FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تنقیدی نگارشات

 

 حصہ دوم

 

                مظفر حنفی

ترتیب و تدوین:  فیروز مظفر

 

 

 

 

وحشتؔ: مکاتیب کے آئینے میں

 

خطوط کو نصف ملاقات کہا گیا ہے۔ اچھے خط کی پہچان یہ ہے کہ ملاقات کی اکثر اغراض کو پورا کرے۔ خالصتاً کاروباری خطوط میں صرف متعلقہ افراد کی دلچسپی کا سامان ہوتا ہے، لیکن شب و روز کی تمام زندگی کا عکس پیش کرنے والے مکاتیب میں عام لوگوں کی دلچسپی کے اسباب بھی فراہم ہو جاتے ہیں اور اس قسم کے خطوط سبھی کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتے ہیں۔ جب ادیب و شاعر اس قسم کے خط لکھتے ہیں تو ادبیت کی آمیزش کی بنا پر ان کی دلچسپی اور افادیت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

خطوط میں زندگی اپنے حقیقی خد و خال میں جیتی جاگتی نظر آتی ہے۔ مشاہیر کے خطوط ان کی سوانح حیات اور شخصیت کے ارتقاء سے متعلق نہایت قیمتی مواد فراہم کرتے ہیں۔ یہ مواد خود نوشت سوانح عمریوں میں بھی مل سکتا ہے لیکن خود نوشت سوانح اور خطوط نگاری میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر کے بارے میں قطعی طور پر یہ باور نہیں کیا جا سکتا کہ سوانح نگار نے اپنے حالاتِ زندگی بے کم و کاست پیش کیے ہوں گے کیونکہ انسان اپنی فطری کمزوریوں کو خود منظرِ عام پر لانے کا عادی نہیں ہوتا اور حتی الامکان اپنے عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے، تصنّع اور خود نمائی اس کی فطرت ہوتی ہے۔ اس طرح خودنوشت سوانح حیات میں احتیاط، دروغ بافی، مصلحت کوشی اور خود ستائی کی آمیزش ہو جاتی ہے جب کہ نجی خطوط اس قسم کی احتیاط اور خود نمائی سے پاک ہوتے ہیں۔ بقول مولوی عبد الحق:

’’ خطوں کی یہی سادگی اور بے ریائی ہے جو دوسروں کو لبھاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خطوط سے انسان کی سیرت کا جیسا اندازہ ہوتا ہے وہ دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ خطوں میں کاتب، مکتوب الیہ سے، بلکہ اکثر اوقات اپنے آپ سے باتیں کرنے لگتا ہے، وہ اپنا دل کاغذ کے ٹکڑے پر نکال کر رکھ دیتا ہے۔ ‘‘

(خطوط کی اہمیت: مولوی عبد الحق۔ مشاہیر کے خطوط: مرتبہ مہیش پرشاد، ص ۲)

ادبی شخصیتوں کے خطوط اس لیے بھی اہم ہوتے ہیں کہ ان میں ادبی مسائل کا ذکر اور فنکاروں کے شخصی نظریات اور افکار کی جھلک بھی نظر آ جاتی ہے۔ اپنی افادیت، ادبیت اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ ان خطوں کے وسیلے سے فنکار کی تخلیقات اور تصنیفات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ان میں بے شمار ایسے نکات شامل ہوتے ہیں جو متعلقہ فنکار کے فن کو سمجھنے سمجھانے میں معاون ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر زبان کے ادب میں ایسے خطوط کو ایک قیمتی ادبی سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ یوں تو عام لوگ اور سبھی فنکار اپنی زندگی میں ہزاروں خط لکھتے ہیں لیکن ان سب کو ادبی خطوط کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ صرف ایسے فن کاروں کے خطوط ادبی اہمیت رکھتے ہیں جو حقائق کے انکشاف کے ساتھ اپنی تحریر میں دل کش اسلوب بھی اختیار کرتے ہیں۔

علامہ رضا علی وحشتؔ کلکتوی نے اپنی زندگی میں یقیناً ہزاروں خطوط لکھے ہوں گے لیکن ان کے انتقال سے غالباً چند ماہ قبل ’’ بزمِ شاکری‘‘ کلکتہ کی جانب سے شمس الدین احمد عازمؔ کے مرتبہ اور شائع کردہ مکاتیب وحشتؔ میں کل ایک سو بیاسی خطوط شامل ہیں، جو وقتاً فوقتاً تئیس اشخاص کے نام لکھے گئے ہیں۔ یہ تمام اشخاص بہ استثنائے چند، مکتوب نویس سے چھوٹے ہیں، ان میں سے اکثر کو علامہ وحشتؔ سے شرف تلمذ حاصل ہے اور ان کے نام مکاتیب میں ایک سنبھلی سنبھلی محتاط کیفیت پائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عمر اور مرتبے میں بزرگانہ حیثیت رکھنے کی وجہ سے وحشتؔ ان خطوط میں زیادہ بے تکلفی سے کام نہ لے سکتے تھے۔ وحشتؔ کے فن پر غالبؔ کے اثر کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے اور خود وحشتؔ نے بھی کئی مقامات پر غالبؔ سے اثرات قبول کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ غالبؔ نے طرزِ بیدلؔ میں ریختہ کہنے کو قیامت سے تعبیر کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں طرزِ غالبؔ میں ریختہ کہنا اس سے بڑی قیامت تھی جس سے علامہ وحشتؔ کامیابی کے ساتھ گزر گئے لیکن مکاتیب وحشتؔ کا مطالعہ اس دلچسپ حقیقت کا انکشاف کرتا ہے کہ وحشتؔ نے اپنے خطوط پر غالبؔ کی مکتوب نگاری کی ہلکی سی پرچھائیں بھی نہیں پڑنے دی۔ غالبؔ کی طرح انھوں نے نہ تو القاب و آداب میں کوئی ندرت برتی نہ مکالماتی اسلوب سے کام لیا اور نہ ہی ظریفانہ انداز بیان اختیار کرکے اپنے خطوط کو شگفتہ بنانے کی کوشش کی۔

مکاتیب وحشتؔ میں قدیم ترین مکتوب ۸؍ جنوری ۱۹۲۲ء کا ہے۔ یہ خط عبد العلی سندیلوی کے نام ہے۔ تاریخی اعتبار سے مجموعے کا آخری خط طاہر علی شاکرؔ کے نام ۵؍ مارچ ۱۹۵۵ء کو لکھا گیا ہے۔ غالبؔ کے جو خطوط تا حال دستیاب ہو سکے ہیں وہ سب کم و بیش اس دور کے ہیں جب غالبؔ پچاس سال کی عمر پار کر چکے تھے، چنانچہ ان مکاتیب میں امراض کی تفصیل اور قواء کے اضمحلال کا تذکرہ اکثر دَرآتا ہے۔ بایں ہمہ غالبؔ اپنے اوپر ہنس کران خطوط کو گریۂ مسکین کی سطح سے بلند کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، مکاتیب وحشت کا قدیم ترین خط ۱۸ جنوری ۱۹۲۲ء کاہے۔ اس وقت علامہ وحشت کی عمر کم و بیش چالیس سال تھی۔ اس اعتبار سے ان خطوط میں غالبؔ کی بہ نسبت ایک زیادہ چاق و چوبند اور توانا شخصیت سے ملاقات کی توقع کی جا سکتی تھی لیکن صورتِ حال اس کے قطعی برعکس ہے۔ یہاں ہماری ملاقات ایک دل شکستہ، پریشان حال، گوشہ گزیں اور تقریباً دائم المریض شاعر سے ہوتی ہے۔ یہ مزاجوں کا فرق ہے۔ اس تضاد کی ایک وجہ اور سمجھ میں آتی ہے۔ ہر چند کہ ابتداء میں غالبؔ اپنے خطوط کی اشاعت پر آمادہ نہ تھے اور احباب کو اپنے مکاتیب مرتب کر کے شائع کرنے سے منع کرتے رہتے تھے لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کے رویے میں ایک نمایاں اور حیرت انگیز تبدیلی نظر آتی ہے اور وہ اپنے خطوط کی اشاعت کے لیے بے قراری کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے، ان دونوں صورتوں کی درمیانی مدت میں غالبؔ نے اپنے خطوط کی نوک پلک ضرور درست کی ہو گی اور خصوصاً اس عرصے میں لکھے جانے والے خطوط کو شعوری طور پر ادبی چاشنی تو ضرور ہی عطا کی ہو گی پھر یہ بھی ہے کہ غالبؔ کے خطوط جمع کرنے کا کام کافی عرصے تک چلتا رہا ہے اور ان کے مرتبین میں ایک سے ایک بڑا محقق موجود ہے اور غالبؔ کے مکتوب الیہوں اور مخاطبوں میں خرد و کلاں، ریاستوں کے حکمراں اور رؤسائ، شاگرد اور ہم عصر فنکار، الغرض مختلف المزاج اور مختلف العمر افراد شامل ہیں جن کے ساتھ تعلقات کی نوعیتیں بھی مختلف ہیں۔ اس لیے مکاتیب غالبؔ میں فطری طور پر مضامین اور اسالیب کا تنوع ہونا بھی چاہیے تھا۔ علامہ وحشت بھی اوّلاً اپنے مکاتیب کی تدوین و اشاعت پر رضا مند نہ تھے۔ چنانچہ محمد عارف وامقؔ کو ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۵۳ء کے خط میں لکھتے ہیں :

’’یہ معلوم کر کے کہ ارکانِ بزمِ شاکری کا ارادہ ہے کہ میرے مکتوب کا مجموعہ شائع کریں، ان کو جو عقیدت مجھ سے ہے، وہ پرزور طریقے سے ظاہر ہوئی۔ اگر چہ یوں بھی ظاہر تھی۔ عقیدت کے تقاضے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کسی بات کا امکان یا عدم امکان قابلِ غور بھی نہیں سمجھا جاتا۔ میرے عزیز! کچھ بھلے بُرے اشعار میں نے ضرور کہے ہیں جنھیں چالیس پچاس سال ہوئے کچھ لوگوں نے پسند کیا تھا، لیکن مجھے اکابرین عصر اور دیگر شعراء سے خط و کتابت کرنے کی عادت کبھی نہ تھی۔ میں اس معاملے میں قدرتی طور پر کوتاہ قلم واقع ہوا ہوں۔ میرے پاس جتنے خط آتے ہیں میں ان کے جواب لکھنے کے بعد ان کو نذرِ آتش کرتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ اور حضرات بھی ایسا ہی کرتے ہوں گے۔

بعض لوگ خطوط خوب لکھتے ہیں جن میں مزے مزے کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایسے خطوط اگر چھاپے جائیں تو مطبوع طبائع ہوں۔ میں بہت خوش ہوں گا اگر بزمِ شاکری اپنے ارادے کو جو ناقابلِ عمل ہے، ترک کر دے۔ ‘‘ ( مکاتیب وحشتؔ ص ۱۲۰۔ ۱۲۱)

مجھے خوشی ہے کہ بزم شاکری نے اپنا ارادہ ترک نہیں کیا اور مکاتیب وحشتؔ کی اشاعت پر اصرار کرتی رہی جس کے نتیجے میں وحشتؔ کو سپر انداز ہو کر لکھنا پڑا:

’’ بزمِ شاکری اس پر مصر ہے کہ میرے مکتوبات شائع کیے جائیں۔ میں اب کچھ نہیں کہوں گا۔ اگر میرے مکتوبات جو بہت کم بھی تھے اور اب نایاب ہیں، آپ کو مل سکیں تو اپنے خواہش پوری کیجیے۔ ‘‘  (مکتوب بنام محمد عارف وامقؔ مورخہ ۱۴؍ نومبر ۱۹۱۵۲ء۔ مکاتیب وحشتؔ ص ۱۲۲)

۱۹۵۲ء تا ۱۹۵۶ء چار سال کی طویل مدّت میں مرتب اور اراکین بزم شاکری  وحشتؔ کے کل ایک سو بیاسی خطوط یکجا کر سکے، جس سے مکتوب نگار کے اس قول کی تائید ہوتی ہے کہ وہ قدرتی طور پر کوتاہ قلم تھے۔ یہ کوتاہ قلمی، حاصل شدہ مکاتیب میں بھی نظر آتی ہے، جہاں طول کلامی اور رنگیں بیانی سے گریز کرتے ہوئے مختصر ترین الفاظ میں اظہار مدعا کی کاوش کی گئی ہے۔ اس اختصار اور سادگی کی وجہ سے مکاتیب وحشتؔ میں ادبیت کی بھرپور شان پیدا نہیں ہو سکی۔ ان خطوط کا دائرہ وحشت کی زندگی کے کم و بیش تینتیس آخری برسوں کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ خطوط ہمیں ان اسباب سے بھی آگاہ کرتے ہیں جنھوں نے وحشتؔ کی شخصیت میں افسردگی، گوشہ گزینی اور بے دلی کی کیفیت پیدا کر دی تھی، جس کا لازمی نتیجہ کوتاہ قلمی کی شکل میں برآمد ہوا۔ ظفرؔ ہاشمی جو غالباً کلکتہ اور ڈھاکہ سے باہر کے واحد مکتوب الیہ ہیں، کے نام اکثر خطوط میں وحشتؔ نے اپنے بڑے بیٹے علی حیدر کے پاگل پن کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً ۶؍ مارچ ۱۹۲۸ء کے خط میں رقم طراز ہیں :

’’ میں افکار گوناگوں میں گرفتار ہوں۔ لڑکا میرا علی حیدر جس سے آپ واقف ہیں، پاگل خانے میں ہے۔ ابتدائے فروری سے اس کی حالت  بگڑنی شروع ہوئی اور عید کے دن رانچی سے، جہاں یہ پاگل خانہ ہے، خط آیا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے۔ میں اسی شب کو رانچی روانہ ہو گیا اور پہنچ کر دیکھا کہ بالکل ہوش کھو بیٹھا ہے، مجھے پہچانابھی نہیں، اس کے ناقابلِ علاج مرض نے دل کومایوس کر رکھا ہے۔ یہ صدمہ تو ہے ہی، مزید بریں مالی دقتوں کا بھی سامنا ہے اور یہ دقّت عموماً بہت حوصلہ فرسا ہوا کرتی ہے۔ اس پر کاموں کی وہ کثرت ہے کہ اللہ تری پناہ۔ کالج اور امتحانات کے علاوہ خطوں کے جواب، غزلوں کی اصلاح، احباب کے مراسم۔ ان سب کے لیے وقت نکالنا خصوصاً جب دِل ٹھکانے نہ ہو، اس قدر مشکل ہے کہ میں ہی جانتا ہوں :

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

افسوس ہے کہ آپ نے ایک ایسے شخص کو اپنا استاد بنایا جس کا دلِ افسردہ آپ کے جوشِ طبیعت کی قدر کافی طور پر نہیں کر سکتا۔ ‘‘

( مکاتیب وحشتؔ ص ۷۶)

ہر صاحبِ اولاد اس درد کو محسوس کر سکتا ہے جو بیٹے کے جنون کے مرض میں مبتلا ہونے کی صورت میں باپ کے دل کو کچوکے دیتا رہتا ہے۔ ظفر ہاشمی کے کئی خطوط میں علی حیدر کے اس پاگل پن کی روداد بیان کی گئی ہے۔ مثلاً:

’’ علی حیدر سلمہ‘ کا مرض ایسا نہیں کہ بآسانی علاج پذیر ہو۔ سوائے دعا کے اور کوئی صورت نہیں ہے۔ آخر مارچ سے کوئی خبر ہسپتال سے نہیں آئی ہے۔ غالباً حالت اس کی بدستور خراب ہے۔ ‘‘

( مکاتیب وحشتؔ ص ۷۸)

دوسرے خط میں لکھتے ہیں :

’’ عزیزی علی حیدر کا حال ہسپتال میں روز بروز خراب ہوتا گیا۔ ۱۳؍ مئی کو کلکتے لایا گیا ہے لیکن بقول شاعر:

دو گونہ رنج و عذابست جانِ مجنوں را

بلائے فرقتِ لیلیٰ و صحبتِ لیلیٰ

پہلے جدائی سے دل کڑھتا تھا اب اس کا حال دیکھ کر دل اداس ہے۔ دن بھر ایک ہنگامہ مچا رہتا ہے کسی کو ذرا چین نہیں۔ ‘‘ ( مکاتیب وحشت۔ ص ۷۹)

ظفرؔ ہاشمی کے نام کچھ اور مکاتیب سے اقتباسات:

’’ علی حیدر سلمہ‘ کا حال بیان کرنا ذرا مشکل ہے کیونکہ اس کی طبیعت میں تغیرات ہوتے رہتے ہیں جن سے اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ ‘‘

( مکاتیب وحشتؔ۔ ص ۸۳)

’’ علی حیدر کی طبیعت پھر مائل بہ خرابی ہے۔ وہی آثار نظر آ رہے ہیں جو میرے لیے مکرر دشمنِ سکون ثابت ہو چکے ہیں۔ ‘‘

( مکاتیب وحشت۔ ص۸۶)

’’ آپ نے اضطرابی تشویش سے علی حیدر سلمہ‘ کا حال بہ واپسی ڈاک لکھنے کو کہا تھا لیکن یہاں یہ حال ہے :

دیروز پریشانیِ خود را بتو گفتم

امروز پریشاں تر از آنم کہ تواں گفت

اس آفت زدہ کا وہی حال ہے۔ میرا سارا دار و مدار دعا پر ہے۔ ‘‘

مکاتیب وحشتؔ ص ۸۶۔ ۸۷)

’’ عزیزی علی حیدر سلمہ‘ کا حال قابلِ اطمینان نہیں ہے لیکن رانچی بھجوانا بھی خالی از دقّت نہیں ہے۔ وہاں بھیجنے سے پہلے مجسٹریٹ سے حکم لینا پڑتا ہے اور یہ حکم جب ہی ملنا ہے کہ جب پوری طرح ثابت کر دیا جائے کہ یہ مجنوں خطرناک ہے۔ ‘‘        ( مکاتیب وحشتؔ۔ ص ۸۸)

’’ افسوس ہے کہ میں اس وقت انتہائی افسردگی کے عالم میں ہوں اور شعرو سخن سے یک لخت قطع تعلق ہے۔ دماغ بالکل معطل اور حواس پریشان۔ علی حیدر کی شوریدہ سری حد کو پہنچ گئی ہے اور آخر اس کو رانچی ہسپتال بھیجنا پڑا۔ ‘‘               (مکاتیب وحشتؔ۔ ص  ۸۹)

مندرجہ بالا اقتباسات سے اس عظیم کرب و اندوہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جس سے وحشتؔاس دور میں دو چار تھے، حتیٰ کہ صورتِ حال اس حد تک تلخ ہو گئی کہ اپنے مکتوب بنام ظفرؔ ہاشمی مورخہ ۲۹؍ مارچ ۱۹۳۵ء میں لکھتے ہیں :

’’ جب آب کلکتہ آئے تھے اس وقت بھی میں کم پریشان نہ تھا لیکن ایک غیر معمولی کوشش سے میں نے اپنی ظاہر نہ ہونے دی۔ میں جس حال میں ہوں اس کے متعلق مزید سوالات نہ کیجیے کیونکہ جواب دینا باعثِ تکلیف ہو گا۔ ‘‘                              ( مکاتیب وحشتؔ۔ ص ۹۱)

۲۹؍ اپریل ۱۹۳۷ء کو ظفر ہاشمی کو اطلاع دی جاتی ہے کہ:

’’علی حیدر کے جنون میں پھر جوش آیا اور اسے پھر رانچی روانہ کیا۔ ‘‘

( مکاتیب وحشت۔ ص ۹۲)

الغرض وحشتؔ بیٹے کے پاگل پن کا صدمہ مسلسل ۱۹۴۹ء تک جھیلتے رہے۔ مکاتیب وحشتؔ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے چھ مرتبہ علاج کے لیے رانچی ہسپتال میں داخل کیا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بہار میں ایک بزرگ کے مزار پر بھی لے جایا گیا اور بالآخر ۴؍ فروری۱۹۴۹ء کے مکتوب بنام ظفر ہاشمی سے پتہ چلتا ہے :

’’ بڑا لڑکا علی حیدر، عالمِ جنون میں گھر سے نکل گیا اور تین مہینے سے مفقود الخبر ہے۔ ‘‘                      ( مکاتیب وحشتؔ ص ۱۰۹)

اور اس سلسلے کی آخری اطلاع پروفیسر ارشد کاکوی کے نام خط میں ملتی ہے جو ۶؍ اکتوبر ۱۹۵۲ء کو لکھا گیا ہے۔ یہ واقعہ بھی انتہائی المناک ہے۔ لکھتے ہیں :

’’ آپ نے اس شعر کو معلوم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے جو میرے جنون زدہ لڑکے کے پا بہ زنجیر ہونے سے متعلق سمجھا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میری ایک غزل ہے جس کا مطلع اور ایک شعر یہ ہیں :

نہ شوقِ میکدہ چھوٹا نہ سودائے حرم چھوٹا

ہمیں جس شغل کا چسکہ پڑا وہ ہم سے کم چھوٹا

ہمارے پاؤں میں تو تم نے زنجیر وفا ڈالی

تمھارے ہاتھ سے کیوں رشتۂ مہر و کرم چھوٹا

جب لڑکے کو زنجیر پہنائی گئی تو اس نے میری طرف دیکھا اور میرا شعر:

ہمارے پاؤں میں تو تم نے زنجیرِ وفا ڈالی

جو اسے یاد تھا، مجھے پڑھ کر سنایا۔ میرے کئی احباب جو اس وقت موجود تھے، ان پر عجب اثر ہوا۔ یہ جنون زدہ لڑکا جو مفقود الخبر ہے، قیاس کیا جاتا ہے کہ ۱۹۴۹ء کے ہندو مسلم فساد میں جو عاشورۂ محرم کے دن وقوع میں آیا تھا، ہلاک ہوا۔ ‘‘     (مکاتیب وحشت۔ ص ۱۲۵۔ ۱۲۶)

بیس برس سے زیادہ طویل مدت تک اس خلجان میں مبتلا رہنے کے بعد غالباً ۱۹۴۹ء کے اواخر میں، وحشتؔ کو ہجرت کے المیے کا شکار ہونا پڑا۔ کیونکہ ڈھاکہ سے ان کا پہلا خط پروفیسر عباس علی بیخودؔ کے نام ۱۰؍ جنوری ۱۹۵۰ء کے مکتوب بنام ظفرؔ ہاشمی سے ان کے مشرقی پاکستان منتقل ہو جانے کی اطلاع ملتی ہے۔ لکھتے ہیں :

’’ خدا کا شکر ہے کہ چھُوٹے ہوئے پھر ملے، اگرچہ یہ ملاقات نہیں ہے پھر بھی بہت کچھ ہے۔ محبت نامے سے معلوم ہوا کہ آپ نے میری جستجو میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا تھا۔ اب آپ کو نوید مسرّت ملی کہ آپ کا وحشتؔ زندہ ہے۔ میں زندہ ہوں لیکن زندگی کے جو معنی ہیں ان کا صحیح اطلاق مجھ پر نہیں ہوتا۔ ضعفِ پیری مستقل ہے اور پھر اس پر حالات کی نا مساعدت اضافہ۔ مہرپور میں میں اپنے لڑکے علی حسن سلمہ‘ کے ساتھ ہوں جو یہاں ایس۔ ڈی۔ او (S.D.O.) ہے۔ باقی کنبہ ڈھاکہ میں ہے۔ یہاں میری صحت اچھی نہیں ہے۔ ایک مہینہ بعد ڈھاکہ واپس جانے کا ارادہ ہے۔ ‘‘                     (مکاتیب وحشتؔ۔ ص ۱۱۱)

اس طرح قیاس کیا جا سکتا ہے کہ علامہ وحشتؔ نے ۱۳؍ اپریل ۱۹۴۹ء اور ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء کے درمیان کبھی اپنے وطن کلکتہ سے مشرقی پاکستان کو ہجرت کی تھی۔ غالبؔ تو دلّی کے تھے اور کلکتہ کے ذکر پر ان کے دل سے ہائے نکلا کرتی تھی۔ وحشتؔ کی کلکتہ سے ذہنی و جذباتی وابستگی کا اندازہ ان کے مکاتیب سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ ۱۹۵۰ء کے بعد لکھے جانے والے اپنے اکثر مکاتیب میں انھوں نے اپنے اس دلی کرب کا اظہار کیا ہے اور بار بار کلکتہ کو یاد کرتے دکھائی پڑتے ہیں۔ چنانچہ بیخودؔ صاحب کو تحریر فرماتے ہیں :

’’ ملنے والے میرے یہاں متعدد ہیں لیکن وہ خلوص جو مجھے کلکتہ کے محبانِ عزیز میں ملتا تھا اس کا یہاں فقدان ہے۔ تکلف کی ملاقاتیں دل کو راحت نہیں پہنچاتیں۔ کلکتہ کی بات کلکتہ کے ساتھ گئی۔ ‘‘

( مکاتیب وحشت: ص ۱۲)

ڈھاکہ میں ان کی طبیعت اتنی اکتائی ہوئی رہتی ہے کہ لوگوں سے ملنے جلنے میں بھی پریشانی محسوس کرتے ہیں چنانچہ ۱۶؍ جون ۱۹۵۲ء کے خط میں بیخودؔ صاحب کو مطلع کرتے ہیں :

’’ رمضان کا مہینہ، مبارک مہینہ ہے کہ اس میں مشاعرے نہیں ہوتے۔ مجھے آرام ملتا ہے۔ یہاں اس مہینے میں کم لوگ دوست احباب سے ملنے کو نکلتے ہیں اور یہ بھی میرے لیے راحت کا سبب ہے کیونکہ ان رسمی ملاقاتوں میں مجھے مزہ نہیں آتا جن سے ملنا میری دلی مسرّت کا باعث ہوتا ہے انھیں تو میں کلکتہ میں چھوڑ آیا۔ ‘‘ ( مکاتیب وحشت: ص ۲۶۔ ۲۷)

اسی قسم کے جذبات اور احساسات کا اظہار ۱۶؍ جون ۱۹۵۳ء کے مکتوب بنام بیخودؔ میں ہے :

’’ کلکتہ پہنچ کر آپ نے اور متعلقین نے ایک خوش آئند فضا اپنے گرد دیکھی جس سے ہر قسم کا فائدہ محسوس ہوا۔ بات یہ ہے کہ کلکتہ کے رہنے والوں کے لیے کوئی دوسری خاطر خواہ جگہ نہیں ہے اور یہ میرا عقیدہ راسخ ہے۔ ‘‘

( مکاتیب وحشت : ص ۳۴)

دوسرے افراد کے نام خطوط میں بھی ایسی ہی باتوں کے تذکرے جا بجا نظر آتے ہیں۔ بیخودؔ صاحب کے نام ایک خط میں ایک قطعہ بھی ملتا ہے جس سے دیارِ غیر میں وحشتؔ کی وحشت زدگی کا احساس ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں :

زمینِ ڈھاکہ نے کی قلب پر افسردگی طاری

ہوا خلوت نشین میں اور شوقِ انجمن چھوٹا

وطن اور وہ بھی کلکتہ، غضب تھا چھوڑنا اس کا

قیامت ہو گئی وحشت سے وحشتؔ کا وطن چھوٹا

( مکاتیب وحشت: ص ۴۵۔ ۴۶)

خطوط کے مجموعہ میں شامل بہ اعتبارِ تاریخ آخری مکتوبِ وحشتؔ، طاہر علی شاکرؔ کے نام ہے جو ۵؍ مارچ ۱۹۵۵ء کو لکھا گیا ہے اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے ۱۹۵۶ میں وہ دارِ فانی کو خیر باد کہہ گئے۔ ہجرت کے بعد مختلف مکتوب الیہم کے خطوط میں وحشتؔ نے لگاتار اپنے ضعف بصر، ناتوانی و لاغری، ذیابیطس کے مرض اور دوسری بیماریوں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے غمزدہ وحشتؔ جن کا دل، بیٹے کے پاگل پن اور بعد ازاں اس کی شہادت سے یوں ہی چھلنی تھا، اپنے وطن سے ہجرت اور مخلص احباب کی مفارقت کی تاب نہ لا سکا اور ان کی صحت نے مستقلاً جواب دے دیا۔ یاد دلانا چاہوں گا کہ وطن سے ہجرت کے وقت وحشتؔ کی عمر کم و بیش ستّر برس کی ہو چکی تھی۔ ان حالات میں مکاتیب وحشت میں شگفتگی و رنگیں بیانی کی تلاش و توقع میرے خیال میں نا مناسب ہے۔ اپنی اس کسمپرسی اور مرض کی کثرت کے باوجود وحشتؔ نے کلکتہ آنے کے کم از کم تین مواقع نکال ہی لیے۔ چنانچہ ۸؍ فروری ۱۹۵۳ء کو طاہر علی شاکر کو مطلع فرماتے ہیں :

’’ میں آج کلکتہ روانہ ہو رہا ہوں۔ بے خودؔ صاحب ۱۵؍ فروری کو ایک نہایت مختصر بزمِ سخن منعقد کریں گے جس میں آپ کی شرکت ہو گی۔ انشاء اللہ مخلصوں کی ملاقات نصیب ہو گی۔ ‘‘ ( مکاتیب وحشتؔ۔ ص ۵۷)

بیخودؔ صاحب کے نام مکتوب مورخہ ۲۳ فروری ۱۹۵۳ء میں بخیر و عافیت ڈھاکہ واپس پہنچنے کی اطلاع ملتی ہے۔ دوسری بار کلکتہ آمد کی خبر بیخودؔ صاحب کے نام خط میں دی گئی ہے ۲؍نومبر۱۹۵۳ء کا نوشتہ ہے۔ اسی خط میں بیخودؔ کے یہاں احباب کی ایک مختصر نشست ۵؍نومبر ۱۹۵۳ء کو منعقد کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی گئی ہے اور مکتوب بنام پروفیسر اظہر قادری مورخہ ۱۸؍ نومبر ۱۹۵۳ء میں کلکتہ سے ڈھاکہ لوٹنے کی اطلاع بہم پہنچائی ہے۔ علامہ وحشتؔ آخری بار کلکتہ اکتوبر ۱۹۵۴ء میں تشریف لائے چنانچہ رضا مظہریؔ کو ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۵۴ء کے خط میں لکھا ہے کہ وہ ۳۰ ؍اکتوبر کو کلکتہ پہنچ رہے ہیں اور ساتھ ہی خواہش ظاہر کی ہے کہ مخصوص احباب و اعزّہ ۳۱؍ اکتوبر کو ان سے رضاؔ مظہری صاحب کے مکان پر ہی ملاقات کر لیں۔ ۲۵؍ نومبر ۱۹۵۳ء کو طاہر علی شاکرؔ کے نام مکتوب میں بخیر و عافیت ڈھاکا واپس پہنچنے کی اطلاع دی گئی ہے۔

وحشتؔ کے مکاتیب میں کہیں کہیں اس قسم کے ادبی فقرے بھی جھلملاتے نظر آتے ہیں :

’’ ترانۂ وحشتؔ خدا جانے کن ترانوں پر مشتمل ہے کہ کوئی سن نہیں پاتا ہے۔ دیکھیے کب تک مکتبہ جدید قدم اٹھاتا ہے۔ میری نا توانی اب زوروں پر ہے اعصاب اپنے کام انجام نہیں دیتے اور دماغ بھی بے دماغی کرنے لگا ہے۔ ‘‘               ( مکتوب بنام ارشد کاکوی۔ مکاتیب وحشتؔ ص ۱۲۷)

شاکرؔ صاحب کے خط میں رقم طراز ہیں :

’’ جگرؔ صاحب کا نسخہ خوب تھا لیکن دو چار دن سے زیادہ اس کا استعمال نہیں ہو سکا کیونکہ کلیجے کا بیچنے والا غائب ہو گیا۔ ‘‘ ( مکاتیب وحشت: ص ۶۱)

لیکن جیسا کہ عرض کر چکا ہوں ایسے مقامات ان کے خطوط میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی بجھی ہوئی افسردہ طبیعت رکھنے والے فن کار کے خطوط کس لحاظ سے اہم ہو سکتے ہیں جب کہ ان میں ادبیت اور شعریت کی چاشنی بھی کم پائی جاتی ہے لیکن جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں عرض کر چکا ہوں مشاہیر ادب کے وہ خطوط بھی ادبی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں جو ان کی شخصیت اور سوانح حیات پر روشنی ڈالتے ہوں۔ اس اعتبار سے مکاتیبِ وحشتؔ بے حد قیمتی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے نہ صرف علامہ وحشتؔ کی خانگی زندگی کے وہ خاص گوشے روشن ہوتے ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ موصوف کی شخصیت کے بہت سے نرم و نازک پہلوؤں سے بھی ہمیں آگاہی ہوتی ہے۔ عمر پھر دل پر زخم کھانے والا یہ حساس فن کار کہیں سے خود ترحمی اور مردم بیزاری کا شکار نظر نہیں آتا۔ اپنی بیماری کا ذکر کرتا ہے تو ساتھ ہی احباب و تلامذہ کی پریشانیوں اور غموں میں برابر کا شریک بھی ہے۔ مکاتیب بنام بیخودؔ میں نہ صرف مکتوب الیہ کی بیماریوں پر اظہارِ تشویش و ہمدردی ہے بلکہ اکثر علاج معالجے کے سلسلے میں انھیں مفصل مشوروں سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپریشن کہاں کرایا جائے اور دوائیں کون سی استعمال کی جائیں، ان مقامات پر کوتاہ قلم ہونے کے باوجود وحشتؔ تفصیل سے کام لیتے ہیں۔ ایک خط میں بیخودؔ صاحب کو یہ دلچسپ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ڈاکٹر کو بتائے بغیر وحشتؔ صاحب کی تجویز کردہ دوا استعمال کرتے رہیں۔ ظفرؔ ہاشمی، شاکر کلکتوی وغیرہ کے نام خطوط میں بھی پریشانی کے مواقع پر ان حضرات کی تسلی و تشفی کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ امیر رضا کاظمی کو پُرسے کے ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’ آج اشکؔ صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان جانکاہ حوادث کا علم ہوا جو مشیتِ ایزدی سے آپ پر گزرے۔ یہ لکھنا بے کار ہے کہ میرے دل نے کیامحسوس کیا:

دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے

میں ایسا ہی صدمہ اٹھا چکا ہوں۔ میں اس رسم کی پابندی نہیں کروں گا کہ آپ کو تسلی دینے کی کوشش کروں۔ تسلی اور بھی دلخراش ہو گی۔ روئیے اور خوب روئیے :             وائے گر گریہ نیاید بہ مددگاریِ دل

میں صرف دعا کر سکتا ہوں، اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں کیا اور میری دعا کیا۔ اے رب میرے ! تو دلِ شکستہ کاظمی کو صبر کی طاقت دے۔ ‘‘

(مکاتیب وحشتؔ: ص ۱۳۲)

اپنے فن و شخصیت کے سلسلے میں خود احتسابی سے کام لینے والا اتنا منکسر المزاج فنکار دوسرا مشکل سے ملے گا۔ ارشد کاکوی کو لکھتے ہیں :

’’ میں تو پرانی لکیر کا فقیر ہوں اور قدیم طرزِ سخن کا دلدادہ ہوں۔ جدید طرزِ شعر کی نظموں اور غزلوں کی اصلاح دینے کی قابیلت اپنے میں نہیں پاتا۔ ۔ ۔ ۔ اگر اصلاح لینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو ڈاکٹر عندلیبؔ شادانی سے استفادہ کیجیے۔ ان سے بہتر استاد کوئی آپ کو نہیں ملے گا۔ میرے دل میں ان کا بڑا احترام ہے۔ ‘‘

(مکاتیب وحشتؔ: ص ۱۲۴۔ ۱۲۵)

ارشد کاکوی ہی کو دوسرے خط میں لکھا ہے :

’’ میں پرُانی لکیر کا فقیر ہوں اور میری شاعری کی دنیا محدود ہے :‘‘

( مکاتیبِ وحشت: ص ۱۲۶)

خود اپنی نفی کر کے اپنے معاصرین کی صلاحیتوں کا اس کشادہ قلبی سے اعتراف کرنا وحشتؔ کی وسیع القلبی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ وسیع القلبی ان مقامات پر اور ابھر کر سامنے آتی ہے جب وہ اپنے قدیم  شاگرد ظفر ہاشمی کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے مجموعۂ کلام پر اصلاح کے لیے طاہر علی شاکرؔ کو رجوع کریں۔ انھیں شاکر صاحب کے بارے میں یہ اطلاع پا کر کہ انھیں ایک مشاعرے میں نا مناسب مقام پر دعوتِ سخن دی گئی، وحشتؔ  صاحب کا دل تڑپ اٹھتا ہے لیکن ساتھ ہی ان کے نام اپنے خط مورخہ ۱۷؍ فروری ۱۹۵۴ء میں اس طرح تشفی دیتے نظر آتے ہیں کہ وہ پروفیسر بیخودؔ سے بد ظن نہ ہونے پائیں۔ جمیل مظہری کے فن پر اعتراضات کیے جاتے ہیں تو وحشتؔ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے مدلل جواب دیے جائیں۔ اکثر مکاتیب میں نہ صرف اپنے تلامذہ بلکہ معاصرین کے شاگردوں کے اچھے اشعار پر انھوں نے جس طرح کھلے دل سے داد دی ہے وہ بھی وحشتؔ کی وسیع النظر شخصیت کا امتیاز ہے۔ ان خطوط میں کئی مقامات پر ایسے اشارے بھی مل جاتے ہیں جن کے توسط سے ہم کلام وحشتؔ کے کئی اچھوتے گوشوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ارشد کاکوی کے نام اپنے خط مورخہ ۱۵؍ مارچ ۱۹۵۴ء میں لکھتے ہیں :

’’ آپ کا قیاس ہے کہ جہاں میں غالبؔ کے کلام سے متاثر ہوا ہوں وہاں مومنؔ کے کلام سے بھی ایک حد تک متاثر نظر آتا ہوں۔ یہ خیال علامہ شبلیؔ نے بھی ’دیوانِ وحشت‘ کے شائع ہونے پر ظاہر کیے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ بات یہ ہے کہ میں لڑکپن ہی سے اساتذہ کا کلام شوق سے پڑھا کرتا تھا اور بعض اشعار کا دل پر گہرا اثر ہو جاتا تھا۔ مومنؔ کا تغزل میرے لیے بڑی جاذبیت رکھتا تھا اور اس کا تناسب الفاظ بھی مجھے بھلا لگتا تھا۔ مثلاً:

بے روئے مثل ابر نہ نکلا غبارِ دل

کہتے تھے ان کو برقِ تبسم ہنسی سے ہم

میں نے اس کی تقلید نہیں کی لیکن مناسبتِ الفاظ کا ایک حد تک خیال رکھا۔ ‘‘             (مکاتیبِ وحشتؔ: ص ۱۲۸۔ ۱۲۹)

اسی مکتوب الیہ کو ۱۶؍ اگست ۱۹۵۴ء کے خط میں رقم طراز ہیں :

’’ میں حضرتِ شمس کا شاگرد ہوں اور وہ داغؔ کے شاگرد تھے اس تعلق کی بنا پر داغؔ کا احترام مجھ پر لازم ہو گیا لیکن میں نے اس کے کلام کی تقلید نہیں کی۔ غالبؔ کی تقلید میں نے بے شک کی ہے۔ لیکن اس حد تک نہیں کہ میں کچھ اوریجنل خیالات نہ پیش کر سکوں۔ میرے دیوان کا مطالعہ اگر گہرا ہو تو ظاہر کر دے گا کہ میں نے بھی کچھ نہ کچھ پیش کیا ہے۔ بقول غالبؔ:

بیاورید گر ایں جا بود سخن دانے

غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد

آپ کا خیال صحیح ہے کہ میں حالیؔ کے کلام سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں نے ایک مضمون لکھاتھا ( شاید ’ مخزن‘ میں ) جس میں میں نے حالیؔ کی قدیم غزلوں سے بحث کی تھی۔ منجملہ اس کے اشعار کے ایک شعر کا میں نے خاص طور پر ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ اردو زبان کے بہترین اشعار میں اس کا شمار ہو گا۔ وہ شعر یہ ہے :

سخت مشکل ہے شیوۂ تسلیم

ہم بھی آخر کو جی چرانے لگے

مولانا حالیؔ کی نظر سے یہ مضمون گزرا تھا اور انھوں نے ایک خط میں لکھا تھا کہ تمہی ایک شخص ہو جس نے میری شاعری کو شاعرانہ نظر سے دیکھا ہے ورنہ میں تو قوم کا ایک مرثیہ گوسمجھا گیا ہوں۔

(مکاتیب وحشتؔ: ص ۱۳۰۔ ۱۳۱)

مکاتیب وحشتؔ کی اہمیت اس لیے اور بڑھ جاتی ہے کہ ان میں مکتوب نگار نے اکثر فنّی اور شعری نکات پر اپنے رویّے کی وضاحت کی ہے۔ مثلاً:

’’ اگر اس شکست ناروا کا خیال رکھا جائے تو شعر کہنا ہی مشکل ہو جائے۔ اس سے میں خود بچتا ہوں کیونکہ پرانے اسکول کا ہوں لیکن اوروں پر جو اس کی پروا نہیں کرتے معترض نہیں ہوتا۔ ‘‘  (مکاتیب وحشتؔ:۱۳۱)

شاکرؔ کلکتوی کو لکھا ہے :

’’ میں غیر مانوس بحروں میں غزل نہیں کہتا اور نہ پسند کرتا ہوں جو کلام کہ کانوں کو موزوں نہ معلوم ہو وہ بے لذت ہے۔ آج کل ترقی پسندوں نے اس قسم کی بحروں کو رواج دیا ہے جن میں وہ بہت سے ناموزوں شعر بھی کہہ جاتے ہیں۔ ‘‘                (مکاتب وحشتؔ: ص ۶۶)

یٰسین بنارسی کو لکھتے ہیں :

’’ طوفان کرنا کوئی محاورہ نہیں ہے لیکن جس موقعہ پر اس شعر میں طوفان کر دے کہا گیا ہے، سننے میں کچھ برا نہیں معلوم ہوتا اور اتنا تصرف جائز سمجھا جا سکتا ہے۔ ‘‘

( مکاتیب وحشت: ص ۱۱۵)

ایک جگہ لکھا ہے :

’’ عموماً آج کل نظموں کے لکھنے کا رواج ہے اور وہ لوگ جنھوں نے فنِ شعر کو باقاعدہ حاصل نہیں کیا ہے، طبع آزمائی کرتے ہیں اور مہمل بکتے ہیں۔ نظمیں بے سر و پا ہوتی ہیں، الفاظ کو معنی سے تعلق نہیں ہوتا۔ الفاظ ادائے مطلب کے لیے ہیں۔ لہٰذا ہر لفظ سوچ سمجھ کر لکھنا چاہیے کہ بے ضرورت نہ ہو اور مصرعے کو مصرعے سے پورا ربط ہو۔ ‘‘

(مکاتیب وحشتؔ: ص ۷۲)

عبد العلی سندیلوی کو مطلع کرتے ہیں :

’’ آپ نے چمک دمک کے ما بہ الامتیاز کو دریافت فرمایا ہے۔ دمک بجائے خود مستعمل کم ہے، چمک کے ساتھ ہی اس کا استعمال ہوتا ہے جیسے چال ڈھال۔ ‘‘                      (مکاتیب وحشتؔ: ص ۷۲)

اسی مکتوب الیہ کودوسری جگہ لکھا ہے :

’’ عرصۂ محشر اگرچہ مروج ہے اور خود میرے دیوان میں ہے لیکن قابلِ تقلید نہیں۔ شعراء نے بہت سی باتوں کو جو قابلِ تسلیم نہیں رواج دے دیا ہے۔ ‘‘                            ( مکاتیبِ وحشتؔ: ص ۷۲)

رضی احمد رضیؔ اور سید محمد قاسمؔ کے نام خطوط میں بھی اسی قسم کے کئی فنی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

وحشتؔ میں جرأتِ اظہار کی کمی بھی نہیں ہے۔ چنانچہ اساتذہ کی غلطیوں پر نگاہ پڑتی ہے تو انھیں طشت از بام کرنے میں کوئی تکلف نہیں کرتے۔ مضطر حیدری کو لکھتے ہیں کہ:

’’ دیوانِ دردؔ میں آپ اس قسم کی بہت سی رباعیاں دیکھیں گے کہ رباعی کے اوزان میں نہیں ہیں۔ ان اشعار پر لفظ قطعہ کا بھی اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ قطعہ کا مصرعہ اوّل قافیہ و ردیف کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ ‘‘

( مکاتیبِ وحشتؔ: ص ۱۴۰)

علامہ وحشتؔ کے بعض مکاتیب نہایت دلچسپ امور سے پردہ سرکاتے ہیں۔ بیخوؔؔد صاحب کے نام ایک خط میں انکشاف کیا ہے :

’’ شاید صابر خاں سے آپ کو معلوم ہوا ہو گا کہ میں پرانی تفریح کی طرف راجع ہو گیا ہوں یعنی السٹریٹڈ ویکلی کا حل معما۔ صابر خاں صاحب ہی کے نام سے حل بھیجا کرتا ہوں اور جہاں ایک سے زیادہ بھیجنے کی نوبت آتی ہے وہاں آپ کے نام سے بھی کام لینے لگا ہوں۔ اس معاملے میں میری حیثیت شیخ چلّی کی ہو جاتی ہے اور امیدوں کی فراوانی سے دل کو خوش کرتا رہتا ہوں۔ اگر کبھی معمولی کامیابی ہو گئی تو چند ضروری کاموں کی طرف توجہ دے سکوں گا۔ ‘‘        (مکاتیبِ وحشتؔ: ص ۲۹)

مکاتیب کا یہ مجموعہ شاہد ہے کہ کم آمیز اور گوشہ نشین ہونے کے باوجود علامہ وحشتؔ اپنے گرد و پیش کے ماحول سے بیگانہ نہ تھے۔ ایک خط میں ڈھاکہ میں اپنے شب و روز کے مشاغل کو اجمال کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے :

’’جہاں میں رہتا ہوں وہاں سڑکیں اچھی ہیں اور دور دور تک چلی گئی ہیں۔ میں صبح سویرے سیر کو نکل جاتا ہوں، منظر خوش نما پیش نظر ہوتا ہے۔ کوئی آدھ گھنٹہ آہستہ آہستہ چلتا ہوں دن بھر بستر پر پڑا رہتا ہوں، ملنے والے اکثر شام کو آ جاتے ہیں۔ قمرؔ صاحب مکرر آتے رہتے ہیں۔ طرزیؔ صاحب دو بار آئے۔ اشکؔ صاحب دوبار آئے۔ ڈاکٹر شادانیؔ ایک بار آئے۔ فضلیؔ صاحب دو بار آئے۔ آغا طاہر، شمس العلماء محمد حسین آزاد کے پوتے، جو ڈھاکہ آئے ہوئے ہیں، ڈاکٹر شادانیؔ کے ساتھ آ کر ملے۔ میں خود گھر سے کم نکلتا ہوں۔ نقل و حرکت سے گھبراتا ہوں۔ ‘‘

(مکاتیبِ وحشت: ص ۶۔ ۷)

علامہ وحشتؔ کے خطوط میں ضمناً ایسی معلومات بھی شامل ہو گئی ہیں جو شاید آج زیادہ اہم نہ قرار پائیں لیکن مستقبل کے محققین ادب کے لیے ان کی افادیت مسلم ہو گئی ہے مثال کے طور پر ظفرؔ ہاشمی کے نام ایک خط میں ذکر کیا گیا ہے کہ سرکار نے انھیں ۳؍ جون ۱۹۳۱ء کو خان بہادر کا خطاب عطا کیا ہے اسی مکتوب الیہ کو لکھا ہے کہ ان کا پہلا دیوان ۱۹۱۱ء میں شائع ہوا تھا اور مکتوب بنام عبد العلی شوقؔ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دائرہ ادبیہ یحییٰ گنج اس دیوان کا ناشر تھا اور یہ کہ ’’ترانۂ وحشتؔ‘‘ کی اشاعت کے لیے ڈھاکہ کے پروفیسر اختر حسین نے ایک بڑی رقم محفوظ کر دی تھی نیز بعد ازاں مکتبہ جدید انار کلی لاہور سے ’ ترانۂ وحشتؔ‘ کی اشاعت کا پتہ بھی چلتا ہے۔ ان خطوط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۴۹ء تک وحشتؔ کا قیام کلکتہ میں ۲/۱/۲ دِلکشا اسٹریٹ میں تھا اور مشرقی پاکستان میں وہ ۲۰؍ ایل عظیم پورہ، ڈاک خانہ رمنا، ڈھاکہ میں مقیم رہے نیزیہ کہ عمر کے آخری حصّے میں شعر گوئی کی طرف ان کی طبیعت کم ہی مائل ہوتی تھی۔ مکاتیبِ وحشتؔ اس بات کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ وہ شمسؔ کے شاگرد تھے اور خود وحشتؔ کے تلامذہ میں عباس علی بیخودؔ، قمر صدیقی، طاہر علی شاکرؔ کلکتوی، آصفؔ بنارسی، جمیل مظہری، واقفؔ بہاری، پروفیسر عبد المنان بیدلؔ عظیم آبادی جیسے مشاہیر شامل ہیں اور ارشدؔ کاکوی ان سے شرفِ تلمیذ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ ایسی بہت سی کار آمد معلومات ان خطوط میں بکھری ہوئی ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ وحشتؔ نے اپنے عہد شباب میں، جب انھیں وہ پریشانیاں اور بیماریاں لاحق نہ تھیں جن کا ذکر اس پرچے میں کیا گیا، احباب کو جو خط لکھے ہوں گے ان میں ادبیت  زیادہ کار فرما رہی ہو گی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ عام طور پر فن کار کو درجۂ استناد عام طور پر پختہ عمری میں ہی نصیب ہوتا ہے، تبھی خط جمع کیے جاتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان مکاتیب کے آئینے سے وحشتؔ کی جو شخصیت ابھرتی ہے، وہ ایک ایسے دل درد آشنا رکھنے والے سنجیدہ و متین، کم آمیز، وضعدار اور عزلت نشیں انسان کی ہے جو حساس طبیعت رکھتا ہے کہ جس نے زندگی بھر روحانی اذیتیں برداشت کیں۔ بیماری اور نا توانی کا شکار بھی رہا۔ لیکن اس کی طبیعت میں انسان دوستی، خلوص و بردباری، مروّت، احباب نوازی، وطن پرستی، سادگی، خود داری، خود احتسابی، کشادہ قلبی اور وسیع النظری کے جوہر پوشیدہ تھے۔ یہ پہلو دار شخصیت چونکہ ادب سے گہرا لگاؤ بھی رکھتی تھی اس لیے خالصتاً ذاتی نوعیت کے ان خطوط میں بھی فنی رموز اور ادبی نکات کا وافر ذخیرہ محفوظ ہو گیا ہے۔ ’ مضامین وحشتؔ‘‘ میں شامل عندلیبؔ شادانی کے نام خطوط سے بھی میرے اس خیال کی تصدیق ہو گی۔ مکاتیب وحشتؔ کا مرتبہ یقیناً بلند ہے کہ یہ ان کی زندگی، ان کے فن اور ان کی دل نواز اور پہلو دار شخصیت کے آئینہ دار ہیں اور انھیں نظر انداز کر کے وحشتؔ کے کلام کی صحیح قدر و قیمت کا تعین کرنا ممکن نہ ہو گا۔

( رضا علی وحشتؔ سمینار، کلکتہ میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

 

 

 

خواجہ حسن نظامی کا اسلوب اور طنز و مزاح

 

غالبؔ صدی کا یہ لطیفہ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک جج صاحب نے مرزا کو فلسفی نہیں مجرم قرار دیا تھا۔ اس مقالے کے عنوان سے میری نیت پر بھی شبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن باور کیجیے کہ میں خواجہ حسن نظامی کو نہ تو ملّا رموزی، عظیم بیگ چغتائی، پطرس، شوکت تھانوی، شفیق الرحمان، مجتبیٰ حسین جیسے خالص مزاح نگاروں کی صف میں بٹھانا چاہتا ہوں، نہ ہی رشید احمد صدیقی، کنہیّا لال کپور، ابراہیم جلیس اور فکر تونسوی جیسے طنز نگاروں کے قبیلے میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے میری اس بات پر کچھ لوگوں کو ’’ شیخ چلّی کی ڈائری‘‘ یاد آئے، جسے خواجہ صاحب نے چھ حصوں میں شائع کیا تھا۔ اس ضمن میں وہ تحریریں بھی پیش کی جا سکتی ہیں جو ان کے مجموعۂ مضامین ’’چٹکیاں اور گدگد یاں ‘‘ میں شامل ہیں، لیکن جب ہم تقریباً دو سو کتابوں کی اس طویل فہرست پر نگاہ ڈالتے ہیں جو خواجہ صاحب کی شگوفہ کاری کا نتیجہ ہیں، تو کہنا پڑتا ہے کہ خواجہ حسن نظامی اور مذکورہ بالا طنز و مزاح نگاروں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ طنز و مزاح خواجہ صاحب کے اسلوب کا ایک جزو ہے اور دوسروں کے ہاں اسی کا نام اسلوب ہے۔

مجھے عرض کرنے دیجیے کہ محض ’’ چٹکیاں اور گدگدیاں ‘‘ اور ’’ شیخ چلّی کی ڈائری‘‘ کے سلسلے کی کتابیں دیکھ کر خواجہ حسن نظامی کے اسلوب اور ان کے طنز ومزاح کے ساتھ انصاف کیا ہی نہیں جا سکتا۔ حق تو یہ ہے کہ ان کی تبلیغی، دینی اور تاریخی تصنیفات ہوں، سفر نامے، تقریظیں، قلمی چہرے اور ادبی کتابیں ہوں، کتبِ عملیات، انشائیے اور فکاہیے ہوں یا روزنامچے، ہر جگہ خواجہ صاحب کا اسلوبِ بیان، طنز و مزاح کی سان پر چڑھا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے مکاتیب بھی اس صفت سے خالی نہیں ہیں۔ عام طور پر تہنیت ناموں کے جواب میں شکر گزاری اور اظہار ممنونیت سے کام چلایا جاتا ہے، لیکن خواجہ صاحب کو ’’ شمس العلماء‘‘ کا خطاب ملنے پر جن لوگوں نے انھیں تہنیت نامے روانہ کیے ان کے جوابات میں بھی جگہ جگہ طنز و مزاح کی چھوٹ نظر آتی ہے۔ مثلاً حکیم احمد قادری کو، جو طبی بور ڈ کے سکریٹری ہیں، خواجہ صاحب کی طرف سے جواب ملتا ہے :

’’ حکیم صاحب کی تہنیت کا شکرانہ دل سے، دماغ سے، جگر سے، گردے سے، پھیپھڑے سے تما م اعضائے رئیسہ سے ادا کرتا ہوں۔ اپنے طبی بورڈ میں یہ تحقیقات پیش کیجیے کہ خطابات کا اثر جوانوں پر زیادہ ہوتا ہے یا بڈھوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ بڈھوں پر اثر نہ ہوتا ہو گا کیونکہ مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ ‘‘

ایک اور مبارکباد پر یہ پھندنا بھی ملاحظہ ہو:

’’ برف کھِلانے والے، ہر موسم کے پھل کھلانے والے اور سنیما دکھانے والے لالہ کنور سین اور ان کے سب جین بھائیوں کی مبارکباد چائے کی طرح گرم ہے، برف کی طرح ٹھنڈی ہے اور پھلوں کی طرح میٹھی ہے۔ ‘‘

بلا مبالغہ ایسے ہزاروں تہنیتی مکاتیب پر خواجہ صاحب نے اپنے دلچسپ اسٹائل میں نوٹ لگائے ہیں اور قدم قدم پر اپنے مزاج کی شگفتگی کا مظاہرہ مزاحیہ فقروں کی صورت میں کیا ہے۔ یہی صفت ان کے عام مراسلوں میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے نام آنے والے خطوط کے مجموعے، مکتوب نگاروں کے بارے میں دلچسپ اور مختصر تبصروں کے ساتھ شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اگر اسے عملی صورت مل جاتی تو خواجہ صاحب کی شخصیت اور فن کے کئی نئے پہلو ہمارے سامنے آتے۔ اردو کے تحقیقی مقالوں میں جو بے رنگ، بے کیف، خشک اندازِ بیان اختیار کیا جاتا ہے، اس سے سب واقف ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کا قلم اس سنگلاخ زمین میں بھی موجِ خرام یار کی طرح گل کترتا چلتا ہے۔ ’’ تحقیقات ادویات‘‘ کے سلسلے میں خشخاش کا ذکر اس مزاحیہ انداز سے شروع ہوتا ہے :

’’ افیمی صاحب اس عنوان کو پڑھ کر اچھل پڑیں گے اور ناک میں خنخنا کر کہیں گے ’’ ارے بھئی واہ، آج تو ہماری چنیا بیگم کی اماں کا ذکر ’منادی‘ میں چھپا ہے۔ ‘‘

ظاہر ہے اندازِ بیان ایسا دلچسپ ہو تو موضوع کی ثقالت بھی گوارا ہو جاتی ہے مضمون کا خاتمہ بھی کم دلچسپ نہیں کہ یہاں چلتے چلتے اس دور کی سیاست پر طنز کی ایک ضرب کاری لگا دی گئی ہے۔ لکھتے ہیں :

’’ ضرورت ہے کہ ہندوستانی افیم کی اماں سے فائدہ اٹھائیں اور خشخش کا حریرہ پی کر اپنی اس دماغی طاقت کو بڑھائیں جو آج کل مسلم لیگ اور کانگریس کے الیکشنوں میں بہت زیادہ درکار ہے۔ ‘‘

بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب کے مزاج میں طنز و ظرافت کی جڑیں اتنی گہرائی تک پیوست ہیں کہ وہ سنجیدہ ترین موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے بھی لا شعوری طور پر طنزیہ اور مزاحیہ لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ غالبؔ مشاہدۂ حق کی گفتگو میں بات بنانے کے لیے بادہ و ساغر سے کام لیتے تھے، خواجہ صاحب مسائلِ تصوف میں طنز و مزاح سے مطلوبہ اثر پیدا کرتے ہیں۔ ایک جگہ توکّل سے متعلق اپنے نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’ بر توکّل زانوئے اشتر بہ بند‘‘ پر عمل کرتا ہوں کہ خدا پر توکّل بھی کرتا ہوں مگر اونٹ کا پاؤں بھی باندھ دیتا ہوں، کیونکہ ایسا توکّل جائز نہیں سمجھتا کہ میاں اونٹ کہیں بھاگ جائیں اور میں خدا پر توکّل کیے بیٹھا رہوں کہ وہ میرے اونٹ کو بھاگنے نہیں دے گا۔ ‘‘

خواجہ حسن نظامی کے روزنامچے بھی اس حقیقت کے غمّاز ہیں کہ طنز و مزاح ان کی مختلف المزاج اور مختلف النوع تحریروں میں ایک قدرِ مشترک ہے۔ انھوں نے تقریباً تیس سال تک پابندی کے ساتھ روزنامچہ لکھا ہے۔ اس روزنامچے کے گوناگوں اوصاف پر ڈاکٹر نثار احمد فاروقی مفصل مضمون لکھ چکے ہیں۔ مجھے یہاں اس کی محض اس صفت کا ذکر کرنا مقصود ہے کہ مختلف لوگوں سے اپنی ملاقاتوں یا مختلف جلسوں میں پیش آنے والے واقعات و کوائف کی مرقع کشی درکار ہو یا خلوت کدے میں نہاں خانۂ دل سے ابھرنے والے جذبات و احساست کی عکاسی مطلوب ہو، خواجہ صاحب ظرافت کی پھلجھڑیوں اور طنز کے شگوفوں سے تحریر کو مزیّن کرنا نہیں بھولتے۔ اس بحر بے کنار کی چند موجیں بھی دیکھ لیجیے۔ ۲۱ اگست ۱۹۳۱ء کو لکھتے ہیں :

’’ جمعہ کی نماز کے لیے درگاہ میں جانے کی ہر چند تدبیریں کیں، مگر طوفانی بارش راضی ہی نہ ہوئی۔ اسی حال میں جانا چاہا تو خبر آئی، نماز ہو چکی۔ میرے سب بچے نماز میں شریک ہوئے۔ باپ سے تو اولاد اچھی رہی۔ مگر وہ موم کی تھی اور میں نون ( نمک) کا تھا۔ ‘‘

۵؍ جون ۱۹۴۶ء کے روز نامچے میں رقم طراز ہیں :

’’آج مولوی عنایت الرحمان خاں صاحب نے اپنے باغ کے گیارہ آم بھیجے تھے، میں نے رسید لکھی تو لکھا بارہویں امام چونکہ غائب ہیں اس واسطے آپ نے گیارہ آم بھیجے ہیں۔ ‘‘

۸؍ مارچ ۱۹۴۶ء کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ ہو:

’’ رات کو دَلی مسور کی دال اور پالک کا ساگ کھایا تھا، کھاتا جاتا تھا اور یہ گیت گاتا جاتا تھا’ بائیکاٹ کرو، بائیکاٹ کرو، لال مرچوں کا بائیکاٹ کرو‘ مجھے لال مرچوں سے بہت تکلیف ہوتی ہے میرا باورچی خانہ روسی خیال رکھتا ہے اس واسطے لال مرچوں کا حلقہ بگوش ہے۔ ‘‘

۲۴؍ فروری ۱۹۴۶ء کو اپنے بیٹے حسین کو ایک خط میں انھوں نے فیکٹری بند کرنے کی ہدایت کی۔ اس فیکٹری میں بکروں کا گوشت خشک کر کے ملک سے باہر بھیجا جاتا تھا۔ اپنے اس عمل سے لطف اندوز ہوتے ہوئے خود کلامی کے طور پر لکھتے ہیں :

’’ بکروں کی اماں سے کہہ سکوں گا، لو بھئی! لوگ کہتے تھے بکرے کی ماں کب تک اپنے بچوں کی خیر منائے گی، میں نے تمھارے بچوں کی جان بچانے کا فرمان جاری کر دیا۔ ‘‘

۱۷؍ فروری ۱۹۴۶ء کو عبد الکریم خاں صبرؔ کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہیں تو ایسے سنجیدہ موقعہ پر بھی ان کی طبعی ظرافت اپنے اظہار کی راہ اس طرح تلاش کر لیتی ہے :

’’ خدا ان کی مغفرت کرے اور پسماندوں کو صبر دے لیکن چونکہ مرحوم کا تخلّص صبرؔ تھا اس واسطے کوئی نہ سمجھ لے کہ میں یہ دعا دیتا ہوں کہ صبرؔ قبر سے اٹھ کر پسماندوں کے پاس آ جائیں۔ ‘‘

۱۲ فروری ۱۹۴۶ء کو ایک مسجد کی صفائی اور مرمت کرائی گئی ہے جس کی نسبت عوام کو وہم تھا کہ یہاں جنّات رہتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

’’ اب میں خود تھوڑی دیر اس مسجدمیں بیٹھا کروں گا کیونکہ مجھے جنّات سے بہت محبت ہے۔ انسانوں کی صحبت سے اکتا گیا ہوں۔ اب جنّات سے دل لگانا چاہتا ہوں۔ جنات کی عورتیں پریاں کہلاتی ہیں، وہ سب درکار نہیں ہیں کیونکہ سنیما والوں کو بہت سی پریوں کی ضرورت ہے، وہ وہاں چلی چائیں گی، بڈھے بڈھے جِن میرے پاس رہیں گے، ان کو رضا کار پولیس میں بھرتی کروں گا اور کہوں گا کہ اب تقیّے کی ضرورت نہیں ہے، تم انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ کیوں رہتے ہو؟‘‘

آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ میں دانستہ خواجہ صاحب کی ایسی تحریروں سے اقتباسات پیش کر رہا ہوں جن کے موضوعات طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب کے متقاضی نہیں ہیں اس کے باوجود ان کی افتاد طبع نے ہر مقام پر اور ہر موضوع میں اپنے اظہار کی راہ نکال لی ہے۔ کتابوں کے مقدمات اور تقریظوں میں بھی عموماً سنجیدگی، متانت اور بردباری کے لبادے اوڑھ لیے جاتے ہیں لیکن خواجہ صاحب کو دیکھیے کہ ایک کتاب کی تمہید میں، اور وہ بھی علامہ اقبالؔ کی کتاب ( اکبری اقبالؔ) کی تمہید میں کس بانکپن کے ساتھ طنز و مزاح کی مدد سے حق بیانی کی صورت پیدا کر لیتے ہیں :

’’ لاہور میں سیالکوٹ کے رہنے والے ایک صاحب رہتے ہیں جن کا نام محمداقبال ہے اور ڈاکٹر ہے اور پی ایچ ڈی ہے۔ وہ شعر گاتے، شعر بجاتے ہیں اور موقعہ پاتے ہیں تو شعر پیدا بھی کر لیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقبالؔ ہمیشہ آسمان پر اڑتے ہیں، زمین پر کبھی آنا ہوتا ہے تو اس زمین پر جو آسمان سے بھی زیادہ دور ہوتی ہے اس لیے وہ لوگ جن کے پاس ہوائی جہاز نہیں ہیں، یہ کہتے رہ جاتے ہیں کہ اقبالؔ کہاں ہے ؟‘‘

خواجہ حسن نظامی کے طنز و ظرافت کے بہت خوبصورت مرقعے ان بے شمار خاکوں میں  بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو انھوں نے قلمی چہروں کے نام سے لکھے ہیں۔ مثلاً مولانا ابو الکلام آزاؔد کے بارے میں لکھا ہے :

’’اگر ان کو ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا جائے تو ایک دن کم بارہ مہینے سوتے رہیں۔ صرف ایک دن بیدار ہو کر کام کریں، کیونکہ یہ کسی کام کو جلدی کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ ‘‘

اور سر محمد یعقوب کا قلمی چہرہ ان الفاظ سے مکمل کرتے ہیں :

’’ اگر ان کی داڑھی لمبی ہوتی تو شاید وہ بھی مولویوں کی طرح فقط دعوت کھایا کرتے، کھلانے سے احتیاط کرتے اور مجرد بھی نہ رہتے چار نکاح کرتے۔ ‘‘

ان اقتباسات کو جو خواجہ صاحب کے مکاتیب، تحقیقی مضامین، تقریظ، مسائل تصوف سے متعلق مضامین، روزنامچے اور قلمی خاکوں سے ماخوذ ہیں، پیش نظر رکھتے ہوئے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بے شمار موضوعات پر ان کے سیکڑوں انشائیوں میں طنز و مزاح کی کارفرمائی کس حد تک ہو گی۔ جبکہ ہمارے ہاں انشائیے عرصہ دراز تک مزاحیہ مضامین کا رول ہی ادا کرتے رہے ہیں۔ ان انشائیوں میں ’’ مس چڑیا کی کہانی‘‘ بھی شامل ہے جو مولانا ابو الکلام آزادؔ کی ’’ چڑیا چڑے کی کہانی‘‘ سے کئی سال قبل، اس سے زیادہ دلچسپ انداز میں بیان کی گئی تھی۔ اسی طرح ان کی انگنت ریڈیائی تقاریر میں ظرافت اور طنز کی شمولیت کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کا مقصد ہی دلبستگیِ عوام تھا۔ اور ’’چٹکیاں اور گدگدیاں ‘‘، ’’ خصائل کی تصاویر‘‘ کا سلسلہ ’’شیخ چلّی کی ڈائری‘ وغیرہ تو خیر سے خالصتاً طنز و ظرافت پر مشتمل تخلیقات ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ خواجہ حسن نظامی کی تصانیف پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اردو نثر کے اس نظیر اکبر آبادی نے، جس کے موضوعات لا محدود ہیں، مختلف میدانوں میں موضوعات کے اعتبار سے مختلف اسالیب بیان اختیار کیے لیکن اکثر و بیشتر مقامات پر طنز و مزاح قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ جن عوامل نے خواجہ حسن نظامی کو صاحبِ طرز نثر نگار بنایا ہے ان کا ایک نمایاں جزو طنز و مزاح ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی تحریر تبسم زیرِ لب ہی تک لے جاتی ہے، قہقہوں پر مجبور نہیں کرتی۔ خواجہ صاحب کا مزاح معمولی سے معمولی مضمون کو دلکش اور پُر تاثیر بنا دیتا ہے۔ ان کا نادرہ کار تخیل اور الفاظ کے ساتھ جمہوری برتاؤ بھی قابلِ رشک ہے۔ وہ انتہائی سادہ و سلیس عبارت استعمال کرتے ہیں اور طنز و مزاح کی آمیزش سے اس میں دلچسپی پیدا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی عوامی اپیل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ حسبِ ضرورت اور حسبٍ موقعہ طعن، تشنیع، طنز بدیہہ، رمز، پھبتی، ملامت، کنایہ اور پھکڑ پن سے بھی کام لیتے ہیں۔ خواجہ صاحب کا اسلوب اتنا منفرد ہے کہ ان کی تحریریں ہاتھ اٹھا اٹھا کر غزل کے مقطعوں کی طرح اپنے تخلیق کار کا اعلان کرتی ہیں۔ ہر صاحبِ طرز فنکار کا اسلوب اس کی شخصیت کا غماز ہوتا ہے اور خواجہ صاحب کے صاحبِ طرز ہونے میں دو رائیں ہرگز نہیں ہو سکتیں۔

کہیں مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا ہے کہ خواجہ صاحب کے مضامین کے عنوانات غیر متین اور سبک ہوتے ہیں اور رام بابو سکسینہ نے بھی شکایت کی ہے کہ ان کے خیالات میں گہرائی نہیں ہوتی۔ میں اس پہلو پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ عام طور پر وہ تخلیقات جو خالصتاً مزاح پر مشتمل ہوں، خالص طنزیہ تخلیقات کے مقابلے میں ہلکی نظر آتی ہیں کیونکہ طنز اپنی مقصدیت کی وجہ سے تحریر میں وزن پیدا کر دیتا ہے مثال کے طور پر ملّا رموزی اور شوکت تھانوی کے مقابلہ میں رشید احمد صدیقی اور کنھیّا لال کپور کی تخلیقات کا ادبی مرتبہ طنز کی شمولیت و افادیت اور مقصدیت کی وجہ سے بڑھا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن خواجہ حسن نظامی کے ہاں معاملہ بالکل منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی بیشتر تخلیقات کے پسِ پشت کوئی نہ کوئی اخلاقی یا اصلاحی مقصد ہے۔ وہ میرؔ کی طرح عوام کے بارے میں گفتگو کر کے خواص پسندنہیں بننا چاہتے بلکہ عوام سے براہِ راست مخاطب ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ ایک عوامی فنکار ہیں۔ ان کے طنز کا نشتر زیادہ گہرائی میں اس لیے نہیں اترتا کہ وہ کسی جرّاح کے ہاتھ میں نہیں، ایک درد مند صوفی کے ہاتھ میں ہے ورنہ کون سی ایسی سماجی، اخلاقی یا سیاسی خامی رہ گئی ہے جس پر خواجہ نے دمادم حملے نہ کیے ہوں۔ بلاشبہ خواجہ حسن نظامی کو صاحبِ طرز نثر نگار بنانے میں طنز و مزاح کا بڑا ہاتھ ہے۔

(خواجہ حسن نظامی سیمینار منعقدہ غالب اکیڈمی دہلی میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

 

 

 

حسرتؔ اور سیاست

 

صوفی منش جمالیاتی شاعر حسرت موہانی سیاست کی دنیا میں بالکل مختلف حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ صدق شعار، برہنہ گفتار اور ابو ذر  غفاریؓ کی مانند مصلحت سے بالا تر ہو کر اربابِ اقتدار سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے۔ زندگی بھر ان کی یہی روش رہی  اور دستور ساز اسمبلی اور پارلیمنٹ کی رکنیت کے زمانے میں بھی حسرتؔ کے انداز میں کوئی فرق نہیں آیا جبکہ دوسرے ممبران شان دار کوٹھیوں اور ہوٹلوں میں ٹھہرتے تھے اور حسرتؔ مسجد کے حجرے میں قیام فرماتے تھے۔ حسرتؔ نے اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے ۷۵ روپیہ روزانہ بھتّہ لینا بھی پسند نہیں کیا۔ ان کے خیال میں ممبروں کے لیے اتنی بڑی رقم کا یومیہ بھتہ لینا ہندوستانی غریب عوام کے ساتھ ظلم ہوتا۔

حسرتؔ نہایت منکسر المزاج اور خدا ترس انسان تھے، کوئی بھی ضرورت مند ان کے پاس اپنے کام کے لیے جاتا تو اس کے لیے دوڑے دوڑے پھرتے۔ غرض مندوں کے لیے وہ ہر ایک کے پاس بلا دھڑک چلے جاتے اور کام کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ حسرتؔ کا برتاؤ لوگوں کے ساتھ مساویانہ اور دوستانہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ہمیشہ آگے بڑھانے کی کوشش کرتے تھے۔

حسرتؔ کی سیاست کی بنیاد ہندوستانی قومیت اور اتحادِ اسلامی پر مبنی تھی۔ وہ ہندوستان کی مکمل آزادی کے علمبردار تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ایک عالمی تنظیم قائم کرنا چاہتے تھے۔ حسرتؔ کے خیال میں ہندوستانی قومیت کا تصور بغیر ہندو مسلم اتحاد کے ناممکن تھا۔

حسرتؔ موہانی بحیثیت صدرِ جلسہ جمعیۃ العلماء صوبہ متحدہ کے اجلاس میں فرماتے ہیں :

’’ ہندوستان کے متعلق میرے سیاسی نصب العین کا حال سب کو معلوم ہے کہ میں آزادیِ کامل سے کم کسی چیز کو کسی حالت میں منظور نہیں کر سکتا اور آزادیِ کامل بھی وہ جس کا دستورِ اساسی امریکہ یا روس کی مانند لازمی طور پر جمہوری ترکیبی اور مرکزی ہو اور جس میں اسلامی اقلیت کے تحفظ کا پورا سامان بھی بہ صراحت موجود ہو۔ ‘‘

آزادیِ کامل کا مطالبہ پیش کرنے میں ان کو اوّلیت کا شرف حاصل ہے۔ حسرتؔ نے اس وقت یہ قرارداد پیش کی جب مہاتما گاندھی جیسے رہنما بھی یہ مطالبہ پیش کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔ ترکِ موالات کی راہ بھی حسرتؔ ہی نے دکھائی جِس کا اعتراف خود گاندھی جی نے اپنی سوانح  حیات ’’ دی اسٹوری آف مائی اکسپیریمنٹس وتھ ٹرتھ‘‘ میں کیا ہے۔ حسرتؔ، مہاتما گاندھی کے فلسفۂ عدمِ تشدد یا اہنسا پر کبھی ایمان نہ لا سکے۔ ان کے خیال میں یہ ہمیشہ ایک ناقابلِ عمل فلسفہ رہا ہے۔ اہنسا کے متعلق خود حسرتؔ فرماتے ہیں :

جسے کہتے ہیں اہنسا، اک اصولِ خود کشی تھا

عمل اس پہ کوئی کہتا نہ کبھی عوام کرتے

در حقیقت حسرت کی طبیعت کو سیاست سے زیادہ مناسبت نہیں تھی کیونکہ سیاست میں قدم قدم پر حالات کے مطابق کبھی مطالبات بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں، کبھی دب کر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اور اپنے پروگراموں میں تبدیلی کرنا پڑتی ہے مگر حسرتؔ مصلحت پسندی کے قائل نہ تھے۔

حسرتؔ جب تک کانگریس میں رہے گاندھی جی سے بد ظن رہے اور جب مسلم لیگ میں آئے تو محمد علی جناح جیسے سیاستداں کی مخالفت کرتے رہے۔ حسرتؔ مخلص انسان تھے اور سیاست میں صرف خلوص سے کام نہیں چلتا بلکہ حد سے زیادہ خلوص نقصان دہ ہوتا ہے اسی لیے حسرتؔ کو سیاست میں ناکامی ہوئی۔

ظؔ۔ انصاری اپنے مضمون، خلوص کی دو رنگی‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’بے چارے حسرتؔ موہانی۔ مخلص آدمی۔ غور کرتا ہوں تو ایسا نظر آتا ہے کہ خلوص وہیں تک اچھی چیز ہے جہاں اس کے بغیر کام نہ چلے اور جہاں اس کے بغیر کام چلتا ہو وہاں خلوص برتنا نقصان دے جاتا ہے۔ پہلی بات میں مسٹر جناح کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے اور دوسری بات میں حسرت موہانی کی ناکامی کا راز۔ اس راز کو مولانا ابو الکلام آزاد نے سمجھا اور جیت گئے، اس راز کو مولانا محمد علی نے نہ سمجھا اور چت ہو گئے۔ خلوص دودھاری تلوار ہے اس کا ہر وقت برہنہ رہنا خطرناک ہے، اس کی دوہری دھار سے بڑے بڑے سورما زخمی ہوئے ہیں۔ خلوص کی تاریخ میں بڑے بڑے عبرت کے مقام آئے ہیں۔ بے چارے حسرتؔ موہانی۔ مخلص آدمی۔ ‘‘

علی گڑھ کے اربابِ حل و عقد، حسرتؔ کے سیاسی نظریات اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر ان سے سخت ناراض تھے۔ علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود حسرتؔ نے علی گڑھ تحریک کی مخالفت کی اور کانگریس میں شامل ہو گئے۔ اس زمانے میں کانگریس میں دو گروہ تھے ایک اعتدال پسند گروہ اور دوسرا انتہا پسند گروہ۔ حسرتؔ انتہا پسند گروہ کے حامی تھے اور بال گنگا دھر تلک کو اپنا پیشوا مانتے تھے۔ وہ ۱۹۰۴ء سے ۱۹۰۷ء تک کانگریس کے ہر اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔

۱۹۰۷ء میں اعتدال پسند گروہ اور انتہا پسند گروہ کے اختلافات بہت بڑھ گئے اور گنگا دھر تلک مع اپنے گروہ کے کانگریس سے علاحدہ ہو گئے اور حسرت بھی ان کے ساتھ ساتھ کانگریس سے کنارہ کش ہو گئے۔ ۱۹۱۹ء میں ’’ جمعیۃ العلماء ہند‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم ہوئی، جس کا مقصد تھا مشترکہ مذہبی و سیاسی امور میں علماء کرام اہلِ اسلام کی رہنمائی کا فریضہ ادا کریں۔ حسرتؔ اس کے بانی ممبروں میں سے تھے۔

سودیشی تحریک کے بانی بھی حسرتؔ موہانی تھے۔ گاندھی جی سے بہت پہلے حسرتؔ نے سو دیشی کے استعمال اور اس کے پرچار کو قومی آزادی کی کلید تصوّر کیا تھا۔ حسرتؔ کے خیال میں سودیشی تحریک مانچسٹر اور لیور پول کے موٹے موٹے مالکان مل کو تباہ کر سکتی تھی اور یہ تحریک برطانیہ کی تجارت کو، جس پر حکومت کی بنیادیں قائم تھیں، تھوڑے ہی دنوں میں متزلزل کر سکتی تھی۔ حسرتؔ نے سب سے پہلے اپنی ذات اور اپنے گھر سے سو دیشی تحریک کی تبلیغ شروع کی، ایک مرتبہ حسرتؔ مولانا سید سلیمان ندوی کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پوری رات سردی میں ٹھٹھرتے رہے مگر ولایتی کمبل جو ان کے پائنتی پر رکھا ہوا تھا، نہیں اوڑھا۔

۱۹۱۳ء میں حسرتؔ نے ’سو دیشی اسٹور‘ کے نام سے علی گڑھ کے محلہ رسول گنج میں ایک سودیشی اسٹور قائم کیا اور جب ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ کو خیر باد کہہ کر کانپور میں سکونت اختیار کی تو وہاں بھی ایک سو دیشی اسٹور قائم کیا۔ اس کے متعلق امداد صابری لکھتے ہیں :

’’ خلافت سودیشی اسٹور لمیٹڈ، سید الا احرار حضرت مولانا سید فضل الحسن حسرتؔ موہانی کی زندگی کا ایک بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہے۔ سودیشی مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے یہ فرم دس لاکھ روپے کے منظور شدہ سرمایہ سے کانپور میں قائم کی گئی تھی اس کی رسمِ افتتاح شیخ الہند نے ۱۹۲۰ء کے وسط میں انجام دی تھی۔ یہ یوپی میں تھوک پارچہ فروشی کا سب سے بڑا ادارہ تھا۔ ہندوستان کی تقریباً سب ہی ملوں کا تیار کردہ کپڑا فراہم کر کے تاجروں کو سپلائی کیا جاتا تھا۔ مولانا حسرتؔ موہانی مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ ‘‘

حسرتؔ سودیشی کو محض کھادی اور چرخے تک محدود کرنے کے قائل نہیں تھے۔ وہ ہندوستانی ملوں کے بُنے ہوئے کپڑوں، کھدر اور کھادی میں فرق نہیں کرتے تھے۔

حسرتؔ کی سودیشی اشیاء کی تجارت کے سلسلے میں اکبر الٰہ آبادی فرماتے ہیں :

تھا دلِ حسرتؔ بھرا ارمان میں

ہم نے لکھ بھیجا انھیں موہان میں

بھائی صاحب رکھ دو تم اپنا قلم

ہاتھ میں لواب تجارت کا عَلم

ہو چکی غیروں سے خویشی کی بہار

بس دکھاؤ اب سودیشی کی بہار

اس موقعہ پر مولانا شبلیؔ نعمانی نے حسرتؔ سے مذاقاً کہا تھا کہ ’’ تم آدمی ہو یا جِن۔ پہلے شاعر تھے، پھر پالیٹیشین بنے اور اب بنیے ہو گئے۔ ‘‘

۱۹۱۷ء میں روس میں تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب ہوا۔ لینن کی قیادت میں وہاں کے عوام نے اپنے ملک سے جاگیرداری اور سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکا۔ اس انقلاب کا اثر ساری دنیا پر پڑا اور ہندوستان میں بھی اس انقلاب کے جھٹکے محسوس کیے جانے لگے۔ حسرتؔ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

’’ اردُوئے معلی‘‘ کے پرچوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حسرتؔ ایک عرصے تک ہندوستان میں سوشلزم اور کمیونزم کی تبلیغ کرتے رہے۔ کمیونزم سے دلچسپی کی وجہ سے حسرتؔ نے مزدور تحریکوں میں کافی نمایاں حصّہ لیا۔

پروفیسر عبد الشکور کے ایک سوال کے جواب میں حسرتؔ نے کہا تھا کہ ’’ آزادیِ کامل میرا نصب العین ہے اور میں کمیونسٹ ہوں۔ پہلے نیشلسٹ تھا لیکن ۱۹۲۵ء سے میں نے نیشلزم کو خیر باد کہا اور کمیونزم کو اپنا مسلک قرار دیا۔ ‘‘

حسرت اپنے آپ کو مسلمان کمیونسٹ کہتے تھے انھوں نے اس کی وضاحت اپنے ایک شعر میں ان الفاظ میں کی ہے :

درویشی و انقلاب مسلک ہے مرا

صوفی مومن ہوں، اشتراکی مسلم

۱۹۳۶ء میں حسرتؔ مسلم لیگ سے وابستہ ہو گئے اور یوپی مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ کے سرگرم رکن رہے۔ اس کے بعد مسلم لیگ کے ہر سالانہ اجلاس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ہر نشست میں پابندی سے شریک ہونے لگے۔ ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر یوپی اسمبلی اور ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

قیام پاکستان کے سلسلے میں حسرتؔ اور جناح میں اختلاف تھا۔ جناح ایک آزاد مملکت قائم کرنا چاہتے تھے، اس کے بر خلاف حسرتؔ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسا دستور چاہتے تھے جس میں مسلم اکثریت کے صوبے اندرونی طور پر خود مختار ہوں اور چند خاص اغراض کے لیے ان کا ہندوستان کی مرکزی حکومت سے الحاق رہے اگر حسرؔت کے اس منصوبے کو منظور کر لیا گیا ہوتا تو ملک کے تقسیم ہونے کی نوبت نہ آتی اور جب ملک تقسیم ہوا تو حسرتؔ نے مسلم لیگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

حسرتؔ نے پارلیمنٹ میں ہمیشہ اپنی بے باکی کا مظاہرہ کیا، بقول جمال میاں فرنگی محلی:

’’ ہندوستانی پارلیمنٹ میں ایسا وقت بھی آیا جب حسرتؔ کے علاوہ کوئی ممبر ایسا نہ تھا جو مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرے۔ جونا گڑھ اور حیدر آباد پر ہندوستانی افواج کے قبضہ کے بعد تنہا مولانا حسرتؔ ہی نے ایوانِ پارلیمنٹ میں وہ باتیں کہہ دیں جو کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں تھیں لیکن کسی میں جرأت اظہار نہ تھی۔ ‘‘

حسرتؔ ہندوستان کے دستور سے مطمئن نہ تھے اور ہندوستان کی آزادی کو بھی اصلی آزادی سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے روز نامچہ کے مندرجہ ذیل اقتباس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے :

’’ ۱۵ اگست ۱۹۲۹ء آج یوم آزادی کے سلسلے میں راجہ جی کے یہاں شب کی دعوت تھی۔ میں بھی مدعو تھا مگر موٹر یا سواری کا انتظام نہ ہو سکا اس لیے نہ گیا، علاوہ ازیں حاصل شدہ آزادی کو حقیقی آزادی سمجھنے کا بھی میرے دل کو اطمینان نہیں ہے۔ ‘‘

تقسیم کے بعد کی ہندوستانی سیاست سے حسرتؔ خوش نہیں تھے۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے سلسلے میں اپنی ذمّے داریوں کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ یہ بات ان کے ایک روز نامچہ سے ثابت ہوتی ہے :

’’ ۱۶ ستمبر ۱۹۲۷ء۔ آج شام کو نبی خان نے بانس منڈی میں بغرض تبادلۂ خیالات میری دعوت کی تھی میں نے مسلمانوں کے لیے آئندہ لائحۂ عمل کے باب میں تفصیلی گفتگو کر کے تقریباً جملہ اہالیانِ بانس منڈی کو اپنا نقطہ نظر سمجھا دیا کہ مسلمانوں کو اظہار مایوسی کی ضرورت نہیں۔ اگر ضرورت ہو تو انھیں حکومتِ موجودہ کے خلاف گوریلاطریقۂ جنگ اختیار کرنا چاہیے۔ ‘‘

( بحوالہ جمال میاں فرنگی محلی۔ کلیات حسرت موہانی، اشاعت سوم، مقدمہ ص۳)

تعلیمات کا میدان گو حسرتؔ کی سیاسی جد و جہد سے اکثر دور رہا لیکن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے قیام کے بارے میں حسرتؔ کا نظریہ قابلِ ذکر ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے قوم کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں اور عوام کے جذبات کا احترام کرنے پر یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد کو انھوں نے بارہا مجبور کیا ہے۔ حسرتؔ ثانوی تعلیم کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلمان صنعت و حرفت اور تجارت و زراعت میں شریک ہوں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ جا بجا مسلم اسکول اور کالج کھولے جائیں اور ان کا الحاق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہو۔ اس خیال کی بنا پر وہ اسکولوں کے الحاق کے حق کے بغیر مسلم یونیورسٹی کو زیادہ مفید نہیں سمجھتے تھے۔ ۱۹۱۶ء و ۱۹۱۷ء میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کا مسئلہ قوم کے پیش نظر تھا اور اکابرین قوم کی ایک بڑی جماعت کا خیال تھا کہ جب تک آزاد یونیورسٹی نہ ملے تب تک یونیورسٹی کے چارٹر کو قبول کرنا ایک فعلِ عبث ہے۔ حسرتؔ آزاد یونیورسٹی کے حامی تھے اور آخر وقت تک اپنے خیال اور عقیدے کی بنا پر سرگرم عمل رہے۔ مولانا محمد علی مرحوم اور مولانا ابو الکلام آزادؔ بھی حسرتؔ کے ہم خیال تھے، لیکن اس زمانے میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ یہ دونوں بزرگانِ قوم نظر بند کر دیے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود حسرتؔ کو میدان میں اترنا پڑا۔ لکھنؤ میں فاؤنڈیشن کمیٹی کا جلسہ طلب کیا گیا تھا۔ حسرتؔ نے بہت جلد یہ محسوس کیا کہ ان دونوں حضرات کی عدم موجودگی میں احرار کی تائید کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہو گئی چنانچہ انھوں نے مختلف مقامات کا دورہ کیا اور بہت سے اصحاب کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ اس جلسہ میں شریک ہوں، جلسے میں بہت گرما گرمی رہی اور جب تک حسرتؔ آزاد رہے اس وقت تک مخالف جماعت اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکی، حسرتؔ کی نظر بندی کے بعد سیاسی فضا کچھ سے کچھ ہو گئی۔ جنگِ عظیم ختم ہو چکی تھی اور سر زمینِ ہند میں نئی نئی سیاسی اور معاشرتی تحریکیں نمودار ہونے لگی تھیں۔ مسلمان پریشان حال تھے، چار و ناچار اکابرِین قوم کو یونیورسٹی کا وہی چارٹر منظور کرنا پڑا جو حکومت دینے پر آمادہ تھی لیکن حسرتؔ پہلے عقیدے پر بدستور قائم رہے۔

واقعتاً وہ صرف گاندھی اور جناح کی ہی نہیں بلکہ حکومت کے طرزِ عمل کی بھی بے لاگ تنقید کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے۔ یہ بے باکی اور یہ جرأتِ رندانہ حسرتؔ کے کردار کی نمایاں خصوصیت تھی۔

مولانا کے پرچے ’ مستقبل‘ کے فائل دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ حسرتؔ نے برسوں کمیونزم کے خیالات اور عقائدہندوستان میں پھیلائے اور ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے رہے جو ہندوستان میں کمیونزم کے خلاف اکثر و بیشتر پھیلتی رہیں۔ ’’ اردوئے معلی‘‘ بابت مئی و جون ۱۹۴۸ء میں ’’ روس میں نئی پود کی ترقی‘‘، ’’ سوشلزم‘‘، ’’ چینی مسلمان اور کمیونسٹ اقتدار‘‘، ’’اردوئے معلی‘‘ بابت اکتوبر تا دسمبر ۱۹۳۸ء میں ’’ پنڈت نہرو اور سوشلزم‘‘ وغیرہ مضامین شائع ہوئے اور پرچے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں اسی قسم کے مضامین حسرتؔ کے قلم سے نکلے اور تقریر و تحریر کے ذریعے ان ہی خیالات کا پرچار ہوتا رہا۔ چنانچہ آل انڈیا کمیونسٹ کانفرنس جو ۱۹۲۵ء میں بمقام کانپور منعقد ہوئی تھی، اس کے روح رواں اور صدر حسرتؔ ہی تھے۔ اس موقع پر آپ نے جو خطبۂ صدارت ارشاد فرمایا تھا اسے ہند اور بیرونِ ہند کی اشتراکی جماعتوں نے بڑی قدر و منزلت سے دیکھا۔ حسرت سب کچھ برداشت کر سکتے تھے لیکن ہند کی مکمل آزادی کو معرضِ خطر میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کامل آزادی ان کا دین و ایمان تھی اور جب کوئی سیاسی قائد سیاست کے میدان میں آ کر کامل آزادی کے معاملے میں سمجھوتہ کرنے پر تیار ہوتا تھا تو مولانا بڑی جرأت اور درشتی کے ساتھ اس کو وہیں للکارتے تھے۔ ۷؍ نومبر ۱۹۲۹ء کے ’’ مستقبل‘‘ میں گاندھی اور جواہر لال نہرو پر ان الفاظ میں لے دے کی ہے :

’’لاہور کانگریس کے صدرِ منتخب، ہندوستان کے مشہور حرّیت نواز اور نوجوان لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی آخر کار کچھ تو اپنی فطرت و آبائی اعتدال پسندی کی بنا پر اور کچھ مہاتما گاندھی کے عیارانہ پند و نصیحت سے مسحور ہو کر لارڈ اِروِن سے تحفۂ غلامی کو ہدیۂ حرّیت قرار دے کر بہ دل و جان منظور کر لیا اور ہمارے اس قول کی عملی طور پر تصدیق کر دی کہ اس وقت طول و عرض ہند میں بعض کمیونسٹ نوجوانوں کو چھوڑ کر باقی ایک ہندو بھی ایسا موجود نہیں ہے جو واقعی دل سے ہندوستان کے لیے آزادیِ کامل کا خواہاں ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حرّیت کے سب سے بڑے مدّعی جواہر لال نہرو کا خاتمہ اس پر ہوا۔ اب مہاتما گاندھی کی روداد سنیے، یہ بزرگوار یہی نہیں کہ غلامی کو سوراج تسلیم کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں بلکہ اس غلامی کو بھی صرف اس حال میں قبول کرنا چاہتے ہیں جبکہ اس کی صورت نہرو رپورٹ کے مطابق ہو۔ ۔ ۔ ‘‘

’’ اردوئے معلی‘‘ بابت ماہ جولائی و اگست ۱۹۳۱ء میں حسرتؔ کا خطبۂ صدارت شائع ہوا تھا جس کی چند سطریں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔ اس موقع پر حسرتؔ جمعیۃ علمائے صوبۂ متحدہ کے اجلاس منعقد الٰہ آباد مؤرخہ ۸؍۹؍ اگست ۱۹۳۱ء کے صدر تھے :

’’ غرضیکہ جمعیۃ علماء دہلی آزادیِ کامل کے نصب العین سے دست بردار ہو کر فنا ہو چکی مگر الحمد للہ کہ علمائے کانپور، لکھنؤ و بدایوں وغیرہ کی جماعت اب بھی اپنے عہد پر قائم ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہے گی، بعض معترضین پست حوصلہ کی جانب سے اس اعلیٰ نصب العین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب فی الحال وہاں تک پہنچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو پھر اس کا ذکر ہی بے کار ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ذکر تو بے کار نہیں بلکہ بہت ضروری ہے اس لیے کہ اگر نصب العین ہر وقت پیش نظر نہ رہے تو اس کے فراموش ہو جانے کا اندیشہ ہے۔

ڈومینین اسٹیٹ کی بہر حال مخالفت کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ شے ہمارے مقصود یعنی آزادیِ کامل کی درمیانی منزل یا اس کا جزو نہیں بلکہ اس کے منافی اور مقابل واقع ہوئی ہے اگر گاندھی جی ولایت پہنچ گئے، گول میز کانفرنس کامیابی کے ساتھ ختم ہو گئی اور ہندوستان کو درجۂ نو آبادیات مع تحفظات یا بلا تحفظات، کسی طرح کا بھی مل گیا تو آزادیِ کامل کا تخیل ختم یا ایک عرصۂ دراز تک کے لیے خواب و خیال ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

حسرتؔ کی سیاست ان دو عناصر سے تعمیر ہوئی تھی۔ کامل آزادی اور اشتراکیت، چنانچہ سوال کرنے پر ارشاد فرمایا کہ میں پاکستان کا مویّد ہوں لیکن پاکستان ڈومینین کا قائل نہیں بلکہ پاکستان جمہوریت کا علمبردار ہوں اور یہی نکتہ میرے اور محمد علی جناح کے درمیان خلیج پیدا کر رہا ہے۔

حسرتؔ نے اپنے نظریہ کو اس صورت میں واضح کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان میں پانچ ری پبلکن جمہوریہ قائم ہونا چاہیے۔ ان سب کو وفاقی اتحاد ریاست ہائے ہند کے اجزائے ترکیبی ہونا چاہیے۔

حسرتؔ کی سیاست کے بارے میں ہماری گفتگو ناتمام رہے گی اگر واضح نہ کیا جائے کہ حسرتؔ کے سیاسی کردار کو سب سے زیادہ استحکام تلک کی سیاست سے پہنچا۔ چالیس سال تک حسرتؔ ہندوستان کے سیاسی میدان میں نبرد آزما رہے، چنانچہ بہت کم ایسے سیاسی قائدین ہوں گے جن کی حقیقت اور جن کے کردار سے مولانا واقف نہ تھے سب کو دیکھ اور آزما چکے تھے۔ اس تجربے کے بعد ان کے دل میں سب سے زیادہ بال گنگا دھر تلک کی عزت تھی اور ہمیشہ آنجہانی کا نام حسرتؔ بڑے احترام اور عقیدت سے لیتے تھے۔ فرماتے تھے اس سے زیادہ مخلص اور نڈر آدمی اب تک نہیں دیکھا چنانچہ اپنے اشعار میں جا بجا تلک کو محبت اور عزت کے ساتھ یاد کیا ہے :

مغموم نہ ہو خاطر حسرتؔ کہ تلک تک

پیغامِ وفا بادِ سحر لے کے گئی ہے

سیاست کے ماہر کی حیثیت سے حسرتؔ بالکل عملی تھے جس طرح ان کی شاعری تصنّع سے قطعاً منزّہ ہے اور فلسفہ کی گہرائی سے دور ہے اسی طرح ان کی سیاست داؤں پیچ اور ڈپلومیسی کی ایچ پیچ سے بلند تر تھی۔ مولانا حسرتؔ نے اپنی سیاسی زندگی کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

تحریک حرّیت کو جو پایا قرینِ حق

ہر عہد میں معاونِ تحریک ہم رہے

٭٭٭

 

 

 

 

گوپال متّل بحیثیت نثر نگار

 

کئی سال پہلے بھوپال میں میرے ایک دوست نقاد نے ایک پروفیسر کی نثر کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اختصار اور جامعیت اس کا وصف خاص ہے اور اس ضمن میں ان کا کوئی حریف نہیں۔ میں نے فاضل مقرر سے دریافت کیا کہ انھوں نے گوپال متل کی تحریریں بھی دیکھی ہیں یا نہیں ؟ حاضرین مجھے حیرت سے دیکھنے لگے کہ اُن میں سے بیشتر کمیونسٹ تھے، ایک نے استہزائیہ انداز میں پوچھا کہ متل صاحب کا ان پروفیسر صاحب سے کیا مقابلہ؟ اور اپنی بات کے جواز میں میں نے عرض کیا تھا کہ اردو نثر میں اختصار اور جامعیت عام طور پر دو متضاد اصطلاحوں کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ اگر کوئی نثری تحریر مختصر ہوتی ہے تو اس کا گنجلک اور مبہم ہونا تقریباً طے شدہ ہوتا ہے اور واضح و جامع تحریروں میں بے جا طوالت سے اجتناب ممکن نہیں ہوتا۔ بالفرض پروفیسر موصوف کی طرح یہ دونوں وصف، اختصار اور جامعیت نثر میں کہیں یکجا بھی ہوتے ہیں تو اُس نثر میں ایک خاص نوع کی کارو باری بے کیفی اور غیر تخلیقی خشکی کا عیب پیدا ہو جاتا ہے۔ گوپال متل اُن معدودے چند نثر لکھنے والوں میں سے ایک ہیں جو اختصار و جامعیت کے با وصف اپنی تحریر میں شگفتگی اور دلکشی پیدا کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔

میں غزل کا آدمی ہوں، کچھ مختصر نظمیں بھی کہی ہیں جن میں بات نو دس مصرعوں میں کہہ دی گئی ہے کبھی افسانے بھی لکھتا تھا جن میں بقول کرشن چندر مرحوم الفاظ کے بخل کا وہ عالم تھا کہ جذبہ تنگیِ داماں کی شکایت کرتا محسوس ہوتا تھا۔ میرے نزدیک بات کو کم سے کم لفظوں میں ندرت ادا کے ساتھ کہنا لکھنے والے کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے خواہ وہ نظم لکھتا ہو یا نثر۔ اُردو والوں نے بد قسمتی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ نثر میں وضاحت اور قطعیت اس وقت تک آہی نہیں سکتی جب تک بات کو خوب پھیلا کر نہ کہا جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم افسانے، تنقید اور انشائیے کے اسالیب میں امتیاز کرنا بھول گئے۔ جہاں ادب کا یہ حال ہو وہاں صحافت کا کیا عالم ہو گا، اس کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں گوپال متل کی نثر استثنائی صورتوں میں سے ایک ہے۔ انھوں نے ’ تحریک‘ کے شذرات اور سیاسی نوعیت کے مضامین بھی لکھے ہیں و تحقیقی اور تنقیدی مقالات بھی تحریر کیے ہیں، سیاسی نوعیت کے مضامین بھی لکھے ہیں اور تحقیقی اور تنقیدی مقالات بھی تحریر کیے ہیں۔ کم و بیش دو درجن کتابیں انگریزی سے اُردو میں منتقل کی ہیں اور ’’ لاہور کا جو ذکر کیا‘ جیسی حکایتِ لذیذبھی قلمبند کی ہے۔ ہر مقام پر انھوں نے آتشؔ کا یہ گُر یاد رکھا ہے کہ بندشِ الفاظ نگوں کے جڑنے سے کم نہیں ہے۔ آتشؔ نے یہ بات شاعری کے حوالے سے کہی تھی۔ گوپال متل نے اسے نثر پر بھی منطبق کر دکھایا اور یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ کرشن چندر کی شاعرانہ نثر اُن کے افسانوں میں حشو و زوائد کا فنی جھول بن کر آتی تھی۔ گوپال متل کے پیراگراف غزل کے اشعار کی طرح مختصر ہو کر بھی جامعیت سے متصف ہوتے ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے جملے بالکل وہی مفہوم ادا کرتے ہیں جو گوپال متل چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اُن کی وہ باتیں بھی سننے میں بھلی لگتی ہیں جن سے ہم نظریاتی اعتبار سے چاہے متفق نہ بھی ہوں۔ چند مختصر مختصر سی مثالیں ملاحظہ فرمائیے :

’’ جب تک ایک آدمی کی ریڑھ کی ہڈی غائب نہ ہو وہ کمیونزم کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ ‘‘

’’ کرشن چندر اور اپندر ناتھ اشک کی آمد اس بات کا اعلان تھی کہ اب ادب کے میدان میں قلندری کا دور ختم ہوا۔ ‘‘

’’ ایک دن ترنگ میں آئے تو کہنے لگے، متّل! مجھ سے چوہے تک فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن تو کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتا، میں نے جواب میں کہا میں چوہا نہیں ہوں !‘‘

’’ پروپگنڈے کا فن بھی ساحرؔ کو خوب آتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ حصولِ شہرت کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اپنے متعلق زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جائیں۔ ‘‘

’’ زور جمہوریت پر دیا جانا چاہیے سیکولرازم پر نہیں۔ ایک جمہوری حکومت لازمی طور پر سیکرلر ہو گی لیکن سیکولر حکومت کے لیے جمہوری ہونا ضروری نہیں۔ ‘‘

’’ سماج سے ادیبوں کا مطالبہ صرف اتنا ہونا چاہیے کہ وہ ان کے تخلیقی عمل میں مخل نہ ہو۔ ‘‘

’’ جیسے ہی اپنی ذات کی اصلاح ہو جائے، اصلاح کا عمل شروع ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد صرف صفر بڑھانے کا عمل باقی رہ جاتا ہے۔ ‘‘

اُن کی نثر کا ایک بڑا وصف اس کا منطقی استدلال بھی ہے، وہ کسی موضوع پر طبع آزمائی کر رہے ہوں، واقعات کا تجزیہ ایسے نظم و ضبط کے ساتھ کریں گے اور بات اتنے مدلل انداز میں کہیں گے کہ متاثر کیے بغیر نہ رہے۔ وہ ایک خاص قسم کا نظریۂ حیات رکھتے ہیں۔ لیکن لکھتے ہوئے اُن کے ہاں جو معروضی اندازِ بیان اختیار کیا جاتا ہے وہ اچھے اچھوں کے لیے قابلِ رشک ہوتا ہے۔ یاد کیجیے کہ ’’ لاہور کا جو ذکر کیا‘‘ پچھلے برسوں میں فکشن کی طرح بار بار لطف لے لے کر پڑھی گئی ہے اور ایسے لوگوں نے پڑھی ہے جو گوپال متل کا نام لینا بھی کفر سمجھتے ہیں۔ اس کا جائزہ لیتے ہوئے حیات اللہ انصاری نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے :

’’ اس میں آپ ایسے نوجوان شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں سے ملاقات کریں گے جو آگے چل کر اپنے دَور کے ادبی ستون بن گئے۔ یہ ملاقات مختصر سی ہو گی لیکن اتنی گہری اور تہہ دار ہو گی کہ دماغ پر واضح اور کبھی کبھی تو امٹ نقوش چھوڑ جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ متّل نے شخصیات پر جو تبصرے لکھے ہیں ان میں عجیب من موہن توازن اور دیانت ہے، محبت میں عیوب پر نظر ہے اور نا پسندیدگی میں بھی پسندیدہ پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ ‘‘

اس سلسلے میں حیات اللہ انصاری نے بطور خاص ایک مثال پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ میں نے جانے کتنے مضامین ظفر علی خاں پر پڑھے ہیں اور لوگوں سے ان کے بارے میں باتیں سُنی ہیں، ان میں ہمیشہ ادھورا پن ہی محسوس کیا ہے۔ متّل کی کتاب کے ساڑھے پانچ صفحوں میں ظفر علی خاں کی شخصیت سے بھرپور ملاقات ہو گئی اورپتہ لگ گیا ہے وہ کیا تھے اور ان کی شاعری کیا تھی۔ ‘‘

گوپال متّل کے اسلوبِ نگارش کا ایک کلیدی نکتہ یہ بھی ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج کو براہ راست نہیں بیان کرتے بلکہ اپنی بات ایسے دلائل و براہین کے ساتھ اور اس معروضی انداز میں کہتے ہیں کہ پڑھنے والے از خود وہ نتیجے اخذ کریں۔ اس انداز کی اثر آفرینی کا صحیح اندازہ کچھ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے خود بھی اچھی نثر لکھنے کی کاوش کی ہو۔ ان کی نثراپنی رمزیت، پہلو داری، روانی، طنز کی کاٹ، بے تکلفی، گہرائی، شگفتگی اور جامعیت کے ساتھ ایک منفرد ذائقے کی حامل ہے۔ لفظوں کے طوطا مینا بنا کر قارئین کو لبھانے کا کام تو بہت سے کر لیتے ہیں، سیدھی سادہ جچی تلی نثر سے تحریر میں تخلیقی اور علمی شان پیدا کرنا گوپال متّل کا فن ہے، ان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اکثر الفاظ جو دوسروں کے ہاں نا مانوس اور ثقیل نظر آتے ہیں اُن کی نثر میں میں بر محل اور مناسب محسوس ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اقتباسات دیکھیے :

’’ غدر سے اب تک ادب پر جتنی بحثیں ہوئی ہیں ان میں سے اکثر کا یہ امتیازی وصف رہا ہے کہ ان میں ادب کے ماسوا اور ہر چیز پر بحث کی گئی ہے، افسوس کہ یہ طرح ڈالنے کا باعث وہ شخص ہے، جسے قدرت نے ادب کی خدمت کے لیے واقعی بہترین دل و دماغ ودیعت کیے تھے۔ میری مراد حالیؔ سے ہے۔ ‘‘               (نئی ادبی تحریک)

سادہ سادہ سے فقروں میں طنز کے جو نشتر پنہاں ہیں ان کی چبھن آپ نے ضرور محسوس کی ہو گی۔ ایک مقام پر نقّاد کو اس کا فرض یاد دلانے کی غرض سے رقم طراز ہیں :

’’ کرکٹ میں ضابطے کی جو کار فرمائی ہوتی ہے اس سے ادیبوں کو بہت کچھ سیکھنا چاہیے کیونکہ اردو کی ادبی محفل گزشتہ چند سال سے ہر قسم کے ضابطے سے بے نیاز ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر امپائر کے منصب کو لیجیے، کیا ناقد کا منصب اس سے ملتا جلتا نہیں ؟ کیا موجودہ ناقدوں کو اپنے منصب کی حُرمت کا اتنا ہی احساس ہے جتنا کرکٹ میچوں میں امپائر کو ہوتا ہے ؟ کیا اردو کے مشہور نقاّد ( سید احتشام حسین) کی طرح کسی امپائر نے بھی آج تک یہ اعلان کیا ہے کہ اس کے بہت سے فیصلے مجبوری اور مصلحت کا نتیجہ ہیں اور پھر کیا کرکٹ کی کسی ٹیم نے آج تک یہ کہا ہے کہ اُس کے کھلاڑی کے آؤٹ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ امپائر کے بجائے تماشائی کریں گے ؟ لیکن جو شاعر’’ یہ عشق عشق ہے عشق عشق‘‘ یا ’’سی اے ٹی کیٹ، کیٹ معنی بلی‘‘ جیسے فلمی گیت لکھ کر عوام میں مقبول ہوتے ہیں اور اس کی بنا پر ادبی محفلوں میں اپنی برتری کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کی اس برتری پر کتنے ادیب معترض ہوتے ہیں۔ ‘‘

( ادب اور کرکٹ)

کرکٹ، ادب اور فلم کے موازنے سے کیسی کھری بات کتنے مدلل انداز میں کہہ دی گئی ہے، اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ لطف یہ ہے کہ موضوع، تلخی کے باوجود فکشن کی طرح دلچسپ اور پرکشش بن گیا ہے حالانکہ گوپال متل نے کہیں بھی غیر ضروری آراستگی اور ترکیب سازی سے کام لینے کی کوشش نہیں کی۔

ماہنامہ ’ تحریک‘ گوپال متّل نے ۱۹۵۳ء میں نکالا تھا اور اس کی اشاعت کا سلسلہ ۱۹۸۱ء تک جاری رہا۔ ان لگ بھگ اٹھائیس برسوں میں ان کے قلم سے بلا مبالغہ سیکڑوں شذرات نکلے اور ان سے ہٹ کر درجنوں دوسرے مضامین بھی انھوں نے قلم بند کیے۔ ظاہر ہے کہ بحیثیت صحافی ان میں سے اکثر تحریریں انھیں قلم برداشتہ لکھنی پڑی ہوں گی جن پر زیادہ غور و فکر کی مہلت انھیں حاصل نہ رہی ہو گی، لیکن ان تحریروں کا مطالعہ اس حیرت ناک نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ کوئی بھی بات رواروی میں کہی گئی محسوس نہیں ہوتی۔ ہر جگہ استدلال، جواز، براہین اور شہادت سے کام لیا گیا ہے۔ یہ قدم قدم پر فکر کو انگیخت کرتی ہیں۔ گوپال متّل کے موضوعات کا دائر ہ بھی بے حد وسیع ہے مثلاً انھوں نے ’ اردو تحریک‘، ’ اردو کا دشمن کون ہے ؟‘، ’یہ اردو کے حمایتی‘، ’ اردو کا مقدمہ: غلط عدالت، غلط وکیل‘، ’ اردو: ایک حقیقت پسندانہ جائزہ‘ جیسے متعدد مضامین میں زبان اور لسانیات کے مسائل پر بے باکی کے ساتھ دو ٹوک اور غیر جذباتی انداز میں کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے اور اس موضوع کے کئی ایسے تاریک اور اچھوتے گوشوں پر روشنی ڈالی ہے جو ان سے قبل چھیڑے نہیں گئے تھے۔ ’ ادب میں جانب داری کے حقیقی مفہوم‘، ’ ترقی پسندی اور تحریک‘، ’ ادب میں فحاشی پر احتساب‘، ’ احیائے ادب کی تحریک‘، ’ سماجی حقیقت نگاری‘، ’ اردو ادب میں ہندوستانیت کا فقدان‘، ’ داخلیت کی اہمیت‘، ’ ادب اور زندگی‘، ’ متحدہ ادبی محاذ‘ اور ’اردو ادب میں جمود کامسئلہ‘ وغیرہ گوپال متّل کے وہ مضامین ہیں جن سے ان کی تنقیدی بصیرت، سخن فہمی اور ادب شناسی کا ثبوت ملتا ہے۔ اپنے ان شذرات میں گوپال متل نے بہت سے معتبر اور اہم نقادوں کے مقابلے میں زیادہ گہری فنی مہارت اور ناقدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ باقاعدہ تنقید نگاری پر مائل ہوتے تو آج کے بہت سے ناقدین سے بلند مرتبے پر فائز ہوتے۔ بالعموم ادبی تحقیق کا صحافت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا لیکن گوپال متّل نے ’ غالبؔ اور سوویت محقق‘، ’ ٹیگور کو خراجِ عقیدت‘ اور غالبؔ سخن فہموں کے نرغے میں ‘ جیسی تحریروں سے ثابت کیا ہے کہ ان میں تحقیق کے خار زار سے نبرد آزما ہونے کی قوت بھی موجود ہے۔ تعلیمی مسائل اور درس و تدریس کی پیچیدگیاں بھی ان کے ذہنِ رساکی دسترس سے باہر نہ تھیں۔ چنانچہ ’مسلم یونیورسٹی علی گڑھ‘ اور ’دانشوری کے تقاضے ‘ جیسے مضامین میں انھیں مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ان کے سیاسی نظریات اور خیالات کی جھلک ’ گاندھی جی کے اساسی تصورات‘، ’ وہ جو پاؤں سے ووٹ ڈالتے ہیں ‘، ’ جمہوریت کے تحفط کا حلف‘، ’ اعتدال پسند کمیونسٹ‘، ’ ہندوستانی ادیب کے فرائض اور اس کی آزادی‘ ’ سیکولرزم اور جمہوریت‘، ’ مسلمان اور قومی زندگی‘ اور دیوار برلن‘ وغیرہ میں نظر آتی ہے۔ ان کے علاوہ بھی ہماری قومی زندگی اور آزادی کے بعدہندوستان میں پیدا ہونے والے بیشمار مسائل ان کے قلم کی زد پر آئے ہیں اور ہر جگہ گوپال متل نے اپنی سادہ، پُراستدلال، با وقار اور طاقتور نثر کے ذریعے موضوع کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔ کہیں کہیں موضوع کے تقاضے کے پیشِ نظر اظہارِ خیال کے لیے مختلف اسالیب بیان بھی اختیار کیے گئے ہیں لیکن بہر حال ان کی نثر نے ہر جگہ اپنی اساسی اور امتیازی شان کو، جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں، برقرار رکھا ہے۔

رسالہ’ تحریک‘ نے اپنی کم و بیش اٹھائیس برسوں کی عمر میں ترقی پسند تحریک کا جم کر سامنا کیا۔ ابتدائی چند سال اس پر جتنے بھاری گزرے ہوں گے ان کا اندازہ آج اس لیے نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ تحریک اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ ’تحریک‘ اس وقت جاری ہوا تھا جب ترقی پسندتحریک اپنے شباب پر تھی اور ہندوستان کے تمام ادبی مراکز میں ’ انجمن ترقی پسند مصنفین‘ نے مضبوطی کے ساتھ قدم جما رکھے تھے۔ عام طور پر ہر لکھنے والا خواہ وہ کمیونزم اور ترقی پسندی سے کتنا ہی نا آشنا ہو، رجعتی اور قدامت پسند ہونے کے الزام سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو ترقی پسندوں میں شمار کرتا تھا۔ ’ نقوش‘، ’ شاہراہ، ’ صبا‘ اور ’فنون‘ جیسے گرانڈیل اور طاقتور آرگن ترقی پسندوں کے ہاتھوں میں تھے اور ایک سے ایک جید نقاد اور صاحبِ قلم ان کی صفوں میں موجود تھا۔ رجعت پسندی کی تہمت سے بچنے کے لیے اچھے لکھنے والے ’ تحریک‘ میں چھپنے سے کتراتے تھے۔ ایسے پُر آشوب اور تلاطم خیز دور میں گوپال متل کی نثر ’تحریک‘ کے صفحات پر سینہ تانے کئی سال تک تنِ تنہا، کمیونزم اور ترقی پسندی سے ٹکر لیتی رہی حتیٰ کہ ۱۹۶۰ کے آس پاس اچھے لکھنے والوں کا ایک بڑا حلقہ ’ تحریک‘ کے ساتھ ہو گیا۔ یہ گوپال متّل کی سادہ و  پر وقار، شگفتہ و متین نثر کا کرشمہ ہے جس میں نہ جذبات کا وفور ہے نہ صداقتوں سے اجتناب۔ بلند آہنگی اور مبالغے سے پاک یہ نثر ان لوگوں سے بھی خراجِ تحسین حاصل کرتی ہے جو اس میں پیش کردہ سیاسی نظریات سے اتفاق نہیں کرتے۔ احساسِ تناسب اس نثر کا بڑا وصف ہے۔ کسی خیال کو کس حد تک پھیلایا جا سکتا ہے اور کہاں سمیٹ دینا چاہیے، گوپال متل خوب جاتے ہیں۔ ان کی نثر موضوعات اور زمانے کے اختلاف کے با وصف ہمیں سر سید اور حالیؔ کی یاد دلاتی ہے۔

بلا شبہ گوپال متّل ہمارے عہد کے اچھے اور اہم نثر نگاروں میں سے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مجتبیٰ حسین بحیثیت خاکہ نگار

 

اردو ادب میں فنکاروں کو ایک مخصوص زاویے سے محدود صفات کی روشنی میں دیکھنے کی روش عام ہے جس کے نتیجے میں اکثر شاعروں اور ادیبوں کے دوسرے کارنامے تاریکی میں جا پڑتے ہیں اور ہم اُن کے ساتھ پورا پورا انصاف نہیں کر پاتے۔ سوداؔ کا قصیدہ اور انیسؔ کا مرثیہ اتنا مشہور ہوا کہ دونوں کی غزل تک صحیح معنوں میں ناقدین کی رسائی نہ ہو سکی۔ حالیؔ کی شاعری کے اصلاحی پہلُو اور فیضؔ کی ترقی پسندی کا نقارہ اتنی زوروں سے بجا کہ ان کا جمالیاتی رُخ پسِ پشت جا پڑا۔ مجتبیٰ حسین کے مختلف مجموعے پڑھ کر احساس ہوا کہ یہ حضرت جن پر صرف مزاح نگاری کا الزام ہے، ایک اہم خاکہ نگار بھی ہیں لیکن چونکہ ان کے ہاں مزاحیہ مضامین کی تعداد شخصی خاکوں سے زیادہ ہے اس لیے معیار کے مقابلے میں مقدار کو زیادہ اہمیت دیتے ہوئے ہم انھیں ایک اچھا مزاح نگار کہہ کر مطمئن ہو لیتے ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ کہیں مجتبیٰ بھی کثرتِ رائے سے مطمئن نہ ہو جائیں اور ہمارے ہاتھ سے ایک عمدہ خاکہ نگار نہ جاتا رہے۔

بے شک اُردو نثر میں مزاح نگاروں کی کمی ہے لیکن خاکہ نگار ان سے بھی کم ہیں۔ بوالہوسوں کو شمار میں نہ لیجیے تو مولوی عبد الحق، رشید احمد صدیقی، شاہد احمد دہلوی، منٹو اور محمد طفیل جیسے چند ناموں کے بعد خاکہ نگاروں کی تلاش میں ہمیں محققین سے معاونت طلب کرنی پڑتی ہے۔ فنکار کی ایک خاص امیج بنا کر اس کے ساتھ کچھ روایات منسوب کر دینے کے لاکھ فائدے ہوں لیکن ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لکھنے والا اپنی اسی مقبول عام امیج کو برقرار رکھنے کے لیے ان مخصوص و محدود روایات کا اسیر ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجتبیٰ حسین ایک اچھے مزاح نگار ہیں لیکن ان کی خاکہ نگاری بھی کچھ کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔

ہر چند کہ طنز و مزاح میں چولی دامن کا رشتہ ہے اور طنز ایسی خطرناک کلہاڑی ہے جو اکثر اپنے ہی پاؤں پر پڑتی ہے لیکن مجتبیٰ حسین کے مزاحیہ مضامین اُن کے شخصی خاکوں کے مقابلے میں بے ضرر معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں طنز کا استعمال مزاح کی چاشنی کے ساتھ ہے اور اس طنز میں ایسی عمومیت ہے کہ قاری اس کی ضرب دوسروں پر ڈھال کر خوش ہو سکتا ہے۔ شخصی خاکوں کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ یہاں ایک جیتی جاگتی شخصیت کے خد و خال واضح کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُسے فرشتہ نہیں انسان کے روپ میں پیش کیا جائے اور خوبیوں اور خامیوں کے امتزاج سے اس کے انفرادی نقوش واضح کیے جائیں اب اگر لکھنے والا ضرورت سے زیادہ لچک دار رویّہ اپناتا ہے تو خاکہ اس تصویر کی مانند ہو جاتا ہے جو صاحبِ تصویر کی نہ ہو، دوسری جانب غیر متوازن حقیقت پسندی خاکے کو سپاٹ بھی کر دیتی ہے اور آبگینوں کو ٹھیس بھی پہنچاتی ہے چنانچہ ایک کامیاب کیریکٹر اسکیچ قصیدے اور ہجیٰ کے درمیان سے کشید کیا جاتا ہے، ذرا قدم ڈگمگائے کہ جوشؔ، شاہد احمد دہلوی سے ناراض ہو جاتے ہیں یا حالیؔ پر سرسید کے ڈفالی ہونے کا الزام منڈھ دیا جاتا ہے۔

مجتبیٰ عام زندگی میں جتنے سادہ مزاج ہیں خاکہ نگاری میں اتنے ہی چالاک۔ مدح بالذم اور تنقیص نما توصیف کے ایسے ایسے گُر انھیں یاد ہیں کہ وہ آپ کے مُنہ پر بات کہہ جائیں اور کئی دن بعد آپ پر یہ عقدہ کھُلے کہ حضرت نے آپ کی کسی خوبی نہیں خامی کو اُجاگر کیا تھا۔ در اصل فی البدیہہ مزاحیہ مضامین لکھ لکھ کر وہ اتنے چابکدست ہو گئے ہیں کہ جب ان کا چابک ممدوح بر پڑتا ہے تو وہ اسے سمند شوق پر تازیانہ تصور کرتا ہے۔ اس باب میں وہ کسی کے ساتھ مروّت روا نہیں رکھتے۔ لطف یہ ہے کہ بحیثیت مزاح نگار کسی شخصیت کے نا ہموار پہلو پہلی ہی نگاہ میں اُن پر منکشف ہو جاتے ہیں اور وہ کوشش یہ کرتے ہیں کہ ان کا قاری بھی پہلی نظر میں ہی متعلقہ شخصیت کی نا ہمواری سے واقف ہو جائے۔ یہ مہم وہ بڑی معصومیت کے ساتھ خاکے کے عنوان کی مدد سے سر کرتے ہیں۔ عنوانات کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں :

اُردو شاعری کے ٹیڈی بوائے۔ حکیم یوسف حسین خاں

ط انصاری سے ظؔ انصاری تک

کھویا ہوا آدمی۔ سلامؔ مچھلی شہری

پتھر کا آدمی۔ عزیز قیسی

آخری شریف آدمی۔ بھارت چند کھنہ

بھیڑ کا آدمی۔ فکر تونسوی

مجتبیٰ سنی سنائی کے قائل نہیں ہیں اور عام طور پر اُسی شخصیت پر قلم اُٹھاتے ہیں جسے کبابِ سیخ کی طرح گھما پھرا کر دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ تا حال اُن کے نو خاکے میری نگاہ سے گزرے ہیں یہ سب ایسی شخصیتوں کو اُجاگر کر تے ہیں جن سے مجتبیٰ حسین کے بہت قریبی تعلقات رہے ہیں۔ یہ قربت اُنھیں ایسے راز ہائے دروں پر دہ سے آگاہ کر تی ہے جن کے ذکر سے خاکوں میں زندہ رنگ اُبھرتا ہے، مثلاً سلامؔ مچھلی شہری کے بارے میں بہت سے لطیفے سُنانے کے بعد لکھتے ہیں :

’’ پدم شری کیا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلامؔ صاحب اپنی ماں کو سمجھاتے ہیں ___ ماں یہ تو صرف ایک اعزاز ہے اس سے صرف میری عزّت میں اضافہ ہو گا___ اور ماں کہتی ہے ___اتنی ساری عزت لے کر تُو کیا کرے گا اب ذرا دولت کی فکر کرتا کہ اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کر سکے۔ ‘‘

فکر تونسوی کی پہچان ایک صاحب کے ماموں کے بیان سے ان الفاظ کے توسط سے واضح کرتے ہیں :

’’ میاں کہیں وہ صاحب تو فکر تونسوی نہیں ہیں جو ہر روز صبح میں مِلک ڈپو سے پاؤلیٹر دودھ لے جاتے ہیں۔ ‘‘

اور پھر مجتبیٰ اس پہچان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ فکر تونسوی کی ساری تحریروں میں پانچ لیٹر دودھ والے آدمی کے خلاف پاؤ لیٹر دودھ والے آدمی کے احتجاج کی آواز صاف سُنائی دیتی ہے۔ ‘‘

اسی طرح سلیمان اریب کے خاکے میں رقمطراز ہیں :

’’ صفیہ، اریب صاحب کی سب سے بڑی کمزوری اور سب سے بڑی طاقت تھیں، ہر بات میں صفیہ کا بے موقع ذکر کیا کرتے تھے۔ ایک دن فراقؔ کی شاعری پر بحث ہو رہی تھی، کسی نے کہا فراقؔ کی شاعری کے بارے میں پروفیسر احتشام حسین کی یہ رائے ہے ___ اس پر اریب نے فوراً کہا ___اور صفیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ‘‘

ان اقتباسات کی پیش کش سے یہ نتیجہ نکالنا مناسب نہ ہو گا کہ مجتبیٰ حسین کے خاکے اشخاص کے تاریک رُخ کو ہی پیش کرتے ہیں حق تو یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے وصف کو وہ کچھ ایسے سیاق و سباق میں پیش کرتے ہیں کہ وہ بہت بڑا وصف نظر آنے لگتا ہے، بلکہ کہیں کہیں تو اُن کی دریا دلی پر فضول خرچی کا شبہ ہوتا ہے۔ تمام خاکے توصیف سے شروع ہو کر توصیف پر ہی ختم ہوتے ہیں، اگر درمیان میں کہیں کہیں اُجالا داغ داغ ہو کر حقیقت کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے تو مجتبیٰ کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔

مجتبیٰ حسین نے عام خاکہ نگاروں کی طرح اپنی پسند کے معیار بنا کر متعلقہ شخصیتوں کو ان پر پرکھنے کی روش سے اجتناب کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ افراد، خصوصاً فنکار انفرادی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا وہ اپنے خاکوں میں آزادہ روی کے قائل ہیں، ان کا خاکہ اپنے فطری انداز میں آگے بڑھتا اور متعلقہ شخصیت کی کم و بیش تمام بنیادی خصوصیات کا احاطہ کرتا ہے اور یہی سبب ہے کہ کوئی خاکہ کسی دوسرے خاکے سے مماثل نہیں ہے۔ ظرافت مجتبیٰ کی گھٹّی میں پڑی ہے اس لیے اندازِ بیان کو شگفتہ ہونا ہی چاہیے۔ عام طور پر مزاح نگار سنجیدہ مسائل کو اپنی طرزِ ادا سے سطحی بنا دیتے ہیں۔ مجتبیٰ کا معاملہ دوسرا ہے ان کی شگفتگی بات کو زیادہ پہلو دار اور بلیغ بناتی ہے مثلاً:

’’ اریب ایک دن اچانک بیمار ہو گئے۔ کسی نے بتایا کہ ان کی آواز بیٹھ گئی ہے۔ ان دنوں ادب میں ترسیل کے مسئلہ پر رسالوں میں بڑی بحث چل رہی تھی، ایک دن اریب سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ___ ’’ اریب صاحب! آپ تو سچ مچ ترسیل کا مسئلہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ‘‘

حکیم یوسف حسین خاں کی شاعری کے بارے میں اُن کی رائے ہے :

’’ سچ مچ حکیم صاحب کا مجموعۂ کلام بڑا مفرح اور مقوی ہے یقین نہ آئے تو پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ بس ایک بار آزمائش شرط ہے۔ ‘‘

ان خاکوں کے مطالعہ سے اس امر کا احساس بھی ہوتا ہے کہ مجتبیٰ سنجیدہ جذبات نگاری پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ بطورِ خاص سلیمان، اریب، عزیزؔ  قیسی، فکر تونسوی اور سلامؔ مچھلی شہری پر لکھے لگے خاکوں کا اختتام ایسے انداز میں کیا گیا ہے کہ روح کے تار جھنجھنا اُٹھتے ہیں۔

بحیثیت مجموعی مجتبیٰ حسین ایک ایسے خاکہ نگار ہیں کہ جی چاہتا ہے وہ ہم پر خاکے لکھیں اور ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ واقعی ہمارا خاکہ نہ لکھ دیں۔

۱۹۷۴ء

٭٭٭

 

 

 

 

آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو کے ادبی و علمی رسالے

 

۱۹۴۷ء کے آس پاس غیر منقسم ہندوستان میں جن ادبی رسائل کی اہمیت مسلمہ تھی ان میں سے بیشتر لاہور یا ان شہروں سے نکلتے تھے جو بعد ازاں پاکستان کے حصے میں آئے۔ ان رسائل میں ’ادبی دنیا‘، ’ نیرنگ خیال‘، ’ ادب لطیف‘، ’ عالم گیر‘، ’ ہمایوں ‘، وغیرہ شامل تھے۔ آزادیِ ہند کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں سے نکلنے والے ادبی رسائل میں ’ساقی‘ (دہلی)، ’ نگار‘ (لکھنؤ)، ’ شاعر‘( آگرہ)، ’ افکار‘ ( بھوپال) وغیرہ معدودے چند رسالے ہی ایسے تھے جنھیں اردو کی ادبی دنیا میں وقعت حاصل تھی کیونکہ اس زمانے میں ساغر نظامی کا ’ایشیائ‘(بمبئی)، منٹو کا ’مصوّر‘ ( بمبئی)، سردار جعفری کا ’ نیا ادب‘ ( بمبئی)، کوثر چاند پوری کا ’جادہ‘  (بھوپال) حالات کی ناسازگاری کے باعث دم توڑ گئے۔ دو ایک سال بعد ہی شاہد دہلوی ’ ساقی‘ کو کراچی لے گئے۔ چونکہ ادب جغرافیائی سرحدوں کا پابند نہیں ہوا کرتا، اس لیے سرحدوں کے دونوں طرف بسنے والے قلم کاروں کی تخلیقات عام طور پر ہند و پاک کے ادبی رسائل میں بہ یک وقت شائع ہوتی رہیں۔ اردو رسائل کے اس جائزے میں صرف انھیں پرچوں کا  ذکر کیا جائے گا جو ۱۹۴۷ء کے بعد ہندوستان میں جاری ہوئے اور ان میں بھی مذہبی، فلمی، جاسوسی رسالوں کو نظر انداز کر دیا جائے گا کیونکہ وہ ہمارے موضوع سے خارج ہیں۔ سہولت کی غرض سے اس جائزے کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا دور ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۰ء تک، دوسرا دور ۱۹۶۱ سے ۱۹۷۰ء تک اور تیسرا دور ۱۹۷۱ء سے تا حال پھیلا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ پہلے دور میں وہ رسائل بھی شامل ہوں گے جو آزادیِ ہند سے قبل جاری ہوئے تھے اور بعد میں بھی ان کا سلسلہ اشاعت منقطع نہیں ہوا۔

نگار ( لکھنؤ) : نیازؔ فتح پوری کی ادارت میں بھوپال، آگرہ اور بعد ازاں لکھنؤ سے شائع ہوتا رہا۔ علمی اور ادبی پرچوں میں اعلیٰ ترین معیار کا حامل تھا۔ اپنے تنقیدی مضامین کے علاوہ مذہبی روشن خیالی اور موضوعات کے تنوع کی بنا پر ایک بڑے حلقے میں مقبول تھا۔ نیاز فتح پوری نے اس رسالے کے کئی خاص نمبر اس پائے کے نکالے کہ آج تک انھیں ادبی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ آزادی کے دس بارہ سال کے بعد نیازؔ پاکستان چلے گئے جہاں یہ ’ نگار پاکستان‘ کے نام سے تا حال شائع ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں اس کے دو ایک شمارے اکبر علی خان کی ادارت میں رام پور سے شائع ہوئے۔ پھر کئی سال کے التوا کے بعد مودود صدیقی نے اسے از سرِ نو دہلی سے جاری کیا لیکن اس وقت تک اس کی ماہیت تبدیل ہو چکی تھی اور اسے عوامی دلچسپی کی حامل تخلیقات سے مزین کر کے تصویروں کے ساتھ خوبصورت گِٹ اپ میں شائع کیا جاتا تھا۔ آگے چل کراس کی ادارت ک۔ ع۔ مہمند اور مخمور سعیدی نے سنبھال لی لیکن وہ بھی زیادہ دن تک اسے زندہ نہ رکھ سکے۔

ساقی ( دہلی): شاہد احمد دہلوی کا مشہور ادبی رسالہ جس نے اردو کو کرشن چندر اور کئی دوسرے اہم لکھنے والوں سے پہلی بار روشناس کرایا۔ اس کے لکھنے والوں میں ترقی پسندوں کی کثرت تھی۔ تقسیمِ ہند کے چند سال بعد ہی شاہد احمد اسے کراچی لے گئے۔

افکار ( بھوپال): صہباؔ لکھنوی کی ادارت میں نکلتا تھا اور ہندوستان میں ترقی پسندادبی تحریک کے آرگن کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ بھوپال میں منعقد ہونے والی پہلی کانفرنس سے متعلق اس کا خاص نمبر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ۴۔ ۵ سال بعد صہبا لکھنوی اسے بھی کراچی لے گئے۔

شاہراہ( دہلی):مختلف اوقات میں پرکاش پنڈت، ظ۔ انصاری، ساحر لدھیانوی، نشترؔ خانقاہی وغیرہ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ ترقی پسند تحریک کی ترویج و ترقی میں اس رسالے کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کی خصوصی اشاعتوں میں ’ ناولٹ نمبر‘ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے، تحریک کے زوال کے ساتھ ساتھ یہ بھی رو بہ انحطاط ہوتا گیا۔ اور ۱۹۶۰ء کے قریب اس کی اشاعت کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔

ساحل( بھساول):اس کے مدیر اپنے دور کے مشہور شاعر قمرؔ بھساولی ہوا کرتے تھے۔ یہ بھی ترقی پسندوں کا ترجمان تھا۔ ۱۹۴۸ء کے قریب بند ہو گیا۔

شاعر ( بمبئی): مختلف ادوار میں سیمابؔ اکبرآبادی، اعجاز صدیقی، تاجدار احتشام وغیرہ کی ادارت میں آگرہ اور بمبئی سے نکلتا رہا۔ تا حال جاری ہے اور اب اس کی ادارت افتخار امام صدیقی کے ہاتھ ہے۔ اپنے معیاری مضامین اور اعلیٰ تخلیقات کے لیے مشہور ہے۔ اس کی خصوصی اشاعتوں میں ’کرشن چندر نمبر‘، ’قومی یکجہتی نمبر‘ اور ’عصری ادب نمبر‘ اپنی قدر و قیمت کے اعتبار سے خاصے وقیع سمجھے جاتے ہیں۔  مختلف فنکاروں پر خصوصی گوشے شائع کرنا بھی اس کا امتیاز ہے۔

آج کل( دہلی): سرکاری رسالہ ہے۔ مختلف ادوار میں اس کی ادارت کے فرائض جوشؔ ملیح آبادی، عرش ملسیانی، جگن ناتھ آزاد، شہباز حسین وغیرہ نے انجام دیے۔ موجودہ مدیر راج نرائن رازؔ  ہیں۔ اس پرچے نے بھی کئی اہم خاص نمبر نکالے ہیں۔

سب رس ( حیدر آباد): مختلف ادوار میں محی الدین قادری زورؔ، اکبر الدین صدیقی، مغنی تبسن، وقار خلیل وغیرہ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ہے۔ دکنیات اس رسالے کا خاص موضوع ہے اور اپنے تحقیقی مقالات کے لیے مشہور ہے۔ تا حال جاری ہے۔

بیسویں صدی( دہلی): خوشترؔ گرامی پہلے لاہور سے نکالا کرتے تھے بعد ازاں دہلی منتقل ہو گئے۔ غالباً ہندوستان میں سب سے زیادہ باقاعدگی کے ساتھ نکلنے والا اور سب سے زیادہ کثیر الاشاعت ماہنامہ ہے۔ ہلکی پھلکی تخلیقات کے باعث عوام میں بے حد مقبول ہے۔ آج کل اس کے مدیر رحمان نیّر ہیں جو اسی ادارے سے ایک فلمی پرچہ ’ روبی‘ بھی نکالتے ہیں۔

چندن ( کانپور):نریش کمار شادؔ اور ساحرؔ ہوشیار پوری اس کے مدیر تھے۔ اپنے زمانے کا معیاری ادبی جریدہ متصور ہوتا تھا۔

صبا ( حیدر آباد): مشہور شاعر سلیمان اریب کی ادارت میں شائع ہوتا تھا اور ترقی پسندوں کا آرگن تھا۔ اس کے خاص نمبروں میں ’ مخدوم محی الدین نمبر‘ اپنی اہمیت کے اعتبار سے یاد رکھا جائے گا۔ ۱۹۷۰ء کے آس پاس سلیمان اریب کے انتقال کے بعد یہ بھی مرحوم ہو گیا۔

نئے چراغ (کھنڈوہ): مظفرؔ حنفی اس کے مدیر اعلا، حسن رضا، حسن بشیر، قاضی انصار اور حباب ہاشمی نائب مدیر ہوتے تھے۔ ۱۹۵۸ء سے ۱۹۶۰ء تک ہی جاری رہ سکا۔ اپنے دور کے تمام اہم فن کاروں کی تخلیقات، ہر نظریاتی حد بندی سے بالاتر ہو کر شائع کرتا تھا۔ آج کے بہت سے اہم فنکاروں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اس رسالے میں لکھ کر کیا تھا۔

تحریک (دہلی): گوپال متل، مخمور سعیدی اور پریم گوپال متل کی ادارت میں کم و بیش تیس سال تک نکلتا رہا۔ ابھی حال ہی میں اس کا سلسلہ اشاعت منقطع کر دیا گیا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے عہدِ شباب میں یہ ہندوستان کا واحد رسالہ تھا جو تصویر کے دوسرے رخ کی نمائندگی کرتا رہا۔ اس کے دس سالہ ادب نمبر اور پچیس سالہ ادب نمبر بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔

تعمیر ( پٹنہ): سہیل عظیم آبادی نکالتے تھے۔ اس میں ادبی تخلیقات کے علامہ مختلف فنون لطیفہ اور تہذیب و ثقافت سے متعلق مضامین کو بھی سلیقے سے شائع کیا جاتا تھا۔ زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا۔

جامعہ ( دہلی): ڈاکٹر عابد حسین، پروفیسر محمد مجیب، ضیاء الحسن فاروقی، مسعود حسین خاں اس کے مدیران رہے ہیں اور عبد اللطیف اعظمی مدیر معاون۔ اس میں بیشتر لکھنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ میں سے ہوتے ہیں۔ مختلف علوم سے متعلق مضامین کو اس پرچہ میں جگہ ملتی ہے تا حال جاری ہے۔

نکہت( الٰہ آباد): عباس حسین اس کے مدیر تھے اور اپنی ہلکی پھلکی تخلیقات کی وجہ سے عوام میں خاصا مقبول تھا۔ آگے چل کر اسے جاسوسی رسالہ بنا دیا گیا۔

صُبحِ نو( پٹنہ):وفاؔ ملک پوری کی ادارت میں پچیس تیس سال تک نکلتا رہا۔ آخری دور میں مدیر معاون کی حیثیت سے علیم اللہ حالی بھی اس کی مجلسِ ادارت میں شامل ہو گئے۔ بہار کے مقبول عام پرچوں میں سے ایک تھا۔

کردار ( بھوپال):۱۹۵۳ء میں مفتی صدیقی نے جاری کیا۔ تقریباً تین چارسال تک زندہ رہا۔ اس کا خاص نمبر اس دور میں بہت مقبول ہوا تھا۔

سنگم ( جموں ): اپنے زمانے کے مشہور افسانہ نگار موہنؔ یاور اس کے ایڈیٹر تھے۔ یہ رسالہ ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ ۱۹۶۲ء کے آس پاس اس کا سلسلۂ اشاعت بھی منقطع ہو گیا۔

پگڈنڈی( امرتسر): امریک آنند کی ادارت میں پندرہ بیس سال تک شائع ہوتا رہا۔ تلوک چند محرومؔ اور منٹو پر اس جریدے نے گرانڈیل خاص نمبر شائع کیے۔

تخلیق ( دہلی): وشوا ناتھ درد نکالتے تھے۔ بعد ازاں دت بھارتی کی ادارت میں نکلتا رہا۔ کچھ دنوں تک اس کی مجلس ادارت میں بانیؔ بھی شامل رہے۔ خاصی ضخامت کے باوجود اس کی قیمت محض چار آنے رکھی گئی تھی۔ اس پرچے کا نئی تخلیق نمبر بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے۔

تلاش ( دہلی):  وشوا ناتھ دردؔ نے اس پرچے کے چودہ پندرہ شمارے بڑے اہتمام سے شائع کیے۔ ۱۹۶۲ء کے آس پاس بند ہو گیا۔ لکھنے والوں کا ایک بڑا حلقہ اس کے ساتھ تھا۔

سوغات ( بنگلور): محمود ایاز کا پرچہ تھا۔ پہلے دور میں اس کے آٹھ دس شمارے نہایت سلیقے کے ساتھ نکلے۔ گرما گرم ادبی مباحث اس کے صفحات پر جگہ پاتے رہے۔ حلقۂ اربابِ ذوق اور ترقی پسند تحریک سے متعلق تمام اہم فنکار اس کے لیے لکھتے تھے۔ ’ سوغات‘ کا  ’جدید نظم نمبر‘ آج بھی ایک اہم ادبی دستاویز سمجھاجاتا ہے۔ آٹھ دس سال کے وقفے کے بعد محمود ایاز نے اس کے چھ سات شمارے اور بھی شائع کیے جس میں جدیدیت اور ترقی پسندی سے متعلق کافی فکر انگیز تحریریں شائع ہوئیں۔

نئی نسلیں ( لکھنؤ): اس کی مجلسِ ادارت میں م۔ نسیم، انور صدیقی، شبنم سبحانی وغیرہ شامل تھے۔ اردو ادب میں اسلامی اقدار کی تبلیغ کرنے والا پرچہ تھا جس کی سربراہی کراچی میں ماہر القادری، ’ فاران‘ کے ذریعے کر رہے تھے۔ پانچ سات سال ہی جاری رہ سکا۔

معیار ( میرٹھ): ابو المجاہد زاہدؔ ایڈٹ کرتے تھے یہ بھی اسلامی ادب کی ترجمانی کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ سال دو سال کے بعد کساد بازاری کا شکار ہو گیا۔

محور ( دہلی): نریندر  نشچل کا دو ماہی رسالہ تھا۔ جس کے دس بارہ شمارے ہی شائع ہو سکے۔ اس پر جدیدیت کا رنگ غالب تھا۔

نگارش ( امرتسر): مہندر باوا کی ادارت میں نکلتا تھا۔ اس پرچے نے بھی کئی ضخیم خاص نمبر شائع کر کے ابنی اہمیت تسلیم کرا لی تھی۔ ان میں ’ ناولٹ نمبر‘ بطور خاص قابلِ ذکر ہے۔

شاہکار ( الٰہ آباد): محمود احمد ہنرؔ اس پرچے میں ہند و پاک کے تمام ادبی رسائل کی بہترین تخلیقات کا انتخاب شائع کیا کرتے تھے۔ کم و بیش ۲۵ سال تک باقاعدگی سے نکلتا رہا اور ہنرؔ کی وفات کے ساتھ یہ بھی مر گیا۔ اس کے ’ فراق نمبر‘ اور ’احتشام حسین نمبر‘ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

مندرجہ بالا پر چوں کے علاوہ پہلے دور کے رسائل میں کلکتہ کا ’معاون‘( ایم۔ عبداللہ اور مظہر امام)، جالندھر کا ’ راہی‘ ( بلدیو بجلی)، بریلی کا ’ آواز‘ ( ماجد ادیب)، دہلی کا ’ فنکار‘ (پرکاش پنڈت)، لکھنؤ کا ’ فروغ اردو‘، ناگ پور کا ’ نبّاض، ( شارق نیازی)، بمبئی کا ’ الوارث‘ (نازش پرتاپ گڑھی اور طرفہ قریشی)، علی گڑھ کا ’ ادیب‘ اور درس‘ ( قمر رئیس)، لکھنؤ کا ’ نیا دور‘ (خورشید احمد)، دہلی کا ’ شعلہ و شبنم‘ (بمل جین)، گیا کا ’ سہیل‘ ( ادریس سنسہاروی)، کلکتہ کا  ’عکاس‘، کانپور کا ’ شاہد‘ ( ن۔ پرویز)، الٰہ آباد کا ’ مان سروور‘ ( گوری شنکر اخترؔ)، الٰہ آباد کا ’ پروین‘ ( بحرؔ الٰہ آبادی)، دہلی کا ’نور جہاں ‘ ( وشو ناتھ طاؤس)، دہلی کا ’ شانِ ہند‘ ( سرور تونسوی)، دہلی کا ’ انیسِ ادیب‘ ( کبیر کوثر)، پٹنہ کا’ مبصر‘( قاضی عبد الودود)، دہلی کا ’ آریہ ورت‘ ( اظہار اثرؔ) اور ’جمالستان (شہزادہ تبسم) وغیرہ بھی اس لائق ہیں کہ مضمون میں جگہ پائیں۔ دو اور ماہنامے ’مستانہ جوگی‘ اور ’رہنمائے تعلیم‘ اسی دور میں دہلی سے نکلا کرتے تھے۔ مذہبی نوعیت کے پرچوں میں لکھنؤ کے ’ الفرقان‘ ( منظور نعمانی)، دہلی کے برہان‘ ( سعید اکبر آبادی) اور اعظم گڑھ کے ’ معارف‘ ( صباح الدین عبد الرحمن) کا تذکرہ بھی لازمی ہے کیونکہ ان پرچوں میں کچھ تحقیقی اور علمی مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔

خواتین کے لیے اس دور میں کچھ ایسے رسالے نکلتے رہے ہیں جن کا ذکر ناگزیر ہے۔ ان میں دہلی کا ’ خاتونِ مشرق‘ ( مستحسن فاروقی)، ناگپور کا ’ کرن‘ ( شفیقہ فرحت)، دہلی کا ’بانو‘ (زینت دہلوی) اور لکھنؤ کا ’ حریم‘ ( نسیم انہونوی) شامل ہیں۔ ’ بانو‘ اب بھی ’شمع‘ کے ادارے سے زینت دہلوی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ دہلی سے ایک ہفت روزہ پرچہ ’ آئینہ‘ بڑے طمطراق سے شائع ہوا تھا۔ اس کے نقاب پوش ایڈیٹر ظ۔ انصاری تھے، جنھوں نے کئی سال کے بعد یہی پرچہ کھلے عام بمبئی سے بھی چند ماہ تک نکالا۔ تکمیل گفتگو کے لیے ڈاکٹر عابد حسین کے ہفتہ وار ’ روشنی‘ ( دہلی )اور انجمن ترقی اردو ہند کے ترجمان ’ ہماری زبان‘ کا نام بھی لیا جانا چاہیے جو مختلف اوقات میں آل احمد سرور، پروفیسر مسعود حسین، خلیق انجم کی ادارت میں علی گڑھ اور بعدازاں دہلی سے شائع ہوتا رہا اور بفضلہٖ جاری ہے۔ اس ادارے سے سہ ماہی جریدہ ’ اردو ادب‘ بھی شائع ہوتا رہا ہے جس نے کئی خاص نمبر نکالے ہیں۔ اپنے تحقیقی اور لسانیاتی مضامین کی اہمیت کے پیشِ نظر انجمن اسلام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( بمبئی) کا ترجمان ’ نوائے ادب‘ (نظام الدین گوریکر) اور ہندوستانی پرچارسبھا بمبئی کا ہی ’ ہندوستانی زبان‘ ( عبد الستار دلوی) بھی قابلِ فراموش نہیں ہے۔

دوسرا دور وہ ہے جب ترقی پسند تحریک کم و بیش زوال آشنا ہو چکی تھی اور ہمارے ادب میں جدیدیت کا رجحان سر ابھارنے لگا تھا۔ ان کے اسباب کی تفصیل میں جائے بغیر یہاں ایسے رسائل کا مختصر تذکرہ کر دینا بر محل ہو گا جو بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں منظرِ عام پر آئے۔

شب خون ( الٰہ آباد): ۱۹۶۴ء کے لگ بھگ ڈاکٹر اعجاز حسین کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا لیکن چھ سات شماروں کے بعد ہی اعجاز حسین اس کی ادارت سے دست کش ہو گئے اور بعد ازاں بحیثیت مدیر پرچے پر مختلف لوگوں کے نام شائع ہوتے رہے۔ لیکن در اصل از ابتدا تا حال اس کی ترتیب و تہذیب میں شمس الرحمن فاروقی کا ہاتھ رہا ہے۔ ہندوستان میں جدیدیت کو فروغ دینے کا سہرا اسی رسالے کے سر بندھتا ہے۔ مختلف اوقات میں ترقی پسندوں سے جدیدیوں کی جنگیں ’ شب خون‘ کے صفحات ہی پر لڑی گئیں۔ پانچ سات سال تک باقاعدگی سے شائع ہونے کے بعد یہ اہم رسالہ بے قاعدگی کا شکار ہو گیا اور اب کہیں سال میں ایک دو مرتبہ اس کے دیدار ہوتے ہیں۔  آج کے کئی اہم قلم کاروں کی بلند قامتی اس جریدے کی مرہونِ مت ہے۔

کتاب ( لکھنؤ) : عابد سہیل نے جاری کیا تھا۔ اس پرچے نے ترقی پسندی اور جدیدیت کی آویزش کو کم کرنے کا قابلِ قدر کارنامہ انجام دیا۔ اس دور میں جب ان دونوں رجحانات کو ایک دوسرے کا متخالف سمجھا جاتا تھا، ’ کتاب‘ کے صفحات دونوں کے لیے فراخدلی کے ساتھ کھلے  رکھے گئے تھے۔ اس کی خصوصی اشاعتوں میں ’افسانہ نمبر‘ اور سالنامے لائقِ ذکر ہیں۔ افسوس کہ سو شمارے نکال کر عابد سہیل کی ہمت جواب دے گئی۔ بہر حال اس پرچے نے ادبی تاریخ کے ایک خاص موڑ پر بے حد اہم کردار ادا کیا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

شاخسار ( کٹک) : بزرگ شاعر امجد نجمی اور ان کے شاگرد کرامت علی کرامت نکالتے تھے۔ یہ دو ماہی رسالہ تھا اور خاصا ضخیم ہوا کرتا تھا۔ اس رسالے میں بھی قدیم و جدید کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ ساتویں دہائی کے نصف آخر میں یہ پرچہ بھی دم توڑ گیا۔ اس میں شائع ہونے والے جدیدیت سے متعلق کچھ مضامین آج بھی حوالے کا کام دیتے ہیں۔

اقدار( پٹنہ):ظفر اوگانوی نے جاری کیا اور چار پانچ شماروں کے بعد اسے اپنے ساتھ کلکتہ لے گئے جہاں سے اس کے چند اور شمارے منظرِ عام پر آئے۔ خوبصورت اور معیاری رسالہ تھا۔ اس میں جدیدیت کی حمایت بڑے جوش و خروش سے کی جاتی تھی۔

مزاج ( بھوپال):ہر چند کہ اس رسالے کے مدیران میں عیسیٰ صدیقی، شمیم احمد اور فضل تابش جیسے ترقی پسند شامل تھے لیکن یہ رسالہ بھی انتہا پسندی کے ساتھ جدیدیت کی پشت پناہی کرتا رہا مدھیہ پردیش کے صفِ اول کے معیاری جریدوں میں اسے بھی شمار کیا جائے گا۔ افسوس کہ سات آٹھ شماروں کے بعد ہی اس کا خاتمہ ہو گیا۔

گفتگو( بمبئی): سردار جعفری اس کے ایڈیٹر تھے۔ ظاہر کے اسے ترقی پسند تحریک کا پُر جوش مبلغ ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود ’ گفتگو‘ کے صفحات جدید فن کاروں کے لیے بھی کھلے رکھے گئے تھے۔ پندرہ بیس سال کی مدت میں اس کے بمشکل پندرہ سولہ ہی شمارے منظر عام پر آسکے ہیں۔ اس رسالے میں بھی ترقی پسندی اور جدیدیت سے متعلق گرما گرم بحثیں اور مضامین شائع ہوئے۔ حال ہی میں اس کا ’ غزل نمبر‘ منظرِ عام پر آیا ہے جو خاصا ضخیم اور وقیع ہے۔

آہنگ ( گیا): پہلے اس کی ادارت کلام حیدری کے سپرد تھی۔ آج کل نوشابہ حق ترتیب دیتی ہیں۔ اس میں بھی ہر دو رجحان رکھنے والے قلم کاروں کی تخلیقات شائع کی جاتی ہیں اور غالباً اپنی ضخامت کی مناسبت سے بھی ادبی رسائل میں سب سے سستا پرچہ ہے ’آہنگ‘ کا ’ فکشن نمبر‘ تب و تاب کے ساتھ منظرِ عام پر آیا تھا۔ اس کی خصوص اساعتوں میں ’ احتشام حسین نمبر‘ بھی لائقِ ذکر ہے۔ ادھر دو تین برسوں سے پردۂ خفا میں ہے۔

مریخ ( پٹنہ):  پروفیسر عبد المغنی نکالتے تھے۔ ابتدا میں چند ہی شمارے منظر عام پر آسکے، اب پھر شائع ہونے لگا ہے۔ یہ پرچہ جدیدیت کا کٹر دشمن ہے اور اس رجحان کے خلاف اپنے مضامین کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ اس کے اداریے بھی جرأت مندانہ ہوتے ہیں۔

شب رنگ ( الٰہ آباد):ڈاکٹر عقیل رضوی ترتیب دیتے تھے۔ دو چار شمارے ہی شائع ہوئے لیکن گیٹ اپ اور معیاری مضامین کی وجہ سے اب بھی یادکیے جاتے ہیں۔ اس رسالے نے بھی جدیدیت کے طوفان کا سامنا کرنے کی اپنی سی بھر سک کوشش کی۔

سریتا ( دہلی):مشہور ہندی رسالے ’سریتا‘کا اردو روپ تھا جو چند سال جاری رہ کر بند ہو گیا۔ اس کی ادارت وشوا ناتھ کے سپردتھی۔ عا م دلچسپی کی حامل کہانیاں اور شعری تخلیقات اس میں شائع ہوتی تھیں۔ اس پرچے نے خاتون تخلیق کاروں سے متعلق ایک اچھا خاص نمبر بھی نکالا تھا۔

شیرازہ ( سری نگر): جموں و کشمیر کی آرٹ و کلچرل اکیڈمی کا رسالہ ہے جس کی ترتیب و تدوین محمد یوسف ٹینگ کرتے ہیں۔ ہر نوع کی تخلیقات اور ادبی و ثقافتی مضامین اس میں جگہ پاتے ہیں۔ خصوصاً کشمیر کی تہذیب اور وہاں کے فن کاروں کے بارے میں مضامین اس کی انفرادیت متعین کرتے ہیں۔

پونم( حیدر آباد): زیر تبصرہ دہائی کے نصف اول میں ناصر کرنولی کی ادارت میں شائع ہوا تھا۔ اس رسالے کے صفحات پر بھی ترقی پسندوں اور جدید لکھنے والوں کے مابین خاصی خیال انگیز بحثیں چھڑ چکی ہیں۔ خاصا خوبصورت جریدہ تھا۔ افسوس کہ زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا۔

افسانہ ( الٰہ آباد):مشہور کہانی کار بلونت سنگھ نکالتے تھے۔ غالباً پندرہ بیس شمارے ہی منظر عام پر آ سکے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس پرچے میں صرف افسانے ہی جگہ پاتے تھے لیکن اپنے دور کے تقریباً سبھی بہترین افسانہ نگار اس کے لکھنے والوں میں شریک تھے۔

تحریر( دہلی):مشہور محقق مالک رام کا سہ ماہی رسالہ تھا جو ابھی چند سال پہلے ہی بند ہوا ہے۔ اس میں معیاری، تحقیقی اور تنقیدی مضامین شامل ہوتے تھے۔ اس کی انفرادیت یہ بھی تھی کہ متعلقہ سہ ماہی میں انتقال کرنے والے قلم کاروں کے بارے میں ’ وفیات‘ کے تحت مالک رام تفصیل سے اظہار خیال کیا کرتے تھے۔

خاتونِ دکن( حیدر آباد):صلاح الدین نیر اس کے ایڈیٹر تھے۔ ہلکا پھلکا ادبی پرچہ تھا اور عوام میں خاصا مقبول رہا۔ دس بارہ سال جاری رہ کر کساد بازاری کا شکار ہو گیا۔

شگوفہ ( حیدر آباد):مصطفی کمال کی ادارت میں اب تک نکل رہا ہے۔ پہلے ڈیڑھ ماہی تھأ اب ماہنامہ ہو گیا ہے۔ ہندوستان کا ایسا واحد جریدہ ہے جس میں صرف طنز و مزاح نگاروں کو جگہ ملتی ہے۔ اس کا طنز و مزاح نمبر بڑے طمطراق سے شائع ہوا تھا۔

عصری ادب( دہلی):یہ سہ ماہی رسالہ ڈاکٹر محمدحسن ترتیب دیتے ہیں اور بے قاعدگی کے ساتھ ہی سہی پچھلے تقریباً بارہ تیرہ سال سے نکل رہا ہے۔ ترقی پسند تحریک کا ترجمان ہے۔ لیکن نئے لکھنے والوں کے لیے اپنے صفحات کھلے رکھتا ہے۔

گگن ( بمبئی) شمس کنول کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ املا کے اعتبار سے خاصا تجرباتی پرچہ تھا اس کی انفرادیت، جرأت مندی اور بے باکی میں مضمر ہے۔ متنازعہ موضوعات پر ’مذاہب عالم نمبر‘ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

آواز ( دہلی) : سرکاری رسالہ ہے۔ اس میں آل انڈیا ریڈیو کے پروگراموں کی تفصیلات کے ساتھ مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر ہونے والی تخلیقات کا انتخاب بھی شامل کیا جاتا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف اصحاب نے اس کی ایڈیٹری کے فرائض انجام دیے۔

اسلام اور عصرِ جدید( دہلی):ڈاکٹر عابد حسین نے جاری کیا۔ ان کی وفات کے بعد ضیاء الحسن فاروقی مدیر مقرر ہوئے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے مسائل اور اسلامی فکر کا روشن خیالی سے تجزیہ کرنا اس پرچے کی خصوصیات ہیں۔

مندرجہ بالا رسالے اپنی اہمیت و افادیت کے اعتبار سے متقاضی تھے کہ ان کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا جائے اس دور کے کچھ اور لائقِ ذکر پرچے مندرجہ ذیل ہیں :

بمبئی کا ’ صبح امید‘ ( عبد السمیع بوبیرے )، دہلی کا ’سروج‘ ( سیفی پریمی/ عشرت قادری)، دہلی کا ’ گہوارہ (امیر آغا قزلباش)، پٹنہ کا ’ مطالعہ ‘( کلیم الدین احمد)، دہلی کا ’ماہِ نو‘ (ساحرؔ ہوشیار پوری)، سلطان پور کا ’ شمعِ ادب‘، حیدر آباد کا ’ آنچل‘، پٹنہ کا ’ راوی‘ ( غیاث احمد گدی)، دربھنگا کا ’ توازن‘، آرمور کا ’ معیار‘، کانپور کا ’ آب و رنگ‘( سنگھ امرتسری اور ضیاء حسنی)، بھوپال کا ’ آزر‘ ( افسر صہبائی )، بمبئی کا ’ نقشِ کوکن‘ ( میمونہ دلوی)، سہارنپور کا ’رنگ محل‘، آسنسول کا ’ آئندہ‘، جمشید پور کا ’ تشکیل‘( شعیب شمس اور شمس فریدی)، کلکتہ کا ’آیات‘ (وکیل اختر)، مؤکا ’ ہم رنگ‘ ( وقار واثقی )، اندور کا ’ شاخیں ‘، سری نگر کا ’ تعمیر‘، چنڈی گڑھ کا ’پاسبان، مظفر پور کا ’ سریر‘ وغیرہ۔

اس دوران شائع ہونے والے ادبی ہفت روزہ اور پندرہ روزہ پرچوں میں بمبئی کا ’ دورِ حیات‘( قیصر مظہر حسین)، حیدر آباد کا ’ برگ آوارہ‘( محمود خاور )، لکھنؤ کا ’ قومی آواز‘ ( عشرت صدیقی)، گیا کا ’ مورچہ‘ ( کلام حیدری)، کلکتہ کا ’ آبشار‘ ( ابراہیم ہوشؔ)، رام پور کا ’جوہر‘ (سلطان اشرف)، بنگلور کا ’ شاہکار‘( محمود ایاز) وغیرہ بھی لائقِ ذکر ہیں کیونکہ ان میں اکثر ادبی تخلیقات اور معیاری مضامین شائع کیے جاتے تھے۔

غالب نامہ ( دہلی):سرکاری ادارے ایوانِ غالب کی جانب سے شائع ہوتا ہے۔ وقتاً فوقتاً اس کے مدیران میں یوسف حسین خاں، نثار احمد فاروقی اور نذیر احمد شامل رہے ہیں۔ سہ ماہی رسالہ ہے۔ عام طور پر ایسے تحقیقی اور تنقیدی مضامین اس میں شامل ہوتے ہیں جن میں غالبیات کا غلبہ ہوتا ہے۔

نشانات ( مالیگاؤں ): یہ خوبصورت ادبی جریدہ سلطان سبحانی اور سید عارف وغیرہ کے زیر ادارت منظرِ عام پر آیا تھا۔ ترقی پسند اور جدید حلقوں کے لکھنے والے اس کے ساتھ قلمی تعاون کرتے تھے۔ اپنی معیاری تخلیقات، نثر و نظم اور خوبصورت انداز پیشکش کی وجہ سے اس رسالے نے تیزی کے ساتھ ادبی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا لیکن مدیران کی باہمی چپقلش اسے دس بارہ شماروں کے بعد ہی لے ڈوبی۔

سوبرس( دہلی): اس خوبصورت رسالے کی مجلسِ ادارت میں نشتر خانقاہی اور مودود صدیقی شامل تھے۔ بطور خاص ایسی ادبی تخلیقات شائع کرتا تھا جس میں عوام کی دلچسپی کا وافر سامان ہو۔ آٹھ دس شماروں کے بعد بند ہو گیا۔

عصری ا ٓ گہی( دہلی):پچھلے چند سالوں سے قمر رئیس نکالتے ہیں اس کے وسیلے سے ترقی پسند تحریک کو ادبی محاذ پر دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنی سماجی معنویت پر اصرار کی روش اور خاص نظریے کے حامل تنقیدی مضامین کے باعث انفرادی شان رکھتا ہے۔

الفاظ( علی گڑھ):ایجوکیشن بک ہاؤس علی گڑھ کی جانب سے شائع ہوتا ہے۔ اس کے مدیر اطہرؔ پرویز اور نور الحسن نقوی ہیں۔ قدیم و جدید مکتبۂ خیال کی تخلیقات شائع کرتا ہے۔ اس کی خصوصی اشاعتوں میں ’افسانہ نمبر‘ حصہ اول و دوم خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

کتاب نما( نئی دہلی):شاہد علی خاں اس کے مدیر اعلیٰ اور ولی شاہجہاں پوری اس کے ایڈیٹر ہیں۔ اس رسالے میں تازہ ترین اردو مطبوعات پر تبصرے شائع کیے جاتے ہیں۔ اپنے خاص نمبروں کے لیے بھی اس پرچے کو بڑی شہرت حاصل ہے۔ خصوصی اشاعتوں میں ’جائزہ نمبر‘، ’ دبیر نمبر‘، ’ پریم چند نمبر‘، ’ عابد حسین نمبر‘ وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

فن اور شخصیت( بمبئی):صابر دت نکالتے ہیں اور یہ رسالہ صرف خاص نمبر نکالتا ہے۔ اب تک شائع ہونے والے نمبروں میں ’ مہندر ناتھ، جان نثار اختر، فیض اور کملیشور کی حیات و خدمات کا احاطہ کیا جا چکا ہے۔ علاوہ ازیں اس کا ضخیم ’ غزل نمبر‘ اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔

گل فشاں ( دہلی): ’ بیسویں صدی ‘کے ادارے سے شائع ہوا تھا۔ مخمور سعیدی ایڈیٹر تھے اور شمع افروز  زیدی اسسٹنٹ ایڈیٹر۔ انتہائی خوش سلیقگی کے ساتھ خوبصورت چھپتا تھا۔ ادبی تخلیقات میں اکثر پاکستانی ادب کا ایسا انتخاب بھی شامل ہوتا تھا جس میں عام قارئین کی دلچسپی کا سامان ہو۔ نو دس شماروں کے بعد بند کر دیا گیا۔

سطور( دہلی): سہ ماہی رسالہ ہے جو کمار پاشی کی ادارت میں نکلتا ہے۔ نئے ادب کی ترجمانی کا دعویدار ہے۔ خصوصی اشاعتوں میں ’ نیا افسانہ نمبر‘ اور ’ محمد علوی نمبر‘ اہمیت کے حامل ہیں۔ سال دو سال میں ایک آدھ شمارہ ہی منظرِ عام پر آتا ہے۔

زبان و ادب( پٹنہ): بہار اردو اکیڈمی کی جانب سے سہیل عظیم آبادی اور شین مظفر پوری ترتیب دیتے تھے۔ کچھ دنوں کلیم الدین احمد بھی اس کے مدیر رہے۔ سہ ماہی پرچہ ہے لیکن بے قاعدگی کا شکار ہے۔ تحقیقی اور تنقیدی مضامین کی کثرت ہوتی ہے لیکن تخلیقات بھی شائع کرتا ہے۔ شادؔ عظیم آبادی پر اس کے خاص نمبر نے ادبی حلقوں کو متوجہ کیا۔

معیار ( دہلی): سہ ماہی پرچہ تھا۔ چار پانچ شمارے ہی منظر عام پر آ سکے اور سالانہ ایک شمارے کا اوسط بیٹھتا تھا۔ ضخامت اور معیار ہر دو اعتبار سے دبیز ہوتا تھا۔ شاہد ماہلی اس کے مدیر تھے۔ پہلے شمارے کی مجلسِ ادارت میں بلراج مین را ان کے شریک کار تھے۔

نقد و نظر( علی گڑھ): گزشتہ دو تین سال سے نکل رہا ہے۔ اسلوب احمد انصاری اس کے مدیر ہیں۔ تازہ مطبوعات پر مفصل تبصرے شائع کرنا اس کا امتیازی وصف ہے۔ اپنے تنقیدی مضامین کے لیے مشہور ہے۔

تعمیر ہریانہ( چنڈی گڑھ):ہریانہ سرکار کا اردو رسالہ ہے۔ کچھ دنوں تک اس کی ادارت کے فرائض کشمیری لال ذاکرؔ نے بھی انجام دیے ہیں۔ موجود مدیر اعلیٰ انِل راز داں اور مجلسِ ادارت میں راجندر وتس، سلطان انجم، مدن راہی شامل ہیں۔ ہریانہ کے شعراء اور وہاں کی تہذیب و ثقافت سے متعلق مضامین خصوصیت کے ساتھ شائع کرتا ہے۔ اس کے ’ میرا پہلا افسانہ نمبر‘ اور ’ منشی نول کشور نمبر‘ نے کافی شہرت پائی۔

جواز ( مالیگاؤں ):اس کے مدیر سید عارف ہیں اور نشاط انور اُن کے معاون، تا حال اس کے سولہ شمارے منظرِ عام پر آئے ہیں۔ حالانکہ اس کی اشاعت کا پانچواں سال ہے۔ اپنی بے باک پالیسی اور مضامین کے اعتبار سے انفرادی شان رکھتا ہے۔ ہند و پاک کے صفِ اول کے کم و بیش تمام لکھنے والے اس کے قلمی معاونین میں شامل ہیں۔

شعور ( دہلی):بلراج مین را نکالتے تھے۔ سال دو سال میں کوئی ایک اشاعت ہی منظرِ عام پر آتی ہے لیکن اتنی معیاری اور ایسی ضخیم کہ بے قاعدگی کی تلافی ہو جاتی ہے۔ تا حال چار شمارے ہماری نگاہوں سے گزرے ہیں۔ اکثر ناقدین کو احساس ہے کہ مین را اسے خود نمائی کا وسیلہ بناتے ہیں اس کے باوجود اس میں شامل مضامین کی بلند معیاری پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔

جائزے ( الٰہ آباد): ترقی پسندنقاد سیدعقیل رضوی کی نگرانی میں شائع ہوتا ہے اور تازہ مطبوعات پر تبصروں تک محدود ہے۔ ان تبصروں میں بھی نظریاتی پسند و نا پسند کو دخل ہوتا ہے۔

تناظر( دہلی): اس کی ادارت بلراج ورما کے سپرد ہے۔ مدیران خصوصی ہر شمارے میں بدل جاتے ہیں۔ تین چار شمارے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ہر شمارہ خاصا ضخیم اور معیاری ہوتا ہے۔

اظہار( بمبئی): باقر مہدی اور فضیل جعفری مل کر نکالتے تھے۔ جدید اور ترقی پسند فنکاروں کی تخلیقات شانہ بہ شانہ شائع کرتا تھا۔ اپنے بے باک اور واشگاف مضامین اور معیاری تخلیقات کے لیے مشہور رہا ہے۔

تیز گام ( دہلی):شاہد پرویز اور عتیق الرحمن نے نکالا تھا۔ خوبصورت اور عوامی دلچسپی کا پرچہ ہوتا تھا۔ اس نے واجدہ تبسم پر ایک خاص نمبر بھی شائع کیا تھا۔

شناخت ( بھوپال): ظفر صہبائی اس کے مدیر اعلیٰ تھے اور مدیرانِ معاون میں اقبال مسعود، سکندر ضمیر وغیرہ شامل تھے۔ تین چار شمارے ہی نکل سکے لیکن معیار خاصا بلند تھا اور ہندوستان کے اکثر اہم لکھنے والوں کی قلمی معاونت اس پرچے کو حاصل تھی۔

مندرجہ بالا رسائل کے علاوہ پچھلی دہائی میں شائع ہونے والے ادبی اور علمی جریدوں میں مالیگاؤں کا ’ ہم زبان‘  (سلطان سبحانی) گیا کا ’ مفاہیم‘ ( سرور عثمانی ) ہزاری باغ کا ’ کوہسار‘ (مناظر عاشق ہرگانوی)، پونا کا ’ اسباق‘ (نذیر فتح پوری)، وانم باڑی کا ’ آشیاں ‘ (ایم یعقوب)، بھیونڈی کا ’تخلیقِ نو، ( اختر کاظمی اور خلیق الزماں نصرت)، کانپور کا ’ زبانِ ہند‘ (شارق ایرایانی)، بمبئی کا’ امکان‘ ( خواجہ عبد الغفور)، بدایوں کا ’روشن‘ ( اسد بدایونی)، میرٹھ کا ’روشنی‘ (رونق زیدی)، بھوپال کا ’ تشکیل‘ ( عبد الباسط خاں )، لکھنؤ کا ’ اکیڈمی‘ ( علی جواد زیدی)، پٹیالہ کا ’ پروازِ ادب‘ ( کرم سنگھ)، بھوپال کا ’ مجلہ سیفیہ‘ ( عبدالقوی دسنوی)، آسنسول کا ’ پہچان‘ (نعیم اشفاق)، ناگ پور کا ’ فیروز‘ ( طرفہ قریشی)، رانچی کا ’ ابلاغ‘ ( احمد سجاد)، کٹیہار کا ’ خوشبو‘(شفق)، احمد آباد کا ’ ذخیرہ‘ (قیوم کنول فتح پوری )، پٹنہ کا ’ خدا بخش جرنل‘ ( عابد رضا بیدار)، دہلی کا ’اردو دُنیا‘ ( شہبازحسین)، لکھنؤ کا ’خبر نامہ ‘( علی جواد زیدی)، بھوپال کا ’اوصاف حمیدہ‘ ( افسر صہبائی)، اودے پور کا  ’نخلستان‘ ( ریاست فاروقی )، مالیگاؤں کا ’ توازن‘ ( عتیق احمد عتیقؔ)، کلکتہ کا ’انشاء‘( ف۔ س۔ اعجاز)، فتح پور کا ’عکس نو‘( ظفرؔ اقبال) کھنڈوا کا ’طلسمِ حرف‘ ( صفدر رضا)، مؤ ناتھ بھنجن کا ’ادب نکھار‘ ( نسیم اعظمی )، لکھنؤ کا ’ صبحِ ادب‘ ( مسعود عثمانی) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

اس فہرست میں دہلی کے ’روبی‘( رحمن نیّر)، ’ شمع‘( یونس دہلوی)، ’فلمی ستارے ‘( انیس دہلوی)، اور حیدر آباد کے ’ فلمی تصویر‘ (غوث احمد خاں ) کو بھی جگہ ملنی چاہیے کیونکہ ان پرچوں کا نصف حصہ ادبی تخلیقات پر مشتمل ہوتا ہے۔

آخر میں اعتراف کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مضمون ہندوستان میں ۱۹۴۷ء کے بعدسے نکلنے والے علمی و ادبی رسالوں کا ایک بے حد سرسری جائزہ ہے جو محض یادداشت کے سہاریمدیر روزنامہ ’ قومی آواز‘  کے اصرار پر’ پبلشرز نمبر‘ کے لیے عجلت میں قلم بند کیا گیا ہے۔ اسے تحقیقی مقالہ نہ تصور کیا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے مقامی اہمیت کے حامل کچھ پرچوں کا تذکرہ سہواً اس میں شامل ہونے سے رہ گیا ہو۔ ڈائجسٹ کی شکل میں نکلنے والے بہت سے مقبول عام پرچوں کا ذکر بھی اس میں نہیں کیا جا سکا۔ خالصتاً مذہبی رسائل بھی میرے موضوع کے دائرے سے باہر کی چیز تھے اور بچوں کے لیے نکلنے والے رسالوں کو بھی اس مضمون میں جگہ نہیں مل سکی۔ ساتھ ہی غیر ضروری طوالت سے بچنے کی کوشش میں اکثر پرچوں کے بارے میں یہ وضاحت بھی نہیں کی جا سکی کہ ابھی تک نکل رہے ہیں یا بند ہو گئے۔ عام طور پر ہمارے ادبی پرچوں کے لیے مقسوم ہو چکا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سال دو سال نکلنے کے بعد دم توڑ دیتے ہیں۔ یہی انجام مذکورہ بالا فہرستوں میں شامل رسائل میں سے اکثر کا ہوا ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی رسالے کے چند ہی شماروں نے ادبی دنیا میں باز گشت پیدا کی ہے تو اسے شمولیت کا مستحق گردانا گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

موجودہ ہندوستا ن میں بچوں کے ادب کے موضوعات

 

بچے کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور ہر ملک کا مستقبل ان ہی پر  منحصر ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش کی جاتی ہے کہ مناسب تعلیم و تربیت کے ذریعے بچوں کے کردار کی تشکیل اور تعمیر صحیح سمتوں میں کی جائے۔ ابتدائی تین چار برسوں تک بچے کی دنیا اس کے گھر کی چہار دیواری تک سمٹی ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اسکول میں قدم رکھتا ہے توبچے کی  شخصیت کی تعمیر و تشکیل کا بار والدین کے ساتھ ساتھ بلکہ کچھ زیادہ ہی اساتذہ کے شانوں پر آ جاتا ہے۔ ہر چند کہ درسی کتابوں کی تیاری میں بچوں کی صحت مند تعلیم و تربیت کے تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے پھر بھی نصابی کتابوں میں تعلیمی نقطۂ نظر اتنا غالب رہتا ہے کہ یہ کتابیں معلومات کے ایک خاص دائرے میں محدود ہو جاتی ہیں اور بچوں کو تفریح، ذہنی سکون فراہم کرنے اور ان کے جذبۂ حیرت وتجسس کوسیراب کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ اس لیے نصابی اور درسی کتب سے ہٹ کر بھی ہر ملک اور ہر زبان میں بچوں کے ادب کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔

بچوں کے ادب کے موضوعات کو موٹے طور پر دو حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ اول تووہ عالم گیر اور آفاقی موضوعات ہیں جو ابتدائے آفرینش سے آج تک اپنی اہمیت کا احساس دلاتے رہے ہیں اور رہتی دنیا تک اہم تسلیم کیے جائیں گے۔ مثلاً حق پسندی، انسان دوستی، شجاعت، ہمدردی، ایثار پرستی، حب الوطنی، مساوات، ایمانداری، خدمتِ خلق، منکسر المزاجی، حوصلہ مندی، مظلوم کی حمایت، علم حاصل کرنے کی لگن، غرباء پروری وغیرہ وغیرہ ان جیسی بیشتر اخلاقی اقدار کی حیثیت دائمی ہے۔ کسی بھی زمانے اور کسی بھی ملک میں جنم لینے والے ہر بچے کے لیے یہ موضوعات ہمیشہ مفید اور اہم رہے ہیں اور رہیں گے۔

دوسرے قسم کے موضوعات وہ ہیں جو بچوں کے ادب میں مختلف حالات، تاریخی یا جغرافیائی تغیرات یا مختلف سماجوں کے وقتی مطالبات کے زیرِ اثر اپنی اہمیت اور افادیت کوتسلیم کراتے ہیں اور ان حالات کے تبدیل ہو جانے پر پس پشت جا پڑتے ہیں۔ مثلاً ۱۸۵۷ء کے فوراً بعدہندوستان میں بچوں کے ادب کے موضوعات وہ نہیں ہوسکتے تھے جو دوسری جنگِ عظیم کے دوران اہم تصور کیے گئے۔ کیونکہ پہلی صورت میں ہندوستانی قوم کو ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے شدید ردِّ عمل سے نبرد آزما ہونا تھا اور عارضی طور پر انگریزی سامراج سے مفاہمت کی صورت پیدا کر کے اپنے ٹوٹے ہوئے حوصلوں اور امنگوں کی شیرازہ بندی کرنا تھی جب کہ دوسری صورت میں تحریکِ آزادی اپنے شباب کو پہنچ چکی تھی اور برطانوی سامراج کو ’ہندوستان چھوڑو، جیسے نعروں  کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس دوسری صورتِ حال میں ہم اپنے نونہالوں کو ادب کے ذریعہ انگریزی حکومت کی خیر و برکت کا ویسا پیغام نہیں دے سکتے تھے جیسا کہ انیسویں صدی کی تیسری چوتھائی میں مصلحتاً دیا جا رہا تھا۔

دوسری جنگِ عظیم کے آس پاس ہندوستانی زبانوں میں ادب اطفال کے موضوعات میں اہم ترین موضوع انگریزی حکومت کے خلاف جذبۂ حریت کو پیدا کرنے سے متعلق تھا اور اب کہ ہماری آزادی کی عمر سینتیس برس ہو چکی ہے، ہندوستانی بچوں کے ادب کا موضوع انگریز دشمنی نہیں ہو سکتا۔ اسی ایک مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بچوں کے ادب کے بیشتر موضوعات زمانے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔

غالباً ہر شخص تسلیم کرے گا کہ ۱۹۴۷ء کے بعدہندوستان اگر آزادی کی برکتوں سے آشنا ہوا ہے تو اس کے ساتھ ہی ہمارے سامنے ان گنت مسائل نے بھی سر اٹھایا ہے اور ان مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بالکل سامنے کے چند مسائل کو لے لیجیے۔ آزادی کے وقت ہندوستان کی آبادی کم و بیش تینتیس کروڑ ہوا کرتی تھی جو اب ستّر کروڑ تک پہنچنے والی ہے۔ اس کثرتِ آبادی نے جو لا تعداد نئے مسائل کھڑے کیے ان کا اندازہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ غذا کا مسئلہ، حفظان صحت کا مسئلہ، تعلیم کا مسئلہ، روز گار کا مسئلہ، رہائش کا مسئلہ اور ایسے ہی بے شمار دوسرے مسائل نے ہماری نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ ملک کا رقبہ ربر کی طرح کھینچ کر بڑا نہیں کیا جا سکتا لیکن ہماری آبادی حیرت انگیز تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہم نے عوام کے لیے علاج کی معقول سہولتیں فراہم کیں تو شرح اموات بے حد کم ہو گئی جو اپنی جگہ دوسرا مسئلہ ہے۔ گاؤں گاؤں میں تعلیم کی برکت عام کر نے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی بھی ملازمت کے لیے امیدواروں کی تعداد دو کی جگہ سو ہو گئی۔ سائنسی ترقی میں ہم نے جس تیز رفتاری کا مظاہرہ کیا اس کے نتیجے میں لوگ گاؤں سے شہر کی طرف لپکنے لگے۔

سامراج کی جگہ جمہوری طرز حکومت اختیار کر کے ہندوستانی عوام کے لیے خیر و برکت کے جو دروازے کھولے گئے انھیں دروازوں سے سیاسی جبر اور فرقہ وارانہ منافرت بھی ہمارے سماج میں در آئے۔ انسانی مساوات کے لیے ہماری کوششوں سے ایک طرف تو اچھوت اور پسماندہ طبقہ سماج میں اپنا مناسب مقام حاصل کرنے میں تقریباً کامیاب ہوا تو دوسری طرف ردّ عمل کے طور پر اعلیٰ طبقات کے مفادات مجروح ہونے لگے اور غلط یا صحیح ہم میں سے بہتوں نے پسماندگان کی اس ترقی کو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھ لیا۔ ہندوستانی صنعت کاری کو برطانوی عہدِ حکومت میں ضرر پہنچا تھا اس کی تلافی کے لیے ہندوستان میں بیرونی مصنوعات کی در آمد پر پابندیاں اس لیے عائد کی گئی تھیں کہ ہندوستانی مصنوعات کی کھپت میں اضافہ ہو۔ لیکن میدان خالی پا کر اکثر صنعت کاروں نے اپنی مصنوعات کا معیار اور کوالٹی کم کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی روش اختیار کر لی۔ تعلیم یافتہ افراد خواہ انجنیئر ہوں یا ڈاکٹر، بیرونی ممالک میں روز گار تلاش کر کے زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر میں مبتلا ہو گئے یا ہندوستان ہی کے ایسے بڑے شہروں میں قیام پذیر ہو گئے جہاں انھیں زیادہ آمدنی ہو سکتی تھی، جب کہ ان کی شدید ضرورت ہمارے دیہاتوں اور قصبوں میں تھی۔ کسان، جو کبھی ہندوستانی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتا تھا اب اپنے آپ کو پسماندہ اور کم تر محسوس کرتا ہے اور کھیت میں ہل چلانے کی جگہ شہر میں رکشہ چلانا بہتر سمجھتا ہے۔ دیہات پر شہر کی اس فوقیت نے رہائش کے جومسائل کھڑے کیے ہیں اس کا اندازہ رات کو شہروں کی فٹ پاتھ پر سوتی ہوئی بھیڑ کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ لوگ والدین کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں اور مشترکہ خاندان کی روایت دن بدن ضعیف ہوتی جاتی ہے۔ ملوں اور کارخانوں میں آزادی کی جو برکتیں پہنچی ہیں وہ سر آنکھوں پر لیکن آج کا با شعور اور پہلے کے مقابلے میں تعلیم یافتہ مزدور اب اتنا صابر و شاکر نہیں رہ گیا اور اس کی کاوشیں پیدا وار بڑھانے سے زیادہ اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے وقف ہوتی ہیں، نتیجے میں ملوں میں کام کم ہوتا ہے  ہڑتالیں زیادہ۔ تعلیم کا شعبہ بھی مسائل سے خالی نہیں ہے۔ معاشرے میں استاد اپنی عزت کھو بیٹھا ہے، جو اسے آزادی ہند سے قبل حاصل تھی۔ ابھی ایک نسل پیشتر تک بچے پرائمری اسکول کے استاد کا جتنا لحاظ کرتے تھے وہ آج یونیورسٹی کے پروفیسروں کو بھی نصیب نہیں۔ سماج میں اس عزت کے سہارے کم تنخواہ پا کر بھی استاد مطمئن رہتا تھا۔ اب اسے اپنی بے وقعتی کے ساتھ بجا طور پر کم مائیگی کا بھی گلہ ہے۔ کثرتِ آزادی نے اچھے اسکولوں میں بچوں کے داخلے کا مسئلہ بھی کھڑا کر دیا ہے۔ چنانچہ کسی بھی درجے میں داخلے کا سوال ہو، مقابلہ ہر جگہ بہت بڑھ گیا ہے اور اکثر اسکول عمارتوں کی جگہ خیموں میں چلائے جاتے ہیں۔ ہزار پہلو ترقی کے باوجود آج بھی ہمارے ملک کی اکثریت دیہاتوں میں رہتی ہے لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں تعلیم پر پیش آنے والے خرچ کا ساٹھ فی صد سے زائد حصہ یونیورسٹیوں کے حق میں جاتا ہے، جبکہ طلبہ کی تعداد کا تناسب اس کے برعکس ہے اور ابتدائی و ثانوی درجات میں تعلیم پانے والے طلباء کی تعداد یونیورسٹیوں کے طالب علموں سے بدرجہا زیادہ ہے۔

آزادی کی برکت اور سائنسی ترقی نے ہمیں مادہ پرستی کی جانب بھی مائل کیا ہے چنانچہ ہر شخص اپنی نگاہ بلند رکھتا ہے اور دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو غریب، بے آرام اور کم تر محسوس کر کے بے سکونی کا شکار ہو جاتا ہے، زندگی میں سادگی کی جگہ نمائش نے لے لی ہے جس سے خود غرضی جنم لیتی ہے۔ ہر فرد اپنے گھر، اپنے شہر، اپنے علاقے کی زیادہ سے زیادہ ترقی چاہتا ہے اور اس طرح علاقائیت اور علیحدگی پسندی کے جذبات اس کے دل میں جگہ بنا لیتے ہیں اور قومی یک جہتی کی اہمیت و آزادی کی اصل قدر و قیمت کو لوگ فراموش کرنے لگتے ہیں۔ ہندوستان ستر کروڑ آبادی کا ایک بہت بڑا ملک ہے جہاں سینکڑوں تہذیبیں، سیکڑوں زبانیں اور ان گنت مذاہب  اور بے شمار نظریات کے ماننے والے، رنگ برنگ کے پھولوں سے مزین ایک گلدستے کی طرح قومی یکجہتی کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں اگر ہر پھول اپنی جگہ ایک علیحدہ گلدان کی فرمائش کرنے لگے تو وہ اپنی اہمیت بھی کھو بیٹھے گا اور گل دان بھی سونا ہو کر رہ جائے گا۔

یہ محض سامنے کے چند مسائل ہیں ان سے علیحدہ ہٹ کر ہزاروں دوسرے مسئلے ہیں۔ ظاہر ہے کہ دانشور اور مفکر اپنے اپنے طور پر ان مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش میں بہت پہلے سے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن بہار، اتر پردیش کے پسماندہ مواضعات میں آج بھی ہریجنوں کی بستیاں پھونک دی جاتی ہیں۔ رانچی، بھیونڈی، حیدر آباد، احمد آباد، امرتسر وغیرہ میں فرقہ پرستی کا خونی جشن جی کھول کر منایا جاتا ہے۔ خود غرضی، اقربا پروری اور رشوت ستانی کے نتیجے میں انصاف پسندی کمیاب ہوتی جا رہی ہے۔ ہزاروں لوگ ہر سال کہیں سیلاب اور کہیں خشک سالی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ کھیلوں پر اتنا صرف کر نے کے باوجود ہم حالیہ اولمپک میں ایک تمغہ تک حاصل نہ کر سکے۔ ہندوستان دنیا بھر کے ان معدودے چند بد نصیب ملکوں میں سے ایک ہے جہاں اتنی ترقی کے باوجود آج بھی بہت سے لوگ سردی کی شدت میں ٹھٹھر کر یا لو میں جھلس کر مرتے رہتے ہیں۔ انسانوں کے ساتھ ہم نے زبانوں سے نفرت کرنا بھی سیکھ لیا ہے یعنی جو حربے دلوں کو جوڑنے کے کام آتے تھے انھیں ہم دلوں کو توڑنے کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ سائنسی ترقی کے اس نئے دور میں بھی ہمارے یہاں تو ہم پرستی عام ہے۔ یہ سلسلہ اتنا طویل ہے کہ اس پر مستقل کئی درجن کتابیں تصنیف کی جا سکتی ہیں اور کی جا رہی ہیں۔ لیکن معاف کیجیے اگر میں عرض کروں کہ محض چند دانشوروں اور چند ادیبوں کے غور و فکر سے یہ گتھیاں ہرگز نہیں سلجھ سکتیں۔ ہندوستانی معاشرے کو ان خامیوں سے پاک کرنے کے لیے ہمیں ایک نئے معاشرے کی داغ بیل ڈالنی ہو گی اور یہ نیا معاشرہ تشکیل پائے گا مستقبل کے ان شہریوں سے، جوآج کے بچے ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو جادو گروں، پریوں، دیووں اور آسیبوں کی کہانیاں بہت سنا چکے۔ آج کے بچوں میں بھی کچھ یقیناًایسے ہو سکتے ہیں جنھیں ایسی کہانیاں پسندہوں گی۔ ان کے لیے ہندوستان کی تقریباً ہر زبان میں بہت بڑا سرمایہ ہے جن میں ایسی تخلیقات پہلے ہی سے موجود ہیں۔ آج بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنے والوں کو اپنے موضوعات، اپنے آس پاس کی زندگی کے مختلف گوشوں سے منتخب کرنے ہوں گے جن میں میرے بیان کردہ مسائل یا ان سے ملتے جلتے ہزاروں دوسرے مسئلے شامل ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ ہندوستان کا بچہ جو پچھلی نسلوں کے بچوں سے کہیں زیادہ ذہین اور با شعور ہے، محض کوہ قاف اور طلسماتی کہانیوں سے ہی دلچسپی رکھتا ہے۔

پچھلے دنوں راکیش شرما کی خلائی مہم میں بچوں نے جس گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا وہی میرے اس خیال کا منھ بولتا جواب ہے کہ آج بچے مصنوعی سیاروں، روبوٹس، کمپیوٹروں، پن ڈبیوں وغیرہ کو وہی درجہ دیتے ہیں جو کل ماضی میں پریوں کو حاصل تھا۔ آج کے بچے کا کوہ قاف خلاء ہے، اور پرستان انٹارکٹکا ہے۔ کوئی بھی موضوع خواہ وہ سماجی برائیوں سے تعلق رکھتا ہو، یا کوہ پیمائی سے، سائنسی مہم ہو یا جنگ جوئی، بذاتِ خود دلچسپ نہیں ہوا کرتا، اسے دلچسپ بناتا ہے ہمارا برتاؤ اور سلیقہ۔ البتہ مقصدی کہانیاں لکھتے ہوئے ہمیں اس نکتے کو ضرور ملحوظ رکھنا ہو گا کہ کوئی بھی بچہ براہ راست اخلاقیات اور پند و نصیحت کا درس سننا پسند نہیں کرتا۔ یہ کڑوی گولیاں اسے اسکول اور گھر میں کافی کھلائی جا چکی ہیں۔ کہانیوں کی کتابوں اور رسالوں کا سہارا وہ تفریح کی غرض سے لیتا ہے، چنانچہ ہمارے فنکاروں کو اپنے مقاصد شہد و شکر میں لپیٹ کر پیش کرنے ہوں گے۔

مجھے سو  فیصدی یقین ہے کہ ایسی مقصدی کہانیاں اور ادب، جن میں بچے کی دلکشی اور دلچسپی کا وافر سامان بھی موجود ہو گا، واضح نصیحتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کار گر ثابت ہوں گے اور انھیں کے بطن سے ایک صاف ستھرا پر سکون ترقی یافتہ روشن ہندوستان برآمد ہو گا۔

(نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا کے سہ لسانی ورکشاپ منعقدہ بنارس میں پڑھا گیا)

٭٭٭

 

 

 

 

 

انشائیہ اردو میں

 

اُردو کے نقاد مختلف ادوار اور مختلف اوقات میں انشائیے کی الگ الگ اور بعض مرتبہ متخالف و متضاد تعریفیں بیان کرتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں مدتوں انشائیہ کی کوئی واضح اور حتمی شکل ابھر کر سامنے نہیں آ سکی۔ ناقدین ادب کے باہمی اختلافات اور نظریاتی تضادات نے اس میدان میں اتنی گرد اُڑائی ہے کہ معلوماتی مضمون، جواب مضمون، مزاحیہ اور طنزیہ نثر، خاکے، رپورتاژ، ادب لطیف، اخباروں کے فکاہیہ کالم اور جانے کیا کیا چیزیں انشائیے میں شمار کی جاتی رہی ہیں۔ چنانچہ ماضی قریب میں محمد حسین آزادؔ کی ’’ گلشنِ امید کی بہار‘‘ ذکاء اللہ کی ’’ آگ‘‘ حالیؔ کی ’’ زبانِ گویا‘‘ اور سر سیّدکی ’’ بحث و تکرار ‘‘ جیسی مختلف النوع نگارشات بیک زبان انشائیہ تسلیم کی جاتی تھیں اور آگے چل کر عبد الحلیم شررؔ کا ’’ لالۂ خودرو‘‘ میر ناصر علی کا ’’چرخ شعبدہ باز‘‘ حسن نظامی کا ’’سرِّ دلبراں ‘‘ فرحت اللہ بیگ کا ’’ مردہ بدست زندہ‘‘ سجّاد حیدر یلدرم کا ’’ حضرتِ دل کی سوانح عمری‘‘ اور خلیق دہلوی کا ’’ میرا سفر‘‘ کے ساتھ رشید احمد صدیقی کا ’’ چار پائی‘‘ اور پطرس کا ’’کتّے ‘‘ تک انشائیے کی حیثیت سے پڑھے اور پڑھائے جاتے رہے ہیں، حتیٰ کہ اکثر انشائیوں کے مجموعوں میں ابو الکلام آزاد کی ’’ زندگی اور وجود‘‘ جیسی گاڑھی فلسفیانہ نگارشات بھی جگہ پا گئی ہیں۔

میں نے ابھی جن تخلیقات کا ذکر کیا ہے ا ن میں سے اکثر کا استدلالی انداز، قطعیت، بے رنگی اور کسی خاص نتیجے تک پہنچنے اور پہنچانے کی کوشش انھیں انشائیہ نہیں بننے دیتی۔ انشائیہ در اصل افکار کی تاثراتی رنگینی کا مظہر ہوتا ہے۔ اس میں ذاتی تاثرات کی گنجائش بھی ہے اور فلسفیانہ خیال آرائی کے لیے بھی اس کے دروازے کھُلے ہوئے ہیں۔ یہ انشا پردازی اور اسلوب نوازی کا کمال بھی دکھاتا ہے اور معنی خیر اظہار خیال کے لیے زمین بھی ہموار کرتا ہے۔ انشائیے کو سمجھنے اور اس کی صنفی تعریف بیان کرنے کی کوششیں بار بار ہوئیں۔ قمر رئیس نے رسالہ ’ ادیب‘ ( علی گڑھ) کا انشائیہ نمبر مرتب کیا۔ وزیر آغا نے اپنے مؤقر جریدے ’’ اوراق‘‘ ( لاہور) میں اس صنفِ ادب پر نہ صرف مذاکرہ شروع کیا بلکہ خود بھی مسلسل مضامین لکھے۔ علاوہ ازیں نظیر صدیقی، محمد حسنین، ظہیر الدین مدنی، انور سدید، صفی مرتضیٰ، سلیم قزلباش، رام لعل نابھوی اور بہت سے دوسرے لکھنے والوں نے موقع بموقع اپنے اپنے طور پر انشائیے کے اوصاف بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر احتشام حسین تو انشائیے کی ایسی کسی بھی حدبندی کے قائل ہی نہ تھے جو کسی اچھے، خیال انگیز، ادیبانہ اور ذہنی آسودگی بخشنے والے ادب پاروں کو صرف اس بنا پر اس صنف میں شامل نہ ہونے دے کہ اس میں کوئی مخصوص بات جو کسی لغت یا کتاب میں انشائیہ کے بارے میں بتائی گئی ہے، نہیں ملتی۔ اس کشادہ رویّے کے بر عکس ڈاکٹر وزیر آغا اور دبستان سرگودھا کے دوسرے لکھنے والے اصرار کرتے ہیں کہ فکاہیے، طنزیہ مضامین، ظریفانہ نثر، یا ادبِ لطیف قسم کی تحریروں کو انشائیہ ہرگز نہ کہا جائے ورنہ اس طریق کار کے نتیجے میں مختلف اصنافِ ادب کی انفرادیت اور شناخت مٹ جانے کا خطرہ ہے۔

جس طرح غزل کے بارے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ یہ صنفِ سخن ایسے معاشرے میں زیادہ پر پُرزے نکالتی ہے جس میں انتشار، بے سکونی اور شکست و ریخت کا دور دورہ ہو،  اسی طرح انشائیے کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ متمول اور شکم سیر سماج میں زیادہ بار آور ہوتا ہے لیکن میں ذاتی طور پر اس خیال سے زیادہ اتفاق نہیں کرتا ورنہ پھر ہمیں اپنے دور کو سب سے زیادہ خوش حال اور پر سکون دور تسلیم کرنا پڑے گا کیونکہ ہمیشہ سے زیادہ آج کے دور میں انشائیہ نہ صرف زیادہ لکھا جا رہا ہے بلکہ اچھا بھی لکھا جا رہا ہے۔ دو چار دہائیاں تاریخ ادب میں کوئی طویل مدّت نہیں سمجھی جاتیں اور آزادی کے بعد سے ہندوستان میں اگر احمد  جمال پاشا، حسنین عظیم آبادی، یوسف ناظم، علی اکبر قاصد، مجتبیٰ حسین، خواجہ عبد الغفور، تخلصؔ بھوپالی، سالکؔ لکھنوی، ضمیر دہلوی، رام لعل نابھوی، شکیل اعجاز، منور رانا اور محمد اسد اللہ جیسے انشائیہ نگاروں نے اپنی ادبی حیثیت مستحکم کی ہے تو ادھر پاکستان میں بھی انشائیہ لکھنے والوں کی ایک بڑی نسل منظرِ عام پر آئی ہے جس کے سرخیل ڈاکٹر وزیر آغا ہیں اور اس کارواں میں غلام جیلانی اصغر، مشتاق قمر، ارشد میر، مشکور حسین یاد، جمیل آذر، کامل القادری، انور سدید،  اکبر حمیدی، حامد برگی، صلاح الدین حیدر، طارق بشیر، سلمان بٹ، جانی کاشمیری، یونس بٹ، مشرف احمد، پرویز صدیقی، حیدر قریشی، رعنا تقی، جیسے با صلاحیت قلمکار اپنی شگفتہ تحریروں کے ساتھ شریکِ سفر ہیں۔

مشکور حسین یاد کے انشائیے ’’ تنہائی‘‘ کا مختصر سا اقتباس ملاحظہ ہو:

’’ عموماً آدمی تنہائی سے گھبراتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اپنا بوجھ برداشت کرنے کی ہمت نہیں۔ عام انسانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے وہ اپنی ہستی کا بار اُٹھانے سے جی چراتے ہیں شاید یہ بات برعکس معلوم ہو لیکن حقیقت اس طرح ہے کہ ہم دوسروں کا بوجھ اٹھا کر اتنی تکلیف محسوس نہیں کر پاتے جس قدر اپنا بوجھ اٹھاتے ہوئے ہماری جان جاتی ہے بہت سے لوگ دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہی اس لیے ہیں تاکہ انھیں اپنا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ ‘‘

یہ بات سے بات نکالنے کا انداز، تحریر کی بے تکلفی اور بیان کی سادگی اور خالص شخصی تجربات کا اظہار جدید انشائیے کی بنیادی خصوصیات میں داخل ہیں۔ انشائیے کے منفرد مزاج اور اساسی اوصاف سے تعارف حاصل کرنے کی غرض سے محمد اسد اللہ کے ’’ پریس کیے ہوئے کپڑے ‘‘ کی چند سطور بھی دیکھیے :

’’ مجھے لگتا ہے میں اپنے کپڑوں کی ایک ایک کریز کی رکھوالی پر متعین ہوں۔ ان ہی کپڑوں کے اوتار میں میں دنیا میں اتارا گیا تھا اور مہاویر کے مجسمہ کی طرح برسوں سے پریس کیے کپڑوں میں بیٹھا ہوں۔ یہیں بیٹھے بیٹھے میری مونچھیں نکل آئیں، داڑھی بڑھ گئی مگر میرے کپڑوں کی ساخت حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہی گویا وہ پتھروں کا لبادہ ہو۔ ‘‘

اس حوالے کی روشنی میں یہ فیصلہ کر لینا مناسب نہیں ہو گا کہ انشائیہ نگار صرف اپنے شخصی حالات سے سروکار رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے حوالے سے تمام کائنات کا مشاہدہ کرتا ہے البتہ اُسے مقصدیت سے واسطہ نہیں ہوتا اور وہ انسانوں کو طبقات میں تقسیم کر کے دیکھنے کی جگہ تمام عالم اور پورے آفاق کے تناظر میں دیکھنے کا قائل ہے۔ میرے اس خیال کی تائید جان کاشمیری کے انشائیے ’’ ایش ٹرے ‘‘سے بھی ہوتی ہے جس کے ایک حصّے میں وہ کہتے ہیں :

’’ ازل سے ابد تک پھیلا ہوا یہ سلسلہ بھی ایک ایش ٹرے ہی کے مصداق ہے جس پر ان گنت سلگتے اور غیر سلگتے سگریٹ نوع در نوع شکل و صورت میں براجمان ہیں۔ سگار، سگریٹ کا باپ، بیڑی سِگریٹ کی ہمشیرہ اور حقّہ سگریٹ کا چچا ہے، گویا سگریٹ کی پوری نسل اس ایش ٹرے میں جلوہ فگن ہے۔ ‘‘

دیکھا آپ نے، انشائیہ نگار نے ایک چھوٹی سی بات اور اپنے ذاتی مشاہدے کو بے تکلفانہ انداز اور شگفتہ سوچ کے وسیلے سے کس طرح وسعت عطا کر دی ہے۔ دراصل انشائیہ میں تخلیق کار ذاتی شرکت کے باوجود ایک تماشائی کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور لمحۂ موجود کو پُرسکون انداز میں تیسری آنکھ سے دیکھنے کی سعی کرتا ہے۔ اس اعتبار سے اگر انشائیہ کو عہدِ حاضر کے انتشار میں گوشۂ عافیت تلاش کرنے کا فن کہا جائے تو غیر مناسب نہ ہو گا۔

سالکؔ لکھنوی کے انشائیے ’’ یہ تصویر کس کی ہے ‘‘ کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے :

’’آئینے میں پہلی نظر پڑی نیم سیاہ عینک پر۔ بالکل ٹھیک۔ ڈاکٹر نے مجھے ایسی ہی عینک بتائی ہے لیکن تصویر کی عینک میں تو صرف ایک بائیں آنکھ پھوٹی کوڑی جیسی حاضر۔ داہنی آنکھ پٹ۔ محلہ والوں کی قسم میں کانا نہیں ہوں۔ خدا کے فضل سے آنکھیں اندھوں جیسی ضرور ہیں لیکن ہیں دونوں سلامت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اپنی عینک کے طفیل دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہوں۔ ‘‘

میں سمجھتا ہوں شگفتہ پیرائے میں خود احتسابی کا یہ انداز اور ہلکے پھلکے ڈھنگ سے گہری باتیں کرنا اور ذات کی عمیق پہنائیوں سے موتی برآمد کرنا بھی انشائیے کا وتیرہ ہے۔ ضمیر حسن دہلوی کے انشائیے ’’ ہاتھ ‘‘کا یہ ٹکڑا بھی کم و بیش وہی کہتا ہے جو میں عرض کر چکا ہوں :

’’وہ ہاتھ جن کی بدولت انسان ایک چوپائے سے ترقی یافتہ مخلوق بن گیا۔ وہ ہاتھ جنھوں نے ایلورا، اجنتا اور کھجوراہو کے بُت تراشے، اہرامِ مصر بنائے اور شاہجہاں کے حسین خواب کو تاج محل کا روپ بخشا، وہ ہاتھ جو دھرتی کی کوکھ چیر کر سونا نکالتے ہیں، یہی ہاتھ برسرِپیکار آئیں تو انسانیت کالباس تار تار ہوتا ہے۔ ایٹمی ہتھیار بنتے ہیں، آدمیت لہو روتی ہے۔ ‘‘

ظاہر ہے یہاں مقصدیت بھی شامل ہو گئی ہے انشائیہ میں، جس کی وجہ سے فن پارہ قدرے بوجھل بوجھل محسوس ہوتا ہے اس کے برعکس رام لعل نابھوی کے ایک انشائیے ’’پوسٹ کارڈ‘‘ کا ایک حصّہ دیکھیے :

’’ پوسٹ کارڈ معمولی باتوں میں نہیں پڑتا، اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ نہ قینچی کی ضرورت ہے نہ چاقو کی، نہ اس کا جسم ادھیڑنے کی تکلیف، نہ ردّی کی ٹوکری کی ضرورت کا احساس۔ ادھر ہاتھ میں آیا ادھر نظریں گھومنے لگیں۔ وہ آپ کو انتظار میں نہیں رکھتا۔ آپ کا دل پھر اسے پڑھنے کو چاہے، جیب میں ڈالیے۔ وہ ہر وقت حاضر ملے گا۔ ‘‘

مضمون سامنے کا، بات بالکل معمولی، اندازِ بیان بے تکلفانہ، لیکن کتنی دلکشی کا سامان موجود ہے اور بات میں سے بات یوں نکلتی چلی آ رہی ہے جیسے ریشم کا تار کھنچ رہا ہو۔ ڈاکٹر وزیر آغا تو اپنے انشائیوں میں مسائلِ تصوف سے لے کر فلکیات کے اسرار تک بیک وقت نہ جانے کتنے گوشوں کی خبر لاتے ہیں مثلاً بارہواں کھلاڑی‘‘ میں رقم طراز ہیں :

’’بارہواں کھلاڑی ایک ایسا ہی سچا صوفی ہے۔ وہ بیک وقت اپنی ٹیم سے منسلک بھی ہے اور جُدا بھی۔ وہ میدان میں پہلی کے چاند کی طرح آتا ہے جو دوسرے ہی لمحے رخصت بھی ہو جاتا ہے۔ وہ کرکٹ کے کھیل کا نبّاض، مفسّر کارکن اور جاسوس ہونے کے باوجود اپنے دامن کو تر نہیں ہونے دیتا۔ ‘‘

منوّر رانا کی گفتگو کا یہ انداز:

’’ میرا ایک سدا بہار نشہ ہے کتابیں چُرانا۔ شہر کی کوئی لائبریری ممبر نہیں بناتی، کوئی شاعر ادیب کتابوں کی الماری کھلی نہیں چھوڑتا۔ لیکن تالے صرف شریفوں کے لیے ہوتے ہیں اس لیے جن کتابوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ مجھے مل جاتی ہیں۔ کہاوت ہے جو چیز جیسے آتی ہے اسی طرح چلی جاتی ہیں لہٰذا میرے گھر سے کتابیں اسی طرح غائب ہو جاتی ہیں، جس طرح ہندوستان سے رفتہ رفتہ شرافت اور ایمانداری غائب ہو رہی ہے۔ ‘‘

کیلے کے پتے جیسے پات پات سے پات اسی طرح نکلتے ہیں جیسے منور رانا کی بات بات سے بات نکلتی چلی گئی ہے۔ پھر ایسے پُر لطف انداز میں اپنی ذات پر میٹھا طنز کرنا اور اُسے ایک خوبصورت موڑ دے کر نتیجہ خیز انجام تک پہنچانا  ایک کامیاب انشائیہ نگار ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ اب شکیل اعجاز کے ایک انشائیے کا اقتباس دیکھیے :

’’ کوئی صاحب غلط فہمی کے مسحور کن بازوؤں میں سمٹے نہ رہیں کہ لیٹر پیڈ ترقی یافتہ دَور کی دین ہے۔ یہ تو اسی وقت وجود میں آ گیا تھا جب انسان نے لکھنا شروع کیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ آج کا لیٹر پیڈ کاغذ سے بنتا ہے پُرانے وقتوں میں چٹانوں اور پہاڑوں سے بنتا تھا۔ وہ زیادہ پائیدار ہوتا تھا۔ نہ پھٹنے اور جلنے کا خدشہ نہ تحریریں مٹ جانے کا ڈر۔ ہزاروں سال پرانے یہ لیٹر پیڈ چٹانوں اور پہاڑوں کی صورت میں آج بھی محفوظ ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ ‘‘

سبک طرز نگارش اور خیال کے بہاؤ سے کام لے کر انشائیہ نگار نے بات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ بوجھل اسلوب کے بغیر علوئے فکر کی پیش کش اسی کو کہتے ہیں۔

الغرض انشائیہ نگار کی تگ و تاز سے نہ تصوف کا میدان خالی ہے۔ نہ خلا کی وسعتیں محفوظ ہیں۔ زندگی اور انسانی فکر کا ہر شعبہ انشائیہ کی سیر گاہ ہے اور تمام شگفتہ اسالیب انشائیہ نگار کے اسلوب ہائے نگارش ہیں اس کے لیے کوئی سمت، سمتِ ممنوعہ ہے نہ وہ کسی موضوع میں بند ہوتا ہے البتہ وہ عام اصنافِ ادب کی طرح دردِ دل کو اُبھارتا نہیں، بہلاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اُردو کہانی میں انشائیہ نگاری

 

اُردو کہانی کا سفر کم و بیش آٹھ دہائیوں کا احاطہ کرتا ہے جب میں کہانی کے بیتے ہوئے کل پر نظر کرتا ہوں تو بڑی طمانیت بلکہ فخر کا احساس ہوتا ہے۔ اس کل میں اُردو کہانی نے ’’ کفن‘‘ سے ’ پھُندنے ‘‘ تک کا سفر جس آن بان سے طے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس دَور میں اردوافسانہ بلا مبالغہ ہندوستان کی دیگر زبانوں سے آگے تھا بلکہ اکثر زبانوں کی کہانیوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے رہا تھا۔ مختصر سی مدّت میں اُردو کہانی نے اپنا قد جس طرح عالمی ادب میں بلند کیا ہے وہ اُردو کی ہی دیگر اصناف کے لیے لائقِ رشک ہے۔ ہندوستانی دیہات سے لے کر مشینی شہروں تک کی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں ہے جو اردو کہانی کی نگاہ سے مخفی رہا ہو۔

ہمارے عوام کے ہر طبقے کی نمائندگی اُردو کہانی میں مل جاتی ہے۔ بیسویں صدی کے آزادی سے پہلے کے ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات، عوامی تحریکات، طرز بود و باش، عقائد و نظریات، انسان کے چھوٹے بڑے دُکھ سکھ، باطنی اور ذہنی کیفیات، خارجی ماحول، فرد اور معاشرے کا تصادم، فطرت اور مشین کی کش مکش، گھریلو مسائل، جذباتِ حسن و عشق غرض کہ کون سا ایسا زاویہ زندگی کا ہے جو اردوافسانے کی رسائی سے باہر ہو۔ تقسیم ہند کے بعد فسادات، ہجرت، بدلتے ہوئے ماحول کی پیچیدگیاں، طبقاتی کش مکش، نئے سماج کی تشکیل، سیاسی استحصال، معاشرے میں فرد کی بے وقعتی، جاگیر دارانہ نظام کی شکست و ریخت، سرمایہ داری کے ہولناک شکنجے، جنسی اور نفسیاتی گتھیاں اور ایسے ہی ان گنت مسائل پر اردو افسانہ انوکھے اور فن کارانہ زاویوں سے روشنی ڈالتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ماضی کی کہانیوں میں پلاٹ کی بہ نسبت کردار سازی اور واقعہ نگاری پر زور دیا جاتا رہا ہے اور بحیثیت مجموعی افسانے میں کہانی پن اور وحدتِ تاثر اس کے امتیازی اوصاف میں شمار ہوتے تھے۔

وحدتِ تاثر کا معاملہ یوں ہے کہ بقول منٹوؔ افسانے میں ہر وہ جملہ غیر ضروری سمجھا جائے گا جو وحدتِ تاثر میں اضافے کا سبب نہ بنے۔ مختصر افسانہ اور شارٹ اسٹوریShort Story جیسے نام منٹو کے اس قول کی تائید کرتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فکشن سیمنار میں راجندر سنگھ بیدی نے خطبۂ صدارت کے دوران کہا تھا کہ افسانہ بھی در اصل غزل جیسے ایجاز و اختصار کا مطالبہ کرتا ہے اور اسے طویل بحر کی غزل ہی سمجھنا چاہیے۔

لیکن افسانے کی وحدتِ تاثر اور اختصاری اسلوب سے روگردانی کی مثالیں بھی اس کے دورِ اول میں ہی دیکھی جا سکتی ہیں جب اس دور کے کم و بیش ہر افسانہ نگار نے اپنی کہانیوں میں انشائیہ نگاری کے جوہر بھی دکھائے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ بات کو آگے بڑھانے سے قبل انشائیہ کے بارے میں بھی کچھ غور کر لیا جائے۔

در اصل اُردو کے نقاد مختلف ادوار میں اور مختلف مواقع پر انشائیے کی الگ الگ اور بعض مرتبہ تو متخالف اور متضاد تعریفیں کرتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں مدتوں انشائیہ کی کوئی واضح اور حتمی شکل ابھر کرسامنے نہیں آسکی۔ ناقدینِ ادب کے باہمی اختلافات اور نظریاتی تضادات نے اس میدان میں اتنی گرد اڑائی ہے کہ معلوماتی مضمون، جوابِ مضمون، مزاحیہ اور طنزیہ نثر، خاکے، رپورتاژ، فکاہیہ کالم، ادبِ لطیف اور جانے کیسی کیسے تحریریں انشائیے میں شمار کی جاتی ہیں۔ میرے نزدیک انشائیہ، افکار کی تاثراتی رنگینی کا مظہر ہوتا ہے۔ اس میں ذاتی تاثرات کی گنجائش بھی ہے اور اس کے دروازے فلسفیانہ خیال آرائی کے لیے بھی کھلے ہوتے ہیں۔ یہ انشا پردازی اور اسلوب طرازی کا کمال بھی دکھاتا ہے اور معنی خیز اظہارِ خیال کے لیے بھی راہیں ہموار کرتا ہے۔ الغرض اچھی، خیال انگیز ادیبانہ تحریریں جو ذہنی آسودگی اور نشاطِ ذوق کا سامان فراہم کر سکیں، انشائیوں کے دائرے میں شامل ہیں اور اس تعریف پر ہمارے کتنے ہی قدیم و جدید افسانہ نگاروں کی کہانیاں یا ان کی کہانیوں کے اجزا صد فیصد پورے اُترتے ہیں۔ افسانہ نویس ہی کی طرح انشائیہ نگار کی تگ و تاز سے نہ تصوف کا میدان خالی ہے نہ خلا کی وسعتیں محفوظ ہیں۔ زندگی اور انسانی فکر کا ہر شعبہ انشائیے کی سیر گاہ ہے اور تمام شگفتہ اسالیب انشائیہ نگار کے اسلوب ہائے نگارش ہیں۔ اس کے لیے کوئی سمت سمت ممنوعہ نہیں، نہ وہ کسی موضوع میں بند ہوتا ہے البتہ وہ عام اصنافِ ادب کی طرح دردِ دِل کو ابھارتا نہیں، بہلاتا ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں اردو کہانی میں انشائیہ نگاری کی مثالیں اس کے دور اول ہی سے نظر آنے لگی تھیں چنانچہ سجاد حیدر یلدرم کی کہانیوں میں انشائی عناصر کی نشان دہی بآسانی کی جا سکتی ہے۔ ان کے افسانوں کا اولین مجموعہ ’’ خیالستان‘‘ ۱۹۱۰ء میں منظرِ عام پر آیا تھا جس میں شامل کہانی’’ خارستان و گلستان‘‘بطور خاص لطافت، نزاکتِ خیال اور انشائیت کا بہترین نمونہ کہی جا سکتی ہے۔ یہی صورت ’’ حکایتِ لیلیٰ و مجنوں ‘‘ اور ’’ دوست کا خط‘‘اور دیگر کہانیوں کی ہے، یلدرم کے معاصرین میں نیازؔ فتح پوری کے افسانے خاص طور پر انشائیہ نگاری سے مزین ہیں۔ نیازؔ نے کئی جگہ یلدرمؔ سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ان کی کہانیاں اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ’’ ایک شاعر کا انجام‘‘ تو کم و بیش کہانی کم اور انشائیہ زیادہ ہے اور ’’نگارستان‘‘ میں شامل اکثر کہانیوں میں انشائیے کے عناصر کا غلبہ ہے۔ اس دور کے ممتاز افسانہ نگاروں میں سلطان حیدر جوشؔ اور لؔ احمد اکبر آبادی وغیرہ کے ہاں بھی انشائیے نے کہانیوں پر اپنی بھرپور چھاپ مرتسم کی ہے۔

یہاں مجنوںؔ  گورکھپوری کے طویل افسانے ’’ زیدی کا حشر‘‘ کا ذکر بے محل نہ ہو گا جو نیازؔ کے زیر اثر انشائیے کی خصوصیات سے مملو ہے۔ علاوہ ازیں سجاد انصاری کی ’’ محشر خیال‘‘ کے اکثر افسانے، میاں بشیر احمد کی تصنیف’’ طلسمِ زندگی‘‘ کی بیشتر کہانیاں نیز خلیقی دہلوی، قاضی عبدالغفار، یوسف حسن، عنایت اللہ دہلوی، حجاب امتیاز علی وغیرہ کے افسانوں میں وحدتِ تاثر اور پلاٹ کی تکمیل سے زیادہ رنگین نوائی، خوش ادائی اور تخیلی سماں بندی کا التزام ملتا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کی کہانیوں میں صفحے کے صفحے مل جائیں گے جن پر افسانے سے زیادہ انشائیے کا گمان ہوتا ہے۔ ترقی پسندوں کے دور میں کہانیوں کے ساتھ ساتھ انشائیہ نگاری کے جوہر دکھانے کا کام کم کم ہوا‘ پھر بھی احمد ندیم قاسمی کے کچھ اور کرشن چندر کے بیشتر افسانوں میں رنگین خیالی اور عبارت آرائی کے ذریعے  انشائیہ نگاری کی گئی اور جدید افسانوں میں تو خیر سے پلاٹ اور وحدتِ تاثر وغیرہ کا کوئی جھنجھٹ ہی نہیں ہے۔ وہ قمر احسن ہوں یا شفق، نیر مسعود ہوں یا انور خاں، کہانی کاروں کی پوری کی پوری نسل افسانے میں انشائیہ نگاری کی داد دے رہی ہے اب یہ اہلِ نقد جانیں کہ اس سے کہانی کا بھلا ہوتا ہے، انشائیے کی نجات ہوتی ہے یا دونوں ہی ایک دوسرے کو خراب کرنے پر آمادہ ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

تصوّر کے صنم خانے

 

یادش بخیر! سر سید احمد خان نے ایک انشائیہ نما مضمون لکھا تھا۔ عنوان اس کا تھا ’’ گزرا ہوا زمانہ‘‘۔ ایک سن رسیدہ شخص اپنے بچپن، لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمری اور بڑھاپے کے کوائف و حالات یاد کرتا ہے اور سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا ہے کہ اس نے عمرِ عزیز کے پچپن برس فضول تفریحات اور بے مصرف کاموں میں گنوا دیے۔ اسی ذہنی سفر کے دوران اس کی ملاقات نیکی کی دُلہن سے ہوتی ہے اور اس کا رنج دوگنا ہو جاتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی خلقِ خدا کی خدمت اور ملک و قوم کی اصلاح میں بسر کی ہوتی تو اُسے نیکی کی دلہن سے دائمی رفاقت نصیب ہوتی۔ انشائیے کے اختتام پر قاری کو ایک خوش گوار دھچکا سا لگتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ در اصل وہ بوڑھا نہیں ایک بچہ ہے جس کی قوتِ متخیلہ نے اسے آئندہ زندگی کا ایک ہولناک نقشہ دکھایا تھا اور اب وہ خوش ہے کہ زندگی کا صحیح مصرف اس کی سمجھ میں آچکا ہے۔

اس کہانی کا ہیرو اپنے حال سے تو خیر واقف ہے ہی کہ اسی میں سانس لے رہا ہے لیکن اس کے تصور نے جو صنم خانے آباد کر رکھے ہیں ان کا ایک جھروکا کھلنے پر وہ حال سے مستقبل میں جا پہنچتا ہے اور وہاں سے اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتا ہے اور اسے تاریک پاتا ہے پھر دوسرے جھروکے سے وہ مستقبل کے ایسے مناظر دیکھتا ہے جو صالح زندگی بسر کرنے پر اسے نصیب ہو سکتے ہیں۔ اس طرح در اصل سر سید احمد خاں کا ہیرو اپنے حافظے، اپنے مشاہدے اور اپنے تخیل کی مدد سے تصور کے صنم خانوں کی تشکیل کرتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ آدمی اور جانور میں فرق ہی یہ ہے کہ اول الذکر تصور کے صنم خانے آباد کر سکتا ہے اور جانور اس سے محروم ہیں۔ باور کیجیے کہ اگر ان میں یہ صلاحیت ہوتی تو آج وہ بھی آدمی کی طرح ارتقا کی منزلیں طے کر کے اس مقام پر پہنچ چکے ہوتے جس کا تصور ان کے اب وجد نے صدیوں پہلے کیا ہوتا۔ غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے :

ہے آدمی بجائے خود اِک محشرِ خیال

ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

یعنی جب تنہائی کا سامنا ہوا، سیدھے تصور کے صنم خانے میں پہنچے اور ابنی من چاہی انجمن سجالی، زیادہ بھیڑ بھاڑ وہاں بھی پسندنہ آئی تو مومنؔ کی طرح سب سے دامن کش ہو کر صرف خیالِ محبوب سے ہم کلام ہو گئے :

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

کچھ وضع دار عاشقوں کے نزدیک اس طرح محبوب کو زحمت دینا مناسب نہیں۔ چنانچہ وہ شادؔ عارفی کی طرح یہ وتیرہ اختیار کرتے ہیں کہ:

آتے ہی اپنے بستر پر

ہوتے ہیں ہم اس کے گھر پر

کبھی کبھار جگرؔ کی مانند یہ تجربہ بھی ہوتا ہے :

ہائے کافر دل کی یہ کافر خیال آرائیاں

میں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا

اور جی چاہا تو شادؔ مرحوم کی طرح بزمِ یار سے لوٹ کر بھی نہ لوٹے یعنی:

ذرا خاموش رہنے دے کہ ذہنی طور پر ہمدم

ابھی واپس نہیں آیا ہوں میں اس کے شبستاں سے

یا پھر گلکاریِ تصور کی بدولت:

فرصتِ ہجر میں اکثر اکثر

ہم کہیں اور نگاہیں ہم پر

کس کو اعجازِ تصوَر کی خبر

حسنِ تخئیل و تصور یکسر

تو مرے پاس زہے ذوقِ نظر

ان مثالوں سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہو گا کہ تصوّر کے صنم خانے محض معشوقوں کے خیالی پیکر سے آباد ہیں۔ ذرا اس کسان کو دیکھیے جو جون کی جھلستی دوپہر میں کٹیلی جھاڑیوں کی شیرازہ بندی کرتے ہوئے جسم کو خون پسینے میں شرابور کر چکا ہے لیکن اس کے سامنے بھی تصوّر کا ایک صنم خانہ جُگر جُگر کر رہا ہے :

نظر کے سامنے ہریالیاں ہیں

بدن زخمی، پسینہ بہہ رہا ہے

اور یہ غدّار مشینی شہر کی توے جیسی جلتی ہوئی کولتار کی سڑک پر برہنہ رکشہ کھینچنے والا ہے۔ کچھ دن پہلے گاؤں میں ہل چلاتے ہوئے شہر جا کر کمائی کرنے کے خواب دیکھا کرتا تھا:

رکشا چلا رہا ہوں، ابھی کل کی بات ہے

کاندھے پہ ہل کا بوجھ تھا آنکھوں میں خواب شہر

چنانچہ تسلیم کرنا ہو گا کہ تصوّر کے صنم خانے بعض اوقات حقیقت کی گرمی سے پگھلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف رنگین خوابوں کی تعبیر اس بدنصیب رکشا والے کو ہولناک حالات سے دوچار کرتی ہے بلکہ شاعر کو بھی اس انداز میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے :

کچے پکے ارمانوں سے جگ مگ کرتی دنیا

اتنی ساری بندوقیں شمشیریں کیا کرتی ہے

بقول منوّر رانا:

اس خرابے کو تو گلزار بنانا تھا اُسے

ورنہ آدم کو زمیں پر نہ اُتارا جاتا

اور قاضی حسن رضاؔ کہتے ہیں :

سینۂ کوہِ گراں میں ڈال دیں گے سوشگاف

ہم بھی رکھتے ہیں جسارت آبشاروں کی طرح

یہ ہماری مختلف زبانوں اور مختلف زمانوں کے شاعر اور داستان گو ہی تھے، جن میں سے کسی نے اپنے تصورات کی دنیا میں صنم خانے سجاتے ہوئے جمشید کے ہاتھوں میں جامِ جہاں نما تھما دیا کہ لے گھر بیٹھے دنیا بھر کا نظارہ کر۔ کسی نے پیر مرد کی مدد سے دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے ہوئے شخص کی اپنے دوست سے باتیں کرا دیں۔ کسی نے اپنے کردار کو مچھلی کے پیٹ میں مہینوں زندہ رکھا کسی نے ہوا میں شہر کو آباد کیا، کسی نے ارجن کو آندھی اور سیلاب لانے والے، آگ برسانے والے بانوں سے آراستہ کیا اور کَرن کو ان کا توڑ سکھایا، کسی نے ملکۂ بہار کو آسمان پر ایسے ستارے اُگانے کا جادُو پڑھایا کہ جن سے پوری فضا بقعۂ نور بن جائے۔ کسی نے کل کا گھوڑا اُڑایا، تو کسی نے جادوئی قالین اورتختِ رواں کو ہم دوشِ صبا بنایا۔ کسی نے جِنوں اور مؤکلوں کو انسان کا تابع کیا کہ ان کے احکام کی پابندی کریں تو کوئی چاند کے سفر پر گیا۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ تصوّر کے یہ صنم خانے اتنے وسیع اور ایسے لامحدود ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔

اب حقیقت پسند سائنس دعویٰ کرے کہ وہ لوگوں کو گھر بیٹھے ٹیلی ویژن پر دنیا بھر کے مناظر دکھاتی ہے۔ ٹیلی فون کے ذریعے دور دراز کے لوگوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ آبدوز کشتی میں آدمی مہینوں سمندر کی تہہ میں زندگی بسر کر سکتا ہے۔ خلاء میں متعدد مصنوعی سیارے چھوڑے جا چکے ہیں۔ اسکڈمیزائل اگر ہزاروں میل دور سے اپنے نشانے پر آگ برسا سکتے ہیں تو پیٹریاٹ میزائل ان کا سدِ باب کر سکتے ہیں۔ لائٹ بم سے سیاہ ترین رات کو دُور دور تک تابناک کیا جا سکتا ہے۔ مختلف سائز کے چھوٹے بڑے ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر وغیرہ روز مرّہ کی چیزیں بن گئی ہیں، طرح طرح کی مشینیں اور روبوٹ ہماری ایسی ایسی خدمتیں انجام دیتے ہیں جو جنوں اور مؤکلوں کے بس کی نہ تھیں۔ انسان نہ صرف چاند پر جا چکا ہے بلکہ دوسرے ستاروں پر بھی کمندیں پھینک رہا ہے۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے دعوے سائنس کو زیب دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کامرانیوں تک پہنچانے میں اور سمت نمائی کرنے میں تصور کے صنم خانے ہی پیش پیش رہے ہیں۔

انسان نے تصور کے یہ صنم خانے اس لیے آباد کیے تھے کہ وہ گم شدہ بہشت، جہاں سے اس کا جدِّ اعلیٰ زمین پر پھینک دیا گیا تھا اسی زمین پر بس جائے لیکن صورتِ حال مختلف نظر آتی ہے بقولِ شاعر:

تبسّم سب کے ہونٹوں پر، محبت سب کے سینوں میں

مگر تعبیر اُلٹی ہے مرے رنگین خوابوں کی

سائنس کی اس درجہ ترقی کے باوجود متعدد بیماریوں کا علاج ممکن نہیں ہے۔ کروڑوں لوگ آج بھی بھوکے اور ننگے ہیں۔ ہمارے اردگرد غموں سے چور دُنیا ہے اور دُکھ سے بِسورتے ہوئے چہرے، دلوں میں کدورتیں کارفرما ہیں تو ذہن سازشیں بُن رہے ہیں۔ ہر طرف دہشت گردی کا زور اور قتال و جدال کا بازار گرم ہے۔ تعصب اور تنگ نظری کا دور دورہ ہے اور مذہب و اخلاق، تعلیم و تہذیب غرض ہر شعبۂ حیات پر خود غرضانہ سیاست کا غلبہ نظر آتا ہے۔ ان حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے تصورات میں وہ صنم خانے از سرِ نو آباد کریں جن میں تخریبی عناصر کی جگہ تخلیق اور تعمیر کی حکمرانی ہو اور جو انسان دوستی، خوش خلقی، کشادہ نظری، حق پرستی، مساوات، خدا ترسی، ایثار پیشگی اور رحم دلی کے جذبات کو عام کرنے میں اہلِ دانش کی رہنمائی کر سکیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی،تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید