FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سوچ کا روپ

فضہ پروین

 

 

علامہ اقبال  اور ملت اسلامیہ کی فلاح

           اردو شاعری کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں موضوعاتی تنوع پر بالعموم توجہ نہیں دی گئی۔ حسن یار اور زلف و رخسارکی باتیں پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا سب سے بڑا امتیاز یہ رہا ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں ملت اور قومیت کے بارے میں ایک منفرد انداز بیان اپنایا۔ اس طرح ان کی شاعری میں ملت اور معاشرے کے بارے میں

ایک ایسا فلاحی تصور سامنے آیا جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ قومی دردمندی، خلوص اور انسانی ہمدردی سے لبریز اس شاعری نے قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے ید بیضا کا معجزہ دکھایا ہے اور لہو کی شکل اختیار کر کے سنگلاخ چٹانوں کو بھی موم کر کے اپنی جدت، تنوع اور تاثیر کا لوہا منوایا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ افراد ہی ہیں جو دنیا بھر کی اقوام کے مقدر کو بدلنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ افراد کا یقین اور جذب باہم اقوام  کی تعمیر کے لیے نا گزیر ہے۔ اسی لیے انھوں نے ہر فرد کی قومی تعمیر و ترقی کے سلسلے میں اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس جانب متوجہ کیا ہے کہ قوم کا ہر فرد قومی افق پر مثل آفتاب ضو فشاں ہوتا ہے۔ ان کاخیال ہے کہ تہذیب و تمدن کے ارتقا میں افراد کی مساعی کا عدم اعتراف ایک غلطی کے مترادف ہے۔ در اصل ہر فرد ملت کے مقدر کے ستارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک فرد واحد کا تعلق ہے تو اس کو بھی ملت میں رہتے ہوئے اپنی تمام صلاحیتیں جہد للبقا کے تقاضوں کی تفہیم میں صرف کرنی چا  ہئیں۔ اس عالم آب و گل میں زندگی کے جملہ انداز حسن اور فطرتی رعنائیوں کے طلسم کے اسیر ہیں۔ قومی اور معاشرتی زندگی میں حسن کے نکھار کے لیے یہ ضروری ہے انسانی ہمدردی، بے لوث محبت، خلوص اور دردمندی کو شعار بنایا جائے۔ اس طرح زندگی کو اندیشۂ سود و زیاں سے برتر بنایا جا سکتا ہے۔ ملی فلاح در اصل قومی زندگی کے حسن و دلکشی میں اضافے سے عبارت ہے۔ قومی زندگی کے حسن میں نکھار اور اس کی رعنائی اور دلکشی میں اضافے کے متعدد تقاضے ہیں۔ علامہ اقبال نے ان تمام تقاضوں کی تکمیل و تسکین کی جانب بھر پور توجہ دی۔ وہ اس مقصد کو حسن خیال اور یقین کا ثمر سمجھتے تھے۔ ملت اسلامیہ کی فلاح کا جو خواب انھوں نے دیکھا تھا وہ تاریخ کے اور اق میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ یہی فکر تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو نمو بخشتی ہے اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے جد و جہد کا آغاز یہیں سے ہو تا ہے۔ اس کی بدولت نہاں خانہ ء دل میں عطر بیز اور سکون بخش ہو ا کے جھونکے آتے ہیں اور اسی کے اثر سے لق و دق صحراؤں اور ویرانوں میں لالہ و گل کے نکھار کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور پورے معاشرے اور سماج میں سکون قلب، راحت اور آسودگی کی فراوانی دنیا کو جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے۔

            علامہ اقبال نے اس وقت ملت اسلامیہ کی فلاح کے لیے جد و جہد کا آغاز کیا جب پورے بر عظیم پر برطانوی استعمار کا غاصبانہ قبضہ یہاں رتیں بے ثمر کر چکا تھا۔ ملت کے ساتھ قلبی وابستگی اور دلی محبت کو علامہ اقبال کی ایک ایسی روحانی تحریک کا ثمر سمجھا جا سکتا ہے جس نے انھیں اسلام کی آفاقی اور ابد آشنا تعلیمات کے تناظر میں قومی بیداری پر مائل کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ زندگی کے تلخ حقائق اور تاریخی صداقتوں کو صراحت کے ساتھ بیان کیا جائے تا کہ قومی زندگی میں ایک واضح تبدیلی کا آغاز ہو سکے۔ فرد اور قوم کے باہم اشتراک عمل کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :

فرد   مے گیرد  زملت احترام

ملت از  افراد می  یا بد نظام

فرد  تا اندر جماعت گم شود

قطرہ وسعت طلب قلزم شود

مایہ دار سیرت دیرینہ او

رفت و آیندہ را آئینہ او

وصل استقبال و ما ضی ذات او

چوں ابد لا انتہا اوقات او

درد لش ذوق نمو از ملت است

احتساب  کار  او  از ملت است

پیکرش  از قوم وہم  جا نش ز قوم

ظاہر ش  از قوم  و  پنہانش  ز قوم

وحدت او مستقیم از کثرت است

کثرت اندر وحدت او وحدت است(1)

                 ملت کا وجود افراد کے باہم ملنے جلنے کی ایک قابل فہم صورت  سامنے لا تا ہے۔ ملت کے دوام اور استحکام کا راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ افراد کا آپس میں ربط و ضبط کس قدر معتبر ہے۔ جہاں تک ملت اسلامیہ کا تعلق ہے اس کی تکمیل، تہذیب اور تر بیت کا انحصار اسوہ رسولﷺ پر عمل پیرا ہو نے سے ہے۔ ملت اسلامیہ کی تشکیل میں جن ارکان کو اساسی اہمیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے ان کی جانب توجہ مبذول  کرائی ہے۔ یہی وہ قابل قدر امور ہیں اور انہی کو ایسے درخشاں حروف سمجھا جا سکتا ہے جو ایک مہذب انسانی معاشرے میں تمام نسبتوں کی تحریک و ترویج اور وقار کے مظہر ہیں :

                     ۱۔ توحید          ۲۔ رسالت         ۳۔ قرآن حکیم                  ۴۔ مشاہیر اسلام کی حیات

              علامہ اقبال نے ڈر اور مایوسی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کا خیال ہے کہ انسان کو حو صلے اور امید کا دامن تھام کر منزلوں کی جستجو میں منہمک رہنا چاہیے۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں، تضادات اور اضمحلال کا ایک سبب یہ ہے کہ افراد معاشرہ میں بے یقینی کی لرزہ خیز، اعصاب شکن کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ ا س جان لیوا کیفیت کے پس پردہ متعدد عوامل کار فرما ہیں، ان میں مسلسل شکست دل کے باعث پیدا ہونے والی مایوسی، بے حسی، بے عملی اور کاہلی نمایاں ہے۔ بادی النظر میں یہی وہ ہیجانات ہیں جو زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ کی راہ میں حائل ہیں۔ بے یقینی اور تشکیک کا عنصر توحید پر ایمان اور ایقان کی راہ میں سدسکندری بن جا تا ہے۔ علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کو حوصلے اور امید کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھنے کی تلقین کی ہے۔ مسلمانوں کو اللہ کریم کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ آلام روزگار کے مہیب ماحول میں بھی سعیِ پیہم کو شعار بنانے والے منزلوں کی جستجو میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ دنیا کی ہر تہذیب اور ہر معاشرے میں زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ میں مذہب کی آفاقی اقدار کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ معاشرتی زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ معاشرتی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو محض حادثاتی تصور کرنا خام خیالی ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز کا تعلق افراد کی کارکردگی اور جذب باہمی سے ہے۔ انسان کی جبلت ہے کہ وہ جذب باہمی کو شعار بنا کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ علامہ اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ فرد صرف ربط ملت سے قائم ہے اور تنہا ا س کی کوئی اہمیت نہیں۔ جس طرح دریا کی تند و تیز موجوں  اور مہیب تھپیڑوں کی دریا کے باہر کوئی حیثیت نہیں اسی طرح فرد بھی ملت کے ساتھ اگر رابطہ استوار رکھتا ہے تو یہ اس کی کامیابی اور کامرانی کی دلیل ہے۔ حالات کی سنگینی کے باوجود افراد کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ملت کی اجتماعی فلاح اور بہبود کے لیے ضروری ہے کہ افراد یاس و ہراس کے ماحول سے نجات حاصل کر کے انسانی آزادی، فلاح اور احساس آزادی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔ ملت کی فلاح، آزادی اور خوش حالی کے موضوع پر علامہ اقبال کے افکار ان کے شعورو ذہن کی ارتقائی کیفیات کے مظہر ہیں۔ ملی فلاح کو وہ ایک کائناتی عمل کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ اپنے فہم و ادراک کی غیر معمولی قوت سے وہ تاریخی صداقتوں کو اپنے اشعار کے قالب میں ڈھال کر قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرتے ہیں۔ وہ ملت کی  اجتماعی فلاح و بہبود کے تصور کو انفرادی عمل کے بجائے جہد للبقا کا تقاضا اور ایک ایسا آفاقی عمل قرار دیتے ہیں جس کے اعجاز سے حالات کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے لہجے اور اسلوب کی جدت، ندرت اور تنوع سے ملت اسلامیہ کے متعلق ایک جہان تازہ کی نوید سنائی ہے۔ ملت اسلامیہ کی فلاح کا تصور ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت میں صدیوں کے ارتقائی  سفر کے بعد اس عہد تک پہنچا ہے۔ وہ اس درخشاں روایت کو دل و جاں سے عزیز رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب کی ابد آشنا اقدار و روایات ہر شعبہ ء زندگی کے لیے ایک ٹھوس لائحہ ء عمل پیش کرتی ہیں۔ خیالات کی تونگری انہی کی مرہون منت ہے۔ نخل اسلام کی تمام تر قوت اور وسعت اسی وجہ سے ہے کہ یہ زندگی کی درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کی مضبوط جڑوں کے سہارے ہمارے سر پر سایہ فگن ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک ایسا ارضی و ثقافتی حوالہ ہے جس کے معجز نما اثر سے ہر دور میں دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں تخیل کی جولانیوں اور شعوری اور لا شعوری محرکات کے مابین ایک واضح اشتراک عمل دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں ان کی یادداشت ہر موقع پر حرف صداقت کے امتیاز میں خضر راہ ثابت ہوتی ہے۔ ۔ زندان غم کے اسیر انسانوں کو علامہ اقبال نے پیام نو بہار دیتے ہوئے بر ملا کہا ہے :

اے کہ در زندان غم باشی اسیر

از نبی تعلیم  لا تحزن بگیر

ایں سبق صدیقؓ  را صدیق کرد

سر خوش از پیمانۂ تحقیق کرد

از رضا مسلم مثال کو کب است

دررہ ہستی تبسم بر لب است

گر خداداری زغم آزاد شو

از خیال بیش و کم آزاد شو( 2)

           معاشرتی زندگی میں امن و عافیت اور سکون کی فراہمی ایک فلاحی مملکت کی ذمہ داری ہے۔ علامہ اقبال نے ایک ایسی فلاحی اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا جس میں ہر قسم کے جبر کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے اور استحصالی نظام کا قلع قمع کر دیا جائے۔ انھوں نے اپنی خداداد  صلاحیتوں اور بصیرتوں کی تجسیم اس موثر انداز میں کی ہے کہ قاری ان کے فکر پرور اور بصیرت افروز خیالات  سے اپنے دل میں ایک ولولہ ء تازہ محسوس کرتا ہے۔ اپنے مضمون ’’قومی زندگی ‘‘میں انھوں نے قومی فلاح کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ جس طرح ممکن ہو ملت اسلامیہ کو اپنے مستقبل کے لیے ایک ٹھوس حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ مستقبل کے چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے تعلیم پر توجہ ضروری ہے۔ انھوں نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے اسلامی مملکت کے لیے نا گزیر قرار دیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اسلامی تہذیب و تمدن کے مطابق تعلیم کی ترقی کے آرزومند تھے۔ اپنے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے :

   ــ’’ہمارے لیے یہ  ضروری ہے کہ تمدن کی جڑ کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں اور اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر یں۔ مرد کی تعلیم صرف ایک فرد واحد کی تعلیم ہے، مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ اگر اس قوم کو آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے۔ لیکن اس ضمن میں ایک غور طلب سوال پیدا ہوتا ہے کہ  آیا مشرقی عورتوں کو مغربی عورتوں کے مطابق تعلیم دی جائے یا کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جائے جس سے ان کے وہ شریفانہ  اطوار جو مشرقی دل و دماغ کے ساتھ خاص ہیں قائم رہیں۔ میں نے اس سوال پر غور و فکر کیا ہے مگر چونکہ اب ملک کسی قابل عمل نتیجے پر نہیں پہنچا اس واسطے فی الحال میں اس بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔ ‘‘(3)

           علامہ اقبال کا خیال ہے کہ ایمان کی ابد آشنا قوت زندگی کی حقیقی معنویت کی مظہر ہے۔ یہ قوت جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے روکتی ہے اور اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ انسان جب اپنے خالق کے حضور ایک سجدہ کر تا ہے تو وہ اپنی اس بندگی کے اعجاز سے بتان وہم و گماں کے سامنے ہزار سجدوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی فلاح کے لیے علامہ اقبال نے قوت ایمان کی نمو پر زور دیا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بھی اگر انسان اپنے قلب ا ور روح کی گہرائیوں میں حضرت ابراہیم ؑجیسا ایمان پیدا کر لے تو آلام روزگار کی دہکتی ہوئی آگ بھی  انداز گلستاں پیدا کر کے آزمائش و ابتلا کی گھڑیوں میں حوصلے اور امید کی شمع فروزاں کر سکتی ہے۔

قوت ایماں حیات افزا ید ت

ورد لا خوف علیھم با ید ت

چوں کلیمے سوئے  فرعو نے رود

قلب او از لا تخف محکم شود

بیم غیر اللہ عمل را دشمن است

کا روان زندگی را رہزن است

عزم محکم ممکنات اند یش از

ہمت عالی تامل کیش  ازو

تخم او   چوں در گلت خودرا نشاند

زندگی از خود نمائی باز ماند

فطرت او تنگ تاب و ساز گار

بادل لر زان و دست رعشہ دار

دزو دا ز پا طاقت رفتار  را

میر با ید  از دماغ  افکار  را

دشمنت  ترساں اگر بیند ترا

از خیا با نت  چو گل چیند ترا   (4)

            علامہ اقبال نے اہل مغرب کی اس فکری کجی کی جانب توجہ مبذول کرائی جب انھوں نے بنی نوع انسان کی فلاح کے بجائے محدود نوعیت کی علاقائی اور نسلی آبادی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ انھوں نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ہمیشہ اپنا مطمح نظر بنایا۔ ان کے نزدیک ملت اسلامیہ کو ایک وحدت اجتماعی کی حیثیت حاصل ہے اسی کی اساس پر اسلامی قومیت کا قصر عالی شان تعمیر ہوتا ہے۔ ازل سے لے کر لمحۂ موجود تک چراغ مصطفوی ﷺ سے شرارار بو لہبی ستیزہ کار رہا ہے۔ اس  کی شدت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ ملت اسلامیہ کی وحدت لادینی قوتوں کی اجتماعی قوت کے سامنے ہر دور میں سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنے وجود کا اثبات کرتی چلی آئی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک خطبے میں اسی جانب اشارہ کیا ہے :

          ’’اسلام کے نزدیک  ذات انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے۔ خدا اور کائنات، کلیسا اور ریاست، روح اور مادہ دراصل ایک ہی کل کے اجزا ہیں۔ ‘‘(5)

          علامہ اقبال نے متعدد حکایات، تلمیحات اور علامات کی مدد سے ملی اقدار و روایات کو پروان چڑھانے کی سعی کی ہے۔ فکر اقبال کا اہم پہلو یہ ہے کہ زندگی کی اقدار عالیہ کا فروغ تہذیبی ارتقا اور بقا کے لیے نا گزیر ہے۔ اہل مغرب نے ملت کا جو تصور پیش کیا ہے اس کا انحصار رنگ و نسب پر ہے جب کہ اسلامی قومیت مذہب کی اساس پر استوار ہے۔ معاشرتی زندگی میں افراد اس قسم کی اجتماعی زندگی بسر کرتے ہیں جن کا اخلاقی اقدار کے تابع ہونا سماجی زندگی کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ تہذیب و تمدن کی روایات کو اس سے تقویت ملتی ہے۔ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ملت کی تقویم فرد کی تقویم سے الگ صورت رکھتی ہے۔  معاشرتی زندگی کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں علامہ اقبال نے  نہایت خلوص اور دردمندی سے اپنا موقف پیش کیاہے۔ ان کے افکار کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ وہ انفرادی شعور کو مہمیز کرنے کی ضرورت سے آگاہ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفرادی شعور کی بیداری جہد و عمل کو یقینی بنا سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے جب یہ کہا کہ اقوام کی تقدیر افراد کے ہاتھوں میں ہے اور ہر فرد کو ملت کے تابندہ ستارے کی حیثیت حاصل ہے تو وہ یہ واضح کر دینا چاہتے تھے قومی فلاح اور ملی ترقی کی تمام صورتیں اخلاقی ترقی کا ثمر ہیں۔ جب تک افراد معاشرہ میں اخلاقی بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک معاشرتی زندگی میں امن و عافیت پر مبنی ماحول کا پیدا  ہونا سراب محسوس ہوتا ہے۔ ارسطو نے جب انسان کو ایک ’’اجتماعی حیوان ‘‘کہا تو یہ بات گہری معنویت کی حامل تھی۔ علامہ اقبال نے بھی اپنے افکار میں فرد کی معاشرتی زندگی میں اہمیت کو اجاگر کیا اور ملی ترقی کے لیے فرد کے کردار کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ مذہب کی آفاقی تعلیمات پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کا مثبت نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملی اتحاد اور قومی استحکام کو اس سے تقویت ملتی ہے۔

         علامہ اقبال نے اپنی تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے متعدد نئے حقائق کی گرہ کشائی کی ہے۔ ان کے افکار میں قومی درد، خلوص اور انسانی ہمدردی کے جذبات کی فراوانی ہے۔ بر عظیم کے مسلمانوں کی قومی شخصیت کی نمو میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ملی فلاح اور بہبود کے متعلق ان کی سوچ تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب توجہ دلاتی ہے۔ انھوں نے بر عظیم کی ملت اسلامیہ کا وہ دور دیکھا تھا جب وہ ابھی تک توسیع کے مر حلے سے گزر رہی تھی۔ اس مرحلے  پر انھوں نے ملت اسلامیہ کی فلاح، ترقی، استحکام، دوام اور خوش حالی کا جو خواب دیکھا اس کی تعبیر یہ ہے کہ آج  بر عظیم کی ملت اسلامیہ ایک آزاد اور خود مختار ملک میں اپنی جداگانہ پہچان رکھتی ہے۔ قومی استحکام کی منزل تک رسا ئی کے لیے علامہ اقبال نے اپنی تخلیقی فعالیت اور فکری وسعت کو مشعل راہ بنایا۔ وہ چاہتے تھے کہ بر عظیم کی ملت اسلامیہ تاریخ کے مسلسل عمل سے آگاہی حاصل کرے اور جریدۂ عالم پر اپنا دوام  ثبت کر دے۔ جب ملت  تار یخ کے شعور سے متمتع ہو گئی تو اسے تہذیبی میراث تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرتی، سماجی اور تہذیبی زندگی کے معائر بدل گئے۔ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت نے دلوں میں ایک ولولۂ تازہ پید ا کر دیا۔ استعماری دور کے خاتمے کے بعد ملت اسلامیہ جس اجتماعی وحدت سے آشنا ہوئی، اس کی وجہ سے اسے ہر شعبۂ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے فراواں مواقع میسر آئے۔ اس طرح قومی ترقی اور خوش حالی  کے دور کا آغاز ہوا۔ آج جب ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو فکر اقبال کے یہ منور گوشے ہمیں ایام گزشتہ کے بارے میں متعدد نئے حقائق سے روشناس کراتے ہیں۔ وہ سعیِ پیہم کو ترازوئے کم و کیف حیات قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حیات جاوداں کا راز ستیزمیں پوشیدہ ہے۔ تاریخ کا یہ شعور ہر دور میں فکر و نظر کو مہمیز کرتا رہے گا۔ علامہ اقبال کے افکار ملت اسلامیہ کے ضمیر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی خیال افروز اور فکر پرور تحریروں  سے ایک ا یسی ذہنی فضا تیار کی جو حرف صداقت کی مظہر ہے۔ اس کا نمایاں ترین وصف ملی فلاح اور بہبود کا تصور ہے۔ علامہ اقبال کے تصورات کی قطعیت ملت اسلامیہ کے لیے مژدۂ جانفزا ہے۔ یہ ایک منفرد اور متنوع احساساتی کیفیت تھی جس نے اس عہد میں قومی کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

 

مآخذ

1۔  محمد اقبال، علامہ ڈا کٹر، اسرار و رموز،     ٍ کلیات  اقبال (فارسی) شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، صفحہ 86۔

2۔ محمد اقبال، علامہ ڈا کٹر، اسرار  و رموز،     ٍ کلیات  اقبال (فارسی)، صفحہ 95۔

3۔ محمد اقبال، علامہ ڈا کٹر، قومی زند گی، مقالات اقبال، مر تبہ سید عبد الواحدمعینی، القمر انٹر پرائزز، لاہور، 2011 ، صفحہ 93۔

4۔ محمد اقبال، علامہ ڈا کٹر، اسرار  و رموز،     ٍ کلیات  اقبال (فارسی)، صفحہ 95۔

5۔ عابد علی عابد سید:شعر اقبال، بزم اقبال، لاہور، 1993، صفحہ 143۔

٭٭٭

 

رضیہ بٹ :شہر میں جو ہے سوگوار ہے آج

          عالمی شہرت کی حامل مایہ ناز پاکستانی ادیبہ رضیہ بٹ  داغ مفارقت دے گئیں۔ اردو زبان و ادب کا وہ  مہتاب  جہاں تاب جس نے19۔ مئی1924کو راول پنڈی کے افق سے روشنی کے سفر کا آغاز کیا پوری دنیا کو اپنی تخلیقی کامرانیوں اور علمی و ادبی ضیا پاشیوں سے بقعۂ نور کرنے کے بعد 4۔ اکتوبر 2012کی شام لاہور میں  عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔ اردو زبان و ادب کو اپنے خون دل سے نکھار عطا کرنے والی اس نابغہ ء روزگار تخلیق کار نے مسلسل آٹھ عشروں تک ادبی کہکشاں کو اپنی چکا چوند سے منور رکھا۔ اردو فکشن کی اس عظیم ادیبہ نے اردو ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اردو زبان میں اکاون شہکار ناول اور تین سو پچاس سے زائد افسانے لکھ کر رضیہ بٹ نے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام حاصل کیا۔ ان کے افسانے قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور یہ افسانے  اپنے واحد تاثر سے قاری کو کہانی، کردار اور موضوع کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جبر کے  کریہہ چہرے سے نقاب ہٹا کر انھوں نے الم نصیبوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم ضرور آئے گا۔ ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے نزدیک ایک اہانت آمیز فعل ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات تھا۔ انھوں نے اردو فکشن میں تانیثیت کے حوالے سے جو قابل قدر کام کیا وہ انھیں ایک منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ انھوں نے بلاشبہ افلاک کی وسعت کو چھو لیا اور ستاروں پر کمند ڈال کر اپنی فقید المثال کامرانیوں سے پوری دنیا میں اپنے منفرد اسلوب کی دھاک بٹھا دی۔ ایک رجحان ساز ادیبہ کی حیثیت سے انھوں نے ہمیشہ حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور حریت فکر و عمل کو علم بلند رکھا۔ وہ تمام عمر ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہیں پاکستان میں خواتین کے مسائل پر انھوں نے نہایت خلوص اور دردمندی سے لکھا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے انھوں نے بنیادی انسانی حقوق اور انسانیت کے وقار اور سربلندی کا ہمیشہ اپنا مطمح نظر قرار دیا۔ ان کی وفات سے اردو فکشن کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کی الم ناک وفات کی خبر سن کر روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا۔ ایسی بے مثال تخلیق کار اب دنیا میں پھر کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ ایسی ہفت اختر، زیرک، با کمال ، مستعد  اور جامع صفات شخصیت کا دائمی مفارقت دے جانا ایک بہت بڑ ا قومی سانحہ ہے۔ ان کی وفات سے علمی اور ادبی سطح پر جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ ان کی یاد میں بزم ادب مدت تک سوگوار رہے گی۔

                 غم سے بھرتا نہیں دل ناشاد                     کس سے خالی ہوا جہاں آباد

         رضیہ بٹ کا تعلق ایک کشمیری خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان کی شاعر مشرق علامہ اقبال کے خاندان کے ساتھ رشتہ داری تھی۔ اس طرح دو عظیم علمی و ادبی خاندانوں  کے قریبی تعلقات مسلسل پروان چڑھتے رہے۔ رضیہ بٹ کو اپنے گھر میں جو علمی و ادبی ماحول میسر آیا اس نے ان کی تخلیقی فعالیت کو مہمیز کیا اور ادبی صلاحیت کو صیقل کیا۔ وسیع النظری اور روشن خیالی ان کے گھر کے علمی و ادبی ماحول کی مرہون منت ہے۔ رضیہ بٹ کے والدین نے اپنی اولاد کی سیرت اور کردار کی تعمیر پر بھر پور توجہ دی۔ جب انھوں نے ہوش سنبھالا تو انھیں قابل رشک علمی و ادبی ماحول میسر آیا۔ ان کے گھر میں اس عہد کے متعدد رجحان ساز ادبی مجلات با قاعدگی سے آتے تھے۔ ان میں سے نیرنگ خیال، ساقی، عالم گیر اور بیسویں صدی قابل ذکر ہیں۔ رضیہ بٹ کے دس بہن بھائی تھے۔ ان کی والدہ اور والد نے اپنی اولاد کی شخصیت کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی۔ عالمی کلاسیک سے انھیں جو دلچسپی تھی وہ والدین کے ذوق سلیم کا ثمر ہے۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سونے سے قبل کہانیاں سنانا رضیہ بٹ کا معمول تھا۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہانی سننا اور کہانی سنانا ان کی فطرت ثانیہ ہے۔ رضیہ بٹ کو اللہ کریم نے حافظے کی غیر معمولی صلاحیت سے نوازا تھا۔ انھوں نے اپنے بزرگوں سے جو کہانیاں سنی تھیں وہ جب اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سناتیں تو سب ہمہ تن گوش ہو کر سنتے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی طبع زاد کہانیاں بھی سنانے لگیں۔ اس طرح بچپن ہی سے وہ کہانی کے تخلیقی عمل کی جانب مائل ہو گئیں۔ ان کی پہلی  کہانی ’’لرزش ‘‘ خواتین کے ادبی مجلے’’ حور ‘‘میں 1940کے وسط میں شائع ہوئی۔ لاہور سے شائع ہونے والا یہ ادبی مجلہ اس زمانے میں قارئین ادب  میں بے حد مقبول تھا۔ یہ کہانی جو کہ سوتیلی ماں اور اس کے سوتیلے بیٹے کے گرد گھومتی ہے اسے  قارئین نے بہت سراہا۔ عمرانی حوالے سے اس کہانی میں سوتیلی ماں کے اپنے سوتیلے بیٹے کے ساتھ مادرانہ شفقت کے جذبات سے خالی رویے پر گرفت کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کے خواتین کے ساتھ اہانت آمیز سلوک پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی ایسی بے اعتدالیاں، رویوں میں پایا جانے والا تضاد اور شقاوت آمیز نا انصافیاں  حد درجہ تکلیف دہ ہیں۔ رضیہ بٹ نے ان تمام مسائل کو اپنے افسانوں کو موضوع بنایا۔ ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری اور صداقت نگاری کا جو ارفع معیار نظر آتا ہے وہ ان کے منفرد اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔

          زمانہ طالب علمی ہی سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہونے لگا۔ جب وہ پانچویں جماعت کی طالبہ تھیں تو ان کی مضمون نویسی کی کاپی دیکھ کر ان کی استاد ششدر رہ گئی۔ اس فطین طالبہ نے اپنے اشہب قلم کی جو لانیوں سے اپنی استاد کو بہت متاثر کیا۔ ان کی با ضابطہ اردو مضمون نویسی کا اعتراف اس وقت ہوا جب انھوں نے پانچویں  جماعت کی طالبہ کی حیثیت سے اپنا پہلا طبع زاد مضموں ’’ریل کا سفر ‘‘ تحریر کیا۔ ہو نہار برو اکے چکنے چکنے پات کے مصداق   ان کی تخلیقی صلاحیتیں اس تاثراتی مضمون میں نکھر کر سامنے آئیں یہ مضمون دراصل نو خیز ادیبہ رضیہ بٹ کے پشاور سے سیال کوٹ تک کے ریلوے سفر کے تاثرات پر مبنی تھا۔ جب وہ جماعت نہم کی طالبہ تھیں تو انھوں نے ’’محبت ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا۔ ان کی مضمون نگاری کی شہرت پورے تعلیمی ادارے میں پھیل گئی اور  انھیں متعدد انعامات سے نوازا گیا۔ زبان و بیان اور اظہار پر اس قدر خلاقانہ دسترس ایک کم سن طالبہ کے لیے نعمت خداوندی کے مترادف ہے۔ جب وہ دسویں جماعت میں پہنچیں تو اردو کے مضمون میں ان کی استاد نے انھیں سو میں سے پورے سو نمبر دئیے۔ اس قدر بلند معیار کو دیکھ کر تمام اساتذہ دنگ رہ گئے۔ انگریز پرنسپل بھی اس ہو نہار طالبہ کی زبان دانی اور اظہار و ابلاغ کے انداز کو سراہنے لگی۔ ان کے اساتذہ کی متفقہ رائے تھی کہ یہ بچی بڑی ہو کر اردو زبان و ادب کا تابندہ ستارہ بنے گی۔ ادب، فنون لطیفہ اور موسیقی کے ساتھ انھیں گہرا لگاؤ تھا۔ جب وہ کم سن طالبہ تھیں تو اس زمانے سے وہ ترنم کے ساتھ  حمد، نعت اور اردو کلاسیکی شعرا کا کلام پڑھتیں تو سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔ وہ قوالی بڑے شوق سے سنتی تھیں۔ امیر خسرو کا  کلام انھیں بہت پسند تھا۔ پنجابی صوفی شعرا کا کلام بھی وہ پوری توجہ سے سنتیں اور ان سے متاثر ہو کر ان پر رقت طاری ہو جاتی۔ 1940میں وہ  پشاور میں زیر تعلیم تھیں  انھوں نے ادب اور فنون لطیفہ میں گہری دلچسپی لی۔ سکول اور کالج کی سطح پر منعقد ہونے والے ادبی پروگراموں میں انھوں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پشاور کے ایک کالج میں انھوں نے انگریزی، فلسفہ، نفسیات، منطق اور فارسی میں اپنی قابلیت اور مہارت سے سب کو متاثر کیا۔ ۔ انھوں نے ڈرامے اور موسیقی کے پروگراموں میں بھی حصہ لیا کالج کے زمانے میں ایک ڈرامے میں ملکہ نور جہاں کا کردار ادا کیا۔ ان کی اداکاری کو دیکھ کر ناظرین کے دل پر ان کی فنی مہارت کے انمٹ نقوش ثبت ہوئے۔ جلد ہی انھوں نے فنون لطیفہ میں اپنی قابلیت کی دھاک بٹھا دی۔ رقص اور موسیقی سے ان کی دلچسپی کا یہ حال تھا کہ وہ ان کے جملہ نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتیں۔ خاندان میں منعقد ہونے والی شادی بیاہ کی تقریبات میں وہ گیت بھی گاتیں اور اندرون خانہ اپنی ہم جولیوں کے ساتھ مل کر  رقص میں بھی حصہ لیتیں اور اپنی خوشی کا بر ملا اظہار کرنے میں کبھی تامل نہ کرتیں۔ ان کی فعالیت کو دیکھ کر خاندان کے تمام بزرگ ان کی پذیرائی کرتے۔

          زمانہ طالب علمی  میں انھوں نے مسلم لیگ کی خواتین تنظیم میں شرکت کی اور تحریک پاکستان کے لیے بھر پور جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی کوششوں سے اس علاقے میں مسلمان خواتین میں جذبۂ حریت کو بیدار کرنے میں نمایاں کامیابی ہوئی۔ مسلم لیگ کی تحریک آزادی کے لیے مناسب رقوم کی فراہمی کے لیے انھوں نے دیگر مسلمان طالبات کے کے ساتھ مل کر چندہ جمع کرنے کی مہم میں حصہ لیا اور معقول فنڈز جمع کرنے میں انھیں کامیابی ہوئی۔ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے ان کی کاوشوں کو بہ نظر تحسین دیکھا۔ 1946کے آغاز میں ان کی شادی ہو گئی اور  شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کے ہمراہ انبالہ چلی گئیں۔ اس کے بعد ادب میں  ان کی تخلیقی فعالیت بتدریج  کم ہوتی چلی گئی۔ جلد ہی انھیں احساس ہوا کہ لکھنا تو ان کے لیے تزکیہ نفس کا ایک موثر  وسیلہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے والد نے انھیں 1950میں دوبارہ تخلیق ادب پر مائل کر لیا  اور وہ پھر سے سرگرم عمل ہو گئیں۔ اس کے بعد رضیہ بٹ نے ریڈیو، فلم اور ڈ رامے کے لیے بھرپور تخلیقی کام کیا۔ ان کے ناول بہت مقبول ہوئے اور ان میں سے کچھ ناولوں کو فلمایا بھی گیا۔ ان کے ناولوں  پر مبنی فلموں نے بے پناہ کامیابی حاصل کی۔ مثال کے طور پر نائلہ  جیسی کامیاب فلم اپنی مثال آپ ہے۔ اپنے عہد میں اس فلم نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس کی کہانی اور گیت سن کر لوگ دل تھام لیتے تھے۔ مجموعی طور پر ان کے آٹھ ناولوں کو فلمایا گیا جو ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس فقید المثال کامرانی میں کوئی  ان کا شریک اور سہیم نہیں۔ ان کے ناولوں پر مبنی جن فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا ان میں نائلہ، صاعقہ، شبو، انیلا کو فلم بین حلقوں نے بے حدسراہا۔ یہ فلمیں اپنے پاکیزہ انداز، صحت مند تفریح  اور حقیقی زندگی کی عکاسی کی بدولت طویل عرصہ تک عوام میں مقبول رہیں۔

       رضیہ بٹ کی تصانیف کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی۔ ان کے مشہور ناول  چاہت، بانو، رابی، صاعقہ، قربان جاؤں، امریکی یاترا، ہم سفر، عاشی، بٹیا، معاملے دل کے، اسپین کاسفر، ناجی اور ، آدھی کہانی معیار اور وقار کی رفعت کے لحاظ سے اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیلی ویژن کے لیے سیریل ’’ناجیہ ‘‘ کو بھی بہت پذیرائی ملی۔  ناجیہ بھی ان کے ایک ناول کی تشکیل تھی۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کے سامنے ہر با شعور انسان کا سر خم رہے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کے عظیم کام اور قابل احترام نام کی تعظیم کرے گی۔

             رضیہ بٹ کو اللہ کریم نے ادب موسیقی اور فنون لطیفہ کے ذوق سلیم سے متمتع کیا تھا۔ وہ کلاسیکی موسیقی کی دلدادہ تھیں۔ اردو کلاسیکی شاعری اور جدید اردو ادب کی وہ دل دادہ تھیں۔ فن موسیقی کی وہ قدردان تھیں۔ وہ شمشاد بیگم، اقبال بانو، فریدہ خانم، نور جہاں، محمد رفیع، ، غلام علی، اسد امانت علی اور مہدی حسن کے فن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتیں اور ان کے گائے ہوئے کلام کو نہایت اشتیاق سے سنتی تھیں۔ ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں وہ نیشنل جغرافک  میں گہر ی دلچسپی لیتی تھیں، وہ کہا کر تی تھیں فطرت ہمیشہ خود ہی لالے کی حنا بندی میں مصروف عمل رہتی ہے۔ حسن ذاتی تکلف سے بے نیاز ہے اور قبائے گل کو آرائش و زیبائش کی احتیاج نہیں۔ اس وسیع و عریض عالم آب و گل میں جنگلوں، صحراؤں اور ریگستانوں میں پائی جانے والی حیات کا مطالعہ قدرت کاملہ پر ایمان کو پختہ تر کر دیتا ہے۔ خالق کائنات اپنی مخلوق کو کس طرح زندگی اور رزق عطا کرتا ہے۔ یہ چشم کشا صداقتیں انسان کے لیے فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہیں۔ پاکستانی فلموں میں انھوں نے گہری دلچسپی لی۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستانی فلموں میں جن ادا کاروں نے اپنے کمال فن کے جوہر دکھائے ہیں ان کو پوری دنیا میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ آرٹ فلموں میں ناظرین کی عدم دلچسپی پر انھیں گہری تشویش تھی۔ وہ اپنی تہذیب و ثقافت کے فروغ پر ہمیشہ توجہ دیتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ تہذیب کی بقا در اصل اقوام کی بقا کی ضامن ہے۔ ماضی کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے پر انھیں ہمیشہ ناز رہا۔

            ماضی میں وحید مراد اور زیبا، سنتوش اور صبیحہ محمد علی اور شمیم آرا نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر  پاکستانی اردو فلموں کو بلند معیار تک پہنچایا۔ ان کے ناولوں پر مبنی فلمیں نائلہ اور صاعقہ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور سپر، ڈوپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ ان فلموں کی وجہ سے انھیں جو شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی وہ اسے اللہ کریم کا انعام قرار دیتیں۔ 1960میں رضیہ  بٹ کا آفتاب اقبال پورے عروج پر تھا۔ ان کی علمی و ادبی کامرانیوں کے چرچے پوری دنیا میں ہونے لگے تھے۔ اس کے باوجود وہ عجز انکسار کا پیکر بنی رہیں اور اپنی دھن  میں مگن ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز تخلیق ادب کے کاموں میں مصروف رہیں۔ ان کی تحریریں اس عہد کے جن  ممتاز ادبی مجلات کی زینت بنتی تھیں ان میں حور، زیب النسا، اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ قابل ذکر ہیں۔ اردو ناول نگاری کے ارتقا پر  تحقیقی نظر ڈالیں تو مولوی نذیر احمد دہلوی سے لے کر لمحۂ موجود تک کسی ناول نگار کے اتنی بڑی تعداد میں  وقیع ناول اب تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہو سکے۔ ان کے پہلے ناول ’’ناہید ‘‘کی اشاعت کے بعد ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ اس کے بعد نائلہ اور نمو کی اشاعت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ اردو میں ان کے ناول نورین، انیلا، صاعقہ، عاشی، جیت، ناجیہ، سبین، چاہت اور شائنہ  اس قدر مقبول ہوئے کہ اب تک ان کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہ ناول سب سے زیادہ فروخت ہونے  والے ناولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس قدر شہرت اور مقبولیت دنیا کے بہت کم ادیبوں کے حصے میں آئی ہے۔ اردو فکشن کی تنقید نے رضیہ بٹ کے حقیقی تخلیقی مقام اور ادبی منصب کے تعین پر پوری توجہ نہیں دی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سید وقار عظیم کے بعد اردو فکشن کی عالمانہ تنقید اور تجزیہ ابھی توجہ طلب ہے۔ اردو فکشن کے نقادوں کو اس جانب فوری توجہ دینی چاہیے۔ رضیہ بٹ کو قبولیت عوام کی جو سند ملی وہ ان کے منفرد اسلوب کی دلیل ہے۔ سبک نکتہ چینیوں سے ان کا کمال فن اور منفرد اسلوب ہمیشہ بے نیاز رہے گا۔ رضیہ بٹ نے اردو فکشن کو مقدار اور معیار کے اعتبار سے جس انداز میں ثروت مند بنایا اس کا اعتراف ہر سطح پر کیا گیا۔ جب تک دنیا باقی ہے رضیہ بٹ کے زندہ الفاظ اور حقیقی واقعات پر مبنی تحریریں ان کا نام زندہ رکھیں گی۔ ریگ ساحل پہ رقم وقت کی تحریر تو اجل کے ہاتھوں مٹ سکتی ہے لیکن زندہ الفاظ کی تاثیر فنا سے نا آشنا ہوتی ہے۔ رضیہ بٹ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک دنیا تھیں۔ ایسی دنیا جس سے ذوق سلیم رکھنے والے  ادب کے    سنجیدہ اور با وقار  قارئین کی دنیا دائم آباد تھی۔ رضیہ بٹ نے اتنی  دور اپنی نئی دنیا بسا لی ہے کہ اب اس دنیا تک جلد رسائی ممکن ہی نہیں۔ اس دنیا کے دراز  کار جہاں میں الجھے ان کے لاکھوں مداح تقدیر کے ستم سہہ کر گریہ کناں ہیں اور نہایت بے بسی کے عالم میں مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر کے اپنے جذبات حزیں کا اظہار کر کے اس لافانی ادیبہ کے ابد آشنا اسلوب  کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

                             چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں ہونا رفو                            تا قیامت سوزن تقدیر گر سیتی رہے

            رضیہ بٹ کے ناول زیادہ تر زندگی کے حقیقی مسائل اور واقعات کے آئینہ دار ہیں۔ زندگی کے تمام رنگ ان کے ناولوں میں سمٹ آئے ہیں۔ ان کے ناول زندگی کے مسائل و مضمرات کا ایسا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں کہ قاری ان کو دیکھ کر مسحور ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا ناول’’ ناسور ‘‘ زندگی کے تلخ حقائق کی گرہ کشائی کر نا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے متعدد نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے کی سعی کی ہے۔  اس شہرہ ء آفاق ناول کے مطالعہ سے قاری پر رضیہ بٹ کے علم و آگہی کے بارے میں کئی حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے رضیہ بٹ نے اس ناول  میں عصری آگہی پروان چڑھانے کی غرض سے علم نفسیات سے مدد لی ہے۔ فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کا اس ناول میں بر محل استعمال کیا گیا ہے۔ ارسطو کے تصور المیہ اور جدید نفسیات کے اصولوں کے مطابق رضیہ بٹ نے اپنی ناول نگاری کو بام عروج تک پہنچا دیا ہے۔ اس ناول میں رضیہ بٹ نے ایک چھ سال کی مظلوم بچی کی داستان غم بیان کی ہے جسے بڑی سفاکی سے اغوا کیا گیا اور اسے شرم ناک درندگی سے جنسی ہوس کا نشانہ بنا کر اس کی پوری زندگی کو حسرت و یاس کی تصویر بنا دیا گیا۔ اس پر جو کوہ ستم ٹوٹا اس کے مسموم اثرات سے اس کی زندگی کی تمام رتیں بے ثمر، آہیں بے اثر، امیدوں کی کلیاں شرر، پوری زندگی پر خطر اور گھر خوں میں تر ہو کر رہ گیا۔ رضیہ بٹ کے اسلوب کا اہم ترین وصف یہ ہے کہ ان کے موضوعات میں ندرت، تنوع اور جدت کی فراوانی ہے وہ حسن و رومان کے پامال موضوعات سے دامن بچاتے ہوئے نئے زمانے  اور نئے صبح و شام کی جستجو میں مصروف رہتی ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ افکار تازہ ہی کی بدولت جہاں تازہ کی نمود کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں نفسیات، عمرانیات، تاریخ اور اس کے مسلسل عمل، سراغ رسانی، تجسس، سوانح، مہم جوئی خود نوشت، سفر نامہ، فطرت نگاری اور حقیقت نگاری کا کرشمہ دامن دل کھنچتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کے جن ناولوں کو ٹیلی کاسٹ کیا ان میں آگ، انیلا، نورینہ اور تحریر کو ٹیلی ویژن کے با ذوق ناظرین کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ان کے ریڈیو ڈرامے ’’ساس بہو‘‘ کو بھی سامعین نے بہت پسند کیا۔ رضیہ بٹ نے زندگی بھر لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھا۔ انھوں نے خواتین کی زندگی کے مسائل پر جو طر ز فغاں منتخب کی اس کی باز گشت ہر دور میں سنائی دیتی رہے گی۔ انھوں نے تانیثیت کے حوالے سے اسی روایت کو پروان چڑھایاجس کے فروغ اور ارتقا کئی ممتاز خواتین تخلیق کاروں کی مساعی شامل ہیں۔ ان  میں واجدہ تبسم، صفیہ اختر، ممتاز شیریں، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، پروین شاکر، خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور  کی علمی اور ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

           رضیہ بٹ کی زندگی میں بہت نشیب و فراز آئے۔ ایک واقعہ نے ان کی زندگی کی تمام رعنائیوں کو گہنا دیا۔ ان کی خوب صورت بیٹی نے ان کی آغوش میں اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی۔ جب بھی اس زخم کے رفو کی بات کی جاتی تو ان کی آنکھیں بھر آتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر لایا جائے۔ تمام عمر بھی اگر رفو گر ایسے زخموں کو رفو کرنے میں مصروف رہیں تو ان کے اندمال کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صبر و تحمل اور مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا لازم ہے مگر کچھ سانحات ایسے بھی ہوتے ہیں اگر ان کا تزکیہ نفس نہ ہو اور آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح نہ برسیں تو وہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ رضیہ بٹ کی تخلیقی فعالیت پر بیٹی کی الم ناک وفات نے گہرے اثرات مرتب کیے لیکن جلد ہی وہ صبر و رضا کا پیکر بن کر لب اظہار پر تالے لگا کر بغیر آنسوؤں کے روتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہو گئیں۔ ان کی شخصیت میں توازن اور اعتدال کا عنصر انھیں صابر و شاکر بنا دیتا  تھا۔

           ان کی اولاد نے 1985  کے بعد اپنا گھر بسالیا اور اپنے کاروبار کے سلسلے میں بیرون ملک  رہا ئش اختیار کرلی۔ اس کے بعد جانگسل تنہائیوں نے ان کو اپنے نرغے میں لے لیا اور انھوں نے تخلیق ادب پر اپنی توجہ مر کوز کر دی۔ ان کی بڑی بہن ’’ نذیر آپا‘‘ جو ان کی بچپن کی رفیق اور مونس و غم خوار تھیں وہ 1991میں داغ مفارقت دے گئیں۔ اس کے بعد وہ بہت دل بر داشتہ رہنے لگی۔ 1998میں انھوں نے اپنی خود نوشت  ’’بچھڑے  لمحے ‘‘ لکھنے کا آغاز کیا۔ 2001یہ خود نوشت مکمل ہو گئی۔ اسے اردو خود نوشت میں اہم مقام  حاصل ہے۔ اس خود نوشت میں انھوں نے اپنی زندگی کے سفر کے بارے میں تمام حقائق کو بلا کم و کاست زیب قرطاس کیا ہے۔ ان کا اسلوب پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو ا لیتا ہے۔

    رضیہ بٹ نے  نے دنیا کے بیش تر  ممالک کی سیاحت کی۔ ان کی تحریروں میں ان کے وسیع تجربات اور مشاہدات قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ ادب، تہذیب، سماج اور ثقافت کی عکاسی جس حقیقت پسندانہ انداز میں رضیہ بٹ نے کی وہ ان کے منفرد اسلوب کا ایک نمایاں ترین وصف ہے۔ وہ جزئیات نگاری پر بھر پور توجہ دیتی تھیں۔ خواتین کی زندگی کا کوئی پہلو ان کی بصیرت سے اوجھل نہیں رہتا تھا۔ نواسی سال کی عمر میں بھی وہ لکھنے اور کھل کر بات کر نے پر قادر تھیں۔ دنیا نے تجربات و حوادث کی صورت میں انھیں جو کچھ دیا وہ سب کچھ انھوں نے پوری دیانت سے قارئین ادب کی نذر کر دیا۔ انھوں نے اپنی قوت ارادی سے اپنی صلاحیتوں کوا اس طرح مجتمع کر لیا تھا کہ ان کے اعصاب کبھی بھی مضمحل نہ ہوئے۔ وہ قلم تھام کر  ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر تھیں یہاں تک کہ فر شتہ اجل نے اس عظیم تخلیق کار سے قلم چھین لیا۔

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

٭٭٭

 

صفیہ صدیقی :آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

            سال 2012 میں اردو زبان و ادب کے کئی آفتاب و ماہتاب عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔ علم و ادب کی کہکشاں کی تمام چکا چوند اب ماضی کا قصہ بن گئی ہے۔ اسی سال کے اختتام پر صفیہ صدیقی کی وفات کی خبر ملی۔ اردو زبان و ادب کا وہ ماہتاب  جو یکم جنوری 1935 کی صبح  نگرام ضلع لکھنو سے طلوع ہوا وہ  28۔ نومبر 2012 کی شام لندن کے افق سے غروب ہو کر دائمی مفارقت دے گیا۔ صفیہ صدیقی کی وفات سے اردو فکشن میں تانیثیت کی ایک دبنگ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ ایک بے خوف صدا مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ فرشتہ ء اجل نے اس عظیم ادیبہ کے ہاتھ سے قلم چھین لیا جس نے گزشتہ چھ عشروں میں اپنے خون جگر سے گلشن ادب کو سینچا اور لوح جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔ اردو فکشن میں عصری آگہی اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں صفیہ صدیقی کی خدمات تاریخ ادب کا اہم باب ہیں۔ انھوں نے اردو افسانے اور اردو ناول میں خواتین کی زندگی کے مسائل، مصائب اور مشکلات کے بارے میں  مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی سعی کی۔ ان کی تحریریں قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اتر کر فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتی چلی جاتی ہیں۔ صفیہ صدیقی کا اسلوب قارئین نے ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھا اور اس کی بے حد پذیرائی کی۔ صفیہ صدیقی کا تعلق ایک ممتاز علمی، ادبی اور مذہبی خاندان سے تھا۔ نامور ادیب ابن صفی کی اہلیہ اور صفیہ صدیقی سگی بہنیں تھیں۔ وہ احمد صفی کی خالہ تھیں  اور نامور ادیب اور شاعر مکین احسن کلیم (مرحوم )صفیہ صدیقی کے بھائی تھے۔ اپنے اس عظیم خاندانی پس منظر پر انھیں بجا طور پر ناز تھا۔ ان کے خاندان کے تمام افراد کو بھی صفیہ صدیقی کی تخلیق ادب میں کامرانیوں پر فخر تھا۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق  اور ہر شعبہ زندگی میں ان کے لیے ترقی کے مساوی  مواقع کے لیے جدو جہد کرنے والی خواتین جن میں حجاب امتیاز علی تاج، فرخندہ لو دھی، فرزانہ ندیم، صفیہ صدیقی، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، رضیہ بٹ، پروین شاکر، اختر جمال، فضل بانو، منصورہ احمد، ممتاز شیریں اور ذکیہ بدر شامل تھیں، ان کی خدمات کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ صفیہ صدیقی کی تصانیف کی جس قدر پذیرائی ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے اور ایک ناول شائع ہوا۔ ان کی تصانیف درج ذیل ہیں :

(1)پہلی نسل کا گناہ(افسانے ) ، (2)چاند کی تلاش   (افسانے )، (3)چھوٹی سی بات (افسانے )، (4)بدلتے زمانے (افسانے )

        صفیہ صدیقی کے افسانوں میں جنریشن گیپ کے موضوع پر نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ حقائق کو پیرایۂ اظہار عطا کیا گیا ہے۔ نئی اور پرانی نسل کی سوچ میں جو بعد المشرقین ہے اس کے بارے میں صفیہ صدیقی نے پوری دیانت، دلیری اور حقیقت پسندی سے اپنا ما فی الضمیر بیان کیا ہے۔ انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ مغربی تہذیب کے زیر اثر نئی نسل اپنے بزرگوں کی وہ قدر و منزلت نہیں کر رہی جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ ان مغرب زدہ نو جوانوں کو اپنے بزرگوں کی ان قربانیوں کا قطعی طور پر کوئی احساس نہیں جو انھوں نے نئی نسل کو پروان چڑھانے کے لیے دی ہیں۔ صفیہ صدیقی کے افسانوں میں زندگی کے تضادات، معاشرتی ماحول کے ارتعاشات، سماجی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیاں، عائلی زندگی کی بے اعتدالیاں اور نا ہمواریاں اور خواتین کی مظلومیت کا احوال جس فنی مہارت سے پیش کیا گیا ہے وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اس کے فکر و خیال پر دور رس اثرات مرتب ہو تے ہیں۔ حالات کی اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو گی کہ وہ بوڑھے جنھوں نے اپنی اولاد کی تعلیم، تربیت اور روزگار کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا، جب ضعیفی کو پہنچتے ہیں تو ان کی اولاد ان کی خدمت کے لیے موجود نہیں ہوتی بل کہ وہ کسی دور دراز ملک میں اپنی نئی بستیاں بسا کر مادر وطن کو بھی فراموش کر  کے ایام گزشتہ کی کتاب کو طاق نسیاں کی زینت بنا چکی ہو تی ہے۔ مٹی کی محبت تو بزرگوں کے مزاج اور فطرت کا حصہ ہے اور اسی انداز فکر  کو نئی نسل نا قابل برداشت سمجھتی ہے۔ چاند کی تلاش کے تمام افسانے سوچ کے مختلف زاویوں کو سامنے لاتے ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں مہیب سناٹوں، سفاک ظلمتوں اور جان لیوا تنہائیوں کے کرب نے انسانیت کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر  دیا ہے۔ حالات اس قدر گمبھیر صورت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں کہ پرانی نسل کی امیدوں کی فصل غارت اور صبح و شام کی محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ اس لرزہ خیز، اعصاب شکن صورت حال میں پرانی نسل کی نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اسے اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ چاند کی خاطر ضد کرنے والوں کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ بالآخر حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ان کے افسانے ’’سمندر رونے لگا ‘‘اور ’’چھوٹی سی بات ‘‘ زندگی کی حقیقی معنویت کا اجاگر کرنے  اور  تصویر کے تمام پہلوؤں کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 1947میں کی جانے والی ہجرت کے موضوع پر اردو فکشن میں قابل قدر تخلیقی کام ہوا ہے۔ وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی لگاؤ، روحانی وابستگی اور والہانہ محبت صفیہ صدیقی کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔ صفیہ صدیقی نے اس ہجرت کے  حوادث و تجربات کو اپنے افسانوں میں نہایت خوش اسلوبی سے پیش کیا ہے۔ ایک خاندان کی ہجرت کے نتیجے میں اس پر کیا گزری اس کا احوال وہ اپنے افسانے ’’بدلتے زمانے، بکھرتے لوگ ‘‘ میں اس طر ح بیان کرتی ہیں :

           ’’پاکستان ہی ہمارا  دار الامان ہے اللہ اس کو دشمنوں سے محفوظ رکھے۔ خدا جانے تمھارے ابا کہاں ہوں گے ؟میں تین بچوں کے ساتھ ایک نئے مکان میں ان کو کیسے ڈھونڈوں گی ؟

               اے اللہ تو ہماری رہبری کر۔ ‘‘

       یہی  خاندان جب ارض پاکستان پر پہنچ کر اکٹھا  ہو جاتا ہے تو حالات ایک بار پھر نیا رخ اختیار کر لیتے ہیں۔ انھیں یوں محسوس ہو ا کہ وہ گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے ہیں۔ اجالا اب بھی داغ داغ اور سحر اب بھی شب گزیدہ ہی ہے۔ نیر نگی ء سیاست دوراں کا یہ حال تھا کہ جو لوگ شریک سفر ہی نہ تھے منزلوں پر انھوں نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ظالم و سفاک، موذی و مکاراستحصالی  عناصر کے مکر کی چالوں کے باعث رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئی تھیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عقابوں کے نشیمن جب زاغوں کے تصرف میں آئے تو انھوں نے مجبوروں کے چام کے دام چلائے۔ جس بے حس معاشرے میں جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملنے لگے وہاں مایوسی اور محرومی کے جذبات کو تقویت ملتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ تلاش رزق میں در بہ در اور خاک بہ سر مارے مارے پھرتے ہیں۔ جبر کے ماحول میں طیور بھی  حسین وادیوں اور مرغزاروں سے کوچ کر جاتے ہیں۔ صفیہ صدیقی نے اپنے اس افسانے میں جس خاندان کی ہجرت کے مصائب اور غیر مختتم مسائل کا احوال بیان کیا ہے، وہی خاندان ایک بار پھر بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہو جاتا ہے اور وطن میں صرف ضعیف والدین رہ جاتے ہیں۔ اب ان کی جان پہ دوہرا عذاب ہے وہ نا مساعد حالات کو دیکھتے ہیں اس کے بعد ان کے مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کر کڑھتے ہیں۔ اس نوعیت کی ہجرت کے شعور اور فکر پر جو اثرات مرتب ہوئے  اور اس کے نتیجے میں جو کرب ناک واقعات  سامنے آئے ان کا احوال  صفیہ صدیقی نے افسانے ’’بدلتے زمانے، بکھرتے لوگ ‘‘ اس طرح بیان کیا ہے۔ اسلوب کی یہ جادو بیانی قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے :

        ’’اماں کے سب بیٹے سات سمندر پار اور بیٹیاں کب ساتھ رہتی ہیں ؟زاہدہ بیاہ کر سعودی عرب گئی اور حامدہ کراچی میں تھی اب وہ بھی ہجرت کر رہے ہیں اور جانا یا نہ جانا اس کے اختیار میں کب ہے ؟اس کے شوہر کا سارا  خاندان کینیڈا چلا گیا اب وہ بھی جا رہا ہے اور کیوں نہ جائے اس کے بھائی تو والدین کو ساتھ لے کر گئے تھے اور ہم نے کیا کیا ؟ہم نے اپنے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ دیا۔ ‘‘

        معاشی نظام کی نوعیت ہی اس قسم کی ہوتی ہے کہ وہ شعور اور فکر کی کایا پلٹ دیتا ہے۔ صفیہ صدیقی کے افسانوں میں غیر منصفانہ معاشی نظام، معاشرتی زندگی کی بے سکونی اور ہوس زر کے مسموم اثرات کے بارے میں ایک واضح انداز فکر دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے اقتضائے وقت کے مطابق سماجی اقدار کو اپنے اسلوب میں نمایاں جگہ دی۔ وہ جنس، جذبات اور حسن و جمال کے موضوعات  پر بہت کم توجہ دیتی ہیں اس کے بر عکس ان کی تمام تر توجہ سماج اور معاشرے میں پائی جانے والی بے ہنگم کیفیات، گراں جانیوں، مناقشات اور نا انصافیوں پر مرکوز رہتی ہے۔ ان کے نہاں خانہ ء  دل میں مظلوم انسانیت کے دکھوں پر بہنے والے آنسو سمٹ آئے آئے ہیں اور وہ اپنے یہ آنسو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اپنے تمام تجربات و حوادث کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے کے قابل ہو جاتی ہیں۔ تلخی ء حا لات کے زہر کو وہ جس شدت کے  ساتھ محسوس کرتی ہیں اسے وہ بلا کم و کاست پیش دیتی ہیں۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا انھیں بالکل پسند نہیں۔ وہ جو کچھ دیکھتی ہیں اسے پوری قوت اور شدت کے ساتھ زیب قرطاس کرتی ہیں۔ وہ اپنے فکر و ادراک کی شمعیں فروزاں کر کے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ اپنی حقیقت نگاری کے اعجاز سے وہ مقدور بھر کوشش کرتی ہیں کہ جس قدر جلد ممکن ہو مظلوم خواتین کو جہد و عمل پر آمادہ کیا جائے۔ صفیہ صدیقی نے تیشہ ء حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کی کوشش کی۔ وہ چاہتی تھیں کہ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ظالم و سفاک استحصالی عناصر کے چہرے سے نقاب اٹھانے میں تامل نہ کیا جائے۔ زندگی کی  درخشاں روایات اور اقدار عالیہ کی پامالی کو دیکھ کر ان کا رویہ جارحانہ ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ مقتل وقت میں  ان کی سوچ کی حیثیت ایک لہکتی ڈال کی ہے جسے سادیت پسند کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس کے با وجود انھوں نے تمام عمر حریت فکر و عمل کو اپنا مطمح نظر بنایا۔ ان کے اسلوب میں حریت فکر، حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی مسحور کن کیفیت دیکھ کر قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔  صفیہ صدیقی کا ناول ’’وادیِ غربت ‘‘معاشرتی زندگی کے مسائل کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ صفیہ صدیقی نے ادب اور صحافت میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ روزنامہ جنگ سے طویل عرصہ وابستہ رہیں۔ 1982میں انھوں نے روزنامہ جنگ سے اپنی وابستگی ختم کر دی اور اپنا زیادہ وقت مطالعہ اور تخلیق ادب میں صرف کرنے لگیں۔

         صفیہ صدیقی ایک نہایت  صابر و شاکر خاتون تھیں۔ انکسار، استغنا اور انسانی ہمدردی ان کے مزاج کے نمایاں اوصاف تھے۔ بلا امتیاز  تمام انسانیت کے ساتھ وہ اخلاق اور اخلاص پر مبنی درد کا رشتہ استورا کرنے کی حامی تھیں۔ بے لوث محبت، بے باک صداقت، حریت فکر، دردمندی اور وفا داری  کے جذبات سے ان کے اسلوب میں نکھار پیدا ہوا۔  وہ اگرچہ طویل عرصے سے  اپنے اہل خاندان کے ہمراہ برطانیہ  میں مقیم تھیں مگر ارض پاکستان سے وہ ٹوٹ کر محبت کرتی تھیں۔ ان کی تخلیقی تحریروں میں وطن سے دوری کا کرب نمایاں ہے۔ معاشرتی زندگی میں وہ بے حد ملنسار  اور خلیق خاتون تھیں۔ وہ سب کی باتیں بڑے تحمل سے سنتیں یہاں تک کہ بعض ناگوار مسائل پر بھی وہ کوئی سخت رد عمل ظاہر نہ کرتیں  بل کہ زیر لب مسکرا کر خاموش ہو جاتیں۔ ان کی کم گوئی ان کی بردباری کی عمدہ مثال تھی۔ وہ ہر قسم کی عصبیت کو سخت  نا پسند کرتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کو یقینی بنایا جائے۔ علاقائی، لسانی یا فرقہ وارانہ عصبیتوں کو وہ قومی یک جہتی کے لیے برا شگون سمجھتی تھیں۔ لا حاصل اختلافی مباحث کو وقت کے ضیاع سے تعبیر کرتیں لیکن صحت مند تنقید کو وہ تخلیقی عمل کو صحیح سمت عطا کرنے  کے لیے نا گزیر قرار دیتی تھیں۔ ان کی محتاط گفتگو اور کم گوئی ان کی پہچان بن گئی تھی۔ جب وہ قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتیں تو پھر بے تکان لکھتیں۔ وہ ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار تھیں۔ عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کر رکھا تھا۔ جدید لسانیات سے بھی انھیں گہری دلچسپی تھی۔ خاص طور پر  اردو ادب کی تحریکیں، مارکسیت، نئی تنقید، رومانویت، ساختیات، پس ساختیات، رد تشکیل، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے بارے میں وہ کامل آگہی رکھتی تھیں۔ انھوں نے ژاک دریدا، سوسئیر، رولاں بارتھ اور فوکو کے نظریات کا مطالعہ کیا۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے اسلوب میں نسائیت کے اثرات کی اساس  مغربی افکار نہیں۔ تانیثیت کے بارے میں ان کے دبنگ لہجے کے سوتے اسلام کی آفاقی اور ابد آشنا تعلیمات سے پھوٹتے ہیں۔ تانیثیت کے موضوع پر وہ نہ تو مارکسی فلسفے کی خوشہ چینی کرتی ہیں اور نہ ہی ما بعد جدیدیت پر مبنی افکار سے کوئی اثر قبول کرتی ہیں۔ اردو افسانے میں تانیثیت کا یہ انداز جو ہماری تاریخ، تہذیب، ثقافت اور اقدار و روایات کا آئینہ دار ہے، قارئین کے دلوں کو مسخر کر لیتا ہے۔ اردو افسانے کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ افسانے کو تانیثیت کے اعتبار سے حقیقت نگاری کی معراج تک پہنچانے میں جن عظیم تخلیق کاروں نے خو ن جگر دے کر اسے معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کیا ہے ان میں صفیہ صدیقی کا نام بھی شامل ہے۔  فن افسانہ نگاری میں صفیہ صدیقی کے منفرد اسلوب کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ ان کے اس منفرد اسلوب میں مشرقی تہذیب و ثقافت، سماج و معاشرت اور اقدار و روایات کے تمام پہلو سمٹ آئے ہیں۔ وہ زندگی میں  حقیقی معنویت اور  مفید مقصدیت کی متمنی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کے افادی پہلو کو انھوں نے ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ ان کے افسانے مفاد پرستوں کے لیے عبرت کے تازیانے ثابت ہوتے ہیں۔ وہ سائنسی انداز فکر اپنا کر حالات  کا غیر جانب داری سے تجزیہ کرتی ہیں اور اس طرح ان کا تخلیقی کام ایک تعمیری صورت میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اردو ادب میں  اقدار و روایات کی متعدد نئی جہات گزشتہ نصف صدی کے دوران سامنے آئی ہیں، صفیہ صدیقی نے ان اقدار و روایات کو فروغ علم و ادب کے لیے نا گزیر سمجھتے ہوئے ان کی پاسداری پر زور دیا۔ صفیہ صدیقی نے زندگی کی حیات آفریں اقدار کے فروغ کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔ ان سے مل کر زندگی کی رعنائیوں کا یقین ہو جاتا اور زندگی سے محبت کے جذبات کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی۔ صفیہ صدیقی کے افسانے دنیا بھر کی خواتین کی زندگی کے مسائل کا بالعموم اور مشرقی خواتین کی زندگی کے نشیب و فراز کا بالخصوص احاطہ کرتے ہیں۔ اردو افسانے کے کئی پامال موضوعات مثال کے طور پر جنسی جنون، سستی رومانویت اور جذباتی ہیجانات  جو کہ اب کلیشے کی صورت اختیار کر چکے ہیں وہ صفیہ صدیقی کے افسانوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ خواتین میں بیداری اور مقصدیت کو فروغ دینے میں صفیہ صدیقی نے جو اہم کردار ادا کیا وہ انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کرے گا۔ تاریخ ادب ہر دور میں ان کے عظیم نام اور فقید المثال کام کی تعظیم کرے گی۔ جریدہ ء عالم پر صفیہ صدیقی کا نام ہمیشہ ثبت رہے گا۔

         تخلیق ادب کے وسیلے سے روح حیات کی تفہیم صفیہ صدیقی کا مطمح نظر تھا۔ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ اس مہارت سے اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتی ہیں کہ ان کے افسانے پڑھ کر  قاری حسن، عشق، عقل اور دل کی اقالیم کی سیر کر لیتا ہے۔ ان کا اسلوب ایک جام جہاں نما ہے جو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا  منظر سامنے لا کر ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ دل اور عقل کی استعداد  اور دائرہ کار کا جہاں تک تعلق ہے  اس میں دل کو زیادہ وسعت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ دل کو ہر معاملے میں برتری اور اولیت حاصل رہی ہے۔ عقل تو محض چراغ راہ ہے جب کہ دل منزل سے آشنا ہے۔ یہ دل ہی ہے جو حسن و جمال کے دلکش، مسحور کن اور قلب و روح کو مسخر کرنے والے نظاروں کی وجدانی کیفیات کا رمز آشنا ہے۔ دل میں درد و غم، محبت و اخوت اور ایثار کے جذبات ر چ بس جاتے ہیں۔ دل کے بارے میں یہ بات مسلمہ ہے کہ دل کبھی کسی مصلحت کے تابع نہیں ہو سکتا۔ حسن جس غیر فانی اور ہمہ گیر وجدان سے متمتع کرتا ہے صرف دل ہی اس کی تفہیم اور تحسین پر قادر ہے۔ صفیہ صدیقی نے دل کی آزادی کو ہمیشہ اہم خیال کیا۔ ان کا افسانہ ’’مکالمہ‘‘ دل اور عقل کی حدود کو سمجھنے میں بے حد معاون ہے۔ عقل نے جب دل کو محبت کی ہلاکت خیزیوں سے متنبہ کیا تو دل نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا:

         ’’  یہی تو تمھاری غلطی ہے عقل بی بی !محبت میں انجام کی فکر ہو تو محبت تھوڑی ہو تی ہے، وہ تو کارو بار ہو جاتا ہے، پھر ہم کوئی پلاننگ کر کے اور کسی کو منتخب کر کے تھوڑی محبت کرتے ہیں یہ تو ایک غیر ارادی فعل ہے جو ان جانے میں خود بخود  سر زد ہو جاتا ہے۔ انسان آہستہ آہستہ ایک ان دیکھے جال میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسے اسی میں مزہ آنے لگتا ہے۔ وہ اس جال سے نکلنا بھی نہیں چاہتا خواہ اسے کتنی تکلیف کیوں نہ ہو اور  شاید وہ نکل بھی نہیں سکتا۔ ‘‘

         صفیہ صدیقی نے واضح کر دیا ہے کہ محبت کوئی لین دین ہر گز نہیں بل کہ یہ تو اپنا سب کچھ محبوب پر وار دینے کا نام ہے۔ یہاں تک کہ دیار عشق کے آبلہ پا مسافر  اپنی متاع زیست بھی محبوب کے قدموں میں نچھاور کرنے سے تامل نہیں کرتے۔ عشق پر کسی کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ یہ ایک ایسی چنگاری ہے جو کسی معمولی سی بات پر بھڑک اٹھتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خرمن جاں، سکون قلب اور راحت و مسرت کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اس راکھ کر کریدنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ محاذ جنگ سے پسپائیوں کے امکانات تو ہوتے ہیں لیکن پیار و محبت کی راہ میں اٹھنے والے قدم کبھی پلٹ نہیں سکتے۔ محبت کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ تو ایک ہاتھ کی تالی ہے۔ محبت کرنے والا ا پنی دھن میں مگن  پیہم محبت کیے جاتا ہے  اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اس کے نالوں کا جواب آتا ہے کہ نہیں۔ صفیہ  صدیقی کے افسانوں میں کئی علامات ایک نفسیاتی  کل کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ ان علامات کو لا شعور کی حرکت و حرارت اور قوت و فعالیت کی تشکیل و تفہیم کی کلید سمجھا جاتا ہے۔ محبت میں ہوس کے اسیر لوگوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ محبت میں تو عاشق سب کچھ گنوا کر صرف اپنے محبوب کی یادوں کے سہارے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہجر و فراق کی شام الم میں درد کی ہوا چلتی ہے تو دل و جگر اس کی حدت سے پگھل جاتے ہیں۔ ان تمام مسائل، مصائب اور ابتلا و آزمائش کے با وجود آبلہ پا   رہروان دشت وفا ہونٹوں  پر صبر کی طمانیت لیے، آنکھوں میں انتظار کی کیفیت سموئے اور چراغ تمنا کو فروزاں رکھے منزلوں کی جستجو جاری رکھتے ہیں۔

   صفیہ صدیقی کی وفات ایک بہت بڑ ا ادبی سانحہ ہے۔ دنیا بھر کے اہل قلم نے ان کی وفات پر دلی رنج اور جذبات حزیں کا اظہار کیا ہے۔ اس وقت صفیہ صدیقی کے  ساتھ مل کر ادبی کام کرنے والی ان کی دیرینہ رفیق کار محترمہ نجمہ عثمان کی ایک نظم سے ایک اقتباس  پیش خدمت ہے جو انھوں نے صفیہ صدیقی کی وفات  کے صدمے  سے نڈھال ہو کر اشک بار آنکھوں سے لکھی ہے۔ یہ نظم شدت جذبات اور قلبی احسا سات کا اعلیٰ ترین معیار پیش کرتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ کریم صفیہ صدیقی کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اس نظم میں صفیہ صدیقی کے تمام مداح اپنے قلبی جذبات کو محسوس کر سکتے ہیں۔

تمھاری یاد میں ہر آنکھ اشک بار ملی                   تمھارے کمرے کی ہر چیز سوگوار ملی

 کتابیں پوچھ رہی ہیں انھیں پڑھے گا کون             ہے غم تمھارے فسانوں کو اب لکھے گا کون

تمھاری میز پہ رکھے ہوئے رسالے چپ              تمھاری ذات سے وابستہ سب حوالے چپ

عجب اک عالم تنہائی دل پہ طاری ہے                 گئی ہو آج جو تم کل ہماری باری ہے

٭٭٭

تشکر: پروفیسر غلام شبیر رانا جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید