FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

مرگ غالب اور قطعہ ہائے تاریخ وفات

 

 

کلیم احسان بٹ

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

غالبؔ کی زندگی ہی کچھ اس شکل سے گزری کے موت کا موضوع ان کے ہاں ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ وہ زندگی بھر مرنے کی راہ دیکھا کیے اور تاریخوں پر تاریخیں نکالتے رہے۔ موت کا تو ایک دن معین ہے۔ اسے تو جب آنا تھا آئی مگر غالبؔ اپنی نثر اور نظم میں اس کا ذکر مختلف اسالیب میں کرتے رہے۔ اور یونہی ان کی ساری عمر بیت گئی۔ ان کی شاعری میں نزع، موت، نعش، کفن، دفن، جنازہ، تعزیت اور مرثیہ وغیرہ جیسے الفاظ بھی اسی سیاق و سباق میں استعمال ہوئے ہیں۔ چونکہ مقطع میں شاعر عموماً خود سے ہم کلام ہوتا ہے اس لیے مقطع میں اس کی نفسیاتی کیفیات کم ابہام کے ساتھ جلوہ فگن ہوتی ہیں۔ غالبؔ کے مقطعوں کا مطالعہ کریں تو ان کے کئی مقطعوں کا موضوع ان کی موت ہے۔ مثلاً:

یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ہوئی مدت کہ غالبؔ  مر گیا پر یاد آ تا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

 

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہو غالبؔ

قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

اسد اللہ خاں تمام ہوا

اے دریغا وہ رند شاہد باز

وحشتؔ  و شیفتہؔ  اب مرثیہ کہویں شاید

مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں

غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں

اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش

دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے

اسی طرح ان کے خطوط میں بھی زندگی سے بیزاری اور موت کی خواہش کا ذکر متعدد مقامات پر موجود ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ’’ یادگارِ غالب‘‘ ؔ میں لکھا ہے ’’مرزا یا تو اس وجہ سے کہ ان کی زندگی فی الواقع مصائب اور سختیوں میں گزری تھی اور یا اس لیے کہ ان پر نا ملائم حالتوں کا بہت زیادہ اثر ہوتا تھا۔ آخر عمر میں موت کی بہت آرزو کیا کرتے تھے۔ ہر سال اپنی تاریخ وفات نکالتے اور یہ خیال کرتے کہ اس سال ضرور مر جاؤں گا‘‘ (۱)

کس سے محرومیِ قسمت کی شکایت کیجئے

ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا

اس حوالے سے حالیؔ نے ’’یاد گارِ غالب‘‘ ؔ میں کچھ لطیفے بھی نقل کیے ہیں۔

’’۱۲۷۷ھ میں انہوں نے اپنے مرنے کی تاریخ یہ کہی کہ ’ غالب مرد‘۔ اس سے پہلے کئی مادے غلط ہو چکے تھے۔ منشی جواہرؔ سنگھ جو مرزا صاحب کے مخصومین میں سے تھے ان سے مرزا صاحب نے اس مادے کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت انشا اللہ یہ مادہ بھی غلط ثابت ہو گا۔ مرزا نے کہا: دیکھو صاحب تم ایسی فال منہ سے نہ نکالو۔ اگر یہ مادہ مطابق نہ ہوا تو میں سر پھوڑ کر مر جاؤں گا۔‘‘ (۲)

’’ایک دفعہ شہر میں سخت وبا پڑی۔ میر مہدی حسین مجروحؔ نے دریافت کیا کہ حضرت وبا شہر سے دفع ہوئی یا ابھی تک موجود ہے ؟ اس کے جواب میں لکھتے ہیں ’بھئی کیسی وبا؟ جب ایک ستر برس کے بڈھے اور ستر برس کی بڑھیا کو نہ مار سکے۔ تف بر ایں وبا۔ ‘‘ (۳)

اشفاق احمد ورک نے خطوط غالب کی مدد سے غالبؔ کا ایک خود نوشت خاکہ تیار کیا۔ اس خاکے میں غالبؔ اپنے ایک شعر کا ذکر کرتے ہیں جواس توقع پر کہ ان کی وفات کے بعد ان کے احباب ان کے مرثیے لکھیں گے اور اس شعر کو بند قرار دے کر ترکیب بند میں رقم کریں گے انہوں نے خود زندگی میں کہہ دیا تھا۔

’’ایک شعر میں نے بہت دن سے کہہ رکھا ہے اس خیال سے کہ میرے بعد کوئی دوست مرثیہ لکھے تو اس شعر کو بند قرار دے کر ترکیب بند رقم کرے۔ وہ شعر یہ ہے

رشک عرفی و فخر طالب مرد

اسد اللہ خان غالبؔ مرد‘‘ (۴)

ایک دفعہ غالبؔ کی زندگی میں ان کی وفات کی غلط خبر شہر میں پھیل گئی تھی۔ یہ واقعہ ۱۲۸۳ ھ کا ہے۔ ذکاؔ نے اسی غلط خبر کی بنا پر قطعہ تاریخ وفات بھی کہہ دیا۔ وہ تاریخ رحلت فارسی زبان میں ہے:

تاریخ رحلت حضرت غالبؔ

 

گزشت از جہاں آں جہان سخن

کہ می گفتمش عرفیؔ  و طالبؔ است

خرد گفت سالش ریاض جناں

کراں تا کراں مسکن غالبؔ است

(۵)

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔ غالبؔ نے زندگی میں موت کے بارے میں نظم و نثر میں جو کچھ کہا وہ ان کی موت کے بعد ان کی زندگی کا سبب بنا۔ غالبؔ کی کاوشیں رنگ لائیں اور ان کی وفات کے بعد ان کے دوستوں اور شاگردوں نے ان کی وفات کی بے شمار تاریخیں لکھیں مرثیے، نوحے اور منظوم کلام میں ان کی مدح و توصیف بھی کی۔ اس حوالے سے ’’یادگارِ غالب‘‘ میں حالیؔ نے لکھا ہے:

’’ان کی وفات کی تاریخیں جو مدت تک ہندوستان کے اردو اخباروں میں چھپتی رہیں وہ گنتی اور شمار سے باہر ہیں۔ صرف ایک تاریخ جس میں دس بارہ آدمیوں کو توارد ہوا یاد رکھنے کے قابل ہے۔ (یعنی آہ غالبؔ بمرد)جس کو مختلف لوگوں نے مختلف طور پر قطعات میں منتظم کیا ہے۔ تاریخ کے علاوہ مرزا قربان علی بیگ سالکؔ، میر مہدی حسین مجروحؔ اور مولف کتاب ہٰذا نے اردو میں اور منشی ہر گوپال تفتہؔ نے فارسی میں مرزا کے مرثیے بھی لکھے۔ ‘‘ (۶)

مرزا قربان علی سالکؔ نے غالبؔ کی وفات پر جو مرثیہ لکھا وہ ان کے کلیات میں شامل ہے۔

 

قطعہ تاریخ وفات مرزا اسداللہ خاں غالبؔ

 

اسد اللہ خاں بہادر کا

بھر گیا کیوں حیات کا ساغر

اس ضعیفی و ناتوانی میں

کیوں عدم کی طرف کیا ہے سفر

حیف اے آسمان! ناہنجار

وائے اے روزگار کیں پرور

ہائے وہ تاجدار ملک سخن

ہائے وہ اوستاد اہل ہنر

اس کے غم میں ہوا ہے ماتم عام

پھر نہ کیوں کر سیاہ ہو دفتر

گم رہان رہ معانی کا

آج دنیا سے گم ہوا ہے خضر

پاؤں رکھنا سنبھال کر سالکؔ

اب طریق سخن سے بے رہبر

کس کو اہل زمانہ جانیں گے

بہترین زمانہ سے بہتر

ان کے اوصاف کیا رقم ہوں کہ ہیں

مرے حد بیان سے باہر

فکر ان کی گئی ہے واں کہ جہاں

طائر سدرہ کا رہے شہپر

ان کے اندیشے کی بلندی سے

قصر معنی ہے آسماں منظر

نثر دیکھو تو معدن معنی

نظم دیکھو تو رشک عقد گہر

ان کے اجمال سے عیاں توضیح

ان کے انداز میں ادا مضمر

ہائے وہ لطف یاد آتے ہیں

جی میں ہوتی ہے کاوش نشتر

مجھ کو سودا نہیں کہ اس غم میں

در و دیوار سے نہ پھوڑوں سر

کور ہو جائے بس ابھی یارب

گر نہ دریا بہائے دیدہ تر

ہوں نہ اس غم سے جس کے سو ٹکڑے

میرے سینے میں ہے کہاں وہ جگر

مجھ سے کیا پوچھتے ہو سال وفات

ہوش کب ہے بجا کہ ہوں مضطر

دیکھ لو رنج حسرت دوری

دل نومید پر ہجوم آور

۱۱۴۱ + ۴۴ا = ۵ ۱۲۸    (۷)

اس کے علاوہ سالکؔ کے کلام میں مرزا کا ایک اور قطعہ تاریخ بھی موجود ہے ۔

 

قطعہ تاریخ وفات غالب

 

صدمہ مرگ حضرت غالبؔ

سبب رنج خاص و عام ہوا

اور اسی سال میں چھپی یہ کتاب

طبع کا اس کی انصرام ہوا

خوب ہے سال طبع و سال وفات

آج اون کا سخن تمام ہوا

۱۲۸۵  (۸)

حالیؔ نے خود مرزا کا مندرجہ ذیل مرثیہ لکھا:

 

تاریخ وفات مرزا غالب مرحوم دہلوی

 

غالبؔ نے جب کہ روضہ رضواں کی راہ لی

ہر لب پہ آہ سرد تھی، ہر دل میں درد تھا

اس دن کچھ اہل شہر کی افسردگی نہ پوچھ

دنیا سے دل ہر اپنے پرائے کا سرد تھا

حالیؔ  کہ جس کو دعوی تسکین و ضبط ہے

دیکھا تو دل پہ ہاتھ تھا اور رنگ زرد تھا

تھا گو وہ اک سخن ور ہندوستاں نژاد

عرفیؔ و انوریؔ کا مگر ہم نبرد تھا

اس قافلہ میں آ کے ملا گو وہ سب کے بعد

اگلوں کے ساتھ ساتھ مگر رہ نورد تھا

ہم اور صبح و شام یہ اندوہ جانگزا

دل تھا کہ فکر سال میں بے صرفہ گرد تھا

ناگاہ دی یہ غالبؔ مرحوم نے صدا

(سچ ہے کہ خواجہ راہنمائی میں فرد تھا)

’’تاریخ‘‘ ہم نکال چکے پڑھ ’’بغیر فکر‘‘

’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘ (۹)

میر مہدی مجروحؔ کا قطعہ تاریخ مندرجہ ذیل ہے:

 

قطعہ تاریخ انتقال غالب

 

کل حسرت و افسوس میں میں با دلِ محزوں

تھا تربت استاد پہ بیٹھا ہوا غمناک

دیکھا جو مجھے فکر میں تاریخ کی مجروحؔ

ہاتف نے کہا گنج معانی ہے تہ خاک

۱۲۸۵ھ (۱۰)

گوہر نوشاہی نے ’’اکمل الاخبار‘‘ کے حوالے سے مجروحؔ کا قطعہ یوں درج کیا ہے:

کل مرقد استاد پہ افراط الم میں

ہاتف نے جو بیٹھے ہوئے دیکھا غم ناک مجھے

بولا ہے اگر فکر میں تاریخ کی مجروحؔ

کہہ دے نا یہی گنج معانی ہے تہ خاک (۱۱)

کتابت کی غلطی سے دوسرا مصرع خراب ہو گیا ہے غم ناک مجھے کی جگہ مجھے غم ناک ہونا چاہیے۔ اس لیے عرشؔ ملسیانی کی ’’فیضانِ غالب‘‘ میں منقول قطعہ درست ہے۔ ’’دے نا‘‘ بھی ہو سکتا ہے دینا ہو اور کمپوزر کی غلطی سے ’’دے‘‘ اور ’’نا‘‘ الگ الگ لکھا گیا ہو۔ گوہرؔ نوشاہی نے مجروحؔ کا ایک اور قطعہ بھی نقل کیا ہے:

احباء غالبؔ معجز بیان کی

غنیمت جانتے تھے زندگانی

اجل نے پر نہ چھوڑا ہائے سچ ہے

نہیں ٹلتی قضائے آسمانی

سنی مجروحؔ نے جب ان کی رحلت

کہی تاریخ خورشید معانی

۱۲۸۵ھ (۱۲)

میرے خیال میں یہاں بھی کتابت کی غلطی نے رنگ دکھائے ہیں۔ معجز بیان کی جگہ معجز بیاں درست ہے۔ حالیؔ نے ’’یادگار غالب‘‘ میں صرف اپنے، مجروحؔ اور سالکؔ کے قطعات یا مرثیوں کا بالخصوص ذکر کیا ہے۔ باقی احباب کے نام نہیں بتائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تین شعرا کے علاوہ بھی بہت سے شعرا نے ان کی وفات پر قطعہ ہائے تاریخ کہے۔ حالیؔ کے اتباع میں ڈاکٹر محمد ایوب قادری نے بھی لکھا ہے کہ:

’’مرزا غالبؔ کے انتقال پر شعری و ادبی حلقوں میں خاصا ماتم برپا رہا۔ شاعروں اور ادیبوں نے ان کے انتقال پر قطعات تاریخ اور مرثیے لکھے۔ ‘‘ (۱۳)

ڈاکٹر محمد ایوب قادری نے اپنی کتاب ’’غالب اور عصرِ غالب‘‘ میں چند دیگر شعرائے کرام کے مندرجہ ذیل قطعات تاریخ بھی نقل کیے ہیں:

 

تاریخ وفات مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب دہلوی۔ منشی فضل حسین برشتہ

 

وحید زماں تھا جو دہلی میں غالبؔ

وہ معنی سرا اٹھ گیا ہائے ویلا

برشتہؔ  لکھو بہر تاریخ مصرع

 سخن کا مزہ اٹھ گیا ہائے ویلا (۱۴)

اس مصرع سے ۱۲۸۳ ھ برآمد ہوتا ہے۔ اگر ہائے کو وائے سے بدل دیں تو ۱۲۸۵ ہو جاتے ہیں۔

 

تاریخ وفات مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب دہلوی۔ منشی فضل حسین برشتہ

 

اٹھا دنیا سے کیا مرزائے غالب

جہاں سے اٹھ گئی شیریں بیانی

برشتہؔ نے لکھی تاریخ رحلت

موا ہے سعدی شیراز ثانی

۱۲۸۵ ھ (۱۵)

 

قطعات تاریخ وفات نواب اسد اللہ خاں غالب دہلوی

 

از منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

تھا شاعر نامی یہی اب دنیا میں

افسوس یہ ہے کہ مر گیا غالبؔ  بھی

ہے سحرؔ  یہ مصرع مرے لب پر جاری

دنیا سے آج چل بسا غالبؔ بھی

۱۲۸۵ھ

مر گیا غالبؔ  جو لاثانی تھا شاعر ہند میں

لے گیا دنیائے دوں سے حسرتیں کیا کیا دریغ

فکر میں ا ے سحرؔ  میں بیٹھا ہوا تھا نا گہاں

یہ ندا آئی فلک سے وائے واویلا دریغ

۱۲۸۵ ھ (۱۶)

 

تاریخ وفات مرزا اسد اللہ خاں غالب از سید آل مارہروی

 

جناب میرزا نوشہ صد افسوس

ہوئے دار فنا سے رہگرا آج

لکھ اے آل محمدؔ سال منقوط

کہ رشک حافظؔ و طالبؔ مرا آج

۱۲۸۵ ھ (۱۷)

غالبؔ کے عہد میں چھپنے والے اردو اخبارات کے فائل تلاش کر کے کھنگالے جائیں تو وہ سارا کلام ایک جگہ جمع ہو سکتا ہے جو غالبؔ کی وفات کے بعد ان اخبارات میں شائع ہوتا رہا۔ غالبؔ پر تحقیق کرنے والوں نے ابھی اس گوشے کی طرف دھیان نہیں دیا۔ بہت سا کلام ابھی تک منصہ شہود پر نہیں آیا اور جو کچھ موجود ہے وہ منتشر و نامکمل ہے۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی کو ’’اکمل الاخبار‘‘ کی نامکمل فائل دستیاب ہوئی، انہوں نے اخبار سے قطعات تاریخ الگ کر کے اسد اللہ خان غالبؔ مرد کے نام سے ایک مضمون لکھا جو ان کی کتاب ’’ مطالعہ غالب‘‘ میں شامل ہے۔ اس مضمون سے ہمیں غالبؔ کے بہت سے شاگردوں کے قطعات تاریخ دستیاب ہوتے ہیں جو ان کی وفات کے بعد ’’اکمل الاخبار‘‘ میں شائع ہوئے تھے۔ مجروحؔ نے مندرجہ ذیل قطعات کہے:

غالبؔ وہ خضر وادی علم سخن وری

تھا جس کا نقش پا رہ معنی میں اک دلیل

اچھا ہوا کہ پہلے سے عرفی گزر گیا

ہوتا جو ان کے سامنے رہتا بہت ذلیل

کیا جلد رہگزار عدم ان کو کر دیا

اس چرخ سخت گیر نے ذرہ بھی کی نہ ڈھیل

مجروحؔ خستہ حال نے ان کی وفات کی

تاریخ لکھی شاعر بے مثل و بے عدیل

۱۲۸۵ھ (۱۸)

وہ غالبؔ دانا دل، وہ پر ہنر کامل

دنیا میں نہیں اب تک جس کا کوئی ثانی ہے

ناگاہ وہ دنیا سے جنت کو ہوئے راہی

اس کوہ غم و ہم سے کیا دل پہ گرانی ہے

کل شب کو نہ میں سویا تاریخ کے بے نکلے

افسوس ہوا فانی خلاق معانی ہے

۱۲۸۵ھ

یکتا ہے جہاں خدیو معنی و بیان

وہ غالبؔ نیک خوئے و خورشید نظر

ذیقعد کی دوسری تھی اور پیر کا دن

ناگاہ کیا انہوں نے دُنیا سے سفر

بے پا و سر آہ ان کے مرنے سے ہوئے

فضل و شرف و فہم و خرد، علم و ہنر

۱۲۸۵ھ (۱۹)

غالبؔ وہ شخص تھا ہمہ داں، جس کے فیض سے

ہم سے ہزار ہیچ مداں نامور ہوئے

فضل و کمال و صدق و صفا اور حسن و عشق

چھ لفظ اس کے مرتے ہی بے پا و سر ہوئے

۱۲۸۵ھ (۲۰)

 

نوحہ سرای نکتہ رس سخن پرور معانی یاب بذلہ گستر میرزا قربان علی بیگ خاں صاحب المتخلص بہ سالکؔ

 

اسد اللہ خاں بہادر کا

بھر گیا کیوں حیات کا ساغر

اس ضعیفی و ناتوانی میں

کیوں عدم کی طرف کیا ہے سفر

حیف اے آسمان نا ہنجار

وائے اے روزگار کیں پرور

ہائے وہ تاجدار ملک سخن

ہائے وہ اوستاد اہل ہنر

ان کے غم میں ہوا ہے ماتم عام

پھر نہ کیونکر سیاہ ہو دفتر

گم رہان رہ معانی کا

آج معدوم ہو گیا ہے خضر

پاؤں رکھنا سنبھال کر سالکؔ

اب طریق سخن ہے بے رہبر

کس کو اہل زمانہ جانیں گے

بہترین زمانہ سے بہتر

ان کے اوصاف کیا رقم ہوں، کہ ہیں

میری حد بیان سے باہر

فکر ان کی گئی ہے واں کہ جہاں

طائر سدرہ کا رکے شہپر

ان کے اندیشہ کی بلندی سے

قصر معنی ہے آسماں منظر

نثر دیکھو تو معدن معنی

نظم دیکھو تو رشک عقد گہر

ان کے اجمال سے عیاں توضیح

ان کے انداز میں ادا مضمر

ہائے وہ لطف یاد آتے ہیں

جن میں ہوتی ہے کاوش نشتر

ہوں نہ اس غم میں جس کے سو ٹکڑے

میرے سینے میں ہے کہاں وہ جگر

کور ہو جائے بس ابھی یا رَبّ

گر نہ دریا بہائے دیدہ تر

مجھ کو سودا نہیں کہ اس غم میں

در و دیوار سے نہ پھوڑوں سر

مجھ سے کیا پوچھتے ہو سال وفات

ہوش کب ہیں بجا کہ ہوں مضطر

دیکھ لو رنج و حسرت دوری

دل نومید پر ہجوم آور

۱۲۸۵ھ (۲۱)

 

نالہ حزن انگیز و فغان محن خیز شاعر یکتا، ناثر بے ہمتا، سخن سنج گرامی گوہر نکتہ پرداز، والا نظر، رشک افزائے صائب و غیرت فرمائے عالی مولوی الطاف حسین صاحب المتخلص بہ حالیؔ تلمیذ رشید مولانا غالبؔ غفر اللہ لہ

 

غالبؔ نے جبکہ روضہ رضواں کی راہ لی

ہر لب پہ آہ سرد تھی ہر دل میں درد تھا

اس دن کچھ اہل شہر کی افسردگی نہ پوچھ

عاشق کا دل بھی یار سے اس غم میں سرد تھا

حالیؔ کہ جس کو دعوی تمکین و ضبط ہے

دیکھا تو دل پہ ہاتھ تھا اور رنگ زرد تھا

تھا گر اک سخن ور ہندوستاں نژاد

عرفیؔ و انوریؔ کا مگر ہم نبرد تھا

اس قافلے میں آ کے ملا گو وہ سب کے بعد

اگلوں کے ساتھ ساتھ مگر رہ نورد تھا

میں اور صبح و شام بہ اندوہ جاں گداز

دل تھا کہ فکر سال میں بے صرفہ گرد تھا

ناگاہ دی یہ غالبؔ مرحوم نے صدا

سچ ہے کہ خواجہ راہ نمائی میں فرد تھا

تاریخ ہم نکال چکے پڑھ بغیر فکر

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

۱۲۸۵ھ (۲۲)

 

نوحہ سرائی سراپا ملال بہاری لال المتخلص بہ مشتاقؔ

 

جس کو کہتے تھے غالبؔ آج وہ رنگیں کلام

چھوڑ کر دنیا کو سوئے عالم بالا گیا

یہ خبر سن کر مرے دل پر جو گزری کچھ نہ پوچھ

جان لب پر آ گئی سینے میں دم گھبرا گیا

روز روشن بھی مری آنکھوں کے آ گے تھا سیاہ

رات گو یا ہو گئی ایسا اندھیرا چھا گیا

آسماں سے یہ کہا میں نے کہ اے بیداد گر

سچ بتا اس واقعہ سے کیا ترے ہاتھ آ گیا

ساتھ اس کے اوٹھ گئے فضل و ہنر، علم و کمال

تا نہ یہ جانے کوئی دنیا سے وہ تنہا گیا

پھر دعا کی یہ کہ اس کو بخشیو پروردگار

لفظ آمیں ساتھ ہی روح الامیں کہتا گیا

از سر الطاف روح القدس نے سال مسیح

یوں کہا مشتاقؔ سے بخشا گیا، بخشا گیا

۱۲۸۵ھ (۲۳)

 

 نالہ ماتم انگیز عزیز مصر سخن دانی سراج الشعراء، سلطان الذاکرین یوسف علی خاں صاحب المتخلص بہ عزیزؔؔ

 

جو میرزا اسد اللہ خان غالبؔ  نے

قیام عالم فانی سے انفراغ کیا

جہاں میں باد خزاں نے شگوفہ غم سے

اجاڑ ملک سخن کا تمام باغ کیا

عزیز فکر تاریخ جب ہوئی مجھ کو

نکالا مادہ نغز اور گل چراغ کیا

۱۲۸۵ھ (۲۴)

کی فوت میرزا اسد اللہ خاں نے جب

خالی ہوا شراب خوشی سے ایاغ ہند

ہیہات باد دے نے ستم کر دیا بپا

تاریک کی جہاں میں شبستان باغ ہند

مجھ کو جو فکر سال عزیزؔ حزیں ہوئی

فوراً کیا بیان، بجھایا چراغ ہند

۱۲۸۵ ھ (۲۵)

جو میرزا اسد اللہ خاں تمام ہوئے

شروع جان حزیں کو مری ہوئی کاہش

عزیز فکر تاریخ کی رہی رو سے

بیان جو کیے ہم غم فسردگی رنجش

۱۲۸۵ھ (۲۶)

 

مویہ سرائی نو آئین نوا ناظم بے ہمتا، ناثر یکتا، بذلہ سنج بے مثال نکتہ پرور رنگین خیال، واقف اسرار خفی و جلی، اموجان ولیؔ شاگرد مولانا غالبؔ مغفور

 

کس سخن ور کے غم مرگ سے ہیں دل خستہ

نیرؔ  و سالکؔ و مجروحؔ و ولیؔ و حالیؔ

کس کے تابوت کے ہیں سا تھ رواں و نالاں

روح سعدیؔ  و نظامیؔ و کلیمؔ و عرفیؔ

کس کا ماتم ہے کہ مضمونؔ  ہوا آشفتہؔ

کس کا افسوس ہے جو علم کو ہے خاموشی

مرگ غالبؔ ہے کہ تاریخ یہ سب کہتے ہیں

آج عالم سے گیا حیف ملاذ معنی

۱۲۸۵ ھ (۲۷)

غالبؔ  ملجائے معنی و سخن

ہو گئے اب راہی ملک بقا

علم کی کیسی ہوئی مٹی خراب

ان کا مرنا اس کا رونا ہو گیا

جان تھے وہ علم ہے ایک کالبد

جب وہی رخصت ہوئے یہ کیا رہا

نو عروسان مضامین بلند

بیوگی پر اپنی ہیں نوحہ سرا

واں بلایا ہے دبیر الملک کو

کہ دبیر چرخ کی خالی تھی جا

رحلت حضرت کا غم یاں ہی نہیں

شہر خاموشاں میں بھی ماتم ہوا

تہلکا سے پڑ گیا ارواح میں

شور جب خاک نظیریؔ سے اٹھا

تخرجہ ہے شور کا یوں ہی تو، لو

سال رحلت ہم نے اس کا لکھ دیا

(۲۸)

 

نالہ حزن انگیز و مویہ درد آمیز منشی میاں داد خان صاحب المتخلص بہ سیاحؔ شاگرد مولانا غالبؔ مرحوم

 

قہر ہے رحلت دبیر الملک

سال لکھنے کا کون طالب ہے

یاں نہیں ہے سر حلاوت زیست

کوئی کہ دو کہ مرگ غالبؔ ہے

۱۲۸۵ھ (۲۹)

 

نوحہ طرازی خامہ احمد حسین خاں صاحب طرز شاگرد رشید  میرزا قربان علی بیگ خاں صاحب سالکؔ

 

جبکہ تنہا سوئے اقلیم عدم

اپنی جاں سے گئے غالب ہے ہے

طرز نے رو کے کہا یوں پئے سال

بس جہاں سے گئے غالبؔ ہے ہے

۱۲۸۵ھ (۳۰)

نوائے اندوہ افزا و صدائے جاں گزائے قلم عطارد رقم منشی وزیر سنگھ صاحب مدرس انگریزی مدرسہ سرکاری شاگرد رشید مرزا قربان علی بیگ خان صاحب سالکؔؔ

مرگ نجم الدولہ افسانہ ہوا

ہائے وہ عالی نسب والا صفات

ثانی غالبؔ نظر آتا نہیں

رنج غالبؔ  کیوں نہ ہو سال وفات

۱۲۸۵ھ (۳۱)

 

 اشک باری کلک گوہر سلک ماسٹر وزیر سنگھ صاحب  مدرس انگریزی مدرسہ سرکاری

 

اسد اللہ خان کے واقعہ سے

عیسوی سن کا میں ہوا طالب

لکھا راقم نے از سر زاری

سوئے جنت رواں ہوئے غالبؔ

۱۸۶۹ء (۳۲)

 

قطعات تاریخ وفات نواب اسد اللہ خان غالبؔ من نتائج افکار کرامت علی صاحب انصاری پانی پتی

 

(۸ قطعات تاریخ میں سے ایک اردو میں ہے )

 

ولہ تخرجہ مصرع اول از مصرع ثانی مرزا صاحب مرحوم

 

سانحہ دہر میں کچھ آج ہوا کہتے ہیں

کیوں دلا تجھ کو خبر ہے کہ یہ کیا کہتے ہیں

عسجدیؔ و اسدیؔ، عنصریؔ و فردوسیؔ

اس زمانے کا تھا جو آج موا کہتے ہیں

نکتہ دان سخن انوریؔ و خاقانیؔ

آج رخصت ہوا سب اہل صفا کہتے ہیں

آج سے بند زمانے میں ہوا باب سخن

ہند میں کوئی سخن ور نہ رہا کہتے ہیں

کس کو پالا کہ کیا اس کو نہ پیوند زمیں

سچ ہے گیتی کو جو بے مہر و وفا کہتے ہیں

سر بزانو ہے ہر اک اہل خرد دنیا میں

خسر و ملک سخن فوت ہوا کہتے ہیں

ہے ہر اک شخص کو تاریخ کے لکھنے کا خیال

اس میں کہتے ہیں جو شاعر وہ بجا کہتے ہیں

مثل غالبؔ کہ کہاں ہوئے گا شاعر پیدا

ایسا پیدا کوئی ہو گا نہ ہوا کہتے ہیں

مرثیہ لکھا ہے حالیؔ نے اسی حال میں جب

اکمل الطبع دہلی میں چھپا کہتے ہیں

فکر تاریخ کرامتؔ  کو ہوا ہے سن کر

اسی تاریخ میں ایک قطعہ لکھا کہتے ہیں

واقعی خوب ہے مصرع سے نکالا مصرع

طبع موزوں اسے اور فکر رسا کہتے ہیں

حسرت و درد و الم، رنج و ملال دل جو

۱۳۶۴

مر گیا غالب آشفتہ نوا کہتے ہیں

۲۶۴۷ (۳۳)

 

قطعہ تاریخ وفات مرزا اسداللہ خان  ریختہ کلک مولوی عبد الغفور خان صاحب نساخؔ  ڈپٹی مجسٹریٹ و ڈپٹی کلکٹر ضلع ساربان

 

کی جو رحلت میرزا نوشہ نے ہائے

دوستوں کو کیا کہوں کیا غم ہوا

مصرع تاریخ لکھا کلکؔ نے

آہ ہے ہے میرزا نے کی قضا

۱۲۸۵ ھ (۳۴)

 

مالک رام نے ’’ تلامذہ غالب‘‘ میں نہ صرف غالب کے شاگردوں کا تعارف کروایا بلکہ ان کا نمونہ کلام بھی قارئین کے لیے پیش کیا۔ ان نمونہ ہائے کلام میں کچھ کلام غالب کے بارے میں بھی ہے۔ ذکا کے مندرجہ ذیل اشعار شامل ہیں:

 

میرے استاد معنوی غالبؔ

جن کا ہر لفظ معنی اعجاز

وحدہٗ لا شریک لہٗ کی قسم

تھے وہ فن سخن میں بے انباز

ایسی قسمت کہاں جو میں کرتا

پردہ چشم صرف پا انداز

ہاں سنا ہے کہ ان کے تھے کردار

جیسے گفتار حافظؔ  شیراز

کیا عجب ہے جو حرمت مے سے

بخش بھی دے کریم نکتہ نواز

ہند کا انوریؔ و سعدیؔ تھا

متفق اس پہ ہیں سخن پرداز

خود ہی فرما گیا ہے یہ مقطع

پیش بینی کا دیکھنا انداز

’’اسد اللہ خاں تمام ہوا

وا دریغا وہ رند شاہد باز‘‘

پہلے مصرع سے تا بآخر شعر

سال تاریخ کا ہے جلوہ طراز

غیب دانی صفت خدا کی ہے

اک عدد کی کمی میں تھا یہ راز

(۳۵)

’’تلامذہ غالب‘‘ میں بے صبرؔ کے مندرجہ ذیل قطعات بھی شامل ہیں۔

 

اسد اللہ خاں وہ غالبؔ  آہ

جس سے اہل کمال تھے مغلوب

جب سدھارے بسوئے خلد ہوئے

سخن ان کے الم میں سینہ کوب

اس سپہر سخن کے اختر کا

مجھ کو سال غروب تھا مطلوب

کہا عیسیٰ نے از سر حسرت

 ’’ہوا حیف آفتاب ہند غروب‘‘

(۳۶)

 

ضیا الدین انصاری نے ’’تفتہؔ اور غالب‘‘ ؔ میں تفتہؔ کا مندرجہ ذیل قطعہ تاریخ دیا ہے۔

غالبؔ  وہ شخص تھا ہمہ داں جس کے فیض سے

ہم سے ہزار ہیچ مداں نامور ہوئے

فیض و کمال، صدق و صفا اور حسن و عشق

چھ لفظ اس کے مرنے سے بے پا و سر ہوئے

(۳۷)

عرشؔ ملسیانی نے ’’ فیضان غالبؔ‘‘ میں مندرجہ ذیل قطعہ ہائے تاریخ درج کیے ہیں:

 

تاریخ وفات حضرت استاذ نا نجم الملک، دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں بہادر جنگ نظام جنگ

 

مراد حشر کیا دہلی کا خطہ تھا   ۱۸۶۹ء

فلک ٹوٹا یہ مجھ پر آہ نا گاہ  ۱۲۸۵ھ

مرے استاد عالی جاہ غالبؔ  ۱۸۶۹ء

دوم ذی القعد کو اب مر گئے آہ   ۱۲۸۵ھ

خدا جو و خدا یاب و خدا باز   ۱۸۶۹ء

فلک تمکیں فلک عصر و فلک جاہ   ۱۲۸۵ھ

خدا میں مل گیا شبلی خالص   ۱۸۶۹ء

خدا سے جا ملا شمس حق آگاہ   ۱۲۸۵ھ

جہانگیر سخن ملک سخن سے   ۱۸۶۹ء

ہوئے رضواں مآب الحکم للہ  ۱۲۸۵ھ

بنا تخت رواں بس کیا جنازہ   ۱۸۶۹ء

چلا دربار کو کس شاں سے وہ شاہ   ۱۲۸۵ھ

کیا امر سفر بے میرے ہے ظلم  ۱۸۶۹ء

لیا افسوس خادم کو نہ ہمراہ    ۱۲۸۵ھ

لحد ہے حسن آغوش عروساں   ۱۸۶۹ء

رواں بھی میرزا نوشہ کے نوشاہ   ۱۲۸۵ھ

ہے اول چرخ وصف وسعت قبر  ۱۸۶۹ء

کفن تو چاندنی وہ مستند ماہ   ۱۲۸۵ھ

کمر کیسے جھکی اس فکر غم سے   ۱۸۶۹ء

گرا ہے پشت دل پر کوہ جانکاہ  ۱۲۸۵ھ

ہو نازل آفت جاں وائے دریغا   ۱۸۶۹ء

غم دل ہے بلا صد وائے و للہ   ۱۲۸۵ھ

اگر ہو آب چشم غم رواں ہائے   ۱۸۶۹ء

ہے وہ نخل ماتم جو کہ ہو آہ   ۱۲۸۵ھ

یہ اشک چشم و داغ دل ملے ہیں   ۱۸۶۹ء

کروں کیا میں شمار اے میرے اللہ   ۱۲۸۵ھ

کہیں یہ تین تاریخیں جو بے حد  ۱۸۶۹ء

گئے غالب بھی ان کی ہے کسے چاہ   ۱۲۸۵ھ

اسی ہستی سے انس آخر کو ہے قدرؔ   ۱۸۶۹ء

ہے ساز مرگ پیش اب قصہ کوتاہ   ۱۲۸۵ھ

(۳۸)

یہ قطعہ قدرؔ بلگرامی نے لکھا ہے اور اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر شعر کے ہر دو مصارع سے غالب کی تاریخ وفات نکلتی ہے۔ مصرع اولی سے عیسوی سن وفات اور مصرع ثانی سے ہجری سن وفات۔

سہ ماہی اردو کے ایک شمارے میں بشیر نامی ایک شاعر کا ذکر ہے۔ بشیرؔ نے غالبؔ کی وفات پر نو قطعات لکھے تھے جو اس کے مجموعے میں ہیں۔

مرگ غالبؔ سے سوئے ملک عدم

ہو گیا ہے عزم بالجزم سخن

ہے یہی تاریخ اس اندھیر کی

گل ہوئی ہے مشعل بزم سخن

۱۲۸۵ھ

غالبؔ شہ اقلیم سخن مر گئے افسوس

صد حیف کہ بے سر ہوا اب لشکر معنی

تاریخ بشیرؔ ان کی کہی یہ مرے دل نے

 ’’ہے ہے مرا افسوس شہ کشور معنی‘‘

۱۲۸۵ھ

اٹھا ساقی بزم معنی یارا کہ لب کیجئے وا

صراحی کو دیکھا گلا گھونٹتے

اور اک شور قلقل کے نالوں سے تھا

چنے تھے جو طاقوں میں شیشے تمام

سیہ فام رنگ ان کا ظاہر ہوا

پہن کر لباس عزا جس طرح

کسی کا کوئی ماتمی ہو بنا

مثال مے سرخ خون جگر

ہر اک جام کے دیدہ تر میں تھا

خزاں میں گل ورد کا ہو جو حال

گلابی کو اس طور دیکھا کیا

نظر کی جو پیمانے کی سمت کو

تو آنکھوں کو اس نے دیا ڈبڈبا

جو تھے اپنے مشرب کے احباب انہیں

خبر سر کی نے ہوش تھا پاؤں کا

جدھر دیکھتا تھا میں بھر کے نظر

کسے ہوش تھا لوٹنے کے سوا

ادھر اور ادھر کی جو میں نے نگاہ

کہ تا مجھ کو معلوم ہو مدعا

(حاشیے پر بشیر نے ماجرا لکھا ہے )

تو ساقی پری چہرہ و حور وش

مجھے ایک جانب نظر آ گیا

یہ جی چاہا ا س سے ہی کچھ پوچھئے

کہ ان مے پرستوں کو کیا ہو گیا

وہ اس درجہ بے ہوش تھا مطلقاً

کہ اپنی خودی کا نہ کچھ ہوش تھا

اٹھا شیشہ راوق کا بھر جام کو

وہاں آپ میں اپنا ساقی بنا

یہ کیا حال ہے اس شش و پنج میں

مئے یاس کا ایک ساغر پیا

تو کیفیت اصلا نہ حاصل ہوئی

میں بے نشہ جیسا تھا ویسا رہا

گزک کی جگہ لخت دل بھون کر

غرض حرص کے منہ کو جھلسا دیا

(حاشیے پر بشیر نے دونوں جگہ عوض لکھا ہے )

سرور آیا جب کچھ نہ تو ہر طرف

سراسیمہ سا میں ٹہلنے لگا

جو یاران بزم خرابات تھے

ادھر سے ادھر تک انہیں گن گیا

سبھی یار و احباب آئے نظر

نہ میرزا نوشہ اہل صفا

زبس ان کی مجھ کو رہی جستجو

ولیکن ملا کچھ نہ ان کا پتا

غم و یاس و حسرت کے ہمراہ میں

مکان مقدس پہ ان کے گیا

وہاں جا کے پوچھا تو اک شخص نے

بصد نالہ و آہ مجھ سے کہا

کہ وہ آج مے خانہ دہر سے

گئے جام کوثر کا چکھنے مزا

یہ سن کر میں رونے لگا زار زار

بس از نالہ و یاس و آہ و بکا

جو تھی مجھ کو تاریخ کی جستجو

تو اس فکر میں سر بہ زانو ہوا

ارم سے ملک آیا اک نا گہاں

کہ تھا ان کی جانب سے بھیجا ہوا

کہا کہ تفکر میں ہے اے بشیرؔ

 ’’پیا آج غالب نے جام فنا‘‘ (۴۰)

ان دستیاب قطعات کے علاوہ بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ بہت سے قطعات تاریخ موجود ہوں گے۔ جن کی تلاش ضروری ہے۔ دستیاب قطعات میں بھی بہت سے اغلاط در آئے ہیں اور ایک ہی شاعر کا کلام مختلف مقامات پر مختلف قرات کے ساتھ موجود ہے۔ لازم ہے کہ غالب شناس اس امر کی طرف توجہ دیں۔ اور غالب کے تمام قطعات تاریخ کو تلاش کر کے ان کو درست متن کے ساتھ پیش کیا جائے۔

 

حواشی

 

۱۔     الطاف حسین حالیؔ خواجہ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔ ص۸۸

۲۔     الطاف حسین حالیؔ خواجہ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔ ص۸۸

۳۔     الطاف حسین حالیؔ خواجہ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔ ص۸۹

۴۔     اشفاق احمد و رک۔ مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کا خود نوشت خاکہ مشمولہ سہ ماہی کہکشاں راولپنڈی۔   مدیر اعلیٰ محمد بشیر رانجھاؔ۔ شمارہ اپریل جون ۲۰۱۴ء۔ ص۳۷

۵۔     عرشؔ ملسیانی۔ فیضان غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۷۷ء۔ ص۹۹

۶۔     الطاف حسین حالیؔ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔ ص۹۰

۷۔      قربان علی بیگ سالکؔ۔ کلیات سالکؔ۔ م۔ کلب علی خاں فائقؔ۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔ ۱۹۶۶ء۔ ص۶۵۸

۸۔     قربان علی بیگ سالکؔ۔ کلیات سالکؔ۔ م۔ کلب علی خاں فائقؔ۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔ ۱۹۶۶ء۔ ص۶۶۱

۹۔      الطاف حسین حالیؔ۔ دیوان حالیؔ ۔ خزینہ علم و ادب لاہور۔ ۲۰۰۱ء۔ ص۵۵۵

۱۰۔    عرش ملسیانی۔ فیضان غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۷۷ء۔ ص۲۶۲

۱۱۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۸۷

۱۲۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۸۸

۱۳۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان۔ کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۳۵

۱۴۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۳۹

۱۵۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۴۰

۱۶۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۴۱

۱۷۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۴۳

۱۸۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۸۸

۱۹۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۸۹

۲۰۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۴

۲۱۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۴

۲۲۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۶

۲۳۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۷

۲۴۔    گہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۷

۲۵۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۷

۲۶۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۸

۲۷۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۸

۲۸۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۸

۲۹۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۹

۳۰۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۰

۳۱۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۱

۳۲۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالب۔ ؔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۲

۳۳۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۳

۳۴۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۴

۳۵۔    مالک رام۔ تلامذہ غالبؔ۔ مکتبہ جامعہ۔ دہلی۔ ۱۹۸۴ء۔ ص۱۸۳

۳۶۔    مالک رام۔ تلامذہ غالبؔ۔ مکتبہ جامعہ دہلی۔ ۱۹۸۴ء۔ ص ۱۰۲

۳۷۔    ضیا الدین انصاری (ڈاکٹر، محمد)۔ تفتہ اور غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۸۳ء۔ ص۴۴

۳۸۔    عرشؔ ملسیانی۔ فیضان غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۷۷ء۔ ص۲۵۷

۳۹۔    سہ ماہی اردو۔ (جمیل الدین عالی۔ مشفق خواجہ )جلد ۴۵۔ شمارہ ۱۰۔ انجمن ترقی اردو بابائے اردو روڈ  کراچی ۱۔ ۱۹۶۹ء۔ ص۲۳۰

۴۰۔    سہ ماہی اردو۔ (جمیل الدین عالی۔ مشفق خواجہ )جلد ۴۵۔ شمارہ ۱۰۔ انجمن ترقی اردو بابائے اردو روڈ  کراچی ۱۔ ۱۹۶۹ء۔ ص۲۳۱

 

کتب استفادہ

۱۔     الطاف حسین حالیؔ خواجہ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔

۲۔     عرشؔ ملسیانی۔ فیضان غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۷۷ء۔

۳۔    قربان علی بیگ سالکؔ۔ کلیات سالکؔ۔ م۔ کلب علی خاں فائقؔ۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔ ۱۹۶۶ء۔

۴۔     گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔

۵۔     محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔

 

مرگ غالب اور قطعہ ہائے تاریخ وفات

 

غالبؔ کی زندگی ہی کچھ اس شکل سے گزری کے موت کا موضوع ان کے ہاں ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ وہ زندگی بھر مرنے کی راہ دیکھا کیے اور تاریخوں پر تاریخیں نکالتے رہے۔ موت کا تو ایک دن معین ہے۔ اسے تو جب آنا تھا آئی مگر غالبؔ اپنی نثر اور نظم میں اس کا ذکر مختلف اسالیب میں کرتے رہے۔ اور یونہی ان کی ساری عمر بیت گئی۔ ان کی شاعری میں نزع، موت، نعش، کفن، دفن، جنازہ، تعزیت اور مرثیہ وغیرہ جیسے الفاظ بھی اسی سیاق و سباق میں استعمال ہوئے ہیں۔ چونکہ مقطع میں شاعر عموماً خود سے ہم کلام ہوتا ہے اس لیے مقطع میں اس کی نفسیاتی کیفیات کم ابہام کے ساتھ جلوہ فگن ہوتی ہیں۔ غالبؔ کے مقطعوں کا مطالعہ کریں تو ان کے کئی مقطعوں کا موضوع ان کی موت ہے۔ مثلاً:

یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ہوئی مدت کہ غالبؔ  مر گیا پر یاد آ تا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

 

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہو غالبؔ

قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

اسد اللہ خاں تمام ہوا

اے دریغا وہ رند شاہد باز

وحشتؔ  و شیفتہؔ  اب مرثیہ کہویں شاید

مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں

غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں

اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش

دشمن بھی جس کو دیکھ کے غم ناک ہو گئے

اسی طرح ان کے خطوط میں بھی زندگی سے بیزاری اور موت کی خواہش کا ذکر متعدد مقامات پر موجود ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ’’ یادگارِ غالب‘‘ ؔ میں لکھا ہے ’’مرزا یا تو اس وجہ سے کہ ان کی زندگی فی الواقع مصائب اور سختیوں میں گزری تھی اور یا اس لیے کہ ان پر نا ملائم حالتوں کا بہت زیادہ اثر ہوتا تھا۔ آخر عمر میں موت کی بہت آرزو کیا کرتے تھے۔ ہر سال اپنی تاریخ وفات نکالتے اور یہ خیال کرتے کہ اس سال ضرور مر جاؤں گا‘‘ (۱)

کس سے محرومیِ قسمت کی شکایت کیجئے

ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہوا

اس حوالے سے حالیؔ نے ’’یاد گارِ غالب‘‘ ؔ میں کچھ لطیفے بھی نقل کیے ہیں۔

’’۱۲۷۷ھ میں انہوں نے اپنے مرنے کی تاریخ یہ کہی کہ ’ غالب مرد‘۔ اس سے پہلے کئی مادے غلط ہو چکے تھے۔ منشی جواہرؔ سنگھ جو مرزا صاحب کے مخصومین میں سے تھے ان سے مرزا صاحب نے اس مادے کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت انشا اللہ یہ مادہ بھی غلط ثابت ہو گا۔ مرزا نے کہا: دیکھو صاحب تم ایسی فال منہ سے نہ نکالو۔ اگر یہ مادہ مطابق نہ ہوا تو میں سر پھوڑ کر مر جاؤں گا۔‘‘ (۲)

’’ایک دفعہ شہر میں سخت وبا پڑی۔ میر مہدی حسین مجروحؔ نے دریافت کیا کہ حضرت وبا شہر سے دفع ہوئی یا ابھی تک موجود ہے ؟ اس کے جواب میں لکھتے ہیں ’بھئی کیسی وبا؟ جب ایک ستر برس کے بڈھے اور ستر برس کی بڑھیا کو نہ مار سکے۔ تف بر ایں وبا۔ ‘‘ (۳)

اشفاق احمد ورک نے خطوط غالب کی مدد سے غالبؔ کا ایک خود نوشت خاکہ تیار کیا۔ اس خاکے میں غالبؔ اپنے ایک شعر کا ذکر کرتے ہیں جواس توقع پر کہ ان کی وفات کے بعد ان کے احباب ان کے مرثیے لکھیں گے اور اس شعر کو بند قرار دے کر ترکیب بند میں رقم کریں گے انہوں نے خود زندگی میں کہہ دیا تھا۔

’’ایک شعر میں نے بہت دن سے کہہ رکھا ہے اس خیال سے کہ میرے بعد کوئی دوست مرثیہ لکھے تو اس شعر کو بند قرار دے کر ترکیب بند رقم کرے۔ وہ شعر یہ ہے

رشک عرفی و فخر طالب مرد

اسد اللہ خان غالبؔ مرد‘‘ (۴)

ایک دفعہ غالبؔ کی زندگی میں ان کی وفات کی غلط خبر شہر میں پھیل گئی تھی۔ یہ واقعہ ۱۲۸۳ ھ کا ہے۔ ذکاؔ نے اسی غلط خبر کی بنا پر قطعہ تاریخ وفات بھی کہہ دیا۔ وہ تاریخ رحلت فارسی زبان میں ہے:

تاریخ رحلت حضرت غالبؔ

گزشت از جہاں آں جہان سخن

کہ می گفتمش عرفیؔ  و طالبؔ است

خرد گفت سالش ریاض جناں

کراں تا کراں مسکن غالبؔ است

(۵)

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔ غالبؔ نے زندگی میں موت کے بارے میں نظم و نثر میں جو کچھ کہا وہ ان کی موت کے بعد ان کی زندگی کا سبب بنا۔ غالبؔ کی کاوشیں رنگ لائیں اور ان کی وفات کے بعد ان کے دوستوں اور شاگردوں نے ان کی وفات کی بے شمار تاریخیں لکھیں مرثیے، نوحے اور منظوم کلام میں ان کی مدح و توصیف بھی کی۔ اس حوالے سے ’’یادگارِ غالب‘‘ میں حالیؔ نے لکھا ہے:

’’ان کی وفات کی تاریخیں جو مدت تک ہندوستان کے اردو اخباروں میں چھپتی رہیں وہ گنتی اور شمار سے باہر ہیں۔ صرف ایک تاریخ جس میں دس بارہ آدمیوں کو توارد ہوا یاد رکھنے کے قابل ہے۔ (یعنی آہ غالبؔ بمرد)جس کو مختلف لوگوں نے مختلف طور پر قطعات میں منتظم کیا ہے۔ تاریخ کے علاوہ مرزا قربان علی بیگ سالکؔ، میر مہدی حسین مجروحؔ اور مولف کتاب ہٰذا نے اردو میں اور منشی ہر گوپال تفتہؔ نے فارسی میں مرزا کے مرثیے بھی لکھے۔ ‘‘ (۶)

مرزا قربان علی سالکؔ نے غالبؔ کی وفات پر جو مرثیہ لکھا وہ ان کے کلیات میں شامل ہے

قطعہ تاریخ وفات مرزا اسداللہ خاں غالبؔ

اسد اللہ خاں بہادر کا

بھر گیا کیوں حیات کا ساغر

اس ضعیفی و ناتوانی میں

کیوں عدم کی طرف کیا ہے سفر

حیف اے آسمان! ناہنجار

وائے اے روزگار کیں پرور

ہائے وہ تاجدار ملک سخن

ہائے وہ اوستاد اہل ہنر

اس کے غم میں ہوا ہے ماتم عام

پھر نہ کیوں کر سیاہ ہو دفتر

گم رہان رہ معانی کا

آج دنیا سے گم ہوا ہے خضر

پاؤں رکھنا سنبھال کر سالکؔ

اب طریق سخن سے بے رہبر

کس کو اہل زمانہ جانیں گے

بہترین زمانہ سے بہتر

ان کے اوصاف کیا رقم ہوں کہ ہیں

مرے حد بیان سے باہر

فکر ان کی گئی ہے واں کہ جہاں

طائر سدرہ کا رہے شہپر

ان کے اندیشے کی بلندی سے

قصر معنی ہے آسماں منظر

نثر دیکھو تو معدن معنی

نظم دیکھو تو رشک عقد گہر

ان کے اجمال سے عیاں توضیح

ان کے انداز میں ادا مضمر

ہائے وہ لطف یاد آتے ہیں

جی میں ہوتی ہے کاوش نشتر

مجھ کو سودا نہیں کہ اس غم میں

در و دیوار سے نہ پھوڑوں سر

کور ہو جائے بس ابھی یارب

گر نہ دریا بہائے دیدہ تر

ہوں نہ اس غم سے جس کے سو ٹکڑے

میرے سینے میں ہے کہاں وہ جگر

مجھ سے کیا پوچھتے ہو سال وفات

ہوش کب ہے بجا کہ ہوں مضطر

دیکھ لو رنج حسرت دوری

دل نومید پر ہجوم آور

۱۱۴۱ + ۴۴ا = ۵ ۱۲۸    (۷)

اس کے علاوہ سالکؔ کے کلام میں مرزا کا ایک اور قطعہ تاریخ بھی موجود ہے

قطعہ تاریخ وفات غالب

صدمہ مرگ حضرت غالبؔ

سبب رنج خاص و عام ہوا

اور اسی سال میں چھپی یہ کتاب

طبع کا اس کی انصرام ہوا

خوب ہے سال طبع و سال وفات

آج اون کا سخن تمام ہوا

۱۲۸۵  (۸)

حالیؔ نے خود مرزا کا مندرجہ ذیل مرثیہ لکھا:

تاریخ وفات مرزا غالب مرحوم دہلوی

غالبؔ نے جب کہ روضہ رضواں کی راہ لی

ہر لب پہ آہ سرد تھی، ہر دل میں درد تھا

اس دن کچھ اہل شہر کی افسردگی نہ پوچھ

دنیا سے دل ہر اپنے پرائے کا سرد تھا

حالیؔ  کہ جس کو دعوی تسکین و ضبط ہے

دیکھا تو دل پہ ہاتھ تھا اور رنگ زرد تھا

تھا گو وہ اک سخن ور ہندوستاں نژاد

عرفیؔ و انوریؔ کا مگر ہم نبرد تھا

اس قافلہ میں آ کے ملا گو وہ سب کے بعد

اگلوں کے ساتھ ساتھ مگر رہ نورد تھا

ہم اور صبح و شام یہ اندوہ جانگزا

دل تھا کہ فکر سال میں بے صرفہ گرد تھا

ناگاہ دی یہ غالبؔ مرحوم نے صدا

(سچ ہے کہ خواجہ راہنمائی میں فرد تھا)

’’تاریخ‘‘ ہم نکال چکے پڑھ ’’بغیر فکر‘‘

’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘ (۹)

میر مہدی مجروحؔ کا قطعہ تاریخ مندرجہ ذیل ہے:

قطعہ تاریخ انتقال غالب

کل حسرت و افسوس میں میں با دلِ محزوں

تھا تربت استاد پہ بیٹھا ہوا غمناک

دیکھا جو مجھے فکر میں تاریخ کی مجروحؔ

ہاتف نے کہا گنج معانی ہے تہ خاک

۱۲۸۵ھ (۱۰)

گوہر نوشاہی نے ’’اکمل الاخبار‘‘ کے حوالے سے مجروحؔ کا قطعہ یوں درج کیا ہے:

کل مرقد استاد پہ افراط الم میں

ہاتف نے جو بیٹھے ہوئے دیکھا غم ناک مجھے

بولا ہے اگر فکر میں تاریخ کی مجروحؔ

کہہ دے نا یہی گنج معانی ہے تہ خاک (۱۱)

کتابت کی غلطی سے دوسرا مصرع خراب ہو گیا ہے غم ناک مجھے کی جگہ مجھے غم ناک ہونا چاہیے۔ اس لیے عرشؔ ملسیانی کی ’’فیضانِ غالب‘‘ میں منقول قطعہ درست ہے۔ ’’دے نا‘‘ بھی ہو سکتا ہے دینا ہو اور کمپوزر کی غلطی سے ’’دے‘‘ اور ’’نا‘‘ الگ الگ لکھا گیا ہو۔ گوہرؔ نوشاہی نے مجروحؔ کا ایک اور قطعہ بھی نقل کیا ہے:

احباء غالبؔ معجز بیان کی

غنیمت جانتے تھے زندگانی

اجل نے پر نہ چھوڑا ہائے سچ ہے

نہیں ٹلتی قضائے آسمانی

سنی مجروحؔ نے جب ان کی رحلت

کہی تاریخ خورشید معانی

۱۲۸۵ھ (۱۲)

میرے خیال میں یہاں بھی کتابت کی غلطی نے رنگ دکھائے ہیں۔ معجز بیان کی جگہ معجز بیاں درست ہے۔ حالیؔ نے ’’یادگار غالب‘‘ میں صرف اپنے، مجروحؔ اور سالکؔ کے قطعات یا مرثیوں کا بالخصوص ذکر کیا ہے۔ باقی احباب کے نام نہیں بتائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تین شعرا کے علاوہ بھی بہت سے شعرا نے ان کی وفات پر قطعہ ہائے تاریخ کہے۔ حالیؔ کے اتباع میں ڈاکٹر محمد ایوب قادری نے بھی لکھا ہے کہ:

’’مرزا غالبؔ کے انتقال پر شعری و ادبی حلقوں میں خاصا ماتم برپا رہا۔ شاعروں اور ادیبوں نے ان کے انتقال پر قطعات تاریخ اور مرثیے لکھے۔ ‘‘ (۱۳)

ڈاکٹر محمد ایوب قادری نے اپنی کتاب ’’غالب اور عصرِ غالب‘‘ میں چند دیگر شعرائے کرام کے مندرجہ ذیل قطعات تاریخ بھی نقل کیے ہیں:

تاریخ وفات مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب دہلوی۔ منشی فضل حسین برشتہ

وحید زماں تھا جو دہلی میں غالبؔ

وہ معنی سرا اٹھ گیا ہائے ویلا

برشتہؔ  لکھو بہر تاریخ مصرع

 سخن کا مزہ اٹھ گیا ہائے ویلا (۱۴)

اس مصرع سے ۱۲۸۳ ھ برآمد ہوتا ہے۔ اگر ہائے کو وائے سے بدل دیں تو ۱۲۸۵ ہو جاتے ہیں۔

تاریخ وفات مرزا اسد اللہ خاں صاحب غالب دہلوی۔ منشی فضل حسین برشتہ

اٹھا دنیا سے کیا مرزائے غالب

جہاں سے اٹھ گئی شیریں بیانی

برشتہؔ نے لکھی تاریخ رحلت

موا ہے سعدی شیراز ثانی

۱۲۸۵ ھ (۱۵)

قطعات تاریخ وفات نواب اسد اللہ خاں غالب دہلوی

از منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

تھا شاعر نامی یہی اب دنیا میں

افسوس یہ ہے کہ مر گیا غالبؔ  بھی

ہے سحرؔ  یہ مصرع مرے لب پر جاری

دنیا سے آج چل بسا غالبؔ بھی

۱۲۸۵ھ

مر گیا غالبؔ  جو لاثانی تھا شاعر ہند میں

لے گیا دنیائے دوں سے حسرتیں کیا کیا دریغ

فکر میں ا ے سحرؔ  میں بیٹھا ہوا تھا نا گہاں

یہ ندا آئی فلک سے وائے واویلا دریغ

۱۲۸۵ ھ (۱۶)

تاریخ وفات مرزا اسد اللہ خاں غالب از سید آل مارہروی

جناب میرزا نوشہ صد افسوس

ہوئے دار فنا سے رہگرا آج

لکھ اے آل محمدؔ سال منقوط

کہ رشک حافظؔ و طالبؔ مرا آج

۱۲۸۵ ھ (۱۷)

غالبؔ کے عہد میں چھپنے والے اردو اخبارات کے فائل تلاش کر کے کھنگالے جائیں تو وہ سارا کلام ایک جگہ جمع ہو سکتا ہے جو غالبؔ کی وفات کے بعد ان اخبارات میں شائع ہوتا رہا۔ غالبؔ پر تحقیق کرنے والوں نے ابھی اس گوشے کی طرف دھیان نہیں دیا۔ بہت سا کلام ابھی تک منصہ شہود پر نہیں آیا اور جو کچھ موجود ہے وہ منتشر و نامکمل ہے۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی کو ’’اکمل الاخبار‘‘ کی نامکمل فائل دستیاب ہوئی، انہوں نے اخبار سے قطعات تاریخ الگ کر کے اسد اللہ خان غالبؔ مرد کے نام سے ایک مضمون لکھا جو ان کی کتاب ’’ مطالعہ غالب‘‘ میں شامل ہے۔ اس مضمون سے ہمیں غالبؔ کے بہت سے شاگردوں کے قطعات تاریخ دستیاب ہوتے ہیں جو ان کی وفات کے بعد ’’اکمل الاخبار‘‘ میں شائع ہوئے تھے۔ مجروحؔ نے مندرجہ ذیل قطعات کہے:

غالبؔ وہ خضر وادی علم سخن وری

تھا جس کا نقش پا رہ معنی میں اک دلیل

اچھا ہوا کہ پہلے سے عرفی گزر گیا

ہوتا جو ان کے سامنے رہتا بہت ذلیل

کیا جلد رہگزار عدم ان کو کر دیا

اس چرخ سخت گیر نے ذرہ بھی کی نہ ڈھیل

مجروحؔ خستہ حال نے ان کی وفات کی

تاریخ لکھی شاعر بے مثل و بے عدیل

۱۲۸۵ھ (۱۸)

وہ غالبؔ دانا دل، وہ پر ہنر کامل

دنیا میں نہیں اب تک جس کا کوئی ثانی ہے

ناگاہ وہ دنیا سے جنت کو ہوئے راہی

اس کوہ غم و ہم سے کیا دل پہ گرانی ہے

کل شب کو نہ میں سویا تاریخ کے بے نکلے

افسوس ہوا فانی خلاق معانی ہے

۱۲۸۵ھ

یکتا ہے جہاں خدیو معنی و بیان

وہ غالبؔ نیک خوئے و خورشید نظر

ذیقعد کی دوسری تھی اور پیر کا دن

ناگاہ کیا انہوں نے دُنیا سے سفر

بے پا و سر آہ ان کے مرنے سے ہوئے

فضل و شرف و فہم و خرد، علم و ہنر

۱۲۸۵ھ (۱۹)

غالبؔ وہ شخص تھا ہمہ داں، جس کے فیض سے

ہم سے ہزار ہیچ مداں نامور ہوئے

فضل و کمال و صدق و صفا اور حسن و عشق

چھ لفظ اس کے مرتے ہی بے پا و سر ہوئے

۱۲۸۵ھ (۲۰)

نوحہ سرای نکتہ رس سخن پرور معانی یاب بذلہ گستر میرزا قربان علی بیگ خاں صاحب المتخلص بہ سالکؔ

اسد اللہ خاں بہادر کا

بھر گیا کیوں حیات کا ساغر

اس ضعیفی و ناتوانی میں

کیوں عدم کی طرف کیا ہے سفر

حیف اے آسمان نا ہنجار

وائے اے روزگار کیں پرور

ہائے وہ تاجدار ملک سخن

ہائے وہ اوستاد اہل ہنر

ان کے غم میں ہوا ہے ماتم عام

پھر نہ کیونکر سیاہ ہو دفتر

گم رہان رہ معانی کا

آج معدوم ہو گیا ہے خضر

پاؤں رکھنا سنبھال کر سالکؔ

اب طریق سخن ہے بے رہبر

کس کو اہل زمانہ جانیں گے

بہترین زمانہ سے بہتر

ان کے اوصاف کیا رقم ہوں، کہ ہیں

میری حد بیان سے باہر

فکر ان کی گئی ہے واں کہ جہاں

طائر سدرہ کا رکے شہپر

ان کے اندیشہ کی بلندی سے

قصر معنی ہے آسماں منظر

نثر دیکھو تو معدن معنی

نظم دیکھو تو رشک عقد گہر

ان کے اجمال سے عیاں توضیح

ان کے انداز میں ادا مضمر

ہائے وہ لطف یاد آتے ہیں

جن میں ہوتی ہے کاوش نشتر

ہوں نہ اس غم میں جس کے سو ٹکڑے

میرے سینے میں ہے کہاں وہ جگر

کور ہو جائے بس ابھی یا رَبّ

گر نہ دریا بہائے دیدہ تر

مجھ کو سودا نہیں کہ اس غم میں

در و دیوار سے نہ پھوڑوں سر

مجھ سے کیا پوچھتے ہو سال وفات

ہوش کب ہیں بجا کہ ہوں مضطر

دیکھ لو رنج و حسرت دوری

دل نومید پر ہجوم آور

۱۲۸۵ھ (۲۱)

نالہ حزن انگیز و فغان محن خیز شاعر یکتا، ناثر بے ہمتا، سخن سنج گرامی گوہر نکتہ پرداز، والا نظر، رشک افزائے صائب و غیرت فرمائے عالی مولوی الطاف حسین صاحب المتخلص بہ حالیؔ تلمیذ رشید مولانا غالبؔ غفر اللہ لہ

غالبؔ نے جبکہ روضہ رضواں کی راہ لی

ہر لب پہ آہ سرد تھی ہر دل میں درد تھا

اس دن کچھ اہل شہر کی افسردگی نہ پوچھ

عاشق کا دل بھی یار سے اس غم میں سرد تھا

حالیؔ کہ جس کو دعوی تمکین و ضبط ہے

دیکھا تو دل پہ ہاتھ تھا اور رنگ زرد تھا

تھا گر اک سخن ور ہندوستاں نژاد

عرفیؔ و انوریؔ کا مگر ہم نبرد تھا

اس قافلے میں آ کے ملا گو وہ سب کے بعد

اگلوں کے ساتھ ساتھ مگر رہ نورد تھا

میں اور صبح و شام بہ اندوہ جاں گداز

دل تھا کہ فکر سال میں بے صرفہ گرد تھا

ناگاہ دی یہ غالبؔ مرحوم نے صدا

سچ ہے کہ خواجہ راہ نمائی میں فرد تھا

تاریخ ہم نکال چکے پڑھ بغیر فکر

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

۱۲۸۵ھ (۲۲)

نوحہ سرائی سراپا ملال بہاری لال المتخلص بہ مشتاقؔ

جس کو کہتے تھے غالبؔ آج وہ رنگیں کلام

چھوڑ کر دنیا کو سوئے عالم بالا گیا

یہ خبر سن کر مرے دل پر جو گزری کچھ نہ پوچھ

جان لب پر آ گئی سینے میں دم گھبرا گیا

روز روشن بھی مری آنکھوں کے آ گے تھا سیاہ

رات گو یا ہو گئی ایسا اندھیرا چھا گیا

آسماں سے یہ کہا میں نے کہ اے بیداد گر

سچ بتا اس واقعہ سے کیا ترے ہاتھ آ گیا

ساتھ اس کے اوٹھ گئے فضل و ہنر، علم و کمال

تا نہ یہ جانے کوئی دنیا سے وہ تنہا گیا

پھر دعا کی یہ کہ اس کو بخشیو پروردگار

لفظ آمیں ساتھ ہی روح الامیں کہتا گیا

از سر الطاف روح القدس نے سال مسیح

یوں کہا مشتاقؔ سے بخشا گیا، بخشا گیا

۱۲۸۵ھ (۲۳)

 نالہ ماتم انگیز عزیز مصر سخن دانی سراج الشعراء، سلطان الذاکرین یوسف علی خاں صاحب المتخلص بہ عزیزؔؔ

جو میرزا اسد اللہ خان غالبؔ  نے

قیام عالم فانی سے انفراغ کیا

جہاں میں باد خزاں نے شگوفہ غم سے

اجاڑ ملک سخن کا تمام باغ کیا

عزیز فکر تاریخ جب ہوئی مجھ کو

نکالا مادہ نغز اور گل چراغ کیا

۱۲۸۵ھ (۲۴)

کی فوت میرزا اسد اللہ خاں نے جب

خالی ہوا شراب خوشی سے ایاغ ہند

ہیہات باد دے نے ستم کر دیا بپا

تاریک کی جہاں میں شبستان باغ ہند

مجھ کو جو فکر سال عزیزؔ حزیں ہوئی

فوراً کیا بیان، بجھایا چراغ ہند

۱۲۸۵ ھ (۲۵)

جو میرزا اسد اللہ خاں تمام ہوئے

شروع جان حزیں کو مری ہوئی کاہش

عزیز فکر تاریخ کی رہی رو سے

بیان جو کیے ہم غم فسردگی رنجش

۱۲۸۵ھ (۲۶)

مویہ سرائی نو آئین نوا ناظم بے ہمتا، ناثر یکتا، بذلہ سنج بے مثال نکتہ پرور رنگین خیال، واقف اسرار خفی و جلی، اموجان ولیؔ شاگرد مولانا غالبؔ مغفور

کس سخن ور کے غم مرگ سے ہیں دل خستہ

نیرؔ  و سالکؔ و مجروحؔ و ولیؔ و حالیؔ

کس کے تابوت کے ہیں سا تھ رواں و نالاں

روح سعدیؔ  و نظامیؔ و کلیمؔ و عرفیؔ

کس کا ماتم ہے کہ مضمونؔ  ہوا آشفتہؔ

کس کا افسوس ہے جو علم کو ہے خاموشی

مرگ غالبؔ ہے کہ تاریخ یہ سب کہتے ہیں

آج عالم سے گیا حیف ملاذ معنی

۱۲۸۵ ھ (۲۷)

غالبؔ  ملجائے معنی و سخن

ہو گئے اب راہی ملک بقا

علم کی کیسی ہوئی مٹی خراب

ان کا مرنا اس کا رونا ہو گیا

جان تھے وہ علم ہے ایک کالبد

جب وہی رخصت ہوئے یہ کیا رہا

نو عروسان مضامین بلند

بیوگی پر اپنی ہیں نوحہ سرا

واں بلایا ہے دبیر الملک کو

کہ دبیر چرخ کی خالی تھی جا

رحلت حضرت کا غم یاں ہی نہیں

شہر خاموشاں میں بھی ماتم ہوا

تہلکا سے پڑ گیا ارواح میں

شور جب خاک نظیریؔ سے اٹھا

تخرجہ ہے شور کا یوں ہی تو، لو

سال رحلت ہم نے اس کا لکھ دیا

(۲۸)

نالہ حزن انگیز و مویہ درد آمیز منشی میاں داد خان صاحب المتخلص بہ سیاحؔ شاگرد مولانا غالبؔ مرحوم

قہر ہے رحلت دبیر الملک

سال لکھنے کا کون طالب ہے

یاں نہیں ہے سر حلاوت زیست

کوئی کہ دو کہ مرگ غالبؔ ہے

۱۲۸۵ھ (۲۹)

نوحہ طرازی خامہ احمد حسین خاں صاحب طرز شاگرد رشید  میرزا قربان علی بیگ خاں صاحب سالکؔ

جبکہ تنہا سوئے اقلیم عدم

اپنی جاں سے گئے غالب ہے ہے

طرز نے رو کے کہا یوں پئے سال

بس جہاں سے گئے غالبؔ ہے ہے

۱۲۸۵ھ (۳۰)

نوائے اندوہ افزا و صدائے جاں گزائے قلم عطارد رقم منشی وزیر سنگھ صاحب مدرس انگریزی مدرسہ سرکاری شاگرد رشید مرزا قربان علی بیگ خان صاحب سالکؔؔ

مرگ نجم الدولہ افسانہ ہوا

ہائے وہ عالی نسب والا صفات

ثانی غالبؔ نظر آتا نہیں

رنج غالبؔ  کیوں نہ ہو سال وفات

۱۲۸۵ھ (۳۱)

 اشک باری کلک گوہر سلک ماسٹر وزیر سنگھ صاحب  مدرس انگریزی مدرسہ سرکاری

اسد اللہ خان کے واقعہ سے

عیسوی سن کا میں ہوا طالب

لکھا راقم نے از سر زاری

سوئے جنت رواں ہوئے غالبؔ

۱۸۶۹ء (۳۲)

قطعات تاریخ وفات نواب اسد اللہ خان غالبؔ من نتائج افکار کرامت علی صاحب انصاری پانی پتی

(۸ قطعات تاریخ میں سے ایک اردو میں ہے )

 

ولہ تخرجہ مصرع اول از مصرع ثانی مرزا صاحب مرحوم

 

سانحہ دہر میں کچھ آج ہوا کہتے ہیں

کیوں دلا تجھ کو خبر ہے کہ یہ کیا کہتے ہیں

عسجدیؔ و اسدیؔ، عنصریؔ و فردوسیؔ

اس زمانے کا تھا جو آج موا کہتے ہیں

نکتہ دان سخن انوریؔ و خاقانیؔ

آج رخصت ہوا سب اہل صفا کہتے ہیں

آج سے بند زمانے میں ہوا باب سخن

ہند میں کوئی سخن ور نہ رہا کہتے ہیں

کس کو پالا کہ کیا اس کو نہ پیوند زمیں

سچ ہے گیتی کو جو بے مہر و وفا کہتے ہیں

سر بزانو ہے ہر اک اہل خرد دنیا میں

خسر و ملک سخن فوت ہوا کہتے ہیں

ہے ہر اک شخص کو تاریخ کے لکھنے کا خیال

اس میں کہتے ہیں جو شاعر وہ بجا کہتے ہیں

مثل غالبؔ کہ کہاں ہوئے گا شاعر پیدا

ایسا پیدا کوئی ہو گا نہ ہوا کہتے ہیں

مرثیہ لکھا ہے حالیؔ نے اسی حال میں جب

اکمل الطبع دہلی میں چھپا کہتے ہیں

فکر تاریخ کرامتؔ  کو ہوا ہے سن کر

اسی تاریخ میں ایک قطعہ لکھا کہتے ہیں

واقعی خوب ہے مصرع سے نکالا مصرع

طبع موزوں اسے اور فکر رسا کہتے ہیں

حسرت و درد و الم، رنج و ملال دل جو

۱۳۶۴

مر گیا غالب آشفتہ نوا کہتے ہیں

۲۶۴۷ (۳۳)

قطعہ تاریخ وفات مرزا اسداللہ خان  ریختہ کلک مولوی عبد الغفور خان صاحب نساخؔ  ڈپٹی مجسٹریٹ و ڈپٹی کلکٹر ضلع ساربان

کی جو رحلت میرزا نوشہ نے ہائے

دوستوں کو کیا کہوں کیا غم ہوا

مصرع تاریخ لکھا کلکؔ نے

آہ ہے ہے میرزا نے کی قضا

۱۲۸۵ ھ (۳۴)

مالک رام نے ’’ تلامذہ غالب‘‘ میں نہ صرف غالب کے شاگردوں کا تعارف کروایا بلکہ ان کا نمونہ کلام بھی قارئین کے لیے پیش کیا۔ ان نمونہ ہائے کلام میں کچھ کلام غالب کے بارے میں بھی ہے۔ ذکا کے مندرجہ ذیل اشعار شامل ہیں:

میرے استاد معنوی غالبؔ

جن کا ہر لفظ معنی اعجاز

وحدہٗ لا شریک لہٗ کی قسم

تھے وہ فن سخن میں بے انباز

ایسی قسمت کہاں جو میں کرتا

پردہ چشم صرف پا انداز

ہاں سنا ہے کہ ان کے تھے کردار

جیسے گفتار حافظؔ  شیراز

کیا عجب ہے جو حرمت مے سے

بخش بھی دے کریم نکتہ نواز

ہند کا انوریؔ و سعدیؔ تھا

متفق اس پہ ہیں سخن پرداز

خود ہی فرما گیا ہے یہ مقطع

پیش بینی کا دیکھنا انداز

’’اسد اللہ خاں تمام ہوا

وا دریغا وہ رند شاہد باز‘‘

پہلے مصرع سے تا بآخر شعر

سال تاریخ کا ہے جلوہ طراز

غیب دانی صفت خدا کی ہے

اک عدد کی کمی میں تھا یہ راز

(۳۵)

’’تلامذہ غالب‘‘ میں بے صبرؔ کے مندرجہ ذیل قطعات بھی شامل ہیں۔

اسد اللہ خاں وہ غالبؔ  آہ

جس سے اہل کمال تھے مغلوب

جب سدھارے بسوئے خلد ہوئے

سخن ان کے الم میں سینہ کوب

اس سپہر سخن کے اختر کا

مجھ کو سال غروب تھا مطلوب

کہا عیسیٰ نے از سر حسرت

 ’’ہوا حیف آفتاب ہند غروب‘‘

(۳۶)

ضیا الدین انصاری نے ’’تفتہؔ اور غالب‘‘ ؔ میں تفتہؔ کا مندرجہ ذیل قطعہ تاریخ دیا ہے۔

غالبؔ  وہ شخص تھا ہمہ داں جس کے فیض سے

ہم سے ہزار ہیچ مداں نامور ہوئے

فیض و کمال، صدق و صفا اور حسن و عشق

چھ لفظ اس کے مرنے سے بے پا و سر ہوئے

 

(۳۷)

عرشؔ ملسیانی نے ’’ فیضان غالبؔ‘‘ میں مندرجہ ذیل قطعہ ہائے تاریخ درج کیے ہیں:

تاریخ وفات حضرت استاذ نا نجم الملک، دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں بہادر جنگ نظام جنگ

مراد حشر کیا دہلی کا خطہ تھا   ۱۸۶۹ء

فلک ٹوٹا یہ مجھ پر آہ نا گاہ  ۱۲۸۵ھ

مرے استاد عالی جاہ غالبؔ  ۱۸۶۹ء

دوم ذی القعد کو اب مر گئے آہ   ۱۲۸۵ھ

خدا جو و خدا یاب و خدا باز   ۱۸۶۹ء

فلک تمکیں فلک عصر و فلک جاہ   ۱۲۸۵ھ

خدا میں مل گیا شبلی خالص   ۱۸۶۹ء

خدا سے جا ملا شمس حق آگاہ   ۱۲۸۵ھ

جہانگیر سخن ملک سخن سے   ۱۸۶۹ء

ہوئے رضواں مآب الحکم للہ  ۱۲۸۵ھ

بنا تخت رواں بس کیا جنازہ   ۱۸۶۹ء

چلا دربار کو کس شاں سے وہ شاہ   ۱۲۸۵ھ

کیا امر سفر بے میرے ہے ظلم  ۱۸۶۹ء

لیا افسوس خادم کو نہ ہمراہ    ۱۲۸۵ھ

لحد ہے حسن آغوش عروساں   ۱۸۶۹ء

رواں بھی میرزا نوشہ کے نوشاہ   ۱۲۸۵ھ

ہے اول چرخ وصف وسعت قبر  ۱۸۶۹ء

کفن تو چاندنی وہ مستند ماہ   ۱۲۸۵ھ

کمر کیسے جھکی اس فکر غم سے   ۱۸۶۹ء

گرا ہے پشت دل پر کوہ جانکاہ  ۱۲۸۵ھ

ہو نازل آفت جاں وائے دریغا   ۱۸۶۹ء

غم دل ہے بلا صد وائے و للہ   ۱۲۸۵ھ

اگر ہو آب چشم غم رواں ہائے   ۱۸۶۹ء

ہے وہ نخل ماتم جو کہ ہو آہ   ۱۲۸۵ھ

یہ اشک چشم و داغ دل ملے ہیں   ۱۸۶۹ء

کروں کیا میں شمار اے میرے اللہ   ۱۲۸۵ھ

کہیں یہ تین تاریخیں جو بے حد  ۱۸۶۹ء

گئے غالب بھی ان کی ہے کسے چاہ   ۱۲۸۵ھ

اسی ہستی سے انس آخر کو ہے قدرؔ   ۱۸۶۹ء

ہے ساز مرگ پیش اب قصہ کوتاہ   ۱۲۸۵ھ

(۳۸)

یہ قطعہ قدرؔ بلگرامی نے لکھا ہے اور اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر شعر کے ہر دو مصارع سے غالب کی تاریخ وفات نکلتی ہے۔ مصرع اولی سے عیسوی سن وفات اور مصرع ثانی سے ہجری سن وفات۔

سہ ماہی اردو کے ایک شمارے میں بشیر نامی ایک شاعر کا ذکر ہے۔ بشیرؔ نے غالبؔ کی وفات پر نو قطعات لکھے تھے جو اس کے مجموعے میں ہیں۔

مرگ غالبؔ سے سوئے ملک عدم

ہو گیا ہے عزم بالجزم سخن

ہے یہی تاریخ اس اندھیر کی

گل ہوئی ہے مشعل بزم سخن

۱۲۸۵ھ

غالبؔ شہ اقلیم سخن مر گئے افسوس

صد حیف کہ بے سر ہوا اب لشکر معنی

تاریخ بشیرؔ ان کی کہی یہ مرے دل نے

 ’’ہے ہے مرا افسوس شہ کشور معنی‘‘

۱۲۸۵ھ

اٹھا ساقی بزم معنی یارا کہ لب کیجئے وا

صراحی کو دیکھا گلا گھونٹتے

اور اک شور قلقل کے نالوں سے تھا

چنے تھے جو طاقوں میں شیشے تمام

سیہ فام رنگ ان کا ظاہر ہوا

پہن کر لباس عزا جس طرح

کسی کا کوئی ماتمی ہو بنا

مثال مے سرخ خون جگر

ہر اک جام کے دیدہ تر میں تھا

خزاں میں گل ورد کا ہو جو حال

گلابی کو اس طور دیکھا کیا

نظر کی جو پیمانے کی سمت کو

تو آنکھوں کو اس نے دیا ڈبڈبا

جو تھے اپنے مشرب کے احباب انہیں

خبر سر کی نے ہوش تھا پاؤں کا

جدھر دیکھتا تھا میں بھر کے نظر

کسے ہوش تھا لوٹنے کے سوا

ادھر اور ادھر کی جو میں نے نگاہ

کہ تا مجھ کو معلوم ہو مدعا

(حاشیے پر بشیر نے ماجرا لکھا ہے )

تو ساقی پری چہرہ و حور وش

مجھے ایک جانب نظر آ گیا

یہ جی چاہا ا س سے ہی کچھ پوچھئے

کہ ان مے پرستوں کو کیا ہو گیا

وہ اس درجہ بے ہوش تھا مطلقاً

کہ اپنی خودی کا نہ کچھ ہوش تھا

اٹھا شیشہ راوق کا بھر جام کو

وہاں آپ میں اپنا ساقی بنا

یہ کیا حال ہے اس شش و پنج میں

مئے یاس کا ایک ساغر پیا

تو کیفیت اصلا نہ حاصل ہوئی

میں بے نشہ جیسا تھا ویسا رہا

گزک کی جگہ لخت دل بھون کر

غرض حرص کے منہ کو جھلسا دیا

(حاشیے پر بشیر نے دونوں جگہ عوض لکھا ہے )

سرور آیا جب کچھ نہ تو ہر طرف

سراسیمہ سا میں ٹہلنے لگا

جو یاران بزم خرابات تھے

ادھر سے ادھر تک انہیں گن گیا

سبھی یار و احباب آئے نظر

نہ میرزا نوشہ اہل صفا

زبس ان کی مجھ کو رہی جستجو

ولیکن ملا کچھ نہ ان کا پتا

غم و یاس و حسرت کے ہمراہ میں

مکان مقدس پہ ان کے گیا

وہاں جا کے پوچھا تو اک شخص نے

بصد نالہ و آہ مجھ سے کہا

کہ وہ آج مے خانہ دہر سے

گئے جام کوثر کا چکھنے مزا

یہ سن کر میں رونے لگا زار زار

بس از نالہ و یاس و آہ و بکا

جو تھی مجھ کو تاریخ کی جستجو

تو اس فکر میں سر بہ زانو ہوا

ارم سے ملک آیا اک نا گہاں

کہ تھا ان کی جانب سے بھیجا ہوا

کہا کہ تفکر میں ہے اے بشیرؔ

 ’’پیا آج غالب نے جام فنا‘‘ (۴۰)

ان دستیاب قطعات کے علاوہ بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ بہت سے قطعات تاریخ موجود ہوں گے۔ جن کی تلاش ضروری ہے۔ دستیاب قطعات میں بھی بہت سے اغلاط در آئے ہیں اور ایک ہی شاعر کا کلام مختلف مقامات پر مختلف قرات کے ساتھ موجود ہے۔ لازم ہے کہ غالب شناس اس امر کی طرف توجہ دیں۔ اور غالب کے تمام قطعات تاریخ کو تلاش کر کے ان کو درست متن کے ساتھ پیش کیا جائے۔

 

حواشی:

۱۔     الطاف حسین حالیؔ خواجہ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔ ص۸۸

۲۔     الطاف حسین حالیؔ خواجہ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔ ص۸۸

۳۔     الطاف حسین حالیؔ خواجہ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔ ص۸۹

۴۔     اشفاق احمد و رک۔ مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کا خود نوشت خاکہ مشمولہ سہ ماہی کہکشاں راولپنڈی۔

مدیر اعلیٰ محمد بشیر رانجھاؔ۔ شمارہ اپریل جون ۲۰۱۴ء۔ ص۳۷

۵۔     عرشؔ ملسیانی۔ فیضان غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۷۷ء۔ ص۹۹

۶۔     الطاف حسین حالیؔ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔ ص۹۰

۷۔      قربان علی بیگ سالکؔ۔ کلیات سالکؔ۔ م۔ کلب علی خاں فائقؔ۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔

۱۹۶۶ء۔ ص۶۵۸

۸۔     قربان علی بیگ سالکؔ۔ کلیات سالکؔ۔ م۔ کلب علی خاں فائقؔ۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔

۱۹۶۶ء۔ ص۶۶۱

۹۔      الطاف حسین حالیؔ۔ دیوان حالیؔ ۔ خزینہ علم و ادب لاہور۔ ۲۰۰۱ء۔ ص۵۵۵

۱۰۔    عرش ملسیانی۔ فیضان غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۷۷ء۔ ص۲۶۲

۱۱۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۸۷

۱۲۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۸۸

۱۳۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان۔ کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۳۵

۱۴۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۳۹

۱۵۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۴۰

۱۶۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۴۱

۱۷۔    محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔ ص۲۴۳

۱۸۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۸۸

۱۹۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۸۹

۲۰۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۴

۲۱۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۴

۲۲۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۶

۲۳۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۷

۲۴۔    گہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۷

۲۵۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۷

۲۶۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۸

۲۷۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۸

۲۸۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۸

۲۹۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۹۹

۳۰۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۰

۳۱۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۱

۳۲۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالب۔ ؔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۲

۳۳۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۳

۳۴۔    گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔ ص۱۰۴

۳۵۔    مالک رام۔ تلامذہ غالبؔ۔ مکتبہ جامعہ۔ دہلی۔ ۱۹۸۴ء۔ ص۱۸۳

۳۶۔    مالک رام۔ تلامذہ غالبؔ۔ مکتبہ جامعہ دہلی۔ ۱۹۸۴ء۔ ص ۱۰۲

۳۷۔    ضیا الدین انصاری (ڈاکٹر، محمد)۔ تفتہ اور غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۸۳ء۔ ص۴۴

۳۸۔    عرشؔ ملسیانی۔ فیضان غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۷۷ء۔ ص۲۵۷

۳۹۔    سہ ماہی اردو۔ (جمیل الدین عالی۔ مشفق خواجہ )جلد ۴۵۔ شمارہ ۱۰۔ انجمن ترقی اردو بابائے اردو روڈ ، کراچی ۱۔ ۱۹۶۹ء۔ ص۲۳۰

۴۰۔    سہ ماہی اردو۔ (جمیل الدین عالی۔ مشفق خواجہ )جلد ۴۵۔ شمارہ ۱۰۔ انجمن ترقی اردو بابائے اردو روڈ  کراچی ۱۔ ۱۹۶۹ء۔ ص۲۳۱

 

کتب استفادہ

۱۔     الطاف حسین حالیؔ خواجہ۔ یادگار غالبؔ۔ عبداللہ اکیڈمی لاہور۔ ۲۰۰۹ء۔

۲۔     عرشؔ ملسیانی۔ فیضان غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۷۷ء۔

۳۔    قربان علی بیگ سالکؔ۔ کلیات سالکؔ۔ م۔ کلب علی خاں فائقؔ۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔ ۱۹۶۶ء۔

۴۔     گوہر نوشاہی۔ مطالعہ غالبؔ۔ مکتبہ عالیہ لاہور۔ ۱۹۹۱ء۔

۵۔     محمد ایوب قادری ڈاکٹر۔ غالبؔ اور عصر غالبؔ۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان کراچی۔ ۱۹۸۲ء۔

۶۔     مالک رام۔ تلامذہ غالبؔ۔ مکتبہ جامعہ دہلی۔ ۱۹۸۴ء۔

۷۔     ضیا الدین انصاری (ڈاکٹر، محمد)۔ تفتہؔ اور غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۸۳ء

 

رسائل

سہ ماہی اردو۔ (جمیل الدین عالی۔ مشفق خواجہ )جلد ۴۵۔ شمارہ ۱۰۔ انجمن ترقی اردو بابائے اردو روڈ کراچی ۱۔ ۱۹۶۹ء

سہ ماہی کہکشاں راولپنڈی۔ مدیر اعلیٰ محمد بشیر رانجھا۔ شمارہ اپریل جون ۲۰۱۴ء

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

۶۔     مالک رام۔ تلامذہ غالبؔ۔ مکتبہ جامعہ دہلی۔ ۱۹۸۴ء۔

۷۔     ضیا الدین انصاری (ڈاکٹر، محمد)۔ تفتہؔ اور غالبؔ۔ غالبؔ اکیڈمی نئی دہلی۔ ۱۹۸۳ء

 

رسائل

سہ ماہی اردو۔ (جمیل الدین عالی۔ مشفق خواجہ )جلد ۴۵۔ شمارہ ۱۰۔ انجمن ترقی اردو بابائے اردو روڈ کراچی ۱۔ ۱۹۶۹ء

سہ ماہی کہکشاں راولپنڈی۔ مدیر اعلیٰ محمد بشیر رانجھا۔ شمارہ اپریل جون ۲۰۱۴ء

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں