FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

شاعراتِ ارضِ پاک

 

(حصہ ہفتم)

(تنقیدی مضامین و منتخب کلام)

 

                شبیر ناقِدؔ

 

 

 

 

 

انتساب

 

اُن عنادلِ شعر و ادب کے نام جن کی زندگی

فنی گل ریزیوں میں بسر ہو گئی

 

 

 

والہانہ پیش رفت

 

                ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ(تونسہ شریف)

 

تمام تر تعریفیں اُسی ذات با برکات کے لیے ہیں جس نے بے شمار مخلوقات تخلیق فرمائیں اور اُن میں حضرت انسان کو اعزاز و افتخار سے نوازا کہ وہ زمین میں خلیفہ یعنی نائب السلطنت قرار پایا اور اسی قدر ترفع سے نوازا گیا کہ خدا کے بعد والے مقام پر فائز ہوا پھر مالکِ حقیقی نے اس انگارۂ خاکی کو دل و دماغ جیسے شاندار اور مُحیّر العقول اعضائے رئیسہ عطا فرمائے اسی پر بس نہیں بلکہ اسی مٹی کے پتلے کو نطق و ذہن کی بے مثال صلاحیتیں تفویض فرمائیں قلم جو ایک گرامی قدر آلہ ہے اس کے استعمال سے بنی نوع انسان کو آگاہی بخشی جس نے شعر و ادب اور علم و عرفان کی سوتیں جاری کیں۔

دینے والا اس قدر فیاض ہے کہ اُس کی داد و دہش بالا امتیاز رنگ و نسل اور جنس و قامت ہے جس نے ایسی گراں قدر عطا کی قدر کی اور انھیں حرز جاں جانا نیز شکر نعمت ادا کرتا رہا تو مولائے کریم بھی اُس پر اپنے انعامات بڑھاتا چلا گیا ایک دور تھا جب مرد ہی علم و ادب کے بطن جلیل ٹھہرے تھے لیکن رفتہ رفتہ بنتِ حوا جوں جوں بلاغِ شعور کو پہنچتی چلی گئی تو اُس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ محض حضرات کو ہی عرفان و ہنر پر اجارہ حاصل نہیں خواتین بھی پورا پورا استحقاق رکھتی ہیں آگے چل کر انھوں نے اپنے دعوے کو مزید مضبوط کیا اور تمام تر میدانوں میں پیش رفت کرتی چلی گئیں علی ھٰذا القیاس میدان شعر و ادب میں بھی انھوں نے اپنی اہمیت کو منوا لیا ایک دور تھا جب مشاعروں میں عورت ذات کی پرچھائیں بھی نظر نہیں آتی تھی آج اُن کی شرکت کے بغیر مشاعرے ادھورے اور کم سواد سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح طبقۂ اناث کا صاحبِ کتاب ہونا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف جانا جاتا تھا آج ماشاء اللہ سینکڑوں ایسی شاعرات دبستانِ فکر و فن کی زینت بنی ہوئی ہیں جو باضابطہ کتاب رکھتی ہیں ایسی ہی ذیشان شاعرات کو متعارف کرانے کے لیے ایک کتاب ’’شاعراتِ ارض پاک‘‘ کے نام سے شبیر ناقدؔ نے لکھی تھی اور شاعر علی شاعرؔ نے شائع کی تھی بس پھر کیا تھا جیسے کسی نے کہا:

اک ذرا چھیڑ تو دے تشنۂ مضراب ہے ساز

نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے

معشرِ مستورات کی طرف سے کتابوں کی بارش ہونے لگی اور شبیر ناقدؔ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ قلم برداشتہ لکھتے چلے جائیں اور ناشر مذکورہ چھاپتے چلے جائیں ہم ان دونوں حضرات کو شاباش پیش کرتے ہیں جنھوں نے ایسے سیلابِ کتب کو دیکھنے کے بعد پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ خم ٹھونک کر کھڑے ہو گئے اور نعرۂ مستانہ لگایا:

ہم سے ٹکراؤ حادثاتِ جہاں

آؤ آؤ ابھی جواں ہیں ہم

چناں چہ ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ پہلی کے بعد دوسری جلد، تیسری کے بعد چوتھی جلد اور پانچویں کے بعد چھٹی جلد منصہ شہود پر آئی طبقۂ اناث کی شاعری اور موضوعات کی بوقلمونی کا حق خوب ادا کیا گیا دلچسپ عنوانات سے آراستہ و پیراستہ، کہیں داد، کہیں انحراف کے پیرائیوں پر مشتمل شذرات ایک سے بڑھ کر ایک نیز مختلف و منفرد انداز میں رقم کیے ہوئے تبصرے اور تجزیے کہیں بھی قاری کو یکسانیت سے دوچار نہیں ہونے دیتے اور نہ کہیں افراط و تفریط کی وہ کیفیت نظر آتی ہے جس میں عموماً طبقۂ نسواں کے حوالے سے ہمارے ناقدین بہتے چلے جاتے ہیں یا توصنفی حوالوں سے مرغوب و متاثر ہو جاتے ہیں کہ زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگتے ہیں اور کہیں انا کے مارے مؤلفین غرور و نخوت کی ایسی بھینٹ چڑھتے ہیں جیسے مردانہ فن کے علاوہ اور کسی کو خاطر میں ہی نہ لاتے ہوں اور طے کیے بیٹھے ہوں کہ ہم نے عورت ذات کی ایک نہیں چلنے دینی خیر اس جملۂ معترضہ سے ہٹ کر ناقدؔ جی کے ہاں ایک توازن ہے ایک اعتدال ہے ایک حق بیانی ہے ایک معیارِ قدر و منزلت ہے اور حوصلہ افزائی کا سامانِ دل پذیری ہے اُن کا اس سلسلے کا ساتواں تنقیدی کارنامہ ’’شاعراتِ ارض پاک (جلد ہفتم)‘‘ آپ کے خوب صورت ہاتھوں کی زینت بن رہا ہے آپ کا ذوق لطیف یقیناً اس سے حظ اور تلذذ حاصل کرے گا اور آپ انھیں داد دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے آخر میں ایک گزارش ’’شاعراتِ ارض پاک‘‘ سے بھی کرنی ہے وہ یہ کہ آپ کی کتابوں کا سلسلہ کہیں موقوف نہیں ہونا چاہیے ہم دیکھیں گے کہ حضرتِ ناقدؔ اور جنابِ شاعرؔ کہاں تک دادِ ہنر دے پاتے ہیں :

جنوں میں دیکھیے میدان کس کے ہاتھ رہتا ہے

پڑی ہے آبلوں میں پھوٹ اور ایکا ہے خاروں میں

٭٭٭

 

 

 

 

آصفہ نشاطؔ کا سخن معاملاتِ شوق کے تناظر میں

 

دنیائے شعر میں کچھ موضوعات ایسے ہیں اگر اُن کا وجود معدوم ہو جائے تو شاعری بے جان بے روح اور سپاٹ ہو کر رہ جائے قارئین کا حجم سُکڑ کر رہ جائے ان موضوعات میں معرفت و مجاز اور رومان کے معاملات شامل ہیں اگر جہانِ سخن میں ان کی جلوہ سامانی نہ ہو تو شاعری کو شاعری کہتے ہوئے عار محسوس ہو شاعری اگرچہ لغوی اعتبار سے شعور سے عبارت سمجھی جاتی ہے لیکن اس میں عقل و خرد کی بجائے جنوں کی عملداری زیادہ ہوتی ہے اس لیے طبقۂ سخنوراں کو حلقۂ جنوں کیشاں کہا جاتا ہے کیونکہ شعرائے کرام پاسدارِ شعور ہونے کی نسبت اہلِ دل زیادہ ہوتے ہیں اور اُن کا جھکاؤ جنوں کی طرف فزوں تر ہوتا ہے اگرچہ جدید تنقیدی روش میں خرد کو بہت فوقیت دی گئی ہے مگر جہانِ شعر میں دل اور دل کے معاملات کی راج دھانی قائم رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ناقدانِ فن خرد کی طرف مائل ہوتے ہیں جبکہ اہلِ سخن پاسدارِ جنوں ہوتے ہیں اگر شاعری کو کلاسیکی تنقیدی و تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا بنیادی مقصد تفریحِ طبع سے جس کی اہمیت و فوقیت کسی بھی عہد میں کم ہوتی ہوئی نہیں دکھائی دیتی معرفت و مجاز، رومان، محبت ایسے موضوعات ہیں جن سے تفریحِ طبع کے وسیع تر مقاصد وابستہ ہیں اس لیے انھیں معاملاتِ شوق سے منسوب سمجھا جاتا ہے عہدِ موجود میں بھی جمہور قارئین تسکینِ طبع کے لیے شاعری سے رجوع کرتے ہیں اس لیے معاملاتِ شوق کی اہمیت کسی بھی دور میں ماند ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی آصفہ نشاطؔ کے سخن میں بھی مجاز اور رومان کے وسیع تر شواہد ملتے ہیں اس لیے اُن کے ہاں خوشگواریِ طبع اور شگفتگیِ طبع کے وسیع تر امکانات موجود ہیں ان کا بنیادی تعلق پشاور خیبر پختونخواہ سے ہے اس وقت وہ امریکہ میں مقیم ہیں پشاور یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحان نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کیا بعد ازاں ان کی شادی ہو گئی اور امریکہ چلی گئیں امریکہ کی ادبی محافحل میں تواتر سے شرکت کرتی رہتی ہیں ایک شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک افسانہ نگار بھی ہیں مگر ان کا شعری حوالہ نسبتاً وقیع نوعیت کا ہے۔ ان کا کلام اور افسانے ادبی جرائد میں چھپتے رہتے ہیں اس وقت ان کا شعری مجموعہ ’’سورج سے شکایت‘‘ مطبوعہ اکتوبر 2009ء ہمارے پیشِ نظر ہے جس میں حمد و نعت، غزل، آزاد نظم اور نظمِ منثور شامل ہیں نظمِ منثور کے زمرے کی حامل وہ نظمیں جو عروضی تلازمات کے استخدام سے عاری ہیں اُن کے مذکورہ مجموعہ کے ثُلث کی غزلیات کے اشعارِ منتخبہ کا تنقیدی مطالعہ موضوعاتی تناظر میں زینتِ قرطاس ہے۔

آصفہ نشاطؔ کے ہاں رازدارانہ معاملات کا بیان بھی سادگی و صفائی کے پیرائے میں پایا جاتا ہے ان کے وجدان شعر میں شوق و ضبط کی پیوند کاری حسیں اظہار کی حامل ہے جس سے اُن کی اظہاری جسارتیں بھی اظہر من الشمس ہوتی ہیں اُن کا شعری پیرایہ بھرپور محبت کا غمّاز ہے چاہے جانے کی آرزو شدید نوعیت کی حامل ہے شدتِ احساس اور زورِ بیان کی مقتضیات کا اہتمام بخوبی ملتا ہے احساسِ خود محبوبی جو نسائی شاعری کا ایک اہم فکری تلازمہ ہے اپنائیت و جاذبیت کے انداز میں جلوہ گر نظر آتا ہے کسی مسیحا صفت دلربا کی بازیافت کا عمل بھی اُن کے افکارِ سخن کا حصہ ہے جس کے سبب زیست اُجاڑ پن کا شکار معلوم ہوتی ہے محبوب کا تنقیدی رویّہ اُن کے لیے اداؤں کا روپ دھارے ہوئے ہے محبوب کی جفا اور وفا کا عمل بھی امتزاجی کوائف رکھتا ہے جس سے گومگو اور کشمکش کی کیفیات جنم لیتی ہیں اُن کے نزدیک محبت ایک پوتر جذبہ ہے محبت نگاری کا قرینہ اُن کے ہاں منظر نگاری اور تمثیلاتی انداز میں ملتا ہے جس کی بدولت فکری تشنگی گریز پا معلوم ہوتی ہے رومانوی روئیوں میں وہ کھوٹ کی قائل نہیں ہیں کیونکہ وہ لوبھ اور لالچ کے سماجی خبائث سے ماورا ہیں اُنھیں اپنی محبت پر یقین ہے اس لیے وہ اس جذبے کو جا بجا باور کراتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں جس کی بدولت دعووں کا جواز جنم لیتا ہے متضاد النوع روئیوں کو وہ انتہائی چابکدستی سے پیش کرتی ہیں اس لیے اُن کے سخن کا مطالعہ قاری کے لیے خوشگواریِ طبع اور شگفتگیِ طبع کا سامان مہیا کرتا ہے اُن کے ہاں دوہرے روئیوں کی بھرپور عکاسی پائی جاتی ہے۔

آصفہ نشاطؔ کے سخن میں ہجر کی آنچ شدید نوعیت کی ہے محبت کے حوالے سے کچھ خلافِ توقع کیفیات بھی پائی جاتی ہیں اس لیے شکوہ و شکایت کی حکایت بھی فطری انداز میں ملتی ہے تمثیلاتی نادرہ کاری بھی اُن کے سخن کا ایک وصفِ خاص ہے اور معاملہ بندی کا حسن بھی ہے ابھی اُنھیں فکری و فنی حوالے سے ترفع درکار ہے مسلسل ریاض فکر و فن کی بدولت اُن کے کلام میں مزید معیار اور نکھار آشکار ہو گا اُن کے مذکورہ شعری مجموعہ سے چند شعر اشتہادات نذرِ قارئین ہیں :

وہ انتہائے شوق تھی یا ابتدائے ضبط

تنہائی میں بھی ہاتھ لگایا نہیں مجھے

٭

مری یاد میں تو نڈھال ہو تو کمال ہو

تجھے بس مرا ہی خیال ہو تو کمال ہو

٭

کبھی یوں بھی ہو کہ بلک بلک کے تو رو پڑے

مرے شعر پڑھ کے یہ حال ہو تو کمال ہو

٭

کوئی تو آئے بن کے خریدار سامنے

اُجڑا سا کیوں پڑا ہے یہ بازار سامنے

٭

اس برس تحفے میں اُس نے آئینہ بھیجا مجھے

میرے خد و خال کا یہ تجزیہ بھیجا مجھے

٭

بڑی ادا سے گریز کرتا ہے جس تعلق سے وہ ہمیشہ

بڑے جتن سے وہی تعلق بحال کرتی ہیں میری آنکھیں

٭

کچا گھڑا ہوا رات ہو، دریا کا پاٹ ہو

اپنی محبتوں میں سیاست نہیں رہی

٭

مرے بغیر وہ پتوار تھام کر دیکھے

مجھے وہ چھوڑ کے دریا کے پار جائے تو

٭

نیک نامی کی اُس کو آس بہت

پھر بھی رہتا ہے میرے پاس بہت

میرا قاتل بہت مہذب ہے

دیکھنے میں بھی خوش لباس بہت

٭

اُسے چھین کر کوئی لے گیا مرے پاس کچھ بھی رہا نہیں

بڑا جاں گُسل ہے یہ سانحہ مرے ساتھ پہلے ہوا نہیں

٭

یہ کیا ہوا مجھے صبر کیوں نہیں آتا؟

رفیق ہوتے ہوئے راز داں ہوتے ہوئے

٭

تیرا وجود شبنمی

میں بیل سی لپٹ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ آصفہ نشاطؔ

(پشاور )

 

مجھے بھی حوصلہ اتنا مگر خدا نے دیا

مٹا رہا تھا مرا نام وہ، مٹانے دیا

 

مجھے چراغ جلانا تھا میں جلا کے رہی

جو سچ کہوں تو مجھے یہ ہنر ہوا نے دیا

 

کوئی حساب بھی رکھا نہیں عداوت کا

کسی نے سنگ اُٹھایا، اُسے اُٹھانے دیا

 

مجھے ملے گی جو فرصت تو کھل کے رولوں گی

اُسے تو دل ہی دکھانا تھا سو دُکھانے دیا

 

کوئی سوال کرے گا تو کیا بتاؤں گی؟

خوشی کے ساتھ بہت غم بھی بے وفا نے دیا

 

میں روشنی میں بدل جاؤں گی خبر تھی مجھے

اُسے تو دل ہی جلانا تھا، دل جلانے دیا

٭٭٭

 

 

کوئی صدا دے مجھے، ہے کوئی صدا دے مجھے

میں کھو گئی ہوں کہاں، ہے کوئی بتا دے مجھے ؟

 

پلٹ کے دیکھوں نہ ساری خدائی، وہ چہرہ

کوئی دکھا دے مجھے، ہے کوئی دکھا دے مجھے

 

میں کھو چکی ہوں وہ موقع، جسے نہ کھونا تھا

کوئی سزا دے مجھے، ہے کوئی سزا دے مجھے

 

بھٹک رہی ہوں مجھے معرفت کی مَئے دے دے

کوئی پلا دے مجھے، ہے کوئی پلا دے مجھے

 

دواؤں سے میں بہت دور جاچکی ہوں اب

کوئی دعا دے مجھے، ہے کوئی دعا دے مجھے

 

میں بال کھولے ہوئے رقص کرتی آ جاؤں

کوئی بتا دے مجھے، ہے کوئی بتا دے مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

افروز رضوی کا جنوں آمیز سخن

 

 

جہانِ شعر و سخن کی یہ روایت رہی ہے کہ شعرا کو حلقۂ جنوں کیشاں میں شمار کیا جاتا رہا ہے کیوں کہ دنیائے شعر کے یہ متوالے پاسدارِ دل ہوتے ہیں ان کے جذبات و احساسات میں پیار، محبت، عشق و مروت اور جنوں سامانی کے شواہد بہ کثرت پائے جاتے ہیں اگر فنِ شاعری کو کلاسیکی تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو شاعری کی وجہ نمو جذبۂ جنوں ہے اگر مشرقی شعری سرمائے کا انتقادی مطالعہ کیا جائے تو عقل و شعور کی بجائے محبت اور جنوں کے جذبوں کو فوقیت حاصل ہے اگرچہ جدید شعریات میں اس سے گریز کی شعوری کوشش بھی کی گئی جس کا منطقی اور استخراجی نتیجہ یہ نکلا کہ شاعری بے جان و بے روح ہو کر نفاستوں اور لطافتوں سے محروم ہو کر رہ گئی یوں انسانی تفریح طبع کا پہلو جسے عصری متقضیات میں فوقیت حاصل ہے ہاتھ سے جاتا رہا لیکن نسائی شاعری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اکثر و بیشتر پاسدارِ جنوں رہی ہے مضمون ہذا میں ہم گلشنِ اقبال کراچی میں سکونت پذیر شاعرہ افروز رضوی کی شعر گوئی کے حوالے سے خامہ فرسائی کر رہے ہیں جن کے سخن میں جنوں سامانی کے لطیف شواہد موجود ہیں ان کا شعری لب و لہجہ دھیمی نوعیت کا حامل ہے جو نسائی سخن کی عمومی خصوصیت ہے جسے تہذیب و شائستگی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے انھوں نے حیدر آباد میں جنم لیا جو وادیِ مہران کا خوب صورت شہر ہے کافی عرصہ تک ریڈیو کی دنیا سے وابستہ رہیں بہت سے ریڈیائی ڈرامے لکھے اور پروگراموں کی میزبانی بھی کی ان کی پہلی کتابِ شعر ’’سخن افروز‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۴ء اس وقت ہمارے پیش نظر ہے جس میں حمد و نعت، نظمیات، ثلاثی اور قطعہ شامل ہیں ان کی نظمیں عروضی محاسن سے گریزاں ہیں کتابِ ہٰذا میں صرف ایک ثلاثی کو شامل کیا گیا ہے وہ بھی ہیئتی تقاضوں سے گریز کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے کیوں کہ ثلاثی کے بند کے تینوں مصرعوں میں قوافی کی پابندی کو روا نہیں رکھا گیا۔

افروزی رضوی کے بیان میں اساطیری تلمیحاتی شواہد بھی ملتے ہیں رومانوی لوک داستانوں کا مذکور بھی پایا جاتا ہے محبت کی مجبوریوں اور ناکامیوں کو انھوں نے اسباب و وجوہات کے تناظر میں پیش کیا ہے اُن کے فکری کینوس کے عمیق مطالعے اور مشاہدے سے یہ امر مبینہ طور پر آشکار ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں داخلیت پائی جاتی ہے اُن کے میلانِ طبع میں جنوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے عقل و شعور اور آگہی کے معاملات عنقا ہیں اور اُن کا یہی آدیش قاری کے لیے بھی ہے جسے وہ زندگی کرنے کے سلیقے سے عبارت کرتی ہیں عمومی رومانوی جذبات ہیں جن میں ہجر و ملال اور سوز و گداز کے موضوعات ہیں انتظارِ محبوب کی شدید کسک اور نینوں کی اشک باری کی کیفیات ملتی ہیں۔

محبوب کی بے اعتنائی غم کی شدید آنچ بن کر اُن کے ہاں اُبھرتی ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں ضبط، پندار ذات اور وضع داری کے احساسات معدوم ہیں اُن کے کچھ اشعار میں ایہام گوئی کا قرینہ پایا جاتا ہے جنھیں بیک وقت معرفت و مجاز دونوں پر محمول کیا جا سکتا ہے وہ محبت کے ہاتھوں مجبور و بے بس نظر آتی ہیں اور زندگی گزارنا اُنھیں ایک دشوار عمل محسوس ہوتا ہے پیار میں دوئی کی شراکت اُنھیں ناگوار گزرتی ہے اس لیے اُن کے ہاں جذبۂ رقابت بھی پایا جاتا ہے امیدِ وصال کا پہلو بھی اُن کے ہاں قوی صورت میں ملتا ہے۔

افروز رضوی نے اپنے شعری اسلوب میں سلیس نگاری کی روایت کو فروغ بخشا ہے اور مدعا نگاری کو مقدم رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام میں ابلاغ کے امکانات وفور سے ملتے ہیں غزل کے میدان میں ابھی اُنھیں عرق ریزیِ بسیار درکار ہے کیوں کہ اُن کی غزل میں معائبِ قوافی اور تنافرِ حرفی جیسے شعری مسائل موجود ہیں شاعری کی طرف مخلصانہ مراجعت ان معائب سخن سے رستگاری کا سبب بن سکتی ہے ان کے مذکورہ مجموعۂ کلام سے چند شعری استشہادات حسبِ ذیل ہیں :

میں کیسے پار اُس دریا کو کرتی

کہ میرے ہاتھ میں کچا گھڑا تھا

٭

موتی شبِ فراق کے چُن چُن کے لایا کر

جو آ گہی کے دکھ ہیں اُنھیں بھول جایا کر

٭

لگی آنکھوں سے ساون کی جھڑی ہے

ملن کی آس کس درجہ کڑی ہے

٭

محفل میں وہ گریزاں رہے سب کے سامنے

کچھ ہم بھی احتیاط کی حد سے گزر گئے

٭

اس چمن سے اُس چمن تک اس نگر سے اُس نگر

ہر جگہ ہر سو ہمیں تیری ہی پرچھائی ملی

٭

یوں اُس کی جستجو میں حدوں سے گزر گئے

اُس کا ہی عکس زیرِ نظر تھا جدھر گئے

٭

دل کی لگی دل کی لگن جب سے بنی ہے میری

زندگی اور بھی دشوار ہوئی جاتی ہے

٭

لبوں پر اک سسکتی آہ دیکھوں

اُسے جب غیر کے ہمراہ دیکھوں

٭

اِدھر ہم وصل کی حسرت میں حیراں

اُدھر دامن چھڑایا جا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ افروزؔ رضوی

 

(کراچی)

 

میری وحشتوں کو قرار دو

میری الجھی زلف سنوار دو

 

میرے پاس آؤ کبھی کبھی

میرے روز و شب کو نکھار دو

 

کبھی اے صنم میرے روبرو

یوں ہی چند لمحے گزار دو

 

جو کرو تو اتنا کرم کرو

مجھے کچھ وفائیں اُدھار دو

 

میرے حال کی کبھی لو خبر

میرا نام لے کر پکار دو

 

نہ ہو خوف جس میں خزاؤں کا

مجھے ایسی کوئی بہار دو

٭٭٭

 

 

دلوں کو جو لبھاتے ہیں عموماً

کسک دل کی بڑھاتے ہیں عموماً

 

شرارت سے بھرے دن بچپنے کے

بہت ہی یاد آتے ہیں عموماً

 

سہانے جو بہت لگتے ہیں دل کو

وہ دن کیوں بیت جاتے ہیں عموماً

 

گئے وقتوں کے جو ہمدم تھے ہم

بچھڑ کر یاد آتے ہیں عموماً

 

ہو جن سے رابطہ کچھ خاص دل کا

وہی دل کو دکھاتے ہیں عموماً

 

عنایت جن پہ زیادہ کی گئی ہو

محبت بھول جاتے ہیں عموماً

 

جو کرتے ہیں خدا کو یاد ہر دم

صلہ اچھا وہ پاتے ہیں عموماً

 

بجز رب کے وسیلے ڈھونڈتے ہیں

وہی تو چوٹ کھاتے ہیں عموماً

٭٭٭

 

 

 

 

ثمینہؔ صدیقی کی نسائی شاعری

 

اقلیمِ سخن میں اگرچہ زنانہ اور مردانہ خانوں کی الگ الگ تقسیم روا نہیں ہے مگر فکری مغائرت کی بدولت ایک تخصیص ضرور مستعمل ہے اور یہی خصوصیت ہی اس کی وجہ شناخت ہے نسائی شاعری کی نسبت سے بات کرنے سے پہلے اس کے بارے میں کچھ روشنی ڈالنا ناگزیر ہے کہ نسائی سخن کن افکار و تخیلات سے عبارت ہے لفظ نسائی نسا سے لیا گیا ہے جس کی معنی ہیں خواتین ایسے جذبات و احساسات جن میں فطرتِ نسواں کی عکاسی ہوتی ہو بصورت شعر اُسے نسائی شاعری کہا جاتا ہے نسائی شعری بیان ایسے داخلی اظہار کا حامل ہوتا ہے جس میں حالات و واقعاتِ دل بیان کیے جاتے ہیں جن میں کیفیات و واردات شامل ہوتی ہیں فکری حوالے سے ایک عمومی اور غیر عمومی رومانویت کا تاثر پایا جاتا ہے یعنی فکری نسبت سے اس نوعیت کا کلام ہوتا ہے جس میں عشق مجازی کو امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس میں جفا و وفا کے قصے بھی ہوتے ہیں ہجر و وصال کے افسانے بھی ہوتے ہیں حزن و ملال کی کیفیات ہوتی ہیں ان تمام معاملات کا مرکز و محور دل ہوتا ہے تمام تر افکار قلبی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اس لیے ایک جنوں سامانی پائی جاتی ہے اور خرد سے متعلق خیالات معدوم ہوتے ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم ثمینہؔ صدیقی کی شعر گوئی کے حوالے سے خامہ فرسا ہیں فکری حوالے سے ان کا شعری اظہار نسائیت آمیز ہے اس وقت اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’تری آواز آتی ہے ‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۴ء ہمارے روبرو ہے جس میں غزلیات و نظمیات شامل ہیں دونوں اصناف سخن میں اُن کے نسائی شعری اظہار کو فوقیت حاصل ہے مجموعۂ مذکور کا نام بھی اسی موضوعاتی تناظر میں ہے ثمینہؔ صدیقی نے نمل یونی ورسٹی اسلام آباد سے اُردو ادبیات میں ایم اے کیا ’’جدید افسانے پہ نئی نظم کے اثرات‘‘ کے موضوع پر ایم فل کیا جامعہ ہٰذا میں اُردو ادب کی تدریس میں مصروف و منہمک ہیں۔

ثمینہؔ صدیقی کا کلام پاسدارِ روایت ہے جو اپنے تمام تر روایتی حسن سے مالا مال ہے محبوب سے وارفتگی و شیفتگی کا اظہار فلسفۂ سادگی و سہولت سے کیا گیا ہے اُن کا بیان تصنع کی تمام تر آلائشوں سے مبرا و ماورا ہے اور جذبوں کی سچائی سے دھلا ہوا ہے محبوب کی جدائی اُن کے لیے کسی کرب و ابتلا سے کم نہیں ہے اُن کے افکار میں ایک عمومیت کا پہلو ہے جس میں کسی نوع کی جاذبیت نہیں شدتِ احساس کا فقدان ہے اور زورِ بیان معدوم ہے لہجے کا دھیما پن ہے جو نسائی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے اور شعور و شائستگی کی علامت بھی ہے اُن کے فکری کینوس میں حزن و ملال کے سائے مہیب صورت اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے اُن کی حُزنیہ شعری طبع کی غمازی ہوتی ہے اور یہی اُن کا عمومی شعری مزاج بھی ہے اُن کی فکر عمومی ذہنی سطح کے قاری سے ہم آہنگ ہے جس کی وجہ سے ہر طرح کی فکری و لسانی دقیقہ سنجی سے گریز پایا جاتا ہے گنجلک اور سپاٹ اسلوب سے اجتناب اختیار کیا گیا ہے نہ فلسفیانہ موشگافیاں ہیں اور نہ لسانی گورکھ دھندے ہیں بلکہ صاف و شفاف بھاشا کا استعمال شبدوں کی کوملتا اور سندرتا لیے ہوئے ہے۔

اُن کے ہاں محبوب کے افکار و احساسات کو سمجھنے کی ایک سعیِ بلیغ کار فرما ہے وہ ادراکِ ذات کے مرحلوں سے گزر کر عرفانِ محبوب کی بسیط مسافت طے کرتے ہوئے جزئیات نگاری کے تقاضے بھی کسی نہ کسی حد تک نبھا جاتی ہیں اُن کے نزدیک کارِ محبت سعیِ لاحاصل کا مثیل نہیں ہے ہجر و ملال، کرب و اذیت، جبر و جور اور وفا و سزا یہ سب حاصلاتِ محبت ہیں مجازی حوالے سے اُن کے ہاں کچھ استفہامیہ اشارات پائے جاتے ہیں جن میں ایک تجسس اور کلائمکس کے کوائف ملتے ہیں ہجر کی اذیت اُن کے لیے آشوبِ جاں ہے۔

اگر عروضی اعتبار سے اُن کے سخن کا مطالعہ کیا جائے تو انھوں نے بحر ہزج، بحر خفیف، بحر مضارع، بحر متقارب اور بحر متدارک کے مختلف اوزان میں شاعری کی ہے اور مرکب بحور کا استعمال بھی بہ حسن و خوبی کیا ہے تاہم ابھی ثمینہؔ صدیقی کے سخن کو فکری ترفع اور تنوع مطلوب ہے فکر و فن کی ریاضتِ بسیار درکار ہے بہر حال اُن کا آغازِ سفر حوصلہ افزا ہے اور اُن سے بہتر توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں اُن کے مجموعۂ مذکور سے منتخب اشعار بہ طور استشہادات نذرِ قارئین ہیں :

تمھارے نام سے ہی نام کو منسوب جانا ہے

تمھی کو ہم نے ساری عمر سے محبوب جانا ہے

وہ جس میں تم نہیں ہوتے مری یادوں کے محور میں

سو میں نے ایسے ہر لمحے کو ہی مصلوب جانا ہے

٭

دعویٰ بھی کر رہی ہوں بھُلانے کا میں اُسے

پر جانتی بھی ہوں کہ بھُلایا نہ جائے گا

٭

وہ ملا بھی تو ہنس نہیں پائے

ہم جو اک عمر تک اُداس رہے

٭

دو پل ہی اُس سے میری ملاقات ہو سکی

پھر عمر بھر جدا نہ مری ذات ہو سکی

چپ توڑنے کا میں نے ارادہ تو کر لیا

لیکن نہ اُس کے سامنے کچھ بات ہو سکی

٭

میں تیرے ہاتھ میں ہر اختیار دے دوں گی

جو میرا خود پہ کبھی اختیار ہو جائے

٭

مجھے ستا کے تو خود بھی اُداس رہتا ہے

مرے قرار میں تیرا قرار ہے صاحب

٭

تمھاری بے وفائی مل گئی ہے

محبت کی کمائی مل گئی ہے

٭

کہاں ہے کون ہے کیسا ہے اور کیا ہے ؟

خود اپنے آپ میں اُس کو میں کھوجتی ہوں بہت

٭

تجھے اک بات کہنا چاہتی ہوں

میں ترے ساتھ رہنا چاہتی ہوں

مری خوشیوں کے بارے پوچھتے ہو

ترا ہر درد سہنا چاہتی ہوں

٭

بچھڑ کے تجھ سے ثمینہؔ کے روز و شب ہیں عجب

غموں کے سائے ہوئے جسم و جان کی جانب

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔۔ ثمینہؔ صدیقی

 

(اسلام آباد)

 

وہ ایک شخص کہ رکھتا ہے الجھنوں میں مجھے

دکھائی دیتا ہے بے چین ساعتوں میں مجھے

 

اداس گلیوں میں اب رات جاگتی کیوں ہے

صدائیں دیتا ہے یہ کون رت جگوں میں مجھے

 

کسی سراب میں رہتا ہے دربدر اب تک

کبھی جو چھوڑ کے آیا تھا راستوں میں مجھے

 

میں اُس کی یاد سے غافل بھی ہو نہیں سکتی

سُنائی دیتا ہے وہ دل کی دھڑکنوں میں مجھے

 

مرے وجود کے ٹکڑوں کو کھا گئیں چیلیں

ملا ہے اب کے ٹھکانہ بھی جنگلوں میں مجھے

٭٭٭

 

 

یاد سینے سے لگا کر میں چلی آئی تھی

تر دکھ درد اُٹھا کر میں چلی آئی تھی

 

تو نے اک راہ پہ لا کر مجھے چھوڑا تھا کبھی

لاش خود اپنی اٹھا کر میں چلی آئی تھی

 

سو گیا تھا تو شبِ وصل مرے پاس کہیں

صبح دم تجھ کو اُٹھا کر میں چلی آئی تھی

 

پڑ گیا وقت جو مشکل تو پکارا تو نے

تیری تقدیر بنا کر میں چلی آئی تھی

 

دیکھ کر غیروں کے انداز تری محفل میں

درد کو دل میں چھپا کر میں چلی آئی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

تبسمؔ صدیقی کی نازک خیالی

 

عمومی شعری اظہار موضوعاتی یکسانیت کا حامل ہوتا ہے جس میں تخیلاتی چاشنی مفقود ہو جاتی ہے اور شعریت کا فقدان پایا جاتا ہے اسلوب سپاٹ ہو کر تاثیرات کے کوائف سے محروم ہو جاتا ہے جب کہ شاعری کا نکھار فکر و خیال کی ندرت اور جذبات و احساسات کی نفاست و نزاکت سے برقرار رہتا ہے نازک خیالی کا عنصر کلام کی نمایاں شناخت کا سبب بنتا ہے اور یہی خصوصیت تبسمؔ صدیقی کے سخن کو حاصل ہے جن کا اصل نام ڈاکٹر فیروز جہاں تبسمؔ ہے لیکن دنیائے اُردو ادب میں تبسمؔ صدیقی کے نام سے پہچان رکھتی ہیں کرنل اکرم الرحمن صدیقی (مرحوم) ان کے باپ تھے ان کا کلام دھیمے لہجے کا حامل ہے جو اُن کی منضبط شخصیت کی عکاسی کرتا ہے فکری نفاستیں اور نزاکتیں ان کے سخن کا طرۂ امتیاز ہیں تبسم صدیقی نارتھ ناظم آباد کراچی میں سکونت پذیر ہیں اس وقت اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’اوڑھنی کے رنگ‘‘ ہمارے زیر تجزیہ ہے مجموعۂ مذکور کا نام نسائی اعتبار کا حامل ہے اس میں زیادہ تر غزلیات شامل ہیں جس سے اُن کے غزل سے والہانہ پن کی عکاسی ہوتی ہے کتابِ ہٰذا کے نصف اول کی غزلیات کے منتخب اشعار موضوعاتی تناظر میں بہ طور استشہادات شاملِ مضمون ہیں۔

مرورِ ایام کا کرب اور امتدادِ زمانہ کی بے رحمی کو ان کے تخیلاتی کینوس میں واضح انداز میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے حالات کے ہاتھوں لُٹنے کا غم جہاں باعثِ اذیت ہے وہاں عظمتِ رفتہ کی یاد بھی دلاتا ہے جس سے گردشِ ایام کا تیقن بڑھ جاتا ہے جس کو معاشی چکر سے بھی عبارت کیا جا سکتا ہے لیکن وہ اس حزن و الم کو باعثِ یاسیت و قنوطیت نہیں ہونے دیتیں بلکہ لطیف پیرائے میں بیانیہ انداز میں بیان کر جاتی ہیں :

اس شہر میں بے گھر نظر آتی ہوں وگرنہ

میری بھی کسی گاؤں میں جاگیر رہی ہے

عمومی زندگی کے معاملات ہوں یا عشق و محبت کے تجربات و مشاہدات ہوں اُن کے ہاں ایک خوب صورت تمثیلاتی انداز پایا جاتا ہے جو اُن کے بیان کی جان قرار پاتا ہے جس کی بدولت افہام و تفہیم کے تقاضے بھی سہل تر ہو جاتے ہیں اور کلام کی ابلاغیت بھی فزوں تر ہو جاتی ہے یوں ان کا شعر ایک کومل لے میں دامن دل میں اترتا چلا جاتا ہے اس حوالے سے انھوں نے محبت کے ماجرے کو کیا خوب صورت تمثیلاتی جامہ پہنایا ہے :

یوں مل رہی ہے اس سے محبت ذرا ذرا

جس طرح کوئی قرضہ وصولے غریب سے

تبسمؔ صدیقی کا سخن فطری حسن سے مالا مال ہے اس لیے ان کے ہاں مظاہرِ فطرت میں بھی ہم آہنگی کی فضا پائی جاتی ہے اُن کے تخیلات کا تانا بانا فطری انداز میں بسیط ہوتا چلا جاتا ہے اُن کے ہاں جمالیاتی اقدار کا یہ عالم ہے کہ حسن تہہ در تہہ مجبورِ ضو فشانی نظر آتی ہے جسے اُن کی نازک خیالی گردانا جا سکتا ہے :

آنکھ نے رات جب اک چاند مکمل دیکھا

پھر سمندر کو بھی ہوتے ہوئے پاگل دیکھا

اُن کے افکار میں انسانی دوستی کا آدیش پنہاں ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں پند و موعظت کا انداز بھی پایا جاتا ہے اُن کا شعور ترسیلِ خلوص و مروت میں پیہم مصروفِ کار نظر آتا ہے :

کرخت بات دلوں کو ملول کرتی ہے

ذرا سا لوچ بھی اپنی زبان میں رکھنا

تبسمؔ کی فکری نزاکت کا یہ عالم ہے کہ وہ معمولی معاملات سے بڑے بڑے فلسفے تخلیق کرنے پر قادر نظر آتی ہیں اُن کے ہاں اظہارِ ندرت کا انداز یہ ہے کہ وہ معمولی بات کو غیر معمولی ڈھنگ میں بیان کرتی ہیں اور غیر روایتی فکر کو روایتی طرز میں پیش کرتی ہیں جسے اُن کی اظہاری کرشمہ کاری قرار دیا جا سکتا ہے :

بیٹھے ہیں تری بزم میں تصویر کی صورت

مجبوریاں دیکھے کوئی ہم اہل زباں کی

گو تذکرۂ سود و زیاں ٹھیک نہیں ہے

تفریق ضروری ہے مگر سود و زیاں کی

اُن کے ہاں تلقین و تاکید اور ممکنات کا مذکور پر تاثیر تمثیلاتی پیرائے میں موجود ہے جس کی بدولت قاری پر اُن کی گرفت مضبوط و مستحکم ہو جاتی ہے اور ایک احساسِ اپنائیت نمو پاتا ہے اُن کا سخن عمومی دائروں سے نکل کر اختصاصی زاویوں سے آشنا ہو جاتا ہے۔ جو اُن کے زورِ بیان کی نزاکت اور عمدگی کا مظہر ہے :

تاکید ہے کہ رازِ محبت عیاں نہ ہو

ممکن کہاں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو

مخالف معاشرتی عوامل اُنھیں قوت و تحریک سے نوازتے ہیں جس کی بدولت تگ و تازِ حیات فزوں تر ہو جاتی ہے اس لیے وہ پریشان و نالاں نہیں ہوتیں بلکہ اُن کے عزم و حوصلے کو تقویت ملتی ہے۔ بہ قول کسے :

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا ے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے

اسی خیال کو تبسمؔ صدیقی نے فلسفۂ سادگی و سہولت کے ساتھ کچھ یوں بیان کیا ہے :

دشمنی کی ہواؤں سے اب تو

میرے سارے چراغ جلتے ہیں

تبسمؔ صدیقی کا شعری اظہار فکر کی نزاکت اور ذہنی بالیدگی سے عبارت ہے جس میں بیشتر حوصلہ افزا امکانات موجود ہیں اُن کے رجحانات و میلانات میں ارتقائی رنگ پایا جاتا ہے مزید مشقِ سخن اُن پر فکر و فن کے نئے ابواب وا کرے گی۔

٭٭٭

 

 

غزلیں ۔۔۔ تبسمؔ صدیقی

(کراچی)

 

یہ جو میں شعروں میں اس کی گفتگو کرتی رہی

اس کو کیا معلوم خوابوں کو رفو کرتی رہی

 

عمر بھر پھولوں سے رکھا دوستی کا سلسلہ

عمر بھر خود کو اسیرِ رنگ و بو کرتی رہی

 

میں بناتی تو رہی ہوں ریت سے ساحل پہ گھر

تم نہیں سمجھے تمھاری آرزو کرتی رہی

 

خونِ دل بھر لائے ہم جس کی تواضع کے لیے

وہ نظر تو خواہشِ جام و سبو کرتی رہی

 

عمر بھر کھاتی رہی میں روح پر باتوں کے زخم

عمر بھر احساس کا اپنے لہو کرتی رہی

 

وہ سمجھتا تھا کہ اُس کے خوف سے خاموش ہوں

اور میں اس کی تبسمؔ آبرو کرتی رہی

٭٭٭

 

 

یہ جو میں ہر خوشی سے ڈرتی ہوں

غالباً زندگی سے ڈرتی ہوں

 

آپ کو آئینہ دکھا دوں مگر

آپ کی برہمی سے ڈرتی ہوں

 

اتنے کانٹے چبھوئے پھولوں نے

شاخِ گل سے کلی سے ڈرتی ہوں

 

مجھ کو دشمن سے کوئی خوف نہیں

دوست کی دوستی سے ڈرتی ہوں

 

تو گنوا دے گا ایک دن مجھ کو

میں تری سادگی سے ڈرتی ہوں

 

مجھ کو سقراط یاد آتا ہے

اور میں آگہی سے ڈرتی ہوں

 

جس نے ہر خوف سے کیا آزاد

میں تبسمؔ اُسی سے ڈرتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تسنیم صنمؔ کے شعری افکار

 

دنیائے ادب میں طبقۂ ذکور کی نسبت معشرِ اناث کو فزوں تر سماجی و ادبی مسائل کا سامنا ہے خصوصاً ایسے علاقہ جات جہاں معاشرتی جکڑ بندیاں اور کہنہ روایت کی روش تندرست و توانا ہے جہاں صنفی رواداری اور روشن خیالی رو بہ انحطاط ہے وہاں کسی خاتون کا ادب کی خدمت کرنا اور ادبی حوالے سے پیش رفت کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں علاوہ ازیں طبقۂ نسواں کی ادبی تربیت کے حوالے سے بھی کثیر مسائل ہوتے ہیں ان حالات میں اگر کوئی بنتِ حوا خدمتِ خامہ و قرطاس میں مصروف و منہمک ہو تو نہ صرف وہ لائقِ تحسین ہے بلکہ سراہے جانے کا استحقاق بھی رکھتی ہے اگر صنفی رواداری پر بات کی جائے تو پاکستان کے مضافاتی افق پر یہ معاملہ حوصلہ افزا نہیں بلکہ حوصلہ شکن ہے اگر بین الصوبائی حوالے سے اس موضوع پر بات کی جائے تو پنجاب اس حوالے سے پیش رفت کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے جب کہ خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ میں اس حوالے سے بہت سی دشواریاں موجود ہیں اگر نسائی شعری حوالے سے بات کی جائے تو پنجاب اور سندھ سے زیادہ شاعرات شعری افق پر نمایاں ہیں جس سے دیگر صوبوں کے سخت روایتی اور قدامت پرست ماحول کی عکاسی ہوتی ہے لہٰذا خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے شاعرات کا شعری منظر نامے پر نمایاں ہونا زیادہ حوصلہ افزا ہے شذرہ ہٰذا میں ہم کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی شاعرہ تسنیم صنمؔ کی شعر گوئی کے حوالے سے اپنے تجزیاتی تاثرات قلم بند کر رہے ہیں دنیائے شعر میں سنجیدہ، معتبر اور منفرد تخلص اختیار کرنا بھی ایک کٹھن مرحلہ ہے جس میں بیشتر شعراء شاعرات ناکام ہو جاتے ہیں جو سخنور معیاری و مناسب اور منفرد تخلص اختیار کرنے میں ناکام ہو جائے اُس سے کیا کسی تخلیقی کارنامے کی توقع کی جا سکتی ہے تسنیم صنمؔ نے بھی تخلص اختیار کرنے میں تذکیر و تانیث کا لحاظ روا نہیں رکھا کیونکہ لفظ ’’صنم‘‘ بطور مذکر استعمال ہوتا ہے جو کسی مرد شاعر کے لیے بطور تخلص معیوب نہیں لیکن کسی خاتون شاعرہ کے لیے بطور تخلص برتنا نامناسب ہے تسنیم صنمؔ کا اصل نام تسنیم شاہجہاں ہے اور ادبی نام تسنیم صنمؔ ہے شاعری کا شوق انھیں بچپن سے ہے انھوں نے اردو ادبیات میں ایم اے کیا اور بلوچستان یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہیں درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں بطور اسکول مدرس خدمات سرانجام دے رہی ہیں ان کے شوہرِ نامدار عرفان الحق صائم گیسوئے عروس سخن سنوارنے میں مصروف و منہمک ہیں ان کی بیٹی اور بیٹا بھی شاعر ہیں گھر میں ایک شعری فضا کار فرما ہے بقول ان کے انھیں اپنے ادبی گھرانے پر بجا طور پر فخر ہے اس وقت ان کا اولین شعری مجموعہ ’’کچھ خواب سرِ مژگاں ‘‘ مطبوعہ اپریل 2010ء ہمارے پیشِ نظر ہے جس میں حمد و نعت، غزلیات، ہائیکو اور نظمِ منثور شامل ہیں انھوں نے جو نظمیں آزاد نظم کے طور پر کہی ہیں وہ عروضی تلازمات سے عاری ہیں اور کسی نظم میں ایک بحر کی پابندی روا نہیں رکھی گئی اس لیے ہم اُنھیں نظمِ منثور کہنے پر مجبور ہیں کتابِ مذکور میں غزلیات کا تناسب زیادہ جس سے اُن کے فطری میلانِ طبع کی عکاسی ہوتی ہے ان کے مذکورہ مجموعۂ شعر کے نصف اول کی غزلیات کے منتخب اشعار کا تنقیدی تجزیہ پیش خدمت ہے۔

تسنیم صنمؔ کا سخن ایہام گوئی کے و صف سے متصف ہے اس لیے بسا اوقات ان کے اشعار میں معرفت و حجاز کے تلازمات پہلو بہ پہلو چلتے ہیں حقیقی و رومانوی حوالے سے اُن کے ہاں رجائی اور طربیہ تاثرات پائے جاتے ہیں جن سے خوشگوار احساسات نمو پاش ہوتے ہیں عشقیہ حوالے سے اُن کے ہاں محویت اور بے خودی کا تصور ملتا ہے ان کے فکری کینوس میں عشق ایک نعمتِ غیر مترقبہ کے طور پر اُجاگر ہوا ہے جبکہ عمومی شعری پیرائے میں اسے عذابِ جسم و جاں اور اذیتِ دل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ان کے تخیلاتی کینوس میں نادرہ کاری کا عنصر پایا جاتا ہے جو نسائی سخن میں شاذ ہی مشاہدہ کی جا سکتی ہے عام طور پر نسائی شعری اظہار داخلی نوعیت کا ہوتا ہے لیکن اُن کے ہاں خارجی عوامل کی جلوہ نمائی بھی پائی جاتی ہے جنوں سامانی کے ساتھ ساتھ خرد آموزی اور بصیرت افروزی کے وسیع تر امکانات پائے جاتے ہیں اُن کے افکار تجریدی اہمیت کے حامل ہیں بہت سے تجسیم سے عاری تلازمات اُن کے ہاں مجسم صورت میں دکھائی دیتے ہیں جسے اُن کے کمالِ فکر پر مُنتج کیا جا سکتا ہے اُن کے کلام کے مطالعہ سے قاری کے ذہنی کینوس پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں تفریحِ طبع کے وسیع تر پہلو بھی ملتے ہیں۔

تسنیم کے ہاں کائنات کی بے ثباتی کا موضوع بھی واضح صورت میں موجود ہے انھوں نے تمثیلاتی پیرائے میں بیان کر کے مؤثر بنا دیا ہے اس میں منطقیت و معقولیت اور معروضیت و جامعیت کا ثبوت بھی فراہم کیا ہے رومانی معاملات بھی اُن کے ہاں تمثیلی رنگ میں کارگر نظر آتے ہیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علمِ بیان کی باریکیوں سے واقف ہیں فکری تغیرات بھی اُن کے موضوعات کا حصہ ہیں جن میں عصری روئیے بھی شامل ہیں انھوں نے بین الشعر کوشش کی ہے کہ فکر کو خالص اور فطری انداز میں پیش کیا جائے جس میں بالیدہ فکری کا عنصر بھی شامل ہو ان کا ادراکی کینوس وسیع تر محسوس ہوتا ہے جو عقل و شعور کی پاسداری سے عبارت ہے اُن کے اشعار میں ادب برائے زندگی کا فلسفہ نمایاں طور پر مشاہدہ کیا سجا سکتا ہے وہ آگہی کی اہمیت سے بخوبی آشنا ہیں کیونکہ یہ زندگی کرنے کے عمل کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔

تسنیم صنمؔ کا شعری ارتقا انتہائی سُست روی سے رو بہ منزل ہے اُنھیں فکری و فنی حوالے سے فزوں تر ریاض مطلوب ہے شعری حوالے سے مقامِ اطمینان کے حصول کے لیے انھیں بسیط عرق ریزی درکار ہے ان کے مذکورہ مجموعۂ کلام سے چند اشعار نمونے کے طور پر ہدیۂ قارئین جن سے اُن کے موضوعاتی معیار کی غمّازی بہ حسن و خوبی ہوتی ہے :

ترا وجود ہے مثلِ بہار میرے لیے

ترے جہاں سے نکلوں تو اور کچھ سوچوں

٭

میں آئینوں کے جہاں میں ہو در بدر پھر سے

کہاں چھپا ہے مرے عکس آ اُبھر پھر سے

٭

کھڑی ہوا کے مخالف ہوں اس شعور کے ساتھ

ہوا سے شاخ کے پتے بھی جھڑنے لگتے ہیں

٭

مجھ کو رکھتا ہے خوشبوؤں کا اثیر

بن کے سایہ شجر میں رہتا ہے

٭

مجال کیا جو زمانہ زمین کو بدلے

ہوا تو کیا یہاں منظر کو بھی ثبات نہیں

٭

اُسی کی یادیں یوں رہتی ہیں میرے اس دل میں

جیسے پھولوں میں خوشبو اور بدن میں جان رہے

٭

حالات جانے کیسے سانچے میں ڈھل رہے ہیں

وہ بھی بدل رہے ہیں ہم بھی بدل رہے ہیں

٭

شاید میں کھو گئی کہیں یادوں کے دشت میں

فرصت ملے وہ آئے مجھے ڈھونڈتا ہوا

٭

آگہی جب بھی کوئی بات سمجھا دیتی ہے

اک نیا زیست کا انداز سکھا دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ تسنیم صنمؔ

(کوئٹہ )

 

تجھ سے دور جانے کا مشورہ دیا دل نے

زندگی گنوانے کا مشورہ دیا دل نے

 

کچھ نشانیاں دل کو روز و شب ستاتی ہیں

تیرے خط جلانے کا مشورہ دیا دل نے

 

جاننا ضروری تھا چیز کیا جدائی ہے ؟

تجھ سے روٹھ جانے کا مشورہ دیا دل نے

 

ہاتھ کی لکیروں میں حرف کی طرح روشن

نام وہ مٹانے کا مشورہ دیا دل نے

 

ایک پل صنمؔ اس کو بھولنا قیامت ہے

کس کو بھول جانے کا مشورہ دیا دل نے

٭٭٭

 

 

ترا سلوک ہے کیوں اتنا بے کرم ہمدم

کہیں تو جا کے فلک بھی ہوا ہے خم ہمدم

 

مرے رقیب تو پہلے بھی کم نہ تھے اب کے

ہوا بہار کی لے آئی اور غم ہمدم

 

چراغِ دل میں ابھی لو تو ہے نہ جانے کیوں

کچھ اس میں آج ذرا روشنی ہے کم ہمدم

 

مِرے نصیب کی مالا بکھر گئی کیوں کر

یہی سوال تو رکھتا ہے آنکھ نم ہمدم

 

صنم کے ساتھ جو اک ابر بھی ہو صحرا میں

تو پھر یقیں ہے کہ منزل ہے دو قدم ہمدم

٭٭٭

 

 

 

 

راحتؔ زاہد کی فکری باریک بینی

 

فکری اعتبار سے ژرف نگاہی کو بالغ نظری کی علامت سمجھا جاتا ہے جس اہلِ سخن کے ہاں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے تو اُس کا کلام وقیع اور قابلِ قدر ہوتا ہے اور قاری کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے نیز دعوتِ غور و فکر بھی دیتا ہے کیوں کہ اس میں تدبر و تفکر کی خصوصیات پائی جاتی ہیں یوں اُس کا بیان عمومیت کے دائروں سے نکل کر خصوصیت کے زاویوں سے ہم کنار ہوتا ہے۔ آج ہم لاہور سے تعلق رکھنے والی شاعرہ راحتؔ زاہد کی شعر گوئی کے حوالے سے خامہ پرداز ہیں جو اس وقت یوکے میں قیام پذیر ہیں جن کا سخن فکری باریک بینی کی خصوصیت کا حامل ہے اور اپنی ایک انفرادیت رکھتا ہے ۲۰۰۳ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’اُداس گلیوں میں ‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ ۲۰۱۱ء میں ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’دل کی نگری میں ‘‘ زیورِ طباعت سے ا اراستہ ہوا جس میں غزلیات، نظمیات، گیت، قطعات اور متفرقات شامل ہیں علاوہ ازیں پنجابی اور انگریزی کلام بھی کتابِ مذکور کا حصہ ہے۔

انسان اپنے مشاہدات سے سیکھتا ہے انسانی زندگی جہاں مصائب و آلام سے عبارت ہے وہاں بہت سے محظوظ کن عوامل بھی رکھتی ہے جنھیں عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے اس کی خوب صورت تمثیل محبت کے جذبے سے بھی دی جا سکتی ہے مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اہل جہاں خود غرض ہیں بے لوث محبتوں کا فقدان ہے آشوبِ جہاں اس قدر عمیق ہو گیا ہے کہ مظاہر عالم میں بھی ہم آہنگی کا فقدان پایا جاتا ہے فطری مظاہر بھی ایک دوسرے سے خیر خواہی میں مطابقت نہیں رکھتے یہ امر تفہیم سے بالا تر ہے کہ اسے انسان کی منطقی سوچ پر منتج کیا جائے یا اُس کی یاسیت آمیز سوچ کا نتیجہ قرار دیا جائے، غیر جانب داری اور انصاف پسندی کیا ہے اس حوالے سے گومگوئی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ روئے ارضی پر خیر و شر کی طاقتیں ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کی طرف رواں د واں ہیں۔ لیکن انسان طرح طرح کی کٹھنائیوں سے گزرتے ہوئے اپنا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے جو اس کی وضع داری کی علامت ہے لیکن چشمِ بینا رکھنے والے ان تمام معاملات کا بہ خوبی ادراک رکھتے ہیں راحت کے ہاں عزم و حوصلے کا آدیش ملتا ہے جو زندگی کرنے کی دلیل بنتا ہے۔ بہ قول شاعر:

منزل کی جستجو میں کیوں پھر رہا ہے راہی

اتنا عظیم ہو جا منزل تجھے پکارے

راحتؔ زاہد کے افکار عرفان و آگہی سے عبارت ہیں ان کی فکر میں ایک منطقیت و معقولیت کار فرما ہے اس لیے وہ دنیا کو جانچنے اور پرکھنے کا ہُنر رکھتی ہیں و ہ طبعی طور پر تنوع پسند ہیں اس لیے اُن کے ہاں کچھ جدید رجحانات و میلانات بھی پائے جاتے ہیں اُن کا اسلوب مقصدیت کا حامل ہے غیر ضروری تکلفات سے ایک فطری گریز کی صورت پائی جاتی ہے اُن کا فکری و فنی سفر حوصلہ افزا ہے مزید ریاضت اُن کے سخن کو فزوں تر معیارات سے آشنا کرے گی اُن کے مؤخر الذکر مجموعۂ شعر سے کچھ شعری استشہادات زیبِ قرطاس ہیں :

جب تک میں تیرے پیار میں پاگل نہ ہوئی تھی

اس درد کی لذت بھی تو حاصل نہ ہوئی تھی

٭

مطلب پرست دنیا میں جینا ہے اک سزا

بے لوث ساتھ دینے پہ مائل نہیں کوئی

٭

بھیس میں انسان کے شیطانیت پلتی رہی

عاصیوں کے لب پہ درس زندگی بڑھتا رہا

٭

چہروں پہ سکھ کے خول چڑھائے ہوئے ہیں لوگ

اندر سے تو یہ دیکھ ستائے ہوئے ہیں لوگ

٭

منزلیں خود قریب آتی ہیں

جب ارادے جوان ہوتے ہیں

٭

لازم تعلقات میں عقل و شعور ہے

دنیا کو جانچنے کا سبق دے رہے ہیں ہم

٭

سوچتے ہیں سوچ کا محور بدلنا چاہیے

ہو سکے تو اب ذرا منظر بدلنا چاہیے

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ راحتؔ زاہد

(لاہور)

 

موسم رفاقتوں کے نہ جانے کدھر گئے ؟

بے لوث چاہتوں کے زمانے کدھر گئے ؟

 

نشتر کسی کی یاد کے چُبھتے ہیں روح میں

اے دل بتا وہ دوست پرانے کدھر گئے ؟

 

خاموش ہیں نظارے فضا سوگوار ہے

گونجے تھے جو خوشی کے ترانے کدھر گئے ؟

 

آنکھوں سے نیند چھن گئی راتوں میں درد کی

معصوم سے وہ خواب سہانے کدھر گئے ؟

 

سنتے ہیں اُن کو ہم سے محبت نہیں رہی

راحتؔ وفا کے سچّے فسانے کدھر گئے ؟

٭٭٭

 

 

تیرے میرے پیار کی جگ کو خبر ہو جائے گی

دیکھنا اک دن کہانی یہ امر ہو جائے گی

 

پھیل جائے گی فضاؤں میں ادھر مشکِ وفا

جستجو غیروں کو بھی جانا اُدھر ہو جائے گی

 

ان نگاہوں کو ملے گا اب نہ بن دیکھے قرار

تجھ کو تکتے تکتے بس یوں ہی سحر ہو جائے گی

 

پی رہے ہیں سرخ ڈورے آنکھ سے تیری شراب

مست ان کے ساتھ اپنی بھی نظر ہو جائے گی

 

تم جو یوں ہی ہم قدم بن کر چلو گے سنگ سنگ

ہے یقیں آسان اپنی ہر ڈگر ہو جائے گی

 

کب یہ سوچا تھا کہ راحتؔ تم سے مل جائے گی یوں

زندگی اب چین سے اپنی بسر ہو جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

راشدہ ماہین کی پُر نفاست شاعری

 

صنفِ نازک اور جمالیاتی احساس لازم و ملزوم ہیں اس لیے طبقۂ اناث فکری اعتبار سے نفیس و نازک ہوتا ہے اس لیے افکار و تخیلات بھی نفاستوں اور نزاکتوں سے عبارت ہوتے ہیں فکری نفاستیں اور نزاکتیں نسائی شاعری کا طرۂ امتیاز ہیں اس لیے اُن کی شاعری جہاں جمالیاتی اقدار کی حامل ہوتی ہے وہاں اظہار بھی داخلی نوعیت کا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ نسائی شعری اظہار ابھی تک روایت سے پیش رفت نہیں کر پایا اس لیے گل و رخسار کے فسانے، ہجر و وصال کے قصے، جفاؤں کا مذکور، محبوب کی ستم رسانی، محبت کی ناکامی، پھول، کلیوں، خوشبو، عنادل اور تتلیوں کے تذکرے وفور سے پائے جاتے ہیں خرد نوازی مفقود اور جنوں سامانی فزوں تر پائی جاتی ہے شذرہ ہٰذا میں لاہور میں اقامت پذیر شاعرہ راشدہ ماہین کی شعر سازی کے حوالے سے اپنے تاثرات و تجزیات قلم بند کر رہے اس وقت اُن کا دوسرا مجموعۂ شعر ’’باغ‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۵ء ہمارے سامنے ہے جس میں تمام تر غزلیات شامل ہیں جس سے اُن کے غزل سے والہانہ اُنس کا اندازہ ہوتا ہے واضح رہے ان کا اولین شعری مجموعہ ’’شال میں لپٹی رات‘‘ ۲۰۱۳ء میں منصہ شہود پر آیا راشدہ ماہین کا سخن مضمون ہٰذا کی تمہید میں مذکور خصائص کا حامل ہے۔

اقلیمِ سخن میں بیک وقت دو تخلص کا استعمال کسی معتبر روایت کا حصہ نہیں ہے اور یہ روش متقدمین و متوسطین کے ہاں معدوم ہے مرزا غالبؔ نے اسد کے بعد جب غالب کو بہ طور تخلص استعمال کیا تو پھر اپنے کلام میں اسد کو بہ طور تخلص ترک کر دیا تھا کسی بھی شاعر کے ہاں د وہرے تخلص کا رویہ تنقیدی اعتبار سے کوئی نیک شگون نہیں بلکہ موقع پرستی کی دلیل سمجھا جاتا جاتا ہے جو شاعر کی فنی پختگی کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتا ہے یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاعر فنی اعتبار سے ایک تخلص پر قادر نہیں ہے شاعرہ موصوفہ کے ہاں بھی یہی ماجرا ہے کہ وہ کہیں راشدہ تخلص کرتی ہیں تو کہیں ماہین کو بہ طور تخلص باندھتی ہیں۔

راشدہ ماہین کے ہاں گل و گلستاں کے تذکرے ہیں کلیوں اور خوشبوؤں کے حوالے سے خواب و تعبیر کے فسانے ہیں فکری اعتبار سے محبت کی ایک کومل فضا ہے نفیس و نازک افکار ہیں جو اُن کے سخن کے گرد حاشیہ آرائی کر رہے ہیں خواب و خیال کی حسین دنیا ہے جو قاری کو متوجہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جس میں اپنائیت کا رنگ بھی موجود ہے لہجے کا دھیما پن شعور و شائستگی کی علامت بن کر اُبھرا ہے :

مجھ کو خواہش تھی مہکتی ہوئی خوشبو سے ملوں

سو مرے خواب کو تعبیر کیا پھولوں نے

ورنہ اظہار نہ کر پاتا محبت کا کوئی

یہ فسانہ بھی تو تحریر کیا پھولوں نے

اُن کے سخن میں ایک بھرپور نوعیت کا رومانوی ماحول ہے۔ مجاز کا ایک صحت مند حوالہ ہے جس میں فکری ترفع کا عنصر بھی نمایاں ہے طرزِ اظہار مضبوط و مستحکم نوعیت کا حامل ہے متضاد تخیلات کو شعری پیمانے میں خوب صورتی سے باندھا ہے صنعتِ تضاد کا یہ استعمال اُن کی فکری و فنی چابک دستی کی علامت بھی ہے کہیں کہیں رومانیت اُن کے ہاں منفرد انداز میں اُجاگر ہوتی ہے جو اُن کے جذبات کی سچائی کو آشکار کرتی ہے :

قریب و دور کا جھگڑا ہی یوں مٹا دوں گی

وصال و ہجر کے دونوں سرے ملا دوں گی

وہ اپنی ذات کا انکار کر نہیں سکتا

میں اُس کے چاروں طرف آئینے لگا دوں گی

راشدہ کے ہاں فکری حوالے سے ذات سے کائنات تک کی ایک بسیط مسافت پائی جاتی ہے لیکن بسا اوقات وہ سنسار سے بھی پیش رفت کرتی دکھائی دیتی ہیں اور اُن کے تخیلات ذات و کائنات سے بھی تجاوز کرتے نظر آتے ہیں :

شعورِ ذات سے آگے کے خواب دیکھتی ہوں

میں کائنات سے آگے کے خواب دیکھتی ہوں

ایک جمالیاتی حصار ہے جو اُن کے افکار کی خوب صورتی کو فزوں تر کرتا دکھائی دیتا ہے جس میں باغ و پھول کے مرکزی استعارے کار فرما ہیں :

بیٹھی رہوں گی باغ میں از صبح تا بہ شام

وارفتگی میں پھول شماری کروں گی میں

صنفِ نازک ہونے کے باعث اُن کے احساسات میں ایک احساسِ خود محبوبی کی جھلک پائی جاتی ہے جو طبقۂ اناث کے فطری شعور کا حصہ ہے لیکن انھوں نے اس موضوع کو زیادہ بھرپور انداز میں نبھایا ہے :

حسن ہوں اور موجزن ہوں میں

چھو بھی سکتی ہوں من لگن ہوں میں

جہاں تک راشدہ ماہین کی شعریات کے معیار کا تعلق ہے تو ابھی تک اُن کے ہاں شاعری کے بنیادی مسائل و معائب موجود ہیں جن میں متروکات کا استعمال، تنافرِ حرفی اور موضوعاتی یکسانیت وغیرہ شامل ہیں لہٰذا انھیں شعر گوئی کی طرف مخلصانہ مراجعت کی ضرورت ہے اور فکر و فن کی ایک طویل ریاضت درکار ہے۔

٭٭٭

 

 

 

غزلیں ۔۔۔۔ راشدہ ماہین

(لاہور)

 

خوشبو کے ساتھ اُس کے قریں آ گئی تھی مَیں

لے کر تمام خواب حسیں آ گئی تھی مَیں

 

حیران تھی وہ آنکھ مجھے دیکھ کر وہاں

اُس کو نہ آ رہا تھا یقیں آ گئی تھی مَیں

 

لیکن وہ شخص اور کہیں مبتلا مِلا

رد کر کے اک جہانِ امیں آ گئی تھی مَیں

 

صد شکر میری آنکھ کھلی خوابِ عیش میں

کچھ دیر کو تو زیرِ نگیں آ گئی تھی مَیں

 

اُس لمس نے کھلائے مرے دل میں کتنے پھول

رنگوں کے درمیان کہیں آ گئی تھی مَیں

 

اُس نے مجھے اک اور ہی دنیا دکھائی تھی

ماہینؔ اُس کے ساتھ یہیں آ گئی تھی میں

٭٭٭

 

 

 

منظر میں رنگ بھر کے وہ تتلی چلی گئی

آنکھوں سے یوں گزر کے وہ تتلی چلی گئی

 

بھنورے نے ساتھ شاخ پہ رکھا تھا آشیاں

ہمسائیگی سے ڈر کے وہ تتلی چلی گئی

 

رنگوں کا اہتمام بھی کیا چیز ہے جناب

سب کو نہاں کر کے وہ تتلی چلی گئی

 

پہلے تو داستاں میں رکھے تھے اُس کے پر

پھر یوں ہوا کہ مر کے وہ تتلی چلی گئی

 

بیٹھی ہوئی تھی خواب میں اک پھول کے قریب

آنکھیں کھلی تو ڈر کے وہ تتلی چلی گئی

 

جانے وہ کس کو ڈھونڈنے نکلی تھی صبح سے ؟

بستی میں شام کر کے وہ تتلی چلی گئی

 

جس کے پروں پہ آیتیں لکھی تھیں راشدہؔ

پتے ہلے شجر کے وہ تتلی چلی گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

رضیہ سبحان قریشی کا سفرِ بازیافت

 

ہر سخن ور کی اپنی ایک مخصوص افتادِ طبع ہوتی ہے جو اُس کے شعری کینوس پر محیط ہوتی ہے وہ اپنی تخلیقی منازل اپنے شعری مزاج کے مطابق طے کرتا ہے کسی سخن گستر کا فکری ارتقا ذات سے شروع ہوتا ہے اور کائنات پر آ کے منتج ہوتا ہے ایسے شعرا کے ہاں فزوں تر داخلی امکانات پائے جاتے ہیں اور عرفانِ ذات کے ادراکات بھی وفور سے ملتے ہیں ان کے فکری زاویوں پر داخلی عناصر و عوامل حاوی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے فکری رجحانات اور میلانات پر داخلیت کی عمل داری نظر آتی ہے جب کہ کچھ سخن وروں کا اظہاری ارتقا کائنات سے شروع ہو کر ذات پر آ کر اختتام پذیر ہو تا ہے ان کے افکار میں خارجی شواہد بہ کثرت ملتے ہیں اور اُن کے کلام پر خارجیت کی واضح چھاپ مشاہدہ کی جا سکتی ہے آج ہم کراچی میں سکونت پذیر شاعرہ رضیہ سبحان قریشی کی شعر گوئی کے حوالے سے رقم طراز ہیں جن کا تعلق شعرا کی اول الذکر قبیل سے ہے ان کے ہاں عرفان ذات کے بسیط ادراکات ملتے ہیں تا دمِ تحریر ان کے چار شعری مجموعہ منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں ’’سرد آگ‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۷ء، ’’خاموش دستک‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۲ء، ’’سیپیان محبت کی‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۶ء، اور ’’مکاں لامکاں ‘‘ مطبوعہ ۳؍جنوری ۲۰۱۵ء شامل ہیں اس سے قبل کہ ہم ان کے موخر الذکر مجموعۂ کلام کی غزلیات کے منتخب اشعار کا انتقادی مطالعہ پیش کریں اُن کے حوالے سے معاصر اربابِ فکر و دانش کی آرا حسبِ ذیل ہیں :

’’میری لغت میں شاعری خود نمائی کا خود شناسی کا عمل ہے فکرِ شعر کے دوران عالم محویت میں شاعری اپنی ذات کا غیر ارادی تجزیہ اور نفس کا غیر محسوس تزکیہ بھی کرتا رہتا ہے اور نتیجے کے طور پر جو خیال یا احساس یا جذبہ یا تجزیہ شعر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اس کے باطن میں شاعر کا اپنا شفاف وجود دیکھا جا سکتا ہے یہ اختیاری عمل نہیں لاشعوری کرشمہ ہے جو روایتی نہیں تخلیقی شاعری کا طلسم ہوتا ہے ایسی شاعری جو ایک نامعلوم منزل کی بے اجر مسافت ہے اس سفر میں د وسروں کے نقشِ پا سے راہنمائی حاصل کرنے کی بجائے جستجو کے ریگزار میں ا پنے نقوشِ قدم کو دوسروں کے لیے نشان راہ بناتا ہے اور رضیہ سبحان قریشی کی سخن آرائی کا بیشتر تخلیقی اظہار اسی عمل کے محور پر گردش کرتا ہے رضیہ سبحان قریشی شعوری طور پر کوشاں نظر آتی ہیں کہ اس دائرے کو وسیع کریں اور روایتی قافیہ پیمائی کے حصار سے باہر آ کر مقدار اور معیار میں توازن قائم کریں۔ ‘‘

(سرشار صدیقی)

’’رضیہ سبحان پر فکر اور پر اسرار لہجے کی شاعرہ ہیں ان کی شاعری کا تعلق انسانی نفسیات اور دلی جذبات و کیفیات سے ہے۔ وہ حسن و عشق دونوں کی خوب رمز شناس ہیں اور اسی ریاضت اور صلاحیت کو وہ اپنے شعروں میں احسن طریقے سے برتنے کا ہنر رکھتی ہیں۔ ‘‘

(سید نسیم شاہ)

’’غزل میں غنائیت نہ ہو تو اشعار دل کے تاروں کو نہیں چھوتے اور شاعر کا بیان سپاٹ ہو کر رہ جاتا ہے شاعر الفاظ کے زیر و بم سے اشعار میں ترنم اور موسیقیت کا تاثر دیتا ہے شاعری الفاظ میں نغمگی پیدا کرنے کا نام ہے رضیہ سبحان قریشی کا کلام اس وصف سے مالا مال ہے اس مجموعے میں بعض پوری پوری غزلیں غنائیت سے معمور ہیں رضیہ سبحان نے نظمیں بھی کہی ہیں اور خوب کہی ہیں رضیہ سبحان کو شائستگی، متانت، سادگی اور برجستگی کے ساتھ بیانِ مدعا کا ڈھنگ آتا ہے میرے خیال میں وہ اس دور کی کامیاب شاعرہ ہیں۔ ‘‘

(ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی)

تاثرات نگاروں کی آرا ملاحظہ کرنے کے بعد رضیہ سبحان کی فکری و فنی قدر و منزلت بہ خوبی عیاں ہوتی ہے اور ہر کسی نے اپنی انتقادی بساط کے مطابق اُن کے فکر و فن کو آشکار کرنے کی سعیِ بلیغ کی ہے۔

اُن کے چوتھے مجموعۂ کلام میں غزلیں، پابند نظمیں، آزاد نظمیں اور فردیات شامل ہیں جن میں غزل اور آزاد نظم کا تناسب زیادہ ہے۔

رضیہ سبحان قریشی اپنی فکری رفعتوں کا بہ خوبی ادراک رکھتی ہیں اُن کی تخیلاتی صداقتیں ارضی حقائق کی حدود و قیود سے ماورا ہیں اُن کے افکار عرفانِ ذات کی منازل طے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں شاعرہ موصوفہ کے مذہبی اعتقادات بھی مضبوط و مستحکم نظر آتے ہیں ان کا یقین ہے کہ کارخانۂ جہاں کا نظام و انصرام خالقِ کائنات کے قبضۂ قدرت میں ہے اُس کی پناہ میں ہی وہ اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھتی ہیں :

مکاں ہے دور کہیں لامکاں میں رہتی ہوں

زمیں پہ ہوتے ہوئے آسماں میں رہتی ہوں

ہے جس کے ہاتھ میں یہ باگ دوڑ عالم کی

بہت سکون سے اُس کی اماں میں رہتی ہوں

اُن کے ہاں زندگی کی بے رحم مسافتوں کا مذکور ہے مظاہرِ فطرت کی موافقت و ہمدردی کے شواہد بھی مفقود نظر آتے ہیں۔ باہمی انسانی مروتوں کا فقدان بھی پایا جاتا ہے عصری بے حسی کے موضوع کو انھوں نے موثر پیرائے میں پیش کیا ہے :

سفر طویل ہے اور کوئی ہم سفر بھی نہیں

کڑی ہے دھوپ کہیں سایۂ شجر بھی نہیں

رضیہ سبحان کی حیات الجھنوں سے عبارت ہے اس لیے اُن کے ہاں گومگو کی کیفیات پائی جاتی ہیں اُن کے ہاں زیست کی لایعنیت کے کوائف پائے جاتے ہیں :

نہ میں زمیں کی طرح ہوں نہ آسماں کی طرح

یہ زندگی ہے مری عمرِ رائگاں کی طرح

بسا اوقات وہ زیست سے بے زار نظر آتی ہیں اسی بے زاری کے باعث اُن کے ہاں پندارو انا کے معاملات بھی ملتے ہیں جنھیں اُن کی فکری و شخصی وضع داری سے مملو کیا جا سکتا ہے لیکن اُن کا بندِ ضبط کمزور پڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے جو اُن کی فکر کا کمزور ترین پہلو بھی ہے :

اس قدر ناز اٹھایا نہیں جاتا مجھ سے

زندگی تجھ کو منایا نہیں جاتا مجھ سے

اسی فکری موقف کو کسی شاعر نے شدت آمیز پیرائے میں یوں بیان کیا ہے :

زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں

مجھ سے اب خونِ تمنا نہیں دیکھا جاتا

اُن کے تصورات میں خواب و خیال کو خصوصی اہمیت حاصل ہے خوابوں اور خیالوں سے وابستہ مناظر اُن کے تصوراتی کینوس کا حصہ ہیں نامکمل آرزوؤں اور ادھورے خوابوں کے باعث اُن کا دل تھکا دینے والے بوجھ کا شکار ہے :

خیال و خواب کی دنیا بسائے رکھتی ہوں

میں اپنی آنکھوں میں منظر چھپائے رکھتی ہوں

کچھ آرزوئیں ادھوری سی کچھ ادھورے خواب

میں اُن کے بوجھ سے دل کو تھکائے رکھتی ہوں

رضیہ کے افکار میں رجائی امکانات بھی جلوہ ساماں نظر آتے ہیں وہ خزاں کے پس پردہ بہار کے درشن کی قدرت رکھتی ہیں۔ جو اُن کی زندگی کرنے کی دلیل ہے :

شکستہ حالِ زار میں یہ اپنی خوش گمانیاں

خزاں کی اوٹ میں چھُپی بہار دیکھتے رہے

رضیہ سبحان قریشی کا تخیلاتی کینوس اُن کے سفرِ بازیافت سے عبارت ہے جس میں اُن کے جیون کے مصائب و آلام بھی ہیں آرزوؤں اور امنگوں کا بیان بھی ہے انھوں نے اپنی رودادِ حیات کو سادہ و شستہ انداز میں پیش کیا ہے یوں وہ ذات سے کائنات تک کی بسیط مسافت طے کرتی ہیں اُن کے افکار میں داخلیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے امید ہے کہ وہ مستقل مزاجی سے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھیں گی اور جہانِ فکر و فن کی مزید منازل طے کرتی چلی جائیں گی۔ ٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ رضیہ سبحان قریشی

(کراچی)

 

بادِ باراں کی نگاہوں میں نمی اچھی لگی

ہم کو اپنی زندگی کی بے کلی اچھی لگی

 

قدر کب اس زندگی کی زندگی میں ہو سکی

موت آئی روبرو تو زندگی اچھی لگی

 

بڑھ کے جس نے تھام لی لغزش مری بے ساختہ

آج اس معصوم کی یہ سادگی اچھی لگی

 

گونج پر زنجیر کی اک رقصِ بسمل نے کیا

ظلم کی وحشی فضا میں نغمگی اچھی لگی

 

برملا کچھ کہہ دیا کچھ کہتے کہتے رُک گئے

ہم کو اُس کی اک کہی، اک ان کہی اچھی لگی

 

بار تھا جس کی طبیعت پر سدا ذوقِ سخن

آج اُس کو بھی ہماری شاعری اچھی لگی

٭٭٭

 

 

خزاں کی رُت ہو چمن میں کہ پھر بہار آئے

گزارنی تھی ہمیں عمر جو گزار آئے

 

نہ پوچھ ہم سے کٹے کیسے اپنے شام و سحر؟

بس اتنا جان لے اک بوجھ تھا اُتار آئے

 

وہ جس کی زیست کا مقصد خوشی ہماری تھی

اسی کی بزمِ تمنا سے اشک بار آئے

 

ہوا کے دوش پر اُڑنا تھا پستیوں میں گرے

گلوں کی چاہ کی دامن میں اپنے خار آئے

 

صدائے گونج نہ رہ جائے بام و در میں کہیں

اسی لیے تو اُسے زیرِ لب پکار آئے

 

لگا کے روگ مسلسل یہ حضرتِ دل کو

عبث ہے اپنی یہ کاوش کہ اب قرار آئے

٭٭٭

 

 

 

 

سحابؔ قزلباش کی حسرت آمیز شاعری

 

بنی نوعِ انسان روزِ ازل سے ارتقا پسند طبع اور روپ کار سیا واقع ہوا ہے یہی خصوصیت اُسے محوِ تگ و تاز رکھتی ہے اسی کی بدولت ہی کارخانۂ قدرت کا نظام جاری و ساری ہے انسانی احتیاجات و خواہشات ہی انسان کو مصروفِ عمل رکھتی ہیں جہاں کامیابی و کامرانی مسرت و تمکنت سے نوازتی ہے وہاں ہزیمت یاس و محرومی کو جنم دیتی ہے جس سے حسرت کے احساسات نمو پاش ہوتے ہیں اور ارمانوں اور امنگوں کے پورا نہ ہونے کا کرب انسان کو تا حیات محوِ حسرت رکھتا ہے انھیں احساسات کی حامل شاعرہ سحاب قزلباش کا پہلا مجموعۂ کلام ’’لفظوں کے پیرہن‘‘ مطبوعہ جنوری ۲۰۰۲ء ہمارے زیر نظر ہے جس میں غزلیں اور نظمیں شامل ہیں آغا شاعر قزلباش دہلوی ان کے والد تھے ان کے آبا و اجداد کا مولد و مسکن دہلی تھا اس لیے انھیں اہل زبان ہونے کا شرف و امتیاز بھی حاصل ہے ان کا شعری دورانیہ نصف صدی پر محیط ہے اگرچہ ان کا کلام مقدار میں کم ہے لیکن معیار میں کم تر درجے کا نہیں ہے ان کا ذہنی کینوس بالیدہ فکری سے عبارت ہے۔

اگر سحابؔ قزلباش کی شعریات کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کیا جائے اور اُن کے جذبات و احساسات کو بہ غور دیکھا جائے تو اُن کا باعثِ کرب محبت سے محرومی ہے اُن کے نزدیک خوش حال زندگی کا تصور مادی اسائشات کا مرہونِ منت نہیں بلکہ محبتوں کا متقاضی ہے خوشی کی بازیافت محبت کی بدولت ہی ممکن ہے انسان تمام تر مصائب و آلام محبت میں حصولِ مسرت کے لیے جھیلتا ہے کیوں کہ انسان محبت کی زندگی کا خواہاں ہے :

غموں کے زخم اُٹھاتے رہے خوشی کے لیے

ترس گئے ہیں محبت کی زندگی کے لیے

اُن کے ہاں احساس محرومی اتنا قوی تر ہے کہ خوشیوں کا تصور ناپید نظر آتا ہے اور وہ اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر سمجھتی ہیں کوئی بھی چیز اُن کی دسترس میں نہیں ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو حزن و ملال کی دستگاہ میں سمجھتی ہیں :

ہمارے پھول، ہمارا چمن، ہماری بہار

ہمیں کو جا نہیں ملتی آشیانے کو

انھیں اپنے ہم وطنوں سے بے انتہا محبت ہے اس لیے وہ پیار کا جادو جگانا چاہتی ہیں اُن کی موانست مکارمِ اخلاق سے منسوب ہے :

اٹھو کہ پیار کا جادو جگائیں اہل وطن

ابھی ہے وقت کہ دامن سے باندھ لیں دامن

عصرِ حاضر میں نفانفسی اتنی عروج پر ہے کہ کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں ہے مطلب پرستی نے ہمیں انسان دوستی کے وصفِ زریں سے محروم کر دیا ہے اور یہی ماجرا سحابؔ قزلباش کو بھی در پیش ہے :

تمام عمر ہی روتے گزر گئی ہے سحابؔ

ہمیں تو بھول کے بھی غم گسار نہ مل سکا

سحابؔ قزلباش کا شعری سفر سست روی سے جاری و ساری ہے ابھی تک ان کے ہاں فکر و فن کا وہ معیار نمو پاش نہیں ہو سکا جس کی ان سے توقع کی جا سکتی تھی اُمید ہے کہ وہ اپنا تخلیقی سفر جاری رکھیں گی اور جہانِ فکر و فن کے زینے مسلسل طے کرتی چلی جائیں گی۔

٭٭٭

 

غزلیں ۔۔۔ سحابؔ قزلباش

(کراچی)

 

لوگ کہتے ہیں عبادت کو بھلا رکھا ہے

اپنے سجدوں میں تمھیں ہم نے سجا رکھا ہے

 

ہر ستم ہم کو گوارا ہے ہر اک غم ہے قبول

ہم نے دل زخموں سے گلزار بنا رکھا ہے

 

دل سے جاتا ہی نہیں وعدۂ اولیٰ کا خیال

ورنہ ان ٹوٹے ہوئے وعدوں میں کیا رکھا ہے

 

رات بھر جو تری گردن میں رہے ہیں اے دوست

ہم نے اُن پھولوں کو بھی دل سے لگا رکھا ہے

 

اپنے بندوں کے لہو پہ بھی نظر کر یارب

تو نے انصاف کو محشر پہ اُٹھا رکھا ہے

 

یہ بھی اک نغمگیِ عشق کا پرتو ہے سحابؔ

ہم نے جو درد کو آواز بنا رکھا ہے

٭٭٭

 

 

 

دل کے معاملے میں فقط ہم ہی ہم نہیں

وہ کون ہے یہاں جو گرفتارِ غم نہیں

 

مر کے بھی آستاں سے نہ سر اٹھائیں

عہدِ وفا ہے اپنا یہ تیری قسم نہیں

 

جو آیا گفتگو کو ترستا چلا گیا

حالاں کہ کوئے دوست ہے راہِ عدم نہیں

 

باہر نکل کے حلقۂ سود و زیاں سے آ

منزل تری مقیدِ دیر و حرم نہیں

 

باہم وہ اک تضاد محبت کہیں جسے

جنت سے ہے فزوں تو جہنم سے کم نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سُمنؔ شاہ کے داخلی احساسات

 

شاعری داخلی اور خارجی عوامل کی مرہونِ منت ہوا کرتی ہے ہر شاعر کی اپنی ایک افتادِ طبع ہوئی ہے کسی سخن ور کا میلان طبع داخلیت کا حامل ہوتا ہے جب کوئی خارجیت کی طرف مائل ہوتا ہے جن کا کلام داخلیت آمیز ہوتا ہے اُن کے ہاں داخلی احساسات اور داخلی روئیے پائے جاتے ہیں داخلیت میں سخن ور کی ذات کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے یوں اُس کا فکری ارتقا ذات سے شروع ہو کر کائنات کی طرف رواں دواں رہتا ہے کچھ شعرا کا کلام ذات کے حصار سے پیش رفت نہیں کر پاتا اُن کا تمام تر اظہار داخلی نوعیت کا ہوتا ہے کائناتی حوالوں کے لیے خارجیت ممد و معاون ثابت ہوتی ہے فکری حوالے سے داخلی احساسات کے زمرے میں رومان اور عشق مجازی خصوصی اہمیت رکھتے ہیں آج ہم جہلم سے بنیادی تعلق رکھنے والی شاعرہ سمنؔ شاہ کی شعر گوئی کے حوالے سے اپنے تاثرات قلم بند کر رہے ہیں جو اِس وقت فرانس میں مقیم ہیں وہ منتخب فرانسیسی شاعری کو اردو میں ترجمہ کر رہی ہیں اور منتخب اردو شاعری کو فرانسیسی شاعری میں ترجمہ کرنے میں مصروف ہیں فرنچ مشاعروں میں تواتر سے شرکت کرتی رہتی ہیں انھوں نے فرانس میں اُردو ادبی جریدہ ’’تڑپ‘‘ کا اجرا ۲۰۰۲ء میں کیا اور اسی سال ان کا دوسرا مجموعۂ کلام ’’ہمیشہ تم کو چاہیں گے ‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا اس وقت ہم اُن کے موخرالذکر شعری مجموعے کی غزلیات کے منتخب اشعار شامل استشہادات کریں گے ان کے اس مجموعے میں غزلیات، آزاد نظمیات اور ہائیکو شامل ہیں انھوں نے زیادہ تر غزلیں اور نظمیں بحر ہزج کے مختلف اوزان میں کہی ہیں۔

سمنؔ شاہ کی شاعری میں رومان جذبوں کا وفور پایا جاتا ہے فکری حوالے سے بیم و رجا کا حسین امتزاج ملتا ہے ہجر و وصال کے احساسات ساتھ ساتھ چلتے ہیں جنوں، بے خودی اور عشق سے مرصَّع جذبات شعری وحدت کے پیرائے میں ملتے ہیں غمِ جاناں کو وہ وجہ زندگی سمجھتی ہیں اور یہی اُن کا سرمایۂ حیات ہے محبت کے حوالے سے حزن و ملال کے کوائف ملتے ہیں جن میں ہزیمتوں کا مذکور نمایاں طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے مجموعی طور پر اُن کا کلام حزنیہ طرز فکر کا حامل ہے وہ پریتم کے درشن کو نینوں کی پوجا سمجھتی ہیں محبت کے دعویٰ کی یکتائی کا احساس بھی اُن کے ہاں پایا جاتا ہے۔

سمنؔ شاہ کی شاعری میں ابھی تک بنیادی معائب موجود ہیں مجموعۂ مذکور کی حمد میں زیر و زبر کے قوافی کا امتیاز روا نہیں رکھا گیا تنافر حرفی سے کہیں بھی اجتناب برتنے کی شعوری کوشش نہیں کی اُن کے افکار کو ترفع اور تنوع درکار ہے جس کے لیے انھیں فزوں تر ریاض فکر و فن مطلوب ہے اُن کے شعری مجموعہ ’’ہمیشہ تم کو چاہیں گے ‘‘ سے کچھ شعری استشہادات ہدیۂ قارئین ہیں :

تری آشا کا ہر شب میں بجھا سا جو دکھائی دے

وہ تارا جھلملائے پھر مری صبحوں کی چوکھٹ پر

٭

اک جنوں ہے بے خودی کا شبنمی لمحات میں

عشق دریا میں تلاطم سا بپا ہے دن بہ دن

٭

بسر ہوتی نہیں تھی زندگانی

ترے اس غم میں اب ہونے لگی ہے

٭

محبت کے سفر میں کیا عجب ہی حادثے گزرے

نظر آتی ہے جب منزل تو راہیں کھونے لگتی ہیں

حزیں آنگن، حزیں موسم، حزیں ساری فضائیں ہیں

نظر آتی ہے جب منزل تو راہیں کھونے لگتی

٭

تمھیں کو دیکھنا میری نگاہوں کی عبادت ہے

تمھیں یوں دیکھنے والا کوئی ہم سا نہیں ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ سمنؔ شاہ

(جہلم)

 

عجب سے درمیاں جو فاصلے ہیں

یہ بس کچھ ہی دنوں کے سلسلے ہیں

 

ہمیں صدیاں ہوئیں خود سے ملے بھی

تمھیں ہم سے نہ ملنے کے گلے ہیں

 

شکایت بدگمانی پھر جدائی

محبت ہی کے یہ سب مرحلے ہیں

 

تمھاری آرزو کا دشت ہے اور

پیاسے ہم زمانوں سے کھڑے ہیں

 

تغافل کی خزاں چھائی ہے ہم پر

قسم لے لو کہ ہم پھر بھی ہرے ہیں

 

تمھاری روح میں سانسیں ہماری

تمھارے ساتھ ہم ایسے جڑے ہیں

 

تمھیں کو ٹوٹ کر چاہیں ہمیشہ

مری جاں آسمانی فیصلے ہیں

٭٭٭

 

 

مری حالت عجب ہونے لگی ہے

اُداسی بے سبب ہونے لگی ہے

 

بہت ہی سر پھرا یہ دل ہے جس کو

تری پھر سے طلب ہونے لگی ہے

 

مری تو ایک بھی سُنتی نہیں یہ

تمنا بے ادب ہونے لگی ہے

 

جمی تھی برف جو آنکھوں میں کب سے

ترے اس غم میں اب ہونے لگی ہے

 

تری خاموش نظروں کے جہاں میں

سمنؔ اب جاں بلب ہونے لگی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

شاہدؔہ لطیف کا جدت آمیز سخن

 

خالقِ ارض و سما نے اس جہانِ رنگ و بو میں مختلف الخصائص مخلوقات کو خلق فرما کر سنسار کو نیرنگیوں سے نوازا کائنات ارضی و سماوی کی بو قلمونیاں اُسی خالقِ اعظم کے دستِ قدرت کا شاہکار ہیں جن کا صحیح معنوں میں ادراک صرف باری تعالیٰ کا حصہ ہے حضرتِ انسان کے ادراکات اُس قدرتِ کاملہ کی عطایا ہیں انسان جو اشرف المخلوقات کے شرف سے مشرف ہے جسے نیابتِ خداوندی کا اعزاز و امتیاز بھی حاصل ہے اس انگارۂ خاکی پر خدائے بزرگ و برتر کا لطف و کرم بے پایاں ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف النوع صفات سے متصف ہے اور اسے شہزادۂ کائنات ہونے کا افتخار حاصل ہے جسے مشیت نے زندگی کرنے کے تمام تر قرینوں سے آشنا کیا ہے جن میں اظہار اور زبان و بیان کے قرینے کو امتیازی حیثیت حاصل ہے جن کی بدولت اقلیمِ ادب کا وجود تشکیل پاتا ہے شذرہ ہذا میں ہم ایک ایسی فرخندہ نصیب شاعرہ کے حوالے سے خامہ فرسائی کر رے ہیں جنھیں خدائے لم یزل نے حسن شعر کے جوہرِ تاباں سے نوازا ہے ہماری مراد اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی شاعرہ شاہدؔہ لطیف ہیں جنھیں اُس ذاتِ با برکات نے نظم و نثر دونوں میدانوں میں مقامِ اعتبار سے نوازا ہے ان کی شخصیت کی مختلف جہات ہیں ان کا تعلق ادب سے بھی ہے اور صحافت سے بھی علاوہ ازیں کھیل کی دنیا کا شوق و شغف بھی رکھتی ہیں اگر ان کے کلام کو کلی زاویوں سے دیکھا جائے تو بہت سی خصوصیات کا حامل ہے اور یہ خصائص فکری و فنی دونوں نوعیات کے ہیں جن میں معرفت و عرفان بھی ہے اور تخلیقی وجدان بھی ہے عصری عمومی اور اختصاصی روئیے بھی ہیں مجاز اور رومان کی شمعیں بھی فروزاں نظر آتی ہیں حُب الوطنی کے جذبے سے سرشار احساسات بھی ضو فشانی کرتے نظر آتے ہیں دیش بھگتی اُن کی سرشت میں شامل ہے افکار کی بالیدگی اظہر من الشمس دکھائی دیتی ہے عمومی نسائی شاعری کے برعکس دو راز کار اور لایعنی خیالات سے فطری گریز کی ایک صورت کار فرما نظر آتی ہے جو ایک منجھے ہوئے تخلیق کار کی علامت ہے خرد آمیزی اور بصیرت افروزی کے فزوں تر امکانات کی جلوہ سامانی موجود ہے جنوں سامانی کے بھی وسیع تر رجحانات و میلانات ہیں سلاست و روانی بھی ہے اور عروضی محاسن کی پاسداری بھی ہے جذبوں میں ایک سادگی، سچائی اور سنجیدگی کا عنصر بھی کارگر ہے فصاحت و بلاغت بھی اختصار و جامعیت بھی ہے معروضیت و منطقیت بھی ہے افکار و تخیلات میں ایک بھرپور نوعیت کا تموج بھی کار فرما نظر آتا ہے اُن کے جذبے پوتر ہیں تقدیس و تطہیر کی ایک فضا ہے ان تمام تر فکری و فنی خصائص کے پہلو بہ پہلو اُن کی شاعری جدیدیت کے رنگ کی حامل ہے یہ جدت اسلوبیاتی نوعیت کی نہیں ہے بلکہ فکری اعتبار رکھتی ہے ان کا اسلوب سادہ و شُستہ اور رواں دواں خالص فطری رنگ میں ڈھلا ہوا ہے جس میں تصنع سے شعوری طور پر گریز کیا گیا ہے مجید امجد کی طرح انھوں نے اُن خیالات کو شعری پیرہن عطا کیا ہے جن سے اہل سخن بالعموم صرفِ نظر کر جاتے ہیں انھوں نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو وقیع اور تجریدی صورت میں پیش کیا ہے اس سے قبل کہ ہم اُن کے کلام کو انتقادی عمل سے گزاریں اُن کے حوالے سے معاصر اربابِ فکر و دانش کی آرا حسبِ ذیل ہیں۔

ڈاکٹر سید شبیہ الحسن اپنی کتاب ’’اردو ادب کی معمار خواتین‘‘ مطبوعہ ستمبر 2010ء میں شاہدؔہ لطیف کی شعر گوئی کے حوالے یوں رقمطراز ہیں :

’’شاہدؔہ لطیف ایک ہمہ جہت تخلیق کار ہیں انھوں نے شعر و نثر دونوں میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا ہے انھوں نے شاعری کے کوچے میں قدم رکھا تو خود کو ہجر و وصال اور گل و بلبل کے قصوں تک محدود نہ رکھا بلکہ اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کیا ہے انھوں نے محمد حسین آزاد کی طرح شاعری کو حسن و عشق کی قید سے آزاد کر کے اس میں سفر و حضر کے موضوعات کو گوارا بنایا اور دو معرکۃ الآرا منظوم سفرنامے سپردِ قلم کردئیے اسی طرح نثر میں انھوں نے ادب اور صحافت کو آمیخت کرنے کی سعی کی‘‘

شاہدؔہ لطیف کے مجموعۂ کلام ’’محبت ہو نہ جائے ‘‘ مطبوعہ جون 2006ء کے دیباچہ میں راجہ انور اُن کی شعر گوئی کے حوالے سے یوں گویا ہیں :

’’جو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاہدؔہ لطیف صرف کرنٹ افیئرز کی شاعرہ ہے اور اس کے ہاں صرف قومی دکھوں کی فراوانی ہے یا اُسے وطن کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں تو وہ جب اس کا تازہ شعری مجموعہ ’’محبت ہو نہ جائے ‘‘ پڑھیں گے تو وہ اسے محبت کی شاعرہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور انھیں خوشگوار حیرت بھی ہو گی وہ غزل کی بہت اچھی شاعرہ تو تھی ہی اس کی نظم بھی دل کی تہہ میں اُتر جاتی ہے۔ ‘‘

مذکورہ کتاب کے حوالے سے ذرا شہزاد احمد کی رائے دیکھیے :

’’شاہدؔہ لطیف نے محبت کے بارے میں جتنی شاعری کی ہے اس میں تہ در تہ کئی مضامین شامل ہوتے چلے گئے ہیں شاعری میں اتنا بے ساختہ پن ہے کہ یہ دلوں تک سفر کرنے والی شاعری بن گئی ہے ایسی شاعری جو کبھی لکھی نہ گئی ہو وارد ہوئی ہو شاعری کے تخلیقی عمل میں مثالی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ شعر خود بخود سرزد ہو جائے اور اس کے لیے کوشش نہ کرنی پڑے بہرحال شاہدؔہ اس محبت کے عظیم سفر کے لیے مبارک باد کی مستحق ہیں ‘‘

مندرجہ بالا اصحابِ شعر و نقد کی آرا سے شاہدہ لطیف کے شعری و ادبی مقام و مرتبے کا تعین بخوبی کیا جا سکتا ہے ڈاکٹر سید شبیہ الحسن کی رائے کے مطابق اُن کے وسیع الجہات تخلیق کار ہونے کا ادراک ملتا ہے نظم و نثر پر دسترس ہونے کی دلیل ملتی ہے معقولیت و منطقیت کی عکاسی ہوتی ہے اور اُن کے ادبی پھیلاؤ کا جواز بھی فراہم ہوتا ہے راجہ انور کے تاثرات کے مطابق اُن کے موضوعاتی افق پر روشنی پڑتی ہے غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن پر قدرت کا اظہار ہوتا ہے شہزاد احمد اُن کی شاعری کو اظہار کی بے تکلفی اور بے ساختگی سے عبارت قرار دیتے ہیں اُن کی رومان پروری کا اعتراف کرتے ہیں اُن کے نزدیک شاہدؔہ لطیف کا کلام آورد نہیں بلکہ سراپا آمد ہے اُن کی اکتسابی کاوشوں کا اظہار نہیں بلکہ اُن کی فطری صلاحیتوں کا عکسِ جمیل ہے انتقادی نظر کے لحاظ سے جس ادبی شخصیت میں مذکورہ بالا صفات ہوں تو اُس کا کلام لائقِ تحسین و استحسان ہوتا ہے۔

تا حال شاہدہ لطیف کی نظم و نثر کے حوالے سے مندرجہ ذیل کتب منصہ شہود پر آ کر قارئین اور اصحابِ نقد و نظر سے خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں :

۱۔ معجزہ (شاعری)

۲۔ میں پاکستانی ہوں (قومی شاعری)

۳۔ محبت ہو نہ جائے (شاعری)

۴۔ معرکۂ کشمیر (مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں شاعری)

۵۔ برف کی شہزادی (منظوم سفرنامہ)

۶۔ اُف یہ برطانیہ (منظوم سفرنامہ)

۷۔ حکایات کا انسائیکلو پیڈیا (تحقیق)

۸۔ سات قدیم عشق (ناول)

۹۔ پاکستان میں فوج کا کردار (صحافت)

۱۰۔ امریکہ، اسلام اور عالمی امن (صحافت)

۱۱۔ دنیا کے ستر عجوبے (ترجمہ)

۱۲۔ بیت اللہ پر دستک (منظوم سفرنامہ)

۱۳۔ مختصر کہانیاں اور یک بابی ڈرامے (بی اے کے طلباء اور طالبات کے لیے )

باضابطہ طور پر اول الذکر اُن کے چار شعری مجموعے ہیں جن میں پہلا اور تیسرا متفرق موضوعاتی اہمیت کے حامل ہیں علاوہ ازیں تین منظوم سفرنامے ہیں جن میں سفر نامہ کے ضوابط بھی شاملِ کار ہیں مزید براں ان کا ادبی اور صحافتی نوعیت کا کام بھی اپنی مثال آپ ہے ترجمہ کے فن میں بھی انھوں نے کاوش کی ہے منظوم سفر نامہ نگاری کے حوالے سے ایک بات قابل ذکر ہے کہ شاہدؔہ لطیف منظوم سفرنامہ کی موجد ہیں یا نہیں یہ ایک تحقیق طلب معاملہ ہے جو محققین کے لیے صلاحِ عام ہے کہ وہ اس حوالے سے تحقیق کریں مگر ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شاہدؔہ لطیف نے منظوم سفرنامے کو تقویت ضرور بخشی ہے۔

شذرہ ہذا میں ہم اُن کے تیسرے مجموعۂ شعر ’’محبت ہو نہ جائے ‘‘ کے نصف اول کی منتخب غزلیات کے اشعارِ منتخبہ کو تجزیاتی حاشیہ آرای کے ساتھ پیش کریں گے اور استخراجی نتائج کو قارئین شعر و نقد کے ادراکات کا حصہ بنائیں گے اُن کی مذکورہ کتابِ شعر میں حمد و نعت پابند و آزاد اور نظم معریٰ کی ہیئت کی حامل نظمیات شامل ہیں جن میں فکر کے پہلو بہ پہلو فن کے تقاضے بھی بخوبی نبھائے گئے ہیں عام طور پر نسائی آزاد نظم نظمِ منشور کی ہئیت اختیار کرجاتی ہیں کیونکہ اس میں عروضی محاسن کا فقدان پایا جاتا ہے لیکن شاہدؔہ لطیف کے ہاں ایسا کوئی ماجرا نہیں ہے جو اُن کے فن کی بالیدگی کی بیّن دلیل ہے اُن کے موضوعات میں قدیم و جدید ہر نوع کے عنوانات پائے جاتے ہیں جو اُن کی فکری ہمہ گیری کی علامت ہے افکار میں سادگی بھی ہے اور گہرائی و گیرائی کے فلسفے بھی پائے جاتے ہیں یوں اُن کے جذبات و احساسات خالص فطری انداز اختیار کرجاتے ہیں اور تصنع کی آلائشوں سے مبرا و ماورا ہیں۔

شاہدؔہ لطیف کا روایت سے رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے اُن کے نزدیک وہ جدت جو روایت سے عاری ہو بے بنیاد و بے حقیقت ہے بلکہ اُسے بدعت کا درجہ حاصل ہے اس لیے ان کے ہاں متقدمین کے موضوعات بھی پائے جاتے ہیں مگر اُن کی پیش کش کا انداز خالص جدید اور فطری نوعیت کا حامل ہے وہ علمِ بیان کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہیں قاری کے لیے شعر فہمی کے عمل کو سہل تر کرنے کے لیے تمثیلات کا استعمال وفور سے کرتی ہیں جو اُن کی کُہنہ مشقی اور بالیدہ فکری کی علامت ہے وہ فکری جدتوں کو ملحوظ خاطر رکھتی ہیں یوں اُن کا کلام رطب و یابس کا شکار نہیں ہو پاتا اور اسلوب سپاٹ ہونے سے محفوظ و مامون رہتا ہے زندگی کی بے ثباتی کے حوالے اُن کے ہاں منفرد انداز میں پائے جاتے ہیں فطری ابلاغ کا ایک تموج ہے جو عند الشعر سیلِ رواں کی حیثیت رکھتا ہے :

اُتر جائیں گے سینے میں زمیں کے

سکندر جیسی چاہے شان رکھ لیں

بقول کسے :

جن کے ڈنکوں سے لرزتے تھے زمین و آسماں

چُپ پڑے ہیں قبر میں اب ہوں نہ ہاں کچھ بھی نہیں

شاہدہ کے افکار و تخیلات میں مقصدیت و منطقیت، معقولیت و معروضیت اور اختصار و جامعیت کے خصائص پائے جاتے ہیں جن میں اپنائیت و جاذبیت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اُن کے ہاں منظر نگاری بھی ہے اور جمالیاتی اقدار کی پاسداری بھی ہے خوشگواریاں بھی ہیں اور رنگینیاں بھی ہیں یوں اُن کا سخن ایک رجائی اور طربیہ تاثر کا حامل ہو جاتا ہے جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ زندگی کے حوالے سے مثبت اور خوشگوار نظریئے کی حامل ہیں :

بے روح فلسفوں کی ضرورت نہیں رہی

لفظوں میں دھڑکنوں کا ہُنر چاہیے مجھے

سبزہ، ہوا اور ابرِ رواں چار سو محیط

پھولوں کی رہگزر پہ گھر چاہیے مجھے

انھوں نے متضاد و متنوع موضوعات کو شعر کے مختصر پیمانے میں فنی چابکدستی سے استعمال کیا ہے اُن کے خیالات کی کئی جہتیں ہیں اُن کا کلام ہمہ گیری کے حسن سے مرصّع ہے انھوں نے انسانی اخلاقی زبوں حالی کو منفرد پیرائے میں پیش کیا ہے اُن کی شاعری انسان دوستی کے حسین آدرش کی حامل دکھائی دیتی ہے انھوں نے انسانی اصلاح و فلاح کا فریضہ براہِ راست اور با الواسطہ طور پر دونوں طریقوں سے انجام دیا ہے ان کے افکار میں تنقیدی تاثرات بھی وفور سے پائے جاتے ہیں جن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قاری پر غیر محسوس انداز میں اثر پذیر ہوتے ہیں :

زمینیں تنگ ہوتی جا رہی ہیں

ستاروں پر رہائش ہو رہی ہے

اُن کی فکری جدیدیت کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے مختلف النوع فکری تلازمات کا استخدام قرینہ کاری کے پیرائے میں کیا ہے جن کا باہم ہونا بالعموم ناممکن الوقوع خیال کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے اُنھیں فطری انداز میں یکجا کر دیا ہے وہ صنعتِ تضاد کا استعمال بھی غیر محسوس اور فطری طریقے سے کرتی ہیں جو اُن کے فکری و فنی ریاض کی غمازی سے مربوط ہے وہ بڑے بڑے فلسفے اور فکری موشگافیوں کو انتہائی سادہ و شُستہ اسلوب میں پیش کرتی ہیں یوں سہل نگاری کو تقویت بخشتی محسوس ہوتی ہیں :

حقیقتوں کے فسانے مِرے خیال میں ہیں

محبتوں کے زمانے مِرے جمال میں ہیں

روایت سے اُنھیں والہانہ محبت ہے اور روایت پسند ہونے پر اُنھیں فخر و امتیاز بھی حاصل ہے اُن کے احساسات میں اپنی مٹی کی بو باس رچی بسی ہوئی ہے وہ اپنا شمار اپنی دھرتی کے سپوتوں میں کرتی ہیں یوں شاعرانہ تعلّی کا جواز بھی پیدا ہو جاتا ہے :

کسے ہے فخر کہ بالا نشینوں سے تعلق ہے

مجھے تو ناز ہے میرا زمینوں سے تعلق ہے

سفر میں نے کیا آغاز جس مٹی پہ چل چل کر

اسی مٹی کے تابندہ قرینوں سے تعلق ہے

محبت کے پیچیدہ فلسفے کو انھوں نے انتہائی سہل انداز میں پیش کرنے کی سعی بلیغ کی ہے ساتھ ہی صنعتِ تضاد کے قرینے کو بھی خوبصورت شعری پیرایہ عطا کیا ہے جس کے علی الرغم محبت کی وسعت اور اُن کی شاعرانہ قدرت کی عکاسی ہوتی ہے ذرا اُن کا یہ شعر ملاحظہ کریں جو فکری اعتبار سے جدّت آمیز بھی ہے :

بہت دور تک دیکھ سکتی ہیں سب کو

مگر بے بصر ہیں محبت کی آنکھیں

شاہدؔہ لطیف کے ہاں محبت کی کیفیات کا برملا اظہار ہوتا ہے جو اُن کی اظہاری جسارتوں کا حصہ ہے اُن کی شاعری خالص فطری رنگ کی حامل ہے اور اُن کے تجربات کا حاصل محسوس ہوتی ہے اُن کے ہاں پیچیدہ کیفیات کا بیان بھی ملتا ہے جن کا اظہار نہ صرف مشکل ہوتا ے بلکہ فزوں تر توضیحات کا متقاضی ہوتا ہے جبکہ وہ انتہائی سادگی کے انداز میں اور خود کلامی کے روپ میں بہ آسانی کہہ گزرتی ہیں یہ اُن کے کلام کی ابلاغیت اور اختصار و جامعیت کے شواہد ہیں :

محبت میں کچھ کچھ اثر ہو رہا ہے

کہ دل اپنا زیر و زبر ہو رہا ہے

محبت کے مقصود و مُنتہا کا بیان ہو یا اظہارِ اپنائیت ان معاملات کا اظہار اُن کے سخن میں بہ حسن و خوبی ملتا ہے جسے وہ نادر و لطیف پیرائے میں پیش کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کی غزل کلاسیکی رچاؤ کی حامل دکھائی دیتی ہے اور فکری اعتبار سے ہندی گیتوں کے قریب تر معلوم ہوتی ہے اُن کے اشعار دل میں اُترنے کا ہُنر جانتے ہیں :

اب اک کارِ ہُنر کرنا ہے مجھ کو

تری آنکھوں میں گھر کرنا ہے مجھ کو

اُن کے افکار میں وضع داری کے ساتھ ساتھ پندار و انا کے فزوں تر خصائص ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ محبوب کی وساطت سے ہی اُس تک رسائی حاصل کرنا چاہتی ہیں کسی اور ذریعے کی خواستار نہیں ہیں نسائی شاعری میں پندار و انا کا یہ تصور شاذ ہی ملتا ہے :

تجھی سے پوچھ کر اسمِ محبت

تجھے زیر اثر کرنا ہے مجھ کو

محبت کی حقیقت اور اس کی گیرائی و گہرائی کو انھوں نے خوبصورت حوالوں سے پیش کیا ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی جنوں کی بجائے اُن کا جھُکاؤ خرد کی طرف زیادہ ہو جاتا ہے جو اُن کی حقیقت پسندی اور غیر جانب داری کی درخشاں مثال ہے جنوں کی پیش کش خرد کی حاشیہ آرائی کے ساتھ ایک دلچسپ اور وقیع تجربہ ہے :

ابھی ہم محبت کو سمجھے کہاں ہیں ؟

محبت میں کارِ زیاں اور بھی ہیں

پیار کے تصور کو انھوں نے نجی اور سطحی زاویوں کے ساتھ نہیں پیش کیا بلکہ اُن کے ہاں پیار کا ایک آفاقی تصور ہے جو اس کی اعلیٰ و ارفع صورت ہے جس کے باعث پیار کی نسبت کسی فردِ واحد سے معدوم ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں یوں یہ پوتر جذبہ اجتماعیت و آفاقیت کا حامل معلوم ہوتا ہے :

خدائی جس پہ قائم ہے اسی کو پیار کہتے ہیں

اس جذبے کو شاعر لائق اظہار کہتے ہیں

انھوں نے اپنے فکری کینوس کو محبت تک محدود نہیں رکھا بلکہ سماجی اور عمرانی حوالے بھی اُن کے وجدانی احساس کا حصہ ہیں فطری ناہمواریوں کا بیان اُن کے ہاں رقّت آمیز پیرائے میں ملتا ہے جس سے یہ یقین بہ آسانی کیا جا سکتا ہے کہ وہ مفلوک الحال طبقے سے کتنی محبت و موانست رکھتی ہیں :

سر اُٹھائے کھڑے تھے پُختہ مکاں

گھر جو کچے تھے زیر آب آئے

پریشان و مضمحل چہروں پر تبسّم کی لہریں بکھیرنا بھی کارِ مسیحائی سے کم نہیں ہے بلکہ عین عبادت ہے اور مقصدِ آدمیت ہے۔ جیسے ساغرؔ صدیقی نے کیا خوب کہا تھا :

کسی زر دار سے جنسِ تبسم مانگنے والے

کسی بے کس کے لاشے پر شریکِ چشمِ نم ہو جا

اس حسیں آدیش کو انھوں نے یوں بیان کیا ہے :

کوئی تو کارِ ہُنر زندگی میں کر جائیں

اگر اُداس سے چہرے ذرا نکھر جائیں

وہ زندگی سے والہانہ محبت رکھتی ہیں اس لیے اُن کے ہاں زیست کا شفاف و شُستہ تصور پایا جاتا ہے وہ حیات کو اپنی مکمل آب و تاب سے دیکھنا چاہتی ہیں محبت کے حوالے سے بھی اُن کے ہاں ایک متوازن نظریہ ملتا ہے کسی نوع کی بے راہروی کا جواز مفقود ہوتا ہے اُن کے تخیلات میں ایک سنجیدگی اور طنطنہ پایا جاتا ہے :

ادھورے غم ادھورے رتجگے اچھے نہیں لگتے

بکھرتے ٹوٹتے سپنے مجھے اچھے نہیں لگتے

میں ہوں تکمیل کی قائل یہی ہے قاعدہ میرا

جُدا ہوتے ہوئے سب راستے اچھے نہیں لگتے

محبت میں یقیناً فاصلہ رکھنے کی قائل ہوں

مگر حد سے زیادہ فاصلے اچھے نہیں لگتے

حصارِ ذات میں رہنا مری مجبوریاں بھی ہیں

مجھے لوگوں سے اتنے رابطے اچھے نہیں لگتے

انھوں نے شاعرانہ پیرائے میں اپنی تمام تر روداد کو بیان کر دیا ہے یوں انھوں نے اپنی شخصیت کو قاری کے لیے توضیح و تفسیر کے ساتھ پیش کر دیا ہے قاری سے لگی لپٹی روا رکھے بغیر اپنی تصویر حیات قاری کو فراہم کر دی ہے مظاہرِ فطرت کے ساتھ انسانی معاملات کی آمیزش کا موضوع بھی توجہ طلب اہمیت کا حامل ہے خود انتقادی اور خود احتسابی کا کڑا عمل بھی اُن کے ہاں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے :

بدلتے ہوئے موسم میں اُبھرتے ہوئے چہرے

بارش سے ہیں کچھ اور نکھرتے ہوئے چہرے

آئینے کے آگے نہیں جاتے کسی صورت

خود اپنے خد و خال سے ڈرتے ہوئے چہرے

اگر شاہدؔہ کے کلام کا عروضی مطالعہ کیا جائے تو انھوں نے بحر ہزج مثمن مکفوف محذوف، بحر ہزج مسدس محذوف، بحر ہزج مثمن سالم، بحر متدارک مخبون دوازدہ رُکنی، بحر متقارب مثمن سالم، بحر خفیف مسدس، بحر رمل مثمن محذوف اور دیگر مرکب بحور میں سخن سنجی کی ہے اور عروضی تلازمات کا استخدام قرینہ کاری سے کیا ہے فنی حوالے سے اُن کا کلام لائقِ اعتنا ہے۔

شاہدؔہ لطیف اپنے تمام تر ادبی، صحافتی اور سماجی پھیلاؤ کے باوجود ماہنامہ اور سیزانٹر نیشنل کی ادارت بھی کر رہی ہیں۔ فکری و فنی اعتبار سے اُن کا کلام جاذبیت کی دولت سے مالا مال ہے موضوعاتی اعتبار سے اُن کے ہاں جدید و قدیم دونوں رنگ پائے جاتے ہیں اگرچہ اُنھیں اپنے کلام کی مقدار اور معیار کے اعتبار سے مقبولیت و پذیرائی حاصل ہے لیکن ابھی تک اُنھیں وہ شہرت نصیب نہیں ہوئی جس کا وہ استحقاق رکھتی ہیں خدائے بزرگ و برتر سے استدعا ہے کہ اُن کے فکر و فن کو مقبولیت عام اور دولتِ دوام سے نوازے اُن کے ادبی کارناموں کو قارئین کے لیے اکتسابِ فیض کا ساماں بنائے۔ (آمین ثم آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ شاہدؔہ لطیف

(اسلام آباد )

 

اچانک ہی کہیں میری محبت کام آ جائے

تری بے چینیوں کی یہ ریاضت کام آ جائے

 

بہت سے کام دنیا میں جنوں انجام دیتا ہے

یہ ممکن ہے کہ اب تیری یہ وحشت کام آ جائے

 

دعا میں مانگ لے مجھ کو مری بے لوث چاہت کو

خدا جانے کہاں تیری عبادت کام آ جائے

 

مجھے تو آئینہ سے لوگ بھاتے ہیں ہمیشہ ہی

خبر کیا ہے کہ کب تیری صداقت کام آ جائے

 

سمندر کی طرح گہری محبت کام آتی ہے

حقیقت ہے کہ اب تیری شرافت کام آ جائے

٭٭٭

 

 

 

وہ خود پرست ہے اپنی انا میں رہتا ہے

ہمارا دل بھی فضائے وفا میں رہتا ہے

 

وہ چاہتا ہے کہ دنیا بھی اُس کے ساتھ چلے

عجیب شخص ہے کیسی ہوا میں رہتا ہے ؟

 

یہ کیسے ہو کہ فقط اُس کی آب و تاب رہے

وہ یوں تو قمقموں والی فضا میں رہتا ہے

 

زمانہ صرف اُسی کا اسیر کیسے ہو؟

وہ رات دن اسی طرزِ جفا میں رہتا ہے

 

میں سوچتی ہوں اُسے دیکھ دیکھ کر اکثر

زمیں پہ رہتا ہے وہ یا خلا میں رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

شبانہ زیدی کی وسعتِ ادراک

 

اقلیمِ سخن جذبات و احساسات کے بحرِ بے کراں اور فکر و فن کی بالیدگی سے عبارت ہے کسی بھی سخن ور کے کلام کے معیار اور اُس کی قدر و منزلت کے تعیناتی پیمانوں میں وسعتِ ادراک کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ جس کا نسائی شاعری میں فقدان بڑی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے اور جن شاعرات نے اپنی شاعری میں اس کا اہتمام کیا وہ مقامِ اعتبار کی طرف ایک ارتقائی انداز میں رواں دواں ہیں آج ہم لاہور سے نسبت رکھنے والی شاعرہ شبانہ زیدی کی سخن سنجی کے حوالے سے اپنے تجزیات سپردِ قرطاس کر رہے ہیں جن کے بیان میں وسعت ادراک کی واضح جھلک مشاہدہ کی جا سکتی ہے تا حال اُن کے دو شعری مجموعہ زیور طباعت سے آراستہ و پیراستہ ہو چکے ہیں جن میں ’’سلگتے کنول‘‘ اور ’’اک شہر بسا پانی پر‘‘ مطبوعہ اکتوبر ۲۰۱۳ء شامل ہیں اُن کا مؤخر الذکر مجموعۂ کلام ہمارے زیر نظر ہے جس میں غزلیات، نظمیات، قطعات، متفرقات اور نظمِ منثور شامل ہیں نظمِ منثور ہمارے نزدیک ایک خارج از فن معاملہ ہے جو لائقِ حوصلہ افزائی نہیں ہے اُن کی غزلیات کے منتخب اشعار برائے تجزیات شامل تحریر ہیں اُن کے افکار میں ایک وسعتِ ادراک کا پہلو پنہاں ہے شبانہ زیدی کے ہاں تخلص کے استعمال کے حوالے سے مستقل مزاجی کا فقدان پایا جاتا ہے کہیں وہ شبیں استعمال کرتی ہیں تو کہیں شبین باندھتی ہیں تو کہیں شبینہ کو بروئے کار لاتی ہیں جو اُن کی فنی ناپختگی کی علامت اور موقعہ پرستی کی مبینہ دلیل ہے۔

شبانہ زیدی کے افکار میں سماجی اقدار کو اہمیت و فوقیت حاصل ہے حضرتِ انسان جو کرۂ ارضی کا ایک متحرک حوالہ ہے اخلاقی اعتبار سے روبہ زوال ہے باہمی خلوص و مروت کا فقدان فروغ پا رہا ہے آج کا انسان جو ثریا پہ کمندیں تو ڈال رہا ہے لیکن اپنے زمینی کردار کو متوازن و معتدل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے زمینی رشتے اپنی اہمیت کھو کر منافرت کی فضا میں تحلیل ہو رہے ہیں اسی احساس کی واژگونی اُن کے ہاں پر تاثیر پیرائے میں ملتی ہے :

سبھی زمین کے رشتوں سے کٹ رہے ہیں ہم

قدم زمیں پہ دماغ اپنا آسمان میں ہے

اُن کے ہاں تلمیحات کا برمحل اور عمدہ استعمال پایا جاتا ہے جس کی بدولت اُن کے مدعا نگاری کے قرینے کو نکھار میسر آیا ہے مشیت نے بنی نوع انسان کو مختلف النوع فطری خوبیوں سے نوازا ہے انھیں خصائص کی بدولت جب ارتقائی عمل شروع ہوتا ہے تو آتشِ حسود بھڑک اٹھتی ہے حاسدین کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ محنت و مشقت سے عاری ہوتے ہیں اُن کے ارتقا کا عمل ساکت رہتا ہے مسابقت کا جذبہ اُن کے ہاں تشنۂ تکمیل رہتا ہے پھر اُن کے لیے حسد کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں رہتا اُن کا جذبۂ حسد کے باعث کام کر کے آگے بڑھنے والوں کے لیے کئی طرح کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں وہ کسی کی عداوت کا تصور ہی نہیں کر سکتے کیوں کہ اُن کی زندگی کے قبیح مصائب اس جذبے کو پروان چڑھنے کی فرصت نہیں دیتے اُن کے قرب و جوار میں کدورتوں کا سماں ہوتا ہے :

حسنِ یوسف کی طرح اپنے ہی دشمن ٹھہرے

تم ہی بتلاؤ کس سے عداوت کرتے

کاسۂ درد لیے یوں تو ہر اک در پہ گئے

ہر جگہ لوگ ملے ہیں ہمیں نفرت کرتے

اُن کے بعض اشعار اُن کی بسیط عرق ریزی اور عمیق تجربات و مشاہدات کی غمازی کرتے ہیں جن کی بدولت اُن کے ادراکی کینوس کی وسعت کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے :

تو غزل کہتی ہے ملتی ہے کسی کو شہرت

خوں سے جیسے کہ ترے اس کا دیا روشن ہو

شبانہ کے ہاں حیات حقیقی کا فزوں تر شعور کار فرما ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کا کلام ادب برائے زندگی کے زمرے کا حامل ہے جدید انسانی مسائل کی تفسیر و تدین اُن کے ہاں دل گداز انداز میں پائی جاتی ہے وہ حالات و واقعات کی بھرپور لفظی تصویر کشی کرتی ہیں :

وہ چل رہا ہے تفکر کی کرچیوں پہ ابھی

جو گھر سے نکلا ہے بچوں کو پیار کرتا ہوا

شبانہ جی کے افکار میں منطقیت و معقولیت، اختصار و جامعیت اور معروضیت کے خصائص پائے جاتے ہیں اُن کا شعر ترسیلِ شعور کا کام کرتا ہے اُن کے کلام کے مطالعہ سے قاری کا ذہنی کینوس وسیع تر ہوتا ہے اور وہ زندگی کرنے کے ادراک سے مرصع ہوتا ہے گویا اُسے غیر متوقع حالات سے پیشگی باخبر کر دیا جاتا ہے :

لازم نہیں کہ زخم کا چارہ ہو اُس کے پاس

صورت سے جو بھی تم کو مسیحا دکھائی دے

اُن کے تخیلات میں انسان دوستی کا درسِ زریں پایا جاتا ہے وہ مفلوک الحال طبقے کی بھرپور وکالت کرتی ہیں اور وہ مزدور طبقہ جو جبری مشقت کے بارِگراں کے نیچے پھنسا ہوا ہے اُس کے مسائل کو دل سوز طریقے سے پیش کرتی ہیں اُن کے پیش کش کے انداز میں ایک اپنائیت کا احساس کارفرما ہے :

محنت کر کے بجھ نہیں پائی آگ وہ دوزخ کی

گرمی میں وہ پیدل بچہ بھوکا لگتا ہے

شبانہ زیدی کے کلام میں فزوں تر حوصلہ افزا امکانات پائے جاتے ہیں اگر اُن کا شعری سفر خلوص و سرعت سے جاری و ساری رہا تو مستقبل میں اُن سے بہت توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ شبانہؔ زیدی

(لاہور)

 

اب کے موسم نے کوئی خواب سجایا ہی نہیں

زرد پتوں کو ہواؤں نے گرایا ہی نہیں

 

دیکھ کر جس کو ٹھہر جائیں مسافر کے قدم

ایسا منظر تو کوئی راہ میں آیا ہی نہیں

 

اُس نے بھی مانگ لیا آج محبت کا ثبوت

ایک لمحے کے لیے جس کو بھلایا ہی نہیں

 

مجھ کو تنہائی نے گھیرا ہے کئی بار مگر

اُس کی یادوں نے کبھی ساتھ نبھایا ہی نہیں

 

کیوں ترے واسطے اس دل میں جگہ ہے ورنہ

کوئی چہرہ مری آنکھوں میں سمایا ہی نہیں

 

جس کی خوشبو سے مہکتے مرے گھر کے در و بام

وقت نے رنگ کوئی ایسا دکھایا ہی نہیں

 

روشنی اپنے مقدر میں کہاں ہوئی شبینؔ

جب دیا ہم نے اندھیروں میں جلایا ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

در پیش زندگی کے ہیں کچھ امتحاں مجھے

چھوڑا ہے لا کے وقت نے آخر کہاں مجھے

 

کچھ مجھ میں بے بسی سی دل ناتواں کی ہے

رودادِ غم سناتے ہیں کچھ مہرباں مجھے

 

کیا کم ہیں زندگی کے یہ غم اس پہ آج پھر

مغموم کر گئی تری آہ و فغاں مجھے

 

روحِ وفا کے جانے سے دھڑکن ہے مضطرب

بجھتے دیے جلائیں گے کب تک یہاں مجھے

 

دنیا کی رونقیں نہ شبینہؔ لبھا سکیں

کتنا عزیز تر ہے غمِ مہرباں مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

شہناؔعلی کا سخن اور انسانی رویے

 

انسان فطرتاً مدنی الطبع واقع ہوا ہے اس لیے وہ مل جل کر ایک معاشرے کی صورت میں رہنا پسند کرتا ہے جس کی بدولت تہذیب و تمدن کا شعور ارتقا پذیر ہوتا ہے انسانی معاشرت کے بہت سے امور ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہوتے ہیں جن میں رہن سہن، لین دین، ذریعۂ معاش، تجارت اور مذہب و ثقافت شامل ہیں یہ معاملات جہاں انسان کے ذہن پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں وہاں انسان بھی ان اعمال و افعال کے حوالے سے نئے نقوش مرتب کرتا ہے یوں سماجی تفاعل کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے انسان پر عمرانی رویوں کا اثر دیر پا ہوتا ہے طبع موزوں رکھنے والی شخصیت انھیں انسانی رویوں کو شعر کے قالب میں ڈھال دیتی ہے جس کی بدولت اُس کی زندگی کا روپ نمایاں نظر آتا ہے اُس کے حالات و واقعات، خوشی و غم کے معاملات اور ذہنی تاثرات کو بہ خوبی مطالعہ کیا جا سکتا ہے مضمونِ ہٰذا میں ہم لاہور میں بسنے والی شاعرہ شہناؔ علی کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ سپردِ قرطاس کر رہے ہیں جن کے فکری کینوس میں فزوں تر انسانی رویے کار فرما ہیں اسی وقت اُن کا پہلا مجموعۂ کلام ’’تیرے لیے ‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۹ء ہمارے پیشِ نظر ہے جس میں غزلیات اور نظمِ منثور شامل ہیں نظمیات میں چوں کہ عروضی تلازمات کا استخدام نہیں کیا گیا اس لیے نظمِ منثور کے زمرے کی حامل ہیں۔

شہناؔ علی کے ہاں محبوب کی بے اعتنائی کا مذکور وفور سے ملتا ہے جس کا دوش محبوب کو دینے کی بجائے وہ اپنے آپ کو دیتی ہیں اس کا سبب وہ اپنی فطری و کسبی صلاحیتوں کے فقدان کو سمجھتی ہیں یوں اُن کا محبوب نردوش دکھائی دیتا ہے جسے ایک روایتی شعری رویے کی حیثیت بھی حاصل ہے اُن کے نزدیک پیار ایک پوتر جذبہ ہے جسے دنیا داری اور مادیت پرستی کی آلائشوں سے ماورا رکھنا چاہیے اپنے شعری اظہار میں وہ قاری کو یہی آدیش دیتی ہوئی نظر آتی ہیں ان کے سخن میں تمثیلات کا حسن پایا جاتا ہے جس کی واضح مثال پیار کی مماثلت و مطابقت ماں کی دعاؤں سے قرار دینا ہے۔

خلوص و مروت کا آدرش اُن کے فکری کینوس میں پرسوز پیرائے میں موجود ہے عصری بے حسی کے موضوع کو انھوں نے منفرد انداز میں پیش کیا ہے اہل دنیا کے ناروا رویوں کا بیان ان کے ہاں دل گداز انداز میں پایا جاتا ہے اُن کے تجربات و مشاہدات میں زمانہ شناسی کی ایک واضح جھلک محسوس کی جا سکتی ہے اُن کے بہ قول ایک مخلص انسان ہی اہلِ جہاں کے ستم کا نشانہ بنتا ہے بہ قولِ شاعر:

اپنے کردار کی عظمت کو رسوا نہ کیا ہم نے

دھوکے تو بہت کھائے مگر دھوکہ نہ دیا ہم نے

سماجی ناہمواری اور نا انصافی کو بھی انھوں نے موضوعِ بحث بنایا ہے عصرِ حاضر کے تناظر میں اُن کے نزدیک عدل و انصاف کی بازیافت بے سود و بے ثمر ہے کیوں کہ منصفانِ جہاں کے ہاتھوں انصاف کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں منصف و قزاق کا امتیاز قصۂ پارینہ بن چکا ہے انسان دوستی کے رویے یوں ناپید ہو گئے ہیں کہ خون کے رشتوں کا احترام بھی باقی نہیں رہا۔

محبوب کے نازو غربدہ اور جفا کاریوں کے باعث بسا اوقات وہ محبوب سے پرسرِ پیکار نظر آتی ہیں جو ایک جدید شعری رویہ ہے اُن کے ہاں فطری انسانی جبلتوں کا فروغ پایا جاتا ہے وہ ہر بات کو من و عن بیان کرتی ہیں اُن کے افکارِ و تخیلات جذبوں کی سچائی سے دھلے ہوئے ہیں ان کا اسلوبِ مدعا نگاری کی سادگی کا غماز ہے بہر حال انھیں جہانِ فکر و فن میں ریاضِ بسیط درکار ہے اُن کے مجموعۂ مذکور سے نمونۂ کلام نذر قارئین ہے :

مجھ میں شاید کوئی کمی ہو گی

ورنہ کیوں مجھ سے بے خبر ہوتا

٭

نہ کرو پیار میں دنیا شامل

یہ تو ہے ماں کی دعاؤں جیسا

٭

جو جتنے دھوکے کھائے گا

اتنا مخلص کہلائے گا

٭

کیا ہلاؤں میں عدل کی زنجیر

خود ہی منصف جہاں لٹیرے ہیں

٭

کوئی بہنوں کا والی وارث ہو

ساتھ جب چھوڑ جائیں ماں جائے

٭

زَعم تھا تجھ کو اپنے ہونے کا

میں نے تجھ کو مٹا دیا جاناں

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ شہناؔ علی

(لاہور)

 

 

کچھ بھی مزاجِ یار کے قابل نہیں رہا

پتھر ہزار رہ گئے اک دل نہیں رہا

 

کچھ اس کو حادثات سے فرصت نہ مل سکی

کچھ میرا دل بھی پیار پہ مائل نہیں رہا

 

ناؤ مری بھنور سے جو بچ کر نکل گئی

آنکھوں کے سامنے کوئی ساحل نہیں رہا

 

منزل کی سمت لے کے چلا جائے بے خطر

دنیا میں کوئی رہبرِ کامل نہیں رہا

 

وہ تو کہ جس نے مجھ کو غموں سے مٹا دیا

وہ تو کہ میرے غم میں جو شامل نہیں رہا

 

قدرت نے صاف کر دیے خود میرے راستے

اب کوئی میری راہ میں حائل نہیں رہا

٭٭٭

 

 

 

لہجہ اُکھڑا ہوا انداز ستانے والا

مجھ سے کیوں روٹھ گیا مجھ کو منانے والا

 

ایک ناؤ ہے شکستہ بڑی ظالم لہریں

کون آئے گا اسے پار لگانے والا

 

وہ ہی تاریک سی راہوں پہ مجھے چھوڑ گیا

جس کا چرچا تھا اُفق پار دکھانے والا

 

شکر ہے آج بھی قدموں پہ کھڑی ہوں اپنے

اب کہاں ہے مجھے نظروں سے گرانے والا

 

زخم کھاتے رہو اور موند لو آنکھیں شہناؔ

دوست ہی ہو گا کوئی تیر چلانے والا

٭٭٭

 

 

 

 

شیریں لغاری عنبرؔ دل کی شاعرہ

 

دنیائے فکر قلب و خرد سے عبارت ہے دل داخلی اظہار کا سب سے معتبر حوالہ ہے داخلیت کے تمام تر چشمے اسی سے پھوٹتے ہیں اظہارِ ذات کے تمام تر ادراکات بھی اسی سے منسوب ہیں جنوں کے حوالے سے افکار و تخیلات بھی دل سے تعلق رکھتے ہیں عقل کی نسبت دل کے حوالے سے فزوں تر شاعری کی گئی ہے آج ہم جس شاعرہ کے حوالے سے خامہ فرسائی کر ہے ہیں دل اس کی شاعری کا کلیدی حوالہ ہے ویسے بھی حضرتِ دل نسائی شاعری میں پہچان کی حیثیت حاصل کر چکا ہے ہمارا موضوعِ بحث پروفیسر شیریں لغاری عنبرؔ کی شاعری دل کے تناظر میں ہے اُن کا تعلق جنوبی پنجاب کے مردم خیز خطہ ڈیرہ غازی خان سے ہے کچھ عرصہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج ڈیرہ غازی خان میں تدریسی فرائض سرانجام دیے بعد ازاں جام پور گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج میں بہ طور پرنسپل خدمات مہیا کیں معروف شاعرہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ، تزئین راز زیدی اور شاہینہ عندلیب ان کی شاگرد طالبات رہی ہیں اس وقت ان کا اولین شعری مجموعہ ’’ابنائے درد‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۳ء ہمارے زیر نظر ہے جس کے حوالے سے دس ادبی شخصیات کی آرا کتابِ ہٰذا میں مرقوم ہیں جس سے شیریں لغاری کے شاعرانہ مقام و مرتبے کا اندازہ بہ خوبی کیا جا سکتا ہے تاثرات نگاروں میں ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، شاہین بیگم شاہین، جاوید احسن، بشریٰ قریشی، محمد حامد لشاری، مِشا احمد لغاری اور سید سخاوت الوری کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ کتابِ مذکور میں حمد، نعت، سلام، غزلیات اور آزاد نظمیات شامل ہیں۔

شیریں لغاری عنبرؔ درد مند جذبوں کی امین ہیں متاعِ احساس کو معتبر سمجھتی ہیں اُن کے نزدیک ظاہری وضع قطع اور شان و شوکت کی کوئی اہمیت و فوقیت نہیں ہے اس لیے وہ عصری بے حسی کو ہدف تنقید بناتی ہیں وہ سماج کی مادیت پرستی کی مذمت کرتی ہیں اور یوں مکارمِ اخلاق کا با الواسطہ طور پر آدرش دیتی ہیں رومانوی حوالے سے بھی اُن کے ہاں متنوع کیفیات ملتی ہیں ندرتِ افکار کے باعث طرفگیِ سخن کے شواہد ملتے ہیں عندالشعر اُن کے تخیل کی نادرہ کاری رنگ جماتی ہوئی ہوئی نظر آتی ہے اُن کے کلام میں دل ایک مضبوط اور توانا حوالے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ وفورِ مصائب و آلام کے باوجود بھی ان کا حصارِ ضبط مستحکم رہتا ہے۔

جمالیاتی احساسات اور چاہے جانے کے حوالے بھی اُن کے ہاں پائے جاتے ہیں محبت کے حوالے سے جبر و جور اور نالہ و شیون کی حکایات بھی ملتی ہیں یہی وجہ ہے کہیں کہیں اُن کے تخیّلات روایتی نوعیت کے ہیں ایک شدید قسم کا احساسِ محرومی بھی عندالکلام کار فرما ہے دل کے لٹنے کی بپتا بھی شدتِ تاثر کے ساتھ ملتی ہے واردات دل اور کیفیتِ دل کے باعث ان کا سخن رومان پروی کی سادہ مگر عمدہ مثال پیش کرتا ہے دل کی کارستانیوں کا بھرپور مذکور ہے مگر وہ کسی نوع کے غم سے خائف نہیں ہوتیں اگرچہ اُن کا شعری ارتقا سست روی سے عبارت ہے مگر حوصلہ افزا ہے ابھی اُن کا دشتِ سخن میں آغازِ سفر ہے اور انھیں طویل المیعاد فکری و فنی ریاضت کے جاں گداز عمل سے گزرنا ہے جس سے ان کے کلام میں مزید بہتری کے امکانات روشن ہوں گے نمونۂ کلام کے طور پر اُن کے مذکورہ شعری مجموعہ سے چند شعری استشہادات نذرِ قارئین ہیں :

پیرہن اُجلے دمکتے ہوئے چہرے ہر سو

دل مگر درد سے بیگانہ ملے شہروں میں

کار کے چلنے کی آواز کے پیچھے دوڑیں

دل کی فریاد کو کوئی نہ سُنے شہروں میں

٭

ہر طرف درد کی قیامت ہے

دل مگر آج تک سلامت ہے

٭

دل کے سب نقش نکھارے کوئی

میری زلفوں کو سنوارے کوئی

٭

وہ بجا میری طرف سے بدگماں ہو کر گیا

چیر کر سینہ کہاں ہم دل تجھے دکھلا سکے

٭

ذرا ذہن کے دریچوں میں تو آ کے مسکرا دے

میرے دل کی تیرگی میں کہیں روشنی نہیں ہے

٭

دل میں تسکین ڈھونڈنے والو

دشت میں گھر کہاں سے آئے گا

٭

ہر غزل میں ہے کہانی اُس کی

دل کا ہر غم ہے نشانی اس کی

٭

دل سے کیا ربطِ محبت کیجیے

دل مسافر ہے سمندر پار کا

٭

لاکھ طوفان اُٹھے پر مری چاہت کا چراغ

دل کی دہلیز پہ اے دوست جلانے کے لیے آ

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ شیریں لغاری عنبرؔ

(ڈیرہ غازی خان)

 

کھو گئی سچی محبت لُٹ چکا ہے پیار بھی

آج کل کے دور میں ملتے نہیں غم خوار بھی

 

میرے دل کا معاملہ اُس پر کھلے تو کس طرح

چھین لی ظالم نے مجھ سے جرأتِ اظہار بھی

 

چھوڑ کر مجھ کو بھنور میں خود کنارے جا لگے

کس قدر خود غرض نکلے ہائے میرے یار بھی

 

خواہشِ دستار چھوڑ خیر اپنے سر کی مانگ

سر نہیں تو ہے عبث پھر خواہشِ دستار بھی

 

دیکھیے محرومیِ قسمت کہ عنبرؔ گردشیں

ہم جو بیٹھے زیرِ سایہ چل پڑی دیوار بھی

٭٭٭

 

 

ہے عجب اس دل کی حالت ان دنوں

بڑھتی ہی جاتی ہے وحشت ان دنوں

 

زندگی کو کوئی بھاتا بھی نہیں ہے

ہے بڑی غمگیں طبیعت ان دنوں

 

کس نے گھونٹا ہے گلہ اقدار کا

جاں بلب ہے ہر روایت ان دنوں

 

اب کسی سے بھی نہیں ہم کو گلہ

خود سے ہی ہے بس شکایت ان دنوں

 

اُٹھ چکا ہے ہر طرح کا امتیاز

ایک ہی ہے رنج و راحت ان دنوں

 

شعروں میں عنبرؔ ہے کہاں وہ نغمگی؟

بس کہ زوروں پر ہے جدت ان دنوں

٭٭٭

 

 

 

 

صبیحہ صباؔ کی صاف گوئی

 

بیان کا صاف و شُستہ ہونا، مقصدیت سے معمور اور پُر تاثیر ہونا اُس کے امتیازی خصائص میں شامل ہے۔ گفتگو کا اعلیٰ و ارفع انداز شاعری سے عبارت ہے اگر شاعری مدعا نگاری کے مقاصد مکمل طور پر پورے نہیں کرتی تو علم بیان کی مقتضیات کی کمی کا احتمال پیدا ہوتا ہے اسلوب کا با مقصد ہونا، لایعنی تکلّفات سے شعوری طور پر گریز کرنا اپنے کلام کو فکری اور لسانی گورکھ دھندوں سے محفوظ رکھنا شاعر کی کہنہ مشقی کی مبینہ دلیل ہے۔ اسی پُختہ کاری سے اُس کی فکری و فنی بالیدگی کی غمازی ہوتی ہے گنجلک اور ثقیل طرزِ بیان قارئین کی طبع نازک پر گراں بار ثابت ہوتا ہے۔ کسی بھی سخن ور کی بسیط فکری وفنی ریاضت کے بعد اُس پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اُس نے اپنی فکر اور اسلوب کو مختلف النوع الآئشوں سے کیسے پاک رکھنا ہے نیز اپنے کلام میں ابلاغیت کو کسیے فزوں سے فزوں تر اُجاگر کرنا ہے تاکہ ممکنہ مقاصد کے حصول کو سہل سے سہل تر بنایا جا سکے آج ہم کراچی میں سکونت پذیر شاعرہ صبیحہ صباؔ کی سخن سنجی کے حوالے سے خامہ پرداز ہیں جن کا طرزِ اظہار صاف گوئی سے عبارت ہے اور مذکورہ تمام خصوصیات کا حامل ہے اُن کے تا حال حسبِ ذیل مجموعہ ہائے کلام زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں :

۱۔      لفظوں کا شہر

۲۔      تری صدا آئی

۳۔     لفظ بنے تصویر

۴۔     تخیل

۵۔     دل درد آشنا

اُن کے مؤخر الذکر شعری مجموعہ ’’دلِ درد آشنا‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۴ء جس میں زیادہ تر غزلیات شامل ہیں کے ثُلث اول اور دوم کی غزلیات کے منتخب اشعار مذکورہ موضوع کے حوالے سے برائے استخراجات شاملِ شذرہ ہیں اس سے قبل کہ ہم اُن کے کلام کو انتقادی عمل سے گزاریں اُن کے حوالے سے معاصر اربابِ فکر و دانش کی آرا کی چند جھلکیاں سپردِ قرطاس ہیں۔

صبیحہ صباؔ کی شاعری کے حوالے سے معروف شاعر خالد احمد کی رائے حسبِ ذیل ہے۔

’’پاکستانی ادب نے کلاسیکی رجحانات کے سائے میں حقیقت پسندی اور معاشرتی حقیقت کے روئیوں کی گود میں آنکھ کھولی ان دو عظیم روایتوں نے پاکستان کے دامن کو بیش بہا فن پاروں سے بھر دیا ان تراشیدہ ہیروں کی جھلمل میں کسی گہرِ آب دار کے لیے اپنی جگہ بنانا کتنا دشوار ہے اس کا اندازہ گزشتہ چالیس سالوں کے دوران صرف گنتی کے چند ناموں کے نمایاں ہونے سے ہی لگایا جا سکتا ہے پاکستانی غزل کے باب میں گنتی کے چند ناموں میں ہماری صبیحہ صباؔ کا اسمِ گرامی بھی شامل ہے۔ ‘‘

اب جعفر شیرازی کے تاثرات ملاحظہ کریں :

’’صبیحہ صباؔ کا کلام اس کے لہجے، اسلوب اور مکمل انفرادیت کا مظہر ہے اس کی شاعری میں اس کی طبیعت کی طرح نرم روی شامل ہے۔ اس کی شاعری کا نزول اس طرح ہوتا ہے جیسے ویرانے میں پھول کھِل اُٹھتے ہیں اس کی شاعری میں حسن بھی ہے چاہت بھی جمال و جلال بھی وہ جس طرح علم و ادب، فکر و فن کی آبیاری کر رہی ہے وہ اسے ایک تناور درخت میں تبدیل کر دے گی۔ اس کی شاعری غموں اور تلخیوں کو برداشت کر کے عجیب ذائقوں سے لطف اندوز ہوتی ہے وہ ان کیفیتوں سے خود کو سرشار کرتی ہے وہ ان ساری حقیقتوں کو شعروں میں ڈھال کر ہم تک نہایت کامیابی سے پہنچا دیتی ہے۔ ‘‘

رضا الحق صدیقی رقم طراز ہیں :

’’صبیحہ صباؔ کی شاعری کی اٹھان پنجاب کے شہر ساہیوال سے ہوئی۔ پنجاب کا خاص کلچر اور گھر کے ادب دوست اُردو ماحول نے اُن کی شاعری کو جہاں لطیف نازکی بخشی وہیں تجربات و مشاہدات کے معتدلانہ عمل نے پنجاب کے اجتماعی مزاج کی خوشبو کے رنگ ان کی شاعری میں بکھیر دئیے ان کے شریکِ حیات سید صغیر احمد جعفری کی ادب دوستی نے بھی ان کی شاعری کو جلا بخشی۔ صبیحہ صباؔ آج کے دور کی حساس شاعرہ ہیں۔ ان کی یہ حساسیّت ان کی شخصیت اور شاعری دونوں میں چھلکتی ہے ان کی شاعری کے پسِ منظر میں ان کے ذہنی روئیوں کاعکس نمایاں ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر بختیار نواز کا اُن کی شاعری کے حوالے سے نقطۂ نظریہ ہے :

’’اُن کی شاعری کی ہمہ گیری کے عقب میں جو بیانِ غم ہے اس کا تعلق ان کی زندگی سے اصلاً ہے یہ تو نہیں کہا جا سکتا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے مشاہدے نے اُن کی افتادِ طبع میں ڈھل کر اُن کے مزاج کا حصہ بنا دیا ہو مزاج کا حصہ بننے کے آگے کے مراحل میں یہ مشاہدہ اضطراب کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور رفتہ رفتہ مسلسل اضطراب کی صورت میں ان کی شعری طبیعت کا جوہر بن کر اُبھرتا ہے اُن کے ہاں کائنات کے مطالعے کا مرکز خود اُن کی اپنی ذات ہے ممکن ہے کائنات کے مشاہدے میں ذات کی کارفرمائی جتنی بڑھتی گئی ہو اس نسبت سے اُن کے ہاں کائنات کی بے رنگی کا احساس بھی بڑھتا گیا ہو اور اس بڑھتے ہوئے احساس نے ان کے تخلیقی لمحوں میں ذات کے اندرون میں ڈوب کر لکھنے کی صلاحیت کو مزید تقویت بخشی ہو۔ ‘‘

جاوید انور اُن کی شاعری کے حوالے سے یوں گویا ہیں :

’’صبیحہ صباؔ نے جو شعری تجربے کیے ہیں وہ ذہنی کیفیتوں کا عطیہ ہیں جو گریز پا اور ناپائیدار نہیں ہیں اور اس کے سبب صاف و شفاف خاکے اُبھرتے ہیں یہ خاکے خود کار طریقۂ کار سے شعر کی نئی جہت سے آشنا کرتے ہیں صبیحہ صباؔ زبان کے بطن سے جو لفظوں کے سامنے کے معنی کے علاوہ پوشیدہ معنی پیدا کرتی ہیں ان کا انسلاک فلسفہ اور علوم کے اشعار میں جو مواد پیش کیا وہ نثری اظہار کے لیے کوئی فکری بنیاد مہیا نہیں کرتے بلکہ اُن کا اصلاً رشتہ نظم کی ہیئت اور بنیاد سے جُڑا ہوا ہے اس جڑاؤ میں شامل اعصابی نظام اور احساس کی حرارتوں میں جذبات کی شدتِ الفاظ اور معنی کے رسمی رشتوں کو درہم برہم کر کے نئے جہانِ معنی کا پتا دیتی ہیں۔ ‘‘

اسلوبیاتی حوالے سے اُن کا سخن سہلِ ممتنع کے رنگ کا حامل ہے فکری حوالے سے اُن کے تخیّلات میں تنوع اور ترفع کے خصائص پائے جاتے ہیں جدید حسیّاتی امکانات کے حامل تنقیدی روئیے بھی ہیں روایتی فکر سے ایک گریز کی صورتِ حال پائی جاتی ہے جن سے اُن کی اظہاری جسارتیں، ہویدا ہوتی ہیں وہ انقلاباتِ وقت پر پورا پورا یقین رکھتی ہیں :

ہم کسی عہدِ وفا کے لیے پابند نہیں

ہم ترے نام سے بے زار بھی ہو سکتے ہیں

میرے شہروں میں قیامت سی مچانے والے

ہاتھ باندھے پس دیوار بھی ہو سکتے ہیں

آج بے وقعت و بے در ہیں پریشان سے لوگ

کل یہی وقت کے سردار بھی ہو سکتے ہیں

اُن کا سخن عمیق حسیاسیّت سے عبارت ہے اُن کے ہاں معاشرتی رویے اپنی حقیقی صورت میں پائے جاتے ہیں اُن کی ذات اور عمرانی معاملات باہم جُڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں صباؔ کی شاعری میں ایک جیتے جاگتے سماج کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جس سے اُن کا غمِ ذات اور غمِ دوراں بھی مربوط نظر آتا ہے :

لوگ ذراسی ہمدردی کر جاتے ہیں

کرب تو اپنی ذات پہ جھیلا جاتا ہے

صبیحہ صباؔ افکار کی اہمیت و وقعت پر پورا یقین رکھتی ہیں اُن کے نزدیک سوچ کی تبدیلی سے عملی تبدیلی عبارت ہوتی ہے وہ حرف کی حرمت اور قلم کی طاقت سے بہ خوبی آشنا ہیں اُن کی سلاست کی بدولت ابلاغیت فزوں تر ہوئی ہے :

سب بدل جاتا ہے اک سوچ کی تبدیلی سے

اس قلم میں ہے جو طاقت کہاں تلوار میں ہے

وہ دنیا کے مفاد پرست روئیوں کا بہ خوبی ادراک رکھتی ہیں اور دوہرے روئیوں کی بھرپور مذمت کرتی ہیں وہ انسان دوستی اور خلوص و مروت کا آدرش دیتی ہیں وہ مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں اُن کے ہاں مجبور و بے بس انسانیت کے حقوق کی آواز بلند ہوتی ہوئی سنائی دیتی ہے وہ اصلاحِ معاشرہ کی غرض سے تنقیدی طرزِ اظہار اختیار کیے ہوئے ہیں جو انسانی فلاح کا مؤثر ذریعہ ہے :

گرتوں کو سنبھلنے کی یہ مہلت نہیں دیتی

چڑھتے ہوئے سورج کی پجاری ہوئی دنیا

صبیحہ صباؔ کے فحوائے بیاں میں عصری بے حسی کا موضوع شدت و حدت اور بھرپور پیرائے میں ملتا ہے اُن کا سخن سماجی و اخلاقی اقدار کا پر تاثیر نوحہ معلوم ہوتا ہے سماجی اخلاقی سرمائے کے لُٹنے کا غم اُن کے کلام کا طرۂ امتیاز ہے جو اُن کی انسان دوستی اور ترقی پسند فکر کی غمازی سے منسلک ہے :

بے حس ہیں یا ظالم کی حمایت میں کھڑے ہیں

پیشانی پہ حیرت ہے کہ اک بل بھی نہیں ہے

اُن کے ہاں صرف حزن و الم کی داستانیں نہیں ہیں بلکہ عمیق رجائی امکانات بھی جلوہ ریزیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں اُن کا غم یاسیت آمیز نہیں بلکہ دعوتِ عمل کا حامل ہے اُن کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے قاری کو زندگی کرنے کی بھرپور شکتی ملتی ہے اور اُس کے ادراکاتِ زیست فزوں سے فزوں تر ہوتے ہیں اُن کے ہاں طربیہ شواہد بھی ملتے ہیں وہ خوشی کی اہمیت سے بہ خوبی آشنا ہیں :

غموں کو چھوڑ کے جیو خوشی کے ساتھ جیو

وگرنہ ہاتھ نہ آئے گا یہ خوشی کا سفر

صباؔ کے ہاں داخلی و خارجی کوائف کا امتزاج ملتا ہے اندرونی اور بیرونی کشمکشِ حیات کا بیان ولولہ انگیز پیرائے میں پایا جاتا ہے وہ انسان کے داخلی و خارجی مصائب و آلام کا بہ خوبی شعور رکھتی ہیں :

پہلے اندر کی جنگ نے مارا

پھر تھا باہر کی جنگ میں جینا

صبیحہ نے شر کی قوتوں کا برملا اظہار کیا ہے اور خیر کی قوتوں کو تحریک دینے کی سعی جمیل کی ہے انسان کے قبیح کردار کی نشان دہی کی ہے وہ ایک کھرے نقاد کی طرح عمرانی معائب کو عیاں کرتی ہیں تا کہ اُن کے مداوے کی کوئی صورت آشکار ہو وہ اللہ رب العزت پر مکمل بھروسہ رکھتی ہیں تو اُن کے مذہبی اعتقاد کی علامت ہے :

یہاں انساں قیامت ڈھا رہے ہیں

وہاں اک والیِ محشر تو ہو گا

اُن کے افکار میں ضبط اور راز داری کے معاملات پائے جاتے ہیں جو اُن کی وضع دارانہ شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں جن سے اُن کی حیات کے عمیق تجربات و مشاہدات اور بالیدہ فکری کو بہ خوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے قاری کے لیے ترسیلِ ادراکات کو وہ آموزشِ ہستی کا ساماں گردانتی ہیں اُن کا تخیلاتی کینوس زندگی کے بسیط شعور سے مملو ہے :

اپنی آنکھوں میں مت نمی رکھنا

کیا ضرورت ہے جگ ہنسائی کی

صبیحہ صباؔ کے کلام کو اگر عروضی حوالے سے دیکھا جائے تو انھوں نے بحر خفیف، بحر، رمل، بحرِ مضارع، بحرِ رجز اور بحر متدارک کے اوزان میں شاعری کی ہے بحرِ خفیف طبعی اعتبار سے اُن کی پسندیدہ بحر ہے کیوں کہ اسی بحر میں انھوں نے بہ کثرت طبع آزمائی کی ہے اُن کا فکری کینوس صاف گوئی کے حسین قرینے سے عبارت ہے۔ جس کی بدولت اُن کی مدعا نگاری کا حسن اور اظہاری کرشمہ کاری عیاں ہوئی ہے مزید فکری و فنی ریاضت اُن کے لیے فکر و فن کے نئے ابواب وا کرے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ صبیحہ صباؔ

(کراچی)

 

یقین رکھ سبھی منظر بدلنے والے ہیں

قدم ملا کے سبھی ساتھ چلنے والے ہیں

 

ستم کو سہہ کے کہاں تک رہے گی خاموشی

یہی وہ لوگ جو طوفاں میں ڈھلنے والے ہیں

 

انھیں تو دھوپ بھی پگھلا نہیں سکتی

کسی کی یاد کے صحرا میں جلنے والے ہیں

 

ذراسی ہمت و جرأت سے کام لینا ہے

ہمارے سر سے یہ طوفان ٹلنے والے ہیں

 

یہ حادثے تو گزر جائیں گھر کی چوکھٹ سے

گرے ضرور تھے لیکن سنبھلنے والے ہیں

 

ہمارے سر تو ڈھکے ہیں دعا کی چادر سے

مصیبتوں سے تو ہم بھی نکلنے والے ہیں

 

محبتوں بھرے پرچم اٹھا کے چلنا ہے

یہ نفرتوں کے زمانے گزرنے والے ہیں

٭٭٭

 

 

 

گردشِ ماہ و سال کا حسن و جمال زندگی

جیسے بھی جو گزار دے اُس کا کمال زندگی

 

کوئی ہماری راہ میں کانٹے اگر بچھا گیا

اپنی تو پھر گزر گئی گل کی مثال زندگی

 

اس کے ہیں دونوں ذائقے شیریں بھی اور تلخ بھی

خوشیوں کے ساتھ ساتھ ہے رنج و ملال زندگی

 

کیا کیا ہمیں بُرا لگا کیا کچھ ہمیں بھلا لگا؟

کوئی نہیں مگر رہی واقفِ حال زندگی

 

آئے ہیں اس کے فیصلے دھیرے سے سب کے سامنے

اپنی ادائے خاص سے چلتی ہے چال زندگی

 

مدت سے وہ اس طرح حالتِ جنگ میں رہے

گردش ماہ وسال نے کر دی بحال زندگی

 

وہ جس کو دیکھ دیکھ کر ساری رُتیں حسیں لگیں

میرا تو یہ خیال ہے اُس کا خیال زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

صوفیہؔ بیدار کا وضع دارانہ طرزِ بیاں

 

ہر سخن ور کا کلام اُس کی اُفتادِ طبع کا غماز ہوتا ہے جس میں اُس کی شخصیت، اُس کا مزاج اور اُس کے افکار و تخیلات دخیل ہوتے ہیں طبائع کا تنوع جذبات و احساسات کے تنوع کو جنم دیتا ہے آج ہم لاہور میں مقیم شاعرہ صوفیہؔ بیدار کے کلام کے حوالے سے رقم طراز ہیں جو ایک عمدہ کالم نگار اور کمپیئر بھی ہیں اُن کا سخن فکری حوالے سے محتاط نوعیت کے روئیوں کا حامل ہے جو خود میں وضع داری کے پہلو رکھتا ہے اُن کی شاعری عمومی نسائی شعری ڈگر سے ہٹ کر ہے جس میں نسائیت چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی اور ایک تخیلاتی عمق کار فرما ہے جذبات و احساسات کی شدت ہے زورِ بیاں وفور سے پایا جاتا ہے اُن کے افکار قاری کی توجہ مبذول کرانے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں جن میں اپنائیت کے خصائص پائے جاتے ہیں اس وقت اُن کا اولین شعری مجموعہ ’’خاموشیاں ‘‘ مطبوعہ ۲۰۰۶ء ہمارے روبرو ہے جس میں غزلیات اور آزاد نظمیات شامل ہیں مجموعۂ مذکورہ کے نصف اول کی غزلیات کے منتخب اشعار موضوعاتی تناظر میں تجزیاتی حاشیہ آرائی کے ساتھ سپردِ قرطاس ہیں۔

کوئی بھی تنقیدی نوعیت کا کام ہو وہ کسی کارِ دشوار سے کم نہیں ہوتا اُس کے حوالے سے انحرافات تلاش کرنا انتہائی سہل ہے لیکن اُن انحرافات کے اسباب و علل پر غور کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے اُس کام کے انجام پانے میں حائل دشواریوں کا ادراک ہر کہ و مہ کو نہیں ہوتا یہی ماجرا کچھ ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کے حوالے سے ہے مواد اور کوائف کی فراہمی کے حوالے سے شاعرات معاون و مددگار نہیں ہوتیں اور نہ ہی اُنھیں اپنے ادبی مفادات کا شعور ہوتا ہے اگر ان معاملات کا انحصار اُن پر کیا جائے تو ہمیں ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کے سلسلے کی ایک جلد کی تکمیل کے لیے عمرِ خضرِ درکار ہو گی کچھ تنقیدی بصیرت سے عاری احباب کا ایک انحراف یہ بھی ہوتا ہے کہ فلاں شاعرہ سینئر تھی اور فلاں جونیئر تھی تو سینئر کے حوالے سے کم اور جونیئر کے حوالے سے زیادہ لکھا گیا ہے وہ معیار کا تعین ہماری تنقیدی آرا سے نہیں کرتے بلکہ شذرے کی ضخامت سے کرتے ہیں جو ایک غیر تنقیدی طرز فکر ہے جہاں تک کم یا زیادہ لکھے جانے کا تعلق ہے تو جو شاعرہ فکری و فنی حوالے سے جتنا متاثر کرنے میں کامیاب ہوتی ہے اُس کے حوالے سے اُتنا ہی لکھا جاتا ہے۔

فکری حوالے سے صوفیہؔ بیدار کے ہاں وضع داری کا پہلو پایا جاتا ہے۔ جہاں دولتِ ضبط کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے راز داری اُن کے افکار کا ایک وصفِ خاص ہے جو اُن کی بالیدہ فکری اور مضبوط و مستحکم شخصیت کا بھی آئینہ دار ہے وہ مخلص و غیر مخلص کا بہ خوبی ادراک رکھتی ہیں وہ مراحلِ عشق سے بڑے راز دارانہ انداز میں گزرتی ہیں اُن کی شخصیت کا بھرم فولادی حصار کا مثیل ہے :

تمھارے سامنے میری زباں نہیں کھُلتی

وگرنہ فکرِ تمنا کہاں نہیں کھُلتی

کہانیاں ہیں فقط حرفِ بدگمانی کی

کہانی دل کی درِ دشمناں نہیں کھُلتی

عجیب مرحلۂ عشق آن ٹھہرا ہے

جبین صبر سرِ آستاں نہیں کھُلتی

وہ معاشرتی روئیوں سے ناآسودہ نظر آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کا بندِ ضبط کتھارسس کی راہ اختیار کر لیتا ہے اور قلب و خرد میں حزن و ملال کی مہیب صورتِ حال بن جاتی ہے۔ امنگوں کی دنیا ویران ہونے لگتی ہے ارمانوں کا خون ہونے لگتا ہے تمنائیں حسرتوں کا روپ اختیار کرنے لگتی ہیں زیست ناکام امیدوں کا شمشان بن جاتی ہے جس کی بدولت اُن کا پیرایۂ اظہار ایک عمیق حُزنیت سے ہم آغوش ہو جاتا ہے زندگی کی چکا چوند ماند پڑنے لگتی ہے خواب جرم بن جاتے ہیں جن کی عقوبت سے تا حیات گزرنا پڑتا ہے :

وہ زہر تیری خاموشی نے ہے پلا ڈالا

کہ ذہن و دل کی تھکن نے مجھے رُلا ڈالا

مرے خلاف ہواؤں نے سازشیں کر لیں

یہ پاؤں دشتِ تمنا میں مَیں نے کیا ڈالا

صوفیہؔ بیدار کے لیے غم صرف وجہ کرب ہی نہیں بلکہ باعثِ کمال بھی ہے جس کی بدولت وہ شخصیت میں نکھار کا پہلو رکھتی ہیں اُن کے ہاں رفاقت کا پاس اور محبت کا احساس کارفرما ہے جس کی وجہ سے اُن کے فکری کینوس میں مروتوں کی نمو ہوئی ہے محبوب کی یادیں اُن کے لیے سرمایۂ حیات ہیں محبت کی پاسداری میں وہ خود تحلیل نفسی کی اذیت سے گزرتی ہیں جو اُن کی الفت کی پاکیزگی کی علامت ہے اُن کے افکار میں فروغِ وفا ہے ایک عمیق نوعیت کی وضع داری اور احتیاط کا پہلو بھی کارگر نظر آتا ہے :

غموں کی رات میں ایسا کمال رکھتی تھی

تمھاری یاد کے آنسو سنبھال رکھتی تھی

عجیب دھن تھی کہ میں خود ٹوٹ پھوٹ گئی

میں ایک شخص کا کتنا خیال رکھتی تھی

کہیں بُری ہی نہ لگ جائے کوئی بات مری

میں اس خیال کا بھی احتمال رکھتی تھی

محبت کے جذبوں کی کوملتا اور سندرتا کو اُن کے ہاں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے محسوس کیا جا سکتا ہے اُن کا تصورِ محبت عمومی نہیں ہے بلکہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے جو اُن کی فکری بالیدگی کا غماز ہے ایک احساسِ مروت کی فضا ہے مستقل مزاجی کے خصائص ہیں جو اُن کے افکار سے مترشح ہو رہے ہیں محبت ہی ایک ایسا جذبہ ہے جو اُن کی ذلت اور شخصیت کو نکھار سے نوازتا ہے وہ بے وفا ذات دہر میں وفاؤں کا فروغ چاہتی ہیں :

ترے وعدوں کی دنیا نے کہیں کا بھی نہیں رکھا

مرے دل کی تمنا نے جہاں میں تھی وہیں رکھا

اسے دنیا کے کاموں سے کبھی فرصت نہیں ملتی

مجھے جس کے خیالوں نے کبھی فارغ نہیں رکھا

محبت کی صداقت ہے جو چہرے پر جھلکتی ہے

مرے دل کے اُجالوں نے مجھے اب تک حسیں رکھا

کشمکشِ حیات مختلف النوع مسائل سے عبارت ہے اور زیست کی کامیابی معاملات کے توازن کا تقاضا کرتی ہے عدم توازن کی صورت میں زندگی شکست و ریخت کا شکار ہو جاتی ہے انسان کا متوازن کردار اُس کی کامرانی کی دلیل اور مضبوط و سنجیدہ شخصیت کا عکاس ہوتا ہے :

محبت میں کہاں کچھ سوجھتا ہے

بچا لوں دل تو پھر گھر ٹوٹتا ہے

مصائبِ ہستی سے مسلسل جنگ و جدل زندگی کی علامت ہے کیوں کہ حیاتِ انسانی تحرک کا دوسرا نام ہے جمود مرگ کا استعارہ ہے جو زیست کو متعفن کر دیتا ہے جو لوگ ان معاملات کا بہ خوبی ادراک رکھتے ہیں وہ اپنی عمر سعیِ پیہم میں گزارتے ہیں اور کبھی وقفِ یاس نہیں ہوتے لیکن صوفیہؔ بیدار کے ہاں مسائلِ ہستی استفہامیہ اشارات کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے ایک بھرپور مایوسی کی لہر مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔

راقم الحروف نے اسی فکری مؤقف کو صحت مند و توانا انداز میں اپنی نظم ’’جدوجہد‘‘ میں یوں پیش کیا ہے :

مجھے کچھ سانس لینے دو

مجھے کچھ اور جینا ہے

ابھی آشائیں زندہ ہیں

ابھی ارمان باقی ہیں

ابھی تک میں نہیں ہارا

ابھی تک جنگ جاری ہے

صوفیہؔ بیدار کے افکار کا معجزاتی پہلو یہ ہے کہ اُن کی حیات کا ہزیمت زدہ روپ بھی وضع دارانہ رنگ اختیار کر جاتا ہے جس کی بدولت بیم و رجا کے کوائف کا امتزاج ہو جاتا ہے یوں ایک گنگا جمنی فضا بن جاتی ہے جو خود میں دلکشی کا سماں بھی رکھتی ہے گویا اُن کے دکھ اور سکھ سنگ سنگ چلتے ہیں جن سے حقیقی زندگی کی غمّازی ہوتی ہے :

دئیے تھے درد بہت زادِ راہ نے مجھ کو

اٹھا کے ایڑیاں اب دیکھے ہے مجھے منزل

وہ حیات سے سمجھوتہ کرنے کا فن جانتی ہیں آموزشِ حیات کے لیے وہ خود کلامی کے عمل سے گزرتی ہیں مصائب و آلام کی مہیب فضاؤں میں خو کو درسِ مسرت دیتی ہوئی نظر آتی ہیں جو اُن کی فکر کا ایک مضبوط و مستحکم پہلو ہے :

ستارے رقص کریں تو بھی ان میں ہو شامل

ذرا سا خوش بھی ہو کہ اے مرے دل

اگرچہ یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ اُن کے تخیلاتی کینوس میں جنوں سامانی زیادہ ہے اور ان کا اظہار داخلی نوعیت کا حامل ہے جو نسائی سخن کا عمومی وصف ہے ان کے ہاں خرد آموزی کے امکانات معدوم تو نہیں مگر بہ کثرت بھی نہیں لیکن فکری حوالے سے اُن کے ہاں عمیق محتاط رویے ملتے ہیں جو اُن کے افکار کو خرد کے دھارے میں شامل کر دیتے ہیں جس کی بدولت اُن کا شعری کینوس وضع دارانہ اُفق کی حیثیت کا حامل ہو جاتا ہے اس حوالے سے اُن کی ایک پوری غزل بدون تبصرہ ہدیۂ قارئین ہے جس میں انھوں نے مشکل قوافی کا استعمال کامیابی سے کیا ہے اور نادر نوعیت کی ردیف کو بھی قادر الکلامی سے برتا ہے :

ہوں گے بہت گناہ معاف مگر احتیاط سے

رستے بھی ہوں گے صاف مگر احتیاط سے

اُس کے مزاج میں ہے بہت رکھ رکھاؤ وہ

کرتا ہے اختلاف مگر احتیاط سے

کر لوں گی ساری بات ابھی ہو کے روبرو

میں اُس سے صاف صاف مگر احتیاط سے

دل کا یہ آئینہ بھی بڑا زود رنج ہے

کرتی ہوں اس کو صاف مگر احتیاط سے

اب تو ہجومِ درد کا مرکز وہی رہا

کرتا ہے دل طواف مگر احتیاط سے

بے احتیاطیوں نے نہ چھوڑا کہیں کا بھی

ہے مجھ کو اعتراف مگر احتیاط سے

دنیا کے ساتھ دل کی بھی مانی ہے صوفیہؔ

کرتی ہوں انحراف مگر احتیاط سے

وضع داری اور ضبط دونوں پندار ذات کے تلازمات ہیں جو افکار کی متانت و بالیدگی کو جنم دیتے ہیں جن کی بدولت مسافتِ حیات سہل تر ہو جاتی ہے اس پیچیدہ موضوع کو انھوں نے فلسفۂ سادگی و سہولت سے پیش کیا ہے :

رہِ ہستی کو سادہ کر لیا ہے

جدائی کا ارادہ کر لیا ہے

صوفیہؔ بیدار کا اسلوب سادہ، پر تاثیر اور مقصدیت سے معمور ہے اور ہر قسم کے تکلفات سے مبرا و ماورا ہے۔ جو جذبوں کی سچائی سے دھلا ہوا ہے جس میں تادیر زندہ رہنے والے حقائق کارگر ہیں اور اگر اُن کے کلام کا عروضی مطالعہ کیا جائے تو انھوں نے مختلف النوع مفرد و مرکب بحور میں طبع آزمائی کی ہے عروضی تلازمات کا استخدام بہ حسن و خوبی کیا ہے روایت کا حسن، جذبوں کا خلوص، مروتوں کی پاس داری اور افکار کی وضع داری وہ فکری خصائص ہیں جو اُن کے کلام میں ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ صوفیہؔ بیدار

(لاہور)

 

رات بھر اُداسی کی لہر دل میں چلتی ہے

پر سویر ہوتے ہی زندگی بدلتی ہے

 

کس قدر اندھیرا ہے زرد رو محبت کا

اک اُداس کمرے میں ایک شمع جلتی ہے

 

اپنی ساری شامیں ہی اب تو یوں گزرتی ہیں

اک کہانی یادوں کی آنسوؤں میں ڈھلتی ہے

 

ملگجے سویرے میں دن نکلنے سے پہلے

گاؤں کی منڈیروں پر زندگی بدلتی ہے

 

کھیلتے ہیں بچپن سے کھیل ہے یہ اُن کا بھی

دن فرار ہوتا ہے رات آنکھ ملتی ہے

 

راستہ بدلنے میں پہل گو کہ میری ہے

سانس ایسی ظالم ہے اس کے ساتھ چلتی ہے

 

عمر بھر کی چاہت کی بات صرف باتیں ہیں

زندگی کی عادت ہے راستہ بدلتی ہے

٭٭٭

 

 

 

عشق مل جائے تو اچھا ہے عطا ٹھیک نہیں

بھیک میں اوڑھنا چاہت کی ردا ٹھیک نہیں

 

کتنی صدیوں کی سزاؤں سے گزرنا ہو گا

ایک لمحے میں ہوئی ہے جو خطا ٹھیک نہیں

 

مدعا ٹھیک سہی آنکھ میں پانی بھی تو ہو

ایسے لہجے میں کوئی بھی تو دعا ٹھیک نہیں

 

خانۂ دل کا مکیں ہو کہ سر محفل وہ

اُس کے آنے کی کوئی بھی تو ادا ٹھیک نہیں

 

ڈھلتی عمروں میں ہوا عشق خدا خیر کرے

صوفیہؔ جو بھی ہوا ہے وہ ہوا ٹھیک نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

عنبرینؔ ندیم کا عمومیت آمیز کلام

 

عصری شعری روش میں فن کی حقیقی مقتضیات سے انحراف کا چلن اس قدر عام ہو گیا ہے کہ فنی تلازمات کا شعور ناپید ہوتا جا رہا ہے اظہاری قرینوں کی بجائے آزادانہ اور بے لاگ اظہار کو اہمیت دی جا رہی ہے جس کی بدولت شعریت کی حقیقی روح مجروح ہو رہی ہے ان شعری رویوں کے باعث نثری نظم اور دیگر نثری اصنافِ سخن کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جو احباب پابند شاعری کی قدرت سے عاری ہیں وہ نثری شاعری کے جلو میں عافیت تلاش کر رہے ہیں اور اُسے فروغ دینے میں مصروفِ عمل ہیں ہمارے ہاں ایک ادبی منافقت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ لوگ بھی نثری شاعری کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش ہیں جو بہ ذاتِ خود کبھی اس عمل سے نہیں گزرے لیکن طبقۂ اناث کی حوصلہ افزائی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں یوں نثری نظم کے خیر خواہوں کے سرخیلوں کی فہرست میں اپنا نام درج کروا کر فنِ شعر سے بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں فطری حماقتوں سے مرصع بچاری صنفِ نازک اس تلخ حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے اور اپنی حقیقی صلاحیتوں کا ادراک اُس کے لیے ناممکنات کا حصہ بن گیا ہے جس کے باعث زعمِ بے جاکی روایت مضبوط و مستحکم ہوتی جا رہی ہے اور اپنے آپ کو حلقۂ میر و غالب میں شمار کرنے کا عمل سہل تر ہو گیا ہے خدائے بزرگ و برتر سے استدعا ہے کہ وہ ہمارے شعر و ادب کے شعبے کو ہر نوع کے عارضوں سے محفوظ و مامون رکھے۔

آج ہم لاہور سے تعلق رکھنے والی شاعرہ عنبرینؔ ندیم کے سخن کو زیرِ تجزیہ لا رہے ہیں جنھوں نے اظہار خیال کے لیے نثری نظم کو اختیار کیا ہے جسے ہم قابل بحث ہی نہیں گردانتے مگر اُن کے مجموعۂ کلام ’’پل بہت لمبے مگر لمحے بے وفا‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۱ء میں کچھ غزلیات بھی شامل ہیں جن کے منتخب اشعار کا ہم انتقادی مطالعہ پیش کریں گے۔

عنبرینؔ ندیم کا کلام اظہار کی سادگی اور افکار کی عمومیت سے عبارت ہے اُن کے خیالات سے عام ذہنی سطح کا قاری فکری ہم آہنگی رکھتا ہے وہ خواب دیکھتی ہیں مگر اُن کی تعبیروں سے محروم رہتی ہیں بلکہ کرب سے ہم آغوش ہو تی ہیں تمام تر مصائب و آلام کے باوجود اُن کے ہاں آگے بڑھنے کا ایک عزمِ صمیم پایا جاتا ہے زندگی کے سفر پر وہ چپ چاپ رواں دواں ہیں مگر رہِ حیات کی کٹھنائیوں کے باعث سراپا سوال ہیں اُن کے ہاں رومانیت آمیز تخیلات وفور سے ملتے ہیں جن میں دوریوں اور قربتوں کے حوالے ہیں رشتوں کی شدتوں کے تذکرے ہیں۔

عنبرینؔ ندیم کے بہتر شعری مستقبل کی بشارت دنیا اور اُن سے بہتر توقعات وابستہ کرنا قبل از وقت ہو گا دیدہ باید کہ آگے چل کر اُن کا اظہار کیا کروٹ لیتا ہے اُن کے مذکورہ شعری مجموعہ سے کچھ شعری استشہادات پیشِ خدمت ہیں :

خواب آنکھوں میں جو سجائے گئے

اس قدر ہی عذاب پائے گئے

آبلہ پا تھے تیری راہ میں پر

کیسے کیسے قدم اٹھائے گئے

خامشی سے تھی جب میں محوِ سفر

راہ میں جال کیوں بچھائے گئے

٭

دوریوں میں بھی قربتوں کی طرح

اُس کا رشتہ ہے شدتوں کی طرح

چند گھڑیاں ملی تھیں قربت کی

بن گیا ساتھ مدتوں کی طرح

گو بہ ظاہر نہیں کوئی رشتہ

ہے مرے ساتھ دوستوں کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔عنبرینؔ ندیم

(لاہور)

 

کسی کی محبت کا قائل نہیں دل

کہ جذبوں میں میرے بھی حائل نہیں دل

 

عقیدت کا ہے یہ سفر جانِ جاناں

مری ذات میں اب تو شامل نہیں دل

 

مری بے نیازی نے یہ دن دکھایا

کسی کی بھی چوکھٹ کا سائل نہیں دل

 

میں یہ جانتی ہوں وہ اچھّا بہت ہے

مگر کیا کروں اُس پہ مائل نہیں دل

 

تو کیا تم نے جانا میں پتھر کی مورت

تو کیا تم نے سمجھا مرا دل نہیں دل

٭٭٭

 

 

 

سب ترے نام کر دیا ہم نے

خود کو گمنام کر دیا ہم نے

 

اب تو پہچانتے نہیں خود

اتنا بدنام کر دیا ہم نے

 

وہ بہت تھا حساب میں ماہر

دانہ و دام کر دیا ہم نے

 

زعم تھا اُس کو خود نمائی کا

پر اُسے رام کر دیا ہم نے

 

عنبریںؔ سب کہیں جسے مشکل

بس وہی کام کر دیا ہم نے

٭٭٭

 

 

 

 

فاطمہ سحرؔ کی شعری معاملہ بندی

 

عصرِ حاضر میں ماجرا کچھ یوں ہے کہ شاعر و شاعری دونوں قدر و منزلت سے محروم ہیں اور دونوں بے توقیری کا شکار ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں جو اختصار و جامعیت کے پیرائے میں ہم ہدیۂ قارئین کرتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ فنِ سخن کا صحیح معنوں میں ا دراک رکھنے والے بہت ہی کم لوگ ہیں اور معدودے چند ایسے ہیں جو سخن سنجی کے قوائد و ضوابط کے قائل ہیں نہ صرف قائل ہیں بلکہ ان کا اطلاق اپنے سخن پر بھی کرتے ہیں د وسری بات یہ ہے کہ ہم میں زعمِ بے جا کی روایت مضبوط و مستحکم ہو چکی ہے کیوں کہ تھوڑی سی مشقِ سخن کے بعد ابھی ہم نے شاعری کے بنیادی مسائل سے چھٹکارا نہیں پایا ہوتا کہ ہم میرؔ و غالبؔ سے اپنا موازنہ شروع کر دیتے ہیں تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں خود ساختہ شعرا و شاعرات کا ایک جمِ غفیر ہے جو کسی معتبر و مستند آموزگارِ فن کے حلقۂ تلمذ میں شامل ہونے کو باعثِ تحقیر اور اپنی صلاحیتوں کے منافی سمجھتا ہے اپنے آپ کو حرفِ آخر گردانتا ہے ایسے لوگ ہر نوع کی راہنمائی سے محروم رہتے ہیں اور اقلیم سخن میں کبھی مقام اعتبار حاصل نہیں کر پاتے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آج کل بہت سے حضرات و خواتین کے شعری مجموعے چھپ رہے ہیں جو مجموعۂ کلام کہلانے کی بجائے مجموعۂ اغلاط کہلانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ پانچویں بات یہ ہے کہ ہمارے بیشتر ناقدانِ فن ایسے ہیں جنھوں نے زندگی میں کبھی ایک شعر بھی موزوں نہیں کیا اور وہ نقد و نظر کے فیصلے صادر فرما رہے ہیں کوئی اپنے طباعتی ادارے کی ترقی کے لیے تنقیدی تاثرات قلم بند کر رہا ہے تو وہ اپنے آپ کو بہ طور ناشر تو پروان چڑھا رہا ہے لیکن ادبی حوالے سے اپنے کردار کو مسخ کر رہا ہے اور انصاف کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ایسے احباب خصوصاً شاعرات اور ادب کے دیگر شعبوں سے وابستہ خواتین کے لیے ایسی لغت کا استعمال کرتے ہیں کہ قلوب و اذہان دنگ رہ جاتے ہیں اور الفاظ کی سخاوت کے سمندر بہا جاتے ہیں۔ بے چاری خواتین جو فطری حماقتوں سے پہلے ہی مرصَّع ہوتی ہیں اپنے کالر کو اوپر کرتے ہی رہ جاتی ہیں تحریر کا تاثر کچھ یوں ہوتا ہے کہ وہ کسی ادیب یا نقاد کی تنقیدی کاوش کو ظاہر کرنے کی بجائے اُس سے کسی دل جلے کی تحریر کی غمازی ہوتی ہے وہ اپنے ممدوح کو مافوق الفطرت، غیر مرئی اور ماورائی مخلوق کے طور پر پیش کرتے ہیں کوئی اپنے طابع کو راضی کرنے کے لیے کام کر رہا ہے تو کوئی اپنے فقہ کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ جب دنیائے تنقید کا یہ عالم ہو گا تو غیر جانب داری، انصاف پسندی اور حقیقت پسندی منہ ڈھانپے فریاد کُناں نطر آئے گی اس موضوع پر لکھنے کے لیے دفتروں کے دفتر درکار ہیں مگر کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں ؟ یہاں ہم یہ صراحت کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ مندرجہ بالا سطور کا فاطمہ سحرؔ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ عمومی بھیڑ چال کی نسبت سے یہ باتیں لکھنا ناگزیر ہو چلا تھا لہٰذا لگے ہاتھوں دل کے پھپھولے پھوڑ دیے گئے۔

کلاسیکی شعر و سخن کی شان و شوکت فنی حوالے سے اُس کی فنی روایات ہیں جن میں تضمینِ شعر، قصیدہ، مرثیہ، منقبت، شہر آشوب اور شعری صنائع بدائع ہیں جو معاصر شعرا کے ہاں مفقود ہوتے جا رہے ہیں جب کہ متقدمین ان پر جان چھڑکتے تھے عصرِ حاضر میں بھی اگر کوئی ان امور کو خاطر میں لاتا ہے تو وہ لائق اعتنا ہے شذرہ ہٰذا میں ہم لاہور میں قیام پذیر شاعرہ فاطمہ سحرؔ کی شعر گوئی کی نسبت سے خامہ فرسائی کر رہے ہیں جن کے ہاں ہمیں کچھ نہ کچھ شعری معاملہ بندی کے جواہر میسر آئے ہیں اور معاملہ بندی کو شعری صنائع بدائع میں نگاہِ استحسان سے دیکھا جاتا ہے جہاں تک فاطمہ سحرؔ کا تعلق ہے اُن کا کلام ماشاء اللہ اتنا ضرور ہے کہ اُسے درخور اعتنا جانا جائے اُن کے سخن کی خاص بات شعری معاملہ بندی ہے فاطمہ سحرؔ جن کا تعلق زندہ دلانِ لاہور سے ہے اُن کا کلام خاصی دل کشی کا حامل ہے انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے ایم اے اکنامکس کیا ۲۰۰۵ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’میں چپ ہوں ‘‘ منصہ شہود پر آیا جس میں زیادہ تر غزلیات شامل ہیں تاہم کچھ نظمیات بھی کتابِ مذکور کا حصہ ہیں اس سے قبل کہ ہم اُن کے سخن کے حوالے سے اپنی تجزیاتی آرا پیش کریں ان کے حوالے سے عطا الحق قاسمی کے تاثرات سپردِ قرطاس ہیں :

’’شاعری جذبے اور احساس کی شدت کا نام ہے اور اس بات کا بھی کہ آپ اپنے اظہار کے لیے کن لفظوں کا انتخاب کرتے ہیں اور انھیں کس ترتیب سے اپنے شعر میں جگہ دیتے ہیں فاطمہ سحرؔ کے ہاں جذبے اور احساس کی شدت فراواں دکھائی دیتی ہے اور وہ لفظوں کو برتنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں تاہم فن میں تکمیل کا مرحلہ عمر بھر نہیں آتا البتہ اس منزل کی طرف سفر ضرور جاری رہتا ہے فاطمہ سحرؔ بھی ان رستوں پہ رواں ہیں ان کے سفر کی ابتدا ہے چناں چہ رستے اُن کے لیے کٹھن بھی ہیں لیکن فنی ریاضت اُن کے لیے یہ راہیں آہستہ آہستہ ہموار کر دے گی۔ ‘‘

عطاء الحق قاسمی کی رائے معقولیت و منطقیت کی متقضیات پورا کرتی نظر آتی ہے جس میں اصولِ نقد کی لطیف جھلک موجود ہے مبالغے سے گریز کیا گیا ہے اس میں وہ اسلوب شیریں نہیں اختیار کیا گیا جو ناقدان عصر شاعرات کے لیے استعمال کرتے ہیں غیر جانب داری اور انصاف پسندی کے تقاضے بھی نبھائے گئے ہیں جن میں اختصار و جامعیت اور معروضیت کے کوائف پائے جاتے ہیں۔

عشق مجازی معاملہ بندی کی بنیادی شرط ہے تو فاطمہ سحرؔ کے ہاں بھی فزوں تر مجازی حوالے کارگر نظر آتے ہیں جو نسائی شاعری کی بنیاد گردانے جاتے ہیں محبوب سے اُن کا طرز تکلم کہیں بصیرت آمیز اور تنقیدی نوعیت کا ہے جس میں واژگونی و سنگینی بھی موجود ہے اور احساسات کو جھنجھوڑنے کی سعیِ بلیغ بھی کی گئی ہے کہیں کہیں کھری کھری سنانے کا انداز بھی پایا جاتا ہے جسے جدید شعری اظہار بھی جانا جاتا ہے کلاسیکی شاعری میں محبوب کی شخصیت و سیرت کو ہدف تنقید نہیں بنایا جاتا بلکہ مدح و ستائش سے کام لیا جاتا ہے صرف کسی نہ کسی حد تک اُس کی بے وفائی اور اُس کے جبر و جور کی عکاسی ضرور کی جاتی ہے لیکن شعریاتِ جدید میں محبوب کی سیرت بھی ہدف تنقید بنتی ہے جسے جدید شعری اور تنقیدی رویہ سمجھا جاتا ہے جو فاطمہ سحرؔ کے ہاں بھی پایا جاتا ہے۔

بسا اوقات وہ تصورِ محبوب کو کارِ عبث پر محمول کرتی ہیں اس کارِ زیاں کے باعث ان کے ہاں احساسِ زیاں پایا جاتا ہے جس سے زیست کی لایعنیت کا احساس فزوں تر ہو جاتا ہے مختلف حوالوں سے محبوب کو ہدفِ تنقید بنانا اُن کا ایک شعری رویہ ہے کبھی اظہارِ لا تعلقی کرتی ہیں تو کبھی محبوب کی جفاؤں کا اعتراف کرتی ہیں بعض اوقات اُن کا تنقیدی رویہ فلسفیانہ رنگ اختیار کر جاتا ہے جس کی بدولت اُن کے سخن کی حسیّاتی سطح بلند ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

ابھی فاطمہ سحرؔ کو فکری ترفع اور تنوع مطلوب ہے اُن کے فنی ادراکات انتہائی معصوم ہیں وہ رباعی اور قطعہ کی عروضی مغائرت سے ناآشنا ہیں اس لیے انھیں رباعی اور قطعہ کے مابین فنی اعتبار سے کوئی فرق نظر نہیں آتا حالاں کہ رباعی کے لیے بحر ہزج کے چوبیس ارکان مخصوص ہیں جن میں بارہ اوزان اخرب کے ہیں اور بارہ اوزان اخرام کے ہیں جب کہ قطعہ کے لیے کسی مخصوص بحر کی پابندی روا نہیں ہے رباعی وہ مشکل ترین صنفِ سخن ہے کہ شعری تاریخ میں پختہ کار شعرا بھی رباعی لکھنے سے کنی کتراتے رہے ہیں جب کہ قطعہ ہر کہ و مہ شاعر کے ہاں پایا جاتا ہے۔

فاطمہ سحرؔ کے مجموعۂ مذکور سے چند شعری استشہادات موضوعاتی تناظر میں ہدیۂ قارئین ہیں :

جلنا پڑے گا تجھ کو بھی پروانے کی طرح

قندیل کے حصار کو مت آزما کے دیکھ

٭

اُٹھ کے جانا بھری محفل سے مرا کام نہیں

اب تمھارے لیے ہونا مجھے بدنام نہیں

٭

تمھاری سیرت کا سوچ لیتے

نہ پھر محبت عذاب دیتی

٭

بیکار تیری سوچ میں دل کو سبو کیا

اب سوچتے ہیں ہم نے کیوں اپنا لہو کیا

٭

ایک تیرا ظرف ہے اور ایک میری آرزو

زندگی کو پھر بھی جانے کیوں ہے تیری جستجو

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ فاطمہ سحرؔ

(لاہور)

 

وہ بھی تو محبت کا طلب گار ہوا ہے

کوئی تو چلو مجھ سا گنہگار ہوا ہے

 

ہر وقت ہی کرتی ہے زباں وردِ محبت

کیوں اتنا محبت سے سروکار ہوا ہے

 

دیتے ہیں امیروں کو ہی خیرات مصاحب

کشکول فقیروں کا تو بیکار ہوا ہے

 

بہتا ہے غریبوں کا لہو میرے وطن میں

ہر شخص یہاں صاحبِ تلوار ہوا ہے

 

اب ریت کی منزل پہ کریں کیسے بھروسہ

گھر توڑنے والا ہی تو معمار ہوا ہے

 

سمجھے گا مجھے کون سحرؔ درد سے زیادہ

اپنا تو یہی دہر میں غم خوار ہوا ہے

٭٭٭

 

 

کنارے بیٹھ کے راوی کے اکثر

بدلنا سوچ کا دھارا ہو بڑھ کر

 

ہر اک پہلو میں تیری یاد بُن کر

سمجھنا غیر کی یادوں کو ابتر

 

مرا محبوب ہی میرا خدا ہے

جبھی تو سوچتی ہوں وہ ہے برتر

 

خزاں نے بھی نہ رکھی آبرو جب

کھُلا پھر دشت کا بے باک منظر

 

اگر بھولے سے تو آ ہی گیا ہے

تو یہ حیلے بہانے پھر نہ اب کر

 

سحرؔ کیا چوٹ کھائے دل لگی میں ؟

سدا دل کی لگی میں کھوئے نشتر

٭٭٭

 

 

 

 

 

فرخندہ رضوی کی رومانوی شعری فضا

 

جہانِ شعر افکار و تخیلات سے عبارت ہے جن سے کسی سخنور کے فکری کینوس کا تعین بہ آسانی کیا جا سکتا ہے یہ جذبات و احساسات نوعیات اور تاثرات کے تناظر میں مختلف ہوتے ہیں فکری اعتبار سے کچھ موضوعات ایسے ہیں جنھیں شعری نقطۂ نگاہ سے باضابطہ اصطلاح کی حیثیت حاصل ہے جن میں رومان بھی شامل ہے بالعموم اس کی تعریف و تفہیم میں نا انصافی روا رکھی جاتی ہے کہ اسے صرف معاملاتِ محبت تک محدود سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایسا قطعاً نہیں ہے رومان ایک جامع اصطلاح ہے جس سے پیار، محبت، رنگین مزاجی، زندہ دلی اور شگفتگیِ طبع کے تمام معاملات وابستہ ہیں مگر اس کے ڈانڈے صرف مجاز سے ہی ملتے ہیں شذرۂ ہذا میں ہم کراچی سے بنیادی تعلق رکھنے والی شاعرہ فرخندہ رضوی کے سخن کا تجزیاتی مطالعہ پیش کر رہے ہیں جو آج کل برطانیہ میں مقیم ہیں جن کا تخیلاتی کینوس سراپا رومان ہے مجاز جس کا کلیدی حوالہ ہے اس وقت اُن کا تیسرا شعری مجموعہ ’’زیرِ لب خندہ مطبوعہ 2012ء ہمارے روبرو ہے جس میں حمد و نعت، پابند نظم، غزل اور نظمِ منثور شامل ہے نظمِ منثور کے زمرے کی حامل نظمیں ہیں جو عروضی محاسنات سے قاصر ہیں بقول اکبر حیدرآبادی جن کی رائے کتاب مذکورہ کا حصہ ہے فرخندہ رضوی کی آزاد نظموں کا پہلا مجموعہ ’’سنو خموشی کی داستان‘‘ 2002ء میں منظر عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ ’’فاصلے ستا رہے ہیں ‘‘ 2006ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا مضمون ھذا میں اُن کے اول الذکر مجموعۂ کلام کے نصف اول کی غزلیات کی منتخب شعری استشہادات کا تجزیاتی مطالعہ زیب قرطاس ہے۔

اُن کے ہاں محبوب کا تصور بے وفا اور بے مروت شخصیت کا حامل ہے جو دوہرے معیار اور روئیے کی پاسدار ہے وہ اس امر کا بخوبی ادراک رکھتی ہیں کہ محبوب کے ہاں عہد و پیماں کی روایت تو ہے لیکن اُن کے ایفا ہونے کا چلن مفقود ہے محبوب کی تمام تر کج ادائیوں کے باوجود اُن کے دل میں محبوب کی محبت کبھی کم نہیں ہوتی اگرچہ محبوب کی محب سے موانست کاغذی پھول کی مثیل ہے نوبت بہ ایں جار سید کہ محبوب کے تصور میں جینا محال ہے اور کبھی اُس کی محبت مرنے بھی نہیں دیتی اُنھیں محبوب کے ودیعت کیے ہو غم سے بے انتہا محبت ہے اور اُس کے غم کی نگہبان بن کر جینا پسند کرتی ہیں۔

فرخندہ رضوی کو پیار کا جواب پیار میں مطلوب ہے اس حوالے سے محبوب کی بیزاری اُن کے لیے ناقابل برداشت ہے اگرچہ اُن کے لیے محبوب کی طرف سے پھولوں کی کوئی توقع نہیں لیکن وہ محبوب کی راہوں میں پھول بچھانے کی قائل ہیں۔ اُن کی فکر کئی زاوئیے اختیار کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بعض اوقات وہ اپنے محبوب کو نردوش قرار دیتی ہے کیونکہ اُن کے نزدیک آزار محبت کا مداوا ہی نہیں اُن کے نزدیک محبت ایک مستقل خمار ہے اس لیے وہ بے قرار ہیں اور اُنھیں پل بھر کو سکوں میسر ہی نہیں ہے اُن کے سخن میں معاملہ بندی کا جوہر بھی کہیں کہیں ضو پاشیاں کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اپنی ذات کے ساتھ محبوب کے روئیے کو اجنبی نوعیت کا قرار دیتی ہیں جسے وہ اپنی حیات کے حوالے سے مذاق سمجھتی ہیں ان کے کلام کا موضوعاتی معیار ایک عام سطح کے قاری سے ہم آہنگ نظر آتا ہے جس میں نہ جدت و ندرت ہے اور نہ کوئی اپنائیت کا کوئی وقیع اور قابلِ قدر انداز ہے ابھی وہ ابتدائی پہچان بنانے والے محور میں مصروفِ گردش ہیں اُن کے آخری شعری مجموعہ سے چند شعری تمثیلات منقول ہیں جن کی بدولت اُن کی شاعری کا فکری و موضوعاتی طور پر تعین بہ آسانی کیا جا سکتا ہے بہرحال ابھی اُنھیں بسیط ریاضِ فکر و فن کی ضرورت ہے :

ہم جانتے ہیں اُن کا بھی مؤقف یہی تو ہے

وعدے تو کیجیے مگر ایفا نہ کیجیے

٭

نہ راس آیا محبت کا یہ خمار مجھے

میں بے قرار ہوں پل بھر نہیں قرار مجھے

٭

کاغذی پھول کی صورت ہے محبت اُس کی

پھر بھی گھٹتی نہیں احساس میں چاہت اُس کی

٭

کبھی جینے نہیں دیتا تصور اُس کا

کبھی مرنے نہیں دیتی محبت اُس کی

٭

جو غم ملا ہے پیار میں ہے جان سے عزیز

میں اُس کے غم کی بن کے نگہبان رہی ہوں

٭

وہ میرے پیار کا بھی محبت سے دے جواب

آئے نظر نہ پیار میں بیزار وہ مجھے

میں اُس کے راستے میں بچھاؤں خوشی کے پھول

دیتا ہے گر وہ خار تو دے خار وہ مجھے

٭

الزام مسیحا پہ لگاتی بھی میں کیسے ؟

آزارِ محبت کا مداوا ہی کہاں تھا؟

٭

تیری تصویر میں یوں خود کو بدلتے دیکھوں

صبح دم قالبِ خورشید میں ڈھلتے دیکھوں

٭

اپنے ہی شہر میں ہوں میں اک اجنبی کے ساتھ

کیسا مذاق ہے یہ میری زندگی کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ فرخندہ رضوی

(کراچی )

 

حقیقت اُس کے رونے کی برابر دیکھتے ہیں ہم

اُتر کر اس لیے خوابوں کے اندر دیکھتے ہیں ہم

 

وہ کہتا ہے کہ میرے ذکر سے وہ خود مہکتا ہے

اسی خاطر تو سانسوں میں اُتر کر دیکھتے ہیں ہم

 

وہ کہتا ہے اُتر جاتے ہیں بن کر چاند ہم دل میں

سنو بن کر چاندنی کا پیکر دیکھتے ہیں ہم

 

وہ دُکھ سُکھ کے رکھے ہے پاس اپنے تتلیاں جگنو

چلو خود آزما کر اب مقدر دیکھتے ہیں ہم

 

لُٹاتا ہے خوشی وہ اور آنسو پاس رکھتا ہے

اسی خاطر ہنسی کو اپنے لب پر دیکھتے ہیں ہم

 

وفاؤں پہ نچھاور کرتا ہے جان وہ اپنی

چلو خندہؔ اسی سے دل لگا کر دیکھتے ہیں ہم

٭٭٭

 

 

ہجر کی شب سوال بھی تو ہو

ہر گھڑی کا خیال بھی تو ہو

 

جاگتے ہیں ہم تمام شب لیکن

ہم کو معلوم حال بھی تو ہو

 

دن نکلتا ہے کب کہیں معلوم

اپنا رونا محال بھی تو ہو

 

دی ہے آنکھوں پہ صبح نے دستک

نورِ ہستی و جمال بھی تو ہو

 

ذہنی حالت عیاں کروں میں جب

ان کو تھوڑا ملال بھی تو ہو

٭٭٭

 

 

 

 

فرزانہ فرحتؔ کی خواب گوں شاعری

 

ذاتِ باری تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کی تخلیق کے سلسلے کو ابتدائے آفرینش سے جاری و ساری رکھا ہے اور یہ سلسلہ تا ابد رواں دواں رہے گا حضرتِ انسان کی پیدائش کا مقصدِ اولیٰ جیسا کہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے بات صرف انسانوں اور جنوں تک محدود نہیں بلکہ کائنات کی تمام تر موجودات اور معدومات اُس ذاتِ ایزدی کی تمجید و تحمید کرتی ہیں خدائے بزرگ و برتر نے اپنے دینِ متین اسلام کے ذریعے حیاتِ انسانی کا ضابطہ وضع کر دیا ہے خدائے قدوس کی بندگی کے ساتھ ساتھ حیات انسانی کے کچھ اپنے تقاضے بھی ہیں جنھیں احتیاجات و خواہشات میں منقسم کیا جا سکتا ہے جن کی تکمیل کی آرزو خواب اور جن کے انجام پانے کو تعبیر نیز عدم تکمیل کو حسرت سے عبارت کیا جاتا ہے شعری و نثری ادب چاہے اس کا تعلق متقدمین و متوسطین سے ہو یا متاخرین سے خواب و خیال کے حوالے سے وسیع تر مواد پایا جاتا ہے اس مواد کی نسبت زیست کے بنیادی تلازمات سے جُڑی ہوئی ہے اور جُڑی رہے گی ادب برائے ادب کا زمرہ ہو یا ادب برائے زندگی کا معاملہ اس کی اہمیت ہر حوالے سے نیز ہر عہد میں وقیع القدر ٹھہرے گی آج ہم لاہور سے تعلق رکھنے والی شاعرہ فرزاؔنہ فرحت کے حوالے سے خامہ پرداز ہیں جن کے سخن میں خوابوں اور اُمنگوں کا ایک جہان آباد ہے جس میں زندگی اپنی پوری آب و تاب سے موجزن نظر آتی ہے حیات اپنے حقیقی رنگوں میں کار فرما محسوس ہوتی ہے فرحتؔ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے کیا اور گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن برائے خواتین لاہور سے علم التعلیم میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی شعبۂ تدریس سے منسلک ہو گئیں انھیں زمانۂ طالبعلمی سے ہی ادبی سرگرمیوں سے گہری دلچسپی تھی انھوں نے متعدد انٹر کالج مقابلوں میں شرکت کرکے داد و تحسین کی دولت سمیٹی۔ 1996ء میں برطانیہ میں تشریف لے گئیں تاحال وہیں مقیم ہیں لندن میں ہیومن اناٹمی، فزیا لوجی، پروڈکٹ نالج اور مختلف النوع الیکٹرانک کی تربیات حاصل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ تھراپیسٹ کے طور پر خدمات بہم پہنچا رہی ہیں ان کا پہلا شعری مجموعہ 2010ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا جس نے اُنھیں بہت پذیرائی سے نوازا انھوں نے متعدد بین الاقوامی کانفرنسز اور سیمینارز میں شرکت کی 2011ء میں ان کا دوسرا مجموعۂ کلام ’’خواب خواب زندگی‘‘ منظرِ عام پر آیا کتاب ھذا کا نام اُن کی شاعری کے اجتماعی تاثر کا غمّاز ہے اور اُن کے فکری کینوس کے غالب تاثر کو اُجاگر کرتا ہے کتابِ مذکور حمد و نعت کی روایت سے عاری ہے اس میں غزل، پابند نظم، نظمِ معریٰ اور آزاد نظم شامل ہیں اُن کی آزاد نظم بسا اوقات عروضی محاسنات سے عاری ہو کر نظمِ منثور سے ہم آغوش ہو جاتی ہے اس حوالے سے اُنھیں فن کی عرق ریزیِ بسیار درکار ہے نظمیات کی بجائے غزلیات کو زیادہ نمائندگی دی گئی ہے جس سے اُن کے غزل سے فطری لگاؤ کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے ان کے مؤخر الذکر مجموعۂ شعر کے نصف اول کی چند غزلیات کے منتخب اشعار کا انتقادی مطالعہ سپردِ قرطاس کیا جاتا ہے تاکہ اُن کے سخن کے مرکزی تنقیدی تاثر کو نمایاں کیا جا سکے۔

فکری اعتبار سے فرحتؔ کی شاعری عمومی نوعیت کی ہے اس لیے اختصاصی زاوئیے گریزاں نظر آتے ہیں اُن کے فکری کینوس میں حسرت، دل اور خواب کے تلازمات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اُن کا تمام ترا اظہار داخلی اور نسائی اعتبار کا حامل ہے جنوں سامانی کے وسیع تر شواہد کے ہیں خرد آموزی کے امکانات معدوم ہیں ان کے لوازماتِ محبت میں غم ایک مرکزی حوالہ ہے جو روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے اُن کا محبوب اردو شاعری کے کلاسیکی محبوب کی طرح عجیب الفطرت ہے اُس کی جفا اور جور و ستم مسلمہ معلوم ہوتے ہیں اُن کے ہاں خواب کا تصور متنوع اور کثیر الجہات ہے جو اُن کے لیے خواب عذاب جاں بھی ہیں اور راحت جاں بھی ہیں غمِ ہجر کی آنچ اُن کے ہاں شدید نوعیت کی معلوم ہوتی ہے اُن کے خواب جھوٹ اور سچ کے تمثیلی پیرائے میں پائے جاتے ہیں اُن کے خواب محبت، مجاز اور رومان کے گرد گھومتے ہیں، ہجر کا غم اور وصل کی آرزو شدتِ احساس رکھتی ہے وہ خوابوں سے خوشی اور مسرت کی آرزو رکھتی ہیں اُن کے تخیلات میں معاملہ بندی کا حسن بھی پایا جاتا ہے انھیں اپنی وفاؤں پر یقین و اعتماد ہے اس لیے وہ انھیں باور کراتی ہوئی نظر آتی ہیں زندگی اُنھیں خواب گوں محسوس ہوتی ہے اور یہی اُن کے نزدیک حقیقتِ حیات ہے جس میں طرفگی کا عنصر بھی شامل ہے وہ زیست کو نعمت بھی گردانتی ہیں اور خواب بھی سمجھتی ہیں اُن کے خوابوں میں محبوب کا رنگ نمایاں ہے جسے وہ اپنی جنت خیال کرتی ہیں اُن کے افکار عمومی نسائی احساسات کے حامل ہیں جن میں جدت و ترفع معدوم ہے اُن کے خواب تسلسل سے عاری ہیں جن میں تعمیر و تخریب کا عمل جاری رہتا ہے ان کے خوابوں میں آسودگی کا عنصر صرف محبوب کے پیار کی بدولت ہی ممکن ہے فکری و فنی اعتبار سے اُنھیں فزوں تر ریاض درکار ہے ان کے مؤخر الذکر مجموعۂ کلام سے چند اشعار ہدیۂ قارئین ہیں :

حسرتیں دل میں انوکھی سی وہ بھر جاتے ہیں

خواب تو خواب ہیں اک روز بکھر جاتے ہیں

مجھ کو دیتے ہیں دلاسہ کبھی غم دیتے ہیں

اس طرح آنکھ سے یہ خواب گزر جاتے ہیں

خواب موسم کی طرح رنگ بدلتے بھی ہیں

دن سنورتے ہیں تو یہ خواب سنور جاتے ہیں

رات بھر ساتھ مرے رہتے ہیں بن کر فرحتؔ

صبح دم خواب مرے جانے کدھر جاتے ہیں

٭

مجھے خواب بن کے ملا ہے تو، نہیں تو ہوا مرے روبرو

ترا نقش جو نہ بنا سکا کوئی آئینہ ہے عجیب سا

٭

میں نے تو کھلی آنکھ سے دیکھے ہیں بہت خواب

کیوں نیند میں سپنا کوئی سندر نہیں دیکھا

٭

میرے خواب خواب ہیں راستے ہیں عجب سراب کے سلسلے

میرے دل میں خواب ہیں سو رہے تو نظر میں خواب ہیں جاگتے

تو مجھے قریب سے مل ذرا نہ ہوں درمیاں کوئی فاصلے

میری عمر گزری ہے اس طرح کوئی خواب خواب ہی دیکھتے

میں زمین پر ہوں کھڑی ہوئی میرے ہیں فلک سے بھی رابطے

وہی خواب مجھ کو عزیز ہیں مرے خواب خواب جو سچ ہوئے

جو مِرا ہے مجھ کو ملے کہاں میری شب کٹی ہے یہ سوچتے ؟

میرے خواب خواب میں تو بسا میرے خواب تجھ کو ہیں چاہتے

مجھے تجھ سے شکوہ نہیں کوئی میرے مٹ گئے ہیں سبھی گلے

مجھے دے تو فرحتِؔ دل کبھی مجھے خواب بن کے خوشی ملے

٭

میں ایک حقیقت ہوں کوئی خواب نہیں ہوں

میں صورتِ تصویر ترے دل میں سجی ہوں

٭

خواب خواب زندگی کا خواب ہے

کیا انوکھا باب سایہ باب ہے

زندگی فرحتؔ کوئی نعمت سہی

زندگی کیا ہے فقط اک خواب ہے

٭

میرے خوابوں میں رنگ تیرا ہے

میری جنت کا راستہ تو ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ فرزانہ فرحتؔ

(لاہور )

 

معلوم ہے مجھ کو کہ تو دھوکا ہے مِرے خواب

کیوں ایسے مری آنکھ میں اُترا ہے مِرے خواب؟

 

روتی نہیں یہ آنکھ مگر دل ہے سمندر

میں پیاس ہوں گر تو بھی تو صحرا ہے مِرے خواب

 

حسرت کی طرح آنکھ میں تو میری بسا ہے

کیسا یہ ترا مرا بھی رشتہ ہے مِرے خواب

 

رہتا ہے مری آنکھ میں تو بن کے محبت

تو میرے لیے پیار کا دریا ہے مِرے خواب

 

فرحتؔ کبھی دیتا ہے تو دیتا ہے اُداسی

جذبات کا تو میرے کرشمہ ہے مِرے خواب

٭٭٭

 

 

مری آنکھوں میں نہ بن بن کے بکھر خواب مِرے

اس طرح مجھ میں اداسی تو نہ بھر خواب مِرے

 

تو ہے سپنا تو کوئی اچھی سی تعبیر دکھا

بن کے حسرت میرے اندر نہ اُتر خواب مِرے

 

میں محبت کے تعاقب میں بھٹک آئی ہوں

کھول دے اب تو کسی پیار کا در خواب مِرے

 

تلخیوں میں مری امرت کا کوئی پیالہ دے

زہر بن کر نہ مرے دل میں اُتر خوا ب مِرے

 

اس طرح جلتی ہوئی دھوپ میں مجھ کو نہ جلا

بن مری راہ میں سائے کا شجر خواب مِرے

 

آج فرحتؔ کے مکاں میں بھی اُجالا کر دے

کچھ ملے اس کو ریاضت کا ثمر خواب مِرے

٭٭٭

 

 

 

 

قمر رضوانہ کی شعر گوئی

 

شعر و سخن کے کلاسیکی عہد میں بنتِ حوا کو معاشرتی آزادی میسر نہیں تھی اور وہ طرح طرح کی سماجی جکڑ بندیوں کا شکار تھی اس عصری روش کے باعث احساسِ کمتری صنفِ نازک کے فطری خصائص کا حصہ بنتا چلا گیا جس کے اثرات آج بھی کسی نہ کسی حد تک محسوس کیے جا سکتے ہیں مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ فکری و ذہنی انقلابات رونما ہوئے تو مستورات کے لیے عمرانی پابندیوں کا شکنجہ اپنی گرفت بتدریج کھوتا چلا گیا روشن خیالی، ترقی پسند فکر اور رواداری کا چلن عام ہوتا چلا گیا تو خال خال خواتین شعر و ادب کے شعبے میں وارد ہونا شروع ہو گئیں حوصلہ شکنی اور حوصلہ افزائی کی قوتیں باہمی کشمکش کا شکار ہوئیں بالا آخر جیت حوصلہ افزا عناصر کی ہوئی یہی وجہ ہے کہ آج اقلیمِ سخن میں طبقۂ اناث کا کردار امید افزا ہے کچھ شاعرات تو مقام، اعتبار پر فائز ہیں اور بہت سی جادۂ ناموری پر گامزن ہیں انھیں میں سے ایک نام کراچی سے نسبت رکھنے والی شاعرہ قمرؔ رضوانہ کا بھی ہے جن کی پیدائش بھارت کے صوبہ یوپی کے شہر فیض آباد میں ہوئی جو تاریخی حوالے سے علمی و ادبی شہرت کا حامل ہے ان کے والد سید وحید الحسن ایک صاحبِ علم شخص تھے وہ محکمہ تعلیم میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے ادبی اعتبار سے تخلیق و تنقید سے وابستہ تھے شاعر بھی تھے اور تنقید نگاری ان کا خاص شعبہ تھا۔ چھ بہن بھائیوں میں لڑکیوں میں سب سے چھوٹی قمر رضوانہ ہیں بڑے بھائی انکم ٹیکس کمشنر دوسرے ڈائریکٹر اور تیسرے چیف انجینئر ہوئے ان دنوں لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کا رواج نہیں تھا تاہم قمر رضوانہ بی اے، بی ٹی، ایم اے اور ایم ایڈ کرنے میں کامیاب رہیں گھر میں انھیں صحیح معنوں میں علمی و ادبی ماحول میسر آیا جس کی بدولت ان کی صلاحیتوں کو ذوقِ نمو ملا۔

اس وقت قمرؔ رضوانہ کا پہلا شعر مجموعہ ’’گل رضواں ‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۰ء ہمارے روبرو ہے جس میں نظمیات اور غزلیات شامل ہیں نظموں کا تناسب سب سے زیادہ ہے جو بیشتر پابند نوعیت کی ہیں نظمِ منثور اور نظمِ آزاد سے گریز کی راہ اختیار کی گئی ہے مگر کہیں کہیں نظمِ معریٰ کا سہارا ضرور لیا گیا ہے ان کی بیشتر نظمیں شخصی نوعیت کی ہیں گویا منظوم شخصیت نگاری کی عمدہ تمثیلات ہیں ان کی نظم اگرچہ مقدار میں زیادہ ہے مگر فکری و فنی معیار کے اعتبار سے غزل کی نسبت کم تر درجے کی حامل ہے اس لیے ہم اپنے انتقادی شذرے میں اُن کی غزل کو زیرِ تجزیہ لائیں گے۔

قمرؔ کے جذبات و احساسات میں احساسِ تنہائی کو وقیع اہمیت حاصل ہے حتیٰ کہ مظاہرِ فطرت میں بھی انھیں یہی خصوصیت نظر آتی ہے یوں اُن کے اس خیال میں ایک آفاقیت پائی جاتی ہے انھیں افکار کی بدولت وہ عصری بے حسی کے فلسفے کو اجاگر کرنا چاہتی ہیں جو اُن کے فکری کینوس کا ایک منفرد انداز ہے اگرچہ اُن کی افتادِ طبع پر ایک حزنیہ رنگ چھایا ہوا ہے مگر اُن کے ہاں عزم و حوصلے کے بسیط شواہد بھی ملتے ہیں جو اُن کے نقطۂ نگاہ کے لحاظ سے ہر کہ ومہ کو میسر نہیں ہیں وہ راہِ حیات کی صعوبتوں سے قطعاً خائف نہیں ہوتیں اور اپنی منزل کی کٹھنائیوں کی پرواہ کیے بغیر جادۂ منزل پر رواں دواں رہتی ہیں۔

وہ حیات کو رنج و راحت کا مرقّع سمجھتی ہیں اور زیست کے تصور کی تکمیل کے لیے دونوں کا وجود ناگزیر ہے لہٰذا زندگی کے ان دونوں عناصر سے مفاہمت بہت ضروری ہے جب انسان کے اندر آفاقی محبت کے خصائص اُجاگر ہوتے ہیں تو پھر اپنوں اور غیروں کا اختصاص ختم ہو جاتا ہے بلکہ اپنوں کی نسبت انسانی جھکاؤ غیروں کی طرف زیادہ و جاتا ہے پھر پھولوں کی نسبت کانٹوں کو برداشت کرنے کا یارا بھی فزوں تر ہو جاتا ہے فطری طور پر انسان کے اندر دولت، لوبھ اور شہرت کی خواہش اپنی بساط لپیٹ لیتی ہے دولت سے وحشت کا تاثر اُجاگر ہونے لگتا ہے شہرت سے نفرت ہونے لگتی ہے یہ وہ عمیق حسیّاتی منازل ہیں جن سے انسان کا فلسفیانہ ارتقا جاری رہتا ہے یوں انسانی فطرت میں تنقیدی روئیے نمو پاش ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ دوہرے رویوں کے ادراک کا آغاز کرتا ہے ہر چیز کی حقیقت کو پانے کی کوشش منطقی انداز فکر میں کرتا ہے یہ وہ فکری خصائص ہیں جو رضوانہ قمرؔ کے افکار کا حصہ ہیں جس سے اُن کے بسیط تخیلاتی کینوس کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔

رضوانہ قمرؔ کی غزل میں عصری رویوں کے منفی پہلو وفور سے پائے جاتے ہیں جن میں انسان دوستی کا بالواسطہ آدرش موجود ہے وہ ہماری سماجیات میں مادیت پرستی کی مضبوط جڑوں کو ہدفِ تنقید بناتی ہیں اور روحانیت کی روح کو اجاگر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اُن کے مذکورہ مجموعۂ کلام سے نمونے کے طور پر چند اشعار سپردِ قرطاس ہیں :

شب کی تنہائی میں کس سے کیجیے گفت و شنید

چاند کو بھی چپ لگی ہے چاند بھی سُنتا نہیں

آفتوں میں مسکرانا اہلِ دل کا کام ہے

صبر کرنا جبر پر ہر ایک کو آتا نہیں

منزلیں آسان ہو جاتی ہیں اس کے واسطے

راستوں کی مشکلوں سے جو کبھی ڈرتا نہیں

٭

تمھیں اپنوں کی چاہت ہے مجھے غیروں سے رغبت ہے

تمھیں پھولوں سے رغبت ہے مجھے کانٹوں سے الفت ہے

تمھیں دولت کی ہے لالچ، تمھیں شہرت کی ہے خواہش

مجھے دولت سے وحشت ہے مجھے شہرت سے نفرت ہے

نہ بولو نرم لہجے میں کہ خوف آتا ہے لفظوں سے

نہیں معلوم اس انداز میں کتنی صداقت ہے

٭

خاطرِ حرص و ہوس اپنی انا کے واسطے

دوسروں کی آرزوؤں کو مٹا دیتے ہیں لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ قمرؔ رضوانہ(کراچی)

 

محفلِ دنیا میں جیسے کوئی بھی اپنا نہیں

اس طرح تنہا ہوں میں گویا کہ میں تنہا نہیں

 

کام کچھ رکھتا نہیں ہے وقت کی رفتار سے

جو ہو عالی ظرف وہ معیار سے گرتا نہیں

 

جو بھلائی ہو اُسے یہ جان کر کر ڈالیے

اس جہاں میں نیکیوں کا تو صلہ ملتا نہیں

 

ان عزیزوں کی رفاقت کا بھلا کیا فائدہ

وقت پر جب ساتھ ہی دینے کوئی آتا نہیں

 

چڑھتے سورج کی پرستش عام ہے اس دور میں

ڈوبتے کو جو سنبھالے ایسا تو دیکھا نہیں

 

اے قمرؔ سچ بات کہنے کے لیے دل چاہیے

کیوں تجھے غم ہے کہ تجھ کو ہم نوا ملتا نہیں

٭٭٭

 

 

کل تک جو رہا تھا مرا ہمراز دوستو!

وہ ہی چرا گیا ہے مرا راز دوستو!

 

اس بے وفا سے کب تھی وفا کی ہمیں اُمید

اپنی وفاؤں پہ ہے مگر ناز دوستو!

 

مجھ کو پکارتے ہیں کہ دشمن سے ہے خطاب

لگتی نہیں ہے ان کی یہ آواز دوستو!

 

دیکھا مجھے اُداس تو وہ مسکرا دیا

بخشا ہے اُس نے کیسا یہ اعزاز دوستو!

 

تم نے نگاہیں پھیر کے دنیا اُجاڑ دی

سیکھے کہاں سے تم نے یہ انداز دوستو!

 

میت پہ آ کے تم نے دو آنسو بہا دیے

کیسے قمرؔ اُتارے گی یہ احسان دوستو!

٭٭٭

 

 

 

 

کنولؔ ملک محبت کے جذبوں کی شاعرہ

 

تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ آدم کے حوالے سے مشیت کے مقاصد میں پریم کے پوتر جذبے کو کلیدی اہمیت حاصل ہے مگر اس فلسفے کے ادراک کے لیے عمیق تفکر و تدبر اور بصیرت درکار ہے اگر بین الاقوامی شعریات کا انتقادی مطالعہ کیا جائے تو اس موضوع کی اہمیت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے اگر اقلیمِ اُردو سخن کا کلاسیکی بنیادوں پر تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو محبت کے حامل احساسات اپنی مکمل تاب و توانائی سے مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں ہر سخن ور نے اپنے سخن میں مقدور بھر اس احساس کی پیوند کاری کی ہے اس نوع کی شاعری داخلی احساسات سے عبارت ہوئی ہے آج ہم راولپنڈی سے بنیادی تعلق رکھنے والی شاعرہ کنولؔ ملک کی سخن سنجی کے حوالے سے خامہ فرسا ہیں جو اس وقت دبئی میں مقیم ہیں ان کا تیسرا مجموعۂ شعر ’’تمھارے نام‘‘ مطبوعہ اکتوبر 2015ء ہمارے روبرو ہے جس میں حمد و نعت، سلام، غزل، پابند و آزاد نظمیات شامل ہیں ان کے افکار میں ایک بھرپور شعری تموج پایا جاتا ہے اظہار کا ایک فطری اور بے ساختہ انداز کارفرما نظر آتا ہے اُن کی تمام تر شاعری سلاست و روانی کی آئینہ دار ہے جس میں آمد کا خالص رنگ نظر آتا ہے جس میں فکر و فنی تلازمات کا استخدام بہ خوبی ملتا ہے اس سے قبل کہ ہم اُن کی غزلیات کے اشعارِ منتخبہ کو انتقادی عمل سے گزاریں اُن کے حوالے سے معاصر اربابِ فکر و دانش کی آرا حسبِ ذیل ہیں :

’’وہ اپنے جذبوں، محرومیوں اور مناجات کا اظہار بڑی سہولت سے کر لیتی ہیں ان کی شاعری کی سب سے اہم بات سادگی اور موسیقیت سے آہستہ آہستہ کنول ملک نے شاعری کے عروضی اصول و قیود پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر ابرار عمر)

’’کنولؔ ملک کا زیرِ نظر مجموعہ ’’تمھارے نام‘‘ خوب صورت جذبات، نفیس پیرائیوں اور نسائیت آمیز مکالموں کا دلکش انتخاب ہے جسے شاعرہ نے نہایت سہل انداز میں کلیوں اور گلابوں سے سجا کر پیش کیا ہے محبت ملمع کاری اور تصنع سے ماورا کیفیت کا نام ہے اس کیفیت کو کنولؔ ملک نے انسانی خواہشات کے احساسی کینوس پر بھرپور انداز میں پینٹ کیا ہے۔ ‘‘

(ناصر ملک)

کنولؔ ملک نے محبت کے مختلف النوع احساسات کو فلسفۂ سادگی و سہولت سے پیش کیا ہے اُن کے تخیلات میں خالص فطری و عمومی رنگ پایا جاتا ہے جو قاری کو اپنی اور کھینچے چلا جاتا ہے اُن کے افکار و محبت پر محیط ہیں بلکہ سراپا خلوص و مروت ہیں انھوں نے محبت کے جذبوں کو خالص محبت کی بھاشا میں بیان کیا ہے شبدوں میں احساس کی سندرتا اور کوملتا کا عنصر ملتا ہے اُن کے ہاں وصال و ہجر اور محرومی کے خصائص ملتے ہیں اپنائیت کی ایک بھرپور فضا ہے جو قاری کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے ان کے فکری کینوس میں استعارات، تشبیہات، تمثیلات اور ترکیبات کا بیان خالص فطری پیرائے میں ملتا ہے انھوں نے محبت کے حوالے سے مختلف خیالات کو اپنے سخن میں سمو دیا ہے :

تمھیں پانے کی چاہت ہے مگر کھونے اک ڈر بھی ہے

کہ دل شہرِ تمنا ہے تو محرومی کا گھر بھی ہے

وفا کے باغ میں جھولے پڑے ہیں آرزوؤں کے

دعاؤں کی ہری بیلوں پہ خواہش کا ثمر بھی ہے

فصیلِ فکر پر یادوں کی اک قندیل روشن ہے

تمھاری منتظر میں ہی نہیں یہ چشمِ تر بھی ہے

کنولؔ اعزاز بھی کہتی ہے اس کو جرم بھی دنیا

کہ بد نامِ زمانہ بھی محبت معتبر بھی ہے

کنولؔ کے تخیلاتی کینوس میں محبت کی رقت آمیز کیفیت کا بیان ملتا ہے جو خود میں شعری واردات کا درجہ رکھتا ہے جس سے اُن کے تجربات و مشاہداتِ زیست کی غمازی ہوتی ہے اُن کے ہاں تمثیلاتی قرینہ کاری کا حسن کارفرما ہے جس کی بدولت علمِ بیان کی متقضیات کا انصرام و اہتمام ملتا ہے :

تری آنکھوں نے آنکھوں کا سسکنا بھی نہیں دیکھا

محبت بھی نہیں دیکھی تڑپنا بھی نہیں دیکھا

ابھی تم نے نہیں دیکھا کوئی منظر جدائی کا

ابھی پتوں کا شاخوں سے بکھرنا بھی نہیں دیکھا

وہ بڑے بڑے فلسفیانہ خیالات کو نظریۂ سادگی و سہولت سے پیش کرتی ہیں اُن کی پیش کش میں اپنائیت کا ایک خاص رنگ پایا جاتا ہے اُن کا تمثیلاتی انداز اُن کے سخن کی جان بنا ہوا ہے اُن کے مکتبِ فکر کے مطابق زندگی اور محبت لازم و ملزوم ہیں اس لیے اُن کے سخن میں یہ فکری تلازمات پہلو بہ پہلو ملتے ہیں :

تجھ سے جب رابطہ نہیں ہوتا

زندگی کا پتا نہیں ہوتا

عشق خالی سلیٹ ہوتی ہے

اس پہ کچھ بھی لکھا نہیں ہوتا

اُن کی اظہاری جسارتیں تندرست و توانا ہیں اُن کا لہجہ بلند بانگ ہے جو جذبوں کی شدت و حدت کی غمازی کرتا ہے جسے نسائی سخن کا امتیازی وصف نہیں کہا جا سکتا اُن کی تشبیہات کرشمہ کاری کی بدولت اُن کے کلام میں تاثیرات کے براہِ راست کوائف پائے جاتے ہیں :

تمھارے نام کرتی ہوں میں اپنی زندگی ساری

چھلکتی عشق کی چھاگل تمھارے نام کرتی ہوں

کنولؔ کی شاعری میں منظر نگاری کا وہ وصفِ حسیں پایا جاتا ہے کہ اُن کا کلام تجریدی آرٹ کا حسیں شاہکار نظر آتا ہے جس میں تشبیہات کا ایک طلسماتی انداز کار فرما ہے جو اُن کی فکر کو شعری واردات سے ہم آہنگ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے :

چاند تکتا رہا مجھ کو کھڑکی سے پہروں کسی سوچ میں

جیسے شمع تھی میں اور پگھلتی رہی رات ڈھلتی رہی

اُن کے ہاں روز مرہ زندگی کے رنگ بھی جلوہ ریزیاں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس سے یہ بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حیات کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں کی سپردِ قرطاس کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں :

میں خفا ہو کے فون رکھ دیتی

کال وہ بار بار کرتا تھا

کنولؔ ملک کے اشعار میں داخلی قوافی کا استخدام خصوصی خوب صورتی کا حامل ہے ذیل کا یہ شعر اس امر کی نادر النظیر تمثیل پیش کرتا ہے جس میں تشبیہات و استعارات کا اہتمام فطری نوعیت کا ہے :

میں سسی کی چھوٹی بہنا تپتی ریت ہے میرا گہنا

نین سمندر خالی میرے ٹوٹے میرے پیالے دیکھ

اُن کی شاعری میں عمومیت کے رنگ اس انداز میں سموئے گئے ہیں کہ اُن کے تخیلات قاری کو اپنی قلبی واردات معلوم ہوتے ہیں اور جذبوں میں ایک خالص فطری انداز کار فرما ہے جو تصنع کی آلائشوں سے مبرا و ماورا ہے :

گفتگو میں دفعتاً وہ بے تکلف ہو گیا

آپ کہتے کہتے اس نے تم کہا اچھا لگا

نام اپنا اُس کے ہونٹوں سے سنا جب جب کنولؔ

دھڑکنوں کا ربط یک دم ٹوٹنا اچھا لگا

کنولؔ ملک نے اپنی شاعری میں عروضی تلازمات کا بہ خوبی خیال رکھا اپنی شعریات میں انھوں نے بحر ہزج کو وفور سے استعمال کیا تاہم بحر رمل، بحرِ خفیف، بحر متدارک اور دیگر بحور میں بہ طریقِ احسن شاعری کی فکری حوالے سے اُن کا کلام یکسانیت کی مہیب فضا رکھتا ہے جس میں بوقلمونی اور رنگارنگی مفقود ہے جنوں سامانی کے شواہد تو فزوں تر ہیں مگر خرد آمیزی اور بصیرت افروزی کے امکانات معدوم ہیں اس لیے فکری ترفع اُن کے سخن میں گریز پا نظر آتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنی محبت کو انفرادی زاویوں کی بجائے آفاقی اقدار سے ہم آہنگ کریں جس کی بدولت اُن کے شعری آدرش میں فزوں تر ابلاغیت کے خصائص پیدا ہوں گے اور اُن کا کلام وقیع اور معتبر گردانا جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ کنولؔ ملک

(راولپنڈی)

 

 

بِنا اس کے ہوں میں تنہا اُسے کہنا پلٹ آئے

بہت ویران ہے دنیا اُسے کہنا پلٹ آئے

 

بہت ہنس ہنس کے اک لڑکی جو سب سے بات کرتی تھی

بہت روتی ہے وہ بے جا اُسے کہنا پلٹ آئے

 

اُسے کہنا لڑائی کا بھی کچھ ہوتا بہانہ ہے

وہ مجھ سے خواہ مخواہ روٹھا اُسے کہنا پلٹ آئے

 

اُسے کہنا کہ اب مٹی اُڑاتی ہے ہوا مجھ پر

بہت سنسان ہے رستہ اُسے کہنا پلٹ آئے

 

مجھے اُس نے کہا تھا کہ ستمبر میں ملیں گے ہم

ستمبر آ گیا اس کا اُسے کہنا پلٹ آئے

 

بہت دل نے صدائیں دیں بہت چھلکے مرے آنسو

کہاں گم ہے وہ شہزادہ اُسے کہنا پلٹ آئے

 

اُسے کہنا صدائیں دیں مرے بہتے ہوئے آنسو

تمھیں دیکھے ہوئے عرصہ اُسے کہنا پلٹ آئے

 

کہیں مرنا نہ پڑ جائے کنولؔ اس کی جدائی میں

کرو اب ختم یہ قصہ اُسے کہنا پلٹ آئے

٭٭٭

 

 

 

جو ملا آج ایک مدت میں

کھو نہ جائے کہیں وہ عجلت میں

 

چھوڑ کر چل دیا مجھے اک شخص

کیا کمی تھی مری محبت میں

 

میں محبت مزاج لڑکی تھی

بے وفائی تھی اُس کی فطرت میں

 

بیچ کر دل خرید لائے غم

یہ منافع تھا اس تجارت میں

 

اک حقیقت کنولؔ گمان میں ہے

اک گمان ہے مجھے حقیقت میں

٭٭٭

 

 

 

 

محمودہ غازیہؔ کا شعری اظہار

 

خالقِ کائنات نے مختلف مخلوقات کو تخلیق فرمایا اور اپنی ہر مخلوق کو مختلف النوع خصائص سے نوازا جسے اُس مالکِ جہاں کی قرینہ کاری سے عبارت کیا جا سکتا ہے سنسار کی تخلیقات کے مقاصد کا ادراک قدرت سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا اس کرۂ ارضی پر حضرتِ انسان جو اشرف المخلوقات کے شرف سے مشرف ہے جس کا مقصدِ اولیٰ اپنے پروردگار کی تحمید و تمجید ہے بادی النظر میں اس کے فرائض منصبی میں اس جہاں میں سدھار کی کوششوں کو فروغ دینا بھی ہے بنی نوع انسان کی مختلف شعبۂ حیات کے تناظر میں درجہ بندی کی جاتی ہے خیر و شر کی قوتیں جہاں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہتی ہیں و ہاں مصروفِ کار بھی رہتی ہیں ہر انسان اپنے شعبہ جاتی حوالے کی نسبت سے بہتری کے امکانات کو فروغِ نمو بخشتا ہے وہ مخلوقِ خاص جو علم و ادب کے شعبہ سے وابستہ ہے انسانی فلاح و بہبود کے لیے اپنی کاوشیں صرف کرتی رہتی ہے انسانی طبائع میں تنوع کی بدولت جذبات و احساسات میں رنگارنگی اور بوقلمونی کے عناصر پائے جاتے ہیں جو اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں۔

آج ہمارا موضوعِ بحث اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی شاعرہ محمودہ غازیہ ہیں جن کے ابھی تک دو مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں ’’اکائی کی موت‘‘ اور ’’اعتبار کیوں نہیں کرتے ‘‘ مطبوعہ ستمبر ۲۰۰۴ء شامل ہیں اگرچہ ان کے دونوں مجموعۂ شعر کے نام فکری ترفع سے عاری ہیں لیکن اُن کی شعری افتادِ طبع کی غمازی ضرور کرتے ہیں ہمارے زیرِ تجزیہ اُن کی دوسری کتابِ شعر ہے جس میں غزل، پابند نظم اور آزاد نظم شامل ہیں نظمیں طوالت کے اعتبار سے مختصر اور درمیانے درجے کی حامل ہیں زیادہ تر سہ مصرعی نظمیں جنھیں اُنھوں نے ہائیکو کا نام دیا ہے شامل ہیں اس سے قبل کہ ہم اُن کے سخن کو تجزیاتی عمل سے گزاریں تاثرات نگاروں کی آرا حسب ذیل ہیں۔

اُن کی سخن سنجی کے حوالے سے پروفیسر فتح محمد ملک رقم طراز ہیں :

’’محمودہ غازیہ کی شاعری کا یہ دوسرا مجموعہ اُن کے ذاتی رنج و راحت کا بیان بھی ہے اور اُن کے سیاسی شعور کا ترجمان بھی محمودہ غازیہ ایک کارکن خاتون بھی ہیں اور ایک دفتری کارکن بھی آپ ایک مدت سے نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں انتظامی امور کو نپٹاتی چلی آئی ہیں اور خاندانی زندگی کی کٹھنائیاں بھی سہتی چلی آ رہی ہیں دفتری اور گھریلو فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کی تخلیق سے بھی غافل نہیں ہیں گویا ’’ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی‘‘ چکی کی مشقت کے ساتھ ساتھ مشقِ سخن بھی جاری ہے۔ ‘‘

محمودہ غازیہ کی شعر گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر جمال الدین جمال کچھ یوں گویا ہیں :

’’محمودہ غازیہ نے اپنے پہلے شعری مجموعہ ’’اکائی کی موت‘‘ کی اشاعت کے بعد ایک قلیل مدت میں جادۂ شعر پر بہت سا فاصلہ طے کر لیا ہے بلکہ یوں کہیے کہ ایک جست میں متعدد منازل پیچھے چھوڑ دی ہیں اس کے احساسات میں گرم جوشی تو پہلے ہی سے تھی اب اس کی سوچ نے ایک نیا روپ دھار لیا ہے اس کے لیے اس کے اسلوب میں بھی تبدیلی آئی ہے اور شعر کی ہیئت میں بھی تبدیلی آئی ہے اور شعر کی ہئیت میں بھی اس کے دکھ میں زمانے بھر کا دُکھ سمٹ آیا ہے صنف نازک کی آہ میں جبر کی چکی میں پستی ہوئی مخلوق کی کراہ بھی شامل ہو گئی ہے اس کے باوصف وہ نا اُمید نہیں ہے اُسے آج کی دنیا کے روز افزوں اندھیرے میں اُمید کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں وہ انسان کے مستقبل سے مایوس نہیں اس کے خیالات کی جدت اور جذبات کی شدت سے ایسا لگتا ہے کہ اس کا فن عن قریب اپنے کلائمکس پر پہنچ جائے گا مجھے امید ہے کہ الفاظ و اوزان سے تھوڑا اور دست و گریباں ہونے کے بعد اس کا نام اُن اُردو شاعرات کے زمرے میں شامل ہو جائے گا جس میں اداؔ جعفری، پروینؔ شاکر، فہمیدہؔ ریاض اور کشور ناہید جیسی بڑی شاعرات شامل ہیں۔ ‘‘

محمودہ غازیہ کے شعری اظہار میں انسانی فلاح و بہبود اور خلوص و ہمدردی کے کوائف ملتے ہیں وہ ضرورت مند انسانیت کی مدد و معاونت کو فرضِ منصبی سمجھتی ہیں یوں وہ حقوق العباد کی اہمیت باور کراتی ہوئی نظر آتی ہیں :

خموشی کفر ہے ایسی گھڑی میں

اگر مشکل میں دے آواز کوئی

اُن کے وجدانِ شعر میں عشق کے اسرار و رموز اور مصائب و آلام پنہاں ہیں جب ظلمت بامِ عروج پر پہنچتی ہے تو حق کی اہمیت و افادیت بڑھ جاتی ہے اور انسان تہہ دل سے حقیقت کا معترف ہو جاتا ہے اُن کے تخیلات فکری بالیدگی سے آراستہ و پیراستہ ہیں :

گئے تھے مصر کے بازار میں ہم

پھنسے ہیں عشق کے آزار میں ہم

تو پھر اللہ کو ہم نے ایک جانا

کچھ اتنے بڑھ گئے انکار میں ہم

غازیہ کے ہاں ناقدریِ ذات کے افکار اور عظمت رفتہ کے احساسات پائے جاتے ہیں جو خود میں عروج و زوال کی داستان سموئے ہوئے ہیں مرورِ ایام کا کرب ہے جو موثر پیرائے میں ملتا ہے :

سُنا ہے میں نے کہ اب میرا تذکرہ بھی نہیں

کسی زمانے میں روشن تھے روز و شب مجھ میں

عورت کی مظلومیت کے حوالے سے اُن کے ہاں ایک احساس کی شدید لہر پائی جاتی ہے ہماری سماجیات میں صنفِ نازک کے حقوق کی پامالی اُن کے لیے باعثِ کرب ہے یوں وہ حقوقِ نسواں کی علم بردار اور مشعل بردار نظر آتی ہیں :

آس نراش کی چکی میں

عورت ہوں اور پستی ہوں

ضبط اور صبر و تحمل کی کیفیات اُن کے ذہنی کینوس میں صحت مند و توانا حوالے کی صورت میں موجود ہیں جنھیں وہ اپنے شخصی خصائص کا حصہ گردانتی ہیں :

بس ایک ہنر ہے جو ضمانت ہے ہماری

غم کھانا مگر کوئی شکایت نہیں کرنا

محمودہ غازیہؔ کا شعری ارتقا انتہائی سست روی سے رو بہ منزل ہے اُن کے تخیلات میں جہاں فکر کی پختگی ہے وہاں روایت کی چاشنی اُن کے ہاں بیزار کن عمومیت سے گریز کی صورت پائی جاتی ہے جو اُن کے افکار کو بے جان و بے روح نہیں ہونے دیتی اُمید ہے کہ اعتماد کی فضا میں محنت و ریاضت سے وہ اپنا شعری سفر جاری رکھیں گی اور اُن کے فکر و فن کو مزید نکھار میسر آئے گا۔

٭٭٭

 

 

 

غزلیں ودہ غازیہؔ

(اسلام آباد)

 

 

میں کیوں تیرے ساتھ رہوں

تو جو کہے وہ بات کہوں

 

تو ہر موڑ پہ رہ بدلے

کیسے تیرے ساتھ چلوں

 

رُت بدلی تقدیر نہیں

میں پھولوں سے خار چنوں

 

تیرا سایہ بھی جھوٹا

میں کس آس پہ دھوپ سہوں

 

چاند میں کیا کیا راز چھپے

پر پل جائیں تو دیکھوں

 

نیند کی ڈور ہی ٹوٹ گئی

غازیہؔ کیسے خواب بُنوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خوشبو کے دن اور رنگوں کی کچھ راتیں رہ جاتی ہیں

بھیگے بھیگے سے لمحوں کی برساتیں رہ جاتی ہیں

 

تھم تھم جاتی ہے سرگوشی وقت گزرتا رہتا ہے

کان کی بالی میں لہرائی کچھ باتیں رہ جاتی ہیں

 

رات گزر جاتی ہے لیکن خواب رُکے رہتے ہیں وہیں

جاگتی آنکھوں میں اور خواہش کی سوغاتیں رہ جاتی ہیں

 

غازیہؔ لمحہ ایک ملن کا اور خزانے یادوں کے

عید گزر جاتی ہے پل میں شب راتیں رہ جاتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مسرت یاسمینؔ کا عالمِ مشاہدات

 

انسان کی ذہنی بالیدگی کو فطری و غیر فطری یا کسبی اقسام میں منقسم کیا جا سکتا ہے فطری بالغ نظری تو مشیت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے جب کہ غیر فطری یا کسبی، زندگی، علم اور تجربات و مشاہدات کا حاصل ہوتی ہے غیر فطری فطانت و متانت کے لیے بھی عقلِ سلیم ناگزیر ہے ہر تخلیق کار کی تخلیقات میں اُس کی حیات، عقل و شعور اور تجربات و مشاہدات کا عکسِ مبین ہوتا ہے جس کی بدولت اُس کے سوانحی کوائف کو بھی بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے وہ ذکاوت و فراست جو انسان کے ذاتی مشاہدات کی دین ہو اُس میں پختگی کا عنصر نمایاں اور واضح ہوتا ہے جو سخن گستر اپنے تجربات و مشاہدات کو اپنی شعر گوئی کا حصہ بناتا ہے موضوعاتی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ فکری پختگی کا اہتمام کر پاتا ہے آج ہم لاہور میں سکونت پذیر شاعرہ مسرت یاسمینؔ کی سخن سنجی کے حوالے سے رقم طراز ہیں اس وقت اُن کا اولین شعری مجموعہ ’’محبتوں میں حساب کیسا‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۳ء ہمارے سپیش نظر ہے جس میں زیادہ تر غزلیات شامل ہیں اُن کی شاعری اُن کے عالم مشاہدات کا عکسِ جمیل معلوم ہوتی ہے جو اپنے اندر روایت کا تمام تر حسن سمیٹے ہوئے ہے اور داخلی اظہار کی حامل ہے عمومیت کی خوب صورت ردا اوڑھے ہوئے ہے اور جسے نسائی اعتبار بھی حاصل ہے جس میں فنی تقاضے بھی کسی نہ کسی حد تک نبھائے گئے ہیں۔

مسرت یاسمینؔ کے فکری کینوس میں عصری آشوب کے مظاہر بھرپور پیرائے میں شامل ہیں جنھیں وہ مؤثر انداز میں بے نقاب کرتی ہیں جس سے انسان دوستی کو تقویت ملتی ہے اور اُن کو ترقی پسند فکر کی غمازی بھی ہوتی ہے وہ سماجی ناہمواریوں اور عمرانی معائب و خبائث کے خلاف با الواسطہ طور رپ برسرِ پیکار نظر آتی ہیں جو اُن کی حقیقت پسندی اور مصلحت اندیشی کی دلیل ہے :

شہر کے لوگ اجنبی دیکھے

عدل کا خون بے سب دیکھا

یاسمینؔ کے ادراکات عمیق حساسیت سے عبارت ہیں جس میں یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ وہ انسانی نفسیات کا بسیط شعور رکھتی ہیں جس میں اُن کی استشہادی کیفیت مزید اجاگر ہو جاتی ہے :

کیا ہے حسین چہرہ اشکوں سے جو دھُلا ہے

لگتا ہے درد کوئی گہرا اسے ملا ہے

سماج کی طوطا چشمی اور دوہرے رویے بھی اُن کی شاعری کا موضوعِ خاص ہیں جن کی نشان دہی کر کے وہ انسان دوستی اور مکارمِ اخلاق کا آدیش دیتی ہیں اور عمرانی ادراکات کا گہرا شعور اُن کی تخیلاتی فضا میں کارفرما ہے :

جفا بھی کرتے رہے ہاتھ بھی ملاتے رہے

عجیب لوگ تھے یوں بھی مجھے ستاتے رہے

اُن کے افکار میں وضع داری، ضبط، راز داری اور پندارِ ذات کے خصائص پائے جاتے ہیں جو اُن کے تجرباتِ حیات سے مربوط ہیں۔ جس سے اُن کی بالغ نظری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ اپنے مصائب و آلام اور ناکامیوں کو صیغۂ راز میں رکھنے کی کوشش کرتی ہیں نیز اُن کی تشہیر سے گریز کرتے ہوئے اپنی شخصیت کا بھرم قائم رکھتی ہیں وہ حالات کی سنگینی و واژگونی کو منکشف نہیں ہونے دیتیں جس سے قاری کو زندگی کرنے کا وسیع تر شعور ملتا ہے :

کھو نہ بیٹھوں ہوش و خرد کو

تم میرے حالات نہ پوچھو

وہ ادراکاتِ حیات سے بہ خوبی واقف ہیں وہ اپنے کلام کے ذریعے ترسیلِ دانش کا کام کرتی ہیں اس لیے قاری کو اُن کا سخن زیست سے ہم آہنگ نظر آتا ہے انھوں نے اپنی شاعری میں حقیقی زندگی کی تصویر کشی کی ہے اس لیے اُن کے ہاں آموزشِ ہستی کا وسیع تر سامان موجود ہے :

کٹ ہی جائے گی زندگی تنہا

اشک پھر کیوں بہا رہا ہے کوئی

ابھی مسرت یاسمینؔ کے شعری سفر کا نقطۂ آغاز ہے ابھی انھیں جہانِ فکر و فن کے ہفت آسمان سر کرنے ہیں ابھی ان کے افکار کو ترفع اور تنوع مطلوب ہے ابھی انھیں فزوں تر ریاضتِ فکر و فن درکار ہے اگر اُن کا خلوص اور ذوق و شوق اسی طرح برقرار رہا تو ضرور ایک دن جہان شعر میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گی اور ادبی مقاصد کی بازیافت اُن کے لیے سہل تر ہو جائے گی یوں دنیائے شعر و سخن میں مقامِ اعتبار کا حصول اُن کے لیے آسان ہو جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ مسرت یاسمینؔ

(لاہور)

 

رہِ وفا میں ستائے ہوئے تو تم بھی ہو

جگر پہ چوٹ سی کھائے ہوئے تو تم بھی ہو

 

الگ نہیں ہو زمانے سے اے مرے ہمدم

متاعِ جاں کو گنوائے ہوئے تو تم بھی ہو

 

زباں کا زخم کسی طور بھر نہیں پاتا

اگرچہ خود کو بچائے ہوئے تو تم بھی ہو

 

یہ قہر ڈھایا ہے مجھ پر بھی اک ستم گر نے

فریبِ دوستی کھائے ہوئے تو تم بھی ہو

 

چلی ہے چال زمانے نے فکر و فن کی بہت

کسی کی چال میں آئے ہوئے تو تم بھی ہو

 

طلوعِ صبحِ مسرتؔ کی منتظر ہوں میں

سحر کی آس لگائے ہوئے تو تم بھی ہو

٭٭٭

 

 

 

تم نے بھی ہاتھ کسی سے تو ملایا ہو گا

دل بھی ممکن ہے کہیں تم نے لگایا ہو گا

 

روٹھا ہو گا کوئی تم سے بھی یقیناً اک دن

اور پھر پیار سے تم نے ہی منایا ہو گا

 

تم دُکھاتے ہو صنم دل جو مرا رہ رہ کر

دل تمھارا بھی کسی نے تو دُکھایا ہو گا

 

تم رُلاتے ہو مجھے غیر سمجھ کر جاناں

ہے یقیں تم کو کسی نے تو رُلایا ہو گا

 

آج شکوہ ہے بہت ہم نے ستایا ہے تمھیں

تم نے بھی جانِ جہاں خوب ستایا ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

ناہید ورک کا سخن غمِ جاناں کے تناظر میں

 

نسائی شاعری کا عمومی مزاج داخلی اظہار سے عبارت ہے جس میں عشق مجازی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے غمِ جاناں جس کا کلیدی حوالہ ہے شاعرات کے سخن میں غم جاناں کے علاوہ اور کوئی غم شاذ ہی ملتا ہے کیوں کہ بنتِ حوا کی فطرت اور سرشت میں پیار و محبت کے خصائص پائے جاتے ہیں شذرۂ ہٰذا میں ہم لاہور سے تعلق رکھنے والی شاعرہ ناہید ورک کی شعر سازی کے حوالے سے اپنے تجزیات سپردِ قرطاس کر رہے ہیں غمِ جاناں اُن کی شاعری کا بنیادی حوالہ ہے اس وقت اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’تیرے نام کی آہٹ‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۳ء ہمارے پیش نظر ہے جس میں غزلیات و آزاد نظمیات شامل ہیں آزاد نظموں میں عروضی تلازمات کا اہتمام بہ حسن و خوبی نہیں کیا گیا ناہید ورک کافی عرصہ سے یو ایس اے میں مقیم ہیں تاہم وہ گیسوئے شعر و سخن سنوار رہی ہیں اور لیلائے اُردو کی تزئین و آرائش میں مصروف و منہمک ہیں۔

ناہید ورک کے ہاں رومانیت کے عمومی کوائف پائے جاتے ہیں جن میں کسی نوع کی فکری بوقلمونی معدوم ہے محبوب سے ذہنی و فکری ہم آہنگی نہ ہونے کی شکایت متقدمین و متوسطین اور متاخرین کو روایتی طور پر رہی ہے اور یہی فکری اذیت ناہید کو بھی در پیش ہے محبوب کے حوالے سے اُن کے ہاں ا یثار و مروت کے احساسات پائے جاتے ہیں جو غمِ ہجر کو فزوں تر کر رہے ہیں محبوب کی بے اعتنائی اور وفاؤں کا تذکرہ کرتی ہیں کبھی محبت میں کمی کی بات ہوتی ہے تو کبھی بے رُخی کا مذکور ہوتا ہے بسا اوقات اُن کے ہاں غمِ دنیا اور غمِ جاناں کے امتزاجی کوائف ملتے ہیں اور ہجر ایک بھرپور کرب و ابتلا بن کر اُبھرا ہے بعض اوقات اُن کے ہاں محبوب سے بیزاری کا تاثر ملتا ہے جو اُن کی فکری نزاکت کی دلیل ہے محبوب کے تمام تر جبر و جور کے باوجود اُن کے ہاں اُس کے لیے ایک استدعائی تاثر ملتا ہے۔

ناہید ورک کا کلام عمومی نسائی شعری روایت کا حصہ ہے ان کے افکار کو ترفع اور فن کو بالیدگی مطلوب ہے انھیں جہاں معتبر راہنمائی کی ضرورت ہے انھیں چاہیے کہ بہ کثرت متقدمین و متوسطین اور معاصرین کے سخن کا مطالعہ کریں بہ صورت دیگر ایسی آوازیں آوازوں کے ہجوم میں دب جایا کرتی ہیں اور اپنی پہچان بنانے میں ناکام رہ جاتی ہیں ان کی مذکورہ کتابِ شعر سے چند منتخب اشعار قارئینِ شعر و سخن کی نظر ہیں جن سے اُن کے شعری معیار کا تعین بہ حسن و خوبی کیا جا سکتا ہے :

وہ ہم مزاج ہے نہ مرا ہم خیال ہے

گر ہے تو لمحہ لمحہ یہی اک سوال ہے

٭

بے چینیاں تمام ہی میں اُس کی اوڑھ لوں

شامل مجھے کرے تو کبھی اپنے حال میں

٭

تمام عمر ہمی کیوں رہے وفا کرتے

کبھی تو وہ بھی محبت کا حق ادا کرتے

٭

ہمیں تیری محبت میں کمی اچھی نہیں لگتی

چلو چھوڑو بھی اتنی بے رُخی اچھی نہیں لگتی

٭

دن تو جیسے تیسے دنیا کے جھمیلوں میں کٹا

ہجر نے تیرے رُلایا بارشوں کی رات میں

٭

تھک گئے ہیں ہم تیرے روز کے ستانے سے

توڑ دے تعلق کو اس طرح نبھانے سے

٭

تیری آنکھیں مسکراتی ہی رہیں

بس یہی میری دعا رب سے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ ناہیدؔ ورک

(لاہور)

 

ہر خزاں کو بہار کرتی ہوں

اس طرح تجھ کو پیار کرتی ہوں

 

ہے ندامت لہو نہ رو پائی

دل کو خوں بار بار کرتی ہوں

 

رونقیں جس سے دل کی بڑھ پائیں

دکھ وہی یادگار کرتی ہوں

 

راہ غم کی ہے خود ہی طے کرنی

کیوں ترا انتظار کرتی ہوں

 

دلِ ناہیدؔ کی بساط ہے کیا

جان تم پر نثار کرتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

ہم جہاں بھی جدھر بھی جائیں گے

ہر طرف آپ ہی کو پائیں گے

 

جو سمجھ ہی نہ پائے دل کی بات

اُس کو ہم دل کی کیا سُنائیں گے

 

چھوڑیے میرے قصۂ غم کو

آپ اس کو سمجھ نہ پائیں گے

 

عمر تو ہم گزار لیں گے مگر

تیرے بن زندگی نہ پائیں گے

 

پیار ہی پیار ہو جہاں ناہیدؔ

ایک ایسا بھی گھر بنائیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

وشمہ خان وشمہؔ کی شعری سماجیات

 

شاعری محبت کے جذبوں سے نمو پاتی ہے جیسے جیسے سخن ور کے فکری ادراکات فزوں تر ہوتے ہیں تو اُس کا شعری وجدان بھی وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے جس کی بدولت اُس کے افکار میں ترفع اور تنوع کے خصائص آشکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں یوں اُس کے تخیلات کا دائرہ کار بسیط ہوتا رہتا ہے اس طرح اُس کے فکری کینوس میں رومانیت و داخلیت کے علاوہ دیگر موضوعات بھی در آتے ہیں بعینہٖ معاملہ شمہ خان وشمہؔ کی شعر گوئی کا بھی ہے جن کا بنیادی تعلق مردان سے ہے اور آج کل ملائیشیا میں مقیم ہیں اس سے قبل کچھ عرصہ امریکا میں بھی رہی ہیں اگرچہ وشمہ خان وشمہؔ کا بیشتر سخن عمومی نسائی اعتبار کا حامل ہے جس میں نسائی جذبات و احساسات ہیں ایک عمومی نوعیت کی رومانیت ہے مجازی حوالے نمایاں صورت میں کارفرما نظر آتے ہیں تاہم اُن کے فکری کینوس میں عمرانی ادراکات بھی کارگر پائے جاتے ہیں اب تک اُن کے تین مجموعہ ہائے کلام جن میں ’’سرگوشیاں ‘‘، ’’جانِ محسن‘‘ اور ’’صاحب اور میں ‘‘ مطبوعہ ۲۰۱۵ء شامل ہیں منصہ شہود پر آ چکے ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم اُن کے مؤخر الذکر شعری مجموعہ کی نسبت سے خامہ فرسائی پر مامور ہیں جس میں غزلیات اور نظمیات شامل ہیں پابند نظموں کے علاوہ دیگر نظموں میں عروضی محاسن کو خاطر میں نہیں لایا گیا جو نظمِ منثور کے زمرے کی حامل ہیں۔

مجموعہ ہٰذا کے حوالے سے شاعر، افسانہ نویس، ناول نگار اور ناشر ناصر ملک کی رائے ہدیۂ قارئین ہے :

’’وشمہ خان وشمہؔ کی تخلیقی مسافتوں کا احاطہ ایک خوش گوار تجربہ ثابت ہوا کہ اس نے نہ صرف اپنا مخصوص ڈکشن پیش کیا ہے بلکہ سہلِ ممتنع کا خوب صورت انداز اختیار کیا۔ زیرِ مطالعہ مجموعۂ کلام ’’صاحب اور میں ‘‘ وہ کسی بھی جگہ پر مشکل الفاظ اور بھاری بھر کم تراکیب کا سہارا لینے پر ہرگز مجبور دکھائی نہیں دی اس نے جو دیکھا، جو سوچا اور جو نتیجہ اخذ کیا من و عن قرطاس کی نذر کر دیا۔ لگی لپٹی، غلاف، جواز، تصنع وغیرہ جیسے الفاظ وشمہ کی فہرست میں موجود نہیں یہی وجہ یہ کہ وہ جو کہتی ہے سیدھا دل میں اُترتا جاتا ہے اس کی بیان کردہ شعری کہانیوں میں بے محابا مسافتوں کا نفیس اظہار بھی شامل ہے اور اسباب و نتائج کا سرگرداں ماجرا بھی اس نے خواب دیکھے تو ان کو بھی مصور کیا اس نے حقائق کا سامنا کیا تو ان کو بھی طشت از بام کیا اور یہی اس مجموعۂ کلام کا حسن ہے۔ ‘‘

ناصر ملک نے اپنی تاثراتی رائے میں جہاں مروتوں کا پاس رکھا وہاں معقولیت و منطقیت، غیر جانب داری، حقیقت پسندی اور انصاف کے تقاضے بھی بہ خوبی نبھائے ہیں انھوں نے اپنے مؤقف میں اختصار و جامعیت اور معروضیت کو اختیار کیا ہے جو اُن کی فکری و فنی بالیدگی کی علامت ہے۔

وشمہ خان وشمہؔ کے ذہنی کینوس میں حیات کی تفسیر و تدین کے جہاں عمومی زاویے نظر آتے ہیں وہاں اختصاصی افکار بھی جلوہ ریزیاں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو اُن کی منطقی سوچ کی غمازی کرتے ہیں۔ انھوں نے زندگی کو مابعد الطبیعاتی تناظر میں پیش کیا ہے زیست کے حزن و الم کی اساسی مبادیات کو انھوں نے مختلف تناظرات سے آشکار کیا ہے جہاں حیاتِ انسانی کے حزنیہ پہلو کے اسباب و وجوہات بیان کیے ہیں وہاں باہمی کشمکش جیسے معتبر حوالوں سے عبارت سمجھا جاتا ہے کو عیاں کر کے انھوں نے جہاں انسان دوستی کی متقضیات کو ملحوظِ خاطر رکھا وہاں اپنی ترقی پسند فکر کی عکاسی بھی کی ہے اور یہ اُن کا خوب صورت تنقیدی رویہ ہے :

روح اور جسم کی تمازت میں

زندگی رنج و غم اٹھاتی ہے

سرفروشی کی داستانوں میں

زندگی زندگی کو کھاتی ہے

وہ اپنے سماج کو ہدف تنقید بنا کر بہت سے اصلاحی پہلوؤں کو عیاں کرتی ہیں اُن کے سخن کے استفہامیہ اشارات اُن کی شدتِ احساس اور زورِ بیان کے مظہر ہیں جنھیں معاشرتی سدھار کا ضامن قار دیا جا سکتا ہے انھوں نے نہ صرف عمومی معاشرت کو تنقیدی زاویوں سے دیکھا بلکہ اربابِ اقتدار بھی اُن کے تنقیدی روئیوں سے محفوظ و مامون نہیں رہے جو اُن کے اظہاری جسارت کی عمدہ تمثیل ہے :

جب اپنے گھر میں اپنی ہوس پر نہیں نظر

پھر کیسا قتلِ عام ہے غیرت کے نام پر

اب دیکھیے یہ ہیں مری اس قوم کے سپوت

جو بیچ دیں ضمیر وزارت کے نام پر

وشمہؔ نے جہاں اجتماعی انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے وہاں حب الوطنی کے جذبے سے بھی سرشار ہیں دیش بھگتی اُن کی گھٹی میں شامل ہے ملکی حالات و واقعات کی واژگونی و سنگینی سے وہ شدید نالاں ہیں اور محوِ استفسار ہیں جس کا کوئی جواب نہ سنائی دیتا ہے اور نہ سمجھائی دیتا ہے جو ملکی امن و سلامتی کو پامال کرنے والوں کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے :

یہ ہوا کیسی چلی میرے وطن میں یارو

حزن اور ڈر کی فضاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں

صنفِ نازک ہونے کی حیثیت سے طبقۂ نسواں کی ترجمانی کا پہلو بھی اُن کے ہاں پایا جاتا ہے ہمارے سماج میں عورت کو رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھا کر اُس کی مسرتوں، امیدوں اور امنگوں کا خون بہا دیا جاتا ہے اور بنتِ حوا معاشرتی شکنجوں میں مقید ہو کر کھلونا بن کر رہ جاتی ہے :

یہ رواجوں میں گھری سہمی ہوئی سی لڑکیاں

جس طرح معصوم پنچھی ساحروں کی قید میں

انسان کو اجنبی اور پرائے دیسوں کی یاترا کا تو بہت شوق ہوتا ہے وہاں پر مستقل معاشرت اختیار کرنے کے بعد وطن کی یاد کا کرب جاگ اٹھتا ہے وطن سے دوری اتنی بڑی اذیت ہے جس کے سامنے تمام تر آسائشیں ہیچ پڑ جاتی ہیں اسی احساس کی تابانی وشمہؔ کے ہاں بھی پائی جاتی ہے :

گو ہیں میرے پاس دنیا کی سبھی آسائشیں

یاد آتا ہے مجھے پھر بھی خیابانِ وطن

جہاں میں جبر و جور کے روئیے فزوں تر پائے جاتے ہیں نفسا نفسی کے اس عہدِ بے اماں میں دوسروں کو دکھ پہنچا کر طمانیتِ قلب کا حصول ایک عمومی روئیے کا روپ دھار چکا ہے جسے مسابقت کا معتبر انداز جانا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سنسار میں مروتیں اپنی بساط لپیٹ چکی ہیں اور کج روی کو فروغ حاصل ہے اس لیے انسان اپنے ارد گرد کے تمام تر ماحول کو اپنے مخالف پاتا ہے اسی نوع کا ماجرا وشمہ کو بھی در پیش ہے :

صیّاد آ گئے ہیں سبھی ایک گھات پر

اُٹھنے لگی ہیں انگلیاں اب میری ذات پر

وشمہ خان وشمہؔ کے فکری و فنی گوشوں کی سیر حاصل سیر کے بعد یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہوئی ہے کہ ابھی اُن کے ہاں بنیادی شعری مسائل موجود ہیں اُن کی نظم نگاری کا تاحال آغازِ سفر ہی نہیں ہوا اس لیے نظمیاتی حوالے سے کوئی رائے دینا قبل از وقت ہو گا جہاں تک غزل کا معاملہ ہے تو اس میدان میں فزوں تر ریاضِ فکر و فن مطلوب ہے۔

٭٭٭

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ وشمہ خان وشمہؔ

(مردان)

 

اپنی زباں سے بات کوئی خونچکاں کہو

پہلو میں ہے رقیب اسے مہرباں کہو

 

آزردگیِ حیات کو کہتے نہیں ہو کیوں

اک بحرِ درد و غم ہے مسلسل رواں کہو

 

کہتی ہوں اس فریبِ وفا کے لیے سخن

کیا میری شاعری میں نہیں وہ عیاں کہو

 

شاعر نہ مانیے مجھے ہو گا نہ کچھ گلہ

پر دل کی بات کیسے کروں میں بیاں کہو

 

وشمہؔ تمام عمر گراں بار ہی رہی

کوئی عذاب ہے یا مرا امتحاں کہو

٭٭٭

 

 

کرنا ہے کارِ خیر تو پھر سر نہ دیکھنا

برسیں جو تیری ذات پہ پتھر نہ دیکھنا

 

لگنے لگیں گے دوست بھی دشمن سبھی تمھیں

یعنی ہے کس کے ہاتھ میں خنجر نہ دیکھنا

 

رکھنا حقیقتیں بھی نگاہوں کے سامنے

دن رات صرف خواب کا منظر نہ دیکھنا

 

رہ جائے رنگ و بو سے تعلق ترا اگر

پھولوں کو اپنے ہاتھ سے چھو کر نہ دیکھنا

 

خود کرنا زندگی سے وفاؤں کا فیصلہ

کیا کہہ رہا ہے تم سے مقدر نہ دیکھنا

 

مصروف اپنی جنگ میں رہنا سدا مگر

نظریں اُٹھا کے تم کبھی اوپر نہ دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

یاسمینؔ زاہد کا حسنِ اظہار

 

’’شاعراتِ ارض پاک‘‘ کی تحقیق و تنقید کے بسیط تجربے اور مشاہدے سے یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ نسائی غزل نسائی نظم سے فکری و فنی اعتبار سے نہ صرف بہتر ہے بلکہ عروضی تلازمات کا استخدام بھی بہ حسن و خوبی ہوا ہے جب کہ آزاد نظم اکثر و بیشتر عروضی محاسن سے عاری نظر آتی ہے یوں نظمِ منثور کے زمرے میں چلی جاتی ہے یہی معاملہ ٹنڈو آدم سے تعلق رکھنے والی شاعرہ یاسمینؔ زاہد کو بھی در پیش ہے اُن کی غزل جہاں فکر و فن کی متقضیات کو پورا کرتی نظر آتی ہے وہاں اُن کی نظم عروضی تقاضوں سے عاری ہے استخراجی نتیجے کے طور پر ایک منطقی سوچ پروان چڑھتی ہے کہ جو سخن ور غزل کہنے میں کسی نوع کی دشواری محسوس نہیں کرتا تو آزاد نظم کہنے میں اُس کی فنی صلاحیتیں کیوں بروئے کار نہیں ہوتیں یا سبب آزاد نظم کے فنی ادراک کا معدوم ہونا بھی ہو سکتا ہے اکثر و بیشتر شاعرات کے نزدیک آزاد نظم اور نظمِ منثور کے مابین کوئی فنی مغائرت نہیں ہے حالاں کہ آزاد نظم کسی نہ کسی بحر کی حامل ہوتی ہے ارکان کا تعددی تفاوت اور قافیہ ردیف سے بے نیازی روا ہوتی ہے باقی فکر و فنی قواعد و ضوابط پابند نظم کی طرح عائد ہوتے ہیں۔

اس وقت یاسمینؔ زاہد کا دوسرا مجموعۂ کلام ’’مجھے اظہار کرنا ہے ‘‘ مطبوعہ ’’۲۰۱۴ء ہمارے روبرو ہے جس میں غزلیات و نظمیات شامل ہیں ان کی غزل حسنِ اظہار کے قرینے سے مرصَّع ہے اور نظم کا معیار وہی ہے جو قبل ازیں مذکور ہے اس سے قبل ان کا مجموعۂ شعر ’’پہلی محبت‘‘ سے معنون منصہ شہود پر آ چکا ہے دوسری کتابِ شعر جسے نقشِ ثانی کی حیثیت حاصل ہے اس کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزل کا معیار تو قدرے بہتر ہوا ہو گا جہاں تک نظم کا معاملہ ہے تو جب دوسرے شعری مجموعہ میں اُن کی نظم فنی زبوں حالی کا شکار ہے تو مجموعۂ اول میں بھی اسی نوع کا فنی معیار قیاس کیا جا سکتا ہے ان دونوں کتب کے تاثرات نگاروں میں پروفیسر سحر انصاری، ریحانہ روحی، ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، سلمان صدیقی، یامین اختر، راشد نور، جاوید صبا، فاضل جمیلی اور عباس تابشؔ شامل ہیں تاثرات نگاروں نے تعریف و توصیف کے پل باندھنے میں کسی نوع کی کسر نہیں چھوڑی تاکہ صنفِ نازک کی دل آزاری کا ساماں نہ ہو لیکن کسی نوع کا صحت مند فنی انحراف سامنے نہیں لا پائے حالاں کہ نظمیاتی حوالے سے اس کی وسیع تر گنجائش موجود تھی صاف ظاہر ہے جب ناقدین کا کام شعرائے کرام سے کرایا جائے گا تو انتقادی تقاضے معدوم ہو جائیں گے ہماری تنقید کی وجہ زوال بھی یہی ہے کہ شعرا کرام، ناشران، مدیران اور صحافیوں نے تنقیدی عمل کا آغاز کر دیا ہے تو پھر حقیقی تنقید کو کہاں پنپنے کا موقع مل سکتا ہے ؟

یاسمینؔ زاہد کی شعریات میں انگریزی لفظیات کا چلن بھی بہ کثرت ملتا ہے جو لسانی قواعد و ضوابط سے انحراف کی ایک صورت ہے کیوں کہ انگریزی زبان اُردو کی اشتراکی زبانوں کا حصہ نہیں ہے۔ یوں شعریت کی اصل روح کی مجروح کر دیا گیا حالاں کہ اس حوالے سے غزل جیسی لطیف صنفِ سخن کو بھی معاف نہیں کیا گیا زعم جدیدیت کی بدولت ادبیت کی فضا کو مکدّر کر دیا گیا ہمارے انحرافی پہلوؤں کا مقصد شاعرہ موصوفہ کی دل برداشتگی ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ اُن کی راہنمائی کرنا اور فنِ شاعری کی اصل روح کو اجاگر کرنا ہے جو ستائش نگاروں کی لسانی فیاضی و رواداری کے باعث رو بہ زوال ہے جس کے نتیجے میں راہنمائی کا شعبہ ضعفِ شدید کا شکار ہے خصوصاً نسائی شاعری اس عارضے کی زد میں زیادہ ہے کیوں کہ توجہ طلب شعرا شاعرات کی وقتی حوصلہ افزائی کر کے اُن کے ہمدردیاں تو سمیٹ لیتے ہیں اور اُنھیں راہنمائی سے مستقل محروم رکھنا ان کی ادبی روش و روایت ہے۔

تمام انحرافات اپنی جگہ سہی لیکن ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ یاسمینؔ زاہد کی غزل حسنِ اظہار کے قرینے سے مزیّن ہے ان کی فکر عمومیت کے دائروں سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس کی بدولت اُن کے افکار میں بالیدگی کا عنصر نمایاں طور پر نظر آتا ہے جس کا عام طور پر شاعرات کے سخن میں فقدان پایا جاتا ہے اکثر اوقات اُن کے ہاں نجی وسطحی معاملات سے گریز کی شعوری صورت بھی پائی جاتی ہے جو ایک حوصلہ افزا امر ہے جس کی بدولت جدید رجحانات و میلانات کے امکانات کی اُن سے امید کی جا سکتی ہے۔

یاسمینؔ کے ہاں بسا اوقات شعری صنائع بدائع کا استعمال بھی انتہائی عمدگی کا حامل ہوتا ہے اُن کے ہاں اختصار و جامعیت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر بہ خوبی جانتی ہیں ذیل کے شعر میں جہاں صنعتِ تضاد کا استعمال قرینہ کاری کا پہلو رکھتا ہے وہاں انھوں نے ایک شعر کے مختصر پیمانے میں اپنی تمام تر رودادِ حیات بھی بیان کر دی ہے :

میں ایک عمر سے ناکامیوں کی زد میں ہوں

میرے عروج پہ اکثر زوال رہتا ہے

اُن کے شعری کینوس میں خلوص و مروت کی ایک فضا کار فرما ہے سماجی اقدار کی بحالی اُن کی اولین ترجیح ہے اُن کے افکار بسیط عمرانی ادراکات سے مرصَّع ہیں اُن کے فکری زاویوں میں مشرقیت کی اصل روح بیدار ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس کے باعث اُن کے سخن کی بالیدگی و سنجیدگی فزوں تر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے :

تجھ کو خالی ہاتھ میں کیسے بھلا رخصت کروں

رسم رہتی ہے ادھوری اس مروت کے بغیر

عمومی طور پر نسائی شاعری میں خرد کی حوصلہ افزائی کم ہی کی جاتی ہے اس لیے خرد آموزی کے شواہد نایاب سمجھے جاتے ہیں مگر یہ امر خوش آیند ہے کہ یاسمین زاہد کے تخیلاتی کینوس میں خرد کو اہمیت و فوقیت حاصل ہے جس کی تمثیل ایک شعر کی صورت میں پیش کی جاتی ہے :

میں پہلے ہوش و خرد کی نظر سے جانچتی ہوں

سمٹ کے آتا ہے پھر اک جہان کاغذ پر

ہمارے ہاں کچھ ایسی سماجی خباثتیں پائی جاتی ہیں جنھیں دنیا کا ہر مہذب معاشرہ تسلیم کرنے سے قاصر ہے ان عمرانی معائب کا مظاہرہ ہمارے عملی رویوں کی بدولت ہوتا ہے ہماری ترجیحات میں مادیت پرستی کو فروغ حاصل ہے ہماری سوچیں اخلاقی اور انسانی کم تجارتی نوعیت کی زیادہ ہیں ہم اپنی اولاد کو بھی انھیں زاویوں سے دیکھتے ہیں ہمارے نزدیک صرف اولادِ نرینہ کی اہمیت ہے کیوں کہ اس کی بدولت ہمیں اپنا معاش محفوظ ہوتا ہوا نظر آتا ہے حالاں کہ اس سوچ کی مستقبل کے حوالے سے کوئی ضمانت بھی نہیں دی جا سکتی جب کہ بیٹی جسے ہمارے دینِ متین اسلام نے رحمت سے موسوم کیا ہے اُسے ہم ایک خسارے کا سودا سمجھتے ہیں اُس کی کفالت کو اپنے لیے بوجھ سمجھتے ہیں جب کہ حقیقی طور پر اولاد کا معاملہ احساسِ سود و زیاں سے بالا تر ہے اس معاملے کو اگر اسلامی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو حدیث قدسی میں ایک بیٹی کی بہتر تعلیم و تربیت اور اس کے حوالے سے فرائض کی احسن بجا آوری میں جنت کی بشارت بھی دی گئی ہے لیکن ہم اپنی خود غرض سوچ کے باعث ان تمام امور کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اس حسیں آدرش کو یاسمینؔ زاہد نے انتہائی خوب صورت اظہاری قرینے سے پیش کیا ہے ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :

پیدا ہوئی ہے بیٹی تو کس بات کا ہے غم

بیٹی کے ساتھ اُس کا مقدر بھی آئے گا

شاعرہ موصوفہ کے ہاں عاجزی و انکساری کے خصائص پائے جاتے ہیں جو عظیم انسان اور معتبر تخلیق کار کی علامت سمجھے جاتے ہیں جیسے الطاف حسین حالی نے کہا تھا:

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے

کہ دانا خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے

بہ قول کسے :

جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں

صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

اس حسین موضوع کو یاسمینؔ زاہد نے فلسفۂ سادگی و سہولت کے ساتھ پیش کیا ہے :

بلندی مل ہی جائے گی یقینا

اگر رکھیں جبینوں کو جھکا کے

انھوں نے سماجی ناہمواریوں اور عمرانی نا انصافی کو بھی موضوعِ سخن بنایا ہے۔ مظلوم و محکوم اور مفلوک الحال طبقے کی نمائندگی اُن کے ہاں موثر پیرائے میں ملتی ہے :

یہاں منصف سبھی سوئے ہوئے ہیں

بہت دیکھا ہے زنجیریں ہلا کے

اسی فکری موقف کی ترجمانی ذرا راقم الحروف کی زبانی دیکھیے :

کسی نے بھی شنوائی میری نہیں کی

میں زنجیر پیہم ہلاتا رہا ہوں

اگر یاسمینؔ زاہد شذرہ ہٰذا کی تمہید میں مذکور معائبِ شعری سے رستگاری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو ادبی قدر و منزلت اور ادبی مقاصد کی بازیافت کا عمل ان کے لیے سہل تر ہو جائے گا اس لیے ان سے بہتر توقعات کی امید روا رکھی جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ یاسمینؔ زاہد

(ٹنڈو آدم)

 

جیون ہے اک فسانہ حقیقت نہ کر تلاش

اہلِ نظر نہ ہوں تو بصیرت نہ کر تلاش

 

راہِ طلب میں اور ملامت نہ کر تلاش

اپنوں کے دل میں مہر و محبت نہ کر تلاش

 

جو تلخیِ حیات کا درماں نہ کر سکے

اے چشمِ اعتبار وہ صورت نہ کر تلاش

 

اس سر زمینِ عشق پر رکھ سوچ کر قدم

اس چاندنی میں کوئی حرارت نہ کر تلاش

 

میزانِ گفتگو میں توازن رہے سدا

اس دورِ مصلحت میں عداوت نہ کر تلاش

٭٭٭

 

 

 

خود اپنے ذات کے سود و زیاں میں رہتے ہیں

ہم اہلِ دل ہیں سدا امتحاں میں رہتے ہیں

 

دلوں میں خواہشِ دنیا کو پالنے والے

کسی یقین کی صورت گماں میں رہتے ہیں

 

طلب نہیں ہے ہمیں اب کسی بھی منزل کی

تمھارے پیار کی موجِ رواں میں رہتے ہیں

 

کچھ ایسے فیصلے جو وقت پر نہیں ہوتے

ہمیشہ ٹھہرے ہوئے درمیاں میں رہتے ہیں

 

تمام عمر کا ہجر و فراق اپنی جگہ

محبتوں کے نشے جسم و جاں میں رہتے ہیں

٭٭٭

تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی شکیل: اعجاز عبید