FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

خاک میں صورتیں اور اُردو شاعری میں تصوّرِ زن

               نسیم انجم

حصہ دوم:  فضاؔ اعظمی کا تصوّرِ زن

 

فضاؔ اعظمی کا تصوّرِ زن

            ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کے تذکرے سے پہلے فضاؔ اعظمی کی دوسری طویل نظموں کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ تاکہ تسلسل برقرار رہے۔

            فضاؔ اعظمی کی طویل نظمیں ساخت کے اعتبار سے خصوصی شناخت کی حامل ہیں۔ (۱)مرثیۂ مرگِ ضمیر، (۲)آوازِ شکستگی، (۳)خاک میں صورتیں ، (۴)عذابِ ہمسائیگی کی کم و بیش ایک ہی ساخت ہے۔ اس ضمن میں تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے کہ ان چاروں نظموں کا ابتدائی حصہ، جو ایک تخیلاتی منظر نامہ پیش کرتا ہے۔

            مرثیۂ مرگِ ضمیر:اپنی شکل و صورت کے حوالے سے نرالی معلوم ہوتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ان کے شعری پیکر میں ایک فیلِ بدمست پابندِ سلاسل ہے،  لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ تمام بندشوں کو توڑ کر نکل بھاگتا ہے۔ اس کے بعد اس میں یہ تبدیلی نظر آتی ہے کہ اسے صراطِ مستقیم ہی اپنا دائرہ معلوم ہوتی ہے۔

            عذابِ ہمسائیگی: اس نظم کی تشکیل جدید معاشرے کے بنیادی فلسفہ یعنی جمہوریت،  آزادی اور دستور کی بالا دستی کی نعمتوں سے مملو ریاست کے منظر نامے سے ہوتی ہے۔ دوسرے حصے میں متعلقہ کرداروں کے مثبت پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی توجہ ان مبینہ خوبیوں کی طرف مبذول کرائی گئی ہے جن کے وہ دعوے دار ہیں۔ ان کی خوبیوں کا مبالغہ آمیز تذکرہ نظر آتا ہے لیکن اس کے فوائد اگلے حصوں میں اجاگر ہوتے ہیں۔ اسی طویل نظم کا تیسرا حصہ گریز کا ہے۔

            مرثیۂ مرگِ ضمیر میں ہر کردار کے بارے میں الگ الگ اور ایک اور تنقیدی انداز اختیار کیا گیا ہے۔

            نظموں کا چوتھا حصہ عرضِ مدّعا کے حصے میں پچھلے حصوں کا ایک مربوط تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس حصے میں ،  دیگر طویل نظموں اور منظوم داستانوں سے ان کا تقابلی جائزہ ایک دل چسپ تنقیدی عمل ہو گا جو صرف ایک ادب کا عالم اور استاد ہی کر سکتا ہے۔ فضاؔ اعظمی نے ایک قانون داں کی حیثیت سے اپنے کرداروں کا مواخذہ کیا ہے اور ان کی کم مائیگی،  اپنے فرائض سے چشم پوشی اور انسانی اصولوں سے انحرافی کی نشان دہی اور ان کو قائل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ پانچواں حصہ’’ عرش سے آئی صدا (مرثیۂ مرگِ ضمیر)، دریدہ دامنی تا کے چلو، شغلِ رفو کر لیں (عذاب ہمسائیگی)، (قسم اس رات کی جو روزِ روشن کے طبق کو ڈھانک لیتی ہے) آوازِ شکستگی۔ صدا یہ عرش سے آئی(عذابِ ہمسائیگی)

            یہ وہ آخری ابواب ہیں جو اصل انسانی مقاصد کی طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔ غلط روی کی صورت میں ان کو سزا اور جزا کے فلسفے سے آگاہی دلاتے ہیں۔ جناب فضاؔ اعظمی کی طویل مقصدی نظموں کا یہ مخصوص ساختیاتی پہلو ہے جس کے حوالے سے سردار ترلوچن سنگھ بھارت کے اقلیتی کمیشن کے چیئر مین نے اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر کوئی فضاؔ اعظمی کی نظم پڑھنا چاہتا ہے تو اس کو مکمل نظم پڑھنی ہو گی ورنہ بالکل غلط نتیجہ اخذ کرے گا۔ ‘‘

            فضاؔ اعظمی صاحب کی بقیہ تین طویل نظمیں ’’زوالِ آدم‘‘، ’’شاعر، محبوب اور فلسفی‘‘ اور’’ مثنوی عذاب و ثواب‘‘ ساختیاتی اعتبار سے مختلف النوع ہیں۔ ان کا ہر باب ایک نئے کردار کی ایک نئی جہت کی نشان دہی کرتا ہے اور اس کے حوالے سے اپنی مخصوص طرزِ فکر سے تجزیہ،  تنقید اور تقریظ کرتا ہے۔ نظموں کے مطالعے کے بعد ہم یہ کہنے میں سو فی صد حق بہ جانب ہیں کہ فضاؔ اعظمی کی طویل موضوعاتی نظمیں اُردو شاعری میں ایک نیا اضافہ ہیں۔

               فضاؔ اعظمی ایک معتبر شاعر

            یقیناً یہ میری خوش قسمتی ہی ہے کہ میں نے جس کتاب پر لکھنے کا مصمم ارادہ کیا ہے، اس کا عنوان ہے ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کتاب کے تخلیق کار ہیں ہمارے عہد کے ممتاز و معتبر شاعر جناب عقیل احمد فضاؔ اعظمی،  فضاؔ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں کہ وہ’’ خود آپ اپنا تعارف ہَوا بہار کی ہے۔ ‘‘

            جس طرح موسمِ بہار میں کھلنے والے خوش نما پھولوں کی خوش بو دور دور تک پھیل جاتی ہے اور خوش بو کے شیدائی روح اور دماغ کو معطر کر لیتے ہیں ، ایسا ہی کچھ حال جناب فضاؔ اعظمی کی شاعری کا ہے۔ فضاؔ اعظمی اپنی شاعری کے اعتبار سے ایک منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا حسنِ کمال اور اسلوبِ بیان اہم اور سنجیدہ موضوعات کا انتخاب ہے۔ فضاؔ اعظمی صاحب نے زمانے کے دردو کرب اور گمبھیر مسائل کو شاعری کی زبان نہیں دی ہے بلکہ مسئلوں کا حل بھی بتایا ہے۔ انہوں نے زمانے کے تلخ حقائق کو شاعری کے پیکر میں نفاست اور خوب صورتی کے ساتھ ڈھالا ہے۔

            فضاؔ اعظمی کی تمام شاعری قرآنی تعلیمات اور اسلامی اقدار کا احاطہ کرتی ہے۔ ان کی فکر،  ان کے خیالات اور ان کی وسعتِ نظر قرآنی تعلیمات سے مزین ہے۔ ان کا ہر شعر قرآن کی روشنی سے جگمگا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعر کی مثبت تعلیم،  اور فکر قرآن کی روشنی سے فروزاں ہے۔ یقیناً فضاؔ اعظمی کی شاعری میں اسلامی رنگ شامل ہے اور انسانی اعلیٰ اقدار کی آئینہ دار ہے۔

            ان کی شاعری بے حد متاثر کن ہے۔ میں نے ان کے تقریباً تمام ہی شعری مجموعے بار بار پڑھے ہیں۔ ان کے کلام نے روح کو تسکین اور بالیدگی عطا کی ہے اور یہ بڑی بات ہے کہ دل سے نکلی ہوئی بات دل میں اُتر جائے۔

            فضاؔ اعظمی کے لیے ایک بات اور کہتی چلوں کہ وہ نام و نمود کے شائق ہر گز نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ادبی محافل اور مشاعروں وغیرہ میں نظر نہیں آتے اور نہ ہی ان کا کلام ہر رسالے کی زینت بنتا ہے۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ انسان کا کام ہی اس کے لیے باعثِ عزت ہوتا ہے۔ ان کے مجموعے بھی کافی تاخیر سے چھپے ہیں اور جب سے ان کی شاعری سامنے آئی تب سے ہی وہ منظرِ عام پر آئے ہیں۔ ان کے قارئین حیران تھے کہ اس قدر قابلِ قدر شاعر بھی اس شہر میں موجود ہے۔ بقول فضاؔ اعظمی کے، ’’ وہ اب تک پردے میں تھے۔ ‘‘ ان کے بارے میں جناب ڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں کہ

            ’’عقیل احمد فضاؔ اعظمی کے نام اور ان کی شاعری سے کم ہی لوگ واقف ہوں گے، اس لیے کہ نہ تو ان کا کلام کسی رسالے یا جریدے میں چھپتے دیکھا گیا اور نہ ہی وہ مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر وہ ہماری نظروں سے چھپے رہے تو چنداں تعجب کی بات نہیں ہے۔ ورنہ ان کے کلام کی روشنی میں ،  میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ اس وقت ان کے ہم عصروں اور ہم عمروں میں جو لوگ اشتہا رو مشاعرہ خوانی، سے قد آور شاعر معلوم ہوتے ہیں ، ان میں سے بیشتر فضاؔ اعظمی سے کم درجے کے شاعر ہیں اور ان میں ہر گز فضاؔ اعظمی جیسی طبعی شاعرانہ صلاحیت نہیں ہے۔ یہ لوگ صرف مشاعروں میں ترنم سے پڑھنے،  جا بجا اپنا کلام شائع کرانے اور استادوں کے مصرعے اُٹھانے کے طفیل شہرت پا گئے ہیں۔ لہٰذا جب ان حضرات کا کلام طبع ہو کر سامنے آیا اور صاحبانِ ذوق و شعور کی نظر سے گزرا تو ان کے فکرو فن کی قلعی کھل گئی اور جو کل قد آور شمار کیا جاتے تھے بالشتیوں میں شمار ہونے لگے۔ ‘‘

            فضاؔ اعظمی نے کنجِ تنہائی میں رہ کر ہی شاعری کے حوالے سے بڑے قابلِ قدر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ وہ قرآنی تعلیمات اور احادیث کو بے حد نفاست اور عقیدت کے ساتھ شاعری کے خوب صورت رنگوں میں پینٹ کرتے ہیں کہ ہر دور کی تصویر واضح ہو جاتی ہے اور مختلف معاشروں کا تہذیب و تمدن،  رسم و رواج، طور طریقے تصویری اشکال میں منظرِ عام پر آ جاتے ہیں اور وہ لوگ بھی نگاہوں کے سامنے آ جاتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ، لیکن زمانۂ جہالت کے رسم و رواج میں جکڑے ہوئے ہیں اور خاندانی روایات کو اسلامی تعلیمات پر مقدم سمجھتے ہیں ، اسلام اور اسلامی قوانین کو بھول جاتے ہیں۔ رشتوں ناتوں کے تقدس کو پامال کرنے میں ذرّہ برابر جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں اور بستی کی عورتوں اور لڑکیوں کی زندگی و موت کا فیصلہ وہ اپنے خود ساختہ قوانین کے تحت ببانگِ دہل کر کے ظلم و تشدد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ ایسا کرنے میں نہ ان کا دل کانپتا ہے اور نہ ضمیر لعنت و ملامت کرتا ہے اور نہ ہی خوفِ خدا ان پر غالب آتا ہے۔

            پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے یہاں اسلامی نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر شخص جو چاہے وہ برے اور قبیح فعل کرتا ہے۔ اس کی کوئی پکڑ یا سزا نہیں ، بلکہ درندگی کو پروان چڑھانے میں بہت سے با اختیار اور با اقتدار لوگ معاون و مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں سالہا سال تک ملزم جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ، لیکن وہ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر چڑھ چکے ہیں بلکہ اکثر نے تو بزرگی کے دن بھی اسی قید خانے میں گزار دیئے اور اسی زنداں میں ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ہے۔

            نا انصافی و ظلم و شر کا جب بول بالا ہو، تب ان حالات میں فضاؔ اعظمی کا دل کیوں نہ تڑپتا اور روح بے قرار کیوں نہ ہوتی۔ وہ اپنے دردِ دل اور ذہنی اذیت کو قلم کے سپرد کر دیتے ہیں اور پھر درد کے ہزاروں پھول صفحۂ قرطاس پر کِھل جاتے ہیں ،  زخم ہرے ہو جاتے ہیں ، الفاظ ناسور کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ، خود بھی روتے ہیں اور قاری کو بھی اپنے اور روتی ہوئی انسانیت کے آنسو سونپ دیتے ہیں۔

               فضاؔ اعظمی کی تعلیم و تربیت

            یہ بات قابلِ غور ہے کہ آخر فضاؔ اعظمی کے دل میں لوگوں کے دکھوں اور دم توڑتی انسانیت کے غموں کا احساس اس قدر شدت سے کیوں ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان کی حساس طبیعت اور گھر کا ماحول،  اسلامی تہذیب و تمدن کے اثرات، معاشرتی حالات، لوگوں سے میل جول،  دوست اور حلقۂ احباب عام لوگوں پر مشتمل نہیں تھا بلکہ علم و ادب کے حوالے سے ان کے اہلِ خانہ اور احباب اہم شخصیات تھیں ،  بچپن میں ہی مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی،  مولانا مسعود علی ندوی، جناب یحییٰ اعظمی، سید صباح الدین عبدالرحمن کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملتا رہا اور ان کے ذوق و شوق ،  شعر و ادب کی نشو و نما میں ان مجلسوں کا بڑا دخل ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جنہوں نے شاعر میں اعلیٰ اوصاف پیدا کیے۔

             فضاؔ اعظمی کا گھریلو ماحول دینی و دنیاوی تعلیم کا جیتا جاگتا نمونہ تھا۔ فضاؔ اعظمی اپنے والد صاحب جناب ڈاکٹر حفیظ اللہ سے بہت متاثر اور قریب تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت میں ان کے والد ماجد کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ فضاؔ اعظمی جس شخصیت کے پرتو ہیں ، آئیے ہم ان کے بارے میں مختصراً ذکر کرتے چلیں۔

            انیسویں صدی عیسوی کے نام ورانِ اعظم گڑھ میں حافظ حاجی ڈاکٹر حفیظ اللہ بجا طور پر شامل کیے جا سکتے ہیں اور جب میں ان کے بچپن کے حالات پڑھتی ہوں تو مجھے ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کے گھریلو ماحول اور فضاؔ اعظمی کی زندگی میں والدین اور خاص طور پر والدِ بزرگوار کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بڑا دخل نظر آتا ہے۔ ایک حدیث پاک بھی ہے کہ ’’اولاد کی تعلیم و تربیت باپ کے ذمے ہے اور روزِ قیامت اس بارے میں باز پرس ہو گی۔‘‘

            ماحول کے اثرات فضاؔ اعظمی کی شخصیت،  فکرو نظر اور شاعری میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مذہب پرستی،  دین داری اور اوصافِ حمیدہ انہیں ورثے میں ملے تھے۔

            ان کی زندگی میں اسلام کے حقیقی رنگوں کی جلوہ گری ہے۔ جناب فضاؔ اعظمی کے والد صاحب بھی صوم و صلوٰۃ کے پابند اور متقی انسان تھے۔ وہ ایک ماہر سرجن کی حیثیت سے بھی معاشرے میں اپنا اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ مولانا حمید الدین فراہی سے گہری عقیدت تھی اور ان کے تلمذِ خاص مولانا امین احسن اصلاحی سے ان کے گہرے تعلقات تھے۔

            حفظِ قرآن اور مروّجہ دینی تعلیم کے بعد ڈاکٹر حفیظ اللہ صاحب نے کوئنس کالج  (Queen’s College)سے انٹر اور پھر اس کے بعد میڈیکل کی تعلیم کی طرف توجہ دی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سول سرجن کے طور پر خدمات انجام دیں اور میڈیکل سروسز کے انچارج بھی رہے۔ ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۹ء تک وہ مستقلاً اعظم گڑھ ’’حفیظ منزل‘‘ میں سکونت پذیر رہے اور وہیں وفات پائی۔ ان کی لوحِ تربت پر جناب یحییٰ اعظمی کا یہ قطعہ جسے پتھر پر لکھا گیا ہے،  نصب ہے۔

درود اس مرقد پر نور ازبس کہ لازم ہے

کہ یہ شب زندہ دارِ حافظِ قرآں کی تربت ہے

طبیب و حامیِ دیں ڈاکٹر حافظ حفیظ اللہ

زسر تاپا یقین و صاحبِ عرفاں کی تربت ہے

متاعِ زندگی جس نے نثارِ دینِ حق کر دی

خدا بخشے اسی سرچشمۂ ایماں کی تربت ہے

شانِ غیب نے جس کو ھو المقتدر فرمایا

اسی مردِ مسلماں حاملِ قرآں کی تربت ہے

خدا اس مرقدِ خاکی کو موجِ نور سے بھر دے

اسے شامِ ابد تک مہبطِ انوارِ حق کر دے

            ڈاکٹر حفیظ اللہ کے بارے میں ان کے بیٹے فضاؔ اعظمی نے ایک موقع پر اپنے والد صاحب کی توصیف ان حقائق کے ساتھ کی ہے۔

            ’’ایک ہی شخصیت ہے جس کا نقش آج تک قائم ہے اور وہ ہیں میرے والد صاحب ڈاکٹر حفیظ اللہ۔ ان کی مذہب سے وابستگی کے ساتھ ساتھ روشن خیالی،  ان کا جذبۂ اقرباء پروری اس احتیاط کے ساتھ کہ کسی کو علم نہ ہو۔  و و   ا  و ںؓادر آباد سپاٹ، یکےین‘‘

            ان کے والد کم از کم ایک بار(جمعہ کے دن) گھر کے بچوں کو لے کر شبلی منزل جاتے اور نماز کے بعد علمی مجالس میں شریک ہوتے۔

            والدین کی محبت اور توجہ نے فضاؔ اعظمی کی زندگی میں گہرے اثرات مرتب کیے۔ لائق بیٹے نے اپنی کتاب’’ خاک میں صورتیں ‘‘کاانتساب اپنی اماں جان کے لیے لکھا ہے۔ ان کی والدہ محترمہ زبدۃ النساء بے حد نیک خاتون تھیں۔ جنہیں اپنی سو سالہ زندگی کی آخری سانسوں تک اولاد کی تربیت اور بہبود کی فکر لاحق رہی۔ کہتی تھیں کہ میں تم سب سے چھوٹی چھوٹی فرمائشیں کر کے سب کو اکھٹا رکھتی ہوں ،  تاکہ تم لوگ بکھر نہ جاؤ،  ان کی یہی یادیں اور نصیحتیں ہمیں اس انتشار زدہ دور میں بکھر نے سے روکتی ہیں۔ انہوں نے اپنی قابلِ قدر ماں کو اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

گلِ نوخیز کی خنکی،  سکوں شبنم کے قطرے کا

فغاں کوئل کی،  نغمہ طائرانِ شوخ الحاں کا

سمندر کا عمق،  ذرّے کی بے تابی،  صدف کا دل

گلِ رنگیں کی رعنائی،  تحمل بیدِ لرزاں کا

غرورِ موجِ دریا،  وسعتِ صحرائے بے پایاں

ستاروں کی تنک تابی تلاطم چشمِ گریاں کا

نکلنا ماہ تاباں کا بروزِ ابر و درِ باراں

ترنم بلبلِ شیریں نوا کا ،  رم غزالاں کا

شعاعِ اوّلیں کا ناز سے اُگنا سرِ مشرق

عیاں ہونا جبینِ آسماں پر نورِ افشاں کا

گدازِ اشکِ شبنم،  ارتعاشِ دشنہِ شرگاں

مہک پھولوں کی استقرارِ آغوشِ سکوں ساماں

یہ یک جا ہوں تو اس کردار کی تشکیل ہوتی ہے

کہ جس کی گود میں انسانیت پروان چڑھتی ہے

            جس بچے کی ماں ایسی عظیم،  ذی فہم،  گیان کی روشنی سے منور ہو تو وہ بچہ یقیناً عقیل احمد سے فضاؔ اعظمی ہی بن سکتا ہے۔ یہ ان کی تربیت کا ہی اثر ہے کہ فضاؔ اعظمی کی شخصیت وقار،  متانت اور سنجیدگی سے آراستہ ہے،  وہ شرافت ،  خوش اخلاقی،  نرم خوئی اور انکساری کا پیکر ہیں۔ فضاؔ اعظمی سے ملنے کے بعد سرشاری کا احساس جاگزیں ہوتا ہے۔

            فضاؔ اعظمی کے بارے میں مکمل معلومات اسی وقت ہوتی ہے جب ہم ان کے گھر کے افراد کا بھی ذکر کریں ، تو عرض یہ ہے کہ فضاؔ اعظمی 11بہن بھائی تھے اور ماشاء اللہ آٹھ بہن بھائی حیات ہیں۔ ان کے سب ہی بہن بھائیوں کو علم و ادب سے خصوصی دل چسپی تھی۔ ان کے بڑے بھائی انیس احمد نے اپنی خود نوشت بعنوان ’’لکھنؤ سے کراچی تک‘‘ لکھی اور جناب فضاؔ اعظمی کی فرمائش اور اصرار پر یہ کتاب شائع ہوئی،  شاعری کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی فضاؔ اعظمی کے لیے جو نظم لکھی، اسے پڑھ کر اس دور کے عقیل احمد(جو کہ بچپن کا زمانہ تھا) کی دلی کیفیت اور جذبات کی عکاسی بہ خوبی ہو جاتی ہے اور یہ تخلیق انیس احمد کی اپنے چھوٹے بھائی سے محبت اور قدر دانی کی بھی علامت ہے۔

مرے ننھے سے شاعر آشنائے رازِ دل کر دے

بتا تو سینۂ معصوم میں تیرے بھرا کیا ہے

گرفتارِ غمِ الفت یا کہ بربادِ تمنا ہے

جنونِ شعر گوئی اور ابھی سے ماجرہ کیا ہے

کبھی نظریں تیری گہرائیوں میں دل کے اُتری ہیں

خذف ہیں یا گہر ہیں تیرے سینے میں بھرا کیا ہے

            والدین کی خدمت و اطاعت کا یہ عالم تھا کہ تقسیمِ ہندوستان کے وقت دوسرے بہن بھائی پاکستان آ گئے،  لیکن فضاؔ اعظمی کی والدہ صاحبہ اپنا گھر بار چھوڑ نے کو تیار نہ تھیں ،  انہیں ’’حفیظ منزل‘‘ سے قدرتی طور پر عشق تھا کہ انہوں نے زندگی کے بہت سے ماہ و سال، گرم و سرد اسی آشیانے میں گزارے تھے۔ لہٰذا اپنی والدہ کی خاطر، چاہتے ہوئے بھی پاکستان ہجرت کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور ایک طویل عرصہ گزار نے کے بعد 1969ء میں پہلے والدہ کو پاکستان بھیجا اور پھر خود تمام امور نمٹا کر پاکستان تشریف لائے اور اپنی والدہ کو وہی آزادی و خود مختاری دینے کی کوشش کی جیسی زندگی انہوں نے (ہندوستان) حفیظ منزل میں گزاری تھی۔ بہن بھائیوں کے مشورے سے انہیں ایک علیحدہ گھر دلوایا اور ’’حفیظ منزل‘‘ کی تختی بھی گھر کے دروازے پر نصب کروا دی تاکہ اجنبیت کا احساس نہ رہے۔

            فضاؔ اعظمی کی والدہ نے طویل عمر پائی تھی جب کہ والد صاحب اس وقت داغِ مفارقت دے گئے جب فضاؔ اعظمی کی عمر صرف (۱۷)سترہ برس تھی،  اور سترہ برس کی عمر ہوتی ہی کیا ہے۔ گویا بچپن کا زمانہ ساتھ چل رہا ہوتا ہے،  لیکن کچھ بچے وقت سے پہلے بڑے ہو جاتے ہیں یا پھر حالات انہیں بڑا کر دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی ایساہی ہوا کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے بعد انہوں نے تمام ذمے داریوں کا بوجھ احسن طریقے سے سنبھالنے کی کوشش کی۔ اس طرح ان کا شمار با ہمت اور قابلِ ذکر لوگوں میں ہوتا ہے۔

            والدین کی اطاعت اور تابع داری کے ہی صلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ مقام سے نوازا۔ ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی،  فوٹو گرافی سیکھی، پیشے بھی وہ اختیار کیے جن کے نام بھی شاعرانہ سے ہیں گویا ردیف کا خیال رکھا گیا ہے۔ صحافت،  وکالت،  سفارت،  تجارت۔

            والدین کی دعاؤں کا ہی نتیجہ تھا کہ بڑے عہدوں پر فائز رہے،  حکومتِ ہند کی وزارتِ خارجہ میں ملازمت اختیار کی اور سفارت کار کی حیثیت سے قاہرہ،  خرطوم،  جدّہ اور واشنگٹن میں اپنی ذمے داریاں پوری کیں۔ اس کے بعد امریکی ادارے’’ یونائیٹڈ اسٹیٹس انفارمیشن سروس‘‘ میں آٹھ برس تک Public Affair Advisorکی حیثیت سے منسلک رہے۔ آپ نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا،  ملکوں ملکوں کی سیر کی،  دنیا کی تہذیبوں کا مطالعہ کیا، وہاں کی معاشرت کی خوبیوں اور خامیوں کو بہ نظرِ غائر دیکھا اور مشاہدات کی دولت کو شاعری کی شکل میں ، فصاحت و بلاغت کے ساتھ لوٹا دیا۔

               اندازِ سخن اور طویل مقصدی نظم کے محرکات

            فضاؔ اعظمی کو شعرو سخن کا جو ہرِ یاقوتی قدرت نے وافر مقدار میں عطا کیا تھا۔ الفاظ ان کے اشعار میں بالکل اسی طرح اپنے سانچے میں فٹ نظر آتے ہیں جس طرح انگشتری میں جڑے ہوئے نگینے۔ سماجی حقائق کی تصویر کشی ان کی شاعری کا خاصہ ہے۔ انہوں نے اپنے معاشرے کا گہرا اثر قبول کیا ہے جو کہ فطری تقاضا ہے۔

            فضاؔ اعظمی نے شبلی کالج کے طالبِ علم کی حیثیت سے مشاعروں میں شرکت کی اور انہوں نے جگرؔ مرادآبادی کو بھی میرِ مشاعرہ کی حیثیت سے دیکھا بھی اور سنا بھی۔ انھوں نے مولانا اقبال سہیلؔ صاحب اور مجازؔ کا بھی تذکرہ کیا ہے اور اپنے بزرگ شعراء کی صحبت سے ابھی فیض اُٹھایا۔

            بے شک جس شخصیت کو اس قدر نایاب و کم یاب لوگوں کی صحبت میسر ہو تو اس کے قلم سے ایسی ہی شاعری نکل سکتی ہے جو حکیمانہ، مدبرانہ اور توانا ہو۔

            فضاؔ اعظمی کی چشمِ بصیرت نے اس کائنات کی سچائیوں اور درد انگیز واقعات کو دیکھا،  محسوس کیا اور شاعری میں سمودیا،  شاعر نے زمانے کے مختلف ادوار دیکھے ہیں۔ انہوں نے خون آشام واقعات اور سانحات کو دیکھا اور اس کا اثر قبول کیا اور معاشرے کے اُن گھناؤنے کرداروں کی اصل شکل دکھائی ہے کہ جو اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جو امن و آشتی اور انسانیت کا درس دیتا ہے، جو عورت کو برابری کے حقوق سے آشنا کرتا ہے۔ ایسے مذہب کے ماننے والوں کا اس قدر برا حال ہے۔ انہیں اس عدم مساوات نے حیرت اور غم میں مبتلا کر دیا ہے۔

یہ مایوسی کا باعث ہے،  مقامِ رنج و حیرت ہے

کہ وہ مذہب جو دنیا میں نشانِ دینِ فطرت ہے

نقیب اوّلیں ہے جو حقوقِ نوعِ نسواں کا

کہ جس کے درسِ بابرکات سے عورت کی عظمت ہے

کہا جس نے کہ گو وہ مختلف ہے پر برابر ہے

اسی مذہب کا پیرو آج سرگرمِ رقابت ہے

            طویل مقصدی نظم کے محرکات

             اپنی طویل مقصدی نظموں کے حوالے سے فضاؔ اعظمی ایک اہم قصہ سناتے ہیں کہ لکھنؤ میں شیعہ سنی فسادات ہو رہے تھے۔ ان حالات میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن میں نے اپنے مکان کی چھت سے یہ منظر دیکھا کہ ایک بزرگ شیروانی زیب تن کیے ہوئے سڑک پر جا رہے ہیں۔ دفعتاً گلی سے ایک نوجوان نکلا۔ اس نے ان بزرگ کے سر پر ایک بڑا پتھر مارا، جس سے وہ لہو لہان ہو کر زمین پر گر پڑے اور اسی حالت میں انہوں نے دم توڑ دیا،  مجھے نہیں معلوم مرنے والا سنی تھا یا شیعہ اور مرنے والے کا مسلک کیا تھا۔ میں نے تو یہ دیکھا کہ ایک انسان نے دوسرے انسان کو قتل کر دیا۔ ابتدائی زندگی کا یہ واقعہ آج تک میرے دل پر نقش ہے۔ ‘‘

             جناب انیس احمد جو کہ فضاؔا عظمی کے بھائی ہیں۔ وہ فضاؔ اعظمی اور ان کی طویل نظم نگاری کے بارے میں کہتے ہیں۔

            ’’فضاؔ اعظمی شعر گھڑتے نہیں تھے، نہ ان کو کوشش کرنی پڑتی تھی بلکہ اشعار الہامی طور پر خود بہ خود نازل ہوتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں یہی بنیاد ہے ان کی طویل مقصدی شاعری کی۔ نظم ’’رنگون سے واپسی‘‘ کے حوالے سے اپنے تاثر بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ نظم سنی تھی۔ بندشِ الفاظ و معانی، روانی اور اثر انگیزی کے لحاظ سے انیس کے مرثیے سے کم نہیں تھی۔ طرزِ ادا اور طرزِ فکر ان کی تمام نظموں میں موجود ہے۔ ایک واضح مقصد کو سامنے رکھ کر شاعری کو ایک معتبر اور منفرد وجود دیا گیا ہے۔

               فضاؔ اعظمی کی شاعری پر ایک نظر

 

            ان کی طویل مقصدی نظم’’ خاک میں صورتیں ‘‘ پر ذکر بذریعہ تحریر چلتا ہی رہے گا اور جب بات نظم کی ہو رہی ہے تو کیوں نہ ہم مختصراً ان کی مزید نظموں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں۔

            فضاؔ اعظمی کی پہلی کتاب بعنوان ’’جو دل پہ گزری ہے‘‘ ۲۱۰صفحات پر مشتمل ہے۔ اور یہ ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی۔ گویا یہی وہ سن تھا جب شاعر کی اپنی شاعری کے ساتھ رونمائی ہوئی اور ناقدین و قارئین نے ان کا کلام پڑھا تو وہ حیران رہ گئے کہ ایسے قادر الکلام شاعر اب تک پردے کے پیچھے کیوں تھا؟ لیکن انہیں فضاؔ اعظمی کی زبانی و تحریری اس کا جواب مل گیا۔ مذکورہ مجموعہ میں اوّلین دور کی غزلیں ہے۔ کتاب کے نام سے ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ شاعر کے دل پر فطری تقاضوں سے پیدا کردہ رومانیت اور تقسیمِ ہند کے حالات تھے جو دل و دماغ پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ لہٰذا تخلیقی محرکات اس قسم کے اشعار کہنے پر آمادہ کرتے تھے۔

جھکی جھکی نگاہ ہے اُٹھا اُٹھا نقاب ہے

وہ دعوتِ نظر تو دیں گناہ بھی ثواب ہے

            تو دوسری طرف زمانے کے ’’تغیرات نے یہ شعر کہنے پر آمادہ کیا۔

فقط اتنا تعلق ہے کہ تنکے ہم نے جوڑے تھے

اسی نسبت سے اب بھی آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے

            ان کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ ’’فضاؔ اعظمی کی شاعری کا کینوس خاصا وسیع اور خارجی اعتبار سے مذہب و اخلاق سے لے کر ریاست و سیاست تک اور سفرو ہجرت سے لے کر خلوت و جلوت تک گردو پیش کی زندگی کا شاید ہی کوئی منظر ہو گا جو فضاؔ اعظمی کی شاعری میں جگہ نہ پا گیا ہو، لیکن ان سب میں وارداتِ قلبی کا رنگ نمایاں ہے اور سچ بات یہ ہے کہ اسی وارداتی قلبی نے ان کے شعری مجموعے ’’جو دل پہ گزری ہے‘‘ کی پوری فضا کو خوش گوار بنا دیا ہے۔ ‘‘

            شاعرِ بے مثال فضاؔ اعظمی کی دوسری کتاب’’کرسی نامۂ پاکستان ہے‘‘ یہ کتاب ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی۔

            اس کتاب کو لکھنے کا خیال بقول فضاؔ اعظمی اس وقت آیا جب حکمران ملک میں جشنِ طلائی منانے میں مصروف تھے۔ انہوں نے بڑے دکھ سے سوچا کہ کیا واقعی ہمارے حکمران اس جشن کو منانے کے حق دار ہیں ؟ اس کا جواب ان کی شعری کاوش نے کرسی نامۂ پاکستان کی شکل میں بڑے ہی مدلل انداز میں دیا۔ اس نظم کی خاصیت یہ ہے کہ یہ پاکستان کی منظوم تاریخ ہے، اس میں انہوں نے علامتوں ،  استعاروں ،  اشاروں اور کنایوں کے ذریعہ ان سازشوں ،  جعل سازیوں اور مفاد پرستی پر بے حد موثر انداز میں تنقید کی ہے جن کی وجہ سے موجودہ صورتِ حال وجود میں آئی۔

             یہ درد ناک داستان اس انتباہ پر ختم ہوتی ہے۔

اگر تم ذہنیت اپنی زمیں دارانہ رکھو گے

اگر تم ذریعۂ دولت بناؤ گے سیاست کو

اگر تم آگ بھڑکاؤ گے صوبائی تعصب کی

اگر تم عدل اور انصاف کو قدموں میں روندو گے

تو تم تاریخ کی دہلیز پر آنسو بہاؤ گے

گزرتے وقت کے مدفن میں قبروں کی قطاروں میں

تمہارے نام کا کتبہ بھی شاید لگ نہ پائے گا

            ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ تیسری طویل ترین نظم ہے اور ضخامت کے اعتبار سے ۲۵۰صفحات ہیں جو یقیناً فضاؔ اعظمی کا شاعرانہ کمال ہے کہ ایک ہی موضوع پر اس قدر طوالت اور وہ بھی دلیل،  سچائی اور شعری آہنگ کے ساتھ۔ اس نظم کے لکھنے کا محرک بھی شاعر کی ہی زبانی سنتے ہیں ۔۔ فرماتے ہیں۔

            ’’چالیس کی دہائی لکھنؤ کے سر گنگا رام ہال میں مشاعرہ تھا۔ فجر کی اذان ہونے والی تھی۔ طویل انتظار کے بعد جب جگرؔ مرادآبادی صاحب داخل ہوئے تو دھوم مچ گئی۔ انہوں نے مطلع پڑھا۔

فکرِ جمیل خوابِ پریشاں ہے آج کل

شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل

            محفل میں سناٹا چھا گیا۔ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے گردش کرتا رہتا ہے۔

             ’’مرثیۂ مرگِ ضمیر‘‘ جب میں نے لکھی تو اس وقت بھی میرے دل و دماغ میں ایسی صورتِ حال کا دور دورہ تھا۔ وہ گھڑی،  جب کسی نے رشوت کے لیے قائدِ اعظم کا نام استعمال کیا۔ خیال آیا کہ ہمارا ضمیر مر چکا ہے۔ مسئلہ صرف حکمرانوں کا نہیں ہے بلکہ اس مملکتِ خدا داد کے ہر شخص کا ہے۔ سیاسی قائد، مذہبی راہ نما، ادیب و دانش ور،  افسرو اہلکار،  صحافی و قلم کار، حتیٰ کہ عام شہری، یہ سب کے سب میری نظر میں پاکستان کی زبوں حالی کے ذمے دار ہیں ،  میں نے ان سب کو کٹہرے میں کھڑا کر کے فردِ جرم عائد کی ہے۔

             بقول ڈاکٹر منظور احمد’’ مرثیۂ مرگِ ضمیر ایک احتجاج ہے،  ایک شکوہ ہے، ایک شکایت ہے اور کرب و اندوہ کی ایک مہذب چیخ ہے۔ ان تمام گم راہ انسانوں کے لیے ’’صراطِ راست جن کو مشکل معلوم ہوتی ہے۔ میں نے بصد عجز و انکسار پیغام دیا ہے۔

مرتبہ اپنا سمجھ آہ و بکا سے پہلے

بارِ تعمیر اُٹھا خوفِ خطا سے پہلے

جان مفہومِ رضا صبر و رضا سے پہلے

خود کو پہچان،  غبی! شرحِ خدا سے پہلے

کھول میثاقِ ازل حمد و ثنا سے پہلے

رمزِ تخلیق سمجھ حرفِ دعا سے پہلے

             شاعری کا ایک سیلاب آ گیا ہے جو رُکتا نہیں ہے۔ بند باندھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سیلاب وہ نہیں جو تباہی لاتا ہے بلکہ وہ پانی ہے جو اندر کی غلاظت صاف کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا، جو سچ اور جھوٹ کو علاحدہ علاحدہ کر دے گا کہ حق کیا ہے اور کذب کیا ہے؟ فضاؔ اعظمی کی شاعری نے اسی تفریق کو واضح کیا ہے۔

            کتاب ہے ’’عذابِ ہمسائیگی‘‘ ۲۰۰۳ء، صفحات ۲۳۰، طویل ترین نظم، یہ وہ نظم ہے جس کی تقریبِ رونمائی جو کہ غالباً ریجنٹ پلازہ میں ہوئی تھی۔ میں نے بھی اپنا مضمون بعنوان ’’فضاؔ اعظمی اور عذابِ ہمسائیگی‘‘پڑھا تھا۔

            اتنا عرصہ گزرنے کے بعد میں نے دوبارہ اس کتاب کا مطالعہ کیا تو یوں محسوس ہوا کہ آج اور کل کے حالات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ’’عذابِ ہمسائیگی‘‘ بھارت کی پچاس سالہ سیاسی اور اخلاقی بے راہ روی کا ترش و تلخ مگر حتیٰ الامکان غیر جانب دارانہ نوحہ ہے۔ اس نوحے میں نصف صدی کے واقعات و حالات کے تناظر میں ہند و پاک کے تعلقات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس کی نہ صرف پاکستان میں بلکہ غیر ملک میں بھی بے حد پذیرائی ہوئی اور ان صاحبان کو اس بات کا جواب مل گیا جنہوں نے اس کے ٹائٹل پر اعتراض کیا تھا کہ شاعر نے پڑوسی کو عذاب قرار دیا ہے۔ پڑوسی عذاب تھا اور ہے۔ حقیقت کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے۔ کسی بھی بات پر تنقید کرنے کے لیے بصیرت و بصارت دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

            شاعر کے لیے یہ بات باعثِ خوشی ثابت ہوئی کہ معروف دانش ور سردار خشونت سنگھ نے اظہارِ تعجب کیا کہ فضاؔ اعظمی نے کس طرح نفرت سے بالا تر ہو کر اس نظم کو لکھا اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایک جلسۂ عام میں فرمایا کہ پاکستان کے ایک کوی نے ’’عذابِ ہمسائیگی ‘‘بالکل صحیح کہا ہے کہ پچاس سال سے وہ ہمارے لیے اور ہم ان کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ سردار خشونت سنگھ نے اپنے پسندیدہ بند کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے جو یقیناً شاعر کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔

نمازِ عشق پڑھ لیں اور بتوں پر گفتگو کر لیں

جہاں چاہیں وہاں سجدہ کریں اور ہاؤ ہو کر لیں

دریدہ دامنی تاکے چلو شغلِ رفو کر لیں

بہت سونا ہے مے خانہ چلو جام و سبو کر لیں

تمہارا دل بھی گھائل ہے ہمارا دل بھی زخمی ہے

یہ ہم پر ہے اسے مرہم کریں یا پھر لہو کر لیں

سرِ تسلیم بھی ہے پنجۂ رزم و وغا بھی ہے

کہو تو سر کو خم کر لیں کہو تو دو بہ دو کر لیں

            اسی کتاب کے ایک باب ’’ہمیں اقرار ہے کہ ہم نے بھی کچھ نا دانیاں کی ہیں ‘‘ شاعر کے غیر جانب دارانہ طرزِ ادا سے متاثر ہو کر ممتاز ادیب اور ناقد جناب حقانی القاسمی نے فرمایا ہے کہ اس میں رجزیہ آہنگ بھی ہے اور فطری لہجہ بھی،  یہ بانگِ در ابھی ہے اور ضربِ کلیم بھی۔

            ’’تیری شباہت کے دائرے میں ‘‘بقول شاعر جب میں نے تین مقصدی نظمیں لکھیں تو یہ دورانیہ تقریباً چھ سال پر محیط ہے تو یہ ممکن نہ تھا کہ میں غزلیہ شاعری کرنے کے فطری رجحان سے کلیتاً کنارہ کش ہو جاتا مگر یہ وضاحت کرنی ضروری ہے کہ اس دور میں جو میں نے غزلیں لکھیں وہ ہیئت کے اعتبار سے یقیناً غزلیں ہیں مگر موضوعاتی اعتبار سے ان کو نظمیں کہنا چاہیے۔ بالفاظِ دیگر یہ وہ رومانوی شاعری نہیں ہے جو غزلوں کا طرۂ امتیاز ہے۔

            الفتِ محبوب کو محض ایک نقطے کے محور سے نکال کر شباہت کے لا محدود دائرے کی وسعت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ بقول استاد محترم:۔

عشق کا ایک نقطہ موہوم رکھ کر سامنے

ہر قدم پر منزلِ جاناں گریزاں دیکھنا

شاعر کے نزدیک۔

گئے جہاں بھی رہے ہمیشہ تری محبت کے دائرے میں

جو عشق میں نے کئے ہیں وہ بھی تیری شباہت کے دائرے میں

ثواب کی منزلوں سے گزرے گناہ کے راستوں میں ٹھہرے

وہ احتیاطِ سفر تھی پھر بھی رہے عبادت کے دائرے میں

            آوازِ شکستگی (صدا آتی ہے تہذیبوں کے مدفن سے ) مذکورہ نظم فضاؔ اعظمی نے ایک قومی اور انسانی فریضہ سمجھ کر لکھی ہے۔ اس نظم کا انگریزی ترجمہ ان کی اہلیہ محترمہ فرزانہ احمد نے کیا ہے، جوFrom the graveyard of Civilizationکے نام سے ۲۰۰۷ء میں امریکہ میں چھپ چکا ہے۔ ،  فرزانہ احمد خود بھی افسانہ نگار ہیں۔

             اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فضاؔ اعظمی کی نظمیہ شاعری کا دائرہ، علاقائی حدود سے نکل کر عالمی سطح پر محیط ہو گیا ہے۔ آوازِ شکستگی،  ایک ردِ عمل کے طور پر لکھی گئی ہے۔ پروفیسر سیموئل کے شہرۂ آفاق Thesisکا اجمال یہ ہے کہ اسلام بطور عقیدہ، عیسائیت اور یہودیت کا دشمن ہے۔ لہٰذا اس سے سوائے دشمن کے اور کوئی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے یہ تاثر اُبھرا ہے کہ آج جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہے، وہاں مسلمان ہی ملوث نظر آتے ہیں۔ اس نظم میں عیسائیت اور یہودیت کو ان کے ظالمانہ اور خونی کردار کی یاد دہانی کراتے ہوئے آئینہ دکھایا گیا ہے۔

            نظم کو شاعر نے مثبت پیغام کے ساتھ اختتام تک پہنچایا ہے اور یہی ان کا نقطۂ نظر ہے۔

اگر اے اہلِ مغرب تم کو اس آزار سے محفوظ رہنا ہے

تو تم کو آشتی بین المذاہب کی ڈگر ہموار کرنا ہے

 صلیب و ماہِ نو کی جنگ سے آگے نکلنا ہے

یہ وہ راہِ طلب ہے جو تمہیں لے جائے گی اس جا

بقائے باہمی کے پھول جس گلشن میں کھلتے ہیں

یہی وہ منزلِ مقصود ہے انسان کو جس کی تمنا ہے

یہی وہ جنتِ ارضی ہے جس کا ہم سے وعدہ ہے

            ’’مثنوی زوالِ آدم‘‘ کی اشاعت ۲۰۰۹ء میں ہوئی۔ یہ 160اوراق پر مشتمل ہے۔ فضاؔ اعظمی کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جن کی یہاں مقصدیت کو فوقیت حاصل ہے۔

            جناب مظہر جمیل نے مثنوی ’’زوالِ آدم‘‘ پر اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے کہ یہ نظم پڑھ کر ایک حساس قاری اپنے دل پر بوجھ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ فضاؔ اعظمی نے اس نظم میں جس طرح کی انسانی صورتِ حال،  اقوامِ عالم کے مسائل،  اقدار کی نفی،  تہذیبوں کے غارت ہونے،  اخلاقیات کے مٹنے اور انسانیت کے معدوم ہوتے چلے جانے کا نقشہ کھینچا ہے، وہ غیر معمولی ہے اور شدت کے ساتھ ہمارے اندر گہری شکستگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ میرا تو بلکہ یہ خیال ہے کہ انہوں نے یہ نظم خود بھی گہرے ڈپریشن کی کیفیت میں قلم بند کی ہے۔ اسی لیے ایک طرح کی گہری مایوسی اور عمیق المیۂ احساس نظم کے تارو پود میں از اوّل تا آخر سما گیا ہے جو قاری کے قلب و نظر پر یاس کے اثرات مرتب کرتا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جب ہم شاعر کو صاف کہتے ہوئے سنتے ہیں۔‘‘

تم نے اس دہر کو پاتال بنا رکھا ہے

بھوک اور پیاس سے سڑکوں پر تڑپتے ہوئے لوگ

قحط و افلاس کی چکی میں سسکتے ہوئے لوگ

ملک گیری کی ہوس کے لیے لڑتے ہوئے لوگ

تشنگی آج ہے انسان کی قسمت کی لکیر

چاہِ بے آب پہ ایستادہ ہے پیاسوں کی بھیڑ

آب کے واسطے بے چین ہے اک جمِ غفیر

اشک ارزاں ہیں یہاں اور ہے پانی نایاب

کون کہتا ہے کہ خوش حال ہیں اہلِ دنیا

            ’’شاعر محبوب اور فلسفی‘‘ ۲۰۱۰ء۔ پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس نظم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ  تاخون آشام واقعات اور سا’’راحت سے بھی عزیز ہے راحت کی جستجو‘‘ اپنے رومانوی اسلوب کے سبب فضاؔ اعظمی کی نظم’’ شاعر، محبوب اور فلسفی ‘‘ فیض احمد فیضؔ کی ان نظموں سے مشابہ ہو گئی ہے،  جو نقشِ فریادی اور’’دستِ صبا‘‘ کی بہترین نظمیں کہی جاتی ہیں اور جو اپنے رنگ و آہنگ میں اتنی غنائی ہیں کہ ان کو غزل کہنے کو جی چاہتا ہے۔ اس میں غزل کے وہ سارے نقوش و آثار ہیں۔ ‘‘

            ’’فضاؔ اعظمی کی شاعری اور خصوصاً نظم ’’شاعر، محبوب اور فلسفی‘‘ جناب سردار زیدی کی نظر میں یوں ہے۔ ’’فضاؔ اعظمی کی شاعری عمومی طور پر غنائیت سے معمور ہے لیکن یہ ان کی طویل نظم خصوصی طور پر دل کش موسیقیت کی حامل ہے۔ یہ ایک فطری نظم ہے جو روایتی دانش سے لبریز ہے اور جس کا اظہار روایتی ڈکشن اور استعارات کے وسیلے سے کیا گیا ہے۔ نظم مجموعی طور پر رواں دواں اور خوش آہنگ ہے اور اس میں لہجے کے توازن اور نظم کی ہیئت کو آخر تک بر قرار رکھا گیا ہے۔

               شاعر کا بچپن اور پہلا شعر

            فضاؔ اعظمی کا آبائی وطن اعظم گڑھ(مشرقی یوپی) ہے۔ لیکن انہوں نے متھرا (مغربی یو پی) میں آنکھ کھولی۔ متھرا کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ کرشن جی کی جنم بھومی بھی وہاں پر ہے اور اس کو دو آبہ بھی کہتے ہیں ،  اس کے ساتھ ہی گنگا جمنا ملتے ہیں۔

            فضاؔ اعظمی ہوش سنبھالتے ہی اس کائنات پر غور و فکر شروع کر دیا۔ گویا ان کی زندگی عام بچوں سے قدرے مختلف تھی۔ اللہ نے شاعری کا جوہرِ خاص انھیں عطا فرمایا تھا اور تخلیقی صلاحیت کو استعمال کرنے کا ہنر انھیں بہت جلد آ گیا اور شروع ہی سے ان کے کلام میں پختگی نظر آنے لگی۔

            پہلا شعر کب اور کن حالات میں کہا۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ فضاؔ اعظمی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ نادان محل روڈ آغا میر پارک میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے تھے۔ تاروں بھری رات اور گرمیوں کا موسم تھا۔ ان کے بھائی انیس احمد نے فضاؔ اعظمی سے کہا کہ شعر کہہ سکتے ہو، فضاؔ اعظمی نے اثبات میں جواب دیا۔ اس وقت ان کی عمر سات سے آٹھ سال کے درمیان تھی۔ انہوں نے بھائی کے کہنے پر ’’محبت‘‘ کے حوالے سے فوراً شعر کہا۔

محبت کی حقیقت دم بہ دم معلوم ہوتی ہے

محبت اب تو جزوِ زندگی معلوم ہوتی ہے

            اس شعر کو پڑھتے ہوئے کیا اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے؟ کہ یہ ایک بچے نے شعر کہا ہے۔ کس قدر بالغ النظر ی اور متانت پنہاں ہے۔ بالکل انسانی جبلت کے مطابق، ۷سالہ بچے کی یہ اختراع ہے۔

            بچپن کی عمر میں اگر ذمے داریوں کا بوجھ ناتواں کاندھوں پر آن پڑے تو اس کو سہارنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ثابت قدمی، صبر و شکر، حو صلہ اور ایثار کی دولت تمام لوگوں کے حصے میں نہیں آتی ہے۔ لیکن یہ تمام خوبیاں قسمت نے شاعرِ موصوف فضاؔ اعظمی کے سپرد کر دیں۔

             فضاؔ اعظمی کے بچپن کا زمانہ تھا، عمر سولہ سال سے زیادہ نہ تھی، درجہ دہم کے طالب علم تھے اور اس وقت پاکستان بن چکا تھا۔ ان کے بڑے بھائی اور دو بڑی بہنوں نے چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمے داری ان کو سونپ دی اور وہ خود پاکستان آ گئے۔ یقیناً بڑے بھائی اور بہنوں کے جانے کے بعد یہاں فضاؔ اعظمی نے کس طرح حالات کا مقابلہ کیا ہو گا۔ طالبِ علمی کا زمانہ یا گھریلو امور کی انجام دہی۔ یقیناً یہ بڑا صبر آزما اور کٹھن ترین وقت ہو گا لیکن انہوں نے ثابت قدمی کے ساتھ تمام کاموں کو انجام دینے کی کامیاب کوشش کی لیکن اس جدوجہد میں یقیناً ان کے پیروں میں چھالے پڑ گئے ہوں گے، اسی لیے اذیت کا احساس دل و دماغ میں نقش ہو گیا اور یہی احساس شاعری کے روپ میں ڈھل گیا۔ انہوں نے اپنی زندگی اور اپنے بھائی کی زندگی کا موازنہ تلخ حالات و تجربات سے گزرنے کے بعد بے حد دل نشیں انداز میں کیا ہے۔

ترا بچپن خوشی کی اک کہانی

مرا بچپن مصیبت کا زمانہ

ترا بچپن تھا بے فکری کا عالم

مرا بچپن اسیرِ آب و دانا

تجھے بچپن میں شوقِ سیرِ گلشن

مجھے بچپن میں فکرِ آشیانہ

زمانے کی نگاہِ لطف تجھ پر

میں محرومِ سکونِ صیدِ زمانہ

شاعر اور حسنِ کائنات

            جناب فضاؔ اعظمی نے سبق ’’حسنِ کائنات‘‘ میں اللہ رب العزت اور حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّ ا علیہ السلام اور کائنات کے حوالے سے جو اشعار تخلیق کیے ہیں ، ان اشعار میں ان کی عقیدت و محبت کا رنگ غالب آ گیا ہے۔

            اگر مختصراً ذکر حضرت آدم علیہ السلام کا کر دیا جائے تو فضاؔ اعظمی کی شاعری پڑھنے کا مزہ کچھ اور ہو گا۔ اِس واقعہ کی ابتدا اس طرح ہے کہ جب حضرت آدم ؑ کا پتلا بنایا گیا تو اس میں روحِ پاک کو حکم ہوا کہ بدنِ آدمؑ میں داخل ہو، لیکن روحِ لطیف نے خاکِ کثیف میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ حکم دیا۔ اے جان داخل ہو۔ اس بدن میں روح آدمؑ کے سر مبارک کی طرف سے داخل ہوئی،  جس جگہ روح پہنچتی تھی بدن خاکی جو مانند ٹھیکرے کے تھا، گوشت اور پوست سے بدلتا جاتا تھا تو حضرت آدمؑ نے اُٹھنے کا ارادہ کیا۔ وہیں زمین پر گر پڑے۔ اسی وجہ سے اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ ترجمہ:۔ انسان جلد باز ہے۔ بی بی حواؑ اللہ کے حکم اور قدرت سے حضرت آدمؑ کی پسلی سے پیدا ہوئیں اور دونوں جنت میں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

            فضاؔ اعظمی کی شاعری پہلے انسان یعنی حضرت آدمؑ سے آج تک کے انسان کے گرد گھومتی ہے۔ کائنات کی جلوہ سامانیوں اور انسان کے عروج و زوال کی تاریخ تسلسل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ ان کے کلام میں روانی بھی ہے اور غنائیت بھی۔ اس باب میں فضاؔ اعظمی نے اپنی شاعری کو اللہ تعالیٰ اور اس جہان کے حُسن کے نام کر دی ہے۔ اور ’’ماں ‘‘ جو عطیۂ خداوندی ہے، اس حقیقت کا اعتراف بھی شاعر نے بے حد عقیدت و محبت کے ساتھ کیا ہے:

            (ابتدائی اشعار بنامِ آدم و حوّا، بنام باغِ بہشت، بنامِ عالم لاہوت و عالمِ جبروت)

بنامِ حارثِ اوّل ،  بنامِ جلوۂ طور

بنامِ گنبدِ خضرا، بنامِ پرتوِ نور

بنامِ حسنِ ازل، حسنِ خالقِ کونین

بطالبانِ تماشا، باہتمامِ ظہور

بنامِ آدمؑ و حوا، بنامِ باغِ بہشت

بنامِ عالمِ لاحوت و عالمِ جبروت

بنامِ لالۂ صحرا، بنامِ صوتِ ہزار

بنامِ بادِ بہاری، بہ رغبتِ گلزار

بنامِ لالہ رخانِ سبک خرام و ملیح

بنامِ عشوہِ ساقی بفیضِ روئے نگار

نظر افروز ہے دل کش ہے دل نواز ہے حسن

خدا کی رحمتِ بے حد کا شاہکار ہے حسن

            شاعر نے حسین نظاروں کو اپنے دل و دماغ میں بسالیا ہے، تب ہی دل کش و دل نواز شاعری وجود میں آئی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ رب العزت نے انسان کے لیے اس حسین کائنات کو پیدا کیا۔ وہ بھی صرف چھ دن میں اور تسخیرِ کائنات کا بھی حکم دے دیا،  چاند،  سورج،  ستارے،  سمندر ،  پہاڑ، معدنیات اور دوسری بے شمار چیزیں جس سے حضرتِ انسان نے استفادہ کیا۔ حتیٰ کہ چاند تک ہو آیا،  سمندر کے خزانوں سے اپنا دامن بھر لیا، بحری و بری سفر کی بدولت دور دراز جگہوں کے سفر کو  ناممکن سے ممکن بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے لیے مساوی حقوق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں سب برابر ہیں اگر برتری ہے تو تقویٰ کے بنیاد پر۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

فضاؔ اعظمی فرماتے ہیں۔

خدا نے سب کو بنایا ہے اشرف المخلوق

اور اس نے سب کو دیئے ہیں برابری کے حقوق

سب ایک صف میں کھڑے ہیں امیر ہو کہ غریب

نہ فرقِ زنگی و زاہد ،  نہ عاشق و معشوق

تمام خلقت گیتی کی ایک ہی ہے قطار

نہ شاہ ہے کوئی ان میں ،  نہ ہے کوئی نجّار

            اپنے رب خالقِ کائنات کی مہربانیوں کے لیے فضاؔ اعظمی کی شاعری میں نہایت ممنونیت اور شکر گزاری کا احساس جاگزیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت اور پھر قدرتی مناظر سے سجی ہوئی دنیا شاعر کو حیران کر رہی ہے کہ دنیا اور اللہ کی قدرتِ کا ملہ کے بارے میں سوچا جائے ،  غور و فکر کیا جائے تو بے شمار سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں۔ لہٰذا قضا و قدر کے بارے میں کوئی نہیں جان سکتا سوائے اس کے کہ اللہ نے کن فیکون کہا اور چیزیں وجود میں آ گئیں۔ اللہ کی بے شمار عنایتوں اور احسانات کے بدلے میں حقِ بندگی ادا کرنا لازمی قرار پایا کہ اپنے تخلیق کار و پالن ہار کا جس قدر شکر و احسان ادا کیا جائے کم ہے۔ اس نے ہر نعمت سے نوازا، اور عقلِ سلیم عطا فرمائی۔ انسانوں نے بذاتِ خود درجہ بندی کر لی اور اعلیٰ و ادنیٰ ذات پات اور طبقات میں بٹ گئے اور اپنے ہی جیسے انسانوں کو حقیر و کم تر جاننا نفرت و تعصب کی فضا کو پروان چڑھا کر اس دھرتی کا چین و سکون غارت کر دیا۔ کم زور و غریب طبقے کو طاقت ور لوگوں نے اپنا غلام بنا لیا اور ان بے بس بے یارو مدد گار لوگوں کو اشارے پر نچانا۔ بات بات پر ان کی تذلیل کرنا اپنا موروثی حق جانا گیا۔ ہندوؤں میں تو ذات پات اور جاہلانہ رسم و رواج عروج پر تھیں اور آج بھی ان میں کوئی بھی چھوٹی قوم کا شخص برہمن کے برابر نہیں ہوسکتا۔ یہ وبا مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ مسلمان بھی شیخ اور سید کے چکر میں دوسری قوموں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں لیکن اسلام برابری کا سبق دیتا ہے۔ ہر انسان کی عزت و مرتبہ برابر ہے۔ فضاؔ اعظمی نے معاشرے کی تصویریں شاعری کی زبان میں نہایت سچائی کے ساتھ کھینچی ہیں کہ انھیں اس درجہ بندی اور طبقاتی تفریق کا احساس ہے۔

جہاں میں شیخ و برہمن سبھی برابر ہیں

یہاں پہ رہبر و رہزن سبھی برابر ہیں

بطور بندۂ خالق ہیں ایک صف میں کھڑے

بشکلِ آدم خاکی سبھی برابر ہیں

نہ ان میں کوئی ہے چھوٹا نہ ہے بڑا کوئی

نہ کوئی عرش نشیں ہے نہ بے نوا کوئی

زمیں پہ جو بھی ہے، وہ حکمِ کردگار میں ہے

ہر اک خاک نشیں اک ہی حصار میں ہے

نہ ان میں کم تر و بہتر، نہ ان میں ذات نہ پات

ہر ایک فردِ بشر ایک کار زار میں ہے

یہاں پہ حق کی غلامی کا قرض ہے سب پر

فرنگِ سرخ ہو خاکی ہو، فرض ہے سب پر

            فضاؔ اعظمی نے کائنات،  حسنِ کائنات،  وجودِ کائنات اور ربِ کائنات کا ذکر بے حد موثر اور دل نشیں انداز میں کیا ہے اور بہت سی احادیث اور احادیثِ قدسی کو اشعار کے سانچے میں منتقل کر دیا۔ اسی لیے بات دل کو لگتی ہے اور دل میں اُتر تی ہے کہ شاعری کا خمیر سچائی و راستی سے اُٹھا ہے۔ شاعر کے روحِ قالب میں دینی تعلیمات رچی بسی نظر آتی ہیں اور فضاؔ اعظمی کی شاعری پوری دنیا کی تہذیبوں اور تمدن کی عکاس ہے۔ لیکن رشتے ناتے،  احساسات و جذبات،  انسانی فطرت سب انسانوں کی ایک سی ہے۔ چوں کہ خالقِ دو جہاں نے انسان کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے کہ اس جیسا کوئی منصف نہیں ، کوئی اس کی مثال نہیں اور کوئی اس کا ثانی نہیں۔ سورۂ اخلاص میں اس کی مکمل ترین تعریف موجود ہے کہ’’ اللہ ایک ہے، وہ بے نیاز ہے، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے اور نہ اس نے کسی کو پیدا کیا اور کوئی اس کا ہم سر نہیں۔ ‘‘

            پھر بھلا وہ کیوں کر دانش وری اور علم و حکمت کا منبع نہ ہو۔ وہ عالم الغیب ہے، اسے سب کچھ معلوم ہے کہ کیا ہونا ہے اور آگے کیا ہو گا۔ اسی لیے انسان کواس نے سمجھ و عقل سے آشنا کر دیا ہے۔ اس نے رشتوں ناتوں کے تقدس، احساس اور ذمے داری و فرض شناسی اور فطرتِ انسانی کو قرآنی تعلیم کے ذریعے اس کے دل و دماغ میں سمو دیا ہے اور ماں جیسی عظیم نعمت اسے عطا کی ہے۔ ماں کی آغوش ہی ننھے بچے کی پناہ گاہ ہے،  سکون اور دنیا جہاں کا چین و اطمینان اس کے لمس میں پوشیدہ کر دیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اولاد کو ماں جیسی نعمت سے نہ نوازتا تو بچے کی پرورش اور اس میں اعتماد و محبت پیدا کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ ننھا بچہ اپنے آپ کو غیر محفوظ خیال کرتا اور ہر لمحہ سہما اور ڈرا ہوا رہتا۔ چوں کہ وہ اسی طرح کی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے اور سہاروں کا محتاج ہے۔ ماں ہے تو کائنات کا حسن اور روشنی ہے، غموں کا مداوا ہے۔ شفقت و محبت کا موجیں مار تا سمندر ہے جو اس کی آغوش اور بچے کی حفاظت کی شکل میں موجود ہے۔ پیدائش سے لے کر بلوغت تک بلکہ جب تک وہ حیات ہے اپنے بچوں کی خدمت کے لیے ہر لمحہ تیار، اس کی سلامتی کے لیے دعا گو،  اس کی خوشیوں کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے و الی، اسی عظیم ہستی کی محبت کے احساس سے شاعر نے اس قدر خوب صورت اشعار تخلیق کیے ہیں جن میں عقیدت و محبت کا رنگ رچ بس گیا ہے۔ دیکھیے کس قدر دل فریب اور موثر اشعار ہیں :

میں بے بصر تھا تو بینائی تو نے دی مجھ کو

میں خستہ جاں تھا شکیبائی تو نے دی مجھ کو

میں بے قرار تھا آغوش کا سکون دیا

میں بے زبان تھا، گویائی تو نے دی مجھ کو

شعور و شوق کا پہلا ورق پڑھا تجھ سے

سکونِ لمس کا پہلا سبق ملا تجھ سے

            شاعر نے پورا سبق ’’رموز آفرینش‘‘ ہی ماں کی لازوال محبت میں ڈوب کر لکھا ہے اور ماں کے رشتے کو مقدم جانا ہے کہ اللہ رب العزت نے تمام رشتوں سے بر تر بنایا ہے۔ ماں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ماں کے دم سے ہی کائنات کا حسن اور خوب صورتی قائم ہے۔ قرآن و احادیث میں والدین اور خصوصاً والدہ کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے اور دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

            ’’اور ہم نے انسان کو وصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرے۔                                                                             ’’سورۃ الاحقاف ۱۵‘‘

            سورۃ النساء، آیت ۳۶،  میں اللہ نے حکم دیا گیا ہے :

            ’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ شرک نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔ ‘‘

            ایک حدیث کے مطابق ایک شخص کے پوچھنے پر کہ خدمت کا حق دار کون ہے تو آپ ؐ نے تین بار جواب دیا۔ ’’تمہاری ماں ‘‘ اور چوتھی بار باپ کے ساتھ، پھر جو قریبی رشتے دار ہوں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا۔

            فضاؔ اعظمی والدین کی عزت و عظمت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں یہ تعلیم ورثے میں ملی ہے۔ انہوں نے دینی تعلیم کا بھی مطالعہ کیا ہے اور دنیا کے علوم سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ اس کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے اور اس کوشش کے ہی نتیجے میں ’’رموزِ آفرینش‘‘ کے باب میں ماں کی محبت سے سر شار ہو کر شاعری تخلیق ہوئی ہے۔

ترا وجود بنائے وجود عالم ہست

ترے نفوس کی توسیع ہے مری فطرت

بنامِ شفقت مادر،  بنامِ سایۂ عطف

بنامِ مہد مسیحا نفس،  گل با وصف

بہ رمزِ خالق و مخلوق پیش خیمۂ ذات

بہ رمزِ بطنِ حیات آفریں بدیدۂ پُر لطف

            سبق’’رموزِ آفرینش ‘‘ میں جو اشعار درج ہیں ، ان میں ماں کی محبتوں اور عنایتوں کی مہک شامل ہے،  نغمگی سے بھرپور شاعری نے ایک سحر انگیزی اور دل آویزی پیدا کر دی ہے۔ ماں کی محبت و الفت کے تازہ پھولوں نے فضا کو مسحور کن کر دیا ہے۔ قاری بھی ماں کی ایثارو محبت کی تپش کو محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتا ہے۔ ہر شعر اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

            اس کی عظمت و محبت کا اعتراف نہایت ممنونیت و احسان مندی و شکر گزاری اور عقیدت مندی کے ساتھ کیا گیا ہے۔

سرشکِ کرب سے فطرت کو آشکار کیا

عذابِ درد سے خلقت کو ہم کنار کیا

لہو سے کشتِ روابط کی آبیاری کی

خلوصِ رشتۂ بے لوث آشکار کیا

تمام خلقِ خدا میں عظیم ہے انساں

خدا گواہ! یقیناً عظیم تر ہے ماں

            فضاؔ اعظمی نے بے حد ترتیب اور سلیقے کے ساتھ خالق و مخلوق کے رشتوں اور دنیا کی نعمتوں اور اللہ کی رحمتوں کا تذکرہ شاعری کے انداز میں کیا ہے۔ ہر باب ابتداء سے لے کر ماضی و حال کے واقعات و حالات پر مبنی ہے۔ جیسے جیسے زمانے بدلتے گئے،  رسم و رواج اور طور طریقوں میں تبدیلیاں آتی رہیں ، تغیراتِ زمانہ اپنی چال دکھا تا رہا، وحشی انسان نے انسانیت کی طرف سفر کیا لیکن اپنے اندر کے ’’شر‘‘ کو قابو نہ رکھ سکا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ’’شر‘‘ خیر کی قوت پر غالب آ گیا اور اس نے اس دنیا میں فساد پیدا کر دیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فساد اور جھگڑوں کو مزید طول دے دیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

            رشتوں ناتوں کی تقدس و احترام کو مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا اور اسلامی قوانین پر قبائلی و ریاستی قوانین کو فوقیت دی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خون کی آندھی چلنے لگی اور گلی کوچے انسانی خون سے رنگ گئے اور وہ ہی کہانی بار بار دہرائی جانے لگی۔ جس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں سے ہوئی تھی، یہ دنیا کا پہلا قتل تھا، ایک اولاد کی پہلی نافرمانی تھی۔ چوں کہ حضرت آدمؑ نے اپنے بیٹے قابیل کو اچھی طرح یہ بات سمجھادی تھی کہ جس لڑکی کو تم نے پسند کیا ہے، اس سے تمہاری شادی ممکن نہیں۔ اگر ہم موقع کی مناسبت سے مختصراً واقعہ بیان کر دیں تو حرج نہیں ہے قصہ یہ ہے کہ  معمول کے مطابق بی بی حواؑ کے جڑواں بچے،  جن میں ایک بیٹا اور دوسری بیٹی پیدا ہوئی تھی، لہٰذا ساتھ میں پیدا ہونے والے بچے بہن بھائی کا درجہ رکھتے اور شادی کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بتایا کہ اس لڑکی کا نکاح جائز ہے، اس لڑکے سے جو اس کے ساتھ پیدا نہ ہوا ہو،  لیکن قابیل نے اس فلسفے کو ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میری بہن علقَمہ، حسن و جمال میں یکتا ہے۔ لہٰذا میں اسے ہا بیل کے حوالے نہیں کروں گا۔ لیکن حضرت آدمؑ نے بہ حکمِ خدا قابیل کی شادی ہابیل کی بہن کے ساتھ اور ہابیل کی شادی قابیل کی بہن کے ساتھ کر دی اور ادھر سے انتقام اور حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر ڈالا۔ لہٰذا پہلا قتل بھی مرد کے حصے میں آیا۔

            انسان ٹھہرا ناشکرا،  اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور اس کی مہربانیوں کا شکر گزار تو نہ ہوا البتہ اس خوب صورت دنیا کو اپنے اعمالِ بد سے بد صورت بنا دیا۔

            اللہ نے تو انسان کو مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں اس لیے پیدا کیا ہے کہ اس کی شناخت ہو لیکن انسان نے اللہ کے اس احسان کو بھی اسی طرح بھلا دیا جس طرح دوسرے احسانات کو فراموش کر دیا اور محض زبان،  علاقوں ،  قبیلوں کو بنیاد بنا کر دنیا کی نفرت اور تعصب کی فضا کو پروان چڑھایا۔ فضاؔ اعظمی نے انسان کی اسی تنگ نظری اورکو تاہ بینی کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔

بشر کے شر نے قبیلوں کے بت تراشے ہیں

کس اہتمام سے فرقوں کے بت تراشے ہیں

منات و لات بنائے ہیں بغض و نفرت کے

 جہانِ اوّل و سوئم کے بت تراشے ہیں

مفادِ ذات کے بت خود تراش لیتا ہے

وہ اشتداد کی راہیں نکال لیتا ہے

            یہ برائی،  برے کام محض تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ اگر اپنے آپ کو کوئی مسلمان کہتا ہے،  انسان کہتا ہے تو انسانیت کو اپنانا ہو گا۔ یہی دنیا میں امن و آشتی پیدا کرنے کا واحد حل ہے۔

               دنیا کی عورتوں کا مشترکہ درد

            زمانے کے ان حالات و واقعات نے جو جبر کے نتیجے میں وجود میں آئے، شاعر کو بے حد دکھی کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے۔ فضاؔ اعظمی اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ پوری دنیا میں عورت کے ساتھ برا سلوک روا رکھا گیا ہے اور اسے کم تر سمجھا گیا ہے۔ (اگر اسے عزت و مرتبہ بخشا ہے تو اسلام نے)

            دنیا بھر کی تہذیب و تمدن میں عورت کو ادنیٰ درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے اور معاشرے کو یکسرنیا بنا دیا گیا ہے۔ ہر ملک اور ہر معاشرے میں عورت سے بد ترین سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ اہلِ عرب طلوعِ اسلام سے قبل بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا کرتے تھے۔ گویا یہ ایک رسم تھی جو جاری تھی۔

            شاعر نے اس حوالے سے ایک واقعہ بھی درج کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک بار ممتاز شاعر اور مدیرِ اعلیٰ طلوعِ افکار حسین انجمؔ مرحوم نے مجھے دورانِ گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک دن ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے وہ اپنی بچی کو لے کر صحرا میں گئے اور اس کو دفن کرنے کے لیے گڑھا کھودنے لگے۔ سخت گرمی اور دھوپ کی وجہ سے ان کو پسینہ آ رہا تھا۔ بچی حالات سے نا واقف باپ کے چہرے سے پسینہ پونچھ دیتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے اسے دھکا دے کر اسی گڑھے میں دفن کر دیا،  یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زار و قطار رو پڑے،  یہاں تک کہ ان کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر بہ تر ہو گئی۔ اس مقام پر حسین انجمؔ صاحب اتنے د ل گرفتہ ہوئے کہ وہ خود بھی آب دیدہ ہو گئے۔ اس دن سے اور اس وقت سے میں نے یہ نظم لکھنے کا فیصلہ کیا:

لبِ نازک سے ایک بچی نحیف آواز میں بولی

مرے ابو نے میری قبر میرے سامنے کھودی

غضب کی چلچلاتی دھوپ تھی گرمی کی شدت تھی

دوپٹے سے میں ماتھے کا پسینہ پونچھ دیتی تھی

انہوں نے مجھ کو دھکا دے کر گڑھے میں گرایا تھا

میں چلّاتی رہی، لیکن ترس ان کو نہ آیا تھا

            اور آج بھی چودہ سو سال پہلے کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ وہی بر بریت اور ظلم کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ آج بھی بچیوں کو خصوصاً پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو ذلت و جہالت کے تاریک غار میں دھکیل دیا ہے۔

            فضاؔ اعظمی نے دنیا بھر کی مظلوم عورتوں کا نوحہ بڑی درد مندی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ ان کا اصل موضوع ہی’’انسانیت اور انسانیت کا درد‘‘ ہے۔

            دنیا بھر میں عورت پر ظلم کی حد توڑ دی گئی ہے۔ چین ہو یا مصر،  امریکہ ہو یا یورپ،  پاکستان ہو یا ہندوستان ہر جگہ مختلف انداز میں عورت نے مرد کی محکومیت اور تشدد کو برداشت کیا ہے۔ لڑکی کی پیدائش کے خوف سے پہلے ہی اسے مارنے کے انتظام کر لیے جاتے۔ یہ رجحان بھارت میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور ہمارے ہاں بھی اب اس قسم کے حالات جنم لے چکے ہیں۔

            ملکِ چین میں بھی اس پر انوکھے انداز میں ستم کیا گیا۔ چین میں جب بچی پیدا ہوتی تو اس کے ننھے منے پیروں میں لوہے کے جوتے پہنا دیئے جاتے تھے، وہ بڑھتی،  اس کا قد بڑھتا، وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتی، لیکن اس کے پیر ننھے منے رہتے، وہ چھوٹے چھوٹے پیروں پر توازن  برقرار نہیں رکھ پاتی بلکہ وہ چلتے چلتے بار بار گر جاتی، باہر جانے کی بھی قدغن تھی اور جس کا انتظام انہوں نے پیروں کو مقفل کر کے کر دیا تھا۔ اسی حوالے سے فضاؔ اعظمی کہتے ہیں۔

دیارِ چین میں ایک دور کی یہ بھی حقیقت تھی

کہ پائے حسن کو مفلوج کرنے کی روایت تھی

مقفل اس کو کر دیتے تھے وہ لوہے کے جوتوں میں

اسے باہر نکلنے کی اجازت تھی نہ جرأت تھی

وہ کہتے تھے کہ عورت ناز سے چلتی ہے اِٹھلا کر

حقیقت یہ تھی کہ گر جاتی تھی وہ قدموں پر غش کھا کر

            عیسائیت اور یہودیت میں بھی عورت کو خامیوں اور بدی کا مجسمہ سمجھا گیا ہے۔ اسے ہوش و حواس سے بیگانہ جانا، اس کی عقل و دانش کا مذاق اُڑایا گیا، اسے نسیان کا مریض قرار دیا گیا اور جھوٹ کا پلندہ جانا گیا۔

            جہاں عورت خاموش بیٹھی یا سوچوں میں غرق،  خلاء میں گھورتی،  اپنے حالات و واقعات پر غور و فکر اور انسانی فطرت کے مطابق خود کلامی کرتی نظر آتی، وہیں اسے چڑیل،  ڈائن اور جادو گرنی کے خطاب سے نوازا جاتا اور اسے مختلف حیلوں اور بہانوں سے موت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ شاعر نے جب عورت پر مرد کی مظلومیت و حاکمیت پر نوحہ لکھا تو ان کے سامنے پوری دنیا کے مذاہب کی تاریخ اور نظامِ زندگی تھا۔ عورت کے ظلم و ستم کی داستان ان کے دل و دماغ میں سما گئی ہے، جسے وہ اس طرح بیان کر رہے ہیں :

وکیلِ استغاثہ نے گواہی یہ گزاری تھی

کہ ایک عورت تنِ تنہا کسی ٹیلے پر بیٹھی تھی

یہ کہنا تھا بظاہر گو کہ وہ خاموش رہتی تھی

لبوں میں اس کے جیسے جنبشِ موہوم ہوتی تھی

اب اس سے بھی بڑی کوئی شہادت اور کیا ہو گی

وہاں کوئی نہیں تھا،  پھر وہ کس سے بات کرتی تھی

چڑیلیں تھیں ،  وہ ٹونا ٹوٹکا کرنے کی قائل تھیں

قیاس اس بات کا بھی تھا کہ وہ مدفن میں جاتی تھیں

وہاں قبروں کے اندر سے وہ لاشیں کھود لاتی تھی

وہ ان کے ہاتھ کے پیروں کے گٹے توڑ دیتی تھی

یہ ان کے مجرمانہ کام کی بیّن شہادت تھی

زنانِ قحبہ کے سفلی عمل کی یہ علامت تھی

            قدیم یونانی و رومی اور عیسائیت و چینی معاشروں میں بھی عورت کی حالت کم درجے کی تھی۔ معاشرے میں مرد کو عورت پر فوقیت حاصل تھی۔ فلسطین،  شام اور لبنان وغیرہ میں بھی عورت کو آبادی بڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔

            سپارٹا میں عورت کی حیثیت محض استعمال میں آنے والی چیزوں کے برابر تھی بلکہ اس سے بھی بد تر اور ناکارہ۔ اسی لیے وہ بڑی آسانی سے عورتوں اور بچیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا کرتے تھے۔

            قدیم ایتھنز میں بھی اس کی خریدو فروخت کی جاتی تھی اور ایک مرد دوسرے مرد کو بہت آسانی سے اپنی عورت کو دے دیا کرتا تھا۔ یونانی فلسفی افلاطون بھی مردوں کی نسبت عورتوں کو معمولی مخلوق سمجھتا تھا، لیکن وہ اس کی صلاحیتوں کا بھی اعتراف کرتا تھا ،  گویا معاشرہ عورت کو وہ مقام دینے کے لیے تیار نہ تھا جس کی وہ مستحق تھی۔

            فضاؔ اعظمی نے چوں کہ ملکوں ملکوں کی سیر کی ہے اور انھیں دنیا بھر کے علاقوں کے لوگوں کا رہن سہن اور رسم و رواج سے واقف ہونے کا موقع میسر آیا ہے۔ مختلف تہذیب و تمدن کا مطالعہ کیا ،  دانش ورو فلسفیوں کے خیالات کو جانا، تب اس نتیجے پر پہنچے کہ عورت کے معاملے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ طبقہ سب کے خیالات ایک سے ہیں۔ کسی بھی عورت کو (برتری تو دور کی بات ہے) اسے انسان سمجھنے کے لائق نہیں سمجھا، جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں افضل مقام دیا تھا اور اس حقیقت سے بھی مرد ذات نے منہ موڑا کہ عورت کے بھی وہی جذبات و احساسات اور حقوق ہیں جو مرد کے ہیں۔ چوٹ اور تکلیف، ذلت و ندامت کا احساس اسے بھی ہوتا ہے۔

            فضاؔ اعظمی نے نام ور شخصیات کی آراء کو شاعری کی زبان میں بیان کیا ہے۔

بروئے قولِ افلاطون واقعہ یہ ہے

گناہ گار ہو گر مرد تو سزا یہ ہے

نئے جنم میں وہ عورت کا روپ دھارے گا

ثبوت مرد کے اعلیٰ ضمیر کا یہ ہے

کہ نغمہ اس کے لئے روح کی غذا بن جائے

اناث میں یہ محضِ حظ کی آگ بھڑکائے

            یہاں افلاطون کے افکار کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

            یونانی فلسفی افلاطون عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں ادنیٰ جانتا تھا، وہ عورتوں کی صلاحیتوں کا بھی مدّاح تھا، اسے معلوم تھا کہ اگر عورتوں کو میدان میں نہ لایا گیا تو وہ بہ دستور کم تر ہی رہیں گی، چناں چہ وہ عورتوں کو پبلک لائف میں لانے کا حامی تھا۔ وہ لڑکے اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کا بھی حامی تھا۔ وہ ایک ہی جگہ ان کی ورزش اور جمناسٹک کرانا پسند کرتا تھا۔ اب رہی یہ بات کہ افلاطون عورت کو مرد سے کم زور اور کم درجے کی مخلوق کیوں گردانتا تھا، اس کی وجہ یہی ہے کہ بظاہر ایسا ہی نظر آتا ہے کہ عورتیں مرد کے مقابلے میں کم تر ہیں۔ افلاطون کے زمانے میں یہ فرق اور بھی نمایاں تھا، (از عورت، مذاہب، فلسفہ، تاریخ کی نظر میں )

            ڈاکٹر منظور احمد اپنے خیالات کا اظہار فضاؔ اعظمی کی شاعری اور افلاطون کے حوالے سے اس طرح کر رہے ہیں :

            ’’فضاؔ اعظمی نے بڑے مؤثر پیرایے میں موجودہ معاشرے کے ان تمام مسائل کا نہ صرف یہ کہ پُر اثر جائزہ لیا ہے بلکہ اس کے ہر شعر میں وہ فکر کارفرما ہے جو اسلام کی ایک انقلابی اور ترقی پسند فکر تھی، لیکن مسلمانوں کی عمومی جہالت نے اس کو اب بھی قرونِ اوّل اور وسطیٰ کے کلیسائی تصورات کا اسیر بنا رکھا ہے۔ جو معاشرتی استحصال کے لیے ہمارے با اثر لوگ استعمال کرتے ہیں۔ مجھے اس وقت اقبالؔ کا ایک بڑا پیشن یا افتادہ شعر یاد آرہا ہے:

مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن

اسی کی کوکھ سے پھوٹا شرارِ افلاطون

            مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسلامی فکر اگرچہ فلسفۂ اقبالؔ میں ایک ترقی یافتہ شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن اقبال بھی شاید اسی کے قائل تھے کہ صنفِ نازک مکالماتِ افلاطون نہیں لکھ سکتی اور اس کا اصل کام افلاطون کو دودھ پلانا ہے اور ان کی پرورش کرنا ہے۔ آج کی فکر جس میں فضاؔ اعظمی صاحب شامل ہیں ، اس بات کی قائل معلوم ہوتی ہے کہ عورت اس بات کی بھی صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ خود مکالماتِ افلاطون لکھ سکتی ہے بہ شرطے کہ افلاطون باورچی خانہ سنبھالے اور گھر کے کام کاج کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ عورت کی صلاحیت کی کمی خلقی نہیں ہے بلکہ معاشرتی عوامل سے متعین ہوئی ہے اور اگر یہ عوامل تبدیل ہو جائیں تو فکری طور پر مرد و زن میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ ‘‘

            ارسطو کے خیال و افکار بھی عورت کے حوالے سے اتنے ہی پست ہیں جتنے کہ دوسرے اہلِ بصیرت کے۔ وہ بھی عورت کو کم تر درجہ قرار دیتے ہیں اور مرد کو اعلیٰ مقام کا مستحق گردانتے ہیں۔

بروئے قولِ ارسطو یہ شرحِ فطرت ہے

کہ مرد جنس کو حاصل مقامِ عظمت ہے

کہ مرد حارثِ اعلیٰ ہے باغِ گیتی کا

وہ بے ہنر بھی اگر ہو اسے فضیلت ہے

وہ ہر لحاظ سے آقا ہے زیرِ بار ہے زن

وہ جنسِ بہتر و افضل ہے،  خاکسار ہے زن

            عیسائی مذہب میں بھی عورت کو حقیر جانا گیا ہے۔ اسے شیطان کا آلۂ کار کہا گیا ہے۔ کسی دانش مند نے اسے افعی کا زہر کہا۔ عیسائی مبلغین اور علماء کا کہنا ہے کہ ہر مرد کا سردار عیسیٰ ہے۔ جب کہ عورت کا سر براہ مرد ہے۔ عیسائی سماج میں اکثر لوگوں کی یہ بھی رائے ہے کہ عورت کا ابتدائی گناہ صرف عورت تک محدود نہیں بلکہ اسے یہ شرمندگی بھی اُٹھانا پڑتی ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس کی ہی وجہ سے گناہ گار ہو گا اور جب تک اسے بخشوا نہ دیا جائے وہ جہنم کا حق دار بنے گا۔ یہاں عورت کے گناہ گار ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس نے خدا کی سب سے پہلے نافرمانی کی اور حضرت آدمؑ کو بھی ’’گناہ‘‘ کرنے کی طرف راغب کیا۔ عورت کا یہ گناہ پوری انسانیت میں جاری وساری ہے۔ (عورت، مذہب فلسفہ تاریخ کی نظر میں )

            جب کہ حقیقت کچھ اس طرح ہے حضرت آدمؑ و حوّاؑ کا ذکر پچھلی سطور میں بھی در ج ہے کہ اپنے ساتھ شیطان نے سانپ کو ملا لیا۔ طاؤس سے کہا کہ میری دوستی کے حق تیرے اوپر ثابت ہیں اور آگے ہم تم ایک مکان میں رہتے تھے۔ یہ التماس تجھ سے ہے کہ مجھ کو اپنے بازو پر بٹھا کر بہشت میں پہنچا دے تاکہ میں اپنے دشمن یعنی حضرت آدمؑ سے بدلا لے سکوں۔ طاؤس کے انکار اور اس کے مشورے پر سانپ سے اس نے درخواست کی۔ سانپ اس کو منہ میں لے کر بہشت میں لے گیا اور حضرت آدمؑ کے انکار کے بعد بی بی حواؑ کے پاس گیا اور ممنوعہ درخت کا پھل کھانے کے لیے کہا اور وسوسے ڈالے اس طرح اپنی چال میں کام یاب ہوا۔ اس واقعے کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ شیطان جو کہ صیغۂ مذکر ہے اس نے ورغلایا بی بی حوّا کو، اور ان کی چال بازی سب کے سامنے آ گئی۔

            اسلام واحد وہ مذہب ہے جہاں عورت کو مرد کے مقابلے میں یکساں حقوق حاصل ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں اور بچیوں کے حقوق واضح کر دیئے ہیں اور انہیں افلاس کے خوف سے جان سے مارنے کے لیے منع فرمایا ہے۔

            ’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے مار نہ ڈالو! ہم ہی انہیں رزق دیتے ہیں اور تمہیں (بھی)۔ ان کا مار ڈالنا سخت غلطی ہے۔

                                                            سورۂ بنی اسرائیل، آیت 31

            اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو، ہم تم کو رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی۔

                                                                   سورۂ انعام، آیت 151

            یہودی ہر روز یہ دعا کرتے ہیں کہ ’’تم بابرکت ہو، ہمارے آقا خدا ‘‘بادشاہِ کائنات جس نے ہمیں عورت نہیں بنایا۔

            کتابِ مقدس (بائبل) کے مطابق سلیمان فرعون کی بیٹی کو بیاہ کر لایا اور اسے حضرت داؤدؑ کے شہر سے باہر محل میں ٹھہرایا۔ کیوں کہ ایک عورت کے وجود سے وہ جگہ ناپاک ہو جاتی۔

                                                               تو اریخ 2۔ باب 8، آیت 11

            عورت کا کم زور درجہ اور ادنیٰ مرتبہ بائبل کی تعلیمات سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے۔ یہودیت میں بیوہ عورت اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی، ماسوا کہ شوہر کا بھائی اسے اپنی بیوی بنا لے۔ وہ نا قابلِ اعتبار ہے، اسے جھوٹ بولنے میں ماہر قرار دیا گیا ہے۔ فضاؔ اعظمی نے اس صورتِ حال کو مدِ نظر رکھ کر حقیقت نگاری کو شاعری کی زبان عطا کی ہے۔

یہ واہمہ تھا یہودی نژاد لوگوں کا

کہ اعتبار کے قابل نہیں بیاں اس کا

وہ بدنصیب گواہی کے حق سے ہے محروم

کہ زن کی ذات پہ یہ بھی ہے قہر یزداں کا

دروغ گو ہے،  اسے عارضہ ہے نسیاں کا

اسے ہے ہوش کہاں واقعاتِ امکاں کا

            دنیا کے تمام مذاہب کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو اسلام نے عورت کو جو عزت و حرمت عطا فرمائی ہے وہ کسی کو نصیب نہیں۔ عورت کی قدرو منزلت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔

            ’’وہ تمہاری بیویاں تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو۔ ‘‘

            اور بیٹی کے لیے حدیثِ مبارکہ ہے :

            ’’جس آدمی کے ہاں لڑکی پیدا ہو، پھر نہ تو وہ اسے ایذا پہنچائے اور نہ اس کی نا قدری کرے اور نہ برتاؤ میں لڑکے کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اس لڑکی کے ساتھ اسے بھی جنت عطا فرمائے گا۔ ‘‘

                فضاؔ اعظمی کا خواب یا حقیقت

 

            اپنے مضمون میں شاعر نے ان محرکات کا بھی ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے وہ طویل مقصدی نظمیں لکھنے پر مجبور ہوئے۔ دو اہم واقعات ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کا عزم و حوصلہ بلند ہوا۔

            وہ لکھتے ہیں کہ ’’آج جب میں نے اپنی چھٹی طویل کتابی شکل کی موضوعاتی نظم مکمل کی ہے تو مجھے نصف صدی سے زیادہ عرصہ پہلے کا وہ دن یاد آ رہا ہے جب محترم یحییٰ اعظمی نے دار المصنفین اعظم گڑھ( عرفِ عام میں شبلی منزل) میں لے جا کر مجھے علامہ سید سلیمان ندوی کے کمرے میں ان کی بڑی سی میز کے سامنے کھڑا کر دیا تھا اور حکم دیا کہ میں اپنی طویل نظم ’’ رنگون سے واپسی‘‘ علامہ کو سناؤں۔ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی،  میں علامہ کی طویل و عریض میز کا کونا پکڑ کر کھڑا ہو گیا اور بلا جھجک پوری نظم جو مجھے زبانی یاد تھی،  ترنم کے ساتھ سنادی،  قابلِ غور بات یہ ہے کہ بارہ،  تیرہ سال کا بچہ نہ کہ نظم تخلیق کر رہا ہے بلکہ مکمل اعتماد کے ساتھ اور وہ بھی ترنم سے ایک بڑی معزز شخصیت یعنی علامہ سید سلیمان ندوی کو سنارہا ہے۔ شاعر کا جوہر،  تخلیقی گویا روح کی گہرائیوں میں شامل تھا۔ چھوٹی سی عمر میں جو کہ بچپن کی عمر ہے،  اس عمر میں کلام لکھنا اور سنانا با اعتماد ہونے کی دلیل اور اعلیٰ صلاحیت سے کم نہیں ،  اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں کہ مجھے اس نظم کو سنانے کی عادت سی ہو گئی تھی، جہاں جاتا تھا اس کی فرمائش ہوتی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے تناظر میں وہ بے انتہا حسبِ حالات تھی،  نظم کا پس منظر یہ ہے کہ جاپانی فوجیں تمام جنوبی ایشیاء کو روند تی ہوئی رنگون تک پہنچ گئی تھیں اور کلکتے پر بھی بمباری کی ابتدا کر چکی تھیں ،  ان کی پیدا کردہ تباہی اور بر بریت کی بھیانک کہانیاں سن کر لوگوں کے دل دہل جاتے تھے۔ ان حالات میں ہمارے ایک ماموں رنگون میں اپنے فرنیچر کے ایک بڑے بزنس کو چھوڑ کر لٹے پٹے پاپیادہ بیوی بچوں کے ساتھ پہاڑوں ،  صحراؤں  اور جنگلوں میں مارے مارے پھرتے ہوئے اس طرح جان بچا کر ہمارے یہاں پہنچے کہ صورت بھی مشکل سے پہچانی جاتی تھی۔ ایک بچی نے راستے میں ہی دم توڑ دیا،  اس درد بھری داستاں کو میں نے سنا اور دیکھا اور نظم کر دیا۔ نظم کے صرف دو مصرعے اس وقت مجھ کو یاد رہ گئے ہیں۔

آوارہ پرندانِ چمن گھوم رہے تھے

سبزے بھی نحوست کا قدم چوم رہے تھے

            علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنا کام چھوڑ کر بڑے انہماک سے میری نظم سنی۔ میری ہمت افزائی اس طرح کی۔ ‘‘کہ جب محترم فضاؔ اعظمی کا ۱۹۹۶ء میں جب پہلا مجموعۂ کلام’’ جو دل پہ گزری ہے ‘‘شائع ہونے کا وقت آیا تو علامہ سید سلیمان ندوی نے ایک رقعہ ان کے والد حاجی حافظ ڈاکٹر حفیظ اللہ کے پاس بھیجا تھا جس میں ان کو مشورہ دیا تھا کہ فضاؔ اعظمی کو شاعری کرنے سے نہ روکا جائے۔

            یقیناً علامہ سید سلیمان ندوی کو فضاؔ اعظمی کی شاعرانہ عظمت،  اعلیٰ افکار،  اسلامی و ملّی سوچ اور خداداد صلاحیت کا بہ خوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر شاعری کے حوالے سے قابلِ قدر کام انجام دے گا اور اپنا اور اپنے والدین کا نام روشن کرے گا۔ چوں کہ یہ بارہ،  تیرہ سالہ لڑکا غیر معمولی صلاحیتوں اور خوبیوں کا مالک ہے، اسے دوسروں کے درد کا،  معاشرتی مسائل کا ادراک ہے، اسے اپنے لوگوں اور اپنے مذہب سے محبت ہے، یہ آئندہ جو کچھ لکھے گا، بالکل اسی کے مصداق ہو گا کہ’’ شاعری جزویست از پیغمبری ‘‘ اور اس کا قلم اصلاحِ معاشرہ کا کام کرے گا،  آج کے حالات کے تناظر میں جب ہم فضاؔ اعظمی کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو،  ہمیں ان کی شاعری میں ندرتِ بیان اور الفاظ کی وسعت نظر آتی ہے۔ ملکی تباہی،  اخلاقی پستی کا نوحہ لفظوں کی شکل میں بین کر رہا ہے۔ جو دانش ور ہیں ، اہلِ فکر ہیں ا ور صاحبِ اختیار ہیں اور جو اقتدار پر قابض ہیں ، وہ فضاؔ اعظمی کی شاعری کو پڑھیں اور معاشرتی ڈھانچے کو بدلنے کی کوشش کریں ،  قوانین میں ترامیم کریں ،  عورتوں کو ان کے وہ حقوق دیں جنہیں اسلام نے ان کے نام ودیعت کر دیئے ہیں۔ ان کے حقوق خلوصِ دل کے ساتھ ادا کریں۔ کم از کم اس بات پر ہی غور کر لیں کہ ہم سب مسلمان ہیں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں ، وہ اللہ کے حبیبؐ اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ زہراؓ خاتونِ جنت مستورات کی سردار، جب آپؐ کے پاس تشریف لاتیں تو آپ اُٹھ کر کھڑے ہو جایا کرتے۔ سفر سے آتے تو سب سے پہلے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لختِ جگر کا نکاح حضرت علیؓ سے کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علیؓ کا رشتہ آنے کے بعد آپؐ اپنی صاحب زادی جو صبر و قناعت،  تابع داری و انکساری کا مجسمہ ہیں ، ان کی مرضی پوچھتے ہیں۔ جب کہ ہمارے نبیؐ کے اُمتی اپنی بیٹیوں کی پسند کی شادی نہ کرنے اور جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے انھیں زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر انہیں ایسے شخص کے پلے سے باندھ دیتے ہیں جو عمر کے لحاظ سے اور نہ صورت و سیرت کے اعتبار سے اس کا ہم پلہ ہے۔ وہ بچی اس واسطے ناخوش رہتی ہے، اس کا دل رو رہا ہے،  تڑپ رہا ہے لیکن اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔

انسانی مساوات

            فضاؔ اعظمی نے اپنے خونِ دل سے شاعری کا گلستان کیا ہے اس ہی لیے تخلیق کار کا خون ہر شعر میں شامل ہو گیا ہے۔ شاعر نے جذبات و احساسات کے قتل کے ساتھ اپنے جسم پر ہتھیار کے زخم کی شدت اس طرح محسوس کی ہے کہ جیسے کسی طاقت ور نے اپنی طاقت کا مظاہرہ عورت کی بے بسی اور جسمِ نازک پر آزمایا ہو۔ اپنی حساس طبیعت کے باعث فضاؔ اعظمی مقتل میں اپنے آپ کو پاتے ہیں ،  کرب ناک نظارہ دیکھتے ہیں اور مظلومین کے غم و بے کسی کو اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں۔ ان کی شاعری مکمل طور پر ناہموار معاشرے کی عکاسی کر رہی ہے۔

            وہ خود بھی دکھی ہیں اور اپنے قارئین کو بھی دکھی کر دیتے ہیں لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ محض غم اور افسوس کر نے سے کام ہر گز نہیں بنے گا۔ لہٰذا وہ اس کے لیے ایک مثبت اور موثر طریقہ اختیار کرتے ہیں ، وہ طریقہ ہے کہ شاعری کی زمین پر بیج بو دیئے جائیں اور جب بیج سے ننھے ننھے پودے نکل کر تناور درخت کی شکل میں ڈھل جائیں ، تب ان میں لگے ہوئے کانٹوں اور پھولوں کو دیکھ کر ہر صاحبِ بصیرت اس بات پر ضرور غور کرے گا کہ سرسبز گلوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب عورت کو تحفظ اور عزت حاصل ہو گی، عورت شہر کی ہو یا گاؤں و دیہات کی، پاکستان کی ہو یا یورپ اور ایشیاء کی، ہر عورت ایک انسان ہے، بالکل مرد کی طرح بلکہ کئی معاملات میں اس سے بھی زیادہ خوبیوں کی مالک ہے۔ تحمل و برداشت ،  نرم خوئی اور صبر اس کے خمیر میں شامل ہیں۔ اس کے دم سے کاروبارِ زندگی رواں دواں ہے۔

            نسلِ آدمؑ کی پرورش اور افزائشِ نسل میں اس کا نمایاں کردار ہے۔ دنیا کا کوئی ایک مرد بھی ایسا نہیں جو اس کی طرح صبرو ایثار کی دولت سے مالا مال ہو۔ لیکن اس کی قدر نہیں کی گئی۔ بلکہ مرد نے اپنی حاکمیت کو قائم رکھتے ہوئے اس پر بے جا پابندیاں لگائیں ،  زیادتیاں کیں۔ اسے اس کے حقوق سے محروم رکھا گیا۔

            جب کہ اللہ رب العزت نے مردو زن کو برابری کے حقوق دیے چوں کہ اشرف المخلوق کا لفظ مردوں کے لیے مخصوص نہیں ہے، اس میں عورت بھی شامل ہے۔ ہر انسان اشرف ہے، خواہ وہ کسی بھی نسل اور قوم سے تعلق رکھتا ہو ! کسی بھی زمین اور خطے پربستا ہو۔ وہ بر تر ہے تمام مخلوق سے۔

            فضاؔ اعظمی نے بار بار اپنی کتاب ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کے حوالے سے یہی بات بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے بلکہ انسانی اقدار اور حقوق کو شاعری کی زبان عطا فرما دی ہے کہ انسانوں کا ایک دوسرے پر مکمل طور پر حق ہے کہ وہ آپس میں وہ کام کریں جن کے کرنے سے بھلائی اور فائدہ نصیب ہو۔ وہ کہتے ہیں :

جہاں میں شیخ و برہمن سبھی برابر ہیں

یہاں پہ رہبر و رہزن سبھی برابر ہیں

بطور بندۂ خالق ہیں ایک صف میں کھڑے

بشکلِ آدم خاکی سبھی برابر ہیں

نہ ان میں کوئی ہے چھوٹا نہ ہے بڑا کوئی

نہ کوئی عرش نشیں ہے،  نہ بے نوا کوئی

٭

نہ کوئی نور کا پرتو نہ کوئی نار کا ہے

نہ ان میں فرق کوئی عز و اقتدار کا ہے

کہ مر تبے میں سبھی ایک ہیں ہو مرد کہ زن

ہر ایک جسم و جسد خاک رہ گذار کا ہے

اسی سے عالمِ انسانیت دیا ترتیب

یہی بنائے تمدن ،  یہی رخِ تہذیب

            جب ہم فضاؔ اعظمی کی شاعری کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا ادراک اچھی طرح ہو جاتا ہے کہ فضاؔ اعظمی کی شاعری انسانیت اور انسانی اقدار کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا موضوعِ شاعری ہی انسان اور انسانیت ہے۔ وہ انسان جو غاصب ہے،  لالچی ہے ،  بے ضمیر ہے، زر پرست ہے،  اپنے ہی مفاد اور ترقی کا متمنی ہے، جس نے انسانیت کے شفاف چہرے پر کلنک کا ٹیکا لگانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، ان کی طویل نظمیں جو کتابی شکل میں ہیں ، انہیں پڑھ لیجیے تو وہ کرسی نامۂ پاکستان ہو،  یا مرثیۂ مرگِ ضمیر اور عذابِ ہمسائیگی ہو۔ ان کی تحریر میں انسان کی وہ شکل نظر آتی ہے جو مکروہ ہے اور اپنے ہی جیسے انسانوں کے لیے آزار کا باعث ہے۔

                شاعر کا آدرش

 

            جیسا کہ پچھلی سطور میں ،  میں نے عرض کیا تھا کہ فضاؔ اعظمی کی شاعری کا محور انسانیت ہے، اس نکتہ کے حوالے سے بہت سے وہ لوگ جو ’’دانا‘‘ کی ضد ہیں ،  کہہ سکتے ہیں کہ جنابِ والا،  تمام ہی شعراء نے انسانوں کے حوالے سے شاعری کی ہے۔ اس ضمن میں مختصراً عرض ہے،  ہر ایلو پیتھک ڈاکٹر ایم بی بی ایس ہوتا ہے لیکن کچھ مسیحا کا کردار ادا کرتے ہیں اور کچھ حرص و ہوس میں پڑ کر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ ایک کی سرجری انسانوں اور انسانی پہلوؤں کو وقار بخشتی ہے تو دوسرے کی انسانیت کی توہین پر مبنی ہے کہ انسانی اعضاء کا کاروبار انہی کی بدولت خوب پھل پھول رہا ہے، ہڑتالیں کر کے جاں بلب مریضوں کی جان لینے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

            فضاؔ اعظمی کی شاعری انہیں اپنے ہم عصروں میں اس لیے بھی ممتاز کرتی ہے کہ ان کا اندازِ فکر اور اندازِ سخن جدا گانہ ہے۔ کسی عورت کے دکھ درد کے حوالے سے آج تک ایک ہی موضوع پر اس قدر طویل اور موضوعاتی شاعری نہیں کی گئی اور جو کتاب کی صورت میں منظرِ عام پر آئی ہو۔

            تڑپتے،  سسکتے ،  روتے،  بلکتے اور مرتے ہوئے لوگوں کے جذبات و احساسات کو بیان کرنا ہر شخص کے بس کی بات ہر گز نہیں ہے۔ لب و رخسار،  گل و بلبل،  رنگین پیراہن،  ہجر و  وصال کے قصے تو شاعری کی روایات رہے ہیں۔ ہر دور میں یہی واقعات تھوڑی بہت رد و بدل کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں ، چوں کہ جب تک دنیا آباد ہے حسن و عشق کی کہانیاں بھی جنم لیتی رہیں گی۔ افسانوں اور شاعری کی زبان میں مختلف قلم کار لکھتے رہیں گے۔ لیکن جہاں عشق ہو گا،  محبت ہو گی،  وہاں دردو الم بھی ہو گا۔ ہر دور میں سسی پنوں ،  ہیر رانجھا،  شیریں فرہاد،   سو ہنی مہینوال، رومیو جیولٹ اور لیلیٰ مجنوں کی داستانیں دہرائی جاتی رہیں گی۔ لیکن افسوس ان لوگوں کے چہروں کو کسی نے بے نقاب نہیں کیا جن لوگوں نے محبت کی راہوں میں کانٹے بچھائے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کو جدا کر دیا۔ لیکن فضاؔ اعظمی نے اسلام کی روشنی میں اس کی اہمیت اور قدرو قیمت کا تعین کیا ہے کہ عورت نہ کہ وراثت کی حق دار ہے بلکہ مرد و عورت دونوں کو اللہ تعالیٰ نے مساوی حقوق و فرائض عطا کیے ہیں ، اگر وہ ملازمت کرتی ہے تو اپنی محنت کی کمائی اپنے پاس رکھنے کی حق دار بھی ہے۔ بے شمار گھرانے ایسے ہیں جہاں مرد نکھٹو ہیں اور عورت کی دن بھر کی اُجرت یا ماہانہ تنخواہ پر گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں اور جو گھریلو امور بھی خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہے۔ فضاؔ اعظمی نے انہی حالات کا نقشہ کھنچا ہے۔

وہ عورت جو تھی محرومِ وراثت جاہلیت میں

نہ تھی حق دار جو اسلاف کی املاک و دولت میں

خدائے عزوجل کا انقلابی فیصلہ آیا

کہ ہر عورت کو حق ہے اپنے پرکھوں کی وراثت کا

اسے حق ہے کمانے کا، کمائی پاس رکھنے کا

مساوی کام کی خاطر مساوی حقِ محنت کا

            زمانۂ ماضی سے زمانۂ حال تک یہ واقعات و حالات مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ جاگیر دارانہ نظام ایک ہے، شکلیں جدا ہیں۔ وہ ہی خونی روایتیں ،  وہ ہی دل دہلانے والے قصے،  جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوتے ہیں۔ ایک منٹ یا ایک لمحے کے لیے اہلِ دل دوشیزاؤں کی بے بسی اور ان کے قتل پر غم سے دو چار ہوتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں کہ ایک انسان کو کس طرح ایک درندے نے دبوچ لیا تھا۔ کس طرح وہ بے بسی کا شکار ہوئی تھی؟ یہ باتیں فضاؔ اعظمی نہیں بھولتے۔ انہیں وہ سنبھال کر دل کے نہاں خانے میں چھپا کر رکھتے ہیں اور پھر ان حادثات کو لفظوں کا روپ دے دیتے ہیں۔

چڑھایا اس غرض سے صنفِ نازک کو صلیبوں پر

اسے باندھا، اسے مارا، اسے کھینچا زمینوں پر

سجائیں سولیاں ایسی کہ انسانوں کا دل دہلے

اسے بھونا دہکتے کوئلوں پر اور شعلوں پر

وہ چیخیں گونجتی تھیں جن سے گردوں کانپ اُٹھتا تھا

وہ بے دردی کا عالم تھا فلک آنسو بہاتا تھا

            اگر ہم یہ کہیں تو شاید بے جا نہ ہو گا کہ دورِ جدید میں شاعری کے حوالے سے فضاؔ اعظمی کا مدِ مقابل ذرا مشکل سے ہی نظر آئے گا۔ ویسے حق تو یہ ہے کہ شعراء کی کمی نہیں ہے اور تعداد ہر روز باقاعدگی سے بڑھ رہی ہے۔ کسی محفل میں بیٹھ کر دیکھیے، شعرائے کرام کی تعداد سامعین کی تعداد سے تین گنا زیادہ ہو گی اور بعض اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ مجلس میں سب ہی سنا نے والے ہوتے ہیں ، سننے والا کوئی غیر شاعر نہیں۔ ایک دوسرے کا کلام سنتے اور داد دیتے ہیں۔ خیر یہ ایک اچھی بات ہے، بری نہیں۔ اس کے ساتھ یہ کہنا بھی حقیقت ہے کہ آج کے عہد میں بھی معتبر اور معزز اور بڑے شاعر موجود ہیں۔ لیکن کم تعداد میں جنھیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔

             فضاؔ اعظمی نے عورت کی اس حرمت کو جو بے آبرو ہوئی، اس وقار کو جو مجروح ہوا، اس تحفظ کو جو عدم تحفظ میں بدلا۔ اس آبرو کو جو تار تار ہوئی، لفظ عطا کر دیئے ہیں اور ان الفاظ کو لڑیوں میں پرو دیا ہے۔ فضاؔ اعظمی نے ان سچے موتیوں کی لڑیوں کو جو شعری آہنگ میں ہیں ، فنی مہارت کے ساتھ سادے صفحات پر ٹانک دیا ہے۔ طرح،  طرح کے دکھ درد،  غم و اندوہ کی تصویریں ان کی شاعری میں بولتی نظر آتی ہیں۔ اپنا دکھڑا بیان کرتی ہیں۔

            ’’کتبہ‘‘ کے عنوان سے جو انہوں نے اشعار تخلیق کیے ہیں ، یقیناً یہ ان کا ہی دل و جگر تھا کہ انہوں نے بے کفن لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے اُٹھا کر معاشرے کے ان لوگوں کو دکھایا ہے جو منصف اور با اختیار بنے بیٹھے ہیں۔ یہ لاشیں اپنا حالِ دل اپنے اوپر بیتنے والی داستانِ غم خود سنا رہی ہیں۔ انہوں نے ایسا کر کے شاعری کا حق ادا کر دیا ہے، لیکن دعوتِ فکر بھی دی ہے کہ دانش ور اور علماء و مبلغین غور کریں ، ان حالات پر،  کہ عورت کی حالت جانوروں سے بد تر ہے۔ اللہ کے دیئے ہوئے حقوق اور عزت و مرتبے سے وہ محروم کر دی گئی ہے۔ کون ہے اللہ کا وہ نیک بندہ جو آگے بڑھے اور فضاؔ اعظمی کے آدرش کو آگے بڑھائے۔ ان کی مثبت سوچ و فکر کو عملی جامہ پہنائے اور اس دنیا کو تاریکیوں سے پاک کر دے۔ وہ ’’کتبہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں۔

            ان تمام گمنام،  بے کفن لاشوں کے نام جو زبانِ حال سے چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں۔

نہ ہنسنا میرے بس میں تھا،  نہ رونا میرے بس میں تھا

میں اک پتھر کی مورت تھی،  سسکنا میرے بس میں تھا

مجھے یہ دیکھتا تھا مستقل شک کی نگاہوں سے

نہ جینا میرے بس میں تھا،  نہ مرنا میرے بس میں تھا

وہ خود عیاش تھا لیکن میری عفت کا مالک تھا

وہ بے غیرت تھا خود لیکن میری غیرت کا مالک تھا

            مختاراں مائی،  زینب،  سونیا ناز کے نام جو ببانگِ دہل اعلان کر رہی ہیں۔ ( لیکن مختاراں مائی کی درد ناک کہانی کو بار بار مسخ کیا جا رہا ہے، ہر دفعہ ایک نئی کہانی سامنے آ جاتی ہے)

بیانِ استفاثہ اور الزامات کی رو سے

فریقوں کی شہادت اور تعزیرات کی رو سے

حوالہ جات و دستاویز کے صفحات کی رو سے

حقوقِ نوعِ انسانی کے مندرجات کی رو سے

نئی دنیا کا انسان فیصلہ اپنا سنائے گا

ہزاروں سال کی تاریخ کے دھبے مٹائے گا

            محترم فضاؔ اعظمی کو امید ہے ایک اچھی دنیا کی،  جو ضرور آباد ہو گی،  جہاں انسانیت کا بول بالا اور عورت کی تعظیم ہو گی۔ اسے وہی مقام دیا جائے گا جو اس کا حق ہے، اس لیے کہ وہ حواؑ کی بیٹی ہے، قابلِ احترام ہے، یہ عزت اسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔

            ’’مردو عورت دونوں ہی بی بی حواؑ اور باوا آدمؑ کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ ‘‘ یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ عورت کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہوا ہے جو مرد کو نصیب نہیں ہوا۔ عورت پیغمبروں کی ماں بنی، اس کی قسمت میں نبیوں ؑ،  ولیوں ؓ، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ ؓدین کی ماں بننا نصیب ہوا، اور ماں کی عزت و احترام کو اللہ تعالیٰ نے لازمی قرار دیا اور ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھ دیا یعنی وہ مرد جو اولاد کے رشتے میں بندھا ہے۔ وہ اپنی ماں کے حکم کا تابع ہے۔ پھر قابلِ احترام کون ہوا؟

            حضرت عائشہ صدیقہؓ کی عفت و پاکیزگی کی گواہی واقعۂ ’’افک‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے خود دی۔ آپؓ کے لیے سورت نازل ہوئی ہے۔ بی بی مریمؑ کے بطن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے پیغمبر پیدا ہوتے ہیں ، جن سے بہت سے معجزات وابستہ ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش خود ایک معجزہ سے کم نہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ کو دنیا بھر کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ ( القرآن)

            بی بی ہاجرہؓ کے ’’زم زم‘‘ کہنے پر پانی کا ابلتا ہوا چشمہ رک جاتا ہے اور آج وہی پانی زم زم کے نام سے پکارا جاتا ہے اور حضرت زینبؓ کا وہ تاریخی خطاب جو انہوں نے یزید کے دربار میں واقعۂ کربلا کے موقع پر دیا تھا۔ حضرت زینبؓ اپنی بہادری، عقل و فراست کا منہ بولتا نمونہ اور عظیم و بے مثال مقررہ ہیں اور پھر ہم تاریخ کے اوراق کو ذرا اور پلٹیں تو ہمارے سامنے طرابلس کی جنگ اور فاطمہ بنت عبداللہؓ آ جاتی ہے جو جنگ میں زخمیوں کو پانی پلا رہی ہے جس کے لیے علامہ اقبالؔ نے نظم لکھی تھی۔

فاطمہؓ تو آبروئے اُمتِ مرحوم ہے

ذرہ ذرہ تری مشتِ خاک کا معصوم ہے

یہ سعادتِ صحرائی! تیری قسمت میں تھی

غازیانِ دیں کی سقائی تیری قسمت میں تھی

            تحریکِ پاکستان کے بانی مولانا محمد علی جوہر،  مولانا شوکت علی کی والدہ ماجدہ جنہیں زمانہ بی اماں کے نام سے پکارتا ہے، وہ بھی ایک عظیم خاتون تھیں جنہوں نے تقریروں اور تحریروں سے مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا۔ تاریخ کے ذرا اس طرف نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں محترمہ فاطمہؒ جناح کی شبانہ روز کاوشیں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اپنے بھائی قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے شانہ بہ شانہ قیامِ پاکستان اور تعمیرِ پاکستان کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی، تو فضاؔ اعظمی نے زمانۂ ماضی و حال کا قصہ بیان کیا ہے اور موجودہ زمانے میں انہیں امید ہے کہ ایسے اصول و قوانین نافذ کیے جائیں گے جو عورت کو تحفظ اور سکون بخش سکیں گے۔

            جناب فضاؔ اعظمی کا یہ خواب پورا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے چوں کہ ان کی کتاب ’’خاک میں صورتیں ‘‘ ۲۰۰۶میں شائع ہوئی تھی اور اب۲۰۱۲ء لگ گیا ہے اور سالِ نو کا دوسرا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور آج بروزِ جمعہ ۳فروری کے اخبار ’’ایکسپریس‘‘ میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ سینیٹ نے ’’قومی کمیشن برائے حقوق نسواں ‘‘ کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ عورتوں کے ساتھ زیادتیوں کا ازالہ ہو گا۔ ‘‘

            لیکن جن خواتین نے دکھ کی رین کاٹ لی اور جنہیں وحشیوں نے قتل کر دیا، ان کے ارمان اور خواہشات کی چتا کو آگ لگا دی۔ بے شک انہیں اللہ تعالیٰ جنت کے باغوں کی سیر کرائے گا اور کچھ کو شہادت کا مرتبہ بھی ملے گا کہ آگ میں جلنے اور پانی میں ڈوب کر مرنے والا شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی قبروں میں ٹھنڈک اور راحت عطا فرمائے گا کہ وہ بے شک بڑا رحم کرنے والا اور خطاؤں کو معاف کرنے والا ہے۔ لیکن قاتلوں کے لیے معافی کی گنجائش نہیں ہے۔

            گزرے وقتوں میں عورت ہر انداز میں ظلم کی چکی میں پسی ہے اور آج بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ شاعر نے ان ادوارِ استحصال کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ماضی کے ماہ و سال اور حالات سامنے آ جاتے ہیں ، عورت جن مظالم سے دو چار ہوئی، ان حقائق کی تصویر کشی فضاؔ اعظمی کی شاعری کی خصوصیت ہے۔

وجودِ زن پہ جو ادوارِ استحصال گزرے تھے

تشدد اور بے رحمی کے ماہ و سال گزرے تھے

چڑھی تھی سولیوں پر اور جلی تھی وہ چتاؤں میں

تہِ خاکِ عقوبت اس پہ جو لمحات گزرے تھے

بلکتی بچیوں کے آنسوؤں کا اب بھی ماتم ہے

عرب کی اور عجم کی ریت ان سے آج بھی نم ہے

            مرد نے ہر طرح سے عورت کو تباہ و برباد کرنے کا بہانہ ڈھونڈا ہے۔ کیوں کہ جب علاحدگی کی صورت میں سابقہ شوہر کو طلاق و خلع نامہ کے حق سے اسے اپنی منکوحہ سے تعلق ختم کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے دل میں علاحدگی کے بعد انتقام کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے، اسلامی تعلیم کے خلاف نہ وہ اس کا حقِ مہر ادا کرتا ہے اور نہ اس کے استعمال کی چیزیں مہیا کرتا ہے بلکہ موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ کب اس سے دشمنی کرے اورا سے تکلیف پہنچائے۔ فضاؔ اعظمی زمانے کی ستم ظریفی کو اس طرح بیان کر رہے ہیں۔ شاعری ہے جو نثر کی طرح لکھی گئی ہے۔ ہدایت یہ بھی فرمائی حق تعالیٰ نے شوہر کو اگر ترکِ تعلق کے لیے تم فیصلہ کر لو تو تم اللہ کی مرضی کو اپنے دھیان میں رکھو متاع و مال جو تم نے دیا ہے اس کو مت مانگو۔

تم اس کا مہر دینے میں بخالت کو نہ اپنانا

اصولی موشگافی سے انھیں محروم مت کرنا

            عورت اگر دوسری شادی کر لے تب سابقہ شوہر جانی دشمن کے روپ میں اس کے سامنے آتا ہے۔ کبھی چہرے پر تیزاب پھینکتا ہے، اور اس کا چہرہ مسخ کر دیتا ہے اور کبھی گولی چلا کر اسے اس کے ہی خون میں تر بہ تر کر دیتا ہے۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ اپنی سابقہ بیوی کے خاندان اور اس کے شوہر کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے۔ دہرے تہرے بلکہ اس سے زیادہ لوگو ں کے قتل کا مرتکب ہوتا ہے۔

            انتقام کی آگ انسان کو برباد کر دیتی ہے۔ اگر اتفاق سے بچوں کا باپ محض چند ماہ کے لیے گرفتار ہو گیا تو بچے دربہ درہو جاتے ہیں۔ کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اگر یہ بچے بد کردار لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے تو جرائم پیشہ افراد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ آج معاشرہ برائیوں کی آماج گاہ بن چکا ہے۔ قدم قدم پر لٹیرے اور اغوا کنندگان موجود ہیں ، لیکن انہیں گرفتار کرنے والا کوئی نہیں۔

            شاعر نے کھلی آنکھوں سے معاشرے کو دیکھا ہے۔ اسلامی تعلیمات بھی ان کے پیشِ نظر ہیں۔ جب تخلیق کار فہم و ادراک اور علم و آگہی کی دولت سے مالا مال ہو تو ایسی ہی شاعری کا ظہور ہوتا ہے۔

بروئے مذہبِ اسلام حق اس کو خلع کا ہے

عبادت کا مکمل حق ہے حق اس کو دعا کا ہے

بروئے مذہب اسلام وہ حق دارِ نفقہ ہے

اسے فکر و عمل کا حق ہے،  حق اس کو صدا کا ہے

کرے وہ عقد کس سے، اس کو یہ ایجاب مطلق ہے

اسے اقرار کا حق ہے، اسے انکار کا حق ہے

یہی تھا فیصلہ ترکِ تعلق کے حوالے سے

کہ جب آزاد کر دو عورتوں کو اپنے رشتے سے

تو پھر تم کام مت لو بغض و کہنہ، کبر و نخوت سے

وہ باقی زندگی اپنی گزاریں اپنی مرضی سے

قرونِ اوّل وسطیٰ کے تہذیبی تناظر میں

مثالی کارنامہ ہے یہ جملہ کارناموں میں

                اوصافِ انسانی کا شاعر

            یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ محترم فضاؔ اعظمی دورِ جدید کے بڑے شعراء میں شمار ہوتے ہیں ، فضاؔ اعظمی کی شاعری میں جوشؔ ملیح آبادی کی شاعری کی طرح بانکپن اور ذخیرۂ الفاظ موجود ہے۔ انہوں نے حالات کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے الفاظ کو خوب صورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ کہیں بھی غیر ضروری الفاظ نظر نہیں آتے۔ ندرتِ بیان، معانی آفرینی سے ان کی شاعری پُر ہے۔ اقبالؔ کی فکر کی گہرائی اور حالیؔ کی شاعری کا قومی درد اور قوم کی زبوں حالی کا احساس ان کی شاعری میں غیر شعوری طور پر در آیا ہے۔

            جناب فضاؔ اعظمی کی سوچ اور خیالات میں اسلام کی روح پنہاں ہے۔ وہ بظاہر ’’مولانا‘‘ کے گیٹ اپ میں نظر نہیں آتے ہیں ، لیکن وہ اسلام کو بہتر طریقے سے سمجھتے اور اس کا ادراک رکھتے ہیں ، مذہبی افکار کے نتیجے میں گیان کے قیمتی موتی چنتے ہیں ، علم و ریاضت کے دُرِ نایاب اور آگہی کے رخشندہ و تابندہ نگینوں سے ان کا سینہ منور ہے اور اس روشنی اور تغیر انسانی کو انہوں نے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا ہے۔

تمام عالمِ گِل جلوہ گاہِ قدرت ہے

ہمارے پیشِ نظر اک، جہان حیرت ہے

برائے فکر رسا ارمغانِ فطرت ہے

ہر ایک کام کے اندر خدا کی حکمت ہے

عطائے خالق کونین و کردگار ہے حسن

عروسِ عالمِ خاکی کا تاج دار ہے حسن

٭

کیا ہے صانع مطلق نے یہ جہاں تعمیر

کہ اس کی ساخت میں مضمر ہے اہتمام کثیر

رواں ہے حسنِ توازن سے کل نظامِ حیات

اصول عدل پر مبنی ہے کاروبار مسیر

ہوا بہ اذنِ الٰہی، کہا کہ، کن فیکون

اور اس کے ساتھ ہی پیدا ہوا جہان سکون

            سمجھ بوجھ،  دانش وری،  دور اندیشی،  علمیت و لیاقت ان کے حصے میں اسی لیے آئی ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت ان کے والدین کی مرہونِ منت ہے جوبہ حیثیت انسان اعلیٰ اوصاف سے آراستہ تھے۔ ان کے والد حافظِ قرآن تھے، قرآن پاک کی تلاوت کے دوران انہیں قرآن پاک میں خطاطی کی ایک غلطی نظر آئی، چناں چہ انہوں نے تاج کمپنی کو اس کوتاہی کی طرف نشان دہی کی۔ یہ کام وہ ہی کر سکتا ہے جو پابندی اور شوق و جستجو کے ساتھ تلاوتِ کلام پاک کرتا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے دین کی تعلیم و ترویج کے لیے 50ہزار کی رقم بھی مختص کر دی تھی لیکن خرچ نہ ہو سکی، وہ ایک الگ بات ہے۔

            گھر کے ماحول اور والدین کی تعلیم و تربیت نے انہیں اسلامی تعلیم کا شعور بخشا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہو لیکن حقیقتاً وہ اسلام کے زرّین اصولوں سے نا واقف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زمانے کے رسم و رواج کا اثر زیادہ قبول کرتا ہے اور اپنے طور پر وہ ہر غلط بات کو درست سمجھتا ہے۔ اسی قبیل کے لوگ کبھی ’’مولوی،  تو کبھی پنچایت کا چوہدری تو کبھی ’’وڈیرا‘‘ کے ناموں سے پکارے جاتے ہیں۔ جس طرح نیم حکیم خطرۂ جان اور اسی طرح نیم ملّا خطرۂ ایمان ہے، بالکل ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے۔ وہ ایسے ایسے فیصلے صادر کرتے ہیں جسے سن کر انسانیت کانپ اُٹھے۔ وہ بھرے مجمع میں نوجوان بچیوں کی عفت و پاکیزگی کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں ، وہ آگ میں ننگے پاؤں چلواتے ہیں۔ وہ بے لباس کر کے خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں ، بھرے پرے گھروں میں آگ لگوا دیتے ہیں۔ بے بس غریب ہاریوں کو اپنی نجی جیلوں میں قید کر دیتے ہیں۔ وہ شادی بیاہ کے معاملے میں بھی نہایت تنگ نظری اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنے اختیارات و اقتدار کی نمائش کرتے ہیں اور اپنا حکم نہ ماننے والوں کو بھیانک سزا دیتے ہیں۔ پسند کی شادیاں کرنے والے جوڑوں کو عبرت ناک موت سے ہم کنار کرتے ہیں۔ فضاؔ اعظمی کو ان کے رویّے اور ظالمانہ سلوک نے دکھ اور حیرت میں مبتلا کر دیا ہے ان کی انسان دشمنی کا وہ نوحہ اس طرح بیان کر رہے ہیں :

سنا ہے تم نے سوتے اجتماعی زندگی کے بند کر ڈالے

سبق رسم و رہِ انسانیت کے سب بھلا ڈالے

ہدایت جو ملی تھی باہمی ربط و اخوت کی

وہ سارے دوستی کے راستے مسدود کر ڈالے

تم اپنی امتیازی شان سے یوں منحرف ہو اب

کہ گویا اک خیال و خواب کا عنوان ہیں یہ سب

            ایسے اشخاص سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ وہ غیض و غضب کون سی تعلیم اور مذہب کے اعتبار سے اپنے ہی جیسے انسانوں پر ڈھار ہے ہیں ، کیا وہ انسانوں کا بیوپار کر رہے ہیں ؟ لیکن یہاں تو معاملہ بڑا ہی الٹ ہے، وہ بغیر پیسہ خرچ کئے اور رشتے ناتے کے بغیر گاؤں کے لوگوں کی عزت،  زندگی و موت کے مالک محض اپنی طاقت کے بل پر بن بیٹھے ہیں۔ انہی حالاتِ زمانہ نے شاعر کے قلم سے یہ اشعار لکھوائے ہیں۔

یہاں قانون سازی کے عمل کا حق ہے قاتل کو

یہ وہ دستور ہے جس میں سزا دیتے ہیں بسمل کو

یہاں مجرم کو بیٹھاتے ہیں کرسیِّ عدالت پر

یہاں حق سرنگوں ہوتا ہے،  شہ ملتی ہے باطل کو

یہ وہ دنیا ہے جس میں فتح طاقت ور کی ہوتی ہے

یہاں انصاف کی تربت پہ مدھم شمع جلتی ہے

            اگر موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیں تو سزا کاٹنے والے، اور سال ہا سال مجرم کی حیثیت سے زندگی گزارنے والے ہی صاحبِ اختیار ہیں اور یہ اتنے طاقت ور ہیں کہ جب چاہیں کسی کو عزت و آبرو اور مال و دولت سے محروم کر دیں ،  جسے چاہیں اغوا کر لیں اور اس کے ساتھ تشدد آمیز سلوک کر کے اسے موت کے گھاٹ اُتار دیں۔ اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوسکتا ہے۔ کہ با اختیار اور با اقتدار لوگ ان کے ساتھ ہیں ، شاعر نے گمراہ لوگوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے، انھوں نے معاشرتی حالات کی،  الفاظ کے کیمرے سے جو تصاویر کھینچی ہیں وہ حقیقت کی عکاس ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری کا رنگ پکا ہو گیا ہے۔

یہ مایوسی کا باعث ہے، مقامِ رنج و حیرت ہے

کہ وہ مذہب جو دنیا میں نشانِ دینِ فطرت ہے

نقیب اوّلیں ہے جو حقوق نوعِ نسواں کا

کہ جس کے درسِ با برکات سے عورت کی عظمت ہے

کہا جس نے کہ گو وہ مختلف ہے پر برابر ہے

اسی مذہب کا پیرو آج سرگرم رقابت ہے

                عروجِ آدمیت

            ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کا چھٹا باب ’’عروجِ آدمیت‘‘ ہے شاعر کا طرزِ تحریر اسی طرح سلیس اور رواں ہے جس طرح خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی نظم ’’مدو جزرِ اسلام‘‘ کا انداز اور درس نظر آتا ہے۔

            الفاظ گویا شاعر کی دسترس میں ہیں ،  افکارِ تازہ، ان کے دماغ کے گوشوں میں برق رفتاری کے ساتھ آتے ہیں اور تخلیق کے اُفق پر وجدان کے رنگوں کے ساتھ بکھر جاتے ہیں۔ دانائی و دانش مندی،  علم و شعور،  مشاہدات و تجربات اپنا اپنا کردار نبھاتے ہیں اور شاعر اس نعمتِ خداوندی سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتا ہے اور خواتین کے ان حقوق کی نشان دہی کرتا ہے جو ظلم کی کالی رات کے بعد طلوعِ اسلام کی شکل میں جلوہ گر ہوئے۔ ان کے کلام میں احساس کے نگینے دمک رہے ہیں ، وہ لفظوں کو برتنے کا سلیقہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ فضاؔ اعظمی کو ہر حال میں عورت کے حقوق کی ادائیگی کے خواہش مند ہیں۔

یہ تھا ادبار عورت پر کہ جب پیغامِ حق آیا

خواتیں کے لیے انصاف کا پہلا سبق آیا

ہوا نازل صحیفۂ آخری توقیرِ انساں کا

دکھی عورت کی خاطر امن کا پیغامبر آیا

حرا کے غار سے روشن ہوا خورشید ایماں کا

ہوا منشورِ نو جاری حقوقِ نوعِ انساں کا

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہل کی تاریکی کو قرآن کی تعلیم سے دور کیا۔ اس طرح یہ ہوا کہ انسانوں کو انسان ہی سمجھا جانے لگا،  غلاموں کی آزادی اور عزت کا خیال رکھا گیا،  عورت کی تکریم کی جانے لگی کہ یہ اللہ کا حکم اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تھی۔ ہر شخص کو امان نصیب ہوا،  جانوروں تک پر ظلم کرنے کی ممانعت فرمائی، ورنہ جہالت کے زمانے میں لوگ زندہ جانوروں کے جسم سے ضرورت کے مطابق گوشت کاٹ لیتے تھے، بعض اوقات ان کے جسم سے دم کو جدا کر دیتے تھے۔ ہمارے پیارے نبی، نبیِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں تک پر رحم کرنے کا درس دیا۔ آپؐ دونوں جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے۔ فضاؔ اعظمی اسلامی دستور اور عورت کی قدر و منزلت کا ذکر اس طرح کر رہے ہیں :

مقامِ فضل ہے یہ رحمت اللعالمیں ؐ آئے

ہدایت کے لیے سرمایۂ نورِ المبیں لائے

نیا دستور دنیا کو دیا انصاف و الفت کا

بڑھائی قدر عورت کی گھٹائے جہل کے سائے

چھٹے الحاد کے بادل، سجا ایمان کا پرچم

بڑھی انسان کی عظمت،  اُٹھا قرآن کا پرچم

            حالیؔ اور فضاؔ اعظمی کی منزل ایک ہے۔ حالیؔ معاشرے میں تبدیلی لا نا اور لوگوں کو اسلام کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا چاہتے ہیں ، تاکہ معاشرہ برائیوں سے پاک ہو۔ فضاؔ اعظمی بھی یہی درس دے رہے ہیں اور بھٹکے ہوئے گمراہ لوگوں کو ان کی خامیوں کا احساس دلا کر راہِ مستقیم پر چلنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ حالیؔ گمراہ انسانوں کو راہِ حق اس انداز میں دکھانے کی بات کر رہے ہیں۔

یہ کہہ کر کیا علم پر ان کو شیدا

کہ ہیں دور رحمت سے سب اہلِ دنیا

مگر دھیان ہے جن کو ہر دم خدا کا

ہے تعلیم کا یا سدا جن میں چرچا

انہی کے لیے یاں ہے نعمت خدا کی

انہی پر ہے واں جا کے رحمت خدا کی

            فضاؔ اعظمی کی شاعری زوالِ آدم کے ساتھ ساتھ عروجِ آدمیت کا بھی منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ وہ اپنے کلام کے ذریعے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عورت بھی اسی طرح عقل و شعور رکھتی ہے، جس طرح مرد، وہ اپنا اچھا برا اچھی طرح سمجھ سکتی ہے برے،  بھلے میں تمیز کرنا اسے آتا ہے،  زمانے کے سرد و گرم نے اسے زمانہ شناس بنا دیا ہے، وہ زندگی گزارنے کے تمام فیصلے بہت آسانی کے ساتھ کر سکتی ہے۔ جیون ساتھی کے انتخاب کا بھی حق اسے اسلام نے دیا ہے کہ زندگی اسے ہی بسر کرنی ہے۔ اکثر اوقات بہت سے معاملات میں وہ مرد سے کہیں زیادہ بالغ النظری اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔

            شاعر خواتین کے حقوق کو نہ کہ تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس بات کو بھی ماننے میں قطعی طور پر جھجھک محسوس نہیں کرتے ہیں کہ عورت بھی زندگی کے تمام معاملات میں مشورہ اور اپنی رائے دینے کی حق دار ہے کہ وہ انسان ہے اور اسی معاشرے کی ایک فرد ہے۔

بروئے مذہبِ اسلام عورت ایک انساں ہے

وہ ایک ذی ہوش ہے،  ذی فکر ہے،  ذہنِ فروزاں ہے

بروئے مذہبِ اسلام اس کو حق ہے جینے کا

وہ عاقل ہے، وہ اہل الرائے ہے اور چشمِ نگراں ہے

مکمل حق ہے اس کو اپنی ذاتی رائے رکھنے کا

مکمل حق ہے اس کو فیصلہ شادی کے کرنے کا

            اسی سبق میں فضاؔ اعظمی نے عورت کے مزید حقوق پر روشنی ڈالی ہے۔ ورنہ ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور اسی سماجی دباؤ اور بدنامی کے خوف سے بے شمار عورتیں جانوروں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خلع کے حق سے بھی واقف نہیں ہیں کہ غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ اتنی ہمت و جرأت اپنے اندر نہیں پاتی ہیں اور نہ ہی گھر والوں کی طرف سے کسی قسم کی مدد کی جاتی ہے کہ وہ نکھٹو، ظالم اور شرابی شوہر سے جان چھڑا لیں۔ وہ ساری زندگی اسی چوکھٹ پر گزار دیتی ہیں جس پر انہوں نے عقد کے بعد پہلا قدم رکھا تھا۔

            مرد اپنے حقوق سے غافل ہے نہ اسے اس کے نان نفقہ کی فکر ہے اور نہ بچوں کی پرورش کی،  وہ گھر میں طوفانِ بد تمیزی کرنا ہی اپنا اوّلین فرض سمجھتا ہے اور عورت پر دن رات لاتوں اور گھونسوں کی بارش کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے۔

            شاعر نے اسلام کی رو سے عورت کو یہ حق یاد دلایا ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ شخص سے شادی کر سکتی ہے اور شادی کے لیے زبردستی کی جائے اور بے جوڑ رشتہ کرنے کی کوشش کی جائے تو اسے اسلام کی رو سے حق ہے کہ وہ انکار کر دے۔

بروئے مذہبِ اسلام حق اس کو خلع کا ہے

عبادت کا مکمل حق ہے،  حق اس کو دعا کا ہے

بروئے مذہبِ اسلام وہ حق دار نفقہ ہے

اسے فکر و عمل کا حق ہے،  حق اس کو صدا کا ہے

حدیں اللہ نے کھینچی ہیں ایسی ربطِ باہم کی

کسی تہذیب کے اندر نہیں ملتی مثال ان کی

٭

کرے وہ عقد کس سے،  اس کو یہ ایجابِ مطلق ہے

اسے اقرار کا حق ہے،  اسے انکار کا حق ہے

یہ ہے فرمان محکم عورتوں کو تنگ مت کرنا

زبردستی نہ لینا تم وراثت ایک عورت کی

پسند ہر شخص کی ہے مختلف،  تم یاد یہ رکھنا

خدا کی اس میں حکمت ہے مزا جوں کا الگ ہونا

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے۔۔۔

            فضاؔ اعظمی نے عورت کے تمام رشتوں ، اس کے تقدس اور اس کے ساتھ ہونے والا بہیمانہ سلوک کو شاعری کی زبان عطا کر دی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا کے تمام رشتوں میں سب سے زیادہ پیارا اور مضبوط رشتہ ماں کا ہے۔ ماں کے دل میں اولاد کے لیے لازوال محبت اللہ رب العزت نے پوشیدہ رکھی ہے،  ماں جیسی محبت کرنے والی کوئی دوسری ہستی نہیں ہوسکتی۔ شاعر نے اس غم زدہ عورت کی ان تکالیف کا ذکر کیا ہے جو ماں جیسے عظیم رشتے سے منسلک ہے، لیکن اس کی راہ میں آنے والے نوکیلے کانٹے بھی ہیں اور شمشان گھاٹ کا گہرا اندھیرا بھی۔

وہ ماں بنتی ہے اور اولاد سے وہ پیار کرتی ہے

وہ ماں کے جذبۂ ایثار سے سر شار ہوتی ہے

وہ اپنے فطرتی رجحان کا بارِ گراں لے کر

نئی دنیا کی نا ہموار راہوں میں بھٹکتی ہے

وہ ذمہ داریاں پیشہ ورانہ زندگی کی بھی اٹھاتی ہے

اسے اولاد کی الفت بھی ہر لمحے ستاتی ہے

            اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے بندوں سے ماؤں کی نسبت ستر در ہے۔ زیادہ ہے جب ہی تو اللہ تعالیٰ بندوں کی ہر غلطی،  ہر کوتاہی توبہ کی شرط کے ساتھ معاف فرما دیتا ہے۔ جب کہ ماں کے دل میں بھی اللہ نے بہت جگہ دی ہے۔ اکثر غلطیوں پروہ سرزنش بھی کرتی ہے، ڈانٹتی ہے،  مارتی ہے اور اولاد کی خامیوں کو معاف کر کے ایک بار پھر اسے گلے لگا لیتی ہے۔

            آج کے حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اولاد والدین کی قربانی و ایثار کو فراموش کر کے اس قدر اذیت پہنچاتی اور حق تلفی کرتی ہے کہ بے چارے والدین کے رہنے کے لیے پوری دنیا میں جگہ تنگ ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے و ہی اولاد جس کے لیے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اور چین برباد کیا تھا، ان کے نازو نعم پرور ش و تعلیم میں اپنی جمع پونجی خرچ کر دی تھی، اپنے ماں باپ کو محتاج خانے چھوڑ آتی ہے۔

            یہ مرد کبھی باپ بن کر تو کبھی بیٹا بن کر تو کبھی شوہر اور بھائی کے روپ میں عورت پر ظلم و ستم کرتا ہے۔ فضاؔ اعظمی نے اس کے دکھوں اور محرومیوں کو شاعری کے قلب میں منتقل کر دیا ہے۔

بایں صورت وہ بٹ جاتی ہے دو خودکار حلقوں میں

ادھر وہ خود الجھ جاتی ہے کچھ خوں خوار لوگوں میں

ادھر اولاد محرومِ نگاہِ لطف ہوتی ہے

وہ محوِ نشہ و پیکار ہو جاتی ہے شہروں میں

نہ ماں اور باپ پر ہے فرض بچوں کی نگہداری

نہ بچّوں پر ہے لازم اپنے دلداروں کی دلداری

            فضاؔ اعظمی نے عورت کی نفسیات، اس کے حالات اور تاریخِ انسانی کے واقعات میں عورت پر ہونے والا جبر اور اس کی بے جا آزادی قید و بند کی صعوبتیں اور والدین کی ناانصافی جیسے حقائق کو شاعری کے زنداں میں قید کر کے زنداں کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اب ہر زمانہ اور ہر دور ہمارے سامنے ہے کہ عورت جب چار دیواری میں قید تھی، اس وقت بھی اسے مردوں کے برابر حقوق حاصل نہیں تھے اور وہ گائے بکری کی طرح زندگی کے شب و روز بسر کر رہی تھی، بالکل اسی طرح کہ گائے بکری کو ایک کھونٹے سے دوسرے کھونٹے میں باندھ دیا جائے، جانوروں کے ساتھ تو پھر بھی انصاف تھا،  ہم دردی تھی، اسے سر چھپانے کے لیے جگہ بھی میسر تھی اور کھانا پانی بھی وقت پر دے دیا جاتا تھا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان مویشیوں کو موسموں کی سنگینی کی نذر کر دیا گیا ہو۔ گھر سے باہر نکال دیا گیا ہو، بلکہ ان ممالیہ اور پالتو جانوروں کی قدر کی گئی۔ لیکن عورت کی افسوس کوئی وقعت نہیں ، اس کی اہمیت کسی دور میں نہیں کی گئی، اسے جانوروں سے بد تر سمجھا گیا، شادی بیاہ کے موقع پر نہ اس کی مرضی کو مدِ نظر رکھا اور نہ ہی اسے اس کی حیثیت اور مرضی کے مطابق اسے وہ گھر دیا گیا جہاں اسے زندگی گزارنی ہے۔ امیر گھرانوں کی لڑکیوں کو غریب و بے بس،  نکھٹو لڑکوں کے پلے باندھ دیا گیا۔ محض اس لیے کہ وہ ان سے دَب کر اور غلام بن کر رہے۔ تعلیم یافتہ،  با شعور اور خوب صورت لڑکیوں کے ساتھ بھی اسی قسم کی زیادتی اور حاکمیت کو روا رکھا گیا۔ اس صورتِ حال سے بغاوت پیدا ہو گئی۔ کچھ نے شادی سے انکار کر دیا اور راہِ فرار اختیار کی اور کسی طرح اپنے جوڑ، اپنی پسند کا رشتہ تلاش کیا اور ہمیشہ کے لیے اس گھر کو چھوڑ دیا جہاں وہ پلی،  پرورش پائی ،  اس آنگن کو جہاں اس نے چلنا سیکھا، ان گلیوں اور محلے کو جہاں اس کے بچپن کے دن بیتے اور اس ظالم باپ اور بھائی جس نے اپنی جھوٹی اَنا اور خوشی کی خاطر اس کے احساسات و جذبات کو پیروں تلے کچل دیا۔

            گھر تو اس نے چھوڑ دیا لیکن جسے اس نے اپنی دنیا جانا اس نے بھی دھو کا دیا اور اس کی بولی لگا دی۔ اس طرح مرد ذات کی عیاری اور بے وفائی کے تحت وہ بار بار بیچی گئی اور ٹھکرائی گئی۔ اس کے پیر گھنگھرو کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے تھک گئے ہیں لیکن طبلے کی تھاپ پر وہ خوب ناچتی ہے۔ حکم کی غلام بن کر وہ زخمی اور مست ناگن کر طرح رقص کرتی ہے۔ بہ ظاہر وہ ہنس رہی ہے، لیکن اس کا من رو رہا ہے،  آتما تڑپ رہی ہے، اس کا شریر اس آگ میں جل رہا ہے جو نظر نہیں آ رہی ہے۔ لیکن رقص و سرور کی محفل عروج پر ہے۔ تماشبین پیسہ لٹا رہے ہیں۔ لیکن وہ پیسہ اور دولت بھی اس کی نہیں ، چوں کہ اس کا اپنے اوپر کوئی حق نہیں ہے۔ وہ حاکم کے اشاروں کی منتظر رہتی ہے۔ یہ اشعار اسی قسم کے حالات و واقعات کے چشمِ دید گواہ ہیں کہ شاعر نے زمانے کی تلخیوں کو اپنے کلام میں ڈھالا ہے۔

ہجومِ مہ وشاں ہے،  چشم و ابرو کا نشانہ ہے

نگاہ مست و سرکش پر ہوس کا تازیانہ ہے

سجی ہے محفلِ شب،  دھول دھپاہے،  شرارت ہے

نگاہوں کے لئے زلف و کمر کا شاخسانہ ہے

کہیں پر کم لباسی نے ستم ڈھائے ہیں محفل پر

کہیں پر بے لباسی قہر کی صورت دل پر

٭

کہیں پر اشتہاری سیم و زر کا جال ڈالے ہیں

نمود و نام کے زنداں پہ مجبوری کے تالے ہیں

سرِ بازار سڑکوں کے کنارے حسن بکتا ہے

نئے انداز ڈھونڈے ہیں نئے حربے نکالے ہیں

یہ قربانی کا بکرا ہے ہوس کاروں کی منڈی میں

تعیش کا کھلونا ہے یہ زر داروں کی جھولی میں

            یہ حالاتِ زمانہ فضاؔ اعظمی کی شاعری میں سانس لے رہا ہے اس سچائی کو بے نقاب کر رہا ہے کہ اشعار بھی ایسی ہی صورتِ حال کے غماز ہیں جہاں عورت نے غلامی کی زنجیروں کو اپنے ہاتھوں سے کاٹ ڈالا ہے، لیکن دکھ کا مقام یہ ہے کہ نہ اسے غلامی میں عزت اور سکون میسر تھا اور نہ آزادی باعثِ اطمینان ثابت ہوئی۔ لوگوں کی ہوس ناک نگاہوں کا اسے سامنا ہے۔ بہ ظاہر اس سے ہم دردی کی جا رہی ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسے مکرو فریب کے جال میں ایسے جکڑ لیا گیا ہے جس طرح شکاری شکار کو جکڑتا ہے۔ وہ یہاں سے بھی بھاگنا چاہتی ہے، لیکن حالات اس کے حق میں نہیں کہ قدم قدم پر اس پر قدغن ہے، اس طرح راہِ فرار مسدود ہو گئی ہے اور ٹھکانہ کہیں نظر نہیں آتا۔ کوئی اسے تحفظ دینے کو تیار نہیں۔

            اس موقعے پر یہ کہنا سو فی صد درست ہے کہ شاعر کی بصیرت و بصارت قابلِ تحسین ہے کہ فضاؔ اعظمی نے ہر ماحول، اور ہر معاشرے کی مجبورو بے کس عورت کے دلی جذبات کی رونمائی بہت ہی موثر انداز میں کی ہے۔

غلامی سے نکل کر قید آزادی میں عورت ہے

نئی تہذیب کے ہاتھوں میں تیغ بے ملامت ہے

گرفتار ہوس ہے اور آزادی کا چرچا ہے

اکھڑتی سانس ہے اور مرکز آفات عورت ہے

خریداروں کا جھرمٹ ہے سبھی تیار بیٹھے ہیں

شکاری تیغ لے کر گھات میں ہشیار بیٹھے ہیں

            فضاؔ اعظمی نے مشرق و مغرب کا موازنہ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بے حد اچھوتے اور دل پذیر انداز میں کیا ہے کہ مغرب میں سنگل بیرنٹس ہونا کوئی ذلت و رسوائی کی بات نہیں ، وہ جب چاہیں اپنا بوائے فرینڈ بدل لیں یا ساری زندگی بنا شادی کیے گزار دیں۔ کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے، لیکن بہ حیثیت عورت تنہا زندگی گزارنا بچوں کی پرورش اور کفالت کی ذمے داری پوری کرنا آسان نہیں اور اگر یہی حالات مشرق میں ہوں ، تب کنواری ماں کے لیے جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ سماج کے لوگ اسے زندہ درگور کر دیتے ہیں ، اگر پوری کہانی سامنے آ جائے تب اس کے لیے زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ جائے پناہ کے لیے وہ ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے۔

            جنہیں اس نے اپنا جانا تھا، ان کی بے مروتی اور جدائی میں وہ گیلی لکڑی کی طرح ہولے ہولے سلگتی ہے۔ وہ ایک گھر اور کنبہ چاہتی ہے۔ لیکن اس کی یہ آرزوئیں خیال و خواب میں جنم لیتی ہیں اور وہم گمان میں ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ اس کی عزت و عظمت محفوظ نہیں ہے، گویا لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ وہ کوچہ کوچہ پھرتی ہے، لیکن اس کے حق میں حالات یکساں ہیں۔ اس کے بچوں کا باپ دنیا کے نہ جانے کون سے میلے میں گم ہو گیا ہے۔ اس کی تلاش نا ممکن ہے۔ وہ ایسے طوفان میں پھنس چکی ہے جہاں سے کنارے پر آنا نا ممکنات میں سے ہے۔

            عورتوں کی اس بے کسی،  دکھ غم اور ذہنی اذیت کو شاعر نے شدت سے محسوس کیا ہے کہ مرد کے مظالم نے عورت کو دلدل میں اُتار دیا ہے۔ عورت کی اس بد نصیبی اور بچوں کی بے چارگی اور ان کے دکھوں اور غموں کی آمیزش سے یہ اشعار تخلیق کیے گئے ہیں۔ اس طرح فضاؔ اعظمی نے معاشرے کا وہ رخ دکھایا ہے جو بے حد بھیانک اور عبرت ناک ہے، وہ کہتے ہیں۔

کنواری ماؤں کے بچوں کی محرومی مٹے کیسے

جواب ان کے رفیقوں کے سوالوں کا ملے کیسے

ترستے ہیں جو پدرانہ محبت کے لئے ہر دم

غموں کا بار ان معصوم بچوں کا ہٹے کیسے

وہ ساری زندگی کاٹیں گے بدنامی کے زنداں میں

گزاریں گے وہ دن اپنے ملامت کے بیاباں میں

            اس خود غرضی اور نفسانفسی کے زمانے میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ان حالات کی ماری ہوئی خواتین اور بچوں سے ہم دردی کرے اور ان کے دکھ کا احساس کرے۔ ان واقعات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ جن کے تحت ان پر یہ عذاب نازل ہوا ہے؟ لیکن افسوس کوئی ہم درد و   غم گسار نہیں ، تپتا ہوا صحرا اور چلچلاتی دھوپ اور بے آسرا خواتین ہیں۔ شاعر نے کیسا روح فرسا منظر جو سچائی کا مظہر ہے، اپنے قارئین کو دکھایا ہے

نہ کنبہ ہے نہ کنبوں کی کوئی اقدارِ اعلیٰ ہیں

قوانین زمینی ہیں نہ احکاماتِ بالا ہیں

رواں ہے ہر نفس بدمست خود غرضی کی سمتوں میں

عقب میں کھائی ہے اور سامنے کوہِ ہمالا ہیں

قواعد عائلی تنظیم کے سب تلف کر ڈالے

مہذب زندگی کے سارے سوتے بند کر ڈالے

            شاعران معاملات و سانحات سے بھی واقف ہیں کہ جن کے رو سے عورت سے اس کی چھت، اس کی گھر گرہستی اور عمر بھر کی جمع پونجی چھین لی گئی ہے،  خاندانوں کا تقدس اور معاشرتی اقدار اور اسلامی قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور اسی مرد نے جو ایک عورت کا شوہر ہے اور دوسری عورت کا بیٹا ہے جس نے اپنے خون سے اسے پروان چڑھایا تھا جو بڑی نازاں تھی کہ اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا ہے اور یہ بیٹا بڑھاپے کی لاٹھی ور اس کا سہارا ہو گا، لیکن اس نے گھر کی اس مالکہ کو ہی بے گھر و بے آسرا کر دیا ہے جو اس کی ماں ہے۔ فضاؔ اعظمی نے دنیا کے کونے کونے سے عورت کی لاچاری کو درد مندی کے ساتھ اس طرح رقم کیا ہے کہ قارئین کی آنکھوں میں نمی اُتر آتی ہے۔

کسی کا دم نکلتا ہے ضعیفوں کے مساکن میں

کسی کی عمر کٹ جاتی ہے غیر آباد آنگن میں

کوئی آزاد ہو کر بھاگتا پھرتا ہے بے مقصد

تپنچہ ہاتھ میں لے کر نکل پڑتا ہے گلشن میں

نظامِ عائلی کی دھجیوں کو زیب تن کر کے

بہاتا ہے وہ آنسو لاشۂ فطرت کفن کر کے

               شاعر کا ماضی

            پروفیسر فتح محمد ملک ’’جناب فضاؔ اعظمی کی شاعری، خاص طور پر ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ جناب فضاؔ اعظمی ایک ایسے وقت میں قومی و ملّی شاعری کی روایت کو تازگی بخشنے میں مصروف ہیں ، جب قومی و ملّی وابستگی ہمارے ہاں رجعت پسندی کی دلیل ٹھہری ہے۔ زمانے کا یہ اُلٹ پھیر بڑا معنی خیز ہے کہ حالیؔ سے اقبالؔ تک جو ملّی طرزِ احساس اور جو قومی طرزِ فکر اُردو شاعری کی سر بلندی و شادابی کا سر چشمۂ فیضان تھا، آج اس سے روگردانی ہماری ادبی دنیا کا سکۂ رائج الوقت ہے۔ فضاؔ اعظمی اس مقبولِ عام چلن سے انحراف اور قومی و ملّی شعری روایات کے اثبات کے شاعر ہیں۔ ‘‘

            جناب پروفیسر فتح محمد ملک نے فضاؔ اعظمی کی ان یادوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جو یادیں اور تجربات ان کا سرمایۂ حیات بن گئے ہیں اور یہی زمانے کے تلخ و ترش واقعات و سانحات ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ فضاؔ اعظمی کے ماضی کے واقعات ان کی ہی زبانی سنتے ہیں۔

            ’’میں جب سنِ شعور کو پہنچا تو دوسری جنگِ عظیم چھڑ چکی تھی۔ کہنے کو تو یہ فاشزم Fascismاور جمہوری طاقتوں کی جنگ تھی اور نیکی و بدی میں انتخاب کرنا بالکل آسان نہ تھا۔ ایک بہت بڑی دقّت یہ تھی کہ جمہوریت کی نمائندگی وہ نو آبادیاتی ملک انگلستان کر رہا تھا جس نے ہمارے ہاتھوں میں ذلت کی ہتھکڑیاں پہنا رکھی تھیں اور پیروں میں غلامی کی زنجیریں ڈال رکھی تھیں۔ ‘‘

            ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ کے نعرے لگانے والوں میں فضاؔ اعظمی بھی شامل تھے۔ فضاؔ اعظمی نے آزادی کے متوالوں کے جوش و خروش کو بھی دیکھا،  بڑی شخصیات سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ انہی بڑے لوگوں اور بڑے شعراء میں حسرتؔ موہانی بھی شامل تھے۔ ان کے درشن بھی کیے اور پُر جوش خطیب کی خطابت بھی سنی۔ فضاؔ اعظمی لکھتے ہیں کہ ’’جب میں ایک بہت بڑے انگریزی بحری جہاز کے عرشے پر بیٹھا ہوا تھا ،  سمندر کی لا محدود وسعتوں میں غروبِ آفتاب کے منظر سے محظوظ ہو رہا تھا کہ اچانک لاؤڈ اسپیکر پر ایک چونکا دینے والی آواز آئی اور یہ خبر ملی کہ اسرائیل،  فرانس اور برطانیہ نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا اور مصر نے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت ان تمام جہازوں کو جو ’’سوئز نہر‘‘ سے گزر رہے تھے، دھماکوں سے اُڑا کر غرقاب کر دیا اور نہرِ سوئز کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ عرب دنیا میں نیشنلزم کی طاقت ور تحریک برپا ہو گئی،  جارح طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ میں دریائے نیل کے ساحلوں سے اس انقلاب کا نظارہ کرتا رہا اور میرے ذہن و قلب پر عرب قومی تحریک اور اسلامی تشخص کے نقوش ثبت ہوتے رہے۔ ‘‘

            فضاؔ اعظمی ماضی کی ان اندھیری گلیوں کو آج تک نہیں بھلا سکے ہیں اور انسانی اقدار کی پامالی کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس عصبیت و نفرت کے ماحول کا حصہ بھی بننا ایک نہایت تکلیف وہ عمل تھا۔ آئیے ہم ان کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔

            ’’ میں نے دہرہ دون،  ایکسپریس ٹرین کے اس ڈبے میں قدم رکھا تھا،  جو اقلیتی ڈبا کہلاتا تھا اور جو در حقیقت مسلم ڈبا تھا، اس میں سوار ہو کر میں نے اپنے آپ کو کس قدر کم وقعت اور غیر محفوظ محسوس کیا تھا۔ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن کا سفر میرے لیے سوہانِ روح ہو گیا تھا۔ میرا دل گھٹنے لگا۔ جیسے ہی ٹرین اگلے اسٹیشن پر رکی،  میں بے چین و بے قرار ہو کر اس سے اُتر گیا اور عام ڈبے میں منتقل ہو گیا۔ ‘‘

            اگر فضاؔ اعظمی کے سابقہ تجربات کی روشنی میں موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اکثریت میں ہو کر بھی اقلیت میں ہیں۔ تعصب نے لوگوں کو مختلف طبقات میں بانٹ دیا ہے۔ اب ہماری شناخت ہماری زبانوں سے ہے،  ہمارے آبائی علاقوں اور خطوں سے ہے۔ ہم من حیث القوم تنکوں کی طرح بکھر چکے ہیں۔ ہمارا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کے چپّے چپّے پر نفرت کی آگ بھڑک رہی ہے اور لوگ اس آگ میں جھلس رہے ہیں ، مر رہے ہیں۔ کیا اسی مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا تھا؟ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ جب کہ اللہ رب العزت نے قرآنِ پاک میں واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ ’’ہم نے تمہیں قبیلوں اور گروہوں میں اس لیے پیدا کیا کہ تمہاری شناخت ہو۔ ‘‘

            اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرما دیا تھا۔ کہ ’’عجمی کو عربی اور عربی کو عجمی پر،  کالے کو گورے پر فوقیت نہیں ہے۔ اگر فوقیت ہے تو ’’تقویٰ‘‘ کی بنیاد پر ‘‘۔ تقویٰ تو دور کی بات ہے، لوگ اللہ کے اس حکم کی بھی نفی کرتے ہیں کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ ان کا مال، خون اور عزت ایک دوسرے پر حرام ہے، لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کے پاکستانیوں کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کا تعلق کس مذہب سے ہے۔ ؟ انسانیت،  شرافت،  عدالت،  سخاوت،  سے تو ان کا دور دور سے واسطہ نظر نہیں آتا۔ شاعر نے انہی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال نامہ مرتب کیا ہے۔

وفاداری تمہاری کھو گئی موہوم راہوں میں

تو کیا تم بٹ گئے ہو گاؤں ،  قریوں اور قبیلوں میں

کہاں وہ مذہبِ انسانیت،  وہ عالمی اقدار کا بانی

کہاں یہ ذہن مردہ بند ہیں جو قید خانوں میں

یہی تعلیم تم نے پائی ہے اپنی وراثت میں

یہی حاصل ہوا ہے کیا تمہیں اپنی روایت میں

            اور کمال کی بات یہ ہے کہ ہم آزاد ملک کے شہری ہیں ، اس ملک کی بنیادوں میں ہمارے پرکھوں کا لہو شامل ہے۔ اپنے وطن میں رہتے ہوئے اماں حاصل نہیں۔ ہمارے اطراف میں خوف و ہراس جنگلی درندے کی طرف رقص کر رہا ہے۔ اب ہم کہاں جائیں ؟ ہماری کوئی جائے پناہ نہیں۔

            یہ حالات اس زمانے کے ہیں اور فضاؔ اعظمی بات کر رہے ہیں اُس وقت کی جب ہندوستان منقسم نہیں ہوا تھا۔ وہ اس رات کو بھی نہیں بھلا سکے ہیں ، جب وہ اور ان کے چند اہلِ خانہ اعظم گڑھ کے مکان کی چھت پر ایک ڈبل بیرل بندوق لے کر رات بھر جاگے تھے۔ اس خوف سے کہ پاس کی ہندو بستی ان پر اور ان کے خاندان کے لوگوں پر حملہ آور ہونے والی تھی۔ جیسے تیسے فضاؔ اعظمی کی رات تو گزر گئی مگر دل و دماغ پر ایک خراش چھوڑ گئی اور وہ خراش جو ہلکے زخم کی شکل میں تھی آج بھی ہری ہے۔ لیکن اس معمولی سے زخم نے اس بات کا شدت سے احساس دلایا ہے کہ آج مسلمانوں پر ہندوبستی سے ذرّہ برابر خطرہ نہیں ہے بلکہ خطرہ ہے تو اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف سے کہ وہ نہ جانے کب آئیں اور ٹارگٹ کلنگ،  بم دھماکوں کے ذریعے لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیں ،  گھروں میں گھس آئیں اور مال و اسباب کو لوٹ لیں۔ عزت و آبرو کے پرخچے اُڑا دیں کہ انہیں ہر طرح کا اختیار حاصل ہے۔ کوئی انہیں گرفتار کرنے والا اور مقدمہ چلانے والا نہیں۔ چوں کہ ہر روز اور دن کے ہر گھنٹے میں اس قسم کی دہشت گردی باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ ستم غیر مسلم نہیں ڈھا رہے ہیں۔

            حکومتِ وقت خاموش ہے۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ جُہل کا گہرا اندھیرا ہے اور اس تاریکی سے گولیاں چلنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ راہ گیر قتل ہو رہے ہیں ،  علماء،  اساتذہ درس گاہوں کے منتظمِ اعلیٰ،  مدرس،  ڈاکٹر،  سرجن،  فلاحی کام کرنے والوں کا قتلِ عام جاری ہے۔

            غریب ماؤں کی اولاد،  جو طالبِ علم ہیں ،  مزدور ہیں ، محنت کش ہیں ، وہ سب بے قصور مارے جا رہے ہیں۔ مقتولین کے خون سے شاہ راہیں ،  سڑکیں ،  راستے اور گلیاں سرخ ہو گئی ہیں۔ سچ ہے کہ انسان سستا ہے۔ اس کا خون سستا ہے۔ باقی ہر چیز مہنگی ہے۔ حتیٰ کہ خس و خاشاک تک کی قیمت ہے۔

جو نسلیں پرورش پاتی ہیں نفرت کے ہنڈولوں میں

جو آنکھیں کھولتی ہیں جبر کی سنسان راہوں میں

کہ جن کی زندگی کٹتی ہے خود غرضی کے آنگن میں

کہ جن کی صبح ہوتی ہے جہالت کے اندھیروں میں

وہ نسلیں کاٹتی ہیں فصل بے جا خور پرستی کی

وہ نسلیں کاٹتی ہیں فصل دہشت اور تعدی کی

            فضاؔ اعظمی نے ایسے ہی دل خراش واقعات،  حادثات و سانحات اور دم توڑتی انسانیت کا نوحہ اپنی شاعری میں بیان کیا ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے ان کی مقصدی شاعری پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ ’’طویل مقصدی نظم ’’خاک میں صورتیں ‘‘ میں مولانا الطاف حسین حالیؔ کی اصلاحی اور احیائی شاعری کا فیضان نمایاں ہے۔ یہ مماثلت صرف مسدس کی ہیئت تک محدود نہیں ہے۔ شاعر کے طرزِ فکرو احساس کی بدولت دل و دماغ میں مسدسِ مد و جزر اسلام کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ نظم ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کا مرکزی موضوع عورت کے وہ حقوق ہیں جو اسلام نے اسے پہلی بار عطا کیے تھے، مگر ملوکیت اور ملّائیت،  جاگیرداری اور سرداری کے اسلام دشمن نظام ہائے حیات نے چھین رکھے تھے۔ اسلام نے حقوق بخشے اور مسلمانوں نے چھین لیے۔ ان چھینے ہوئے حقوق کی بازیافت کے جذبے کا وفور دیدنی ہے۔ ‘‘

               خود ساختہ قوانین

            ہم یہ بات و ثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ فضاؔ اعظمی نے کوزے میں دریا کو بند کرنے کی کوشش کی ہے اور کام یاب ہوئے ہیں۔ بڑے اور گھمبیر مسائل کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کے ساتھ مسلمانوں کے رخشندہ و تابندہ ماضی کی رونمائی کی ہے۔

تمہیں ایک فوقیت حاصل تھی دنیائے تمدن میں

تمہاری امتیازی شان تھی اقوامِ عالم میں

جہاں میں ایک نشاطِ ثانیہ کے پیش رو تم تھے

کئی اقدار کے بانی تھے تہذیبوں کے آنگن میں

جب انسانوں کے اوپر ظلم کا خفقان طاری تھا

تو اہلِ عالمِ اسلام کا فیضان جاری تھا

            مذہبِ اسلام نے انسان کو جو عزت و مرتبہ عطا فرمایا اور اس کے رہنے بسنے کے اصول مرتب کیے اور چیزوں کے فوائد و نقصانات سے بھی آگاہ کر دیا ،  خیرو شر کے معاملات بھی سمجھا دیئے، اجرو ثواب،  سزا و جزا کے بارے میں بھی تفصیلاً بتا دیا اور یہی نہیں بلکہ پچھلی قوموں کے بارے میں بھی آگاہی دی اور جن کا ذکر قرآنِ پاک میں ملتا ہے، مثلاً قومِ عاد،  قومِ ثمود،  نمرود و فرعون کی سرکشی اور پھر ان کی عبرت ناک ہلاکت یقیناً اللہ تعالیٰ نے نا فرمانوں کے لیے جہنم کا عذاب مقرر کیا ہے۔ یہ سب جانتے بوجھتے انسان نے گناہ کا راستہ اختیار کیا کیوں کہ یہ بات سچ ہے کہ گناہ میں ایک کشش ہے، جو بھی راستہ شیطان کی طرف جاتا ہے وہ بہ ظاہر خوب صورت، دل فریب ہے جب کہ جنت کی سمت جانے والی راہیں کانٹوں سے پُر ہوتی ہیں ، صبر آزما امتحانات اور بہ ظاہر ساتھ میں نفس کو قابو کرنا آسان کام نہیں ہے اور کامیاب وہ ہوا جس نے نفس کو قابو کر لیا، اس نے خواہشات کے بے لگام گھوڑے کو سرپٹ دوڑنے سے بچا لیا۔

            لیکن انسان ٹھہرا بد نصیب ،  جلد باز اور ناشکرا، اس نے اپنے خود ساختہ قوانین کے تحت اپنے ہی فائدے کی بات سوچی اور انجام سے غافل ہوا، اور اپنی ہی جیسی مخلوق کو پاؤں تلے روند ڈالا،  اور جو حقوق اللہ تعالیٰ نے عورت کو دیئے تھے، اس کا وقار بلند کیا تھا، اسے مقدس رشتوں میں باندھ دیا تھا اور پھر اس کے تقدس و عزت کی مثالیں بھی پیش کی تھیں ، لیکن مرد نے اس کے تمام حقوق چھین لیے، اس کی مرضی اور رضا کو جبر کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔ شاعر نے ظلم و زیادتی کے قصے سنے ہیں ،  پڑھے ہیں ، حالات کا تجزیہ کیا ہے۔ پہروں سوچا اور غور کیا ہے۔ تب راستی کے آئینے میں اپنی شاعری کو چسپاں کر دیا ہے۔

سنا ہے تم نے ایک عورت کی شادی میں خلل ڈالا

سنا ہے تم نے اس کے حقِ شادی کو کچل ڈالا

اسے اصرار تھا شادی کرے گی اپنی مرضی سے

سنا ہے اس سبب سے تم نے اسے قتل کر ڈالا

سنا ہے اور اسے کہتے ہو تم یہ قتلِ غیرت ہے

تمہاری مجرمانہ بے حسی پر ،  سخت حیرت ہے

            جر گہ سسٹم نے معاشرے کی تہذیب و شرافت اور منصفی کو بٹہ لگا دیا ہے ،  انصاف،  ہم دردی اور انسانیت کے چہرے پر سیاہ داغ مل دیا ہے، ستم گروں نے رحم دلی،  نرم خوئی اور اوصافِ حمیدہ کا دامن چھوڑ دیا ہے،  سنگ دلی،  کرختگی کو اس نے اپنا کر اپنے آپ کو درندے سے بد تر حیثیت میں پیش کیا ہے، حدیثِ پاک ہے کہ

’’جو نرمی سے محروم کیا گیا وہ سارے خیر سے محروم ہوا ‘‘

            اللہ کی رحمتوں ،  برکتوں اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوش نودی سے اس بدنصیب انسان نے محض دنیا کی خاطر جو خاک و دھول کے برابر ہے،  منہ موڑ لیا اور جہنم کے راستے پر راضی بہ رضا،  خوشی بہ خوشی گامزن ہو گیا۔ اس شخص نے عورت کے تمام حقوق کو سلب کر لیا۔ اس کی خوشی کا دشمن بن گیا اور اپنی عزت و غیرت کو سرِعام نیلام کرنے کے لیے اس نے سرِعام مجمع لگا دیا ہے۔ زمانے کے اس چلن نے جناب فضاؔ اعظمی سے سوال نامہ مرتب کرایا ہے۔

سنا ہے اس کی خاطر تم نے ایک جرگہ بلایا تھا

اسے اس خونِ ناحق کے لئے تم نے بٹھایا تھا

یہ کس مذہب کا جرگہ تھا ذرا ہم کو بتاؤ تم

وہ ظالم کون تھا،  یہ فیصلہ جس نے سنایا تھا

بتاؤ اس کی کیا بنیاد ہے؟ یہ واقعہ کیا ہے؟

خدا کا کون سا قانون ہے جس میں یہ لکھا ہے ؟

            فضاؔ اعظمی کے یہ سوالات تاریخِ شاعری میں محفوظ کر دیئے گئے ہیں کہ وڈیرہ،  جاگیردار،  جب چاہے اپنی اصلی شکل دیکھ سکتا ہے، چاہے تو عبرت حاصل کر لے اور اپنے آپ کو سدھار لے، اپنے رب سے معافی مانگ لے اور ہمیشہ کے لیے ان کا لے قوانین کا خاتمہ کر دے، نہ چاہے تو اسی روش پر چلتا رہے، جس کو اس نے اپنا یا ہے اور پھر ایک دن اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی دوزخ کو یقیناً وہ پالے گا، اقبالؔ نے اعمال کے بارے میں وضاحت کر دی ہے ؟

            ’’عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی‘‘

             ویسے اگر ہم فی زمانہ غور کریں تو جنت کے طالب کم ہی نظر آتے ہیں۔ شاعر کے سوالات کا جواب دینے والا کوئی ہے تو سامنے آئے اور ایسے جوابات دے کہ جسے عقلِ انسانی تسلیم کرتی ہو، انسانیت سرخم کرتی ہو، اور اسلامی تعلیمات اپنی گواہی پیش کرے۔ شاعر نے تو معاشرے کی زبوں حالی کا نقشہ کھینچ دیا ہے،

سنا ہے گلشنِ اسلام بھی اب وہ نہیں جو تھا

نسیمِ تازہ کا پیغام بھی اب وہ نہیں جو تھا

سنا ہے بادِ صرصر نے چمن کو گھیر رکھا ہے

شعاعِ نور کا اکرام بھی اب وہ نہیں جو تھا

سنا ہے اس چمن میں پھول اب کم کم ہی کھلتے ہیں

اگر کھلتے بھی ہیں تو رنگ میں مدھم کھلتے ہیں

            لیکن حالات بے حد ابتر ہیں ،  حکومت بے حس ہے، علماء اپنے فرائض بھول چکے ہیں ، ا ُمتِ مسلمہ اپنی تباہی کا خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے، رہے جا گیر دار،  وڈیرے تو انہیں اس روشنی سے نفرت ہے جس سے دوسرے فائدہ اُٹھا سکیں ، وہ اپنے گاؤں اور دیہات کو اجالے کی رمق سے بچانا چاہتے ہیں ، چوں کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کے بنائے ہوئے طمع و لالچ کے بت اجالے کی تاب نہ لا سکیں گے اور گر کر پاش پاش ہو جائیں گے،  ہر شخص کو اپنے فرائض و حقوق سے آگاہی حاصل ہو گی اور سال ہا سال غلام بننے والے حق بات کرنے کے لیے سامنے آ جائیں گے اور یہ بات صاحبِ ثروت، صاحبِ جائیداد کو پسند نہیں کہ کوئی ان کی برابری کرے۔

               جبر و تشدد کا ماحول

            فضاؔ اعظمی نے تلخ حقائق کو شعری سانچے میں ڈھالنے کی سعیِ مسلسل کی ہے۔ ان کے قلم نے بے انصافی و جبر کی تصاویر دکھائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ

یہاں قانون سازی کے عمل کا حق ہے قاتل کو

یہ وہ دستور ہے جس میں سزا دیتے ہیں بسمل کو

یہاں مجرم کو بیٹھاتے ہیں کرسیِّ عدالت پر

یہاں حق سرنگوں ہوتا ہے، شہ ملتی ہے باطل کو

یہ وہ دنیا ہے جس میں فتح طاقت ور کی ہوتی ہے

یہاں انصاف کی تربت پہ مدھم شمع جلتی ہے

            آج بروز منگل 21فروری 2012ء ہے، روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق جبری مشقت لینے والے 5زمیں داروں کی ضمانتیں منسوخ ،  چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ مشیر عالم پر مشتمل سنگل بینچ نے 85ہاریوں کو حبسِ بے جا میں رکھنے اور جبری مشقت لینے اور خواتین سے زیادتی کے الزام میں 5زمیں داروں کی عبوری ضمانتیں منسوخ کرتے ہوئے ماتحت عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وکلاء نے بتایا کہ زمیں داروں نے پچاسی (85)ہاریوں کو 2009ء سے غیر قانونی حراست میں رکھا تھا،  اور ان قیدیوں کو زنجیروں سے باندھ کر کپاس اور مرچوں کی فصل کے لیے کھیتوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ خواتین قیدیوں کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طویل جدوجہد کے بعد انہیں مختلف مقامات سے بازیاب کروایا گیا۔

            فضاؔ اعظمی نے اسی قبیل کے واقعات سے شاعری کی روح کو کشید کیا ہے۔ وہ اسی جنت کی تلاش میں سر گرداں ہیں جہاں تمام انسانوں کو برابری کے حقوق حاصل ہوں۔ نہ ہاری ہوں اور نہ زمیں دار، نہ آقا نہ غلام،  اپنی اپنی محنت کا پھل، کا وشوں کا ثمر نصیب ہو۔ انسان کی شر پسندی کو وہ اس طرح تحریر کے قالب میں سموتے ہیں۔

کہیں قضیہ اُٹھاتے ہو مدارس دو طرح کے کیوں

کہیں تم کو شکایت ہے مدرس دو طرح کے کیوں

کہیں محبّت ہے یکساں شعبۂ تعلیم کرنے کی

فقط تعلیم میں یکسانیت کا سر میں سودا کیوں ؟

وہ جنت کون سی ہے جس میں ہر انسان یکساں ہے؟

وہ دنیا ہے کہاں جس میں چراغاں ہی چراغاں ہے؟

            ان زمیں داروں کی تعیش پسندی اور نا انصافی نے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے،  جب کہ یہود و نصاریٰ جو قرآن کی تعلیمات اور مسلمانوں کے شان دار ماضی سے واقف ہوتے ہوئے بھی مسلم اقوام کو ظالم قرار دیتے ہیں اور اب تو کھلے بندوں مسلمانوں کو دہشت گرد کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے، مسلمان جس پیغمبرؐ کے اُمتی ہیں ، ان کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں۔ غیر مسلم بھی آپؐ اور قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ قرآنی تعلیمات سے واقف ہیں پیغمبروں اور بزرگانِ دین کی تعلیم اور پیغام سے واقف ہیں۔ اس قوم کے لیڈر بانیِ پاکستان قائدِ اعظمؒ جیسے عظیم راہ نما، جید علماء اس قوم کا سرمایہ افتخار ہیں۔

            پاکستان کو بدنام کرنے اس کی عزت و وقار کو مجروح کرنے میں ہمارے سیاست دان اور صاحبِ اقتدار پیش پیش نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک،  معدنی وسمندری دولت سے مالا مال ملک کی اس قدر بے بسی کیوں ؟ کہ وہ دوسرے ملکوں سے امداد کے بدلے اپنی خود مختاری کا سودا کر لے۔ اتحادی فوج میں شامل ہونا، اپنے ملک کو کم زور کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن ان دنوں حالات بدلنے کے اشارے موصول ہو رہے ہیں۔ لیکن حقائق کچھ اور ہیں اور پھر اگر پاکستانیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو زر پرستوں اور مقتدر طبقے نے نہ کہ اپنے ملک کو بد نام کیا بلکہ اپنے گھر کی بھی عزت کو خاک میں ملا دیا اور اپنے ہی اہلِ خانہ کا تماشا سرِ بازار دکھایا اور یہ بازار پوری دنیا میں ٹی وی چینلز کے ذریعے سجتا ہے۔ اب ہر ملک اور اس کے باسی مسلمانوں کا خصوصاً خواتین کا تماشا با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔

            درد ناک پہلو یہ ہے کہ کوئی ایسا نڈر اور سچا مسلمان نہیں کہ آگے بڑھے اور قاتل کا ہاتھ پکڑ لے حالاں کہ ہر علاقے، گاؤں اور گوٹھ میں مساجد اور مدرسے ہوتے ہیں ،  امام بھی ہوتے ہیں ، خطبہ بھی دیا جاتا ہے۔ نمازیں بھی باقاعدگی سے ادا کی جاتی ہیں ، لیکن یہ کیسے علماء ہیں جو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے نا واقف ہیں اور اگر اللہ کے احکامات سے انہیں آگاہی حاصل ہے تو سخت ترین گناہ گار دوزخ کے نچلے درجے کے حق دار،  کہ اللہ کے حکم کے مطابق عالم بے عمل کی یہی سزا ہے کہ ظلم ہوتے دیکھے اور خاموش رہے، خاموش رہنے والا شخص بھی ظالموں میں شامل ہوتا ہے، فضاؔ اعظمی کی عقل حیران و پریشان ہے کہ مفتی و علماء کا کردار ادا کرنے والے لوگ کہاں چلے گئے ہیں ، کیا وہ اپنے فرائض بھو ل چکے ہیں شاید؟ اسی لیے انھوں نے اس طرح کا رویہ اپنا لیا ہے جس کا اظہار فضاؔ اعظمی کر رہے ہیں۔

سنا ہے تم کو دعویٰ ہے کہ تم عورت سے برتر ہو

وہ چاکر ہے تمہاری اور تم مختار و افسر ہو

دیا ہے تم کو حق اللہ نے اس پر حکومت کا

تم اس کے واسطے سب کچھ ہو، رہزن ہو کہ رہبر ہو

اسے جرأت نہیں اس کی کہ تم سے ہمسری کر لے

یہ ناممکن کہ اس علت سے وہ خود کو بری کر لے

تم عورت کو سنا ہے پیر کی جوتی سمجھتے ہو

تم اس کو فطرتی قانون سے باغی سمجھتے ہو

اسے حیوان سے بدتر سمجھتے ہو یہ کیا سچ ہے

یہ کیا سچ ہے گھر آنگن کی اسے مرغی سمجھتے ہو

اگر یہ سچ ہے تو بتاؤ واقعہ کیا ہے

یہ دنیا بھر میں کیسا شور ہے یہ ماجرا کیا ہے

دوسرے درجے کی مخلوق

            جناب فضاؔ اعظمی نے اُس مرد کی فریب کاریوں کے بے شمار روپ بہ ذریعۂ شعر و سخن دکھائے ہیں جو جہالت کی تاریکیوں میں غوطہ زن ہے اور جوہر حالت میں اپنی برتری چاہتا ہے۔۔ وہ کہتے ہیں کہ

کسی نے خلقتِ شاہی پہن کے راج کیا

کسی نے دولتِ قارون کا خراج لیا

کسی نے سحر سے، جادو سے سب کو رام کیا

کسی نے شاہ بن کر سر پر تاج لیا

شکار ایک ہے، بس ہتھکنڈے بدلتے ہیں

ہر ایک سمت سے تیروں کے وار چلتے ہیں

            موجودہ دور جو کہ ترقی یافتہ دور کہلاتا ہے، لیکن اس دور میں بھی عورت کے معاملے میں زمانے کے و ہی چلن ہیں جو کہ گزشتہ ادوار میں تھے۔ دنیا بھر کی تہذیبوں میں مرد کی ہی اجارہ داری نظر آتی ہے، عورت کی حیثیت دوسرے درجے کی ہے، پاکستان ہو یا ہندوستان،  یونان ہو یا چین،  یورپ ہو یا ایشیا اسے وہ مرتبہ حاصل نہیں جس کی وہ حق دار تھی اور ہے۔

            اگر حالات اس کے حق میں بہتر ہوئے اور اس نے زندگی کے کسی میدان میں کوئی کارنامہ سر انجام دے دیا، یا کوئی بڑا کام کر کے شہرت حاصل کر لی، تب اس کے بڑے کام کی سزا بھی بڑی ہی ملے گی، جس کی تازہ مثالیں ،  بے نظیر بھٹو،  لیڈی ڈیانا، ذرا دور کی طرف دیکھیں تو اندرا گاندھی وغیرہ،  یہ تو خیر بڑی اور بین الاقوامی شخصیات تھیں ، ورنہ تو ہر روز دفتر و کارخانے و فیکٹریوں اور مخلوط آبادی کے اداروں میں سانحات اور حادثات پیش آتے رہتے ہیں ، مرد عورت کا استحصال کسی نہ کسی شکل میں کرنا اپنا حق تصور کرتا ہے، انہیں ملازمت اور ترقی کا لالچ دے کر ان کی عفت کا سودا با آسانی کر لیتا ہے اور جب معصوم لڑکیاں شادی کا عہد یاد دلاتی ہیں تو وہ جان چھڑانے اور اپنے فریب پر پردہ ڈالنے کے لیے جان سے مار دینے تک سے گریز نہیں کرتا ہے۔ اخبارات میں ایسی خبریں آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں۔

            ۱۹؍ فروری ۲۰۱۲ ء روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں ا یسی ہی ایک درد ناک خبر چھپی ہے، شہ سرخی اس طرح ہے کہ ’’سرجانی ٹاؤن ۲، فروری کو ملنے والی لاش کا معما حل، دو ملزمان گرفتار، ملزم نے شادی کا جھانسہ دیا تھا، مقتولہ کے شادی کے لیے اصرار پر دوستوں کی مدد سے قتل کر دیا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جمعرات ۲ فروری سرجانی ٹاؤن تھانے کی حدود سیکٹر 17-A ڈگری کالج کے قریب بوری میں بند ایک خاتون کی لاش ملی تھی، علاقہ ایس ایچ او انسپکٹر شبیر احمد نے بتایا ہے کہ ’’ملزم زوہیب نیو کراچی کا رہائشی ہے اور سونے کے زیورات بنانے کا کام کرتا ہے اور گزشتہ 5 برسوں سے مقتولہ فرحانہ کو جانتا ہے۔ اس نے فرحانہ کو شادی کا جھانسہ دیا تھا، وقوعہ کے روز بھی جھگڑا ہوا، اور فرحانہ نے دھمکی دی کہ وہ پولیس کو جا کر سب کچھ بتا دے گی۔ دھمکی کے نتیجے میں ملزم نے فرحانہ کو راستے سے ہٹانے اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے اس کا بے دردی سے قتل کر دیا۔ ‘‘ یہ ہے حال خواتین کی عزت و  وقار کا، قاتل اور بے درد مردوں سے نہ جان بچا پاتی ہیں اور نہ آبرو۔

            آئے دن خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں فاخرہ یونس کا واقعہ منظرِ عام پر آیا ہے، یہ خبر ہے ۲۵ مارچ ۲۰۱۲ء کی، مصطفیٰ کھر کے بیٹے بلال کھر کے ہاتھوں تیزاب سے جھلسنے والی فاخرہ یونس نے خودکشی کر لی۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ بلال کھر نے پہلے ہی سے تین شادیاں کی ہوئی تھیں جس کا علم فاخرہ کو بعد میں ہوا۔ چناں چہ وہ ناراض ہو کر میکے چلی گئی۔ بلال کھر نے اسے کئی بار منانے کی کوشش کی، لیکن جب کام یابی حاصل نہیں ہوئی تو ۱۴ مئی ۲۰۰۰ء کو دوپہر ڈھائی بجے بلال فاخرہ کے گھر میں داخل ہوا، اسے لے جانے کی کوشش کی، جب اسے  ناکامی حاصل ہوئی تو اس کے چہرے پر تیزاب چھڑک دیا۔ ۱۲ سال تک وہ سخت اذیت میں مبتلا رہی اور علاج کے لیے اٹلی بھیجی گئی، جہاں فاخرہ کے چہرے کی پلاسٹک سرجری بھی ہوئی، لیکن  پلاسٹک سرجری اس کے چہرے کی خوب صورتی واپس نہ لا سکی۔ حالات سے دل برداشتہ ہو کر اس نے خود کشی کر لی۔ یہ تو ایک فاخرہ تھی جس کی کہانی نمایاں ہو گئی، ورنہ تو ہر روز اس دھرتی پر ہزاروں فاخرہ جیسی لڑکیوں پر تیزاب کی بارش کی جاتی ہے۔ اسی بربریت کے حوالے سے فضا اعظمیؔ کے ان اشعار نے موجودہ صورتِ حال کو منظر نامے پر چسپاں کر دیا ہے۔

جو عورت پر مظالم کی بھیانک رات گزری تھی

ہزاروں سال پر طاری شبِ آفات گزری تھی

رہی جس میں وہ دار و گیر کی صیدِ زبوں بن کر

جو اس کے جسم پر تیزاب کی برسات گزری تھی

کہ جس میں رحم کی دیوی برہنہ تن، برہنہ سر

کھڑی تھی سر جھکائے وقت کی دہلیز کے اوپر

            عورتوں پر تشدّد کے واقعات ہر روز اخبارات کی شہ سرخی بنتے ہیں۔ ہزاروں بیوہ و مساکین اور بے سہارا عورتوں کے حقوق کو غصب کر لیا جاتا ہے۔

            مردوں کے خیالات میں کافی تضاد نظر آتا ہے، عورت پر وہ ہر قسم کی قدغن لگانا چاہتے ہیں ، اس کی ہر جائز آزادی کو ہڑپ کرنا اپنا موروثی حق جانتے ہیں ، لیکن اپنے حوالے سے وہ ہر معاملات میں مکمل طور پر آزاد ہیں ، وہ جو چاہیں کرتے پھریں ، وہ کسی کی روک ٹوک کو برداشت کرنے کے قائل نہیں ، بہ یک وقت وہ کئی کئی خواتین سے ایک ساتھ تعلقات قائم کر لیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ان سے جان چھڑا لیتے ہیں ، ان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔

            ایسا محسوس ہوتا ہے کہ احادیث اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرنا ان کے لیے لازمی نہیں ہے۔ وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہر گناہ بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں اور اپنے آپ کو ہر گناہ کرنے کے لیے ہر طرح سے آزاد خیال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں دل کوسب سے زیادہ اہمیت دی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے اور جب توبہ کرتا ہے تو مٹ جاتا ہے، لیکن اگر توبہ نہ کرے اور گناہ پر گناہ کرے تو سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔

                                                                        (ق آیت ۳۳)

            وہی دراصل کام یاب ہوا جو قلبِ صمیم لے کر آیا۔

            اسلام نے مرد و عورت پر برائیوں کے حوالے سے قدغن لگائی ہے۔ قرآنِ پاک میں اس طرح یہ بات بتائی گئی ہے کہ

             ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومن مردوں سے کہہ دیں کہ وہ نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اس سے اللہ با خبر ہے اور یہی حکم مومن عورتوں کے لیے ہے۔ ‘‘

                                                            (القرآن۔۔سورۃ النور)

            لیکن مرد حضرات اللہ کے احکامات کو یکسر فراموش کر کے خود ہی سیاہ سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے کی کہانی کا مرکزی خیال مرد کے ظلم سے شروع ہوتا اوراسی پر ختم ہو جاتا ہے۔ فضاؔ اعظمی دنیا بھر کی عورتوں کے دکھوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انھوں نے ان اشعار میں ایسی ہی صورتِ حال کو آشکارا کیا ہے۔

وہ عہدِ جاہلیت ہو کہ عقل و دانائی

دل آزاری کی ہر جا ایک ہی صورت نکل آئی

جہاں کی تہذیبوں کا مسلک ایک جیسا ہے

کہ حقِ فوقیت ہے مرد کو،  عورت رعایا ہے

کہیں رجحان زیادہ ترش روہے اور کہیں کم ہے

وہ ہے کم تر،  سماجی طور پر بدنام و رسوا ہے

علامت اجتماعی پستیوں کی ،  ذات ہے اس کی

حوالہ ہر طرح کی گالیوں کی ذات ہے اس کی

               ایک ہی دکھ

            فضاؔ اعظمی کا تصورِ زن کچھ اس طرح ہے کہ ان کی سوچوں اور خیال و خواب میں معاشرے کی ظالمانہ روش جاری رہتی  ہے۔ ہر سو،  ہر لمحہ انہیں عورتوں کی وہ تصویریں نظر آتی ہیں جنہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے اور یہ معاشرہ مزید تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے،  ہر طرف آگ ہے، شعلے ہیں ،  بھٹی ہے،  جہاں انسانیت کو جلایا جا رہا ہے، اس کا دم گھوٹا جا رہا ہے، انسانیت کے قاتل کوئی اور نہیں ہیں بلکہ انسان ہیں ، جنہوں نے درندگی کو اپنا لیا ہے اور انسانیت کے پرخچے اپنے ہاتھوں سے اُڑا دیئے ہیں ، ’’ایک خواب‘‘ کے عنوان سے تخلیقات کی رونمائی شاعر نے اس طرح کی ہے۔

خزاں کی شبنمی راتوں میں اپنے گھر کے آنگن میں

میں جب بھی بیٹھتا ہوں کربِ انسان کا سبولے کر

جہادِ زندگی کی کلفتوں سے خستہ جاں ہو کر

شبِ دیجور کی سنسان تنہائی سے گھبرا کر

خزاں کی شبنمی راتوں میں اپنے گھر کے آنگن میں

میں جب بھی بیٹھتا ہوں کربِ انساں کا سبو لے کر

 تو تاریخِ جہاں کے کچھ مناظر یاد آتے ہیں

ستم کے جور کے خونیں مظاہر یاد آتے ہیں

            فضاؔ اعظمی صاحب کی دنیا تصوراتی ہو یا حقیقی، وہ معصوم و بے بس و لاچار عورتوں کے واقعات پڑھتے ہیں ، ان کی خون میں لتھڑی ہوئی تصاویر دیکھ کران کا دل خون کے آنسو روتا ہے، لیکن جو حقیقی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں ، انہیں اپنی بچیوں کو مار کر ایسا دکھ ہرگز نہیں ہوتا جیسا کہ شاعر کو دلی دکھ اور ذہنی کرب ہے۔ شاید مقتولین کے لواحقین نے انسانوں کے لہو کے بدلے تجارت کی ہے کہ جہاں دولت ہے اور جھوٹی غیرت واَنا ہے۔ حاکمیت اور دولت کے نشے میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی نشے انسان کو دنیا و مافیہا سے بے خبر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ فہم و ادراک اور عقل و شعور اس نشے میں گم ہو جاتے ہیں۔ ایسے بے ضمیر لوگوں کو جگانے اور تڑپتے سسکتے معصوم چہروں کی رونمائی کے لیے ہی شاعر نے اپنی قلبی کیفیت کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا ہے کہ شاید رحم کی دیوی ظالموں کے دلوں کو مسخر کر لے۔ شاعر نے مستورات کی دردناک آوازیں سن رہے ہیں ، اس درد کی کیفیت میں انھوں نے اپنے قارئین کو بھی شامل کر لیا ہے۔

اُکھڑتی،  ڈوبتی سانوں کی آوازیں ستاتی ہیں

بلکتی سسکتی  اندوہ گیں آہیں ستاتی ہیں

نظر کے سامنے معصوم چہرے جگمگاتے ہیں

یکایک خاک میں لتھڑی ہوئی لاشیں ستاتی ہیں

یہ منظر دیکھتا ہوں اور کلیجہ منہ کو آتا ہے

شقاوت دیکھتا ہوں اور مرا دل ڈوب جاتا ہے

            ان خونیں مناظر نے نہ کہ شاعر کی روح کو زخمی کیا ہے بلکہ قارئین بھی خون و خاک میں لتھڑی ہوئی صورتوں اور سر بریدہ ابدان کو دیکھ کر تڑپ اُٹھے ہیں۔ دم توڑتی ہوئی مستورات کی چیخوں نے پوری فضا کو سو گوار بنا دیا ہے اور اس درندگی و بر بریت کو فضاؔ اعظمی نے کینوس پر  پنیٹ کر دیا ہے،  کلہاڑی کی ضرب سے نکلنے والے لہو کو اپنی دم توڑتی ہوئی چیخوں کے ساتھ دکھایا ہے۔ خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ، پاک سر زمین خون سے تر بہ تر ہے، سوختہ اور خون میں نہائی ہوئی لاشیں فریاد کر رہی ہیں ، انصاف مانگ رہی ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں مظلوموں غریبوں و کم زوروں کے لیے انصاف نہیں ہے۔ چوں کہ انصاف ایک ایسے پرندے کا نام ہے جو زمانہ ہوا اُڑ چکا ہے اور اس کا پکڑا جانا ناممکنات میں سے ہو گیا ہے۔

            صاحبِ اختیار اور صاحبِ ثروت تعیشاتِ زندگی میں مست ہیں۔ پیسے سے پیسہ بنانے کا ہنر انہیں اچھی طرح آتا ہے۔ انہیں اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پیسے کی سخت ضرورت ہے کہ’’پیسے میں بڑی طاقت ہے کہ بڑے سے بڑے مقدمات سے چھڑا دیتا ہے، ایف آئی آر کٹنے سے بچا تا ہے اور مزید عیش و عشرت اس دولت کی ہی بدولت میسر آتا ہے، قاتل کبھی مال و زر کے بدلے عزت کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے تو کبھی معصوم انسان کے جسم اور جذبات کے پرخچے اُڑا دیتا ہے اور یہ انسان عورت ہے،  ایک گھر کی ہے اور دوسری باہر کی۔ جسے غیرت کا نام دے کر قتل کروا دیا گیا ہے۔

            حیرت اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ عزت و حشمت ،  جان و مال کا قاتل اپنے کیے پر ہر گز پشیمان نہیں ،  اپنے کرتوتوں پر شرمندہ نہیں بلکہ ہر روز اس کی’’ہوس‘‘ تازہ خون مانگتی ہے۔ اس کا ہتھیار نازک گردنوں پر چلنے کے لیے بے چین ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بہانہ بنا کر قتل جیسا سفاک جرم کر بیٹھتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اسے اپنی گھر کی خواتین سے کہیں زیادہ جھوٹے رسم و رواج عزیز ہیں۔ جھوٹی غیرت کی آڑ میں وہ شکار کھیلنے کا عادی ہو گیا ہے۔

            ذرا اس ماحول کا تصور کریں جہاں بے قصور بچیوں کو قتل کیا جاتا ہے چوں کہ شاعر کی ہی طرح ہر ذی عقل ان حالات کا جائزہ لے تو وہ انسانی جذبات و احساسات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ جب ایک شخص اپنی طاقت کے بل پر ایک مجبور و بے کس عورت کو گائے بکری کی طرح باندھ کر مذبح خانے میں لے جاتا ہے، تب اس کی کیا حالت ہوتی ہو گی۔ وہ دنیا جہان کی مظلوم مخلوق، بے بسی کی تصویر بنی اپنی موت کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرتی ہے،  ہتھیار اس کے سامنے ہے۔ جانور کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلایا جاتا ہے، لیکن اس کا پانی پر بھی حق نہیں ہے۔ وہ قاتل کے ہاتھ میں کلہاڑی دیکھ کر مرنے سے پہلے ہی مر جاتی ہے۔ بلکہ وہ اپنی موت کا سن کر بار بار مری ہو گی، لیکن آج اس کی حقیقت میں موت واقع ہو جائے گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے فضاؔ اعظمی نے اس قسم کے خونی واقعات کو دیکھنے کے لیے آس پاس ڈیرہ ڈال لیا ہے اور انہوں نے ان سانحات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ گویا وہ چشمِ دید گواہ ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے اشعار حقیقت کا لبادہ اوڑھ کر خون سے تر ہو گئے ہیں۔ ان کے قلم سے سیاہی نہیں خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ دیکھیے یہ اشعار:

بنام عزت و ناموس، قرآں ہاتھ میں لے کر

لگاؤ تہمتوں کا زخم اس کے جسمِ لاغر پر

وہ ہے مخلوق دوئم مرتبے کی، اس کی وقعت کیا

گراؤ فرشِ خاکی پر، گلے پر پھیر دو خنجر

یہ تہذیبی عقیدہ ہے یہ پرکھوں کی روایت ہے

یہ کارِ خیر ہے اور نام اسی کا قتلِ غیرت ہے

            اس خونی واقعہ میں کوئی ہم درد و غم گسار نہیں ، کوئی اسے اس سفاکی سے بچانے والا نہیں ، سب خونی رشتے نہ جانے کہاں کھو گئے ہیں ، اسے مرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

            میں اکثر سوچتی ہوں کہ ایک ماں اپنی بچی کو کس طرح مقتل میں لے جاتا دیکھ سکتی ہو گی؟ کیا وہ رحم کی فریاد نہیں کرتی،  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ نہیں دیتی کہ وہ بچی اس کا خون ہے، اس کے جسم کا ٹکڑا ہے، جسے اس نے اپنا لہو پلا کر پروان چڑھایا ہے، راتوں کو جاگی ہے،  شب و روز کے چوبیس گھنٹے اس کے لیے وقف کر دیئے گئے۔ اسے لوری سنائی،  جھولا جھلایا،  اس کی زلفوں میں کنگھی کی،  نہلایا دھلایا،  ہاتھوں سے کھانا کھلایا، سینے سے لگایا۔

            اس کی کلکاریاں ،  معصوم باتیں ،  عہدِ بلوغت کی سمجھ داری اور شوخی اسے کچھ یاد نہیں آتا ہے، وہ جہیز بھی یاد نہیں آتا، جو اس نے بڑی مشکل سے پس انداز کی ہوئی رقم سے بنایا تھا۔ مٹی کا پیالہ،  بستر اور برتن خریدے تھے، خوشی و غموں کے بیتے ہوئے دن ،  عید ،  بقرا عید،  شادی بیاہ،  اور اس کا بستہ ،  کپڑے ،  کھلونے ،  جوتے، زیور،  چوڑیاں ،  یہ سب چیزیں دیکھ کر اس کا دل زخمی نہیں۔

            اسے مارنے کے لیے لے جایا جا رہا ہے اور تھوڑی ہی دیر بعد اسے بنا غسل و کفن کے گڑھے میں ڈال دیا جائے گا،  قاتلوں نے یہ کون سے مذہب کا دستور اپنایا ہے، فضاؔ اعظمی نے اس معاشرے سے ایسے ہی سوالات کیے ہیں۔

            ماں تو نام ہی ’’جنت‘‘ کا ہے،  قربانی وایثار کا ہے،  ٹھنڈک اور روشنی اس کے لمس میں موجود ہے،  وہ ضرور کوشش کرتی ہو گی،  منت سماجت کرتی ہو گی کہ اس کی لختِ جگر،  نورِ نظر،  اس کے دل کا ٹکڑا،  بہیمانہ قتل سے بچ جائے، لیکن مردوں کے آگے وہ بھی مجبورو بے کس ہے کیوں کہ وہ بھی ایک عورت ہے،  وہ اس بات کو بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ کل شوہر اور بیٹوں کے ہاتھوں وہ بھی ماری جائے گی۔ اَن ہونی پر،  جو اس نے سوچی بھی نہ ہو گی،  سمجھی بھی نہ ہو گی۔ پھر ایک مجبور ماں پر بھی وہ جو وقت آ جاتا ہے جو بیٹی پر آ چکا ہے اور جو گاؤں کی عورتوں پر آتا ہے۔ لیکن ماں پھر ماں ہے، اپنے بچے کی ہر خطا کو، ہر ظلم کو معاف کر دیتی ہے، اس کا قاتل اس کا ہی بیٹا ہے اور اس نے اپنے قاتل بیٹے کو معاف کر دیا ہے،  جس نے محض اپنے فائدے کے لیے اپنی اس’’ماں ‘‘ کو قتل کر ڈالا وہ ماں جو دین و دنیا میں اس کے لیے جنت تھی،  فضاؔ اعظمی نے ایک ماں کی بے مثال محبت اور جذبۂ ایثار کو اس طرح بیان کیا ہے۔

سرھانے سے مرے آواز آتی ہے مرے بچے

ہوا جو کچھ بھی دنیا میں تو اس کا غم نہ کر بچے

یہاں جو کچھ بھی ہے،  اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے

تو مرا غم نہ کر،  میرا مقدر ہے میرے بچے

میں اپنی گمشدہ سانسوں سے تجھ کو معاف کرتی ہوں

میں اپنی بے نشاں قبروں سے تجھ کو معاف کرتی ہوں

            اس کتاب کا قاری بھی شاعر کے ساتھ قدم ملا کر چلنے پر مجبور ہو گیا ہے، اگر وہ مذبح خانے کا رخ کرتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ ہے اور اگر وہ بعد تدفین قبرستان میں جاتے ہیں جہاں بے شمار مظلوم و محکوم عورتوں کے مدفن ہیں ، وہاں بھی قاری ساتھ ہے، قبرستان کی ویرانی،  سناٹا،  دکھ اور عبرت کا احساس دونوں کو ہے۔

مظالم ہم نے جو ڈھائے ہیں وجودِ بنتِ آدمؑ پر

ہر اک تہذیب نے ہاتھوں میں ایک گرزِ گراں لے کر

رخِ عورت کو جیسے وحشیانہ پن سے کچلا ہے

عناد و بغض کی بے مہر تیغِ خوں چکاں لے کر

مناظر دیکھ کر افسردگی میں ڈوب جاتا ہوں

میں خود کو ایک قبرستان میں محصور پاتا ہوں

               فردِ جرم

            جسٹس (ر)ماجدہ رضوی صاحبہ نے ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کے ’’سبق ‘‘ فردِ جرم‘‘ کے حوالے سے اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے کہ ’’صفحہ 141پر ایک سبق ہے،  جس کا عنوان ’’فردِ جرم‘‘ ہے، اس کو ہم اس کتاب کا دل کہہ سکتے ہیں۔ اس میں عورت نے تمام مذہبی راہ نماؤں ، سیاست دانوں اور ان مردوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے جنہوں نے عورت کو انصاف سے محروم رکھا ہے اور جان بوجھ کر اسے کچل کر رکھنے کی سازش کی ہے۔ ‘‘

            فضاؔ اعظمی نے ’’فردِ جرم‘‘ صفحہ ۱۷۳ پر ’’فیصلہ‘‘ کے عنوان سے جو کچھ لکھا ہے، میری دعا ہے کہ وہ صحیح ثابت ہو۔ یہ شاعر کا خواب ہے اور مجھے خوشی ہے کہ فضاؔ اعظمی نے اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے۔

            دانش ور اور آرٹسٹ صرف خواب ہی نہیں دیکھتے بلکہ وہ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی بھی لا سکتے ہیں ، خواب کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں اور انقلاب لا سکتے ہیں اور میری خواہش ہے کہ یہ کتاب سماج میں عورتوں کی موافقت میں انقلاب لانے کا باعث بنے۔

            فضاؔ اعظمی نے اس باب میں عورت کو با اختیار دکھایا ہے، اس لیے کہ وہ جسم و جاں سے آزاد ہو گئی ہے، اب اس کا کوئی شخص،  خواہ وہ کسی روپ میں ہو یا رشتے ناتے سے تعلق ہو۔ اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا کہ اس کے سر پر نہ بال ہیں اور نہ جسم پر کھال، اب روحیں ہیں ،  سسکتی،  تڑپتی اور بین کرتی ہوئی روحیں ، ان روحوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اب وہ آزاد ہیں اور اسی آزادی نے انہیں جرأتِ اظہار عطا کیا ہے اور وہ اس قابل ہو گئی ہیں کہ ’’فردِ جرم‘‘ عائد کریں اور اس مرد پر جو اس کا باپ تھا،  بھائی تھا، رشتے دار اور گاؤں کا مکھیا تھا،  وڈیرا تھا، جس نے اسے رسوا کرنے،  کتوں کے آگے ڈالنے اور جان سے مارنے کے حقوق بڑی آسانی سے حاصل کر لیے تھے۔ اب اسے سچ کا آئینہ دکھائیں۔ جب اصول و قوانین اور ضابطۂ حیات نہ ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے جناب فضاؔ اعظمی نے مردِ مومن کا حق ادا کر دیا ہے اور لاشوں کے منہ میں زبان دے دی ہے کہ وہ اپنی کتھا خود بیان کریں اور وقت کے منصفوں اور قانون کے رکھوالوں سے پوچھیں کہ اس وقت وہ کہاں تھے جب اس کے مارنے کی تیاری عروج پر تھی۔ اسے قید کیا گیا، جلایا گیا، قتل کیا گیا، اب وہ با اختیار ہے اس ہی لیے بے ساختہ بول اٹھی ہے۔

یکا یک چیخ اُٹھی ایک کفن بردوش صورت سے

محلاتِ عدالت ہل گئے،  غم کی جراحت سے

یہ مجرم ہے یہ مجرم ہے،  یہ مجرم ہے،  یہ مجرم ہے

کفن بردوش لاشے نے کہا اتمامِ حجت سے

مجھے اس نے اپاہج کر کے رکھا قیدِ زنداں میں

پسِ دیوار تنہائی حوالاتِ خموشاں میں

            عدالت لگی ہے، کٹہرے میں قاتل کھڑے ہیں۔ لوگوں کا مجمع ہے، لوگ جوق در جوق آرہے ہیں ، ایک قیامت کا منظر ہے۔ ہر سمت لاشیں ہی لاشیں ہیں۔ جلی ہوئی اور بدن دریدہ،  لاشیں۔

صلیبو ں پر جلی ایک لاش نے اُٹھ کر گواہی دی

اُفق سے تا اُفق پھیلی عدالت کی دہائی دی

یہ انساں شکل ہے لیکن یہ حیوانوں سے بد تر ہے

اسی نے آگ میرے جسمِ بے بس میں لگائی تھی

مجھے کہہ کر چڑیل اس نے صلیبوں پر چڑھایا تھا

یہ مجرم ہے! یہ مجرم تھا! یہ مجرم ہے،  یہ مجرم تھا

            شاعر نے مذکورہ سبق میں ان بے بس عورتوں کی تصویر کشی کی ہے جن کی حیثیت اس دنیا میں حشرات الارض سے زیادہ نہ تھی اور نہ ہے وہ بے وقعت ،  بے بس و مظلوم عورتیں تھیں جنھیں سفاک اور درندہ صفت سردارِ جرگہ نے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھایا تھا۔

            افسوس گاؤں کا وڈیرا اپنے اعمال درست نہیں کرتا ہے، بلکہ غریب ہاریوں ، چرواہوں اور محنت کشوں کے گھروں میں جھانکنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے اور کم سے کم محنت کی اُجرت دے کر شکم کی آگ کو بھڑکا تا ہے، تاکہ مزید ایندھن گھر کے افراد کی شکل میں ڈالا جائے اور ہر شخص سے زیادہ سے زیادہ محنت لے اور جی چاہے تو غریب و بے سہارا بچیوں کی عزت کو تار تار کر دے اور اپنا عیب چھپانے کے لیے موت کے کنوئیں میں لٹکا دے یا کوئی الزام لگا کر اسے کاری کر دے۔ وہ اپنی من مانی کرنے کے لیے ہر طرح سے آزاد ہے، نہ اسے دنیاوی عزت و قانون کی فکر ہے اور نہ اسلامی قوانین اس کے کردار میں تبدیلی لانے کا باعث بنتے ہیں۔ چوں کہ وہ خوفِ خدا سے عاری ہے۔ ایک ایسی ہی کہانی، ایسی ہی داستان اس مظلوم و بے کس بچّی کی ہے ظلم کی داستان کو طشت از بام کرنے میں کہ اب خوف اور ڈر سے اس کا دور دور تک واسطہ نہیں رہا ہے۔

کہا تھا اہلِ قریہ سے، یہ غیرت کا تقاضا ہے

کہا تھا ان سے، یہ ظلمت کا، ذلت کا جنازہ ہے

نشانِ قبر کو میرے اسی سگ نے اکھاڑا تھا

مری معصومیت کے نقش کو اس نے مٹایا تھا

یہ اپنی بے ضمیری، بد نہادی کا اثاثہ ہے

یہ اپنے ظلم کا منہ بولتا، جیتا نمونہ ہے

            مجھے یہ سطور لکھتے ہوئے نہایت افسوس ہو رہا ہے کہ ہمارا ملک جو کہ اسلامی جمہوریۂ پاکستان ہے، اس ملک کی کسی حکومت نے قبائلی نظام اور وڈیرہ سسٹم کو بدلنے کی ذرّہ برابر کوشش نہیں کی، نتیجہ اس کا سامنے ہے، آج پورا ملک خون خرابے میں مبتلا ہے،  شہر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہاں بھی قوانین کی پاس داری نہیں کی جاتی، آج ہزاروں بلکہ لاکھوں قاتل آزاد گھوم رہے ہیں ،  ہزاروں گھرانے ان کے ظلم کی وجہ سے تاریک ہو گئے ہیں۔ شہر کے لوگ ہوں یا دیہات کے، قانون کی بالا دستی نہ ہونے کی وجہ سے جبر کی چکی میں پیس رہے ہیں۔ مفتی  صاحبان،  عالمِ دین،  مبلغِ دین ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کریں تو شاید حالات کچھ بہتر ہوں ، اللہ تعالیٰ روزِ قیامت، ہر شخص سے پوچھے گا کہ جب تم نورِ اسلام سے منور تھے تو تم نے یہ روشنی آگے تک کیوں نہیں پہنچائی؟ تم فہم القرآن سے لبریز تھے پھر سلامتی کے دین کو عام کیوں نہیں کیا؟

            جاگیر دار اور وڈیرے بھی انسان ہیں ، انہیں بھی اندھیروں سے نکالا جا سکتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی بساط اور صلاحیت کے مطابق کام کرنا ہو گا۔ تمام مسلمانوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل کرنا ہو گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح جناب فضاؔ اعظمی نے اپنا حق ادا کیا ہے۔

            تاریکی اور مایوسی کے باوجود امید کا دیا ٹمٹما رہا ہے۔ چوں کہ آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہ غریب کی دادرسی سنتے ہیں بلکہ ان کے نان نفقے کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور تھوڑی سی جو روشنی ہے انہی نیک لوگوں کے دم سے ہے۔

               عدالتِ بنتِ حواؑ

            فضاؔ اعظمی نے دنیا بھر کی عورتوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اور ان پر گزرنے والی قیامت سے بھی واقف ہیں۔ اس کے دکھوں اور اس کی دم توڑتی چیخوں نے ان کا کلیجہ چھلنی کر دیا ہے، عورت اوراس کے غم ناک پہلوؤں کو دیکھ کر، جو اس کے حصے میں آئے تھے۔ وہ دکھ اس نے سہ لیے ہیں ، آگ میں جل چکی ہے،  اس کی ہڈیاں راکھ میں ڈھل گئی ہیں ،  اس نے ہر طرح کا دکھ سہا ہے، وہ تڑپی ہے، سسکی ہے،  اور اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے، اس لیے کہ شاعر کو امید ہے کہ نئی دنیا ضرور آباد ہو گی اور اس دنیا میں عورت مرد سے گن گن کر بدلے گی، ہر زخم کا حساب کرے گی،  ہر زیادتی کے عوض بڑی سے بڑی سزا سنائے گی ،  کہ مرد اس سزا کا مستحق ہے، چوں کہ اسے لاچار جان کر اسے زندہ درگور کر دیا گیا تھا۔ وہ بے مراد،  اپنی خواہشات،  ارمان و تمنا کے جنازوں کے ساتھ دفنا دی گئی تھی۔

            لیکن فضاؔ اعظمی نے ایک ایسے وکیل کا کردار ادا کیا ہے جس کا کام مظلوموں کو انصاف اور ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے، تاکہ وہ دنیا کے لیے عبرت کی نگاہ بن جائیں۔ لوگ ان سے نفرت کریں ، اس کام کی تکمیل کے لیے انہوں نے عورت کو اس کے حقوق سے آگاہ کیا ہے ساتھ میں ، اللہ کے احکامات اور پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے آشنا کر دیا ہے کہ وہ بھی انسان ہے،  اشرف المخلوق ہے، انتقام لینے کی حق دار ہے اور یہ حق اسے اسلام نے بخشا ہے اور فیصلہ کیوں ہو گا؟ اس کی وجوہات بھی اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ

حقوقِ نوعِ انسانی کے مندرجات کی رو سے

رسولِؐ پاک کی معروف ترغیبات کی روسے

عوام الناس کے منجملہ احساسات کی رو سے

بیانِ استغاثہ اور الزامات کی رو سے

نئی دنیا کا انسان فیصلہ اپنا سنائے گا

ہزاروں سال کی تاریخ کے دھبے مٹائے گا

            اور پھر عدالت لگ گئی ہے اور یہ عدالت خواتین کی ہے جس میں جج بھی خاتون ہے، اور وکلاء بھی مستورات ہیں اور ملزمان کٹہرے میں سر جھکائے کھڑے ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے بھیانک جرائم کیے تھے۔ بنتِ حواؑ کو ایک بار نہیں بار بار سولی پر لٹکایا تھا۔ آگ میں جھونکا تھا۔ وہ روئی تھی،  سسکی تھی، لیکن ان کے پاس رحم نام کا کوئی جذبہ موجود نہیں تھا۔

            اس عدالت کا اہتمام بھی فضاؔ اعظمی کے ہی مرہونِ منت ہے کہ ان کا سینہ بھی خواتین کے غموں سے اس طرح زخمی ہوا تھا جس طرح خواتین کے دلوں پر سفاک انسان نے زخم لگائے تھے۔ لہٰذا اس عدالت کا جغرافیہ بھی سمجھا دیا گیا ہے۔

 خواتیں جلوہ فرما ہوں گی ایوانِ عدالت میں

یہ قائم ہو گی مجلس بنتِ آدمؑ کی قیادت میں

کٹہرے میں کھڑے ہوں گے شہنشاہانِ باسطوت

زنانِ دیدہ ور بیٹھیں گی کرسیِ صدارت میں

ذکور الناس کی قسمت کا حتمی فیصلہ ہو گا

رہے گا دوش کے اوپر کہ سَر تن سے جدا ہو گا

            یہ بات انسانی فطرت کے مطابق ہے کہ انسان جب تک کسی بھی شکل میں اپنے دشمن سے خود انتقام نہ لے یا پھر حکومتِ وقت اس کے جفا کار کو سزا نہ دے دے، اسے چین ہر گز نہیں آتا ہے۔ وہ بار بار یہ بات سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کا قصور کیا تھا؟ جو اتنی  دردناک اذیت سے دوچار کیا گیا ،  ایسے لوگ بے حد کم ہوتے ہیں کہ جو صبر کر کے بیٹھ جائیں یا اس بات پر راضی بہ رضا رہیں کہ ان پر ہونے والی زیادتی کا بدلہ اللہ تعالیٰ لے گا۔ لیکن اس عدالت میں جو صدیوں بعد وجود میں آئی ہے، بدلہ لے لیا گیا ہے کہ شاعر کو روحانی سکون میسر نہ تھا۔

لگائے جائیں گے درّے برہنہ پشت کے اوپر

نچایا جائے گا اس کو سلگتی شاہراہوں پر

کیا جائے گا اس کو قتل غیرت کے بہانے سے

جلایا جائے گا اس کو چتاؤں کی سلاخوں پر

وہ سارے ظلم جو اس نے کیے ہیں ذاتِ عورت پر

کئے جائیں گے وہ سارے اب اس حیوان کے اوپر

            کاش مجرموں کو ان کے کیے کی سزا مل سکے اور وہ اپنے عبرت ناک انجام کو ضرور پہنچیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے وطن میں ملزموں کے لیے فرار کی راہیں کھول دی گئی ہیں اور اسلامی و معاشرتی سزاؤ ں کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ اسی غیر منصفانہ رویے کی وجہ سے معاشرے کا سکون و چین غارت ہو چکا ہے۔

            لیکن صاحبِ بصیرت اور اہلِ علم سماج کے ناسوروں کو کاٹ کر پھینک دینا چاہتے ہیں۔ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے خواہش مند ہیں جہاں امن اور آشتی ہو۔ عورت کا وقار مجروح نہ ہو۔ اسی مقصد کے لیے شاعر نے عورت کو حوصلہ دیا ہے اور اس کے آنسو پوچھنے کی سعی کی ہے کہ ان کے قلم میں بڑی توانائی ہے اور قلم کی آواز میں زندہ ضمیر کی صدا سنائی دیتی ہے۔

’’صدا یہ عرش سے آئی‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘

            ’’صدا یہ عرش سے آئی‘‘، اس باب کے اشعار پڑھتے ہوئے علامہ اقبالؔ کی نظم ’’شکوہ جوابِ شکوہ‘‘ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جب علامہ اقبالؔ نے انسانوں کی طرف سے اللہ سے شکوہ کیا تو ان پر کفر کا فتویٰ لگا دیا گیا، لیکن انھوں نے لوگوں کے اعتراضات اور کج فہمی کو دور کرنے کے لیے جوابِ شکوہ لکھی اپنی نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ لکھی تو مفتی حضرات اور معترضین کی سمجھ میں بات آ گئی کہ علامہ اقبالؔ کہنا کیا چاہتے ہیں اور قوم کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟

            ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں علامہ اقبالؔ نے مسلمانوں کی کم زوریوں ،  بد اعمالیوں اور کوتاہ بینی ،  اپنے فرائض سے چشم پوشی،  اسلامی تعلیم سے غفلت کے نتیجے میں ہونے والے مسائل کی وضاحت کی ہے۔ ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا پیغام اسلامی تعلیمات پر ہی مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بارہا قرآنِ پاک میں انسان کی کو تاہ بینی اور اس کی خامیوں کا ذکر کیا ہے۔ کہیں اسے جلد باز کہا گیا ہے، کہیں جھگڑالو، کہیں نا شکرا، اور کہیں یہ کہا گیا :

’’بے شک انسان خسارے میں ہے۔ ‘‘

                                                (القرآن۔۔سورۃ العصر)

            اور اس کے برے اعمال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پورے قرآنِ پاک میں اللہ کا مخاطب انسان ہے اور انسان کو اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تسخیرِ کائنات کا حکم بھی دیا گیا ہے کہ یہ سورج،  چاند، ستارے،  سمندر،  پہاڑ،  دریا سب تمہارے فائدے کے لیے بنائے گئے ہیں ، پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

            قرآنِ پاک کی ’’سورۂ رحمن میں ۲۷‘‘ نعمتوں کا ذکر ملتا ہے جس سے انسان فائدہ حاصل کرتا ہے۔ جوشؔ ملیح آبادی نے اپنی نظم سورۂ رحمن(ایک تاثر) کے حوالے سے جو اشعار تخلیق کیے ہیں ، ان میں دنیا کے حسین مناظر واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

یہ سحر کا حسن،  یہ سیارگاں اور یہ فضا

یہ معطر باغ،  یہ سبزہ،  یہ کلیاں دل ربا

یہ بیاباں ،  یہ کھلے میدان،  یہ ٹھنڈی ہوا

سوچ تو کیا کیا ،  کیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا

کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا

            فضاؔ اعظمی کہتے ہیں :

سمندر کا عمق تھا،  بیابانوں کی وسعت تھی

چمک و انجم کی،  والیل کی اتمام ظلمت تھی

تلاطم موجِ دریا کا،  توقف سنگِ خارا کی

بلندی آسمانوں کی،  پر افشائی عقابوں کی

صدف کے قلبِ مضطر کی یتیمی اور بے آبی

خزاں پروردہ گلشن کی اداسی اور تاراجی

            علامہ اقبالؔ نے حضرتِ انسان کی ناکامیوں اور خامیوں کا پردہ کس قدر خوب صورتی اور انفرادیت کے ساتھ چاک کیا ہے۔ وہ جوابِ شکوہ میں انسان کی کم علمیت کی نشان دہی اس طرح کر رہے ہیں۔

عالمِ کیف ہے دانائے رموز کم ہے

ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو

بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

شکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تو نے

ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے رہروِ منزل ہی نہیں

تربیت عام تو ہے،  جوہرِ قابل ہی نہیں

جس سے تعمیر ہو آدم کی،  یہ وہ گل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں ،  الحاد سے دل خوگر ہیں

اُمتی باعثِ رسوائیِ پیغمبر ہیں

            فضاؔ اعظمی بھی انسانوں پر اللہ کی مہربانیوں اور عنایتوں کو یاد دلا رہے ہیں۔

صدا یہ عرش سے آئی کہ اے ناکام انسانو!

تم اپنے ظرف کی کم مائیگی کا مرض پہچانو!

ملا تھا تم کو میدانِ عمل زرخیز و بے پایاں

کہ تم تخلیقِ انسانی کے امکانات کو جانو!

تمہیں آزادیِ فکر و نظر حق نے عطا کی تھی

برائے عقل و دانش ایک لامحدود دنیا تھی

ہوا کی تیز گامی اور طوفانوں کی بے تابی

سکوں ساحل کا قعرِ بحر کا ہیجان و طغیانی

خلا میں تیرتے اجسام کی راہوں کی پابندی

شعاعِ مہر سے ذرّات کے مرکز کی سیرابی

رگِ آبِ رواں میں اہتمامِ کہربا سازی

تغیر کی جہاں گیری، تبدل کی جہان بانی

            فضاؔ اعظمی کی نظم ’’صدا عرش سے آئی‘‘ اور علامہ اقبالؔ کی نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے مفہوم اور نفسِ مضمون ایک ہی ہے۔ علامہ اقبالؔ انسان کی خامیوں اور کوتاہیوں کو اس انداز میں شاعری کی نذر کرتے ہیں۔

بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن،  تم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن،  تم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے

کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے

صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟

نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟

میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے

میرے قرآن کو سینے سے لگایا کس نے

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی،  مگر تم کیا ہو

ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

            اللہ کی مہربانیوں ، کرم نوازیوں ، احسانات اور بندوں کی کم فہمی، جہالت اور عیش پرستی کو علامہ اقبالؔ جیسے عظیم شاعر و مفکر نے بے حد نفاست و درد مندی اسلامی فریضہ و دینی شعور کے ساتھ اشعار کے قالب میں سمو دیا ہے جو نظم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور ہمیں ہماری کوتاہیوں ، غلطیوں اور تساہل پسندی کا احساس دلا رہی ہے کہ جب مسلمان ایک عظیم قوم تھے، اقوامِ عالم پر اس کا رعب و دبدبہ تھا، علوم و فنون، طب و سائنس، غرض ہر شعبے میں اس کا سکہ بیٹھا ہوا تھا۔ ان کی کام یابی و کامرانی،  ان کے بلند مقاصد اور محنت و لگن کا نتیجہ تھی، لیکن آج قوم اگر زوال پذیر ہے تو اس کے اپنے کرتوت ہیں۔ اس میں کچھ کرنے کا جذبہ ہی مفقود ہو گیا ہے۔ اب وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کو اپنا حق تصور نہیں کرتی ہے۔ اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی بجائے وہ مغرب کی آزادانہ روش پر گامزن ہے اور اپنے تمام حقوق و فرائض سے دست بردار ہو جانا چاہتی ہے۔

            فضاؔ اعظمی نے ابھی انہی حالات کے پس منظر میں سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی کوشش اور ان کی حالتِ زار پر گہرا طنز کیا ہے۔

نہ ماضی کی حقیقت ہے، نہ مستقبل کی وقعت ہے

نہ حاضر ہے، نہ غائب ہے، محض فکری جسارت ہے

نہ قطرہ ہے نہ دریا ہے نہ یم ہے اور نہ ساگر ہے

نہ ذرہ ہے نہ تودہ ہے، نہ کوہِ دیو قامت ہے

یہ بس اک مرحلہ ہے، سلسلہ ہے، اک روانی ہے

بکھر جائے تو ذرّہ ہے، پگھل جائے تو پانی ہے

اور علامہ اقبالؔ نے کہا :

عہدِ نو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے

ایمن اس سے کوئی صحرا، نہ کوئی گلشن ہے

اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے

ملتِ ختم رُسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

            علامہ اقبالؔ نے بھٹکی ہوئی قوم کو امید دلائی اور راہِ صراط دکھانے کے ساتھ کام یابی حاصل کرنے کا گُر بھی بتایا ہے کہ وہ کیا طریقہ اختیار کرے کہ جس کی وجہ سے ظلمت کا اندھیرا ختم ہو اور اسلام کی روشنی ہر سو پھیل جائے۔

ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا

نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تیری

میرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تیری

ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تیری

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تیری

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

            فضاؔ اعظمی کے افکار میں بھی اسلامی سوچ پنہاں ہے۔ وہ انسانوں کی کم زوریوں ، ان کی خامیوں کو دور کرنے اور کام یابی کے در وا کرنے کے لیے مخلصانہ مشوروں سے نواز رہے ہیں ، اس لیے کہ وہ اس دنیا کو، جہاں ظلم و بربریت کا طوفان آ گیا ہے، امن کی روشنی سے منور دیکھنا چاہتے ہیں۔

            فضاؔ اعظمی بھی فہم و ادراک رکھتے ہیں۔ وہ ذلت کی دلدل میں پھنسی ہوئی قوم میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہیں اور سعیِ مسلسل کا پیغام دے رہے ہیں۔

تو اس دنیا کے اندر برتری کی جستجو کرنا

بوصفِ قد و قامت، بہتری کی آرزو کرنا

بنائے جنس پر توقیر و عظمت کی ہوس کیشی

بفیضِ رنگ و صورت ادّعائے آبرو کرنا

رضائے آسمانی، مقتضائے آفرینش کے منافی ہے

نظام و اہتمام آفرینش کے منافی ہے

            جناب فضاؔ اعظمی کی کتاب’’ خاک میں صورتیں ‘‘ قاری کے لیے تحریک پیدا کرتی ہے، سوچنے کی، غور کرنے کی اور یہ بات میں نہایت یقین کے ساتھ کہہ رہی ہوں کہ کتاب کا مطالعہ قاری کے علم و شعور میں اضافے کا باعث ہو گا۔

            فضاؔ اعظمی کی شاعری اپنے قارئین کو دعوتِ فکر دے رہی ہے کہ وہ سوچیں کہ آئندہ ہمارا لائحہ عمل بہ حیثیت مسلمان اور ایک پاکستانی کے کیا ہونا چاہیے؟

            جناب سید مرتضیٰ موسوی کے مضمون ’’افکار نادر کی شعری نمود ‘‘ سے چند سطور’’ فضاؔ اعظمی صاحب نے جس موضوعاتی اور فکری شاعری کے میدان کو فکرِ سخن کی جولاں گاہ قرار دیا ہے، اس پر اس مصرعے کا اطلاق ہوتا ہے:

’’یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں ‘‘

            جو سفر شاعر، محبوب اور فلسفی، کرسی نامۂ پاکستان، مرثیۂ مرگِ ضمیر، عذابِ ہمسائیگی، آوازِ شکستگی سے ہوتے ہوئے اب ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کی پیش کش کے مرحلے میں ہے، وہ فضاؔ اعظمی صاحب کی تخلیقی شعری صلاحیت اور استعدادِ سخن سرائی کا بین ثبوت ہے، مقصدیت سے بھرپور چودہ موضوعات کو ۲۶۴ بند میں جامۂ نظم دے کر فضاؔ اعظمی صاحب نے اپنی فکری پیش رفت کا مظاہرہ کیا ہے۔ فضاؔ اعظمی صاحب کی موضوعاتی شاعری فی الواقع ہمارے زوال پذیر اقدار سے احتراز کی ایک شعوری کوشش ہے۔ ‘‘

            فضاؔ اعظمی صاحب نے معاشرے کے دکھ درد بے انصافی، خواتین کا استحصال ان پر ظلم و بربریت کو شاعری کا پیکر عطا کیا ہے اور بہ حیثیت ایک سچے مسلمان کے اپنا حق ادا کیا ہے۔ چوں کہ دنیا کا جو منصب ہے وہ اسی کے تحت اپنے دنیاوی و دنیوی امور بہ خوبی انجام دے سکتا ہے۔ فضاؔ اعظمی ایک تخلیق کار ہیں جنہوں نے اپنی تخلیق کے ذریعہ اپنا مذہبی فریضہ سر انجام دیا ہے اور ساتھ میں معلمین و مبلغین کو بے حد درد مندی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ صدا لگائی ہے کہ وہ خواب غفلت سے جاگ جائیں۔ وہ شعری آہنگ میں حیرت اور دکھ کے اظہار کے ساتھ ان کے فرائضِ منصبی سے انھیں آگاہ کر رہے ہیں کہ وہ روایت اور رسم و رواج کے بتوں کو اپنے علم کی طاقت سے ریزہ ریزہ کر دیں اور وہ کتاب (قرآنِ پاک) پڑھیں جو مکمل ضابطہِ حیات ہے۔

کہاں ہیں محرمانِ حق؟ کہاں ہیں عالمانِ دین

کہاں ہیں رہبر انِ دور اندیش و خلوص آگیں

کہاں ہیں پاس دارانِ وقار منبر و مسجد

کہاں ہیں درس گاہِ علم و آگاہی کے خوشہ چیں

کہو ان سے پڑھیں قرآن کو احکام کو سمجھیں

اشارہ کس طرف جانے کا ہے پیغام کو سمجھیں

            آخر میں ، میں اپنی اس رائے کا اعادہ کرنا چاہوں گی کہ عورت کے موضوع پر اتنی جامع اور مکمل نظم اُردو ادب میں نہیں لکھی گئی ہے اور میری تحقیق کے مطابق دنیا کی بڑی زبانوں ، انگریزی، فارسی، عربی، ہندی، میں بھی موجود نہیں ہے۔ اس لحاظ سے فضاؔ اعظمی لائقِ تہنیت ہیں کہ انھوں نے اوّلیت کا یہ سہرا اُردو ادب کے سر باندھا ہے۔

            فضاؔ اعظمی صاحب کی شاعری کے بارے میں مختلف ناقدین نے آراء پیش کی ہیں اور تقریباً سب کا ہی نقطۂ نظر ایک ہے کہ فضاؔ اعظمی کی شاعری میں انفرادیت اور انسانیت کا سبق پنہاں ہے۔

            ڈاکٹر انور سدید ان کی شاعری خاص طور پر کتاب ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔ مضمون کا عنوان ہے ’’مزاحمتی شاعری کا نیا انداز‘‘

            ’’فضاؔ اعظمی کی طویل نظم’’ خاک میں صورتیں ‘‘ چودہ مختلف المدارج ابواب پر مشتمل ہے۔ اقبالؔ،  ملٹن اور نیاز فتح پوری کے تصورات کی توسیع قرار دی جا سکتی ہے۔ چناں چہ انہوں نے اس نظم کا پہلا باب حسنِ کائنات سے موسوم کیا ہے اور اس شاہکارِ کائنات کی تحسین اپنے انفرادی رنگ میں کی ہے۔

            فضاؔ اعظمی کی ’’مسدس‘‘ کی ہیئت میں طویل نظم ۲۶۴بندوں پر مشتمل ہے، اس کا موضوع ایک نقطہ ہے، جس کے گرد ہر بند ان کے تصورات اس کا موضوعی اور معروضی دائرہ بنتا ہے اور زمان و مکان کا سفر طے کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کی اوّل الذکر پانچ طویل نظموں میں موضوعات کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔ ’’ خاک میں صورتیں ‘‘ اس پھیلاؤ کے برعکس ارتکازِ فکر کی آئینہ دار ہے،  لیکن تسلیم کرنا پڑے گا کہ انہوں نے اس نازک موضوع کی گتھیوں کو تحملِ اظہار سے سلجھایا ہے اور شوکتِ الفاظ، لفظ و معنی کی نئی رشتہ بندی کی ہے۔ مجھے یہ نظم پڑھتے ہوئے میرا نیسؔ کی روانی اور جوشؔ ملیح آبادی کی عبارت آرائی بے اختیار یاد آئی،  لیکن واضح رہے یہ مماثلت خارجی نہیں بلکہ تمام تر داخلی ہے اور فضاؔ اعظمی کی شعری تخلیقیت اور انفرادیت کی غماز ہے۔ ‘‘

             ممتاز نقاد پروفیسر فتح محمد ملک نے اس طرح روشنی ڈالی ہے:

            ’’مسدس اور ہیئت ہر دو اعتبار سے ان کی شاعری کا رشتہ حالیؔ کے مسدس اور اقبالؔ کے شکوہ، جوابِ شکوہ سے زیادہ پائندہ ہے۔ طویل مقصدی نظم ’’خاک میں صورتیں ‘‘ مولانا الطاف حسین حالیؔ کی اصلاحی اور احیائی شاعری کا فیضان نمایاں ہے۔ یہ مماثلت صرف مسدس کی ہیئت تک محدود نہیں ، شاعر کے طرزِ فکر و احساس کی بدولت دل و دماغ میں مدو جزرِ اسلام کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ‘‘

            سید محمد ابوالخیر کشفی فضاؔ اعظمی کی صلاحیتوں کا اس طرح اعتراف کر رہے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں جو شاعر ہمارے ادبی منظر پر چھا گئے ہیں اور ان کے کارناموں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کیا، ان میں فضاؔ اعظمی کا نام بہت نمایاں ہے۔ فضاؔ اعظمی مقصدی شاعری کے نمائندہ ہیں ، میرے علم کی حد تک کوئی ایسا شاعر نہیں ہے جس نے اتنی طویل اور موضوعاتی نظمیں لکھی ہوں۔ وہ اپنے ہر موضوع کے اطراف و جوانب پر نظر رکھتے ہیں۔

            فضاؔ اعظمی صاحب نے تاریخ انسانی کے پورے دورانیے میں مختلف تہذیبوں میں عورت پر بیتنے والے حالات و اقعات کو شاعرانہ زبان دی ہے۔ ‘‘

            جسٹس (ر) ماجدہ رضوی صاحبہ ’’خاک میں صورتیں ‘‘ کے حوالے سے فرماتی ہیں کہ مصنف نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ طلوعِ اسلام سے قبل مختلف ادوار میں عورت کو محکوم بنا کر رکھا جاتا تھا اور اسلام کی روشنی پھیلنے کے بعد حالات کس طرح بدل گئے کہ عورت مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہو گئی اور اسے وراثت کے حقوق بھی مل گئے۔ اسلام نے اسے اتنا بلند درجہ دیا کہ ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے‘‘ کا مژدہ سنایا گیا، مصنف نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ مغرب کی نقالی میں عورت اس بلند مرتبے سے محروم نہ ہو جائے جو اسلام نے اسے دیا ہے۔ صفحہ ۱۴۳ پر ’’فیصلہ‘‘ کے عنوان سے جو کچھ لکھا گیا ہے، میری دعا ہے کہ وہ صحیح ثابت ہو، یہ شاعر کا خواب ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ فضاؔ اعظمی نے اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے۔ ‘‘

            معروف فلسفی اور دانش ور جناب ڈاکٹر منظور احمد کی یہ رائے بہت اہمیت کی حامل ہے اور دل چسپ بھی ہے کہ فضاؔ اعظمی کی یہ کتاب ’’خاک میں صورتیں ‘‘ بڑے موثر پیرائے میں موجودہ معاشرے کے ان تمام مسائل کا نہ صرف یہ کہ پُر اثر جائزہ ہے بلکہ اس کے ہر شعر میں وہ فکر کار فرما ہے جو اسلام کی ایک انقلابی اور ترقی پسند فکر تھی، لیکن مسلمانوں کی عمومی جہالت نے اس کو اب بھی قرونِ اول اور وسطیٰ کے کلیسائی تصورات کا اسیر بنا رکھا ہے جو معاشرتی استحصال کے لیے ہمارے با اثر لوگ استعمال کرتے ہیں۔

            مجھے اس وقت اقبالؔ کا ایک بڑا پیش پا افتادہ سا شعر یاد آ رہا ہے   ؎

مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن

اس کی کوکھ سے پھوٹا شرارِ افلاطون

            مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسلامی فکر اگرچہ فلسفۂ اقبالؔ میں ایک ترقی یافتہ شکل میں ظاہر ہوتی ہے، لیکن اقبالؔ بھی شاید اسی کے قائل تھے کہ صنفِ نازک، مکالماتِ افلاطون، نہیں لکھ سکتی اور اس کا اصل کام افلاطونوں کو دودھ پلانا اور ان کی پرورش کرنا ہے۔ آج کی فکر، جس میں فضاؔ اعظمی صاحب شامل ہیں ، اس بات کی قائل معلوم ہوتی ہے کہ عورت اس بات کی بھی صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ خود مکالماتِ افلاطون لکھ سکے۔ اس صورت میں کہ افلاطون باورچی خانہ سنبھالے اور گھر کے کام کاج کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ عورت کی صلاحیت کی کمی خلقی نہیں ہے بلکہ معاشرتی عوامل سے متعین ہوئی ہے اور اگر یہ عوامل تبدیل ہو جائیں تو فکری طور پر مرد و زن میں کوئی نوعی فرق باقی نہیں رہتا۔ فضاؔ اعظمی صاحب مبارک باد کے بھی مستحق ہیں اور مسلمانوں کے شکریے کے بھی کہ انہوں نے تیزی سے بدلتے ہوئے زمانے میں اس اہم موضوع پر ایک نہایت پُر اثر نظم لکھی ہے اور گویا ان بہت سارے لوگوں کے منہ میں زبان رکھ دی ہے جو اس بات کو سوچتے اور سمجھتے ہیں لیکن اس کے پُر اثر اظہار پر قدرت نہیں رکھتے۔

            فضاؔ اعظمی نے سفاک قاتلوں کا بھیانک چہرہ اپنے شعرو سخن کے حوالے سے اپنے قارئین اور حکومت کے اہم ترین لوگوں کو دکھایا ہے کہ وہ دیکھیں اور انصاف کریں ، لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ صاحبِ اختیار خصوصاً ہماری پولیس کے اعلیٰ افسران بھی ان وڈیروں کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ، ان کے اسی غیر منصفانہ رویے نے گوٹھ اور دیہات کے ماحول میں عدم تحفظ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ کوئی عورت اور نوجوان لڑکے لڑکیاں محفوظ نہیں ہیں۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے فائدے کے لیے بوڑھے اور بزرگ لوگوں کو بھی کا رو کر دیا جاتا ہے۔ قانون کے محافظ اس وقت بھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کہ سفارش اور دولت میں بڑی طاقت ہے، لیکن سب سے بڑی طاقت رکھنے والے سے وہ ہر گز نہیں ڈرتے ہیں ، نہ انہیں عذاب و قہر اور نہ میدانِ حشر ڈراتا ہے کہ جب فیصلہ سنایا جائے گا اور اعمال نامے دائیں اور بائیں ہاتھ میں تھما دیئے جائیں اور جب بھڑکتی ہوئی آگ نافرمانوں کو بھسم کرنے کے لیے آگے بڑھتی چلی آئے گی۔

            شاعر کی بصیرت و بصارت ظلم کے اندھیروں کو اچھی طرح دیکھتی ہے اور دکھ کے شبستانوں میں نوحہ کناں ہے۔ پھر یہ غم کی تاریک رات صفحۂ قرطاس پر اُتر جاتی ہے۔ طوفانی لہریں الفاظ کا روپ دھار لیتی ہیں اور الفاظ قلم سے نکل کر شاعری کے لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں ، ہر لفظ رو رو کر اپنا حالِ دل سنا تا ہے۔ قلم سیاہی کی بجائے خونِ دل سے داستانِ الم لکھتا ہے کہ ہر لہو مظلوموں اور بے کسوں کا ہے ا ور تخلیق کار کا اپنا لہو بھی اس میں شامل ہو گیا ہے کہ تخلیق کے باغ کو لہو سے سینچنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ شاعر نے خون سے جو تصویر کشی کی ہے، عورت کی حقیقت مرد کی نگاہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

نگاہِ مردماں میں وہ فقط جنسی علامت ہے

نہ اس کے من کی قیمت ہے،  نہ اس کا تن سلامت ہے

بھرے بازار میں اور اشتہاروں میں وہ بکتی ہے

برائے مردمانِ ہوش وہ مالِ تجارت ہے

وہ مغرب ہو کہ مشرق ہو، اسے ناشاد ہونا ہے

بہانہ کوئی ہو، ہر حال میں برباد ہونا ہے

کوئی تہذیب ہو دنیا میں ، گالی ہے تو اس سے ہے

مغلظ ذہنیت کی بد خیالی ہے تو اس سے ہے

            اس تناظر میں فضاؔ اعظمی کا یہ سوال:

بتا کہ تو نے یہ تصویر جب بنائی تھی

 ترے قلم میں لہو تھا کہ روشنائی تھی

             محض ایک شاعرانہ خیال نہیں ہے بلکہ ان کے لہو لہان دل کی غمازی کرتا ہے اور لائقِ صد داد و تحسین ہے۔ اربابِ حل و عقد ہوں کہ اہالیانِ امتیاز نظم کو افضلیت اور پذیرائی کا وہ مرتبہ عطا کریں جو اس کا حق ہے۔ خود پڑھیں اور دوسروں کو پڑھنے کی تلقین کریں۔

٭٭٭

استفادۂ کتب

            ۱۔         قصص الانبیاء

            ۲۔        عورت مذہب، فلسفہ، تاریخ کی نظر میں                     پروفیسر اورنگ زیب

            ۳۔        جدید اردو ادب                                                   پروفیسر ابواللیث صدیقی

            ۴۔        کلیاتِ اقبال

            ۵۔        کلیاتِ اکبر الہ آبادی

            ۶۔        نصابی کتب

            ۷۔        دانائے راز                                                         پروفیسر ضیاء الدین احمد

            ۸۔        خطبات حضرت عمرؓ                                              ترتیب: سعدیہ عاصم

            ۹۔         حضرت عثمانؓ                                                      ترتیب: سعدیہ عاصم

            ۱۰۔       تاریخِ زبان و ادبِ اُردو                                         مصنف: پرفیسر جمیل احمد انجم

٭٭٭

 

نسیم انجم

تعلیم                 :                       ایم۔ اے، بی۔ ایڈ

پیشہ                  :                       درس و تدریس، صحافت

            مطبوعہ تصانیف

۱۔         دھوپ چھاؤں                 (افسانے)

۲۔        کائنات                          (ناول)

۳۔        آج کا انسان                    (افسانے)

۴۔        نرک                                        (ناول)

۵۔        پتوار                                         (ناول)

۶۔        گلاب فن اور دوسرے افسانے       (افسانے)

۷۔        کالم نگاری 2000ء سے تا حال

(روزنامہ ایکسپریس، ’’سا ختہ بے ساختہ‘‘ کے عنوان سے)

۸۔        ڈرامے (ریڈیو پاکستان پر 1984ء سے 2007ء تک)

۹۔         خاک میں صورتیں اور اُردو شاعری میں تصورِ زن

            زیر ترتیب :

۱۔         مضامین کا مجموعہ

۲۔        دو ناول

۳۔        کالموں کا مجموعہ

٭٭٭

تشکر: یوسفِ ثانی، جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید