FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

اُردو شاعری اور شعرائے حال

 

 

 

               دیا نرائن نگم

 

ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال

مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت

 

 

 

 

 

اُردو کی ہر دل عزیزی کا ایک بین ثبوت ہے کہ اس کے اہلِ کمال ملک کے اطراف و جوانب میں پھیلے ہوئے ہیں ، چنانچہ آسمانِ شاعری کا دوسرا روشن ستارہ اس وقت پنجاب میں چمک رہا ہے۔ اقبال سیال کوٹ کے رہنے والے ہیں ، بزرگوں کا وطن کشمیر تھا۔ آپ کے خاندان نے (جو سپرو تھے) دو سو سال ہوئے ایک بزرگ فقیر کی عقیدت مندی میں اسلام قبول کیا۔ (۱)

ڈاکٹر اقبال فلسفہ کے ایک زبردست عالم ہیں اور غیر ممالک میں بھی عرصہ تک رہ کر اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ آپ کو ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری ملی ہے۔ عربی، فارسی اور یورپین فلسفہ میں عبور ہونے کے علاوہ سنسکرت کے بھی آپ فاضل ہیں۔ آپ نے ایک دفعہ ایک دوست سے کہا کہ سنسکرت اور فلسفہ کے مطالعہ نے مجھے روحانی شانتی کے معنی سمجھا دیئے ہیں۔ اور اب مجھ میں تعصب اور تنگ نظری کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اقبال کو فطرت سے ایک دردمند دل ملا ہے۔ عرصہ ہوا مولانا شبلی نے فرمایا تھا کہ جب آزاد اور حالی کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبال کو ڈھونڈیں گے، یہ پیشین گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ہے۔ اقبال کو طالب علمی ہی کے زمانہ سے شعر گوئی کا شوق تھا، چنانچہ انٹرنس پاس کرنے کے بعد آپ نے بذریعہ خط و کتابت حضرت داغ سے اصلاحِ سخن لینا شروع کر دی۔ اسی سال ان کی شادی ہو گئی، لیکن یہ خوش قسمت ثابت نہ ہوئی جس سے طبیعت کی شگفتگی اداسی سے بدل گئی۔ اُنہیں دِنوں ایک دوست کا انتقال بھی ہو گیا۔ اس نے دلی رنج کو اور گہرا کر دیا اور یہ درد بن کر اشعار سے ٹپکنے لگا اور آپ کے کلام میں وہ گداز پیدا ہو گیا جو شاعری کی جان ہے۔ فلسفہ کی بدولت نظر میں غیر معمولی وسعت پیدا ہو گئی۔

سب سے پہلی غزل(۲) جو آپ نے لاہور کے ایک مشاعرہ میں پڑھی، اس کا مطلع یہ تھا:

تم آزماؤ ہاں کو زباں سے نکال کے

یہ صدقے ہو گی میرے سوالِ وصال کے

مطلع کا پڑھنا تھا کہ سخن فہم اصحاب نوجوان شاعر کی طرف مخاطب(۳) ہو گئے اور اقبال نے پوری غزل سنا کر دادِ سخن لی۔ اس کے دو اشعار آپ بھی سن کر محظوظ ہوں :

 

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے

قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

اقبال لکھنؤ سے نہ دِلّی سے ہے غرض

ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے(۴)

 

اس کے بعد ۱۸۹۹ء میں آپ نے ’’نالۂ یتیم‘‘ کے نام سے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ میں ایک دلگداز نظم پڑھی جو بہت پسند کی گئی۔ پھر آپ کی نظمیں ملک کے ادبی رسالوں میں چھپنے لگیں۔ خدنگِ نظر، مخزن، زمانہ وغیرہ میں آپ کا کلام قدر کے ساتھ شائع ہونے لگا۔ ابتدا میں اقبال کے کلام میں زبان کی اکثر غلطیاں رہ جاتی تھیں اور اُردوئے معلی کی اولین جلدیں اُن اعتراضات سے بھری پڑی ہیں۔ مگر اقبال نے نکتہ چینی سے فائدہ اُٹھایا اور آج اُردو کے بہترین قومی شاعر کی حیثیت سے ان کا سکہ دلوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ والا قومی گیت آپ ہی کے فکر رسا کا نتیجہ ہے۔ اکبر اگر اس زمانہ کے لسان العصر ہیں تو اقبال قوم کے صحیح ترجمان۔ قومی جذبات کو ادا کرنا اُنہیں کا حصہ ہے۔ خیالات میں گہرائی، بیاں میں گداز، نگاہ میں وسعت جو ان کے کلام میں پائی جاتی ہے اور کہیں نہیں ملتی۔ ان کے اشعار پڑھ کر شاعر اور ناظم کا فرق صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے انکی تشبیہات اوریجنل اور اُنکا تخیل اعلی اور شُستہ ان کے استعارات نازک اور بلیغ ہوتے ہیں۔ اشعار پُر معنی اور پُر مضمون ہوتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کا دِل مناظرِ قدرت اور حالات قوم کو دیکھ کر اُمنڈنے لگتا ہے، اور اس کے نالے اشعار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اقبال حسن کا عاشق کامل ہے مگر اس کا عشق معصومانہ ہے۔ وہ ادنیٰ جذبات سے ملوث نہیں ہوتا۔ ع

بے لوث ہے جوں نکہتِ گل اس کی جوانی(۵)

حالانکہ ہر وقت مستی اور خود فراموشی طاری رہتی ہے۔ معمولی مناظر سے اس کے اثر پذیر دل میں خیالات کا تلاطم پیدا ہونے لگتا ہے اور نالۂ دل موزوں ہو جاتا ہے۔ رات سے مخاطب ہو کر وہ خود کہتا ہے:

 

میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں

چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں

 

دن کی شورش میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں

عزلتِ شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں

 

مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سناؤں کس کو

تپش شوق کا نظارہ دِکھاؤں کس کو

 

برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے

دیکھنے والی ہے جو آنکھ کہاں سوتی ہے

 

صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری

آہ اے رات بڑی دور ہے  منزل میری

 

عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے مجھ کو

اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے مجھ کو(۶)

 

ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں

تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں (۷)

 

اقبال کا کلام قوم کے سنجیدہ اور فلسفیانہ تخیلات کا عکس ہے۔ قوم کی موجودہ پستی ہر وقت بے چین اور بیقرار کیے رہتی ہے اور اُس کی حالت بالکل ایک اجڑے ہوئے گلستان کے بلبل نالاں کی سی ہے۔ اس کی آزردگی قوم کی روحانی پستی کے باعث ہے۔ اُسے قوم کی اخلاقی ترقی کی فکر دامنگیر رہتی ہے۔ حسنِ ازل کے عاشق کی حیثیت سے وہ زندگی میں ازلی حسن اور ابدی تکمیل کی جھلک دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ اخلاق کے Beauty and Perfection اعلیٰ ترین معیار پر عام عمل درآمد کا آرزومند ہے۔ وہ قوم میں خود داری کا احساس پیدا کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ خود اس کے دل میں خود داری کا سکہ بیٹھا ہوا ہے۔ اقبال دُنیا اور دُنیا والوں کی خامیوں سے اس درجہ متاثر ہے کہ ملک کا اور کوئی دوسرا شاعر نہیں ہے۔ اس کا کلام روح کی کشمکش کا ایک ثبوت ہے:

روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس

ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے وہ مثلِ جرس(۸)

اکبر اور اقبال کی شاعری کی دُنیا ایک دوسرے سے بالکل جدا اور نرالی ہے۔ اکبر قومی معاشرت کا مصلح اور اقبال روحانی شانتی کا منّاد ہے۔ اکبر مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کا مضحکہ اڑاتا ہے، وہ ہنسی ہنسی میں تنبیہ کرتا ہے تاکہ ہمارے طرزِ معاشرت اور تہذیب کا اصلی اور وطنی جوہر مفقود نہ ہونے پائے۔ وہ محبِ وطن ہے اور جب دیکھتا ہے کہ قومی معاشرت اصلیت اور مشرقیت سے خالی ہو رہی ہے تو کراہنے لگتا ہے۔ اکبر کی تمام عمر اسی کوشش میں گزری ہے کہ ہمارے جسدِ قومی پر مغربیت کا ملمع نہ چڑھنے پائے۔ وہ محکومیت کی ذلت کو محسوس کرتا ہے، اس لیے کہ اُن سے غلط معیارِ زندگی کو نمود حاصل ہو جاتی ہے۔ وہ غیر ملکی اثرات ناقص کے خلاف جدوجہد میں مصروف پیکار رہتا ہے۔ اور گو مغرب کے بہترین اوصاف جذب کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم دل پر مشرقی اوصاف اور قومی ڈھانچے میں ہندی وضع قطع کے سوا اور کسی کو دخل دلانا نہیں چاہتا۔ اقبال کا نقطۂ(۸) خیال اس سے بھی بلند ہے۔ اس کی دُنیائے شاعری بالکل نرالی ہے۔ وہ مجاز کی پروا ہی نہیں رکھتا صرف حقیقت کی طرف دیکھتا ہے۔ مجاز اور حقیقت کے امتیاز سے اس کی آنکھیں ہر وقت پرنم رہتی ہیں :

اشک کے دانے زمین شعر میں بوتا ہے وہ(۹)

وہ روح کے لیے مجاز سے آزادی چاہتا ہے اور دُنیاوی جدوجہد سے قطع نظر صرف روح کی ترقی اور روح کی بالیدگی پر جان دیتا ہے، اُس کے لیے دُنیاوی زندگی و بال جان ہے۔ جسم کا پیرہن ایک بوجھ ہے۔ بقول شاعر:

زندگانی در جگر خار است و درپا سوزن است

تا نفس باقیست در پیراہنِ ما سوزن است

اقبال کے لیے دُنیا کی ظاہری ترقی ایک فنا ہونے والی شے ہے اور وہ کسی اور چیز کا متوالا ہے۔ اس کی تلاش و جستجو میں وہ سرگرداں رہتا ہے اور جب اسے نہیں پاتا تو رو دیتا ہے اور اس کی آہ و زاری اشعار بن جاتی ہے۔ اقبال اُس بلبل کی مثال ہے جسکو اپنے پر ہی قفس معلوم ہوتے ہیں اکبر طرزِ معاشرت میں قوم کو قیدِ فرنگ سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ اقبال قیدِ حیات سے مکدّر رہتا ہے۔ وہ زندگی کو ایک منزل خیال کرتا ہے، آخرت کی موت کو زندگی جاوید کی ابتدا سمجھتا ہے۔ موت سے بھی اسے لڑنے میں عار نہیں اور اپنے خدا سے بھی حق پر حجت و تکرار کرنے میں اسے تامل نہیں۔ وہ روحانی نجات کو بخششِ ربانی کی طرح نہیں مانگتا۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو اُس کا اہل اور اس کا حقدار بنانا چاہتا ہے۔ وہ کبھی کبھی خدا کے سامنے دستِ سوال پھیلاتا ہے، لیکن ہمیشہ بے نیازی اور خود داری کا پہلو لیے ہوئے۔ اُس کی مثال اس فقیر بے نوا کی سی ہے، جو ایثار نفس، خلوصِ نیت اور صدقِ عقیدت کی بضاعت رکھتا ہے اور اسی لیے وہ اپنی روح پر فتوح کی عظمت سے واقف ہے۔ اقبال ایک فلسفی نکتہ رس کی طرح موت کے معمہ کو بھی حل کرنا چاہتا ہے۔ وہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کا نظارہ دیکھتا ہے، اس کو مادی دُنیا سے اتنی غرض نہیں جتنی کہ عالمِ روحانیت سے۔ اکبر مادی دُنیا میں مجاز اور حقیقت، سچ اور جھوٹ میں جو فرق اور تفاوت ہے، اُس کی ہنسی اُڑا اُڑا کر قوم کی ہدایت کرتا ہے۔ جب وہ سنجیدہ ہوتا ہے تو فلسفۂ حیات کی باتیں بھی کرتا ہے، قلب کی وارداتیں بھی بیان کر جاتا ہے، نہایت سلیس زبان اور مقبولِ عام پیرائے میں۔ اقبال بھی تارک الدنیا نہیں ہے اور نہ دُنیا کو مایا اور ’’متھیا؟‘‘ جانتا ہے مگر اس سے صرف اُس حد تک واسطہ رکھتا ہے۔ جہاں تک کہ روح کے ایک عارضی قیام گاہ کی حیثیت سے اس کی ضرورت پڑتی ہے، ورنہ حیاتِ ابدی کے مسائل اور تغیراتِ روحانی کے مرحلے، زندگی اور موت کی کشمکش ہر وقت اس کے دماغ میں چکر لگایا کرتی ہے۔ اکبر انسانوں کی حماقت پر ہنس دیتا ہے اور اپنی قوم کی ظاہر پرستی کا مضحکہ اُڑاتے رہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ حقیقت سے ناآشنا۔ مادی تعلیم کے بندے اور اس کے ظاہر پرست ابنائے وطن اگر سنبھلیں گے تو مضحکہ سے ورنہ روحانیت ان میں مفقود ہو گئی ہے۔ خوفِ خدا ان کے دلوں سے جاتا رہا ہے۔ نہ مذہب ان میں باقی ہے اور ’’نہ لوک لاج‘‘ ہی کا کوئی اثر ہے۔ عوام الناس کو ان خاصانِ خدا نے احمق اور اجہل سمجھ رکھا ہے۔ ایسی حالت میں اگر کوئی چیز کام دے سکتی ہے تو وہ مضحکہ ہے اور یہی اکبر کا زبردست آلہ ہے۔ اقبال کا خاصہ اشک ریزی ہے۔ اس کا خون دل آنکھوں کی راہ سے ٹپکا کرتا ہے۔ جہاں اکبر قہقہہ لگاتا ہے، وہاں اقبال اپنا دل پگھلا پگھلا کر آنسوؤں کی جھڑی لگا دیتا ہے۔ بسا اوقات اقبال کی سوگواری تبسم کی بھی متحمل نہیں ہوتی اور شاید بھری محفل میں بھی وہ اداس رہتا ہے۔ غم اس کی روحانی غذا ہے۔

انسانوں کے ساتھ ہمدردی اس کے زخم دل کا مرہم ہے۔ باطل پرست انسانوں کے قہقہوں کو سن کر اور دُنیا کی عارضی شگفتگی دیکھ کر اس کی چشم حقیقت میں پرنم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا تخیل بلند۔ اس کی فکر رسا۔ اس کا بیان دلگداز ہے اور اس کا کلام قلب میں حرارت اور روح میں تڑپ پیدا کرتا ہے۔ اس کے الفاظ میں عجب دبدبہ اور شکوہ ہے، اس کا حرف حرف ایک روحانی پیغام ہے۔ موت اور زوال سے وہ دلکھتا نہیں کیونکہ جیسا اوپر کہا جا چکا ہے۔ زندگی اس کے لیے ایک منزل ہے اور حیاتِ انسانی آخرت کا پیش خیمہ ہے۔ حسنِ فانی کی نسبت اُس کا فلسفہ سمجھنے کی چیز ہے۔ وہ ایک جرمن فلاسفر کی تائید میں کہتا ہے:

 

’’خدا سے حسن نے ایک روز یہ سوال کیا

جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا‘‘

 

ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دُنیا

شبِ دراز عدم کا فسانہ ہے دُنیا

 

ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی

وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی

 

کہیں قریب تھا یہ گفتگو قمر نے سنی

فلک پہ عام ہوئی اخترِ سحر نے سنی

 

سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو

فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو

 

بھر آئے پھول کے آنسو پیامِ شبنم سے

کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے

 

چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار گیا

شباب سیر کو آیا تھا، سوگوار گیا(۱۰)

 

عشق اور موت کی تشریح سنیے:

 

فرشتہ تھا اک عشق تھا نام جس کا

کہ تھی رہبری اس کی سب کا سہارا

 

فرشتہ کہ پتلا تھا بے تابیوں کا

ملک کا ملک اور پارے کا پارا

 

پئے سیر فردوس کو جا رہا تھا

قضا سے ملا راہ میں وہ قضارا

 

یہ پوچھا ترا نام کیا کام کیا ہے

نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا

 

ہوا سن کے گویا قضا کا فرشتہ

اجل ہوں ، مرا کام ہے آشکارا

 

اُڑاتی ہوں میں رختِ ہستی کے پرزے

بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا

 

مری آنکھ میں جادوئے نیستی ہے

پیامِ فنا ہے اِسی کا اشارا

 

مگر ایک ہستی ہے انساں کے دل میں

وہ ہے نورِ مطلق کی آنکھوں کا تارا

 

ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسو

وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا

 

سرِ کوہ چمکے جو وہ بَن کے بجلی

تو ہو غیرتِ طور ہر سنگِ خارا(۱۱)

 

سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی

ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا

 

گری اس تبسم کی بجلی اجل پر

اندھیرے کا ہر نور میں کیا گزارا

 

بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ

قضا تھی شکارِ قضا ہو گئی وہ(۱۲)

 

وہ عشق و محبت کو لافانی سمجھتا ہے، چنانچہ ایک اور جگہ کہتا ہے:

 

ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق

عقل انسانی ہے فانی زندۂ جاوید عشق

 

عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے

ظلمتِ ہستی میں یہ سورج سدا تابندہ ہے(۱۳)

 

رخصتِ محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر

جوشِ الفت بھی دلِ عاشق سے کر جاتا سفر

 

عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں

روح میں غم بن کے رہتا ہے مگر جاتا نہیں

 

ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی

زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی(۱۴)

 

موت کے لیے اس کا خیال ہے:

 

مرنے والے مرتے ہیں ، لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں (۱۵)

پھر ایک جگہ لکھتا ہے:

خاک میں مل کے حیاتِ ابدی پا جاؤں

عشق کا سوز زمانے کو دِکھاتا جاؤں (۱۶)

موت کے متعلق اس کے مزید خیالات سنیے۔ سوامی رام تیرتھ جی پر ایک نوحہ لکھتے ہوئے کہا ہے:

 

ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بے تاب تو

پہلے گوہر تھا بنا اب گوہرِ نایاب تو

 

آہ کھولا کس ادا سے تو نے رازِ رنگ و بو

میں ابھی تک ہوں اسیرِ امتیاز رنگ و بو

 

مٹ کے غوغا زندگی کا شورشِ محشر بنا

یہ شرارہ بجھ کے آتش خانۂ آزر بنا

 

نفی  ہستی اِک کرشمہ ہے دِل آگاہ کا

لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا

 

چشمِ نابینا سے مخفی معنی ٔ انجام ہے

تھم گئی جس دم تڑپ سیماب سیمِ خام ہے

 

توڑ دیتا ہے بتِ ہستی کو ابراہیمِ عشق

ہوش کی دارو ہے گویا مستی ٔ تسنیمِ عشق(۱۷)

 

کیا کہوں زندوں سے میں اس شاہدِ مستور کی

دار کو سمجھے ہوئے ہیں جو سزا منصور کی(۱۸)

 

اپنے استاد داغ کی موت پر ایک مختصر نوحہ کہا ہے، جس کے آخر میں فرمایا ہے:

 

کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں

ہے خزاں کا رنگ بھی وجہِ قیامِ گلستاں

 

ایک ہی قانون عالمگیر کے ہیں سب اثر

بوئے گل کا باغ سے دُنیا سے  گلچیں کا سفر(۱۹)

 

کسی اور موقع پر دریائے راوی پر ایک کشتی ٔ رواں دیکھ کر کہا ہے:

 

جہازِ زندگی آدمی رواں ہے یوں ہی

ابد کے بحر میں پیدا یوں ہی نہاں ہے یوں ہی

 

شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا

نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا(۲۰)

 

انسان کی حقیقت اقبال کی زبانی سنیے:

 

مری ہستی نہیں ، وحدت میں کثرت کا تماشہ ہے

کہ خود عاشق ہوں خود معشوق ہوں خود دردِ فرقت ہوں

 

نہ صہبا ہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ

میں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں (۲۱)

 

وضو کے واسطے آتا ہے کعبہ لے کے زم زم کو

الٰہی کونسی وادی میں میں محوِ عبادت ہوں

 

جو سمجھوں اور کچھ خاکِ عرب کے سونے والوں کو

مجھے معذور رکھ میں مستِ صہبائے محبت ہوں

 

یہی صہبا ہے جو رفعت بنا دیتی ہے پستی کو

اسی صہبا میں آنکھیں دیکھتی ہیں رازِ ہستی کو(۲۲)

 

ایک اور جگہ فرمایا ہے:

 

اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو

قطرہ ہے لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے

 

کیوں گرفتارِ طلسمِ ہیچ مقداری ہے تو

دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے

 

ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ

تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے

 

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا

ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ٔ داماں بھی ہے

 

پھونک ڈالا ہے مری آتشِ نوائی نے مجھے

اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے

 

راز اس آتش نوائی کا مرے سینہ میں دیکھ

جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینہ میں دیکھ(۲۳)

 

قومی ایثار اور ملکی وفاداری کی نسبت اپنا خیال کیسے لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ یہ قطعہ گذشتہ جنگِ بلقان کے موقع پر لکھا گیا تھا جب طرابلس کے جانثار محبانِ وطن کی شہادت بھی اسے اطالیہ کے پنجہ سے نہ بچا سکی تھی۔ آپ کہتے ہیں عالمِ خیال میں ایک شب:

 

فرشتے بزمِ رسالت میں لے گئے مجکو

حضور آیہ رحمت میں لے گئے مجکو

 

کہا حضور نے اے عندلیبِ باغِ حجاز

کلی کلی ہے تری گرمی ٔ نوا سے گداز!

 

نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا

ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا(۲۴)

 

اس پر اقبال کا جواب ہے:

 

حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

 

ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی

 

مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں

جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی

 

جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں (۲۵)

 

وہ خالقِ کون و مکان سے عجیب پُر لطف پیرایہ میں مسلمانوں کی پستی کا شکوہ کرتا ہے، وہ کہتا ہے:

شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو(۲۶)

طول طویل شکوہ شکایت کے بعد وہ کہتا ہے:

مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے

مورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے(۲۷)

جواب میں بھی ایک طولانی نظم ہے جس کا آخری بند یہ ہے:

 

مثلِ بو قید ہے غنچہ میں ، پریشاں ہو جا

رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا

شوقِ وسعت ہے تو ذرے سے بیاباں ہو جا

نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا(۲۸)

بول اس نام کا ہر قوم میں بالا کر دے

اور دُنیا کے اندھیرے میں اُجالا کر دے(۲۹)

 

رنج و غم کے فلسفیانہ پہلو پر کہا ہے:

 

موجِ غم پر رقص کرتا ہے، حبابِ زندگی

ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی

 

ایک بھی پتّی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں

جو خزاں نادیدہ ہو بلبل وہ بلبل ہی نہیں

 

غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطفِ خواب سے

ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے

 

طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے

راز ہے انساں کا دل غم انکشافِ راز ہے

 

غم نہیں غم، روح کا اِک نغمۂ خاموش ہے

جو سرودِ بربط ہستی سے ہم آغوش ہے

 

جس کا جامِ دل شکستِ غم سے ہے ناآشنا

جو سدا مستِ شرابِ عیش و عشرت ہی رہا

 

گو بظاہر تلخی ٔ دَوراں سے آرامیدہ ہے

زندگی کا راز اس کی آنکھ سے پوشیدہ ہے(۳۰)

 

استغنا دیکھنا ہو تو سنئیے ایک غزل میں واعظ سے فرمایا ہے:

 

واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد

دُنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے

 

مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ

یہ انتظارِ مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے(۳۱)

 

تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی

رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے

 

جینا وہ کیا جو ہو نفسِ غیر پر مدار

شہرت کی زندگی کا بھروسہ بھی چھوڑ دے(۳۲)

 

ماہِ نو سے خطاب کر کے کہا ہے:

 

گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں سراپا نور تو

سیکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دور تو

 

جو مری ہستی کا مقصد ہے مجھے معلوم ہے

یہ چمک وہ ہے جبیں جس سے تری محروم ہے(۳۳)

 

ملک اور قوم کی ترقی کی آرزو اس کے دل میں موجزن ہے۔ ماہِ نو سے مخاطب ہو کر آخر میں کہتا ہے:

 

چاہیے میری نگاہوں کو انوکھی چاندنی

لا کہیں سے ماہ کامل بن کے ایسی چاندنی

 

ظلمت بیگانگی میرے وطن سے دور ہو

خاکِ ہندوستاں کا ہر ذرہ سراپا نور ہو(۳۴)

 

ہندوستان ہمارا کا نغمہ دلکش تو ملک بھر میں ہر جگہ مشہور ہو چکا ہے، مسلمانوں کی بیداری کے لیے بھی اس نے دُعا مانگی ہے، جس کا مشہور عنوان یہ ہے:

یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے

جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے(۳۵)

مادرِ ہند کی پوری عظمت اقبال کے دل میں بیٹھی ہوئی ہے، مادرِ وطن پر ایک طویل نظم کے صرف دو بند نذر ہیں :

 

چشتی نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا

نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا

جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے(۳۶)

 

گوتم کا جو وطن ہے جاپان کا حرم ہے

عیسیٰ کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے

مدفون جس زمیں میں اسلام کا حشم ہے

ہر پھول جس چمن کا فردوس ہے ارم ہے

میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے(۳۷)

 

اقبال دُنیا میں ہر جگہ سچائی کا قدردان ہے۔ بودھ مذہب کی عظمت کے اعتراف میں اشعارِ ذیل ملاحظہ ہوں :

 

وہ اصولِ حق نماے نفی ہستی کی صدا

روح کو ملتی ہے جس سے لذتِ آبِ بقا

جس سے پردہ روئے قانونِ محبت کا اُٹھا

جس نے انساں کو دیا رازِ حقیقت کا پتا(۳۸)

 

اقبال کی روحانی تڑپ جس کا جلوہ اس کے ہر شعر میں جھلکا کرتا ہے، اس غزل سے بخوبی واضح ہوتی ہے جس میں حسبِ دستور اس کی تمام خصوصیات موجود ہیں :

 

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

 

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی

مرے جرم ہای سیاہ کو ترے عفو بندہ نواز میں (۳۹)

 

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں مذاق ہے نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں (۴۰)

 

تجھے کیا سنایئے ہم نشیں مجھے موت میں جو مزا ملا

نہ ملا مسیح کو خضر کو وہ نشاط عمرِ دراز میں (۴۱)

 

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ

جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں (۴۲)

 

زندگی کے مختلف مسائل اور مراحل پر اقبال کے خیالات سے تو آپ بخوبی واقف ہو چکے اب آپ اس کے کمالِ شاعرانہ کی داد دیجیے۔ جگنو کی تعریف میں ہزارہا شعر آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے، مگر اقبال کی ندرتِ بیاں اور فکرِ رسا کا معجزہ دیکھنے اور سننے کے لائق ہے۔ ملاحظہ کیجئے کہ ہر شعر میں ایک نیا اور اچھوتا خیال باندھا ہے۔ کہتے ہیں :

 

جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں

یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں

 

آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ

یا جان پڑ گئی ہے، مہتاب کی کرن میں

 

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا

غربت میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں

 

تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا

ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں

 

حسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی

لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں

 

چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی

نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں

 

پروانہ اِک پتنگا جگنو بھی اک پتنگا

وہ روشنی کا جویا یہ روشنی سراپا(۴۳)

 

زمانہ، نومبر، ۱۹۱۸ء بہ حوالہ: نقدِ اقبال، حیات اقبال میں ،

مرتبہ تحسین فراقی۔ بزم اقبال لاہور، ۱۹۹۲ء

٭٭

 

حوالے اور حواشی

 

۱۔ اقبال کے جدِ اعلیٰ بابا لول حج یا لولی حاجی کے لقب سے معروف تھے۔

۲۔ یہ غزل امین الدین مرحوم کے مکان (اندرون بھاٹی دروازہ) میں منعقدہ ایک مشاعرے میں پڑھی گئی اور بہارِ گلشن، جلد دوم میں شائع ہوئی۔ باقیاتِ اقبال، صفحہ ۳۸۸، ۹۱

۳۔ یہاں متوجہ کا محل تھا۔

۴۔ باقیاتِ اقبال، صفحہ ۳۹۰

۵۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۵۹پر یہ مصرع یوں ہے:

’’بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی‘‘

۶۔ کلیاتِ اقبال میں یہ شعر ردیف کی تبدیلی کے ساتھ درج ہے:

عہدِ حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو   صفحہ ۱۷۳

۷۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۷۳

۸۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۹۴

۹۔ اقبال کے مصرعے: اشک کے دانے زمینِ شعر میں بوتا ہوں میں ، میں ادنی تعبیر کیا گیا ہے، دیکھیے کلیاتِ اقبال، صفحہ ۹۰

۱۰۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۱۲

۱۱۔ یہ شعر بعد میں اقبال نے حذف کر دیا، چنانچہ کلیاتِ اقبال میں یہ شامل نہیں۔

۱۲۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۵۷، ۵۸

۱۳۔ بعد ازاں اقبال نے اس مصرعے کو اس طرح بدل کر زیادہ بامعنی بنا دیا: عشق سوزِ زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے، کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۵۶

۱۴۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۵۶

۱۵۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۵۷

۱۶۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۸۶

۱۷۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۱۴

۱۸۔ یہ شعر کلیاتِ اقبال میں شامل نہیں۔

۱۹۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۹۰

۲۰۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۹۵

۲۱۔ اس بند کے سوائے اس ایک شعر کے اور کوئی شعر کلیاتِ اقبال میں شامل نہیں ، دیکھیے: صفحہ ۶۹

۲۲۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۳۲۰، ۳۲۱

۲۳۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۹۳، ۱۹۴

۲۴۔  کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۹۷

۲۵۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۹۷

۲۶۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۶۳

۲۷۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۶۹

۲۸۔ کلیاتِ اقبال، یہ مصرعہ اس شکل میں ہے: ’’ہے تُنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا‘‘۔

۲۹۔ ٹیپ کا یہ شعر کلیاتِ اقبال میں اپنی اس متغیر صورت میں ملتا ہے: (دیکھیے: صفحہ ۲۰۷)

’’قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے — دہر میں عشقِ محمدؐ سے اجالا کر دے‘‘

۳۰۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۵۵، ۱۵۶۔ آخری شعر ترمیمی صورت میں یوں ہے:

’’کلفتِ غم گرچہ اس کے روز و شب سے دُور ہے— زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے‘‘

۳۱۔ یہ دوسرا شعر بانگِ درا میں شامل نہیں۔ یہ شعر بیدل کے ایک شعر:

’’باز آمدن مہدی و عیسیٰ اینجا— از تجربۂ مزاج اعیاں دور است‘‘

کی یاد دِلاتا ہے۔ اقبال کے اس متروک شعر کے لیے دیکھیے: باقیاتِ اقبال، صفحہ ۴۵۱

۳۲۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۰۸

۳۳۔  کلیاتِ اقبال، صفحہ ۸۰

۳۴۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۳۱۲

۳۵۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۲۱۲

۳۶۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۸۷

۳۷۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۳۳۸

۳۸۔ یہ اشعار غالباً اب تک مدوّن نہیں ہوئے۔

۳۹۔ بعد میں یہ مصرع یوں بدل دیا گیا:

’’مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں ‘‘۔

۴۰۔ بعد میں اس مصرع میں ترمیم کر دی گئی:

’’نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں ‘‘۔

۴۱۔ یہ شعر کلیاتِ اقبال میں شامل نہیں۔

۴۲۔  کلیاتِ اقبال، صفحہ ۲۸۱

۴۳۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۸۴

٭٭٭

تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید