FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

متاعِ خیر

 (سوانح)

               صبیحہ سلطانہ

 

انتساب

والدۂ محترمہ کی ممتا

والد مرحوم کی شفقت

بھائیوں کے پیار

اور

شوہر کے خلوص کے نام

 

حرفِ صبیح

            حیدرآباد کا نام ادبی نقشے میں جن شاعروں سے قائم ہے ان میں مخدوم محی الدین، سلیمان اریب ، خورشید احمد جامی، شاذ تمکنت، ڈاکٹر وحید اختر، ڈاکٹر علی احمد جلیلی، مضطر مجاز، وغیرہ وغیرہ کے ساتھ رؤف خیر بھی ہے۔ ہند و پاک کے بیشتر رسائل میں ان کی تخلیقات (نظم و نثر)نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ ٹی وی اور کل ہند مشاعروں میں ان کی شرکت کا حال دیکھنے سننے اور پڑھنے میں آتا رہتا ہے۔ حیدرآباد کے اس شاعر کی تخلیقات نے مجھے متاثر کیا جس نے حیدرآباد کا نام روشن کیا ہے۔

            میں نے رؤف خیر کی تخلیقات نظم و نثر کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ رؤف خیر کی تخلیقات کے تنقیدی جائزے کے ساتھ ساتھ ان کی سوانحی و ادبی زندگی قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے پیش ہے۔ ظاہر ہے ہمارا قاری یہ ضرور جاننا چاہے گا کہ جس شاعر کے اشعار اور مضامین وہ اکثر پڑھتا رہتا ہے ، ٹی وی پر دیکھتا رہتا ہے اور کل ہند مشاعروں کے حوالے سے جسے جانتا ہے ، آخر وہ کون ہے ؟ کیا کرتا ہے ؟ اہل و عیال و احباب کی رائے اور نقادوں کی نظر میں وہ کیسا ہے؟ یہ ساری تفصیلات بہ حد امکان میں نے اس کتاب میں جمع کر دی ہیں۔

امید کہ یہ  ’’ متاعِ خیر‘‘ پسند خاطر ہو گی۔

صبیحہ سلطانہ

ایم۔ اے۔ ایم فل

 

سوانح

دادا       رؤف خیرؔ کے دادا کا نام محمد ابراہیم شیر خاں تھا۔ وہ ریاست کرنا ٹک کے ضلع گلبرگہ تعلقہ یاد گیر کے ایک گاؤں سگر(نصرت آباد) میں رہا کرتے تھے ’’شیر خان والے ‘‘ دراصل SUR NAMEہے۔  محمد ابراہیم ایک سیدھے سادھے انسان تھے۔ ان کے تین بیٹے تھے۔ محمد ابوبکر، محمد بشیر اور محمد احمد۔ سگر میں تعلیم کا معقول انتظام نہ تھا۔ اس لئے یہ تینوں لڑکے سگر سے شولا پور (مہارشٹر) کے ایک دینی مدرآگیسے میں داخل کئے گئے۔ مگر یہ تینوں وہاں دل جمعی سے تعلیم حاصل نہ کر سکے اور بچپن ہی میں شولا پور سے حیدرآباد منتقل ہو گئے اور مختلف کاروبار سے منسلک ہو گئے۔

            بڑے بیٹے محمد ابوبکر اور چھوٹے بیٹے محمد احمد تجارت سے وابستہ ہو گئے البتہ منجھلے بیٹے محمد بشیر کا کسی طرح پولیس کے محکمے میں تقرر ہو گیا اور وہ جمعدار ہو کر وظیفے پر علاحدہ ہوئے۔ محمد احمد حیدرآباد سے گلبرگہ منتقل ہو گئے جہاں وہ چھوٹے موٹے کاروبار کرتے رہے بعد ازاں وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔

اسی زمانے میں نظام سابع میر عثمان علی خاں اور ممالک محروسہ سر کاری عالی کے زیر انتظام عملے کے بٹن بھی اسی فیکٹری میں بنتے تھے۔ حیدرآباد کے تمام نوابوں وغیرہ کے آرڈر بھی اسی فیکٹری کو ملا کرتے تھے۔ نظام کی حکومت کے ساتھ ہی اس فیکٹری کا زوال بھی ہوا۔

والد      محمد ابوبکر دکن فیکٹری کو خیر باد کہہ کر سیفٹی پن  SAFETYPIN  کے کاروبار سے وابستہ ہو گئے۔ اور آخر عمر تک وہ اسی کاروبار سے منسلک رہے۔

            چودہ پندرہ سال کی عمر میں سگر(نصرت آباد) سے روانہ ہونے والے محمد ابوبکر زندگی بھر کبھی اپنے گاؤں کی طرف دوبارہ جا نہ سکے۔ جا کر بھی کیا کرتے۔ نہ وہاں ان کی جائیداد یا زمینات تھیں اور نہ ہی عزیز و اقارب۔ ملک کی تقسیم اور پولیس ایکشن کے وقت سب تتر بتر ہو گئے تھے۔ رؤف خیر اپنے والد کے چہیتے بیٹے رہے ہیں۔ ان کی وفات  (۳۰ جون ۱۹۷۲ء )پر رؤف خیر نے جو نظم بے اثاثہ کہی وہ بہت مقبول ہوئی اور جو اقراء میں شامل ہے۔

والدہ    محمد ابوبکر کی شادی یادگیر کے ایک سلفی العقیدہ مولوی محمد عبدالرحمن دل والے (یہ دراصل دلی والے کی خرابی ہے) کی لڑکی رابعہ بی سے ہوئی جو دراصل ان کی خالہ زاد بھی ہوتی تھیں۔ والدہ گھریلو قسم کی دین دار خاتون تھیں ان کی وفات (۲۳ ستمبر ۱۹۸۹ء )پر رؤف خیر نے ایک متاثر کر نے والی نظم  ’’ چھاؤں ‘‘ کہی تھی جو شہداب میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ  ’’ ماں / باپ کی قبر پر ‘‘ بہت دل گداز نظم ہے۔

بھائی بہن          محمد ابوبکر اور رابعہ بی کی پانچ اولادیں ہوئیں۔ تین بیٹے محمد عبدالرحمن ، محمد عبدالرب اور محمد عبد الرؤف اور دو بیٹیاں ، رحمت النساء اور راشدہ بیگم۔

            عبدالرب کا شیر خواری کی عمر ہی میں انتقال ہو گیا اور محمد عبدالرحمن تجارت سے وابستہ ہیں اور کشن باغ میں رہتے ہیں۔ بڑی لڑکی رحمت النساء کی شادی سید میر سے ہوئی اور اس لڑکی کا ۱۹۹۸؁ء میں انتقال ہو گیا۔ چھوٹی لڑکی راشدہ بیگم کی شادی عبدالحفیظ سے ہوئی جو محکمہ زراعت کے اگریکلچر کالج راجندر نگر سے سینئر کلرک کی حیثیت سے وظیفہ پر الگ ہوئے آج کل امبر نگر، جا معہ عثمانیہ میں رہتے ہیں۔

رؤف خیر کی ولادت اور مقام پیدائش    رؤف خیر کا نام محمد عبدالرؤف ہے۔ وہ پانچ نومبر۵ نومبر ۱۹۴۸؁ء کو حیدرآباد کے محلے کاروان ساہو میں پیدا ہوئے۔ وہاں ان کے والد محمد ابوبکر صاحب نے اپنا ذاتی مکان تعمیر کروایا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد اس بستی کو خیرباد کہہ کر محمد عبدالرحمن کشن باغ چلے گئے اور رؤف خیر قلعہ گولکنڈہ آ گئے۔

مذہبی عقیدہ     سلفی العقیدہ ہونے کی وجہ سے وہ بدعات، خرافات، اور غیر اسلامی رسوم و رواج سے نالاں ہیں۔ دوران گفتگو مذہب کا معاملہ ہو تو صرف قرآن و سنت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور صرف قرآن و حدیث ہی قبول کرتے ہیں۔

کھیل کود سے دلچسپی     انہیں کھیلوں سے خصوصاً کر کٹ کر بڑا شوق ہے۔

تعلیم    ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول (مدرسہ تحتا نیہ ) سبزی منڈی حیدرآباد میں ہوئی۔ اس کے بعد مدرسہ فوقانیہ(گورنمنٹ ہائی اسکول) مستعد پورہ حیدرآباد سے انہوں نے۱۹۶۴؁ء میں میٹرک کامیاب کیا۔ اس وقت تک HSCگیارہویں جماعت تک ہوا کرتی تھی۔

میٹرک کے بعد ایک سال کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد کی نذر ہوا۔ وہاں مختلف اصناف سخن کی کتابیں رؤف خیر صبح سے شام تک پڑھا کرتے تھے اس کے بعد انہوں نے ۶۷۔ ۱۹۶۶؁ء میں انڈسٹریل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ( آئی ٹی آئی) سکندرآباد سے انگریزی میں شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ کا امتحان کامیاب کیا۔

۱۹۶۹؁ء میں اردو آرٹس کا لج حیدرآباد سے پی یوسی میں کامیابی حاصل کی۔ اسی کالج سے ۱۹۷۶؁ء میں بی اے کامیاب کیا۔ بی۔ اے میں ان کے مضامین اکنامکس، پولیٹکل سائنس اور پبلک ایڈ منسٹریشن تھے۔

                        چونکہ تعلیم و ملازمت ساتھ ساتھ چل رہی تھی اس لئے بی۔ اے کے بعد فوری ایم اے نہیں کیا بلکہ  ۱۹۸۳؁ء میں  عثمانیہ یونیورسٹی سے External   ایم اے ( اردو )  بدرجۂ اول کامیاب کیا۔ ۱۹۸۵ء ؁ میں ان کی ادبی کتابوں کی بنیاد پر انہیں پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کے لئے عثمانیہ یونیورسٹی میں راست داخلہ مل گیا اور انہوں نے پری پی ایچ ڈی کا امتحان بھی درجہ اول میں کامیاب کیا۔  پی ایچ ڈی میں ان کا موضوع   ’’ اقبال کے اسلوب کا ارتقاء‘‘ تھا۔ کچھ ملازمت کی مصروفیت کچھ گائیڈ کی ’’نا مہربانی‘‘ اور کچھ ان کے اپنے مزاج کے تساہل کی وجہ سے پی ایچ ڈی کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ انہوں نے کالج سرویس کمیشن کی جانب سے منعقدہ امتحان NET(نیشنل ایلی جی بلٹی ٹسٹ)نومبر۱۹۹۳؁ء میں کامیاب کر لیا۔

ملازمتیں                   رؤف خیر نے چونکہ آئی ٹی آئی سکندرآباد سے انگریزی میں اسٹینو گرافی کا کورس پاس کیا تھا اس لئے بڑی آسانی سے انہیں ملازمت مل گئی۔ پہلے وہ کچھ دن GADسکریٹریٹ کے تحت کام کرنے والے محکمہ Assistant Comptrollerنام پلی حیدرآباد میں اسٹینو ہو گئے۔ چند مہینے کام کرنے کے بعد سٹی سیول کورٹ City Civil Courtحیدرآباد میں ۱۷ فبروری ۱۹۶۹؁ کو ان کا تقرر بحیثیت سٹینوٹا پئسٹ (Steno Typist)ہو گیا۔ ویسے اسی دوران ہلت ڈیپارٹمنٹ کوٹھی میں بھی تقرر کے احکام جاری ہوئے تھے۔ اس کے علاوہDisciplinary Proceedingsمیں بھی ان کا تقرر ہو گیا تھا لیکن انہوں نے ہلت ڈیپارنمنٹ اور (Disciplinary Proceeding)کے محکموں پر عدالت کو فوقیت دی اس طرح انہوں نے عدالت کی ملازمت اختیار کر لی۔ سب سے پہلے ان کا تقرر تھرڈ ایڈ یشنل جج سکندرآباد کے اجلاس پر ہوا۔ اس کے بعد رینٹ کنٹرول کورٹ حیدرآباد، ڈسٹرکٹ سیشن جج  ACB & SPEکورٹ میں ہوا۔ کچھ دن بعد ان کا تبادلہ منصف مجسٹریٹ ابراہیم پٹن کورٹ ہوا۔ وہاں سے منصف کورٹ وقارآباد پھر منصف کورٹ پر گی بھی وہ رہے۔ سال ڈیڑھ سال کے وقفے سے مختلف مقامات کو تبادلے ہوتے رہے۔

            بعد میں سٹی سیول کورٹ کے چیف جج نے انہیں XIاسسٹینٹ جج سکندرآباد کے اجلاس پر تبادلہ کر دیا۔ اس طرح وہ پھر حیدرآباد آ گئے۔

            اس دوران ایم اے (اردو) کامیاب کر چکے تھے۔ لہذا پبلک سروس کمیشن کے زیر اہتمام ہونے والے لیکچرر شپ امتحان میں کامیابی کے بعد ان کا تقرر گورنمنٹ جونئیر کالج ہنمکنڈہ پر بحیثیت جونیر لکچرر اردو ہو گیا۔ ۲۷ ستمبر ۱۹۸۴؁ء سے جولائی ۱۹۹۲؁ء یعنی تقریباً آٹھ سال وہاں پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد ان کا تبادلہ گورنمنٹ جونیر کالج کریم نگر ہوا جہاں وہ ۱۹۹۲؁ء سے ۱۹۹۷؁ء تک پڑھاتے رہے۔ گورنمنٹ جونیر کالج جنگاؤں میں وہ ۱۹۹۹؁ء تک پڑھاتے رہے۔ ڈسمبر۱۹۹۹؁ء میں ان کی ترقی ہوئی تب سے وہ SRRگورنمنٹ ڈگری کالج کریم نگر پر اردو کے لکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

شادی   رؤف خیر اپنے ماں باپ کے لاڈلے بیٹے تھے۔ ابھی وہ بی۔ اے میں زیر تعلیم ہی تھے کہ ان کے والد کا مزاج بہت ناساز رہنے لگا۔ رؤف خیر اس زمانے میں سٹی سیول کورٹ میں بحیثیت سٹینو ٹا پئسٹ ملازم تھے اور اردو آرٹس ایوننگ کالج سے تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا تھا۔ ان کے والد کی خواہش تھی کہ رؤف خیر کی شادی جلد از جلد ہو جائے چنانچہ ۹ جون ۱۹۷۲؁ء کو محلہ سبزی منڈی، ٹپہ چبوترہ کے رہنے والے ایک سیدھے سادے گریڈ  Aالیکٹریشن( APSE)جناب محمد خواجہ علی صاحب کی بڑی لڑکی رقیہ بیگم سے ان کی شادی ہوئی۔ شادی شرع کے مطابق رسومات و خرافات سے پاک انتہائی سادہ انداز میں ہوئی۔ ان کی شادی کے بائیسویں دن یعنی ۳۰  جون ۱۹۷۲؁ء کو ان کے والد محمد ابوبکر صاحب کا انتقال ہو گیا۔

اولاد    رقیہ بیگم سے رؤف خیر کی اولادیں ہوئیں۔ پہلا لڑکا جنوری ۱۹۷۴؁ء میں پیدا ہوتے ہی چل بسا۔

پہلی لڑکی           ایلاف خیری      ایم۔ اے (عثمانیہ)

دوسری لڑکی      عفیف خیری       بی۔ اے (عثمانیہ)

تیسری لڑکی        عطوف خیری      ایم۔ اے(عثمانیہ)

چوتھی لڑکی        منیف خیری         بی کام (عثمانیہ)

پانچویں لڑکی       نظیف خیری       MLT

چھٹا لڑکا             رافف خیری       انٹرمیڈیٹ

ساتواں لڑکا        ہاتف خیری       دسویں جماعت

آٹھویں لڑکی      تالیف خیری       آٹھویں جماعت

ایلاف خیری، عفیف غیری، اور عطوف خیری اور منیف خیری کی شادیاں ہو چکی ہیں۔ اور چاروں اپنے اپنے گھر میں الحمد للہ بہت مزے میں ہیں۔

ادبی زندگی کا آغاز                       نویں دسویں جماعت ہی سے بچوں کے لئے رؤف خیر چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ یہ کہانیاں دلچسپ اور سبق آموز ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً ان کی ایک کہانی ’’ضد‘‘  جو روزنامہ’’ رہنمائے دکن‘‘ کے ’’ بچوں کا صفحہ‘‘ پر بڑے اہتمام سے شائع ہوئی تھی۔

            میٹرک کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد ان کا ایک سال کتب خانہ  ’’آصفیہ‘‘ کتب خانہ انجمن ترقی اردو میں گزرا۔ اس دوران انہوں نے کافی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ کئی شعری مجموعے پڑھے، افسانے اور چند ناول بھی پڑھے اور ساتھ ہی ساتھ تنقیدی کتابیں پڑھیں خاص طور پر نیاز فتح پوری کی  ’’انتقادیات‘‘ مالہ و ماعلیہ اور ماہنامہ  ’’نگار‘‘ کی پرانی فائلیں ، سیماب کی اصلاحیں ، مرقع سخن وغیرہ وغیرہ ادب کے ساتھ ساتھ شروع ہی سے انہیں مذہب سے بھی گہرا لگاؤ رہا۔ گھر میں قرآن و حدیث کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ مولوی ابوتمیم محمدی رحمۃ اللہ علیہ کتب خانہ محمد یہ واقع معظم ہی مارکٹ پر ہر اتوار بعد مغرب درس قرآن دیا کرتے۔ بلاک بورڈ پر ایک دو آیتیں لکھ کر ان کی تفسیر بیان کرتے تھے۔ رؤف خیر اس میں پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے۔ اس کتب خانہ میں مولانا محمد جونا گڑھی کی بے شمار کتابیں تھیں جیسے شمع محمدی، در محمدی ضرب محمدی، وغیرہ انہوں نے یہ سب پڑھ ڈالیں۔ ان کا اصل میدان مذہب نہیں بلکہ ادب تھا۔ انہیں غالب، فانی، یگانہ چنگیزی، شکیب جلالی، ظفر اقبال، جوش، فیض، سراج الدین ظفر، بہادر شاہ ظفر، ظفر گورکھپوری، وغیرہ کا کلام پسند تھا۔ انہیں اقبال کو بہت بعد میں پڑھنے کا موقع ملا۔

            کہانیوں کے ساتھ شعر گوئی کا چسکا بھی رؤف خیر کو لگ گیا۔ ابتداء میں چھوٹی چھوٹی نظمیں کہیں لیکن چھپیں سب سے پہلے غزلیں ہی۔

            انہوں نے جب شعر کہنا شروع کیا تو مشکل زمینوں میں طبع آزمائی کی۔ ادق زمینوں میں نئے نئے مضامین باندھنے کی وجہ سے ان کے شعر چونکا نے لگے۔ بعض دفعہ تو ان کی غزلیں روزنامہ  ’’رہنمائے دکن‘‘ کے ادبی صفحے  ’’گلہائے صد رنگ‘‘ پر سر فہرست شائع ہوتی تھیں۔ اس وقت رؤف خیر کی عمر بمشکل سولہ سترہ سال رہی ہو گی۔ رؤف خیر۶۳۔ ۱۹۶۲ء سے شعر گوئی کی طرف مائل ہوئے۔ رسائل میں غزلیں شائع ہونے کی ابتداء مشہور ماہ نامہ ’’ شمع‘‘ اگست ۱۹۶۸؁ء سے ہوئی کسی ماہنامہ میں چھپنے والی ان کی پہلی غزل  ’’شمع‘‘ جیسے رسالہ میں شائع ہوئی وہ غزل تھی۔

وہ کھینچنے ہیں شرم سے اپنی ہتھیلیاں

عہد وفا پہ رکنی جھجکتی ہتھیلیاں

اب کیا کسی کی سمت اٹھاؤں گا میں نظر

آنکھوں کو ڈھانپتی ہیں کسی کی ہتھیلیاں

            اسی سال اتر پردیش کے محکمہ اطلاعات، عامہ کے رسالہ ’’نیا دور‘‘  میں بھی ان کی غزل شائع ہوئی تھی اس طرح معیاری ماہناموں سے ان کے چھپنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعد میں ہند و پاک کے معیاری رسائل میں ان کی غزلیں ، نظمیں اہتمام کے ساتھ شائع ہونے لگیں۔ جیسے شاعر ، شب خون، شیرازہ، کتاب، سوغات، سہیل، الفاظ، ایوان اردو، ایوان ادب، آج کل، نیا دور، بانو، کھلونا وغیرہ پاکستانی رسائل میں سیپ، الشجاع، ادب لطیف، افکار، سیارہ، وغیرہ وغیرہ۔ رؤف خیر کی اشاعت پسندی کی بہتات پر ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ رؤف خیر پہلے غزل پوسٹ کارڈ پر لکھتے ہیں ، چھپ کر آ جائے تو پھر بیاض میں درج کر لیتے ہیں۔

تلمذ     انہیں مختلف شاعروں کے شعر یاد تھے۔ گنگناتے، گنگناتے وجدان کے بل پر قافیہ و ردیف کے سہارے کچھ غزلیں کہنے لگے۔ ایک غزل میں۔ اکھڑتے ہیں ، لڑتے ہیں ، سکڑتے ہیں۔ قافیوں کے ساتھ جب رؤف خیر نے ’’پھول پڑتے ہیں ‘‘ بھی باندھا تو انہوں نے اعتراض کیا کہ مزاروں پر تو پھول چڑھتے ہیں۔ رؤف خیر نے جواب دیا کہ اس طرح قافیہ غلط ہو جائے گا کیونکہ (ڑ) کے بعد(ھ) کا اضافہ دیگر قوافی کے خلاف ہو گا۔ وہ بزرگ خوش ہوئے کہ اس نووارد بساط سخن کو قافیے کا ادراک ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ موصوف شاعر ہیں اور صابرؔ زیر کی کہلاتے ہیں۔ ابتدائی چند غزلیں صابرؔ زیر کی صاحب نے دیکھیں۔ مگر وہ بہت زیادہ روایتی شاعر تھے۔ ادھر رؤف خیر کے مطالعے میں شکیب جلالی، ظفر اقبال، خورشید احمد جامیؔ، احمد ندیم قاسمی، مخدوم و اریب کا کلام آ چکا تھا وہ ذہنی طور پر ان کی لفظیات سے متاثر ہوئے۔ خاص طور پر خورشید احمد جامیؔ اور شکیبؔ جلالی کا اسلوب رؤف خیر کو بہت پسند آ گیا تھا اور وہ انہی کے اسلوب میں شعر کہنے لگے۔ صابرؔ صاحب نے انہیں کہہ دیا کہ وہ  ’’گمراہ‘‘ ہو چکے ہیں۔ اب وہ کسی اور استاد کی تلاش کر لیں۔ چنانچہ رؤف خیر نے چند نظمیں جناب خورشید احمد جامیؔ کو دکھائیں۔ اس کے بعد جناب اوجؔ یعقوبی سے رجوع ہوئے۔ کچھ تو رؤف خیر کی عدالتی مصروفیات اور کچھ اوج صاحب کی عدیم الفرصتی کہ استادی و شاگردی کا یہ سلسلہ بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکا تھا۔ انہوں نے ادب و تنقید کا مطالعہ جاری رکھا۔ اور اپنے مطالعے ہی کو اپنا استاد بنائے رکھا۔ چنانچہ رؤف خیر نے کہا بھی۔

ہم شعر کہا کرتے ہیں وجدان کے بل پر

کچھ لوگوں کو زعم فعلاتن بھی بہت ہے

            رؤف خیر کسی کے زیر اثر نہیں رہے۔ بلکہ ان کا مطالعہ ہی ان کا استاد رہا ہے۔ کئی ادیب و شعراء کو وہ ضرور پسند کرتے ہیں لیکن کسی کا لہجہ اختیار کرنا انہیں پسند نہیں وہ کہتے ہیں۔

             ’’میری ادبی زندگی میں اگر کسی نے واقعی رہنمائی کا حق ادا کیا تو وہ میرا مطالعہ ہے۔ آج بھی مطالعہ ہی میرا استاد ہے۔ خاص طور پر نیاز فتح پوری کی ناقدانہ بصیرت مالہ و ما الیہ، انتقادیات، اور نگار کے پر چوں کے حوالے سے فیض اٹھایا ہے۔ جہاں تک متاثر ہونے کی بات ہے تو عرض کروں کے میں کبھی بھی کسی کے اثر میں نہیں رہا۔ پسند کئی شاعروں اور ادیبوں کو کرتا ہوں اور ایک حد تک ان کا قائل بھی رہا ہوں۔ مگر ان کا لہجہ اختیار نہیں کیا۔ اور یوں بھی کسی کی کاپی کرنا اور اس کا لہجہ اختیار کر لینا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ کسی کا بھی لہجہ ہو بڑی مشکل سے بنتا ہے اور کوئی دوسرا شخص اس کی نقل اتنی آسانی سے نہیں کر سکتا۔ اور پھر مجھے اپنے آپ کو بھی تو منوانا تھا۔ مجھے اپنا لہجہ آپ بنانا بھی تو ہے۔ میرے پسندیدہ شاعروں میں غالب ، اقبال ، فانی یگانہ، چنگیزی، خورشید احمد جامی وغیرہ اور جدید شاعروں میں مجھے بانی اور ظفر اقبال اچھے لگتے ہیں۔ (ان کے حصے یا بس کو چھوڑ کر)

مشاعروں میں شرکت  رؤف خیر مشاعروں میں زیادہ مدعو کئے جاتے ہیں مختلف رسالوں میں ان کا کلام شائع ہوتا رہا ہے۔ مشاعروں میں شرکت کے تعلق سے رشید انصاری نے بتایا:

             ’’دکن کے جو شعرا ملک بھر کے مختلف شہروں میں منعقد ہونے والے اہم مشاعروں میں زیادہ بلائے جاتے ہیں ان میں رؤف خیر کا نام سر فہرست ہے۔ جن اہم رسالوں میں ان کا کلام شائع ہوتا رہا ہے ان میں الشجاع، سیپ، افکار، شب خون، شاعر، کتاب نما وغیرہ شامل ہیں۔ ‘‘

             ’’۱۹۸۵؁ء میں بھوپال میں منعقدہ کل ہند مشاعرے میں شرکت سے کل ہند مشاعروں میں شرکت کا آغاز ہوا۔  کئی ہند و پاک مشاعروں میں مدعو کئے گئے۔ لال قلعہ کا مشاعرہ ہند و پاک شنکر شاد (دہلی) اور سعودی عرب بھی بلائے گئے(انڈین ایمبیسی کی دعوت پر)

سمیناروں   Seminars   میں شرکت ’’آزاد غزل کے ‘‘ موضوع پر اڑیسہ اردو اکادمی بھونیشور کی دعوت پر ’’ کٹک ‘‘میں   ’’۸   فبروری  ۰ ۲۰۰ء ؁  کو منعقدہ سمینار میں رؤف خیر نے ’’آزاد غزل‘‘ پر مقالہ پیش کیا

 ۲۔ ’’آزادی کے بعد اردو شاعری‘‘ کے موضوع پر ساہتیہ اکادمی دہلی کی دعوت پر رؤف خیر نے ۱۹ نومبر تا ۲۱  نومبر ۱۹۹۹ء؁سہ روز سمینار (دہلی)میں ’’اپنے محرکات شعری‘‘ پر پیپر پڑھا۔

حلیہ                           رؤف خیر پانچ فیٹ چھ اینچ کے متوسط جسامت کے پھرتیلے آدمی ہیں۔ جب تک وہ عدالت میں ملازم تھے چھریرے بدن کے مالک تھے۔ لکچرر ہونے کے بعد فارغ البالی نے انہیں قدرے فربہ کر دیا۔ ان کا رنگ سانولا ہے۔ ستواں ناک، کالی آنکھیں ، بھرے بھرے گال، چھوٹی سی فرینچ کٹ جیسی داڑھی ہے جس پر اب سفیدی غالب آ رہی ہے۔ البتہ سر کے بال کالے اور گھنے ہیں۔

لباس                کافی خوش لباس آدمی ہیں۔ وہ سوٹ، شیروانی، سفاری، پنجابی، جرسی، بش شرٹ، پائنٹ، کرتا پاجامہ وغیرہ وغیرہ ہر قسم کا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ لباس روزانہ بدلنا پسند کرتے ہیں۔ گھر سے باہر ہمیشہ شوز ہی استعمال کرتے ہیں۔

پسند ناپسند                  اچھا کھانا، اچھا پہننا اور گہری نیند سو جانا انہیں پسند ہے نیند کے کچے ہیں لیکن لکھنے پڑھنے جم کر بیٹھ جائیں تو رات کے دو بجے تک بھی بیٹھ جاتے ہیں  اور  سونے پر آئیں تو بس میں سفر کرتے ہوئے بھی سو جاتے ہیں۔

اساتذہ سے عقیدت                       ادب کے ساتھ اساتذہ کی دلیل بسر و چشم قبول کرتے ہیں بشرطیکہ وہ مروجہ اصولوں سے نہ ٹکراتی ہو۔ شخصیت پرستی سے کوسوں دور ہیں۔

متوجہ ہو کر بات سنتے اور سناتے            اگر کوئی دوران گفتگو ان کی بات کاٹ دے تو وہ بات دوبارہ نہیں کہتے۔ وہ اپنی بات دہرانے کے عادی نہیں۔ وہ دوسروں کی بات توجہ سے سنتے ہیں اس لئے چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی ان کی بات غور سے سنیں۔

جھوٹ سے نفرت           جھوٹ اور وعدہ خلافی پسند نہیں کرتے۔ ناپسند یدہ شخصیت سے دور رہتے ہیں۔ کسی غلط اور ناپسندیدہ حرکت کی وجہ سے جب کسی شخص کو اپنی فہرست سے خارج کر دیتے ہیں تو پھر اس سے کبھی تعلقات استوار کرنا پسند نہیں کرتے۔ غالباً یہ ان کی شخصیت کا منفی پہلو ہے کہ وہ ناپسندیدہ شخصیت کو پھر قریب آنے کا موقع نہیں دیتے۔

ہمدردی                      قابل رحم لوگوں سے وہ یقیناً دلی ہمدردی رکھتے ہیں اور ہر قسم کی امداد کرتے ہیں۔

محنتی  رؤف خیر سخت محنت میں ایقان رکھتے ہیں ، درس و تدریس کے بعد تحقیقی اور تنقیدی کاموں میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے شاگردوں کو بھی محنت کی تلقین کرتے ہیں۔

ایک سوال  ’’کیا آپ اپنے تلامذہ کے مستقبل سے پُر اُمید ہیں ؟‘‘ کے جواب میں رؤف خیر نے کہا:

 ’’ہاں ! بشرطیکہ وہ ریاض اور مطالعہ جاری رکھیں اور تساہل سے پرہیز کریں۔ ‘‘

بحیثیت بیٹا                                رؤف خیر اپنے ماں باپ کے انتہائی لاڈلے بیٹے رہے ہیں۔ ان کے والد ایک کٹر مذہبی آدمی تھے۔ دیگر بچے ان سے بہت خائف رہتے تھے۔ لیکن وہ رؤف خیر پر زیادہ مہربان تھے۔ یہی حال والدہ کا بھی تھا۔ تادم حیات والدین رؤف خیر کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے۔

بحیثیت بھائی    بڑے بھائی سے ان کو بہت زیادہ خلوص ملا۔ نتیجتاً وہ اپنے بھائی کو بہت چاہتے ہیں۔ معمولی تجارت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اور قلعہ گولکنڈہ سے دور کشن باغ میں مقیم ہونے کی وجہ سے روزانہ تو دونوں میں ملاقاتوں کا امکان کم رہتا ہے۔ یوں بھی رؤف خیر شہر حیدرآباد سے دور کریم نگر کے ایک کالج میں پڑھاتے ہیں جب کبھی موقع ملتا ہے وہ اپنے بھائی سے ملتے رہتے ہیں۔

بحیثیت شوہر               رؤف خیر اپنی اہلیہ کے ساتھ بہت اچھا سلوک روا رکھتے ہیں۔ راقمۃ الحروف کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا۔۔۔

 ’’دُنیا میں کسی کو ایسا شوہر نہ ملا ہو گا۔ جیسے مجھے ملا ہے۔ وہ مجھے بہت زیادہ خوش رکھتے ہیں۔ زن مرید بالکل نہیں ہیں۔ زن مریدی سے بہت چڑتے ہیں۔ بہت زیادہ سر آنکھوں پر نہیں رکھتے اور نہ ہی مجھے چشمِ کم سے دیکھتے ہیں۔ دونوں میں Sense of Humour بالکل الگ ہے۔ اس معاملہ میں کچھ نااتفاقی ہو جاتی ہے۔ میری بیماری اور دُکھ میں پورا خیال رکھتے ہیں۔ سیر و تفریح کو لے جاتے ہیں۔ اس معاملہ میں کبھی پیچھے نہیں رہتے۔ مجھے عمرہ بھی کروایا۔ رویہ بالکل غصے کا نہیں ہوتا۔ میری کم تعلیم کے باوجود مجھے قبول کیا۔ انہوں نے مجھے یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ میں کم تعلیم یافتہ ہوں۔  وہ میرے لباس اور رہن سہن کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے کبھی یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ ہمیں زیادہ لڑکیاں ہیں لڑکیوں کو ہی لڑکے سمجھ کر پالا ہے۔ شادیوں میں ہونے والے غیر ضروری رسومات سے سخت پرہیز کرتے ہیں اور مجھے ایسے رسومات میں جانے نہیں دیتے۔ شکی مزاج کے بالکل نہیں ہیں۔ خاندان کے افراد سے ملنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتے۔

     بیوی کی سلیقہ مندی کی وجہ سے رؤف خیر گھریلو ذمہ داریوں سے بے نیاز ہیں۔ گھر کے داخلی اُمور تمام تر ان کی بیوی ہی سنبھال لیتی ہیں۔ البتہ وہ چاہتے ہیں کہ بیوی ان کی مرضی کو بہرحال مقدم رکھے۔

بحیثیت باپ                           رؤف خیر اپنے بچوں کو بے حد چاہتے ہیں بچوں کی پسند نا پسند کا خیال کرتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ بچے بھی ان کی پسند ناپسند کا خیال رکھیں۔ راقمۃ الحروف نے اُن کی بڑی لڑکی ایلاف خیری سے انٹرویو لیا تو انہوں نے اپنے والد کی ستائش کی اور کہا۔۔۔

 ’’تمام بچے والد کو بے حد چاہتے ہیں۔ جس دن میری شادی ہو رہی تھی اُس دن جب میں نے اپنے والد کو دیکھا تو مجھے اچانک بہت رونا آ گیا اور مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ میں ایک قابل، ہمدرد اور بے لوث چاہت کرنے والے والد سے جدا ہو رہی ہوں۔ ہمارے والد نے ہمیں مکمل طور پر آزادی دی ہے ہمیں ایک بند کمرے میں قید نہیں رکھا۔ ہمیں والد سے کسی قسم کا ڈر نہیں ہے۔ ہمارے والد اپنی بیٹیوں کا رشتہ اُن کی مرضی جان کر یعنی بیٹیوں کی مرضی کے مطابق کرتے ہیں،’والد ہی ہمارے بہت بڑے استاد رہے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں جو کچھ سیکھا ہے صرف اپنے والد ہی سے سیکھا ہے۔ والد نے ہمیں اسلامی ماحول میں پالا اور پردے میں رکھ کر تعلیم دلوائی۔ کبھی حالات اگر ناساز ہوں یا ہم کسی غم میں ہوں تو بہت اچھے سلیقے سے ہمیں سمجھاتے ہیں۔ ایک دفعہ مجھے کلاس روم میں غیر ضروری سزا دے کر کلاس کی آخری بینچ پر بٹھا دیا گیا۔ جب میں گھر آئی تو اپنے والد سے کہا کہ آپ ہمارے اُستاد سے کہیے کہ وہ مجھے پہلی بینچ پر بٹھائیں۔ تب میرے والد نے مجھے بہت پیار سے سمجھایا اور کہا کہ بیٹا ’’غزل اگر اچھی ہو تو کونے سے بھی آواز دیتی ہے۔ اپنی اولاد کے تعلق سے میرے والد یہ سمجھتے ہیں کہ بچے ہی زندگی میں سب کچھ ہیں۔ اس لئے وہ ہر شعری تصنیف کو اولاد کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ کسی بھی شخصیت سے انہیں کچھ تکلیف پہونچے تو وہ ا ُس شخص کو اپنی فہرست سے نکال دیتے ہیں۔ پھر دوبارہ کبھی اُس شخص کا نام زبان پر نہیں لاتے۔

بحیثیت استاد    شاگردوں پر کبھی اپنی مرضی مسلط نہیں کرتے انہیں ہر قسم کی آزادی دیتے ہیں۔ البتہ اطاعت گزار شاگردو ں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

بحیثیت دوست            رؤف خیر صاحب کے ایک دوست ڈاکٹر فخر عالم رؤف خیر کی دوستی پر ناز کرتے ہیں۔ انہوں نے راقمۃ الحروف کو ایک انٹرویو میں بتایا:

 ’’عالمی لغت میں لفظ ’’دوستی‘‘ ان گنے چنے چند بدقسمت الفاظ میں سے ایک ہے جو اپنے مکمل معنی و مفہوم اور اس کے سماجی اطلاق کے لئے ہمیشہ ترستے رہے۔ اس لئے کہ کسی ایک شخص میں چند خوبیوں کا جمع ہو جانا دوستی کے لئے کافی نہیں۔ دوست تو مجموعہ اوصاف ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ سارے اوصاف جمیلہ کسی فرد واحد کی ذات میں بمشکل ہی جمع ہو سکتے ہیں اس دور قحط الرجال میں خوشی کی بات یہ ہے کہ جناب رؤف خیر کی ذات گرامی دوستی کے معیار  پر بڑی حد تک کھری اور پوری اُترتی ہے۔ وہ ایک اچھے شاعر تو ہیں ہی اس سے اچھے انسان اور اس سے بھی اچھے دوست۔ میں حیدرآباد کے اُن چند خوش نصیبوں میں ہوں جنہیں رؤف خیر صاحب کا حلقہ بگوش ہونے کا شرف حاصل ہے۔ میں صرف عمر کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ علم و فضل اور مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بھی ان سے کافی چھوٹا ہوں لیکن ان کی کسی بھی صحبت میں اور کسی بھی زاویہ سے میں کبھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوا بلکہ انہوں نے از راہ محبت میری اُن معمولی خوبیوں کو بھی کمال پذیرائی سے نوازا جو بنظر انصاف مسترد کر دیئے جانے کے قابل تھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مئے خانہ رؤف خیر میں امیر و غریب، خورد و کلاں ، کمتر و برتر اور وطنی و غیر وطنی کے حدود و قیود مٹ جاتے ہیں اور ہر شخص صرف دوستی اور محبت کی شراب کے نشہ یکسانیت سے سرشار نظر آتا ہے۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راقمۃ الحروف نے ان کے اہل و عیال اور احباب سے باضابطہ انٹر ویو لیا ہے۔ صبیحہ

 

رؤف خیر کے لطیفے

    رؤف خیر ایک زندہ دل آدمی ہیں۔ ان کی بذلہ سنجی کے کئی واقعات ہیں۔ گھر میں بھی وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہنستے بولتے رہتے ہیں۔ بے تکلف دوست احباب میں بھی وہ کھل کھیلتے ہیں البتہ شاگردوں اور اجنبیوں کے ساتھ متانت و سنجیدگی سے پیش آتے ہیں تا کہ وہ بے تکلف ہو نے نہ پائیں۔

٭٭٭

حیدرآباد کے ایک شاعر رضا وصفی کا انتقال ہوا تو حیدرآباد لٹریری فورم کے تحت ان کا تعزیتی جلسہ رکھا گیا  رؤف خیر کے ذمہ نظامت کے فرائض تھے۔ انہوں نے ستار صدیقی صاحب کو تعزیتی کلمات ادا کر نے کی دعوت دی۔ انہوں نے رضا وصفی مرحوم کی انا کے قصے چھیڑے کہ مرحوم اپنے سوا کسی کو خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے۔ نویدؔ نے ڈائس پر آ کر اس میں مزید اضافہ کیا کہ رضا وصفی میرؔ کے پانچ شعر سنانے کے قابل نہیں تھے مگر خود کو میر و غالب سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ سلامؔ خوش نویس نے جو ان کے مجموعے کی کتابت کر رہے تھے کہا کہ وہ مرحوم کے بیشتر شعروں سے مطمئن نہیں تھے اس لیے ان اشعار کے سلسلے میں ان سے بحث کیا کر تے تھے مگر رضا وصفی مان کر نہیں دیتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ نظامت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رؤف خیر نے بار بار کہا کہ ہم یہاں مرحوم کی برائیاں بیان کر نے کے لیے جمع نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہ ایک تعزیتی جلسہ ہے۔ ہمارا مذہب اور تہذیب مرحوم کی برائیوں کو منظر عام پر لانے کی اجازت نہیں دیتی مگر جب ہر مقرر نے مرحوم کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا تو آخر کار رؤف خیر نے کہا ’’ حضرات  !  رضا وصفی مرحوم کا حشر دیکھتے ہوئے مجھے مرتے ہوئے بھی اب ڈر ہو نے لگا ہے‘‘

٭٭٭

            مضطر مجاز صاحب کے  ’’ پیام مشرق ‘‘کے منظوم تر جمے پر اتر پردیش اردو اکیڈمی کے انعام کا اعلان ہوا۔ اخبار میں یہ خبر دیکھ کر رؤف خیر نے انہیں فون پر مبارکباد دی۔ مضطر مجاز صاحب نے شکریہ ادا کر تے ہوئے کہا  ’’ بھئی تمہارے ہاں فون نہیں ہے اس کے با وجود تم نے پبلک فون سے مبارکباد دی  مگر ہمارے احباب کو  فون رکھنے کے باوجود مبارکباد دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ رؤف خیر نے کہا ’’ ہاں مضطر بھائی  لوگوں کا فون سفید ہو گیا ہے‘‘ مضطر صاحب شکایت بھول کر بہت دیر تک ہنستے رہے۔

٭٭٭

            ایک صاحب نے جلسے کی صدارت کے لیے تاخیر سے آنے کا یہ سبب بتایا کہ ٹرافک کی وجہ سے وہ وقت پر نہ آسکے۔ رؤف خیر نے چپکے سے پوچھا ’’ Immoral Traffic  تو نہیں ؟‘‘

٭٭٭

            وانکھیڈ اسٹیڈیم ممبئی میں کر کٹ میچ ہو نے والا تھا کسی نے کہا کہ سچن ٹنڈولکر اور  ونود کامبلی اسی میدان کے کھلاڑی ہیں اس لیے میچ جیتنا لازمی ہے۔ رؤف خیر نے کہا

 ’’ اچھا اچھا  They are sons of the pitch.  ‘‘

٭٭٭

ماہنامہ ’تیر نیم کش، مراد آباد میں رؤف خیر کی چار غزلیں ایک ہی شمارے میں شائع ہوئیں۔ جہاں پسندیدگی کے کچھ خطوط اگلے شمارے میں شائع ہوئے وہیں سہراب بدایونی نامی کسی صاحب کا خط بھی چھپا کہ رؤف خیر جیسے غیر معروف شاعر کی غیر معیاری غزلیں شائع کر کے صفحات ضائع کئے گئے ہیں اس پر رؤف خیر نے ایڈیٹر کو خط لکھا جو شائع بھی ہوا۔ رؤف خیر نے لکھا تھا

 ’’ بدایون کے سہراب بھلے ہی ہمیں ادب کا رستم تسلیم نہ کریں ہم تو انہیں سہراب ہی مانیں گے‘‘

٭٭٭

۔۔۔ نقوی  نامی ایک شاعر رؤف خیر سے ملتے اور اپنی غزلیں سناتے۔ کوئی مصرع بے بحر ہوتا تو رؤف خیر درست کر دیا کرتے۔ وہ صاحب کہتے  ’’ ہاں ہاں میں خود بھی گنگنا کے دیکھ رہا تھا کہ ذرا سا جھول ہے ‘‘ اگلی بار وہ پھر آتے ، غزلیں سناتے۔ بے بحر مصرعے درست کر دئیے جاتے تو یہی کہتے کہ گنگنا کے دیکھنے سے انہیں خود بھی معلوم ہو رہا تھا کہ مصرعے کمی پیشی کا شکار ہو گئے ہیں ‘‘۔ اللہ کا بندہ رؤف خیر کا شکریہ ادا نہیں کر نا چاہتا تھا۔ ایک مرتبہ حسب معمول وہ غزلیں سناتے رہے۔ رؤف خیر داد دیتے رہے۔ وہ صاحب مطمئن ہو کر مشاعرے میں گئے اور منہ کی کھا کر آئے۔ دوسرے دن رؤف خیر سے کہنے لگے ’’ رؤف صاحب  !  آپ نے بتا یا نہیں کہ مصرعے خارج از بحر ہو گئے ہیں۔ مشاعرے میں بڑی سبکی ہوئی‘‘ رؤف خیر نے بڑی سادگی سے کہا  ’’ ارے بھئی میں سمجھا آپ گنگنا کے دیکھ ہی لیں گے‘‘

٭٭٭

            ایک مرشد نے ایک مشاعرہ کروانے کی ٹھانی۔ ایک نوجوان کے ہاتھ انہوں نے رؤف خیر کو دس پندرہ دعوت نامے اس تاکید کے ساتھ بھجوائے کہ وہ اپنے دوستو ں اور شاگردوں کے ساتھ اس مشاعرے میں شریک ہو کر اسے کامیاب بنائیں گے۔ علی الصبح وہ نوجوان دعوت نامے لے کر رؤف خیر کے گھر پہنچا۔ رؤف خیر نے اس سے کہا  ’’ دعوت ناموں کا شکریہ مگر اتنی صبح میں کوئی خدمت بھی نہیں کر سکتا۔ ابھی دودھ والا بھی نہیں آیا کہ چائے پلا سکوں۔ ویسے آپ کیا مرشد کے کوئی عزیز ہیں ؟  ’’ اس نوجوان نے کہا  ’’ نہیں۔ میں اس در کا کتا ہوں۔ یعنی ؟ مرید ہوں۔ اس کے بعد اس نے رؤف خیر سے کہا چائے نہ سہی ایک گلاس پانی ہی پلا دیجئے‘‘ جب وہ پانی پی کر جا چکا تو رؤف خیر نے بچوں سے کہا کہ اس گلاس کو سات بار پانی سے اور ایک بار مٹی سے مانجھ کر دھو لو۔

٭٭٭

            ڈاکٹر رحمت یوسف زئی نے رؤف خیر سے کہا کہ وہ اسپینی نظموں کا انگریزی تراجم کے توسط سے اردو میں منظوم ترجمہ کر رہے تھے تو انہیں پتہ چلا کہ CIEFL  میں ایک اسپینی خاتون بھی ہے جو اسپینی ادب جانتی ہے۔ رحمت یوسف زئی اس سے مل کر اسپینی نظموں کو اچھی طرح سمجھنا چاہتے تھے تا کہ بہتر اردو ترجمہ ہو سکے۔ وہ بڑی خوبصورت خاتون نکلیں۔ رحمت اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہ گئے اس نے ان سے مسکراتے ہوئے پوچھا ’’ کیا دیکھ رہے ہو Naughty Man   ‘‘تو رحمت نے اسے جواب دیا  ’’A beautiful Poem   ‘‘ اس پر وہ شرما گئیں۔ جب یہ واقعہ رحمت یوسف زئی نے رؤف خیر کو سنایا  تو رؤف خیر نے کہا

             ’’ اللہ اس خوبصورت خاتون کو جوارِ   رحمت میں جگہ دے‘‘

          رحمت نے ایک کالا کلوٹا قہقہہ لگاتے ہوئے  ’’ آمین‘‘ کہا۔

٭٭٭

 

شاعری

            رؤف خیر کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق رہا ہے۔ ۶۳۔ ۱۹۶۲ء سے شعر گوئی کی طرف اُن کی طبیعت مائل ہوئی۔ بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے شعر گوئی شروع کی۔ ابتداء میں چھوٹی چھوٹی نظمیں کہیں۔ مشکل زمینوں میں غزلیں کہنے کی وجہ سے پڑھنے والے انہیں کہنہ مشق شاعر سمجھتے رہے۔ روز نامہ ’’رہنمائے دکن‘‘ کے ادبی صفحے پر ان کی غزلیں اساتذہ کے ساتھ کبھی کبھی سر فہرست چھپتی رہیں۔

            رؤف خیر نے راقمۃ الحروف کو بتایا کہ ان کی شعر گوئی محض عطیہ الہٰی ہے۔ اللہ نے انہیں کچھ ایسی صلاحیتوں سے نوازا کہ ان سے کچھ تخلیقات خود بہ خود ہو گئیں۔ بعض تجربات اور مشاہدات بھی ان تخلیقات کے منظر عام پر آنے کا سبب ہے۔

            پندرہ، سولہ سال کی عمر ہی میں ان کی غزلیں شائع ہوا کرتی تھیں۔ روز نامہ  ’’رہنمائے دکن‘‘ میں اس زمانے میں پنجشنبہ کو ’’گل ہائے رنگ رنگ‘‘ کے عنوان سے پورا ایک شعری صفحہ شائع ہوا کرتا تھا۔ وہ لفافے میں رکھ کر غزل پوسٹ کر دیا کرتے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ دو شنبہ کو بچوں کے صفحہ میں ان کی کہانی چھپی اور اسی ہفتہ پنجشنبہ کو ان کی غزل بھی شائع ہو جاتی۔ وہ نئی نئی سنگلاخ زمینوں میں گل کھلانے کے عادی تھے مثلاً ان کی ایک غزل تھی راز شراب ہے، ناز شراب ہے، جواز شراب ہے:

چشم حسیں میں آپ کی ناز شراب ہے

   ہم مئے کشوں کے حق میں جواز شراب ہے

    اس دور بے سکون کا  محمود  غزنوی

   حیرت کی  بات  ہے  کہ  ایاز شراب ہے

بلوا لو شیخ کو بھی پے فاتحہ ضرور

کہنا کہ میکدے میں نیاز شراب ہے

عبد الرؤف خیر سے ملنے کو آئے ہو

وہ پارسا تو محوِ نمازِ شراب ہے

            ان کی پہلی غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں۔

وہ کھینچتے ہیں شرم سے اپنی ہتھیلیاں

عہدِ وفا پہ رکتی جھجکتی ہتھیلیاں

اب کیا کسی کی سمت اُٹھاؤں گا میں نظر

آنکھوں کو ڈھانپتی ہیں کسی کی ہتھیلیاں

میری حیات جن کی لکیروں میں بند ہے

میں چاہتا ہوں خیرؔ انہی کی ہتھیلیاں

            ان کی یہ غزل ماہنامہ  ’’شمع‘‘ دہلی اگست ۱۹۶۶ء؁ میں شائع ہوئی تھی اسی مہینہ ’’نیا دور‘‘ لکھنؤ میں بھی ان کی ایک غزل چھپی تھی اس کے بعد ان کی غزلیں ، نظمیں ہند و پاک کے معیاری رسائل میں مسلسل چھپنے لگیں جن میں کراچی کے ماہنامہ ’’الشجاع‘‘ اور سہ ماہی ’’سیپ‘‘ شامل ہیں۔

            ٹی وی کے مشاعروں میں کلام سنانے کی وجہ سے ان کے بعض اشعار لوگوں کو یا د ہو گئے جیسے

مہاجرین سے انصار خوش نہیں ہوتے

تو پھر کہاں کی یہ ہجرت برا ہے بھارت کیا

رہیں گے ہم کسی صورت میں بھی کہیں نہ کہیں

کرے گی خیر یہ مٹی ہمیں اکارت کیا

عجب پرندہ ہے ہر زد سے بچ نکلتا ہے

پتہ نہیں اسے کس کا نشانہ ہونا ہے

ہمیں اندھیرا ہے یہ طے ہے آپ سورج ہیں

ہمارا ہونا مگر آپ کا نہ ہونا ہے

وہ بات اور ہی ہے جو تمہیں سنانا ہے

سخن وری تو مری بات کا بہانہ ہے

کوئی نشان لگاتے چلو درختوں پر

کہ اس سفر سے تمہیں لوٹ کر بھی آنا ہے

ہمیں سنبھال کہ ہیں شاہ کار کو زہ گری

ہماری خاک تری آگ سے توانا ہے

میں ابر ہوں مجھے یوں بھی کہیں برسنا ہے

مگر خدا کے لئے دشتِ نابلد سے بچاؤ

میں بے لباس ہوں اب اے شکستہ دیوارو

مجھے ملامت شہر دراز قد سے بچاؤ

حیات جبر سے اے دوست موت بہتر ہے

گذار زندگی لیکن ترس ترس کے نہیں

ہمیں نے کچھ نظر انداز یوں کی حد کر دی

برا نہ مان کہ یہ گھاؤ تیرے بس کے نہیں

خشک لمحوں کے ہیں مارے ہوئے ہم لوگ ہمیں

رات بھیگے تو ضروری تو نہیں سو جانا

ہم اپنے قتل کا اب کس سے خون بہا چاہیں

ہر آئینے میں تو قاتل ہمیں دکھائی دیئے

غم حیات حقیقت کا نام ہے لیکن

غم حیات نے دھوکے بھی انتہائی دیئے

             ’’رؤف خیر نے بتایا غالباً ۶۸۔ ۱۹۶۷ء کی بات ہے کہ خورشید احمد جامی صاحب کا مجموعہ ’’رخسار سحر‘‘ ان کی نظر سے گذار۔ انہیں یہ مجموعہ اس قدر پسند آیا کہ اس نے ان کی کایا ہی پلٹ دی۔ اپنے تخلیقی سفر میں جامی مرحوم کے لب و لہجے سے انہیں بہت توانائی ملی الفاظ کو پیکر میں ڈھالنے کا کچھ کچھ سلیقہ آیا۔ رؤف خیر خورشید احمد جامی کے علاوہ شکیب جلالی مرحوم سے بہت متاثر رہے۔ جامی اور شکیب کے ہت سے شعر انہیں یاد ہیں۔

 

               بچوں کا خیر خواہ

 

            رؤف خیر نے پہلے پہلے  بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں جو حیدرآباد کے مشہور و ممتاز روزنامہ  ’’ رہنمائے دکن‘‘ کے بچوں کے صفحے میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ چھوٹی چھوٹی مگر دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں عبد الرؤف خیر کے نام سے چھپتیں تو انہیں بہت خوشی ہوتی۔

وہ اپنے بچپن میں  ’’ کھلونا ‘‘ بہت شوق سے پڑھا کر تے تھے۔ ہر ماہ بچوں کے رسالہ  ’’ کھلونا‘‘ کا بے چینی سے انتظار کر تے تھے۔ ہر ماہ بچوں کا رسالہ  ’’ کھلونا‘‘ کا بے چینی سے انتظار کیا کر تے تھے۔ بعد میں وہ خود  ’’ کھلونا ‘‘ کے لئے لکھنے لگے۔ ان کی بعض نظمیں جب اس رسالے میں شائع ہوئیں تو اتنی مقبول ہوئیں کہ بعد میں حکومت مہاراشٹرا کے ادارے بال بھارتی نے ایک نظم  ’’ جب میں اسکول جانے لگتا ہوں ‘‘ چوتھی جماعت کے نصاب میں شامل کی۔

روز نامہ ’’ رہنمائے دکن‘‘ نے بچوں کے صفحے میں ان کی تخلیقات شائع کر کے انھیں لکھنے پڑھنے کے راستے پر ڈال دیا۔ یہ چسکا ایسا فروغ پایا کہ انہوں نے ادب سے مستقلاً اپنا رشتہ استوار کر لیا۔

            ۱۴  ڈسمبر ۱۹۶۴ء کے رہنمائے دکن میں ان کی ایک کہانی  ’’ ضد‘‘ شائع ہوئی تھی جس میں ایک لڑکا میٹرک کامیاب کر لیتا ہے اور فیل ہو جانے والے اپنے ایک ہم جماعت سے شرط باندھتا ہے کہ وہ اگلی بار بھی کامیاب نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ کھیل کود اور ناول بینی میں مصروف رہتا تھا۔ در اصل وہ دوست اپنے دوست کو ضد میں لا کر میٹرک کامیاب کروانے ہی کے لیے شرط باندھتا ہے۔ رؤف خیر نے اس کہانی میں صالح جذبے کی ترجمانی کی ہے تا کہ زندگی کی دوڑ میں بچھڑ جانے والے دوست کو بے کار مشغلوں میں وقت ضائع کر نے سے بچایا جائے اور اپنی صلاحیتوں کو رائیگاں ہو نے سے محفوظ رکھنے کا احساس دلایا جا سکے۔

            ۱۰  مئی ۱۹۶۵ء کے روز نامہ رہنما دکن میں رؤف خیر کی کہانی  ’’ دھوکا‘‘ شائع ہوئی تھی جس میں ایک لڑکے کی سائیکل پکڑی جاتی ہے۔ اُس زمانے میں پولیس والے ڈبل سواری سیکل چلانے والوں کو چالان کیا کر تے تھے۔ رات میں بغیر قندیل یعنی بغیر لائٹ سیکل بھی نہیں چلائی جاتی تھی۔ خلاف ورزی کر نے والوں کی سیکل پولیس چھین لیتی اور دوسرے دن عدالت میں انہیں پیش کیا جاتا۔ چالان ہوتا تب کہیں سیکل چھوڑی جاتی۔ البتہ چپکے سے رشوت دینے والوں کی گاڑیاں چھوڑ دی جاتی تھیں۔ وہ لڑکا بھی ایک کاغذ کی پڑیا میں چند چھوٹے چھوٹے سکے رکھ کر پولیس والے کی جیب میں وہ پڑیا ڈال دیتا ہے اور اپنی سیکل حاصل کر لیتا ہے۔ پولیس والے کو بعد میں پتہ  ہے کہ اسے دو روپے کی جگہ صرف دو آنے ہی بطور رشوت دے کر دھوکا دیا گیا ہے۔

            ۳۰  ستمبر ۱۹۶۵ء کے روز نامہ رہنمائے دکن میں ان کی ایک کہانی  ’’ نقشی کٹورا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس میں چیچک زدہ نئے ہم جماعت کی ہنسی اڑانے والا طاہر خود چیچک کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس طرح انہوں نے بچوں کو اپنی کہانی سے یہ درس دیا کہ دوسرے کے عیب کا مذاق اڑا نے والے خود بھی عیب میں گرفتار ہو کر مذاق کا نمونہ بن جاتے ہیں۔

            ۱۴  مارچ ۱۹۶۶ء کے رہنمائے دکن میں چھپی کہانی ’’ دھوکا‘‘ میں رؤف خیر نے یہ بتایا کہ کس طرح عطر بیچنے والے عطر کی شیشی کے صرف اوپری حصہ یعنی کارک کو اچھی خوشبو سے تر کر کے خراب عطر بیچ دیا کر تے ہیں۔

            رؤف خیر نے بعض مضامین بھی لکھے جو کہانی ہی کی طرح دلچسپ ہیں جیسے  ۳۱  جنوری  ۱۹۶۶ء کے رہنمائے دکن میں  ’’ٹیوشن ‘‘کے عنوان سے لکھا کہ پڑھانے والے استاد کو پہلے شطرنجی پھر چٹائی اور آخر کار صرف لکڑی کے تختے پر بیٹھنے کو کہا جاتا ہے جسے دیکھ کر ٹیوشن پڑھانے والا کہتا ہے کہ اسے  عاقبت یاد آ جاتی ہے۔

             ’’ بستہ‘‘   اور   ’’ محلے کا نل‘‘ بھی ایسے ہی مضامین ہیں۔ سرکاری نل پر پانی کے گھڑوں کی قطار اور پانی کے حصول کے لیے ہاتھا پائی یا پانی کے بہانے عشق و عاشقی اور پانی کے انتظار میں نل کے قریب اخبار و رسائل کے مطالعے کا دلچسپ احوال رؤف خیر نے لکھا ہے۔

            ایسی کئی کہانیاں اور مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے شعر کہنا بھی شروع کیا۔ ان کی غزلیں بھی رہنمائے دکن ہی کے شعری صفحے  ’’ گلہائے صد رنگ‘‘ میں چھپنے لگیں۔ حیدرآباد کے دیگر اخبارات روز نامہ سیاست  اور ملاپ میں بھی ان کی نظمیں اور غزلیں شائع ہو نے لگیں۔ رسائل میں شائع ہو نے کی ابتداء ماہنامہ  ’’شمع‘‘ دہلی ( اگست ۱۹۶۸ء) سے ہوئی جب ان کی غزل :

وہ کھینچتے ہیں شرم سے اپنی ہتھیلیاں

عہد وفا پہ رکتی جھجکتی  ہتھیلیاں

اب کیا کسی کی سمت اٹھاؤں گا میں نظر

آنکھوں کو ڈھانکتی ہیں کسی کی ہتھیلیاں

شائع ہوئی۔ پھر تو ہندو پاک کے بیشتر رسائل میں ان کی نظمیں ، غزلیں چھپنا شروع ہوئیں۔

جب میں اسکول جانے لگتا ہوں

راستے میں حسین نظارے

کتنے دلچسپ کس قدر پیارے

پیار سے مسکرانے لگتے ہیں

 میرے دل کو لبھانے لگتے ہیں

جب میں اسکول جانے لگتا ہوں

کوئی بندر نچا رہا ہے اِدھر

کوئی کرتب دکھا رہا ہے اُدھر

اپنا جادو جگا رہا ہے کوئی

قہقہے سے لٹا رہا ہے کوئی

سائیکل کا مظاہرہ ہے جہاں

 ایک مجمع کھڑا ہوا ہے وہاں

سانپ کے کھیل بھی ہیں رستے میں

زندگی کے مزے ہیں سستے ہیں

یہ تماشے مظاہرے کرتب

میں سمجھتا ہوں ان کا سب مطلب

مجھ کو دھوکا یہ دینا چاہتے ہیں

راہ میں روک لینا چاہتے ہیں

ان کے آگے کہیں میں جھکتا ہوں

روکنے سے کہیں میں رکتا ہوں

ان پہ بس مسکرانے لگتا ہوں

جب میں اسکول جانے لگتا ہوں

سب سے پہلے یہ نظم ماہنامہ  ’’ کھلونا‘‘ دہلی  مارچ ۱۹۷۲ء میں شائع ہوئی۔ ۱۹۸۳ء سے ۱۹۹۳ء تک یہ نظم بال بھارتی حکومت مہاراشٹرا کے نصاب میں شامل رہی۔

            اسی طرح ایک نظم  ’’ہمالہ ‘‘ حکومت آندھرا پردیش نے دوسری جماعت کے نصاب میں شامل کر رکھی ہے۔ ۱۹۹۰ء سے یہ نظم اب تک نصاب میں شامل ہے۔

ہمالہ ہے بھارت کا ایسا پہاڑ

نہیں ہے کہیں اس کے جیسا پہاڑ

ہمالہ کی دیکھو عجب شان ہے

 ہمالہ تو بھارت کی پہچان ہے

نکلتی ہیں اس سے کہیں ندیاں

پنپتی ہیں جن سے کئی کھیتیاں

ہمالہ کی سورج سے ہے دوستی

ہمالہ پہ ہے دھوپ بھی چاندنی

یہ درے، یہ دریا، حسیں وادیاں

 ہیں بادل کہ پریوں کی شہزادیاں

کوئی کام کر نے پہ جب آؤ تم

ہمالہ کی مانند جم جاؤ تم

محبت سے ملتا ہے جو آدمی

ہمالہ سے اونچا ہے وہ آدمی

رؤف خیر نے بچوں کے لیے نظمیں لکھتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ انہیں کوئی پیغام دیا جائے ان کی ذہنی تربیت رؤف خیر کا مقصد رہا ہے۔ ان کی ایک نظم ہے :

اٹھو نام لے کر خدا کا اٹھو

  سویرے اٹھو منہ اندھیرے اٹھو

یہ طویل نظم ماہنامہ  ’’ بچوں کی نرالی دنیا‘‘ دہلی جون ۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور سبق آموز نظم  ’’ آج کا کام کل پہ مت ٹالو‘‘ ماہنامہ  ’’ امنگ ‘‘ دہلی  مارچ  ۲۰۰۴ ء میں شائع ہوئی جس میں انہوں نے وقت کی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔

            بچوں کے لیے چھٹیوں کے ختم ہونے کا احساس کس قدر معنی رکھتا ہے اسے رؤف خیر نے ایک نظم میں ڈھال دیا ہے۔ یہ نظم  ’’ امنگ‘‘ دہلی  جولائی ۲۰۰۴ء میں چھپی:

چھٹیاں ختم ہو گئیں آخر

پھر وہی مدرسہ وہی پھر ہم

پھر قلم کاپیاں کتابیں پھر

 پھر وہی سلسلہ وہی پھر ہم

پھر وہی بوجھ پیٹھ پر بھاری

 پھر وہی بس ہے پھر وہی بستے

پھر وہی انتظار کی صورت

پھر وہی منزلیں وہی رستے

بچوں کو رؤف خیر نے ہمیشہ اعلی فکر  High Thinking کی ترغیب دی ہے :

بننا اگر بڑا ہے ، بڑوں کی طرح سے جی

نرمی برتنا اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ بھی

اچھے ، پنپنے، جینے کے سب رنگ ڈھنگ رکھ      دل میں امنگ رکھ

یہ نظم  ’’ امنگ ‘‘ مارچ ۲۰۰۵ء میں شائع ہوئی –  ’’ امنگ‘‘ اپریل ۲۰۰۵ء  میں ان کی ایک اور نظم شائع ہوئی جس میں انہوں نے ماں باپ کی قدر کر نا سکھایا۔

دیکھ  ماں باپ سے بڑھ کے کوئی نہیں

تیری ہر چیز ان  کی ہے  تیری  نہیں

        جان بھی مانگ  لیں تو تکلف  نہ کر

  اپنے ماں باپ  کے  سامنے   اف  نہ کر

مختصر یہ کہ  بچوں میں اعلیٰ صفات اور اچھا کردار دیکھنے کے آرزو مند رؤف خیر نے ان کے لئے بڑی خوبصورت ، سلیس انداز میں دل میں اتر جانے والی نظمیں کہہ کر اپنی الگ پہچان بنائی ہے۔ یہ نظمیں کچے دماغوں پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں۔

 

               ہائیکو

ہائیکو دراصل جاپانی صنفِ سخن ہے۔ اس میں صرف تین مصرع ہوتے ہیں اور یہ مصرع پانچ سات پانچ سیلیبلزSyllablesمیں لکھے جاتے ہیں۔ جاپانی زبان میں یہ بہت مقبول ہیں۔ اس کو اُردو میں باضابطہ مقبولیت دینے میں پاکستانی شاعر محسن بھوپالی پیش پیش رہتے ہیں۔ عالمی سطح پر وہ اُردو میں (ہائیکو انٹرنیشنل) پرچہ نکالتے ہیں اور گاہے گاہے ہائیکو مشاعرے اور ہائیکو سمینار بھی منعقد کرتے ہیں۔

            رؤف خیرؔ  نے ہائیکو بھی لکھے، جیسے۔

باتیں خوابوں کی

لکھے گا تو لکھے پر

پابندی ہو گی

کیا ہے پاپ اور پُن

ایسی ویسی باتوں پر

اپنے سرکو دھن

اعلیٰ بود و ہست

فطرت پر آ جائے تو

پستش غایت پست

 

                ماہیے

ماہیئے پنجابی صنف ہے۔ اس میں بھی تین ہی مصرع ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا وزن کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ عموماً مفعول مفاعیلن /فاع مفاعیلن/ مفعول مفاعیلن  یا پھر بقول ڈاکٹر عارف حسن خان

 فعلن فعلن فعلن/فعلن فعلن فع/ فعلن فعلن فعلن  میں لکھے جاتے ہیں۔ ان دنوں ماہیوں کی باڑھ سی آ گئی ہے۔ کچھ لوگوں نے تین مساوی مصرعے کہہ کر انہیں ماہیئے کا نام دیا۔ مصرعے اگر مساوی ہوں تو ثلاثی کہلائے جا  سکتے ہیں۔ لیکن ماہیئے کا درمیانی مصرع ایک سبب کی کمی کی وجہ ے ماہیئے کی پہچان قائم کرتا ہے۔ اس صنف کو مقبولیت بخشنے میں جرمنی کے حیدر قریشی اور بہار کے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی خدمات اہم ہیں۔ کئی ماہیئے نمبر بھی نکلے جیسے ’’گلبن‘‘  احمدآباد ماہیا نمبر۔ ( ’’گلبن‘‘ اب لکھنؤ منتقل ہو گیا ہے)اس سلسلے میں خود رؤف خیرؔ کا مضمون ’’تین مصرعوں کی نظمیں ‘‘  ’’گلبن‘‘(جنوری تا اپریل ۲۰۰۵ء؁ دیکھا جا سکتا ہے)رؤف خیرؔ نے بھی کئی ماہیئے کہے جیسے۔

سرکاری مسلمانو

خود سے ہونا واقف

ملت کو تو پہچانو

افسوس تو کیا کرنا

زہر کا عادی تھا

لازم تھا اسے مرنا

ماحول ہی ایسا ہے

لاکھ نہ مانو تم

بھگوان تو پیسہ ہے

 

               حمد

رؤف خیرؔ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اور حکومت ساری دُنیا کے بادشاہوں سے بلند و برتر ہے۔ اس جیسی بادشاہت دُنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی نصیب نہیں۔ اللہ ہی ایک واحد ہستی ہے جو انسان کو دھن دولت عطا کرتا ہے اور وہی ہے جو بادشاہ ہوں کا تخت و تاج بھی چھین لیتا ہے یعنی اگر وہ چاہے تو انسان کو غریب سے امیر بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اتنی بڑی ہے کہ وہ اگر چاہے تو سخت سے سخت بیمار آدمی کو بھی شفا دیتا ہے۔ جب کہ دُنیا کے برے سے بڑے طبیب یا دُنیا کی دولت بھی لاعلاج کا علاج نہیں کر سکتی۔ آخری شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ سے کہہ رہا ہے کہ ہمارا مددگار اس جہاں میں سوائے تیرے کوئی بھی نہیں ہے۔ ہم تو صرف تجھ ہی کو اپنا پاسبان مانتے ہیں۔

ترے لئے ہے شہنشاہوں کی شہنشاہی

کسی کو زیب نہیں دیتا راج تیرے سوا

یہ کون ہے جو چٹائی بھی چھین لیتا ہے

یہ کون بھیک میں دیتا ہے تاج تیرے سوا

شفا تو ہاتھ میں تیرے ہے، کون کرتا ہے

جو لاعلاج ہیں ، ان کا علاج تیرے سوا

ترے سوائے بھلا کل بھی کون تھا اپنا

جہاں میں کون ہمارا ہے آج تیرے سوا

            شاعر اللہ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے اللہ میں حاجت مند ہوں تو میری مشکل کو آسان کر دے۔ اے اللہ میں تیرے سوا کسی کے آگے اپنا ہاتھ نہیں بڑھاتا کیونکہ مانگنے والے کو تو عطا کرتا ہے۔ اگر ہم صدق دل سے تجھ سے مانگیں تو کئی بار ہم کو عطا کرتا ہے۔ یعنی ہم ایک قدم تیری طرف بڑھیں تو، تو کئی قدم ہمارے طرف بڑھاتا ہے۔ تیرے سوا کسی کے ہاتھ میں شفا دینا نہیں ہے۔ ہمیں مشکلات سے تیرے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔ تو ہی ہمارا مددگار ہے۔ اے مولا تو ہمارے قریب ہے۔ ہر مشکل وقت میں تو ہمارا ساتھ دیتا ہے اللہ کی بارگاہ میں تو پیغمبر بھی مجبور و بے کس ہوتے ہیں۔ نوح کی آنکھوں کے سامنے ان کے بیٹے کو اللہ نے غرقاب کر دیا اور محمدؐ نے اپنی بیٹی کو عمل کی تلقین کی۔ اے اللہ تو ہی پروردگار ہے۔ جو شخص اللہ کے احکام کی پیروی نہیں کرتا اللہ کے بتائے ہوئے احکام پر عمل نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اسے سزا دیتا ہے۔

میں حاجت مند ہوں حاجت روا تو

مرا مولا، مرا مشکل کشا تو

بھلا کیسے کسی سے جا کے مانگوں

کہ تو کہتا ہے میرے پاس آ تو

چلوں گر اک قدم تیری طرف میں

تو میرے پاس آئے بھاگتا تو

کسی کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے

مسیحا تو دواؤں میں شفاء تو

بھلا کوئی بچا سکتا بھنور سے

ہمارا ناخدا بھی ہے خدا تو

تری درگاہ میں بے بس پیمبر

ڈبو دیتا ہے بیٹا نوحؑ کا تو

محمدؐ نے کہا بیٹی سے اپنی

عمل کر تو عمل کر فاطمہ تو

تجھی کو المدد کا لفظ زیبا

جہاں تجھ کو پکارا آ گیا تو

ضرورت کیا وسیلے کی کسی کے

کہ ہے نزدیک شہ رگ سے سدا تو

کوئی دیتا نہیں تیرے سوائے

سبھی بے کسی غنی الاغنیاء تو

تو ہی بندہ نواز و بندہ پرور

تو ہی مولائے کل غوث الوریٰ تو

            جس کا ایمان پختہ ہو وہ دُنیا کی دوسری طاقتوں کو نہیں مانتا یعنی غیر اللہ کو نہیں مانتا۔ جس کا ایمان پختہ نہ ہو اور کلمہ کا مفہوم نہیں جانتا اس کے لئے تمام علم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں انسان خود میں اپنی آل و اولاد اور دُنیا کے مال و متاع میں اتنا گم ہے کہ ا للہ کی عبادت کو بھول گیا ہے شاعر کلمہ کے دامن کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جو شخص تقویٰ کے ساتھ کلمہ کے مفہوم کو سمجھتا ہے اُس کے لئے دُنیا کے تمام علم و ہنر کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔

وہ سر ہے جس میں بھرا لا الہ الا اللہ

اِدھر اُدھر نہ جھکا لا الہ الا اللہ

تمام علم کے دروازے جھکا لا الہ الا اللہ

کہ جس پہ کھل نہ سکا لا الہ الا اللہ

ہمارا کفر بھی ایمان کا تقاضہ ہے

تبھی تو ہم نے کہا لا الہ الا اللہ

بنے ہوے ہیں خدا نفس و آل و مالِ و متاع

مگر یہ سر نہ جھکا لا الہ الا اللہ

               نعت

جس طرح حمد صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے اسی طرح نعت صرف رسول اللہ ؐ کے لیے مختص ہے۔ نعت کہنے کے لیے رؤف خیر ایمان کو شرط اولین قرار دیتے ہیں۔ رسول اللہ کی زلفوں کی تعریف رخسار کا ذکر وغیرہ روایتی محبوب سے روایتی عشق کا روایتی اظہار ہے جو رسول اللہ کی شان کے منافی ہے۔ رسول اکرم تو وہ مرد کامل ہیں جو شجاعت و فراست کا نمونہ اور اعلیٰ اخلاق و کردار کی قابل تقلید مثال ہیں۔ بقول خیر جنہوں نے امام الانبیاء کو اپنا امام بنانے کے بجائے اپنے اپنے الگ امام بنا لیے ہوں ان کی نعت میں وہ خلوص دل آ نہیں سکتا جو خالص محمدی کی عقیدت میں ہو سکتا ہے۔ جو اللہ کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے مخلص بندوں کو بھی مشکل کشا سمجھتا ہو وہ اللہ کی حمد کس منہ سے کر سکے گا۔ اسی طرح جو صرف اور صرف رسول اکرم  ﷺ  کو امام  و مقتدا سمجھنے کے بجائے غیر نبی کا نقش قدم اختیار کرتا ہو  اس کے منہ سے نعت اچھی نہیں لگتی۔

            جس دل کے آئینے میں رسول اللہ کی محبت نہ ہو وہ آئینہ بے کار ہے۔ رؤف خیر کہتے ہیں میرا مکان دھوپ کے رُخ پر ہے اور مجھے آپ کی ذات اک ایسا پیڑ لگتی ہے جو گھنا بھی ہے اور ہر بھرا بھی ہے۔ جس کی چھاؤں میں مجھے آرام ہی آرام ہے۔ میری ہستی ایک گیلی خاک کی مانند ہے۔ شاعر اللہ سے دُعا مانگتا ہے کہ وہ اپنی رحمت سیا سے ایسا بلند درجہ یا ایسی صلاحیت عطا فرما جس سے وہ دوسروں کے کام آ سکے یعنی اس گیلی ہستی کو ایسا پیکر عطا فرما کہ وہ کام کی چیز بن جائے۔ شاعر اپنے آپ کو نبی کی امتی ہونے پر فخر محسوس کر رہا ہے اور نبیؐ کے احکام پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مکمل محسوس کر رہا ہے جو صرف نبیؐ کے احکام پر یقین رکھتے اور سچے دل سے ان پر عمل کرتے ہیں تو وہ ہر گز غلط راہ پر بھٹک نہیں سکتے۔

اعتراف عجز

میں نعت کہہ سکوں یہ مری کیا بساط ہے عاجز

بڑے بڑے ہیں سخن ور رسول پاکؐ

ممکن نہیں ادا بھی ہو ماں باپ ہی کا حق

حق آپؐ کا ادا ہو تو کیونکر رسول پاکؐ

قربان میری جاں مرے ماں باپ آپؐ پر

قربان آپؐ پر مرا گھر بھر رسول پاکؐ

جس میں نہیں ہیں آپ سراسر رسول پاکؐ

وہ آئینہ نہیں ہے برابر رسول پاکؐ

میرے لئے تو پیڑ ہرا بھی گھنا بھی آپؐ

میرا مکاں ہے دھوپ کے رُخ پرر سول پاکؐ

گیلی ہے میری خاک تو گردش میں چاک ہے

پیکر میں ڈھالئے مجھے چھو کر رسول پاکؐ

دل میں اتر کے رہ گیا اُترا جو آپؐ پر

اب کیا پڑھیں صحیفۂ دیگر رسول پاکؐ

پیاسے لبوں کو آپؐ سے دو گھونٹ کیا ملے

جچتا نہیں ہے کوئی سمندر رسول پاکؐ

میں آپؐ کے بغیر ادھورا تھا ہر جگہ

پورا ہوا ہوں آپؐ سے مل کر رسول پاکؐ

ہم وہ غلام بیعت و نسبت ہے آپؐ سے

ہم خاک چھانتے نہیں در در رسول پاکؐ

چلنے لگا ہوں آپ کی اُنگلی جو تھام کر

گم ہو سکوں گا بھیڑ میں کیوں کر رسولِ پاکؐ

کب خیرؔ مہر و ماہ کے سکوں میں بک سکا

قیمت لگا چکا ہے بہت شر رسولِ پاکؐ

            شاعر کہتا ہے کہ رسول پاک ؐ کی تعریف بیان کرنے کے لئے اس کے ہاں الفاظ نہیں ملتے اور نہ ہی حسان کا لہجہ اس کے پاس ہے۔ رسول ؐ کا ایک ایک حرف ادبستان کے مانند ہے۔ رسول پاکؐ کی تعظیم پر عمل کرنے والے عالم نہ ہوتے ہوئے بھی بہت بڑے اہل علم ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ کے رسول وحی کے بغیر اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ جو اللہ کے رسول غلام ہیں وہ دُنیا کے بادشاہوں سے بھی زیادہ درجہ رکھتے ہیں۔ صحابہؓ  مسلمانوں کے دلوں میں صحابہ کی عزت اور وقعت راجاؤں مہاراجوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ درویش کی دولت تو اس کا نفسِ مطمئنہ ہے۔ اگرچہ کہ دُنیا کی نظر میں وہ بے سر و سامان ہے۔ ہمارے رسولؐ کے سینے میں اُترا ہوا کلام مجید لوگوں کے لئے آفتاب کی طرح روشنی پھیلا رہا ہے۔ اللہ نے رسولؐ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کے سامنے ہم گردن جھکائے ہوئے اطاعت کرتے ہیں۔

ایک ایک حرف ہے ادبستان  مصطفیٰؐ

اہل زبان ٹھہرے زباں دان  مصطفیٰؐ

اللہ کی زبان، زبان رسول ہے

اللہ کا کلام ہے فرمان مصطفیٰؐ

اب کیا کسی کے ہاتھ پہ بیعت کریں گے ہم

ہم نے تو کی ہے بیعتِ رضوان مصطفیٰؐ

تلتا نہیں ہے اس میں کسی کا حسب نسب

میزان مصطفیٰؐ ہے یہ میزان مصطفیٰؐ

گردن جھکی ہوئی ہے تو آواز پست ہے

اٹھتا نہیں ہے خیرؔ سے احسان مصطفیٰؐ

               سانیٹ Sonnet

اُردو میں کئی شاعروں نے سانیٹ کہے ہیں۔ جیسے  ن۔ م راشد، میرا جی، احمد ندیم قاسمی، نریش کمار شاد وغیرہ وغیرہ۔ رؤف خیر نے بھی کئی سانیٹ لکھے ہیں۔ ان کے پہلے مجموعۂ کلام ’’اقرا‘‘ میں شامل ان کا سانیٹ ’’نذرِ غالب صدی تقاریب کی دین ہے۔ انہوں نے ایک سانیٹ ’’نذر ملٹن‘‘ بھی لکھا ہے۔ یہ دونوں سانیٹ معیاری ہیں۔ جناب مصلح الدین سعدی کے مطابق ’’شاعر ‘‘کا تو جواب ہی نہیں۔

محرف ہو چکیں تو رات کی سب آیتیں بھائی

نئے پیغمبروں پر اب نئے سورے اترتے ہیں

جو اپنے دور کے معیار پر پورے اترتے ہیں

نئے  معنی دکھاتی ہے نئے لفظوں کی  رعنائی

نئی دھوپوں میں  پچھلی رات  کے سب خواب زردائے

مسائل  نور  کی ہر  بوند  پی  لینے  کے  عادی  ہیں

ادھر  ہم  بھی  نئے  سورج  اگا دینے  کے عادی ہیں

کہ ہم ڈرتے ہیں اپنے قد سے بڑھ جائیں نہ یہ سائے

غلط ہے یہ کہ ہم ماضی کی تصویروں سے چڑتے ہیں

مگر یہ سچ ہے اپنا درد اپنا درد ہوتا ہے

ترے لہجے میں اپنا غم سمونا ایک دھوکا ہے

نئے لوح و قلم پیچیدہ تحریروں سے چڑتے ہیں

تو اپنے دور کی آواز تھا یہ  مانتے ہیں ہم

مگر جو غم ہے اپنے دور کا پہچانتے ہیں ہم

(۲۰  اگست  ۱۹۷۰؁ء)

            چودہ مصرعوں میں لکھی جانی والی سانیٹ کئی طریقوں سے لکھی جاتی ہے مگر ان کا مقبول عام فارم(ہئیت)  ا  ب  ب  ا  ج  د  د  ج  ہ  و  و  ہ  ز  ز  ہے۔ انگریزی میں شیکسپئر اور ملٹن کے سانیٹ بہت مشہور ہیں۔ ’’اقرا‘‘ ۱۹۷۷؁ء میں رؤف خیر کے دس سانیٹں شامل ہیں۔ جس میں ’’نذرِ غالب‘‘ کے بعد  ’’نذر ملٹن‘‘ بھی بہت متاثر کرتا ہے۔

            علامتی نظم۔۔ ارچنا میں شاعر کہتا ہے کہ میں خالی پیالہ لیئے ہوئے ہوں۔ پیاسا اور تم چھلکتی ہوئی شراب کی طرح پئے جانے کی منتظر ہو ، سورج ہو کر بھی میں کب تک کرنوں کے حوالے رہوں اور تم سمندر ہو کر بھی قطرہ شبنم کی طرح زندگی گما رہی ہو یعنی دونوں کی پوجا(ارچنا) ادھوری رہ گئی ہے۔

میں تہی جام بکف، تشنہ دہن ہوں کب سے

تم چھلکتی ہوئی مئے ہو کہ نہ دیکھی جائے

اور اسی آس میں جیتے ہو کوئی پی جائے

میں سلگتے ہوئے احساس کا بن ہوں کب سے

تابکے بکھروں میں کرنوں کا مقدر ہو کر

تم بھی اک قطرۂ شبنم ہو، سمندر ہو کر

            ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کے بعد شاعر کہتا ہے کہ خلوص و محبت کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ اگرچہ کہ تم نے اپنے دروازوں پر زنجیر لگائی ہے ہم تو پھر بھی تم سے پیار محبت کا رویہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاسبان(سیاست دانوں ) سے کہو کہ یہ سرحدوں پر لگائے ہوئے پہرے اٹھا لیں تاکہ دونوں طرف رہنے والوں کے خواب شرمندہ تعبیر ہوں۔ رؤف خیر کہتے ہیں :

ہم تو اخلاص کے مارے ہیں دُعا دیتے رہے

تم نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے تو کھینچی ہے لکیر

تم نے خود اپنے دریچوں پہ چڑھا لی زنجیر

ہم وہ پاگل کہ تمہیں پھر بھی صدا دیتے رہے

تم نے کیں نامہ و پیغام کی راہیں مسدود

ہم تو اب تک بھی حکایاتِ جنوں لکھتے ہیں

تم کو اب تک وہی سامان سکوں لکھتے ہیں

درد اب تک نہ ہوا حرفِ تمنا آلود

پاسبانوں سے کہو پہرے اٹھا لیں اپنے

دل کے رشتوں پہ تو پابندی آداب نہ ہو

اپنی تعبیر سے شرمندہ کوئی خواب نہ ہو

اپنے ہی کاندھوں پہ کیا چہرے اٹھا لیں اپنے

اور کیا ظلم ابھی نام وفا ٹوٹے گا

تم سے اک درد کا رشتہ ہے سو کیا ٹوٹے گا

نذر ملٹن:

            ملٹن نے۲۳سال کا عرصہ لاشعوری طور پر گزار دیا تھا جب کہ رؤف خیر کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کے تئیس۲۳ سال پلک جھپکتے نہیں گزرے بلکہ وہ بڑی با شعوری کی زندگی کا حصہ رہے۔ شاعر نے ملٹن کے انگریزی میں کہے ہوئے سانیٹOn his having arrived at the age of 23 کے حوالے سے یہ سانیٹ اُردو میں اس وقت کہی جب وہ خود بھی تئیس سال کی عمر کے تھے۔ (15-1-1971)

بڑے مزے میں تھا تئیس سال تک ملٹن

غم حیات سے جب اس کو ہمرہی بھی نہ تھی

مزے کی بات تو یہ ہے خود آگہی بھی نہ تھی

ادا ادا سے نمایاں تھا اس کا بھولا پن

یہاں یہ حال کہ تئیس (۲۳) سال کا عرصہ

پلک جھپکتے تو کیا بیتتا کہ راہوں میں

ہزار موڑ تھے خوں مانگتی پناہوں میں

کٹا ہے جاگتے، خواب و خیال کا عرصہ

اُسے ملال رہا دور لا شعوری کا

یہاں ملال ہمیں اپنی با شعوری کا

بنگال کا جادو:

            بنگال کے حسین چہروں کے تعلق سے شاعر اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے۔ بنگالی چینوٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرح اتحاد سے کام لیتے ہیں اور ہمیشہ ترقی کے لئے خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ شاعر بنگالیوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ تم لوگ ایک خول کی طرح مت رہو بلکہ اپنے  خول سے ہٹ کر باہر کی دُنیا و سمندر تو دیکھو جو کتنا حسین نظارہ رکھتے ہیں۔

یہ لچکدار تھرکتی ہوئی کافر بدنی

سانس لیتے ہیں ایلورا و اجنتا جیسے

حسن وہ حسن کہ دیکھو تو پسینہ چھوٹے

ہر سیہ چشم لئے پھرتا ہے ہیرے کی کنی

ہائے کیا چیز ہے بنگال کی مٹی کا خمیر

عام ہے آخری حد سے بھی گزرنے کی ہوس

کوئی میدان سہی پیرویِ مور  و  مگس

جیسے موہوم ہے تسکینِ تمنا کی لکیر

چشم نظارہ  کو وسعت  دو  سمندر دیکھو

اک ذرا  خول سے باہر بھی  نکل کر دیکھو

ہمارے بعد:

            شاعر اپنے دور کے اور ماضی کے فن کاروں کا قدر داں ہے اور اپنے بعد آنے والوں سے مایوس ہے۔ شاعر اپنے دور کی بات کر رہا ہے کہ اُس کے فن کو جاننے والا کوئی نہیں ہے اور اپنے دور کے شاعروں سے مخاطب ہو کر انہیں خوش نصیب کہہ رہا ہے کہ وہ اُن کے فن کو جانتا ہے۔ شاعر اپنے آپ سے اس لئے مایوس ہے کہ وہ اپنا ہنر کسے سونپے؟

کہیں چراغ جلے ہم بنے رہے فانوس

اندھیری راتوں کا ہم لوگ کرب جانتے ہیں

کہ مہر و ماہ کو ذروں کا خواب مانتے ہیں

ہم ابتداء ہی سے کچھ روشنی سے تھے مانوس

ہمارے آگے کئی قافلے روانہ ہوئے

ہمارے پیچھے تو گرد و غبار ہے ایسا

نگاہ و دل پہ اُبھرتا نہیں کوئی چہرہ

بگولے راہوں کے جیسے سبھی بہانہ ہوئے

ہمارے دور کے اے جاں گداز فنکارو

تمہارے فن کو تو ہم جیسے قدر داں بھی ملے

تمہارے درد کو کچھ غمگسارِ جاں بھی ملے

تم اپنے طور پر خوش بخت ہی رہے یارو

دل و جگر کسے بخشیں ، نظر کسے سونپیں

ہم اپنے بعد متاعِ ہنر کسے سونپیں

تا تراشیدہ پناہیں (منی کے نام):

            شاعر اپنی بہن سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ مستقبل میں نہ صرف اپنی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگی بھی سنوارے گی۔

مجھ کو اُمید ترے فن سے ہے ایسا ہو جائے

تو جو پتھر بھی تراشے تو وہ ہیرا ہو جائے

               غزل

رؤف خیر غزل کے معتبر شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ الفاظ کو برتنے کے معاملے میں وہ بہت محتاط رہتے ہیں۔ خاص طور پر سنگلاخ زمینوں میں پھول کھلانے کے لیے وہ مشہور ہیں۔ جتنی اچھی غزل وہ کہتے ہیں۔ اتنے ہی اچھے انداز میں پڑھتے بھی ہیں۔ ابتداء میں رؤف خیرؔ بھی عام نوجوانوں کی طرح رومانی اور روایتی غزلیں ہی کہتے رہے۔ جیسے جیسے مطالعہ وسیع ہو گا تیا انہوں نے ترقی پسندی اور جدیدیت سے واقفیت حاصل کر لی اور اسلوب کے فرق کو سمجھا۔ جامی کا اسلوب ان کے لئے بالکل نیا اسلوب محسوس ہوا۔ چنانچہ وہ جامیؔ کے  ’’رخسار سحر‘‘ سے متاثر ہو کر اپنا طرزِ شعر بدل دیا۔ جامیؔ کے علاوہ شکیب جلالی اور ظفر اقبال(جہاں تک ان کے رطب کا تعلق ہے) رؤف خیر کو پسند آنے لگے۔

            نئی نئی زمینوں میں اچھوتی فکر کے ذریعہ رؤف خیر چونکا نے لگے۔ غزل کے ساتھ ساتھ رؤف خیرؔ نے کئی اصنافِ سخن میں نئے نئے تجربے بھی کئے۔

چراغ جیسے ہیں لمحے کئی بھنورتے ہوئے

جو احتجاج نہیں کرتے گھاٹ اتر تے ہوئے

ہر ایک پیڑ کا سایہ گھنا نہیں ہوتا

    سفر طویل تھا ٹھیرے نہ ہم گزرتے ہوئے

بجائے خود ہے اذیت یہ ٹوٹتا نشہ

 سمندروں کو نہ دیکھو کبھی اترتے ہوئے

ہمارے قامت زیبا پہ حرف رکھتے ہیں !

وہ جن کی عمر کٹی آئینے سے ڈرتے ہوئے

بلا سے چیخ بنو حرف زیر لب نہ بنو

کوئی نشان تو چھوڑو کہیں گزر تے ہوئے

ہمارا مول تو جیسے رہا سہا بھی گیا

گئی تھی جان مگر اب تو خوں بہا بھی گیا

پنپ رہا تھا جو مجھ میں وہ اژدھا بھی گیا

نہ ڈس سکا تجھے ڈسنے جو بارہا بھی گیا

جی رہا ہوں کہ مری بات ادھوری ہے ابھی

ایک بے انت کہانی کی بنا ہے ، میں ہوں

اس خرابے میں فسادات کے اندیشے سے

 چھپ کے بیٹھا ہوا اک مجھ میں خدا ہے ، میں ہوں

زندگی زہر ترا کام نہ کر پائے گا

 جس نے بپتسمۂ زہراب لیا ہے ، میں ہوں

کچھ جہد زندگی کی نشانی بھی ہم میں تھی

 دنیا سراب تھی تو روانی بھی ہم میں تھی

ہر بے جواز بات پہ کرتے نہ تھے یقیں

گویا جہالتِ ہمہ دانی بھی ہم میں تھی

               نظم

رؤف خیرؔ نے مختلف موضوعات پر بڑی خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔ رؤف خیرؔ کی ابتدائی نظمیں پابند ہئیت میں ہوا کرتی تھیں۔ جیسے  ’’آنچل، آزادیِ نفس، ’جمنا بہے نہ رات‘‘۔۔۔ وغیرہ

            رؤف خیر نے جس عہد میں شعر کہنا شروع کیا آزاد نظمیں ’’معرا نظمیں مروج ہو چکی تھیں چنانچہ رؤف خیر نے بھی آزاد نظمیں کہنا شروع کیں۔ ان کی بعض نظموں کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ آزاد نظموں میں مصرعے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں لیکن آہنگ ایک ہی ہوتا ہے۔ جیسے نظم  ’’پناہ‘‘

            بے تحاشا دوڑ تا ہے

            ایک سراسیمہ ہرن

            اُڑ رہا ہے دور تک اس کی چھلانگوں سے غبار

            اک شکاری اس کا پیچھا کر رہا ہے دیر سے

            خوف کا مارا

            پریشاں

            تھرتھراتا یہ ہرن

            ایک بھوکے شیر کے مسکن میں لیتا ہے پناہ                 (۲۳ فبروری  ۱۹۶۸ء)

            انگریزی میں اس نظم کا ترجمہ مشہور ڈرامہ نگار اور شاعر جمیل شیدائی نے کیا معرا نظم مساوی مساوی مصرعوں پر مشتمل تو ہوتی ہے البتہ ردیف قافیے کا لزوم نہیں ہوتا۔ جیسے رؤف خیر کی نظم ’’شاپنگ‘‘

بے شک تھی شاہکار گلہری میں گھاس تھی

گڑیا نہ لی کہ وہ تو فقط خوش لباس تھی

تصویر بولتی سہی، تصویر ہی تو تھی

چینی کا تاج خوب تھا، نا پائیدار تھا

تھا بادشاہِ وقت مگر ہاتھی دانت کا

کیا کھنکھنا تا جسم تھا جو ٹوٹتا رہا

بازار کا جو مال تھا جی کو نہیں لگا

کچھ دیر اور جیب میں سکہ پڑا رہا

پھر یوں ہوا کہ خیر سے گھر لوٹتے ہوئے

آنکھیں خرید لیں کسی اندھے فقیر سے

            انگریزی اور اُردو کے مشہور شاعر اور افسانہ نگار بلراج کومل نے اس نظم کا انگریزی میں ترجمہ کیا جوUrdu Alive میں شائع ہوا۔

            رؤف خیر کا تیسرا شعری مجموعہ ’’شہداب‘‘ ۱۹۹۳ء؁ میں شائع ہوا جس میں یک مصرعی نظمیں شامل ہیں۔ بعض وقت بات ایک مصرعے ہی میں مکمل ہو جاتی ہے۔ دوسرا مصرع محض بھرتی کا ہوتا ہے۔

اس طرح  ’’یک مصرعی‘‘ نظموں کے رؤف خیر موجد ہیں۔ جیسے

 سفارش:            ہر سند سے بڑی سفارش ہے۔

ہم سفر:             مزہ سفر کا تو بس ہمسفر سے آتا ہے۔

سرکاری مسلمان:            دفتر کی کنجیوں میں قلم رکھ کے آ گئے۔

سلمان رشدی:   تمہاری آنکھ نصاریٰ ہے دل یہودی ہے۔

            انہیں سنسکرت کے ’’گاتھاسپت شتی‘‘ کے کچھ اُردو حصے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے سنسکرت کی اس صنف گا تھا کو اُردو میں منظوم قطعات کا روپ دیا جو مختلف رسائل میں شائع ہوئے۔

ساس بیمار بے کپاس ہے کھیت

گھر پہ کتا ہی ہے نہ شوہر ہے

آمری خلوتوں میں آ محبوب

اب نہ کچھ روک ٹوک کا ڈر ہے

            چاند، بڑھیا اور کٹھ پتلی(ایک سیاسی نظم):

            یہ ایک سیاسی نظم ہے جو اندرا گاندھی کے اقتدار کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ شاعر نے اندرا کو چاند کی بڑھیا سے تشبیہہ دی اور اس کے کاتے ہوئے دھاگوں سے بندھی ہوئی کٹھ پتلیاں اس کے اشاروں پر ناچا کرتی تھیں وہ سب کھیل ۱۹۷۷ء میں ختم ہو گیا اور بڑھیا(اندرا گاندھی) کا اقتدار بھی خواب ہو کر رہ گیا۔

            اک بڑھیا جو چاند میں چرخہ لے کر بیٹھی/سپنے کات رہی تھی

            پنبۂ جان سے دھاگا دھاگا جوڑ رہی تھی/سوچ رہی تھی

            ہر دھاگے سے اک کٹھ پتلی باندھ سکے گی

            دھرتی ٹیڑھا آنگن ہو تو کیا لینا ہے

            کٹھ پتلی بڑھیا کے ہاتھوں ناچ سکے گی

            ہاتھ میں رعشہ/کچا، بودا گنجلک دھاگا/تانا بانا ٹوٹ چکا تھا

            وہ چرخہ بے معنی ٹھہرا/چاند کی بڑھیا خواب ہوئی

            چھوٹے قسم کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے اپنی بڑائی(فوقیت) جتاتے ہیں اور اس کے لئے لڑتے رہتے ہیں حالانکہ دونوں کی بڑائی کی بنیاد ریت کے ٹیلوں کی طرح پھس پھسی یعنی کمزور ہوتی ہے۔ اگر ان سے لڑنے جھگڑنے سے پرہیز کرنے کے لئے کہا جائے تو وہ مانتے ہی نہیں۔

            دو بونے آپس میں لڑ کر

چاہتے ہیں یہ ثابت کرنا

            دونوں میں اک قدر آور ہے

            حالانکہ دونوں کے دونوں

            ریتیلے ٹیلوں پہ کھڑے ہیں

            ان سے لاکھ کہا۔۔ اے بھائی

            دونوں کا قد اک جیسا ہے/لڑنا چھوڑو

            لیکن بونے پھر بونے ہیں۔                         (دو بونے)

            دریا کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جدھر سے گزرتا ہے اُن علاقوں کو سیراب و شاداب کرتا جاتا ہے بشرطیکہ ریت اس دریا کو قید کرنا نہ چاہے:

            میں اک بہتا ہوا دریا/       مری فطرت میں ہے سیراب کرنا

            وہ چاہے کوئی ہو آباد کرنا/مگر میں جس ڈگر سے بہہ رہا ہوں

            وہاں سب ریت کے تودے کھڑے ہیں

            نمو کی قوتوں سے بانجھ، جن کو نہیں معلوم/کس کو لذت تخلیق کہتے ہیں۔

            اگر یہ ریت مجھ کو قید کرنے کی نہ سوچے،

            تو اس کو لذتِ تخلیق دے دوں                   (لذت آوارہ)

            حاکمانِ شہر کے مجسمے چو راستوں پر چپ چاپ کھڑے ہوئے محکوموں کی مصیبتوں کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اگر یہ مجسمے ٹوٹ بھی جائیں تو ان کی جگہ کوئی اور مجسمے آ جائیں گے اور زندگی کا وہی ڈھب چلتا رہے گا۔

            وہی مقابلہ ’’ہزار دست و چشم بر جبین‘‘ طرح کے آدمی سے

            پھر وہی شکست و ریخت/دائروں میں منقسم

            یہی ازل سے ہو رہا ہے

            حاکمانِ شہر۔ پتھروں کے بت/جو شاہراہِ عام پر ہیں نصب

            ٹوٹیں بھی یہ بت/تو کوئی اور بت!              (دائرے)

            اپنی پہچان بنانے کی جستجو کرنا چاہیے ایک قطرے کی طرح سمندر میں ضم ہونے کے بجائے سِیپ میں موتی بننے کی کوشش کریں۔

            پھٹ پڑا پھر شباب لہروں پر

            بڑھ گئی سیپیوں کی بے چینی

            اور کچھ راس آ گئی تھی ہوا

            پھر اچانک الٹ گیا پتہ

            اب وہ قطرہ نظر نہیں آتا

            اب وہ موتی ہے یا سمندر ہے                       (مستقبل)

            چھوٹا آدمی چاہے کتنا ہی کوشش کر لے اور بڑے آدمیوں کو بھلے ہی ختم کر دے، پھر بھی اس کا چھوٹا پن نہیں جائے گا۔ نیچ آدمی ہمیشہ نیچ حرکت ہی کرتا ہے اس سے بلند کردار کی توقع فضول ہے۔

            ساحلی علاقوں پر رہنے والے بونوں نے/ریت کے گھروندوں سے سر نکال کر دیکھا

            لمبے چوڑے شہروں کے اونچے اونچے محلوں میں /     خوش ادا و قد آور بعض لوگ رہتے ہیں

            سارے لوگ عزت سے جن کا نام لیتے ہیں

            ایک روز بونوں نے جمع اک جگہ ہو کر

            فیصلہ یہ فرمایا

            ایک ایک قد آور قتل کر دیا جائے

            خوش ادا و قد آور قتل ہو گئے لیکن

            مسکراتے بونوں کا قد تو پھر بھی چھوٹا ہے                   (بونوں کا خواب)

            سورہ بقرہ میں عزیر علیہ السلام کے واقعہ کا حوالہ ہے۔ کھنڈر کو دوبارہ آباد کرنے کا قصہ سنا کر شاعر یہ کہتا ہے کہ آج بھی سماج میں جگہ جگہ کھنڈر پائے جاتے ہیں جہاں سرمایہ دار غریبوں کا خون چوس رہے ہیں ، مائیں اپنے بچوں کو دودھ تک پلا نہیں پا رہی ہیں۔ وہ کہتا ہے ان خرابوں (کھنڈروں ) کے رہنے والوں کو بھی دوبارہ زندگی سے بھر پور مواقع ملیں۔

            میں پیمبر نہ سہی، /دیدہ بے خواب کے ساتھ

            رات دن ایسے خرابوں سے گزرتا ہوں /جہاں مکڑیاں عیش کیا کرتی ہیں

            بھوکے بچوں کو جہاں ممتائیں /دودھ کیا دیتیں فقط کوس لیا کرتی ہیں

            شہر میں عام ہیں کھوٹے سکے

            میں پیمبر نہ سہی، تو، تو خدا ہے اب بھی

            ان خرابوں کے مکینوں کا بھی احیاء ہو جائے۔                         (احیاء)

            صحیح بخاری کی حدیث کے تین کردار جو اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دُعا کر کے غار کے منہ کو آلگی، چٹان سے نجات پاتے ہیں۔ لیکن آج کے سماج کے بدکردار افراد ایسے ہیں جو کسی مصیبت سے نجات پانا چاہیں تو وہ اپنے کسی اچھے عمل کی دہائی بھی نہیں دے سکتے۔

            یہ غار، غارِ حرا نہیں ہے

            چلے تھے پکنک منانے لے کر شراب کی بوتلیں

            اچانک

            چٹان نے ڈھک لیا ہے رستہ

            کوئی بھی راہ مفر نہیں ہے

            ا تو  زانی  ہے

            ب نے مزدوریاں ہڑپ لی ہیں

            ج قاتل ہے اپنے والد کا

            کسی کے فرد عمل میں ایسا نہیں ہے کچھ بھی

            جسے وسیلہ کریں دُعائے نجات مانگیں

            جسے وسیلہ بنا کے راہ نجات ڈھونڈیں ؟                      (یارانِ بے وسیلہ)

          والد مرحوم کے تعلق سے شاعر کے تاثرات نظم ’’ابن بے اثاثہ‘‘ میں ملتے ہیں۔ یعنی کسی دولت مند باپ کا بیٹا نہیں ہے۔ اس کے حصے میں کوئی زمین یا جائیداد نہیں آئی۔ لیکن یہ کیا کم ہے کہ اس کو اپنے والد کے وسیلے سے صاحب قلم ہونا نصیب ہوا۔ وہ اب چشم معتبر کا مالک ہے اور اس کا دل اب نورانی کیفیات سے بھرا ہوا ہے اسی طرح اب یہ کہنا کہ وہ ’’ابن بے اثاثہ‘‘ ہے۔ جھوٹ لگتا ہے

            یہ واقعہ ہے کہ میں ابن بے اثاثہ ہوں

            نہ کوئی گھر نہ زمیں پائی میں نے ترکے میں

            وہ ایک گھر جو تھا پرکھوں کا آخری پندار

            ہوا ہے اس پہ بھی اتمام لطف آخر کار

            مری شریکِ نفس ہے تمہاری ہانپتی سانس

            مرے بدن میں تمہارا پسینہ شامل ہے

            تمہارا رعشہ گناہوں سے روکتا ہے مجھے

            یہ ہاتھ خالی نہیں ، صاحبِ قلم ہوں میں

            یہ آنکھ کا سہ نہیں ، چشم معتبر ہوں میں

            یہ دل سیا ہ نہیں ، نور کا سمندر ہے

            مجھے تمہارے وسیلے سے مل گیا کیا کیا

            یہ جھوٹ لگتا ہے، میں ’’ابن بے اثاثہ‘‘ ہوں۔                        (بے اثاثہ)

            چاندنی رات میں شاعر تاج محل کا نظارہ زاویئے زاویئے سے کرتے ہوئے اس دور کو یا د کرتا ہے اور آخر میں اپنے اکیلے پن کا احساس اسے ستاتا ہے۔

تاج کا حسن چودھویں کی یہ رات

چومتی لہروں کا حسین گناہ

زاویوں زاویوں سے دیکھتی ہے

اک بھنور بن کے رہ گئی ہے نگاہ

اف  یہ  جمنا کا شیشۂ سیال

تاج  کے  عکس کا یہ باؤلا رقص

یہ کہانی، یہ چاندنی، یہ پیاس

کس طرح سہہ لوں میں اکیلا شخص

                                                                        (جمنا بہے نہ رات)

            کسی چیز کو ناکارہ نہ سمجھا جائے۔ ہر ٹوٹی ہوئی چیز کو دوبارہ جوڑا جا سکتا ہے اسی طرح جو سمے بھی گزر گیا ہے اسے واپس بھی لایا جا سکتا ہے یعنی رشتے ناطے جذبے اگر دوبارہ استوار کر لیں تو بہتر ہے کہ یہ فلسفہ اب جھوٹ ہو چکا ہے کہ ٹوٹی ہوئی شئے دوبارہ نہیں جوڑی جا سکتی۔ اب زندگی ایک دائرے کی طرح گردش میں ہے۔ اسی ٹوٹے ہوئے تعلقات بھی استوار کئے جا سکتے ہیں۔

            کہیں کوئی فاصلہ نہیں ہے/شکستگی پر تو زندگی فتح پاچکی ہے

            شکستہ و بے بساط اب کوئی شئے نہیں ہے

            کہ حسن رد شکستگی سے حیاتِ نو پا رہی ہے۔ ہر شئے

            ہر ایک ٹوٹا ہوا تعلق/ہر ایک بکھرا ہوا تماشہ/ہر ایک منظر جو کھو چکا ہے

            ہر ایک جذبہ جو راہ تک تک کے اک سر شام سو چکا ہے

            وہ سارے ناطے/وہ سارے جذبے/وہ سارے رشتے پلٹ کے آتے ہیں

            بس اتنا حوصلہ کرو تم/جو لوٹ آئیں تو اپنے سینے سے بھینچ لو تو         (نگاہ آئینہ ساز میں )

            شاعر ایک کتاب میں کسی خوب صورت پیکر کی تصویر دیکھتے ہوئے اس کی عریاں بدن پر ایک آنچل کی کمی محسوس کر ہی رہا تھا کہ ہوا(صبا) نے صفحہ الٹ دیا گویا ایک آنچل کی کمی پوری ہو گئی۔

میں محو حسن تھا اور انگلیاں چٹختی تھیں

خطوطِ جسم کہ طالب تھے گدگداہٹ کے

نظر کہ مانگ رہی تھی نشانہ ہائے نظر

لبوں کے جام بھی پیاسے لبوں کے طالب تھے

یہ شاہکار تو تھا لیکن اس کا اک پہلو

مرے مذاق نظر پر کسی قدر تھا گراں

مجھے لگا کہ ہے محتاج ایک آنچل کا

گلابی جسم کا مغرور سینۂ عریاں

مرا خیال صبا نے بھی جیسے بھانپ لیا

اُلٹ گیا  اسی  لمحے  کتاب  کا صفحہ                     آنچل:

            آزادی بڑی مشکل سے حاصل ہوئی ہے۔ لیکن تقسیم سے دلوں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ حالانکہ اسلاف(بزرگوں) نے مل جل کر آزادی کی لڑائی لڑ کر آزادی حاصل کی تھی لیکن آپس میں دھوکا فریب اور تعلقات میں کشیدگی تقسیم ہند(Partition)کی وجہ سے پیدا ہوئی۔

            شاعر کہتا ہے کہ آزادی کے وقت جو تکالیف اور آزادی حاصل کرتے ہوئے جو دُکھ جھیلے تھے ان کا اعادہRepetition نہ ہو۔

            اب کم از کم وہ عہد کم نگہی(خراب دور) واپس نہ آئے۔ آب اگر جنوں کے ہاتھوں کوئی بدمعاشی پر اتر آئے تو حاکم شہر سے انصاف مل سکے۔ اس طرح ہمیں آزادی کی سانس نصیب ہو۔

            ہر ایک شخص کی آنکھوں میں اجنبیت تھی

            وہی ہوا کہ فقط اعتبار اپنا تھا

            پڑی ہوئی تھیں دراڑیں کھینچے ہوئے تھے خطوط

            خلوص، قرب، تعلق تو جیسے دھوکا تھا

            وہ عہد کم نگہی لوٹ کر نہ پھر آئے

            لہو کا نقش جسے لذتِ تماشہ تھا

            مجھے یہ آرزو، تہذیب نو میں ایسا ہو

            کوئی کٹھور تو کوئی خدا ترس بھی ملے

            کہ پھول پھول یہ بھنورا نہیں مگس بھی ملے

            وہ جو بلند نظر ہے، کبھی تو ایسا ہو

            اسیر پنجہ ٔ   احساس پیش و پس بھی ملے

            کہاں تلک کوئی گن گن کے سانس لیتا رہے

            کہ جسم و جاں کے لئے بادِ بے قفس بھی ملے

            رہے نہ کوئی بھی پابندی دست و بازو پر

            ہر ایک شخص کو آزادی نفس بھی ملے

            گریباں گیر خرد ہے جنوں تو اتنا ہو

                    فقیہہ  شہر  کے  دامن  میں  پہ  دسترس  بھی  ملے    (آزادیِ نفس)

تین مربوط نظمیں

            (۱)  ساعت خود تحفگی      (۲)  ساعت خود تحفگی کا مرثیہ       (۳)  دودھ کا عذاب

            ۱۔  شاعر کے بیٹے کی پیدائش سے پہلے شاعر کو اس کی آمد کا انتظار تھا۔

            ۲۔  بچہ پیدا ہوتے ہی مر جاتا ہے۔

            ۳۔  بچہ کی ماں کے سلسلے میں شاعر دُعا کرتا ہے کہ جب چھوٹے معصوم لب ہی دودھ پینے کے لئے زندہ نہ رہے تو پھر ماں کے سینے میں دودھ کا مطلب کیا رہ گیا۔ لہٰذا وہ اس دودھ کا عذاب اس پر سے اٹھا لینے کی اللہ سے دُعا کرتا ہے۔

(۱)  ساعت خود تحفگی  (۲۹ نومبر ۱۹۷۳ء):

            اب تو میں اس ساعتِ خود تحفگی کا منتظر ہوں

            فائیلوں کے بوجھ سے اُٹھ کر جو گھر پہنچوں

            تو اک معصوم کلکاری کے آئینے میں

            اپنے آپ سے مل کر/مگن ہو لوں /تھکن بھولوں

(۲)  ساعت خود تحفگی کا مرثیہ (۱۷ جنوری ۱۹۷۴ء)

            وہ مسکان جس کا کہ میں منتظر

            تتلیاں منتظر

            دستِ جود و عطا سے

            مرے کاسۂ جاں میں آئی

            تو بے رنگ تھی

دودھ کا عذاب(۲۰ جنوری ۱۹۷۴ء):

            کنواری ماں کے کنوارے سینے کو دودھیا نور دینے والے

            اے پاک مریم کے پاک پروردگار احسان اتنا کر دے

            جو چھوٹے چھوٹے لبوں کو محرومِ ذائقہ کر دیا ہے تو نے

            تو اس کی ماں پر بھی رحم فرما

            عذاب یہ دودھ کا اٹھا لے۔

            شاعر سے ملنے آنے والی لڑکی سے شاعر کہتا ہے کہ اب چونکہ تم پرائی ہو چکی ہو اور تمہاری مانگ کا سیندور کہیں ماند نہ پڑ جائے اس لئے اب ملنا ملانا ٹھیک نہیں۔ لہٰذا وہ اس کو اس کے گھر چھوڑ کر آنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے پھر رُک جاتا ہے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے اور بے چاری کسی بدنامی کا شکار نہ ہو جائے۔

            کرید و  راکھ نہ ماضی کے خواب زاروں کی

            کہیں بجھیں نہ تمہاری ہتھیلیوں کے کنول

            کہیں نہ مانگ پہ اڑ اڑ کے راکھ جم جائے

            کہیں نہ مانگ کا سیندور ماند پڑ جائے۔

            تمہاری آنکھ میں آنسو ارے یہ کیا پگلی

            جو ہو چکا ہے شکایت ہی آج کیا اس کی

            تمہارے پیار کی تقدیر ہو گیا سیندور

            مرے خلوص کی قسمت میں راکھ ہونا تھا۔

            چلو میں چھوڑ کے آؤں تمہارے گھر تم کو

            نہیں نہیں۔ اب اکیلی ہی تم چلی جاؤ             (راکھ اور سیندور)

            شاعر گھر سے نکلتے وقت یہ سوچ کر نکلا تھا کہ وہ دُکھے ہوئے اور مایوس لوگوں میں زندگی کی حرارت پیدا کرے گا اور اگر کوئی اس پر طنز یہ قہقہے بھی لگائے تو ہنس کر ٹال دے گا۔ مگر جب وہ شام کو گھر پہنچا تو خود اس کا دل دُکھا ہوا تھا یعنی اُسے ایسے ایسے تجربات سے گزرنا پڑا کہ اس کا دل دکھا۔

            یہ میں نے سوچا تھا(صبح دہلیز چھوڑتے وقت)

            لمحہ لمحہ خلوص یاراں پہ وار دوں گا/بجھے ہووں کو جو  راکھ ہونے کے وہم میں مبتلا ہیں

            دوں گا لہو کا ایندھن/اور ان کی فالج زدہ حسوں کی جھنجھوڑ دوں گا

            تھکے ہووں کو صدا میں اپنی میں لوچ بھر کر پکار لوں  گا

            جو سوچتے ہیں کہ زندگانی گزارنا ہے، گزار لیں گے/انہیں بتاؤں گا ان کا حق زندگی یہ کتنا ہے

            میں نے سوچا تھا/اب کسی کا نہ دل دکھاؤں گا/

طنز یہ قہقہے ملیں گے تو ان کو ہنس ہنس کے ٹال دوں گا/میں اب سر شام گھر کو لوٹا ہوں

            اور مرا دل دکھا ہوا ہے۔

                                                (قصہ دل دُکھنے کا)

               ترائیلےTroilet

اُردو میں نریش کمار شاذؔ، فرحت کیفیؔ اور  رؤف خیرؔ وغیرہ نے اس ہئیت میں نظمیں کہی ہیں۔

            رؤف خیر کی پہچان ’’ترائیلے‘‘ بھی ہیں۔ ان کا ایک پورا مجموعہ کلام ’’ایلاف‘‘ (سن اشاعت ، ۱۹۸۲ء) ترائیلوں پر مشتمل ہے۔ (گو اس میں چند نظمیں غزلیں بھی شامل ہیں ) جمیل شیدائی کے مطابق:

 ’’ترائیلے دراصل فرانسیسی صنفِ سخن ہے جس میں آٹھ مصرعے دو قافیوں سے لکھے جاتے ہیں۔ پہلا مصرع چوتھے اور ساتویں مصرع کی جگہ اور دوسرا مصرع آٹھویں یعنی آخری مصرعے کے طور پر دہرایا جاتا ہے۔ اس صنف شاعری کی خوبی اور کامیابی اس بات میں مضمر ہے کہ مصرعوں کا اعادہ فطری جیسا ہوا اور ناگزیر لگے اور اس طرح اعادہ سے مختلف معنی نکلتے ہیں۔ یا نفس مضمون کی تشریح ہوتی ہے۔ ‘‘(ایلاف کا پیش لفظ)

            فرانسیسی صنفِ سخن ترائیلے سے وہ زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے ترائیلے ’’ایلاف‘‘(۱۹۸۲ء) اور  ’’شہداب‘‘ میں شامل ہیں۔ رؤف خیر کے مشہور ترائیلوں میں سے دو مثالیں ہیں۔ جہاں کہیں ترائیلے کی تاریخ بیان ہوئی ہے اور ترائیلوں کا تذکرہ ہوا ہے وہاں رؤف خیر کا ذکر بھی ہوتا رہا ہے۔

ٹائم کیپسول

بنو امیہ ہی باقی نہ ہیں بنو عباس

نہ اپنے آپ کو دہرا کے تھک سکی تاریخ

ہوا و حرص بھلا کس کو آ سکے ہیں راس

بنو امیہ ہی باقی نہ ہیں بنو عباس

سروں میں دفن ہوئی اقتدار کی بو باس

ہر ایک حرفِ ہوس پر کھینچا خط تنسیخ

بنو امیہ ہی باقی نہ ہیں بنو عباس

نہ  اپنے آپ کو دہرا کے تھک  سکی  تاریخ

                                                             (۲۱ اگست ۱۹۷۸ء)

            عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے معصوم مرتے ہیں تو جنت و دوزخ کے درمیان ایک مقام میں رکھے جاتے ہیں۔ جسے ’’Limbo‘‘ کہتے ہیں اسی کو ’’اعراف‘‘(اسلام میں ) کہتے ہیں۔

            ہمارا سماج ایسا ہے جہاں معصوم روحیں نہیں پائی جاتیں۔ بلکہ یہاں پیغمبر بھی ہیں ، ابوجہل بھی ہے، سمیہ بھی ہے، اوس و خزرج جیسے لڑاکو قبیلے بھی ہیں۔ جو اسلام لانے سے پہلے آپس میں جھگڑتے رہتے تھے۔ چور، شرابی، زانی  اور جج بھی ہیں۔ ہم سب سے کٹے ہوئے بھی اور سب سے ہمارے تعلقات بھی ہیں۔ گویا ہم کسی لمبو میں نہیں رہتے۔             لمبوLimbo

میں جہاں ہوں وہاں اوس و خزرج بھی ہیں

ایک آواز حق بھی، سمیہ بھی ہے

گھر کے آنگن ابوجہل کے کج بھی ہیں

میں جہاں ہوں وہاں اوس و خزرج بھی ہیں

چور زانی شرابی ہیں اور جج بھی ہیں

میں ہوں سب سے الگ سب سے رشتہ بھی ہے

میں جہاں ہوں وہاں اوس و خزرج بھی ہیں

ایک آواز حق بھی، سمیہ بھی ہے

            غلط کاموں سے بچنا اور بچانا چاہیئے۔ یوم سبت(ہفتے) کی نافرمانی کرنے والے بندر بنا دیئے گئے تھے۔

رشوت

آتا ہے رہ رہ کے چہرے کا خیال

مچھلیاں ، ہفتہ، سمندر بے کنار

خشک لب، آنکھوں میں اک جلتا سوال

آتا ہے رہ رہ کے چہرے کا خیال

دستِ خالی میں لکھا ہے گھر کا حال

دم بخود ہوں درمیانِ نور و نار

آتا ہے رہ رہ کے چہرے کا خیال

مچھلیاں ، ہفتہ، سمندر بے کنار

            ایک ترائیلے کا انداز ملاحظہ کیجئے۔

25 th Hour

کس ساعت شدید کے نرغے میں آ گئے

ہر چیز دائرے سے نکلتی ہوئی سی ہے

جنگل کے جتنے شیر تھے پنجرے میں آ گئے

کس ساعتِ شدید کے نرغے میں آ گئے

یہ کس ڈگر پہ جاگتے سوتے میں آ گئے

جو شکل حرزِ جاں تھی دی اجنبی سی ہے

کس ساعتِ شدید کے نرغے میں آ گئے

ہر چیز دائرے سے نکلتی ہوئی سی ہے

            سیلاب ، پلیگ، فسادات کی وجہ سے لوگ مر جاتے ہیں تو ان کے لئے دو منٹ کی خاموشی اور ایک دن کی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔

سیلاب کی بھینٹ

اے عروجِ بے جسمی اے زوال رو، پوشی

مالتھوزین تھیوری تھی کہ مرگِ سرگوشی

وہ زبان سیلابی اور آدمی نوشی

اے عروجِ بے جسمی اے زوال رو، پوشی

بچ گئے تو ٹھہرایا سب نے نوح کو دوشی

ایک دن کی تنخواہیں دو منٹ کی خاموشی

اے عروجِ بے جسمی اے زوال رو، پوشی

مالتھو زین تھیوری تھی کہ مرگِ سرگوشی

            بعض میٹھی گولیوں میں زہر بھی ہوتا ہے اس کا اندازہ شاعر کو بعد میں ہوا۔

میٹھی گولیاں

ہم تو سمجھ رہے تھے کہ میٹھی ہیں گولیاں

اتنی خبر نہ تھی ہمیں کوکین ان میں ہے

لگتی تھیں دیکھنے میں تو پیاری نمبولیاں

ہم تو سمجھ رہے تھے کہ میٹی ہیں گولیاں

کن بولیوں میں کھیلی ہیں یاروں نے ہولیاں

چبھتا ہوا سا جذبۂ سنگین ان میں ہے

ہم تو سمجھ رہے تھے کہ میٹھی ہیں گولیاں

اتنی خبر نہ تھی ہمیں ، کوکین ان میں ہے

            دُنیا سے محبت کرنا بے کار ہے کیونکہ دُنیا بہرحال چھوڑنی پڑے گی۔

بے مکانی

اس خاک سے ہزار یونہی جی لگایئے

بے آسمان کر کے رہے گی زمین تو

ہر چند سو طرح کا تعلق نبھائیے

اس خاک سے ہزار یونہی جی لگائیے

مٹی سے ہاتھ، ہاتھ سے مٹی چھڑایئے

ہے بے مکانیوں سے ہی شانِ مکین تو

اس خاک سے ہزار یونہی جی لگایئے

بے آسماں کر کے رہے گی زمین تو

پاؤں

یہ ہے اس نوجواں لڑکی کا وہ پاؤں

جو  ’’پاگل پور‘‘  میں کاٹا گیا تھا

جلا تھا جس کے آگے گاؤں کا گاؤں

یہ ہے اس نوجواں لڑکی کا وہ پاؤں

کنارِ دریا دم سادھے جو  بے  چھاؤں

جوانوں کی ہوس کا مرثیہ تھا

یہ ہے اس نوجواں لڑکی کا وہ پاؤں

جو  ’’پاگل پور‘‘  میں کاٹا گیا تھا

ہاتھ

یہ ہاتھ برف زار سے لا یا ہوا سا ہے

جس ہاتھ میں کتاب کے بدلے مشین گن

آنکھیں ہیں خواب خواب مگر ان میں بھے ہی بھے

یہ ہاتھ برف زار سے لا یا ہوا سا ہے

مٹھی سے ریت بن کے پھسلتا ہوا سمے

اک بم کی طرح پھٹ بھی تو سکتا ہے دفعتاً

یہ ہاتھ برف زار سے لا یا ہوا سا ہے

جس ہاتھ میں کتاب کے بدلے مشین گن

ہم سرکس کے جانوروں کی طرح رنگ ماسٹر کے کوڑے کے اشارے کے مطابق کام کرنے پر مجبور ہیں۔

رنگ ماسٹر

 ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘

کہ ہم تو سرکس کے جانور ہیں

اشارۂ تازیانہ ہے فن

نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن

یہ سب ریا کاریوں کا مامن

یہ ہم اداکار بے نگر ہیں

نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن

کہ ہم تو سرکس کے جانور ہیں

            رؤف خیرؔ نے بعض لاطینی(Latin)زبان کے مخصوص الفاظ کے عنوانات دے کر خاص انداز میں کچھ ترائیلے کہے ہیں جیسےCul de sacیعنی(بند گلی) اس میں شاعر کہتا ہے کہ وہ عمر و عشق کے راستے پر گامزن ہے اور جذبے سے سرشار چلا جا رہا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ راستہ آگے بند ہے

Cul de sac

میں عمر و عشق کی اس رہگذر میں ایک ہی ہوں

یہ جانتے ہوئے آگے ہے راستہ مسدود

میں ہار جیت کا قائل ہوں صلح کیسے کروں

میں عمر و عشق کی اس رہگذر میں ایک ہی ہوں

جہاں سے لوٹنا چاہوں تو لوٹ بھی نہ سکوں

نفس کی ڈور ہے سلگی ہوئی بدن بارود

میں عمر و عشق کی اس رہگذر میں ایک ہی ہوں

یہ جانتے ہوئے آگے ہے راستہ مسدود

               تنقید

رؤف خیرؔ کے مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین

کتاب خطِ خیر

۱۔ حرف خیر

۲۔ میرا نظریہ ادب کے بارے میں

۳۔ اقبال کا فلسفۂ خودی

۴۔ کیٹس اور اقبال کے اسلوب کا تقابلی مطالعہ

۵۔ بچوں کا اقبال

۶۔ لفظیات فیض

۷۔ جوش کی انقلابی شاعری

۸۔ فراق گرم سخن ہے

۹۔ حسرت۔ آنکھ اور ادراک کے آئینے میں

۱۰۔ ’’اک سخن اور‘‘

۱۱۔ کاغذ پہ آگہی

۱۲۔ ملک الشعراء اوج یعقوبی

۱۳۔ پچھلے موسم کا پھول۔ مظہر امام

۱۴۔ رضیہ سجاد ظہیر کے نام

۱۵۔ مبصر کلام حیدری

۱۶۔ ڈپٹی نذیر احمد اور حیدرآباد

۱۷۔ جدید شاعری میں علامت نگاری

۱۸۔ آگہی نا آگہی

۱۹۔ ملفوظات و مواعظ۔ ادب کے آئینے میں

۲۰۔ خورشید احمد جامی فن اور شخصیت

مطبوعہ

۲۱۔ حیدرآبادی خواتین اور اُردو تحقیق و تنقید

۲۲۔ اُردو ماہیے کے تین مصرع

۲۳۔ برف رتوں کی آگ کا شاعر

۲۴۔ خواجہ میر درد۔ فن اور شخصیت

۲۵۔ سلیمان اریب

۲۶۔ اقبال کے اسلوب کا ارتقاء

۲۷۔ اک اجمالی تجزیاتی جائزہ

۲۸۔ دکن کا انمول رتن۔ شاذ تمکنت

۲۹۔ راجہ رام موہن رائے

۳۰۔ ’’ٹیگور‘‘ ناقدری سے قدردانی تک

۳۱۔ مصلح الدین سعدی

            رؤف خیرؔ کو تنقید سے دلچسپی ہے انہوں نے تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ ’’خط خیر‘‘ ہے۔ جسے خیری پبلیکشنز، گولکنڈہ، حیدرآباد نے 1997ء میں شائع کیا۔ یہ مجموعہ اٹھارہ (18) تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اس کا انتساب اپنے دو بیٹے رافف خیری اور ہاتف خیری کے حوالے سے نئی نسل کے نام کیا ہے۔ اسی صفحہ پر قرآن مجید کے سورہ الشعراء کی آیت ۲۶ ۸۴ اور اس کا ترجمہ بھی پیش کیا ہے۔

            حرف خیرؔ میں انہوں نے اپنے مضامین کے بارے میں لکھا ہے:

 ’’ان مضامین میں شخصی عناد کو ذرا دخل نہیں ہے۔ کسی صنف یا شاعر پر تنقید خالص علمی سطح پر روا رکھی گئی ہے اور دلیل و جواز کے ذریعہ نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘۱؎

            پہلا مضمون ’’میرا نظریہ ادب کے بارے میں ‘‘ ہے جس میں رؤف خیرؔ نے ادب کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی ہیں۔ جیسے ادب کی تعریف، الفاظ کا تخلیقی استعمال، موضوع کا اعلیٰ ہونا، موضوعات کے تنوع کے ساتھ اسلوب کا بدل جانا، تخیل اور ادب کا افادی نقطۂ نظر وغیرہ۔

            انہوں نے ادب کی تعریف اس طرح کی ہے:

 ’’بہترین الفاظ میں بہترین خیالات کو بہترین انداز میں پیش کرنے کا نام ادب ہے۔ ‘‘

            انہوں نے بتایا کہ شاعر و ادیب کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دینے کا ہنر جانتے ہیں جس کی وجہ سے کئی تشریحات کی گنجائش ہوتی ہے۔ الفاظ کا تخلیقی استعمال اور موضوع کے اعلیٰ ہونے کو رؤف خیرؔ بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اچھے ادب کی تخلیق کے بارے میں وہ کہتے ہیں :

 ’’میرے خیال میں اچھا ادب اسی وقت تخلیق پا سکتا ہے جب ادیب و شاعر اپنے تخیل کے زور پر وہ فضا تشکیل دے جس میں اس کا موضوع نمایا ں ہو کر سامنے آئے۔ بہرحال موضوع کی ہمہ گیری شاعری کی ہمہ دانی کا ثبوت فراہم کرے تو ادب کا شاہکار و جود میں آ سکتا ہے۔۔۔ ‘‘

 ’’کامیاب ادیب و شاعر وہی ہے جو اپنے فکر و فن سے اپنی پہچان قائم کرے محض کسی اور کی تقلید میں زندگی نہ گزارے بلکہ اپنے طور پر اک طرز کا بانی ثابت ہو، دوسروں کی تقلید میں عمر کاٹنے والا گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ نئی راہ نیا خیال اور نیا اسلوب دیگر فن کاروں سے ایک شاعر اور ادیب کو ممتاز کرتا ہے اور یہی امتیاز ادب کی ترقی کا ضامن بھی ہوتا ہے۔ ‘‘

 ’’اچھے ادب کے لئے ایک خاص افادی نقطۂ نظر کا ہونا ضروری ہے۔۔۔ ‘‘

 ’’ادیب کو سماجی برائیوں پر قلم ضرور اٹھانا چاہیئے مگر اس کا یہ طرز تحریر لذت انگیزی، لذت اندوزی و لذت آموزی کے بجائے سبق آموزی ہونا چاہیے اس کی تحریر سے قاری کو عبرت حاصل ہونا چاہیے۔۔۔ ‘‘

            رؤف خیرؔ نے اقبال پر تین مضامین لکھے ہیں مضمون ’’اقبال کا فلسفہ خودی‘‘ میں خودی کا مفہوم احساس نفس یا تعین ذات بتلایا گیا ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :

 ’’احساس نفس دراصل عرفان نفس ہے۔ بقول شخصے  من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ(یہ حدیث نہیں ہے)  جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا۔ تعین ذات بھی دراصل خدا کی ذات واحد اور اس کی لا محدود صفات کے ادراک کے ساتھ ساتھ اپنی حیثیت سے آگاہی کا نام ہے۔ یہی خودی ہے۔ خودی آخر کار قلب سلیم عطا کرتی ہے۔ یوم لا ینفع مال و لا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم۔ سوائے قلب سلیم کے اس دن نہ مال کچھ فائدہ پہنچا سکے گا نہ اولاد(سوائے شعراء: آیات:۸۸۔ ۸۷)‘‘

            انہوں نے بتایا کہ اقبال کے ہاں خودی ایک حرکی تصور ہے۔ خودی کی منزل اُس وقت آتی ہے جب اللہ کا ہاتھ بندہ مومن کا ہاتھ ہو جاتا ہے۔ خودی مرد مومن کے اندرون کا حصہ ہے۔ خودی کے سبب سربلندی نصیب ہوتی ہے۔ انہوں نے اقبال کے اشعار بھی خودی کی تشریح کی ہے۔

            اقبال پر دوسرا مضمون ’’کیٹس اور اقبال کے اسلوب کا تقابلی مطالعہ‘‘ ہے۔ مضمون کی ابتداء میں رؤف خیرؔ نے مغربی ادیبوں کے حوالے سے اسلوب کی تشریح کی۔ اسلوب اور اس کی تشکیل کے بارے میں انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے:

 ’’اسلوب کسی بھی ادیب و شاعر کی پہچان قائم کرتا ہے۔ مگر بجائے خود شخصیت نہیں ہوتا کیونکہ ایک شخصیت کے کئی اسالیب ہو سکتے ہیں۔ جس طرح انسانی شخصیت ارتقاء پذیر ہوتی ہے۔ اسلوب بھی ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی ایک مرحلے پر کسی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں اس کا موروثی کردار، بول چال، رہن سہن، حرکات و سکنات اور اس کی نیت کا دخل ہوتا ہے۔ اسی طرح اسلوب کو قائم کرنے میں فنکار کا تخیل لفظیات، موضوعات کا انتخاب اور ان کو برتنے کا سلیقہTreatmentاہم رول ادا کرتا ہے۔ ‘‘

            کیٹس اور اقبال کے اسلوب کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے رؤف خیر نے حسب ذیل نکات پیش کئے ہیں۔

 ’’جس طرح کیٹس نے اپنی ابتدائی شعری زندگی میں روایتی اسلوب کو اختیار کیا جو اس صدی میں مروج تھا اسی طرح اقبال نے بھی اپنی شعری زندگی کا آغاز اسی روایتی اسلوب سے کیا جو اس زمانے میں مانوس تھا۔ اقبال نے ابتداً وہی روش اختیار کی تھی جس کی اس زمانہ کی ادبی فضا متحمل تھی۔ ‘‘

             ’’کیٹس کے پاس لاطینی الفاظ کا استعمال بہت کم ہوتا ہے۔ جب کہ اقبال کی اُردو بہت مفرس و معرب ہوا کرتی ہے۔۔۔ بعض مخصوص اصطلاحیں لاطینی زبان کی استعمال کی جائیں تو مختصر ترین الفاظ میں جامع و مانع نقطٔ نظر پیش کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ اقبال نے اُردو کی مشکل ترین(مفرس معرب) صورت اپنا کر اپنی بات آسانی سے پہنچانی چاہی اور جن مذہبی علائم کا استعمال، اقبال بار بار کرتے ہیں ان کے لئے فارسی و عربی فضا کی تشکیل ضروری ہے۔ کیٹس چونکہ رومانی شاعر ہیں اس لئے اسے لاطینی الفاظ یا عبرانی اصطلاحات کی ضرورت پیش نہیں آتی۔۔۔

             ’’کیٹس کہتا ہے۔ I Looked upon fine phrases like a lover    اس معاملہ میں اقبال کیٹس کے ہم خیال ہی نہیں بلکہ اس سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ کیٹس اور شیلی کے محاکات کے بالمقابل اقبال کا کلام آسانی سے رکھ جا سکتا ہے۔ محاکات سے تو اقبال کا کلام بھرا پڑا ہے۔ Keatsشدت تاثر کا قائل ہے۔ وہ اپنی بات کو خوب سے خوب تر انداز میں پیش کرتا ہے۔ کیٹس کے ہاں Open and Close vowelsکا بالالتزام استعمال پایا جاتا ہے اورInter play of vowels  کی وجہ سے کیٹس کی شاعری میں حسن پیدا ہوتا ہے جو اس کے اسلوب کی خاص پہچان بھی ہے۔ اقبال کے پاس بھیLong vowels(طویل مصوتے) بہت استعمال ہوئے ہیں۔ ‘‘

 ’’کیٹس کے اسلوب کی ایک خاص شناخت یہ بھی ہے کہ وہ محدود بحروں کا شاعر نہیں بلکہ مختلف اور متنوع بحروں کا استعمال کیٹس کی شاعری کو یکسانیت کا شکار ہونے سے بچاتا ہے۔ کیٹس جہاں خوبصورت الفاظ اورPhrasesکا رسیاہے وہ بار بار آہنگ بدل کرMetrical Variationکے ذریعہ اپنے قارئین پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح اقبال کے کلام میں بھی بحروں کا تنوع بہت ہے کیٹس اور اقبال کے اسلوب میں Metrical Variationمشترک ہے۔ ‘‘وہ لفظوں کے ٹکرے بڑی خوبی سے استعمال کرتا ہے اقبال البتہ بعض تراکیب کو مخصوص اصطلاحات کا درجہ دے دیتے ہیں یہی اقبال کا خاص اسلوب بھی ہے۔ ‘‘

 ’’Keatsکے یہاں اکثر مصرعے Verbsسے شروع ہوتے ہیں اقبال کے بعض مصرعوں میں Verbsکا استعمال ہی نہیں ہوتا۔

             ’’مضمون بچوں کا اقبال‘‘ میں اقبال کی چند نظمیں جو بچوں کے لئے لکھی گئی تھیں اُن کے مغربی ماخذ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کی علاوہ طبع زاد نظموں پر بھی اظہار خیال کیا ہے اور اُردو میں آنے کے بعد اُنہوں نے جو مشرقی رنگ اختیار کیا اُس پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ رؤف خیرؔ نے اقبال کی نظمیں بچے کی دُعا، ایک مکڑی اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ہمدردی، ایک گائے اور بکری، ماں کا خواب، پرندے کی فریاد، طفل شیر خوار، ترانہ ہندی، نیا شوالہ وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔ رؤف خیرؔ نے لکھا ہے کہ اقبال نئی نسل میں اعلیٰ صفات پیدا کرنا چاہتے تھے اور انہیں زمانے کے نرم و گرم سے واقف بھی کروانا چاہتے تھے۔ اس کے علاوہ اقبال نے بچوں کو صبر و جمیل کی تلقین، دینا کی بے ثباتی، دانائی و فراست، غلامی سے تنفر، آزادی سے لگاؤ اور انسانیت کا درس دیا۔

            مضمون ’’لفظیات فیض‘‘ میں فیض کی لفظیات پر روشنی ڈالی ہے وہ کہتے ہیں :

             ’’گل، گلچیں ، صیاد، قفس، جیسے بے روح الفاظ فیض کی مسیحا نفسی سے لو دینے لگتے ہیں۔ ‘‘

             ’’فیض نے پرانے موضوعات اور پرانی لفظیات کو نئی زندگی دی بلکہ وہ نیا لہجہ بھی دیا جو سکہ رواں کی طرح ہاتھوں ہاتھ چلا‘‘

            رؤف خیرؔ نے فیض کے کلام سے بہت سی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔

            مضمون  ’’جوش کی انقلابی شاعری‘‘ میں رؤف خیرؔ نے بتایا کہ جوش نے زندگی کو جامد کر دینے والی رسومات، خرافات اور تخیلات کو ختم کرنے کی سعی کی تھی جوش نے آزادی کی لڑائی میں دامے، درمے و سخنے حصہ لیا۔ کھلم کھلا انگریزوں کے خلاف لکھا۔ وہ مزدوروں اور کاشتکاروں کے ہمدرد تھے۔ انہیں قوم کی بے حسی کا دُکھ تھا۔ رؤف خیرؔ نے جوش کی حق گوئی و بے باکی کی ستائش کی ہے۔

            مضمون ’’فراق گرم سخن ہے‘‘ میں رؤف خیرؔ نے بتایا کہ مشرق و مغرب کے ادب پر فراق کی گہری نظر تھی۔ اُن کا جمالیاتی نقطہ نظر مادی نوعیت کا تھا۔ اُن کا عشق زمینی تھا اور ان کا محبوب گوشت پوست کا انسان تھا۔ انہوں نے فراق کی غزل، رباعیات اور تنقید پر بھی اجمالاً روشنی ڈالی ہے۔

            حسرت موہانی کی یاد میں منائے جانے والے ایک جلسے میں رؤف خیرؔ کو ایک مضمون سنانے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے مضمون ’’حسرت آنکھ اور ادراک کے آئینے میں ‘‘ پیش کیا۔ اس مضمون میں انہوں نے بتایا کہ حسرت نے عشق کے علاوہ عصری مسائل کو اپنی غزل میں برتا ہے۔ مکالموں پر مشتمل اس دلچسپ مضمون کو بہت سراہا گیا۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے شائع ہو نے والی کتاب  ’’ حیدرآباد اور بیرونی شعرا‘‘ میں بھی یہ شامل ہے۔

             ’’اک سخن اور۔۔۔ ‘‘ حیدرآباد کے مشہور شاعر، مترجم، نقاد، صحافی، مضطر مجاز کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ جس پر رؤف خیرؔ نے اسی عنوان سے ایک تبصرہ کیا ہے۔ انہوں نے اس مجموعہ کلام کی تحسین پیش کرتے ہوئے حسب ذیل آرا کا اظہار کیا ہے۔ مضطرؔ صاحب نظم و نثر پر یکساں دسترس رکھتے ہیں۔

            غالب و اقبال کے فارسی کلام کا ترجمہ کوئی آسان مرحلہ نہیں مگر مضطر صاحب اس سے آسانی کے ساتھ گزرتے ہیں۔ اس سے ان کی علمیت، روایت سے کماحقہ آگہی، جدیدیت سے قلبی لگاؤ اور اک خاص طنزیہ نقطہ نظر کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ غزل سے زیادہ اینٹی غزل کے آدمی ہیں۔ بقول خیر:

     ’’قافیہ و ردیف پر ان کی گرفت،  جدید طرز سخن کے ساتھ اقبال کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ یہی حال نعت کا ہے، قوسین، کونین، عین، ذوالنورین جیسے قوافی میں نعت کہنا مضطر صاحب ہی کا حق ہے۔ ‘‘

             ’’مضطر صاحب کا نمایاں وصف ان کا طنزیہ لہجہ ہے یہ طنز  دل نہیں دکھاتا بلکہ لمحہ فکر عطا کرتا ہے۔ ان کے طنز کا نشانہ اپنے پرائے سبھی ہوتے ہیں۔ یہ بے باکی سفاکانہ نہیں بلکہ مخلصانہ ہوتی ہے۔ ‘‘

             ’’مضطر صاحب کی طنز نگاری میں دراصل کئی سیاسی و سماجی مسائل پر چوٹ ہے۔ اپنے آپ پر طنز کرنا بڑے ظرف کی بات ہے۔ مضطر صاحب اپنے حوالے سے اک دردناک کیفیت کا اظہار کرتے ہیں۔ ‘‘

            اس کے بعد پورا مضمون روحی قادری کی شاعری پر ناقدانہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ دو اقتباس پیش ہیں۔

             ’’روحی صاحب الفاظ برتنے کا سلیقہ جانتے ہیں ان کے لہجے میں بلا کی خود اعتمادی بھی ہے۔ ‘‘

 ’’انہوں نے اساتذہ کی زمینوں میں بھی گل کھلانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ خاص طور پر میرؔ و غالبؔ کے کوچوں میں جناب روحی کے قدم بہت سنبھل کے پڑھتے ہیں۔ ‘‘

            مضمون ’’ملک الشعراء اوج یعقوبی‘‘ میں رؤف خیر نے اوج یعقوبی سے اپنے ملاقاتوں کو ذکر کیا پھر انہوں نے اُن کی شخصیت پر روشنی ڈالی اور اُن کے چند شعری مجموعوں پر اظہار خیال بھی کیا وہ لکھتے ہیں :

 ’’اوج صاحب زندگی کی اعلیٰ قدروں کے ترجمان تھے انہوں نے قلم سے روٹی پیدا ضرور کی مگر قلم کو کبھی گندگی میں گرنے نہیں دیا۔۔۔ ‘‘

            مضمون ’’پچھلے موسم کا پھول‘‘ میں مظہر امام کے فن سے متعلق رؤف خیرؔ لکھتے ہیں :

 ’’مظہر امام کے پاس روایت کا احترام، ترقی پسندی کے بے باکی اور جدیدیت کی خود آگہی کے ساتھ ساتھ آزادی فکر کی وہ جولانی ہے جو ایک خوشگوار تاثر کی بنیاد بنتی ہے۔ ‘‘

            آزاد غزل اور آزاد نظم کے تعلق سے رؤف خیرؔ کہتے ہیں :

            آزاد غزل دراصل سہل پسندی کی علامت ہے اور اس سے نا شاعروں کی حمایت بھی ہوتی ہے۔ آزاد نظم کی طرح اس کے مقبول ہونے کے امکانات بھی موہوم ہیں کیونکہ شاعری توازن سے عبارت ہے اور توازن سے ہم آہنگی بلکہ خوش آہنگی پیدا ہوتی ہے جو غزل کی آبرو ہے اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو آزاد نظم ہی اب تک اپنا صحیح مقام نہیں بنا سکی۔۔۔ ‘‘رؤف خیر آزاد غزل کے سخت مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد غزل گویا پو لیو کا شکار بچہ ہے جو زمین پر کھسک کھسک کر چلتا ہے۔

            مضمون ’’رضیہ سجاد ظہیر کے نام‘‘ کی ابتداء میں رؤف خیرؔ نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے۔

یہ مضمون بجائے خود ایک طویل خط ہے جو فرضی طور پر بنے بھائی سجاد ظہیر کی طرف سے ’’نقوش زندان‘‘ کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے اس میں صرف وہی الفاظ بنے بھائی کے ہیں جو ان کے خطوط کے حوالوں میں

آئے ہیں۔ باقی تمام خط ناچیز کے دماغ کی پیداوار ہے۔ ‘‘ رؤف خیرؔ کا یہ مضمون بڑا ہی دلچسپ ہے۔

            مضمون ’’مبصر کلام حیدری‘‘ میں رؤف خیرؔ نے کلام حیدری کے تبصروں کی خوبیاں بیان کی ہیں وہ لکھتے ہیں۔ ’’کلام حیدری کے تبصروں میں جو کڑوی سچائیاں ہیں وہ مزہ دیتی ہیں لہجے کی یہ کاٹ کلام حیدری کی خود اعتمادی کی غماز ہے۔ ‘‘

            مضمون ’’ڈپٹی نذیر احمد خاں اور حیدرآباد‘‘ میں رؤف خیرؔ نے نذیر احمد کے خیال میں حیدرآباد اور ان کی قدر و منزلت اور یہاں کی مصروفیات اور سرکاری ذمہ داریوں کے بارے میں تفصیلات دی ہیں اور حوالے بھی پیش کئے ہیں۔

            مضمون ’’جدید شاعری میں علامت نگاری‘‘ میں رؤف خیرؔ نے ابتداء میں محاورہ ’’تشبیہ، استعارہ، تلمیح، پرروشنی ڈالی ہے۔ پھر علامت نگاری پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے افتخار، جالب، محمد علوی، فانی، ظفر اقبال، زبیر رضوی، بانی، وزیر آغا، ن۔ م راشد، عزیز قیسی، نجیب رامش، مضطر مجاز، بشر نواز، شہر یار، عذرا ساگر،  ساقی فاروقی، شاذ تمکنت کے کلام سے مثالیں بھی پیش کی ہیں۔

            مضمون ’’آگہی نا آگہی‘‘ میں رؤف خیرؔ نے ادب برائے ادب کی اہمیت سے انکار کیا اور ادب برائے زندگی کی حمایت کی۔ ساتھ ساتھ انہوں نے زبان اور فن کی اہمیت کو بھی اُجاگر کیا وہ رقمطراز ہیں۔

 ’’ادب تو ہمیشہ زندگی کی کوکھ سے جنم لیتا رہا ہے وہ لوگ جو ادب برائے ادب کی بات کرتے ہیں صرف دھوکے میں ہیں دھوکے دے نہیں سکتے۔ صرف زبان و بیان کے چٹخارے یا ذات کا برہنہ اظہار ادب نہیں ہے۔ ادب تو جذبات و احساسات کی تہذیب کا نام ہے۔ آس پاس سے اٹھائے ہوئے موضوعات کو تمام فنی رچاؤ کے ساتھ پیش کیا جائے تو ادب، ادب ٹھہرتا ہے ورنہ اس سے بڑی بے ادبی قلم کی کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی مصوتوں اور مصمتوں میں الجھ کر رہ جائے۔ جہد و جہاد ادب میں بھی ضروری ہے۔۔۔ اگر وقت سے آنکھ ملانے کا یارا،  نہ  ہو تو وقت انہیں طشت میں سجا کر زندگی پیش نہیں کرتا بلکہ کئے ہوئے سر پیش کرتا ہے۔ ‘‘

             ’’بہتر سماج کے خواب دیکھنے والا ہی بہتر ادب پیش کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ بنیادی طور پر ادیب ہو۔۔۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جو زبان و فن پر دسترس رکھتا ہو۔۔۔ ‘‘،

             ’’فنی رچاؤ کے ساتھ ادبی اقدار کی پاس داری کرتے ہوئے سماجی اقدار پیش کی جائیں۔ استعارہ علامت ہی سے ادب میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ سماجی اقدار بھی اگر حسین استعاروں اور دلچسپ علامتوں میں پیش کی جائیں تو شاعروں کی زندگی اور بڑھاتی ہیں۔ ‘‘

            اس مجموعہ کا آخری مضمون ’’ملفوظات و مواعظ‘‘ ادب کے آئینے میں (ڈپٹی ندیر احمد کے خطوط کے حوالے سے)جو(سولہ: ۱۶) صفحات پر مشتمل ہے رؤف خیرؔ نے نذیر احمد کے مختلف خطوط کے موضوعات، نصیحتیں اُن کے اپنے تجربوں اور مشاہدوں کا ذکر کیا اور سیر حاصل بحث کی ہے۔

 ’’خورشید احمد جامی فن اور شخصیت‘‘ میں انہوں نے جامی کی شاعری پر تنقیدی روشنی ڈالی ہے۔ وہ رقم طراز ہیں۔ ’’انھوں نے سیدھی سادی ردیفوں اور عام قوافی میں ایسے ایسے نادر اور اچھوتے  خیال کو دل لبھانے والے انداز میں باندھا ہے کہ یہ سب چیزیں ان کا اسلوب ان کی پہچان بن گئیں۔ ‘‘جامی غیر مرئی چیزوں کو بھی مرئی انداز میں پیش کیا کرتے تھے۔ جامی کی مخصوص لفظیات تھیں جن کی وجہ سے جامی پہچانے جاتے تھے جیسے دیوار، صلیب، صبح، شام، حیات، صحرا، فصیل،  اندھیرا، اُجالا، سورج، ریت، تنہائی دھوپ، چھاؤں ، زیر گردش ایام وغیرہ۔ جامی صاحب یوں ہی تجرد کی زندگی گزار دی لیکن کسی کے ہجر کا کرب وہ زندگی بھر جھیلتے رہے۔ ان کے اشعار میں جس درد نے دُنیا آباد کر رکھی ہے وہ جامی کا اسلوب ان کا شناس نامہ ہے۔ ‘‘

            مضمون ’’ حیدرآباد ی خواتین اور اُردو تحقیق و تنقید‘‘ میں رؤف خیرؔ نے حیدرآباد کی خواتین محققین و نقاد کا ذکر کیا اور اُن کے کارناموں کی تفصیلات پیش کیں جن خاتون محققوں اور نقادوں کا ذکر کیا گیا اُن میں سیدہ جعفر، ڈاکٹر زینت ساجدہ، ڈاکٹر اشرف رفیع، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ، ثمینہ شوکت، حبیب ضیائ، لئیق صلاح، ڈاکٹر سلمہ بلگرامی، قرۃ العین حیدر، ڈاکٹر اطہر سلطانہ، نسرین، صابرہ سعید اور ڈاکٹر عطیہ رحمانی کے نام شامل ہیں۔

            مضمون   ’’اُردو ماہیے کے تین مصرع‘‘ میں موجود دور میں کہے جانے والے ماہیوں کی ترتیب کے بارے میں رؤف خیرؔ لکھتے ہیں۔

 ’’ان دنوں جو ماہیے کہے جا رہے ہیں ان کی ترتیب کچھ یوں ہے، مفعول مفاعیلن، فاع مفاعیلن مفعول مفاعیلن یعنی پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ وہم ردیف اور مفعول و مفاعیلن کے وزن پر ہوتا ہے۔ مگر درمیانی مصرع قدرے چھوٹا(فاع مفاعیلن کے وزن پر) ہوتا ہے۔ ہر چند کے دوسرے مصرع کی ناہمواری کی وجہ سے وجدان کو جھٹکا سا لگتا ہے۔ لیکن یہی آہنگ ماہیے کی پہچان بھی ہے ورنہ وہ ثلاثی ہو کر رہ جاتا۔ ‘‘

 ’’جس طرح ہائیکو پانچ سات پانچ مصوتوں Syllablesاور پہلے اور تیسرے مصرعوں کے ہم قافیہ وہم ردیف ہونے سے عبارت ہے اسی طرح ماہیے بھی مفعول مفاعیلن، مفعول مفاعیلن کے مخصوص وزن پر ہی مزہ دیتا ہے۔ یہ مخصوص آہنگ ہی ماہیے کی پہچان ہے۔ ‘‘

            انہوں نے مختلف ماہیہ نگارو ں کا ذکر کیا جن میں مناظر عاشق ہرگانوی، حیدر قریشی، عارف فرہاد، امین خیال، نذیر فتح پوری، شاہد جمیل، ڈاکٹر طاہر رزاقی، فراغ روہوی، یوسف اختر، سعید شباب، انور مینائی، یونس احمر، ضمیر اظہر، دیپک قمر، حمایت علی شاعر، عمر اقبال، عمر ساحری، شامل ہیں۔ انہوں نے ماہیوں کے مجموعوں کے نام اور کچھ مثالیں بھی پیش کیں ہیں۔

            مضمون ’’برف رتوں کی آگ کا شاعر‘‘ میں کشمیر کے شاعر حکیم منظور(پیدائش:۱۹۳۷ء) کی شخصیت اور شاعری سے متعلق ہے۔ انہوں نے حکیم منظور کے شعری مجموعوں اور اسلوب کا بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا۔ غزلوں اور خصوصیت کے ساتھ اُن کی نظموں پر اجمالاً روشنی ڈالی۔ اُن کی شخصیت اور فن کے تعلق سے رؤف خیرؔ لکھتے ہیں۔

             ’’حکیم منظور کی نظر بلند، ہاتھ کشادہ پاؤں جولا گاہ طلب اور دل وسیع ہے۔ نئی نئی زمینیں دریافت کرنا ان کی خوش مذاقی کا اشاریہ ہے۔ ان کی یہ خوش مذاقی برفیلے علاقے میں گرم پانی کے چشمے ہی کی طرح مزہ دیتی ہے۔ حکیم منظور کی نظم ان کی غزل پر حاوی ہے۔ میری رائے میں ان کی اصل پہچان ان کی نظم ہی سے قائم ہوتی ہے۔ ‘‘ وہ  ’’اثنائے شعری‘‘ کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو ادب میں جہاں بدعت حسنہ وہ بدعت سئیہ کے مزے لوٹتا ہے وہیں بنیاد پرستی اور کلیثے پر  تبرا  بھی بھیجتا ہے۔ یہ ابولآفاق و سبط سخن واقعی وہ صاحب  ’’خبر و نظر ‘‘ہے جس کی امامت پر ایمان نہ لانا قاتلانِ حرف و معنی کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے‘‘

            مضمون ’’خواجہ میر درد۔ فن اور شخصیت‘‘ میں رؤف خیرؔ نے خواجہ میر دو کی شاعری میں صوفیانہ عناصر کی نشاندہی کی ہے اور اُن کے اشعار کے تاثر کی ستائش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں  ’’ درد  اردو شاعری  کا وہ پورا شاعر ہے جسے آدھا کہنا ایک جھوٹ لگتا ہے۔

            ان کے بیشتر اشعار ضرب المثل ہو گئے ہیں۔ جیسے:

 ’’تر دامنی پر شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں ‘‘

 ’’ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے‘‘

 ’’خواجہ میر درد دوسروں کے تجربات و مشاہدات کو اپنے الفاظ میں نہیں ڈھالتے تھے بلکہ اپنے احساسات اور جذبات کو ایسی زبان دے دیتے تھے کہ سامنے والا اسے اپنے ہی دل کی پکار سمجھ بیٹھتا تھا۔ درد کے ہاں نہ الفاظ کی گھن گرج ہے نہ قصیدہ و ہجو کے جھگڑے ہیں نہ مثنویوں میں عشق و انانیت کے مظاہرے ہیں نہ کسی سے معاصرانہ چشمکیں ہیں۔ درد کی یہی سادہ گوئی ، یہی خاکساری انہیں سرخرو ٹھہراتی ہے۔ میر درد نے فارسی میں بھی قابل لحاظ شعری سرمایہ چھوڑا ہے مگر غالب ہی کی طرح درد کو شہرت صرف ان کے اُردو کلام کے مختصر سے انتخاب ہی سے ملی۔ ‘‘

            مضمون  ’’ سلیمان اریب‘‘ میں رؤف خیرؔ نے ترقی پسند شاعر سلیمان اریب کی سوانح و شخصیت کا اجمالاً ذکر ہے۔ اُس کے بعد انہوں نے اریب کے شعری مجموعوں کا ذکر کیا۔ نظموں کا تعارف پیش کیا، غزلوں پر تبصرہ کیا اور اسلوب پر روشنی ڈالی، سلیمان اریب کی شخصیت اور فن سے متعلق  رؤف خیرؔ لکھتے ہیں :

 ’’سلیمان اریب کی مقبولیت کے کئی اسباب تھے۔ وہ ماہنامہ ’’صبا‘‘ جیسے رسالے کے مالک کل و مدیر اعلیٰ تھے جس نے مختلف موضوعات پر مباحث چھیڑ کر ادب میں گرما گرمی پیدا کر رکھی تھی۔ سوال و جواب اور جواب الجواب سے ادیبوں اور شاعروں میں زندگی کی گہماگہمی آئی ہوئی تر تھی۔ سلیمان اریب بظاہر غیر جانب دارانہ رویہ اپنا کر ہر قسم کی رائے چھاپ کر بحث و مباحثے کے مزے لیتے اور لینے دیتے۔ ‘‘

 ’’سلیمان اریب منفرد لہجے کے شاعر تھے۔ ‘‘ ’’سنجیدگی و غیر سنجیدگی کا امتزاج تھے۔ ‘‘

 ’’صرف پینتالیس بہاریں ہی دیکھ سکے۔ جس میں ان کے مزاج کے لا اُبالی پن کا کافی دخل رہا ہے۔ ‘‘

            مضمون ’’اقبال کے اسلوب کا ارتقاء‘‘ کی ابتداء میں رؤف خیرؔ نے اسلوب کے تعلق سے حسب ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے۔

             ’’اسلوب بجائے خود شخصیت نہیں ہوتا کیونکہ ایک شخصیت کے کئی اسالیب ہو سکتے ہیں۔ شخصیت ہو کہ اسلوب ارتقاء پذیر ہوتا ہے لہٰذا کسی ایک مرحلے پر کسی شخصیت کی شناخت ممکن نہیں تاوقتیکہ تمام ارتقائی مراحل کا جائزہ نہ لیا جائے۔ ‘‘    ’’جس طرح ذہنی ارتقاء ہوتا ہے اسی طرح اسلوبی ارتقاء بھی ہوتا ہے۔ ‘‘ ’’جس طرح انسانی شخصیت موروثی کردار، بول چال، رہن سہن، حرکات و سکنات اور فکری سطح سے عبارت ہے اسی طرح کسی فنکار کے اسلوب کے تعین میں اس کا تخیل، انتخاب موضوع، لفظیات اور رویہTreatmentممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔   انہوں نے اقبال کی نظموں ، رباعیوں ، حمد و نعت میں اُن کے اسلوب کا جائزہ لیا ہے۔ اقبال کی عظمت کے تعلق سے بھی انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’یہ وہی شاعر ہے جس نے خودی، بے خودی، کتاب، جبرئیل، ابلیس، عشق، جنوں خرد، عقل وغیرہ الفاظ کو کتابی سطح سے اٹھا کر فکر کے اس آسمان پر روشن کر دیا جن سے زمین پر چلنے والوں کو اندھیری راتوں میں بھی راستے کے تعین میں سہولت ہو جاتی ہے۔ ‘‘

            مضمون ’’دکن کا انمول رتن۔ شاذ تمکنت‘‘ کے ابتداء میں رؤف خیرؔ نے شعر و ادب میں فن کی اولیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

 ’’شعر و ادب میں لفظ اور اس کا تخلیقی استعمال بہرحال اہم ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حالیؔ تا حال موضوع اور مقصدیت کی اہمیت پر زور  دیا جاتا ہے۔ شعر و ادب کو بہرصورت پروپگنڈہ بننے سے بچانا چاہیے ورنہ ادب اور صحافت میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ‘‘

            شاذ کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کلام کے فنی محاسن کے ستائش کی گئی ہے۔ ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں۔ ’’ ہر شخص شاذ کو پسند کرتا تھا اور  ان کے چاہنے والوں میں خود شاذ بھی شامل تھے۔

             ’’شاذ کی پوری فکر ٹھیٹ رومانی رہی ہے۔ ان کے ہاں شعر کی بنیادی شرط عشق و معاملاتِ عشق کا اظہار ہے۔ ‘‘ ’’شاذ تمکنت شعر میں شعریت ہی کے قائل تھے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں ان کے رومانی لہجے کا شناس نامہ ہیں۔ ‘‘ ’’خوب صورت الفاظ کا بڑے سلیقے سے استعمال خوش آہنگی کی دُنیا آباد کرتا ہے۔ قاری و سامع ان ہی شاعرانہ اظہار میں کھو بھی جاتا ہے۔ ‘‘شاذ تمکنت کسی تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔ وہ ترقی پسندوں ، ارباب ذوق اور جدیدیوں سب سے تعلقات استوار رکھنا چاہتے تھے۔ محدود حلقے میں خود کو اسیر رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ غزل کی روایت کا پاس رکھتے تھے۔ زبان و بیان کا پورا خیال رکھتے تھے۔ پابند، معریٰ آزاد نظمیں اسی سلیقے سے کہا کرتے تھے۔ نظمیں طویل ہوتیں جو پیاز کی پرت در پرت کی طرح کھلتی ہی جاتی ہیں اور جن میں بین السطور کے بجائے حسن سطور پر زیادہ توجہ دی گئی۔ شاذ کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ اساتذہ اور ہم عصر شعراء کے بے شمار انہیں یاد تھے۔ شاذ تمکنت نظم کے بجائے اپنی غزلوں سے پہچانے گئے ان کے اشعار زیادہ تر مترنم بحروں میں ہوا کرتے تھے۔ شعر سنانے کا انداز اس قدر دل کش تھا کہ اس پر ہزار ترنم قربان۔

            مضمون ’’راجہ رام موہن رائے‘‘ میں راجہ رام موہن کی ولادت، والدین، تعلیم، اُردو ، فارسی، عربی، سنسکرت اور انگریزی زبانیں سیکھنے کا ذکر عصری اُردو اور سائنس سے دلچسپی ، تصانیف، تراجم، اینگلو ہند و اسکول سوری پورہ کلکتہ کا قیام، ویدانت کالج کا قیام، اُن کی بھابی کا ستی ہونے کا واقعہ، ستی کے خلاف اُن کا احتجاج، برہموں سماج اور افکار و خیالات اور وفات وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ برہمو سماج کے بارے میں رؤف خیرؔ کہتے ہیں۔

            راجہ رام موہن رائے نے  ’’برہمو سماج‘‘ کا نعرہ دیا جس کے شرائط کی رو سے یہ ایک ایسا سماج ہے جہاں تمام انسان اس ایک قادر مطلق کی ہستی کی عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں جو اس پوری کائنات کا خالق اور قائم رکھنے والا ہے اور جس کی نمائندگی کسی بت، کسی تصویر(پینٹنگ) کسی مجسمے، کسی فرد یا جماعت سے ممکن نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی نائب نہیں اور اس بر ہمو سماج میں کسی بھی جاندار کو زندگی سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ایسے گیت یا نعرے لگائے جا سکتے ہیں جو کسی کی دل آزاری اور دل شکنی کا سبب بنتے ہوں۔ ‘‘

             ’’خیر، خیرات، اخلاقیات، نیکی و پارسائی اور شفقت و نوازش کی بنیاد پر تمام انسانوں کو قریب کرنے کا نام برہمو سماج ہے۔ ’’برہمو سماج‘‘ کی بنیادی شرائط الہ واحد کی پرستش میں تمام انسانوں کو متحد کرنا ہے۔ وہ روح کی روحانیت اور ایک ہستی کے وجود کے قائل اور مبلغ تھے۔ ‘‘

مضمون ’’ٹیگور۔ ناقدری سے قدردانی تک‘‘ میں ٹیگور کی سوانح، شخصیت، اعزازات، تصانیف، فنون لطیفہ، سے اُن کا لگاؤ جیسے موضوعات پر تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

             ’’بچپن ہی سے سادہ لباسی و سادہ خورا کی نے ٹیگور کے دل و دماغ کو انانیت کے آب و روغن سے دور رکھا حالانکہ رابندر ناتھ ٹیگور ایک اعلیٰ متمول بنگالی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ لفظ، ٹھاکر، بنگالیوں کی زبان میں ایسے ہی  ’’ٹیگور، ہو گا جیسا کہ ’شیخ، کثرتِ استعمال سے ’سیٹھ، ہو گیا۔ ‘‘یہی کم علم لڑکا ایک یونیورسٹی(وشوا بھارتی) کا بانی ٹھہرا۔ اس یونیورسٹی کے بقا کے لئے پیسہ اکٹھا کرنے کے لئے اپنے پورے ٹروپ اور آرکسٹرا کے ساتھ وہ مختلف علاقوں کا دورہ کرتا پھرتا تھا۔ اسی سلسلے میں جب وہ حیدرآبا د پہنچا تو عثمانیہ یونیورسٹی نے اسے  ’’ڈاکٹر آف لٹریچر‘‘ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ ‘‘ ’’۱۹۴۵؁ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی نے بھی ’’ڈاکٹر ان لٹریچر کی اعزازی ڈگری دینے کے لئے ٹیگور کو انگلستان بلایا تھا۔ مگر اپنی بیماری کے سبب جب وہ وہاں جانے سے معذوری ظاہر کی۔ ٹیگور نے سنسکرت میں تقریر کی تھی۔ ‘‘ ’’ٹیگور نے۱۹۱۰ء میں ’’گیتانجلی‘‘ مکمل کی۔ ۱۴ نومبر۱۹۱۳ء کو انہیں ان کے اس شاہکار ادبی کارنامے پر نوبل پرائز کا حقدار قرار دیا گیا۔ ’’یہ پہلا نوبل انعام تھا جو کسی مشرقی اور خاص طور پر ہندوستانی ادیب کے حصے میں آیا۔ حکومت نے اس کے دوسال بعد ٹیگور کو  ادب میں ، سر، کے خطاب سے بھی سرفرازکیا۔ کلکتہ سے تقریباً نوے میل دور بول پور میں ایک وسیع اراضی خرید کر ٹیگور کے والد مہارشی دیوبندرناتھ ٹیگور نے اپنے لئے ایک مندر بنایا تھا۔ ان کے اس کنج عافیت میں رابندرناتھ ٹیگور نے صرف پانچ بچوں سے شانتی نکتین کی بنیاد ڈالی۔ ان پانچ بچوں میں دو بچے خود ٹیگور ہی کے تھے۔ یہ شانتی نکتین ٹیگور کی شب وروز کی دیوانہ وار جدوجہد کی وجہ سے دشوابھارتی یونیورسٹی میں تبدیل ہو کر رہا۔ ٹیگور تعلیم گاہوں کو سیاسی اکھاڑے بنانے کے حق میں کبھی نہیں رہے۔ طلبہ کے ذہنوں کو سیاست کے زہر سے پاک رکھنے ہی میں وہ یقین رکھتے تھے۔ وہ خود بھی سیاست کی آلودگی سے دامن بچاتے رہے وہ ایک خوشگوار زندگی کے خواہاں ضرور تھے لیکن خون خرابے اور نسلی منافرت کے قائل نہ تھے۔ ٹیگور بھی رہبانیت کو انسان کے حق میں سم قاتل سمجھتے تھے۔ ‘‘

            ’سر، کا خطاب واپس کر دینے والا یہ عظیم شاعر انسانی حرکات پر دُکھی بھی تو ہوتا تھا۔ اٹلی کے مسولینی سے ٹیگور نے ملاقات کی تھی مگر مسولینی کی فاشزم کی تائید کرنے کی دعوت ٹھکرا دی تھی۔ انہوں نے  ’’ہندوستان کی قدیم تہذیب‘‘ پر شکاگو یونیورسٹی میں کئی لکچر دیئے تھے۔ ‘‘

             ’’شاعری، مصوری، موسیقی سے ان کا دلی ربط ان کی راہوں کا تعین کرتا ہے۔ ٹیگور نے جہاں بے شمار گیت لکھے وہیں ان گیتوں کی مسحور کن دھنیں بھی خود انہوں نے ہی ترتیب دیں۔ ٹیگور نے ان گنت ڈرامے بھی لکھے۔ ان کی منتخب کہانیوں کا مجموعہ، اکیس کہانیاں ، کے نام سے ساہتیہ اکاڈیمی نے  ۱۹۶۲؁ء میں چھاپا۔ ان کہانیوں کے تراجم کئی زبانوں میں ہوئے ہیں۔ ان کی حیرت ناک اور دلچسپ ترین تصنیف ’’چترالیسہی‘‘ ہے۔ فکشن کے ساتھ ساتھ ٹیگور نے ادبی مضامین لکھ کر بھی اپنی پہچان قائم کی۔

            ساہتیہ پات، یاتراپوت اور خود شانتی نکیشن‘‘ کے نام سے ان کی مشہور تقاریر کو صفحہ، قرطاس پر محفوظ کر لیا گیا ہے۔ بھانو سنہہ پترابالی، شیرچیتی ان کے خطوط کے مجموعہ ہیں۔ ٹیگور کی ’’ایک سو ایک نظموں ‘‘ کا رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری نے اُردو میں ترجمہ کیا۔ ‘‘

             ’’گیتانجلی کے علاوہ ٹیگور کی شہرت ان کے گیت ’’جن گن من ادھی نایک جیا ہے‘‘ سے ہوئی جو ٹیگور نے اپنی پچاسویں سالگرہ کے جشن کے موقع پر لکھا تھا گا کر سنایا تھا۔ ‘‘

            مضمون ’’مصلح الدین سعدی صوفی بے خانقاہ، قلندرِ بے کلاہ‘‘ میں رؤف خیرؔ نے سعدی صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کیا۔ سعدی صاحب کی سوانح پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ پروفیسر گیان چند جین سعدی صاحب کی علمی و ادبی استعداد کے معترف تھے۔ رؤف خیر نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’اقراء‘‘  کی رسم اجرائی کے موقع پر سعدی صاحب کے تبصرے کا حوالہ دیا اور اُن کی حوصلہ افزائی کا اعتراف کیا۔ رؤف خیر نے شمالی ہند کے کئی ارباب نظر کا ذکر کیا جو سعدی صاحب کی قابلیت کے قائل تھے۔ رؤف خیرؔ نے سعدی صاحب کی قلندرانہ مزاج، صوفیانہ روش اور وسیع القلبی پر بھی روشنی ڈالی۔ رؤف خیرؔ نے سعدی صاحب کی فارسی دانی کی ستائش کی اور اُن لوگوں کا بھی ذکر کیا جو سعدی صاحب کے فارسی دانی کے معترف تھے۔ رؤف خیرؔ نے اس بات کا تفصیل سے ذکر کیا کہ سعدی صاحب ماہر اقبالیات میں شامل تھے۔ انہوں نے سعدی صاحب کی تقاریر کی خوبیوں پر بھی روشنی ڈالی۔ سعدی صاحب کے تصانیف کا بھی انہوں نے ذکر کیا۔ مضمون کے آخر میں رؤف خیرؔ نے سعدی صاحب سے اپنی عقیدت کا اظہار بڑے جذباتی انداز میں کیا۔ چند اقتباسات پیش ہیں۔

             ’’مشائخ گھرانے کے مشہور مقبول مرشد مولانا معز الدین ملتانی قادری کے گھر پیدا ہونے والے مصلح الدین سعدی پیری مریدی سے بھلے ہی کوسوں دور رہے ہوں شعر و ادب اور اقبالیات میں جیسے کئی پیاسے اُن کے ہاتھ پر بیعت کر کے چشمہ صافی سے سیراب ہوتے تھے۔ شمالی ہند کے کئی قابل ارباب نظر حیدرآباد آتے تو سعدی بھائی سے مل کر حیران ہو  جائے۔ مولانا عبدالرحمن پرواز اصلاحی مالک رام گیان چند جین ، مجاور حسین رضوی، ظ۔ انصاری جیسے اساتذہ بھی سعدی بھائی کی ہمہ دانی کے قائل تھے۔ ڈاکٹر ظ۔ انصاری تو حیدرآباد میں ہوتے تو سعدی بھائی کے بغیر تنہائی محسوس کرتے۔ مجھے خوشی ہے کہ سعدی بھائی جیسے نابغہ روز گار کے ساتھ مجھے وقت گزارنے کا موقع ملا تھا۔ وہ قلندر مزاج تھے اور ایسی صوفیانہ روشن پر کار بن تھے کہ ہر ملک کا آدمی ان سے خوش رہتا۔ ان کے حلقہ بگوشوں میں مہدوی بھی تھے، شیعہ بھی بریلوی عقائد کے حامل بھی اور جماعت اسلامی و تبلیغی جماعت کے ماننے والے بھی حتی کہ کئی اہل حدیث ان کے دوستوں میں تھے میں تو خیر ان کا مرید تھا۔ سعدی بھائی اتحاد بین المسالک کے نام پر مصلحت سے کام لینے کے مبلغ تھے۔ شدت پسندی کو ہر حال میں بُرا جانتے تھے۔ مجھے سعدی بھائی سے جو عقیدت رہی ہے وہ ان کی ادبیت کی وجہ سے تھی۔ مذہب کے معاملے میں ان سے میری گفتگو کم کم ہی ہوتی تھی۔ علامہ اقبال کی تمام شاعری پر سعدی صاحب کی نظر تھی وہ چاہے اُردو کلیات ہو کہ فارسی کلیات، اقبال کی ایک ایک نظم بلکہ ایک ایک شعر پر سعدی بھائی کی نظر تھی وہ سچے معنوں میں اقبال کے عاشق تھے۔ اقبال کے منشا و معنی تک پہنچنے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ وہ بہت اچھی فارسی جانتے تھے۔ پروفیسر سید سراج الدین جیسے قابل اُستاد نے یہ اعتراف کیا ہے کہ جب کبھی اقبال کے کسی فارسی شعر کے سمجھنے میں انہیں دشواری محسوس ہوتی تو وہ سعدی بھائی کو فون کر کے ان کا مطلب معلوم کرتے تب کہیں ان کی تسکین ہوتی۔ (یہ بات پروفیسر سراج الدین نے سعدی صاحب کے تعزیتی جلسے میں اقبال اکاڈمی میں کہی تھی)  انہوں نے کہا  ’’تراجم پر سعدی بھائی کی داد میرا حوصلہ بڑھاتی رہی۔ اسی زمانے میں انگریزی کی ادیبہ و شاعرہ کملا داس نے اسلام قبول کر کے کملا ثریا کے نام سے ایک نظم ’’یا اللہ‘‘ لکھی تھی جو تقریباً انگریزی اخبار و رسالے میں شائع ہوئی۔ سعدی بھائی نے مجھ سے فرمایا کہ میں اس کا منظوم اُردو ترجمہ اُردو ترجمہ کر ڈالوں میں نے ان کے حکم کی تعمیل میں اس کا منظم اُردو ترجمہ کر ڈالا تھا۔ انہیں میرا ترجمہ اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اسی وقت اسے اپنے گھر کے کمپیوٹر انگریزی متن کے ساتھ کمپوز کروایا۔ میں نے جب یہ اُردو ترجمہ انگریزی متن کے ساتھ ’’انقلاب‘‘ ممبئی کو بھیجا تو اس نے عید رمضان کے خاص نمبر میں شائع کر دیا اور پھر وہ ترجمہ پاکستان امریکہ اور ہندوستان کے بے شمار اخبارات و رسائل میں ڈائجسٹ ہوتا رہا۔ سعدی بھائی کی جدائی دراصل میرا ذاتی نقصان ہے۔ میں اپنے سرپرست سے محروم ہو گیا۔ سعدی صاحب کی ایک تقریر کئی کتابوں کا نچوڑ ہوا کرتی تھی۔ علمی متانت کا یہ حال ہوتا تھا کہ گویا ایک کتاب ہے کہ ورق ورق کھلتی چلی جا رہی ہے۔ سعدی صاحب نے بعض اہم علمی شاہکاروں کی تدوین و ترتیب کا کام بھی انجام دیا ہے۔ جیسے مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ کے مکتوبات ربانی اور شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ کی تصوف پر مبنی کتاب ’’عبقات‘‘ کی تدوین اور اشاعت شامل ہیں۔ ‘‘رؤف خیر نے مزید کہا:جہاں تک ادب کا معاملہ ہے سعدی صاحب نے کوئی کتاب بھلے ہی نہ چھوڑی ہو۔ میں ان کی کتاب ہوں انہوں نے بھلے ہی پیری مریدی کا سلسلہ نہ چلایا ہو میں مرید سعدی ہوں جس نے ا کی رہنمائی میں اقبال شناسی کے بعض مقامات و طواسین کی سیر کی۔ ‘‘

            رؤف خیرؔ ایک اُبھرتے ہوئے نقاد ہیں۔ اس میدان میں ان کے وقیع کام ہیں۔ اپنی تنقید کے بارے میں رؤف خیرؔ نے بتایا۔

             ’’ہر فنکار کے اندر ایک مبصر، ایک نقاد بھی سانس لیتا ہے۔ میرے اندر کا نقاد قدم قدم پر میری اپنی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا رہتا ہے۔ دوسروں کو ٹھوکر کھا کر گرتا ہوا دیکھ کر میں سنبھل جاتا ہوں۔ مطالعہ، خاص طور پر تنقیدی کتب کا مطالعہ میرا مدد گار ثابت ہوتا رہتا ہے۔ ابتداء ہی سے میں زبان و بیان اور تنقید میں دلچسپی لیتا رہا ہوں۔ نیاز فتح پوری کی  ’’انتقادیات‘‘، ’’سیماب کی اصلاحیں ‘‘ اور مختلف رسائل میں نقد و نظر کا حصہ اور تبصرہ میں سب سے پہلے پڑھتا ہوں۔ عطا صاحب کی ’’غلطی ہائے مضامین، ہو کہ قاضی عبدالودود کی تحقیق مجھے بہت پسند آتی رہی۔ بہرحال مطالعہ میرے اندر روشنی بھرتا ہے۔

  مروجہ ’’تنقید‘‘ اک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا۔ البتہ کسی ادیب یا شاعر کے فکر و فن کے بارے میں جو کچھ میرے تاثرات ہوتے ہیں انہیں میں اپنی سیدھی سادی زبان میں لیکن دلائل و براہین کے ساتھ پیش کر کے قاری کو اپنا اہم خیال بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’’خطِ خیر‘‘ میں میں نے خشک تنقید کے بجائے انشائیہ جیسا اسلوب اختیا ر کیا ہے۔ ‘‘

            اپنے تنقیدی تحریروں کے بارے میں رؤف خیرؔ لکھتے ہیں۔

             ’’اپنی گفتگو مدلل پیش کرنی پڑتی ہے۔ فطری طور پر بھی افکار و اعمال کی قرآن و سنت سے دلیل لانی پڑتی ہے ا ور دلیل مانگنے کا مزاج بھی رہا۔ یہی رویہ اپنا تنقیدی تحریروں میں بھی میں نے برتا۔ اپنے مضامین اور مختلف کتب پر تبصرہ کرتے ہوئے یہی دلائل و براہین کا رویہ اختیار کرتا رہا۔ زبان و بیان کا پورا پورا خیال رکھنے کی حتی المقدور پوری پوری کوشش کرتا ہوں۔ ‘‘

            رؤف خیرؔ کے مضامین میں زبان و بیان کی حوبی، تشبیہات، علامات، تلمیحات، محاورے، ضرب المثال، مقولے، عمدہ تراکیب ملتے ہیں۔ اُن کے مضامین جامع ہوتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات پیش کرتے ہیں اور نتائج بھی اخذ کرتے ہیں۔ اُن کے مضامین معلوماتی ہوتے ہیں۔ مثالوں سے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہیں انہوں نے کئی تنقیدی مضامین رقم کئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

ادبی افکار                                           رؤف خیرؔ بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ انہوں نے تحقیقی اور خاص طور پر تنقیدی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ابتداء ہی سے ان کا باقاعدہ مطالعہ رہا ہے اور پھر وہ اُردو کے استاد ہیں۔ مختلف ادبی محفلوں میں وہ شرکت کرتے رہتے ہیں۔ زبان و ادب پر اُن کی نظر ہے۔ اُن کے دیئے گئے انٹرویوز میں اُن کے قیمتی ادبی افکار ملتے ہیں۔ ذیل میں مختلف موضوعات پر اُن کے ادبی افکار کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

            بیرون ہند اُردو کے فروغ کے بارے میں رؤف خیرؔ بہت پُر اُمید نظر آتے ہیں۔

             ’’بیرون ہند اُردو کا فروغ ہو رہا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ ان علاقوں میں مستقل یا عارضی قیام کرنے والوں کی اُردو اور اُردو ادب سے دلچسپی مشاعروں اور جلسوں کا انعقاد بلکہ اخبارات و رسائل کی اشاعت بڑی خوش آئند باتیں ہیں لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ ان شہروں میں مقیم اُردو والوں کی آنے والی نسل کس حد تک اُردو سے واقف ہو گی؟ کیا وہ اُردو لکھ پڑھ سکے گی؟ لیکن معلوم یہی ہو رہا ہے کہ اُردو سے واقف افراد اپنے ذوق کی تسکین کے لئے تو بہت کچھ کر رہے ہیں۔ ‘‘

            وطن میں اُردو کی صورتحال کے تعلق سے رؤف خیرؔ نے بتایا:

             ’’وطن میں رہنے والے اپنے بچوں کو اُردو سکھانے کے معاملے میں عدم دلچسپی بلکہ شرم ناک بے حسی کا شکار ہیں۔ یہی حال ترکِ وطن کے بعد بھی برقرار ہے حالانکہ اپنے وطن سے باہر اپنے مذہب، اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبان کا زیادہ احساس ذمہ داری کے ساتھ خیال رکھنا چاہیے۔ اگر اگلی نسل اپنا تشخص برقرار نہ رکھ سکے تو یہ نسل اپنی اگلی نسل کو ورثے میں کیا دے گی؟ یہ بھی قرین قیاس نہیں ہے کہ بیرونی ممالک ہجرت کرنے اور فراہمی روز گار کے وہ مواقع جو آج ہیں ، وہ ہمیشہ برقرار رہیں گے اور اُردو والے اپنی صفوں اور تعداد میں پیدا ہونے والے خلاء اور کمی کو دور کر سکیں گے؟مختصر یہ کہ  ’’آج‘‘ تو روشن ہے لیکن آنے والے کل کے آگے سوالیہ نشان لگا رہے گا۔ ‘‘

            رؤف خیر ادب میں شدت پسندی اور پروپگنڈہ کے مخالف ہیں۔ ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے فروغ کے بارے میں رؤف خیرؔ کہتے ہیں۔

             ’’میں یہ بات اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں نے ترقی پسند تحریک کا عروج بھی دیکھا ہوتا تو میں اس سے ذاتی طور پر اس حد تک متاثر نہ ہوتا کہ ان کی تقلید کرتا، ان کے رنگ میں رنگ کر سرخ پرچم کو سلام کرتا، استالین کے قصیدے لکھتا، جدیدیت میں ابتداء میں بڑی شدت پسندی تھی۔ بے معنی رمزیت اور غیر ضروری بلکہ غیر مفید تجربات اور ابہام کے سبب میں اس سے غیر متاثر رہا اور مابعد جدیدیت ایک طرح سے جدیدیت کا ہی سلسلہ ہے۔ ادب برائے ادب ہو یا ادب برائے زندگی ہو جو بھی ہو شدت پسندی اور پروپگنڈے کا عنصر اسی میں شامل نہیں ہونا چاہیے اور فن کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ ‘‘

            کاغذوں پر تحریر میں لائی جانے والی شاعری اور مشاعروں میں پڑھی جانے والی شاعری کے تعلق سے رؤف خیرؔ نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے۔

             ’’یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ زندہ رہنے والی شاعری کاغذ پر لکھی گھروں میں سنی اور سنائی اور لائبریریوں میں پڑھی جاتی ہے۔ مشاعروں کی شاعری عوامی دلچسپی کے عنوانات تک محدود رہتی ہے یا حسن و عشق کی روایتی شاعری ہوتی ہے۔ معمولی درجے کے اشعار دل کش ترنم یا اتنے پُر کشش اور متوجہ کرنے والے انداز میں پیش کئے جاتے ہیں کہ مضمون کی کمزوری، فنی غلطی اور زبان و بیان کی خامی کو شعر پیش کرنے کا انداز چھپا لیتا ہے۔ ‘‘

            رؤف خیرؔ شاعری میں خلوص اور مقصدیت کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔

             ’’جو بھی بات کہی جا رہی ہو وہ اگر خلوص سے کہی جائے اور مقصدیت رکھتی ہو تو بڑی اچھی بات ہے اگر یہ سب کچھ داد بٹورنے کے لئے ہے تو ظاہر کہ بے اثر ہو گی۔ ‘‘

            ادب میں موجودہ صورتحال کے بارے میں رؤف خیرؔ نے بتایا۔

             ’’ادب میں جمود کی بات تو میں نہیں کروں گا تاہم بلند مقام کے حامل ادیبوں اور شاعروں کی موت سے جو خلاء پیدا ہو رہا ہے وہ پُر نہیں ہو رہا ہے کیونکہ نئی نسل ادب سے بے گانہ ہو چکی ہے جس کی وجوہات متعدد ہیں تاہم اہم بات یہ ہے کہ نئی نسل کی قابل لحاظ تعداد بلکہ اکثریت اُردو سے نابلد ہے۔ جب اُردو ہی پڑھنا نہ آئے تو بھلا کوئی ادب کیسے پڑھ سکتا ہے؟ مطالعے کے شوق سے عام طور پر نوجوان طبقہ محروم ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی زبان سے ہو۔ اُردو زبان کی تعلیم کے وسائل اور سہولتوں سے ملک کا بہت بڑا حصہ محروم ہے۔ مثل مشہور ہے کہ حنا پتھر پر پس جانے کے بعد ہی رنگ لاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر فن محنت و ریاضت کا طالب ہوتا ہے۔ نئی نسل کی سہل پسندی اور تساہل اسے محنت کرنے نہیں دیتی ہے۔ یہ عام طور پر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ زبان و بیان کی نزاکتوں سے واقف ہونے کے لئے قدیم اساتذہ کے کلام کا بغور مطالعہ ضروری ہے اور جب مطالعے سے ہی رغبت نہ ہو تو کوئی کیا سیکھ پائے گا؟ ہندوستان و پاکستان والے ایک دوسرے کے ملک کے ادب، ادبی رجحانات سے کتب و رسائل کے تبادلے کی سہولت نہ ہونے سے لاعلم رہتے ہیں۔ دس پندرہ سال قبل تک شہرت و نام وری کے حصول کے لئے کڑے کوس کاٹنے پڑتے تھے۔ مگر آج ذرائع ابلاغ اور ابلاغی ٹکنالوجی کے فروغ اور عام ہونے کے سبب شہرت کا حصول آسان ہو گیا جو منزل پہلے سالوں میں طے ہوتی تھی اب وہ مہینوں میں ہو رہی ہے گو کہ معیار خاصا گھٹ رہا ہے شاعری زیادہ ہو رہی ہے۔

             مشاعروں میں ناظم مشاعرہ اور اُس کے رول کے بارے میں رؤف خیرؔ نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کسی بھی مشاعرے میں ناظم کے رول کی اہمیت سے انکار کا سوال ہی نہیں ہے۔ وہ شاعر اور سامعین کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کا غیر جانب دار ہونا ضروری ہے۔ وہ مشاعرے کے ماحول اور رنگ کو بدل سکتا ہے۔ آج کل ناظم مشاعرہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی ذات پر زیادہ توجہ مرکوز کروانے کی خاطر غیر ضروری بلکہ غیر شاعرانہ باتوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ بعض ناظم صاحبان جانب داری سے بھی کام لیتے ہیں۔

            مشاعروں میں خواتین شعراء کی شرکت کس حد تک ضروری ہے کے جواب میں رؤف خیرؔ نے کہا۔ کسی بھی مشاعرے میں جس طرح ایک اچھے شاعر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اچھی شاعرہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہر مشاعرے میں شاعرات کی شرکت لازمی نہیں ہے۔ آج کل جس قسم کے شاعرات مشاعروں میں شرکت کر رہی ہیں اس سے خاصی سطحیت پیدا ہو رہی ہے۔ ‘‘

            رؤف خیرؔ اُردو کے رسم الخط میں تبدیلی کے سخت مخالف ہیں اور وہ اسے اُردو کی موت اور اُس کے سرمائے کا زیاں قرار دیتے ہیں۔ اُردو کے رسم الخط کی تائید یا مخالفت کے بارے میں رؤف خیرؔ کا کہنا ہے کہ:

             ’’میں رسم الخط میں تبدیلی کا سخت مخالف ہوں۔ اس سے اُردو مر جائے گی، اُردو کا مذہبی، ادبی اور ثقافتی سرمایہ ضائع ہو جائے گا۔ تکنیکی و صوتی اعتبار سے بھی یہ ناممکن ہے۔ فارسی رسم الخط کی جگہ دیونا گری رسم الخط قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ اُردو کے دشمن ہی اس قسم کی بات کرتے ہیں۔ ویسے یہ فتنہ اپنی موت آپ مر رہا ہے اور اس کا زور حتم ہو گیا ہے۔ ‘‘

            رؤف خیرؔ نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان میں اُردو کا مستقبل زیادہ روشن نہیں ہے۔ اُردو کے مستقبل کو زندہ رکھنے اور روشن بنانے کے لئے انہوں نے اُردو کے اخبارات و رسائل کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے پر اور اپنے بچوں میں بھی اُردو پڑھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ رؤف خیرؔ رقمطراز ہیں۔

             ’’اُردو کا مستقبل ہندوستان میں اگر تاریک نہیں ہے تو بہت روشن بھی نہیں ہے۔ دوسری زبانوں کی جانب سے اُردو کی مخالفت خاصی کم ہو گئی ہے۔ اُردو کے ساتھ روا رکھا جانے والا تعصب بھی کم ہوا ہے۔ مرکزی و ریاستی حکومتیں بھی اُردو کی جانب توجہ کر رہی ہے۔ لیکن اُردو کے مستقبل کو روشن بنانے اور اس کو زندہ رکھنے کی اصل ذمہ داری تو اُردو والوں پر ہے۔ اُردو بولنے والے اگر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اُردو کو زندہ رکھنے کی خاطر اپنے بچوں کو اُردو پڑھائیں گے تو اُردو بغیر سرکاری امداد کے زندہ رہے گی۔ اُردو پڑھانے والے اساتذہ پر بھی اس تعلق سے اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خلوص اورسچی لگن سے اپنا فرض انجام دیں۔ اُردو اخبارات، رسائل و کتابیں خریدنے کی اہمیت کو اُردو والے عام طور پر محسوس نہیں کرتے جب یہ نہ ہوں گے تو اُردو ادب منظر عام پر کس طرح آئے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اُردو والے ہی اُردو کے ساتھ ظالمانہ سلوک کر رہے ہیں۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ہر زبان کسی حد تک دوسری زبان کے الفاظ خود میں سمو لیتی ہے۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ ہر زبان میں انگریزی کے الفاظ داخل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اُردو بولنے والے انگریزی الفاظ کو غیر فطری اور غیر ضروری طور پر اُردو میں استعمال کر رہے ہیں اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ لکھنے والوں کا اپنا ذخیرہ الفاظ اُردو کے معاملے میں محدود ہے۔ انگریزی اُردو بولنا فیشن بن گیا ہے شو بازی اور دوسروں کو مرعوب کرنے کی خاطر بھی انگریزی الفاظ بولنا ضروری مان لیا گیا ہے۔ بولنے والے لکھنے والے خاص طور پر مترجمین سہل پسندی کا شکار ہیں۔ انگریزی کے متبادل الفاظ پر غور نہیں کرتے۔ اُردو والوں کا املا انشاء ابتذال کا شکار ہے۔ مشکل الفاظ بولنے اور لکھنے سے وہ قاصر ہیں۔ عربی و فارسی الفاظ کے استعمال کو وہ معیوب سمجھنے لگے ہیں۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو زبان پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ‘‘

            نمائندہ شاعر کے بارے میں رؤف خیرؔ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا۔

             ’’نمائندہ شاعر، ، کی اصطلاح بڑی پُر فریب ہے۔ ادب میں کوئی کسی کو کوئی نمائندگی کا حق نہیں دیتا۔ میرے خیال میں اپنے عہد کے محاورے میں تمام تر فنی رچاؤ کے ساتھ اپنے عہد کی عکاسی کرنے والا نمائندہ شاعر ہے۔ اس کا کسی مخصوص علاقے سے وابستہ ہونا اس علاقے کی نمائندگی کے لئے ایک ذیلی معاملہ ہے۔ ‘‘    صوتی آہنگ کے بارے میں رؤف خیرؔ کہتے ہیں۔

             ’’اک اچھے خیال کا خوش آہنگ الفاظ میں ادا ہونا شاعر اور ادب کے لئے خوش آئند ہوتا ہے۔ الفاظ کھردرے ہوں تو اک اچھا خیال ان  پتھروں میں دم توڑ دیتا ہے۔ الفاظ کی خوش ترتیبی ہی موضوع شعر کو اُبھار کر پیش کرتی ہے۔ شاعر جتنا خوش آہنگ ہو گا اتنا ہی مقبول بھی ہو گا۔ ‘‘

            غزل میں قافیہ و ردیف کی پابندی بہت ضروری ہے۔ نئی غزل کے بارے میں رؤف خیرؔ کے خیالات ملاحظہ ہوں۔ ’’غزل نئی ہو کہ پرانی وزن، قافیہ اور ردیف کی پابندی کی بنیادی شرط ہے۔ ہر دور کا اپنا محاورہ ہوتا ہے۔ نئی غزل بھی اپنے دور کے محاورے میں اپنے دور کی عکاسی کرتی ہو تو زندہ رہ سکتی ہے۔ جدیدیت کے نام پر لایعنیت ابھر رہی تھی لیکن نئی غزل کہنے والے ’’نئے شاعروں ‘‘ نے غزل کی آبرو رکھ لی۔ اسے ادب پر بوجھ اور مذاق کا نمونہ بننے سے بچا لیا۔ جدید لا یعنی غزل کے برخلاف نئی غزل عوامی سطح پر بھی مقبول ہے۔ خواص کی منظور نظر تو وہ ہے ہی۔ ‘‘ایک سوال ’’آپ کلاسیکی غزل کو شاعری کا معیار مانتے ہیں ، اس کے جواب میں رؤف خیرؔ نے کہا۔ ’’یقیناً ہمارا کلاسیکی سرمایہ ہمارا اثاثہ ہے جس کی روشنی میں معیارات اور پیمانے مقرر ہوتے ہیں۔ ہم اس معیار کو مزید بلند کرنے کی جدوجہد میں اچھے سے اچھا فن پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘سکہ بند جدیدیت اور مطابق روایت پسندی کے متعلق رؤف خیرؔ نے کہا۔ ’’میں دونوں سے بیزار ہوں۔ سکہ بند جدیدیت ، ٹکسال باہر ہو چکی ہے۔ مطلق روایت سے جڑے رہنا ترقی معکوس کی علامت ہے۔ ‘‘ ’’مابعد جدیدیت کیا ہے؟‘‘ اس تعلق سے رؤف خیرؔ کہتے ہیں۔ ’’یہ مغربی تنقیدی معیارات کا گنجلک اظہار ہے۔ نقاد کبھی مصوتے اور مصمتے شمار کرتا ہے تو کبھی رد تشکیل اور مابعد جدیدیت کی مغربی اصطلاحات سے مرعوب کرتا ہے۔ فن کار کو اپنے آپ سے مخلص ہونا چاہیے اور اپنے عصر کو اجنبیت کا احساس ہونے نہیں دینا چاہیے، شعریت اور عصری حسیت کا دامن نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک کاPost Modernismدراصل ان کی اقدار کی شکست و ریخت ہے۔ ہمیں کسی پناہ گاہ کی ضرورت ہی نہیں ہم ابھی اس منزل میں نہیں پہنچے کہ فیشن کے لباس کی طرح ادبی نظریات بھی بدلتے جائیں۔

            سوال   ’’ آپ کے پسندیدہ اکابر شعراء کون ہیں ؟‘‘ کے جواب میں رؤف خیرؔ نے بتایا۔

             ’’اکابر کی اصطلاح غیر واضح ہے۔ اگر یہ کسی کو بت بنا لیتا ہے تو عرض کروں کہ میں تو بت شکن ہوں۔ ہر شاعر مکمل طور پر اچھا یا بُرا نہیں ہوتا۔ رطب و یابس بشری تقاضہ ہے۔ میں ہر شاعر کی خوبیوں کو پسند اور خامیوں کو نظر انداز کرتا ہوں۔ بہرحال اسی انداز سے میرے پسندیدہ شعراء میں سر فہرست اقبال ہیں۔ پھر غالب، میر، فانی، یاس یگانہ، چنگیزی، یہ فہرست ناتمام ہے۔ ‘‘

            سوال ’’کون سے محرکات اور عناصر ادب کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں ؟‘‘ کے جواب میں رؤف خیرؔ نے بتایا۔ ’’تساہل اور پروپگنڈہ۔ ہر نئی چیز کے پیچھے بھاگ کر اپنا امیج خراب نہ کریں۔ غیر سنجیدہ رویہ بھی ادب کے راستے کا پتھر ہوتا ہے۔ ‘‘

             ’’ ماہیا‘‘ جو خود اپنی زبان یعنی ’’پنجابی‘‘ کے ادب میں بھی کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتا۔ کیا اُردو ادب میں اپنے لئے جگہ بنا پائے گا؟ کے جواب میں رؤف خیرؔ اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔ ’’ماہیئے ہوں کہ ہائیکو، ثلاثی ہوں کہ قطعات جب تک اُن میں چونکا دینے والے خیالات و مضامین ان کی خاص بحروں اور افاعیل کا خیال رکھ کر نہیں پیش ہوں گے۔ یہ اصناف مقبول نہیں ہوں گی۔ یعنی تساہل پسندی کا شکار ہو کر ماہیئے بھی اپنی شناخت کھودیں گے۔ پنجابی میں مایئیے ادبی شناخت نہیں رکھتے۔ لیکن اُردو میں اسے باضابطہ شناخت دینے کی کوشش کرنے میں حیدر قریشی اور مناظر عاشق صاحبان پیش پیش ہیں۔ اچھے لکھنے والے اگر ماہیئے کہیں گے تو ممکن ہے کہ یہ صنف مقبول ہو جائے۔ ‘‘

     ’’کیا موزونی طبع کے لئے عروض سیکھنا ضروری ہے‘‘ کے جواب میں رؤف خیرؔ کہتے ہیں۔

             ’’بالکل نہیں ، موزونی طبع اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے۔ وجدان خود رہنمائی کرتا ہے۔ البتہ مطالعہ ضروری ہے۔ عروض کی بعض بنیادی باتیں جان لینا کافی ہے۔ زبان و بیان کا خیال رکھنا، ماہر عروض ہونے سے بہتر ہے۔ ‘‘

             ’’شعر کہتے ہوئے عموماً کون سا امر آپ کے پیش نظر ہوتا ہے؟‘‘ کے جواب میں انہوں نے کہا۔ میں شعر میں اچھوتے خیال کو تمام تر شعریت اور فنی رچاؤ کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور حتی الامکان زبان و بیان کا خیال رکھنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ ‘‘

             ’’حیدرآباد میں اُردو کا موقف کیا ہے‘‘ کے جواب میں رؤف خیرؔ نے بتایا۔

      ’’الحمدللہ حیدرآباد میں اُردو کا موقف بہت غنیمت ہے۔ یہاں اُردو زبان و ادب کے لئے ہر قسم کی سہولتیں مہیا ہیں۔ اُردو والے اگر تساہل برت رہے ہوں تو اس میں اُردو کا کیا قصور۔ تلگو اور انگریزی میڈیم کے مدارس پر بعض اُردو والے زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں۔ اس کے باوجود اُردو کے سچے بہی خواہ آج بھی اُردو سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انہی خیالوں کی وجہ سے اُردو زندہ ہے۔ ‘‘

      سوال ’’اپنے ہم وطن شعراء کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟‘‘ کے جواب میں رؤف خیرؔ نے بتایا۔

             ’’پیغام دینا میرا منصب نہیں۔ میں خود ادب کا ایک معمولی طالب علم ہوں مشورہ دے سکتا ہوں کہ گر وہ بندی سے بچتے ہوئے فن پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں۔ پیر کامل بڑی مشکل سے ہاتھ آتا ہے۔ اسی لئے مطالعہ کو اپنا استاد بنا لیں۔  ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات رکھیں۔ بدگمانی سے بچیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صلاحیتیں ضائع کرنے کے بجائے اپنے فکر و فن کو جلا بخشتے رہیں۔ کامیابی ایسے ہی لوگوں کے قدم چومے گی جو اسلاف کے فکر و فن کو غائر مطالعہ سے سیکھیں گے۔ اُردو کی ترویج و اشاعت میں دامے درمے سخنے حصہ لیں۔ ‘‘

            اُردو کے مستقبل کے بارے میں رؤف خیرؔ لکھتے ہیں۔

             ’’جب تک مذہب اسلام روئے زمین پر باقی ہے۔ اُردو بھی رہے گی۔ اُردو میں وہ چاشنی ہے کہ دشمن سے بھی اپنا لوہا منوا لیتی ہے۔ گو ہندوستان میں اُردو کے ساتھ سوتیلا نہ سلوک ہو رہا ہے مگر سوتیلی اولاد کا کردار سگی اولاد سے بہتر ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت انہیں ماننی ہی پڑ رہی ہے ذاکرین د واعظین کے ذریعہ اس کا فروغ ہوتا رہے گا۔ ادبی حلقہ تو اسے زندہ رکھے گا ہی مگر روٹی روزگار سے جوڑے کے جتن بھی کئے جانے چاہیں۔ ‘‘

            اپنی پسند اور ناپسند اصناف سخن کے بارے میں رؤف خیرؔ لکھتے ہیں۔

             ’’شاعری میں صنفِ غزل مجھے محبوب ہے۔ دو مصرعوں میں ایک دنیا رکھ دی جاتی ہے قافیہ و ردیف کی تکرار بھی حسن پیدا کرتی ہے۔ ’’دوہے‘‘ میں پسند نہیں کرتا۔ یہ دراصل اُردو کو ہندیانے کی ایک سازش ہے۔ نثری نظم غزل جیسی اصناف کے ذریعہ تساہل کو فروغ ہو رہا ہے۔ جنہیں زبان و بیان پر دسترس نہیں ہوتی اور جو فن کو فن کی طرح برتنا نہیں چاہتے وہی ایسی بے معنی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہی تساہل کتابت میں صادقین کی تحریریں بنتا ہے۔ اور آرٹ میں تجریدیت کو بھی ہوا دیتا ہے۔ نثری نظم دراصل فلسفیانہ خیالات کی نکاسی کا ذریعہ ہے۔ اسے سیدھے سادے جملوں میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ ادب لطیف کے نام پر ایسا بہت کچھ کہا گیا ہے مگر اسے  ’’نظم‘‘ کا نام دینا زیادتی لگتا ہے۔ میں تو ’’آزاد غزل‘‘ ہی کو سخت ناپسند کرتا ہوں۔ ترائیلے، ہائیکو، سانیٹ، ماہیے البتہ مخصوص اوزان و بحور میں ہوتے ہیں۔ آزاد نظم بھی بحر میں ہوتی ہے۔ یہ اصناف ایک اصول کے تحت لکھے جاتے ہیں۔ جب کہ نثری نظم و نثری غزل بے اصولی کی یادگار ہے۔ ‘‘

            مشاعروں کے بارے میں رؤف خیرؔ لکھتے ہیں۔

            محض ترنم کی بنیاد پر چلنے والے شاعر مشاعروں کے ساتھ مر جاتے ہیں جب کہ شعریت سے بھرپور شعر صرف کانوں کو نہیں بلکہ دلوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ادبی محفلوں کے بارے میں رؤف خیرؔ کے خیالات اس طرح ہیں۔

            رؤف خیرؔ روایت، ترقی پسندی اور جدیدیت کے اچھے پہلوؤں سے استفادہ کرتے ہیں۔

 ’’میں کسی خاص مکتبۂ فکر سے وابستگی کے بجائے فن اور والہانہ شیفتگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ روایتی شاعری میرے نزدیک کلاسیکی سرمایہ ہے۔ زبان و بیان کو بگاڑنے کے حق میں نہیں ہوں اور جدید طرز فکر کا ہم نوا ہوں لیکن لایعنیتAbsurdityکے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھا۔ میری رائے میں ایہام و اہمال ادب کے لئے سم قاتل ہیں۔ گو ایہام ایک حد تک پسندی اور جدیدیت کے اچھے پہلوؤں سے استفادہ کرتا ہوں اور بُرے پہلوؤں کو نظر اندام بھی کر دیتا ہوں۔ شعر میں اعجاز و شعریت اور نثر میں جواز و حقانیت کو اہمیت دیتا ہوں سپاٹ شعری اظہار اور بے روح نثر گو بے معنی ہیں۔ ‘‘

            اپنی پسند کے شعراء ادیبوں کے بارے میں رؤف خیرؔ لکھتے ہیں۔

      ’’مجھے میر و غالب اور اقبال کے علاوہ یگانہ کی سرکشی بھی اچھی لگتی ہے۔ اسی طرح جوش کی شاعری بھی پسند آتی ہے۔ فیض کی ترقی پسند خوش آتی ہے مگر دیگر ترقی پسندوں کی نعرہ بازی کھلتی بھی ہے۔ ‘‘

             ’’احمد فراز، شکیب جلالی، ناصر کاظمی اور ظفر اقبال کا اسلوب بھی اچھا لگتا ہے۔ مگر جہاں تک ’’رطب‘‘ کا تعلق ہے ’’یابس‘‘ میرے کس کام کا۔ پروین شاکر کا لہجہ بھی اچھا لگتا ہے۔ خودنوشت سوانح حیات بھی پسند ہیں چنانچہ سمرسٹ ماہم کیSumming upکملا داس کی My Storyہدایت اللہ کیMy Own Boswellجبکہ تنقید میں علامہ نیاز فتح پوری کی مالہ و ماعلیہ۔ انتقادیات سے لے کر ساقی فاروقی کا ہدایت نامہ شاعر تک بہت کچھ پڑھ ڈالا۔ ‘‘

            رسائل و جرائد کے فروغ سے متعلق رؤف خیرؔ کہتے ہیں۔ رسائل و جرائد ہمارے ادب کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ شاعر و ادیب کی زندگی کا انحصار ان رسائل و جرائد پر ہے۔ ہیں۔ شاعر و ادیب کی بقاء کا تمام تر انحصار ان جرائد کی بقاء پر ہوتا ہے۔ آج ہمارے ادیب و شاعر ماشاء اللہ مرفہ حال ہیں              ’’دورِ  حاضر کے نقادوں کے رویے سے رؤف خیرؔ نالاں ہیں۔ کہتے ہیں ’’تنقید ان دنوں شخصی جذبات و احساسات کے ترازو میں ادب کو تولنے کا نام ہو کر رہ گئی ہے۔ تعصبات و تعلقات کی بنیاد پر تنقید کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اس لئے آج کل ادیب و شاعر باغی ہو کر الابلا لکھنے لگا ہے اور خود کو تنقید سے ماوراء بھی سمجھنے لگا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ تنقیدی پیمانوں کو غیر شخصی کر دیا جائے۔ ‘‘

            شاعری پلاننگ کے طریقے پر نہیں کی جا سکتی شاعر کے احساسات، مشاہدات، تجربات اور حالات اس سے شعر کہلواتے ہیں۔ رؤف خیرؔ اسی خیال کے حامی نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔

             ’’میرا خیال ہے کہ کسی بھی آدمی کا کوئی بھی جملہ بے معنی یا بے مقصد نہیں ہو سکتا۔ چہ جائیکہ شاعری جیسا فن لطیف، یقیناً میں انسان اور کائنات کے حوالے سے کوئی بات پہنچانا چاہتا ہوں۔ مگر اس کے لئے پہلے سے کوئی پلاننگ نہیں کرتا۔ کیونکہ شعر پلاننگ کے تحت نہیں ہوتے۔ چونکہ میں سوچنے کا ایک افادی پہلو رکھتا ہوں۔ اس لئے لایعنی بات نہیں کر سکتا۔ اگر اس کو مقصدیت کہہ لیں تو مجھے تسلیم ہے۔ مگر شاعر اور واعظ میں بہرحال فرق ہے اور اس فرق کا خیال رکھتا ہوں۔ حالات مجھ سے شعر کہلواتے ہیں اور میں فنی رچاؤ کا خیال رکھتا ہوں۔ ‘‘

            ترائیلوں سے وابستگی کے سلسلے میں رؤف خیر نے کہا۔

            مجھے فرانسیسی صنف سخن ترائیلے نے متاثر کیا۔ مجھے یہ فارم اچھا لگنے لگا۔ آٹھ مصرعوں کا التزام اور وہ بھی خاص تکنیک کے ساتھ۔ میں بے شمار ترائیلے لکھے۔ کچھ اقراء(۱۹۷۷ء) میں شامل تھے اور بہت زیادہ ترائیلے میرے دوسرے مجموعہ کلام ’’ایلاف‘‘(۱۹۸۲ء) میں شامل ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اُردو میں یہ صنف زیادہ کامیاب نہ ٹھہری بلکہ خود فرانسیسی اور انگریزی میں بھی یہ ز یادہ چل نہ سکی۔ بہرحال ایک جدت تھی میں نے اپنا لی۔ ‘‘

            رؤف خیر نے ایک مختصر سی تحقیقی کتاب  ’’ حیدرآباد کی خانقاہیں ‘‘لکھی جو  ۱۹۹۴ء میں چھپی جس میں انہوں نے قادری، چشتی، نقشبندی اور سہروردی  سلسلوں کے بانیوں اور خانقاہوں کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی حیدرآباد میں ان چاروں سلسلوں کے ذمہ دار حضرات کا اجمالی تذکرہ ہے۔ یہ کتاب نہایت عرق ریزی سے جمع کردہ مواد پر مشتمل ہے اور حوالے کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔

تراجم               رؤف خیر کو سٹی سیول کورٹ میں ۱۵  سال ( ۱۷ فبروری ۱۹۶۹ء سے ۲۶ ستمبر ۱۹۸۴ء ) تک بحیثیت اسٹینو ٹائپسٹ بڑے قابل ججس کے ساتھ کام کر نے کا موقع ملا۔ ہر قسم کے مقدمات کے فیصلے ٹائپ کرتے ہوئے ان کی انگریزی زبان سے واقفیت میں اضافہ ہو تا رہا۔ یوں بھی وہ انگریزی ناول بہت پڑھا کرتے تھے۔ James Hadley Chase, Earl Stanley Gardener,

Agatha Christie  وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ  O’ Henry  کی کہانیاں بھی بہت پڑھیں۔

            انہوں نے کملا داس( کملا ثریا) کی انگریزی نظم  ’’ یا اللہ‘‘ کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو سب سے پہلے روز نامہ ’’ انقلاب ‘‘ممبئی میں چھپا اور ہند و پاک کے بیشتر اخبار و رسائل میں ڈائجسٹ ہوا۔

      اقبال کے  ۱۶۳  فارسی قطعات  ’’ لالۂ طور‘‘ ( پیام مشرق) کا منظوم ترجمہ  ۲۰۰۱ء میں منظر عام پر آ کر مقبول ہو چکا ہے جس پر وائس آف جرمنی اور وائس آف امریکہ سے تبصرے بھی نشر ہو چکے ہیں۔

            رؤف خیر نے غلام علی آزاد بلگرامی جیسے قادر الکلام شاعر (1704-1786) کی چار فارسی غزلوں کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا۔ یہ ان کی خود اعتمادی کی دلیل ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے اردو ترجموں کے ساتھ اصل متن بھی دیدیا ہے تا کہ پڑھنے والوں کو ترجمانی کا اندازہ ہو سکے۔

    خود  رؤف خیر کی بعض نظموں کا انگریزی میں ترجمہ ہوا جیسے ان کی نظم شاپنگ کا ترجمہ اسی عنوان سے اردو ادب کے مشہور و ممتاز ادیب و شاعر بلراج کومل نے کیا  جو Urdu Alive   لدھیانہ پنجاب کے Winter Issue 1996   میں چھپا اور نظم  ’’ بونوں کا خواب‘‘ کا ترجمہ The Dwarfs dreamt

کے عنوان سے خود مدیر  Bhupinder Parihar  نے کیا جو اردو  Urdu Alive  کے  Summer Issue 1997  میں شائع ہوا۔ اس سے پہلے جناب جمیل شیدائی نے رؤف خیر کی نظم  ’’پناہ‘‘ کا  Refuge  کے عنوان سے اور  ’’بونوں کا خواب‘‘ کا ترجمہ  The Dream of Dwarfs  کے نام سے کیا  تھا جو  ماہنامہ   ’’Mirror‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔

            رؤف خیر نے چند  ’’ گاتھا سپت شتی‘‘ ( سنسکرت) کے اردو میں منظوم قطعات کی شکل میں تراجم کیے۔ یہ تراجم سنسکرت کے نثری اردو تراجم کے حوالے سے کیے گئے۔

 

رؤف خیر کی تصانیف

۱۔         اقرا                   ۱۹۷۷ء شعری مجموعہ( انعام یافتہ، اردو اکیڈمی آندھرا پردیش)

۲۔        ایلاف   ۱۹۸۲ء  شعری مجموعہ( انعام یافتہ، اردو اکیڈمی آندھرا پردیش) (ترائیلوں پر مشتمل)

۳۔        شہداب ۱۹۹۳ء  شعری مجموعہ( انعام یافتہ، اردو اکیڈمی آندھرا پردیش)

۴۔        حیدرآباد کی خانقاہیں          ۱۹۹۴ء  تحقیقی مقالہ

۵۔        خطِ خیر               ۱۹۹۷ء  تنقیدی مضامین( انعام یافتہ، اردو اکیڈمی آندھرا پردیش)

                                                                 ( انعام یافتہ، اردو اکیڈمی مغربی بنگال، کلکتہ)

۶۔        قنطار                 ۲۰۰۱ء               ( انعام یافتہ، اردو اکیڈمی آندھرا پردیش) (علامہ اقبال کے  ۱۶۳  فارسی قطعات لالۂ طور کا منظوم اردو ترجمہ)

۷۔        سخن ملتوی          ۲۰۰۴ء شعری مجموعہ( انعام یافتہ، اردو اکیڈمی اتر پردیش، لکھنؤ)

۸۔        دکن کے رتن  اور  ارباب فن         ۲۰۰۵ء

 

کام کی بات

’’سخن ملتوی‘‘ کا پیش لفظ

               میر فاروق علی

 ادب میں بھی گروہ بندی بلکہ علاقہ واریت اپنا ہنر دکھاتی ہے۔ ترقی پسندوں نے اپنے قبیلے کے ہر فرد کو  سردار  کا درجہ دے رکھا تھا۔ جدیدیوں کا جو حال ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ ما بعد جدیدیت نے بھی اپنی نیرنگیاں دکھائیں۔ کچھ ادیبوں ، شاعروں اور نقادوں نے ادب کو دہائیوں میں تقسیم  کر کے اُسے بہت محدود کر ڈالا حالانکہ یہ ایک راز غیر سر بستہ  (open secret)ہے کہ ادب کبھی بھی کسی حد میں نہیں رہا اور نہ اس پر کوئی حد جاری کی جا سکتی ہے۔ ادیب و شاعر کسی منشور کا پابند ہو جائے تو وہ شاعر و ادیب نہیں رہ جاتا بلکہ صحافی یا سطحی مزاح نگار ہو جا تا ہے۔ قلبِ شکیب کی ’مٹھی بھر روشنی، ایک ندیم کی قاسمیت و پشت پناہی سے اثاثۂ زر تاب ہو گئی۔ کاظمی کی اداسی گلوکاروں کے ناصری در و دیوار پر بال کھولے سوتی رہی۔ کئی عارفانِ نشیب و فراز آج تک اپنی جوانی کی فکری کاوشوں کو کیش(cash) کر تے پھر رہے ہیں۔

            جنوبی ہند کی روایت بھی عجیب ہے۔ مرعوبیت بلا تفریق شاہ و گدا یہاں خون میں شامل رہی ہے۔ رؤف خیرؔ کے سر پر ہاتھ رکھنے والا مربیّ کوئی نہیں۔ نظم و نثر میں اپنے طور پر جو انہوں نے پہچان بنائی ہے ، وہ کسی  ’’ سر پرست‘‘ کی مرہون منت نہیں۔ اب اپنی ڈفلی آپ بجانے کا رواج عام ہے کہ کوئی کسی کا Godfather ہو بھی تو اپنے احسانات سے ادیب و شاعر کو خرید لیتا ہے ایسے میں بہتر یہی ہے کہ آزادہ روی اختیار کی جائے اور گلے میں کوئی طوقِ غلامی نہ رکھا جائے۔ رؤف خیرؔ بھی فکر و نظر کی آزادی کے قائل ہیں اسی لئے کبھی کسی خاص گروپ سے وابستہ نہیں رہے۔ رد و قبول میں فنی اقدار کا خاص خیال رکھا۔ زبان سے کھلواڑ پسند نہیں کی۔ شعر و ادب کی روایات کا احترام بھی کیا اور تازہ ہوا کا استقبال بھی کیا۔ یہی سبب ہے کہ ان کے فکر و فن نے ڈاکٹر  ظ  انصاری ، شمس الرحمن فاروقی اور آنجہانی کالی داس گپتا رضا جیسے قد آوروں سے داد پائی۔  ابتدا ہی سے رؤ ف خیرؔ نے چونکانے والا لہجہ اختیار کیا۔ جیسے

پھر آپ کی آنکھوں میں گہر دیکھ رہا ہوں

کیا بھول گئے آپ وہ پیمانِ تبسم

تم شہرِ خموشاں میں نہ یوں اشک بہاؤ

بے چین نہ ہو جائیں شہیدانِ تبسم

وہ کھینچتے ہیں شرم سے اپنی ہتھیلیاں

عہدِ وفا پہ رُکتی جھجکتی ہتھیلیاں

اب کیا کسی کی سمت اٹھاؤں گا میں نظر

آنکھوں کو ڈھانپتی ہیں کسی کی  ہتھیلیاں

حکومت مہاراشٹرا اور حکومت آندھرا پر دیش نے ان کی نظمیں نصاب میں شامل کیں۔ کئی ہندو پاک اورکل ہند مشاعرے پڑھے حتیٰ کہ انڈین ایمبسی کی دعوت پر جدہ ریاض مکہ و مدینہ بھی ہو آئے۔ عمرے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔

            مشاعروں کے سامعین اور ٹی وی کے ناظرین میری تائید کریں گے کہ رؤف خیرؔ جتنے اچھے شعر کہتے ہیں اتنے ہی اچھے انداز میں دل لبھانے والی مسکراہٹ کے ساتھ مزے لے لے کر سناتے بھی ہیں۔

            رؤف خیر کی تنقیدی بصیرت ابیض و اسود کے درمیان  ’’خطِ  خیر‘‘ کھینچتی ہے اور تخلیقی صلاحیت تمام تر فنی رچاؤ اور زبان و بیان کے رکھ رکھاؤ سے دل لبھاتی ہے۔ ان کے شعری مجموعے اقرا ( ۱۹۷۷ء) ایلاف(۱۹۸۲ء) اور شہداب ( ۱۹۹۳ء) اس بات کے گواہ ہیں۔

            علامہ اقبال کے  ۱۶۳  فارسی قطعات لالۂ طور ( پیام مشرق ) کا منظوم اردو ترجمہ بہ عنوان  ’’ قنطار‘‘ کر کے انہوں نے اپنی اک اور جہت سے آشنا کیا۔  ’’ قنطار‘‘ کی مقبولیت کا یہ عالم رہا کہ ایک ہی سال میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ رؤف خیر کی شخصیت اور فکر و فن پر صبیحہ سلطانہ نے حیدرآباد یونیورسٹی سے یم فل کے لئے مقالہ لکھا۔

             ’’سخنِ ملتوی‘‘ رؤف خیر کا تازہ شعری مجموعہ تازہ افکار و اصناف کا تازہ و شفاف اظہار لئے ہوئے ہے جیسے نظم، غزل ، ترائیلے، ہائیکو، ماہیے،

 یک مصرعی نظمیں (جس کے وہ خود موجد ہیں ) اور تکونیاں ( ایک نئی صنف سخن جس میں دو مختلف کرداروں کا جائزہ تیسرا کردار بحیثیت مبصر لیتا ہے )

             اس مجموعے پر ہمیں نہیں آپ کو کہنا ہے کہ کیسا ہے۔

 

جناب رؤف خیر سے ایک مصاحبہ

               سردار سلیم

( ماہنامہ  ’’ آندھرا پردیش‘‘ جنوری  ۲۰۰۱ء)

نام : محمد عبدالرؤف قلمی نام رؤف خیر جائے پیدائش حیدرآباد دکن

تلمیذ:  اوج یعقوبی   تعلیم: اردو ادب میں پوسٹ گریجویشن۔ اس کے علاوہ اقبال کا ’’ اسلوبیاتی ارتقائ‘‘ کے موضوع پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ ۱۹۹۷ء میں  ’’ خط خیر‘‘ کے عنوان سے پہلا تنقیدی مضامین کا مجموعہ شائع ہوا۔ اب تک شعری مجموعہ  ’’ اقراء ‘‘ ۱۹۷۷ء   ’’ ایلاف‘‘ ۱۹۸۲ء   ’’ شہداب‘‘ ۱۹۹۳ء (حال ہی میں  ’’ سخن ملتوی‘‘ ۲۰۰۴ء۔ صبیحہ)افق ادب پر روشن ہو چکے ہیں۔ یہ چند تعارفی کلمات اردو کے ممتاز اور حرف ساز شاعر کے متعلق ہیں جس کا نام دنیائے ادب کے لیے محتاج تعارف نہیں ہے۔ میر سے مومن تک داغ سے جگر تک اور مجاز سے فراز تک جتنے بھی لہجے اور اسالیب ارتقاء پذیر ہوئے ہیں ان کے بیچوں بیچ سے رؤف خیر نے اپنے لیے ایک الگ تھلگ سی راہ نکالی اور اس پر پوری ثابت قدمی سے ڈٹے رہے خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تخلیقی شناخت کے استحکام کے لیے کسی نام نہاد تحریک کا سہارا نہیں لیا بلکہ اپنا رویہ سب سے منفرد اور جد ا رکھا۔ شعر جتنی لگن سے کہتے ہیں اتنی ہی لگن سے پڑھتے بھی ہیں۔ اہل جنوب کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہے گا کہ انہوں نے بار بار لال قلعہ پر گولکنڈے کا پرچم لہرایا ہے اور شمالی ہند کے چپے چپے میں حیدرآباد کا نام روشن کیا ہے یہاں ایک بات واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ستائشی کلمات ہر گز بھی رؤف خیر کے لئے نہیں ہیں بلکہ اس غزل پرست کے لیے ہیں جو ان کے اندر چھپا بیٹھا ہے۔۔۔ تو آئیے اب اس مصاحبے سے لطف اندوز ہوں جس کے لیے جناب رؤف خیر نے نا چیز پر کافی قیمتی وقت خرچ کیا ہے۔

س:      شعر گوئی کا آغاز کب او ر کیسے ہوا؟

ج:       ۶۳۔ ۱۹۶۲ ء میں جب میں نویں دسویں جماعت کا طالب علم تھا بچوں کے لیے کہانیاں لکھا کر تا تھا۔ اساتذہ کے بہت سارے اشعار گنگنایا کر تا تھا۔ پھر اچانک چھوٹی چھوٹی نظمیں کہیں۔ ۱۹۶۵ء میں تو باضابطہ غزلیں کہنے لگا۔ روز نامہ رہنمائے دکن( حیدرآباد) میں بچوں کے صفحے پر پہلے میری کہانیاں چھپا کرتی تھیں پھر اسی اخبار کے شعری صفحے  ’’ گلہائے رنگ رنگ‘‘ میں میری غزلیں شائع ہو نے لگیں۔

س:      آپ کا لہجہ نہایت جدید اور اسلوب یکسر منفرد ہے۔ یہ رویہ آپ نے کس طرح اختیار کیا۔

ج:       اپنی پہچان قائم کر نے کے لیے روایتی ڈگر سے ہٹ کر کوئی نئی بات پیش کر نا ضروری ہے۔ میں نے ابتداء ہی سے نئی نئی زمینوں میں غزلیں کہیں۔ جدید شعرا کا کلام دیکھا تو نئی اصناف سخن جیسے سانیٹ اور ترائیلے کہنے لگا۔ فرانسیسی صنف سخن ترائیلے بہت لکھے۔ ایک پورا مجموعہ ’’ ایلاف‘‘  ترائیلوں پر مشتمل ہے(بعد میں چند نظمیں غزلیں بھی اس مجموعہ میں شامل کیں ) یہ رویہ شاید اردو دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر نے کے لیے ہی اختیار کیا گیا۔ موضوعات بھی نئے نئے چنے۔ کچھ ذاتی مسائل بھی شعر میں بیان کئے جو ظاہر ہے میرے اپنے جذبات کا اظہار ہے۔

س:      شاعر ہو نے کے ساتھ ساتھ آپ ایک عروض داں ، ایک مبصر، ایک نقاد اور کئی طرح کی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ یہ بتائیے کہ اتنی ساری روشنیاں آپ کے اندر کیسے جمع ہوئیں۔

ج:      عروض دانی کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں ہے میں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں شاید اسی لیے کہا تھا

ہم شعر کہا کر تے ہیں وجدان کے بل پر

کچھ لوگوں کو زعم فعلاتن بھی بہت ہے

اس غزل کا مطلع اور دو تین شعر کچھ یوں تھے بہت پرانی غزل ہے تقریباً بیس سال پہلے کی ہے:

رستے میں تو خطرات کی سن گن بھی بہت ہے

منزل پہ پہنچنے کی ہمیں دھن بھی بہت ہے

ہر شہر میں تازہ ہے تو بس زخم تعصب

کچھ لذت ناخن کا تعاون بھی بہت ہے

کچھ ہاتھوں سے کچھ ماتھوں سے کالک نہیں جاتی

ہر چند کہ بازار میں صابن بھی بہت ہیں

وہ  ’’ ہاتھ‘‘ تحفظ کی علامت جسے کہئے

محسوس یہ ہوتا ہے وہی سن بھی بہت ہے

اک جسم کے مانند ہیں ہم لوگ کہیں ہوں

ٹھوکر سے اکھڑتا ہے تو ناخن بھی بہت ہے

ہر فنکار کے اندر ایک مبصر ایک نقاد بھی سانس لیتا ہے۔ میرے اندر کا نقاد قدم قدم پر میری اپنی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا رہتا ہے۔ دوسروں کو ٹھوکر کھا کر گرتا ہوا دیکھ کر میں سنبھل جاتا ہوں۔ مطالعہ خاص طور پر تنقیدی کتب کا مطالعہ میرا مدد گار ثابت ہو تا رہا ہے۔ ابتدا ہی سے میں زبان و بیان اور تنقید میں دلچسپی لیتا رہا ہوں۔ نیاز فتح پوری کی  ’’ انتقادیات‘‘ ما لہ و ما علیہ  اور  نگار کی پرانی فائلیں پڑھیں ’’ سیماب کی اصلاحیں ‘‘ اور مختلف رسائل میں نقد و نظر کا حصہ اور تبصرے میں سب سے پہلے پڑھتا ہوں۔ عطاؔ صاحب کی  ’’ غلطی ہائے مضامین‘‘ ہو کہ قاضی عبدالودود کی تحقیق مجھے بہت پسند آتی رہی۔ بہر حال مطالعہ میرے اندر روشنی بھرتا ہے۔

مروجہ  ’’ تنقید ‘‘ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا  البتہ کسی ادیب شاعر کے فکر و فن کے بارے میں جو کچھ میرے تاثرات ہوتے ہیں انہیں میں اپنی سیدھی سادی زبان میں دلائل و براہین کے ساتھ پیش کر کے قاری کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتا ہوں اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’’ خط خیر‘‘ میں میں نے خشک تنقید کے بجائے انشائیے جیسا اسلوب اختیار کیا ہے۔

س:      آپ کو شرف تلمذ کس سے حاصل رہا ہے۔ ؟

ج:        ابتدائی کلام پر جناب اوج یعقوبی صاحب مرحوم نے اصلاح دی۔ کچھ میری مصروفیات اور کچھ ان کی عدیم الفرصتی کی وجہ سے یہ سلسلہ بہت دن قائم نہ رہ سکا۔ پھر تو میں نے مطالعہ ہی کو اپنا استاد بنا لیا۔

س:      یہ بتائیے کہ نمائندہ شاعر کسے کہتے ہیں۔

ج:       نمائندہ شاعری کی اصطلاح بڑی پر فریب ہے۔ ادب میں کوئی کسی کو نمائندگی کا حق نہیں دیتا۔ میرے خیال میں اپنے عہد کے محاورے میں تمام تر فنی رچاؤ کے ساتھ اپنے عہد کی عکاسی کر نے والا نمائندہ شاعر ہے۔ اس کا کسی مخصوص علاقے سے وابستہ ہو نا اس علاقے کی نمائندگی کے لیے ایک ذیلی معاملہ ہے۔

س:      شعر کے صوتی آہنگ پر کچھ روشنی ڈالیے؟

ج:       ایک اچھے خیال کا خوش آہنگ الفاظ میں ادا ہونا شاعر اور ادیب کے لیے خوش آئند ہوتا ہے الفاظ کھردرے ہوں تو ایک اچھا خیال ان پتھروں میں دم توڑ دیتا ہے۔ الفاظ کی خوش ترتیبی ہی موضوع شعر کو ابھار کر پیش کرتی ہے۔ شاعر جتنا خوش آہنگ ہو گا اتنا ہی مقبول بھی ہو گا۔

س:      یہ بتائیے کہ نئی غزل کی تکنیکی خصوصیات کیا ہیں ؟

ج:       غزل نئی ہو کہ پرانی وزن، قافیہ ، ردیف، کی پابندی اس کی بنیادی شرط ہے۔ ہر دور کا اپنا محاورہ ہوتا ہے نھی غزل بھی اپنے محاورے میں اپنے دور کی عکاسی کرتی ہو تو زندہ رہ سکتی ہے۔ جدیدیت کے نام پر لا یعنیت ابھر رہی تھی لیکن نئی غزل کہنے والے ’’ نئے شاعروں ‘‘ نے غزل کی آبرو رکھ لی۔ اسے ادب پر بوجھ اور مذاق کا نمونہ بننے سے بچالیا۔ جدید لا یعنی غزل کے بر خلاف نئی غزل عوامی سطح پر بھی مقبول ہے۔ خواص کی منظور نظر تو وہ ہے ہی۔

س:      کیا آپ کلاسیکی غزل کو شاعر کا معیار مانتے ہیں ؟

ج:       یقیناً۔ ہمارا کلاسیکی سرمایہ ہمارا اثاثہ ہے۔ جس کی روشنی میں معیارات اور پیمانے مقرر ہوئے۔ ہم اس معیار کو مزید بلند کر نے کی جدو جہد میں اچھے سے اچھا فن پیش کر نا چاہتے ہیں۔

س:      سکہ بند جدیدیت اور مطلق روایت پسندی کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔ ؟

ج:       میں دونوں سے بیزار ہوں۔ سکہ بند جدیدیت  ٹکسال باہر ہو چکی ہے مطلق روایت سے جڑے رہنا ترقی معکوس کی علامت ہے۔

س:      یہ ما بعد جدیدیت کیا ہے؟

ج:       یہ مغربی تنقیدی معیارات کا گنجلک اظہار ہے۔ نقاد کبھی مصوتے اور مصمتے شمار کر تا ہے تو کبھی رد تشکیل اور ما بعد جدیدیت کی مغربی اصطلاحات سے مرعوب کرتا ہے۔ فن کار کو اپنے آپ سے مخلص ہو نا چاہیے اور اپنے عصر کو اجنبیت کا احساس ہونے نہیں دینا چاہیے۔ شعریت اور عصری حسیت کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہیے ترقی یافتہ ممالک کا  Post Modernism  در اصل ان کے اقدار کی شکست و ریخت کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے ما بعد جدیدیت میں پناہ لی۔ ہمیں ایسی کسی پناہ گاہ کی ضرورت ہی نہیں ہم ابھی اس منزل میں نہیں پہنچے کہ فیشن کے لباس کی طرح ادبی نظریات بھی بدلتے جائیں۔

س: آپ کے پسندیدہ اکابر شعرا کون ہیں ؟

ج:       اکابر کی اصطلاح غیر واضح ہے اگر یہ کسی کو بت بنا لینا ہے تو عرض کروں گا کہ میں تو بت شکن ہوں۔ ہر شاعر مکمل طور پر اچھا یا برا نہیں ہوتا۔ رطب و یابس بشری تقاضہ ہے۔ میں ہر شاعر کی خوبیوں کو پسند اور خامیوں کو نظر انداز کر تا ہوں۔ بہر حال اسی انداز سے میرے پسندیدہ شعرا میں سر فہرست اقبال ہیں پھر غالب میر فانی یاس ، یگانہ،۔ یہ فہرست نا تمام ہے۔

س:      آپ کے پسندیدہ معاصر شعرا کو ن ہیں ؟

ج:       میرے مذاق شعری سے مطابقت رکھنے والا ہر معاصر شاعر مجھے پسند ہے۔

س:      معاصر ناقدین ادب میں آپ کسے پسند کرتے ہیں۔ ؟

ج:       تنقید کی کئی سطحیں ہیں۔ نفسیاتی ، تخلیقی، لسانی وغیرہ اور کوئی تنقید حتمی نہیں ہوتی۔ ابھی ہمارے ہاں تنقید زیر تشکیل ہے۔ میں تنقید کی سطح پر ہر  تحریر شوق سے پڑھتا ہوں۔ تاثرات اور تنقید میں فرق کرتا ہوں ار گروہ بندی سے نالاں ہوں۔

س:      آپ ہند و پاک کے تقریباً تمام رسائل وغیرہ میں چھپ چکے ہیں۔ ہمیں ان میگزینز کے بارے میں بتائیے جن میں آپ نہیں چھپے؟

ج:       ہند و پاک کے سارے سائل و جرائد میں میری تخلیقات نہیں چھپیں البتہ بعض رسائل میں زیادہ اور بعض میں کم کم شائع ہوتی رہی ہیں جن سے آپ بھی واقف ہیں۔

س:      اپنی تصانیف کے متعلق کچھ بتائیے؟

ج:       پہلا شعری مجموعہ   ’’اقرا ‘‘  ۱۹۷۷ء میں چھپا جو آندھرا پردیش اردو اکیڈمی کا انعام یافتہ ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’ ایلاف‘‘ ۱۹۸۲ء میں چھپا یہ بھی اردو اکیڈمی سے انعام یافتہ ہے۔ تیسرا شعری مجموعہ ’’ شہداب‘‘ ۱۹۹۳ ء   اردو اکیڈمی سے انعام یافتہ ہے چوتھی کتاب ہے  ’’ حیدرآباد کی خانقاہیں ‘‘ جس میں چاروں مسالک کی خانقاہوں کا اجمالی تذکرہ ہے جو ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئی۔ پانچواں تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے جو  ’’ خط خیر‘‘ کے نام سے ۱۹۹۷ء میں چھا  اردو اکیڈمی کے علاوہ مغربی بنگال اردو اکیڈمی سے بھی انعام ملا۔ چھٹا مجموعہ ’’ قنطار علامہ اقبال کے  ۱۶۳  فارسی قطعات  لالہ طور( پیام مشرق) کا منظوم اردو ترجمہ ہے جو  ۲۰۰۱ء میں چھپا  اردو اکیڈمی سے انعام یافتہ ہے۔ ( ساتویں کتاب۔ شعری مجموعہ  ’’ سخن ملتوی‘‘ ۲۰۰۴ ء میں شائع ہوا۔ صبیحہ)

س:      کیا آپ اپنے تلامذہ کے مستقبل سے پر امید ہیں ؟

ج:       ہاں۔ بشرطیکہ وہ ریاض اور مطالعہ جاری رکھیں اور تساہل سے پرہیز کریں۔

س:      کونسے محرکات اور عناصر ادب کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں ؟

ج:       تساہل اور پروپیگنڈہ۔ ہر نئی چیز کے پیچھے بھاگ کر اپنا امیج خراب نہ کریں۔ غیر سنجیدہ رویہ بھی ادب کے راستے کا پتھر ہوتا ہے۔

س:      اپنی پسندیدہ اصناف سخن کے بارے میں بتائیے؟

ج:       غزل میری پہلی محبت ہے۔ لیکن فرانسیسی صنف سخن ترائیلے پر بھی میرا دل آ گیا۔ میں نے بے شمار ترائیلے کہے چنانچہ میرا ایک شعری مجموعہ ’’ ایلاف‘‘ بھی شائع ہوا۔ لیکن ترائیلے میں مصرعوں کے دہرانے کا عمل عوامی مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔

س:      ’’ماہیا‘‘ جو خود اپنی زبان یعنی پنجابی ادب میں کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتا ، کیا اردو ادب میں اپنے لیے جگہ بنا پائے گا؟

ج:       ماہیے ہوں کہ ہائیکو، ثلاثی ہوں کہ قطعات جب تک ان میں چونکا دینے والے خیالات و مضامین ان کی خاص بحروں اور افاعیل کا خیال رکھ کر پیش نہیں ہوں گے یہ اصناف مقبول نہیں ہوں گی یعنی تساہل پسندی کا شکار ہو کر ماہیے بھی اپنی شناخت کھو دیں گے۔ پنجابی ماہیے ادبی شناخت نہیں رکھتے لیکن اردو میں اسے باضابطہ حیثیت دینے کی کوشش کر نے میں حیدر قریشی اور مناظر عاشق صاحبان پیش پیش ہیں۔ اچھے لکھنے والے اگر ماہیے کہیں گے تو ممکن ہے یہ صنف مقبول ہو جائے۔

س:      کیا موزونی طبع کے لیے عروض سیکھنا ضروری ہے؟

ج:       بالکل نہیں۔ موزونی طبع اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہے۔ وجدان خود رہنمائی کرتا ہے البتہ مطالعہ بہت ضروری ہے۔ عروض کی بعض بنیادی باتیں جان لینا کافی ہے۔ زبان و بیان کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ زبان و بیان کا خیال رکھنا ماہر عروض ہونے سے بہتر ہے۔

س:      یہ بتائیے کہ شعر کہتے ہوئے عموماً کونسا امر آپ کے پیش نظر ہوتا ہے؟

ج:       میں شعر میں اچھوتے خیال کو تمام تر شعریت اور فنی رچاؤ کے ساتھ پیش کر نے کی کوش کرتا ہوں اور حتیٰ الامکان زبان و بیان کا خیال رکھنے کی بھی کوشش کرتا ہوں۔

س:      حیدرآباد میں اردو کا موقف کیا ہے؟

ج:الحمد للہ  حیدرآباد میں اردو کا موقف بہت غنیمت ہے۔ یہاں اردو زبان و ادب کے لیے ہر قسم کی سہولتیں مہیا ہیں۔ اردو والے اگر تساہل برت رہے ہوں تو اس میں اردو کا کیا قصور۔ تلگو اور انگریزی میڈیم کے مدارس پر بعض اردو والے زیادہ انحصار کر نے لگے ہیں اس کے با وجود  اردو کے سچے بہی خواہ آج بھی اردو سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انہیں جیالوں کی وجہ سے اردو زندہ ہے

س:کیا آپ اپنے ہم وطن شعرا کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج:پیغام دینا میرا منصب نہیں۔ میں خود ادب کا ایک معمولی طالب علم ہوں۔ مشورہ دے سکتا ہوں کہ گروہ بندی سے بچتے ہوئے فن پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں۔ پیر کامل بڑی مشکل سے ہاتھ آتا ہے اسی لیے مطالعے کو اپنا استاد بنالیں۔ ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات رکھیں۔ بد گمانی سے بچیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صلاحیتیں ضائع کر نے کے بجائے اپنے فکر و فن کو جلا بخشتے رہیں کامیابی ایسے ہی لوگوں کے قدم چومے گی جو اسلاف کے فکر و فن کے غائر مطالعے سے سیکھیں گے۔ اردو کی ترویج و اشاعت میں دامے، درمے، سخنے حصہ لیں۔

 

سچے تجربے کے معتبر اظہار کا شاعر۔ رؤف خیر

               ڈاکٹر وحید اختر

شعبہ فلسفہ مسلم یونیورسٹی  علی گڑھ

            گزشتہ دس برس میں حیدرآباد نے کئی نئے خوشگوار شاعر پیدا کیے ہیں۔ شاعری اور افسانے میں حیدرآباد سے نئے لکھنے والوں کی ایک پوری نسل آزادی کے فوری بعد کے برسوں میں ابھری تھی جس نے اردو ادب کی نئی سمتوں کے تعین میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کے بعد ایسا محسوس

ہو نے لگا تھے جیسے یکا یک اچھے ادیبوں کے ابھر نے کے لیے حالات نا مساعد سے ہو گئے ہیں۔ لیکن نئے اذہان کی تخلیقی صلاحیتوں نے اس اندیشے کی بھر پور تردید کی۔ حیدرآباد میں تخلیق کے چراغ اب بھی روشن ہیں۔ ان چراغوں میں کئی ایسے ہیں جو ادب کے ایوان کو وقت گزر نے کے ساتھ زیادہ منور کر سکتے ہیں اس جدید تر نسل میں رؤف خیر ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں لہجے کی انفرادیت کے ساتھ موضوعات کا تنوع ، عصری حسیت زبان و فن پر ریاض اور شعر سے والہانہ شیفتگی کے وہ عناصر ملتے ہیں جو ان کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہیں۔

            شاعروں کے ہجوم میں معدود ے چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو اپنی اولین تخلیقات ہی سے با شعور اور فن شناس قارئین کو متوجہ کر لیں۔ رؤف خیر کی نظموں اور غزلوں میں ابتدا ہی سے چونکانے اور متوجہ کر نے والی کیفیت تھی۔ ایک چونکانا تو محض سنسنی خیزی اور سستی شہرت کے لیے ہوتا ہے۔ ان کے یہاں چونکانے کی یہ کیفیت ان کے اسلوب کی تازہ کاری نے پیدا کی ہے۔ وہ شعر کے وسیلۂ اظہار یعنی لفظ کا احترام کر نا بھی جانتے ہیں۔ اس لیے لفظ ان کے یہاں بے جان اور پا مال نظر نہیں آتے۔ ان کا طرز احساس ، ذہنی رویہ اور زبان کو برتنے کا انداز نیا ہو تے ہوئے بھی کلاسیکی آداب کا پاسدار  ہے اس سے منقطع اور منحرف نہیں۔

            اس دہے کے بیشتر جدید شعرا کی سہل انگاری نے غزل کے غیر سنجیدہ لہجے اور قافیہ و ردیف کے نئے پن ہی کو جدیدیت سمجھ لیا ہے۔ اسی طرح نظم میں چند پٹے پٹائے موضوعات کو سکہ بند اظہارات میں اکتا دینے والی یکسانیت کے ساتھ باندھتے رہنا بھی نئے پن کا شناس نامہ سمجھا جانے لگا ہے۔ رؤف خیر کی احتیاط پسندی اور تخلیقی صلاحیت نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں اس بھیڑ چال سے گریز کر کے ان کے آداب کو ملحوظ رکھا اور انہیں سچے تجربے کی زبان دی ہے۔ کسی بھی نئے شاعر کے یہاں یہ رویہ اس کی فنی پختگی اور تخلیقی خلوص کی علامت ہے۔ رؤف خیر کی غزل اور نظم دونوں یکساں طور پر توجہ کی طالب ہیں۔ فن کے ساتھ یہ سنجیدہ رویہ یقین دلاتا ہے کہ مستقبل میں ان سے امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ رؤف خیر ایسے شاعروں کا منصۂ شہود پر آنا اردو شاعری کی زندگی کی روشن علامت ہے۔

            مجھے امید ہے کہ ان کا تخلیقی سفر اسی محتاط اور پر خلوص انداز میں سچے تجربے کے معتبر اظہار کی صورت میں جاری رہے گا۔

۶ اگست ۱۹۷۶ء

(پہلے مجموعہ کلام  ’’ اقرا‘‘ کا پیش لفظ۔ )

 

ایلا ف کا پیش لفظ

               جمیل شیدائی

            رؤف خیر کی شاعری کی سب سے نمایاں خوبی ان کے ترائیلے ہیں۔ ترائیلے در اصل فرانسیسی صنف شاعری ہے جس میں آٹھ مصرعے دو قافیوں سے لکھے جاتے ہیں۔ پہلا مصرعہ چوتھے اور ساتویں مصرعے کی جگہ اور دوسرا مصرعہ آٹھویں یا آخری مصرعے کی جگہ دہرایا جاتا ہے۔

            اس صنف شاعری کی خوبی اور کامیابی اس با ت میں مضمر ہے کہ مصرعوں کا اعادہ فطری جیسا ہو اور نا گزیر لگے۔ اس طرح اعادے سے مختلف معنی نکلتے ہوں یا نفس مضمون کی تشریح ہوتی ہو۔ ترائیلے کے تاریخی پس منظر کے بارے میں O.Bloch    اور  W. Von Wartburg  نے فرانسیسی زبان کی ڈکشنری میں لکھا ہے کہ ترائیلے ۱۴۸۶ء تک نا معلوم سا لفظ تھا حالانکہ یہ صنف بہت زیادہ قدیم ہے کیوں کہ قرون وسطیٰ کے شاعر جیسے  Deschamps  اور  Troissart   نے بھی ترائیلے لکھے ہیں مگر پندرھویں صدی کے اواخر سے یہ صنف نظر انداز کر دی گئی اور پھر اسے سترھویں صدی میں Vincent Voiture  اورJean-de-Lafourtaine  نے دوبارہ رائج کیا۔ انگلستان میں صرف  Patric Carry  نے ۱۶۵۱ء میں چند مذہبی ترائیلے لکھے تھے۔ اس وقت سے اب تک اس صنف میں کوئی خاص کام نہیں ہوا مگر اب انگلستان میں ترائیلے لکھنے والے کئی شاعر ہیں   , Austin Dobson    H.C.Burnner اور W.E.Henery    وغیرہ

            یہ بڑی خوش آئند بات ہ کہ ہماری شاعری ترقی یافتہ زبانوں سے ہمیشہ متاثر رہی ہے خصوصاً اس فرانسیسی نظم کے فام پر رؤف خیر کو جس طرح دسترس ہے ، اس سے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو میں بہت زیادہ وسعت ہے اور وہ کسی زبان کے کسی بھی فارم کی متحمل ہو سکتی ہے۔ رؤف خیر کے ترائیلے اپنے نفس مضمون کے اعتبار سے متنوع اور دلچسپ ہیں۔ مثلاً ان کا ایک ترائیلے   ’’ اعراف‘‘ :

میں جہاں  ہوں وہاں اوس و خزرج بھی ہیں

ایک آواز حق بھی ، سمیہ بھی ہے

گھر کے آنگن ابو جہل کے کج بھی ہیں

میں جہاں  ہوں وہاں اوس و خزرج بھی ہیں

چور ، زانی ، شرابی ہیں اور جج بھی ہیں

میں ہوں سب سے الگ سب سے رشتہ بھی ہے

میں جہاں  ہوں وہاں اوس و خزرج بھی ہیں

ایک آواز حق بھی ، سمیہ بھی ہے

اس مختصر سی نظم ( ترائیلے )میں ہمارے معاشرے کی کامیاب تصویر کشی کی گئی ہے۔ خیر و شر کی قوتیں اور ان کے توازن سے سماجی اقدار تشکیل پاتے ہیں چونکہ شاعر سماج ہی کا ایک فرد ہوتا ہے اس لیے اس کا رشتہ سماج سے اٹوٹ ہے۔ اس کی انفرادیت اسے سب سے الگ تو کرتی ہے مگر الگ ہو نے کے احساس کے ساتھ   ’’ میں ہوں سب سے الگ سب سے رشتہ بھی ہے‘‘

            یہی خاص بات رؤف خیر کے کلام میں ہوتی ہے کہ وہ ذات کو معاشرے سے الگ کر کے نہیں دیکھتے بلکہ اس کا ایک حصہ ، ایک جز ہو کر اس پر نظر ڈالتے ہیں اور یاسیت کے احساس کے ساتھ صورت حال اور ماحول پر چست فقرے کستے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ ان کی مجبوری جیسے ترائیلے  ’’ کوہ ندا‘‘ سے ظاہر ہوتی ہے  ایک سماج کی مجبوری ہے۔ اس مجموعے میں بہت اچھی اچھی نظمیں ملتی ہیں جیسے  ’’ دیوار‘‘ انجام کار، بیلف، بند گلی، گواہ بر گشتہ وغیرہ۔ Cleanth Brooks  نے اپنی کتاب Understanding Poetry   میں لکھا ہے کہ شاعری ہمیں علم دیتی ہے یہ علم خود ہمارے بارے میں ہی ہوتا ہے جو تجرباتی دنیا سے اخذ کیا جاتا ہے  چنانچہ رؤف خیر کی تجرباتی دنیا کی وسعت مسلّم ہے اور بالغ شعور کی وجہ سے ان کے تجربے رائیگاں نہیں جاتے بلکہ ہمارے ذہنوں پر ایک خاص کیفیت مرتسم کر جاتے ہیں۔ Wordsworth  نے شاعر کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو دوسرے انسانوں سے بات کرتا ہے اس لحاظ سے رؤف خیر کی باتیں لا یعنی و گنجلک نہیں  اور نہ  Soliloquy  کی طرح یہ باتیں خود سے ہوتی ہیں بلکہ ان کی باتوں میں متانت ہے، بھر پور اعتماد ہے، لہجے کا بانکپن ہے اور سچا تجربہ ہے جو سننے والوں کو چونکاتا بھی ہے اور دعوت فکر بھی دیتا ہے۔

 

شہداب

               مضطر مجاز

            رؤف خیر کا تیسرا مجموعے کلام ایک طرح سے ان کا انتخاب کلام ہے کیوں کہ اس میں ان کے پچھلے دو مجموعوں کا منتخب کلام بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ اس سے یہ گمان گزر تا ہے کہ کہیں شاعر کاGrowth   رک تو نہیں گیا۔ مجموعے کے ناشرین اور انتساب پڑھ کر شاعر کے بارے میں یہ علم بھی ہو جاتا ہے کہ وہ نہایت گھریلو قسم کا انسان ہے  اور  اسے اپنے افراد خاندان سے بڑا قلبی لگاؤ ہے۔ اس کتاب میں ان کے اولین مجموعے  ’’ اقرا‘‘  پر  ظ۔ انصاری کا تبصرہ بی شامل ہے۔ کتاب شمس الر حمن فاروقی کی وقیع رائے سے بھی مزین ہے جس میں وہ ان کے کلام کی صلابت اور لہجے کے اعتماد کا اعتراف کرتے ہیں۔ غالباً ان کے اجنبی اسلوب اور مخصوص ڈکشن کی بناء پر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ  ’’ وہ ایسے شخص کی طرح ہیں جو محفل کے آداب اور اس کی زبان سے نا بلد ہیں ‘‘ ان کی نظموں کے بارے میں انہوں نے ایک بڑے پتے کی بات یہ کہی ہے کہ ’’ ان کی پوری کی پوری نظم استعارہ ہوتی ہے‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ ان کے اس قول کا انطباق ان کی ہر نظم پر نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ جہاں  صبح کاذب، اکویریم ، میں اپنی آواز کھو رہا ہوں ، جیسی تہہ دار استعاراتی نظمیں ہمیں ملتی ہیں وہیں ایک پر چم تلے، فالو آن۔ ۲، اور یاران بے وسیلہ جیسی بیانیہ نظمیں بھی شامل ہیں۔ ( یاران بے وسیلہ، ایک علامتی نظم ہے جو حدیث کی معتبر کتاب صحیح بخاری میں غار والوں کے واقعے کے حوالے سے کہی گئی ہے۔ صبیحہ)

            رؤف خیر کی شاعری سے دو باتیں بہت کھل کر سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ شاعر کا سیاسی اور سماجی شعور بہت بیدار ہے دوسرے یہ کہ اس کی مذہبی حسیت بہت توانا ہے۔ ’صبح کاذب ، ان کی بہت اہم نظم ہے جو در اصل غیر جانب دار تحریک کے کھوکھلے پن پر ایک گہرا طنز ہے لیکن اس کے سارے استعارے اسلامی تاریخ سے ماخوذ ہیں جیسے دجال، مہدی، اوس و خزرج وغیرہ۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یہی مذہبی حسیت جہاں باطن کی تطہیر کا ایک وسیلہ ہے وہیں احیاء پرستی کی طرف بھی مائل کر دیتی ہے۔ ان کی نظم جس کا عنوان خود  ’’ احیاء ‘‘ ہے اس کی بہترین مثال ہے۔ غالباً اقبال واحد شاعر ہیں جو اپنی مذہبی حسیت کے با وصف احیاء پرستی کا کم سے کم شکار ہوئے ہیں۔

            ’اکویریم، ایک تمثیل ہے جسے شاعر نے آزاد مثنوی کا نام دیا ہے۔ جس کا تمام تر اسلوب علامتی ، اشارتی اور استعاراتی ہے۔ مچھلی، حوض، سمندر، پانی، تالاب، صدف آنکھوں میں موتی( آنسو کا استعارہ) غرض کہ نظم کی پوری کلر اسکیم بڑی مکمل اور تاثر انگیز ہے۔ اس کا اختتام بھی درد و گداز ( Pathos   سے مملو ہے  اور شاید اسی لئے تاثیر سے بھر پور ہے۔

            نظم ’ایک پرچم تلے،  کی ابتداء بڑے رمزیاتی اور کنایاتی اسلوب سے ہو تی ہے جس میں دنیا بھر کے جانوروں کا ایک  زو  سا تعمیر کر دیا ہے۔ جیسے  سانپ، فاختہ، ہرن، بھیڑیے، مچھلیاں ، مکڑیاں ، مرغیاں ، گدھ، اور سانپوں کا پرندوں کے انڈوں کو توڑ کر پی جانا اس سے بڑی متاثر کن متحرک جمالیات ابھر تی ہے لیکن قاری جب اس کے دوسرے بند پر آتا ہے تو اس کو ایک دھچکا سا لگتا ہے اور تیسرے بند تک پہنچتے پہنچتے نظم دھڑام سے زمین پر آرہتی ہے جہاں شاعر اپنی شاعری کی پوتی طاق پر رکھ کر ایک واعظ اور لیڈر کا روپ دھارن کر لیتا ہے۔ نظم کا معاملہ بڑا گمبھیر ہے  اسے بار بار لکھنا پڑتا ہے، سوچنا پڑتا ہے، کاٹنا چھاٹنا پڑتا ہے، مٹا نا پڑتا ہے، بنانا پڑتا ہے جسے حالیؔ نے آمد کو آورد بنانا کہا ہے۔ غالبؔ نے اپنے اشعار میں بار بار اتنی تبدیلیاں کیں حالیؔ اور آسی رامپوری کی تحقیق سے سامنے آ چکا ہے۔ گرےؔ کی مشہور ایلیجی کوئی ۴۲ مرتبہ لکھی گئی۔ ورڈز ورتھ اور ایلیٹ کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے کہ انہوں نے نظمیں کتنی مرتبہ لکھیں اور کس کس طرح لکھیں۔ کاشکے رؤف خیر اپنی ان نظموں پر اور کچھ محنت کرتے ویسی ہی محنت جیسی وہ غزل کے شعروں پر کرتے ہیں۔ ان کی تلمیحات، استعارے اور علامتیں بیشتر اسلامی تاریخ سے لیے گئے ہیں (کذا)  جیسے فالو آن ۲ میں خلیفۂ دوم کا دو چادروں والا واقعہ جسے شاعر نے من و عن بلا کم و کاست منظوم کر دیا ہے اگر وہ یہ نظم پابند نظم کے فارم میں لکھتے تو شائد کوئی تاثر ابھر تا۔ ’یاران بے وسیلہ ، بھی اسی قبیل کی نظم ہے جو غالباً کسی حدیث شریف کو منظوم کر نے کی ایک سعی لا حاصل ہے۔ کوئی ملکوتی جذبہ ہو یا ابلیسی ، جب تک وہ شاعر کے احساس اور وجدان کا جز نہیں بنتا اس کی نظم تخلیقی تجربے میں ڈھل کر فن پارے کی شکل اختیار نہیں کرتی۔

ان کی کامیاب تر ین نظموں میں  صبح کاذب، اکویریم، اور میں اپنی آواز کھو رہا ہوں ، کے علاوہ شاپنگ، اور دور درشن، کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ’’شاپنگ ‘‘کی کامیابی کا راز اس کا درد انگیز اختتام ہے ’بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں‘ اس کا موضوع سخن ہے لیکن جدید رنگ و آہنگ میں یہ نظم کہہ کر شاعر نے اس پر اپنے دستخط ثبت کر دئیے ہیں ’’ دور درشن‘‘ یا ٹیلی ویژن، ایک ایسا جام جم ہے جس میں گھر بیٹھے آپ کو دنیا جہان کی خبر مل جاتی ہے لیکن اس نظم میں شاعر نے ایک نادر زاویہ پیش کیا ہے کہ ٹی وی میں نظر آنے والی دنیا کے مقابلے میں اس کے فکر و تخئیل کی دنیا کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔

ہٹاؤ  ٹی وی کہ  میں  بند آنکھ  سے  دیکھوں

وہ سین ابھی جو کسی کیمرے کی  زد  میں نہیں

کمال وہ جو  ابھی  چینلوں کی  حد  میں نہیں

            اس مجموعے کی ایک اور خصوصیت اس کی  ’’یک مصرعی نظمیں ‘‘ ہیں جن میں اختصار کا فن بول رہا ہے۔ اس طرح کی نظمیں غالباً سب سے پہلے مغنی تبسم نے کہی تھیں جنھیں یک سطری نظموں کا نام دیا گیا تھا۔ ( رؤف خیر کی ) یہ نظمیں زیادہ تر غزل کے ایسے آوارہ گرد مصرعے ہیں جو پہلے یا دوسرے مصرعے کے ، بقول اقبال  ’’ منت پذیر نہیں ہیں ‘‘۔ بعض ان میں بالکل معمولی ہیں جیسے  ’’ اب کی برسات میں گیلی ہوئی دیوار بہت‘‘ جو اپنی ذات میں خود مکتفی نہیں اور دوسرے مصرعے کا منہ تکتا ہوا نظر آتا ہے وہیں بعض مصرعے بڑے تیکھے اور نادرہ کار اسلوب کے نمائندہ ہیں جیسے:

یہ روز و شب !  کوئی بچہ پھرائے جیسے گلوب                           ( زندگی کا لا یعنیت)

وہ میرا بھائی ہے  !  کیا میں بھی اس کا بھائی ہوں                         ( فرقہ پرستی)

اپنی بیوی کو پرائی آنکھ سے بھی دیکھئے                                    ( نفسیاتی نکتے آفرینی)

            شاعر کو نظم اور غزل دونوں پر مکمل عبور حاصل ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کا دل غزل میں زیادہ لگتا ہے۔ اس کی غزل چیخ چیخ کر کہہ رہی ہ کہ اس پر بہت محنت کی گئی ہے۔ نو جز پر مشتمل اس مجموعہ ٔ  سخن میں چھ جز غزلوں پر محیط ہیں۔ غزل بہر حال قافیے اور رعایت لفظی کا کھیل ہے لیکن اگر گنجفہ باز خیال میں محفلوں کو برہم کر نے کی طاقت اور توانائی ہے تو قافیہ اور رعایت لفظی اس کے غلام بن کر رہتے ہیں ورنہ وہ شاعر ہی پر سواری کر نے لگتے ہیں جس کی عبرتناک مثالوں سے ہمارے شعری ادب کا ایک بڑا حصہ بھرا پڑا ہے۔ رؤف خیر کی طبعیت مشکل قافیوں میں زیادہ کھلتی ہے۔

 جیسے عبارت ، بصارت، جسارت  ؛  سن گن ، صابن، ناخن  ؛  خیر، دیر، غیر  ؛  سج دھج، کج مج، خزرج  ؛  متر، ہجر، کبر  ؛  خط ، بط غلط  ؛  بگڑنے پکڑنے لڑنے  ؛ بد، عدد ، وتد  ؛  شور، مور، چور  ؛  ڈھیر، شیر، زیر  ؛  پیروی ، دہلوی ، معنوی  ؛  ایسے ثقیل قافیوں کے با وجود شاعر نے بیشتر استادی یا بقول حسرت ماہرانہ شاعری سے اپنا دامن بچایا ہے۔ اس نے جذبے کی آنچ پر قافیوں کا پانی نہیں چھڑکا بلکہ جذبے کی آگ سے بے جان لفظوں ( قافیوں ) کو تمتما دیا ہے۔

یہ چھالا چھالا پاؤں یہ ہاتھوں کی سختیاں

  یاد آئے تتلیوں کو پکڑنے کے مرحلے

کچھ ہاتھوں سے کچھ ماتھوں سے کالک نہیں جاتی

 ہر چند کہ بازار میں صابن بھی بہت ہے

رؤف خیر کے لیے یہ بات بڑی حد تک بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے لفظ کے پودے کو اپنے لہو سے سینچ کر معانی کا پھل نکال لیا ہے اور یہ ہر کس و نا کس کے بس کی بات نہیں۔ ع۔

 ’’ انہیں کا کا م ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد‘‘  رؤف خیر ایسے ہی حوصلہ مند شاعر کا نام ہے۔

٭٭٭

’’ اقرا‘‘ ایک مطالعہ

               مصلح الدین سعدی

(  دو ماہی  ’’گلبن‘‘ لکھنو)

            رؤف خیر کے شاعر ہو نے میں کوئی کلام نہیں اور ان کی شاعری کو جو لوگ پسند کرینگے ان کے ذوق سلیم کے بارے میں بھی دو رائیں نہیں ہو سکتیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کس قسم کے شاعر ہیں :کلاسیکی ہیں ، جدید ہیں ، ترقی پسند ہیں ، یا رجعت پسند۔ بازار میں ہر قسم کا مال موجود ہے۔ ہر جنس کے تاجر اور گاہک موجود ہیں۔ چلن اور فیشن کی بات الگ ہے۔ پسند اپنی اپنی اور مذاق اپنا اپنا۔ شاعری کو جانچنے اور پرکھنے کے طریقے اور میزان الگ الگ ہیں۔ نقادوں کی تقسیم تو ہو سکتی ہے لیکن شاعری کی تقسیم نہیں ہو سکتی شاعری شاعری ہوتی ہے۔ اچھے اور سچے شعر کی تعریف (Definition)کے لیے ماہرین علم شعر سقراط کے زمانے سے ہمارے زمانے تک لفظوں کو جوڑ رہے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی کسر رہ جاتی ہے۔ ایک پہلو کو ابھارتے ہیں تو دوسرا پہلو دب جاتا ہے ایک نقطۂ نظر سے شعر فلسفہ ہے دوسرے نقطۂ نظر سے فلسفے کی تشریح۔ تیسرا نقطہ نظر کہتا ہے کہ فلسفے کی خشکی کہا ں اور شعر کہاں ؟ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ بھئی شعر تو وہی ہے کہ ادھر زبان سے نکلا اور ادھر دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گیا۔ لفظ بھی خوبصورت اور معنی بھی دلنشیں۔ اس بیان پر ایک بزرگ کو یہ اعتراض ہے کہ شعر نہ ہوا بچوں کے دل بہلانے کا کھلونا ہو گیا۔ اگر شعر کا مطلب اتنی آسانی سے سمجھ میں آنے والی چیز ہی ہوتی تو غالب جیسے بڑے شاعر کے دیوان کو شرح اور حاشئے کی ضرورت ہی لا حق نہ ہوتی۔ شعر تو فن ہے۔ ہر کہ و مہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ شعر کے لیے ضرری ہے کہ قاری یا سامع فن شناس بھی ہو اور صاحب ذوق بھی۔

            اس نقطۂ نظر سے جب ہم رؤف خیر کا پہلا شعری مجموعہ اقرا کھولتے ہیں تو قرآن حکیم کی یہ آیات دکھائی دیتی ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے ’’ پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہ تھا‘‘ ( سورہ علق)

رؤف خیر شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ نسل آدم کے ان با شعور انسانوں میں سے ہیں جو زندگی کو اتفاقی حادثہ نہیں سمجھتے۔ ان آیات قرآنی کے بعد ایک نظم ملتی ہے  ’’ امانت آنے والی ساعتوں کی‘‘

ایک پر چھائیں سی ابھری تھی /سر غار حرائے جاں /کہ جس نے عہد جہل لفظ کا ادراک بخشا/

عطا کی سارے دہرائے ہوئے لہجوں سے توفیق بغاوت/مرے سینے کو چیرا/

اپنی بے جسم انگلیوں سے اس میں کوئی چیز رکھ دی/بڑے فرسودہ ذہنوں میں مجھے مبعوث کر کے/

امانت سونپ دی سب آنے والی ساعتوں کی/ خود کہیں گم ہو گئی

٭٭٭

            رؤف خیر نے اس نظم میں سر غار حرائے جاں ، عہد جہل لفظ  اور اس کا ادراک، دہرائے ہوئے لہجوں سے تو فیق بغاوت جیسی تراکیب کے ذریعے یہ کہنا چاہا ہے کہ وہ شعر کو الہام کا درجہ دیتے ہیں۔ یہ نظم اپنے دلکش اظہار کی وجہ سے لائق اعتناء ہے۔ اس کے علاوہ شعر کے  بارے میں ان کا رویہ اور  نقطۂ نظر کو سمجھنے میں معاون بھی۔ صفحہ  ۷  پر  ڈاکٹر وحید اختر صاحب سے ملاقات ہوتی ہے۔ جیسے کوئی مصروف ترین آدمی سر راہے مل جائے۔ بڑی عجلت میں بڑے کام کی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل صفحوں میں ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر وحید اختر فرماتے ہیں کہ رؤف خیر سچے تجربے کے معتبر اظہار کا شاعر ہے۔ دیکھا آپ نے اس مرد شعر شناس نے بھی جدید و قدیم کی معروف اصطلاحوں سے بچ کر ان کے بارے میں رائے دی ہے۔

            اقراء میں رؤف خیر کی  ۵۳  غزلیں  ۲۱ نظمیں  ۱۰  سانیٹس  اور  ۲۰  ترائیلے ملتے ہیں۔ نور مستند کے عنوان سے دو نعتیں بھی ابتدا ء میں شامل کی گئی ہیں۔ ڈمی سائز کے  ۱۲۰  صفحات پر پھیلی ہوئی یہ کتاب اپنے خوبصورت گٹ اپ کی وجہ سے دیدہ زیب بن گئی ہے۔ ملک کے مشہور آرٹسٹ جناب سعید بن محمد نقش کا بنایا ہوا سر ورق سادگی میں پر کاری کی عمدہ مثال ہے۔ رؤف خیر کی وہ غزلیں جو اقراء میں انتخاب کر کے شامل کی گئی ہیں طبع زاد زمینوں میں بھی ہیں اور دوسرے شعرا کی زمینوں میں بھی۔ ان کا لہجہ ان کے لا شعور کی لہروں کو شعور کی سطح پر اجا کر کر تا ہے۔ جذبے کی بر انگیختگی تجربے کے فولاد کو موم بناتی ہے۔ تخئیل انھیں زبان کے سانچوں میں ڈھالتا ہے۔ ان کو اس بات کا احساس ہے  تخلیقی عمل کو وہ قوت نمو سے تعبیر کر تے ہیں :

یہ ریگزار پنپنے مجھے کہاں دیتا

 ابل پڑی وہ جو تھی قوت نمو مجھ میں

زمانے لد گئے ماحول ڈھال لینے کے

 اب اپنے آپ کو سانچوں میں ڈھالتے رہیے

            رؤف خیر کی غزل کے موضوعات کا اندازہ ان کی تراکیب سے ہو سکتا ہے جو ان کی قدرت اظہار پر بھی دلالت کرتی ہیں اور ان کی زبان دانی پر بھی۔ یہ تراکیب ان کی غزل کے ڈکشن کا ایک جز ہیں۔ ان کا استعمال کہیں پیکروں کی شکل میں ہوا کہیں مطلق استعاروں کی طرح اور بعض جگہ تو ان کی حیثیت علامت کی بھی بن گئی ہے۔ ان کے تخلیقی اظہار کو متعین کر نے میں ان علامتوں کو کافی دخل ہے کچھ تراکیب ملاحظہ فرمائیے۔ حریف خامشیِ مجرمانہ۔ چوبِ آتشیں۔ کافرانِ خیر۔ جہالت ہمہ دانی بے پارہ آئینہ۔ حسن تنازعات۔ دشتِ نا بلد۔ ملامتِ شہر دراز قد۔ سنگ زارِ انا۔ آسیبِ آرزو۔ پایابیِ جاں۔ شہزادگیِ  شوق۔ شاخِ تر۔ آئینہ پیراہنی۔ خاکِ خوشخبر۔ دیار کم نظراں۔ بساطِ  آئینۂ جاں۔ گواہ بر گشتہ۔ راہِ موج ہراس۔ ذائقۂ ریگِ رواں۔ قحط چہرہ۔ آئینہ کم یابی۔ خطۂ نا یافت۔ آثارِ یک خرابۂ آباد۔ مشعل محرابی۔ مرحلۂ پیش و پس۔ خرابۂ دل و جاں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ترکیبیں دو حرفی بھی ہیں ، سہ حرفی بھی  اور چہار حرفی بھی۔ ان کی خلاقانہ صلاحیت کا اظہار ان تراکیب کی شکل میں کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ ان کی غزل پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم تحیر اور مسرت کے ماحول میں آ گئے ہیں۔ شائستگی اور تہذیب کی قدروں کا عملی روح ان کے شعری رویہ کا ایک اہم عنصر ہے۔ انسان ، حیات اور کائنات  کے بارے میں وہ اپنے عصر کے حساس اور ذمہ دار آدمی کی طرح سوچتے ہیں اور ماحول پر خندہ زن بھی ہیں :رؤف خیر کی غزل اپنے عصر کی غزل میں آسانی سے پہچانی جا سکتی ہے۔

غم حیات حقیقت کا نام ہے لیکن

 غم حیات نے دھوکے بھی انتہائی دئیے

ہم اپنے قتل کا اب کس سے خوں بہا چاہیں

ہر آئینے میں تو قاتل ہمیں دکھائی دئیے

مقتل سجے ہیں کوچہ و بازار کی طرح

ہر شہر میں فساد ہے تہوار کی طرح

پیٹ بھر دینے کا وعدہ نہیں کافی یا رب

پیٹ بھر نے کے وسیلوں کو مہذب کر  دے

حیاتِ جبر سے اے دوست موت بہتر ہے

گزار زندگی لیکن ترس ترس کے نہیں

ہر بے جواز بات پہ کر تے نہ تھے یقیں

 گویا جہالتِ ہمہ دانی بھی ہم میں تھی

ابھی نگاہ کو پیغمبرانہ ہونا ہے

کہ فلسفوں کو ابھی عامیانہ ہو نا ہے

عجب پرندہ ہے ہر زد سے بچ  نکلتا ہے

پتہ نہیں اسے کس کا نشانہ ہونا ہے

ہمیں اندھیرا ہیں یہ طے ہے آپ سورج ہیں

ہمارا ہو نا مگر آپ کا نہ ہونا ہے

یہ سچ ہے رہنے کو رہتا ہے اب بھی تو مجھ میں

کوئی پرندہ ہے جیسے لہو لہو مجھ میں

رؤف خیر نے اپنی نظموں میں بھی اپنی شاعرانہ حیثیت کو بر قرار رکھا ہے ان کی نظموں کے موضوعات فلسفیانہ بھی ہیں ، نفسیاتی  اور سیاسی بھی۔ ابنِ بے اثاثہ، بونوں کا خواب،  دائرے، مستقبل، چاند بڑھیا اور کٹھ پتلی، اور نگاہِ آئینہ ساز میں ،  ان کی کامیاب نظمیں ہیں جو وحدت تاثر سے بھر پور اور حشو و زوائد سے پاک ہیں۔

            بقول سعدی رؤف خیر نے سانیٹس بھی لکھے ہیں جن پر نظموں کا گمان ہوتا ہے۔ یہ اپنے خاص موضوعات اور عمدہ اظہار کی وجہ سے اچھی نظم کہلانے کے لائق ہیں۔ خصوصاً وہ سانیٹ جو  ’’ شاعر ‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔ جو ان کے نظریہ ٔ  شعر کو بھی نمایاں کرتا ہے۔

            اب چند جملے ترائیلے کے بارے میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ان ترائیلوں میں ایک ایسی بحر بھی ملتی ہے جو متداول نہیں ہے۔ بعض استادان سخن اور عالمان شعر ممکن ہے اسے خارج از بحر قرار دیں اس لیے کہ اس بحر کا استخراج  بحور کے دوائر سے نہیں ہوتا۔ یہ بحر متقارب مثمن سالم کے قریب ہے اور اس سے ایک رکن زیادہ ہے۔ راقم الحروف کی نظروں سے اردو کے کسی شاعر کا کوئی شعر اس بحر میں نہیں گزرا۔ اپنے علم اور معلومات کی حد تک شاید اردو میں رؤف خیر ہی نے اس کو برتا ہے۔ وہ ترائیلے پیش ہے:

وہ پھر ایک شیرے کا قطرہ ہے دیوار پر

وہ مکھی کی جانب کھسکتی ہوئی چھپکلی

جھپٹتی وہ بلی شکار نمودار پر

وہ پھر ایک شیرے کا قطرہ ہے دیوار پر

وہ بلی پہ غراتا کتا گرا  چار پر

لگا شہر میں کرفیو ایک بھگدڑ مچی

وہ پھر ایک شیرے کا قطرہ ہے دیوا رپر

وہ مکھی کی جانب کھسکتی ہوئی چھپکلی

اس عالمانہ انکسار کی وجہ سے ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔

لگا ہی کیا ہے ابھی ہاتھ سیپیوں کے سوا

رؤف خیر  سمندر  کھنگالتے  رہیے

 

وہابی شاعر

               مضطر مجاز

۲۸  جون ۱۹۹۸ء  روز نامہ ’’  منصف‘‘  حیدرآباد  )

            محمد عبدالرؤف جو رؤف خیر کے ادبی نام سے ادبی دنیا میں  پہچانے جاتے ہیں  ۵  نومبر ۱۹۴۸ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے ویسے ان کا آبائی وطن شاہ پور( کرنا ٹک)ہے (شاہ پور نہیں بلکہ سگر صحیح مقام ہے۔ صبیحہ ) غالباً شاذ تمکنت کے بعد وہ حیدرآباد کے واحد شاعر ہیں جو انڈو پاک کے تمام ادبی اور علمی جرائد میں شائع ہو کر علمی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام بن چکے ہیں۔ ان کی اس تیز رفتار اشاعت پذیری کے لیے عزیزی یوسف کمال کی یہ بات بہت مشہور ہے کہ وہ غزل پہلے پوسٹ کارڈ پر لکھتے ہیں اور بعد میں اپنی بیاض میں۔ وہ مشاعروں میں بھی غالباً سب سے زیادہ ملک بھر میں بلائے جاتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ حیدرآباد ہی کے بڑے مشاعروں میں انہیں مدعو نہیں کیا جاتا۔ غالباً اس کا وہی جانا ما نا سبب ہے کہ  ’’ حضور نظامان ادب‘‘ کو  کورنشات بجا لانا انہوں نے نہیں سیکھا۔

            رؤف خیر نظم اور غزل دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے بھی نظمیں لکھی ہیں جو آندھرا  اور  مہاراشٹرا کے نصابوں میں شامل ہیں۔ ان کی شاعری جدید ہوتے ہوئے اہمال اور لا یعنیت کا شکار نہیں ہے۔ فن اور زبان پر ان کو بے پناہ قدرت حاصل ہے جس میں ان کے وسیع مطالعے اور حیدرآباد کے استاد شاعر اوج یعقوبی کی تربیت کا بھی بڑا دخل معلوم ہوتا ہے محاورہ زبان اور فن عروض ان کی دانست میں بہ منزلہ دین و ایمان ہیں۔ اس سے کسی طرح کی آزادی ان کے پاس گویا عقیدے سے کھلواڑ ہے۔ وہ نہ صرف اس کی متقیانہ پابندی کر تے ہیں بلکہ کسی دوسرے کے یہاں بھی یہ نقائص دیکھتے ہیں تو اس کی گرفت کر نے سے نہیں چوکتے اور جرائد و رسائل میں مراسلہ طرازی کے ذریعے اس کو الم نشرح کر دیتے ہیں۔ چاہے وہ نام کتنا ہی چھوٹا یا بڑا ہو بلکہ جس قدر بڑا نام ہو ان کا جذبہ ایمانی اسی قدر زیادہ جوش مارتا ہے۔

            رؤف خیر کی شاعری کا ایک اہم وصف اس کی مذہبی حسیت ہے وہ خود ایک پکے مذہبی آدمی ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور علائم ان کی شاعری میں بظاہر بڑی بے ساختگی کے ساتھ آتے ہیں جبکہ وہ ایک ایک مصرعے پر بڑی محنت کر تے ہیں۔ انہیں بڑے سلیقے سے آمد کو آورد بنانے کا فن آتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے اور  ’’ اقبال کے اسلوبیاتی ارتقاء‘‘ پر ایک عرصے سے ریسرچ کر رہے ہیں  لیکن تحقیق اور تخلیق کے متوازی خطوط کو ابھی تک وہ ملا نہیں پائے البتہ پچھلے چند سال سے تنقید سے ان کو یک گونہ دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ چنانچہ پچھلے سال  ’’خط خیر ‘‘ کے نام سے ان کے تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ قبل ازیں ان کے تین شعری مجموعے ’’ اقراء ، ، ( ۱۹۷۷ء) ایلاف ( ۱۹۸۲ء) اور شہداب( ۱۹۹۳ء) شائع ہو چکے ہیں۔ آخر الذکر مجموعے میں پچھلے دو مجموعوں کی چند تخلیقات بھی شامل کر لی گئی ہیں تا کہ غافلان ادب مستفیض ہو سکیں۔ تنقید لکھتے وقت وہ فن کے ساتھ فرد کو بھی در میان میں لے آتے ہیں وہ فن اور فرد کی دوئی کے قائل نہیں جس سے بعض اوقات بڑی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں جبکہ یہ بات اب پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ دوران تخلیق فنکار کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے اور وہ ، وہ نہیں رہتا جو وہ ہے۔ غالب سے بائرن تک ہر زبان کے ادب میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ ان کی شاعری پر  ظ انصاری سے لے کر شمس الر حمن فاروقی تک بیشتر جغادریان ادب نے بڑے بھر پور تبصرے کئے ہیں  ظ  انصاری نے ان کے مجموعے  ’’ ایلاف‘‘ کو گیلی لکڑیوں میں صندل کی مہکی ہوئی ٹہنی کا نام دیا ہے۔ (ظ  انصاری نے در اصل  ’’اقرا‘‘ کے لیے یہ کہا تھا۔ صبیحہ) فاروقی کے الفاظ میں  ’’ کلام کی صلابت ‘‘ اور  ’’لہجے کے اعتماد ‘‘ سے ان کی شاعری عبارت ہے۔ ان کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ ’’ وہ استعارے اور علامت پر نظم کی بنیاد نہیں رکھتے بلکہ پوری نظم ہی کو استعارہ بنا دیتے ہیں ‘‘۔ انہوں نے بعض قومی اور بین قومی سیاسی موضوعات پر بڑی خوبصورت علامتی نظمیں بھی لکھی ہیں جس کی وجہ سے ان میں ایک تہہ داری اور آفاقیت پیدا ہوئی ہے۔ وہ صحافتی انداز کی راست بیانیہ نظمیں نہیں لکھتے۔ وہ اس راز سے واقف ہیں کہ استعارہ اور علامت شاعری کی جان ہے۔ رؤف خیر میں ایک مسابقتی اسپرٹ بھی پائی جاتی ہے۔ جب ایک نئی صنف سخن ترائیلے کا غلغلہ اٹھا تو انہوں نے اس صنف میں ترائیلوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ جب غالب اور اقبال کے منظوم تراجم کا شور شرابا شروع ہوا تو انہوں نے یہ ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھا لی جس میں استعداد سے زیادہ مستعدی اور  وارفتگی سے زیادہ فراست کارفرما نظر آتی ہے۔ جب بھی کوئی نئی زمین انہیں اپیل کرتی وہ بڑی مستعدی سے اس زمین میں غزل کہہ لیتے ہیں اور اسی مستعدی سے اسے چھپا بھی لیتے ہیں۔ اچھی شاعری کے لیے فراست اور  وارفتگی کے امتزاج کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔ رؤف خیر کے فن میں ابتدا میں یہ دونوں عناصر بڑے توازن کے ساتھ ہم آمیز تھے۔ آہستہ آہستہ فراست کا پلڑا جھکتا نظر آتا ہے۔ ممکن ہے یہ عمر اور تجربے کا تقاضہ ہو۔ رؤف خیر ان گنے چنے شاعروں میں سے ہیں جن کی نظموں کے انگریزی تراجم ہو کر اینتھا لوجیز میں شامل ہو چکے ہیں۔

            یہ امر یقیناً قابل ستائش ہے کہ اتنے کم عرصے میں کہ بمشکل ابھی ان کی عمر   پچاس  (۵۰)  سال ہے انہوں نے قابل قدر شعری اور علمی ذخیرے سے زبان کو مالا مال کیا ہے جبکہ ان کی تخلیقی عمر بمشکل  بیس  پچیس  سال  ہو سکتی ہے۔ اہل اردو کو ابھی ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں ایک انٹلکچویل ہو نے کے ناطے وہ کبھی نچلے نہیں بیٹھتے۔ آج کل ان کی تو جہات ترجموں اور تنقید نگاری کی طرف ہے۔ انہیں ریسرچ سے یا خود پر ریسرچ کروانے سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں معلوم ہوتی ہے۔ شاید موخرالذکر امر بھی قبل از وقت بھی ہے تا ہم علمی و تخلیقی معاملات میں سعی پیہم ہی ترازوئے کم  و کیف حیات ہے  نہ کہ شمار صبح شام۔

 

مترجمین اقبال ایک تقابلی مطالعہ

               ڈاکٹر فخر عالم اعظمی

جدید لب و لہجے کے مشہور شاعر اکملؔ حیدرآبادی مرحوم کہا کر تے تھے کہ دنیائے شعر و ادب نے حیدرآبادی شعرا کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ انھوں نے راقم الحروف سے ایک ملاقات میں کہا کہ حیدرآباد میں شاعری کا Production  اچھا ہے لیکن اس کی صحیح Marketing نہیں ہوئی۔ لیکن رؤف خیر کی شاعری اس کلیے سے مستثنیٰ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لئے نقادوں کی شاہ راہ سے گزر نے کے لیے Green Signal کا انتظار کر نے کے بجائے خود اپنی پگڈنڈی بنانا زیادہ مناسب سمجھا اور وہ اس وادیِ پُر خار میں آبلہ پا بھی ہوئے اور دامن دریدہ بھی۔ لیکن ہم آغوش منزل ہو نے کے بعد انھوں نے اپنے آبلے کی ایک ایک بوند اور دامن کے ایک ایک تار کی قیمت وصول کر لی۔ یہاں تک کہ آج وہ ہند و بیرون ہند اپنی شہرت کے لیے کسی وسیلے کے محتاج نہیں۔ وہ جہاں جہاں گئے ان کی شہرت ان کے استقبال کے لیے موجود تھی۔

            رؤف خیر کے شعری ذوق کی سیمابیت نے انہیں کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ان کا بربط سخن قناعت و استغنا کے سکوت کے بجائے ھل من مزید کے زیر و بم سے گونجتا رہا اور ان کے طائر فکر نے تخلیق کے آسمانوں کی سیر پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی پرواز کا رخ بلندیوں کے بعد پہنائیوں کی طرف موڑ دیا اور منظوم ترجمے کو وقار اور اعتبار عطا کر نا اپنا ادبی فریضہ سمجھا۔ ایک شاعر کے لیے جو تخلیق کے میدان میں شہرت و مقبولیت کے براق کا سوار ہو ، منظوم ترجمے کی دعوت مبارزت قبول کر نا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے کیوں کہ اس کی ساکھ متاثر ہو نے کا اندیشہ رہتا ہے۔ غالباً یہی سبب ہے کہ فیض جیسے شاعر نے اقبال کی فارسی تصنیف  ’’ پیام مشرق‘‘ کے انہیں حصوں کو منظوم ترجمے کے لیے منتخب کیا جن میں وہ اپنی شاعرانہ حیثیت بر قرار رکھ سکتے تھے ورنہ منظوم ترجمے کے میدان میں خام کاروں اور دوسرے درجے کے تخلیق کاروں کی بڑی تعداد وارد ہوئی اور اس امید کے ساتھ کہ بلند قامت شعرا کی تخلیقات  کے ترجمے کے زینے کی مدد سے وہ بام شہرت تک رسائی حاصل کر لیں گے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوئے تو گوہر مراد ہاتھ لگا ورنہ سابقہ حیثیت تو برقرار ہے ہی۔ نتیجتاً ایسے سستے اور شاعر کے منشا کے بر عکس ترجمے سامنے آئے جنہیں دیکھ کر John Ciardi   کو مترجمین کی کاوشوں پر

 "… No more than the best possible failure  اور Frost   کو  Poetry is what disappears in translation     جیسے ریمارکس کر نے پڑے اور یہ مشکل اس لئے بھی پیدا ہوئی کہ شاعر کے جذبات ، احساسات ، کیفیات بین السطور صوتی آہنگ صنائع بدائع اور لطیف قوافی جیسی بہت سی خوبیاں ہیں جنھیں منظوم ترجمے کے شیشے میں اتار نا ایک کار محال ہے۔ ان سب سے کہیں بڑی مشکل اس وقت پیدا ہو تی ہے جب مترجم سے نفی ذات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ایسے مشکل حالات میں ایک ایسے شاعر کا منظوم ترجمے کے چیالنج کو قبول کر نا جو کسی شہرت اور تعارف کا محتاج نہ ہو، یقیناً لائق تحسین اور قابل قدر کارنامہ ہے۔ رؤف خیر منظوم ترجمے کے میدان میں نو وارد ہیں اس لیے ان کے تراجم کا  سرمایہ کچھ زیادہ نہیں ہے۔ صرف ایک مجموعہ منظر عام پر آیا ہے جو اقبال کے فارسی مجموعہ کلام پر مشتمل ہے۔ اور  ’’ قنطار ‘‘ کے نام سے شائع ہو کر ادبی حلقوں سے زبر دست خراج تحسین حاصل کر چکا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ دو برسوں کی قلیل مدت میں اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہو چکا ہے۔ ترجمے کے میدان میں اگر چہ کہ نو مشق ہیں تا ہم اس نو مشقی کے با وجود تراجم میں کہیں خام کاری باریاب نہیں ہو سکی ہے بلکہ بعض تراجم پر تو کسی پختہ مشق بلکہ کہنہ مشق مترجم کے شاہکار ہو نے کا گمان ہوتا ہے۔ ان تراجم کے ذریعہ رؤف خیر نے یہ ثابت کر دیا کہ ایک قادر الکلام شاعر جس زمین پر قدم رکھتا ہے اسے آسمان کر دیتا ہے۔ چند مثالیں دیکھئے۔ :

   بباغاں باد فرور دیں دہد عشق

براغاں غنچہ چوں پرویں دہد عشق

                 شعاع مہر او قلزم شگاف است

بماہی دیدۂ رہ بیں دہد عشق        (اقبال)

چمن کو عشق دے باد بہاری

  ستاروں جیسی کلیاں جنگلوں کو

                   کرن اس کی سمندر چیر ڈالے

  دکھاتا ہے وہ رستہ مچھلیوں کو              (رؤف خیر)

کچھ اور فاضل مترجمین کے تراجم ملاحظہ فرمائیے:

     ہیں  باغوں کی بہاریں عشق ہی سے

  ہیں جوں پرویں بنوں میں پھول بکھرے

       سمندر کی تہیں بھی اس سے روشن

     وہاں  ماہی  کو یہ  رستہ  دکھائے (سید احمد ایثار)

           گلستاں میں ہے باغ فرودیں عشق

  بیاباں میں ہے غنچہ آفریں عشق

           شعاع   مہر ہے  دریا  میں  گویا

 کہ ماہی کو ہے چشم راہ بیں عشق    ( حضور احمد سلیم)

چمن میں عشق سے باد بہاراں

  کرے صحرا کو غنچوں سے چراغاں

                 دکھائے راہ ماہی کو تہہِ آب

  شعاعوں  سے لہریں فروزاں            ( فیض احمد فیض)

            چمن میں عشق لاتا ہے بہاریں

  کھلائے گل دمن میں مثل پرویں

              شعاع  مہر اس  کی  چیرے  قلزم

  وہی مچھلی کو بخشے چشم رہ بیں                   (مضطر مجاز)

مذکورہ تراجم میں سید احمد ایثار اور حضور احمد سلیم نے ترجمانی کے ذریعے ترجمے کا حق ادا کر نے کی کوشش کی ہے۔ ان کے تراجم اقبال کی فکر کو اپنے قالب میں ڈھالنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں تا ہم فن ترجمہ کے نقطۂ نظر سے انہیں بہت مستحسن نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حضور احمد سلیم کے ترجمے کے دوسرے مصرعے میں  ’’ پروین‘‘ اور سید ایثار  کے تیسرے مصرعے میں  ’’ شعاع مہر‘‘ کا ترجمہ نہ ہو نے سے تمثیل کا حسن مجروح ہوا ہے۔ عموماً ہر شاعر اور خصوصاً اقبال جیسے شاعر کی تخلیقات کا ترجمہ کرتے وقت مترجم کے پیش نظر یہ حقیقت رہنی چاہیے کہ ان کی شاعری کی آرائش جمال میں تمثیلوں اور علامتوں کے رنگ و روغن کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مزید بر آں اردو اور فارسی کے علامتی اور استعاراتی نظام کے تقریباً یکساں ہو نے سے مترجم کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ فیض نے  ’’ پروین ‘‘ کا ترجمہ  ’’ چراغ‘‘ سے کر کے مصرعہ روشن کر دیا ہے اگر چہ کہ  ’’ چراغ‘‘   ’’ پرویں ‘‘ سے فروتر ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے چوتھے مصرعے میں  ’’ مہر ‘‘ کا ترجمہ نہیں کیا۔ رؤف خیر کا ترجمہ خوبصورتی اور وفا داری دونوں معیار پر پورا اتر تا ہے۔ خصوصاً مصرع ثانی  ’’ ستاروں جیسی کلیاں جنگلوں کو ‘‘ بے پناہ ہے  اور  تیسرے مصرعے میں تو اقبال کے اسلوب کی دلکشی اور سادگی اور ان کے لہجے کی روانی ، برجستگی اور بے ساختگی غیر محسوس طریقے سے اس طرح در آئی ہے کہ ترجمے کا حق ادا ہو گیا ہے حالانکہ انہوں نے بھی  ’’ مہر‘‘ کے بغیر  ’’ کرن‘‘ پیدا کی ہے اور ترجمہ نگاری کی رو سے ان کا یہ عمل قابل تحسین بھی ہے اور قابل گرفت بھی

 ’’ کرن ‘‘ کی مناسبت سے سورج کا استعمال احسن ہے اور یہ کام سب سے بہتر طریقے سے مضطر مجاز نے کیا ہے  ’’ شعاع مہر اس کی چیرے قلزم ‘‘ اور ان کا ترجمہ بہ حیثیت مجموعی مذکورہ تراجم  سے بہتر ہے ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے:

سحر دم شاخسارِ بوستانے

 چہ خوش می گفت مرغے نغمہ خوانے

برآور ہر چہ اندر سینہ داری

 سرودے نالۂ آہے،  فغانے                        (اقبال)

رؤف خیر کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:

چمن کے شاخ  ساروں میں گجر دم

 کہا کیا خوب  مرغ  خوش سخن  نے

سرود  و  نالہ و آہ و فغاں سب

  ترے دل میں ہے جو کچھ سب اگل دے

چند اور تراجم دیکھیں :

سحر کو  شاخسار  بوستاں  سے

کہا کیا خوب  مرغ خوش نوا نے

زباں پر لا جو کچھ مخفی ہے دل میں

  فغاں  ہو نغمہ ہو  کوئی کہ نالے           ( سید احمد ایثار)

سنا ہے  ایک  ٹہنی  پر  دم  صبح

یہ کہتا تھا کوئی مرغ چمن زاد

نہاں جو کچھ ہے سینے میں عیاں کر

وہ  نغمہ ہو کہ  نالہ ہو کہ فریاد (حضور احمد سلیم)

سحر گہ ایک شاخ بوستاں پر

 یہ گاتا  تھا  کوئی  مرغ  نوا گر

کوئی نغمہ ہو یا آہ و فغاں ہو

 سنا دے جو بھی ہے سینے کے اندر    (فیض)

سحر دم شاخسار بوستاں میں

 کہا کیا خوب  مرغ  نغمہ خواں نے

سرود و نالہ و آہ و فغاں  ہو

 اگل دے جو بھی ہے سینے میں تیرے (مضطر مجاز)

سید احمد ایثار نے ’’ در شاخسار‘‘ کا ترجمہ  ’’ شاخسار سے ‘‘کر دیا ہے  حالانکہ اس مقام پر  ’’ در‘‘ کا درست اور ہم وزن اردو مترادف  ’’ میں ‘‘ رکھا جا سکتا تھا۔ علاوہ ازیں اس سے مفہوم بھی مختلف ہو گیا ہے۔ بادی النظر میں یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ مرغ خوش نوا نے شاخسار بوستاں سے کہا ( یعنی مخاطَب شاخسار بوستاں ہے) جبکہ اقبال کا مفہوم اس کے عین بر عکس ہے یعنی مرغ خوش نوا نے شاخسار بوستاں سے کہا۔ مزید بر آں چوتھے مصرعے میں واحد الفاظ کی صف میں  ’’نالے ‘‘کو صیغۂ جمع میں استعمال کر نا کھٹکتا ہے ویسے بھی مفہوم کی بہتر ادائیگی اور اسلوب میں تاثیر پیدا کر نے کے لئے الفاظ کو جمع کے بجائے واحد کے صیغے میں استعمال کر نا زیادہ کار گر اور مفید ثابت ہوتا ہے۔ حضور احمد سلیم نے مصرعے کا آغاز ’’ سنا ہے ‘‘سے کیا ہے جس میں غرابت کا احساس ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں  ’’ چہ خوش می گفت‘‘ کا ترجمہ یہ کہتا تھا غیر درست بھی ہے اور غیر فصیح بھی۔ باقی مصرعے عمدہ ہیں اور چوتھے مصرعے میں کوئی متر جم ان کا ہمسر نہیں۔ فیض کے سبھی مصرعے کسی قسم کے سقم سے پاک ہیں۔ ان میں روانی موجود ہے تا ہم وہ تخلیقی چاشنی نہیں پید ہو سکی جو فیض سے متوقع ہے علاوہ ازیں انھوں نے  ’’ چہ خوش می گفت‘‘ کا ترجمہ  ’’ گاتا تھا کیا ہے جو پرندے کی مناسبت سے شاید درست ہو لیکن اصل کی خوبیوں سے عاری ہے۔ حالانکہ بڑی آسانی کے ساتھ اس کا ہم وزن اردو ترجمہ  ’’ کیا خوب‘‘ کیا جا سکتا تھا  جیسا کے رؤف خیر اور مضطر مجاز نے کیا ہے۔ رؤف خیر کے ترجمے میں  ’’ کہا کیا خوب‘‘ جزو مابعد  ’’ یعنی  ’’مرغ خوش سخن‘‘ کی مناسبت سے مزید حسین اور دلکش ہو گیا ہے۔ ترجمے کے سفر میں ایسے ہی مقامات پر مترجم در پردہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھی لوہا منوا لیتا ہے اور یہی مقام ہو تا ہے جہاں متشاعر کی قلعی کھل جاتی ہے اور شاعر وجدان کی دولت خدا داد سے بھر پور استفادہ کرتا ہے۔ منظوم ترجمہ نرا  میکانیکی عمل نہیں ہے۔ میکانکی عمل کے ذریعے وجود میں آنے والے تراجم خشک اور بے مزا ہو تے ہیں نتیجتاً قاری مطالعے کی شاہراہ پر ایسے تراجم کی رفاقت تا دیر گوارا نہیں کر سکتا۔ عمدہ ترجمے کے لیے مضطر مجاز نے بجا کہا ہے کہ  ’’ جب تک ترجمہ نیم وجدانی عمل نہیں بنتا ، بات نہیں بنتی‘‘ البتہ رؤف خیر کے تیسرے اور چوتھے دونوں مصرعوں میں ایک ہی قبیل کے الفاظ ( سرود، نالہ، آہ، فغاں ) کے لیے دو مرتبہ سب آیا ہے جو حشو قبیح ہے۔ بہ حیثیت مجموعی رؤف خیر کا ترجمہ سلاست ، روانی اور دلکشی کی خوبیوں سے پُر ہے۔

ایک اور قطعہ کا ترجمہ ملاحظے فرمائیے:

رہے در سینۂ انجم کشائی

 ولے از  خویشتن  نا آشنائی

یکے بر خود کشا چوں دانہ چشمے

  کہ از زیر زمیں نخلے بر آئی   (اقبال)

بنایا  سینۂ انجم  میں  رستہ

  خود  اپنی  ذات  سے   نا واقفیت

شجر اک تیری ہی مٹی سے پھوٹے

 کھلے خود پر جو تُو کونپل کی صورت     (رؤف خیر)

کمند  اپنی  ستاروں پر  تو پھینکی

  مثال دانہ خود پر بھی نظر کر

تو اے نادان !  خود سے آشنا ہو

 درون خاک سے پیدا شجر کر           ( مضطر مجاز)

خبر رکھتا ہے تاروں کے نہاں سے

نہ جانے تو نے پر احوال اپنے

ذرا  دیکھ آپ خود کو مثل دانہ

  زمیں سے تا کہ پودا بن کے نکلے       ( سید احمد ایثار)

مذکورہ تراجم میں ہر متر جم اپنی اپنی جگہ کامیاب نظر آتا ہے ہر ترجمے کے مخصوص اور منفرد پیکر میں اقبال کی روح رواں دواں ہے۔ سید احمد ایثار کے ترجمے کا پہلا مصرع ذرا کمزور ہے حالانکہ اس میں کوئی فنی سقم نہیں تا ہم  ’’ رہے در سینہ انجم کشائی‘‘ والی بات  ’’ خبر رکھتا ہے تاروں کے نہاں سے ‘‘ میں نہیں پیدا ہو سکتی۔ باقی تینوں مصرعے متن کی قربت اور نفس مضمون کے ساتھ وفا داری کے لحاظ سے لائق تحسین ہیں۔ مضطر مجاز کا ترجمہ تخلیقی ترجمے کے تمام محاسن اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے حالانکہ انہوں نے  ’’ تو اے نادان‘‘ کا اضافہ کیا ہے لیکن تخلیق کی روح ترجمے کے قالب میں اثر انگیز طریقے سے منتقل کر نے کے لیے ہئیت کی پیوند کاری کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے۔ مذکورہ  ہئیت کا اضافہ کر کے مضطر مجاز نے عمدہ ترسیل کا حق ادا کر دیا ہے رؤف خیر کے پہلے اور دوسرے مصرعے حسن اسلوب ، بندش کی چستی اور متن کی قربت کے لحاظ سے عمدہ ترجمے کے معیار پر پورے اتر تے ہیں۔ تیسرے اور چوتھے مصرعے بھی اصل مافیہ کو واضح کر نے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ خصوصاً   ’’خود پر کونپل کی صورت کھلنا ‘‘ لا جواب ہے  البتہ مترجم سے اتنا تسامح ہوا ہے کہ اس نے  ’’ دانہ‘‘ کے استعمال کئے بغیر کونپل پیدا کی ہے جبکہ دانے کے بغیر کونپل کا وجود نہیں۔ تا ہم یہ صرف ہئیت کی بحث ہے ورنہ فکر اقبال کی بادۂ تیز و تند  رؤف خیر کے ترجمے کے جام میں کمال کیف و سرور کے ساتھ رقص کناں ہے۔ مترجم نے کلام میں حسن اور زور پیدا کر نے کے لیے تیسرے مصرعے کو موخر اور چوتھے کو مقدم کر دیا ہے جو کوئی عیب کی بات نہیں۔ ترجمہ در اصل شاعر کی مراد اور منشا کا ہوتا ہے نہ کہ لفظوں اور مصرعوں کا۔ Edward Roditi   کا یہ قول بڑی اہمیت کا

حامل ہے The sprit of poetry resides entirely in its body”  ترجمہ اسی روح کا ہوتا ہے۔ ایک قادر الکلام مترجم کسی زبان کی روح کو اپنی زبان کے قالب میں کمال احتیاط و شعور کے ساتھ اس طرح اتار لیتا ہے کہ تخلیق و ترجمہ ’من جاں شدم تو تن شدی، کے مصداق بن جاتے ہیں اور بلا شبہ وہ اس فریضے سے بحسن و خوبی عہدہ بر آ  ہوئے ہیں۔ ان کے تراجم کے محاسن با ذوق قاری کے دامن دل کو بے ساختہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ ان تراجم میں معائب کا گزر کم سے کم ہے۔ یوں تو خامیاں کس میں نہیں ہوتیں تا ہم ترجمے کی صراط مستقیم پر رؤف خیر بہت کم لغزش پا کے شکار ہوئے ہیں اور جو کچھ اسقام سر زد ہوئے ہیں وہ کسی بت کافر کی طرح اتنے حسین ہیں کہ انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے وہ گویا کہہ رہیں ہوں۔ ع۔ حق کی تمیز ہوتی ہے باطل کے سامنے۔ قنطار رؤف خیر کی منزل نہیں ہے یہ ان کے سفر کا پہلا اور عارضی پڑاؤ ہے۔ اب ان کے شائقین اور قارئین کو اس ضمن میں ان سے بڑی توقعات وابستہ ہو گئی ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کو بلا شبہ اس بات کی خوشی ہو گی کہ ان کے ہیرو کی کثیر الجہات شخصیت کا ایک اور روشن پہلو سامنے آیا ہے۔ اپنے ترجمے کی لذت سے آشنا کر کے انھوں نے اپنے چاہنے والوں کی تشنگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور وہ ھل من مزید کی صدا بلند کر نے لگے ہیں۔ رؤف خیر کی فیاضی قلم سے یہ امید ہے کہ وہ تشنگان شوق کو  لا تقنطو ا  کے جواب سے نوازیں گے۔ میخانۂ اقبال میں رندان بلا نوش کاجم غفیر بھی ہے اور اقبال کے فارسی کلام کی  ’’ رگ تاک ‘‘ میں  ’’ بادۂ نا خوردہ‘‘ کی وافر مقدار بھی  اور یہ دونوں رؤف خیر کے ہنر بادہ سازی کے منتظر ہیں۔

(ماہنامہ  ’’سب رس‘‘ حیدرآباد۔ جون  ۲۰۰۴ء)

(ڈاکٹر فخر عالم اعظمی نے اقبال کے فارسی تراجم ہی پر حیدرآباد یونیورسٹی سے  پی ایچ ڈی  کی ہے)

 

مجموعہ کلام  شہداب   کا پیش لفظ

            رؤف خیر کا مداح  میں ایک زمانے سے ہوں پھر جب جدیدیت کا بازار گرم ہوا تو وہ شعرا جن کا رنگ کلام اور طرز فکر گویا از خود اس نئے لہجہ و آہنگ کا نمونہ ٹھہرا ، ان میں رؤف خیر بھی تھے لیکن بہت سے دوسرے نئے شعرا کی طرح انہوں نے جدیدیت کی گرمیِ بازار سے فائدہ اٹھا کر دھڑا دھڑ مجموعہ کلام کی بارش نہیں کر دی بلکہ سوچ سوچ کر کہتے رہے، اپنے کلام کو اپنی ہی تنقیدی نظر سے پرکھتے رہے، فن کے پرانے اسالیب کو بھی صحیح تناظر میں رکھ کر دیکھنے کی کوشش کر تے رہے۔ اس بنا پر ان کا پہلا مجموعہ  ’’ اقرا‘‘ ۱۹۷۷ء نظر بظاہر دیر میں سامنے آیا لیکن کلام کی صلابت اور لہجے کے اعتماد کی بناء پر اسے بہت جلد جدید شاعری کے عمدہ نمونوں میں شمار کر لیا گیا۔ یہی عالم رؤف خیر کے دوسرے مجموعے  ’’ایلاف ‘‘۱۹۸۲ء  کا تھا۔ اس وقت تک رؤف خیر کی حیثیت نئے شعرا کی محفل میں پوری طرح مستحکم ہو چکی تھی۔ اب جو رؤف خیر کا تیسرا مجموعہ  ’’ شہداب‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے تو مجھے ایک تازہ مسرت کا احساس ہو رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نویں اور دسویں دہائی کے شعرا کچھ بھی کہیں لیکن ساتویں دہائی کے شعرا نے زندگی کو برتنے اور اسے شعر میں بالواسطہ طور پر سمونے کا جو ڈھنگ دریافت کیا تھا وہ آج بھی سکہ رائج الوقت ہے  اور آج کے کسی شاعر کو رؤف خیر جیسے شاعر سے معاملہ کئے بغیر چارہ نہیں۔ رؤف خیر نے زندگی کو ایک ایسے شخص کی طرح دیکھا ہے جو اچانک کسی محفل میں بٹھا دیا گیا ہو لیکن اس محفل کے آداب اور اس کی زبان سے وہ نا بلد ہو۔ کوشش کے با وجود نووارد کو ایسی محفل تھوڑی بہت معاند ، تھوڑی بہت نا مفہوم اور تھوڑی بہت نا قابل برداشت لگے گی۔ معاندت اور نا مفہومی کے تجربے کو رؤف خیر نے کہیں بھائی بھائی کی مغائرت، کہیں گزشتہ شعری اسالیب سے انکار ، کہیں سر کس کے جانوروں کی قید با مشقت کے استعاروں سے ظاہر کیا ہے۔ رؤف خیر نے استعارہ اور علامت پر نظم کی بنیاد رکھنے کے بجائے پوری نظم کو استعارہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ غزلوں میں رؤف خیر اپنے لہجے کی بناء پر پہچانے جاتے ہیں۔ اس لہجے میں شدت اور کسی بات کو بڑے یقین یا زور سے کہنے کی کوشش کے بجائے ایک ایسی خاموش ، بظاہر پر سکون لیکن بباطن گونجتی ہوئی روح کی لا تعلقی کی زبان استعمال ہوئی ہے جو خود ترحمی ، گریہ و بکا اور آہ و فغاں کے بجائے ٹھنڈی، تقریباً لا شخصی اور حکیمانہ ہے لیکن اس میں مربیانہ رنگ نہیں کیوں کہ ان غزلوں کا متکلم خود کو آپ ہی کی سطح پر رکھ کر گفتگو کرتا ہے۔ شہداب نہایت عمدہ مجموعہ ہے میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

شمس الرحمن فاروقی  (۱۲ جون ۱۹۹۳ء۔ نئی دہلی)

 

معروف شاعر رؤف خیر سے ملاقات

(جدہ میں لیا گیا انٹر ویو)     

               ملاقاتی  :  رشید انصاری  جدہ

(مطبوعہ روز نامہ  ’’ منصف‘‘ حیدرآباد۔ ۴ اگست ۲۰۰۲ء)

     حیدرآباد دکن کے جو شعرا ملک بھر کے مختلف شہرو ں میں منعقد ہو نے والے اہم مشاعروں میں زیادہ بلائے جاتے ہیں اُن میں رؤف خیر کا نام سر فہرست ہے۔ رؤف خیر جن کا اصلی نام محمد عبدالرؤف ہے حیدرآباد میں ۵ نومبر ۱۹۴۸ء کو پیدا ہوئے۔ مدرسہ فوقانیہ مستعد پورہ ، اردو آرٹس کالج اور جامعہ عثمانیہ میں تعلیم کے مراحل طے کرتے ہوئے اردو سے ایم اے کیا اور پیشۂ تدریس سے وابستہ ہوئے۔

            بچپن میں کہانیاں لکھیں جو  روزنامہ  ’’ رہنمائے دکن‘‘ میں شائع ہوتی تھیں پھر شعر کہنے پر مائل ہوئے۔ ابتدائی کلام رہنمائے دکن میں شائع ہوا۔ ۱۹۶۸ء میں اپنے دور کے ممتاز رسالے ’’ شمع‘‘ میں ان کی غزل شائع ہوئی تھی۔ جن اہم رسالوں میں ان کا کلام شائع ہوتا رہا ہے اُن میں الشجاع، سیپ، افکار، سیارہ، (پاکستان)شب خون، شاعر، کتاب نما، وغیرہ شامل ہیں۔ ۱۹۸۵ء میں بھوپال میں منعقدہ کل ہند مشاعرہ میں شرکت سے کل ہند مشاعروں میں شرکت کا آغاز ہوا۔ شعر کہنے کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی لکھتے ہیں۔ اقبال کے فارسی کلام کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ لالہ طور( پیام مشرق) کے  ۱۶۳  فارسی  قطعات کا  اردو میں ترجمہ (قنطار)شائع ہو چکا ہے۔ شعری مجموعے  ’’ اقرائ‘‘ ۱۹۷۷ء   ’’ ایلاف‘‘ ۱۹۸۲ء   ’’ شہداب‘‘  ۱۹۹۳ء  شائع ہو چکے ہیں (ان کے علاوہ بعد میں  ’’ سخن ملتوی‘‘ ۲۰۰۴ء بھی شائع ہوا۔ صبیحہ)علاوہ ازیں تنقیدی مضامین  ’’ خط خیر‘‘ کے نام سے ۱۹۹۷ء میں اور شرک و بدعات کی رد میں ایک کتاب ’’ حیدرآباد کی خانقاہیں ‘‘ ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئی۔

س:       اردو بر صغیر ہندو پاک سے نکل کر مشرق وسطیٰ ، برطانیہ اور شمالی امریکہ کے مختلف شہروں  ٹورنٹو، اور شکا گو کے علاوہ خاص طور پر  جدہ ، دبئی، لندن، وغیرہ میں اپنا رنگ جما رہی ہے۔ ان ممالک میں اردو کی مقبولیت اور فروغ کے بارے میں آپ کے بہ حیثیت ادیب و شاعر اور اردو کے استاد (لکچرر)کیا  تاثرات ہیں  ؟

ج:       بیرون ہند اردو کا فروغ ہو رہا ہے یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ ان علاقوں میں مستقل یا عارضی قیام کر نے والوں کی اردو  اور  اردو ادب سے دلچسپی مشاعروں اور جلسوں کا انعقاد بلکہ اخبارات و رسائل کی اشاعت بڑی خوش آئند باتیں ہیں لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ ان شہروں میں مقیم اردو والوں کی آنے والی نسل کس حد تک اردو سے واقف ہو گی ؟  کیا وہ اردو لکھ پڑھ سکے گی ؟ لیکن معلوم یہی ہو رہا ہے کہ اردو سے واقف افراد اپنے ذوق کی تسکین کے لیے تو بہت کچھ کر رہے ہیں لیکن جس طرح وطن میں رہنے والے اپنے بچوں کو اردو سکھانے کے معاملے میں عدم دلچسپی بلکہ شرمناک بے حسی کا شکار ہیں یہی حال ترک وطن کے بعد بھی بر قرار ہے حالانکہ اپنے وطن سے باہر اپنے مذہب، اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی زبان کا زیادہ احساس ذمہ داری کے ساتھ خیال رکھنا چاہیے۔ اگر آپ کی اگلی نسل اپنا تشخص برقرار نہ رکھ سکے تو یہ نسل اپنی اگلی نسل کو ورثہ میں کیا دے گی ؟ یہ بھی قرین قیاس نہیں ہے کہ بیرونی ممالک ہجرت کر نے اور فراہمی روزگار کے وہ مواقع جو آج ہیں وہ ہمیشہ برقرار رہیں گے اور اردو والے اپنی صفوں اور تعداد میں پیدا ہو نے والے خلاء اور کمی کو دور کر سکیں گے؟مختصر یہ کہ  ’’ آج‘‘ تو روشن ہے لیکن آنے والے کل کے آگے سوالیہ نشان لگا رہے گا۔

س:      آپ کا ادبی سفر ایسے دور میں شروع ہوا ہو گا جب ترقی  پسند تحریک کا اثر زائل ہو رہا تھا۔ جدیدیت فروغ پا رہی تھی۔ اس بدلتے ہوئے ماحول کا آپ کے شعری سفر پر کیا اثر پڑا اور آپ نے کس قسم کا رویہ اپنایا تھا ؟

ج:       میں یہ بات اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر میں نے ترقی پسند تحریک کا عروج بھی دیکھا ہوتا تو میں اس سے ذاتی طور پر اس حد تک متاثر نہ ہوتا کہ ان کی تقلید کرتا، ان کے رنگ میں رنگ کر سرخ پرچم کو سلام کرتا ، استالین کے قصیدے لکھتا۔ جدیدیت میں ابتداء میں بڑی شدت پسندی تھی۔ بے معنی رمزیت ، غیر ضروری بلکہ غیر مفید تجربات اور ابہام کے سبب میں اس سے غیر متاثر رہا اور ما بعد جدیدیت ایک طرح سے جدیدیت ہی کا سلسلہ ہے۔ ادب برائے ادب ہو یا ادب برائے زندگی ہو جو بھی ہو شدت پسندی اور پروپیگنڈے کا عنصر اس میں شامل نہیں ہونا چاہیے اور فن کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔

س :     آپ اس امر سے کہاں تک اتفاق کرتے ہیں کہ آج کل کاغذوں پر ضبط تحریر میں لائی جانے والی شاعری مشاعروں میں سنائی جانے والی شاعری سے مختلف ہے ؟

ج:       یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ زندہ رہنے والی شاعری کاغذ پر لکھی گھروں میں سنی اور سنائی اور لائبریریوں میں پڑھی جاتی ہے۔ مشاعروں میں شاعری عوامی دلچسپی کے عنوانات تک محدود رہتی ہے یا حسن و عشق کی روایتی شاعری ہوتی ہے۔ معمولی درجے کے اشعار دلکش ترنم یا اتنے پر کشش اور متوجہ کر نے والے انداز میں پیش کئے جاتے ہیں کہ مضمون کی کمزوری، فنی غلطی اور زبان و بیان کی خامی کو شعر پیش کر نے کا انداز چھپا لیتا ہے۔

س:  مشاعروں میں پیش کئے جانے والے کلام میں ان دنوں اسلامی و اخلاقی اقدار کے ساتھ ساتھ واقعاتی شاعری Statement Poetry کا بھی خاصہ زور ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

ج:       جو بھی بات کہی جا رہی ہو وہ اگر خلوص سے کہی جائے اور مقصدیت رکھتی ہو تو بڑی اچھی بات ہے۔ اگر یہ سب کچھ داد بٹور نے کے لیے ہے تو ظاہر ہے کہ بے اثر ہو گی۔

س :      ادب کی موجودہ صورت حال کیسی ہے ؟

ج:       ادب میں جمود کی بات تو میں نہیں کروں گا تا ہم بلند مقام کے حامل ادیبوں اور شاعروں کی موت سے جو خلا پیدا ہو رہا ہے وہ پر نہیں ہو رہا ہے کیوں کہ نئی نسل ادب سے بیگانہ ہو چکی ہے جس کی وجوہات متعدد ہیں تا ہم اہم بات یہ ہے کہ نئی نسل کی قابل لحاظ تعداد بلکہ اکثریت  اردو سے نا بلد ہے۔ جب اردو ہی پڑھنا نہ آئے تو بھلا کوئی ادب کیسے پڑھ سکتا ہے۔ مطالعے کے شوق سے عام طور پر نوجوان طبقہ محروم ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی زبان سے ہو۔ اردو زبان کی تعلیم کے وسائل اور سہولتوں سے ملک کا بہت بڑا حصہ محروم ہے مثل مشہور ہے کہ حنا پتھر پر پس جانے کے بعد ہی رنگ لاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر فن محنت اور ریاضت کا طالب ہوتا ہے۔ نئی نسل کی سہل پسندی اور تساہل اسے محنت نہیں کرنے دیتا۔ یہ عام طور پر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ زبان و بیان کی نزاکتوں سے واقف ہو نے کے لیے قدیم اساتذہ کے کلام کا بغور مطالعہ ضروری ہے اور جب مطالعہ سے ہی رغبت نہ ہو تو کوئی کیا سیکھ پائے گا۔ ہندوستان اور پاکستان والے ایک دوسرے سے مختلف ادب ، ادبی رجحانات سے کتب و رسائل کی سہولت نہ ہونے سے لا علم رہتے ہیں۔ دس پندرہ سال قبل تک شہرت و ناموری کے حصول کے لیے کڑے کوس کاٹنے پڑتے تھے مگر آج ذرائع ابلاغ اور ابلاغی ٹکنالوجی کے فروغ اور عام ہو نے کے سبب شہرت کا حصول آسان ہو گیا۔ جو منزل پہلے  سالوں میں طے ہوتی تھی اب وہ مہینوں ہو رہی ہے گو کہ معیار خاصہ گھٹ رہا ہے شاعری زیادہ ہو رہی ہے۔

س:      آج کل مشاعروں میں ناظم مشاعرہ کی اہمیت اوراس کے رول کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے  ؟

ج:       کسی بھی مشاعرے میں ناظم کے رول کی اہمیت سے انکار کا سوال ہی نہیں ہے۔ وہ پڑھنے والوں اور سامعین کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے وہ مشاعرے کے ماحول اور رنگ کو بدل سکتا ہے۔ آج کل ناظم مشاعرہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی ذات پر زیادہ تو جہ مرکوز کروانے کی خاطر غیر ضروری بلکہ غیر شاعرانہ باتوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ بعض ناظم صاحبان جانبداری سے بھی کام لیتے ہیں۔

س:       مشاعروں میں خواتین شاعرات کی شرکت کس حد تک ضروری ہے ؟

ج:       کسی بھی مشاعرے میں جس طرح ایک اچھے شاعر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اچھی شاعرہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہر مشاعرے میں شاعرات کی شرکت لازمی نہیں ہے۔ آج کل جس قسم کی شاعرات مشاعروں میں شرکت کر رہی ہیں اس سے خاصی سطحیت پیدا ہو رہی ہے۔

س:  غالب، میر اور اقبال  کے علاوہ جن کو سبھی پسند کرتے ہیں آپ کن شاعروں کو پسند کرتے ہیں ؟

ج:       درد ، مومن ، حالی، یاس یگانہ ، فانی ، جگر، فیض ، بانی، راحت اندوری اور شکیب جلالی۔

س:       اردو کے رسم الخط میں تبدیلی کی آپ تائید کر تے ہیں یا مخالفت اور اس کی وجہ بتائیے؟

ج:        میں رسم الخط میں تبدیلی کا سخت مخالف ہوں۔ اس سے اردو مر جائے گی۔ اردو کا مذہبی ادبی اور ثقافتی سرمایہ ضائع ہو جائے گا۔ تکنیکی و صوتی اعتبار سے بھی یہ نا ممکن ہے۔ فارسی رسم الخط کی جگہ دیونا گری رسم الخط قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ اردو کے دشمن ہی اس قسم کی بات کر تے ہیں ویسے یہ فتنہ اپنی موت آپ مر رہا ہے اور اس کا زور ختم ہو گیا ہے۔

س:      اردو کے ادیب و شاعر اور استاد ہو نے کے ناطے اردو کے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں مستقبل کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے اور آج کل اردو تحریروں میں انگریزی الفاظ کے بڑھتے ہوئے استعمال سے آپ کس حد تک اتفاق کرتے ہیں ؟

ج:        ارد و کا مستقبل ہندوستان میں اگر تاریک نہیں ہے تو بہت روشن بھی نہیں ہے۔ دوسری زبانوں کی جانب سے اردو کی مخالفت خاصی کم ہو گئی ہے۔ اردو کے ساتھ روا رکھا جانے والا تعصب بھی کم ہوا ہے۔ مرکزی  و ریاستی حکومتیں بھی اردو کی جانب توجہ کر رہی ہیں لیکن اردو کے مستقبل کو روشن بنانے اور اس کو زندہ رکھنے کی اصل ذمہ داری تو اردو والوں پر ہے۔ اردو بولنے والے اگر اپنی ذمہ داری کا احساس کر تے ہوئے اردو کو زندہ رکھنے کی خاطر اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں گے تو  ارد و  بغیر سرکاری امداد کے زندہ رہے گی۔ اردو پڑھانے والے اساتذہ پر بھی اس تعلق سے اہم ذمہ  داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خلوص اور سچی لگن سے اپنا فرض انجام دیں۔ اردو اخبارات ، رسائل اور کتابیں خرید نے کی اہمیت کو اردو والے عام طور پر محسوس نہیں کرتے جب یہ نہ ہوں گے تو اردو ادب منظر عام پر کس طرح آئے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اردو والے ہی اردو کے ساتھ ظالمانہ سلوک کر رہے ہیں۔

            سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ  ہر زبان کسی حد تک دوسری زبانوں کے الفاظ خود میں سمو لیتی ہے۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ ہر زبان میں انگریزی کے الفاظ داخل ہو تے رہتے ہیں لیکن اردو والے انگریزی الفاظ کو غیر فطری اور غیر ضروری طور پر اردو میں استعمال کر رہے ہیں اس کی وجہ ایک تو یہی ہے کہ لکھنے والوں کا اپنا ذخیرۂ الفاظ اردو کے معاملے میں محدود ہے انگریزی آمیز اردو بولنا فیشن بن گیا ہے۔ شو بازی اور دوسروں کو مرعوب کر نے کی خاطر بھی انگریزی الفاظ بولنا ضروری مان لیا گیا ہے۔ بولنے والے ، لکھنے والے ، خاص طور پر مترجمین سہل پسندی کا شکار ہیں۔ اردو والوں کا املا انشا ابتذال کا شکار ہے۔ مشکل الفاظ بولنے اور لکھنے سے وہ قاصر ہیں۔ عربی اور فارسی الفاظ کے استعمال کو وہ معیوب سمجھنے لگے ہیں۔ اگر یہ رجحان بر قرار رہا تو زبان پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

 

تذکرۂ شعرا و شاعرات

               تصنیف و تالیف: سلطانہ مہر

مہر بک فاؤنڈیشن :  لاس اینجلس، امریکہ

MEHER BOOK FOUNDATION

20873 East Walnut Canyon Road. Walnut, CA 91789  U.S.A.

Ph: 090 – 444-0065-Fax: 909 – 4440077

سخن ور        حصہ چہارم

            رؤف خیر آندھرا پردیش ہندوستان کے شہر کریم نگر کے گورنمنٹ ڈگری کالج میں اردو کے لکچرر ہیں۔ اپنے بارے میں انہوں نے بتایا:

            محمد عبدالرؤف نام اور خیر تخلص ہے۔ ۵ نومبر ۱۹۴۸ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے اور پہلی جماعت سے لے کر اردو میں ایم اے (عثمانیہ)تک حیدرآباد ہی میں تعلیم پائی۔ کہتے ہیں کٹر مذہبی گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے قرآن و سنت سے شروع سے لگاؤ رہا۔ بقول خود:

ہر بے جواز بات پہ کرتے نہ تھے یقیں

وہ کہہ رہے تھے  ۱۹۶۹ ء سے ۱۹۸۴ء تک سٹی سیول کورٹ میں بحیثیت اسٹینو گرافر ابتدائی ملازمت کی۔ وہاں بھی جواز و دلیل ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ بہ حیثیت لکچرر بھی اپنی گفتگو مدلل پیش کرنی پڑتی ہے۔ فطری طور پر بھی افکار و اعمال کی قرآن و سنت سے دلیل لانی پڑتی ہے اور دلیل مانگنے کا مزاج بھی رہا۔ یہی رویہ اپنی تنقیدی تحریروں میں بھی میں نے برتا۔ اپنے مضامین کے ساتھ ساتھ مختلف کتب پر تبصرے کر تے ہوئے بھی یہی دلائل و  براہین کا رویہ اختیار کرتا رہا۔ زبان و بیان کا پورا پورا خیال رکھنے کی حتیٰ المقدور پوری پوری کوشش کرتا ہوں ( الا ماشاء اللہ ) کیوں کہ خطا و نسیان تو انسانی فطرت ہے۔ بے دلیل گفتگو نہ خود کرتا ہوں اور نہ سننا پسند کرتا ہوں۔ قصے ، کہانیوں ، داستانوں اور کرامات پر یقین نہیں کرتا مگر جنت و دوزخ کی حقیقت پر ایمان ہے۔

            آپ کے سوال نمبر  ۲  کے جواب میں کہوں گا کہ شاعری کی اصناف میں غزل پسندیدہ صنف ہے۔ اس کے علاوہ پابند نظم اور آزاد نظم دونوں میں دلچسپی ہے۔ میں نے ایک نئی صنف ’’ یک مصرعی نظم‘‘ ایجاد کی  یعنی صرف ایک مصرعے پر مشتمل بے شمار نظمیں لکھیں جن میں سے چند منتخب نظمیں میرے تیسرے شعری مجموعے ’’ شہداب ‘‘میں شامل ہیں ( ’’سخن ملتوی ‘‘میں بھی یک مصرعی نظمیں شامل ہیں۔ صبیحہ)اس کے علاوہ فرانسیسی صنف سخن  ’’ ترائیلے‘‘ بہت لکھے۔ میرا دوسرا شعری مجموعہ  ’’ ایلاف‘‘  ترائیلوں Triolets   پر مشتمل ہے۔ ان کے علاوہ  ’’ سانیٹ‘‘ اور آزاد مثنوی بھی لکھی۔ آزاد مثنوی بھی میری ایجاد بندہ ہے۔

            شاعری کے علاوہ تنقید سے لگاؤ ہے۔ بے شمار کتابوں پر تبصرے کرتے کرتے تنقیدی مضامین بھی لکھنے لگا چنانچہ ۱۹۹۷ء میں میرے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ خط خیر‘‘ شائع ہوا۔ تنقید کے علاوہ بڑے آدمیوں کی زندگی کے واقعات خاص طور پر خود نوشت سوانح پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ تراجم نظم و نثر سے بھی دلچسپی رہی خاص طور پر خلیل جبران کے بیشتر کتابوں کے تراجم اور علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے تراجم دیکھے بلکہ اقبال کے قطعات  ’’ لالہ طور‘‘ ( پیام مشرق)کا منظوم اردو ترجمہ کر ڈالا۔ اقبال ہی کی مستعملہ بحر اور اسلوب میں ترجمہ کر نے کی کوشش کی ہے۔ یہ تراجم  ’’ قنطار ‘‘ کے نام سے جلد شائع ہونے والے ہیں ( ’’ قنطار‘‘  ۲۰۰۱ ء میں شائع ہو چکی ہے۔ صبیحہ)

            میں کسی خاص مکتبہ فکر سے وابستگی کے بجائے فن سے والہانہ شیفتگی کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ روایتی شاعری میرے نزدیک کلاسیکی سرمایہ ہے۔ زبان و بیان کو بگاڑ نے کے حق میں نہیں ہوں اور جدید طرز فکر کا ہم نوا ہوں لیکن لا یعنیت Absurdity   کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتا میری رائے میں ایہام و اہمال ادب کے لیے سم قاتل ہیں گو  ایہام ایک حد تک شعر کا حسن ہے مگر مہملیت کی حد میں داخل ہو جائے تو زہر بھی ہے۔ ترقی پسندوں نے فکری جہات میں جو بڑے تجربے کئے وہ خوب ہیں لیکن مذہبی و اخلاقی اقدار سے ان کی کھلواڑ مجھے سخت نا پسند ہے۔ میں روایت ، ترقی پسندی اور جدیدیت کے اچھے پہلوؤں سے استفادہ کرتا ہوں اور برے پہلوؤں کو نظر انداز بھی کر دیتا ہوں۔ شعر میں اعجاز و شعریت اور نثر میں جواز و حقانیت کو اہمیت دیتا ہوں۔ سپاٹ شعری اظہار اور بے روح نثر  بے معنی ہیں۔ مجھے میر و غالب اور اقبال کے علاوہ یگانہ کی سرکشی بھی اچھی لگتی ہے۔ اسی طرح جوش کی خود سری بھی پسند آتی ہے۔ فیض کی ترقی پسندی خو ش آتی ہے مگر دیگر ترقی پسندوں کی نعرہ بازی کھلتی بھی ہے۔ احمد فراز شکیب جلالی ناصر کاظمی اور ظفر اقبال کا اسلوب بھی اچھا لگتا ہے مگر جہاں تک  ’’ رطب‘‘ کا تعلق ہے  ’’یا بس ‘‘ میرے کس کام کا۔ پروین شاکر کا لہجہ مجھے اچھا لگتا ہے۔

            خود نوشت سوانح حیات بھی پسند ہیں جیسے سمر سٹ ماہم کی  Summing Up  کملا داس کی  My Story  جسٹس ہدایت اللہ کی  My Own Boswell  جبکہ تنقید میں علامہ نیاز فتح پوری کی  ’’ ما لہ و ما علیہ‘‘  ’’انتقادیات ‘‘سے لے کر شمس الر حمن فاروقی کا  ’’ شعر ، غیر شعر اور نثر‘‘ اور ساقی فاروقی کا  ’’ ہدایت نامۂ شاعر‘‘  تک بہت کچھ پڑھ ڈالا ہے۔

            اردو کے مستقبل کے سلسلے میں رؤف خیر کہتے ہیں کہ جب تک مذہب اسلام روئے زمین پر باقی ہے اردو بھی رہے گی۔ اردو میں وہ چاشنی ہے کہ دشمن سے بھی اپنا لوہا منوالیتی ہے۔ گو ہندوستان میں اردو کے ساتھ سوتیلانہ سلوک ہو رہا ہے تا ہم سوتیلی اولاد کا کردار سگی اولاد سے بہتر ہو نے کی وجہ سے اس کی اہمیت انہیں ماننی ہی پڑ رہی ہے۔ ذاکرین اور واعظین کے ذریعے اس کا فروغ ہوتا رہے گا۔ ادبی حلقہ تو اسے زندہ رکھے گا ہی مگر روٹی روزگار سے جوڑ نے کے جتن بھی کیے جانے چاہیں۔

            اگلے سوال کا جواب تفصیل سے دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شاعری میں صنف غزل مجھے محبوب ہے۔ دو مصرعوں میں ایک دنیا رکھ دی جاتی ہے۔ قافیہ و ردیف کی تکرار بھی حسن پیدا کرتی ہے۔

 ’’ دوہے‘‘ میں پسند نہیں کرتا۔ یہ در اصل اردو کو ہندیانے کی ایک سازش ہے۔ ( رؤف خیر یہاں آپ ہندی سے تعصب برت رہے ہیں۔ سلطانہ مہر)(ریسرچ کے دوران میں نے دیکھا کہ رؤف خیر صاحب کی شاعری میں ہندی الفاظ بھی مناسب انداز میں پائے گئے ہیں۔ خود ان کا احسا س ہے کہ اردو ، ہندی دو بہنیں ہیں۔ صبیحہ) نثری نظم اور نـثری غزل جیسی اصناف کے ذریعے تساہل کو فروغ ہو رہا ہے۔ جنہیں زبان و بیان پر دسترس نہیں ہوتی اور جو فن کو فن کی طرح برتنا نہیں چاہتے وہی ایسی بے معنی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہی تساہل کتابت میں صادقین ؔکی تحریریں بنتا ہے اور آرٹ میں تجریدیت کو بھی ہوا دیتا ہے۔ نثری نظم در اصل فلسفیانہ خیالات کی نکاسی کا ذریعہ ہے۔ اسے سیدھے سادے جملوں میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ ادب لطیف کے نام پر ایسا بہت کچھ کہا گیا ہے مگر اسے  ’’ نظم ‘‘کا نام دینا زیادتی لگتا ہے۔ میں تو  ’’ آزاد غزل ‘‘ ہی کو سخت نا پسند کرتا ہوں۔ البتہ ترائیلے، ہائیکو ، سانیٹ ، ماہیے مخصوص اوزان و بحور میں ہوتے ہیں۔ آزاد نظم بھی بحر میں ہوتی ہے۔ یہ اصناف ایک اصول کے تحت لکھے جاتے ہیں جب کہ نثر نظم و نثری غزل بے اصولی کی یادگار ہے۔

            مشاعروں کے سلسلے میں عرض ہے کہ آج کے دور میں ہی کیا مشاعرے ہر دور میں اہم کردار ادا کر تے رہے ہیں۔ میرؔ  نے جب کہا تھا کہ:

 شعر میرے ہیں گو خواص پسند

 پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

 تو اس کا مطلب یہی ہے کہ شعر وہی کامیاب ہے جو عوام و خواص دونوں سطح پر پسند کیا جائے۔ ادب زندگی کا ترجمان بھی ہوتا ہے اس لیے عوامی احساسات کی ترجمانی عوام سے داد لے تو شاعر مشاعروں میں کامیاب ہوتا ہے۔ محض ترنم کی بنیاد پر چلنے والے شاعر مشاعروں کے ساتھ مر جاتے ہیں جب کہ شعریت سے بھر پور شعر صرف کانوں ہی کو نہیں دلوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ مخصوص تخلیقی نشستوں میں اچھا اور سچا ادب فروغ پاتا ہے۔ خواص کے لیے خاص اہتمام کر نے کا جذبہ و عمل فنکار سے شاہکار تخلیق کروا سکتا ہے۔ یہاں تساہل کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ ریاض ہر فن میں ضروری ہے۔ میرا شعر ہے :

بے ریاضت کوئی پہچان کہاں بنتی ہے

 شعر کہنا ہی اگر ہے تو مرصع کہنا

            رسائل و جرائد کی مقبولیت میں اضافے کے لیے انہوں (رؤف خیر)نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے ادب کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ شاعر و ادیب کی بقا کا تمام تر انحصار ان جرائد کی بقا پر ہوتا ہے۔ آج ہمارے ادیب و شاعر ما شاء اللہ مرفع حال ہیں۔ انہیں اپنی آمدنی کا کم از کم ایک فی صد حصہ ہر ماہ ادب پر خرچ کر نا چاہیے۔ اگر ہر ادیب و شاعر صرف ایک فی صد آمدنی بھی ادب کے لیے وقف کر دے تو ہر ماہ ایک رسالے کا خریدار بن سکتا ہے یا پھر کم از کم دو رسالے وہ ہر ماہ خرید لے۔ سرکاری رسالے یوں بھی بہت سستے داموں مل جاتے ہیں۔ سرکاری رسالوں کو زندہ رکھنا بھی ہم اردو والوں ہی کی ذمہ داری ہے۔ ایک استاد اپنے شاگردوں کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ ہر ماہ اتنی رقم جمع کروائیں جس سے اردو رسالوں کا چندہ بھیجا جا سکا میں نے خود بھی اپنے شاگردوں سے ہر ماہ صرف  دس روپے جمع کر کے اپنے طور پر رسالوں کو چندہ بھیجنے کی گزارش کی تھی لیکن اس پر عمل نہ کیا جا سکا۔ در اصل دلچسپی کا فقدان ادب کو پنپنے نہیں دیتا۔ ہر سطح پر دلچسپی اور ریاض سے کام لینا پڑتا ہے۔

            دور حاضر کے نقادوں کے رویے سے رؤف خیر نالاں ہیں۔ کہتے ہیں : تنقید ان دنوں شخصی جذبات و احساسات کے ترازو میں ادب کو تولنے کا نام ہو کر رہ گئی ہے۔ تعصبات اور تعلقات کی بنیاد پر تنقید کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اس لیے آج کل ادیب و شاعر باغی ہو کر الا بلا لکھنے لگا ہے اور خود کو تنقید سے ماورا بھی سمجھنے لگا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ تنقیدی پیمانوں کو غیر شخصی کر دیا جائے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’’ خط خیر‘‘ میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کی ہے۔

٭٭٭

 

قنطار  (فارسی قطعات کا اُردو ترجمہ)

            رؤف خیرؔ اُردو کے ادیب شہیر اور منفرد و طرز و اسلوب کے شاعر جن کی نظم و نثر کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ، بے حد وسیع مطالعہ فن کار ہیں انھوں نے حکیم الامت علامہ اقبال کے ۱۶۳ فارسی قطعات کا انتہائی بلیغ انداز میں ترجمہ کیا ہے۔ کتاب کا نام قنطار ہے، یعنی زر و سیم کا ڈھیر۔ ظاہر ہے کہ اقبال کا کلام خواہ اُردو ہو یا فارسی زر و سیم کا انبار عظیم ہے۔ یہ قلزم اعصار کے ساحل پر موتیوں کا ڈھیر ہے۔ جو کبھی کم نہیں ہوتا اور اس فضا میں اپنے نقوش قدم چھوڑتی ہوئی انسانی نسل ان جواہرات سے استفادہ کرتی ہے۔ سمندر مسلسل جواہرات اگلتا رہتا ہے انسانی نسل انھیں سمیٹتی رہتی ہے۔ یہ فارسی قطعات علامہ کی کتاب پیام مشرق میں ’’لالۂ طور‘‘ کے نام سے موجود ہیں اور رؤف خیرؔ نے انتہائی منفرد اسلوب میں ان کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ کسی بھی زبان کے ترجمے میں زبانوں کی مہارت اور مشاقی لازم ہوتی ہے، زبان کی مختلف جہتیں ہوتی ہیں ، جن کے رموز سے واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ حالانکہ فارسی اور اُردو میں بہت مماثلت ہے اور اُردو میں فارسی الفاظ کی کثرت ہے لیکن اس کے باوجود دنوں زبانوں کے محاورے الگ ہیں اور اشعار کی قرأت بھی جداگانہ ہوتی ہے۔ شعر کو موزوں کرنے میں جو بہت سی آسانیاں فارسی میں ہیں اُردو میں قطعی نہیں۔ اس صورت میں فارسی کے منظوم کلام کو اُردو کے منظوم قالب میں ڈھالنا بے حد اہم ہے اور رؤف خیرؔ نے یہ کارنامہ دکھا کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ فارسی زبان کے مزاج سے اور خصوصاً شعر کے مزاج سے پوری طرح آشنا ہیں اور فلسفۂ اقبالیات پر ان کی گہری نظر ہے۔

اگر آگاہی از کیف و کم خویش

یمے  تعمیر کن  از شبنم  خویش

دلا  دریوزۂ مہتاب  تا کے  !

شب خود را برافروز از دم خویش

٭

جو اپنے کیف و کم سے باخبر ہے

  بنا شبنم سے بھی اے دل، سمندر

  کہاں تک چاند کا محتاج  ہو گا  !

            کر اپنی رات روشن اپنے بل پر

٭

عقاباں راں بہاے کم نہد عشق

تدرواں را ببازاں سر دہد عشق

نگہ دارد  دل ما  خویشتن  را

ولیکن  از کمینش  بر جہد عشق

٭

عقابوں کو بڑا بے مول  سمجھے

چکوروں کو شرف بازوں پہ بخشے

بچائے دل تو خود  کو  لاکھ لیکن

لگا کر گھات  دل پر  عشق جھپٹے

             ’’قنطار‘‘ ۱۱۲ صفحات پر مشتمل ہے، سن اشاعت ۲۰۰۱ء ہے کتاب کے آغاز و اختتام پر حرف خیرؔ اور حرف تشکر کے عنوان سے مترجم نے انتہائی انکسارانہ انداز میں بعض اہم باتوں کا ذکر کیا ہے، آغاز میں حرفے چند کے عنوان سے ماہر غالبیات کالی داس گپتا رضا نے(جواب آنجہانی ہو چکے ہیں ) چند سطور تحریر کی ہیں جن میں اس ترجمے پر اطمینان ظاہر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر تسخیر فہمی نے ہر چند کہ بہت کم لکھا ہے مگر بے حد کام کی باتیں کہی ہیں۔ ترجمے کے فن میں مترجم کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ابتدائی صفحات میں ہی رؤف خیرؔ نے  ’’زبور عجم کی ایک افتتاحیہ دُعا‘‘ اور پیام مشرق کی ایک نظم ’’تہائی‘‘ کا ترجمہ بھی شامل کتاب کیا ہے۔

             ’’قنطار‘‘ کی کتابت و طباعت مناسب ہے اسے رؤف خیرؔ کے پتے پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ رؤف خیرؔ اس طرح کے اہم کام کرتے رہیں گے اور ہزاروں تشنگان علم کے لئے سیرابی کے لمحات فراہم کرتے رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رؤف خیرؔ نے ایک بڑا کام کیا ہے لیکن واقعہ یہ بھی ہے کہ کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ کار مغاں اپنے نقطہ انتہا کو پہونچ گیا ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ابھی تو رگ تاک بادۂ ناخوردہ کا ایک ذخیرہ عظیم ہے۔

            عشر ت ظفر

            مدیر ’’خرام‘‘      کانپور

 

خط خیر کے مطالعے کے بعد

            جناب رؤف خیر ایک اچھے شاعر، معتبر نثر نگار ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی ہیں۔ میری ان کے ساتھ آج تک ایک ہی ملاقات ہوئی ہے۔ وہ از رہِ لطف و کرم گھنٹہ بھر کے لیے میرے غریب خانے پر تشریف لائے تھے۔ ان میں اور بھی بہت سی صفات ہوں گی مگر میرے نزدیک واضح الفاظ میں دو ٹوک اور بے لاگ اظہار خیال ان کا بہ حیثیت ایک ادیب سب سے بڑا گن ہے۔ اس چاپلوسی کے زمانے میں یہ طرز تحریر اختیار کرنا ہر ایک کے بس کا نہیں۔ خط خیر میں یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ خط خیر میں انتساب اور دیباچے یعنی  ’’ حرف خیر‘‘ کے علاوہ چھوٹے بڑے کل اٹھارہ مضامین ہیں۔ دیباچے میں انہوں نے چار باتیں کہی ہیں۔

            (۱) یقین جانئے مجھے تنقید نگاری کا کوئی دعوا نہیں ہے۔

            (۲) میں نے ان مضامین میں کوئی دور کی کوڑی لانے کی کوشش نہیں کی۔

            (۳) یہ خط خیر ان کے لیے بے کار ہے جو بڑی گہری محققانہ و نا قدانہ نظر رکھتے ہوں۔

            (۴) ان مضامین میں شخصی عناد کو ذرا دخل نہیں ہے۔

ان چاروں کے متعلق میری رائے جو کتاب پڑھنے کے بعد قائم کی گئی ہے، یہ ہے کہ:(۱) نقاد نہ کہلانے کے با وجود وہ اچھے بلکہ بہت اچھے نقاد ہیں۔ وہ سیدھی سادی مگر تیکھی تنقید کرتے ہیں اور تنقید کو نری انشاء پردازی نہیں بناتے (۲) یہ درست ہے کہ وہ دور کی کوڑی نہیں لاتے مگر پاس کی کوڑی لاتے ہوئے بھی وہ عجیب باریک بینی سے کام لیتے ہیں (۳) مجھے تسلیم ہے کہ یہ کتاب تحقیقی نہیں ہے مگر میری نظر میں گہرا ناقد  ان میں شامل مضامین سے مستفید ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ (۴) رؤف خیر کے دلائل زور دار ہوتے ہیں۔ وہ بات کہنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ ایسا ادیب اور شخصی عناد  ؟  دو متضاد باتیں ہیں۔

            آج کل میں ضعف بصارت میں بری طرح مبتلا ہوں۔ اس کے با وجود میں نے یہ کتاب نہایت دلچسپی سے پڑھی۔ ایسی صاف ستھری اور معنی خیر تحریریں آج کل پڑھنے کو کم ملتی ہیں۔

( روز نامہ منصف  ۱۲  جولائی  ۱۹۹۸ء)

کالی داس گپتا رضا

 

رؤف خیر کے بارے میں

   ’’اقراء ‘‘ کی رسم رونمائی کے موقع پر(۷ اگست ۱۹۷۷ء)

               ڈاکٹر عالم خوندمیری

            رؤف خیر کو یقیناً صالح جدیدیت کا علمبردار کہا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں عقلیتRationality   کا عنصر بہت زیادہ نمایاں ہے۔ بہت کم ادیب ہوتے ہیں جو ادب میں عقلیت کو اہمیت دیتے ہیں اور اسے برتنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔

          رؤف خیر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اسے سلیقے سے برتا اور اپنی انفرادیت دکھائی۔ ان کی شاعری میں احتجاج اور بغاوت صرف اک کرب کی صورت میں نہیں بلکہ تہذیب فن کے ساتھ ہیں جو بہت کم شاعروں اور ادیبوں کے حصہ میں آتا ہے۔ انہوں نے مذہب اسلام کی بعض تلمیحات کو اپنے دور پر منطبق کر کے اپنی عصری حسیت کو ایک چونکا دینے والا لہجہ دیا۔ یہی ان کی شاعری  کا  ایک وصف خاص ہے۔

               ڈاکٹر مغنی تبسم

            اگر  ’’ اقراء ‘‘ شائع نہ ہوتا تو ہماری دانشورانہ زندگی میں اک کمی سی محسوس کی جاتی۔

               جناب مصلح الدین سعدی

            رؤف خیر نے نئی نئی تراکیب کے ذریعے اردو ادب کو مالامال کیا ہے۔ ان کے، زبان کے تجربے اپنی جدولی معنویت کے اعتبار سے ادبی ماحول میں یقیناً الگ مقام رکھتے ہیں۔

٭٭٭

               عزیز قیسی

(ایک خط کا اقتباس)

            آپ کا مجموعہ کلام  ’’اقراء ‘‘ملا ایک ہی نشست میں اس کی قرأت بھی میں نے کر لی۔ ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے اس لائق سمجھا ورنہ اہل حیدرآباد تو مجھے اپنا سمجھ کر اپنوں جیسا ہی سلوک کرتے ہیں

آپ کی شاعری متاثر کر تی ہے۔ اور یہی ایک وصف بہت غنیمت ہے اس زمانے میں۔ تفصیلی رائے

نہ آپ نے مانگی نہ میں اپنے آپ میں اتنا وقوف محسوس کرتا ہوں کہ دوں پھر بھی یہ کہے بغیرنہیں رہ سکتا کہ ہمارے بعد اس شہر میں آپ ہی اٹھے۔ آپ کی شاعری میں بڑی توجہ سے پڑھ رہا ہوں۔ آپ دن بہ دن Grow   کر رہے ہیں۔ خوشی ہوتی ہے۔

               ڈاکٹر  سلیمان اطہر جاوید

( ۲۰ ڈسمبر ۱۹۷۷ء)

            میں نے ہمیشہ ہی آپ کا کلام دلچسپی اور توجہ سے پڑھا ہے اور محظوظ ہوا ہوں۔ ادھر جو شاعر نئی غزل میں اپنی آواز بنا رہے ہیں ، بنا چکے ہیں آپ ان میں سے ایک ہیں۔ آپ کے ہاں غزل کے نئے پن کے ساتھ روایات کا پاس اور احترام بھی ہے۔ الفاظ کی تراش خراش میں ندرت ، نکھرے نکھرے مصرعے، تشبیہات و استعارات میں دل نوازی، گہری معنویت، فکر انگیزی اور بہ حیثیت مجموعی غزل نگاری کا یہ تیکھا تیکھا انداز، یہ ڈکشن، روایت کے صحیح اور صحت مند احساس و ادراک کے بغیر ممکن نہیں۔ اردو شاعری کے لیے یہ فال نیک ہے۔ آپ کی منظومات ( بشمول ترائیلے )بھی ایک بانکپن لیے ہوئے ہیں۔ بیشتر نظموں میں عصری زندگی اور اس کے مسائل کی جھلک خاصی عمدگی سے ملتی ہے۔

اظہار

               سلمیٰ جاوید

(مدیرہ  ’’ زیور ‘‘ پٹنہ۔ ۲۵ ستمبر ۱۹۷۷ء)

ہے خیر  کے کلام میں کس درجہ سوز و ساز

جذب دروں کو خالق اقرا سے پوچھئے

پڑھ کر خلوص قلب سے ہوتا ہے دل گداز

ہے خیر کے کلام میں کس درجہ سوز و ساز

کتنا حقیقتوں سے قریب آ گیا  مجاز

لطف سخن جو ہے دل سلمیٰ سے پوچھئے

ہے خیر  کے کلام میں کس درجہ سوز و ساز

جذب دروں کو خالق اقرا سے پوچھئے

 

تبصرے

               قنطار پر تبصرہ

            کتاب دراصل ہمارے عہد کے سب سے بڑے شاعر و مفکر علامہ اقبالؔ کے فارسی قطعات کے منظوم تراجم پر مشتمل ہے۔ افکار اقبال کی شراب طہور فارسی کو مینائے نظر نواز اُردو میں منتقل کر کے جناب خیر نے موجودہ زمانے کے قارئین اُردو پر بڑا حسان کیا ہے۔

            اہل نظر و بصر بخوبی واقف ہے کہ فارسی ابھی ماضی قریب تک ہماری ادبی و تہذیبی زبان تھی۔ تاریخ ادبیات پر نظر رکھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ ابھی سو، ڈیڑھ سو برس پہلے تک فارسی گوئی شعراء کا طرۂ امتیاز بھی تھی اور باعث فخر و مباہات بھی۔ زمانے نے کروٹ بدلی اور اب ایسا لگتا ہے کہ ع

  خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔

فارسی گوئی کا ذکر کیا فارسی فہمی بلکہ فارسی شناسائی کے کوچے میں بھی قحط الرجال کی سی کیفیت ہے اور فارسی ہی کا رونا کیوں رویئے اُردو سے منہ موڑ نے کی ترغیب و تحریص نے خود اُردو پر بڑا  بُرا وقت لا کھڑا کیا ہے۔ روٹی کے پیچھے بھاگتی ہوئی ہماری بچی کھچی اُردو آبادی میں اُردو و فارسی کے لسانی، تہذیبی اور ادبی رشتے پر غور کرنے کی فرصت کتنوں کو ہے۔ اس امر واقعی پر کتنوں کی نگاہ ہے کہ فارسی سے یکسر بے تعلق ہو کر اُردو ایک جسم بے جان یا کم از کم بے نمک کا سالن رہ جائے گی۔

            ایسے میں جناب عبدالرؤف  خیرؔ جیسے صاحب قلم کا دم بسا غنیمت ہے جن کے دم و خم اور زور قلم سے شر و فساد کی اس اُمس اور گھٹن بھری فضا میں خیر و فلاح کا جھونکا آ کر ’’ہنوز ابر رحمت در فشاں است‘‘ کہنے پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ خیرؔ صاحب کا نام اور کام سراپا خیر ہے۔ ذہانت و فطانت ان کے ہر کام، ہر بات اور ہر تخلیق سے ٹپکتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ گم راہی و ضلالت کے اس دور پُر فتن میں صالح فکر او ر اقدار کی صراط مستقیم پر گامزن رہنے والے شعراء و ادباء میں خیرؔ کا امتیازی مقام ہے۔ حکیم الامت، شاعر مشرق علامہ اقبال کا سارا کلام عبرت و نصیحت کا مرقع اور ترغیبات و ترہیبات سے معمور ہے۔ جناب رؤف خیرؔ نے لالۂ طور کے ان فارسی قطعات کو اُردو میں منتقل کر کے ایک عظیم ادبی خدمت انجام دی ہے۔ میری ہی طرح اُردو قارئین کا ایک بڑا وہ طبقہ جو فارسی نہیں جانتا یا کم جانتا ہے اب ان کے مطالعے سے بہرہ مند ہو گا۔

            یہ دیکھ کر مجھے ذاتی مسرت ہوئی ہے کہ خیرؔ صاحب نے اقبالؔ کے ان قطعات کو  ’’قطعات‘‘ ہی لکھا ہے ورنہ نامور علمائے ادب اور پروفیسران عالی مقام انھیں  ’’رباعیات‘‘ کہتے نہیں تھکتے۔ چنانچہ اُمید ہے کہ یہ کتاب اس گم رہی کا سد باب کرے گی۔ دوسری طرف کتاب کا پیش لفظ جسے خیرؔ صاحب نے

 ’’حرف خیر‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے بھی بہت معلومات افزا اور بصیرت افروز ہے۔ معترف ہوں کہ مجھے پہلی بار اس کتاب کے توسط ہی سے معلوم ہوا کہ گوئٹے نے بقلم خود اپنی نظم کا آغاز عربی رسم الخط میں  بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا تھا۔ اسی طرح قطعات اقبال کے انا میری شمل، بشیر احمد ڈار اور سید عبدالواحد کے انگریزی تراجم سے بھی آشنائی حاصل ہوئی۔             قنطار میں حضرت اقبال کے۱۶۳ قطعات اور دو نظموں کے ترجمے شامل ہیں۔ ان میں ایک نظم زبور عجم کی افتتاحیہ ’’دُعا‘‘ ہے اور دوسری پیام مشرق کی تنہائی ہے کتاب کی اہمیت و افادیت اس امر سے دوبالا ہو جاتی ہے کہ اصل فارسی متن کے ساتھ ترجمے درج کیے گئے ہیں۔ ان سے فارسی داں حضرات تو حظ اُٹھائیں گے ہی جو لوگ فارسی کم جانتے ہیں ان کے علم و وقوف میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس کار خیر سے یہ بھی فائدہ ہوا ہے کہ مترجم کی محنت شاقہ، عرق ریزی، اقبال کے اسلوب سے قریب تر رہنے کی کاوش، بحر و وزن کی پابندی، اور پھر یہ کہ ترجمے کی برجستگی کے لیے تراشے گئے نئے الفاظ کی خوبی بھی آئینہ ہو جاتی ہے۔ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے کا حق ادا وہی شخص کر سکتا ہے جو ہر دو زبان کے مزاج و معیار سے بھی واقف ہو نیز دونوں کے اسلوب و  ادا  پر بھی ماہرانہ دسترس رکھتا ہو۔ کامیاب ترجمے کی معراج بقول پروفیسر ڈاکٹر سید محمد حسنین مرحوم یہ ہے کہ ’’اصل حیرت سے نقل کا منہ دیکھنے لگے‘‘ ہر چند یہ ایک سخت معیار ہے لیکن مجھے بہت مسرت یہ دیکھ کر ہوئی کہ اس پل صراط سے بھی جناب رؤف خیرؔ کامران و با مراد گزرے ہیں۔ مشتے نمونہ از خردارے آپ بھی دیکھئے تاکہ اس خاکسار کا دعویٰ بے دلیل نہ رہ جائے۔

فارسی:              یارب درون سینہ دل باخبریدہ

دوبادہ  نشہ رانگرم آں نظر بد

اُردو:                پہلو میں دل دیا ہے تو دل باخبر بھی دے

دیکھو مزاج نشہ ٔ مئے وہ نظر بھی دے

فارسی:              سحر در شاخسارِ بوستانی

 چہ خوش می گفت مرغِ نغمہ خوانی

                        برآورھر چہ اند رسینہ داری

                        سرودی ، نالہ ای، آھی، فغانی

اُردو ترجمہ:         چمن کے شاخساروں میں گجر دم

  کہا کیا خوب  مرغ خوش سخن نے

                        سرود و نالۂ و آہ و فغاں سب

  ترے دل میں ہے جو کچھ سب اگل دے

کتاب کمپیوٹر کمپوزنگ اور آفسٹ کی صاف ستھری طباعت سے آراستہ ہے۔ کاغذ نفیس، سرورق سادہ لیکن پرکار و نظر نواز۔ یقین ہے کہ خیرؔ صاحب کی یہ کامیاب کوشش سراہی جائے گی اور قبول عام حاصل کرے گی

ناوک حمزہ پوری

(سہ ماہی ’مژگاں ، کلکتہ)

 

                ’’سخن ملتوی‘‘ پر ایک طائرانہ نظر

            رؤف خیرؔ صاحب کا نام کس نے نہیں سنا۔ آپ کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں لیکن  ’’سخن ملتوی‘‘ خیال و جمال اور کمال میں یکتا ہے۔ خیرؔ صاحب کی شخصیت کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ پکے مسلمان ہونے کے باوجود بھی ’’تنگ نظر‘‘ نہیں اور مذہبی تنازعوں کو زندگی کی مشعل راہ نہیں سمجھتے اس سلسلے میں ان کی نظم ’’چلو سب خداؤں کو غرقاب کر دیں ‘‘ قابل ذکر ہے۔ فرماتے ہیں :

یہ تیرا خدا ہے وہ میرا خدا ہے

یہ اس کا خدا ہے وہ اُس کا خدا ہے

کوئی چڑھتے سورج کی کرتا ہے پوجا

کوئی چاند پر زندگی وارتا ہے

اِدھر کوئی گنگا نہا کر مگن ہے

اُدھر وہ پہاڑی پہ سر مارتا ہے

نشانہ بناتا ہے وہ گاگروں کا

تو منصور کا روپ یہ دھارتا ہے

چلو ایک ہوں ایک رسی کو تھامیں

چلو راستے سے یہ پتھر ہٹا دیں

نہ تیرا نہ میرا نہ اس کا نہ اُس کا

چلو ان خداؤں کو پانی پلا دیں

چلو سب خداؤں کو غرقاب کر دیں

            یہ نظم اس حقیقت پر شاہد ہے کہ شاعر انا پرست نہیں اس لئے اسے کسی پیروی کی احتیاج نہیں بلکہ نا صح اور خدمت گذار کی حیثیت سے ہر مذہب کے لوگوں کو امن و آشتی کا پیغام دیتے ہوئے چاہتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی تفرقات کو مٹا دیں۔

            اس سے بڑھ کر رؤف خیرؔ صاحب کی شاعرانہ ہمہ گیری  اور کیا ہو سکتی ہے وہ نہ صرف باقاعدہ  شاعری میں دلچسپی لیتے ہیں بے قاعدہ یعنی آزاد شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے لیے یہ محض ایک راہ فرار ہے لیکن خیرؔ صاحب کے لیے نہیں کیونکہ وہ رموز بحر و قافیہ سے آشنا ہیں۔ اتنا ہی نہیں وہ قدیم و جدید اصناف سخن میں بھی مشق سخن کرتے ہیں۔ ان کی  ’’تکونیاں ‘‘ قابل احترام ہیں۔

            رؤف خیرؔ صاحب غزل گوئی میں بھی بلند مرتبت ہیں۔ ان کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں :

کبھی سفر سے کبھی اپنے گھر سے لکھتے ہیں

وہ خط بھی لکھیں تو اب مختصر سے لکھتے ہیں

جو خانقاہ کے قائل نہ بارگاہوں کے

قصیدے وہ تری چوکھٹ پہ سر سے لکھتے ہیں

وہ خط ہی خیرؔ ہمارا کہاں پہنچتا ہے

جب ان کے واسطے ہم کتنا ترسے لکھتے ہیں

وہ غزل ہی نہیں جس میں محبت کی چاشنی نہ ہو۔ ان اشعار سے دل شاعر، پیار کا ایک چھلکتا ساغر نظر آتا ہے۔ اتنا ہی آخر شعر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رؤف خیرؔ صاحب لسانی امور میں دقیانوسی روش کے نہیں بلکہ اپج کے قائل ہیں۔ ’’ترسے لکھتے ہیں ‘‘ ایک نئی ترکیب معلوم ہوتی ہے لیکن شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس نے اسے نبھایا ہے۔ میں سمجھاتا تھا کہ رؤف خیرؔ صاحب مولوی ٹائپ انسان ہیں لیکن مندرجہ ذیل اشعار کو پڑھ کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا:

سحر حسین تو شب دلربا بھی  ہوتی تھی

  نماز فجر  ہماری  قضا بھی ہوتی تھی

یہ مانتے ہیں کہ ہم سے خطا بھی ہوتی تھی

کبھی کبھی تو سزا ناروا بھی ہوتی تھی

            یہ اسی قسم کے اشعار ہیں جو پرانی طرز کے شعراء سے منسوب ہیں۔ غزلیہ شاعری کی معراج یہی ہے۔ تصوف، مذہب، سیاسیات یا معاشیات کی شعبدہ بازی سے شاعری کی دُکان چمکانا ایک رسم بن گئی ہے۔ وہ غزل جس میں جذباتی حسیت یا گدگداہٹ نہ ہو غزل کہلانے کی مستحق نہیں۔ ایسی غزل ان آنکھوں کی طرح سے جو بصارت سے محروم ہو یہ وہ دریا ہے جو سوکھ چکا ہو۔ یہ وہ باغ ہے جس میں پھول نہیں۔ صرف ببول کے درخت اُگتے ہوں۔ یہ بات باعث مسرت ہے کہ خیرؔ صاحب کی غزل گوئی خوش کن ہے اور یہ کسی مذہبی یا سیاسی چالبازی کی مظہر نہیں۔ خیرؔ صاحب صرف شاعر ہی نہیں مرد مومن بھی ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی شاعری میں کچھ ایسی تلمیحات کا استعمال کیا ہے جن سے ان کی قوت ایمانیہ جھلکتی ہے۔ مثلاً

یہ ابرہہ نژاد کہاں آ  کے گھر گئے

 سرکوبیوں کو ان کی ابابیل پھر گئے

                        اس شعر سے پتہ چلتا ہے کہ خیرؔ صاحب نہ صرف اسلام کے شیدائی ہیں۔ انہیں فن جامعیت پر بھی عبور حاصل ہے اتنے بڑے مضمون کو ایک شعر میں باندھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ اس طر ہ ان کی سہل نگاری ہے جسے شاعرانہ اصطلاح میں سہل ممتنع کہا جاتا ہے۔

            اس مذہبی گرویدگی کے باوجود کہیں ایسا احساس نہیں ہوتا کہ خیرؔ صاحب کو علامہ یا ولی بننے کا جنون ہے۔ اس کے برعکس غالب نے شرابی ہونے کے باوجود کہا تھا:

یہ مسائل تصوف، یہ ترا بیان غالب

تجھے ہم دلی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

            راقم کی خیرؔ صاحب سے ذاتی جان پہچان نہیں اس لیے مزید لکھنے سے قاصر ہوں البتہ یہ کہنا ضروری ہے کہ ’’سخن ملتوی‘‘ میں ایک عجیب سی حسیت ہے جس میں صرف صداقت ہی نہیں تمناؤں کی بیتابی اور تکمیل مقاصد کی آرزو بھی جلوہ افروز ہے۔

               انور شیخ

( ماہنامہ  ’’ پرواز ‘‘ لندن۔ جون ۲۰۰۴ء)

 

               سخن ملتوی

            زیر نظر کتاب میں گزشتہ مجموعوں کی بہ نسبت دو پہلوؤں سے فرق واضح نظر آتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس مجموعے کی منظومات کی زبان نسبتاً آسان ہے اور یہ وہ آسانی ہے جو مشکل پسندی سے گزر چکنے کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلامی فکر و نظر کے موضوعات جو یوں تو شروع ہی سے ان کے شعری اظہار کے حصہ رہے ہیں ، تازہ مجموعے میں زیادہ نمایاں ہیں۔ کلام کے ابتدائی  بیس صفحات حمد، نعت، اور منقبت کے لیے مختص کئے گئے ہیں جن میں بعض جمیل و بلیغ ایسے اشعار مل جاتے ہیں جن میں شاعر کے مسلک و موقف کی راست ترسیل بھی ہے۔

اب کیا کسی  کا کوئی وسیلہ کریں تلاش

ہر فاصلے سے دیکھو تو بے فاصلہ ہے تُو

اپنے لیے بے فیض ہے کوفی ہو کہ صوفی

آنکھوں میں عرب ہے نہ عجم  آپؐ  کے ہوتے

دروازے اجتہاد کے کیوں بند کر دئیے

 تقلید کے حصار سے خود کو رہا کرو

            نو مسلم شاعرہ کملا ثریا ( کملا داس) کی نظم  ’’ یا اللہ‘‘ کا منظوم ترجمہ بھی اسی ضمن میں ہے۔ اس طرح عام غزلوں میں بھی جو افکار و محسوسات کے لحاظ سے متنوع ہیں ، دینی و ملی موضوعات و خیالات جا بجا نظر آتے ہیں۔ صراحتاً بھی اور کنایتاً بھی۔

وقت کے ساتھ بدل جاتا ہے سکّوں کا چلن

تب کہیں جوہر اصحابِ کہف کھلتے ہیں

مومن ہے مستِ نان جویں ، اور مشرکین

خنزیر و مرغ و جام و صراحی سے خوش ہوئے

            مذکورہ فکریات سے قطع نظر غزلوں میں ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں ہے جن میں آفاقی حقیقتوں کے تناظر میں عصری و شخصی علائق کو  بڑ ی معنویت کے ساتھ جزو کلام بنایا گیا ہے۔ :

خدا کے واسطے اے آب جو نہ پھول اتنا

یہ خاکسار سمندر سے آشنا بھی ہے

اب خرچ ہو گئے کہ ترے کام آ گئے

 ہم یوں بھی کچھ اثاثۂ بے انتہا نہ تھے

رکنے پہ تھے جو ہم سے زیادہ مصر، گئے

اے لذت ثبات ترے منتظر گئے

            شاعری میں آرٹ اور کرافٹ کے تناسب کی بحث اکثر چھڑی رہتی ہے’ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی، کے مصداق دنیا کا کوئی فن کرافٹ کے مطالبے پر پورا اترے بغیر نہیں پنپ سکتا۔ تقاضا صرف یہ ہوتا ہے کہ طرز اظہار اور عرض مدعا کے ما بین ثنویت کتنی کم ہے یا تخلیقی سطح پر کرافٹ آرٹ سے کس قدر ہم آہنگ ہے۔ رؤف خیر کی غزلوں میں بسا اوقات کرافٹ کا بڑ ا خوبصورت التزام نظر آتا ہے خصوصاً ردیف کے برتاؤ اور کھپت میں۔ اس رو سے ان اشعار پر غور کیجئے:

مکھی کا بھی اس بت پہ چڑھاوا نہیں رکھتے

ہم جاں سے گزر نے کا ڈراوا نہیں رکھتے

میدان بہت شاہ سواروں کے لیے ہیں

جو حیلۂ اسباب و کجاوا نہیں رکھتے

نکلیں وہ ذرا کوچۂ سر بندِ  انا سے

کب ہم بھی در صدق و صفا  وا  نہیں رکھتے

            سخن ملتوی میں قاری کے لیے اصناف شعر کی رو سے تنوع کا خاصا سامان ہے۔ غزلوں کے علاوہ نظمیں ، ہائیکو ، ترائیلے، ماہیے، تکونیاں ، اور نثری نظمیں بھی شامل ہیں۔ (رؤف خیر نے زندگی میں کبھی کوئی نثری نظم نہیں کہی۔ غالباً یک مصرعی نظموں کو جناب سازؔ نے  نثری نظمیں سمجھا ہے۔ صبیحہ)  جو شاعر کی قدرت کلام پر دال ہیں۔ قطعات کی شکل میں چند ’گاتھا سپت شتی ، کے منظوم تراجم بھی جاذب توجہ ہیں۔ ہائیکو اور ماہیے کچھ اچھے ہی ہیں کہ ان اضافی اصناف سے دلچسپی رکھنے والوں کو پسند آ سکتے ہیں البتہ ترائیلے خصوصی تو جہ کے مستحق ہیں کہ رؤف خیر اس صنف کی طرف ایک عرصے سے راغب بھی ہیں اور اس پر محنت بھی زیادہ کر تے ہیں۔ موقر رسائل میں ان کے خوبصورت ترائیلے شائع ہو چکے ہیں۔ اس طرح تکونیاں جن میں مصنوعی ٹکنیک یہ ہوتی ہے کہ دو بند فریقین کی با ہمی بحث اور تیسرا بند نتیجہ اخذ کرتے ہوئے مبصر کا ہوتا ہے، اس مجموعے میں چھ عدد ہیں جن میں دو اک تو فارمولے کی نظر ہو گئی ہیں بقیہ فکر انگیز ہیں۔ کتاب کے آخری چار صفحات پر محیط یک مصرعی نظمیں ہیں۔ گزشتہ مجموعے ’شہداب، میں بھی یک مصرعی نظمیں شامل تھیں اور ان پر راقم الحروف کی رائے اس بار بھی وہی ہے جو  ’’ شہداب ‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے عرض کی گئی تھی کہ یہ مصرعے غیر شاعرانہ قسم کے مقولے اور حتمی بیانیے معلوم ہوتے ہیں۔ رؤف خیر قادر الکلام شاعر ہیں اگر وہ دوسرا مصرع بہم پہنچا کر انہیں آرٹسٹک توازن دیتے ہوئے مفرد اشعار بنا لیتے تو شاید بہتر ہوتا۔ یہ بہر حال نا چیز کی ادنیٰ رائے ہے۔ اس بھرے پرے مجموعے میں آزاد نظم کی کمی کھٹکتی ہے کہ یہ صنف بھی رؤف خیر کی اظہاری ترجیحات میں شامل رہی ہے اور عصری شعری اظہار کا ایک نہایت اہم وسیلہ بھی ہے۔ ( اس مجموعے میں آزاد نظمیں بھی شامل ہیں جیسے دہشت گرد، رکشا بندھن، جواز سخن وغیرہ۔ صبیحہ)

            بیشتر خوبیوں اور چند ایک غور طلب کمیوں کے ساتھ یہ کتاب عصری شاعری کا ایک با معنی اور جمیل مرقع ہے جو صوری اعتبار سے بھی خوبصورت شائع ہوئی ہے۔       ( روز نامہ منصف)

عبدالاحد ساز

 

               خط خیر  پر تبصرہ

            ایک منفرد لب و لہجہ کے شاعر کی حیثیت سے رؤف خیر نے اپنی شناخت بنالی ہے۔ تحقیق کے میدان میں بھی انہوں نے اپنی ژرف نگاہی کا ثبوت دیا ہے اور اب ان کا تنقیدی مجموعہ میرے پیش نظر ہے۔ تقریباً سارے مضامین کسی نہ کسی جہد سے فن اور فنکار کے نئے افق سے رو شناس کراتے ہیں اگر تنقید تعین قدر اور ادب فہمی کا نام ہے تو بلا شبہ یہ مضامین بہترین تنقیدی افکار کہے جانے کے مستحق ہیں اور اگر تنقید محض حسن و قبح تلاش یا دودھ کا دودھ پانی کا پانی فیصلہ کر نے کا نام ہے تو ان تحریروں کو تنقید نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں حسن و قبح کی دید و دریافت منصفانہ فیصلے کے علاوہ بھی کچھ اور ہے۔ ان مضامین کے مطالعے سے صرف مسرت ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ فن اور فنکار کے نئے گوشے اور نئے امکانات یا فنی جہت کی کوئی پرت کھلتی نظر آتی ہے۔   میرے خیال میں در اصل نا قد کی کامیابی کی یہی دلیل ہے ان مضامین کے خالق کی تحریروں میں اعتماد ہے اور ان کا لہجہ اور آہنگ چونکا دینے والا اور بے باکانہ ہے۔ جا بہ جا طنز کا بھی سہارا لیا گیا ہے لیکن لہجے میں کہیں تمسخر یا پھکڑ پن کا احساس نہیں ہوتا۔ ملاحظہ ہوں ان کے نظریات کے سلسلے کے چند جملے۔

 ’’ بہترین الفاظ میں بہترین خیالات کو بہترین انداز میں پیش کر نے کا نام ادب ہے‘‘

 ’’الفاظ ، موضوع اور اسلوب تینوں لازم و ملزوم ہیں الفاظ بڑے خوشنما ہوں مگر موضوع گھٹیا اور اسلوب دل نشیں نہ ہو تو ادب تخلیق نہیں پا سکتا۔ موضوع بڑا اچھوتا ہو مگر اس کو بیان کر نے میں شاعر یا ادیب نا کام رہا ہو تب بھی ادب وجود میں نہیں آپاتا اور محض اسلوب کی خوبصورتی کھوکھلے موضوع کو ادبی وقار نہیں عطا کر سکتی۔ شاعری پر تنقید تو کی جا سکتی ہے مگر تنقید میں شاعری کر کے خود نا قد مذاق کا نمونہ بن جاتا ہے۔ علامت کی خصوصیت یہی ہے کہ اس کی تمام خصوصیت کا احاطہ نا ممکن ہے۔ یہ تو وہ ریگِ نم ہے کہ جہاں کھو دئیے میٹھے پانی کا چشمہ نکل آتا ہے۔ ‘‘مجھے امید ہی نہیں یقین ہے کہ آپ ان جملوں کی کاٹ اور اثر انگیزی سے متاثر ہوئے بغیر ان جملوں کی بے ساختگی کی داد  دئیے بغیر نہیں رہ سکتے اور اگر واقعی ایسا ہی ہوا تو پھر رؤف خیر اپنی بات آپ تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے اور یہی ان کا مقصد بھی ہے۔ یہ ایک تخلیقی فنکار کی تخلیقی تنقید کا کامیاب نمونہ ہے

ڈاکٹر محمد محفوظ الحسن۔ مگدھ یونیورسٹی۔ بودھ۔ گیا

 

               مجموعہ کلام  ’’ اقرا ‘‘ پر  تبصرہ

            حیدرآباد کے رؤف خیر کا شعری مجموعہ کھولا تو ایسا معلوم ہوا کہ گیلی لکڑیوں کی ٹال پر جو ایندھن تلوایا تھا اس میں صندل کی ٹہنی بھی چلی آئی ہے۔ مہکتی ہوئی۔

            شاعر نے پشت کے سرورق پر اپنا فوٹو چھاپ دیا۔ حالات نہ لکھے۔ اگر چہ شعر کو تولتے وقت شاعرکی زندگی سے جان کاری لازم نہیں تا ہم اس سے کچھ روشنی مل جاتی۔ بعض اوقات کسی نظم یا شعر کی اہمیت خود شاعر کے اعمال نامے سے وابستہ ہوتی ہے۔

            یہ پتلا سا ایک سو بیس صفحے کا مجموعہ قرآن کے سورہ ٔ  علق  (اقراء باسم ربک) سے اور اس کے بعد نعت سے شروع ہوتا ہے اور تمام ہوتا ہے ترائیلے(فرانسیسی صنف سخن) پر جسے اردو میں وارد ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں گزرے۔ آخری ترائیلے اپنے اکلوتے بھائی کے نام ہے ’’ دیوار‘‘:

ایک ہی چھت کے تلے رہنا جو چھوٹا اپنا

ایک ہی شہر میں رہتے ہیں نہ رہنے کی طرح

اتنا بودا تو نہ تھا خون کا رشتہ اپنا

ایک ہی چھت کے تلے رہنا جو چھوٹا اپنا

اپنی اپنی ہے خوشی ، درد ہے اپنا اپنا

ہم ہوئے شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح

ایک ہی چھت کے تلے رہنا جو چھوٹا اپنا

ایک ہی شہر میں رہتے ہیں نہ رہنے کی طرح

            مگر یہاں مشاہدوں کے تحفے اس طرح بکھرے پڑے ہیں کہ ہمیں شاعر کا احوال جاننے سے بے نیاز کر دیتے ہیں غزلیں ، آزاد  و  پابند نظمیں ، سانیٹ، ترائیلے۔ یہاں سب رنگ ہیں اور سب میں الگ الگ قسم کی تازگی۔ زندگی سے شاعر کے برتاؤ کی جھلکیاں۔ وہ نہیں جیسے استادان سخن اپنا دیوان مرتب کر تے وقت اگر دیکھتے کہ حروف تہجی میں کوئی ایک آدھ حرف ردیف قافیہ میں بندھنے سے رہ گیا تو اس حرف کے نام کی بھی غزل لکھ لکھا کر دیوان میں ڈال دیا کرتے تھے کہ گڈھا نہ رہ جائے رؤف خیر نے جہاں تک نظر گئی حسن اور درد کے نام سے آنچ لی ہے۔ پڑوسی کے چولہے سے نہیں مانگی۔ کچی مشق کے باوجود وہ سچے شاعر ہیں۔ پہلی ہی غزل کا مطلع ہے:

ابھی  نگاہ  کو  پیغمبرانہ  ہونا ہے

کہ فلسفوں کو  ابھی عامیانہ ہونا ہے

یہاں عامیانہ کا لفظ غالباً عام فہم کے معنی میں آیا ہے اور  ’’ ابھی‘‘ کی تکرار بھی کچھ خوشگوار نہیں۔ ان دونوں کوتاہیوں کے باوجود اس تصور کی رینج ایسی زبردست ، فلسفہ اور پیغمبری کے رشتے پر ایسی خیال انگیز اور دو ٹوک کامنٹری ہے کہ شعر بیک وقت دل و دماغ میں پیوست ہو جاتا ہے اور کیا سادہ مقطع ہے: رؤف خیر چلو یہ بھی اب غنیمت ہے

 بھلائی کہتے ہیں جس کو ، برا نہ ہونا ہے

اساتذہ کی نظر میں پہلے مصرعے کو یہاں ہے پر ختم نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ تب بھی عیب تھا اور اب بھی عیب ہے۔ مگر شعر کیسا ہے ؟۔ ہے نا سچا۔ ؟

پوری غزل دی جائے تو شاعری کی اونچ نیچ کھلے:

تجھ کو پا لینے سے بہتر ہے ترا کھو جانا

آج اتنا  مِرا مایوس وفا ہو جا

جب کوئی زخم ہتھیلی پہ لگا تو جانا

 ہائے کیا چیز ہے پابند حنا ہو جانا

آج تک بھی وہی دیوانہ ادا باقی ہے

گھر سے نکلے تو تری راہ گزر کو جانا

خشک لمحوں کے ہیں مارے ہوئے ہم لوگ، ہمیں

رات بھیگے تو ضروری تو نہیں سو جانا

تو پشیمان نہ ہو ہم نے یہی سوچا ہے

داغ نا کردہ گناہی کے ہیں ، کیا دھو جانا

کون پھر بھیڑ میں کیا جانے کہاں رہ جائے

آؤ فرصت ہے ابھی ، خاک اڑا لو ، جانا

آج سونی ہیں بہت دیر و حرم کی راہیں

 اُس طرف ہو کے ذرا بادہ گسارو، جانا

خیر آنکھوں کے تہی کاسے لیے پھرتا ہے

اور کس  چیز  کو کہتے ہیں  لہو  رو جانا

            ہم عصر عزیزوں کو غالب پسندوں سے چڑ ہو گئی ہے کہ وہ غالب کے پھیر میں پڑیں اور اپنے زمانے کے ابھرتے ہوئے ’’ غالبوں ‘‘ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ سلیمان اریب ، محمد علوی، رفعت سروش، عبداللہ کمال، سب کے ہاں ایک آدھ چھینٹا ادھر بھی پڑتا ہے۔ بعضے تو غالب پر ہی غرانے لگتے ہیں مگر معقولیت کا شکوہ وہ ہے جو رؤف خیر نے کیا۔ سانیٹ ہے  ’’ نذر غالب‘‘ :

  ’’ نذر غالب‘‘

محرف ہو چکیں تو رات کی سب آیتیں بھائی

نئے پیغمبروں پر اب نئے سورے اتر تے ہیں

جو اپنے دور کے معیار پر پورے اتر تے ہیں

نئے معنی دکھاتی ہے نئے لفظوں کی رعنائی

نئی دھوپوں میں پچھلی رات کے سب خواب زرد آئے

مسائل نور کی ہر بوند پی لینے کے عادی ہیں

ادھر ہم بھی نئے سورج اگا دینے کے عادی ہیں

کہ ہم ڈرتے ہیں اپنے قد سے بڑھ جائیں نہ یہ سائے

غلط ہے یہ کہ ہم ماضی کی تصویروں سے چڑتے ہیں

مگر یہ سچ ہے اپنا درد ، اپنا درد ہوتا ہے

ترے لہجے میں اپنا غم سمونا ایک دھوکہ ہے

نئے لوح و قلم پیچیدہ تحریرو ں سے چڑتے ہیں

تو اپنے  دور  کی  آواز  تھا ،  یہ  مانتے  ہیں ہم

مگر جو  غم ہے  اپنے دور  کا  پہچانتے  ہیں  ہم

ڈاکٹر  ظ۔ انصاری

(  ’’ بلٹزاردو ‘‘ ممبئی ۳۰ ستمبر ۱۹۷۸ء)

(یہ تبصرہ ڈاکٹر ظ۔ انصاری کی کتاب ’’ کتاب شناسی‘‘ میں بھی شامل ہے۔ )

 

مشاہیر کے خطوط

               شمس الر حمن فاروقی

نومبر ۲۰۰۱ء                   برادرم رؤف خیر !  السلام علیکم

آپ کی کتاب  ’’ قنطار ‘‘ میں نے بہت دلچسپی سے پڑھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسا کالی داس گپتا رضا صاحب نے آپ کے دیباچے میں لکھا ہے۔ فارسی سے اردو میں ترجمہ کرنا اتنا آسان نہیں جتنا بظاہر معلوم ہوتا ہے اس پر طرہ یہ کہ حضرت علامہ کے مصرعے بظاہر سادہ ہوتے ہیں لیکن ان میں گہری معنویت ہوتی ہے اور نظم کیا نثر میں بھی ترجمہ کریں تو خوف رہتا ہے کہ حق ادا نہ ہو گا۔ آپ نے نظم  ’’تنہائی‘‘ کا ترجمہ خوب کیا ہے۔ لالہ طور کی رباعیوں کے ترجمے میں جگہ جگہ دلکشی نظر آئی۔ مجموعی حیثیت سے آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔             آپ کا۔ شمس الر حمن فاروقی

٭٭٭

               ندا فاضلی ممبئی

رؤف خیر صاحب  تسلیم

            قنطار ملی شکریہ !

            آپ ادب کی ایک نہایت فعال شخصیت ہیں

            تخلیق ، تنقید، ترجمہ۔  آپ کے قلم نے ادب کا ایک بڑا دائرہ بنایا ہے اور ہر جگہ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ کر کے دکھایا ہے۔

            ڈاکٹر اقبال کے فارسی قطعات کا منظوم ترجمہ ، زبان پر آپ کی دسترس اور شعری ذہانت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

            کالی داس گپتا رضا  اور  تسخیر فہمی  جیسے دانشوروں کی تحریریں جو اس کتاب میں  شامل ہیں کسی بھی شاعر و ادیب کے لیے فخر کی بات ہے۔

            آپ کی اس اہم ادبی تخلیق ( میں ترجمہ کو تخلیق ہی مانتا ہوں ) کے بارے میں ،  میں اس کتاب میں شامل آپ ہی کے الفاظ دہراؤں گا:

نہ کہہ کچھ مدعائے زندگی پر

اداؤں سے تو اس کی بے خبر ہے

میں ہوں ذوق سفر میں مست اتنا

مجھے منزل بھی سنگ رہ گزر ہے

            خدا آپ کے ذوقِ سفر کو یوں ہی زندہ و تابندہ رکھے اور اسی طرح نئی نئی منازل کا  سراغ دیتا رہے

            اچھے ہوں گے۔ دوستوں سے سلام کہیں۔

            کتاب کی اشاعت پر مبارکباد

خیر طلب

               ندا فاضلی

بھائی رؤف خیر

            شرمندہ ہوں کہ شہداب ملنے کی رسید تاخیر سے بھیج رہا ہوں۔ مجموعہ میں نے پڑھا اس میں شامل کئی چیزیں کہیں مشاعروں میں کہیں رسائل میں سن پڑھ چکا ہوں پھر بھی یکجا صورت میں انہیں پڑھ کر تمہارے شعری مزاج سے بھر پور تعارف ہوا۔ یہ بھی محسوس ہوا تم بیشتر شاعروں کی طرح صرف غزل زدہ نہیں ہو۔ غزل کے علاوہ بھی تم نے اپنے اظہار کے لیے دوسری اصناف کا کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ تمہاری غزلوں میں فکرو اظہار کی تازہ کاری اور نظموں میں طنز و جذبہ کے رچاؤ کی فنکاری تمہاری ذہنی بیداری کا ثبوت ہے۔ تمہارا تخلیقی مزاج نیا ہوتے ہوئے بھی تاریخ اور اس کی تہذیبی اقدار سے ہم رشتہ ہے۔ خدا کرے یہ مجموعہ تمہاری آخری منزل نہ ہو۔ میں اس پر کہیں تفصیلی تبصرہ کروں گا۔ یہ خط صرف کتاب کی رسید ہے۔

                        خیر طلب۔          ندا فاضلی۔ ممبئی

               گیان چند

۷ مارچ ۱۹۹۴ء   محبی تسلیم !

پرسوں سنیچر کے دن آپ کا مجموعۂ کلام  ’’ شہداب‘‘ ملا۔ زندگی شیریں تر ہو گئی۔ آپ کا شکریہ ادا کر تا ہوں ورق گردانی کی۔ آپ نے خوب خوب کہا ہے۔ غزلیں اور نظمیں دونوں دامن توجہ کو پکڑ لیتی ہیں۔

آپ کا یہ مصرع( صفحہ ۸۰ )میرے بہت کام آئے گا۔ ع ’’ مری دکان پہ بیساکھیاں نہیں بکتیں ‘‘

            کوئی مجھے فرمائشی تنقید ( تحسین؟)کے لیے کہے گا تو میں آپ کا مصرع لکھ کر بھیج دیا کروں گا۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔    مخلص۔ گیان چند(جین)

٭٭٭

               ڈاکٹر محمد محفوظ الحسن

۲۸ مئی ۲۰۰۵ء

مکرمی تسلیم  !  امید ہے مزاج گرامی بخیر ہو گا۔ کتابوں کی رسید پہلے ہی بھیج چکا ہوں۔ کتابوں کے تعلق سے اپنے تاثرات حاضر خدمت ہے۔ ’’ قنطار ‘‘ کے تعلق سے اتنی عظیم اور برگزیدہ ہستیوں نے اظہار خیال کیا ہے کہ ان کی رائے کے مقابل میرا کچھ کہنا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا پھر بھی چند جملے تحریر کر نے کی ہمت کر رہا ہوں۔

            کوئی فنکار کسی دوسرے فنکار کے فکر کی اس سے اچھی اور بہتر ترجمانی نہیں کر سکتا۔ آپ نے اقبال کی فکر کو ہی نہیں بلکہ روح تخلیق کو بھی ایک نیا لباس عطا کیا ہے۔ ایسا لباس جس میں نئی تعمیر و تخلیق کے وہ سارے جلوے بکھرے نظر آتے ہیں جو قلب و دماغ کو فرحت و سکون تو عطا کر تے ہی ہیں ساتھ ہی شعور و ذہن کو جلا بخشتے ہیں اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جسے ہر دو زبان کے تہذیبی، تاریخی اور لسانی رشتوں سے گہری واقفیت ہوتی ہے۔ آپ کے ترجمے تخلیقی ہنر مندی کا ایک نیا منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ یہ اردو زبان کی ایک بڑی خدمت ہے۔ اس سے چشم پوشی کرنا اور اس کی داد نہ دینا ادبی بد دیانتی ہو گی۔ تخلیقیت اور فنکارانہ ہنر مندی کی مثال کے طور پر صرف ایک قطعہ پیش ہے۔

محبت سے تو نگر سب کہاں  ہیں            یہ کب ہوتی ہے سب پر آشکارا

ہے  لالہ سرخ رو  داغ جگر سے           دلِ لعل بدخشاں بے شرارا

            اس قطعے کو ترجمہ کون کہے گا ؟  اور اگر یہ ترجمہ ہے تو  تخلیق کسے کہیں گے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سخن ملتوی کی غزلوں میں کلاسیکی اور عصری حسیت کا بہترین امتزاج نظر آتا ہے جیسے

پرندو لوٹو سر شام آشیانوں کو

 خراب ہیں ابھی حالات ، رات مت کرنا

کبھی ہوا تھا جو میرے ہی نام پر تعمیر

کرایہ دار کی صورت اسی مکان میں ہوں

وہ اپنی بات پہ قائم کبھی نہیں رہتا

مشاہدہ ہی نہیں ہے یہ تجربہ بھی ہے

پتہ نہیں انہیں یہ بد گمانیاں کیوں ہیں

کہ رائفل سے مسائل بھی حل تو ہوتے ہیں

نہ دیکھ چشم حقارت سے ان بزرگوں کو

کھنڈر بھی حسب روایت محل تو ہوتے ہیں

جس شاعر کے ترکش میں ایسے ایسے تیر ہوں ، اس کی شاعری کا کیا کہنا؟

والسلام  ڈاکٹر محمد محفوظ الحسن(موظف)                  مگدھ یونیورسٹی۔ بودھ۔ گیا

٭٭٭

               حکیم منظور

( مدیر ’’ خبر و نظر‘‘ سری نگر)

برادر عزیز  رؤف خیر :  السلام علیکم  و  رحمت اللہ

            یہ نہیں کہ مشاعرے کے بعد میں نے آپ کو یاد نہیں کیا۔ ایک دلنواز ،  با  ذوق اور بذلہ سنج آدمی کو بھولا جا سکتا ہے ؟ خط لکھا ہوتا مگر وہی شاعرانہ تساہل( حالانکہ مشہور  Poetic Justice  ہے ) مانع آیا۔ آج کل کر تے کر تے اتنے دن گزر گئے۔ کل  ’’ سہیل ‘‘ کا پر چہ آیا تو آپ کی غزلوں نے خط لکھنے کی ترغیب و تحریص دی۔

            آپ کا شعری مجموعہ جستہ جستہ پڑھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان لوگوں کی تعداد کتنی ہے جنہوں نے  ’’شعر کیا ہے ‘‘ کی وضاحت کی ہے۔ میرے نزدیک شعر ایک احساس ہے ، ایک کیفیت ہے جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شعر تشریح و تفسیر سے یا تو شعر نہیں رہتا یا شاعر نہیں رہتا:

یہاں تو ہاتھ قلم کر دئیے گئے ہیں کئی

سو  اس نگر میں کہیں تختیاں نہیں ملتیں

کیسی ہوا بدل کے اچانک ہی رہ گئی

 سر کھو گیا ، کلاہِ مبارک ہی رہ گئی

بری کچھ اتنی بھی آلودگی نہیں ہوتی

 گمانِ پاک لیے مشتِ خاک سے نہ ملو

            کتنے اشعار کا حوالہ دوں۔ کیا ان اشعار کی تشریح واقعی ممکن ہے ؟  ایک اور بات کہوں ؟ شاعر وہ ہے جو زبان سے لڑنا جانتا ہو اور اسے اتنا رام کر سکتا ہو کہ شاعر کی بات اسی لہجے میں ادا کرے جو شاعر کے خیال کا لہجہ ہو۔ آپ کے مجموعے میں میری اس بات کی تصدیق کر نے کے لیے درجنوں اشعار ہیں۔ واللہ مجھے یہ مجموعہ  ’’ شہداب‘‘ بے حد پسند آیا کہ معمولی اور معمولات سے ہٹ کر والی بات اس میں ملی۔ آج کل جو ہم اسلوب غزلیں کہی جا رہی ہیں ان کے حوالے سے بھی یہ مجموعہ منفرد ہے۔

             ’’خط خیر‘‘ میں  اچھے مضامین ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ تنقید پر ہی تو جہ کریں گے تو یقیناً کوئی بات کہیں گے۔ آپ کے جملوں میں کاٹ بھی ہے اور ٹھاٹھ بھی ہے۔ زبان پر دسترس اس کا سبب ہے۔ ادھر ہماری یونیورسٹیوں سے ایسے ایم اے اور پی ایچ ڈی  برآمد ہو تے  ہیں جو حال کو ہال اور صنم کو سنم لکھتے ہیں۔ کوشش جاری رکھیں۔ کشمیر آنے کا کوئی موقع تلاش کیجئے۔ اگر ہم نے اردو کانفرنس بلائی تو آپ موجود رہیں گے۔ کار لائقہ سے یاد کیجئے۔

                      آپ کا

                        حکیم منظور

               ڈاکٹر مظفر حنفی

 پروفیسر اقبال چیر، کلکتہ یونیورسٹی

۸ مارچ ۱۹۹۴ء   برادر عزیز سلام مسنون

شہداب کی اشاعت مبارک ہو۔ اور اس خوبصورت تحفے کے لیے شکریہ بھی قبول کیجئے۔ انشاء اللہ اس کے مطالعے سے حظ حاصل کرونگا۔ فاروقی صاحب نے اچھی خاصی رائے بھیج رکھی ہے ہماری طرف سے بھی یہی سمجھئے۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ آپ اب فہرستوں میں نام وغیرہ دیکھنا بند کر دیجئے اب وہ منزل گزر گئی ہے۔ لوگ نام لیں نہ لیں ، رائے دیں نہ دیں آپ کی حیثیت پر حرف نہیں آتا، مرتبے میں کمی نہیں ہوتی۔

٭٭٭

               وقار حلم  سید نگلوی

مصنف دیوان غیر منقوط  ’’ مرصع حلم، رام پور

  ۳۱ جنوری ۱۹۹۴ء

برادر مکرم سلامٌ علیکم !     الحمد للہ بخیر ہوں خدا سے آٹھوں پہر یہی دعا ہے کہ رؤف خیر بخیر ہوں۔

۶ ڈسمبر ۱۹۹۳ء کو ’’ مرصع حلم‘‘ روانہ کر چکا ہوں۔ عروض کے کچھ دام بالائے طاق رکھتے ہی  وقارؔ  رؤف خیر کی عروس سخن کے دام عشق کا ایسا اسیر ہوا کہ  ’’ شہداب‘‘ کو آنکھوں سے لگائے بیٹھا ہے۔ المختصر ’’شہداب‘‘ اس قدر پسند آیا کہ خوب مزے لے لے کے چاٹا اور اس کی لذت سے جو تاثرات پیدا ہوئے قطعات کی شکل میں سپرد قلم کیے۔ شاید پسند آئیں۔ زیادہ کیا لکھوں۔

رؤ ف خیر کا شیریں کلام ہے شہداب

ادب نوازوں میں مقبولِ عام ہے شہداب

وقارؔ اہل زباں ہم ہیں ہم سے پوچھئے گا

   خیال و فکر کا رنگین جام ہے شہداب

اک شاعر خوش فکر کی گفتار ہے شہداب

جدت کے لب و لہجہ سے سرشار ہے شہداب

تنقید نہ کر حلمِ حزیں خیر کے فن پر

       دنیائے ادب کا نیا شہکار ہے شہداب

حقیقت کو حقیقت خواب کو جو خواب کہتے ہیں

     وہی اہل نظر نا یاب کو نایاب کہتے ہیں

وقار آتا ہے جدت کا سلیقہ جس کے پڑھنے سے

ادب کے اس حسیں شہکار کو شہداب کہتے ہیں

 

انتخاب

صبح کاذب

یہ سچ ہے جھوٹی حکایتیں /من گھڑت لطیفے

 سنانے والے نے یہ کہا تھا

کہ لومڑی باز کی بہن ہے

جو شاخِ زیتون شوق سے نوش کر رہی ہے

تمام نا بستہ شیر سرکس کے اپنے

 پنجروں میں جا چکے ہیں

جناب دجال ایک مہدی کے روپ میں

گاہ مشرق میں گاہ مغرب میں جلوہ فرما ہیں

اوس و خزرج میں پھر لڑائی ٹھنی ہوئی ہے

فرات گنگا میں مل رہا ہے

نشان ہر شہر ہے فلسطین بے نشاں کا

گمان کیا کیا ہے بد گماں کا

پھر اس روایت کے بعد راوی نے

یہ بھی چپکے سے کہہ دیا تھا

کہ ذکر اس کا کہیں نہ کرنا

یہ جھوٹ ہے سب یقین نے کرنا

اور اس قدر زور کا قہقہہ پڑا تھا

جو دیدۂ تر میں آ کے ٹوٹا۔ یہ سچ ہے

 

میں  اپنی آواز کھو رہا ہوں

میں  اپنی آواز کھو رہا ہوں

یہ کن مناظر کا بوجھ آنکھوں پہ ڈھو رہا ہوں

یہ کیسی چیخیں سماعتوں میں سمو رہا ہوں

فضا دکن میں جو معتدل تھی و مشتعل ہے

عجیب آندھی ہے برگ نو خیز ہو کہ بر گد

ہے  اس کی زد میں

نہیں ہے کوئی بھی اپنی حد میں

بہا چلا جا رہا ہے ہر خواب رد و کد میں

شمال شعلوں میں گھر گیا ہے

کہ ایک چنگاری برف زاروں میں بھی ہے زندہ

جو اپنی خاکسترِ بدن سے اٹھی  تو کتنوں کے سر چڑھی ہے

چھڑے ہیں دیر و حرم کے قصے

نہ دیر سے دیریوں کو اگلا سا پیار

اہل حرم بھی اب بے حرم بہت ہیں

وہی انا کے شکار۔ بے اختیار دونوں

شکار مشرق میں مہر  آشوبِ چشم کا ہے

تمام دن سر پہ خاک ڈالے

وہ سبز منظر بھی  لال آنکھوں سے دیکھتا ہے

سفید گھوڑے ہیں کالے بھوتوں کی دسترس میں

سر پر ہے خاک

بدن میں مغرب کے جو سرایت ہے زہر بے نام زخم کا ہے

وہ زخم جس کو سمندری پانیوں سے دھو نے کی کوششیں ہو رہی ہیں دن رات

زہر وہ جو رگوں میں پٹرول بن کے گردش کرے۔ دھماکے کا منظر ہے

سمندری فیل اک اشارے کے منتظر ہیں کہ روند ڈالیں

ادھر سنبھالے ہوئے ابابیل

اپنی چونچوں میں تشنہ و تاب کا ر کنکر

بساط مشکل ہوئی ہے اک مہرۂ غلط سے

ہیں ایک گھوڑے کی زد میں شاہ و وزیر دونوں

غروب جس سر زمیں میں سورج نہ ہو سکا تھا

 وہ دم بخود ہے

انہی کو انعام و خلعت فاخرہ ملی ہے

جو  بر بریت کی ایک ننگی مثال ٹھیرے

چہار جانب انہی عناصر کی حکمرانی ہے

کون سنتا  مری کہانی

میں اپنی آواز کھو رہا ہوں

وداع اب تم سے ہو رہا ہوں

مگر یہ سن لو

زبان اک گنگ ہو گئی ہو تو یہ نہ سوچو

کہ اب نہ ٹوکے گا کوئی تم کو

اگر کوئی آنکھ بجھ گئی ہو تو یہ نہ سمجھو

کہ اب نہ دیکھے گا کوئی تم کو

اگر کوئی ہاتھ کٹ گیا ہو تو یہ بھی دیکھو

ہزار ہاتھوں کا ایک جنگل اگا ہوا ہے

ہے پاؤں کوئی جو چھالا چھالا تو یہ تو جانو

کبھی کوئی راہ بے قدم بھی کہیں ہوئی ہے !

وہی جیالوں کی بھیڑ سی اک لگی ہوئی ہے

 

بے اثاثہ

(والد مرحوم کی نذر)

یہ واقعہ ہے کہ میں ابن بے اثاثہ ہوں

نہ کوئی گھر نہ زمیں پائی میں نے ترکے میں

وہ ایک گھر جو تھا  پُرکھوں کا آخری پندار

ہوا ہے اس پہ بھی اتمامِ لطف آخر کار

مری شریک نفس ہے تمہاری ہانپتی سانس

لہو تمہارا مرے جسم و جاں میں شامل ہے

تمہارا رعشہ گناہوں سے روکتا ہے مجھے

یہ ہاتھ خالی نہیں صاحبِ قلم ہوں میں

یہ آنکھ کاسہ نہیں ، چشمِ معتبر ہوں میں

یہ دل سیاہ نہیں نور کا سمندر ہے

مجھے تمہارے وسیلے سے مل گیا کیا کیا

یہ جھوٹ لگتا ہے ، ابن بے اثاثہ ہوں

 وفات  ۳۰ جون ۱۹۷۲ء

 

چھاؤں

(والدہ مرحومہ کے نام )

کسی نے شاخ لگا لی ہے اپنے آنگن میں

کسی نے پھول چنے ہیں ، کسی نے پھل چکھّے

کسی نے چھال سے تیری بنا لیا صندل

کسی کسی نے تو  پتوں سے گھر سجا ڈالا

تجھے خبر تھی کہ میں ایسا اک مسافر تھا

گھنی گھنی تری چھاؤں میں بیٹھ جاتا تھا

کہ تیری چھاؤں ہی زاد سفر تھی میرے لیے

کڑی ہے دھوپ بھی، لمبا ابھی سفر ہی نہیں

کہاں رکوں مرے رستے میں اب شجر ہی نہیں

وفات  ۲۳ ستمبر ۱۹۸۹ء

 

ابھی نگاہ کو پیغمبرانہ ہونا ہے

کہ فلسفوں کو ابھی عامیانہ ہونا ہے

میں ایک پودا ہوں ملبے میں سانس لیتا ہوا

کہ اس کھنڈر میں مجھے بھی خزانہ ہونا ہے

عجب پرندہ ہے ہر زد سے بچ نکلتا ہے

پتہ نہیں اسے کس کا نشانہ ہونا ہے

ہمیں اندھیرا ہیں ، یہ طے ہے آپ سورج ہیں

ہمارا ہونا مگر آپ کا  نہ ہونا ہے

میں چپ نہیں ہوں کہ اس دور ابتلاء میں مجھے

حریفِ خامشیِ مجرمانہ ہونا ہے

سنو یہاں سے مرے دوستو اجازت دو

مجھے تلاش میں اپنی روانہ ہونا ہے

بھلا دیا ہے کسی نے تو کوئی غم نہ کرو

ہر ایک شخص کو اک دن فسانہ ہونا ہے

رؤف خیر چلو یہ بھی اب غنیمت ہے

بھلائی کہتے ہیں جس کو  برا  نہ  ہونا ہے

‘‘اقرا‘‘ سے(۳۱ مئی  ۱۹۷۷ء)

کسی کے سنگ ملامت سے اور حسد سے بچاؤ

مجھے جنوں سے بچاؤ ، مجھے خرد سے بچاؤ

میں ابر ہوں مجھے یوں بھی کہیں برسنا ہے

مگر خدا کے لیے دشتِ نا بلد سے بچاؤ

بہت دنوں میں سلگنے طرز آیا ہے

چراغِ جاں ذرا پاگل ہوا کی زد سے بچاؤ

میں بے لباس ہوں اب اے شکستہ دیوارو

مجھے ملامتِ شہرِ دراز قد سے بچاؤ

یہاں تو جو بھی ہے بھٹکا ہوا ہی لگتا ہے

کہوں میں کس سے مجھے راہ مسترد سے بچاؤ

مرا  وجود  مرے  دور کا تقاضہ ہے

مجھے خدا کے لیے قاتلوں کی زد سے بچاؤ

میں اک جزیرہ ہوں تم ماہتاب کامل ہو

گھرا ہوا ہوں سمندر کے جزر و مد سے بچاؤ

کہا کرو نہ لہو صرف کر کے خیرؔ غزل

خدا کے واسطے خود کو نگاہِ بد سے بچاؤ

 ’’اقرا‘‘ سے ( ۲۰ فبروری ۱۹۷۱ء)

 

تراجم

میر غلام علی آزاد بلگرامی

کارِ دل بالاست از زلفِ گرہ گیر شما

بستہ او را برد در فردوس زنجیرِ شما

کو فروغِ بخت تابینم جمالِ اصل را

چشم و دل را می دہم تسکیں زتصویر شما

بوالہوس از مکرزخمی می نماید خویش را

دامنِ خود سرخ کرد از خونِ نخچیرِ شما

آہوانِ ایں بیاباں طرفہ وجدی می کنند

التفاتی کرد شاید چشمِ رہگیرِ شما

می کند آں نرگسِ خوش حرف امدادِ زباں

ہست ایں معنی عیاں از حسنِ تقریرِ شما

جزبخونِ بے گناہاں نیست مایل طبعِ او

جوہری دارد نہایت طرفہ شمشیرِ شما

می تواں از نامۂ مشتاقِ خود را یاد کرد

می کند از بندِ غم آزاد تحریر شما

٭٭٭

 

مترجم:   رؤف خیرؔ

سربلندی دے گئی زلفِ گرہ گیر آپ کی

باندھ کر دل لے گئی فردوس زنجیر آپ کی

ایک زینہ ہے جمالِ اصل تک جانے کا یہ

اور تسکینِ دل و جاں بھی ہے تصویر آپ کی

وہ شہیدوں میں لگا کر خون شامل ہو گیا

بوالہوس نے مکر سے اپنے یہ تدبیر آپ کی

چوکڑی بھرنے لگیں اس دشت کے سارے ہرن

گر پڑے اُن پر اچٹتی چشمِ رہ گیر آپ کی

کیا کیا معنی خیزی، معنی آفرینی ہے عیاں

نرگسِ خوش حرف کی امداد  ،  تقریر آپ کی

بے گناہوں کے لہو کی چاٹ اس کو پڑ گئی

کاٹ ہی اپنی الگ رکھتی ہے شمشیر آپ کی

کیجئے گا یاد دستِ ناز کی تحریر سے

بندِ غم سے کرتی ہے آزاد تحریر آپ کی

٭٭٭

 

میر غلام علی آزاد بلگرامی

بے فنای خود میسر نیست دیدارِ شما

می فروشد خویش را اول خریدارِ شما

رہ نسیم ناتواں را داد گلزارِ شما

بودہ ام از مدتی من نیز بیمارِ شما

من کہ باشم تاشوم در بزم والا بار یاب

می کنم سر را فدا برپای دیوارِ شما

صبح دم ارشاد شدالبتہ شب برمی خوریم

می شناسد خوب مخلص صدقِ گفتارِ شما

گرکشد مولا غلامی  را  نمی باشد قصاص

ایں قدر  از کشتنِ من چیست انکارِ شما

اند کی ترسِ جنابِ کبریا ہم  لازم است

عالمی  را  کرد بسمل ظلمِ سرکارِ شما

جانِ من آزادؔ  ر ا  ز نجیر فرمودن چرا

ہست ایں  دیوانہ  از خود  نوگرفتارِ شما

٭٭٭

 

مترجم:   رؤف خیرؔ

آپ اپنے سے گزر جائے تو دید ار آپ کا

پہلے خود کو بیچ دیتا ہے خریدار آپ کا

دے نسیمِ ناتواں  کو  راہ گلزار آپ کا

ایک مدت سے تو میں خود بھی ہوں بیمار آپ کا

آپ کی بزمِ عُلا میں بار یابی کے لیے

میرا ماتھا ہے فدائے پاے دیوار آپ کا

پی گئے ہم رات کیا کیا، صبح تھا ا رشاد کیا

سب سمجھتے ہیں یہ مخلص، صدقِ گفتار آپ کا

ہے قصاص اپنے غلاموں کا تو مالک پر معاف

کس لیے ہے قتل پر میرے پھر  انکار آپ کا

لازمی ہے کچھ نہ کچھ خوفِ الٰہی چاہیئے

ایک عالم ہے شکارِ ظلم  ،  سرکار آپ کا

جانِ من آزاد تو ہے آپ کا مارا ہوا

یہ تو دیوانہ ہے  از  خود  نوگرفتار آپ کا

٭٭٭

 

میر غلام علی آزاد بلگرامی

می رسم امیدوارِ رحمتِ عام شما

قبلۂ من بستہ ام  از  دور احرامِ شما

می شنیدم  از  زبانِ سایلاں نامِ شما

آمدم تا بہرہ  ای  یابم  ز  انعامِ شما

ہمچوسیاحی کہ  در  ہندوستاں گیر د  وطن

دل اقامت کرد  در  زلفِ سیہ فامِ شما

عیب سرکار  از  زبانِ مردماں نتواں شنید

ورنہ مارا عین اکرام است دشنامِ شما

رنگِ ہوشِ من زتقریرِ صبا پرواز  کرد

بوے خوں می آید  از  اسلوبِ پیغامِ شما

نقدِ دل دادم نیم ناداں کہ سر  راہم  دہم

عاشقِ جاں بازم اما طالبِ بامِ شما

زادِ راہی نیست بامن غیرِ یادِ دوستاں

می برم ہرجا کہ  رو  می آورم  نامِ شما

گرم ساز د انجمن ہا  را  ز آبِ آتشیں

باد عمر  مہرِ  تاباں روزیٔ جامِ شما

نیست عاشق را  بہشتی بہتر از قید بتاں

از  خدا  آزاد  خواہد  سیرِ گلدامِ شما

٭٭٭

 

مترجم:   رؤف خیرؔ

میں کہ ہوں اُمیدوارِ رحمتِ عام آپ کا

میں نے قبلہ، دور سے باندھا ہے احرام آپ کا

یہ سنا ہے سائلوں سے، ہے بڑا نام آپ کا

میں بھی حاضر ہوں کہ پاؤں کچھ تو انعام آپ کا

کر لیا اب ہند کو سیاح نے جائے قرار

دل کا مسکن ہو گیا گیسو سیہ فام آپ کا

ہم برائی آپ کی لوگوں سے سن سکتے نہیں

ورنہ اپنے حق میں ہے اکرام۔ دشنام آپ کا

گفتگو سن کر صبا کی ہوش میرے اُڑ گئے

خون میں ڈوبا ہوا ہے طرز پیغام آپ کا

نقد دل رکھ لوں ، نہ سر ہی دوں ، کوئی نادان ہوں !

عاشقِ جاں باز ہوں میں طالبِ بام آپ کا

دوستوں کی یاد ہی تو ہے مرا زادِ سفر

میں جہاں جاتا ہوں لے جاتا ہوں بس نام آپ کا

جام یہ پی لوں تو پھر ہر بزم گرماتا ہوں میں

مہر تاباں ہو گیا حلقوم میں جام آپ کا

حق میں عاشق کے ہے جنت سے سوا قید بتاں

بلگرامی طالبِ سیرِ گل اندام آپ کا

٭٭٭

 

میر غلام علی آزاد بلگرامی

زندگانی  می  کنم افتادہ برپائے  شما

بودہ ام  ہم  صحبتِ زلفِ چلیپاے شما

تشنگاں  را می  کند  سیراب صہباے شما

باد عمرِ خضر ارزانی بہ میناے شما

حاضرم در انقیادِ حکم والاے شما

می فشانم نقد جاں یابم گر ایماے شما

آبروے خویش را در عاشقی نفرو ختیم

برنتابدغیرت ماقہر بے جاے شما

من کجا و بار یابی درجناب مستطاب

دولتم ایں بس کہ مردم در تمناے شما

گوہر دل داشتم آں را ز خود کردم نباز

چیست دیگراے بتاں بامن تقاضاے شما

تاقیامت صورت اخلاصِ من منظور نیست

یافتم اے واے ایں معنی ز سیماے شما

دلبراں آزاد  را  بارے چہ افسوں کردہ اید

طورِ  او  برگشت  از  روزِ تماشاے شما

٭٭٭

 

مترجم:   رؤف خیرؔ

زندگی میری ہے زیر منتِ پا آپ کی

میری صحبت میں رہی زلفِ چلیپا آ پ کی

کرتی ہے سیراب یوں پیاسوں کو صہبا آپ کی

بانٹتی پھرتی ہے عمرِ خضر مینا آ پ کی

حکم کی تعمیل میں سرکار۔ حاضر ہو گیا

نقدِ جاں میں وار دوں پاؤں جو ایما آپ کی

عاشقی میں ہم نے اپنی آبرو بیچی نہیں

اپنی غیرت کے منافی ہے یہ ایذا آپ کی

میں کہاں اور بار یابی آپ کے در کی کہاں !

میری پونجی تا دمِ آخر تمنا آپ کی

رکھ دیا قدموں میں اپنا گوہر دل کھول کر

اے بتو خدمت کروں میں اور اب کیا آ پ کی

جذبۂ صادق مرا تا حشر نامنظور ہے!

حیف پایا ہے یہ پیشانی پہ لکھا آپ کی

دلبروں نے لاکھ جادو تو کیا آزاد پر

سب سے برگشتہ ہے جانب جب سے دیکھا آپ کی

٭٭٭

 

Shopping

Raoof Khair

The squirrel was, beyond doubt, a masterpiece

But stuffed with grass

We did not buy the doll

For it was merely daintily dressed

The portrait could speak

But not more than that.

The porcelain crown was perishable

The monarch great

But carved out of "ivory”

The Form rattled but kept on crumbling.

We did not like anything

The coins lingered in our pockets for a  while.

Then it so happened

On way  back  home

We purchased eyes

From an eyeless beggar.

Translated by BALRAJ KOMAL.

"Urdu Alive” Ludhiana

Winter Issue 1996.

 

The Dwarfs Dreamt

Raoof Khair

The dwarfs

the denizens of the coastal land

peeped out of their sandy holes

and saw big cities

skyscrapers

people winsome and tall

people of status and substance.

The very sight enraged thre dwarfs.

They felt dazed.

One day

the dwarfs assembled

to hatch a  conspiracy

to kill them all

those winsome and tall

And they killed them

killed them all

One by one

The dwarfs

after all

were to remain dwarfs.

Translated by Bhupinder Parihar

(Editor)

URDU ALIVE , Ludhiana

Summer Issue  1997.

 

رؤف خیر کی نظم ’’ بونوں کا خواب‘‘ کا ترجمہ

Dream of Dwarves

Dwarves living near the sea

Raised their heads from sandy dunes

Beheld cities wide and abroad

With houses built high,

Dwelt by people handsome and tall

Respected by all.

The pygmies fretted and frowned

As if picked by something sharp

They all met and resolved

To slay every tall.

And all of them were slain

Yet the dwarves’ height remained the same.

Translated by JAMEEL SHAIDAI

Mirror  magazine.

٭٭٭٭

(رؤف خیر کی نظم  ’’ پناہ ‘‘ کا ترجمہ

The Refuge

Madly runs a frightened deer

Raising dirt by its leaps

A hunter pursues it for long.

The creature helpless,frightened

                                         trembling

Takes refuge at last

In the den of a hungry lion.

Translated by JAMEEL SHAIDAI

Mirror  magazine.

٭٭٭٭

تشکر:جناب رؤف خیر جن کے توسط سے فائل کی فراہمی ہوئی

اصل کتاب سے ترتیب و تدوین: اعجاز عبید

ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید