FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ق

 

 

 

 

بارہ ماسے کی جمالیات

 

 

 

 

               شکیل الرّحمٰن

 

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

اپنے بزرگ دوستجناب ڈاکٹر تنویر علوی صاحب

کےنام

آپ کی کتاب ’اُردو میں بارہ ماسے کی روایت: مطالعہ و متن‘ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ اس میں چند کلاسیکی ’بارہ ماسوں‘ کے درست متن شامل ہیں۔ آپ نے اپنے دیباچے میں لسانیاتی نقطۂ نظر سے جو باتیں پیش کی ہیں وہ بہت مفید ہیں نیز منتخب بارہ ماسوں کے شعراء کے کلام کا مطالعہ بھی قیمتی ہے۔

میں نے بارہ ماسوں کے متن کو للچائی نظر سے دیکھا، پڑھا تو تشنگی اور بڑھی۔ سب بارہ ماسے پرکشش اور جاذبِ نظر ہیں۔

متن کا مطالعہ کرتے ہوئے نفسیاتی جمالیاتی نقطۂ نگاہ سے جو چند خاص باتیں نظر آئیں جی چاہا انھیں پیش کردوں۔ بارہ ماسائیں ملک کے کئی علاقائی زبانوں مثلاً گجراتی، پنجابی، بنگلہ، راجستھانی، مراٹھی، ہندی وغیرہ میں موجود ہیں۔ اُردو کے علاوہ نمائندگی کے لیے میں نے پنجابی کے سب سے ممتاز بارہ ماسہ نگار کو منتخب کیا ہے۔ خیالات کا آزاد ترجمہ پیش کر دیا ہے۔ یہ بارہ ماسہ (بارہ ماہا) بابا گرو نانک دیو جی کا ہے، اس کی عمدہ خصوصیات اپنی جگہ، پر سب سے بڑی خصوصیت روحانیت کا پہلو ہے جو وحدت الوجود کی جمالیات لیے پیش ہوا ہے۔

—- شکیل الرحمن

 

 

 

کاگا سب تن کھائیو  چن  چن کھائیو ماس

دو نیناں مت کھائیوں پیا ملن کی آس

 

 

 

 

بشنو از چوں حکایت می کند

و ز جدائی ہا شکایت می کند

کز نیستاں تا مرا ببریدہ اند

از نقیرم مرد و زن نالیدہ اند

سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق

تابگویم شرح درد اشتیاق

ہر کسے کود و رمانداز اصل خویش

باز جوید روزگارِ وصل خویش

(مولانا روم)

’بانسری سے سنو کیا بیان کرتی ہے، جدائی کی شکایت کس طرح کرتی ہے۔ جب سے مجھے بنسلی سے کاٹا ہے، میرے نالہ سے سب روتے ہیں۔ایسا کلیجہ چاہتی ہوں جو جدائی سے پارہ پارہ ہوتا ہے کہ عشق کے درد کی تفصیل سناؤں۔جو اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے، وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرنے لگتا ہے۔‘

٭

 

 

 

بھئی ہوں عشق کے غم سوں دوانی

نہ مجھ کوں بھوک دن، نانیند راتا

برہ کی درد سوں سینہ براتا

اری! یہ عشق ہے یا کیا بلا ہے

کہ جس کی آگ سے، سب جگ جلا ہے

وہی جانے کہ جس کے تن لگی ہے

برہ کی آگ، تن من موں دگی ہے

(افضل- بکٹ کہانی)

محبت میں تڑپتی عورت ہے عشق کے غم میں دیوانی ہے، محبوب اس کے پاس نہیں ہے، جدائی کا درد ایسا ہے جو ہر موسم میں بے قرار کرتا رہتا ہے:

جھلک و کہلا کے اپنی چھپ گیا ہے

جبہی سے دل کو میرے غم لگا ہے

جدائی کی اگن دل میں لگادی

مری راحت کی پونجی سب جلادی

لگا ہے روگ جی کو ایسی بھاری

کہ جس سے اب بری گت ہے ہماری

جدا ہو کر پیا جب سے سدھارا

جگر کو کر گیا ہے پارا پارا

ڈگر سے پی کے جو بہکی پھروں میں

تبھی میں باولی دم دم جھروں ہوں

جدا جب سے ہوا وہ مجھ سے پیارا

چلے ہے سانس جوں چھاتی پہ آرا

(بارہ ماسہ ربانی)

تمام بارہ ماسوں کا مزاج ایک جیسا ہے اس لیے کہ ایک ہی جذبہ اپنے مختلف رنگ و آہنگ کے ساتھ پیش ہوتا رہتا ہے۔ ہر موسم کی کیفیت عورت کے پورے وجود میں سرایت کرتی محسوس ہوتی ہے۔ مختلف موسم گہرے احساس کے آہنگ کو چھیڑتے رہتے ہیں، اس قدر کہ ہر موسم کی رومانیت اتنی شدّت اختیار کر لیتی ہے کہ عورت شیریں دیوانگی کا پیکر بن جاتی ہے۔ پہلے ’سنسیشن‘ (Sensation) پیدا ہوتا ہے پھر جیسے جیسے موسم کی رومانیت عورت کے وجود میں پگھلنے لگتی ہے موسم کا جوہر اس کے وجود کا آہنگ کا     حصہ بن جاتا ہے،    حسیاتی کیفیت ہیجان انگیز بن جاتی ہے۔

’بارہ ماسوں‘ کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے جیسے مختلف موسموں کے رنگ جذبات کے مختلف رنگوں میں اس طرح جذب ہو رہے ہیں جیسے خارج اور باطن کی ہم آہنگی کا کوئی فطری عمل جاری ہے، اسی ہم آہنگی سے نت نئی جذباتی   حسیاتی تصویریں وجود میں آتی جا رہی ہیں۔

جمالیاتی نقطۂ نظر سے بارہ ماسوں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی گہری رومانیت ہے، ایسی گہری رومانیت جو ہیجان انگیز کیفیتیں پیدا کرتی ہے اور قاری کے احساس و شعور کو متاثر کرتی ہے۔ بدلتے مہینوں اور موسم کی وجہ سے جو ’سنشین‘ پیدا ہوتا ہے وہ قاری کا ’سنسیشن‘ بن جاتا ہے۔ جب عورت کا ’سنسیشن‘ ہیجان انگیز بن جاتا ہے تو ہم لذّت آمیز جمالیاتی آسودگی حاصل کرنے لگتے ہیں۔

بارہ ماسہ میں زلیخائی شیریں دیوانگی ہے، مسئلہ جدائی کا ہے، فراق کا ہے، کلام کی پوری فضا کی میلوڈی ایسی ہے لگتا ہے ’پیتھوس‘ (Pathos)ہی نے اس چبھنے والی لیکن بہت شیریں ’میلوڈی‘ کو خلق کیا ہے:

کوئی بھاتا نہیں ہے مجھ کو بن پی

کہ میں بھاگوں ہوں اپنی چھانہ سے بھی

میری بیداری ہر شب صبح تک ہے

میری آنکھوں میں مہتابی نمک ہے

 

کلی کی بو کے رنگوں کا ہے بی پن

جو کھولوں آنکھ تو نکلے میرا جی

 

میں ہر شب پی بنا رہتی ہوں بے تاب

جلے جوں شمع میری آنکھ میں خواب

(بارہ ماسہ عزلت)

 

لگی ہے آگ اور جلتا ہے سینا

نظر آتا نہیں اب مجھ کو جینا

 

نہیں گرمی میں جینے کی مجھے آس

سجن کے وصل بن بجھتی نہیں پیاس

 

جو آتا ہے کبھی ہولی کا ہنگام

تو مجھ کو خاک اُڑانا صبح اور شام

 

قیامت سر اُوپر لاتی ہے برسات

برستا ہے لہو آنکھوں سے دن رات

(بارہ ماسہ وحشت)

 

نہیں جاڑے کی کاٹے سے کٹے رات

لپٹ کر سوتی جو ہوتے پیا سات

 

اندھیری رات جو آتی ہے مجھ پر

بلا کالی سی اِک لاتی ہے مجھ پر

 

صورت پی کے جو مجھ میں آبست ہے

اندھیری رین ناگن سی ڈست ہے

 

بہت لوگوں نے سیانے کو دِکھایا

کسی نے بھی مرا منتر نہ پایا

 

کنول جلتی ہیں جو گھر میں ہمارے

نظر آتے ہیں انگاروں سے سارے

 

برہ نے یہ مری حالت بنائی

کہ سب میں ہو رہی ہے جگ ہنسائی

 

کہاں تک غم جدائی کا سہوں گی

سکھی ری ایک دن کچھ کھا مروں گی

(بارہ ماسہ کنول دی)

 

جدائی کی اگن دل میں لگی ہوئی ہے، بار بار کلیجہ پھٹ رہا ہے، کوئل کی کوک سنتے ہی تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے، پہلے آہ جگر سے باہر نکلتی تھی اب یہ حال ہے کہ خود جگر دیدۂ تر سے باہر نکل رہا ہے۔ ہولی میں تو جی چاہتا ہے کہ نین کا لہو کپڑوں پر چھڑک دیں، سجن کی دید کو آنکھیں ترس رہی ہیں، برسات میں گھٹا کاری اُمنڈ کر جھکتی ہے تو غم سے چھاتی رُکی رُکی محسوس ہوتی ہے، ساون کے مہینے میں جب پپیہا رات دن پی پی کرتا ہے تو من حد درجہ بے چین ہو کر تڑپنے لگتا ہے۔ کوئل کی کوک کلیجے کو پھونک دیتی ہے۔ اگھن کی راتوں کے سہانے پن کا لطف سانورے پیا کے بغیر کیسے ممکن ہے، اسی کی وجہ سے تو من کے آنگن میں خوبصورتی پھیلتی ہے، پیار کی چاندنی چھٹکتی ہے۔

بارہ مہینوں میں ہر مہینہ حد درجہ رومانی ہے، رومانیت کا تقدس لیے ہوئے ہے، فراق کے لمحوں میں گرفتار عورت کی ذہنی کیفیتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر موسم کی رومانیت کتنی گہری ہے خصوصاً پیتھوس (Pathos) نے اسے اور کتنا پرکشش بنا دیا ہے۔اکثر مقامات پر لفظ اور آواز کی ہم آہنگی سے لہجے میں مختلف رنگ ملتے ہیں، صرف یہی نہیں مختلف آہنگ بھی ملتے ہیں۔ اکثر تجربہ احساس اور ’سنسیشن‘ (Sensation) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بعض بارہ ماسوں میں ذہن اور جسم کا حسن بھی جاذبِ نظر بن جاتا ہے۔ مثلاً :

بہار آئی دکھن ہارا نہ آیا

انار آئے چکھن ہارا نہ آیا

 

وہ جوبن ہے کہ جوں انار کا پھل

بھرا میٹھے سے جوں مصری کا ہوڈل

بارہ ماسوں میں اکثر جہاں جنسی جذبے کا حسن ملتا ہے وہاں سرورانگیزی جمالیاتی انبساط عطا کرتی ہے۔ حسّیاتی لذّت سے جمالیاتی جذبات متاثر ہوتے ہیں۔ ساون، بھادوں، پھاگن اور جیٹھ کے مہینوں میں جمالیاتی سرور اور بڑھ جاتا ہے، جمالیاتی حِس کبھی کبھی اتنی بیدار ہو جاتی ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے وجد طاری ہو گیا ہے۔ جمالیاتی تجربہ سادہ ہے، صاف ہے، فطری ہے، لیکن جب یہی تجربہ جمالیاتی احساسات میں تبدیل ہونے لگتا ہے تو لہجے (Tone) کا حسن متاثر کرنے لگتا ہے۔ ہم محسوسات (Sensation) کے آہنگ کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً:

 

پپیہا پیو پیو نس دن پکارے

پگارے دادر و جھینگر جھینگارے

 

ارے جب کوک کوئل نے سنائی

تمامی تن بدن میں آگ لائی

 

اندھیری رات جگنو جگمگاتا

اری جلتی کے اوپر پھونس لاتا

 

سنی جب مور کی آواز بن سوں

شکیب از دل گیا، آرام تن سوں

 

بھرے جل تھل، بھیا سرسبز عالم

ربا چل، وصل کا سوکھا نہالم

ہنڈولے چڑھ رہیں سب نار پیوسنگ

حسد کی آگ نے جارا مرا انگ

 

چلا ساون مگر ساجن نہ آئے

اری کن دوتیوں نے ٹونے چلائے

(در بیان ماہ اوّل، ساون، بکٹ کہانی، افضل جھنجھانوی)

 

سبھی کھیلیں ہیں ہولی اپنے گھر گھر

لگاتے سر میں میرے آگ بھر کر

 

عبیر اور ابر کوں سیں ہیں گی لبریز

میرے دل کی ہوس کی آگ ہو تیز

 

لگی آنکھوں تلے ہولی کے دن آگ

جلی کوں خوش لگے کب رنگ اور راگ

 

کوئی گلگونہ و غازہ کوں ملتیں

ادا ؤ ناز کس شوخی سیں چلتیں

 

بھنواں ، ان سب کی غازوں میں نمودار

ڈسے ہیں ماہ نوسی در شفق زار

 

مے و ہولی سیں سب ہیں مست و مدہوش

خماروں سیں اوڑے جاتے مرے ہوش

 

قیامت ہے نوائے بربط و چنگ

بہارِ رقص اور فوّارۂ رنگ

 

سب اپنے روپ پر ناچیں کریں مان

میں اپنے بخت بد پر ہوں نپٹ جان

(پھاگن، بارہ ماسہ کنول دی)

 

ایسے اشعار میں جو محسوسات (Sensation) ہیں، دراصل انہی سے جمالیاتی تجربہ خلق ہوا ہے۔ جبلّتوں (Instincts) کے اظہار کے سبب صورت اور رنگ دونوں کا اظہار ہوا ہے۔ خیال اور احساس کی ہم آہنگی کی وجہ سے اشعار میں مٹھاس پیدا ہوئی ہے۔

ہندوستانی آرٹ میں بیانیہ کا سانچہ اہمیت رکھتا ہے۔ بارہ ماسہ بھی ایک بیانیہ ہے، یہ بیانیہ ایک کرداری ڈراما بھی ہے کہ جس میں مصوّری اور موسیقی کی ادائیں بھی موجود ہیں۔ بنیادی طور پر بارہ ماسہ روحانی تجربہ ہے، ایک سادھنا ہے، بدلتے موسم میں عورت کی جذباتی نفسیاتی کیفیتوں کا اظہار ہوتا ہے، فطرت یا نیچر کبھی پس منظر نہیں بنتا، ہمیشہ سامنے اور ساتھ ہوتا ہے۔ فطرت کا جلال و جمال اور عورت کی نفسیاتی کیفیتیں ایک وحدت بن جاتی ہیں۔ یہی جمالیاتی وحدت بارہ ماسہ کا سب سے بڑا حسن ہے۔ موسم عورت کے وجود میں جذب ہوتا رہتا ہے، عورت کا موڈ یا اس کی کیفیت اہمیت رکھتی ہے۔ موسم اور عورت دونوں ایک دوسرے کے حسن کو حاصل کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر موسم کی روشنی کا اثر عورت کی آواز اور اس کے لب و لہجے پر ہو رہا ہے، ’روشنی‘ (Light) اور ’آواز‘ (Sound) کی ہم آہنگی سے ہی روحانی تجربے میں اُٹھان پیدا ہوتی ہے۔ ’روشنی‘ عورت کی ’سائیکی‘ (Psyche) میں جذب ہو جاتی ہے تو آواز اور لب و لہجے سے بیانیہ کا حسن بڑھ جاتا ہے، ایک کرداری ڈرامے میں موسموں کی کیفیتیں مختلف رنگوں کے ساتھ جگمگانے لگتی ہیں۔ بادل، بارش، ہولی کے رنگ، گرمی کی تپش اور بیساکھ کی تپش میں محبوب کے ساتھ اندھیرے کمرے میں سونے کی خواہش، یہ سب عورت کی ’سائیکی‘ سے مختلف متحرک تصویروں کی صورت باہر نکلتے محسوس ہوتے ہیں۔

’بارہ ماسہ‘ میں ’فطرت‘ اور ’موسم‘ روشنی (Light) ہے کہ جس سے ہر چیز صاف دِکھائی دینے لگتی ہے، ’سوار‘ ہے یعنی چمکتے رہنے والے پیکر تو عورت کا وجود ایک نغمہ ہے جو جدائی کے غم اور فطرت اور موسم کے چمکتے پیکروں کی روشنی لیے ہوئے مختلف آہنگ کے ساتھ گونج رہا ہے۔ بارہ مہینوں میں موسم کے ذکر کے ساتھ اپنی باطنی کیفیتوں کے بیان کا احساس ملتا رہتا ہے۔ ہر مقام پر زندگی کا حسن ہے، زندگی کا شہد ہے، زندگی کی خوشبو ہے۔ موسم زندگی کا تجربہ بن جاتا ہے، ہر موسم عورت کے جذبات کا پہلو بن جاتا ہے۔ جمالیاتی وحدت کی یہ کیفیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ محبت پھیلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، روحانی تجربہ گہرا ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ موسم کے بیان میں اپنے تجربوں اور اپنی خواہشوں کو جذب کرتے ہوئے کئی ’رسوں‘ (Rasas) کی پہچان ہوتی ہے۔ اپنے گہرے غم اپنی بے چینی، اضطراب اور کشمکش کو لیے جو اپنی پریم بھگتی کا اتنا جاذبِ نظر ڈراما پیش کرتی ہے وہ عورت بنیادی طور پر اپنی سائیکی کے ’سرینگار رَس‘ میں ڈوبتی اُبھرتی نظر آتی ہے۔ اس ’رس‘ (Rasa) کا تعلق ’سوم رَس‘ سے ہے جو انتہائی لذیذ، خوشبودار اور سیّال غذائے ربّانی ہے، اسے نوش کر کے دیوتا حیاتِ جاودانی پاتے ہیں۔ رقص رسوں کا بنیادی سرچشمہ ہے، بارہ ماسوں میں عورت کے باطن میں وجود کی گہرائیوں میں رقص جاری ہے۔ شرینگار رَس بھی جلال و جمال اور ان کی وحدت کا احساس و شعور ہے، جلال و جمال اُن کے مظاہر اور ان کی وحدت کا نام ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ’رس‘ کے لغوی معنی ہیں مٹھاس، شیرینی، خوشبو، لذّت— لذّت کو شیریں بھی کہا گیا ہے اور ترش اور نمکین بھی۔ ہر رس کی طرح شرینگار رَس بھی حسن کا جوہر ہے، ذہنی یا جذباتی، تخیّلی اور حسّی سطحوں پر جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ بارہ ماسے میں عورت اپنے جمالیاتی تجربوں میں ڈوبتی ہے اور ان سے رس حاصل کرتی ہے۔ شرینگار رَس سے بھی جمالیاتی آسودگی اور جمالیاتی انبساط ملتا ہے۔ بارہ ماسے میں شرینگار رَس کے علاوہ ’رتی‘ (Rati)، رس (سیکس، عشق)بھی موجود ہے۔ اذیت کے لمحوں سے ٹپکتا ’شوک رس‘ (Shoka Ras) بھی ہے، محبوب کے کھو جانے کے خوف کا رس یعنی ’بھئے رس‘ (Bhaya Rasa) بھی ملتا ہے، ساتھ ہی تجسّس کا رس ’وس مایا (Vismaya Rasa)بھی موجود ہے۔ مجموعی طور پر یہ ’امرت رس‘ ہے:

 

تجھے اے سنگ دل ! کیسے پڑی چین

گئے ہیں تجھ بنا رووت مرے نین

——-

پیا  بن ایکلی کیسے رہوں ری

قسم اوپر ستم کیسے سہوں ری

——-

اگھن دُکھ دے چلا اب کیا کروں ری

پیا بن اب تڑپتی ہی رہوں ری

——-

چلا پوس اے سکھی ! آیا نہ کچھ ہاتھ

نہ سوئی سیج پر دلدار کے ساتھ

——-

جہاں ساجن بسے اس دیس جاؤں

اے یہ آگ تن من کی بجھاؤں

——-

سلونی ، سانوری اور سبز گوری

سبھی کھیلیں پیا اپنے سیس ہوری

 

بھرے رنگوں کے مٹکے ساتھ سب کے

اچھی پچکاریاں ہیں ہاتھ سب کے

 

گلال اندر بھٹیں ہیں لال ساری

بجاویں دف پیا کے نال ساری

 

کہوں ڈھولک، کہوں مردنگ باجے

کہوں سرمنڈلا، طنبور گاجے

 

بھریں چنگل عبیروں کے اُڑا دیں

کریں خوشحالیاں چھیڑیں چھڑا دیں

 

اپس میں دوہرے ، غزلیں سناویں

عجائب ہو رہاں، گاویں، گنواویں

 

پڑی ہے دھوم کہنے میں نہ آوے

حسد کی آگ، تن میرا جراوے

 

دھمالاں کرتیاں گھر گھر پھرت ہیں

پیا سنگ ناریاں سب سکھ کرت ہیں

 

ولے میں ہو رہی مرجھائی تم بن

ہزاراں برس بیتے مجھ اَپرچھن

 

نہیں تم کوں ارے کچھ غم ہمارا

کہ مطلق یاد سیں ہم کوں بسارا

 

نمی دانم چہ شد از من خطائے

کہ اب تک تم پیا گھر کوں نہ آئے

(افضل)

——-

کہوں کس سے پیا تیری کہانی

سمجھتی ہے ہر اِک مجھ کو دوانی

 

دوانی میں نہیں ہوں میرے جانی

ولے غم کا پڑا ہے سر پہ پانی

 

بھئی بوری تیرے بیراگ سے میں

ہوئی جل کے بھسم اس آگ سے میں

 

برہ کے ناگ نے جو ڈس لیا ہے

نہیں اب مجھ میں کچھ باقی رہا ہے

 

تڑپتی ، لوٹتی ہوں آگ پر میں

کروں کیا چاؤ ایسے بھاگ پر میں

(بارہ ماسہ ربّانی)

——–

گھٹا کاری اُمنڈ کر جھک رہی ہے

مری اس غم سے چھاتی رُک رہی ہے

——-

اندھیری رین تو کٹنی تھی میری

پیا بن چاندنی کیسے کٹے ری

——-

یہ کاتک بھی دُکھ دے کر چلا ہے

میرا جی سنگ اپنے لے چلا ہے

——-

سکھی ری دن بدن سردی پڑے ہے

مجھے جاڑا برہ کا نت چڑے ہے

 

پیا کی یاد میں روتی پھروں ہوں

جدائی کی اگن میں نیت جڑوں ہوں

 

کلیجا پھٹ منڈ چھاتی پہ آیا

لہو آنکھوں سے میں رو رو بہایا

——-

اری کس سوت نے جادو کیا ہے

جو یوں میرا سجن مالیا ہے

 

اگر جا کر میں اس سوتن کو پاؤں

تو اس کے تن کی میں دھجیاں اُڑاؤں

——-

لکھوں پتیاں ارے اے کاگ! لے جا

سلونے، سانورے، سندر پیا پا

 

کلیجہ کاڑ کر تجھ کوں کھلاؤں

تیرے دو نین پر بلہار جاؤں

 

سندیسہ پیو کا مجھ کوں سناؤ

پیا کا مکھ بچن مجھ کوں لے آؤ

(افضل، بکٹ کہانی)

 

سکھی پیتم بتا اب جیٹھ آیا

برہ کی آگ نے دونا ستایا

 

میں اپنی آگ میں جل بھن رہی تھی

پیا کے درد سے سر دھُن رہی تھی

 

برہ کی آگ سے جلتی ہے دھرتی

میں دونوں آگ میں جل جل کے مرتی

 

ابھی تک تھی مجھے امید پی کی

تو وہ بھی آس ٹوٹی اپنے جی کی

(ماس جیٹھ، بارہ ماسہ رنج)

 

دوسرے کئی رسوں کے ساتھ ’امرت رس‘ کی اپنی لذّت ہے اور یہ پریم بھگتی کی دین ہے۔ جس طرح ہر موسم کا اپنا رس ہے اسی طرح عورت کے احساس اور ہر جذبے کا اپنا رس ہے۔ اکثر محسوس ہوتا ہے جیسے ہر موسم ہر مہینہ عورت کا جذبہ بن گیا ہے۔ رسوں کو دینے والے جذبات کے ارتعاشات (Vibrations) قاری کے اندر حسنِ زندگی اورحسنِ فطرت کا احساس گہرا کر دیتے ہیں۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے بارہ ماسوں میں حسّی جذباتی قدریں (Sensori-emotional values) زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ محسوسات (Sensation) سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ جمالیات پر گفتگو کرنے والی ایک معروف شخصیت میری مدر سل (Mary Mother Sill) نے اپنے ایک مقالے "Beauty and the Critic’s Judgement) (۲۰۰۴ء) میں تحریر کیا ہے کہ تخلیق میں جہاں فرد تنہا کردار ہوتا ہے خود کلامی میں گرفتار ہوتا ہے، اپنے  حسی جذباتی تجربوں کو پیش کرتا ہے، ہمیشہ اپنی

حسیات، اپنے جذبات، اپنی تخئیلی کیفیات، اپنی خواہشات اور اپنے تحت الشعوری اُبال کے ساتھ دِکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری کو جذباتی اور جمالیاتی لذّت حاصل ہوتی ہے۔ بارہ ماسوں میں ان کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان ہی باتوں سے تخلیق کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان میں خواہشات، جذبات، حسّیات، تحت الشعوری اُبال سب کی پہچان ہوتی ہے۔

یہ کہنا درست ہو گا کہ بارہ ماسوں کے تجربوں پر ڈرامائی شعاعیں لطف دے جاتی ہیں۔ Theater of the Imagination کی خوبیاں بھی متاثر کرتی ہیں۔ آرٹ کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تجربوں پر ڈرامائی شعاعیں صاف دِکھائی دیتی ہیں۔ عورت سکھی سے مخاطب ہوتی ہے تو یہ خصوصیت واضح طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ ذکر ساون بھادوں کا ہو یا چیت بیساکھ کا، کاتک کا ہو یا اگھن کا، سکھی ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے:

 

سنو سکھیو! بکٹ میری کہانی

بھئی ہوں عشق کے غم سوں دِوانی

——–

سنو سکھیو کہ اب بیساکھ آیا

کوئل نے انبہ پر چڑھ شور لایا

——–

نظر میں لیا سکھی برہن دِوانی

یہ گوشِ زخم دل سے سن کہانی

——–

سکھی سب گہر بگہر کھیلے ہیں ہوری

سلونی سانوری سب رنگ گوری

——–

ہوری کھیلیں سب کوئی اپنے پیو کے سنگ

مرا جی ترسے اے سکھی سوکن پر ڈالوں رنگ

——–

سکھی آساڑھ بھی چلتا رہا ری

پیا آئے نہ جی جلتا رہا ری

——–

 

ہر مہینے میں، اپنے دُکھ درد میں سکھی کو شامل رکھا گیا ہے۔ پرانی بولیوں اور زبانوں میں سکھی کا ذکر ملتا رہتا ہے، درد کی کہانی اور درد و غم کی کیفیتوں کو سمجھنے والی رہی ہے، ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ کبھی ایسا مرکزی پیکر بن گئی ہے لگتا ہے ہر بات صرف وہی سن رہی ہے یا وہ آئینہ سامنے سے ہٹتا ہی نہیں کہ جس میں وہ خود سکھی کے رُوپ میں سامنے کھڑی ہے۔ وہ سکھی سے مسلسل مخاطب ہے، اپنی ذات سے مخاطب ہے، ہر بات سکھی سے کہنا چاہتی ہے۔ ’بارہ ماسہ مقصود‘ میں سکھی کی تکرار ملاحظہ فرمائیے:

 

سکھی یہ عشق ہر دِل میں سمایا

بھنورا آباس پھولوں پر لبھایا

 

سکھی اس عشق نے کیا رنگ بنایا

چکورا چاند کے اوپر لبھایا

 

سکھی اس عشق میں گردش کا مارا

رہا مجنوں بیاباں میں بچارا

 

سکھی اس عشق کے ہاتھوں سے ناشاد

موا سر مار کے تیشہ سے فرہاد

 

سکھی اس عشق کا ہے سخت آزار

ہوا تھا جس ستی منصور بردار

 

سکھی اس عشق سے یعقوب رویا

نہ کوئی عشق سے بھر نیند سویا

 

کہوں اس عشق کی کیا کیا کہانی

زلیخا بھی ہوئی ایسی دِوانی

 

برہ کی آگ سے بیتاب ہے دِل

برنگِ قطرۂ سیماب ہے دل
تمامی خلق در عیش و طرب ہے

پیا کے غم میں برہن جاں بلب ہے

 

الٰہی وصل حاصل ہو شتابی

نہایت دل کرے ہے اضطرابی

 

تس اوپر موسمِ برسات آیا

سلونا سانورا پردیس چھایا

 

بارہ ماسے کی جمالیات اس کی حسّیاتی جذباتی قدروں (Sensori emotional values) میں پوشیدہ ہے۔ اس کی جمالیات پر گہری نظر رکھیے تو اس کے ’سنسیشن‘ (Sensation) سے انبساط چھلکتا دِکھائی دے گا۔ غور فرمائیے تو محسوس ہو گا کہ بارہ ماسے کی جمالیات نے جمالیاتی حسّیت (Aesthetic Sensibility) کے مفہوم میں تہہ داری پیدا کی ہے۔ عام زندگی کے اندر بھی اور تجربے کی ڈرامائی کیفیتوں کے ساتھ باہر بھی۔ ڈرامائی شعاعوں اور تخیل کی سرمستی دونوں کی اہمیت کم نہیں ہے۔ بارہ ماسے کی جمالیات کی ایک بڑی خصوصیت حسن کی سادگی ہے، جس کی ’سیمیٹری‘ (Symmetry) منفرد حیثیت رکھتی ہے، اظہارِ بیان میں الفاظ قیمتی روشن ہیروں کی مانند جڑے ہوئے ہیں۔ چین کے معروف مفکر اور فلسفی کنفیوسیش (Confucius) نے انسان کی زندگی میں آرٹ کے کردار کو بڑی اہمیت دی ہے۔ کہا ہے کہ آرٹ اپنے حسن کی وجہ سے انسان کی فطرت میں وسعت پیدا کرتا ہے۔ وہ خیال اور الفاظ کی ہم آہنگی کو اہمیت دیتا ہے۔ چینی جمالیات نے اس خیال کو بڑی اہمیت دی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ چینی جمالیات کا ارتقاء اسی بنیادی خیال کے مرکزی نقطے سے شروع ہوتا ہے۔ چینی جمالیات میں خیال کی گہرائی اور لفظوں کی سادگی کی آمیزش اور ہم آہنگی پر بہت زور دیا گیا ہے۔

یوروپی جمالیات کے ماہرین نے بھی حسّی تجربوں اور خوب صورت لفظوں میں ان کے اظہار پر اصرار کیا ہے۔ بام گارٹن (Baumgarten) نے آرٹ کی جمالیات کو حسّی تجربوں کی حسیاتی پیشکش سے تعبیر کیا ہے اور نرم فطری لفظوں کے استعمال پر زور دیا ہے۔

کانٹ (Kant) نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے کہ حسن کا تعلق یقیناً داخلی کیفیات سے ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہ کیفیات آفاقی سچائی یا صداقت (Universal truth) سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ جمالیات کائناتی سچائی ہے۔

شیلر (Schiller) نے حسّی اور ماحولیاتی سچائیوں کے رشتے کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اسی طرح ہیگل (Hegel) نے Sens- Perception کو مرکزِ نگاہ بنایا ہے اور حسّی کیفیتوں کو اہم جانا ہے۔ اندازہ ہو گا کہ ان مغربی علمائے جمالیات نے آرٹ اور ادب میں حسن کی قدر و قیمت سمجھنے کی کیسی کوشش کی ہے۔ بارہ ماسہ کی جمالیات بلاشبہ ان علماء کے خیالات کی روشنی میں اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔

جن حضرات نے افریقی، امریکی موسیقی ’بلوز‘ (Blues) سے لطف لیا ہو گا وہ جانتے ہوں گے کہ اس موسیقی میں جذبوں کی سنسناہٹ اور جھنجھناہٹ کتنی ہے۔ اسے سنتے ہی تنہائی اور اُداسی کا شدید احساس ہونے لگتا ہے اور ساتھ ہی ’پیتھوس‘ (Pathos) اور المیہ کا بھی۔ ’بارہ ماسہ‘ کے بنیادی آہنگ میں ’بلوز‘(Blues) کی دھمک محسوس ہوتی ہے۔

’بارہ ماسہ‘ کی یہ صورت بھی ملاحظہ فرمائیے:

 

برسات کے موسم میں جدا ہو گیا پیارا

او سکھی ہم سے ہمارا

 

ابرِ فلک گھمنڈ کے جب اساڑھ نے چھایا

غمِ فرقت نے ہے دبایا

 

پی یا پی پپیہے نے غضب شور مچایا

مجھے سوتے میں جگایا

 

دن کو ملا آرام نہ ٹک شب کو خدارا

او سکھی ہم سے ہمارا

(عبدالغفور صنوبر بھوپالی)

 

’بارہ ماسہ‘ کی جڑیں عوامی یا لوک ادب کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ تحقیق یہ ہے کہ جائسی کی ’پدماوت‘ میں جو بارہ ماسہ ہے وہ اب تک کی دریافت شدہ سب سے قدیم تخلیق ہے۔ یہ عوامی شاعری شمالی ہند کی کئی زبانوں میں موجود ہے۔ مثلاً پنجابی، راجستھانی، گجراتی، بنگلہ، ہندی اور مراٹھی میں عمدہ بارہ ماسے ملتے ہیں۔ بھگتی شعراء نے بھی اس صنف کی جانب توجہ دی ہے۔ بھگتی دَور میں کئی عمدہ بارہ ماسے ملتے ہیں۔ ان میں فرد کی روح عورت ہے اور اللہ محبوب ہے۔ اللہ سے جو محبت ہے اس کا اظہار ہے۔ روح کا نغمہ ہے۔ اصل (اللہ) میں جذب ہو جانے کی تمنا ہے، تڑپ ہے۔ اصل سے جدا ہونے کا غم ہے۔ مختلف مہینوں یا موسموں میں تڑپ کی کیفیت بنیادی طور پر ایک جیسی ہوتی ہے، لیکن ہر موسم کا اثر مختلف نظر آتا ہے۔ رُوح یا عورت کی نفسیات موسم کی مختلف حیثیتوں سے متاثر ہوتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پنجابی ادب کا پہلا بارہ ماسہ (بارہ ماہا) بابا گرو نانک دیو جی کا ہے کہ جس میں درد کی کیفیت اور باطنی اضطراب اور گہری میلوڈی سب اپنی مثال آپ ہیں۔ بابا گرو نانک دیو جی کے بعد ایک نہایت عمدہ بارہ ماہا (Bara Maha) گرو ارجن دیو جی کا ہے جو شری گرو گرنتھ صاحب کے صفحہ ۱۳۳ پر ہے۔ پنجابی زبان میں بارہ ماہا ایک قدیم عوامی شاعری کا نمونہ ہے کہ جس کی اپنی تکنیک ہے، جس میں فراق یا جدائی کے بیان کی اپنی کیفیت ہے۔ بیشتر بارہ ماہا ایسے ہیں کہ جن میں وصال کی کیفیتوں کا بھی بیان ہے۔ خالقِ کائنات میں جذب ہو جانے کے لمحوں کا ذکر ہے۔ گرو گرنتھ صاحب میں روح یا آتما کو نار/ناری کہا گیا ہے اور خدا کو ’پرآتما‘، ’آتما‘ (نار/ناری) اور ’پرآتما‘ (خالقِ کائنات) کے رشتے کو مختلف انداز سے سمجھایا گیا ہے۔

خدا کائنات کا خالق ہے، وہ ’پرآتما‘ ہے اور انسان (نار/ ناری) روح/ آتما ہے۔ خالقِ کائنات کو ’کرتا پورکھ‘ (Karta Purukhu) کہا گیا ہے۔ ساری تخلیقات اُسی کی ہیں، ساری تخلیقات اُسی سے وابستہ ہیں۔ ہر تخلیق کے اندر وہی ہے۔ ایک ہی خالق ہے۔ نار/ناری، روح/آتما سب اس کی دلہنیں ہیں۔ یہ سب روحیں ہیں، ان کی صورت ہے اور آتما یا روح ہے۔ روح خالق کے وجود کا حصہ ہے جب کہ جسم مادّہ سے وجود میں آیا ہے۔ جسم روح کو ڈھانپے رہتا ہے۔ اللہ ہر تخلیق کے اندر ہے۔ ہر دل میں سمایا ہوا ہے۔ نار/ناری یا رُوح/آتما میں اُسی کی روشنی ہے۔ روح کیا ہے؟ اللہ کی روشنی ہے جو ہر انسان کے اندر چراغاں کی کیفیت پیدا کیے ہوئی ہے۔ روح کے اندر جھانک کر دیکھو تو اللہ دِکھائی دے گا۔ روح (عورت) اللہ سے جدا ہو گئی ہے، صرف اللہ ہی اسے جذب کرے گا۔ روح اللہ سے ملنے کے لیے تڑپ رہی ہے۔ حد درجہ بے قرار اور مضطرب ہے۔ وہ یقیناً ہر وقت جدا نہیں رہے گی۔ اُسے اپنے ’دولہے‘ سے کسی نہ کسی دن ملنا ہے۔ روح یا عورت (نار/ناری) جس قدر تڑپتی رہے گی نار یا ’پرآتما‘ اس سے قریب آتا جائے گا۔ پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ خالقِ کائنات میں جذب ہو جائے گی۔

اس پس منظر میں بابا گرو نانک دیو جی کے ’بارہ ماہا‘ کا مطالعہ کیا جائے تو مناسب ہے۔ بابا گرو نانک دیو جی نے ’وقت یا ٹائم‘ کو بہت اہمیت دی ہے۔ انھوں نے زیادہ نظمیں نہیں کہی ہیں، جو چند نظمیں موجود ہیں اُن میں کئی ایسی ہیں کہ جن میں ’وقت‘ کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’بارہ ماہا‘ اُن میں ایک ہے۔ بہت ہی دلکش دل کو چھو لینے والی نظم ہے۔ ’بارہ ماہا‘ پنجابی ادب کی پہلی نظم ہے جو بارہ مہینوں کے کرب، بے چینی، آرزومندی اور شیریں دیوانگی کو پیش کرتی ہے۔ اس نظم سے پنجابی شاعری نقطۂ عروج پر پہنچ گئی ہے۔

بابا گرو نانک دیو جی کا ’بارہ ماہا‘ ٹوکھاری راگ (Tukhari Raag) میں ہے جبکہ گرو ارجن دیو جی کا بارہ ماہا  ہے۔ حددماجھ راگ (Maajh Raag) میں ہے۔ دونوں بارہ ماہا شری گرو گرنتھ صاحب میں ہیں۔ بابا گرو نانک دیو جی کی نظم میں فطرت کے حسن کے جو پہلو ملتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ دونوں بارہ ماہوں میں اصل سے ملنے، اصل میں جذب ہونے کی تڑپ ملتی ہے۔ روحانی سطح بہت بلند ہے۔ پیار و محبت اور عشقِ الٰہی کی تڑپ کی ایسی مثال پنجابی ادب میں اور کہیں نہیں ملتی۔

بارہ ماہا ٹوکھاری (بابا گرو نانک دیو جی) میں بارہ مہینوں میں عورت (رُوح/آتما) کی تڑپ کی کیفیت اور تفصیل غیرمعمولی نوعیت کی ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ رُوح اصل سے جدا ہو گئی ہے۔ اس میں جذب ہونے کی تڑپ لیے ہر موسم میں بے قرار اور بے چین ہے۔ جتنی تڑپ اور بے چینی ہے اُتنی ہی خود کو پاکیزہ رکھنے کی خواہش ہے، یہ اضطراب عبادت بن جاتا ہے جو سب سے بڑی بات ہے۔ روح/ عورت اس بات کو شدّت سے محسوس کرتی ہے کہ چاہت اور عبادت ہی سے ملن ممکن ہے۔ اس بارہ ماہا کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عورت کی فکر اور سوچ کے مطابق موسم کا مزاج بنتا ہے۔ فراق اور جدائی کا گہرا اثر موسم پر ہوتا ہے، ہر موسم کے مزاج پر ہوتا ہے، گرمی، برسات، تیز بارش، بجلی کی چمک، بادلوں کی کڑک سب مختلف فضائیں خلق کرتے ہیں۔ ہر فضا میں جدائی کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ عورت تنہا ہے، ہر موسم میں تنہائی ڈستی ہے۔ بارش اور گرمی کے موسموں میں بستر پر محبوب کی تلاش میں رہتی ہے۔ تنہائی میں بستر پر کانٹے بچھے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

’چیت‘ (بہار کا موسم- مارچ تا اپریل) کا موسم شروع ہوتا ہے تو ہر جانب زندگی جشن مناتی دِکھائی دیتی ہے، صرف ’عورت‘ تنہا نظر آتی ہے۔ وہ جشنِ زندگی میں شامل نظر نہیں آتی۔ اُس کا محبوب ساتھ نہیں ہے۔ ’بیساکھ‘ (اپریل-مئی) کے مہینے میں عورت اپنے محبوب سے گزارش کرتی ہے کہ وہ پاس آئے، کہتی ہے اُس کے بغیر اس کی زندگی کی کوئی معنویت نہیں ہے۔ ’تم آ جاؤ تو میری زندگی بیش قیمت بن جائے‘۔

’جیٹھ‘ کے مہینے میں تپتی ہوئی زمین پر عورت تڑپتی دِکھائی دیتی ہے۔ اپنے باطن میں اُترنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اُسے راحت نصیب ہو، وہاں بھی اُسے چین نصیب نہیں ہوتا۔

تپتے ہوئے ’اساڑھ‘ کے مہینے کے بعد ’ساون‘ کا مہینہ آتا ہے، خوب بارش ہوتی ہے، بارش کے دلفریب موسم میں بھی وہ تنہا رہتی ہے، محبوب کو پانے کے لیے بے چین رہتی ہے۔ ’بھادوں‘ کے مہینے میں بھی یہی حال ہوتا ہے، زندگی کا بہاؤ تیز تر ہو جاتا ہے۔ فطرت رقص کرتی دِکھائی دیتی ہے۔ لیکن عورت اس طرح ایک بے چین مضطرب پیکر ہے۔ فطرت کا رقص ہی اس کے لیے ادھورا ہے، جب تک محبوب پاس نہیں آ جاتا بھلا اس کا وجود رقص میں کیونکر شامل ہوسکتا ہے۔

’کنوار‘ کا مہینہ بھی کم جان لیوا نہیں ہے، ہر جانب سفید پھول کھلے ہوئے ہیں، عورت کے بال بھی سفید ہو رہے ہیں، عمر کی اس منزل پر آنے کے باوجود اس کی آس ٹوٹی نہیں ہے۔ اب بھی اپنے محبوب کے لیے تڑپ رہی ہے۔ زندگی اس عمر میں بھی میٹھی ہو جائے اگر محبوب پاس آ جائے۔

’کارتک‘ کے مہینے میں دن چھوٹے ہوتے ہیں، راتیں بڑی ہوتی ہیں، بہت جلد شام ہو جاتی ہے، چراغ جلانا پڑتا ہے اور پھر رات شروع ہو جاتی ہے، اضطراب اور زیادہ بڑھتا ہے۔ چراغ کے جلتے ہی یہ بھی ہوتا ہے کہ محبوب کی قربت کا احساس بڑھنے لگتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ بہت قریب ہے اور بہت جلد وصل کے لمحے نصیب ہوں گے۔ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے باطن میں کسی پراسرار موسیقی کا آہنگ موجود ہو۔ یہ آہنگ ہی شاید ملن کو قریب کرے گا۔ وہ لمحہ کتنا خوبصورت ہو گا جب وہ اللہ/ محبوب کو بہت ہی پاس پائے گی اور اس میں جذب ہو جانے کی تیاری کرے گی۔

’ماگھ‘ کے مہینے میں باطن کا پراسرار سفر شروع ہوتا ہے، عورت جانتی ہے کہ اس کا محبوب باطن ہی میں ملے گا۔ وہی جو پانی، مٹّی اور وقت کا خالق ہے، جو ماضی، حال اور مستقبل کا آقا ہے،باطن کے پراسرار سفر کے ساتھ ہی خودی گم ہو جاتی ہے۔

خودی کے گم ہوتے ہی ’پھاگن‘ کا مہینہ آ جاتا ہے، یہ مہینہ رحمتِ خداوندی کا مہینہ ہے۔ ’میں‘ اور ’تو‘ کا فرق باقی نہیں رہتا۔ رات کیا اور دن کیا، دونوں ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں، ہر جانب رنگوں کی برسات آ جاتی ہے۔ بابا گرو نانک جی فرماتے ہیں کہ توہمات کو دور کردو یہ جو بارہ مہینے ہیں اور جو چھ موسم ہیں وہ سب مبارک ہیں، زندگی کی خوبصورتی کا استقبال کرتے رہو، ہر مہینے اور ہر موسم کو مبارک تصور کرو، زندگی کے جلال و جمال کو اپنے وجود میں جذب کرتے رہو۔

بابا گرو نانک دیو جی کے ’بارہ ماہا‘ میں ابتداء سے آخر تک ایک عجیب جمالیاتی سرور (Aesthetic bliss) ہے جس کی وجہ سے وجد (Ecstasy) طاری ہو جاتا ہے۔ پوری نظم میں بصارت اور بصیرت (Vision) دونوں کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ پوری نظم میں جمالیاتی حِس بیدار ہے اور قدم قدم پر حسِ ادراک (Sense Perception) کی پہچان ہوتی ہے۔ ان کے بارہ ماہا کا بغور مطالعہ کیا جائے تو فطرت کے حسن کے مختلف رُخ شدّت سے متاثر کریں گے نیز ان کی شخصیت کا سوز جمالیاتی احساسات کے ساتھ گرفت میں لے لے گا۔

ذکر چیت یا بیساکھ کا ہو یا جیٹھ یا اساڑھ کا، یا ساون بھادوں کا یا ماگھ پھاگن کا، پوری نظم میں جمالیاتی اظہار کی آزادی اور ماورائیت کے گہرے احساس (Transcendental feeling) کی پہچان ہوتی رہتی ہے۔ یقین آ جاتا ہے کہ حسن تجربے سے ماورا احساس کا ذریعۂ اظہار ہے۔ بابا گرو نانک دیو جی نے آخر میں لکھا ہے کہ تمام مہینے، تمام دن، تمام گھنٹے اچھے ہیں، اُن کے لیے جو خالق کی رحمت جانتے پہچانتے ہیں۔

عورت کہتی ہے اے مالک، میں اس مایا جال میں بری طرح پھنسی ہوئی ہوں، جو ہر جانب پھیلا ہوا ہے۔ میری حالت کا اندازہ تو کرو، میری زندگی تمھارے بغیر بھلا کیا اہمیت رکھتی ہے۔ میری یادوں میں تمھارے علاوہ اور کوئی نہیں ہے، تمھارے بغیر بڑی اذیت میں گرفتار ہوں۔

بھلا یہ کون سی زندگی ہے کہ میں ہر دم مایا جال میں پھنسی ہوئی ہوں۔ آقا میرے میری التجا سن لے۔

جب برسات میں جھم جھم بارش ہوتی ہے تو کوئل کی سریلی آواز سنائی دیتی ہے، اس کے کئی سُر ہوتے ہیں، مختلف سُر، مجھے بھی یاد ہے اپنے آقا کے خوبصورت الفاظ، جدائی سے قبل جو آواز سنی وہ اب بھی ذہن میں نغماتی لہروں کو لیے موجود ہے۔

اے میرے آقا! میں دن رات تیری یاد میں گم رہتی ہوں، یہ کائنات تو نے خلق کی ہے، جب برسات میں پرندہ پیو پیو کرتا ہے یا کوئل کی آواز سنائی دیتی ہے تو میں بھی اپنے پیو کو یاد کرکے گنگناتی رہتی ہوں۔ جب تمھاری یادیں نغمہ سرا ہوتی ہوں تو شدّت سے محسوس ہوتا ہے کہ میرے وجود کے اندر ایک روحانی اُٹھان پیدا ہو رہی ہے۔ اے مالک! تیرے سوا میرا اور کون ہے جو میرا ساتھ دے، زندگی کے آخری لمحوں تک سہارا بنے، تمھاری یادوں میں اس قدر گم رہتی ہوں کہ ذہن کا سکون ہی حاصل نہیں ہوتا، جس کے دل پر تیرے قدموں کی چھاپ پڑجاتی ہے وہ پاک صاف ہو جاتا ہے۔ اسے رُوحانی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ جب قطرہ قطرہ امرت کی بوندیں (امرت دھار بوند) ٹپکتی ہیں تو لگتا ہے روحانی عروج حاصل ہوتا جا رہا ہے۔ ہر قطرہ روحانی استحکام بخشتا ہے۔ (برساتی امرت دھار بوند سوہانی) محبت میں شدّت پیدا ہوتی ہے، محسوس ہوتا ہے کہ محبت کی یہ شدّت محبوب کو کھینچ لے گی۔ ایسی عورت کا دل محبوب کا ایسا مندر بن جاتا ہے کہ جس میں محبوب آرام کرتا ہے۔

چیت کا مہینہ کتنا خوبصورت ہے۔ بہار آتی ہے تو لگتا ہے جیسے دنیا ہی بدل گئی ہے۔ ہر جانب پھول ہی پھول دِکھائی دیتے ہیں، شہر کی مکھیوں کا آہنگ سنائی دیتا ہے۔ یہ پھولوں پر بیٹھتی ہیں، میرا کنول جیسا دل کھل جاتا ہے تاکہ میرا محبوب اس پر بیٹھے۔ آم کے درختوں پر کوئل کی آوازیں سن کر لگتا ہے عجب سی نغمگی پورے وجود میں گھل گئی ہے، وہ عورت جو اپنے محبوب سے دُور ہے اس میں بڑی چبھن محسوس کرتی ہے۔ آہنگ شہد کی مکھیوں کا ہو یا کوئل کی آواز، روح اور جسم میں سوئیاں سی چبھتی ہیں۔ ایسی کیفیت رہی تو رُوحانی موت واقع ہو جائے گی، صرف اسے روحانی انبساط حاصل ہوتا، روحانی آسودگی حاصل ہوتی ہے کہ جس کا محبوب دل میں سماجاتا ہے۔

بابا گرو نانک دیو جی کے ’بارہ ماہا‘ میں جمالیاتی اظہار کی جس آزادی کا احساس ملتا ہے وہ شاید ہی کہیں اور ملے۔ بابا کا ’بارہ ماہا‘ ایک دلنواز اور رُوح کو مکمل طور پر گرفت میں لینے والا نغمہ ہے۔ جمالیاتی نقطۂ نظر سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ پیار و محبت کی شاعری آہستہ آہستہ روحانی میلوڈی (Spiritual melody) بن جاتی ہے۔ یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ ٹریجیڈی (Tragedy) نہیں ہے اس لیے کہ ملن یا وصال کی اُمید بھی ہے اور وصل کے لمحے آبھی جاتے ہیں، البتہ پوری نظم میں ’پیتھوس‘ (Pathos) ہے کہ جس سے اذیت کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے اور گہری رومانیت کی پہچان ہوتی ہے۔

’بیساکھ‘ کا مہینہ آتا ہے تو شاعر کا روحانی ذہن اور مضطرب ہو جاتا ہے، کہتا ہے بہت خوبصورت مہینہ ہے۔ درختوں اور پودوں کی شاخیں نازک نازک سی بن جاتی ہیں، چمکتے نازک پتیّ پرکشش بن جاتے ہیں،ایسا لگتا ہے دلہنیں بن سنور کر بیٹھی ہیں، انھیں اپنے شوہروں کی آمد کا انتظار ہے۔ وہ اپنے محبوب کے استقبال کے لیے دروازوں تک آگئی ہیں، یہ عورت بھی چاہتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کے انتظار میں دروازے پر کھڑی رہے، دل کا دروازہ کھلا رہے تاکہ محبوب آہستہ آہستہ اندر آ جائے۔ وہ انتظار کرتی ہے، دعائیں کرتی رہتی ہے، گزارش کرتی ہے کہ وہ اندر، دل کی گہرائیوں میں اُتر جائے۔ کہتی ہے میرے محبوب میرے پاس آؤ، مجھے دُنیا کے سمندر سے پار لے چلو، یوں تمھارے بغیر تو میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ ایک خالی سیپ کی مانند ہوں، سب سے بڑے، سب سے قیمتی موتی کی طرح اس سیپ میں سماجاؤ۔

’جیٹھ‘ کا مہینہ بھی کیا غضب کا مہینہ ہے، اس مہینے میں بھی اپنے مالک کو کون فراموش کرسکتا ہے۔ کتنی گرم ہوا چلتی ہے، پوری دھرتی تپتی رہتی ہے، اسی طرح میرا دل بھی تپتا رہتا ہے، محبوب کی یاد گرم ہو جاتی ہے، وہ لوگ جو اس آگ میں تپتے ہیں درختوں کی چھاؤں میں پناہ لیتے ہیں، میرے لیے سب سے ٹھنڈی جگہ محبوب کا دل ہے، وہی پناہ گاہ ہے، میرا مالک اجازت دے تو میں اس کے دل میں پناہ لے لوں اور دُنیا جو جیٹھ کے مہینے میں جھلس رہی ہے مجھ سے دُور ہو جائے۔

’اساڑھ‘ کے مہینے میں زمین گرمی سے بے چین اور نڈھال رہتی ہے، اسے آرام نصیب نہیں ہوتا، زمین آگ بن جاتی ہے، سورج کی گرمی زمین کے پانی کو جیسے کھینچ لیتی ہے۔ ہر شئے بے چین اور بے قرار نظر آتی ہے۔ سورج کا رتھ ہے جو اپنی تپش لیے مسلسل چلتا ہی رہتا ہے۔ مالک کی یاد ہی اس مہینے کی گرمی تپش سے بچائے رکھتی ہے۔ اُس کی یاد سے مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور میں زمین کی گرمی تپش بھول جاتی ہوں۔

’اساڑھ‘ کے مہینے میں گھاس سوکھ جاتی ہے، پیڑ پودے اُداس ہو جاتے ہیں، پورے ماحول میں ایک اُداسی سی چھا جاتی ہے— پھر ساون کا مہینہ آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اُداسی دُور ہو جاتی ہے، گھاس سبز ہو جاتی ہے، انسان مسکرا دیتا ہے، جذبے میں ہلچل سی پیدا ہو جاتی ہے۔ بادل آتے ہیں، خوب بارش ہوتی ہے۔ اس ماحول میں محبوب کی یاد ہوا کے لطیف جھونکوں کی مانند آتی ہے۔ سیاہ بادلوں کو دیکھ کر محبوب سے ملنے کی تڑپ اور بڑھ جاتی ہے۔ کہتی ہے کالے کالے بادلوں کو دیکھ کر پورے جسم میں سنسنی سی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ دور ہے، میں سسک رہی ہوں، آہیں بھر رہی ہوں، جب بجلی چمکتی ہے تو خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔ اپنے آقا کے بغیر بستر دیکھتی ہوں تو اذیت کا شکار ہو جاتی ہوں۔ محبوب کی دوری موت کے برابر ہے۔

’بھادوں‘ کے مہینے میں میری زبان سے نغمے پھوٹ پڑتے ہیں، اُس کی تعریف و توصیف میں میرے نغمے گونجنے لگتے ہیں، دیکھتی ہوں بارش کتنی تیز ہے، چھوٹے چھوٹے تالاب پانی سے بھر گئے ہیں۔ کون ہے جو اس فضا میں لطف نہیں لے رہا ہے۔ صرف میں ہوں جو محبوب کی جدائی کا غم لیے ہر شئے کو بس ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہوں۔

اندھیری رات میں بارش کی آواز سنتی ہوں، مینڈکوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، مور بھی شور کرتے ہیں، جانتی ہوں یہ سب بہت خوبصورت آوازیں ہیں۔ دل کو چھو لینے والے نغمے میں لیکن کیا کروں تنہا ہوں، محبوب دُور ہے، پورے مہینے میں لمحے سانپوں کی طرح ڈستے ہیں۔

اسی طرح دوسرے مہینوں مثلاً پوس، ماگھ، پھاگن وغیرہ کا ذکر ہے، یہ سب حصّے بھی جمالیاتی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ’پھاگن‘ کی گہری رومانیت بھی توجہ طلب ہے۔ ایسا لگتا ہے حسّی تجربوں سے جو ’سنسیشن‘ (Sensation)پیدا ہو رہا ہے اسی سے جمالیاتی آسودگی اور جمالیاتی انبساط حاصل ہو رہا ہے۔

’پیاملن‘ کا ذکر بہت کم بارہ ماساؤں میں ہے۔ ’بارہ ماسہ رنج‘ کا آخری منظر جو ’پیاملن‘ کے عنوان سے ہے اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:

 

یہی رو رو کے باتیں کر رہی تھی

پیا کے ہجر غم میں مر رہی تھی

 

یکایک رنج آئے بادلِ شاد

لگے سمجھنے کہ سن او غم کی بنیاد
دِوانی کس لیے تو جان کھوتی

نہیں کیوں دل میں اپنے شاد ہوتی

 

ماری ہو یاد کی جس جی سے اب تو

ملے گی کوئی دم میں پی سے اب تو

 

یہی برہن سے ہوتی گفتگو تھی

پی آیا اوس کا جس کی آرزو تھی

 

پیا کو دیکھ کر بھول وہ سب سوگ

لگے دینے مبارکبادیاں لوگ

 

یگانی اور بگانی ساری آئی

جو آئی ساتھ تیل اور ماش لائی

 

کیا ایسا رحم اوس پر خدا نے

بجائے غم کے گھر میں شادیانے
ہزاروں مالنیں باغوں سے آئیں

جو آئیں گوندھ کر وہ ہار لائیں
خوشی سے سیج پھولوں کی بچھائی

ہوس دل کی نکالی پی جو پائی

 

بر آئی دل کی سب امید اوس کے

خوشی ایسے رہے جاوید اوس کے

 

اب آگے رنج تو اپنی زبان روک

قلم سے کہہ، بیان آتش فشاں روک

(پیا ملن، بارہ ماسہ رنج)

 

بارہ ماسہ میں ’پریم بھگتی‘ کی عمدہ مثالیں موجود ہیں، ان میں ’بھگتی رَس‘ کی لذّت ہے، فنّی نقطۂ نظر سے ’بارہ ماسہ‘ کی ڈرامائی پیشکش بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ’پیاملن‘ بھی ایک جمالیاتی جلوہ ہے:

کاگا سب تن کھائیو چن چن کھائیو ماس

دو نیناں مت کھائیو پیا ملن کی آس!

(شہنشاہ اکبر کی ایک بیگم سے منسوب)

 

حسن کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا

تو نے فرہاد؟ نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل

(محمد اقبال)

٭٭٭

 

شکیل الرحمٰن کی کتابیں

 

کلاسیکی ادب:

٭       اساطیر کی جمالیات

٭       مولانا رومی کی جمالیات

٭       جمالیاتِ حافظ شیرازی

٭       امیر خسرو کی جمالیات

٭       کبیر

٭       نظیر اکبرآبادی کی جمالیات

٭       میر تقی میر کی جمالیات

٭       تصوّف کی جمالیات

٭       کلاسیکی مثنویوں کی جمالیات

٭       محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات

٭       ادب اور جمالیات  مرتبہ: ڈاکٹر شیخ عقیل احمد

٭       بارہ ماسے کی جمالیات

فکشن:

٭       داستانِ امیر حمزہ اور    ِطلسم ہوشربا

٭       فکشن کے فنکار: پریم چند

٭       منٹو شناسی

٭       احمد ندیم قاسمی- ایک 5 (مطبوعہ پاکستان)

غالبیات:

٭       مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات

٭       رقصِ بتانِ آذری

٭       غالب کا داستانی مزاج (مطبوعہ پاکستان)

٭       غالب اور مغل مصوّری (مطبوعہ پاکستان)

٭       غالب کی جمالیات

خود نوشت سوانح حیات:

٭       آشرم (دوسرا ایڈیشن)

٭       ایک علامت کا سفر

جمالیات:

٭       ہندوستان کا نظامِ جمال : بدھ جمالیات سے جمالیاتِ غالب تک (جلد اوّل)

٭       ہندوستان کا نظامِ جمال: بدھ جمالیات سے جمالیاتِ غالب تک (جلد دوم)

٭       ہندوستان کا نظامِ جمال:  بدھ جمالیات سے جمالیاتِ غالب تک (جلد سوم)

٭       ہندوستانی جمالیات (جلد اوّل)

٭       ہندوستانی جمالیات (جلد دوم)

٭       ہندوستانی جمالیات (جلد سوم) (ہند اسلامی جمالیات)

٭       قرآنِ حکیم: جمالیات کا سرچشمہ (مقدمہ)

چند دوسرے موضوعات:

٭       راگ راگنیوں کی تصویریں

٭      ابوالکلام آزاد

٭       جپ جی صاحب (معہ مقدمہ و مفاہیم)

٭       دربھنگے کا جو ذکر کیا

٭       محمد اقبال

٭       دیوارِ چین سے بتخانۂ چین تک (سفرنامہ)

٭       محمد دارا شکوہ

٭       فکشن کی جمالیات

٭       قصہ میرے سفر کا (سوویت یونین کا سفرنامہ)

٭       لندن کی آخری رات (سفرنامہ)

٭       ایک علامت کا سفر

 

شکیل الرحمان پر کتابیں

٭       شکیل الرحمن : ایک  5     ترتیب و تہذیب: شعیب شمس

٭       شکیل الرحمن: تخلیقی تنقید کا ایک منفرد دبستان                     اقبال انصاری

٭       شکیل الرحمن:تنقید کا ایک نیا وِژن  مرتبہ: محمد   صدیق نقوی

٭       شکیل الرحمن اور مولانا رومی کی جمالیات       مرتبہ:  محمد   صدیق نقوی

٭       شکیل الرحمن کی غالب شناسی                      ڈاکٹر ارشد مسعود ہاشمی

٭       منٹوشناسی اور شکیل الرحمن            مرتبہ:  ڈاکٹر کوثر مظہری

٭       فکشن کے فنکار پریم چند اور شکیل الرحمن      مرتبہ: ڈاکٹر شیخ عقیل احمد

٭       شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان                   حقانی القاسمی

 

٭٭٭

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید