FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

استعارے کا بھید

               معید رشیدی

استعارہ کیا ہے اور ادبی اظہار کے لیے کیوں ضروری ہے؟اس سوال سے قبل یہ پوچھنا چاہیے کہ زبان کیا ہے، اور یہ ہماری اساسی ضرورت کیوں ہے؟اس کا معاشرتی تفاعل کیا ہے؟کیا زبان محض اصوات کا نام ہے؟اگر نہیں تو کیوں؟لفظ اور معنی میں کیا رشتہ ہے؟لسانی نظام کی تشکیل، ترتیب اور ارتقا سے پہلے ترسیل کے مختلف عوامل کیا تھے؟جذبات کیا ہیں؟احساسات کیا ہیں؟ادراکِ معنی کے پیمانے کیا ہیں؟ادراک، تصور اور تخیل میں فرق کیا ہے؟معنی کے منابع تک رسائی ممکن ہے یا نہیں؟معنی آفرینی اور معنی خیزی۔ ۔ ۔ چہ معنی دارد؟

مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

بات تو محض ایک استعارے کی تھی۔ اتنے سوالات کیوں کر پیدا ہو گئے؟اس کا مطلب استعارہ کوئی معمولی شے نہیں۔ اچھا، زندگی کیا ہے؟زندگی کے بارے میں شاعروں کے بہت سے اشعار اور فلسفیوں کے اقوال ہیں۔ بڑے بڑے مفکرین اس کا سراغ لگانے میں رہ گئے۔ نہ جا نے کتنے ذہین ترین دماغ توازن کھو بیٹھے۔ کوئی چھور نہیں ملا۔ جواب تو ایک جملے میں ہے:

زندگی کیا ہے؟

زندگی ایک استعارہ ہے۔

روشنی کیا ہے؟تاریکی کیا ہے؟سچ کیا ہے؟جھوٹ کیا ہے؟آگ، ہوا، پانی، مٹی۔ ۔ ۔ یہ سب استعارے ہیں۔ ’’ابتدا میں لفظ تھا، اور لفظ ہی خدا ہے۔ ‘‘یعنی’ لفظ‘ بھی استعارہ ہے۔ [۔ ۔ ۔ ’’شاید لفظ ناستک نہیں ہوتے۔ ۔ ۔ ہاں شاید۔ ۔ ۔ لیکن بھیڑیے، اس کی پوترتا کو نوچ کر کیسے خوش ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (1)]تو کیا استعارے سے نجات ممکن نہیں۔ کچھ لوگوں کا تو دعویٰ ہے کہ استعارے کی موت ہو چکی ہے۔ بیانیہ کی واپسی ہو گئی ہے۔ تجریدی شاعری اور کہانیوں کا زمانہ اب ختم ہوا۔ وہ ساٹھ اور اس کے بعد کی دہائی تھی۔ یہ اَسی (80ء)کے بعد کا ادب ہے۔ اول تو یہ میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ تجرید سے اتنی چڑ کیوں ؟علامت سے خوف کیسا ؟استعارے کا نام سنتے ہی جی بیٹھنے کیوں لگتا ہے؟استعارہ کوئی بھوت یا سایۂ مکروہ تو نہیں؟میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ بیانیہ گُم کب ہوا تھا، اور استعارے کی موت ہو چکی ہے، تو ہم زندہ کیوں ہیں۔ ۔ ۔ ؟میں اس دن سے خوف زدہ ہوں، جب انسان سے اس کی سوچنے کی صلاحیت بھی چھین لی جائے گی۔ کسی جماعت کا فکری نظام وائرس زدہ ہو جائے گا۔ کسی فرد کی قوتِ فکر ہائی جیک کر لی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو استعارہ ہمیشہ کے لیے موت کی آغوش میں خاموش ہو جائے گا۔ استعارے کی موت اس دنیا کا بدترین سانحہ ہو گا۔

نطشے(Friedrich Nietzsche)نے خدا کی موت کا اعلان کیا تھا۔ موت نہ کبھی پوچھ کر آتی ہے اور نہ اس کی آمد کا اشتہار کیا جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ خدا کی موت، استعارے کی موت ہے۔  نطشے کی نفی نے استعارے کو حیات بخشی۔ اس نے استعارے کی روح کو پا لیا تھا، کہ اس کی حیات اور استعارے میں فرق ہی نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاگل ہو گیا اور زندگی کے آخری گیارہ سال(1889-1900)اس نے عالم جنون میں گزارے۔ وہ استعارے کی تاب نہ لا سکا۔ اس کی موت ہو گئی:

اِس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری

تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار

استعارہ تو رسوائی کا سامان ہے۔ پھر بازارِ سخن میں اس کی قیمت گراں کیوں ہے؟کیا ہم استعارے کے بغیر نہیں جی سکتے؟صنعتی انقلاب تو کب کا آ چکا۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ کہتے ہیں، یہ سائنس اور ٹکنا لوجی کا دور ہے۔ معروضیت کا زمانہ ہے۔ سوچنے کا نہیں، کر گزرنے کا عہد ہے۔ ۔ ۔ ’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا‘‘۔ ۔ ۔ ۔ اس دوڑ بھاگ میں کوئی پیچھے مڑ کر کیوں دیکھے؟چاند پر کمندیں ڈالی جاچکی ہیں۔ اس نسل کو اس پر آشیانہ بنانا ہے۔ سائنس کی رسائی نے اس کے رومانی چہرے سے نقاب ہٹا دیا ہے۔ تو کیا چاند اب روٹی کا استعارہ نہیں بن سکتا؟اسے محبوب کی صورت سے تعبیر نہیں کرسکتے؟بچپن میں ہم نے سنا تھا کہ وہاں کوئی بڑھیا رہتی ہے۔ کیا اس کا سراغ نہیں مل سکتا؟کیا چندا ماما کا رومان گُم ہو گیا؟عید کا چاند اب اونچے ٹیلوں سے نہیں، جہاز اور دور بین کی مدد سے دیکھ لیا جاتا ہے۔ کیا اب بادلوں میں گھوڑے کی رتھ نظر نہیں آتی؟کیا وہاں شیر اور ہاتھی چھپ کر نہیں رہتے؟ہاں یہ سچ ہے، ستارے اب مقدر کا فیصلہ نہیں کرتے!۔ ہم فطرت سے جتنے قریب ہوتے جا رہے ہیں، اس کا حسن ماند پڑتا جا رہا ہے۔ نئی صدی کے ساتھ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب نئی قدروں کا سامنا ہے۔ اس عہد میں خارجی حقیقت، قبولیت کا نیا باب رقم کر رہی ہے۔ پھر بھی حقیقت اور مجاز میں سیکڑوں پردے حائل ہیں۔ کیوں۔ ۔ ۔ ؟آج کے مادی ماحول میں تخیل کی پرورش اور تہذیب نہایت مشکل ہے۔ تاجرانہ ذہن نے ادب کو بھی خرید و فروخت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یہ دنیا ایٹم بم میں، آدمی کے اندر چھپے ہوئے حیوان کی سفاکی دیکھ چکی ہے۔ چہروں کے سیلاب میں ایک چہرے پر کئی چہرے پڑے ہیں۔ تجارتی یلغار نے ذہنِ انسانی کو مشین بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ مشین استعارہ خلق نہیں کرسکتی۔ مشین کمانڈ دینے پر مصرعے اُگل سکتی ہے، شعر نہیں کہہ سکتی۔ آدمی جذبے کا اسیر ہے۔ اسے جب ٹھیس لگتی ہے تو وہ اپنے اندر اترتا ہے۔ اس کے اندر کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ اس کی سوچ اسے گہرائی میں لے جاتی ہے۔ وہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس عمل میں اسے تجرید کی فصیلیں/ سرحدیں پار کرنی ہیں۔ یہ استعاروں کی دنیا ہے۔ انتظار حسین نے شاید اسی موقعے کے لیے کہا تھا۔ ۔ ۔ ’’ہمارے اندر ایک تاریک براعظم سانس لے رہا ہے۔ ‘‘ (2)

ہر خیال Abstractہوتا ہے۔ ادراک یقین میں بدلتا ہے۔ یقین اور خیال میں تصادم نہیں ہوتا۔ آدمی کو تخیلات سے مفر نہیں۔ زبان تخیل کے احضار اور اظہار کا آلۂ کار ہے۔ خیال نہ صرف عطیۂ فطرت، بلکہ عجیب ترین شے ہے، جو خارجی اور داخلی دنیا میں رابطہ پیدا کرتا ہے۔ ہر خیال کسی نہ کسی فاعل کا محتاج ہے۔ منطقی بیان اور خیال میں بعد المشرقین ہے۔ منطق کو استعارے سے کوئی علاقہ نہیں۔ استعارہ تراشنا خیال کا مقدر ہے:

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

(عرفان صدیقی)

استعارے کی مہیما رومانی کیف سے معمور ہے۔ یہ وہ شے ہے جو زندگی کو نئے معنی عطا کرتی ہے۔ خیال نامیاتی حقیقت ہے۔ اس کے مختلف تلازمے ہیں۔ احساس خیال کا روپ دھارتا ہے۔ ہر خیال بذاتِ خود غیر مادی ہے۔  اس لیے کہ اسے ہم نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں، نہ چکھ سکتے ہیں، نہ سونگھ سکتے ہیں اور نہ ہی چھو سکتے ہیں۔ خیال آزاد ہوتا ہے۔ شاعری لفظوں سے نہیں، بلکہ تخیل، احساس اور جذبے سے بنتی ہے۔ افلاطون ان تینوں چیزوں پر عقل اور منطق کو ترجیح دیتا ہے۔ اس نے اپنی مثالی’ جمہوریہ‘ سے اسی لیے شاعروں کو نکال باہر کیا تھا کہ وہ جذبے کے اسیر ہیں اور اسی کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اس نے شاعرپرفلسفی کو اسی لیے ترجیح دی کہ وہ شاعری کو فلسفے سے کم تر سمجھتا ہے۔ اسی بنیادپراس نے کلیہ تراشا کہ شاعری اورفلسفے میں ازلی مخاصمت ہے۔ فلسفے کی بنیاد عقل پر ہے، جوانسانی ذہن کی اعلیٰ ترین صفت ہے، جبکہ شاعری جذبات کی تصویر ہے۔ افلاطون کے بقول، جذبہ انسان کو صالح بنانے کے بجائے اس کے ذہن کو بھڑکاتا ہے۔ اس لیے یہ عقل کے لیے مضر ہے۔ شاعری جذبات کی پرورش کرتی ہے، حالاں کہ اس کا کام ان پر قابو پانا اور، روک لگانا تھا۔ یعنی جذبے کو حکمراں ہونے کے بجائے محکوم ہونا چاہیے۔ شاعری احساس کو تقویت بخشتی ہے اور ادراک کو معطل کرتی ہے۔ ذی عقل، غور و فکر کرتا ہے، جذبات میں بہہ نہیں جاتا۔ الہامی کیفیت یا وجدان پر شاعر کا قبضہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کی رہبری قبول کرنا حماقت ہے۔ ’’شاعر کبھی پیغمبر بن جاتا ہے، کبھی پاگل، اوراس کی شخصیت ان کے درمیان معلق رہتی ہے۔ ‘‘(3)افلاطون یہ بھی کہتا ہے کہ شاعر نقال ہے۔ وہ نقل کی نقل اتارتا ہے۔ گویا استعارہ بھی ایک نوع کی نقل ہوا، کیوں کہ یہ شاعری کا ناگزیر حصہ ہے۔ افلاطونIdeasکوسچائی سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی ہرIdea(عین/جوہر)وہ بنیادی/حقیقی اور لافانی ساخت ہے، جس کی تمام چیزیں نقل ہیں، اور نقل کبھی اصل کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کے مطابق دنیا میں جتنی چیزیں موجود ہیں، وہ مادی ہیں اورمادے کی حیثیت ثانوی ہے۔ Ideasزمان و مکان سے ماورا، اور غیر فانی ہیں۔ یہ سچے علم ہیں جن کی بنیاد صداقت پر ہے، اور صداقت اس روح سے ہم رشتہ ہے، جو لافانی ہے۔ ریاست مادی اور فانی خیالات سے نہیں چلائی جا سکتی۔ افلاطون کے مطابق دنیا میں ایک ہی قبیل کی کئی اشیا پائی جاتی ہیں۔ ان سب میں تھوڑا بہت فرق ہے۔ اِس سے اُس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ہر قبیل کی کوئی ایک شے توایسی ہونی چاہیے، جو بہترین اور کامل ہو، یعنی اس سے برتراس قسم کی کوئی چیز نہ ہوسکتی ہو۔ اس کے مطابق یہ آئیڈیل یا مثالی چیز/نوع عالمِ اعیان/مثال میں موجود ہے۔ یعنی ’’عالمِ مثال میں ایک مثالی انسان، ایک مثالی گھوڑا، ایک مثالی کرسی(علیٰ ہذالقیاس)موجود ہے۔ دنیا میں موجود کوئی انسان، گھوڑایاکرسی، اپنی ’مثال‘ سے بہتر نہیں۔ تمام اشیا اپنی اپنی مثال کی ادھوری نقول ہیں۔ ‘‘(4)مثالی صورتیں خدا کی تخلیق کردہ ہیں۔ اس طریقۂ استدلال کی منطق بظاہر تو بہت توانا ہے، لیکن بباطن اسے منطقی حقیقت سے دور کا بھی علاقہ نہیں۔ افلاطون نے اپنی آسانی کے لیے یہ مفروضہ قائم کر لیا کہ دنیا میں جتنی اشیا ہیں ان کی ایک مثالی صورت خدا کی تشکیل کردہ ہے، اور یقیناً مثالی صورت ایک ہی ممکن ہے۔ وہ پلنگ/چارپائی کی مثال دیتا ہے۔ کلیم الدین احمد کے بقول آپ پلنگ کی جگہ گائے کا تصور کر لیجیے۔ اس لیے کہ مصور محض چارپائی کی تصویر نہیں بناتا۔ کلیم الدین احمد نے گائے اور پھول کی مثال کے ذریعے نہ صرف افلاطون کے نظریے کی تردید کی، بلکہ اس پہلو سے بھی آگاہ کیا کہ نظریۂ اعیان کے مفروضے کے تحت فلسفیوں کے خیالات بدلتے رہے ہیں۔ چوں کہ گائیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔  سفید، سیاہ، بھوری، چتکبری، موٹی، دبلی، سینگ دار، بے سینگ وغیرہ۔ بھینس اور بیل بھی اسی قبیل میں ہیں۔ اگر خدا محض ایک مثالی گائے بنانے پر قادر ہے تو اتنی گائیں کہاں سے وارد ہوئیں۔ یعنی یہ گائیں بھی خدا کی بنائی ہوئی ہیں۔ اس کا  مطلب ’’بڑھئی کی طرح خدا بھی نقال ہے، جس نے اپنی مثالی شکل کی اتنی مختلف شکلیں بنائیں، اور خدا نے یہ گائیں نہیں بنائیں تو پھرکس نے؟مصور نے تو نہیں بنائی ہیں۔ کیا خدا کے علاوہ کوئی اور بھی خلاق ہے؟کیا خدا کا کوئی نائب ہے جو اس کی مثالی شکلیں بناتا ہے[؟]پھول کو لے لیجیے۔ ۔ ۔ اگر دنیا کے پھولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو ایک موٹی کتاب تیار ہو جائے گی۔ بقول افلاطون خدا نے ایک اور صرف ایک مثالی پھول بنایا ہو گا۔ پھر یہ ہزاروں قسم کے پھول کہاں سے آ گئے[؟]یہ نقالی کس نے کی[؟]‘‘(5)افلاطون فلسفی ہے۔ اسی لیے وہ شاعری پر فلسفے کی بزرگی تسلیم کرتا ہے۔ وہ تعقل پرست ہے۔ وہ شاعری اور حقیقت میں کسی تعلق کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے خیال میں شاعری حقیقت کی نقالی نہیں، بلکہ نقل در نقل ہے۔ یہاں دو مستقل موضوعات سامنے آتے ہیں:

شاعری۔ ۔ ۔ وجدان یا حقیقت

شعری نقل کی نوعیت

شاعری ان معنوں میں وجدانی ہر گز نہیں کہ شاعر کے پاس اپنی شعری صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس پر دیوتاؤ ں کا سایہ ہوتا ہے۔ جب وہ شعر کہنے پر آتا ہے تو شاعری کی دیوی اسے القا عطا کرتی ہے۔ اس پر الہام ہوتا ہے۔ شاعر مجنون یا خبطی ہر گز نہیں۔ ایسا بالکل نہیں کہ وہ عقل کی نعمت سے محروم ہے۔ شاعری تخیلی تجربہ ہے، جس میں فینسی اور قوتِ ممیزہ کو بڑا دخل ہے۔ شاعری اور حقیقت، ایسا موضوع ہے جس میں ظاہرپرستوں نے سادہ لوحوں کو خوب الجھایا۔ حقیقت کیا ہے؟وہی جو سامنے نظر آتی ہے؟یا پھر وہ بھی جہاں تک ہماری رسائی نہیں؟اگر ہر نظر آنے والی شے ہی حقیقت ہے تو خدا، اس دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ محسوسات اور جذبوں کا ذکر ہی کیا؟حقیقت بھی جدلیاتی شے ہے۔ مجاز حقیقت کی ضد ہے، لیکن یہ بھی اتنی ہی حقیقی ہے۔ یہ دنیا، یا زندگی، وہ سکہ ہے جس کا ایک رخ حقیقت کہلاتا ہے اور دوسرا مجاز۔ ایک خارجی کہلاتا ہے، دوسرا داخلی۔ دنیا کے وجود کے ساتھ دونوں کے وجود کا اثبات ناگزیر ہے۔ شاعری اس دنیا کی عظیم حقیقت ہے۔ یہ نقل نہیں، تخیلی تجربہ ہے۔ شاعری سے نفرت، حماقت ہے۔ اسے دور سے سلام مت کیجیے۔ اس کے آگے سجدہ ریز ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کے تجربے میں خود کو شریک/تحلیل کیجیے۔ حقیقت کیا ہے، خود معلوم ہو جائے گا۔ حقیقت ڈھنڈورا پیٹنے جیسی کوئی شے نہیں۔ جس طرح انقلاب انقلاب چیخنے سے انقلاب نہیں آ جاتا، اسی طرح ’حقیقت پسندی‘یا’حقیقت نگاری‘ کا عنوان قائم کر لینے سے حقیقت کی تفہیم نہیں ہو جاتی۔ اس نوع کے عناوین قائم کرنے والے حضرات چھوٹے چھوٹے سامنے کے حقائق کو معراج تصور کر لیتے ہیں، اور اس عظیم حقیقت تک یا تو ان کی نظر نہیں جاتی یاپھر وہ اسے جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، جو زندگی کا بھید بھرا گہرا داخلی تجربہ ہے۔ یہی تجربہ استعارے کی تخلیق کے لیے اساس فراہم کرتا ہے۔ استعارہ تو مجاز کی ایک شکل ہے۔ پھر مجاز، حقیقت کیسے بن سکتا ہے؟یہ سوال انھی حضرات کو پریشان کرتا ہے جو حقیقت کو محض مرغی کا انڈا سمجھتے ہیں۔ اس انڈے میں کوئی سانس بھی لے رہا ہے، یہاں تک ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ ان کی بساط میں حقیقت محض مرغی کا انڈا ہی نہیں، کسان کا ہل بھی ہے، مزدور کی ٹوکری ہے۔ موچی کی چپل ہے۔ دھوبی کا  گدھا ہے۔ کسی مظہر کو سیاسی لیڈر بھی دیکھتا ہے۔ مذہبی واعظ بھی دیکھتا ہے۔ کوئی سماجی مصلح بھی اس کا جائزہ لیتا ہے، لیکن ان کی نظر اور ایک فن کار کے مشاہدے میں کچھ تو فرق ہے، اور پھر مجروحؔ صاحب تو پاگل ہی تھے کہ ایسی بات کہہ دی:

جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے

جو گھر کو آگ لگائے ہمارے سات چلے

مجروحؔ صاحب کیسے ترقی پسند ہیں؟آگ لگانے کی بات کرتے ہیں۔ گھر پھونکنا تو بورژوا طبقے کی سازش ہے۔ یہ غیرسماجی فعل ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ’مشعلِ جاں‘ کی ترکیب کا مفہوم حقیقت کی کس ڈکشنری میں ملے گا۔ پھر میرؔ صاحب نے جو یہ شعر کہا:

دیکھ تو، دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

تو وہ تو یقیناً مجنون ٹھہرے کہ انھیں اتنی سی بات معلوم نہ تھی کہ دھواں دل یا جاں سے نہیں، بلکہ چولھے سے اٹھتا ہے۔ [نابغۂ جہاں غالبؔ نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا۔ ۔ ۔ ’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انھیں کچھ نہ کہو‘۔ ۔ ۔ کیوں کہ یہ مے و نغمہ کو اندوہ  ربا کہتے ہیں۔ ]اگر تفہیم و تعبیر کی یہی صورت رہی تو استعارہ تو بے موت مر جائے گا۔

واقعہ یہ ہے کہ حقیقت میں تغیر کی صلاحیت ہوتی ہے۔ تغیر ارتقا کی کلید ہے۔ ادب بھی حقیقت ہے، لیکن حقیقت کوئی آئینہ نہیں کہ کوئی رٹ لگاتا رہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہے۔ آئینہ جو دیکھتا ہے، وہی دکھاتا ہے، مگر حقیقت محض وہی نہیں، جسے ہماری ظاہری آنکھیں دیکھتی ہیں۔ حقیقت ہر جگہ یکساں نہیں رہتی۔ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے، لیکن غالبؔ کا یہ کہنا ’ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال‘، بھی حقیقت ہے۔ ’محشر خیال‘ کی ترکیب، ہوسکتا ہے کہ کسی کو نہ سمجھ میں آئے۔ ایسے لوگ تو غالبؔ کو یقیناً دیوانہ کہیں گے کہ وہ خلوت کو بھی انجمن سے تعبیر کرتا ہے۔ تو حقیقت محض سیاسی، سماجی یا معاشی نہیں ہوتی۔ یہ نہ جانے کتنے خلیوں سے مل کر بنی ہے؟یہاں محمد حسن عسکری محلِ نظر ہیں:

سائنس دانوں نے تو اب آ کر ایٹم کو توڑنے کا طریقہ دریافت کیا ہے لیکن فن کار پہلے ہی دن سے یہی کر رہا ہے، وہ حقیقت کے جوہروں کو درہم برہم کر دیتا ہے تاکہ ایک نئی حقیقت کی تشکیل کر سکے۔ (6)

فن کار سماج بے زار نہیں ہوتا۔  وہ مولوی بھی نہیں ہوتا کہ وعظ کرے اور خوف دلائے۔ شاعری کے آرٹ کے لیے اخلاقی اور سماجی حقیقت سے کہیں زیادہ حسیاتی حقیقت کی ضرورت پڑتی ہے۔ شعری آرٹ محسوسات کی دنیا ہے۔ اس لیے فن کار کو اخبار نہیں، دیوار پڑھنا چاہیے۔ یہاں خبر سے زیادہ بے خبری کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی اس بے خبری کو محسوس نہیں کرسکتاتواس پرافسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ بے خبری کو بے تعلقی کے اصول سے تقویت پہنچتی ہے۔ شاعری شخصیت کے اظہار کا نام ہرگز نہیں۔ شاعری تجربے کے اظہار کا نام ہے، اور تجربہ اپنی ماہیت کے اعتبار سے نامیاتی اختصاص کا حامل ہے۔ یہ سچ ہے کہ شاعر یا کوئی بھی فن کار حساس ہوتا ہے، لیکن وہ ہر بات سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس کے قبول کردہ اثرات اس کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں، مگر تخلیق کار کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ ان اثرات اور جذبات کے ریلوں میں ترتیب و تہذیب پیدا کرے اور انھیں اپنے تجربے میں تحلیل کرے۔ ان اثرات اور شدتِ جذبات کے فوری نتائج میں پیدا ہونے والا ادب غیر مرتب ہو گا۔ شاعری بہترین تنظیم کا نام ہے۔ اس تنظیم کے لیے تجربے کی تہذیب ضروری ہے اور یہ تہذیب فوری تاثرات سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس لیے شخصی اور فنی تجربے میں ایک فاصلہ چاہیے۔ ولیم ورڈزورتھ نے کہا تھا کہ شاعری ہیجان کے وقت نہیں، بلکہ سکون کے وقت پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی وقوعے سے فوری طور پر ظاہر ہونے والے جذبات میں سنجیدگی، کچھ وقت گزر جانے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ بے تعلقی ذہنی اور زمانی فاصلے کا نام ہے جو بے خبری کو قوتِ نمو عطا کرتی ہے۔ یہی بے خبری اور بے تعلقی استعارے کی تعمیر میں ممد ہوتی ہے، اور یہی وہ شے ہے جو استعارے کو گنجینۂ معنی کا طلسم بناتی ہے۔

اس سلسلۂ کلام کا مقصود یہ ہے کہ شعری حقیقت وہی نہیں، جسے ہم اپنے روزمرہ میں دیکھتے ہیں۔ عام حقیقت اور شعری صداقت میں فرق ہے۔ اس فرق کو سب سے پہلے ارسطو نے بیان کیا۔ جب اس نے بوطیقا لکھی تو زبان کے مجازی پہلو پر بھی اظہار خیال کیا۔ اس طور استعارے کی ماہیت پر سب سے پہلے ارسطو نے قلم اٹھایا اور اسے شاعری کا حسن قرار دیا۔ نقل والی بحث میں شاعری کا دفاع کرتے ہوئے اس نے استعارے کو جواز عطا کیا۔ اس کا تصورِ استعارہ شرح وبسط کا متقاضی ہے۔  اس سے قبل ہم تھوڑی دیر کے لیے پلٹیں گے۔ اس لیے کہ ابھی افلاطون کے ضمن میں جو سوالات قائم ہوئے تھے، ان پر گفتگو مکمل نہیں ہوئی۔ عام صداقت اور شعری صداقتوں میں انفراد کے ساتھ اس بات کا بھی اعتراف ضروری ہے کہ شاعری اندر کی آواز کا نام ہے۔ یہ داخلی دنیا بڑی پراسرار ہے کہ اس سے مصاحبے کے لیے ادراک سے کہیں زیادہ وجدان کی ضرورت ہے۔  وجدان کوئی آسمانی شے نہیں، اس کا خمیر خارج و داخل کے طویل تصادم سے اٹھا ہے۔ یہ اس انسان کا ورثہ ہے جس نے پہلی دفعہ خود کو تنہا محسوس کیا۔ یہی احساس، نا تمامی اور غیر اطمینانی کی صورت، نیرنگِ خیال کا روپ دھار کر تخلیق کی دنیا کا کولمبس بن جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دنیا اقبال کے اس مصرعے کی تعبیر ہے۔ ۔ ۔ ’کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون‘۔ صدائے کن فیکون کے اس شورِ مسلسل میں کسی بھید کے کسی ایک جز کو بھی پا لینا، یا اپنے بھیتر اس کا احساس جگا لینا، لطیف تجربہ ہے۔ اس تجربے کو رومانی اور جمالیاتی کیفیات سے عمیق تعلق ہے۔ یہ تجربہ انقباض کے مراحل سے گزر کر انبساط کے احاطے میں داخل ہوتا ہے۔

افلاطون شاعروں کو اس لیے مطعون ٹھہراتا ہے کہ وہ جذبات کی پرورش کرتے ہیں، لیکن مسئلہ فقط جذبے کا نہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے مطابق شاعرآسمانی/الہامی زبان استعمال کرتا ہے، کیوں کہ اس کے توسط سے کوئی اور(شاعری کی دیوی یا خدا) کلام کرتا ہے۔ تو معاملہ محض نقل کی نقل کا نہیں رہ گیا۔ ایک بڑا حملہ زبان پر بھی ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا استعارہ بھی نقل ہے؟یہاں افلاطون کو شدید جھٹکا لگتا ہے۔ شیر کو ہم کسی بہادر شخص کا استعارہ مان لیتے ہیں، مگر جانور کی صفت کو انسان کی صفت سے ہم آہنگ کرنا افلاطون کی شریعت میں جائز نہیں، کیوں کہ انسان کو جانور بتانا غیر عقلی روش ہے۔ اس طرح افلاطون کے ہاں استعارہ راندۂ درگاہ ٹھہرا۔ اگرہستی کوسراب یا لب کو گلاب کی پنکھڑی سے تعبیر کرنا غیر عقلی رویہ ہے اور چرخ یاآسمان کہہ کر زمانہ مراد لینا غیر حقیقی بیان ہے تو اظہار کی سلطنت میں استعارے کی بقا نا ممکن ہے۔ اس لیے، سچائی یہ ہے جو مارسٹن مورس(Marston Morse)کہتا ہے۔ ۔ ۔ شاعری میں عقل مالکہ نہیں، بلکہ خادمہ ہوتی ہے۔ (7)افلاطون نے شاعری کو کم تر کیوں جانا، اس کی وجہ بیان کی جاچکی ہے۔ نچوڑ یہ ہے کہ وہ شاعری کی ماہیت کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکا۔ کچھ حد تک اس کا ازالہ اس کے شاگرد ارسطو نے کیا۔ یونان کی تثلیثِ فلاسفہ میں ارسطو اہم ترین سنگ میل ہے۔ اس نے فلسفہ اور ادب سے متعلق بعض نہایت بنیادی سوالات اٹھائے۔ اس نے افلاطون کو کئی سطحوں پر رد کیا۔ اس نے شاعری کو نقل در نقل کے بجائے محض نقل کہا اور اس کے لیے Mimesisکا لفظ استعمال کیا۔ نقل کو بھی اس نے واقعیت/امکانی نمائندگی سے تعبیر کیا، جس کی بنیاد پر یہ عام سطح سے بلند ہو گئی۔ جذبات کے دفاع میں اس نے تزکیۂ نفس) (Katharsisکی اصطلاح استعمال کی، جس کا کام فاسدخیالات اور مضر  جذبات کی اصلاح ہے، نہ کہ جذبات کی پرورش۔ زبان کے استعاراتی پہلو پر بھی روشنی ڈالی۔ یہاں شاعری کی ماہیت کی تفہیم کے ساتھ مباحث کے کئی در کھلتے ہیں۔ کئی سلسلے قائم ہوتے ہیں۔  ارسطونے’Poetics‘کے25ویں باب میں اظہار کے بنیادی پہلوؤں پر توجہ دلاتے ہوئے تین اہم وسائل کو نشان زد کیا ہے اور ان کی تفہیم بھی تین حصوں میں کی ہے:

1.The poet being an imitator just like the painter or other maker of likenesses, he must necessarily in all instances represent things in one or other of three aspects, either as they were or are, or as they are said or thought to be or to have been, or as they ought to be.

2.All this he does in language, with an admixture, it may be, of strange words and metaphors, as also of the various modified forms of words, since the use of these is conceded in poetry.

3. It is to be remembered, too, that there is not the same kind of correctness in poetry as in politics, or indeed any other art (8).

مذکورہ خیالات کی بنیاد نظریۂ واقعیت ہے۔ ارسطو نے شعری نقل کو انسانی اعمال کی نقل بتایا ہے۔ یہ اعمال محض اعضا کی حرکات کا نام ہر گز نہیں، بلکہ اس تحرک کا نام ہیں جس سے زندگی عبارت ہے۔ اسی تحرک کی بنا پراس نے Mimesisکو من و عن نقل قرار نہیں دیا۔ اس تحرک میں واقعاتی/امکانی صورتِ حال کا ادراک استعارے کی تخلیق کا سرچشمہ ہے۔ مندرجہ بالا بیانات میں پہلا حصہ اس امر پر مشتمل ہے کہ نقل کے تین ذرائع ہیں۔ یعنی ان تینوں میں سے کوئی ایک طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اشیا، جیسی کہ وہ ہیں یا تھیں۔ دوم یہ کہ جیسی وہ بتائی یاسمجھی جاتی ہیں۔ سوم یہ کہ انھیں جیساہوناچاہیے۔ تیسراذریعہ(یعنی اشیا کو جیسا ہونا چاہیے)تخلیقی ادب کی کنجی ہے۔ چوں کہ اظہار کا وسیلہ زبان ہے، اس لیے اس تیسرے پہلو میں لسانی آزادی جائز ہے۔ یہاں زبان کے مجازی پہلوؤں کا پورا پورا، استعمال کیاجاسکتاہے۔ غیرمانوس الفاظ، استعارہ، کنایہ، تشبیہ، تمثیل، مبالغہ، پیکر اور علامت تراشی یا دیگر لسانی تغیر و تبدل کو بروئے کارلایاجاسکتاہے۔ ان کے اطلاق اور صحت کا فیصلہ مقتضائے فن پر ہے۔ گھوڑا، ایک جانور ہے۔ اسے لوگ چوپایہ بتاتے ہیں۔ یعنی اس کے دو پیر آگے اور دو پیچھے کی طرف ہوتے ہیں۔ اگراس کے چاروں پیر ہوا میں معلق ہوںیا اس کے چاروں پیر آگے کی طرف ہوں تو یہ مقتضائے فن کے لحاظ سے غلط نہیں ہو گا۔ سائنس اور طب میں یہ عیب/غلطی سمجھاجائے گا، جبکہ ادب میں تخیل کو آزادی ہے کہ وہ اشیا میں تغیر و تبدل پیدا کرسکے۔ یہاں تخلیق کار کے ذہن میں یہ نکتہ ہوتا ہے کہ فن کے نقطۂ نظر سے اشیا ایسی بھی ہوسکتی ہیں۔ ارسطونے گھوڑے کے ساتھ ہرن کی بھی مثال دی ہے۔ ہرن کی سینگ نہیں ہوتی، لیکن کسی تخلیق میں اس کے سینگیں نکل آئی ہوں تو یہ فنی غلطی اس وقت تک نہیں قرار دی جاسکتی، جب تک کہ یہ اقتضائے فن کے خلاف نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیق کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ وہ من و عن نقل ہو۔ اگر تخلیق ہو بہو نقل ہوتی تو ہرن کی سینگ دار تصویر ممکن ہی نہ تھی اور گھوڑے کے چاروں پیروں کے آگے کی طرف ہونے کا سوال بھی پیدا نہ ہوتا۔

استعارہ ناممکن کو ممکن بنانے کا نام ہے۔ خارجی یا روزمرہ کی دنیا میں کچھ کہہ کر کچھ مراد نہیں لی جاسکتی۔ یہ استعاراتی دنیا میں ممکن ہے۔ سامنے کی حقیقت میں ہم بڑھاپے کو شام نہیں کہہ سکتے۔ اگر ہمیں کسی کو یہ کہنا ہو کہ یہ آپ کا بڑھاپا ہے۔ اس کی جگہ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ آپ کی شام ہے تو معنی کہاں سے کہاں منتقل ہو گیا۔ حالاں کہ بڑھاپا زندگی کی شام ہی تو ہے۔ گھوڑے اور ہرن کی مثال ابھی ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ استعارہ تخیل کے گھوڑے دوڑانے کا نام ہے۔ تخیل کیا ہے اور اس کا استعارے سے کیا تعلق ہے؟بدیہی حقیقت ہے کہ ادبی تخلیق تخیل کے بغیر ممکن ہی نہیں، یعنی استعارہ بھی تخیل کا محتاج ہے۔ تخیل حاصل شدہ مواد میں نظم و ترتیب پیدا کرنے کا نام ہے۔ کولرج تخیل کو فن پارے کی روح قرار دیتا ہے۔ حالی تخیل کی تعریف میں لکھتے ہیں:

وہ ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجزیہ یا مشاہدہ کے ذریعہ سے ذہن میں پہلے سے مہیا ہوتا ہے یہ اس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نئی صورت بخشتی ہے۔ (9)

کولرج اسی کو ثانوی تخیل (Secondary Imagination) سے موسوم کرتا ہے۔  اس کے الفاظ یہ ہیں:

It [Secondary Imagination] dissolves, diffuses, dissipates, in order to recreate.(P:202,CH-XIII,Vol-I)/(10)

مقدمہ سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے۔  اور ماضی و استقبال اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔  وہ آدم اور جنت کی سرگذشت اور حشرو نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے گویا اس نے تمام واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں۔  اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے۔  اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیواں جیسی فرضی اور معدوم چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کرسکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر آتی ہے۔  جو نتیجے وہ نکالتا ہے گو وہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں ہوتے لیکن جب دل اپنی معمولی حالت سے کسی قدر بلند ہو جاتا ہے تو وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔ (11)

لیکن تخیل کی یہ تعریف، دراصل قوتِ واہمہ(Fancy)کی ہے۔ قوتِ واہمہ یادداشت کا ایک عمل ہے جو کسی ایک نتیجے پر اصرار نہیں کرتا۔ یہ الگ بات ہے کہ حالی قوتِ واہمہ اور تخیل میں فرق نہ کر سکے، مگر وہ اردو میں پہلے شخص ہیں جنھوں نے ادبی تنقید میں تخیل کو تخلیق کی شرطِ اولین بتایا اور شرح وبسط کے ساتھ اس کی ماہیت پر بساط بھر گفتگو کی۔ استعارہ تخیل کی ایجاد ہے۔  فینسی استعارے کی تخلیق کی محرک ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو اشیا میں ربط پیدا کرتی ہے۔ یہ قوت انسان کے لیے فطرت کا عظیم عطیہ ہے۔ تخیل کے اس ضمن میں تین بنیادی الفاظ کی وضاحت ضروری ہے۔ احساس، جذبہ اور تصور۔ ان میں اور تخیل میں فرق ہے۔ درد کی ٹیس، ہوا کے جھونکے اور آگ کی تپش کو محض محسوس کیا جاسکتا ہے۔ غصہ، رحم اور خوف ذہن کی مختلف حالتیں ہیں جن کا تعلق جذبات سے ہے۔ نظر سے گزری ہوئی اشیا کی تصویر کو ذہن میں لانا تصور ہے۔ تخیل میں اختراع کی صفت ہوتی ہے، جبکہ تصور محض حقیقت کاعکس ہے۔ اسی لیے تصور کوMimesisاور تخیل کو Imagination کہتے ہیں۔ ارسطونےMimesisکی تعریف کو Imagination(اصطلاح استعمال کیے بغیر)سے ملانے کی کوشش کی ہے۔ واقعیت یا امکانی صورتِ حال تخیل ہی کے زمرے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارسطو کی تعریف پر آج بھی توجہ دی جاتی ہے۔ امکانی صورتِ حال کا رشتہ استعارے سے ہے۔ یہی وہ اساس ہے جس پرارسطو نے استعارے کی تعمیر کی۔ لونجائنس(Longinus)استعارے کو شاعری کے لیے تزئین کا سامان بتاتا ہے، جبکہ ارسطو نے استعارے کو کلام کا  جوہر کہا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے صحیح کہا ہے کہ یہاں’’استعارہ محض ایک تزئینی یا ضمنی وصف نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ حقیقت بن جاتا ہے۔ ‘‘(12)قوتِ امکان کے تحت یہی تصورِ استعارہ آگے چل کر کولرج اور ورڈزورتھ کے ہاتھوں رومانی تحریک کی بنیاد بنتا ہے۔ اسی بنیاد پر کولرج نے مغربی تنقید کی تاریخ میں اپنا مشہور نظریۂ تخیل پیش کیا اور یہ ثابت کیا کہ شاعری نقل نہیں بلکہ تخیلی تجربہ ہے۔

ارسطو استعارے کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:

"Metaphor consists in giving the thing a name that belongs to something else.”(13)

ترجمہ:تبادلے کے ذریعہ کسی غیرمانوس نام کا اطلاق استعارہ کہلاتا ہے۔ (14)

استعارے کی مثال میں ارسطوچار جملے تحریر کرتا ہے:

٭٭٭میرا جہاز یہاں کھڑا ہوا ہے۔

٭٭٭سچ ہے کہ اوڈی سیوس کے عمدہ کارنامے دس ہزار ہیں۔

٭٭٭کانسے کی تلوار نے جان نکال لی۔

٭٭٭ کشتی پانی کو کاٹ رہی تھی۔ [بوطیقا، باب:21]

اٹھنا، بیٹھنا یا کھڑا ہونا جانداروں کی صفت ہے۔ لیٹنا، بیٹھنایاکھڑاہونا انسانوں کا کام ہے۔ جہاز لنگر انداز ہوتا ہے۔ یہاں لنگر انداز ہونے کو کھڑا ہونا کہا گیا ہے۔ یہ بیان کی خوبصورتی کے لیے استعارے کا استعمال ہے۔ اوڈی سیوس کے کارناموں کی تعداد بھی یہاں دس ہزار نہیں۔ دس ہزارسے مراد کثرتِ تعداد ہے۔ تلوار جان نہیں نکالتی۔ اس کا کام کاٹنا ہے۔ اسی طرح کشتی پانی نہیں کاٹ سکتی۔ پانی کاٹنا یہاں پانی ہٹانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بیان کی یہ متبادل صورتیں استعارہ ہیں۔ خوبصورت استعارے تراشنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ نئے اور نادر استعارے تخلیق کرنا کوئی کسی سے نہیں سیکھ سکتا۔ اس کا تعلق انسان کی فطری صلاحیتوں سے ہے۔ [بوطیقا، باب:22]ارسطو کے اس خیال کو آج تک نہ رد کیا جاسکا اور نہ اس میں توسیع ہوسکی۔

زبان کا استعاراتی نظام کیوں کر مرتب ہوا؟اس کا جواب تاریخِ انسانی کے اس اولین عہد سے شروع ہوتا ہے، جب آدمی اشاروں میں گفتگو کیا کرتا تھا۔ اشارہ کیا ہے؟اشارہ بھی ایک نوع کا مفروضہ ہے۔ ہماری زندگی میں مفروضے کی کیا اہمیت ہے؟مفروضہ مجاز ہے یا حقیقت؟یہ اسی قبیل کا سوال ہے کہ پہلے مرغی یا پہلے انڈا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آدمی نے فرض کرنا سیکھ لیا۔ جب ہم نے اپنے اوپر دیکھا تو فرض کر لیا کہ وہ عرش یا آسمان ہے۔ نیچے دیکھا تواسے فرش یا زمین تصور کر لیا، کہ یہ ہمارے لیے بچھائی گئی تھی۔ یہی زمین جب اونچی نظر آئی تو اسے پہاڑ کا نام دیا۔ آبِ رواں کو دریا کہہ دیا۔ ہر شے کو ہم نے شناخت عطا کی۔ مفروضات کا سلسلہ دائمی ہے۔ مفروضہ جب روزمرہ کا حصہ بن جاتا ہے تواس کی استعاراتی معنویت کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہرنیا استعارہ انسان کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اس مضمون کے شروعاتی حصے میں، میں نے نطشے کا حوالہ دیا تھا۔ اس کا خیال ہے:

Life would be strictly unthinkable without conceptual fictions such as ‘time’, ‘space’ and ‘identity’ which we impose upon the world.(15)

ہم نے نہ جنت دیکھی، نہ دوزخ۔ پھر بھی اس حوالے سے موہوم خیالات خلق کر لیے گئے ہیں۔ زندگی میں مفروضہ بارکیسے پاتا ہے؟مفروضے کا اطلاق کیوں ضروری ہے؟Lee Spinksنطشے کے تصورِ استعارہ کی شرح میں لکھتا ہے:

[Nietzsche] broadens his argument by claiming that all of the concepts we employ to represent the ‘true’ structure of the world۔ such as ‘space’, ‘time’, identity’, ‘causality’ and ‘number’۔ are metaphors we project on to the world to make it thinkable in human terms.(16)

مفروضہ فکشن ہی تو ہے۔ فکشن اس وقت تک بے معنی ہے، جب تک ہم اسے کسی مفروضے کے تحت بامعنی نہ بنائیں۔ ہم بڑی حقیقتوں کو جتناسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اتنی ہی مبہم کیوں ہو جاتی ہیں، کیوں کہ ہر حقیقت اپنے اندر لامحدود پہلو رکھتی ہے اور یہ لامحدود پہلو ہمیشہ مبہم ہوتا ہے۔ فانیؔ زندگی کو نہیں سمجھ پائے تو اسے معمہ/دیوانے کا خواب کہہ دیا۔ خلا، وقت، شناخت، تعداد، تجریدی تصورات ہیں۔ یہ وہ گہرے اور عظیم استعارے ہیں جن کے بغیر زندگی کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔

اردو میں استعارے کی ماہیت پر غور و فکر اور اظہارِ خیال کا رواج عام نہیں۔ اب اردو میں تنقید کا کام نظریات کی تفہیم و تعبیر ہے۔ آج ایک مبتدی جب تنقید پڑھنا یا لکھنا شروع کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ترقی پسندی کیا ہے؟جدیدیت کیا ہے؟ما بعد جدیدیت کی تعریف کیا ہے۔  ۔ ؟ ادب سماج کا آئینہ ہے یا تنقیدِ حیات؟حالاں کہ ادب کی ماہیت کو سمجھے بغیر ان تصورات کا کیا کام؟ہمارے آج کے ناقد کو لفظ و معنی کے رشتوں پر غور کرنے کی زحمت نہیں۔ وہ متن کے اسرار اجاگر کرنے کے لیے یہ سوال نہیں کرتا کہ سیاق کیا ہے؟معنی کے منابع کیا ہیں؟تشبیہ کی ندرت کس میں ہے؟استعارے کی ماہیت کیا ہے؟علامت کیوں کر خلق ہوتی ہے؟تمثیل کا بیان سے کیا تعلق ہے؟ادب میں مبالغہ کیوں ضروری ہے؟نشان، نقوش اور پیکروں کی کیا اہمیت ہے؟آج کا ناقد اصرار کرتا ہے کہ شاعری میں شعریت ہونی چاہیے، لیکن وہ شعریت کے اسباب اور اس کی محتویات پر گفتگو نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں حالی، شبلی، محمد حسن عسکری، کلیم الدین احمد، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، وارث علوی، شمیم حنفی اور قاضی افضال حسین جیسے کتنے ناقدین ہیں جو ادب کی نظری اساس پرسوچنے، اطلاقی نمونے پیش کرنے اور اس کے امکا نات کو ضابطۂ تحریر میں لانے کی ہمت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ ہم استعارے کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن اس جھنجھٹ میں کیوں پڑنے جائیں۔ استعارے کا مسئلہ تو اہلِ بلاغت طے کریں، اوراستعارہ ایسی کوئی شے بھی نہیں کہ اس کی تعریف یا تفہیم مشکل ہو۔ عروض و بلاغت کی کتابیں استعارے کے باب میں حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہیں۔ اگر یہ باتیں صحیح ہیں تو اپنے قارئین کا ذہن اس ’حرفِ آخر‘ کی طرف منتقل کرنا چاہوں گا:

استعارہ مجاز لغوی ہے[، ] یعنی وہ ایسا لفظ ہے کہ جس معنی کے واسطے بنایا گیا ہے[، ] اس معنی کے غیر میں مستعمل ہوا ہے[، ] مشابہت کے علاقے سے۔ (حدائق البلاغت)/ (17)

حقیقت اور مجاز کے درمیان اگر لگاؤ تشبیہ کاہے توایسے مجاز کواستعارہ کہتے ہیں۔ استعارہ میں مشبہ بہ(وہ شے جس سے تشبیہ دیتے ہیں)کو عین مشبہ(وہ شے جس کو تشبیہ دیتے ہیں)قرار دیتے ہیں، لیکن کبھی کبھی دونوں کے مناسبات و صفات کا ذکر بھی آ جاتا ہے۔ (علم بیان و علم عروض)/(18)

استعارے کی اس نوع کی تعریفیں، ان کی چنداقسام اور مثالیں اگر ’حرفِ آخر‘ ہیں تو یہ مضمون لکھ کر میں نے وقت ضائع کیا۔ حالی پاگل تھے کہ[ مقدمہ میں] استعارے پر صفحات سیاہ کیے۔ محمدحسن عسکری (استعارے کا خوف)، ممتاز حسین(رسالہ درباب استعارہ)، گوپی چند نارنگ(بیدی کے فن کی استعاراتی اور اساطیری جڑیں)، وارث علوی(استعارہ اور نرا لفظ)، شمس الرحمن فاروقی(شعر، غیر شعر اور نثر/میر انیس کے ایک مرثیے میں استعارے کا نظام/میر کی زبان، روزمرہ یا استعارہ)اور قاضی افضال حسین(میر کی شعری لسانیات) نے اس موضوع پر شاید بیکار ہی قلم اٹھایا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادب کی اساس پر بار بار بحث ہو، تاکہ ہماری بنیاد کھوکھلی نہ ہونے پائے۔ ہمیں حالی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اردو میں پہلی بار انھوں نے استعارے کو عام نہج سے ہٹ کر دیکھا اور یہ احساس دلایا کہ استعارے پر اہلِ بلاغت سے کہیں زیادہ اہلِ تنقید کی توجہ چاہیے۔ اس لیے کہ استعارے کی تفہیم بندھے ٹکے خطوط پر نہیں ہوسکتی۔ چند مثالوں سے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح زندگی ہرروزنیالباس بدل رہی ہے، اسی طرح استعارہ بھی نئے نئے سیاق میں ظاہر ہو رہا ہے۔ اس کاہر نیا روپ تنقید کو بحث اور مکالمے کی دعوت دیتا ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں:

استعارہ بلاغت کا ایک رکن اعظم ہے اور شاعری کو اس کے ساتھ وہی نسبت ہے جو قالب کو روح کے ساتھ۔ کنایہ اور تمثیل کا حال بھی استعارہ ہی کے قریب قریب ہے۔ یہ سب چیزیں شعر میں جان ڈالنے والی ہیں جہاں اصل زبان کا قافیہ تنگ ہو جاتا ہے وہاں شاعر انھیں[انھی]کی مدد سے اپنے دل کے جذبات اور دقیق خیالات عمدگی کے ساتھ ادا کر جاتا ہے اور جہاں اس کا اپنا منتر کارگر ہوتا نظر نہیں آتا وہاں انھیں[انھی]کے زور سے وہ لوگوں کے دلوں کو تسخیر کر لیتا ہے۔ (19)

استعارے کو بلاغت کا رکنِ اعظم کہنا اردو میں حالی سے قبل کسی کو نصیب نہ ہوا۔ حالی نے یہ بھی کہا کہ استعارے[وغیرہ]سے مدد نہ لی جائے تو شعر شعر نہیں رہتا، بلکہ معمولی بات چیت ہو جاتی ہے۔ اس نکتے سے ایک اہم سوال قائم ہوتا ہے۔ اگر یہاں بات چیت سے’معمولی‘کوحذف کر دیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ استعارے کا گفتگو سے کیا علاقہ ہے؟کیا گفتگو استعارے سے عاری ہوتی ہے؟اگر گفتگو بھی استعارے کی حامل ہوتی ہے تو شاعری اور بات چیت میں کیا فرق ہے؟شاعری استعاراتی نظام میں تسلسل کا نام ہے۔ شاعری میں استعارے کی تہذیب اور تنظیم کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے، جبکہ گفتگو میں یہ تسلسل قائم نہیں ہو پاتا۔ اسی لیے گفتگو میں وہ گہرائی پیدا نہیں ہو پاتی، جوکسی ادبی تخلیق کا امتیاز ہے۔ یہ سچ ہے کہ گفتگو میں بھی استعارے چلے آتے ہیں، لیکن یہ کب ہوتا ہے؟ہم گفتگو میں محاورے استعمال کرتے ہیں۔ محاورے کیا ہیں؟یہ کیسے تشکیل پاتے ہیں؟یہ باتیں الگ باب کھولتی ہیں۔ تنہا لفظ محاورہ نہیں بنتا۔ محاورے میں کم از کم دو لفظوں کا اجتماع چاہیے۔ ’روز روز‘ محاورہ ہے۔ اگر اس کی جگہ کہا جائے کہ ’دن دن‘ مت آیا کرو، تو روز روز کا مفہوم نہیں بنتا۔ اس لیے محاورے میں روایت بننے کی صلاحیت ہونی چاہیے، تاکہ استناد میں مسئلہ نہ ہو۔ اکثر محاورے استعاراتی اساس پر تشکیل پاتے ہیں۔ وہ محاورے جو افعال پر مبنی ہوتے ہیں، ان میں ایک اسم اور ایک فعل مل کر مجازی مفہوم پیدا کرتا ہے۔ مثلاً’’سینہ پھٹ گیا، دل میں چھید پڑ گئے، آسمان ٹوٹ پڑا۔ تجھ کو کس کی نظر کھا گئی۔ ‘‘(20)کاغذ تو پھٹ سکتا ہے، سینہ نہیں۔ مٹی کا برتن تو ٹوٹ سکتا ہے، آسمان ٹوٹنے والی کوئی شے نہیں۔ اس لیے یہ نا ممکنات، استعارے ہیں، اور عسکری صاحب کے بقول، محاورے محض خوبصورت فقرے نہیں، بلکہ اجتماعی تجربے کے ٹکڑے ہیں۔ یہ مربوط معاشرے کی پیداوار ہیں۔

مجازی پہلو محاورے کا ہو یا کسی بھی لفظ کا، یہ معنی خیزی میں اس لیے ممد ہے کہ مجاز کا مطلب ہی ’تجاوز کرنا‘ ہے۔ استعارہ معنی کو پھیلاتا ہے۔ استعارے کی ماہیت پر شبلی نے کچھ بنیادی سوالات قائم کیے ہیں:

٭٭٭استعارے کی حقیقت کیا ہے؟

٭٭٭یہ کہاں اور کیوں کرکام آتا ہے؟

٭٭٭اس میں ندرت اور لطافت کیوں کر پیدا ہوتی ہے؟

٭٭٭کس طرح ایک بڑے سے بڑاوسیع خیال اس کے ذریعے سے ایک لفظ میں ادا ہو جاتا ہے؟(21)

شبلی نے یہ سوالات اٹھا کر ذہانت کا ثبوت دیا، لیکن اصطلاحی اور روایتی افہام و تفہیم سے ہٹ کر ان کی فلسفیانہ اساس تلاش کرنے سے وہ قاصر رہے۔ محمد حسن عسکری اور ممتاز حسین، یہ دو حضرات ایسے ہیں، جنھوں نے اردو میں حالی کے بعد استعارے کو عام نہج سے گریز کر کے دیکھنے کی کوشش کی۔ ان کے لیے استعارہ کوئی صنعت نہیں، جو بیان کے حسن کو چمکا دے۔  وہ استعارے میں کائنات کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ممتاز حسین نے ’انقلابی استعارہ‘کی اصطلاح وضع کی۔ استعارے کی رٹی رٹائی تعریف کے حامل حضرات اس استعارے کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ محمد حسن عسکری کہتے ہیں کہ استعارہ انسان اور کائنات کوایک دوسرے میں مدغم کرنے کا وسیلہ ہے۔ یہ انسانی تجربے کی نسوں میں سے رستا ہے۔ استعارے سے انحراف زندگی سے انحراف ہے:

اپنے ذہن کے ذریعے آدمی جبلتوں سے بھاگنا چاہتا ہے۔ لیکن ذہن کی کمین گاہ میں خود جبلت چھپی ہوئی بیٹھی رہتی ہے۔ غرض ہم زبان سے جو فقرہ بھی کہیں اس میں بھولاہوایازبردستی بھلایاہواتجربہ یا پوری عمر کا تجربہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ یعنی ہمارا ایک ایک فقرہ استعارہ ہوتا ہے۔ استعارے سے الگ ’اصل زبان‘کوئی چیز نہیں۔ کیوں کہ زبان خود استعارہ ہے۔ چونکہ زبان اندرونی تجربے اورخارجی اشیا کے درمیان مناسبت اور مطابقت ڈھونڈنے یا خارجی اشیا کو اندرونی تجربے کا قائم مقام بنانے کی کوشش سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے تقریباًہرلفظ ہی ایک مردہ استعارہ ہے۔ اصل زبان یہی ہے۔ (22)

عسکری صاحب مردہ استعارے کی بات کرتے ہیں، یعنی زندہ استعارہ بھی کوئی شے ہے۔ اصل زبان استعارہ کیوں ہے؟ہم نے ایک رقیق شے کو’پانی‘فرض کر لیا۔ مفروضہ استعارے کی کلید ہے، لیکن اس میں بعض رعایتیں/مماثلتیں بھی ہونی چاہئیں۔ ہر استعارہ اپنی اساس رکھتا ہے۔ روزمرہ /گفتگو یا اصل زبان میں پانی محض ایک پینے یا پیاس بجھانے والی چیز ہے۔ اس میں اجتماعی اتفاق ہے۔ یہی پانی جب ادبی تخلیق میں استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد زندگی ہوتی ہے۔ یعنی پانی اگر محض پیاس بجھانے والی کوئی شے ہو تو مردہ استعارہ ہے، اور اس سے مراد ’زندگی‘ ہو تو زندہ استعارہ ہے۔ ہر لفظ ایک مردہ استعارہ ہے۔ اس میں زندہ استعارہ بننے کی قوت ہوتی ہے۔ گویا ہر لفظ میں ’استعارہ‘ بننے کی صلاحیت پوشیدہ ہے۔ شاعر جب کسی لفظ میں روح پھونکتا ہے تو ایک نیا سیاق خلق کرتا ہے۔ اس طرح ایک نیا استعارہ وجود میں آتا ہے۔ شاعر کی عظمت اس بات میں ہے کہ اسے الفاظ پرکتنی قدرت ہے؟وہ الفاظ کی کتنی گہرائی میں اتر سکتا ہے؟ان کی کتنی تہوں کو دریافت کرسکتا ہے؟اس میں ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی قوت ہے یا نہیں؟اسی طرح کسی شاعر کو پرکھتے وقت یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ کس گروہ یا مکتبۂ فکر سے متاثر ہے؟یہ اتنا اہم نہیں کہ اس کے موضوعات کیا ہیں؟اس کے ہاں سماجی اقدار اور اخلاق کے پیمانے کیا ہیں؟اس کا مطالعہ کتنا ہے؟اصل دیکھنے کی چیز تو یہ ہے کہ اس نے زبان اور شاعری کو کتنے نئے الفاظ دیے؟اس نے کتنے نئے استعارے خلق کیے؟کتنی نئی تشبیہیں تلاش کیں؟کتنی نئی علامتیں وجود میں لائیں؟کتنی نئی ترکیبیں تراشیں؟پرانے استعاروں اور علامتوں میں اس نے کیوں کر روح پھونکی؟کتنے الفاظ اس نے زندہ کیے؟انھی پہلوؤں سے پتا چلتا ہے کہ تک بندی/قافیہ پیمائی اور معنی آفرینی یا تخلیقی وفور میں کیا فرق ہے۔ فیضؔ کا شعر ہے:

درِ قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے

تو فیض دل میں ستارے اتر نے لگتے ہیں

’اندھیرے کی مہر‘نئی ترکیب ہے۔ یہ رات کا بھی استعارہ ہوسکتی ہے اور مایوسی کا بھی۔ یہاں ستارے زندگی کی رمق اور حوصلے کا استعارہ بن گئے ہیں۔ منطقی معنی میں دل کے اندرستارے نہیں سماسکتے۔ یہ بیان کا حسن ہے۔ یہ تخلیقی منطق ہے۔ یہی استعارہ ہے۔ ہرنیا استعارہ زندگی کا ایک نیا تجربہ ہے۔ شاعری تجربے سے بنتی ہے اور تجربہ جب استعارے میں ڈھلتا ہے تو معنی کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ لفظ و معنی کی کشاکش تو ازلی ہے۔ لفظ ایک سمندر ہے۔ اس کے اندر ایک کائنات بند ہے۔ لفظ گنجینۂ معنی کا طلسم ہے:

’’گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے

جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

طلسم سانپ کی اس تصویر کو بھی کہتے ہیں، جو خزانوں اور دفینوں پر حفاظت کی خاطر بناتے ہیں۔ گویا طلسم اس شعوری کوشش سے عبارت ہے جو خزانوں تک رسائی کو نا ممکن بنا دے۔ کلام غالب میں معنی کو مخفی رکھنے یا قاری کی رسائی سے محفوظ رکھنے کا طلسم(شعوری کوشش)’’لفظ‘‘ ہے کہ یہی معنی تک رسائی کو ناممکن بنادیتا ہے۔ ‘‘۔ ۔ ۔ قاضی جمال حسین/(23)

لفظ گنجینۂ معنی کا طلسم کیوں ہے؟اس میں سمندر کی سی گہرائی اور گیرائی کیوں ہے:

سمندر کی تہ میں

سمندر کی سنگین تہ میں

ہے صندوق۔ ۔ ۔

صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا

میں ڈبیا۔ ۔ ۔

میں کتنے معانی کی صبحیں۔ ۔ ۔

وہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے در بند

اپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی

کتنی سہمی ہوئی!

(یہ صندوق کیوں کر گرا؟

نہ جانے کس نے چرایا؟

ہمارے ہی ہاتھوں سے پھسلا؟

پھسل کر گرا؟

سمندر کی تہ میں۔ ۔ ۔ مگر کب؟

ہمیشہ سے پہلے

ہمیشہ سے بھی سالہا سال سے پہلے؟)

اور اب تک ہے صندوق کے گرد

لفظوں کی راتوں کا پہرا

۔ ۔ ۔ وہ لفظوں کی راتیں

جو دیووں کے مانند۔ ۔ ۔

پانی کے لسدار دیووں کے مانند!

یہ لفظوں کی راتیں

سمندر کی تہ میں تو بستی نہیں ہیں

مگر اپنے لاریب پہرے کی خاطر

وہیں رینگتی ہیں

شب و روز

صندوق کے چارسورینگتی ہیں

سمندر کی تہ میں!

بہت سوچتا ہوں

کبھی یہ معانی کی پاکیزہ صبحوں کی پریاں

رہائی کی امید میں

اپنے غواص جادو گروں کی

صدائیں سنیں گی؟ [سمندر کی تہ میں/ن۔ م۔ راشد]/(24)

لفظ مبہم کیوں ہوتا ہے؟معنی ہر دم پھسل کیوں جاتا ہے؟ایک پہلو ختم نہیں ہوتا کہ دس حاضر ہو جاتے ہیں۔ ماں درگا کی طرح لفظ کے دس ہاتھ ہوتے تو بھی کوئی بات نہ تھی۔ اس کے تو سیکڑوں ہاتھ ہیں، اور معنی کی طلسمی انگوٹھی کس ہاتھ کی انگلی میں ہے، کسی کو نہیں معلوم۔ ماں درگا مسکرا رہی ہے کہ قاری متن میں تحلیل کیوں نہیں ہو جاتا!!!

استعارہ لفظ کے اسرار دریافت کرنے کا نام ہے۔ اس دریافت کی بنیاد مشابہتوں پر ہے۔ فن کار مناسبت پیدا کرنے کے لیے رعایتوں کا استعمال کرتا ہے، جو اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہے۔ لفظی اور معنوی۔ ’’رعایت معنوی اکثر براہِ راست استعارہ ہوتی ہے۔ رعایت لفظی استعارے کا التباس پیدا کرتی ہے۔ ‘‘(25)تلازمے استعاروں کو قابلِ توضیح بناتے ہیں۔ اس لیے رعایتوں کا انکشاف شر حیات میں ایک مستقل باب ہے۔ مضمون اور استعارے میں کیا فرق ہے؟دونوں کے مفہوم میں وسعت رعایتوں سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی رعایتیں جتنی ہوں گی، تہ داری اتنی ہی آئے گی۔ مضمون اور استعارہ، دونوں ایک ہی شے نہیں۔ زندگی ایک موضوع ہے۔ اس کے کسی ایک ضمن کو مضمون کیا جاتا ہے۔ استعارہ اس مضمون میں چنگاری بھر دیتا ہے۔ اس میں معنی کا جہان روشن ہو جاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی رقم طراز ہیں:

استعارے کے باب میں مغربی مفکرین نے بہت لکھا ہے۔ ان کے علی الرغم ہماری شعریات میں استعارہ اتنا اہم نہیں۔ استعارے کی جگہ ہمارے یہاں(یعنی سنسکرت شعریات میں بھی اور عربی فارسی شعریات میں بھی)مضمون کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ (26)

ہمارے یہاں یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے۔ ۔ ۔ ۔ [یہ وہ]طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم ایک ہی معنی کو کئی طریقے سے بیان کرسکتے ہیں۔ میر[تقی میر]کا زمانہ آتے آتے استعارے کی حیثیت مضمون کے تصور میں اس طرح ضم ہو گئی تھی کہ اس کا الگ سے ذکر بہت کم ہوتا تھا۔ (27)

جب مضمون اور استعارہ الگ الگ چیزیں ہیں تو باہم ضم کیوں ہوئے؟ہمارے یہاں جب یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے تواس کی جگہ مضمون کو مرکزی مقام حاصل کیسے ہوا؟فاروقی صاحب نے اس کی وجہ بیان نہیں کی۔ سنسکرت شعریات کا معاملہ عنبر بہرائچی پر چھوڑیے۔ اردو شعریات میں استعارعے پر بحث کی صورتِ حال یقیناً وہی ہے جو فاروقی صاحب نے بیان کی۔ یعنی ہماری اولین تنقید (تذکرے)نظری مباحث سے خالی ہے۔ ادب میں ایک ڈسپلن کی حیثیت سے تنقید کو ہم نے مغرب سے مستعار لیا۔ ولی کا شعر ہے:

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں

تا قیامت کھلا ہے باب سخن

یہاں مضمون کی جگہ استعارہ بھی فرض کیا جا سکتا ہے۔ ولی نے اس مضمون کو’ استعارہ‘کی اصطلاح میں کیوں نہیں باندھا؟غالب نے شاعری کو معنی آفرینی کہا۔ مضمون آفرینی کیوں نہیں کہا؟اس لیے کہ وہ ’گنجینۂ معنی کے طلسم‘پرایمان رکھتے ہیں۔ مضمون میں یہ طلسم، استعارہ پیدا کرتا ہے۔ بقول محمد حسن عسکری؛[یہ]انسان اور کائنات کو ایک دوسرے میں مدغم کرنے کا وسیلہ ہے۔ (28)اس وسیلے سے خوف، زندگی سے خوف ہے۔ اس وسیلے کی موت، زندگی کی موت ہے۔ اس لیے ہماری تنقید کو بھی بیدار ہونا پڑے گا، تاکہ یہ طلسم کہیں گم نہ ہو جائے۔ یہ سچ ہے کہ بعض استعارے گھس پٹ کر دم توڑ دیتے ہیں۔ ان میں عصری معنویت سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ اتنے افسوس کی بات نہیں، جتنا یہ کہ نئے استعاروں کی تخلیق کا سلسلہ موقوف ہو جائے۔ استعارہ تجربے کی دبازت کا نشان ہے۔ اس لیے تخلیقی سطح پر اس کی توانائی کا اعتراف لازمی ہے۔ استعارہ محض شاعری کی جاگیر نہیں، بلکہ ہر تخلیقی ساخت کا خاصہ ہے۔ اگر آج کا کوئی ادیب استعارہ استعمال نہیں کرتا تو یہ زندگی سے فرار ہی نہیں، بلکہ خود ناشناسی بھی ہے اور فطرت کی عظیم نعمت کی ناقدری بھی۔ اگر کسی سماج میں استعارے خلق نہیں ہو رہے ہیں تواس کا مطلب اس کی حسیت کو گھن لگ چکا ہے۔ اس کے داخلی ڈھانچے کو کسی فقیر کی بددعا یاکسی مہان رشی کی شراپ لگ گئی ہے، اور اس کا ہر فرد بیمار ہے۔ عسکری صاحب نے کہا تھا کہ استعارے کی پیدائش کا عمل وہی ہے جو خواب کی پیدائش کا۔ (29)خواب کے لیے نیند شرط نہیں، لیکن جس دنیا میں خواب سے زیادہ لوگوں کو نیند پیاری ہو، وہاں استعارے کے لیے یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے۔ انسان مشین بن جائے تو جیون نہیں جی سکتا۔ جس طرح اونچی عمارتوں میں مٹی کے گھروں کی خوشبو نہیں مل سکتی، اسی طرح ’حقیقت‘ کبھی خواب کا بدل نہیں بن سکتی۔ تو کیا ہمیں پھر جنگل کی طرف پلٹنا چاہیے؟آج نہ وہ قیس ہے، نہ وہ صحرا۔ نہ وہ شیریں ہے، نہ وہ فرہاد۔ پھر بھی یہ دل پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہر نکالنا چاہتا ہے۔ اگر یہ خواب ہے تو خواب ہی صحیح۔ مٹی کا بھید کسے معلوم:

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

(عرفان صدیقی)

٭٭

حواشی

(1)فیاض احمد وجیہہ، قیدیوں کے مزار پر(افسانہ)، مطبوعہ:جدید ادب، شمارہ:14(جنوری تا جون 2010)، جرمنی، مدیر:حیدر قریشی، ص:226

(2)انتظارحسین، بکرم، بیتال اور افسانہ، مشمولہ:علامتوں کا زوال، 1983، نئی دہلی:مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، ص:123

(3)وہاب اشرفی، قدیم مغربی تنقید، 2010، دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ص:29

(4)ملک اشفاق، افلاطون:حیات، فلسفہ اور نظریات، 2009، لاہور، پاکستان:بک ہوم، ص:100

(5)کلیم الدین احمد، قدیم مغربی تنقید، 2004(دوسرا ایڈیشن)، لکھنؤ:اترپردیش اردو اکادمی، ص:14

(6)محمدحسن عسکری، مجموعہ محمد حسن عسکری، 1994، لاہور، پاکستان:سنگ میل پبلی کیشنز، ص:980

(7)محمدہادی حسین، مغربی شعریات، 1968، لاہور، پاکستان:مجلس ترقی ادب، ص:345

(8) Aristotle, On The Art Of Poetry, Translated by Ingram Bywater, 1959, London, Oxford University Press, PP:85-86

(9)خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:114

(10)S.T. Coleridge, Biographia Literaria,1973,Edited with his Aesthetical Essays by J.Shawcross, Volume:I,  Chapter: xiii, Oxford University Press, P:202.

(11)خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:113

(12)ارسطو، شعریات، مترجم:شمس الرحمن فاروقی، 1998(تیسرا اڈیشن)، نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص:30

(13)Aristotle, On The Art Of Poetry, Translated by Ingram Bywater, 1959, London, Oxford University Press, PP:71-72

(14)ارسطو، شعریات، مترجم:شمس الرحمن فاروقی، 1998(تیسرا اڈیشن)، نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص:108

(15) Lee Spinks,Friedrich Nietzsche, 2007, Noida, U.P.: Routledge, P:42

(16)Lee Spinks,Friedrich Nietzsche, 2007,Noida, U.P.: Routledge, P:38

(17)شمس الدین فقیر، حدائق البلاغت، مترجم:امام بخش صہبائی، سال اشاعت:ندارد، لکھنؤ:منشی نول کشور، ص:41

(18)ڈاکٹر مجیب الرحمن، علم بیان وعلم عروض، 1981(دوسرا اڈیشن)، کلکتہ:عثمانیہ بک ڈپو، ص:45

(19)خواجہ الطاف حسین حالی، مقدمہ شعرو شاعری، مرتبہ:وحید قریشی، 2002، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:212

(20)شبلی نعمانی، شعر العجم(جلد چہارم)، 2007(طبع جدید)، اعظم گڑھ:دار المصنفین، شبلی اکیڈمی، ص:38

(21)ایضاً، ص:39

(22)محمدحسن عسکری، مجموعہ محمد حسن عسکری، 1994، لاہور، پاکستان:سنگ میل پبلی کیشنز، ص:196

(23)قاضی افضال حسین، تحریر اساس تنقید، 2009، علی گڑھ:ایجوکیشنل بک ہاؤس، ص:4

(24)ن۔ م۔ راشد، کلیات راشد، 2004، دہلی:کتابی دنیا، ص ص:450-452

(25)شمس الرحمن فاروقی، شعر شور انگیز، 2006(تیسرا اڈیشن)، نئی دہلی:قومی کونسل براے فروغ اردو زبان، ص:61

(26)ایضاً، ص:18

(27)ایضاً، ص ص:60-61

(28)محمدحسن عسکری، مجموعہ محمد حسن عسکری، 1994، لاہور، پاکستان:سنگ میل پبلی کیشنز، ص:200

(29)ایضاً، ص:196

٭٭٭

ماخذ:

http://rekhtaurdupoetry.blogspot.in/2013/10/blog-post_11.html

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید