FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

یادِ عرفان

                یادیں، ملاقاتیں، خاکے

 

ماخذ: عرفان صدیقی: حیات، خدمات اور شعری کائنات

                مرتّبین: عزیز نبیلؔ ۔ آصف اعظمی

 

 

نوٹ

 

اصل کتاب سے  یادِ عرفان (یادیں، خاکے)، شاعری کا انتخاب، اور تفہیم عرفان (عرفان صدیقی پر تنقیدی مقالے، دو حصوں میں) الگ ای بکس کے طور پر شائع کئے جا رہے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

رختِ سفر اٹھا گیا کون سرائے خواب سے

رات پھر اس نواح میں گریۂ جاں بہت ہوا

 

 

 

 

 

میں اک کرن تھا شب تار سے نکل آیا

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شمیم حنفی(دہلی)

 

۱۳ اپریل کی اس شام کو عرفان صاحب سے رخصت ہوتے وقت دل میں یہ ڈر سمایا ہوا تھا کہ یہ ملاقات کہیں ان سے آخری ملاقات نہ ہو۔ میرے ساتھ نیّر مسعود تھے اور انیس اشفاق۔ پرانے شہر کی ایک گلی میں عرفان صاحب نے اب ایک نیا گھر آباد کر لیا تھا۔ ’’قندیل‘‘۔

ادبستان (پروفیسر نیر مسعود کے مکان کا نام) سے ہم سہ پہر کے وقت نکلے تھے۔ عرفان صاحب کے گھر پہنچتے پہنچتے دھوپ ڈھلنے لگی تھی۔ قندیل پر سناٹا طاری تھا۔ غیر ارادی طور پر ہم سب بہت دھیمی آواز، تقریباً سرگوشی کے انداز میں باتیں کر رہے تھے۔ عرفان صاحب کے بیٹے نے ہمیں اندر بلایا اور عرفان صاحب کے کمرے کی طرف رہنمائی کی۔ ایک بے قرار شعلہ جس کی حرارت کا اندازہ دور سے دیکھنے والے بھی کر لیتے تھے بستر پر تقریباً بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ ابھی ایک سال سے بھی کچھ پہلے، لکھنؤ کے پچھلے سفر میں عرفان صاحب سے دو لمبی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ نیر صاحب کے گھر پر، اس کے بعد بارود خانے میں ایک عزیزہ کے یہاں۔ عرفان صاحب کے علاوہ وہاں عثمان غنی صاحب، مسعود الحق صاحب، پروفیسر انیس اشفاق اور ڈاکٹر نسیم انصاری (جواب دوست کے مصنف اور علی گڑھ کے معروف سرجن) بھی تھے۔ رات دیر گئے تک ہم عرفان صاحب سے شعر سنتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ ان کی با توں میں، لہجے میں، انداز میں، وہی اضطرار آمیز ذہانت اور زندہ دلی تھی جو عرفان صاحب کی پہچان کہی جا سکتی تھی۔ وہ تیز سوچتے تھے، تیز چلتے تھے اور تیز بولتے تھے۔

تو کیا انھوں نے اپنے حصے کا سفر قبل از وقت ہی تمام کر لیا اور انھیں واقعی یہاں سے جانے کی جلدی تھی؟ بیماری کی پہچان، دوا دارو سے لے کر ان کے سفر کے آخری پڑاؤ تک ایک عجیب پر اسرار جلد بازی اور کم فرصتی کا گمان ہوتا تھا۔ طرز احساس اور شعور پر وارد ہونے والی کیفیتوں اور تجربوں سے ان کی روحانی افسردگی کا اظہار تو ہوتا تھا، لیکن اس افسردگی کے ادراک و اظہار میں بھی ایک طرح کی تخلیقی بے چینی اور ایک مستقل اور پائدار وجودی سرگرمی کا رنگ حاوی تھا۔ ’’شب خون‘‘ میں اور ’’شعر و حکمت‘‘ میں ادھر ایک ساتھ عرفان صاحب کی کئی کئی غزلیں شائع ہوئیں۔ گجرات فسادات کے پس منظر میں ان کی معرکہ آرا غزل:

’حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا‘

سے ان کی روحانی آشوب اور فکر کی الم آمیزی کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو عرفان صاحب اپنے شخصی ملال اور اضراب کو بھی ایک گہرے، اجتماعی رمز اور شاعرانہ تفکر میں منتقل کر دینے کی غیر معمولی استعداد رکھتے تھے۔ اسی لیے ہندوستان اور پاکستان کے تمام ممتاز نئے غزل گویوں کی بھیڑ میں بھی ان کی غزل الگ سے پہچانی جاتی تھی۔ معاصر غزل گویوں میں ظفر اقبال اور احمد مشتاق کے ساتھ عرفان صاحب اپنی سب سے زیادہ واضح شناخت رکھنے والے شاعر تھے۔

ذہنی تساہل اور تخلیقی پژ مردگی کی وہ کیفیت، جس میں ہمارے نئے شاعروں کی اکثریت مبتلا دکھائی دیتی ہے، عرفان صاحب کے یہاں قطعاً نا پید تھی اور ان کے کلام میں اس کیفیت کا ظہور ان کے پہلے مجموعے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ مجمود ایاز مرحوم (مدیر سوغات) ہندوستان کے نئے غزل گویوں میں انھیں پائیدار حسیت اور "Staying Power”۔ رکھنے والا سب سے نمایاں شاعر کہتے تھے۔ اپنے انتقال سے پانچ چھ برس پہلے ان دنوں جب محمود ایاز کرناٹک اردو اکادمی کے صدر تھے، ایک سمینار کی تقریب میں انھوں نے لکھنؤ سے نیر مسعود صاحب کے ساتھ عرفان صاحب کو بھی مدعو کیا تھا۔ احمد آباد سے وارث علوی آئے تھے۔ اس موقع پر ہمارا تقریباً ہفتے بھر کا دن رات کا ساتھ رہا۔ عرفان صاحب جتنے اچھے شعر کہتے تھے، اتنی ہی اچھی باتیں بھی کرتے تھے۔ سمینار کے اختتام پر ہم نے (نیر مسعود اور عرفان صاحب کے ساتھ) سری رنگا پٹنم اور میسور کا سفر بھی کیا۔ ٹیپو سلطان کے آثار کی زیارت کے دوران عرفان صاحب قدرے جذباتی اور دل گرفتہ نظر آئے۔ ان کی با توں سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اپنے اجتماعی ماضی اور تاریخ کو بھی وہ اپنی جیتی جاگتی صورت حال کی طرح ایک زندہ واردات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ عرفان صاحب کی غزلوں میں اپنے مخصوص تہذیبی حوالوں کا جو وفور ملتا ہے اپنی تاریخی وراثت کا جو گرم اور توانا احساس، مشترکہ علائم اور شعری پیکروں کی جو بہتات دکھائی دیتی ہے، اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ انھوں نے اپنی تخلیقی بصیرت اور لسانی و فنی شعور کو اس کے تمام رشتوں اور رابطوں کے ساتھ اپنایا اور زندہ رکھا ہے۔ عرفان صاحب ایک بہت بیدار اور طاقت ور تہذیبی یاد داشت رکھنے والے شاعر کے طور پر نمودار ہوئے اور اپنا یہ تشخص انھوں نے نئی حسیت کے مختلف عناصر اور جہات کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ قائم اور محفوظ بھی رکھا۔ تلمیحات، اساطیری علائم اور اظہار کے قدیمی اسالیب کو انھوں نے ایک نئی تخلیقی ضرورت کے تحت، ایک نو دریافت وسیلے کی حیثیت بھی دی۔ وہ جو ایلیٹ نے ایک انتہائی معنی خیز اشارہ کیا تھا کہ نئی اور سچی تخلیقی صلاحیت سے مالا مال شاعر اپنے مستقبل پر ہی نہیں، اپنے ماضی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، تو اس رمز کی شہادت اردو کی نئی غزل کے نمائندوں میں ہمیں سب سے زیادہ ظفر اقبال اور عرفان صدیقی کے کلام سے ملتی ہے۔ عرفان صاحب کی غزل صرف نئے عہد کی نئی غزل کا ایک منفرد نقش و نشان ہی نہیں، تخلیقی بصیرت کے ایک لازوال سلسلے کا حصہ بھی ہے جس کا ایک دریچہ آنے والے زمانوں کی طرف بھی کھلتا ہے۔ انھوں نے کلاسیکی غزل کا ایک نیا تصور قائم کیا۔ عرفان صاحب کی غزل کو جو بے مثال قبولیت اور شہرت ملی، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو شاعری کی دوسری صنفوں کے برعکس، غزل کی صنف انسانی صورت حال اور زمان و مکاں کے تمام تر تغیرات کی پرچھائیاں سمیٹنے کے بعد بھی اپنے ورثے سے کبھی دست بردار نہ ہو گی۔ نئی غزل کا ایک قدم اپنی روایت کے سمٹتے پھیلتے دائرے میں بھی نہایت مضبوطی سے جما رہے گا۔ عرفان صاحب کی غزل میں حال اور مستقبل کے ادراک کے علاوہ اپنے ماضی کا احساس ایک دائمی قدر کے طور پر موجود ہے۔ چنانچہ ان کا قائم کردہ اسلوب اور ان کا مخصوص رنگ و آہنگ ہماری ادبی تاریخ کے آئندہ موسموں میں بھی اپنی بہار کے ساتھ زندہ اور روشن رہے گا۔ ’’شعر و حکمت‘‘ کے حالیہ شمارے میں عرفان صاحب کی چھ غزلیں شامل ہیں۔ میرے لیے یہ ان کے آخری اشعار ہیں :

اسی دنیا میں کہیں کوئے نگاراں بھی تو ہے

ایک گھر بھی تو ہے، اک حلقۂ یاراں بھی تو ہے

آ ہی جاتی ہے ادھر موج ہوائے نمناک

اس مسافت میں کوئی خطۂ باراں بھی تو ہے

لو صبح ہوئی، موجِ بلا خیز ادھر آئے

اور آ کے چراغ شب افسانہ اٹھا لے

جو رنج میں اس جی پہ اٹھایا ہوں انھیں چھوڑ

تو صرف مرا نعرۂ مستانہ اٹھا لے

ہم لفظ سے مضمون اٹھا لاتے ہیں جیسے

مٹی سے کوئی گوہر یک دانہ اٹھا لے

دو جگہ رہتے ہیں ہم ایک تو یہ شہر ملال

ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے

رات اور اتنی مسلسل، کسی دیوانے نے

صبح روکی ہوئی ہے، چاند چرایا ہوا ہے

بھول جاؤ گے کہ رہتے تھے یہاں دوسرے لوگ

کل پھر آباد کریں گے یہ مکاں دوسرے لوگ

جل بجھیں گے کہ ہم اس رات کا ایندھن ہی تو ہیں

خیر، دیکھیں گے نئی روشنیاں دوسرے لوگ

گرفت ثابت و سیار سے نکل آیا

میں اک کرن تھا شب تار سے نکل آیا

یہاں وہ حشر بپا تھا کہ میں بھی آخر کار

اگرچہ نقش تھا، دیوار سے نکل آیا

تو یہ سبز سنہرا تخلیقی زندگی سے ٹمٹماتا ہوا نقش جو جمعہ کے دن ۱۔ ! اپریل ۲۔ ۔ ۴ کو وجود کی دیوار سے نکل کر عدم کے دھندلکوں کی جانب جاتا ہوا دکھائی دیا، رخصت ہونے کے بعد بھی حاضر اور موجود نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ جانے کے بعد بھی اپنی جگہ خالی نہیں چھوڑتے۔ عرفان صاحب کے ساتھ بے شک ایک اکیلی روح کا سفر ختم ہوا لیکن اس روح کا بھی ایک سایہ ہے جو اردو شاعری کے احاطے میں ہمیشہ رواں دواں دکھائی دے گا اور آنے والوں کو بھی اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملک زادہ منظور احمد(لکھنؤ)

 

کب تلک حلقۂ زنجیر میں کرتا رہوں رقص

کھیل اگر دیکھ لیا ہے تو اجازت مجھے دیں

اور پھر ۱۵ اپریل ۲۰۰۴ء کی شام کے نو بجے حلقۂ زنجیر کا یہ رقص بھی تمام ہو گیا۔ کھیل دیکھ لیا گیا اور ’’ہوائے دشت ماریہ ‘‘ کو ’’سات سموات‘‘ کی جانب اذنِ سفر مل گیا۔ اس رقص زندگی کی جو میں بہت دنوں سے دیکھتا چلا آ رہا تھا، آخری لمحات میں بھی دیکھا۔ ساڑھے آٹھ بجے میں میڈیکل یونی ورسٹی کے اس وارڈ سے نکلا جہاں یہ ’’دریا‘‘ سمندر سے ملنے والا تھا۔ سانسوں کی رفتار تیز اور نبض کی رفتار مدھم پڑ چکی تھی۔ میرے ساتھ میرا بیٹا پرویز ملک زادہ بھی تھا۔ ہم زینے سے اتر رہے تھے، ایک پرانے دوست انجم ملیح آبادی ان کے پاس جاتے ہوئے ملے۔ انہوں نے پوچھا کیا حال ہے، میں نے کہا زیادہ سے زیادہ ’’شب درمیاں ‘‘تک کی کہانی ہے۔ نیچے ڈاکٹر عثمان کوثر مل گئے، بولے کیا آب عرفان صدیقی کو دیکھنے آئے ہیں۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہنسنے لگے صبح مشکل سے ہو سکے گی۔ میں سیدھا صحافت کے دفتر پہنچا۔ امان عباس مل گئے۔ صورت حال پر گفتگو ہوہی رہی تھی کہ موبائل کی گھنٹی بچی اور ایک روتی اور سسکتی ہوئی آواز نے یہ خبر دی کہ کہانی ختم ہو گئی۔ اور پھر اس کے بعد وہی ہوا جو عموماً ہوتا ہے۔ ہم امانؔ عباس کے ساتھ میڈیکل یونیورسٹی پہنچے۔ ان کے حسدِ خاکی کو ان کے اعزا ان کے گھر لائے اور دوسرے دن نماز جمعہ کے بعد ان کی تدفین ڈالی گنج کے قبرستان میں عمل میں آئی۔ پسماندگان میں ایک بیوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیوں کے علاوہ انہوں نے کینوس، شب درمیاں، سات سموات، ہوائے دشت ماریہ، عشق نامہ کے علاوہ کالی داس کا ترجمہ، مالوی کا اگنی منتر اور متفرق نثری تحریریں چھوڑیں۔

عمر میں وہ مجھ سے کم و بیش آٹھ برس چھوٹے تھے مگر تہذیبی رویوں میں رکھ رکھاؤ تھا اور خود کو اتنا لیے دیے رہتے تھے کہ بھی ’تم‘ کہنے کی ہمت مجھ میں نہ ہوئی۔ ایک دوسرے کے گھر پر آنا جانا تو کم ہوا مگر گھر کے باہر خوب خوب ملے۔ لکھنؤ کی جن سڑکوں پر مجاز، ناشاد  و ناکارہ پھرا کرتے تھے ہم نے اکثر رت جگے کیے ہیں۔ طے شدہ پروگرام کے تحت میں روز نامہ صحافت کے دفتر پہنچا، وہ اداریہ لکھنے سے فارغ ہوئے امان عباس نے چائے منگائی، اپنی سگریٹ کے پیسے عرفان نے خود دیے، ظہر خاں آ گئے، تھوڑی دیر تک گپ شپ ہوئی، رات گیارہ بجے طے ہو گیا کہ کھانا ہوٹل میں کھایا جائے گا۔ سب کے سب نکل پڑے، کبھی ٹائمس آف انڈیا کے دفتر کے قریب، شاکا ہاری اور کبھی ریس کلب کے پاس غیر شاکا ہاری ہوٹلوں میں گئے۔ کھانا تو محض ایک بہانہ تھا، مقصد صرف سیر و تفریح اور انجمن آرائی میں تھوڑا سا وقت گذارنا ہوتا تھا۔ اخبار کے مالک امان عباس تو خیر عمر میں تو بہت چھوٹے تھے، ظہیر خاں وکیل جو ہم عمر ہی رہے ہوں گے، کبھی یہ ہمت نہیں کر سکے کہ ان کے دائرہ احترام میں تھوڑی سی بے تکلفی برت لیں۔ دونوں کسی حد تک ان سے ڈرے اور سہمے ہی رہتے۔ عرفان کچھ کھلے تو مجھ سے کھلے۔ مگر وہ بھی اس وقت جب دونوں میں تھوڑی بہت تکرار ہوئی، مجھے اس رکشہ پر آگے جانا ہے۔ ان کا اصرار کہ وہ میرے منزل مقصود تک کا کرایہ ادا کریں گے۔ میرا انکار کہ مجھے آگے جانا ہے، میں کرایہ ادا کروں گا۔ کبھی وہ جیتے کبھی میں ہارا، کبھی میں جیتا اور کبھی وہ ہارے۔ اور یہ سلسلہ اکثر جاری رہا۔

ایک دن میرے ایک دوست سر راہ مل گئے۔ شام کا وقت تھا انہوں نے خبر دی کہ دریا کے کنارے ایک نیا ریسٹورینٹ کھلا ہے، اچھے اچھے لوگ آتے ہیں۔ فضا بے حد خوشگوار رہتی ہے چلو وہیں چل کر کافی پیتے ہیں۔ میں ان کی کار پر بیٹھ گیا۔ اتفاق سے ہمارا گذر بارہ دری کے جانب سے ہوا۔ میں نے ان سے کہا چلو صحافت کے دفتر میں دیکھ لیتے ہیں۔ اگر عرفان صدیقی ہوں تو ان کو بھی ساتھ لے لیں۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ ہم دونوں صحافت کے دفتر گئے، عرفان مل بھی گئے، ان کو بھی ساتھ لیا گیا، مگر اب وہ دریا کے کنارے والی فردوس تلاش شدہ کے بجائے حضرت گنج کے کافی ہاؤس میں لے گئے، اور وہیں ہماری ضیافت کی۔ عرفان سگریٹ لینے کے لیے باہر نکلے تو میں نے ان سے پوچھا ’تم نے تو دریا والے رسٹورنٹ میں چلنے کا ذکر کیا تھا، آخر وہاں کے بجائے یہاں کیوں آ گئے ؟ ’’بولے ‘‘ یار! وہاں لڑکیاں وڑکیاں آتی ہیں، عرفان بھائی کے ساتھ اتنے Exposureکی ہمت نہیں ہوئی‘‘۔

عرفان صدیقی اپنے تمام ملنے جلنے والوں کے ساتھ ایک ایسا ’با وقار احترام آمیز فاصلہ رکھتے تھے کہ کوئی ان کی ذاتیات میں دخل دینے کی جرأت ہی نہیں کر سکتا تھا۔ میری ان کی کسی حد تک بے تکلفی اس زمانے میں ہوئی جب ان کا دفتر اشوک مارگ پر منتقل ہوا۔ میں اس زمانے میں فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی کا چیئرمین تھا اور دفتر کے بالکل سامنے اندرا بھون میں بیٹھا کرتا تھا۔ ہم ملنے کے لیے ایک دوسرے کے دفتر آتے جاتے رہتے تھے۔ دفتر میں چائے کا انتظام نہایت ہی نا معقول تھا۔ اس لیے ہم نے طے کیا کہ ہفتہ میں دو دن ہم ٹھیک ڈیڑھ بجے قریب کے ہی ’’رنز‘‘ ہوٹل میں ملا کریں گے۔ ہماری ان کی ملاقاتیں جو عرصے تک جاری رہیں، ہمارے درمیان قدرے بے تکلفی کا سبب بن گئیں۔ قدرے کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا اس لیے کہ انہوں نے اپنے بے تکلف ترین دوستوں کو بھی ایک خاص منزل تک ہی بے تکلف ہونے کی اجازت دی انہوں نے جو حد فاصل قائم کر رکھی تھی اس کے اندر داخل ہونے کی کسی میں بھی ہمت نہیں ہوئی اور چونکہ میں ان کے مزاج کو سمجھتا تھا اس لیے میں نے بھی بے تکلفی تو رکھی مگر اس حد تک جہاں تک وہ خود بے تکلف ہوئے اور شاید یہی وجہ تھی کہ ہم دونوں اکثر اپنے اپنے جذب و شوق کو آسودہ کرنے کے لیے فرصت و فراغت کے کچھ لمحات نکال لیا کرتے۔ عرفان صدیقی اپنے تعلقات میں حفظ مراتب کا بے حد خیال رکھتے تھے وہ اپنے خوردوں کو خورد اور بزرگوں کو بزرگ کا درجہ دیتے تھے۔

مجھے بھی اچھی طرح بدایوں کی ایک ادبی تقریب یاد ہے جس میں ہم دونوں ساتھ ساتھ ایک ہی کمرے میں ٹھہرے۔ بغل کے کمرے میں بدایوں کے رہنے والے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لکچر ر معروف شاعر اسعد بدایونی اپنی محفل تاؤ نوش کو آباد کیے ہوئے ہنگامہ پرور تھے۔ میں نے ان سے کہا چلئے دیکھ آتے ہیں کیا ہنگامہ ہو رہا ہے۔ مگر عرفان میرے ساتھ چلنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ ’’وہ میرا خورد اور ہم وطن ہے۔ اگر میں وہاں گیا اور اس کو اس حالت میں دیکھا تو اسے شرمندگی ہو گی۔ ‘‘ اور انہوں نے نہ صرف اسعد کے کمرے میں جانے سے احتراز کیا بلکہ مجھے بھی وہاں جانے سے روکا۔ وہ ’’لا ابالی پن ‘‘ جو عام طور پر اردو شعراء تصور کے ساتھ ابھرتا ہے اس کا کوئی تعلق عرفان صدیقی سے دور دور تک بھی نہیں تھا۔

عرفان صدیقی نے شعر ادب کی خدمت، ہمیشہ ستائش کی تمنا اور صلہ کی پرواہ کیے بغیر کی۔ انہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد اور اپنے تخلیقی عمل پر بھروسہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دینے والے اردو اداروں میں کیا کچھ ہو رہا ہے اور کس طرح جوڑ توڑ، ساز باز اور چاپلوسی سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس سے وہ خاطر خواہ واقف تھے۔ اپنے تہذیبی رویوں نے کبھی اس بات کی اجازت ہی نہیں دی کہ وہ حرفِ طلب یا حرفِ شکایت زبان پر لاتے۔ انہوں نے ایک غزل میں کہا تھا ؂

ہاں اہل زر کے پاس خزانے تو ہیں مگر

مولا کا یہ فقیر ضرورت کہاں سے لائے

ان کی اس افتادِ مزاج میں عشق رسولؐ اور محبت اہل بیت کا بڑا دخل تھا۔ جس میں ان کا قالب ڈھالا گیا تھا۔ یہ وہ خاندانی ترک تھا جو ان کو اپنے اسلاف سے ملا تھا۔ اور جو اردو شاعری کی روایات سے ہم آہنگ ہو کر ان کی بیشتر غزلوں میں ایک موج تہ نشیں بن گیا تھا۔ یہ محض شاعری کا ایک بہانہ نہ تھا بلکہ اسی عقیدے کی پختہ بنیادوں پر کھڑے ہو کر انہوں نے اپنی شخصیت اور اپنی شاعری دونوں کا نگار خانہ سجایا تھا۔ انہوں نے کالیداس کی ’’رتو سنگھار‘ کا بھی منظوم ترجمہ کیا ہے اور ’’عشق نامہ‘‘ بھی تخلیق کیا ہے وہ حسن کی اداؤں کی رمز شناس، جمال دوست کے اوصاف اور کاروبار شوق کے شارح اور ترجمان بھی رہے ہیں۔ مگر ان کا استعاراتی نظام جو جگہ جگہ ان کے کلام میں چمک جاتا ہے وہ وہی ہے جو اہل بیت اور کربلا کے حوالے سے ان کو ملا ہے۔

جب وہ سنجے گاندھی میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے صحت یاب ہو کر نکلے تو ایک دن میں ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر گیا۔ ان کے سبھی احباب کو معلوم تھا کہ یہ عارضی وقفہ ہے اس لیے کہ کینسر کے ریشوں کی موجودگی کی خبر سبھی کو مل چکی تھی، مگر ان سے چھپائی گئی تھی۔ دورانِ علامت انہوں نے جو منقبت کے اشعار کہے تھے وہ مجھے سنائے۔ بھابھی بھی موجود تھیں۔ ان کو سارا علم ان کی علالت کے بارے میں تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دورانِ گفتگو انہوں نے بھابھی سے کہا تھا ’’تم میرے لیے دعا کرو، اس لیے کہ تم امام زین العابدین کے خاندان کی ہو، تمہاری دعا ضرور قبول ہو گی۔ ‘‘ عرفان کچھ دنوں تک تو ٹھیک رہے، صحافت کے دفتر اور تقریبات میں آتے جاتے رہے۔ نفیس غازی پوری کے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں خاصے شاداں و فرحاں تھے۔ شہریار بھی آ گئے تھے، مجھ سے بڑی دیر تک حسب معمول روشن اور چمکدار باتیں کرتے رہے۔ مگر کچھ دنوں کے بعد اسیا تھاہ اور گہری بیہوشی میں میں نے ان کو میڈیکل یونیورسٹی میں دیکھا، جس میں کچھ ماہ پہلے سنجے گاندھی میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں دیکھ چکا تھا۔ اس بار وہ ہوش میں نہیں آئے اور ان کا ایک شعر سچ ثابت ہوا ؂

ساری آوازوں کا انجام ہے چپ ہو جاتا

نعرۂ ہو ہے تو کیا، شور سلاسل ہے تو کیا

چراغ شب افسانہ بجھ چکا ہے۔ پیمانہ لبریز ہو کر چھلک چکا ہے۔ اب ہمارے درمیان کوئی عرفان صدیقی نہیں ہے۔ شعر ادب کی دنیا میں چاروں طرف دیکھتا ہوں، قرب و جوار میں کوئی ایسا نہیں نظر نہیں آ رہا ہے جو اس کا بار اٹھانا تو درکنار اس کے کشکول فقیرانہ کا ہی بار اُٹھا لے۔

(2004)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی: شخصیت، سوانح اور شعری مزاج

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سید محمد اشرف(دہلی/کولکتہ)

 

جب عرفان صاحب کی شادی ہوئی، میں پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا، کہانیوں کی کتابیں اور بچوں کے رسالے پڑھتا تھا لیکن شاعری سے کوئی خاص شغف نہیں تھا۔ چوتھی کی رسم کے بعد جب وہ اپنی دلہن کو لینے آئے تو ہمارے گھر ان کی دعوت ہوئی اور گھر کی خواتین کے اصرار پر انہوں نے اپنی غزلیں سنائیں۔ اسی محفل میں یہ غزل بھی پڑھی اور ترنم سے پڑھی۔ یہ کسی مجموعے میں نہیں ہے ع

پھر بھی پاؤں میں وہی زنجیر رم ہے دوستو

جس دن وہ دولہا بن کر آئے تھے اور نکاح ہوا تھا، میں نے انہیں غور سے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن جب وہ ترنم سے غزل پڑھ رہے تھے تب میں نے انہیں غور سے دیکھا۔ اپنے گھر میں کسی غیر مرد کو ترنم سے غزل پڑھتے دیکھنا میرے لیے حیرانی کا مرحلہ تھا۔ میری والدہ مرحومہ دلیر ؔ مارہروی کی غزلیں اکثر ان کی نواسیوں سے اصرار کر کے سنتی تھیں اور میرے کانوں کو ان نواسیوں کی آواز کی عادت تھی۔ لیکن ایک مرد گھر میں چاندنی پر بیٹھ کر ترنم میں غزل پڑھے وہ عجیب سا لگا۔ کسی نے اس دن بتایا کہ یہ صاحب شاعر بھی ہیں اور خود اپنی غزلیں پڑھ رہے ہیں۔ میرے بچپن کے ذہن کے لیے یہ بھی ایک حیران کن بات تھی کہ ایک انسان دولہا ہو کر شاعری بھی کر سکتا ہے۔

شادی کے بعد ان کا مارہرہ آنا جانا اکثر ہوتا تھا۔ ان کی پوسٹنگ دلی میں ہوتی تھی یا لکھنؤ میں۔ میرے دادا سید آل عبا (حضرت آوارہؔ ) عرفان صاحب سے دیر تک گفتگو کرتے رہتے تھے۔ میرے والد محترم اکثر عرفان صاحب سے فارسی شاعری یا امام احمد رضاؔ قدس سرہٗ کی نعتیہ شاعری پر گفتگو کرتے تھے۔ اس بات سے میں بہت متاثر ہوتا تھا کہ کوئی شخص ایسا بھی ہے جو میرے دادا اور والد دونوں سے اردو اور فارسی کے شاعروں کے متعلق بات بھی کر سکتا ہے اور ان کے اشعار بھی سنا سکتا ہے۔ سات آٹھ سال کے بچے کا خیال تھا کہ شاعری پر صرف اس کے بزرگ ہی گفتگو کر سکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں۔

مارہرہ میں وہ اپنی سسرال کے گھر میں لیٹے بیٹھے ابن صفی کی ’جاسوسی دنیا‘ کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ میں اب کچھ بڑا ہو گیا تھا اور ابن صفی کی کتابوں کا شوق ہم دونوں میں مشترک تھا۔ لیکن ابھی وہ زمانہ نہیں آیا تھا کہ وہ مجھے اپنے اشعار سنائیں۔ ممکن ہے اس زمانے میں وہ کثرت سے اشعار نہ کہتے ہوں۔ مارہرہ میں ان کی ایک مصروفیت اور بھی تھی، یعنی شکار، وہ میرے دادا اور چچا کے ساتھ شکار کو جاتے اور کم چوڑی نہر (بمبے ) میں تیر تیر کے نہاتے بھی تھے۔

میں ۱۹۷۴ء میں علی گڑھ کا طالب علم تھا اور اسی سال جولائی میں میرے بڑے ابا سید العلماء سید شاہ آل مصطفی میاں کا وصال ہوا۔ یہ میرے خاندان کے لیے بہت بڑا سانحہ تھا۔ عرفان صاحب ان کے حقیقی ہم زلف تھے اور ان کی اہلیہ کی پرورش میرے بڑے ابا کے گھر میں ہی ہوئی تھی۔ وہ پہلا موقعہ تھا جب سوگواروں کے رخصت ہونے کے بعد خانقاہ کی چوک میں، عشا کے بعد، میرا ہاتھ پکڑ کر، ٹہل ٹہل کر انہوں نے وہ اشعار سنائے جو بہت پر درد تھے۔ اس دن پہلی مرتبہ میں ان کی شاعری سے بہت متاثر ہوا۔ اس سے پہلے مجھے متاثر ہونے کا کوئی خاص موقعہ بھی نہیں ملا تھا کہ رسائل میں ان کا کلام شاید نہ کے برابر چھپتا ہو۔ وہ خطوں میں اپنی غزلیں لکھ کر بھیجتے تھے اور میں علی گڑھ کے دوستوں آشفتہ چنگیزی، مہتاب حیدر نقوی، فرحت احساس، اسعد بدایونی اور منظور ہاشمی کو سنایا کرتا۔ وہ علی گڑھ نہیں آتے تھے لیکن ان کا کلام علی گڑھ کے طالب علم شاعروں میں بہت مقبول ہو چکا تھا۔

جب ۱۹۷۸ء میں ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’کینوس‘‘ شائع ہوا تو دھوم مچ گئی۔ ڈاکٹر ابن فرید، فرحت احساس، اور منظور ہاشمی نے ان پر مضامین لکھے جو ’’خیر و خبر‘‘ اور ’’الفاظ‘‘ میں شائع ہوئے۔ میں یونیورسٹی لٹریری کلب کا سکریٹری تھا، عرفان صاحب کے مجموعۂ کلام پر ایک بہت بڑے جلسے کا اہتمام کیا جو ایک دوست کی اچانک موت کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔

میں جب اپنے ننہال سیتا پور جاتا تو کسی نہ کسی بہانے سے لکھنؤ بھی پہنچ جاتا۔ شروع شروع میں وہ مولوی گنج میں ایک بیکری کے پاس رہتے تھے۔ پھر جلد ہی انہوں نے اپنی رہائش لاٹ کلن کے قریب گولہ گنج میں کر لی۔ ان کا آفس ’’بسنت‘‘ سنیما کی اوپری منزل میں تھا اور اس آفس کی باہری گیلری بہت چوڑی تھی جہاں سے حضرت گنج کی رونق صاف نظر آتی تھی۔ وہ ان رونقوں سے بے نیاز اپنے دفتری کام میں لگے رہتے۔ دفتری کام میں ان کی لیاقت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جب کام پورا ہو جاتا تو اس چوڑی گیلری میں ٹہل ٹہل کر مشق سخن کرتے اور کاغذ کی چھوٹی چھوٹی پرچیوں پر مہین تحریر میں قلمبند کرتے جاتے۔

۱۹۸۱ء میں میرا انتخاب سول سروس میں ہو گیا اور ۱۹۸۲ء میں On The Job Trainingکے لئے میری تعیناتی لکھنؤ میں کی گئی۔ عرفان صاحب کا اصرار تھا کہ جب تک باقاعدہ رہائش نہ ملے میں ان کے ساتھ ہی رہوں، میرا دل بھی یہی چاہتا تھا، میں ان کے ساتھ کئی ہفتے رہا، پھر مجھے موتی محل ہاسٹل میں جگہ مل گئی لیکن اکثر شامیں ان کے ساتھ ہی گزرتیں، میرا دفتر اشوک روڈ پر تھا۔ میں وہاں سے P.I.B آ جاتا اور پھر ہم دونوں یہاں سے گولہ گنج کے مکان پر جاتے۔ واپسی میں وہ عابد سہیل اور والی آسی صاحبان سے علیک سلیک کرتے ہوئے جاتے۔ کبھی کبھی صحافت کے دفتر پر رک کر کوئی تحریر لکھتے اور پھر ہم دونوں وہیں قریب کی ایک دوکان پر جا کر بالائی خریدتے۔ بالائی انہیں بہت پسند تھی مجھے یاد ہے ایک بار انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی والدہ بچپن اور لڑکپن میں ان کی کھانسی کا علاج بالائی سے کرتی تھیں۔ بالائی لے کر جب ہم گھر میں داخل ہوتے تو بی (اہلیہ عرفان صدیقی) کھانے پر ہمارا انتظار کر رہی ہوتی تھیں۔ گولہ گنج میں ان کا مکان رقبے میں کم لیکن مکانیت کے اعتبار سے خوب کافی تھا۔ سب سے اوپر کی منزل پر باورچی خانہ تھا اور اس کے آگے ٹیرس، رات کے کھانے کے بعد وہ اس ٹیرس پر اس کام کو مکمل کرتے جو دن میں دفتر کی چوڑی گیلری میں شروع کیا تھا۔ کبھی کبھی سرشاری کے عالم میں سر گوشی کے انداز میں وہ اپنے تازہ اشعار گنگناتے بھی تھے۔ میں اسی رات یا دوسرے دن ان کی وہ غزل سن لیتا۔ کسی کسی دن وہ دو تین غزلیں تسلسل کے ساتھ کہہ لیتے۔

وہ بے تحاشہ سگریٹ پیتے تھے۔ خود اقبال کرتے تھے کہ میں روزانہ دو پیکٹ سگریٹ پیتا ہوں۔ ان کی اہلیہ ان کی غیر موجودگی میں مجھے مطلع کرتیں کہ تمہارے پھوپھا جان نے آدھی تعداد بتائی ہے۔ وِلس فلٹر نیوی کٹ ان کا پسندیدہ برانڈ تھا۔

عرفان صدیقی اپنی اہلیہ کی بے حد دل داری کرتے تھے اور بچوں کو بے پناہ چاہتے تھے۔ وہ اس انداز سے بچوں کو چاہتے تھے کہ اندازہ نہیں ہو پاتا تھا کہ کس بچے کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ بڑی بیٹی مینا کا نام انہوں نے حضرت شاہ مینا کی مناسبت سے رکھا تھا۔ سب بچوں میں مینا ہی ان کی جناب میں سب سے زیادہ شوخ تھی اور باقاعدہ ان کے اشعار پر داد دیتی تھی۔ ان کی اہلیہ کو اپنے مائیکے سے ہی کافی ستھرا ادبی ذوق ملا تھا۔ عرفان صاحب سے شادی ہونے کے بعد اس ذوق کو اور جلا ملی۔ انہیں اپنے شوہر کے لا تعداد اشعار یاد ہیں۔ عرفان صاحب کے دادا خوش گو شاعر تھے اور شاعری میں ان کے استادر عرفان صاحب کی اہلیہ کے بزرگ حضرت احسن مارہروی تھے۔ عموماً گھر میں ذاتی گفتگو کے دوران اپنی والدہ کو کسی نہ کسی حوالے سے ضرور یاد کرتے تھے۔ جب وہ حیات تھیں تب بھی اسی عادت پر عمل تھا۔ ماں سے گہرے تعلق کا ثبوت ان کی شاعری سے بھی ملتا ہے۔

عرفان صدیقی بدایوں شریف کے اس خاندان کے فرد تھے جس میں ہر پیڑھی میں یقینی طور پر کوئی نہ کوئی فرد شاعر ہوتا تھا۔ عرفان صاحب کے والد بھی شاعر تھے اور بڑے بھائی نیاز بدایونی بھی شاعر تھے جو تقسیم کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ دونوں بہت خوش گو شاعر تھے۔

تصوف کے سلسلے کے اعتبار سے مارہرہ اور بدایوں میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ اہل بدایوں اس رشتے کو ہمیشہ سر آنکھوں پر رکھتے آئے ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور نے اپنی سوانح ’’خواب باقی ہیں ‘‘ میں پہلے ہی پیراگراف میں تحریر کیا کہ ان کا نام مارہرہ مطہرہ کے مشہور و معروف بزرگ حضرت سید آل احمد اچھے میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مناسبت سے آل احمد رکھا گیا۔ عرفان صاحب کے اجداد کا مارہرہ کے سادات سے یہ رشتۂ عقیدت کئی صدیوں پر محیط ہے اور اس رشتے پر اصحاب قلم نے رسالے اور کتابیں لکھی ہیں۔ عرفان صاحب کے اجداد نے مارہرہ کے بزرگوں کے بارے میں بہت لکھا اور یہ غالباً پہلی بار ہوا ہے کہ ہمارے خاندان کا کوئی فرد ان کے خاندان کے کسی فرد کے بارے میں لکھ رہا ہے۔ عرفان صاحب میں کوٹ کوٹ کر بدایونیت بھری ہوئی تھی۔ وضع داری، تمکنت، خوف خدا، الفت اولیاء اللہ اور علم اور اہل علم سے لگاؤ، کربلا کے استعارے پر مشتمل اشعار کی بنیاد بدایوں کی مٹی میں تلاش کی جانی چاہئے۔ اس موضوع پر کتاب لکھی جا سکتی ہے لیکن ع

رات تھوڑی ہے اور سوانگ بہت

عرفان صاحب صبیح چہرے اور اوسط قد و قامت کے مالک تھے۔ پتلے پتلے ہونٹ، سگریٹ کے عادی ہونے کے باوجود صاف ستھرے برابر کے دانت، ارسٹو کریٹک سانچے کی ناک اور کف دست اور کلائیاں گھنے رونگٹوں سے پر۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے قدرے سرعت کے ساتھ چلتے تھے۔ انگلیوں یا ہونٹوں میں اکثر سگریٹ دبی رہتی تھی۔ گفتگو کرتے وقت ان کے چہرے پر اضطراب کی سی کیفیت ہوتی تھی۔ وہ بہت سلیس اور شستہ گفتگو کرتے تھے۔ اگر کوئی ان کی گفتگو ٹیپ کر کے معرض تحریر میں لے آتا تو بغیر اڈیٹنگ کے کتاب میں چھا پی جا سکتی تھی۔ عموماً وہ صرف ناگزیر الفاظ کا استعمال کرتے تھے۔ یہ خوبی میں نے بہت کم انسانوں میں دیکھی ہے۔ گھر پر لکھنوی کرتا اور پتلی مہری کا پاجامہ زیب تن رہتا۔ گھر کے باہر قمیص پتلون اور آخری پندرہ بیس برس سفاری سوٹ پہنتے تھے۔ کوٹ پہنتے تو ٹائی بھی لگاتے۔ میں نے زندگی بھر انہیں ایک ہی کٹ کے جوتے پہنے دیکھا جنہیں ہم لا فرشو کہتے ہیں اور جن میں تسمے نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اونچی ایڑی کا جوتا نہیں پہنتے تھے۔ داب و آداب کے بہت قائل تھے۔ بڑوں کو واجب احترام دیتے تھے اور چھوٹوں کو خوردہ گیری کا موقعہ نہیں دیتے تھے۔ بے تکلف دوستوں کی تعداد بہت محدود تھی۔ پروفیسر نیر مسعود سے گہرا تعلق خاطر ہونے کے باوجود دونوں کے درمیان ایک احترام آمیز پروٹو کول شامل رہتا تھا۔ اپنے چھوٹوں کو خوب وقت دیتے تھے۔ شعیب نظام، ندیم جائسی، شافع قدوائی ان میں سے چند نام ہیں۔ لیکن کچھ ہی برسوں میں خورد اپنی اپنی ذمے داریوں کی وجہ سے الگ الگ شہروں میں منتقل ہو گئے۔ ان کے بعد لکھنؤ میں ان کے خوردوں کی گدی کس نے سنبھالی، مجھے اس کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ البتہ ڈاکٹر ارشاد علی اور رحیم آباد ہاؤس کے طارق فیاض سے ان کا تعلق آخر عمر تک ایک سا رہا۔

عرفان صدیقی بے حد حساس طبیعت کے انسان تھے۔ گفتگو معاملات یا مراسلت میں اگر کسی سے تھوڑی سی بھی نا مناسب بات سرزد ہو جائے تو وہ گہرا اثر لیتے تھے۔ کبھی گہری خاموشی اور کبھی فصیح و بلیغ جملوں کے ذریعے اس بات کے رد عمل کا بھی اظہار ہوتا تھا۔ مجموعی طور پر وہ ایک بے نیاز اور خوش مزاج انسان تھے اور ان کی گفتگو سے محفل گرم رہتی تھی۔

میرا بار ہا کا مشاہدہ ہے کہ وہ بڑوں بڑوں سے داب نہیں کھاتے تھے۔ علمی اور ادبی دنیا تو خیر۔ وہ سرکاری محکمے کے افسر اعلیٰ سے بھی اس طرح پیش آتے تھے کہ وہ خود کو نعوذ باللہ خدا نہ سمجھنے لگے۔ ان کے دفتر میں اگلا کمرہ ان کے افسر کا تھا۔ دن میں ایک دو بار اس کے پاس بھی جانا پڑتا تھا۔ اگر ملاقات لمبی ہوتی دیکھتے تو اجازت لے کر اس کے سامنے سگریٹ سلگا لیتے تھے۔ ان دنوں سرکاری دفاتر میں سگریٹ نوشی ممنوع نہیں ہوئی تھی۔ میں نے عرفان صاحب کی گفتگو تو ایک طرف لہجے تک کو کبھی خوشامد آلود نہیں پایا۔

وہ اخبار بہت انہماک کے ساتھ پڑھتے تھے اور اس فن سے بخوبی واقف تھے کہ اخبار میں کیا پڑھنا چاہئے۔ غالباً ملازمت کی ضروریات نے انہیں یہ ہنر سکھادیا تھا۔ وہ دن بھر میں پانچ چھے اخبار پڑھ لیتے تھے۔ انگریزی میں ان کی لیاقت زبردست تھی۔ انگریزی میں وہ بہت خوبصورت جملے لکھتے تھے اور کچھ اس انداز سے تحریر کرتے تھے کہ کوئی لفظ کم یا زائد نہیں محسوس ہوتا تھا۔ بعینہٖ یہی معاملہ اردو میں تھا۔ وہ بے تکان اسی خوبی کے ساتھ صفحات پر صفحات لکھتے چلے جاتے تھے۔ وہ بہت خوش خط تھے۔ انگریزی ہو یا اردو، ان کے الفاظ موتی کی طرح جڑے ہوئے نظر آتے تھے۔ ان کی گفتگو کا بھی یہی انداز تھا۔

مشاعروں میں ان کی شرکت کم ہوتی تھی، نشستوں میں زیادہ۔ اشعار پیش کرنے میں ڈرامائی پوز ہوتے تھے نہ تمہید۔ شعر کے پہلے مصرعے کو ہر گز دو مرتبہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ کبھی کبھی تو ایک ہی مرتبہ پر اکتفا کر لیتے تھے۔ عموماً متفرق اشعار اور تازہ غزلیں سناتے تھے لیکن دو سے زیادہ نہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں یوم جمہوریہ کی شعری نشست سے جامعہ کے پروگراموں کا آغاز ہوتا تھا۔ وہ بھی مدعو تھے۔ ہم بھی موجود تھے۔ وہ دو غزلیں پڑھ چکے تھے۔ میں نے ایک اور غزل کی فرمائش کی۔ تو مسکرا کر سامعین سے (جو ان کو بہت دیر سننا چاہتے تھے ) کہا۔ عزیزی اشرف نے غزل کی فرمائش کی ہے وہ میں ٹال نہیں سکتا۔ لیکن صرف قسم کھانے بھر کو ان کی فرمائش پوری کروں گا۔ بس اس غزل کا ایک شعر پڑھا اور اپنی نشست پرجا کر بیٹھ گئے۔

غالباً انتقال سے دو برس پہلے کی بات ہے کہ علی گڑھ میں یوم جمہوریہ یا یوم آزادی کے مشاعرے میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو ہوئے۔ مشاعرے کے بعد ڈنر ہوا اور دیر تک با توں کا سلسلہ چلتا رہا۔ علی گڑھ کے ادیبوں شاعروں نے فرمائش کی ہم لوگ چائے پینے کبھی کبھی اسٹیشن بھی جاتے ہیں اور وہاں ایک قدیم دوکان ہے وہاں پوری ترکاری بھی کھاتے ہیں۔ غرض یہ کہ کار، رکشہ اور سائیکل پر یہ قافلہ اسٹیشن کے پاس پوری والے کی دوکان پر پہنچا اور ہم لوگوں نے ڈنر کھانے کے بعد بھی سیر ہو کر پوری ترکاری کھائی اور چائے کے کئی دور چلے۔ اس دن عرفان صدیقی طلباء کی طرح ہشاش بشاش اور شوخ تھے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم نہیں پائی تھی لیکن لگتا تھا جیسے وہ اسی جامعہ کے دور زریں کے طالب علم رہے ہوں۔

٭

عرفان صدیقی کی شاعری میں سوانحی اِشارے کثرت سے ملتے ہیں۔ تفصیل سے پہلے کچھ تمہید ضروری ہے۔

عرفان صدیقی کی شاعری پر لکھنے والے مجھ سے بہتر بیشتر اصحاب قلم ہیں اور تھے ان میں سے کچھ گذارش کر کے میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں مضمون لکھوائے تھے جیسے فرحت احساس، ابن فرید، منظور ہاشمی، خدا معلوم نمبر کے لئے وہ مضامین فراہم ہو سکے کہ نہیں، وہ سبھی قیمتی مضمون تھے کسی بھی ریا اور مصلحت سے پاک۔

میں لڑکپن سے عرفان صدیقی کا سامع اور پھر قاری رہا ہوں۔ میں ان کے بیسیوں خطوط کا مکتوب الیہ ہوں اور وہ میرے ذوق و شوق کے مد نظر اپنے ہر خط میں تین چار غزلیں لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے۔

کینوس ان کا پہلا مجموعۂ کلام جب شائع ہوا ان دنوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لٹریری کلب کا سکریٹری تھا، بمشکل تمام ان کو راضی کیا تھا کہ آپ کے مجموعہ کی رونمائی کی ایک تقریب منعقد کی جا رہی ہے آپ بھی تشریف لائیں ان کا آنا بھی طے ہو گیا تھا۔ تمام تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں۔ کنیڈی ہال کے ایک وسیع کمرے میں جلسہ کا اہتمام تھا یا شاید آرٹ فیکلٹی لاؤنج میں۔ ان کی غزلیں یونیورسٹی کی گلو کار طالبات نے ترنم سے پڑھنے کے لئے تیار کر لی تھی مضامین بھی لکھ لئے گئے تھے کہ چند ناگزیر اسباب کی بنا پروہ جلسہ نہیں ہو سکا۔

۲۔ ۔ ۴ء میں لگ بھگ چھبیس سال بعد میں ایک بار پھر علی گڑھ میں تھا۔ عرفان صاحب کو غالب ایوارڈ ملا۔ دل چاہا کہ اس سلسلہ میں تہنیت کا ایک جلسہ علی گڑھ میں اور وہ بھی کنیڈی ہال کے اسٹیج پر منعقد کیا جائے، شعبۂ اردو کے نوجوان اساتذہ کے تعاون اور احمد مجتبیٰ صدیقی کی کوششوں سے ایک بار پھرجلسہ کی تیاری کی گئی اس بار عرفان صدیقی نے بہت اعتماد کے ساتھ شریک جلسہ ہونے کا وعدہ کیا لیکن جلسہ کے دن ان کے بیٹے فیضی کا فون آیا۔ ’’بھائی جان! ڈاکٹروں نے سخت تاکید کی ہے کہ وہ بستر سے نہ اٹھیں۔ ‘‘ ہم لوگ دل مسوس کر رہ گئے لیکن جلسہ کیا جو خوب دھوم دھام سے ہوا۔

جب کبھی وہ سسرال آتے اور شروع شروع میں اکثر آتے تھے تو مارہرہ شریف کی خانقاہ میں چوک کے اندر سڑک پروہ میرا ہاتھ پکڑ کر ٹہلتے جاتے تھے اور شعر سناتے جاتے تھے۔ میں اس وقت ۱۳۔ ۱۴ ! برس کا تھا وہ میرے پھوپھا تھے۔ اپنی اہلیہ یعنی میری پھوپھی سے اکثر کہتے اشو ( میرے گھر کا نام) میرا دوست ہے جب میں سول سروس کے تحریری امتحان میں کامیاب ہو گیا تو انہوں نے انٹر ویو کی تیاری کے لئے باریک تحریر میں لکھے ہوئے سولہ صفحات کا خطبہ مجھے لکھا جو عالمی حالات اور ملکی معاملات کا اجمالی احاطہ خوب کرتا تھا۔ اسے پڑھ کر مجھے بہت فائدہ ہوا۔ وہ بہت عمدہ نثر لکھنے پر قادر تھے۔ ان کی ذاتی گفتگو میں بھی صرف ناگزیر الفاظ ہوتے تھے حشو و زائد نہیں کے برابر ہوتے تھے۔ ان کی زبان سے میں نے کسی کے لئے دشنام کا لفظ نہیں سنا۔ وہ ایک مکمل شریف انسان تھے۔ وضعداری اور شرافت کو اپنی آخری جائداد سمجھتے تھے۔ ان کی موجودگی میں ہلکی بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔

اسی شرافت کا نتیجہ تھا کہ وہ اپنے بارے میں بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے مختلف ادوار کا ذکر بھی بس کبھی کبھی اشارتاً کر دیا کرتے تھے غالباً صرف ایک جگہ ان کے قلم سے میں نے ان کی سوانح کا بے حد مختصر احوال پڑھا ہے۔

عجیب معاملہ ہے کہ گفتگو اور نثر میں انہوں نے جو چھپایا لاشعوری طور پر اپنی شاعری میں بیان کر دیا۔ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ غزل کا کوئی مخصوص مصرع یا شعر ان کی سوانح سے متعلق ہے لیکن بعد میں بوجوہ ان کے بہت سے معاملات سے واقف ہوں۔ میں نے ایک پھو ہڑسی کوشش کی ہے کہ ان کے کلیات ’’دریا‘‘ کی مدد سے ان کی زندگی کا ایک خاکہ مرتب کروں جس میں کچھ وہ معاملات بھی آ گئے ہیں جن کا اظہار وہ نثر میں نہیں کر سکتے تھے۔ بال بچوں دار انسان تھے محض شاعر ہی نہیں تھے۔ ممکن ہے قارئین عرفان صدیقی کو اس طرح بھی دیکھنا پسند کریں۔

ان کے مزاج میں وضع داری اور شرافت بے حد تھی وہ کبھی اوچھا پن کرنا تو دور کی بات اوچھی بات کہنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ حد تو یہ کہ کوئی ان کے سامنے ان کا شعر بآواز بلند پڑھتا تو وہ خفیف ہو جاتے تھے۔ مزاج کی اس خاکساری و انکساری نے انہیں تصوف کی روایت کے بہت قریب کر دیا تھا، کبھی کبھی یہ تصوف قلندرانہ رنگ بھی اختیار کر لیتا تھا، اس ضمن میں انہوں نے جتنی اصطلاحات استعمال کی ہیں معاصر شاعری ان کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔

مٹی، بوریا، خریطہ، دست، بیعت، در، دروازہ، کشکول، قلندر، بساط، ابدال۔

اس موضوع پر طویل گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن یہاں اس کا موقع نہیں ہے ان کا عشق کچھ مختلف انداز کا تھا۔ ان کے دوسرے طور طریقے بھی کچھ الگ تھے۔ ؂

کچھ تو ہو جو تجھے ممتاز کرے اوروں سے

جان لینے کا ہنر ہو کہ مسیحائی ہو

اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی غزل میں عرصۂ دراز کے بعد محبوب کی جنس کا تعین نظر آتا ہے۔ بانو شہر کا ذکر آتا ہے۔ سر برہنہ بیبیوں کا ذکر آتا ہے۔ وہ اپنے محبوب کو اردو شاعری کے عام محبوب سے مختلف دکھاتے ہیں۔ ان کے عشق کی تگ و تاز کا میدان بھی اردو غزل کی عشقیہ شاعری کے مقابل میں جغرافیائی طور پر مختلف ہے۔ اشعار سے بیسوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن اس وقت ہم ان کی شاعری میں ان کے سوانحی اشارات پر گفتگو کریں گے۔

بدایوں فرد فرید پیا نظام الدین اولیا کا بدایوں، صوبے دار شمس الدین التمش کا بدایوں، مؤرخ عبد القادر بدایونی کا بدایوں، سلطان العارفین اور شاہ ولایت جیسے تاجداران ولایت کا بدایوں، شاہ فضل رسول اور حضرت تاج الفحول جیسے بادشاہان علم و معرفت کا بدایوں، فانی، شکیل، آل احمد سرور، سردار جعفری، جیلانی بانو اور اسعد بدایونی جیسے اصحاب قلم کا بدایوں اور عرفان صدیقی کا بدایوں، امیر خسرو اس محترم شہر کی خاک کو اپنے پیر و مرشد کی نسبت سے سرمۂ چشم کے استعارے میں بیان کرتے ہیں۔ ع

بجائے سرمہ در دیدہ کشم خاک بداؤں را

مصحفی اپنے محبوب کی گلی کو شہدائے کرام کی کثرت کے سبب بدایوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔

شمالی ہند کی ریاست اتر پردیش کے خطہ روہیل کھنڈ میں گنگا کے مشرق میں یہ وہ محترم بستی ہے جو پچھلے ایک ہزار سال سے اصحاب علم و معرفت سے خراج عقیدت وصول کر رہی ہے۔ مغرب کی طرف بڑھیں تو سوروں نام کا تیرتھ استھان ہے جہاں تلسی داس نے رام چرتر مانس لکھی اور تھوڑا آگے بڑھئے تو ضلع ایٹہ میں پٹیالی نام کا قصبہ ہے جو خسرو کی جائے پیدائش سے مشرف ہے۔ (اب یہ بستی نو مولود ضلع کاشی رام نگر میں ہے )۔

جب انسان پرندوں کی طرح آزاد تھے اور سرحدوں پر رکنا نہیں جانتے تھے تو اسی خطہ کی طرف بلخ، کرمان، یمن، بخارا، سنجر، فرشور یعنی عرب، ایران اور سنٹرل ایشیا کے متعدد علاقوں سے قافلے کے قافلے یہاں پہنچے اور اپنے ساتھ زبان، تہذیب و تمدن اور عقیدوں کے خزانے بھی لائے۔ ؂

دیکھنا جامع شمسی میں ستوں ہیں کتنے

ایک ہی ذوق ہے اسپین سے دو آبے تک

صرف دو مصرعوں میں قدیم بدایوں کا مرقع اس طرح کھینچا گیا۔ ؂

معرکے رزم گہیں، کشف کرامات سلوک

مدرسے، خانقاہیں، جذب، مقامات، سماع

عرفان صدیقی ۱۹۳۹ء میں پیدا ہوئے۔ چھ سات برس کے بچے کے ذہن کے پردے پر اس وقت اس قسم کی تصویروں کے خطوط ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہوں گے۔

آسمانوں میں جو دن رات یہ اڑتے ہیں جہاز

اتحادی ہیں کہ نازی ہیں کہ فسطائی ہیں

آل یعقوب پہ یہ رات بہت بھاری ہے

(ہٹلر کے گیس چمبر اور یہودیوں کی نسل کشی)

پھر اتحادی فوجوں کے ممالک کا وعدہ۔ ع

ہم تمہاری یہ امانت تمہیں لوٹا دیں گے

اہل فلسطین پر خود ان کے ملک کی زمیں تنگ کر دی گئی۔ ع

اور مظلوم ستم پیشہ بھی ہو جاتے ہیں

اور اسی زمانے میں وہ معرکہ بھی ہوا جسے تقسیم ہند کہتے ہیں۔ عرفان صدیقی کے والد مولوی سلمان احمد ہلالی کے اجداد کو حاکمان وقت نے اوقاف کی تولیت کا اعزاز دیا تھا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل، ذوق و شوق کے اعتبار سے شاعر اور فطرتاً گوشہ نشین تھے۔ ان کی والدہ رابعہ خاتون تعلیم یافتہ خاتون تھیں جو شعر کہنے پر قادر تھیں، عرفان صاحب کے دو بھائی اور تھے بڑے بھائی نیاز بدایونی مرحوم اور چھوٹے بھائی اشفاق احمد صدیقی جو بریلی میں بود و باش رکھتے ہیں۔ چھوٹے بھائی تو تقسیم ہند کے وقت بہت کم عمر رہے ہوں گے۔ بمشکل دو سال کے۔ گھر کے بقیہ افراد یعنی والد، والدہ، بڑے بھائی اور عرفان صدیقی کے درمیان اس وقت کس طرح کے مکالمے ہوتے ہوں گے اس کی ایک خفیف سی جھلک ’’سفر کی زنجیر‘‘ نام کی نظم میں نظر آتی ہے جو ان کے پہلے مجموعہ کلام کینوس میں شائع ہوئی تھی۔ شریف متوسط طبقے کے وکیل مولوی سلمان احمد ہلالی کے مکان کا صحن کچا تھا۔ اندر دالان در دالان تھے۔ کچے صحن میں ایک طرف کیاری بنا کر پھول اگائے گئے تھے اور بیلیں لگائی گئیں تھیں۔ بڑا بیٹا نیاز احمد مملکت خدا داد کی نادیدہ بستیوں کے خواب دیکھ رہا تھا۔ والدین اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک اجنبی ملک کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے کہ خدشہ تھا کہ بڑا بیٹا جس دشت میں شوق کے گھوڑے دوڑا رہا ہے، اس کا راستہ تصویر کی آنکھ کی نگاہ سے بھی زیادہ تنگ ہے (غالب) لیکن اس عمر کا شوق تو ایک بے مہار اونٹ کی طرح ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی تھا کہ انہیں وطن عزیز میں مستقبل کے لئے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ بڑے بھائی کی ہجرت نے عرفان صدیقی کے کچے ذہن میں نئے تلازمے داخل کئے وہ ان کی شاعری کی اساس بن گئے۔ تقسیم کا ہنگامہ، قتل و غارت گری، ہجر و یاس، رات، انتظار، فرقت، گلی، راستے، دریا، وقت نیم شب، گھر کے اندر لٹ جانا اور گھر کے باہر بچ جانا، ماں کے دل کی حالت، باپ کی پر تحمل خاموشی، ان تمام معاملات پر عرفان صدیقی نے بے شمار شعر کہے ہیں لیکن اس وقت وہ اشعار موضوع بحث نہیں ہیں اس وقت ہمیں ان مکالمات سے سروکار ہے جو ان چار افراد کے درمیان جاری تھے۔

مولوی سلمان احمد ہلالی (والد): ؂

آگے پڑھنے کے لئے بانڈ الگ کرنے ہیں

علم صدیوں سے وراثت ہے تمہارے گھر کی

یعنی اے میرے فرزند کبیر تم اپنی تعلیم کے اخراجات کی فکر نہ کرو خاتمۂ زمیں داری پر جو بانڈ حکومت نے دئے تھے ان میں سے حسب ضرورت کچھ بانڈ تمہاری تعلیم کے لئے الگ رکھ دوں گا۔

نیاز احمد صدیقی: ع

میں سمجھتا ہوں کہ روشن ہے وہاں مستقبل

عرفان صدیقی: ع

کیا کبھی حال میں ہم لوگ نہیں جی سکتے

عرفان صدیقی کو اپنے بچپن میں زمانہ حال بہت اچھا لگتا ہو گا۔ کیونکہ جھلستی ہوئی دوپہر میں وہ گھر سے نکل جاتے تھے اور نزدیک ہی میں حضرت ابراہیم شہید کے مزار کے احاطہ میں پپڑی کے درخت سے گرنے والی پپڑیاں بین بین کر ہم عمروں کے ساتھ کھاتے تھے۔ وہیں قریب میں ایک طاق بھی تھا جسے مقامی لوگ جنات کا طاق کہتے تھے اور اس میں چراغ روشن کرتے تھے۔ ان کے لئے سنسان رات میں جنات کے طاق میں چراغ روشن دیکھنا ایک مبہوت کن منظر ہوتا ہو گا۔ مغرب کے بعد جب وہ گھر کے باہر گلیوں میں نکلتے ہوں گے تو والدہ ان سے کہتی تھیں۔

تم کبھی شب میں ادھر سے نہ گزرنا کہ وہاں

صف بہ صف تند فرس سبز علم اڑتے ہیں

بچپن میں اس طرح کا خوف جس میں کسی مافوق الفطرت شئے کا ذکر ہو بچوں کو ڈراتا بھی ہے اور ایک سہرن بھرا آنند بھی دیتا ہے کہ ہم ان مافوق الفطرت ہستیوں کے اتنے قریب زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے بچپن کا وہ ’’حال‘‘ جس میں وہ جینے کی تمنا کرتے ہیں کئی اور با توں سے بھی عبارت تھا۔ اماں کہتی تھیں۔

درگہ شاہ ولایت میں جو اک زینہ ہے

تم وہاں جا کے پکارو کسی گم گشتہ کو

سالہا سال کے کھوئے ہوئے لوٹ آتے ہیں

شرط یہ ہے کہ صداؤں کا جواب آ جائے

ان حکایتوں کو سننے کے علاوہ ان کا بچپن بہ نفس نفیس بدایوں سے گزرنے والی گنگا کی معاون ندی، سوتھ، کے کنارے زرد کھجوروں کی قطاروں سے آگے ریتی میں تعزیے دفن کئے جانے کے موقعہ پر بھی شریک ہوتا تھا (اور یہیں سے عرفان صدیقی کی آگے آنے والی زندگی میں شعر کہنے کے لئے کربلا کا استعارہ حاصل ہوا ہو گا)۔

مذکورہ بالا تمام با توں کے باوصف انہیں اپنے بچپن کا ’حال‘ اچھا لگتا تھا اس لئے چپکے سے بول پڑتے تھے۔

کیا کبھی حال میں ہم لوگ نہیں جی سکتے

نیاز احمد بدایونی (موضوع بدلنے کی خاطر):

پھول کا تازہ شمارہ نہیں آیا اب تک

تاج صاحب کی کہانی تو بہت اچھی تھی

وہ یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ دیکھ لو۔ لڑائی دنگوں کی وجہ سے پھول جیسا دلکش رسالہ بھی اس دفعہ نہیں آ سکا۔ اب یہاں رہیں گے تو تاج صاحب کی اچھی اچھی کہانیاں بھی نہیں پڑھ سکیں گے۔ عرفان صدیقی بڑے بھائی کی منطقی باتیں سن کر اور تقریباً ًپسپا ہو کر اب ایک اور طریقے سے انہیں ہندوستان میں رہنے کے لئے راغب کر رہے ہیں اور اپنے والد سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ’’اس دفعہ چھٹی میں زمیں داری والے قصبے بناور میں جا کرتا زہ ہولے (بھنے ہوئے کچے چنے ) کھائیں گے کہ وہ بے حد مزیدار ہوتے ہیں۔

اب کے ہم چھٹی میں جائیں گے بناور ابا

تازہ ہولوں کا مزہ اور ہی کچھ ہوتا ہے

والد کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وہ وطن عزیز نہیں چھوڑسکتے۔ ان کے پیر خانے مارہرہ شریف سے ایک ہدایت کا اعلان ہوا کہ اپنے وطن ہندوستان میں رہنا ہے کہ یہاں ہمارے صدیوں پرانے آثار موجود ہیں۔ وکیل صاحب یہ سب سوچ ہی رہے ہیں کہ انہیں خیال آتا ہے کہ پچھلی بساط تہہ کر دی گئی ہے۔ کل ضلع کلکٹر کی وداعی دعوت ہے۔ ع

بار نبلیٹ کو کل دے گی وداعی دعوت

عرفان صدیقی: ؂

کیا مشن کے نئے فادر بھی چلے جائیں گے

وہ تو بیچارے کسی کو بھی نہیں مارتے ہیں

نیاز احمد صدیقی پھر اپنے موضوع کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آج کل اخباروں میں کیسی روح فرسا باتیں لکھی جا رہی ہیں۔ ع

گھوش نے آج کے اخبار میں کیا لکھا ہے

والد صاحب اس بات سے صرف نظر کرتے ہیں لیکن اخبار ہی کی ایک خبر بتاتے ہیں : ؂

جشن آزادی جمہور منانے کے لئے

کل سے اسکول میں تعطیل رہے گی بچو!

اور پھر اچانک ہی انہیں خیال آتا ہے (ڈور جب بیچ سے کٹ جائے تو کیا ہوتا ہے ) تبھی ایک اور ننھا سا کردار ان مکالمات میں داخل ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایسے خاندانوں میں ہوتا ہے کہ جہاں سب لوگ گفتگو کر رہے ہوں وہیں کوئی عم زاد، ماموں زاد یا پھوپھی زاد بچی بھی موجود ہوتی ہے۔ وہ فر فر اپنے گھر کا احوال بیان کرنے لگتی ہے۔ اس کے والد پہلے ہی نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ؂

آج ہی پاپا کا لاہور سے خط آیا ہے

ہم یہی بیل وہاں لان میں لگوائیں گے

ہم بھی کل شام گاڑی سے چلے جائیں گے

نیاز احمد صدیقی اب موضوع کو یکسر بدل دیتے ہیں اور چھوٹے بھائی عرفان صدیقی کو دالان کے اندر کمرے میں لے جا کر کہتے ہیں۔ ع

آج کالج کے ڈرامے میں بہت لطف آیا

(لیکن) ؂

تم مرے کمرے میں کیوں چھوتے ہو کاغذ میرے

بزم اقبال کے جلسے کی یہ تیاری ہے

چھوٹا بھائی ان با توں کو سنتا تو ضرور ہے لیکن اس وقت اس کی فکر ایک اور جانب نگراں ہے کہ بھائی صاحب کے کاغذات کے درمیان ایک من موہنی سی شکل کی لڑکی کی تصویر دیکھی تھی۔ وہ لڑکی کون ہے ؟ ع

جانے تصویر وہ کس کی ہے مگر پیاری ہے

بڑے بھائی مصمم ارادہ کر چکے تھے اس لئے وہ سرحد پار جانے سے پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ خوب وقت گزارتے ہیں۔ ع

رات کو دیر تلک حلقۂ یاراں میں خروش

جب واپس آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ممتا کی ماری نے اب تک ان کے انتظار میں کھانا بھی نہیں کھایا وہ الٹا ماں ہی کو مورد الزام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ؂

آپ نے بھی ابھی کھانا نہیں کھایا افسوس

آپ اس طرح تو کمزور بنا دیں گی مجھے

ماں کی آنکھوں میں دکھ کی پرچھائیاں دیکھ کر وہ ایک بہانہ کرتے ہیں۔ ماں کی تسلی کے لئے کہتے ہیں : ع

میں نئے ملک کی سرحد سے پلٹ آؤں گا

ماں جو خود ایک تعلیم یافتہ خاتون ہے اس تسلی سے نہ خوش ہوتی ہے نہ اس کا جواب دیتی ہے۔ وہ جو جواب دیتی ہے وہ تمام سوالوں کا تمام جوابوں کا منہ بند کر دیتا ہے۔ وہ ہار مان جاتی ہیں۔ ع

رک کہ میں آیۂ کرسی تو ذرا دم کر دوں

بڑے بھائی ہجرت کر جاتے ہیں۔ اب عرفان صدیقی ہندوستان میں والدین کی سب سے بڑی اولاد ہیں۔ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ بدایوں کی تعلیم مکمل کر کے بریلی کالج میں داخلہ لیتے ہیں۔ وہاں کسی مکان کی دوسری منزل پر کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہاسٹل بنا کر رہتے ہیں اور وہ تمام صعوبتیں سہتے ہیں جو متوسط خاندان کے ان تمام افراد کی اولاد کو برداشت کرنا پڑیں جن کی زمیں داری کے معاش کا حکومت ہندوستان نے خاتمہ زمیں داری ایکٹ کے ایک ہی وار میں خاتمہ کر دیا تھا۔ وہ سخت محنت کرتے ہیں۔ شعر لکھنے کا سلسلہ اور کتب بینی کا مشغلہ بھی جاری رہتا ہے۔ مہینے کے اخراجات کے لئے کچھ زیادہ پیسوں کے لئے وہ جاسوسی طرز کے ناول بھی لکھتے ہیں جو اس زمانے کے ریلوے اسٹال پر بآسانی دستیاب تھے۔ پھر دہلی جیسے شہر میں کسی ہندی رسالے کے دفتر میں کام کرتے ہیں۔ ادھر ماں باپ بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی دوران P.I.Bمیں ایک اچھی حیثیت کا کام مل جاتا ہے۔ یہیں انہوں نے UPSCکا امتحان دیا اور اس کے افسر کے طور پر انتخاب ہوا تب ایک دن گہری ہوتی رات میں اپنے بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے وہ غزل لکھی جس کا ہر شعر لاجواب ہی نہیں ان کے جذبات و احساسات کا آئینہ دار بھی ہے۔ ؂

تم ہمیں دشت میں ایک دن چھوڑ کر چل دئے تھے تمہیں کیا خبر یا اخی

کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی

سرحد پار کے حالات دن رات پڑھنے والا چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی سے کہتا ہے۔ ؂

نہر اس شہر کی بھی بہت مہربان ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا

ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریۂ معتبر یا اخی

یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سر سبز بازو بچا لے گئے

یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی

عرفان صدیقی نے بھی لڑکپن میں کسی کی حنائی انگلی کی ایک جھلک دیکھ لی تھی۔ والدہ واقف حال تھیں لیکن کسی سماجی مجبوری کی وجہ سے معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ غزل کے اشعار اپنی ایمائیت اور رمزیت کے وصف کے سبب معاملات کو بہت واضح نہیں کرتے۔ ایک دھندلکا سا قائم رہتا ہے لیکن ان کے چند اشعار سے اتنا اندازہ تو یقیناً ہوتا ہے کہ ان کے معاملات میں وصل کے لمحات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک مسلسل ہجر ہے۔ ؂

بیس اکیس برس پہلے ہمیں کب تک ملتے رہنا ہے

دیکھو اب کی بار ملو تو دل کی بات بتا جانا

شوق دونوں کو ہے ملنے کا مگر رستے میں

ایک پندار کی دیوارِ گراں حائل ہے

غالباً یہ پندار (یقیناً دونوں طرف سے ) بہت استقلال کے ساتھ دونوں کے ساتھ لگا رہا۔ ؂

اب اس قدر بھی سکوں مت دکھا بچھڑتے ہوئے

وہ پھر تجھے نہ کبھی مل سکے عجب کیا ہے

یا پھر ؂

وقت پھر جانے کہاں اس سے ملا دے تجھ کو

اس قدر ترک ملاقات کا پندار نہ رکھ

اور یہ بھی ؂

خبر نہیں ہے مرے گھر نہ آنے والے کو

کہ اس کے قد سے تو اونچے ہیں بام و در میرے

ہلکی تفتیش پر علم ہوا کہ دونوں نے اپنی جدائی کی تاریخ طے کر لی تھی اور رفاقت کے آخری لمحوں میں دونوں کو احساس تھا کہ دونوں کے راستے الگ الگ ہیں۔ اس ضمن میں پہلا شعر تو غزل کا عام شعر ہے لیکن دوسرے میں سوانحی رنگ بہت گہرا ہے۔ ؂

یہ رفاقت بہت مختصر ہے مری ہم سفر لا مرے ہاتھ میں ہاتھ دے

تو ہوائے سر رہ گذر کی طرح میں کسی نکہت رائگاں کی طرح

سنو اتنی افسردہ کیوں ہو اگر آج ہم کو چھڑاتی بھی ہے چپ رہو

یہی ریل گاڑی بہت دن کے بچھڑے ہوؤں کو ملاتی بھی ہے چپ رہو

۱۹۶۳ء میں عرفان صاحب کی شادی نجیب الطرفین سادات گھرانے میں ہوئی۔ اپنا پہلا مجموعہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے نام منسوب کیا ہے۔ اشعار کے تیور بھی بتا رہے ہیں کہ اب عشق کا کار و بار گھر کی چہار دیواری تک محدود کر دیا ہے۔ ؂

جسم کا شیشہ کاجل کرتی کالی رات خرابی کی

آنکھوں کی محراب میں روشن چہرہ اک سیدانی کا

عرفان صدیقی دوران ملازمت لکھنؤ اور دہلی میں رہے۔ دونوں شہروں سے ان کی محبت فطری ہے جس کا اظہار بار باران کے اشعار میں ہوا ہے خصوصاً غزلیہ اشعار میں، انہوں نے ان دونوں شہروں کو اپنی شعری سائکی کا حصہ بنا لیا تھا۔ دہلی میں ان کی عمر کا وہ حصہ گزرا جب آتش جوان تھا۔ دن کے ہنگامے دوستوں کے ساتھ دیر دیر تک رہنا شعر کہنا اور شعر سننا ان کا مشغلہ تھا۔ بچے بھی تب تک بڑے نہیں ہوئے تھے۔ ذمہ داریاں کم تھیں اس لئے دہلی کی یاد ذرا دوسرے قسم کی ہے۔ ؂

جانے کیوں کوئی سندیسہ نہیں لاتی پچھوا

کیا ہمیں بھول گئے اہل کرم دلی کے

چاہے جس شہر میں رہ آئیں مگر رہتے ہیں

زندگی دلی کی، دل دلی کا، ہم دلی کے

ٹرانفسر ہو کر لکھنؤ آئے تو پھر زندگی کا زیادہ تر حصہ لکھنؤ ہی میں گزرا۔ جناب والی آسی کا کتب خانہ، عابد سہیل صاحب کی نشست گاہ اور پھر پروفیسر نیر مسعود کا ساتھ۔ عرفان صاحب پروفیسر نیر مسعود کی شرافت، علمیت، اور تخلیقیت کے بہت معترف تھے۔ مجھ سے اکثر ذکر بھی کرتے تھے۔ کبھی نیر مسعود ان کے گولہ گنج کے مکان پہ آ جاتے اور عرفان صاحب کے ڈرائنگ روم میں گھنٹوں گفتگو ہوتی۔ اکثر عرفان صاحب دین دیال روز پر واقع ادبستان چلے جاتے اور دونوں کو گفتگو میں وقت کا احساس ہی نہ ہوتا۔ نیر مسعود صاحب سے ان کی گہری ہم آہنگی تھی۔ شہروں، قصبوں اور بستیوں سے محبت صرف سڑکوں اور در و دیوار کی زائیدہ نہیں ہوتی بلکہ اس محبت کی تہہ میں شامل ہوتا ہے اس شہر کے عزیزوں، دوستوں اور چاہنے والوں اور چہیتوں کا تصور۔ کچھ دن کے لئے اچانک دلی تبادلہ ہو گیا تو لکھا۔ ؂

ابھی کھلا بھی نہ تھا رخت شوق دلی میں

کہ پھر ہمیں کشش لکھنؤ بلانے لگی

ایک جگہ یوں بھی لکھا۔ ؂

ہر جگہ فتنۂ محشر کی علامت ہے وہی

لکھنؤ میں بھی بتوں کا قدو قامت ہے وہی

(یہ شعر غالباً لکھنؤ میں پہلی بار تبادلہ ہو کر آنے کے بعد کہا ہو گا)۔

آخر آخر میں تو لکھنؤ سے وہ تعلق ہو گیا کہ خود کو اس شام اودھ والے شہر کا ایک ناقابل تقسیم حصہ سمجھنے لگے۔ ؂

چار طرف رمیدہ خو، پائے ہوا، صدائے ہو

میرے بغیر لکھنؤ دشت غزال کے بغیر

یہ ان کے بعد کے مجموعے ’’سات سماوات‘‘ کا شعر ہے۔ اس کے بعد شہر دلی ان پر حاوی نہیں ہوا۔

زندگی کے آخری ایام تک وہ بدایوں سے عشق کرتے رہے شہروں میں یہ ان کا پہلا عشق تھا اور اس عشق کی یاد بھی ان کے دل سے نہیں گئی۔ ملازمت پیشہ انسان کو مختلف شہروں میں رہنا پڑتا ہے۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی حالت بھی خستہ ہونے لگی تھی جب کبھی بدایوں جاتے اور اپنے گھر میں داخل ہوتے تو خدا معلوم کیا کیا یاد آتا ہو گا۔ کچا صحن، دالان، کمرے، کیاری میں پھول اور بیلیں، ماں کی ممتا، باپ کی شفقت، بھائی کی ہجرت، اور طاق میں شام کے افسردہ چراغوں کا دھواں۔ اور ؂

تم کبھی شب میں ادھر سے نہ گزرنا کہ وہاں

صف بصف تند فرس سبز علم اڑتے ہیں

اور ماں کے بڑے بیٹے کو رخصت کرتے ہوئے کہنا۔ ع

رک کہ میں آیۂ کرسی تو ذرا دم کر دوں

گھر کے درو دیوار کو ہاتھ لگا لگا کر اپنا یہ شعر پڑھتے ہوں گے۔ ؂

ایک آسیب ہے ٹوٹے ہوئے گھر کا وارث

کس کو آواز لگاتا ہے کھنڈر کا وارث

بدایوں سے جب لکھنؤ واپس پہنچے ہوں گے اور بدایوں اور والدین جب یاد آتے ہوں گے تو ؂

بہت بے اماں پھر رہے ہیں مسافر

کہاں ہیں خطوں میں دعا لکھنے والے

اپنا وطن عملی طور پر تقریباً چھوٹ جاتا ہے۔ بدیوں میں ان کے چاہنے والے کم نہیں تھے۔ انتقال سے چند برس پہلے ادب دوست حضرات نے بدایوں بلا کر ان کا تہنیتی جلسہ بہت اعلیٰ پیمانے پر کیا۔ بدایوں سے ان کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ بچپن کی یادوں کے علاوہ زیادہ تر یادیں وہ تھیں جن سے ان کا دل دکھتا تھا۔ ان کے ضعیف ماں باپ بھی بدایوں میں زندگی جیتے تھے۔

غم دوراں اس کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ جلد جلد والدین کے پاس جا سکیں۔ بس ایک ہوک سی اٹھتی رہتی تھی۔ لکھنؤ یا دلی میں بیٹھ کر انہوں نے یہ شعر کہا ہو گا ؂

بند ہیں اس شہر نا پرساں کے دروازے تمام

اب مرے گھر اے مری ماں کی دعا لے چل مجھے

اور یہ بھی ؂

کتنے بے مہر ہیں اس شہر کے قاتل عرفان

پھر اسی کوچۂ دلبر کی طرف لوٹ چلو

والدہ کے وصال کے وقت وہ ان کے پاس موجود نہیں تھے۔ اس کسک نے یہ شعر کہلوایا ہو گا۔ ؂

ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے

ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے

ماں کے انتقال پر بدایوں پہنچے تو ان کے گھرنے ان سے کچھ کہا۔ ؂

مرا سونا گھر مرے سینے سے لگ کر روتا ہے

مرے بھائی تمہیں اس بار بہت تاخیر ہوئی

پھر آخر کار دل کڑا کر کے یہ طے کر لیا کہ اب بدایوں میں واپسی ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس وعدے کے ساتھ۔ ؂

بدایوں تیری مٹی سے بچھڑ کر جی رہا ہوں میں

نہیں اے جان من بار دگر ایسا نہیں ہو گا

نظم کی شاعری فکر کا واضح اظہار کرتی ہے۔ پڑھنے والے کے ذہن میں تصویر سی بنا دیتی ہے۔ مضمون کا تسلسلِ بیان کبھی کبھی کہانی جیسا وحدت کا تاثر دیتا ہے۔ اس کے برخلاف غزل اپنی ریزہ خیالی کے لئے مشہور، محبوب اور معتوب رہی ہے۔ غزل میں اشاروں سے کام لیا جاتا ہے۔ رمز و ایما غزل کا حصہ ہیں۔ غزل میں سوانح کا بیان عموماً نہیں کیا جاتا لیکن عرفان صدیقی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ انہیں جو کچھ کہنا تھا وہ زیادہ تر غزل کی صنف ہی میں کہا۔

عرفان صدیقی کی زندگی کا ایک بہت تابناک پہلو اپنی اولاد سے غایت درجے کی محبت تھی۔ ان کی اولاد میں ایک بیٹا فیضی اور چار بیٹیاں، مینا، نغمہ، رومانہ اور لبنیٰ ہیں۔ خدا تعالیٰ انہیں زندہ تندرست خوش و خرم رکھے۔ آمین۔ وہ بیماری کے زمانے میں اپنے بیٹے فیضی سے بہت مانوس ہو گئے تھے۔ اس سعادت آثار نے اپنے محبوب باپ کی خدمت بھی خوب کی تھی لیکن بیماری سے پہلے کے زمانے میں وہ اپنی بیٹیوں کو بے حد چاہتے تھے اور ان پر فخر کرنے کے طرح طرح کے بہانے ڈھونڈتے تھے۔ علی گڑھ میں میری پہلی پوسٹنگ کے زمانے میں ان کی بیٹی رومانہ نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ہوسٹل ملنے میں کچھ وقت تھا تو میں اور میری اہلیہ اسے اپنے گھر لے آئے چند روز اس کا قیام ہمارے گھر پر رہا۔ اس زمانے میں مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اپنی اولاد خصوصاً بیٹیوں کو کتنا چاہتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کے نام ان کی نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

مرے آنگن چڑیاں چار

کہ جن کے سبز سنہرے پروں میں چمکے

بابل کی توقیر

میں وہ زندہ تقدیر

کہ میرے نام

سچے آقا کاسلام

میرے پیچھے زندہ چڑیوں کی دشمن کالی صدیاں

میرے آنگن نور کی ندیاں

میرے آنگن کی چڑیاں چار

کہ جن سے دل کا پتھر موم

میری آنکھوں میں مہتاب

میرے شانوں کے شجر شاداب

مری دیواروں پر برکت والی روشنیوں کا نزول

مرے ہاتھوں اجلے پھول

میرے پورب پچھم، اتر دکھن

صبحوں کی چہکار

سہانے گاؤں کریں آثار

میرے آنگن چڑیاں چار

(نئی صبحوں کی بشارت)

ان کی غزل کا عمیق نگاہ سے مطالعہ کرنے والے صاحبان نقد و نظر اس بات سے واقف ہوں گے کہ ان کی غزل میں مستقبل سے مایوسی کا اظہار بہت کم ہے۔ پورے کلیات میں صرف ایک شعر ایسا ہے جو مستقبل کو مشکوک بتاتا ہے۔ ؂

اتنی امید نہ آتے ہوئے برسوں سے لگاؤ

حال بھی تو کسی ماضی ہی کا مستقبل ہے

اس کے برخلاف کم از کم دس اشعار ایسے ہیں جن میں اچھے مستقبل کی تصویر ہے۔ وہ اپنی اولاد کے مقدر اور دنیا کے مستقبل کو مترادف سمجھتے تھے۔ ؂

ایسی بے رنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دنیا

پھول سے بچوں کے چہروں سے پتہ لگتا ہے

یا

پھول چہروں پہ سویروں کا سماں جیسا ہے

سارا منظر مرے خوابوں کے جہاں جیسا ہے

عرفان صدیقی بنیادی طور پر گوشہ نشین تھے۔ دفتر اور گھر کے درمیان بہت مختصر وقفے کے لئے دوستوں سے روبرو ہوتے تھے۔ شہر سے باہر جاتے تو جلد از جلد متعلقہ کام کو نپٹانے کی کوشش کرتے تاکہ جتنی جلد ممکن ہو سکے اپنے گھر پہنچ کر اپنے بچوں کو دیکھ سکیں۔ ؂

پھول چہروں سے بھی پیارے تو نہیں جنگل

شام ہو جائے تو بستی ہی کا رستہ اچھا

ان کی شاعری میں نظم ہو کہ غزل بچوں کی ایک مخصوص اہمیت ہے۔ ان کی غزل میں بچوں کے افعال کو بچوں کے حوالے سے نہیں، باپ یا شاعر کے حوالے سے دیکھا گیا ہے۔ وہ اپنی زندگی اپنی روشنی اور آنے والی دنیا کے اجالوں کو بچوں کے حوالے سے خوش آئند بتاتے ہیں۔ ؂

اک نہ اک دیپ سے روشن رہی کالی دنیا

میں بجھا تو مرے بچوں نے اجالی دنیا

چراغ آخر شب ہیں سو اپنے بچوں کو

ہم آنے والے سحر انتساب کرتے ہیں

کل کی دنیا کی بنا ڈال رہا ہے کوئی

ننھے ہاتھوں میں ہے مٹی کا گھروندا روشن

(خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کا بیٹا سول انجینئر بنا جو اب ماشاء اللہ بستیاں بسا رہا ہے۔ )

مجھے یہ زندگی نقصان کا سودا نہیں لگتی

میں آنے والی دنیا کو بھی تخمینے میں رکھتا ہوں

بچوں سے متعلق ان کی غزلیہ شاعری کے اشعار پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ تسلسل حیات کے قائل ہیں اور زندگی کو جاوداں، پیہم رواں ہر دم جواں سمجھنے پر مائل ہیں۔

میں نے شروع کے صفحات میں عرض کیا تھا کہ وہ ہلکی با توں اور چھچھوری حرکات کو ناپسند کرتے تھے حتیٰ کہ کوئی ان کاشعر بھی بلند آواز میں پڑھ دیتا تو وہ خفیف ہو جاتے تھے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جس وقت وہ اپنے باطن سے ہم کلامی کرتے اور داخلی طور پر اپنے شعروں کو سنتے یا محسوس کرتے اس وقت وہ تنہا راہ کے مسافر ہو جاتے تھے۔ وہ اپنے شعر کی خوبی سے خوب واقف تھے اور ان کا نئی غزل میں کیا مقام ہے، وہ اچھی طرح محسوس کرتے تھے۔

غزل تو خیر ہر اہل سخن کا جادو ہے

مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادو ہے

وہ اپنے شعر کی پائداری پر بھی اصرار کرتے ہیں ؂

میں یہ کیوں سوچوں کہ اک موج مٹا دے گی اسے

ریگ ساحل پہ کوئی نقش کف پا لکھوں

عرفان صدیقی کو اپنی شعری دنیا کی انفرادیت کا شدید احساس تھا لیکن عام گفتگو میں وہ اس احساس کو کبھی اعلان نہیں بناتے تھے۔ البتہ اشعار کے پردے میں اپنی شاعری سے متعلق اپنے تاثرات بیان کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں تھا۔ ؂

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے

شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

یا

کچھ تو ہو جو تجھے ممتاز کرے اوروں سے

جان لینے کا ہنر ہو کہ مسیحائی ہو

نقش پا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے

ہم نے ایسی تو کوئی راہ نکالی بھی نہیں

میں اپنے نقد سخن کی زکات بانٹتا ہوں

مرے ہی سکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں

وہ مشاعروں میں بہت کم شرکت کرتے تھے۔ اکثر چھوٹی چھوٹی نشستوں میں اپنا کلام سناتے تھے۔ وہ شاعری کے ’’ ادب و آداب‘‘ سامعین کی نفسیات سے واقفیت اور ناظم مشاعرہ سے تعلقات کی اہمیت سے انجان نہیں تھے لیکن غالب کے بقول معاملہ یہ تھا۔ ؂

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

وہ اپنے شعری کارناموں کی بے ہودہ تبلیغ بھی نہیں کرتے تھے جو مشاعروں کی دعوت ملنے میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس موضوع پر بھی ایک طنز یہ شعر کہا تھا۔ ؂

تم بتاتے تو سمجھتی تمہیں دنیا عرفان

فائدہ عرض ہنر میں ہے ہنر میں کیا تھا

زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے ایک گہرا دکھ جھیلا۔ صدی کی ابتدا میں گجرات میں جو کچھ ہوا اس نے ان کے دل پر گہرا اثر چھوڑا ان کی طبیعت بے حد حساس تھی اور وہ بہت زود رنج تھے، عالمی منظر نامے یا ملکی سطح پر کوئی ظلم دیکھتے تو بے تاب ہو جاتے۔ اس سے پہلے بھی ایک نظم ایسے ہی ایک موقعے پر کہی تھی۔

کا وہ تو نے سنا

ماؤں کی دودھیا لوریاں

دھول میں اٹ گئیں

اور گہواروں کی ریشمی ڈوریاں

کٹ گئیں

نیند کی اجلی پریوں کے پر

ٹوٹ کر گر گئے

اور ننھے بدن

مٹھیوں میں دبائے ہوئے اپنی مٹی کی چڑیاں

دمادند کی کالی چٹان پر

ریزہ ریزہ ہوئے۔

گجرات کے سانحے کا وقت وہ تھا جب ان کی بیماری کی تشخیص ہو چکی تھی۔ گجرات کے حالات سنتے اور دکھ اور ہزیمت سے پیدا شدہ جھنجھلا ہٹ میں ایسے منفرد شعر نکالتے۔ ؂

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا

ایسے ہی کی ہزیمت کے احساس کے تحت ۱۹۹۰ ء کی دہائی میں یہ بڑا شعر کہا تھا۔ ؂

اے خدا کٹنے کو ہے تجھ سے زمیں کا رابطہ

دیکھ میں دست دعا ہوں اور قلم ہونے کو ہوں

پھر ایک روز وہ دن آیا جس کے بارے میں سردار جعفری نے ’’میراسفر‘‘ نام کی نظم کے ابتدائی مصرعوں میں کہا تھا۔

پھر اک دن ایسا آئے گا

آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے

ہونٹوں کے کمل مرجھائیں گے

اور برگ زباں سے

نطق و صدا کی

ہر تتلی اڑ جائے گی

اپریل ۱۹۹۴ء کے اس روز موعود کے لئے وہ اپنے کلیات ’’دریا‘‘ کے آخر میں یہ شعر درج کر چکے تھے۔ ؂

بجھ رہی ہیں میری شمعیں سو رہے ہیں میرے لوگ

ہو رہی ہے صبح قصہ مختصر کرتا ہوں میں

٭

عرفان صدیقی کا شعری شعور کیا صرف ہمارے عہد کا استعارہ ہے ؟ نہیں۔ وہ کسی اور زمانے کی داستان بھی سناتے ہیں۔ تو کیا وہ ہماری تہذیب و ثقافت کے ماضی کے کسی دور دراز علاقے سے اپنا رشتہ استوار کیے ہوئے تھے۔ یہ بھی نہیں، در اصل وہ عہد کے کلیثے سے کبھی نہیں بہل سکے۔ وہ ایک غیر منقسم زمانے کا بیان اس طرح کرتے تھے کہ ان کی غزلوں میں کرۂ ارض بھی سرحدوں سے عاری نظر آتا ہے ۔ ۔ ؂

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

کیا واقعی ہمارا عہد ہر معنی میں پچھلے عہد سے مختلف ہے۔ کیا وقت کے مختلف ادوار کے درمیان کوئی حقیقی حد فاصل ہوتی ہے جس پر سب متفق ہوں۔ تو کیا زمانے کو تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ کیا شعری ذہن صرف ایک ہی عصر کی تصویر کشی کرنے پر مجبور ہے۔ کیا اگلے وقتوں پر ہمارا اب کوئی حق نہیں۔ کیا گردش گیتی کے مسلسل زناٹے میں جولا تعداد تصویریں، تصورات، صدائیں اور صدیاں ایک دوسرے کو کاٹتی، ضرب دیتی، روشنی کی رفتار سے کہیں زیادہ سرعت کے ساتھ سفر کر رہی ہیں، ان کی اس کائنات میں ہمہ وقت موجودگی سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے۔ ان سوالوں کا جواب لا محالہ نفی میں ہے۔ اور اسی نفیِِ کبیر کے نتیجے میں جو مقدمہ وجود میں آتا ہے، عرفان صدیقی اپنے عہد میں اس مقدمے کے سب سے بڑے مدعی ہیں۔ انہیں اس کا احساس بھی ہے ؂

شمع تنہا کی طرح، صبح کے تارے جیسے

شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

اور یہ شہر لکھنؤ، دلی، بدایوں یا مارہرہ نہیں ہے، یہ انسانوں اور ان کے اعمال کے بوجھ سے چٹختا ہوا پورا کرۂ ارض ہے۔ ؂

اے خدا کٹنے کو ہے تجھ سے زمیں کا رابطہ

دیکھ میں دست دعا ہوں اور قلم ہونے کو ہوں

ان کی معنی خیز تراکیب، کچھ کچھ فارسی آمیز لہجہ، دنیا بھر کی ثقافتوں کے نمائندہ کردار، وہ آ ہوئے تا تار ہو یا بانوے ناقہ سوار، نیزے پر پھول کی طرح کھلا ہوا سر ہو یا سر برہنہ بیبیاں، کنار دریا کے معرکے ہوں یا آنکھوں کی محراب میں روشن ایک سیدانی کا چہرہ ہو۔ سب کے سب اشارہ کرتے ہیں کہ اس شاعر نے زمیں کو اپنا مستقر تو بنایا ہے لیکن یہ زمیں بہت وسیع ہے اور اس کی وسعت اور ہمہ گیری پر کسی حالت میں سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ ان کی ارضیت ایک سمٹی سکڑی ذاتی قسم کی ارضیت نہیں ہے، اس کا کینوس ایسا وسیع ہے کہ اس میں سات سماوات سمائے ہوئے لگتے ہیں۔

دنیا کا وسیع تصور ’’کینوس‘‘ سے لے کر ’’ہوائے دشت ماریہ‘‘ تک لشکارے مارتا ہے۔ اپنی تہذیبی اور ثقافتی قدروں کا عرفان و اعلان انہیں صرف اپنی ثقافت کے دائرے میں بند نہیں رکھتا۔ وہ بانوئے ناقہ نشین کے ساتھ اس بنجارن کا ذکر بھی کرتے ہیں جو ؂

رکنا ہو یا چلنا ہو کوئی فکر نہیں بنجارے کو

بنجارن نئے چھپر چھائے، کوچ میں پوت سہارا دے

دنیا میں جہاں بھی ظلم ہوا ہے اور ہو رہا ہے وہ سب کے نوحہ خواں ہی نہیں ہیں للکارنے کا بھی جذبہ رکھتے ہیں۔ برطانیہ جب نو آبادیات سے مجبوراً دست بردار ہوتا ہے تو وہ ٹھٹھے نہیں لگاتے، معروضی انداز میں ذکر کرتے ہیں ؂

جن کی اقلیم پہ سورج نہیں ہوتا تھا غروب

کھولتے پھرتے ہیں خیموں کی طنابیں ہر سمت

ستم ایجاد یہودیوں کا وہ زمانہ بھی انہیں یاد رہتا تھا جب وہ ظلموں کے بوجھ سے پسے ہوئے تھے۔ ع

اور مظلوم ستم پیشہ بھی ہو جاتے ہیں

جب اپنی ہی سرحدوں کے اندر بے پناہ ظلم دیکھتے ہیں اور اس کا مداوا نظر نہیں آتا تو ایک مجبور انسان کی طرح لیکن شکوے کے تیوروں کی سان پر رکھا ہوا ایسا دھار دار شعر کہتے ہیں ؂

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

زندگی میں ایک وقت وہ آتا ہے جب وہ خود کو عشق کے سپرد کر دیتے ہیں ؂

سخت ہے مرحلۂ رزق بھی ہم جانتے ہیں

پر اسے معرکۂ عشق سے کم جانتے ہیں

ہم بڑے اہل خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا

عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا

تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جان من، ۔ ۔ ۔ والی غزل محبت کے دونوں ساز و سامان یعنی من اور تن کے بارے میں ایسی منفرد غزل ہے جس کا جواب ہمارے عہد کے ایک ہی دو غزل گویوں کے پاس ہو گا۔ عام غزل گویوں کے بر عکس وہ اپنے محبوب کی جنس کا اعلان واشگاف انداز میں کرتے ہیں ۔ ۔ ؂

میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جان مراد

خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے

ان کی غزلوں میں دو جذبے بہت شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ صرف لمحۂ موجود کی نوحہ خوانی بہت ہو گئی، آنے والے وقت کے حسن و خوبی کو بھی خوابوں کا حصہ بناؤ ؂

دو جگہ رہتے ہیں ہم ایک تو یہ شہر ملال

دوسرا وہ کہ جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے

اتنی بے رنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دنیا

پھول سے بچوں کے چہروں سے پتہ لگتا ہے

اور دوسرا رنگ تصوف کی حقیقی روح کا ہے جو انہیں اپنے اجداد سے ورثے میں ملی جو جگہ جگہ ان کو تنبیہ دیتی ہے کہ مستقبل کے خواب اور آنے والی دنیائے حسن آمنا صدقنا، اس سے بے رغبتی تو کفران نعمت ہو گا لیکن دنیا کی آسائش سے تھوڑی سی بے نیازی بھی چاہئے۔ ؂

یوں اہل زر کے پاس خزانے تو خوب ہیں

مولا کا یہ فقیر ضرورت کہاں سے لائے

پھر بار فقیروں کا اٹھانا مرے داتا

پہلے تو یہ کشکول فقیرانہ اٹھا لے

مدت سے فقیروں کا یہ رشتہ ہے فلک سے

جس سمت وہ ہوتا ہے اُدھر ہم نہیں ہوتے

عرفان صدیقی کی شاعری کی خصوصیات چند صفحات میں بیان کرنا محال ہے۔ ’’ہوائے دشت ماریہ‘‘ جو کربلا کے اشعار سے سرتا پا مزین ہے، کا ذکر اس مختصر سے نوٹ کو طویل کر دے گا۔ رات تھوڑی ہے اور سو انگ بہت۔

بیسویں صدی کے اختتام پر عرفان صدیقی نے صدیوں پہ پھیلی ہوئی اردو غزل کی تابناک روایت کو ایک ایسا پھول جیسا منفرد چہرہ دیا جو بہت سے رنگوں اور خوشبوؤں اور زاویوں کا مجموعہ ہے اور جسے دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ غزل جسے تنگنائے غزل کہا گیا ہے، کس طرح ایک عبقری شاعر عرفان صدیقی کی بدولت، قصبوں، شہروں، ملکوں، بر اعظموں اور ظالموں اور مظلوموں اور محبت کرنے والوں اور نفرت کرنے والوں اور حاکموں اور محکوموں اور محبو بوں کے احوال کو کتنی طاقت، نفاست اور اکملیت کے ساتھ بیان کرنے کا اعجاز رکھتی ہے۔ ؂

غزل تو خیر ہر اہل سخن کا جادو ہے

مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادو ہے

(2015)

٭٭٭

 

 

 

میرا یار جانی عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عظیم اختر(دہلی)

 

عام طور پر سرکاری دفتروں اور محکموں میں ہر تیسرا، چوتھا بڑا افسر یر رکن شرما یا گپتا ہی نظر آتا ہے لیکن 1964ء کے اوائل میں جب وزارت اطلاعات و نشریات کے محکمہ پریس انفارمیشن بیورو میں ہمارا اسسٹنٹ جرنلسٹ کے عہدے پر تقرر ہوا اور ہم پہلے دن دفتر پہنچے تو یہاں صورت حال یکسر مختلف نظر آئی۔ اس زمانے میں پریس انفارمیشن بیورو کا صدر دفتر آکاش وانی بھون کی پہلی منزل پر واقع تھی اور ہر کمرہ کسی نہ کسی صدیقی سے آباد تھا۔ اکے لیے اردو یونٹ میں چھ صدیقی موجود تھے۔ آنجہانی جگناتھ آزاد اردو یونٹ کے افسر اعلیٰ اور آج کی دہلی کے بزرگ صحافی جناب جی ڈی چندن ان کے نائب تھے۔ ہماری پوسٹنگ ایک ایسے یونٹ میں ہوئی تھی جس کے سربراہ جناب علی جواد زیدی تھے۔ پہلا دن رسمی کاروائیاں پوری کرنے میں گزر گیا۔ اگلے دن اردو سے دلچسپی اور صدیقیوں سے ملنے کا شوق ہمیں کھینچ کر اردو یونٹ میں لے گیا۔ ہم یونیورسٹی چھوڑ کر آئے تھے اور نگاہوں میں ہم عمر چہرے بسے ہوئے تھے لیکن یہاں ساتھیوں کے نام پر ادھیڑ عمر کے چہرے دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ ہمارے شوق اور دلچسپی پر اوس پڑ چکی تھی۔ تاثرات سے خالی چہروں نے ہمیں دیکھا، تعارف ہوا اور سماً ہاتھ ملے۔ تعارف کرانے والے نے مسکراتے ہوئے کہا ایک صاحب اور ہیں ایم آئی صدیقی وہ آج کل لگان وصول کرنے بدایوں گئے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر ہم نے حیرت سے کہا ’’پریس انفارمیشن بیورو کو لگان سے کیا تعلق‘‘؟ اس پر کمرے میں کئی قہقہے گونجے۔ متعارف کرانے والے ہماری حیرت دور کرتے ہوئے استہزایہ لہجے میں کہا ’سات آٹھ ماہ پہلے ان کی شادی ہوئی ہے اس لیے وہ، لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کرتے اور کمرہ میں قہقہے گونجتے ہم نے مسکراتے ہوئے کہا اچھا تو یہ بات ہے لیکن معاف کیجئے کیا آپ کی لگان کوئی اور وصول کرتا ہے ؟ ان صاحب نے ہمیں کینہ تو ز نگاہوں سے دیکھا اور سپاٹ لہجے میں بولے۔ ۔ ’’میاں بتا تو دیتا لیکن ابھی آپ بچے ہیں۔ یہ سن کر ہماری زبان سے بے ساختہ نکلا کوئی بات نہیں اب تو ساتھ ہی رہیں گے بڑے ہو جائیں گے تو بتا دیجئے۔ ۔ ۔ ‘‘۔ ہمارا جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ کمرہ پھر قہقہوں سے گونج اٹھا۔ قہقہوں کے درمیان سنائی دیا کوئی کہہ رہا تھا ’ ’ صدیقی، یہ ہے نہلے پر دہلا۔ اب مزہ آئے گا۔ یہ سن کر ہم نے ان صاحب کو کھجلانے کے لیے خالص لکھنوی انداز میں سلام کیا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ شاید تیسرا یا چوتھا دن تھا اور گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کا عمل تھا ہم اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے پاکستان سے آئے ہوئے اخبارات پڑھ رہے تھے۔ اچانک دروازہ کھلا اور آنکھوں پر نظر کا رنگین چشمہ لگائے سفاری سوٹ میں ملبوس چھوٹے قد و قامت کے ایک صاحب ہمارے کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے بائیں ہاتھ میں سگریٹ تھی وہ بانہیں پھیلاتے ہوئے ہماری طرف بڑھے اور بولے عظیم مجھ سے ملو میں ہوں ایم آئی صدیقی‘‘ یہ تھے ہمارے اس زمانے کے ایم آئی صدیقی اور ڈیڑھ دو دہائیوں کے بعد اردو دنیا میں ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر کے روپ میں ابھرنے والے عرفان صدیقی سے ہماری پہلی ملاقات۔ اس کی گرم جوشی قابل دید تھی۔ ہم جلدی سے کرسی چھوڑ کر اٹھے، وہ آگے بڑھا اور ہم سے بغل گیر ہو گیا۔ بغل گیر ہوتے ہوئے جی چاہا کہ اس سے پوچھیں میاں لگان وصول کر آئے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہماری زبان پھسلتی اس نے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر زور سے دباتے ہوئے کہا مجھے ابھی ساری تفصیل معلوم ہوئی ہے۔ مزہ آ گیا تم سے ملنے اور تمہیں دیکھنے کے لیے دوڑا چلا آ رہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا یار کیا تم علی گڑھ کی پروڈکٹ ہو؟ ہم نے فوراً جواب دیا نہیں۔ عرفان صاحب ہم دہلی کالج کی پروڈکٹ ہیں اور پرانی دہلی کی گلیوں کے پروردہ ہیں اور وہاں کے شابوؤں سے خاصی اچھی یاد اللہ ہے۔ ‘‘ اس پر عرفان نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور ہمارا ہاتھ دباتا ہوا بولا پارٹنر میں تم سے یقیناً بڑا ہوں لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ ہمارے درمیان بے تکلفی پیدا نہ ہو سکے۔ اس لیے یہ صاحب واحب کا چکر چھوڑو۔ اس پہلی ملاقات کے بعد بھی یہی چند ہی دنوں میں ہم دونوں کے درمیان بے تکلفانہ مراسم پیدا ہو گئے اور ناموں کے ساتھ صاحب کا لاحقہ غائب ہو گیا۔ اس زمانے میں پریس انفارمیشن بیورو کے اردو یونٹ میں اردو والوں کے باہمی بغض و عناد، کدورتوں اور ریشہ دوانیوں کی روایتیں خوب پھل پھول رہی تھی جس نے یونٹ کے ماحول کو گھونٹ کر رکھ دیا تھا، گرچہ آنجہانی جگناتھ آزاد افسر اعلیٰ تھے لیکن ان کی غیر معمولی شعری و ادبی مصروفیات کی وجہ سے اردو یونٹ ان کے نائب کے گرد ہی گھومتا تھا۔ آزاد صاحب کے نائب صحافی کم محتسب زیادہ تھے۔ دفتری ڈسپلن اور ضابطوں کی پابندی ان کے یہاں کار کر دگی اور Efficiencyکا دوسرا نام تھا۔ معمولی سی خلاف ورزی پر جواب طلب کرنے اور میمو (Memo)جاری کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ہمارے عرفان میاں اپنے مزاج کے لا ابالی پن کی وجہ سے دفتر دیر سے آنے اور ہر ہفتہ، ا توار، پیر بدایوں میں گذارنے کے لئے چھٹی کی درخواست منظور کرائے بغیر خاموشی سے نکل جانے کے عادی، چنانچہ عرفان کی واپسی پر ایک عدد (Memo) اس کا منتظر رہتا تھا۔ عرفان کو بولنے چالنے میں تو نہیں ہاں اچھی اور عمدہ انگریزی لکھنے میں دسترس حاصل تھی۔ اس وقت اردو یونٹ میں عرفان صدیقی سے بہتر انگریزی لکھنے اور انگریزی سے اردو با محاورہ ترجمہ کرنے والا کوئی اور نہیں تھا۔ چنانچہ ہر میمو کا سلیس اور عمدہ انگریزی میں مدلل جواب دیا جاتا۔ جو بڑی خاموشی سے داخل کر دیا جاتا۔ عرفان کے ان محتسب افسر نے میموز کے جواب پر کبھی کوئی مزید کاروائی نہیں کی لیکن اس کی سالانہ رپورٹ خراب کرنے سے نہیں چوکتے۔ یہ تین سال چلا اور آنجہانی جگناتھ آزاد کے تبادلے کے ساتھ ہی رکا۔ آزاد صاحب کے بعد سردار شمشیر سنگھ نرولہ اردو کے انفارمیشن آفیسر بن کر آئے۔ نرولہ صاحب غیر منقسم پنجاب کے ممتاز اردو افسانہ نگاروں میں سے تھے۔ انگریزی اور اردو اخبارات میں کام کرنے کا کافی وسیع تجربہ تھا۔ دفتری کاموں میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔ عرفان صدیقی کی صلاحیتوں کو پریس انفارمیشن بیورو میں صحیح معنوں میں پہلی بار نرولہ صاحب ہی نے پہچانا۔ انہوں نے عرفان کے ساتھ ہونے والی دفتری نا انصافیوں کا تدارک کیا، لیکن یکے بعد دیگرے تین معمولی اور خراب اے سی آرز نے سینیارٹی لسٹ میں عرفان کو پیچھے دھکیل دیا تھا ورنہ ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل ملنے والا عہدہ عرفان کو کم از کم چار پانچ سال پہلے مل جانا چاہیے تھا۔

عرفان صدیقی بنیادی طور پر ایک خاموش طبع، کم گو مگر متلون مزاج انسان تھا۔ لوگوں سے ملنے جلنے میں بھی وہ بہت احتیاط برتتا تھا۔ متلون مزاج ہونے کی وجہ سے اس کے یہاں ٹھہراؤ نہیں تھا لیکن اس متلون مزاجی کے باوجود اس نے ایک منصوبہ بند طریقے سے شاعری کی۔ عام طور پر شعرائے کرام شعر کہنے، غزل مکمل کرنے کے بعد اپنے قریبی دوستوں کو سنانے کے لیے بیتاب رہتے ہیں اور شعر سنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ نو واردان ادب پر شعر سنانے اور داد پانے کا جنون کچھ زیادہ ہی سوار رہتا ہے۔ دہلی کے قیام کے دوران عرفان صدیقی کی شاعری یقیناً ابتدائی دور سے گزر رہی تھی۔ یہاں کا ادبی ماحول ہر لحاظ سے سازگار تھا لیکن حیرت کا مقام ہے کہ آٹھ نو سال کے اس خاصے طویل عرصہ میں عرفان نے اپنی شعر گوئی کو سختی سے مخفی رکھا اور دوستوں کو بھی اپنی شاعری کی بھنک نہیں لگنے دی۔ اس کا یہ رویہ آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آ سکا۔ دہلی کے قیام کے دوران عرفان صدیقی کو ہمارے ساتھ کناٹ پلیس اور پرانی دہلی کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے کے علاوہ مشاعرے سننے کا شوق تھا اور یہ شوق اس حد تک تھا کہ ایک بار ہم لوگوں کو جشن جمہوریت کے مشاعرے کے پاس نہیں مل سکے۔ پاس کے بغیر ہم مشاعرے میں جانا نہیں چاہتے تھے لیکن عرفان کی ضد اور شوق کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ چنانچہ لال قلعہ پہنچے، بغیر پاس کے مشاعرہ گاہ میں پہنچے کی کوشش کی لیکن غیر معمولی حفاظتی بندوبست کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔ اس زمانے میں عام لوگوں کے لیے مشاعرے کے ٹکٹ فروخت ہوا کرتے تھے۔ سب طرح سے مایوس ہو کر ہم دونوں نے نچلے درجے کے دو ٹکٹ خریدے اور جب مشاعرہ گاہ کی اس گیلری میں پہنچے تو وہاں ڈنڈا بردار پولیس والوں کی کثرت نظر آئی۔

شعر و ادب کی محفل میں ڈنڈا بردار پولیس والوں کو دیکھ کر ہمیں دہلی والوں کے چہیتے شاعر استاذ رسا دہلوی کا ایک مشاعرہ یاد آ گیا، جس میں بندوبست کے نام پر اسی طرح پولیس والوں کو سامعین کے درمیان بٹھایا گیا، جب مشاعرہ شروع ہوا اور سامعین نے کسی اچھے شعر پر داد دینی شروع کی تو مشاعروں کی روایت سے نا واقف پولیس والے داد کو شور سمجھ کر حرکت میں آ گئے اور بہت سے سامعین کی گدیاں پکڑ لیں۔ استاذ رسا مرحوم اپنے مشاعروں کی نظامت خود ہی کیا کرتے تھے جب انھوں نے پولیس والوں کو سامعین کی گدیاں پکڑتے ہوئے دیکھا تو مائیک پر پولیس سے مخاطب ہوئے۔ بھائیو یہ شور نہیں مچا رہے ہیں داد دے رہے ہیں۔ اس پر پولیس عملے کے انچارج نے استاذ سے پوچھا تو استاد پھر شور کیا ہوتا ہے ؟ اس سوال پر مشاعرے میں قہقہوں کا طوفان آ گیا اور سامعین کی گدیاں پولیس والوں کی شکنجوں سے چھٹیں۔ استاد کے مشاعرے کے وہ منظر یاد آتے ہی ہم جملے بازی اور ہوٹنگ کرنے کے شوق کو بھول کر رات کے دو تین بجے تک لٹھوں اور ڈنڈوں کے زیر سایہ مشاعرہ سنتے رہے۔ ہمیں وہاں بیٹھے ہوئے ایک انجانی اور خفت کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔ لیکن عرفان میں اپنے گرد و پیش سے بے نیاز مشاعرہ سننے میں لگے تھے۔ اور خوب داد دے رہے تھے۔

اس زمانے میں ہم نے عرفان کے اس شوق کی بدولت دہلی میں بہت سے مشاعرے یونہی پچھلی صفوں میں بیٹھ کر سنے اور گھنٹوں خون جلایا۔ بڑے بوڑھوں نے کہا کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی، اور اسی لال قلعہ کے اسی مشاعرے میں جہاں عرفان صدیقی اور عظیم اختر ایک ایک روپے کا ٹکٹ لے کر پہنچے تھے۔ چند برسوں کے بعد عرفان صدیقی کو شاعر کی حیثیت سے بہ صد احترام مدعو کیا گیا۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب جشن جمہوریت کی ثقافتی پروگراموں اور تقریبات کے انعقاد کی تمام تر ذمہ داری دہلی ایڈمنسٹریشن کو سونپ دی گئی تھی۔ ہم اس وقت دہلی ایڈمنسٹریشن میں اسٹیٹ پریس آفیسر کے عہدے پر فائز تھے۔ اردو جاننے والے آفیسر ہونے کے ناطے ہمیں مشاعرہ جشن جمہوریت کمیٹی کا جوائنٹ کنوینر بنا دیا گیا۔ ہم چار پانچ سال تک مشاعرہ کمیٹی کے جوائنٹ کنوینر رہے۔ اس قسم کی سرکاری کمیٹی میں عام طور پر دانش گاہوں کے پروفیسر نقاد حضرات ہی ممبر کے طور پر سجے ہوئے نظر آتے ہیں، اب تو خیر اس مشاعرے کی تمام ذمہ داریاں دہلی اردو اکیڈمی کے سپرد ہیں جس میں سیاسی سفارشوں کی بدولت پروفیسر نقاد حضرات کی بہتات ہے لیکن ہمارے زمانے کی مشاعرہ کمیٹی میں بھی دہلی کی تینوں دانش گاہوں کے کئی پروفیسر حضرات ممبر کے طور پر سجے ہوئے تھے۔ مشاعرے میں مدعو کئے جانے والے شعرائے کرام کے انتخاب کے سلسلے میں ہم نے مشاعرہ کمیٹی کے معزز ممبران کے ماہرانہ جوڑ توڑ ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو بہت قریب سے دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اردو زبان و ادب کا ریموٹ کنٹرول بنے ہوئے یہ زعمائے ادب اپنی زبان اور ادب کی تئیں قطعاً مخلص نہیں ہیں۔ اس قسم کی کمیٹیوں کا ممبر بننے کے بعد اپنے موالی قلمکاروں کو فائدہ پہچانے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اردو دنیا میں اور بھی نا انصافیوں اور بد دیانتوں کا ایسا بازار گرم ہے جس کی آنچ اور بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمیں یاد ہے مشاعرہ کمیٹی میں جب عرفان صدیقی کا نام پیش کیا گیا تو تین چار معزز ممبر مخالفت کے باوجود مخالفت نہ کر سکے اور عرفان کو مشاعرے میں مدعو کیا گیا۔ جب مشاعرہ شروع ہوا اور پنڈال میں تل دھرنے کو جگہ نہیں رہی تو ہم نے عرفان کے کان میں کہا ’’میاں ذرا وہ دن یاد کرو جب ہم دونوں نے ایک ایک روپے کا ٹکٹ لے کر سب سے پیچھے بیٹھ کر یہ مشاعرہ سنا تھا‘‘ عرفان نے ہمارے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’ہاں وہ دن مجھے بھی یاد ہے، خدا کا کتنا بڑا کرم ہے کہ آج ہم دونوں مشاعرے کا حصہ بنے ہوئے اسٹیج پر موجود ہیں ‘‘۔ یہ کہہ کر عرفان نے اپنے مخصوص انداز میں ہلکا سا قہقہہ لگایا۔

عرفان صدیقی نے بہ حیثیت شاعر اس مشاعرے میں شرکت کی اور ہماری خواہش پوری ہو گئی۔ لیکن وہ باقی ایم اے کی طرح مشاعروں کا شاعر نہیں تھا اور اس کی شاعری شعر فہمی اور سخن شناسی سے محروم آج کے مشاعروں کے ان سامعین کی سمجھ سے بالا تر تھی جو متشاعرات کے ترنم پر سر دھنتے ہیں اور پٹے بازوں کی طرح ہوا میں ہاتھ لہرانے اور پنڈال کی محبت کو دیکھ کر خمار آلود آواز میں متفرق اشعار سنانے والے شاعروں کو پسند کرتے ہیں۔ عرفان صدیقی ترنم کی دولت اور تحت میں بازیگری کا کلام دکھانے سے محروم تھا، اس کی خوبصورت شاعری اور سپاٹ تحت دہلی کے سامعین کو متاثر نہ کر سکی، اس کے بعد جشن جمہوریت کے کسی اور مشاعرے میں ہمارے علمائے ادب نے کبھی عرفان کو مدعو نہیں کیا۔ لیکن وہ ایک ایسا جینوئن، اوریجنل اور ذہین شاعر تھا جس کے حوالے کے بغیر آج کی اردو شاعری پر گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ عرفان فضول خرچ بہت تھا۔ جیب میں پیسے ہوتے تو کناٹ پلیس کے مہنگے ہوٹلوں میں کافی پی جاتی اور ٹیکسی میں سفر ہوتا اور شاہانہ انداز سے وقت گذرتا لیکن جب پیسے ختم ہو جاتے تو ادھار کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور یہ سلسلہ مہینے کے آخر تک جاری رہتا تھا۔ شاہ خرچی اس کی عادت تھی لیکن عرفان کے کردار میں کوئی جھول نہیں تھا۔ اس زمانے میں پی آئی بی کا اردو یونٹ بھرا پڑا تھا۔ دس بارہ رفقائے کار کے باوجود اس کی دوستی کسی سے نہیں تھی۔ سب سے الگ تھلک رہتا اور شام کو دفتری اوقات کے بعد ہمارے ساتھ کناٹ پلیس کی سڑکوں پر مٹر گشتی کرتا۔ اگر سلام مچھلی شہری اور لکھنؤ کے ممتاز شاعر جناب عمر انصاری کے صاحبزادے اقبال عمر جو ان دنوں دہلی میں برسرِ روزگار تھے ہمارے دفتر آ جاتے تو پھر ہم چاروں کناٹ پلیس کے کسی خوبصورت ریسٹورینٹ میں کافی پیتے، سگریٹیں پھونکتے اور دنیا جہاں کی باتیں کرتے۔ سلام مچھلی شہری ابا جی مرحوم حضرت مولانا علیم اختر کے ہم عصر اور دوست تھے، اسی تعلق کی وجہ سے وہ ہم سے بڑی شفقت سے پیش آتے۔ دفتر قریب ہونے کی وجہ سے اکثر وہ فون کر کے ہمیں بلا لیتے یا ٹہلتے ہوئے خود ہی ہماری طرف آ جاتے۔ عرفان صدیقی کی سلام مچھلی شہری سے ملاقاتیں یہیں سے شروع ہوئیں۔ عمروں میں تفاوت کے باوجود سلام ہم دونوں سے بے تکلف ہو گئے تھے لیکن انہیں بے تکلفی میں بھی مراتب کا خیال رہتا تھا۔ عرفان سلام کی معصومیت کا مداح تھا اور ہماری طرح سلام بھائی کہا کرتا تھا۔ ہم لوگوں نے سلام بھائی کے ساتھ کناٹ پلیس کے با رونق ریسٹورنٹوں میں ان گنت شامیں گزاری ہیں، جہاں ہم لوگ آپس میں پیسے ملا کر کافی پیتے تھے۔ سلام بھائی کو فنگر چپس کھانے کا بہت شوق تھا۔ ہم سب جانتے تھے لیکن عرفان سلام بھائی کی پسند کا خاص خیال رکھتا اور ان کے لیے فنگر چپس کا ایک پلیٹ کا آرڈر ضرور دیا جاتا۔ گھنٹوں باتیں ہوتیں۔ سلام بھائی اپنی شعری فتوحات کے قصے سناتے اور ہم تینوں بڑی دلچسپی سے ان کی باتیں سنتے رہتے۔ جب محفل ختم ہوتی تو سلام بڑی خاموشی سے پانچ روپے کا نوٹ بڑھا دیتے اور سلام بھائی کے شوق کی قیمت ہم تینوں کو چکانی پڑتی۔ ان محفلوں میں اکثر شاعری بھی ہوتی اقبال شعر سناتا۔ سلام بھائی کی نظمیں، غزلیں سنی جاتیں لیکن بے تکلفی کے اس ماحول میں بھی عرفان صدیقی کا شاعر گونگے کا گڑ کھائے بیٹھا رہتا۔

خاموش طبعی اور کم گوئی کی وجہ سے عرفان اپنے ہم عمر لوگوں سے ملنے جلنے، گھلنے ملنے یا دوست بنانے کا اہل نہیں تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ لکھنؤ کی فضاؤں میں وہاں کے ادبی ماحول میں عرفان کی مزاج میں کچھ تبدیلی آئی تھی یا نہیں، دہلی کے قیام کے دوران عرفان Reticent تھا۔ کناٹ پلیس کے انڈین کافی ہاؤس میں جہاں ہر شام اردو اور پنجابی کے شاعروں اور ادیبوں کی محفل جمتی تھی۔ ادبی موضوعات پر خوب بحث و مباحثے ہوا کرتے تھے۔ ان محفلوں میں کے کے کھلر، دیوبند ستھیار تھی، یعقوب عامر، اندر سروپ ناداں ؔ ، تارا سنگھ کامل، سنسار سنگھ غریب، فیاض رفعت، اقبال عمر وغیرہ تقریباً روزانہ کے آنے والوں میں سے تھے لیکن بانی ایم اے، محسن زیدی، راج نرائن رازؔ وغیرہ بھی اکثر آنکلتے۔ بانی ایم اے محسن زیدی اور راج نرائن راز کے آنے سے بحث و مباحثے کی نوعیت بدل جاتی، عرفان صدیقی خاموش بیٹھا ہوا سگریٹیں پھونکتا رہتا، پھر زیر لب مسکراتا رہتا تھا، عرفان کو دیوبند ستھیار تھی سے الرجی تھی۔ لیکن ستھیار تھی عرفان کی خاموش طبیعت اور کم گوئی سے متاثر تھے۔ دیویندر ستیار تھی کو دیکھتے ہی عرفان کرسی پر پہلو بدلنے لگتا اور اگر اتفاق سے ستیار تھی کو عرفان کے پہلو میں نشست مل جاتی تو عرفان کی بے چینی میں اضافہ ہو جاتا اور پیروں کے ہلنے میں تیزی آ جاتی۔ ستیار تھی بیٹھتے ہی عرفان کے قریب منہ لے جا کر مہذب انداز میں مزاج پرسی کرتے، تو اس وقت عرفان کی حالت دیکھنے کے قابل ہوتی عرفان پہلو بدل کر منہ اوپر کر لیتا اور ہوں ہاں کر کے ستھیار تھی کو ٹالنے کی کوشش کرتا۔ دیویندر ستیار تھی نے رابندر ناتھ ٹیگور جیسی وضع قطع اختیار کر لی تھی اور کافی ہاؤس میں گرو دیو کے نام سے مشہور تھے۔ ٹیگور تو یقیناً نہاتے دھوتے ہوں گے لیکن ستیار تھی نہانا تو کجا منہ ہاتھ دھونے کے تکلف سے بھی بے نیاز تھے جس کی وجہ سے اس کے سر اور داڑھی کے لمبے اور بے ہنگم بالوں سے ایک عجب سی بو آتی تھی۔ عرفان اس معاملے میں نفاست پسند واقع ہوا تھا اس کو سینٹ اور عطر لگانے کا شوق تو نہیں تھا ہاں صبح کو دفتر کے لیے تیار ہوتے وقت جسم پر ٹیلکم پاؤڈر چھڑکنے کی عادت تھی۔ ایسا شخص قریب بیٹھے ہوئے شخص کے جسم کی بو بھلا کیسے گوارا کر سکتا۔ اس لیے وہ ستیار تھی کی داڑھی سر کے بالوں سے چھن کر آنے والی بو سے پیچھا چھڑانے کے لیے اکثر کافی چھوڑ کر کھڑا ہو جاتا۔ ہم عرفان سے تفریح لینے کے لیے کہتے عرفان صاحب تشریف رکھیں، گرو دیو امرتا پریتم سے اپنی پہلی ملاقات کا قصہ سنائیں گے۔ لیکن عرفان سنی ان سنی کر کے کھڑا ہو جاتا اور ہمیں بھی مجبوراً عرفان کا ساتھ دینا پڑتا۔ امرتا پریتم ساحر لدھیانوی پر دل و زبان سے فدا تھی۔ لاہور میں ستیار تھی ساحر لدھیانوی کا دم چھلہ بنے ہوئے تھے اور اس قربت کی وجہ سے امرتا پریتم سے خاموش عشق کرنے لگے تھے۔ کافی ہاؤس میں اکثر آ کر ستیار تھی امرتا پریتم سے اپنے یکطرفہ اور خاموش عشق کی کہانی سناتے اور ہم لوگ بھرپور تفریح لیتے تھے۔ عرفان کو دوسروں کے عشق کی داستان سننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ کافی ہاؤس سے باہر نکل کر عرفان اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہتا، ’’جانی اگر یہ شخص اپنی بیوی سے بھی تھوڑا بہت عشق کر لیتا تو اس کی زندگی سدھر جاتی‘‘ عشق صحیح معنوں میں شریک حیات ہی سے کرنا چاہیے۔ وہ عشق زندگی سے پیار کرنے کا شعور بخشتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کی کالج لائف اور دہلی کے قیام میں تمام تر آزادیوں کے باوجود اس قسم کی آلودگی سے پاک تھی۔ اس نے شادی کے بعد اپنی شریک حیات سے ٹوٹ کر عشق کیا اور اسے چاہنے والوں کی طرح پایا۔ ہم عرفان کے اس عشق کے شاید واحد گواہ ہیں جس نے عرفان کے اس عشق کی شدت کو بہت قریب سے محسوس کیا ہے۔ عرفان دہلی میں اپنے آٹھ نو سالہ قیام کے دوران گرچہ اس شہر کی ان گلیوں اور کوچوں میں نہیں رہا، جن میں رہنے کے بعد دہلی ذہن میں سرایت کر جاتی ہے اور پھر سوادِرومتہ الکبریٰ میں بھی دہلی یاد آتی ہے لیکن عرفان نے ہمارے ساتھ پرانی دہلی کے بازاروں، گلیوں کوچوں اور کناٹ پلیس کی شاہراہوں پر اتنی مٹر گشتی کی کہ لکھنؤ میں اسے رہ رہ کر دہلی یاد آتی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خورشید رضوی(لاہور)

 

عرفان صدیقی کا نام میں نے پہلی بار اپنے دوست ڈاکٹر توصیف تبسم سے سنا۔ یہ ۱۹۸۰ء کی دہائی کا کوئی سال تھا جب میں ادارۂ تحقیقات اسلامی سے وابستہ اور اسلام آباد کے سیکٹر جی۔ ۹۱میں مقیم تھا۔ توصیف صاحب قریب ہی جی۔ ۹۳میں رہتے تھے اور میری ان سے تقریباً ہر روز ہی ملاقات ہوتی تھی۔ عرفان صاحب سے یہ اولین تعارف ان کی شاعری کے حوالے سے تھا۔ توصیف صاحب نے ان کے اشعار سنائے تو ان کے کمال ہنر کا نقش فی الفور دل پر ثبت ہو گیا۔ مثلاً:

اے مرے طائرِ جاں، کس کی طرف دیکھتا ہے

ناوکِ کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے

بانوئے ناقہ نشیں، دیکھ کے چہرہ تیرا

بندۂ خاک نشاں کس کی طرف دیکھتا ہے

ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں

کیا خبر کون، کہاں، کس کی طرف دیکھتا ہے

اسی زمانے میں شہزاد احمد صاحب بھی اسلام آباد آئے اور توصیف صاحب کے ہاں ٹھہرے۔ وہیں ان کی موجودگی میں پھر عرفان صدیقی کا ذکر چھڑا اور وہ بھی ان کے زبردست مدّاح نکلے۔ اب ہم سب متفق تھے کہ ہندوستان میں اس وقت سب سے اچھی غزل عرفان صاحب کہتے ہیں۔ بعد ازاں آپس میں گاہے گاہے عرفان صاحب کے اشعار کا تبادلہ جاری رہا:

ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے

آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر

کوزہ گر پھر اسی مٹی میں ملاتا ہے مجھے

دیکھیے اب کے وہ کیا چیز بناتا ہے مجھے

دولتِ سر ہوں کہ ہر جیتنے والا لشکر

طشت میں رکھتا ہے نیزے پہ سجاتا ہے مجھے

میں تو اس دشت میں خود آیا تھا کرنے کو شکار

کون یہ زین سے باندھے لیے جاتا ہے مجھے

عرفان صاحب کے ہاں ہندوستانی مسلمانوں کا جو درد پایا جاتا تھا اور ہند اسلامی تہذیب کا جو رچا ہوا شعور ملتا تھا وہ ہمیں بہت متاثر کرتا تھا:

تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دئے تھے تمہیں کیا خبر یا اخی

کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی

ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں

عجب درخت ہیں، دشتِ بلا میں زندہ ہیں

ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو کیا معلوم

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

خدا کا شکر ابھی میرے خواب ہیں آزاد

مرے سفر مری زنجیر پا میں زندہ ہیں

ایک تعویذ کو موجوں کے حوالے کر کے

دور تک مجھ کو نظر آتا تھا دریا روشن

جاگتی را توں میں لہراتے ہوئے حمد کے گیت

طاقِ مسجد میں کسی دل کی تمنا روشن

کانپتے ہاتھوں میں دلدار دعاؤں کے چراغ

اور اشکوں کے ستاروں سے مصلیٰ روشن

یہ سب کچھ اس خوشبو کی طرح تھا جو پھول سے پہلے آپ تک پہنچتی ہے اور خود پھول کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا کرتی ہے۔ یہ اشتیاق شاید طلبِ صادق پر مبنی تھا کہ آخر عرفان صاحب سے ملاقات کی صورت پیدا ہو ہی گئی۔

یہ وسطِ ستمبر ۱۹۹۸ء کی بات ہے۔ مجلسِ فروغِ اردو ادب، دوحہ قطر کی طرف سے پاکستان میں جناب انتظار حسین کو اور ہندوستان میں جیلانی بانو صاحبہ کو ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا تھاجس کے لئے دوحہ میں ایک شاندار تقریب منعقد ہو رہی تھی۔ ہم لوگ اسی سلسلے میں دوحہ پہنچے تھے۔ اس تقریب کے فوراً بعد سلیم جعفری مرحوم کی روایت کو زندہ رکھنے کے لئے ان کی بیگم شاہدہ سلیم صاحبہ نے دبئی میں جشن علی سردار جعفری کے عنوان سے مشاعرے کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں ہمارے لئے خصوصی کشش کا باعث یہ بات تھی کہ جناب عرفان صدیقی بھی اس میں شمولیت کے لئے لکھنؤ سے تشریف لا رہے تھے۔

۲۰ دسمبر ۱۹۹۸ء کو ہم دبئی پہنچے اور پام بیچ ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے۔ ۲۲ تاریخ کو ناشتے سے قبل ہی عرفان صاحب پہنچ گئے۔ ملاقات ہوئی تو ایسا محسوس ہوا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ ارادہ تھا کہ آج کچھ خریداری کے لئے بازار جائیں گے لیکن عرفان صاحب سے گفتگو میں ایسی محویت ہو گئی کہ کچھ اور یاد ہی نہ رہا۔ اسی روز پاکستان سے جناب فیصل عجمی اور ریاض احمد ریاض صاحب بھی اپنے طور پر دبئی کے دورے پر آئے اور رمادہ ہوٹل میں مقیم ہوئے۔ وہ مجھے، عرفان صاحب کو اور شہزاد صاحب کو وہاں لے گئے۔ چائے پینے کے بعد مغرب کے وقت وہ اپنی گاڑی میں ہم تینوں کو لے کر ابو ظبی روانہ ہو گئے جہاں اسی رات ہوٹل ہالیڈے ان میں محفل مشاعرہ کا اہتمام تھا۔ راستے بھر ہماری ایک مختصر سی بزمِ شعر سجی رہی اور جس کا لطف مشاعرے سے کہیں زیادہ تھا۔

مشاعرہ رات تین بجے ختم ہوا۔ کھانا اس کے بعد تھا۔ پھر واپس دبئی میں اپنے ٹھکانے پر جانے کے لئے ہم گاڑی میں بیٹھے تو مجھے اور اجمل سراج کو عقبی نشستوں پر عرفان صاحب کے ساتھ جگہ ملی جو بڑی نعمت ثابت ہوئی۔ ہوٹل پام بیچ پہنچتے پہنچتے صبح کے چھ بج گئے۔ راستے میں ہم تینوں میں خوب خوب علمی و ادبی مکالمہ رہا جس کی سرشاری آج تک یاد ہے۔ اس گفتگو سے ہم سب پر یہ منکشف ہوا کہ ہم تینوں ذہنی طور پر ایک فطری ہم آہنگی رکھتے ہیں۔

اگلے روز میں دبئی کے دیرہ بازار سے گھر کے لئے کچھ خریداری کرنا چاہتا تھا مگر میں اس کام میں صفر ہوں۔ عرفان صاحب کے فرزند، فیضی اس زمانے میں دبئی میں مقیم تھے۔ انہوں نے فیضی کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ میری رہنمائی کے لئے میرے ساتھ جائیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد فیضی مجھے لے کر نکلے اور ان کی خو بو سے عرفان صاحب کی خوشبو آتی رہی اور انہوں نے میری بہت مدد کی۔

آئندہ روز بھی ریاض احمد ریاض صاحب کی معیت میں عرفان صاحب سے بہت باتیں ہوتی رہیں۔ ۲۵  ستمبر کی رات کو دبئی میں جشن علی سردار جعفری کے سلسلے کا مشاعرہ ہماری آخری مصروفیت تھی۔ اس دن بھی صبح کو عرفان صاحب کی معیت میں کچھ وقت گزرا اور پھر ہم اپنا سامان باندھنے اور دیگر مصروفیات میں گم ہو گئے۔

اس روز مشاعرہ رات بھر جاری رہا جس میں عرفان صاحب بھی شریک تھے۔ یو ٹیوب پر ان کی ایک مختصر ویڈیو کلپ جس میں وہ اپنا کلام سنا رہے ہیں اسی مشاعرے کی ہے۔ مشاعرے کے اختتام پر بیگم شاہدہ سلیم صاحبہ کے ہاں کھانا ہوا اور صبح کی اذان ہم نے ان کے فلیٹ کے نیچے سڑک پر سنی۔

اسی روز ہم سب ہوٹل سے چیک آؤٹ ہو کر دبئی کے ہوائی اڈے پر چیک ان ہو گئے۔ کراچی تک عرفان صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ صبح سوا پانچ بجے کراچی اترے۔ یہاں سے مجھے لاہور کی اور انہیں دہلی کی پرواز پکڑنی تھی۔ اپنے اپنے راستوں پر جاتے ہوئے میری اور ان کی الوداعی نگاہیں ایک دوسرے سے ملیں۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ میں انہیں آخری بار دیکھ رہا ہوں۔

عرفان صاحب اس کے بعد بھی ایک بار پاکستان آئے مگر لاہور آنا نہیں ہو سکا۔ دبئی اور ابوظبی کے جن مشاعروں کا ذکر میں نے کیا ان میں اس سال لکھنؤ سے رئیس انصاری صاحب بھی شامل تھے۔ ان سے بعد میں بھی قطر اور دبئی کے بعض مشاعروں میں ملاقات ہوئی۔ عرفان صاحب کا ذکر ہوا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بھی اس خاکسارکو بہت محبت سے یاد کیا کرتے تھے۔

ابھی دلی میں تجدید ملاقات کی آرزو اور امید کا ایک طویل سلسلہ باقی تھا کہ عرفان صاحب کی علالت کی خبر آئی۔ پھر یہ پتا چلا کہ برین ٹیومر کے باعث ان کو عمل جراحی سے گزرنا پڑا مگر صورت حال قابو میں نہ آ سکی اور آخر وہ سناؤنی آ ہی گئی جس کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔ اِنا لِلّٰلِہ و انا الیہ راجعون۔

عرفان صاحب کی وفات پر مجھے جس قدر ذاتی صدمے کا احساس ہوا کم کم ہی ہوا ہو گا۔ انہوں نے ایک غزل میں کہا تھا:

تیر چلتے رہیں گے، ہاتھ بدلتے رہیں گے

ہم گریں گے تو اٹھا لیں گے نشاں دوسرے لوگ

مگر حقیقت یہ ہے کہ عرفان صدیقی کے ہاتھ سے چھوٹے ہوئے علم کو سنبھالنا اتنا آسان نہیں۔ اسی احساس کے تحت، اسی زمیں میں بے ساختہ چند اشعار سر زد ہوئے اور انہی پر میں اس مختصر سی یاد داشت کا اختتام کرتا ہوں۔

 

بیادِ عرفان صدیقی

 

تیرے معیار کو پہنچیں گے کہاں دوسرے لوگ

تجھ سا رکھتے ہیں کہاں دردِ نہاں دوسرے لوگ

گو اُنہی میں تھا مگر ان سے جدا تھا یکسر

تو جو گوہر تھا تو تھے آبِ رواں دوسرے لوگ

کس کو ہمت ہے کہ ہو تیری طرح سینہ سپر

کیا اُٹھائیں گے ترے بعد نشاں دوسرے لوگ

ہاتھ پر کس کے کرے کوئی سخن میں بیعت

اب رہیں دست بدست دگراں دوسرے لوگ

ڈھونڈتی ہیں تجھے آنکھیں مگر اب دنیا میں

نظر آتے ہیں کراں تا بہ کراں دوسرے لوگ

تجھ سے ملنے کی اک امید تھی وہ بھی نہ رہی

میری قسمت میں ہیں اب صرف یہاں دوسرے لوگ

تو جو تھا شعلہ بجاں دوسرے لوگوں کے لئے

سو ترے غم میں ہیں اب نوحہ کناں دوسرے لوگ

(2015)

٭٭٭

 

 

 

عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عابد سہیل (لکھنؤ)

 

عرفان صدیقی سے جان پہچان برسوں سے تھی۔ ادبی جلسوں اور نشستوں میں ملاقاتیں ہوتیں لیکن اس سب کی حیثیت بس دور کے جلوے کی رہتی پھر گہرے اور ذاتی تعلقات ہو گئے۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ان کا آغاز ایک عملی مسئلے پر اختلاف سے ہوا۔

ہوا یہ کہ اخلاقیات کے کسی پہلو پر آل انڈیا ریڈیو، لکھنؤ نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا۔ شرکاء میں عرفان صدیقی اور میرے علاوہ ایک اور صاحب جن کا نام نہیں یاد آ رہا ہے، بھی تھے لیکن وہ کسی سبب تشریف نہ لا سکے چنانچہ اظہار خیال کے لیے ہم دونوں کو خاصا وقت ملا۔ سنسکرت سے عرفان صدیقی صاحب کی واقفیت اور ہندوستانی فلسفہ سے میری دلچسپی کے سبب ہم دونوں نے مغربی مفکرین کے افکار سے زیادہ ہندوستان کے فلسفیانہ افکار اور دانشوروں کے خیالات سے سروکار رکھا۔ موضوع ایسا تھا کہ اس میں مذہبی افکار اور دانشوروں کے خیالات سے سروکار رکھا۔ موضوع ایسا تھا کہ اس میں مذہبی افکار کا زیر بحث آنا لازمی تھا۔ ہندوستانی فلاسفہ اور خاص طور سے گیتا کے حوالے سے بات چیت کے دوران میں لفظ ’’دھرم‘‘ استعمال کرتا رہا اور عرفان صدیقی اس کے متبادل کے طور پر ’’ مذہب‘‘۔ یہ گفتگو معنی خیز رہی اور انتہائی خوشگوار ماحول میں انجام پائی۔

اسٹوڈیو سے باہر نکلتے ہی عرفان صاحب نے کہا کہ بھائی گفتگو تو بہت اچھی رہی لیکن اردو پروگرام میں آپ ’’دھرم دھرم‘‘ کیوں کہتے رہے۔ آپ نے دھرم کے لیے لفظ مذہب ایک بار بھی نہیں استعمال کیا۔ میں نے کہا دھرم اور مذہب ہم معنیٰ الفاظ نہیں ہیں تو میرے خیال سے اختلاف کرتے ہوئے انھوں نے پوچھا۔

’’تو پھر دھرم کے معنی کیا ہیں ؟‘‘

اس وقت چونکہ آل انڈیا ریڈیو کے پروڈیوسر بھی ہمارے ساتھ تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ مذا کرہ کے سلسلے میں اس اختلاف رائے پر بات چیت میں وہ بھی شامل ہوں اس لیے میں نے کہا کہ فی الحال تو چیک لے لیجیے۔ اس موضوع پر ہم لوگ بعد میں گفتگو کر لیں گے۔

’’بعد میں کب؟‘‘ انھوں نے قدرے ناراضگی سے کہا۔

’’اسٹوڈیو کے باہر کسی تیسرے شخص کی عدم موجودگی میں۔ ویسے ممکن ہے سنسکرت سے آپ بخوبی واقف ہوں لیکن ہندوستانی فلسفہ سے آپ بالکل ناواقف ہیں ‘‘ میں نے بھی کسی قدر سخت لہجہ میں کہا جس کا انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مجھے اپنے لہجہ کی تلخی پر افسوس تھا۔ اور شاید انھیں بھی اپنے ان گھڑ انداز پر۔

جاڑوں کے دن تھے، ہم دونوں نے ریڈیو اسٹیشن سے نکل کر پاس کے ایک سڑک چھاپ ہوٹل میں چائے پی۔ مزے کی باتیں کیں اور ’’دھرم اور مذہب‘‘ نے نہ صرف یہ کہ برسوں کی شناسائی کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کیں بلکہ دھیرے دھیرے اسے گہرے ذاتی تعلقات میں تبدیل کر دیا۔

بعد میں عرفان صاحب سے نیر مسعود اور شمس الرحمن فاروقی کے گھروں پر اور چھوٹے موٹے ادبی جلسوں اور نصرت پبلشرز میں سیکڑوں، جی ہاں سیکڑوں، ملاقاتیں ہوئیں لیکن ہم دونوں کو ریڈیو اسٹیشن کے واقعے کا شاید کبھی خیال بھی نہیں آیا۔

ان کی شاعری کا مداح میں پہلے بھی تھا لیکن اب کبھی کبھی انھیں کے اشعار انھیں سناتا اور وہ داد کچھ اس طرح دیتے گویا یہ اشعار میرے ہوں۔ اس سلسلے میں دو تین شعر یاد آ رہے ہیں۔

عبارتیں جو ستاروں پہ ہم کو لکھنا تھیں

تری جبین ستارہ نما پہ لکھیں گے

جانتے ہو کہ کوئی موج مٹا دے گی اسے

پھر بھی کیا کیا سر ریگ گزراں لکھتے ہو

فرض سے عہدہ بر آ کوئی نہ ہونے پایا

سر تسلیم بھی چپ تیغ جفا بھی خاموش

ایسے خوبصورت اور گہری بصیرت کے اشعار انھیں کچھ اس طرح سناتا تو وہ ان کی داد بھی خوب خوب دیتے۔ مراسم اور قربت کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہ جان لینا کافی ہے کہ ’’سات سماوات‘‘کی دستیابی کے لیے انھوں نے جن تین اداروں کا نام دیا تھا ان میں نصرت پبلشرز بھی شامل تھا اور مجھے اس کا علم کتاب دیکھنے کے بعد ہی ہوا تھا۔

۱۹۹۵ء سے ۱۹۹۷ء تک میں روزنامہ پا ئنیرسے متعلق رہا۔ اسی دوران سہیل وحید کی کتاب ’’صحافتی زبان‘‘ کی رسم اجراء انھوں نے پریس انفارمیشن بیورو میں کی تو اس تقریب کی صدارت مجھ سے کرائی۔ کسی باہر کے شخص کی صدارت کی اہمیت یوں ہے کہ وہ اس وقت پی۔ آئی۔ بی لکھنؤ کے سربراہ تھے۔

روزنامہ ’’صحافت‘‘ کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ۱۹۹۵ء کے آخر یا ۱۹۹۶ء کے ابتدائی مہینوں میں ہوا۔ اس سے قبل عرفان صدیقی اور اخبار کے مالک امان عباس کے بڑے بھائی طاہر عباس جو خود بھی ہندی کے ایک نامور صحافی ہیں میرے پاس تشریف لائے اور انھوں نے مجھ سے اس روزنامے کی ادارت قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن پائنیرسے اپنے تعلق کی بنا پر کسی دوسرے اخبار میں بطور مدیر اپنا نام دینا مجھے کچھ ایسا مناسب نہ معلوم ہوا۔ تاہم ان دونوں اور خاص طور سے عرفان صاحب کے اصرار پر اداریہ لکھنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ بطور ’’مشیر خصوصی‘‘ اپنے نام کی اشاعت کی اجازت بھی میں نے دے دی۔ یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔

وقت اس قدر خاموشی لیکن تیز رفتاری سے قدم بڑھاتا ہے اور پلٹ کے بھی نہیں دیکھتا کہ اس کی تیز گامی کا ذرا بھی احساس ہو سکے۔ یکایک احساس ہوا کہ عرفان صاحب کی سبکدوشی کا دن جیسے اڑا چلا آ رہا ہے۔ فطری طور سے ان کی خواہش تھی کہ ملازمت کی مدت میں توسیع کی کوئی صورت نکل آئے۔ ایک دن امان عباس نے ان کی اس خواہش کا ذکر کیا تو میں نے انھیں بتایا کہ مرکزی حکومت ملازمت میں توسیع کی پالیسی برسوں پہلے ترک کر چکی ہے اس لیے یہ تو شاید ممکن نہ ہو البتہ معاہدے کے تحت ملازمت کی صورت ضرور نکل سکتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ترسیل کی ناکامی کا المیہ جانے کہاں پیش آیا، میرے اور امان عباس کے درمیان یا امان عباس اور عرفان صدیقی کے درمیان کہ عرفان صاحب کو یہ خیال ہوا کہ میں ان کی ملازمت کی توسیع کے امکان سے خوش نہیں ہوں اور ہمارے انتہائی دوستانہ تعلقات میں دراڑ پڑ گئی۔ بہر حال ہوا وہی جو ہونا تھا۔ ملازمت کی توسیع تو ہوئی لیکن معاہدے کے تحت دہلی میں کام کی پیش کش کی گئی۔ معاہدے کی اس ملازمت میں مشاہرہ پہلے سے کم تھا چنانچہ انھوں نے بجا طور پر معذرت کر لی۔

عرفان صدیقی خوش پوش تھے ہمیشہ صاف ستھرے اور سلیقے سے سلے ہوئے کپڑوں میں نظر آتے۔ ان کے کپڑوں میں شکن در شکن تو دور کی بات میں نے ذرا سی بھی شکن کبھی نہیں دیکھی۔ وہ کم گو اور ذرا سے زو د رنج ہونے کے باوجود پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ہر کام میں وہ شاعری ہو یا دفتر کا کام رکھ رکھاؤ نمایاں تھا۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کا انھیں یوں تو کوئی افسوس نہ تھا لیکن دس بجے دن سے قبل دفتر کے لیے روانہ ہو جانے اور شام میں واپسی کی برسوں کی عادت یکایک ترک ہو جانے سے ان کو زندگی میں ایک طرح کے خلا کا احساس ضرور ہوتا۔ ’’صحافت‘‘ کے دفتر میں اب ان کا وقت زیادہ گزرتا۔ کام تو وہاں کچھ نہ تھا بس سگریٹ پیا کرتے۔ ان کے سگریٹ سے سگریٹ جلانے کا خیال آیا تو ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا اور یہ بھی کہ تیس پینتیس برس قبل تک سگاراورپائپ بمشکل میرے ہاتھوں سے چھوٹتے تھے۔

میں عرفان صدیقی کو مسلسل سگریٹ نوشی پر ٹوکتا تو وہ میرے کھچڑی بالوں کا اتنا خیال کرتے کہ میری موجودگی میں ایک سگریٹ سے دوسری نہ جلاتے۔ ایک دن سہکارتا بھون میں کوئی ادبی جلسہ تھا اس کا اختتام قریب آیا تو ہم لوگ بھیڑ بھاڑ میں پھنس جانے کے خوف سے باہر آ کر باتیں کرنے لگے پھر میں سائیکل اسٹینڈ سے اسکوٹر حاصل کرنے گیا تو معلوم ہوا کہ وہ شروع میں آنے والی گاڑیوں سے گھرا ہے اور اسے حاصل کرنے میں کچھ وقت لگے گا چنانچہ دوستوں کے پاس لوٹ آیا۔ میں وہاں پہنچا تو عرفان صدیقی سگریٹ سے سگریٹ جلا رہے تھے جو مجھے دیکھتے ہی ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔ ہم دونوں ہی مسکرادیے۔ نیر مسعود بھی وہاں موجود تھے وہ بھی ہنس دیے۔ یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب روزنامہ صحافت کی اشاعت کا سلسلہ شروع بھی نہیں ہوا تھا۔

پریس انفارمیشن بیورو سے ترک تعلق کے بعد ایک دن ان کو اخبار کے دفتر میں مسلسل سگریٹ نوشی کرتے دیکھا تو میں نے سوچا کہ وہ پہلے کی طرح مصروف ہوتے اور اخبار کے کاموں کا بوجھ ان پر ہوتا تو ممکن ہے ان کی طلب میں کمی آ جاتی۔ یہ خیال آتے ہی میں نے ایک فیصلہ کر لیا اور تین چار دن بعد دوسری مصروفیات کا بہانا بنا کر روزنامہ صحافت سے مستعفی ہو گیا۔ امان عباس اور خود انھوں نے استعفے پر اصرار نہ کرنے کے لیے مجھ پر خاصا زور ڈالا لیکن میں کسی طرح تیار نہ ہوا اور وہ اخبار کے باقاعدہ ایڈیٹر ہو گئے۔ میرے اس فیصلے میں یہ خیال بھی شامل تھا کہ ان سے خالی وقت کاٹے نہیں کٹ رہا ہے۔

اسی دوران ایک دن وہ شہر یار کے ساتھ نصرت پبلشرز میں مسکراتے اور یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے ’’اس میں دو چار بڑے سخت مقام آتے ہیں ‘‘۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد یہ ’’سخت مقام‘‘ ان کا حوالہ بن گیا در اصل معاملہ یہ تھا کہ وہ کسی سے زیادہ دنوں ناراض نہیں رہ سکتے تھے۔

ایک دن کسی نے بتایا کہ عرفان صاحب کی سگریٹ نوشی بہت بڑھ گئی ہے پھر چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ بیمار ہیں اور پی۔ جی۔ آئی میں داخل کر دیے گئے ہیں۔ میں اگلے ہی دن مزاج پرسی کے لیے گیا تو اپنے کمرے میں پلنگ پر بیٹھے تھے اور غالباً سیب کھا رہے تھے۔ صورت سے کچھ ایسے بیمار نہ لگے تو میں نے انھیں کا یہ شعر پڑھ دیا۔

ہوشیاری دلِ نادان بہت کرتا ہے

رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے

خوش ہوئے اور باتیں شروع کر دیں۔ سب سے پہلے نیر مسعود کے بارے میں پوچھا پھر چند دوسرے لوگوں کے بارے میں۔ میں نے چہرے پر تکان کے آثار اترتے ہوئے دیکھے تو پھر آنے کا وعدہ کر کے اجازت چاہی۔ یہ وہی دن تھا جب شمس الرحمن فاروقی نے اپنے محکمہ کے ایک بڑے ڈاکٹر کو ان کی علالت کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ خوش تھے کہ دوستوں کو ان کی اتنی فکر ہے۔

کچھ دنوں بعد ان کو پی۔ جی۔ آئی سے چھٹی دے دی گئی لیکن اس وارننگ کے ساتھ کہ اب سگریٹ ان کے لیے زہر ہو گئی ہے۔ چند دنوں کے بعد میں مزاج پرسی کے لیے ان کے یہاں گیا تو وہ صحافت جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ کہنے لگے گھر میں لیٹے لیٹے اوب جاتا ہوں تو تھوڑی دیر کے لیے قیصر باغ ہو آتا ہوں۔ سڑک پر انھوں نے پان کی دکان سے سگریٹ کی آدھی ڈبیا خریدی۔ ایک اسی وقت جلائی اور مجھے دیکھ کر کچھ اس طرح مسکرائے جیسے کہہ رہے ہوں ’’زندگی میں سب کچھ چلتا ہے ‘‘ ان کی یہ مسکراہٹ بجھی بجھی سی تھی۔ پھر ایک دن شاہنواز قریشی نے بتایا کہ دفتر سگریٹ پینے ہی آتے ہیں کہ گھر میں یہ ممکن نہیں۔

مشکل سے آٹھ دس دن بعد ان کی بجھی بجھی سی مسکراہٹ بھی معدوم ہو گئی اور اردو غزل وسیع امکانات سے محروم۔

اندیشۂ جاں خیمے کی دیوار تلک ہے

کچھ بھی نہیں ہو گا اگر اک بار نکل آئے

(2010)

٭٭٭

 

 

 

عرفان صدیقی: تیرے بغیر لکھنؤ دشتِ غزال کے بغیر

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شعیب نظام (کانپور)

 

شاید یہ ۱۹۷۹ء یا ۱۹۸۰ء کی بات ہے۔ عرفان بھائی سے پہلی بار ایک سمینار میں ملاقات ہوئی تھی۔ میرے دوست انتظام بھائی نے تعارف کرنے سے پہلے دھیرے سے بتایا تھا کہ یہ بہت اہم اور بڑے شاعر ہیں مگر پہلی نظر میں وہ مجھے بڑے اور اہم کیا سرے سے شاعر ہی نہیں معلوم ہوئے۔ وجہ یہ تھی کہ میں تازہ تازہ بارہ بنکی سے لکھنؤ وارد ہوا تھا اور خمار بارہ بنکوی اور شمسیؔ مینائی کو تو چھوڑئیے میں نے نگار اور عزیز بارہ بنکوی کو بھی کبھی شیروانی کے بغیر نہیں دیکھا تھا۔ اس لئے بڑے شاعر کا تصور شیروانی کے بغیر میرے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ کیونکہ عرفان بھائی ٹائی اور نفیس سوٹ میں ملبوس تھے۔

ان دنوں میں اردو میں ایم اے کر رہا تھا اور بارہ بنکی سے لکھنؤ روز آتا جاتا تھا۔ کبھی کبھی انتظام بھائی کا ساتھ ہو جاتا تھا۔ ان کے والی صاحب اور عابد سہیل صاحب سے تقریباً دوستانہ مراسم تھے۔ امین آباد میں چندر سائل اور کبھی کبھار کچھ کتابیں خریدی جاتیں اور والی آسی صاحب کے یہاں کچھ شاعروں اور ادیبوں سے ملاقاتیں بھی ہو جاتیں جن میں شام کو اکثر عرفان بھائی بھی آ جاتے۔ والی صاحب کے یہاں شعر و ادب اور شخصیات پر بے تکلف گفتگو چلتی ہی رہتی تھی۔ وہ اس زمانے میں پروین شا کر، ظفر اقبال، ناصر کاظمی اور شکیب جلالی کے اچھے اچھے شعر خوب سناتے تھے۔ بعد میں انھوں نے ان شعرا کے مجموعے شائع بھی کئے۔ شعر و ادب پر گفتگو کے بیچ بیچ میں مقامی اور بیرونی شخصیتوں پر کھل کر تبصرے روا بلکہ رواں رہتے جو تھوڑی دیر میں ذاتیات کی سرحدوں میں بھی داخل ہو جاتے۔ موضوعِ گفتگو زیادہ تر مشاعروں کے شاعر ہوتے تھے مگر کبھی کبھی اس دائرے میں ادیب اور دانشور حضرات بھی آ جاتے تھے۔ گفتگو کی سطح کچھ بھی رہتی ہو مگر مزہ بہت آتا تھا۔ انھیں دنوں منور رانا نئے نئے والی آسی کے شاگرد ہوئے تھے۔ برابر آنے والوں میں رئیس انصاری، انور ندیم، حفیظ نعمانی، مسعود الحسن عثمانی، انجم ملیح آبادی اور حسن و اصف عثمانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ زیادہ تر مشاعروں کے معروف شعراء بھی کسی مشاعرے میں جاتے ہوئے یا لوٹتے ہوئے والی صاحب کے یہاں بیٹھے ہوئے مل جاتے تھے۔ اسی دور میں انور ندیم صاحب نے مشاعروں پر مبنی اپنے تاثرات مضامین کی شکل میں قلم بند کرنے شروع کر دئے تھے۔ جملوں کی کاٹ اور ان کی دھار دار نثر بہت دلچسپ ہوتی تھی۔ بعد میں یہ مضامین ’’جلتے توے کی مسکراہٹ ‘‘کے نام سے کتابی صورت میں شائع بھی ہوئے۔

عرفان بھائی دفتر سے واپسی پر زیادہ تر والی صاحب کی دکان پر رک جاتے تھے۔ میں نے دھیرے دھیرے ایک خاص تبدیلی سی محسوس کی، بظاہر گفتگو پہلے کی طرح جاری رہتی مگر عرفان بھائی کے آنے پر کچھ لوگ محتاط سے ہو جاتے تھے۔ بہت فرمائش کرنے پر عرفان بھائی شعر سنا دیتے تھے۔ اب انتظام بھائی کے ساتھ کبھی کبھی میں ان کے دفتر بھی جانے لگا تھا یہاں وہ بہت محبت سے ملتے تھے اور فرمائش پر اپنے شعر بھی آسانی سے سنا دیتے تھے اب میں امین آباد سے بہت نزدیک گوئن روڈ واقع اپنے ماموں کے مکان میں رہنے لگا تھا جہاں سے عرفان بھائی کا گھر اور والی صاحب کی دکان کا فاصلہ بہت تھوڑا سا تھا۔

میں ایم اے فائنل میں تھا۔ اسی سال اردو کے نو وارد طلباء میں شافع قدوائی، رفعت عزمی، ندیم اشرف اور محسن خان بھی آ گئے جلد ہی ہم سب کی دوستی ہو گئی۔ اب ہم اکثر عرفان بھائی کے گھر آنے لگے۔ تھوڑے دنوں بعد شافع قدوائی نے قومی آواز جوائن کر لیا اور مجھے بھی عرفان بھائی نے اپنے دفتر میں لگا لیا۔ دفتر کے بعد میں زیادہ تر عرفان بھائی کے ساتھ ہی امین آباد تک آتا تھا۔ دھیرے دھیرے عرفان بھائی دفتر سے سیدھے گھر آنے لگے اب والی صاحب کے یہاں رکنے کا سلسلہ خاصا کم ہو گیا تھا۔

گھر پر چائے وائے پینے کے بعد میں بھی عموماً ان کی طرف نکل آتا تھا وہ اکثر امین آباد کا ایک چکر لگانے کی فرمائش کرتے۔ راستے میں وہ کبھی کبھی میر کا شعر سناتے اور پھر اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے رہتے۔ انھیں چکروں کے طفیل غالب کی غزل اور محسن کاکوروی کی نعت گوئی پر عرفان بھائی کی گفتگو آج بھی میرے حافظہ میں کم و بیش محفوظ ہے۔ واپسی پر وہ زیادہ تر عزائم کے دفتر کی طرف مڑ جاتے۔ جمیل مہدی صاحب سے ان کی کچھ عجیب سی دوستی تھی۔ عرفان بھائی کمرے میں داخل ہوتے جمیل صاحب سر اٹھا کر دیکھتے ذرا سا مسکراتے پھر اپنا کام کرنے لگتے۔ عرفان بھائی ٹیلی پرنٹر سے کاغذ پھاڑتے اور محمد مسعود سے باتیں کرتے ہوئے ایک خبر ترجمہ کرتے اور کاغذ وہیں رکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے۔ جمیل صاحب سر اٹھا کر انھیں جاتے ہوئے دیکھتے اور پھر لکھنے میں مشغول ہو جاتے۔ ملاقات کا یہ عجیب سا سلسلہ برابر جاری رہتا۔ میں حیران کہ یہ کون سا رشتہ ہے۔ کا ہے کی دوستی ہے۔ ایک دن صبر جواب دے گیا اور میں نے پوچھ ہی لیا بھائی، جمیل صاحب آپ کے دوست ہیں مگر آپ لوگوں میں گفتگو تو ہوتی ہی نہیں ہے۔ عرفان بھائی مسکرا کر بولے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی اور میں پہلے سے بھی زیادہ حیران ہو گیا۔

کچھ دنوں بعد انڈیا قلفی ہاؤس کی بالائی منزل پر پابندی کے ساتھ بیٹھک ہونے لگی۔ یہاں ایک میز تقریباً مخصوص ہو گئی تھی۔ اس نشست میں عرفان بھائی کے ساتھ عمر انصاری، انجم ملیح آبادی، عرفان لکھنوی، شمس فرخ آبادی، افسر بسوانی صاحبان اور یاد دہلوی صاحبہ تقریباً روز ہی بیٹھنے لگے۔ شعر و شاعری کے علاوہ ادھر ادھر کی گفتگو رہتی جس میں ادب، تاریخ، ملکی اور ادبی سیاست اور ماضی کی یادیں سب کچھ شامل رہتا۔ میں یہاں تقریباً سامع کے فرائض انجام دیتا رہتا۔ اب امین آباد جانے کا راستہ الٹا ہو گیا تھا۔ یعنی عرفان بھائی اور میں والی صاحب کی دکان پر دو چار منٹ رکتے ہوئے عزائم کے دفتر جاتے، چند منٹ جمیل صاحب کو دیکھنے کے بعد نشست گاہ کی طرف روانہ ہو جاتے۔ یہ نشست ساڑھے آٹھ کے آس پاس برخاست ہوتی۔ میں امین آباد ہی میں رک جاتا اور عرفان بھائی شمس صاحب کے ساتھ گھر چلے جاتے۔ اس کے بعد شافع قومی آواز سے آ جاتے اور دس پانچ منٹ کے فرق سے ندیم اشرف اور محسن بھی اور ہم لوگ دیر رات تک کسی بے نام ہوٹل میں نامور ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات میں الجھے رہتے۔ مگر ان دنوں ہم لوگ پڑھتے بہت تھے۔

اسی دوران سید محمد اشرف سول سروسزمیں منتخب ہو کر ٹریننگ کے سلسلہ میں لکھنؤ آ گئے تھے۔ وہ عرفان بھائی کے عزیز ہوتے تھے۔ ان کے آنے سے پہلے ہی ان کا افسانہ’ڈار سے بچھڑے ‘ گفتگو میں شائع ہو کر لکھنؤ آ چکا تھا اور عرفان بھائی کی نشاندہی پر ہم لوگ پڑھ چکے تھے۔ ویسے بھی اس افسانے کا ادبی حلقوں میں خاصا چرچا تھا۔ اشرف صاحب کی شکل میں ہم لوگوں کے ہاتھ ایک ابھرتا ہوا کیا پوری طرح سے ابھرا ہوا افسانہ نگار لگ گیا تھا۔ ان کے ساتھ متعدد نشستیں برپا کی گئیں۔ ان کے افسانوں پر جو داد وصول ہوئی تھی اس میں ہم لوگ بھی اپنے حصے کی خوشیاں تلاش لیتے تھے۔ اشرف صاحب، عرفان بھائی کی شاعری کے پرستار کیا تقریباً عاشق تھے اور انھیں عرفان بھائی کا بہت سا کلام حفظ تھا۔ ان کے افسانے ’’منظر‘‘ میں ایک کردار عرفان بھائی کا بھی ہے جسے بہت خلوص سے پیش کیا گیا ہے۔

اکثر شام کو اور خصوصاً ا توار کو عرفان بھائی کے گھر پر محفل سی رہتی تھی۔ جس میں اشرف صاحب، شافع، ندیم اشرف اور کبھی کبھی محسن خاں بھی شریک رہتے تھے۔ ان محفلوں میں عرفان بھائی کا رویہ سرپرستوں والا ہوتا تھا۔ وہ گفتگو میں شریک بھی رہتے تھے اور نہیں بھی۔ ہاں ہم لوگوں سے فرمائش کر کے شعر بھی سنتے تھے اس زمانے میں شافع بھی شعر کہتے تھے۔ دوسروں کے عیب و ہنر گنوانے کا کام تب تک اس عزیز نے شروع نہیں کیا تھا۔ ہاں ندیم اشرف نے شعر گوئی کے ساتھ چھوٹی موٹی حرکتیں بھی شروع کر دی تھیں۔ یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کر لیتا ہوں۔

عرفان بھائی اپنے گھر کے نیچے والے کمرے میں غزل سنا رہے تھے ابھی وہ مطلع ہی پر تھے۔

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

ندیم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے ’جی پرندہ اچھا‘۔ عرفان بھائی کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ بولے میں پہیلیاں نہیں بجھا رہا ہوں۔ کمرے میں ایک سناٹا۔ مگر چند لمحوں کے بعد وہ خود ہنس دئے اور اس دن ہم لوگ بقول شاعر بس ڈوبتے ڈوبتے بچ گئے۔

عرفان بھائی ہی کی سفارش پر ہم لوگوں نے پہلا ٹی، وی پروگرام پیش کیا تھا۔

ہم لوگوں کے علاوہ عرفان بھائی کے گھر پر آنے والوں میں آس زیدی، تصور حسین زیدی، شہنشاہ مرزا، وقار ناصری، محمد مسعود اور انجم ملیح آبادی خاص طور پر شامل تھے۔ انجم صاحب سے ان کے گھریلو مراسم تھے۔ جب کبھی شہریار صاحب آ جاتے تھے تو عرفان بھائی کے گھر پر بڑی رونق رہتی تھی اور وہ بھی خوب شعر سناتے تھے۔

عرفان بھائی تحت میں شعر بہت عمدہ پڑھتے تھے۔ ان کے پڑھنے کا انداز بہت پر تاثیر اور دلکش ہوتا تھا اور شعر کی پوری معنویت روشن ہو جاتی تھی۔ اب تک بہت سی غزلوں کے ساتھ ان کے پڑھنے کا مخصوص انداز کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ تخلیقی عمل ایک پر اسرار تجربہ ہے وہ ایک نشست میں کئی کئی شعر آسانی سے کہہ لیتے تھے۔ کبھی کبھی ایک رات میں پوری غزل مکمل ہو جاتی تھی۔ ان کی پہلی سامع زیادہ تر بی یعنی ان کی اہلیہ ہوتی تھیں جو خود بھی بہت صاحب ذوق خاتون ہیں۔ وہ شعروں میں رد و بدل بہت کم کرتے تھے۔ میں نے انھیں مصرع نوٹ کرتے کبھی نہیں دیکھا۔ میرا خیال ہے پورا شعر ہی ان پر نازل ہوتا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہو گی کہ جب تک ایک خاص کیفیت ان پر طاری نہیں ہو جاتی تھی وہ شعر نہیں کہتے تھے۔

دفتر میں جب زیب غوری اور ابو الحسنات صاحب یا شہر یار صاحب آ جاتے تھے تو کچھ گھنٹوں کے لئے ان کا کمرہ ڈرائنگ روم میں تبدیل ہو جاتا تھا میں بھی خاموشی سے آ کے بیٹھ جاتا۔ شعر و شاعری اور ادب پر خوب خوب باتیں ہوتیں۔ ابوالحسنات صاحب بولتے کم تھے مگر عرفان بھائی کو چاہتے بہت تھے۔ ویسے بھی زیب کی خوش گفتاری کے سامنے کسی اور کو بولنے کا موقع مشکل ہی سے ملتا تھا۔ زیب غوری زندگی سے بھرپور بہت نفیس اور وضعدار انسان تھے وہ جب بھی لکھنو آتے نیر بھائی اور عرفان بھائی سے ضرور ملتے تھے۔

نیر مسعود صاحب کے گھر پر ہم لوگ چھوٹی چھوٹی محفوظ نشستیں منعقد کیا کرتے تھے جن میں نیر بھائی کی ہدایت کے مطابق شرکا کی تعداد آٹھ۔ نو سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ ان میں میرے اور عرفان بھائی کے علاوہ شہنشاہ مرزا، وقار ناصری، انیس اشفاق، شافع قدوائی اور کبھی کبھی تصور حسین زیدی، عثمان غنی، محسن خاں اور انیس انصاری صاحب بھی شریک ہوتے تھے۔ شروع شروع میں عرفان بھائی گفتگو میں شریک بھی ہوتے تھے۔ شعر بھی سناتے تھے مگر کھل کر بے تکلفی سے گفتگو نہیں کرتے تھے۔ یہ عام طور پر ان کا مزاج بھی تھا مگر دھیرے دھیرے نیر صاحب ان کے بہت اچھے اور بے تکلف دوست بن گئے۔ نیر بھائی بھی کبھی کبھی عرفان بھائی کے گھر آ جاتے تھے۔ دونوں ادب کے علاوہ ملبوسات، فلم، ڈرامے، تاریخ پتہ نہیں کن کن موضوعات پر ڈھیروں گفتگو کرتے رہتے۔ اس دوستی کے پیچھے مزاج اور اقدار کی ہم آہنگی اور ادب سے گہری وابستگی بنیادی وجہ رہی ہو گی۔ اسی دوران شمس الرحمن فاروقی صاحب بھی پی ایم جی ہو کر لکھنؤ آ گئے۔ اب دو کے بجائے تین دوست لکھنؤ میں یکجا ہو گئے تھے۔ یہ دور ادبی اور ذہنی آسودگی کے لحاظ سے عرفان بھائی کی زندگی کا سب سے بہترین دور کہا جا سکتا ہے۔ شب خون اور سوغات کے صفحات پر ان کی غزلیں اور نثری تحریریں اسی دور کی یاد گار ہیں۔ ریڈیو پر تفہیم شعر کے سلسلہ کی ان تینوں حضرات کی گفتگو معرکہ کی چیز تھی۔ شعر کی تفہیم کے موضوع پر اس سطح کی علمی گفتگو بڑے بڑے سمیناروں میں بھی شاید ہی کبھی سننے کو ملتی ہو۔ بعد میں اس گفتگو کا بڑا حصہ تحریری شکل میں بھی شب خون میں شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔

وہ اپنی شاعری کی طرح عام گفتگو میں بھی لفظوں کو بہت سلیقے اور احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ اپنے چند مخصوص دوستوں کے علاوہ وہ احباب سے بھی زیادہ بے تکلفی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے پن کے احساس کے ساتھ ایک خاص طرح کا حجاب بھی درمیان میں پڑا رہنے دیتے تھے۔ اس لئے دور سے دیکھنے والوں کو تھوڑا خشک مزاج سے نظر آتے تھے مگر در حقیقت وہ بہت نرم مزاج، شفیق اور وضعدار انسان تھے۔ ہاں جذبات کے بے محابا اظہار سے انھیں وحشت ہوتی تھی۔ مگر ان کا چہرہ آئینہ تمثال تھا اس میں ہر طرح کے جذبات فوراً اپنا عکس دکھا دیتے تھے ناگواری اور خوشی ان سے چھپائے نہیں چھپتی تھی۔

عرفان بھائی کے اندر Self Respectکا جذبہ بہت شدید تھا مگر وہ سخت غصہ کے عالم میں بھی اپنا آپا نہیں کھوتے تھے۔ ایک سمینار میں نارنگ صاحب کی تقریر کے دوران انھوں نے شاید نیر صاحب سے مخاطب ہو کر کوئی بات کہی۔ نارنگ صاحب کے احتجاج پر عرفان بھائی نے جواب دیا۔ معاف کیجئے گا میں سمینار سمجھ کر آ گیا تھا مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ آپ کا کلاس روم ہے اور اٹھ کر چلے آئے۔

دوسرا واقعہ علی گڑھ کے ایک مشاعرہ کا ہے جس میں شہریار صاحب نے عرفان بھائی کو اور شاید ان کا ساتھ دینے کے لئے مجھے بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔ ہم لوگ علی گڑھ پہونچے تو ہمارے رکنے کا انتظام گیسٹ ہاؤس کے ایک کشادہ سے کمرے میں کیا گیا۔ شام کو ہم لوگ شمشاد مارکیٹ کی طرف گھومنے نکل گئے مگر واپسی پر حیران رہ گئے کیونکہ ہمارا سامان کمرے میں موجود نہیں تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ جعفری صاحب اور نارنگ صاحب سمیت کچھ اور مہمان آئے ہیں اور شہر یار صاحب نے کمرہ تبدیل کرا دیا ہے۔ یہ بات عرفان بھائی کو اتنی ناگوار گذری کہ انھوں نے مشاعرہ میں شرکت کے بجائے واپسی کا فیصلہ کر لیا اور اسٹیشن روانہ بھی ہو گئے مگر تب تک شہریار صاحب کو پتہ چل گیا تھا وہ بھاگے ہوئے آئے اور بڑی مشکلوں سے عرفان بھائی کو روکنے میں کامیاب ہو سکے۔ عرفان بھائی کو در اصل شکایت یہ تھی کہ کمرہ تبدیل کرنے سے پہلے انھیں بتایا کیوں نہیں گیا۔ مشاعرہ کے بعد بھی وہ اپنے کو پوری طرح نارمل نہیں کر سکے اور دیر تک جاگتے اور سگریٹ پیتے رہے۔ اس رات انھوں نے ایک عجیب سی بات کہی، بولے ’’کبھی کبھی شہر یار سے ڈر لگنے لگتا ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ شخص انتہائی شریف ہے یا انتہائی منافق‘‘ میرا خیال ہے کہ عرفان بھائی کی پہلی رائے ہی درست ہو گی۔

عرفان بھائی لکھنو سے بہت پیار کرتے تھے ان کا شعر ہے

چار طرف رمیدہ خو پائے ہوا صدائے ہو

میرے بغیر لکھنؤ دشتِ غزال کے بغیر

اور یہ واقعہ ہے کہ جب ان کا ٹرانسفر دوردرشن دہلی میں بحیثیت انگریزی نیوز ایڈیٹر کے ہو گیا تو وہ بہت افسردہ ہو گئے تھے جبکہ اس پوسٹ پر رہتے ہوئے مرکزی وزراء اور اعلیٰ افسران سے مراسم کے امکانات خاصے روشن تھے کیونکہ تب تک ڈش چلن میں نہیں آیا تھا اور دوردرشن کی خبریں پورے ہندوستان میں بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ مگر عرفان بھائی کسی اور ہی مٹی کے بنے ہوئے تھے۔ طمع کا ایک ذرہ بھی اس مٹی میں شامل نہیں تھا۔

ان کے جانے کے کچھ دنوں بعد میرا ایک انٹرویو کے سلسلہ میں دہلی جانا ہوا۔ ظاہر ہے کہ میں سیدھا عرفان بھائی کے گھر گیا۔ انھیں آر کے پورم میں ایک کشادہ سا سرکاری مکان مل گیا تھا مگر مجھے بہت حیرانی ہوئی جب میں نے دیکھا کہ کئی کمرے بند ہیں اور ایک کمرے میں عرفان بھائی بستر لگائے تقریباً مسافرت کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا جیسے وہ بیوی بچوں سے کہہ کر آئے ہوں کہ بھائی تم لوگ بیٹھو میں ابھی گیا اور ابھی آیا۔ انھوں نے دہلی جاتے ہی لکھنؤ واپسی کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ اسی زمانے کا ان کا شعر ہے۔

ابھی کھلا بھی نہ تھا رخت شوق دلّی میں

کہ پھر ہمیں کشش لکھنؤ بلانے لگی

اور واقعی تھوڑے ہی دنوں میں وہ واپس لکھنؤ آ گئے اور پھر وہی ہم وہی امین آباد۔

کچھ برسوں بعد ایک بار پھر ان کا تبادلہ کانپور ہو گیا۔ میں ملازمت کے سلسلہ میں پہلے ہی کانپور آ گیا تھا۔ خوشی ہوئی کہ اب خوب ملاقاتیں رہیں گی مگر صرف تین ملاقاتیں ہی ہو سکیں کیونکہ جب میں کالج سے فرصت پا کر ان کے دفتر پہونچتا تو پتہ چلتا کہ وہ لکھنؤ روانہ ہو چکے ہیں۔ تھوڑے دنوں بعد وہ پھر لکھنؤ پہونچ گئے لکھنؤ میں ملاقات ہوئی تو وہ کچھ اس طرح خوش نظر آئے جیسے کوئی دشوار اور لمبے سفر سے گھر واپس آ کر خوش ہوتا ہے۔

دفتر میں ان کا رویہ کچھ اس طرح کا تھا کہ لوگ ان کے سامنے مؤدب اور محتاط سے رہتے تھے۔ ہر چند وہ کسی کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتے تھے مگر وہ اپنے اسٹاف کے ساتھ صرف اتنی ہی گفتگو کرتے تھے جتنی ضروری ہوتی اس لئے اپنے پن کے احساس کے ساتھ ایک خاص طرح کی دوری بھی قائم رہتی تھی۔

عرفان بھائی دفتر سے گھر تقریباً روز ہی فون کر کے بی سے (اپنی اہلیہ) باتیں ضرور کرتے تھے۔ فون پر ان کی آواز سرگوشی سے بلند شاید ہی کبھی ہوئی ہو یہاں تک کہ میز کے دوسری طرف بیٹھنے کے باوجود مجھے کچھ ادھورے لفظ یا بے ربط جملوں کے علاوہ پوری گفتگو کبھی نہیں سنائی دی۔ وہ ویسے بھی فون پر بلند آواز میں گفتگو کرنا تو دور سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دن دفتر ہی کے ایک صاحب فون پر بآواز بلند کسی سے ہم کلام تھے۔ عرفان بھائی ادھر سے گزرتے ہوئے رک گئے جب گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوا تو بولے ’’آپ ذراسی اور کوشش کر لیتے تو فون کے بغیر بھی گفتگو ہو سکتی تھی‘‘۔ وہ عام طور پر نمبر ڈائل کرنے کے لئے انگلی کے بجائے قلم کا استعمال کرتے تھے۔

عرفان بھائی دوستوں کے جملوں اور لطیفوں پر بھی مسکرا دیتے تھے۔ دل کھول کر ہنستے میں نے انھیں بہت کم موقعوں پر دیکھا اس وقت مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ ہم لوگ ایک ا توار نیر صاحب کے یہاں گئے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران حسب دستور چائے آ گئی عرفان بھائی نے چائے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ صاحب چائے تو عمدہ ہے ہی کرا کری بہت نفیس ہے۔ نیر صاحب مسکرا دئے۔ دیر تک زہر کے اقسام اور درندوں کی فطرت جیسے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ ظاہر ہے کہ میں سامع کے فرائض انجام دے کر عرفان بھائی کے ساتھ واپس آ گیا۔ تقریباً ہفتہ بھر بعد نیر صاحب نے عرفان بھائی کے یہاں آنے کا ارادہ ظاہر کیا اور مجھ سے کہا پوچھ لیجئے گا کوئی مصروفیت تو نہیں ہے۔ عرفان بھائی بہت خوش ہوئے کہنے لگے بتا دیجئے گا درویش دن بھر انتظار کرے گا۔ صبح نیر صاحب طے شدہ وقت پر آ گئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک تھیلا بھی تھا خیر دیر تک گفتگو جاری رہی، جاتے وقت نیر صاحب نے تھیلے سے اخبار میں لپٹی ہوئی ایک بھاری سی چیز نکال کر میز پر رکھ دی اور بولے یہ میں آپ کے لئے لیتا آیا تھا۔ عرفان بھائی نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا، کیا چیز ہے۔ نیر صاحب بولے آپ نے اس دن کرا کری کی تعریف کی تھی۔ اتفاق سے اسی کا دوسرا سیٹ مل گیا تو آپ کے لئے لیتا آیا۔ عرفان بھائی کچھ کہنا چاہتے تھے پھر چپ ہو گئے۔ نیر صاحب کے جاتے ہی تصور حسین زیدی صاحب آ گئے۔ ان کی نظر پیکٹ پر پڑی۔ عرفان بھائی نے مختصراً اس کی آمد کی روداد بیان کر دی اور بولے نیر صاحب اتنے شریف آدمی ہیں کہ اب ان کی کسی چیز کی تعریف کرنے سے پہلے سوچنا پڑے گا۔ زیدی صاحب برجستہ بولے۔ بھائی نیر صاحب کی شرافت اپنی جگہ مگر ٹی سیٹ سے یہ نتیجہ نکالنا ٹھیک نہیں معلوم ہوتا کہ آپ ان کی جس چیز کی تعریف کر دیں گے وہ اسے تحفتاً آپ کو پیش ہی کر دیں گے۔ عرفان بھائی دل کھول کر دیر تک ہنستے رہے پھر بولے نہیں بھائی وہ واقعی بہت شریف آدمی ہیں۔

ہم لوگوں نے عرفان بھائی کے دہلی تبادلے کے موقع پر ’’ایک شام عرفان صدیقی کے نام ‘‘ عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد بھی کیا تھا جس میں انھوں نے ایک شرط بھی رکھ دی تھی کہ میں کوئی مشورہ نہیں دوں گا۔ بس شریک ہو جاؤں گا۔ پروگرام بھی ٹھیک ٹھاک ہوا۔ بعد میں انھوں نے ہم سب کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ مگر اب احساس ہوتا ہے کہ وہ پروگرام ان کے شایان شان نہیں ہو سکا تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ تقریباً پچیس سال ادھر لکھنو میں ادب اور قدروں کی صحت بہت اچھی تھی ہم جیسے نو واردان ادب کی دعوت پر بھی تمام نامور ادباء اور شعراء کے پروگراموں میں برابر شریک ہوتے تھے اور بھر پور حوصلہ افزائی کرتے تھے مگر اب پتہ نہیں فاصلے حائل ہو گئے ہیں یا لوگ سچ مچ بہت مصروف ہو گئے ہیں۔ بہرحال اپنا لکھنؤ دھیرے دھیرے گذشتہ لکھنؤ یا گم شدہ لکھنؤ بنتا جا رہا ہے۔ خیر کم و بیش یہی صورت حال دوسرے شہروں کی بھی ہے۔

لکھنو سے ۸۶ء میں کانپور آنے کے بعد عرفان بھائی سے میرا رابطہ برابر قائم رہا۔ ان کی بیماری کے دنوں میں بھی ان سے دو تین ملاقاتیں رہیں۔ اسی دوران وہ کانپور کی ایک مخصوص ادبی نشست میں بھی شہریار صاحب کے ساتھ شریک ہوئے تھے مگر میں کسی مجبوری کی وجہ سے اس پروگرام میں نہیں جا سکا تھا جس کا مجھے اب تک افسوس ہے۔ اس کے تھوڑے دنوں بعد میں شاہد اختر اور ظفر غازی کے ساتھ عرفان بھائی کے گھر گیا۔ ملاقات پر وہ بہت خوش اور زندگی سے بھر پور نظر آئے اور بتایا کہ آپریشن کامیاب رہا۔ اب اوڈین سنیما ہال کے پاس کسی اچھے ہومیوپیتھ کا علاج چل رہا ہے جس سے وہ پوری طرح مطمئن ہیں۔ انھیں دیکھ کر مجھے بھی خاصا اطمینان ہوا۔

دوسری مرتبہ شافع قدوائی اور ڈاکٹر عارف ایوبی کے ساتھ ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوا اور دیر تک کانپور کے احباب اور علی گڑھ کا ذکر رہا۔ وہ شاید خود بھی اپنی بیماری کو بھول گئے تھے ہم لوگوں کو بھی اس کا ذکر ضروری نہیں معلوم ہوا مگر تیسری بار شاہد اختر اور ظفر کے ساتھ میں نیر صاحب کی مزاج پرسی کے لئے لکھنؤ گیا تو انھوں نے بتایا کہ عرفان صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ہم لوگ عرفان بھائی کے گھر گئے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب اور جمیلہ بھابھی بھی عیادت کے لئے ان کے گھر آئے ہوئے تھے مگر وہ دوا کے اثر سے نیند اور غفلت کی ملی جلی کیفیت میں تھے، ملاقات نہیں ہو سکی بی بہت گھبرائی ہوئی تھیں ہم لوگ انھیں کھوکھلی سی تسلی دے کر مایوس واپس آ گئے۔ کچھ دنوں بعد ایک دوپہر ضیا فاروقی نے لکھنؤ سے فون پر اطلاع دی کہ عرفان بھائی کا انتقال ہو گیا ہے وہ وہیں ہیں اور مٹی اٹھنے والی ہے اور اتنا وقت نہیں ہے کہ میں کانپور سے آ کر ان کے آخری سفر میں شریک ہو سکوں۔ اس وقت میرا ہی ایک شعر میری کیفیت کی ترجمانی کر رہا تھا۔

بس اک خبر سنی تھی کہ محسوس یوں ہوا

کچھ تھا جو میرے سینے کے اندر نہیں رہا

انھیں شروع سے ہی لکھنو کی سر زمیں بہت پرکشش لگتی تھی اور آخر آخر وہ اسی زمیں کے پیوند ہو گئے۔

شاعری میں وہ کسی گروپ کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔ ان کے کلام میں جدید شعراء کی سکہ بند لفظیات دور دور تک نظر نہیں آئیں۔ یہاں نہ صحرا ہے نہ سایہ ہے نہ بے چہرگی ہے۔ نہ ان کے یہاں ترقی پسندوں والی انسان دوستی۔ ان کی شاعری کا بنیادی موضوع ظالم اور مظلوم کا رشتہ ہے جسے انھوں نے پوری تخلیقی توانائی اور فنکاری کے ساتھ برتا ہے۔ شاید یہی موضوع انھیں کربلا کے استعاروں کی طرف لے گیا۔ وہ ماضی کی طرف لالچ بھری نظروں سے مڑ مڑ کر دیکھنے کے قائل نہیں تھے بلکہ ماضی کی شعری اور تہذیبی روایات ان کی شاعری کی پشت پر ہمیشہ موجود رہیں۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے بغیر بڑی شاعری ممکن ہی نہیں ہے مگر اردو والوں کی بھی تو اپنی روایت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ دیر سے جاگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب سورج سر پر آ گیا ہے۔ اب اردو والوں کو جاگنا ہی ہو گا۔

علم کے ساتھ ان کا معاملہ بہت ذاتی اور داخلی نوعیت کا تھا۔ انگریزی کے ساتھ فارسی اور سنسکرت ادبیات سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ کالی داس کی دو تخلیقات رت سنگھارم اور مالویکا اگنی متر کا انھوں نے بہت عمدہ منظوم ترجمہ پیش کیا۔ رابطہ عامہ پر انگریزی کی ایک مشہور کتاب کا اردو ترجمہ کیا۔ ۔ ۔ وہ تقسیم کے پس منظر میں ایک ناول بھی لکھنے کا ارادہ کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہجرت کے موضوع پر تو خاصا لکھا گیا ہے مگر وہ جو یہاں رہ گئے اور را توں رات جن کی دنیا بدل گئی اور پشتوں کے روابط اور مشترکہ تہذیب ایک ہی پل میں بے معنی ہو گئی۔ ان کا المیہ بھی ہجرت کرنے والوں سے کم نہیں ہے۔ یہ ایک بڑے ناول کا موضوع ہو سکتا ہے مگر اپنی مصروفیات یا شاعری سے گہرے سروکار کی وجہ سے وہ یہ ناول لکھ نہیں سکے ورنہ شاید اردو کو ایک اور اہم ناول مل جاتا۔

مجھے حیرت نہیں ہوتی جب میں سوچتا ہوں کہ عرفان بھائی کے انتقال سے پہلے فاروقی صاحب کے ایک تبصرے اور ابن فرید صاحب کے ایک تجزیہ کے علاوہ ان کی شاعری پر کوئی قابل ذکر تحریر کیوں نہیں لکھی گئی یا کربلا کے استعاروں کو پوری تخلیقی قوت کے ساتھ برتنے کے باوجود اس موضوع پر لکھی گئی پروفیسر نارنگ کی کتاب کے پہلے ایڈیشن میں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ ان کو ان بڑے اعزازات اور انعامات سے کیوں نہیں نوازا گیا جن کے وہ بجا طور پر حقدار تھے۔

اصل میں ہمارے عہد میں جسے زمانہ سازی نہیں آتی یا جو خود کو اس پر آمادہ نہیں کر پاتا اسے کم سے کم اتنی تو قیمت ادا ہی کرنی پڑتی ہے۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ نفع و ضر ر کا پیمانہ اصل میں ہے کیا؟ میرے خیال میں جس کام سے انسان کا ضمیر مطمئن ہو اور سچی خوشی ملتی ہو وہی تو اس کا اصل منافع ہے اور جس کام سے ضمیر پر بوجھ محسوس ہو اور انسان کو دکھ پہونچے وہی اس کا خسارہ۔ اس نقطہ نظر سے عرفان بھائی نے عمر بھر منافع کا کاروبار کیا اور ہمیشہ خوش اور مطمئن رہے۔

انھوں نے تو بہت پہلے ہی اعلان کر دیا تھا۔

رکھنا یا فہرست میں تم مرا نام نہ رکھنا

مجھ کو اس الجھن سے کوئی کام نہ رکھنا

(2010)

٭٭٭

 

 

 

 

 

اٹھو یہ منظرِ شب تاب دیکھنے کے لیے

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقبال اشہر (دہلی)

 

محترم عرفان صدیقی سے میری پہلی ملاقات مئی ۲۰۰۲ء میں علامہ علیم اختر مظفر نگری کے فرزند اور عرفان صاحب کے جگری دوست ممتاز نثر نگار جناب عظیم اختر کے گھر پر ہوئی تھی۔ دلّی کے نئے ادبی منظر نامے کے منفرد شاعر جناب منیر ہمدمؔ مجھے وہاں لے گئے تھے۔ عظیم صاحب نے ہمارا غائبانہ تعارف عرفان صاحب سے کرا دیا تھا، وہ بڑی گرمجوشی اور محبت سے پیش آئے ویسے بھی عرفان صاحب سے ملنے کے اشتیاق نے اندر باہر کے موسم کو خوشگوار بنا دیا تھا۔ کچھ دیر تک عرفان صاحب تیس سال پہلے کی دلّی اور موجودہ دلّی کے گلی کوچوں کا تقابلی جائزہ پیش کرتے رہے، پھر عظیم اختر صاحب نے کچھ حسین یادوں کی چلمنیں سرکادیں، موسم کچھ اور سہانا ہو گیا تھا، ہوا کچھ اور معطر ہو چلی تھی۔ ۔ ۔ ہم دونوں نے موقع مناسب جان کر عرفان صاحب سے کچھ سنانے کی درخواست کی تو فرمایا ’’عظیم نے آپ دونوں کی بہت تعریف کی ہے پہلے آپ اپنا کلام سنائیے تاکہ مجھے اندازہ ہو سکے کہ میں کس ذہنی سطح کے لوگوں کے درمیان ہوں ‘‘۔ بہرحال تعمیل حکم کے طور پر پہلے میں نے دو غزلیں سنائیں پھر منیر ہمدم نے اپنا کلام پیش کیا تو عرفان صاحب نے مزید کچھ سننے کی خواہش ظاہر کی لہٰذا دو-دو غزلیں اور سنائی گئیں۔ ۔ ۔ عرفان صاحب بہت مسرور ہوئے بہت حوصلہ افزا کلمات سے نوازا۔ ۔ ۔ پھر ہم دونوں جگر تھام کے بیٹھ گئے کہ ہمارا پسندیدہ شاعر آمادۂ سخن ہوا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ عرفان صدیقی کے سحر انگیز لہجے نے سماعت کی رہگذر پر پہلا قدم رکھا۔

دل کا جو حال ہوا دشمن جانی کا نہ ہو

آخرِ شب کبھی آغاز کہانی کا نہ ہو

پھر نہ جانے ہم لوگ کتنی دیر تک انہیں سنتے اور سردھنتے رہے وہ رات اور وہ ملاقات ابھی تک وقت کی دہلیز پر ٹھہری ہوئی ہے اور عرفان صدیقی کو انہیں کے الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہے۔

دیارِ دل میں کبھی صبح کا گجر نہ بجا

بس ایک درد کی شب ساری عمر ڈھلتی رہی

اگست ۲۰۰۲ء میں دلّی اردو اکادمی کے ’مشاعرۂ جشنِ آزادی‘‘ کے موقع پر میری عرفان صدیقی سے دوسری اور آخری ملاقات ہوئی وہ مشاعرہ فکی آڈی ٹوریم میں منعقد ہوا تھا۔ عرفان صاحب پچھلی ملاقات کی طرح اس بار بھی بڑے تپاک سے ملے، مجھے دیکھتے ہی گلے لگا لیا اور مشاعروں کی زبوں حالی پر تبصرہ کر رہے مشہور فکشنؔ نگار مشرف عالم ذوقی سے کہا ’’میاں اتنا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں نوجوان شاعروں کی ایک صف آ رہی ہے جو شاعری اور مشاعروں کو نئی جہت بخشے گی‘‘۔ ۔ ۔ لوگ کہتے ہیں اپریل ۲۰۰۴ء میں عرفان صاحب اس سرائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ۔ ۔ مگر میری آنکھیں آج بھی اسی منظر میں قید ہیں۔ ۔ ۔ میں آج بھی فکی آڈی ٹوریم میں دو نسلوں کو بغل گیر ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ ۔ ۔ شفقت کی گھنی چھاؤں اور مانوسیت کی دل نواز خوشبو نے آج بھی مجھے اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ ۔ ۔ آج بھی میرے دل کا ایک مخصوص گوشہ عرفان صدیقی کے لئے مخصوص ہے۔ ۔ ۔ یہاں کسی اور شاعر کو آنے جانے کی اجازت نہیں۔

۱۹۶۰ء کے بعد غزل کے بدلتے روپ سروپ اور تر و تازہ ہوتے شعری منظر نامے کو منور اور معطر کرنے میں عرفان صدیقی چراغ انجمن اور گل ترکی حیثیت رکھتے ہیں۔ مشاعروں سے ان کا تعلق واجبی سا تھا۔ ان کا کلام نقوش، فنون اور شب خون جیسے مؤقر جرائد کے توسط سے اردو دنیا تک پہنچتا تھا، وہ انتہائی بالغ نظر، مستقل مزاج اور رموز آشنا لوگوں کے شاعر تھے۔ اردو دنیا کے اس ممتاز طبقے سے عرفان صدیقی کی غزل اکثر مخاطب ہوا کرتی تھی۔

یوں سخن میں نکل آتے ہیں بہت سے پہلو

ویسے میں نے جو کہا ہے وہ کہا تم سے ہے

حرف کو عکس میں تبدیل کیا ہے تم نے

آئینے میں نے بنائے ہیں جلا تم سے ہے

حالانکہ عرفان صدیقی کی شاعری ایک خاص قسم کی ذہنی سطح کے لوگوں کی روحانی تسکین کا سرچشمہ تھی پھر بھی یہ کہنا نا مناسب ہو گا کہ ان کی شہرت کا دائرہ محدود تھا میں نے ہندو پاک اور تمام خلیجی ممالک کے علاوہ امریکہ اور کناڈا میں بھی ان کے بے شمار چاہنے والے دیکھے ہیں اور ان سے عرفان صاحب کی شاعری کے بارے میں بہت سی باتیں بھی کی ہیں، لوگ انہیں جنون کی حد تک چاہتے ہیں۔ عموماً اردو زبان کے شعرا زندگی بھر کی جمع پونجی لگا کر اپنے مجموعے شائع کراتے ہیں پھر تحفتاً یا جبراً اپنے احباب اور اعزا کو بانٹتے ہیں ستم تو یہ کہ مفت ہاتھ آئے ان شعری مجموعوں کو بھی کوئی پڑھنا حتیٰ کہ رکھنا گوارا نہیں کرتا۔ اس افسوسناک بلکہ المناک صورتِ حال کے برعکس عرفان صدیقی کا شمار ان خوش نصیب شعرا میں ہوتا ہے جن کے شعری مجموعوں کو لوگ سینے سے لگا کر رکھتے ہیں بلکہ لوٹانے کی گارنٹی کے بغیر کسی کو پڑھنے کے لئے بھی نہیں دیتے۔

میں مارچ۲۰۱۲ء میں جناب پروفسیروسیم بریلوی، جناب ڈاکٹر راحت اندوری اور برادرِ عزیز منظر بھوپالی کے ساتھ ’’شہر قائد ‘‘ کے مشاعروں میں شرکت کرنے کے لئے (پاکستان) گیا تھا۔ ان دنوں ہندوستان میں مشاعروں کا سیلاب سا آیا ہوا تھا۔ وسیم صاحب اور راحت بھائی دو مشاعروں کے لئے Committedتھے۔ میں اور منظر بھوپالی تیرہ دن کراچی میں رہے، ہمیں روز کسی نہ کسی مشاعرے یا نشست میں جانا پڑتا تھا۔ ان تیرہ دنوں کے قیام کے دوران شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب مجھے عرفان صدیقی کا کوئی چاہنے والا نہ ملا ہو، ہندوستان لوٹنے سے دو دن قبل ’’شہر قائد‘‘ کے روح رواں محترم اظہر عباس ہاشمی اور محترم افضال صدیقی نے ہمارے اعزاز میں ایک شعری نشست آراستہ کی تھی۔ نشست کے بعد میں نے ان سے پوچھا کیا آپ کے پاس عرفان صدیقی کی کلیّات ’’ دریا ‘‘ہے۔ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، میں نے کہا مجھے ایک مدت سے اس کی تلاش ہے انہوں نے جواب دیا ’’میں اپنی لائبریری کی تمام کتابیں آپ کو دے سکتا ہوں مگر ’’دریا‘‘ نہیں دے سکتا۔

تقریباً دس سال پہلے ممتاز افسانہ نگار اور دلّی دور درشن پر اردو پروگراموں کے پروڈیوسر جناب انجم عثمانی سے عرفان بھائی کے بارے میں بات ہو رہی تھی، انہوں نے کہا ’’حالانکہ میں بنیادی طور پر نثر کا آدمی ہوں لیکن شاعری کے رموز اور شاعروں کے مراتب سمجھتا ہوں، اگر آپ مرے گھر تشریف لائیں اور میری کتابوں کی الماری کو غور سے دیکھیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہر مصنف یا شاعر کی کتاب کو حفظِ مراتب کے اعتبار سے رکھا گیا ہے، مثال کے طور پر عرفان صدیقی کا مجموعہ آپ کو غالبؔ کے مجموعے کے قریب رکھا ملے گا‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ایسے ہیں عرفان صدیقی کے چاہنے والے۔ ۔ ۔ ۔ یوں سر چڑھ کر بولتا ہے عرفان صدیقی کی شاعری کا جادو۔ ۔ ۔ ۔

اس کا نام ہی انتم سر ہے میری صدا کی سرگم کا

اس کے آگے سناٹا ہے کوئی اگر مجبور کرے

 

عرفان صدیقی کی شعری کائنات: نظریہ اور ڈکشن

 

کچھ اشعار شاعر کے نظریۂ شاعری کی کلید بن جاتے ہیں، مجھے اس وقت عرفان صدیقی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو ان کے عمیق عشقیہ احساس اور وسیع شعری کینوس کا ترجمان بن گیا ہے۔

مری عاشقی مری شاعری ہے سمندروں کی شناوری

وہی ہم کنار اُسے چاہنا وہی بے کنار اسے دیکھنا

عرفان صدیقی نے کم عمر میں اپنے دادا ا کرام احمد شادؔ اور اپنے والد سلمان احمد ہلالؔ سے فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ۔ ۔ ان کے ذہن و دل پر فارسی کی بلاغت اور فصاحت کے نقوش مرتب ہو گئے تھے۔ ۔ ۔ شاید اسی لئے ان کا شعری ڈکشن فارسی آمیز تھا۔ ۔ ۔ عربی زبان کی شد بد نے اس ڈکشن اور بھی تہ دار بنا دیا تھا۔ ایک مکالمے کے دوران انہوں نے جناب نیر مسعود سے کہا تھا۔

’’لفظ بہت پر اسرار بہت طاقتور اور بہت مقدس چیز ہے۔ ۔ ۔ تو لفظ کے اسرار لفظ کی تقدیس اور لفظ کی گہرائیوں اور امکانات کی تلاش۔ ۔ ۔ یہ تو ہر فنکار کا بنیادی فریضہ ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ میں ہمیشہ لفظ کے استعمال پر ہفتوں سوچتا ہوں۔ ۔ ۔ بلا مبالغہ ہفتوں۔ ۔ ۔ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ اپنے تمام تر تلازمات اور رموز کے ساتھ اس وقت تک ادا نہیں ہو گی جب تک کہ میں لفظ کے تمام تر امکانات اجاگر نہ کر لوں ‘‘

عرفان صدیقی شاعری میں کمالِ خوش بیانی کے قائل تھے ان کی غزل کو رسماً نہیں بلکہ حقیقتاً مرصع غزل کہنے کا جی چاہتا ہے۔ ۔ ۔ الفاظ کو ان کے وسیع ترین معنی میں استعمال کرنے والے شاعر کے اس دعوے کو مبالغے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔

شمعِ تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے

شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

غزل تو خیر ہر اہل سخن کا جادو ہے

مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادو ہے

ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں

ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے

کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ

چھپا ہے کیا مری مٹی میں ماہ پارہ کوئی

 

عرفان صدیقی کی عشقیہ شاعری۔ روحانیت سے لذتیت تک

 

۱۹۶۰ء کے بعد کی غزلیہ شاعری میں عشقیہ جذبات و احساسات کا وہ بہاؤ نظر نہیں آتا جس نے فیضؔ اور جگرؔ کو سرشار کیا تھا ہاں کبھی کبھی آفتابِ عشق کسی روزن کے توسل سے ناصر کاظمی، شکیب جلالی، احمد مشتاق، وسیم بریلوی اور بشیر بدرؔ جیسے سنتوں کی کٹیا کو تھوڑا بہت منور ضرور کر دیتا ہے مگر روشنی تغزل کی حدوں تک نہیں پہنچتی خود عرفان صدیقی کے یہاں بھی ’کینوس‘ شب درمیاں اور ’’سات سماوات‘ تک یہ نور سمٹا سمٹا سا نظر آتا ہے۔

وقت پھر جانے کہاں اس سے ملا دے تجھ کو

اس قدر ترکِ ملاقات کا پندار نہ رکھ

وہ کہہ گیا ہے پھر آئیں گے ہم، اداس نہ ہو

تو ہم خوشی سے بھی چھوٹے ملال سے بھی گئے

رائگاں ہو گئے لمحے ترے پاس آنے کے

دکھ ابھی تازہ ہیں اوروں سے بچھڑ جانے کے

احوال ترا شام بدن میں بھی وہی ہے

باطن کی چمک سانولے پن میں بھی وہی ہے

آگے بڑھنے سے پہلے عرفان صدیقی کے پہلے مجموعہ کلام ’’کینوس‘‘ کے تین شعروں کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ اس لئے کہ میں ان شعروں کو ’’عشق نامہ‘‘ کی عشقیہ شاعری کا ماخذ مانتا ہوں۔

ہائے وہ جسم کہ اک جی کی جلن ہے وہ بھی

اور سچ پوچھو تو سرمایۂ فن ہے وہ بھی

اس کی آنکھوں میں بھی رقصاں ہے وہی گرد و شوق

غالباً محرمِ اسرارِ بدن ہے وہ بھی

اس کے حلقے میں تگ و تاز کی وسعت ہے بہت

آہوئے شہر مری بانہوں کی زنجیر میں آ

مذکورہ اشعار ان حضرات کی خصوصی توجہ کے طالب ہیں جو ’’عشق نامہ‘‘ کی شاعری کو ’’میر کے رنگ میں رنگنا‘‘ یا استعارۂ کربلا سے فرار کا وسیلہ قرار دیتے ہیں، میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ’’عشق نامہ‘‘ کے گھر اجالتے ہوئے لفظ مانگے کا اجالا نہیں بلکہ مٹی میں چھپے ہوئے ماہ پارے کی دین تھے۔ ’’عشق نامہ‘‘ میں یوں تو بہت سے رنگ ہیں اور سبھی رنگ ہوش رُبا ہیں۔ مگر ’’ ربط نوا‘‘ چاہنے والی ’’جانِ سخن‘‘ کی بازیافت اور ’’تجدید عشق‘‘ کا رنگ دل پر امٹ نقش چھوڑ جاتا ہے۔

شہاب چہرہ کوئی گم شدہ ستارہ کوئی

ہوا طلوع افق پر مرے دوبارہ کوئی

گماں نہ کر کہ ہوا ختم کارِ دل زدگاں

عجب نہیں کہ ہو اس راکھ میں شرارہ کوئی

آخرِ شب ہوئی آغاز کہانی اپنی

ہم نے پایا بھی تو اک عمر گنوا کر اسکو

ہم تو حیراں ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آ کر

شہر آباد کیا نہر صبا جاری کی

ہماری شاعری میں محبوب کے سراپے کا ذکر کوئی نئی بات نہیں میرؔ نے کہا تھا سراپا پہ جس جا نظر کیجئے۔ وہیں عمر ساری بسر کیجئے۔ ۔ ۔ ہاں شاعری بالخصوص غزل میں Eroticism کے اظہار کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں یوں بھی یہ راستہ خطروں سے خالی نہیں زبان و بیان کی ذرا سی لغزش ہوئی نہیں کہ شاعر رکاکت کی حدوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ تلوار کی اس دھار پر غزل کی تہذیبی شائستگی کے ساتھ عرفان صدیقی جیسا قادر الکلام شاعر ہی چل سکتا تھا۔

عجب گداز پرندے بدن میں اڑتے ہوئے

اسے گلے سے لگائے زمانہ ہوتا ہوا

جو رنگ خواب میں دیکھے نہیں وہ سامنے تھے

کھلا ہوا تھا نظر پر نگار خانہ ترا

وہ میرے ہاتھوں میں آئے ہوئے زمیں و زماں

وہ میری خاک پہ بکھرا ہوا خزانہ ترا

میں ایک موج میں غرقاب ہو چکا تھا مگر

چھلک رہا تھا ابھی ساغرِ شبانہ ترا

میں بجھتا جاتا تھا لیکن کنارِ جوئے وصال

دھمک رہا تھا ابھی گوہرِ یگانہ ترا

میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں

مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

خیال میں ترا کھلنا مثال بند قبا

مگر گرفت میں آنا تو راز ہو جانا

وہ جاگنا مری خاکِ نوا میں نغموں کا

کسی کی انگلیوں کا نے نواز ہو جانا

 

غزل اور استعارۂ کربلا

 

یہ بحث ایک مدت سے جاری ہے کہ افتخار عارف اور عرفان صدیقی میں کون بڑا شاعر ہے اور کس نے سب سے پہلے غزل میں کربلا کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا۔ میری معلومات کے مطابق اس سلسلے میں افتخار عارف کو نقشِ اول کی حیثیت حاصل ہے حالانکہ عرفان صدیقی کے پہلے مجموعۂ کلام ’’کینوس‘‘ میں کہیں کہیں اس استعارے کی جھلک ملتی ہے۔

تم جو کچھ چا ہو وہ تاریخ میں تحریر کرو

یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا

تیز رفتار ہیں دشمن کے فرس تجھ سے سوا

میرے بعد اے مری بکھری ہوئی صف تُو بھی ہے

اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے

یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہمسفر میرے

سروں کے پھول سرِ نوکِ نیزہ ہنستے رہے

یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی

غربت کی دھول کیسے کسی کو دکھائی دے

میرے برہنہ سر کی ردا ہو گئی ہے شام

ان اشعار کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا نا مناسب ہو گا کہ کربلا کو ایک استعارے کے طور پر برتنے کے سلسلے میں عرفان صدیقی کلی طور پر افتخار عارف سے متاثر تھے۔ یہ استعارہ پہلے سے ان کے شعری خمیر میں رچا بسا ہوا تھا۔ بہر حال اردو دنیا کے لئے دونوں شعرا لائق صدا احترام ہیں، دونوں نے اپنے انداز سے غزل کو تنوع بخشا، دونوں کی محنتوں ریاضتوں اور عظمتوں کو سلام۔ آخر میں جملۂ معترضہ کے طور پر غزل کہنے والوں کی خدمت میں رؤف رضا کا ایک شعر پیش کرنا چاہتا ہوں۔

یہ استعارہ بہت پھیل سا گیا لوگو

جو کربلاؤں سے نکلو تو کچھ نیا ہو جائے

 

عرفان صدیقی اور ’’تصوف‘‘

 

کچھ عمائدین ادب کہتے ہیں کہ عرفان صدیقی کی شاعری زندگی سے نبرد آزما انسان کا استعارہ ہے، ذات کے گہرے داخلی رنگوں کی داستان ہے، کائنات کے انجان گوشوں کی جاں گداز تصویر کشی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تصوف کی تلاش عبث ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں کہتا ہوں جو شخص ایسی مملکتِ علم و معرفت (بدایوں ) میں پیدا ہو کہ ’’ہر گھر میں جس کے ایک مزارِ شہید ہے ‘‘ اگر وہ مشاہدۂ حق کی گفتگو کرے تو حیرت کیسی؟ آئیے آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو روحانی نور و سرور کی اس کائنات کے کچھ گوشوں کی سیر کراتا ہوں جہاں عرفان صدیقی نے آنکھیں کھولیں۔ الفاظ کی ان نادر تصویروں کے مصور خود عرفان صدیقی ہیں۔ ۔ ۔ ۔

آئنہ چمکے تو ہوتا ہے سراپا روشن

دل جو روشن ہے مری جان تو دنیا روشن

کتنی گم گشتہ صداؤں سے خرابے آباد

خاکِ خاموش میں صدیوں کا دفینہ روشن

جاگتی را توں میں لہراتے ہوئے حمد کے گیت

طاقِ مسجد میں کسی دل کی تمنا روشن

اجنبی دھوپ میں جلتے ہوئے رشتوں کے شجر

گھر کے آنگن میں مناجات کا پودا روشن

کانپتے ہاتھوں میں دلدار دعاؤں کے چراغ

اور اشکوں کے ستاروں سے مصلیٰ روشن

میرا خیال ہے تصوف ٹوپی۔ جبہ پوشی۔ لوبان۔ اگر بتی۔ کھیلوں اور بتاشوں سے نہیں تزکیۂ نفس، صفائے قلب اور انکسار سے عبارت ہے اور عرفان صدیقی کی دل عزیز شخصیت میں یہ تمام اوصاف موجود تھے اور ان اوصاف کی چاندنی کہیں کہیں ان کی شاعری میں بھی منعکس ہوتی تھی۔

اتنا سادہ ہے مرا سایۂ خوبی کہ مجھے

کبھی عادت نہ رہی آئنہ برداری کی

مبصرین اور مقالہ نگاروں نے عنوان تصوف کے تحت کئی اشعار کوٹ کئے ہیں۔ میں ان تمام شعروں سے قصداً گریز کرتے ہوئے عشق نامہ کی صرف ایک غزل یاد دلا رہا ہوں جو عرفان صدیقی کے عرفانِ حق اور عرفانِ تصوف اور ان کے خانقاہی ورثے کی ترجمانی کرتی ہے۔ ۔ ۔ ۔

فقیر ہوں دل تکیہ نشیں ملا ہے مجھے

میاں کا صدقۂ تاج و نگیں ملا ہے مجھے

زباں کو خوش نہیں آتا کسی کا نان و نمک

عجب تبرکِ نانِ جویں ملا ہے مجھے

میں بوریا بھی اسی خاک پر کیا تھا بساط

سو یہ خریطۂ زر بھی یہیں ملا ہے مجھے

چراغِ گنبد و محراب بجھ گئے ہیں تمام

تو اک ستارۂ داغِ جبیں ملا ہے مجھے

یہ سر کہاں وہ کلاہِ چہار ترک کہاں

ابھی اجازۂ بیعت نہیں ملا ہے مجھے

 

تکمیل سفر کا احساس

 

عرفان صدیقی کے بعض اشعار میں تکمیل سفر کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ ’’عشق نامہ‘‘ کی اشاعت کے بعد رؤف رضا، منیر ہمدم اور میرے درمیان کافی دنوں تک اس قسم کے اشعار موضوع بحث بنے رہے کبھی ہم لوگوں نے ان شعروں کو ’’ عذابِ آگہی‘‘ کا نام دیا تو کبھی ’’آشوبِ آگہی‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا۔ ۔ ۔ ۔

تمام جلنا جلانا فسانہ ہوتا ہوا

چراغ لمبے سفر پر روانہ ہوتا ہوا

یہ مرا وہم یا مجھ کو بلاتے ہیں وہ لوگ

کان بجتے ہیں کہ موجِ گزراں بولتی ہے

چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے

تم سے بڑھ کر تو مجھے موجِ فنا چاہتی ہے

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

ہم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہیں آزاد

گھر کو چلتے ہیں کہ اب شام ہوا چاہتی ہے

عجیب لوگ تھے مجھ کو جلا کے چھوڑ گئے

عجب دیا ہوں طلوع سحر پہ راضی ہوں

’’عشق نامہ‘‘ کی اشاعت کے سات سال بعد یعنی ۲۰۰۴ء میں عرفان صدیقی ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ’’تکمیل سفر کا احساس‘‘ مکمل ہو گیا۔ ۔ ۔ اندیشہ یقین گہرے درد میں تبدیل ہو گیا۔ عرفان صدیقی کی آخری غیر مطبوعہ غزل پروفیسر مغنی تبسم نے ’’سب رس‘‘ میں چھاپی تھی اس کے دو شعر یاد رہ گئے۔

پلٹ کے آئی صدا کس کے در سے آخری بار

یہ پوچھنا ہے دلِ بے خبر سے آخری بار

چلو کہ اس شبِ گر یہ کو صبح تک لے جائیں

گزر رہا ہے یہ لشکر اِدھر سے آخری بار

 

اعتراف

 

میں نے اس مضمون میں عرفان صدیقی کی شاعری کے ان رنگوں اور ان پہلوؤں کو اجاگر کیا جو مجھ سے مانوس ہو چلے تھے یا میری دسترس میں آ چکے تھے۔ ۔ ۔ ان کی شاعری میں بہت سے پہلو اور بہت سے رنگ اور بھی ہیں جو ابھی میرے محدود تنقیدی شعور کی رسائی سے باہر ہیں اور میری کیا اوقات و بساط اس عہد کے ممتاز اور قد آور نقاد جناب شمس الرحمن فاروقی ’’ نیا دور‘‘ کے عرفان صدیقی نمبر میں چھپے اپنے ایک مضمون میں یہ اعتراف کر چکے ہیں۔ ’’ عرفان صدیقی کے بارے میں لکھنا بہت مشکل کام تھا اور اب بھی مشکل ہے۔ ان کے اشعار کی تہہ داری ان کے لفظیات کا داستانی لیکن گہرا داخلی رنگ، ان کے تجربۂ عشق اور تجربۂ حیات کا دبدبہ اور طنطنہ یہ ایسی باتیں نہیں جن پر لفاظی اور انشا پروازی اور زورِ بیان کے ذریعے قابو پایا جا سکے۔ ‘‘

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

تم سے بڑھ کر تو مجھے موجِ فنا چاہتی ہے ۔۔ بنام عرفان صدیقی مرحوم

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سعود عثمانی (لاہور)

 

غالباً انیس سو پچانوے یا چھیانوے کی بات ہو گی جب نامور ادبی پرچے۔ سیارہ۔ کے تازہ شمارے میں معروف باکمال ادیب و محقق جناب تحسین فراقی کا ایک مضمون شائع ہوا جو در اصل ایک مختصر سے اظہاریے کے ساتھ جناب عرفان صدیقی کی دو کتب۔ ۔ ۔ شب درمیاں اور سات سماوات۔ کا ایک انتخاب تھا۔ فراقی صاحب ان دنوں اور اس سے کچھ قبل ہندوستان کا سفر کئی بار کر چکے تھے اور جناب عرفان صدیقی صاحب کے شعری مقام و مرتبے سے آگاہ تھے۔

سچ یہ ہے کہ شعر و ادب سے گہری وابستگی اور خود شعر کہنے کے باوجود میری لاعلمی کا یہ حال تھا کہ میں عرفان صاحب کے نام اور کام سے زیادہ واقف نہ تھا ہاں اتنا ضرور تھا کہ نامور شاعر اور میرے قریبی رشتے دار جناب انور مسعود صاحب نے شاید انیس سو چوراسی یا پچاسی میں ( ممکن ہے اس سے بھی پہلے ) ایک خاندانی تقریب میں مجھے عرفان صاحب کا یہ مصرعہ سنایا تھا

اور پازیب کی جھنکار سے زینہ روشن

انور مسعود صاحب کو پہلا مصرعہ یاد نہیں تھا لہذا ہم یہ مصرعہ پڑھ پڑھ کر ہی اس کا لطف اٹھاتے رہے۔ تحسین فراقی صاحب کے اسی مضمون نے عرفان صدیقی کا تعارف مجھ سے کروایا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ ہندوستان کے شعراء کی غزلیں اور متفرق اشعار مجھ تک نہ پہنچتے رہے ہوں لیکن ان شعروں کی غالب تعداد وہی تھی جو مشاعرے کے شعر سمجھے جاتے تھے اور جس میں وہ وسعت، عمق اور پرت در پرت معانی نہیں تھے جس کا چسکہ مجھے پڑ چکا تھا۔ ایسے میں عرفان صاحب کے شعر پڑھتے ہی میں ان کا اسیر ہو گیا۔ یہ آواز جو میرے لیے اجنبی ہونے کے باوجود بے حد جانی پہچانی اور مانوس تھی بالکل ایسے ہی لگی جیسے کسی خوبصورت مگر نئے دیس میں پہلی بار ہونے والی بارش جو بہت اجنبی اور بہت آشنا ہو۔

یہ اشعار اسی وقت سے میرے حافظے کا حصہ بن گئے۔

اگلے دن کیا ہونے والا تھا کہ اب تک یاد ہے

انتظارِ صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا

یک بیک ہر روشنی کا ڈوب جانا اور پھر

آسماں پر اک طلسمِ سیم و زر کا جاگنا

یہ کس نے دست بریدہ کی فصل بوئی تھی

تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے

خدا کرے صفِ سردادگاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمہیں کیا خبر یا اخی

کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی

زرد پتوں کے ٹھنڈے بدن اپنے ہاتھوں میں لے کر ہوا نے شجر سے کہا

اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر یا اخی

(یا اخی کی اچھوتی ردیف میں یہ غزل ان کا ابتدائی تعارف بنی اور لوگ اس کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ اس ردیف میں بعد میں کئی دوستوں نے طبع آزمائی کی لیکن سچ یہی ہے کہ عرفان صدیقی کی غزل اتنی بلند ہے کہ بعد کی کوئی غزل اسے نہیں پہنچتی )

یہ سرخ پھول سا کیا کھل رہا ہے نیزے پر

یہ کیا پرندہ ہے شاخِ شجر پہ وارا ہوا

ابھی زمیں پہ نشاں تھے عذابِ رفتہ کے

کہ پھر فلک پہ ہویدا وہی ستارہ ہوا

شاخ کے بعد زمیں سے بھی جدا ہونا ہے

برگِ افتادہ ابھی رقصِ ہوا ہونا ہے

ہم اپنے ذہن کی آب و ہوا میں زندہ ہیں

عجب درخت ہیں دشتِ بلا میں زندہ ہیں

ہوائے کوفۂ نامہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا

ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

ہم نے مدت سے الٹ رکھا ہے کاسہ اپنا

دستِ دادار، ترے درہم و دینار پہ خاک

رات اک شہر نے تازہ کیے منظر اپنے

نیند آنکھوں سے اڑی کھول کے شہپر اپنے

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک

مسندِ خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے

مسندِ خاک پہ بیٹھے ہوئے اس سلطان کا یہ انتخاب میں نے بار بار پڑھا۔ فراقی صاحب کو اس کی داد دی اور عرفان صاحب کے بارے میں مزید معلومات کی کوششیں کیں۔ کچھ تہذیبی، کچھ معاشرتی اور کچھ ذہنی مماثلتیں ایسی تھیں کہ ان کے بارے میں زیادہ جاننے کو جی چاہتا تھا اور مسئلہ یہ تھا کہ ان کے بارے میں لوگ زیادہ جانتے نہیں تھے اور کتابیں ملنا تو گویا نا ممکن تھا۔ کسی جگہ سے سات سماوات کی فوٹو کاپی ہاتھ لگی اور ہم چند دوستوں نے مل کر اس کا لطف اٹھایا۔ یہ ایک نشہ تھا جس میں بھیگا رہنا اچھا لگتا تھا۔ اس زمانے میں اوری انٹل کالج کے عزیز دوستوں، معین نظامی۔ شعیب احمد۔ مرغوب طاہر وغیرہ سے ملاقاتوں میں عرفان صدیقی کی شاعری مرکزی موضوعات میں سے ہوا کرتی تھی اور ہم دوست ایک نشے، ایک سرشاری میں اسے جرعہ جرعہ، گھونٹ گھونٹ پیا کرتے تھے۔

انیس سو ستانوے کے آخر میں میرا ہندوستان جانے کا پروگرام بنا۔ اس سے پہلے میرا ہندوستان جانا نہیں ہوا تھا۔ اور سچ یہ ہے کہ عزیزوں سے ملنے، گھومنے پھرنے کے ساتھ ایک بڑا محرک یہ تھا کہ عرفان صاحب سے بھی ملاقات کی جائے گی۔ ان دنوں بھی ہندوستان کا ویزا عام طور پر تین شہروں سے زیادہ کا نہیں ملتا تھا میں نے بھی تین بنیادی شہروں کا انتخاب کرنے کے بعد محض خانہ پری کے لیے مزید نو دس شہروں کے نام بغیر سوچے سمجھے لکھ دیے تھے کہ ویزا تو ملے گا نہیں بس فارم مکمل ہو جائے۔ لیکن ویزا آفیسر کی مہربانی ایسی ہوئی کہ وہ میرے لکھے ہوئے ہر شہر پر میرے روبرو صاد کرتا گیا صرف آگرہ پر یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ وہ تو فوجی چھاؤنی ہے۔ میں نے بے ساختہ کہا آگرہ ہی تو ہندوستان کا تاج ہے۔ جانے کیا سوچ کر اس نے آگرہ پر بھی صاد کر دیا اور یوں یہ مرحلہ اس کی مہربانی سے میرے حسبِ منشاء پورا ہو گیا۔

جانے سے قبل جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے مجلس ترقی ادب کے دفتر حاضر ہوا تو انہوں نے یہ کام میرے ذمے لگایا کہ عرفان صدیقی صاحب کی غزلیات فنون کے لیے حاصل کی جائیں۔ ندیم صاحب نے کہا کہ عرفان صاحب اب تک فنون میں نہیں چھپے ہیں اور میری خواہش ہے کہ وہ اپنی تازہ چار غزلیات رسالے کے لیے عنایت کریں۔ میرے پاس عرفان صاحب کا لکھنؤ کا فون نمبر تھا جو میں نے ندیم صاحب کو پیش کر دیا۔ ندیم صاحب کی ایک غیر معمولی بات جو یاد کر کے کر آج بھی ان کی بڑائی محسوس ہوتی ہے ، یہ تھی کہ انہوں نے پندرہ خطوط مختلف شہروں کی مختلف شخصیات کے نام علیحدہ علیحدہ اپنے ہاتھ سے مجھے لکھ کر دئیے تاکہ ان سے میرا تعارف ہو سکے۔ وہ ایک ہی خط کی فوٹو کاپی کروا کر یا ٹائپ کروا کر اس کی نقول مجھے دے سکتے تھے لیکن انہوں نے ہر خط علیحدہ اپنے ہاتھ سے تحریر کیا۔ اور میرے لیے بہت تعریفی جملے ان میں لکھے۔ ایک نو وارد شاعر کے لیے یہ ان کی شفقت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔

ایک خط عرفان صاحب کے نام بھی تھا۔ میں نے دہلی پہنچ کر عرفان صاحب کو فون کیا تو انہوں نے شناسائی کا اس وجہ سے بھی اظہار کیا کہ میں اپنی تازہ کتاب۔ قوس انہیں ڈاک سے بھجوا چکا تھا اور اس لیے بھی کہ ندیم صاحب نے ان سے فون پر بات کر لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کا منتظر ہوں، جب بھی پروگرام طے ہو مجھے اطلاع دیجیے اور میرے گھر پر ہی قیام کیجیے۔ میں نے اس محبت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور عرض کیا کہ صرف یہ زحمت کر دیجیے کہ اپنے گھر کے قریب کسی مناسب ہوٹل میں انتظام کروا دیجیے۔ نیز مجھے لکھنؤ میں پولیس رپورٹ کے لیے ایک مقامی پتہ درکار ہے۔ کیا میں آپ کا پتہ دے سکتا ہوں۔ انہوں نے اظہار رضامندی کیا اور اس طرح فون پر بات ختم ہوئی۔ لیکن بات ختم کہاں ہوئی عظمت منزل، گولہ گنج، لکھنؤ کے الفاظ اس طرح ذہن نشین ہوئے کہ اب تک نہیں بھول سکا۔

چوبیس دسمبر انیس سو ستانوے کو لکھنؤ جانا ہوا۔ میرے ساتھ میرے ہندوستانی عزیز فرحان تھے۔ دھند اور سردی اتنی تھی کہ ٹرین بس رینگتی ہوئی چلتی رہی۔ خدا خدا کر کے علی الصبح ٹرین پہنچی۔ لکھنؤ میں ہوٹل میں سامان رکھنے کے بعد دس بجے صبح کے قریب عرفان صاحب تشریف لائے اور ان سے پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ایک مختصر الجثہ، گہرے سانولے، کم آمیز، کم گو لیکن محبت بھرے شخص سے معانقہ ہوا جس کے ہنر کے سامنے بڑے بڑے شعراء اور ادیب سر بخم تھے اور جس کا مصرعہ سینوں سے دل نکال کر لے جاتا تھا۔

ایک تلخ یاد اس سلسلے کی یہ ہے کہ مختصر سی ملاقات کے بعد ہم سی آئی ڈی آفس لکھنؤ میں رپورٹ کروانے پہنچے۔ وہاں ایک نہایت ہی گھٹیا اہل کار سے سابقہ پڑا جو ہر طرح تنگ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ پانچ منٹ کے کام کے لیے اس نے ہمیں گھنٹوں بٹھائے رکھا۔ اور چونکہ عرفان صدیقی صاحب کا پتہ لکھا ہوا تھا، ان کے گھر بھی بار بار فون کر کے انہیں پریشان کرتا رہا۔ عرفان صاحب گھر پر نہیں تھے اس لیے ان سے بات ممکن نہ تھی۔ وہ ان کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ کے انداز میں سوال جواب کرتا رہا اور میں بے حد شرمندہ ہوتا رہا کہ ہماری وجہ سے عرفان صاحب کو بے وجہ زحمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ بالآخر کئی گھنٹوں کے بعد اس مصیبت سے جان چھوٹی اور ہم ہوٹل پہنچے۔ عرفان صاحب نے ہم سے اس تکلیف پر معذرت کی حالانکہ معذرت تو مجھے کرنی تھی۔ اصل بات جو مجھے سمجھ میں آئی یہ تھی کہ عرفان صاحب محکمہ اطلاعات میں کام کرتے تھے۔ اس ادارے کی نیم حساس نوعیت کے پیش نظر، نیز اہل کار کے اپنے متعصبانہ رویے نے مل کر یہ مشکل پیدا کی۔ مجھے اب تک قلق ہے کہ عرفان صاحب کو اس دن ہماری وجہ سے زحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

عرفان صاحب بہت کشادہ دلی، اپنائیت اور محبت سے ملے۔ وہ فطرتاً کم آمیز اور کم گو تھے لیکن ان کی طبیعت مجھ سے کھل گئی۔ ہم غالباً ۔ دو دن اور دو رات لکھنؤ میں رہے۔ اور ہم پاکستان اور ہندوستان کے شعراء پر بات کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ پاکستانی شعراء کی اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے اور بدلتے رجحانات بھی ان کے سامنے تھے۔ اگرچہ انہوں نے براہ راست اس سلسلے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن وہ ہندوستان کے شعری منظر نامے سے قدرے شاکی نظر آئے اور یہ بات بھی محسوس ہوئی کہ وہ شعراء کی شعری ترجیحات سے بھی اختلاف رکھتے ہیں۔ صحبت ناجنس برا عذاب ہے اور یہ عذاب اس صورت میں دگنا ہو جاتا ہے جب یہ شاعروں اور قلم کاروں کے یک جنس اور ہم قلم قبیلے کے اندر سے بر آمد ہوتا ہو۔ عرفان صاحب بہت اکے لیے نظر آئے۔ ایسے منفرد و یکتا شخص کو اکیلا ہونا ہی تھا اور شاید یہی ان کی غزل کوسیراب کرنے کا ایک قدرتی چشمہ بھی تھا۔

اگلے دن وہ ہمیں باکمال ادیب جناب پروفیسر نیر مسعود صاحب کے یہاں لے گئے۔ عرفان صاحب سے نیر مسعود صاحب کا بہت گہرا تعلق تھا اور دونوں باکمال علم، وضعداری اور ادبی ترفع میں اپنی مثال آپ تھے، ہم نے اصرار کے ساتھ عرفان صاحب سے ان کی کئی غزلیں سنیں۔ جن میں روشن ردیف کے ساتھ وہ کمال کی غزل مسلسل بھی تھی جو نیا قصیدہ کے نام سے کتاب میں شامل ہے

موجِ خوں نیلے سمندر کا سفر کرتی ہوئی

دجلہ روشن کبھی اس رنگ سے گنگا روشن

کانپتے ہاتھوں میں دل دار دعاؤں کے چراغ

اور اشکوں کے ستاروں سے مصلیٰ روشن

شب کا لوبان سلگتا ہوا دالانوں میں

خانقاہوں میں خیالوں کا سویرا روشن

چھت پہ مہتاب نکلتا ہوا سرگوشی کا

اور پازیب کی جھنکار سے زینہ روشن

آؤ اب بند کریں کالی کتابیں ساری

رحل پر ہونے کو ہے سبز صحیفہ روشن

حاصلِ سیر بے دلاں، کون و مکاں، نہیں نہیں

کوئے حرم نہیں نہیں، شہرِ بتاں نہیں نہیں

درد کی کیا بساط ہے جس پہ یہ پیچ و تاب ہو

دیکھ عزیز صبر صبر، دیکھ میاں، نہیں نہیں

وہ تازہ غزل بھی ان سے پہلی بار وہیں سننے کا اتفاق ہوا جو۔ عشق نامہ میں شامل ہے

آؤ تمہاری نذر کریں ہم ایک چراغ حکایت کا

جب تک جاگو روشن رکھنا، نیند آئے تو بجھا دینا

سینے کے ویرانے میں یہ خوشبو ایک کرامت ہے

ورنہ اتنا سہل نہیں تھا راکھ میں پھول کھلا دینا

خواجہ خضر سنو ہم کب سے اس بستی میں بھٹکتے ہیں

تم کو اگر تکلیف نہ ہو تو جنگل تک پہنچا دینا

اس کے علاوہ بھی کئی ایک غزلیں عرفان صاحب سے فرمائش کر کے سنی گئیں۔ ان دونوں سخن شناس سخنوروں کے سامنے اپنا کلام سنانے کی ہمت نہیں تھی لیکن ان کے حکم کی تعمیل کی اور بہت سے یادگار تعریفی جملے ان کی طرف سے عنایت ہوئے۔ اس موقع پر میں نے اپنے کیمرے سے کئی تصویریں کھینچیں جو نیر مسعود صاحب کی بیٹھک اور آنگن کے درخت تلے میں اتاری گئیں۔ افسوس کہ ان میں سے صرف ایک تصویر جو عرفان صاحب کی ہے اور بیٹھک میں اتاری گئی تھی، محفوظ رہ سکی ہے۔ اور ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔ پچیس دسمبر ۱۹۹۷ کو کھینچی جانے والی یہ تصویر ایک یادگار کے طور پر اسی رسالے میں شامل کی جا رہی ہے۔

دو دن عرفان صاحب کے ساتھ خوب گھومنا پھرنا رہا۔ ۔ لکھنؤ کے مشہور کباب والے کے یہاں ان کی دعوت کا شرف حاصل ہوا۔ لکھنؤ کی خاص چکن کی کڑھائی کے مردانہ اور زنانہ کرتے مشہور ہیں۔ عرفان صاحب کے ایک واقف کی دکان سے ان کی ہمراہی میں ان کے مشورے اور کچھ صورتوں میں ان کی پسند سے خریداری کی گئی۔ ان کی تازہ کتاب عشق نامہ انہی دنوں چھپ کر آئی تھی۔ انہوں نے اپنی خوبصورت تحریر اور دستخط کے ساتھ یہ کتاب مجھے بھی عطا کی۔ ان کی اس تحریر کا عکس بھی شامل کر رہا ہوں۔

عرفان صاحب نے شاید چھ کتب احمد ندیم قاسمی، تحسین فراقی، شہزاد احمد، صادق نسیم صاحب مرحوم وغیرہ کے لیے مجھے بطور امانت دیں۔ فنون کے لیے انہوں نے مجھے چار غزلیں بھی عنایت کیں جو واپسی پر ندیم صاحب کے سپرد کر دی گئیں اور بعد میں فنون کے اوراق کی زینت بنیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کا سبب میں بھی تھا۔ لکھنؤ کے انہی پراں شب و روز میں فرصت پاتے ہوئے میں ان سے مکالمے کی اپنی دیرینہ تشنگی مٹاتا، گاہے گاہے اپنے بے ربط سوال ان کے سامنے پیش کرتا اور ان سے براہ راست کلام سننے کا لطف اٹھاتا رہا۔ اس ملاقات کی یادگار وہ غیر مطبوعہ انٹرویو بھی ہے جو میں نے مسلسل ایک سے زائد نشستوں میں ان سے کیا اور ارادہ تھا کہ اسے صاف کر کے پاکستان میں کہیں چھپنے دے دوں گا۔ یہ انٹرویو غیر مطبوعہ، نادر، نایاب، تفصیلی، اور معاصر شعراء پر ان کی آراء کی منفرد خصوصیات تو رکھتا ہی تھا لیکن افسوس کہ اب اس میں گم گشتگی کا وصف بھی اس طرح شامل ہو گیا ہے کہ باوجود تلاش کے اپنے کاغذات میں کہیں مل نہیں پا رہا۔

اس سفر میں دہلی، لکھنؤ، آگرہ، متھرا، ممبئی، دیوبند، سہارن پور، تھانہ بھون۔ نانوتہ۔ جلال آباد، گنگوہ غرض بہت سے چھوٹے بڑے شہروں میں جانا ہوا اور بہت سے علمائے کرام، مشاہیر علم و ادب اور ہندوستان کے نمائندہ شعراء سے ملاقات ہوئی۔ کئی ایک مشاعرے پڑھے، انٹرویو دیے اور ایک مجموعی صورت حال کا اندازہ ہوا۔ کئی جگہ عرفان صاحب کا تذکرہ بھی رہا۔ مجھے یہی محسوس ہوا کہ اس بڑے غزل گو کی قدر اس طرح سے اہل ادب میں موجود نہیں ہے جس کے وہ بجا طور پر حقدار تھے۔ کئی ایک شاعروں نے تو باقاعدہ منفی رائے کا اظہار بھی کیا۔ جس کی وجہ بظاہر یہی تھی کہ عرفان صاحب کی تہذیبی اور اسلامی اساس ان کی غزل کے رگ و ریشے میں پیوست تھی۔ ایک معروف شاعر نے طنزاً یہ بھی کہا کہ عرفان صاحب تو پاکستانی غزل لکھتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ مشاعرے کے مخصوص پس منظر رکھنے والے شعراء کے نزدیک یہ کام سرے سے اہمیت ہی نہیں رکھتا تھا۔

عرفان صدیقی سے دوسری ملاقات دو سال کے بعد غالباً انیس سو ننانوے میں اسلام آباد میں ہوئی جہاں وہ ڈاکٹر توصیف تبسم اور فیصل عجمی کی دعوت پر پر چند دن کے لیے تشریف لائے اور فیصل نے از راہ محبت اور عرفان صاحب سے میرے تعلق کے پیش نظر مجھے بھی اسلام آباد بلوا لیا۔ انہی دنوں جناب ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کے زیر اہتمام عرفان صاحب کی اس وقت تک کی کلیات دریا شائع ہوئی تھی۔ یہ بہت یادگار شب و روز تھے۔ جس گھر میں قیام تھا اس میں عرفان صاحب کا اور میرا کمرہ ساتھ ساتھ تھا اور تمام وقت گپ شپ اور شاعری کے نشے میں گزرتا تھا۔ ۔ کیا کیا محفلیں بپا ہوئیں۔ عرفان صدیقی، جناب ڈاکٹر توصیف تبسم جو عرفان صاحب کے قریبی رشتے دار بھی ہیں، ڈاکٹر ریاض مجید، اکٹر ریاض احمد ریاض۔ ثمینہ راجہ مرحومہ جو ان دنوں رسالہ آثار سے منسلک تھیں۔ فیصل عجمی اور سعود عثمانی۔ مکمل فراغت کے ساتھ یہ تین چار دن ان اعلیٰ تخلیق کاروں کے ساتھ اس طرح گزرے کہ ویسی سرشاری شاید ہی اب کبھی نصیب ہو۔ محفلوں کے ساتھ ساتھ فیصل عجمی کے اسی بنگلے پر ایک بڑے مشاعرے کا بھی انتظام کیا گیا جس میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے کم و بیش تمام نامور لوگ شریک تھے۔ صادق نسیم صاحب مرحوم مجھے خاص طور پر اس لیے یاد رہ گئے کہ ان سے پہلی ملاقات یہیں ہوئی۔ کیا یادگار مشاعرہ تھا۔ نظامت توصیف تبسم صاحب نے کی اور عرفان صاحب سے بطور مہمان خصوصی بے شمار نئی اور پرانی غزلیں سنی گئیں۔ یہ مبہوت کن کلام تا دیر جاری رہا۔ اور ایسا لگتا تھا کہ ہم کسی اور زمیں آسمان کسی اور جہان میں ہیں۔ یہ مشاعرہ معلوم نہیں ریکارڈ ہوا یا نہیں۔ غالباً نہیں، لیکن مجھ جیسے عرفان صدیقی کے مداح کی سماعت میں آج بھی یہ شعر گونجتے ہیں

میں طلبگار بھی تھا کام کی آسانی کا

حکم ہے مجھ کو خرابوں کی نگہ بانی کا

اس ہوس میں کہ مرے ہاتھ نہ خالی رہ جائیں

کتنا نقصان ہوا ہے مری پیشانی کا

جسم میں جیسے لہو درویش گرداں کی طرح

لحظہ لحظہ پائے کوبی جا بجا کرتا تھا رات

روشنی کی ایک سعیِ رائے گاں کے باوجود

اک خلا آنکھوں سے منظر کو جدا کرتا تھا رات

کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب

سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں

ذرا سی بات ہے دل میں اگر بیاں ہو جائے

تمام مسئلے اظہارِ حال ہی کے تو ہیں

چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے

تم سے بڑھ کر تو مجھے موجِ فنا چاہتی ہے

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

میں جب تازہ تر تھا تو اکثر تصور میں عکس رخ دیگراں کھینچتا تھا

شبیہیں بناتا تھا اور ان کے اطراف نقش و نگار گماں کھینچتا تھا

عجب سلسلہ تھا وہ جنگ آزما خاک پر جاں بلب چھوڑ جاتے تھے مجھ کو

پسِ معرکہ ایک دستِ کرم میرے سینے سے نوک سناں کھینچتا تھا

تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں

سامعہ لامسہ شامہ ذائقہ باصرہ سب مرے راز دانوں میں ہیں

ناقۂ حسن کی ہم رکابی کہاں، خیمۂ ناز میں باریابی کہاں

ہم تو اے بانوئے کشورِ دلبری پاسداروں میں ہیں۔ ساربانوں میں ہیں

اس مشاعرے ہی میں نہیں بلکہ عرفان صدیقی صاحب کے پورے قیام اسلام آباد کے دوران جناب افتخار عارف جو ان دنوں اسلام آباد ہی میں تھے، ان سے ملاقات کے لیے نہیں آئے اور نہ ان سے کوئی رابطہ کیا۔ خود افتخار صاحب کا تعلق بھی لکھنؤ ہی سے ہے۔ یہ گریز جس کے اسباب مجھے معلوم نہیں، عرفان صدیقی پر بہت گراں گزرا۔ یہ بات مجھے اس لیے علم ہے کہ انہوں نے کئی بار ناراضگی آمیز تاسف کا اظہار مجھ سے بھی کیا اور مختلف افراد سے بھی۔ تین دن اکٹھے گزارنے کے بعد مجھے لاہور جانا تھا اور عرفان صاحب کو کراچی۔ سو بادل نخواستہ جدا ہوئے۔ میں نے پوچھا عرفان صاحب اب تو آپ ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اب تو جلد جلد پاکستان آیا کیجیے تو جواب میں جو شعر انہوں نے پڑھا وہ انہی کے لہجے میں اب بھی کانوں میں گونج رہا ہے

کیا سبب ہے کہ فلک چھو نہیں پاتے ہم لوگ

اب تو وہ مسئلۂ بے پر و بالی بھی نہیں

اور یہ شعر سنا ہے تو اسی غزل کا ایک اور شعر بھی سنتے جائیے

سرِ شوریدہ کو تہذیب سکھا بیٹھا ہوں

ورنہ دیوار مجھے روکنے والی بھی نہیں

یہ ان سے آخری ملاقات تھی۔ ظاہر ہے اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے۔ اس وقت تو یہی لگتا تھا کہ سال دو سال کے وقفے کے بعد پھر ملیں گے۔ لیکن پھر جب ملی تو ان کی علالت کی خبر اور پھر اس کے بعد وہ خبر جو نہ ہی ملی ہوتی تو اچھا تھا۔

بعض لوگوں سے ملاقاتیں کم اور تعلق زیادہ ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی سے میرا تعلق ایسا ہی تھا۔ لیکن ان سے زیادہ میرا تعلق ان کی غزل سے تھا جس سے میری ملاقاتیں بھی ان گنت ہیں۔ یہ خالص تعلق کی وہ قسم ہے جس میں زمان، مکان اور زبان بھی کے سہ ابعاد بھی اپنی جہتیں کھونے لگتے ہیں اوربس ایک بولنے والا اور ایک سننے والا گونجتے رہ جاتے ہیں۔

ا سلامی تہذیبی روایات، فارسی تراکیب، امت مسلمہ کی مجموعی صورت حال اور ہندوستان میں مسلمانوں کے خصوصی مسائل۔ عرفان کی غزل میں اس ہنر مندی سے یہ سب کچھ سمویا ہوا ہے کہ غزل بیک وقت آگے بھی بڑھتی رہتی ہے اور پیچھے کا سفر بھی کرتی جاتی ہے۔ ہندوستان کی تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی پاسداری یا عرفان صاحب کے الفاظ میں خرابوں کی نگہبانی کا کام دیکھیں تو یہ بیک وقت اتنا کٹھن اور اتنا اہم کام ہے کہ اس کا بیڑا اٹھانا بھی ہر کس و ناکس کے بس کا نہیں۔ن کی غزل میں ایک خاموش تہذیبی اور تاریخی شعور رہ رہ کر اسی طرح بولتا ہے جیسے ایک گہرے سناٹے میں بولنے والے کی آواز میں اس کے اطراف کا سکوت بھی شامل ہو جائے۔

عرفان صاحب کی قدر و منزلت اہل نظر اچھی طرح سمجھتے تھے اور میں نے بارہا ان شاعروں سے بھی ان کے لیے ستائشی کلمات سنے جو عام طور پر معاصر شعراء کی تعریف سے گریز بھی کرتے تھے اور جن سے عرفان صاحب کی دوستی بھی نہیں تھی کہ سوچا جائے کہ انہوں نے حق دوستی نبھایا ہے۔ ایک دل چسپ واقعہ مجھے یاد ہے کہ عرفان صاحب کے انتقال کے بعد ۲۔ ۔ ۶ میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں اودے پور، راجستھان جانا ہوا۔ پاکستان سے احمد فراز، امجد اسلام امجد، سعود عثمانی، عنبرین حسیب عنبر۔ اور ہندوستان سے شہریار، وسیم بریلوی، منور رعنا، منصور عثمانی، عازم گروندر  کوہلی اور دیگر تمام نمائندہ شعراء شریک تھے۔ اودے پور میں پاکستانی شعراء، گروندر  کوہلی اور جناب شہریار کو جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا وہ معیار میں تو اچھا تھا لیکن سختی سے سبزی خور مینو پر کاربند تھا۔ لہذا قیام کرتے ہی گوشت تو درکنار انڈے تک سے ہمارا جبری پرہیز شروع ہو گیا۔ یہ صورت حال ویسے تو سب کے لیے ہی غیر متوقع بلکہ ناگوار تھی لیکن فراز صاحب اکتاہٹ اور غصے کی جس ملی جلی کیفیت میں تھے اس کے لیے موزوں لفظ ابھی مجھے نہیں مل رہا۔ دو تین دن قیام میں ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانوں نیز چائے پر ملاقات اکٹھے ہوتی تھی۔ اور اس میں منتظمین اور گوشت دونوں کی مسلسل غیر حاضری پر تبصرہ کیا جاتا تھا۔ جناب شہریار اور احمد فراز موجود لوگوں میں سب سے زیادہ سینیراور سب سے زیادہ مردم بیزار تھے اور اول الذکر حیثیت کا احساس ا نہیں بھی بخوبی تھا۔ چنانچہ کوئی نہ کوئی جملہ یا موضوعِ بحث برے وقت کی طرح اچانک آن پڑتا تھا۔ ایسے جملوں کے بعد مکمل سکوت، احترام اور توجہ کے ساتھ سبزیاں کھائی جاتی تھیں۔

ایک دن کسی کھانے پر ایسا ہوا کہ ہندوستان کے شعراء اور شاعری کا ذکر نکلا۔ میرے منہ سے اچانک نکل گیا کہ ہندوستان میں تو ایک ہی شاعر تھا اور وہ تھا عرفان صدیقی۔ جملہ کہتے ہی مجھے احساس ہو گیا کہ مجھے شہریار کی موجودگی میں یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ میں نے سوچا اب میری کمبختی آئی۔ آج میں تو کیا میری سبزیاں بھی ذبح ہو جائیں گی۔ لیکن میری خوش قسمتی کہ جملہ سنتے ہی میرے بالکل سامنے بیٹھے ہوئے فراز صاحب نے کہا بالکل درست۔ انڈیا میں ایک ہی شاعر تھا اور وہ تھا عرفان۔ شہر یار تو جیسے تلملا گئے۔ انہوں نے پاکستانی شاعروں اور پاکستانی شاعری پر طویل اور بلیغ تبصرے کیے جس میں سے غصے کو نکال دیا جائے تو کوئی خاص بات نہیں بچتی تھی۔ فراز صاحب بھی ان سے بھڑ گئے۔ میرے لیے خوشی کی بات یہ تھی کہ میری طرف سے شہریار کی توجہ ہٹ گئی لیکن بات عرفان صاحب پر بھی نہیں ہوئی بلکہ عمومی طور پر بات ہوتی رہی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس قیام کے دوران یہ واحد مکالمہ تھا جس میں فراز صاحب نے ہم میں سے کسی کی بات کی تائید کی اور ہم ان کی حمایت میں بولے۔

میرے لیے اس واقعے میں دونوں رویے غیر متوقع تھے۔ فراز صاحب کا عرفان صدیقی کے لیے اس طرح بات کرنا اور شہریار کا عرفان صاحب کے لیے اس طرح بات نہ کرنا۔ یہ ان دونوں ناموروں کا کمال تھا لیکن اصل کمال عرفان صدیقی کی غزل کا ہی تھا۔ سچ یہ ہے کہ مجھے فراز صاحب کی بہت قدر ہوئی اور اس بات کی ایک بار پھر تصدیق ہوئی کہ جس کی شاعری کو وہ دل سے مانتے تھے اس کا اظہار وہ برملا کرتے تھے حالانکہ عرفان صاحب سے ان کا کوئی دوستی کا تعلق نہیں تھا۔

میرے خیال میں عرفان صدیقی ہندوستان سے وہ واحد شاعر تھے جن کی غزل کو پاکستان میں نہ صرف سب سے زیادہ سراہا گیا بلکہ ان کی زمینوں میں غزلیں بھی کہی گئیں اور ان کے اسلوب کا بھی اتباع کیا گیا۔ یہاں مراد ایک مجموعی تاثر ہے۔ انفرادی طور پر عرفان صاحب کی کتابوں میں بھی درجات موجود ہیں اور ان کی غزلوں میں بھی۔ ان کی نظم بھی یہاں زیرِ بحث نہیں ہے کہ ان کی بنیادی شناخت غزل ہی تھی۔ مجھے بہت بار یہ محسوس ہوا کہ عرفان صاحب کے گھرانے کے مخصوص مذہبی پس منظر اور ثقافتی رخ نے ان کی غزل کی اساس کا کام کیا ہے اس پر مختلف علوم، زبانوں، تہذیبوں، پاک و ہند کے مخصوص حالات اور اس دور میں تیزی سے بدلتے زمیں آسمان کے قریبی مطالعے اور مشاہدے نے ان کا اپنا اور ان کی غزل کا وہ مزاج متعین کیا جو ہم سب کے دلوں کے قریب تھا۔ ان کی غزل ایک تہذیب کی باز یافت ہے اور یہ تہذیب ان کی غزل کی دریافت۔ا اور یہ دونوں مل کر ان کے شعری مزاج کی اس طرح تشکیل کرتے ہیں جیسے رنگ برنگ مشروب اس طرح ملا دئے جائیں کہ ایک ہی رنگ نظر آئے اور انہیں علیحدہ علیحدہ کرنا ممکن نہ رہے۔

ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں

کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے

عرفان صاحب ! آپ جانتے ہیں کہ بہت کم ہوتا ہے کہ بات تو ایک شخص کرے لیکن بہت سی آوازیں اس کی آواز میں بولتی ہوں۔ آپ کی آواز چپ ہوئی سو ہوئی لیکن اب ہم ان آوازوں کو بھی شاید کبھی نہیں سن پائیں گے۔ سو دکھ ایک شخص کا نہیں ایک پورے قبیلے کا ہے۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان ذات

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منیر ہمدمؔ (دہلی)

 

اقبال اشہر نے فون پر مجھ سے کہا۔ منیر بھائی آپ کو عرفان صدیقی صاحب کے لئے کچھ لکھنا ہے۔ تو میری آنکھوں کے سامنے بے شمار ستارے جھلملانے لگے، عرفان صدیقی کے اشعار کی طرح۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک روز عظیم ؔ اختر صاحب نے فون پر مجھ سے کہا۔ منیر عرفان آئے ہوئے ہیں تم رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھانا۔ عرفان سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ رات میں (منیر ہمدمؔ ) اور اقبال اشہرؔ عظیم بھائی کے گھر گئے۔ عرفان بھائی نے ہم دونوں کا کلام سنا۔ بہت داد اور دعاؤں سے نوازا۔ بعد میں ہم نے عرفانؔ بھائی سے ان کا کلام سنا۔ وہ ملاقات اور اس کے بعد کی کئی ملاقاتیں آج بھی ہمارے ذہن میں تازہ ہیں۔

اللہ کے کچھ ہی ایسے بندے ہوتے ہیں جنہیں اپنی ذات اور کائنات کا عرفان ہوتا ہے۔ عرفان بھائی انہی میں سے ایک تھے۔ دیکھنے میں دبلے پتلے عرفان بھائی۔ معلوم نہیں۔ ۔ ۔ کتنی دنیاؤں کا بوجھ اُٹھائے گھوم رہے تھے۔ ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ۔ آنکھوں میں چمکتے ہوئے لاتعداد سیارے۔ عرفان بھائی۔ اب اس منزل میں تھے جہاں ان کے لئے دین، دنیا، مذہب، سماجدکھ سکھ۔ سب برابر تھے۔ وہ روح، جسم، عشق، بدن کی قید سے بہت آگے نکل گئے تھے، تبھی تو ان کے ایک ایک لفظ سے ہزار، ہزار معنی دریافت ہوتے ہیں ! تب۔ ۔ ۔ آپ اور میں۔ ۔ ۔ حیرتوں کے گہرے سمندروں میں ڈوب ڈوب جاتے ہیں۔ ان کی خوبصورت شاعری ہمارے لئے خدا کا ایک نایاب تحفہ ہے۔

عرفان بھائی کا اسلوب، لفظوں کو برتنے کاسلیقہ بہت جدا تھا۔ لہجے کی انفرادیت کے لئے مطلع پیش ہے

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لئے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لئے

عرفانؔ صدیقی جتنے عظیم شاعر تھے اتنے ہی شاندار اور با وقار انسان بھی تھے۔ عرفانؔ بھائی سے ہمارا رشتہ آنکھ اور آنسو کا تھا۔ جوتا عمر قائم رہے گا۔ جب کبھی عرفان بھائی کی شاعری یا شخصیت کی بات ہوتی ہے تو۔ ہماری آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں۔ جب بھی ان کا کوئی شعر پڑھتے یا سنتے ہیں تو وہ روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا عرفانؔ صدیقی احساس، خلوص، صداقت اور جذبے کے شاعر تھے، جسے ہم محسوس تو کر سکتے ہیں مگر چھو نہیں سکے۔

(2015)

٭٭٭

تشکر:

عزیز نبیل، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید