FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

شاعراتِ ارضِ پاک

     (حصہ سوم)

(تنقیدی مضامین و منتخب کلام)

        شبیر ناقِدؔ



انتساب

اُن شاعرات کے نام جن کے احساسات

کی مہک سے گلشنِ شعر معطر و معنبر ہے

 

مسطورات بحوالہ مستورات اہلِ سخن

         ابو البیان ظہور احمد فاتح

خالقِ کائنات نے گلشنِ حیات پیدا فرمایا اور گلہائے رنگ و بو کو اصناف میں بانٹ دیا۔ حضرتِ انسان کے ذوقِ لطیف کی تسکین کے لیے فنونِ لطیفہ کا اہتمام فرمایا اور ان فنون میں سے شعر و ادب کو نمایاں درجہ عطا فرمایا تخلیقِ آدم کو زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو گا کہ ابنائے آدم نے شعر گوئی کا آغاز کر دیا اس خوبصورت ہنر کی جب پذیرائی عام ہونے لگی اور اہلِ ہنر کے تاریخی انداز میں چرچے ہونے لگے تو بناتِ حوا بھی لجاتی ہوئی اس زمرے میں آ موجود ہوئیں پھر کیا تھا نسائی ادب کا آغاز ہو گیا کو بہ کو داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جانے لگے اور شدہ شدہ شاعرات کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

اگر ہم اردو شعر و ادب کا جائزہ لیں تو ابتدا میں خواتین اہل سخن انگلیوں پر گنی جا سکتی تھیں۔ تاہم سماجی جکڑ بندیوں میں کمی آنے اور باہمی روا داریوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے شاعرات کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا جب مؤقر تالیف ’’شاعراتِ ارض پاک‘‘ کا آغاز کیا گیا تو یہ اندازہ قطعاً نہیں تھا کہ معاملہ کئی جلدوں پر پہنچ جائے گا اور اب بھی تیّقن سے کچھ نہیں کہا جا سکتا   ؎

بات چل نکلی ہے اب جانے کہاں تک پہنچے؟

نسائی شعری ادب کے حوالے سے جو نگارشات مجموعہ ہائے کلام کی صورت میں مجتمع ہوئیں یہ دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا کہ سب کا ہنر اعلیٰ مدارج کو پہنچا ہوا ہے البتہ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ با ہمت خواتین کی ایک جماعت میدانِ سخن میں گامزن ہو چکی ہے اور عمدہ سے عمدہ شعری کاوشیں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہم کسی خاص صنف کی وکالت پر کمربستہ نہیں ہیں اور نہ اس سے یہ مراد لی جائے کہ مردانہ وقار کو پسِ پشت ڈال کر طبقۂ نسواں کی جانبداری کی جا رہی ہے بلکہ ایک آزاد اور وسیع الذہن سخن شناس کی حیثیت سے قدر شناسی کے تقاضے نبھائے جا رہے ہیں۔ کتابِ ہٰذا میں جن مستورات کا کلام بلاغت نظام شامل کیا گیا ہے وہ یقیناً ہدیۂ تبریک کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے طور پر اور اپنے اپنے انداز میں گلشنِ اُردو میں گلکاریاں کرنے کی سعی جمیل کی ہے ہم اس موقع پر ناقدِ ادب شبیر ناقدؔ کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ جن کی محنتِ شاقہ ایک خوبصورت گلدستۂ کلام اور ایک عمدہ تنقیدی اثاثہ بہم پہنچانے کا ذریعہ بنی ہے ان کی تلاش و جستجو لائقِ تحسین ہے ان کا عزم قابلِ قدر ہے جس کے باعث ’’شاعرات ارض پاک‘‘ کی جلد سوئم بھی منصہ شہود پر آ گئی ہے جس برجستہ اور غیر مبہم انداز میں انہوں نے شبانہ روز کام کیا ہے ہم اس پر انہیں شاباش کہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ جب تک اس حوالے سے کتب موصول ہوتی رہیں گی وہ اپنا سلسلہ دراز کرتے چلے جائیں گے   ؎

جنوں میں دیکھیے میدان کس کے ہاتھ رہتا ہے؟

پڑی ہے آبلوں میں پھوٹ اور ایکا ہے خاروں میں

ہم یہاں عظیم ناشر شاعر علی شاعر کو بھی ان کی بے لوث ادبی وابستگی اور لسانِ اردو کی آرائشِ گیسو پر ان کی ستائش کیے بغیر نہیں رہ سکتے ہماری دعا ہے کہ قدرتِ کاملہ انہیں بھی بہتر سے بہتر مواقع سے نوازتی رہے اور وہ اپنی خدمات عروسِ شعر و ادب کے لیے بروئے کار لاتے رہیں۔ (آمین ثم آمین)

٭٭٭

 

آئرین فرحتؔ جدید امکانات کی شاعرہ

وسائل کی عدم تقسیم، غربت و مہنگائی، لاقانونیت اور دہشت گردی عصرِ حاضر کے وہ مسائل ہیں جنہوں نے بنی نوع انسان کو یاسیت و قنوطیت کے دشت میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ انسان نے زیست سے مفر کی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں جس کا اثر انسانی اخلاق اور روئیوں پر بھی ہوا ہے یہی اثرات و شواہد ہمارے عصری ادب کا حصہ ہیں فنِ شعر کا نازک شعبہ بھی انہی حالات سے بری طرح متاثر ہوا مایوسیوں اور بیزاریوں نے شعری اظہار کا روپ دھار لیا اور قاری نے شعر و سخن سے کنارہ کشی اختیار کر لی جس کی وجہ سے شعر کا دائرہ کار محدود ہو کر قلم قبیلے تک رہ گیا اور تخلیق کیے جانے والا ادب بھی ادب برائے ادب کے زمرے کا حامل ہو گیا لیکن کچھ دور اندیش شعراء اور شاعرات نے اپنے فکری کینوس میں خوشی و مسرت، طرب و تمکنت اور جدید امکانات کا اہتمام کیا انہیں دور اندیش احباب میں ایک نام آئرین فرحت کا بھی ہے جنہوں نے قاری کا شعر و سخن سے منقطع تعلق کو استوار کرنے کی ایک سعیِ بلیغ کی ہے اس سے قبل کہ ہم مذکورہ موضوع کے تناظر میں ان کی غزلیات کے منتخب اشعار شاملِ تجزیہ کریں ان کے سوانحی کوائف پر طائرانہ نظر ڈالنا بھی ضروری ہے کیونکہ ہر تخلیق اپنے تخلیق کار کی شخصیت کا پرتو ہوتی ہے عمرانی تنقیدی نقطۂ نظر سے یہ امر ناگزیر ہے کہ ان کے فن کا جائزہ ان کے عہد اور سوانحی حالات مد نظر رکھ کر لیا جائے آئرین فرحت 18 ستمبر 1969ء کو پیدا ہوئیں ان کی جنم بھومی ضلع سانگھڑ سندھ ہے ان کی شاعری کا آغاز اسکول کے زمانے سے ہی ہو گیا تھا کیونکہ انہوں نے اسکول کی عمر میں ہی بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں رسمی تعلیم کا سلسلہ انہوں نے بی ایڈ اور ایم ایڈ تک پہنچایا درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں تادم تحریر گورنمنٹ سیکنڈری ہائی اسکول نورالاسلام کراچی میں تدریسی فرائض سرانجام دے رہی ہیں ادبی تنظیمی حوالوں سے بہت سی وابستگیوں کی حامل ہیں کراچی برانچ کرسچن رائٹرز گلڈ کی جنرل سیکرٹری ہیں نائب صدر نوجوانانِ شہر کراچی ممبر آرٹس کونسل،کراچی چیئرپرسن دی سارنگ آرٹ ویلی کراچی اور کراچی کرائسٹ ٹائمز کی سب ایڈیٹر بھی ہیں ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’ہوا کا رخ بدلنا چاہتی ہوں ‘‘ سے معنون 2013ء میں منصہ شہود پر آیا جس میں غزلیں ، آزاد نظمیں اور کچھ پابند نظمیں شامل ہیں مذکورہ کتاب کا ٹائٹل زیفرین کھوکھر کے آرٹ کا حسین شاہکار ہے ان کا کلام روزنامہ نوائے وقت، جسارت، آفتاب، نئی بات، اخبارِ جہاں ، فیملی میگزین، غازی میگزین، ساون میگزین، دنیائے ادب کراچی، دی کرائسٹ ٹائمز کراچی، ادبِ معلی لاہور اور عالمی رنگ ادب کراچی کی زینت بنتا رہتا ہے علاوہ ازیں گڈ نیوز ٹی وی، فیبا ریڈیو میں ’’کتاب دوست‘‘ اور ’’غزل رنگ‘‘ جیسے ادبی پروگرام کیے اور فیچر ٹریول سے متعلق کام کیا پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اس کے علاوہ مذہبوں گیتوں کی میزبانی کا شرف بھی انہیں حاصل ہے میٹرو ٹی وی، پی ٹی وی سندھ ٹی وی اور پلے ٹی وی پر اُن کے انٹرویوز بھی ٹیلی کاسٹ ہوئے ہیں اپنا ٹی وی، دھوم ٹی وی، گڈ نیوز ٹی وی اور جیو ٹی وی کے مختلف برنامجوں میں کمپیئرنگ۔ ڈوکومینٹری اور ڈبنگ کا اعزاز بھی ان کے پاس ہے آئی ڈی شہباز ایوارڈ، عالمی مشاعرہ 2005ئ، 2007ء کی نظامت کے فرائض کے ایوارڈز بھی انہوں نے حاصل کیے بے نظیر بھٹو آل پاکستان مشاعرہ کی نظامت، یونائیٹڈ چرچ آف پاکستان کی جانب سے حسنِ کارکردگی، کرائسٹ ٹائمز میگزین اور آفتاب نیوز پیپر کی جانب سے انہیں ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے پی ٹی وی کے لیے ایک طویل عرصہ سے کرسمس اور ایسٹر گیت لکھے اور کیسٹس کے لیے بھی بے شمار گیت لکھے ان کے کچھ مشہور مذہبی گیت جو مختلف گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے گائے وہ درج ذیل ہیں :

-1     فلک کے ستاروں نے نغمے سنائے           (غلام عباس)

-2      شامِ غم زندگی کی عطا ہے                    (بنجمن سسٹرز)

-3      خوشیاں گلے ملی ہیں نئی بات ہو گئی                    (سنبل نورین / آصف رضا)

-4      جنتاں دے بند بوہے یسوع توں ہی کھولنے        (انجم عالم)

-5      مریم کی گود میں چمکا وہ آفتاب              (سنبل نورین)

-6      پریشاں جدوں وی توہویں گا یسوع نال ہوئے گا    (محمد علی)

-7      یہ شب جو آج آئی ہے بہت ہی خوبصورت ہے   (شبانہ جوزف)

-8      محبت کی ادا کہیے جدا یہ سلسلہ کہیے!                   (جاوید نور / سنورینہ جاوید)

-9      شکر اوسے داہر دم منا بندیا جنے دتے تینوں زندگی دے ساہ بندیا۔  (ڈینئیل ولائیت)

آئرین فرحت کے سوانحی حالات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ادبی حوالے سے بھرپور زندگی گزاری ہے اور مقبولیت و پذیرائی کی بے پناہ دولت سمیٹی ہے ہم ان کے مذکورہ مجموعہ کے ثلث اول کے منتخب غزلیات کے اشعار موضوع کی مناسبت سے شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

ایک مہم جو طبیعت ہی انقلاب کی خواہاں ہوا کرتی ہے کیونکہ وہ ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کا ہنر جانتی ہے ہر مشکل سے مشکل کام کرسکتی ہے زیست کے مصائب و آلام کا ادراک اور منزل پر پہنچے کے عزمِ صمیم سے ہی حیات کے روشن امکانات ضو پاش ہوتے ہیں جو انسان کو زندگی کرنے کی شکتی دیتے ہیں اذیتوں کے عہد میں وجہِ راحت بننے کی خواہش بھی ایک نویدِ سعید ہے غم و الم سے نباہ کرتے ہوئے بھی حسرت و شادمانی کی توقع جدید امکانات کی وہ مشعل ہے جو سدا فروزاں رہتی ہے انہی افکار سے مرصع آئرین فرحتؔ کی ایک غزل کے چار اشعار دیکھتے ہیں    ؎

ہوا کا رخ بدلنا چاہتی ہوں

کبھی پانی پر چلنا چاہتی ہوں

میں رستوں میں الجھ کر رہ گئی ہوں

سرِ منزل اترنا چاہتی ہوں

لہو کی سرخیاں پھیلی ہیں ہر سو

ہری اک شاخ بننا چاہتی ہوں

غموں کے ساتھ گزری زندگی پر

خوشی کے ساتھ مرنا چاہتی ہوں

ان کے کلام میں بالیدہ فکری کے مظاہر وفور سے ملتے ہیں جس سے ان کی عمیق شعری ریاضت کی غمازی ہوتی ہے ان کے تخیلات میں چٹان جیسے حوصلوں کی داستان پائی جاتی ہے ان کا سخن امکانات کے نئے باب و اکرتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ کٹھنائیوں کا سامنا کرنے کا جگر رکھتی ہیں اس لیے وہ رجائیت کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز دکھائی دیتی ہیں وہ غموں کے اتھاہ سمندر میں مسرت کے شواہد تلاش کرنے کا فن جانتی ہیں اسی حوالے سے ان کا ایک شعر اور مقطع لائقِ توجہ ہے   ؎

تشنہ ہونٹوں پر شبنم کی ایک ہی بوند

بوند کو پھر دریا ہونے تک دیکھا ہے

وقت خراشیں چھوڑ گیا ہے دل پر فرحتؔ

سوکھا پیڑ ہرا ہونے تک دیکھا ہے

آئرین فرحتؔ کے فکری کینوس میں انقلاب اور امکانات کا ایک جہان آباد ہے جہاں زندگی اپنی حقیقی صورت میں دکھائی دیتی ہے یہی سبب ہے کہ ان کے مخزنِ شعر میں آموز گاری کے بے انت شواہد ملتے ہیں اس لیے وہ جا بجا اپنے قاری کو ایک نئے شعور سے ہم آہنگ کرتی دکھائی دیتی ہیں یہی سبب ہے کہ ان کا قاری شعورِ حیات سے مالا مال نظر آتا ہے یہی امر اُن کی فکری بلوغت کی دلالت کرتا ہے اسی نسبت سے ان کی غزل کے دو اشعار درِ التفات پر دق الباب کر رہے ہیں   ؎

اک نئی تمنا کو دل میں پلنے دینا ہے

اور ٹوٹ جانے کا حوصلہ بھی رکھنا ہے

خواہشوں کے جنگل میں دور دور جانا ہے

پھر پلٹ کے آنے کا حوصلہ بھی رکھنا ہے

اُن کی شاعری جدید امکانات کا وہ مخزن ہے جہاں کوئی موسمِ خزاں نہیں ہے یاسیت کی تیرگی کو چاک کرنے والی رجائیت موجود ہے آئرین فرحتؔ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے حزن و ملال، قنوطیت، فکری خلفشار اور ذہنی تناؤ کے عہد میں نئے امکانات کی شمعیں روشن کی ہیں اس سلسلے میں ان کا عزم و ولولہ لائقِ صد ستائش ہے   ؎

محبت زرد موسم سے لپٹ کر جب بھی روتی ہے

تو بالوں میں گلابوں کو سجا کر دیکھ لیتے ہیں

وہ اپنے قاری کو زندگی کی زندہ دلی کا درس دیتی ہیں اس لیے ان کے سخن سے مسرت کے چشمے پھوٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کے ہاں مایوسیوں اور افسردگیوں کا کوئی گزر نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں ایک فکری ہشاشیت و  بشاشیت پائی جاتی ہے بقول ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ

زندگی زندہ دلی سے جو گزاری ہم نے

موت بھی دے کے ہمیں جامِ بقا گزرے گی

بقول کسے   ؎

زندگی زندہ دلی کا نام ہے

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

اس حوالے سے ان کا نقطہ نظر دیکھتے ہیں   ؎

ٹوٹ جانا اور بکھرنا تو بہت آسان ہے

ہم نے سب ہنس کر گزارا زندگی کے کھیل میں

وہ اپنے ذاتی ادراکات کا مکمل شعور رکھتی ہیں اور اپنی اہمیت سے آگاہ ہیں اس لیے ان کے ہاں تعلّیاتی شواہد بھی ہیں اور ایک احساسِ خود محبوبی کی جھلک بھی ملتی ہے یہ وہ احساسات ہیں جو انہیں رہنِ یاس نہیں ہونے دیتے جس سے ان کے ہاں جدید امکانات کے نئے باب وا ہوتے رہتے ہیں اور ان کی دور اندیشی کی ترجمانی بھی ہوتی ہے    ؎

آج بھی کچھ کم نہیں ہیں چاہنے والے مرے

یاد آؤں گی تمہیں شدت سے مر جانے کے بعد

مشمولہ بسیط امکانی مظاہر اس امر کے بھرپور عکاس ہیں کہ آئرین فرحتؔ کے ہاں جدید امکانات وفور سے پائے جاتے ہیں جس سے ان کے ادب برائے زندگی کے نظریے کی تصدیق ہوتی ہے اگر اسی تواتر اور سرعت سے ان کا شعری ریاض جاری و ساری رہا تو آوازوں کے اس ہجوم میں اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

٭٭٭

 

               آئرین فرحتؔ

میں پتے ہاتھ سے تھاموں تو شاخیں ٹوٹ جاتی ہیں

جو تم سے بات کرتی ہوں تو باتیں ٹوٹ جاتی ہیں

محبت کے یہ رشتے دھڑکنوں کے ساتھ ہوتے ہیں

کہ دل کا روگ لگنے سے یہ سانسیں ٹوٹ جاتی ہیں

جو دن بھر کی مسافت بعد یہ چاہا کہ سو جاؤں

ذرا سی آنکھ کیا لگتی ہے راتیں ٹوٹ جاتی ہیں ؟

زمین و آسماں کا فرق تو حدِ نظر کا ہے

کہاں تک باندھ پاؤ گے یہ ذاتیں ٹوٹ جاتی ہیں ؟

مری سوچوں پہ پہرے کیا بٹھائیں گے جہاں والے؟

کہ فرحتؔ قید کرتے ہی سلاخیں ٹوٹ جاتی ہیں

٭٭٭

 

سوچتی ہوں بھنور میں رہتی ہوں

یا میں پانی کے گھر میں رہتی ہوں

ان ستاروں کی چال ہے کوئی

جو انہی کے اثر میں رہتی ہوں

بات بھی مختصر سی کرتی ہوں

پھر بھی ہر اک خبر میں رہتی ہوں

چھپتی پھرتی ہوں اپنے آپ سے میں

اور ہر اک نظر میں رہتی ہوں

پاؤں سے دائرے نہیں جاتے

ہر قدم پر سفر میں رہتی ہوں

٭٭٭

 

بسملؔ صابری کی شاعری کی رومانی فضا

شاعری ایک درپن ہے جس میں طرح طرح کی تصاویر گو ناگوں عکس اور پرتوِ تجربات شاعر از راہِ واردات دکھاتا رہتا ہے ایک جذبہ ایسا بھی ہے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پھوٹتا ہے اور اس کی وسعتیں آفاقی ہوتی ہیں یہ جذبہ انس، پیار، محبت اور عشق کے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے علاوہ ازیں خوش ذوقی اور شوقِ جمال بھی اسی ذیل میں شامل ہیں ان جملہ کوائف کو اگر کسی ایک نام سے پکارنا ہو تو وہ نام ہے ’’رومان‘‘ یہ لطیف جذبوں کی کہکشاں ہے اور شاعری جس کا شمار فنونِ لطیفہ میں کیا جاتا ہے اس کے بغیر بے مزہ اور ناتمام ہے۔

بہت سے شعراء ایسے گزرے ہیں جن کی شاعری میں رومانی فضا اجاگر ہو رہی ہے جیسے شاعرِ رومان اختر شیرانی اور عصرِ حاضر میں ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ جن کی شاعری سر بہ سر رومان میں ڈوبی ہوئی ہے بسملؔ صابری کے کلام کا مطالعہ کرنے سے بھی یہ خوشگوار حیرت دامن گیر ہوئی ہے کہ ان کے سخن میں ماشاء اللہ خاصی رومانی کیفیت پائی جاتی ہے شذرہ ہٰذا میں ہم بسمل صابری کی رومانی شاعری کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کا شعری سفر انتہائی سرعت سے جاری و ساری ہے ان کے تا دمِ تحریر تین شعری مجموعے منصہ شہود پر آ چکے ہیں شعر کی دیوی ان پر یوں مہربان ہے کہ خود ان کے بقول ’’تخیلات موزوں اشعار کی صورت ان کی سطحِ ذہن پر وارد ہوتے ہیں ان کے ہاں فطری طور پر عروضی تلازمات کا التزام پایا جاتا ہے اس سلسلے میں انہیں کسی ذاتی یا کسبی کاوش کے مرحلے سے نہیں گزرنا پڑتا۔ ‘‘ بسملؔ صابری کا تعلق ساہیوال سے ہے اور گورنمنٹ کالج آف ساہیوال سے اردو ادبیات کی ریٹائرڈ پروفیسر ہیں ہنوز ان کے لیل و نہار گیسوئے شعر سنوارنے میں صرف ہو رہے ہیں اُن کے تیسرے شعری مجموعہ مطبوعہ جون 2013ء ’’یادوں کی بارشیں ‘‘کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

بسملؔ صابری کے ہاں محبت کے عمیق جذبات و احساسات پائے جاتے ہیں جس سے اُن کے تجربے اور مشاہدے کی غمازی ہوتی ہے رومانی حوالے سے اُن کی فکر گیرائی و گہرائی کی حامل ہے رومان نگاری کی نسبت سے ان کا فکری کینوس بہت وسیع ہے جو زمان و مکان کی حدود و قیود سے مبرا و ماورا ہے اُن کی محبت سماج میں خوشگواری اور لطافتوں کو فروغ بخشتی ہے اور پورے ماحول میں ایک نگہت بیز منظر چھا جاتا ہے محبوب کا دعاؤں میں در آنا اور سوندھی سوندھی خوشبو کا فضاؤں میں بکھرنا بے انتہا محبت کی عمدہ تمثیل ہے اس حوالے سے اُن کی غزل کا ایک شعر دیدنی ہے   ؎

خوشبو ہے سوندھی سوندھی ہر سو فضاؤں میں

یہ کون آ گیا ہے مِری سب دعاؤں میں ؟

اُن کے ہاں رومان کے جذبے بے انت اور شدت وحدت کے ساتھ پائے جاتے ہیں بسملؔ صابری کے شعری مخزن میں جہاں محبت کی وسعت کا مذکور ہے وہاں راہِ الفت کی دشواریوں اور کٹھنائیوں کا بیانِ ذیشان بھی ہے   ؎

محبت ایسا دریا ہے کنارا مل نہیں سکتا

یہ رستہ ہے بہت دشوار سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے

عصر حاضر میں وہ محبتوں کی بے مائیگی پر نوحہ کناں اور محو فغاں ہیں محبت کے تقدس کے معدوم ہونے پر شاکی ہیں ان کے نزدیک چاہت جو ایک پوتر جذبہ تھا نہیں رہا الفتوں کی ایسی صورتِ حال پر اُن کا دل کڑھتا ہے اور اُن کا شعور بین کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے عصری الفت کو وہ کاروبار گردانتی ہیں جہاں اندیشۂ سود و زیاں بھی ہے    ؎

مرا احساسِ عرفاں آج بھی روتا ہے محفل میں

محبت کا یہ کاروبار سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے

مذکورہ اشعار کے علاوہ بھی ان کے بے شمار اشعار ہیں جو ان کے احساسِ محبت کے آئینہ دار ہیں قارئینِ شعر و سخن کے ذوقِ طبع کے لیے بدونِ تبصرہ زیبِ قرطاس ہیں   ؎

٭

دل کے وہ تار جو میں نے کبھی چھیڑے ہی نہ تھے

ہجر کا ساز تو وہ خود ہی بجانے آئے

ہر نئی شام نیا درد لیے آتی ہے

عشق کا روگ مرے ہوش گنوانے آئے

٭

کبھی سوچا نہ تھا رستے میں مجھ کو چھوڑ جائے گا

یہی ہے کیا محبت کا صلہ کہنا ہی پڑتا ہے

٭

تمہاری یاد بھی اب ساتھ ساتھ رہتی ہے

دیارِ عشق میں اس کو قیام ہو جائے

٭

جنوں کے جذبے جھلک رہے ہیں خوشی مناؤ

کہ جام سارے کھنک رہے ہیں خوشی مناؤ

٭

اے محبت ترے خمار میں ہوں

گیت گاتی ہوں ان بہاروں میں

مذکورہ چند تصریحات رومان نگاری کے حوالے سے اُن کے مجموعی کلام کا عشرِ عشیر بھی نہیں جس سے یہ احساس حدِ تیقن کو پہنچتا ہے کہ بسملؔ صابری عالمِ رومان کی شاعرہ ہیں ان کے ہاں لطافتوں کے پیرائے میں محبتوں کی داستاں سمٹی ہوئی ہے ہماری دعا ہے اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ

٭٭٭

 

               بسملؔ صابری

جنوں کے جذبے جھلک رہے ہیں خوشی مناؤ

کہ جام سارے کھنک رہے ہیں خوشی مناؤ

حیا کے آنچل سرک رہے ہیں خوشی مناؤ

وفا کے آنسو ڈھلک رہے ہیں خوشی مناؤ

حسیں گلوں سے ہے منظروں میں جمال ایسا

کہ رنگ سارے چھلک رہے ہیں خوشی مناؤ

حسیں پرندے وطن کے ورثے کا گیت گا کر

عجیب دھن میں چہک رہے ہیں خوشی مناؤ

یوں گلستاں میں بہار خوشبو لٹا رہی ہے

وہ ہوش میں بھی بہک رہے ہیں خوشی مناؤ

نئی رتوں میں چمن کا ایسے مزاج بدلا

کہ سنگ ریزے چمک رہے ہیں خوشی مناؤ

گداز جسموں میں شور ایسا جلالتوں کا

وہ خواب میں بھی مٹک رہے ہیں خوشی مناؤ

پرندے شاخِ چمن گلے سے لگا رہے ہیں

گلوں کو جیسے تھپک رہے ہیں خوشی مناؤ

کئی پرندے نکل کے جنگل سے اُڑ گئے ہیں

وہ پانیوں پہ مٹک رہے ہیں خوشی مناؤ

یہی تو نقشِ وفا سے بسملؔ ہر اک فنا کو

یہ سنگ سارے دمک رہے ہیں خوشی مناؤ

٭٭٭

 

اب عرضِ ہُنر کرنے کا امکاں نہیں ہوتا

کیوں درد کے ماروں کا بھی درماں نہیں ہوتا؟

اک بزم سجائی تھی ترے پیار کی خاطر

گھر دل کی زمیں پر کوئی آساں نہیں ہوتا

احساسِ تغافل ہی سے میں شعلہ نوا ہوں

ہر شعرِ سخن تو مری پہچاں نہیں ہوتا

غم ہائے زمانہ تو ملے چاروں طرف سے

یہ درد چھپانا کوئی آساں نہیں ہوتا

کھنڈرات کی عظمت کا تو اندازہ ہے مجھ کو

آئینہ مجھے دیکھ کے حیراں نہیں ہوتا

آنگن میں تو گھر کے کبھی اگتی نہیں فصلیں

رستے میں کہیں کوئی بیاباں نہیں ہوتا

کر دیتا ہے جو جان فدا پیار کی خاطر

اک بھوک کی خاطر کوئی ناداں نہیں ہوتا

کر لیتا ہے نفرت میں کبھی پیار کا سودا

محبوب تو ہوتا ہے مری جاں نہیں ہوتا

شاید کوئی منظر ہو نہاں خانۂ دل میں

ہر نخلِ بہاراں تو گلستاں نہیں ہوتا

اب رونقِ بازار کہاں میرے نگر میں ؟

دل جس سے بہل جائے وہ ساماں نہیں ہوتا

آغازِ سفر صرف ارادے میں ہے پنہاں

بسملؔ کوئی رستہ کبھی آساں نہیں ہوتا

٭٭٭

 

پروینؔ نظیر سومرو ہجر و وصال کی شاعرہ

عشق ہجر و وصال سے عبارت ہے یہ دونوں کیفیات حزن و مسرت سے نسبت رکھتی ہیں جن میں وارداتِ دل بھی ہوتی ہیں اور جذبات دل بھی ہوتے ہیں آج ہم پروینؔ نظیر سومرو کے سخن کے حوالے سے رقمطراز ہیں ان کے آباء و اجداد کا مولد و مسکن حیدرآباد دکن تھا جو بعد میں ہجرت کر کے کراچی میں اقامت پذیر ہوئے ان کے کلام میں ہجر و وصال کے شواہد بکثرت ملتے ہیں عشق و الفت کے حوالے سے عمومی اور روایتی خیالات ہیں جو عام طور پر نسائی خیالات کا حصہ ہوتے ہیں ان کے شعری مجموعہ ’’بے صدا دریچے‘‘ کے چند منتخب غزلیہ اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں شاملِ شذرہ ہیں یہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے اس کی اشاعت 2005ء میں عمل میں آئی کتابِ ہٰذا کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے اب تک اس کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

شاعری بنیادی طور پر عشق سے جنم لیتی ہے وہ عشق حقیقی یا مجازی کسی بھی نوعیت کا ہوسکتا ہے جس میں مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ دیگر موضوعات بھی در آتے ہیں یہی صورت حال پروین نظیر سومرو کے کلام کی ہے۔

محبوب حسن اور احساسِ حسن کا مرقع ہوتا ہے اسی لیے اس سے جفاؤں کا صدور ہوتا رہتا ہے جب کہ اس کی جفا شعاری کے باوجود بھی محب سے وفاؤں کا اعادہ ہوتا رہتا ہے اصل میں جفاؤں کے بدلے وفائیں کرنا ہی اصلِ محبت ہے اس طرح کے روایتی خیالات ان کی غزل کے دو اشعار میں مشاہدہ کرتے ہیں جن میں انہوں نے پوری داستان ہجر سمو دی ہے   ؎

میں ہر قدم پر جس کا سہارا بنی رہی

وہ دو گھڑی کو میرا سہارا نہیں ہوا

ہم اُس کی چاہتوں کو لیے در بدر پھرے

وہ غیر کا ہوا تو ہمارا نہیں ہوا

عالمِ ہجراں سوز و گداز سے نسبت رکھتا ہے جب کہ قرب ایک بہار آفریں کیفیت کا نام ہے ان کے ہاں جہاں ہجر کے مصائب و آلام کا مذکور ہے وہاں وصل کا کیف و سرور ہے اس لیے حزنیہ اور طربیہ حوالے ساتھ ساتھ ملتے ہیں بسا اوقات ان کا پیرایۂ اظہار جدت سے مملو ہوتا ہے عام طور پر وصل کی ساعتیں مختصر دکھائی دیتی ہیں لیکن ان کے ہاں اس حوالے سے قناعت پسندی ملتی ہے اس لیے انہیں وصل کا ایک پل صدیوں پر محیط لگتا ہے اس نسبت سے ان کی غزل کا ایک شعر دیدنی ہے   ؎

اک عشق کی قربت نے کیا وقت کو یوں قید

صدیوں پہ ہے پھیلا ہوا بس قرب کا اک پل

اُن کے تخیلات میں ہجر کی اذیتیں بھرپور انداز میں ملتی ہیں کیونکہ عالمِ ہجراں عشاق کے لیے قیامتِ کبریٰ سے کم نہیں ہوتا فرقت کا دکھ بہت ہی اذیت ناک ہوتا ہے جس میں سانسیں سزا بن جاتی ہیں فراق کا لمحہ لمحہ کسی ابتلا سے کم نہیں ہوتا ان کی غزل کا مقطع لائقِ توجہ ہے   ؎

ہو گئیں بچھڑے مدتیں پروینؔ

ہم کو اک پل نہ چین آیا ہے

وصل کی نسبت ان کے ہاں ہجر کے حوالے بکثرت ملتے ہیں اس لیے وہ مقدر سے شاکی نظر آتی ہیں مسلسل ہجر کو اپنے مقدر سے منسوب کرتی ہیں ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو   ؎

معلوم ہے ساتھ رہو گے نہ تم سدا

یہ سانحہ لکھا ہے مقدر کے باب میں

جب وصل کی شدت جسم و جاں میں سرایت کرتی ہے تو پھر محبوب کے حوالے سے خیالات ضرورت بن جایا کرتے ہیں ملن میسر آنے پر تخیل شدت و سرعت اختیار کر جاتا ہے ان کا ایک شعر لائقِ التفات ہے   ؎

سارے بدن میں وصل کی حدت ہے ان دنوں

اُن کا خیال میری ضرورت ہے ان دنوں

اگرچہ پروینؔ نظیر سومرو کا فکری کینوس وسیع و بسیط ہے مگر ان کے ہاں ہجر و وصال کے شواہد وفور سے ملتے ہیں اگر ان کی شعری ریاضت تسلسل سے جاری رہی تو دیگر موضوعات بھی کثرت سے ان کے لیے آغوش کشا نظر آئیں گے۔

٭٭٭

 

               پروینؔ نظیر سومرو

دل کا نقشہ بدل ہی جاتا ہے

کیا قیامت یہ عشق لاتا ہے؟

میں ہوں اُس کی لگن میں برگشتہ

وہ مرے حوصلے بڑھاتا ہے

لگ گئی آگ دل میں اب دیکھو

کیسے وہ آگ کو بجھاتا ہے؟

یاد کے سرمئی دھندلکوں سے

ایک سایہ ہمیں بلاتا ہے

اب بھی تنہائی میں تھے پروینؔ

کیوں وہ ہرجائی یاد آتا ہے؟

٭٭٭

 

زندگی گزری کسی کو پوجتے

دوسرے قصے ہمیں کیا سوجھتے؟

اک معمہ تھا عجب وہ جانِ جاں

اک پہیلی تھا سو کیسے بوجھتے؟

خود ہمیں رونے سے فرصت ہی نہ تھی

کیا بھلا آنسو کسی کے پونچھتے؟

دل کی جانب دیکھتے ہم کس طرح؟

وقت گزرا زندگی سے جوجھتے

ہم نے جانا حرفِ آخر آپ کو

ورنہ لگتے کچھ ہمیں بھی سوجھتے

٭٭٭

 

تسنیمؔ عابدی کثیر الموضوعات شاعرہ

دنیائے شعر بہت وسیع ہے گنتی کی چند غزلیات و منظومات ہر کہ و  مِہ کہہ لیتا ہے لیکن زیست کے بیشتر موضوعات کو اپنے سخن میں جگہ دینا یقیناً کارِ دشوار ہے اور فکری وسعت کا متقاضی ہے شذرہ ہٰذا میں ہم تسنیمؔ عابدی کے سخن کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کا موضوعاتی کینوس بسیط و عمیق ہے جنہوں نے کراچی کے محلہ پیر کالونی میں 5 فروری 1961ء میں جنم لیا ان کے آباء و اجداد کا مولد و مسکن لکھنؤ ہے ان کے ننھیال اور ددھیال ابھی تک لکھنو میں مقیم ہیں اس لیے ان کے کلام میں لکھنوی تہذیب و تمدن اور ادبی روایت کے خدوخال مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں اور کراچی کی ادبی فضا کا رنگ بھی ہے ہجرت کا کرب بھی ان کے ہاں نمایاں ہے شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے اولین شعری مجموعہ ’’صحرا، آنکھیں اور تنہائی‘‘ کے منتخب غزلیہ اشعار موضوعاتی وسعت کے تناظر میں شاملِ تجزیہ کرتے ہیں مجموعہ ہٰذا کی طباعت 1998ء میں عمل میں آئی مذکورہ مجموعہ کا نام جہاں فکری وسعت و جدت کا عکاس ہے وہاں حزنیہ شعری طبع کا غماز بھی ہے۔

کسی بھی شاعر کی سخن سنجی میں اس کے ذاتی حالات و واقعات کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے شعر اپنے خالق کا فکری و فنی پرتو ہوتا ہے تسنیمؔ عابدی کے خاندان نے چونکہ ہجرت کا کرب جھیلا اس لیے ان کے ہاں حزنیہ افکار بکثرت ملتے ہیں جو کہیں رومانوی تناظر میں رونما ہوئے ہیں تو کہیں سماجی پس منظر میں۔ اس لیے ان کے کلام میں کرب و سوز کی ایک فضا پائی جاتی ہے اسی نسبت سے ان کی ایک پانچ شعری غزل دیکھتے ہیں   ؎

کیوں شناسائی کا گہرا زخم بھرتا ہی نہیں ؟

دل تو کب کا مر گیا ارمان مرتا ہی نہیں ؟

آس کے سارے ستارے جھلملا کر بجھ گئے

اے شبِ فرقت مرا سورج ابھرتا ہی نہیں

خواہشوں کی سوگواری زیست کی بے چہرگی

اے غمِ دنیا ترا چہرہ سنورتا ہی نہیں

حبس ہے چاروں طرف چھایا فضائے ذہن میں

حجلۂ جاں سے کوئی جھونکا گزرتا ہی نہیں

عشق کی مے پی کے دل مجذوب ہوتا جائے ہے

نشہ سنتے ہیں کہ چڑھ کر یہ اُترتا ہی نہیں

عشق انسانی انفاس میں جذب ہو جاتا ہے جس سے جذب و شوق کی ایک فضا پیدا ہو جاتی ہے پھر بے کلی و بے خودی تواتر سے فزوں تر ہوتی رہتی ہے عشق میں تحلیلِ نفسی کے پہلو کو انھوں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں یوں باندھا ہے   ؎

کس قدر تقسیم ہوتے جا رہے ہیں عشق میں ؟

خرچ ہو جائیں نہ ہم خود کو بچا رکھا نہیں

ہجرت کی اذیت سے وہی آشنا ہوتا ہے جو اس اذیت سے ہم آغوش ہوا ہو وہی اس کے مصائب و آلام کا مکمل اِدراک رکھتا ہے قیامِ پاکستان کے وقت مسلمانوں کا کثیر تعداد میں بھارت سے پاکستان میں آنا برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کی بہت بڑی ہجرت تھی جس میں کئی گھروندے بکھر گئے اور بے شمار خواب چکنا چور ہو کر تعبیر سے محروم ہو گئے اس حوالے سے اُن کی ایک غزل کا مطلع دیدنی ہے   ؎

اک گھروندا تھا وہ بکھرا کیسے؟

خواب تعبیر سے بچھڑا کیسے؟

فطری طور پر ہر انسان کو بچپن عزیز ہوتا ہے وہ شاید اس لیے کہ اس دورِ ہستی میں انسان ہر قسم کی ذمہ داری اور مصائب و آلام سے مبرا و ماورا ہوتا ہے اس لیے بچپن کی یادیں حسین ہوا کرتی ہیں بچپن جوش و خروش سے عبارت ہوتا ہے جب ہوش آتا ہے تو پھر جوش فرو ہو جاتا ہے اس لیے بچپن کی یادیں انسان کا سرمایۂ حیات ہوا کرتی ہیں اُن کی غزل کا مطلع لائقِ توجہ ہے   ؎

بچپنے کے وہ دلکش زمانے گئے

ہوش آیا تو سپنے سہانے گئے

اُن کے تخیلات میں حقیقی زندگی کا عمیق شعور ملتا ہے اس لیے ان کے ہاں زیست کے اسرار و رموز ملتے ہیں اس لیے آموز گاری کے عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں جن میں وہ اپنے قاری کو حیات کے شعور سے آشنا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ان کے نزدیک حزن و الم زندگی کا جزوِ لاینفک ہے اس لیے ان کے کلام میں درد سے موانست و مصالحت کی فضا ملتی ہے اسی تناظر میں ان کی غزل کے تین اشعار ملاحظہ کریں   ؎

تم زیست گزاری کا ہنر بھول نہ جانا

آ جائے سفر راس تو گھر بھول نہ جانا

اے چارہ گرو درد کے بڑھنے کی دوا دو

اے بے خبرو! میری خبر بھول نہ جانا

دی خانہ بدوشی نے مجھے کہہ کے تسلی

ہے زیست کا مقصد ہی سفر بھول نہ جانا

اُن کے افکار میں جدت و رفعت کے مظاہر ملتے ہیں اُن کے تخیلات نادر النظیر ہیں اُن کے ہاں زیست کی بے ثباتی کا مذکور ہے حزن و ملال کے حوالے ہیں انتشارِ ذات کی عمدہ تمثیلات ہیں ان کی غزل کے دو اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

زندگی کے باب حرفِ مختصر ہونے لگے

شب کی تاریکی میں سائے معتبر ہونے لگے

کس ریاضت سے نشیمن تھا بنا اور کس طرح؟

ایک ہی جھونکے سے تنکے منتشر ہونے لگے

مذکورہ استشہادات تسنیمؔ عابدی کے شعری کینوس کی چند جھلکیاں ہیں اگر طولِ بیاں سے گریز مطلوب نہ ہوتا تو ان کے بہت سے شعری نوادرات زیبِ قرطاس کرتے اور ان کی موضوعاتی وسعت کو مزید آشکار کرتے ان تصریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں موضوعات بکثرت ملتے ہیں اگر ان کی شعری ریاضت تسلسل سے جاری و ساری رہی تو صفحۂ ہستی کے مزید موضوعات کا اہتمام اپنے سخن میں انتہائی قرینے سے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی اور اپنے ادبی مقام و مرتبے کو مزید اُجاگر کر پائیں گی۔

٭٭٭

 

               تسنیمؔ عابدی

کوزہ گری کے شوق میں حد سے گزر گئے

آئے جو دن بہار کے سب پھول مر گئے

رستے پہ قافلے کو لگا کر گزر گئے

اپنے ہنر سے گیسوئے گیتی سنور گئے

کس کا خیال حسنِ تصور میں آ گیا؟

دیکھو تفکرات کے چہرے سنور گئے

شاید وہ فصلِ گل کے پیمبر ہیں اس لیے

آمد سے ان کی پھول چمن میں نکھر گئے

وہ علم اور عقل کا پیکر ہیں اس لیے

اہلِ جنوں جو ان کی نظر سے اُتر گئے

٭٭٭

 

تم میرے دردِ دل میں شرکت نہیں کرو

سرمایۂ حیات پہ حیرت نہیں کرو

آنچل کو میرے سر سے اُڑنے کی جستجو

اے موجۂ ہوا یہ شرارت نہیں کرو

اے دورِ بے ہنر یہاں تسکینِ ذوق میں

گر ہاتھ بھی قلم ہو تو حیرت نہیں کرو

پیاسوں کا امتحان ہے دریا کے سامنے

عباس مشک بھرنے کی زحمت نہیں کرو

سیدانیوں کے سر سے رداؤں کو چھیننا

اے بانیِ جفا یہ قیامت نہیں کرو

٭٭٭

 

تزئینؔ آراء زیدی کا کلام عصری بے حسی کے تناظر میں

میکانکی عہد کی ترقی کا ثمر یہ ہے کہ اخلاقی اقدار کا جنازہ اُٹھ چکا ہے معاشرتی خلوص و مروت ناپید ہے ایک افراتفری اور نفسا نفسی کا سماں ہے جس کے باعث انسانیت شکوہ کناں ہے لبوں پر شکوہ اور آہ و فغاں ہے باہمی چاہت و الفت اپنی بساط لپیٹ چکی ہے معاشرہ طبقوں میں منقسم ہو گیا ہے پھر بھی ہم بے خبر و بے نیاز ہیں بصد فخر و امتیاز کہتے ہیں کہ انسان نے چاند پر رسائی حاصل کر لی دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کر لیا ہے پہاڑوں کا سینہ چیر کر  دریا اور نہریں بہا دیں۔ سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی میں تہلکہ مچا دیا ہے یہ کمالات انسانی ترقی کے شاہد نہیں یہ تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی استشہادات ہیں دنیا کی جو قومیں مہذب ہونے کی دعویدار ہیں طرح طرح کے معاشرتی مسائل سے دوچار ہیں تہذیبِ نو کے تمام تر دعوے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں جہالت کے تمام تر خبائث عصرِ حاضر میں بھی فروغ پا رہے ہیں بقول راقم الحروف   ؎

جو تھے جہالت کے سب خبائث وہ اس جہاں میں بھی جلوہ گر ہیں

عبث ہیں تہذیب نو کے دعوے روا ہے اب کے بھی کاروکاری

سماج کا باشعور اور دانشور طبقہ ایک عمیق اذیت سے دوچار ہے جسے دنیا کے مسائل کا حل کسی نہج پر نظر نہیں آتا ایسی تمام تر صورت احوال نے ایک عصری بے حسی کو جنم دیا ہے جہاں مروت پامال ہے اور خلوص کنگال ہے بقول راقم الحروف   ؎

یہ اب کے کیسی ہوا چلی ہے؟

جہاں میں ہر سمت بے حسی ہے

ہر عہد کا ادب اپنے عصری مزاج کا ترجمان ہوتا ہے نتیجتاً ہمارا ادب بھی عصری رجحانات سے متاثر ہوا ہے خصوصاً فن شاعری میں اس کے شواہد بکثرت پائے گئے بہت سے شعراء و شاعرات نے انہیں موضوعات کا اہتمام کیا طبقۂ اناث کی شاعری میں ایک نام تزئینؔ آراء زیدی کا بھی ہے جن کے کلام میں عصری بے حسی کی تمثیلات وفور سے ملتی ہیں۔

تزئین آراء زیدی کے سوانحی کوائف کی جھلک کچھ یوں ہے ڈیرہ غازی خاں جنوبی پنجاب میں پیدا ہوئیں ایم اے اُردو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کیا اور بی ایڈ ایجوکیشن کالج ملتان سے کیا علاوہ ازیں ڈی ایچ ایم ایس بولان  ہومیو میڈیکل کالج سے اور ڈی سی ایس ویمن ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کوئٹہ سے کیا سید رضا حامد زیدی سے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئیں اور کراچی میں اقامت اختیار کی سندھ پنجاب اور بلوچستان کے مختلف اسکولوں اور کالجوں میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دئیے۔

اُن کا اولین شعری مجموعہ ’’راز داں ‘‘  ہے جو 2003ء میں منصہ شہود پر آیا دوسرا شعری مجموعہ، ’’مضراب رگ جاں ‘‘ ہے جو 2011ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا ان کے دوسرے شعری مجموعہ کے حوالے سے اقتدار جاوید یوں رقم طراز ہیں۔

’’تزئین کا شعر عصری صورت حال پر خندہ زن بھی ہے اور نوحہ کناں بھی۔ شعر کا بنیادی وظیفہ موجود کی ترجمانی بھی تو ہے۔ ‘‘

عصری حالات نے ایک غیر یقینی صورت حال اختیار کر لی ہے جس میں دنیا و مافیہا کی ہر شے نے اپنا اعتبار کھو دیا ہے اور اپنی بساط لپیٹ لی جس کا نتیجہ بیزاری کی صورت میں نکلا آدمیت نے اپنا اعتماد کھو دیا اور آدمی نا معتبر ٹھہرا اسی عصری بے حسی کے پہلو کو انہوں نے اپنی غزل کے مطلع میں یوں نبھایا ہے   ؎

دوستی نا معتبر ہے دشمنی نا معتبر

آدمیت بے بھروسہ آدمی نا معتبر

جا بجا وہ اپنے عہد سے نالاں نظر آتی ہیں اس لیے ان کے ہاں نالہ و شیون کے پہلو بکثرت ملتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے کلام میں یاسیت و قنوطیت کی ایک لہر محسوس کی جا سکتی ہے اسی نسبت سے ان کی غزل کے دو اشعار ملاحظہ کریں   ؎

نالہ و فریاد کو اپنائیں کیا؟

وقت کی بے مہریاں سنوائیں کیا؟

وقت ہی باقی بچا ہے کس قدر؟

کا کِل ہستی کو اب سلجھائیں کیا؟

تزئینؔ آرا زیدی نے حالات کی واژ گونی سے عمیق اثر قبول کیا ہے اس لیے ان کی قوتِ متخیلہ میں اس کی لازوال امثال ملتی ہیں ان کے افکار میں بے سکونی کی کیفیات کا مذکور ہے اس لیے کبھی زندگی انہیں درد کا بھنور لگتی ہے تو کبھی رنج و آلام کا سفر لگتی ہے ہر گھڑی ہر دقیقہ عدم تحفظ کا احساس ہے جو پروان چڑھ رہا ہے بقول راقم الحروف   ؎

غیر محفوظ اپنا جیون ہے

در کو اپنے کھلا نہیں رکھتے

یہی احساسات عصری بے حسی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں انہیں تاثرات کی ترجمانی تزئینؔ آراء زیدی کی زبانی دیکھتے ہیں   ؎

زندگی درد کے بھنور میں ہے

رنج و آلام کے سفر میں ہے

ہر گھڑی ہے فنا کے رستے پر

ہر گھڑی موت کی نظر میں ہے

آؤ پڑھ لیں دعائے ردِ بلا

زیست آسیب کے اثر میں ہے

انسانی بے حسی کو وہ انفرادی اور اجتماعی ہر حوالے سے مذموم سمجھتی ہیں اور اسے ہدفِ تنقید بناتی ہیں ان کی انفرادیت بھی اجتماعیت کی غماز معلوم ہوتی ہے۔

کیا کسی کی سرد مہری پھر نتیجہ خیز ہے؟

ہو رہے ہیں رفتہ رفتہ یوں مرے اعصاب شل

ہمارے سماج میں خود غرضی نے ایسے پنجے گاڑے ہیں کہ کوئی خوشی خوشی نہیں لگتی تمام تر رونقیں اور رعنائیاں ماند ہیں ایک مہیب تیرگی چھائی ہے جس میں روشنی پر بھی روشنی کا گماں نہیں ہوتا   ؎

روشنی میں رہ کر بھی لوگ اس زمانے کو

کیا سبب ہے کیوں آخر روشنی نہیں کہتے؟

وہ نامساعد حالات کا ذمہ دار انسان کو ٹھہراتی ہیں وہ عہدِ رفتہ اور اسلاف کی عظمت کے گن گاتی ہیں جب تمام تر مسائل کا ذمہ دار انسان خود ہے تو گلہ کس سے کریں اورکس سے منصفی چاہیں اس سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر ان کی غزل کے دو اشعار دیدنی ہیں   ؎

شکایت کریں کس سے بیداد کی؟

یہ دنیا تو خود ہم نے ایجاد کی

یہ دہشت تو اس دور کی دین ہے

وراثت نہیں ہے یہ اجداد کی

مذکورہ استشہادات اس امر کی کافی و شافی شاہد ہیں کہ تزئین آراء زیدی کے شعری کینوس میں عصری بے حسی کے پناہ شواہد ہیں جو ان کی فکری بالیدگی کے مظہر ہیں اسلوب شفاف اور شستہ ہے جو خیالات کی سچائی سے دھلا ہوا ہے اگرچہ یہ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے لیکن ان کے شعری ارتقا کا سفر حوصلہ افزا ہے یہ امر لائقِ طمانیت ہے کہ انہوں نے دیگر شاعرات کی طرح اپنے خیالات کا تانا بانا روایتی موضوعات پر استوار نہیں کیا دعا ہے کہ ربِ ادب ان کے فکر و فن کو دولت دوام سے نواز۔ آمین

٭٭٭

 

               تزئینؔ آراء زیدی

جو شجر بہار میں جل گیا وہ سبھی رتوں کو بدل گیا

گیا اعتبارِ بہار جب تو خزاں کا ڈر بھی نکل گیا

یہ نصیحتیں تری ناصحا! لگیں معتبر تو بڑی مگر

میں کروں بھی کیا یہ دردِ دل راہِ اعتبار میں پل گیا؟

یہ بھی شکر ان سے پہل ہوئی کہ جو توڑا رشتہ وفاؤں کا

تھا جو ایک دھڑکا لگا ہوا وہ ہمارے دل سے نکل گیا

انہی موسموں کا طلسم تھا انہی وحشتوں کا گمان تھا

دلِ ناتواں کسی طور جب نہ تڑپ سکا تو سنبھل گیا

غمِ آرزو ترے شہر میں دلِ زار کا جو ہوا گزر

کبھی خارو خس سے لپٹ گیا کبھی سنگِ در سے بہل گیا

٭٭٭

 

وقت کی گردش تھمی سب ہی سکندر ہو گئے

ہم اسیرانِ وفا، نذرِ مقدر ہو گئے

روزنِ زنداں سے پہنچی روشنی کی اک کرن

اور پھر ایسا ہوا دیوار میں در ہو گئے

آگہی کا کیف جب سے ہو گیا حاصل مجھے

دیدہ و دل کے لیے بے کیف منظر ہو گئے

دَور پتھر کا نہیں لیکن ہمارے عہد میں

دل جو سینوں میں دھڑکتے تھے وہ پتھر ہو گئے

شکوۂ حالات کی مجھ میں سکت باقی نہیں

اور وہ سمجھے مرے حالات بہتر ہو گئے

جن کو مہر و ماہ و انجم سے نہیں نسبت کوئی

آسمانِ زندگی کے ماہ و اختر ہو گئے

بے ضمیروں کے لیے نہیں بام و در کی راحتیں

ہاں مگر تزئینؔ ہم جیسے تو بے در ہو گئے

٭٭٭

 

ثروتؔ ظفر بھرپور لہجے کی شاعرہ

فنِ شاعری میں کسی بھی شاعر کے ہاں شعری تاثر کا بھرپور انداز میں پایا جانا سخنور کے بالیدہ فکر اور فرخندہ نصیب ہونے کی علامت ہے یہ سعادت زیست کے نشیب و فراز کے عمیق ادراکات کا ثمر ہوتی ہے اور تلخ حقائق کا شعور اُسے جِلا بخشتا ہے شاعر فطری طور پر حساس طبع کا حامل ہوتا ہے اور یہ حساسیت مختلف شعراء و شاعرات میں کم یا زیادہ پائی جاتی ہے جنہیں مشیت سے یہ دولت فزوں تر ودیعت ہوتی ہے اُن کا لہجہ بھرپور اور افکار میں شدت وحدت کے مظاہر نمو پاش ہوتے ہیں فکری اعتبار سے اُن کے ہاں سرمایۂ حزن و ملال بھی وافر انداز میں ملتا ہے آج ہم ثروتؔ ظفر کی سخن سنجی کے حوالے سے رقمطراز ہیں اُن کا شعری مجموعہ ’’ہاتھوں میں چاند‘‘ جس کی اشاعت دوم 2005ء میں ہوئی کے نصف اول کے منتخب غزلیہ اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں شاملِ تجزیہ کرتے ہیں ثروتؔ ظفرکا تعلق کراچی سے ہے۔

زیست شکست و ریخت کے عمل سے گزر کر اپنا ارتقائی سفر طے کرتی ہے جہاں جنوں اور وحشتیں بھی انسان کی دامن گیر ہوتی ہیں جو غم و الم کی مختلف کیفیات سے عبارت ہیں وہ ان واردات کی تخفیف کی متمنی ہیں ان کے تفکرات میں اسلامی افکار بھی جھانکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں امامِ عالی مقام سے اُن کی محبت و عقیدت بھی مثالی نوعیت کی حامل ہے اور وہ اسے روح کی طمانیت کا سبب گردانتی ہیں ہجرتوں کا کرب بھی اُن کے تخیلات سے چھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اُن کا شعری کینوس سفر، ماں ، دعا، ہجرت اور کربلا کی فکری مخمس کے گرد بھرپور انداز میں محو طواف ہے یہ سب بھرپور اظہار کی تمثیلات ہیں اسی تناظر میں اُن کی غزل کے چار اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

شکست و ریخت کے مرحلے میں کاش کوئی

مرے جنوں کو مری وحشتوں کو کم کر دے

ترس رہی ہوں کوئی ماں سا مہربان وجود

دعائے نور پڑھے اور مجھ پر دم کر دے

مرے خدا تری دنیا میں ایک نام حسینؑ

سکون قلب کو دے اور آنکھ نم کر دے

ازل سے تابہ ابد ہجرتیں مقدر ہیں

مرے خدا مرا تھوڑا سفر تو کم کر دے

دل جو مسکنِ آرزو ہے جہاں تمام تمنائیں پنپتی ہیں آرزوؤں کا خون من دھرتی کو حسرت زار بنا دیتا ہے یہی حسرتیں انسان کو دولتِ ضبط سے ہم آغوش کرتی ہیں جس سے انسانی کردار کی تعمیر و تربیت ہوتی ہے اسی حوالے سے اُن کی ایک غزل کا ایک شعر قابلِ توجہ ہے   ؎

مسکنِ آرزو مسمار ہوا ہے لیکن

حسرتِ دل ہے کہ تعمیر ہوئی جاتی ہے

اُن کے ہاں کومل جذبوں کی بازیافت ملتی ہے وہ فکری لطافتوں اور نزاکتوں کو ملحوظِ خاطر رکھتی ہیں جن سے اُن کی گہری حساسیت کی غمازی ہوتی ہے فکری گہرائی و گیرائی اُن کی پذیرائی کا سبب ہے رفعتِ تخیل کا حامل اُن کی ایک اور غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں   ؎

کہنا سورج سے آنکھ مت کھولے

پھول پر گھر بنا ہے شبنم کا

بسا اوقات وہ ایک شعر کے پیمانے میں بہت سے فکری تلازمات یکجا کر دیتی ہیں جس سے اُن کی فنی پختگی آشکار ہوتی ہے کسی بھی کیفیت کسی بھی واردات کو وہ بھرپور تاثرات کے ساتھ زیبِ قرطاس کرتی ہیں وہ اپنے موضوع کو دفعتاً سمیٹنے میں بخوبی کامیاب نظر آتی ہیں اس لیے اُن کے ہاں عمیق جزئیات کا ظہور ہوتا ہے ندرتِ خیال کا حامل اُن کا یہ شعر ملاحظہ ہو   ؎

لفظ ساکت ہونٹ جامد آنکھ پتھرائی ہوئی

کشتِ جاں میں خامشی کا بولنا کیسا لگا؟

اُن کے ہاں نادر النظیر ترکیبات بھی ہیں جو اسلوب میں ایک شانِ دل آویزی پیدا کر رہی ہے جگہ جگہ صنائع بدائع بھی ضو پاشیاں کر رہے ہیں تلمیحی حوالے بھی ہیں ذیل کی غزل کے ایک شعر میں شہزادہ سلیم اور انارکلی کی عشقیہ داستان کی خوبصورت تلمیح ہے جس میں انارکلی کے دیوار میں چنوائے جانے کا مذکور ہے   ؎

جرمِ الفت آخرش ثابت ہوا

وہ پسِ دیوار چنوائی گئی

متذکرہ استشہادات سے یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ ثروتؔ ظفر کا شعری لہجہ بھرپور تاثر کا حامل ہے جس میں جذبوں کی شدت وحدت بھی ہے اگر تسلسل سے اُن کی مشاطگیِ سخن جاری و ساری رہی تو اُن کے فکر و فن سے مزید بالیدگی کے مظاہر جلوہ ریز ہوں گے جن سے اُن کی فنی جِلا فزوں تر ہو جائے گی۔

٭٭٭

 

               ثروتؔ ظفر

دل میں رہنا نظر میں رہنا ہے

گردشِ بام و در میں رہنا ہے

شوقِ پیمائشِ سفر تھا بہت

عمر بھر اب بھنور میں رہنا ہے

لہریں گننے کا شوق لے بیٹھا

یوں ہی مد و جزر میں رہنا ہے

ہم کہ ٹھہرے رفیقِ بادِ صبا

یوں مسلسل سفر میں رہنا ہے

اس کو اخبار سے شغف ہے بہت

روز تازہ خبر میں رہنا ہے

حق پرستی نے وہ دیا ثروتؔ

شوقِ بارِ دگر میں رہنا ہے

٭٭٭

 

سوال کرتے ہیں چہرے تمہاری ماؤں کے

کہاں گئے جو محافظ تھے ان رداؤں کے؟

میں اب کے سال بڑی آفتوں کی زد پر ہوں

حصار ٹوٹ رہے ہیں مری دعاؤں کے

وہ جاتے جاتے بھی رستہ ہمیں بتا کے گیا

ہیں سنگِ میل کی صورت نشان پاؤں کے

حویلیاں انہیں زنداں سے کم نہیں لگتیں

جنہیں پسند ہیں کچے مکان گاؤں کے

ہنسی لبوں پہ مگر دل میں آبلے رکھنا

یہ حوصلے ہیں فقط درد آشناؤں کے

کبھی دعا تو کبھی آس ٹوٹ جاتی ہے

ہیں میرے ساتھ بہت سلسلے بلاؤں کے

وہ چل پڑا ہے مگر راستے میں ثروتؔ

پیام آنے لگے ہیں مجھے ہواؤں کے

٭٭٭

 

جہاں آراء تبسمؔ کی نظم اور نسوانی مسائل

طبقۂ اناث کی شاعری میں نسائی احساسات کا ہونا ایک فطری امر ہے بہت سی شاعرات نے اپنے کلام میں اس نوع کے افکار کا برملا اظہار کیا ہے ہر شاعرہ نے صنفِ نازک کی بے بسی کے فسانے اور نوحے لکھے ہیں لیکن کسی شاعرہ نے خالصتاً نسوانی مسائل کو براہ راست موضوع نہیں بنایا یہ اعجاز و افتخار صرف جہاں آراء تبسم کو حاصل ہے جس نے اپنے مجموعۂ کلام ’’مجھے خطبہ نہیں آتا‘‘ جو تمام تر نظمیات پر مشتمل ہے اس میں نسوانی مسائل کو براہ راست اجاگر کیا گیا ہے مجموعہ ہٰذا میں انہوں نے ایک گھریلو اور سماجی عورت کی مکمل داستانِ حیات سمودی ہے آج ہم اُن کی منتخب نظموں کے منتخب اقتباسات کو برائے تجزیہ بطور استشہادات لائیں گے۔

انہوں نے اپنی نظمیات میں بنتِ حوا کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنے کی بھی مقدور بھر کوشش کی ہے اس نسبت سے انہوں نے کائناتی اور الہامی حوالے بھی دئیے ہیں اس سلسلے میں ان کی نظم ’’تعارف‘‘ کا اولین اقتباس دیکھتے ہیں   ؎

          میں فطرت کی نمائندہ

          میں قدرت کی تراشیدہ

          میں کائنات کی تصویر کا رنگین ظاہر ہوں

          میں کائنات کی تصویر کا پاکیزہ باطن ہوں

          میں رشتوں کا تقدس ہوں

          اساطیری کتابوں میں لکھا ہے

          میں مقدس ہوں

صنفِ نازک کو مختلف نوع کے سماجی روئیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کچھ رویے باعثِ کرب بھی ہوا کرتے ہیں جو احساسات کو زخمی کر دیتے ہیں کہ انسان کو اپنے وجود سے نفرت ہونے لگتی ہے حوا کی بیٹی بہت حساس ہوتی ہے وہ سماج کی ہر اچھی اور بری نظر کا ادراک رکھتی ہے اس حوالے سے ان کی نظم ’’موت مسکراتی ہے‘‘ کا نصف اول لائقِ التفات ہے   ؎

          میں دفتر جاؤں یا بازار جاؤں

          میں اپنے دوستوں ، غیروں میں اپنوں میں

          جہاں بھی ہوں

          مجھے میرا بدن تکلیف دیتا ہے

          ان گنت نظروں کے

          ایسے زخم لگتے ہیں

          کہ جن کو

          صرف میں محسوس کرتی ہوں

ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے جس میں مرد کی حیثیت حاکم کی سی ہے اور عورت کی حیثیت محکوم کی سی ہے ایک سماجی عورت کو معاشرے میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں آراء تبسم نے اپنی نظم ’’مجبوری‘‘ کے اقتباس میں اختصار و جامعیت کے ساتھ ایک کارکن عورت کی مجبوریوں کی داستاں سمودی ہے   ؎

میں فائل لے کے جب بھی

باس کے کمرے میں جاتی ہوں

وہ فائل کی بجائے صرف

مجھ کو دیکھتا ہے

جہاں آراء تبسم کا یہ مجموعۂ کلام زیادہ تر آزاد نظمیات پر مشتمل ہے جب کہ ہر نظم میں انہوں نے عورت کے کسی نہ کسی سماجی مسئلے کو آشکار کرنے کی سعیِ جمیل کی ہے ان کے خیالات میں کسی قسم کی بناوٹ اور تصنع نہیں ہے ہر قسم کی ملمع کاری سے مبرا و ماورا ہیں تمام تر افکار فطری نوعیت کے ہیں بہرحال انہیں نظم کے میدان میں مزید ریاضت کی ضرورت درکار ہے تاکہ اعلیٰ معیار کے تقاضے پورے ہوسکیں خداوندِ قدوس ان کے قلم کو مزید روانیوں اور جولانیوں سے نوازے۔ آمین

٭٭٭

 

               جہاں آراء تبسمؔ

میں بے چراغ رہ گئی ہوں ، لازوال روشنی

مری طرف بھی اک نظر کبھی اُچھال روشنی

بجھے دنوں کے اجر میں ، شبِ سیاہِ صبر میں

مرے لیے بھی وقت لائے بھر کے تھال روشنی

کوئی سراب دیکھ لوں ، کوئی تو خواب دیکھ لوں

بس ایک بار کاسۂ نظر میں ڈال روشنی

میں شہرِ بے بصر کو یہ بتا بتا کے تھک گئی

ہے زخمِ شب کا صرف ایک اندمال روشنی

ہوا نے میری آنکھ میں جلے چراغ کھا لیے

لبوں پہ آ کے مر گیا، ترا سوال روشنی

ملامتوں کی سب ہوائیں مری سمت چل پڑیں

میں بن گئی تھی شہر میں تری مثال روشنی

میں اشک پی کے رہ گئی، تبسمِؔ سیاہ پر

بہت ہوا ترے لیے، مجھے ملال روشنی

٭٭٭

 

وہ مجھے اتنی سہولت تو نہیں دے سکتا

کم سے کم اپنی محبت تو نہیں دے سکتا

اختیارات مجھے سارے عطا کر دے گا

ہاں مگر دل پہ حکومت تو نہیں دے سکتا

سوچ سکتی ہوں کسی اور کے بارے لیکن

دل مجھے اتنی رعایت تو نہیں دے سکتا

میں نے روتے ہوئے یہ بات بہت سوچی ہے

وہ مجھے اشکِ ندامت تو نہیں دے سکتا

اپنا کہہ کر وہ مجھے ذہن میں رکھ سکتا ہے

وادیِ دل میں سکونت تو نہیں دے سکتا

چند سانیں مجھے جینے کے لیے دے دے گا

عمر بھر جینے کی مہلت تو نہیں دے سکتا

میں تبسمؔ ہوں مگر وہ مجھے محفل میں کبھی

مسکرانے کی اجازت تو نہیں دے سکتا

٭٭٭

 

درخشاؔں صدیقی کا اظہار معرفت

یہ صانع لوح و قلم کا کرم ہے جسے فکر و فن کی دولت گراں مایہ سے نواز دے مشیتِ ایزدی کی صوابدید کی بدولت افکار کا تقدس ودیعت ہوتا ہے وہ جسے چاہے عرفانِ خالقِ کائنات سے نواز دے ایں سعادت بزورِ بازو نیست خالقِ ارض و سما کی ذات کا ادراک، عقیدت و محبت ہی معرفت ہے جسے تصوف کا نام دیا جاتا ہے اپنی اپنی سوچ کے زاویے ہیں کہ کوئی مجاز پہ جاں چھڑکتا ہے تو کوئی حقیقت پہ جاں نچھاور کرتا ہے مذہب و حکمت عقل و بصیرت کی رو سے معرفت کی اہمیت مسلمہ و مصدقہ ہے اربابِ دانش کے افکار کی روشنی میں معرفت ہی سرچشمۂ  حیات ہے جس سے خلوص و مروت و عقیدت اور الفت کے گلستانوں کی آبیاری ہوتی ہے ہمیں درخشاں صدیقی کے شعری مجموعہ ’’صبحِ درخشاں ‘‘ مطبوعہ جنوری 2010ء کے بغور مطالعہ کے دوران اظہارِ معرفت کے شواہد بکثرت میسر آئے ہیں جو اُن کے پوتر جذبوں کی عکاسی کرتے ہیں یہ اُن کا اولین شعری مجموعہ ہے درخشاں صدیقی کا سوانحی حوالہ یہ ہے کہ وہ ایک متمول زمین دار گھرانے میں پیدا ہوئیں جو اودھ ضلع بارہ بنکی یو پی انڈیا کے ایک قصبہ کھیولی میں ہے قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی عمر میں والدین کے ساتھ ہجرت کر کے راولپنڈی پاکستان اقامت گزیں ہوئیں اور یہیں ہوش سنبھالا عدیل احمد صدیقی سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد کراچی آ گئیں کراچی میں مختصر قیام کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ ٹورنٹو کینڈا چلی گئیں تا دم تحریر وہیں قیام پذیر ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے مذکورہ مجموعہ کے سُدس اول کی منتخب غزلیات متذکرہ موضوع کے تناظر میں شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

اُن کے ہاں ایک عمیق و بسیط نوعیت کا احساسِ سپاس گزاری پایا جاتا ہے جو عبدیت کی عمدہ دلیل ہے وہ بین السطور جگہ جگہ اُس ذاتِ اقدس کے لطف و کرم کا تذکرہ کرتی رہتی ہیں اُس منعمِ حقیقی کی انواع و اقسام کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کے بعد محوِ تشکر ہو جاتی ہیں جس سے اُن کے افکار کی تطہیر کا اندازہ ہوتا ہے اُن کی ایک حمد کے تین اشعار اسی تناظر میں زیبِ قرطاس ہیں   ؎

یہ تیرا شکر ہے احسان تیرا

سبھی آفات سے مجھ کو بچایا

مجھے شوہر دیا اولاد بھی دی

مرے آنگن کو بچوں سے سجایا

کروں میں شکر تیرا لمحہ لمحہ

مجھے اچھوں سے بھی اچھا بنایا

درخشاںؔ  صدیقی کے شعری مخزن میں ایک فزوں تر احساسِ فرمانبرداری ملتا ہے اُن کا مناجاتی انداز سہل ممتنع کے پیرائے میں دل میں اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہے احساس کی سچائی اور جذبوں کا رچاؤ ہے جو اُن کے اشعار میں جھانکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اسی نسبت سے اُن کی غزل چار اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

جھکائے رہیں سر ترے آگے ہم

کہ جب تک رہے جسم و جاں میں یہ دم

ہر اک سمت بے چینیوں کی فضا

کہ ہم شکر تیرا جو کرتے ہیں کم

شمار اپنے اُن نیک بندوں میں کر

ہمیشہ رہا جن پہ تیرا کرم

کرم ہم پہ آقا ترا ہو بہت

کبھی ہم پہ آئے نہ رنج و الم

وہ کائنات کو اپنی معرفت بیں نظر سے دیکھتی ہیں اس لیے سنسار کی ہر شے میں انھیں صانعِ عالم کے حسیں جلوے نظر آتے ہیں اندھیرے، اُجالے، شب و روز، شام و سحر فضاؤں ، کہکشاؤں ، فلک، ستاروں ، قمر، گلستاں اور بیاباں میں انہیں ذاتِ حقیقی کے جلوے دکھائی دیتے ہیں بقول خواجہ میر درد   ؎

جگ میں آ کر ادھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

انہیں احساسات کی جلوہ سامانی اُن کی ایک غزل کے چار اشعار میں دیدنی ہے   ؎

ہر اک شے میں پیش نظر تو ہی تو ہے

جدھر میں نے دیکھا اُدھر تو ہی تو ہے

اندھیرا بھی تیرا اُجالا بھی تیرا

فضائیں بھی اور کہکشائیں بھی تیری

فلک اور ستارے قمر تو ہی تو ہے

گلستاں بھی تیرا بیاباں بھی تیرا

تو ہے معتبر نامور تو ہی تو ہے

ہمہ اوست کا فلسفہ ان کے اشعار میں جا بجا نظر آتا ہے اس لیے وہ اپنی ذات سے ماورا ہو کر سوچتی ہیں اپنے ذاتی خصائص کو قدرت سے منسوب کرتی ہیں اُن کے ادراکات کائناتی نوعیت کے ہیں خالقِ کائنات کے اوصاف کی مدح سرائی بھرپور انداز میں ان کے ہاں جلوہ ریز ہو رہی ہے اُن کی ایک اور غزل کے چار اشعار لائقِ التفات ہیں   ؎

مری آن تو ہے مری شان تو ہے

مری جان تو میرا ایمان تو ہے

تو مالک و قادر تو خالق و رازق

تو ہے سب کا داتا نگہبان تو ہے

تو اعلیٰ و ارفع تو اول و آخر

ازل سے ابد تک کی پہچان تو ہے

سماعت میں میری بصارت میں میری

بہاروں میں تو ہے گلستان تو ہے

خالقِ و ارض و سما کی ذات سے اُن کا شوق و شغف دیدنی ہے جس سے اُن کی معرفت کی جھلک ملتی ہے ان کے کردار اور افکار کی تطہیر پر روشنی پڑتی ہے جس سے اُن کی جسمانی اور روحانی ریاضتیں آشکار ہوتی ہیں غزل کے دو اشعار قابل غور ہیں   ؎

پنجگانہ نماز گھر میں ترے

اچھا لگتا ہے آتے جاتے ہیں

جھک گئی ہے جبیں ترے در پر

ہر خطا اپنی بخشواتے ہیں

ہر کام میں انہیں قدرت کی مصلحتیں اور مقاصد نظر آتے ہیں ان کی سوچ مقصدیت آمیز ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ادب برائے زندگی کی قائل ہیں اور اُن کی تمام تر خامہ فرسائیاں بھی اسی حوالے سے ہیں اُن کی ایک اور غزل کے دو اشعار دامنِ دل تھام رہے ہیں   ؎

ہمیں زمین پر اُتارا کوئی مقصد ہو گا

کیا ہے ہم کو گوارا کوئی مقصد ہو گا؟

خدائے برتر و بالا نے آزمائش میں

دیا ہے ساتھ ہمارا کوئی مقصد ہو گا

درخشاؔں صدیقی نے زیادہ تر مفرد اور رواں دواں بحور میں سخن سنجی کی ہے موسیقیت اور آہنگ اُن کے کلام کا امتیازی وصف ہے مذکورہ استحزاجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا اظہارِ معرفت بھرپور نوعیت کا ہے اگر اُن کی شعری ریاضت تسلسل سے جاری و ساری رہی تو وہ عارفانہ ادراکات کی نئی شمعیں روشن کرتی چلی جائیں گی۔

٭٭٭

 

               درخشاںؔ صدیقی

مکاں میں رہتا کوئی نہیں ہے

ابھی یہ بستی بسی نہیں ہے

یہ گھر ہے کس کا ہے کون مالک؟

مکاں پہ تختی لگی نہیں ہے

وہ اپنے گھر سے چلا گیا ہے

یہاں ہے سب کچھ وہی نہیں ہے

تلاشِ منزل میں سرگراں ہیں

وہ جن کو منزل ملی نہیں ہے

نہ رات روشن نہ درخشاؔں صبح

تمہاری محفل سجی نہیں ہے

٭٭٭

 

کتنی مشکل ہے غم چھپانے میں ؟

بات کھلتی ہے مسکرانے میں

اجنبی ہیں ترے دیار میں ہم

وقت لگتا ہے دل ملانے میں

لذتِ غم سے آشنا ہوں میں

اتنا آساں نہیں نبھانے میں

روٹھ جاتا ہے وہ کبھی تو ہمیں

دیر لگتی نہیں منانے میں

درخشاںؔ  لطف اب تو آتا ہے

مسکرا کر ستم اُٹھانے میں

٭٭٭

 

رخشندؔہ نوید محبت کے موسموں کی شاعرہ

محبت ایک اقلیمِ الفت ہے جس کے کئی رنگ ہیں اور ہر رنگ قوس قزح کے رنگوں کی طرح حسیں اور دلکش ہے محبت مختلف کیفیات و واردات سے مملو ہوتی ہے جنہیں اس کے موسموں سے عبارت کیا جاتا ہے ان موسموں میں ہجر و وصال، مسرت و عسرت، حیرت و استعجاب اور سوز و گداز وغیرہ شامل ہیں محبت کے موضوع میں اتنی وسعت ہے کہ دنیا و مافیا کے تمام تر موضوعات اس میں سما سکتے ہیں اور یہ تمام تر موضوعات کا سرنامہ ہے باقی جذبات و احساسات ذیلی اور معاون نوعیت کے ہیں ان افکار سے مرصع شاعری ہر عہد میں اعتبار ذوق رہی ہے اور رہے گی یہ تخیلات ہر عہد میں افتخارِ زریں قرار پاتے ہیں اور ان کی اہمیت مسلمہ و مصدقہ سمجھی جاتی ہے ایسی شاعری ہر رت میں سدا بہار اور تر و تازہ رہتی ہے اگرچہ جدید شعری روئیوں میں محبت سے انحراف اور اختلاف کا رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن اس کی اہمیت کم ہونے کی بجائے مزید نکھر کر سامنے آئی ہے جس سے یہ استخراجی نتیجہ سامنے آیا ہے کہ جواں جذبوں کی اہمیت سے انکار اور فرار ممکن نہیں ہے اکثر و بیشتر شاعرات کا کلام محبت کے حسیں احساسات سے مزین ہوتا ہے جس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ نسائی شاعری میں داخلی اظہار بھرپور انداز میں پایا جاتا ہے محبت چوں کہ داخلی کیفیت کا نام ہے کیوں کہ محبت کی نمو انسان کے دروں سے ہوئی ہے اس لیے شاعرات کے ہاں رومان نگاری کے وسیع تر امکانات پائے جاتے ہیں شذرہ ہٰذا میں رخشندؔہ نوید کی شاعری کے حوالے سے رقم طراز ہیں جو تمام تر محبت کے موسموں سے مسجع ہے ان کے تیسرے شعری مجموعے ’’نیناں اتریں پار‘‘ مطبوعہ 2009ء کے منتخب غزلیات کے اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں شامل شذرہ کرتے ہیں مذکورہ مجموعہ کا نام جہاں محبت سے لبریز ہے وہاں دور اندیشی کا غماز بھی ہے رخشندؔہ نوید کا بنیادی تعلق لاہور سے ہے پنجاب یونیورسٹی سے انہوں نے صحافت میں ایم اے کیا تعلیم و تعلم کے شعبہ سے منسلک ہیں تدریسی امور کا عمیق تجربہ رکھتی ہیں واضح رہے قبل ازیں انکے دو شعری مجموعے ’’پھر وصال کیسے ہو‘‘ مطبوعہ 2004ء اور ’’کسی اور سے محبت‘‘ مطبوعہ 2007ء قارئین شعر و سخن سے خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں۔

رخشندؔہ نوید کے کلام سے فکری بلوغت کے آثار نمو پاشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں اس لیے ان کے افکار نادر النظیر اور رفعتِ تخیل کے حامل ہیں ان کی قوتِ متخیلہ جدت و ندرت کی دولت سے مالا مال ہے ان کے تخیلات میں صنعتِ تضاد اور متضاد خیالات کا اہتمام خوبصورت قرینے سے ملتا ہے جس سے بیان کی دلکشی دوبالا ہو جاتی ہے ان کی فکر ہمہ جہت اور ہمہ پہلو ہے اس لیے اس بیک وقت معرفت و مجاز دونوں پر مہمیز کیا جا سکتا ہے محبت کے حوالے سے ان کے شعری مخزن میں ایک طرح کی جزئیات نگاری پائی جاتی ہے جہاں محبوب کے لطف و کرم کا تذکرہ ہے وہاں جو ر و جفا کا مذکور بھی ہے اسی نسبت سے ان کی غزل کا مطلع اور ایک شعر لائقِ التفات ہے   ؎

اسی لیے تو سمجھ رہی ہوں اسے خدا بھی

قریب رہتا بھی ہے مرے مجھ سے جدا بھی

مرے مسیحا کی وجہ شہرت ستمگری ہے

وہ زخم کے ساتھ ساتھ دیتا رہا دوا بھی

ان کے ہاں محبت کے حوالے سے عمیق احساسات پائے جاتے ہیں جن میں ایک بے خودی ہے عالمِ جنوں ہے چاہت کا فسوں ہے کیف و سرور ہے جوش و جذبہ ہے سرخوشی اور سرمستی کی ایک فضا پائی جاتی ہے جس کے باعث ان کا طرزِ اظہار فطری نوعیت اختیار کر جاتا ہے جو بناوٹ، تصنع اور آورد کی آلائشوں سے مبرا و ماورا ہے بلکہ خالصتاً آمد کا انداز ہے جن میں محبت کی کیفیات کو سمو دیا گیا ہے   ؎

کیسے نکلوں خمار سے باہر؟

بازوؤں کے حصار سے باہر

چند لمحوں کی مختصر قربت

اور یادیں شمار سے باہر

اس لیے اس کی یاد میں گم ہوں

بھولنا اختیار سے باہر

روایت کی حسیں پاسداری بھی ان کے کلام کا ایک وصفِ خاص ہے اسلوبیاتی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ان کا اسلوب سہلِ ممتنع کی ردا اوڑھے قاری کے لیے آغوش کشا نظر آتا ہے   ؎

اک اک کر کے لوٹا دے گا میرا سب کچھ دیا ہوا

آپ بہت اچھی ہیں کہہ کر پہلا قرض اتارا ہے

عشق میں قتل روا ہوتا ہے لیکن میرے ستمگرنے

پانی جہاں نہیں تھا مجھ کو لا کر وہیں پہ مارا ہے

محبت کا بسیط احساس چاہت کے موسموں کی شدت و حدت کی غمازی کرتا ہے جس سے ساگر کی امواج میں تموج کی عکاسی ہوتی ہے شعر کے مختصر پیمانے میں وہ اپنے موضوع کو دفعتاً سمیٹنے کا فن جانتی ہیں جس سے شعر میں کلائمکس اور تجسس پیدا ہوتا ہے ان کی یہی شعری پر اسراریت قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے اسی حوالے سے ان کی ایک اور غزل کا مطلع درِ التفات پر دق الباب کر رہا ہے   ؎

شاخ تن آپ کے شانوں میں حمائل ہو گی

ایک لمحے کو ہوا تک بھی نہ حائل ہو گی

دشت الفتِ میں جہاں بے انت تنہائی ہے عالمِ ہجراں عالمِ شباب پر ہے جہاں وصل کا کوئی گماں تک نہیں محبوب کے رستے میں نینوں کے پھول بچھائے جب کوئی امید بر نہیں آتی تو پھر محب کو شدید نوعیت کی تکان کا احساس ہوتا ہے اسی فکر کی ترجمانی رخشندؔہ نوید کی زبانی دیکھتے ہیں   ؎

تمہاری راہ برسوں تک چکی ہوں

ان آنکھوں کی قسم اب تھک چکی ہوں

ان کے محبتوں کے موسموں معتدل نہیں ہیں بلکہ تغیر پذیر ہیں جہاں لمحہ بہ لمحہ انقلابات بپا ہوتے رہتے ہیں جن کے باعث افکار کی شدت وحدت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے مذکورہ اشتہادات کے علاوہ بھی بے شمار شعری تصریحات ہیں جو محبت کی مختلف کیفیات کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں اسی تناظر میں کچھ شعری امثال بدونِ تبصرہ شعر و سخن کے متوالوں کے ذوقِ طبع کی نذر ہیں   ؎

مجھ میں کچھ اور میرے سوا بھی تو ہے

معبدِ عشق میں اک خدا بھی تو ہے

انتظار، انتظار، انتظار آپ کا

ظلم ہے ظلم کی انتہا بھی تو ہے

٭

ایک یہ دل ہے کہ ترتیب میں آتا ہی نہیں

ایک اظہارِ محبت ہے جو بے ڈھنگ سا ہے

٭

تری یادوں کا دل میں اک خزانہ بن گیا

یہ ہم پیاسوں کی خاطر آب و دانہ بن گیا

٭

یہ خوئے بے نیازی وہ عمل پیرا ہے جس پر

یہ جاں لیوا تو ہے لیکن پسندیدہ ہے میری

٭

تو سامنے بیٹھا ہو ترا ساتھ بہت ہے

میرے لیے تو اتنی ملاقات بہت ہے

٭

تجھ سے ملنے کی جب مجھ کو جلدی لگی

پھر نہ گرمی لگی اور نہ سردی لگی

مذکورہ استخراجات اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ رخشندؔہ نوید کا کلام محبت کی عمیق کیفیات کا ترجمان ہے ایک اتھاہ سمندر ہے جس میں غواصی کے بعد قاری کے وجود کا خشک رہنا محال ہے قاری اس سرشاری سے ہم آغوش ہو جاتا ہے جو بین السطور شعریت کی کو مل لے کی صورت رقصاں نظر آتی ہے اور رگ و پئے میں سرایت کر جاتی ہے بہر حال اگر ان کی شعری عرق ریزی تسلسل سے جادۂ منزل پہ محو سفر رہی تو ان کے موضوعاتی کینوس میں بھی مزید وسعت کے شواہد آشکار ہوں گے۔

٭٭٭

 

               رخشندؔہ نوید

ستم گروں سے عداوتیں کیا؟

انہی سے ان کی شکایتیں کیا؟

سفر کی دیکھیں تمازتیں کیا؟

نکل پڑیں تو نزاکتیں کیا؟

دلوں میں پچھلی کدورتیں ہیں

لبوں پہ ان کے حلاوتیں کیا؟

غمِ جہاں کو سمیٹ کے رکھ

سخن میں ہوں گی ریاضتیں کیا؟

جب عقل پر پڑا ہے پردہ

بصیرتیں کیا، سماعتیں کیا؟

رموز جیون کے کھل نہ پائے

یہ روز و شب ہیں بجھارتیں کیا؟

٭٭٭

 

سلسلوں کی ابتدا کو انتہا کرنا پڑا

چاہتوں میں ایک بت کو بھی خدا کرنا پڑا

بے رخی حد سے بڑھی لیکن یقیں آتا نہ تھا

دل کو سمجھانے کی خاطر حوصلہ کرنا پڑا

چند گھڑیاں باعثِ مرگِ محبت ہو گئیں

آخری ہچکی کو بھی حرفِ دعا کرنا پڑا

کیا سلیقے ڈھونڈتی اس سے بچھڑنے کی گھڑی؟

مجھ کو اپنے ہاتھ سے ناخن جدا کرنا پڑا

میرے جذبوں کی اُڑانیں دیکھ کر وہ ڈر گیا

تنگ آ کر صید کو اک دن رہا کرنا پڑا

٭٭٭

 

ریحانہ روحیؔ کے شعری تحیرّ ات

تحیر و استفہام وہ بنیادی تلازمات ہیں جن سے علم و ادب کے ابواب وا ہوتے ہیں جس تخلیق کار کے ہاں یہ عوامل بکثرت ہوں گے وہ عمیق ادراکات کا حامل ہو گا استفہامیہ اور تحیراتی عمل ایک ایسا سمندر ہے جس میں غوطہ زنی کے بعد انسانی علم و فن کی نمو ہوتی ہے بقول راقم الحروف بحوالہ نظم ’’راز نمونہ ‘‘

          فن بے انت سمندر

          پہلے ڈوبو

          پھر نکلو گے

گویا تحیر وہ کلیدی تلازمہ ہے جو شعور و آگہی کے قصر کی خشتِ اول قرار پاتا ہے جس پر افکار و تخیلات کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے ہم نے جب ریحانہ روحیؔ کے کلام کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا تو ہمیں ان کے شعری مخزن میں دولتِ تحیرّ فزوں تر نظر آئی ان کے شعری مجموعہ، ’’عشق زاد‘‘ کے ربع اول کے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں کتابِ ہٰذا کی اشاعت جنوری 2000ء میں عمل میں آئی ان کا تعلق کراچی سے ہے کچھ عرصہ سعودی عرب میں بھی مقیم رہیں۔

اُن کی قوتِ متخیلہ پر تجسس نوعیت کی حامل ہے اس لیے ان کے تخیلات میں استفسارات کی ایک وسیع و عریض دنیا آباد ہے انہیں ہر گام پر طرح طرح کے سوالات سجھائی دیتے ہیں جن کے جوابات کی وہ متلاشی نظر آتی ہیں وہ دنیا کی رنگارنگی سے مرغوب نہیں ہوتیں بلکہ اس کی بے ثباتی کا اظہار ان کے ہاں برملا انداز میں ملتا ہے ان کے ہاں جنون و خرد کے حوالے سے عمیق خیالات ملتے ہیں ان کے ہاں نادر النظیرترکیبات قاری کے لیے آغوش کشا نظر آتی ہیں جس سے ان کے بیان میں جدت و جاذبیت کے مظاہر جلوہ ریز ہوئے ہیں اسلوب کی چاشنی بھی ہے اور عمدہ درجے کی مضمون آفرینی بھی ہے عروضی اعتبار سے انہوں نے زیادہ تر مفرد اور رواں دواں بحور میں لکھا ہے جس کی وجہ سے ان کے کلام میں ایک خاص رنگ کا آہنگ اور موسیقیت آشکار ہوئی ہے اسلوبیاتی حوالے سے ایک شانِ دل آویزی ہے جو ان کی متنوع شعری طبع اور جودتِ طبع کی غمازی کرتی ہے ان کی ایک پوری غزل دنیائے شعر و سخن کے متوالوں کی نذرہے   ؎

یہ دنیا مان لو جادو ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟

تماشا سا جو ہر اک سو ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟

سنا ہے کچھ دنوں میں خشک ہو جائے گی کشتِ دل

ابھی تو آنکھ میں آنسو ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟

گھنا جنگل جہاں چوبیس گھنٹے رات رہتی ہے

وہاں فی الحال تو جگنو ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟

کھلے صحرا میں جب تک سر پہ سورج آ نہیں سکتا

جبھی تک پیاس پر قابو ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟

غنیمت ہے کہ اس آشوبِ ہجرت میں ابھی کچھ دن

ہماری ہمرہی میں تو ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟

محبت ناقۂ ہستی میں مثلِ مشک ہے جب تک

جبھی تک زندگی خوشبو ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟

کوئی تو حد ہے جس کے بعد کچھ باقی نہیں رہتا

سو اب جو ہے بشرط ہو ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟

دلِ وحشی کی سیمابی کے صدقے اب تلک روحیؔ

رمیدہ دشت میں آہو ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟

حیاتِ انسانی طرح طرح کے خدشات سے دوچار ہے اور ہر گام ایک نئے جوکھم سے ہمکنار ہے اسی صورتِ احوال نے بنی نوع انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے چاہے جنوں کی دنیا ہو یا خرد کی خطرات ہمہ گیر حیثیت رکھتے ہیں دل کی دنیا نسبتاً زیادہ پرخطر ہوتی ہے اسی کٹھن کیفیت کی غمازی ریحانہ روحیؔ کی غزل کے مطلع میں دیکھتے ہیں   ؎

دل کو رہ رہ کے یہ اندیشے ڈرانے لگ جائیں

واپسی میں اسے ممکن ہے زمانے لگ جائیں

فکری تغیرات شعری تحیرات کی عمدہ تمثیل ہوتے ہیں وسیع پیمانے پر تغیراتی عمل افکار کی ندرت پر دلالت کرتا ہے ریحانہ روحیؔ کے ہاں بھی تحیراتی اور تغیراتی عوامل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اسی حوالے سے ان کی غزل کے تین اشعار دیدنی ہیں   ؎

غرورِ فتح میں مت بھولنا کہ دوسری سمت

غنیم دستہ بدلنے کے فن سے واقف ہے

عجیب تجربہ گزرا کہ دشتِ غربت میں

شجر بھی سایہ بدلنے کے فن سے واقف ہے

ہوئی چشمِ شناسا بھی اجنبی تو کھلا

کہ آنکھ رشتہ بدلنے کے فن سے واقف ہے

اُن کے کلام میں دولتِ تحیر کے ساتھ ساتھ ایک غور و خوض کا عمل ملتا ہے جو ایک حیران کن کیفیت خود میں سموئے ہوئے ہے وہ حیات کے معماتی پہلو کو زیر غور لاتی ہیں جس سے ان کی پرتجسس شعری طبع کی عکاسی ہوتی ہے وہ زیست کے ہر پہلو کو سوچتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اسی نسبت کے ان کی غزل کے تین اشعار زیب قرطاس ہیں   ؎

میں اپنی آنکھ میں جب اس کے خواب سوچتی ہوں

تو خوشبوؤں سے چمکتے گلاب سوچتی ہوں

وہ سب سوال جو میری سمجھ سے باہر ہیں

میں جاگ جاگ کے ان کے جواب سوچتی ہوں

پلٹ کے دیکھتی ہوں جب رہِ وفا کی طرف

تو عمر بھر کے دکھوں کا حساب سوچتی ہوں

ریحانہ روحیؔ کی شعری پراسراریت قاری کو حیرت و استعجاب کی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں انسان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا یہ اعجاز و افتخار ان کے شعری تحیرات کی بدولت ہے انہوں نے زیست کی حیرتوں کو شعری پیرہن عطا کیا ہے اسی تناظر میں ان کی غزل کا ایک شعر لائقِ التفات ہے   ؎

دوراہے پر کھڑی ہوئی یہ سوچتی ہوں میں

راہِ اماں کدھر ہے کدھر جانا چاہیے

اُن کے بعض اشعار ایسے ہیں جن میں حیرت اپنی انتہا پر دکھائی دیتی ہے ان کا استعجابی انداز قابلِ ستائش ہے ایسے ہی افکار بہت کم شاعرات کے ہاں پائے جاتے ہیں زیست کی حیرتوں کا احاطہ کرنا بھی قابلِ حیرت امر ہے ان کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ کریں   ؎

اے مصور آنکھ کی تصویر میں

کسی طرح حیرت اُتاری جائے گی

ریحانہ روحیؔ کے کلام کے بنظرِ غائر مطالعہ سے یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ ان کے ہاں حیرت و استعجاب کا ایک جہان آباد ہے جو ان کی مقبولیت و پذیرائی کا جواز پیش کرتا ہے مزید شعری ریاضت ان کے لیے فزوں تر فکری و فنی بالیدگی کا باعث بنے گی جس کے باعث ان کے آدرش میں وسعت پیدا ہو گی اور وہ اپنے ادبی مقام و مرتبے کو بہتر انداز میں اجاگر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

٭٭٭

 

               ریحانہ روحیؔ

کائنات اور آسمان کے درمیان ہوتا ہے کیا؟

کچھ نہیں ہوتا جہاں آخر وہاں ہوتا ہے کیا؟

جب چراغِ آرزو جلتا ہو دل کے طاق میں

کوئی کیا جانے کہ وہ روشن سماں ہوتا ہے کیا؟

فیصلہ پہلے ہی لکھا جا چکا جب لوح پر

پھر ہماری قسمتوں کا امتحان ہوتا ہے کیا؟

شہر والو! تم نے دیکھی ہیں مری بربادیاں

سچ بتاؤ کوئی یوں بے خانماں ہوتا ہے کیا؟

ایک ہی تو شخص ہوتا ہے بھرے سنسار میں

وہ نہیں ہوتا تو جانے پھر کہاں ہوتا ہے کیا؟

گھونسلہ جس کا اُٹھا کر لے گئے بچے شریر

کوئی اس چڑیا سے پوچھے آشیاں ہوتا ہے کیا؟

آج جو کچھ سامنے ہے بس حقیقت ہے یہی

ورنہ روحیؔ کون جانے کل یہاں ہوتا ہے کیا؟

٭٭٭

 

عجب حادثہ تھا قیامت گھڑی تھی

بچھڑنا کڑے امتحاں کی کڑی تھی

وہ عورت بھی آخر کو گھر دار نکلی

میں جس کے لیے سارے گھر سے لڑی تھی

وہ جب آسماں میرے شانوں سے پھسلا

زمیں اپنے محور پر ساکت کھڑی تھی

میں جس وقت بیٹی سے ماں بن رہی تھی

میں اس وقت سارے جہاں سے بڑی تھی

ابھی جس کو جی بھر کے دیکھا نہیں تھا

اُسے دور جانے کی جلدی پڑی تھی

وہ خائف تھا مختار ہوتے ہوئے بھی

میں محکوم ہو کر بھی ضد پر اڑی تھی

مرا دل محبت کا مندر تھا روحیؔ

سو محلوں سے برتر مری جھونپڑی تھی

٭٭٭

 

ریحانہ قمرؔ کی فکری نادرہ کاریاں

تخیلات کی جدت و ندرت، طرفگی، قرینہ کاری، تازہ کاری اور کرشمہ کاری نادرہ کاری سے عبارت ہے جب کسی شاعر کے ہاں فکری و فنی بالیدگی کے مظاہر آشکار ہوتے ہیں جب اس کے زبان و بیان اور اسلوب میں پختگی کے شواہد ہویدا ہوتے ہیں جب اس کی سوچ کے زاویے نجی، عمومی اور روایتی سطح سے ہٹ کر ہوتے ہیں تو اس کا کلام فکری نادرہ کاری کا سرچشمہ قرار پاتا ہے آج ہمارے زیرِ نظر ریحانہ قمرؔ کا شعری مجموعہ ’’مگر تم اپنا خیال رکھنا‘‘ ہے شذرہ ہٰذا میں ہم ان کی فکری نادرہ کاری کے حوالے سے رقمطراز ہیں ہمارے سامنے نادر النظیر خیالات کا ایک جمِ غفیر ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ریحانہ قمرؔ کا کلام فکری ندرت کا ایک گراں بہا مخزن ہے جو بے پناہ دلکشی کا حامل ہے مذکورہ مجموعہ کے تقریباً ربع اول کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ شاملِ شذرہ کرتے ہیں کتابِ ہٰذا کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے اب تک اس کے پانچ ایڈیشن زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں اس کی آخری بار اشاعت اکتوبر 2003ء میں ہوئی۔

عصرِ حاضر میں بہت سی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں حیاتِ انسانی فکری انقلاب سے ہم آغوش ہوئی جہاں زندگی کے دیگر شعبوں پر اس کے اثرات مرتب ہوئے وہاں فنِ شعر گوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا فکری اعتبارسے دور حیرت انگیز تبدیلیاں یوں آئیں جن کی مثال سابقہ شعری تاریخ میں نہیں ملتی اولاً یہ تبدیلی ہوئی کہ تنقیدی روئیوں کو فروغ میسر ہوا یہ تغیر اجتماعی انداز میں سامنے آیا ہے جبکہ دوسری تبدیلی جس کا اقلیمِ شعر کی سابقہ تاریخ میں تصور کیا جانا بھی محالات میں سے ہے وہ رومانوی حوالے سے تنقیدی روئیوں کا سامنے آنا ہے جس نے رومانویت کو قدیم و جدید کے درجوں میں منقسم کر دیا ہے یہ اعجاز حیرت و استعجاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس کے لازمی نتیجہ کے طور پر مصلحت پسندی سامنے آئی ہے جسے انسان کی خرد پسندی سے تعبیر کیا گیا ہے یوں دنیائے جنوں میں خرد کے عمل دخل کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس نے متنوع موضوعات کو جنم دیا اسی پس منظر میں ریحانہ قمرؔ کی غزل کے تین اشعار لائقِ اعتنا ہیں   ؎

محبت سے مکر جانا ضروری ہو گیا تھا

پلٹ کر اپنے گھر جانا ضروری ہو گیا تھا

نظر انداز کرنے کی سزا دینی تھی تجھ کو

ترے دل میں اُتر جانا ضروری ہو گیا تھا

میں سناٹے کی جنگ سے بہت ہی تنگ آئی تھی

کسی آواز پر جانا ضروری ہو گیا تھا

دولتِ ضبط کی بازیافت انسان کی بہت بڑی کامیابی ہوا کرتی ہے عشق اور ضبط دو ایسے اوصاف ہیں جو اراز داری سے ہم آغوش نہیں ہوسکتے آنکھیں عشق کا تمام فسانہ طشت از بام کر دیتی ہیں جب کہ چہرے کے دیگر نقوش ضبط کا بھید چھپانے سے قاصر ہوتے ہیں دنیائے جنوں میں محبوب کا غم ہی محب کی اداسی کا سبب بنتا ہے جس کے باعث راز دار احباب محب سے محبوب کی احوال پرسی بھی کرتے ہیں انسانی زندگی میں خوشی کا معدوم ہونا بھی غم کی علامت متصور ہوئی ہے جس کے سبب انسان شاکی و نالاں نظر آتا ہے یہ تمام فکری نادرہ کاری کے شواہد ہیں جو ریحانہ قمرؔ کی ایک غزل کے تین اشعار میں جلوہ ریزیاں کر رہے ہیں   ؎

بہے ہیں اشک نہ ابھری ہیں سسکیاں میری

ہوا سناتی پھری ہے کہانیاں میری

میری اُداسی کا جب بھی انہیں ہوا معلوم

تمہارا پوچھنے آئیں سہیلیاں میری

نہ کوئی پینگ پڑی ہے نہ پھول آئے ہیں

بہت اُداس ہیں کچھ دن سے ٹہنیاں میری

ریحانہ قمرؔ کے ہاں مزاحمتی رویے بھی پورے اہتمام کے ساتھ جلوہ نما نظر آتے ہیں اُن کا اسلوب سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے سادہ اور سہل نگاری کی ایک خوبصورت روایت ان کے ہاں ملتی ہے   ؎

سہہ نہ پایا وہ سچ محبت کا

اس نے میری زبان کٹوا دی

جانے کیوں اس کے سامنے جا کر؟

گنگ ہوتے ہیں اس کے فریادی

اُن کے بات کرنے کا رنگ ڈھنگ جداگانہ اور منفرد نوعیت کا ہے تخیل کی اُڑان بہت اعلیٰ و ارفع ہے کہیں کہیں ان کے تخیلات میں بے خودی اور گومگوئی کیفیت مشاہدہ کی جا سکتی ہے   ؎

گھر سے باہر تھی نہ گھر بیٹھی رہی

سوچ کی دہلیز پر بیٹھی رہی

رومانوی جذبات و احساسات بھی نادر النظیر انداز میں ان کے شعری مخزن کا حصہ ہیں انہوں نے شعری اظہار کے لیے فکر کے عمومی رستوں کو جادۂ منزل نہیں بنایا بلکہ جدت و ندرت کی طرف گام بڑھایا ہے   ؎

ابھی پوری طرح دل سے نہیں نکلا خیال اس کا

ابھی تھوڑی بہت میں زندگی محسوس کرتی ہوں

اگر فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے ہاں عروضی تلازمات کا اہتمام بخوبی ملتا ہے انہوں نے زیادہ تر مرکب بحور میں طبع آزمائی کی ہے جن میں آہنگ اور موسیقیت بھی ہے مضمون آفرینی بھی ہے اسلوب جاذبیت سے مملو ہے متذکرہ تصریحات شاہد ہیں کہ ریحانہ قمرؔ کا کلام فکری نیرنگیوں اور نادرہ کاری سے عبارت ہے جس میں تازہ کاری کی ایک بھرپور لہر موجود ہے مزید فکری و فنی معیارات کی بازیافت کے لیے انہیں فزوں تر ریاضت کے جاں گداز عمل سے گزرنا ہو گا۔

٭٭٭

 

               ریحانہ قمرؔ

انگلیاں پھیر رہا تھا وہ خیالوں میں کہیں

لمس محسوس ہوا ہے میرے بالوں میں کہیں

اب میرا ساتھ نہیں دیتا پیادہ دل کا

ہار جاؤں نہ میں آ کر تری چالوں میں کہیں

اس تشخص پر بھی رہتا ہے یہ دھڑکا دل کا

کھو نہ جاؤں میں تیرے چاہنے والوں میں کہیں

ایک سورج نے مجھے چاند کا رتبہ بخشا

ورنہ ہوتی میں کتابوں کے حوالوں میں کہیں

مجھ کو لگتا تو ہیں وہ متزلزل لیکن

اس کو وحشت ہی نہ لے جائے غزالوں میں کہیں

٭٭٭

 

خدا کی ذات پہ ہے اس قدر یقین مجھے

کبھی مٹا نہ سکیں گے مخالفین مجھے

سب اپنی اپنی غلط فہمیوں میں زندہ رہیں

خدا کرے نہ سمجھ پائیں حاسدین مجھے

وطن سے آتے ہوئے میں نے یہ نہ سوچا تھا

کہ تہمتوں سے نوازے گی یہ زمین مجھے

کبھی کبھی تو مجھے اس طرح سے ملتا ہے

ترے خلوص پہ آتا نہیں یقین مجھے

میں تلخ ہوں تو مجھے تلخ رہنے دیں وہ قمرؔ

نہ اپنی سطح پر لائیں منافقین مجھے

٭٭٭

 

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری جن کے توسط سے اس کی فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید