FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فضا اعظمیؔ کی شاعری

(تلمیحات کے آئینے میں)

 

اضافہ شدہ ایڈیشن

ISBN: 978 969 7578

 

شبیر ناقدؔ

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

انتساب

 

اپنے آموز گارِ ادب ابو البیان ظہور احمد فاؔتح کے نام!

جو فی نفسہ علم و ادب کے ایک سیال ادارے کا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں اور جن کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں ہم جیسے تلامذۂ ادب خدمتِ شعر و سخن اور انتقادِ فن میں عزمِ جواں اور سعی پیہم کے اوصاف سے ہم کنار ہیں

 

 

 

 

 

 

 

 

افتتاحیہ

 

تمام تر تعریفات اللہ رب العزت کے لیے ہیں جس نے تمام جہان بنائے۔ صانع ازل کی تخلیق شدہ ہر چیز ایک نادر نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نے تمام تر کارخانۂ قدرت ایک عظیم مقصد کے تحت تخلیق فرمایا ہے اور وہ مقصد ہے۔ اس کی اطاعت و بندگی یہی در اصل وہ معیار ہے۔ جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنے اعمال کا احتساب کر سکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ آیا ہم اپنا مقصدِ پیدائش بحسن و خوبی پورا کر رہے ہیں یا نہیں ؟

یوں تو خالق کائنات کی ہر چیز لاجواب و لاثانی ہے لیکن اس کی عظیم تخلیقات میں سے چند ایسی ہیں جن سے کسی طور صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے ایک حضرتِ انسان ہے۔ گوشت پوست کا یہ پیکر ایک عجیب نظام کا حامل ہے جسے تقویمِ احسن اور اشرف المخلوقات کا منصب حاصل ہے۔ اسے اگر شہزادۂ کائنات کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پروردگارِ عالم نے اسے روغنی ظرف اور دلکش سراپا عطا کر کے نہ صرف جاذبِ نظر بنا دیا بلکہ عقل و شعور کی کیفیات سے بہرہ ور کر کے ایک مخلوقِ وجیہہ و وسیم بنا دیا۔ پھر نطق و بیان کے خواص دل نشیں سے آراستہ فرما کر ایک ایسی بولنے والی مخلوق بنا دیا جس کی ہر بات دل میں گھر کرنے والی ہے۔ اسی پر بس نہیں حضرتِ انسان کو کچھ اور جواہر بھی ایسے عطا فرمائے جنہوں نے اس انگارۂ خاکی کو چار چاند لگا دیے۔ ان میں سے ایک علم ہے جو تخلیق شدہ اشیا و جواہر میں سے مالکِ حقیقی کو بے حد پسند ہے اور اس کی نگاہ میں بڑی قدر و منزلت رکھتا ہے۔ لہٰذا جو انسان عرفان و دانش کا رسیا ہو اور اس کا ایک ذخیرہ اپنے قلب و ذہن میں مجتمع کر لیتا ہے، وہ اس قدر وقیع و معتبر ٹھہرا۔ ایک اور چیز جسے آلۂ علم ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ ہے قلم جسے خامہ یا کلک بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تو ایسی گراں قدر ایجاد ہے کہ جس کو تفویض کر دی گئی اور اس نے اس کا حق ادا کرنے کی سعیءِ بلیغ فرمائی۔ وہ یقیناً درجۂ اعتبار کے اوج پر فائز ہو گیا جیسے چودھویں کا چاند اپنی پوری بہار دکھا رہا ہوتا ہے۔ ایسا انسان جو اہلِ علم بھی ہو اور صاحب قلم بھی، اس پر مستزاد یہ کہ اسے قرینۂ سخن سے بھی نواز دیا گیا پھر تو یوں کہیے کہ سونے پر سہاگہ ہو گیا۔

ایک اور جوہرِ ذات و صفات نقد و جرح ہے۔ یہ وہ وصفِ جمیل ہے جو تخلیق علم کے لیے ناگزیر ہے۔ تلاشِ حق ابن آدم کے فرائضِ منصبی میں سے ہے۔ اس کے لیے گہری جانچ پڑتال کی ضرورت ہوتی ہے جسے نقد یا تنقید کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی ایسا عام سطحی عمل نہیں ہے جسے ایک معمولی سی یا رسمی سی کاروائی قرار دیا جائے بلکہ یہ تو ژرف نگاہی اور گہرے شعور کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی ہے اور اس کی بدولت بہت سے امکانات نمایاں ہوتے ہیں۔ بہت سے خواص اجاگر ہوتے ہیں۔ بہت سے آفاق رونما ہوتے ہیں۔ کئی دقیقہ سنجیاں منظرِ عام پر آتی ہیں اور ساتھ ساتھ خام کاریوں کا پتہ چلتا ہے۔ کچھ کمزوریاں عیاں ہوتی ہیں۔ کچھ نا درست چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ ایک سچا ناقد وہ ہے جو منشورِ تنقید سے عیاں ہونے والے تمام رنگوں کو بلا کم و کاست دکھاتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا خوب سوچ سمجھ کر اپنے آپ کو یا اپنی کسی تخلیق ہدفِ تنقید بنانا چاہیے کیونکہ اس کے لیے چیتے کا جگر چاہیے ہے۔ عمومی رویہ ہے کہ ہم میٹھی میٹھی باتیں بصد جذب و شوق قبول کرتے ہیں اور کڑوی کسیلی ہمیں زہر لگتی ہیں اور اس کے نتیجے میں بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم چیں بہ چیں ہو جاتے ہیں۔ کبھی تنقید نگار کی خبر لینے کے لیے اتنی ہرزہ سرائیاں شروع کر دیتے ہیں اور کبھی تو نوبت یہاں  تک بھی پہنچتی ہے کہ ناقد غریب کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا ناقد و منقود دونوں کو کامل ہوشیاری اور حلم و بردباری سے کام لینا چاہیے۔ اگر ہمارا سماج تلخی برداشت کرنے کا عادی ہو جائے اور ناگوار چیزیں اسے گوارا ہونے لگیں تو یہ خالص معاشرت کی طرف ہماری پیش رفت ہو گی۔ بقول اقبال:

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر

کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

یہاں ہم ان چند نقصانات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں جو تنقید کی۔ عدم برداشت کے نتیجے میں ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا نقصان یہ ہے کہ تلاشِ حق کے کارِ مسعود میں رخنے پیدا ہوتے ہیں۔ جس کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ تنقیدِ خالص کے نتیجے میں جو راہبری احاطۂ امکان میں ہوتی ہے، وہ پس و پیش کا شکار ہو جاتی ہے۔ لہٰذا:

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

زیر نظر کتاب ’’فضاؔ اعظمی کی شاعری: تلمیحات کے آئینے میں‘‘ ایک پسندیدہ اور جدید کاوشِ نقد ہے۔ ہو سکتا ہے کہ قبل ازیں تلمیحات کے حوالے سے کسی سخن ور کے کلام پر اس نوع کی ناقدانہ جسارت ہوئی ہو، بہرحال یہ کام خود میں ایک گونہ ندرت لیے ہوئے ہے۔ جس میں تنقید نگار کے لیے خاصی کٹھنائیاں موجود ہیں۔ بہرحال حاصل مطالعہ کے طور پر یہ عرض کر دینا ناگزیر سمجھتے ہیں کہ یہ سلسلہ خالی از افادہ نہیں ہے۔ فارسی کا مشہور شعر ہے:

تازہ خواہی داشتیں گر داغ ہائے سینہ را

گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

یعنی اگر تو سینے کے داغوں کو تازہ رکھنا چاہتا ہے تو اس قدیم داستان کو کبھی کبھی دہرا لیا کر۔

یہ تلمیحات جو کئی اقسام پر مشتمل ہیں، ہمارے لیے دعوتِ فکر و عمل رکھتی ہیں۔ مولف نے کتابِ ہذا میں تلمیحات کی جو اقسام بیان کی ہیں، اس طرح کی قسم بندی قبل ازیں دیکھنے میں نہیں آئی۔ لہٰذا ہم اسے ان کی ناقدانہ اختراع قرار دے سکتے ہیں یا زیادہ صاف گوئی سے کام لیا جائے تو بدعت برنگِ جدت قرار دیا جا سکتا ہے مثلاً پہلے نمبر پر انہوں نے مختلف خطوں کی تلمیحات یا جغرافیائی تلمیحات متعارف کرائی ہیں جن میں مشہور و معروف ممالک، سمندر، دریا اور انہار و کہسار شامل ہیں، اور وہ ادبِ قدیم سے علاقہ رکھتے ہیں، گویا ان تلمیحات کی مدد سے آپ جغرافیائی و تاریخی مقامات کی سیر بھی کر لیتے ہیں اور ان کی نسبت سے حالات و واقعات سے آشنائی بھی پا لیتے ہیں۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ یہ تلمیحات دامن اردو سے لی گئی ہوں۔ اس طرح دوسرے نمبر پر وہ اساطیری تلمیحات لاتے ہیں جن کا قدیم قصے، کہانیوں، لوک داستانوں اور افسانوی ادب سے تعلق ہے جن کی پرچھائیں پڑتے ہی پوری کہانی دیدہ و دل میں گھوم جاتی ہے۔ ان میں میں رومانی داستانوں کی تلمیحات بھی شامل ہیں اور رزمیہ کہانیوں کے کردار بھی متضمن ہیں۔ چنانچہ ان کا مطالعہ بھی ذہن و دماغ کو ایک خوب صورت مشق کراتا ہے۔ تیسری قسم دیومالائی تلمیحات کی ہے۔ مختلف اقوام و ملل اپنے لیے جن معبودان کا وجود بنائے حیات سمجھتی ہیں، اس قسم میں ان دیویوں اور دیوتاؤں کے تذکرے ہیں جنہیں بطورِ خاص بدھ مت، ہندو مت اور یونانی دیومالا سے متعلق فوق الفطرت طاقتیں شامل ہیں۔ اسی طرح ان میں داستانوی کردار مثلاً جن، بھوت، پریت، عفریت، دیو اور پریاں وغیرہ شامل ہیں۔ ان تلمیحات کا مطالعہ فکرِ انسانی کی واژگونیوں کی نقاب کشائی کرتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت انسان اس قدر مہان ہونے کے باوجود کتنی نیچ اور پوچ حرکتیں کرتا ہے اور کن کن فرضی طاقتوں کو اپنا خدا بنا بیٹھتا ہے۔ انکار پر اترتا ہے تو اپنے سچے خدا کا انکار کر بیٹھتا ہے اور ناصیہ سائی کی نوبت آتی ہے تو اپنے ہاتھ کے بنے ہوئے بتوں کو معبود مان بیٹھتا ہے۔ تلمیحات کی چوتھی قسم بقول مولف کتب آسمانی کی تلمیحات ہیں۔ یہ وہ معروف واقعات، کردار یا مقامات ہیں جن کا چاروں الہامی کتابوں سے کسی ایک میں حوالہ پایا جاتا ہے مثلاً انبیاء، فرشتے، جن، ابلیس، نمرود، فرعون، شداد اور ہامان وغیرہ ان تلمیحات کے زیر نظر آتے ہیں۔ آسمانی کتب سے پڑھے اسباق تازہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح پانچویں قسم کی تلمیحات ناقد کے نزدیک ذخیرۂ احادیث سے اخذ ہونے والی تلمیحات ہیں جن میں مقاماتِ مقدسہ، بطورِ خاص حرمین شریفین، غزوات و مقامِ غزوات، اسمائے صحابہ، رواۃ فرامین، پیغمبرﷺ، اسمائے کتب احادیث شامل ہیں۔ اس نوع کی تلمیحات ہمیں عہدِ رسالت مآبﷺ میں لے جاتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم رسول اکرمﷺ سے ہم مجلس ہو رہے ہوں۔ تلمیحات کی چھٹی قسم ناقد شخصی تلمیحات کے حوالے سے لائے ہیں یعنی مشہور معروف شخصیات چاہے وہ کسی شعبہ اور کسی عہد سے وابستہ ہوں، اس قبیل کی تلمیحات میں شامل ہیں۔ ساتویں نوعِ تلمیح میں کتابی تلمیحات شامل کی گئی ہیں، ان سے مراد وہ تلمیحات ہیں جو الہامی کتب کے علاوہ اور ذخیرۂ احادیث سے ہٹ کر دوسری کتب میں شامل ہیں۔ ان میں کسی مذہبی کتاب کا حوالہ بھی ہو سکتا ہے اور کسی سائنسی یا تاریخی کتاب میں موجود تلمیحات بھی ہو سکتی ہیں۔ آٹھویں قسم ان تلمیحات کی ہے جو اجرامِ فلکی سے نسبت رکھتی ہیں۔ جنہیں مولف نے جرمی تلمیحات کا نام دیا ہے جیسے سورج، چاند، ستارے، مریخ وغیرہ۔ نویں قبیل تلمیحات میں زمانی تلمیحات شامل ہیں جو وقت کی اکائیوں مثلاً رات، دن، مہینے، سال وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں۔

بہرحال کچھ تیقن سے نہیں کہا جا سکتا کہ ناقدین عصر ہمارے تنقید نگار کی آراء سے کس حد تک متفق ہوتے ہیں، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس کے بیان میں ایک حد تک منطقیت کا عنصر نمایاں ہے۔ علم بیان کی رو سے حسنِ بیاں کے جو قرائن ہیں، ان میں تلمیحات بھی ایک جزوِ لاینفک کے طور پر متضمن ہیں جن سے شاعر کا سخن خاصا وقیع اور معتبر ہو جاتا ہے اور قاری کے لیے سامانِ دلبستگی پیدا ہو جاتا ہے۔ ذرا حالی کا یہ شعر دیکھیے:

آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

چنانچہ شعرائے کرام چاہے متقدمین سے تعلق رکھتے ہوں یا متوسطیں سے یا پھر ان کا علاقہ زمرۂ متاخرین سے ہو، کبھی تلمیحات کے استعمال سے بے نیاز نہیں رہے تاہم یہ ضرور ہے کہ کچھ کے ہاں ان کا التزام وفور سے ہوا ہے اور چند ایسے بھی ہیں جن کے ہاں یہ سلسلہ برائے نام پایا جاتا ہے۔ کتابِ ہذا کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں معروف شاعر فضاؔ اعظمی کے سب کے سب تیرہ مجموعہ ہائے کلام کو باری باری زیرِ نظر لا کر ان کے ہاں استخدامِ تلمیحات کا جائزہ لیا گیا ہے اور پھر حاصل مطالعہ کو سپردِ خامہ و قرطاس کر کے ہدیۂ قارئین کر دیا گیا ہے۔

اپنا خیال یہ بھی ہے کہ اس موضوع کو اجاگر کرنے یا اس پر کام کرانے میں سچے خادمِ ادب افشائے شعر و سخن کے دلدادہ کراچی کے من موہنے شاعر، شاعر علی شاعر کا بھی ضرور عمل دخل ہے۔ اس نوع کی دلچسپ حرکات و سکنات کے ذمہ دار اکثر پائے گئے ہیں۔ یہ ان کی جدت طرازی ہے یا جودتِ طبع، وہ ناقدانِ عصر کو دعوتِ فکرو عمل دیتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں عموماً بڑی دلچسپ تالیفات منصۂ شہود پر آتی رہتی ہیں۔ ہم اس موقع پر انہیں یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتے بلکہ کلماتِ آفرین و تحسین ان کے نام ارسال کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ ہماری جانب سے شاعرِ مندوب فضاؔ اعظمی، ناقدِ جاں، شبیر ناقد اور ناشرِ دل نواز، شاعر علی شاعر تینوں ہدیۂ تبریک کے مستحسن ہیں جن کی کاوشیں اس کتاب کے منظرِ عام پر آنے میں شامل ہیں۔

ہماری دعا ہے کہ مالک القدوس آئندہ بھی اصحابِ قلم کو نئے نئے آفاق و امکانات اصحابِ تحقیق کی مدارات کے لیے واشگاف کرنے کی توفیقاتِ بلیغ عطا فرمائے۔ آمین۔ ثم آمین!

ابو البیان ظہور احمد فاتح

فاتح منزل، تونسہ شریف

مورخہ: 29 جولائی 2015ء

فون: 0332-6066364

 

 

 

 

ادبی گوتم کے حضور

 

گوتم کو بودھی پیڑ کے نیچے انکشاف ہوا کہ صرف صفائے باطن اور محبتِ خلق ہی میں فلاح و سرمدی کا راز مضمر ہے اور اس نوری کیفیت یا ارتقا کے بعد وہ بدھ یا روشن ضمیر کہلانے لگے۔ اس امر کا ایک خوشگوار احساس شبیر ناقدؔ کے ہاں درجۂ کمال پر پایا جاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک پختہ کار شاعر جو خود بتیس کتابوں کا مصنف ہو، اپنے برابر یا اپنی سطح سے بھی کم کسی شاعر پر اس قدر تنقیدی اور تحقیقی کام کرے جو مسلمہ بھی ہو اور وقیع بھی، بسیط بھی ہو اور موثر بھی، جس طرح شبیر ناقدؔ نے فضا اعظمی اور ان کی شاعری کے لیے کیا ہے۔ ان کی کتاب ’’فضا اعظمی کی شاعری (تلمیحات کے آئینے میں )‘‘ میرے سامنے ہے جو شبیر ناقد ؔ کے صفائے باطن اور محبتِ خلق جیسے اجلے اور نکھرے ہوئے جذبات کی ترجمان ہے اور ان کے لیے فلاحِ ابدی و سرمدی کی ضمانت بھی ہے۔

شاعری میں صرف تلمیحات ہی نہیں، اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے جو اسے زود اثر اور خوشنما بنا رہا ہوتا ہے۔ یہاں اس میں جاندار تخیلات اور منفرد اندازِ بیاں کو اولیت و فوقیت حاصل ہوتی ہے، وہاں علمِ عروض جیسے مشکل و پیچیدہ فن سے ناشناسائی انہیں شعر کی صف سے باہر نکال کے کھڑا کر دیتی ہے۔ اسلوبیاتی جدت و حدت اور موزوں الفاظ کا انتخاب جہاں ایک شعر کی ترو تازگی کے اسباب پیدا کر رہے ہوتے ہیں، وہاں تشبیہات و استعارات اور تلمیحات کا عدم استعمال اسے پھسپھسا اور بے کیف بنا رہا ہوتا ہے۔ گویا ان تمام صنائع و بدائع میں سے تلمیح کی صنعت ہی ایک ایسی صنعت ہے جو کسی شعر کے لیے پارلر کا کام کرتی ہے۔ یعنی اس کا میک اپ کرتی ہے۔ اس کو بناتی اور سنوارتی ہے اور اس کے حسن کو نکھارتی چلی جاتی ہے۔ شبیر ناقدؔ جیسے بیدار مغز اور کہنہ مشق شاعر کا تحقیق کے لیے فضا اعظمی کی شاعری سے تلمیحات ہی کو منتخب کرنا شبیر ناقدؔ کی جمالیاتی حس یعنی Sense of beauty کے وفور کو ظاہر کرتا ہے۔ خود ان کی اپنی شاعری بھی ان کے حسن پرست اور رومان پرور ہونے پر دال ہے۔ یہی حسن پرستی کی روایت انہوں نے میدانِ تحقیق میں چلا ہی نہیں دی بلکہ اس کا سکہ بھی بٹھا دیا ہے جو مبتدیوں کے لیے نقوشِ پا کا پتہ دے گا۔ ان شاء اللہ!

شبیر ناقدؔ کی کتاب ’’فضا اعظمی کی شاعری (تلمیحات کے آئینے میں )‘‘ کے مسودے کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے جذبۂ عشق اور مسلسل محنت و ریاضت سے کام لے کر اسے مکمل کیا ہے۔ مزید یہ کہ وہ زرِ کثیر خرچ کر کے اسے شائع بھی کرا رہے ہیں جو ان کی دریا دلی اور ادب کے ساتھ گہری وابستگی کی علامت ہے۔ مسودہ ہٰذا میں صنعتِ تلمیح کی تعریف پر ازسرِ نو نظرِ ثانی کی گئی ہے جو کسی قدر جامع اور مستند ہے۔ صنعتِ ہٰذا کا پس منظر، تاریخ، ارتقا اوراقسام کو غالباً پہلی بار (کم از کم مرے مطالعہ کے مطابق) کسی مستند کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ سب سے بڑی اور خوش کن بات یہ ہے کہ اُستاد شعرا کا گراں قدر تلمیحی اثاثہ بھی بیان کیا گیا ہے جو نو آموز شعرا کے مطالعہ کے لیے خاصا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے ان کی فکری اور فنی اپج کو جلا ملے گی۔ ’’فضا اعظمی کی شاعری (تلمیحات کے آئینے میں )‘‘ میں شبیر ناقدؔ نے ادبی پیرایۂ اظہار کے لیے دقیق رنگ استعمال کیا ہے جو ان کے بقول قارئین کے ادبی شعور کو بلند کرنے کے لیے ناگزیر ہے، اس سے شبیر ناقدؔ کے علمی و ادبی قد کاٹھ کا پتہ چلتا ہے اور اس سے ان کی دقیقہ سنجی بھی عیاں ہوتی ہے۔ نیز ان کے شعوری اور معلوماتی تفاخر و غرور کا بھی احساس ہوتا ہے مگر اس کے علی الرغم اثر انگیزی بھی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ کتاب ہٰذا کی زبان و بیان کو قدرے آسان اور سلیس کر لیا جاتا تو اثر پذیری دوچند کی جا سکتی تھی۔

کتاب ہٰذا میں مشہور صوفی حسین بن منصور حلاج کو حلاج بن منصور لکھا گیا ہے۔ معلوم نہیں یہ تاریخی فروگزاشت فضا اعظمی سے ہوئی ہے یا شبیر ناقدؔ سے، یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی تحقیقی جدت کا شاخسانہ ہو جسے جدید دور کے کسی محقق اور مورخ نے کہیں لکھ کر ڈھونڈ نکالا ہو کہ ان کا اصل نام حسین بن منصور حلاج نہیں بلکہ حلاج بن منصور تھا اور یہ جدید تحقیق میرے علم میں ابھی تک نہ آئی ہو کیونکہ آج کل ایسی ہی جدید تحقیقات اور تھیوریاں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں۔ بہرحال میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس امر کی نشاندہی کر دی جائے کہ ان کا نام حسین بن منصور حلاج تھا جنہیں صدائے انا الحق لگانے کی پاداش میں تختۂ دار پر چڑھایا گیا۔ تختۂ دار پر بھی ان کے ایک ایک عضو کو کاٹا گیا۔ ان کا خون بہا تو انہوں نے اسے اپنے چہرے پر مل دیا جس سے ان کے چہرے کا رنگ سرخ ہو گیا۔ کسی نے پوچھا کہ اے حضرت! یہ آپ نے کیوں کیا؟ تو فرمایا کہ خون کے بہنے سے انسان کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے اور میں اپنے اللہ کے پاس سرخ چہرے یعنی سرخرو ہو کر جانے چاہتا ہوں۔ پھر اس مشہور صوفی بزرگ کے جسم کو جلا دیا گیا اور راکھ دریا میں ڈال دی گئی۔ دریا کے اندر راکھ کے جانے سے طغیانی آ جاتی ہے تو اسی بزرگ کی قمیص دکھا کر طغیانی کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ طریقہ بھی خود اسی بزرگ منصور بن حلاج نے اپنی حیات میں ہی اپنے خلفا کو بتا دیا تھا۔ (ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء از خواجہ فرید الدین عطارؒ)

کتاب ہٰذا میں ابلیس کو ایک تلمیح کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو ایک زندہ و جاوید حقیقت ہے۔ راندۂ درگاہ ہے۔ مزید یہ کہ اس کے بارے میں  فضا اعظمی کے کسی شعر کی تشریح میں یوں لکھا گیا کہ ابلیس ایک ایسی تاریخی تلمیح ہے جس سے ہر نوع کی برائیاں، خباثتیں اور قباحتیں وابستہ کی جا سکتی ہیں جبکہ در حقیقت ابلیس ایک ایسی آفاقی حقیقت ہے جو انسان کی ازلی و ابدی دشمن ہے جس سے ہر دور میں ہر نوع کی برائیاں، خباثتیں اور قباحتیں نہ صرف وابستہ ہیں بلکہ یہ ان کی اصل اور جڑ ہے۔ اسی طرح برہما اور اہنسا کو شبیر ناقدؔ نے کتاب ہٰذا میں بت کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ آریاؤں کی مقدس کتابیں چار ہیں جن کو وید کہا جاتا ہے۔ 1۔ رگ وید 2۔ یجر وید 3۔ سام وید، اور 4۔ اتھر وید۔ یہ وید زیادہ تر نظم کی شکل میں ہیں اور ان کے اشعار منتر کہلاتے ہیں۔ ان ویدوں کے بعد سب سے قدیم کتب میں تفاسیر کا ایک ایسا سلسلہ موجود ہے جن میں بعض منتروں کے معانی اور مواقع استعمال بتائے گئے ہیں۔ اس سلسلۂ تفاسیر کو برہمن کہتے ہیں۔ بہت عرصہ کے بعد جب ذات پات کا دور شروع ہوا تو بعض لوگوں نے اسے اپنی ذات بنا لیا جسے اسی سلسلۂ تفاسیر کے نام پر برہمن بولا جانے لگا۔ پھر رفتہ رفتہ یہ عقیدہ بھی رواج پانے لگ گیا کہ برہمن، برہما یعنی ایشور کا منہ ہے۔ اسی طرح اہنسا (کسی جاندار کو نہ ستانا) ایک قدیم نظریے کا نام ہے جس کے پیروکار جین مت کے لوگ ہیں۔ بعد میں مہاتما گاندھی بھی اسی نظریہ کے سب سے بڑے پرچارک اور علمبردار بن کر سامنے آئے۔

کتاب ہٰذا میں ایک اور مقام پر شبیر ناقد نے فضا اعظمی کے کسی شعر کی تشریح کرتے ہوئے فضا اعظمی کے ہی نظریات کی ترجمانی کر دی جو ہندو ازم سے متاثر نظر آتے ہیں۔ شبیر ناقدؔ پر لازم تھا کہ وہ فضا اعظمی کے ان نظریات کو رد کرتے یا باطل قرار دیتے جو ہندوؤں کی طرف داری کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ’’جلیانوالہ باغ میں اگر جنرل ڈائر نہتے عوام پر گولیاں برساتا ہے تو برطانوی حکومت اسے فعل فردِ واحد قرار دیتی ہے اور اسے جنرل ڈائر کا نفسیاتی مسئلہ گردانتی ہے۔ اس سے عیسائیت کو بری الذمہ قرار دیتی ہے جبکہ محمود غزنوی شوالہ کا مندر لوٹ لیتا ہے تو مہذب دنیا اسے اسلام کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔‘‘ گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شوالہ کے مندر پر محمود غزنوی کے حملے کو مذہبِ اسلام کے ساتھ نہ جوڑا جائے بلکہ اسے محمود غزنوی کا ذاتی فعل یا نفسیاتی مسئلہ یعنی پاگل پن اور ہوسِ اقتدار قرار دیا جائے۔ استغفراللہ!

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

محمود غزنوی امتِ مسلمہ کا درخشندہ ستارا اور ہیرو ہے۔ دین اسلام کی خاطر اس کی ناقابل فراموش خدمات ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آج ہم فضا اعظمی کے کہنے پر محمود غزنوی کی بہادری، جہادی کارناموں اور فتوحات کو اسلام سے علیحدہ کر ڈالیں۔ جنرل ڈائر نے نہتے لوگوں پر گولیاں چلائیں جبکہ غزنوی نے ایک ریاست اور باضابطہ فوج کو شکست دی۔ یہ دونوں برابر کیسے ہو گئے ؟ جنرل ڈائر نے جذبات کی رو میں بہہ کر یا بزدلی کے خوف سے گولیاں چلائیں جبکہ محمود غزنوی کے پیشِ نظر مقاصدِ عظیم و جلیل تھے یعنی شرک و بت پرستی کا خاتمہ اور توحید کا نفاذ۔ امتِ مسلمہ کے بطل جلیل علامہ محمد اقبال نے محمود غزنوی کو کیا خوب صورت انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے:

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

پایانِ تحریر فضا اعظمی سے ایک سوال۔۔ ۔ علامہ محمد اقبالؒ کے الفاظ میں:

قوم اپنی جو زر و مالِ جہاں پر مرتی

بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں  کرتی

شکیل اختر

مورخہ 18 اپریل 20189ء

 

 

 

 

تلمیح کی تعریف

 

اصطلاحی طور پر صنعتِ تلمیح کی تعریف یہ ہے کہ شاعر اپنے کلام میں کسی مسئلۂ مشہورہ، کسی قصے، مثل شئے، اصطلاحِ نجوم اور قرآنی واقعہ یا حدیث کے تناظر میں کسی ایسی بات کی طرف اشارہ کرے جس کے بغیر معلوم ہوئے یہ سمجھے اس کلام کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے گا۔ بعض لوگ اسے تملیح بھی کہتے ہیں لیکن یہ مناسب نہیں ہے۔ اس لیے کہ تملیح ’’میم‘‘ کی تقدیم کے ساتھ ’’ل‘‘ پر شئے ملیح کے لانے کے معنی میں ہے۔ جیسے تشبیہ و استعارہ میں کسی چیز کی طرف نظر کرنے کو کہتے ہیں، پر یہ معنیِ خاص ہیں اس لیے شئے ملیح کا لانا عام ہے۔ کسی شعر یا قصے یا مثل کی طرف نظر کرنے سے ہے۔ ’’تلخیص المفتاح‘‘ میں تلمیح کو ان چیزوں کے ضمن میں لکھا گیا ہے جو سرکاتِ شعری سے اتصال رکھتی ہیں اور یہ مناسب نہیں ہے۔

’’اطوال‘‘ میں جو بیان کیا ہے، سرکاتِ شعری کے ساتھ اس کو جمع کیا ہے تو جامع ان میں یہ ہے دونوں ان چیزوں میں سے ہیں جن سے مزید احتیاط واجب ہے۔ پس رائے ان لوگوں کی درست ہے جنہوں نے اسے صنائع میں شمار کیا۔

تلمیح کے تناظر میں حیدر علی آتشؔ کا شعر پیشِ خدمت ہے:

عاشق اس غیرتِ بلقیس کا ہوں میں  آتشؔ

بام تک جس کے کبھی مرغِ سلیماں نہ گیا

اس شعر میں اشارہ ہے قصۂ بلقیس کی طرف جو مفصل کلامِ الٰہی میں مذکور ہے۔ ہُد ہُد کا خبر دینا اور حضرت سلیمانؑ کا خطِ بلقیس وا الیہ ملکِ صبا تک پہچانا اور بلقیس کا حاضر آنا یہ ایک مشہور قصہ ہے۔

تلمیح کے ضمن میں  ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں۔

حکمِ خدا سے حق ہے اُدھر ہے جدھر علیؑ

کیا غم ثقیفہ بندیِ جمِ غفیر کا

(امام بخش ناسخ)

ثقیفہ کا واقعہ یہ ہے کہ جناب سرورِ کائناتﷺ کے وصال کے بعد آپﷺ کی تجہیز و تکفین کا ابھی سامان ہو رہا تھا کہ اسی اثنا میں انصار بنی سعدہ کے چبوترہ جس کو ثقیفہ کہتے ہیں، سعد بن عبادہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو جمع ہو گئے۔ اس امر کی اطلاع حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو ہوئی۔ یہ دونوں بزرگ حضرات ثقیفہ کو روانہ ہوئے اور وہاں جا پہنچے اور جب یہ دلیل بیان کی کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا ’’الآئمۃ من القریش‘‘ یعنی ’’کل امام قریش سے ہوں گے‘‘ تو تمام انصار نے اس کو تسلیم کیا اور سب کی رائے سے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہاتھ پر بیعت ہو گئی مگر حضرت علیؓ اس موقع پر موجود نہیں تھے کیونکہ وہ آنحضرتﷺ کی تجہیز و تکفین کا سامان کر رہے تھے۔ مذکورہ بالا شعر اسی تلمیحاتی تناظر کا حامل ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تلمیح کا پس منظر

 

شعر و سخن میں علمِ بیان کی بدولت جو محاسن پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک خوبی صنعتِ تلمیح بھی ہے جس کے باعث شاعر کا بیان بہت دلچسپ اور خوب صورت ہو جاتا ہے اور مدعا نگاری کا عمل سہل تر ہو جاتا ہے۔ جس سے افہام و تفہیم کے تقاضے بخوبی پورے کیے جا سکتے ہیں۔ جس کی بدولت سخن ور کا ادراکاتی کینوس بسیط اور بلیغ ہو جاتا ہے۔ ترفع اور تنوع کے خصائص آشکار ہوتے ہیں۔ اگر تمثیل کو علمِ بیان کی جان کہا جاتا ہے تو تلمیح اس کی روح و رواں ہے جس کی بدولت فکر کا حصار مضبوط تر اور منضبط ہو جاتا ہے۔ یوں سخن گستر کی سخن گستری ایک روایتی، تہذیبی، ثقافتی، سماجی، تاریخی، مذہبی، عمرانی اور عالم گیر فکری اثاثے کی حامل ہو جاتی ہے۔

در حقیقت صنعتِ تلمیح ایک وسیع و عریض میدان ہے جو بسیط انواع و اقسام پر مشتمل ہے۔ تلمیح کی تعریف عرفِ عام میں یوں کی جاتی ہے کہ جب اشعار میں کوئی مشہور تاریخی واقعہ، آیت یا حدیث مذکور ہو تو اسے صنعتِ تلمیح کہا جاتا ہے۔ ہم یہاں پوری گہرائی و گیرائی سے صنعتِ تلمیح کے بارے میں معلومات بہم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ میدانِ شعر و سخن کا شناور، علم البیاں کا رسیا تلمیحات کے گراں قدر ذخیرے سے پورے طور پر آگاہ و آشنا ہو جائے۔

 

 

 

 

 

 

تلمیح کی تاریخ اور ارتقاء

 

اس بارے میں کچھ قطعیت سے نہیں کہا جا سکتا کہ کس زبان کے کس شاعر نے سب سے پہلے اپنے سخن میں صنعتِ تلمیح کو برتا تھا تاہم ایک اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ عربی زبان جو قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے، اور جس کے تہذیبی ارتقاء سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچا ہوا ہے کہ اہلِ عرب بے پناہ قوتِ حافظہ کے مالک تھے اور لکھنے پڑھنے پر کم ہی بھروسا کرتے تھے۔ انہیں اپنے آباء و اجداد کے شجرے زبانی یاد تھے اور حالات ماقبل سینہ بہ سینہ آگے چلتے تھے اور وہ انہیں بہ حسن و خوبی یاد بھی رکھتے تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ لوگ آباء و اجداد کے قصوں اور واقعات سے زیادہ باخبر تھے۔ اس ناتے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاریخِ اجداد کے یہ امین صنعتِ تلمیح کے استعمال میں بھی گوئے سبق لے گئے ہوں گے۔

صاحبِ زین القصص اور ابن اثیر مصنف کامل التواریخ وغیرہ ناقل ہیں کہ جب ابنائے آدم میں عناد پھیلا اور قابیل نے ہابیل کو مار ڈالا تو حضرت آدمؑ نے بطور مرثیہ چند اشعار تصنیف فرمائے تھے جن میں واقعۂ کربلا کا مذکور تھا جسے مرثیۂ اول اور تلمیحِ اول پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اکثر شعراء کے کلام میں اس شعر گوئی کی تلمیح بھی پائی جاتی ہے۔

علاوہ ازیں ایک اور واقعہ بھی مختلف روایات کا حصہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہابیل کے قتل کے بعد مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ اس کی لاش کا کیا کیا جائے ؟ جس کے ضمن میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایک کوے کو مشاہدہ کیا گیا جس نے اپنی چونچ سے زمین میں ایک چھوٹا سا گڑھا بنایا جس سے قبر کے تصور نے جنم لیا۔ یوں اس واقعے کو بھی ایک تلمیحی حیثیت حاصل ہو گئی جسے تلمیحِ دوم شمار کیا جا سکتا ہے۔

 

 

 

 

 

تلمیحات کی اقسام

 

صنعتِ تلمیح ایک جامع اور جاندار موضوع ہے۔ فکری اعتبار سے اس کی کئی جہتیں اور زاویے ہیں۔ ہر سخن ور اپنے میلانِ طبع اور تسکینِ طبع کے لحاظ سے تلمیحات کا استعمال کرتا ہے جس میں اس کے سوانحی حالات و واقعات اور اس کی ترجیحات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی مطالعاتی زندگی میں یہ محسوس کیا ہے کہ ابھی تک صنعتِ تلمیح کے حوالے سے کوئی باضابطہ کام نہیں  ہوا۔ ادب کا قاری اور اہلِ ادب اس کی مبسوط تفہیم نہیں رکھتے جس کے باعث اس کی مختلف حوالہ جاتی پہچان سے عاری ہیں۔ صرف اس کی تعریف تک محدود رہنا علمِ بیاں اور علمِ بدیع سے صریحاً زیادتی ہے اور لسانی مقتضیات کے برعکس ہے۔

اسی مقصدیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کی تعریف کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اور افراط و تفریط کی الائشوں سے اپنے دامن کو محفوظ رکھتے ہوئے ہم نے اس کی درجہ بندی کے عمل کو مد نظر رکھا۔ اس کی کچھ اقسام وضع کی ہیں تاکہ اس کی فکری جہتوں کے اعتبار سے بازیافت کے عمل کو سہل تر بنایا جا سکے۔

تلمیحات کی اقسام مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ مختلف خطوں کی تلمیحات:

مختلف خطوں کی تلمیحات کے ضمن میں ہم نے صرف لسانِ اردو سے تعلق رکھنے والے خطوں کو شامل کیا ہے جن سے منسوب زبانوں کو اردو کی اشتراکی زبانیں بھی کہا جا سکتا ہے۔ مختلف خطوں کی تلمیحات کے تناظر میں ہم نے صنعتِ تلمیح کی اس قسم کو مزید تین اقسام میں منقسم کیا ہے جو درج ذیل ہیں۔

الف۔   اہلِ عرب کی تلمیحات۔

ب۔   اہلِ فارس کی تلمیحات۔

ج۔   اہلِ ہند کی تلمیحات۔

2۔    اساطیری تلمیحات:

اساطیری تلمیحات سے مراد ایسی تلمیحات ہیں جو قصے، کہانیوں اور افسانوی ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔

3۔ دیومالائی تلمیحات:

اس زمرے میں وہ تلمیحات شامل ہیں جن کا تعلق مافوق الفطرت قصے، کہانیوں اور داستانوں سے ہے جن میں مافوق الفطرت عوامل کی عمل داری ہوتی ہے۔ ان کی نسبت جنوں اور بھوتوں کے قصوں سے ہوتی ہے جنہیں قرین حقیقت خیال نہیں کیا جاتا۔

4۔ کتبِ آسمانی کی تلمیحات:

صنعتِ تلمیح کی اس قسم میں  وہ تلمیحات شامل ہیں جن کا تعلق آسمانی کتابوں سے ہے۔ ان کتابوں میں قرآن مجید، انجیل، تورات اور زبور شامل ہیں۔ ان تلمیحات کو الہامی حیثیت حاصل ہے۔

5۔ ذخیرۂ احادیث کی تلمیحات:

ان تلمیحات کا تعلق احادیث سے ہے۔ اس نوع کی تلمیح میں کسی نہ کسی حدیث کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے یا حوالہ دیا جاتا ہے۔

6۔ تلمیحاتِ شخصی:

تلمیحِ شخصی سے مراد ایسی تلمیح ہے جس میں زندگی کے کسی نہ کسی شعبے کی معروف شخصیت کا حوالہ مذکور ہو جو اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہو۔

7۔ تلمیحاتِ کتابی:

تلمیحِ کتابی ایک ایسی تلمیح ہوتی ہے جس میں کتبِ آسمانی کے علاوہ کسی اور مشہور کتاب کا ذکر کیا گیا ہو۔

8۔ جرمی تلمیحات:

جرمی تلمیحات سے مراد ایسی تلمیحات ہیں جن کا تعلق علمِ نجوم یا اس کی اصطلاحات سے ہو یا پھر ایسے امور سے ہو جن کا تعلق اجرامِ فلکی سے ہوتا ہے۔

9۔ تلمیحاتِ زمانی:

یہ ایسی تلمیحات ہوتی ہیں جن میں کسی مشہور زمانے یا دور کا ذکر یا حوالہ موجود ہو۔

 

 

 

 

استاد شعراء کا تلمیحاتی اثاثہ

 

اگر ہم کلاسیکی، نیو کلاسیکی اور عہدِ جدید کے شعری ادب کا تلمیحاتی تناظر میں بنظرِ غائر مطالعہ کریں تو ہمیں متقدمین کے ہاں تلمیحات کا ایک بحرِ ذخار ملتا ہے۔ ہر استاد شاعر نے اپنی افتادِ طبع کے مطابق کشتِ تلمیح کی خوب آبیاری کی۔ اس حوالے سے قدماء صحیح معنوں میں لائقِ آفریں ہیں جبکہ متوسطین کے ہاں بھی تلمیحاتی شعری رویہ متقدمین کی نسبت انتہائی کم ہے۔ گویا میدانِ تلمیح میں قدماء بازی لے گئے ہیں۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ متقدمین اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ و تمدن کے صحیح معنوں میں امین تھے اور تلمیحی حوالے سے وسیع تر سرمائے کے حامل تھے اگرچہ معاصر شعراء کے ہاں بھی تلمیحاتی شواہد ملتے ہیں مگر ان سے متقدمین و متوسطین کے دور کی یاد تازہ نہیں ہوتی۔ ہمارے عہد کے شعراء کو چاہیے کہ علمِ بیاں اور علمِ بدیع کی اس جاندار و جامع شعری صنعت میں اپنی کشیدِ جاں کے جوہر دکھائیں اور اپنے کلام میں وہ ابلاغیت و سلاست اور فصاحت و بلاغت پیدا کریں جو اساسی شعری مقتضیات کا حصہ ہیں۔

یہاں ہم طوالتِ تحریر سے گریز کرتے ہوئے مشتے از خروارے کے بمصداق اساتذہ کے اشعار تلمیحاتی سرمائے کے طور پر سپردِ قرطاس کرتے ہیں۔

سب رقیبوں سے ہوں ناخوش پر زنانِ مصر سے

ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں

(مرزا غالبؔ)

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

(مرزا غالبؔ)

یہ کس رشکِ مسیحا کا مکاں ہے

زمیں جس کی چہارم آسماں ہے

(خواجہ حیدر علی آتشؔ)

آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا

دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

(الطاف حسین حالیؔ)

کہے ہے مانی سے لیلیٰ کہ وہ ورق تو دکھا

لکھی ہے صورتِ مجنوں کی لاغری جس میں

(مصحفیؔ)

بیڑہ بچایا آپ نے طوفان سے نوحؑ کا

اب رحم واسطہ علی اکبرؓ کی روح کا

(میر انیسؔ)

کب نوحؑ کو یہ پیاس کا طوفاں نظر آیا؟

ایوبؑ کو کب گنجِ شہیداں نظر آیا؟

یعقوبؑ کو کب یوسفِ کنعاں نظر آیا؟

شبیرؑ کو سب آج یہ ساماں نظر آیا

(دبیرؔ)

میں اپنے یار کو یوسف سے کیوں کر دوں تشبیہہ

کہ یہ ہے مہر لقا، وہ ہے ماہ کا ٹکڑا

(شاہ نصیرؔ)

مرا ہے شیشۂ دل وہ پری خانہ صفا کیشو

نہ آئینہ سکندر کا نہ پہنچے جام اسے جم کا

(شاہ نصیرؔ)

گر تیرے تشنہ کام کو بے خضر مرتے دم

پانی وہ خشک چشمہ ہے آبِ حیات کا

(غلام مصطفیٰ خان شیفتہؔ)

ہو سوا ابن علیؓ کے کس کا ایسا حوصلہ

جو رضائے حق میں دے نیچے چھری کے دھر گلو

(بہادر شاہ ظفرؔ)

جو تھک کے ناقۂ لیلیٰ سرِ ہاموں نہ ٹھہرے گا

اگر سو کوس ہو گا نجد تو مجنوں نہ ٹھہرے گا

(ابراہیم ذوقؔ)

نام یوسفؑ سے ہوا یعقوبؑ کا

یوں تو حضرت کے بہت بیٹے ہوئے

(اکبرؔ الہ آبادی)

آپ کے دم ہی سے تھی بات کوئے عیسیٰ کی

خضر کا راہنما ہے با خدا کون، کہ آپ

(داغؔ دہلوی)

گرچہ اسکندر رہا محروم آبِ زندگی

فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناؤ نوش

(علامہ محمد اقبالؔ)

یہ سب تھے عقل جرات میں ارسطو اور اسکندر

مگر آرام سے لیٹے ہوئے تھے ناؤ کے اندر

(حفیظؔ جالندھری)

منحصر وادیِ سینہ پہ نہیں

جذبِ موسیٰ ہو اگر طور بہت

(تلوک چند محرومؔ)

ہے وہ عارضِ لیلیٰ وہی شیریں کا دہن

نگہِ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے

(فیض احمد فیضؔ)

مخزنِ کلام اساتذہ میں سے چند نمونے کے اشعار جن سے تلمیحات کے بارے میں روشنی پڑ سکے، بطور مثال پیش کیے ہیں۔ امید ہے کہ قارئین انہیں پڑھ کر اندازہ لگا سکیں گے کہ صنعتِ تلمیح عالمِ شعر و ادب میں کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔

 

 

 

 

فضاؔ اعظمی کی شاعری کا اجمالی تعارف

 

عقیل احمد فضاؔ اعظمی نے 21 جولائی 1930ء کو ڈاکٹر حفیظ اللہ کے گھر مشرقی اتر پردیش کے شہر اعظم گڑھ میں آنکھ کھولی۔ گھر کا ماحول علمی، ادبی اور مذہبی نوعیت کا حامل تھا۔ ابتدائی تعلیمی مدارج اپنے آبائی شہر اعظم گڑھ میں ہی طے کیے اور ’’اعظمی‘‘ کہلائے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شہری نسب کی نسبت انہیں ’’اعظم گڑھی‘‘ لکھنا چاہیے تھا۔ صرف اعظم سے نسبت ’’اعظمی‘‘ بنائی جا سکتی ہے۔ خیر، بڑے لوگوں کے معاملات میں دخل در معقولات خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، لہٰذا اس معاملے کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ بی اے کا امتحان نیشنل شبلی کالج اعظم گڑھ سے پاس کیا۔ بعد ازاں ایم اے اور ایل ایل بی الہ آباد یونیورسٹی سے کیا۔ علاوہ ازیں فوٹو گرافی کا ڈپلومہ بھی الہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کیا۔

فضاؔ اعظمی پر شاعر ہونے کا انکشاف ان کی عمر کے نویں یا دسویں سال میں ہوا جس کا اظہار انہوں نے اپنے چوتھے شعری مجموعے ’’تری شباہت کے دائرے میں‘‘ مطبوعہ 2002ء میں شامل مضمون ’’میری شاعری کا پس منظر‘‘ میں یوں کیا ہے:

’’ابتدا کچھ اس طرح ہوئی کہ عمر نو یا دس سال تھی، لکھنؤ، ’’حمید منزل‘‘ نادان محل روڈ، آغا میر پارک میں ہم لوگ کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ گرمیوں کی تاروں بھری رات تھی، بڑے بھائی انیس احمد نے کہا، شعر کہہ سکتے ہو؟ میں نے کہا، ہاں۔ بولے، محبت پر شعر کہو۔ میں نے برجستہ کہا:

محبت کی حقیقت دم بہ دم معلوم ہوتی ہے

محبت اب تو جزوِ زندگی معلوم ہوتی ہے‘‘

شعر مذکور سے ان کی فطری شعری صلاحیتوں کی غمازی ہوتی ہے۔ ان کی فکری بالیدگی اظہر من الشمس ہوتی ہے۔ گویا ان کو شعری ذوق فطرت سے ودیعت ہوا۔ علامہ شبلی نعمانی اور فضاؔ اعظمی کی جنم بھومی اعظم گڑھ کو ایک علمی و ادبی گہوارے کی حیثیت حاصل تھی۔ علامہ سید سلیمان، جگر مراد آبادی، خلیل الرحمان اعظمی اور انجم اعظمی جیسی جید علمی و ادبی شخصیات کی صحبت فضاؔ اعظمی کو بچپن میں ہی میسر آئی جس کے اثرات ان کی شخصیت اور فکر و فن پر مرتب ہوئے اور ان کے فکر و فن کی نمو ہوئی۔

والد کی وفات کے بعد سوانحی حوالے سے مصائب و آلام کی ایک طویل داستان شروع ہوئی۔ غیر تو غیر ہوا کرتے ہیں۔ اپنوں نے بھی منہ موڑ لیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے بھائی انیس احمد، رئیس احمد، دو بہنیں صفیہ اور حمیرا بھی گھریلو ذمہ داریاں انہیں سونپ کر پاکستان آ گئیں۔ ان کی زندگی کا پر ملال دور شروع ہوا۔ بوڑھی ماں، چھوٹے بھائی جمیل احمد، جلیل احمد اور بہنیں ذکیہ کی کفالت کی ذمہ داری بھی انہیں نبھانی پڑی۔ بھارتی حکومت نے بھی انہیں جائیداد کے حوالے سے طرح طرح کے مقدموں میں الجھائے رکھا تاہم وکالت اور صحافت کے پیشوں سے وابستہ رہے۔

پاکستان آمد کے بعد تجارت کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔ ان کے ابتدائی دور کا کلام ان کے سوانحی کرب و ابتلا کی ایک رقت انگیز کتھا کی حیثیت رکھتا ہے جسے حالات و واقعات کے بھرپور ردِ عمل کا درجہ حاصل ہے۔ جب معاشی حوالے سے استحکام میسر آیا تو ان کا فکری کینوس وسعتوں سے ہم کنار غمِ ذات، غمِ جاناں اور روایتی موضوعات سے رستگاری نصیب ہوئی۔ ان کا وجدانِ شعر عصر کی مقتضیات سے آشنا ہوا۔ یوں انہوں نے ایک ارتقائی انداز سے ذات سے کائنات تک کی مسافتِ خارزار طے کی۔ انہوں نے اپنے سخن کو اعلیٰ افادی اور مقصدیت آمیز اصولوں کے تحت پروان چڑھایا۔ اس لیے ان کے ہاں فنی حوالے سے کچھ انحرافی پہلو بھی پائے جاتے ہیں جو ان کی جدت آمیز سوچ کا منطقی نتیجہ ہیں۔

فضاؔ اعظمی کا اولین شعری مجموعہ ’’جو دل پہ گزری ہے‘‘ 1996ء میں منصۂ شہود پر آیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، فکری حوالے سے مجموعۂ ہٰذا میں ان کے عہدِ ماضی کی پرچھائیں واضح طور پر مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔ اس میں زیادہ تر غزلیات شامل ہیں۔ غزلیات میں  عمومی، روایتی موضوعات کے پہلو بہ پہلو تغزل کی حاشیہ آرائی اور سرشاری بھی کارفرما ہے۔ کتابِ مذکور میں کچھ نظمیات و فردیات بھی شامل ہیں۔ نظموں میں زیادہ تر معریٰ نظمیں شامل ہیں۔ ان کی نظموں کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ہیئتِ پر فکر کو فوقیت بخشی ہے جو ان کے نزدیک جدید زاویۂ فن ہے۔

ان کے مذکورہ شعری مجموعہ کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری یوں رقم طراز ہیں:

’’فضاؔ اعظمی کی شاعری کا کینوس یوں تو خاصا وسیع ہے اور خارجی اعتبار سے مذہب و اخلاق سے لے کر ریاست و سیاست تک اور سفر و ہجرت سے لے کر خلوت و جلوت تک گرد و پیش کی زندگی کا شاید کوئی منظر ایسا ہو گا جو فضاؔ کی شاعری میں جگہ نہ پا گیا ہو۔ لیکن ان سارے مناظر پر فضاؔ اعظمی کے باطن کی مہر لگی ہوئی ہے۔ یعنی انہوں نے شعر میں جو کچھ کہا ہے، اس پر خارجی حادثات و واقعات کے اثرات سے زیادہ وارداتِ قلب کا رنگ نمایاں ہے اور سچ بات یہ ہے کہ اس وارداتی غلبے نے ان کے مجموعۂ شعر کی پوری فضاؔ کو خوشگوار و دل آویز بنا دیا ہے۔ چنانچہ ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں، دونوں پر شدید احساس اور جذبے کی خنک چادریں تنی ہوئی ہیں۔ کسی بھی صنف اور کسی بھی ہیئت میں جو بات کہی گئی ہے وہ جذبہ و احساس کے تموج کی دستگیری میں کہی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری زبان و بیان کی سادگی اور عاشقانہ پاکیزہ خیال کے اعتبار سے کلاسیکی غزل کا رنگ رکھتی ہے۔ خصوصاً ً وہ کلاسیکی شعرا جن کے ہاں فلسفہ و حکمت کی بجائے تصوف اور اس کے لوازم کے اثرات بہت نمایاں ہیں اور بحیثیتِ مجموعی جن کی شاعری کا رخ عاشقانہ شاعری کی طرف ہے، ان سب کا پرتو فضاؔ اعظمی کی شاعری کی تہ میں نظر آتا ہے۔ جگر مراد آبادی اور حسرت موہانی کا رنگ تو اتنا غالب ہے کہ جگر کی طرح فضاؔ اعظمی کی شاعری بھی کسی تشریح و لغت کی مدد کے بغیر اپنے والہانہ پن کے سبب دل میں اُترتی چلی جاتی ہے۔‘‘

ان کا دوسرا مجموعۂ کلام ’’کرسی نامۂ پاکستان‘‘ مطبوعہ 1998ء ہے جو ایک طویل نظم ہے اور آزاد نظم کی ہیئت کی حامل ہے۔ نظم ہٰذا پاکستان کی گزشتہ پچاس سال کی تاریخی داستان ہے جسے پاکستان کے نشیب و فراز کی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے جس میں مقصدیت اور رجائیت کا غالب عنصر کارفرما ہے۔ اس نظم کے حوالے سے شاعرِ موصوف کا نقطۂ نظر نذرِ قارئین ہے۔

’’اس نظم کا طائرانہ پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ لکھنے کے لیے تو ہزاروں صفحے بھی ناکافی ہو سکتے ہیں۔ ان چند صفحوں میں صرف اشارے ہی کیے جا سکتے ہیں اور صرف چیدہ چیدہ واقعات ہی کا ذکر کیا جا سکتا ہے جو شاعر کی نظر میں اہم ترین ہیں یا جو مختلف ادوار میں  سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘

نظمِ مذکور کے حوالے سے فضاؔ اعظمی کی رائے ملاحظہ کرنے کے بعد عشرتؔ رومانی کے تاثرات زیبِ قرطاس ہیں:

’’جناب فضاؔ اعظمی کی اس طویل نظم میں آبشار کی سی روانی ہے جو پاکستان کی تاریخ کو رواں رکھ کر صحیح تناظر میں ساحل امید دکھاتی ہے۔ اس نظم میں رجائیت کے پہلو ہیں جس کا اختتام شاعرِ مشرق کے زریں افکار پر ہوتا ہے۔ جس کے سبب دل میں روشنی ہوتی ہے۔ امید اور نا امیدی کی کشمکش اور خیر و شر کی رسہ کشی کے پسِ پردہ عوامی بقا کی جنگ نظر آتی ہے جو گزشتہ پچاس سالوں سے زندگی کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں کرسی کی حیثیت حصولِ اقتدار کی علامت ہے جو وطن عزیز کی تاریخ پر مسلط ہے۔ اس عرصے میں ایک نئی نسل جوان ہو کر ادھیڑ عمری کی جانب آ گئی ہے۔ مگر حالات جوں کے توں اور عوامی سوچ پر دھند چھائی ہوئی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے اس نظم میں سیاست دانوں اور عوام کے لیے بہت کچھ ہے بشرطیکہ ’’شاید کہ ترے دل میں  اتر جائے مری بات۔‘‘

فضاؔ اعظمی کا تیسرا شعری مجموعہ ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ ہے جس کی طباعت 2001ء میں عمل میں آئی جو ایک آزاد نظم کی ہیئت میں  طویل نظم ہے۔ جس کے تیرہ ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں جو ایک سو تیرہ بندوں پر مشتمل ہے۔ جن کی بدولت نظم میں ایک ربط و ضبط کی بھرپور فضاؔ قائم ہوئی ہے اور تفہیم کے تقاضے بھی سہل تر ہو گئے ہیں۔

یہ نظم در حقیقت عصری بے حسی کے حوالے سے صدائے خارا شگاف ہے جو خود میں تاثیرات کے فزو تر تلازمات سموئے ہوئے ہے۔ ایک بھرپور آدرش ہے جس کا تاثر لازوال و لا ابدی ہے۔ اجتماعی انسانی ضیر کو جھنجھوڑنے کی موثر کوشش کی گئی ہے۔

’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی کی رائے شامل شذرہ ہے:

’’فضاؔ اعظمی کے اسلوب میں خود داری اور خود اعتمادی کا جو عنصر ہے وہ بالکل ان کا اپنا ہے۔ ان کے بیان میں رجائیت ہے۔ وہ ایک حقیقت پسند شاعر ہیں۔ وہ حقیقت کے اظہار میں کسی بھی طرح کے ذہنی پس و پیش کو روا نہیں  رکھتے۔ ان کا لہجہ راز داری کا لہجہ نہیں ہے بلکہ عام اور برملا گفتگو کا لہجہ ہے۔ ان کی اس نظم میں معنی کی کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ تخیل آفرینی ہے۔ فضاؔ اعظمی کی ایک خصوصیت ان کی سچائی ہے۔ دوسرے ان کی سادہ اور عام فہم طرزِ ادا ہے جو لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ اختر شیرانی کی نظمیں ہمیں رنگین وادیوں اور گنگناتے ہوئے لالہ زاروں میں پہنچا دیتی ہیں لیکن فضاؔ اعظمی اپنے شعور کی بنا پر اپنے سامنے پھیلی ہوئی کائنات کو بھی چھوتے ہیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں اندازِ بیاں کی تازگی ملتی ہے۔ تکنیکی اعتبار سے فضاؔ اعظمی کی اس طویل نظم میں کوئی ڈرامائی عنصر یا حسن و عشق کی کہانی نہیں بلکہ شعور کی رو ہے جس میں مسلسل و مربوط احساسات و تخلیقات ہیں۔ فضاؔ اعظمی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے ہاں تلخی، بیزاری اور خشونت نہیں۔ ان کے خیالات میں بلندی اور پاکیزگی ہے۔ وہ بنیادی طور پر انسانیت کے شاعر ہیں۔ ان کے سینے میں انسانیت کا درد ہے۔ مجھے امید ہے کہ علمی و ادبی حلقوں میں ان کی نظم ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ خاطر خواہ داد و تحسین وصول کرے گی۔‘‘

’’تری شباہت کے دائرے میں‘‘ فضاؔ اعظمی کا چوتھا شعری مجموعہ ہے جو 2002ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ہے جس میں غزلیات و متفرقات شامل ہیں۔ ان کی غزل خود میں عمومیت کا حسن سموئے ہوئے ہے۔ جس میں  روایت کی چاشنی بھی ہے اور تغزل کی سی سرشاری بھی ہے۔ کہیں کہیں جدید فکری امکانات و رجحانات اور میلانات بھی آغوش کشا نظر آتے ہیں۔ عصری رویے بھی ہیں اور رجائی پیرایۂ اظہار بھی ہے۔ اسلوب کی سادگی و شستگی، سلاست و روانی ایک خاص فضاؔ قائم کیے ہوئے ہے۔ زبان و بیان کا اجلا اور نکھرا ہوا معیار کار فرما نظر آتا ہے۔ آسان شبدوں کا استعمال بھاشا کی سندرتا اور کو ملتا کا آئینہ دار نظر آتا ہے۔ ان کا پیرایۂ اسلوب کہیں بھی گنجلک نظر نہیں آتا۔ بہت سے نازک مواقع پر انتہائی خوش سلیقگی سے درویشانہ گزر جاتے ہیں۔ گویا ان کی غزل کو مدعا نگاری کا حسیں قرینہ کہا جا سکتا ہے۔‘‘

فضاؔ اعظمی کی غزل گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر انور سدید رقم طراز ہیں:

’’فضاؔ اعظمی کی غزل میں معاشرے کا خارجی وجود بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے خارجی وجود پر وارد ہونے والے واقعات، حادثات اور سانحات کا ادراک بھی کیا ہے اور انہیں اپنی ذات کے پاتال میں تجربات کی صورت میں اترنے کا موقع بھی دیا ہے۔ وہ اپنے وقت کے نقاد بھی ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی تنقید ان کے اشعار میں داخل ہو کر کایا کلپ کر لیتی ہے اور پھر ایک نئے پیکر کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ اس وقت یہ تنقید اس آنکھ کا کام دیتی ہے جو دوبارہ زمانے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ جبکہ زمانے کا عالم یہ ہے کہ وہ خود اپنے تجربات سے کچھ حاصل نہیں کرتا اور تاریخ کا خونیں چکر ہر دور میں نئے انداز میں گھماتا اور خلقِ خدا کو پیستا چلا جاتا ہے۔ فضاؔ اعظمی کے تجرباتِ زیست میں شکستگی کا عنصر موجود ہے لیکن یہ شکستگی ایک نئے کمال سے آشکار ہوتی ہے اور ان کا اندازِ کبریائی اس میں تعمیر کا نیا اسلوب شامل کر دیتا ہے۔ چنانچہ شکستگی کے خلاف جب ایک مثبت رویہ ابھرتا ہے تو فضاؔ اعظمی رزمِ حیات میں جلال آراء نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے بیشتر مقامات پر ان کا رخ زمانے کی طرف ہے اور ان کے تجربات کا حاصل بے دریغ تقسیم ہوتا ہے اور انتباہ کا مثبت زاویہ ابھارتا چلا جاتا ہے۔‘‘

فضاؔ اعظمی کا پانچواں مجموعۂ کلام ’’عذابِ ہمسائے گی‘‘ مطبوعہ 2003ء ہے جو چودہ ذیلی عنوانات اور ایک سو چودہ بندوں پر مبنی ہے۔ آزاد نظم کی ہیئت میں لکھی گئی یہ طویل نظم پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں ہے جس میں تنقیدی رویہ بھی شامل ہے اور کچھ اصلاحی پہلو بھی مضمر ہیں۔ بھارتی قیادت کے لیے ایک بھرپور استفساریہ بھی ہے۔ جس میں تفہیم کے تقاضے بھی نبھائے گئے ہیں اور ایک موثر اشاریہ کے ذریعے مقصدیت کو کیا گیا ہے۔ پاک بھارت عوام کو اپنی قیادتوں کو سمجھنے کی ایک سعیِ مشکور بھی کی گئی ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک سنگِ میل کا درجہ بھی رکھتی ہے۔

مذکورہ بالا نظم کے حوالے سے معروف نقاد ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی رائے حسبِ ذیل ہے:

’’فضاؔ اعظمی کی نظم جہاں تک میں اس کا مطالعہ کر سکا ہوں، پر امن بقائے باہمی کے اعلیٰ تر مقصد کی بڑی خوبصورت ترجمانی کرتی ہے اور وہ لائقِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے برصغیر کی سیاست کے اس پر آشوب دور میں امن و سلامتی کے چراغ جلائے ہیں۔ فضاؔ اعظمی کی نظم ہر لحاظ سے ایک کامیاب کوشش ہے۔‘‘

ان کا چھٹا مجموعۂ کلام ’’آوازِ شکستگی‘‘ مطبوعہ 2004ء ہے۔ آزاد نظم کی ہیئت میں یہ ایک طویل نظم ہے جو بارہ ذیلی عنوانات اور دو سو بائیس بندوں پر مشتمل ہے۔ فضاؔ اعظمی عالمی تاریخ کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ قوموں  کے نشیب و فراز کی داستانیں ان کے شعور کا حصہ ہیں۔ عالمی استعماری طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے بخوبی آشنا ہیں۔ نظم ہٰذا کا تخاطب عالمی قیادت کا زعم رکھنے والا ملک امریکہ سے ہے۔ امریکی کارستانیوں کو بیانیہ انداز میں منظوم کیا گیا ہے۔ جہاں امریکہ کی عالمی نا انصافیوں اور زیادتیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے، وہاں امریکی قیادت اور عوام کو ایک خوش آئند عالمی منشور سے بھی روشناس کیا گیا ہے۔ اس لیے ان کی یہ نظم عالمی اہمیت کی حامل ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی فلاح کے اجتماعی مقصد کو پیش کیا گیا ہے۔‘‘

اس نظم کے حوالے سے ڈاکٹر اسلم فرخی کی رائے پیشِ خدمت ہے:

’’فضاؔ اعظمی کی یہ نظم بڑی پر تاثیر ہے۔ الم انگیز حقائق پر مبنی ہے۔ بڑے غور و فکر کے بعد لکھی گئی ہے۔ تاریخِ عالم کے ماہرانہ مطالعے کے بعد لکھی گئی ہے۔ شاعر نے قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال پر محرمانہ نظر ڈالی ہے۔ اس نظم کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تاریخ صرف سنہرے کارناموں کی تفصیل نہیں ہے۔ پسپائی، ہزیمت اور اغلاط و زوال کا مرقع بھی ہے۔ اس سے عبرت بھی حاصل ہوتی ہے اور مستقبل کا لائحۂ عمل بھی مرتب ہوتا ہے۔‘‘

’’خاک میں صورتیں‘‘ مطبوعہ 2006ء ان کا ساتواں مجموعۂ کلام ہے جو مسدس کی ہیئت میں ہے جس کو صنفِ نازک کی زندگی کے سفر کی ایک تاریخی و ارتقائی دستاویز کی اہمیت و حیثیت حاصل ہے۔ نظم ہٰذا چودہ ذیلی عنوانات پر مبنی ہے جنہیں اسباق کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے بندوں کی تعداد دو سو چونسٹھ ہے۔ اس نظم میں تاریخی تناظر میں مختلف النوع مذاہب اور تہذیبی و تمدنی اعتبار سے عورت کی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔ ازمنۂ رفتہ میں عورت کے ساتھ جو ناروا اور امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے، اس کو رقت آمیز شعری پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے افکار کا رنگ مذہبی بھی ہے، جدید اور روشن امکانات کا حامل بھی ہے جس میں انسان دوستی کا حسین آدرش پنہاں ہے اور عالمِ آب و گِل میں  عورت کے مقام و مرتبے کو واضح کیا گیا ہے۔

کتاب ہٰذا کے حوالے سے پروفیسر فتح محمد ملک کی مختصر رائے ملاحظہ کریں:

’’طویل مقصدی نظم، ’’خاک میں  صورتیں‘‘ میں مولانا الطاف حسین حالیؔ کی اصلاحی اور احیائی شاعری کا فیضان نمایاں ہوا ہے۔ یہ مماثلت صرف مسدس کی ہیئت تک محدود نہیں ہے۔ شاعر کے طرزِ فکر و احساس کی بدولت دل و دماغ میں مسدس ’’مد و جزرِ اسلام‘‘ کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔‘‘

فضاؔ اعظمی کا آٹھواں شعری مجموعہ ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ مطبوعہ 2009ء ہے۔ اس نظم میں تئیس ذیلی عنوان قائم کیے گئے ہیں۔ اگرچہ اس نظم میں فنی حوالے سے کچھ انحرافی پہلو بھی ہیں مگر یہ نظم علوئے فکر کا حسیں شہکار ہے۔ اس نظم کے ذیلی عنوانات کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ فضاؔ اعظمی مثبت اقدار کے نہ صرف علم بردار ہیں بلکہ مشعل بردار بھی ہیں۔ اس نظم میں تاریخی و تہذیبی اور تمدنی اعتبار سے بنی نوعِ انسانی کے اجتماعی کردار کا فطری اور غیر جانبدارانہ تنقیدی جائزہ ملتا ہے۔ جس میں انسان کے حقیقی کردار کی تصویر دردناک اور دل دوز پیرایۂ بیان میں پیش کی گئی ہے۔ ان کے فحوائے بیان میں سوز و گداز بھی ہے اور حقیقت پسندی کا غالب عنصر بھی کارگر نظر آتا ہے۔ اس نوع کی نظمیں بنی نوعِ انسانی کے لیے ذریعۂ اصلاح بھی ہیں اور سبیل فلاح بھی ہیں۔ اس نظم سے مسدس ’’مد و جزرِ اسلام‘‘ اور ’’شاہنامۂ اسلام‘‘ جیسی عظیم الشان نظموں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ عصرِ حاضر کے مقصدی ادب میں یہ نظم گنجِ گراں مایہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے ہر عہد میں سراہا جاتا رہے گا۔

اس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے مختصر تاثرات سپردِ قرطاس ہیں:

’’فضاؔ اعظمی نے آج کے زمانے کی نئی منظوم تاریخ لکھی ہے جس میں ماضی کا عکس ہے اور جو حال کا آئینہ ہے۔ لہولہان شخصیت، جذبات اور حالات کو پڑھ کر روح تک بلبلا اٹھتی ہے۔ یہ مثنوی قیامت خیز دھماکے کے مماثل ہے جسے پڑھ کر دل دہل اٹھتا ہے اور احساس کچوکے لگاتا ہے۔ فضاؔ اعظمی کے اس شہ پارے میں کشاکش ہے، انکشاف ہے، ماضی، مستقبل اور حال کی فکری وحدت ہے۔ ساتھ ہی دورِ حاضر کے انسان کے بہروپیے پن کی عکاسی ہے۔ الفاظ کا طنطنہ ہے۔ بندش کی چستی ہے۔ تازہ دم تشبیہات و استعارات ہیں۔ معنی کی تہوں میں تہ داری ہے، سادگی ہے، راستی اور وابستگی ہے، ساتھ ہی امتزاجی کشید کے انفرادی رویے ہیں۔ تنوع اور ترسیل کی کشادہ دامنی ہے اور نئی جہت کے اضافے ہیں۔‘‘

ان کا نواں مجموعۂ کلام ’’شاعر، محبوب اور فلسفی‘‘ مطبوعہ 2010ء ہے جس میں کرداروں کی تثلیث ہے اور مکالماتی فضاؔ ہے اور یہ مکالماتی انداز اقبال کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔ اس سہ کرداری نظم میں ہر کردار نے اپنے اپ کو بھرپور انداز میں باور کرانے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے ان کے مکالمات بھی تندرست و توانا ہیں جن میں تاثیرات کے فزوں تر کوائف ملتے ہیں۔ بہرحال فضاؔ اعظمی کی یہ نظم ان کے تخیلاتی کینوس کا حسیں مظہر ہے جس کے تاثرات لازوال و دائمی ہیں جن کی چکا چوند کبھی ماند نہیں پڑے گی۔

اس کتاب اور اس نظم کے حوالے سے سردار زیدی کی مختصر رائے طالبِ التفات ہے:

’’فضاؔ اعظمی کی شاعری عمومی طور پر غنائیت سے معمور ہے لیکن ان کی یہ طویل نظم خصوصی طور پر دلکش موسیقیت کی حامل ہے۔ یہ ایک فکری نظم ہے جو روایتی دانش اور استعارات سے مربوط ہے۔ نظم مجموعی طور پر رواں دواں اور خوش آہنگ ہے اور اس میں لہجے کے توازن اور نظم کی ہیئت کو آخر تک برقرار رکھا گیا ہے۔‘‘

فضاؔ اعظمی کا دسواں شعری مجموعہ ’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ مطبوعہ 2013ء ہے جو تاریخِ عالم کے تناظر میں لکھی گئی ہے جس میں مختلف تہذیبوں کا تمدنی مطالعہ ملتا ہے۔ نظمِ ہٰذا کو مختلف ذیلی عنوانات میں منقسم کیا گیا ہے۔ ان کے طرزِ اظہار میں غم و سوز کی ایک شدید لہر موجزن ہے جس کا بھرپور تموج قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ اس کی اس خوبی سے اندازہ ہوتا ہے کہ فضاؔ اعظمی ایک درد مند دل رکھتے ہیں۔ انسانی ہمدردی اور فلاح و بہبود کے جذبوں کے امیں ہیں۔ تاریخ کے تاریک اوراق کے مطالعے سے ان کا دل کڑھتا ہے۔ اس درد انگیز فضاؔ میں وہ اپنے قاری کو بھی ہم نوا بنا لیتے ہیں۔ یہ نظم ہر عہد میں مطالعاتی تقاضوں کی حامل رہے گی اور اس کا تاثر فزوں تر ہوتا رہے گا۔

اس نظم کے حوالے سے باقر نقوی کی مختصر رائے حسبِ ذیل ہے:

’’فضاؔ اعظمی نے بھی ’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ لکھنے میں مثنوی کے مروجہ فارم کو اختیار نہیں کیا۔ انہوں نے جان بوجھ کر اس میں دلیرانہ توڑ پھوڑ کی ہے۔ اس مثنوی کو میں پچھلی صدی اور اس صدی کے کئی برسوں کا آشوب کہوں گا۔ اس لیے کہ اس کے ہر مصرعے میں گزرتے ہوئے وقت اور واقعات کا نوحہ کہا گیا ہے اور حالات پر بدعا یا ملامت کی گئی ہے۔ اس میں مجھے وہ امید پوشیدہ نظر آتی ہے جو مجبوروں کو اپنی زنجیریں توڑ کر اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت دلاتی ہے۔‘‘

’’آئینۂ امروز و فردا‘‘ مطبوعہ 2004ء فضاؔ اعظمی کا گیارہواں مجموعۂ کلام ہے جس میں غزلیات و نظمیات اور قطعات و متفرقات شامل ہیں۔ نظموں میں پابند، معریٰ اور آزاد نظمیں شامل ہیں۔ ان کے اشعار عصری بے حسی کے خلاف ایک موخر آواز کا درجہ رکھتے ہیں جن میں عصری اور تنقیدی رویے وفور سے ملتے ہیں۔ نظموں میں انفرادیت گریز پا نظر آتی ہے اور اجتماعیت صحت مند و توانا معلوم ہوتی ہے۔ ایک عالمی شعور ہے جو بین السطور ہے۔ جن سے ان کے عالمی نقطۂ نظر کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ تاریخی و تہذیبی ادراکات عند البیان کارگر نظر آتے ہیں۔

مجموعۂ مذکور کے حوالے سے مبین مرز کے تاثرات قابل ذکر ہیں:

’’زندگی اور اس کے روز مرہ تجربات میں بڑھتی ہوئی یاسیت اور افسردگی کا یہ رد عمل ہے کو فضاؔ اعظمی کے فن میں شگفتگی کے اس عنصر کو راہ دے رہا ہے۔ اصل میں عصری زندگی اور اس کے مسائل و حقائق ان کی توجہ کا مرکز ہمیشہ رہے ہیں اور یہی ان کی شاعری کے بنیادی موضوعات متعین کرتے ہیں۔ ان کے ہاں حقائق، ان حقائق اور مسائل کے خلاف ردِ عمل تو بے شک ظاہر ہوا ہے لیکن اس ردِ عمل میں کبھی زندگی سے مایوسی اور بیزاری کا اظہار وہ نہیں کرتے۔ دیکھا جائے تو ان کا فن لایعنیت کے رد میں شگفتگی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی فکر کو بیان ہمیشہ سنجیدہ پیرائے میں کیا ہے لیکن آج کی زندگی کا تجربہ اس درجہ اعصاب شکن ہے کہ اس کو قابل قبول بنانے کے لیے فضاؔ اعظمی نے ضرورت محسوس کی کہ اس میں شگفتگی سے کام لیا جائے۔ شاید اس لیے کہ انسانی ذہن و دل میں آکسیجن کی مطلوبہ ضرورت ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں  شگفتگی کا یہ عنصر فن میں اس بار نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ گویا اس رویے سے بھی شاعر کے شعورِ زندگی اور اس کے مطالبات کے ادراک کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘

ان کا بارہواں مجموعۂ شعر ’’خوشی کی تلاش میں‘‘ مطبوعہ 2006ء ہے۔ نظمِ معریٰ کی ہیئت کی حامل اس طویل نظم کو مختلف ذیلی عنوانات میں پیش کیا گیا ہے۔ فضاؔ اعظمی نے در اصل اس نظم میں خوشی کو عالمی منشور کے طور پر پیش کرنے کی سعیءِ مشکور کی ہے اور اسے عالمی مصائب و آلام کا مداوا قرار دیا ہے۔ جس میں بنی نوعِ انسان کی فلاح کے بسیط پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے جس میں  بہتر زندگی کی تلاش کا عمل زریں مضمر ہے۔

اس نظم کے حوالے سے فضاؔ اعظمی کی رائے ملاحظہ کریں:

’’آج انسان تباہی و بربادی کے جس ہولناک جہنم کے دہانے پر کھڑا ہے، وہ روایتی علم و فن کی حدود سے بہت آگے کی بات ہے۔ اس کے لیے یقیناً ایسی پروازِ خیال، ایسی الہامی فکر کی ضرورت ہے جو وقتِ موجود کی فہم و دانش، فلسفہ و فن کو پسِ پشت ڈال کر نئے ڈھب سے ان مسائل کے حل کی راہ نکال سکے۔ دوسرے الفاظ میں اس دشوار وادی میں سفر کرنے کے لیے شاعرانہ سرمستی اور آزاد خیال کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس گھمبیر اور اچھوتے نقطۂ نظر کا پرچار کرنے کے لیے میں نے صنفِ شاعری کو ذریعۂ اظہار بنایا ہے۔ اس اعتبار سے اس کاوش کو اولیت کا درجہ حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘

’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ مطبوعہ 2013ء فضاؔ اعظمی کا تیرہواں اور تا حال آخری مجموعۂ شعر ہے جو مسدس کی ہیئت میں ہے۔ جس میں خوشی کو فلسفۂ حیات کے طور پر جدید تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ اس نظم کو مزید ذیلی عنوانات میں منقسم کیا گیا ہے جن میں زندگی کی مختلف حوالوں سے ترجمانی اور نمائندگی کی گئی ہے جس میں خوشی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے جو روحِ رواں کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ اس نظم کے اجتماعی تاثر سے یہ حسیں انکشاف ہوتا ہے کہ بنی نوعِ انسان کے مسائل کا حل اور حقیقی سرشاری و سرمستی کا راز صرف خوشی میں ہی پنہاں ہے۔ اس نظم میں ایک رجائی نقطۂ نظر اختیار کیا گیا ہے جو ہر عہد میں خوش آئند اور مستحسن رہے گا اور یوں اس کی افادیت و فوقیت فزوں تر ہوتی رہے گی۔

اس حوالے سے پیر زادہ قاسم رضا صدیقی کی رائے لائقِ اعتنا ہے:

’’فضاؔ اعظمی کی دو نظمیں ’’خوشی کی تلاش میں‘‘ اور ’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ اس موضوع کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ دیکھا جائے تو خوشی روزِ ازل سے آج تک انسانی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے اور سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر فلسفیوں نے قلم اٹھایا اور دنیا کی مختلف تہذیبوں اور مختلف ادوار میں ال الگ انداز سے نظریات و تصورات کی بنیاد رکھی۔ لیکن یہ موضوع آج بھی اہم ہے بلکہ شاید پہلے سے زیادہ اہم ہے۔ اس کی ضرورت اور اس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے فضاؔ اعظمی نے اس خوشی کی تلاش اور اس کے حصول کی کوشش کو ایک تحریک کے طور پر شروع کرنے کی بات کی ہے یعنی یہ وہ کام ہے جس کے لیے تہذیبی، سیاسی اور سماجی سطح پر مقصد بنا کر جد و جہد کرنی چاہیے۔ اس لحاظ سے وہ اپنی کاوش کو ایک تحریک کا نام دیتے ہیں۔ یہ تحریک کس حد تک چل سکتی ہے، کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے، یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے اور اس کا فیصلہ بھی آنے والا وقت کرے گا البتہ ایک فنکار کی حیثیت سے آج کے انسان کی زندگی کے لیے انہوں نے جو خواب دیکھا ہے، اور جو خواہش کی ہے، وہ یقیناً قابل قدر اور لائقِ تحسین ہے۔‘‘

شذرہ ہٰذا میں فضا اعظمی کے شعری سرمائے کا اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے اور ان کے اب تک شائع ہونے والے تیرہ شعری مجموعوں کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ راقم کی آراء کے علاوہ دیگر ناقدین فن کی آراء بھی شامل کی گئی ہیں جو تنقیدی زاویوں کا حصہ ہیں۔

کتابِ ہٰذا کا مقصدِ اولیٰ فضاؔ اعظم کے کلام کے حوالے سے ان کے تلمیحاتی افق پر روشنی ڈالنا ہے۔ آمدہ شذرات میں اس حوالے سے مفصل انتقادی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔

 

 

 

 

تاریخی تلمیحات کے تناظر میں فضاؔ اعظمی کا سخن

 

قبل ازیں ہم تلمیحات کی اقسام کی تعریفات کے ضمن میں لکھ چکے ہیں کہ ’’تلمیحاتِ تاریخی سے مراد ایسی تلمیحات ہیں جن میں کسی مشہور تاریخی واقعے کو نقل کیا گیا ہو یا اس نسبت سے کوئی اشارہ یا حوالہ دیا گیا ہو۔‘‘

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کہ جو سخن ور تاریخِ عالم کے بسیط مطالعہ و ادراک کا حامل ہو گا، اس کے فحوائے سخن میں تاریخی تلمیحاتی سرمایہ فزوں تر ہو گا۔ اس حوالے سے شاعر کی افتادِ طبع کا کردار کلیدی نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔ علمِ بیان کی روشنی میں صنائع و بدائع کا استخدام سخن گستر کے شعری مزاج کا مرہونِ منت ہوا کرتا ہے لیکن اس حوالے سے موضوعاتی مقتضیات بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ جس سخن دان کی موضوعاتی وسعت جنتی فزوں تر ہو گی، اس کے ہاں مدعا نگاری کا ایک بسیط قرینہ بھی ہو گا۔ تو اس کے ہاں تلمیحاتی شواہد وفور سے پائے جائیں گے کیونکہ علمِ بیاں کے مطابق تلمیحات کا بر موقع استعمال شاعر کی مدعا نگاری کو سہل تر بناتا ہے۔ اور اسے تقویت بھی بخشتا ہے۔ جن اہلِ سخن کی طبعِ شعر تاریخی و تہذیبی، سماجی و ثقافتی، عمرانی اور بین الاقوامی موضوعات سے ہم آہنگ ہو تو اس کے ہاں تاریخی تلمیحات کا سرماۂ وافر ہوتا ہے۔

فضاؔ اعظمی کا کلام اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں کچھ عالمگیر فکری زاویے ملتے ہیں۔ خصوصاً ً ان کی نظم فکری اعتبار سے بین الاقوامی معیار و اعتبار کی حامل ہے۔ وہ تاریخِ عالم کا عمیق مطالعہ رکھتے ہیں۔ قوموں اور تہذیبوں کے نشیب و فراز کو بنظرِ غائر دیکھتے ہیں۔ ان کی نگاہِ ژرف بیں کا کمال یہ ہے کہ ان کے کلام میں ایک عالمی شعور کارفرما نظر آتا ہے۔ اپنی دقتِ نظر کے باعث وہ تاریخ کے اہم حالات و واقعات سے نہ صرف واقفیت رکھتے ہیں بلکہ انہیں اپنے قاری کے لیے بھی پیش کر دیتے ہیں۔ اس لیے ان کی نظم میں تاریخی تلمیحات کا وفور نظر آتا ہے جن کی بدولت تاریخی تناظر تندرست و توانا معلوم ہوتا ہے۔ شذرہ ہٰذا میں ہم ان کے تیرہ مجموعہ ہائے کلام جن کا ذکر ان کی شاعری کے اجمالی تعارف میں بھی آ چکا ہے، صرف تاریخی تلمیحات کے حوالے سے تجزیاتی مطالعہ پیش کریں گے۔ کوشش رہے گی کہ تلمیحات کے پہلو بہ پہلو ان کے دیگر فکری و فنی زاویوں کو آشکار کریں تاکہ ایک جامع تنقیدی تاثر پیدا کیا جا سکے۔ تاہم تلمیح جسے موضوعی اہمیت حاصل ہے، کو مقدم رکھا جائے گا۔ اس طرح موضوع کو فوقیت حاصل رہے گی۔

فضاؔ اعظمی کا اولین شعری مجموعہ ’’جو دل پہ گزری ہے‘‘ جس میں بیشتر غزلیات شامل ہیں، میں سے تاریخی تلمیح کے ضمن میں ان کی غزل کا ایک شعر لائقِ التفات ہے:

رسوائی کسی کی تھی منصور کی حق گوئی

یوں رازِ محبت کے کہنے کی سزا پائی

شعرِ ہٰذا میں شاعرِ موصوف نے تاریخی تلمیح کا التزام فکری حوالے سے ایک فلسفیانہ قرینے سے کیا ہے جس سے ان کی پیشکش کا انداز عمیق حسیاتی اشارہ ثابت ہوا ہے۔ اس طرح ان کا نقطۂ نظر سامنے آ گیا ہے۔ چنانچہ ان کے پیرایۂ شعر میں جدت و ندرت کا رنگ نمایاں ہوا ہے۔

مذکورہ بالا شعر میں منصور کی جو تاریخی تلمیح استعمال کی گئی ہے، اسے کچھ شعرا نے حلاجیت کے طور پر بھی باندھا ہے۔ اگر جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اہلِ عرب کی تلمیح ہے کیونکہ اس تلمیح کی جنم بھومی خطۂ عرب ہے۔ بعد ازاں اس تلمیح کو فارس اور ہند کے شعرا نے بھی اپنے کلام میں برتا۔ منصور جس کا اصل نام حلاج بن منصور تھا، سے ایک مشہور تاریخی واقعہ منسوب ہے۔ حلاج بن منصور تصوف سے وابستہ ایک شخص تھا جسے اہلِ تصوف اپنا پیشوا بھی مانتے ہیں، ایک سالک کی طرح انہوں نے فنا فی الذات، فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے مدارج طے کرنے کے بعد انا الحق کا نعرہ لگا دیا تھا جسے اہلِ تصوف نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا مگر پاسبانِ شریعت نے اسے زندقا اور بدعت قرار دیتے ہوئے اسے گردن زنی ٹھہرایا۔ یوں پسِ قتل وہ اہلِ تصوف کے ہاں مشاہیرِ عشق کا سرخیل قرار پایا اور شعرا نے ایک شعارِ جرات و بے باکی اور بعد میں اسے حق گوئی کا قرینہ قرار دیا۔ اس سلسلے میں ایک افسانہ بھی مشہور ہے جس کا اجمال کچھ یوں ہے۔ منصور نے جب صدائے انا الحق بلند کی تو وہ مرتد قرار پایا اور تنبیہ کے باوجود جب وہ اپنے نعرے پر نظر ثانی کرنے پر تیار نہ ہوا تو اسے سزائے موت دے دی گئی چنانچہ اسے پھانسی دی گئی اور اس کی لاش کو جلا دیا گیا۔ اس پر بس نہیں کیا گیا بلکہ اس کی خاک کو سمندر برد کر دیا گیا۔ زور دار طوفان آیا۔ حلاج بن منصور کی راکھ کا ذرہ ذرہ جہاں پہنچا، وہاں سے انا الحق کی صدا بلند ہونے لگی۔ اس طرح عوام و خواص پر حلاج بن منصور کا برحق ہونا باور ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علمائے کرام نے اس کے موقف کے ظاہر پر غور کیا تھا اور اس کے باطنی معنی سے غافل رہے تھے۔ اہلِ تصوف کا یہ موقف ہے کہ شریعت ظاہر پر مکلف ہے، جبکہ اہلِ تصوف اس کے باطن پر عمل پیرا ہیں۔

فضاؔ اعظمی کا دوسرا مجموعۂ کلام ’’کرسی نامۂ پاکستان‘‘ ہے جسے موضوعاتی اعتبار سے پاکستان کی گزشتہ پچاس سالہ تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اس نظم کا ایک بند نذرِ قارئین ہے:

شبستانِ حکومت ملیں عوامی انقلاب آیا

بنامِ حاکماں پیغامِ شوریدہ سراں آیا

اتارو تاج اپنے تخت چھوڑ سر جھکاؤ سرنگوں ہو کر

سوئے بیرک روانہ ہو

یہ سیلابِ عوامی ہے

بہا لے جائے گا تم کو

یہ آتش، آتشِ نمرود ہے تم کو جلا کر خاک کر دے گی

کہ تم موسیٰ نہیں ہو بلکہ غاصب ہو امانت کے

یہاں  چند صحت مند تنقیدی انحرافات بھی ناگزیر ہیں مثلاً یہ مصرع ’’اتارو تاج اپنے، تخت چھوڑو، سر جھکاؤ، سر نگوں ہو کر‘‘ میں غیر ضروری تکرارِ لفظی پائی جاتی ہے جو علمِ بیاں کی روشنی میں غیر مناسب ہے۔ اگلے مصرع میں ’’سوئے بیرک روانہ ہو‘‘ میں انگریزی لفظ کی طرف اضافت نادرست اور خلافِ قاعدہ ہے۔ مصرع ’’یہ آتش، آتشِ نمرود ہے تم کو جلا کر خاک کر دے گی‘‘ میں محاورے کا غلط التزام کیا گیا ہے جبکہ محاورے کی اصل صحت ’’جلا کر راکھ کرنا‘‘ ہے۔ اس مصرع کی نسبت سے ’’جلا کر راکھ کر دے گی‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’’آتشِ نمرود‘‘ تو اہلِ باطل نے اہلِ حق کو جلانے کیلئے جلائی تھی۔ اسے عوام کی طرف سے جلانا، جمہوریت کو ’’نمرود کی جلائی ہوئی آگ ’’ اور ’’غاصب‘‘ کو موسیٰ قرار دینے کے مترادف ہے۔ یہاں تلمیح کا استعمال نہایت غیر حقیقی اور غیر منطقی طور پر کیا گیا ہے۔ یہاں ایک اور فاش غلطی بھی موجود ہے۔ مصرع ’’کہ تم موسیٰ نہیں ہو بلکہ غاصب ہو امانت کے‘‘ میں آتش نمرود کی نسبت حضرت موسیٰ ؑ سے جوڑ دی گئی ہے جبکہ آتش نمرود پیغمبرِ خدا حضرت ابراہیمؑ کو جلانے کے لیے بھڑکائی گئی تھی۔ یہاں حضرت موسیٰ کا تذکرہ خلاف واقعہ ہے اور شاعر کی تاریخ سے لاعلمی کا اظہار ہے۔

نظم کے اس مختصر حصے میں جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کی یاد تازہ کی گئی ہے۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے عوامی دور کا مذکور ہے۔ فکری اعتبار سے جذبات و احساسات کے تموج کی فضاؔ ہے۔ پیرایۂ اظہار کا انداز بھی انقلابی اور مزاحمتی اہمیت کا حامل ہے۔ نظم کے اس بند کے آخری دو مصرعوں میں ’’آتشِ نمرود‘‘ اور ’’موسیٰؑ‘‘ کی دو تاریخی تلمیحات کا انصرام پایا جاتا ہے۔ اگر تلمیحاتی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ تلمیحات تہری حیثیت کی حامل ہیں یعنی تاریخی، شخصی اور کتبِ آسمانی کی تلمیحات کی نسبت ان سے جڑی ہوئی ہے۔ ’’سوئے بیرک روانہ ہو‘‘ میں ایک عسکری نوعیت کا حوالہ مضمر ہے کیونکہ عساکر بیرکوں میں  رہتے ہیں یا عساکر کا مسکن بیرک ہوا کرتے ہیں۔ یہ ایک عسکری نوعیت کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ بندِ ہٰذا میں جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کی بساط لپٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور بھٹو کے بھرپور عوامی دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ عوامی طاقت کے غلبے کے اظہار کے لیے اس کے جوش و جذبے کی شدت و حدت کی نمائندگی کے لیے آتشِ نمرود کی تلمیح استعمال کی گئی ہے۔ آتشِ نمرود کی تلمیح کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کی بت شکنی کی پاداش میں نمرود نے آگ تیار کرائی تھی تاکہ حضرت ابراہیمؑ کو اس میں ڈال کر جلا دیا جائے۔ چونکہ اس آگ کا اہتمام بڑے پیمانے پر کیا گیا تھا، اور یہ ایک اہم تاریخی واقعہ بھی ہے، اس لیے آتشِ نمرود کو تاریخی تلمیحی حیثیت حاصل ہے۔ آتشِ دوزخ کے بعد شدتِ حدت کی نسبت سے آتشِ نمرود کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ بند کے آخری مصرع میں موسیٰ کی تلمیح برتی گئی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ تاریخ میں اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے۔ یہاں موسیٰ ؑ کی تلمیح جنرل یحییٰ کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ دونوں تلمیحات مجازی معنوں میں استعمال کی گئی ہیں۔

فضاؔ اعظمی کا کمالِ فن یہ ہے کہ ان کی نظم کا یہ بند خود میں ایک بھرپور نظم کا درجہ رکھتا ہے۔ ابتدائیہ سے قبل اور اختتامیہ کے بعد ایک عمدہ نوعیت کے کلائیمکس کی حاشیہ آرائی ہے جس سے بند کی شعریت بھی اجاگر ہوئی ہے اور شاعر کا فن خطابت بھی آشکار ہوا ہے۔ خطابت کے حوالے سے معروف شاعر جوش ملیح آبادی کی یاد تازہ ہو گئی ہے جن کا کلام سراپا خطابت تصور کیا جاتا ہے۔ بند کا اختتام دو خوبصورت اور تاریخی نوعیت کی تلمیحات پر ہوتا ہے جس سے شاعر کی تلمیحاتی چابکدستی عیاں ہوتی ہے۔

ان کے دوسرے شعری مجموعہ ’’کرسی نامۂ پاکستان‘‘ سے ایک اور بند لائقِ التفات ہے۔

یکایک قید سے چھوٹے تو ششدر تھے

بہت کم تھے کہ جن کی سوچ مثبت تھی

کوئی کھویا ہوا تھا زندگی کے گوشواروں میں

کہ ان سنگین سالوں کا مداوا چاہتا تھا وہ

حکومت ہاتھ میں آئی تو ہنگامہ ہوا برپا

بسوئے شجرِ ممنوعہ رواں ہونے کے دن آئے

بندِ مذکور کا تاریخی و سیاسی پسِ منظر یہ ہے کہ یہ تاریخ کا وہ دور ہے جب ضیاء الحق کی حکومت ختم ہوئی اور بے نظیر کا دورِ حکومت آ گیا۔ ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے جو عہدیداران اور کارکنان قید و بند کی صعوبتوں میں تھے، سیاسی قیادت کی تبدیلی کے باعث انہیں زنداں سے رستگاری میسر آئی تھی۔ شاعر نے یہاں تنقیدی رویہ بھی اختیار کیا ہے جو صحت مند غیر جانبداری کا مظہر ہے۔ وہ تنقیدی زاویہ یہ ہے کہ جو لوگ قید سے رہا ہوئے ان میں بہت ہی کم لوگ تھے جن کی سوچ مثبت تھی۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اسیری کی زندگی کا ازالہ چاہتے تھے۔ اس حوالے سے وہ کسی معقول صلہ یا مداوا کے خواہستگار تھے۔ حکومت ان کے ہاتھ میں آئی تو ایک بہت بڑا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ قبل ازیں قیادت ان کے لیے ایک شجرِ ممنوعہ کے بمصداق تھی۔ عوامی اور سیاسی طاقت حاصل ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس شجرِ ممنوعہ کی طرف پیش رفت کی۔ بندِ مذکور میں ’’شجرِ ممنوعہ‘‘ کی تلمیح کا استعمال انتہائی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ تلمیح ہٰذا دوہری اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اسے کتابِ آسمانی کی تلمیحات کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے اور تاریخی حوالے کی حامل بھی ہے۔

ان کے چوتھے مجموعۂ کلام ’’تری شباہت کے دائرے میں‘‘ سے تاریخی تلمیح کی نسبت سے ایک شعر پیشِ خدمت ہے:

وہ وقت تھا کچھ اور جب انسان بڑا تھا

اس دورِ ترقی میں ابو الہول بڑا ہے

شعرِ مذکور میں  شاعرِ موصوف نے بنی نوعِ انسان کی عظمتِ رفتہ کے حوالے سے بات کی ہے۔ ان کا پیرایۂ شعر جہاں تاریخی ہے، وہاں تنقیدی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ اور اس شعر میں عصرِ حاضر پر بھرپور طنز بھی کی گئی ہے۔ مذکورہ بالا شعر کے مصرع ثانی میں ’’ابو الہول‘‘ کی تاریخی تلمیح کا استعمال بڑے خوب صورت قرینے سے کیا گیا ہے۔ ابو الہول کا تعلق اہرامِ مصر سے ہے جس کے حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عورت کی شبیہ کا ایک مجسمہ ہے جسے اظہارِ حسن، اظہارِ خوف اور اظہارِ طاقت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس تلمیح کو تہری اہمیت حاصل ہے کیونکہ ابو الہول قدیم اساطیر کا حصہ بھی ہے۔ مکانی اور تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔

فضاؔ اعظمی کے پانچویں مجموعۂ شعر ’’عذابِ ہمسائے گی‘‘ جو پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں ہے، میں سے ایک بند لائقِ توجہ ہے:

اگر طالب کہیں بدھا کا بت مسمار کرتا ہے

تو سنگھی بابری مسجد گرا کر شاد ہوتا ہے

یہ دونوں اختلافاتِ عقائد کو کہاں برداشت کرتے ہیں

یہ دونوں کور چشمی میں برابر ہیں

یہ دونوں ہی مریضِ نفسیاتی ہیں

بندِ مذکور فکری اعتبار سے دوہری مقصدیت کا حامل ہے جہاں عقائد کے اختلافات کی بدولت مذہبی عداوتوں کا مذکور ہے۔ وہاں مذہبی رواداری کا بالواسطہ درسِ زریں بھی بین السطور ہے۔ یہاں بدھا کو تاریخ تلمیح کے طور پر باندھا گیا ہے جو ایک تاریخی شخصیت ہو گزری ہے اور جسے مذہبی پیشوا ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس کے پیروکار اس کے بت بنا کر اس کی پرستش کرتے ہیں جو مہاتما بدھ یا گوتم بدھ کے نام سے مشہور ہے۔

فضاؔ اعظمی کا تلمیحاتی حوالے سے قرینۂ فن یہ ہے کہ ان کے ہاں تلمیحات کا انصرام فطری اور غیر شعوری طور پر ہوا ہے۔ جس سے ان کے کلام کی فطری لطافتیں دوبالا ہو گئی ہیں۔ یہی کیفیت مذکورہ بالا بند میں بھی کارفرما ہے۔

اسی تلمیح کے استعمال کا اعادہ ’’عذابِ ہمسائے گی‘‘ کے ایک اور بند میں نئے رنگ اور نئے انداز میں ملاحظہ کریں۔

کرو تم یاد اس دن کو کہ جب تم نے

دھماکہ ایٹمی بم کا کیا تھا اپنے صحرا میں

دیا تھا نام اس کو بدھ کے تبسم کا

اور اس صورت سے تم نے جوہری یُدھ کی بِنا ڈالی

علاقے پر مسلط کر دیا سکراتِ پیہم کو

اس بند کا تخاطب بھارتی قیادت ہے۔ ان کے ایٹمی دھماکے اور جوہری طاقت کے حوالے سے بات کی گئی ہے اور جغرافیائی طور پر خطے میں خوف و ہراس کی صورتِ حال کو بیان کیا گیا ہے۔

فضاؔ اعظمی کے چھٹے مجموعۂ کلام ’’آوازِ شکستگی‘‘ جسے عالمی تہذیبوں کے دل گداز نوحے اور مرثیے کی حیثیت حاصل ہے، میں سے ایک بند زیبِ قرطاس ہے:

مظالم توڑ کر اپنے غلاموں پر

برہنہ پشت ہائے خوں چکاں پر آگ برسا کر

کیے تعمیر فرعونوں نے اہرامِ گراں مایہ

کہ جن سے عقلِ انسانی محیر ہے ہراساں ہے

مگر جو در حقیقت کارنامے ہیں تھکے ہارے غلاموں کے

کہ جن کے نام سے تاریخ ناواقف ہے، خالی ہے

بند ہٰذا میں میں شاعرِ مذکور نے مصری تہذیب جسے دنیا کی قدیم تہذیب کی حیثیت حاصل ہے، کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ اس کے غیر انسانی اور بہیمانہ مظالم کو بے نقاب کرنے کی سعی مشکور کی ہے۔ قاری اس بند کو پڑھنے سے قدیم مصری تہذیب کے ماحول میں چلا جاتا ہے۔ یہاں شاعرِ موصوف نے تاریخی حوالے سے بھی کامیاب تنقیدی رویہ اختیار کیا ہے جو شاعر کی غیر جانبداری اور انصاف پسندی کی علامت ہے۔ اس بند میں اہرامِ مصر کی نسبت اہرامِ گراں مایہ کی تلمیح و ترکیب استعمال کی گئی ہے اور یہ تلمیح دوہری حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں  تاریخی حوالہ ہے، وہاں نسبتِ مکانی تلمیح بھی ہے۔ شاعر نے اپنے نقطۂ نظر اور حقیقت پسندی کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اہرامِ مصر کی تعمیر کی عدم مقصدیت اور لایعنیت کو تہذیبی تفاخر کے لبادے میں انتہائی کامیابی سے پیش کیا ہے۔

’’آوازِ شکستگی‘‘ میں سے ایک اور بند قابل ذکر ہے۔

اگر جلیانوالہ باغ میں انگریز غارت گر

نہتے بھاگتے انسانوں پہ مہلک وار کرتا ہے

بزرگوں بچیوں کو، عورتوں کو قتل کرتا ہے

تو یہ ہے فعل ڈائر کا

نہ اس کا دین سے عیسائیت سے کچھ تعلق ہے

نہ یہ افرنگ کی تاریخ کا ناپاک حصہ ہے

اس بند میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کے ایک انسانیت سوز واقعے کی ایک تاریخی تلمیح کارفرما ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب جنرل ڈائر نے جلیانوالہ باغ میں نہتے مسلمانوں پر گولی چلا کر سیکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، تاریخ میں جلیانوالہ باغ کے نام سے مشہور ہے۔ فکری اعتبار سے شاعر نے جہاں اپنی انسانی ہمدردی کا اظہار کیا ہے، وہاں انصاف کے تقاضے بھی نبھائے ہیں اور تنقیدی پیرایۂ اظہار اختیار کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ استعماری طاقتوں نے انسانیت پر بے انتہا ظلم و ستم کیے ہیں۔ بڑی قیادتوں کے ہاں انصاف اور انسانی ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر وہ کوئی جبر و جور کا مظاہرہ کریں تو اسے کسی فردِ واحد سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اگر مسلمانوں کی طرف سے کوئی زیادتی ہو تو اسے مذہب کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے۔ یہ بند فکر انگیز نوعیت کا حامل ہے جس میں تاریخی چیرہ دستیوں کا ذکرِ قبیح ہے۔

’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ فضاؔ اعظمی کا آٹھواں مجموعۂ کلام ہے جو ایک طویل نظم پر مشتمل ہے جس میں اجتماعی انداز میں بنی نوعِ انسان کے اخلاقی، مذہبی اور تہذیبی زوال کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔

تاریخی تلمیح کی نسبت سے ایک شعر پیشِ نظر ہے:

کون سے دور میں چنگیز صف آرا نہ ہوا؟

کب ہلاکوں نے زمانے کو نہ تاراج کیا؟

در اصل تاریخ حیاتِ انسانی کے طویل سفر کی روداد سے عبارت ہے اور انسانی افعال کے حسن و قبح کو پیش کرتی ہے جس سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ مذکورہ بالا شہر میں بھی تاریخ کے دو معروف کرداروں کا حوالہ دیا گیا ہے جن کو دنیا چنگیز خان اور ہلاکوں خان کے نام سے جانتی ہے جنہوں  نے دنیا کے مختلف خطوں پر حکومت کی اور ظلم و بربریت کی لازوال داستانیں چھوڑیں۔

چنگیز خان اور ہلاکو خان کی تاریخی تلمیحات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں جنہیں اردو شعرا نے جبر و جور اور دہشت و وحشت کی علامت کے طور پر برتا ہے۔ اسی قرینے کو فضاؔ اعظمی نے بھی بخوبی نبھایا ہے۔

ان تلمیحات کو ایک اور مقام پر انہوں نے ایک نئی فکری زاویے کے ساتھ باندھا ہے۔ اسی تناظر میں دو اشعار نذرِ قارئین ہیں۔

لوک شاہی کی عبا جبر و تشدد کا مزاج

کل کے چنگیز سے مہلک ہے نمائندہ حکومت کا راج

سامنے اس کے ہلاکو کا ہے زانوئے ادب

شاہِ افرنگ کے آگے وہ ہے طفل مکتب

مذکورہ بالا دو اشعار میں جہاں چنگیز و ہلاکو کی تاریخی تلمیحات کا استخدام ہوا ہے وہاں عصری قیادتوں کو طنز و تنقید کی بدولت راہنمائی کا پہلو بھی فراہم کر دیا گیا ہے جس سے ان کے انسان دوست شاعر ہونے کے تاثر کو مزید تقویت ملی ہے اور عالمی استعماری و استحصالی طاقت کی فسطائی بالادستی کو بے نقاب کیا گیا ہے جسے کلبۂ جبر و فساد کی حیثیت حاصل ہے۔

مثنوی مذکور میں تلمیحی حوالے سے ایک شعر حسبِ ذیل ہے:

فیصلہ اہلِ تفکر کا کہ آزاد ہے کون؟

کون مجبور ہے ابلیس کا ہمزاد ہے کون؟

شعرِ ہٰذا میں شاعر نے استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے جو بھرپور استفساریہ کا حامل ہے اور ایک فکر انگیز اشاریہ ہے جس میں مسئلہ جبر و قدر کی کارفرمائی ہے۔ قدری عوامل کی نسبت جبری عناصر کو بالادستی حاصل ہے۔ پیشکش کا انداز اتنا بصیرت آمیز ہے کہ جذبات و احساسات کی شدت و حدت فزوں تر ہو ئی ہے۔ یوں شعر کی گرفت قاری پر قوی تر ہو گئی ہے جس کی قرات سے قاری کے حواس مستعدی سے کام ہم کنار ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے سرسری گزر جانے کا اذن معدوم ہو جاتا ہے۔ ابلیس ایک ایسی تاریخی تلمیح ہے جس سے ہر نوع کی برائیاں، خباثتیں اور قباحتیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ فکر کا یہی زاویہ اسے جامعیت سے ہم کنار کرتا ہے۔ شعرائے کرام کے ہاں اس کے متبادل کے طور پر اہرمن کی تلمیح بھی برتی جاتی ہے جس کا جغرافیائی اعتبار سے اہلِ فارس سے تعلق ہے جسے تاریخی حیثیت بھی حاصل ہے۔ کیونکہ زرتشتی مذہب میں خدا کا تصور دوہریت کا حامل ہے۔ ایک کو یزداں کہا جاتا ہے، جس سے تمام تر خیر کے معاملات وابستہ کیے جاتے ہیں جبکہ دوسرے کو اہرمن کہا جاتا ہے جسے تمام تر منفی معاملات کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، اس لیے اسے ابلیس کی متبادل تلمیح کے طور پر بھی شعر کے پیمانے میں باندھا جاتا ہے۔

نور برساتے ہوئے نور کے شہ پر آئے

اسوۂ حسنہ کے آئینہ و مظہر آئے

عیسیٰ و موسیٰ و ہارون و براہیم کے بعد

نوعِ انساں کے لیے شافعِ محشر آئے

مثنوی زوالِ آدم کے ان دو اشعار میں اسوۂ حسنہ، عیسیٰ و موسیٰ و ہارون و براہیم اور شافعِ محشر کی تاریخی تلمیحات کا اہتمام پایا جاتا ہے۔ یہ تلمیحات دوہری حیثیات رکھتی ہیں۔ انہیں بیک وقت تاریخی و شخصی تلمیحات کے زمروں میں رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن تاریخی حیثیت مقدم ہے اور شخصی اعتبار ثانوی درجہ رکھتا ہے۔ شعرِ اولیٰ میں اسوۂ حسنہ کی نسبت سے حضرت محمدﷺ کی بات کی گئی ہے اور شافعِ محشر کی تلمیح بھی حضرت محمدﷺ کے حوالے سے لائی گئی ہے۔ ان تلمیحات کے ضمن میں خالقِ موجودات و معدومات کے پانچ جلیل القدر انبیائے کرام کا مذکورِ پر نور موجود ہے۔

عالمی آشوب کے تناظر میں فضاؔ اعظمی نے چنگیز کی تاریخی تلمیح کے وفور سے برتا ہے اور ہر بار فکری اعتبار سے ایک نیا قرینہ آشکار ہوا ہے جس کی بدولت تاریخ کے تاریک ابو اب کی صحیح تر نمائندگی اور ترجمانی ہوئی ہے۔ اسی حوالے سے ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے چند اشعار بطور تمثیل پیشِ خدمت ہیں:

ہر صدی دوسری صدی سے ہے زیادہ خوں چکاں

تب کے چنگیز سے خوں خوار ہے اب کا چنگیز

کل کا چنگیز تو لڑتا تھا بہ شمشیر و سناں

اب کے چنگیز کے ہاتھوں میں ہے ایٹم کا دھواں

کل کے چنگیز سے محفوظ تھے معصوم عوام

اب جھلس دیتا ہے شہروں کو امیر الاقوام

آج چنگیز بھی زندہ ہو تو شرما جائے

ظلمِ امروز کو دیکھے تو پسینہ آئے

فضاؔ اعظمی کا کلام انسانیت آمیز اور انسانیت آموز اس لیے ہے کہ انہوں نے تاریخِ عالم کے خون آشام مناظر کو منظوم کر کے انسانی ہمدردی کے جذبات اجاگر کرنے کی سعیِ جمیل کی ہے۔ اگر اعلیٰ افادی مقاصد کو مدِ نظر رکھا جائے تو وہ اس کاوش میں بھرپور انداز میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے مختلف تہذیبوں کا شعری پیرایۂ اظہار میں منظوم منظر نامہ پیش کیا ہے۔ اس لیے ان کے ہاں  تاریخی تلمیحات کا استعمال وفور سے ملتا ہے۔ اسی نسبت سے ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے تین اشعار ہدیۂ قارئین ہیں:

رزمِ چنگیز ہو یا معرکۂ دار و صلیب

یورشِ لشکرِ تیمور سرِ وادیِ سندھ

نادری تیغ سے جھنکار سے سہمے ہوئے دل

بابری فوج کی ٹاپوں کے تلے گنگ و جمن

غزنوی شہر میں لوٹی ہوئی دولت کے مزار

ان کے اندر سے نکلتی ہوئی بے بس جھنکار

اگرچہ مندرجہ بالا پہلے دو اشعار مثنوی کی ہیئتی اٹکل پر پورے نہیں اترتے، مگر مذکورہ اشعار میں چنگیز، تیمور، نادری اور بابری جیسی تاریخی تلمیحات ملتی ہیں۔ تیسرے شعر میں غزنوی کی تلمیح استعمال کی گئی ہے۔ ان تلمیحات کو شخصی تلمیحات کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے اور تاریخی حوالہ کے لحاظ سی تاریخی تلمیحات کے زمرے میں بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔

ایک اور شعر میں ہٹلر جو اٹلی کا حکمران تھا، جو ظلم و بربریت کا ایک حوالہ تھا، کی تاریخی تلمیح کا انتظام فضا اعظمی نے یوں کی ہے لیکن مثنوی کے ہیئتی تقاضے نبھانے سے قاصر رہے ہیں:

ہٹلری مقتل مسموم کی تصویر دکھاؤ

بے اماں قومِ یہودی سرِ مذبح ششدر

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ ان کا دسواں شعری مجموعہ ہے جس میں خیر و شر کی قوتوں کا انتقادی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ نظم فکری اعتبار سے بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے جس میں عالمی استعماری اور فسطائی طاقتوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ نظمِ ہٰذا انسانیت آمیز افکار کی حامل ہے۔ خیر کی قوتوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور شر کی مذمت کی گئی ہے۔ لعنت و ملامت اور بددعا بھی دی گئی ہے۔

عذاب ان بد دیانت بدنیت نامہ نگاروں پر

جو اس منہ بولتے نکتے پہ پردہ ڈال دیتے ہیں

کہ ہٹلر داعیِ اسلام تھا اور نہ مسولینی

وہ چرچل ہو کہ ٹوجو ہو کہ ہو وہ صدرِ امریکہ

یہ سب تہذیبِ مغرب کے نمائندہ جیالے ہیں

پہلا اور دوسرا شعر مثنوی کے ہیئتی اعتبار پر پورا نہیں اترتا۔ شعرِ اول اور شعرِ آخر موضوعاتی تاثر کو واضح کرنے کے لیے شامل کیا گیا ہے جبکہ شعرِ ثانی میں تاریخی تلمیحات کے طور پر تین شخصیات کا مذکور ہے۔ ہٹلر اور مسولینی سابقہ اٹلی کے حکمران تھے جبکہ چرچل کا تعلق سلطنتِ برطانیہ سے تھا جو نو آبادیاتی ہندوستان کے وزیرِ تعلیم تھے جن کا پورا نام سر ونسٹن چرچل تھا۔ شعرِ اول میں صحافت کے ٹھیکیداروں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے جن کی صحافت حقیقت نگاری کے وصف سے عاری ہے جو ہٹلر، مسولینی اور چرچل کی اسلام دشمنی کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ یہ سب مغربی تہذیب کے سفاک نمائندے تھے۔ ان تینوں ناموں کو شخصی تلمیحات کے زمرے میں بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن ان کا تاریخی حوالہ زیادہ معتبر نوعیت کا حامل ہے۔

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے ایک اور شعر ہدیۂ قارئین ہے:

ثبوت اپنی بد اطواری کا اور بے جا تعصب کا

رسولِ پاک کی توہین کی صورت میں دیتے ہیں

اگرچہ فضاؔ اعظمی کے بہت سے اشعار مثنوی کے ہیئتی تقاضوں کا ساتھ دینے سے گریزاں ہیں مگر ان کی مقصدیت کو فوقیت حاصل ہے۔ شعرِ مذکور میں رسول اللہﷺ کی تاریخی تلمیح کو برتا گیا ہے اور منکرانِ رسول کی مذمت کی گئی ہے۔ ان کے قبیح اعمال کو بے نقاب کیا گیا ہے۔

فضاؔ اعظمی اسلام دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں کا عمیق ادراک رکھتے ہیں اور یہی شعور امتِ مسلمہ کو دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ذیل میں ایک شعر ملاحظہ کریں جس میں مثنوی کے ہیئتی تقاضوں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔

نظامِ مصطفیٰ کا نام لے کر کفر پھیلایا

جنہوں نے انتخابی دھاندلی کے شاخسانے سے

شعرِ مذکور میں نظامِ مصطفیٰ کی تاریخی تلمیح برتی گئی ہے جو عہدِ نبوی کی آئینہ دار ہے اور مکمل اسلامی نظامِ حیات کی پاسدار ہے۔ جسے سراپا اسلام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

عذاب ان حکمرانوں پر عذاب ان کج کلاہوں پر

جنہوں نے قائدِ اعظم کے مسلک کے حوالے سے

انہوں نے جو بنائے ان نمائندہ اصولوں پر

لگائی ضرب کاری اور حلیہ مسخ کر ڈالا

ان دو اشعار میں بھی مثنوی کے ہیئتی تقاضوں کو بالائے طاق رکھا گیا ہے۔ شعرِ اول کے مصرع ثانی میں  قائدِ اعظم کی تاریخی تلمیح کا التزام پایا جاتا ہے۔ دوسرے شعر کو فکری تاثر کی تکمیل کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بابائے قوم کے اصولوں سے روگردانی کرنے والے قائدین حکومت کے لیے بددعا کا تاثر پیش کیا ہے جو ایک حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے اور قائد سے بے پایاں محبت و عقیدے کا اظہار بھی ہے۔ کسی بھی شاعر کے اس نوع کے افکار قاری کے دیش بھگتی جذبے کو تقویت بخشتے ہیں جو ہر عہد کا عصری تقاضا بھی رہا ہے۔

عذاب ان راہِ حق سے منحرف آوارہ جانوں پر

صدی اکیسویں کے ان ابو الہول دماغوں پر

اس شہر میں  منکرانِ اسلام کے حوالے سے عذابِ خداوندی کی التجا کی گئی ہے اور انہیں شیطان سے منسوب کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کے دماغ شیطانیت کی پیداوار ہیں۔ ابو الہول کی تاریخی تلمیح ابیلیسی تناظر میں ہے۔

فضاؔ اعظمی فکری اور نظریاتی اعتبار سے ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ اس لیے ان کا فکری کینوس بھی اسلامیت آمیز اور انسانیت آموز ہے۔ اس لیے وہ حبدارِ رسول بھی ہیں اور طرف دارِ اصول بھی ہیں۔ وہ اسلامی فلسفہ، اسلامی تشخص اور مبادیاتِ اسلام کو مقدم و مستحسن سمجھتے ہیں۔ ان کے افکار میں ملتِ اسلامیہ کا فزوں تر درد پایا جاتا ہے۔ ان کے دروں میں امتِ مسلمہ کے حوالے سے ایک تڑپ موجود ہے۔

اور اس کے رحمت اللعالمینی فلسفے کی مرکزیت کو

گھٹا دیتے ہیں اس درجہ بھلا دیتے ہیں اس حد تک

کہ اسلامی تشخص کا نشاں دنیا سے مٹ جائے

کہ بنیادی تصور دین کا برباد ہو جائے

مذکورہ بالا دو اشعار میں بھی مثنوی کے ہیئتی تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ شعرِ اول میں رحمت اللعالمینی فلسفے کا مذکور ہے جس کی تاریخی حیثیت مسلمہ و مصدقہ ہے۔ یوں اسے تاریخی تلمیح کا اعتبار حاصل ہے۔ شعرِ ثانی فکری تاثر کی تکمیل کے لیے منقول ہے۔

’’آئینۂ امروز و فردا‘‘ فضاؔ اعظمی کے گیارہویں مجموعۂ کلام کی نظم ’’یہ واقعہ کچھ نیا نہیں ہے‘‘ میں سے تین اشعار تاریخی تلمیحات کی ذیل میں درج ذیل ہیں۔ شعرِ ثالث مثنوی کے ہیئتی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔

شعرِ اول میں تاتاریوں اور منگول کی تلمیحات استعمال ہوئی ہیں۔ شعرِ دوم میں ہٹلر، قیصر، دارا اور سکندر کی تلمیحات کا استخدام ہوا ہے۔ شعرِ سوم میں اکبر، بابر اور کسریٰ کی تلمیحات کا استخدام ہوا ہے۔ تاریخی تلمیحات کا یہ بسیط سلسلہ تاریخ و تہذیب کے وسیع کینوس کا غماز ہے۔ اگر عمیق فکری تناظر میں دیکھا جائے تو ان میں کائنات کی بے ثباتی کا مذکور ہے اور بات اس منطقی نقطے پر مرکوز ہوتی ہے کہ ہر زوال را کمال، ہر کمال را زوال کسی کو دوام یا ثبات حاصل نہیں ہے۔ بڑی عظیم الشان سلطنتیں ملیامیٹ ہو گئیں۔ بڑے ہیبت کے کردار نیست و نابود ہو گئے۔ ہر کسی نے اپنی حقیقت اور اصل کی طرف مراجعت کرنی ہے۔

نظم ’’یہ دنیا اور ہی کچھ ہے‘‘ میں سے ایک شعر لائقِ التفات ہے۔

یہ دنیا وہ نہیں جو آدم و حوا کا مہبط تھی

جو نامعلوم بشریت کا دشتِ بے نہایت ہے

شعرِ ہٰذا میں جہاں آدم و حوا کی تاریخی تلمیحات کا انصرام ہوا ہے، وہاں دو کائناتی تصورات کا اہتمام بھی ملتا ہے جسے قدیم و جدید کے زمروں کا حامل کہا جا سکتا ہے۔ سنسار کے تغیرات کو پیش کیا گیا ہے۔ شاعر نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ وہ دنیا نہیں جہاں آدم و حوا کو بہشت سے اُتارا گیا تھا جو غیر دریافت شدہ بشریت کا دشتِ بے کنار تھی جبکہ عصرِ حاضر میں جہانِ ادراکات میں انقلابات بپا ہو چکے ہیں۔ یہاں شاعر کا تخیلاتی کینوس فلسفیانہ اور عمیق حسیاتی نوعیت اختیار کر گیا ہے۔

فضاؔ اعظمی کے بارہویں شعری مجموعہ ’’خوشی کی تلاش میں‘‘ سے ایک شعر پیشِ نظر ہے۔

فوجِ نمرود نے شعلوں کا سجایا بستر

چومکھی کاٹ پہ مامور ہوئی فوجِ صلیب

شعرِ ہٰذا میں نمرود کی تاریخی تلمیح کارفرما ہے۔ نمرودی سپاہ کی بربریت بیان کی گئی ہے۔ صلیبی یا مسیحی فوج کی قتل و غارت کو بھی واضح کیا گیا ہے۔

’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ ان کا تیرھواں مجموعۂ شعر ہے جس میں سے ایک بند زیبِ قرطاس ہے:

نزولِ آدمِ خاکی میں ایک حکمت ہے

اسے جہان میں فکر و عمل پہ قدرت ہے

بشر ہے اپنے سیاہ و سفید کا مالک

اسے الہ سے انکار کی اجازت ہے

اسی کے واسطے یومِ حساب آنا ہے

اس امتحان کا پھر فیصلہ سنانا ہے

مسدس کے اس بند میں فضاؔ اعظمی نے آدمِ خاکی کی تاریخی و ترکیبی تلمیح کا انتظام کیا ہے اور مسئلہ جبر و قدر کے قدرتی پہلو کو صحت مند و توانا انداز میں اجاگر کیا ہے اور مسئلہ جبر و قدر کے قدرتی پہلو کو صحت مند و توانا انداز میں اجاگر کیا ہے جس سے انسان کے اختیاری پہلو کی نمائندگی کی گئی ہے۔ بنی نوعِ انسان کی مقصدیت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ انسانی اختیارات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انسان کی خیر و شر پر قدرت کو عیاں کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان خدا کی معبودیت سے بھی انکار کر سکتا ہے جو انسان کے اختیاری پہلوؤں کا حصہ ہے۔ شعرِ آخر میں خیر کی اہمیت کے حوالے سے یومِ حساب کی بات کی گئی ہے اور ایک کڑے احتسابی عمل کی خبر بھی دی گئی ہے۔

فضاؔ اعظمی کا کمالِ فن یہ ہے کہ وہ تلمیحات کے فطری انصرام سے مدعا نگاری کے حسیں قرینے نبھا جاتے ہیں جو ان کی فکر کا حصہ ہے۔

مشمولہ استشہادات و استخراجات سے یہ مبینہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ فضاؔ اعظمی تاریخِ عالم کا بسیط ادراک رکھتے ہیں جس کی نمائندگی ان کے وجدانِ شعر میں تاریخی تلمیحات کے روپ میں بھی ملتی ہے جس کی بدولت وہ حالات و واقعات کو خصوصاً ً پیرایۂ نظم میں منظوم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ معروف تاریخی حادثات و سانحات کی بازیافت کا عمل ان کے نظمیاتی کینوس میں بطریقِ احسن پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے جو اہلِ سخن، ناقدین فن، محققین اور قارئین کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

 

 

 

 

مکانی تلمیحات کے تناظر میں فضاؔ اعظمی کا کلام

 

تاریخِ عالم مخصوص و معروف حالات و واقعات اہم شخصیات و مقامات سے عبارت ہے جس سے تاریخی و تہذیبی اور تمدنی و عمرانی ڈھانچہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ فضاؔ اعظمی کا نظمیاتی سخن اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں تلمیحات بکثرت پائی جاتی ہیں۔ شذرہ ہٰذا میں ان کی تیرہ شعری کتب سے مکانی تلمیحات کی استشہادات تجزیاتی حاشیہ آرائی سے پیش کی جائیں گی اور وسیع تر انتقادی مقتضیات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا۔

ان کی شاعری کے بنظرِ غائر مطالعہ سے یہ ایک مبینہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ ان کی شعریات میں تلمیحاتی حوالے سے سب سے زیادہ مکانی تلمیحات کی تمثیلات موجود ہیں جس سے جہاں ان کے تاریخی ادراکات کی جانکاری ملتی ہے وہاں ان کے جغرافیائی کینوس کی وسعت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

فضاؔ اعظمی کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ انہیں دنیا کے مختلف ممالک میں کچھ وقت گزارنے کا موقع میسر آیا ہے۔ ان کے ہاں مکانی تلمیحات کی بہتات کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے۔

ان کی کتاب ’’جو دل پہ گزری ہے‘‘ میں سے ایک شعر ملاحظہ ہو۔

اہلِ نظر کو وادیِ سینا کی شرط کیا ؟

جلوہ بقدرِ ظرفِ تمنا کہاں نہ تھا

شعر ہٰذا میں وادیِ سینا کی مکانی تلمیح برتی گئی ہے جس کا استعمال فطری خصوصیت کا حام ہے۔ وادی سینا مصر کی مشہور و معروف وادی ہے جس میں کوہِ طور واقع ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ جلوۂ حق کے لیے جایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل کیا کرتے تھے۔ اس لیے حضرت موسیٰ ؑ نے کلیم اللہ کا لقب پایا۔ فضاؔ اعظمی کی غزل میں بھی کہیں کہیں تلمیحاتی شواہد پائے جاتے ہیں۔ شعر مذکور میں وہ کہنا چاہتے ہیں کہ اہلِ نظر یا چشمِ بینا رکھنے والوں کے لیے وادیِ سینا جانے کی شرط ضروری نہیں ہے۔ بقدرِ ظرفِ تمنا جلوۂ حق کہاں موجود نہیں ہے۔ یہاں  شاعرِ موصوف نے عارفانہ اور صوفیانہ اندازِ فکر اختیار کیا ہے۔ جس میں ہمہ اوست کے فلسفے کی جھلک بھی محسوس کی جا سکتی ہے جیسے خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا:

جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

ان کے مجموعۂ کلام ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ میں سے زندانِ ضمیر کے زیرِ عنوان ایک بند دیکھیے:

میں اس زنداں کا قیدی ہوں

نہیں جس کا کوئی ثانی

نہ یہ مینارِ لندن ہے

نہ اس کا کالے پانی سے تعلق ہے

کہ جو زندانیوں کے فرقِ سرکش پر

ہمیشہ کے لیے مہرِ ندامت ثبت کرتا ہے

نہ یہ ہے کوٹ لکھپت اور نہ یہ ہے قصرِ آغا خاں

یہ یہ نینی نہ یہ تیمار کے چیلوں کا ہم سر ہے

بدیسی طاقتوں نے ظلم کی روداد یوں لکھی

کہ اس کے زخم اب رِستے ہی رہتے ہیں

ادھوری داستاں ہے اور تصادم اب بھی جاری ہے

بندِ ہٰذا میں فضاؔ اعظمی نے اپنے زندانِ ضمیر کے نئے مختلف النوع مکانی تلمیحات استعمال کی ہیں جن میں صرف دو پر شکوہ مکانی تلمیحات ہیں اور باقی سب عبرت انگیز ہیں۔ مینارِ لندن اور قصرِ آغا خان شان و شوکت کی حامل مکانی تلمیحات ہیں۔ قصرِ آغا خان پونا بھارت میں ہے۔ کالے پانی کی جیل کا شمار دنیا کی معروف جیلوں میں ہوتا ہے جہاں  سنگین قسم کے مجرموں کو بھیجا جاتا تھا جو جزائر انڈیمان میں ہے۔ اسے سیلولر جیل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کوٹ لکھپت جیل لاہور کو بھی مکانی تلمیح کے طور پر برتا گیا ہے۔ علاوہ ازیں سنٹرل جیل نینی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ نینی شہر الہ آباد کے قریب ہے جو صوبہ اتر پردیش میں ہے۔ جہاں ہندوؤں کا آشرم بھی ہے۔ مزید برآں تیمار کی جیل کا ذکر کیا گیا ہے جو بھارت کے دارالخلافہ نئی دہلی صوبہ نئی دہلی میں ہے۔ انہوں نے اپنے زندانِ ضمیر کے لیے چار جیلوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں کالے پانی (جزائر انڈیمان)، دوسری کوٹ لکھپت لاہور، تیسری نینی شہر اور چوتھی نئی دہلی میں ہے۔

فضاؔ اعظمی کے ہاں مکانی تلمیحات کے حوالے سے تنوع اس لیے پایا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک جہاندیدہ شخصیت ہیں اور انہیں دنیا کے مختلف ملکوں میں رہنے کا موقع بھی ملا ہے۔ مذکورہ بند میں ان کا کمالِ فن یہ ہے کہ زندانِ ضمیر جو غیر مجرد اور تجسیم سے عاری حوالہ ہے، کے لیے مجرد مکانی تلمیحات کا استعمال کر کے انہوں نے اسے مجسم کر دیا ہے۔ یوں مذکورہ بند کو تجریدی آرٹ کا شاہکار بنا دیا ہے۔

ان کے شعری مجموعہ ’’تری شباہت کے دائرے میں‘‘ سے ایک شعر مکانی تلمیح کے حوالے سے پیشِ نظر ہے۔

رہیں کہیں بھی غزال سنگ کہیں بھی رہیں

یہ واقعہ ہے کہ آہو ختن سے باہر ہے

شعرِ ہٰذا میں آہوئے ختن کا مذکور ہے۔ ختن کے خطے سے تعلق رکھنے والے ہرن دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ختن کا علاقہ سابقہ روس اور موجودہ قزاقستان میں ہے۔ ختن کے ہرن کی وجہ شہرت اس کی مشکِ نافہ کی ہے۔ ختن کا علاقہ دریائے جیہوں کے کنارے ایک بہت بڑی سرسبز پٹی ہے جہاں  کثرت سے ہرن پائے جاتے ہیں جن کی ناف میں ایک عمدہ درجے کی خوشبو پائی جاتی ہے جس سے کستوری بھی تیار کی جاتی ہے۔

ان کی کاوش ’’عذابِ ہمسائے گی‘‘ میں سے ایک بند زیبِ قرطاس ہے:

تمہیں کیوں دوسروں کے مذہبوں سے اتنی نفرت ہے ؟

معابد دوسروں کے کس لیے مسمار کرتے ہو؟

تمہارے قائدین وقت کیوں اسلام دشمن ہیں ؟

گرا کر بابری مسجد کو حاصل کیا کیا تم نے ؟

طلائی گردوارے کا تقدس کیوں مٹاتے ہو؟

بندِ مذکور کا تخاطب ہندو قوم سے ہے جنہیں مذہبی رواداری کا درسِ زریں دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم دوسروں کے مذاہب سے کیوں نفرت کرتے ہو اور ان کی عبادت گاہوں کو کیوں مسمار کرتے ہو۔ تمہارے قائدین وقت اسلام دشمن کیوں ہیں ؟ بابری مسجد کو گرا کر تمہیں کیا حاصل ہوا ہے ؟ طلائی گوردوارے کا تقدس کیوں پامال کرتے ہو؟ اس بند میں بابری مسجد اور طلائی گوردوارے کی مکانی تلمیحات استعمال کی گئی ہیں۔ طلائی گوردوارے کو گولڈن ٹیمپل بھی کہتے ہیں جو صوبہ مشرقی پنجاب کے شہر گورداس پور میں واقع ہے جسے سکھوں کی اہم عبادت گاہ کا درجہ حاصل ہے۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’آوازِ شکستگی‘‘ میں سے ایک بند ملاحظہ کریں:

صدی ہے ساتویں حضرت عمر خطابؓ کا دورِ خلافت ہے

جہاں کے اک بڑے خطے پہ اسلامی حکومت ہے

مدینہ، شام، مکہ، مصر، کوفہ، الجزائر اور بصرہ

فلسطین، خراساں، نجد اور بحرین اور فارس

یمن سے لے کر آذر بائیجانی کوہساروں تک

یہ چودہ انتظامی وحدتوں کی اک ریاست تھی

نظم کے اس بند میں حضرت عمر بن خطاب خلیفۂ دوم کے دورِ خلافت اور ان کی وسیع تر سلطنت کا تعارف کرایا گیا ہے جس میں مدینہ، شام، مصر، کوفہ، فلسطین، نجد، بحرین اور فارس کی مکانی تلمیحات لائی گئی ہیں۔ یہ وہ مکانی تلمیحات ہیں جن کے اجتماعی تاثر سے ایک بہت بڑی اسلامی سلطنت کا تصور اجاگر ہوتا ہے۔

ان کے مجموعۂ کلام ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘سے تین اشعار ہدیۂ قارئین ہیں جو امن کے ذیلی سرنامہ کے تحت ہیں:

خونِ ناحق سے شفق رنگ ہوا آبِ فرات

اندلس اور مراکش میں  صدائیں گونجیں

مصر اور شام ہوئے زیرِ نگین شمشیر

لے کے نکلے تھے جو ہاتھوں میں ترقی کا علم

خون میں ڈوب گئی وادیِ دجلہ و فرات

نیزہ بازوں نے لہو رنگ کیا ساحل گنگ

مذکورہ بالا تینوں اشعار مثنوی کے ہیئتی کوائف کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں مگر ان میں آبِ فرات، اندلس، مراکش، مصر، شام اور دجلہ و فرات کی مکانی تلمیحات کو بخوبی باندھا گیا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں ان علاقوں میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی، اس کا پرسوز شعری پیرائے میں اظہار کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں جمہوریت کے زیرِ عنوان دو اشعار لائقِ توجہ ہیں:

مصر پر کس نے کیا تین فریقی حملہ؟

کس نے ترکی کو تعصب سے گراں بار کیا؟

ملک بغداد کو بے دردی سے تاراج کیا

اک حکومت کو بدل دینے کا بے جا اقدام

اگرچہ مندرجہ بالا اشعار مثنوی کے ہیئتی تقاضے نبھانے سے قاصر ہیں، مگر فکری اور تلمیحاتی حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان اشعار کا تخاطب بین الاقوامی استعماری طاقتیں ہیں۔ یہاں مصر، ترکی اور ملکِ بغداد کی مکانی تلمیحات کا استعمال کیا گیا ہے۔

’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ میں سے ’’آزادی‘‘ کے ذیلی سرنامے کے تحت دو اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

ایل کشمیر کی آزادی کا دشمن بھی وہی

خطۂ کابل و قندھار کا رہزن بھی وہی

غاصبِ دجلہ وہی، قاتل چیچن بھی وہی

ملک سوڈان کی دولت کا نقب زن بھی وہی

ان دو اشعار میں امنِ عالم کی پامالی کا ذمہ دار بین الاقوامی فسطائی طاقتوں کو قرار دیا ہے جسے کشمیر کی آزادی کا دشمن قرار دیا گیا ہے اور اسے خطۂ کابل و قندھار کا رہزن بھی گردانا گیا ہے۔ جسے غاصبِ دجلہ اور چیچینیا کا قاتل بھی کہا گیا ہے اور اسے ملک سوڈان کی دولت کا نقب زن بھی بتایا گیا ہے۔ ان اشعار میں کشمیر، کابل، قندھار، دجلہ اور سوڈان کی مکانی تلمیحات استعمال کی گئی ہیں۔

فضاؔ اعظمی کی ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ میں سے ایک شعر جو ’’سکراتِ مرگ‘‘ کے ذیلی سرنامے کے تحت ہے، پیش ہے۔ یہ شعر در اصل ہندو قوم کی مکاری و عیاری اور خوں خواری کے تناظر میں ہے:

جو پرستارِ برہما بھی ہے مکار بھی ہے

جو اہنسا کا پجاری بھی ہے خواں خوار بھی ہے

مذکورہ بالا شعر میں برہما اور اہنسا کے دور معروف بتوں کی مکانی تلمیحات استعمال کی گئی ہیں اور ہندو قوم کی ذہنیت کو بھی اپنے انداز میں بے نقاب کیا گیا ہے۔

قائدِ عالمِ موجود کے کرتوت دکھاؤ

ہیروشیما کی تباہی کا اسے حال سناؤ

شعرِ ہٰذا کا تخاطب بین الاقوامی فسطائی طاقت امریکہ ہے جس نے 1945ء میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسائے تھے اور لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ ان بموں کے اثرات اب بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا شعر میں  بھی یہی کہا گیا ہے کہ عالمی قیادت کا زعم رکھنے والے ملک امریکہ کو اس کے کالے کرتوت دکھانے چاہئیں اور ہیروشیما کی تباہی کا حال بھی اسے سنانا چاہیے۔ اس شعر میں ہیروشیما کی مکانی تلمیح استعمال کی گئی ہے۔

ان کی کتاب ’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ سے ایک بند ہدیۂ قارئین ہے:

عرب کی معدنی دولت سے مملو ریگزاروں میں

فرات و دجلہ سے سیراب نخلستانوں میں

عطائے رودبارِ نیل، تاریخی علاقوں میں

کہ جن کو چومتی ہیں بحرِ روما کی سبک لہریں

جنوبی بر افریقہ کے معدنیات کے مملو خزانوں میں

شہنشاہانِ یورپ نے بڑے شب خون مارے ہیں

وہاں کے سادہ دل معصوم انسانوں کو لوٹا ہے

مندرجہ بالا بند اگرچہ مثنوی کے ہیئتی تقاضوں کو نبھانے میں ناکام ثابت ہوا ہے مگر فضاؔ اعظمی نے مغربی استعماری طاقتوں کی بین الاقوامی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کیا ہے اور بتایا ہے کہ یورپ کے شہنشاہوں نے دنیا کے وسعی و عریض خطوں کا استحصال کیا ہے۔

اس بند میں انہوں نے فرات و دجلہ، رودبارِ نیل، مراکش، الجزائر، لیبیا اور بحرِ روما کی مکانی تلمیحات استعمال کی ہیں۔

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے ایک اور شعر قابل غور ہے:

عذاب ان روسیوں کی ظالمانہ آمریت پر

جو لے کر لشکرِ خوں خوار افغانوں پہ چڑھ دوڑے

شعرِ ہٰذا میں مثنوی کے ہیئتی کوائف کی پاسداری نہیں ہے مگر اس میں روسیوں کی عسکریت پسندی اور ظالمانہ آمریت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ جنہوں نے نہتے افغانیوں پر جنگ مسلط کر دی تھی۔ اس شعر میں  روسیوں اور افغانیوں کی مکانی تلمیحات کو باندھا گیا ہے جو فطری نوعیت کی حامل ہیں جہاں روسیوں پر لعنت و ملامت کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے دو اور شعر دیکھیے:

یہودی جوہری طاقت تو دنیا کو گوارا ہے

سبب یہ ہے کہ اسرائیل جمہوری حکومت ہے

برہمن کو بھی حق ہے جوہری ہتھیار رکھنے کا

نہیں حاصل تو پاکستان کو یہ حق نہیں حاصل

ان دو اشعار میں مثنوی کی ہیئت کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی رویوں کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جوہری پابندیاں نہ اسرائیل پر عائد ہوتی ہیں کیونکہ وہ ایک جمہوری حکومت ہے، اور دنیا کو یہودی جوہری طاقت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اسی طرح بھارت جو برہمنوں کی راج دھانی ہے، بھی جوہری پابندی سے ماورا ہے۔ اگر جوہری پابندیاں ہیں تو صرف پاکستان کے لیے ہیں کیونکہ یہ اسلامی ملک ہے۔ مذکورہ اشعار میں اسرائیل، برہمن اور پاکستان کی مکانی تلمیحات کو خوش اسلوبی سے برتا گیا ہے۔

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے ایک بند لائقِ التفات ہے:

اگر جلیانوالہ باغ کا انگریز غارت گر

نہتے بے سپر محصور انسانوں پہ مہلک وار کرتا ہے

بزرگوں، بچیوں کو عورتوں کا قتل کرتا ہے

تو یہ ہے فعل بس اک فردِ واحد کا

نہ اس کا دین سے عیسائیت کے کچھ تعلق ہے

نہ یہ افرنگ کی تاریخ کا ناپاک حصہ ہے

مگر غزنی کا حاکم گر شوالہ لوٹ لیتا ہے

تو ذمہ دار اس کا مذہبِ اسلام ہوتا ہے

بندِ مذکور میں مثنوی کو ہیئت کو بروئے کار نہیں لایا گیا۔ اس بند میں برطانوی دورِ حکومت کے نو آبادیاتی ہندوستان کا ایک انسانیت سوز واقع قلم بند کیا گیا ہے۔ جب جنرل ڈائر نے مشرقی پنجاب کے شعر جلیانوالہ جو امرتسر کے قریب واقع ہے، میں عوام پر گولی چلا دی تھی اور سیکڑوں انسان لقمۂ اجل بن گئے تھے تو برطانوی حکومت نے اسے فعل فردِ واحد قرار دیا اور اس واقعہ کو مذہبی معاملات سے بیگانہ قرار دیا تھا نہ اس واقعہ کا عیسائیت سے تعلق ظاہر کیا گیا اور نہ اس معاملے کو ناپاک برطانوی تاریخ کا حصہ بنایا گیا۔ فضاؔ اعظمی نے ایک اور تمثیل بیان کی ہے۔ وہ یہ کہ جب محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پر حملہ کیا تھا تو اس واقعہ کا ذمہ دار مذہبِ اسلام کو ٹھہرایا گیا تھا۔ تو شاعر گویا ہیں کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر کسی غیر مسلم سے کوئی غیر انسانی واقعہ رونما ہو جائے تو اس کا ذمہ دار فردِ واحد کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگر کسی مسلمان حکمران سے دیگر مذاہب کے معابد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو اس وقت فردِ واحد کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے مذہبِ اسلام کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ انصاف کا دہرا معیار انصاف کی حقیقی مقتضیات سے متصادم ہے۔ اس بند میں جلیانوالہ باغ کی مکانی تلمیح کا التزام فلسفۂ سادگی و سہولت سے کیا گیا ہے۔ اسی فکری تناظر میں ایک اور بند ملاحظہ کیجئے:

اگر دلی کا حاکم مسجدیں مسمار کرتا ہے

اگر وہ امتِ مسلم کا قتل عام کرتا ہے

تو ہندو دھرم کی اقدارِ اعلیٰ اور ارفع سے

یہ ہلکا سا تجاوز ہے، یہ اک چھوٹی سی غلطی ہے

ہزاروں دخترانِ وادیِ کشمیر کی عصمت دری کر کے

برہمن حاکموں کی پاک دامانی نہیں جاتی

اگر بلقان کا حاکم مظالم توڑتا ہے اہلِ ایماں پر

ہزاروں بے سکت لوگوں کو اک جا جمع کرتا ہے

جہاں سے بچ نکلنے کا کوئی رستہ نہ مل پائے

انہیں اک اجتماعی قبر میں مدفون کرتا ہے

تو اس جرمِ بہیمانہ کے مجرم چند حاکم ہیں

لباسِ مذہبِ عیسائیت اس جرم سے میلا نہیں ہوتا

ان اشعار میں شاعرِ موصوف نے مثنوی کی ہیئت کی پروا کیے بغیر اپنے فکری تسلسل کو جاری و ساری رکھا ہے۔ فضاؔ اعظمی نے ہندو اور عیسائی قیادتوں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ وہ گویا ہیں کہ اگر دلی کی ہندو قیادت مسجدیں مسمار کرتی ہے تو ہندو مذہب کی رو سے اسے چھوٹی سی غلطی اور ہلکا سا تجاوز قرار دیا جاتا ہے۔

ہزاروں دخترانِ کشمیر کی عصمت دری کے باوجود برہمن حکمرانوں کی پاک دامنی معتبر ہوتی ہے۔ اگر بلقان کا مسیحی حاکم ہزاروں اہلِ ایماں پر مظالم توڑتا ہے اور بے شمار بے سکت لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور ان کی اجتماعی قبر بنا دیتا ہے تو اس جرم کے ذمہ دار چند حاکم ہیں جن کا مذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس جرم سے مسیحی مذہب کا لباس میلا نہیں ہوتا اور نہ اسے قصور وار سمجھا جاتا ہے۔ اس بند میں دلی، کشمیر اور بلقان کی مکانی تلمیحات کا استخدام قرینہ کاری سے کیا گیا ہے۔

کتاب ’’آئینہ امروز و فردا‘‘ سے ایک بند پیشِ خدمت ہے جو ’’دل یہ کہتا ہے، خالقِ کل مجھے انساں نہ بنایا ہوتا‘‘ کے سرنامے کے تحت مرقوم ہے:

دل یہ کہتا ہے کہ اے کاش میں دریا ہوتا

پاپ کو دھونے کا اور پاکی کا ذریعہ ہوتا

پاٹلی پتر میں گنگا کا کنارہ ہوتا

یا جو پریاگ میں سنگم کا نظّارہ ہوتا

یہاں شاعر نے خالقِ کائنات سے اپنی ایک عجیب خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اے کاش! مجھے دریا بنایا ہوتا جس سے پاپ اور ناپاکی دھلنے کا سامان ہوتا۔ میں گنگا جو ہندوؤں کا مقدس دریا ہے، کا کنارا ہوتا جس کی بدولت پیاگ میں  سنگم کا نظارا ہوتا۔ اس بند میں فضاؔ اعظمی نے گنگا کی مکانی تلمیح کا اہتمام کیا ہے۔ اسی فکرِ تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے دو مزید اشعار لائقِ توجہ ہیں:

کاش میں گنبدِ خضرا کی عمارت کے لیے

ریگ اور خاک کا نایاب سا گارا ہوتا

بہرِ توسیعِ حرم اینٹ کا ٹکڑا ہوتا

میری تصویر سرِ بامِ تبرک ہوتی

ان دو اشعار میں دو مختلف النوع خواہشات کا مذکور ہے۔ شاعر گویا ہیں کہ یا مجھے گنبدِ خضرا یعنی روضۂ رسولﷺ کی عمارت کے لیے ریت اور خاک کا نایاب گارا بنایا ہوتا اور یا مجھے ایک ایسی اینٹ کا ٹکڑا بنا دیا گیا ہوتا جو حرم کے لیے باعثِ توسیع ہوتا اور میری تصویر بالائی مقام پر باعثِ تبرک ہوتی۔ یہاں شاعرِ موصوف نے گنبدِ خضرا اور حرم کی مقدس مکانی تلمیحات کا استخدام کیا ہے۔

’’قرطبہ‘‘ نظم کا ابتدائی حصہ مکانی تلمیحات کے تناظر میں  زیبِ قرطاس ہے:

قرطبہ مظہرِ سرگومیِ تعمیر تو ہے

قرطبہ جلوۂ گہ جذبۂ تسخیر تو ہے

قرطبہ فن کا دمکتا ہوا الماسِ حسیں

قرطبہ دستِ وفا پیشہ میں شمشیر تو ہے

قرطبہ عشق سراپا کا دوامی آہنگ

قرطبہ عظمتِ تہذیب کی تعمیر تو ہے

قرطبہ مردِ خدا ترس کا بیدار ضمیر

قرطبہ ولولۂ عاشقِ دلگیر تو ہے

قرطبہ اہلِ کرامات کا عزمِ پرواز

سنگ و خشت میں عرفان کی تقریر تو ہے

قرطبہ فتح طربناک کی زندہ تصویر

سینۂ ارض پہ لکھی ہوئی تحریر تو ہے

اہلِ یورپ میں نمایاں ہیں  خد و خالِ عرب

حسنِ بیمار تو ہے زلفِ گرہ گیر تو ہے

چشمِ آہوئے یمن بوئے گلستانِ حجاز

اسپ دم دار تو ہے دستِ عناں گیر تو ہے

اندلس آج بھی حاشیہ بردارِ عرب

جزوِ ایماں نہیں ایمان کی تعبیر تو ہے

نظم کا یہ حصہ جسے بھرپور ابتدائیہ کی حیثیت حاصل ہے، اندلس کے مشہور شہر قرطبہ کی تاریخی شان و شوکت کی یاد دلاتا ہے۔ اس حوالے سے اقبال کی نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ بھی بہت مشہور ہے جس پر تنقیدی و تحقیقی حوالے سے بہت زیادہ کام کیا گیا ہے۔ اس نظم میں فضاؔ اعظمی نے قرطبہ کی تاریخی فضیلت پر روشنی ڈالی ہے اور مسلمانوں نے اپنے عہدِ حکومت میں جو یادگار نقوش مرتب کیے ہیں، ان کا بیانِ عالی شان ہے جس میں  مسلمانوں کے فن تعمیر کو سراہا گیا ہے۔ ان کے جذبۂ تسخیر کو بھی داد دی گئی ہے۔ فنی کارناموں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ مسلم عہد کی یادگار تہذیب کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں فضاؔ اعظمی نے مسلمانوں کے جذبۂ عشق، خدا ترسی اور کرامات کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ قرطبہ کی فتحِ طربناک کو ایک زندہ تصویر کہا ہے اور سینۂ ارض پہ لکھی ہوئی تحریر کے مصداق پیش کیا ہے۔ ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ یورپ میں بھی عرب کے خدوخال نمایاں ہیں۔ موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں اسے حسنِ بیمار اور زلف گرہ گیر کی تمثیل دی ہے جس میں  آہوئے یمن اور بوئے گلستانِ حجاز کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اسپ دم دار اور دستِ عناں گیر کے پر عظمت الفاظ سے نوازا ہے۔

اس نظم میں فضاؔ اعظمی نے قرطبہ کی مکانی تلمیح کا استعمال وفور سے کیا ہے جو جذبے اور شدت کی علامت ہے۔ جس کی بدولت زورِ بیاں بھی فزوں تر ہوا ہے۔ شعرِ آخر میں ایک متوازن فکری زاویہ سامنے آیا ہے جسے شاعر کی غیر جانبداری اور حقیقت پسندی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ قرطبہ کی مکانی تلمیح کے علاوہ چشمِ آہوئے یمن، بوئے گلستانِ حجاز اور اندلس کی مکانی تلمیحات کا استعمال قادر الکلامی کے پیرائے میں ہوا ہے۔

’’آئینہ امروز و فردا‘‘ کی نظم ’’میں نے یہ صدی دیکھی‘‘ میں سے دو اشعار مکانی تلمیحات کے حوالے سے ملاحظہ کریں:

آبِ نیل کے اندر

زہر گھولتے دیکھا

دجلہ کے کناروں پر

ظلم ٹوٹتے دیکھا

ان دو اشعار میں مسلم خطوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی روداد بیاں کی گئی ہے جن میں آبِ نیل اور دجلہ کے کناروں کو مکانی تلمیحاتی حیثیت حاصل ہے۔

شعری مجموعہ ’’آئینہ امروز و فردا‘‘ میں سے چند اشعار جن میں مکانی تلمیحات بھی شامل ہیں، پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ اشعار نظم ’’یہ واقعہ کچھ نیا نہیں ہے‘‘ کا حصہ ہیں:

کہاں ہے روما کی شان و شوکت؟

کہاں ہے بابل کی قدر و قیمت؟

کہاں ہے سندھو کی جاہ و ثروت؟

کہاں ہے ہسپانیہ کی عظمت؟

کہاں ہے عثمانیہ خلافت؟

کہاں ہے تاتاریوں کی وحشت؟

کہاں ہے برطانیہ کا سورج؟

غروب سے بے نیاز تھا جو

کہاں ہے یونان کا تمدن؟

علوم و دانش کا باب تھا جو

عراق تہذیب کی ڈگر ہے

عراق تہذیب کا سفر ہے

اگر فکری اعتبار سے دیکھا جائے تو یہاں  فضاؔ اعظمی نے مکانی تلمیحات کے استعاروں کو بروئے کار لا کر کائنات کی بے ثباتی کو بیان کیا ہے۔ ان اشعار میں روما، بابل، سندھو، ہسپانیہ، عثمانیہ، برطانیہ، یونان اور عراق کی مکانی تلمیحات کارگر ہیں۔ شعرِ آخر میں  عراق کو تاریخ کی ڈگر اور تہذیب کا سفر قرار دیا گیا ہے جس سے عراق کی تاریخی و تہذیبی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ شاعر کا ایک منفرد زاویۂ فکر بھی ہے۔

’’آئینۂ امروز و فردا‘‘ کی نظم ’’دوپہر کی دھوپ میں اندھیرا‘‘ میں سے ابتدائی بند ہدیۂ قارئین ہے:

دکھی ہوں میں بہت گجرات کا عزمِ سفر کر کے

جہاں سے پلندے عرضیوں کے لے کے لوٹا ہوں

سدا ایسا ہی ہوتا ہے

کسی شامت زدہ خطے کا دورہ جب میں  کرتا ہوں

نظمِ ہٰذا در اصل فضاؔ اعظمی نے ایک صحافی کلدیپ نیر کے حقائق پر مبنی مضمون انگریزی اخبار میں پڑھ کر اور اس سے متاثر ہو کر اس کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ نظم مذکور گجرات کے مسلم کش فسادات کے حوالے سے ہے۔ یہاں واقعات نگاری کے ضمن میں انہوں نے گجرات کی مکانی تلمیح کو برتا ہے۔ آگے چل کر شاعر نے طنز و تنقید کا پیرایۂ اظہار اختیار کیا ہے۔

نئی دہلی کو سکتہ لگ گیا ہے کیا؟

وزیرِ داخلہ کو کیا کسی صورت سے جائز تھا؟

کہ صوبائی حکومت کو بچانے کا جتن کرتا

کہ ناجائز طرفداری کا جذبہ کیا نیا طرزِ حکومت ہے

یہاں جہاں ایک تنقیدی رویہ کارفرما ہے، وہاں استفہامیہ انداز اختیار کر کے ایک بھرپور استفساریہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ایک واقعاتی تانے بانے کے ساتھ نئی دہلی کی مکانی تلمیح کا استعمال بھی ہوا ہے۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’خوشی کی تلاش میں‘‘ میں سے ’’اک نئے ضابطۂ کار کو ایجاد کرو‘‘ کے سرنامے کے تحت ایک شعر لائقِ توجہ ہے:

آج ایستادہ ہو تم دوزخِ دنیاوی میں

یہ بتاؤ تمہیں جنت سے نکالاکس نے ؟

اس شعر کا عمومی تخاطب حضرت انسان اور خصوصی تخاطب ابو البشر حضرت آدمؑ ہیں۔ یہاں بھی ایک تنقیدی رویہ کارگر نظر آتا ہے اور کہا گیا ہے کہ آج تم دنیا کی دوزخ میں کھڑے ہو لیکن یہ بتاؤ کہ تمہیں جنت سے کس نے نکالا ہے ؟ یوں استفہامیہ انداز اختیار کر کے انسان کو اس کی لغزشِ اول جو حضرت آدمؑ سے سرزد ہوئی تھی، جس کی پاداش میں اسے جنت سے نکالا گیا تھا، کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ یہاں جنت کی مکانی تلمیح کو موضوعاتی مقتضیات کے تلازمے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ان کے شعری مجموعے ’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ سے ایک شعر لائقِ توجہ ہے:

ہمیں تعصبِ دیر و حرم مٹانا ہے

خوشی کے نام کا سکہ ہمیں چلانا ہے

فضاؔ اعظمی نے مصرع اولیٰ میں  مذہبی رواداری کا حسیں آدرش دیا ہے اور بتایا ہے کہ جو تعصبات دیر و حرم کی بدولت ہیں، انہیں ہم نے بتانا ہے اور مصرع ثانی ایک بھرپور تحریکی حیثیت و اہمیت رکھتا ہے۔ اس شعر میں  دیر و حرم کی مکانی تلمیحات خوب صورت قرینے کی حامل ہیں۔

’’مسائل کا اختراعی حل‘‘ کے زیرِ عنوان ایک بند زینتِ قرطاس ہے:

ازل سے آدمِ خاکی کو ہے خوشی کی تلاش

بہشت میں بھی تھی اس کو اسی کی تلاش

زمیں پر بھی اُتر کر رہی خوشی کی تلاش

کوئی نہیں کہ نہیں ہے جسے خوشی کی تلاش

مگر قرار میسر نہ ہو سکا اب تک

بشر رہے گا یونہی خوار و بے قرار کب تک؟

اس بند میں حضرتِ انساں کے ازل تا ابد پھیلے ہوئے مقاصدِ حیات کو بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنی ابتدائے آفرینش سے خوشی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ بہشت میں خوشی اس کا مقصد و منتہا تھی اور زمین پر پہنچنے کے بعد بھی خوشی کو سرچشمۂ حیات گردانا گیا۔ روئے ارضی پر کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہے جس کے لیے خوشی مندوب و مستحسن قرار نہ پائی ہو مگر بنی نوعِ انسان کو اب تک سکوں اور قرار میسر نہیں آ سکا۔

واللہ و اعلم انسان کب تک خوشی کی تلاش میں خوار و بے ردا رہے گا۔ اس بند میں حیاتِ انسانی کی اجتماعی اور اجمالی تصویر کشی کی گئی ہے جس میں فضاؔ اعظمی بخوبی کامیاب و کامران ٹھہرے ہیں۔ اس بند میں بہشت کی مکانی تلمیح کو عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔

سلسلہ ہٰذا کی آخری کڑی کے طور پر ایک بند پیشِ خدمت ہے:

خدا کرے تجھے حاصل کمال ہو جائے

خدا کرے ترا رتبہ بحال ہو جائے

خدا کرے کہ یہ دنیا ہو مثل خلدِ بریں

ترا جہان فقید المثال ہو جائے

رسا بہ بار گہِ حق تری دعا ہو جائے

خوشی کی نعمتِ ازلی تجھے عطا ہو جائے

اس بند میں فضاؔ اعظمی نے استدعائیہ انداز اختیار کیا ہے۔ ان کا تخاطب حضرتِ انسان سے ہے اور وہ اس کے کمال و رتبہ کے لیے ملتجی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ دنیا بہشت کی مثال ہو جائے۔ جیسے ہر حقیقی تخلیق کار کے تصورات میں ایک مثالی بہشت کا تصور ہوتا ہے، ان کے ہاں بھی استدعائی انداز میں ظاہر ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ جہاں بے مثال ٹھہرے۔ بند کے آخر میں وہ دعا کی مقبولیت کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ آخری شعر کے آخری مصرع میں بند کے مقصود و منتہا کو ظاہر کیا گیا ہے یعنی انسان کو خوشی کی نعمتِ ازلی عطا ہو جائے۔ اس بند میں خلدِ بریں کی مکانی تلمیح کا اہتمام کیا گیا ہے جو بے نظیر و منفرد نوعیت کی حامل ہے۔

مذکورہ تصریحات و تجزیات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ فضاؔ اعظمی نے اپنے فحوائے کلام میں مکانی تلمیحات کا انتظام وفور اور قرینے سے کیا ہے۔ کسی بھی شاعر کے ہاں  شاذ ہی مکانی تلمیحات کی اتنی تمثیلات مشاہدہ کی جا سکیں  گی۔ ان کی تلمیحاتی کرشمہ کاری یہ ہے کہ وہ تاریخی حوالے کی حامل ہیں جن سے تاریخی حالات و واقعات جڑے ہوئے ہیں۔ فضاؔ اعظمی کا مکانی تلمیحاتی عمق ان کے بسیط تجربات و مشاہدات کا غماز ہے۔

 

 

 

 

شخصی تلمیحات کے درپن میں فضاؔ اعظمی کا فن

 

کرۂ ارض پر بنی نوعِ انسان کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ تاریخِ عالم اہم حالات و واقعات، مقامات و شخصیات اور ان شخصیات سے متعلق افعال و اعمال سے عبارت ہے کیونکہ سبب یہ ہے کہ حضرتِ انسان سنسار کے ایک حرکی حوالے کی علامت ہے۔ بہ ایں وجوہ تلمیحات کی دیگر اقسام کے بہلو بہ پہلو شخصی تلمیحات ایک جاندار و وقیع اہمیت رکھتی ہیں۔ تاریخِ عالم کے تمام تر معاملات ان سے متعلق شخصیات سے منسوب ہیں۔ اگر ان شخصیات کے کردار کو نظر انداز کر دیا جائے تو تاریخ اپنی شناخت کھو دیتی ہے۔ مضمون ہٰذا میں فضاؔ اعظمی کے سخن میں موجود شخصی تلمیحات کا انتقادی مطالعہ پیش کیا جائے گا جس کی بدولت یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ تاریخی شخصیات کے حوالے سے ان کے ادراکات کی صورت کس نوعیت کی حامل ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعہ شعر ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ سے ایک بند شامل شذرہ ہے:

رہا تنقید کا قصہ

تو میں اس فن کا ماہر ہوں

غزل کی صنف میری کاوشوں کا نقشِ اول ہے

میں اس کی وجہِ تسمیہ مزے لے کر بتاتا ہوں

حجازی اور حقیقی کی بھی میں  تشریح کرتا ہوں

میں غالبؔ، میرؔ اور مومنؔ سے جب سرشار ہوتا ہوں

تو سب کو بھول جاتا ہوں

کوئی مجھ کو جگاتا ہے

اٹھ اے غافل! کہ یہ صنفِ تکلم نیم وحشی ہے

میں اُٹھ کر ایک بحثِ بے کراں میں ڈوب جاتا ہوں

زمانہ چاند پر پہنچا ہماری بحث جاری ہے

غزل کی کم تری کو دور کرنے کے تجسس میں

ان کی نظم ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد کے حوالے سے تنقیدی رویہ اختیار کیا گیا ہے اور ان کے مرگِ ضمیر کے حوالے سے اسباب و وجوہات کو بیان کیا گیا ہے۔ غیر تعمیری افکار کی نشاندہی بھی ہوئی ہے۔ مذکورہ بند میں  ادب سے متعلق ناقدین فن کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے جس میں اسد اللہ خان غالبؔ، میر تقی میرؔ اور حکیم مومن خان مومنؔ جو کلاسیکی شعری ادب کے معتبر حوالے ہیں، کی شخصی تلمیحات کو بروئے کار لایا گیا ہے۔

مذکورہ نظم سے ایک اور بند لائقِ توجہ ہے:

مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو؟

جہاں اس کا ہے یا میرا؟

مرے اسلافِ اعظم

عمر خیام، رومی، ابن خلدون، ابن راشد اور ابن سینا ہیں

دمشقی، بوالحسن اور ابن ہیشم ہیں

اور ان کے کارنامے مظہرِ علم و ہدایت ہیں

بندِ ہٰذا تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ شاعر گویا ہیں کہ مجھے جہاں کی فکر کس لیے ہو؟ یہاں  انہوں  نے استفہامیہ انداز اختیار کیا ہے کہ یہ جہاں خالقِ حقیقی کا ہی ہے یا کہ میرا؟ میرے اسلاف عظیم ہیں جن میں  عمر خیام، رومی، ابن خلدون، ابن راشد، ابن سینا، دمشقی، بو الحسن اور ابن ہیشم شامل ہیں۔ میرے اسلاف کی فہرست بہت طویل ہے اور ان کے کارنامے مظہرِ علم و ہدایت ہیں۔ یہاں انہوں نے عمر خیام، رومی، ابن خلدون، ابن راشد، ابن سینا، ابو الحسن اور ابن ہیشم کی شخصی تلمیحات کا اہتمام کیا ہے جن میں  عمر خیام اور جلال الدین رومی دنیائے شعر کی شخصیات ہیں جن کا شمار فارسی کے معتبر شعرا میں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ابن  خلدون معروف مورخ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ مزید برآں ابن سینا کی نسبت حکمت و طب سے ہے جبکہ دیگر شخصیات کا تعلق سائنس کی دنیا سے ہے۔ ان تمام شخصیات کے ذکر سے انہوں نے ایک عمومی فکری کینوس کی غمازی کی ہے۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’عذابِ ہمسائے گی‘‘ جو پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں ہے، میں سے ایک بند سپردِ قرطاس ہے:

کرو تم یاد اس دن کو کہ جب تم نے

ہماری اک رقم کو روکنے کا فیصلہ کر کے

ہمیں مشکل میں ڈالا تھا

تمہارے اس غلط اور غاصبانہ حکم کی تنسیخ کی خاطر

تمہارے قائدِ اول نے خود کش برتھ رکھا تھا

بندِ ہٰذا میں  تقسیمِ ہند کے بعد ایک ابتدائی واقعے کو مرقوم کیا گیا ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہندو قیادت نے پاکستان کے حصے کی رقم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں گاندھی نے بھوک ہڑتال کے طور پر ایک خود کش روزہ رکھ لیا تھا۔ قائدِ اول کے الفاظ گاندھی کے حوالے سے لائے گئے ہیں جنہیں  شخصی تلمیح کی حیثیت حاصل ہے۔

اسی نظم سے ایک اور بند قابل ذکر ہے:

کرو تم یاد اس دن کو

کہ جب ہم غمزدہ تھے قائدِ اعظم کی رحلت پر

تو اس موقع کا پورا فائدہ تم نے اُٹھایا تھا

دکن کی سلطنت پر حملہ آور ہو گئے تھے تم

یہ اک فوجی مہم تھی صاف اور واضح

مگر تم نے دیا تھا نام اس کو انتظامی نقل و حرکت کا

یہی طرزِ عمل تم نے کئی موقعوں پہ اپنایا

مسلسل جارحیت سے کئی حصوں کو ہتھیایا

مندرجہ بالا بند میں 1948ء کے ایک واقعہ کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ جب قائدِ اعظم کی وفات ہوئی تو بھارتی حکومت نے اس سانحہ سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے دکن کی آزاد ریاست پر حملہ کر دیا جو مسلم اکثریت کے باعث پاکستان میں  شامل ہونے کی خواہش مند تھی۔ حالانکہ یہ ایک واضح فوجی مہم تھی، مگر اس کو ہندو قیادت نے انتظامی نقل و حرکت کا نام دیا۔ آخر میں شاعر گویا ہیں کہ بھارتی حکومت نے کئی موقعوں پر یہی طرزِ عمل اپنایا اور مسلسل جارحیت کے نتیجے میں کئی حصوں کو ہتھیا لیا۔ اس بند میں قائدِ اعظم کی شخصی تلمیح کا اہتمام پایا جاتا ہے جس کی تاریخی حیثیت بھی مسلمہ ہے۔ یوں یہ تلمیح بیک وقت تاریخی اور شخصی زمروں میں رکھی جا سکتی ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعۂ، کلام ’’آوازِ شکستگی‘‘ میں سے ایک بند دیکھیے:

حکومت سروری اور ملک گیری کے نتیجے میں

خداوندی کا دعویٰ کر دیا فرعون سرکش نے

رعایا دست بستہ پابجولاں ہو گئی تاریخِ انساں میں

اور اس کے بعد فرعون مالک و مختارِ کل ٹھہرا

بندِ مذکور کی حیثیت تاریخی حوالے کی حامل ہے جس میں  فرعون کے دورِ حکومت کی یاد تازہ کی گئی ہے جب اس نے خدائی دعویٰ کیا تھا اور انسانیت پر اپنے مظالم کا آغاز کر دیا تھا۔ وہ اپنے اپ کو مالک و مختارِ کل سمجھتا تھا۔ اس بند میں فرعون کی شخصی تلمیح کو دو بار استعمال کیا گیا ہے جو تاریخی و شخصی دہرے حوالے کی حامل ہے۔

مذکورہ بالا نظم سے ایک اور بند زیبِ قرطاس ہے جس میں  مسلم عہدِ حکومت کی طب اور حکمت کے حوالے سے ایک یادداشت پیش کی گئی ہے:

مریضِ نفسیاتی کے لیے دار الاماں کھولے

ہلاکت آفریں امراض کی خاطر علاجِ منفرد ڈھونڈا

سکوں ایسوں کو آیا نشترِ جراح کے ذریعے

کتابیں سیکڑوں لکھی ہیں اس موضوع کے اوپر

مریضوں کی عیادت کے لیے کھولے شفا خانے

جہانِ طب کی تاریخی علامت ابن سینا ہیں

اس بند میں مسلم عہدِ حکومت میں  حکمت و طب کے حوالے سے ہونے والے انقلابات کی نسبت سے بیانِ ذیشان ہے جس میں نفسیاتی مریضوں کے لیے دار الاماں کھولے گئے۔ مہلک امراض کے لیے منفرد علاج دریافت کیے گئے۔ جراحت کے شعبے کو فروغ میسر آیا۔ اس حوالے سے متعدد کتب لکھی گئیں۔ مریضوں کی عیادت کے لیے شفا خانے بھی کھولے گئے۔ طب کے حوالے سے تاریخ میں  ابن سینا کو ممتاز و منفرد مقام حاصل ہے۔ اس بند میں فضاؔ اعظمی کے تاریخی ادراکات کے حوالے سے جانکاری ملتی ہے اور ابن سینا کو شخصی تلمیح کے طور پر برتا گیا ہے جن کا مقام و مرتبہ تاریخی حوالے سے بھی مسلم ہے۔

’’آوازِ شکستگی‘‘ میں سے ایک بند پیشِ خدمت ہے:

کہ اس طرزِ حکومت میں

وفاقی سلطنت کا ناظمِ اعلیٰ خلیفہ تھا

یہ وہ تنظیم تھی جس پر عمر فاروق فائز تھے

غریبوں کو، غلاموں کو جو مسند پر بٹھاتے تھے

بدل کر بھیس جو راتوں کو بستی میں نکلتے تھے

جو لوگوں کے مسائل کا صحیح اندازہ لگاتے تھے

فضاؔ اعظمی نے یہاں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے انسانی بہبود کے حوالے سے خدمات کی جانکاری بھی دی ہے۔ در اصل انہوں نے بالواسطہ طور پر عہدِ حاضر کے حکمران طبقہ کو حکومتی ضوابط سے بھی آشنا کیا ہے۔ اس بند میں حضرت عمر فاروقؓ کی شخصی تلمیح کا اہتمام کیا گیا ہے جو تاریخ کا ایک معتبر حوالہ بھی ہے۔

فضاؔ اعظمی کے شعری مجموعہ ’’خاک میں صورتیں‘‘ جسے صنفِ نازک کے تاریخی ارتقا کی دستاویزی حیثیت بھی حاصل ہے، حقیقتِ نسواں اور حقوقِ نسواں کی آئینہ دار بھی ہے، میں سے ایک بند جو ’’حوا کا گناہ‘‘ کے زیرِ عنوان ہے، قابل ذکر ہے۔

کسی نے اہلِ تفکر کو معتبر مانا

اور ان کے قول و قیادت کو مستند مانا

نگارشاتِ ارسطو خیالِ افلاطون

نکاتِ حکمتِ سقراط کو گہر مانا

بڑے جتن سے بتایا کہ مرد بہتر ہے

نظامِ دہر میں  عورت کا نام کم تر ہے

بندِ مذکور میں قدیم فلاسفۂ یونان ارسطو، افلاطون اور سقراط کے نظریات کی رو سے عورت کے مقام و مرتبے کے تعین کی کوشش کی گئی ہے اور استخراجی نتیجے کے طور پر بتایا گیا ہے کہ نظامِ کائنات میں مرد کو فوقیت حاصل ہے اور عورت کم درجے کی حامل ہے۔ بندِ ہٰذا میں ارسطو، افلاطون اور سقراط کی شخصی تلمیحات کا اہتمام ہوا ہے۔

اسی فکر کی توضیح کیلئے اسی نظم کا ایک اور بند ملاحظہ ہو:

بروئے قولِ ارسطو یہ شرحِ فطرت ہے

کہ مرد جنس کو حاصل مقامِ عظمت ہے

کہ مرد حارثِ اعلیٰ ہے باغِ گیتی کا

وہ بے ہنر بھی اگر ہو اسے فضیلت ہے

وہ ہر لحاظ سے آقا ہے زیر بار ہے زن

وہ جنس  بہتر و افضل ہے خاکسار ہے زن

اس بند کے آغاز میں  فضاؔ اعظمی نے ارسطو کے قول کا حوالہ نقل کیا ہے جو مشہور دانش ور ہو گزرا ہے۔ انہوں نے ارسطو کے نظریے کی تصریح کی ہے کہ یہ قانونِ فطرت ہے کہ مرد جنس کو رفعت و عظمت حاصل ہے جسے گلشن جہاں میں  اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ اگر مرد بے ہنر بھی ہو تو اس کی اہمیت و فوقیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ہر لحاظ سے حاکم ہے اور عورت اس کی محکوم ہے۔ وہ جنسِ بہتر و افضل ہے جبکہ عورت جنسِ ادنیٰ ہے۔ اس بند میں  شاعر نے جہاں ارسطو کی شخصی تلمیح استعمال کی ہے، وہاں عورت کے حوالے سے ارسطو کے کلاسیکی نظریہ کو بھی بیان کیا ہے۔ جسے تاریخ کے ایک طویل دور میں دستور العمل قرار دیا جاتا رہا ہے۔ عصرِ حاضر میں بھی دنیا کے قدامت پسند معاشروں میں عورت کے حوالے سے ارسطو کا نظریہ کارفرما ہے جو جدید نظریۂ حیات کے بالکل برعکس ہے۔

قبل ازیں بند میں ارسطو کا نظریۂ زن پیش کیا گیا ہے۔ اسی موضوعاتی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے معروف مفکر افلاطون کا عورت کے حوالے سے نظریہ آمدہ بند میں ملاحظہ فرمائیں:

بروئے قولِ افلاطون واقعہ یہ ہے

گناہ گار ہو گر مرد تو سزا یہ ہے

نئے جنم میں وہ عورت کا روپ دھارے گا

ثبوت مرد کے اعلیٰ ضمیر کا یہ ہے

کہ نغمہ اس کے لیے روح کی غذا بن جائے

اناث میں یہ محض حظ کی آگ بھڑکائے

افلاطون کا شمار کلاسیکی فلاسفہ میں ہوتا ہے۔ عورت کے حوالے سے ان کے افکار و نظریات جذبۂ خیر پر مبنی نہیں ہیں۔ یعنی وہ بھی عورت دشمنی میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ان کے قول کے مطابق گناہ گار مرد کی سزا یہ ہے کہ وہ نئے جنم میں عورت کا روپ دھارے گا۔ یہ بھی عورت کو ملعون اور مطعون کرنے کا ایک انداز ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مرد کی روح کی غذا موسیقی بن جائے جو مستورات میں جنسی حظ کی آگ بھڑکائے۔ اس بند میں انہوں نے افلاطون کی شخصی تلمیح کا انصرام کیا ہے۔

آمدہ بند میں نپولین بونا پارٹ کا نظریۂ عورت ملاحظہ کریں:

نپولین نے کہا ہے کہ نوعِ زن کا وجود

کیا ہے ذاتِ الٰہی نے اس کا حق محدود

وہ ہے غلام یا ہے مردہ چیز کی مانند

صفاتِ ذات کی راہیں تمام ہیں مسدود

نہ زندگی کی وہ حقدار ہے نہ مرنے کی

وہ مستحق ہے فقط زیرِ خاک ہونے کی

نپولین بونا پارٹ فرانس کے مشہور حکمران تھے جنہوں نے اپنے عہد میں بہت سے علاقہ جات کو فتح کی اور فرانس کی نو آبادیاں بھی قائم کیں۔ مذکورہ بند میں نپولین کی شخصی تلمیح کا انتظام کیا گیا ہے اور اس کے نظریۂ عورت کو پیش کیا گیا ہے۔ نپولین کے بقول قدرت نے عورت کے حق کو محدود رکھا ہے۔ یا تو اس کی حیثیت غلام کی سی ہے یا پھر وہ کسی مردہ چیز کی مثیل ہے۔ اس کی ذاتی صفات کی راہیں مسدود ہیں۔ نہ زندہ رہنے کی حقدار ہے اور نہ مرنے کی۔ وہ صرف زیرِ خاک ہونے کی مستحق ہے۔

فضا اعظمی نے مختلف فلاسفروں کے عورت کے حوالے سے نظریات بیان کر کے عورت کی تاریخی و تہذیبی تصویر کو مکمل کر دیا ہے جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ازمنۂ رفتہ میں عورت کو کیا حیثیت حاصل رہی ہے۔

ان کے مجموعۂ کلام ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے تلمیحاتی حوالے سے ایک شعر لائقِ توجہ ہے جو ’’آزادی‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت ہے:

جنگِ آزادی میں  مصروف ہیں درماندہ عوام

فیضؔ و حسرؔت ہوں کہ ہو حالیؔ و غالبؔ کا کلام

شعرِ مذکور میں جہاں درماندہ عوام کی فطری ضرورتِ آزادی کی بات کی گئی ہے، وہاں مصروفِ عمل رہنے کا تذکرہ بھی ہے۔ اس نسبت سے انہوں نے چار معروف شعراء کا ذکر بھی کیا ہے جن میں فیض احمد فیضؔ، مولانا حسرت موہانیؔ، الطاف حسین حالیؔ اور اسد اللہ خان غالبؔ کے اسمائے گرامی شامل ہیں جو شخصی تلمیحاتی حوالے کے حامل بھی ہیں اور ان کے کلام کو بھی آزادی سے منسوب کیا گیا ہے۔ یعنی ان کے سخن کا حاصل فکرِ آزادی ہے۔

کتابِ ہٰذا میں سے ’’آزادیِ افکار و اظہار‘‘ کے زیرِ عنوان شخصی تلمیح کی ذیل میں ایک شعر پیش کیا جاتا ہے جس میں غالب کی شخصی تلمیح بروئے کار لائی گئی ہے:

اک طرف جمع ہے غالبؔ کے طرف داروں کی بھیڑ

دست بستہ سِ دربارِ قدامت کے اسیر

اگرچہ مرقومہ شعر مثنوی کے ہیئتی کوائف پر پورا اترنے سے گریزاں ہے، کیونکہ ’’بھیڑ‘‘ کے ساتھ ’’اسیر‘‘ کا قافیہ روا نہیں ہے لیکن مصرع اولیٰ سے مرزا غالبؔ کی مقبولیت و پسندیدگی کا اندازہ ہوتا ہے جبکہ مصرع ثانی میں  انہیں دست بستہ سرِ دربارِ قدامت کا اسیر کہا گیا ہے۔ یوں ایک منفرد زاویۂ فکر سامنے آیا ہے۔ ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ میں سے ’’فتح‘‘ کے زیرِ عنوان ایک شعر پیشِ نظر ہے:

بربریت کے نئے دور کا آغاز ہے بُش

آمریت کے نئے طور کا غماز ہے بُش

اس شعر میں جارج ڈبلیو بش کی شخصی تلمیح استعمال کی گئی ہے جو امریکہ کے ایک سابقہ صدر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے دورِ حکومت کو بربریت و آمریت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں ایک تنقیدی رویہ اختیار کر گیا ہے جو ان کی انصاف پسندی کی دلیل ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعۂ کلام ’’شاعر، محبوب، فلسفی‘‘ سے ایک بند قابل ذکر ہے۔ نظمِ ہٰذا سہ مکالماتی نوعیت کی ہے جس کے تین مرکزی کردار شاعر، محبوب اور فلسفی ہیں۔ مرقومہ بند فلسفی کے حوالے کا حامل ہے:

جگہ دلاؤں گا بزمِ ہنر وراں میں تجھے

یوں بسائیں گے ذی ہوش اس جہاں میں  تجھے

وہ سب تجھے نظر آئے گا اپنے قدموں میں

نصیب ہو گا نہ جو پردۂ نہاں میں  مجھے

ترے نصیب کو رشکِ ایاز کر دوں گا

درج شدہ بند در اصل فلسفی کا مکالمہ ہے جس کا تخاطب محبوب ہے۔ یہاں فلسفی نے اپنے محبوب سے کچھ دعوے بھی کیے ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ فلسفی گویا ہیں کہ میں تجھے اہلِ ہنر میں مقام و مرتبہ دلاؤں گا اور اہلِ خرد تیری عزت و تکریم کریں گے۔ جو تجھے مخفی پردوں میں میسر نہیں ہے وہی تجھے اپنے قدموں میں نظر آئے گا اور تیرے نصیب پر ایاز کو بھی رشک آئے گا۔ ایاز محمود غزنوی کے معتبر غلام اور وزیر و مشیر کا نام ہے۔ یہاں ایاز کی شخصی تلمیح کا استخدام ہوا ہے۔

اسی نظم میں سے ’’فلسفی‘‘ کے زیرِ عنوان ایک اور بند ملاحظہ کریں:

جہاں میں تیری طرح ایک آدمی ہوں میں

مگر تو زندہ ہے اور ننگِ زندگی ہوں میں

مرے اصولِ طلب کی تجھے تمنا ہے

تو سن لے ہمدمِ دمساز فلسفی ہوں میں

بگیر دستِ من و خضر راہ جا بر خیز

مندرجہ بالا بند میں فلسفی اپنا تعارف اپنے محبوب کو کرا رہے ہیں کہ میں بھی جہاں میں تیری طرح کا انسان ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ تو زندہ ہے اور زندگی میرے لیے عار ہے۔ مرے اصولِ طلب کی تجھے خواہش ہے۔ اے مرے دوست مرا دم بھرنے والے میں فلسفی ہوں۔ میرا ہاتھ تھام اور جو ہمارے راستے کا خضر ہے، اسے پہچان۔ اس بند میں انہوں نے خضر کی تلمیح استعمال کی ہے جس کا تصور یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ فرشتہ ہے جو روزِ ازل سے بھولے بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھانے پر مامور ہے۔ خضر کی تلمیح کو شخصی تلمیح میں  رکھنے کی غرض و غایت یہ ہے کہ حضرت خضرؑ کا روپ شخصی ہے۔ یعنی وہ انسان کے روپ میں انسان کی راہنمائی کرتا ہے۔

ان کے شعری مجموعہ ’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے دو اشعار سپردِ قرطاس ہیں:

ضیا ہو دخترِ مشرق ہو بھٹو ہو لیاقت ہو

کبھی ہو سیج پھولوں کی کبھی پھانسی کا پھندا ہو

کبھی صدام کو بٹھلائیں لا کر قصرِ عالی میں

کبھی لے جا کے اس کو پھینک دیں قعرِ تباہی میں

دونوں اشعار مثنوی کے ہیئتی تقاضے نبھانے سے قاصر ہے، بلکہ انحرافی ہیں۔ شعر اول میں ضیا (ضیاء الحق)، دخترِ مشرق (بے نظیر بھٹو)، بھٹو (میر ذوالفقار علی بھٹو) اور لیاقت (خان لیاقت علی خان) کی شخصی تلمیحات استعمال ہوئی ہیں۔ خان لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو پاکستانی سیاست کی معروف شخصیات ہیں۔ اس شعر میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مغربی لادینی استعماری قوتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے مختلف شخصیات کو آلہ کار بناتی ہیں، حصولِ مقصد کی تکمیل کے لیے انہیں  پھولوں کی سیج عطا کرتی ہیں مگر حصولِ مقصد کے بعد انہیں  تختۂ دار پر چڑھا دیتی ہیں۔ کبھی صدام کو قصرِ عالی میں مسند نشیں کرتی ہیں تو کبھی قعرِ تباہی میں پھینک دیتی ہیں۔ دوسرے شعر میں صدام کی شخصی تلمیح کو باندھا گیا ہے جسے عراقی تاریخ و سیاست میں صدام حسین کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو ایک فوجی آمر تھا اور امریکی فوج کشی کے نتیجے میں برطرف کر دیا گیا تھا۔

فضا اعظمی کے مذکورہ مجموعۂ کلام سے دو اور اشعار نذرِ قارئین ہیں:

یہ وہ ناپاک ناہنجار امریکی ادارے ہیں

جو صدام و اسامہ اور ضیاء الحق بناتے ہیں

جو شاہوں کو کھڑا کرتے ہیں آپس میں لڑاتے ہیں

نکل جاتا ہے کام اپنا تو پھانسی پر چڑھاتے ہیں

شعرِ اول میں انہوں نے سخت تنقیدی رویہ اختیار کرتے ہوئے سخت اور بلند و بانگ لہجہ روا رکھا ہے اور امریکی بین الاقوامی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ مصرع ثانی میں صدام، آسامہ اور ضیاء الحق کی شخصی تلمیحات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شعرِ ثانی جو فکری تاثر کی تکمیل کے لیے شامل ہے، اس میں امریکی موقف کو واشگاف الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔

ان کی شعری کاوش ’’آئینہ امروز و فردا‘‘؎ کی ایک غزل میں سے شخصی تلمیحاتی تناظر میں ایک شعر حسبِ ذیل ہے:

خود اپنے بازوؤں میں نہ طاقت اگر رہے

پردے پہ فلم رستم و سہراب دیکھیے

شعرِ مرقومہ میں  جہاں  تنقیدی طرزِ اظہار موجود ہے وہاں ایک خوش فہمی کا پہلو بھی رکھا گیا ہے۔ مصرع ثانی میں  ایران کے دو مشہور پہلوانوں ’’رستم‘‘ اور ’’سہراب‘‘ کی بات کی گئی ہے جو شخصی حوالے سے تلمیحی اعتبار کے حامل ہیں۔

فضا اعظمی کی کتاب ’’آئینہ امروز و فردا‘‘ کی نظم ’’امن کی فاختہ اور انصاف کا ترازو‘‘ میں سے ایک بند زیبِ قرطاس ہے:

ابھی فی الحال دہشت گرد کو دشمن بناتے ہیں

یہ مقصد غیر مرئی بھی ہے مبہم بھی ہے بے حد و نہایت بھی

تو اس صورت ہمارا دشمن جانی اسامہ ہے

صدی کی جنگِ اول کے لیے وہ خوب موزوں ہے

پرانا دوست بھی ہے اور ساتھی بھی

لگے ہاتھوں سمر قند و بخارا بھی، کابل و بغداد کو نرغے میں لے لیں گے

ہمیں تو جنگ کرنی ہے بہر قیمت، بہر صورت

ہمیں اس جنگ کی پہلی مہم کا نام دینا ہے

یہ انصافِ حقیقی ہے

اگر ان کی اس نظم کا مکمل مطالعہ کیا جائے تو امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کی واضح جھلکیاں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں جسے حتمی اور منطقی شکل دینے کیلیے امریکی قیادت نے مختلف پالیسیاں اور طریقہ ہائے کار وضع کیے ہیں۔ مذکورہ بند میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی جانکاری کے پہلو بہ پہلو اس کے مذموم مقاصد کا انکشاف بھی موجود ہے۔ اسامہ کی آڑ میں در اصل کئی امریکی مقاصد پنہاں تھے جنہیں عالمی سیاست کا بسیط ادراک رکھنے والے بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس بند میں اسامہ جسے ہر عہد میں دہشت گردی کا استعارہ سمجھا جاتا رہے گا، شخصی تلمیح کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

فضاؔ اعظمی کے شعری مجموعہ ’’خوشی کی تلاش میں‘‘ میں سے دو شعر لائق توجہ ہیں:

ہر مورخ کا قلم اپنے مفادوں کا نقیب

کہیں پابندِ ہلاہل اور کہیں پابندِ صلیب

حامیِ رام کہیں اور کہیں گوتم کا مرید

کہیں محبوبِ روایت کہیں جدت کی خرید

شعر اول فکری حوالے سے تفہیم کے عمل کو سہل تر بنانے کے لیے شامل کیا گیا ہے جس میں مورخین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کہیں پابندِ ہلاہل اور کہیں پابندِ صلیب کہہ کر اس کی مجبوریوں کا انکشاف کیا گیا ہے جس کے باعث وہ منصفانہ مقتضیات کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھ سکتا۔ دوسرے شعر میں اسی فکری تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے قاری کے سامنے کچھ مزید فکری زاویے رکھے گئے ہیں۔ کہیں اسے رام کا طرف دار کہا گیا ہے تو کہیں اسے گوتم بدھ کا مرید گردانا گیا ہے۔ محبوسِ روایت اور جدت کے تناظر میں اس کی مختلف مصلحتوں کو آشکار کیا گیا ہے۔ یہاں فضاؔ اعظمی کا پیرایۂ شعر غیر جانبداری کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے جو ان کے اجتماعی طرزِ سخن کا خاصا ہے۔ شعرِ ثانی میں گوتم کی شخصی تلمیح استعمال ہوئی ہے جنہیں دنیا گوتم بدھ کے نام سے جانتی ہے۔ انہیں سکھ مت کے پیشوا کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ ان کے مجموعۂ کلام ’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ سے ایک بند قابل ذکر ہے جو مسائل کے اختراعی حل کے زیرِ عنوان ہے:

مکالماتِ فلاطون و محبتِ سقراط

نگارشاتِ ارسطو خطابتِ بقراط

تصورات جو سرچشمۂ علوم ہیں آج

وہ ناتمام ہیں اکثر ہیں ماخذِ اغلاط

تخیلات سبھی زیرِ بحث لائے جائیں

ملاحظات پہ نکتے نئے اٹھائے جائیں

اس بند میں افلاطون، سقراط، ارسطو اور بقراط کی شخصی تلمیحات کارفرما ہیں جنہیں یونان کے فلاسفۂ، قدیم میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بند در اصل عصری ارتقا اور تحقیق کے تناظر میں ہے۔ اس لیے فضاؔ اعظمی نے تمام تر ماخذات و تخیلات اور ملاحظات کو از سرِ نو مطالعہ کرنے کی تلقین و تاکید کی ہے۔

فضاؔ اعظمی کے فحوائے بیاں کی سیر حاصل سیر سے اس احساس کو بخوبی تقویت ملتی ہے کہ انہوں نے اپنے شعری کینو میں  شخصی تلمیحات کا استخدام بہ حسن و کوبی اور بکثرت کیا ہے۔ ان کے شخصی تلمیحاتی زاویوں میں مختلف شعبۂ حیات سے منسوب شخصیات شامل ہیں جن میں  تنوع اور ترفع کے دونوں تلازمے کارفرما ہیں۔

 

 

 

 

کتب آسمانی کی تلمیحات اور فضاؔ اعظمی کا بیاں

 

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو اہلِ سخن مذاہبِ عالم کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں، اور مختلف اقوام کا تہذیبی و تمدنی شعور ان کے ہاں وافر پایا جاتا ہے، ان کے فحوائے کلام میں  الہامی کتب کی تلمیحات بھی بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے فضاؔ اعظمی ایک فرخندہ نصیب شاعر ہیں جو مختلف مذاہب کی جانکاری رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں کتبِآسمانی کی تلمیحات کے استعمال کا ایک قرینہ کارفرما ہے۔ مضمونِ ہٰذا میں ہم ان تلمیحات کو زیرِ بحث لائیں گے جو اس حوالے سے ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ تاہم دیگر فکری و فنی زاویوں کی استخراجی ترسیل کو بھی قاری کے لیے یقینی بنایا جائے گا تاکہ ایک اجتماعی تنقیدی تاثر کے اہتمام کو یقینی بنایا جا سکے۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’مرثیہ مرگِ ضمیر‘‘ میں سے کتبِ آسمانی کی تلمیحات کے تناظر میں ایک بند شامل شذرہ ہے:

کہانی بے ضمیری کی شروع روزِ ازل سے ہے

یہ قابیلی کہانی ہے

یہ پہلا واقعہ ہے آدمی کی لغزشِ پا کا

حسد کا اور رقابت کا

ہوائے نفس کا اور بربریت کا

عوام الناس کے مابین نفسانی عداوت کا

مصرع اولیٰ تکراری حیثیت کا حامل ہے جس کی بدولت فکری وحدت کے تاثر کو برقرار رکھنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ جسے ہر بند کے آغاز میں شامل کیا گیا ہے۔ البتہ لفظ ’’شروع‘‘ اپنے عروضی تقاضے نبھانے سے قاصر ہے کیونکہ یہاں ’’ع‘‘ کو گرا دیا گیا ہے۔ تاہم اس میں ایک تاریخی تاثر بھی پنہاں ہے۔ مصرع ثانی ’’یہ قابیلی کہانی ہے‘‘ میں قابیل کی تلمیح استعمال کی گئی ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ اگلے مصرعوں میں ایک تاریخی واقعہ کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قابیل نے جذبۂ رقابت کے تحت ایک خوب رو دوشیزہ سے شادی کی غرض سے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا تھا۔ بقول راقم الحروف:

ہیں مروائے کتنے ہی ہابیل اس نے

ہے آغاز جرمِ بغاوت کا عورت

تاریخِ انسانی میں ہوائے نفس کی تکمیل کے ضمن میں اور بربریت کے حوالہ سے یہ اولین واقعہ ہے۔ یوں بنی نوعِ انسان کے مابین نفسیاتی عداوت کا آغاز ہوا۔

اسی نظم کا دوسرا بند جو قومِ نوح کے تعارف کے حوالے سے ہے، لائقِ التفات ہے:

کہانے بے ضمیری کی شروع روزِ ازل سے ہے

یہ قومِ نوح کی گمراہیوں کی داستانِ غیرت آگیں ہے

سراسر مستقل انکارِ حق جن کا وتیرہ تھا

صنم جن کے خدا تھے بت پرستی جن کا شیوہ تھا

جنہوں نے آتشِ باطل کے شعلوں کو ہوا دے کر

عذابِ ایزدی کے قہرِ جبروتی کا للکارا

اس بند میں قومِ نوح کی الہامی تلمیح کا اہتمام ہوا ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ یہاں قومِ نوح کے افعال و اعمال کی اجمالی انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ انکارِ حق قوم مذکورہ کا وتیرہ تھا جو بتوں کو خدا مانتی تھی اور بت پرستی کا شیوہ اختیار کیے ہوئے تھی۔ جس نے اپنی آتشِ باطل کو ہوا دے کر عذابِ ایزدی اور قہرِ جبروتی کو دعوت دی تھی۔ یہاں فضاؔ اعظمی کا طرزِ بیاں واعظانہ اور مقصدیت کا حامل ہے۔ موضوعاتی مقتضیات کا پاسدار بھی ہے۔

اس سے آگے جو بند ہے، اس میں فرعونِ مصر کی داستان کا اجمالی پیرائے میں بیان ہے:

کہانی بے ضمیری کی شروع روزِ ازل سے ہے

یہ فرعونی کہانی ہے

وہ فرعوں جس کا دعویٰ تھا زمیں پر حاکمیت کا

خدا کی حاکمیت کی نفی کر کے

جو سحرِ سامری کی شعبدہ بازی کا خالق تھا

جو غرقِ موجِ دریا ہو گیا اس کے نتیجے میں

نظم ہٰذا کے بندِ مذکور میں  جہاں فرعون کی تلمیح کو بروئے کار لایا گیا ہے، وہاں فضاؔ اعظمی نے فرعونِ مصر جو مصر کے حکمران تھے، اور خدائی دعویٰ کے حامل بھی تھے، کی حیات و وارداتِ زیست کو انتہائی قرینے سے صرف چھ مصرعوں میں سمو دیا ہے جو ان کی فنی چابکدستی کا مظہر بھی ہے۔ اس موقع پر مجھے داستانِ یوسف کا وہ خلاصہ یاد آ رہا ہے جو ایک نوجوان نے کچھ یوں رقم کیا تھا:

پیرے بود

پسرے دارد

گم کرد

باز یافت

عصرِ حاضر اور ازمنۂ فردا کے حوالے سے مذکورہ بالا نظم کا ایک اور بند دیکھیے:

کہانی بے ضمیری کی شروع روزِ ازل سے ہے

فقط اب فرق اتنا ہے

مگر یہ فرق بین ہے

صحیفے اب نہ اتریں گے

ہدایت کے لیے کوئی پیمبر اب نہ آئے گا

حمایت کو ابابیلوں کا لشکر اب نہ آئے گا

نظم کے اس بند میں عالمگیری تناظر میں ایک فکری زاویے کو آشکار کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ بے ضمیری کی کہانی روزِ ازل سے رو بہ ارتقا ہے مگر جس زمانے سے ہم تعلق رکھتے ہیں اس کی ایک محرومی یہ بھی ہے کہ اب نہ آسمان سے صحیفے اتریں گے اور نہ ہدایتِ انسانی کے لیے کسی پیغمبر کو بھیجا جائے گا نیز انسانوں کی امداد کے لیے ابابیلوں کے جھنڈ بھی نہیں اتریں گے۔ مگر اقبال نے اسی زاویۂ فکر سے انحراف کرتے ہوئے رجائی انداز اختیار کیا ہے:

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

در اصل دین محمدؐ یعنی اسلام مکمل ترین صورت میں انسانیت کی دست گیری کے لیے موجود ہے۔ اس بند کے آخر میں ابابیلوں کے لشکر کا حوالہ قرآن مجید کی سورۃ فیل سے عبارت ہے۔ یوں اسے کتبِ آسمانی کی تلمیحی حیثیت حاصل ہے۔

ان کی کتاب ’’تری شباہت کے دائرے میں‘‘ سے غزل کا مطلع قابل ذکر ہے:

راز ہم اس وقت بھی تھے آج بھی ہم راز ہیں

ہم حریمِ خلد سے نکلی ہوئی آواز ہیں

شعرِ ہٰذا میں بنی نوعِ انسان کے اسراری پہلوؤں کو اجمالی انداز میں اجاگر کرنے کی سعیءِ جمیل کی گئی ہے۔ حضرت انسان کی اسراریت کو ہر سخنور نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔ اس شعر میں ایک عالمگیریت کا پہلو بھی ہے جو ہمہ گیری سے مملو ہے جس میں  گیرائی و گہرائی کے فلسفے کارفرما ہیں۔ شعر مذکور میں خلد کو الہامی تلمیح کے طور پر باندھا گیا ہے جو فطری اور غیر شعوری کاوش کا حاصل ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعۂ شعر ’’خاک میں صورتیں‘‘ سے ایک بند ہدیۂ قارئین ہے:

کسی نے حکمتِ انجیل کی گواہی دی

کسی نے قصۂ تخلیق کی دہائی دی

کسی نے کام کی تقسیم کا فریب دیا

کسی نے فلسفۂ، بیش و کم کی چال چلی

مراد ایک تھی عورت کا سرنگوں ہونا

اور اس کی مرد سے محکومیت فزوں ہو جائے

مصرع اولیٰ میں انجیل کی الہامی تلمیح کا استخدام ہوا ہے۔ اس بند کے مختلف مصرعوں میں  فکر کے مختلف زاویے متعارف کرائے گئے ہیں۔ ’’خاک میں صورتیں‘‘ سے معنون یہ نظم صنفِ نازک کے تاریخی و تہذیبی سفر کی رودادِ حیات ہے البتہ آخری شعر سے بند کی جڑت استدلالی طور پر کمزور پڑتی نظر آتی ہے جس میں ازمنۂ رفتہ کے حوالے سے عورت کی ہزیمت کا پہلو ہے اور مرد کی بالادستی کا اظہار ہے۔

ان کی نظم ’’خاک میں  صورتیں‘‘ میں سے ایک اور بند قابل ذکر ہے:

یہ کیا سچ ہے کہ تم قرآن سے شادی رچاتے ہو

اور اس صورت میں تم اپنی زمینداری بچاتے ہو

تم اپنی عاقبت اس طرح سے برباد کرتے ہو

کلام اللہ کی تم اس طرح تحقیر کرتے ہو

کہاں نورِ الٰہی اور قرآن کی عظمت؟

کہاں یہ ملحدانہ سوچ یہ افرادِ بد طینت؟

اس بند میں قرآن کی الہامی تلمیح کو دو بار بروئے کار لایا گیا ہے۔ فکری حوالے سے اس بند میں زمانۂ جاہلیت کا منظر نامہ پیش کیا گیا ہے۔ عورت کے حوالے سے مردانہ حیلہ کاریوں کا مذکور ہے جیسے عورت کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے تاکہ عورت جائیداد میں شریک ہونے کے ناتے اپنا ورثہ دستِ دیگراں میں منتقل نہ کر دے۔ آخری شعر ایک بھرپور استفہامیہ ہے جس میں شدتِ احساس کا پہلو فطری طور پر در آیا ہے جو فضاؔ اعظمی کی جودتِ طبع کا غماز ہے۔

ان کی کتاب ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے دو اشعار لائقِ التفات ہیں:

فرقِ مختوم پہ پر پیچ عمامہ بھی ہے

روبرو وید بھی انجیل بھی گیتا بھی ہے

لیکن اطوار ہیں کچھ مطمح اطوار کچھ اور

لفظ کچھ اور ہیں اور مقصدِ گفتار کچھ اور

شعرِ اول میں انجیل کی الہامی تلمیح کا اہتمام پایا جاتا ہے جبکہ شعر ثانی کو موقف کی توضیح کے لیے شامل کیا گیا ہے۔ ان دو اشعار میں مذہبی ٹھیکیداروں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے جن میں مولوی، پروہت اور پادری شامل ہیں  ۔ ان کے قول و فعل کے تضاد کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے جو براہِ راست انداز میں تو ایک تنقیدی زاویہ ہے لیکن بالواسطہ طور پر ایک اصلاحی پہلو بھی رکھتا ہے۔ جسے فضاؔ اعظمی کے کمالِ فن پر مشیر سمجھا جا سکتا ہے۔

’’مثنوی عذاب و ثواب‘‘ میں سے ایک شعر قابل غور ہے:

ترقی کو جو اپنی زندگی کا مقصدِ اول سمجھتے ہیں

جو تحقیق و تبحر کو یدِ بیضا سمجھتے ہیں

شعرِ ہٰذا صاحبانِ کمال کے حوالے سے ہے جو ترقی کو زیست کی اولیں ترجیح گردانتے ہیں اور تحقیق و تبحر یدِ بیضا کا مثل سمجھتے ہیں۔ یدِ بیضا کا شمار حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات میں ہوتا ہے جس کی نوعیت کچھ یوں ہے کہ حضرت موسیٰؑ ہاتھ اپنے بغل میں لے جاتے اور پھر نکالتے تو وہ براق و روشن ہوتا۔ اس معجزے کو قرآن مجید میں یدِ بیضا کا نام دیا گیا ہے۔ یوں اسے الہامی تلمیح کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں یدِ بیضا کا استعمال فضاؔ اعظمی کے کمالِ فکر و فن کی علامت ہے۔

ان کی کتاب ’’آئینہ امروز و فردا‘‘ کی نظم ’’میں نے یہ صدی دیکھی‘‘ میں سے عصری آشوب کے تناظر میں ایک بند درج ذیل ہے:

اژدہامِ آدم سے

شور الاماں اٹھا

درد سے بھری چیخیں

کچھ کرخت آوازیں

ہائے باپ ہائے ماں

کچھ گرنتھ کے اشلوک

کچھ قرآن کی آیات

لا الہ الا اللہ

ہائے آدم ہے بھگوان

یا مسیح یا ممدوح

یا مدد علی مولیٰ

نعرۂ فغاں اٹھا

شورِ بے کراں اُٹھا

اس بند میں فضاؔ اعظمی نے آشوبِ عصر کی عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ واردات و کیفیات کا بیان حقیقت نگاری کے رنگ کا حامل ہے۔ اس بند میں قرآن، لا الہ الا اللہ اور مسیح کے الفاظ بھی قرآن کے حوالے کے حامل ہیں۔ ان کا تعلق کتبِ آسمانی کی تلمیحات سے ہے۔ البتہ قرآن کو پورے تلفظ سے ادا نہیں کیا گیا ہے۔ اس بند کی خوبی یہ ہے کہ یہاں شاعرِ موصوف نے بنی نوع انسان کو بلا تخصیصِ مذہب نمائندگی دی ہے جس میں سکھ، مسلمان، ہندو اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ایک حقیقی تخلیق کار ہونے کے ناتے غیر جانبداری کے تقاضے بھی نبھائے ہیں۔

مذکورہ نظم میں سے دو اور اشعار قابل توجہ ہیں:

بک چکا بخارا تھا

موسوی عصا ڈھونڈا

جو سرے سے غائب تھا

آبِ نیل کے اندر

شعرِ اول میں موسوی عصا کو الہامی تلمیح کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ دوسرا شعر موضوعاتی تاثر کی تکمیل کے لیے نقل کیا گیا ہے۔

’’آئینہ امروز فردا‘‘ کی نظم ’’نیرنگیِ طبع‘‘ کا ایک شعر ملاحظہ کریں:

درونِ قلبِ مضطر صبرِ ایوبی کا گوشہ ہے

اسی مجموعۂ اضداد کا اعجاز دنیا ہے

بین النظم فضاؔ اعظمی نے ضمیرِ نوعِ آدم اور مزاجِ نوعِ آدم پر سیر حاصل بحث کی ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی حیاتِ عمومی کی عکاسی ہوئی ہے۔ مرقوم شعر کو نظم کے تتمہ کی حیثیت حاصل ہے جس پر نظم اپنے منطقی اختتام کو پہنچتی ہے۔ متضاد و متنوع موضوعات کا استعمال شاعرِ مذکور نے ایک شعر کے مختصر پیمانے میں کمال چابک دستی سے کیا ہے۔ قلبِ مضطر کے پہلو بہ پہلو صبرِ ایوبی کا تذکرہ جو الہامی تلمیح کی حیثیت رکھتا ہے، لائقِ تحسین ہے۔ مصرع ثانی میں  مجموعۂ اضداد اور اعجاز جیسے مترادف المزاج الفاظ کا استخدام دنیا کے لیے کرنا بھی لسانی کرشمہ کاری کی دلیل ہے۔

فضاؔ اعظمی کے موخر الذکر مجموعہ کلام کی نظم ’’بت گری شیوۂ انسانی ہے‘‘ میں سے ایک شعر زینتِ قرطاس ہے:

عیسیٰؑ و موسیٰؑ و ہارونؑ و براہیمؑ کے بعد

جلوہ گر جلوہ کناں شافع محشرؐ آئے

اس شعر میں باری تعالیٰ کے پانچ جلیل القدر انبیا کا ذکرِ خیر کیا ہے جس میں حضرت عیسیٰؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت محمدﷺ کی آمد کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان تمام انبیاؑ کا ذکر کتبِ آسمانی میں موجود ہے۔ اس لیے یہ الہامی تلمیحات کے درجے کی حامل ہیں۔

فضاؔ اعظمی کی الہامی تلمیحات کے عمیق مطالعہ و مشاہدہ سے یہ امر پایۂ تیقن کو پہنچتا ہے کہ ان کے ہاں قرآنی تلمیحات کا استعمال سب سے زیادہ ہے جس سے ان کی مذہبِ اسلام سے والہانہ محبت کی عکاسی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے انجیل و تورات کے تلمیحات کو بھی مختلف مواقع پر استعمال کیا ہے۔

 

 

 

 

اساطیری تلمیحات کے حوالے سے فضاؔ اعظمی کی شاعری

 

جہانِ شعر و ادب میں افسانوی ادب اور اساطیری ادب کی اہمیت تسلیم شدہ ہے جس کا انکار کسی بھی طور ممکنات کا حصہ نہیں ہے۔ اساطیری ادب جسے لوک ادب بھی کہتے ہیں، ہماری کئی سو سالہ تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کا علمبردار ہے۔ اس کے اساطیر ہماری عملی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں اور ثقافتی و عمرانی مقتضیات کے آئینہ دار بھی ہیں۔ جن کا کردار عمرانیات میں کلیدی نوعیت کا حامل ہے۔ جیسا کہ شروعاتِ کتاب میں تلمیحات کی مبادیات میں تلمیحات کی اقسام کے ضمن میں مرقوم ہے کہ اساطیری تلمیحات سے مراد ایسی تلمیحات ہیں جو قصے، کہانیوں اور افسانوی ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگرچہ فضاؔ اعظمی کے ہاں اساطیری تلمیحاتی سرمایہ بہت کم ہے، مگر انہوں نے اسے نظر انداز نہیں کیا۔ شذرہ ہٰذا میں فضاؔ اعظمی کے کلام میں موجود اساطیری تلمیحات کو موضوعِ بحث بنایا جائے گا۔ تمثیلات کے فقدان کے باعث لیکن درجہ بندی کے امتیاز کو روا رکھتے ہوئے دیگر متفرق تلمیحات جن میں کتابی تلمیحات اور ذخیرۂ احادیث کی تلمیحات شامل ہیں، کو بھی مضمونِ ہٰذا کا حصہ بنایا جائے گا۔

فضاؔ اعظمی کی کتاب ’’تری شباہت کے دائرے میں‘‘ کی فردیات و متفرقات میں سے ایک شعر شامل تحریر ہے:

لیلیٰ کبھی محمل سے زمیں پر نہیں اُتری

مجنوں نے کبھی گوشۂ محمل نہیں چھوڑا

اس شعر میں لیلیٰ اور مجنوں کی دو اساطیری تلمیحات موجود ہیں جو مشرقی اساطیری ادب کے دو نمایاں کردار ہیں جنہیں معروف عشقیہ داستان کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ مجنوں جس کا پورا نام قیس عامری تھا، اس لیے بعض شعراء نے اسے قیس کو مجنوں کی متبادل تلمیح کے طور پر بھی برتا ہے۔ مذکورہ شعر میں عشق و محبت کے ایک زاویۂ فکر کو آشکار کیا گیا ہے۔ شاعر گویا ہیں کہ لیلیٰ کبھی محمل سے نہیں اُتری۔ محمل اونٹ کے باپردہ رنگین کجاوے کو کہتے لیں۔ یہاں لیلیٰ کی جسمانی نزاکت کا اظہار کیا گیا ہے۔ مصرع ثانی میں مجنوں کے جذباتِ عشق کی شدت و حدت کو بیان کیا گیا ہے کہ مجنوں نے اس کجاوے کو جس میں لیلیٰ متمکن تھی، کبھی نہیں چھوڑا۔ یہاں فضاؔ اعظمی نے احساسِ قرب کے موضوع کو بھی اجاگر کیا ہے۔

ان کے شعری مجموعہ ’’خاک میں صورتیں‘‘ میں سے ایک بند آپ کے ذوقِ طبع کی نظر ہے:

یہ شہزادی ہے خوابوں کی خیالوں کی یہ ملکہ ہے

چمن زاروں کی ہے یہ ہیر صحراؤں کی لیلا ہے

دریچوں سے اُترتی ہے کہیں یہ جولیٹ بن کر

کہیں پر تیشۂ فرہاد میں مرنے کا سودا ہے

زمانے اور تھے وہ اب نظمِ عشق درہم ہے

نئی دنیا کے محبس میں مزاجِ حسنِ برہم ہے

اس بند کے دو ابتدائی شعروں میں  مختلف تلمیحاتی حوالسوں سے صنفِ نازک کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے ناز و انداز کی توضیح و تصریح ہے۔ شعرِ آخر میں عصری صورتِ احوال کو بیان کیا گیا ہے۔ اس بند میں ہیر، لیلیٰ، جولیٹ اور تیشۂ فرہاد کی اساطیری تلمیحات کا استخدام ہوا ہے۔ تیسرے شعر میں فضاؔ اعظمی نے یہ کہا ہے کہ وہ زمانے اور تھے جو گزر گئے لیکن اب نظامِ عشق درہم برہم ہے۔ نئی دنیا کی قید میں مزاجِ حسن بھی برہم ہے۔ شعرِ آخر موجودہ صورتِ حال کا حقیقی منظر نامہ پیش کرتا ہے۔

فضاؔ اعظمی کے مجموعۂ کلام ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ میں سے دو شعر قابلِ ذکر ہیں جو ’’محبت‘‘ کے زیرِ عنوان ہیں:

کون کہتا ہے کہ انسان کی فطرت میں ہے عشق؟

حسنِ بیمار کہاں عاشقِ دلگیر کہاں ؟

آہِ دل سوز کہاں نالۂ شب گیر کہاں ؟

دشت میں قیس نہیں کوہ میں فرہاد کہاں ؟

ان دو اشعار میں مثنوی کے ہیئتی پہلوؤں سے اگرچہ اعراض برتا گیا ہے مگر فکری حوالے سے انہوں نے استفہامیہ انداز میں تنقیدی رویہ اختیار کیا ہے جس کی بدولت زورِ بیاں فزوں تر ہوا ہے۔ عشق کو جدید تناظر میں پیش کیا ہے جس کی بدولت تصورِ عشق مفقود ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخری مصرع میں قیس و فرہاد کی اساطیری تلمیحات کا انتظام کیا گیا ہے جو لوک عشقیہ داستان کے معروف کردار ہیں۔

علاوہ ازیں فضاؔ اعظمی نے چند کتابی تلمیحات بھی استعمال کی ہیں جو مذہبی حوالے سے معروف ہیں لیکن ان کی حیثیت الہامی کتب کی نہیں ہے۔

’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ سے ایک بند سپردِ قرطاس ہے جو ’’وحدانیت‘‘ کے سرنامے کے تحت ہے جس میں مثنوی کی ہیئت کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔

خود سری، خود غرضی اس کی رگ و پے میں ہے

اس نے ہر دور میں پیدا کیے اصنام صنم

اس کا مذہب سے تعلق ہے نہ تہذیب سے ہے

سلسلہ اس کا نہ گیتا سے نہ زرتشت سے ہے

مذکورہ اشعار کا مرکزی موضوع ’’بت گری روز افزوں شیوۂ انسانی ہے‘‘ ہے۔ آخری مصرع میں گیتا کی کتابی تلمیح کو شامل کیا گیا ہے جس کا تعلق ہندومت سے ہے۔ مزید بر آن زرتشت کا نام بطور مذہبی پیشوا آیا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے ایک اور مقام پر سکھ مت کی کتاب گرنتھ کا ذکر بھی کیا ہے جسے گرو نانک سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب گرو مکھی رسم الخط میں ہے جس میں مثنوی کی ہیئت میں منظومات شامل ہیں جنہیں اشلوک کہا جاتا ہے۔ مزید بر آن ہندو مت کی کتاب وید کا تذکرہ بھی فضاؔ اعظمی کے ہاں پایا جاتا ہے۔

فضاؔ اعظمی نے ذخیرۂ احادیث میں سے بھی ایک تلمیح کو اپنے شعری کینوس کا حصہ بنایا ہے۔ ان کی نظم ’’خاک میں صورتیں‘‘ سے ایک بند قابل ذکر ہے۔

رسولِ مجتبیٰؐ کا قول ہے یہ غور سے سن لو

کہ وہ ماں باپ جن کے گھر میں دخترِ نیک اختر ہو

اور اس کی پرورش وہ شفقت و الطاف سے کر لیں

جو اس کی تربیت پرداخت کا حامی و ضامن ہو

وہ بیٹی باپ اور ماں کو عقوبت سے بچائے گی

وہ ان کے واسطے جنت کی کنجی لے کے آئے گی

یہاں انہوں نے حدیثِ مقدسہ کو بخوبی منظوم کیا ہے اور کسی نوع کی افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوئے جسے ان کا کمالِ فن گردانا جا سکتا ہے۔

اگر ان کی شاعری کو بحیثیت مجموعی عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے اپنی نظمیات میں بحر ہزج کو بکثرت استعمال کیا ہے۔ طبعی اعتبار سے یہ ان کی پسندیدہ بحر ہے۔ دوسرے نمبر پر بحرِ رمل کو استعمال کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر مرکب و محذوف بحور کو بھی وہ بروئے کار لائے ہیں۔ نظم کی نسبت غزل میں انہوں نے زیادہ بحور استعمال کی ہیں جن میں بحر مضارع، بحر رمل، بحر ہزج، بحر رجز، بحر متدارک اور دیگر مرکب و محذوف بحور کا اہتمام کیا ہے۔ بسا اوقات و عروضی تلازمات کا التزام صحیح طور پر نہیں کر پائے۔ کہیں کہیں انہوں نے ارکان کی تعددی مغائرت وہاں بھی روا رکھی ہے جہاں  ہیئتی تقاضے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ بعض مقامات پر مقصدیت کے تقاضے نبھاتے ہوئے انہیں  عروضی تقاضوں کو شعوری اور لاشعوری طور پر بالائے طاق رکھنا پڑا۔ زبان و بیان کا کہیں ایسا استعمال بھی کیا گیا ہے کہ عروضیت مجروح ہوتی ہوئی نظر آئی۔ ان کے فنی معاملات کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انہوں نے فنی مقتضیات کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی مقصدیت کو ترجیح دی ہے۔

فضاؔ اعظمی نے تلمیحات کو اپنی افتادِ طبع کے لحاظ سے استعمال کیا ہے۔ موضوعاتی مقتضیات کے تحت کچھ تلمیحات کا استعمال بکثرت ہوا ہے جبکہ کچھ تلمیحات بہت کم پیمانے پر استعمال ہوئی ہیں اور کچھ کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آئی ہے۔

 

 

 

 

حاصل کلام

 

فضاؔ اعظمی کی شخصیت اور فن کا بنظرِ غائر جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 1930ء میں تولد پذیر ہونے والا یہ سخن ور اپنی ذات میں بہت سے پہلو رکھتا ہے اور اس کی زندگی کئی خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ البتہ ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ موصوف ابتدا سے آخر تک مستقل مزاجی سے شعر و سخن سے وابستہ رہے۔ تاریخ نے کئی کروٹیں بدلیں، بچپن، لڑکپن اور جوانی ہندوستان میں بسر کی۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں قیام پذیر ہوئے۔ چونکہ قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہوئی تھی، اس لیے فطری طور پر وکالت کی طرف متوجہ ہوئے۔ مگر افتادِ طبع اس سے مطابقت پیدا نہ کر سکی اور کچھ عرصہ بعد اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور زیادہ عرصہ اس سے وابستہ رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ صحافت کے ڈانڈے ایک حد تک شعر و ادب سے جا ملتے ہیں۔ صحافت کے علاوہ انہوں نے تجارت کا پیشہ بھی اپنایا اور اسی کے دامن میں آخری پناہ میسر آئی۔ انہیں بیرونِ ملک جانے اور مختلف اسلامی ممالک کی تاریخ و جغرافیہ کا جائزہ لینے کا موقع ملا جس کے حوالے ان کی مختلف کتب میں بھی پائے جاتے ہیں۔

فضاؔ اعظمی بحیثیتِ شاعر ایک متوسط حیثیت رکھنے والے انسان ہیں۔ نہ تو ان کا شمار بہت زیادہ کہنہ مشق، پختہ کار اور عصر آفریں اساتذہ میں کیا جا سکتا ہے اور نہ انہیں کم تر درجے کی طرف لایا جا سکتا ہے۔ بلکہ انہوں نے اپنے تجربات اور فنی ریاضت نیز وسیع تر مطالعہ کے باعث ادبی حلقوں میں نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ان پر بیسیوں شذرے لکھے گئے۔ خصوصاً ً ایم اور ایم فل کے پیمانے پر ان کی نسبت تحقیقی کام بھی ہوا ہے۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ غزل کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ عصری حوالے سے بھی پورا پورا انصاف کرتے ہیں۔ یہ ایک دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں۔ خصوصاً ً قومی و ملی شعور وافر پایا جاتا ہے۔ ظلم جہاں  بھی ہوتا ہے، ان کی روح تلملا اٹھتی ہے۔ نا انصافی جہاں بھی ہوتی ہے، ان کا قلم حرکت میں آ جاتا ہے۔ دہرے رویے جہاں بھی کارگر نظر آتے ہیں، وہیں ان کی صدائے احتجاج بلند ہو جاتی ہے۔ بطورِ خاص اسلامیانِ عالم کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں چاہے وہ یہود و نصاریٰ کی طرف سے ہوں یا ہنود کی طرف سے ہوں، ان کا تعلق اہلِ اشتراکیت سے ہو یا اہلِ اشتمالیت سے ہو، وہ کسی بھی قوم کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کو مسترد کرتے ہیں بلکہ دیگر اقوام پر بھی ظلم و ستم کو رد کرتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جتنا بڑا ذخیرۂ سخن ایک شاعر چھوڑتا ہے، اس میں اسی قدر انتقادی احتمالات وسیع پیمانے میں پائے جاتے ہیں۔ تلمیحات کے حوالے سے کسی شاعر کے کلام پر ہونے والا کام یقیناً ژرف نگاہی کا متحمل ہے اور اس میں مختلف اقسام کی تلمیحات دریافت کرنا اور انہیں اجاگر کر کے منظرِ عام پر لانا جہاں راقم کے لیے خصوصاً ً مشقت طلب رہا۔ وہاں فضاؔ اعظمی کے شعری تبحر کا بھی امتحان ٹھہرا اور بفضلہ تعالیٰ دونوں اس میں سرخرو ٹھہرے۔

ہماری دعا ہے کہ رب العزت ہماری اس کاوش کو، فضاؔ اعظمی کی فکر و دانش کو اہلِ عالم کے لیے مفید ٹھہرائے۔ (آمین)

 

 

 

شبیر ناقدؔ کی گراں قدر تصانیف

 

شاعری کی مطبوعہ کتب:

1-صلیب شعور (غزلیات و نظمیات)   2007ء

2-من دی مسجد (سرائیکی شاعری)     2010ء

3-آہنگِ خاطر (غزلیات و نظمیات، گیت، قطعات)   2011ء

4-جادہ فکر (غزلیات ونظمیات )    2014ء

5-صبحِ کاوش (غزلیات، نظمیات)    2015ء

6۔ دل سے دور نہیں ہو تم (غزلیات و نظمیات)   2016ء

7۔ کتابِ وفا (مجموعہ غزل)    2016ء

8-گنج آگہی (مجموعۂ غزل)    2016ء

9۔ روح دی روہی (سرائیکی شاعری)   2016ء

10۔ جہانِ عقل و جنوں (اردو شاعری)   2017ء

11۔ زادِ سخن (اردو شاعری)    2017ء

12۔ حسنِ خیال (اردو شاعری)    2018ء

13۔ رتجگوں کا سفر (اردو شاعری)    2018ء

14۔ طرزِ بیاں (اردو شاعری)    2018ء

15۔ عکاسِ احساس (اردو شاعری)    2018ء

16۔ نقدِ فکر و نظر (غزل و نظم)    2019ء

تنقید و تحقیق کی مطبوعہ کتب:

1-ابو البیان ظہور احمد فاتح کا کیف غزل (شخصیت اور فن)   2013ء

2-شاعراتِ ارض پاک (حصہ اول )تنقیدی مضامین و منتخب کلام 2013ء

3-شاعرات ارض پاک حصہ دوم)تنقیدی مضامین و منتخب کلام 2013ء

4-شاعراتِ ارض پاک (حصہ سوم) تنقیدی مضامین و منتخب کلام  2013ء

5-نقدِ فن(تنقیدی مضامین )    2014ء

6-شاعراتِ ارضِ پاک(حصہ چہارم)تنقیدی مضامین و منتخب کلام 2014ء

7-شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ پنجم) تنقیدی مضامین و منتخب کلام  2015ء

8-شاعرات ارضِ پاک (حصہ ششم )تنقیدی مضامین و منتخب کلام 2015ء

9۔ شاعرات ارض پاک (حصہ ہفتم)تنقیدی مضامین و منتخب کلام 2016ء

10۔ تلمیحاتِ فضاؔ اعظمی (تنقید و تحقیق)    2016ء

11-شاعراتِ ارضِ پاک جامع ایڈیشن (حصہ اول)  2016ء

12۔ ابو البیان ظہور احمد فاتح کا منشورِ نظم(نظمیاتی تجزیہ)  2016ء

13-میزان تنقید (تنقیدی مضامین )   2017ء

14-تنقیدات (تنقیدی مضامین )    2018ء

15۔ سفر نامہ نگاری کے انتقادی امکانات (حصہ اول)  2018ء

16۔ شاعراتِ ارضِ پاک (جامع ایڈیشن) جلد دوم  2018ء

17۔ فضا اعظمی کی شاعری (تلمیحات کے آئینے میں )  2019ء

زیرِ طبع تخلیقات و تحقیقات:

17-توضیحات (تنقیدی مضامین )    زیر طبع

18-زاویے -تنقیدی مضامین     زیر طبع

19۔ تناظرات (تنقیدی مضامین)    زیرِ طبع

20۔ اطلاقی تنقید کی اقدار (تنقیدی مضامین)   زیرِ طبع

21۔ تجزیات (تنقیدی مضامین)    زیرِ طبع

٭٭٭

تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل