FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

انتخاب عرفان صدیقی

 

ماخذ:عرفان صدیقی: حیات، خدمات اور شعری کائنات

                مرتّبین: عزیز نبیلؔ ۔ آصف اعظمی

 

 

نوٹ

 

اصل کتاب سے  یادِ عرفان (یادیں، خاکے)، شاعری کا انتخاب، اور تفہیم عرفان (عرفان صدیقی پر تنقیدی مقالے، دو حصوں میں) الگ ای بکس کے طور پر شائع کئے جا رہے ہیں۔

 

 

 

 

 

عرفان صدیقی کا غیر مدوّن کلام

 

 

 

دو جگہ رہتے ہیں ہم، ایک تو یہ شہرِ ملال

ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے

 

 

 

 

 

 

قیدِ نام و نسب و رنگ میں رہتے ہوئے بھی

دل وہی سونا ہے اس زنگ میں رہتے ہوئے بھی

 

مجھ کو حیرت ہے کہ ہر بات پہ حیران ہیں لوگ

آئینہ خانۂ نیرنگ میں رہتے ہوئے بھی

 

چاہیے اپنے کناروں سے گذرتے رہنا

درد کی لہر کو آہنگ میں رہتے ہوئے بھی

 

کیا کرشمہ ہے کہ کچھ اور نمو کرتا ہے

وہ بدن پیرہنِ تنگ میں رہتے ہوئے بھی

 

جانے یہ لذّتِ پیوست کہاں سے آئی

تم سے اس دوریِ فرسنگ میں رہتے ہوئے بھی

 

آؤ ان پر سخن آباد کا در کھولتے ہیں

لفظ مر جاتے ہیں فرہنگ میں رہتے ہوئے بھی

٭٭٭

 

 

 

 

یہ خرابہ بھی کبھی خطۂ یونان تھا کیا

میں جگر چاک اسی خاک پہ حیران تھا کیا

 

اس کے ہنسنے کی یہ آواز کہاں سے آئی

دستِ مستانہ میں پھر اپنا گریبان تھا کیا

 

سبزہ و گل کے تکلف کی ضرورت کیا تھی

اس سے پہلے ترا معمورہ بیابان تھا کیا

 

کس لیے باغ لگائے تھے صف آراؤں نے

آگ سے بچ کے نکل آنے کا امکان تھا کیا

 

آخر اس قید میں جینے کا ہنر سیکھ لیا

توڑ دینا تری زنجیر کو آسان تھا کیا

 

لوگ ہر شخص کو اپنے ہی پہ کرتے ہیں قیاس

میں جب آسودہ نہیں تھا تو پریشان تھا کیا

 

مجھ سے ملنے کو وہ بلقیس نہ آئی نہ سہی

رنج کس بات کا میں کوئی سلیمان تھا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حق فتحیاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

 

جب حشر اسی زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر

برپا یہیں پہ روز جزا کیوں نہیں ہوا

 

وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام

دل بجھ گئے تو شور عزا کیوں نہیں ہوا

 

واماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں

دروازہ آسمان کا وا کیوں نہیں ہوا

 

وہ شعلہ ساز بھی اسی بستی کے لوگ تھے

ان کی گلی میں رقصِ ہوا کیوں نہیں ہوا

 

آخر اسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب

یوں خاک کوئی میرے سوا کیوں نہیں ہوا

 

کیا جذبِ عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں

اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا

 

جب وہ بھی تھے گلوے بریدہ سے نالہ زن

پھر کشتگاں کا حرف رسا کیوں نہیں ہوا

 

کرتا رہا میں تیرے لیے دوستوں سے جنگ

تو میرے دشمنوں سے خفا کیوں نہیں ہوا

 

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

اس نے بیکار یہ بہروپ بنایا ہوا ہے

ہم نے جادو کا اک آئینہ لگایا ہوا ہے

 

دو جگہ رہتے ہیں ہم، ایک تو یہ شہرِ ملال

ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے

 

رات اور اتنی مسلسل، کسی دیوانے نے

صبح روکی ہوئی ہے چاند چرایا ہوا ہے

 

عشق سے بھی کسی دن معرکہ فیصل ہو جائے

اس نے مدت سے بہت حشر بڑھایا ہوا ہے

 

لغزشیں کون سنبھالے کہ محبت میں یہاں

ہم نے پہلے ہی بہت بوجھ اٹھایا ہوا ہے

 

بانوئے شہر ہمیں تجھ سے ندامت ہے بہت

ایک دل ہے سو کسی اور پہ آیا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

پلٹ کے آیا ہے کیا اس کے در سے آخری بار

یہ پوچھنا ہے دلِ معتبر سے آخری بار

 

کسی طرح شبِ گریہ کو صبح تک لے جاؤ

گذر رہے ہیں یہ لشکر ادھر سے آخری بار

 

بہار برگ و ثمر آتی جاتی رہتی ہے

اڑے نہیں ہیں یہ طائر شجر سے آخری بار

 

نئے جہان کے نقشے بنا بھی سکتے ہیں

جو لوگ نکلے ہیں آج اپنے گھر سے آخری بار

 

عجب نہیں ہے کہ ہاتھ اس کا ہاتھ میں آ جائے

اٹھاؤ فائدہ طول سفر سے آخری بار

 

جلا رہے یہ فغاں کا چراغ مقتل میں

ہے کچھ اجالا اسی کے اثر سے آخری بار

٭٭٭

 

 

 

 

وہ بہت دور کہیں انجمن آرا ہی تو ہے

میں ستارہ اسے کہتا تھا، ستارہ ہی تو ہے

 

ابھی کس بات پہ آزردہ ہے دنیا مجھ سے

اس کو پایا تو نہیں، اس کو پکارا ہی تو ہے

 

باغ کی سمت دریچہ میں کہاں کھولتا تھا

یہ بھی میرے گلِ خوبی کا اشارہ ہی تو ہے

 

شہر یاروں پہ ہنسی آتی ہے بیچاروں نے

جیسے دنیا میں مرا رزق اتارا ہی تو ہے

 

آسماں سر پہ رہے، بند سہی شہر پناہ

کہیں رک جاؤں گا شب بھر کا گذارہ ہی تو ہے

 

لوگ کیوں مجھ کو بلاتے ہیں کنارے کی طرف

میں جہاں ڈوب رہا ہوں وہ کنارہ ہی تو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دل کا جو حال ہوا دشمن جانی کا نہ ہو

آخرِ شب کبھی آغاز کہانی کا نہ ہو

 

لوگ کیا جانیں کہ گزرے ہوئے موسم کیا تھے

جب قبا پر کوئی پیوند نشانی کا نہ ہو

 

ہم کہاں قید میں رہ سکتے تھے لیکن ترا ہاتھ

ہے وہ زنجیر کہ احساس گرانی کا نہ ہو

 

مسکراتا ہوں تو اکثر یہ خیال آتا ہے

آنکھ میں نم ابھی برسے ہوئے پانی کا نہ ہو

 

عرضِ احوال پہ دنیا مرا منھ دیکھتی ہے

جیسے رشتہ کوئی الفاظ و معانی کا نہ ہو

 

اور کچھ دیر ابھی سیر سرِ ساحل کی جائے

جب تلک حکم سفینے کو روانی کا نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

مرا قاتل فغاں کرنے کو نکلا

نیا قصہ بیاں کرنے کو نکلا

 

ہواؤں کے بلاوے کا بہانہ

مجھے بے خانماں کرنے کو نکلا

 

نواحِ جاں میں سناٹا تھا کب سے

سو میں سیرِ جہاں کرنے کو نکلا

 

ہوئی شام اور چھت پر اک ستارہ

زمیں کو آسماں کرنے کو نکلا

 

اچانک طاق سے اک شعلۂ شب

مرے گھر میں دھواں کرنے کو نکلا

 

یوں ہی یہ رات کیا کم تھی کہ مہتاب

اسے کوہِ گراں کرنے کو نکلا

 

میں پا کر خاک پر آویزۂ گم

تلاشِ کارواں کرنے کو نکلا

 

کنارے پر کھڑا تھا مدتوں سے

مجھے دریا رواں کرنے کو نکلا

 

تجھے کیا خوش نظر آتے ہیں ہم لوگ

کہ رنجِ رفتگاں کرنے کو نکلا

 

مرے رہزن کا تھا جو کارِ مقصود

وہ میرا پاسباں کرنے کو نکلا

 

طنابیں کٹ گئیں جب جسم و جاں کی

تو کوئی سائبان کرنے کو نکلا

 

کسی کا حکم پا کر حاکمِ وقت

کماں داروں سے ہاں کرنے کو نکلا

 

پسِ گرد ستم چمکی کوئی چیز

کوئی حیلہ گماں کرنے کو نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

سفر کیا ہے عجب اہتمام کرتے ہوئے

جہاں سے کوچ وہیں پر قیام کرتے ہوئے

 

وہ ناگہاں مرے سینے میں آ کے بیٹھ گیا

ارادہ، فرسِ تیز گام کرتے ہوئے

 

شکار گاہِ محبت بھی خوب ہے کہ وہ شخص

ہوا اسیر مجھے زیرِ دام کرتے ہوئے

 

میں پھر خرابۂ جاں کی طرف پلٹ آیا

سیاحتِ یمن و روم و شام کرتے ہوئے

 

عجیب کھیل ہے، اہلِ ستم کو دیکھتا ہوں

صدائے گریہ پسِ قتلِ عام کرتے ہوئے

 

ہنر ملا ہے غزل کی زبان بولنے کا

تم ایسے کم سخنوں سے کلام کرتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

ہم پہ احسان نہ کر شمع جلا کر بابا

دل کی جھولی میں پڑے ہیں مہ و اختر بابا

 

رک گئے ہم ترے کوچے میں کہ گم گشتہ جہاز

ڈال دیتے ہیں جزیروں پہ بھی لنگر بابا

 

سیرِ افلاک ہمارا کوئی معمول نہیں

لہر آئے تو لگا آتے ہیں چکر بابا

 

یہ چمک سی جو سخن میں نظر آتی ہے تجھے

ہم نے اس خاک میں بو رکھے ہیں گوہر بابا

 

دل کو مجبور نہ کر اپنی اطاعت کے لیے

یہ علاقہ ہے ترے ملک سے باہر بابا

 

قتل ہونا ہی مقدر ہے تو کیا دیکھنا ہے

مہر کس کس کی لگی ہے سرِ محضر بابا

 

جا، تجھے پھول کھلانے کی دعا دی ہم نے

تو نے جس شاخ کو توڑا ہے اسی پر، بابا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

رات پھر جمع ہوئے شہرِ گریزاں والے

وہی چہرے تھے مرے دیدۂ حیراں والے

 

سارے آشفتہ سراں ان کے تعاقب میں رواں

وحشتیں کرتے ہوئے چشمِ غزالاں والے

 

چاند تاروں کی رداؤں میں چھپائے ہوئے جسم

اور انداز وہی خنجرِ عریاں والے

 

پاس داروں کا سرا، پردۂ دولت پہ ہجوم

سلسلے چھت کی فصیلوں پہ چراغاں والے

 

نارسائی پہ بھی وہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہم

شہرِ بلقیس میں ہیں ملک سلیماں والے

 

پھر کچھ اس طرح پڑے حلقۂ زنجیر میں پاؤں

سب جنوں بھول گئے دشت و بیاباں والے

 

میں بھی اک شامِ ملاقات کا مارا ہوا ہوں

مجھ سے کیا پوچھتے ہیں وادیِ ہجراں والے

 

اب انھیں ڈھونڈ رہا ہوں جو صدا دیتے تھے

’’ادھر آ بے ارے او چاک گریباں والے ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس دل کو لذّتِ سخنِ آرائی چاہیے

تھوڑا سا دکھ، بہت سی شکیبائی چاہیے

 

ایک حرفِ دل نواز سے آسودہ کر مجھے

یوسف نہیں ہوں میں کہ زلیخائی چاہیے

 

قائم ہیں اپنی وضع پہ ہم سرکشیدہ لوگ

بس قاتلوں کی حوصلہ افزائی چاہیے

 

انبوہِ دلبراں، میں وہ چہرہ نہ بھول جاؤں

کچھ دیر کے لیے مجھے تنہائی چاہیے

 

کرتا ہے مجھ سے روز کمالِ سخن سوال

تشہیر چاہیے کہ پذیرائی چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

عذابِ جاں بھی غرور ہنر بھی ختم ہوا

سخن بھی ختم ہوئے دردِ سر بھی ختم ہوا

 

زمیں بھی پاؤں تلے سے نکل گئی کب کی

فلک کا جادوئے بالائے سر بھی ختم ہوا

 

نمودِ نو میں بھی مٹی کسی کے کام نہ آئی

سو آج وہمِ دلِ کوزہ گر بھی ختم ہوا

 

جو موج آئی سروں سے گذر گئی آخر

مگر دلوں سے سمندر کا ڈر بھی ختم ہوا

 

وہ اک ندی سی جو تھی دشتِ جاں میں سوکھ گئی

چلو یہ مرحلۂ خشک و تر بھی ختم ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

                محمود ایاز کی وفات پر

 

غبارِ شام میں صورت نظر نہیں آتی

صدائے ناقہ سواراں ادھر نہیں آتی

 

سوادِ شب کے ادھر ہیں ہزار ہا مہتاب

کوئی کرن سر دیوار و در نہیں آتی

 

نگاہ اٹھے تو چاک جگر رفو ہو جائے

کس کو اب یہ ادائے ہنر نہیں آتی

 

ہمیں عبث ہے سکوتِ گذشتگاں کا ملال

یہاں تو ہم سفروں کی خبر نہیں آتی

 

شگفتِ غنچہ ہوائے سحر سے ہو کہ نہ ہو

وہ موجِ رفتہ تو اب لوٹ کر نہیں آتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

جنگل میں ایک رات

 

مالا کے بن میں رتجگے کرتی ہوئی ہریالیاں

جگنو جلاتے مشعلیں، پتے بجاتے تالیاں

اندر کہیں مردنگ سا بجتا ہوا سناہٹا

باہر کوئی آسیب سا گاتا ہوا قوالیاں

آنکھوں سے اوجھل سرحدیں گہرے گھنیرے ڈھاک کی

اک دائرے میں گھومتی پیچاک راہیں کالیاں

رم خوردگاں سنتے ہوئے پیکِ اجل کی آہٹیں

ہاریں کمندیں بازیاں، جیشِ زقندیں پا لیاں

دھمّال کرتی چھال میں چالاک تھا رؤ زادیاں

گھنگھرو میں تارے آئنے، کانوں میں چندا بالیاں

جنگل میں پڑتی ہے بھرن، چاہے تو بھر لے جان و تن

یہ کھیتیاں ہیں سوکھیاں، یہ جھولیاں ہیں خالیاں

اس جنتِ سفاک میں اے جان، دونوں ہیچ ہیں

میری پریشاں حالیاں، تیری بلند اقبالیاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مڑ گاں اٹھا، اشارۂ پیکاں میں بات کر

اے جاں طلب، محاورۂ جاں میں بات کر

 

یا برگ ریز ہوٗ میں نہ ہو ہم سے ہم کلام

یا لہجۂ ہوائے بہاراں میں بات کر

 

کیا یوں ہی محوِ جامہ دری میں ہمارے ہاتھ

کچھ دیکھ کر تو اپنے گریباں میں بات کر

 

ممکن نہیں مکالمۂ درد، شہر میں

اچھا یہ بات ہے !، تو بیاباں میں بات کر

 

کیوں رشک ہے کہ بول رہے ہیں ہمارے زخم

تو بھی زبانِ سادہ و آساں میں بات کر

 

پیشِ حبیب طولِ سخن اور بات ہے

اک روز جا کے بزمِ رقیباں میں بات کر

 

جوہر ہماری خاک میں برق و شر ر کا ہے

تو لعل چاہتا ہے بدخشاں میں بات کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسی دنیا میں مرا کوئے نگاراں بھی تو ہے

ایک گھر بھی تو ہے، اک حلقۂ یاراں بھی تو ہے

 

آ ہی جاتی ہے کہیں موجِ ہوائے نمناک

اس مسافت میں کہیں خطّۂ باراں بھی تو ہے

 

راستوں پر تو ابھی برگِ خزاں اڑتے ہیں

خیر اطراف میں خوشبوئے بہاراں بھی تو ہے

 

کچھ نظر آتی نہیں شہر کی صورت ہم کو

ہر طرف گردِ رہِ شاہ سواراں بھی تو ہے

 

حاکمِ وقت کو یوں بھی نہیں گوشِ فریاد

اور پھر تہنیتِ نذر گزاراں بھی تو ہے

 

ایسے آشوب میں کس طرح سے چُپ بیٹھا جائے

خون میں تاب و تبِ حوصلہ داراں بھی تو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب بھی کی ہمرہیِ بادِ بہاری ہم نے

خاک پر آ کے نظر اپنی اتاری ہم نے

 

ہم ہر اک شخص کی دعوت پہ کہاں جاتے ہیں

پھیر دی ہے مہ و انجم کی سواری ہم نے

 

لوگ اب کیا سببِ وحشتِ جاں پوچھتے ہیں

جب رہا کر دیئے آہوئے تتاری ہم نے

 

بانوئے شہر کو ہے ہم سے تقاضا بیکار

اپنے دلبر کی نہ کی آئینہ داری ہم نے

 

موجِ خوں نے کسے سیراب کیا ہے اب تک

لے کے کیا کرنا ہے یہ چشمۂ جاری ہم نے

 

عمر بھر ہم سے وہ اک حرف کی دوری پہ رہے

اور نہ سیکھا ہنرِ عرض گزاری ہم نے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا

یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا

 

دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی

اور دل میں ہے کوئی نقشِ دگر پانی کا

 

کون مشکیزی سرِ نیزہ عَلم ہوتا ہے

دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا

 

آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات

کاش ہوتا درِ شبّیر پہ سر پانی کا

 

تیری کھیتی لبِ دریا ہے تو مایوس نہ ہو

اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مُجھ کو جانا ہے ذرا ہم سفروں سے آگے

اُن کی آنکھوں سے پرے، اپنے پروں سے آگے

 

ہم جو یہ جان بچانے کا ہنر جانتے ہیں

کچھ رہ و رسم تھی بیدار گروں سے آگے

 

تم کو اے خیرہ سرو، ہم پہ فضیلت کیا ہے

بس وہی طُرّۂ دستار سروں سے آگے

 

وہیں رہ جاتے ہیں سب حد سے گزرنے والے

چلتی رہتی ہے زمیں بے خبروں سے آگے

 

عمر بھر بصرہ و بغداد بساتے رہے لوگ

اور دیکھا تو وہی دشت گھروں سے آگے

 

درد کے فیض سے دل عیش دو عالم سے غنی

عشق کے راج میں ہم تاجوروں سے آگے

٭٭٭

 

 

 

 

کینوس

 

(منتخب کلام)

 

 

 

 

میں اپنے وقت سے آگے نکل گیا ہوتا

مگر زمیں بھی میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی

 

 

 

 

اس تکلف سے نہ پوشاکِ بدن گیر میں آ

خواب کی طرح کبھی خواب کی تعبیر میں آ

 

میں بھی اے سرخیِ بے نام تجھے پہچانوں

تو حنا ہے کہ لہو، پیکرِ تصویر میں آ

 

اس کے حلقے میں تگ و تاز کی وسعت ہے بہت

آہوئے شہر، مری بانہوں کی زنجیر میں آ

 

چارہ گر خیر سے خوش ذوق ہے اے میری غزل

کام اب تو ہی مرے درد کی تشہیر میں آ

 

وہ بھی آمادہ بہت دن سے ہے سننے کے لیے

اب تو اے حرفِ طلب معرضِ تقریر میں آ

 

ایک رنگ آخری منظر کی دھنک میں کم ہے

موجِ خوں، اٹھ کے ذرا عرصۂ شمشیر میں آ

٭٭٭

 

 

 

 

قدم اٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی

نظر دیے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی

 

کچھ ایسی تیز نہ تھی اس کے انتظار کی آنچ

یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی

 

سروں کے پھول سرِ نوکِ نیزہ ہنستے رہے

یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی

 

ہتھیلیوں نے بچایا بہت چراغوں کو

مگر ہوا ہی عجب زاویے بدلتی رہی

 

دیارِ دل میں کبھی صبح کا گجر نہ بجا

بس ایک درد کی شب ساری عمر ڈھلتی رہی

 

میں اپنے وقت سے آگے نکل گیا ہوتا

مگر زمیں بھی میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی

٭٭٭

 

 

 

 

چراغ دینے لگے گا دھواں، نہ چھو لینا

تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا

 

زمیں چھٹی تو بھٹک جاؤ گے خلاؤں میں

تم اڑتے اڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا

 

نہیں تو برف سا پانی تمہیں جلا دے گا

گلاس لیتے ہوئے انگلیاں نہ چھو لینا

 

ہمارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں

ہماری با توں کی گہرائیاں نہ چھو لینا

 

اُڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند

شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا

 

مروتوں کو محبت نہ جاننا، عرفان

تم اپنے سینے سے نوکِ سناں نہ چھو لینا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مروّتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا

وہ آدمی تھا غلط فہمیاں بھی رکھتا تھا

 

بہت دنوں میں یہ بادل ادھر سے گزرا ہے

مرا مکان کبھی سائباں بھی رکھتا تھا

 

عجیب شخص تھا، بچتا بھی تھا حوادث سے

پھر اپنے جسم پہ الزامِ جاں بھی رکھتا تھا

 

ڈبو دیا ہے تو اب اس کا کیا گلہ کیجئے

یہی بہاؤ سفینے رواں بھی رکھتا تھا

 

تو یہ نہ دیکھ کہ سب ٹہنیاں سلامت ہیں

کہ یہ درخت تھا اور پتیاں بھی رکھتا تھا

 

ہر ایک ذرہ تھا گردش میں آسماں کی طرح

میں اپنا پاؤں زمیں پر جہاں بھی رکھتا تھا

 

لپٹ بھی جاتا تھا اکثر وہ میرے سینے سے

اور ایک فاصلہ سا درمیاں بھی رکھتا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جھلس رہے ہیں کڑی دھوپ میں شجر میرے

برس رہا ہے کہاں ابرِ بے خبر میرے

 

گرا تو کوئی جزیرہ نہ تھا سمندر میں

کہ پانیوں پہ کھلے بھی بہت تھے پر میرے

 

اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے

یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہمسفر میرے

 

خبر نہیں ہے مرے گھر نہ آنے والے کو

کہ اس کے قد سے تو اونچے ہیں بام و در میرے

 

بہت ہے آئنے جن قیمتوں پہ بک جائیں

یہ پتھروں کا زمانہ ہے، شیشہ گر میرے

 

حریفِ تیغِ ستم گر تو کر دیا ہے تجھے

اب اور مجھ سے تو کیا چاہتا ہے سر میرے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے الجھا دیا دانش کدوں نے صرف خوابوں میں

کوئی تعبیر رکھ دو میرے بچوں کی کتابوں میں

 

طلسم ایسا تو ہو جو خوبصورت ہو حقیقت سے

ہنر یہ بھی نہیں ہے آج کے افراسیابوں میں

 

تعلق اک تعارف تک سمٹ کر رہ گیا آخر

نہ وہ تیزی سوالوں میں نہ وہ تلخی جوابوں میں

 

مکاں کیسے بھی ہوں، خوابوں کی خاطر کون ڈھاتا ہے

کم از کم اس قدر ہمت تو تھی خانہ خرابوں میں

 

ذرا سوچو تو اس دنیا میں شاید کچھ نہیں بدلا

وہی کانٹے ببولوں کے، وہی خوشبو گلابوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہیں تو لٹنا ہے پھر نقدِ جاں بچانا کیا

اب آ گئے ہیں تو مقتل سے بچ کے جانا کیا

 

ان آندھیوں میں بھلا کون ادھر سے گزرے گا

دریچے کھولنا کیسا، دیے جلانا کیا

 

جو تیر بوڑھوں کی فریاد تک نہیں سنتے

تو ان کے سامنے بچوں کا مسکرانا کیا

 

میں گر گیا ہوں تو اب سینے سے اُتر آؤ

دلیر دشمنو، ٹوٹے مکاں کو ڈھانا کیا

 

نئی زمیں کی ہوائیں بھی جان لیوا ہیں

نہ لوٹنے کے لیے کشتیاں جلانا کیا

 

کنارِ آب کھڑی کھیتیاں یہ سوچتی ہیں

وہ نرم رو ہے ندی کا مگر ٹھکانا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نرم جھونکے سے یہ اک زخم سا کیا لگتا ہے

اے ہوا، کچھ ترے دامن میں چھپا لگتا ہے

 

ہٹ کے دیکھیں گے اسے رونقِ محفل سے کبھی

سبز موسم میں تو ہر پیڑ ہرا لگتا ہے

 

وہ کوئی اور ہے جو پیاس بجھاتا ہے مری

ابر پھیلا ہوا دامانِ دعا لگتا ہے

 

اے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں

اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے

 

ایسی بے رنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دنیا

پھول سے بچوں کے چہروں سے پتا لگتا ہے

 

دیکھنے والو، مجھے اس سے الگ مت جانو

یوں تو ہر سایہ ہی پیکر سے جدا لگتا ہے

 

زرد دھرتی سے ہری گھاس کی کونپل پھوٹی

جیسے اک خیمہ سرِ دشتِ بلا لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

موجِ خوں بن کر کناروں سے گزر جائیں گے لوگ

اتنی زنجیروں میں مت جکڑو، بکھر جائیں گے لوگ

 

قاتلوں کے شہر میں بھی زندگی کرتے رہے

لوگ شاید یہ سمجھتے تھے کہ مر جائیں گے لوگ

 

ان گنت منظر ہیں اور دل میں لہو دو چار بوند

رنگ آخر کتنی تصویروں میں بھر جائیں گے لوگ

 

جسم کی رعنائیوں تک خواہشوں کی بھیڑ ہے

یہ تماشا ختم ہو جائے تو گھر جائیں گے لوگ

 

جانے کب سے ایک سناٹا بسا ہے ذہن میں

اب کوئی ان کو پکارے گا تو ڈر جائیں گے لوگ

 

بستیوں کی شکل و صورت مختلف کتنی بھی ہو

آسماں لیکن وہی ہو گا جدھر جائیں گے لوگ

 

سرخرو ہونے کو اک سیلاب خوں درکار ہے

جب بھی یہ دریا چڑھے گا پار اتر جائیں گے لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دیکھ لے، آج تری بزم میں بھی تنہا ہوں

میں، جو گزرے ہوئے ہنگاموں کا خمیازا ہوں

 

جانے کیا ٹھان کے اٹھتا ہوں نکلنے کے لیے

جانے کیا سوچ کے دروازے سے لوٹ آتا ہوں

 

میرے ہر جزو کا ہے مجھ سے الگ ایک وجود

تم مجھے جتنا بگاڑو گے میں بن سکتا ہوں

 

مجھ میں رقصاں کوئی آسیب ہے آوازوں کا

میں کسی اجڑے ہوئے شہر کا سناٹا ہوں

 

اپنا ہی چہرہ انھیں مجھ میں دکھائی دے گا

لوگ تصویر سمجھتے ہیں میں آئینہ ہوں

 

لمحۂ شوق ہوں، میری کوئی قیمت ہی نہیں

میں میسر تجھے آ جاؤں تو کیا مہنگا ہوں

 

میں جھپٹنے کے لیے ڈھونڈھ رہا ہوں موقع

اور وہ شوخ سمجھتا ہے کہ شرماتا ہوں

٭٭

 

 

 

 

ہر جگہ فتنۂ محشر کی علامت ہے وہی

لکھنؤ میں بھی بتوں کا قد و قامت ہے وہی

 

بات کرنے لگے سناٹے تو معلوم ہوا

اب بھی خاموش زبانوں میں کرامت ہے وہی

 

کون ہم خانہ خرابوں کو کرے گا برباد

جو اس آشوب میں غارت ہے سلامت ہے وہی

 

آستیں پر کوئی دھبہ تو نہیں ہے، لیکن

اس کی آنکھوں میں بہر حال ندامت ہے وہی

 

کم سے کم ایک روایت تو ابھی زندہ ہے

سر وہی ہوں کہ نہ ہوں سنگِ ملامت ہے وہی

 

موجِ خوں ہو کہ ترے شہر کی دلدار ہوا

یار، جو سر سے گزر جائے قیامت ہے وہی

٭٭٭

 

 

 

 

ذہن ہو تنگ تو پھر شوخیِ افکار نہ رکھ

بند تہہ خانوں میں یہ دولت بیدار نہ رکھ

 

زخم کھانا ہی جو ٹھہرا تو بدن تیرا ہے

خوف کا نام مگر لذت آزار نہ رکھ

 

ایک ہی چیز کو رہنا ہے سلامت پیارے

اب جو سر شانوں پر رکھا ہے تو دیوار نہ رکھ

 

خواہشیں توڑ نہ ڈالیں ترے سینے کا قفس

اتنے شہ زور پرندوں کو گرفتار نہ رکھ

 

اب میں چپ ہوں تو مجھے اپنی دلیلوں سے نہ کاٹ

میری ٹوٹی ہوئی تلوار پہ تلوار نہ رکھ

 

آج سے دل بھی ترے حال میں ہوتا ہے شریک

لے یہ حسرت بھی مری چشم گنہ گار نہ رکھ

 

وقت پھر جانے کہاں اس سے ملا دے تجھ کو

اس قدر ترک ملاقات کا پندار نہ رکھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے

پھر اس سے آج وہی رنج بے سبب کیا ہے

 

تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو

وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے

 

دبیز کہر ہے یا نرم دھوپ کی چادر

خبر نہیں ترے بعد اے غبار شب کیا ہے

 

دکھا رہا ہے کسے وقت ان گنت منظر

اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں تو پھر یہ سب کیا ہے

 

اب اس قدر بھی سکوں مت دکھا بچھڑتے ہوئے

وہ پھر تجھے نہ کبھی مل سکے عجب کیا ہے

 

میں اپنے چہرے سے کس طرح یہ نقاب اٹھاؤں

سمجھ بھی جا کہ پس پردۂ طرب کیا ہے

 

یہاں نہیں ہے یہ دستور گفتگو عرفانؔ

فغاں سنے نہ کوئی، حرفِ زیرِ لب کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو

کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو

 

پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اس بات کا کیا ذکر

اک موج بہر حال بہا لے گئی ہم کو

 

پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر

کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو

 

تم کیسے گرے آندھی میں چھتنار درختو؟

ہم لوگ تو پتّے تھے، اُڑا لے گئی ہم کو

 

ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے

سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو

 

اس شہر میں غارت گرِ ایماں تو بہت تھے

کچھ گھر کی شرافت ہی بچا لے گئی ہم کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اپنے آنگن ہی میں تھا، راہگزر میں کیا تھا

ایسا تنہا تھا میں باہر بھی کہ گھر میں کیا تھا

 

سبز پتّوں نے بہت راز چھپا رکھے تھے

رُت جو بدلی تو یہ جانا کہ شجر میں کیا تھا

 

تھا کمیں گاہ میں سناٹے کا عالم، لیکن

اک نیا رنگ یہ ٹوٹے ہوئے پر میں کیا تھا

 

تم جو کچھ چا ہو وہ تاریخ میں تحریر کرو

یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا

 

اور کیا دیکھتی دنیا ترے چہرے کے سوا

کم سے کم رنگ تھا سرخی میں، خبر میں کیا تھا

 

تم یہ دیکھو کہ فقط خاک ہے پیراہن پر

یہ نہ پوچھو کہ مرے رختِ سفر میں کیا تھا

 

تم بتاتے تو سمجھتی تمہیں دنیا عرفانؔ

فائدہ عرضِ ہنر میں تھا، ہنر میں کیا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا

ورنہ ٹوٹے ہوئے رشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

 

تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا

یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا

 

اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ

سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا

 

یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا

اک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا

 

سب تری دین ہے، یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار

میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا کچھ بھی نہ تھا

 

اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دھرتی دیتی

ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دعا کچھ بھی نہ تھا

 

لوگ خود جان گنوا دینے پہ آمادہ تھے

اس میں تیرا ہنر اے دستِ جفا کچھ بھی نہ تھا

 

سبز موسم میں ترا کیا تھا، ہوا نے پوچھا

اڑ کے سوکھے ہوئے پتے نے کہا کچھ بھی نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہر میں گلبدناں، سیم تناں تھے کتنے

راہ زن درپئے نقدِ دل و جاں تھے کتنے

 

خوب ہے سلسلۂ شوق، مگر یاد کرو

دوستو، ہم بھی تو شیدائے بتاں تھے کتنے

 

کچھ نہ سمجھے کہ خموشی مری کیا کہتی ہے

لوگ دلدادۂ الفاظ و بیاں تھے کتنے

 

تو نے جب آنکھ جھکائی تو یہ محسوس ہوا

دیر سے ہم تری جانب نگراں تھے کتنے

 

اب تری گرمیِ گفتار سے یاد آتا ہے

ہم نفس، ہم بھی کبھی شعلہ زباں تھے کتنے

 

وقت کے ہاتھ میں دیکھا تو کوئی تیر نہ تھا

روح کے جسم پہ زخموں کے نشاں تھے کتنے

 

کسی تعبیر نے کھڑکی سے نہ جھانکا، عرفانؔ

شوق کی راہ میں خوابوں کے مکاں تھے کتنے

٭٭٭

 

 

 

 

 

شبِ درمیاں

 

                (منتخب کلام)

 

 

ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہَوا پوچھتی ہے

آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر

 

 

 

 

 

 

 

دستِ عصائے معجزہ گر بھی اسی کا ہے

گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے

 

میرے جہاز اسی کی ہواؤں سے ہیں رواں

میری شناوری کا ہنر بھی اسی کا ہے

 

لشکر زمیں پہ جس نے اتارے ہیں رات کے

کھلتا ہوا نشانِ قمر بھی اسی کا ہے

 

آبِ رواں اسی کے اشارے سے ہے سراب

بادل کے پاس گنجِ گہر بھی اسی کا ہے

 

وہ خشک ٹہنیوں سے اگاتا ہے برگ و بار

موسم تمام اس کے، شجر بھی اسی کا ہے

 

منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں

حیرانیوں میں ذوقِ نظر بھی اسی کا ہے

 

بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ

ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے

 

تیغِ ستم کو جس نے عطا کی ہیں مہلتیں

فریادِ کشتگاں میں اثر بھی اسی کا ہے

 

تیرا یقین سچ ہے مری چشمِ اعتبار

سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے

 

مجرم ہوں اور خرابۂ جاں میں اماں نہیں

اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے

 

خود کو چراغِ راہ گزر جانتا ہوں میں

لیکن چراغِ راہ گزر بھی اسی کا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب لقب پاک ہیں سب نام ہیں نامی تیرے

روشنی لکھتی ہے اسمائے گرامی تیرے

 

حرفِ حق تیرے حوالے سے اجالے کا سراغ

لفظ پائندہ ترے، نقش دوامی تیرے

 

اذنِ معبود کا مقصود بھی نصرت تیری

مصحفِ نور کے آیات بھی حامی تیرے

 

سب ستارہ نظراں، خوش ہنراں، چارہ گراں

پیک تیرے، سفری تیرے، پیامی تیرے

 

بے اماں قریوں پہ دائم تری رحمت کا نزول

حبشی تیرے ہیں حجازی ترے، شامی تیرے

 

تو غزالوں کو کمندوں سے بچانے والا

سارے سلطان غلامانِ قیامی تیرے

 

کشتِ سر سبز ترے فیض کی ہریالی سے

دشت میں نخلِ نمودار تمامی تیرے

 

میرے الفاظ فقط عجزِ بیاں کا اقرار

کعبؔ و حسّانؔ ترے، سعدیؔ و جامیؔ تیرے

 

نوریاں مدح سرا خاک نہادوں کی مثال

کہیں محسن، کہیں جبریل سلامی تیرے

 

سب تری مملکتِ جود و کرم میں آباد

حکم نافذ مرے قوسین مقامی تیرے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تول مت مجھ کو، کہ پاسنگ بہت ہے مجھ میں

میں بھی سونا ہوں مگر زنگ بہت ہے مجھ میں

 

آؤ میں تم کوتمہارے کئی چہرے دکھلاؤں

آئنہ خانہ ہوں، نیرنگ بہت ہے مجھ میں

 

میرا دشمن مرے سینے سے اترتا ہی نہیں

غالباً حوصلۂ جنگ بہت ہے مجھ میں

 

اس نے کیا سوچ کے چھیڑا تھا، میں کیا بول اٹھا

تار کوئی غلط آہنگ بہت ہے مجھ میں

 

اتنی افسردہ نہ ہو کوچۂ قاتل کی ہوا!

چھُو کے تو دیکھ، ابھی رنگ بہت ہے مجھ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اے ہوا، کل تیری را ہوں پر نشاں میرا بھی تھا

کارواں میں کچھ غبارِ کارواں میرا بھی تھا

 

اب خیال آتا ہے سب کچھ راکھ ہو جانے کے بعد

کچھ نہ کچھ تو سائباں در سائباں میرا بھی تھا

 

اس کی آنکھوں میں نہ جانے عکس تھا کس کا، مگر

انگلیوں پر ایک لمسِ رائے گاں میرا بھی تھا

 

کیا تعاقب کر رہی ہے تشنگی، اے تشنگی

کیا کوئی خیمہ سرِ آبِ رواں میرا بھی تھا

 

جان پر کب کھیلتا ہے کوئی اوروں کے لیے

ایک بچہ دشمنوں کے درمیاں میرا بھی تھا

 

شہر کے ایوان اپنی مٹھیاں کھولیں ذرا

اس زمیں پر ایک ٹکڑا آسماں میرا بھی تھا

 

میں نے جس کو اگلی نسلوں کے حوالے کر دیا

یار، سچ پوچھو تو وہ بارِ گراں میرا بھی تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

شاخ کے بعد زمیں سے بھی جدا ہونا ہے

برگِ افتادہ! ابھی رقصِ ہوا ہونا ہے

 

ہم تو بارش ہیں خرابے کی ہمیں اگلے برس

در و دیوار کے چہرے پہ لکھا ہونا ہے

 

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

 

کچھ تو کرنا ہے کہ پتھر نہ سمجھ لے سیلاب

ورنہ اس ریت کی دیوار سے کیا ہونا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

حرف ہوں، اور پر اسرار بنا دے مجھ کو

کبھی مرہم کبھی تلوار بنا دے مجھ کو

 

تو نے صحرا میں اگایا ہے تو کچھ کام بھی لے

میں تنک سایہ ہوں، چھتنار بنا دے مجھ کو

 

بارشِ سنگ ہی جب میرا مقدر ہے، تو پھر

اے خدا، شاخِ ثمر دار بنا دے مجھ کو

 

کوئی سچ میرے سلگتے ہوئے سینے میں بھی ڈال

آگ ہی آگ ہوں، گلزار بنا دے مجھ کو

 

میں کہاں تک دلِ سادہ کو بھٹکنے سے بچاؤں

آنکھ جب اٹھے گنہگار بنا دے مجھ کو

 

باڑھ میں بہتی ہوئی شاخ کا مصرف کیا ہے

ڈوبتے ہاتھ کی پتوار بنا دے مجھ کو

 

جیسے کاغذ پہ کوئی اسم مرادوں والا

میں بگڑ جاؤں، وہ ہر بار بنا دے مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہرِ خوف

 

گلی میں خوف

دریچوں میں خوف

آنکھ میں خوف

فصیلِ شہر پہ سفاک وقت ٹھہرا ہوا

سماعتوں میں پر اسرار آہٹوں کا ہجوم

ابھی وہ آئیں گے

میرے شکستہ زینے سے

اور اس مکان کے سارے چراغ، سارے گلاب

مری کتابیں، مرے خواب، میری تصویریں

مرے یقیں

مری نا ممکنات کی دنیا

دھواں بنا دیں گے

عجیب زہر لہو میں اترتا جاتا ہے

مگر یہ بچہ جو سوتے میں مسکراتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے شام ہوئی جنگل میں

 

جب دھوپ سنہری جاگی

میں قریۂ جاں سے نکلا

آنکھوں میں چھپا اک منظر

بازو پہ بندھی دو آنکھیں

پیروں سے لگی اک چوکھٹ

مٹھی میں دبی اک خوشبو

بارش میں دھُلی اک بستی

چندا سے ملا اک رستہ

مرے تلووں نے پی ڈالے

سب اوس کے موتی قطرے

موسم کی صدا کے پیچھے

سایہ سا، مکاں سے نکلا

 

پھر منظر بدلا پل میں

مجھے شام ہوئی جنگل میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ شہر ذات بہت ہے اگر بنایا جائے

تو کائنات کو کیوں درد سر بنایا جائے

 

ذرا سی دیر کو رک کر کسی جزیرے پر

سمندروں کا سفر مختصر بنایا جائے

 

اب ایک خیمہ لگے دشمنوں کی بستی میں

دعائے شب کو نشان سحر بنایا جائے

 

یہی کٹے ہوئے بازو علم کیے جائیں

یہی پھٹا ہوا سینہ سپر بنایا جائے

 

سنا یہ ہے کہ وہ دریا اتر گیا آخر

تو آؤ پھر اسی ریتی پہ گھر بنایا جائے

 

عجب مصاف، سکوت و سخن میں جاری ہے

کسے وسیلۂ عرض ہنر بنایا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

تو انہیں یاد آئے گی اے جوئبار اگلے برس

اب تو لوٹے گی پرندوں کی قطار اگلے برس

 

اور کچھ دن اس سے ملنے کے لیے جاتے رہو

بستیاں بس جائیں گی دریا کے پار اگلے برس

 

تم تو سچے ہو مگر دل کا بھروسہ کچھ نہیں

بجھ نہ جائے یہ چراغِ انتظار اگلے برس

 

پہلے ہم پچھلی رتوں کے درد کا کر لیں حساب

اس برس کے سارے زخموں کا شمار اگلے برس

 

میں نئے موسم میں برگِ تازہ بن کر آؤں گا

پھر ملیں گے اے ہوائے شاخسار اگلے برس

٭٭٭

 

 

 

 

 

روح کے معجزوں کا زمانہ نہیں جسم ہی کچھ کرامات کرتے رہیں

اپنے ہونے کا اعلان کرتے رہیں اپنے ہونے کا اثبات کرتے رہیں

 

برف رت آ گئی پھر نئی بستیوں سے نئی ہجرتوں نے پکارا ہمیں

لیکن اس بار پر دیس جاتے ہوئے راستوں پر نشانات کرتے رہیں

 

پھر کوئی تشنہ لب تیر اس دشت میں ہم تک آیا ہے طے کر کے کتنا سفر

اے رگ جاں کی جوئے رواں ہم بھی کچھ میہماں کی مدارات کرتے رہیں

 

ایک ہی پیڑپر سانپ اور آدمی ساتھ رہتے ہیں سیلاب اترنے تلک

ہم سفر ہے اگر دشمن جاں تو کیا راہ سنسان ہے بات کرتے رہیں

 

جان لینے کا ویسا سلیقہ ابھی لشکر دشمناں میں کسی کو نہیں

آؤ اب اپنے خیموں میں واپس چلیں دوستوں سے ملاقات کرتے رہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی بجلی ان خرابوں میں گھٹا روشن کرے

اے اندھیری بستیو تم کو خدا روشن کرے

 

ننھے ہونٹوں پر کھلیں معصوم لفظوں کے گلاب

اور ماتھے پر کوئی حرفِ دعا روشن کرے

 

زرد چہروں پر بھی چمکے سرخ جذبوں کی دھنک

سانولے ہاتھوں کو بھی رنگِ حنا روشن کرے

 

ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے

ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے

 

خیر اگر تم سے نہ جل پائیں وفاؤں کے چراغ

تم بجھانا مت جو کوئی دوسرا روشن کرے

 

آگ جلتی چھوڑ آئے ہو تو اب کیا فکر ہے

جانے کتنے شہر یہ پاگل ہوا روشن کرے

 

دل ہی فانوسِ ہوا، دل ہی خس و خارِ ہوس

دیکھنا یہ ہے کہ اس کا قرب کیا روشن کرے

 

یا تو اس جنگل میں نکلے چاند تیرے نام کا

یا مرا ہی لفظ میرا راستا روشن کرے

٭٭٭

 

 

 

 

پکارتا ہے مگر دھیان میں نہیں آتا

عجیب حرف ہے امکان میں نہیں آتا

 

بس ایک نام ہے اپنا نشاں جو یاد نہیں

اور ایک چہرہ جو پہچان میں نہیں آتا

 

میں گوشہ گیر ہوں صدیوں سے اپنے حجرے میں

مصاف بیعت و پیمان میں نہیں آتا

 

مجھے بھی حکم نہیں شہر سے نکلنے کا

مرا حریف بھی میدان میں نہیں آتا

 

میں اس ہجوم میں کیوں اس قدر اکیلا ہوں

کہ جمع ہوکے بھی میزان میں نہیں آتا

 

مرے خدا مجھے اس آگ سے نکال کہ تو

سمجھ میں آتا ہے ایقان میں نہیں آتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے

ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے

 

عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو

عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے

 

وہ حبس ہے کہ دعا کر رہے ہیں سارے چراغ

اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے

 

یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی

تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے

 

خدا کرے صفِ سر دادگاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی

کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی

 

شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمھارا نہ تھا

خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر جام و در یا اخی

 

یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے

یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی

 

جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے

اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمہ خواب کی رات بھر یا اخی
نہر اس شہر کی بھی بہت مہرباں ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا

ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریہ معتبر یا اخی

 

زرد پتوں کے بکھرے بدن اپنے ہاتھوں پہ لے کر ہوا نے شجر سے کہا

اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر یا اخی

٭٭٭

 

 

 

 

سرِ تسلیم ہے خم اذنِ عقوبت کے بغیر

ہم تو سرکار کے مداح ہیں خلعت کے بغیر

 

سر برہنہ ہوں تو کیا غم ہے کہ اب شہر میں لوگ

برگزیدہ ہوئے دستار فضیلت کے بغیر

 

دیکھ تنہا مری آواز کہاں تک پہنچی

کیا سفر طے نہیں ہوتے ہیں رفاقت کے بغیر

 

عشق میں میرؔ کے آداب نہ برتو کہ یہاں

کام چلتا نہیں اعلانِ محبت کے بغیر

 

ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہَوا پوچھتی ہے

آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اک ذرا خم ہوکے میں پیشِ ستم گر بچ گیا

میری پگڑی گر گئی لیکن مرا سر بچ گیا

 

زندہ رہنے کی خوشی کس لاش سے مل کر مناؤں

کس کھنڈر کو جا کے مژدہ دوں مرا گھر بچ گیا

 

پیاس کے صحرا میں بچوں پر جو کچھ بیتی نہ پوچھ

ہاں خدا کا شکر، بازوئے برادر بچ گیا

 

سچ تو یہ ہے دوستو، بیکار ہیں سارے حصار!

لوگ گھر میں لٹ گئے، میں گھر کے باہر بچ گیا

 

چاہیے کوئی نہ کوئی راستہ سیلاب کو

سر پھری دیوار آخر بہہ گئی، در بچ گیا

 

زندگی کا مول وہ بھی اس سے کم کیا مانگتے

میں بھی اپنے قاتلوں کو جان دے کر بچ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

ایک خط آج اگلے زمانوں کے نام

اک غزل دشت کے ساربانوں کے نام

 

ایک خیمہ زمیں پر کھجوروں کے پاس

ایک نیزہ بلند آسمانوں کے نام

 

ایک حرفِ خبر، ساریہؔ کے لیے

چشمِ بیدار کالی چٹانوں کے نام

 

نہر کے نام جاگیرِ خوں، دوستو

دولتِ جاں، کڑکتی کمانوں کے نام

 

تشنگی میرے سوکھے گلے کا نصیب

دودھ کی چھاگلیں میہمانوں کے نام

 

میری آنکھیں مری آشیانوں کی سمت

میرے پَر میری اونچی اڑانوں کے نام

 

کتنی موجوں پہ میرے سفینے رواں

کتنے ساحل مرے بادبانوں کے نام

 

ایک پودا مرے کوئے جاں کا نشاں

ایک محراب میرے مکانوں کے نام

 

سلطنت، کھلنے والی کمندوں کا اجر

اپنے بچوں کا سکھ بے زبانوں کے نام

 

آج جو آگ سے آزمائے گئے

کل کی ٹھنڈک ان آشفتہ جانوں کے نام

 

لکھ رہی ہیں سلگتی ہوئی انگلیاں

دھوپ کے شہر میں سائبانوں کے نام

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سات سماوات

 

                (منتخب کلام)

 

 

اٹھو یہ منظرِ شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

 

 

 

 

 

 

یاد آتی ہوئی خوشبو کی طرح زندہ ہم

کسی گزرے ہوئے موسم کے نمائندہ ہم

 

اُڑ گئے آنکھ سے جب لمحۂ موجود کے رنگ

رہ گئے نقش گرِ رفتہ و آئندہ ہم

 

حرفِ نا گفتہ کا خواہاں کوئی ملتا ہی نہیں

اور اسی گوہرِ ارزاں کے فروشندہ ہم

 

ایسے آشوب میں دکھ دینے کی فرصت کس کو

ہیں بہت لذتِ آزار سے شرمندہ ہم

 

اس اندھیرے میں کہ پل بھر کا چمکنا بھی محال

رات بھر زندہ و رخشندہ و تابندہ ہم

 

اپنا اس حرف و حکایت میں ہنر کچھ بھی نہیں

بولنے والا کوئی اور نگارندہ ہم

٭٭٭

 

 

 

 

شمعِ تنہا کی طرح، صبح کے تارے جیسے

شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

 

چھو گیا تھا کبھی اس جسم کو اک شعلۂ درد

آج تک خاک سے اڑتے ہیں شرارے جیسے

 

حوصلے دیتا ہے یہ ابرِ گریزاں کیا کیا

زندہ ہوں دشت میں ہم اس کے سہارے جیسے

 

سخت جاں ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہو گا

ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں تمہارے جیسے

 

دیدنی ہے مجھے سینے سے لگانا اس کا

اپنے شانوں سے کوئی بوجھ اتارے جیسے

 

اب جو چمکا ہے یہ خنجر تو خیال آتا ہے

تجھ کو دیکھا ہو کبھی نہر کنارے جیسے

 

اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انسان

دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اٹھو یہ منظرِ شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

 

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

 

وہ مرحلہ ہے کہ اب سیلِ خوں پہ راضی ہیں

ہم اس زمیں کو شاداب دیکھنے کے لیے

 

جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ کے آئیں

پیادگاں کو ظفر یاب دیکھنے کے لیے

 

کہاں ہے تو کہ یہاں جل رہے ہیں صدیوں سے

چراغ، دیدہ و محراب دیکھنے کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مال کیا پاس ترے ہمتِ عالی بھی نہیں

اتنا خالی تو مرا کاسۂ خالی بھی نہیں

 

سرِ شوریدہ کو تہذیب سکھا بیٹھا ہوں

ورنہ دیوار مجھے روکنے والی بھی نہیں

 

خیمۂ شب میں عجب حشرِ عزا برپا ہے

اور ابھی رات چراغوں نے اجالی بھی نہیں

 

اور ہی شرط ہے پرواز کی، دیکھا تم نے

اب تو وہ مسئلۂ بے پر و بالی بھی نہیں

 

رات دن شعروں میں تمثال گری کرتا ہوں

طاقِ دل میں کوئی تصویر خیالی بھی نہیں

 

نقشِ پا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے

ہم نے ایسی تو کوئی راہ نکالی بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

وحشت کے ساتھ دشت مری جان چاہیے

اس عیش کے لیے سر وسامان چاہیے

 

کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں

کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیے

 

تجھ کو سپردگی میں سمٹنا بھی ہے ضرور

سچاہے کاروبار تو نقصان چاہیے

 

اب تک کس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں لوگ

امید کے لیے کوئی امکان چاہیے

 

ہو گا یہاں نہ دست و گریباں کا فیصلہ

اس کے لیے تو حشر کا میدان چاہیے

 

آخر ہے اعتبارِ تماشا بھی کوئی چیز

انسان تھوڑی دیر کو حیران چاہیے

 

جاری ہیں پائے شوق کی ایذا رسانیاں

اب کچھ نہیں تو سیرِ بیابان چاہیے

 

سب شاعراں خریدۂ دربار ہو گئے

یہ واقعہ تو داخلِ دیوان چاہیے

 

ملکِ سخن میں یوں نہیں آنے کا انقلاب

دو چار بار نون کا اعلان چاہیے

 

اپنا بھی مدتوں سے ہے رقعہ لگا ہوا

بلقیسِ شاعری کو سلیمان چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ختم ہو جنگ خرابے پہ حکومت کی جائے

آخری معرکۂ صبر ہے عجلت کی جائے

 

ہم نہ زنجیر کے قابل ہیں نہ جاگیر کے اہل

ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے

 

مملکت اور کوئی بعد میں ارزانی ہو

پہلے میری ہی زمیں مجھ کو عنایت کی جائے

 

یا کیا جائے مجھے خوش نظری سے آزاد

یا اسی دشت میں پیدا کوئی صورت کی جائے

 

ہم عبث دیکھتے ہیں غرفۂ خالی کی طرف

یہ بھی کیا کوئی تماشا ہے کہ حیرت کی جائے

 

گھر بھی رہیے تو چلے آتے ہیں ملنے کو غزال

کا ہے کو بادیہ پیمائی کی زحمت کی جائے

 

اپنی تحریر تو جو کچھ ہے سو آئینہ ہے

رمزِ تحریر مگر کیسے حکایت کی جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب کے صحرا میں عجب بارش کی ارزانی ہوئی

فصلِ امکاں کو نمو کرنے میں آسانی ہوئی

 

پیاس نے آب رواں کو کر دیا موجِ سراب

یہ تماشا دیکھ کر دریا کو حیرانی ہوئی

 

سر سے سارے خوان خوشبو کے بکھر کر رہ گئے

خاکِ خیمہ تک ہوا پہنچی تو دیوانی ہوئی

 

دور تک اڑنے لگی گردِ صدا زنجیر کی

کس قدر دیوارِ زنداں کو پشیمانی ہوئی

 

تم ہی صدیوں سے یہ نہریں بند کرتے آئے ہو

مجھ کو لگتی ہے تمہاری شکل پہچانی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرا جسم اور کہیں میرا خیال اور کہیں

پار اُتارے گی مجھے موجِ وصال اور کہیں

 

دور تک آئنے ویران ہیں آنکھوں کی طرح

ڈھونڈنے جائیے اپنے مہہ و سال اور کہیں

 

کچھ اسی دشت پہ موقوف نہیں تیرِ ستم

زندگی ہے تو ہدف ہوں گے غزال اور کہیں

 

تہہِ افلاک ستاروں کا سفر جاری ہے

اب کے نکلیں گے ہم اے شامِ زوال اور کہیں

 

ہم ترے حرف دل آزار سے خوش ہیں جاناں

یوں بھی ہوتی ہے کہاں پرسشِ حال اور کہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ساعتِ وصل بھی عمرِ گزراں سے کم ہے

کیا سمندر ہے کہ اک موجِ رواں سے کم ہے

 

ہے بہت کچھ مری تعبیر کی دنیا تجھ میں

پھر بھی کچھ ہے کہ جو خوابوں کے جہاں سے کم ہے

 

وادیِ ہو میں پہنچتا ہوں بہ یک جستِ خیال

دشتِ افلاک مری وحشتِ جاں سے کم ہے

 

جان کیا دیجیے اس دولتِ دنیا کے لیے

ہم فقیروں کو جو اک پارۂ ناں سے کم ہے

 

میں وہ بسمل ہوں کہ بچنا نہیں اچھا جس کا

ویسے خطرہ ہنرِ چارہ گراں سے کم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تجھ کو بھی اے ہوائے شب جی کا زیاں بہت ہوا

بجھ تو گیا مگر چراغ شعلہ فشاں بہت ہوا

 

رختِ سفر اٹھا گیا کون سرائے خواب سے

رات پھر اس نواح میں گریۂ جاں بہت ہوا

 

موسمِ گل سے کم نہ تھا موسمِ انتظار بھی

شاخ پہ برگِ آخری رقص کناں بہت ہوا

 

کوئی افق تو ہو کہ ہم جس کی طرف پلٹ سکیں

شام ہوئی تو یہ خیال دل پہ گراں بہت ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مصافِ دشتِ تماشا نہیں ٹھہر جاؤ

اور اس کے آگے بھی دریا نہیں ٹھہر جاؤ

 

سوادِ شب میں کسی سمت کا سراغ کہاں

یہ سیمیا ہے ستارہ نہیں ٹھہر جاؤ

 

تم اس حریف کو پامال کر نہیں سکتے

تمہاری ذات ہے دنیا نہیں ٹھہر جاؤ

 

یہ ہُو کا وقت، یہ جنگل گھنا، یہ کالی رات

سنو یہاں کوئی خطرہ نہیں ٹھہر جاؤ

 

ہوا رُکے تو وہی اک صدا سنائی دے

’’انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے کراں رات میں تو انجمن آرا ہے کہ ہم

اے زمیں تو ہی اندھیرے کا ستارہ ہے کہ ہم

 

اس نے پوچھا تھا کہ سر بیچنے والا ہے کوئی

ہم نے سر نامۂ جاں نذر گزارا ہے کہ ہم

 

کیا خبر کون زوالِ شبِ ہجراں دیکھے

یاں چراغِ شبِ ہجراں کا اشارہ ہے کہ ہم

 

تو ادھر کس کو ڈبونے کے لئے آئی تھی

دیکھ اے موجِ بلا خیز کنارہ ہے کہ ہم

 

آج تک معرکۂ صبر و ستم جاری ہے

کون جانے یہ تماشا اسے پیارا ہے کہ ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جب یہ عالم ہو تو لکھیئے لب و رخسار پہ خاک

اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک

 

تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا

ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

 

ہم نے مدت سے اُلٹ رکھا ہے کاسہ اپنا

دستِ زر دار ترے درہم و دینار پہ خاک

 

پتلیاں گرمیِ نظارہ سے جل جاتی ہیں

آنکھ کی خیر میاں رونقِ بازار پہ خاک

 

پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں

اے ہوائے سرِ صحرا تری رفتار پہ خاک

 

یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں

محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک

 

آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اسے

یہ تو دیوانے کا سر ہے سرِ پندار پہ خاک

 

یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اُڑا دی میں نے

جم رہی تھی مرے آئینۂ اشعار پہ خاک

٭٭٭

 

 

 

 

 

ملالِ دولتِ بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں

ہم اپنی خاک سے پھر گنج زر نکالتے ہیں

 

میں اپنے نقدِ ہنر کی زکوٰۃ بانٹتا ہوں

مرے ہی سکّے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں

 

بڑھا کے میرے معانی پہ لفظ کا زنگار

مرے حریف مرے آئنے اجالتے ہیں

 

سجا کے آئنۂ حرف پیشِ آئنہ

ہم اک کرن سے ہزار آفتاب ڈھالتے ہیں

 

عذابِ جاں ہے عزیزو خیالِ مصرعِ تر

سو ہم غزل نہیں لکھتے عذاب ٹالتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سروں کو ربط رہا ہے سناں سے پہلے بھی

گزر چکے ہیں یہ لشکر یہاں سے پہلے بھی

 

یہ پہلی چیخ نہیں ہے ترے خرابے میں

کہ حشر اُٹھے ہیں میری فغاں سے پہلے بھی

 

ہماری خاک پہ صحرا تھا مہربان بہت

ہوائے کوفۂ نا مہرباں سے پہلے بھی

 

بجھا چکے ہیں پرانی رفاقتوں کے چراغ

بچھڑنے والے شب درمیاں سے پہلے بھی

 

ہمیں نہیں ہیں ہلاکِ وفا کہ لوگ پر

چلے ہیں تیر صفِ دوستاں سے پہلے بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

حاصلِ سیرِ بے دلاں کون و مکاں نہیں نہیں

کوئے حرم نہیں نہیں، شہرِ بتاں نہیں نہیں

 

جسم کی رسمیات اور، دل کے معاملات اور

بیعتِ دست ہاں ضرور، بیعتِ جاں نہیں نہیں

 

درد کی کیا بساط ہے جس پہ یہ پیچ و تاب ہو

دیکھ عزیز صبر صبر، دیکھ میاں نہیں نہیں

 

ہم فقراء کا نام کیا، پھر بھی اگر کہیں لکھو

لوحِ زمیں تلک تو خیر، لوحِ زماں نہیں نہیں

 

دونوں تباہ ہو گئے، ختم کرو یہ معرکے

اہلِ ستم نہیں نہیں، دل زدگاں نہیں نہیں

 

گرمیِ شوق کا صلہ دشت کی سلطنت غلط

چشمۂ خوں کا خوں بہا خوئے رواں نہیں نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

فقیری میں یہ تھوڑی سی تن آسانی بھی کرتے ہیں

کہ ہم دستِ کرم دنیا پہ ارزانی بھی کرتے ہیں

 

درِ روحانیاں کی چاکری بھی کام ہے اپنا

بتوں کی مملکت میں کارِ سلطانی بھی کرتے ہیں

 

جنوں والوں کی یہ شائستگی طرفہ تماشا ہے

رفو بھی چاہتے ہیں چاک دامانی بھی کرتے ہیں

 

مجھے کچھ شوقِ نظارہ بھی ہے پھولوں کے چہروں کا

مگر کچھ پھول چہرے میری نگرانی بھی کرتے ہیں

 

جو سچ پوچھو تو ضبطِ آرزو سے کچھ نہیں ہوتا

پرندے میرے سینے میں پر افشانی بھی کرتے ہیں

 

ہمارے دل کو اک آزار ہے، ایسا نہیں لگتا

کہ ہم دفتر بھی جاتے ہیں غزل خوانی بھی کرتے ہیں

 

بہت نوحہ گری کرتے ہیں دل کے ٹوٹ جانے کی

کبھی آپ اپنی چیزوں کی نگہبانی بھی کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اے مرے طائرِ جاں کس کی طرف دیکھتا ہے

ناوکِ کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے

 

ہم کسے اپنے سوا عشق میں گردانتے ہیں

دلِ بے مایہ یہاں کس کی طرف دیکھتا ہے

 

بانوئے ناقہ نشیں دیکھ کے چہرہ تیرا

بندۂ خاک نشاں کس کی طرف دیکھتا ہے

 

میں تو اک منظرِ رفتہ ہوں مجھے کیا معلوم

اب جہانِ گزراں کس کی طرف دیکھتا ہے

 

ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں

کیا خبر کون، کہاں، کس کی طرف دیکھتا ہے

 

اس کے بسمل ہیں سو ہم دیکھتے ہیں اس کی طرف

وہ شہِ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم جو عرفان یہ سب دردِ نہاں لکھتے ہو

کون ہے جس کے لیے نامۂ جاں لکھتے ہو

 

جانتے ہو کہ کوئی موج مٹا دے گی اسے

پھر بھی کیا کیا سرِ ریگِ گزراں لکھتے ہو

 

جس کے حلقے کا نشاں بھی نہیں باقی کوئی

اب تک اس رشتے کو زنجیرِ گراں لکھتے ہو

 

یہ بھی کہتے ہو کہ احوال لکھا ہے جی کا

اور یہ بھی کہ حدیثِ دگراں لکھتے ہو

 

یہ بھی لکھتے ہو کہ معلوم نہیں ان کا پتا

اور خط بھی طرفِ گمشدگاں لکھتے ہو

 

سایہ نکلے گا جو پیکر نظر آتا ہے تمہیں

وہم ٹھہرے گا جسے سروِ رواں لکھتے ہو

 

اتنی مدت تو سلگتا نہیں رہتا کچھ بھی

اور کچھ ہو گا جسے دل کا دھواں لکھتے ہو

 

کوئی دلدار نہیں تھا تو جتاتے کیا ہو

کیا چھپاتے ہو اگر اس کا نشاں لکھتے ہو

 

تم جو لکھتے ہو وہ دنیا کہیں ملتی ہی نہیں

کون سے شہر میں رہتے ہو، کہاں لکھتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہوائے دشتِ ماریہ

 

                (منتخب کلام)

 

 

گھُٹی میں ہے وِلا کا وہ نشّہ پڑا ہوا

ٹھوکر پہ مارتا ہوں خزانہ پڑا ہوا

 

 

 

 

ابھی رات درمیاں ہے

 

یہ عجب مسافتیں ہیں

یہ عجب مصافِ جاں ہے

کہ میں سینکڑوں برس سے

اسی دشتِ ماریہ میں

سرِ نہر شب کھڑا ہوں

وہی اک چراغِ خیمہ

وہی اک نشانِ صحرا

وہی ایک نخلِ تنہا

نہ فرشتگاں کے لشکر

نہ بشارتوں کے طائر

وہی اگلے دن کی آہٹ

یہ ستارہ ہے کہ نیزہ

یہ دعا ہے یا دھواں ہے

مگر اک صدا مسلسل

یہ کہاں سے آ رہی ہے

ابھی رات درمیاں ہے

ابھی رات درمیاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا

اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا

 

اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو

کنارِ آب ہے پہرہ لگا ہوا کیسا

 

ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خوں بار

افق افق ہے یہ منظر گریز پا کیسا

 

یہ چیخ ہے کہ علم کیا بلند ہوتا ہے

یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا

 

یہ لوگ دشتِ جفا میں کسے پکارتے ہیں

یہ باز گشت سناتی ہے مرثیہ کیسا

 

وہ مہربان اجازت تو دے رہا ہے مگر

اب آ گئے ہیں تو مقتل سے لوٹنا کیسا

 

یہ ایک صف بھی نہیں ہے، وہ ایک لشکر ہے

یہاں تو معرکہ ہو گا، مقابلہ کیسا

 

سلگتی ریت میں جو شاخ شاخ دفن ہوا

رفاقتوں کا شجر تھا ہرا بھرا کیسا

 

یہ سرخ بوند سی کیا گھل رہی ہے پانی میں

یہ سبز عکس ہے آنکھوں میں پھیلتا کیسا

 

کھڑا ہے کون اکیلا حصارِ غربت میں

گھرا ہوا ہے اندھیروں میں آئنہ کیسا

 

یہ ریگِ زرد ردا ہے برہنہ سر کے لیے

اجاڑ دشت میں چادر کا آسرا کیسا

 

سیاہ نیزوں پہ سورج ابھرتے جاتے ہیں

سوادِ شام ہے منظر طلوع کا کیسا

 

تجھے بھی یاد ہے اے آسماں کہ پچھلے برس

مری زمیں پہ گزرا ہے سانحہ کیسا

٭٭٭

 

 

 

 

 

گھُٹّی میں ہے وِلا کا وہ نشّہ پڑا ہوا

ٹھوکر پہ مارتا ہوں خزانہ پڑا ہوا

 

کچھ بس چلا نہ مرحبیِ روزگار کا

گردن میں تھا جو پنجۂ مولا پڑا ہوا

 

پشتوں سے میں سگِ درِ حیدر ہوں دیکھ لو

گردن میں میری کسی کا ہے پٹّہ پڑا ہوا

 

اور یہ بھی دیکھ لو اسی نسبت کے فیض سے

پیروں پہ ہے مرے سگِ دُنیا پڑا ہوا

 

خورشیدِ حشر، آلِ ربیبِ علی ہوں میں

ہے سر پہ اُس سحابِ کا سایہ پڑا ہوا

 

سورج کو مل گئی درِ دولت کی چاکری

سیّارگاں کی صف میں ہے غوغا پڑا ہوا

 

مقصودِ جاں ہے حاضریِ شہر بوتراب

اور راہ میں ہے جسم کا صحرا پڑا ہوا

 

بخشش بھی بے حساب، سعادت بھی بے حساب

ہے مدح گو کو مدح کا چسکا پڑا ہوا

٭٭٭

 

 

تشکر:

عزیز نبیل، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید