فہرست مضامین
مشرف عالم ذوقی: عہد ساز شخصیت
الماس فاطمہ
انتساب
والد بزرگوار جناب
قائم رضا صاحب
اور
عاجل عباسی(ماموں )
کے
نام
پیش لفظ
سب سے پہلے میں اس خداوند کریم کی بارگاہ میں شکریہ کا نذرانہ پیش کرتی ہوں۔ جس نے مجھے اس کتاب کو تحریر کرنے کا موقع فراہم کیا۔
ناول اردو نثر کی ایک اہم ترین صنف ہے۔ ناول زندگی کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔ جس میں زندگی کے مختلف حادثات و واقعات کو دلچسپ پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ صنف انگریزی ادب سے اردو میں آئی۔ ابتداء میں اس پر داستانوی رنگ غالب تھا۔ تاہم ناول گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان اثرات سے آزاد ہوئی اور ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا ہادی رسوا کی ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ سے لے کر پریم چند کے مشہور ناول ’’گؤدان‘‘ تک اردو ناول نے مختلف رنگ و آہنگ اختیار کیا۔ یہاں تک کی موجودہ زمانے میں بھی بڑے آب و تاب کے ساتھ یہ صنف آگے بڑھ رہی ہے۔
جن معاصر ناول نگاروں نے اپنے ناولوں سے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ان میں مشرف عالم ذوقی کا نام بے حد اہم ہے۔ ذبح، مسلمان، پوکے مان کی دنیا، شہر چپ ہے، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی، آتش رفتہ کا سراغ وغیرہ اہم ناول ہیں۔ ذوقی کے ہر ناول کا موضوع ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ذوقی اپنے ہر ناول میں قاری کو موضوعات کی ایک نئی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ ذوقی کے ناولوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے کہ ذوقی کا مشاہدہ گہرا ہے۔ موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے یہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ۲۰۰۸ء میں منظر عام پر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے دلوں پر چھا گیا اور بحث و مباحث کا موضوع بن گیا۔ ان کے اب تک گیارہ ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جن کی ادبی دنیا میں کافی پذیرائی ہوئی۔ ذوقی کے ناولوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ناول ہمیں حقیقی زندگی سے قریب نظر آتے ہیں۔
میرا یہ مقالہ مندرجہ ذیل پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
باب اوّل : مشرف عالم ذوقی کی حیات اور ادبی تعارف
باب دوّم : مشرف عالم ذوقی کے ہم عصر ناول نگار
باب سوّم : مشرف عالم ذوقی کے ناولوں کا مختصر جائزہ
باب چہارم : ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا تفصیلی و تجزیاتی جائزہ
باب پنجم : ماحصل
پہلے باب میں مشرف عالم ذوقی کی حیات اور ان کے ادبی تعارف پیش کیا گیا ہے ساتھ ہی ذوقی کے تخلیقی سفر پر بھی مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرے باب میں مشرف عالم ذوقی کے ہم عصر ناول نگاروں کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ ان کے ہم عصر ناول نگاروں میں غضنفر، عبد الصمد، حسین الحق، ترنم ریاض، شائستہ فاخری، نورالحسنین، رحمن عباس، سلیم شہزاد، پیغام آفاقی اور شفق کے مشہور ناولوں کے موضوع، پلاٹ، کردار، اسلوب، زبان و بیان اور منظر نگاری کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
باب سوّم میں مشرف عالم ذوقی کی ناول نگاری کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس باب میں ذوقی کے تمام ناولوں کے موضوع، پلاٹ، کردار، مکالمہ، منظر نگاری، اسلوب، زبان و بیان اور نظریہ حیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب چہارم مقالے کا اہم اور مرکزی باب ہے۔ اس باب کا تعلق مقالے کے موضوع سے ہے۔ اس باب میں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ناول کا پلاٹ، کردار، مکالمہ نگاری، منظر نگاری، اسلوب، زبان و بیان، تکنیک اور فلسفۂ حیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب پنجم اس مقالے کا آخری باب ہے اس باب میں مقالے کے تمام ابواب اور ذیلی ابواب کا نچوڑ اور خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ مقالے کے آخر میں کتابیات کے لئے کچھ صفحات مختص کئے گئے ہیں اور ان تمام کتابوں کے نام دئیے گئے ہیں جو مقالے کی تیاری کے دوران زیر مطالعہ رہی ہیں۔ انہیں کتابوں میں سے کچھ کتابوں سے حوالے اخذ کئے گئے ہیں۔
میں ڈاکٹر مسرت فردوس صاحبہ کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی و مدد فرمائی۔ پروفیسر محمد غیاث الدین صاحب کی میں شکر گزار ہوں کہ انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صدیق محی الدین اور محترمہ کیرتی مالنی جاؤلے صاحبہ کی بھی بہت بہت شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی۔
میں اپنے والدین کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انھوں نے مجھے اعلیٰ تعلیم دی اور ہر مشکل وقت میں میری حوصلہ افزائی کی اور ساتھ ہی میں میرے ماموں جناب عاجل عباسی صاحب کی بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انھوں نے نہ صرف مجھے آگے پڑھنے کی تاکید کی بلکہ ہر قدم پر میری حوصلہ افزائی بھی کی۔
میں محترم مشرف عالم ذوقی کا شکریہ تہہ دل سے ادا کرتی ہوں کہ انھوں نے اپنی مصروفیت کے باوجود میرے لئے وقت نکالا۔ میں نے ای۔ میل کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم کیا اور ان کے ذریعہ فراہم کی گئی گراں قدر معلومات اور مشورے میرے لئے معاون ثابت ہوئے۔ ان کے علاوہ میں اردو ادب کے مشہور ناول نگار نورالحسنین کی بھی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے کتابوں اور اہم ماخذات تک میری رسائی کی اور مواد کے فراہمی کے سلسلے میں میری رہنمائی کی۔ میں میری عزیز دوست اسود گوہر اور تہمینہ صدیقی کی بھی بے حد شکر گزار ہوں جنھوں نے میرا ہر قدم پر ساتھ دیا…
میں نے عنوان کی مناسبت سے معلومات فراہم کرنے اور حقائق کی نشاندہی میں بساط بھر کوشش کی اور ذوقی صاحب کی عہد ساز شخصیت اور ان کے ناولوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کو بھی ملحوظ رکھنے کی بھی کوشش کی کہ اس موضوع کے ساتھ انصاف کر سکوں۔ یہ کتاب میری ایک حقیر طالب عالمانہ کوشش ہے جو آپ دانشوروں کے سامنے ہے۔
الماس فاطمہ
باب اوّل
مشرف عالم ذوقی حیات اور ادبی تعارف
پیدائش
مشرف عالم ذوقی موجودہ فکشن نگاروں میں کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے افسانوں اور ناولوں میں ایک عام انسان کی دنیا آباد ہے۔ یعنی ایسی دنیا جسے وہ خوابوں میں دیکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ایک عجیب سی کسک کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ذوقی فری لاؤنس لکھنے والوں میں سے ہیں نہ کسی کے پابند اور نہ کوئی لادی ہوئی ذمہ داری۔ ایسے میں ان کا تخلیقی سفر کافی تیز رہا ہے۔ ان کے افسانے اور ناول مسلسل اشاعت پذیر ہو رہے ہیں۔ ذوقی آج کل دہلی کے لچھمی نگر میں قیام پذیر ہیں اور ایک اچھے جرنلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹی۔ وی پروڈیوسر اور ڈائرکٹر بھی ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کی پیدائش ۲۴ مارچ ۱۹۶۲ ء میں آ رہ (بہار) میں ایک علمی اور ادبی خاندان میں ہوئی۔ ان کا پورا نام ’’مشرف عالم مشکور عالم‘‘ ہے۔ شروع سے ہی ان کا خاندان ادب سے جڑا ہوا تھا۔ ان کے والد کو بھی شاعری کا شوق تھا۔ وہ مشرف عالم کو بھی میر تقی میرؔ، مرزا غالبؔ اور محمد ابراہیم ذوقؔ کے اشعار اکثر سنایا کرتے تھے۔ اس بارے میں مشرف عالم ذوقی خود کہتے ہیں :
’’گھر میں ادب کا ماحول تھا۔ ابّا حضور ’مشکور عالم بصیری،‘شاعری کا بلند ذوق و شوق رکھتے تھے۔ گھر میں مشاعرہ بھی ہوتا تھا۔ ابّا بچپن سے میرؔ و غالبؔ کے اشعار سنایا کرتے، ان شاعروں میں ذوقؔ سے مجھے کچھ زیادہ ہی محبت ہو گئی، مجھے یاد ہے۔ ایک چھوٹی سی بچوں والی سائیکل ہوا کرتی تھی۔ میں سائیکل چلاتا ہوا بلند آواز میں ذوقؔ کے اشعار پڑھا کر تا__
کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا
نہنگ و اژدہا و شیر و نر مارا تو کیا مارا
ایک دن ابّا اتنے خوش ہوئے کہ مجھے گلے سے لگایا اور کہا…….یہ ذوقی ہے اور لیجئے میں مشرف عالم سے مشرف عالم ذوقی بن گیا۔ ‘‘ ۱؎
اس طرح ذوقؔ کی شاعری سے متاثر ہونے والے مشرف عالم کو والد کی جانب سے ’’ذوقی‘‘ کا خطاب عطا ہوا۔ والد کی جانب سے عطا ہوئے اس خطاب کو مشرف عالم نے ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ لگائے رکھا اور ادب کی دنیا میں وہ ’’مشرف عالم ذوقی‘‘ کے نام سے ہی مشہور ہوئے۔
بچپن
مشرف عالم ذوقی کا بچپن ان کے گاؤں آ رہ میں ہی گزرا۔ بچپن سے ہی ان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے اسی وقت ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بڑے ہو کر کہانی کار ہی بنیں گئے۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے اگر ہم یہ کہیں کہ مشرف عالم ذوقی پیدا ہی ہوئے ہیں کہانی کار بننے کے لئے تو غلط نہ ہو گا۔ بچپن میں ان کے والد سب بچوں کو ساتھ لے کر چھت پر جا کر چاندنی رات میں کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اس بات کو یاد کرتے ہوئے وہ یوں لکھتے ہیں :
’’گرمیوں کے موسم میں چھت پر چارپائی بچھی ہوئی ہوتی تھیں۔ آسمان پر تاروں کی بارات…..ٹھنڈی ٹھنڈی بہتی ہوئی ہوا۔ ہم بھائی بہن چھت پر ابّا کے آنے کا انتظار کرتے۔ ابّا کے آتے ہی ہم انھیں گھیر کر بیٹھ جاتے۔ ابّا پھر داستانوں کو لے کر بیٹھ جاتے۔ داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش رباء…..عمر و عیار کی ٹوپی، یہاں تک کہ سراج انور کے ناول بھی ابّا سے ہی سننے کا موقع ملا۔ مطالعہ میں نے بعد میں کیا۔ ‘‘ ۲؎
ذوقی نے ادب کو بہت قریب سے دیکھا کیوں کہ ان کا گھر ادب کا گہوارہ تھا۔ بچپن سے ہی ادبی ماحول ملنے کی وجہ سے ان کے اندر ایک ادیب پیدا ہو رہا تھا۔ اس وقت ان کے گھر میں بہت سارے رسالے آیا کرتے تھے، جیسے ’’پراگ‘‘ ، ’’چندا ماما‘‘ اور اردو میں ’’کھلونا‘‘ وغیرہ۔ ان رسالوں کو پڑھ کر کہیں نہ کہیں ان کے اندر کہانیاں بن رہی تھیں اور پھر وہ جلد ہی کہانیاں بھی لکھنے گئے۔ بچپن میں ان کا ذہن اور بچوں کی طرح کھیلوں میں نہیں لگتا تھا۔ وہ بچپن کے چھوٹے چھوٹے کھیلوں میں بھی ہار جاتے تھے وہ بھی اپنے عمر کے چھوٹے بچوں سے۔ لیکن اُن کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کبھی گھبراتے نہیں تھے۔ وہ بار بار کھیلتے تھے اور ہار جاتے تھے یا یوں کہیں کہ ہر بار ہار جاتے تھے۔ پھر بچپن کے کھیل اور شرارتیں کرتے ہوئے سات سال کی عمر میں ہی ان کے ہاتھ میں قلم آ گیا۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے :
’’آنکھیں کھولیں تو ابّا حضور جناب مشکور عالم بصیری کی شفقتوں بھرا آسمان تھا اور اُٹھتے بیٹھتے شکسپئر، ملٹن، غالب و اقبال کی صدائیں تھیں۔ پھر جب لڑکپن کی حد شروع ہوئی تو دوسرے لڑکوں کی طرح میں نے بھی کھیل کود میں دلچسپی لینی چاہی۔ لٹو، گلی ڈنڈا، گولی سے لے کر کرکٹ، ہاکی، فٹ بال اور والی بال تک، مگر یہ کیا، آس پاس کے معمولی بچوں سے بھی میں شکست کھا جاتا۔ دل میں یہ خیال آیا کہ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ہر بار کھیل میں، میں ہار جاتا ہوں۔ یہ بار بار کی شکست کا صدمہ کچھ ایسا تھا کہ ہاتھوں میں قلم اُٹھا لیا۔ اب نہیں ہاروں گا۔ صرف جیتوں گا۔ تب سے اب تک پریم چند کی اس بات پر عمل کرتا رہا ہوں کہ ادب کو مزدور کی طرح ہر دن مزدوری کرتا ہے۔ یہی کمٹمنٹ تب سے اب تک بنا ہوا ہے۔ ‘‘ ۳؎
اس وقت کے بعد ذوقی نے کبھی کھیل کی طرف اپنی دلچسپی نہیں دکھائی۔ وہ کھیل سے دور ہی رہتے تھے۔ ذوقی نے کھیلوں سے ہار کر قلم کو جیتا۔ کھیلوں سے زیادہ پڑھائی کو فوقیت دی۔ انھوں نے بچپن میں دوست بھی بہت کم بنائے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت چھوٹی سی عمر سے ہی انھوں نے کتابوں سے دلچسپی لینی شروع کر دی تھی اور آج وہ اتنے بڑے ناول نگار کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
ماں باپ
مشرف عالم ذوقی کی ماں کا نام ’’سکینہ خاتون ‘‘ تھا۔ یہ سادہ مزاج کی مالک تھیں۔ جب سکینہ خاتون چھوٹی تھی تب ان کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس وقت کھیت اور بازار سے مال گزاری آیا کرتی تھی۔ ان کی ماں کے کئی بھائی بہن تھے۔ ان سب کی پرورش اور ان کی شادی بیاہ انھوں نے ہی کی۔ ایک عورت اپنی زندگی میں دوسروں کی خوشی کے لیے کیا کچھ نہیں کرتی ہے، اور اس کی مثال سکینہ خاتون ہیں۔ وہ خاموش طبعیت اور وفا پرست شخصیت کی مالک تھیں۔ سکینہ خاتون زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھی۔ اس کے باوجود ان کی تربیت ایک ایسے ماحول میں ہوئی تھی۔ جس کی مثال ملنا مشکل ہے اور ان کی جھلک ان کے بچوں میں بخوبی نظر آتی ہے۔ اپنی ماں کے بارے میں بتاتے ہوئے ذوقی کہتے ہیں کہ:
’’میں نے یہ بات کہی کہ میرے ابّو میرے Idealتھے۔ لیکن کہیں نہ کہیں میری کہانیوں میں جب مضبوطی کی بات آتی ہے۔ جیسے میں نے کہا کہ میری کہانیوں کی عورتیں کبھی کمزور نہیں ہوتی۔ ان میں، میں نے دو لوگوں کو دیکھا ان میں میری پتنی اور دوسری میری ماں جو کمزور نہیں ہیں۔ میری ماں کسی بھی پرِستھتی کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ میں نے کبھی بھی اپنی ماں کو کمزور طریقے سے نہیں دیکھا۔ ‘‘ ۴؎
سکینہ خاتون کا انتقال ۱۹۸۳ء کو مظفر پور میں ہوا۔ اس وقت ذوقی بی۔ اے کر رہے تھے۔ ماں جیسی ہستی کو الوداع کہتے ہوئے ان کے دل میں جو خیال آیا اس کا بیان ذوقی سلسلۂ روز و شب میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مجھے تسلی مل رہی تھی۔ امّی، اچھا کیا، جو تم یہ شہر، یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ یہ رہنے والوں کی جگہ ہی نہیں ہے __‘‘ ۵؎
مشرف عالم ذوقی کے والد کا نام ’’مشکور عالم بصیری‘‘ تھا۔ وہ آ رہ کے ایک عزت دار شخص اور Deputy Director of Education تھے۔ ذوقی کے والد ان کے Ideal تھے۔ ذوقی اپنے والد جیسے بننا چاہتے تھے۔ والد کے کہانی کہنے کے انداز کو ذوقی بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
’’وہ ڈرامائی انداز میں ان کہانیوں کو بیان کرتے۔ آج محفلوں میں کہانیاں سناتے ہوئے میں کسی حد تک اس انداز کو اپنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ ہنر کہاں سے لاؤں جو ابّا مرحوم کے پاس تھا۔ ‘‘ ۶؎
مشرف عالم ذوقی کے والد ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ یہ شاعری کا بلند شوق و ذوق رکھتے تھے۔ اپنی نوکری سے وقفے کے بعد وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے بچوں کے ساتھ گزارہ کرتے تھے۔ جب وہ گھر پر رہتے تو بچوں کے ساتھ خوب کھیلا کرتے تھے۔ ذوقی کے والد ذوقی کے ایک اچھے دوست بھی تھے۔ وہ ذوقی کے ساتھ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر بحث کیا کرتے تھے اور ہر پہلو کے بارے میں بتاتے رہتے تھے۔ چاہے وہ پہلو ادب کاہو یا خود ذوقی کی زندگی کا۔ مشکور بصیری پڑھے لکھے اور عالم تھے۔ ان کی Study بہت زیادہ تھی۔ وہ قرآن شریف، گیتا، رامائین، مہابھارت، Medieval science سب کے بارے میں اچھی معلومات رکھتے تھے۔ چونکہ ان کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس لئے وہ اپنے سارے بچوں سے خاص کر ذوقی سے پڑھنے کی تاکید کیا کرتے تھے۔ مشکور عالم بصیری ذوقی کے شفیق باپ اور بیحد قریب رہنے والے دوست تھے۔ وہ ہر قدم پر ذوقی کی رہنمائی کرتے تھے جس کی بناء پر ذوقی اپنی ہر بات میں اپنے والد کا قصیدہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ ان کی موت کا ذوقی کو شدید صدمہ ہے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے ذوقی اپنی کتاب ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ان تین برسوں میں برے موسم کی زد پر، میں بھی رہا ہوں۔ تین سال پہلے ’’سنناٹے میں تارا‘‘ لکھتے ہوئے، میں انتہائی فخر کے عالم میں اپنے فرشتہ جیسے باپ مشکور عالم بصیری کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔
اور اب یہ قلم خاموش ہے …….وہ مہربان شفیق چہروں والا باپ۶ /مئی۲۰۰۱ کی صبح، بادلوں کے کچھ بے حد حسین ٹکڑوں کے بیچ ہمیشہ کے لئے گم ہو گیا۔ ‘‘ ۷؎
خاندان
مشرف عالم ذوقی کا خاندان بڑا ہے۔ ذوقی کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں جن میں ذوقی کا نمبر پانچواں ہے۔ خاندان کے سبھی لوگ ذوقی سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کے سب سے بڑے بھائی کاخاندان: نام ’’مسرور عالم‘‘ ہے۔ وہ مشرف عالم سے ۱۳۔ ۱۴ برس بڑے ہیں۔ مسرور عالم اردو کے ایک بڑے انشائیہ نگار ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’شگّو کا ہوٹل‘‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔ ان کے بعد ذوقی کی ایک بہن ہیں جن کانام ’’نصرت جہاں ‘‘ ہیں۔ انہیں بھی لکھنے کا بہت شوق ہے کالج کے دنوں میں وہ کہانیاں لکھتی تھیں۔ ان کی کئی کہانیاں شائع بھی ہو چکی ہیں۔
نصرت جہاں کے بعد ان کی ایک اور بہن ہیں جن کا نام ’’عصمت جہاں ‘‘ ہیں۔ یہ بھی ایک اچھی افسانہ نگار ہیں۔ اپنی اس بہن کے بارے میں ذوقی کہتے ہیں کہ میری کئی کہانیوں میں جو مضبوط عورتیں آتی ہیں۔ ان میں میری منجھلی بہن کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ عصمت جہاں خاموش طبعیت کی مالک ہیں۔ عصمت جہاں کے بعد ایک اور بہن ’’ نزہت جہاں ‘‘ ہے۔ اس کے بعد مشرف عالم ذوقی کا نمبر ہے اور ان کے بعد ان کا چھوٹا بھائی ’’منوّر عالم‘‘ ہیں۔
مشرف عالم ذوقی کی بڑی بہن شادی کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ Australia چلی گئیں۔ ان سے چھوٹی بہن عصمت جہاں کی شادی اردو کے شاعر ’’بدیع الزماں ‘‘ کے بیٹے کے ساتھ ہوئی۔ ان سارے لوگوں کا اثر مشرف عالم ذوقی کی زندگی پر بہت پڑا۔ ذوقی اپنی کامیابی کے پیچھے اپنے تایا ابو کا ساتھ بھی بتاتے ہیں۔ بڑے ابو ذوقی کے لکھنے کے انداز سے بہت خوش ہوتے تھے۔ جب بھی ذوقی کی کوئی کہانی شائع ہوتی تو بڑے ابو اس رسالے کے شمارہ کو منگا کر اس کہانی کو فوراً پڑھتے تھے۔ اور جب ذوقی ان کے پاس پہنچتے تو وہ ان کہانیوں کو پڑھ چکے ہوتے اور پریشان ہو کر ذوقی سے کہتے تھے۔ ’’یہ سب تم کیسے لکھ لیتے ہو؟ تم یہ سب کیسے سوچ لیتے ہو؟‘‘ اور اس طرح وہ ذوقی کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔
تعلیم
مشرف عالم ذوقی کو بچپن سے ہی تعلیمی ماحول ملا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد Education Officer تھے۔ والد کا تعلق تعلیم سے ہونے کی وجہ سے سب بچوں سے پڑھو پڑھو کا نعرہ لگوایا جاتا تھا۔ ان کے والد کا کہنا تھا کہ ’’ دنیا میں تم کچھ بھی کر نا چاہتے ہو تو اس کے لئے تمہیں پڑھنا پڑے گا۔ والد کے ساتھ ساتھ ان کی والدہ بھی ان سے ہمیشہ پڑھنے کی تاکید کیا کرتی تھیں۔
ذوقی نے تعلیم کا آغاز قرآن شریف سے کیا۔ اس کے بعد داخلہ آ رہ کے ’’شہابت اسکول‘‘ میں کروا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’جین اسکول‘‘ میں داخلہ کروا لیا۔ اسکول کا واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں :
’’میں آٹھویں کلاس میں تھا۔ تب میں نے پہلی بار ایک ریڈیو کا کاریہ کرم کیا تھا۔ اس وقت میرے ہندی کے گرو ہند کے بہت بڑے ساہیتہ کار ’’مدھو سنگھ‘‘ تھے۔ مجھے یاد ہے۔ اس دن مدھو سنگھ نے کلاس کی چھٹّی کر دی تھی اور سارے بچوں کو بلا کر کہا کہ ’’دیکھو ہمارے کلاس میں ایک ساہتیہ کار بچہ بھی ہے۔ اس کی کہانی سنو‘‘۔ تو آٹھویں کلاس میں میری کہانی سنی گئی تھی۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ پرنسپل اور تمام بچے میری کہانی سن رہے تھے۔ میں اپنے آپ کو بہت عجیب محسوس کر رہا تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے ایک نیا وکاس دیا ہے جو ان لوگوں سے کہیں الگ تھا۔ ‘‘ ۸؎
ذوقی نے جین اسکول سے میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کی۔ پھر انھوں نے آگے کی پڑھائی کے لئے آ رہ ہی کے ایک کالج ’’مہاراجہ کالج‘‘ میں داخلہ کروایا۔ H.S.C. میں انھوں نے Science Subject لیا تھا۔ مگر بعد میں اُن کویہ احساس ہوا کہ اگر ادب کی خدمت انجام دینی ہے تو Physics اور Chemistry سے کام نہیں چلے گا۔ اس لئے مجھے تاریخ اورسیاست کی معلومات حاصل کرنی ہو گی۔ اس لئے انھوں نے Science Subject چھوڑ کر Arts میں داخلہ لے لیا۔ جب یہ خبر گھر میں پہنچی تو گھر میں ایک طوفان آ گیا تھا۔ مگر پھر سب لوگ مان گئے۔ ذوقی نے بچپن سے ہی سوچ لیا تھا کہ ان کو ادب کی خدمت کرنی ہے۔ اس لیے انھوں نے ایم۔ اے تاریخ سے کیا۔
شادی
مشرف عالم ذوقی کی شادی ۸ جولائی ۹۹۱ا ء میں تبسّم فاطمہ سے ہوئی۔ وہ ایک افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی شاعرہ بھی ہیں۔ وہ ایک اچھی شریک حیات ہیں انھوں نے ذوقی کے ساتھ ساتھ ان کے پورے خاندان کو بھی پوری ذمہ داری کے ساتھ سنبھالا ہے۔ ذوقی کے کامیاب ادیب ہونے میں تبسّم فاطمہ کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔
ایک زمانے میں مشرف عالم ذوقی کی زندگی تنگی سے گزر رہی تھی، صرف کچھ رسالے تھے جس میں وہ کہانیاں لکھتے تھے۔ ان سے ان کی آمدنی بہت کم تھی۔ اس وقت تبسّم نے کہا ’’اگر تم کہو تو ہم لوگ کچھ اور کریں۔ ‘‘ اسی درمیان ذوقی کو دوردرشن کی طرف سے مواقع ملے اور ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ تب تبسّم نے بھی کام کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ ذوقی کہتے ہیں کہ ’’مجھے بڑا آدمی بنانے کے لئے تبسّم نے بہت مشقت کی ہے۔ میری پوری زندگی تبسّم کے احسان تلے دبی ہوئی ہے۔ ‘‘ ذوقی کی شریک حیات نے ان کی زندگی کے ہر پل میں چاہے وہ اچھے ہوں یا برے ان کا ساتھ دیا ہے۔ ذوقی کو لکھنے کا بہت شوق ہے اور وہ اپنا زیادہ وقت لکھنے میں گزارتے ہیں۔ اس وقت ان کی بیوی ہمیشہ ان کی ہمت افزائی کرتی ہے۔ اس بارے میں ذوقی خود کہتے ہیں :
’’تبسّم نے مجھے صرف اور صرف لکھنے کے لئے مجبور کیا کہ تم لکھو تمہارا کام لکھنا ہے۔ بل کیسے بھرنا ہے، بینک جانا ہے، دنیا دیکھنی ہے، شادی بیاہ میں کس کو کیا دینا ہے، کیا نہیں دینا ہے، بچوں کی فیس کب جائے گی، بچہ کالج کب جائے گا۔ اس نے مجھے کبھی یہ نہیں کرنے دیا۔ یہ سب تمہارا کام نہیں ہے تمہارا کام صرف صرف لیکھن ہی کرنا ہے۔ باقی چیزوں کے لیے میں ہوں کیوں کہ اسی چیزوں کے لئے میں نے شادی کی ہے۔ ‘‘ ۹؎
اس اقتباس کو دیکھنے کے بعد ہم یہ بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ تبسّم فاطمہ ذوقی کی بے مثال ہمسفر ہیں۔ انھوں نے ذوقی کا زندگی کے ہر موڑ پر ساتھ دیا ہے۔ ان کے بارے میں ذوقی خود کہتے ہیں کہ ’’میں اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کہوں گا کے تبسّم نہ ہوتی تو شاید میں نہ ہوتا۔ ‘‘
مشرف عالم ذوقی کی دو اولادیں ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ بیٹے کا نام ذوقی نے ’’ساشا عالم‘‘ رکھا ہے جس کو ذوقی بہت پیار کرتے ہیں۔ ساشا کو کھیل سے بہت لگاؤ ہے۔ وہ کرکٹ کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو فلمی دنیا سے بھی خاصی دلچسپی ہے۔ اس کے بعد ۲۰۰۱ میں ایک بیٹی ہوئی جس کو بہت پیار سے ذوقی ’’انعمتہ‘‘ کہتے تھے۔ مگر وہ دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکی۔ اپنی بیٹی کے بارے میں ذوقی لکھتے ہیں :
’’۶/مئی ۲۰۰۱ء کو ابی کا انتقال ہو ا اور اس کے ٹھیک ۱۶ دنوں بعد میرے صدمے کو کم کرنے کے لئے، میری بِٹیا اس دنیا میں آ گئی____ صحیفہ، انعمتہ۔ دو دو نام رکھے بِٹیا کے ……… لگا، ابّا کی واپسی ہو گئی ہے۔ بِٹیا میں ………
وہی چہرہ، وہی وظیفہ پڑھنے والی انگلیاں __
چہرے پر کھیلتی وہی مسکراہٹ__
مگر یہ مسکراہٹ تو فریب ہے۔ وقت کا دھوکا ہے ………
ابّا پھر ایک بار لوٹ گئے۔
اللہ کی نعمتیں کام نہیں آئیں۔
۶ جولائی ۲۰۰۳ کی صبح بِٹیا نے بھی رخصت سفر باندھ لیا__
۶ /مئی ابّا گئے تھے۔
۶ / جولائی ابّا بِٹیا ……..
۶ / دسمبر بابری مسجد شہید ہوئی تھی ………۱۰؎
آ رہ سے ہجرت
مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۵ ء کو آ رہ کو الوداع کہہ کر دہلی چلے آئے۔ مگر دہلی آنے کے بعد ان کو بہت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا جیسے رہائش کا مسئلہ، کھانے پینے کا مسئلہ وغیرہ۔ ان سب کے ساتھ ذوقی کو ان کا شہر خاص کر ان کا گھر بہت یاد آتا تھا۔ گھر میں ایک کمرہ تھا جو ان کے لکھنے پڑھنے کا کمرہ تھا۔ وہ سکون سے اس کمرے میں بیٹھ کر لکھا کرتے تھے۔ یہ کمرہ ان کے دکھ سکھ کا ساتھی تھا۔ جس میں فرصت کے زیادہ تر لمحات گزارہ کرتے تھے۔ دہلی میں مکان ملنے کے بعد بھی وہ اپنے پرانے گھر کو بھول نہیں پائے وہ لکھتے ہیں :
’’آپ نے بھی غور کیا ہے کہ آدمی جس مکان میں رہتا ہے۔ وہ مکان اسے بے حد عزیز ہوتا ہے۔ ‘‘ ۱۱؎
اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی وہ اپنا مکان اپنا کمرہ ہمیشہ یاد کرتے ہیں۔ وہ جب کبھی باہر سے آتے تو ان کی نظریں وہی پرانا مکان ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے۔ ذوقی کو بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ ’’مجھ سے میرا گھر چھوٹ گیا۔ ‘‘ اس احساس نے ان کو کئی دلدوز کہانیاں لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کی ایک کہانی ’’کمرہ بولتا ہے ‘‘ میں اپنے اس احساس کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
’’اور اب نیا شہر ہے اور کرائے کا مکان……..تبو نے گھر کی خاصی ذمہ داری سنبھالا لی ہے۔ شام میں تھکا ہارا گھر آتا ہوں تو آنکھیں پرانے مناظر کو تلاش کرتی پھرتی ہیں۔ تو ایسے میں چائے کا کپ ہاتھ میں لئے ہوئے تب وہ مجسم سوال بنی میرے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے ………کہ عالم !
ایک بات پوچھوں ……….تمہاری آنکھیں ہر وقت کیسے ڈھونڈھتی رہتی ہیں ………تلاش کرتی رہتی ہیں ………یہ سچ بولوں تو مکان کی بڑی یاد آتی ہے ……….‘‘ ۱۲؎
ادب سے دلچسپی
ذوقی نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ ادبی گھرانہ تھا۔ اُن کا گھر کوٹھی کہلاتا تھا۔ وہاں اکثر مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ ان کے خاندان میں ایسے کئی لوگ تھے۔ جو شاعر تھے اور مشاعرے میں حصہ لیا کرتے تھے۔ ذوقی کے والد مشکور عالم بصیری بھی شاعر تھے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قرآن شریف ہو یا حدیث، گیتا ہو یا رامائین، انگریزی ہو یا سائنس کا مطالعہ وہ سب کی معلومات رکھتے تھے۔ مشکور عالم بچپن سے ہی سب بچوں کو ساتھ بیٹھا کر ادب کی گفتگو کرتے تھے۔ ان کے گھر میں لائبریری تھی اور اس میں اردو اور انگریزی کی کتابیں موجود تھیں۔ اس کے علاوہ ذوقی کے والد سب بچوں کو داستانیں، قصے اور کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ اس سے ذوقی کو بچپن سے ہی کہانیوں پڑھنے اور لکھنے کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ اوراسی شوق نے ان کو گیارہ سال کی چھوٹی سی عمر میں کہانی لکھنے پر اُکسایا۔
ادب سے وابستگی
مشرف عالم ذوقی زود نویس ہونے کے ساتھ ساتھ جانے پہچانے اور مانے ہوئے قلمکار بھی ہیں۔ ان کی ادب سے وابستگی اس وقت ہوئی جب ان کی عمر صرف گیارہ سال ہی کی تھی۔ اتنی کم عمری میں ادب سے وابستگی ہونے کی وجہ اس وقت کا ماحول اور ہونے والے واقعات تھے۔ جس نے ذوقی سے ان کا بچپن چھین لیا۔ ان کے ہاتھوں سے کھلونے چھوڑ کر قلم اُٹھانے پر مجبور کر دیا۔ مشرف عالم ذوقی نے جس وقت آنکھیں کھولی اس وقت بہار میں دنگے ہو رہے تھے۔ ’’جین‘‘ اسکول میں داخلہ لیا مگر وہاں کے بچے مسلمانوں کے بارے میں جو رائے رکھتے تھے ان کو سن کر ذوقی کا دل دُکھتا تھا۔ وہ سوچتے تھے کہ ’’کیا مسلمان ہونا گناہ ہے ؟‘‘ انھوں نے کتابوں اور بڑے بزرگوں کے منہ سے غلامی کی جو کہانیاں سنی اور پڑھی تھیں اس کا اثر ان پر گہرا پڑا۔ اس کے علاوہ آ رہ کی گلیوں، جین اسکول اور وہاں سے گھر کی چار دیواروں تک آتے ہوئے ان کو راستے میں جن باتوں یا یوں کہیں کہ جن سچائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس کا اثر ذوقی پر اتنا پڑا کہ وہ لکھنے لگے۔ ذوقی کی ماں ’’سکینہ خاتون‘‘ کا انتقال ۱۹۸۳ ء میں ہوا۔ اس وقت ان کا گریجویشن کا دوسرا سال تھا۔ ماں کو دفناتے وقت ان کے ذہن میں جو بات آئی اس کا بیان ذوقی یوں کرتے ہیں۔ ’’امی اچھا کیا، جو تم یہ شہر، یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ یہ رہنے والوں کی جگہ نہیں ہے۔ ‘‘ ذوقی نے بچپن سے جوانی تک جن واقعات کو دیکھا محسوس کیا۔ ان واقعات نے انہیں اتنا جھنجوڑا کہ ذوقی کی کہانیوں میں غلامی، ہجرت، تقسیم اور تقسیم کے بعد ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ دنگے ان موضوعات نے جگہ بنا لی۔ کہانیوں کے علاوہ یہ سارے واقعات ان کے ناولوں میں بھی نظر آتے ہیں۔
بابری مسجد ۹۹۲ا ء کا شہید ہونا، گجرات کا زخم اور اس کے ساتھ ہی آ رہ میں برسوں سے جس ماحول میں وہ جی رہے تھے۔ ان سب نے مشرف عالم ذوقی کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے دل کا غبار کہانیوں کے ذریعہ نکالا، اور نہ جانے کتنی کہانیاں اور ’’مسلمان‘‘ جیسے ناول میں انھوں نے اس وقت کے ماحول ا ور واقعات کو پیش کیا ہے۔ ذوقی کو دوستی اور محبت کی رسم نبھاتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھاجیسے گھر اور باہر دو مختلف دنیا ہے۔ آدمی ایک ہوتا ہے، وجود ایک ہوتا ہے، مگر اس کی دنیا دو ہوتی ہے۔ وہ دو زبان کو استعمال کرتا ہے ایک گھر کی اور دوسری باہر کی۔ ایک ترقی پسند انسان گھر پہنچتے ہی ہندو یا مسلمان ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ذوقی نے بہت قریب سے دیکھا ہے اور اس کو اپنے دل میں محسوس کیا اور اس کو اپنی قلم کے ذریعے پیش کیا۔ اس وقت وہ خود سے سوال کرتے تھے کہ ذوقی تم سچائی کیوں نہیں لکھتے ؟ بولو__ جھوٹ لکھتے ہو۔ اس لئے کہ جھوٹ لکھنے پر مجبور ہو۔ اور تو اور جب نوکری کرنے لگ جاؤ گے تو سرکاری پابندیوں کی قید میں وہی لکھنے پر مجبور ہوں گے جو حکومت چاہتی ہے اور اسی خیال سے ذوقی نے بچپن میں ہی طے کر لیا تھا کہ وہ کبھی سرکاری نوکری نہیں کریں گے۔
مشرف عالم ذوقی جوانی میں منٹو، اقبال مجید اور اس کے بعد آنے والی نسلوں کی کہانیوں کو پڑھتے تو انھیں رونا آتا کہ لوگ جھوٹ کیوں لکھتے ہیں۔ وہ سچ کیوں نہیں لکھتے، جوہو رہا ہے اسے کیوں نہیں لکھتے۔ اس لئے انھوں نے طے کیا کہ جو کچھ آنکھیں دیکھ رہی ہیں اس سچ سے وہ منہ چھپانے کی کوشش نہیں کریں گے، اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اگر ہم مشرف عالم ذوقی کی شروعاتی کہانیوں کا جائزہ لیں تو ان میں بہار کے دنگے، ہنگامے اور دہشت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی کہانیوں میں سماج اور سیاست کا سچ بھی موجود ہے۔ ۱۹۸۰ ء میں ذوقی آ رہ جیسے چھوٹے شہر سے ہجرت کر کے دلّی جیسے مہانگر میں آئے۔ یہاں انھوں نے در در کی ٹھوکریں کھائی، خالی ہاتھ اور بے روز گار رہے۔ ان سب مسائل سے ذوقی کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اتنا سب سہنے کے بعد ذوقی نے جانا کہ دلّی دل والوں کی نہیں تھی بلکہ تنگ دل لوگوں کی دلّی بن کر رہ گئی تھی۔ اور ان سب باتوں کا ذکر انھوں نے اپنے افسانوی مجموعہ ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ کے کئی افسانوں میں کیا ہے۔
دہلی آنے کے بعد ذوقی کو بہت سے مصنفوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ مثلاً الکزینڈپشکن، نکولائی گوگول، فیودر دو ستو فسکی، لیو تالستائے، میخائل شولو خوف، میکسم گورکی اور تر گینف وغیرہ۔ ذوقی روسی ادب کے مدّح ہیں، اور یہ ادیب ان کے لئے مشعل راہ۔ ان سب کے یہاں زندگی سے لڑنے کی جسارت موجود ہے۔ ذوقی ان سب سے متا ثر ہو کر ان کے نقشِ قدم پر زندگی کو جینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان مصنفوں کے بارے میں ذوقی خود لکھتے ہیں :
’’ ایک بہت بعد کے روسی مصنف کی کتاب میں نے پڑھی تھی۔ بورس پولو، کتاب کا نام تھا__ The story of a real man ایک فوجی جس کا پاؤں کاٹ ڈالا جاتا ہے، اور جو اپنے وِل پاور سے اپنی خود اعتمادی دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ___ مجھے ہیمنگ وے کے The old man and the sea سے محبت تھی __ہیمنگ وے کی کہانیوں کے مرد آہن مجھ میں نیا جوش، نیا دم و خم بھرتے تھے۔ مجھے ہنری ملر کے موبی ڈک سے پیار تھا__وکٹر ہیو گو، کفکا، ورجینا ولف، البیر کامویہ سارے میرے اپنے تھے۔ خاص کر les miseable کا پادری اور The Plague کا Dr. Rioxمیرا آئیڈیل تھا۔ ٹھیک اسی طرح کرائم اینڈ پنشمنٹ کا رسکلا نیکود، گور کی مور کا پاویل ولا سوف اور تر گنیف کی The father and the sonکے باپ بیٹے مجھے بے حد پیارے تھے۔ گوگول کی کتاب Deal Soulمجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کرتی تھی۔ وہیں گبریل گاریشا مار کینرکا ادب مجھے ایک نئی دشا میں لے جانے کی تیاری کر رہا تھا__ عجیب بات یہ تھی کہ مجھے الیکزینڈر سولنسٹین سے بھی اسی قدر محبت تھی۔ گلاگ آر کیپلاگو اور کینسر وارڈ دونوں مجھے پریشان کر رہے تھے۔ نیتھنئیل، ہینسٹے کی The Scarlet Letterبھی مجھے پسند تھی۔ جارج آرویل کی Animal farmاور 1984 مجھے نئی فکر سے روشناس کرا رہے تھے __میں سال بیلو کو بھی پڑھنا چاہتا تھا۔ ولیم گولڈنگ اور گراہم گرمین کو بھی___اردو میں قرۃ العین کے یہاں مجھے تصنع کی جھلک ملتی تھی، منٹو مجھے چونکاتا تھا۔ لیکن فکری اعتبار سے زیادہ بلند نہیں لگتا تھا۔ عصمت مجھے راس نہیں آئیں ___راجندر سنگھ بیدی کی کہانیاں ہر بار زیادہ سے زیادہ قربت کا احساس دلا رہی تھیں، اور کرشن کی نثر کسی جادو کی طرح مجھ پر سوار تھی__مجھے اردو کی داستانوں نے لبھایا تھا اور مجھے لکھنا سکھایا تھا۔ مجھے پنچ تنتر بھی پسند تھی اورThe magic mountai رسم بنھھ
nبھی۔ طلسم ہوش ربا کا تو میں شیدائی تھا___دلّی کی پاگل بھیڑ بھری سڑکوں پر ہیمنگ وے کاThe old man تسمہ پاکی طرح مجھ پر سوار تھا___دلّی کی پریشان حال زندگی اور لڑتے رہنے کا جذبہ، ۸۵ء سے ۹۵ء تک کے بیچ میری کہانیوں پر ترقی پسندانہ رنگ غالب رہا___میں سوچتا تھا نثر، غریبی کے بد حال جسم کی طرح ہونی چاہئے۔ Glamourless نثر کی زبان عصمت کی کہانیوں کی طرح رواں دواں نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنا تجزیہ کیا اور ایک نئی روشن اپنائی، نئی ڈگر پر چلا۔ میں ترقی پسند کے راستے پر اس لیے چلا کہ میں ان سوالوں سے بچ بچا کر نہیں گزر سکتا تھا۔ میرے اندر کا تخلیق کار ان سوالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ اور میں صرف شوقیہ ادیب نہیں بننا چاہتا تھا__میں، کسی ایک قاتل لمحے سے بھی کہانی چُرا سکتا تھا___‘‘ ۱۲؎
سفر
مشرف عالم ذوقی نے بہت زیادہ سفر نہیں کیا ہے۔ ان کو سفر سے بہت ڈر لگتا ہے۔ بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کو کہیں نہ بلایا جائے۔ اس لئے وہ بہت کم آتے جاتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کا شمار ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں سفر سے وحشت ہوتی ہے۔ مگراس کے باوجود انھوں نے کئی ملکوں کا دورہ کیا ہے۔ وہ پاکستان، جاپان اور دبئی جیسے ملکوں کا سفر کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ملک میں بھی کئی شہروں میں جا چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا ماننا یہ ہے کہ ایک اچھے فن پارہ لکھنے کے لیے صرف مشق یا آئیڈیا لوجی ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لیے سفر کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
لباس
مشرف عالم ذوقی کا قد درمیانہ، رنگ گورا، چہرہ پُر کشش اور آواز میں ایک طرح کی ترنگ ہے۔ جس کو سن کر کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا ہے، کسی بھی شخص کا لباس اس کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ وہ کیا پہنتا ہے۔ کس طرح دیکھتا ہے۔ لباس ہماری زندگی کو نہ صرف سجاتا ہے بلکہ ہماری شخصیت میں بھی نکھار پیدا کرتا ہے۔ ذوقی کا لباس موسم کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے۔ گرمی کے دنوں میں وہ جینس پینٹ اور ٹی۔ شرٹ پہنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کو کرتا پاجامہ پہننا بھی بہت پسندہے۔ ذوقی عام طور سے چوڑی دار پاجامہ ہی پہننا پسند کرتے ہیں۔ سردی کے دنوں میں وہ سوٹ پہنتے ہیں۔ ذوقی کا لباس ان کی شخصیت کو اور نکھارتا ہے۔
عادات و اطوار
مشرف عالم ذوقی کی عادت عام لوگوں کی طرح ہی ہے۔ وہ صبح نماز سے فارغ ہو کر کچھ دیر چہل قدمی کرتے ہیں۔ پھر گھر آ کر اخبار پڑھتے ہیں اور پھر اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ جیسے دوردرشن جانا، لکھنا وغیرہ ذوقی لکھنے کا کام زیادہ تر رات میں ہی کرتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کو کتابوں سے بہت دلچسپی ہے۔ ان کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو عالموں کا گھرانہ تھا۔ والد شاعر تھے۔ گھر میں مشاعرہ بھی ہوا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے ذوقی کو بھی لکھنے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس کے علا وہ ان کو فلموں سے بھی دلچسپی ہے۔ وہ فلمیں دیکھنا بھی پسند کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کی دلچسپی لوگوں میں بھی رہتی ہے۔ ان کو دوسرے لوگوں سے گھلنا، ملنا بہت پسند ہے۔
مزاج
مشرف عالم ذوقی سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کا مزاج بہت خاص ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ناکامی کو جگہ نہیں دی۔ وہ گھر میں کبھی بھی خاموش رہ کر زندگی نہیں گزاری بلکہ ان کی کوشش ہوتی کہ وہ گھر کے تمام فرد کو خوش رکھیں، انہیں ہنسائیں۔ ذوقی کا ماننا ہے کہ ایک ادیب کو بہت بند ہو کر نہیں رہنا چاہئے۔ ایک ادیب اگر قید ہو کر گھٹن بھری زندگی گزارے گا تواس کا ادب بھی گھٹن بھرا ہو گا۔ اس لیے زندگی ہمیشہ خوشگوار انداز میں گزارنی چاہئے۔ ذوقی سادہ مزاج کے ساتھ ساتھ بے حد حساس، درد مند اور شر میلے بھی ہے۔ اپنے شر میلے پن کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں :
’’شر میلے ہونے کی ایک سے بڑھ کر ایک کہانیاں __ مجھے اپنے ہونے پر شرم آتی تھی………مجھے لیٹرین یا پاخانے جانے پر شرم آتی ہے ………ایسے موقع پر مجھے اپنا حلیہ دیکھنے پر شرم آتی تھی………مجھے ٹوٹی ہوئی سیڑیاں، جھڑتی ہوئی قلعی، ٹوٹی ہوئی محرابوں کو دیکھ کر شرم آتی تھی………مجھے ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے ہوئے شرم آتی تھی………..مجھے اسکول جانے میں شرم آتی تھی…………مجھے بہت سارے …………بہت سارے بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے شرم آتی تھی………مجھے ان بچوں سے باتیں کرتے ہوئے شرم آتی تھی………
مجھے شرم آتی تھی اس لیے کہ میں تیز بولتا تھا………اس لیے کہ یہ خیال کھائے جاتا تھا…………کہ کسی کو میری آوازسمجھ میں آتی ہے یا نہیں۔ ‘‘ ۱۳؎
ذوقی بچپن سے ہی بے حد حساس اور درد مند شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں بہت غور و فکر کرتے ہیں۔ ہر چیز کو محسوس کرتے ہیں۔ بچپن میں وہ دوپہر کی دھوپ گرم ہوا کی تپش سے سوچ میں پڑ جاتے کہ ہوا اتنی گرم کیوں ہے۔ یہ تپش اتنی چبھتی کیوں ہے۔ وہ کوّا کو چلاّتے دیکھ کر ڈر جایا کرتے تھے۔ ذوقی کے حساس دل میں جذبوں کا ڈیرا تھا۔ یہ جذبات ان کو اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے پریشان کر جاتے تھے۔ زندگی اور موت کے فلسفے پر ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھی۔ ان کے یہ جذبات ان کے افسانے ’’کمرہ بولتا ہے ‘‘ میں بخوبی دیکھنے ملتا ہے۔ وہ سوچتے تھے کہ لوگ گم کیوں اور کیسے ہو جاتے ہیں۔ زندگی کیسے بٹ جاتی ہے۔ اس بات کا ذکر ذوقی یوں کرتے ہیں :
’’میرے خیالوں کو جس اشتراکی نظریہ نے اپنی زمین فراہم کی تھی۔ اس کی بنیاد میں بھی اس شر میلے پن کا لہو ملا ہوا تھا……….میں صرف دیکھتا تھا……….سوچتا تھا………..کلپنا کرتا تھا یا تصور کرتا تھا……..یا صرف جذبات اور احساسات کی گیلی پگڈنڈیوں سے گزر کر رہ جاتا…..اور انہیں جذباتی پگڈنڈیوں سے اس وقت کی مری زیادہ تر کہانیاں بھی گزر رہی تھیں۔ ‘‘ ۱۴؎
ذوقی کو اپنے ذاتی مقصد کے لئے جھوٹ بولنا، دھوکا دینا، برائی کرنا بالکل نا پسند ہے، اور ان کی یہ خوبی ان کے ادب میں بھی نظر آتی ہے۔ اچھا ادب لکھنے کے لئے ذوقی کا ماننا ہے کہ انسان کو پہلے خود کے لیے ایمان دار ہونا ضروری ہے۔ تبھی وہ دوسروں کے اور ادب کے ساتھ بھی ایمانداری برتے گا۔ ذوقی نے اپنی زندگی ایمانداری سے گزار ی اور اسی کو وہ اپنی کامیابی کا راز بھی مانتے ہیں۔ ایمانداری کے ساتھ ساتھ ذوقی میں ہمیں ایک طرح کا غصہ بھی نظر آتا ہے اور یہ غصہ عوام کے لئے ہے۔ وہ کسی پر ظلم ہوتے ہوئے نہیں دیکھ پاتے ہیں خاص کر مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں یا جو فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے ہیں۔ اس کو ذوقی برداشت نہیں کر پاتے ہیں، اور ان کا یہ غصہ ان کی کہانیوں اور ناولوں میں بھی نظر آتا ہے۔ ناول ’’بیان‘‘ ، ’’مسلمان ‘‘ اور ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ کے ذریعہ وہ اپنے جذبات کو عوام تک پہچانا چاہتے ہیں۔
شاعری کا شوق
مشرف عالم ذوقی نے ادب کی شروعات شاعری سے کی تھی۔ بچپن سے ہی ان کو شعر پڑھنا اور گنگنانا پسند تھا۔ وہ اکثر میرؔ، غالبؔ اور ذوقؔ کے اشعار گنگنایا کرتے تھے۔ شاعری سے محبت اور ذوقؔ سے لگاؤ نے ہی مشرف عالم کو ذوقیؔ بنا دیا۔ ان کا گھر کوٹھی کہلاتا تھا اور وہاں مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ سب ماحول کا اثر تھا۔ آہستہ آہستہ ان کا رخ نظم کی طرف ہوا۔ انھوں نے بہت سی نظمیں بھی لکھی لیکن شائع کم کرایا۔ اپنی شاعری کے شوق کے بارے ذوقی لکھتے ہیں :
’’ادب کی شروعات شاعری سے ہوئی۔ آج بھی اقبالؔ، غالبؔ، مومنؔ، جگرؔ، فیضؔ، فراقؔ کی شاعری میرے مطالعے میں رہتی ہے۔ میں اچھی شاعری کا عاشق ہوں۔ شروعات شاعری سے ہوئی لیکن مجھے جلدی اس بات کا احساس ہونے لگا کہ میں جو کہنا چاہتا ہوں یا ادب کو دینا چاہتا ہوں یا اس کے لئے مجھے شاعری سے الگ میدان منتخب کرنا ہو گا۔ اس لیے میں فکشن یا ناول کی دنیا میں آ گیا۔ ۱۷ سال کی عمر میں، میں نے اپنا پہلا ناول لکھا۔ ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ اور بیس سال کی عمر تک میں چار ناول تخلیق کر چکا تھا۔ لیکن آج بھی میں اچھی شاعری کا عاشق ہوں __ خصوصی طور پر ن۔ م راشد اور فیضؔ کی نظمیں مجھے بے حد پسند ہیں۔ ‘‘ ۱۵؎
تصانیف
مشرف عالم ذوقی زو دنویس ہیں۔ وہ ایک اچھے Journalist ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پروڈیوسر اور ڈائرکٹر بھی ہیں۔ ذوقی اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ ۱۹۸۷ ء میں ان کی وابستگی دُور درشن سے ہوئی۔ انھوں نے دو سال تک دہلی کے کئی پروڈکشن ہاؤس کے لئے فلم اسکرپٹ لکھی اور ۱۹۸۹ء میں دوردرشن کے پروڈیوسر بن گئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ انھوں نے پروگرام بنائے ڈائیرکشن بھی کیا، اسکرپٹ بھی لکھے اور اس طرح ادبی دنیا کا سفر جاری رکھا۔
۱۹۸۷ء میں جب ان کی وابستگی دوردرشن سے ہوئی تھی اس زمانے میں دوردرشن میں سیریل کے علاوہ ڈوکومینٹری فلم، ڈوکو ڈرامہ اور کئی طرح کے پروگرام بنائے جاتے تھے۔ جن میں صحافت کا بھی کہیں نہ کہیں دخل ہوتا تھا۔ شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر ذوقی نے ڈوکومینٹری نہ بنائی ہو اور ایک ڈوکومنٹری فلم کے لئے اسکرپٹ لکھنا، تحقیق کرنا یہ کام کی ذمہ داری بھی کم و بیش وہ خود ہی سنبھالتے تھے۔ ادب بھی ان کا موضوع رہا ہے۔ ذوقی نے ہندی اور اردو کے ۵۲ بڑے قلم کاروں پر جن میں قرۃ العین حیدر، نامور سنگھ، راجندر یادو، جوگندر پال اور ڈاکٹر محمد حسن شامل ہیں۔ ڈوکومینٹری فلمیں بنائی ہیں اور یہ کام مسلسل جاری ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے ناول ’’مسلمان‘‘ پر ایک سیریل ’ملّت‘ کے نام سے بنایا جو بہت مقبول ہوا۔
ان کی ایک درجن سے بھی زائد کہانیوں پرTelefilms بن چکی ہیں۔ مثلاً پربت، دکھاوا، انجام، رکا ہوا درد، سورج کا سفر، رنجشیں، بندش، آنگن کی دھوپ، ایک نئی صبح وغیرہ ہیں۔ یہ ٹیلی فلمیں ذوقی نے اپنے افسانے ’’ایک نیا موڑ‘‘ پر بنائی ہے۔ انھوں نے ’آنگن میں دھوپ‘ بھی اپنے افسانے ’’بوڑھے جاگ سکتے ہیں‘‘ کے نام پر بنائی۔ ساہتیہ اکیڈمی کے نام سے ایک ڈکومینٹری فلم بنائی۔ اس کے علاوہ لال داغ، سنگارش وغیرہ بنائی ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کی تقریباً پانچ سو کہانیاں ہندوستان اور دوسرے ممالک کے رسائل میں چھپی ہیں۔ انھوں نے بہت ساری کہانیوں کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا ہے۔ انھوں نے بچوں کے لئے بھی ایک کتاب ’کنگن‘ کے نام سے لکھی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے تنقید کی دنیا میں بھی اپنا کمال دکھایا ہے۔ مثلاً ’نئی صدی میں ادب‘، ’بلونت سنگھ کی کہانیاں ‘اور ’اپنا آنگن‘اس کے علاوہ حال ہی میں ایک نئی تنقید کی کتاب منظر عام پر آ چکی ہے جو ’آب روانِ کبیر‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ ذوقی نے ایک مراٹھی ناول ’قوسلہ‘کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ ذوقی Serialبھی لکھتے ہیں اور ڈرامے بھی۔ ان کے ڈرامے کو اسٹیج پر بھی جگہ دی گئی ہے۔ ذوقی کے اب تک چار ڈرامے شائع ہو چکے ہیں جن میں ’’گڈ بائے راجنیتی‘‘ ، ’’چار ڈرامے ‘‘ ، ’’آخری بیان‘‘ اور ’’ایک سڑک ایودھیا تک‘‘ شامل ہیں۔ یوں تو ذوقی نے بہت کم ڈرامے لکھے ہیں اور اس کی وجہ ذوقی خود یوں بیان کرتے ہیں :
’’میں ناٹک لکھنا چاہتا ہوں لیکن ناٹک لکھنے کے لئے جس سمیہ کی آوشکتہ ہے شاید وہ میرے پاس نہیں ہے۔ ویسے میں نے اپنے آپ کو کہانیوں اور اُپنیاس کے لئے سمرپِت کر دیا ہے۔ ‘‘ ۱۶؎
اس کے باوجود انھوں نے جو ڈرامے لکھے وہ کافی مشہور ہوئے۔ ان کا ڈرامہ ’’گڈ بائے راجنیتی‘‘ بابری مسجد کے انہدام پر لکھا گیا ہے۔ اس ڈرامے کے ذریعے ذوقی نے حال کے سیاسی چہروں سے پردہ اُٹھا یا ہے۔ ان کا ڈرامہ ’’چار ڈرامے ‘‘ میں انھوں نے چار الگ الگ ڈرامے پیش کئے ہیں۔ ڈرامہ کے میدان میں ذوقی کم ہی رہے، ان کا کہنا ہے کہ ڈرامہ لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ ڈرامے کے بارے میں ذوقی یوں کہتے ہیں :
’’مجھے ناٹک لکھنا اچھا لگتا ہے۔ ناٹک کہیں نہ کہیں جیون سے جڑی ہوئی واستویکتا ہے اور ایک بہت بڑی ضرورت بھی ہے۔ ناٹک ایک ایسا مادھیم ہے جس کے ذریعہ آپ ایک بڑی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ ‘‘ ۱۷؎
ذوقی کے کئی ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان کی نگارشات نے ادب میں اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ آج کا ادب عصری زندگی کے شعور سے پیدا ہوتا ہے اور مشرف عالم ذوقی زندگی کو فکشن میں لکھنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ حقیقت نگاری ذوقی کا خاص وصف ہے۔ آج ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یا جو کچھ آگے ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں ذوقی نے انھیں اچھی طرح پہچان لیا ہے۔ اس لئے ان کے ہر ناول، افسانہ، ڈرامہ اور کہانیوں میں درد اور کڑوی سچائی نظر آتی ہے۔ ذوقی کے لکھنے کے اندازسے ان کے دوست متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے ہیں۔ وہ اکثر ان سے سوال کیا کرتے ہیں کہ تم یہ کیسے لکھتے ہو؟ تم کیا محسوس کر کے لکھتے ہو یا تم اتنا کیوں لکھتے ہو؟ اس کے جواب میں ذوقی کچھ یوں کہتے ہیں :
’’دوست پوچھتے ہیں ………اتنا زیادہ کیوں لکھتے ہو؟ سوچتا ہوں انہیں کیا جواب دوں ! کبھی کبھی لگتا ہے کسی نظریاتی تبدیلی کا خواہاں ہے، اس نظریاتی تبدیلی سے زندگی کے کتنے ہی موڑ پر لکھنے کے زاویے بدلے، اس طرف چلو نہیں اس طرف، ’نیلام گھر‘ بھی ایک پڑاؤ تھا۔ ’عقاب کی آنکھیں ‘بھی ’شہر چُپ ہے ‘بھی ’لمحہ آئندہ‘ بھی۔ یہ ناول ۸۰ سے پہلے کے ہیں اور کسی نئے نظریاتی تصور کو الگ الگ ان میں بھی آسانی سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ میں بھی ٹھہرا نہیں ہوں بھٹکنے کی حالت میں ہوں، سوچتا ہوں، چھوٹی چھوٹی حقیقتیں زندگی کا روپ کیوں نہیں لے سکتیں، پھر کوئی بہت عام سا واقعہ کہانی کیوں نہیں ہو سکتا۔ کوئی کہانی مجھے پسند آتی ہے تو دوست پوچھتے ہیں یہ کیا لکھ دیا؟ کیسے کہوں کہ یہ کیوں لکھا۔ ’چیخوف‘ کا کردار اگر اپنے چھنکنے پر شرمندہ ہو سکتا ہے اور چھینک اس وقت کے پورے روسی نظام کو لے کر زبردست کہانی بن سکتی ہے۔ تو پھر عام زندگی میں ہونے والا بہت ہی عام سا واقعہ کہانی کیوں نہیں بن سکتا۔ ‘‘ ۱۸؎
ان کی ہر کہانی اور ناول قاری کو بے چین کرتی ہے اور ذہن میں کئی سوالات کو اُٹھاتی ہے۔ نئی نسلوں میں در آئی تبدیلیاں جو اضطرابی کیفیات پیدا کرتی ہے وہ ہمیں اپنی با وقار تاریخ، تبدیلی اور روایت کی طرف پھر سے غور و فکر کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ذوقی کے کئی افسانوی مجموعے، ناول اور ڈرامہ منظر عام پر آ چکے ہیں جو اس طرح ہیں۔
افسانوی مجموعے
۱) بھوکا ایتھوپیا اردو ، ہندی ۱۹۸۵ء
۲) منڈی اردو ۱۹۹۷ء
۳) غلام بخش اردو ، ہندی ۱۹۹۸ء
۴) فرشتے بھی مرتے ہیں ہندی ۱۹۹۸ء
۵) صدی کو الوداع کہتے ہوئے اردو ، ہندی ۲۰۰۲ء
۶) لینڈ اسکیپ کے گھوڑے اردو ، ہندی ۲۰۰۴ء
۷) بازار کی ایک رات ۲۰۰۵ء
۸) فزکس، کمسٹری، الجبرا ۲۰۰۵ء
۹) ورین ہسٹنگ کی ٹوپی ۲۰۰۶ء
۱۰) فریج میں عورت ۲۰۰۶ء
۱۱) شاہی گلدان ۲۰۰۸ء
۱۲) امام بخاری کی نپکین ۲۰۰۸ء
۱۳) مت رو سالگرام ۲۰۰۸ء
۱۴) ایک انجانے خوف کی ریہرسَل اردو ۲۰۱۱ء
۱۵) لیبارٹری ہندی ۲۰۰۳ء
۱۶) سرخ بستی ہندی
۱۷) جدید ہندی کہانیاں اردو
۱۸) نفرت کے دنوں میں اردو ۲۰۱۳ء
ناول
۱) عقاب کی آنکھیں اردو ۱۹۹۰ٰء
۲) لمحۂ آئندہ
۳) نیلام گھر اردو ، ہندی ۱۹۸۰ء
۴) شہر چپ ہے اردو ، ہندی ۱۹۹۶ء
۵) بیان اردو ، ہندی ۱۹۹۵ء
۶) ذبح اردو ، ہندی ۱۹۹۵ء
۷) مسلمان اردو ، ہندی ۱۹۹۲ء
۸) پوکے مان کی دنیا اردو ۲۰۰۴ء
۹) پروفیسر ایس کی عجیب … اردو ۲۰۰۵ء
۱۰) لے سانس بھی آہستہ اردو ۲۰۰۸ء
۱۱) آتش رفتہ کا سراغ اردو ۲۰۱۳ء
۱۲) اردو
۱۳) سب سازندے ہندی ۲۰۰۸ء
۱۴) سنامی میں ویجیتا ہندی ۲۰۰۹ء
تنقیدی کتابیں
۱) نئی بستی میں ادب ۲۰۰۰ء
۲) بلونت سنگھ کی کہانیاں ۲۰۰۰ء
۳) اپنا آنگن ۲۰۰۶ء
۴) سلسلہ روز و شب
۵) اردو ادب
۶) مکالمہ کے سات رنگ
۷) اردو ساہتیہ سمواد کے
۸) ۱۹۷۰ کے بعد اردو افسانہ
۹) با ادب با ملاحظہ ہوشیار ۲۰۰۸ء
۱۰) آبِ روانِ کبیر ۲۰۱۳ء
ڈرامہ
۱) گڈبائے راجنیتی ۲۰۰۰ء
۲) چار ڈرامے ۲۰۰۰ء
۳) آخری بیان ۲۰۰۶ء
۴) ایک سڑک ایودھیا تک ۲۰۰۶ء
وہ ڈرامے جو اسٹیج پر دکھائے گئے ہیں :
۱) بیان
۲) سب سے اچھا انسان
۳) ایک ہارے ہوئے آدمی کا کنفیشن
۴) ایک اور شہادت
تالیف
سرخ بستی، تقسیم کی کہانیاں، منٹو پر آٹھ کتابیں، عصمت کی کہانیاں، بیدی کی کہانیاں، جوگندر پال کی کہانیاں، مسلم باغی عورتوں کی کتھا، جدید افسانے۔
ٹی۔ وی سیریل
سلسلہ نمبر سیریل کا نام قسطوں کی تعداد چینل کا نام
۱) آبروئے غزل ۵۲
۲) عکس پسِ عکس ۲۶
۳) ورق ورق چہرہ ۲۶
۴) جوالہ مکھی ۲۶
۵) مِلّت(ناول مسلمان سے ماخوذ) ۶ D.D 1
۶) رنجشیں (ذوقی کی کہانی اک نیا موڑ سے ماخوذ)
۷) بے جد کے پرندے ۲۶ E.TV URDU
۸) دوسرا رخ ۲۶ D.D 1
۹) کتابوں کے رنگ ۲۶ D.D URDU
۱۰) نشیمن ۶ D.D 1
۱۱) ساتواں سورج ۷ D.D 1
۱۲) تلاش ۵ کشمیر چینل
۱۳) رات چاند اور چور ۸
۱۴) مورچہ جمّوں دور درشن
۱۵) آنگن کی دھوپ(ذوقی کی کہانی بوڑھے جاگ سکتے ہیں )
۱۶) کشمیر سچائی کے رو بہ رو ۵
۱۷) نئی صبح کے لئے ۶
۱۸) چوک ۵
۱۹) اک نئی صبح
۲۰) مذہب نہیں سکھاتا(مجموعہ بھوکا ایتھوپیا سے )
۲۱) مقصد ۶
۲۲) الجھن
۲۳) اکیسویں صدی کے بچے ۵
۲۴) عجیب داستان ہے یہ ۱۳ ریڈیو کے لئے
ٹیلی فلمیں
۱) پربت 45 min D.D 1
۲) دکھا وہ، دو رنگ 30 min D.D 1
۳) انجام 60 min D.D 1
۴) رکا ہوا درد 60 min D.D 1
۵) نسین 30 min D.D 1
۶) سورج کا سفر 30 min D.D 1
۷) بندش 30 min D.D 1
۸) سنگھرش 30 min D.D 1
Documentary as a Director
۱) Institution of Delhi
۲) باپو کے سپنوں کا شہر
۳) یہی ہے کشمیر
۴) ساہتیہ اکیڈمی
۵) سنگیت ناٹک اکیڈمی
۶) نیشنل اسکول آف ڈرامہ National school of Drama
۷) بابری مسجد، ایک سچائی یہ بھی
۸) وایو منڈل میں پھیلا زہر
اعزازات
ہر اچھے کام کو سراہا جاتا ہے اُس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ حکومت اور مختلف تنظیمیں انعامات و اعزازات سے فنکاروں کو نوازتی ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کو بھی اُ نکی محنت کا صلہ ملا ہے اور اُن کی قابلیت و صلاحیتوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ ان کے کامیابی کا ثبوت ہے۔ ذوقی کے ایوارڈ اس طرح ہیں۔
۱) کرشن چندر ایوارڈ ۱۹۹۴ء
۲) کتھا آج کل ایوارڈ ۱۹۹۷ء
۳) دہلی اردو اکادمی کا الیکٹرانک میڈیا ایوارڈ ۱۹۹۹ء
۴) جامعہ اردو علی گڑھ کا ملینیم ایوارڈ ۲۰۰۰ء
۵) سر سیدنیشنل ایوارڈ ۲۰۰۳ء
۶) اردو اکادمی بسٹ بُک ایوارڈ ۲۰۰۵ء
۷) ملینیم ایوارڈ ۲۰۰۰ء
۸) دہلی اردو اکیڈمی ایوارڈ ۲۰۰۶ء
۹) اردو اکیڈمی تخلیق نثر ایوارڈ ۲۰۰۷ء
مشرف عالم ذوقی کی افسانہ نگاری
مشرف عالم ذوقی نے گیارہ سال کی چھوٹی سی عمر سے ہی افسانہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنی پہلی کہانی جو بچوں کے لئے لکھی تھی رسالہ ’’پیام تعلیم‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کے کئی افسانے غنچہ، ٹافی، کھلونا اور نور میں شائع ہوئے۔ ۱۳ سے ۲۰ سال کے عرصے تک ان کی کہانیاں تمام مشہور جریدوں شمع، روبی، بیسویں صدی، محل، شادمان، فلمی ستارے، باجی اور بانو میں شائع ہو چکی ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا رسالہ ہو جہاں ان کی کہانیاں شائع نہ ہوئی ہو۔ ان کی بہت ساری کہانیاں وقت کے ساتھ ضائع ہو چکی ہیں۔ ذوقی کی ایک بہت بڑی دنیا ہندی زبان کی بھی ہے۔ ایک دنیا پاکستان کی ہے جہاں ان کی کہانیاں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ہندی میں ان کی کہانیوں کے ۱۹ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔
ذوقی اپنی کہانیوں کے اسلوب اور تکنیک بدلتے رہتے ہیں۔ ۱۹۸۵ ء سے پہلے لکھی گئی کہانیوں میں ذوقی کے جذبات اور ان کی حساس طبیعت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کہانیوں میں ان کا گھر، بیوی، بچے اور ان کا شہر سب موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں گاؤں کے مناظر ہیں جن میں انھوں نے اپنے گاؤں کا ذکر کیا ہے۔ چوپال کا قصّہ، ڈائنا سور، ایک گاؤں ابھی بھی شہر میں ہے وغیرہ ایسے افسانے ہیں جس میں ذوقی نے گاؤں کے مناظر کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اس بارے میں وہ خود لکھتے ہیں :
’’گاؤں کا میری زندگی سے گہرا تعلق رہا ہے۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں۔ میں یہاں کے ایک چھوٹے سے شہر آ رہ میں پیدا ہوا۔ میرا ننھیال ’’برہ بترا‘‘ ہے۔ ’’برہ بترا‘‘ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ امی جان اکثر مجھے لے کر برہ بترا جایا کرتی تھیں۔ وہاں آم کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ہم عمر بچوں کے ساتھ ہاتھ میں غلیل لے کر میں آم توڑنے کے لئے نکل جاتا۔ وہاں ایک چھوٹی سی ندی ہے۔ ایک بار تیرنے کی کوشش میں، میں ڈوبنے لگا تھا__ گاؤں کی کہانیاں لکھتے ہوئے میں اسی گاؤں کا سہارا لیتا ہوں۔ چھٹے کلاس سے کہانیاں لکھنے لگا تو یہ گاؤں الگ الگ شکلوں میں میری کہانیوں میں نمایاں ہونے لگا۔ ‘‘ ۱۹؎
۱۹۸۵ ء کے پہلے کی تقریباً ۵۰ کہانیوں میں جذباتیت حاوی ہے۔ ان افسانوں میں ’’وحشت کا بائیسواں سال‘‘ ، ’’پیتالیس سال کا سفر نامہ‘‘ ، ’’مجھے موسوم بننے سے روک لو پلیز‘‘ ، ’’اللہ ایک ہے، پاک اور بے عیب ہے ‘‘ ، ’’لاش گھر‘‘ ، ’’گمان آباد‘‘ ، ’’بستی میں ‘‘ ، ’’سات کمروں والا مکان‘‘ وغیرہ ایسے افسانے ہیں۔ جس میں ذوقی کی حساس طبعیت اور جذبات کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ان افسانوں کے بارے میں ذوقی جو بیان دیتے ہیں وہ ملاحظہ ہو:
’’۸۰ کے آس پاس کا زمانہ……..رات کا پچھلا پہر ………لائٹ نہیں ہے ____لالٹین کا شیشہ کالا پڑ چکا ہے۔ میں لمحہ آئندہ لکھ رہا ہوں۔ اور اچانک میں زور سے چیختا ہوں۔ مجھے …..مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ’’لاش گھر‘‘ ، ’’اللہ ایک ہے ……….‘‘ کہانیاں ان کہانیوں میں سے ہیں جن میں میں نے اپنی اس وقت کی کیفیات کا پورا پورا اظہار کیا ہے۔ ‘‘ ۲۰؎
مشرف عالم ذوقی کی ۱۹۸۵ء سے ۱۹۹۵ ء تک کی کہانیوں پر ترقی پسندانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔ بھوکا ایتھوپیا، بچھو کھاٹی، مرگ نینی نے کہا، میں ہارا نہیں ہوں کامریڈ، ہجرت، مت رو سالگ رام، فنی لیڈ، پر بت، مہاندی، تحفظ، تحریکیں، جلاوطن، ہندوستانی، دہشت کیوں ہے، تناؤ وغیرہ ایسی کہانیاں ہیں جن میں تقسیم کا موضوع اپنے عروج پر ہے۔ یہ کہانیاں تقسیم کے بطن سے جنمی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ذوقی نے جب سے ہوش سنبھالا تب سے وہ ہر بوڑھے بزرگ سے غلامی، آزادی اور تقسیم کی داستان سن رہے تھے۔ حساس طبیعت ہونے کی وجہ سے غلامی کا تصور بھی ان کے لئے اذیت ناک تھا، اور آزادی کے بعد سے ہونے والے دنگے اور فسادات نے ان کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور ان کا یہی احساس اور درد ان کے افسانوں میں نظر آتا ہے۔
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ کی تمام کہانیوں میں اس دور کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کا عکس بہ آسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت کی زیادہ تر کہانیوں میں ذوقی پر ترقی پسندانہ رنگ غالب تھا۔ لیکن یہ رنگ کئی معاملوں میں ترقی پسند کے دوسرے افسانہ نگاروں سے مختلف بھی تھا۔ مثال کے لیے ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ میں ’’مہا شیوتا‘‘ اور ’’اتپلیندو‘‘ کے کرداروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کے ’’اتپلیندو‘‘ نکسلائٹ مومنٹ سے جڑ گیا ہے۔ گھوش بابو سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔ ان کے اندر اپنے باغی بیٹے کو لے کر ایک طرح کی کشمکش چلتی رہتی ہے اور آخر کار اتپلیندو پولیس کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ گھوش بابو ایک خواب کے دوران اپنا احتجاج درج کرنا چاہتے ہیں۔
’’کھٹ کھٹ……..میں آزاد………ہونا چاہتا ہوں ………..کھٹ کھٹ……….ہاتھ، پیر، منہ پورے وجود کے ساتھ آزاد…..کھٹ کھٹ……….میں اس نوکری سے ………اچانک سوتے میں ان کا ہاتھ ٹائپ رائٹر مشین پر چلنے لگتے ہیں۔ ‘‘ ۲۱؎
یہ اقتباس ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ کاکلائمکس ہے۔ جہاں ایک بوڑھا باپ اپنے بیٹے کے مارے جانے کے بعد خواب میں اپنا استعفیٰ ٹائپ کر رہا ہے۔ در اصل ذوقی ہمارے سماج کی اسی بے بسی کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دہلی آنے کے بعد مشرف عالم ذوقی نے جو پہلا افسانہ لکھا وہ ’’بچھو گھاٹی‘‘ ہے۔ اس افسانے کو انھوں نے ۱۹۸۷ء میں لکھا اور ۱۹۸۹ ء کے رسالے ’’آج کل‘‘ میں شائع کیا۔ یہ ذوقی کی ایک بڑی کہانی ہے۔ اس افسانے کی شروعات انھوں نے بڑے دلچسپ انداز سے کی ہے۔ ’’بچھو گھاٹی‘‘ ذوقی کی زندگی کی سرگزشت لگتی ہے۔ کہانی کے کرداروں میں دپیکا جیسی بیوی کے حوصلے اور مضبوطی کے سہارے آشوتوش اپنی جنگ میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جواب اس وقت ملتا ہے جب آشوتوش اپنی میگزین سے استعفیٰ دے کر اپنے مضبوط ہونے کا پہلا پتھر پھنکتا ہے۔ یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:
’’تمہاری کہانیوں میں میرا بچہ کیوں دکھتا ہے۔ میرے بچے کی بھوک کیوں نظر آتی ہے ؟‘‘
’’اس لئے کہ میں بھوک دیکھ رہا تھا۔ مٹّی، میں سے چہرے کی بھوک، اب یہ بھوک نظر نہیں آئے گی۔ ‘‘
یعنی کہ تم خود کو جوڑ کر لکھتے ہو …………اپنے بچے کو، اپنے بچے کی بھوک کو محسوس کرتے ہوئے ……….اپنے دائرے سے باہر۔ ‘‘ ۲۲؎
مشرف عالم ذوقی کی کہانیوں میں اینٹی کلائمکس کی فضا محض چونکانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ فکر کی ایک گہری لکیر کہیں دور تک چھوڑتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ اپنے اس افسانے کے بارے میں مشرف عالم ذوقی اپنی کتاب ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’یہ کہانی میرے ادبی کیرئیر کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوئی، ادبی حلقوں میں اسے کافی پسند کیا گیا۔ میرے لئے اہم بات یہ تھی کہ میں اپنے آپ کو بدلا بدلا سا محسوس کرنے لگا تھا___آئیڈیالوجی کی سطح پر بھی ___۸۰ کے آس پاس جس جدیدیت نے میرے اندر شتر مرغ کی طرح خاموشی سے اپنی گردن نکالی تھی، ایک بار پھرکسی آنے والی آندھی کے زیر اثر دوبارہ اس نے ریت میں منہ چھپا لیا تھا۔ ‘‘ ۲۳؎
مشرف عالم ذوقی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’منڈی‘‘ ۱۹۹۷ء میں شائع ہوا۔ اس طرح ان کا دوسرا مجموعہ دس سال کے وقفے کے بعد منظر عام پر آیا تھا۔ ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ اور منڈی کے درمیانی وقفے نے ذوقی کے سوچنے کے انداز کو بدل دیا تھا۔ ان کے اندر کافی حد تک نظریاتی بدلاؤ آ چکے تھے۔ اس مجموعے منڈی کے شروعاتی دس کہانیاں ذوقی کے مزاج اور آئیڈیالوجی سے مختلف تھیں۔ ٹیلی فون، مادام ایلیا کو جاننا ضروری نہیں ہے، بھنوری میں ایلیس، مجھے جانوروں سے بھوتوں سے پیار کرنے دو، جیسے افسانوں میں ذوقی نے اپنے اسلوب کو کافی حد تک بدل دیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی ’’منڈی‘‘ کے نقطۂ نظر کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’منڈی میں، میں نے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کچھ یوں کی تھی۔
میں نے اپنے بچے کی آنکھوں میں دیکھی ہے۔
مسکراہٹ، شرارت، زندگی
زندگی اور صرف زندگی
جس میں خمار ہے، نشہ اور تازگی
نئی کہانی اسی سے جنمے گی، اسی مسکراہٹ سے
نئی کہانی کسی بغاوت کی کوکھ سے نہیں جنمے گی
وہ جنمے گی اسی زندگی سے
سرشار، بہت ساری خوبصورت غلط فہمیوں،
اور ایک خاص طرح کے بھرم کے ساتھ۔ ‘‘ ۲۴؎
’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ کے بعد ’’منڈی‘‘ مشرف عالم ذوقی کے ادبی سفر کا دوسرا پڑاؤ تھا۔ اس کے بعد ’’غلام بخش‘‘ ، ’’صدی کو الوداع کہتے ہوئے ‘‘ اور ’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے ‘‘ تک فن اور فکر کے لحاظ سے ذوقی نے جو شہرت حاصل کی ہے اس کی نظیر بہت مشکل سے ملتی ہے۔ ذوقی کا تیسرا مجموعہ ’’غلام بخش‘‘ ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا۔ ان کے افسانے منڈی میں جہاں احساس کی زیریں لہریں حاوی تھیں وہیں ’’غلام بخش‘‘ میں کردار اور واقعات پر زور دیا گیا ہے۔ اپنے مجموعہ غلام بخش میں ذوقی نے گیارہ کہانیاں شامل کی ہیں۔ یہ کہانیاں تقسیم ہند کے واقعات پر لکھی گئی ہیں۔ ان افسانوں میں تقسیم کے بعد عوام کی بدحالی اور اس پر گزرنے والے حالات و واقعات کے ذریعہ انسان کے وجود کے اندر جھانکنے کی کوشش کی ہے۔
’’غلام بخش‘‘ ایک ایسا کردار ہے جس کا باپ تقسیم ہند میں مارا جاتا ہے اور غلام بخش پاگل ہو جاتا ہے۔ بالکل ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرح۔ اس کو نہیں معلوم اس کے بھائی بھاوج اس کو لے کر کہاں جا رہے ہیں۔ پاکستان جانے کے بعد اس کا دل وہاں نہیں لگتا ہے اور ایک دن وہ چپ چاپ پاکستان سے ہندوستان آ جاتا ہے۔ مگر یہاں اس کے مکان پر کسی اور کا قبضہ رہتا ہے۔ مکان اس کے نام پر نہیں تھا اس لئے اس کو اپنے مکان کے لئے کافی جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔ اس کہانی میں مکان کو لے کر ایک عجیب کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’میں نے ان کی آنکھوں میں جھانکا۔ یاد رکھئے اس کہانی کا سب سے اہم حصہ ’’غلام بخش‘‘ کے آخری ایام ہیں۔ آخری وقت میں یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوا تھا کہ یہ مکان کیا اتنے برسوں بعد بھی اس کا نہیں ہے ؟ اس نے اپنے اس موروثی گھر کیلئے کوشش کی۔ ظاہر ہے گھر نہیں مل سکا۔ اس نے پاکستان جانے ارادہ کر لیا۔ ویزا بنوالیا۔ حقیقت یہی ہے کہ اس فوقیت اپنے مکان کودی۔ وہ پاکستان گیا نہیں۔ کیوں کہ یہ تلخ حقیقت اسے معلوم ہو گئی تھی کہ اب یہی اس کا گھر ہے اور اسے اسی گھر کے لئے کوشش کرنی ہے اور………‘‘ ۲۵؎
مکان نہ ملنے پر غلام بخش اپنے مکان کے سامنے اسی طرح جان دے دیتا ہے جس طرح ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ نے دی تھی۔ غلام بخش جان دے کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہندوستان میرا ملک ہے اور اسی ہندوستان کے لئے میں نے اپنی جان تک دے دی ہے۔ ذوقی نے غلا م بخش کو منٹو کی کہانی ’’ٹو بہ ٹیک سنگھ‘‘ کے کافی بعد اس کے Extensionکے طور پر لکھا ہے۔
ذوقی کا موازنہ مشہور روسی ادیب ’’وستا وسکی‘‘ سے کیا گیا ہے۔ اطہر رضوی نے ذوقی کے قلم کو وستا وسکی سے بھی آگے کا قلم مانا ہے۔ اسی طرح آفاق عالم صدیقی مشہور و معروف نقاد سنجیدگی اور بے باکی سے اپنی بات کہتے ہوئے۔ مشرف عالم ذوقی کے بارے میں اپنی رائے یوں پیش کرتے ہیں :
’’مشرف عالم ذوقی اپنے انداز کے سب سے توانا اور منفرد افسانہ نگار ہیں۔ تہذیب کی ہر نئی کروٹ اور تیز رفتار زندگی سے پیدا ہونے والے ہر مسئلہ پر عموماً ذوقی کی نظر سب سے پہلے پڑتی ہے۔ وہ آج کی زندگی کے ایسے سفاک افسانہ نگار ہیں۔ جو تمام معنویت کو جھیلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ وہ سنگین سے سنگین ترین مسائل اور پیچیدہ سے پیچیدہ صورت حال پر اتنی خوبصورتی سے افسانے کا محل کھڑا کر دیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ میں نے اپنے کسی تفصیلی خط میں لکھا تھا کہ مشرف عالم ذوقی کی افسانہ نگاری ہو یا ناول نگاری ہر دو کا معاملہ ان کے تمام ہم عصر اور پیشروؤں سے مختلف ہے۔ ان کا کہانی کہنے کا ڈھنگ اور طریقہ بھی سب سے الگ ہے۔ انہیں اپنے ہم عصروں میں وہی انفرادیت حاصل ہے جو کبھی قرۃ العین حیدر کو حاصل تھی یا جو انتظارحسین کو حاصل ہے۔ کسی نے کہا تھا منٹو، ابن صفی اور یوسفی جو کچھ اور جس طرح لکھ سکتے ہیں ضرور وہی لکھ سکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں لکھ سکتا، یہی بات قرۃ العین حیدر، انتظار حسین اور ذوقی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ‘‘ ۲۶؎
مشرف عالم ذوقی روایتی انداز میں بنی گئی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے افسانوں میں علامتوں کا استعمال کرتے ہیں وہی اس میں خوبصورت بیانیہ اور فنٹسی کا استعمال بھی نظر آتا ہے۔ ایک طرف جہاں ان کی کہانیوں میں سماجی اور سیاسی شعور کی جھلک دکھائی دیتی ہے وہی ان میں تاریخ کی گونج کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ جو دھیرے دھیرے ان کہانیوں میں اپنی جگہ متعین کرتی ہیں۔ یہی وہ اندازِ بیان ہے جو بر صغیر میں بہت کم افسانہ نگاروں کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے اور یہی اندازِ بیان اور مخصوص اسلوب ذوقی کو دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔
٭٭
حواشی
۱۔ رضی احمد ’’عہد حاضر کے معروف ناول نگار جناب مشرف عالم ذوقی سے گفتگو‘‘
سبق اردو خصوصی شمارہ، دانش الہ آبادی ص۲۶
۲۔ تسنیم فاطمہ ’’ذوقی :تخلیق اور مکالمہ ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ص ۲۱۲
۳۔ مشرف عالم ذوقی ’’میرا تخلیقی سفر‘‘ عالمی جائزہ مدیر عبدالرحمن ایڈوکیٹ شمارہ جنوری تا مارچ ص ۱۳
۴۔ شیخ لطیف ’’مشرف عالم ذوقی کی ہندی کہانیوں میں سمپردایکتہ ’’پی۔ ایچ۔ ڈی‘‘ تھیسیس ص۸
۵۔ شیخ لطیف ’’مشرف عالم ذوقی کی ہندی کہانیوں میں سمپردایکتہ ’’پی۔ ایچ۔ ڈی‘‘ تھیسیس
۶۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۱۷۷
۷۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۴۳۶
۸۔ شیخ لطیف ’’مشرف عالم ذوقی کی ہندی کہانیوں میں سمپردایکتہ ’’پی۔ ایچ۔ ڈی‘‘ تھیسیس ص ۱۵
۹۔ شیخ لطیف ’’مشرف عالم ذوقی کی ہندی کہانیوں میں سمپردایکتہ ’’پی۔ ایچ۔ ڈی‘‘ تھیسیس ص ۱۳
۱۰۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۴۳۷
۱۱۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۴۵۶
۱۲۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۴۶۰
۱۳۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۴۴۸
۱۴۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۴۵۳
۱۵۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۱۴۳
۱۶۔ شیخ لطیف ’’مشرف عالم ذوقی کی ہندی کہانیوں میں سمپردایکتہ ’’پی۔ ایچ۔ ڈی‘‘ تھیسیس ص ۳۵
۱۷۔ شیخ لطیف ’’مشرف عالم ذوقی کی ہندی کہانیوں میں سمپردایکتہ ’’پی۔ ایچ۔ ڈی‘‘ تھیسیس ص ۳۶
۱۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی پیش لفظ ص ۱۸
۱۹۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلہ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۱۹۶
۲۰۔ مشرف عالم ذوقی ’’میرا تخلیقی سفر‘‘ عالمی جائزہ مدیر عبدالرحمن ایڈوکیٹ شمارہ جنوری تا مارچ ص ۲۱
۲۱۔ مشرف عالم ذوقی ’’بھوکا ایتھوپیا‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی پیش لفظ ص
۲۲۔ ڈاکٹر مشتاق احمد ’’بیان منظر پس منظر‘‘ جہانِ اردو، رحیم گنج، در بھنگہ۔ بہار ص ۸
۲۳۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلۂ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۴۷۵
۲۴۔ مشرف عالم ذوقی ’’منڈی (نئی کہانیاں ) ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی ص ۴۷۹
۲۵۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلہ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۴۸۰
۲۶۔ دانش الہ آبادی ’’سبق اردو‘‘ ماہنامہ ’’جنوری‘‘ ص۶
٭٭٭
باب دوّم
مشرف عالم ذوقی کے ہم عصر ناول نگار
ناول ایک ایسی نثر ہے جو قصہ گو ئی کے لئے مخصوص ہے۔ ناول انسانی تجربوں کو فنی سلیقے سے پیش کرنے والے فن کا نام ہے۔ ناول اطالوی زبان کا لفظ ہے۔ اس کی شکل((Novellaہے جو اردو میں انگریزی کے ذریعہ سے آیا۔ ناول میں ایسا قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ جس پر حقیقت کا گمان ہو اور کم از کم پڑھتے وقت ہم اس کے فریب میں مبتلا ہو جائیں اور فرضی واقعہ کو حقیقت سمجھنے لگیں۔ ناول کو سمجھنے کے لیے الگ الگ زبان اور الگ الگ فنکاروں اور نقادوں نے اپنے طور پر ناول کے متعلق نظریات و خیالات کا اظہار کیا ہے۔ آل احمدسرور ناول کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ناول انگریزی کا لفظ ہے۔ انگریزی اثر کے ساتھ ہمارے یہاں آیا اور دیکھتے دیکھتے سارے ادب پر چھا گیا۔ ‘‘ ۱؎
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی نے یوں کہا کہ:
’’ناول داستان یا افسانے کی ایک ترقی یافتہ نوعیت ہے اور اردو میں اس فن کو مستقل حیثیت دینے میں انگریزوں کا قابل قدر حصہ رہا ہے۔ ‘‘ ۲؎
انگریزی کے مصنف اسٹوسن ناول کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ناول نثر میں قصہ بیان کرنے کا فن ہے۔ ‘‘ ۳؎
بیکر نے بھی ناول کی تعریف یوں کی ہے :
’’ناول ایک نثری بیانیہ قصے کے ذریعہ انسانی زندگی کی ترجمانی ہے۔ ‘‘ ۴؎
ناول قصہ کہنے کا فن ہے۔ فن کی حیثیت سے اس کی کچھ خصوصیات بھی ہیں، جمالیاتی اقدار اور کچھ فنی تقاضے بھی ہیں۔ ناول کے جمالیاتی اقدار پر غور کرتے ہوئے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ناول ایک ایسا فن ہے جس میں زندگی کی تصویر کشی ایک مخصوص نقطہ نظرسے کی جاتی ہے۔ ناول زندگی کو تسلسل کے ساتھ پیش کرنے والے فن کا نام ہے۔ اس کا مقصد ہمارے معاشرے میں ہو رہے تمام واقعات و معاملات کی ترجمانی کر کے اس کا حل پیش کرنا ہے۔ ناول زندگی کے تمام تر مسائل کو ایک کہانی کی شکل میں ہمارے سامنے رکھتا ہے اور تمام معاملات اور مسائل سے ہم کو روشناس کراتا ہے۔
ناول کی روایت ارد و ادب میں بہت قدیم نہیں ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ناول کے فن سے اردو والوں کو آشنا کیا۔ ان قصوں میں داستان کے غیر فطری ماحول، فوق بشر کردار کی جگہ دنیائے ا ٓب و گل کے معاملات و مسائل کو موضوع بنایا گیا۔ ان کا ناول ’’مراۃالعروس ‘‘ لکھنے کا مقصد اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت تھا۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ غیر معمولی پذیرائی نے ڈپٹی نذیر احمد کو دوسرا ناول لکھنے کے لئے مجبورکر دیا، چنانچہ انھوں نے ’مراۃالعروس ‘ کے بعد ’’بنات النعش‘‘ ۱۸۷۲ئ ، توبتہ النصوح ۱۸۷۴ئ ، فسانۂ مبتلا ۱۸۷۵ئ، ابن الوقت ۱۸۸۸ئ ، ایامی ۱۸۹۱ئ اور رویاے صادقہ ۱۸۹۴ئ جیسے ناول لکھ کر اردو ناول نگاری میں اپنا نام سر فہرست لکھوا لیا۔
ڈپٹی نذیر احمد نے اصلاحی ناول لکھ کر اردو ادب میں ناول نگاری کی بنیاد ڈالی۔ رتن ناتھ سرشارنے معاشرتی ناول اور عبدالحلیم شرر نے تاریخی سطح کے ناول لکھ کر اردو ناول نگاری میں اپنا مقام بنا لیا۔ ان کے ناولوں میں مافوق الفطرت عناصر کی بھرمار تھی جس کی مثال ’’فسانہ آزاد ‘‘ اور ’’پی کہاں ‘‘ اور شرر کے ناول ’’فردوس بریں ‘‘ ہے۔ یہ ایسے ناول ہیں جس سے ناول کی ہیت میں ڈرامائی ناول کی بنیاد پڑی۔ ڈاکٹر یوسف سرمست ’ ’ فردوس بریں ‘‘ کے بارے لکھتے ہیں :
’’اس میں پلاٹ، کہانی، کردار، مکالمے، ماحول جذبات نگاری اور فلسفۂ حیات مل کر وہ آہنگ پیدا کرتے ہیں، جو ڈرامائی ناول کا امتیاز ی وصف ہے۔ ‘‘ ۵؎
’ مرزا ہادی رسوا‘نے علم نفسیات سے فائدہ اُٹھایا۔ انھوں نے اپنے ناول میں پہلی بار طوائفوں کی زندگی کو جگہ دی جس نے ان کو شہرت بخشی اور اردو ادب میں ایک منفرد مقام دلوایا۔ مرزا ہادی رسوا نے اپنے ناولوں میں لکھنوی معاشرے کے رہن سہن، زبان اور وہاں کے ماحول کی عکاسی کو بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ان کے بعد ناول کے فن کو مستحکم بنانے کے لئے ایسی شخصیت وجود میں آئی جس نے ہندوستان کے سرمایہ دارانہ کے نظام کو بدلنے اور دیہاتوں کے مسائل کو سلجھانے کی بھرپور کوشش کی اور وہ شخصیت منشی پریم چند کی تھی جنہوں نے دیہاتوں کے موجودہ مسائل اور وہاں کے رہن سہن، زبان، رسم و رواج اور ماحول کو اپنے ناولوں اور افسانوں میں سمو دیا اور اس حیثیت سے اردو ادب میں اپنا پرچم لہرایا پریم چند کے مشورے سے نوجوان ادیبوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین قائم کی۔ انجمن ترقی پسندمصنفین کی پہلی کانفرنس لکھنو میں ۱۹۳۶ میں ہوئی۔ اس کانفرنس میں پریم چند نے جو خطبۂ صدارت پڑھا وہ آج بھی یادگار ہے۔
پریم چند نے اپنے خطبہ میں نئے ادب کے مقاصد پر زور دیا۔ ادب کی افادیت واضح کی اور کہا کہ ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہو گا۔ شراب و شباب کو ترک کر کے مسائل سے آنکھیں ملا کر لڑانا ہے، اور نئے علوم کی طرف ادیبوں کو متوجہ ہونا ہے۔ پریم چند نے اپنے خطبے کا اختتام ان جملوں پر کیا :
’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گاجس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے سلائے نہیں کیونکہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہو گی۔ ‘‘ ۶؎
ترقی پسند ناولوں کی بنیاد ڈالنے میں اور اس کو پروان چڑانے میں سجاد ظہیر، حیات اللہ انصاری، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی جیسے بڑے ناول نگاروں نے حصہ لیا۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں حقیقت پسندی کو جگہ دی اور اپنے عہد کے مسائل کوسامنے لانے اور اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جس کی مثال ’لہو کے پھول‘، ’ایک چادر میلی سی‘، ’جب کھیت جاگے ‘ اور’ ضدی‘ ہے۔ ترقی پسند تحریک کے بعد اردو ادب میں ایک اور تحریک کی بنیاد پڑی جو جدیدیت کے نام سے ہمارے سامنے آئی۔ اس دور کے لوگوں نے ادب کے معیار میں تبدیلی پیدا کی۔ ان لوگوں میں رام لعل، شوکت صدیقی، اقبال متین، انتظار حسین، خالد حسین جیسے بڑے ادیب شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں ترقی پسند تحریک کے شرائط کو چھوڑ کر ادب کو ایک آزادانہ معیار بخشا۔ مصنفین پر کوئی پابندی نہیں تھی وہ اپنے خیالات کا اظہار اپنے ناولوں اورافسانے میں کر سکتے تھے، جدیدیت کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر وحید اختر لکھتے ہیں کہ:
’’جدیدیت کی ایک تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ یہ اپنے عہد کی زندگی کا سامنا کرنے اور اسے تمام خطرات و امکانات کے ساتھ برتنے کا نام ہے۔ ہر عہد میں جدیدیت ہمعصر زندگی کو سمجھنے اور برتنے کے مسلسل عمل سے عبارت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے جدیدیت ایک ایسا مستقل عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ‘‘ ۷؎
قرۃ العین حیدر، خدیجہ مستور، الیاس احمد گدی سے عبد الصمد تک اور پیغام آفاقی تک آتے آتے اردو ناول کا کینوس، اسلوب اور لہجہ بہت حد تک بدل چکا تھا۔ میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ وقت کے ساتھ اسے بدلنا بھی چائیے تھا۔ پریم چند اپنے قلم سے شمشیر کا کام لے رہے تھے، تو قرۃ العین حیدر محض اپنے عہد کا نوحہ لکھنے میں مصروف تھیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آزاد ہندوستان میں تقسیم سے پیدا شدہ حالات میں اظہار کی صورتوں کو تہذیبی تصادم کی آنکھ سے دیکھتی رہیں اور رنجیدہ ہوتی رہیں کہ جدید تقاضوں نے وہ تہذیب گم کر دی جس کے سایہ میں ان کی تربیت ہوئی تھی۔ اس طرح غور کریں تو وہ ایک ہی کہانی یا اپنی کہانی نئے نئے عنوان سے قلمبند کرتی رہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ۸۰ کے بعد کا فنکار محض اس تہذیبی Nostalgia کا شکار نہیں تھا۔ وہ آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ اپنے سماج، اپنے معاشرے، اپنے مذہب سے باہر نکل کر نئے بیان اور اظہار کا متلاشی تھا۔ وہ اپنے ملک کی بات کرتے ہوئے محض اپنی شخصیت تک محدود نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ اقبال کے شاہین کی طرح اپنے پر پھیلانا جانتا تھا۔ وہ تجربہ کر رہا تھا ان تجربوں نے جہاں ناول نگاری کو اپنے مروجہ اسلوب سے باہر نکالا وہیں اسے معنی و مفہوم سے روشناس بھی کرایا۔ اس دور کی ہر زبان، اسلوب اور موضوعات شعوری تبدیلی چاہتی تھی۔ چنانچہ اسلوب کی سطح پر تجربات کے دور کا آغاز ہوا۔ موضوعات کے اچھوتے پن کی جستجو نے انھیں اجتمائی موضوع سے پرے کیا۔ اپنی بات کو بیان کرنے کے لئے اشاروں، کنایوں، تشبیہات اور استعاروں کے بجائے خود کلامی کا سفر شروع کیا۔ زندگی کے مسائل کو قاری کے سامنے ایک نئے اسلوب و تکنیک کے سہارے پیش کرنا شروع کیا۔ اس دور کے لوگوں میں گیان سنگھ شاطر، اقبال مجید، غضنفر، علی امام نقوی، جیلانی بانو، ساجدہ زیدی، قاضی عبدالستار اور مشرف عالم ذوقی شامل ہیں۔ اس لیے جب مشرف عالم ذوقی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ان کے ناولوں میں سارے پہلو نظر آتے ہیں۔ جو آج کے دور کے متقاضی ہیں۔ ان کے ناولوں میں وہ سب مسائل موجود نظر آتے ہیں جو آج ہمارے سامنے منھ پھاڑے کھڑے ہیں جس سے آج ہم جوجھ رہے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۵ ء کے بعد اپنی شناخت بنانے والے قلم کاروں میں سر فہرست ہیں۔ جس برق رفتاری سے انھوں نے اپنی افسانہ نگاری، تنقید نگاری اور ناول نگاری کا لوہا منوایا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ مشرف عالم ذوقی کے فن کو سمجھنے کے لئے اُن کے معاصرین کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ مشرف عالم ذوقی کے معاصرین میں غضنفر، پیغام آفاقی، عبدالصمد، ترنم ریاض، شائستہ فاخری، نورا لحسنین وغیرہ بڑے ادیبوں کے نام آتے ہے جو منفرد اور خاص موضوع تخلیق کرنے میں مشہور ہوئے۔ ہندوستان کے سبھی علاقوں سے معاصر ناول نگاروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔
غضنفر
غضنفر کا اصل نام غضنفر علی ہے۔ لیکن یہ غضنفر کے نام سے ہی مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش ۱۹۵۳ ء کو چوراؤں گاؤں گوپال گنج (بہار) میں ہوئی۔ غضنفر کی ابتدائی تعلیم گوپال گنج سے ہی ہوئی۔ ۱۹۷۳ ء میں بی۔ اے کرنے کے بعد یہ علی گڑھ چلے آئے اور یہاں انھوں نے اردو سے ایم۔ اے اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے سندی مقالے کا عنوان ’’شبلی نعمانی کے نظریات‘‘ ہے۔ غضنفر ہائی اسکول کے زمانے سے ہی ادب کی طرف مائل رہے۔ پہلے انھوں نے شاعری شروع کی پھر افسانے لکھے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ٹیری کاٹ کا سوٹ‘‘ تھا۔ جو رسالہ ’’بڑھتے قدم‘‘ دہلی میں ۱۹۷۳ ء کے آس پاس شائع ہوا۔
غضنفر نے تقریباً دو سو غزلیں کہیں جو مختلف رسالوں میں شائع ہوئی۔ بعد میں یہ شعر و شاعری ترک کر کے اردو فکشن کی طرف راغب ہوئے۔ غضنفر علی کے اب تک کئی ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’پانی‘‘ ۱۹۸۹ ء میں شائع ہوا۔ پھر ’’کینچلی‘‘ ۱۹۹۲ ء ’’کہانی انکل ‘‘ ۱۹۹۷ ء ’’ ھم ‘‘ ۱۹۹۴ ء ’’دو یہ بانی‘‘ ۲۰۰۰ ء ’’فسوں ‘‘ اور ’’مانجھی‘‘ شائع ہوئے۔
غضنفر کا ناول ’’ دویہ بانی ‘‘ ان کے باقی ناولوں سے موضوع زبان اور اپنے قصے کی گہرائی اور انفرادیت کی بناء پر الگ ہے جس کے باعث اردو ادب میں دلت سماج کا منظر نامہ پیش کرتا ہوا یہ ناول بالکل الگ نظر آتا ہے۔ ان کا یہ ناول کئی زمانوں پر محیط ہے۔ یہ ناول ہمارے ہندوستان میں برسوں سے اقتدار اور مذہب کی آڑ میں کی جانے والے انسانی حقوق کی پامالی کی قلعی کھولتا ہے۔ اور قاری کو اس نظام اور اس کے برے اثرات سے نہ صرف واقف کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف احتجاج بھی کرتا ہے۔ ’’دو یہ بانی‘‘ یعنی دیوی اور دیوتا ؤں کے ارشادات یا ان کی کہی ہوئی وہ پاک اور مقدس باتیں ہیں جو دل و دماغ کو روشن کرتی ہیں۔ زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔ اچھوت فرقے کے لئے دویہ بانی سننے پر پابندی عائد ہے۔ اگر کوئی اچھوت چھپ کر یا کسی اور طریقے سے یہ دو یہ بانی سن لیتا ہے۔ تو اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اس ناول میں جھگرو چمار اور بالو کے ساتھ ہوا۔
’’دویہ بانی‘‘ ناول میں بنیادی طور پر دو کردار نظر آتے ہیں۔ ایک دادا اور دوسرا ان کا پوتا۔ دادا استحصالی قوت کا نمائندہ ہے۔ وہ جات پات، چھوت اچھوت میں فرق کرتا ہے۔ پوتا جو اس ناول کا مرکزی کردار بھی ہے۔ اپنے دادا کے اس جبر کے خلاف وہ آواز اٹھاتا ہے اور اس طرح وہ ایک نیا المیہ بن کر سامنے آتا ہے۔ پوتا یعنی ’’بالیشور منو وادی‘‘ جو اس نظام کے تصورات اور مسلمات سے مشکوک نظر آتا ہے۔ طرح طرح کے سوالات اُس کے ذہن میں گھومتے ہیں اور وہ ان کے جواب تلاش کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً اچھوت کیا واقعی برہما کے پاؤں سے جنمیں ہیں۔ اچھوت کی موری گندی اور ہماری موری صاف کیوں ہے ؟ دویہ بانی سن کر اچھوت میں تبدیلی کیوں شروع ہو جاتی ہے۔ بالیشور کے علاوہ بھی اس ناول میں بہت سے ایسے کردار ہیں۔ جو اہمیت کے حامی ہیں۔ جیسے جھگرو، بالو اور بندیا وغیرہ۔
’’دویہ بانی ‘‘ گاؤں کے پس منظر پر لکھی گئی کہانی ہے۔ اس میں دیہات کی منظر نگاری کو بخوبی دکھایا گیا ہے۔ ناول پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اس گاؤں میں موجود ہیں۔ اس ناول میں منظر نگاری کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’ہون کنڈ کے چبوترے کے نیچے پتھریلی زمین پر جھگرو کسی بلی چڑھنے والے جانور کی مانند پچھاڑیں کھا رہا تھا۔ ‘‘ ۸؎
غضنفر کا یہ ناول اپنے موضوع کی مناسبت سے ہندی اور اردو زبان میں لکھا گیا ہے۔ کہیں کہیں اس ناول میں ایسی خالص ہندی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے جو اردو قاری کے لئے ناول کی روانی میں رکاوٹ بن کر سامنے آتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہندی زبان کو اردو رسم الخط میں لکھ دیا گیا ہے۔
’’ہون ایک پرکار کی پوجا ارچنا ہے۔ جس کا آیوجن دیوتا کو رجھانے منانے، ان کی دیا درشٹی کو اپنی اُور آ کر شِت کرنے تتھا اپنی کامناؤں کی پورتی کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس میں بھاگ لینے والے کو سکھ اور شانتی پراپت ہوتی ہے ساتھ ہی اسے دیو پرکوپ سے مکتی بھی ملتی ہے۔ ‘‘ ۹؎
اس ناول کی تکنیک کئی معنوں میں روایتی ناولوں کی تکنیک سے مختلف ہے۔ اس کا اسلوب استعاری، علامتی اور تمثیلی ہے۔ غضنفر کو ہر طرح کے طرزِ بیان پر قدرت حاصل ہے۔ وہ بڑے سے بڑے واقعات کو بھی بڑے آسان اور سہل انداز سے پیش کرتے ہیں۔
غضنفر اپنے ناولوں میں چھوٹے چھوٹے جملوں کا استعمال کرتے ہیں۔ جو سادہ عام فہم اور روز مرّہ کے الفاظ پر مشتمل ہیں۔ ان کے جملے رواں ہوتے ہیں۔ یہ الگ الگ ہو کر بھی ایک دوسرے سے اس طرح جڑے اور مربوط ہوتے ہیں کہ ان سے ایک مکمل معنی اور بھر پور تاثر پیدا ہوتا ہے۔ غضنفر علی ایک اچھے ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے اس ناول میں اپنی شاعری کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ جس کی مثال کچھ اس طرح ہے۔
’’ندی ترنگ ہے
ندی امنگ ہے
ندی کے رنگ میں کیا کیا رنگ ہے
ندی کا کیسا کیسا ڈھنگ ہے
ندی گمک ہے
ندی ہمک ہے
ندی کڑک ہے
ندی تھپک ہے
ندی سے ساگر
ندی سے گا گر‘‘ ۱۰؎
’’دو یہ بانی‘‘ کا اسلوب منفرد، دلکش اور دلچسپ ہے۔ غضنفر کی وسعتِ نگاہ، مشاہدہ کی باریکی اور ہندی اور اردو زبان کے خوبصورت امتزاج نے ان کے اس ناول کو ایک شاہکار کا درجہ دیا ہے۔
پیغام آفاقی
پیغام آفاقی ایک ایسی شخصیت ہیں۔ جنھوں نے بہت کم ناول لکھے ہیں۔ مگر جو بھی لکھا اس کی وجہ سے وہ بلندی تک پہنچ گئے۔ ان کا اصلی نام اختر علی فاروقی ہے اور ان کی پیدائش موضع چانپ ضلع سیوان (بہار) میں ۱۹۵۶ ء کو ہوئی۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم یہیں سے شروع کی اور آگے کی پڑھائی کے لئے وہ سیوان چلے گئے۔ پھر ہائر سیکنڈری کا امتحان پاس کر کے وہ علی گڑھ چلے آئے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی۔ اے انگریزی آنرس کے ساتھ کیا۔ حصول تعلیم کے بعد مرکزی یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) میں شریک ہوئے اور کامیاب بھی ہو گئے۔ انھوں نے انڈین پولس سرویس اختیار کر لی اور ابھی بھی اس سرویس میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں۔ پیغام آفاقی نے یونیورسٹی کے زمانے میں ایک ناولٹ ’’راگنی‘‘ کی تخلیق کی مگر وہ شائع نہیں ہو سکا۔
پیغام آفاقی کا ناول ’’مکان‘‘ ایک مکان مالک اور اس کے کرایہ دار کی کہانی ہے۔ کرایہ دار ’’کمار‘‘ اپنی مکان مالک ’’نیرا‘‘ کو اس کے مکان سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ نیرا ایک شریف لڑکی ہے۔ وہ میڈیکل سائنس کی طالب علم ہے۔ جس پر گھر کی ساری ذمہ داری ہے۔ کمار نے غلط طریقہ سے سارے گھر پر قبضہ کر لیا ہے اور نیرا سے مکان خالی کرنے کے لئے تمام غلط حربے استعمال کرتا ہے۔ مردانہ بالا دستی کے باوجود نیرا اس سے مسلسل ٹکراتی رہتی ہے۔ کمار اور نیرا کے بیچ جد و جہد اور احتجاجی رویوں کی سرگزشت کا نام ’’مکان ‘‘ ہے۔ اس جد و جہد میں نیرا اپنے ایقان، صداقت اور استقامت کے ذریعے کامیاب ہو جاتی ہے۔
بنیادی طور پر اس ناول میں دو اہم کردار نظر آتے ہیں۔ نیرا اور کمار۔ نیرا کا کردار ایک ذمہ دار، با ہمت اور ایک نڈر لڑکی کا ہے جو اپنے مکان کے لئے ایک ایسے شخص کا مقابلہ کرتی ہے۔ جو انتہائی پست کردار ہے خود غرضی کے لئے وہ بد ترین حرکت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس کردار کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالباً پہلی بار کسی ناول نگار نے ایسا نسوانی کردار پیش کیا ہے۔ جو مردانہ قوت کا مقابلہ اپنی حکمت، صلاحیت اور ذہانت سے کرتی ہے۔ نیرا کے مقابلے میں کمار کی شخصیت بالکل متضاد ہے۔ وہ بے حس، مطلب پرست اور بے ایمان قسم کا انسان ہے۔ جو مکان کو حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔
’مکان‘ میں پیغام آفاقی جذبات کو اس خوش اسلوبی سے پیش کرتے ہیں کہ بظاہر تو یہ سیدھے سادے لگتے ہیں۔ مگر قاری کے دل پر ایک انمٹ نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ اس ناول میں نہ فنی بازی گری کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور نہ نظریاتی وابستگی کی نعرے بازیاں۔ کسی بہت ہی گہرے اور فلسفیانہ موضوع پر یہ ناول نہیں لکھا گیا ہے۔ تکنیک سیدھی سادی ہے اس میں کوئی انوکھا تجربہ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ مگر احتجاج اور حالات سے لڑنے کی جو جرأت مندانہ کوشش اس ناول میں زرّیں لہروں کی طرح دوڑتی رہتی ہے۔ وہ اس کے اسلوب کو اور خوبصورت بناتی ہے۔
اس ناول میں پیغام آفاقی نے سادہ زبان و بیان کا استعمال کیا ہے اور ایسی تشبیہیں استعمال کرتے ہیں۔ جو ان کی تقریباً تمام ناولوں میں ملتی ہیں۔ پیغام آفاقی اپنے ناول میں کسی بھی تشبیہ کو برائے تشبیہ استعمال نہیں کرتے بلکہ اس کی مدد سے حقائق میں جان ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر۔
’’کمار زور پکڑتی آندھی کی طرح اس کے چاروں طرف سنسناہٹ پیدا کر رہا تھا۔ ‘‘
’’مدھو کیسے آہستہ آہستہ بے پردہ ہو گئی تھی، جیسے اُبلا ہوا انڈا اپنے خول سے باہر آتا ہے۔ ‘‘
’’آپ ویسے ہی دکھائی دیں گے جیسے سورج جب آہستہ آہستہ اپنی جگہ بدلتا ہے تو زمین پر موسم بدل جاتے ہیں۔ ‘‘
اس کے علاوہ گندھا ہوا کیچڑ، با عزت غلام، جادوئی گھروندا، گھومتا دماغ جانے مانے نقطے وغیرہ نامانوس تراکیب ہیں۔ لیکن ناول کی تکنیک اور عبارت کی مناسبت سے بے محل نہیں ہے۔
ان تشبیہوں سے پیغام آفاقی کی منفرد سوچ اور گہرے مشاہدے کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا یہ ناول طویل اور بوجھل ہونے کے باوجود زبان و بیان کی خوبیوں سے مزیّن ہے۔ قاری مصنف کی صلاحیتوں اور اظہارِ بیان کا قائل ہو جاتا ہے۔
عبد الصمد
عبد الصمد ملک اور بیرون ملک کے نامور فکشن نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام محمد عبد الصمد ہے۔ ان کی پیدائش بہار شریف میں ۱۸/جولائی ۱۹۵۲ ء کو ہوئی۔ عبد الصمد کی ابتدائی تعلیم بہار شریف سے ہی ہوئی۔ بہار کے ہی ایک اسکول صغریٰ ہائی اسکول سے ۱۹۶۵ ء میں میٹرک پاس کیا۔ انھوں نے ایم۔ اے اور پی۔ ایچ ڈی پولیٹکل سائنس سے کیا اورینٹل کالج پٹنہ سٹی میں پولیٹکل سائنس کے لکچرر بھی رہے۔ عبد الصمد نے اپنی ادبی سفر کا آغاز ۱۹۴۱ ء سے شروع کیا۔ یہ پہلے بچوں کے لئے لکھتے رہے۔ ان کا پہلا افسانہ ۱۹۶۵ ء میں شائع ہوا۔ عبد الصمد جب مگدھ یونیورسٹی میں ایم۔ اے کے طالب علم تھے تو کلام حیدری نے اپنے رسالے ’’آہنگ ‘‘ میں ان کے لئے ایک گوشہ وقف کر دیا تھا۔ اس سے ان کا حوصلہ بڑھا پھر وہ ملک کے مختلف رسالوں میں لکھتے رہے۔ جس سے ان کی مسلسل پذیرائی ہوتی رہی۔ ان کے اب تک چار افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اور اس کے ساتھ پانچ ناول بھی شائع ہوئے۔ ’’دو گز زمین‘‘ ۱۹۸۸ ء ’’مہاتما‘‘ ۱۹۹۲ ء ’’خوابوں کا سویرا‘‘ (۱۹۹۴ ء) ’’مہا ساگر ‘‘ (۱۹۹۶ ء) اور ’’دھمک‘‘ (۲۰۰۴ ء)۔ ان سب ناولوں میں ’’دو گز زمین‘‘ اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ اس ناول پر عبد الصمد کو ساہتیہ ایکاڈمی ایوارڈسے بھی نوا زا جا چکا ہے۔
عبد الصمد کا ناول ’’دو گز زمین‘‘ میں ۱۹۴۶ ء کے فرقہ وارانہ فسادات اپنی تمام ہولناکیوں کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ہجرت کا سانحہ بڑے موثر طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ ’’دو گز زمین‘‘ کا پلاٹ سادہ ہے۔ اس ناول کا آغاز خلافت کی تحریک سے ہوتا ہے اور اختتام بنگلہ دیش کے قیام پر۔ اس لئے اس ناول میں تقسیم وطن کے نتیجہ میں کنبہ کا کرب و الم جا بجا جھلکتا ہے۔ اصغر حسین مغربی پاکستان کے مہاجر ہیں اور اختر حسین اپنے آبائی وطن سے الگ نہیں ہونا چاہتے۔ مگر حالات کچھ ایسے بنتے ہیں کہ انھیں بھی ترکِ وطن کر کے ’’گر دنیا‘‘ پاسپورٹ کے سہارے مشرقی پاکستان جانا پڑتا ہے۔ وہاں ان کو ملازمت تو مل جاتی ہے۔ لیکن قیام بنگلہ دیش کے بعد اُنھیں مہاجر سمجھا جاتا ہے اور اس جرم میں ان کو ہندوستان واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ہندوستان آنے کے بعد ایک اور مسئلہ ان کے سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ ان کے گھر پاکستان سے ان اعزہ و احباب کے خطوط آتے رہتے ہیں۔ جس کو بنیاد بنا کر ان پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے گھر میں ٹرانسمٹر لگا ہے۔ جس کے ذریعہ سے پا کستان کو خفیہ خبریں پہنچائی جاتی ہیں۔ سی۔ بی۔ آئی ان کے گھر کی تلا شی لیتی ہے۔ مگر کچھ نہیں پاتی۔ اس ناول میں اس مسئلے کے تجزیہ میں عبد الصمد نے حقیقت نگاری کے جوہر دکھائے ہیں اور سیاست کی شاطرانہ چال کو بھی بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔
عبد الصمد نے اپنے اس ناول میں آزادی سے چند برس قبل سے لے کر پچیس تیس برس بعد تک کی سیاست کا جیسامربوط اور مسلسل بیان پیش کیا ہے۔ وہ لا جواب ہے۔ اس ناول میں کردار تو کئی نظر آتے ہیں۔ مگر اہم کرداروں میں اصغر حسین، اختر حسین، حامد اور سرور حسین ہیں۔ ناول ’’دو گز زمین‘‘ میں کئی مسائل کو اُٹھایا گیا ہے۔ جیسے مسلم لیگ اور کانگریس کی تلخ سیاست، فرقہ وارانہ فسادات اور اس کے نتیجہ میں ہندو اور مسلمانوں کے ووٹ کا Polarisation اور اس کے نتائج، مسلمانوں کی ناقدری، زمینداری کا خاتمہ اور مسلمانوں کی بد حالی، سیاسی رہنماؤں کی مفاد پر ستی اور لوٹ کھسوٹ، بے روزگاری اور مسلمانوں کی مشرقی یا مغربی پاکستان کی طرف ہجرت، پاکستان میں مہاجرین کی درگت اور تلاش رزق میں عرب ممالک کی طرف روانگی۔ یہ وہ بنیادی موضوعات ہیں جو اس ناول کا تانا بانا تیار کرتے ہیں۔ یہ سارے احوال و واقعات کڑی سے کڑی سے بڑی ملا کر فطری انداز میں پیش کئے گئے ہیں۔ اپنے اس ناول میں عبدالصمد نے مسلمانوں کی نفسیاتی و جذباتی کیفیتوں کی زندہ تصویریں پیش کی ہیں۔ ڈاکٹر اعجاز علی ارشد اس ناول کی ایک اہم خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’مہاجرین کے مختلف ذہنی رویوں کی عکاسی جس طرح اس ناول میں کی گئی ہے۔ وہ ناول نگاری کی حقیقت پسندی اور فنی مہارت دونوں کا ثبوت ہے۔ ‘‘ ۱۱؎
’’دو گز زمین‘‘ کا اسلوب شاعرانہ لطف سے خالی، سادہ اور سلیس ہے۔ ان کے ناول میں صنائع، بدائع پُر تکلف اسلوب کے دیگر عناصر خود بخود جا بجا شامل ہو جاتے ہیں۔ ان کی نثر میں تشبیہات و استعارات نظر آتے ہیں۔ عبدالصمد کے انداز اظہار میں وہ شگفتگی اور شائستگی ہے جو دلکش عناصر سے خالی رہ ہی نہیں سکتی۔ ملاحظہ فرمائیے :
’’وہ وہیں پر رہ گئے تھے جہاں تھے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے والے دماغ ان کو چھوڑ کر جا چکے تھے۔ پوری کی پوری گاڑی پٹری پر کھڑی تھی۔ لیکن انجن اس سے الگ ہو کر کہیں گم ہو چکا تھا۔ ‘‘
’’ابھی اس نے پڑھائی شروع کی ہی تھی کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات دکھائی دینے لگے تھے۔ ‘‘
عبد الصمد کی زبان تصنع اور بناوٹ سے خالی ہے۔ الفاظ صاف ستھرے اور سادہ استعمال کئے گئے ہیں۔ مکالمہ نگاری میں بھی عبد الصمد کو مہارت حاصل ہے ان کا مکالمہ ایسا ہوتا ہے جس سے قاری کا تجسس بڑھتا ہے۔ ان کے مکالمہ میں طنز کی جھلک صاف طور سے نظر آتی ہے۔
’’خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جناح صاحب کو کہ اردو کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے، سوائے ’’پاکستان‘‘ کے، لیکن پاکستان کی زبان اردو بنا دی۔ ‘‘
’’حامد کو انھوں نے قریب بلا کر آہستہ سے پوچھا۔ ’’پاکستان سے آئے ہو؟‘‘
’’جی ہاں ‘‘ ……… ’’ماموں کو نہیں لائے ؟‘‘
’’جی وہ تو مغربی پاکستان میں ہیں میں مشرقی سے آیا ہوں۔ ‘‘
’’کتنے پاکستان ہیں بابو؟‘‘ حامد سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
سب لوگ خاموش تھے۔ ‘‘
ناول ’’دو گز زمین‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ عبدالصمد کا مطالعہ بہت وسیع ہے اور انھیں زبان و بیان پر پوری قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے ادب کے ساتھ ساتھ زندگی اور سماج کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔
ترنم ریاض
ترنم ریاض موجودہ عہد کی مشہور خواتین ناول نگار میں سرِ فہرست ہیں۔ وہ ۱۹ اگست ۱۹۶۳ ء کو سری نگر میں پیدا ہوئی ان کے والد کا نام چودھری محمد اختر اور والدہ کا نام ثریا بیگم ہے۔ انھوں نے ایم۔ اے، ایم۔ ایڈ کشمیر یونیورسٹی، سرینگر سے کیا ہے۔ ان کی تصانیف میں دو ناول ’برف آشنا پرندے ‘ اور ’مورتی‘ چار افسانوی مجموعے ’مرا رختِ سفر‘، ’یمبر زل‘، ’ابابیلیں لوٹ آئیں گی‘ اور ’یہ تنگ زمین‘ شامل ہے اس کے علاوہ تنقید و تحقیق سے متعلق ان کی کتابیں ’بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب‘ اور ’چشمِ نقشِ قدم‘ قابلِ ذکر ہیں۔ ان کا شاعری کا مجموعہ ’پرانی کتابوں کی خوشبو‘ بھی منظر عام پر آ چکا ہے دیگر تصانیف میں انگریزی ادب سے ترجمہ کیا گیا مجموعہ ’ہاؤس بوٹ پر بلّی‘ ہندی ادب سے تر جمہ کئے گئے دو مجموعے بالتر تیب ’سنو کہانی‘ اور ’گو سائیں باغ کا بھوت‘ وغیرہ شامل ہے۔
ترنم ریاض کا ناول ’’برف آشنا پرندے ‘‘ اپنے نام کی طرح اپنے اندر ایک خوبصورت دنیا سموئے ہوئے ہے۔ کشمیر کی بیٹی ترنم ریاض نے اس ناول کی رو سے کشمیریوں کی حالتِ زندگی کا نہایت خوبصورتی سے تجزیہ کیا ہے۔ ناول کا نام ’’برف آشنا پرندے ‘‘ ایک بطور علامت استعمال کیا گیا ہے۔ برف جس طرح ٹھنڈک پہنچاتی ہے یہاں اُسی مناسبت سے سرد مہری کو ظاہر کیا گیا ہے جو ترنم ریاض نے مبہم انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ سرد مہری انسانی وجود سے وابستہ ہر چیز میں موجود ہے مثلاً سماجی نظام، معاشرتی نظام یا پھر سیاسی نظام جس کی کئی مثالیں ہمیں آئے دن دیکھنے ملتی ہے۔ یہ ناول سنجیدہ موضوع کے ساتھ ایک جرأت مندانہ قدم ہے اس ناول میں انھوں نے کشمیر کی سیاسی، سماجی، معاشرتی تہذیب کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کو مختصراً مگر دلچسپ پیرائے میں سمیٹا ہے۔ درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’نرم خو، حلیم اور حسین کشمیریوں کی زمین، دانشوروں، فن کاروں اور دستکاروں کا خطہ۔ ریشم و پشم، زعفران زاروں اور مرغزاروں کی سر زمین۔ پہاڑیوں، پانیوں اور وادیوں کا مسکن، یہ کشمیر، جنت بے نظیر، جس کی پانچ ہزار سال پرانی تاریخ موجود ہے، جس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے۔ ‘‘
’’قدیم ترین زبان و تہذیب کا مرکز کشمیر۔ ۔ رشیوں، منیوں کا کشمیر، شیخ العالم اور لل دید کا کشمیر، شاکیہ منی کی پیشن گوئی کا بودھ گہوارہ کشمیر، کشیپ رشی اور پرورسین کا کشمیر، للتا دتیہ کا اور سوئیہ کا کشمیر، اشوک، کنشک، کُلہن اور بڈشاہ کا کشمیر۔ حبہ خاتون کا کشمیر، ارنی مال کا کشمیر اور شاید موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کی منتخب آرام گاہ بھی یہی کشمیر ہے۔ ‘‘ ۱۲؎
اس ناول میں ترنم ریاض نے کشمیر کے مناظر کی عکاسی اتنی خوبصورتی سے کی ہے کہ بعض جگہ ہمیں کرشن چند کی تحریریں یاد آ جاتی ہیں۔ ناول میں کشمیر کی خوبصورتی کے ساتھ سو ڈیڑھ سو سال سے ہو رہے بدلاؤ کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کا پلاٹ کا فی پھیلا ہوا ہے بظاہر آسان مگر یہ ایک مشکل، جرأت مندانہ اور دو قطبی ناول ہے۔ پامال نظریے اور نئی نئی اصطلاحات سے سجائے گئے اس ناول کی زبان سادہ و سلیس ہے جس میں ہندی، اردو، پنجابی اور انگلش کے الفاظ کا حسین امتزاج شامل ہے۔ ترنم ریاض نے اشاروں میں بات کی ہے، کنایے کے سہارے انھوں صرف نازک باتیں ہی نہیں بلکہ سخت باتوں کو بھی ماہرانہ انداز کے ساتھ پیش کیا ہے۔
’’برف آشنا پرندے ‘‘ اس ناول کا اسلوب بیانیہ کے ساتھ کہیں براہِ راست ہے تو کہیں شعور کی رو کا استعمال کیا گیا ہے۔ ترنم ریاض نے کہیں اشاروں میں اور کہیں واشگاف انداز میں آزادی کے بعد سے اب تک کے کشمیر کی تصویر پیش کی ہے۔ کہانی کا موضوع نہایت سنجیدہ ہے جس میں دو کردار مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ایک ہے شیبا اور دوسرا کردار ہے کشمیر۔ حساس و نرم دل شیبا، نجم خان کی بیٹی ہے جس کا تعلق کشمیر کے ایک مالدار گھرانے سے ہے لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کے بھائیوں نے انہیں شہر کی مختصر جائیداد کی حفاظت کا ذمہ دے کر بقیہ جائیداد سے بے دخل کر دیا۔ نجم خان کو اللہ تعالیٰ نے بیٹے سے محروم رکھا لیکن وہ اپنی تینوں بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دیتے ہیں۔ انہیں افسوس تو رہتا ہے کہ کوئی لڑکا نہیں ہے اس کے باوجود وہ اپنی لڑکیوں کو کبھی اس بات کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ دونوں بڑی لڑکیوں کے مقابلے شیبا پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے دوسرے شہر جاتی ہے۔ یہاں وہ اپنے گائیڈ پروفیسر دانش کو اپنا آئیڈیل بناتی ہے جو کہ شہرۂ آفاق ماہر سماجیات ہیں، عالم ہیں۔
شیبا ان پانچ طلباء میں شامل ہے جو فالج زدہ پروفیسر دانش کی تیمار داری دل و جان سے کرتے ہیں ساتھ ہی شادی کے لئے شیبا پر گھر والوں کا دباؤ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ شیبا کے ساتھ ناول میں کشمیر کی زندگی کے وہ پہلو مبہم انداز میں دیکھنے ملتے ہیں جن میں غربت کے ساتھ، عورتوں پر ہو رہے مظالم کو کہانی کی شکل میں دکھایا گیا ہے اور مسئلہ کشمیر ……. پروفیسر دانش کی موت کے ساتھ ہی کہانی بدل جاتی ہے کیونکہ گھر والوں کے اسرار پر شیبا کا رجحان شہاب الدین شیروانی کی طرف ہو تا ہے لیکن بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے یوں تو اس کے سامنے سارے دروازے کھلے ہیں وہ شروعات کی ساری رکاوٹیں پار کر چکی ہے لیکن پھر بھی دوراہے پر کھڑی ہے۔ کم و بیش ساڑھے پانچ سو صفحات پر پھیلے ناول کے کردار شیبا اور کشمیر دونوں ہی اپنی تکمیل کے منتظر ہیں۔ شیبا کے سامنے اپنی لمبی زندگی ہے اور کشمیر کے سامنے اس کا سارا مستقبل۔ شیبا اس وقت گومگو کے عالم میں نظر آتی ہے لیکن اس کے سامنے امکانات کی دنیا آباد ہے۔ خواب اور حقیقت کے درمیان جھولتے رہنے کے باوجود اس نے خود کو قائم رکھا ہے۔ یہ ناول بیحد کھردرا، حقیقت پسندانہ اور چیلنجس سے بھر پور ناول ہے مکالمہ نگاری کم ہے لیکن دلکش پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’آپ کسی سے کہیں گی تو نہیں شیبا خالہ……؟‘
’نہیں۔ ۔ اگر تم مجھے سچ سچ بتا دو گے۔ ۔ تمہیں معلوم ہے نا یہ راہ، راہِ راست نہیں ہے۔ ۔ کوئی اموشنل بلیک میل کر رہا ہے لوگوں کو۔ ۔ جانے کس کس لالچ میں۔ ۔ کس کس سبب سے۔ ۔ تم۔ ۔ تم۔ ۔ ‘
’ہاں شیبا خالہ۔ ۔ مجھے امی ابو نے سب بتایا ہے۔ ۔ مگر میں جاؤں گا۔ ۔ ‘
اس نے گردن کو خم دے کر روٹھی سی آواز میں کہا۔
’کہاں جاؤ گے۔ ۔ ؟‘
شیبا کے پیروں سے زمین کھسکنے لگی۔
’یہاں سب مر جائیں گے۔ ۔ ہم سب مر جائیں گے یاسر۔ ۔ ‘
شیبا کی آواز کانپنے لگی۔
’عاصم بھائی کو ڈھونڈنے۔ ۔ ‘‘ ۱۳؎
یہ ناول پچھلے تین چار برسوں میں خوب خوب پڑھا گیا۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اس ناول کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہی ہوا ہے ساتھ ہی قاری متجسس بھی ہے کہ ترنم ریاض اپنی اگلی کسی تخلیق میں بتا سکتی ہیں کہ شیبا نے زندگی سے ہار مان لی یا حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے زمین پر اس کے قدم اب بھی جمے ہوئے ہیں۔ شیبا اور کشمیر ہیں تو دو کردار لیکن دونوں کے تخلیقی طور پر ایک دوسرے میں مدغم ہونے کے امکانات ابھی روشن ہیں۔ بہر حال ترنم ریاض کا قاری برف پگھلنے کا انتظار کر رہا ہے۔
شائستہ فاخری
شائستہ فاخری کا اصل نام ’’شائستہ ناز‘‘ ہے۔ ان کا نام اردو اور ہندی دونوں کے ممتاز فکشن نگاروں میں لیا جاتا ہے۔ ان کی پیدائش یو پی کے ایک شہر ’’سلطان پور ‘‘ میں ۱۷ نومبر ۱۹۶۳ ء کو معزز اور تعلیم یافتہ گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد سید محمد زاہد فاخری ایک صوفی تھے۔ اس لحاظ سے شائستہ کے قلم میں تصّوف کی جھلک نظر آتی ہے۔ شائستہ فاخری نے ایم۔ اے الہ آباد سے کیا اور آج کل سینئر اناونسر آل انڈیا ریڈیو کے عہدے پر فائز ہے الہ آباد میں مقیم ہیں۔ شائستہ کے اب تک پانچ افسانوی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ سندھ بیلا ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے اس کے بعد ہرے زخم کی پہچان (اردو)، دھیکا دُکھ (ہندی)، اداس لمحوں کی خود کلامی اور چھپے زبانوں کی ہندوستانی کہانیاں شائع ہوئیں۔ ان کے اب تک تین ناول بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’شہر سے کچھ دور‘ دوسرا ’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘اور تیسرا ’صدائے عندلیب بر شاخ شب ‘ ہے۔ شائستہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اپنے ناول اور افسانوی مجموعے شائع کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کئی تنقیدی تصانیف بھی شائع ہو چکی ہیں۔ چونکہ شائستہ نے بہت کم عمر ہی سے ادب سے وابستگی اختیار کی اس لئے آج ادب کی نہایت عزیز ترین ہستیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ شائستہ فاخری کے بارے میں ’’رتن سنگھ‘‘ یوں لکھتے ہیں :
’’شائستہ فاخری نے بھی قرۃ العین کی طرح نہایت چھوٹی عمر میں ہی کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں۔ ہمیں امید کرنی چاہئے کہ شائستہ بھی قرۃ العین کے نقش قدم پر چل کر اردو افسانوی ادب کو اپنا بنائیں گی۔ ‘‘ ۱۴؎
شائستہ فاخری فنِ ناول نگاری کی تمام جہت سے پوری طرح واقف ہیں۔ ان کے تینوں ناول الگ الگ موضوع پر لکھے گئے ہیں۔ یہاں شائستہ فاخری کے ناول ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘‘ کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ ناول ۲۰۱۳ میں دہلی سے شائع ہوا ہے۔ یہ ناول ’’حلالہ‘‘ کے موضوع کے تحت لکھا گیا ہے۔ ’’حلالہ‘‘ ایسی شادی ہے جس کی اجازت تو مذہب نے دی ہے ساتھ ہی اس کے کچھ اصول و ضوابط بھی متعین کئے جس کو شائستہ فاخری نے بڑی خوبصورتی اس ناول میں پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ ناول میں انھوں نے عورت کی ایسی جھلک کو پیش کیا ہے جو ظلم و جبر اور نا انصافی کو سہہ کر بھی شوہر کی فرما بردار رہتی ہیں۔
ناول کا پلاٹ سادہ اور بیانیہ ہے۔ اس ناول کا اہم کردار علیزہ ہے جس کے ارد گرد اس ناول کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ ناول بیوی اور شوہر کے رشتوں پر لکھا گیا ایک المیہ ہے جو ناول میں علیزہ کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے۔ علیزہ کی شادی فرحان سے ہوتی ہے جو لکھنؤ میں اپنے چچا زاد بھائی اعیان کے ساتھ رہتا ہے۔ لیکن اس کے والدین رائے بریلی میں رہتے ہیں۔ علیزہ شادی کے بعد لکھنؤ آ جاتی ہے۔ یہاں اعیان، علیزہ کو بھابھی کی حیثیت سے مانتا ہے اور اس کا خیال رکھتا ہے۔ مگر فرحان ان کے جذبات کو غلط سمجھتا ہے اور اس کے دل میں ان دونوں کے لئے شک پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی دوران ایک ایسا حادثہ پیش آتا ہے جو تینوں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ فرحان باپ کے علیل ہونے کی خبر سن کر گاؤں چلا جاتا ہے اور ادھر عیان کا ایکسیڈینٹ ہو جاتا ہے۔ علیزہ اعیان کے پیروں میں مرہم لگا رہی ہوتی ہے اور تبھی فرحان آ جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ غصہ میں آ کر فرحان علیزہ کو طلاق دے دیتا ہے۔ جب فرحان کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ علیزہ کو دوبارہ پانا چاہتا ہے۔ اس کا ایک ہی حل اس کو سوجھتا ہے اور وہ ہے ’’حلالہ‘‘ اس کے لئے وہ اعیان کو تیار کرتا ہے۔ یہاں شائستہ فاخری نے ایک مرد کے فطرت پر روشنی ڈالی ہے کہ وہ اپنے فائدے کے لئے کس حد تک جا سکتا ہے۔ وہ
اپنی طلاق شدہ بیوی کا نکاح اسی شخص سے کروا دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسے طلاق دیتا ہے۔ مگر ان سب سے علیزہ کے دل پر کیا گزرتی ہے اس کا حال جاننا کوئی ضروری نہیں سمجھتا ہے۔
یہ ناول تین اہم کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ علیزہ، فرحان اور اعیان۔ علیزہ اس ناول کی مثالی کردار کی شکل میں قاری کے سامنے آتی ہے۔ وہ ایک سادہ مزاج لڑکی ہے جو اپنے شوہر کے لاکھ ظلم سہہ کر بھی فرما برداری کرتی ہے۔ مگر بات جب اس کے کردار پہ آ جاتی ہے تو وہ اپنا گھر چھوڑ کر اپنی دوست تانیہ کے پاس چلی جاتی ہے اور ایک ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو گود لے کر اپنی زندگی کو خوشگوار بناتی ہے۔ فرحان کا کردار ایک مطلب پرست شخصیت کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ اپنی طلاق شدہ بیوی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے حلالہ کے طور پر اس کا نکاح اپنے بھائی سے کرا دینا چاہتا ہے وہ بھی بنا علیزہ کی مرضی جانے۔
شائستہ فاخری اپنے ناول کی منظر کشی اس خوبصورتی سے کرتی ہیں کہ اس کا ہر منظر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔ ان کی تصویر صاف اور سادہ نہیں ہوتی بلکہ ان میں زندگی کا تاثر چھپا ہوتا ہے۔ جو قاری کو متاثر کرتا ہے چاہے وہ منظر قدرت کا ہو یا شادی بیاہ کا درج ذیل منظر ملاحظہ ہو:
’’ستاروں سے بھرا گہرا، نیلا آسمان رنگ بدل رہا تھا۔ چپکے چپکے سیاہی ڈوبتی جا رہی تھی اور اجلی اجلی سفیدی صبح صادق کا اعلان کر رہی تھی۔ علیزہ کے قدم آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ بابل کی دہلیز ہمیشہ کے لئے پیچھے چھوٹ رہی تھی۔ ’’کاہے کو بیاہا بدیس ارے لکھیا بابل مورے ‘‘ گانے کی آواز علیزہ کو بے چین کئے ہوئے تھی۔ یہ وہ گھڑی ہوتی ہے جب لڑکی ترازو کے دونوں پلڑوں پر مستقبل کے دکھ سکھ کے باٹوں کو لے کر نفع اور نقصان کے سودے سے انجان کمسن خوابوں کی تکمیل کے لئے ایک اجنبی کے بھروسے نئی زندگی، نئے شب و روز کے سفر پر نکل پڑتی ہے۔ ‘‘ ۱۵؎
اپنے ناول ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘‘ میں شائستہ فاخری نے عورت کے استحصال، ظلم اور زیادتیوں پر اپنی نا پسندیدگی کے ساتھ ساتھ صدائے احتجاج بھی بلند کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس ناول میں شائستہ فاخری نے اودھ کی زبان استعمال کی ہے جو مکالمہ نگاری کے لحاظ سے درست ہے۔ شائستہ فاخری نے لکھنؤ کے متوسط طبقے کے افراد سے انھیں کی زبان میں مکالمہ ادا کرایا ہے۔ وہ اپنے مکالموں کے ذریعے انسانی جذبات کا بخوبی پتہ دیتی ہیں۔ ڈاکٹر اور علیزہ کے درمیان کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:
’’کیوں علیزہ آپ مجھے اپنا گھر نہیں دکھائیں گی؟ ڈاکٹر عسکری اس کے ذہنی رویوں کا پوری طرح تجزیہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس کے سوال بھی علیزہ کے جواب سے نکل رہے تھے۔
’’وہاں کوئی کھڑکی نہیں، روشن دان نہیں، دروازہ نہیں، ہوا نہیں، دھوپ نہیں …….حبس ہی حبس ہے۔ ‘‘
’’اچھا یہ بتائے وہ کوٹھری ہے کہاں ؟‘‘
’’یہیں پر……‘‘
علیزہ کا جواب سن کر ڈاکٹر عسکری نے حیرت سے پوچھا۔ ’’یہیں پر لیکن مجھے تو کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔ ‘‘
علیزہ نے حد معصومیت سے خود کی طرف انگلی اس طرح اُٹھائی جیسے اس کا بدن اس کی کو ٹھری ہو۔ ‘‘ ۱۶؎
شائستہ فاخری کو الفاظ کے انتخاب کا سلیقہ آتا ہے۔ انھوں نے ناول میں چھوٹے چھوٹے فقروں اور جملوں کا استعمال کیا ہے۔ ساتھ ہی اس میں تسلسل اور روانی اتنی ہے کہ واقعات تصویر کی شکل میں ہمارے آنکھوں کے سامنے نظر آتے ہیں۔ ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘‘ میں بیانیہ کے روایتی اور جدید اسالیب کا بڑا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ اس ناول میں واقعات، کردار اور زبان کے درمیان ایسا تال میل موجود ہے جو ناول کو ہر قسم کے جھول سے پاک رکھتا ہے۔
نور الحسنین
نور الحسنین اردو ادب کے مشہور فکشن نگاروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی پیدائش ۱۹ مارچ ۱۹۵۰ ء میں مہاراشٹر کے ایک خوبصورت شہر اورنگ آباد میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام ’’نورالوحید‘‘ تھا۔ نورا لحسنین صوفی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا گھرانہ عالموں کا گھرانہ ہے۔ نورالحسنین کو بچپن سے ہی کہانیاں، ناول اور داستانیں پڑھنے کا شوق تھا لہذا انھوں نے ساتویں جماعت سے ہی افسانے کی ابتداء کی اور آج ان کے بے شمار افسانے منظر عام پر آ چکے ہیں۔
نورالحسنین نے اپنی تعلیم اورنگ آباد میں ہی پوری کی۔ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد گھر کے حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے ان کو پڑھائی ترک کر کے نوکری کرنی پڑی لیکن پڑھائی کا شوق ہونے کی وجہ سے انھوں نے کچھ سالوں بعد ہی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کیا اور ایم۔ اے پاس کر لیا۔ آل انڈیا ریڈیو اورنگ آباد میں بحیثیت اناونسر خدمات انجام دے کر وظیفہ پر سبکدوش ہوئے نہ صرف اورنگ آباد بلکہ پورے ہندوستان کے ادبی حلقوں میں شہرت کے حامل ہیں۔
نورالحسنین کے اب تک چار افسانوی مجموعے اور دو ناول شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’سمٹتے دائرے ‘‘ ۱۹۸۵ ء میں شائع ہوا اس کے بعد دوسرا افسانوی مجموعہ ’’مور رقص اور تماشائی ‘‘ ۱۹۸۸ ء میں تیسرا مجموعہ ’’ گڑھی میں اترتی شام‘‘ ۱۹۹۹ ء اور چوتھا مجموعہ ’’فقط بیان تک ‘‘ ۲۰۱۲ ء میں منظر عام پر آئیں ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’آہنکار‘‘ اور دوسرا ناول ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ ہے میں ان کے ناول ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ پر بحث کروں گی۔ جو بہت مقبول ہوا ہے۔ نورالحسنین نے اس ناول میں ۱۸۵۷ ء کے تاریخی واقعات کو موضوع بنایا ہے۔ ناول کا پلاٹ پیچیدہ ہے۔ ناول میں ۱۸۵۷ ء کی جنگ کا نقشہ بڑی خوبصورتی سے کھینچا گیا ہے۔ جنگ و واقعات کے ساتھ ساتھ اس میں عشق و محبت کے چند واقعات بھی ہیں۔ جن میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ ناول میں نورالحسنین نے غدر کے وقت کے پورے ہندوستان میں جو واقعات و واردات ہو رہے تھے اس کو بڑے پُر اثر انداز میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ناول کا آغاز قبرستان کے ویران منظر سے ہوتا ہے۔ جہاں چند آزادی کے متوالے بیٹھے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے صبح ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ناول کا آغاز ملاحظہ ہو۔
’’رات اپنا ایک پہر گزار چکی تھی اور یہ منچلے داروغہ کی گرفت سے بے نیاز ایک ویران قبرستان کی چار دیواری کے اندر آگ تاپتے ہوئے بیٹھے تھے۔ ‘‘ ۱۸؎
’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ ایک پیچیدہ ناول ہے۔ اس لحاظ سے اس میں کئی کردار موجود ہیں۔ مثلاً دروغہ، منگل پانڈے، سبحان بھائی اور حیدر خان وغیرہ ہیں۔ ناول کے بنیادی کرداروں میں دینا ناتھ، سلیم، دلبر دار خان، نیلوفر، جنفر اور تارا ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اس ناول میں ایسے کئی کردار موجود ہیں جس سے ناول کے ارتقاء میں مدد ملتی ہے۔ ناول میں خالد خان آزادی کا مجاہد ہے وہ اپنے ملک اور مذہب کے لئے جان دینا معمولی بات سمجھتا ہے۔ وہ کارتوس کا استعمال منع کرتے ہوئے کہتا ہے۔
’’مذہب ہمارے لئے اور ہم سب اپنے مذہب پر جان دے دینا معمولی بات سمجھتے ہیں۔ ‘‘
ناول میں جہاں مصنف نے قدم قدم پر جملوں کا خیال رکھا ہے۔ تو وہیں قصہ کی فضاء بندی اور اس کی تکنیک پر بھی دھیان دیا ہے۔ اس میں تضاد بھی موجود ہے۔ ناول میں اکثر مقام پر بے تکلف مکالموں، محاوروں اور تشبیہوں کا استعمال بھی بہت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’حیدر بھائی زندگی کو اس طرح بلکتے ہوئے میں نے کبھی نہیں دیکھا انقلاب کے نام پرانسان انسان کو ایسے کاٹ رہا تھا جیسے رسوئی کے لئے سبزی ترکاریاں کاٹی جاتی ہیں۔ خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ چیخ پکار ایسی کی کلیجہ منھ کو آ رہا تھا۔ اورکسی کے دل میں نام کو رحم نہیں۔ ‘‘ ۱۸؎
ناول زبان و بیان کے اعتبار سے دلچسپ ہے۔ ناول میں نور الحسنین نے اس فرق کو بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے کہ قبرستان میں بیٹھے باغی کی زبان، لہجہ اور تیمور انگریزی فوجیوں کی ٹوٹی پھوٹی زبان اور قلعے معلی کی زبان کی شگفتگی کیسی ہوتی ہے۔ زبان کے علاوہ انھوں نے ناول میں تشبیہات و استعارات کا استعمال بھی موقع محل کے مطابق کیا ہے۔
’’اورنگ زیب یوں ہی بادشاہ نہیں بنا نٹ اور بھانڈوں میں حکمرانوں کی پہچان نہیں ہوتی ہے۔ اب بھی وقت ہے سنبھلنے کا ورنہ سارا ہندوستان بڑا قبرستان بن جائے گا۔ ‘‘
’’دیکھنا تم اب گوہر کا پھول کھلے گا اور یہ فرنگی ناک کان سنبھالے ہوئے اپنے دیس کو واپس جائیں گے۔ ‘‘
نور الحسنین کو منظر نگاری میں عبور حاصل ہے اس ناول میں انھوں نے ہر منظر کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ چاہے وہ منظر جنگ و فسادات کاہو یا کسی شادی کا یا عشق کا منظر ہو ملاحظہ ہو:
’’دربار شاہی کو زینت بخشنے کی خاطر حضور بادشاہ سلامت کا جلوس روانہ ہواسب سے آگے نقار خانہ تھا۔ پھر روشن چوکی تھی۔ اُن کے پیچھے پیادہ سپاہی تھے۔ ان کی کمروں میں تلواریں لٹک رہی تھیں۔ ہاتھوں میں نیزے تھے۔ ‘‘ ۱۹؎
’’صبح کاذب آہستہ آہستہ نمودار ہو رہی تھی۔ دلبر دار خان کھیت میں کنویں کے کنارے درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کی گود میں جنیفر سو رہی تھی۔ ہوائیں چل رہی تھیں اور اس کے سنہرے بال اُڑ رہے تھے۔ ‘‘ ۲۰؎
نورا لحسنین کا یہ ناول ایک کامیاب ناول کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو تاریخ کا ہی نہیں زندگی کا پیچ و خم اور کیف و کم مفکرانہ و فن کا آئینہ دار ہے۔ نور الحسنین نے تاریخی اور فلسفیانہ نوعیت کا ناول لکھ کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
حسین الحق
مشرف عالم ذوقی اپنے ہم عصروں میں حسین الحق کا نام بھی لیتے ہیں۔ یہ بہار کی ایک جگہ ’’سہسرام‘‘ کے ایک محلہ ’’املی آدم‘‘ میں ۱۹۴۹ ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا انور الحق شہروی نازش سہسرامی ایک عالم صوفی شاعر، مفکر اور نثر نگار تھے۔ حسین الحق کے دادا بھی صوفی اور حافظ تھے اور انھوں نے اسی مذہبی ماحول میں پرورش پائی۔ ان کی ابتدائی تعلیم سہسرام (بہار)میں ہوئی۔ ابتداء سے ہی حسین الحق کو داستانوں اور کہانیوں سے خاصی دلچسپی تھی۔ اپنی ادبی زندگی کا آغاز انھوں نے ۱۹۵۹ ء سے شروع کیا۔ حسین الحق نے ابتداء میں بچوں کے لئے کہانیاں لکھنا شروع کی۔ ان کی پہلی کہانی ’’کلیاں ‘‘ ۱۹۶۳ لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ جس کا عنوان ’’زرد پودا‘‘ تھا۔ حسین الحق کے لگ بھگ ڈیڑھ سو سے زائد افسانے شائع ہو چکے ہیں۔ افسانوں کے علاوہ ان کے دو ناول ’’بولو مت چپ رہو‘‘ ۱۹۹۰ ء اور ’’فرات‘‘ ۱۹۹۲ ء میں شائع ہوئے۔ ان دونوں ناولوں میں فرات کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
حسین الحق کا ناول ’’فرات‘‘ ۲۹۶ صفحات پر مشتمل ایک کرداری ناول ہے۔ جس میں مصنف نے تین نسلوں کی زندگی کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار وقار احمد ہے۔ پہلی نسل وقار احمد کے والد کی ہے۔ دوسری وقار احمد کی اور تیسری ان کے بیٹے ’’فیصل‘‘ اور ’’تبریز‘‘ اور بیٹی ’’شبل‘‘ کی ہے۔ کہانی وقار احمد کے ذریعے شروع کی گئی ہے۔ جو شعور کی رو اور فلیش بیک کی تکنیک کے ذریعہ اپنے بچپن، والد کی زندگی، نظریہ حیات اور تہذیبوں معاشرتی اقدار کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ وقار احمد پٹنہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ کلیم عاجز جیسے استاد کی رہنمائی نصیب ہوئی۔ اردو میں ایم۔ اے کیا اور نوکری مل گئی۔ اپنی محنت سے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اس اعلی مقام پر پہنچتے ہیں کہ انھیں پرانی بستی چھوڑ کر شہر جانا پڑتا ہے۔ وہاں وہ ایک پوش کالونی میں اپنا خو بصورت مکان ’’سہسرام ہاؤس‘‘ بنوایا۔
دو زمانے دو نسلوں اور دو تہذیبوں کا جو تضاد، جھگڑا یا Conflict اُبھرتا ہے۔ وہ اسی پوش کالونی کی دین ہے۔ یہ موڈرن اور سربر آوردہ لوگوں کی بستی ہے۔ جس کا وقار احمد کے خانقاہی نظام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ وقار احمد تو تقریباً جوں کا توں ہیں۔ البتہ ان کے لڑکے تبریز اور لڑکی شبل کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ اسی بستی کے رنگ ڈھنگ
میں پوری طرح رچ بس گئے ہیں۔ وقار احمد کی سائیکی کا حصہ واقعاتِ کربلا شہادت عظمیٰ فرات اور آباو اجداد کا خانقاہی ماحول ہے۔ اس پر مستزاد بچپن سے خانقاہ کے ذریعہ ملی ہوئی ان کی وحدت الوجودی فکر ہے۔ جو جملہ ہم عصر اسلامی تحریکات کو بلا اثر دلیلوں کے ساتھ مستزاد کرتی جاتی ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو وقار احمد کو ناسٹلجیائی (Nostalgia)بنا دیتے ہیں۔ اور ان ہی کے سبب وہ بار بار اپنی جڑوں کی طرف مراجعت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کردار نگاری کا فن ناول کا ایک اہم جزو ہے۔ مگر اس کی اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے۔ جب ناول کرداری ہو۔ اس ناول میں حسین الحق نے پوری توجہ کردار کی فطرت، اس کے الفاظ، حرکات و سکنات اور جذبات پر دی ہے۔ جس کے ذریعہ قاری کا رشتہ اپنے آس پاس کی زندگی سے کٹ کر اس ماحول اور زندگی سے جڑ جاتا ہے۔ جس میں ناول کے کردار جی رہیں ہیں۔ اس ناول میں کئی کردار ہیں۔ جو اس ناول کو دلچسپ بنانے میں مدد کرتے ہیں۔
ناول میں فیصل کا کردار وقار احمد کے بڑے صاحب زادے کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ باپ کے قریب زیادہ وقت گزارنے کے باعث ان پر باپ اور دادا کے نظریات و عقائد کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ مگر پوش کالونی میں رہنے کی وجہ سے ان میں موڈرن پن کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ سربر آوردہ حضرات میں شامل ہونے کے لیے وہ ہر کام کرتا ہے جو جرم کی فہرست میں آتا ہے۔ مثلاً اسمگلنگ، کالا بازاری اور جمع خوری وغیرہ۔ مگر باپ کی قربت کی وجہ سے وہ جلد ہی راہ راست پر آ جاتا ہے اور اپنے پرکھوں کے نظریات و عقائد کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کا عمل بجا لاتا ہے۔
وقار احمد کے چھوٹے بیٹے تبریز کا کردار ایسا ہے جو اپنے باپ کی قربت میں نہیں رہتا ہے۔ وہ وقار احمد کو ایک جاہل اور اٹھارویں صدی کا اوہام پرست بورنگ اولڈ مین سمجھتا ہے۔ لیکن وہی تبریز جب صحیح معنوں میں روشن ضمیری کے معاشرے میں پہنچتا ہے تو اسے سخت گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ مسز ذوالفقار اور گلشانہ شوقی جیسی عورتیں اسے وہ بد روحیں نظر آتی ہیں جنہیں اپنی مڑی ہوئی ایڑیوں کا احساس ہے اور تب تبریز کا یہ حال ہوتا ہے۔
’’وہ اندر ہی اندر سڑن محسوس کرتا ہے۔ جیسے غلاظت اس کے حلق تک آ گئی ہو۔ ‘‘ ۲۱؎
اس ناول میں حسین الحق نے زبان کا استعمال محض اظہاریت کا سہارا دینے کے لیے استعمال کی ہے۔ اس ناول میں انھوں نے منفرد اسلوب بیان سے کام لیا ہے۔ اس میں انھوں نے ایسے جملے کثرت سے استعمال کئے ہیں۔ جن سے بات بالکل قطعی اور غیر مہذب انداز میں کہی جاتی ہے۔
حسین الحق نے اپنے ناول میں دو تہذیبوں کے تصادم کے علاوہ جنسی، نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں کی سچی تصویر کو پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس ناول میں لفظوں کے ذریعہ ایسی فضا کی تخلیق کی ہے۔ جس کی آرائش و زیبائش، حسن و جمال، دلکشی اور دلفریبی، سادگی اور روانی کے سحر میں قاری ناول ختم کرنے کے بعد بھی گرفتار رہتا ہے۔ حسین الحق نے ہمارے آس پاس کی زندگی کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے اور اس کو جس طرح محسوس کیا ہے ویسا ہی اس ناول میں بیان کیا ہے۔
سلیم شہزاد
سلیم شہزاد کا شمار اس عہد کے ممتاز فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کا پورا نام سلیم خان ہے۔ ان کے والد کا نام ابراہیم خان اور والدہ کا نام حنیفہ ہے۔ ان کی پیدائش مالیگاؤں کے قریب ایک قصبہ میں ۱ جون ۱۹۴۹ ء کو ہوئی تھی۔ سلیم شہزاد نے پونے یو نیورسٹی سے انگریزی سے ایم۔ اے کیا اور ۱۹۷۱ سے یہ ادب کی خدمت میں لگ گئے۔ مختلف موضوعات پر لکھنا شروع کر دیا ساتھ ہی ساتھ انھوں نے تنقید نگاری کی طرف بھی توجہ دی۔ اس کے بعد وہ افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے۔ اردو ادب میں نثر نگاری کے علاوہ انھوں نے غزل، مختصر نظم اور طویل نظم بھی لکھی ہے۔ ان کا ایک مجموعہ کلام ’’دعا پر منشر‘‘ ۱۹۸۱ ء میں شائع ہوا۔
سلیم شہزاد کے اب تک تین ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ پہلا ناول ’’دشتِ آدم‘‘ دوسرا ’’ویر گا تھا‘‘ اور تیسرا ’’سانپ اورسیڑھیاں ‘‘۔ ’’سانپ اور سیڑھیاں ‘‘ ان کا حال ہی میں منظر عام پر آنے والا ناول ہے۔ ان کے تینوں ناول اپنے الگ موضوع، اسلوب اور تکنیک کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ’’دشتِ آدم‘‘ نظم اور نثر کے اختلاط سے پیدا ہونے والا ایک بیانیہ ناول ہے۔ ’’ویر گا تھا‘‘ ایسا ناول ہے جو اسلوب کی نشان دہی کرتا ہے۔ ’’بورس‘‘ سے بے نیاز لیکن فسانے پر حاکمانہ گرفت رکھتا ہے۔
سلیم شہزاد کا تیسرا ناول ’’سانپ اور سیڑھیاں ‘‘ ۲۰۰۵ ء Abstract بیانیہ کی ایک مثال ہے۔ اس کا موضوع ملک کے بدلتے ہوئے حالات اور اس کے پس منظر میں تیزی سے پیدا ہونے والی ہندو بنیاد پرستی، تنگ نظری اور مذہبی جنون ہے۔ جنھیں ملک کے کچھ سیاسی پارٹیاں نہایت منظم طریقے سے پروان چڑھا رہی ہیں اور وہ چھوٹے ذہن اور کم نظر کے مذہبی کٹّر کارندے جن کا مسکن کبھی غار کبھی گپھائیں یا مخصوص منادر ہوا کرتے تھے۔ وہ اب نہ صرف پارلیمنٹ تک پہنچ گئے ہیں۔ بلکہ حکمراں طبقے کے اُمراء روسا، صنعت کار، غیر ملکی کارندے بھی ان کے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں۔ ان سادھو سنتوں کا قیام سرکاری ایوانوں اور سرکاری بنگلے تک پہنچ گیا ہے اور وہاں بیٹھ کر وہ منوواد اور سناتنی مذہب کو عالمی مذہب میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان ہی ایوانوں میں منافرت، مذہبی ریلیاں اور بھید بھاؤ کے ساتھ ہی سیاسی منصوبے بھی تیار ہوتے ہیں۔ سلیم شہزاد کا یہ ناول عالمی سیاست پر کھیلے جانے والے ان گھناؤنے کھیلوں پر سے پردہ اُٹھاتا ہے۔ جس کی وجہ سے تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک اپنا تہذیبی، تمدنی ورثہ کھو رہے ہیں۔ ان کی اخلاقی قدریں مٹ رہی ہیں۔ ہوس اور لالچ کے سیلاب بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ حُب الوطنی۔ مذہب، آدرش، اتحاد، آرٹ، کلچر اور ادب سب کچھ کسی خس و خاشاک کے جیسے نیست و نابود ہو رہا ہے۔ یہ اقتباس غور فرمائیے :
’’یہ راج کارن، دھرم، سماج اور سماجی رشتے سب بکواس ہوتے ہیں سالے ‘‘ اس نے سو چا ’’اصل چیز ہے روپیا اور یہ کہیں سے بھی آئے، خود کو بیچ کر ہی کیوں نہ آئے۔ اس کی طاقت ڈاکوؤں اور مجرموں کو ملک کا اقتدار دلاتی ہے۔ ‘‘ ۲۲؎
سلیم شہزاد کے ناول ’’سانپ اور سیڑھیاں ‘‘ کے کردار ایسے ہیں جو اس کہانی کے ارتقاء میں بنیادی طور سے نظر آتے ہیں۔ ان کرداروں میں میرا یادو، شری کانت دوبے، موہنی، اوما، راجا سنگھ کے ساتھ ساتھ جٹا دھاری منوواد سادھو سنت بھی ہیں اور وہ جو لوگ بھی ہیں۔ جو غنڈہ گردی اور آوارگی کی گلیوں سے نکل کر یا تو سیاست کی اعلیٰ کرسیوں پر براجمان ہو گئے ہیں یا وہ رجواڑے ہیں جو ان سیاسی کھیل میں اپنی محفل سجائے ہوئے ہیں۔ اس ناول میں رشوت کا بازار ہر جگہ سجا ہوا ہے۔ چاہے وہ معمولی میونسپلٹی کے کارندوں کی پارٹی ہو یا اعلیٰ حکام سب ایک ہی مجاز میں رنگے ہوئے ہیں۔
ناول کی زبان گاؤں میں بولی جانے والی زبان ہے۔ اس میں ہندی اور اردو دونوں الفاظ کا استعمال بخوبی ملتا ہے۔ مثلاً آؤ بھگت، تانترک ودیا اور ورودھ جیسے لفظ استعمال کئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ناول کا یہ جملہ ملاحظہ ہو:
’’کنتُ آپ پرچار کے لیے نکلے ہیں ‘‘۔ کسی نے کہا، ’’اور کل گاؤں بھر میں آپ کو گھر گھر درسن دینا ہے اور بھا شن بھی۔ ‘‘
’’انھان سب بھی سالے سرکار ماں بکے ہوئے ہیں۔ ‘‘ بھیا جی کی رائے۔ ‘‘
اس کے ساتھ ہی اس ناول کے مکالمے بھی دلفریب اور دلنشین ہیں۔ ان مکالموں میں گاؤں کا انداز صاف طور سے جھلکتا ہے۔ مکالمے بیان کرنے کا انداز خوبصورت ہے۔ یہ مکالمے دیکھئے :
’’آپ بڑے لوگ ہیں سرکار! ‘‘
’’میرے راجیہ میں تم جیسی بڑی کلاکار ہے، یہ بڑی بات ہے میرے لیے۔ ‘‘
’’دھنیہ واد منتری جی‘‘ کہہ کر موہنی نے اس کے چرن چھو لیے۔ دیو رائے نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر آشیر واد دیا۔
’’یہاں بھی تم کھوب پرسکار جیتو اور راجھستان کا نام اونچا کرو۔ ‘‘
’’جرورسرکار۔ ‘‘ ۲۳؎
ناول کا اسلوب حقیقت پسندانہ ہے۔ اس کے باوجود ناول کی کہانی مربوط نہیں ہے۔ اس کا بے ترتیب منظر نامہ ہی اس کا وہ اسلوب سے جس کی وجہ سے یہ ناول عام ناولوں سے جدا نظر آتا ہے اور یہ ناول قاری سے فہم اور ادراک کا متقاضی بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا اسلوب اس کہانی میں حقیقت کا رنگ پیدا کرتا ہے۔
اس ناول میں کرپشن، ملاوٹ، سودے بازی کے اس کھیل میں سبھی سانپ اور سیڑھی کی تمثیل میں اٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کا انجام کسی کو نہیں معلوم اور نہ کوئی انجام کی پروہ کرتا ہے۔ مہرے اپنا کام کر رہے ہیں۔ یہ سب کو پتہ ہے کہ کون اغوا ہوا کس کے جسم کے ٹکڑے سمندر میں غرق ہو گئے، پھر کمیشن بیٹھائے جاتے ہیں اور عدالتی کاروائی شروع ہوتی ہے۔ لیکن اثر ورسوخ جھوٹے گواہ اور پیسوں کی بنا پر قاتل چھوٹ جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ ہر شئے آسانی سے خرید سکتا ہے اور بے گناہ، گناہگاروں کے حصہ کی سزا بھگتے ہیں۔ یہی سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہے۔
سلیم شہزاد کا یہ ناول اپنے عہد کا شاہد بھی ہے اور اپنے عصر کی تاریخ بھی اس کے ساتھ ساتھ سلیم شہزاد کا یہ ناول ان کی سیاسی بصیرتوں کا آئینہ دار ہے۔
شفق
شفق جدید افسانہ نگاروں میں اہم مقام کے مالک ہیں۔ افسانوں کے علاوہ ناول نگاری میں بھی اپنا بہت اونچا مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام ’’ شفیق احمد‘‘ ہے۔ شفق ۹ فروری ۱۹۴۵ ء میں سہسرام میں پیدا ہوئے۔ ان کے گھر کا ماحول تعلیمی تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم سہسرام کی بعض تعلیم گاہوں میں ہوئی۔ یہیں سے اسکول اور کالج کے امتحانات پاس کئے۔ بی۔ اے کے بعد اردو میں ایم۔ اے کیا، پھر پی۔ ایچ ڈی کی ڈگری لی اور سہسرام میں ایک کالج میں لکچرر ہوئے۔ پھر ریڈر اور بعد میں پروفیسر ہو گئے۔ موجودہ عہد کے ناول نگاروں میں شفق ایک ذمہ دار ناول نگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ناول کے علاوہ ان کے اب تک تین افسانے منظر عام پر آ چکے ہیں۔ انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’میں قاتل ہوں ‘‘ کے عنوان سے لکھا جو ۱۹۶۲ ء میں شائع ہوا شفق جب دسویں جماعت میں تھے تب ناول ’’طلعت‘‘ ماہنامہ ’’محشر خیال‘‘ ، دہلی میں شائع ہوا۔ ان کی کئی کہانیاں ’’بیسویں صدی‘‘ میں شائع ہو چکی ہیں۔ کہانیوں کے علاوہ ان کا ناول ’’کانچ کا بازی گر‘‘ جو انھوں نے ۱۹۸۰ ء کے آس پاس لکھا تھا۔ بہت ہی مشہور و مقبول ہوا۔ اس کے بعد ان کا ایک اور ناول ’’بادل‘‘ منظر عام پر آیا۔ جو ۲۰۰۲ ء میں شائع ہوا۔ ان کا یہ ناول سادہ اور وضاحتی بیانیہ اسلوب کا حامل ہے۔ اس ناول میں شفق نے موجودہ عہد کے مسلمانوں کی بے چینی اور عالمی سطح پر جنگ اور فساد کے بڑھتے رجحان سے پیدا ہونے والے مسائل اور اس کے نتائج پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’بادل‘‘ کے بعد شفق نے ’’کابوس‘‘ نام سے ایک اور ناول شائع کیا جو حقیقت پسندانہ اسلوب میں لکھا گیا ہے۔
میں ان کے ناول ’’بادل‘‘ پر بحث کرونگی جو کئی اعتبار سے اہم ناول ہے۔ اپنے اس ناول میں انھوں نے جہاں ملکی حالات اور بڑھتے ہوئے مذہبی جنون کی نشان دہی کی ہے۔ وہیں امریکی سامراجی ذہنیت کا پردہ بھی فاش کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے قاری کے لیے ایک رومانی کہانی بھی تخلیق کی ہے۔ اس ناول میں ہر جگہ شفق کا قلم اپنی فنکاری کا ثبوت دیتا ہے۔
شفق کے اس ناول کا آغاز ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے سے شروع ہوتا ہے۔ ناول کے ابتدائی صفحات پر قاری پریشان رہتا ہے کہ یہ کہانی امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کی مصیبت ہے یا اس کا تعلق ہندوستان ہی کے کسی شہر سے وابستہ ہے۔ خالد کا نیا نیا دفتر جوائن کرنا، اجنبیت سے بھرا دفتری ماحول، لڑکی کا کمپیوٹر پر جھکا رہنا، چوکی دار کی تیز نگاہیں، کینٹین میں ہونے والی گفتگو اور اس ہیبت ناک حادثے کی تفصیل ٹی۔ وی پر دیکھتے ہوئے مختلف لوگوں کے مختلف خیالات قاری کو نہ صرف حیرت انگیز کرتے ہیں بلکہ وہ خود بھی اس کے ساتھ ا س تخلیق کے سفر کا راہی بن جاتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ کہانی اسے اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ اس ناول کا تعلق امریکہ سے نہیں بلکہ ہندوستان سے ہی ہے۔ یہ ناول ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی اور ان کے موجودہ رویے کو ٹٹولتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ اس حادثے میں ہندوستانی مسلمانوں کو جس فکر و اندیشے سے گزرنا پڑتا ہے اور جن جن سوالات سے انہیں جوجھنا پڑتا ہے۔ یہ ناول اس کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے اور حملے کے بعد مسلمانوں کے درپیش مسائل کو شفق بڑے کرب ناک انداز میں پیش کرتے ہیں۔
شفق نے ناول کو دلچسپ بنانے کے لئے خالد اور سلمہ کے عشق کا سہارا لیا ہے اور ایک عشقیہ کہانی کے ارد گرد جنگ، فسادات اور کشیدگی کے تانے بانے کو بنا ہے۔ اس کہانی کے ساتھ ساتھ اس میں افغانستان کی جنگ اور شہر کے غیر مطمئن حالات بھی چلتے رہتے ہیں۔ شفق کا یہ ناول دراصل محبت کی کہانی پر مشتمل ہے مگر اس میں جو جنگ و فسادات کے تانے بانے بنے گئے ہیں اس کی وجہ سے ناول بہت خوبصورت ہو گیا ہے۔
ناول کے کرداروں میں تین مرکزی کردار ہیں سلمیٰ، خالد اور نعیم۔ اس میں سلمیٰ ایک ایسے کردار کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے جو بہت غم زدہ مگر مضبوط اعصاب کی لڑکی ہے۔ سلمیٰ اپنی بہن کے قتل کے بعد ایک دفتر میں کام کر کے گھر چلا رہی ہے۔ وہ اپنی بہن کے ساتھ ہوئی بد سلوکی اور اپنے تین دن کے اغوا ہونے سے وہ اس قدر پریشان ہو جاتی ہے کہ اسے مرد ذات سے ہی نفرت سی ہو جاتی ہے۔ اس ناول میں نعیم اور رشمی کے عشق کو دیکھ کر سلمیٰ بھی پگھل جاتی ہے اور خالد کے عشق میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ اس ناول میں دوسرا کردار خالد کا ہے جو سلمیٰ کے دفتر میں کام کرتا ہے اور سلمیٰ سے محبت کرتا ہے۔ نعیم کا کردار ایک شوخ، محبوب کا کردار ہے جو رشمی کے عشق میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان تینوں کرداروں میں ملت اور ہمدردی کا احساس بھی ملتا ہے اور حالات سے جو جھنے کا حوصلہ بھی۔ شفق کے یہ کردار اپنے عمل میں بے جھجک اور مشرقی اخلاق و آداب کے پیرو بھی نظر آتے ہیں۔ شفق نے اس ناول میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔
شفق نے اپنے اس ناول میں جذبات نگاری اور فضا بندی پر خاص توجہ دی ہے۔ انھوں نے اس کہانی میں کرداروں کے ساتھ ساتھ عام انسانوں کے جذبات پر بھی روشنی دالی ہے اور جنگ و فسادات کی فضا اتنی حقیقی اور ڈراؤنی پیش کی ہے کہ قاری نہ صرف اس فضا میں خود کو محسوس کرتا ہے بلکہ ناول کے ختم ہونے کے بعد بھی وہ اس اثر سے دیر تک نہیں نکل پاتا ہے۔
ناول کی زبان صاف ستھری اور عین کرداروں کے مطابق ہے۔ اس کے مکالمے کہانی کو حقیقت میں بدلنے والے ہوتے ہیں۔ اس کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ شفق نے ناول میں ایسا اسلوب اور ایسے لفظوں کا استعمال کیا ہے کہ ناول کی فضا ڈری ڈری اور دہشت ناک محسوس ہو تی ہے۔ اس کا اسلوب سیدھا سادہ اور علامتی ہے۔ ان کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’ مختلف سمتوں سے اُٹھنے والے جنگ کے بادل ایک نقطے پر سمٹتے جا رہے تھے۔ جی۔ او۔ اے کے نشریہ کی زبان اینٹھتی جا رہی تھی۔ ملکی ریڈیو نمک مرچ لگا کر اور دو کو چار بتا کر حالات کی سنگینی میں اضافہ کر رہا تھا۔ ٹی۔ وی اسکرین پر ہتھیاروں، طیاروں اور بموں کا اشتہار زوروں پر تھا۔ طیاروں سے انڈوں جیسے بم بر ستے اور انہیں ہدف پر تباہی پھیلاتے دکھایا جاتا…… خالد پریشان ہو جاتا کہ کیا یہ جنگی تیاریاں اس ملک کے لیے نہیں جہاں خانہ جنگی ہے قحط ہے، بھوک ہے اور افلاس ہے یا یہ تجارت کا حصہ ہے جس کا مظاہرہ امریکہ دو عظیم جنگو ں میں کر چکا ہے۔ ‘‘ ۲۴؎
اس ناول میں بار بار بادل کا آنا کہانی میں مختلف شیڈ پیش کرتا ہے۔ جس کے باعث اس ناول کا تجسس بڑھ جاتا ہے۔ شفق کے اس ناول کو پڑھنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول یقیناً ناول نگاری کے باب میں ایک اضافہ ہے۔
رحمن عباس
اردو ادب کے نئے ناول نگاروں اور مشرف عالم ذوقی کے ہم عصروں میں رحمن عباس کا نام ایک منفرد ناول نگار کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ ان کا اصلی نام عبد الرحمن عباس دھمسکر ہے۔ ان کی پیدائش ۳۰ جنوری ۱۹۷۴ ء کو رتنا گری میں ہوئی۔ رحمن عباس کی ابتدائی تعلیم رتنا گری میں ہی ہوئی پھر انھوں نے بی۔ اے اور ایم۔ اے (اردو) ممبئی یو نیورسٹی سے اوّل درجہ میں پاس کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے انگریزی سے ایم۔ اے اور بی۔ ایڈ اور ایم۔ ایڈ بھی کیا ہے۔
رحمن عباس نے افسانے اور ناول دونوں میں قلم آزمائی کی ہے۔ افسانہ نگاری کی ابتداء انھوں نے ۱۹۹۷ ء میں ’’شب خون‘‘ سے کی جس میں ان کی کہانی ’’گھابو کی بکری‘‘ شائع ہوئی تھی۔ رحمن عباس نے مراٹھی مفکر ’’سندیپ واسلیکر‘‘ کی مشہور کتاب ’’یکاد شے چا شودھ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’ایک سمت کی تلاش‘‘ میں کیا جو جون ۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کا ایک مضمون ’’ناول کا فن اور اردو ناول کی تنقید کا المیہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مضمون کو ناول کی تنقید میں ایک اہم غیر معمولی اور فکر انگیز مضمون قرار دیا جا سکتا ہے۔
رحمن عباس کے اب تک تین ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’نخلستان کی تلاش‘‘ ۲۰۰۴ ء میں شائع ہوا اور دوسرا ناول ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘ ۲۰۰۹ ء میں شائع ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے اردو فکشن کی دنیا میں مشہور ہو ا۔ ادب کی دنیا میں اس ناول کو کافی سراہا گیا ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ ۲۰۱۱ ء میں ان کو ’’ نیشنل ایوارڈ برائے ادب ‘‘ سے نوا زا گیا ہے۔ ۲۰۱۱ ء میں رحمن عباس کا تیسرا ناول ’’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘‘ شائع ہوا جو موضوع کی بے باکی اور طرزِ اسلوب کی ندرت کی وجہ سے زیرِ بحث رہا۔
میں رحمن عباس کے دوسرے ناول ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘ پر بحث کروں گی۔ یہ کہانی کوکن کے ایک گاوں ’’سورل‘‘ کی ہے۔ جہاں کے بدلتے ہوئے سماجی، مذہبی، معاشرتی سروکار کے پس منظر میں ایک رومانی کہانی کو انجام دیا گیا ہے۔ اس ناول کی ہیروئین ’’سکینہ‘‘ ایک شادی شدہ مگر لا ولد خاتون ہے۔ جس کا شوہر ایک متمول تبلیغی رجحانات کا حامل فرد ہے۔ ناول کا ہیرو ’’عبد العزیز‘‘ سکینہ سے محبت کرتا ہے اور دونوں کے پیار کی نشانی سکینہ کے گود میں آ جاتی ہے اور سکینہ کا شوہر اس بچے کو خدا کا انعام سمجھ کر اس کو دینی مدارس کے حوالے کر دیتا ہیں۔ سکینہ کا بیٹا (یوسف) ایک نہایت ذہین لڑکا ہے۔ اس کا حافظہ بہت تیز ہے۔ ایک دن وہ اپنے گاؤں واپس آتا ہے تو گاؤں والے اس کی مذہبی سر گرمیوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ کالج کے دوران عبد العزیز کی دوستی ایک دوسری لڑکی شریفہ پاوسکر سے بھی ہے۔ مگر کالج ختم کر کے عبد العزیز روز گار کی تلاش میں کویت چلا جاتا ہے اور وہاں بھی سکینہ کی محبت اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ گاؤں میں مختلف مذہبی جماعتیں اپنا مشن جاری رکھتی ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پہناوے اور ان کے رہن سہن میں فرق نمایاں ہونے لگتا ہے۔ ’’سورل‘‘ جہاں کی ہندومسلم آبادی یا تو کو کنی زبان بولتے ہیں یا مراٹھی زبان میں تعلیم حاصل کر تے ہیں مگر جماعت والے مراٹھی زبان کو ہندوؤں کی زبان قرار دیتے ہیں اور اردو کا چلن شروع کرتے ہیں اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہندو مسلم فرقہ پرستی کے ساتھ ساتھ خود مسلمان بھی کئی حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔
عبد العزیز شادی نہیں کرتا وہ سکینہ کے عشق میں ڈوبا ہوا ہے۔ سکینہ بھی اس سے محبت کرتی ہے اور دونوں کی یہ محبت دونوں چھپ چھپ کر ملنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ عبد العزیز کوکن کی اسی تہذیب کو زندہ رکھنا چاہتا ہے۔ اور اسی سبب وہ بعض معاملات میں نہ صرف جماعتوں سے اختلاف کرتا ہے۔ بلکہ عملی اقدامات بھی کرتا ہے۔ اس وجہ سے یوسف کو اس سے شدید نفرت ہو جاتی ہے اور وہ اس کو قتل کر دیتا ہے۔ یہاں عبد العزیز کا قتل درا صل ایک شخص کا قتل نہیں بلکہ یہ ’’سورل‘‘ کی اس تہذیب کا قتل ہے جو صدیوں سے ہندوستان میں رائج تھی۔ یہ اقتباس پر غور فرمائیے :
’’گھنے جنگل میں پہنچنے کے بعد اسے زمین پر لٹایا گیا۔ چادر نکال کر صرف چہرے پر ایک چھوٹی سی گونی ڈال دی گئی۔ اس وقت بھی اس نے کوئی فریاد نہیں کی۔ چیخ و پکار نہیں کی ……کسی طرح کا کوئی احتجاج نہیں کیا۔ وہ خاموش رہا۔ جب یوسف کے اشارے پر اس پر پہلا وار کیا گیا البتہ اس وقت اس کی حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی……… ’’اللہ‘‘ ……….‘‘ ۲۵؎
ناول میں ایسے کئی کردار ہیں جو اپنی شخصیت کے ذریعہ ناول کی جان بنے ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار سکینہ ہے جو فخر الدین کی بیٹی ہے اور ناول کے ہیرو عبد العزیز کی محبوبہ ہے۔ مگر اس کی شادی مجاور حسین سے ہو جاتی ہے۔ سکینہ شادی کے بعد بھی اپنے محبوب سے رشتہ منقطع نہیں ہونے دیتی ہے اور اس کے بچے کی ماں بن جاتی ہے۔ ناول میں یوسف کا کردار بھی داد کے لائق ہے۔ یہ سکینہ اور عبد العزیز کا بیٹا ہے مگر حالات کے چلتے وہ اپنے ہی باپ کا قتل کر دیتا ہے۔ رحمن عباس نے اپنے اس ناول میں کرداروں کے ذریعہ ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ قاری ناول کو پڑھ کر متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا ہے۔
رحمن عباس نے اپنے اس ناول میں مکالمے بہت پر اثر اور دلنشین استعمال کئے ہیں۔ انھوں نے اس ناول میں جتنے بھی مکالمے استعمال کئے ہیں وہ صرف جاندار ہی نہیں بلکہ بر جستہ بر محل اور با معنی ہیں اور اکثر مقامات پر وہ داد کے طلب گار بھی نظر آتے ہیں۔ ناول کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:
’’فخر الدین نے حیرت سے دیکھا اور کہا۔
’’ یہ کیا…..بیٹا تم نے تو اس ننھی جان کو مار دیا۔ ‘‘
’’یہ آپ کے لئے ہے۔ ‘‘
’’ مردہ تتلی…….‘‘
’’ہاں …… اس میں میرا پیغام ہے۔ ‘‘
’’ کیا ہے۔ ‘‘ سکینہ کے والد نے حیرت سے پوچھا۔
’’اگر فخرو چچا کل سے کام پر نہیں آئیں گے تو …….‘‘
’’تو کیا؟‘‘ فخر الدین نے سوال کیا۔
’’ میں بھی اس تتلی کی طرح مردہ ہو جاؤں گی……..‘‘ ۲۶؎
ناول ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘ کا اسلوب بیانیہ ہے۔ اس میں فلیش بیک اور فلیش فارورڈ تکنیک کا استعمال بہت ہی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ اس ناول میں خود کلامی اور منظری تکنیک کو بھی اکثر جگہ بر تا گیا ہے۔ کہیں کہیں شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔
اس ناول میں منظر نگاری کا استعمال بھی رحمن عباس نے پر اثر انداز میں کیا ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری اس سارے منظر کو اپنے آنکھوں سے دیکھ رہا ہو اور اُسے محسوس کر رہا ہو۔ درد میں ڈوبے اس منظر کو دیکھئے۔
’’ دونوں ساتھیوں نے ہڑ بڑا کر یوسف کی جانب دیکھا۔ یوسف نے خنجر اپنے ہاتھوں میں لیا۔ درختوں نے کروٹ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔ پرندوں نے اپنے بچوں پر اپنے پر پھیلائے تاکہ وہ کسی بات کے گواہ نہ بنیں۔ دو ہرن جو کچھ دوری پر گھاس چر رہے تھے۔ وہ ہوا کے دوش پر جنگل کے دوسرے سرے پر پہنچ گئے۔ نانیٹیو، [سانپ کی ایک قسم ہے جو عام طور پر سات یا پانچ ایک ساتھ نکلتے ہیں ]وہیں قریب سے گزر رہے تھے۔ ڈر گئے۔ سر اسیمگی میں جہاں جھاڑیاں نظر آئی اس طرف لپکے۔ ان کا ایک ساتھی اس افراتفری میں کہیں چھوٹ گیا۔ جیسے بعد میں انھوں نے بہت تلاش کیا پر وہ نہیں ملا۔ یوسف نے خنجر ہاتھ میں لیا۔ وہ انتظار کرتا رہا کہ عبد العزیز معافی طلب کرے گا۔ اس حملے کا سبب پو چھے گا۔ قسمیں کھائے گا۔ اس کے ہاتھ پیر جوڑے گا۔ اس سے زندگی کی بھیک مانگے گا۔ پر ایسا نہ ہوا۔ ‘‘ ۲۷؎
’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘ ایک نوجوان ادیب کی فکر کا نتیجہ ہے اگر یہ ناول مطالعے کی میزوں تک پہنچ جائے تو اس کا ہر موضوع زیر بحث ہو گا۔ بلا شبہ یہ ناول اردو ناول نگاری میں ایک اضافہ ہے۔
٭٭
حواشی
۱۔ ڈاکٹر محمد بہادر علی ’’اردو ناول ایک تکنیکی جائزہ‘‘ ص ۲۰
۲۔ ڈاکٹر محمد بہادر علی ’’اردو ناول ایک تکنیکی جائزہ‘‘ ص ۲۰
۳۔ ڈاکٹر محمد بہادر علی ’’اردو ناول ایک تکنیکی جائزہ‘‘ ص ۴۴
۴۔ علی عباس حسینی ’’اردو ناول کی تاریخ اور تنقید‘‘ ص ۴۴
۵۔ پروفیسر ناز قادری ’’اردو ناول کا سفر‘‘ ص ۱۲۱
۶۔ خلیل الرحمن اعظمی ’’اردو میں ترقی پسند تحریک‘‘ ص ۴۵
۷۔ ڈاکٹر ندیم احمد ’’ترقی پسند‘جدیدیت، مابعد جدیدیت‘‘ ص ۱۹۷
۸۔ غضنفر ’’دویہ بانی‘‘ ناشر مسلم ایجوکیشنل پریس علی گڑھ ص ۵
۹۔ غضنفر ’’دویہ بانی‘‘ ناشر مسلم ایجوکیشنل پریس علی گڑھ ص ۱۸۴
۱۰۔ غضنفر ’’دویہ بانی‘‘ ناشر مسلم ایجوکیشنل پریس علی گڑھ ص ۱۸۲
۱۱۔ عبدالصمد ’’دو گز زمین ‘‘ ۱۹۸۸ء عالم گنج، پٹنہ ص ۱۷۶
۱۲۔ ترنم ریاض ’’برف آشنا پرندے ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ص۶۲
۱۳۔ ترنم ریاض ’’برف آشنا پرندے ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ص۲۴۶
۱۴۔ شائستہ فاخری ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ص ۱۵۸
۱۵۔ شائستہ فاخری ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ص۱۹
۱۶۔ شائستہ فاخری ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ص۹۳
۱۷۔ نورالحسنین ’’ ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ عرشیہ پبلیکیشنز ص۸
۱۸۔ نورالحسنین ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ عرشیہ پبلیکیشنز ص ۱۴۸
۱۹۔ نورالحسنین ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ عرشیہ پبلیکیشنز ص ۱۵۶
۲۰۔ نورالحسنین ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ عرشیہ پبلیکیشنز ص ۱۵۲
۲۱۔ حسین الحق ’’فرات‘‘ تخلیق کار پبلیشرز ص ۱۰۲
۲۲۔ سلیم شہزاد ’’سانپ اور سیڑھیاں ‘‘ منظر نما پبلیشرز ص ۶۱
۲۳۔ سلیم شہزاد ’’سانپ اور سیڑھیاں ‘‘ منظر نما پبلیشرز ص ۷۰
۲۴۔ شفق ’’بادل‘‘ ص ۸۱
۲۵۔ رحمن عباس ’’تین ناول ‘‘ عرشیہ پبلیشرز ص ۴۸۳
۲۶۔ رحمن عباس ’’تین ناول ‘‘ عرشیہ پبلیشرز ص ۱۴۸
۲۷۔ رحمن عباس ’’تین ناول ‘‘ عرشیہ پبلیشرز ص ۴۱۴
٭٭٭
باب سوّم
مشرف عالم ذوقی کے ناولوں کا مختصر جائزہ
مشرف عالم ذوقی کی ناولیں
٭ عقاب کی آنکھیں ۱۹۹۰ء
٭ نیلام گھر ۱۹۸۰ ء
٭ لمحہ آئندہ
٭ ذبح ۱۹۹۵ء
٭ بیان ۱۹۹۵ء
٭ شہر چپ ہے ۱۹۹۶ء
٭ مسلمان ۱۹۹۲ء
٭ پوکے مان کی دنیا ۲۰۰۴ء
٭ پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی ۲۰۰۵ء
٭ آتش رفتہ کا سراغ ۲۰۱۳ء
مشرف عالم ذوقی کا شمار اردو ادب کے نہایت بے باک و جرأت مند ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر انھوں نے اپنی قلم نہ اُٹھایا ہو۔ اُن کے ناولوں کی تعداد گیارہ ہے۔ انھوں نے ناول نگاری کی ابتداء سن ۱۹۷۸ء سے کی ہے۔ ان کا سب سے پہلا ناول ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ ہے۔ اس باب میں اُن کے تمام ناولوں کا ایک کے بعد دیگرے جائزہ لیا جائے گا۔ مشرف عالم ذوقی کی ناول نگاری کے بارے میں ڈاکٹر مشتاق احمد لکھتے ہیں :
’’ذوقی ہمارے عہد کے دانشور نگار ہیں۔ وہ غور و فکر کے عمل سے گزرتے رہے ہیں۔ ان کے یہاں پیچیدگی نہیں ہے۔ الجھاؤ نہیں ہے تکنیک اور اسلوب کی سطح پر وہ اپنی ہر کہانیوں میں ایک نئے پائدان پر ہوتے ہیں۔ ذوقی کی کہانیاں بولتی ہیں بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ چیختی ہیں اور اپنا احتجاج درج کراتی ہیں۔ اور ان کے ناول میں عہد حاضر سانس لیتا ہے۔ بالخصوص ہندوستان کی سماجی، سیاسی، مذہبی اور معاشرتی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں، جس پر ذوقی کی نظر نہ ہو اور انہوں نے اس کی عکاسی اپنے ناولوں میں نہ کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج ذوقی صرف اردو زبان کے قارئین کے ہی محبوب فنکار نہیں ہیں بلکہ ہندوستان کی دیگر زبانوں کے قارئین کے درمیان بھی ان کی مقبولیت روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے اور علمی طبقے میں ان کی تخلیقی جہت کا احترام کیا جا رہا ہے۔ ‘‘ ۱؎
مشرف عالم ذوقی نے اردو فکشن میں اپنے ناولوں سے اپنی قلم کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے۔ ذوقی نے ناول نگاری کا آغاز ۱۹۷۸ ء سے کیا اب تک اُن کے گیارہ ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ انسانی زندگی، آپسی رشتے، سماجی مسائل، زندگی کی مصروفیت، سائنس اور تکنیکی دریافتیں، زندگی پر اُن کے اثرات، مذہبی منافرت، فسادات، سیاسی چال بازی، قدرتی آفات جیسے بے شمار پہلوؤں پر ان کی نظر بڑی گہری ہے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ وہ ان سے نبرد آزما ہیں اور ان ہی تجربات کا نچوڑ انھوں نے پیش کر دیا ہے۔
ذوقی کے ناولوں میں یکسانیت نظر نہیں آتی ہے بلکہ ان کے ناولوں میں مختلف موضوعات کا ذخیرہ نظر آتا ہے۔ ذوقی کے کرداروں پر اگر نظر ڈالی جائے تو ان کا کوئی بھی کردار Proto type نہیں ہے۔ یہ کردار ہمارے گھر آنگن سے نکل کر معاشرے میں اپنی الگ پہچان بناتے ہوئے نظر آتا ہے۔ نئی صدی کے نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے ناولوں میں بھی نئے مسائل اور نئے موضوعات ذوقی کا اصل مقصد ہے۔ اس لئے ان کے ناولوں میں وہ ساری چیزیں ملتی ہے جس سے آج ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے۔ پیش ہے ذوقی کے ناولوں کا مختصر جائزہ۔
عقاب کی آنکھیں
’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ مشرف عالم ذوقی کا پہلا ناول ہے جو انھوں محض ۱۷ سال کی عمر میں لکھا ہے۔ ذوقی نے اس ناول کو سقراط کے قول ’’روح ایک سنگیت کے مانند ہے اور بیماریوں کی وجہ سے جسم کے اجزاء ڈھیلے ہو جاتے ہیں ……روح اپنے سنگیت سے جسم میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔ ‘‘ کی تشریح کہا جا سکتا ہے۔ جسے انھوں نے اس ناول کے ذریعے پیش کیا ہے۔ مشرف چونکہ ۱۱ برس کی عمر ہی سے بچوں کے رسائل وغیرہ میں شائع ہونے لگے تھے اور گھر کے ادبی ماحول نے انہیں کم عمری میں ہی ناول نگاروں کی قطار میں لا کھڑا کیا۔ کم سنی کے باوجود اس ناول میں ذوقی نے انسانی فطرت سے فرار چاہنے والے ایک نفسیاتی مریض کی کہانی کو نہایت موثر انداز میں بیان کیا ہے۔
ناول میں پلاٹ واقعات کے اس خاکے کو کہتے ہیں جو ناول نویس کے پیش نظر شروع ہی سے رہتا ہے۔ ناول کا سب سے اہم عنصر قصہ یا کہانی ہے۔ قصہ ہی تو ناول کو ناول کہلانے کا مستحق بناتا ہے۔ چونکہ پلاٹ کی فنکارانہ تعمیر ہی ناول نگاری کی بنیادی شرط ہے۔ روز مرہ زندگی میں ناول اپنے لا محدود تخلیقی امکانات کے پیش نظر وسیع تر کینوس پر کسی موضوع کو تخلیقی گرفت میں لیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ناول کی ضخامت پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ ضروری نہیں کہ ناول میں ایک ہی پلاٹ یا کردار ہو۔
مشرف عالم ذوقی نے اس ناول میں سادہ بیانیہ انداز اختیار کیا ہے اور کہانی کو ایک منظّم طریقے سے پیش کیا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے انسانی فطرت کے فلسفے کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے کہ ہر مرد اور عورت کے اندرجنسی جذبات فطری طور پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی فعل ہے یہ ایک فطری تقاضہ ہے جو صرف انسان ہی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ حیوان اور سبھی چرند و پرند میں یہ عنصر موجود ہوتا ہے۔ انسان اس عمل سے لاکھ راہِ فرار حاصل کرناچاہے لیکن نہیں کر سکتا۔ اس کے حصول کے لئے ہر مذہب نے الگ الگ قوانین بنائے ہیں ساتھ ہی ذوقی نے یہ بھی بتایا ہے کہ مشرقی روایات اور مشرقی تہذیب کی معنویت کیا ہے۔ وہ کتنی اہمیت رکھتی ہے۔ انسان چاہے کتنا ہی ماڈرن ہو جائے مذہبی قوانین سے نہیں بھاگ سکتا ہے۔
اس ناول کو ذوقی نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ وہ ہے جب ’’الف‘‘ جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے چھوٹی سی عمر میں اپنے گھر کے آزاد ماحول میں فطرتِ انسانی کے عمل کو دیکھتا ہے اور اس کے ذہن پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوتے ہیں۔ جو وقت کے ساتھ بڑھ کر اسے نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔ الف کی یہ ذہنی کشمکش اسے ہر کسی سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ اپنے ماں، باپ، بھائی، بہن، دوست، استاد، پڑوسی سب سے نفرت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اسے خود کے جسم سے بھی گھن آنے لگتی ہے۔ منفی خیالات اور ہر وقت کا ذہنی تناؤ سکون کی تلاش میں الف کو گھر چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ حصہ دوم میں ذوقی نے بتایا ہے کہ گھر چھوڑنے کے بعد الف کو گھر کے باہر کی دنیا میں طرح طرح کے تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ بھوک پیاس بجھانے کے لئے جن حالات سے دوچار ہونا پڑا اس کا بیان اس ناول میں بڑے پر اثر انداز میں کیا گیا ہے۔ وہ جوگیوں کے گروہ میں شامل ہوتا ہے جنگلات میں ان کے ساتھ رہتا ہے لیکن ان سب پریشانیوں کے باوجود اس کا ذہن زندگی کے اس فلسفے کو بہت دیر سے سمجھتا ہے کہ انسان اپنے جسم کے فطری تقاضوں سے منھ نہیں موڑ سکتا۔ ایک دن جب وہ ان جوگیوں کو ان کے ساتھ رہ رہی جوگن کے ساتھ وہ سب کچھ کرتے دیکھتا ہے اس کی ہذیانی کیفیت دوبارہ لوٹ آتی ہے۔ جوگی اسے سمجھاتے ہیں کہ جسے تم گندہ کہتے ہو وہ گندہ نہیں ہے بلکہ وہ سچائی ہے۔ اور یہ بھوک جسم کی آتما ہے۔ ہم اسی شانتی کی تلاش میں چلے تھے۔ جسم میں بھگوان بند ہیں۔ ہم نے جسم سے شانتی پائی ہے۔ الف یہاں سے بھی بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ جنگل میں اکیلا چلا جاتا ہے۔ یہاں آ کر اُسے احساس ہوتا ہے کہ اب وہ اکیلا رہ گیا ہے۔ اب اس سے بات کرنے والا کوئی نہیں اس کی بولی جاننے والا کوئی نہیں تب اسے ٹیچر کی پڑھائی بات یاد آتی ہے۔ Man is social animal اور وہ اس بات کی اہمیت کو قبول کرتا ہے۔ ایک ہذیانی کیفیت اس پر طاری ہو جاتی ہے اور وہ وہاں سے جلد از جلد واپس آنا چاہتا ہے۔
کہانی کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری کہانی کے مرکزی کردار پر ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے ناول نگار اچھائی یا برائی، صحیح یا غلط راستے کی پہچان کراتا ہے یا کہانی کے موضوع کے لحاظ سے مرکزی کردار کی کار کردگی بیان کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ناول میں کئی ضمنی کردار بھی ہوتے ہیں جو کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ ان ضمنی کرداروں میں کچھ منفی کردار ہوتے ہیں۔ جسے کہانی کی ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے ناول نگار تجویز کرتا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ’’الف‘‘ ہے۔ جس کے اطراف کہانی کا پلاٹ بُنا گیا ہے۔ یہ کردار ایک بارہ سال کا بچہ ہے۔ ذوقی نے اس ناول کے ذریعہ بچوں کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ اپنے اس ناول کے بارے میں ذوقی ایک انٹر ویو میں کہتے ہیں :
’’میرا پہلا ناول ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ میں بھی ایک بچہ ہے۔ جو اپنی معصوم آنکھوں سے دنیا کے جبر اور استحصال کا جائزہ لے رہا ہے۔ پہلے ناول سے ہی میں نے ایسے بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی__جنھیں سماج تو بچہ سمجھتا ہے لیکن وہ اپنی عمر سے بہت آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔ ‘‘ ۲؎
الف کے کردار کے ساتھ اس ناول میں کئی ضمنی کردار بھی شامل ہے جنھوں نے ناول کو آگے بڑھانے کا کام کیا ہے۔ ضمنی کرداروں میں الف کے ماں باپ، بھائی بہن، بھابھی کے علاوہ پڑوسی مسز ڈولچی، الف کی دوست لزی کے ساتھ ایک ایسے ڈاکٹر کا کردار بھی ہے جو کبھی ایسی بیماری کا شکار رہ چکے ہیں۔
الف ناول کا وہ کم سن کردار ہے جو اپنے والدین اور بھائی بھابھی کے درمیان قائم فطری جذباتی تقاضوں کو قبول نہیں کر پاتا اور رفتہ رفتہ ایک نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ ۱۲ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس کی سوچ انتہائی حد تک منفی ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے اطراف موجود افراد سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ یہ نفرت یہاں تک بڑھ جاتی ہے کہ اسے خود سے بھی کراہیت محسوس ہوتی ہے۔ اس کردار کے جذبات کی عکاسی مشرف عالم ذوقی نے نہایت عمدگی سے کی۔
مشرف عالم ذوقی نے الف کے کردار کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ الف کے ذریعے انھوں نے بچوں کے اندر ہو رہی ذہنی بیماریوں کو ظاہر کر نے کی کوشش کی ہے۔ بچے جو کہ ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں۔ اور ان ہی سے ہماری تہذیبی اور ثقافتی روایت برقرار رہنے والی ہے وہ کس طرح آزاد ماحول میں پرورش پا کر تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ ماڈرن لائف اسٹائل جینے والے والدین اپنے بچوں کو ٹائم نہیں دے پاتے اور نہ وقت رہتے ان کے جذبات و احساسات کی طرف توجہ دیتے ہیں جن کی وجہ سے بچے ان مسائل سے دو چار ہوتے ہیں۔ یہی وہ باتیں ہیں جو بچوں کی شخصیت کو بجائے مضبوط بنانے کے انھیں پستی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہندوستانی تہذیب میں جنسی جذبات اور جنسیات سے متعلق حرکت و عمل کو بچوں سے پوشیدہ رکھا جاتا تھا، آج ٹیلی ویژن فلم، انٹرنیٹ اور والدین کی موڈرن سوچ کی وجہہ سے بچے سنِ بلوغ کو پہنچنے سے پہلے ہی ان رازوں سے واقف ہو جا رہے ہیں اور اس کے منفی اثرات اُن کی زندگی پر پڑ رہے ہیں۔
ان منفی خیالوں نے ہی الف کو باغی بننے پر مجبور کیا نتیجتاً وہ گھر سے بھاگ جاتا ہے۔ اپنا حلیہ تبدیل کر لیتا ہے۔ ہوٹل میں ملازمت کرتا ہے جوگیوں میں رہتا ہے۔ جب اسے تنہائی کا احساس ہوتا ہے تب ماں باپ کی قدر و منزلت، بھائی بہن کا پیار، اور اپنی سب سے پیاری سی چھوٹی دوست لزی کی یاد آتی ہے اور وہ خود احتسابی میں گھر جاتا ہے۔
ناول میں ڈاکٹر بھٹ کی حیثیت ضمنی کردار کی ہے۔ یہ وہ کردار ہے جس کا ماضی الف سے مختلف نہیں ہے۔ ڈاکٹر بننے سے قبل وہ بھی ایک نفسیاتی مریض تھا۔ لیکن وہ صرف اپنی ماں سے نفرت کرتا تھا۔ کیوں کہ وہ اپنی ماں کی بے راہ روی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ برداشت نہیں کر پاتا۔ اس کی ماں سلینڈر پھٹ جانے سے مر گئی تھی جس کا الزام بھٹ پر لگایا گیا تھا۔ چونکہ بھٹ کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لئے انھیں اس کیس سے بری کر دیا گیا تھا۔ وقت کے گزرتے بھٹ اس بیماری سے ابھر آتے ہیں اور ایک کامیاب ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔ ان کے ماضی کا پتہ جب الف کو ہوتا ہے تب وہ بجائے اس واقعہ سے مثبت پہلو اخذ کرنے کے اس کی سوچ اور منفی ہو جاتی ہے اس کے دماغ میں ایک اور نئے ایشو کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
مکالمہ اظہارِ خیال کا بہترین آلۂ کار ہوتا ہے۔ انسانی جذبات کو بہترین انداز میں پیش کرنے کا موثر طریقہ مکالمہ نگاری ہے۔ گفتگو کے ذریعے ہم اپنے احساسات و جذبات کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں۔ یہاں ناول نگار کی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ان مکالموں کے ذریعے انسانی جذبات کی ایسی عکاسی کرے کہ وہ قاری کے ذہن نشین ہو جائے اور کافی دیر تک اس سحر سے نکل نہ سکے۔ ناول کی زبان پر تکلف اور پُر اثر ہونی چاہئے۔ مکالمے ادا کرتے وقت کردار کے لہجے کے اتار چڑھاؤ کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ کردار کی عمر، ماحول، طبقے اور کئی پہلو مکالمے پر اثر انداز ہو تے ہیں۔
اس ناول میں خود کلامی سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ جو مکالمے اس ناول میں ادا کئے گئے ہیں ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں ساراواقعہ اور ماحول کی عکاسی کر دیتے ہیں۔ درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’بھوکا ہے ‘__پوری والا اس سے مخاطب تھا۔
’ہاں ‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’کھائے گا؟‘
’ہاں ‘
’جیب میں پیسہ نہیں ہو گا؟‘
’ہاں __نہیں ہے۔ ‘
’پھر بھی کھائے گا۔ ‘ پوری والا معنی خیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
پوری والے نے پھر پوچھا۔ ’گھر سے بھاگا ہے ؟‘
’تمہیں کیسے پتہ؟‘
پوری والا زور سے ہنسا۔ ’تمہارے چہرے پر لکھا ہے۔ یہاں جتنے بھی لونڈے کام کرتے ہیں۔ قریب قریب سبھی تمہاری طرح گھر سے بھاگے ہوئے ہیں۔ ‘‘ ۳؎
منظر نگاری ہر ناول کا اہم جز ہے۔ منظر نگاری اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس کے ذریعے ناول کا پس منظر بیان کیا جا سکے۔ منظر تراشی کرتے وقت ناول نگار کو چاہئے وہ الفاظ کا ایسا جادو جگائے اور مناظر کی ایسی تصویر کشی کرے کہ سارا منظر قاری کی آنکھوں میں اتر آئے۔ فن کی خوبی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ ناول نگار کے بیانات کہاں تک سچے، صحیح اور دل چسپ ہیں۔ اس ناول میں ذوقی نے کمال کی منظر نگاری کی ہے۔ پھر چاہے وہ اسپتال ہو، الف کی ہذیانی کیفیت کا منظر ہو یا، گاؤں کے مناظر یا پھر جنگل کا ویرانہ۔ درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’رات کا پچھلا پہر خوف کی دستک دے رہا ہے۔ جنگلی درخت تیز ہواؤں کے تھپیڑوں سے ہل رہے ہیں۔ ماحول میں جنگلی جانوروں کی خوفناک آوازیں گونج رہی ہیں۔ ایک پیڑ کے سائے تلے میں گر گیا ہوں۔ ‘‘ ۴؎
زبان و بیان کی اہمیت کسی بھی ناول میں کافی اہمیت رکھتی ہے۔ ناول نگار زبان کا انتخاب اپنی کہانی کی مناسبت سے طے کرتا ہے۔ ناول کا پس منظر گاؤں، شہر، جس طبقے، معاشرے اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سے متعلق ہر معلومات مصنف کو ہونا ضروری ہے تب ہی وہ زبان حقیقت سے قریب ہو گی۔ ناول نگار کو زبان اور اظہارِ بیان پر پوری طرح قدرت حاصل ہونی چاہئے۔
اس ناول میں سادہ و سلیس زبان کا استعمال کیا گیا ہے اور اندازِ بیاں بھی عمدہ و موثر ہے۔ جس سے ایسا وحدتِ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قاری ناول سے آخر تک بندھا رہتا ہے جو کہ ایک کامیاب ناول کی ضمانت ہے۔ جس طرح عقاب کی آنکھیں تیز ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح ہم ذوقی کو بھی اس خطاب کے حق دار ٹھہراتے ہیں کہ اس نازک مسئلے پر ان کی نظر پڑی اس کی اہمیت کو انھوں نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسے اپنے فن کا موضوع بھی بنایا۔
اسلوب یعنی اسٹائل یا طرزِ تحریر یا اندازِ بیاں۔ اسلوب کے ذریعے ناول نگار اپنے فن میں چار چاند لگاتا ہے۔ ناول نگار کا طریقہ پیشکش اتنا پُر اثر ہونا چاہئے جو قاری کو آخر تک ناول سے باندھے رکھے۔ ناول نگار کے اسلوب میں پیچیدگی نہیں ہونی چاہئے بلکہ سادہ اور سلیس یا رواں ہونا چاہئے۔ کسی بھی ادیب یا شاعر کو اظہارِ بیان کی مکمل آزاد ہوتی ہے۔ لہذا اسے چاہئے کہ وہ ایسی تصنیف تخلیق کرے جو ادب کا ایک شاہکار کہلائے۔
’عقاب کی آنکھیں ‘ اس ناول کا اسلوب بیانیہ ہے۔ ذوقی کا یہ پہلا ناول ہونے کے باوجود اس کا اسلوبِ بیان نہایت دلکش ہے۔ ذوقی نے اپنے طرزِ اظہار کے لئے سادہ الفاظ استعمال کیا ہے اور کہانی کو جامع انداز میں قلم بند کیا ہے۔
ناول میں تکنیک بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ تکنیک سے مراد تشکیل کے مرحلے سے گزرتے وقت ناول نگار اظہار بیان کے لئے کونسا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ تکنیک کے کئی اقسام ہوتے ہیں۔ جیسا کہ بیانیہ، علامتی یا اشارتی، شعور کی رو، تلازمہ خیال، جدیدیت کی تکنیک مجّرد اور مابعد جدیدیت کی تکنیک۔ ان سب میں جو سب سے کامیاب تکنیک ہے وہ بیانیہ ہے۔ اور اس کے بعد اردو ادب جو تکنیک کافی مقبول ہوئی وہ ہے شعور کی رو۔ ہر دور کے لحاظ سے ناول نگاروں نے ہر تکنیک کا استعمال خوبی سے کیا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کی اہمیت ختم ہوتی گئی۔ صرف بیانیہ اور شعور کی رو ایسی تکنیک ہے جسے آج بھی ناول نگار اتنی ہی تندہی سے استعمال کر رہے ہیں۔
تکنیک کے لحاظ سے ناول ’عقاب کی آنکھیں ‘ میں شعور کی رو تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ ناول کا راوی اس ناول کا مرکزی کردار ہے جو ناول کی شروعات ڈائری لکھنے سے کرتا ہے۔ اور رفتہ رفتہ ماضی میں پہنچ جاتا ہے۔ جس میں وہ اپنی محبوبہ سے مخاطب ہے کہ اس نے اپنی پچھلی زندگی سے کیا تجربہ حاصل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’آج جبکہ میں یہ ڈائری لکھنا شروع کر رہا ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ اسے کہاں سے شروع کروں، کہاں ختم کروں __ سب سے پہلے میں تمہیں یاد کر رہا ہوں، لزی!یاد ہے بچپن کے اس بے حد خوبصورت دور میں ایک تم ہی تھیں، جس سے میں باتیں کیا کرتا تھا۔ اس بہانے تم مجھے دوست بھی کہہ سکتی ہو__‘‘ ۵؎
ناول ’عقاب کی آنکھیں ‘ ذوقی نے اس وقت تحریر کی جب وہ محض ۱۷ سال کے تھے۔ جسے انھوں نے بعد میں بنا کسی ترمیم کے شائع کیا۔ اگر ہم اس لحاظ سے اس ناول کو پرکھیں کہ اس وقت ادیب کی عمر کم تھی یا پھر اس ناول کو فن برائے ادب کی حیثیت سے پرکھیں اس ناول میں کہیں کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ بظاہر اس وقت ذوقی کا تجربۂ زندگی و فکر اتنی پختہ نہیں تھی پھر بھی ایک نہایت اہم اور نازک موضوع کو ذوقی نے ماہرانہ انداز سے ادب کا حصہ بنایا ہے۔
اس ناول کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذوقی ایک کامیاب ناول نگار ہیں۔ انھوں نے اتنی کم عمری میں اتنا خوبصورت اور اچھوتا ناول ترتیب دیا ہے۔ باوجود اس کے کہ اُس وقت ان کے پاس زندگی کو دیکھنے یا سمجھنے کی زیادہ صلاحیتیں موجود نہ تھی۔ انھوں نے اپنی کمسن فکر کو الف کے کردار میں ڈھال کر اس ناول میں ہر جگہ خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے۔
نیلام گھر
نیلام گھر مشرف عالم ذوقی کا دوسرا ناول ہے جو ۱۹۸۰ء میں انھوں نے پورا کر لیا تھا۔ یہ ناول ۲۶۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ذوقی نے اس ناول کے ذریعے ظلم و نا انصافی کے خلاف اعلان کیا ہے اور ایک منظم تحریک چلانے کی دعوت دی ہے۔ اس ناول میں انھوں نے لوگوں کی روز مرہّ کی زندگی، ان کے حالات و مسائل، پولیس کے ظلم و ستم اور عیاشی، عورتوں کی سماجی حیثیت اور ان کے مسائل مشترکہ تہذیب و کلچر، فرقہ وارانہ فسادات اور سماج میں پھیلی ہوئی برائیاں سبھی کی جھلک پیش کی ہے۔ انھوں نے عورتوں کے ساتھ جو ظلم و ستم، ان کی عزت اور عصمت کو نیلام کیا جاتا ہے اور ان کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اُٹھا یا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے استحصال کو خصوصی طورپر اجاگر کیا ہے۔ پروفیسر علیم اللہ حالی ایک سہ ماہی رسالہ ’’عالمی جائزہ‘‘ میں نیلام گھر کے متعلق لکھتے ہیں :
’’نیلام گھر کی ایک خوبی تو یہ ہے کہ اس کی کہانی میں حیرت انگیز Compactness کے ساتھ عصر حاضر کے متعددمسائل اس طرح پیش کر دئیے گئے ہیں کہ یہ مسائل بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک تسلسل میں عصری ماحول کی آئینہ برداری کر دیتے ہیں۔ یہاں فکر و فلسفہ بھی ہے، مذہب کی معنویت پر بھی بحث ہے، سیاست کی شوریدگی بھی موضوع گفتگو بنی ہے۔ معاشرے کے کئی مسائل بھی ہیں۔ اخلاقیات، انسانی تقدس، جنسی فسادات یہ سب امور ایک فکری ترفع کے ساتھ ناول کے نا گزیر حصے بن گئے ہیں۔ ‘‘ ۶؎
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’نیلام گھر ‘‘ کا پلاٹ پیچیدہ ہے۔ ناول کی ابتداء جہان پور کے ہندومسلم فساد سے ہوتا ہے۔ پھر یہ ناول فلیش بیک میں چلا جاتا ہے۔ جہاں ذوقی نے انجم کے ذریعہ سماج میں پھیلی تیز بدبو جو زندگی کے ہر شعبے میں پھیلی ہوئی ہے اور آزادی کے بعد کے ہندوستان کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ناول میں بہت سارے واقعات ایک کے بعد ایک آشکار ہوتے رہتے ہیں۔ جس کو ذوقی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایک لڑی میں پرویا ہے۔
اس ناول میں کریم بیگ ان کے والد ظفر بیگ، ان کی اہلیہ رضیہ، رحیم چاچا جو بیگ خاندان کے ایسے فرمانبردار خادم ہیں جن پر قرابت داری کا شبہ ہوتا ہے۔ ان کی بیٹی سلمہ ہے جو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ سلمیٰ سے ’’مس نیلی‘‘ بن جاتی ہے۔
مس نیلی کی موت پورے آفس والوں اور شہر کے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے کہ وہ کون تھی؟ سب اسی پس و پیش میں تھے کہ اس لا وارث کا وارث کون ہو گا؟ کوئی بھی اس کی لاش لینے نہیں آیا۔ کریم بیگ کا ضمیر جاگتا ہے اور وہ اس کی لاش کو لینے ہسپتال جاتا ہے۔ پولیس اس پر شک کرتی ہے کہ تم فرقہ پرست اور دہشت پرست جماعت سے تعلق رکھتے ہو۔ کریم بیگ مس نیلی کا ماضی بتاتا ہے مگر پولیس کو اس کی بات پر یقین نہیں آتا یہاں ذوقی نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا اور اس کو ثابت کرنا کتنا آسان کام ہے۔ اس حادثہ سے کریم کو اپنی نوکری گنوانی پڑتی ہے۔
سلمہ کی موت کے بعد دفتر سے لے کر شہر تک ایک بد بو پھیل جاتی ہے۔ جس کا علم کسی کو نہیں ہوتا کہ یہ کہاں سے آ رہی ہے اور نہ کوئی اس کا علاج کر پاتا ہے۔ بدبو زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو جاتی ہے۔ ذوقی نے المیہ یہ بتایا ہے کہ نہ ہندوستان کے لوگ ہندوستان میں خوش ہیں اور نہ پاکستان کے لوگ پاکستان میں سب مذہب سے بیزار ہیں اور روزی روٹی کے چکر میں ضمیر فروشی پر مجبور ہیں۔ انجم اس ناول میں برائیوں کو دور کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لئے اس کو کافی جد و جہد کرنی پڑتی ہے اور پھر اس کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی جگہ امت کو مل جاتی ہے۔ کریم بیگ کا آزاد خیال بیٹا انجم، رگھوپتی سہائے کا بیٹا اور انجم کا دوست امت اور اس کے بعد امت کی بہن نمیتا ان سبھی کے تال میل سے اس ناول کا منظر نامہ مکمل کیا گیا ہے۔ نوکری سے نکالے جانے کے بعد کریم بیگ محلے کی ایک مسجد میں امامت کر لیتا ہے لیکن کچھ ہی دنوں بعد وہ اس لائق بھی نہیں رہتا ہے تووہ مسجد میں صرف نماز پڑھنے جاتا ہے۔ مگر وہی لوگ جو اس کو جھک کر سلام کیا کرتے تھے آج کوئی ان کا ادب نہیں کرتا ہے۔
یہ ناول ابتداء سے ہی قاری کو تجسس کی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ کریم اور انجم سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے اس کی دلچسپی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور قاری تمام حقیقتوں سے واقف ہو جاتا ہے۔
نیلام گھر کے کردار اس عہد کی زندگی کے سیاسی، سماجی صورت حال کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں۔ جس سے عصری زندگی اپنی تمام خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے۔ نیلام گھر میں کوئی کردار غیر ضروری نہیں ہے۔ کریم بیگ سے لے کر دفتر کے صاحب اور چپراسی تک کے کردار مختلف واقعات اور حالات کی پیش کش میں اہم رول ادا کرتا ہے۔
کریم بیگ اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ پورا ناول اسی کردار کے فعل و عمل پر منحصر ہے اس اعتبار سے کریم بیگ ناول کی روح ہے۔ اس کی شخصیت متضاد کیفیت کی حامل ہے۔ ایمانداری اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہ پوری زندگی حالات سے سمجھوتا نہیں کرتا بلکہ ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ وہ تنہا ہوتے ہوئے بھی پورے سماج کی برائیوں سے لڑتا ہے اور حوصلہ نہیں کھوتا۔ کریم بیگ جس آفس میں کام کرتا ہے وہاں اسے درندہ صفت شخص صاحب کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مس نیلی کی لاش لیتے وقت پولیس بھی اس پر شک کرتی ہے اور فرقہ پرست اور دہشت پسندجماعت سے تعلق رکھنے کا الزام لگاتی ہے۔ آخر کار کریم بیگ ملک میں پھیلی بد حالی اورسماج میں پھیلی ہوئی برائیوں سے تنگ آ جاتے ہیں اور ان سب سے لڑتے لڑتے اپنی جان دے دیتے ہیں۔
انجم کریم بیگ کا بیٹا ہے اور اس ناول کا مثالی کردار۔ ذوقی ناول کے اس مثالی کردار کے بارے میں بتاتے ہیں :
’’میں نے انجم کے کردار میں ایک ایسے بزرگ کو دیکھنے کی ضرورت محسوس کی جس کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ نیلام ہو رہا ہے __بدلتے ہوئے وقت سے رشتے بے معنی ہو چکے ہیں __قدریں ختم ہو چکی ہیں۔ مذہب صرف خوف کی علامت کے طور پر رہ گیا ہے۔ اور یہ فاتح انسان اپنی بربادیوں کا جشن منا رہا ہے۔ ‘‘ ۷؎
انجم کا کردار اس ناول میں نوجوان نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ سیاست کے سبب سماج میں پھیلی برائیوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے اور اپنی کوششوں کے ذریعہ عوام میں بیداری لانا چاہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اسے جیل کی تکلیفیں بھی برداشت کرنا پرتا ہے۔ لیکن ان مشکلات کے باوجود وہ پر عزم رہتا ہے۔ انجم برائیوں کو روکنا چاہتا ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ تم لوگ ابھی سوئے ہو اس پھیلی ہوئی بد اخلاقی کے باوجود آج ہمیں جاگنا ہے اور جو کچھ کرنا ہے وہ ہمیں خود ہی کرنا ہے۔
اس کے علاوہ ناول کے اہم کرداروں میں ظفر بیگ، مس نیلی، امت، رضیہ، نمیتا، رما کانت ہیں۔ ایک کردار صاحب کا ہے جو ایک درندہ صفت کردار میں ہمارے سامنے ہے وہ منفی پہلوؤں کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے۔
ذوقی کے مکالمے عمدہ قسم کے ہوتے ہیں۔ کرداروں کی حیثیت کو مدّ نظر رکھ کر مکالمے کہلواتے ہیں یوں تو ذوقی اپنے ناولوں میں مکالموں کا استعمال موقع محل کے لحاظ سے ہی کرتے ہیں۔ جو ایک اچھے ناول نگار کی پہچان ہوتی ہے کہ اس کے ناول میں ضرورت کے تحت ہی جملوں اور مکالموں کا استعمال ہو۔ نیلام گھر کی پوری کہانی واحد متکلم غائب کی زبانی کہی گئی ہے۔ اس بیچ میں ناول کے کرداروں کے درمیان گفتگو کے ذریعے کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اور یہ مکالمے کرداروں کی ذاتی کیفیات سے بھی واقف کراتے ہیں۔
’’رگھوبیر نے ٹھنڈی سانس لی ……..میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ لوگ کہتے ہیں ایک بار جیل چلے جانے سے عزت پر آنچ آ جاتی ہے ………‘‘
’’بیوقوف ہیں ایسے لوگ جو الزام اوراس کی روشنی پر غور نہیں کرتے۔ ‘‘
’’کریم کی آنکھیں چمک اُٹھیں ……..‘‘ اور پھر تو میں سچ کے نام پر جیل گیا تھا۔ ‘‘ ۸؎
ذوقی نے اپنے ناولوں میں منظر کشی کم کی ہے۔ مگر جہاں کی ہے وہ ایک کامیاب منظر کشی ہے۔ ذوقی نے اس ناول میں فسادات کے بعد کے منظر کو اپنے قلم کے ذریعے قاری کے سامنے رکھا ہے جس کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مناظر ہمارے سامنے ہی ہو رہے ہیں۔
’’سبزی فروشوں اور پھل والوں کے خوانچے بھی اداس تھے …….شاہراہ پر ویرانی سمٹ آئی تھی………لوگ سجدے میں پڑے تھے اور اپنی گمشدہ دعائیں تلاش کر رہے تھے ……..بڑی بڑی دکانوں کے شٹر گرے ہوئے تھے ………اس وقت خرید تا……….سب موت سے خوف زدہ تھے کہ کون جانے کب بدبو کا ایک تیز ریلا آئے اور سب کو بہا کر لے جائے ………ریڈیو سے بار بار اعلانات نشر ہو رہے تھے ………..بدبو کی تیز لہر نے ساری فصل جلا ڈالی ہے ………زبردست قحط سالی کا امکان………‘‘ ۹؎
اس ناول میں ہر کردار کی زبان سیدھی سادی اور روز مرہ کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس میں ہندی اور بھوجپوری زبان کے الفاظ اور محاورے کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ نیلام گھر کی زبان بے تکلف ہے بے ساختہ طرزِ ادا کی وجہ سے واقعات کی پیش کش بے حد موثر ہے۔ کہانی کہنے کے فن میں ذوقی کو مہارت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر واقعہ دوسرے واقعہ کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اسلوب بیانیہ ہے۔ ان کے ہر ناول کو لکھنے کا انداز منفرد ہے یہی وجہ ہے جو ان کو دوسروں سے الگ کرتی ہے۔ ذوقی اپنے ناول میں فلیش بیک اور فلیش فارورڈ دونوں تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے ماضی کی ایسی تصویر پیش کی ہے اور ماضی کو حال میں اس طرح سمویا ہے کہ سب کچھ حال میں گزرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
غرض کہ ’’نیلام گھر ‘‘ فکری اور فنّی اعتبار سے ایک اہم ناول ہے۔ ’’نیلام گھر‘‘ اپنے تاریخی موضوع، مصنف کی تخلیقی صلاحیت، فنّی مہارت اور فکرو فن کے حسین امتزاج کے باعث اردو کا شاہکار ناول ہے۔ اس ناول میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں کردار نگاری بہت بہتر انداز میں پیش کی گئی ہے۔ کرداروں کے لب و لہجہ سے ان کے ماحول کی نمائندگی ہوتی ہے مکالمے کرداروں کی مناسبت سے لکھے گئے ہیں۔ جس سے ان کی زبان کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔
لمحہ آئندہ
مشرف عالم ذوقی اپنے ناول ’’لمحہ آئندہ‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں :
’’لمحہ آئندہ میرا علامتی ناول تھا۔ جو اب محفوظ نہیں ہے۔ ‘‘
(مشرف عالم ذوقی)
ذبح
مشرف عالم ذوقی نے اپنے اس ناول کا نام ’’ذبح‘‘ جرمن شاعر ’’ایریش فریڈ‘‘ کی نظم سے لیا ہے۔ جس میں اس نے کہا ہے کہ سست لوگوں کو ذبح کیا جائے گا اور دنیا چست ہو جائے گی، بد صورتوں کو ذبح کیا جائے گا اور دنیا خوبصورت ہو جائے گی، بے وقوفوں کو ذبح کیا جائے گا اور دنیا عقل مند ہو جائے گی، بیماروں کو ذبح کیا جائے گا اور دنیا تندرست ہو جائے گی، افسردہ دلوں کو ذبح کیا جائے گا اور دنیا خوش و خرم ہو جائے گی، بروں کو ذبح کیا جائے گا اور دنیا اچھی بن جائے گی۔
مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول اپنے خاص موضوع کی وجہ سے اہم ہے۔ اس ناول میں انھوں نے نئی ایجادات کے آنے سے مختلف پیشہ ور اور غریب طبقے پر جو اثرات ہوئے ہیں اس کی عکاسی بڑے موثر انداز میں کی ہے۔ اس ناول میں انھوں نے اس ترقی کی طرف روشنی ڈالی ہے جو صرف ایک مخصوص طبقے تک ہی محدود ہے۔ جہاں اس ترقی سے دولت مند طبقہ اور امیر اور غریب طبقہ اور غریب ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد بھی اپنے لئے دو وقت کی روٹی نہیں جٹا پاتا ہے اور یہ معاشی بدحالی اسے جرم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے اس جرم کا ذمہ دار وہ غریب طبقے کو نہیں بلکہ پورے سماجی، سیاسی و معاشی نظام کو مانتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے ناول ’’ذبح ‘‘ پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ دوپہر، شام، صبح کچھ گردشِ ماہ و سال۔ اس ناول کا ہیرو عبدل ہے جو ایک بہشتی ہے۔ مشک سے پانی بھر نا اس کا خاندانی پیشہ ہے۔ تبدلی وقت اور حالات کا شکار، جہاں ایک طرف جاگیر دار اور زمیندار لوگ ہیں وہی روایتی مشک لیے عبدل جیسے لوگ ہیں جو بدلتے وقت اور حالات کے بے رحم ہاتھوں مجبور اور بے بس ہیں۔ عبدل کا باپ اپنی خاندانی مشک اس کو سوپنتے وقت بہت خوش تھا۔ لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ یہ پیشہ اسے نہ صرف اس عمارت سے دور کر دے گا۔ بلکہ دو وقت کی روٹی کا بھی محتاج بنا دے گا۔ اور زندگی نہ صرف اس کے لئے بلکہ اس کے پورے خاندان کے لئے عذاب بن جائے گی۔ اسے کیا معلوم تھا کہ یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے۔ اس نے تو صرف خوشحالی کے دن دیکھے تھے۔ حویلی کی شان و شوکت دیکھی تھی۔ لیکن تبدیلی وقت اور حالات نے سب کچھ برباد کر دیا۔ ذوقی اس کا بیان یوں کرتے ہیں :
’’غلامی کے زمانے تک سب ٹھیک ٹھاک چلا۔ پھر آزادی کی نئی اڑان نے سب کچھ ختم کرنا شروع کر دیا۔ چودھریوں کی چودھراہٹ مر گئی۔ پا کستان بنا تو گلی چھوڑ چھوڑ کر لوگ پاکستان جانے لگے۔ ساری جائیداد اونے پونے بیچ کر لوگ چلے گئے۔ چودھریوں کے محلے اور چودھراہٹ بھی ختم ہو گئی۔ چودھری خاندان پر زوال آ گیا۔ ‘‘ ۱۰؎
بہشتی کا خاندان جب پوری طرح ٹوٹ جاتا ہے۔ تو چودھری کا بیٹا جو خاندان کے خلاف آفیسر بن جاتا ہے۔ وہ عبدل کے ساتھ ہوئے ظلم اور زیادتی کی تلافی کرنا چاہتا ہے جو اس کے خاندان والوں نے عبدل کے ساتھ کی تھی۔ وہ عبدل کے بیٹے اسلم کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ مگر اسلم زندگی کے نشیب و فراز کو بخوبی سمجھ چکا ہے۔ وہ رکشہ چلانا، چوری کرنا اور قتل کرنا زندگی گزارنے کے لئے بہترسمجھتا ہے۔
اس ناول’ ذبح‘ کا ایک ایک کردار جیتا جاگتا کردار ہے جو اپنے خالق کی حقیقت نگاری اور جہاں دیدہ ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ ناول میں کردار تو کئی ہیں۔ یہاں صرف کچھ اہم کرداروں پر ہی روشنی ڈالی جائے گی جیسے عبدل، چودھری رشید وغیرہ۔
عبدل اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ ذوقی نے اس کردار کو بنانے اور اس کی ظاہری اور باطنی کیفیات سے واقف کرانے کیلئے بے حد محنت کی ہے۔ یہ کردار ذوقی کے گہرے مشاہدے کا نتیجہ ہے۔ جس کی تصدیق خود ذوقی یوں کرتے ہیں :
’’ عبدل سقّہ کوئی فرضی کردار نہیں ہے۔ یہ کردار بچپن سے میرے ساتھ رہا ہے۔ جب سے آنکھیں کھولی ہیں تب سے اس ڈیل ڈول والے عبدل مشک والے عبد کو دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘ ۱۱؎
عبدل ایک محنتی اور ایما ن دار بہشتی ہے۔ اس کی اسی ایمانداری اور محنت کو دیکھ کر اس کے والد نے اپنی خاندانی مشک اس کو سونپی تھی۔ لیکن جب پانی کی قلت کو پورا کر نے کے لئے نئی ترکیب وجود میں آئی تو گھر گھر میں چا پا کل لگنے لگے۔ جس کی وجہ سے عبدل جیسے ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی ایک مسئلہ بن گئی۔ اس کی وجہ سے عبدل جیسا قوی ہیکل جسامت رکھنے والا شخص بھی وقت کے ساتھ خود کو لاچار اور بے سہارا محسوس کرنے لگتا ہے۔ کیونکہ اس کو کوئی دوسرا کام نہیں آتا۔ وہ بہت سارے کام کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے جیسے رکشہ چلانا، بجلی کا کام کرنا مگر وہ سب میں ناکام ہو تا ہے اور آخر میں حالات سے مجبور ہو کر وہ بھی چوری کرنے لگتا ہے۔
ناول کا دوسرا کردار چودھری رشید بھی اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ خاندانی جاہ و جمال، عزت و افتخار اور پرانی روایتوں کی علامت ہے۔ وہ پرانی قدروں کا قدر شناس ہے۔ تقسیم کے بعد بھی وہ اپنے دوستوں اور پرانی روایتوں کی یاد کو سینے سے لگاتا ہے اور خاندانی وقار، جاہ و جمال کابکھرنا موت سے کم نہیں سمجھتا۔ اس خاندانی وقار کی پستی اور شکست و ریخت کا دور دیکھ کر چودھری کے آنسو نکل آتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے اس ناول میں مکالموں کے ذریعہ سے اپنے خیالات اور غریب طبقے کی لاچاری اور ان کے جذبات کی عکاسی کی ہے۔ جب چودھری اپنے گھر میں چاپا کل لگواتا ہے تو عبدل کو اپنے پشتینی کام کی موت صاف نظر آنے لگتی ہے۔ ذوقی اس ناول میں لکھتے ہیں کہ جب کوئی امیر یا دولت مند شخص کسی غریب کو نوکر رکھتے ہیں تو وہ اسے ’ذبح ‘ کرتے ہیں۔ عبدل اور چودھری کے یہ مکالمے ملاحظہ ہو:
’’مزدوروں نے چاپا کل سے گندے پانی کی دھار نکال دی تھی۔ اب مزدور شور مچا رہے تھے۔ چاپا کل ’عبدل‘ کو کسی خبیث کی طرح نظر آ رہا تھا۔
’’آتے رہنا‘‘ عبدل کی آواز لڑکھڑائی ………
’’میں کہاں جاؤں گا چودھری صاحب………میرا کیا ہو گا؟‘‘
’’تم دیکھتے نہیں۔ ترقی ہو رہی ہے۔ ‘‘ چودھری نے خوش ہو کر کہا۔
’’اب چھوٹے چھوٹے شہر بھی پانی اور بجلی کے معاملے میں خود کفیل ہونے لگے ہیں۔ ترقی ہو گئی تو نئی چیز پرانی پڑے گی۔ ایک نئی چیز آئے گی، دیکھتے نہیں، پہلے جوتے چمارسے خریدتے تھے اب الگ الگ کمپنیاں آ گئی ہیں۔ نئے نئے ماڈل کے جوتے …….‘‘
’’یعنی میری ضرورت ………….‘‘
یہ آواز ایسی ہی تھی جیسے ڈاکٹر نے مریضوں کے رشتہ دارسے کہا ہو۔ ’’بچنے کی صورت ایک فی صدی بھی نہیں ہے۔ ‘‘ تھکا ہارا عبدل جس وقت میرے کمرے سے گزر رہا تھا۔ برسوں کا بیمار نظر آ رہا تھا۔ ‘‘ ۱۲؎
اس مکالمے کے ذریعے ذوقی نے بہت ہی خوبصورتی سے غریب طبقے کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ ذوقی نے اپنے اس ناول میں غریبی، بے بسی اور لاچاری کی زندگی کے مناظر پیش کئے ہیں۔ عبدل کی بیوی بیمار ہے مگر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کا علاج نہیں کر پاتا ہے اور بیماری میں رہنے کی وجہ سے اس کی حالت ایک معذور انسان کی سی ہو گئی ہے۔ اب وہ اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہیں کر سکتی ہے اور بستر مرگ پر ایک زندہ لاش کی مانند پڑی رہتی ہے اور اس کو کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔
اس ناول میں ذوقی نے بہت ہی سیدھی سادی زبان کا استعمال کیا ہے۔ انھوں نے لفظوں کو برتنے سے زیادہ کہانی کو برتنے میں اپنی محنت صرف کی ہے اس کے ساتھ اظہار کا ایسا طریقہ اختیار کیا ہے کہ پڑھنے والا ان تمام کیفیات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ذوقی نے یہاں دیہاتی زبان کا استعمال کیا ہے، اور اس کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ ناول کا اسلوب بیانیہ ہے۔
کسی بھی فن پارے کی تخلیق میں تکنیک ایک اہم حصہ ہے۔ فن پارہ کسی مخصوص تکنیک کے سہارے وجود میں آتا ہے۔ ذوقی نے اس ناول میں بظاہر بیانیہ تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ لیکن جب پورے ناول کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسمیں کہیں کہیں فلیش بیک تکنیک کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
ذوقی نے اس ناول ’ذبح‘ کے ذریعہ اس پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ تقسیم ملک کے بعد ہندوستان کے مسلمان دو طرح کی شہریت رکھتے تھے۔ دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا المیہ یہ تھا کہ اس کے ساتھ ہونے والے سوتیلے سلوک نے مسلمان کو اقتصادی طور پر کمزور بنا دیا تھا۔ ذوقی نے اسی اقلیتی طبقے کو بیانیہ کے طور پر اس ناول میں ہیرو بنایا ہے۔ جو دھیرے دھیرے وقت اور زمانے کی تیز چھری سے ذبح کیا جا رہا ہے۔ شاہد پرویز ذوقی کے اس ناول کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ذبح‘ سال کا کوئی ایسا عام ناول نہیں بلکہ ہمارے بیوروکریٹ نظام اور قدم قدم پر نسانی سوچ و اقدار کا استحصال کرنے والے سسٹم کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ ’ذبح‘ کو ناول کے جس انعامی زمرے میں رکھا گیا …… وہ سوچ کر اس کمٹمنٹ کی تذلیل ہے جو مصنف اس پورے سماجی استحصال کے خلاف کرتا ہے۔ بے شک ’ذبح‘ ملک اور انتظامیہ کے خلاف ایک زبردست احتجاج ہے اور مجھ سمیت آج بیشتر لکھنے والے اس احتجاج میں مشرف عالم ذوقی کے ساتھ ہیں۔ ‘‘ ۱۳؎
ناول اپنے موضوع، کردار، زبان و بیان و تکنیک کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ اردو ناول نگاری کی تاریخ میں اسے اہم جگہ دی جائے اور مشرف عالم ذوقی کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے۔
بیان
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’بیان‘‘ ۱۹۹۵ء میں ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع ہوا۔ اس ناول کا موضوع ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی مسماری کے بعد ملک میں ہونے والے واقعات اور سیاسی و سماجی طور پر ہونے والی تبدیلیوں پر مبنی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے دو خاندان اور ان کے افراد خاندان کے ذریعے اس کہانی کا تانا بانا بُنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ہندوستانی سیاسی پارٹیوں جیسے کانگریس، بی۔ جے۔ پی اور آر۔ ایس۔ ایس اور پویس کے رول پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اس ناول میں ٹوٹتی ہوئی تہذیبی قدروں کا ماتم بھی ہے۔ جس کی علامت چودھری برکت حسین اور بالمکند شرما ہیں۔ وہ پرانی روایت اور تہذیب کے پرستار ہیں اور نئے زمانے کی برائیوں اور بدلتی ہوئی قدروں سے پریشان اور فکر مند ہیں۔ خاص طور سے بابری مسجد کے سانحے کے بعد جس تیزی سے معاشرے میں اخلاقی قدروں کا زوال ہوا اور فرقہ واریت سامنے آئی ہے۔ ذوقی نے اس کی مثال اس ناول میں بڑی ہنر مندی سے پیش کی ہے۔
ناول ’’بیان ‘‘ کی کہانی بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اس کہانی میں واقعات بڑے فطری انداز سے رونما ہوتے ہیں اس ناول کا پلاٹ سادہ اور مربوط ہے۔ اس ناول کا آغاز نئی اور پرانی نسل کی کشمکش سے ہوتا ہے اور یہ تصادم اس ناول میں شروع سے لے کر آخر تک بنا رہتا ہے۔ دو فکروں اور دو خیالوں کا ٹکراؤ عمر کی سطح پر، تہذیب کی سطح پر اور مذہب کی سطح پر ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ نئی نسل اپنے انداز سے سوچتی ہے اور پرانی نسل اپنی تہذیب کو گلے لگائی ہوئی ہے اور اندر ہی اندر کڑھتی رہتی ہے۔ پھر ناول میں وہ دور پیش کیا گیا ہے جو ۶ دسمبر کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں مذہب کے نام سے سیاست کی جاتی ہے۔ سماج میں نفرت پھیلائی جاتی ہے اور پورا معاشرہ مذہب کے خانوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کے برکت حسین کہتے ہیں :
’’ابھی اینٹھو مت زیادہ جوش بھائی ………… وہ دن آئے گا جب بازار میں مول کرنے جاؤ گے تو پوچھا جائے گا۔ کس کی تھالی چاہئے ……….ہندو کی تھالی یا……….مسلمان کی تھالی……….‘‘ ۱۴؎
اس ناول میں نئی نسل کی نمائندگی تنویر حسین، نریندر اور انیل کرتے ہیں۔ تنویر مسلم نوجوان، نریندر بھارتیہ جنتا پارٹی، اور انیل کانگریس کے کردار کی علامت ہیں۔ ان نوجوانوں کے خیالات کے ذریعے ان کی پارٹیوں کے نظریہ کو بھی بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کرداروں کے اندر مذہبی تعصّب سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ ہی پیدا کیا ہوا ہے۔ جبکہ ان کے نہاں خانوں میں پرانی تہذیبی روح موجود ہے، لیکن سیاست اور ماحول کے اثر سے وہ بری طرح زخمی نظر آتے ہیں۔ اس کا اندازہ ہم اس واقعے سے لگا سکتے ہیں، جب نریندر کی بیٹی مانو بیمار ہوتی ہے تو تنویر حسین اور اس کی بیوی دن رات ایک کر کے اس کا علاج کرواتے ہیں۔ جب تنویر حسین کے قتل کا پروگرام بنایا جاتا ہے تو نریندر کے دل میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ انکار کرنا چاہتا ہے مگر سیاست اُسے یہ قدم اُٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
مشرف عالم ذوقی اس ناول میں مسلم نوجوانوں کی کیفیات کو تنویر حسین عرف منّا کے کردار میں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ ہندوستان کے باشندے ہیں اور اسے اپنا وطن مانتے ہیں تو دوسری طرف انہیں غدار اور پاکستانی جیسے الفاظ سے نوازا جاتا ہے اور انہیں غیر ملکی تصور کیا جاتا ہے۔ اسے بات بات میں ’’میاں ‘‘ کہا جاتا ہے، طعنے دیے جاتے ہیں۔ انہیں حالات سے گھبرا کر کبھی وہ غیر ممالک جانے کا ارادہ کرتا ہے تو کبھی وہ بی۔ جے۔ پی جوائن کر لیتا ہے۔ مگر اس کا دل گوارا نہیں کرتا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازش کرے۔ اس لیے وہ بھاجپائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ مگر بھا جپائیوں نے اس کے قتل کی اس طرح سازش کی کہ اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہو جائے تاکہ ایک بھاجپائی کے بہانے پارٹی کو فساد کرنے کا موقع مل جائے۔
اس ناول میں اس کے ساتھ ساتھ ایک نسل اور پروان چڑھ رہی ہے۔ جسے عرف عام میں تعلیم یا فتہ بے روز گار طبقہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایسی نسل ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی بے روز گار ہے اور یہ نوکری کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہی ہے۔ اس کے سامنے زندگی کا وسیع میدان ہے اور جد و جہد کا راستہ ہے۔ تمام مورچوں پر ناکامی کے بعد یہ اپنے دل و دماغ کو بہلانے کے لیے شاعری ادب اور فنون لطیفہ کا سہارا لیتی ہے اور تخیل کے سہارے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس نسل کی نمائندگی ’’پانچ پاپی‘‘ کرتے ہیں۔ جو سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، اور زندگی کی انہیں پریشانیوں میں گرفتار ہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے اپنے ناول ’’بیان‘‘ کے ذریعے بھارتیہ جنتا پارٹی کے اصول کارکردگی، کانگریس کا رویہ اور ان سب کے ساتھ عوام کی پریشانیوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ سیاست داں کس طرح سے دنگے کرواتے ہیں اور اس کے پیچھے ان کا کیا مقصد ہوتا ہے اس ناول میں بڑی خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔ بند کمروں میں کس طرح لوگ پلاننگ کرتے ہیں۔ سیاست کی چال کس طرح چلی جاتی ہے اور فسادات کے بعد عوام کی ہمدردی کیسے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ سب اس ناول میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
بالمکند شرما جوش اور چودھری برکت حسین ہمیشہ اپنے پرانے وقت کو یاد کر کے اس کا ماتم کرتے ہیں۔ برکت حسین تو کچھ حد تک سمجھوتا کر لیتے ہیں مگر بالمکند شرما جوش وقت اور حالات سے سمجھوتا نہیں کر پاتے اور ’’الزیمزس‘‘ کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔ ان کے ’’بیان‘‘ کو ضائع کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اردو میں لکھا ہوتا ہے۔
یوں تو بیان میں کرداروں کی تعداد اچھی خاصی ہے مگر اس ناول کا مرکزی کردار ’’بالمکند شرما جوش‘‘ کو مشرف عالم ذوقی نے خاص طور سے رچا ہے۔ اس کردار کے بارے میں وہ ایک انٹر ویو میں کہتے ہیں :
’’آ رہ کے چھوٹے سے شہر میں اس کردار کو میں نے دیو نند سہائے پارسا آروی اور جین صاحب کی شکل میں اتنی بار دیکھا کہ جب بیان لکھنے کا وقت آیا تو یہ دونوں کردار مجھ پر حاوی ہو کر ایک زندہ کردار میں بدل گئے۔ بالمکند شرما جوش کی کردار نگاری ایک مشکل فن ہے اور یہ ریاضت چاہتی ہے۔ ‘‘ ۱۵؎
اس ناول کے اہم کرداروں میں بالمکند شرما جوش، چودھری برکت حسین، تحسین حسین عرف منّا، انیل، نریندر، ملکانی، ڈاکٹر نریندر، امر جیت، نیل کنٹھ، فیض سقراطی، احمد ربانی، تنویر حبیب، باقر مرزا اور نسوانی کرداروں میں مالو، اوما، تلسی، جمیلہ اور شمیم عرف شمّی وغیرہ ہیں۔ لیکن ان میں سے کچھ کرداروں پر روشنی ڈالی جائے گی۔
اس ناول میں بالمکند شرما جوش کا کردار ایک فلسفی، شاعر، حساس، فرشتہ صفت اور سیکولر مزاج کے انسان کا ہے۔ وہ خون خرابہ سے نفرت کرتے ہیں اور ہندو مسلم روایت اور مشترکہ تہذیب کا نمونہ ہیں۔ ان کے دل و دماغ کو فسادات نے تار تار کر دیا ہے۔ وہ ایسی شخصیت کے مالک ہیں جو قدیم روایت کی پاسداری کرتا ہو۔ جسے وطن سے محبت ہو اور انسانی دوستی رگ رگ میں سمائی ہو۔ ایسے لوگ اس زہریلی اور آتش فشاں فضا میں کیسے خوش رہ سکتے ہیں اور ان ہی حالات کی وجہ سے یہ بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ خبطی بھی۔ چونکہ بالمکند شرما جوش حساس انسان ہیں۔ اس لئے فرقہ وارانہ فساد کے ہولناک منظر کی تاب نہ لا کر ان کی موت ہو جاتی ہے۔ ان کو مرنے سے پہلے اپنی موت کا احساس ہو گیا تھا اور وہ مایوس تھے کیوں کہ ان کے سارے خواب پاش پاش ہو گئے تھے۔
دو بیٹے ہونے کے باوجود بالمکند اپنے آپ کو بے وارث سمجھتے ہیں کیونکہ اُن کی غور و فکر کو ماننے اور سمجھنے والا کوئی نہیں۔ اسی وجہ سے ان کی زندگی گھٹتی اور سسکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسے ماحول میں جہاں ہندومسلمان میں فرق کیا جاتا ہے اور گھر کے حالات اور ملک میں ہو رہے فسادات نے جوش کو اتنا متاثر کیا کہ ان کو بھولنے کی بیماری ہو گئی۔ اسی صدمہ نے آخر میں ان کی جان لے لی۔ ناول نگار یہ بتانا چاہتا ہے کہ سماج میں کچھ فی صدی افراد مثبت سوچ رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔
برکت حسین اس ناول کے ایک با عزت انسان ہیں اور پرانی تہذیب کے قائل ہیں۔ وہ ملک اور شہر میں ہونے والے فساد سے فکر مند نظر آتے ہیں۔ وہ بالمکند شر ما جوش کے دوست ہیں اور دونوں ایک ہی محلّہ میں رہتے ہیں۔ دونوں دوست ہم خیال ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام بھی آتے ہیں۔ آپس میں گفتگو کر کے اپنے دل کا غبار بھی نکالتے ہیں۔
نسوانی کرداروں میں اوما کا کردار دیر پا اثر چھوڑتا ہے۔ وہ بالمکند شرما کے بیٹے نریندر کی بیوی ہے۔ وہ مسلمانوں سے نفرت کرتی ہے۔ جب برکت حسین اس کے گھر آتا ہے تو ان کی آمد اوما کو نا گوار گزرتی ہے۔ لیکن جب اس کی بیٹی مالو بیمار پڑتی ہے تو منّا اور اس کی بیوی شمیم مالو کو ہاسپٹل لے جا کر اس کی جان بچا لیتی ہے۔ اوما اسی وقت سے ا ن لوگوں کی گرویدہ ہو جاتی ہے اور نہ صرف وہ اس کے گھر آنے جانے لگتی ہے بلکہ وہ ان کے گھر کا کھانا بھی کھانے لگتی ہے۔
بیان کے مکالمے آج کے زہر آلود ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ذوقی کے مکالمے حقیقت پر مبنی ہیں اور بھاجپا، آر۔ ایس۔ ایس یا بجرنگ دل جیسی سیاسی جماعتوں کو خوب سمجھ کر ہی یہ مکالمے لکھے گئے ہیں۔
اس ناول میں انھوں نے ایک بیٹے کی وجہ سے باپ کو جو مصیبت جھیلنی پڑ رہی ہے اس کو بھی بیان کیا ہے کہ بیٹے کی وجہ سے سیکولر باپ بھی شک کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے بدلتے مزاج اور سوچ کو ذوقی نے پوری طرح ابھارا ہے۔ وہ دونوں فرقے کے لوگوں کی سوچ کو اپنے مکالمے کے ذریعے قاری کے سامنے رکھتے ہیں کہ ایسے افراد دونوں طرف ہیں جو مشترکہ کلچر کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ذوقی نے گھر کی لڑائی اور فرقہ پرستی کا اثر بچوں پر کس طرح ہوتا ہے اس کو بہت فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ درج ذیل مکالمہ غور فرمائیے :
’’ایک بات پوچھوں ددّو؟‘‘
’’پوچھو۔ ‘‘
’’آپ مسلمان ہے کیا؟‘‘
کتاب پڑھتے پڑھتے وہ ایسے چونکے جیسے کسی نے انجانے طور پر عقب سے حملہ کر دیا ہو۔ وہ غصے میں گھوم گئے۔ ’’کیوں ؟‘‘
’’آپ اردو پڑھتے ہیں۔ ‘‘ مالو معصومیت سے بولی۔ انھوں نے گھبرا کرمالو کو چھوڑ دیا۔ ہکّا بکّا اسے دیکھتے رہے پھر زور سے ہنس پڑے۔
’’مسلمان کیسے ہوتے ہیں ؟‘‘
’’ایک دم گندے۔ ‘‘ ددّو کھلے تو مالو ڈر بھول کر معصومیت کی رو میں بہتی گئی۔ ’’برے کیسے ؟‘‘
’’وہ نہاتے نہیں ہیں نا!‘‘ ماں کہتی ہے وہ گھر کو گندہ رکھتے ہیں، جانوروں کو مارتے ہیں اور………‘‘ ۱۶؎
یہ مکالمہ ہمارے سماج کی سچی تصویر کو پیش کرتا ہے۔ ہر معاملے میں ذات پات کے فرق اور فرقہ پرستی کی کوشش نے انسان کو اپنی سطح سے کتنا گرا دیا ہے۔ اس کا اندازہ ہم اس مکالمے سے با آسانی لگا سکتے ہیں۔
کامیاب ناول نگاری کا ایک پہلو منظر نگاری بھی ہے۔ اور اچھی منظر نگاری کے لئے مشاہدہ اور زبان و بیان پر قدرت لازمی ہے۔ ناول میں منظر کشی اس طرح کرنی چاہئے کہ ان کی اصل تصویر آنکھوں کے سامنے آ جائے۔ ذوقی نے اپنے اس ناول میں فساد اور اس سے پیدا ہونے والے ہولناک ماحول اور فضاء کو بہترین انداز سے پیش کیا ہے۔ اس کی وضاحت ہم اس اقتباس سے کر سکتے ہیں۔
’’……دروازہ بند تھا۔ کرفیو کے بعد کا سناٹا کتنا ظالم ہوتا ہے …….جیسے ہوائیں مقتل
گاہ میں شور کر رہی ہیں ……….جیسے کسی قبرستان کا ہولناک سناٹا ہو…….چمگادڑیں اور سوؤروں کی منحوس آوازیں گونج رہی ہیں ………شاخوں سے الّو بلو رہے ہوں ……..درخت ہلتے ہوں اور ایک وحشت ناک سناٹگی۔ اندر تک تیزاب الٹ دیتی ہو…..صبح ہوئی دروازہ کھولیں ……… ’’منّا نہیں آیا، کیوں نہیں آیا؟‘‘ ۱۷؎
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے مسلمانوں کے جذبات کو بری طرح مجروح کیا۔ مسلمان محسوس کرنے لگے تھے کہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو خطرے میں ہے۔ سہمے ہوئے مسلمانوں کے جذبات ذوقی اس طرح پیش کرتے ہیں :
’’زمانہ خراب ہے، مسلمانوں کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔ ‘‘ ۱۸؎
اس ناول کی زبان و بیان میں سادگی، سلاست اور روانی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ناول میں ذوقی نے اردو کے ساتھ ساتھ ہندی زبان کا استعمال بھی خوبصورتی سے کیا ہے۔ ان کو اردو کے ساتھ ساتھ ہندی زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔ ناول کی فضاء چونکہ ہندو اور مسلم کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اس لئے ناول میں ہندی بولنے والے بھی ہیں اور اردو بولنے والے بھی ہیں۔ بھاجپائیوں کے جلوس، میٹنگوں میں ہونے والی گفتگو میں ہندی زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’رام جنم بھومی وجئے کے بعد اب کاشی اور متھرا کی باری ہے ……..یہ رتھ چلتا رہے گا۔ اس سمئے تک جب تک ہم شتابدی پرانی داستاں کے اس وستر کو اتار نہیں پھینکتے ہیں۔ ‘‘ ۱۹؎
ناول کی زبان صاف اور روانی کے ساتھ ساتھ اس میں صنائع کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ جو ناول میں ڈرامائی حسن پیدا کرتے ہیں۔ زبان میں تمثیلوں اور استعاروں کا استعمال بھی کیا گیا ہے جو زبان کو پر کشش بناتا ہے اور ناول کو ایک حسن بخشتا ہے۔ استعاروں اور تمثیلوں میں لپٹا ہوا یہ جملہ ملاحظہ فرمائیے۔
’’تہذیب کسی بندوق کی گولی کی طرح پیدا ہوتے ہی جسم میں داغ دی جاتی تھی۔ ‘‘
’’لوگوں کے چہروں پر حیرت اُگتی تھی، ہر دن کے اخبار میں حیرت اُگتی تھی۔ ‘‘
ناول میں ذوقی نے علامتوں اور استعاروں کی چاشنی میں ڈوبے ہوئے ایسے الفاظ اور خوبصورت جملوں کا استعمال کیا ہے جو ہمارے ذہن میں بس جاتے ہیں۔ ان جملوں میں نیا پن، زبان کی لطافت کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس ناول کا اسلوب بیانیہ ہے۔ ذوقی نے اس ناول کے ذریعے سے اردو فکشن کو ایک نیا ڈکشن (Diction)، ایک نیا لب و لہجہ دیا ہے۔ جو براہ راست بیانیہ سے بھی آگے کی چیز ہے۔
ذوقی کے اس ناول کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا اندازہ ہو گا کہ بالمکند شرما جوش جو ’’بیان‘‘ دینا چاہتے تھے وہ اس ناول میں جگہ جگہ موجود ہے۔ لیکن ناول نگار نے اس بیان کو واضح نہ کرتے ہوئے قاری کے لئے ایک سوال چھوڑ دیا ہے کہ وہ کون سا بیان دینا چاہتے تھے۔ لیکن اس ناول میں انھوں نے جگہ جگہ اپنے مختلف بیانات دے کر اپنے بیان کو واضح بھی کر دیا ہے۔
یہ ساری خوبیاں مشرف عالم ذوقی میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ ناول اپنے اسلوب اور طرز فکر کی وجہ سے اس موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں میں ستائش کے لائق ہے۔ اس ناول کے سارے اشخاص، واقعات ٹھوس اور حقیقی نظر آتے ہیں۔ ذوقی کا یہ ناول ان کے مقبول ناولوں میں سے ایک ہے۔ ناول اپنے موضوع، اسلوب، زبان و بیان اور مسائل کے ذریعے قاری کے دل میں ایک دیر پا اثر چھوڑ جاتا ہے۔
شہر چپ ہے
مشرف عالم ذوقی کا ’’شہر چپ ہے ‘‘ ۲۰۸ صفحات پر لکھا گیا ناول ہے۔ جس کو انھوں نے ۱۹۹۶ء میں ’’تخلیق کار پبلیشرز، دہلی‘‘ سے شائع کیا۔ یہ ناول فلمی اور میلو ڈرامائی طرز پر لکھا گیا ہے۔ ہمارے ملک اور قوم کا المیہ ہے۔ جس میں ذوقی نے غریب طبقے کی بے بسی اور لاچاری، بے روزگاری اور انجام کار بے زاری کی عکاسی بڑی خوبصورتی سے کی ہے۔ ذوقی نے اس ناول میں اس بات کی طرف روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ بے روزگاری اور بے بسی کس طرح لوگوں کو جرم کرنے پر اکساتی ہے اور انسان اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ ’’شہر چپ ہے ‘‘ کے بارے میں عشرت ظفر لکھتی ہیں :
’’ان کا ناول ’’شہر چپ ہے ‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۲ء اس عہد کا ایک عظیم الشان منظر نامہ ہے۔ جس میں ان کی عتاب آیا آتش تخلیقیت اس طرح عروج کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب وہ اپنی کثافت کو منہا کر کے ایک سفاک آئینے کی شکل میں ڈھلتی ہے تو اس میں کرب آئینہ زندگی کی مکمل تصویر ہوتی ہے۔ اور اس تصویر میں مغرب کے رنگ اس انداز سے گھل مل گئے ہیں کہ اس امتزاج نے ایک نئی قوس قزح کو جنم دیا ہے۔ اور اس معاشرے کے خد و خال ابھرتے ہیں جس کے تار پور میں آج کا اضطراب بھی ہے، جرم و سزا بھی ہے، پشیمانی بھی ہے، احترام و تقدس، بے باکی و سنجیدگی سب کچھ موجود ہے۔ ‘‘ ۲۰؎
اس ناول کا پلاٹ سادہ ہے۔ اس ناول میں ذوقی نے غریب متوسط طبقے کی لاچاری اور بے روزگاری اور بے بسی پر روشنی ڈالی ہے۔ کہانی کا ہیرو انیل ہے۔ جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہے اور روزگار کے لئے مارا مارا پھرتا ہے۔ انیل کادوست رگھوبیر بھی پریشان اور مفلوک الحال ہے۔ دونوں اپنے حالات سے تنگ آ کر ’’سیٹھ رام اوتار‘‘ کی لڑکی ’’مینا ‘‘ کو اغوا کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں اور وہ اس میں بڑی آسانی سے کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ جس نابالغ لڑکی کو اغوا کرتے ہیں وہ اپنے گھر کے آزادانہ ماحول میں، ٹی۔ وی کے چلتے پھرتے سیریلیز اوررسالے پڑھ کر ایک انجانے خواہش اور تجسس میں گرفتار رہتی ہے کہ کوئی اسے اغوا کر کے لے جائے اور اس کے ساتھ پیار کرے۔ ذوقی نے یہاں مینا کے ذریعے ہائی سوسائٹی کے آزادانہ ماحول اور اس کا بچوں پرکیسا اثر ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ مینا ان سب واقعات کو ایڈونچر سمجھتی ہے۔ انیل اور رگھوبیر مینا کی بات سنکر حیران رہ جاتے ہیں۔ رگھوبیر تو اسی دم واپس لوٹ جاتا ہے مگر انیل اس لڑکی کو اس کے گھر چھوڑنے چلا جاتا ہے۔ جہاں مینا کا باپ اس سے مل کر خوش ہو جاتا ہے اور اپنی بڑی بیٹی کی شادی اس سے کروا دیتا ہے۔ انیل اپنے سسر کے بینک بیلنس سے تجارت شروع کرتا ہے۔
رگھوبیر پیسوں کی تنگی کی وجہ سے اپنی ماں کا علاج نہیں کرا پاتا ہے اوراس کی ماں مر جاتی ہے۔ اس کی اپاہج بہن گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ ان پریشانیوں سے تنگ آ کر رگھوبیر اپنے گھر کو بیچ کر چلا جاتا ہے۔
ناول کا مرکزی قصہ انتہائی فلمی انداز میں اختتام کو پہنچتا ہے۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد ہم با آسانی کہہ سکتے ہیں کہ ذوقی نے اس ناول کی کہانی کو عام فلمی کہانی سے کچھ الگ نہیں پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس ناول میں دو ضمنی کہانیاں بھی پیش کی ہے۔ ایک مکیش کی اور اس کے پڑوسی کیمپ کی، دوسری رگھوبیر کا پروفیسر بن جانے اور اپنے گناہ کی تلافی کرنے کی۔ مگر مکیش اور اس کے پروسی کیمپ کا واقعہ اس ناول میں کچھ اٹ پٹا سالگتا ہے۔ رگھوبیر کا احساس جرم اور اس کی تلافی کو ذوقی نے اس اندازسے پیش کیا ہے کہ یہ واقعہ ناول کو کامیاب بناتا ہے۔
ذوقی نے اس ناول کے کرداروں کے ذریعہ ہندوستان کے بے روزگار، لاچار اور بے بس نوجوانوں کی عکاسی کی ہے۔ جو حالات سے مجبور ہو کر غلط راہ پر چلتے ہیں اور اپنا سب کچھ تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ اس ناول میں کردار تو کئی ہیں۔ جیسے انیل، رگھوبیر، مینا، انورادھا، ارمیلا اور رام اوتار وغیرہ جو اس ناول کو اختتام تک پہنچاتے ہیں۔
انیل اس ناول کا مرکزی کردار ہے اور پورا ناول اسی کردار کے گرد گھومتا ہے۔ وہ پڑھا لکھا بے روزگار کردار کی حیثیت سے قاری کے سامنے آتا ہے۔ انیل ایمان دار اور سادہ مزاج کا مالک ہے۔ انیل اپنے حالات سے پریشان نوکری کی تلاش میں بھٹکتا ہے۔ جب رگھوبیر اسے اپنے پلان سے آگاہ کرتا ہے توانیل اس کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیتا ہے۔ وہ رگھوبیر کو سمجھاتا ہے کہ یہ جرم ہے۔
’’انیل بالکل‘سنناٹے میں آ گیا، ’’کیا بکتے ہو……….رگھوبیر یہ جرم ہے۔ ‘‘ ۲۱؎
حالات اور پریشانیوں سے گھیرے رہنے کی بناء پر وہ رگھوبیر کے پلان میں حامی بھر لیتا ہے مگر لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد اس کی باتیں سن کر وہ خود اس کو گھر چھوڑنے جاتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اس ناول کے مکالموں کے ذریعے اس وقت کے لوگوں کے دلی جذبات اور خیال کو قاری تک بڑی آسانی سے پہنچایا ہے۔ رگھوبیر اور انیل کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو جس میں اپنے شہر کے بارے میں اور اس کے حالات سے انیل کو آگاہ کرواتا ہے۔
’’راستہ ہے۔ ہمیں یہ ڈرنے اور بھاگنے کا کھیل اب ختم کرنا چاہئے۔ ‘‘
’’مگر کیسے ؟‘‘ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوتے۔
وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا …….. ’’نہیں رگھوبیر نہیں ……….‘‘
’’ہاں ‘‘ اس کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ جاتی۔ اور وہ سانپ کی طرح پھنکار مارتا۔ ’’سن رہے ہو انیل میری بات غور سے سنو ‘‘۔
یہ شہر مردہ ہے۔
یہاں کے لوگ مردے ہیں __بے حس اور بے جان____اور اس گھر میں جہاں تم رہتے ہو اور وہاں جہاں میں رہتا ہوں، وہاں بھی زندگی نہیں ہے ……..زندگی کہیں نہیں ہے …………کہیں زندگی نہیں ہے …… ’’اب سوچو زندگی آئے گی کہاں سے ………‘‘
ایسے لگتا ہے رگھوبیر کی آواز جیسے کسی اندھیرے کنویں سے ابھر رہی ہے اور آسمان میں دور تک ایک سرخ لکیر بچھ گئی ہے۔ ‘‘ ۲۲؎
منظر نگاری میں ناول نگار اس دور یا وقت کی منظر کشی کرتا ہے۔ جس دور یا وقت میں وہ ناول لکھ رہا ہے۔ اس میں وہ شہر، بازار، جلوس یا کسی دوسری خاص چیز کی منظر کشی کرتا ہے۔ جس سے قاری اس دور سے آگاہ ہو سکے۔ ذوقی نے اس ناول میں منظر کشی بڑے دلکش انداز میں کی ہے۔ اسکول کے میدان کا یہ منظر دیکھئے :
’’چھوٹی بڑی بچیاں اسکول کے خاص یونیفارم میں رنگین تتلیوں کی طرح چہچہاتی پھر رہی تھیں۔ اسکول کا بڑاسا میدان تھا۔ میدان میں اُگی ہوئی ہری ہری گھاس پر مخمل کا گمان ہوتا تھا۔ میدان میں کئی سایہ دار برگد اور آم کے درخت تھے۔ ان درختوں کے نیچے بہت ساری لڑکیاں بیٹھی ہوئی آ پس میں گپیں لڑانے میں مصروف تھیں۔ ہر طرف قہقہے اور چلبلی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔ ‘‘ ۲۳؎
اس ناول میں ہر کردار کی زبان سیدھی سادی اور روزمرہ کی زبان ہے اور قاری کو پڑھنے سے کوئی اکتاہٹ نہیں ہوتی ہے۔ ورنہ قاری کوبار بار لغت کا سہارا لینا پڑتا، اس ناول کی زبان آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ’’شہر چپ ہے ‘‘ میں زبان کی بے تکلفی طرز ادا کی بے ساختگی کی وجہ سے واقعات کی پیشکش بے حد موثر ہے۔ کہانی کہنے کے فن میں مشرف عالم ذوقی کو مہارت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذوقی کا ہر واقعہ دوسرے واقعہ کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ ذوقی کا اسلوب سادہ ہے۔ ذوقی کا کہانی لکھنے کا طریقہ دوسرے ناول نگاروں سے منفرد ہے۔
’’شہر چپ ہے ‘‘ کی زبان میں شیرینی بھی ہے اور حالات کی تلخی بھی۔ اس ناول کے کردار انیل، رگھوبیر، ارمیلا، مینا، انورادھا وغیرہ ہمارے سماج کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے ہیں۔ کہیں کہیں ذوقی نے اس ناول میں رومانی کیفیات کی بھی عکاسی کی ہے۔ اس ناول میں ذوقی نے قاری کو اپنے بیان کی گرفت میں لینے کی اچھی کوشش کی ہے۔
مسلمان
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’مسلمان‘‘ ہندوستان میں رہ رہے مسلمانوں کی آپ بیتی ہے۔ یہ ناول پہلے ہندی میں شائع ہوا۔ اس کے کچھ سالوں بعد اردو میں ۱۹۹۲ء میں دہلی سے شائع ہوا۔ مسلمان جس کو موجودہ سیاسی دشواریوں نے حاشیے پر لا کھڑا کر دیا ہے اور اس کے ساتھ مجبوری یہ ہے کہ جن سازشی طاقتوں نے اسے انجام دیا ہے وہی مسلمانوں کوMain stream میں شامل ہونے کی دعوت بھی دے رہے ہیں۔
ناول کا پلاٹ سادہ اور پر اثر ہے۔ مشرف عالم ذوقی اس کا آغاز گوہر بائی کے کوٹھے سے کرتے ہیں۔ جہاں اس کی چھوٹی سی بچی ’افروز‘ روز اس کو چھپ چھپ کر مجرہ کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔ گوہر بائی عزیز انساء کی بیٹی ہے۔ جس کو ہندو پاک کے بٹوارے کے وقت اس کے ہی گاؤں کا ایک آوارہ لڑکا ویرا، اغوا کر کے رانی منڈی میں شہناز بائی کے کوٹھے پر بیچ دیتا ہے۔ وہاں عزیز بائی ایک لڑکی گوہر کو جنم دیکر انتقال کر جاتی ہے اور شہناز گوہر کو طوائف بنانے کی تیاری میں لگ جاتی ہے۔ گوہر بائی بھی ایک لڑکی افروز کو جنم دیتی ہے جو نواب الطاف حسین کی ناجائز اولاد ہے۔ گوہر افروز کو پڑھانا چاہتی ہے تاکہ وہ اس پیشے سے دور رہے اور ایک اچھی زندگی گزار سکے۔ گوہر بائی کا ایک منھ لگا دلال جاگیرہ کی نظر افروز پر رہتی ہے۔ وہ افروز کی نتھ اتروائی کروانا چاہتا ہے۔ جس کی بنا پر دونوں میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ اسی دوران ایک ایسا حادثہ درپیش آتا ہے جو افروز کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
ہندوستان میں فرقہ وارانہ فساد کی ایک لہر اُٹھتی ہے۔ جس کی لپیٹ میں گوہر بائی آ جاتی ہے۔ جاگیرہ گوہر بائی سمیت اس کے گھر کو آگ لگا دیتا ہے۔ افروز جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور نواب کے گھر پہنچتی ہے۔ یہاں ذوقی نے دو تہذیبوں کے تصادم کی تصویر کشی بڑے موثر انداز میں پیش کی ہے۔ افروز نواب کے گھر پناہ لیتی ہے۔ مگر نواب صاحب سماجی خوف سے اسے اولاد کا حق نہیں دے پاتے ہیں۔ نواب صاحب اپنے پرانے وقت کو یاد کرتے ہیں اور مفلسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ ذوقی نے نواب کے گھر کو غلامی کے آخری دنوں سے اب تک مسلمانوں کی بدلتی ہوئی حالت و کیفیت کا انٹر ول بنا کر پیش کیا ہے۔ جہاں ایک طرف نواب صاحب اپنے گزرے وقت کو یاد کرتے ہیں اور آج بھی وہ کوٹھوں پہ جانا برا نہیں سمجھتے ہیں تو دوسری طرف وہ اقتصادی حالات خراب ہونے کی وجہ سے اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں۔ آخر میں وہ جائیداد کے نام پر بچی حویلی کی نیلامی کی خبر سن کر خود کشی کر لیتے ہیں۔
اپنی نئی پہچان بنانے کی خواہش لئے افروز دہلی چلی جاتی ہے یہاں اس نے کئی پارٹیوں کو دیکھا بی جے پی، آر۔ ایس۔ ایس بخاری کو دیکھا۔ شہاب الدین کو دیکھا جو جنتا کا بھلا کرنے والا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی مسلمانوں کا بھلا کرنے والا نہیں ہے۔ مسلمان عورتوں کے متعلق دقیانوسی خیال یہ پھیلا ہوا ہے کہ وہ پردے سے نکل کر دفتر یا باہرکا کام نہیں کر سکتی۔ آخر حالات سے سمجھوتا کر کے افروز اپنا نام انجو رکھ لیتی ہے مگر افروز نام کے ساتھ ساتھ اس کو اس کی شناخت بھی مٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسی بیچ اڈوانی کی رتھ یا ترا نکلتی ہے جو فرقہ وارانہ دنگے کو جنم دیتی ہے اور یہ فساد ساتھ ساتھ رہنے والے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ پرستی کی دیوار کھڑی کر دیتا ہے۔ آخر میں شعیب ونئے کا قتل کر دیتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ اگر میں اسے نہ مارتا تو وہ میری جان لے لیتا۔
کردار نگاری ناول کا خاص جزو ہو تا ہے۔ مشرف عالم ذوقی اس جز کو پر اثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس ناول میں کردار تو کئی ہیں لیکن اہم کردار چند ہی ہیں۔ جن کے ارد گرد کہانی اختتام کو پہنچتی ہے۔ ان میں گوہر بائی، افروز، نواب الطاف حسین اور شعیب وغیرہ کے کردار ہیں۔ جو اس ناول کو منزل تک پہچانے میں مدد کرتے ہیں۔
اس ناول کی مثالی کردار افروز ہے۔ جو گوہر بائی اور الطاف حسین کی ناجائز اولاد ہے۔ بچپن سے وہ اپنی بائی ماں کو ناچتے اور الگ الگ لوگوں سے ملتے دیکھتی ہے اور پس و پیش میں رہتی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور اماں ان لوگوں سے کیوں ملتی ہیں۔ دہلی پہنچنے کے بعد افروز کو مسلمان ہونے پر بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے نوکری کے لئے بھی جد و جہد کرنا پڑتی ہے۔ افروز جہاں بھی انٹر ویو دیتی ہے ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے کئی سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’نو ویکنسی مس افروز …….تم مسلمان ہو……..معاف کرنا ……..اس لئے پوچھ رہا ہوں ……..مسلمان لڑکیاں ایسی بہت کم ہوتی ہیں جو طرح اسٹرگل کرنے باہر نکلتی ہے ……….تمہارے یہاں اس قدر پردہ ہے ……..بائی دوے ……..آگے ویکنسی نکلی تو………۔ ‘‘ ۲۴؎
افروز ہمدرد، جذباتی لڑکی ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر اور انصاف پرست کردار کی شکل میں اس ناول میں نظر آتی ہے۔ وہ اپنی مری ہوئی ماں اور بدی ماما کو انصاف دلانے کے لئے جاگیرہ جیسے خطرناک شخص کے خلاف جدو جہد کرتی ہے اور اس کا اصلی چہرہ سب کے سامنے لانے کی کوشش کرتی ہے۔
شعیب کا کردار آج کے مسلمان لڑکے کا کردار ہے۔ جو مسلمان ہونے کی وجہ سے بے روز گار ہے۔ ذوقی نے شعیب کے ذریعے مسلمانوں کے مسائل کی نشاندہی کی ہے جیسے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت کیا ہے۔ وہ آج کس ذہنی تناؤ سے گزر رہا ہے۔ سیاست نے اسے کس طرح گمراہ کر دیا ہے، شعیب ایسا کردار ہے جو حالات سے لڑنے کے بجائے اس سے فرار کاراستہ ڈھونڈتا ہے۔ وہ افروز کو بھی اپنا نام بدل کر نوکری تلاش کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ وہ ونئے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اس سے خائف نظر آتا ہے اور بالآخر اس کا قتل کر دیتا ہے وہ افروز سے کہتا ہے :
’’ ہاں میں نے قتل کر دیا۔ نہ کرتا تو وہ میرا کر دیتا۔ ‘‘ ۲۵؎
اس ناول میں مکالمہ نگاری آج کے دور اور مسلمانوں کے حالات کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ یہ مکالمے حقیقت پر مبنی ہیں۔ مکالمہ کے ذریعے ہم کہانی میں کرداروں کی سوچ اور جذبات کی عکاسی کر پاتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی نے ناول میں مکالمہ نگاری موقع و محل کے لحاظ سے کی ہے۔ ذوقی نے مکالموں کے ذریعے طوائفوں کے جذبات کی عکاسی بڑے فنکارانہ انداز میں کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہندوستان میں بے روزگار اور فرقہ پر ستی سے پریشان نوجوانوں کے خیالوں کو بھی بڑی خوبصورتی سے واضح کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے :
’’آپ اکیلی ہیں۔ نوکری بھی کرنا چاہتی ہیں __ذرا کچھ دن……..کچھ دن ایک تجربہ کر کے دیکھتے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ہر جگہ مسلمان نام کو Imposeکیا جائے __کیوں، کیا فرق پڑتا ہے ؟
’’مطلب ؟‘‘ وہ چونکی۔
’’مطلب مسلمان ہو، یہ تم بتاؤ ہی نہیں۔ ‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ اس سے تم زیادہ محفوظ رہو گی۔ یہ میرا اپنا تجربہ بتاتا ہے۔ ‘‘
اس نے پھر ایک ہلکا قہقہہ لگایا۔ ‘‘ ۲۶؎
ناول کے ارتقاء میں منظر نگاری کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے زماں و مکاں کا تعین ہوتا ہے۔ وقت، موسم کا بیان، کمروں اور مکانوں کے خاکے، گاؤں کا نقشہ، جلسوں و جلوسوں کے مرقعے اس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ناول نگار کو چاہئے کہ وہ ان امور کی ایسی تصویر کشی کرے کہ پڑھنے والے کے سامنے تصویر کھینچ جائے۔ مشرف عالم ذوقی منظر نگاری کے ہنر سے خوب واقف ہیں اس لئے انھوں نے منظر کشی کے ہر فن کو اپنے ناولوں میں اتارا ہے۔ اپنے اس ناول میں ذوقی نے زماں و مکاں کے ساتھ ساتھ دنگے اور فسادات کی تصویر کشی اس خوبصورتی سے کی ہے کہ اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ جلوس کا یہ منظر دیکھئے :
’’ نہیں …..اسے یاد آیا ……آج بھی وہ ذرا دیر سے گھر لوٹی تھی……..لوٹتے وقت اچانک ہی اس نے ان خونخوار چہروں کو دیکھا تھا …….ہاتھوں میں مشعل لئے …….اندھیرے میں تیز تیز نعرے لگاتے لوگوں کو ……..بھیڑ کی شکل میں ……وہ اتنے خونخوار نظر آئے کہ وہ خوف سے بھر گئی اور ایک طرف کنارے کھڑی ہو گئی۔ جلوس کچھ زیادہ ہی لمبا تھا۔ سڑک زیادہ چوڑی نہیں تھی۔ ہلکا اندھیرا شہر کے آسمان پر پھیل چکا تھا اور اسے فضا میں چاروں طرف معلق جلتی ہوئی مشعلیں دکھ رہی تھیں۔ ‘‘ ۲۷؎
اس ناول کی زبان سادہ اور پر اثر ہے۔ ذوقی کا اسلوب منفرد ہے۔ اسلوب سے مراد بات کہنے کا ڈھنگ ہوتا ہے۔ جو ذوقی میں بظاہر اتم موجود ہے۔ تکنیک اور اسلوب کی سطح پر مشرف عالم ذوقی اپنی کہانیوں میں ایک نئے پائدان پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ ذوقی کا یہ ناول مشترکہ تہذیب اور ثقافتی اقدار کا نوحہ بیان کرتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں اور ہندؤں میں جو اختلاف پیدا ہوئے اس کی بناء پر جو فسادات ہوئے اور اس کی سزا جن لوگوں اور عورتوں کو ملی اس کا خاکہ ذوقی نے بے باکانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اپنے اسلوب اور طرزِ فکر کی وجہ سے یہ ناول اس موضوع پرلکھی جانے والی تحریروں میں قابلِ اعتنا سمجھا جاتا ہے۔ اس ناول کے سارے اشخاص، سارے واقعات ٹھوس اور حقیقی نظر آتے ہیں۔
’’مسلمان‘‘ آزادی کے بعد کے مسلمانوں اور مشترکہ تہذیب کا نوحہ بیان کرتا ہے۔ زبان صاف ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں کہیں کہیں ٹھوس اور غیر جذباتی اور کھر درا پن نظر آتا ہے۔ ناول ’’مسلمان‘‘ ہندوستان میں رہ رہے مسلمانوں کا المیہ ہے۔ اس میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم، فرقہ وارانہ فساد اور مسلمان ہونے پر روز گار کی مشکلات اور بڑھتی بے روزگاری تمام ایسے مسائل ہیں جس کو ذوقی نے نہایت بیباکانہ اور دوٹوک انداز میں پیش کیا ہے۔ اس ناول کے بارے ذوقی خود ناول کے پہلے صفحے پر لکھتے ہیں :
’’مسلمان ۱۹۹۰ء میں لکھا گیا تھا لیکن آج دنیا کافی بدل چکی ہے۔ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد ہندوستان میں ہونے والے دنگے، پھر ٹاڈا اور پوٹا، گودھرا اور گجرات، ہندوستانی مسلمان کی مستقبل کی تواریخ بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ افسوس کے ذوقی کا ۱۹۹۰ء کا سوال اب بھی جواب کا منتظر ہے۔ ۲۰۰۱ء کے بعد اب یہ سوال پورے دنیا کے سامنے ہے، دنیا کی دو بڑھتی قومیں ایک دوسرے کے سامنے اور یہ ڈر کہ ایک کی آنکھ لگ گئی تو دوسرا چھرا بھونک دے گا …….، اور مجبوری یہ ہے کہ ہم ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں ایک آسمان ایک چھت کے نیچے۔ ‘‘ ۲۸؎
۶ دسمبر بابری مسجد کی شہادت کا دن ہے اور اسی روز یہ ناول ’مسلمان‘ پہلی بار اردو قاری کے لئے پیش خدمت ہے۔
پوکے مان کی دنیا
مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ (۲۰۰۴) ۳۳۶ صفحات پر مشتمل نئی نسلوں کی زندگی اور بدلتی تہذیب کی تصویر کشی کرتا ہے۔ جہاں فلم، ٹی۔ وی، کمپیوٹر اور کارٹون بچوں کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں اور گلوبلائزیشن کے نام پر ایک ایسی تہذیب ہمارے سامنے آ رہی ہے جو ہوس پرستی کی ترغیب دے رہی ہے۔ پوکے مان کی دنیا ذوقی کے مشاہدے کی گہرائی کا اچھا نمونہ ہے۔ ان کے تخلیقی سفر میں یہ آٹھواں ناول ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے اس ناول میں ’’پوکے مان‘‘ کا تعارف کرایا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ کس طرح گلوبلائزیشن اور سائنس کی وجہ سے ایک چھوٹے سے خطے کی چیزیں، خیالات، احساسات و افکار ایک آندھی کی طرح ساری دنیا کو اپنے قید میں لے لیتے ہیں، اور ان کے ذہنوں میں رچ بس گئے ہیں۔ ایک جاپانی کمپنی کا بنایا ہوا انیمیشن سیریل کس طرح ساری دنیا کے بچوں میں نہ صرف مقبول ہو جاتا ہے بلکہ اس سیریل کا کردار ’’پوکے مان‘‘ بچوں کے لئے جنون بن جاتا ہے۔ بچے پوکے مان کے کارڈ، ٹیٹو، پوسٹر حاصل کرنے کے لئے جنون کی حد تک گزر جاتے ہیں۔
اس ناول کا پلاٹ سادہ اور بڑا پُر اثر ہے۔ ناول کا کردار ایک معصوم بچہ ہے، جسے ’’پوکے مان‘‘ جمع کرنے کا جنون ہے۔ اس نے تمام پوکے مان کے کارڈ، پوسٹر اور ٹیٹو جمع کر رکھے ہیں۔ اسے پوکے مان کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات ہے جتنی اپنی درسی کتاب کے بارے میں بھی نہیں معلوم۔ یہ معصوم بچہ ’’روی‘‘ جس کی عمر ۱۲ سا ل ہے۔ اپنے گھر میں اپنی ہم عمر اور ہم جماعت لڑکی ’’سونالی‘‘ کے ساتھ بلیو فلم دیکھتا ہے اور وہی سب کچھ کر بیٹھتا ہے۔ سونالی دلت سماج سے تعلق رکھتی ہے۔ سونالی کا باپ ’’جئے چنگی‘‘ کو سیاسی جماعت مشورہ دیتی ہے کہ وہ اس کا فائدہ اُٹھائے۔ جئے چنگی اس واقعہ کو دلتوں کے ذریعے ’’سورنوں ‘‘ کا استحصال کا سیاسی نعرہ بنا کر ایک سیاسی جنگ چھیڑ دیتا ہے اور ’’روی کنچن‘‘ کے خلاف مقدمہ دائر ہو جاتا ہے۔ جس کا فیصلہ ایک فرض شناس جج ’’سنیل کمار رائے ‘‘ کو سنانا ہے۔ ان پر اس کیس کے لئے بہت دباؤ پڑتا ہے۔ مگر سنیل کمار رائے کو معلوم ہے کہ ان کے اس کے فیصلے پر ایک معصوم لڑکے کی زندگی کا دارو مدار ہے، ساتھ ہی ان کے فیصلے کی ذرا سی لغزش اس کی زندگی بدل سکتی ہے۔
دوسری طرف سیاسی لیڈران اس معاملے کے فیصلے کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ سنیل کمار کے ذہن میں کئی سوالات ہیں جو ان کو دن رات پریشان کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً کیا پوکے مان سے کھیلنے والا روی کنچن کسی معصوم لڑکی کا ریپ کر سکتا ہے ؟ کیا سچ مچ وہ ریپ ہو گا؟ سنیل کمار رائے ایک فیصلہ کرتا ہے کہ ’’پوکے مان‘‘ سے کھیلنے والا روی کنچن کے ہاتھوں جو گناہ سرزد ہوا ہے یا ہوا بھی کہ نہیں لیکن جس کے لئے اتنا پاکھنڈ پھیلایا جا رہا ہے وہ اس کیس کا فیصلہ پوری ایمانداری اور سچائی سے کرے گا۔ اسی لئے وہ روی کنچن سے ملنے بھی جاتا ہے۔ ناول کا پلاٹ اس نکتہ کی وضاحت ہے کہ معصوم بچوں کے ذہنوں کو ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر بہت متاثر کر رہا ہے۔ وہ بظاہر چمک دمک کی دنیا میں کھو گئے ہیں اور اچھے برے کی تمیز ان کے ذہن میں نہیں ہے۔ ٹیلی ویژن کے اشتہارات اور ہر کمپنی زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی دُھن میں صارفین کو متوجہ کرنے کے لئے ہر ترکیب استعمال کر رہی ہے اور مقابلے کی دوڑ میں ہر کوئی آگے نکلنا چاہتا ہے۔ معصوم بچوں میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ذمہ دار جدید تکنالوجی ہے۔ جدید تکنالوجی نے معاشرے کی قدروں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
اس ناول کا سب سے خوبصورت باب جج کے فیصلے کے صفحات ہیں۔ ان صفحات میں ذوقی نے اپنی ساری تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے رکھ کر ایسے خیالات پیش کئے ہیں جو قارئین کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر جج سنیل کمار رائے کے فیصلے کے یہ چند سطور:
’’روی کنچن بے قصور ہیں، اور اس پورے معاملے کا اس سے کوئی سروکارنہیں ہے۔ ایک چھوٹے سے پوکے مان کی غلطی کو نظر انداز کرنے میں ہی سب کی بھلائی ہے __ لیکن اس کے باوجود کوئی نہ کوئی مجرم ضرور ہے۔ اور جو مجرم ہے اسے سخت سے سخت سزا تو ملنی چاہئے اس لئے ___میں پورے ہوش و حواس میں یہ فیصلہ سناتا ہوں کہ تعزیرات ہند دفعہ ۳۰۲کے تحت میں اس نئی تیکنالوجی، ملٹی نیشنل کمپنیز، کنزیمو کلچر، کنزیومر ورلڈ، گلوبلائزیشن کو سزائے موت کا حکم دیتا ہوں ____ہینگ ٹِل ڈیتھ۔ ‘‘ ۲۹؎
مشرف عالم ذوقی کو کردار نگاری میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ ذوقی نے اپنے کرداروں کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا ہے۔ یہ کردار حقیقت کی پوری اور بھر پور تصویر کشی کرتے ہیں۔ یوں تو ناول میں کئی کردار ہیں۔ مگر اس میں کچھ کردار ہی اہمیت کے حامل ہیں۔
اس ناول کا مرکزی کردارسنیل کمار رائے ہیں جو پیشے سے ایک جج ہیں۔ وہ دور اندیش آدمی ہیں۔ سماج کے ذمہ دار فرد ہیں۔ فرد جرم پر نظر رکھنے کے بجائے وہ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ جرم کیوں سر زد ہوا اور سماج یا معاشرے سے اس کی وجوہات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف ایک مجرم کو سزا دینے سے جرم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا بلکہ ان بنیادی برائیوں کو ڈھونڈ نکالنا چاہئے جس کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ سنیل کمار رائے سنجیدہ، با عمل اور فرض شناس کردار ہے۔ سنیل کمار رائے اپنے پیشے کا لبادہ اوڑھ کر جینا نہیں چاہتے ہیں۔ مگر ان کے گھر کا ہر فرد ان کو دوسروں کا فیصلہ کرنے والا ایک جج ہی سمجھتا ہے۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اس جج کے اندر بھی ہماری طرح ایک انسان ہے۔ وہ بھی ایک عام انسان ہی کی طرح سوچتا ہے۔ اس کے پاس بھی جذبات ہیں، خواہشات ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ سنیل کمار جج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باپ ہے، ایک وفا پرست شوہر ہیں۔ ان سے بھی ہر معاملے میں بات کہی جا سکتی ہے۔ مگر کوئی اس سے ایک باپ، شوہر یا دوست کے اعتبار سے بات نہیں کرتا۔ بات کرتا ہے تو صرف پیشے کے اعتبار سے۔ ذوقی نے اس کردار کے ذریعے سے یہ محسوس کرایا ہے کہ بڑے سے بڑا شخص چاہے وہ ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، پروفیسر ہو یا کوئی بھی کیوں نہ ہو، وہ پہلے ایک انسان ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سنیل کمار کے بچے اس کے کمرے کو بھی لاک اپ کہتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں۔
روی کنچن بارہ سال کا بچہ ہے۔ ناول اسی کردار کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہ کردار ایک ۱۲ سال کا بچہ ہے۔ عام بچوں کی طرح دنیا کے مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں صرف وہ ایک ٹیلی ویژن سیریل ’’ پوکے مان‘‘ دیکھتا ہے اور پوکے مان کے کارڈ، ٹیٹو اور پوسٹر جمع کرنے کا شوقین ہے۔ بلیو فلم کا سی۔ ڈی جسے بچوں کی دسترس سے دور رکھنا چاہئے وہ اُسے آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے۔ بچوں کی نفسیات یہ ہے کہ وہ جو دیکھتے ہیں اُسی کو سوچے سمجھے بغیر اپناتے ہیں۔ روی کنچن بھی برائی اور اچھائی کو جانے بغیر غلط کام کر بیٹھتا ہے۔
مکالمہ نگاری کی حیثیت سے بھی یہ ناول اہمیت کا حامل ہے۔ ذوقی مکالمہ نگاری موقع محل کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹی کے ورکر کا مکالمہ، اعلیٰ طبقے کے لوگوں کا مکالمہ اور دلت سماج میں بولی جانے والی بولی کو ذوقی نے بڑی خوبصورتی سے اس ناول میں پیش کیا ہے۔ دلت سماج سے تعلق رکھنے والے جئے چنگی اور اس کی بیوی شوبھا کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:
’’یہ ٹھیک نہیں ہے۔ سونالی کی پہلے ہی بہت بدنامی ہو چکی ہے۔ شوبھا زور زور سے چیخ مار کر رونے لگی تھی۔ کرم پھوٹے تھے جو تم سے شادی کی۔ ارے بیٹی تو مریادا ہوتی ہے۔ تم کیسے باپ ہو، جو اپنی بیٹی کو………..،
’’رؤ مت___ جئے چنگی زور سے چلایا___ای سب تمہارے پاپ کا گھڑا ہے۔ زیادہ زبان مت کھلواؤ۔ جو پارٹی کہے گی کرنا پڑے گا۔
’پارٹی___پارٹی نے تمہیں بیچ بازار ننگا کر دیا ہے۔ ‘
’نہیں۔ پارٹی نے مان سمّان دیا ہے۔ ‘
’بھرم ہے تمہارا۔ یہی مان سمّان ہے۔ ساری دنیا کو اپنی بارہ سال کی بچی دکھاؤ گے۔ اور بھیڑ تمہاری بچی میں کیا دیکھے گی___سوچا ہے۔ ‘‘ ۳۰؎
’’پوکے مان کی دنیا‘‘ میں منظر نگاری کم ہے۔ مگر اس ناول میں جو منظر پیش کئے گئے ہیں وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ذوقی نے اس میں بازار کا منظر، کورٹ کے منظر کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
ناول کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ مشرف عالم ذوقی اپنی زبان و بیان اور اسلوب کی خوبیوں کی وجہ سے بھی اردو ناول نگاروں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ذوقی کی گرفت زبان و بیان پر مضبوط نہ ہوتی تو وہ اتنے نازک موضوع کو اتنی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے ناول میں شاید ہی پیش کر پاتے ذوقی کی زبان تصنع و بناوٹ سے پاک ہے۔
ذوقی کے انداز بیان کی بے ساختگی و دلکشی جادو کا اثر رکھتی ہے۔ وہ ہر پیشہ و ہر طبقے کی گفتگو اور محاورات بڑے فطری انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ ناول میں ذوقی نے دلت کی زبان اور اعلیٰ طبقے کی زبان کا فرق بخوبی دکھایا ہے۔
اس پورے ناول میں ذوقی نے اپنی بات کے اظہار کے لئے لمبے لمبے اقتباس کا استعمال نہیں کیا ہے۔ بلکہ چھوٹے چھوٹے جملوں کے سہارے اور جملوں کی سحر کاری کے ذریعہ اپنی بات کو قاری تک پہنچایا ہے۔ ان جملوں کے ذریعے ایسا اثر اور تاثر پیدا کیا ہے جس کے ذریعے ناول میں وحدت تاثر کی جو اہمیت ہے وہ قائم رہتی ہے۔ تاکہ ناول ختم ہونے کے بعد بھی قاری اسی میں الجھا رہے اور اس کے اثر سے نکل نہ سکے۔ ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ اس ناول کے بارے میں ڈاکٹر مشتاق احمد لکھتے ہیں :
’’پوکے مان‘‘ اردو ناول کی دنیا کے لئے ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک وقت میں جہاں اردو ناول اقدار کی شکست و ریخت اور تہذیب کا مرثیہ لکھنے سے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں، ذوقی نے پوکے مان کی دنیا لکھ کر ایک ایسے موضوع کو سامنے رکھا جہاں سائنس اور ٹکنالوجی کی ریس میں ایک پوری دنیا کا چہرہ تبدیل ہو چکا ہے۔ جہاں بچے اپنے وقت سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ جہاں خطرناک کھلونوں کا کھیل تھا۔ اور بچوں کی تربیت کے پرانے راستے بند ہو چکے تھے۔ جہاں ماں باپ کے پاس بھی اپنے بچوں کے لئے وقت نہیں تھا۔ بچوں کی نفسیات کے بہانے ذوقی اس خوفناک دنیا کا نقشہ سامنے رکھتے ہیں۔ جیسے اردو ناول کی تاریخ میں اب تک دیکھنے اور کھوجنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ ‘‘ ۳۱؎
اپنے موضوع کے اعتبار سے ذوقی کا یہ ناول اردو میں ہی نہیں بلکہ ہندوستانی زبان کا واحد ایسا ناول ہو گا جسمیں اس موضوع کا احاطہ کیا گیا ہو گا۔ جو ہمارے سماج کا ناسور بن گیا ہے جو دھیرے دھیرے اس سماج کے اقدار کو بھی ختم کر رہا ہے۔ ذوقی کا یہ ناول فنی لحاظ سے ایک کامیاب ناول ہے۔ وہ اپنے پر کشش انداز، سادہ زبان اور دلکش اسلوب کی وجہ سے اردو ادب کے ناولوں میں ایک اضافہ ہے۔
پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایاسونامی
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ ۲۰۰۵ء میں ’’ساشا پبلیکشنز، دہلی‘‘ سے شائع ہوا۔ ۵۱۹ صفحات پر مشتمل یہ ناول موجودہ عہد کی سیاسی، سماجی، مذہبی، ادبی اور فکری نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کی داستان ہے۔ یہ سونامی ہماری گم ہوتی شناخت کا نوحہ بیان کرتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ گلوبل ورلڈ میں دم توڑتی تہذیب کا ماتم بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ذوقی نے سونامی کے ذریعہ اردو کے ٹھیکیداروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو زبان کے فروغ کا دھندا کرتے ہیں اور انعام و اکرام حاصل کرتے ہیں۔ جہاں ہر طرف الگ الگ چہرے اور الگ الگ سوچ رکھنے والوں کی بھیڑ ہے۔ ذوقی کے اس ناول ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ کے بارے میں حسین الحق ماہنامہ رسالہ ’’امکان‘‘ لکھنؤ سے رقم طراز ہیں :
’’مجموعی طور پر ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان‘‘ ایک بہت ہی خوبصورت ناول ہے۔ جس میں سندیپ دا، احمد علی، ادیتی، جینی کشورہا، چارودا، احمد علی کا باپ، اس کی مرحومہ ماں اور اس کی سوتیلی ماں، پھر انڈر گراؤنڈ نکسلیوں کی زندگی، ان کا ماحول، باتیں اور وچار دھارائیں۔ یہ سارا کچھ ایک پر شور سمندر کی طرح سر اٹھاتا ہے۔ اپنے تیز بہاؤ میں اپنے قاری کو بہائے لئے چلا جاتا ہے۔ احمد علی جب تک بنگال میں رہا، ذوقی کا قاری ذوقی کے ہاتھ میں کھلونے کی طرح رہا وہ اپنے قاری کو چین نہیں لینے دیتے، ایک عجیب سی بے چینی، سر شاری، تجسس ناول پڑھتے پڑھتے قاری کی اپنی خود کلامی، احمد علی، دھا رو مجمدار، کامریڈ سدیش مکھوا پادھیائے۔ دوسری طرف سندیپ دا اور ان کے بھائی چارو دا، یہ سب لوگ جب بات کر رہے ہوتے ہیں تو بے چارہ قاری بار بار ٹوکا لگانا چاہتا ہے ……نہیں ایسا ہے کہ …….نہیں کچھ یوں ہے کہ ……‘‘ ۳۲؎
ناول ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ میں ذوقی نے موجودہ عہد میں پھیلی بدعنوانیوں کا کھل کر خلاصہ کیا ہے۔ خواہ وہ سماجی ہو یاسیاسی، مذہبی ہو یا ادبی یا پھر فکری نا انصافی ہو۔ اس ناول میں کئی کردار ہیں جو کہانی میں بیان کئے گئے واقعات در واقعات کے تحت نظر آتے ہیں۔ لیکن ’وقت‘ اس ناول کا اصل ہیرو ہے۔ وقت جو بھیانک طوفان سونامی کی طرح ہماری قدروں، تہذیبوں، ثقافتوں اور ایمانداریوں کو بہا لے جا رہا ہے اور اپنے پیچھے چھوڑے جا رہا ہے ایک بدنما، مکار، فریبی، دغا باز اور مکروہ سماج۔ جس میں بسنے والے کچھ با شعور اور با ضمیر لوگ اپنے انسان ہونے پرشرم محسوس کرتے ہیں۔ ذوقی نے ناول میں سونامی کا سہار لے کر بدلتے وقت کا بھیانک چہرہ پیش کیا ہے۔ درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’آپ ہیں اور آپ کو حکومت کرنا ہے۔ جو حکومت کرتے ہیں وہ رشتوں ناطوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ آپ کو حکومت کرنا ہے تو ایسے تمام رشتوں کو ٹھوکر مارنا ہو گا کیونکہ رشتے ہمیں کمزور کر دیتے ہیں۔ رشتے ہمیں غرض کی ڈور سے باندھتے ہیں۔ ‘‘ ۳۳؎
مشرف عالم ذوقی نے سونامی کی لہروں کو Under Current یعنی مخفی لہروں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ناول جہاں ایک طرف ۲۷/دسمبر ۲۰۰۴ء کی المناک صورت حال، کرب اذیت اور خوف و دہشت کو پیش کرتی ہیں تو دوسری طرف ان لہروں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ہماری تہذیبی، ثقافتی اور ادبی دنیا کو تیزی سے نیست و نابود کرنے پر تلی ہے۔ لیکن نیوٹن کے قانون کے مطابق ’’ہر عمل کا اس کے متوازی اور مخالف ایک ردّ عمل ہوتا ہے۔‘‘
ناول دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ بہت خوبصورت ہے۔ جس میں احمد علی اور ادیتی سانیال کے کردار غیر معمولی ہیں اور ذہن پر پروفیسر یا پرویز سے زیادہ گہرا نقش قائم کرتے ہیں۔ اس حصہ میں احمد علی کی زندگی کا سفر بیان کیا گیا ہے جس میں اس کا غریبی سے امیری کا سفر، سندیپ دا جیسے کمیونسٹ سے ملاقات، جوٹ ملس کے مینجر کو قتل کرنے کا پلان، اور آخرمیں احمد علی کا توبہ کرنا وغیرہ کے سا تھ ساتھ شاہ پور چھولداری میں آمد، کمیونزم سے مذہب کی طرف مراجعت، پرویزسانیال کا جنم اور پروفیسر قریشی کی عجیب داستان میں اس کی شمولیت اور درمیان میں سیما اور شیلی کے خود سپرد گی سے بھر پور جذبات کی عکاسی قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جانے کی قوت رکھتا ہے۔
ناول کا دوسرا حصہ زیادہ تر سونامی المیے اور اس کی خوفناک تصویروں پر مشتمل ہے۔ اس حصہ میں ذوقی نے سونامی کے قصے کو صفحہ ۲۸۹ سے صفحہ ۴۲۴تک اس طرح پھیلایا ہے کہ سارے واقعات صحافتی ادب کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی گرفت پلاٹ پر سے ڈھیلی ہوتے دکھائی دیتی ہے۔ اس حصہ میں ذوقی نے بائبل کے طویل اقتباسات بھی شامل کئے ہیں جس کی وجہ سے جانے انجانے قصے کی جامعیت کو نقصان پہنچتا ہے۔ سونامی کے بہانے ذوقی نے ادب میں در آئی سونامی کا بھی جائزہ لیا ہے جس میں انھوں نے ادب کو سیاست، حکومت اور اقتدار کا ذریعہ بنانے والوں کے نام بھی اشارتاً پیش کر دیا ہے اور ادبی مافیا کا بھیانک و خوفناک چہرہ بھی سب کے سامنے پیش کیا ہے۔
اس ناول میں ذوقی نے احتجاج بھی کیا ہے، ادبی مافیا کو بے نقاب بھی کیا ہے اور کچھ واقعات کا ذکر بھی کیا ہے جس سے مصنف کا کبھی تعلق رہ چکا ہے۔ جیسے ای ٹی۔ وی کا معاملہ ہو یا رسالہ نکالنے کا معاملہ یا خانقاہی کا ناول لکھنا وغیرہ جس کی وجہ سے ذوقی پر اعتراضات بھی اُٹھے ہیں۔ باوجود طوالت، Documentation اور اعتراضات کے ذوقی کا یہ ناول اہم ہے۔
کردار نگاری کے لحاظ سے اگر ہم ذوقی کی بات کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے کردار زندہ ہونے کا یقین دلاتے ہیں اور حقیقت سے بہت قریب معلوم ہوتے ہیں۔ ذوقی اپنی کہانیوں میں ایسا لگتا ہے زندگی پروتے ہیں اور کبھی نہ بھولنے والے کردار کو جنم دیتے ہیں۔ اس ناول میں کئی کردار ہیں۔ احمد علی، سندیپ دا، پرویز سانیال سیما، ادیتی وغیرہ لیکن اس ناول کا سب سے اہم کردار وقت ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر ایس جو اس ناول کے مرکزی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پروفیسر ایس کا پورا نام صدر الدین ہے۔ جو کے ایک اہم کردار ہے۔ پروفیسر ایس، پرویز سانیال کو اپنا کلون بنانا چاہتا ہے۔ ذوقی نے اس نفسیاتی خواہش کا مذاق ہی نہیں اڑایا بلکہ اس کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔ پروفیسر ایس نے اپنے دس سالا تجربوں کو یکجا کر کے پرویز سانیال کو اپنے جیسا بنانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ پروفیسر ایس کا کردار ایک مکار، جھوٹے اور فریبی شخص کاہے۔ وہ سچ سے بھاگنے والا، غرور اور تکبر کی چادر میں لپٹا ہوا ظالم شخص ہے۔ وہ عورت کو صرف جنسی ضروریات پورا کرنے والی ایک چیز سمجھتا ہے۔ وہ محبت اور محبت کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے اور محبت کو بیکار شئے مانتا ہے۔ پروفیسر ایس کا کہنا ہے کہ محبت کمزور لوگوں کا ہتھیار ہے۔ صحتمند انسان محبت نہیں کرتا ہے۔ محبت کمزوری کی علامت ہے جو زندہ آنکھوں سے دیکھنے کی قوت چھین لیتی ہے۔
احمد علی کا کردار کافی متاثر کرنے والا ہے۔ کبھی کبھی یہ کردار تو پروفیسر ایس سے بھی اہم نظر آنے لگتا ہے۔ اس کردار میں مشرف عالم ذوقی نے اتنے رنگ بھر دئیے ہیں کہ وہ بار بار ایک الگ رنگ میں نظر آتا ہے۔ کبھی وہ بے روز گار ی کو پیش کرتا ہے تو کبھی وہ آندولن کاری کامریڈ بننے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ احمد علی اصل میں ایک مذہبی آدمی ہے۔ اس لئے وہ ادیتی کے کمرے میں نماز پڑھ کر مسلمان ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک جذباتی باپ کا بھی رول ادا کرتا ہے۔ ذوقی نے احمد علی کے کردار کو اتنے رنگ میں رنگا ہے کہ وہ سونامی کا یاد گار کردار معلوم ہوتا ہے۔
مکالمہ ناول نگار کے ہاتھ میں اظہارِ خیال کا بہترین ہتھیار ہے جس سے فائدہ اُٹھانا بہت بڑا کمال ہوتا ہے۔ مصنف اپنے کرداروں کی زبان سے جو کچھ چاہے یا جو وہ ضروری سمجھے یا جو امور اہم جانے ادا کر سکتا ہے۔ ذوقی کو الفاظ کے ساتھ کھیلنے میں مہارت حاصل ہے۔ کون سا لفظ کس کردار کے ذریعہ ادا کرنا ہے یہ فن ان کو خوب آتا ہے۔ انہیں اپنے مکالموں کے ذریعہ قاری کو رجھانے کا ہنر بھی معلوم ہے۔ ان کا یہ فن اس ناول میں بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’اور یقین جانوں۔ اس قتل واجب سے کسی کا نقصان نہیں ہے۔ اور کسی کا کیا نقصان ہو سکتا ہے جب کہ سب کچھ ایک بڑے نقصان کو کم کرنے کے لیے ____میرا مطلب ہے ………..‘‘
’قتل واجب، برا نقصان۔ یقیناً تم مذاق کر رہے ہو ____کوئی قتل واجب کیسے ہو سکتا ہے اور کسی بڑے نقصان سے بچانے کے لیے ___کس کو؟_____دنیا کو یا اپنے آپ کو ………..چھوٹا نقصان ___یعنی قتل ___تم جانتے ہو، تم ایک قتل کی دفاع کر رہے ہو ____،
’آہ‘ تم بھی۔ تم بھی اسی انداز میں باتیں کر رہے ہو۔ جیسے ………..‘
’جیسے پروفیسر………..‘
’بالکل ٹھیک___‘ ‘ ۳۴؎
اس ناول میں ذوقی نے کمال کی منظر نگاری پیش کی ہے۔ ذوقی نے سونامی کے لہروں سے تباہ کن زندگی اور تباہی پھیلنے کے بعد کے منظر کو نہایت خوبصورتی سے قلم بند کیا ہے۔ ناول اسی وقت قاری کو خوبصورت نظر آتا ہے جب وہ ادیب کی قلم سے لکھے گئے ان تمام مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے جیسا اس کا ادیب اسے بتانا چاہتا ہے اور قاری اس منظر کی دلکشی میں کھو جائے۔ کسی بھی ادیب یا مصنف کو منظر نگاری پیش کرتے وقت یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ وہ کس موضوع پر بات کر رہا ہے اور ذوقی کے پاس یہ فن بدرجہ اتم موجود ہے۔ درج ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’لہروں کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ کئی لاشیں بری طرح مسنح ہو چکی تھیں اور پہچان سے باہر تھیں ___متاثرہ علاقوں میں کام کر رہے سماج سیوا کے کارکنان نے پایا کہ کئی لاشوں کے سر ہی نہیں ہیں ___چلیڈی نگر کے زیادہ تر باشندوں کی لاشیں جھاڑیوں یا بجلی کے تاروں میں پھنسی ہوئی تھیں ___ نگا پٹنم ساحلی نشان کے ایک کلو میٹر کے دائرے میں آنے والے ’ پنپہسہار، پڈپا پٹنم، پٹنا چری، ناگٹا جیری، سمنتھی پٹّی اور کئی دوسرے علاقے ملبے میں تبدیل ہو گئے تھے __انہیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کچھ دن پہلے یہاں لوگوں کی ہنستی کھیلتی بستیاں بھی آباد رہی ہوں گی۔ ‘‘ ۳۵؎
مشرف عالم ذوقی کی تحریروں میں اس قدر متاثر کرنے کا جادو ہے کہ پڑھتے وقت قاری ان ہی کہ بنائی ہوئی دنیا میں جینے لگتا ہے۔ اچھا ادب تخلیق کرنے کے لئے لفظوں کے ذخیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ذوقی کے یہاں موجود ہے۔ ایک اچھی کہانی کا تانا بانا بننے کے لئے خوبصورت جملے کہانی میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔ ذوقی اپنے ناولوں میں نت نئے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ ذوقی نے اس ناول میں لب و لہجہ اور اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے خوبصورت جملے اور ہندوستانی زبان کا استعمال کیا ہے۔ ذوقی کو اردو کے ساتھ ساتھ ہندی زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔
ذوقی کا اسلوب منفرد ہے وہ جانتے ہیں کہ بدلنا ہی زندگی ہے اس لئے انھوں نے اپنے ناولوں میں الگ الگ اسلوب اور تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ ذوقی کا اسلوب ناول کو خوبصورت بنانے کے لئے صنائع، تمثیل اور استعاروں میں لپٹا ہوا نظر آتا ہیں۔ ذوقی نے اس ناول میں فلیش بیک اور فلیش فارورڈ کی تکنیک کا استعمال کرتے ہیں۔ ذوقی کا یہ ناول اپنے مختلف انداز اور منفرد اسلوب کی بناء پر قابلِ تعریف ہے۔
۲۷ /دسمبر ۲۰۰۴ء کو در آئی سونامی کے قیامت خیز طوفان کو مشرف عالم ذوقی نے اپنی ناول میں ہمیشہ کے لئے قید کر لیا ہے۔ لیکن ذوقی نے سونامی کے بہانے ادب میں شامل ہو چکی سونامی کا بھی بھر پور جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے سونامی کی زریں لہروں کے ذریعہ زندگی کا المیہ پیش کیا ہے۔ فطری طور پر ذوقی ایک بے باک اور نڈر قلم کار ہیں۔ ذوقی کا یہی انداز انھیں دیگر ادیبوں سے الگ کرتا ہے۔ ان کے فکر و فن کی گہرائی کی بدولت آج ادب میں ان کا اہم مقام ہے انھوں نے جس طرح ہر نئے موضوع کو جامع انداز میں پیش کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
آتش رفتہ کا سراغ
مشرف عالم ذوقی کا ۷۱۹ صفحات پر مشتمل یہ ناول ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ ۲۰۱۳ ء میں دہلی سے شائع ہوا۔ اس ناول میں انھوں نے آج کے مسلمانوں کے حالات اور بٹلہ ہاؤس انکاونٹر کے واقعے کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ذوقی نے اس ناول میں بے حد عمدگی کے ساتھ ملک کی تلخ سچائی سے پردہ اُٹھایا ہے اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر کشی کی ہے۔ اس ناول میں انھوں نے ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کی عکاسی کے لئے بٹلہ ہاؤس انکاونٹر کا سہارا لیا ہے۔ اس انکاؤنٹر کو انھوں نے محض علامتوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس ناول کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں :
’’میں نے ایک چھوٹی سی آواز بلند کرنے کی ہمت کی ہے۔ اس میں تلاش ماضی کے بلیغ استعارے نہ سہی، اس میں آج کی آواز تو شامل ہے۔ میں نہیں جانتا، اردو دنیا میں اس ناول کا استقبال کیا جائے گا یا نہیں __ مگر میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ میں اپنی تخلیق میں کبھی بھی خود کو دہرانا پسند نہیں کرتا __اس ناول میں بھی میں نے خود کو دہرانے کی کوشش نہیں کی ہے ___اب یہ ناول آپ کے سامنے ہے۔ اس یقین کے ساتھ نئی دنیا کے اس بے رنگ اور بے رحم تحفے، کو آپ تک پہنچاتے ہوئے مجھے کوئی خوشی نہیں ہے۔ لیکن ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ میں نے اپنی بات آپ تک پہنچانے کی جرأت ضرور کی ہے۔ ‘‘ ۳۶؎
مشرف عالم ذوقی ناول کا آغاز بٹلہ ہاؤس کے دلکشا انکلیو میں رہائش پذیر ارشد پاشا کے خاندان سے کرتے ہیں۔ ارشد پاشا جو اردو کے صحافی ہیں۔ دلکشا انکلیو میں اپنی بیوی رباب اور بیٹے اسامہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا ہے جس کی وجہہ سے ہر کسی کے دل و دماغ میں ایک نامعلوم سا خوف بیٹھا ہوا ہے۔ اسی دوران انکاؤنٹر ہوتا ہے اور بہت سے بے گناہ لڑکے مارے جاتے ہیں۔ ان لڑکوں میں اسامہ کے دوست بھی تھے۔
’’سیاسی لیڈروں نے سازش رچ کر اسامہ اور اس کے تین دوست راشد، منیر اور علوی کو آتنک وادی ثابت کرنے کی کوششیں کی ہے اور پھر یہ فرضی___‘‘
اسامہ کے ایک دوست علوی کو پولیس گرفتار کر لیتی ہے۔ ارشد پاشا اسامہ کو اس کے ایک دوست تھاپڑ کے گھر بھیج دیتا ہے۔ پولیس اسامہ کو تلاش کرتی ہے۔ لیکن اسامہ پولیس کے ڈر اور خوف سے جینا نہیں چاہتا اور اس لئے اس نے ایک نئی زندگی کا انتخاب کیا اور انسانیت کی تلاش میں گھر سے نکل پڑتا ہے۔ اسامہ کے جانے کے بعد گھر کی فضا کافی سوگوار ہو جاتی ہے۔ رباب اپنا دل بہلانے کے لئے ایک این۔ جی۔ او میں داخلہ لے لیتی ہے۔ وہاں رباب کی ملاقات شمیمہ سے ہوتی ہے۔ رباب شمیمہ کو اپنے گھر لے آتی ہے۔ سیاسی لیڈر سازش کر کے اس این۔ جی۔ او کو بند کروانا چاہتے ہیں۔ شمیمہ کے گھر آنے سے ارشد اور رباب کافی بہل جاتے ہیں اور اسامہ کا غم کم ہو جاتا ہے۔ اسی دوران بابری مسجد کا فیصلہ آتا ہے جو مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوتا ہے۔ اس میں تینوں فرقوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فیصلہ سننے کے بعد علوی کے والد کو ہارٹ اٹیک آتا ہے اور وہ انتقال کر جاتے ہیں۔ پھر اس کی لاش کے ساتھ سیاست شروع کی جاتی ہے۔ علاقے کے لیڈر ’میر صاحب‘ کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے لاش کو چوک پر رکھ کر اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جو کہ بے سود ہوتا ہے۔ اس ناول میں تھاپڑ جو ارشد پاشا کا عزیزدوست ہے ہر قدم پر اس کا ساتھ دیتا ہے، لیکن جب تھاپڑ کے چہرے سے نقاب اترتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ تھا پڑ کون ہے اور اس کے گروپ کا کیا مقصد ہے۔ ارشد ایک وکیل سے ملتے ہیں تاکہ وہ اس کی مدد سے اسامہ کو ڈھونڈ سکے لیکن وہ بھی ناکام ثابت ہوتا ہے۔ ناول کا اختتام بہت حیرت انگیز اور خطرناک انداز میں ہوتا ہے اور قاری کافی دیر تک سوچ میں ڈوبا رہتا ہے۔ ارشد پاشا کی تلاش ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک نئی تلاش کا آغاز ہو تا ہے۔ اس ناول میں ہندوستان میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو پیش کیا گیا ہے کہ وہ ہر اعتبار سے بیک ورڈ ہیں پولیس اور حکومت کے رویّہ کی وجہ سے ذہنی سکون و اطمینان ختم ہو گیا ہے۔
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ کے کردار اپنی ایک انفرادی اہمیت کے حامل ہیں۔ ذوقی نے ان کے ذریعہ مسلمانوں کی بے بسی اور لاچاری کو ہمارے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ ذوقی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ کرداروں کی زندگی کے پیچھے چھپے ہوئے تمام پہلوؤں اور گمنام گوشوں سے کچھ اس طرح پردہ اٹھاتے ہیں قاری قدم قدم پر چوکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ذوقی کے کردار ہندوستان کے سیاسی رنگ اور ان کے ذریعہ پیدا کی گئی سازشوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اسامہ اس ناول کا ایک ایسا کردار ہے جسے طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ اس نے کمسنی میں ہی بڑے بڑے سادھوؤں کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ اس کا مقصد بہت عظیم ہے۔ یہ جو کر رہا ہے وہ ہم سمجھ نہیں سکتے۔ یہ بچہ اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے ہم سب کو اپنا بنا بیٹھا ہے۔ ذوقی نے اس کردار کے لئے ایسا نام چنا ہے جس کی دہشت سے امریکہ تک کانپتا ہے۔ لیکن انسان اپنے کام سے پہچانا جاتا ہے۔ ذوقی نے یہاں بھی یہی بتانے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح ایک اسامہ ایسا بھی ہو سکتا ہے اسی طرح کروڑوں مسلمان دہشت گرد نہیں ہو سکتے ہیں۔ اسامہ سسٹم سے پریشان ہو کر اپنا گھر چھوڑ دیتا ہے۔ اور الگ الگ شہروں میں جا کر الگ الگ لوگوں سے ملتا ہے اور لوگوں کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ مانا کہ اسامہ کا کردار ناول میں تھوڑا ہی ہے۔ مگر پورا ناول اس کے ارد گرد ہی گھومتا نظر آتا ہے۔
ناول میں دوسرا اہم کردار تھاپڑ کا ہے۔ جو راوی ارشد کا قریبی دوست ہے۔ وہ ارشد پاشا کا ہر قدم پر ساتھ دیتا ہے۔ جب بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ہوتا ہے تب وہ سامہ کو اپنے گھر لے جا کر رکھتا ہے۔ لیکن ناول کے آخری صفحات پر اس کردار کی سچائی سامنے آتی ہے۔ ذوقی نے اس کردار کی مدد سے اس سچائی سے پردہ اُٹھا یا ہے جس پر میڈیا بات نہیں کرتا ہے۔ اس کی خبر سچ ہو کر بھی دبا دی جاتی ہے۔ تھاپڑ سنگھ کا آدمی ہے۔ اور وہ مسلمانوں کو توڑنے کے لئے مسلمانوں کے قریب رہ کر ان کی کمزوریوں کو جاننا ضروری سمجھتا ہے۔ جب سنگھ کے آدمی ارشد پاشا کو نظر بند کر کے اپنے علاقے میں لے جاتے ہیں تب اسے وہاں تھاپڑ ملتا ہے اور اپنی سچائی بتاتا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’میں اپنی کیفیت، اپنے تجربے تحریری طور پر سنگھ کو دے رہا تھا۔ اور میرا مقصد واضح تھا۔
آپ ایک جنگ اس وقت تک نہیں لڑ سکتے جب تک آپ ایک مسلمان فکر کو اندر اندر تک سمجھ سکنے سے محروم رہتے ہیں __ میں نے کہہ رکھا تھا، ہو سکتا ہے میری زندگی اس تجربے میں ختم ہو جائے۔ مگر میرے بعد یہ تحریریں سنگھ کے کام آئیں گی__ کیوں کہ آزادی کے بعد کے مسلمانوں کو سمجھنا آسان کام نہیں۔ یہ کئی حصوں میں بٹے ہوئے لوگ ہیں۔ ایک بڑی آبادی تعلیم سے بے بہرہ ہے __مڈل کلاس مذہب اور سیکولرزم کے درمیان پناہ تلاش کر رہا ہے۔ اپر کلاس کے طبقے کی فکر الگ ہے۔ ایک نظام ایسا بھی جہاں اسلام کی ترویج و ارتقاء کے لئے باہر سے پٹرو ڈالر آ رہے ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھتے تھے۔ ان باتوں سے زیادہ یہ سمجھنا کہ تم لوگ عام زندگی کیسے گزارتے ہو۔ تمہاری زمین کیا ہے ؟ تمہاری زمین کے مسائل کیا ہیں ؟تم کن سطحوں پر سوچتے اور جھکتے ہو۔ تمہیں کیسے کمزور کیا جا سکتا ہے۔ ہاں۔ تمہیں کیسے داس بنایا جا سکتا ہے ___اور میں کہہ سکتا ہوں، یقینی طور پراس تجربے میں تم میرا پورا ساتھ دے رہے تھے __‘‘ ۳۷؎
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ میں مکالمہ نگاری اپنے عروج پر ہے۔ ان مکالموں میں ماں باپ کا خوف اور ڈر بھی موجود ہے تو کہیں اس میں پولیس کی بے خوف گفتگو بھی شامل ہے۔ ان ناول میں موجود مکالموں سے ایک ماں کا اپنے بیٹے کے لیے خوف و فکر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی اس ناول میں ذوقی نے پرانے زمانے کے خیالوں کا بھی ذکر بخوبی کیا ہے۔ بلّی کا راستہ کاٹنا، کوئے کا بولنا وغیرہ شبہات کے ذریعہ انھوں نے ناول میں دلکشی بخشنے عورتوں کی سوچ کا بھی احاطہ کیا ہے۔ یہ اقتباس ملا حظہ ہو__
’’بدھ لڑکی ……..تو کہتی ہے کہ باورچی کھانے میں تھی اور پیاز چھیل رہی تھی___مگر تو نے کوّے کے کائیں کائیں کرنے کی آواز نہیں سنی………؟‘‘
’سنی ہو گی۔ ‘‘ …….بسمیتا نے دل رکھنے کو کہ دیا۔
’’سنی ہو گی۔ کیا مطلب۔ ہائے اللہ کیسی پاگل لڑکی سے سابقہ پڑا ہے اور توچپ بیٹی رہی…..جانتی ہے دن کیا ہے …..جمعہ …..جمعہ کے روز کوّا بولتا ہے تو کیا ہوتا ہے …..وہ بھی صبح صبح …..ہائے اللہ مرا دل ڈر رہا ہے ……‘‘ ۸ ۳؎
ناول میں مشرف عالم ذوقی نے منظر نگاری کے فرائض بڑی خوبصورتی سے انجام دیا ہے۔ انھوں نے اس ناول کے منظر کو اس حقیقی رنگ میں ہی رنگ کر پیش کیا ہے۔ چاہے وہ منظر کسی بازار کا، شہر کا، گلی کا یا کسی سیاسی واقعہ کا ہو۔ کاشی جیسے شہر کی منظر نگاری مشرف عالم ذوقی یوں کرتے ہیں :
’’کاشی ___کاشی کی گلیاں، چھوٹی چھوٹی ان گلیوں میں ہی کاشی آباد ہے۔ یہاں کی صبح مشہور ہے ___صبح ہوتے ہی کاشی کے گھاٹوں کا نظارہ دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ بازاروں میں دھوم، بنارسی پان اور بنارسی ساڑیاں __پیتل اور اسٹیل کے برتن، مٹھائیوں کی دکانیں، حکیم اور عطار کی دکانیں _چھوٹے بڑے گھروں سے جھانکتے ہوئے لوگ۔ ‘‘ ۳۹؎
مشرف عالم ذوقی اپنے اسلوب اور زبان و بیان کی خوبیوں کی وجہ سے اردو ناول نگاروں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی زبان اس ناول کی روح ہے۔ اگر ذوقی کو اپنے زبان و بیان پر گرفت نہ ہوتی تو شاید وہ اتنے نازک موضوع کو اتنی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان نہ کر پاتے۔ ان کی زبان تصنع و بناوٹ سے پاک ہے۔ ان کا چبھتا ہوا تلخ اسلوب ہمیں قدم قدم پر آئینہ دکھاتا ہے۔ ذوقی کے عمیق مطالعہ، مشاہدہ اور تجربے نے اس ناول کو قاری کی کہانی بنا دیا ہے۔ ذوقی کی تحریروں میں ایک مقناطیسی کشش ملتی ہے۔ اس ناول کے بارے میں یونس خان اپنا خیال یوں پیش کرتے ہیں :
’’میں نے ابھی ابھی اس ناول کو ختم کیا ہے۔ اور میں ابھی بھی اس کے سحرمیں گم ہوں۔ کہنا مشکل ہے کہ اس ناول کے سحر سے کب باہر نکل سکوں گا۔ اس ناول کو لکھنا آسان نہیں تھا۔ پاکستان میں ہم ایسے ناولوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مجھے نہیں خبر کہ آپ کو اس کے لکھنے کا حوصلہ کہاں سے ملا۔ ‘‘ ۴۰؎
صیحح معنوں میں ذوقی کا یہ ناول آزادی سے لے کر اب تک کے مسلمانوں کی درد ناک داستان ہے۔ ایک المیہ ہے جس کو لکھ پانا بہت مشکل ترین کام تھا جس کو ذوقی نے بڑے پر اثر انداز میں اپنے ناول میں پیش کیا ہے۔ اس طرح ہم اس ناول کو اردو فکشن کے ذخیرے میں ایک شاندار اضافہ مان سکتے ہیں۔
٭٭
حواشی
۱۔ ڈاکٹر مشتاق احمد ’’جدید حیثیت کا فکشن نگار: ’’ذوقی ‘‘ ایجو کیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی
۲۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلہ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۱۳۶
۳۔ مشرف عالم ذوقی، ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ ص۸۰
۴۔ مشرف عالم ذوقی، ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ ص ۲۸۹
۵۔ مشرف عالم ذوقی، ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ ص ۱۶
۶۔ عبد الرحمن ایڈوکیٹ ’’عالمی جائزہ‘‘ سہ ماہی ’’شمارہ ۱ ‘‘ جنوری تا مارچ ص ۱۲۷
۷۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلہ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۱۳۸
۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’نیلام گھر‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، دہلی ص ۸۸
۹۔ مشرف عالم ذوقی ’’نیلام گھر‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، دہلی ص ۱۱۹
۱۰۔ مشرف عالم ذوقی ’’ذبح‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، دہلی ص ۶۴
۱۱۔ مشرف عالم ذوقی ’’ذبح‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، دہلی ص ۹۲
۱۲۔ مشرف عالم ذوقی ’’ذبح‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، دہلی ص ۹۴
۱۳۔ نسیم فاطمہ امروہوی ’’ذوقی : تخلیق اور مکالمہ ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ص ۳۵۶
۱۴۔ مشرف عالم ذوقی ’’بیان‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، ’’ص ۱۱
۱۵۔ مشرف عالم ذوقی ’’سلسلہ شب و روز‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ص ۱۷۴
۱۶۔ مشرف عالم ذوقی ’’بیان‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، ’’دہلی‘‘ ص ۱۶۵
۱۷۔ مشرف عالم ذوقی ’’بیان‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، ’’دہلی‘‘ ص ۴۹
۱۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’بیان‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، ’’دہلی‘‘ ص ۱۴۸
۱۹۔ مشرف عالم ذوقی ’’بیان‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، ’’دہلی‘‘ ص ۱۶۹
۲۰۔ عبد الرحمن ایڈوکیٹ ’’عالمی جائزہ سہ ماہی‘‘ جنوری تا مارچ ص۱۱۶
۲۱۔ مشرف عالم ذوقی ’’شہر چپ ہے ‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، دہلی ص ۲۵
۲۲۔ مشرف عالم ذوقی ’’شہر چپ ہے ‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، دہلی ص۲۳
۲۳۔ مشرف عالم ذوقی ’’شہر چپ ہے ‘‘ تخلیق کار پبلیشرز، دہلی ص ۳۴
۲۴۔ مشرف عالم ذوقی ’’مسلمان‘‘ ساشا پبلی کیشنز، دہلی ص ۹۴
۲۵۔ مشرف عالم ذوقی ’’مسلمان‘‘ ساشا پبلی کیشنز، دہلی ص ۹۸
۲۶۔ مشرف عالم ذوقی ’’مسلمان‘‘ ساشا پبلی کیشنز، دہلی ص ۲۱
۲۷۔ مشرف عالم ذوقی ’’مسلمان‘‘ ساشا پبلی کیشنز، دہلی ص ۳۹
۲۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’مسلمان‘‘ ساشا پبلی کیشنز، دہلی ص ۱
۲۹۔ مشرف عالم ذوقی ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی ص ۳۳۰
۳۰۔ مشرف عالم ذوقی ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی ص ۳۰۸
۳۱۔ ڈاکٹر مشتاق احمد ’’جدید حسیت کا ناول نگار: ذوقی‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس ص ۳۷
۳۲۔ ’’ماہنامہ امکان لکھنؤ‘‘ مارچ۔ اپریل ۲۰۱۴ء ص ۴۳
۳۳۔ مشرف عالم ذوقی ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان ‘‘ ساشا پبلی کیشنز، دہلی ص ۱۷۶
۳۴۔ مشرف عالم ذوقی ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان ‘‘ ساشا پبلی کیشنز، دہلی ص
۳۵۔ مشرف عالم ذوقی ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان ‘‘ ساشا پبلی کیشنز، دہلی ص ۳۹۲
۳۶۔ مشرف عالم ذوقی ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ ایجو کیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی (پیش لفظ)
۳۷۔ مشرف عالم ذوقی ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ ایجو کیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۶۹۵
۳۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ ایجو کیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۳۵۶
۳۹۔ مشرف عالم ذوقی ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ ایجو کیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۳۴۴
۴۰۔ مشرف عالم ذوقی ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ ایجو کیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی پچھلا حصہ
٭٭٭
باب چہارّم
’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ کا تفصیلی و تجزیاتی مطالعہ
ابتداء سے آج تک اردو ناول نگاری مختلف مراحل سے گزری ہے اور ہر دور میں کچھ نام نمایاں رہے۔ جنھوں نے اردو ناول نگاری کی تاریخ میں اپنا مقام متعین کیا۔ ۱۹۸۰ء کے بعد کے ناول نگاروں نے اس فن کو مزید مستحکم کیا۔ اس زمانہ کے نمایاں ناموں میں مشرف عالم ذوقی کا نام واضح اور روشن نظر آتا ہے۔ اُن کے ناول تعداد کے اعتبار سے زیادہ تو ہیں ہی اس کے علاوہ فنکارانہ خوبیوں کی وجہ سے ذوقی اپنی علیحدہ شناخت کے مالک ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ حال اور ماضی کو ملا کر کہانیوں کا ایسا مرکب تیار کرتے ہیں جو قاری کو متوجہ کر تا ہے۔ ان کی کہانیوں میں حیات و ممات کے ایسے فلسفے بھی ہوتے ہیں جو مدتوں تک قاری کے ذہن کو اُلجھا دیتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کی کہانیاں ماضی میں بھی سانس لیتی ہیں اور جدید سائنسی منظر نامے کی گواہ بھی بن جاتی ہیں۔ ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ان کی ایک ایسی ہی کہانی ہے جو اپنے موضوعات و مسائل، معنوی جہات اور صوری تشکیل کے لحاظ سے ایک منفرد اور ممتاز فنی کارنامہ ہے۔
’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا‘‘
مشرف عالم ذوقی نے اپنے ناول کا عنوان ’’میر تقی میرؔ ‘‘ کے اس شعر سے لیا ہے۔ ’’ لے سانس بھی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ یہ ناول ۴۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ ناول کے شروعات میں ذوقی نے ہرمن ہیسے کا اقتباس پیش کیا ہے ملاحظہ ہو:
’’یونانی لوک کتھاؤں میں ابراکس نام کے ایک دیوتا کا ذکر ملتا ہے، جسے سورج کا بیٹا کہا گیا ہے۔ سورج کا بیٹا جو تمام اچھی بری، تاریک اور نورانی طاقتوں کا دیوتا ہے۔ اس کا نچلا حصہ سانپ کا ہے یعنی جو زمین کی نشانی کے طور پر ہے۔ لیکن سر مرغ کا ہے۔ جسے اُگتے ہوئے سورج کی علامت مانا گیا ہے۔
ایک برابر ہیں اور ہر شخص کو اپنے حساب سے جھوٹ، سچ، غلط، جائز اور نا جائز کی تعریف کرنی پڑتی ہے۔ قدرت کے نظام کو بھلی اور بری باتوں کے درمیان تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اور__ارتقا کے راستے میں اخلاقیات کا کوئی دخل نہیں۔ ‘‘
جس سے ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ ناول اس اقتباس کا خلاصہ ہے ساتھ ہی مشرف عالم ذوقی نے ناول کے آغاز میں کرداروں کا شجرۂ نسب بھی بتا دیا تا کہ قاری کو ناول کا مطالعہ کرتے وقت کوئی دشواری نہ ہو۔ مشرف عالم ذوقی نے اپنے اس ناول کے لیے اُتر پردیش کے مقام ’بلند شہر ‘ کا انتخاب کیا ہے۔ ’بلند شہر ‘ایک ایسا شہر ہے جہاں تہذیبیں پامال ہوئی ہیں لیکن یہ شہر ترقی سے ہمکنار بھی ہے۔ یہ ایک سماجی ناول ہے جس میں قدرت اور قسمت کی عجیب و غریب کہانی پیش کی گئی ہے۔ یہ دنیا اور معاشرے کی بد صورتی کو ظاہر کرتی ایک داستان ہے۔ جہاں ملک کا سرحدوں میں تقسیم ہونا، کند سماج کی مفلوج رسمیں، قدروں کا پامال ہونا، رشتوں کی بدلتی صورت حال، جادو ٹونا، تہذیبوں کا خوفناک تصادم، سیاہ سفید اور امیر و غریب کی جنگ، جاگیر دارانہ رواج کی کھو کھلی شان اور اسی کے درمیان سانس لیتی ہوئی خاموش محبت کی داستان، آغاز سے انجام تک سلسلہ در سلسلہ واقعات کی ڈور نے ذوقی کے اس ناول کو ایک نئی فکری جہت سے آشنا کیا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق احمد اپنی کتاب میں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ تہذیبوں کے عروج و زوال کی کہانی جہاں اخلاقیات کی فرسودہ بحث کو ذوقی ایک بڑے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کا سہارا لے کر ایک عظیم شاہکار لکھ جاتے ہیں جہاں وقت ہیرو ہے۔ قدرت ہمیں ذبح کر رہی ہے۔ اور انسان فاتح ہے جو مصیبتوں میں بھی ارنیسٹ ہمنگوے کے بوڑھے آدمی کی طرح شکست تسلیم نہیں کرتا اور فتح کو ہی اپنا مقدر جانتا ہے۔ ‘‘ ۱؎
مشرف عالم ذوقی نے مجموعی طور پر اس ناول میں تہذیبوں کے تصادم کے مسئلہ کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے جو ایک نازک مسئلہ ہے۔ ذوقی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ قلم کی ذراسی جنبش مسائل اور ہنگامہ کھڑا کر سکتی ہے۔ اس لحاظ سے انھوں نے ناول میں جگہ جگہ علامتوں کا سہارا لیا ہے۔
پلاٹ
مشرف عالم ذوقی کے اس ناول کا پلاٹ کا فی پھیلا ہوا، پیچیدہ اور بے شمار مسائل اور متنوع موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ ان کی تکنیک چونکانے وا لی ہے۔ تمہید کے طور پر انھوں نے ’’ہر من ھیسے ‘‘ کے ’’ڈیمیان‘‘ سے ماخوذ اقتباس کو پیش کیا ہے۔ جس کا یہ آخری جملہ کلیدی اہمیت کا حا مل ہے۔
’’ارتقا کے راستے میں اخلاقیات کا کوئی د خل نہیں۔ ‘‘
اور پھر مختصر سے تین جملے۔ ۔ ۔
’’کبھی کبھی قدرت کے آگے /
ہم بیحد کمزور ہو جاتے ہیں /
اور سپر ڈال دیتے ہیں۔ ‘‘ ۲؎
ان عبارتوں سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ یہ ناول انسانی مقدّر کی ستم ظریفی کی داستان یا قدرت کے جبر کی کہانی ہے۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا قصہ فلش بیک میں بیان کیا گیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اس ناول کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصہ میں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرتی کش مکش کو بیان کیا ہے۔ ’’ کار دار خاندان کی حویلی ‘‘ دراصل ہندوستانی مسلمانوں کا استعارہ ہے۔ عبد الرحمن کے والد وسیع کاردار اور اس کے گھر والے مولوی محفوظ علی کے مشورے پر کسی گمشدہ دفینے کی تلاش میں حویلی کی کھدوائی شروع کرتے ہیں۔ اسی درمیان پاکستان سے سفیان ماموں اور ان کی بیٹی نادرہ کی آمد ہوتی ہے شہر کے ناخوش گوار ماحول کی وجہ سے کھدائی کا کام تھوڑے دنوں کے لئے ٹل جاتا ہے۔ ہندو مسلم فسادات سے لوگوں کے دلوں میں خوف نے گھر کر لیا تھا۔ مگر حالات معمول پر آنے کے بعد خزانے کی کھدائی شروع ہوتی ہے۔ رحمن کی دلچسپی خزانے سے ہٹ کر نادرہ میں رہتی ہے۔ وہ نادرہ کے حسن کا اسیر ہو جاتا ہے اور اس کا ذکر رحمن اس طرح کرتا ہے۔
’’ایک جادو نگری تھی……یہ حویلی…….
ایک جادو گر تھا …….مولوی محفوظ…….
ایک جادو کا ڈبہ……یہ گمشدہ خزانہ ……
میری تنہائی مجھے ڈس رہی تھی…….عمر کا گھوڑا سر پٹ ہوا میں بھاگ رہا تھا۔ میرے جسم کو خوشبو مل گئی تھی…….اور یہ خوشبو لذتوں کے لباس میں گم ہونا چاہتی تھی……..‘‘ ۳؎
ناول میں ذوقی نے دو نسلوں کا ذکر کیا ہے ایک وہ جسے خزانے سے دلچسپی ہے تو دوسری نسل کے لئے خزانہ کچھ اور ہے۔ جادو کچھ اور ہے اس کے معنی کچھ اور ہیں یعنی واضح طور پر ذوقی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سچائی یا حقیقت کی کوئی ایک سطح یا صورت متعین نہیں ہو سکتی۔ اسی دوران نہ جانے کس طرح کھدائی کی بات شہر میں پھیل جاتی ہے۔ خزانہ تو ہاتھ نہیں آتا البتہ پولیس کو اس بات کی خبر لگ جاتی ہے۔ پولیس انسپکٹر کاردار کی حویلی میں تلاشی کے غرض سے آتا ہے اور کار دار انتہائی بیزاری سے انسپکٹر کو کھدائی کی ہوئی جگہ پر لے جا کر گڑھا دکھاتے ہوئے کہتا ہے :
’’یہ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی قبر کھود رہا تھا۔ لوگ اپنے مرنے کے بعد قبر میں دفن ہوتے ہیں۔ قبر بھی گورکن کھودتے ہیں۔ لیکن میں، وسیع احمد کاردار ولد سمیع احمد کاردار، کاردار خاندان کا یہ بد نصیب وارث، اس آزاد ہندوستان میں بد نصیب حویلی کی میت اُٹھاتے اُٹھاتے اتنا تھک گیا کہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ۴؎
دراصل یہ خزانہ انسان اور فطرت کو محفوظ کرنے کا مقصدِ اشاریہ بن گیا ہے۔ یعنی یہ خزانہ اپنے ماضی کے تحفظ کی علامت ہے جو وسیع کاردار کے گھر موجود ہے۔ لیکن وہ اسے حاصل نہیں کر پاتے ہیں اور یہ کھدائی جو اس رمز کا اشاریہ ہے کہ لالچی اور خود غرض سیاست نے کس طرح سے ہماری صدیوں کی تہذیب و روایت کوکھو کھلا کر ڈالا ہے اور اس کے ساتھ ذوقی نے ملک میں پیدا ہونے والے واقعات فسادات اور رتھ یاترا سے لے کر بابری مسجد کے انہدام تک کے واقعات کا ذکر بھی بڑے پر اثر انداز میں کیا ہے ان حادثات اور واقعات کو جنم دینے والی جماعتوں کی تصویر پیش کی ہے۔
اس ناول کے دوسرے حصہ میں مشرف عالم ذوقی نے تہذیبوں کے تصادم کی کہانی کو پیش کیا ہے۔ ناول کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول کے کردار علامتی ہیں جیسے نور محمد کا کردار ایک مشرقی ذہن رکھنے والا کردار ہے۔ لیکن حالات اسے اتنا مجبور کر دیتے ہیں کہ اس کو اپنا یہ مشرقی چولا اتارنا پڑتا ہے۔ نور محمد کی طرح نگار کا کردار بھی علامتی محسوس ہوتا ہے۔ اس کی پیدائش بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہوتی ہے جیسا کہ ذوقی کہنا چاہتے ہیں کہ اب ایک نئی تہذیب کا جنم ہوا۔ نگار کا رونا پرانی تہذیب کے خاتمے کے ماتم کی علامت ہے۔ اسی لئے مشرف عالم ذوقی نے واقعات کے ساتھ ساتھ تاریخی حوالوں کو بھی پیش کیا ہے۔ ان حوالوں سے ایک نئی دنیا سامنے آتی ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’وہ پیدا ہو چکا ہے
اور یقین مانو وہ پیدا ہو چکا ہے /
تمہاری اس دنیا میں /
تیر کمان اور بھالوں سے الگ کی/
اس خطرناک دنیا میں /
جس کے لئے تم انتہائی مہذب ہونے کی
دہائیاں دیتے ہو………‘‘ ۵؎
ذوقی ایک تہذیب کے ختم ہونے کا ماتم کرتے ہوئے اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ جہاں سے ایک تہذیب ختم ہوتی ہے وہیں دوسری تہذیب کا جنم ہوتا ہے۔ اس لئے جب گاؤں والے نور محمد سے عبد الرحمن سے ملتا ہے تو اس کو اس میں ایک نئی تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے اور عبد الرحمن کاردار یہ کہنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے کہ:
’’دنیا کے سارے رشتے اپنے ہیں اور ہر رشتے میں ایک احساس سانس لے رہا ہے۔ کچھ رشتوں کی تعریف ہم انسانوں نے ہی گڑھی ہے اور کبھی قدرت اس تعریف کو ایک تجربے کے تحت الٹ دیتی ہے۔ تہذیبیں اپنی عمارتوں کا بوجھ خود اُٹھاتی ہیں۔ ‘‘ ۶؎
قصہ کا راوی عبد الرحمن کاردار ہیں۔ جن کے آبا و اجداد کا تعلق بلند شہر سے ہے۔ اس شہر میں کار دار خاندان کے علاوہ نور محمد کا خاندان بھی ہے۔ ان خاندان کے تار حریر کے دو رنگ سے اس قصہ کا بنیادی پلاٹ بنایا گیا ہے۔ اس میں حیرت و حسرت کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ جب کہ بظاہر قصہ نور محمد کے خاندان سے متعلق ہے۔ عبدالرحمن کار دار مایوسی، محرومی اور تنہائی کے ساتھ اپنی زندگی، بلند شہر سے دور ایک پہاڑی سلسلے پر گزار رہے ہیں۔ جہاں تھوڑے تھوڑے دنوں کے لیے ان کی سترہ سال کی پو تی ’’ سارا کاردار‘‘ جو ان کے اکلوتے بیٹے ’’ڈاکٹر شان کاردار‘‘ کی بیٹی ہے، آ جاتی ہے۔ ان کے علاوہ اس گھر میں ملازم ’’ابو بابا‘‘ اور ملازمہ ’’حلیمہ‘‘ بھی رہتی ہیں۔ ’’پروفیسر نیلے ‘‘ جو عبد الرحمن کاردار کے اچھے دوست اور پڑوسی ہیں۔ اپنے آبائی علاقے سے دور اپنی بیوی کے ساتھ یہیں وقت گزار تے ہیں۔ یہ دونوں اکثر پہاڑی سلسلے پر ایک ساتھ گھومتے، پھرتے ہیں حالات حاضرہ اور سابقہ پر تبصرہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی کسی موقع پر عبد الرحمن کاردار کو وہ وقت یاد آتا ہے جب ’’نادرہ‘‘ ان کے گھر پہلی بار آئی تھی۔ ’’نادرہ‘‘ جو عبد الرحمن کے ماموں کی بیٹی ہے۔ اس کے ان کے گھر آ جانے سے ان کی حویلی جو آسیبی سمجھی جاتی تھی طلسم ہوش رباء ہو جاتی ہے۔
نادرہ نے حویلی میں آنے کے بعد نہ صرف اپنے پھوپھا اور پھوپھی کے دل میں جگہ بنا لی ہے بلکہ پھوپھی کے بیٹے عبد الرحمن کاردار کے دل میں بھی اترتی چلی جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ ان دونوں کا پیار پروان چڑھنے لگتا ہے۔ اس کہانی میں جہاں ایک طرف نادرہ اور عبد الرحمن کے عشق کے بوٹے کھل رہے تھے۔ تو دوسری طرف پرانی روایت دم توڑ رہی تھی، تہذیب ختم ہو رہی تھی۔ اخلاقی قدریں زوال پذیر تھیں۔ حویلی کی شان و شوکت قصہ پارینہ بنتی جا رہی تھی۔ وسیع و عریض حویلی، اس کے گرد کے باغات، نوکر چاکر، بھشتی، تانگے، گھوڑے یہ سب کے سب اپنا وجود کھو چکے تھے۔ ان سب تفصیلات کو مشرف عالم ذوقی نے جس طرح بیان کیا ہے۔ انہیں پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ناول نگار نے مٹتی ہوئی تہذیبوں، قدروں، رسم و رواج کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’شہر میں تانگوں کا رواج ہی ختم نہیں ہوا بلکہ روایت اور تہذیب سے وابستہ اخلاقیات کو بھی زوال آ گیا__تانگے والوں کی مہذب زبان ان کے رکشے والوں کے یہاں مفقود تھی __زیادہ تر حجامنوں نے اب یہ پیشہ چھوڑ دیا تھا __بولن بوا، جمیلہ اور گھر گھر پھیری کرنے والی عورتوں کی تعداد میں بھی کمی آ گئی تھی __لیکن ابھی یہ سلسلہ پوری طرح منقطع نہیں ہوا تھا__‘‘ ۷؎
ان پرانی روایتوں، قدروں اور تہذیبوں کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ ایک نئی تہذیب اپنے پاؤں پورے سماج اور معاشرے میں پھیلا رہی تھی۔ اور ظاہر ہے کہ نئی نسل کو یہی بدلتی ہوئی تہذیب اور قدریں پسند آ رہی تھیں اور اس کا ذکر ذوقی باب کی ابتداء میں ہی کرتے ہیں :
’’عام طور پر مہذب سماج میں ہی/
جمہوری حملے /
تیز ہوتے ہیں۔
ہم ایک جنگ سے نکل کر
دوسری جنگ کی طرف بڑھتے ہیں
جیسے
ایک تہذیب سے نکل کر
دوسری تہذیب کی طرف‘‘ ۸؎
مشرف عالم ذوقی نے جس خوبصورت انداز اور جس گہرائی سے بعض پرانی روایتوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ ذوقی کا یہ ناول پرانی روایت کو اپنے اندر پوری شدت سے سمیٹے ہوئے ہے یہ سب تاریخ کے اہم اوراق ہیں اور ماضی کی بہترین یادیں ہیں۔ نادرہ کے سحر میں قید ہونے کے باوجود عبد الرحمن کاردار سفیان ماموں سے اپنے لئے نادرہ کا رشتہ نہ مانگ سکے۔ نادرہ کی شادی نور محمد سے ہو جاتی ہے اور اس طرح خاموش محبت کا خون ہو جاتا ہے۔ یعنی روایتی اخلاق کی پابندی اور پاسداری نے معاشرتی نظام میں بیماری پیدا کر دی اور اس بیمار نظام میں پیدا ہونے والے بہت سے بیمار بچوں کی طرح نادرہ بھی ایک ذہنی طور پر معذور بچی کو جنم دیتی ہے اور یہیں سے اس ناول کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ جو اب تک ناول کی دنیا میں لکھی جانے والی سب سے بھیانک کہانی ہے۔ یہ کہانی دو چہروں پر مبنی ہے۔ ایک چہرا مرد کا ہے جو بے حد معصوم اور مظلوم ہے اوردوسرا چہرا ایک معصوم سی معذور بچی کا ہے۔ یہ چہرا ’نور محمد‘ اور اس کی بیٹی ’نگار‘ کا ہے۔ یہ دونوں کردار ایسی بد نصیبی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔
ناول میں نور محمد کی زندگی موت سے بھی بد تر ہے۔ یا یوں کہیے کہ نور محمد مر مر کے جی رہا ہے۔ وہ نگار کی زندگی کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ کسی بھی حد تک جانے کے لئے راضی ہے۔ نورمحمد ایک ایسے راستے پر چل رہا ہے جہاں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ بلکہ مجبوری ہے۔ مگر کیا مجبوری انسان کو اس حد تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ حیوان بن جائے ؟ جائز نا جائز کا فرق بھول جائے ؟ نور محمد نے باپ اور بیٹی کے رشتہ کو پامال ہی نہیں کیا بلکہ پوری انسانیت کو بھی شرمسار کیا ہے۔ باپ اور بیٹی کے رشتہ کے تعلق سے ’’ڈاکٹر منظر اعجاز‘‘ لکھتے ہیں کہ
’’باپ بیٹی کے مقدس رشتے کی پامالی کے متعدد واقعات تاریخ کا بھی جزو اور ادب کا بھی حصہ بنے ہیں۔ لیکن یہاں نگار اور نور محمد کے رشتہ کی پامالی کی نوعیت ایسی ہے جو تاریخ اور تخیل کی ہمکاری سے ایسی حیثیت اختیار کر گئی ہے جو فن کو شاہکار کے مرتبے تک پہنچا دیتی ہے۔ ‘‘ ۹؎
اس ناول میں عبد الرحمن کا کردار نا قابلِ فراموش ہے۔ کیوں کہ ذہنی طور پر نگار کی معذوری کا اصل سبب عبد الرحمن کاردار اور نادرہ کے تعلق سے نادرہ کی نفسیاتی اور ذہنی گھٹن ہے۔ نگار کی جب پیدائش ہوتی ہے تو اسے رونے کے دورے پڑتے ہیں۔ جب یہ دورہ بڑھتا ہے تو روتے روتے نگار کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ نگار کی پیدائش کے بعد سے نادرہ کی طبعیت خراب رہنے لگتی ہے۔ اس دوران جب عبد الرحمن نادرہ سے ملنے آتا ہے تب نادرہ اس سے اپنے دل کا سارا حال بیان کر دیتی ہے اور رحمن سے شکوہ کرتی ہے۔
اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ دردِ جدائی اور زخم محبت نے نادرہ کو ایک مریضہ میں تبدیل کر دیا تھا اور بالآخر وہ اپنی سات سال کی نگار کو نور محمد کے حوالے کر کے انتقال کر جاتی ہے۔ نگار جیسے جیسے بڑی ہوتی ہے ویسے ویسے اس کے رونے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن اس کے احساسات ابھی بھی مردہ ہیں۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا ہوتی البتہ اس کے جسمانی نشو نما معمول کے مطابق ہوتی ہے۔ نگار کے پرورش کی نہ صرف ساری ذمہ داری نور محمد کو اٹھانی پڑتی ہے بلکہ اس کے ہر چھوٹے بڑے کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ اسی دوران ایک ایسا حادثہ ہوتا ہے جو قاری کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔
نگار بالغ ہو چکی ہے اور اس کا جنسی اشتعال ایک مرد کا متقاضی ہے۔ آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ نور محمد کو اپنی بیٹی کے جنسی اشتعال کو شانت کرنے کے لئے اسے اس کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کرنا پڑتا ہے۔ نتیجے کے طور پر نگار حاملہ ہو جاتی ہے۔ نور محمد حویلی چھوڑ کر اپنے بیٹی کے ساتھ ایک گاؤں میں جا بستا ہے۔ وہاں نگار ایک بچی کو جنم دیتی ہے۔ جس کا نام ’’جینی‘‘ رکھا جاتا ہے۔ بچی کی پیدائش کے بعد نگار بھی انتقال کر جاتی ہے۔ نور محمد جینی کے ساتھ ایک نئی زندگی کی شروعات کرتا ہے۔ اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے یہ ناول اخلاقیات اور انسانی رشتوں پر سوال اٹھاتا ہے کہ جینی نور محمد کی کون ہے ؟ بیٹی ……یا بیٹی کی بیٹی یعنی نواسی؟
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایک ایسا ناول ہے جس کا بیانیہ انداز، تکنیک کی ہنر مندی، کردار اور موضوع پر بہت سارے مضامین لکھے جا چکے ہیں۔ ذوقی نے اس ناول میں Fantasy، تجسس، مافوق الفطرت عناصر کی خوبصورت دنیا کا استعمال کر کے ناول کے کینوس کو تازگی بخشی ہے۔ ذوقی کا ناول قاری کو اپنی گرفت میں کر لیتا ہے اور یہی اس ناول کا بنیادی وصف ہے۔ ذوقی کی اس ناول کے بارے میں شائستہ فاخری لکھتی ہیں :
’’ذوقی کا ناول ’’لے سانس بھی آہستہ……‘‘ اکیسویں صدی کا ایک بڑا واقعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ ادبی دنیا میں اس ناول کا استقبال بڑے پر جوش طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ شاید یہ ہے کہ اس میں جس موضوع کا سہارالیا گیا ہے وہ ایک بڑے طبقے کے لئے قابلِ حیرت ہے۔ اس ناول میں باپ بیٹی کے مابین جنسی اختلاط جیسے سنگین واقع کو لے کر قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا گیا ہے۔ باپ اور بیٹی کے جس پاکیزہ رشتے کو تعجب خیز انداز میں عکس ریز کیا گیا ہے وہ ہمارے معاشرے بالخصوص مسلم معاشرے کے لیے ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دراصل ذوقی نے رشتوں کی تہذیب کے پیچھے انسانی حیوانیت یا جبلت کو نفسیاتی ژرف بینی کے ساتھ پیش کر نے کی جرأت کی ہے۔ ‘‘ ۱۰؎
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا پلاٹ بیانیہ نہ ہو کر تہہ دار ہے۔ اس میں صرف ادراک ہی نہیں بلکہ نفسیات بھی ہے۔ یہاں خود نوشت اور تاریخ نگاری کا انداز بھی ملتا ہے۔ ذوقی کا یہ ناول تہذیب و اخلاقیات کے انتشار کا نوحہ بیان کرتا ہے۔ ذوقی ٹکنالوجی اور صارفی کلچر کے اس دور میں تہذیب و اخلاقیات کے تئیں کافی فکر مند نظر آتے ہیں۔ ذوقی اس ناول کے ذریعہ ایسے سوالات کو اٹھاتے ہیں جس کا جواب نہ تو سماج کے پاس ہے اور نہ مذہب کے پاس مگر یہ سوالات ہمیں سوچنے اور غور و فکر کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ناول کے پلاٹ کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر منظر اعجاز لکھتے ہیں :
’’مشرف کا کینوس بہت پھیلا ہوا ہے۔ ان کے موضوعات متنوع اور مسائل نہایت ہی پیچیدہ اور بے شمار ہیں۔ بلکہ ایک انبار ہے مسائل کا جسے مشرف نے فلسفہ بنا دیا ہے۔ ان معنوں میں کہ فلسفے مسائل کی آگہی دیتے ہیں، ان کا حل نہیں دیتے مگر باضابطہ غور و فکر کا ایک سلسلہ قائم کر دیتے ہیں۔ تکنیک اکثر چونکانے والی ہوتی ہے۔ اس ناول میں خصوصیت کے ساتھ یہ امتیاز نظر آتا ہے۔ ‘‘ ۱۱؎
اس ناول کے مطالعہ کے بعد یہ با ٓسانی کہا جا سکتا ہے کہ موضوع و فکر کے لحاظ سے مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایک غیر معمولی اور بولڈ ناول ہے۔
کردار نگاری
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا ہر کردار اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے۔ عبد الرحمن کاردار، نادرہ، نگار، رقیہ، نور محمد، جینی سارہ وغیرہ۔ مگر اس ناول کی روح نور محمد میں بستی ہے۔ عبد الرحمن کاردار ایک ایساکا کردار ہے جس کے ارد گرد پورا ناول گھومتا ہے۔ نگار کا کردار ایسا ہے جو ذہنی طور پر معذور ہونے کے بعد بھی اس ناول میں اپنی مختلف اہمیت رکھتی ہے۔ دیگر ضمنی کرداروں میں پروفیسر نیلے، مولوی محفوظ، سفیان ماموں، نادرہ، نگار اور ان کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے مختصر کردار ہیں۔ ان کرداروں کی اپنی ایک نفسیات بھی ہے اور نظریہ بھی۔
نور محمد
نور محمد ناول کا مرکزی کردار ہے جو زندگی کی لوازمات سے دور قدرت کی گود میں جی رہا ہے۔ وہ اپنی گزشتہ یادوں، وعدوں اور سلسلوں کی عجیب و غریب آمد و رفت سے مانوس ہوتا ہے۔ نور محمد ایک ایسا بد نصیب شخص ہے جس کو زندگی میں نہ ماں کا پیار نصیب ہوا۔ نہ بیوی کی محبت اور نہ ہی بچوں سے خوشی ملی۔ اسے زندگی کے آخری دور تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے وہ اپنی ماں کی دشوار گزار اور دل دہلانے والی زندگی کا سامنا کرتا ہے۔ پھر ان کی وفات کے دکھ کو جھیلتا ہے۔ نادرہ سے محبت کی اور اس کو مرتے دم تک نبھایا حالانکہ شادی کے بعد بھی وہ بہت دنوں تک خوش گوار زندگی نہیں گزار پاتا ہے۔ شادی کے بعد نادرہ کی طبعیت خراب ہونی شروع ہو جاتی ہے اور آخر کار وہ ایک معذور بچی کو نور محمد کے حوالے کر کے انتقال کر جاتی ہے۔ جو نادرہ اور عبدالرحمن کاردار کی ناکام محبت کے نتیجے کی صورت پیدا ہوتی ہے۔
نگار کا رونا نور محمد کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اس پر بس نہیں ہوتا بلکہ نور محمد کو اپنی معذور اور عقل سے عاری بیٹی کے ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ جب نگار اٹھارہ سال کی ہوتی ہے تو مجبور ہو کر وہ اس کی اُن خواہشات کی بھی تکمیل کرتا ہے۔ جسے انسانی معاشرہ سب سے بڑا جرم مانتا ہے اور اس کے نتیجے میں نگار حاملہ ہو جاتی ہے اب اسے اپنا باپ مجرم نظر آنے لگتا ہے۔ وہ نور محمد کو مارتی ہے اور اسے دیکھ کر چڑ نے بھی لگتی ہے۔ اسی دوران ’’جینی‘‘ کی پیدائش ہوتی ہے اور پیدائش کے بعد نگار انتقال کر جاتی ہے۔ یہاں نور محمد مصنف کے ہاتھوں کی کٹ پتلی نظر آتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے، اپنی محبت کی نشانی کے لئے وہ سب کرتا ہے کیوں کہ وہ مجبور ہے اس نے نادرہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کا ہر صورت میں خیال رکھے گا۔ لیکن یہاں نور محمد کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ آتا ہے کہ اگر نگار اس کی بیٹی ہے تو جینی اس کی کون ہے ؟ اور اگر نادرہ اس کی بیوی ہے تو نگار اس کی کون ہے ؟اپنی محبت سے مجبور نور محمد ہر وہ کام کر گزرتا ہے جس کی اجازت نہ کوئی مذہب دیتا ہے اور نہ انسانی معاشرہ۔ درجہ ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’ہاں ‘
اس نے لمبی سانس بھری اور دھماکہ کر دیا__
’میں نے طلب پوری کر دی …..پوری کر دی ……، چھت ناچ رہی ہے ……آسمان گھوم رہا ہے ……ساری دنیا اچانک ہلنے لگی ہے ……
میں خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹتا ہوں __
’کیا…….؟‘
’اور کوئی راستہ نہیں تھا……‘
’وہ رو رہا تھا__ …….. Now she is pregnant ……‘ ۱۲؎
زندگی گزارنے اور نادرہ سے کئے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لئے نور محمد ’’جینی‘‘ کو بھی زندہ رکھتا ہے۔ اس وجہ سے اسے اپنا شہر، اپنا علاقہ اور اپنا وطن بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ وہ ایک گاؤں میں نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ وہ ایک جاگیر دار سے ایک کسان بن جاتا ہے۔ یہ ایک بڑی بات ہے کہ تمام تر مسائل سے گزرتے ہوئے بھی نور محمد اپنے تمام فرائض کو انجام دیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کوشش میں اس کی خود کی زندگی قابلِ رحم بن جاتی ہے۔
اس ناول میں ذوقی نے نور محمد کو پہلے ماں کے سایہ سے محروم کر دیا پھر ایک بے کس شوہر اور مجبور باپ کی حیثیت سے قارئین کی ہمدردی کا مرکز بنا دیا۔ نور محمد اپنے مسائل سے پریشان ہو کر اپنے عزیز دوست عبد الرحمن کار دار کو پکارتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے۔ اپنے آخری وقت میں بھی وہ عبد الرحمن کو خط لکھ کر اپنے گاؤں بلاتا ہے۔
’’بھیّا ___ بسی اسی لیے آپ کو خط لکھا ___ کون ہے آپ کے سوا میرا اور میں …….؟ کس امید پر بلند شہر کے رشتہ داروں سے ملنے جاتا ___ انہیں کیا بتاتا ___جینی کو بھی کچھ نہیں معلوم ……آپ سمجھ رہے ہیں نا بھیّا ___،
میرے اندر نگاڑوں کی گونج شروع ہو گئی تھی……
ڈرم ……ڈرم……
’تو جینی ……؟ ‘ میری سانس ٹوٹ رہی تھیں __’ تمہاری بیٹی ہے ……؟
نگار کی……؟‘
’ہاں ……‘ اُس پر کھا نسی کا دورہ پڑا تھا __’بے رحم حقیقت لیکن اسے تسلیم کر نا ہی ہے بھائی __میری بیٹی __لیکن قدرت کا ظلم کہ اس کی ماں بھی میری بیٹی تھی…… ‘ وہ رو رہا تھا ……قدرت کا انتقام…… اور یہی تو جاننا ہے مجھے کہ اس انتقام کے لیے خدا نے میرا انتخاب ہی کیوں کیا …… کھوں …….کھوں ……‘ ۱۳؎
اس اقتباس سے یہ صاف طور پر ظاہر ہو تا ہے کہ نور محمد صرف ایک بے بس انسان ہی نہیں بلکہ ایک وفا دار شوہر، مثالی محبوب اور اپنے آپ کو فنا کرنے والا باپ بھی ہے۔ وہ اپنی محبت کا مسلسل کڑا امتحان دیتا ہے۔ ایسا امتحان جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ نور محمد کو پتا ہے کہ وہ جو کر رہا ہے وہ شریعت کے خلاف ہے مگر وہ اپنی محبت کی نشانی، اپنی بیمار بیٹی کی خواہشات کی نفسیاتی تسکین کے لئے اس اذیت ناک اور مشکل امتحان سے بھی گزر جاتا ہے۔ خواہ اس کے ضمیر پر تازیانے ہی کیوں نہ برس رہے ہوں۔
ذوقی نے اپنے اس ناول میں تہذیبوں کے اس تصادم میں عام قاری کو بھی شامل کر لیا ہے۔ اس ناول کا اختتام قاری کے وجود کے پرخچے اڑانے کے لیے کافی ہے۔
نور ین علی حق نور محمد کے کردار کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ عرصہ بعد اردو فکشن میں نور محمد کی شکل میں ایک اہم کردار کا اضافہ ہوا ہے اور یقیناً یہی کردار ذوقی کے بعد بھی ذوقی کو زندہ و پائندہ رکھے گا۔ قارئین نور محمد کی سفاک زندگی سے متا ثر ضرور ہوں گے۔ اس دور میں ایک کردار کو زندگی بخشنا میں سمجھتا ہوں کہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن ذوقی وہ فرہاد ثابت ہوئے ہیں جس نے یہ کارنامہ کر دکھایا ہے بہت ممکن ہے میرے اس دعوے سے بے شمار لوگوں کو اختلاف ہو وہ اپنی رائے رکھنے پر آزاد ہوں گے مگر آئندہ نقاد اپنے متوازن اور غیر متعصبانہ فیصلوں میں یہ فیصلہ کر یں گے کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں کوئی ایک زندہ کردار اردو ناول میں نہیں بنا گیا۔ بلکہ پہلی دہائی کے اختتام پر ذوقی نے نور محمد کی شکل میں اردو کو ایک اہم اور دائمی کردار دیا تھا، جو ان کے ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں ہیں۔ ‘‘ ۱۴؎
عبدالرحمن کاردار
اس ناول کا دوسرا اہم کردار عبد الرحمن کاردار کا ہے جو ایک سلجھی ہوئی شخصیت کا مالک ہے۔ زندگی سے جڑا ہوا بھی ہے اور اس ناول کا راوی بھی وہ ایک بنیادی کردار کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ناول کا ایک بڑا حصہ اسی کردار کے اردگرد گھومتا نظر آتا ہے۔ عبدالرحمن کاردار آزادی سے ایک گھنٹہ قبل ایک غلام ملک میں پیدا ہوتا ہے اور ایک گھنٹہ بعد ہندوستان آزاد ہو جاتا ہے۔ دراصل عبد الرحمن کاردار بھی کہیں نہ کہیں آج کے مسلمانوں کی علامت بن کر قاری کے سامنے آتا ہے۔
عبد الرحمن کاردار دراصل بیانیہ اور خواہش کا کوڈ ہے۔ وہ اپنے دوست اور ہمرازپروفیسر نیلے سے زندگی میں آئی تبدیلیوں وغیرہ اور متوقع انسانی کہانیوں کے بارے میں بتانے کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔ کاردار دو پہاڑیوں کے بیچ اپنے گھر میں اپنی اٹھارہ سال کی پوتی (سارہ)کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ کہانی کی ابتداء میں ہی اسے ایک خط ملتا ہے جیسے وہ کھول کر پڑھنے کی ہمت بھی نہیں کر پاتا ہے اور ماضی کی یادوں میں کھو جاتا ہے اور پھر اسے نادرہ یاد آتی ہے جو اس کے ماموں کی بیٹی اور اس کی معشوقہ ہے۔ اپنے اُن دنوں کی خوب صورت زندگی کے بارے میں عبد الرحمن کاردار یوں بیان کرتے ہیں :
’’لمحے ٹھہر گئے تھے۔ یہ اپنی حویلی اچانک طلسم ہوش ربا ء میں تبدیل ہو گئی۔ ایک ایسی ساحرہ جس کی آنکھوں کی پر اسرار چمک نے اس وقت مجھے کسی بے جان بت میں تبدیل کر دیا تھا۔ ‘‘ ۱۵؎
عبدالرحمن کاردار کا کردار ایک سچے عاشق، درد مند اور وفا پرست شخص کا ہے۔ وہ نگار کو اپنی بیٹی سمجھتا ہے اور اس کی حالت دیکھ کر پریشان رہتا ہے۔ وہ نور محمد سے بار بار اس کی خیریت دریافت کرتا ہے اور اس کا خیال رکھنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ عبد الرحمن ایک ہمدرد دوست اور ہمراز ہونے کا پورا فرض انجام دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جو فطری نظر آتا ہے۔ عبد الرحمن محبت بھی کرتا ہے مگر اس کو پانے کے لئے کوشش نہیں کرتا ہے۔ وہ عام انسانوں کی طرح ہی ایک سہل راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ نہ کوئی جد و جہد کرتا ہے اور نہ ہی نادرہ کو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جب عبد الرحمن نادرہ سے اپنی محبت کا اقرار کر لیتا ہے کہ ہاں اس نے نادرہ سے محبت کی ہے تو اسی محبت کے وسیلے میں نادرہ نگار کا خیال رکھنے کا وعدہ عبد الرحمن کاردار سے لے لیتی ہے۔ درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’میں جھوٹ نہیں بول رہی__میں آنے والے سچ کی آ ہٹ پڑھ سکتی ہوں رحمن…….اور میرا یقین کرو __جو ہونے والا ہے یعنی مستقبل میں پیش آنے والا ہے اس کے سامنے یہ واقعات کچھ بھی نہیں __کچھ ایسا کہ تمھارے لئے یقین کرنا مشکل ہو جائے گا مگر وعدہ کرو__ہر حال میں اگر نگار ………میری نگار زندہ رہے تو اس کی مدد کرو گے __‘‘
’’ہاں نادرہ…….‘‘
’’کرو گے نا…….‘‘
’’ہاں نادرہ…….‘‘ ۱۶؎
عبدالرحمن کاردار کا کردار جہاں اس ناول کا ایسا کردار ہے جو آج اور کل ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ ہے اور اس کی بے ثباتی سے جوجھ رہا تھا۔ تو دوسری طرف وہ اپنی بیوی اور محبوبہ کے ساتھ متوازی رویے کو بڑے سلیقے سے انجام دیتا ہے۔ کاردار بدلتی قدروں اور نئی تہذیبوں کا آشنا ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی وہ ہم رکاب رکھتا ہے۔ نادرہ کو کھونے کے بعد وہ رقیہ سے شادی کرتا ہے اور ایک اچھے شوہر ہونے کا مظاہرہ بھی کرتا ہے۔ ا ور اس کے ساتھ بھی نئے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے اس کردار کو مشرف عالم ذوقی ایک مضبوط کردار بناتے ہوئے کہتے ہیں :
’’وہ کردار اپنی جگہ مضبوط کردار ہے۔ عبد الرحمن جیسے لوگ ہمارے آس پاس آسانی سے مل جائیں گے۔ ایسے لوگ دولت پیدا کرتے ہیں۔ اپنی آسانی کے لئے گھر بناتے ہیں۔ سکون سے رہنا چاہتے ہیں۔ اپنی سہولت سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن محبت کے لئے کوئی جنگ نہیں لڑتے۔ لیکن ایسے لوگوں کا مشاہدہ بہت گہرا ہوتا ہے۔ میں نے عبد الرحمن کاردار کے اسی مشاہدے سے فائدہ اُٹھایا۔ ‘‘ ۱۷؎
پروفیسر نیلے
’’پروفیسر نیلے ‘‘ اس ناول کے دوسرے اہم کرداروں میں گنے جا سکتے ہیں۔ یہ عبد الرحمن کاردار کے پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ہم راز اور دوست بھی ہیں۔ اس ناول سے پروفیسر نیلے ایک پر اسرار اور مضبوط کردار کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہی وہ کردار ہے کہ عبد الرحمن کاردار جس سے اپنے ماضی کی پر سوز کہانی کو سناتا ہے۔ جس نے اس کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی تھی۔
’’پروفیسر نیلے ہنس رہے تھے __’تمہاری کہانی بھی تم نے کہاں لکھی کاردار__‘ قدرت نے لکھی ہے __اور قدرت جس قدر حسین ہے ‘اتنی ہی سفاک بھی __وہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلنے دیتی، اور تمہاری زندگی کے سفر کو موڑ دیتی ہے __‘‘ ۱۸؎
پروفیسر نیلے مہذب بھی ہے اور تجربہ کار بھی۔ ان کو زندگی کے ہر پہلو کی معلومات ہے۔ وہ تہذیب ترقی اور عصری صورت حال کے تناظر میں بچوں کی تربیت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار صاف صاف انداز میں اس طرح کرتے ہیں :
’’مذہبی دنیا میں ایسی کسی بھی تقسیم پر میں اعتراض درج کرتا ہوں جہاں بہانہ کوئی بھی ہو، مگر عورتوں کو مردوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘ ۱۹؎
مولوی محفوظ
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں مولوی محفوظ کا کردار عصر حاضر کے ان مولویوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو سیدھے سادے اور مجبور آدمیوں کو پر فریب باتوں میں پھنسا کر فائدہ اٹھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ آسیب، بھوت، پریت کی کہانیوں میں الجھا کر تعویذ، گنڈے وغیرہ کے ذریعہ پیسے کما تے ہیں اور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ یہ ایسے حالات بنا کر پیش کرتے ہیں جس سے انسان ان کے فریب میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ان کے فریب کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔
مولوی محفوظ نظر محمد کے گھر جا کر ان کی بیمار بیگم پر بھوت کا سایہ بتا کر کاردار حویلی سے سفید کاغذ اور مرغ منگواتے ہیں۔ جس سے ان دونوں خاندان میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اپنے اس کردار کے ذریعہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو مذہب اور علمیت کے بہانے انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف رنجش پیدا کر دیتے ہیں۔ اور اس کی مثال مولوی محفوظ ہیں۔ جب نظر محمد مولوی محفوظ سے مدد لینے سے انکار کر دیتے ہیں تو وہ دوسرے شکار کی تلاش میں وسیع الرحمن کاردار کے گھر کا رخ کرتے ہیں اور وسیع الرحمن کو بتاتے ہیں کہ ان کی حویلی کی زمین میں خزانہ پوشیدہ ہے۔ چونکہ یہ خاندان بھی بظاہر متمول خاندان تھا لیکن جاگیریں چھن جانے سے اندر ہی اندر اپنے آپ کو کھو کھلا محسوس کر رہے تھے اس طرح یہ لوگ بھی مولوی کے باتوں میں آ جاتے ہیں۔
’’ہاں بھئی۔ سبحان اللہ…… ‘مولوی محفوظ کی آنکھیں چمک رہی تھیں __میں نے کہا تھا نا، جو میں دیکھ رہا ہوں، وہ آپ نہیں دیکھ رہے ہیں۔ اور آپ دیکھ بھی نہیں سکتے وسیع بھائی۔ دو کرسیوں کے ساتھ ساتھ مٹھائی بھی منگوائیے۔ اور ہاں میری یہ بات گرہ میں باندھ لیجئے کہ بلند حویلی کی تقدیر سنورنے جا رہی ہے __‘‘ ۲۰؎
وسیع احمد کاردار
مشرف عالم ذوقی کے ناول میں ’’وسیع احمد کاردار‘‘ کا کردار بھی اپنی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ عبد الرحمن کاردار کے والد ہیں۔ وسیع احمد کاردار نے ہندوستان کی غلامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ تہذیب کا بدلتا ہوا منظر نامہ ان کی نظروں کے سامنے تھا۔ ان کے والد کی موت کے بعد ان کے کمزور کندھوں پر ’’بلند حویلی‘‘ کی ذمہ داری آ جاتی ہے۔ جس سے وہ بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔ وہ بدلتے وقت اور نئی نئی آزادی سے خائف نظر آتے ہیں۔ ان کے والد ان سے ہمیشہ کہتے تھے :
’’سب چھوٹے بڑے ہو جائیں گے۔ جو کل تک ہمارے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کرتے تھے ‘ دیکھو آج کیسے سینہ تان کر چل رہے ہیں۔ یہی آزادی کی سوغات ہے۔ جس نے بڑے چھوٹے کے فرق کو ہی ختم کر دیا ہے __اس آہٹ کو سنو وسیع، ورنہ یہ برا وقت تمہیں نگل جائے گا__‘‘ ۲۱؎
آزادی کے بعد کے حالات سے لڑتے لڑتے وسیع احمد اس قدر کمزور ہو گئے تھے کہ وقت سے پہلے وہ بوڑھے نظر آنے لگے تھے۔ بلند حویلی کی زمینداری، بدلتے وقت کے تقاضے، تمدن کا زوال وسیع احمد پر اس قدر حاوی ہو گیا تھا کہ آنے والے زمانے کا سامنا کرنے سے کترانے لگے تھے۔ عبد الرحمن کاردار وسیع احمد کاردار کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’ابا نے خود کو مذہب کے دائرے میں باندھ لیا تھا__آنکھوں پر چشمہ، قد لگ بھگ چھ فٹ۔ داڑھی بڑھی ہوئی۔ گھنگر یالے بال، جن میں سفیدی چھانے لگی تھی۔ پھر ابّا سے ملنے والے لوگ تھے۔ جہاں زمین اور جائیداد کو لے کر بحث چلتی تھی۔ حساب کتاب کیے جاتے تھے۔ یا پھر محلے کے دوست، جن کے آتے ہی قرآن شریف اور حدیث کے صفحات الٹے پلٹے جانے لگتے __تکرار تیز ہو جاتی __ابّا اب سارا دن مذہبی کتابوں کے مطالعے میں غرق رہنے لگے تھے۔ ‘‘ ۲۲؎
’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ کے نسوانی کردار:
معاشرے میں عورت بیوی، بہن، بیٹی اور ماں کے رول میں اپنے حقوق منواتی اور فرائض ادا کرتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے عورت کی مختلف حیثیت اور وقت و حالات کے تقاضے کے مدّ نظر کرداروں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ عورت صرف حسن کا پیکر نہیں بلکہ زندگی کی ٹھوس اور بے رحم حقیقتوں نے عورت کے کئی پہلو اور صلاحیتوں کو اُجاگر کیا ہے۔ ذوقی نے اس مسلئے کو مد نظر رکھ کر بہت سلیقے کے ساتھ مکالمات و واقعات کی روشنی میں ان کرداروں کو پیش کیا ہے۔ جو قابلِ تحسین ہیں۔
اس ناول کے نسوانی کرداروں میں نادرہ، اس کی مفلوج لڑکی نگار، سارہ، عبد الرحمن کاردار کی ماں اور رقیہ کا کردار قابلِ تعریف ہیں۔ ان کے علاوہ چند اضافی کردار موجود ہیں جو ناول میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔
نادرہ
ذوقی کے ناول کے نسوانی کرداروں میں اہم کردار جسے ایک یتیم بچی، بے بس و ناچار محبوبہ کی شکل میں رچا گیا ہے۔ وہ ’’نادرہ‘‘ ہے۔ نادرہ ایک خوبصورت معصوم لڑکی ہے۔ جس کی ماں مر چکی ہے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ پاکستان سے ہندوستان اپنی پھوپھی کے گھر آتی ہے۔ پھوپھی اس سے بہت محبت کرتی ہیں۔ لیکن ماں کی موت کا صدمہ اسے زندگی کی رعنائیوں سے دور کر دیتا ہے۔ باپ کی حالت دیکھ کر وہ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں پاتی اور یہی اس کی سب سے بڑی مشکل بن جاتی ہے۔ یہاں اس کی ملاقات عبد الرحمن کاردار سے ہوتی ہے۔ جو اس کی پھوپھی کا بیٹا ہے۔ نو عمری کی محبت اور ایک کشش دونوں کے درمیاں واقع ہو جاتی ہے۔ ماں کی موت سے غمزدہ نادرہ رحمن کے قریب آ جاتی ہے۔ اس طرح اسے پھر سے جینے کا حوصلہ میسّر ہوتا ہے۔ دونوں کے بیچ کے پیار کو مشرف عالم ذوقی نے بہت شائستگی سے بیان کیا ہے۔ یہ اس وقت کا بیان ملاحظہ ہو جب یہ دونوں کم عمری میں چھت پر محو گفتگو ہیں۔
’’نیند تو نہیں آ رہی ہے …… ‘
’آ رہی ہے ……‘
’پھر چلو تمہیں سلا دوں ……‘
’پھر میں سو نہیں پاؤں گی۔ ‘
’اچھا __دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ نہیں سوئی تو باتیں کریں گے ………..
وہ کسی اور دنیا میں گم تھی…
’تم جانتے ہو رحمن……مجھے امی ہر وقت یاد آتی ہیں۔ لیکن ابو کی وجہ سے بول نہیں پاتی ……آنکھوں آنکھوں میں سارے آنسو پی جانا پڑتا ہے۔
لوگ کیوں چلے جاتے ہیں رحمن ……؟ ایک دن سب کو جانا ہے …….‘‘ ۲۳؎
مشرف عالم ذوقی نے اپنے اس ناول میں نزاکت کے ساتھ ساتھ جذبات کے موتی بھی بڑی خوبصورتی سے پروئے ہیں۔ انھوں نے اس ناول میں کم عمر کی لڑکیوں کے معصوم پاکیزہ سوچ کو زندہ رکھا ہے اور اس کردار کے سائے میں زندگی اور قسمت کی شہ اور مات کا کھیل بھی جاری رکھا ہے۔ چونکہ مسلم معاشرے میں عموماً بن بیاہی لڑکیوں کو کسی قسم کی آزادی نہیں ہوتی ہے وہ اپنے خیالات، پسند نا پسند کا اظہار کرے۔ اُن کی زندگی کی ڈور ان کے والدین کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اپنی سوچ اور حالات کے تحت اپنی بیٹی کی قسمت کسی فرد کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ نادرہ ماں کی ممتا سے محروم تھی، عبد الرحمن کا جدا ہو نا اور نادرہ کی زندگی میں سوتیلی ماں کا آنا بہار کے موسم میں خزاں کے آنے سے مماثل تھا۔ باپ کی لا پرواہی اور سوتیلی ماں کے خشک مزاج کی وجہ سے وہ اپنے خول میں سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ رحمن کی شادی کہیں اور ہو جاتی ہے۔ بچپن کی یادوں کو سینے سے لگائے نادرہ نور محمد سے نکاح کر لیتی ہے۔ نور محمد عبد الرحمن کاردار کا دوست ہے اور وہ نادرہ کی سادگی اس کے اچھے سلوک اور اس کے حسن پر عاشق ہو جاتا ہے۔ لیکن نادرہ کو نور محمد سے ہمدردی ہی ہوتی ہے محبت نہیں۔ زندگی کے آخری لمحات میں وہ بہت بے چین، مضطرب اور تشنگی کے ساتھ رحمن سے اپنی دلی کیفیات بیان کرتی ہے۔
’’اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ ’ پریشان مت ہو……بیمار ہوں __لیکن یہ وقت خدا نے عطا کیا ہے …….بہت کچھ کہنا ہے تم سے __تمہارا انتظار کرتی تھی۔ ہمیشہ سوچتی تھی ‘ آخر وہ کون سا لمحہ ہو گا جب تم ان سے الگ مجھ سے ملنے آؤ گے …..تم نے ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا……یہ بھی نہیں کہ میرا کیا ہو گا؟‘‘ ۲۴؎
خوبصورت نادرہ بدنصیبی کا شکار ہے اس کے مکالمات اُسے حقیقت سے قریب کر دیتے ہیں۔ عورت کی بے بسی، لاچاری، محبت کے آس میں سسکتی معصوم زندگی وقت اور حالات کے عجیب کشمکش میں مبتلا نادرہ کہانی کا جز ہے۔ وقت نے اس حسین نادرہ کو ایک مریضہ بنا دیا اور ان حالات میں جب اس کا محبوب عبد الرحمن کاردار اس کے قریب ہوتا ہے۔ تو وہ جذباتی ہو جاتی ہے اور شکایت کرتی ہے۔
’’تو پھر مجھے چھینا کیوں نہیں …..؟ اس کی آواز لڑ کھڑا رہی تھی __آنکھوں میں چمک تھی _بولو رحمن _چھین سکتے تھے مجھے __تمہارے ہی گھر میں تھی __کوئی کچھ نہیں بولتا__کیوں نہیں چھینا ……؟ اس نے گہری سانس لی__دوبارہ میرے ہاتھوں کو چھوا __میری انگلیاں سہلاتے ہوئے اس کے آنسو بہہ رہے تھے ……‘‘ ۲۵؎
مشرف عالم ذوقی نے یہاں ایک مظلوم ہاری ہوئی عورت کی عجیب کیفیت کو پیش کیا ہے۔ جو درد کی شدت بیان بھی نہیں کر سکتی۔ جو حلق غم کے چھالوں سے پُر ہے۔ جیسے راحت عشق کا شہد بھی میسر نہیں اور وہ اپنے محبوب سے اس وقت کی شکایت کرتی ہے کہ قدرت نے اسے شکست کے سوا کچھ نہ دیا۔
رقیہ:
مشرف عالم ذوقی کے ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں ’’رقیہ‘‘ ناول کا ایسا کردار ہے جس کی صورت میں عورت کے صبر و ضبط، تحمل، وقار، یقین کو بیان کیا ہے۔ رقیہ، عبدالرحمن کاردار کی زندگی میں داخل ہونے والی دوسری عورت ہے۔ پہلی نادرہ اور دوسری رقیہ۔ نادر ہ محبوبہ اور رقیہ رفیق زندگی۔ رقیہ عبدالرحمن سے محبت کرتی ہے اور مصلحت پسندی کی بہترین مثال ہے۔ اس نے اپنے رشتے کے آغاز سے ہی اپنے شوہر کی دھڑکنوں میں داخل اس کی محبوبہ کو محسوس کر لیا تھا۔ لیکن وقت اور حالات پر اپنے ضبط و یقین کا شجر تناور رکھتی ہے وہ نادرہ سے خلوص و اپنائیت سے ملتی ہے۔ اس ناول میں مشرف عالم ذوقی کا بُنا ہوا یہ کردار داد کے قابل ہے۔ ایک شب جب و ہ اپنے شوہر کو پریشان دیکھتی ہے تو اس کی مشکل کو آسان اور مسئلے کو سلجھانے کی غرض سے وضاحت کرتی ہے۔ رقیہ کی گفتگو اور ان لمحات کو مشرف عالم ذوقی نے بہت خوبصورتی سے تحریر کیا ہے۔ رقیہ جب حقیقت واضح کرتی ہے تو بالیدگی و دانشمندی کی مثال نظر آتی ہے۔ پیش ہے رحمن و رقیہ کی گفتگو:
’ایک بات پوچھوں …….‘
’ہو…….نہہ……‘
’برا تو نہیں مانو گے ……؟‘
’نہیں ……‘
’سچ بتاؤ گے ……‘
’ہاں ……‘
’تو پھر سچ بتانا…..جھوٹ بالکل نہیں …..کتنا پیار کرتے ہو نادرہ سے ؟
’نا…….نادرہ سے ؟
’جھوٹ مت بولنا۔ ۔ ۔ ۔ ویسے بھی تمہیں جھوٹ بولنا آتا کہاں ہے۔
عورت مرد کی انگلیاں تھامتے ہی اس کے احساس کی جھاڑیوں میں بھی پہنچ جاتی ہے …… کٹیلی جھاڑیوں میں …… پیار کرتے تھے نا……؟ اب بھی کرتے ہو …..؟ تو کرو نا…….منع کس نے کیا ہے ……‘وہ زور سے ہنسی……’مگر واپس آؤ تو میرے حصے کا پیار لے کر آیا کرو…..میرا پیار باہر کے آنگن میں مت تقسیم کرنا…….سمجھے
تم……؟‘
پھر وہ محبت سے کہتی ہے۔
’……….پہلے ہی دن سے سب کچھ جانتی تھی۔ مگر کبھی بُرا نہیں مانا__تقدیر __اس کو مانتی ہوں میں __اور تقدیر سے بھی کہیں زیادہ تم کو__ اس لیے کبھی برا نہیں لگا__‘ وہ مسکرا رہی تھی__’ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہو تمہاری بیوی ہوں …….تمہاری بیوی کی ذہنیت چھوٹی نہیں اور دل بہت بڑا ہے۔ ‘‘ ۲۶؎
نگار
’نگار ہی وہ کردار ہے جس پر کہانی کا دار و مدار ہے۔ لیکن یہ کردار زندہ و جاوید نہیں۔ نگار کی زندگی مردوں سے بد تر ہے وہ ایک زندہ لاش کے مانند ہے۔ نگار‘ نادرہ اور نور محمد کی بیٹی ہے۔ جو دماغی مرض میں مبتلا ہے۔ اس کا ذہن جسم کو قابو نہیں کرتا اور وہ معذور، مجبور و بے بس ہے۔ نگار کی پیدائش کے دو سال بعد ہی نادرہ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ نگار کو کسی چیز، فرد، مقام، رنگ و بو، جذبات کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ اس کے تمام کام نور محمد کو کرنا پڑتا ہے۔ اسے کھلانا، پلانا، نہلانا، کپڑے تبدیل کرنا اور اس کی ہر چھوٹی بڑی تکلیف کا خیال رکھنا۔ اسی عالم میں وہ اپنی عمر کے اٹھارہ سال گزارتی ہے۔ لیکن پھر بھی نگار میں کوئی بدلاؤ نہیں آتا۔ ایک روز وہ کسی بد کار کی شکار ہو جاتی ہے، اور اس روز سے نگار کے خاموش ذہن و احساسات میں ایک عجیب سی طلب جاگ اُٹھتی ہے۔ انسانی فطرت اس کے جسم کو تذ بذب کے کوچہ سے نکال کرجنسیات کی جانب موڑ دیتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے یہاں دہکتی سماجی انگیٹھی میں موجود مسائل کے انگاروں کو اپنی انگلیوں سے کریدنے کی جرأت کی ہے۔
اس ناول میں نگار کا کردار بے بس بھی نظر آتا ہے اور بوجھ بھی۔ زندگی کا عذاب صورت فکر کے دھارے کھول دیتا ہے۔ قدرت کی ستم ظریفی، زندہ رہنے کی مجبوری، بے لطف و بے مزہ مصیبتوں سے بھری زندگی، دوسروں کے لئے سامانِ عبرت یہ تھی نگار جس میں اُس کی کوئی غلطی نہ تھی۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب نگار ماں بنتی ہے گویا اس میں انسانی احساس جا گتا ہے تو وہ غصہ و جبر سے بھی کام لیتی ہے۔ بچی کے جنم کے بعد نگار بھی انتقال کر جاتی ہے۔ نگار اس ناول کا ایسا کردار ہے جہاں قدرت کے سامنے سر خم کئے انسان کی لاچار تصویر نظر آتی ہے اور وعدے، محبت اور مجبوری کس طرح جائز و ناجائز گناہ کے لئے مجبور کرتی ہے، ان تمام کا خاکہ مشرف عالم ذوقی کی بے مثال قلم نے کر دیکھا یا ہے۔ مگر دیکھا جائے تو باپ اور بیٹی کے درمیان اس رشتہ کو کوئی سماج کوئی بھی مذہب کبھی بھی قبول نہیں کر ے گا۔ ذوقی کے اس ناول کو پڑھنے کے بعد ایک سوال ہمیشہ ذہن میں کھٹکتا ہے کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ کیا کوئی باپ مجبوری کے تحت ہی سہی اپنی ہی بیٹی کے ساتھ یہ رشتہ قائم کر سکتا ہے ؟
سارہ
اس ناول میں ’’سارہ‘‘ کا کردار بھی قابلِ توجہ ہے۔ جو عبدالرحمن کاردار کی پوتی ہے۔ اس کی عمر ۱۷ سال ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جو نئے دور کی پروردہ ہے لیکن دقیانوسی خیالات، رسم و رواج سے پیچھا چھڑا نہیں سکتی ہے۔ اسے حق نا حق، فرق و لازم کی شکایت ہے۔ وہ ٹکنالوجی کے اس دور میں ہے جہاں سماج روایت، رسم و رواج اور اپنے قاعدوں سے کہیں دور نکل آیا ہے۔ مگر کمسن عمر پر اب بھی تمام پابندیاں تہذیب کے خول کے ساتھ جائز ہیں۔ یہ نسل انہیں سوالوں میں کھوئی ہے کہ آزاد ی، ترقی اور حق شناسی کی بات کوئی کیوں نہیں سمجھتا۔ ان کے ماں باپ سخت نگرانی کرتے ہیں لیکن اب یہ آزادی چاہتے ہیں ہر حد کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے دیرینہ سوالوں کا جواب چاہتے ہیں۔ اس لئے جب انہیں ان کے سوالوں کے جوابات نہیں ملتے ہیں تو یہ بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ پیش ہے عبد الرحمن کاردار اور سارا کی گفتگو:
’’ اب تم سترہ کی ہو گئی ہو……. ہے نا…..‘
’ اس میں بھی کوئی شک ہے ددّو۔ ‘
’تو جانتی ہو گی۔ Legal اور Illegal کیا ہے ……؟‘
’ہاں __جائز اور ناجائز __‘ اس نے زمین سے ایک کنکری پھر ہاتھوں میں اٹھائی تھی__ اسی لیے تو یہاں بھاگ کر آ جاتی ہوں۔ وہاں تو ممی جینا دو بھر کر دیتی ہیں۔ اُنہیں لگتا ہے … …میں جو کروں گی غلط کروں گی۔ اتنا فاصلہ کیوں ہے ددّو __اتنا بڑا جنریشن گیپ __ لوگ بدلتے وقت کی آہٹ کیوں نہیں سنتے __کبھی کبھی لگتا ہے ایک مہذب سو سائٹی میں بھی لڑکی ہو کر پیدا ہونا کسی جرم سے کم نہیں۔ یہاں مت جاؤ۔ وہاں مت جاؤ۔ اسکول جانے کے لیے اتنا فیشن کیا ضروری ہے __کسی سہیلی کے یہاں چلی گئی تو آفت۔ موبائل پر زیادہ گفتگو کر لی تو جینا مشکل۔ چھت پر چلی گئی تو دو منٹ بعد ممی بھی چھت پر۔ یہاں کیا کر رہی تھی…….؟ یہاں ممی کے لیے چھت پر آنا جائز __میرے لیے ناجائز __ممی رشتہ داروں سے گھنٹوں موبائل پر گفتگو کر سکتی ہیں۔ جائز __میں کسی دوست سے کروں تو ناجائز …. کیوں ددّو __؟‘‘ ۲۷؎
عبد الرحمن کاردار کی ماں :
ناول میں عبد الرحمن کاردار کی ماں کا کردار ایک بہترین عورت کا کردار ہے۔ وہ ایک وفا پرست زوجہ، محبت کرنے والی ماں اور ایک دیندار گھریلو عورت ہے۔ وہ اپنے شوہر وسیع احمد کاردار کے سادہ اور خاموش مزاج سے ہمیشہ ناراض رہتی ہے۔ جب ان کے گھر پولیس آتی ہے اور وسیع احمد کاردار سے معلومات کرتی ہیں تو با عزت اور شریف وسیع احمد کاردار بے عزتی کے خوف سے بیمار پڑ جاتا ہے۔ ایسے حالات میں وسیع احمد کی بیوی ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتی ہے اور تنہا کوتوالی جا پہنچتی ہے۔ اس کردار نے ناول میں جہاں عورت کو فرض شناس دکھایا ہے وہیں یہ بات بھی دکھائی ہے کہ وقت آنے پر وہ ہر مشکل سے لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ وہ ایک پردہ نشین خاتون ہوتے ہوئے بھی بے پردہ برق رفتاری سے کوتوالی پہنچ جاتی اور انسپکٹرسے جس انداز میں الجھتی پڑتی ہے اس کی مثال درج ذیل ہے :
’’کل آپ ہی آئے تھے نا…….بلند حویلی……
جی……
میں پوچھتی ہوں، کیوں آئے تھے ؟
آگ اگلتے ہوئے بے تحاشہ سوال پہ سوال کرتی ہے اور آخر کار کہتی ہے ……
دیکھئے مجھے کوئی پردہ نہیں، کوئی حجاب نہیں ……میں سارہ پردہ، سارا حجاب ختم کر کے آج آپ کے پاس یہ پوچھنے آئی ہوں کہ اگر میرے شوہر کو آپ کے آنے کی وجہ سے کچھ ہو جاتا ہے تو کیا آپ خود کو مجرم مانیں گے، وہ آپ کے جاتے ہی بیمار ہو گئے۔ صبح ہوش آیا اور ابھی بھی ان کی طبعیت خراب ہے۔ میں نہیں جانتی ان کا کیا ہو گا، اس صدمے کو وہ کس طرح لیں گے، میں انہیں اسی حال میں چھوڑ کر آپ سے یہ پوچھنے آئی ہوں کہ آپ کی ہمت کیسے ہوئی ایک شریف اور مہذب آدمی سے سوال کرنے کی، بلند حویلی کی طرف آپ نے آنکھ اُٹھانے کی ہمت کیسے کی…….!
کوتوال ان کے اعتراض پر غصے سے اور بھی بھڑک اُٹھتا ہے ……آپ کیا بول رہی ہیں ؟
ابھی صرف بول رہی ہوں …….شکر کیجئے کہ کوئی کاروائی نہیں کر رہی…….‘‘ ۲۸؎
اس ناول کے ہر کردار اور اس کے وجود سے آنے والے محرکات اور اس کی زندگی کے حادثات و واقعات کا مطالعہ کر نے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ناول سے ایک نیا ڈائمینشن ابھر کر سامنے آیا ہے کہ یہ ایک عورت کا المیہ ہے۔ نادرہ جو پوری زندگی سکون سے نہیں رہ پائی۔ نگار کا المیہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہوا اس کا قصور وار مرد کو نہیں ٹھہرایا جا سکے گا۔ رقیہ کا المیہ جو کبھی اپنے شوہر کی محبوبہ نہ بن سکی۔ ناول کے کردار نگاری کے بارے میں ’’تسنیم فاطمہ‘‘ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں :
’’ذوقی کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نور محمد کو ہر حال میں لڑنا سکھایا اور اس کو زندہ رکھا۔ نگار کو زندہ رکھا اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لے کر ایک تہذیب کو دوسری تہذیب میں تبدیل کر دیا۔ ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ اردو ادب کے فلک پر ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے، جس کے کردار نور محمد، نادرہ، نگار اور جینی رہتی دنیا تک زندہ رہیں گے اور یہ ناول ذوقی کے ادبی ذخیرہ میں میل کا پتھر ثابت ہو گا۔ ‘‘ ۲۹؎
مکالمہ نگاری
کردار کو جاننے اور سمجھنے کا سب سے اچھا ذریعہ وہ بات چیت ہے۔ جو کردار آپس میں کرتے ہیں اور یہی گفتگو مکالمہ کہلاتی ہے۔ جس کردار کو جس موقع پر جو بات کہنا چاہئے۔ فن کار کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس کے منھ سے وہی بات کہلوائے اور یہ خوبی ذوقی میں بخوبی پائی جاتی ہے۔ ان کے کرداروں کے مکالمے ایسے ہوتے ہیں جو کرداروں کے ذہن سے پردے ہٹاتے ہیں۔ چاہے وہ کردار وسیع احمد کاردار کا ہو یا نظر محمد کا، سارا کا ہو یا ڈاکٹر نیلے کا۔ اپنے اس ناول میں مشرف عالم ذوقی نے ان سب مکالمے سے کردار کے دلی جذبات سے قارئین کو آگاہ کیا ہے۔ وسیع احمد کاردار اور ان کے والد سمیع احمد کاردار کے پر اثر مکالمے قاری کے دل کو چھو جاتے ہیں۔
’’جو فرنگی کر گئے وہ یہ ہندوستانی کیا خاک کریں گے …….ابّا کو اس نظریہ میں غداری کی بو آتی تھی__
’’بس اسی لیے __ انگریز یہاں اتنی صدی تک حکو مت کر گئے۔ اسی سوچ کی وجہ سے __ارے بھئی نئی سرکار ہے۔ مشکلیں آئیں گی مگر انہیں کام تو کرنے دیجئے __
’یہ دو گز کا لنگوٹ باندھنے والے ……‘
دادا کا اشارہ گاندھی جی کی طرف ہو تا۔ لیکن ان کی ہنسی ابّا کو سنجیدہ کر دیتی__اسی دو گز کے لنگوٹ نے آپ کی یہ آزادی آسان کر دی __ورنہ انگریزوں کی غلامی میں پڑے رہتے ……‘
’یہ ایسا برا بھی نہیں تھا__‘
’تو اچھا بھی نہیں تھا __غلامی ہمیشہ سے بری ہوتی ہے۔ ‘‘ ۳۰؎
ان مکالموں کو دیکھ کر اس دور کے لوگوں کے ذہن کی تصویر کشی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ انگریزی حکومت سے متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ انگریزوں کے کام کرنے کے انداز ‘ ان کے طور طریقے بول چال لباس سے کو پسند کرتے تھے۔ تو کچھ ایسے بھی تھے جوان سے بیزار اور آزادی کے لیے بے تاب نظر آتے تھے۔ اپنے ناول میں ذوقی ایسے جملوں کا استعمال بھی کرتے ہیں جو دل اور دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، اور قاری بہت دیر تک اس گرفت سے نہیں نکل پاتا ہے۔ یہ سچائی ہے کہ ہمیں اس ملک کو اپنا کہنے کے لئے کتنی قسمیں کھانی پڑتی ہیں۔ اس بات کو ذوقی نے بڑی خوبصورتی سے اپنے کرداروں کے ذریعہ کہلوایا ہے۔
’’آنے والے وقتوں میں بار بار تمہیں تقسیم کے نام پر شرمندہ ہونا پڑے گا……اپنے ملک کو اپنا کہنے کے لیے بھی تم صفائی دو گے …….‘‘ ۳۱؎
اس مکالمہ کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ آزادی کے نام سے ہی ڈر گئے تھے کہ آزادی کے بعد ان کا کیا ہو گا۔ حکومت کے چھننے کا خوف، بدلتے وقت کا ڈر، تبدیل ہوتے ماحول اور تہذیب کا خوف مشرف عالم ذوقی نے اپنے کرداروں کے مکالموں کے ذریعہ بہت عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے ناول میں کچھ ایسے کردار کو بھی پیش کیا ہے جو ہندو اور مسلمانوں کو آپس میں لڑوانا چاہتے ہے۔ وہ اپنی گفتگو سے لوگوں کے جذبات مشتعل کرتے ہیں، اور ہر وہ کام کرنے کے لئے آمادہ کرتے ہیں جو یہ لوگ ان سے چاہتے ہیں اور ایسے کردار اور اُن کی بات چیت پیش کرنے میں مشرف عالم ذوقی کو مہارت حاصل ہے۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں مولوی محفوظ غنی اور اسلم کو ایسے ہی کرداروں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ مولوی محفوظ کا یہ مکالمہ دیکھئے :
’’اب مجھے کیا معلوم تھا کہ آج ہی کے دن محلہ شیخاں میں ہندو مسلم دنگا ہو جائے گا……… ‘
ارے دنگا کہاں ہوا __ہاں کچھ لوگ دنگا چاہتے تھے۔ مگر اپنے ارادوں میں ناکام رہے __‘
’ایک مسلمان شہید ہو گیا۔ ۔ ۔ ‘
ابّا نے گفتگو درمیان میں روک لی۔ مسلمان نہیں __ایک نوجوان لڑکا __مارنے والا اس کا دوست تھا__ اور جہاں تک مجھے اطلاع ملی ہے __ اس لڑائی کے پیچھے ایک لڑ کی تھی ’ہندو لڑکی__‘
’ہاں __‘
’تو اس میں برائی کیا تھی ……. ‘ مولوی محفوظ کے چہرے پر ناراضگی جھلک رہی تھی۔ سننے میں آیا ہے کہ وہ بھی عشق کرتی تھی اور آرام سے مذہب تبدیل کرنے میں یقین رکھتی تھی __لیکن اس لڑکے سے یہ دیکھا نہیں گیا …….اور اس نے ایک مسلمان کو شہید کر دیا……‘
’یہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ……. یہی باتیں ……. یہی باتیں تو فساد کی وجہ بن جاتی ہیں۔ عشق میں یہ مذہب کہاں سے آ گیا۔ دونوں ایک لڑکی سے پیار کرتے تھے __دونوں میں جھگڑا ہوا اور ایک جان چلی گئی__‘
’ارے واہ وسیع بھائی۔ ۔ ۔ مسلمان کی جان گئی ہے __کلمہ پڑھنے والے مسلمان کی جان گئی ہے۔ ارے میں تو کہتا ہوں، محلہ شیخاں میں رہنے والوں نے اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ ورنہ اس شہادت کا جواب بدلے کی کاروائی سے دیا جاتا…….‘‘ ۳۲؎
مشرف عالم ذوقی مکالمہ لکھتے وقت پورے طور پر ڈرامہ کے دائرے میں آ جاتے ہیں اور ان کا مکالمہ قصہ کو روشنی بخشا ہے اور ڈرامہ کی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔ قصہ کے ارتقاء میں مکالمہ کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ واقعات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
’نادرہ پوچھ رہی تھی __تمہاری امی کیسی تھیں ؟
نور محمد بتا رہا تھا__
نادرہ نے پھر کہا __تمہیں پتہ ہے __میری امی بھی ختم ہو گئیں، تبھی تو میں ابو کے ساتھ بلند حویلی آ گئی__
’اچھا……‘ مجھے اچھی طرح احساس تھا، ان لمحات میں نور محمد اپنا مکمل دکھ بھول چکا تھا__
’تم گھبرانا مت __میں بھی نہیں گھبرائی تھی __ابو کہتے تھے۔ رونے سے روحیں ناراض ہو جاتی ہیں …….‘ ‘ ۳۳؎
یہ مکالمے اپنے کرداروں کی شخصیت کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی نے جن مکالموں کا استعمال کیا ہے وہ سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ پُر اثر اور دل کی گہرائیوں کو چھو جانے والے ہوتے ہیں۔ مکالموں کی زبان بر جستہ اور بر موقع ہے۔ مکالمہ، کہنے والے کے جذبات احساسات اور حالات کی بھر پور تصویر کشی کرتا ہے۔
ذوقی نے اس ناول میں اس وقت کا بیان کیا ہے جب ملک دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ انگریز ہندوستان چھوڑ کر جا چکے تھے۔ زمیندارانہ نظام اور نوابیت ختم ہو چکی تھی۔ نوابوں کی حویلیاں بک چکی تھیں۔ نوابوں کے بیٹے اب کام کرنے پر مجبور تھے اور اب انہیں معاشرے کے طعنوں کو برداشت کرنا تھا۔ ایک نواب کے بیٹے کے پرچون کی دکان کھولنے پر محلے والوں کے تاثرات کو ذوقی نے بڑے خوبصورت مکالموں کے ذریعہ پیش کیا ہے :
’’باپ نواب، بیٹا دکاندار……
ارے، پرچون کی دکان کھولنے کے سوا کوئی اور کام نہیں۔
اب نوابوں کے بیٹے دکانوں میں بیٹھیں گے ……
ارے غیرت اور عزت ہو تب تو شرم آئے ……‘‘ ۳۴؎
مشرف عالم ذوقی کے مکالموں کی زبان اور اس کی ادائیگی کا شعور بہت فنکارانہ ہے۔ م۔ ناگ مشرف عالم ذوقی کے مکالموں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’قرۃ العین حیدر کے ناولوں پر گفتگو ہو چکی۔ یہ دور ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ کے مکالموں کا ہے۔ ‘‘ ۳۵؎
منظر کشی:
کامیاب منظر کشی ناول کو دلکش اور پُر تاثر بنا دیتی ہے۔ مطلب یہ کہ کسی مقام کا ذکر کیا جا رہا ہے تو فن کار اس کی تصویر ایسی کھینچے کہ پڑھنے والے کو معلوم ہو کہ وہ خود جائے واردات پر موجود ہے اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ مشرف عالم ذوقی کے ناول میں یہ پہلو خاص طور سے نظر آتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی ناول کی ابتداء ہی سردی کے منظر سے کرتے ہیں۔ جہاں ایک بزرگ اپنے آپ کو ٹھنڈک میں بچانے کی کوشش میں مصروف ہے، سردی کا موسم، شام کا منظر، تنہائی کا احساس اور پھر ایسی یادوں کے سلسلے پھر ایک عام سے مرد کا چہرہ ابھرتا ہے۔ دوسرا ایک معصوم بچی کا۔ لیکن یہ عام سا چہرہ اس شدید سردی میں بھی اس بزرگ کو آگ میں جھلسا دیتا ہے۔ ایسے مناظر ہیں جس کو ذوقی بخوبی پیش کرتے ہیں اس منظر کے علاوہ ذوقی نے قدرت کے مناظر کو بھی بخوبی پیش کیا ہے۔ جس میں پہاڑوں کی خوبصورتی کا ذکر بخوبی ملتا ہے۔
’’ایک بار پھر پہاڑ روشن تھے __یا پہاڑ جاگ گئے تھے __آج ہمFamily Incest کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے __ مرغزاروں کی ہری بھری گھاس نے دھند کا لباس پہن رکھا تھا __پروفیسر نیلے کے پاؤں میں کچھ تکلیف تھی۔ اس لیے آج وہ لاٹھی کے سہارے ٹہل رہے تھے __‘‘ ۳۶؎
اس کے علاوہ ایک اور منظر ملاحظہ ہو ـ:
’’سورج دھند میں چھپنے کی تیاری کر رہا تھا __درختوں کی نہ ختم ہونے والی قطار پر، چھائی ہوئی دھند نے ماحول کی دلکشی میں چار چاند لگا دئیے تھے __مگر رہ رہ کر وہ چہرہ میرے خیالوں میں برق کی طرح کوند رہا تھا……..‘‘ ۳۷؎
بابری مسجد کے انہدام سے پہلے کے مناظر پیش کرتے ہوئے ذوقی لکھتے ہیں کہ ہندوستان اس طرح دوبارہ سے تقسیم کے دہانے پر آ گیا تھا۔ ہندو اورمسلمانوں کو الگ کرنے والی جماعتیں سازش رچ رہی تھی اور اس میں کامیاب بھی ہو رہی تھیں۔ آزادی اپنے ساتھ جو فساد کا تحفہ لائی تھی۔ تبھی سے بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ نے زور پکڑنا شروع کر دیا تھا۔ اسی وقت سے زبردست فساد اور دنگے شروع ہو گئے تھے اور آخر کار اس کا فیصلہ عدالت کو سونپ دیا گیا تھا۔ مگر اس کے باوجود حالات دن بہ دن بگڑتے ہی جا رہے تھے۔
آزادی کے بعد دو ملکوں اور دو قوموں کے نظریے نے جسے پروان چڑھانے کی کوشش کی تھی اور آزادی کے بعد جس نفرت کے لاوے کو دبانے کی کوشش کی جا رہی تھی اس پر رتھ یاترا نے نفرت کی ایسی آندھی چلائی کہ لوگ اس کا تجزیہ تقسیم وطن اور اس سے پیدا شدہ حالات سے کرنے لگے تھے۔ اس منظر کو پیش کرتے ہوئے ذوقی لکھتے ہیں کہ یہی وہ وقت تھا جب کشمیر کو لے کر ہندوستان اور پاکستان کے حالات اچانک بگڑنے لگے اور دہشت پسندسر گرمیاں سر اُٹھانے لگی تھیں اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں خوفزدہ تھے۔
قصہ اور کہانی کی مناسبت سے ماحول کی تصویر کشی کرنا مصنف کا ہنر ہے۔ ذوقی ہر منظر کو پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں چاہے وہ جنگ کا خوف ہو یا گھر کا پُر سکون ماحول وہ حقیقت سے قریب اور موثر عکس کاغذ پر قلم کے ذریعہ کھنچتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی تشکیل کے بعد کا منظر ملاحظہ فرمائیے :
’’آسمان پر منڈلانے والے جنگی طیارے خاموش تھے ….لیکن دلوں میں جنگ کے احساس اب بھی زندہ تھے __پاکستان اور بنگلہ دیش کی کہانیاں گھر گھر سنی جا رہی تھیں __ ہر جگہ شیخ مجیب الرحمن اور اندار گاندھی کے چرچے تھے __نئے موسم میں جنگ کے جراثیم اب بھی باقی تھے __ اور یہ جراثیم آہستہ آہستہ نفرت بن کر دلوں میں سلگنے کی تیاری کر رہے تھے __‘‘ ۳۸؎
مشرف عالم ذوقی اس ناول میں حویلی کے رہن سہن پرانے وقت کے حالات کا بیان بھی کرتے ہیں۔ پُر سکون ماحول، ماں کی لوریاں اور ان کا پیار مشرف عالم ذوقی نے اس خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کے ماحول کو اس ناول میں پیش کر رہے ہیں۔
’’گرمی کے دنوں میں چھت پر پلنگڑیاں بچھ جاتیں۔ پانی کا چھڑ کاؤ کیا جاتا رات کے ۹ بجتے بجتے کھانا ختم ہو جاتا۔ میں اماں کے ساتھ چھت پر آ جاتا۔ پھر ابّا کی کہانیاں شروع ہو جاتیں۔ آسمان پر ستاروں کی حسین چادر بچھی ہوتی ابّا دیر تک ان ستاروں سے تعارف کراتے رہتے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا جسم کو گدگد ا رہی ہوتی __ وہ قطب تارہ ہے۔ وہ مشتری ہے ……وہ سات تارے۔ بنات النعش…….‘‘ ۳۹؎
مشرف عالم ذوقی شہر کے علاقوں کے ساتھ ساتھ گاؤں کے منظر کو بیان کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ بلند شہر کے ساتھ ساتھ ویلاس پور جیسے گاؤں کے منظر کشی بھی اس خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اردو ناول میں گاؤں اور دیہات کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اردو فکشن بہت تیزی کے ساتھ شر پسندی اور مغربیت کی طرف راغب ہوتا جا رہا ہے۔ جب کہ ذوقی نے اس ناول کے ذریعہ اس کی نفی کی ہے۔ جہاں ایک طرف انھوں نے اپنے ناول میں شہر اور شہری ماحول کو پیش کیا ہے وہیں تہذیبوں کے بننے، بکھرنے اور اجڑنے کے درمیان انھوں نے گاؤں کو بھی پرانی سج دھج کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس ناول میں گاؤں صرف رسمی طور پر نہیں بلکہ پورے وجود اور تصور کے ساتھ موجود ہے۔ جانوروں سے لے کر، کسانوں تک اور کنویں سے لے کر چارہ کاٹنے والی مشینوں تک کا ذکر یہاں تک کہ گاؤں کے لوگوں کی غذا مثلاًلسّی، میٹھا اور مریتھا کا ذکر بھی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ کسی بھی مصنف کے لئے یہ تمام مناظر، حالات، کیفیات، محسوسات، جذبات کو پیش کرنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم گاؤں کے مناظر کو دیکھیں تو تھوڑی دیر کے لئے اس آلودہ اور پراگندہ زندگی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ درج ذیل منظر پر غور فرمائیے :
’’ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے __ یہاں سے گاؤں کا سارا منظر دیکھ رہا ہوں __ آگے دور پر ایک ندی ہے …… ندی کے دونوں طرف چڑھائی والے چھوٹے چھوٹے پہاڑ__ دور تک زرخیز اور سپاٹ زمینیں __ ندی کے اس طرف لکڑی کا ایک چھوٹا سا پل _ لہلہاتی ہوئی فصلیں _ ایک بیحد روشن دنیا میرے سامنے ہے ….‘‘ ۴۰؎
مشرف عالم ذوقی نے نگار کے رونے کے منظر کو ناول میں اس انداز میں پیش کیا ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے جسے ناول ٹھہر سا گیا ہے۔ ناول کے بیانیہ کی ظاہری ساخت میں نگار کا رونا اور اس کی بیماری اس کہانی کو ضرور المناک بناتی ہے اور قاری کو حد درجہ ادا س و بے چین کرتی ہے اور سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ لیکن نگار کا رونا صرف نگار کا رونا نہیں بلکہ اس کے ماں باپ، راوی عبد الرحمن کاردار، نور محمد اور اس کے خسر سفیان ماموں کا بھی رونا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ نگار کا رونا پورے سماج پورے معاشرے کا رونا ہے۔
اس ناول کو پڑھنے کے بعد ہم یہ آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ مشرف عالم ذوقی منظر نگاری پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے اس ناول میں پہاڑوں کا منظر اپنے شباب پر نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ قدرت کے مناظر کو بھی بڑی خوبصورتی سے اپنے ناولوں میں رچتے ہیں۔ ذوقی نے ناول میں حویلی کے منظر کو ایسے پیش کیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے وہ خود اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جس دور میں نوابیت زندہ تھی اور انھوں نے اس زمانے کو اس ماحول کو جیا ہے۔
اسلوب
فکشن میں ناول وہ صنف ہے جس کی جان دل نشین اسلوب ہوتا ہے۔ اور یہی مطالیعت (Readability) کو مہمیز لگاتا ہے۔ بہتر سے بہتر قصّہ سامع کو اس وقت تک متوجہ نہیں کر سکتا جب تک اسے دلچسپ، پُر تکلف اور موثر انداز میں نہ پیش کیا جائے۔ ایسا انداز اور ایسا اسلوب جو سننے والے کو اپنی طرف کھینچے اور پھر کسی اور طرف نہ جانے دے اور اس لحاظ سے مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ اس پر پورا اترتا ہے۔
مشرف عالم ذوقی کے فنی شعور کی پختگی اور فنکارانہ اظہار کا راز اسلوب میں پوشیدہ ہے۔ انھوں نے تہذیب و اخلاقیات کو نئے معنوی نظر سے دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اور جنسیات کو مرکزیت عطا کی ہے۔ وہ اسے عصر حاضر کے آفاق گیر مسئلے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنسی مسائل کو وہ چاہے انفرادی ہوں یا اجتماعی، تسلسل کے ساتھ بیان نہیں کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اکثر تخلیقی رکاوٹ (Creative Interruption)پیدا ہو جاتی ہے۔ مصنف نے اپنے ناول میں ایسے مسائل ایسے موضوع کو پیش کیا ہے جنھیں کھلے اور صاف لفظوں میں پیش کرنا ممکن نہیں، اس پر عریانیت اور فحاشی کا الزام لگ سکتا ہے۔ مصنف کا کمال یہی ہے کہ اُنھوں نے ان الزاموں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنے موضوع جذبات و احساسات کو قارئین پر اس طرح واضح کیا ہے کہ کہیں روکاٹ محسوس نہیں ہوتی۔ جنسیات کے علاوہ ناعاقبت اندیش سیاست گھناؤنی صارفیت اور اس سے پیدا ہونے والے محرکات اور عوامل بھی ناول کا موضوع ہیں۔ ان سنجیدہ مسائل کو الفاظ کا لباس پہنانا مصنف کی خوبی ہے۔
مشرف عالم ذوقی کا یہ فنکارانہ اسلوب اس لیے بھی قابلِ لحاظ ہے کہ ایک باپ اپنی ایک معذور بیٹی اور اپنے ایک رشتے دار ’’انور‘‘ کے تعلق سے شبہات کا شکار ہوتا ہے۔ جس میں یقین کا رنگ گھلا ملا ہوا ہے۔ لیکن ایک باپ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اس یقین کو بھی شبہات کے پردہ میں چھپا رہنے دینا چاہتا ہے۔ وہ اپنے مخلص اور ہمدرد دوست عبد الرحمن کاردار کے آگے اپنے تجربات اور اپنے مشاہدات کو اشارے و کنائے میں بیان کر دینا چاہتا ہے۔ نور محمد ایک لمحے کے لیے رک کر پھر قیاسات پر مبنی اپنے بیان کے سلسلے کو آگے بڑھاتا ہے۔
’’………..اور اپنے سامنے ایک انجان آدمی کو پا کراس پر پھر سے دورہ پڑ گیا ہو __ یا ممکن ہے اس کے باوجود ……. آپ سمجھ رہے ہیں نا بھیّا __ایک باپ کی لاچاری اور مجبوری کو سمجھئے ……میں شاید اس سے زیادہ واضح الفاظ میں آپ کو نہ سمجھا پاؤں __ مگر کچھ ہوا تھا __ شاید اس کی چیخ سننے کے بعد بھی ممکن ہے ……اس نے بیٹی کے ہاتھوں کو چھوا ہو __ یا پھر …..یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھاگ کھڑا ہوا ہو _ّّ_ لیکن اتنا طے ہے کہ……‘‘ ۴۱؎
مشرف عالم ذوقی نے ناول میں اس سچویشن کو بھی بڑی فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ذوقی کے اسلوب نگارش کی کئی مثالیں اس ناول میں موجود ہے مثلاً جب کاردار کا سارا جسم پسینے سے تر بتر تھا اور سارا انہیں جگا رہی تھی گویا انھوں نے کوئی بھیانک سا خواب دیکھا تھا اور سارا نے بھی یہی سمجھا تھا۔ لیکن اس نے اپنے دادا کو مشکوک نظروں سے دیکھا تھا۔ اسے محسوس ہوا تھا کہ جیسے اس سے کوئی بات چھوپائی جا رہی ہو۔ اس نے اپنے خیال کا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن عبد الرحمن نے جو جواب دیا اس سے سارا ہی کیا قاری بھی ٹھٹھک کر رہ گئے۔ وہ جواب ملاحظہ ہو:
’’سارہ بیٹی …….زندگی کبھی کبھی ڈراؤنے خواب سے بھی زیادہ ڈراؤنی لگتی ہے۔ ‘‘ ۴۲؎
اس طرح یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ مشرف عالم ذوقی کے سادہ بیانیہ میں بھی پر کاری کے ایسے ایسے عناصر و عوامل کی کثرت ہوتی ہے جو زندگی کی تمام تر سادگی کے باوجود پیچیدگی اختیار کر لیتی ہے۔ واقعات اور واردات کے تنوع سے جو صورت حال پیدا ہوتی ہے وہ بیان کے اسلوب کو بھی زیر و زبر کرتی رہتی ہے۔ کہیں تاریخی صداقت اور کہیں صحافیانہ واقعیت اسلوب شفافیت اور قطعیت پیدا کر دیتی ہے۔ ذوقی کی اسلوب نگاری کی تعریف کرتے ہوئے آفاق عالم صدیقی لکھتے ہیں :
’’ناول کے موضوع کی سنگینی، ذوقی کی جادو بیانی، ناول لکھنے کے انوکھے اور نرالے انداز نے مجھے ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ پڑھنے پر مجبور کیا۔ ناول کی فضا تہذیب اور اخلاقی اقدار کے ان آبگینوں کو اپنی گرفت میں لینے میں پوری طرح کامیاب ہے، جسے معمولی ناول نگار چھونے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا۔ ناول کہنے کا جو ہنر ذوقی کے یہاں ہے وہ فی الوقت اردو دنیا میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ حال ہی میں سیاہ آبگینے اور موت کی کتاب کے بھی کچھ حصے پڑھے ہیں۔ مگر جو بات اور تجربے سے ماورا ایک ارفع ترین تجربے کی کلید کا احساس ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں دیکھنے کو ملتا ہے، وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ ‘‘ ۴۳؎
مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول دو تہذیبوں کے تصادم کے ساتھ ساتھ جنسی، نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں کی سچی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ذوقی نے ہندوستا ن کے 1947 سے 2010 تک کی سماجی، سیاسی اور تہذیبی تاریخ رقم کر دی ہے۔ انھوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے کرامات، میڈیا اور اطلاعاتی عہد کی سچائیوں کے پیش نظر مستقبل کے چیلنجز اور امکانات پر بحث کرتے ہوئے انسانی احساسات، جذبات، وقار، ضمیر اور آزادی کے معنی و مفہوم کی تلاش بھی کی ہے۔
ذوقی نے اس ناول میں کئی طرح کے اسالیب کا استعمال بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ انھوں نے ناول میں زندگی کے مختلف رنگوں کی مثال کو پیش کیا ہے۔ یہ ناول پرانے ناولوں کی طرح ایک ہی اسلوب میں نہیں لکھا گیا ہے بلکہ ذوقی نے ہندوستان کے مسلم لیگ کے مسلمانوں، گاندھی جی کے خلاف بولنے والوں، انگریز پرست مسلمانوں اور ہندوستان کے پاکستان جا کر بسنے میں عافیت محسوس کرنے والے مسلمانوں کے طرزِ بیان کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ یہ اقتباس غور فرمائیے :
’’ابّا غصہ ہوتے تھے __ اب کیا کرو گے۔ ایک پاکستان تو لے لیا__ ؟‘
’تو ایک اور لے لیں گے ……‘ یہ بچو چا تھے ……
’اپنے ناپاک ذہن سے باز نہیں آؤ گے بچو ……‘
’تو پھر کٹ کٹ کے مرتے رہیں ……‘
’سمجھداری دنیا کی ہر سیاست پر بھاری ہے __‘
’ یہ اچھی سمجھداری ہے کہ وہ مارتے رہیں اور ہم مرتے رہیں۔ بھئی واہ وسیع الرحمن کاردار __‘
’تمہیں میری بات اچھی لگے یا بری، لیکن سمجھداری یہی ہے __اور کوئی بھی سمجھدار آدمی دنگا یا فساد نہیں چاہتا……‘‘ ۴۴؎
ذوقی نے ناول کے بے حد نازک موضوع کو بڑی خوش اسلوبی اور فنکارانہ صلاحیتوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ناول کی خاص بات یہ ہے کہ ذوقی نے ۱۴ اگست سے عہد حاضر تک کے کئی اہم واقعات کو خوبصورت انداز میں اپنے ناول کا حصہ بنا دیا ہے۔ آزادیِ ہند، تقسیم، فرقہ وارانہ فسادات، ہندوستا ن میں مسلمانوں پر ہونے والی ظلم و زیادتی اور بابری مسجد کا انہدام وغیرہ ان تمام حادثات کے ساتھ ساتھ پرانی روایتیں کس طر ح دم توڑ رہی تھیں، انسانی رشتے کیسے بکھر رہے تھے، قدریں پامال ہو رہی تھیں، ان سب کو ذوقی نے چونکہ بہت قریب سے دیکھا تھا۔ ان تبدیلیوں کے وہ خود ایک کردار رہ چکے تھے۔ اس لیے یہ تمام منظر نامے حقیقت سے بہت قریب ہیں۔ اس ناول کے تمام واقعات اور کردار ایسے ہیں جو اپنے نقوش چھوڑ جانے میں کامیاب ہیں۔ ذوقی نے ناول میں جہاں ایک طرف پرانے خیالات وا لے وسیع احمد کاردار اور ان کی بیگم کے کردار کو پیش کیا ہے۔ تو وہیں دوسری طرف انھوں نے بالکل نئے زمانے اور جدید عہد کی نمائندگی کرنے والی ’سارہ‘ کے کردار کو پیش کیا ہے۔ جسے گزرتے زمانے کی تہذیبیں قدریں سب کچھ fantasy لگتی ہیں۔
’’ہاں ددّو__کتنے انوکھے قصے۔ پاپا کی بات پر یقین کرنے کی خواہش نہیں ہوتی۔ وہ…….پاپا بتا رہے تھے …….گھومتا خزانہ …….سمتھنگ ……..حویلی …….کوٹھی …….خزانہ۔ مائی گاڈ …….آپ لوگوں کی تو پرورش ہی fantasyکے ماحول میں ہوئی۔ تب کتنا ایڈونچر ہو گاددّو۔ کھلا آسمان ……..کبوتر ……..مرغیاں __راجے مہاراجوں کی طرح کوٹھیاں اور خزانے کی تلاش ………دل نہیں مانتا ددّو کہ انسانی تہذیب میں، بس کچھ سال پہلے تک ایسا بھی ہوتا ہو گا__اچھا……آپ کو ان دنوں کی یاد آتی ہے ددّو……‘‘ ۴۵؎
اس ناول کو پڑھنے کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذوقی کے اسلوب میں موضوع کا انتخاب، اس کی گہرائی و گیرائی کے ساتھ مطالعہ، پیش کش اور پھر پڑھنے والوں کے دلوں تک پہنچ جانا ایسے عناصر ہیں۔ جن کے لیے غیر معمولی ذہانت اور احساسِ شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔
زبان و بیان اور تکنیک
مشرف عالم ذوقی کی زبان سادہ اور پر کشش ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ایسا طنز ہے جو ہمارے ذہن کو جھنجھوڑ دیتا ہے اور مکالمے حالات کی ستم ظریفیوں کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔ ذوقی نے ناول میں لفظوں کے سہارے ایسی فضاء تخلیق کی ہے جس کی آرائش اور زیبائش، جس کا حسن و جمال، دلفریبی اور دلکشی، اس کی سادگی اور پر کاری، روانی و بیساختگی کے سحر میں قاری ناول کو ختم کر لینے کے بعد بھی اس کے سحرمیں گرفتار رہتا ہے۔ ذوقی کی اس خوبی کی تعریف کرتے ہوئے ڈاکٹر ستیہ پال آنند لکھتے ہیں :
’’اسے پڑھتے ہوئے بھول بھلیاں میں بھٹکنا نہیں پڑتا۔ (اگر انگریزی میں کہوں تو) It is imminently readable اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شعور کی رو کے ابہام در ابہام Narrativeسے دامن بچاتے ہوئے ذوقی نے، شروع سے آخر تک بیانیہ کی اس تکنیک پر تکیہ کیا ہے جسے Unambiguous straight narrative patternکہا جاتا ہے۔ ناول کا واحد متکلم، وقتاً فوقتاً خود کو ظاہر و موجود زمان اور مکان سے آزاد کر کے آگے پیچھے گھومتا ضرور ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ نستعلیق بیانیہ اسے گمراہ نہیں ہونے دیتا اور وہ ’’رفتہ‘‘ سے ’’موجود‘‘ کی طرف لوٹ کر ’’آئندہ‘‘ کو آتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔ ‘‘ ۴۶؎
مشرف عالم ذوقی کے ناول میں علامتیں اور کنائے بڑے عام فہم اور سادہ ہیں جو نہ تو کہانی کے تسلسل میں مانع ہوتے ہیں اور نہ قاری کے لئے چیستاں کا روپ اختیار کرتے ہیں۔ بلکہ ان کی علامتوں سے نثر با وزن بنتی ہے اور تصویریں اختصار کے ساتھ ذہن کے پردے پر واضح ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ذوقی اپنے ناول کو تشبیہات سے بھی مزین کرتے ہیں۔ یہ تشبیہیں کتنی منفرد ہوتی ہیں اور ان کے اسلوب کی دلکشی میں کتنا اضافہ کرتی ہیں۔ اس کی وضاحت ضروری نہیں ہے۔ بس ان پر ایک نظر ڈالنا ہی کافی ہے۔
’’اور وہی یادوں کی خوفناک ٹرین، تیز آواز کے ساتھ ماضی کی پٹری پر رینگ رہی تھی۔ کچھ دھماکے سنائی دے رہے تھے ……‘‘ ۴۷؎
’’مولوی محفوظ کی حیثیت اس وقت جہاز کے کپتان کی تھی۔ ‘‘ ۴۸؎
’’مجھے اس بات کا احساس تھا کہ دنیا کے پنکھ لگ گئے ہیں۔ ‘‘
’’یہ کون ساآسمان پر محل بنا رہے ہیں۔ ‘‘
’’سمجھداری دنیا کی ہر سیاست پر بھاری ہے۔ ‘‘
مشرف عالم ذوقی کو علاقائی بولیوں پر قدرت حاصل ہے۔ انھوں نے قصّے اور کرداروں کی مناسبت سے علاقائی زبان اور علاقائی گیتوں اور کہاوتوں کو بھی اپنے اسلوب بیان کا حصہ بنایا ہے۔ جن سے بیان میں حقیقی رنگ نمایاں ہوتا ہے اور مصنف کی قدرت زبان کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
’’میئن بدلہ لینے کے فراق میں ہیں ‘
’کل سارا دن میئن گپ چپ میٹنگ کرتے رہے __‘
’حملہ کرنے کا پروگرام ہے __‘
’رات کے وقت سونا نہیں ہو گا ……‘
’ میئن اسلحے جمع کر رہے ہیں۔ ‘
’اب سالوں کو پاکستان کھدیڑ نا ہی ہو گا …….‘ ۴۹؎
اس کے علاوہ مشرف عالم ذوقی نے ناول کی زبان کو خوبصورت اور دل نشین بنانے کے لیے محاوروں کا استعمال بھی کیا ہے۔ ان کے محاورے بولیوں میں اس طرح مل جاتے ہیں کہ زبان کا حسن اور بڑھ جاتا ہے۔ محاوروں کے علاوہ ہندی الفاظ کا استعمال بھی جا یsھناو ظاٹا ہو…….چمگاڈبجا ملتا ہے۔ یہ ہندی الفاظ، عام بول چال کے الفاظ ہیں۔ مثلاً انت، اندھ وشواس، بھوت پریت اور آنکھ مٹکائیاں وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جو ناول کی زبان میں مل کر اس کی دل نشینی اور خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے۔ تکنیک کے اعتبار سے بھی مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایک کامیاب ناول ہے۔ یہ ناول فلیش بیک تکنیک پر لکھا گیا ہے۔
ساڑھے تین سو صفحات تک کہانی مبہم ہے اور واضح نہیں ہوتی اور جب کہانی کے سارے پیچ و خم کُھل جاتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ شروع کے مکالمے یونہی لفظی بازیگری نہیں تھے۔ بلکہ ان کا نفسیاتی، معنیاتی اور ساختیاتی تعلق پلاٹ کے اس کلائمکس سے ہے۔ جس کا انکشاف آخر میں ہوتا ہے۔ انکشاف ہونے پر قاری کی خوشی اور دلچسپی میں زبردست اضافہ ہوتا ہے، اور تب قاری اس ناول کو دوبارہ پڑھنا چاہتا ہے۔ جب ہم اس کو دوبارہ پڑھتے ہیں تو ناول کی کہانی پورے آب و تاب کے ساتھ اس کا استقبال کرتی ہے۔ اس ناول میں زبردست Readability ہے اور بلا کی Complexity ہے اور ساتھ ساتھ اس میں اسلوبیاتی اعتبار سے Simplicity بھی ہے۔
ادب کا با ذوق قاری اس ناول کا مطالعہ پورے لُطف کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اس ناول میں ذوقی جو پیغام دینا چاہتے ہیں ان کے سارے کردار اس کے پیغامبر نظر آتے ہیں۔ مصنف سے بغاوت کرنے کی ہمت ذوقی کے اس ناول کے کسی کردار میں نہیں ہے۔ کہانی کاکلائمکس پہلے سے طے شدہ ہے۔ اور اس کا ارتقا مرحلہ وار بھی پوری طرح مصنف کی گرفت میں ہوتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی اپنے ناول میں اس اہم نکتہ کی طرف ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ اپنے گردو پیش بلکہ اپنے درمیان کی صورت حال سے نظر یں بچا لینا ہی مہذب ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
جنسی بے راہ روی اور جنسی تشنگی عالمی مسئلہ ہے کہ کئی قسم کی برائیاں اور جرائم اس کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں۔ گاؤں اور قصبے کا سنسان علاقہ ہو یا بڑے شہروں کے ستارہ ہوٹل کوئی موقع اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں انسانی درندوں نے فعلِ بد نہ کیا ہو۔ مذہب اور قانون کی کئی پابندیوں کے باوجود یہ معاملہ دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ آئے دن ایسی خبریں اخباروں کی سرخیاں بن رہی ہیں۔ ان پیچیدہ مسائل کے پیچ و خم کو کھولنا اور اُنھیں حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنا سماج کے ہر فر کی ذمہ داری ہے نہ کہ اس کی طرف سے آنکھیں موند لینا۔ ذوقی نے اسی حساس مسئلے کو چھیڑا ہے اور قارئین کو جھنجوڑا ہے۔
فلسفۂ حیات
اس ناول کے ذریعہ ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اس سر زمین پر ایسے دل و دماغ والے ادیب بھی ہوتے ہیں جو اس ہولناک منظر سے نکلنے والے تباہی کا پتہ دیتے ہیں اور لکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ برائیوں کی یہ آگ کسی کو بھی بخشنے والی نہیں ہے۔ اس پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ آگ ایک دن تمام رشتوں کا جلا کر رکھ دے گی۔ دنیا کو آرام و سکون کی جگہ بنانے کے لیے دنیا بھر میں نہ جانے کیا کیا نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان بھٹک گیا ہے اور وہ صحیح راہ کی تلاش چاہتا ہے۔ اس لیے وہ جنسی راہ سے فرار چاہتا ہے۔ اگر جنسی آزادی اتنی اہم ہے تو تمام دنیا میں کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اس بناء پر چین و سکون ہو۔ جہاں پر سیکس فری ہے۔ وہاں پر بھی خوف کا ماحول ہے اور اس سے نجات کے لیے آشرموں کا اور مذہب کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اس فرار کی اصل وجہ کیا ہے ؟ ذوقی نے اپنے ناول کے ذریعہ ایسے نئے نئے سوال قاری کے ذہن میں پیدا کئے ہیں جن کے جواب تلاش کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
نور محمد کی پوری زندگی آزمائش میں گزری بچپن سے بڑھاپے تک کبھی بھی خوشیوں نے اس کے دروازے پر دستک نہیں دی نور محمد نے بڑے حوصلے کے ساتھ زندگی کا ہر فرض نبھایا۔ معذور بچی کی خدمت کرنا بڑے صبر کا کام ہے یہاں تک کہ یہ کردار قارئین کو بردبار اور کامیاب شخص نظر آتا ہے لیکن وہ فعل جو وہ اپنی بیٹی کے ساتھ انجام دیتا ہے اُسے ذہن قبول کرنے تیار نہیں ہوتا کیونکہ کسی بھی مذہب کسی بھی علاقے کا کوئی شخص کسی حال میں یہ کام نہیں کر سکتا جو نور محمد نے کیا۔ اس کی وجہہ یہ ہو سکتی ہے کہ نور محمد بیٹی کی خواہش کے سامنے مجبور ہو گیا وہ اُس کی کوئی خواہش ادھوری نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اور یہ طلب ایسی تھی کہ کسی اور شخص کے ذریعے پوری نہیں کروائی جا سکتی تھی۔ کمزور لمحوں میں یہ کام تو انجام پا گیا لیکن اُس کے بعد کے دردناک نتائج۔ ضمیر کی آواز گناہ کا احساس، سماج میں کسی کو منہ دکھانے لائق نہ رہنا، جینی کی صورت میں مستقل عذاب۔ ذوقی کے اس ناول کا موضوع ایک علیحدہ نوعیت کا اچھوتا اور انوکھا ہے۔ پھر بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ذوقی کا یہ ناول اردو ادب کے فلک پر ایک ستارے کے مانند چمکتا ہے۔ ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے بارے میں یعقوب یاور کہتے ہیں :
’’مشرف عالم ذوقی ویسے بھی اچھوتے اور ان کہے موضوعات پر قلم اٹھانے والے ایک حوصلہ مند فن کار ہیں۔ لیکن ان کا تازہ کارنامہ، جو میری ناقص رائے میں ان کے تمام سابقہ کارناموں پر سبقت لے گیا ہے، یعنی ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ انسانی زندگی کے ان پس رکھے جانے والے کامیاب مسائل اور معاشرے کے ان نازک ترین گوشوں کو چھوتا ہے، جہاں تک عام طور پر نہ تو کسی انسان کی رسائی ممکن ہو پاتی ہے نہ کوئی ناول نگار ایسے موضوعات کو اٹھانے کی جرأت کر پاتا ہے۔ اس ناول میں انسانی رشتوں کا ایک ایسا تناظر سامنے آتا ہے جو پاکیزگی کی معیار بندی کا نیا زاویہ اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔ ممکن ہے سماج کے ہمارے نام نہاد ٹھیکیدار اسے دیکھیں سنیں تو ناک بھوں چڑھائیں، لیکن یہ سب قدرت اور ہمارے بدلتے سماج کے مشترکہ جبر کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ہمارے سامنے آتا رہتا ہے۔ اس ناول میں انسانی نفسیات کے ان باریک تاروں کو چھیڑ دیا گیا ہے جو ہماری رگوں میں دوڑنے والے خون کو منجمد کر سکتا ہے۔ ناول کا کینوس وسیع ہے اور عموماً جب ایسا ہوتا ہے تو کہانی میں جھول پیدا ہونے لگتا ہے اور ناول میں قاری کے لیے دلچسپی کا سامانوں میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ لیکن ذوقی اس مرحلے سے بڑی خوش اسلوبی اور آسانی سے گزر گئے ہیں۔ چنانچہ از اول تا آخر ناول میں قاری کی دلچسپی یکساں طور پر بر قرار رہتی ہے۔ ‘‘ ۵۰؎
مشرف عالم ذوقی نے اس ناول میں تہذیبوں کے تصادم کو بہت پر کشش انداز میں پیش کیا ہے۔ کردار نگاری کے اعتبار سے ہر کردار اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے۔ پروفیسر نیلے، نور محمد، نادرہ، عبدالرحمن کاردار ایسے ہی کردار ہیں۔ ذوقی کے اس ناول میں ان کی شخصیت کا گہرا اثر دیکھائی دیتا ہے۔ بلکہ ذوقی نے خود اس کہانی کو اپنی کہانی کہا ہے۔ تبدیلی سماج کا ایک اصول ہے۔ تبدیلی ایک نئے تہذیب کو جنم دیتی ہے۔ انسان کو ان تبدیلیوں اور تہذیبوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی زندگی کی حقائق پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ اس ناول میں تہذیب و اخلاق اور زندگی کے بارے میں فکر انگیز مسائل اٹھائے گئے ہیں۔ موضوعات کی اہمیت اور معنویت کے باوجود اس ناول میں تخلیقیت بھی اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ ذوقی کبھی کبھی اپنی تخلیقی پیش کش میں اتنے شدید اور جارح ہو جاتے ہیں۔ جس سے ناول کی تخلیقیت متاثر ہونے لگتی ہے۔ ناول کا فن ایک آئینہ ہے جس میں رومانی عکس بھی نظر آتا ہے۔ ذوقی کے ناول میں سماج، نفسیات اور اخلاقیات، ماضی اور حال کی داستان سنائی دیتی ہے۔ یہ سارے عناصر مل کر مشرف عالم ذوقی کے ناول کو ایک عمدہ ناول بناتے ہیں۔
٭٭
حواشی
۱۔ ڈاکٹر مشتاق احمد ’’جدید حسّیت کا فکشن نگار: ذوقی‘‘ ایجوکیشنل بک ہاؤس ص ۴۱
۲۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۵
۳۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۳۱۱
۴۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۲۰۶
۵۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۳۱۱
۶۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۴۷۴
۷۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۲۳۴
۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۶۰
۹۔ ڈاکٹر منظر اعجاز ’’سانسوں کے زیر و بم کا فنّی اظہار‘‘ ’’ سبق اردو‘‘ دانش الہ آبادی ص ۱۹
۱۰۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۱۶۸
۱۱۔ ڈاکٹر منظر اعجاز ’’سانسوں کے زیر و بم کا فنّی اظہار‘‘ ’’ سبق اردو‘‘ دانش الہ آبادی ص ۱۶
۱۲۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۴۴۶
۱۳۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۴۷۱
۱۴۔ ملک زادہ منظور احمد ’’ماہنامہ امکان‘‘ لکھنؤ ۲۰۱۴ ص۶۰
۱۵۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۳۴۰
۱۶۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۳۴۸
۱۷۔ تسنیم فاطمہ امروہی ’’ذوقی: تخلیق اور مکالمہ‘‘ ‘ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ص ۲۳۷
۱۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۳۶۱
۱۹۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۴۲۹
۲۰۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۹۱
۲۱۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۴۲
۲۲۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۷۳
۲۳۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۱۷۵
۲۴۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۳۴۰
۲۵۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۳۳۹
۲۶۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۳۵۳
۲۷۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۱۹
۲۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۲۲۵
۲۹۔ تسنیم امروہی ’’ذوقی: تخلیق اور مکالمہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ص ۶۳
۳۰۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۳۸
۳۱۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۴۵
۳۲۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۱۳۵
۳۳۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۲۴۳
۳۴۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۷۷
۳۵۔ ملک زادہ منظور احمد ’’ماہنامہ امکان ‘‘ لکھنؤ مارچ تا اپریل ۲۰۱۴ ص ۶۰
۳۶۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۴۲۷
۳۷۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۸
۳۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۳۲۳
۳۹۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۷۳
۴۰۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۴۵۷
۴۱۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۴۲۴
۴۲۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص۴۲۷
۴۳۔ ملک زادہ منظور ’’ماہنامہ امکان ‘‘ لکھنؤ مارچ اپریل ۲۰۱۴ ص ۵۹
۴۴۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۱۳۳
۴۵۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۳۸۲
۴۶۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند ’’لے سانس بھی آہستہ کی بیانیہ تکنیک پر ایک نوٹ‘‘ ، ’’ سبق اردو‘‘ مدیردانش الہ آبادی ص ۱۳
۴۷۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۱۲۵
۴۸۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۱۷۲
۴۹۔ مشرف عالم ذوقی ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ص ۱۳۸
۵۰۔ ملک زادہ منظور احمد ’’ماہنامہ امکان ‘‘ لکھنؤ مارچ تا اپریل ۲۰۱۴ ص ۶۱
٭٭٭
ماحصل
مشرف عالم ذوقی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ہر تخلیق کار کی پہچان اس کی تخلیق سے ہوتی ہے۔ ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ میں ذوقی نے مسلمانوں کی ہندوستان میں حالات زار کی عکاسی بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے اور اس کے ساتھ انھوں نے تہذیبوں کے تصادم کو بھی پیش کیا ہے۔
اس مقالے کے پہلے باب میں، میں نے مشرف عالم ذوقی کی حیات اور ادبی تعارف پر روشنی ڈالی ہے۔ ذوقی کی پیدائش ۱۹۶۲ء کو بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں آ رہ میں ہوئی۔ ان کی ماں سکینہ خاتون اور والد مشکور عالم بصیری آ رہ کے ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ذوقی اپنی کہانیوں میں اسی گاؤں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کو بچپن سے کھیل سے لگاؤ نہ تھا۔ وہ ہمیشہ کھیلوں میں ہار جایا کرتے تھے۔ ذوقی کو بچپن سے ہی لکھنے کا شوق تھا۔ اس لئے انھوں نے گیارہ سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کر دیا۔ ذوقی نے اپنے تعلیم کی ابتداء اپنے گاؤں آ رہ سے کی تھی۔ ۱۹۸۰ ء میں وہ آ رہ کو الوداع کہہ کر دہلی چلے آئے اور آج بھی دہلی میں ہی مقیم ہیں۔
ذوقی کی حیات کے بعد میں نے ان کے ادبی تعارف پر روشنی ڈالی ہے اور اس ضمن میں مشرف عالم ذوقی کو فکشن نگار، ناقد اور ایک شاعر کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ ذوقی الیکٹرانک میڈیا سے بھی جڑے ہیں اور آج بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی ۱۹۸۹ء میں دوردرشن کے پروڈیوسر بنے۔ انھوں نے دوردرشن پر ۲۵ سے بھی زائد سیریل لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ آٹھ ٹیلی فلم بھی بنائی ہیں۔ انھوں نے ہندی اور اردو کے باون بڑے قلم کاروں جن میں قرۃ العین حیدر، نامور سنگھ، راجندر یادو، جوگندر پال اور ڈاکٹر محمد حسن شامل ہیں کی ڈکومنٹری فلمیں بنائی ہیں اور یہ کام مسلسل جاری ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے ناول ’’مسلمان‘‘ پر ایک سیریل ’ملّت‘ کے نام سے بنایا جو بہت مشہور ہوا۔ مشرف عالم ذوقی نے ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی نے ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں کہانیوں اور ناولوں کی تخلیق کی ہے۔ ان کے ۱۸مجموعے اردو میں ہیں جو اپنے الگ موضوع، زبان اور تکنیک کی وجہ سے منفرد ہیں۔
ذوقی اپنی کہانیوں کے اسلوب اور تکنیک بدلتے رہتے ہیں۔ ۱۹۸۵ء سے پہلے لکھی جانے والی کہانیوں میں ذوقی کے جذبات اور ان کی حساس طبعیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کہانیوں میں ان کا گھر، بیوی، بچے اور ان کا شہر سب کچھ موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کے افسانوں میں گاؤں کے مناظر بھی ہیں جس میں انھوں نے اپنے گاؤں کا ذکر کیا ہے۔ چوپال کا قصہ، ڈائنا سور، ایک گاؤں ابھی بھی شہر میں ہے، ایسے ہی افسانے ہیں۔ ۱۹۸۵ء کے پہلے کی ان تمام کہانیوں میں جذباتی لہریں حاوی نظر آتی ہیں۔ ان میں لاش گھر، بستی میں، سات کمروں والا مکان وغیرہ افسانے ہیں۔ ۱۹۸۵ ء سے ۱۹۹۵ء تک کے ان کے افسانوں میں ترقی پسندانہ رنگ غالب نظر آتا ہے۔ جن کی مثال ’’بھوکا ایتھوپیا، بچھو گھاٹی، مت رو سالک رام، پروت وغیرہ ہیں۔ ان افسانوں کے بعد ذوقی نے دس سال کے بعد دوسرا مجموعہ ’’منڈی‘‘ لکھا۔ ا ن دس سالوں میں ذوقی کے سوچنے کے انداز میں فرق آ چکا تھا۔ ان کے اندر کافی حد تک نظریاتی بدلاؤ آ چکے تھے۔ ۲۰۱۳ء میں ان کا مجموعہ ’’نفرتوں کے دنوں میں ‘‘ آیا اور وہ بھی اپنے خاص موضوع کے سبب مقبول ہوا۔ ذوقی کی کہانیاں قاری کو صرف محفوظ ہی نہیں کرتی ہیں بلکہ وہ پیغام بھی دیتی ہیں اور قاری کے ذہن کے نئے نئے دروازے بھی کھول دیتی ہے۔
اس مقالے کے دوسرے باب میں، میں نے ذوقی کے ہم عصروں اور ان کے فنِ ناول نگاری کا جائزہ لیا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ مشرف عالم ذوقی اپنے ہم عصروں سے کس طرح مختلف ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے میں نے غضنفر کو پڑھا۔ غضنفر نے بہت سے ناول لکھے ہیں اور ہر ناول کا موضوع مختلف ہے۔ میں نے غضنفر کا ناول ’’دویہ بانی‘‘ کا جائزہ لیا۔ جس کو انھوں نے ۲۰۰۰ میں شائع کیا تھا۔ یہ ناول ہمارے ہندوستان میں برسوں سے رتبہ اور مذہب کی آڑ میں انسانی حقوق کی ہو رہی پامالی کی قلعی کھولتا ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد قاری اس نظام اور اس کے ماننے والوں پر افسوس ظاہر کرتا ہے۔
غضنفر کے بعد میں نے پیغام آفاقی کے ناول کا جائزہ لیا۔ پیغام آفاقی اور غضنفر دونوں بہار کی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ پیغام آفاقی کا ناول ’’مکان‘‘ کا میں نے جائزہ لیا جو ایک مکان مالک اور اس کے کرایہ دار پر مبنی ہے۔ اس ناول میں پیغام آفاقی نے مکان مالک کو اپنا مکان کرایہ دار سے واپس لینے کے لئے کیا کیا جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔ اس کا خلاصہ کیا ہے۔ اس ناول میں پیغام آفاقی نے جو نسوانی کردار پیش کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ ناول کا اسلوب سادہ ہے اور زبان صاف و پُر کشش ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس میں تشبیہات اور استعارے کا استعمال کیا ہے۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد پیغام آفاقی کی منفرد سوچ اور گہرے مشاہدے کا پتہ چلتا ہے۔
عبد الصمد جو بہار سے تعلق رکھتے ہیں ان کے ناولوں کا بھی میں نے مطالعہ کیا۔ عبدالصمد کئی ناولوں کے تخلیق کار ہیں۔ جس میں دو گز زمین، مہاتما، خوابوں کا سویرا، مہا ساگر اور دھمک جیسے ناول شامل ہیں۔ ان ناولوں میں، میں نے ’’دو گز زمین‘‘ کا احاطہ کیا ہے جس میں انھوں نے آزادی کے چند برس قبل سے لے کر پچیس تیس برس بعد تک کی سیاست کا نقشہ پیش کیا ہے۔ اس ناول کے ذریعہ عبدالصمد نے کئی مسائل کو قاری کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ جیسے کانگریس کی سیاست، فرقہ وارانہ فسادات مسلمانوں کی ناقدری، لوٹ کھسوٹ کے سبب روز بروز بڑھتی بے روزگاری، مسلمانوں کا مشرقی یا مغربی پاکستان کی طرف ہجرت وغیرہ۔ عبد الصمد نے یہ سارے واقعات کو کڑی سے کڑی ملا کر فطری انداز میں پیش کیا ہے۔ اس میں انھوں نے سادہ و سلیس اسلوب کا استعمال کیا ہے۔ زبان تصنع اور بناوٹ سے خالی ہے۔ الفاظ صاف ستھرے اور سادہ ہیں کہیں کہیں اس میں تشبیہات اور استعارات کا استعمال بھی ملتا ہے۔
کشمیر میں پیدا ہوئی ترنم ریاض اردو ادب کی مشہور خواتین ناول نگاروں میں سر فہرست ہیں۔ ان کے دو ناول اور چار افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ’’مورتی‘‘ اور دوسرا ’’برف آشنا پرندے ‘‘ ہیں۔ میں نے ان کے ناول ’’برف آشنا پرندے ‘‘ کا مختصر تجزیہ پیش کیا ہے۔ ترنم ریاض نے اس ناول میں کشمیریوں کی حالاتِ زندگی کا نہایت خوبصورتی سے تجزیہ کیا ہے، ساتھ ہی کشمیر کی سیاسی، سماجی، معاشرتی تہذیب کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کو مختصراً لیکن دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ناول کا پلاٹ کافی پھیلا ہوا ہے۔ کہانی کا موضوع سنجیدہ ہے جس جو ترنم ریاض نے مبہم انداز میں پیش کیا ہے اس ناول کے دو مرکزی کردار ہیں ایک شیبا اور دوسرا کشمیر۔ ناول کی زبان صاف اور سادہ ہے۔ اس میں ہندی، اردو، پنجابی اور انگریزی زبان کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ ترنم ریاض نے اس ناول میں استعاروں اور کنائیوں کا بھی استعمال بخوبی کیا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناول ایک عمدہ ناول ہے جس میں ہمیں کشمیر کی وادیاں اور تلخ زندگی کا تجزیہ صاف نظر آتا ہے۔
شائستہ فاخری جو یو۔ پی کے شہر الہٰ آباد سے تعلق رکھتی ہیں اور مشرف عالم ذوقی کے ہم عصروں میں شمار کی جاتی ہیں۔ ان کے اب تک پانچ افسانوی مجموعے اور تین ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ میں نے ان کے ناول ’’نادیدہ بہاروں کے نشاں ‘‘ کا جائزہ لیا ہے۔ یہ ناول ’’حلالہ‘‘ موضوع کے تحت لکھی گئی ہے۔ ’’حلالہ ‘‘ ایک ایسی شادی ہے جس کی اجازت تو مذہب نے دی ہے ساتھ ہی اس کے کچھ اصول و ضوابط بھی متعین کئے ہیں۔ جس کو شائستہ فاخری نے بڑی خوبصورتی سے ناول میں پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس ناول میں عورتوں کے استحصال کی کہانی کو پیش کیا ہے۔ ناول میں شائستہ فاخری نے اودھ کی زبان کا استعمال کیا ہے۔ جو کردار اور مکالمہ نگاری کے لحاظ سے درست ہے۔ ان کو الفاظ کے استعمال کا ہنر آتا ہے۔ انھوں نے ناول میں چھوٹے چھوٹے جملوں کا استعمال کیا ہے۔ اس ناول میں واقعات، کردار اور زبان کے درمیان کے ایسا تال میل موجود ہے جو ناول کو ہر قسم کے جھول سے پاک رکھتا ہے۔
نورالحسنین کا تعلق مہاراشٹر کے شہر اورنگ آباد سے ہے۔ نورالحسنین نے دو ناول لکھے ہیں اور دونوں ہی اپنی فنی خوبیوں کی وجہ سے کامیاب ناولوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ میں نے ان کے نئے ناول ’’ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘‘ پر بحث کی ہے۔ نورا لحسنین نے اس ناول میں ۱۸۵۷ء کے تاریخی واقعات کو اس ناول کا موضوع بنایا ہے۔ اس ناول میں ۱۸۵۷ء کی جنگ کا نقشہ بڑی خوبصورتی سے کھینچا گیا ہے۔ غدر کے وقت پورے ہندوستان میں جو واقعات و واردات ہو رہے تھے اس کو انھوں نے بڑے پُر اثر انداز میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ذوقی کے ہم عصروں میں حسین الحق کا بھی شمار ہوتا ہے۔ انھوں نے دو ناول لکھے ہیں جس میں ’’فرات‘‘ کو زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ فرات میں حسین الحق نے تین زندگیوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول میں انھوں نے تہذیبوں کے تصادم کو پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی، نفسیاتی اور معاشرتی پیچیدگیوں کی سچی تصویر کو پیش کیا ہے۔ اسلوب بیانیہ ہے اور فلیش بیک تکنیک کا استعمال کیا ہے۔
حسین الحق کے علاوہ سلیم شہزاد کا شمار بھی ان کے ہم عصروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اب تک تین ناولوں کی تخلیق کی ہے۔ جس میں، میں نے ’’سانپ اور سیڑھیاں ‘‘ کا مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے ملک کے بدلتے ہوئے حالات اور اس کے پس منظر سے پیدا ہونے والی ہندو بنیاد پر ستی، تنگ نظری اور مذہبی جنون ہے۔ جنھیں ملک کی سیاسی پارٹیاں نہایت منظّم طریقے سے پروان چڑھا رہی ہے۔ ناول میں جس زبان کا استعمال کیا گیا ہے وہ دیہاتوں میں بولی جانے والی زبان ہے۔ اسلوب حقیقت پسندانہ ہے۔ اس ناول میں کرپشن، ملاوٹ سودبازی کو سانپ اور سیڑھی کے کھیل سے مماثل بتا یا گیا ہے۔ جس کا انجام کوئی نہیں جانتا ہے۔
شفق بھی ذوقی کے ہم عصروں میں ہی شمار کئے جاتے ہیں۔ انھوں نے اب تک تین ناولوں کی تخلیق کی ہے جو اپنے منفرد موضوع، اسلوب اور تکنیک کی وجہ سے مقبول ہوئے۔ میں نے ان کا ناول ’’بادل‘‘ کا مطالعہ کیا۔ یہ ناول موجودہ عہد کے مسلمانوں کی بے چینی اور عالمی سطح پر جنگ اور فسادات کے بڑھتے رجحانات اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل اور نتائج پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس ناول میں شفق نے ملکی حالات اور بڑھتے ہوئے مذہبی جنون کی نشاندہی کی ہے۔ ساتھ ہی امریکی سامراج کی ذہنیت کا بھی پردہ فاش کیا ہے۔ ناول کا اسلوب حقیقت پسندانہ اور زبان صاف ستھری ہے۔
رحمن عباس کا نام ذوقی کے ہم عصروں میں منفرد حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ ان کا تعلق ممبئی سے ہے۔ رحمن عباس نے اب تک تین ناولوں کو ترتیب دیا ہے۔ میں نے ان کے ناول ’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘ پر بحث کی ہے۔ یہ ناول کوکن کے ایک گاؤں ’’سورل‘‘ کی داستان ہے۔ جہاں بدلتے ہوئے سماجی، مذہبی، معاشرتی سروکار کے پس منظر میں ایک رومانی کہانی کو انجام دیا گیا ہے۔ ناول کی زبان سادہ، اسلوب بیانیہ اور شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔
مشرف عالم ذوقی کو موضوعاتی ناول لکھنے میں مہارت حاصل ہے۔ انھوں نے جس بے باکی سے سماج، معاشرے، تہذیب و تمدن اور انسانیت کے بنتے بگڑتے نقوش کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دل میں محسوس کیا ہے اور اس کو اپنے ناولوں میں جگہ دی ہے۔ ان موضوعات کو وہ اپنے ناولوں میں بے باکانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کی کہانیاں چیختی اور احتجاج کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ذوقی کا ہر ناول اپنے الگ موضوع، اسلوب اور تکنیک کی وجہ سے ایک دوسرے سے منفرد ہے۔
ذوقی کا اسلوب، موضوع کا انتخاب اور موضوع کا گہرائی و گیرائی کے ساتھ مشاہدہ اور مطالعہ، تکنیک اور پیش کش یہ ایسے عناصر ہیں جن کے لئے غیر معمولی ذہانت اور حساس شعور کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ خوبی مشرف عالم ذوقی میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہی خوبی ذوقی کو ان کے ہمعصروں سے مختلف اور منفرد بناتی ہے۔ ذوقی کا مشاہدہ اتنا وسیع ہے کہ جہاں ان کے ہم عصروں نے دو یا تین یا کچھ نے پانچ سے چھ ناول لکھے ہیں۔
تیسرے باب میں، میں نے مشرف عالم ذوقی کے ناولوں کا مختصراً جائزہ پیش کیا ہے۔ ذوقی نے اب تک گیارہ ناولوں کی تخلیق کی ہے۔ ان کا ہر ناول ایک الگ موضوع کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔ جن میں فرقہ وارانہ فسادات، مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی، بابری مسجد کا انہدام، تہذیبوں کا تصادم، سیاسی جنگ و سازش وغیرہ ایسے کئی موضوع کو ذوقی نے اپنے ناولوں کے ذریعہ قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں نے ذوقی کے سبھی ناولوں کا جائزہ لیا اور اس کا ماخذ پیش کیا ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے اپنا پہلا ناول ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ کی تخلیق محض ۱۷ سال کی عمر میں کیا تھا۔ ذوقی نے کم سنی کے باوجود اس ناول میں انسانی فطرت سے فرار چاہنے والے ایک نفسیاتی مریض کی کہانی کو بڑی خوبصورت اور پُر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ناول میں انھوں نے انسانی فطرت کے فلسفے کو قاری کے سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے کہ ہر مرد و عورت کے اندر جنسی جذبات موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی فعل ہے۔ جو صرف انسانی ضرورت ہی نہیں بلکہ حیوانات میں بھی یہ عنصر موجود ہے اور انسان اس عمل سے چاہے کتنا بھی فرار کیوں نہ حاصل کرنا چاہے نہیں کر سکتا۔
اس ناول کا مرکزی کردار الف ہے جو چھوٹی سی عمر میں اپنے گھر کے آزاد ماحول میں فطرت انسانی کے عمل کو دیکھتا ہے اور اس کے ذہن پر ان کے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جو وقت کے ساتھ بڑھ کر اسے نفسیاتی مریض بنا دیتے ہیں۔ ذوقی نے الف کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ الف کے ذریعہ انھوں نے بچوں کے اندر پیدا ہونے والی ذہنی بیماریوں کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول میں جو مکالمے ادا کئے گئے ہیں اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں سادہ واقعہ اور ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ ناول کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ ناول کا اسلوب بیانیہ ہے اور شعور کی رو تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ناول کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں جس طرح ذوقی نے محض ۱۷ سال کی عمر میں اتنا خوبصورت اور اچھوتا ناول لکھ ڈالا یہ قابلِ ستائش ہے۔
’’نیلام گھر‘‘ مشرف عالم ذوقی کا دوسرا ناول ہے۔ اس وقت ان کی عمر بیس سال کی تھی۔ اس ناول میں انھوں نے ظلم اور نا انصافی کے خلاف اعلان کیا ہے۔ ملک میں ذات پات اور مذہب کے نام پر نفرتوں کی جو دیوار کھڑی کی گئی ہے۔ ذوقی نے اس ناول کے ذریعہ اس کو گرانے کی کوشش کی ہے۔ نیلام گھر صرف کریم بیگ، سلمہ اور مسز بھٹنا گر کا المیہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ملک و قوم کی ٹریجڈی ہے۔ ذوقی نے اس ناول میں بیانیہ اسلوب کا استعمال کیا گیا ہے ساتھ ہی فلیش بیک اور فلیش فارورڈ تکنیک استعمال کی ہے۔ جس کے ذریعہ انھوں نے ماضی کو حال میں اس طرح سمویا ہے کہ سب کچھ حال ہی میں گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
نیلام گھر میں جہاں تک کرداروں کی زبان کا تعلق ہے تو اسمیں کرداروں کی زبان بہت سادہ اور عام فہم زبان ہے۔ اس ناول میں بہت سے کردار ہیں۔ مثلاً کریم بیگ، انجم، امت، سلمہ، صاحب، مسز بھٹناگر اور رگھوبیر وغیرہ یہ کردار اس عہد کی زندگی کے سیاسی، سماجی صورت حال کی حقیقی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’لمحہ آئندہ‘‘ ایک علامتی ناول ہے اور اب یہ محفوظ نہیں ہے۔
’’ذبح‘‘ مشرف عالم ذوقی کا ایک اہم ناول ہے۔ اس میں انھوں نے نئی ایجادات کے آنے سے مختلف پیشہ ور اور غریب طبقے پر جو اثرات ہوئے ہیں اس کی عکاسی وہ بہت پر اثر انداز میں کی ہے۔ ذوقی نے اس ناول میں اس ترقی کی طرف روشنی ڈالی ہے۔ جو صرف ایک مخصوص طبقے تک ہی محدود ہے۔ جہاں اس ترقی سے دولتمند طبقہ اوردولت مند ہو رہا ہے اور غریب طبقہ مزید غریب ہوتا جا رہا ہے۔ ذوقی اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس جرم کا ذمہ دار غریب طبقے نہیں بلکہ پورے سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کو مانتے ہیں۔ ناول کا کردار عبدل ایک بہشتی ہے جو نئی ایجادات جس میں چاپانکل بھی آتا ہے آ جانے سے بے روزگار ہو جاتا ہے اور مجبور ہو کر اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے جرم کے راستے پر نکل پڑتا ہے۔ ناول کا اسلوب بیانیہ ہے۔ تکنیک بیانیہ اور زبان سادی اور دیہاتوں میں بولی جانے والی زبان ہے۔
’’بیان‘‘ مشرف عالم ذوقی کا ۱۹۹۵ء میں شائع ہونے والا ناول ہے۔ جس میں انھوں نے ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کے حادثے کے بعد ملک میں ہونے والی تبدیلی پر روشنی ڈالی ہے۔ ذوقی نے اس ناول کا تانا بانا دو خاندانوں کے افراد کے ذریعہ بنا ہے۔ اس کے بیچ میں انھوں نے ہندوستانی سیاسی پارٹیوں اور پولیس کے رول کو بھی پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی ٹوٹتی ہوئی تہذیبی قدروں کا ماتم بھی کیا ہے۔ جس کی علامت چودھری برکت حسین اور بالمکند شرما ہیں۔ اس ناول کا اسلوب بیانیہ ہے۔ ناول کی زبان و بیان میں سادگی، سلاست اور روانی بدرجہ اتم نظر آتی ہے۔ ذوقی نے اس میں اردو کے ساتھ ساتھ ہندی زبان کا بھی استعمال کیا ہے۔ ’’بیان‘‘ اپنے اسلوب اور طرزِ فکر کی وجہ سے اس موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں میں قابلِ ستائش ہے۔ اس ناول کے سارے کردار، واقعات ٹھوس اور حقیقی نظر آتے ہیں۔
’’شہر چپ ہے ‘‘ ، ’’بیان ‘‘ کے بعد شائع ہونے والا ناول ہے۔ یہ ناول فلمی میلو ڈرامائی طرز پر لکھا ہوا ملک اور قوم کا المیہ ہے۔ اس ناول میں ذوقی نے غریب طبقے کی لاچاری، بے روزگاری اور بے بسی پر روشنی ڈالی ہے۔ کہانی کا ہیرو انیل ہے جو تعلیم یافتہ بے روزگار ہے، اور روز گار کے لئے شہر میں گھومتا پھرتا ہے۔ آخر کار وہ حالات سے پریشان ہو کر جرم کے راستے پر نکل جاتا ہے۔ پھر وہ اس کی تلافی بھی کر لیتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار انیل اور اس کا دوست رگھوبیر ہے۔ جس کے ذریعہ ذوقی نے ملک کے بے روزگار نوجوانوں کی بے بسی اور لاچاری کو پیش کیا ہے۔ ناول کا اسلوب سادہ ہے اور دوسرے ناولوں سے منفرد ہے۔ ’’شہر چپ ہے ‘‘ میں ذوقی نے شیریں زبان کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں تلخ زبان کا بھی استعمال کیا ہے۔ اس ناول کے کردار ہمارے سماج کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے ہیں۔
ذوقی کا ناول ’’مسلمان‘‘ پہلے ہندی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ۱۹۹۲ ء میں اردو میں شائع ہوا۔ ’’مسلمان‘‘ ہندوستان، میں رہ رہے ہر شخص کی داستان ہے جو مسلمان ہونے کی سزا کاٹ رہا ہے۔ چاہے مسئلہ نوکری کا ہو، کرائے کے مکان کا یا اسکول میں پڑھ رہے بچوں کا سب کو مسلمان ہونے کی وجہ سے سوالوں کے جواب میں گھیرے ہیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار افروز ہے جو ایک طوائف کی بیٹی ہے۔ پوری کہانی اس کے ہی اردگرد گھومتی ہے۔ ناول میں فرقہ وارانہ دنگے بھی ہوئے ہیں جس کے سبب پورے ہندوستان میں افراتفری مچی رہتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذوقی نے اس ناول میں تہذیبوں کے تصادم پر بھی نظر ڈالی ہے۔ ناول کا اسلوب سادہ ہے۔ تکنیک میں انھوں نے فلیش بیک کا استعمال کیا ہے۔ زبان سادہ اور عام بول چال کی زبان ہے۔ یہ ناول آزادی کے بعد کے مسلمانوں اور مشترکہ تہذیب کا نوحہ بیان کرتا ہے۔
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ نئی تکنالوجی کے تحت ہمارے معاشرے اور خاص طور پر بچوں پر اس کا جو اثر ہو رہا ہے۔ اس پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ ناول ’’پوکے مان ‘‘ کا تعارف کراتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح گلوبلائزیشن اور سائنس کی وجہ سے ایک چھوٹے سے خطّے کی چیزیں، خیالات، احساسات و افکار ایک آندھی کی طرح ساری دنیا کو اپنے قید میں لے لیتا ہے اور ان کے ذہنوں میں رچ بس گیا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک چھوٹا بچہ روی ہے جو اپنی ہی ہم عمر اور ہم جماعت لڑکی سونالی کے ساتھ جنسی رشتہ بنا بیٹھتا ہے اور پھر اس بچہ کے خلاف مقدمہ دائر ہو جاتا ہے۔ ناول کا اسلوب منفرد ہے۔ زبان صاف اور سادہ استعمال کی گئی ہے۔ ذوقی کے انداز بیان کی بے ساختگی و دلکشی جادو کا اثر رکھتی ہے۔
ذوقی کا ناول ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے سب ناولوں میں منفرد ہے۔ یہ ناول موجودہ عہد کے سیاسی، سماجی، مذہبی، ادبی اور فکری نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کی داستان ہے۔ ناول میں سونامی ہماری گم ہوتی شناخت کا نوحہ بیان کرتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا میں دم توڑتی ہوئی تہذیب کا ماتم بھی کرتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار پروفیسر ایس ہیں۔ جن کا پورا نام پروفیسر صدر الدین ہے۔ ناول کا اسلوب منفرد ہے۔ ذوقی نے اس ناول میں فلیش بیک اور فلیش فارورڈ تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ ذوقی کا یہ ناول مختلف موضوع، مختلف اسلوب اور اندازِ بیان کے بناء پر قابلِ تعریف ناول ہے۔
’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ ۷۱۶ صفحات پر مشتمل ناول ۲۰۱۳ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ ناول موجودہ عہد کے مسلمانوں کے حالات اور بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے واقعے کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔ ذوقی نے اس ناول کے ذریعہ ملک کی سچائی سے بیحد عمدگی کے ساتھ پردہ اٹھایا ہے اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر کشی کی ہے۔ ساتھ ہی سسٹم کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔ ذوقی نے ناول میں انکاؤنٹر کو محض علامتوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار اسامہ کا ہے۔ حالانکہ ناول میں وہ کم وقتوں کے لئے ہی استعمال کیا گیا ہے۔ مگر پورا ناول اسی کے اردگرد گھومتا نظر آتا ہے۔ ناول کا اسلوب بیانیہ ہے۔ فلیش بیک تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ زبان صاف ہے۔ اپنے تمام ناولوں میں یہ ناول اسلوب، زبان اور تکنیک کی بناء پر الگ ہے۔
میرے مقالے کا چوتھا اور آخری باب ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا تفصیلی و تجزیاتی مطالعہ ہے۔ اس میں، میں نے ذوقی کے ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا تفصیل سے تجزیہ کیا ہے۔ ذوقی کا یہ ناول سماجی ناول ہے۔ جس میں انھوں نے قدرت اور قسمت کی عجیب و غریب کہانی کو پیش کیا ہے۔ اس ناول میں ذوقی نے ملک کا سرحدوں میں تقسیم ہونا، قدروں کا پامال ہونا، رشتوں کی بدلتی صورت حال، جادو ٹونا، جاگیردارانہ رواج کی کھوکھلی شان اور ان سب کے بیچ میں سانس لیتی محبت کی داستان ان سب کو ذوقی نے خوبصورت اور فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ پھیلا ہوا ہے۔ ان کے موضوعات کے تنوع اور مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔ ذوقی اپنے ناول کا آغاز میر تقی میرؔ کے اس شعر سے کرتے ہیں۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا
اس ناول کو ذوقی نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے حصہ میں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرتی کشمکش کو بیان کیا ہے۔ ’’کاردار خاندان کی حویلی‘‘ عبدالرحمن کاردار کے والد وسیع احمد کاردار اور اس کے گھر والے مولوی محفوظ کے مشورے پر گمشدہ دفینے کی تلاش میں حویلی کی کھدائی شروع کر دیتے ہیں۔ دفینہ کی تلاش دراصل انسان اور فطرت کو محفوظ کرنے کا مقصد اشاریہ ہے۔ یعنی یہ خزانہ اپنے ماضی کے تحفظ کی علامت ہے۔
ناول کے دوسرے حصہ میں مشرف عالم ذوقی نے تہذیبوں کے تصادم کی کہانی کو بیان کیا ہے۔ اس ناول کے قصہ کا راوی عبد الرحمن کاردار ہے جو بلند شہر سے تعلق رکھتا ہے۔ اس شہر میں کاردار خاندان کے علاوہ نور محمد کا خاندان بھی رہتا ہے۔ جو اس ناول کا اہم کردار ہے۔ ان خاندان کے تار حریر دو رنگ سے اس ناول کا بنیادی پلاٹ بنایا گیا ہے۔ راوی عبد الرحمن کاردار اپنے دوست پروفیسر نیلے کو اپنے حالات سابقہ کا حال بتاتے ہوئے ’’نادرہ‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔ جو اس کے ماموں کی بیٹی ہے۔ وہ اس سے محبت کرتا ہے مگر کبھی کہہ نہیں پاتا ہے اور نادرہ کی شادی اس کہ دوست نور محمد سے ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح خاموش محبت کا خون ہو جاتا ہے۔ یعنی روایتی اخلاق کی پابندی اور پاسداری نے معاشرتی نظام میں بیماری پیدا کر دی اور اس بیمار نظام میں پیدا ہونے والے بچوں کی طرح نادرہ بھی ایک معذور بچی نگار کو جنم دیتی ہے۔
یہیں سے اس ناول کی کہانی کی اصل شروعات ہوتی ہے۔ جو اب تک لکھی جانے والی سب سے بھیانک کہانی ہے۔ یہ کہانی دو چہروں کا تعاون کرتی ہے۔ ایک چہرہ مرد کا یعنی بے حد معصوم اور مظلوم نور محمد کا ہے اور دوسرا معصوم اور معذور بچی نگار کا ہے۔ یہ دونوں کردار ایسی بد نصیبی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جن کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ نادرہ کی موت کے بعد نگار کی ذمہ داری نور محمد پر آ جاتی ہے۔ نور محمد کو اسے کھلانے پلانے اور نہلانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے پاس سلانا بھی پڑتا ہے اور اسی دوران ناول میں ایک حادثہ پیش آتا ہے۔ جو قاری کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ نگار بالغ ہو چکی ہے اور اس کا جنسی اشتعال ایک مرد کا متقاضی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے۔ جب نور محمد اس کی مانگ کو پورا کر دیتا ہے۔ نگار حاملہ ہو جاتی ہے اور ایک بچی کو جنم دے کر انتقال کر جاتی ہے۔ اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے یہ ناول اخلاقیات اور انسانی رشتوں پرسوال اُٹھاتا ہے کہ جینی نور محمد کی کون ہے بیٹی یا بیٹی کی بیٹی یعنی نواسی۔ ذوقی کا یہ ناول تہذیب اور اخلاقیات کے انتشار کا نوحہ بیان کرتا ہے۔
مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول عبد الرحمن کاردار اور اس کے دوست نور محمد کے اردگرد گھومتی ہے۔ جن کی پیدائش آزادی کے چند گھنٹوں پہلے ہوئی۔ ان کے علاوہ پروفیسر نیلے، مولوی محفوظ، سفیان ماموں، نادرہ، نگار اور اس کے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے کردار ہیں جو اس ناول کو اختتام تک پہچانے میں مدد کرتے ہیں۔ ناول کا مرکزی کردار نور محمد ہے جو زندگی کے لوازمات سے دور جی رہا ہے۔ نور محمد ایک ایسا بد نصیب کردار ہے جس کو زندگی میں نہ ماں کا پیار نصیب ہوا، نہ بیوی کی محبت ملی اور نہ ہی بچوں سے ملنے والی خوشی۔ اسے زندگی کے آخری دور تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نور محمد کے بعد ناول کا دوسرا اہم کردار عبد الرحمن کاردار کا ہے۔ عبد الرحمن نہایت سلجھا ہوا کردار ہے جو زندگی سے جڑا بھی ہے اور اس ناول کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ ناول میں عبد الرحمن کاردار اپنے مشاہدات اور زندگی سے حاصل شدہ صدمات کو سنانے کے لئے بے چین نظر آتا ہے۔ عبد الرحمن کاردار دراصل بیانیہ اور خواہش کا کوڈ ہے۔ وہ ایک سچا عاشق، دردمند اور وفا پرست شخصیت کا مالک ہے۔
ذوقی نے نسوانی کرداروں میں اہم کردار کی شکل میں نادرہ کو رچا ہے۔ نادرہ ایک خوبصورت معصوم بچی ہے۔ جس کی ماں مر چکی ہے اور وہ اپنے باپ کے ساتھ پاکستان سے ہندوستان آ جاتی ہے۔ ناول میں نادرہ کا کردار بہت حسین ہے اور اس کے مکالمات اسے حقیقت سے قریب کر دیتے ہیں۔ عورت کی بے بسی، لاچاری اور سچی محبت کی آس میں معصوم زندگی کش مکش کا شکار ہو جاتی ہے۔ پاک اور بے لوث محبت اس کہانی کا اہم جز ہے۔ وقت کے ظالم ہاتھ اس حسین نادرہ کو ایک مریضہ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
ذوقی نے اس ناول میں کئی طرح کے اسالیب کا استعمال کیا ہے اور ناول میں زندگی کے مختلف رنگوں کی مثال کو پیش کیا ہے۔ یہ ناول روایتی ناولوں کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ ذوقی نے ہندوستانی مسلمانوں کی زبان جو مختلف علاقوں، نظریات اور خیالات سے تعلق رکھتے ہیں تحریر کی ہے۔ ذوقی نے ہندوستان کے مسلم لیگ کے مسلمانوں، گاندھی جی کے خلاف بولنے والوں اور انگریزپرست مسلمانوں یا ہندوستانیوں کے پاکستان جا کر بسنے میں عافیت محسوس کرنے والے مسلمانوں کے طرزِ بیان کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ذوقی کی زبان سادہ اور پر کشش ہے اس میں انھوں نے ایسا طنز پیش کیا ہے جو ہمارے ذہنوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ مکالمے حالات کی ستم ظریفیوں کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔ ذوقی نے اس ناول میں فلیش بیک اور فلیش فارورڈ تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ یہ ناول سماج، نفسیات اور اخلاقیات، ماضی اور حال کی داستان سناتا ہے۔ یہ سارے عناصر مل کر ذوقی کے ناول کو ایک عمدہ ناول بناتے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی کی کہانیوں کو پڑھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سماجی برائیوں کو اپنا موضوع بناتے ہیں اور اس طرح سے کہانی کے تانے بانے بنتے ہیں کہ کہانی میں قاری کی دلچسپی کسی موڑ پر ختم نہ ہو۔ ذوقی اپنے ناولوں کے ذریعہ ایک خاص پیغام دیتے ہیں۔ ذوقی کا ایسا ماننا ہے کہ کسی بھی برائی کو ختم کرنے کے لئے اس کی جڑوں تک پہنچا نا چاہئے۔ ان اسباب و عوامل کو سمجھنا پڑے گا جس کے سبب ایک انسان جرم کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ناول سماج کو آئینہ دکھانے کا کام کرتی ہیں۔ جس سے قاری کا ذہن اس برائی کے خلاف جدوجہد کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی کے ناولوں میں ہمیں زندگی کی حقیقت نظر آتی ہے ان کا ناول لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح ذوقی اپنے ناولوں کے ذریعہ سماج کی ہر برائی کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بھی سماج میں پھیلی ہوئی ہر برائی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ تبھی ہو گا جب ہم ان کے ناولوں کا بغور مطالعہ کریں گے۔
مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ذوقی ایک کامیاب ناول نگار ہیں۔ ذوقی ایک با شعور اورحساس قلم کار ہیں۔
انھوں نے جن واقعات اور تصورات کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے وہ یقیناً حیرت انگیز ہیں۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے دل و دماغ والے ادیب بھی ہیں۔ جو اس ہولناک منظر سے پیدا ہونے والے تباہی کے راستوں کا پتا دیتے ہیں اور لکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس برائی کی آگ کسی کو بھی بخشنے والی نہیں ہے۔ اگر اس برائی پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ سارے رشتوں کو جلا کر ختم کر دے گی۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد دو کردار میری نظروں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ ایک نور محمد اور دوسرا کردار نگار۔ نور محمد کے ساتھ قدرت کا سخت امتحان لینا اور اس امتحان میں نور محمد کا کامیاب ہو جانا ایک کمال ہے۔ ذوقی کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے نور محمد کو حالات سے لڑنا بھی سکھایا اور اس کو زندہ بھی رکھا۔ ساتھ ہی انھوں نے نگار کو بھی زندہ رکھا اور صیحح وقت پر صحیح فیصلے کے ساتھ انھوں نے ایک تہذیب کو دوسری تہذیب میں بدل دیا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ اردو ادب کے آسمان پر چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے۔
٭٭٭
کتابیات
۱)آج کا اردو ادب، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۱۹۷۹ء
۲)آتش رفتہ کا سراغ، مشرف عالم ذوقی، تخلیق کار پبلیشرز دہلی ۲۰۱۳ء
۳) اردو ناول کی تاریخ اور علی عباس حسینی، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۲۰۰۵ء
تنقید
۴)اردو ناول اور تقسیم ہند اسلم آزاد، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۱۹۸۱
۵)اردو ناول کا آغاز و ارتقاء، عظیم الشان صدیقی، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۸ء
۶)اردو ناول کے اسالیب ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، تخلیق کار پبلیشرز دہلی ۲۰۰۶ء
۷)اردو فکشن تنقید اور تجزیہ، ڈاکٹر صغیر افراہیم ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۲۰۰۳ء
۸)اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ، سنبل نگار، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۲۰۰۷ء
۹)ایوانوں کے خوابیدہ چراغ، نورالحسنین، عرشیہ پبلیشرز، دہلی ۲۰۱۳ء
۱۰)برف آشنا پرندے ، ترنم ریاض، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۹ء
۱۱)بیان، مشرف عالم ذوقی، تخلیق کار پبلیشرز دہلی ۱۹۹۵ء
۱۲)بیان: منظر پس منظر، ڈاکٹر مشتاق احمد، جہانِ اردو، رحم گنج دربھنگہ ۲۰۰۵ء
۱۳)بھوکا ایتھوپیا، مشرف عالم ذوقی، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۱۹۹۳ء
۱۴)پوکے مان کی دنیا، مشرف عالم ذوقی، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۴ء
۱۵)پروفیسر ایس کی عجیب… مشرف عالم ذوقی ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۵ء
۱۶)تاریخ اردو ادب رام بابو سکسینہ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۷ء
۱۷)تاریخ اردو ادب نورالحسن نقوی ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۲۰۰۸ء
۱۸)تاریخ اردو ادب (جلدسوّم) وہاب اشرفی ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۷ء
۱۹)تین ناول رحمن عباس عرشیہ پبلیشرز، دہلی ۲۰۱۳ء
۲۰)جہان فکشن ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی تخلیق کار پبلیشرز دہلی ۲۰۰۸ء
۲۱)جدید حسیت کا فکشن نگار: ذوقی ڈاکٹر مشتاق احمد ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۱۴ء
۲۲)دو گز زمین، عبد الصمد، عالم گنج پٹنہ، ۱۹۸۸ء
۲۳)ذبح، ، مشرف عالم ذوقی، تخلیق کار پبلیشرز دہلی، ۲۰۰۰ء
۲۴)ذوقی:تخلیق اور مکالمہ، تسنیم فاطمہ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی، ۲۰۱۴ء
۲۵)سلسلہ روز وشب ، مشرف عالم ذوقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو دہلی، ۲۰۱۴ء
۲۶)شہر چپ ہے ، مشرف عالم ذوقی، تخلیق کار پبلیشرز دہلی، ۱۹۹۴ء
۲۷)عقاب کی آنکھیں ، مشرف عالم ذوقی، عالمی میڈیا لمیٹیڈ، ۲۰۱۴ء
۲۸)فرقہ واریت اور اردو ڈاکٹر غیاث الدین، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی، ۲۰۰۵ء
ناول
۲۹)لینڈ اسکیپ کے گھوڑے ، مشرف عالم ذوقی ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۳ء
۳۰)لے سانس بھی آہستہ، مشرف عالم ذوقی، عرشیہ پبلیشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۸ء
۳۱)مسلمان، مشرف عالم ذوقی،
۳۲)ناول کیا ہے ، ڈاکٹر محمد احسن فاروقی، نسیم بک ڈپو لکھنؤ، ۱۹۴۰ء
۳۳)نادیدہ بہاروں کے نشاں ، شائستہ فاخری ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی، ۲۰۱۳ء
۳۴)نیا افسانہ نئے نام، نور الحسنین، عرشیہ پبلیکیشنز دہلی، ۲۰۱۳ء
۳۵)نیلام گھر، مشرف عالم ذوقی، تخلیق کار پبلیشرز دہلی، ۱۹۹۲ء
رسائل و جرائد
شمارہ نمبر، رسالہ کا نام، مقام اشاعت، سنِ اشاعت
۱)، ماہنامہ سبق اردو ، گوپی گنج بھدوہی، جنوری ۲۰۱۳ء
۲)، ماہنامہ امکان، لکھنؤ، ، اپریل ۲۰۱۴ء
۳) ماہنامہ اردو نامہ، شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی اکیڈمک ریسرچ، اپریل ۲۰۱۴ء
۴)، ماہنامہ بزمِ سہارا، سہارا انڈیا پریوار، دہلی، جون ۲۰۱۳ء
۵)، ماہنامہ سب رس، ادارہ ادبیات اردو حیدر آباد، اکتوبر ۲۰۰۴ء
۶)، سہ ماہی اردو ادب، انجمن ترقی اردو (ہندی) نئی دہلی اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۳ء
۷)، سہ ماہی جامعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ادبی و علمی ترجمان، جنوری تا مارچ ۲۰۱۳ء
۸)، سہ ماہی فکر و تحقیق، قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی، جولائی تا ستمبر ۲۰۱۳ء
۹)، سہ ماہی اردو بک ریویو، کلاں محل، دریا گنج نئی دہلی، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۳ء
۱۰)، سہ ماہی روح ادب، مغربی بنگال اردو اکیڈمی، کلکتہ، جولائی تا ستمبر۲۰۰۳ء
۱۱)، ماہنامہ اردو دنیا، قومی کونسل برائے فروغ اردو نئی دہلی، جنوری ۲۰۱۴ء
٭٭٭
تشکر: مشرف عالم ذوقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید