FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

شاعراتِ ارضِ پاک

فہرست مضامین

 (حصہ دوم)

                    (تنقیدی مضامین و منتخب کلام)

                   شبیر ناقِدؔ

 

انتساب

اُن شاعرات کے نام

جن کی سخن سنجی جہانِ شعر و اَدب

کے لیے سرمایۂ نازش ہے

محصورِ انا کا تو نکل آنا ہے مشکل

دیوار پہ دیوار پہ دیوار کھڑی ہے

                                        شاعر علی شاعرؔ

 

 

نسائی ادب کی دل آویزیاں

                   ابوالبیان ظہور احمد فاتح

 (تونسہ شریف)

صانعِ ارض و سما نے طرح طرح کی مخلوقات کو وجود بخشا ہے اور ہر مخلوق اپنے جواہر و خواص کے اعتبار سے خود میں ایک عالمِ نیرنگی لیے ہوئے ہے یزدانی مصنوعات میں سے ایک مؤقر ایجاد قلم بھی ہے جسے آلۂ کتابت بنایا گیا ہے یہ قلم جسے بھی عطا کر دیا جائے وہ معتبر ہو جاتا ہے ایک عرصہ دیگر میدانوں کی طرح میدانِ خامہ و قرطاس پر بھی قریباً مردوں کی اجارہ داری رہی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں شعورِ تقابل فروغ پاتا گیا بنتِ حوا نے بھی تیزی سے پیش رفت شروع کر دی چنانچہ رہ گزارِ فکر و دانش میں بھی طبقۂ نسواں نے بھرپور مسابقت کا ثبوت دیا ہے ادوارِ گزشتہ میں خال خال شاعرات منصۂ مشہود پر آئی تھیں لیکن اس عہدِ ارتقا میں ماشاء اللہ ایک بڑی تعداد شاعرات کی وطنِ عزیز میں پائی جاتی ہے۔ بقول ابوالاثر  حفیظؔ جالندھری   ؎

حفیظؔ اہل جہاں کب جانتے تھے؟

بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

یہی حال ہمارے طبقۂ نسواں سے متعلق سخنوران کا رہا ہے پہلے تو شعر کہنا ان کے لیے مشکل بنایا جاتا رہا ہے اور اسے باعثِ عار سمجھا جاتا رہا پھر جب ذرا روشن خیالی نے جڑ پکڑی تو خواتین اہلِ سخن کو نہ صرف برداشت کیا جانے لگا بلکہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے اب جبکہ انسانی حقوق کی تحریکات نے قلوب و اذہان میں انقلابات برپا کیے اور صنفی امتیاز کی مذمت کی جانے لگی تو معشرِ اناث نے بھی خود کو منوانا شروع کر دیا نہ صرف لکھا بلکہ بھرپور لکھا اور اس میں ایسی صنفی رنگ آمیزی کی کہ ان کی نگارشات تیر و نشتر کی طرح دل میں اترتی چلی گئیں اب نقادان عالم بھی اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو گئے اور انہوں نے اپنی تنقیدات میں اس محروم طبقے کے حوالے سے حرزہ سرائیاں شروع کر دیں۔

ہمارے خیال میں یہ امر مستحسن ہے کہ بطور خاص ’’شاعرات ارض پاک‘‘ کے حوالے سے بھرپور تنقیدی کام کا بیڑا اٹھایا گیا ہے اس سلسلے میں شبیر ناقدؔ بطور تنقید نگار اور شاعر علی شاعرؔ بطور طابع و ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایک نئی طرح ڈالی ہے قبل ازیں اسی موضوع کی ان کی کتاب ’’شاعراتِ ارض پاک‘‘ (حصہ اول) شائع ہو چکی ہے جسے بہت پسند کیا گیا اور ادبی حلقوں میں اس کی خاصی پذیرائی ہوئی ہے کتابِ ہٰذا چوبیس شاعرات کی نسبت سے مواد پر مشتمل تھی لیکن یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے ’’35‘‘ مزید اہل کلام خواتین کی احاطہ بندی کرتی ہے جس میں فاضل مصنف نے نہ صرف ان کے مختصر سوانحی خاکے پیش کیے ہیں بلکہ ان کے نمونۂ کلام کی معیت میں ناقدانہ چابکدستیوں کا مظاہرہ بھی کیا ہے کتاب کے مطالعہ سے قارئینِ کرام کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارا نسائی ادب بھی کس قدر زرخیز اور پر مغز ہے بیانِ دل نواز نے بین السطور کیسی کیسی شعری لطافتیں اور کیسے کیسے ندرتِ کلام کے شاہ پارے پائے جاتے ہیں اس سلسلے میں ہماری شاعراتِ مکرمات بھی ہدیۂ تبریک پیش کیے جانے کا بھرپور استحقاق رکھتی ہیں ہماری دعا ہے کہ یہ کلیاں پہلے سے زیادہ رعنائی سے کھلتی رہیں اور اپنی تخلیقی نزہت بیزیوں سے سماج کو معطر کرتی رہیں اور ہمارے اہلِ قلم ان کے سرمایۂ شعر و ادب پر انہیں کماحقہ خراجِ تحسین پیش کرتے رہیں اسی دعا کے ساتھ بھی ہم اجازت کے خواستگار ہیں   ؎

اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ

کھلتے رہیں اسرار نہاں اور زیادہ

٭٭٭

 

 آسناتھ کنولؔ نسائی احساسات کی شاعرہ

خالقِ ارض و سما نے حضرتِ انسان کو اشرف المخلوق بنایا ہے اور اسے مسجودِ ملائک ٹھہرایا ہے کیوں کہ یہ عقل و بصیرت، فہم و فراست، دانش و حکمت اور جذبات و احساسات سے مرصع ہے اس پر طرہ یہ کہ اسے اظہار کے وسیلے ودیعت کیے گئے ہیں انسان چاہے وہ مرد ہے یا عورت وہ حساس ہوتا ہے مرد چونکہ قوی الجسم ہے اس لیے وہ عورت کی نسبت کم حساس ہوتا ہے صنفِ نازک اپنی جسمانی نزاکتوں کے ساتھ ساتھ فکری طور پر بہت حساس ہوتی ہے ایسے معاشرے جہاں عورتوں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں وہاں حوا کی بیٹی اپنی سماجی محرومیوں کے باعث بہت زیادہ حساسیت رکھتی ہے اس لیے کہ اُس کے بس میں کچھ نہیں ہوتا وہ صرف سوچ سکتی ہے اور آزادانہ طور پر اظہار سے بھی محروم ہوتی ہے یہی احساسات ہمیں آسناتھ کنول کے کلام میں نظر آتے ہیں کیونکہ وہ بھی مشرقی تہذیب کی پروردہ ہیں جہاں عورت کو مساوی حقوق نہیں دئیے جاتے آج ہم اُن کے اوّلین شعری مجموعہ ’’پانیوں کا پھول‘‘ میں سے منتخب غزلیہ اشعار اور منظومات کے اقتباسات مذکورہ موضوع کے تناظر میں برائے تجزیہ پیش کریں گے مجموعہ ہذا کا نام جدید، علامتی اور استعاراتی نوعیت کا حامل ہے جس سے اُن کی جودتِ طبع کی غمازی ہوتی ہے کتابِ ہٰذا کی طباعت 2003ء میں عمل میں آئی۔

صنفِ نازک طبعی اعتبار سے محبت اور نفرت دونوں حوالوں سے شدت کی حامل ہوتی ہے اس کی چاہت بھی مثالی ہوتی ہے اور اس کی کدورت بھی بھرپور ہوتی ہے اس کے جذبوں کی تمازت اس کے بہت زیادہ حساس ہونے کی علامت ہے وہ ٹوٹ کر الفت کا دم بھرتی ہے اور مر مٹ کر نفرت بھی نبھاتی ہے آسناتھ کنول کے ہاں بھی محبوب کا تصور ایک جابر مرد کے طور پر سامنے آیا ہے اور اُن کا کردار وفا کی دیوی کے طور پر اُجاگر ہوا ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کے چار اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

تو مجھے ملتا رہا نا آشناؤں کی طرح

نام تیرا میرے لب پہ تھا دعاؤں کی طرح

چشمِ نم میں ایسا حیرت ناک منظر جم گیا

وہ کسی کے ساتھ تھا میری وفاؤں کی طرح

جب ملا مجھ سے تو بکھرا آرزوؤں کا وجود

وہ مرے گلشن میں اُترا تھا ہواؤں کی طرح

بھول جانے کی تجھے کوشش بہت کی تھی مگر

تو رہا ہے دل کی دھڑکن میں صداؤں کی طرح

ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے جہاں عورت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہ اپنے آپ کو ایک اجنبی دنیا میں محسوس کرتی ہے ہر طرف اُسے ہوس کے مہیب سائے نظر آتے ہیں اس لیے وہ شدید قسم کے احساسِ تنہائی کا شکار ہے کہیں بھی اُسے جائے اماں نظر نہیں آتی اپنائیت کا احساس معدوم ہے خود غرضی اور مطلب پرستی نے بہت بھیانک صورت اختیار کر لی ہے نفسانفسی کا عالم ہے جس نے بہت سے مصائب و آلام اور شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے جس سے صنفِ نازک کو امنِ ہستی پامال ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انھیں خیالات سے مرصع اُن کی غزل کے پانچ اشعار اربابِ ذوق کی نظر ہیں   ؎

میں اکیلی ہی کھڑی ہوں دوستوں کے درمیاں

راستے گرچہ کھلے ہیں راستوں کے درمیاں

وہ جو کل تک کہہ رہے تھے جان بھی دے دیں گے ہم

رہ گئے ہیں آج پھنس کر الجھنوں کے درمیاں

توڑ کر رشتہ وفا کا اُس نے بھی یہ کہہ دیا

ہم نہ مل کے چل سکیں گے مشکلوں کے درمیاں

داغ کیسے لگ رہے ہیں دامنِ ہستی پہ آج؟

یہ صلہ مجھ کو ملا ہے دلبروں کے درمیاں

بعض اوقات زبان کے تلخ و ترش الفاظ وجودِ ہستی پر چھید کر دیتے ہیں جس سے زندگی کا تمام حسن مفقود ہو جاتا ہے جب ایک د وسرے کا احترام ختم ہو جائے تو آپس کی محبت و موانست معدوم ہو جاتی ہے اور خودپرستی کی جڑیں گہری ہو جاتی ہیں اسی حوالے سے وہ یوں گویا ہیں   ؎

زباں کے تیر نے چھیدا ہے دل کی ہستی کو

مٹا کے رکھ دیا اُس نے حسین بستی کو

تری نگاہ میں میرا وقار کچھ بھی نہیں

میں کیسے بھول سکوں تیری خود پرستی کو

محبت میں جب ہوس کا عمل دخل شروع ہوتا ہے تو اس پاکیزہ جذبے کا تقدس خاک میں مل جاتا ہے اس کی رونق و رعنائی ماند پڑ جاتی ہے پھر چاہت رسوائی کا روپ دھار لیتی ہے بقولِ راقم الحروف   ؎

ہوس نے بنائی ہیں سب داستانیں

اسی راہ میں لوگ پاگل ہوئے ہیں

انھیں خیالات کا اظہار ذرا آسناتھ کنول کی زبانی سنتے ہیں   ؎

کتنی آسانی سے پھیلائے ہوس کے دائرے

میری چاہت کو بھی رُسوا کر دیا

اُن کے ہاں رجائی افکار بھی بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں۔ ایک عزم ہے، ایک حوصلہ ہے جو چٹان کی مانند ہے چاہے جتنی تیز آندھیاں ہوں وہ ہر حال میں وفا کے دیپ جلاتی ہیں   ؎

کوئی خدشہ نہ رکھ ہواؤں کا

ہاں وفا کا دیا جلا تو سہی

عورت ایک ضبط کا استعارہ ہوتی ہے دنیا کے ہر دُکھ درد کو اپنے ہونٹ سی کر برداشت کرتی ہے وہ آہ و فغاں سے بے نیاز ہوتی ہے یہی اصل میں رازِ حیات ہے یہی رازِ ہستی ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کے دو اشعار لائقِ توجہ ہیں   ؎

تنہا رہنا سیکھ لیا ہے

یہ دُکھ سیکھ لیا ہے

دنیا سے ہر زخم چھپا کر

زندہ رہنا سیکھ لیا ہے

اگر فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اُن کا پیرایۂ اظہار انتہائی سادہ و شستہ ہے انھوں نے مفرد اور رواں دواں بحور میں خامہ فرسائی کی ہے کہیں کہیں زحافات کا استعمال بھی بخوبی پایا جاتا ہے اُن کی غزل میں تغزل بھرپور انداز میں جلوہ ریز ہے۔

اُن کے ہاں نسائی جذبے پاک اور پوتر صورت میں پائے جاتے ہیں جن سے اُن کے جذبات کے تقدس کا اندازہ ہوتا ہے اُن کی نظم ’’لڑکی‘‘ میں نسائی احساسات کی جھلک دیکھتے ہیں   ؎

ٹھنڈے میٹھے جذبوں والی لڑکی ہے

سیدھے سادے رستوں پر وہ چلتی ہے

اس نے کب احسان کیا ہے دنیا پر؟

دنیا پھر بھی اس کی دید کو ترسی ہے

ہر اک زخم چھپایا دنیا داروں سے

خود ہی پیار کی دھرتی پر وہ برسی ہے

وہ سماج میں عورت کے مقام و مرتبے سے آشنا ہیں اور اُنھیں اس کے مصائب و آلام کا مکمل ادراک ہے وہ معاشرے میں عورت کے کردار اور اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اُن کے کلام میں صنفِ نازک کی زندگی کی تمام تر داستاں رقم ہے انھوں نے عورت کے مسائل کو اُجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اسی کوشش کا عکس اُن کی نظم ’’میں صحرا کی عورت ہوں ــ‘‘ کے مختصر اقتباس میں آپ کے ذوقِ طبع کی نظر ہے   ؎

        میں صحرا کی عورت ہوں

        دس دس کوس کے فاصلے سے

        پانی بھر کر لاتی ہوں

اُن کے کلام کے مطالعہ سے یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں نسوانی احساسات بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں۔ اگر لسانی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو اُنھوں نے ابلاغ پر زیادہ زور دیا ہے اسی لیے اُن کا نقطۂ نگاہ واضح طور پر سامنے آیا ہے اگر اسی ذوق و شوق سے اُن کا شعری سفر جاری رہا تو وہ دنیائے سخن میں اپنی واضح پہچان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

٭٭٭

 

                    آسناتھ کنولؔ (لاہور)

انتہا ہونے سے پہلے سوچ لے

بے وفا ہونے سے پہلے سوچ لے

بندگی مجھ کو تو راس آ جائے گی

تو خدا ہونے سے پہلے سوچ لے

کاسۂ ہمت نہ خالی ہو کبھی

تو گدا ہونے سے پہلے سوچ لے

ہاں محبت عمر بھر کا روگ ہے

مبتلا ہونے سے پہلے سوچ لے

بچ رہے کچھ تیرے میرے درمیاں

فاصلہ ہونے سے پہلے سوچ لے

زندگی اک ساز ہے لیکن کنولؔ

بے صدا ہونے سے پہلے سوچ لے

٭٭٭

 

تیرے احسان سے ڈر لگتا ہے

دل کو طوفان سے ڈر لگتا ہے

مجھ کو کافر نہ کہیں کر دے یہ

تیرے ایمان سے ڈر لگتا ہے

پالتی ہوں میں پرندے گھر میں

مجھ کو انسان سے ڈر لگتا ہے

چاہتیں جرم نہ ہو جائیں کہیں

عہد و پیمان سے ڈر لگتا ہے

چھوڑ جائے نہ کہیں رستے میں

دل کے مہمان سے ڈر لگتا ہے

زہر آلود ہوائیں ہیں کنولؔ

اب گلستان سے ڈر لگتا ہے

٭٭٭

 

ایمانؔ قیصرانی ایک رجائیت پسند شاعرہ

زندگی امید سے عبارت ہے اور یاس مرگ بھی ہے کفر بھی ارشادِ خداوی ہے: لا تقنَطُو مِنْ رَحْمَۃُ اللّٰہ O  اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو بقول راقم الحروف   ؎

مجھے اک سہارا ہے لا تقنطو کا

یہ مانا کہ بندہ خطا کار ہوں میں

رجائی خیالات رکھنے والے لوگ زندگی سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں رجا امید افزا امکانات سے منسوب ہے جنہیں اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہوتا ہے جو اپنی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں وہ کبھی مایوس نہیں ہوتے دنیائے حزن و ملال میں رجائیت کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں دامنِ امید تھامے رہنا حالات کی آشوب زدگیوں کے باوجود پُر اعتماد و پُر اطمینان رہنا بھی عزم و ہمت کی دلیل ہے اگر یہ احساسات کسی بنتِ حوا کے ہوں تو یہ سونے پر سہاگہ ہے آج ہمارا موضوعِ بحث ایمانؔ قیصرانی کا کلام رجائی تناظر میں ہے ایمان قیصرانی کا تعلق جنوبی پنجاب کی انتہائی زرخیز سرزمین ڈیرہ غازی خان سے ہے کافی عرصہ سعودی عرب میں بھی مقیم رہی ہیں اُن کا تعلق تعلیم و تعلم کے شعبہ سے ہے اُن کے ہاں ایک عمیق تخلیقی وجدان پایا جاتا ہے اور رجائی تاثرات وفور سے ملتے ہیں آج ہم تنقیدی اکائی کے طور پر اُن کے شعری مجموعہ ’’میری یاد آئے گی‘‘ کے منتخب نظمیہ اقتباسات اور غزلیہ اشعار کا تجزیہ پیش کرتے ہیں مجموعہ ہٰذا کا نام جہاں ایک احساسِ خود محبوبی کا مظہر ہے وہاں ایک تعلّیاتی جواز کا حامل بھی ہے جو خود میں اطمینان اور تیّقن کی دولت بھی سموئے ہوئے ہے۔

کتابِ ہٰذا کا منظوم پیش لفظ بھی سراپا رجائیت ہے جہاں اس مجموعے میں منافقت و منافرت کے معدوم ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے جس میں کوئی حرفِ شکایت بھی نہیں نہ طنز کے نشتر ہیں جو چبھن اور اذیت کا احساس دلائیں نہ حیات کے جو روستم اس کا موضوعِ بحث ہیں نہ اس میں یاسیت و قنوطیت کی تیرگی ہے جو خزاں کی رُت کی سفیر ٹھہرے نہ اس میں عداوت کے فسانے ہیں بلکہ اس میں صرف الفت کے ترانے ہیں خوشگوار اور طربیہ تاثرات ہیں جذبے جاذبیت سے لبریز ہیں پیش لفظ زیبِ قرطاس ہے   ؎

ورق الٹنے سے بیشتر ہی

میں چاہتی ہوں تمہیں بتا دوں

نگارشاتِ کتابِ دل میں

منافقت کا منافرت کا

کوئی بھی قصہ نہیں ملے گا

نہ اس میں ہو گا جہاں سے شکوہ

نہ اہلِ دنیا پہ طنز ہو گا

نہ دشمنوں کا گلہ ہے اس میں

نہ ان سے کوئی شکایتیں ہیں

نہ جورِ ہستی ہے اس کا موضوع

نہ اس میں کوئی سخن ہے ایسا

کہ دوستوں کے دلوں کی خاطر

جو زرد رُت کا پیامبر ہو

کہیں بھی اس میں رقم نہیں ہے

عداوتوں کی کوئی حکایت

کہ میری دنیا فقط محبت

مری محبت مری حکومت

میں اپنی دنیا  پہ حکمراں ہوں

سو آگے بڑھ کے ورق اُلٹ دو

کہ میری دنیا بہت حسیں ہے

ایمانؔ قیصرانی نے اپنے پیش لفظ کی بدولت قاری کے لیے پیشگی اشتیاق پیدا کر دیا ہے کتاب کے آغاز سے قاری کے ذہن میں خوبصورت خیالات نمو پاشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں اسلوب سادہ رواں دواں اور من پسند ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلوبیاتی حوالے سے ان کے سخن کا مطالعہ بھی خالی از دلچسپی نہیں ہے۔

اُن کے ہاں رومانوی افکار کی جلوہ سامانیاں بھی ہیں جزئیات نگاری، منظر نگاری اور ایک خود کلامی کا سا انداز ملتا ہے ’’میری یاد آئے گی‘‘ کاسا تا اثر خواہ مخواہ دل میں پیدا نہیں ہوتا جب انسان کو اپنے شخصی، فکری اور فنی خصائص کا ادراک ہوتا تو پھر اپنی اہمیت کا احساس بھی ضو پاشیاں کرتا ہے جس کا سبب اہلِ دنیا کا خراج تحسین بھی ہوسکتا ہے شعوری اور لاشعوری صلاحیتیں بھی جس میں دخیل ہوتی ہیں جو انسان اپنے اندر کسی نوع کا بھی کمال رکھتا ہے وہ اس حوالے سے ناقابلِ فراموش ہوتا ہے اسی تناظر میں اُن کی نظم ’’میری یاد آئے گی‘‘ دیدنی ہے   ؎

شام کے اجالوں میں

اپنے نرم ہاتھوں پر

کوئی بات اچھی سی

کوئی خواب سچا سا

کوئی بولتی خوشبو

کوئی جاگتا لمحہ

جسے بھی لکھنا چاہو گے

سوچ کے دریچوں سے

یاد کے حوالوں سے

میرا نام چھپ چھپ کر

تم کو یاد آئے گی

ہاتھ کانپ اُٹھیں گے

 آنکھ جھلملائے گی

اور تم کو ہر لمحہ

اتنا یاد رکھنا کہ

میری یاد آئے گی

میری یاد آئے گی

انہیں اپنے شخصی کمالات کا لاشعوری اور شعوری طور پر عرفان حاصل ہے جس کے باعث ان کی قوتِ متخیلہ وسیع و بسیط ہے اور فکری کینوس وسعتوں کا حامل ہے احساسِ ذات نمایاں ہے وہ ہر جگہ اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں اُن کی نظم ’’تمہیں میں یاد آؤں گی‘‘ کا نصف اول ملاحظہ کرتے ہیں    ؎

         سنو جاتے سمے کی ان کٹھن گھڑیوں میں تم سے اک ضروری بات کہنی ہے

        سنو کہ لوگ کہتے ہیں

        محبت اپنے ہونے کی گواہی آپ ہوتی ہے

        یہ ایسی مست خوشبو ہے

        جو ہر صورت نمایاں ہے

        بچاؤ لاکھ دامن تم

        مگر اتنا سمجھ جاؤ

        مرے مقروض ٹھہرے ہو

        ہزاروں میل آگے کے کسی بھی شہر جا بیٹھو

        کسی بھی دیس بس جاؤ

        میرے مقروض ٹھہرو گے

        بھلا نا لاکھ چاہو گے

        مگر تم اپنے ہی دل سے

        کبھی نہ جیت پاؤ گے

        ہمیشہ مات کھاؤ گے

        تمہارے چار سو اب تو

        مری آواز زندہ ہے

        یہ اک ایسا پرندہ ہے جسے صیّاد کا پہرہ

        کبھی نہ روک پائے گا

        یہ یادوں کی منڈیروں پر ہمیشہ چہچہائے گا

        تمہیں بے حد ستائے گا سدا واپس بلائے گا

اُن کے ہاں رومان ایک بھرپور رجائی حوالے کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے اُن کے تخیلات کو حسیں سے حسیں تر بنا دیا ہے اُن کے اسلوب میں بلا کی روانی اور جولانی ہے جو ان کی سخن گستری کو رعنائی اور توانائی سے نوازتی ہے۔

ایمانؔ قیصرانی اپنے فنی کمالات سے بخوبی واقف ہیں یہی سبب ہے کہ کہیں کہیں اُن کے ہاں تعلّیات کا صدور بھی ہوتا ہے جو اپنے اندر رجائی تاثر بھی رکھتی ہیں جا بجا اُن کی طربیہ شعری طبع دامنِ دل تھام لیتی ہے وہ ظلمتِ شب میں بھی اجالوں کے حسیں تصورات سے مالا مال ہیں اگر فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے ہاں عروضی محاسن کا اہتمام بھی ہے اور انہوں نے زیادہ تر مفرد اور رواں دواں بحروں میں لکھا ہے فکری و فنی اعتبار سے اُن کا کلام لائقِ صد تحسین و صد ستائش ہے اور سراہے جانے کا استحقاق رکھتا ہے تعلّیاتی اور طربیہ تاثر کے حامل ان کی غزل کے دو اشعار دنیائے شعر و سخن کے متوالوں کی نذر ہیں   ؎

غالبؔ و اقبالؔ ہوں پروینؔ شاکر یا ندیمؔ

اپنا دامانِ سخن ان شاعروں سے جا ملا

ہم سیہ بختوں کے ایماںؔ  دل کا ہے یہ مشغلہ

تتلیوں کے رنگ اوڑھے جگنوؤں سے جا ملا

وہ طبعاً قناعت پسند واقع ہوئی ہیں لوبھ، لالچ، حرص و طمع سے علاقہ نہیں رکھتیں وہ اپنی دنیا میں قانع رہتی ہیں یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے قناعت بہت بڑی دولت ہے یہی دل والوں کا معاملہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا داری سے مبرا و ماورا ہوتے ہیں انہیں دنیاوی مال و اسباب سے کوئی غرض و غایت نہیں ہوتی خیالِ یار اور یاد جاناں ہی ان کا کل سرمایہ ہوتا ہے یہی ان کی تمنا اور تقاضا ہوتا ہے اسی نسبت سے اُن کی غزل کے دو اشعار دامنِ دل تھام رہے ہیں   ؎

بس ایک گھر ہو خدائی میں کائنات مری

مرے خدا مجھے اتنی بڑی خدائی دے

میں اس کو بھولنا چاہوں تو گونج کی صورت

وہ مجھ کو روح کی پاتال میں سنائی دے

رومان اور رجا سے لبریز اُن کی غزل کے کچھ اشعار بدونِ تبصرہ پیشِ خدمت ہیں   ؎

کہیں بجتے سلاسل ہیں کہیں جھنکار زندہ ہے

کوئی سایہ ہے جو اب تک پسِ دیوار زندہ ہے

ہوا کے دوش پہ رکھا دیا تو بجھ گیا لیکن

تمہارا منتظر اب تک دلِ بیمار زندہ ہے

ترے پندار کی خاطر مجھے مصلوب ہونا ہے

وگرنہ کون مانے گا مرا سالار زندہ ہے؟

ابھی اس تحت پر تیرے حوادث آ بھی سکتے ہیں

مرے باغی قبیلے کا ابھی سردار زندہ ہے

صبح تک میری تحریریں فصیلِ شہر پر ہوں گی

کہ میرے درد کا لہجہ پسِ اشعار زندہ ہے

کسی سقراط کے دم سے غرور جامِ سم باقی

کسی منصور کی خاطر فرازِ دار زندہ ہے

تمہارے جبر کی مہریں مرے ہونٹوں پہ ہیں لیکن

مری اس چپ میں بھی پنہاں مرا انکار زندہ ہے

اُن کے نزدیک خیالِ یار میں ایک بہت بڑی امید ہے جسے اپنی ذات پر اوڑھنے کے بعد وہ اپنے آپ کو جہاں کے ہر قسم کے مصائب و آلام سے محفوظ سمجھتی ہیں رومان اور رجا دونوں حوالے ساتھ ساتھ ہیں اسی حوالے سے اُن کی غزل کا ایک مقطع دیکھتے ہیں   ؎

خیال یار کی چادر تو ایماںؔ  اوڑھ لے سر پر

سفر میں دشت و صحرا ہوں تو پھر سایہ نہیں آتا

مذکورہ تصریحات اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ ایمانؔ قیصرانی کے ہاں رجائی حوالے کثرت سے ملتے ہیں اگر اُن کی شعری ریاضت تسلسل سے جاری و ساری رہی تو ان کے بہتر ادبی مستقبل کی نوید دی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

                   ایمانؔ قیصرانی ( ڈیرہ غازی خان)

کسی کے حسنِ نظر نے کرم دکھایا ہے

کہ اس کے ہو چکے ہم جو ابھی پرایا ہے

نظر اُتارنے آتے ہیں میری جگنو تک

مجھے دکھوں نے کچھ اتنا حسیں بنایا ہے

زمانہ جس کو بجھانے چلا تھا آندھی سے

وہ پھر چراغ کی صورت سے جگمگایا ہے

میں رک گئی تھی تو رستہ تمام جنگل تھا

میں چل پڑی ہوں تو موسم بھی مسکرایا ہے

میں جس کو ڈھونڈتی پھرتی تھی کہکشاؤں میں

مرا خدا اُسے نیچے اُتار لایا ہے

بدل رہے ہو نگاہیں ابھی سے تم مجھ سے

ابھی تو وقت نے پہلا ستم ہی ڈھایا ہے

یہ لگ رہا ہے تمہارے بدن کے صحرا پر

کسی کی زلف کا بادل اُتر کے آیا ہے

٭٭٭

 

مرے خیال کے سب موسموں میں رہتا ہے

وہ عکس بن کے سدا آئینوں میں رہتا ہے

وہ مجھ سے بات بھی کرتا نہیں تسلی سے

ذرا خبر کہ کن الجھنوں میں رہتا ہے؟

کبھی تو بخش دے خیرات اُس کو چاہت کی

وہ بادشاہ جو تیرے سائلوں میں رہتا ہے

وہ پاس ہو تو یہ لگتا ہے وقت ساکن ہے

کہ رخشِ عمر میری مُٹھیوں میں رہتا ہے

وہ جس کو شوق تھا مجھ کو گنوا کے جینے کا

سنا ہے اب وہ بڑی الجھنوں میں رہتا ہے

اب اس سے بھاگ جاؤں تو کس طرف جاؤں ؟

وہ مری نیند مرے رتجگوں میں رہتا ہے

وہ جس کو بیر تھا ایماںؔ  ہماری غزلوں سے

سنا ہے اب کہ سدا شاعروں میں رہتا ہے

٭٭٭

 

بسملؔ صابری روایت و جدت کا سنگم

ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا ’’عظیم شاعری روایت سے جُڑی ہوتی ہے‘‘ روایت تہذیبی و ثقافتی عوامل کے زیرِ اثر ہوتی ہے جس میں جغرافیائی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں تخلیق کار کا اپنی دھرتی سے تعلق مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اس لئے اس کی تخلیقات میں اپنی دھرتی کے رنگ ہوتے ہیں اور اس کی بوباس رچی بسی ہوتی ہے اگر کسی سخن گستر کا روایت سے کوئی تعلق نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کے افکار و خیالات بنیاد سے محروم ہیں اور اُسے ہم فطری شاعر نہیں کہہ سکتے کیونکہ روایت کسی بھی سخنور کے کلام میں فطری طور پر رچی بسی ہوتی ہے بہت سے شعراء و شاعرات جدت کے زعم میں اپنے کلام کو لایعنی خیالات کا پلندہ بنال یتے ہیں اُن کی فکر اور اُن کا اسلوب جاذبیت کی دولت سے یکسر محروم ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو عظیم جدت پسند کہلوانے کے زعم میں مبتلا ہوتے ہیں وہ شعری لطافتوں اور نزاکتوں سے یکسر نابلد ہوتے ہیں اُن کے پاس لطیف جذبات و احساسات کا فقدان ہوتا ہے وہ ایک بے جان اور بے روح قسم کا کلام تخلیق کر رہے ہوتے ہیں وہ سپاٹ قسم کے اسلوب کے ساتھ ساتھ اپنی فکر کو بھی سپاٹ کر رہے ہوتے ہیں جو سخن دان صحیح معنوں میں جدت و ندرت کے حامل ہوتے ہیں وہ انھیں اپنی فہرست کے آخری سیریل پر بھی برداشت کرنے کے رودار نہیں ہوتے اُس شاعری کو معیاری کلام نہیں کہا جا سکتا جدت کی بنیاد روایت ہے اور جس جدت کی بنیاد ہی نہ ہو چہ معنی دارد:

جدت سے مراد یہ ہے کہ تشبیہات و ترکیبات جدید نوعیت کی حامل ہوں استعارات میں تنوع ہو اسلوب میں ایک نیا رنگ، ڈھنگ اور افکار نادر النظیر ہوں لغت میں بھرپور قسم کا تاثر ہو روایت سے مطابقت یا اختلاف ہو جملہ امور جاذبیت سے معمور ہوں جدت کا ایک روپ یہ بھی ہے ’’اک رنگ کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھو‘‘ علی ہذا القیاس عصری رجحانات و میلانات سے ہم آہنگ اندازِ سخن کہا جا سکتا ہے جس میں جدت پر بدعت کا گماں نہ ہو روایت و جدت کا حسیں امتزاج ایک عمدہ اور معیاری شاعری کو جنم دیتا ہے۔ آوازوں کے اس ہجوم میں بہت کم شعراء اور شاعرات اس نوع کی پہچان رکھتے ہے شاعرات کی کھیپ میں بہت کم شاعرات ہیں جو نمایاں طور پر سامنے آئی ہیں اُن میں سے بسمل صابری کا نامِ نامی بھی خاص اہمیت رکھتا ہے جن کا شعری سفر نصف صدی پر محیط ہے۔ وہ دنیائے اردو میں اپنی ایک شعری پہچان رکھتی ہیں اور پاک بھارت کی ہر دل عزیز شاعرہ ہیں ہم نے جب اُن کے شعری مجموعہ ’’پانی کا گھر‘‘ اور ’’روشنیوں کے رنگ‘‘ کا مطالعہ کیا تو ہمیں اُن کے شعری مزاج میں روایت اور جدت کا حسیں امتزاج نظر آیا اُن کے اوّلین شعری مجموعہ ’’پانی کا گھر‘‘ جو 1998ء میں منصہ شہود پر آیا جس نے بے پناہ داد و تحسین کی دولت سمیٹی۔ 2008ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن چھپا اس مجموعے کا یہ شعر اتنا مقبول ہوا کہ زباں زدِ عام ہو گیا    ؎

وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

مجموعہ ہٰذا میں زیادہ تر غزلیات، کچھ آزاد منظومات، قطعات اور نمونے کے گیت شامل ہیں۔

شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے دوسرے شعری مجموعہ روشنیوں کے رنگ مطبوعہ 2011ء کے منتخب غزلیہ اشعار کا فکری و فنی تجزیہ روایت و جدت کے تناظر میں کریں گے۔ اُن کے اس مجموعہ میں بھی زیادہ تر غزلیات، چند پابند منظومات نمونے کے گیت اور کچھ قطعات شامل ہیں اُن کے اس شعری مجموعے کے حوالے سے فرخ سہیل گوئندی، علی سردار جعفری ڈاکٹر خورشید رضوی، پروفیسر سہیل اختر (چیف ایڈیٹر سہ ماہی فراست بہاولپور) ڈاکٹر کنول فیروز (چیف ایڈیٹر ماہنامہ شاداب لاہور) اظہر جاوید (مدیر اعلیٰ ماہنامہ تخلیق لاہور) پروفیسر اکبر شاہ،  جعفر شیرازی اور پروفیسر حسن عسکری کاظمی جیسے عظیم المرتبت اربابِ دانش کی غیر منظوم آراء شامل ہیں علاوہ ازیں ان کے حوالے سے راغب مراد آبادی جیسے جلیل القدر شاعر کی آراء قلم برداشتہ قطعات پر مبنی ہیں بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔

موجودہ عصری حالات میں دہشت گردی نے بھیانک صورتِ حال اختیار کر لی ہے دہشت گردی کی نوعیات میں تنوع پایا جاتا ہے اس کی کئی صورتیں ہیں جو تمام تر کرب انگیز ہیں دہشت گردی کی ایک صورت تو دھماکوں کی صورت میں ہے جس میں بہت سے افراد آنکھ جھپکتے ہی لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ یہ دہشت گردی کی کلاسیکی صورت ہے جس سے کوئی انسان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ جس کا نشانہ پیر و جواں بچے اور عورتیں بھی بنتی ہیں اس سماجی کرب کی غمازی اُن کی غزل کے اس شعر میں دیدنی ہے    ؎

لو بیبیاں بھی دھماکوں کی زد سے بچ نہ سکیں

چھپے ہیں درد رداؤں میں دیکھ لو آ کر

جہاں اُن کے کلام میں سماجی روئیے موجود ہیں وہاں سماجی کرب بھی فکر انگیز اور درد خیز انداز میں پایا جاتا ہے اُن کے افکار میں ایک ہمہ گیری اور پہلو داری پائی جاتی ہے۔ اُن کے خیالات آفاقیت کے مظہر ہیں انھوں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں ایک روایتی المیے کو یوں روایتی انداز میں بیان کیا ہے   ؎

سوچو ذرا وہ زیست کو کیسے بسر کریں ؟

جو لوگ آج بھوک سے اتنے نڈھال ہیں

اسی حوالے سے راقم الحروف اپنی غزل کے دو اشعار میں کچھ یوں گویا ہیں   ؎

دن بھی کرب سے میرا گزرا

شب بھر مجھ کو نیند نہ آئی

اپنے بچے بھوک سے پاگل

جب سے آئی ہے مہنگائی

جہاں اُن کے ہاں افکار روایت کے حسیں پیرہن میں مکمل کروفر کے ساتھ پائے جاتے ہیں وہاں اُن کے ہاں جدید خیالات کی بھی کمی نہیں ہے اُن کی غزل کے دو جدت آمیز اشعار  زیبِ قرطاس کرتے ہیں   ؎

خامشی بھی مری بغاوت ہے

زیر لب کچھ بیان بولتے ہیں

میں تو چپ رہ کے بھی ہنر بانٹوں

میرے اندر جہان بولتے ہیں

اُن کے ہاں حزنیہ جذبات و احساسات بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں اور وہ بھی لطیف انداز میں ہیں وہ اپنی فکر کو کرب انگیز نہیں ہونے دیتے بس غم کی ہلکی سی آنچ محسوس ہوتی ہے مصرعہ سازی کا عمل خوبصورت قرینے سے طے پاتا ہے مصرعوں کے درو بست میں ایک جاذبیت کا پہلو پنہاں ہوتا ہے کہیں کہیں معاملہ بندی بھی ایک حسن پیدا کرنے لگتی ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کا ایک شعر زیرِ مطالعہ لاتے ہیں جہاں روایت اور جدت ساتھ ساتھ ہیں   ؎

شام ہوتے ہی جلا دیتے ہیں راہوں میں چراغ

مثلِ مہتاب وہ کب آئے گا ظلمات کے بعد ؟

بسمل صابری کے پاس روایت بھی اپنا ایک خاص حسن لیے ہوئے جو اُن کی طربیہ شعری طبع کو چار چاند لگادیتی ہے اُن کے طربیہ تاثر کے حامل اشعار روح افزا ہیں اُن کی تشبیہات میں بھی ایک کیف و سرور کی فضا ہے اس پر طُرّہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی شعری صداقتوں سے آگاہ ہیں وہ حقیقت کی دنیا میں سانس لیتی ہیں دنیائے خواب و خیال انھیں مرغوب و مطلوب نہیں ہے۔ اکثر اوقات اُن کا لہجہ رواں دواں ہوتا ہے اُن کے کلام میں سلاست و روانی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اسی نسبت سے اُن کی غزل کے دو اشعار قارئین شعر و سخن کی نذر کرتے ہیں   ؎

یوں مہکتا ہے مرے دل میں تصور تیرا

باغ میں جیسے کوئی پھول کھلا ہوتا ہے

مجھ کو بسمل نہیں مرغوب خیالی باتیں

میرا ہر شعر میرے دل کی صدا ہوتا ہے

وہ محبتوں کا فروغ چاہتی ہیں انھیں امن و آشتی مطلوب ہے اُن کے خیالات خلوص و مروَّت پر مبنی ہیں وہ نامساعد حالات کا شکوہ کرتی ہیں اور اُن کے سلجھاؤ کی خواہش مند ہیں ایک رمزِ آموزگاری کا حامل اُن کی غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں جو اُن کی صلح جو طبیعت کی غمازی کر رہا ہے   ؎

محبتوں کے مسائل سلجھ تو سکتے ہیں

فضا نہیں ہے زمانے کی سازگار ابھی

شعری روایت میں محبوب اپنے تمام اثر طرفہ خیالات کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے وہ ظلم و زیادتی کرنے کے بعد بھی معصوم ہوتا ہے وہ قتل کرنے کے بعد بھی قاتل متصّور نہیں ہوتا۔ اُس کی ہر خطا ایک دلکش ادا کا روپ دھار لیتی ہے۔ جفاجو ہونے کے باوجود بھی اُس کی پارسائی کے دعوے بدستور قائم رہتے ہیں اسی حوالے سے اُن کی غزل کا جدید طرز کا حامل مطلع دیکھتے ہیں   ؎

کبھی کُھلا نہ بھرم تیری بے وفائی کا

جفا کرے بھی تو دعویٰ ہے پارسائی کا

وہ ادب برائے زندگی کی قائل ہیں وہ حقیقی زندگی کا عمیق ادراک رکھتی ہیں وہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہتی ہیں اور دوسروں کو بھی عزم و حوصلے کا درس دیتی ہیں۔ زیست کی کٹھنائیوں اور اوکھائیوں کی جانکاری دیتی نظر آتی ہیں وہ غمِ زیست سے نالاں نہیں دکھائی دیتیں بلکہ اِس کے ادراک پر زور دیتی ہیں اسی حوالے سے اُن کی غزل کا مطلع پیش ہے   ؎

ایک ہی اشک نہ پلکوں پہ سجایا جائے

سب کو مفہومِ غم زیست بتایا جائے

راہِ عشق میں انسان تب امر ہوتا ہے جب اُس کے اندر اذیت پسندی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اگر انسان کے ہاں ظلم سہنے کا یارا ہو اور دولتِ ضبط ہو تو محبت کی راہوں میں کامیابی انسان کے قدم چومتی ہے وفاؤں کو تو ہر کوئی راحتِ جاں گردانتا ہے اگر کوئی جفاؤں کو راحتِ جاں کہے تو پھر بات بنے جفاؤں پر شاکر و قانع رہنا اور اذیت میں کیف و سرور محسوس کرنا محبت کی معراج ہوتی ہے بقول بسمل صابری   ؎

بارہا اُس کی جفائیں راحتِ جاں ہو گئیں

وادیاں تو خواہشوں کی پھر گلستاں ہو گئیں

یہ اُن کا کمالِ فن ہے کہ جفا کے عالم میں بھی رجا کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ بہار افزا کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ ایک جشنِ طرب کا سماں ہے ایک نشاط و مسرت کی لہر ہے۔

اُن کے ہاں جدید اور روایتی طرزِ فکر پایا جاتا ہے۔ اسلوب انتہائی سادہ و شستہ ہے ایک عام سی بات کو اُن کا طرزِ اظہار ندرت آمیز کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے اُن کا غزل کا ایک شعر دیکھتے ہیں   ؎

پائی ہے کب کسی نے یہاں منزلِ مراد

میری کہانی مفت میں بدنام ہو گئی

الغرض اُن کے ہاں روایت اور جدت کے حسیں شواہد اپنی پوری آب و تاب سے پائے جاتے ہیں اُن کی مقبولیت کا راز ہی اُن کی روایت پسندی اور جدت پسندی میں مضمر ہے اگر عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو اُن کے کلام میں عروضی محاسن بخوبی پائے جاتے ہیں انھوں نے مفرد اور مرکب ہر قسم کی بحور میں لکھا ہے اور زحافات کا استعمال بھی صحیح صورت میں ہوا ہے۔ مشکل و سنگلاخ زمینوں میں بھی سخن گستری کی ہے۔ خالقِ شعر سے دعا ہے کہ اُن کے کلام کو دولتِ دوام سے نوازے۔ ( آمین)

٭٭٭

 

                   بسملؔ صابری (ساہیوال)

وہ عکس بن کے مری چشمِ تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

پیام بر ہے وہی تو مری شبِ غم کا

وہ اک ستارہ جو چشمِ سحر میں رہتا ہے

کھلی فضا کا پیامی، ہوا کا باسی ہے

کہاں وہ حلقۂ دیوار و در میں رہتا ہے

جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے

وہ شعر بن کے بیاضِ نظر میں رہتا ہے

گزرتا وقت مرا غمگسار کیا ہو گا؟

یہ خود تعاقبِ شام و سحر میں رہتا ہے

مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے

بگولہ سا جو تری رہگزر میں رہتا ہے

نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسملؔ؟

ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے

٭٭٭

 

جینا پڑا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر

بیٹھے کہیں نہ سایۂ اشجار دیکھ کر

تم نے تو غم کو اور بھی سر پر چڑھا دیا

ہم تو ملے فقط تمہیں غمخوار دیکھ کر

شاید یہ گھر ہے دیکھ ذرا اے خیالِ دوست

کیا یاد آ گیا در و دیوار دیکھ کر؟

کیا پھول سی ہنسی پہ گمانِ حیات تھا؟

خنداں ہے وقت مجھ کو سرِ دار دیکھ کر

ہم پھر سے آ گئے اسی کچے مکان میں

اونچے گھروں میں دشت کے آثار دیکھ کر

کتنی کٹھن ہے راہِ وفا تو بھی چل کے دیکھ؟

بسملؔ بھٹک نہ جانا کہیں پیار دیکھ کر

٭٭٭

 

پریا تابیتا خوشگوار احساسات کی شاعرہ

خوشگوار احساسات ہی زندگی کی اصل اساس ہوتے ہیں جن سے رجا کے چشمے پھوٹتے ہیں اور حیات خوبصورت روپ میں دکھائی دیتی ہے اگر خوشگواری مستقل نوعیت کی ہو تو زیست کی چمک دمک برقرار رہتی ہے آج کے پر آشوب عہد میں اس نوع کے جذبات کسی بھی نعمتِ کبریٰ سے کم نہیں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو خوشگوار صورت اور احساسات کی حامل ہوتی ہیں انہی میں سے پریا تابیتا بھی ہیں جنہوں نے اپنی شعری بصیرت کے باعث خوشگواریاں بکھیری ہیں آج ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’ہمیشہ روٹھ جاتے‘‘ ہو کے ربع اول کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ پیش کرتے ہیں مجموعہ ہذا کی اشاعت 2007ء میں عمل میں آئی اور یہ اُن کا اولین شعری مجموعہ ہے تا حال اُن کا ایک ہی شعری مجموعہ منصہ شہود پر آیا ہے کتابِ ہٰذا کے حوالے سے ڈاکٹر محمد فخر الحق، ڈاکٹر سید شبیہ الحسن، ڈاکٹر محمد کامران اور ڈاکٹر اختر شمار جیسی جلیل القدر شخصیت کی آرا شامل ہیں ان کا تعلق لاہور سے ہے اوردرس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔

اطاعت خداوندی حقِ عبدیت ہے اسی کے باعث ہی انسان معتبر ٹھہرتا ہے اور اس کا ہر عمل مشیتِ ایزدی کے تابع ہوتا ہے جب خدائے بزرگ و برتر کی ذات سب سے اعلیٰ و ارفع ہے تو اس کا کلام بھی رہِ حیات کو منور و معطر کرتا ہے صرف دعا کو بھی وہی تاثیر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے اور نالۂ نارسا کو مقامِ رسائی سے نوازتا ہے اسی حوالے سے پریا تابیتا کی غزل کے تین بصیرت افروز شعر دیکھتے ہیں   ؎

ترے خیال کی نسبت سے معتبر ٹھہرے

مرا ہر ایک عمل ہو تری رضا کے لیے

ترے کلام سے روشن رہِ حیات رہے

ترا کلام ہو بعد از قضا بقا کے لیے

تو حرف حرف کو تاثیر دے رسائی کی

یہ خالی ہاتھ اُٹھاؤں میں جب دعا کے لیے

اُن کے کلام میں جا بجا رومان بھی اپنی جلوہ سامانیاں آشکار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جس میں معاملہ بندی کا حسن بھی ہے افکار کی چاشنی بھی اور اسلوب کی دلکشی بھی ہے جھکی جھکی نظروں میں ہزار سپنوں کا مچلنا، دھنک جیسے حسین تبسم کا منظر بدلنا کھنکتے لمحوں میں سروں کا جلترنگ کی طرح بجنا محبوب کی زلفوں کو چاند رات سے تشبیہ دینا اور پھر عنبر کا بہلنا محبوب کے ہونٹوں کے روپ دھاروں میں گلاب رُت کے سبھی نظاروں کا ہونا محبوب کی سروقامت کا پرکیف ہونا اور اس کی چال کا باد صبا کے مصداق ہونا ہر سو کنول کا مہکنا یہ سب خوشگوار تاثرات ہیں جو ان کے شعری کینوس کا حصہ ہیں اُن کے ہاں کہیں صنعتِ تضاد کا خوبصورت فطری التزام بھی ملتا ہے جو اُن کی فنی بلوغت پر دال ہے اُن کے کلام میں عمومیت اور بلاغت بھی ہے خیالات حسین اور پرکشش ہیں مگر اُن کے خیالات کو رفعت مطلوب ہے اُن کی ایک خوشگوار اور احساسات سے مرصع غزل ملاحظہ کریں   ؎

جھکی جھکی سی نظر میں اُس کی ہزار سپنے مچل رہے ہیں

دھنک کے جیسا حسیں تبسم کہ جیسے منظر بدل رہے ہیں

کھنکتے لہجے میں سر ہیں اتنے کہ جیسے بجتے ہوں جلترنگ سے

ہیں چاند راتوں سے بال اُس کے کہ جن سے عنبر بہل رہے ہیں

اُسی کے ہونٹوں کا روپ دھارے گلاب رُت کے سبھی نظارے

فضا حسیں تر بنا رہے ہیں سمے کا لہجہ بدل رہے ہیں

ہے سر و قامت سرور جیسی انا ہے جس کی غرور جیسی

ہے چال بادِ صبا سی جس میں چہکتے ہر سو کنول رہے ہیں

کیا بچیں ہم فرار کیسا نظر میں اُس کی خمار کیسا؟

سنبھل کے کتنے بہک گئے ہیں بہک کے کتنے سنبھل گئے ہیں ؟

اُن کے کلام میں معرفت و حجاز کے مظاہر ساتھ ساتھ ملتے ہیں اُن کا شعری شعور گہرائی و گیرائی کا حامل ہے انہوں نے اپنے کلام میں صنعتِ مبالغہ کا بھرپور اہتمام کیا ہے اُن کے ہاں مجازی حوالے بہت معتبر اور تندرست و توانا صورت میں ملتے ہیں رومانوی حوالے سے اُن کے ہاں رجائی اور طربیہ تاثر ملتا ہے سیدھے سادھے انداز میں بات کرتی ہیں ہر طرح کی لگی لپٹی سے گریز کرتی ہیں پریا تابیتا کا کلام اپنے اندر ابلاغ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اُن کی غزل کے چھ اشعار دنیائے شعر و سخن کے متوالوں کی نذر ہیں

  ؎

تارے بھی چمکنے لگتے ہیں اُن میں بھی غرور آ جاتا ہے

جب تیرا تصور کرنے سے اس چاند پہ نور آ جاتا ہے

جب دیکھیں تمہاری ایک جھلک حوریں بھی فدا ہو جاتی ہیں

کہتے ہیں فرشتے رب کی قسم نیت میں فتور آ جاتا ہے

اک میں ہی نہیں مدہوش یہاں ترے حسن کے سب دیوانے ہیں

چل پڑتی ہوں جب ساتھ ترے قدموں میں غرور آ جاتا ہے

جب جب بھی تمہاری بات کروں جب بھی مقابل دیکھوں تمہیں

اک رنگ حیا کا ہلکا سا آنکھوں میں ضرور آ جاتا ہے

اک فرد ہو تم دنیا کے لیے اور میرے لیے تم دنیا ہو

ہر راہ تمہیں تک جاتی ہے ہر راہ میں طور آ جاتا ہے

بے خود بھی یہ خود سے کر دے یہ اس کی ازل سے فطرت ہے

جب عشق عبادت بن جائے سجدوں کا شعور آ جاتا ہے

مذکورہ تصریحات شاہد ہیں کہ پریاتا بیتا کا کلام اپنے اندر تمام تر خوشگواریاں سموئے ہوئے ہے مجموعی طور پر اُن کے شعری کینوس میں ہر نوع کے خیالات ملتے ہیں لیکن رجائی اور طربیہ تاثرات بھرپور نوعیت کے ہیں رومانوی حوالے بھی دلچسپ اور خوبصورت انداز میں ملتے ہیں اگرچہ یہ اُن کا اولین شعری مجموعہ ہے مگر ان کے کلام میں اس امر کی غمازی ملتی ہے کہ وہ فنِ شاعری کا سنجیدہ مذاق رکھتی ہیں ان کا کام ادب پڑھانا اور تخلیق کرنا ہے انہوں نے بھرپور انداز میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا ہے اگر اُن کی شعری ریاضت تواتر سے جاری رہی تو وہ نسائی شعری ادب میں اپنا ایک مقام بنا لیں گی۔

٭٭٭

 

                   پریاتا بیتا (لاہور)

میرے خوابوں میں خیالات میں چپ رہتے ہو

کھوئے کھوئے سے طلسمات میں چپ رہتے ہو

تم جدائی میں ملاقات میں چپ رہتے ہو

ہے کوئی بات کہ ہر بات میں چپ رہتے ہو

کون سا غم ہے جو کہہ بھی نہیں پاتے مجھ سے؟

تھام کر ہاتھ مرا ہاتھ میں چپ رہتے ہو

خود کلامی ہی کرو بوجھ تو اترے دل سے

تم تو خود سے بھی خفا ذات میں چپ رہتے ہو

تم نے پت جھڑ بھی سنوارے تھے تکلم سے کبھی

اب یہ عالم ہے کہ برسات میں چپ رہتے ہو

رفع کر دیتے تھے اک پل میں ہزاروں شکوے

اب سنا ہے کہ شکایات میں چپ رہتے ہو

ہاتھ اٹھا کر کبھی مانگی تھیں دعائیں ہم نے

اب مرے بعد عبادات میں چپ رہتے ہو

٭٭٭

 

گئے دنوں کے تسلسل میں سلسلہ رکھنا

بچھڑ گئے بھی اگر ہم تو رابطہ رکھنا

غمِ جہاں میں بظاہر ہمیں بھلا رکھنا

بچھڑ کے ملنے کی دل میں مگر دعا رکھنا

نہیں نہیں یہ روایت ہمیں قبول نہیں

ملا کے ہاتھ رگِ جہاں میں فاصلہ رکھنا

اٹھائے پھرتے ہیں ہم پر جو انگلیاں یونہی

سجا کے ان کے مقابل میں آئینہ رکھنا

بنا گیا مجھے پتھر وہ آخری لمحہ

چھپا کے آنکھ میں آنسو نظر جھکا رکھنا

مرے مزاج میں شامل نہیں ہے ایسی روش

بڑھا کے ربط مسافت کی خود بنا رکھنا

کیوں جیت جاتی ہوں اُس سے یہ آرزو کر کے؟

شکست دے کر بھی قائم مری انا رکھنا

٭٭٭

 

ثروت سلطانہ ثروتؔ کا منفرد شعری اسلوب

کسی بھی فن پارے میں اسلوب کی اہمیت مسلمہ ہوتی ہے پیرایۂ اظہار کی بدولت اس کی مقبولیت اور عدم مقبولیت کا تعین ہوتا ہے عمدہ اسلوب کے لیے افکار کی عمدگی بھی ناگزیر ہے نادر النظیر استعارات و تشبیہات و ترکیبات کی بدولت اسلوب میں انفرادیت پیدا کی جا سکتی ہے اسلوبیاتی ندرت بہت ہی کم شاعرات کے ہاں پائی جاتی ہے آج ہم ثروت سلطانہ ثروتؔ کے حوالے سے رقمطراز ہیں جو ایک منفرد اسلوب کی مالک ہیں اُن کا تعلق کراچی سے ہے اور تعلیم و تعلم کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنس کورنگی کریک کراچی میں اردو کی پروفیسر ہیں انہوں نے متعدد نصابی درسی کتب بھی لکھی ہیں وہ اردو ادب کا گہرا ادراک اور سنجیدہ مذاق رکھتی ہیں ہم اُن کے شعری مجموعہ، ’’یہی کچھ میں نے سوچا تھا‘‘ کے تناظر میں اُن کے منتخب غزلیہ اشعار مختصر تجزئیے کے ساتھ پیش کر کے اُن کی اسلوبیاتی ندرت کو آشکار کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔

اُن کی غزل کے چار اشعار جو اسلوبیاتی ندرت کا مظہر ہیں ملاحظہ کریں   ؎

مذاقِ دید طور پر بھی تشنہ کام رہ گیا

وہ اک حسین خواب تھا جو نا تمام رہ گیا

بہت سے دوست اجنبی فضا میں جا کے بس گئے

پھر ان سے اپنا رابطہ برائے نام رہ گیا

دعا بھی بے اثر رہی دوا بھی رائیگاں گئی

سب اپنا کام کر چکے تمہارا کام رہ گیا

سحر کے ہوتے ہوتے سارا میکدہ اُجڑ گیا

پڑا ہوا بیادِ دشت شکستہ جام رہ گیا

پہلے شعر کے مصرعِ اول میں مذاقِ دید اور تشنہ کام کی ترکیبات انتہائی دلچسپ ہیں دوسرے مصرع میں حسین خواب اور نا تمام کا استعمال بہت عمدہ ہے دوسرے شعر کا اسلوب سہل ممتنع کے رنگ کا حامل ہے تیسرے شعر میں دعا کا بے اثر ہونا اور دوا کا رائیگاں جانا پیرایۂ اظہار کو مزید خوبصورت بنا رہا ہے چوتھے شعر میں ’’ہوتے ہوتے‘‘ کی تکرار بہت بھلی لگ رہی ہے بیادِ دشت اور شکستِ جام کا استعمال بھی بر موقع ہے۔

اُن کی غزل کے ایک شعر میں اُن کے اسلوب کی چاشنی دیکھتے ہیں   ؎

ربط پھر بھی سب سے بعدِ قضا رہ جائے گا

میں گزر جاؤں گی میرا نقشِ پا رہ جائے گا

ربط اور بعدِ قضا کا تال میل بہت خوبصورت ہے اور نقشِ پا کی ترکیب شعر کی اہمیت کو مزید دو بالا کر رہی ہے اسی غزل کا ایک اور شعر لائقِ توجہ ہے   ؎

لاکھ ہم اپنی اپنائیت کا دم بھرتے رہیں

اُن کے لب پر غالباً پھر بھی گلہ رہ جائے گا

دم بھرنے کے محاورہ کا استعمال بھی فنی چابکدستی سے ہوا ہے دوسرے مصرع میں غالباً کا لفظِ شعر کی جان بنا ہوا ہے۔

اُن کا ایک سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل مطلع لائقِ توجہ ہے   ؎

ملنا جلنا آنا جانا چاہیے

ظرف کو بھی آزمانا چاہیے

انتہائی سادہ اسلوب میں بہت عمدہ فکر کو پیش کیا گیا ہے جو اُن کی فنی بلوغت کی دلیل ہے اُن کی غزل کا ایک شعر دامنِ توجہ تھام رہا ہے   ؎

پھولتی پھلتی ہے ہستی جذبۂ ایثار سے

رازِ حسنِ زندگی وہ شخص ہی سمجھا نہ ہم

شعر ہٰذا میں جذبۂ ایثار اور رازِ حسنِ زندگی کی تراکیب بھی طرزِ اظہار کی قرینہ کاری کا مظہر ہیں اور ’’ہم‘‘ بطور ردیف بھی بہت مزہ پیدا کر رہی ہے۔

اُن کی غزل کا ایک شعر جس کی اسلوبیاتی نادرہ کا متوجہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے   ؎

یاد میں تیری بہے ہیں میری آنکھوں کے گہر

اور اُن کے رنگ بھی شامل مرے کنگن میں ہیں

شعرِ ہٰذا میں صنعتِ مبالغہ کا بھرپور استعمال ہوا ہے یاد میں آنکھوں کے گُہر کا بہنا اور اُن کے رنگ کا گنگن میں ہونا مبالغہ آمیز ہے۔ اُن کی غزل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

ہم بھی گزرے ہوئے پر کیف زمانے سے ملے

 آج کچھ خواب ہمیں آئینہ خانے سے ملے

دل کے مٹنے سے شعورِ غمِ ہستی تو ملا

کتنے سورج ہمیں اک شمع بجھانے سے ملے؟

شعرِ اول میں گزرے ہوئے پر کیف زمانے کی بات اور آئینہ خانے کی ترکیب بہت جاذبِ نظر ہے دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں شعورِ غمِ ہستی کی ترکیب بھی عمدگی کا مظہر ہے اسی سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر ایک شعر نذرِ قارئین ہے   ؎

شرطِ وحشت ہے آبلہ پائی

کاش میں بھی برہنہ پا ہوتی

شعرِ ہٰذا میں تین خوبصورت تراکیب استعمال کی گئی ہیں شرطِ وحشت، آبلہ پائی اور برہنہ پا عمدہ اسلوب کی غمازی کرتی ہیں۔ مذکورہ تصریحات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ثروت سلطانہ ثروتؔ کا کلام بلاغت نظام منفرد اسلوب کا حامل ہے جس سے اُن کے فکر و فن کی اہمیت واضح ہوئی ہے اُن کا شمار ان شاعرات میں ہوتا جو فکری و فنی اعتبار سے اپنا ایک معیار رکھتی ہیں۔

٭٭٭

 

ثروتؔ سلطانہ ثروت ( کراچی)

سب نے دیکھی خون کی ہولی

بے خبروں نے آنکھ تو کھولی

حسنِ سرخیِ گل مانگا تھا

وقت نے بھر دی خون سے جھولی

اہلِ دانش اہل جنوں ہیں

کھیل رہے ہیں آنکھ مچولی

ہوتی ہیں نیلام قبائیں

خلعت پوش لگائیں بولی

بات تو اپنی سب نے کہہ دی

کس نے پرکھی کس نے تولی؟

پیشِ منصف سب ہی بولے

اور زباں سچ نے نہ کھولی

پچھتاؤ گی پریت بڑھا کر

دوست نہیں ہوتے ہمجولی

٭٭٭

 

زنداں کا در کھولے کون؟

اُڑنے کو پر تولے کون؟

دل کے آنگن اُترا ہے

 آج یہ ہولے ہولے کون؟

سنگ وحشت کی منڈی میں

لعل و جواہر رولے کون؟

کون سنے گا سچی بات

جھوٹ کے شور میں بولے کون؟

سب کو جنوں اظہار کا ہے

بات کو پہلے تولے کون؟

٭٭٭

 

جہاں آراء تبسمؔ پُر آشوب کیفیات کی شاعر

عصرِ حاضر میں شعرا کے ساتھ ساتھ شاعرات کی ایک کثیر تعداد مشاطگیِ عروسِ سخن میں مصروف ہے لیکن بہت ہی کم شاعرات فنی اسرار و رموز سے واقف ہیں۔ انہی معدودے چند شاعرات میں ایک نام جہاں آراء تبسمؔ کا بھی ہے جنہوں نے اپنی محنت اور لگن کے باعث دنیائے سخن میں اپنی ایک پہچان بنائی ہے۔ اگر آپ ان کی شخصیت کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کریں تو یہ انکشاف ہو گا کہ انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے۔ ان کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات کی تفاصیل لائقِ صد تحسین و صد ستائش ہیں۔ ان کا یہی عزم و  ولولہ ان کی کامیابی کی دلیل ہے۔ ایک مرد کی نسبت ایک عورت کو خارزارِ سخن کی کٹھنائیوں کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ مراحل انتہائی صبر آزما ہوتے ہیں۔ اگر ثابت قدمی ہمرکاب ہو تو پھر کامیابی قدم چومتی ہے۔ یہ تو ان کی شخصیت کی چند جھلکیاں تھیں جو ان کے کلام میں جا بجا نظر آتی ہیں۔ ان کے فکری کینوس میں موضوعات کا ایک تنوع پایا جاتا ہے جس میں رومان، بیم و رجا، حزن و ملال، ہجر و وصال، انقلاب، سماجیات اور زندگی کی پر آشوب کیفیات جیسے احساسات ملتے ہیں۔ شذرہ ہذا کا موضوع بھی پر آشوب کیفیات ہیں۔ ہیئتی اعتبار سے انھوں نے غزل، آزاد نظم اور ہائیکو جیسی اصنافِ سخن میں خامہ فرسائی کی ہے لیکن ان کا مستقل حوالہ غزل ہے۔ انھوں نے بھرپور قسم کی آزاد نظمیں بھی کہی ہیں جن میں موسیقیت و آہنگ کا خصوصی التزام ہے۔ وہ بیک وقت اُردو، براہوی اور سندھی میں طبع آزمائی کر رہی ہیں۔ اس شذرہ میں مذکورہ موضوع کے حوالے سے ہم ان کے شعری مجموعہ ’’اُداسی رقص کرتی ہے‘‘ میں سے غزلیات کے منتخب اشعار کا فکری و فنی تجزیہ پیش کریں گے۔

ان کے ہاں کرب اور آشوب کے حوالے ذاتی نوعیت کے ہیں۔ کہیں کائناتی نوعیت بھی اختیار کر جاتے ہیں۔ اس لیے وہ بنی نوع انسان کو دعوتِ فکر دیتی ہیں کہ وہ اپنی ذات کے حصار میں گم ہوکر نہ رہ جائیں بلکہ کائناتی وسعتوں کا ادراک کریں۔ اس لیے ان کی فکر میں ہمہ گیری، گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہے۔ وہ زیست کی پر آشوب کیفیات میں تسخیرِ غم کا درس دیتی ہیں۔ کہیں کہیں ان کا غمِ دوراں غمِ ذات کی حدود و قیود کو پھلانگتا نظر آتا ہے۔ کہیں وہ ہوائے دشت سے ہم کلام ہو کر اس کی معیت میں فراقِ ذات میں جلنے کی بات کرتی ہیں۔ انہی احساسات کے حامل ان کی غزل کے د و اشعار زینتِ قرطاس ہیں۔   ؎

جہاں میں منتظر ہیں اور بھی غم ذات سے بڑھ کر

حصارِ ذات سے باہر نکل کر دیکھ لیتے ہیں

ہوائے دشت سے کہنا ہماری سمت آ جائے

فراقِ ذات میں دونوں ہی جل کر دیکھ لیتے ہیں

انسان فطری طور پر پر سکون زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے، اسی آس اور تمنا میں اس کی تمام تر حیات آشوب زدگیوں کی نظر ہو جاتی ہے، وہ جس بہار کا عمر بھر انتظار کرتا ہے، وہ اسے خبر کیے بغیر گزر جاتی ہے۔ یہ صورتِ حال انتہائی بھیانک ہوتی ہے۔ اس پر آشوب کیفیت میں یاسیت و قنوطیت نمو پاتی ہے۔ پھر حزنیہ شعری طبع مجبورِ بیاں ہو جاتی ہے۔ اسی کیفیت کو ان کی غزل کے اس شعر میں ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

خزاں رسیدہ چمن ہو گیا مرا جیون

بہار بیت گئی انتظار کرتے ہوئے

شاعر ایک پیکرِ احساس ہوتا ہے۔ وہ اپنی فکری و فنی ادراکات کا مکمل شعور رکھتا ہے۔ جہانِ شاعر دنیا داری سے دور رہتا ہے۔ جب کہ اہلِ دنیا کے لیے یہ عوامل کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ جس کے باعث سخن گستر کو ناقدریِ جہاں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ شکوہ سنجی پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مجھے تو قدر و منزلت سے نوازا جانا چاہیے تھا۔ میں ایک گوہرِ خاص ہوں مجھے جاہ و حشمت نصیب ہونی چاہیے تھی۔ جب کہ یہاں تو معاملہ بالکل برعکس ہے۔ میرے لیے دنیا کو جہنم بنا دیا گیا ہے جس میں ہر لمحہ جلتا رہتا ہوں۔ اس کرب کی ترجمانی ان کے اس شعر میں دیدنی ہے   ؎

میری جگہ تو بہشت میں تھی

مگر جہنم میں جل رہی ہوں

کرب اور آشوب انسان کو محوِ اضطراب رکھتا ہے۔ جب سکون اور آرام معدوم ہو جاتا ہے، جب دل میں زخموں کی بہتات ہو، اور دل میں موجود داغ درد کی ٹیسوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ سارے دکھ انسان کو تنِ تنہا سہنے ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی یار و مددگار نہیں ہوتا۔ پھر ہر رونق و رعنائی بے سود ہو جاتی ہے۔ غزل کے دو اشعار اسی حوالے سے آپ کی نذر ہیں   ؎

کون سو سکتا ہے اب آرام سے؟

چاند راتوں میں جگائیں دل کے داغ

آج سارا شہر ویرانہ لگے

 آج ہم کس کو دکھائیں دل کے داغ؟

اگر عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو جہاں آرا تبسمؔ نے مفرد اور مترنم بحروں کا انتخاب کیا ہے جن میں موسیقیت اور آہنگ ہے۔ ان کی بحور رواں دواں ہیں، پیرائے اظہار میں سادگی اور ایک فطری انداز پایا جاتا ہے۔ ابلاغ ان کے اسلوب کا مطمح نظر ہے۔ اسلوبیاتی حوالے سے ان کا کلام قاری کے لیے خصوصی دلچسپی کا حامل ہے۔

ان کے ہاں سماجی رویوں کا گہرا شعور ملتا ہے۔ وہ سماج کے دوہرے رویوں کو ہدفِ تنقید بناتی ہیں اور اسے انتہائی مؤثر طریقے سے بے نقاب کرتی ہیں۔ ان کی غزل کے اس شعر میں جہاں دوہرے رویے پر تنقید ہے، وہاں صنعتِ تضاد بھی بہت لطف پیدا کر رہی ہے   ؎

کہیں الفاظ شیریں ہیں کہیں لہجے میں تلخی ہے

بناوٹ بے رخی کی ہر ادا تکلیف دیتی ہے

ان کی غزل میں جہاں آشوب اپنی کروفر سے پایا جاتا ہے تو افکار میں پختگی اور فن میں بالیدگی پائی جاتی ہے۔ ان کا اسلوب جگہ جگہ اپنی بہار دکھاتا نظر آتا ہے جہاں فکری تقاضے پورے ہو رہے ہیں وہاں فنی امور کی پاس داری بھی پائی جاتی ہے۔ ان کی غزل کے چار اشعار برائے تبصرہ پیش کیے جاتے ہیں   ؎

کہیں کیا دوستو کیسی یہ میری زندگانی ہے؟

فقط عنواں تبسم ہے بڑی غمگیں کہانی ہے

مری آنکھوں کی مستی میں دکھوں کی ایک بستی ہے

نہ آہوں میں اثر کوئی نہ رونے میں روانی ہے

’’مجھے ناکام لوگوں میں سرِفہرست رہنے دو‘‘

مری یہ زندگانی اک بلائے ناگہانی ہے

کہیں کوئی بکھرتا ہے تبھی اک شعر بنتا ہے

مرے ہر شعر میں جاناں کوئی بیتی کہانی ہے

جب انسان زندگی کے تلخ حقائق کو بہ نظرِ غائر دیکھتا ہے تو اسے مصائب و آلام کا ایک جمِ غفیر نظر آتا ہے۔ ان کے مقابلے میں خوشیاں بہت حقیر اور کم نظر آتی ہیں۔ پھر انھیں انسانیت مغموم اور اداس دکھائی دیتی ہے اور انسان ایک زندہ لاش نظر آتے ہیں۔ بقول ابوالاثر حفیظؔ جالندھری   ؎

چلتے پھرتے ہوئے مردوں سے ملاقاتیں ہیں

زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہے

جہاں آراء تبسمؔ بھی اسی کائنات اور سماج کا حصہ ہیں۔ وہ بھی غم و آلام کا کثرت سے مشاہدہ کرتی ہیں تو سراپا سوال بن جاتی ہیں۔ ان کا یہی انداز ان کی غزل کے اس شعر میں چھلک رہا ہے۔ جسے آپ بھی مشاہدے میں لا سکتے ہیں   ؎

یہ کیسا دور ہے ساتھی کہ غم ڈھیروں ہیں خوشیاں کم؟

ہوا مغموم ہر انساں اداسی رقص کرتی ہے

کرب و آشوب کے حوالے سے جہاں آراء تبسمؔ کے کلام سے یہ چند استشہادات تھیں جو ہم نے پیش کیں، ان کے علاوہ بھی ان کے بہت سے اشعار ہیں جو حوالے کا استحقاق رکھتے ہیں لیکن قاری کی ذہنی نزاکتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں طول بیاں مطلوب نہیں ہے۔ انھوں نے زندگی کی تلخیوں کا بھرپور اظہار کیا ہے جس سے یہ امر پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے کہ وہ درد مند جذبوں کی امین ہیں۔ زندگی کی ناہمواریوں اور نا آسودگیوں پر ان کا دل کڑھتا ہے۔ اس لیے وہ مجبور نوا ہو جاتی ہیں۔ ان کے خیالات ان کے تجربات کا حاصل ہیں۔ ان کے مجموعۂ کلام کے مطالعہ سے ہم ان کے روشن اور اجلے مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔

٭٭٭
ٍ

جہاں آراء تبسمؔ (کوئٹہ)

تو میری نگاہوں سے بہت دور بدستور

دل پھر بھی تری یاد سے مخمور بدستور

کس دشت مسافت میں مجھے چھوڑ گئے ہو؟

کرتی ہے مجھ جس کی تھکن چور بدستور

دل شہر محبت کا مکیں ہے مگر اس پر

نافذ ہے کسی ہجر کا دستور بدستور

کس دکھ سے کہوں میں کہ میرے شہر کے پتھر؟

شیشوں کی حفاظت پہ ہیں مامور بدستور

لے آتے ہیں ہر رات مرے واسطے آنسو

بادل ہیں مری آنکھ کے مزدور بدستور

ہے تیرے بھی اطراف روایات کا پہرہ

میں تیری طرف آنے سے معذور بدستور

ہونٹوں پہ تبسمؔ نہیں وہ خواب جڑا ہے

جو خواب مجھے رکھتا ہے مغرور بدستور

٭٭٭

 

وہ مجھے اتنی سہولت تو نہیں دے سکتا

کم سے کم اپنی محبت تو نہیں دے سکتا

سوچ سکتی ہوں کسی اور کے بارے میں

دل مجھے اتنی رعایت تو نہیں دے سکتا

اختیار مجھے سارے عطا کر دے گا

ہاں مگر دل پہ حکومت تو نہیں دے سکتا

میں نے روتے ہوئے یہ بات بہت سوچی ہے

وہ مجھے اشک ندامت تو نہیں دے سکتا

اپنا کہہ کر وہ مجھے ذہن میں رکھ سکتا ہے

وادیِ دل میں سکونت تو نہیں دے سکتا

چند سانسیں مجھے جینے کے لیے دے دے گا

عمر بھر جینے کی مہلت تو نہیں دے سکتا

میں تبسمؔ ہوں مگر وہ مجھے محفل میں کہیں

مسکرانے کی اجازت تو نہیں دے سکتا

٭٭٭

 

حفیظہ بشیر وفاؔ اور نفاستِ بیاں

فنِ شاعری عموماً اور صنفِ غزل خصوصاً فکری و فنی نفاستوں سے مملو ہے شاعری چونکہ لطیف احساسات و جذبات کا نام ہے اس لیے لطافتوں کو خاطر میں لانا بھی از حد ضروری ہے یہ نفاستیں اور لطافتیں فکر و فن ہر اعتبار سے ضروری ہیں جس شاعر کو ان کا ادراک ہو گا وہی بہتر طور پر ان کا اہتمام کر پائے گا آج ہمارا موضوعِ سخن حفیظ بشیر وفاؔ کا کلام نفاستِ بیاں کے تناظر میں ہے ان کی پیدائش 1940ء میں میانوالی میں ہوئی والد کا نام حضرت سرمد مظاہری ہے اسی نسبت سے قبل از رشتۂ ازدواج حفیظہ سرمدوفاؔ کے نام سے لکھنا شروع کیا تعلیمی اعتبار سے انہوں نے بی ایڈ، ایم اے اردو اور اسلامیات میں ایم اے کیا درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث تخلیقِ شعر کا عمل تعطل کا شکار رہا طویل عرصہ تک ان کا کلام اخبارات و جرائد کی زینت بنتا رہا ان کا اولین شعری مجموعہ ’’سوغاتِ اشک‘‘ ہے جس کی طباعت 2009ء میں عمل میں آئی جبکہ دوسرا شعری مجموعہ ’’سوزِ دروں ‘‘ 2012ء میں منصہ شہود پر آیا ان کے دونوں مجموعوں کے نام اُن کے حزنیہ شعری طبع کے غماز ہیں ادب کی دھن ان کو ورثہ میں ملی ان کا گھرانہ ایک ادبی گھرانہ تھا ان کے والد حضرت سرمد مظاہرہ معروف سکالر، ادیب اور صاحب دیوان شاعر گزرے ہیں پاکستان کے ممتاز روشن خیال دانشور، شاعر، نقاد، محقق اور مؤرخ یحییٰ امجد اور قاسم خان ان کے بھائی ہیں حفیظ بشیر وفاؔ اس وقت اپنے بچوں کے ہمراہ نیویارک (امریکہ) میں مقیم ہیں۔

 آج ہم ان کے دوسرے شعری مجموعہ ’’سوزِ دروں ‘‘ کے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں اور اُن کی شعری نفاستوں کو آشکار کرنے کی سعیِ جمیل کرتے ہیں۔

بعض اوقات ان کا کلام سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہوتا ہے جس سے ان کی اسلوبیاتی سادگی آشکار ہوتی ہے نمونے کے طور پر اُن کی حمد کے چند اشعار دیکھتے ہیں   ؎

ایک جلوہ دکھا دیا تو نے

مجھ کو اپنا بنا دیا تو نے

عقل دی فہم دی فراست دی

بات کرنا سکھا دیا تو نے

اُن کے ہاں روایتی خیالات بھی خالص فطری انداز میں ملتے ہیں جو ہر قسم کے تصنع سے ماورا ہیں زبان و بیان کا معیار بھی انتہائی سادہ و شستہ ہے افکار میں ایک نفاست و لطافت ہے ان کی غزل کے تین اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

پہلو میں اک درد اُٹھا ہے

جانے کس نے یاد کیا ہے؟

دل سے غم یوں دور ہوا ہے

جیسے سوکھا پھول جھڑا ہے

ایک جہاں آباد تھا دل میں

یہ اندازہ آج ہوا ہے

اُن کے شعری تخیلات سے اُن کے تجربات و مشاہدات کا عکسِ جمیل ملتا ہے ان کے ہاں فکری و فنی بلوغت کے شواہد بکثرت ملتے ہیں جن سے اُن کی شعری ریاضت کا احساس نمایاں ہوتا ہے ان کی فکری سنجیدگی کا اندازہ ذیل کی غزل کے اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جن سے اُن کے تجربے کی غمازی ہوتی ہے   ؎

زیست کا اعتبار بھی نہ رہا

موت کا انتظار بھی نہ رہا

آرزوئیں تو خیر خاک ہوئیں

دل پہ اُن کا اعتبار بھی نہ رہا

اُف یہ تاریکیاں معاذ اللہ

فرق لیل و نہار بھی نہ رہا

کیا زمانہ عجیب آیا ہے؟

 آدمی کا وقار بھی نہ رہا

یوں خزاں چھا گئی ہے گلشن پر

کچھ نشانِ بہار بھی نہ رہا

دل کہ اک غمگسار تھا اے وفاؔ

 آج وہ غمگسار بھی نہ رہا

اُن کے ہاں عصری رجحانات بھی پورے کروفر سے ملتے ہیں اُن کے سخن میں جملہ اسلوبیاتی لطافتیں بھی ہیں اور فکری و فنی نفاستیں بھی ہیں ان کے ہاں طربیہ تاثرات کم ہیں اور حزنیہ تخیلات بکثرت ملتے ہیں اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ انہیں زندگی سے پیار نہیں بلکہ وہ بھرپور انداز میں زندگی کرنا چاہتی ہیں ان کے سخن سے صبحِ درخشاں کی بات ملتی ہے تمام مصائب و آلام کا مداوا چاہتی ہیں ترقی پسند افکار کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے اس حوالے سے اُن کی غزل کا ایک مطلع دیدنی ہے    ؎

وفور غم کو ہٹاؤ بڑا اندھیرا ہے

خوشی کی بات سناؤ بڑا اندھیرا ہے

عند البیان انتہائی نفاست سے وہ گہری رمز کی بات کر جاتی ہیں جن سے اُن کے رفعت تخیل کا احساس ضوپاشیاں کرتا دکھائی دیتا ہے اُن کی ایک اور غزل کا مطلع دامنِ توجہ تھام رہا ہے   ؎

میں مطمئن نہ سہی بیقرار بھی تو نہیں

تری روش پہ فلک اعتبار بھی تو نہیں

مذکورہ بالا شعر میں ایک کلاسیکی موضوع کو قرینہ کاری کے لبادے میں پیش کیا گیا ہے جس سے اُن کی فکری بلوغت آشکار ہو رہی ہے اور ایک عمیق فنی ریاضت مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔

الغرض حفیظ بشیر وفا کے کلام کے بنظرِ غائر مطالعہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ان کے بیاں میں بے پناہ نفاست ہے فصاحت ہے بلاغت ہے جس سے عیاں اُن کی شعری ریاضت ہے۔

٭٭٭

 

حفیظہ بشیر وفاؔ (ملتان)

پہلے تو اشک در پئے خونِ جگر نہ تھے

یہ اہتمام پہلے تو اے چشمِ تر نہ تھے

کیا جانیے یہ کس کے لیے سوگوار ہیں ؟

اتنے اُداس تو کبھی شام و سحر نہ تھے

اب کے تو اضطراب کی شدت عجیب ہے

تھے مضطرب ازل سے مگر اس قدر نہ تھے

 آلامِ دو جہاں نے ستایا ہے بے طرح

لیکن ترے خیال سے ہم بے خبر نہ تھے

ساقی متاعِ درد ہمیں کیوں نہ کی عطا؟

کیا ہم تری نگہ میں ابھی معتبر نہ تھے؟

لایا ہے کس مقام پر مجھ کو مرا خدا؟

یہ مرتبے وفاؔ میرے پیشِ نظر نہ تھے

٭٭٭

 

پھولوں کی جستجو نہ بہاروں کی ہے تلاش

مجھ کو سکوں نواز نظاروں کی ہے تلاش

اللہ رے حوصلے دلِ حرماں نصیب کے

فصلِ بہار میں اسے خاروں کی ہے تلاش

جل بھی چکا ہے خرمنِ دل کب کا اے ندیم

اب کس بنا پہ تم کو شراروں کی ہے تلاش؟

اک عمر ہو گئی ہے کہ سونے ہیں میکدے

پیرِ مغاں کو بادہ گساروں کی ہے تلاش

اک اک شجر سے دست و گریباں ہے گو خزاں

اہلِ چمن کو پھر بھی بہاروں کی ہے تلاش

میں تو ہوں بحرِ زیست کی موجوں میں شاد کام

منزل کی ہے طلب نہ کناروں کی ہے تلاش

امیدوارِ رحمتِ پروردگار ہوں

مجھ کو وفاؔ اُسی کے سہاروں کی ہے تلاش

٭٭٭

 

خالدہ عظمیٰؔ روحِ عصر کی ترجمان شاعرہ

ہر تخلیق اپنے عہد کا پرتو ہوتی ہے جس تخلیق کار میں جتنی زیادہ عصری روح ہوتی ہے وہ اتنا ہی کامیاب ہوتا ہے آج ہم خالدہ عظمیٰ کی سخن گستری کی نسبت سے رقم طراز ہیں جس میں جا بجا روحِ عصر کی بھرپور ترجمانی ملتی ہے اُن کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کے کلام میں درسِ آموزگاری کے مظاہر بھی ملتے ہیں آج ہم ان کے شعری مجموعہ ’’ پسِ مژگاں ‘‘ کے ربع اول کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ پیش کرتے ہیں مجموعہ ہٰذا کی طباعت 2011ء میں عمل میں آئی۔

زندگی ایک سفر ہے اور انسان ایک مسافر ہے سفرکی جانکاری ایک مسافر ہی رکھتا ہے جیسے زخموں کا مداوا کسی مسیحا یا چارہ گر سے ہوسکتا ہے یہ ہر عہد کے عصری حقائق ہیں جن کا ادراک ایک با شعور آدمی رکھتا ہے اس طرح کی آموز گاری اُن کی غزل کے دو اشعار میں ملتی ہے   ؎

نہ رہبر نہ کسی رہگزر سے پوچھا جائے

سفر کے بارے میں بس ہم سفر سے پوچھا جائے

یہ زخم کیسے ہیں کیوں مندمل نہیں ہوتے؟

کسی مسیحا کسی چارہ گر سے پوچھا جائے

حالات کی کٹھنائیوں کو دیکھتے ہوئے اور حیات کی صعوبتوں کو جھیلتے ہوئے انسان جب دھوپ اور دشت کے سفرمیں نڈھال ہوتا ہے تو پھر سراپا سوال ہوتا ہے وقت بدلتا ہے اور اقدار بدلتی ہیں زندگی نشیب و فراز سے گزرتی ہے طرح طرح کے سوالات سجھائی دیتے ہیں جن کا جواب ملنا محال نظر آتا ہے   ؎

ہم نفس، ہم سخن، ہم نوا ہم زباں کوئی ہے !

اس جھلستے ہوئے عہد میں سائباں کوئی ہے !

سماج کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانا بھی خرد مندی کی دلیل ہے اس سے اس امر کی صراحت ہوتی ہوئی ہے کہ وہ انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتی ہیں وہ اطاعتوں میں بھی بغاوتوں کے رنگ مشاہدہ کرتی ہیں ان کا طرزِ اظہار فطری نوعیت کا ہے اسی نسبت سے اُن کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو   ؎

بنیں گی پیش خیمہ ایک اور انقلاب کا

دبی دبی بغاوتیں عداوتوں کے درمیاں

ان کے ہاں عصری رجحانات پورے طور پر مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں وہ اپنی معاشرت کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں ان کا کلام حقیقی زندگی کی حقیقی تصویریں پیش کرتا ہے اسی تناظر میں ان کی غزل کے دو اشعار قارئینِ شعر کے ذوق کی نذر ہیں   ؎

اچھے بھلے دمکتے چہرے بجھ سے جاتے ہیں

رفتہ رفتہ کھا جاتا ہے سب کو اپنا غم

جھکتے کاندھوں کم ہوتی بینائی سے پوچھو

باپ کو کیسا روگ لگا ہے ماں کو کیسا غم؟

انہوں نے اپنے شعری اظہار میں عام آدمی کی زندگی کو موضوعِ سخن بنایا ہے مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی کی ہے انہوں نے عصری آشوب کی بھی بھرپور عکاسی کی ہے اور بعض اوقات فطری فیصلوں کو بھی ہدفِ تنقید بناتی ہیں ان کی غزل کے چار اشعار انہی عوامل کی غمازی کرتے ہیں   ؎

سر چھپانے کے لیے چھت نہیں دی جا سکتی

ہر کسی کو یہ سہولت نہیں دی جا سکتی

سانس لینے کے لیے سب کو میسر ہے ہوا

اس سے بڑھ کر تو رعایت نہیں دی جا سکتی

تم کو راس آئے نہ آئے میری بستی کی ہوا

ہاں کسی جاں کی ضمانت نہیں دی جا سکتی

زیست اور موت کا آخر یہ فسانہ کیا ہے؟

عمر کیوں حسبِ ضرورت نہیں دی جا سکتی

خالدہ عظمیٰؔ کے کلام کے مطالعہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ان کے پاس روحِ عصر کی بھرپور ترجمانی ہے اُن کے ہاں غمِ دوراں غمِ ذات کی حدود و قیود کو پھلانگتا ہوا دکھائی دیتا ہے اُن کے افکار کے آئینے میں حیات اور سنسار کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے عصرِ حاضر کی شاعرات کے اکثر و بیشتر خیالات رومان نگاری کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں یہ امر خوش آئند ہے کہ خالدہ عظمیٰؔ کے ہاں عکس دوراں خوبصورت انداز میں ملتا ہے۔

٭٭٭

 

خالدہ عظمیٰؔ (کراچی)

 آ رہا ہے مرے گمان میں کیا؟

کوئی رہتا تھا اس مکان میں کیا؟

وہ تپش ہے کہ جل اُٹھے سائے

دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا؟

اک تری دید کی تمنا ہے

اور رکھا ہے اس جہان میں کیا؟

کیا ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے؟

موڑ آتا ہے درمیان میں کیا؟

کی مرنے کے بعد قتل سے توبہ

 آخری تیر تھا کمان میں کیا؟

کیا سکوں کی تلاش ہے سب کو

ایک ہلچل سی ہے جہان میں کیا؟

ریت سی اُڑ رہی ہے کیوں عظمیٰؔ؟

لگ گیا گُھن کسی چٹان میں کیا؟

٭٭٭

 

رقص میں تھے ہوا اور شجر رات بھر

مجھ کو لگتا رہا کتنا ڈر رات بھر

مل کے تیری تمنا سے روتے رہے

میری تنہائی اور میرا گھر رات بھر

تھک کے آغوش میں صبح کی سو گیا

چاند کرتا رہا تھا سفر رات بھر

وصل کی آرزو نے سکھایا مجھے

ہجر میں جاگنے کا ہنر رات بھر

ٹمٹماتے چراغوں کی زد میں رہے

 آئینہ عکس پیکر نظر رات بھر

رات آنکھیں رہیں وا، دریچوں کے ساتھ

ادھ کھلا در رہا منتظر رات بھر

رات ایسی چڑھی آنسوؤں کی ندی

ایک ہوتے رہے بحر و بر رات بھر

٭٭٭

 

رضیہؔ فصیح احمد اور عصری آشوب

ہر تخلیق کار پر اُس کا عہد اپنے اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کی تخلیقات اپنے عہد کا پرتو ہوتی ہیں حالات چونکہ عموماً نامساعد رہتے ہیں اس لیے کم و بیش ہر شاعر اور شاعرہ کے ہاں عصری آشوب کے کچھ نہ کچھ شواہد ملتے ہیں آج ہم رضیہؔ فصیح احمد کی شاعری کے حوالے سے رقمطراز ہیں جو افسانہ نگار بھی ہیں اور ناول نویس بھی ہیں اب تک اُن کے سات ناول منصہ شہود پر آ چکے ہیں 2003ء میں ان کا اولین شعری مجموعہ ’’چاکِ قفس‘‘ کے نام سے زیور طباعت سے آراستہ ہوا اُن کا دوسرا شعری مجموعۂ کلام ’’قفس زاد‘‘ 2008ء میں منظرِ عام پر آیا عصری حالات و واقعات نے اُن کی قوتِ متخیلہ پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں اس لیے اُن کے افکار میں عصری آشوب کی چھاپ نظر آئی ہے شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے دوسرے شعری مجموعے ’’قفس زاد‘‘ سے منتخب اشعار بطور استشہادات لائیں گے۔

اُن کے ہاں اجتماعی اور انفرادی حوالے ساتھ ساتھ ملتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس آشوب زدہ سماج کا حصہ سمجھتی ہیں اُن کا ذاتی شعور اجتماعی احساسات سے ہم آہنگ ہے اُن کے عمرانی ادراکات وسیع و بسیط ہیں اُن کے خیالات سے دوہرے روئیوں کی عکاسی بھی بھرپور انداز میں ملتی ہے   ؎

گل چیں سارا باغ جلانے آیا تھا

ظاہر میں تو اور بہانے آیا تھا

وہ کب میرا دل بہلانے آیا تھا؟

کوئی تازہ زخم لگانے آیا تھا

وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو پیرایۂ اظہار بخشنے کی پوری قدرت رکھتی ہیں ایک نبّاض کی مانند صورتِ احوال کا تجزیہ کرنے کے بعد زیبِ قرطاس کرتی ہیں حالات و واقعات کو بنظر غائر دیکھتی ہیں    ؎

 آندھی چلی کچھ ایسی ہراساں سا ہو گیا

ننھا سا دل چراغ کا لرزاں سا ہو گیا

وہ اشعار کے پردے میں معاشرے کے مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں اور اُن کے لیے ایک احساسِ خیر خواہی رکھتی ہیں انہیں اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ شرافت اپنی قدر و منزلت کھو چکی ہے شرفاء ذلت سے دوچار ہیں شاطر و عیار لوگ اُن کے لیے طرح طرح کی عقوبتوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اُن کی بے گناہی اُن کا جرم ٹھہرتی ہے اور انہیں اظہار کی آزادی بھی نہیں ہوتی   ؎

پکڑ لیا تھا اُسے جرمِ بے گناہی پر

وہ بے زباں تو زباں کھولنے نہ پایا تھا

اُن کی غزل کے ان چار اشعار میں عصری آشوب کی جھلک دیکھتے ہیں   ؎

صدی جو اک نئی آئی تو ہم نے یہ سماں دیکھا

کہ دریا منجمد دیکھے، سرابوں کو رواں دیکھا

یہ آئینے بڑے ہی تلخ سے لہجے میں کہتے ہیں

سراپا دیکھ لیتی ہوں مگر خود کو کہاں دیکھا؟

بہت سے بھید ایسے تھے جو ہم پر عمر نے کھولے

بہت کچھ تھا نہاں پہلے جسے ہم نے عیاں دیکھا

قیاس آرائی بھی اپنی رضیہؔ ٹھیک ہی نکلی

جو سمجھے آگ ہی ہو گی اگر ہم نے دھواں دیکھا

حالات کی آشوب زدگی اُن کے ذہن پر یوں اثر انداز ہوئی ہے کہ وہ دنیا و عقبیٰ دونوں سے خائف نظر آتی ہیں اُن کے ہاں یاسیت و قنوطیت کا سماں نظر آتا ہے ذہنی بیزاری جس کا لازمی نتیجہ ہے   ؎

یومِ سزا کو آپ نے یوم نجات کیوں کہا؟

نامِ سمِ حیات کا آبِ حیات کیوں رکھا؟

اگرچہ زیست کے مصائب و آلام نے انسان کو رعنائیوں اور توانائیوں سے محروم کر دیا ہے جس کے باعث بہت سی مسرتوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے مگر پھر بھی زندگی لائقِ محبت ہے اور ہر کوئی زندہ رہنے کی خواہش رکھتا ہے یہی اس کا طاقتور اور صحت مند پہلو ہے   ؎

 آدمی زیست سے ہارا ہے بہت

زندگی پھر بھی گوارا ہے بہت

مشمولہ تصریحات اس امر کی غماز ہیں کہ رضیہ فصیح احمد زیست کی تلخیوں کا بخوبی ادراک رکھتی ہیں اور انہیں عصری تناظر میں دیکھتی ہیں انہوں نے اپنے تخیلات میں روحِ عصر تمام آشوب زدگیوں کے ساتھ سمودی ہے خدائے ارض و سما سے استدعا ہے کہ اُن کے فکر و فن کو دولتِ دوام سے نوازے۔ آمین ثم آمین

٭٭٭

 

رضیہؔ فصیح احمد (کراچی)

ہماری آرزو یہ ہے کہ ہم اماں میں رہیں

زمانہ اس پہ بضد ہے کہ امتحاں میں رہیں

یہ حکم ہے کہ پرندے نہ گھر میں آئیں مگر

فلک سے بجلیاں اتریں تو آشیاں میں رہیں

عوام سخت ہیں جھیلی ہے دھوپ جھیلیں گے

حضور موم کے ہیں آپ سائباں میں رہیں

بہشت چھین لی ہم سے تو فیصلہ یہ ہوا

زمیں زاد بھی کہلائیں اس جہاں میں رہیں

خیالِ خام بھی حسنِ خیال ہے اپنا

تو کیوں نہ ایک گھڑی ایسی کہکشاں میں رہیں ؟

وہ قیسِ نجد غزالوں میں بیٹھا کہتا تھا

تمام دشت ہے اپنا تو کیوں مکاں میں رہیں ؟

ہماری اُن سے کبھی کیسے بن سکے گی بھلا؟

کہ ہم زمین کے باسی وہ آسماں میں رہیں

٭٭٭

 

چلے تھے قافلے کے ساتھ سب راہِ تمنا میں

مگر پھر کھو گئے سب رفتہ رفتہ اپنی دنیا میں

نہیں تھی ہاتھ میں اُس کے شفا بس بات اتنی تھی

اگرچہ خوبیاں تو سب ہی تھیں اپنے مسیحا میں

نہ تھی ہمدرد لیکن کچھ رتوں میں ساتھ تھا اس کا

سو بادِ تند کو گل نے رکھا دزدِ شناسا میں

خیالِ الفتِ لیلیٰ میں مجنوں ہو گیا تھا وہ

جنوں نے کام کا رکھا نہیں تھا کارِ دنیا میں

کوئی پوچھے کہ اتنا بار وہ کیسے اُٹھائے گا؟

ہزاروں ولولے کیوں رکھ دئیے قلبِ تنہا میں ؟

ہیں ایسے لوگ بھی دنیا جنہیں دیوانہ کہتی ہے

وہ راہِ تیز سے لیکن گزر جاتے ہیں دنیا میں

٭٭٭

 

رشیدہ عیاںؔ  ’’میری کہانی‘‘ کے تناظر میں

خود نوشت سوانح حیات بذاتِ خود ایک بہت بڑا فن ہے لیکن منظوم صورت میں لکھنا اس سے بھی بڑا آرٹ ہے عہدِ ماضی میں بہت سی سوانح حیات لکھی گئی ہیں جیسے جوش ملیح آبادی کی ’’یادوں کی بارات‘‘ خود نوشت سوانح حیات سے لیکن یہ غیر منظوم صورت میں ہے جس نے اہل ادب میں پذیرائی پائی رشیدہ عیاںؔ  ایک ایسی شاعرہ ہیں جنہوں نے اپنی منظوم سوانحِ حیات رقم کی ہے وہ 4 مارچ 1930ء کو مراد آباد کے ایک علمی و ادبی اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئیں وہ 1943ء سے شعر کہہ رہی ہیں قیامِ پاکستان کے وقت وہ کراچی میں اقامت پذیر ہوئیں۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ 1985ء میں ’’حرف حرف آئینہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا 2004ء میں ان کی منظوم خود نوشت سوانح حیات ’’میری کہانی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی وہ کافی عرصہ نیپال میں بھی سکونت پذیر رہیں جبکہ 1975ء سے امریکہ میں مقیم ہیں آج ہم اُن کی کتاب ’’میری کہانی‘‘ میں اُن کی منظوم سوانحِ حیات کا تجزیہ کرتے ہیں اور یہ آشکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کو منظوم کرنے میں کتنی حد تک کامیاب ہوئیں ہم اُن کی زیست کے چیدہ چیدہ حالات و واقعات جو منظوم صورت میں ہیں شامل تجزیہ کرتے ہیں۔

وہ ہندوستان کے شہر مراد آباد میں پیدا ہوئیں اولاً وہ ہندوستان کا تعارف کراتی ہیں اور اس کی تہذیب و معاشرت کو منظوم کرتی ہیں پھر وہ مراد آباد کا اجمالی تعارف کراتی ہیں اس کے بعد اپنے آباء و اجداد کا تذکرہ کرتی ہیں وہ اپنے خیالات کو موزوں کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں   ؎

وہ ملک جسے سب ہندوستان کہتے تھے

جہاں پہ گنگ و جمن ساتھ مل کے بہتے تھے

تمام فرقے بہ امن و امان رہتے تھے

جہاں پہ سکھ بھی تھے ہندو بھی تھے عیسائی بھی

شیعہ بھی، سنی بھی تھے احمدی، بہائی بھی

ہر ایک دوسرے کا احترام کرتا تھا

کسی کا دل نہ دکھے التزام کرتا تھا

وہیں پہ شہر تھا مشہور اک مراد آباد

عرب سے آ کے بسے تھے جہاں مرے اجداد

رشیدہ عیاں نے اپنی زندگی کی تمام جزئیات اور تمام تر کوائف تا دمِ طباعتِ کتاب من و عن منظوم کیے ہیں اسلوب اتنا سادہ ہے کہ کہیں بھی قاری کو دشواری کا احساس نہیں ہوتا عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ آپ کی بیتی سے کسی کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے لیکن اُن کی منظوم آپ بیتی قاری کے لیے اپنے اندر دلچسپی کے بہت سے پہلو رکھتی ہے قبل ازیں غیر منظوم سوانح حیات کی ایک روایت ملتی ہے منظوم صورت میں صرف حمایت علی شاعر کی سوانح عمری ’’ آئینہ در آئینہ‘‘ کے نام سے چھپی ہے اس کے بعد یہ دوسری طویل سوانح عمری ہے اس طرح کی کاوشیں خوش آئند ہیں اور اس روایت کو بھرپور انداز میں زندہ رہنا چاہیے رشید عیاں کی منظوم سوانح حیات لائقِ صد تحسین و صد ستائش ہے اسے پڑھا اور سراہا جانا چاہیے۔

٭٭٭

 

رشیدہ عیاںؔ  (کراچی)

عشق ہو، عشق میں مجھے رنج و غمِ جہاں نہ ہو

فکر نہ ہو سماج کی ظلم کا کچھ بیاں نہ ہو

عشق میں ہو کے مبتلا آہ پہ آہ بھر سکوں

عشق نہ ہو فنا کبھی عشق کہیں نہاں نہ ہو

عشق کی ناؤ چل سکے عشق ہی کی ہواؤں سے

عشق کی ناؤ کے لیے حاجتِ بادباں نہ ہو

عشق کے بحر میں بہیں والۂ عشق ہستیاں

جذبۂ عشق سے جہاں کوئی بھی بدگماں نہ ہو

عشق کے لطف سے بشر لطفِ حیات پائے یوں

ذرۂ عشق دل میں ہو کوئی رقیبِ جاں نہ ہو

عشق کے سوز و ساز سے واقف کار ہو جہاں

راہِ یقین میں کوئی وہم نہ ہو گماں نہ ہو

عشق میں پائی زندگی عشق میں جل کے مر گئے

عشق میں آرزو رہی رازِ نہاں عیاںؔ  نہ ہو

٭٭٭

 

حیراں ہوں میرے دل کو ہے یہ اضطراب کیوں ؟

یک لخت مجھ میں آ گیا یہ انقلاب کیوں ؟

محسوس کر رہی ہوں کسک اپنے قلب میں

ہر روز ہوتی جاتی ہے حالت خراب کیوں ؟

کیوں اے بہار، باغِ محبت اُجڑ گیا

بے رنگ ہو گیا مرا عہدِ شباب کیوں ؟

جب باغ میں کھلے تھے بہت سے شگفتہ گل

کرتی ہے پھر خزاں یہ مرا انتخاب کیوں ؟

میں خود کو کھو کے خوش تھی عیاںؔ  اُن کو پا کے شاد

غم دل پہ چھا رہا ہے بمثلِ سحاب کیوں ؟

٭٭٭

 

روبیؔ جعفری جو ان جذبوں کی شاعرہ

جو ان جذبے ہر عہد میں اعتبارِ ذوق ہوا کرتے ہیں اور زندگی کی زندہ دلی انہیں کی مرہونِ منت ہے آج کے پر آشوب مادی دور میں اکسیر کا درجہ رکھتے ہیں عصرِ حاضر کی اکثر و بیشتر شاعرات کے ہاں یہ احساسات وفور سے پائے جاتے ہیں اس لیے اُن کے ہاں موضوعاتی وسعت یا فکری تنوع معدوم ہو جاتا ہے رومان کا تعلق وارداتِ دل، کیفیات دل اور احساسِ دل سے ہوتا ہے افکار میں وسعت جنون و خرد دونوں کی پاسداری سے میسر آتی ہے خرد سے مملو جذبات شعور کی عکاسی کرتے ہیں جبکہ جنوں کا تعلق دل کی دنیا سے ہے جس میں خرد کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بہر حال شاعری میں رومان کی آمیزش خوش آئند بات ہے شذرہ ہٰذا میں ہم روبیؔ جعفری کے کلام کا جائزہ رومان نگاری کی ذیل میں لیتے ہیں اور اُن کے منتخب غزلیہ اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں بمع تجزیہ پیش کرتے ہیں اس وقت ہمارے سامنے ان کا شعری مجموعہ ’’میں اور تم‘‘ ہے جس کی اشاعتِ اول جون 2008ء میں ہوئی اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ یہ اب تک چار مرتبہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے ان کا تعلق کراچی سے ہے کافی عرصہ سے ان کا کلام ملک کے متعدد اخبارات و جرائد میں تواتر سے چھپ رہا ہے۔

جب کوئی محبوب ہستی دل میں بس جاتی ہے تو پھر وہ خیال و یقین اور گمان ہر طرح کی دنیاؤں میں راج کرتی ہے زمین وہی ہوتی ہے اور آسمان بھی وہی جی چاہتا ہے وہ محبوب ہستی اپنی زبان سے اظہارِ الفت کرے کیونکہ دل کسی قسم کے حسنِ ظن میں نہیں رہنا چاہتا۔ وصالِ یار باعثِ طمانیت ہوتا ہے خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی جب کہ عالم ہجراں قیامتِ صغریٰ کا مِصداق ہوتا ہے جی یہ چاہتا ہے کہ ہر وقت محبوب کی حسیں رفاقت میسر رہے انہیں خیالات سے مملو اُن کی ایک غزل دیکھتے ہیں جو رومان نگاری کا خوبصورت مظہر ہے   ؎

میرے خیال و خواب کے تم درمیان ہو

تم ہی مرا یقین ہو تم ہی گمان ہو

کیا نام دوں تمہاری محبت کو جانِ من؟

تم پیار کی زمین ہو تم آسمان ہو

کیوں دل کی بات دل میں دبائے ہوئے ہو تم؟

اب کہہ بھی دو کہ دل نہ کہیں بدگمان ہو

ملتے ہو تم تو کتنی خوشی دل کو ہوتی ہے؟

جس دن نہ مل سکو تو وہ دن امتحان ہو

میرے لبوں پہ رہتی ہے ہر دم یہی دعا

تیرا جو ہو مکاں وہی میرا مکان ہو

باہر غموں کی دھوپ میں ملتے ہو کس لیے؟

 آ جاؤ میرے دل میں تو دل سائبان ہو

روبیؔ کا دل کھلا ہے تمہارے ہی واسطے

 آسیب رہنے لگتے ہیں خالی مکان ہو

قارئین کرام آپ نے مشاہدہ کیا کہ اسلوب انتہائی سادہ، شستہ اور رواں دواں ہے افکار میں رفعت ہے تو جذبوں میں شدت ہے عشق و جاں سپاری کے تمام مظاہر موجود ہیں۔

اُن کے ہاں رومان کے ساتھ ساتھ طربیہ اور رجائی احساسات ملتے ہیں گویا اُن کا رومان رجا اور طربیہ تاثرات کا حسین امتزاج ہے اسی نوع کے اُن کی غزل کے تین اشعار دیکھتے ہیں   ؎

یادوں کی بارات ہے میں نے چھینا ہے اک منظر

گونج رہی ہے شہنائی من میں تیرے خواب سجاؤں

سیج سجا کر پھولوں کی میں کس کی آس میں بیٹھی؟

خواب سہانے آنکھوں میں ہیں من ہی من مسکاؤں

رکھا ہے سر آنکھوں پر اور آنکھیں بند ہیں میری

وقت یہیں پر تھم جائے میں یوں ہی عمر بتاؤں

جب انسان عشق کے فسوں کا شکار ہوتا ہے تو وہ ایک لمحے کے لیے اپنے محبوب سے غ آفل نہیں ہو پاتا وہ عالمِ ہجراں ہو یا وصال کی ساعتیں ہر لمحہ ہر دقیقہ محبوب کی حسین یادیں دامن گیر رہتی ہیں اگرچہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ زمانہ محبت سے بیر رکھتا ہے کسی کی دوستی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی روبیؔ جعفری کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عالمِ مجاز میں بھی عالمِ حقیقت سے بے خبر نہیں رہتیں اسی نسبت سے اُن کی غزل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

ایک لمحے کو بھی غافل ہم نہ تجھ سے ہو سکے

یاد کرتے ہی رہے ہم دور تجھ سے جب ہوئے

کیا ہوا دنیا کو اپنی دوستی سے بیر ہے؟

یہ دعا مانگیں کہ خوش ہم سے ہمارا رب رہے

کہیں کہیں اُن کے ہاں جمالیاتی احساسات بھی اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں اُن کا ذوقِ جمال بھی لائقِ صد تحسین و صد ستائش ہے احساسِ تجمل کی ایک جھلک اُن کی غزل کے ایک شعر میں قابلِ غور ہے  ؎

وہ بے نقاب آ گیا جب آئینے کے سامنے

تو آئینوں کے خدوخال حیرتوں سے بھر گئے

محبت کے عمومی احساسات بھی اُن کے شعری شعور کا حصہ ہیں انہوں نے اسلوبیاتی حوالے سے سہل نگاری کی روایت کو تقویت بخشی ہے اس لیے اُن کا اسلوب سہلِ ممتنع کا انداز رکھتا ہے مگر کہیں اُن کے اشعار میں نادر النظیر افکار بھی ملتے ہیں اُن کی غزل کے تین اشعار دامنِ دل تھام رہے ہیں   ؎

بس اک بار کھلتا ہے دروازہ دل کا

چلا آئے جو بھی وہ جاتا نہیں ہے

تری سمت جاتے ہیں سارے ہی رستے

کہیں اور جانے کا رستہ نہیں ہے

اگر ٹوٹ جائے کبھی دل کا شیشہ

تو پھر کرچیاں کوئی چنتا نہیں ہے

اُن کی شاعری محبت سے لبریز جذبات کا اظہار ہے اُن کے جذبوں میں شدت وحدت ہے مگر بسا اوقات ان کا لہجہ دھیما بھی ہو جاتا ہے جو شائستگی، متانت اور سنجیدگی کا غماز ہے وہ زندگی کے تمام حوالے محبوب سے منسوب کرتی ہیں اُن کا محبت بھرا تکلم بھی محبوب کے لیے ہے اُن کے دامن میں یارِ ہزار شیوہ کے لیے بے شمار دعائیں ہیں اُن کے تمام سپنے اور تمام تر تمنائیں محبوب کی نظرِ کرم کی منتظر ہیں اُن کے ہاں ایک طرح کا احساسِ خود محبوبی بھی ہے جو شاعرانہ تعلّی کا روپ دھار لیتا ہے اس سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر اُن کی غزل کے چار اشعار لائقِ توجہ ہیں   ؎

مِرا ہر اشارہ تمہارے لیے ہے

محبت کا لہجہ تمہارے لیے ہے

کبھی کوئی غم تم کو چھو کر نہ گزرے

یہ تحفہ دعا کا تمہارے لیے ہے

میں دل میں تمہارے رہوں بن کے خوشبو

مری ہر تمنا تمہارے لیے ہے

مہک ہے مری شبستاں میں تمہارے

مرا سارا جلوہ تمہارے لیے ہے

مذکورہ اشتہادات اس امر کی غماز ہیں کہ روبیؔ جعفری کا کلام خوشگوار اور لطیف احساسات کا آئینہ دار ہے اُن کے سخن میں ایک دنیائے جنوں آباد ہے قاری جس کے سحر میں کھو جاتا ہے جہاں سے واپسی قرینِ حقیقت نہیں ہوتی امید ہے کہ وہ اپنے سخن میں رومان کے علاوہ دیگر موضوعات کا اہتمام بھی کریں گی اور اُن کی فکری وسعت میں بتدریج اضافہ ہو گا۔

٭٭٭

 

روبیؔ جعفری (کراچی)

لمحے نہ چاہتوں کے مقدر میں کچھ رہے

سودے مگر جنوں کے مرے سر میں کچھ رہے

وہ آندھیاں چلیں کہ اندھیرا سا چھا گیا

روشن مگر چراغ مرے گھر میں کچھ رہے

دل کا دیا جلا کے ہواؤں میں رکھ دیا

رخشندگی سراب کے منظر میں کچھ رہے

سرگوشیوں میں اس کی ہے امرت بھرا ہوا

باطن میں کچھ رہے تو وہ ظاہر میں کچھ رہے

روبیؔ کے ہونٹ خشک ہیں شدت ہے پیاس کی

اتنی پلا دو آج نہ ساغر میں کچھ رہے

٭٭٭

 

میرے محبوب یہ کیا تم نے قیامت کر دی؟

ختم اک لفظ میں رودادِ محبت کر دی

منکشف ہو گئے جذبات بھی خوشبو کی طرح

میں تو خاموش تھی سانسوں نے شکایت کر دی

ہم کہ پندارِ انا ہی میں گرفتار رہے

اس کی نظروں نے کہیں اور عنایت کر دی

جاری تھی مشقِ سخن عرضِ تمنا کرتے

اس نے منہ پھیر لیا ختم ریاضت کر دی

مہر کی طرح تھا وہ حسنِ درخشاں روبیؔ

اک نظر ہی نے مرے دل میں تمازت کر دی

٭٭٭

 

رومانہ رومیؔ کے شعری نوادرات

عصرِ حاضر میں بہت سی شاعرات میدانِ شعر میں اُتریں آوازوں کے اس ہجوم میں اپنی ایک الگ شناخت بنانا ایک کٹھن مرحلہ تھا معدودے چند شاعرات ہی اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہوئیں ان میں رومانہ رومیؔ کا نامِ نامی بھی شامل ہے رومانہ رومیؔ نے روایتی خیالات کو جادۂ منزل نہیں بنایا ان کے تخیلات میں ایک نادرہ کاری ملتی ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی اہلیت رکھتی ہے شذرہ ہٰذا میں ہم رومانہ رومی کے شعری مجموعہ ’’ساحل دکھائی دیتا ہے‘‘ مطبوعہ 2007ء کے منتخب غزلیہ اشعار بطور استشہادات شاملِ تجزیہ کرتے ہیں اُن کے تخیلات کی قرینہ کاری ہمارا موضوعِ بحث ہے۔

رومانہ رومی زبان و بیان پر دستگاہ رکھتی ہیں مشکل ردیفوں اور قوافی کو انہوں نے بخوبی نبھایا ہے مفرد و مرکب ہر طرح کی بحور میں انتہائی کامیابی سے سخن سنجی کی ہے عروضی محاسن کی پاسداری بھی بدرجہ اتم ملتی ہے اُن کے کلام میں فطرت کے حسین مظاہر بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں انہوں نے اظہار کے لیے غیر عمومی پیرایۂ اظہار منتخب کیا ہے اُن کی غزل کے چار اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

رنگوں کے التفات سے تتلی ہے بے خبر

خود اپنے حسنِ ذات سے تتلی ہے بے خبر

ہجر و وصال رنج و الم سوز و سازِ دل

ان سب معاملات سے تتلی ہے بے خبر

کتنے ہی رنگ اس کے فسانے سے ہیں عیاں ؟

لیکن غمِ حیات سے تتلی ہے بے خبر

مذکورہ اشعار میں فطری نوعیت کے خیالات کو خالص فطری انداز میں بیان کیا گیا ہے ’’سے تتلی ہے بے خبر‘‘ کی ردیف بھی اسلوبیاتی کرشمہ کاری کی عمدہ تمثیل ہے۔

اُن کے ہاں روایت اور جدت کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے اُن کا اسلوب سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے انہوں نے نسبتاً رواں دواں بحور میں زیادہ لکھا ہے وہ روایتی خیالات کو بھی انتہائی دلچسپ انداز میں پیش کرتی ہیں   ؎

دوریوں سے اور بھی چاہت بڑھی

پھر ہمیں یہ فاصلے اچھے لگے

اُس کی یادیں اس کا غم اس کا خیال

دل میں ٹھہرے قافلے اچھے لگے

پہلے کانٹوں سے الجھنے کا تھا ڈر

پیار کے اب راستے اچھے لگے

اُن کی قوتِ متخیلہ رفعت و ندرت سے مملو ہے جس میں حیرت و استعجاب کی ایک دنیا بسی ہوئی ہے اُن کے جذبے شدت و حدت سے مرصع ہیں وہ شعر کے مختصر پیمانے میں طویل داستاں سمونے کا فن جانتی ہیں اور وہ اپنے موضوع کو تشنۂ تکمیل نہیں رہنے دیتیں بلکہ تمام تر جزئیات بیان کرتی ہیں   ؎

تیرے ساتھ چلتی ہوں اک جہان جاتا ہے

گر گریز کرتی ہوں تیرا مان جاتا ہے

درد کے حوالے سے کتنا با خبر ہے وہ؟

میرے دل کی باتوں کو کیسے جان جاتا ہے؟

اُن کے ہاں طربیہ تاثرات کے ساتھ ساتھ حزنیہ افکار ضو پاشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں جن سے اُن کے حزن و ملال کا اندازہ ہوتا ہے خوبصورت ترکیبات و استعارات بھی اُن کے کلام کا حصہ ہیں   ؎

طویل ہونے لگا اب تو جستجو کا سفر

مسافتِ غمِ جاں مختصر کرے کوئی

رومانہ رومیؔ کے ہاں غم کی آنچ انتہائی شدید ہوتی ہے ان کے ہاں اجتماعی حوالوں کی نسبت ذاتی حوالے بکثرت ملتے ہیں جن سے غمِ ذات نمو پاش ہو رہا ہے کہیں کہیں غمِ ذات اور غم جاناں ساتھ جلوہ ریز ہو رہے ہیں اسلوبیاتی ندرت بھی حدِ کمال کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

 زبان و بیان کا معیار بھی اعلیٰ درجے کا ہے اسی تناظر میں اُن کی ایک غزل دنیائے شعر و سخن کے متوالوں کی نذر ہے   ؎

کہیں داستاں ہے الجھی کہیں حرف نارسیدہ

مرا جسم خوں سے تر ہے مرے ہاتھ بھی بریدہ

میں اُسے کہاں سے لاؤں جو سکونِ قلب و جاں ہے؟

مرا دل ہے زخم خوردہ مری روح غم رسیدہ

میں کہیں بکھر نہ جاؤں مجھے آ کے تھام لے تو

مرے دن سکوں سے خالی مری رات بھی کشیدہ

تو جو میرے ساتھ رہتا میں غموں سے دور رہتی

ترے ہجر میں ہوا ہے مرا حالِ دل کبیدہ

میں سمجھ رہی تھی رومیؔ یہاں چارہ گر ملیں گے

مگر اس دیارِ غم میں ہوئی اور آبدیدہ

الغرض رومانہ رومیؔ کے شعری مخزن میں گوناں گوں نوادرات موجود ہیں جن میں رومان کی آمیزش بھی ہے اور غمِ ذات کے فزوں تر حوالے بھی شامل ہیں جمالیاتی احساسات بھی کہیں کہیں اپنی بہار دکھا رہے ہیں ابھی انہوں نے اقلیمِ سخن کے ہفت آسمان سر کرنے ہیں جس کے لیے انہیں عمیق فکری و فنی ریاضت درکار ہو گی۔

٭٭٭

 

رومانہ رومیؔ ( کراچی)

دھوپ ہی دھوپ ہے سایہ نہ شجر صحرا میں

قابلِ دید ہے وحشت کا سفر صحرا میں

ایک سا موسم جاں سوز ہے تا حد نظر

یاد بھی آتے نہیں شام و سحر صحرا میں

سر پہ سورج کی تپش دل میں جلن الفت کی

نیم مردہ ہے تمازت سے نظر صحرا میں

یہ تو احساس کی ہے بات اسے کیسے کہوں ؟

کس قدر ہونا پڑا خاک بسر صحرا میں ؟

عشق نے ایک عجب حال میں رکھا دل کو

ہم کو اپنی بھی نہ تھی کوئی خبر صحرا میں

اتنا آساں بھی نہیں جاں سے گزرنا رومیؔ

کون جاتا ہے بھلا چھوڑ کے گھر صحرا میں ؟

٭٭٭

 

ہے مکاں اور لامکاں خاموش

 آج کیوں ہے یہ آسماں خاموش؟

نقش چہرے کے ہو گئے دھندلے

لگ رہے ہیں یہ جسم و جاں خاموش

کس سے پوچھوں بتا پتا تیرا؟

منزلیں راستے نشاں خاموش

کچھ تو بتلاؤ رازِ خاموشی

کیوں فلک پر ہے کہکشاں خاموش؟

جھوم کر آئی تھی بہار جہاں

رہ سکی نہ وہاں خزاں خاموش

قہقہے جم گئے خلاؤں میں

 آج ہے بزمِ دوستاں خاموش

ہم بھی یوں لگ رہے ہیں اے رومیؔ

جیسے ہوتے ہیں بے زباں خاموش

٭٭٭

 

زہرا نگاہ منفرد فکری اُپچ کی شاعرہ

جب کوئی تخلیق کار طویل المیعاد تخلیقی ریاضت کے عمل سے گزرتا ہے تو فکری و فنی طور پر اُس میں نکھار پیدا ہوتا ہے افکار و خیالات میں ندرت و جدت کے مظاہر نمو پاش ہوتے ہیں فنی اسقام بھی رفتہ رفتہ روپوش ہو جاتے ہیں عروضی اعتبار سے بحور کا ادراک ہو جاتا ہے گویا فکری و فنی معیار دیرینہ مشاطگیِ سخن کا ثمر ہوتا ہے ہم نے جب زہرا نگاہ کے تیسرے مجموعۂ کلام ’’فراق‘‘ کا عمیق نظری سے مطالعہ و مشاہدہ کیا تو ہمیں اُن کے ہاں ایک بلند معیار نظر آیا مجموعہ ہٰذا 2009ء میں منصہ شہود پر آیا۔ زہرا نگاہ کا تعلق کراچی سے اور ان کا شمار سینئر شاعرات میں ہوتا ہے آج ہم مذکورہ شعری مجموعہ سے منتخب اشعار مختصر تجزیے کے ساتھ پیش کریں گے کتاب کا سُدس اول شاملِ تجزیہ ہے۔

ان کا طرز اظہار جداگانہ نوعیت کا حامل ہے وہ عام ڈگر سے ہٹ کر شعر کہتی ہیں اُن کے ہاں تنقیدی رویے بھی کروفر سے ملتے ہیں ان کے اسلوب اور افکار میں ندرت کا پہلو نمایاں ہے وہ سماج کے اعلیٰ طبقے یعنی حکمرانوں کو بھی ہدفِ تنقید بناتی ہیں اُن کی غزل کے مطلع میں یہی رنگ کار فرما ہے   ؎

ہر حکمراں آگے بصد ناز و افتخار

سچی زمیں یہ کھینچتا ہے جھوٹ کا حصار

شاعرہ تخلیقی زندگی میں خود رفتگی کے عمل سے گزر رہی ہے اُس کی شخصیت افکار کی صورت تحلیل ہو رہی ہے جتنا بڑا قلمکار ہو گا اس کی خود رفتگی کا عمل اتنا ہی سرعت سے ہو گا سوچ کے اس سفر میں بے شمار کٹھنائیاں ہوتی ہیں کہیں پر راستے کھو جاتے ہیں تو پھر منزل بعید از بصارت و امید لگتی ہے بہت سی وحشتیں ذات کے گرد ایک حصار بنا لیتی ہیں تو پھر اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے   ؎

سفر خود رفتگی کا بھی عجب انداز کا تھا

کہیں پر راہ بھولے تھے نہ رُک کر دم لیا تھا

زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی

اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا

انسان تا حیات حسن کا متلاشی رہتا ہے جستجوئے جمال اُسے آشنائے راز کرتی ہے جس سے زندہ رہنے کی خواہش فزوں سے فزوں تر ہوتی رہتی ہے زیست کے مصائب و آلام بھی جیون کا حسن ہوا کرتے ہیں اسی تناظر میں ان کی غزل کا ایک شعر دیدنی ہے   ؎

صورتِ دل کشی رہی خواہشِ زندگی رہی

داغِ دل خراب سے رات میں روشنی رہی

اگرچہ علم و عقل کی سرفرازی ساتویں آسمان تک محیط ہے مگر اہلِ دل کی دنیا ہمیشہ سرسبز و شاداب رہتی ہے جہاں نخلِ امید کبھی نہیں مرجھاتا اسی فکر کی ترجمانی زہرا نگاہ کی زبانی دیکھتے ہیں۔

ساتویں آسمان تک شعلۂ علم و عقل تھا

پھر بھی زمینِ اہلِ دل کیسی ہری بھری رہی؟

نابغہ روزگار ہستیاں ہر عہد میں یاد رکھی جاتی ہیں اور ہر دور میں اُن کی کمی محسوس کی جاتی ہے کیونکہ یہی لوگ تاریخ کے سنہری ابواب ہوتے ہیں زمانہ اُنہیں یاد کرتا ہے اور اُن کی عظمت کے گن گاتا ہے اسی فکر کو زہرا نگاہ نے انتہائی خوبصورتی سے نبھایا ہے   ؎

کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ

وہ دلبرانِ زمیں وہ فلک شعار سے لوگ

اُن کے ہاں ذاتی حوالوں کی نسبت اجتماعی حوالے بکثرت ملتے ہیں اجتماعیت کا عمیق احساس ملتا ہے وہ مجموعی طور پر سماج کی بے حسی کا رونا روتی ہیں اُن کا کلام روایت سے جڑا ہوا ہے وہ گویا ہیں کہ ایسا سکوت ہے کہ خاک تک نہیں اُڑتی اور یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہوائیں راستے سے اتنی غافل ہوسکتی ہیں نہ دھوپ میں وہ شدت وحدت رہی اور نہ سائے میں دلکشی رہی وہ اس صورتِ حال کو کسی فقیر کی بددعا سے تعبیر کرتی ہیں   ؎

سکوت ایسا کہ اب خاک تک نہیں اُڑتی

ہوائیں بھول بھی سکتی ہیں راستہ ایسے

نہ دھوپ میں وہ تڑپ رہی نہ سائے میں وہ کشش

کسی فقیر نے کیا دی ہے بد دعا ایسے؟

مندرجہ بالا اشعار عصرِ حاضر کی بے حسی کا نوحہ ہیں جن میں دعوتِ غور و خوض اور فکر و عمل ہے ایک آگہی ہے صوتی قافیے کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے اگر عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے مرکب و مفرد ہر طرح کی بحور میں سخن سنجی کی ہے اُن کا اسلوب حدِ کمال کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔

مذکورہ استشہادات شاہد ہیں کہ زہرا نگاہ کا کلام جدت و ندرت آمیز ہے اُن کا پیرایۂ اظہار غیر روایتی اہمیت رکھتا ہے جو انہیں دیگر ہم عصر شاعرات سے ممتاز و منفرد کرتا ہے۔

٭٭٭

 

زہرا نگاہ (کراچی)

شائستگیِ غم نے عجب کام دکھایا

اک حرفِ تسلی مرے نام نہ آیا

ہر دورِ بلا خیز میں ہنگامِ تمازت

 آنکھوں پہ دعاؤں کا لرزتا رہا سایہ

تعظیم اُسی کے لیے مخصوص رکھی تھی

وہ جس کو مرے قد کا نکلنا نہیں بھایا

جتنی کہ گزار آئے ہیں اتنی نہیں باقی

جی بھر کے جئیں اس کا سلیقہ نہیں آیا

بچپن کے کھلونوں کو کوئی توڑ گیا ہے

اور ایسے کہ ٹکڑا کوئی بچنے نہیں پایا

حیران بڑے گھر میں کھڑی سوچ رہی ہوں

اس پار یہ چھوٹا سا مکاں کس نے بنایا؟

٭٭٭

 

کِس فکر و انتشار میں شاہ و وزیر ہیں ؟

یہ خانماں خراب، کہاں کے سفیر ہیں ؟

دستِ طلب بڑھائیں، نہ ہمت نہ تربیت

کہنے کو ہم بھی اس کی گلی کے فقیر ہیں

یہ دام تار تار سہی کیسے چھوڑ دیں ؟

جب سے کھلی ہے آنکھ اسی کے اسیر ہیں

یہ اور بات آنکھوں کو عادت نہیں رہی

دنیا کے رنگ اب بھی بہت دل پذیر ہیں

ہم مرزا اسد کے مریدانِ خوش خیال

یہ مانتے ہیں قبلہ اشعارِ میر ہیں

٭٭٭

 

زیب النساء زیبیؔ اور مزاحمتی شاعری

مزاحمتی افکار ترقی پسند سوچ کے آئینہ دار ہوتے ہیں جو ادب برائے زندگی کی غمازی کرتے ہیں جن سے عملی زندگی میں ادب کی اہمیت واضح ہوتی ہے مزاحمت وہ جذبہ ہے جس سے حق و باطل میں ایک کشاکش بپا رہتی ہے اہلِ باطل سماج میں منفی روئیوں کے علمبردار ہوتے ہیں اور اپنی بداعمالیوں کے با وصف طاقت و اقتدار کے خواہاں نظر آتے ہیں جب کہ اہلِ حق ان کی ہر اُس کاوش کو ناکام بنا دیتے ہیں جو حق کو گزند پہنچاتی ہے مزاحمت وہ جذبہ ہے جو اہلِ حق کو باطل کے خلاف برسر پیکار رکھتا ہے جب ہم نے زیب النساء زیبیؔ کے کلام کا مطالعہ کیا تو ہمیں مزاحمتی خیالات وفور سے نظر آئے شذرہ ہٰذا میں ہم ان کے دوسرے شعری مجموعہ، ’’دل میں ہیں آپ‘‘ کے ربع اول کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ مزاحمتی تناظر میں کریں گے۔

اہلِ حق مصمم عزائم کے حامل ہوتے ہیں وہ وقت کے تقاضوں کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں وہ ہر جبر ناروا کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اسی لیے کامیابی و سرخروئی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے کسی بھی یزیدِ وقت سے وہ مرغوب نہیں ہوتے وہ ظلم و ستم گوارا کر لیتے ہیں ایسے ہی مزاحمتی افکار کی جھلک زیبیؔ کی غزل کے ان دو اشعار میں دیکھتے ہیں   ؎

ہوا کے رخ پر جو دوڑیں وہ راج کرتے ہیں

کبھی بدلتی نہیں اہل حق کی تقدیریں

یزیدِ وقت کی بیعت بھی کیوں کریں زیبیؔ

ہمیں قبول ہیں ظلم و ستم کی زنجیریں

کسی کے مذموم ارادوں کا پیشگی ادراک بھی عقل و بصیرت کی علامت ہے زیست کی تلخیاں دلِ حساس پر مضر اثرات مرتب کرتی ہیں سب سے بڑا مزاحمتی جذبہ سچ بولنا ہے اور سچ بولنے والے کسی بھی عقوبت سے خائف نہیں ہوتے چاہے انہیں اس جرم کی پاداش میں اپنے آپ سے کیوں نہ گزرنا پڑے بقول راقم الحروف   ؎

میں نے گو دیکھا ہے سولی پر چڑھا منصور کو

 آج تک مجھ سے نہ چھوٹا پھر بھی سچ کہنے کا شوق

زیب النساء زیبیؔ مذکورہ فکری اوصاف سے مالا مال ہیں اسی نسبت سے ان کی غزل کے تین اشعار دیدنی ہیں   ؎

دل میں کیا تم نے اپنے ٹھانی ہے؟

کیوں طبیعت میں بد گمانی ہے

تلخ تر یہ جو زندگانی ہے

دلِ حساس کی کہانی ہے

مجھ کو دار و رسن سے کیا ڈرنا؟

سچ مرا وصفِ خاندانی ہے

فطری طور پر ہر انسان حق پسند ہے حقیقت کی بازیافت ہی منشورِ حیات ہے لیکن انسان سراپا سوال ہے محو حیرت ہے کہ ایسی مقدس ہستی کون ہوسکتی ہے جو عرفانِ حق تک رسائی میں ممد و معاون ثابت ہو جب کہ انسان یہاں خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں اور زندگی مہیب صورت اختیار کر چکی ہے شہر بھی اپنا ہے اور لوگ بھی اپنے ہیں پھر بھی احساسِ تنہائی شدت اختیار کر چکا ہے کس سے فریاد کریں کس سے منصفی چاہیں کے مصداق معاملہ ہے ہماری قربانیوں کی داستان بہت طویل ہے ہم نے مقتل کو اپنے خون سے سرخرو کر دیا۔

 بقول نواز شیرانی   ؎

فضا لہو سے فروزاں ہے روشنی تو نہیں

زیب النساء زیبیؔ بھی اسی نوع کے مزاحمتی شعور سے مرصع ہیں اور وہ جہاں کی بے حسی سے شاکی نظر آتی ہیں اسی حوالے سے اُن کی غزل کے چار اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

ایسا ہے کون جو مجھے حق تک رسائی دے؟

دیکھوں جسے بھی خوف زدہ سا دکھائی دے

اپنے ہی شہر میں پرایا کوئی نہیں

پھر بھی ہمارا دل ہے جو تنہا دکھائی دے

تخصیص کوئی ظالم و مظلوم کی نہیں

کوئی دہائی دے بھی تو کس کو دہائی دے

مقتل کو ہم نے خوں سے اپنے سجا دیا

یہ اور بات ہے نہ جہاں کو دکھائی دے

زیب النساء زیبیؔ کی فکر میں بے پناہ جسارتیں پنہاں ہیں جو وقتاً فوقتاً اور موقع بہ موقع ضوپاش ہوتی رہتی ہیں سب سے بڑا جہاد جابر سلطان کے آگے کلمۂ حق کہنا ہے یہ وصفِ جلیلہ بھی ان کے مزاحمتی اور شعری شعور کا حصہ ہے شذرہ ہٰذا کی آخری اکائی کے طور پر ان کی غزل کا ایک شعر پیش خدمت ہے   ؎

یہ ایک مظلوم کہہ رہا ہے

کہ فیض کُش سب حکومتیں ہیں

یہ تو زیب النساء زیبیؔ کے مزاحمتی شعور کی چند جھلکیاں تھیں جو ہم نے نذرِ قارئین کیں ان کے علاوہ ان کے بے شمار اشعار ہیں جو اس موضوع کی ذیل میں آتے ہیں اور حوالے کا استحقاق رکھتے ہیں ربِ ادب سے استدعا ہے کہ زیب النساء زیبی کے کلام کو مزید آب و تاب سے نوازے۔ آمین ثم آمین

٭٭٭

 

زیب النساء زیبیؔ (کراچی)

امیرِ شہر نے تانی ہیں اپنی شمشیریں

کہ اہلِ فن کے لیے بن رہی ہیں زنجیریں

ہمارے پاس نہ سرمایہ اور نہ جاگیریں

ہمارے پاس ہیں، خوابوں کی صرف تعبیریں

ہوا کے رخ پہ جو دوڑیں وہ راج کرتے ہیں

کبھی بدلتی نہیں اہلِ حق کی تقدیریں

ہمارے بچے ہی سچائی کی علامت ہیں

کہاں ملیں گی یہ معصومیت کی تصویریں ؟

جو اہلِ فن ہیں انہیں دوستو! سلام کرو

ہیں ان کے پاس ہنر مندوں کی جاگیریں

یزیدِ وقت کی بیعت بھی کیوں کریں زیبیؔ

ہمیں قبول ہیں ظلم و ستم کی زنجیریں

وہ خواب دیکھیے زیبیؔ کہ جن کا حاصل ہوں

سدا بہار خلوصِ وفا کی تعبیریں

٭٭٭

 

کبھی جو تم سے ملاقات ہو گئی ہوتی

تو تیز دھوپ میں برسات ہو گئی ہوتی

جو ساتھ ان کے مری ذات ہو گئی ہوتی

نگاہِ شوق بھی سوغات ہو گئی ہوتی

شکست و ریخت سے میں بھی اگر گزر جاتی

تو کامیاب مری ذات ہو گئی ہوتی

غموں سے دل بھی اگر میرا بھر گیا ہوتا

تو آنسوؤں کی بھی برسات ہو گئی ہوتی

ذرا سی دیر بھی زیبیؔ جو ان سے مل سکتے

خوشی ہی زیست کی سوغات ہو گئی ہوتی

٭٭٭

 

ڈاکٹر شہنازؔ مزمل داخلی احساسات کی شاعرہ

تخلیقِ شعر ایک داخلی اور وجدانی عمل ہے ایسے جذبات جو خالصتاً شاعر کے دروں سے نمو پاش ہوتے ہیں داخلی احساسات کہلاتے ہیں خارجی عوامل جب دروں کی دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں تو وہ پھر اظہار کا جامہ پہن لیتے ہیں عرضِ مدعا یہ ہے کہ خارجیت بھی داخلیت پر گہرے نقوش ثبت کرتی ہے یہ دونوں فکری خصائص لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں مگر پھر بھی ان دونوں کے مابین ایک تفریق ہے داخلیت کا مطالعہ شخصیت کی افہام و تفہیم کے لیے ناگزیر ہے جب کہ خارجیت سماجیات کے ادراک کی مظہر ہے دنیائے سخن میں دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے عموماً شاعرات کا شعری شعور داخلی افکار کا غماز ہوتا ہے جو اُن کی دروں بینی کا عکاس ہوتا ہے آج ہم ڈاکٹر شہنازؔ مزمل کے کلام کا تجزیہ داخلی احساسات کے تناظر میں کریں گے جن کا تعلق دبستانِ لاہور سے ہے جن کے تا دم تحریر پندرہ شعری مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہو کر دنیائے شعر و ادب سے داد و تحسین پا چکے ہیں اور ہر شعری مجموعہ اپنے اندر فکر کا ایک نیا جہان رکھتا ہے علاوہ ازیں سات نثری کتب بھی منصہ شہود پر آ کر خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں شذرہ ہٰذا میں اُن کے آخری شعری مجموعہ ’’عشق سمندر‘‘ کے ربع اول کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ پیش کرتے ہیں عشق بھی ایک داخلی جذبہ ہے جس کے مظاہر خارج میں بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔

خوف ایک داخلی کیفیت ہے جو انسان کے ظاہر و باطن پر محیط ہوتا ہے اس کے گہرے تاثر کے باعث مہیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر انسان اپنے سائے سے بھی خائف نظر آتا ہے راہِ عشق میں تمام عمر تلاشِ منزلِ جاناں میں گزرتی ہے اور قرب کا ایک لمحہ اُسے پایائے تکمیل تک پہنچاتا ہے جب انسان خواہشوں کا غلام بن جائے تو حسرتوں کے باب وا ہو جاتے ہیں پھر تمناؤں کی دنیا پر حزن و ملال ہو جاتی ہے یہ سب معاملات ذات سے علاقہ رکھتے ہیں اور ذات ہی دروں کا مستقل اور معتبر حوالہ ہے اسی نسبت سے اُن کی غزل کے تین اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

خوف انجانا رگ و پے میں سرایت کر گیا

اور پھر انسان اپنے سائے سے خود ڈر گیا

مدتوں سے میں بھٹکتی تھی تلاشِ یار میں

عشق کو میرے مکمل ایک لمحہ کر گیا

ہر کوئی شہنازؔ اپنی خواہشوں کا ہے غلام

منظرِ شہرِ تمنا سب کو پرنم کر گیا

جب زندگی کے مصائب و آلام دروں کی دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں تو پھر انسان سنسار کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتا ہے اور شکوہ سنج نظر آتا ہے تخلیقِ کائنات کی حقیقت مذموم نظر آتی ہے لیکن زیست کی مسافت میں عشق ایک مینارِ نور ثابت ہوتا ہے اگر اس کی راہنمائی شاملِ حال نہ ہو تو انسان گردِ راہ بن جاتا ہے ہر جگہ محبوبِ حقیقی کی جلوہ سامانیاں نظر آتی ہیں جیسے خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا   ؎

جگ میں آ کر ادھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

انہیں افکار سے متصف اُن کی غزل کے تین اشعار آپ کے ذوقِ طبع کی نذر ہیں   ؎

زندگی کربِ مسلسل اک مسلسل امتحاں

کیا اسی کے واسطے تو نے بنایا یہ جہاں

عشق نے کی راہنمائی یہ بہت اچھا ہوا

جانے کس رستے پہ لے جاتا غبارِ کا رواں ؟

کیا کوئی ایسی جگہ بھی ہے جہاں پر تو نہ ہو؟

کس لیے پردہ ہے حائل تیرے میرے درمیاں ؟

ذات سے انحراف فطری حقائق سے روگردانی کے مصداق ہے جس نے اپنے آپ کو نہیں پہچانا اُس نے اپنے رب کو نہیں پہچانا اس لیے عرفانِ ذات ناگزیر ہے اس لیے انسان تمام عمر اپنی ذات کی تلاش میں رہتا ہے ذات کی بازیافت عرفان و آگہی کی منزل ہے ہم دنیا داری کے جھمیلوں میں اتنا کھو جاتے ہیں اور ہمیں خود سے محبت نہیں رہتی بقول راقم الحروف   ؎

مجھے خود سے ملنے کی فرصت نہیں ہے

حقیقت میں خود سے محبت نہیں ہے

دور بدلتا ہے اس کے تقاضے بدلتے ہیں اگر تغیرِٔ حال کے اثرات ہم پر مرتب نہیں ہوتے تو ہم خود کو اجنبی محسوس کرتے ہیں اور یہ اجنبیت بیگانگی کی علامت ہے راہِ عشق میں انسان تمام مصائب و آلام سے آشنا ہو جاتا ہے حقیقت کا عرفان ہی سرچشمۂ آگہی ہے ان افکار کی جھلک اُن کی غزل کے تین اشعار میں دیکھتے ہیں   ؎

جب کہ خود سے بچھڑ گئے ہیں ہم

کس لیے خود کو ڈھونڈتے ہیں ہم؟

لوگ بدلے تو ایسا لگتا ہے

اپنے ہی شہر میں نئے ہیں ہم

عشق منزل کے ہم مسافر ہیں

سب مصائب کو جانتے ہیں ہم

ڈاکٹر شہنازؔ مزمل معرفت کی شاعرہ ہیں اُن کا عشق حقیقی نوعیت کا ہے اس لیے تمام موجودات میں اُسے خالقِ کائنات کی ذات دکھائی دیتی ہے تمام سنسار اُسی کا پرتو نظر آتا ہے قلب و زبان پر اُسی کے ہی ترانے ہیں وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اُس کی دوری بعید از بصارت ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کا ایک شعر دنیائے شعر کے متوالوں کی نذر ہے   ؎

موسم بدلے رُت بدلی ہے منظر بدلے

ہر شے میں بس اُس کی ذات دکھائی دے

وہ عشقیہ کیفیات و واردات کو رقم کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتی ہیں رومانی جذبات و احساسات اُن کے کلام میں بھرپور انداز میں جلوہ نما ہیں کسی بھی صورت حال کی ترجمانی احسن اور مؤثر طریقے سے کرنا اُن کے شعری شعور کا حصہ ہے ایک ہی مصرع کے پیمانے میں کئی تلازمے پائے جاتے ہیں جو اُن کی کمالِ فن کاری کی دلیل ہے طویل المیعاد شعری ریاضت کی بدولت اُن کا فن کہنہ مشقی کا مظہر ہے اسی تناظر میں اُن کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو   ؎

چڑھ جائے جو سر پر تو اُترتا ہی نہیں ہے

تم عشق ہو نشہ ہو مئے ناب ہو کیا ہو؟

عشق کی بدولت انسان سوز و گداز کا شناور بن جاتا ہے سوزِ ہجراں کے باعث مسلسل اضطراب کا عمل جاری و ساری رہتا ہے یہ حزن و ملال لازوال اور دائمی ہوتا ہے یہ بے تابی پھر پورے ماحول کا حصہ دکھائی دیتی ہے اسی نسبت سے ان کی غزل کا ایک شعر آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کرتے ہیں   ؎

 آگ سینے میں جو بھڑکی تو بھڑکتی ہی گئی

دور تک درد کا جلتا ہوا صحرا دیکھا

اُن کے داخلی احساسات گہرائی و گیرائی کے حامل ہیں جس سے اس امر کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ داخلیت پر بھرپور دستگاہ رکھتی ہیں جب انسان کو چار سو خوف کے سائے مہیب نظر آئیں تو وہ اپنی ذات کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے بقول ڈاکٹر شہنازؔ مزمل   ؎

اپنے اندر کی ہی دنیا میں بسا کرتے ہیں

کیا کریں گردشِ حالات سے ڈر لگتا ہے

مذکورہ شواہد شاہد ہیں کہ ڈاکٹر شہنازؔ مزمل کے ہاں داخلی افکار وفور سے ملتے ہیں اُن کا شمار اُن شاعرات میں ہوتا ہے جن کے حوالے سے ناقدینِ فن کے مابین ایک معتبر رائے ملتی ہے اگر اُن کا شعری سفر تسلسل سے جاری و ساری رہا تو اُن کے فکر و فن میں مزید بالیدگی آشکار ہو گی۔

٭٭٭

 

ڈاکٹر شہنازؔ مزمل ( لاہور)

ہجر کی رات ہے اس کو شبِ ماتم نہ بنا

وصل لمحوں کو سجا زمزمۂ غم نہ بنا

کرچیاں ٹوٹ کے بکھری ہیں مرے چاروں طرف

ریزۂ دل کو اٹھا زخم کا مرہم نہ بنا

گر بچھڑنا ہے تو اک فیصلہ کر لیتے ہیں

اس کو تقدیر سمجھ درد کا موسم نہ بنا

سارے سپنے بہا لے جائیں گے آنسو تیرے

نیم خواب آنکھوں کو تو دیدۂ پرنم نہ بنا

اے مصور ترے ان ہاتھوں میں لرزش کیوں ہے؟

رنگ تصویر میں میرے اسے مدھم نہ بنا

ہر مسافر میں تعلق ہو ضروری تو نہیں

ان کا دکھ درد سمجھ پیار کا سنگم نہ بنا

اب تو یادوں کے سوا کچھ نہیں شہنازؔ کے پاس

اپنی آواز دبا اک نیا سرگم نہ بنا

٭٭٭

 

نوائے عشق کا اُترا ابھی خمار نہیں

ابھی تلک مجھے اپنے پہ اختیار نہیں

طلسم جان کے سب راز کھول دوں کیسے؟

نہیں نہیں مجھے خود پر بھی اعتبار نہیں

مسافتوں کی تھکن سے یہ جسم و جان ہے چور

سفر طویل ہے رستے میں راہ گذار نہیں

کسی کو اپنی طلب کب تھی جو وہاں رُکتے

پلٹ کے ہم کو زمانے تو اب پکار نہیں

٭٭٭

 

 

گزشتہ ساعتوں کی بازیافت اور پروفیسر شاہدؔہ حسن

ہر انسان کو ماضی انتہائی عزیز ہوتا ہے اُس کی خوشیاں اور اُس کے غم یادگار حیثیت رکھتے ہیں جنہیں تا حیات نہیں بھلایا جا سکتا انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ماضی سے درس لیتا ہے اور حال و مستقبل کے گیسو سنوارتا ہے یہی کیفیت شاہدؔہ حسن کی بھی ہے جن کے کلام میں ماضی کی یادیں اور عہد رفتہ کے فسانے بکثرت ملتے ہیں شاہدہ حسن کا تعلق کراچی سے ہے وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں آج ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’ایک تارا ہے سرہانے میرے‘‘ کے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔ مجموعہ ہٰذا جون 1995ء میں منصہ شہود پر آیا۔

اُن کی ماضی کی کتھا میں رومان کے افسانے بھی ہیں محبوب کا گھر میں آنا اور پھر اس مہمان کے باعث گھر کا پہچان بننا خوش آئند ہے اور نادرہ کاری کی نادر نظیر ہے اُن کا اسلوب سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل مطلع لائقِ توجہ ہے   ؎

جب سے وہ مہمان ہوا ہے

گھر میری پہچان ہوا ہے

مذکورہ شعر تو اپنے اندر وصل کا کیف و سرور لیے ہوئے ہے جب کہ عالمِ ہجراں میں کیفیت اس کے برعکس ہوتی ہے گھر کے در و دیوار ماتم بپا نظر آتے ہیں گھر قیامت کا منظر پیش کرتا ہے نیند ہمیشہ کے لیے آنکھوں سے دور ہو جاتی ہے پھر نہ ختم ہونے والا رتجگوں کا سفر شروع ہو جاتا ہے اسی تناظر میں اسی غزل کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں   ؎

نیند گئی کیا آنکھوں سے؟

چہرہ تک ویران ہوا ہے

اُن کی قرینہ کاری اور مضمون آفرینی کے حوالے سے جدت و ندرت کے شواہد ملتے ہیں محبوب کا ملنا اور وہ بھی اس انداز میں جیسے رگوں میں پھول کھل رہے ہوں محبوب کا جس قدر میسر آنا اور لاحاصلی کا اس انداز میں بڑھنا رفعتِ تخیل کی عمدہ مثالیں ہیں اور عہدِ ماضی کے دلچسپ مشاہدات ہیں غزل کے تین اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

اسی انداز سے وہ مل رہا ہے

رگوں میں پھول جیسے کھل رہا ہے

مری لا حاصلی بڑھتی گئی ہے

وہ مجھ کو جس قدر حاصل رہا ہے

بھلانا جس کو آساں لگ رہا تھا

اُسی کو بھولنا مشکل رہا ہے

اُن کے ہاں مصائب و آلام کے حوالے سے ایک مصالحت کا پہلو بھی ملتا ہے اُن کے نزدیک خوشی ایک لمحاتی مسرت ہے ہم تمام عمر کے دکھ اسی خوشی کے عوض بیچ دیتے ہیں جو زیور کی حیثیت رکھتے ہیں وہ مقتلِ شب سے بھی خائف نہیں ہیں وہ تنہا نفسی سے خوفزدہ نہیں ہیں وہ اپنے روبرو لشکروں سے بھی نہیں ڈرتیں اُن کی غزل کے دو اشعار دامنِ دل تھام رہے ہیں   ؎

بیچ آئی جنہیں میں اک لبِ خنداں کے عوض

وہ سب دکھ مرا گہنا تھے مرے زیور تھے

مقتلِ شب میں یہ تنہا نفسی کیا معنی؟

میری آنکھوں کے مقابل تو کئی لشکر تھے

رومانی احساسات بھی اُن کے ہاں پوری شان و شوکت سے ملتے ہیں اس حوالے سے اُن کے پاس ایک فرمانبرداری کا پہلو پایا جاتا ہے ورنہ وہ شعوری طور پر ہر معاملے کا ادراک رکھتی ہیں اور ہر سوال کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں یہ محبت کا ایک عمیق احساس ہے جو اُن کے کلام میں ضو پاشیاں کر رہا ہے   ؎

محبتوں میں میں قائل تھی لب نہ کھلنے کی

جواب ورنہ مرے پاس ہر سوال کا تھا

بعض اوقات وہ سماج کی اجتماعی بے حسی کو بھی ہدفِ تنقید بناتی ہیں اس نسبت سے ان کے ہاں ایک افسردگی اور یاسیت پائی جاتی ہے وہ گردشِ دوراں کے سرد ہونے کے باعث جسم و جاں کے پھولوں کے کملانے کی بات کرتی ہیں سہلِ ممتنع کے رنگ کا اسلوب ہے اور افکار میں ایک نادرہ کاری ہے   ؎

گردشِ خوں سرد ہو کر رہ گئی

پھول جسم و جان کے کملا چکے

مزاحمتی رویے بھی اُن کے شعری شعور کا حصہ ہیں اور بھرپور انداز میں اپنا مدعا بیان کرتی ہیں فکر، اسلوب اور مصرعوں کے در و بست میں ایک کہنہ مشقی ملتی ہے   ؎

منافقوں سے میں کب تک مکالمہ کرتی؟

زباں کو رہن نہ رکھتی اگر تو کیا کرتی؟

ملا تھا اذنِ تکلم مگر یہ شرط بھی تھی

ہر اک سخن میں بہ اندازِ التجا کرتی

تمام شہر میں زندہ سماعتوں کا ہے قحط

کسے پکارتی اور کس کو ہم نوا کرتی؟

مذکورہ تصریحات اس امر کی غماز ہیں کہ شاہدؔہ حسن کے کلام میں عہدِ ماضی کی بازیافت کے خوبصورت حوالے ملتے ہیں ان کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے مگر انہیں ابھی بہت آگے جانا ہے جس کی مقتضیات میں خلوص، محنت اور لگن شامل ہے۔

٭٭٭

 

پروفیسرشاہدؔہ حسن ( کراچی)

داغِ شب کو آئینہ درکار ہے

صبح تک یہ سلسلہ درکار ہے

جسم اک بے ذائقہ درکار ہے

عشق کو یہ سانحہ درکار ہے

ِگھر گیا دل دشمنوں کے درمیاں

اس عصا کو معجزہ درکار ہے

شام کتنی مختصر ہے وصل کی؟

ڈوبنے کو اک دیا درکار ہے

پھول بن کر گر چکی شاخوں سے میں

اور اُسے میرا پتہ درکار ہے

اب بھی کیوں تیری کماں کی زد پہ ہوں ؟

اس نشانے کو خطا درکار ہے

شب پسندوں میں مجھے شامل نہ کر

مجھ کو تیرا دیکھنا درکار ہے

٭٭٭

 

اگرچہ زعم مجھے بھی بہت سفر کا ہے

کمال سارا مگر اس رہ گزر کا ہے

کبھی کبھی کی کسک نے دلا دیا ہے یقیں

دلوں کے بیچ کوئی رنج عمر بھر کا ہے

جو بے سبب کسی آنگن میں مَیں اُٹھا لائی

اُجالا یہ بھی ترے گھر کے بام و در کا ہے

اُڑائے پھرتی ہے دل کو ہوائے بے خبری

سو ان رتوں میں کسے حوصلہ خبر کا ہے؟

فزوں ہوا ہے بہت شور شام و شب لیکن

اکیلا پن تو وہی اب بھی دوپہر کا ہے

تمام عمر چلی، پھر بھی کم ہوا نہ کبھی

وہ فاصلہ جو تیرے گھر سے میرے گھر کا ہے

مری زمیں تری خاکِ نمو نہیں مشکوک

یہ سب عذاب یہاں دست بے ہنر کا ہے

٭٭٭

 

شاہینہ فلکؔ صدیقی احساسِ اپنائیت کی شاعرہ

اپنائیت وہ احساس ہے جو دلوں میں گھر کر جاتا ہے اور دوسروں کو اپنا گرویدہ بناتا ہے مشیت نے مقبولیت اس کی قسمت میں لکھ دی ہے فنِ شاعری میں بھی جس شاعر یا شاعرہ کے ہاں یہ احساس چھلکتا ہے اسے پذیرائی ملتی ہے جس کا واضح ثبوت پروین شاکر ہیں جنہیں اس جذبے کی وساطت سے قارئینِ شعر و ادب نے خراج تحسین سے نوازا ہے شاہینہ فلکؔ صدیقی بھی ایک ایسی شاعرہ ہیں جنہیں قدرت نے فزوں تر احساس اپنائیت سے نوازا ہے ان کے کلام میں جا بجا یہی احساس ضو پاشیاں کرتا دکھائی دیتا ہے کراچی سے تعلق رکھنے والی یہ شاعرہ جن میں ذوقِ مطالعہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے جنہوں نے متعدد ادبی شخصیات سے اکتسابِ فیض کیا ہے جن مین عبیداللہ علیم ایاز صدیقی، ریاض الحق ریاض، شاہین فصیح ربانی اور احمد ندیم قاسمی کے اسمائے جلیلہ شامل ہیں آج ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’تتلی کی پہلی بارش‘‘ مطبوعہ نومبر 2011ء کے پس منظر میں احساس اپنائیت کی روشنی میں منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ نذرِ قارئین کرتے ہیں۔

انسانی عموماً تا حیات شدید قسم کے احساسِ تنہائی کا شکار رہتا ہے زیست کے کٹھن سفر میں اسے شریکِ سفر کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر حال میں معاون و مددگار ہو محبت کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کی پاداش میں انسان کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے انسان چاہتا ہے اُسے معتبر اور معزز سمجھا جائے انسان جینا چاہتا ہے عزت و وقار کے ساتھ جہاں اندیشۂ زوال نہ ہو اسی احساس اپنائیت سے سرشار اُن کی غزل کے چار اشعار رقم کیے جاتے ہیں   ؎

کوئی تو ساتھ چلے میرے اس سفر میں بھی

جہاں بچاؤ کی صورت نہیں مفر میں بھی

کھلی جو آنکھ تو پہلو میں اُس کی خوشبو تھی

وہ میرے ساتھ رہا خواب کے سفر میں بھی

تمہاری یاد کو مہماں کیا کیا میں نے

کہ پھر اماں نہ ملی مجھ کو گھر میں بھی

کبھی تو تو بھی مجھے اپنا راز داں کر لے

میں معتبر ٹھہروں تری نظر میں بھی

اُن کے احساسِ اپنائیت میں بے پناہ طاقت ہے ایک جوش ہے ولولہ، ہمت اور توانائی ہے وہ مخالف قوتوں کو خاطر میں نہیں لاتیں اس لیے اُن کی جسارتیں لائقِ تحسین ہیں اسی صورت حال کا غماز ان کی غزل کا ایک شعر یہ ہے   ؎

توڑ دوں کیوں نہ وقت کی زنجیر؟

دے رہا ہے کوئی صدا مجھ کو

شاہینہ فلکؔ صدیقی کی محبت کا احساس بے پناہ پہنائیوں کا حامل ہے اور جذبے محبت سے معمور ہیں اُن کے ہاں مزاحمتی افکار بھی اپنائیت سے لبریز ہیں   ؎

اب سماعت کے ریگزاروں پر

تیری باتیں گلاب ہوتی ہیں

شیشۂ دل کے ٹوٹ جانے سے

کرچیاں آفتاب ہوتی ہیں

اہلِ دل کے لیے زمانے میں

مشکلیں بے حساب ہوتی ہیں

خیالِ یار اُن کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے اور سخن کے سفر میں زادِ راہ بھی ہے محبوب کی یاد ہی بجھتے ہوئے چراغوں کو جلنے کی شکتی دیتی ہے اور رجا کا بہت بڑا حوالہ بھی ہے اسی کی بدولت ہی منزلِ مقصود پر پہنچا جا سکتا ہے اسی لیے ہی اسے زادِ سفر بنایا جاتا ہے   ؎

ترا خیال سخن کے سفر میں رکھا ہے

ورنہ کیا مرے جیبِ ہنر میں رکھا ہے؟

ہوائے درد میں بجھتے ہوئے چراغ کیا جلتے؟

سو تیری یاد ہی کو بام و در میں رکھا ہے

خیالِ یار کے سائے میں پہنچیں منزل تک

یہ زادِ راہ بھی ہم نے سفر میں رکھا ہے

اُن کا کلام اس امر کا شاہدِ عادل ہے کہ ان کے ہاں بھرپور قسم کا احساس اپنائیت ملتا ہے جو ان کے بہتر ادبی مستقبل کی نویدِ سعید ہے۔

٭٭٭

 

شاہینہ فلکؔ صدیقی (کراچی)

زرد پتے کہیں سر سراتے رہے

تم مجھے رات بھر یاد آتے رہے

یاد کا سونا سونا نگر سج گیا

اشک جگنو ہوئے جگمگاتے رہے

سازِ دل کی ہر اک تال کے ساتھ ہم

بس ترا نام ہی گنگناتے رہے

ریت پر پھیر کر انگلیاں بے سبب

جانے کیا کیا بناتے، مٹاتے رہے؟

ہنس کے سنتا رہا سن کے ہنستا رہا

وہ جسے حالِ دل ہم سناتے رہے

راہِ الفت میں ہم سادگی سے فلکؔ

ہر قدم پر نیا زخم کھاتے رہے

٭٭٭

 

وہ جس نے مجھ کو تڑپایا بہت ہے

وہی دل کو مرے بھایا بہت ہے

میں جس کو یاد بھی شاید نہیں اب

مجھے رہ رہ کے یاد آیا بہت ہے

بسا ہے جس کی آنکھوں میں سمندر

اسی نے مجھ کو ترسایا بہت ہے

اُسی کی یاد میں جل جل کے ہر پل

مرے دل کو قرار آیا بہت ہے

نہیں جو جانتا معنی وفا کے

اسی پر مجھ کو پیار آیا بہت ہے

نہیں کرتا محبت پر یقیں وہ

کسی نے اس کو بہکایا بہت ہے

٭٭٭

 

شائستہؔ مفتی اور کلامِ اُمید افزا

زیست بیم و رجا سے عبارت ہے کہیں پر یاسیت و قنوطیت کی تیرگی ہے تو کہیں پر لطیف اور خوشگوار احساسات ہیں کہیں پر زندگی افراط و تفریط کا شکار ہے تو کہیں حسنِ توازن سے مرصع ہے متوازن حیات ہی اصلِ حیات ہے جہاں ایک توازن کارفرما ہے کسی ایک طرف جھکاؤ نہیں ہے جہاں جبر و قدر کی جلوہ سامانی ہے لیکن زیست کی چمک دمک امید سے نسبت رکھتی ہے عصرِ حاضر کے شعری مخزن میں ابیاتِ حُزن بکثرت ملتے ہیں ان کے مقابلے میں طربیہ تاثرات عشر عشیر کے مثیل ہیں اس لیے ایسا کلام حوصلہ افزائی کا استحقاق رکھتا ہے شائستہؔ مفتی کے شعری مجموعہ ’’ہوا کے ہاتھ‘‘ کے بنظرِ غائر کے مطالعہ سے یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں رجائیت کے امکانات حوصلہ افزا ہیں جو ایک مستحسن امر ہے مجموعہ ہٰذا کا نام بھی جدت کا غماز ہے جس کی طباعت 2009ء میں عمل میں آئی اس میں غزلیات اور آزاد نظمیات ہیں پروفیسر سحر انصاری جیسی مہان ادبی شخصیت سے اکتسابِ فیض کا انہیں شرف حاصل ہے سرور جاوید، پروفیسر ہارون رشید اور شاہدؔہ حسن کے تاثرات کتابِ ہٰذا کا حصہ ہیں مقدمہ انہوں نے خود لکھا ہے جو اُن کی فکری بالیدگی کا مظہر ہے شائستہؔ مفتی کا تعلق دبستانِ کراچی سے ہے رجائی امکانات کے تناظر میں اُن کے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

اُن کے کلام میں جہاں رجائی تاثرات بھرپور انداز میں ملتے ہیں وہاں مجاز کے ساتھ معرفت کے شواہد بھی بکثرت نظر آتے ہیں افکار نادر النظیر ہیں موضوعات اعلیٰ و ارفع ہیں اسلوب سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے زبان و بیان کا معیار متوازن ہے ذرا ان کے یہ اشعار دیکھیے   ؎

اُن سے ملنے کا ارادہ ہے قضا سے پہلے

کیوں نہ دل کھول کے جی لوں میں سزا سے پہلے؟

اس حوالے سے شاید اُسے پہچان سکوں

خود کو پہچان لوں گر اپنے خدا سے پہلے

وقت معدوم ہے اور دہر کے انداز جدا

کچھ بھی ممکن ہے مقدر میں قضا سے پہلے

روح پرور خیالات ہیں طرب کے گیت ہیں رقص و سرود کا حسن ہے مظاہرِ فطرت کی خوبصورت ترجمانی ہے وفاؤں کی بات ہے دعاؤں کا تذکرہ ہے اُن کے یہ اشعار دیدنی ہیں  ؎

روح کا ترنم تھا گیت تھا ہواؤں کا

خواب ناک منظر میں رقص اپسراؤں کا

پر شکوہ پیڑوں سے بادلوں کی سرحد تک

گونج تیرے لہجے کی عکس اُن وفاؤں کا

برف کے قبیلے میں خواب بیچنے والا

شاعری کے لہجے میں روپ ہے دعاؤں کا

اُن کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ نامساعد حالات میں بھی دامنِ امید تھامے رکھتی ہیں گلاب و خواب کے فسانے ہیں اور روشنی کے ہالے ہیں شباب کے حوالے ہیں جشنِ طرب کا سماں ہے یہ سب رجائی تاثرات ہیں جو ان کے کلام کو حسیں تر بنا رہے ہیں   ؎

میرے ہاتھوں میں کچھ گلاب تو ہیں

جو نہ ممکن رہے وہ خواب تو ہیں

روشنی سی رہی درختوں پر

جنگلوں پر رہے شباب تو ہیں

رات کے منظرِ خموشی میں

چھڑ گئے نغمۂ رباب تو ہیں

شائستہ مفتی کے افکار سے ہمت و حوصلے کا آدرش ملتا ہے جو اُن کی اولو العزمی کی دلیل ہے وہ زیست کی کٹھنائیوں کا سامنا کرنے کا فن جانتی ہیں ایسی صورت حال سے نہ خوفزدہ ہوتی ہیں بلکہ ان کی ہمت جواں رہتی ہے بقول اقبال   ؎

وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے

جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے

اسی فکر کی ترجمانی ان کی زبانی ملاحظہ کریں   ؎

 آنکھوں میں لیے وحشت ساحل سے الجھتے ہیں

طوفانوں کی چاہت میں مرنا بھی ہے اب جینا

اُن کی قوتِ متخیلہ وسیع تر امکانات کی متلاشی رہتی ہے ان کے افکار وسیع و بسیط ہیں تمناؤں کی چکا چوند انہیں زندگی کرنے کا حوصلہ دیتی ہے جس سے اُن کے عزائم کو شکتی ملتی ہے اُن کا استدایۂ انداز اپنے اندر ایک جہانِ معانی سموئے ہوئے ہے   ؎

چاہتوں کی بستی میں اک نیا سویرا ہو

دور تک خلاؤں میں یہ جہان میرا ہو

دھوپ روپ بکھرائے میرے کچے آنگن میں

چاند کی محبت میں چاندنی کی سرشاری

چاندنی کے پرتو میں عکس چاند چہرہ ہو

وہ زیست سے حزن و یاسیت کے سائے دور کرنا چاہتی ہیں اور اسے مسرتوں سے ہم آغوش کرنا چاہتی ہیں اسی سلسلے میں وہ فکری طور پر کوشاں نظر آتی ہیں   ؎

روٹھی ہوئی خوشی کو منا لاؤں ایک دن

سہمے ہوئے خیال کو بہلاؤں ایک دن

مذکورہ استشہادات اس امر کی شاہدِ عادل ہیں کہ شائستہؔ مفتی کے شعری مخزن میں وسیع تر رجائی امکانات ہیں بہر حال انہیں عمیق فکری و فنی ریاضت مطلوب ہے جس سے اُن کا کلام مزید بالیدگی سے ہم آغوش ہو گا۔

٭٭٭

 

شائستہؔ مفتی ( کراچی)

زندگی کی چاہت میں زندگی چلی آئی

وحشتوں کے جنگل میں روشنی چلی آئی

کتنی نا امیدی تھی ایک تیرے آنے سے؟

جیسے میری آنکھوں میں دلکشی چلی آئی

اک سکوتِ جاں جیسے منتظر رہا شب بھر

یاد کے جھروکوں سے نغمگی چلی آئی

جام تک نہ پہنچے وہ شام گرچہ آئی ہے

دل ڈھلے ترے رخ پر بے رخی چلی آئی

حیرتوں کے عالم میں دیکھتے ہیں ہم خود کو

 آئینے میں یہ کس کی بے بسی چلی آئی؟

٭٭٭

 

صرف مانگی نہیں خوشی تم سے

ہم نے مانگی ہے روشنی تم سے

رنگ و آہنگ کا حسین خیال

موسمِ گل میں دلکشی تم سے

اس قدر کیوں اُداس رہتے ہو؟

زندگی صرف زندگی تم سے

کیوں بدلتے ہیں وقت کے اطوار؟

دھوپ چھاؤں کی آگہی تم سے

ہر طرف یک نفس خموشی تھی

تم جو آئے تو نغمگی تم سے

٭٭٭

 

شگفتہؔ شفیق فطری اظہار کی شاعرہ

جو سخنور اپنے فن کو لسانی گورکھ دھندوں اور فکری موشگافیوں کے جھمیلوں میں الجھانے سے گریزاں رہتے ہیں ان کا طرزِ اظہار فطری نوعیت کا حامل ہوتا ہے اس طرح ان کی رسائی قاری کے دل و دماغ پر براہ راست ہوتی ہے وہ جلد ہی مقبولیت و پذیرائی سمیٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ایسے ہم سخن احباب میں ایک نام شگفتہؔ شفیق کا بھی ہے جنہوں نے انتہائی قلیل عرصے میں شہرت و پسندیدگی کے زینے طے کیے ہیں وہ تسلسل سے مشاطگیِ عروسِ سخن میں منہمک ہیں ان کی پر گوئی کا یہ عالم ہے کہ اب تک ان کے تین شعری مجموعے منصہ شہود پر آ چکے ہیں بنیادی طور پر ان کا تعلق کراچی سے ہے شذرہ ہٰذا میں ہم ان کے تیسرے شعری مجموعہ ’’جاگتی آنکھوں کے خواب‘‘ مطبوعہ 2013ء کے ثلث اول کے منتخب غزلیہ اشعار شامل تجزیہ کرتے ہیں اور ان کے دوسرے شعری مجموعہ ’’یاد آتی ہے‘‘ کے نظمیہ اقتباسات بھی شاملِ صراحت کرتے ہیں۔

فکری اعتبار سے ان کے ہاں بے پناہ خوشگواریاں ہیں لطیف جذبات و احساسات کی ایک قوسِ قزح ہے جو رنگ ریزیاں کر رہی ہے وہ زیست کے مصائب و آلام سے خوفزدہ نہیں ہوتیں بلکہ انہیں زندگی کا جزوِ لاینفک گردانتی ہیں عالمِ ہجراں میں وہ دامنِ امید ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتیں یہ وہ فکری خصائص ہیں جن کے باعث قاری کی ان کے کلام سے ہم آہنگی برقرار رہتی ہے اس پسِ منظر میں ان کی غزل کے دو اشعار لائقِ التفات ہیں   ؎

گھر میں پھولوں کی کاشت کرتی ہوں

اب زمانہ نہیں ہے وحشت کا

کیوں شگفتہ اُداس رہتی ہو؟

سب پہ آتا ہے وقت فرقت کا

اُن کا تخیل سدا بہار نوعیت کا ہے وہ ماحول میں تازگی اور شگفتگی بکھیرنا چاہتی ہیں ان کا مخزنِ شعر سدا بہار نوعیت کا ہے اس سلسلے میں وہ عملی طور پر کوشاں بھی نظر آتی ہیں جذبوں کی لطافت کے ساتھ ساتھ ان کے ہاں حقیقی زندگی کے حوالے سے آموزگاری کے بے پناہ شواہد بھی ملتے ہیں وہ قاری کو ایک عمیق شعور سے روشناس کراتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جس سے ان کے ذاتی ادراکات کی جھلک ضوپاشیاں کرتی ہوئی نظر آتی ہے اسی نسبت سے ان کی ایک غزل کے دو اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

بڑی ہے گھٹن ابرِ باراں کہاں ہے؟

شجر ایک تازہ ہے ہم نے لگایا

ہر اک دوست ہوتا نہیں ہے سفر میں

تمہاری اداؤں نے ہم کو سکھایا

کدورتوں بھرے سماج میں وہ محبتوں کا آدرش رکھتی ہیں نفرتوں کی بیخ کنی چاہتی ہیں چاہتوں کے حصول کے لیے وہ نازیبا ہتھ کنڈوں کو روا نہیں سمجھتیں الفتوں کے اس سفر میں انسان کو بے انت غم و الم بھی ملتے ہیں محرومیوں کا دکھ بھی ہوتا ہے اور حسرتوں کا ماتم بھی اس لیے ان کے کلام میں کتھارسس کی فزوں تر خصوصیت پائی جاتی ہے اسی حوالے سے ان کی ایک غزل کے دو اشعار دیدنی ہیں   ؎

پیار سے کیجیے جہاں تابع

 آزمائیں نہ جادو ٹونے کو

اشک ہی رہ گئے ہیں آنکھوں میں

داغ محرومیوں کے دھونے کو

حیات کے دیگر موضوعات کے پہلو بہ پہلو ان کے ہاں رومانوی حوالے بھی فطری نوعیت میں ملتے ہیں جو ان کے فطری اظہار کی برہانِ قاطع دلیل ہیں ان کے رومان جذبے حزن و یاسیت کو نہیں جنم دیتے اور نہ کہیں افسردگی آشکار ہوتی ہے بلکہ طرب خیز کیفیت پیدا ہو جاتی ہے عمومی موضوعات کے ساتھ ساتھ انہوں نے زندگی کے انتہائی سنجیدہ موضوعات کو بھی اپنے بیان کی زینت بنایا ہے زیست کی بے ثباتی کا اظہار ان کے ہاں نہایت فطری انداز میں جلوہ گر نظر آتا ہے   ؎

زندگی تو فانی ہے سب ہی لوٹ جائیں گے

 آج وہ گئے آگے کل کو اپنی باری ہے

ہیئت کے اعتبار سے شاعری کی دو اصناف ہیں۔ غزل اور نظم، نظم کی کئی ہیئتیں ہیں، جن میں مثنوی، ثلاثی قطعہ بند، مخمس، مسدس، مثمن، مستزاد، نظمِ معریٰ، آزاد نظم اور نثری نظم شامل ہیں۔ آزاد نظم کی کامیابی کے بعد نثری نظم کے امکانات روشن ہونے لگے۔ نثری نظم میں وزن، قافیہ، ردیف اور مصرعوں کے چھوٹا یا بڑا ہونے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ آزاد نظم میں ارکان کی کمی بیشی روا ہوتی ہے، لیکن نثری نظم میں ارکان سرے سے معدوم ہوتے ہیں۔ بلکہ سطور چھوٹی اور بڑی ہوتی ہیں، جس طرح غزل اور نظم میں ہیئت کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے، اسی طرح ان اصناف کے فکری مزاج میں بھی مغائرت پائی جاتی ہے۔ نظم میں فکری اعتبار سے وسعت پائی جاتی ہے۔ اس لیے اس میں زیادہ تصریح و توضیح کی گنجائش ہوتی ہے، جس کے باعث منظر نگاری، مکالمہ نگاری اور محاکات نگاری بخوبی کی جا سکتی ہے۔ تسلسل نظم کا تلازمہ ہے۔ خیالات زنجیر کی کڑیوں کی صورت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ نثری نظم بطورِ خاص سلاست کا مظہر ہوتی ہے۔ نثری نظم میں فنی حوالے سے بہت گنجائش پائی جاتی ہے۔ تاہم فکری اعتبار سے کسی قسم کا سمجھوتہ روا نہیں ہے۔ مذکورہ بحث تمہید ہے اُس شذرے کی جو ہم شگفتہ شفیق کے حوالے سے رقم کر رہے ہیں۔ تاکہ ہم اُن کی نظم کے فکری و فنی خدوخال اُجاگر کرسکیں۔ شذرہ ہٰذا میں ہم شگفتہ شفیق کے دوسرے شعری مجموعے ’’یاد آتی ہے‘‘ کے حوالے سے اُن کی نظم کا فکری و فنی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ مجموعہ ہذا جنوری 2013ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ قبل ازیں ان کا اوّلین شعری مجموعہ ’’مرا دل کہتا ہے‘‘ 2010ء میں منصہ شہود میں آیا، جس میں غزل، پابند نظم اور زیادہ تر آزاد نظمیں شامل ہیں۔

اُن کے افکارو موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے اور مختلف کیفیات کی جلوہ افروزی ہے۔ کہیں بزمِ طرب سجی ہوئی ہے تو کہیں آشاؤں کے میلے ہیں۔ کہیں اُداسی کی شاموں کا ذکر ہے تو کہیں بہار پُر نکھار ہے۔ کہیں جمالیاتی حوالے ہیں تو کہیں رومان کی روح پرور فضا ہے۔ اُن کی ایک نظم ’’گلابوں کا موسم‘‘ میں اُن کی منظر نگاری ملاحظہ کریں    ؎

’’گلابوں کا موسم‘‘

موسم دھوپ اور

        روشن کرنیں

        تتلیاں آئی تھیں

        پھولوں سے ملنے

        باغوں میں تھے پھول کھلے اور

        خوابوں کا سا میلہ تھا

        بہار کا موسم

        ساتھ سجن کا

        نہلے پر بس دہلا تھا

نظم ہٰذا میں جہاں منظر نگاری کمال کی ہے، وہاں جمالیاتی حوالہ بھی انتہائی دل فریب ہے۔ خیالات کا تسلسل بھی دیدنی ہے۔ لغت کا استعمال بھی فطری انداز رکھتا ہے۔ اسلوب کی سادگی بھی اپنا ایک حسن رکھتی ہے اور رومان کا بھی پُر کشش حوالہ شامل ہے۔

رومان ہر عہد میں اقلیمِ سخن کی جان رہا ہے۔ اگرچہ عصرِ حاضر کے ناقدین کے افکار نے اسے مسخ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کی مقبولیت میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی۔ رومانی حوالے کی حامل اُن کی نظم ’’تم‘‘ زینتِ قرطاس کی جاتی ہے   ؎

’’تم‘‘

تم دل کے پاس رہنا، میرے ساتھ ساتھ رہنا

جو بھی ہوں من کی باتیں، ہر بات مجھ سے کہنا

پڑے تم پہ کوئی مشکل تو اکیلے تم نہ سہنا

یوں ہی خون کی طرح سے، مری سب رگوں میں بہنا

جب ہو مری ضرورت، مجھ کو پکار لینا

میرے آنسوؤں کو چھوڑو، بس تم کبھی نہ رونا

کانٹے ہیں سارے میرے بس تم گلاب لینا

کہنا یہی ہے تم سے، تم دل کے پاس رہنا

یہ نظم رومانیت کے احساسات سے لبریز ہے۔ سلاست اور سہل نگاری سے خوب صورت جذبات کو فطری انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مختلف کیفیات کے دل فریب حوالے ہیں اور یارِ ہزار شیوہ سے بے پایاں محبت کا اظہار بھی ہے۔

رومانی حوالے کی حامل اُن کی ایک اور نظم ’’احساسِ خیالِ دوست‘‘ آپ کے ذوقِ طبع کی نذر ہے   ؎

’’احساس خیال دوست‘‘

مری اک بات سن لو جی

میں الفت تو نہیں کرتی

مجھے ہے اُنسیت تم سے

تمہارے بن بھی جیتی ہوں

بڑی خوش باش رہتی ہوں

جو مل پاؤں اگر تم سے

چمک آنکھوں کی بڑھتی ہے

اُمنگ جینے کی ملتی ہے

کچھ ایسا مجھ کو لگتا ہے

الگ دنیا کی باسی ہوں

جہاں شامیں سہانی ہیں

اور رنگوں کی فراوانی

جہاں غم دور رہتے ہیں

وہاں سے ہر طرف مروت

اور احساسِ خیال یار

اس نظم میں شگفتہؔ شفیق کی تخلیقی طبع کھل کر سامنے آئی ہے، جس کی وجہ سے خیالات کا ایک فطری بہاؤ مشاہدے میں آیا ہے، جس میں برجستگی و بے ساختگی اور بے تکلفی کے جواہر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

غم زندگی کا جزو اور دائمی جذبہ سے جو زندگی پر انمٹ نقوش مرتب کرتا ہے۔ حُزن و ملال کی کیفیات کا اظہار اکثر و بیشتر شعرا کے ہاں پایا جاتا ہے، جو شعرا حُزنیہ شعری طبع رکھتے ہیں، اُن کا کلام خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ مقبولیتِ میرؔ کا باعث بھی فکری حوالے سے اُن کی خزینہ شاعری ہے۔ غم کئی طرح کا ہوتا ہے۔ اُس کی نوعیت کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ غمِ دوراں بھی ہوسکتا ہے۔ وہ غمِ جاناں بھی ہوسکتا ہے اور غمِ ذات بھی۔ وہ محرومی کا دُکھ بھی ہوسکتا ہے۔ اُن کی نظم’’ سانحہ‘‘ ہے۔ اُن کے حزن و ملال کی جھلک دیکھتے ہیں   ؎

’’سانحہ‘‘

        عجب سا سانحہ ہوا یہ

        ٹہنیاں ساری

        رہ گئیں خالی

        پتے سارے ہوا کے ساتھ گئے

        چار سو چھا گئی

        وہ زرد خزاں

        جس کو کوئی پسند نہیں کرتا

        کوئی طلبگار اس کا ہے ہی نہیں

        پھر بھی وہ ڈھیٹ

        لپٹی جاتی ہے

        انجان سفر دکھاتی ہے

        اور اُداسی

        بکھیر جاتی ہے

شگفتہؔ شفیق کا فکری کینوس بہت وسیع ہے کہ موضوعات میں رنگارنگی پائی جاتی ہے۔ مختلف خیالات اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔ شذرہ ہٰذا کی آخری اکائی کے طور پر اُن کی نظم ’’مکافاتِ عمل‘‘ نذرِ قارئین ہے۔

’’مکافاتِ عمل‘‘

        مجھے گلہ ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے بات نہیں کرتا

        چُپ چاپ بیٹھا رہتا ہے، مسئلے شیئر نہیں کرتا

        تیس برس میں پیچھے جاؤں تو مجھ کو یاد آتا ہے

        میں بھی یوں ہی کرتا تھا

        جب میری بوڑھی ماں مجھ سے باتیں کرتی تھی

        میں گھر سے بھاگنا چاہتا تھا

        پر اتنی ہمت مجھ میں نہیں تھی

        مجبوری کی یاری تھی

        پر میرا بیٹا بولڈ بہت ہے

        مجھ سے کہہ کے جاتا ہے

        بیٹھیں آپ سکون سے کھائیں

        بیچ میں ٹانگ اَڑائیں نہ

        نئے زمانے کی باتیں ہیں

         آپ مجھے سمجھائیں نہ

اس نظم میں انہوں نے اپنے موضوع کے ساتھ مکمل وفاداری کی ہے کہ دنیا مکافاتِ عمل ہے انسان جو رویہ آج کسی سے روا رکھتا ہے، کل کو اُسے اُسی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاملہ ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی ‘‘ کے مصداق ہو جاتا ہے۔ اس نظم سے ایک اور فکری پہلو بھی سامنے آتا ہے، جسے نسلی خلا یا جنریشن گیپ کہتے ہیں۔ جسے نئی نسل اور پرانی نسل کی ذہنی تفاوت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شگفتہ شفیق کے فکری مخزن میں طرح طرح کے جواہر موجود ہیں، جن سے قاری اکتساب فیض بھی کرتا ہے۔ اُن کے ہاں مقصدیت کے پہلو بھی پائے جاتے ہیں اور تفریحِ طبع کے آثار بھی۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ شگفتہ شفیق کی نظم کا اسلوب اور افکار جاذبیت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مطالعے کے دوران کہیں بھی قاری کی دل چسپی کا دامن میلا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا شوق فزوں سے فزوں تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اُن کی فکر قاری کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے اور قاری اُس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ انہیں فکر و فن کے اسرار و رموز کی مزید جانکاری سے نوازے اور  فکری و فنی بالیدگی ودیعت فرمائے۔

مذکورہ چند استشہادات مشتے از خور وارے کے مصداق ان کے فطری اظہار کی جھلکیاں ہیں، جس سے اس انکشاف کو تقویت ملتی ہے کہ ان کا اسلوب فطری اظہار سے مرصع ہے۔ اگر وہ متقدمین و متوسطین اور متاخرین کی نظم و نثر کا مزید عمیق نظری سے مطالعہ کریں تو ان کے فکر و فن میں پہلے سے فزوں تر بالیدگی کے مظاہر ہویدا ہوسکتے ہیں۔

٭٭٭

 

شگفتہؔ شفیق (کراچی)

یوں رشتہ بھی تجھ سے نبھایا ہے میں نے

ترے غم کو اپنا بنایا ہے میں نے

اُسے بھول جانے کا سوچا جو میں نے

تو مشکل سے دل کو منایا ہے میں نے

میں اُس کو کبھی بھی اُجڑنے نہ دوں گی

چمن اپنے خوں سے سجایا ہے میں نے

ثمر اُس کا مجھ کو بھی مل کے رہے گا

جو الفت کا پودا لگایا ہے میں نے

فنا کر کے خود کو بس اک تیری خاطر

محبت کا جادو جگایا ہے میں نے

٭٭٭

 

شکایت ہے تم سے یہ ہم کو گلہ ہے

کہ الفت کے بدلے میں دھوکا ملا ہے

مزاجوں کی نرمی نہ راس آئی سب کو

ہوا مہرباں جو بھی وہ ہی رُلا ہے

وہ دل کا لگانا بھی کیا دل لگی تھی؟

یہ عقدہ ابھی تک نہ ہم پہ کھلا ہے

بڑی آس سے جب بھی دیکھا ہے تم کو

نیا زخم مرہم کے بدلے لگا ہے

کہاں تک سمندر کی لہروں سے لڑتے؟

کہ ہاتھوں میں میرے تو کچا گھڑا ہے

تیرے ساتھ چلنے کی ضد ہی غلط تھی

نصیبوں سے اپنے کوئی بھی لڑا ہے

اکیلے میں ڈستی ہے ساون کی رم جھم

برا وقت آ کے یہ ہم پہ پڑا ہے

تیری یاد سے دل بھی روشن ہے ایسے

کہ جیسے اندھیرے میں جگنو ملا ہے

شگفتہؔ سا چہرہ مہکتا ہے من میں

کہ جیسے چمن میں کوئی گل کھلا ہے

٭٭٭

 

شبنم اؔعوان معرفت و مجاز کی شاعرہ

عشق کے دو درجے ہیں ایک کو معرفت کا نام دیاجاتا ہے جسے عشقِ حقیقی بھی کہتے ہیں جو عشق خداوندی سے تعلق رکھتا ہے دوسرا درجہ مجاز کا ہے یعنی کسی محبوب یا محبوبہ سے عشق، عشقِ مجازی کہلاتا ہے عشق چاہے حقیقی ہو یا مجازی خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کچھ لوگ مجاز سے حقیقت تک کا سفر کرتے ہیں اور وہ دونوں انتہاؤں سے آشنا ہوتے ہیں معرفت و مجاز کے جذبے ہماری شعری روایت کا مستقل حوالہ ہیں۔ کلاسیکی، نیو کلاسیکی اور جدید شعری ادب کا دامن انہیں احساسات و خیالات سے لبریز ہے ہر شاعر اور شاعرہ کے ہاں یہ جذبے کم یا زیادہ پائے جاتے ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم شبنم اؔعوان کے شعری مجموعہ ’’عشق کیسے ہوتا ہے‘‘ کا تجزیہ معرفت و مجاز کے حوالے سے کریں گے ان کی غزلیات کے منتخب اشعار بطور استشہاد لائیں گے تنقیدی اکائی کے طور پر ہم کتاب کے نصفِ اول کو زیر تجزیہ لائیں گے عشق حقیقی کے حوالے سے انہوں نے حمد، نعت اور منقبت پر طبع آزمائی کی جن میں خدا، رسول اور اپنے پیرو مرشد سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے مگر کہیں کہیں ان کی غزلوں میں معرفت کے حوالے بھی ملتے ہیں عشق مجازی ان کی غزلوں میں معتبر اور مستقل حوالے کے طور پر سامنے آیا ہے اب ہم ان کے منتخب اشعار کو ان کے موضوع کی مناسبت سے زیرِ تجزیہ لائیں گے اور ہماری کوشش رہے گی کہ ان کی فکر کے ساتھ ان کے فن کو بھی زیرِ تجزیہ لائیں۔

ایک سچے اور کھرے سالک کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کے محبوبِ حقیقی کا نام ہمیشہ اس کا ورد زباں رہے محبوب کا ذکر ہی محبت کی دعا ٹھہرے وہ صرف اسی درکار منگتا ہوتا ہے اس کے سامنے صرف وہی خزانہ ہی معتبر ہوتا ہے باقی تمام خزانے بے وقعت اور ہیچ ٹھہرتے ہیں پر خلوص سالک ہمیشہ قربِ حقیقی کا خواستگار رہتا ہے اس کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ وہ سعید ساعتیں آئیں جن میں درِ اقدس پر حاضری نصیب ہو وہ اپنے محبوبِ حقیقی کے عشق میں مجذوب بن جاتا ہے اور دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوتا ہے اور اسے اپنی خبر تک نہیں رہتی یہ سارے وفورِ عشق کے جذبے شبنم اؔعوان کے ہاں اپنی پوری آب و تاب سے پائے جاتے ہیں ان کے افکار اور اسلوب میں بلا کی ایک جاذبیت اور چاشنی موجود ہے جس کی شیرینی سے قاری اکتسابِ فیض بھی کرتا ہے اور اپنے آپ کو عشق کے جذبوں سے سرشار بھی کر لیتا ہے معرفت کے حوالے سے اُن کی حمد کے دو شعر زینتِ قرطاس کرتے ہیں :

تیرا نام وردِ زباں رہے میری اور کوئی دعا نہیں

مجھے اپنے در سے تو بھیک دے کہ تیرے خزانے میں کیا نہیں ؟

وہ گھڑی بھی آئے مرے خدا تیرے در پہ ہو میری حاضری

تیرے در سے دور ہوں جب سے میں مجھے اپنا کچھ بھی پتا نہیں

معرفت کے سفر میں عشقِ رسول بھی ایک تلازمہ ہے جس کے بغیر منزل کا حصول ممکن نہیں ایک سالک کے اندر حبِ رسول بھی موجزن ہونی چاہیے خدا کی محبوب ہستی سے پیار کیے بغیر اسی کا پیار حاصل نہیں ہوسکتا عشق چاہے خدا سے یا نبی سے یا ولی سے جس ذات سے بھی عشق ہو جائے وہ گہری احتیاط اور ادب و احترام کا تقاضا کرتا ہے دیدارِ حقیقی اور ذکر حقیقی کی تاب لانا بھی محالات میں ہے جس میں انسان کا پورا وجود خوفزدہ ہو کر کانپ اُٹھتا ہے ایک  عالمِ سوز و مستی ہوتا ہے ایک سرشاری کی دنیا ہوتی ہے ایک کیف و سرور کا ساماں ہوتا ہے ایک جذب و شوق کی حالت ہوتی ہے انسان پر وجد طاری ہو جاتا ہے یہ تمام افکار و خیالات اُن کے کلام کا حصہ ہیں ا ور اس حوالے سے اُن کی نعت کے تین اشعار دیکھتے ہیں اور اُن کا وفورِ عشق ملاحظہ کرتے ہیں :

مدحت میں کروں کیسے بدن کانپ رہا ہے؟

ہوں لفظ ادا کیسے دہن کا کانپ رہا ہے

اک جذب کا عالم ہے تخیل کے جہاں میں

امیدِ زیارت سے بدن کانپ رہا ہے

وہ ذات کہ جس ذات کے ہیں دربان فرشتے

اس در پہ مرا عرضِ سخن کانپ رہا ہے

ایک عاشق کے لیے محبوب کے دیدار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی وصال کی تمنا اُسے بے چین اور مضطرب رکھتی ہے ایک شاعرہ جو پیکرِ حساس ہوتی ہے اس کے اندر یہ امنگ بھرپور انداز میں پائی جاتی ہے وہ اپنے کارسخن کو محبوب کی مدح و ستائش کے لیے وقف کر دیتی ہے اور اُسے کوئی کارِ ہنر اچھا نہیں لگتا یہی کیفیتِ دل شبنم اؔعوان کے ہاں بھی پائی جاتی ہے اُن کے سخن میں بلا کی روانی ہے سوز و گداز کا عالم ہے عشق و مستی کی فضا ہے اس حوالے سے اُن کی نعت کے دو شعر دیکھتے ہیں    ؎

مدینے کا سفر لکھ دے خدا تقدیر میں میری

کہ اب اس کے سوا کوئی سفر اچھا نہیں لگتا

قلم اُٹھتا ہے اپنا تو سوائے نعت لکھنے کے

ہمیں تو اب کوئی کارِ ہنر اچھا نہیں لگتا

ایک سالک کے لیے شیخ یا پیرو مرشد مینارِ نور ہوتا ہے جس سے رشد و ہدایت کی کرنیں ضوپاش ہوتی ہیں اور وہ اُن سے اکتسابِ فیض کرتا ہے اور وہی اُس کے لیے راہنمائی کا سرچشمہ ہوتا ہے مرید کا دل مرشد کی یادوں سے منور و معطر رہتا ہے اُس کی یادوں سے ہی عشق کی راہیں متعین ہوتی ہیں شبنم اؔعوان بھی انھیں جذبات سے سرشار ہیں اُن کی منقبت کے ایک شعر میں اُن کی یادوں کا خلوص دامنِ دل تھام رہا ہے   ؎

میں اُس کی یاد کے جگنو سنبھالے بیٹھی ہوں

جو راہ مجھ کو دکھاتے ہیں روشنی کی طرح

شبنم اؔعوان کے کلام میں معرفت و مجاز دونوں حوالوں سے جذبات و احساسات پائے جاتے ہیں لیکن مجازی عوامل زیادہ بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں جو قاری کے دل کی تاروں کو چھیڑ دیتے ہیں جہاں اُن کے کلام میں سادگی کا حسن ہے وہاں اُن کی اسلوب کی جاذبیت بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے اُن کا شعر پڑھنے کے بعد قاری یہ سمجھتا ہے کہ میرے دل کی بات کی گئی ہے گویا اُن کا کلام بے پناہ مقبولیت کی صلاحیت رکھتا ہے۔

عشق چاہے مجازی ہو یا حقیقی راز داری اس کا مرکزی تلازمہ ہے اگر راز داری نہ رہے تو عشق چہ معنی دارد۔ پھر رسوائی مقدر بن جاتی ہے عالم ہجراں میں ضبط اور صبر کا پاس رہنا ہر کسی کا مقدر نہیں ہوا کرتا جو دولتِ ضبط سے عاری ہوتے ہیں وہ اپنی منزل سے بہت دور چلے جاتے ہیں وہ اپنی محبت کو رُسوا کر جاتے ہیں انھیں خیالات کی ترجمانی موصوفہ کی زبانی سنتے ہیں   ؎

چپ چاپ پی لیا ہے جدائی کے زہر کو

ہم نے وفا کے نام کو رسوا نہیں کیا

اسی حوالے کا حامل راقم الحروف کی غزل کا ایک شعر دیکھیے:

ہم نہیں اسرار کرتے قربتِ محبوب پر

وہ ہمیں آتا میسر تو اسے سب دیکھتے

معرفت کے مقابلے میں مجازی حوالہ اُن کے ہاں زیادہ راسخ ہے اُن کے کلام کے مطالعے کے دوران قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے قاری اُن کے کلام کے سحر میں کھو جاتا ہے اُن کے ہاں غم کے نقوش منفرد اور نمایاں ہیں اُن کی غزل کے تین اشعار بدونِ تبصرہ نذر قارئین ہیں   ؎

تو نہیں تھا ساتھ میرے غم ترا

با وفا تھا زندگی بھر رہ گیا

میں بھلا خود میں کہاں رہ پاؤں گا؟

تو ہی تو گر میرے اندر رہ گیا

میں تھا اک دریا جو صحرا ہو گیا

وہ سمندر تھا سمندر رہ گیا

اُن کے ہاں معرفت و مجاز دونوں حوالوں سے ایک جانکاری ملتی ہے اور قاری کو عشق و الفت کے حوالے سے ادراکات میسر آتے ہیں جا بجا قاری کو نئی راہنمائی ملتی ہے اس حوالے سے وہ عشق کی پرچارک ہیں اور بڑے بھرپور طریقے سے پرچار کر رہی ہیں کہیں طربیہ حوالے ہیں تو کہیں فضائے حزن و ملال ہے گویا اُن کی شاعری عشق کے موسموں کی شاعری ہے عشق کے رنگوں کی شاعری ہے جن میں وارداتِ دل اور کیفیاتِ دل اپنی پوری آن بان سے موجود ہیں جب وہ محبت کی کٹھنائیوں کا ذکر کرتی ہیں تو اُن کا لہجہ پرسوز ہو جاتا ہے ایک دلگداز کیفیت بن جاتی ہے اس حوالے سے اُن کا یہ شعر دیدنی ہے   ؎

متاعِ جاں کو سمیٹ کر تو چلا ہے جن وادیوں کی جانب

مسافتوں میں جو وحشتیں ہیں کرے گا کیسے قبول ان کو؟

عشق و الفت کا جذبہ اُن کے ہاں اچھوتے انداز میں پایا جاتا ہے جس سے اُن کی جودتِ طبع کی غمازی ہوتی ہے عشق کی کوئی کیفیت ہو اُن کے ہاں ایک نیا رنگ لیے ہوتی ہے عام طور پر ہجر کا جذبہ حزن و ملال کے تاثر کا حامل ہوتا ہے لیکن اُن کی قوتِ متخیّلہ کی بدولت ایک کیفیتِ طرب سامنے آتی ہے جس سے ایک رجائی حوالہ بنتا ہے اسی نوع کا یہ شعر اُن کی فکری و فنی نادرہ کاری کا مظہر ہے   ؎

ہجر کی رُت میں جو آتی ہے تجھے چھو کے ہوا

دل کے طیور یہاں سانس لیا کرتے ہیں

ہر مخلص تخلیق کار کی طرح وہ محبتوں کو عام کرنا چاہتی ہیں اور جہاں سے نفرتوں کا ملیامیٹ کرنا اُن کا اوّلین مقصد ہے جس سے محبتوں کو فروغ ملتا ہے اور نفرتیں فرو ہو جاتی ہیں شعرِ ہٰذا بھی اسی حوالے کا مثیل ہے   ؎

دیتا ہوں میں جہاں کو محبت کی روشنی

نفرت کی آندھیوں میں بجھتا نہیں ہوں میں

عام طور پر عشق کو روگ سے منسوب کیا جاتا ہے اور اسے وبالِ جاں سمجھا جاتا ہے اسے مصائب و آلام کی آماجگاہ کہا جاتا ہے لیکن سچے عشاق اسے عطائے رب کریم سمجھتے ہیں اور اسی جذبے کی بُرائی نہیں کرتے بلکہ قدر کرتے ہیں شبنم اؔعوان کا کلام بھی انھیں اوصاف سے متصف ہے چنانچہ وہ کہتی ہیں   ؎

عاشقی ہے عطائے رب کریم

عشق کا روگ کچھ بُرا تو نہیں

عشق جب جنوں کی کیفیت کو پہنچتا ہے اپنے آپ کو معتبر کر لیتا ہے جنوں کے عالم میں محب کو چار سو محبوب دکھائی دیتا ہے تمام کائنات محبوب کا پرتو بن جاتی ہے آنکھ بند ہو یا کھلی ہو محبوب کا دیدار ہوتا رہتا ہے اسی کیفیت کو انھوں نے کچھ یوں بیان کیا ہے    ؎

جنوں نہیں ہے تو یہ اور کیا بتا مجھ کو؟

کہ آنکھ بند ہو پھر بھی دکھائی دیتا ہے

اسی موضوع کو ابوالبَیّان ظہور احمد فاتحؔ نے انتہائی خوبصورت انداز میں نبھایا   ؎

 آنکھ بند ہو جائے پھر بھی روبرو رہتے ہو تم

جاگتا ہے غم تمھارا پہرے داروں کی طرح

مندرجہ بالا تصریحات اس امر کے کافی و شافی شواہد ہیں کہ شبنم اعوان کا کلام معرفت و مجاز ہر حوالے سے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اُن کی فکر وفورِ عشق سے مالامال ہے جو اُن کے لیے فن کی راہیں ہموار کرتی ہے اُن کے کلام میں ایک آمد کا احساس ہوتا ہے آورد، بناوٹ اور تصنع سے اُن کا کلام مُبرّا و ماورا ہے اُن کے تخیل میں خلوص کی حدت و شدت موجود ہے اگر اسی وفورِ شوق سے اُن کا شعری سفر جاری رہا تو اُن کے فکر و فن میں نئے امکانات روشن ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

شبنم اؔعوان (رحیم یار خان)

جب ہمیں نیند سے جگاتے ہیں

خواب کتنے ہی ٹوٹ جاتے ہیں ؟

روٹھ جاتے ہیں جھوٹ موٹ سے ہم

دیکھیے، کب ہمیں مناتے ہیں ؟

دکھ مصیبت سمجھنے والے سن!

دکھ ترا حوصلہ بڑھاتے ہیں

راہزنوں کو حقیر مت سمجھو

رہبر تو یہی بناتے ہیں

دل کی بنجر زمین پہ شبنمؔ

لوگ کیوں خواہشیں اگاتے ہیں ؟

٭٭٭

 

اک تیرے غم کا ہی سہارا ہے

ورنہ دنیا میں کیا ہمارا ہے؟

بے وفا اس کو کہہ رہے ہو یار!

جس نے پل پل تمہیں پکارا ہے

تم ہمارے ہو تو سمجھ جاؤ

تیرا جو غم ہے وہ ہمارا ہے

شام کو زندگی نہ سمجھو تم

یہ تو مرنے کا استعارہ ہے

زندگی تیرے نام پہ لکھ کر

سر پہ اک بوجھ تھا اتارا ہے

٭٭٭

 

شمعؔ سید بدلتی اقدار کی شاعرہ

عصرِ حاضر میں زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں فنِ شعر کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا کیونکہ مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں زمانہ نہیں بدلتا فقط اقدار بدلتی ہیں اس کا سبب عمرانی تغیرات ہوتے ہیں سماجی احتیاجات اور ذاتی حالات کے باعث انسان اقدار کو خود بدلتا رہتا ہے بقول راقم الحروف   ؎

زمانہ کب بدلتا ہے؟

فقط قدریں بدلتی ہیں

یہ قدریں کیوں بدلتی ہیں ؟

انہیں ہم خود بدلتے ہیں

عصری رجحانات کے باعث معدودے چند شاعرات کے ہاں تخیلاتی تغیرّ رونما ہوا ہے شاعرات کی اس قبیل میں شمعؔ سید بھی شامل ہیں آج ہم ان کے اولین شعری مجموعہ ’’خواب سارے سنبھال رکھنا‘‘ مطبوعہ 2010ء کے منتخب غزلیہ اشعار بطور استشہادات شاملِ شذرہ کرتے ہیں۔

شمعؔ سید کے ہاں بے پناہ فکری تغیراتی شواہد ہیں اس لیے ان کے ہاں ایک موضوعاتی تنوع ملتا ہے جن میں عصری ترجیحات کا عکسِ جمیل مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جس میں زندگی کے مختلف شعبہ جات کے حوالے سے تبدیلیاں ہیں ان کی غزل کے تین اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

یہ بستی خدا کی بستی ہے دستور پرانا ہے اس کا

جب وقت بدلتا ہے تو پھر انسان بدل ہی جاتے ہیں

اک ذات ہے اپنی اس کے سوا کوئی اور بھروسہ کیا کرنا؟

جس جس کا یقیں ہوتا ہے وہاں امکان بدل ہی جاتے ہیں

کیا پیار محبت کی باتیں اخلاص پہ کچھ موقوف نہیں ؟

یہ دنیا ہے یہاں قبلہ اور ایمان بدل ہی جاتے ہیں

اُن کے کلام میں بے پناہ تغیر رونما ہوا ہے جس کی وجہ سے سماجی روئیوں کے حوالے سے بھی ان کے ہاں تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کے ہاں پر آشوب عصری کیفیات بھی ہیں ان کی ایک اور غزل نذرِ قارئین ہے   ؎

جو غم کا لمحہ تھا ٹل گیا ہے

جنوں مشیت میں ڈھل گیا ہے

وہ جس کی رم جھم میں بھیگتے تھے

وہ سارا ساون بدل گیا ہے

جو میری پاتال میں پڑا تھا

وہ آنکھ سے بھی نکل گیا ہے

کٹھن رواجوں کی دھوپ اُتری

ہمارا رشتہ بھی جل گیا ہے

جو دل کی دہلیز پر پڑا تھا

وہ پہلا پتھر پگھل گیا ہے

مری زمیں کی طلب ہے قائم

تمہارا ساون بدل گیا ہے

امتدادِ زمانہ کے باعث احساسات میں بھی انقلابی تغیرّ رونما ہوا ہے جس کے باعث جنوں نے اپنی بساط لپیٹ لی اور خرد کا طوطی بولنے لگا بقول راقم الحروف   ؎

جنوں نے ہم کو کیا تھا رسوا

خرد نے لیکن وقار بخشا

اسی نوع کے خیالات شمعؔ سید کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں   ؎

دل کی دھرتی ہے کہکشاں تک

کتنے دھوکے سراب جیسے ہیں

طفلِ ناداں ہے دل ہمارا بھی

تیرے وعدے حباب جیسے ہیں

اخلاقی اقدار کی پامالی نے مطلب پرستی اور نفسا نفسی کو جنم دیا ہے جس کے باعث خلوص و الفت کو فروغ میسر نہ آسکا تو پھر انہی کیفیات نے داخلی کہرام بپا کر دیا ان کی غزل کا ایک شعر قابل توجہ ہے   ؎

مرے لبوں پہ ہیں چپ کی صورت وفا کے نغمے

تڑپ رہے ہیں سوال سارے جواب سارے

اُن کے ہاں پر آشوب کیفیات کی غمازی بھی بھرپور انداز میں ملتی ہے جس سے عکسِ دوراں کی خوبصورتی مشاہدہ کی جا سکتی ہے سماج کے مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی سے اُن کے معصوم جذبوں کی عکاسی ہے جس سے اُن کی انسانیت سے اُنسیت کا اظہار ہوتا ہے   ؎

کتنے معصوم ہیں دکھ درد اُٹھانے والے؟

یہ سمجھتے ہیں کہ مخلص ہیں زمانے والے

اب مرے قتل پہ چپ چاپ کھڑے ہیں وہ بھی

جن کا دعویٰ تھا وہ ہیں جان لٹانے والے

ضبط پہ میرے وہ حیران کھڑے ہیں دیکھو

شہر کے لوگ مجھے زندہ جلانے والے

اُن کے ہاں ذاتی اور اجتماعی ہر طرح کے حوالے ملتے ہیں یعنی اُن کا سوچنے کا انداز بیک وقت انفرادی اور اجتماعی نوعیت کا ہے وہ زندگی کو ہر زاویے سے دیکھنے کی قائل ہیں وہ کائنات کے سربستہ رازوں کو بنظرِ غائر دیکھتی ہیں۔

شمعؔ سید کے کلام کے بغور مطالعہ سے انکشاف ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں بدلتی ہوئی اقدار کے نوحے بھی ہیں اور عصری تبدیلیوں کا بھرپور مذکور بھی ہے اُن کے کلام میں فکری تغیر انتہائی خوش آئند ہے مزید شعری ریاضت اُن کے کلام میں فزوں تر فکری بلوغت کے اثار پیدا کرے گی جس سے اُن کا فن جِلا پائے گا۔

٭٭٭

شمعؔ سید ( لاہور)

برتر تھا مگر حسن کا پیکر تو نہیں تھا

وہ شخص مری سوچ کا محور تو نہیں تھا

یہ اس کا سلیقہ ہے رکھا پہنچ میں اپنی

جو میرا ٹھکانہ تھا مرا گھر تو نہیں تھا

جو ساحلِ امید پہ اُترا کبھی قطرہ

نایاب تھا لیکن کوئی گوہر تو نہیں تھا

میں اپنی ہتھیلی پر لیے سر کو کھڑی ہوں

ہاتھوں میں کسی شخص کے خنجر تو نہیں تھا

واقف تھا بہر حال مرے حال سے شمعؔ

چپ چاپ تھا خاموش تھا پتھر تو نہیں تھا

٭٭٭

 

کچھ ایسے بھی دکھ درد پلنے لگے ہیں

کہ بارش میں بھی خواب جلنے لگے ہیں

نئے ڈھنگ سے نئے کھیل سوچو

کہ بے چین دل پھر بہلنے لگے ہیں

یہ کیسی سزا تم نے تجویز کر دی؟

جسے سن کے ہی دم نکلنے لگے ہیں

مری برف باتوں کی تاثیر تھی یہ

شجر اور ہوا دونوں جلنے لگے ہیں

مقدر میں تھیں ٹھوکریں اس قدر

ہر چوٹ پر خود سنبھلنے لگے ہیں

وہ جس رہ گزر پر لٹے قافلے سب

اسی راہ پر ہم بھی چلنے لگے ہیں

وفا کا دیا اک جلایا جو میں نے

تو نفرت زدہ دل پگھلنے لگے ہیں

٭٭٭

 

شفقؔ علی چوہدری عمومی احساسِ محبت کی شاعرہ

محبت ایک پوتر جذبہ ہے عمومیت کے پیرائے میں اس کا اظہار سادگی و شستگی کی علامت ہے جس سے ابلاغ کو تقویت ملتی ہے اس قسم کا کلام فطری نوعیت کا حامل ہوتا ہے جو دلوں میں گھر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہی صورت حال ہمیں شفقؔ علی چوہدری کے شعری مجموعہ ’’شفق رنگ‘‘ میں نظر آئی جس کی اولین اشاعت 19 جولائی 2010ء میں عمل میں آئی یہ اصل میں اُن کے شعری سفر کا نقطۂ آغاز ہے جو لائقِ صد تحسین و صد ستائش ہے آج ہم اُن کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ مذکورہ موضوع کی مناسبت سے کریں گے۔

شفقؔ علی چوہدری نے عمومی انداز میں رومانی جذبوں کی پاسداری کی ہے مطالعے کے دوران قاری کو کسی قسم کی لسانی و فکری دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اُن کے ہاں جذباتِ دل، وارداتِ دل اور کیفیاتِ دل کی غمازی ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ پڑھنے والے کو اُن کی شاعری اپنی پریم کتھا معلوم ہوتی ہے یہی امر ہی اُن کی کامیابی اور پذیرائی کا راز ہے اُن کے خیالات کا عکس ذیل میں ان کی ایک غزل میں ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

دل کی اک کہانی ہے بارشوں کے موسم میں

تم کو جو سُنائی ہے بارشوں کے موسم میں

 آنکھ کے کنارے پر اشک کیوں نہیں رکتے؟

غضب کی اک روانی ہے بارشوں کے موسم میں

پھر رہا ہے گلیوں میں جوگی بھیس میں کوئی

عشق کی کہانی ہے بارشوں کے موسم میں

ایمان سے کہوں تجھ کو نیند اب نہیں آتی

رات بھی سہانی ہے بارشوں کے موسم میں

جھیل کا کنارہ ہے عکس بھی تمہارا ہے

یاد کی روانی ہے بارشوں کے موسم میں

جھونپڑی میں آ بیٹھا دل زوال کے ہمراہ

سخت سی گرانی ہے بارشوں کے موسم میں

اس کی یاد کا روگی سوز بھی تکلّم بھی

 آنکھ میں جو پانی ہے بارشوں کے موسم میں

یوں شفقؔ سرکتی ہے ریت زندگانی کی

جیسے ڈوب جانی ہے بارشوں کے موسم میں

اُن کے ہاں جہاں حُزینہ تاثرات پائے جاتے ہیں وہاں رجائی حوالے بھی ملتے ہیں جو اُن کے ہمت و حوصلے کی دلیل ہیں وہ سیلِ غم میں بھی امیدوں کے چراغوں کو گل نہیں ہونے دیتیں۔ عشقیہ احساسات اُن کے تخیل کو چار چاند لگا دیتے ہیں اس نسبت سے اُن کی غزل کے دو اشعار قابل ذکر ہیں  ؎

اک اُجالے کو دیکھنے کے لیے

یہ اندھیرا سا پال رکھا ہے

عشق نے بلند کر دیا اُسے

یہ شفقؔ میں کمال رکھا ہے

وہ راہِ محبت میں حصولِ منزل کے لیے کشتیاں جلانے سے بھی گریز نہیں کرتیں ان کے نزدیک ہر قسم کی قربانی ہیچ ہے ان کے اندر ایک جسارت ہے جو محبت میں رازداری نہیں بلکہ تشہیر کی متقاضی ہے یہ برملا اظہار ان کی پذیرائی کو فزوں تر کر دیتا ہے اس حوالے سے ان کی غزل کے دو اشعار پیشِ خدمت ہے   ؎

سنو یہ زندگی ہم نے تمہارے نام کر دی ہے

دئیے سارے بجھا ڈالے ہیں ہم نے شام کر دی ہے

کیا کرتے تھے پردہ پوشی تم رازِ محبت کی

خبر پھیلائی ہم نے اور جگ میں عام کر دی ہے

اُن کی شاعری عام نوعیت کے قاری کی امنگوں کی ترجمان ہے وہ موسمِ بہار کو محبوب کے وصال سے عبارت کرتی ہیں جس میں ایک رجائیت کا پہلو کارگر نظر آتا ہے جو سوگوار اور بسورتے چہروں کو خوشگوار کرنے پر قادر نظر آتا ہے ان کی غزل کا مطلع نذرِ قارئین ہے   ؎

رُت بدلی ہے اب پھولوں کو کھلنا ہے

اس موسم میں شاید اُس کو ملنا ہے

ان کا کلام خود میں دل زدوں کے لیے ایک اعجازِ مسیحائی رکھتا ہے جس میں خالص اور فطری جذبے جلوہ افروز ہورہے ہیں انہوں نے اپنے سخن کو مشکل الفاظ ادق و دقیق ترکیبات اور غیر مانوس تشبیہات و استعارات کا گورکھ دھندہ نہیں بننے دیا وہ اپنے قاری کو فکری الجھاؤ سے دوچار نہیں کرتیں جس کے باعث وہ قاری کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیابی ہو جاتی ہیں ان کی ایک غزل بدونِ تبصرہ شامل کرتے ہیں   ؎

تم کیا جانو درد ہے کیا اور درد کا سہنا کیسا ہے؟

تم کیا جانو موسمِ ہجر میں جینا مرنا کیسا ہے؟

تم کیا جانو تیری یادیں دل کو کیسے کاٹتی ہیں ؟

تم کیا جانو داغِ محبت دل کو لگنا کیسا ہے؟

تم کیا جانو گہرے دل میں کیسے طوفاں پلتے ہیں ؟

تم کیا جانو قطرہ قطرہ دریا بننا کیسا ہے؟

تم کیا جانو خوش چہروں میں ہر پل تم خوش رہتے ہو؟

تم کیا جانو تنہائی کے زہر میں گھلنا کیسا ہے؟

تم کیا جانو عشق سفر میں منزل کیسے ملتی ہے؟

تم کیا جانو خاک بدن کا خاک میں ملنا کیسا ہے؟

تم کیا جانو دل کا شیشہ ٹوٹ کے کیسے بکھرا ہے؟

تم کیا جانو ذرہ ذرہ عکس میں رہنا کیسا ہے؟

تم کیا جانو شفقؔ محبت کیا کیا رنگ دکھاتی ہے؟

تم کیا جانو پیار کی آگ میں دل کا جلنا کیسا ہے؟

ابھی ان کے تخلیقی سفر کا آغاز ہے ابھی انہوں نے فکر و فن کے ہفت آسمان سر کرنے ہیں ابھی اُنہیں عروس سخن کی فزوں تر مشاطگی مطلوب ہے بہرحال اُن کے نقش اول سے ان کے بہتر شعری مستقبل کی نوید دی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 شفقؔ علی چوہدری (فیصل آباد)

ختم یہ وصل کی حسرت بھی تو ہو سکتی ہے

ہجر کے ہاتھ پہ بیعت بھی تو ہو سکتی ہے

بے وفائی کی ضرورت بھی تو ہو سکتی ہے

اس کو اک اور محبت بھی تو ہو سکتی ہے

خواب جلدی میں جسے نیند سمجھ بیٹھا ہے

مست آنکھوں کی شرارت بھی تو ہو سکتی ہے

زندگی کچھ بھی نہیں کارِ مشقت کے سوا

موت اس کام کی اُجرت بھی تو ہو سکتی ہے

میرے ماتھے پہ کہیں حرف وفا کندہ ہے

ورنہ تم سے مجھے نفرت بھی تو ہو سکتی ہے

اے محبت تو بھرم رکھ لے شفقؔ کا ورنہ

یہ تیرے ملک سے رخصت بھی تو ہو سکتی ہے

٭٭٭

 

قوس میں یوں قزح ضروری ہے

زندگی میں وفا ضروری ہے

پھول تھا وہ کہ یا ترا چہرہ

فرق دونوں میں کیا ضروری ہے؟

اس مرض کی وجہ ہے یہ دوری

دید کی اب دوا ضروری ہے

عمر کٹ جائے تم سے دوری میں

کیا یہ مجھ کو سزا ضروری ہے؟

بادِ باراں و چشمِ نم جاناں

کس نے لکھا سدا ضروری ہے؟

تم نے رکھا ہے کیوں یہ پیمانہ؟

بس شفقؔ کو جفا ضروری ہے

٭٭٭

 

ڈاکٹر صغرا صدفؔ کا تخلیقی وجدان

تخلیق تخلیہ اور تخیل سے عبارت ہے اور تخیل کو خیال سے نسبت ہے فنِ شاعری میں جس شاعر یا شاعرہ کے ہاں افکار میں جس قدر و فور اور تنوع پایا جاتا ہے اس کا تخلیقی وجدان بھی اس قدر بسیط و عمیق ہوتا ہے اکثر و بیشتر شاعرات کے احساسات چند مخصوص قسم کے موضوعات کے گرد گھومتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے ہاں فکری وسعت کا اہتمام نہیں ہو پاتا کسی کے آدرش کی وسعت کا اندازہ اُس کے موضوعات سے لگایا جاتا ہے شذرہ ہٰذا میں ڈاکٹر صغرا صدف کے شعری مجموعہ ’’وعدہ‘‘ کے ربع اول کے منتخب غزلیہ اشعار میں سے اُن کے تخلیقی وجدان کی صراحت کرتے ہیں ڈاکٹر صغرا صدف کا تعلق لاہور سے ہے ’’وجدان‘‘ نامی ادبی جریدے کی ادارت بھی کرتی رہی ہیں اس کے علاوہ شام و سحر، ارژنگ اور دیگر متعدد ادبی جرائد میں بھی ان کا کلام تواتر سے چھپتا رہتا ہے بین الاقوامی طور پر مشاعروں میں بھی شرکت کرتی ہیں۔

اُن کے ہاں رومانوی افکار بھی کثرت سے ملتے ہیں اُن کا طرزِ اظہار جداگانہ ہے اُن کے کلام میں وہ تاثیر ہے کہ قاری کے دل پر براہ راست اثر کرتا ہے اُن کی غزل کے چار اشعار دامنِ دل تھام رہے ہیں   ؎

اس دشتِ آرزو میں بکھرنے تو دے مجھے

اعلان وحشتوں کا وہ کرنے تو دے مجھے

یہ میرا مسئلہ ہے کہ کیسے کروں قیام؟

پہلے وہ اپنے دل میں اُترنے تو دے مجھے

دیکھے تو ایک بار مجھے وہ بھی پیار سے

تکمیل اپنی ذات کی کرنے تو دے مجھے

قطرے سے میں بنوں گی سمندر مگر صدفؔ

یہ شرط ہے وہ جاں سے گزرنے تو دے مجھے

وہ عمومی احساسات کو مخصوص شعری پیرہن عطا کرتی ہیں عمومیت اُن کے کلام کا طرۂ امتیاز ہے اُن کے شعور کی کئی پرتیں ہیں کئی پہلو ہیں جو تہہ در تہہ کھلتے چلے جاتے ہیں رومان اُن کے کلام کا مستقل حوالہ ہے رومان نگاری کی ذیل میں ان کی غزل کے دو اشعار دیکھتے ہیں   ؎

نقصان تیرے دھیان میں اکثر ہوا مرا

ہاتھوں سے گر کے ٹوٹ گیا آئینہ مرا

وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں خوش ہوں اس کے ساتھ

واقف نہیں ہے درد سے درد آشنا مرا

اُن کے ہاں روحِ عصر کی بھرپور ترجمانی ملتی ہے کہیں کہیں اُن کا تخیل قبائے کرب و سوز اوڑھ لیتا ہے کہیں حزن و ملال عروج پر پہنچا ہوا ملتا ہے پر آشوب کیفیات کا بیان بھی دامنِ دل تھام لیتا ہے اُن کی غزل کے پانچ حزنیہ اشعار جو عصرِ حاضر کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں زیبِ قرطاس ہیں   ؎

مقتل بنا ہوا ہے مرا شہر ان دنوں

اب راہ سوجھتی نہیں کوئی نجات کی

سانسیں ہیں زخم زخم موسم ہیں بے ردا

دہرا رہا ہے وقت کہانی فرات کی

پہلے قدم قدم پہ بہاروں کا راج تھا

اب خون میں نہاتی ہے وادی سوات کی

صحنِ وطن میں ایسا اندھیرا بکھر گیا

دن کا شعور مجھ کو نہ پہچان رات کی

بے خواب موسموں میں لٹا قافلہ مرا

اپنے ہی لکھ رہے تھے کہانی یہ مات کی

خیالات کا مجسم ہونا کسی اعجازِ مسیحائی سے کم نہیں اور تخیل کی نادرہ کاری اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے شعر کی ایک بہت بڑی خوبی اس کی پہلو داری بھی ہوا کرتی ہے کہ وہ معرفت و مجاز کے سانچے میں ڈھل جائے اسی حوالے سے اُن کی غزل کا ایک شعر لائقِ توجہ ہے   ؎

اس نے مرے خیال کو تجسیم کر دیا

وہ جو دکھائی دیتا ہے مجھ کو چہار سو

ہر دور میں عشق و جہِ بے کاری سمجھا جاتا رہا ہے جیسے مرزا اسداللہ غالب نے کہا تھا   ؎

عشق نے غالب نکمّا کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

اُن کے ہاں عشق کی تباہ کاریوں کا بیان بھی ہے اور آرزوؤں کا کرب بھی ہے حسرتوں کا ماتم بھی ہے ان کے علاوہ ان کے ہاں رجائی حوالے بھی ملتے ہیں حالات جیسے بھی ہوں امید کی کرن زندگی کرنے کا ولولہ بخشتی ہے اسی نسبت سے ان کی غزل کے تین اشعار دیدنی ہیں   ؎

جینے نہیں دیا مجھے مرنے نہیں دیا

کوئی بھی کام عشق نے کرنے نہیں دیا

میری ہتھیلیوں پر بھی سورج تھے بے شمار

لیکن انہیں کسی نے ابھرنے نہیں دیا

میرے لیے تو زندگی جنگل کی رات ہے

پر اس کی یاد نے تو ڈرنے نہیں دیا

متعدد شعری مجموعوں کی خالق اور بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کرنے والی یہ شاعرہ بے پناہ شعری اوصاف کی حامل ہے بین السطور کافی دلچسپ کیفیات کے اشعار درِ دل پر دستک دینے لگتے ہیں قاری پر ان کے تخلیقی رجحانات گہرے اثرات چھوڑتے ہیں ایسے سخنور بساطِ فکر و فن میں لائق اکرام ہوا کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

ڈاکٹر صغرا صدفؔ (لاہور)

تھی نظر کو جمال کی خواہش

دل میں جاگی وصال کی خواہش

پھر اسی گنبدِ اماں کی طرف

کھینچ لائی کمال کی خواہش

اُس رُخِ آرزو پہ چمکی ہے

 آج پھر سے جمال کی خواہش

سامنے تھا سخی کا دروازہ

کون کرتا سوال کی خواہش؟

سانس تسبیح میں تھی اور مجھے

لمحہ لمحہ زوال کی خواہش

اس نظر کا ہنر، عطا کر دے

ہے یہی ماہ و سال کی خواہش

پھر صدفؔ جھومنے لگی مجھ میں

دم بہ دم اک دھمال کی خواہش

٭٭٭

 

جو بن گیا وہ تعلق بحال رکھنا ہے

تری نشانی کو دل میں سنبھال رکھنا ہے

سجا کے رکھنی ہے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بھی

نظر کی اوٹ میں تیرا ملال رکھنا ہے

میں سوکھنے نہیں دوں گی شجر محبت کا

سو دھیان اس کا مجھے ڈال ڈال رکھنا ہے

جدا نہ ہوں گے نگاہوں سے خدوخال اس کے

کہ دل کشی کو جدائی میں ڈھال رکھنا ہے

جو اس کے ہاتھوں سے اوڑھا تھا میں نے وصل کی شب

تمام عمر وہ آنچل سنبھال رکھنا ہے

یقین کرنا ہے بے لوث اس کی چاہت کا

کہ دل سے وہم و گماں کو نکال رکھنا ہے

میں اس کی چاہ میں سرشار ہو گئی ہوں صدفؔ

مجھے تو ماضی کی چوکھٹ پہ حال رکھنا ہے

٭٭٭

 

صدفؔ غوری کا کلام اور ادراکِ زیست

ادب کا موضوع حیات و کائنات ہے اور انسان جس کا کلیدی حوالہ ہے جو شعراء و شاعرات اپنے کلام میں ان موضوعات کا اہتمام کرتے ہیں اُن کے افکار زیادہ وقیع اور بسیط ہوتے ہیں لہٰذا ان موضوعات کی اہمیت مسلمہ ہے زندگی کے حوالے کے حامل احساسات عرفان و آگہی کا سرچشمہ ہوتے ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم صدفؔ غوری کا کلام زیر تجزیہ لائیں گے اُن کی شاعری بھی شعورِ حیات سے مرصع سے اُن کے شعری مجموعہ ’’یہاں جب شام ڈھلتی ہے‘‘ مطبوعہ 2012ء کے منتخب غزلیہ اشعار زیر تجزیہ لاتے ہیں قبل ازیں نومبر 2009ء میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’منظر چنتی آنکھیں ‘‘ منصہ شہود پر آیا ان کا تعلق وادیِ کوئٹہ سے ہے اس لیے فطری طور پر اُن کا سخن لطیف اور خوشگوار احساسات سے مزین ہے جا بجا زندگی کے مختلف حوالے ملتے ہیں۔

جب زندگی مصائب و آلام سے عبارت ہو تو پھر صبر و تحمل کی متقاضی ہوتی ہے دولتِ ضبط کی بازیافت کے بعد مسائل سہل ہو جاتے ہیں اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کی حزن و الم سے مصالحت ہو جاتی ہے اور پھر غم ناگوار نہیں رہتا اسی آگہی کا حامل اُن کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ کریں   ؎

جو پی چکے ہیں اُن کے مصائب ہوئے تمام

قیدِ حیات صبر کا اک جام ہی تو ہے

ان کے ذاتی ادراکات میں احساسِ ذات کا پہلو بھی ہے اور اپنی اہمیت کا احساس بھی پایا جاتا ہے جس سے شاعرانہ تعلّیات کا ورود بھی ہوتا ہے جو اُن کے ذاتی ادراکِ فن کا مظہر ہے وہ اپنے فنی خصائص سے بخوبی آگاہ ہیں اُن کے ہاں اللہ کی ذات پر بھروسہ بھی ملتا ہے اسی نسبت سے اُن کی غزل کے تین اشعار لائقِ التفات ہیں   ؎

گھر کی عزت بھی ہوں میں آنچل کی حرمت بھی ہوں مَیں

شاعری اپنی جگہ ہے ایک عورت بھی ہوں مَیں

کچھ ادھورے لفظ میرے منتظر ہیں دیر سے

زیست کے لمحات میں ان کی ضرورت بھی ہوں مَیں

فیصلہ وہ ہو گا جو اللہ کو منظور ہو

مدعی بھی خود ہوں اور اپنی عدالت بھی ہوں مَیں

اُن کے ہاں خوشگوار احساسات کی قوسِ قزح ہے جس کے رنگوں میں پھولوں اور کلیوں کا حسن بھی ہے حسین آبشاریں بھی ہیں۔ ندی کی گنگناہٹ میں موسیقیت بھی ہے اور اس کے دھارے رقصاں نظر آتے ہیں جس میں محبوب کی یادیں بھی ہیں محبوب کی خلافِ توقع آمد مناظر کو اور بھی حسیں اور دلکش بنا رہی ہے سریلے بول اور نغمے جھومتے دکھائی دیتے ہیں اور ایک جذب و شوق کا عالم ہے ایک سوز و مستی ہے کیف و سرور ہے دیدِ جاناں سے کئی ارمان دل میں پنتے ہیں جو عالمِ جنوں میں رقص کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اُن کے ہاں رومانی افکار پورے کروفر سے ملتے ہیں اس حوالے سے اُن کی غزل قارئینِ شعر کی نذر ہے جس میں زیست کی تمام تر خوشگواریاں ہیں اور ایک جشنِ طرب کا سماں دکھائی دیتا ہے وسیع تر طربیہ اور رجائی حوالے ہیں   ؎

وہ رنگوں میں سجی وادی تو چٹخیں پھر حسیں کلیاں

ندی بھی گنگنا اُٹھی سو دھارے رقص کرتے ہیں

حسیں دلکش مناظر میں اچانک تیرا آ جانا

سریلے بول اور نغمے ہمارے رقص کرتے ہیں

تمہاری پیاری آنکھوں میں میں دیکھوں خود کو جب ہمدم

دل و جاں میں کئی ارماں ہمارے رقص کرتے ہیں

تمہاری یاد تڑپائے تو سارے اشک مل جل کر

مری آنکھوں کے ساحل پر بچارے رقص کرتے ہیں

چلو ہم بانٹ لیتے ہیں محبت کی یہ جاگیریں

اسی میں عشق کے سب استعارے رقص کرتے ہیں

صدفؔ جب گنگناتی ہے کسی لَے پر کوئی نغمہ

خزاں میں پھول کھلتے ہیں نظارے رقص کرتے ہیں

انہیں زندگی سے پیار ہے وہ زیست کو اپنی مکمل آب و تاب سے دیکھنا چاہتی ہیں وہ عوام الناس کو امن و آشتی کا درس دے کر ملک و ملت کی تقدیر بدلنا چاہتی ہیں اخوت اور محبت سے کائنات کی تسخیر چاہتی ہیں انہیں اتحاد و یکجہتی کا فروغ مطلوب ہے اس نسبت سے اُن کی غزل کے تین اشعار قابلِ غور ہیں   ؎

کریں کچھ امن کی تدبیر لوگو

بدل دیں ملک کی تقدیر لوگو

اخوت بھائی چارہ اور محبت

کریں دنیا کو یوں تسخیر لوگو

چلو ہاتھوں میں ڈالیں ہاتھ اپنے

بنے پھر چاہت کی زنجیر لوگو

 آج کے پر آشوب دور میں طربیہ کلام ایک ٹانک کا درجہ رکھتا ہے فکری خلفشار کے عہد میں ذہنی آسودگیوں کا سامان انتہائی خوش آئند ہے اُن کی غزل کا ایک شعر زیبِ قرطاس ہے   ؎

زندگی کی یہ سحر ہے اور ہم

کیف کی اک رہ گزر ہے اور ہم

اُن کے ہاں زندگی کے ناروا روئیّوں سے موانست ملتی ہے وہ زیست کی تلخیوں سے شاکی نظر نہیں آتیں بلکہ اُن کے پاس ان نا آسودگیوں کے لیے بھی ایک نرم گوشہ موجود ہے اسی حوالے سے ان کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے   ؎

یہ جو آنچل ہے اشکوں سے بھیگا ہوا

ہے غموں کو جگر سے لگایا ہوا

مشمولہ تصریحات اس امر کی غمازی کرتی ہیں کہ صدفؔ غوری کے کلام میں وسیع و عمیق زندگی کا ادراک ملتا ہے جو اُن کے سماجی شعور کا مظہر ہے اُن کے کلام میں بہت سے روشن امکانات موجود ہیں جن سے اُن کے بہتر ادبی مستقبل کی نوید دی جا سکتی ہے اُنہیں فنی اسرار و رموز پر خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے فن میں جملہ محاسن پیدا کرسکیں۔

٭٭٭

 

صدفؔ غوری ( کوئٹہ)

محبت سبھی کو سکھاتی رہوں گی

یہ نفرت کے شعلے بجھاتی رہوں گی

نہ آئے اندھیرا تیری زندگی میں

کہ آنگن میں جگنو سجاتی رہوں گی

کبھی ڈھونڈ لوں گی محبت کی منزل

قدم سے قدم کو ملاتی رہوں گی

رہے لاکھ بڑھتی مِرے درد کی لَو

میں اشکوں کی دولت چھپاتی رہوں گی

نہ مانگے سے ملتی ہے چاہت کسی کو

میں چاہت کے نغمے سناتی رہوں گی

صدفؔ تیری چاہت کیے دربدر ہے

میں پیروں کے چھالے چھپاتی رہو گی

٭٭٭

 

اس شام سہانی میں اک گیت سنانا ہے

دریا کی روانی میں اک دیپ جلانا ہے

گا گا کے ہوائیں بھی مجھے پاس بلاتی ہیں

 آج اپنی صداؤں میں ان کو بھی ملانا ہے

دل جب بھی مرا چاہے تو پاس چلا آئے

اس شوقِ تمنا کو خود سے بھی چھپانا ہے

ہم درد کے پہلو میں رو رو کے تڑپتے ہیں

خود ہی تو نہیں رونا سجناں کو رلانا ہے

پھولوں کی تمنا میں کیوں خار ہی ملتے ہیں ؟

پھولوں کے ہیں شیدائی پھولوں کو بتانا ہے

اس پیار کی دنیا میں ہم ساتھ رہے ہر دم

سوتی ہوئی آنکھوں میں سپنا یہ سہانا ہے

یہ غم کی رفاقت بھی دائم ہے صدفؔ جانو

اس درد نے اب میرے ساتھ ہی جانا ہے

٭٭٭

 

صفیہؔ سلطانہ کا کلام اور عصری حقائق

ہر تخلیق کار اپنے عہد کا نمائندہ ہوتا ہے اور اس کی تخلیقات اس کے عہد کی غماز ہوتی ہیں حتی المقدور وہ عصری حقائق کا احاطہ کرنے کی سعیِ جمیل کرتا ہے حقیقی زندگی سے مناسبت کا حامل کلام انتہائی وقیع اور گراں بہا ہوتا ہے آج ہمارے زیرِ تجزیہ صفیہؔ سلطانہ کا شعری مجموعہ ’’اک تارا محبت کا ‘‘ ہے جس کے مطالعہ کے دوران جگہ جگہ ہمیں عصری حقائق کے شواہد ملے ہیں مذکورہ مجموعۂ کلام میں منتخب غزلیہ اشعار برائے تجزیہ پیش کرتے ہیں صفیہ سلطانہ کا تعلق جیکب آباد سے ہے وہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج جیکب آباد میں اردو ادبیات کی پروفیسر ہیں انہیں ادب کی تخلیق اور تعلیم دینے کا افتخار حاصل ہے۔

ہم ایک عہدِ پر آشوب میں سانس لے رہے ہیں جہاں بے حسی کا راج ہے اور نفسا نفسی کی روش ہے اپنے پرائے کا امتیاز موقوف ہو چکا ہے حالات کی واژگونی ایک عالمگیر حقیقت کا روپ دھار چکی ہے اس تلخ حقیقت کی ترجمانی اُن کی غزل کے اس شعر میں مشاہدہ کرتے ہیں   ؎

اپنے بھی اپنے نہیں ہیں غیر تو پھر غیر ہیں

چاک یہ دل کا سلے گا یہ تمہاری سوچ ہے

جب حالات نامساعد ہوں سکوں پامال ہو تو پھر جمالیاتی احساسات کو بہت نقصان پہنچتا ہے زیست کی چمک دمک معدوم ہو جاتی ہے پر آشوب کیفیات میں زندہ دلی کے مظاہر اپنی بساط لپیٹ لیتے ہیں پھر اظہار بھی کرب خیز ہو جاتا ہے جب انسانی زندگی توازن سے ہم آغوش ہو تو پھر رونقیں اور رعنائیاں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں اس کے برعکس صورت حال میں فسانۂ رنگ و بو چہ معنی دارد اسی نوع کی بے قراری اُن کی غزل کے مطلع میں لائقِ توجہ ہے   ؎

میں نے کہا کہ تذکرۂ رنگ و بو کرو

اُس نے کہا کہ اور کوئی گفتگو کرو

چار سو ظلم و جبر مشاہدہ کرنے کے بعد انسان فطری طور پر غصے ہو جاتا ہے اور یہی غصہ حق پسندی کا مظہر ہوتا ہے اور تلخ عصری حقائق سے ٹکرانے کا عزم ہوتا ہے اسی فکر کی عکاسی صفیہؔ سلطانہ کی غزل کے اس شعر میں ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

مئے خانے میں سب سے آخر ساقی مجھ تک پہنچا تھا

میں نے بھی غصے میں آ کر جام و ساغر توڑ دیا

الغرض صفیہؔ سلطانہ کا کلام عصری حقائق کا خوبصورت ترجمان ہے جس میں زیست اپنے تمام تر محاسن و معائب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے اگر ان کا شعری سفر تواتر سے جاری رہا تو اُن کے فکر و فن میں مزید پختگی آئے گی۔

٭٭٭

 

صفیہؔ سلطانہ ( جیکب آباد)

محبت کے حوالوں کی ضرورت اب نہیں مجھ کو

محبت کرنے والوں کی ضرورت اب نہیں مجھ کو

سفر یہ زندگی کا تیرگی میں کٹ گیا

سو ان وقتی اُجالوں کی ضرورت اب نہیں مجھ کو

سنبھالو پیار یہ اپنا فقط یہ دو ہی دن کا ہے

کہ ان مکڑی کے جالوں کی ضرورت اب نہیں مجھ کو

فسانے جو پڑھے وہ زندگی پر منطبق ٹھہرے

اٹھا لو ان رسالوں کی ضرورت اب نہیں مجھ کو

محبت ان سے کرتی ہوں جو میں نے بت تراشے ہیں

کہ ان خوش رو غزالوں کی ضرورت اب نہیں مجھ کو

صراحی لا ادھر ساقی کہ پی لوں آج جی بھر کے

کہ ان چھوٹے سے پیالوں کی ضرورت اب نہیں مجھ کو

٭٭٭

 

کٹتی نہیں ہے مجھ سے تو یہ رات مسلسل

دن نکلے تو ہو اس سے مری بات مسلسل

ہوتی ہیں مجھ پہ اس کی عنایات مسلسل

دیتا ہے جو ہر لمحہ وہ صدمات مسلسل

دیکھو اسے تھاما ہے تو پھر چھوڑ نہ دینا

ہاتھوں میں میرے تیرا رہے ہات مسلسل

میں ریت کا صحرا ہوں میری پیاس بہت ہے

اب مجھ پہ تری ہوتی ہے برسات مسلسل

اس سے کہا زخموں کا مداوا ہی کرو کچھ

کہنے لگا چھڑکتے رہو نمکیات مسلسل

اس سے کہا جا کے کہ اب مرتی ہے صفیہؔ

کہنے لگا ہوتی رہے سکرات مسلسل

٭٭٭

 

فریدہ خانمؔ جدتِ فکر کی شاعرہ

فنِ شاعری میں ہم جدیدیت کو دو درجوں میں منقسم کرتے ہیں اول الذکر جدت سے مراد زبان و بیان کی جدت ہے جس میں الفاظ، تشبیہات و استعارات و ترکیبات اور صنائع بدائع کا استعمال جدید پیرایۂ اظہار میں ہوتا ہے جبکہ دوسرے درجے میں جدت سے مراد افکار کی ندرت ہے بعض اوقات افکار کی جدت بھی زبان و بیان کی ندرت کی متقاضی ہوتی ہے جبکہ کچھ سخنور براہ راست اپنے احساسات میں ندرت لاتے ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم فریدہ خانمؔ کی شاعری کے حوالے سے رقم طراز ہیں جن کی شاعری میں براہِ راست جدت کے مظاہر پائے جاتے ہیں جس کے لیے انہوں نے نادر النظیر تشبیہات و استعارات اور ترکیبات کا سہارا نہیں لیا آج ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’مختلف‘‘ کے تناظر میں اُن کے منتخب غزلیہ اشعار کو بطور استشہاد لائیں گے مجموعہ ہٰذا کا نام بھی جدت کا عکاس ہے اور ایک غیر روایتی سوچ کا آئینہ دار ہے اُن کے اس مجموعۂ کلام کی طباعت جنوری 2011ء میں عمل میں آئی اور یہ اُن کا اولین شعری مجموعہ ہے ہنوز اُن کے شعری سفر کا نقطۂ آغاز ہے ہم اُن کے مذکورہ شعری مجموعہ کے ربع اول کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

فریدہ خانمؔ کے ہاں محبت کے پوتر جذبے اچھوتے انداز میں پائے جاتے ہیں جن میں رفعتِ تخیل کا پہلو بھی جلوہ فرما نظر آتا ہے اُن کے خیالات غیر روایتی نوعیت کے ہیں جن میں پریم کی کرشمہ سازیاں بھی ہیں اور غیض و غضب بھی۔ اُن کے ہاں عمومی افکار بھی نئے رنگ ڈھنگ میں پائے جاتے ہیں اسی نسبت سے اُن کی اولین غزل کے چار اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

محبت خدا ہے، خدا ہے محبت

زمانے میں سب سے جدا ہے محبت

یہ جذبہ ہے کوئی تجارت نہیں ہے

کہ چاہت میں ڈوبی وفا ہے محبت

لگے جس کی جاں کو وہ جاں سے ہی جائے

یوں لگتا ہے جیسے بلا ہے محبت

جسے دیکھو وہ تو یہی گیت گائے

سبھی دھڑکنوں کی صدا ہے محبت

اُن کے ہاں عصری روئیوں کا مذکور بھی ہے اور جدید عہد کے تقاضے بھی مکمل کروفر کے ساتھ پائے جاتے ہیں انسانی نفسیات میں تبدیلی کا ذکر بھی بھرپور انداز میں پایا جاتا ہے اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ وہ انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتی ہیں ویسے بھی صنفِ نازک بہت حساس ہوتی ہے ان امور کی جانکاری ایک فطری حقیقت ہے دور بدلا دور کے تقاضے بدلے جس کے باعث رومانوی احساسات میں بھی انقلابی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں اسی تناظر میں اُن کی غزل کے دو اشعار دیدنی ہیں   ؎

تارے گننے کے زمانے اب کہاں ؟

عاشقی کے وہ ترانے اب کہاں ؟

کون مرتا ہے کسی کے واسطے؟

لیلیٰ مجنوں کے فسانے اب کہاں ؟

شاعر کے شعری شعور میں لاشعوری اور شعوری افکار دخیل ہوتے ہیں جس کے باعث اس سے بہت سے انکشافات ہوتے ہیں یہی صورت حال فریدہ خانمؔ کے ہاں بھی پائی جاتی ہے جس کی بدولت جذبوں میں صداقت اور انسان دوستی کے حوالے ملتے ہیں اُن کے ہاں مناجات کا رنگ بھی ہے اور رشتوں کا تقدس بھی فطری انداز میں ملتا ہے اسی حوالے سے اُن کی غزل کے دو اشعار دیکھتے ہیں   ؎

کسی کے نیک جذبوں کا بھرم جو رکھ نہیں سکتا

یقیں کر لیں، یقیں کے وہ کبھی قابل نہیں ہوتا

مجھے اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھتا ہے

یہ میرا باپ مجھ سے اک گھڑی غافل نہیں ہوتا

اُن کے ہاں عصری صداقتوں کا فروغ ہے مکارمِ اخلاق اپنی خالص مذہبی رنگ آمیزی میں موجود ہیں جن میں ایک عمیق سماجی شعور ملتا ہے جو ادب برائے زندگی کے زمرے میں آتا ہے معاشرتی حوالے سے اُن کے جذبات ایک اصلاحی پہلو رکھتے ہیں وہ معاشرے کے افراد کو حسن اخلاق سے باہم مربوط دیکھنا چاہتی ہیں رشتوں کی محبت کا بیان اُن کے ہاں مکمل آن بان سے ملتا ہے اسی نوع کے اُن کی غزل کے تین اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

جو آبرو کو بچاتے ہوئے مرے عورت

کہو نہ مردہ اُسے وہ شہید ہوتی ہے

ادب کرو گے تمہیں بھی ادب ملے گا یہاں

کسی کسی کی نصیحت مفید ہوتی ہے

وفا کرے کوئی شوہر جو اپنی بیوی سے

تو ایسے مرد کی بیوی مرید ہوتی ہے

اُن کے ہاں ذاتی کرب کے حوالے بھی ملتے ہیں اور اجتماعی بھی وہ خلوص و مروت الفت و موانست کا فروغ چاہتی ہیں کدورتوں پر اُن کا دل کڑھتا ہے غزل کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں   ؎

عکس سارے آئینوں میں بٹ گئے

خواب میرے کرچیوں میں بٹ گئے

حق کا رستہ چھوڑ کر پایا ہے کیا؟

نور سارے ظلمتوں میں بٹ گئے

زندگانی کم ہے چاہت کے لیے

لوگ کیسے نفرتوں میں بٹ گئے؟

خدائے بزرگ و برتر کی محبت کے بعد ممتا کی محبت مثالی ہوتی ہے ماں کی محبت کا عکاس اور اس سلسلے کی آخری کڑی کے طور پر شعر دیکھتے ہیں   ؎

اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیے

بیچتی ہیں مائیں اپنی بالیاں

بقول اسلم انصاری   ؎

شہر میں جا کر پڑھنے والے کتنی جلدی بھول گئے

اُن کی خاطر اُن کی ماں نے کتنا گہنا بیچا تھا؟

متذکرہ تصریحات شاہد ہیں کہ فریدہ خانمؔ کے افکار ندرت آمیز ہیں البتہ اُن کے فن کو مزید بالیدگی مطلوب ہے کہیں کہیں اُن کے ہاں عروضی محاسن کا فقدان پایا جاتا ہے عروسِ سخن کی مشاطگی اُنہیں بلحاظِ عروض مطلوب ہے جو کسی معتبر راہنمائی کا تقاضا کرتی ہے بہرحال اُن کے کلام میں کافی روشن امکانات موجود ہیں جو اُن کے بہتر ادبی مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

فریدہ خانمؔ (لاہور)

اب عشق سمندر دیکھ لیا

اب دکھوں نے گھر دیکھ لیا

خون بہا ہے لمحہ لمحہ

کیا کیا چشمِ تر دیکھ لیا؟

مر جائے گی غیرت اُس کی

جب غیروں کا در دیکھ لیا

کاٹ دیا ہے شہ نے اُس کو

جو بھی اُٹھا سر دیکھ لیا

فتح کرے جو دل کی دنیا

اک ایسا ستمگر دیکھ لیا

٭٭٭

 

کیوں مجھے مِلا نہیں ؟

تو مرا ہوا نہیں

 آدمی نہ کہہ اُسے

جس میں کچھ انا نہیں

عشق مرضِ لادوا

عشق کی دوا نہیں

مجھ کو صبر و ضبط کا

کچھ صلہ ملا نہیں

ہے قلم پہ فخر کیوں ؟

صنف ہو خدا نہیں

دعا کا حرف رب نے بھی

یہی لگا سُنا نہیں

٭٭٭

 

فریدہ جاوید فری پُر خلوص جذبوں کی شاعرہ

پر خلوص احساسات سچی اور کھری شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں جو شخصیت و کردار سازی میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں ماحول اور معاشرے میں خوشگوار تبدیلی لاتے ہیں عمرانی نقطۂ نگاہ سے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اگر ادب برائے زندگی کی بات کی جائے تو ایسے جذبے انتہائی ناگزیر ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں سے معاشرت کا حسن وابستہ ہے عصرِ حاضر جو پر آشوب بھی ہے اور پر تصنع بھی ایسی صورت حال میں ایسے افکار ایک بھرپور رجائی حوالہ بنتے ہیں جن کی بدولت تگ و تازِ حیات میں ایک جوش اور ولولہ نظر آتا ہے نبضِ ہستی تپش آمادہ رہتی ہے شذرہ ہٰذا میں آج ہم فرید جاوید فری کے شعری مجموعہ ’’پانچواں موسم‘‘ کے تناظر میں اُن کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ مذکورہ موضوع کی مناسبت سے کرتے ہیں اُن کے خیالات میں خلوص و مروت اور صداقتوں کا فروغ ہے اُن کے ہاں عشق و الفت کی تمام تر کیفیات صورتِ واردات ہیں جن میں غمِ ہجراں بھی ہے اور قرب کا کیف و سرور بھی ہے اُن کے کلام میں جہاں حقیقی حوالے ہیں وہاں مجاز بھی معتبر انداز میں ملتا ہے عرفانِ ذات کے ساتھ ساتھ تعلّیاتی تاثر بھی ملتا ہے اُن کے کلام کا نمایاں وصف یہ ہے کہ اُن کا اسلوب سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے انتہائی سادگی اور شُستگی سے وہ اپنا مدعا بیان کرتی ہیں اُن کی شاعری اپنے اندر ایک عمومیت کا احساس رکھتی ہے جس میں روایت اپنے خوبصورت انداز میں جلوہ گر ہوتی ہے جس سے شعر و سخن کا عام قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اُن کے مذکورہ شعری مجموعے کا نام جہاں ایک ندرت کا پہلو رکھتا ہے ایک تجسس کا غماز بھی ہے اور اپنے اندر ایک علامتی نوعیت بھی سموئے ہوئے ہے۔

اُن کے پاس محبوب کے بغیر زندگی کا تصور ناپید ہے اُن کے جذبات میں ایک مبالغاتی انداز بھی دکھائی دیتا ہے وہ محبوب کے ہر طرح کے جبر و ستم اور ناز و ادا کو محبت گردانتی ہیں وہ غم کو ایک آخری سہارا سمجھتی ہیں اور حزن سے اُن کی مصالحت دیدنی ہے کہیں کہیں ان کے خیالات نادر النظیر ہوتے ہیں اُن کے نزدیک دل جلنے کا عمل راز داری سے عبارت ہے کیونکہ جلتے دل سے دھواں نہیں اُٹھتا اُن کے اسی نوع کے احساسات غزل کے درج ذیل چار اشعار میں مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں   ؎

زندگی کا نشاں نہیں ہوتا

تو جہاں میری جاں نہیں ہوتا

جانے کیوں تیری بے رخی پر بھی

دل مرا بدگماں نہیں ہوتا

میں غموں کا سہارا لیتی ہوں

جب مرا مہرباں نہیں ہوتا

دل کے جلنے کو کس نے دیکھا ہے؟

جلتے دل میں دھواں نہیں ہوتا

ان کے پاس مکالماتی اسلوب خوبصورت انداز میں ملتا ہے جو اُن کی کیفیت کی عکاسی بھی کرتا ہے اُن کے افکار کی نادرہ کاری کے باعث تجسیم سے عاری عوامل بھی مجسم نظر آتے ہیں اسی نسبت سے ان کی غزل کے دو اشعار قابلِ ذکر ہیں   ؎

اے صبا پہلے تو مل کر پوچھنا اُس کا مزاج

پھر جو گزری ہے ہماری جان پر کہنا اُسے

پوچھتی ہیں جب کبھی تنہائیاں اُس کا پتہ

سوچتے رہ جاتے ہیں دیور و در کہنا اُسے

فریدہ جاوید فری کا سخن رومان کے حسین احساسات سے مرصع ہے اُن کے ہاں رومانویت کی ایک بھرپور فضا پائی جاتی ہے جس میں روایتی اور عمومی خیالات ہیں نسائی خیالات کا فروغ ہے اسی تناظر میں اُن کی غزل کے چار اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

چاند تاروں سی حسین رات مرے نام کرو

اپنی زلفوں کی سیاہ رات مرے نام کرو

اپنی آنکھوں میں مچلتے ہوئے دریا سارے

اپنی آنکھوں کی یہ برسات مرے نام کرو

تتلیاں، پھول، محبت کے گلابی لمحے

اپنی یادوں کی یہ بارات مرے نام کرو

میری غزلیں، مری نظمیں تو ترے نام ہوئیں

اپنے ہونٹوں کے یہ نغمات مرے نام کرو

فکری اعتبار سے اُن کی شاعری خوشگوار اور لطیف ہے جس میں خلوص و وفا کی چاشنی بھی ہے درد مند جذبے ہیں جو قاری کے لیے اپنائیت کا پہلو رکھتے ہیں اور قاری انہیں اپنے دل کی بپتا سمجھتا ہے محبت کے حوالے سے اُن کے پاس فزوں تر جانکاری پائی جاتی ہے اپنے محبوب سے وفا کا تصور اپنے خالص روپ میں موجود ہے محبت کے بلند بانگ دعوے بھی ہیں جو فنِ مبالغہ کے مظہر ہیں اسی حوالے سے اُن کی غزل کے چند اشعار لائقِ التفات ہیں   ؎

تمہاری آنکھ میں آنسو پرونے بھی نہیں دوں گی

محبت ہی کچھ ایسی ہے کہ رونے بھی نہیں دوں گی

تمہیں اپنا بناؤں گی بھلے کچھ بھی تو ہو جائے

کسی صورت تمہیں غیروں کا ہونے بھی نہیں دوں گی

بہت نازک سا رشتہ ہے محبت کا مرے ہمدم

کسی کا درد آنکھوں میں سمونے بھی نہیں دوں گی

تمہیں اتنا میں چاہوں گی زمانے کو خبر ہو گی

تمہیں غم کے کبھی بستر پہ سونے بھی نہیں دوں گی

ان کے کلام میں محبوب سے راز و نیاز کی باتیں بھی ہیں مظاہرِ فطرت کی حسین رنگ امیزی بھی طربیہ تاثرات پورے کروفر سے پائے جاتے ہیں تتلی، جگنو، بادل اور بارش اس پر طرہ یادوں کی بارات یہ سب بہار کی علامات ہیں اُن کی غزل کے دو اشعار دیکھتے ہیں   ؎

سرگوشی میں چپکے چپکے

تیری میری بات ہوئی تھی

تتلی، جگنو، بادل بارش

یادوں کی بارات ہوئی تھی

اُن کے ہاں خزینہ رنگ بھی اپنی بہار دکھاتا نظر آتا ہے غم کی آنچ نہایت شدید ہوتی ہے غزل کے دو اشعار میں اُن کا حزن و ملال ملاحظہ فرمائیں   ؎

ہنس رہا ہے وہ سنبھالے چور چور اپنا بدن

جیسے زخموں کو ہنسی اُس کی چھپا لے جائے گی

میں نے سارے رنگ اس کی یاد کے لٹا دئیے

اب یہ سادہ ورق دل کا بھی ہوا لے جائے گی

علی ہٰذا القیاس فریدہ جاوید فری کا کلام جذبوں کی سچائی سے عبارت ہے جس میں خلوص و وفا بھی ہے اور چاہت و مروت بھی ابھی انہوں نے اقلیم شعر و سخن کے ہفت آسمان سر کرنے ہیں ابھی انہیں عروسِ سخن کی فزوں تر مشاطگی مطلوب ہے مسلسل شعری ریاضت سے اُن کے کلام میں مزید بالیدگی آشکار ہو گی اور فنی اسرار و رموز سے آشنا ہوں گی۔

٭٭٭

 

فریدہ جاوید فری (لاہور)

سندر سپنا میرا تھا

اس میں عکس وہ تیرا تھا

جھیل سی گہری آنکھیں تھیں

بالوں کا رنگ سنہرا تھا

ڈمپل گالوں میں پڑتے تھے

کالے تل کا پہرا تھا

جذبے سچے تھے دونوں کے

پیار کا ساگر بھی گہرا تھا

٭٭٭

 

جدائی کے کچھ پل ایسے تھے

تجھے یاد کیا پھر روئے تھے

وہ درد جو تم نے مجھ کو دیا

اسی درد میں کتنا تڑپے تھے؟

تجھ بن کچھ بھی یاد نہ تھا

کھوئے کھوئے بس رہتے تھے

میرے دل میں تم ہی بستے تھے

کچھ جاگے تھے کچھ سوئے تھے

جب پیار کی فصل اُگائی تھی

پھر بیج بھی اس میں بوئے تھے

٭٭

 

فصیحہؔ آصف افسردہ فکر شاعرہ

زندگی خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کا دوسرا نام ہے خوشی ایک لمحاتی مسرت ہے اور غم ایک لازوال حقیقت ہے حزن و الم اگرچہ ایک ناگوار کیفیت کا نام ہے لیکن یہ انسان کا ایک مرغوب جذبہ ہے جو انسانی طبائع پر مستقل اثرات مرتسم کرتا ہے جہاں تک شاعری کا تعلق ہے طربیہ شاعری کی نسبت حزنیہ شاعری زیادہ پسندیدگی اور مقبولیت کی نظر سے دیکھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ اربابِ شعر و ادب میرؔ کو غالبؔ پر فوقیت دیتے ہیں ایک عام آدمی کو بھی طربیہ اشعار کی نسبت ابیاتِ حزن زیادہ ازبر ہوتے ہیں جو اس جذبے کی بیّن دلیل ہے افسردگی بھی الم کی اک کیفیت کا نام ہے تاریخِ انسانی کے ہر عہد میں حالات عموماً نامساعد رہے ہیں جس کے باعث افسردہ افکار نے ایک فطری صورت اختیار کر لی ہے جہاں شعراء کے کلام میں اس قسم کے افکار وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں وہاں شاعرات کے سخن میں بھی اس نوع کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جن شاعرات کا کلام اس نوعیت کا حامل ہوتا ہے وہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے اس سلسلے میں جب ہم فصیحہؔ آصف کے کلام کا بنظرِ غائر مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں اس نوع کے خیالات بدرجہ اتم نظر آتے ہیں آج ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’محبت سانس لیتی ہے‘‘ مطبوعہ جنوری 2013ء کے تناظر میں اُن کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ مذکورہ موضوع کے پسِ منظر میں کرتے ہیں مجموعہ ہٰذا کا نام جہاں جدیدیت کی غمازی کرتا ہے وہاں جاذبیت کا ایک جہان بھی خود میں آباد رکھتا ہے یہ اُن کا اولین مجموعۂ کلام ہے جس میں بہت کچھ بہتری کی گنجائش بھی موجود ہے لیکن مطالعہ کے دوران بہت سے اشعار نے دامنِ دل تھام لیا۔

یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ تلخ حقائق بھی افسردگی کو جنم دیتے ہیں وہ ان سے چشم پوشی نہیں کرتیں بلکہ ان کا برملا اظہار کرتی ہیں یہی اُن کی شخصی صداقت کی عمدہ دلیل ہے وہ سچ اور جھوٹ سے سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یہ سچ ہے کہ اُن کے کلام میں حُزنیہ اشعار بکثرت پائے جاتے ہیں جو اُن کا ایک مستقل حوالہ ہے لیکن یہ بھی ایک صداقت ہے کہ خوشیاں بھی انہیں عزیز ہیں وہ مسرتوں کی متلاشی بھی ہیں اُن کی طبیعت تنوع پسند ہے اس لیے وہ کچھ عرصہ خوش رہتے ہوئے بھی غم کی جدائی انہیں ستاتی ہے بقول ابو البیّان ظہور احمد فاتحؔ   ؎

جاتا ہے اُن کے پاس جو اصحابِ ظرف ہوں

یہ نا مراد غم بڑا مردم شناس ہے

وہ غم اور افسردگی کو حقارت کی نگاہ سے نہیں موانست کی نظر سے دیکھتی ہیں اس قسم کے خیالات کے حوالے کے طور پر اُن کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے جاتے ہیں   ؎

سچ ہے کیا جھوٹ کیا ہے بتا دیجیے؟

میری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیجیے؟

میری خاموش ویران آنکھوں کو اب

کوئی سندر سا سپنا دکھا دیجیے

آنکھ میری بہت دن سے پرنم نہیں

دکھ نیا دے کے کوئی رُلا دیجیے

جس کو سن کر ہوئیں دھڑکنیں منتشر

پھر وہی گیت مجھ کو سنا دیجیے

اُن کے کلام میں افسردہ خیالی سے دلی وابستگی پائی جاتی ہے وہ غمِ ہجر کو قیامت سے موسوم بھی کرتی ہیں مگر اُنہیں اس اذیت میں ایک راحت کا پہلو بھی کارفرما نظر آتا ہے جو اُن کی حزن و ملال سے موانست کی دلیل ہے وہ محبت کو ایک پوتر جذبہ گردانتی ہیں محبوب کی یادوں کے گوشے میں رہنے کو عنایت سے تعبیر کرتی ہیں اُن کے ہاں محبت ضرورت کے روپ میں جلوہ گر ہوئی ہے اُن کے جذبے جاذبیت سے لبریز ہیں اسی نسبت سے اُن کی غزل کے چار اشعار دنیائے شعر و سخن کے متوالوں کی نظر ہیں   ؎

جدائی اک قیامت ہے

مگر اس میں بھی راحت ہے

زمانہ مان جائے گا

محبت اک عبادت ہے

ہمیں وہ یاد رکھتے ہیں

بڑی اُن کی عنایت ہے

تجھے بیکار کب سمجھا؟

ہمیں تیری ضرورت ہے

اُن کی شاعری میں رومان کے انمٹ نقوش ملتے ہیں جو قاری کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں اور وہ انہیں اپنے خیالات کی ترجمانی سمجھتا ہے وہ قربت کی عشرت میں بھی افسردگی کی پاسدار نظر آتی ہیں اُن کی غزل کے تین اشعار زیبِ قرطاس ہیں   ؎

تم سے ملنے کی آس رہتی ہے

تم سے مل کر بھی پیاس رہتی ہے

وہ فقط تیری یاد ہے جاناں

دل کے جو آس پاس رہتی ہے

تیری قربت مجھے میسر ہے

روح پھر بھی اُداس رہتی ہے

ہم قاری کی ذہنی نزاکتوں سے بخوبی آشنا ہیں اس لیے طول بیاں سے گریز مطلوب ہے مشمولہ اشعار کے علاوہ بھی اُن کے بہت سے اشعار حوالے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ علی ہٰذا القیاس شعر و سخن کی دنیا میں فصیحہ آصف کی آواز نئی اور خوبصورت ہے اُن کا فکر و فن لائقِ تحسین ہے البتہ انہیں اس میدان میں مزید لگن، محنت اور ریاضت کی شدید ضرورت ہے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ متقدمین و متوسطین اور متاخرین کی نظم و نثر کا کثرت سے مطالعہ کریں جس کی بدولت اُن کے فن میں مزید پختگی آئے گی اور اُن کے پیرایۂ اظہار میں نکھار پیدا ہو گا۔

٭٭٭

 

فصیحہؔ آصف خان ( ملتان)

ہم ہیں سناٹا ہے اور عالمِ تنہائی ہے

تیری یاد کس بے سرو سامانی میں آئی ہے؟

تجھ سے بچھڑنے کا اتنا بھی غم نہیں

یہ قیامت تو آنسوؤں نے ڈھائی ہے

دل تو اپنا دکھوں کا مسکن ٹھہرا

ہر موڑ پر غموں کی گٹھری اٹھائی ہے

مجھے یادوں کے شکنجے میں جکڑ دیا تو کیا؟

اپنی دانست میں اس نے دیوار چنوائی ہے

 آج کی شب بھی چاند، تاروں سے گفتگو رہی

ذہن میں پھر تیری شبیہہ جو مسکرائی ہے

کچھ ہم بھی انا پرست ٹھہرے تیری طرح

کچھ دل بھی اپنا پاگل ہے سودائی ہے

٭٭٭

 

میرے درد کو قرار دو

دل سے غم اتار دو

ہم ہجر کے ماروں کو

کوئی شامِ وصل ادھار دو

کچھ زیادہ کی طلب نہیں

بس بول پیار کے چار دو

اپنی چاہت کی چاندنی سے

بے سایہ کھیتی نکھار دو

درد کے ساز بہت سنے

اب گیتوں کی جھنکار دو

خزاں، خزاں اداسیاں

سنو اب بہار ہی بہار دو

قسمت تو نہ سلجھی اپنی

یہ الجھی شب ہی سنوار دو

٭٭٭

 

نوشیؔ گیلانی اور کربِ حیات

ہر تخلیق کار کی تخلیقات میں اس کا عہد جیتا جاگتا نظر آتا ہے اور اس کی فکری پرچھائیاں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں فنِ شاعری جو حساس جذبوں کا امین ہے اگر اس میں تلخ تجربات و مشاہدات کی آنچ شامل ہو تو جذبے لازوال اور امر ہو جاتے ہیں کم و بیش تمام تر معتبر شعراء و شاعرات کو اس کی بدولت دولتِ دوام نصیب ہوئی اور اس کے شواہد نوشی گیلانی کے کلام میں بھی مترشح ہوتے ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے اولین شعری مجموعہ ’’محبتیں جب شمار کرنا‘‘ مطبوعہ دسمبر 1997ء میں سے منتخب غزلیہ اشعار شامل تجزیہ ہیں۔

عصرِ حاضر کی اکثر و بیشتر شاعرات نے رومان نگاری کی ذیل میں اپنی تمام تر شعری صلاحیتیں صرف کر دیں اس لیے موضوعاتی تنوع اُن کے ہاں معدوم نظر آتا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان طبقے نے داد و تحسین سے نوازا لیکن ان کے حوالے سے کوئی سنجیدہ تاثر نہ پنپ سکا پروین شاکر کی مقبولیت میں جہاں ایک لڑکی کے رومانوی تاثرات کا بھرپور مذکور ہے وہاں اس کے جذبوں میں پوشیدہ معصومیت بھی ہے نوشی گیلانی بھی متذکرہ دونوں خصائص سے مرصع ہیں لیکن نوشی گیلانی کے ہاں محبت کے علاوہ دیگر مسائل بھی ضو پاشیاں کر رہے ہیں اور غم دوراں جھانکتا ہوا دکھائی دیتا ہے غم کی آنچ شدید نوعیت کی ہے جو قاری کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

نوشی گیلانی کے ہاں اظہار کی جسارتیں پورے طور پر جلوہ ریز ہو رہی ہیں اور تنقیدی رویے بھی شدت کے حامل ہیں جس سے اُن کے مزاحمتی افکار کی جھلک ملتی ہے اور ترقی پسند سوچ کی عکاسی ہوتی ہے وہ سماج کے مصائب و آلام کو اپنی ذات پر اوڑھ کر لکھتی ہیں اسی لیے اُن کے ہاں سماجی حوالے بھی ذاتی صورت میں دکھائی دیتے ہیں اُن کی غزل کے دو اشعار میں اُن کے اظہار کی جھلک مشاہدہ کرتے ہیں   ؎

میں تنہا لڑکی دیارِ شب میں جلاؤں سچ کے دئیے کہاں تک؟

سیاہ کاروں کی سلطنت میں میں کس طرح آفتاب لکھوں ؟

قیادتوں کے جنوں میں جن کے قدم لہو سے رنگ ہوئے ہیں

یہ میرے بس میں نہیں ہے لوگو کہ اُن کو عزت مآب لکھوں

اُن کے ہاں ایک رمزِ آموز گاری بھی ملتی ہے محبت کا جس میں کلیدی کردار ہے وہ محبت میں جینا اور مرنا چاہتی ہیں لیکن لہجے کی تلخی اور تُرشی انہیں گوارا نہیں ہے بقول راقم الحروف   ؎

جسے لوٹنا ہے محبت سے لوٹو

نہیں زہر کوئی محبت سے بڑھ کر

وہ خونِ دل سے لفظوں کی کھیتیوں کو سیراب کرنے کی متمنی ہیں اُن کے ہاں ایک تحریک اور دعوتِ فکر و عمل ہے   ؎

تم مجھ کو زہر دینا لیکن محبتوں سے

لہجے کی چاندنی کو خنجر نہ ہونے دینا

سیراب کرتے رہنا دل کے لہو سے لوگو

لفظوں کی کھیتیوں کو بنجر نہ ہونے دینا

انہیں زیست کا کرب و سوز ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے اور وہ حزن و ملال سے شاکی نظر آتی ہیں زندگی کے سفر کی کربناکی کا بیان بھرپور انداز میں اُن کے ہاں ملتا ہے   ؎

عجب فضا ہے جہاں سانس لے رہے ہیں ہم

گھروں کو لوٹ کے آنا تو چشمِ تر لانا …

تمام تر مصائب و آلام کے باوجود وہ زندگی سے نباہ کرنے کی قائل ہیں اسی غم و سوز میں شعر کہنے کو بھی وہ وظیفۂ حیات گردانتی ہیں   ؎

زندگی سے نباہ کرتے رہے

شعر کہتے رہے سلگتے رہے

اُن کے ہاں اظہار کی جملہ جسارتیں پورے کروفر سے ملتی ہیں اُن کی زیست جرأتِ اظہار سے مملو نظر آتی ہے وہ ہر قسم کے حالات میں اظہار لازمی سمجھتی ہیں   ؎

خوف کی شب میں ہونٹ سینے سے

مرنا بہتر ہے ایسے جینے سے

زیست کی تمام تر آشوب زدگیوں کے باوجود انہیں زندگی سے محبت ہے اور وہ زندگی سے ناراض نہ ہونے کی آموز گاری دیتی ہیں   ؎

زندگی درد سے عبارت ہے

زندگی سے خفا نہ ہو جانا

نوشی گیلانی کے ہاں غم کی آنچ انتہائی گہرائی ہے اور اسی کربِ زیست کے باعث وہ قاری کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں یہ بات خوش آئند ہے کہ اُن کے ہاں صرف ہجر و وصال کے قصے نہیں بلکہ زندگی کے مصائب و آلام کا مذکور بھی ہے وہ زیست کا عمیق ادراک رکھتی ہیں اس لیے اُن کے کلام میں ایک عمرانی شعور بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ابھی اُنہیں وسیع تر فکری و فنی ریاضت مطلوب ہے جس کے باعث وہ موضوعات اور افکار کی وسعتوں سے آشنا ہوں گی۔

٭٭٭

 

نوشی گیلانی ( بہاولپور)

تتلیاں، جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون؟

ہم سجا بھی لیں اگر دیوار و در دیکھے گا کون؟

اب تو ہم ہیں جاگنے والے تری خاطر یہاں

ہم نہ ہوں گے تو ترے شام و سحر دیکھے گا کون؟

جس کی خاطر ہم سخن سچائی کے رستے چلے

جب وہی اس کو نہ دیکھے تو ہنر دیکھے گا کون؟

سب نے اپنی اپنی آنکھوں پر نقابیں ڈال لیں

جو لکھا ہے شہر کی دیوار پر دیکھے گا کون؟

بے ستارہ زندگی کے گھر میں اب بھی رات کو

اک کرن تیرے خیالوں کی مگر دیکھے گا کون؟

٭٭٭

 

خوف کا بیاباں ہے حوصلے تو ٹوٹیں گے

خار خار رستوں میں آبلے تو ٹوٹیں گے

دل کے ٹوٹ جانے پر اب ملال کیا کرنا؟

پتھروں کی بستی میں آئینے تو ٹوٹیں گے

 آندھیوں کے موسم میں اس طرح تو ہوتا ہے

خوشبوؤں کے پھولوں سے رابطے تو ٹوٹیں گے

جن پر راہبر باہم متفق نہیں ہوتے

ایسی رہگزاروں پر قافلے تو ٹوٹیں گے

ساتھ کب تلک دے گی ظلمتوں میں بینائی؟

حبس میں ہواؤں کے سلسلے تو ٹوٹیں گے

٭٭٭

 

ڈاکٹر نجمہ شاہینؔ کھوسہ شدتِ احساس کی شاعرہ

جنوبی پنجاب عموماً اور ڈیرہ غازی خاں خصوصاً اپنی مردم خیزی کی بدولت دنیا بھر میں معروف ہے جس نے علم و ادب کے سپوتوں کو جنم دیا یہ خطۂ ارضی بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے یہاں کی زمینیں زرخیز ہیں یہاں کے موسم شدید نوعیت کے ہیں موسموں کی شدت کا اثر انسانی جذبات و احساسات پر بھی ہوتا ہے آج ہمارا موضوعِ سخن ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کا تیسرا شعری مجموعہ ’’اور شام ٹھہر گئی‘‘ مطبوعہ 2013ء ہے جو شدتِ احساس کا حامل ہے جس کا لہجہ بھرپور نوعیت کا ہے جس میں غزلیات بھی ہیں آزاد نظمیں بھی ہیں اور نثری نظمیں بھی ہیں حمد و نعت کا سلیقہ بھی ہے اور سلام کا قرینہ بھی واضح رہے قبل ازیں ان کے دو شعری مجموعے ’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘ اور ’’میں آنکھیں بند کرتی ہوں ‘‘ عوامی حلقوں سے پذیرائی و مقبولیت کی سند پا چکے ہیں آج ہم اُن کے اول الذکر شعری مجموعہ ’’اور شام ٹھہر گئی‘‘ کے ثلث اول کے منتخب غزلیہ اشعار جو شدتِ احساس کا حامل بھی ہیں اور اُن کی حزنیہ شعری طبع کا غماز بھی ان کے کلام میں شدتِ جذبات کے بے پناہ مظاہر موجود ہیں جو قاری کو شعوری و لاشعوری طور پر متوجہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اس لیے ان کے ہاں عامیانہ اور نجی خیالات کا فقدان ملتا ہے بقول راقم الحروف   ؎

مرے سارے جذبے ہیں شدت کے حامل

نہیں عامیانہ کوئی بات میری

اُن کا اسلوب سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے انہوں نے سہل نگاری کی روایت کو فروغ بخشا ہے اُن کلا پیرایۂ اظہار فطری نوعیت کا ہے ان کا لہجہ بھرپور قسم کا ہے ان کے جذبوں میں شدت وحدت ہے اُن کے کلام میں سنور و گداز ہے معرفت و حجاز کے فزوں تر حوالے ہیں ان کے اشعار میں خیالات کے تضاد کا بھی خوبصورت التزام ملتا ہے پیار و عشق کے فسانے ہیں پھول اور خوشبو کے قصے ہیں درد کی رودادیں ہیں خوشی کی بے ثباتی کا تذکرہ ہے اور درد کے دوام کا مذکور ہے اسی تناظر میں ان کی غزل کے چار اشعار ملاحظہ کریں جن میں ’’درد ہے‘‘ کی ردیف کی قرینہ کاری بھی دیدنی ہیں   ؎

ابتدا درد ہے انتہا درد ہے

عشق کا درد تو لادوا درد ہے

پیار سے عشق تک جا بجا روشنی

پیار سے عشق تک جا بجا درد ہے

یہ نیا پھول ہے اور یہ خوشبو نئی

یہ نئی شام ہے اور نیا درد ہے

چھوڑ شاہیںؔ  وفا کا تو اب تذکرہ

بے وفا ہے خوشی با وفا درد ہے

جہاں اُن کے ہاں فزوں تر حزنیہ تاثرات ہیں وہاں پر کہیں کہیں خوشگوار لطیف اور رجائی افکار بھی اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں مگر مجموعی طور پر اُن کا لہجہ بلند بانگ ہے   ؎

کہیں پہ تارے کہیں پر ہیں آس کے جگنو

خزاں میں بھی گلوں کی فضا بناتی ہوں

اُن کے سخن میں غمِ ہجراں چھایا ہوا ہے اس لیے ابیاتِ حزن بکثرت ملتے ہیں مگر وصال کی خوشبو بھی ان کے خیالات میں رچی بسی ہوئی ہے راہِ محبت میں مسلسل قربانیوں کا ذکر بھی ان کے شعری شعور میں پورے زورو شور سے ملتا ہے   ؎

فضائے دل پہ طاری ہے بہت ہی حبس کا موسم

تری قربت کی خوشبو کا وہ جھونکا یاد آتا ہے

مسلسل ریت پر چلنا وفا کی ریت ٹھہری ہے

تری دہلیز تک پھیلا وہ صحرا یاد آتا ہے

رومان نگاری میں وہ یدِ طولیٰ رکھتی ہیں جذبے جاذبیت لبریز ہیں جو دل زدوں کے لیے سامانِ دبستگی ہیں افکار میں متانت و سنجیدگی کے شواہد ملتے ہیں جن سے ان کی فکری بالیدگی آشکار ہوتی ہے جس کی بدولت ان کے کلام کی پسندیدگی میں اضافہ ہوا ہے اُن کی فکر پختہ اور مکمل ہے اس لیے وہ شعر کے مختصر پیمانے میں اپنے موضوع کو دفعتاً سمیٹنے کا فن جانتی ہیں حزنیہ احساسات اُن کے شعری کینوس پر چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ان کی ایک غزل دنیائے شعر کے متوالوں کی نذر ہے   ؎

یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں

بس اُس کی یادوں کی دھوپ ہے اور میں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں

یہ وصل لمحوں کی روشنی ہے جو دل کی دنیا میں آ بسی ہے

مہکتی یادوں کی چاندنی ہے میں جس کی کرنوں سے جل رہی ہوں

شکستہ خوابوں کی کرچیاں ہیں جو میری آنکھوں میں چبھ رہی ہیں

میں خار زاروں میں چل رہی ہوں میں گرتے گرتے سنبھل رہی ہوں

زمانے بھر کی یہ تلخیاں ہیں جو میرے لہجے میں آ بسی ہیں

میں اپنے شعروں میں دھیرے دھیرے یہ زہر مایہ اُگل رہی ہوں

کروں گی کیا بال و پر کو اپنے قفس میں جینا جو لازمی ہے؟

کہاں ہے شاہینؔ شادمانی دکھوں کی دنیا میں پل رہی ہوں ؟

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ زبان و بیان پر دستگاہ رکھنے والی شاعرہ ہیں اُن کی غزل میں عروضی محاسن کی پاسداری بھی بدرجہ اتم ملتی ہے زیادہ تر انہوں نے مفرد اور رواں دواں بحور میں سخن سنجی کی ہے مشکل ردیفوں اور قوافی کو انتہائی خوش اسلوبی سے نبھایا ہے حزن و ملال ایسا ہے جو عشق و الفت سے مملو ہے حسنِ سلاست ہے بیان میں نفاست ہے تغزل کی چاشنی ہے مضمون آفرینی ہے مصرعوں کے دروبست میں ان کی فنی ریاضت کی غمازی ہوتی ہے کہیں داخلی قافیے بھی اُن کے اشعار کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں فکری اعتبار سے وہ مقلدِ میر لگتی ہیں جو دل پہ گزرتی ہے اسے برملا کہتی ہیں بقول راقم الحروف   ؎

میں نقیبِ میر بجا سہی

میرا نغمہ رنج فزا سہی

اُن کی ایک غزل جس میں جذبوں کی حسرت جوبن پر ہے زیبِ قرطاس ہے   ؎

منظر تمام آج تک آنکھوں پہ بوجھ ہیں

جتنے بھی خواب ہیں مری پلکوں پہ بوجھ ہیں

اُترے گا چاند تو مری بھر آئے گی یہ آنکھ

تارے فلک سے ٹوٹ کر راتوں پہ بوجھ ہیں

سوچوں پہ نقش ہیں وہ جو پل تھے وصال کے

دکھ ہجر کے تمام ہی لمحوں پہ بوجھ ہیں

شاہیںؔ  کہیں بھی جھوٹ کا جن پر گمان ہو

ایسے تمام لفظ ہی شعروں پہ بوجھ ہیں

مذکورہ بالا تصریحات اس امر کی غماز ہیں کہ ڈاکٹر نجمہ شاہیں کھوسہ کا کلام شدتِ احساسات سے مرصع ہے ان کا لہجہ بھرپور اور تندرست و توانا ہے جو ان کے بہتر ادبی مستقبل کی نوید ہے بہرحال انہیں فکر و فن کی عمیق ریاضت مطلوب ہے جس سے اُن کے موضوعات میں تنوع اور فن میں مزید بلوغت آشکار ہو گی۔

٭٭٭

 

ڈاکٹر نجمہ شاہینؔ کھوسہ ( ڈیرہ غازی خان)

اے عشق اس قفس سے مجھے اب رہائی دے

دیکھوں جدھر مجھے ترا جلوہ دکھائی دے

شہرِ شبِ فراق کے گہرے سکوت میں

اپنی صدا مجھے بھی کبھی تو سنائی دے

یادِ حبیب مجھ کو بھی اب مجھ سے کر جدا

مجھ کو ہجومِ درد میں میری اکائی دے

کب سے میں خامشی کے نگر میں مقیم ہوں ؟

لیکن یہ کون ہے جو یہاں بھی تنہائی دے؟

ظلمت زدوں کو جادہ و منزل کی کیا خبر؟

تاریک راستوں میں بھلا کیا سجھائی دے؟

قطرے میں موجزن ہے سمندر ہی ہر جگہ

اب وہ مجھے فرازِ افق تک رسائی دے

مقتل میں کیسے چھوڑ کے شاہیں بدل گیا؟

یا رب کسی صنم کو نہ ایسی خدائی دے

٭٭٭

 

محبتوں کا صلہ نہیں ہے

لبوں پہ حرفِ دعا نہیں ہے

نہیں وہ تصویر پاس میرے

سو ہاتھ میرا جلا نہیں ہے

میں اپنی لو میں ہی جل رہی ہوں

جو بجھ گیا وہ دیا نہیں ہے

بس اک پیالی ہے میز پر اور

وہ منتظر اب مرا نہیں ہے

لکھا جنم دن پہ اس کو میں نے

وہ خط بھی اس کو ملا نہیں ہے

میں کس لیے پار جاؤں شاہیںؔ ؟

وہاں مرا نا خدا نہیں ہے

٭٭٭

 

نجمہؔ خان کی شاعری اور جذبات کا رچاؤ

جب تخیل ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے تو اس میں ندرت وحدت نمو پاش ہوتی ہے جذبوں میں بانکپن اور اثر آفرینی کے خصائص پیدا ہوتے ہیں اگر احساسات جاذبیت سے لبریز ہوں تو شاعری دولتِ دوام سے ہم آغوش ہوتی ہے کسی بھی شاعر کی پختگی اور کہنہ مشقی کا اندازہ اس کے ہاں جذبوں کے رچاؤ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں فنی بالیدگی بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے بہت ہی کم شاعرات کے ہاں تاثیر کی فراوانی ملتی ہے لیکن نجمہ خان کے شعری مجموعہ ’’مہک‘‘ کے بنظرِ غائر مطالعے سے یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ اُن کے افکار میں مقبولیت و پذیرائی کے خصائص بدرجہ اتم ملتے ہیں موصوفہ کا تعلق کراچی سے ہے شعبۂ تنقید سے بھی اُن کی دیرینہ وابستگی ہے اُن کا تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’محک‘‘ 1998 ء میں منصہ شہود پر آیا شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے شعری مجموعہ ’’مہک‘‘ مطبوعہ اگست 2006ء میں سے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

جب انسان کا اپنے خالق سے ربط مستحکم ہو تو اسے کائنات کے جملہ مظاہر میں اُس کی ذاتِ اقدس دکھائی دیتی ہے موسموں کے جمال میں قلزموں کے جلال میں مشرق و غرب و جنوب میں اور بادِ شمال میں وہ ذات جلوہ ریز نظر آتی ہے جیسے خواجہ میر درد نے کہا تھا   ؎

جگ میں آ کر ادھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

اسی موضوع کو نجمہؔ خان نے اپنی حمد کے ان دو اشعار میں انتہائی خوبصورتی سے نظم کیا ہے       ؎

کبھی موسموں کے جمال میں اُسے دیکھتے

کبھی قلزموں کے جلال میں اُسے دیکھتے

کبھی شرق و غرب و جنوب میں وہ تجلّیاں

کبھی برف و باد شمال میں اُسے دیکھتے

وہ اپنی نیرنگیِ خیال سے کائنات کے اسرار و رموز کو بیان کرتی ہیں ان کے کلام میں ایک دعوتِ مشاہد و غور و عمل ہے وہ جا بجا اپنے قاری کو سوچنے کی دعوت دیتی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ انسان سنسار کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھائے اور انہیں سمجھے   ؎

وہ جو محو تھے سرِ آئینہ پسِ آئینہ بھی تو دیکھتے

کبھی روشنی میں وہ تیرگی کو چھپا ہوا بھی تو دیکھتے

تو یہ جان لیتے کہ سچ ہے کیا یہ جو فردِ جرم ہے سب غلط

وہ متن پڑھ کے بھی رہ گئے کبھی حاشیہ بھی تو دیکھتے

اُن کے ہاں تنقیدی رویے بھی بھرپور تاثرات کے حامل ہیں وہ راہِ زیست کے انتھک مسافر کے طور پر اپنا سفر جاری رکھتی ہیں وہ زندگی کی لایعنی مسافتوں سے نالاں نظر آتی ہیں کچھ دوستوں کے شکوے بھی ہیں اُن کے جورو ستم کا مذکور بھی ہے   ؎

مرے حال پر مرے دوستوں کی عنایتیں مجھے کھا گئیں

وہ ڈھکی ڈھکی سی چھپی چھپی سی عداوتیں مجھے کھا گئیں

وہ جو منزلوں کی تلاش میں تھیں اذیتیں مجھے سہل تھیں

رہِ زیست میں یونہی بے سبب سی مسافتیں مجھے کھا گئیں

مجھے دشمنوں سے گلہ نہ تھا کہ وہ جرم مجھ پہ لگائیں کیوں ؟

مرے دوستوں کی مرے خلاف شہادتیں مجھے کھا گئیں

کسی بھی واقعے کو قلم بند کرنے کی وہ پوری پوری استطاعت رکھتی ہیں جس سے اُن کی شعری بساط کا اندازہ ہوتا ہے ادب اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے اس لیے ادبی تمثیلات اُن کے شعری شعور کا حصہ ہیں سماج کے دوہرے روئیوں کا مذکور اُن کے ہاں پایا جاتا ہے۔

وہ اکثر سامنے آ کر مرے یوں بیٹھ جاتا ہے

کہ جیتا جاگتا انساں نہ ہو تصویر ہو جیسے

وہ آنکھیں اور پلکیں حافظؔ و غالبؔ کی غزلیں ہیں

مگر وہ اس کا چہرہ کلیاتِ میرؔ ہو جیسے

ہمیں شہرِ خرابی سے ملے ایسے نشاں نجمہؔ

پس کارِ خرابی جذبۂ تعمیر ہو جیسے

اُن کی ایک پوری غزل بدونِ تبصرہ نذرِ قارئین ہے جس سے جذبوں کی صداقت، خلوص و مروت اور زورِ بیان آشکار ہوتا ہے   ؎

ہمہ وقت رقص میں تھا شرر میں تلاش نانِ جویں میں تھی

کوئی شام تھی نہ کوئی سحر میں تلاش نانِ جویں میں تھی

کسی کام میں کوئی کوزہ گر مجھے رکھ کے بھولا تھا چاک پر

سویہ گردشوں میں رہا سفر میں تلاش نانِ جویں میں تھی

مری جان و دل پر جو زخم تھے پئے اندمال کھلے رہے

مجھے ڈھونڈتا رہا چارہ گر میں تلاش نانِ جویں میں تھی

جو کسی نے پوچھا بھی روک کر وہ جو خدوخال تھے کیا ہوئے؟

تو جو اب سے بھی کیا حذر میں تلاش نانِ جویں میں تھی

کبھی چند لمحے نشاط کے مرے گھر میں آئے تو یہ ہوا

کہ پکارتے رہے بام و در میں تلاش نانِ جویں میں تھی

مجھے عشق کا کہاں ہوش تھا کوئی بار سا سرِ دوش تھا؟

کہا دل نے پیار کرو مگر میں تلاش نانِ جویں میں تھی

الغرض نجمہؔ خان کا کلام جذبوں کے رچاؤ سے مملو ہے قاری بعد از مطالعہ داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا یہی اُن کا فنی جوہر ہے جو اُن کی مقبولیت و پذیرائی کا جواز پیش کرتا ہے اگر اُن کی مشاطگیِ عروسِ سخن تواتر سے جاری رہی تو اُن کے فکر و فن میں مزید بالیدگی ضو پاش ہو گی۔

٭٭٭

 

نجمہؔ خان ( لاہور)

 آگ پر اپنے قدم ہیں سر ہے تلواروں کے بیچ

زندگی کا رقص ہے شعلوں کی دیواروں کے بیچ

ہے تعلق اپنی بربادی کا جس تصویر سے

اس کے پاس آکر رکے ہم اتنے شہکاروں کے بیچ

رعبِ زر سے فن کے خوش قامت جہاں بونے ہوئے

قد نکالا ہے وہیں پر ہم نے دستاروں کے بیچ

شوقِ منزل میں نہ جانے ہم کہاں تک آ گئے؟

راستے کے پیچ و خم میں وقت کے دھاروں کے بیچ

میں وہ شہزادی نہیں ہوں جو سماجی دیو سے

قید ہو جائے گی ان رسموں کی دیواروں کے بیچ

لقمۂ تر منہ میں سر پر تاج، اطلس زیبِ تن

کیسے خوش رہتے ہیں ایسے لوگ ناداروں کے بیچ؟

خسروانِ وقت کے چہروں کو پڑھ کر فیصلے

ہو رہے ہیں عہدِ حاضر میں بھی درباروں کے بیچ

٭٭٭

 

دشتِ دل میں کوئی جگنو کوئی تارا بھی تو ہو

زندہ رہنے کے لیے کوئی سہارا بھی تو ہو

رشتۂ عشق سلامت ہے تو ایسا بھی تو ہو

ہم تو اس کے ہیں کسی دن وہ ہمارا بھی تو ہو

عشق کے دیس میں شیرین مماثل ہوں تو کیا؟

مثلِ فرہاد کوئی صاحبِ تیشہ بھی تو ہو

جذبۂ شوق یہ چاہے کہ نکل جائیں کہیں

وحشتِ دل کا تقاضا کوئی صحرا بھی تو ہو

پار سسی کی طرح ہم بھی سمندر کر لیں

منتظر تو ہو جہاں ایسا کنارہ بھی تو ہو

ہم ابھر سکتے ہیں طوفاں سے بھی زندہ لیکن

ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا بھی تو ہو

ہم تو  طوفاں سے بھی ٹکرائیں گے اُس کی خاطر

سمتِ ساحل سے مگر کوئی اشارہ بھی تو ہو

٭٭٭

 

نگہتؔ زیبا کے شعری اِدراکات

تخلیقِ شعر ایک وجدانی عمل سے وجدان اور ادراک خرد کے تلازمات ہیں خیال کی نمو بھی خرد سے ہوتی ہے اس لیے جس شاعر کے ہاں وسیع تر عقلی صلاحیتیں ہوں گی اس کے تخیلات اس قدر وقیع و بسیط ہوں گے آج ہمارا موضوعِ بحث نگہتؔ زیبا کے شعری ادراکات ہیں جن کا فکری کینوس وسعتوں کا حامل ہے جن کے افکار میں ایک تازہ کاری کا عمل ملتا ہے ہمارے سامنے ان کلا شعری مجموعۂ ’’دھوپ کے اس پار ‘‘ ہے جس کی طباعت 2003ء میں عمل میں آئی ان کا تعلق شہداد پور سے ہے مذکورہ مجموعہ کے نصف اول کے منتخب غزلیہ اشعار شامل تجزیہ ہیں۔

نگہتؔ زیبا اعلیٰ سماجی اقدار کی پاسدار ہیں اس لیے معاشرے کے معائب و محاسن کو دقتِ نظری سے دیکھتی ہیں معائب کی مذمت کرتی ہیں اور محاسن کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں وہ احترامِ آدمیت کی قائل ہیں اور وقارِ انسانیت کا درس دیتی ہیں   ؎

چلن اپنے معاشرے کا عہدِ نو میں

وقارِ آدمیت کھو رہا ہے

جہاں اُن کے ہاں مجازی حوالے وفور سے ملتے ہیں وہاں کہیں کہیں معرفت بھی اپنی بہار دکھاتی نظر آتی ہے مجاز کا وسیع تر اِدراک بھی اُن کے کلام کا امتیازی وصف ہے انہوں نے زندگی کے چھوٹے چھوٹے موضوعات کو موضوعِ سخن بنایا ہے اس لیے اُن کی ایک فکری مماثلت مجید امجد سے بھی ہے   ؎

نظر کہیں سے اگر بہرہ ور نہیں ہوتی

تو دل کی آنکھ بھی محو سفر نہیں ہوتی

فراق سے ہی رفاقت کے دیپ جلتے ہیں

شبِ فراق کی کوئی سحر نہیں ہوتی

مٹا دئیے ہیں مسافر کے ہر قدم کے نشاں

یہ گردِ راہ کبھی راہبر نہیں ہوتی

اُن کے ہاں نئی امنگیں ہیں امید افزا امکانات ہیں بھرپور رجائی حوالے ہیں رفعتِ تخیل ہے غم و الم سے انسیت کے پہلو ہیں   ؎

 آرزوؤں کو سلگنے سے بچایا ہے ابھی

دھوپ کے پار نیا شہر سجایا ہے ابھی

دل کی ہر خواہش بے صوت ہوئی رقص کناں

بربطِ غم نے کوئی روگ اٹھایا ہے ابھی

قہقہہ بار ہوئے پھر سے اندھیروں میں دئیے

دل نے ہر طاق میں اک زخم سجایا ہے ابھی

اُن کی قوتِ متخیلہ وسیع تر رومانوی تاثر کی حامل ہے اُن کا طرزِ اظہار جداگانہ ہے جو جاذبیت کی دولت سے مالا مال ہے   ؎

اثر کیسے نہ رکھتے لفظ میرے؟

محبت کی عبا پہنے ہوئے ہوں

اُن کے کلام میں حبُ الوطنی کے خوبصورت حوالے ملتے ہیں دیس سے کھوٹ اور منافقت انہیں کسی طور گوارا نہیں ہے وہ غدار جذبوں کی مذمت کرتی ہیں اور انہیں تباہی و بربادی کا ذمہ دار گردانتی ہیں   ؎

بک گئے جو غیر کے ہاتھوں انہیں ہم کیا کہیں ؟

بد خصائل دیس کے خوش رنگ منظر پی گئے

اُن کے ہاں زیست کے سانحات کا مذکور بھی ہے حزنیہ افکار بھی اپنی پوری شدت وحدت سے ملتے ہیں اور اُن کا حزن و ملال بھی حدِ کمال کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ان کے خیالات میں تازہ کاری اور نادرہ کاری کے مظاہر ملتے ہیں   ؎

کبھی بے موسموں کی بارشیں جوبن پہ آتی ہیں

کسانوں کا تو ایسے میں مقدر بھیگ جاتا ہے

میں دل کے بوجھ کو ہلکا کروں تو کس طرح نگہتؔ؟

مرے رونے سے بے چارہ سمندر بھیگ جاتا ہے

مذکورہ بالا استشہادات اس امر کی غماز ہیں کہ نگہتؔ زیبا کے شعری ادراکات لائقِ صد تحسین و صد ستائش ہیں جن میں ایک دل گداز تخیل ہے روح افزا شیرینی ہے بین السطور ایک زبردست قسم کی مضمون آفرینی ہے تغزل کی بھرپور چاشنی ہے ان کا شعری شعور رفعتوں کا حامل ہے پیرایۂ  اظہار نادر النظیر ہے عروضی محاسن کا اہتمام ہے کلام بلاغت نظام سے فطری نوعیت کے افکار کا التزام ہے جن میں محاورات کا خوبصورت انتظام ہے معرفت و جواز کے انکشافات ہیں تو اسلوب کی قرینہ کاری کا انصرام ہے کہیں خوشگوار احساسات ہیں تو کہیں لطیف جذبات ہیں کہیں فکر کی کرشمہ کاری ہے تو کہیں فن کی نادرہ کاری ہے اگر اسی سرعت سے اُن کی شعری ریاضت جاری و ساری رہی تو وہ دنیائے شعر میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

٭٭٭

 

نگہتؔ زیبا ( شہداد پور)

دھوپ کی تمازت میں سائبان شیشے کا

پتھروں کی بستی میں ہے مکان شیشے کا

گردشیں زمانے کی رکھتی ہیں پریشاں دل

 آندھیوں کی زد میں ہے یہ مکان شیشے کا

بحرِ غم میں دیکھو تو کیا عجیب ہے منظر؟

کشتیاں ہیں کاغذ کی بادبان شیشے کا

رنگ رنگ نظارے ہیں سورجوں کے منت کش

کرچیوں پر قائم ہے یہ جہان شیشے کا

کر ہی لیں نگہتؔ آخر انگلیاں فگار اپنی

سر پر کیوں اُٹھایا تھا آسمان شیشے کا؟

٭٭٭

 

وہ داستاں کہتے رہے تازہ بہ تازہ نو بہ نو

ہم نے قصے سن لیے تازہ بہ تازہ نو بہ نو

راہِ وفا کے سلسلے آسان بھی مشکل بھی ہیں

 آتے رہیں گے مرحلے تازہ بہ تازہ نو بہ نو

اس کی نظر بدلی تو کیا کچھ اور منظر ہو گیا؟

صحرائے دل میں گل کھلے تازہ بہ تازہ نو بہ نو

ہر شاخ پر فریاد تھی ہر پھول پر اک زخم تھا

میں نے تو کانٹے چن لیے تازہ بہ تازہ نو بہ نو

جب بھی زمانے پر پڑی مشکل تو یوں کام آ گئے

اشعار ہم نے کہہ دئیے تازہ بہ تازہ نو بہ نو

میں نے صلیبِ وقت پر الفاظ کو لٹکا دیا

مصرعے مرتب ہو گئے تازہ بہ تازہ نو بہ نو

لفظوں کی دھیمی آنچ نے جذبات کو پگھلا دیا

اسرار پھر کھلتے رہے تازہ بہ تازہ نو بہ نو

٭٭٭

 

ناصرہ زبیری کا شعری تحیُّر

فنِ شاعری کے مابین افکار میں حیرت و استعجاب کا اہتمام غمازِ جدت ہوا کرتا ہے اور یہ ندرت ایک طویل ریاضِ سخن کے باعث میسر آتی ہے جب فکر و فن پر شاعر کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے تو پھر لاشعوری اور شعوری طور پر اُس کے افکار میں تحیّر کے شواہد نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں آج ہمارا موضوعِ گفتگو ناصرہ زبیری کا شعری تحیر ہے ہمارے سامنے اُن کا دوسرا شعری مجموعہ ’’کانچ کا چراغ‘‘ ہے جس میں حیرت و استعجاب کے بہت سے شواہد ایک انبار کی صورت موجود ہیں ناصرہ زبیری کراچی سے تعلق رکھتی ہیں صحافت اور میڈیا سے وابستہ شخصیت ہیں مجموعہ ہذا ستمبر 2012ء میں زیر طباعت سے آراستہ ہوا قبل ازیں ’’شگون‘‘ کے نام سے مجموعۂ کلام قارئین شعر و سخن سے داد و تحسین سمیٹ چکا ہے اُن کے دوسرے شعری مجموعے ’’کانچ کا چراغ‘‘ سے منتخب غزلیہ اشعار شامل تجزیہ ہیں۔

ناصرہ زبیری فکر و فن پر دستگاہ رکھنے والی شاعرہ ہیں اس لیے انہوں نے طویل غزلیں پورے وثوق سے کہی ہیں وہ فکری فنی وسعتوں سے ہمکنار ہیں ان کے دوسرے مجموعۂ کلام میں تمام تر غزلیں شامل ہیں جس سے اُن کی غزل سے محبت آشکار ہوتی ہے انہوں نے غزل سے پورے طور پر وفا کرنے کی جسارت کی ہے اور جواباً غزل بھی اُن سے وفا کرتی دکھائی دیتی ہے اُن کا کلام قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے مصرع در مصرع شعر در شعر اور غزل در غزل اُن کے افکار کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں ویسے تو اُن کے ہاں ایک موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے لیکن تحیّر ایک مستقل حوالے کے طور پر سامنے آیا ہے   ؎

کھلے گا یہ چراغوں پر اچانک

بدلتی ہے ہوا تیور اچانک

پکے گا پھل شجر پہ دھیرے دھیرے

لگیں گے آن کر پتھر اچانک

گلاب آہستہ آہستہ کھلے گا

کوئی لے جائے گا چن کر اچانک

کبھی وہ یاد آئے گاہے گاہے

کبھی بے ساختہ اکثر اچانک

اُن کے افکار میں حیرت کا پہلو اس قدر ہے کہ اُن کے اوراکات کا پیشگی شعور قاری کے لیے قرینِ قیاس نہیں ہوتا جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ اسلوب کی جاذبیت بھی جا بجا متوجہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے گویا اسلوبیاتی و لسانیاتی، جدلیاتی و ساختیاتی اور نفسیاتی حوالے سے اُن کا شعری شعور لائقِ تحسین ہے شعوری اور لاشعوری صلاحیتیں ایک دوسرے ہم آہنگ نظر آتی ہے جن سے ایک زبردست قسم کا شعری تموج نمو پاش ہورہا ہے   ؎

اتفاقاً ٹوٹنے کو ہے جفا کا سلسلہ

اُس کے دل میں بھول کر میرا خیال آنے کو ہے

ہے فقط تکمیلِ وحشت میں کسراک انچ کی

تیز ہوتی گردشِ خوں میں اُبال آنے کو ہے

ناصرہ زبیری کا پیرایۂ اظہار غیر روایتی طرز کا حامل ہے اس لیے قاری کو سرسری گزر جانے کی قطعاً اجازت نہیں ہوتی اُن کا کلام قاری کو متوجہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے  ؎

خطرات کا امکان ہے کچھ اور طرح کا

اس گھر کا نگہبان ہے کچھ اور طرح کا

پھر اور ہی سودا ہے کوئی سر میں سمایا

پھر لینے میں ارمان ہے کچھ اور طرح کا

اس دورِ خدائی کے ہیں کچھ اور تقاضے

اس دور کا انسان ہے کچھ اور طرح کا

ہم اہلِ طلب سے نہ چھپا اپنے خزانے

مطلوب ہمیں دان ہے کچھ اور طرح کا

دنیا سے گواہی کی سند مانگنے والے

تجھ سے مرا پیمان ہے کچھ اور طرح کا

اُن کے تخیلات کی رفعت ہی اُن کے شعری تحیّر کا تلازمہ ہے اُن کے تخیل کی اُڑان بہت بلند ہے عمومی اور نجی خیالات سے ایک گریز کا پہلو ملتا ہے    ؎

کوئی آواز طلسمی ہے نہ پیکر کوئی

مڑ کے دیکھے بھی تو ہوتا نہیں پتھر کوئی

تو سلامت نکل آیا ہے اگر ملبے سے

نئی بنیاد اُٹھا پھر سے بنا گھر کوئی

منتشر کرکے نہ رکھ دیں تیری سوچیں تجھ کو

ڈھونڈے بے سمت خیالات کا محور کوئی

اُن کے ہاں ایک خود کلامی کا سا انداز ہے ایک مکالماتی فضا ہے جو نادر النظیر جذبوں کی شناور ہے ایک رمزِ آموز گاری ہے جو سراپا جانکاری ہے   ؎

ناپنے ہجر مسافت کو چلی دل کی کرن

اُس اکائی سے جہاں سال ہے نوری شاید

بے ارادہ کئی راہوں پہ چلا دل لیکن

ایک جانب ہے سفر میرا شعوری شاید

 آنکھ کی دیوار پہ تصویر کا احسان رکھ

منتظر ہیں خواب اک تعبیر کا احسان رکھ

اس صحن میں بھی کھلی جاتی ہیں کلیاں کہ جہاں

جرم کہلائے ہواؤں سے شناسائی بھی

دعویِٰ عشق بھی کس طور سے اس دل میں ؟

جس میں موجود ہے اندیشۂ رسوائی بھی

مڑ کے دیکھا ہی نہیں تیر چلا کر ورنہ

جان لیتا وہ مرے ضبط کی گہرائی بھی

اب فرائض کی نئی بھیڑ میں خواہش کی طرح

ہاتھ دل سے نہ چھڑائے کہیں تنہائی بھی

ہم بھی احسان نہ لیں اور کسی مرہم کا

تجھ سے شرمندہ نہ ہو تیری مسیحائی بھی

مذکورہ استشہادات تو صرف چند جھلکیاں تھیں حقیقت میں ناصرہ زبیری کا تمام تر کلام سراپا انتخاب ہے تمام اشعار حوالے کا استحقاق رکھتے ہیں طولِ بیاں سے گریز مطلوب ہے تاکہ طوالتِ شذرہ قاری پر گراں نہ گزرے اُن کا کلام حیرت و استعجاب کا بحر بیکراں ہے جس کی وسعت جاوداں ہے۔

٭٭٭

 

ناصرہ زبیری (کراچی)

دونوں کی مسافت کی ڈگر ایک نہیں ہے

ہے ایک سفر سمت مگر ایک نہیں ہے

تعبیر کی تقسیم بنی وجہِ تنازع

اب اس کا مرا خواب نگر ایک نہیں ہے

میں ہم سفری چاہوں تو وہ راہ نمائی

دونوں کے ارادوں کا سفر ایک نہیں ہے

دوراہے پہ اب تک تو نہیں ہو مگر آگے

نکلو گے تو پھر راہ گزر ایک نہیں ہے

ہم دائرہ ہے تیری مری سوچ کی گردش

محور اسی گردش کا مگر ایک نہیں ہے

ملتا ہی نہیں عشق سفر میں کہیں سایہ

اس ریگِ مسافت میں شجر ایک نہیں ہے

اس دنیا کے طبقات کو جس سے مرے مالک

تو دیکھ رہا ہے وہ نظر ایک نہیں ہے

٭٭٭

 

اِدھر زمانہ اُدھر عشق درمیان میں ہم

تمام عمر رہے کیسے امتحان میں ہم؟

یہ سوچ کر کہ کہیں تمہیں دھوپ چبھ رہی ہو گی

زیادہ دیر نہ رہ پائے سائبان میں ہم

جہاں کے اپنے مکیں تھے مسافروں کی طرح

گزار آئے ہیں اک عمر اس مکان میں ہم

کہیں پہ ملتا نہیں زندگی کا اور نشاں

بہت اکیلے ہیں یار ہے ترے جہان میں ہم

چھپے ہوئے کئی نکلے ہیں سانپ شاخوں سے

سمجھ رہے تھے کہ محفوظ ہیں مچان میں ہم

بہت ہی کم تھی ہماری خرید کی قوت

اسی سبب سے نہ ٹھہرے کسی دکان میں ہم

سمٹنے والے ہیں کردار و واقعات ہی جب

پھر آئے ہیں بھی تو کیا تیری داستان میں ہم؟

٭٭٭

 

 

وضاحت نسیمؔ دھیمے لہجے کی شاعرہ

جذبوں کی شدت وحدت کے باعث لہجہ بلند بانگ ہوتا ہے جس کا سبب قلبی کیفیات ہوتی ہیں اس کے برعکس دھیما لہجہ شعور و شائستگی کا غماز ہوتا ہے جن اشعار میں خرد کی قرینہ کاری ہو گی تو لہجے میں دھیمے پن کا آنا ایک فطری امر ہے صنفِ نازک کے لیے دھیما لہجہ ہی مناسب خیال کیا جاتا ہے دھیما پن رفعت و عفت کا مظہر ہوتا ہے طبقۂ اناث کی شاعری میں ایسے شواہد بکثرت ملتے ہیں ایسی شاعرات میں سے وضاحت نسیمؔ نے بھی خوبصورت انداز میں دھیمے لہجے میں شاعری کی ہے انہوں نے اپنے کلام کو نعرہ بازی بننے سے شعوری اور لاشعوری ہر طریقے سے بچایا ہے اُن کی سخن سنجی سنجیدگی اور متانت و ذہانت سے عبارت ہے ان کا تعلق کراچی سے ہے یہ عرصۂ دراز سے اعتماد کی فضا میں شعر کہہ رہی ہیں اُن کا اولین شعری مجموعۂ ’’خواب دریچے‘‘ 1989ء میں شائع ہوا جنوری 1999ء میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’اندھی گلی میں سورج‘‘ منصہ شہود پر آیا مجموعہ ہٰذا میں سے منتخب غزلیہ اشعار شاملِ تجزیہ ہیں۔

اُن کے ہاں روایتی خیالات بھی وفور سے ملتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا روایت سے تعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہے وہ قاری کو ادق و دقیق تشبیہات و استعارات اور ترکیبات میں نہیں اُلجھاتیں اُن کے اسلوب میں ایک سادگی و پرکاری پائی جاتی ہے انہوں نے سہل نگاری کی روایت کو فروغ بخشا ہے    ؎

 آپ کی بات کو میں رد کر دو میری مجال نہیں

اچھوں جیسا ہے حال ہے لیکن اچھا حال نہیں

لوگوں سے کچھ ایسے ملیے وہ زندہ ہو جائیں

اپنی ذات میں زندہ رہنا کوئی کمال نہیں

ہوا کی زد میں دیا جلا کر بھول گئے

ورنہ ہماری ضد تو ایسی جس کی مثال نہیں

عمومی احساسات خود میں حسنِ بے پایاں سموئے ہوئے ہیں انہوں نے اپنے اسلوب اور خیالات کو گنجلک نہیں ہونے دیا اُن کے شعری کینوس میں احترامِ آدمیت، حقیقت پسندی، مصلحت آمیزی اور ایثار و مروت جیسے موضوعات ملتے ہیں۔

اُن کے ہاں احساسِ تشکر، نالہ و شیون اور ایک طرفگی کا عنصر بھی ملتا ہے جس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اُن کی سخن گستری پہلو داری سے مملو ہے   ؎

جو اپنے دل میں تھا اس کو وہیں پہ چھوڑ دیا

اب اُس نے فیصلہ میری نہیں پہ چھوڑ دیا

گزرنے والے بے خبری کی آرزو میں ہمیں

نشانِ راہ سمجھ کر کہیں پہ چھوڑ دیا

بسا اوقات اُن کے افکار معصومیت کے لبادے میں لپٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور وہ مظاہرِ فطرت پر غور کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اُن کے ہاں مجازی اور حقیقی ہر نوع کے تخیلات ملتے ہیں وہ سماج کی بے حسی اور اغراض پرستی کو بھی ہدفِ تنقید بنائی ہیں یہ تمام تر امور دھیمے لہجے کے تاثرات سے مزّین ہیں   ؎

بوجھے کوئی ایک پہیلی اس منظر میں ہے

بادل اُڑتا جائے یا چاند سفر میں ہے

گھر تو اصل میں وہ ہوتا ہے جس میں سب خوش ہوں

گھر کا ایک تصور تو دیوار و در میں ہے

پیڑ جو تھے سر سبز وہ ہم نے جڑ سے کاٹ دئیے

اب تو اپنا سایہ بھی ہمراہ سفر میں ہے

اُن کے اقلیمِ شعر میں ایک رمزِ آموز گاری ہے جو اُن کے افکار پر بھاری ہے وہ اقدار کو صحت مند اور تندرست و توانا ہونے کے ساتھ ساتھ فعال ہونے کا درس دیتی ہیں مصائب و آلام کا مذکور بھی ہے کہیں حقوقِ نسواں کی بھی پاسداری کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں وہ بنتِ حوا کے لیے جہاں کی وسعتوں کی متقاضی ہیں اُن کے افکار کی جھلک اُن کی غزل کے ان پانچ اشعار میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے   ؎

ہمراہ چلو ایسے تھکن تک نہ ہو محسوس

ہاں گردِ مسافت رہے چہرے پہ تو کیا ہے؟

اقرار ہیں محفوظ تو مت دیکھیے حالات

 آدابِ محبت ہی برتنے میں مزا ہے

اب ذہن میں سوراخ کیے دیتی ہیں یادیں

تنہائی کا دکھ رنجشِ بے جا سے سوا ہے

جانا ہی نہیں چاہیے آنکھوں کو افق پار

جب کچھ بھی افق پر نہیں صرف خلا ہے

رشتوں کے حوالوں میں کیا اس کو مقید

کیا چند حوالوں ہی میں عورت کی بقا ہے؟

انسان جب تمناؤں کے حصار سے نکل آتا ہے تو پھر اُسے مقامِ طمانیت و سکینت نصیب ہوتا ہے صاف گوئی شخصیت کی بہت بڑی خوبی ہوا کرتی ہے وہ ایک صلح جو طبیعت کی مالک ہیں۔

کچھ بھی تو نہیں خواہشِ دنیا میرے آگے

مت کیجیے اظہارِ تمنا میرے آگے

جو کچھ مرے بارے میں کہا اُس نے برا ہے

اچھا تو یہ ہوتا کہ وہ کہتا میرے آگے

جو دل میں ہے وہ بات کہو سادہ دلی سے

بیکار ہے الفاظ کا جھگڑا میرے آگے

متذکرہ استشہادات اس امر کی غماز ہیں کہ وضاحت نسیمؔ کا کلام دھیمے لہجے کا حامل ہے لیکن اُن کے افکار میں بے پناہ وسعتیں ہیں جو تہہ در تہہ کھلتی چلی جاتی ہیں ابھی انہوں نے بہت آگے جانا ہے انہیں خلوص، لگن اور ریاضت کے اصولِ ثلاثہ پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔

٭٭٭

 

وضاحت نسیمؔ (کراچی)

ہم نفس ہوتا اگر آرامِ جاں میرے لیے

پھر سمجھتی میں کہ ہے سارا جہاں میرے لیے

معتبر ہوں اک حوالے سے وہ کیسا ہی سہی؟

مہرباں میرے لیے نا مہرباں میرے لیے؟

گفتگو کرتی تھی میں بھی روشنی کے باب میں

اک کہاں راہوں میں لیکن کہکشاں میرے لیے؟

پہلے میرے خواب سارے ریزہ ریزہ کردئیے

اب سنبھالی جارہی ہیں کرچیاں میرے لیے

کچھ تو میری بھی محبت کو دیا جائے خراج

ان کے دل میں ہے اگر چاہت نہاں میرے لیے

٭٭٭

 

ہوا کچھ سوچتی کچھ بولتی ہے

گھٹن ماحول کی کچھ بولتی ہے

مجھے آنے لگا ہے خوف سا کچھ

گھروں کی خامشی کچھ بولتی ہے

کتابوں میں جرائم تھے رقم کیا؟

قلم سے ہتھکڑی کچھ بولتی ہے

سبھی لڑکے بنے ہیں رہنما کیا؟

سبھی کی گمرہی کچھ بولتی ہے

نہیں ہے مسئلہ پہچان کا اب

یہی بے چہرگی کچھ بولتی ہے

نہیں باہر کی اب آواز کوئی

یہ اندر کی کمی کچھ بولتی ہے

نسیمؔ اس دورِ وحشت میں الجھ کر

کبھی کچھ اور کبھی کچھ بولتی ہے

٭٭٭

 

ہماؔ صمدانی عمومی احساسِ الفت کی شاعرہ

عمومی احساسِ الفت جذبوں کی معصومیت سے عبارت ہے جس میں افکار انتہائی سادہ اور شستہ ہوئے ہیں جن میں بناوٹ یا تصنع کا گمان نہیں ہوتا ایسی شاعری فطری رومانیت سے نسبت رکھتی ہے آج کے پیچیدہ دور میں سادگی اپنا ایک مخصوص حسن رکھتی ہے جو ہر کِہ و  مِہ کو میسر نہیں آتا جب جذبوں میں صداقت ہو تو پھر اظہار خصوصی نوعیت کا ہوتا ہے ہماؔ صمدانی کے شعری مجموعہ ’’تو کیا تم یاد کرتے ہو؟‘‘ کے بنظرِ غائر مطالعہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اُن کا احساسِ الفت عمومی اور فطری ہے جو ہر قسم کی ملمع کاری سے مبرا و ماورا ہے اُن کے مذکورہ شعری مجموعہ کے منتخب غزلیہ اشعار مذکورہ موضوع کی مناسبت سے شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

اُن کے ہاں محبت کی عمموی کیفیات خالص فطری انداز میں ملتی ہیں جس میں محبوب کے ناز و غربدہ کا مذکور بھی ہے ہجر و وصال کے فسانے بھی ہیں اور ہجر کی آہ و فغاں بھی جہاں آنکھیں پرنم بھی ہیں جن میں رومان سپنے پنپ رہے ہیں محبوب کے جورو جفا اور لطف و کرم کا ذکر بھی بھرپور انداز میں ملتا ہے عمومی احساسِ الفت سے لبریز اُن کی غزل نذرِ قارئین ہے   ؎

خود روٹھتے رہتے ہو اور خود ہی مناتے ہو

کیسی یہ محبت ہے کیوں مجھ کو ستاتے ہو؟

تاروں سے الجھ کر تم شب بھر کی مسافت میں

خود جاگتے رہتے ہو مجھ کو بھی جگاتے ہو

پرنم سی نگاہوں میں خوابوں کو کہاں ڈھونڈوں ؟

بے بس سی بصارت میں سپنے جو سجاتے ہو

مانا کہ بچھڑنے پر روتے ہیں سبھی اکثر

پر روگ جدائی کو کیوں دل سے لگاتے ہو؟

حیراں ہو مسلسل میں اس طرزِ محبت پر

تم پیار بھی کرتے ہو اور مجھ کو رلاتے ہو

ہماؔ صمدانی کے ہاں حسرتوں کا دکھ بھی ہے لیکن امید افزا سپنے بھی نمو پاش ہو رہے ہیں جن سے رجائی تاثر ضو پاشیاں کر رہا ہے اور یہ امید امکانات اُن کے کلام کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں   ؎

کبھی آرزو کو جگانے تو آؤ

مرے ہاتھ مہندی لگانے تو آؤ

زمانے کی سنگین رسموں سے لڑ کر

کبھی مجھ کو مجھ سے چرانے تو آؤ

مرے درد و غم نے جو بخشے تھے قصے

وہی آج مجھ کو سُنانے تو آؤ

بھلے مت نبھانا محبت کے وعدے

یونہی دل لگی کے بہانے تو آؤ

مدت سے خوشیوں سے روٹھی ہماؔ کو

سعادت سمجھ کر منانے تو آؤ

جہاں اُن کا کلام سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے لیکن وہاں مشکل قوافی کا استعمال چابکدستی سے ملتا ہے محبت کی تمام تر کیفیات ملتی ہیں اُن کی سب خواہشیں محبوب سے وابستہ ہیں اُن کے سخن میں عمومیت کا حسن سے ان کی ایک غزل زیبِ قرطاس ہے   ؎

درد کے لمحے لمحے میں اک خوشیوں کا احساس تمہی ہو

ظلمت کے تاریک سفر میں آس بھرا وسواس تمہی ہو

رستے ہوں انجان جہاں اور منزل ہو گمنام

ایسے حال میں جگنو ہو تم منزل کی بو باس تمہی ہو

تجھ کو پانا خواب بھی تھا اور تجھ کو پانا خواب بھی ہے

بے شک مدت بیت چکی ہے پھر بھی میری آس تمہی  ہو

جھوم اُٹھی ہے ساون کی رُت، بادل بھی اور بارش بھی

رقص میں ہے یہ دھرتی ساری کیونکہ میرے پاس تمہی ہو

مذکورہ تصریحات شاید ہیں ہماؔ صمدانی کے پاس معصوم جذبوں کی چاشنی ہے انتہائی سادہ و شستہ اسلوب ہے انہیں فکری و فنی بالیدگی کے لیے طویل المیعاد ریاضت مطلوب ہے۔

٭٭٭

 

ہماؔ صمدانی ( کراچی)

ہمیں حسبِ منشا ملا کچھ نہ ساقی

مگر پھر بھی تجھ سے گلہ کچھ نہ ساقی

لٹایا تھا سب کچھ تری ہر ادا پر

ملا مجھ کو لیکن صلہ کچھ نہ ساقی

پیئے اپنے آنسو، پیا دل کا خوں بھی

ترے میکدے سے پیا کچھ نہ ساقی

ترے ہاتھ ارماں ہوئے قتل جب سے

قسم سے کبھی پھر کیا کچھ نہ ساقی

تری آس پر ہم تو جینے لگے تھے

ترے بعد ہم نے جیا کچھ نہ ساقی

٭٭٭

 

مری بے بسی دیکھ کیا چاہتی ہوں ؟

تجھی سے تجھے مانگنا چاہتی ہوں

ترے نام کے سنگ اب نام اپنا

ہمیشہ ہمیشہ لگا چاہتی ہوں

کیا روز چھپ چھپ کے دنیا سے ملنا ؟

ہاں ! ملنا تجھے برملا چاہتی ہوں

مجھے اب کسی کی ضرورت نہیں پر

میں تجدیدِ عہدِ وفا چاہتی ہوں

بھروسہ ہماؔ زندگی کا کہاں ہے؟

میں پھر بھی ترا آسرا چاہتی ہوں

٭٭٭

 

یاسمین یاسؔ کے شعری احساسات

شاعری کا خمیر انسان کے دروں سے نموپاتا ہے۔ تمام جذبات و خیالات داخلیت کی پیدا وار ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں خرد کا کردار کلیدی ہوتا ہے، گویا کسی سخن گستر کے احساسات اس کی خرد نوازی کا نتیجہ ہوتے ہیں، یوں سخن سازی ایک وجدانی عمل قرار پاتا ہے جس میں اگرچہ داخلی افکار بنیادی حیثیت رکھتے ہیں مگر خارجی عناصر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ داخلی و خارجی عوامل سخن ور کی شعور سازی میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ سخن سنجی مختلف جذبات و کیفیات سے عبارت ہوتی ہے۔ شاعر کا موضوعات سے سلوک خالق کے مخلوق سے رویے کا مثیل ہوتا ہے۔ قلم کار کی فکری اپج اس کا حتمی اختیار ہوتا ہے۔ جس کی بدولت وہ متنوع افکار کو جنم دیتا ہے اور مختلف کیفیات کا اظہار کرتا ہے جس سے اس کے مزاج کی ترجمانی ہوتی ہے، خیالات و موضوعات میں تنوع لانا ہر کہ و مہ کے بس کا روگ نہیں ہے۔ جذبات و احساسات کی رنگارنگی سے کسی بھی شاعر یا شاعرہ کی فکری وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مضمونِ ہذا میں ہم یاسمین یاسؔ کے شعری مجموعے ’’رات گئے آنکھوں سے‘‘ میں سے ان کے منتخب کلام کا فکری وفنی تجزیہ پیش کریں گے۔

یاسمین یاسؔ کا تعلق پروفیسر آفاقؔ صدیقی کے حلقۂ تلمیذ سے ہے۔ ان کے ابھی تک تین مجموعہ ہائے کلام منصہ شہود پر آ چکے ہیں۔ انتہائی کم عرصے میں انہوں نے اپنے آدرش میں بے پناہ وسعت پیدا کی ہے۔ محض پُر گوئی ہی نہیں بلکہ فکری بالیدگی کے ساتھ ساتھ فنی رموز کی آگہی بھی ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’مرا جلنا ضروری ہو گیا ہے‘‘سے موسوم 2000ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ بعد ازاں 2005ء میں ’’مرے بے خبر‘‘ سے معنّون مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آیا۔ زیرِ تجزیہ شعری مجموعے کی اشاعت 2012ء میں عمل میں آئی۔ ان کے ہاں معیار اور مقدار کے دونوں تلازمے موجود ہیں۔ وہ انتہائی دھیمے لہجے میں بات کرتی ہیں جو دلوں پر اثرات مرتب کرتی چلی جاتی ہے۔ ان کا اسلوب سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے۔ سادگی و پُر کاری ان کے پیرائے اظہار کا وصف ہے۔ ہم ان کے غزلیہ انتخاب پر خامہ فرسائی کرتے ہیں اور تجزیہ زینتِ قرطاس کرتے ہیں۔

دنیائے رومان احساسات کی اماج گاہ ہوتی ہے جس میں ہر دھڑکن محبت کی نوا بن جایا کرتی ہے۔ آنکھیں رتجگوں کا سفر طے کرتی ہیں، دل محبت کے نغمے الاپتا ہے، دل جشنِ تنہائی منانے کے لیے مختلف افعال سے گزرتا ہے جس میں خود کلامی بھی ہوتی ہے، حزن و ملال بھی جاں گداز ہوتا ہے جس میں خود فریبی بھی ہوتی ہے اور اپنی ہزیمت پر انسان خندہ زن بھی نظر آتا ہے۔ پریم کے اس سفر میں جہاں ہر گام پر غم استقبال کرتے ہیں وہاں خود کو تسلی بھی دینی ہوتی ہے کیوں کہ الفت کے اس سفر میں انسان نے خود ہی گرنا ہوتا ہے اور خود ہی سنبھلنا ہوتا ہے۔ انھی احساسات کی ترجمانی ذرا یاسمین یاسؔ کی زبانی ملاحظہ کیجیے   ؎

دھڑکنیں جس سے محبت کی صدا بن جائیں

دل نے وہ گیت لکھا رات گئے آنکھوں سے

جشنِ تنہائی منانے کے لیے دل میرا

 آج پھر کھل کے ہنسا رات گئے آنکھوں سے

تم جو روتی رہیں رو دے گی محبت میری

میں نے چپکے سے کہا رات گئے آنکھوں سے

غزلِ ہٰذا کا اسلوب انتہائی شستہ اور رواں ہے۔ وہ اپنے آپ کو دقیقہ سنجی کے جھمیلوں میں الجھانا مناسب خیال نہیں سمجھتیں۔ وہ ابلاغ پر زور دیتی ہیں۔ ان کے ہاں جذبات و احساسات کا اظہار عمومیت کے پیرائے میں ہوتا ہے۔ وہ عوام کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کسی خاص طبقے کی ترجمان نہیں ہیں۔ عام آدمی ان کے کلام سے بخوبی حظ اُٹھا سکتا ہے۔ مذکورہ غزل میں ان کی حزنیہ شعری طبع نمایاں طور پر سامنے آئی ہیں۔ روحانی کیفیات کو عمومی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

سماج کے عمومی روئیوں اور خصوصاً احباب کے سلوک کو ہدفِ تنقید بنانا بھی سخن ور کا فرضِ منصبی ہوا کرتا ہے جس سے قلم کار کا مقصد مثبت افکار و افعال کی آبیاری ہوتا ہے کیوں کہ شاعر اپنی معاشرت کا نقاد ہوتا ہے۔ وہ معاشرے کی ہر کج روی کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ کٹھن فریضہ یاسمین یاسؔ نے بھی بخوبی نبھایا ہے۔ غزل کے اس شعر میں عمل اور رد عمل دونوں قوتیں اپنے موثر انداز میں جلوہ گر ہیں   ؎

عیب جب سے بتا دیے ان کو

تب سے ہر دوست مجھ سے برہم ہے

ان کے ہاں عام آدمی کے مسائل ہیں۔ اس کی زندگی کے دکھ درد ہیں۔ وہ صرف محبت کی بات نہیں کرتیں، انھیں مقتضیاتِ حیات کا بھی پورا پورا ادراک ہے۔ وہ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ معاشرے کے مفلوک الحال طبقے کا کرب کیا ہے۔ ان کے ہاں یہ شعور بھی جلوہ گر ہے   ؎

 ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘

غزل کے دو اشعار ان کی اسی فکر کے غماز ہیں۔

ترستے ہیں جو اک روٹی کی خاطر

کھلونوں کی وہ خواہش کیا کریں گے؟

وہ جن کی چھت ہو بارش میں ٹپکتی

وہ ساون کی ستائش کیا کریں گے؟

وہ ہر نوع کے قوافی اور بحور پر قدرت رکھتی ہیں۔ ان کی قلم کی جولانیاں اور تابانیاں مصرع در مصرع، شعر در شعر، بین الغزل جلوہ نما نظر آتی ہیں۔

وہ انسان کو عزت و تکریم کے لبادے میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ انسان کی تذلیل انھیں کسی طور گوارا نہیں ہے۔ اسی لیے وہ انسان کے منفی افعال اور روئیوں کو ہدفِ تنقید بناتی ہیں۔ وہ ناروا روئیوں کی مزاحمت کرتی ہیں اور ان کی فکر ہر لمحہ سراپا تنقید بنی رہتی ہے۔ وہ ہر چیز کو اس کے خالص روپ میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ کھوٹ اور منافقت انھیں کسی طور قابلِ قبول نہیں ہے۔ ان کی غزل کے اسی نوع کے دو اشعار دامنِ توجہ تھام رہے ہیں۔

عزتِ نفس کو جو جنسِ تجارت سمجھے

 آپ کچھ بھی کہیں انسان نہیں ہوتا ہے

رہزنوں سے بھی جو درپردہ تعلق رکھے

قافلے کا وہ نگہبان نہیں ہوتا ہے

ان کی نادر کاری کا حاصل ایک شعر بدونِ تبصرہ پیش کیا جاتا ہے۔

 آخری سانس کی خموشی میں

زندگی کا شعور ہوتا ہے

ذہنی تناؤ اور فکری خلفشار کے اس دور میں رجائی جذبے، شعر و ادب کی دنیا میں قابلِ تحسین ہیں اور قلم کار کے عزم و حوصلے کی دلیل بھی ہیں۔ نامساعد اور پُر آشوب حالات میں بھی دامنِ امید تھامے رہنا، ایک خوشگوار احساس ہے جس سے زندگی کی رعنائی و توانائی بحال رہتی ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو   ؎

مری قسمت اگر اچھی نہیں ہے

بدل دوں گی اسے اپنی دعا سے

مجموعی طور پر ان کے کلام میں ایک خزینۂ تاثر پایا جاتا ہے۔ کیوں کہ غم ایک لازوال اور دائمی جذبہ ہے۔ وہ لمحاتی مسرتوں کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ وہ اسمِ بامسمیٰ ہیں۔ یاسؔ کی شاعری سے یاسیت جھلکتی ہے۔ ہمارے فاضل دوست امجد اسلام امجدؔ اپنے موقف میں حق بجانب نہیں کہ ان کا تخلص آس ہونا چاہیے تھا۔ یوں کہ ان کے ہاں غم کے انمٹ نقوش ملتے ہیں لیکن وہ اس افسردگی اور یاسیت پر قانع نہیں ہیں، وہ نظام کو بدلنا چاہتی ہیں، اس میں خوشگواری لانا چاہتی ہیں، اس لیے ان کے ہاں انقلاب و مزاحمت کا غالب عنصر پایا جاتا ہے۔ وہ جا بجا سراپا احتجاج نظر آتی ہیں، اسی حوالے سے ان کے تین اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

ضمیر بکنے لگے اونچی بولیوں کے عوض

یہ عہد، عہدِ تجارت نہیں تو پھر کیا ہے؟

مٹا رہا ہے کوئی جبر سے صداقت کو

یہ ظلم و جبر کی طاقت نہیں تو پھر کیا ہے؟

کسی کو حق ہی نہیں دل کی بات کہنے کا

یہ دور، دورِ قیامت نہیں تو پھر کیا ہے؟

قوم کی بے حسی پر ان کا دل کڑھتا ہے۔ وہ ملت کو خوابِ غفلت سے جگانا چاہتی ہیں۔ وہ اس حالت پر انتہائی افسوس کرتی ہیں کیوں کہ شاعر ایک پیکرِ حساس ہوتا ہے اور وہ احساس کی شمعیں روشن دیکھنا چاہتی ہیں۔ بے حسی انھیں کسی طور گورارا نہیں ہوتی، وہ بے حسی کو مردنی سے تعبیر کرتی ہیں۔ اس تناظر میں موصوفہ کا نقطۂ نظر زیبِ قرطاس ہے   ؎

خوابِ غفلت کا مزہ لوٹتی یہ قوم اپنی

ایسا لگتا ہے کہ بیدار نہیں ہو سکتی

اسی حوالے سے راقم الحروف کی غزل کا مطلع پیشِ نظر ہے   ؎

سماج سارا سو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

سپردِ خاک ہو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

ان کے شعری کینوس میں بہت وسعت پائی جاتی ہے۔ ان کے شعور کی کوئی حد بندی نہیں ہے۔ ان کے افکار میں کائناتی حوالے بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ زمان و مکان کی قید سے بالا تر ہو کر سوچتی ہیں۔ اس لیے ان کی سوچ میں ایک آفاقیت ہے، ہمہ گیری ہے اور ایک پہلو داری ہے۔ ان کی فکر نجی اور سطحی نہیں ہے، انھیں اپنی منزل شاہین کی اڑانوں سے بھی دور نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں ایک رفعتِ تخیل پائی جاتی ہے۔ اسی حوالے سے ان کی غزل کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں    ؎

ہواؤں کے ٹھکانوں سے پرے ہے

مری سرحد زمانوں سے پرے ہے

مری ہر سوچ کی وسعت تو دیکھو

فلک کی داستانوں سے پرے ہے

مری منزل کا تم کیا پوچھتے ہو؟

یہ شاہیں کی اُڑانوں سے پرے ہے

اسی حوالے سے راقم الحروف کی غزل کا ایک شعر نذرِ قارئین ہے   ؎

پائی جاتی ہے وسعت بڑی فکر میں

سوچ اپنی ہے کون و مکاں کے لیے

یاسمین یاسؔ کی غزل ان کے گہرے احساسات کی ترجمان ہے۔ اگرچہ انھوں نے اپنے اسلوب کے لیے عمومی پیرائے اظہار کو منتخب کیا ہے، اگرچہ ان کا اظہارِ بیان دھیمے لہجے کا حامل ہے جو کہ شائستگی و سنجیدگی کی علامت ہے ان کے ہاں تغزل کی چاشنی بھی ہے، اسلوب کی جاذبیت بھی ہے اور فنی چابک دستی بھی ہے جو ان کی مشاطگیِ عروسِ سخن کی غماز ہے۔ قاری ان کے کلام کے سحر میں کھو جاتا ہے، کیف و سرور کی ایک فضا قائم ہو جاتی ہے، خوشگوار احساسات اور ان کی حزنیہ شعری طبع جگہ جگہ دامنِ دل تھام لیتی ہے۔ بہر حال ان کی غزل کا ارتقائی سفر حوصلہ افزا ہے، اگرچہ انہوں نے بھرپور قسم کی نظمیں بھی کہیں ہیں۔ کثرت سے غزل کی ریاضت کی بدولت قوافی اور ردیفوں کا فطری التزام پایا جاتا ہے۔ انہوں نے طوالت کے لحاظ سے مختصر اور درمیانہ درجے کی نظمیں بھی کہیں ہیں جن میں کلائمکس قسم کی نظمیں بھی شامل ہیں۔ وہ اپنی نظموں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا ہنر بہ خوبی جانتی ہیں۔ ان کی نظموں میں منظر نگاری اور محاکات نگاری بھی پورے کر و فر سے موجود ہے اگر طولِ بیان کا خوف دامن گیر نہ ہوتا تو ان کی نظمیں بھی شامل تجزیہ کی جاتیں۔ اس دعا کے ساتھ اجازت کے خواستگار ہیں کہ خدا ان کی فکری و فنی کاوشوں کو دوام نصیب فرمائے۔ ( آمین)

٭٭٭

 

یاسمین یاسؔ (کراچی)

کرب کیا کیا نہ سہا، رات گئے آنکھوں سے؟

ایک آنسو نہ بہا، رات گئے آنکھوں سے

خواب ہی تھا کہ مری آنکھوں کے سارے موتی

کوئی چنتا ہی رہا، رات گئے آنکھوں سے

دھڑکنیں جس سے محبت کی صدا بن جائیں

دل نے وہ گیت لکھا، رات گئے آنکھوں سے

جشنِ تنہائی منانے کے لیے دل میرا

 آج پھر کھل کے ہنسا، رات گئے آنکھوں سے

تم جو روتی رہیں، رو دے گی محبت میری

میں نے چپکے سے کہا، رات گئے آنکھوں سے

یاسؔ اب کے تو سمندر کو بھی حیرانی ہے

ایسا طوفان اٹھا، رات گئے آنکھوں سے

٭٭٭

 

تمہاری یاد کے تارے سجا کے بھول گئی

چراغ سارے کے سارے جلا کے بھول گئی

سراغ ہی نہ ملا مجھ کو میرے ہونے کا

یہ کیسی آگ میں خود کو لگا کے بھول گئی؟

اسے یہ بات نہایت گراں گزرتی ہے

کہ اپنے آپ کو اس پہ مٹا کے بھول گئی

وہ مجھ سے پوچھنے آیا تھا حالِ دل میرا

فقط میں اپنے لبوں کو ہلا کے بھول گئی

میں قربتوں کو محبت کی شرط کہتی تھی

مگر یہ بات میں اس کو بتا کے بھول گئی

یہ بھولنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے یاسؔ

کہ اس کے پیار کو دل میں بسا کے بھول گئی

٭٭٭

 

یاسمین دعاؔ بے باک فکر شاعرہ

میڈیا اور صحافت کی فزوں تر ترقی کے باوجود بھی اظہار رائے کو مکمل آزادی میسر نہیں آسکی کہنے کو تو ہم ایک آزاد مملکت کے باشندے ہیں لیکن عصرِ حاضر کا تخلیق کار اپنے اظہار میں اتنا نڈر اور بے باک نہیں ہے جتنا کہ اسے ہونا چاہیے تھا جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج پر مستقل طور پر امریت کے سائے منڈلاتے رہے ہیں ہمیں کبھی بھی اپنی خالص صورت میں جمہوریت نصیب نہیں ہوئی بلکہ امریت ہی جمہوریت کا لبادہ اوڑھے رہی ہے اسی صورت حال کے پیش نظر علامتی نوعیت کا ادب تخلیق کیا جاتا رہا ہے خصوصاً فن شاعری میں شعراء و شاعرات نے رمز و کنایہ تشبیہات و استعارات اور ترکیبات میں اپنا مدعا بیان کرنے میں عافیت محسوس کی جیسے احمد فراز نے حکومتِ وقت کو ہدفِ تنقید بنایا   ؎

ہم سے کہیں کچھ دوست ہمارے مت لکھو

پیاری ہے گر جان پیارے مت لکھو

حاکم کی تلوار مقدس ہوتی ہے

حاکم کی تلوار کے بارے مت لکھو

ایسی صورتِ حالات کے باوجود کچھ جی داروں نے لہجے کی بے باکی سے کام لیا اور واشگاف الفاظ میں نعرۂ انقلاب بلند کیا اس جرم کی پاداش میں اُن کی شاعری کو سیاسی نعرہ بازی سے بھی تعبیر کیا گیا لیکن حقائق کا ادراک رکھنے والوں نے ان کی فکری جسارتوں کا لائقِ تحسین سمجھتے ہیں اس حوالے سے جوش ملیح آبادی اور حبیب جالب کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں ہم نے جب یاسمین دعاؔ کے شعری مجموعہ ’’گل یاسمین‘‘ مطبوعہ 2009ء کا مطالعہ بنظرِ غائر کیا تو مندرجہ بالا عوامل بدستور پائے یاسمین دعا کا تعلق دبستانِ کراچی سے ہے شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کی منتخب غزلیہ اشعار اُن کے مذکورہ مجموعہ کے ربع اول میں سے بے باک جذبوں کے تناظر میں شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

یاسمین دعا نے انتہائی بے باکی سے اپنے مدعا کو بیان کیا ہے اور کسی بھی قسم کے علامتی انداز سے گریز کیا ہے اُن کے ہاں ایک بے ساختگی اور از خود رفتگی پائی جاتی ہے اور اسلوب بھی بانکپن کا مظہر ہے اُن کا کلام قاری کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ان کے جذبوں میں ایک انتہا پسندی کا عنصر مضمر ہے جو اُن کے پر تاثیر لہجے کا مظہر ہے اس حوالے سے اُن کی غزل کے چار اشعار دیدنی ہیں   ؎

میں اپنی خطا کی سزا چاہتی ہوں

قیادت سے پہلے جزا چاہتی ہوں

مجھے واعظ کرنے کی طاقت نہیں ہے

جو سر چڑھ کے بولے نشہ چاہتی ہوں

صداؤں کے دریاؤں کو روکنا ہے

تکلّم کا میں بھی مزا چاہتی ہوں

گریباں نہ پکڑے کوئی روزِ محشر

گناہوں سے ہر دم بچا چاہتی ہوں

اُن کے نزدیک زندگی قربانیوں کی متقاضی ہوتی ہے اور منزل انہیں کو ملتی ہے جو لوگ قربانیاں دیتے ہیں جیسے جگر مراد آبادی نے کہا تھا   ؎

طولِ شبِ فراق سے گھبرا نہ اے جگرؔ

ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہوئی

اسی تناظر میں یاسمین دعاؔ کا نقطۂ نظر دیکھتے ہیں   ؎

جو بحرِ عشق میں غرقاب ہو گیا آخر

خدا کے سامنے جا کر نہال ہوتا ہے

وہ دوہرے روئیوں کی برملا عکاسی کرتی ہیں اُن کے لہجے میں بے باکی کا عنصر ملتا ہے وہ سماج کے منافقت آمیز روئیوں کے خلاف ہیں وہ زیست کی اذیتوں سے شاکی نظر آتی ہیں اسی نسبت سے اُن کی غزل کے تین اشعار قابلِ غور ہیں   ؎

دوست سینہ تان کر میرے مقابل ہیں کھڑے

بات بنتی ہی نہیں الفاظ ٹوٹے جوڑ کر

اک جفا کو سہہ لیا ہے اب مگر ہمت نہیں

کیا ملاؤں ہاتھ میں ہاتھوں کے چھالے پھوڑ کر؟

پل صراطِ زیست پر ٹھہرے ہوئے مدت ہوئی

چاہتی ہوں پار کر لوں اس کو اب میں جوڑ کر

حق بات کرنے کی جسارت ہر کسی میں نہیں ہوا کرتی اور کوئی کسی کو براہِ راست ہدف تنقید نہیں بناتا نہ کسی میں اتنی ہمت اور شکتی ہوتی ہے یہ جرأت اور طاقت یاسمین دعاؔ کے ہاں بخوبی مشاہدہ کی جا سکتی ہے   ؎

تمہارا لہجہ یہ سندر کہاں سے آیا ہے؟

اور آستیں میں خنجر کہاں سے آیا ہے؟

بے باک انداز میں بات کرنے کی صلاحیت وہی رکھتا ہے جس کے ہاں ہر قسم کی اذیت برداشت کرنے کا حوصلہ ہو کیونکہ حق بات وہی کہہ سکتا ہے جو سوئے دار پابجولاں جانے کی اہلیت رکھتا ہو اور یہی وصفِ خاص یاسمین دعاؔ کے کلام سے آشکار ہوتا ہے   ؎

کانٹوں سے ہم تو ہو گئے مانوس اس قدر

رکھتے ہیں خشک پتوں سے اپنے سجا کے گھر

جب مصائب و آلام معمولِ حیات بن جائیں تو پھر نین وقفِ سیل گریہ ہو جاتے ہیں اور آہ و فغاں قسمت ٹھہرتی ہے اسی نوعیت کا اظہار اُن کے ہاں ملتا ہے   ؎

پلکوں کو بھیگے رہنے کی عادت سی ہو گئی

فریاد اپنی جیسے عبادت سی ہو گئی

مذکورہ تصریحات اس امر کی غماز ہیں کہ یاسمین دعاؔ کے ہاں اظہار کی تمام تر جسارتیں موجود ہیں اسلوب سادگی کا مظہر ہے اور افکار میں ایک بانکپن نمایاں ہے اُن کے ہاں لگی لپٹی باتیں معدوم ہیں فطری نوعیت کے افکار خالص فطری انداز میں ملتے ہیں دعا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر اُن کو فکر و فن کی مزید بالیدگی سے نوازے۔ آمین ثم آمین

٭٭٭

 

یاسمین دعاؔ ( کراچی)

جب نشہ جوانی کا کم ہو کے اُترتا ہے

کردار کا اندر سے اک حسن اُبھرتا ہے

جب راکھ میں ڈھلتا ہے جذبات کا ہر شعلہ

ٹھہری ہوئی آنکھوں میں اک رنگ نکھرتا ہے

جب سوچ کے پیروں میں زنجیر سی پڑتی ہے

اک نغمۂ دانش پھر ہر گام بکھرتا ہے

افکار کے سورج کی جب دھوپ نکلتی ہے

خود اپنی لکیروں سے چہرہ بھی سنورتا ہے

ہو جاتی ہے جب مدھم آنکھوں کی چمک بالکل

تب دل کی بصارت میں اک نور ابھرتا ہے

٭٭٭

 

فضا اک بے دلی کی ہے جو منظر سے نہیں جاتی

اُداسی ڈھیٹ مہماں ہے مرے گھر سے نہیں جاتی

ارادہ کر لیا میں نے یہ عالم چھوڑ جاؤں گی

محبت کی بلا لیکن مرے سر سے نہیں جاتی

خوشی کے دن بہت تھوڑے سہی لیکن یہ ہوتا ہے

کہ ان کی بو کبھی ذہنِ معطر سے نہیں جاتی

کسی درپردہ مشکل کے سبب مجبور ہوں میں بھی

کہ رستے میں پڑی ہوں اور منظر سے نہیں جاتی

دعاؔ میں خود پشیماں ہوں بہت اپنی خطاؤں پر

مگر منزل کی جانب میں کسی ڈر سے نہیں جاتی

٭٭٭

 

شبیر ناقدؔ کے سوانحی اور فنی کوائف کا اجمالی تعارف

شاعرعلی شاعرؔ (کراچی)

اصل نام غلام شبیر اور ادبی نام شبیر ناقدؔ ہے۔ یکم فروری 1976ء کو جنوبی پنجاب کے مردم خیز خطے ڈیرہ غازی خاں کی تحصیل تونسہ شریف کے گاؤں ہیرو شرقی میں پیدائش ہوئی۔ عہدِ طفولیت میں ہی طبیعت لکھنے پڑھنے کی طرف راغب ہوئی۔ گویا فطری طور پر علم و ادب کا ذوق مشیت سے ودیعت ہوا۔ عام بچوں کی طرح کھیل کود کے مشاغل میں اُن کی دل چسپی انتہائی کم رہی۔ لیل و نہار کا بیشتر حصہ حصولِ علم میں صرف ہوا۔ میٹرک کا امتحان 1992ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول ہیرو شرقی سے امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ 1994ء کو گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تونسہ شریف سے ڈی کام کیا۔ شاعری کا بے ضابطہ آغاز تو نویں جماعت سے ہی ہو گیا تھا۔ اوّلاً انگریزی، اُردو اور سرائیکی زبان میں طبع آزمائی کی۔ Beauity،  ٹیپو سلطان اور حرّیت اُس دور کی معرکۃُ الآراء نظمیں ہیں، لیکن سخن سازی کا باضابطہ آغاز 1996ء میں کیا اور ادبی فیض ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ سے پایا۔ شبیر ناقدؔ کا شمار پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے اُن تلامذہ میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے اُستادِ گرامی سے سب سے زیادہ اکتسابِ فیض کیا ہے۔ اُن کی بسیار گوئی بھی اپنے اُستادِ محترم سے کچھ نہ کچھ حد تک مماثلت رکھتی ہے۔ اُن کی پُر گوئی کا یہ عالم ہے کہ اُن کے ابھی تک تین شعری مجموعہ ہائے کلام زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں، لیکن اُن کے غیر مطبوعہ کلام سے ایک درجن شعری مجموعے با آسانی ترتیب پا سکتے ہیں۔ زبان و ادب کی خدمت کو روح کی ریاضت گردانتے ہیں۔ اِس لیے بلا امتیاز شام و سحر گلشنِ شعر و ادب کی آبیاری میں منہمک رہتے ہیں۔ ادب اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اُن کے معمولات ادبی خدمات سے عبارت ہیں۔ اگر کوئی تلمیذِ ادب راہ نمائی کا خواست گار ہو توبہ صد خلوص اُس کی حاجت کشائی کرتے ہیں۔ اُن کے شب و روز اُن کی ادب سے وابستگی کے جنون کی حد تک غماز ہیں۔ گویا شبیر ناقدؔ راہِ ادب کے اَن تھک راہی ہیں جو خلوص اور ریاضت پر یقین رکھتے ہیں، اِس سلسلے میں وہ اپنے آرام اور صحت کی بھی پروا نہیں کرتے۔

جولائی 1999ء میں اُنہوں نے پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ تا دمِ تحریر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 2001ء کو بی اے کا امتحان بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان سے نجی طور پر پاس کیا۔ 2003ء کو جامعہ ہذا سے اُردو ادبیات میں ایم اے کیا اور 2007ء کو مذکورہ یونیورسٹی سے پنجابی ادبیات میں ایم اے کیا۔

دسمبر 2007ء میں اُن کا اوّلین اُردو شعری مجموعہ ’’صلیبِ شعور‘‘ جو غزلیات و نظمیات پر مشتمل تھا، منصہ شہود پر آیا۔ اپریل 2010ء میں اُن کا سرائیکی مجموعۂ کلام ’’من دی مسجد‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا، جس میں غزلیں، نظمیں، گیت، قطعات اور دوہڑے شامل تھے۔ اپریل 2011ء میں اُن کا دوسرا اُردو شعری مجموعہ ’’ آہنگِ خاطر‘‘ منظرِ عام پر آیا، جس میں نظم کی اکثر و بیشتر ہیئتوں اور غزل پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ نظم کے پہلو بہ پہلو نثر میں ریاضت بھی تواتر سے جاری و ساری ہے۔ اُن کی شعری و نثری تخلیقات ملک بھر کے ادبی جرائد اور اخبارات و رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جون 2013ء میں اُن کی ایک نثری اور تنقیدی تصنیف ’’ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل‘‘ سے معنون زیورِ طباعت سے ہم آغوش ہوئی، جس میں اُنہوں نے اپنے اُستادِ گرامی ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ کی شخصیت اور اُن کے ایک درجن سے زائد شعری مجموعوں کی مشمولہ غزلیات کا انتہائی منطقی اور استدلالی انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے، جس میں اُن کے نقدِ فن کا جوہر کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ جون 2013ء میں ہی شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ اوّل) سے موسوم تنقیدی مضامین  و منتخب کلام کا مجموعہ شائع ہوا، جس میں دو درجن شاعرات کے حوالے سے تنقیدی شذرات شامل ہیں، جس میں سکہ بند نقادِ موصوف نے اپنی تنقیدات کے جوہر دکھائے ہیں۔ اُن کی من حیث المجموع تصانیف کو علمی و ادبی حلقوں میں نگاہِ استحسان سے دیکھا جاتا ہے۔ اُنہیں بہت ہی قلیل عرصے میں بے پناہ مقبولیت و پذیرائی میسر آئی، جو اُن کی شبانہ روز محنتِ شاقہ کا ثمرہ ہے۔ نیٹ کے قارئین ’’اُردو سخن ڈاٹ کام‘‘ پر اُن کی تصانیف سے استفادہ اور اکتسابِ فیض کرسکتے ہیں۔

 آج کل شبیر ناقدپاکستان کی شاعرات پر تنقیدی و تحقیقی نوعیت کا کام کر رہے ہیں، اُن کے مضامین میں تحقیق کی نسبت تنقید کا عنصر غالب رہتا ہے۔ گویا ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شبیر ناقدؔ اسم بامسمّٰی ہیں۔ وہ ایک فطری نقاد ہیں۔ مشیت نے اُنہیں طبیعت ہی تنقیدی نوعیت کی ودیعت کی ہے۔ حتیٰ کہ اُن کے کلام اور گفتگو میں بھی تنقیدی رویے وفور سے ملتے ہیں۔ کتابِ ہٰذا ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ (حصہ دوم) کے سلسلے کی دوسری کڑی ہے، جس کے مطالعہ کے بعد قارئین اور اربابِ دانش، مصنف، موصوف کی عرق ریزی کا اندازہ بہ خوبی لگا پائیں گے۔ اُن کی تنقیدی حوالے سے درج ذیل کتب زیرِ طبع ہیں۔

۱۔       شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ سوم ) تنقیدی مضامین و منتخب کلام

۲۔      ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا منشورِ نظم (نظمیات کا تجزیہ)

۳۔      نقدِ فن                       (تنقیدی مضامین)

۴۔      تجزیات                  (تنقیدی مضامین)

۵۔      توضیحات                 (تنقیدی مضامین)

۶۔      زاویے                  (تنقیدی مضامین)

۷۔      تنقیدات                (تنقیدی مضامین)

۸۔      زیبِ ادب، زیب النساء زیبی      (شخصیت اور فن ایک مطالعہ)

علاوہ ازیں بچوں کے لیے شاعری بھی کرتے ہیں۔ اُن کا کلام ملک بھر کے بچوں کے رسائل کی زینت بنتا رہتا ہے۔ شبیر ناقدؔ نے بہت ہی کم عرصے میں اپنے آدرش میں وسعت پیدا کی ہے۔ تخلیق اور تنقید دونوں میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ طبعاً سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں، مگر بے تکلفی اُنہیں بہت پسند ہے۔ اُنہیں یہ اعزاز و افتخار حاصل ہے کہ اُن کی حیاتِ پُر سعی علمی و ادبی اور عسکری خدمات میں صرف ہو رہی ہے۔ قارئین کرام اُن کے کلام کی وزٹ ’’اُردو پوائنٹ‘‘ اور’’ یوٹیوب ‘‘پر بھی کرسکتے ہیں۔

الغرض شبیر ناقدؔ راہِ ادب کے ایک اَن تھک مسافر ہیں، جو خلوص، محبت اور لگن پر یقین رکھتے ہیں۔ ریاضت جس کا کلیدی تلازمہ ہے۔ ربِ ادب سے استدعا ہے کہ اُن کے فکر و فن کو دولتِ دوام سے نوازے۔ آمین

شبیر ناقد کی دیگر تصانیف

شاعری

۱۔       صلیبِ شعور        (غزلیات و نظمیات)

۲۔      من دی مسجد    (سرائیکی غزلیں، نظمیں، گیت، قطعے، دوہڑے)

۳۔       آہنگِ خاطر       (غزلیات، نظمیات، گیت، ہائیکو)

۴۔      جادۂ فکر     (غزلیات و نظمیات)            زیرِ طبع

۵۔      صبحِ کاوش           (غزلیات و نظمیات)            زیرِ طبع

۶۔      روح دی روہی (سرائیکی غزلیں، نظمیں، قطعے، دوہڑے)    زیرِ طبع

۷۔      دل سے دور نہیں ہو تم (غزلیات و نظمیات)                زیرِ طبع

۸۔      کتابِ وفا              (غزلیات و نظمیات)    زیرِ طبع

تنقید

۱۔       ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا کیفِ غزل          (شخصیت اور فن)

۲۔      شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ اوّل)  (تنقیدی مضامین، منتخب کلام)

۳۔      شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ دوم)  (تنقیدی مضامین، منتخب کلام)

۴۔      شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ سوم)  (تنقیدی مضامین، منتخب کلام)

۵۔      شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ چہارم) تنقیدی مضامین، منتخب کلام، زیرِ طبع

۶۔      نقدِ فن (تنقیدی مضامین)                             زیرِ طبع

۷۔      ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ کا منشورِ نظم (نظمیاتی تنقیدی تجزیہ)     زیرِ طبع

۸۔      تجزیات          (تنقیدی مضامین)                    زیرِ طبع

۹۔      زاویے          (تنقیدی مضامین )                   زیرِ طبع

۱۰۔     توضیحات         (تنقیدی مضامین)                    زیرِ طبع

۱۱۔      تنقیدات        (تنقیدی مضامین)                    زیرِ طبع

۱۲۔     زیبِ ادب زیب النسازیبی (شخصیت اور فن ایک مطالعہ)      زیرِ طبع

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری جن کے توسط سے اس کی فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید