیے کی کہ مسلمانوں کا بنگالیوں کے مقابلے میں جوان سے تعلیمی اعتبار سے بہت آگے تھے کام یاب ہونا ممکن نہ تھا۔ کونسلوں میں منتخب ممبروں کے اضافے اور توسیع کو وہ مسلمانوں کے لیے اس بنا پر نقصان دہ سمجھتے تھے کہ اس سے ملک میں نیا بتی طرز حکومت کی بنیاد پڑتی تھی جس میں مسلم اقلیت ہندو اکثریت سے ہمیشہ مغلوب رہتی۔

سر سید بنیادی طورپرمسلمانوں ہی کے لیڈر تھے۔ وہ صرف اس وقت تک قومی مطالبات کی حمایت کرتے رہے، جب تک ان سے مسلمانوں کے ذاتی مفاد کوکسی قسم کے نقصان پہنچنے کا احتمال پیدا نہیں ہوا۔ جمہوریت اور نیابتی طرز حکومت کے زبردست حامی ہوتے ہوے بھی انھوں نے فرقہ وارانہ نقطۂ نظر سے اس صورت حال کا جائزہ لیا جوکانگریس کے مطالبات سے پیدا ہو گئی تھی۔ ہندوؤں کے غلبہ کے خوف اور مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی نے انھیں اور بھی حکومت کی گود میں دھکیل دیا۔ کانگریس نے اپنے مطالبات کے پردے میں برطانوی اقتدار میں حصہ بٹانے کی ابتدائی کوشش شروع کر دی تھی۔ یہ مطالبات اگر منظور ہو جاتے تو ہندوؤں اور انگریزوں کا ایک متحدہ محاذ سا بن جاتا جسے سر سید مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے لیے ایک زبردست خطرہ تصور کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی مخالفتوں سے یہ محاذ نہیں بننے دیا، بلکہ اس کے بجائے ایک اینگلومسلم محاذ بنایا جس کی بنیاد مسلمانوں کی غیر مشروط وفاداری پر رکھی۔ انھوں نے عمداً حکومت کے اقتدار کو اور بھی مضبوط کیا کیونکہ ان کے نزدیک مسلمانوں کی بہبودی حکومت کے استحکام ہی پر منحصر تھی۔ اس کوشش میں انھوں نے کانگریس کے مطالبات کی مخالفت کرتے ہوئے بجٹ یا فوجی امور میں کسی ہندستانی کی مداخلت کو ناجائز قرار دیا اور ہندستان کی مفلسی کو نظر انداز کر کے نمک کے محصول کا جواز پیش کیا۔

اس میں شک نہیں کہ سر سید اپنی تقریروں میں بعض ایسی باتیں بھی کہہ گئے جوان کے شایان شان نہ تھیں۔ مثلاً بنگالیوں کی روایتی بزدلی یا ادنیٰ اور اعلیٰ کے امتیازات کوجس طرح انھوں نے دلیل کے طور پر استعمال کیا وہ غالباً اس زمانے میں بھی کچھ اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا ہو گا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ سر سید کا مسلمانوں کوکانگریس سے علاحدہ رکھنا قومی نقطہ نظر سے کہاں تک درست تھا؟ اس سلسلے میں خود سر سید کے الفاظ کہ ’’ بنگالیوں کا ایجی ٹیشن تمام ہندستان کا ایجی ٹیشن نہیں ہے ‘‘ اپنی جگہ حقیقت پر مبنی تھا۔ جواہر لال نہرو کی رائے بھی سر سید کے حق میں ہے:۔

’’سر سید کا یہ فیصلہ کہ تمام کوششیں مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے پر صرف کر دینی چاہئیں، یقیناً درست اور صحیح تھا۔ بغیراس تعلیم کے میرا خیال ہے کہ مسلمان جدید طرز کی قومیت کی تعمیر میں کوئی موثر حصہ نہیں لے سکتے تھے، بلکہ یہ اندیشہ تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوؤں کے غلام بن جائیں گے جو تعلیم میں بھی ان سے آگے تھے اور معاشی اعتبار سے بھی زیادہ مضبوط تھے۔‘‘

’’ہندوؤں کی طرح مسلمانوں میں ابھی تک کوئی بورژوا طبقہ نہیں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے نہ تو تاریخی حالات اس کی اجازت دیتے تھے اور نہ ان کے خیالات میں کوئی ایسا انقلاب پیدا ہوا تھا کہ مسلمان بورژوا تحریک وطنیت میں شامل ہو جائے‘‘ ۔

مولانا محمد علی نے اسے اور بھی واضح طور پر پیش کیا ہے:۔

’’سید احمد خاں معصوم نہ تھے، غیر خاطی نہ تھے مگر کوئی دور اندیش اور مصلحت بیں مسلمان ان کے اس احساس سے اپنے کوسبک دوش ہرگز خیال نہ کرے گا کہ انھوں نے مسلمانوں کو کانگریس کی ابتدا میں کانگریس کی شرکت سے روکا۔ یہی نہیں کہ اس وقت کی شرکت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا اور وہ جس طرح مدراس، کلکتہ اور ممبئی کی یونیورسٹیوں کی تعلیم سے مستغنی رہ کر گھاٹے میں رہے تھے، علی گڑھ کالج سے مستغنی رہ کر گھاٹے میں رہتے بلکہ انگریزوں کے خلاف جوش انتقام سے مجبور ہو کر کانگریس میں ایک شورش پسند فریق کی حیثیت سے شریک ہوتے اور اسے بھی نقصان پہنچاتے۔ مسلمانوں کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھنے کا وہ وقت نہ تھا بلکہ ان کی شرکت سیاست کے لیے وقت بیس برس بعد آیا جبکہ علی گڑھ کالج کے قیام کو بھی تیس سال گزر چکے تھے اور جس طرح مدراس کلکتہ اور ممبئی یونیورسٹیوں کے سنہ 1857کے قیام کے تیس سال بعد ہندوؤں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل سنہ 1885میں تیار ہو کر کانگریس کی بانی ہوئی، اسی طرح1875سے علی گڑھ اسکول اور سنہ1877سے علی گڑھ کالج کی بنیاد کے تیس سال بعدمسلمانوں کی ایک نئی تعلیم یافتہ نسل سنہ1906میں تیار ہو کرمسلم لیگ کی بانی ہوئی اور مسلمانوں نے بہ حیثیت ملت میدان سیاست میں قدم رکھا‘‘ ۔

مسلمانوں کی اس سیاسی بیداری کے بارے میں وہ ایک جگہ پھر لکھتے ہیں :۔

’’1907میں جبکہ قیام کالج کے پورے تیس سال بعد ایک نئی نسل آغوش کالج میں تربیت پاچکی اور تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ہندوؤں کی طرح ایک سیاسی کروٹ لی اور کانگریس کی طرح مسلم لیگ کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا یہ کوئی اتفاقی امر نہ تھا کہ طلبا نے حکومت کی پولیس اور خود اپنے یورپین اسٹاف کی جانب سے اس پولیس کی حمایت کے خلاف اسٹرائک کر دی اور عین اسی زمانے میں ایک دو ماہ پیشتر کی میری دعوت پرگو کھلے آنجہانی بھی علی گڑھ میں تشریف لائے اور جنھوں نے طلبا کو اپنا گرویدہ پایا ‘‘۔

مذکورہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہے کہ کانگریس کی بنیاد جس زمانے میں پڑی مسلمانوں کا متوسط طبقہ تشکیلی دور میں تھا اور ہندوؤں کی طرح وہ بھی وفادار انہ طریقے سے جدید تعلیم، مغربی خیالات اور آئینی جدوجہد سے آشنا ہو رہا تھا۔ سنہ1885میں جس معاشی بے چینی نے ہندوؤں کے متوسط طبقے کوکانگریس کی صورت میں یک جا کر دیا تھا اسی طرح سنہ1906میں اسی نوع کے معاشی حالات نے مسلمانوں کے متوسط طبقے کو جواب تیار ہو چکا تھا اپنی سیاسی تنظیم پر آمادہ کیا۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی تعداد جس طرح بڑھ رہی تھی اس مناسبت سے حکومت کے پاس ملازمتیں نہ تھیں۔ اس سے ایک بے اطمینانی پیدا ہوئی جس نے ہندوؤں کے غلبے کے خوف سے مل کرمسلم لیگ کی صورت اختیار کر لی۔

کانگریس میں مسلمانوں کی عدم شرکت کی اصل وجہ یہ تھی کہ سنہ1870تک انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے بعد خود مسلمانوں کی ہمتیں جواب دے چکی تھیں۔ پھرمسلمانوں کے اس طبقے کے لیے جس کا ذریعہ معاش صرف ملازمت تھی، سر سید کی ہم نوائی کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا۔ ہندو اکثریت کا اندیشہ اتنا شدید نہ تھا کہ انھیں کانگریس کی شرکت سے باز رکھتا۔ لیکن بدقسمتی سے اس اندیشے کو بعد کے واقعات سے کافی تقویت پہنچی۔ سنہ1893میں گنپتی کے میلے اور انسداد گاؤ کشی کی تحریک نے ممبئی، اعظم گڑھ اور دوسرے مقامات میں ہندومسلم فسادات برپا کر دیے۔ یہ تحریکیں جنھیں تلک جیسے لیڈر کی حمایت حاصل تھی دراصل انگریزوں کے خلاف تھیں۔ یہ گویا ترقی پسند قوم پرستی اور ہندو مذہب پرستی کی انتہائی رجعت پسندقوتوں کے اتحاد کا اظہار تھا۔ جس کی ابتدا تلک سے ہوئی۔ اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے پام دت لکھتے ہیں :۔

’’ایسے حالات میں جبکہ ہرقسم کی سیاسی سرگرمی اور سیاسی ادارے کوسامراج اپنی پوری قوت کے ساتھ دباتا تھا اور جبکہ قومی تحریک ابھی عوام تک نہیں پہنچی تھی، سیاسی سرگرمیوں کے لیے اس طرح مذہبی اداروں کی آڑ لینا بالکل جائز تھا۔ لیکن یہاں سوال ایک سیاسی تحریک کی صرف ظاہراً شکل کا نہیں ہے اور بات صرف اتنی نہیں ہے کہ سیاسی سرگرمی کے لیے مذہبیت کی آڑ لی گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ یہاں خالص مذہب پرستی یا تو ہم پرستی کو قومی تحریک میں مرکزی حیثیت دے دی گئی تھی اور دعویٰ یہ کیا جاتا تھا کہ قدیم ہندو تہذیب روحانی نقطہ نظر سے جدید مغربی تہذیب سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس بنیادی سیاسی تبلیغ سے قومی تحریک کی اصل ترقی اور سیاسی بیداری کو بڑا دھکا پہنچا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد جو قومی تحریک سے الگ اور اس کے خلاف ہو گئی، اس کی کچھ ذمہ داری اس پربھی ہے کہ قومی تحریک میں ہندو مذہب پر بڑا  زور دیا گیا‘‘ ۔

یہ بھی ہمیں نہ بھولنا چاہیے کہ سر سید کے آخر ی دور کی سیاست میں علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر بیک کا بہت کچھ ہاتھ تھا۔ اکثریت کے غلبہ کے خوف کو انھوں نے اور بھی ہوا دی۔ کبھی انھوں نے مسلمانوں کو گزشتہ بغاوت کے انجام کی یاد تازہ کرائی اور کبھی ملازمتوں کے چھن جانے کی دھمکی دی اور اس طرح وہ خلیج جو تاریخی اسباب کی بنا پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہو گئی تھی اسے اور بھی وسیع کیا۔ سنہ 1888میں یونائیٹڈ انڈین پٹیریاٹک ایسوسی ایشن جوکانگریس کی مخالفت کے لیے قائم ہوئی ایک حد تک مسٹر بیک کی کوششوں کی رہین منت تھی۔ لیکن اس قسم کی مخالفتوں کے باوجود کانگریس کی قومی تحریک بڑھ رہی تھی۔ چنانچہ1892میں ہندستانی کونسلوں کا قانون پاس ہوا اور صوبے کی کونسلوں میں میونسپل اور ڈسٹرکٹ بورڈوں، تجارتی جماعتوں اور یونیورسٹیوں سے بھی ممبر لیے جانے لگے۔ ممبروں کوکونسلوں میں سوالات کرنے اور بجٹ پر بحث کرنے کے بھی اختیارات حاصل ہوئے۔ یہ مسٹر بیک کی شکست تھی جوکانگریس اور اس کے مطالبات کو برطانوی حکومت کے اقتدار کے لیے بہت بڑا خطرہ تصور کرتے تھے۔ بہر حال انھوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور سنہ 1893میں ایک اور جماعت مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لیے قائم ہوئی۔ اس کا نام محمڈن اینگلو اور ینٹل ڈیفنس ایسوسی ایشن آف اپر انڈیا، رکھا گیا۔ یہ جماعت جیسا کہ نام سے ظاہر ہے صرف مسلمان ممبروں پر مشتمل تھی اور اس کا قیام ٹھیک اس زمانے میں عمل میں آیا۔ جب تلک کی انسداد گاؤ کشی کی تحریک سے جگہ جگہ ہندومسلم فسادات برپا تھے۔ اس کے سکریٹری خود مسٹر بیک تھے۔ سر سید نے خود اپنی مصروفیت اور پیرانہ سالی کی بنا پراس کی کارروائیوں میں بہت کم حصہ لیا۔ سارا کام مسٹربیک ہی کرتے تھے اور ان کی ساری توجہ ہندوؤں کے خلاف اینگلو مسلم بلاک بنانے میں صرف ہوتی تھی جوان کے نزدیک برطانوی حکومت کے استحکام کے لیے نہایت ضروری تھا۔ چونکہ سر سید خود بھی ہندو اکثریت سے خوفزدہ تھے اور ان کی نظر میں بھی مسلمانوں کا مستقبل انگریزی حکومت کی پائداری پر مبنی تھا، اس لیے بیک کی فرقہ وارانہ سیاست کو ان کی تائید حاصل رہی۔ اس کے علاوہ سر سید بیک پر اتنا بھروسہ کرنے لگے تھے کہ آخری عمر میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ گزٹ بھی ان کے سپرد کر دیا تھا۔ بیک نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر فرقہ وارانہ فضا کو اور بھی مکدر کیا۔ میر ولایت حسین کے الفا ظ میں  ’’بیک نے بنگالیوں اور ان کی تحریک کے خلاف انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے اڈیٹوریل کالم میں مضامین لکھنا شروع کیے جوسر سید سے منسوب ہوئے اور بنگالیوں نے سر سید کوبرا بھلا کہنا شروع کیا اور اس طرح بنگالیوں سے اعلانیہ لڑائی شروع ہو گئی ‘‘۔

مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے توسر سید کی خدمات مسلمانوں کے لیے بڑی اہم اور بڑی انقلاب آفریں تھیں۔ ان کے دور میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو اپنی معاشی بدحالی کی بنا پر حکومت سے تعاون کرنے پر مجبور تھا، ، لیکن اسے مذہبی جواز کی بھی ضرورت تھی۔ سر سید نے یہ مذہبی جواز مہیا کیا اور حالی کی رائے کے مطابق مذہب کا وہ متروک حصہ تلاش کیا جو موجودہ زمانے کے موافق تھا ۔ان کی وجہ سے تقلید، تعصب اور تنگ نظری میں وہ اگلی سی شدت باقی نہ رہی۔ اس کے علاوہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا سے جو بے تعلقی دین کی بدولت پیدا ہو گئی تھی وہ بھی سر سید کی کوششوں سے دور ہوئی اور مسلمان دنیوی امور میں جوش و خروش سے حصہ لینے لگے۔

سر سید کی وفا دارانہ پالیسی شروع سے آخر تک غیر متزلزل رہی۔ انھیں حکومت کے استحکام کا اس درجہ خیال تھا کہ معمولی سے معمولی سیاسی ہنگامے کو بھی برداشت نہ کرسکتے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے صرف کانگریس کے ہندوؤں ہی کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی بھی مخالفت کی۔ مثلاً جنگ بلقان کے دوران میں جب مسلمان ترکی اور خلیفۂ ترکی کی حمایت میں انگریزوں سے بد ظن اور مشتعل ہو رہے تھے، انھوں نے ترکوں کے مقابلے میں انگریزوں ہی کی طرفداری کی اور خلیفۂ ترکی کو روحانی پیشوا ماننے سے انکار کر دیا۔

لیکن اگرسر سید اس حد تک وفادار نہ ہوتے تو شاید حکومت ان کے تعلیمی منصوبوں کو عملی شکل دینے میں اتنی مدد نہ کرتی اور مسلمانوں کا وہ متوسط طبقہ جو مغرب کے علوم و فنون، اقدار و تصورات اور تہذیب و معاشرت سے آشنا ہو کرسیاست میں اپنی جگہ پیدا کرنے کے قابل بنااس قدر جلد نہ بن پاتا۔ سر سید نے ایک عرصے تک مسلمانوں کوسیاست میں نہ پڑنے دیا، لیکن ان کے آخری دور میں حالات بہت کچھ بدل چکے تھے۔ مسلمانوں کی نئی تعلیم یافتہ نسل ملکی سیاست میں حصہ لینے کے لیے بے چین ہو رہی تھی۔ سر سید نے اگرچہ اس سے پہلے امیر علی کی محمڈن نیشنل کانفرنس میں جو اسی نئی نسل کی بے اطمینانی کا پہلا مظاہرہ تھی شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا، لیکن سنہ1893 تک انھیں خود مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کی ضرورت کا احساس پیدا ہو چلا تھا۔ محمڈن ڈیفنس ایسوسی ایشن اسی ضرورت کی بنا پر وجود میں آئی۔

سر سید کو انگریزوں سے بڑا حسن ظن تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ حاکم محکوم میں مساویانہ تعلقات بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ اس معاملے میں سر سید کی توقعات جس حد تک وہ چاہتے تھے پوری نہیں ہوئیں۔ سنہ1884ہی میں انھیں یہ شکایت پیدا ہو گئی تھیں کہ انگریزوں کومسلمانوں سے وہ ہمدردی نہیں جس کے وہ متمنی تھے۔  لیکن اس مسئلے کو وہ خالص ہندستانی نقطۂ نظر سے دیکھتے تھے اور اگر کبھی اس خود داری کوٹھیس لگتی تو برہم ہو جاتے۔ اپنی وفات سے کچھ قبل وہ شدت کے ساتھ محسوس کرنے لگے تھے کہ انگریزوں کے توہین آمیز رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں۔ اس تلخ حقیقت کے بارے میں آخر کار انھیں کہنا پڑا کہ ’’انگریزوں کا جو سلوک اپنے ہم قوموں سے اور جو ہندستانیوں سے ہے اس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا سفید اور سیاہ میں ‘‘۔ اور شاید اسی غیر مساویانہ سلوک کی بنا پر وہ ’’اپنی زندگی کے آخری ایام میں کانگریس کے مطالبات کو حق بجانب سمجھنے لگے تھے‘‘ ۔

سر سید کو غالباً غیرملکی سرمایہ دارانہ استحصال کا پوری طرح علم نہ تھا ورنہ وہ انگریزوں سے اتنی توقعات وابستہ نہ کرتے۔ صنعت و تجارت پر حکومت کی بے شمار پابندیوں کے باوجود انھیں یہ اُمید تھی کہ انگریز مسلمانوں کو اپنی تجارت میں حصہ دینے پر تیار ہو جائیں گے۔۔ یہی خیال ان کا سرکاری ملازمتوں کے بارے میں تھا، لیکن ان مراعات کے لیے وہ وفاداری اور اعلیٰ تعلیم کی شرائط بھی پیش کرتے تھے۔ یہ سب ان کی خوش فہمی تھی۔ وہ انگریزوں کی شرافت، دیانت، اخلاق اور عہد و پیمان پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کر بیٹھے تھے۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ سنہ 1870سے مسلمانوں کے متعلق انگریزی پالیسی میں جو تبدیلی ہوئی وہ کسی ترحمانہ اور شریفانہ جذبہ کے بجائے خود برطانوی حکومت کے اپنے مفاد پر مبنی تھی۔ ہندوؤں کے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے کے مقابلے میں حکومت مسلمانوں کا ایک متوسط طبقہ پیدا کرنا چاہتی تھی تاکہ باہمی رقابت اور دشمنی کی بنیادوں پر حکومت کی عمارت کو اور بھی مستحکم کیا جا سکے۔ انگریز نہ ہندوؤں کے دوست تھے نہ مسلمانوں کے اور نہ وہ کسی کو اتنی مراعات دینے کے قائل تھے کہ خود ان کا مفاد مجروح ہو۔ ان کے سرمایہ دار زر کشی کے لیے ملک میں بڑے بڑے سرمایے لگا رہے تھے اور اسی سرمایے کی حفاظت کے لیے ہنٹر کی نظر میں حکومت کا استحکام ضروری تھا۔

سر سید کا ایک کارنامہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے لیے سب سے پہلے قوم کا لفظ استعمال کیا اور انھیں قومیت کے تصور سے آشنا کیا۔ سنہ 1857تک اور اس کے بعد بھی اس قسم کی جداگانہ قومیت کا تصور ہندوؤں میں تھا نہ مسلمانوں میں۔ لیکن یہ ضرور تھا کہ سید احمد شہید کی تحریک سے مسلمانوں میں اپنی جداگانہ ہستی کا ایک خفیف سا احساس پیدا ہو چلا تھا۔ اس میں فرقہ واریت مطلق نہ تھی۔ یہ بعد کی چیز ہے جوسر سید کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی اور معاشی پالیسی کی بدولت پیدا ہوئی۔ بہرحال مسلمانوں میں ایک جداگانہ قوم کا تصور سر سید ہی کی دین ہے اور سنہ1884کے بعد کی پیداوار ہے۔ اسے سر سید کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نے اور بھی ابھارا جوسنہ1886میں مسلمانوں کی عام تعلیمی اصلاح کی غرض سے قائم ہوئی تھی۔ اس کے سالانہ جلسوں میں ملک کے دور دراز گوشوں سے نمائندے شریک ہوتے اور مسلم قومیت کے جذبہ سے سرشار ہو کر واپس جاتے لیکن اس جذبہ کی جہاں سب سے زیادہ نشوونما ہوئی وہ علی گڑھ کالج تھا جس کی اقامتی زندگی پرسر سید کی خاص توجہ تھی۔ علی گڑھ کے طلبہ جوہندستان کے مختلف حصوں سے آتے تھے۔ سر سید کے زیر اثر ایک خاص انداز میں رہنے، ایک خاص یونیفارم پہننے اور ایک خاص انداز میں سوچنے کے عادی بنائے گئے۔ اس یک رنگی سے جداگانہ قومیت اور جداگانہ قومیت سے فرقہ وارانہ ذہنیت کی پرورش ہوئی۔

سر سید بعض معاملات میں قدامت پرست اور تنگ نظر بھی تھے۔ مثلاً موجودہ حالات میں وہ عورتوں کے پردے کے حامی تھے  اور ان کی انگریزی تعلیم کے مخالف۔ وہ ان کے لیے اخلاق اور دینیات کی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عورتوں سے پہلے مردوں کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد وہ خود عورتوں کوتعلیم سے آراستہ کر لیں گے کیونکہ ’’جہاں کے مرد تعلیم یافتہ ہو گئے ہیں وہاں کی عورتیں بھی تعلیم یافتہ ہو گئی ہیں‘‘۔

ادنیٰ حیثیت کے مسلمان لڑکوں کے لیے بھی وہ انگریزی تعلیم کو ضروری خیال نہیں کرتے تھے ۔ انھوں نے ٹیکنیکل ایجوکیشن کی بھی شدید مخالفت کی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس سے ہائی ایجوکیشن میں خلل پڑے گا۔ انھوں نے اس سلسلے میں یہ نہ دیکھا کہ ہندستان صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ ان کی ساری توجہ بس اس پرتھی کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ جلد سے جلد انگریزی تعلیم حاصل کر کے ملکی سیاست میں دخیل ہو جائے۔ اس کے علاوہ تمام چیزیں ان کی نظر میں ثانوی حیثیت رکھتی تھیں۔

سر سید کو ابتدا میں سخت مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخری عمر میں وہ عام طورسے مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈرسمجھے جانے لگے تھے۔ پھر بھی عالموں اور مولویوں کا طبقہ جو دراصل ادنیٰ درجے کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتا تھا۔ سر سید کی مسلسل مستقل اور شدید مخالفت کرتا رہا۔ یہ طبقہ سیاسی اعتبار سے جتنا انگریز دشمن تھا اتنا ہی مذہبی اعتبار سے قدامت پرست بھی تھا۔ وہ لوگ بھی سر سید کے مخالف رہے جو قدیم سماج کے پروردہ تھے اور ڈرتے تھے کہ کہیں سر سید کے جدید خیالات سے اُن کے قدیم اقدار و تصورات کا وہ شیرازہ نہ بکھر جائے جو ان کی ذہنی اور جذباتی تسکین کا باعث تھا۔ پھر بھی سر سید کی جدیدیت نے قدیم اقدار کی دیواروں میں ایسے شگاف پیدا کر دیے تھے جن کی وجہ سے دل و دماغ کی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ عقل نئی دنیا کی طرف کھینچتی تھی، جذبہ پرانی دنیا کی طرف۔ دونوں کی ہم آہنگی کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سر سید کے آخری دور میں جب ان کی تحریک کی عمر بیس بائیس سال ہو چکی تھی علما یا قدیم اقدار کے پرستاروں کے علاوہ عام مخالفتوں میں بڑی حد تک کمی پیدا ہو گئی تھی۔ قدیم جدید سے مانوس ہو چلا تھا۔

آخر میں اگر ہم سر سید کے بارے میں کوئی فیصلہ کن رائے قائم کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ مجموعی طور پر اپنے دور کی عام ترقی پسندی کے معیار پر ہر طرح پورے اترتے ہیں۔ حکومت سے وفاداری ان کی رجعت پسندی کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ خودکانگریس بھی جو ملک کی سب سے زیادہ ترقی پسندجماعت تھی اسی منزل میں تھی اور سر سید کے بعد بھی ایک عرصے تک اسی منزل میں رہی۔ کانگریس بورژوا طبقے کی نمائندہ تھی اور  اس دور کا بورژوا طبقہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ اتنا طاقت ور نہیں ہے کہ برطانوی حکومت کے نظام کو چیلنج کرسکے۔ اس کے برعکس وہ برطانوی حکومت کو اپنا دوست سمجھتا تھا۔ اس طبقے کے نزدیک ان کی اصل دشمن برطانوی حکومت نہیں تھی بلکہ یہ حقیقت تھی کہ عوام بالکل پسماندہ تھے، ملک کو جدید ترقیوں کی ہوا نہیں لگی تھی، توہمات اور جہالت کا اثر لوگوں پر بہت زیادہ غالب تھا اور نوکر شاہی نظم ونسق کا ناقص نظام ان تمام خامیوں کا ذمہ دار تھا۔ ’’ان خرابیوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے انھیں توقع رہتی تھی کہ برطانوی حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے گی‘‘  ۔ سر سید کواس نقطۂ نظر سے دیکھیے تو وہ بھی مسلمانوں کی پسماندگی، جہالت اور توہمات کو دور کرنے اور مغربی اقدار اور جمہوری تصورات کے پھیلانے میں تمام عمر مصروف رہے۔ کانگریسی لیڈروں کی طرح وہ بھی حکومت کے وفادار تھے اور حکومت کے نظم ونسق میں ہندستانیوں کو برابر کا شریک دیکھنا چاہتے تھے لیکن جیسا کہ بتایا  جا چکا ہے انھیں یہ بھی گوارا نہ تھا کہ ہندو اپنی اکثریت اور تعلیمی ترقی کی بدولت مسلمانوں سے پہلے حکومت کی مشینری پر قابض ہو جائیں اور ان کی حق تلفی کریں۔ سر سید کوکانگریس کی مخالفت کی بنا پر رجعت پسند قرار دینا ایک عام غلطی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو یقیناً ایک جداگانہ سیاسی نصب العین دیا، لیکن اسے ایک تاریخی مجبوری کے سوا کچھ اور سمجھنا سخت ناانصافی ہو گی۔

سر سید کی داستان نا مکمل رہ جائے گی اگر ہم شعر و ادب کی دنیا میں اس انقلاب کا ذکر نہ کریں جوان کی توجہ کا رہین منت ہے۔ انھوں نے مختلف النوع موضوعات پر قلم اٹھا کر زبان کوہرقسم کے خیالات کی ادائیگی کے قابل بنایا۔ تکلف اور تصنع کی بجائے سادگی اور سلاست کو رواج دیا۔ اس طرح اردو کو جہاں تک نثر کا تعلق ہے سر سید کی بدولت پہلی بار وسعتیں نصیب ہوئیں۔ ان کی تحریر ایک عرصے تک نثر لکھنے والوں کے لیے نمونہ بنی رہی۔ حالی، شبلی سبھی ان کے خوشہ چیں ہیں۔ نظم بھی ان کی کچھ کم احسان مند نہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد اگر چہ نئی اور نیچرل شاعری کے بانی ہیں لیکن اس کے رُخ کوسادگی اور افادیت کی طرف موڑنے میں سر سید کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس نیچرل شاعری کے بانی کی نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں :۔

’’میں مدت سے چاہتا تھا کہ ہمارے شعرا نیچر کے حالات کے بیان پر متوجہ ہوں۔ آپ کی مثنوی ’’خواب امن‘‘ پہنچی۔ بہت دل خوش ہوا۔ درحقیقت شاعری اور زورسخن وری کی داد دی ہے۔ اب بھی اس میں خیالی باتیں بہت ہیں۔ اپنے کلام کو اور زیادہ نیچر کی طرف مائل کرو۔ جس قدر کلام نیچر کی طرف مائل ہو گا اتنا ہی مزا دے گا۔ اب لوگوں کے طعنوں سے مت ڈرو۔ ضروری ہے کہ انگریزی شاعروں کے خیالات لے کر اردو زبان میں ادا کیے جاویں۔ یہ کام ہی ایسا مشکل ہے کہ کوئی کر تودے۔ ابھی تک ہم میں خیالات نیچر کے ہیں ہی نہیں۔ ہم بیان کیا کرسکتے ہیں۔‘‘

٭٭٭

ماخذ:

http://urducouncil.nic.in/ebooks/Hali-ka-Siyasi-Shaor.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید