FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ادبی مرقعے

 

 

                غلام شبیر رانا

 

 

 

 


 

ممتاز شیریں :اردو کی پہلی خاتون نقاد

 

احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ

دنیا چلی گئی مری دنیا لیے ہوئے

ممتا ز شیریں نے فن افسانہ نگاری، ترجمہ نگاری اور تنقید کے شعبوں میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے۔ ان کی تخلیقی اور تنقیدی کامرانیوں سے اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ ندرت تخیل، اسلوب کی انفرادیت، فکر پرور اور بصیرت افروز تجزیاتی مطالعہ کو جس فن کارانہ مہارت سے انھوں نے اپنی تحریروں کو مزین کیا وہ انھیں ایک ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ ایک بلند پایہ نقاد کی حیثیت سے انھوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ افکار تازہ کی اساس پر جہان تازہ کا قصر عالی شان تعمیر کیا جائے۔ وہ ایک وسیع القلب اور فراخ دل تخلیق کار اور زیرک نقاد تھیں۔ ادبی تخلیقات کے محاسن اور معائب پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ گلشن ادب کو خون دل سے نکھارنے کے سلسلے میں ان کی مساعی کا عدم اعتراف احسان فراموشی کے مترادف ہے۔ انھوں نے اپنے اسلوب میں عصری آگہی کو پروان چڑھانے کے لیے سخت محنت کی۔ معاشرتی اور سماجی زندگی میں انھوں نے اس امر پر زور دیا کہ ایک تخلیق کار کو ایسی طرز فغاں اپنانی چاہیے جو علم و عمل کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہمدوش ثریا کر دے۔ ان کی تحریریں اس عالم آب و گل کے جملہ مظاہر اور معاملات کے بارے میں زندگی کی حقیقی معنویت کو سامنے لاتی ہیں۔ معاشرتی زندگی ہو یا کائنات کے غیر مختتم مسائل سب کے بارے میں ممتاز شیریں کا انداز فکر ہمہ گیر نوعیت کا رہا۔ اپنے محاکمے سے وہ اچھائی اور برائی میں موجود حد فاصل کے بارے میں قاری کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ زندگی کی آفاقی اور حیات آفریں اقدار کے تحفظ، ارتقا اور بقا کو وہ دل و جاں سے عزیز رکھتی تھیں۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات تاریخ ادب کا ایک اہم واقعہ ہیں۔

ممتاز شیریں کے والد کا نام قاضی عبد الغفور تھا۔ وہ اپنے عہد کے ممتاز عالم تھے۔ عربی اور فارسی زبان پر انھیں دسترس حاصل تھی۔ ممتاز شیریں 12۔ ستمبر 1924کو اپنے آبائی وطن بنگلور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا ٹیپو قاسم خان نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی خاطر اپنے پاس میسور بلا لیا۔ اس طرح وہ بچپن ہی میں اپنے ننھیال میں رہنے لگیں۔ ممتاز شیریں کے نانا اور نانی نے اپنی اس ہو نہار نواسی کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ وہ خود بھی تعلیم یافتہ تھے اور گھر میں علمی و ادبی ماحول بھی میسر تھا۔ ممتاز شیریں ایک فطین طالبہ تھیں انھوں نے تیرہ(13)برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان درجہ اول میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ ان کے اساتذہ ان کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ 1941میں ممتاز شیریں نے مہارانی کالج بنگلور سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ 1942 میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ممتاز شیریں نے 1944میں اپنے شوہر صمد شاہین سے مل کر بنگلور سے ایک ادبی مجلے ’’نیا دور‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس رجحان ساز ادبی مجلے نے جمود کا خاتمہ کیا اور مسائل ادب اور تخلیقی محرکات کے بارے میں چشم کشا صداقتیں سامنے لانے کی سعی کی گئی۔ صمد شاہین پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ انھوں نے وکالت کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد وہ حکومت پاکستان میں سرکاری ملازم ہو گئے۔ وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے حکومت پاکستان کے بیورو آف ریفرنس اینڈ ریسرچ میں جوا ئنٹ ڈائریکٹر کے منصب پر فائز ہوئے۔ ممتاز شیریں نے زمانہ طالب علمی ہی سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ ان کی سنجیدگی، فہم و فراست، تدبر و بصیرت اور وسیع مطالعہ نے انھیں سب کی منظور نظر بنا دیا۔ ہر جماعت میں وہ اول آتیں اور ہر مضمون میں امتحان میں وہ سر فہرست رہتیں۔ قیام پاکستان کے بعد ممتاز شیریں کا خاندان ہجرت کر کے کراچی پہنچا۔ کراچی آنے کے بعد ممتاز شیریں نے اپنے ادبی مجلے ’’نیا دور‘‘ کی اشاعت پر توجہ دی اور کراچی سے اس کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہو گیا لیکن 1952 میں ممتاز شیریں اپنے شوہر کے ہمراہ بیرون ملک چلی گئیں اور یوں یہ مجلہ اس طرح بند ہو ا کہ پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آئی۔ ادبی مجلہ ’’ نیا دور‘‘ ممتاز شیریں کی تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ پاکستان آنے کے بعد ممتاز شیریں نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا اور انگریزی ادبیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ کراچی سے ایم۔ اے انگلش کرنے کے بعد ممتاز شیریں برطانیہ چلی گئیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں جدید انگریزی تنقید میں اختصاصی مہارت فراہم کرنے والی تدریسی کلاسز میں داخلہ لیا اور انگریزی ادب کے نابغہ روزگار نقادوں اور ادیبوں سے اکتساب فیض کیا اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ کیا۔ ممتاز شیریں کی دلی تمنا تھی کہ آکسفورڈ یو نیورسٹی میں ان کی تعلیم جاری رہے اور وہ اس عظیم جامعہ سے ڈاکٹریٹ (ڈی۔ فل )کریں لیکن بعض ناگزیر حالات اور خاندانی مسائل کے باعث وہ اپنا نصب العین حاصل نہ کر سکیں اور انھیں اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے پاکستان وا پس آنا پڑا۔ اس کا انھیں عمر بھر قلق رہا۔

ممتاز شیریں نے 1942میں تخلیق ادب میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’انگڑائی‘‘ ادبی مجلہ ساقی دہلی میں 1944میں شائع ہو ا تو ادبی حلقوں میں اسے زبردست پذیرائی ملی۔ اس افسانے میں ممتاز شیریں نے فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کو جس مو ثر انداز میں پیش نظر رکھا ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ افسانہ کیا ہے عبرت کا ایک تازیانہ ہے۔ ایک لڑکی بچپن میں اپنی ہی جنس کی ایک دوسری عورت سے پیمان وفا باندھ لیتی ہے۔ جب وہ بھر پور شباب کی منزل کو پہنچتی ہے تو اس کے مزاج اور جذبات میں جو مد و جزر پیدا ہوتا ہے وہ اسے مخالف جنس کی جانب کشش پر مجبور کر دیتا ہے۔ جذبات کی یہ کروٹ اور محبت کی یہ انگڑائی نفسیاتی اعتبار سے گہری معنویت کی حامل ہے۔ بچپن کی نا پختہ باتیں جوانی میں جس طرح بدل جاتی ہیں، ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اس ا فسانے کا اہم موضوع ہے ۔ مشہور افسانہ ’’انگڑائی‘‘ ممتاز شیریں کے پہلے افسانوی مجموعے ’’اپنی نگریا‘‘ میں شامل ہے۔ وقت کے ساتھ خیالات میں جو تغیر و تبدل ہوتا ہے وہ قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ بن جاتا ہے۔ یہ تجربہ جہاں جذباتی اور نفسیاتی اضطراب کا مظہر ہے وہاں اس کی تہہ میں روحانی مسرت کے منابع کا سراغ بھی ملتا ہے۔ وہ ایک زیرک، مستعد اور فعال تخلیق کار تھیں۔ ان کے منفرد اسلوب کو علمی و ادبی حلقوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ 1954میں ہالینڈ کے دار الحکومت ہیگ میں ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ ا س عالمی ادبی کانفرنس میں عالمی ادب اور انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میں وقیع مقالات پیش کیے گئے۔ ممتاز شیریں کو اس عالمی ادبی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس عالمی ادبی کانفرنس میں ممتاز شیریں نے دنیا کے نامور ادیبوں سے ملاقات کی اور عالمی ادب کے تناظر میں عصری آگہی کے موضوع پر ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ادب کو وہ زندگی کی تنقید اور درپیش صورت حال کی اصلاح کے لیے بہت اہم سمجھتی تھیں۔ ممتاز شیریں اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حکومت پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات پر مامور تھیں۔ ممتاز شیریں کو 1972میں پیٹ کے سرطان کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ مرض میں اس قدر شدت آ گئی کہ 11مارچ 1973کو پولی کلینک اسلام آباد میں وہ انتقال کر گئیں۔ جدید اُردو شاعری میں تانیثیت کی اولین آواز محترمہ ادا جعفری ( عزیز جہاں، پیدائش: 22-08-1924وفات: 12-03-2015) نے ممتاز شیریں کی وفات پر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا :

وہ جو چُپ چاپ بھری بزم سے اُٹھ کر چل دیں

یوں دبے پاؤں کہ جیسے کہیں آئیں نہ گئیں

زندگی کو کئی راہوں سے گُزرتے دیکھا

فکرِ انساں کی صداقت کو نہ مرتے دیکھا

موت پہلے بھی تو اِن جیسوں کا مقسوم نہ تھی

جانے کس دیس پہنچنے کی ہوئی تھی جلدی

جانے کس دیس سے آیا تھا بُلاوا اب کے

اردو افسانے اور اردو تنقید کے اس آسمان کو اسلام آباد کی زمین نے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ ممتاز شیریں کی وفات سے اردو تنقید کا ایک درخشاں باب کا خاتمہ ہو گیا۔ اردو کی پہلی خاتون نقاد سے ہم محروم ہو گئے۔ تانیثیت (Feminism) کی علم بردار حرف صداقت لکھنے والی اس با کمال، پر عزم، فطین اور جری تخلیق کار کی الم ناک موت نے اردو ادب کو نا قابل اندمال صدمات سے دوچار کر دیا۔

اپنی تخلیقی کامرانیوں سے ممتاز شیریں نے اردو دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے ان کے توانا اور ابد آشنا اسلوب میں سمٹ آئے تھے.ان کی تمام تحریریں قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز تھیں۔ ممتاز شیریں کی درج ذیل تصانیف انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام پر فائز کریں گی۔

(1)اپنی نگریا (افسانوں کا مجموعہ ): اسے مکتبہ جدید لاہور نے پہلی مرتبہ ستمبر 1947میں شائع کیا۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔

(2)میگھ ملہار (طویل افسانوں پر مشتمل مجموعہ ): یہ لارک پبلشرز کراچی کے زیر اہتمام پہلی مرتبہ 1962میں شائع ہوا۔

(3)معیار :یہ کتاب ممتاز شیریں کے تنقیدی مقالات پر مشتمل ہے۔ اردو میں فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کو اس تنقید میں بالعموم پیش نظر رکھا گیا ہے۔

(4)در شہوار :یہ ممتاز شیریں کے ترجمہ کی بلند پایہ کتا ب ہے۔ اس میں انھوں نے جان آسٹن کے مشہور ناول ’’دی پیرل‘‘ کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ممتاز شیریں کا عالمانہ تحقیقی مقالہ بھی اس ترجمے میں شامل ہے جس میں انھوں نے امریکی ناول کے ارتقا پر تحقیقی نگاہ ڈالی ہے۔ اردو میں فکشن پر تنقید اور تحقیق کا یہ اعلیٰ معیار پیش کرتی ہے۔ یہ ترجمہ مصنف کی اصل کتاب سے قریب ترین ہے۔

(5)امریکی کہانیاں : یہ بھی تراجم پر مشتمل کتاب ہے۔ ممتاز شیریں نے اس کتاب میں امریکی مختصر افسانوں کے اردو تراجم پیش کیے ہیں۔ ان تراجم میں انھوں نے تخلیق کی چاشنی کو اس طرح سمو دیا ہے کہ قاری ان کے اسلوب کی کشش کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ان تراجم کے ساتھ ساتھ ممتاز شیریں نے امریکی افسانہ نگاروں کے اسلوب اور تخلیقات کے فنی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ممتا زشیریں کے یہ تنقیدی مضامین اور تجزیے جو نہایت جامع اور بر محل ہیں ان کے مطالعہ سے قاری پر فن افسانہ نگاری کے متعدد پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔ افسانوں پر ممتاز شیریں کی تنقید اپنی جگہ ایک مستقل افادی نوعیت رکھتی ہے۔

اردو ادب میں حریت فکر کی روایت کو پروان چڑھانے میں ممتاز شیریں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ عجز و انکسار اور خلوص کا پیکر تھیں۔ ظلمت نیم روز ہو یا منٹو نوری نہ ناری ہر جگہ اسلوبیاتی تنوع کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب اور محمود ہاشمی کے اسلوب کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ قدرت اللہ شہاب کی تصنیف ’’یا خدا‘‘ اور محمود ہاشمی کی تصنیف ’’کشمیر اداس ہے‘‘ کا پیرایہ ء آغاز جس خلوص کے ساتھ ممتاز شیریں نے لکھا ہے وہ ان کی تنقیدی بصیرت کے ارفع معیار کی دلیل ہے۔ وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت ان کے قلب، جسم اور روح سے عبارت تھی ابتدا میں اگرچہ وہ کرشن چندر کے فن افسانہ نگاری کی مداح رہیں مگر جب کرشن چندر نے پاکستان کی آزادی اور تقسیم ہند کے موضوع پر افسانوں میں کانگریسی سوچ کی ترجمانی کی تو ممتاز شیریں نے اس انداز فکر پر نہ صرف گرفت کی بلکہ اسے سخت نا پسند کرتے ہوئے کرشن چندر کے بارے میں اپنے خیالات سے رجوع کر لیا اور تقسیم ہند کے واقعات اور ان کے اثرات کے بارے میں کرشن چندر کی رائے سے اختلاف کیا۔ ممتاز شیریں نے اردو ادب میں منٹو اور عصمت چغتائی پر جنس کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے ان کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھا۔ ممتاز شیریں کا تنقیدی مسلک کئی اعتبار سے محمد حسن عسکری کے قریب تر دکھائی دیتا ہے۔ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز ان کا سلوک ان کی شخصیت کا امتیاز ی وصف تھا۔ ان کے اسلوب کی بے ساختگی اور بے تکلفی اپنی مثال آپ ہے۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور اسلوب کی ندرت کے اعجاز سے انھوں نے ادب، فن اور زندگی کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ ان کے ہاں فن کار کی انا، سلیقہ اور علم و ادب کے ساتھ قلبی لگاؤ، وطن اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ وابستگی کی جو کیفیت ہے وہ انھیں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے۔ ادب کو انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے استعمال کرنے کی وہ زبردست حامی تھیں۔ انھوں نے داخلی اور خارجی احساسات کو جس مہارت سے پیرایہ ء اظہار عطا کیا ہے وہ قابل غور ہے۔ اپنے ایک مضمون میں ممتاز شیریں نے اپنے اسلوب اور تخلیقی محرکات کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’مجھ میں فن کار کی انا سہی لیکن اتنا انکسار تو ضرور ہے کہ یہ محسوس کر سکوں کہ بڑے ادیبوں کے سامنے ہم کتنے چھوٹے ہیں اور فن کار کے ارتقا اور تکمیل تک پہنچنے میں ہمیں ابھی کتنے اور مرحلے       طے کرنے ہیں۔ میں اپنے بارے میں صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ پہلے درجے سے گزر کر میں نے دوسرے میں قدم رکھا ہے اور اپنی ذات میں نارسیسی انہماک پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے۔‘‘(1)

ممتاز شیریں کو انگریزی، اردو، عربی، فارسی اور پاکستان کی متعدد علاقائی زبانوں کے ادب پر دسترس حاصل تھی۔ عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا تھا۔ زندگی کے نت نئے مطالب اور مفاہیم کی جستجو ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ اپنی تخلیقی تحریروں اور تنقیدی مقالات کے معجز نما اثر سے وہ قاری کو زندگی کے مثبت شعور سے متمتع کرنے کی آرزو مند تھیں۔ ان کی تخلیقی اور تنقیدی تحریریں ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہیں ا ور حیات و کائنات کے ایسے متعدد تجربات جن سے عام قاری بالعموم نا آشنا رہتا ہے ممتاز شیریں کی پر تاثیر تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے ہی سے اس کے نہاں خانہ ء دل میں جا گزیں تھا۔ اس طرح فکر و خیال کی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہو تا ہے جس کی وجہ سے قاری کے دل میں اک ولولہ ء تازہ پیدا ہوتا ہے۔

ترجمے کے ذریعے وہ دو تہذیبوں کو قریب تر لانا چاہتی تھیں۔ تراجم کے ذریعے انھوں نے اردو زبان کو نئے جذبوں، نئے امکانات، نئے مزاج اور نئے تخلیقی محرکات سے روشناس کرانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ ان کے تراجم کی ایک اہم اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کے مطالعہ کے بعد قاری ان کے تخلیق کار کی روح سے ہم کلام ہو جاتا ہے مترجم کی حیثیت سے وہ پس منظر میں رہتے ہوئے قاری کو ترجمے کی حقیقی روح سے متعارف کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتیں۔ ان کے تراجم سے اردو کے افسانوی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا اور فکر و خیال کو حسن و دلکشی اور لطافت کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے میں کامیابی ہوئی۔ افسانوی ادب کی تنقید میں ممتاز شیریں کا دبنگ لہجہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ گزشتہ آٹھ عشروں میں لکھی جانے والی اردو تنقید پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی خاتون نقاد دکھائی نہیں دیتی۔ ممتاز شیریں نے اردو تنقید کے دامن میں اپنی عالمانہ تنقید کے گوہر نایاب ڈال کر اسے عالمی ادب میں معزز و مفتخر کر دیا۔ زندگی کی صداقتوں کو اپنے اسلوب کی حسن کاریوں سے مزین کرنے والی اس عظیم ادیبہ کے تخلیقی کارنامے تاریخ ادب میں آب زر سے لکھے جائیں گے اور تاریخ ہر دور میں ان کے فقیدالمثال اسلوب لائق صد رشک و تحسین کا م اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔

٭٭

مآخذ

(1)آغا بابر       :’’حرف سو گوار‘‘، مضمون مشمولہ مجلہ سیپ، کراچی، شمارہ 55، جنوری 1990،، صفحہ 304

٭٭٭

 

 

 

 

 

غفار بابر :دنیا چلی گئی مری دنیا لیے ہوئے

 

 

ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک دُور اُفتادہ قصبے ’’کیچ‘‘ میں مقیم پاکستان کے نامور ادیب غفار بابر نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔وہ گزشتہ نصف صدی تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی مساعی میں جس انہماک کا مظاہرہ کر رہا تھا اس کا ایک عالم معترف تھا۔ اس کی تخلیقی فعالیت سے اردو شاعری اور نثر کی ثروت میں جو اضافہ ہوا وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔اس زیرک، فعال، مستعد اور عصری آگہی سے متمتع تخلیق کار نے نظم و نثر کی بیس کے قریب وقیع تصانیف سے اردو ادب کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا۔تین برس قبل اس کی رحلت کی خبر سن کر روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا۔غفار بابر کے ساتھ میرا جو تعلق خلوص، مروّت اور دردمندی کی اساس پر استوارتھا، وہ مسلسل تین عشروں پر محیط تھا۔ جب بھی ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ور ق گردانی کرتا ہوں تو قریۂ جاں میں اس کی حسین یا دیں اس طرح پھیلی ہیں کہ جس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہے اس کی آواز کی باز گشت کانوں میں رس گھولتی ہے۔رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے انسان کا ہاتھ نہ تو باگ پر ہے اور نہ ہی اس کے پاؤں رکاب میں ہیں۔ہم یہ نہیں جانتے کہ ہماری مسافت کب کٹے گی اور کس لمحے ہم زندگی کا سفر طے کر کے اپنی آخری منزل کی جانب رختِ سفر باندھ لیں گے۔زندگی کا یہ سفر بھی عجیب سفر ہے جس کی اصلیت کی تفہیم ہمارے بس سے باہر ہے۔ احباب کی دائمی مفارقت کے بعدانسان کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ جاتا ہے لیکن رفتگاں کی یاد کے صدموں سے پس ماندگان کا پُورا وجود کِر چیوں میں بٹ جاتا ہے۔ہجوم یاس میں جب میرا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور میں یاس و ہراس اور گھبراہٹ کے عالم میں غمِ جہاں کا حساب کرنے لگتا ہوں تو غفار بابر مجھے بے حساب یاد آنے لگتا ہے۔وہ شخص جا چُکا ہے لیکن اس کے احباب کے دل کی انجمن آج بھی اس کی یادوں کی عطر بیزی سے مہک رہی ہے۔وقت بڑی تیزی سے گزر گیا اور اس کی یادیں اب خیال و خواب بن کر ر ہ گئی ہیں۔شہر یار کے یہ اشعار میرے جذبات حزیں کی ترجمانی کر تے ہیں :

عجیب چیز ہے یہ وقت جس کو کہتے ہیں

کہ آنے پاتا نہیں اور بِیت جاتا ہے

جو ہونے والا ہے اس کی فکر کیا کیجیے

جو ہو چکا ہے اُسی پر یقیں نہیں آتا

اس حادثے کو سُن کے کرے گا کوئی یقیں

سُورج کو ایک جھونکا ہوا کا بُجھا گیا

اگرچہ اس کی عمر بڑھ رہی تھی لیکن ضعفِ پیری کے کہیں آثار نہ تھے۔اس کے تخلیقی مزاج کے تمام عناصر اعتدال پر تھے اوراس کے اعضا پر کبھی اضمحلال طاری نہ ہوا۔ زندگی بھر غفار بابر کی تخلیقی فعالیت پورے جو بن پر رہی۔ہوائے جور و ستم میں بھی اس زیرک شاعر نے شمع وفا کو فروزاں رکھا اورسفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔زبان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔اردو شاعری کی تمام اصناف میں اس نے اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا۔اس نے حمد، نعت، سلام، منقبت، قصیدہ، غزل، رباعی، نظم، قطعہ، ہائیکو اور مسدس میں خوب طبع آزمائی کی۔اردو شاعری میں ہئیت کے تجربات پراس نے اپنی توجہ مرکوز رکھی۔رجائیت پسندی اس کی فطرت ثانیہ تھی یہی وجہ ہے کہ عملی زندگی میں فکر و خیال اور طرز عمل میں اس نے ہمیشہ مثبت انداز فکر اپنانے پر زور دیا۔اس کی مثبت اور تعمیری سوچ نے اسے ہر قسم کی تخریب سے دور رکھا اور اپنی دیوارِ چمن کی بلندی اس کا نصب العین رہا۔غفار بابر کو پاکستان کے طول و عرض میں بولی جانے والی تمام علاقائی زبانوں کے ادب سے کامل آگہی حاصل تھی۔لوک ادب بالخصوص لوک گیتوں اور لوک داستانوں میں اس نے گہری دلچسپی لی اور ان سے وابستہ تلمیحات اس کی شاعری میں اس طرح سما گئی ہیں کہ قاری ان سے گہرا اثر قبول کرتا ہے۔اپنے جذبات و احسات کو اشعار کے قالب میں ڈھالنے کے سلسلے میں اس نے جس قدرت اور ندرت کا ثبوت دیا وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔عملی زندگی میں اپنے تجربات اور مشاہدات وہ نہایت خلوص، درد مندی اور دیانت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔اس کے اسلوب کی سادگی، سلاست اور شیرینی اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس کا سہل ممتنع انداز قاری پر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک وسیع النظر ادیب کی حیثیت سے اس نے اردو، کشمیری، پنجابی، انگریزی، فارسی، عربی، سرائیکی، ہندکو، پشتو، سندھی اور بلوچی زبانون کے کلاسیکی ادب کا بڑی توجہ سے مطالعہ کیا۔

غفار بابر کا تعلق صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھا۔اس کے والد نامور ماہر تعلیم تھے اور شعبہ تعلیم میں انھوں نے طویل تدریسی خدمات انجام دیں۔ جنھوں نے اپنے ہو نہار بچے کی   تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی۔ غفار بابر نے اردو زبان و ادب اوراسلامیات میں ایم۔ اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں واقع سرکاری کامرس کالج میں اردو زبان و ادب کی تدریس پر مامور ہوا اور بائیس سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ زمانہ طالب علمی ہی میں پاکستان کے بڑے شہروں میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کی اور کل پاکستا ن بین الکلیاتی مشاعروں میں بھی حصہ لیا۔ اسے ڈیرہ سماعیل خان میں کام کرنے والی علمی و ادبی تنظیموں کی روح رواں سمجھا جاتا تھا۔ وہ کئی بڑی ادبی تنظیموں کے اہم تنظیمی عہدوں پر فائز رہا اور فروغ علم و ادب کے لیے گراں قد ر خدمات انجام دیں۔مجلس ترقی اردو ڈیرہ اسماعیل خان، ارباب قلم ڈیرہ اسماعیل خان، گلستان اقبال ڈیرہ اسماعیل خان میں اس کی خدمات اس علاقے کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ اپنی علمی، ادبی اور تدریسی زندگی میں غفار بابر کو جن نامور ادبی شخصیات سے ملنے کا موقع ملا ان میں ساغر صدیقی، اطہر کاشمیری، قتیل شفائی، سید عبدالحمید عدم، جوش ملیح آبادی، محمد شیر افضل جعفری، سعداللہ کلیم، سید جعفر طاہر، کبیر انور جعفری، محمد فیروز شاہ، ارشاد گرامی، سجاد بخاری، سید ضمیر جعفری، این میری شمل، رالف رسل، خضر تمیمی، کرنل محمد خان، امیر اختر بھٹی، رفعت سلطان، اشفاق احمد، شفیع عقیل، عطا شاد، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، انعام الحق کوثر، محسن بھوپالی، خاطر غزنوی، احمد فراز، خادم مگھیانوی، سید مظفر علی ظفر، صابر آفاقی، نیاز سواتی، صابر کلوروی اور گدا حسین افضل کے نام قابل ذکر ہیں۔ عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جانے والے یہ عظیم اور با کردار لوگ علم و ادب کے وہ آفتاب و ماہتاب تھے جو حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیرؓ سے وابستہ رہے اور جن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا۔یہ نابغۂ روزگار فاضل محشرِ عمل تھے ، تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔ غفار بابر جب بھی ان یگانۂ روزگار ہستیوں کا ذکر کرتا تو اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔غفار بابر کی وقیع تصانیف جادۂ نور، ضرب گل، بر گ زرد، چاند چنبیلی، پھل کنڈے ( پنجابی اور سرائیکی زبان میں شاعری )نمکیات( ظریفانہ کلام ) کی اشاعت سے پاکستانی ادبیات کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ غفار بابر کی گل افشانیِ گفتار سے ہر محفل رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروں کی مظہر بن جاتی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شگفتہ مزاجی اور ہنسنے ہنسانے کا شوق اس کی جبلت میں شامل تھا۔ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں نہاں کر کے سدا بہار مُسرتیں اور قہقہے عیاں کرنا اس کے اسلوب کا امتیاز ی پہلو تھا۔ بادی النظر میں اس کی ذات تقدیر کی گردشِ ہفت آسماں کی خزا ں رسیدگی کے باعث مضمحل سی تھی اور ہوا کے دوش پر اُڑتے ہوئے برگِ زرد کے مانند اس کا گلشنِ زیست تازگی سے محروم رہا۔جب اس کی مسافت کٹ گئی تو صرف سفر کی دھُول ہی اس کا پیرہن تھا۔اپنی داخلی شکستگی کو اپنے اسلوب کی شگفتگی سے اس نے اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ کسی کو اس کے داخلی کرب و اضطراب کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ اس نے جس بے ساختگی سے قندیلِ محبت کو ضیا اور آئینہ ء ہستی کو جِلا بخشی وہ اپنی مثال آپ ہے۔وہ اپنی جان کو دوہرے عذاب میں مبتلا محسوس کرتا تھا۔وہ زندگی کے تضادات، نا ہمواریاں اور بے اعتدالیاں دیکھ کر تڑپ اُٹھتا اور اس کے بعد معاشرتی زندگی پر ان کے مسموم اثرات کے بارے میں سوچ کر کُڑھتا رہتا تھا۔اس کے خندہ زن ہونے کی دو کیفیتیں تھیں کبھی تو وہ دوسروں پر ہنستا تھا لیکن اکثر عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ پر بھی ہنستا تھا۔ غفار بابر ایک پیکرِ ملال اور تصویرِ درد تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے خود کو غم کے قبیلے کا ایک فرد قرار دیا اور اپنے غموں سے سمجھوتہ کر کے بہاروں کا سوگ منانے کے بجائے خوشیوں کی جستجو کی اور معاشرے میں خوشیاں بانٹنے پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ اس لیے ہنستا تھا کہ کہیں دیدۂ گریاں کی نہر صبر اور ضبط کے شہرِ آرزو کو بہا کر اپنے ساتھ نہ لے جائے۔انتہائی نا مساعد حالات میں بھی غفار بابر نے صبر و تحمل اور ایثار کی شمع فروزاں رکھی۔ تحلیلِ نفسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی شخصیت ایک اکائی کے روپ میں سامنے آتی ہے لیکن سمے کے سم کے ثمر نے اسے جن مسموم حالات کی بھینٹ چڑھا دیا، اس کے باعث اس کی روح کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار ہونا پڑا۔اس نے زندگی کی پُر خار راہوں پر ایک آبلہ پا مسافر کی طر ح اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ جانتا تھا کہ شیشوں کا مسیحا کہیں موجود نہیں اس کے باوجود اپنی شخصیت کی یہ کر چیاں وہ اپنے دامن میں لیے وہ کسی معجزے کا منتظر رہا۔ آزمائش و ابتلا اور آلامِ روزگار کے خارِ مغیلاں سے اپنی فگار اُنگلیوں سے وہ زندگی بھر ملبوس بہار کی تزئین میں ہنسی خوشی مصروف رہا۔اس کے رنگِ سخن میں اس کا بے ساختہ پن متکلم دکھائی دیتا ہے۔ تحریف نگاری کے ذریعے وہ اپنی شاعری کو پُر لطف بنا دیتا ہے :

کتابیں چھین کر ہاتھوں سے بیگم نے یہ فرمایا

مجھے کچھ بھی نہیں غم، امتحاں تیرا ہے یا میرا

مجھے لکڑی بھی لادو اور سبزی بھی پکانے کو

اگر تُو فیل ہو جائے زیاں تیرا ہے یا میرا

پڑوسن نے کہا کچھ تو جھپٹ کر اُس پہ یوں برسیں

تجھے کیا ہے پڑی؟’’بابر میاں تیرا ہے یا میرا‘‘

مرد امیدوار ہوتے ہیں

بیویاں امتحان ہوتی ہیں

مرد منہ میں لگام رکھتے ہیں

عورتیں بے عنان ہوتی ہیں

مرد چُپ سادھ لیتے ہیں اکثر

بیویاں ترجمان ہوتی ہیں

ایک شگفتہ مزاج تخلیق کار کی حیثیت سے غفار بابر نے اپنے اسلوب کو جاذبِ نظر اور خندہ آور بنا دیا۔یبوست زدہ قنوطی جب آلامِ روزگار سے گھبرا کر گریہ و زاری کر تے ہیں تو ان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے۔ان حالات میں طنزو مزاح ان کے زخموں کا مرہم بن جاتا ہے اور ہر درد کا درماں ثابت ہوتا ہے۔غفار بابر کی شگفتہ مزاجی، حاضر جوابی، بذلہ سنجی، فقرے بازی، ضلع جُگت اور پھبتی ایک دھنک رنگ منظر نامہ سامنے لاتی تھی۔ اس کی شگفتہ مزاجی سے اس کی علمی سطحِ فائقہ صاف دکھائی دیتی تھی۔اس کی شگفتہ مزاجی کے سوتے اس کے ذہن و ذکاوت اور بصیرت سے پھُوٹتے تھے۔

یوں زیست کے لمحات کو میں کاٹ رہا ہوں

اک بحرِ الم ہے کہ جسے پاٹ رہا ہوں

تعلیم نے بخشی ہے وہ افلاس کی دولت

چھے سال سے ایم اے کی سند چاٹ رہا ہوں

مبتلائے قبض ہو جائے نہ قوم

اس کو تھوڑا سا انیمہ چاہیے

ہو مبارک آپ کو عہدِ جدید

ہم کو بس دورِ قدیمہ چاہیے

اپنی ظریفانہ شاعری میں غفار بابر نے تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کی اقدار و روایات کو اپنی گل افشانیِ گفتار سے اس مہارت سے ہم آہنگ کر دیا ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔وہ اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھا کر محفل کو کشتِ زعفران بنانے کا ہنر جانتا تھا۔اس نے قارئینِ ادب پر یہ بات واضح کر دی کہ معاشرتی زندگی میں برداشت اور صبر و تحمل کی افادیت مسلمہ ہے۔کسی بھی قوم کے متمدن اور مہذب ہونے کی کسوٹی معاشرتی زندگی میں اس قوم کا عمومی طرز عمل اور شیوہ ء گفتار ہی ہے۔اگر کوئی قوم کٹھن حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتی ہے ، ہجوم غم میں دِل کو سنبھال کر ہنستے مسکراتے موجِ حوادث سے کشتیِ جاں کو نکال کر ساحلِ عافیت تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ بات اس کے انتہائی مہذب ہونے کی دلیل ہے۔غفار بابر کی آنکھوں نے وطن اور اہلِ وطن کو درپیش مسائل کا بہ نظر غائر جائزہ لیا تھا۔عام طور پر اس کی شگفتہ مزاجی محض تفننِ طبع تک محدود رہتی ہے اور ظرافت کا عمدہ نمونہ پیش کرتی ہے۔اس کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ شاعر کی شگفتہ بیانی کا قصرِ عالی شان شعوری یا لاشعوری مقصدیت کی اساس پر استوار ہے۔اسی مقام پر اس کا اسلوب طنز کا روپ دھار لیتا ہے۔

خون کی ندی بھی ہم نے پار کی

ہم سے باتیں کر رہے ہو دار کی

ہے یہاں کانٹوں سے اپنا واسطہ

کر رہا ہوں بات میں گلزار کی

اک غریبِ شہر کو حق مل گیا

یہ خبر ہو گی کسی اخبار کی

عدل کی زنجیر کو مت چھیڑئیے

کون سنتا ہے یہاں نادار کی

خا ک کی چادر پہ سونا چاہیے

بس یہی ہم کو بچھونا چاہیے

خون مکھن بن کے نکلے جسم سے

قوم کو اتنا بلونا چاہیے

طنز اور مزاح میں موجود حدِ فاصل کا غفار بابر کو احساس تھا۔اس نے طنز کی کلاسیکی روایت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور معاشرتی زندگی کی قباحتوں کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کے سلسلے میں طنز کو کامیابی سے استعمال کیا۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے اپنے گرد و نواح کے ماحول پر اس کی گہری نظر تھی۔سماجی زندگی میں جامد و ساکت بتوں، سنگلاخ چٹانوں اور بے حس پتھروں نے انسانی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔رہزنوں سے بچ کر بھاگ نکلنے والوں کو جب رہبر گھیر لیتے ہیں تو راہِ جہاں سے گزرنے والے آبلہ پا مسافروں کی کوئی امید بر نہیں آتی اور نہ ہی انھیں بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں چلتے پھرتے ہوئے مُردوں نے بے بس و لاچار انسانیت کا جینا دشوار کر دیا ہے اور زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔معاشرتی زندگی کے تضادات پر غفار بابر کا طنز زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔ایک ظریف الطبع تخلیق کار کی حیثیت سے غفار بار اپنے داخلی کرب کو محض خندۂ استہزامیں نہیں اُڑاتا بل کہ طنز کے وار سے جبر کی دیوار کو منہدم کرنے کا آرزو مند دکھائی دیتا ہے۔اپنے معاشرے کے تضادات پر اس کے طنز کا اہم اور بنیادی مقصد صرف یہ دکھائی دیتا ہے کہ اصلاحِ احوال کی کوئی صورت تلاش کی جائے۔یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ حکومت کفر سے تو قائم رہ سکتی ہے لیکن فسطائی جبر اور نا انصافی کی اسا س پر قائم ہونے والی حکومت ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک ایسی تحریر کے مانند ہے جسے سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے پلک جھپکتے میں نیست و نابود کر کے صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کے وسیلے سے غفار بابر نے ہمیشہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو مطمح نظر بنایا اور اسی فعالیت کو اپنی تخلیقی شخصیت کے فروغ کا وسیلہ بنایا۔

ہم نے جو بویا وہی کاٹا میاں

اپنے کرتوتوں پہ رونا چاہیے

پوچھتی ہے بم دھماکوں کی صدا

قوم کے بچو!کھلونا چاہیے

خود اُگانے اور کھانے کے لیے

حسرتوں کا بیج بونا چاہیے

زبان و بیان پر خلاقانہ دستر س غفار بابر کے اسلوب کا نمایاں وصف سمجھا جاتا ہے۔ صنائع بدائع، رنگ، خوشبواورحسن و خوبی کے جملہ استعارے اس کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں اس کی علمی فضیلت، لسانی مہارت، بصیرت اور ذہن و ذکاوت کی سطحِ فائقہ اس کے اسلوب کو زر نگار بنا دیتی ہے۔گلدستہ ء معانی کو نئے ڈھنگ سے سجانے اور ایک پھُول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے میں وہ جس فنی مہارت کا مظاہرہ کرتا تھا وہ اس کے صاحبِ اسلوب ادیب ہونے کی دلیل ہے۔ اس کی خارجی زندگی کے معمولات، تجربات اور مشاہدات جب اس کے لاشعور ی اور داخلی محرکات سے ہم آہنگ ہو جاتے تواس کا تخلیقی عمل اپنی صد رنگی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا۔ اپنے ترکش میں طنزو مزاح کے تیر لیے ایک کہنہ مشق اور آزمودہ کار ناوک فگن کی طرح وہ مسلسل تیر اندازی میں مصروف رہتا تھا۔معاشرتی زندگی کے تضادات، کجیوں، بے اعتدالیوں، استحصال اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے بتوں پر وہ تیروں کی بو چھاڑ کر دیتا تھا۔ اس کے منفرد اسلوب سے وجدان کی ایک ایسی موثر لہر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جس کے معجز نما اثر سے ہجوم غم کے سیاہ بادل چھٹ جاتے اور قاری دِل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کا حو صلہ محسوس کرتا ہے۔زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ کی راہ میں حائل تمام دشواریوں پر قابو پا لینے کے بعد وہ ہنستا مسکراتا طوفانِ حوادث سے گزر جاتا ہے۔ غفار بابر جیسے ناوک فگن کے اُٹھ جانے کے بعد ظلم و استبدادکے بتوں پر طنز و مزاح کے تیر برسانے والا کہیں دکھائی نہیں دیتا۔غفار بابر نے ہر قسم کی عصبیت، تنگ نظر ی اور کینہ پروری کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔اس کا خیال تھا کہ سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا ذہنی مریض کینہ پروری سے معصوم لوگوں کا جینا دشوار کر دیتے ہیں۔ اس نے واضح کیا کہ کینہ پرور جن ہتھکنڈوں سے لذتِ ایذا حاصل کرتا ہے وہ مظلوم انسانیت کے لیے عقوبت، اذیت اور کرب کا باعث بن جاتے ہیں۔جو کام کینہ پرور اپنے لیے خوش گوار خیال کرتا ہے وہی کام اس کا ہدف بننے والے بے بس انسانوں کے لیے انتہائی ناخوش گوار ثابت ہوتے ہیں۔اُردو کی ظریفانہ شاعری کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو ذہانت اور ذکاوت کا مظہر ایسا اسلوب ہر دور میں قابلِ قدر سمجھا گیا ہے۔

اہلِ زر کی کمین گاہوں میں

نفرت و غم کے ناگ پلتے ہیں

فقر کے بے ریا خرابوں میں

زندگی کے چراغ جلتے ہیں

آج کی بات نہ کل پر کبھی ٹالی جائے

ان سے ملنے کی کوئی راہ نکالی جائے

جو بھی اس در پہ محبت کا سوالی آئے

دامنِ دل نہ کبھی لے کے وہ خالی جائے

اپنے آنچل کے تقدس کا بھرم رکھنے کو

میری پگڑی نہ سرِ راہ اُچھالی جائے

یہ معجزہ بھی جہاں کو دکھا کے بیٹھے ہیں

چراغ دوشِ ہوا پر جلا کے بیٹھے ہیں

نہیں ہے جس کا کوئی اندمال بھی ممکن

وہ زخم گردشِ دوران سے کھا کے بیٹھ ہیں

غفار بابر کو اس بات کا قلق تھا کہ دلوں کے چمن سے بے لوث محبت اور بے باک صداقت کی عطر بیزی اب رخصت ہو چُکی ہے۔ کالا دھن کما کر نو دولتیے بن جانے والے ، منشیات فروش، عقوبت خانے ، چنڈو خانے اور قحبہ خانے کے دادا گیر اور جرائم پیشہ درندے ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں۔ان لرزہ خیز، اعصاب شکن اور مسموم حالات میں مظلوم اور بے بس انسانیت کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ جنسی جنونی، ہوس پرست، ابن الوقت، چڑھتے سورج کے پجاریوں، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں اور کُوڑے ہر عفونت زدہ ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ آوارہ سگانِ راہ سے وہ شدید نفرت کرتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ ما دی دور کی لعنتوں نے زندگی کو ایک ادق زبان بنا دیا جیسے بچے اپنی نصابی کتابوں کے مندرجات کے مفاہیم سے نا آشنا ہیں اسی طرح عام انسان بھی زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کی استعداد سے عاری ہیں۔ اللہ کریم نے غفار بابر کو جس جمالیاتی حس سے متمتع کیا تھا وہ اس کے اسلوب میں واضح دکھائی دیتی ہے۔وہ زندگی کے حسن و جمال کا مداح ہے اور اس کی مہک سے قلبی سوز اور روحانی سکون حاصل کرتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ غفار بابر کی تخلیقی فعالیت کے سوتے حسنِ فطرت کے مظاہر سے پھُوٹتے ہیں۔اس کی ظریفانہ شاعری میں فصیلِ جبر کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کی جو سعی کی گئی ہے وہ قاری کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتی ہے۔طنز کے تیر چلا کر ہر انتہا کو چھلنی کرنا اس کے شگفتہ اسلوب کا نمایاں وصف سمجھا جاتا ہے۔

ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے غفار بابر نے معاشرتی زندگی کے تضادات پر اپنی تشویش کا برملا اظہار کر نے میں کبھی تامل نہ کیا۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں المیہ یہ ہوا کہ دردمند ادیب دُکھی انسانیت کے مصائب و آلام سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے بیان کرنے پر مجبور ہے۔ غفار بار اس صورتِ حال پر بہت دل گر فتہ تھا کہ منزلوں پر ان طالع آزما، مہم جُو اور ابن الوقت استحصالی عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے جو شریک سفر ہی نہ تھے۔وہ اپنے دل کے افسانے جب الفاظ کے قالب میں ڈھالتا تو یہ قاری کے دل میں اُتر جاتے۔اس کا ذوقِ سلیم اور دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی باتیں موثر ابلاغ کو یقینی بنا دیتیں اور تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کی متعدد جہات حقیقی روپ میں سامنے آتیں۔اس کی مستحکم شخصیت کا تلاطم، ندرت تخیل، مد و جزرِ افکار کے گرداب، بھنور اور اشہبِ قلم کی جولانیاں اسے منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہیں۔شدتِ احساس نے اس کے شعور کی رو کو اُس ندرت، تنوع، برق رفتاری اور کاٹ سے آشنا کیا تھا کہ اس کی فنی بصیرت اور جمالیاتی حس کے اعجاز سے اس کا اسلوب نکھرتا چلا جاتا ہے۔ایک علمی و ادبی تقریب میں اس کی ملاقات ایک ایسے مشکوک نسب کے کرگس زادے سے ہو گئی جو اپنے اہلِ خانہ کو سیڑھی بنا کر ایک محل کی بلند چوٹی پر جا بیٹھا اور مسلسل کائیں کائیں کر کے ا نسانیت کی توہین، تذلیل اور تضحیک اس متفنی کا وتیرہ بن گیا۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں رخصت ہو جائے تو مسلسل شکستِ دِل کے باعث بے حسی کا عفریت ہر سُو منڈلانے لگتا ہے اور متعدد سانپ تلے کے ایسے بچھو بُوم، شپر اور زاغ و زغن رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں۔ غفار بابر اس چربہ ساز، سارق، کفن دُزد مسخرے کے قبیح کردار سے واقف تھا اور ہمیشہ اس سے دُور رہتا تھا۔ اُسی ادبی نشست میں اس ابلہ بُزِ اخفش نے غفار بابر سے پُوچھا :

’’آپ کو جدید اردو شاعری کاجو شاعر بہت پسند ہے اس کے چند اشعار سنائیں۔‘‘

غفار بابر نے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیا ’’جدید اردو شاعری میں حریتِ فکر کی روایت کو پروان چڑھانے میں محسن بھوپالی کی شاعری کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔محسن بھوپالی کی کتاب’’ شہر آشوبِ کراچی ‘‘تم جیسے سادیت پسندی کے عارضے میں مبتلا لوگوں کو آئینہ دکھا کر آشوبِ ذات کے پُر پیچ سلسلوں سے آگاہ کرتی ہے۔ ‘‘

’’آپ نے صحیح فرمایا ‘‘مسخرے نے ہنہناتے ہوئے کہا ’’ براہِ کرم محسن بھوپالی کے منتخب اشعار سنائیں جو اس جری شاعر کی حق گوئی اور بے باکی کے نقوش واضح کر دیں۔‘‘

غفار بار نے کہا ’’میں محسن بھوپالی کے یہ شعر تمھاری نذر کرتا ہوں :

جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے

اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے

مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے

کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

یہ اشعار اس کرگس زادے کو پانی پانی کر گئے لیکن اس نے ڈھٹائی سے موضوع کو بدل دیا اور چُلّو بھر پانی میں غواصی کے لیے بے چین ہو گیا۔حسب عادت بے غیرتی، بے ضمیری اور بے حسی کی تصویر بنا وہ سفلہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے رفو چکر ہو گیا :

’’ اس وقت تو مجھے ایک اہم کام کے سلسلے میں لاٹ صاحب کے پاس جانا ہے پھر کبھی تفصیلی ملاقات ہو گی۔‘‘

بُلو، ماڑی اور شاکر میں تھل کے صحرائی علاقے میں گیدڑ، بجو، خرگوش اور لومڑیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہاں حدِ نگاہ تک ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں جنگلی حیات اور نباتات کی روئیدگی کے کہیں آثار دکھائی نہیں دیتے۔ بعض مقامات پر جنڈ، کریریں، پیلوں، اکڑا، بھکڑا، ڈیہلے ، سنجاونا اور پوہلی موجود ہے۔ ناصف کھبال یہاں کا ایک ایسا جعل ساز تھا جس کے باپ نے تو کبھی پِدی نہ ماری تھی لیکن یہ خو دکو بہت بڑا شکاری اور تیر انداز قرار دیتا تھا۔یہ بہروپیا ہر ادبی نشست میں ایک ایسا کوٹ پہن کر آتا جو شیر کی کھال سے مشابہ تھا۔یہ کوٹ اس متفنی نے لُنڈا بازار کے تاجر کی دُکان سے اس وقت اُچک لیا تھا جب وہ سو رہا تھا۔ایک ادبی نشست میں ناصف کھبال اور غفار بابر کا آمنا سامنا ہو گیا۔ جون کی سخت گرمی میں بھی ناصف کھبال شیر کی کھال کا کوٹ پہنے وہاں آ دھمکا۔ناصف کھبال اپنی عادت سے مجبور لا ف زنی پر اُتر آیا اور اپنے منہ میاں مٹھو بن کر بولا :

’’میں پیشہ ور شکاری ہوں، یہ جو کوٹ میں نے پہن رکھا ہے ، یہ شیر کی کھال سے تیار کیا گیا ہے۔یہ شیر میرے دادا مرحوم نے شاکر کے صحرا میں اس وقت مُکوں سے مار گرایا جب یہ شیر کسی خرگوش، چوہے ،   چھپکلی، سانڈے یا گرگٹ کے شکار کی تلاش میں ریت کے ایک ٹیلے کے پیچھے چھُپا، دُم دبا کر مُردوں سے شر ط باندھ کر سویا ہو ا تھا۔ دادا مرحوم نے شیر کو پاؤں کی ٹھوکر مار کر جگایا اور پھر شیر پر ضعیفانہ وار چڑھائی کر کے اس سے گتھم گتھا ہو گئے۔ دادا مرحوم نے عالمِ پیری میں بھی شیر پر گھونسوں، لاتوں اور مُکوں کی بو چھاڑ کر دی بُزدل شیر اس ضعیف مرد کے وار کی تاب نہ لا سکا اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔میرے دادا نے اسی وقت اپنی جیب سے چاقو نکالا اور مردہ شیر کی کھال اُتار کر پہن لی، شیر جو ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اس پر ریت ڈالی اور اس ریت کے اس ڈھیر کے نیچے پڑے شیر پر حسرت بھری کم زور نگا ڈالی اور خراماں خراماں گھر آ گئے۔ اس کے بعد دادا مرحوم کی بہادری کی دھاک بیٹھ گئی۔ ‘‘

غفار بار نے یہ بے سروپا باتیں بڑے صبر و تحمل سے سُنیں اور کہا:

’’مجھے اس وقت اردو زبان کی کلاسیکی شاعری کے نامور شاعر مرزا سودا کا وہ شعر یاد آ رہا ہے جواسی نوعیت کے واقعے کی یاد دلاتا ہے۔لکھنو کے ایک نواب نے بھِیلوں کے علاقے میں واقع گھنے جنگل میں ایک آدم خور خونخوار شیر کو ہلاک کیا تو سودا نے کہا:

یارو !یہ ابنِ مُلجم پیدا   ہوا       دوبارہ

شیِر خدا کو جس نے بھِیلوں کے بن میں مارا

تمھارے دادا نے جس چوہا خور شیر کو مارا شاید وہ سرکس کا شیر ہو گا۔سرکس کی عقوبت، اذیت، بھُوک اور مار پیٹ نے جس کی شیرانہ خُو ختم کر دی تھی اسی لیے تو وہ چند ٹھوکریں کھا کر زینۂ ہستی سے اُتر گیا۔ تم اس شعر میں بھِیلوں کو بدل کر حسب حال بنا سکتے ہو۔

تلمیحات اور ان میں نہاں گنجینۂ معانی کے طلسم سے نا آشنا ناصف کھبال یہ باتیں سُن کر خوشی سے پھُول کر کپا ہو گیا اور ہنہناتے ہوئے یوں ہرزہ سرائی کی:

یارو ! یہ اِبنِ مُلجم پیدا ہو ا   دوبارہ

شیرِ خدا کو جس نے شاکر کے بن میں مارا

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ غفار بابر کو قدرتِ کاملہ کی طر ف سے جو بصیرت عطا ہوئی تھی، اس کے اعجاز سے وہ حالات کی پیش بینی کی صلاحیت سے متمتع ہوا۔ وہ ایک عابد و زاہد، متقی اور پرہیز گار انسان تھا اس لیے لوگ اس سے دعا کی استدعا کرتے تھے۔وہ ایام کا مرکب نہیں بل کہ ایام کا ایک ایسا راکب تھا جو مہر و مہ و انجم کے محاسب کا کردار بھی ادا کرتا تھا۔ آئینہ ء ایام میں وہ سب لوگوں کی کارگزاری اور ان کی شامت اعمال کے بارے میں جو پیش گوئی کرتا وہ حرف بہ حر ف درست ثابت ہوتی۔اس کی فغانِ صبح گاہی پر مبنی دعائیں جو درد مندوں، ضعیفوں اور مظلوموں کے حق میں دل کی گہرائیوں سے نکلتیں وہ خالقِ کائنات کے حضور منظور ہو جاتی تھیں۔ ٹاہلی کے علاقے میں مُراد نامی ایک فرعون نے غریبوں اور مزارعوں پر عرصۂ حیا ت تنگ کر دیا۔اس شقی القلب درندے کی بے رحمانہ مشقِ ستم اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث مظلوم انسانیت کی زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر ہو کر رہ گئیں۔اس کا ذکر چلا تو غفار بابر نے بے ساختہ کہا کہ ایسے لوگ بالآخر نا مرادانہ زیست کرتے ہیں، یہ شخص نا مراد ہی رہے گا۔چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ منشیات، سٹے بازی، قحبہ خانوں اور جوئے میں مرادسب کچھ ہار گیا۔اس کی اہلیہ باقی زر و مال سمیٹ کر ایک مزارع کے ساتھ فرا ر ہو گئی اور ہر طرف نحوست، بے برکتی اور خجالت کے کتبے آویزاں ہو گئے۔ اب ٹاہلی کے پُورے علاقے میں مُراد کو مانگنے پر بھیک بھی نہیں ملتی۔ٹھٹہ میں ورکنگ ویمن ہاسٹل میں مقیم خواتین اس ہاسٹل کی مہتمم شباہت ثمر نامی ایک ڈھڈو کٹنی سے عاجز آ گئیں۔اگست 2004میں اس ہاسٹل میں یوم آزادی کے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مشاعرے میں غفار بابر کو بھی بلایا گیا۔شباہت ثمر نے مشاعرے کی اجازت نہ دی اور مشاعرے کی رات ورکنگ ویمن ہاسٹل کی بجلی اور پانی کی سپلائی روک دی۔غفار بابر اس صورت حال کو دیکھ کر بہت دُکھی تھا۔خواتین کی پریشانی پر اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ان اعصاب شکن حالات کے باوجود سب حاضرین نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، پانی اور بجلی کا متبادل انتظام کیا گیا اور مشاعرے کی انتظامیہ اس ایثار اور صبر و تحمل کے بعد وطن، اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ نبھانے میں کامیاب ہو گئی۔اس موقع پر غفار بابر نے کہا:

’’   ورکنگ ویمن ہاسٹل کی کرتا دھرتا جس خاتون نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے رحمی سے خواتین اور بچوں کا پانی بند کیا ہے مجھے تو یہ خاتون شباہتِ شمر محسوس ہوتی ہے۔ عورتوں، بچوں اور تشنہ لبوں کا پانی بند کر کے اس نے اپنے جدِ امجد شمر کی یا د تازہ کر دی ہے۔نظامِ کہنہ کی گرتی ہوئی عمارت کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے والے یا د رکھیں کہ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد یہ سب کرو فر خاک میں مِل جائے گا۔‘‘

چھے ماہ کے بعد ایک چھاپے کے دوران شباہت ثمر کے دفتر سے بڑی مقدار میں منشیات اور ناجائز اسلحہ بر آمد ہوا۔سب درندے پسِ دیوارِ زنداں تھے ، ان کا سب ٹھاٹ پڑا رہ گیا اور سب گھسیارے اپنی دکان بڑھا گئے۔ اب شباہت ثمر اور کے پروردہ عشاق کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔

بدھوانہ کا ایک متشاعر جس کا نام حیات چمار تھا اس قدر بے حس تھا کہ اس نے مرگ آفرین قوتوں کا آلۂ کاربن کر زیرک تخلیق کاروں کی اُمیدوں کی فصل غارت کر دی اور حساس ادیبوں کی اصلاح معاشرہ اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کے سلسلے میں سب محنت اکارت جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ لوگ اسے حیات حمار کے نا م سے پُکارتے اور یہ نا ہنجار اپنا یہ بگڑا ہوا نام سن کر بھی ٹس سے مس نہ ہوتا۔ وجھلانہ شہر کے ڈُوم، ڈھاری، بھانڈ، بھڑوے ، مسخرے ، لُچے ، شہدے ، اُچکے ، رجلے ، خجلے اور بھگتے سب اس کے شریکِ جرم ہم نوالہ ا ور ہم پیالہ تھے۔یہ متفنی، غبی اور خسیس متشاعر ہر مشاعرے میں بِن بلایا پہنچ جاتا اوراس کے ساتا روہن اس کی تُک بندی سن کر اسے بے تحاشا داد دیتے ہر طرف سے واہ !حیات واہ !کے اس قدر فلک شگاف نعرے بُلند ہوتے کہ کان پڑی آواز سُنائی نہ دیتی۔ یہ اُجرتی بد معاش صرف حیات حمار کی بے جا تعریف پر اکتفا نہ کرتے بل کہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کہنہ مشق اور بزرگ شعرا کی بلا وجہ تضحیک اور دشنام طرازی بھی کرتے۔ یہ پیشہ ور مسخر ے سنجیدہ تخلیق کار کا جینا دشوار کر دیتے اور ان کی لاف زنی سے ہر شخص ذہنی اذیت اور روحانی کرب میں مبتلا ہو جاتا۔ ایک مشاعرے میں غفار بابر نے جب ان جعل سازوں کی ہُلڑ بازی اور تحسین نا شناس کی کیفیت دیکھی تو بر ملا کہا :

’’ متشاعر حیات کے حامی سب لوگ صحیح کہہ رہے ہیں، صرف سمجھنے کا فرق ہے۔حیات کے جوڑ کریں یہاں حیات کا جوڑ حلوائی والے ’’ح‘‘ نہیں بل کہ دوسرے یعنی ہاتھی والے ’’ ہ‘‘ سے کیا گیا ہے۔اس ہذیان گو شاعر حیات حمار کے بارے میں جو نعرے لگائے جا رہے ہیں وہ نعرے یوں ہیں :

واہیات! واہ، واہیات! واہ

مزاح میں زبان و بیان کی بازی گری بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔اسی اسلوب کو اس تحریف میں برتا گیا ہے ، یہ سن کر محفل کشت زعفران میں بدل گئی اور سب مسخرے دُم دبا کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔

اپنی عمل زندگی میں غفار بابر نے مقدور بھر کوشش کی کہ قارئین ادب کو معاشرتی زندگی کے تضادات سے آگاہ کیا جائے اور ان کے بارے میں اعتدال پر مبنی سوچ کو پروان چڑھانے کی مساعی کو آگے بڑھایا جائے۔ زندگی کی جمالیاتی اور اخلاقی اقدار کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر غفار بابر نے نہ صرف زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کر نے کی سعی کی بل کہ ادب کے وسیلے سے تہذیبی، ثقافتی، روحانی اور انسانی اقدار و روایات کے تحفظ پر بھی اصرار کیا۔اسے اس بات کا پُختہ یقین تھا کہ انسانیت کے وقار اور سر بُلندی کے لیے ان اقدار عالیہ کا تحفظ نا گزیر ہے۔حیف صد حیف اجل کے بے رحم ہاتھوں نے بزم ادب کے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کی بھینٹ چڑھا دیا۔دکھی انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کرنے والا ادیب ہماری بزم وفا سے کیا اُٹھاکہ درو دیوار حسرت و یاس کی تصویرپیش کر ر ہے ہیں۔اس کی رحلت کے بعد درد کی جو ہوا چلی ہے اس کی وجہ سے تنہائیوں کا زہر رگ وپے میں سرایت کر گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ غفار بابر کے الفاظ زندہ رہیں گے۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے وہ اندھیروں کی دسترس سے دُور سدا روشنی کے مانند سر گرمِ سفر رہے گا۔اس کا ہر نقشِ پا ہمالہ کی رفعت کا مظہر ہے۔اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس زیرک تخلیق کار کے افکار میں سمندر کی سی بے کرانی تھی۔خورشیدِ جہاں تاب کبھی غروب نہیں ہوتا وہ تو کسی اور اُفق پر ضو فشاں ہونے کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔غفار بابرکاسدا بہار اسلوب اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔پروین شاکر نے سچ کہا تھا :

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھُلا ہی دیں گے

لفظ میرے ، میرے ہونے کی گواہی دیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

مجید امجد:ہے جس کے لمس میں ٹھنڈک، وہ گرم لو ترا غم

 

 

مجید امجد 29جون 1914کو جھنگ میں پید ا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا۔ان کا خاندان پورے علاقے میں معزز و محترم تھا۔ ا ن کی عمر صرف دو سال تھی جب ان کی ماں اور والد میں خاندانی تنازع کے باعث علیحدگی ہو گئی۔ان کی والدہ انھیں لے کر اپنے میکے چلی آئی اور اپنے لخت جگر کی پرورش کرنے لگی۔مقامی مسجد کے خطیب سے انھوں نے عربی اور فارسی زبان کی استعداد حاصل کی۔ممتاز ماہر تعلیم رانا عبدالحمید خان کے ان کے خاندان سے قریبی مراسم تھے۔مجید امجد کی تعلیم و تربیت ان کے ننھیال میں ہوئی۔اسلامیہ ہائی سکول جھنگ صدر سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ تاریخی تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج جھنگ میں داخل ہوئے اور یہاں سے انٹر میڈیٹ کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔گورنمنٹ کالج جھنگ کی علمی و ادبی فضا نے ان کی ادبی صلاحیتوں کو صیقل کیا۔جھنگ میں اس زمانے میں کوئی ڈگری کالج نہ تھا اس لیے وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخل ہوئے اور 1934میں بی۔اے کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد وہ جھنگ آ گئے اور یہاں کے مقامی مجلے ’’ ہفت   روزہ عروج ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو گئے۔انھوں نے 1939کے وسط تک بہ حیثیت مدیر ’’   ہفت روزہ عروج جھنگ ‘‘ میں خدمات انجام دیں۔اس زمانے میں پورا بر صغیر برطانوی استبداد کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔تاجر کے روپ میں آنے والے ایسٹ انڈیا کمپنی کے شاطر جو 1857سے تاج ور بن چکے تھے یہاں کے بے بس عوام کے چام کے دام چلا رہے تھے۔ 1939میں جب دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو غاصب برطانوی حکم رانوں نے اپنی جنگ میں بر عظیم پاک و ہند کے مظلوم عوام کو بھی جھونک دیا۔یہاں کے بے بس عوام پہلی عالمی جنگ کے زخم خوردہ تھے۔اب اس نئی افتاد سے ان پر جو کوہ الم ٹوٹا اس نے ان کو یاس و ہراس میں مبتلا کر دیا۔ہوائے جور و ستم کی اس مہیب رات میں بھی حریت فکر کے مجاہدوں نے رخ وفا کو بجھنے نہ دیا۔مجید امجد نے ہفت روزہ عروج جھنگ کے مدیر کی حیثیت سے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا اور حریت ضمیر سے جینے کے لیے ہمیشہ اسوۂ شبیر کو زاد راہ سمجھا۔مجید امجد کی ادارت میں مجلہ عروج نے بہت ترقی کی اور اس کی اشاعت میں بھی بہت اضافہ ہوا۔یہ مجلہ با ذوق قارئین ادب کے پاس ڈاک کے ذریعے جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، شورکوٹ، چنیوٹ، کبیر والا، خانیوال، عبدالحکیم، مظفر گڑھ، فیصل آباد، بھکر، میاں والی، خوشاب، گڑھ مہاراجہ اور سرگودھا کے دور دراز مقامات تک ارسال کیا جاتا تھا اور اسے نہایت دلچسپی سے پڑھا جاتا تھا۔اس مجلے کی مقبولیت کا سبب یہ تھا کہ اس میں مجید امجد کے تجزیاتی اور تنقیدی مضامین، ادب پارے ، حالات حاضرہ پر تبصرے اور شاعری کی اشاعت کا سلسلہ مسلسل جاری تھا۔مجید امجد نے تیشہ ء حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔مجید امجد نے اپنی تحریروں سے قارئین میں عصری آگہی پیدا کی اور عوام میں حالات حاضرہ کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی سعی کو اپنا نصب العین بنایا۔خاص طور پر جلیاں والا باغ، موپلوں کی جد و جہد، بھگت سنگھ کے جذبۂ آزادی، حادثہ مچھلی بازار کان پور جیسے موضوعات پر عروج میں نظم و نثر کی جو تخلیقات شامل اشاعت ہوئیں ان سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ظالم و سفاک، موذی و مکار استبدادی و استحصالی قوتیں اور مفاد پرست، ابن الوقت بیوروکریسی نے اس مجلے کی انتظامیہ کو اپنی انتقامی کارروائیوں سے ہراساں کرنا شروع کر دیا۔دوسری عالمی جنگ میں جب برطانوی حکومت نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اس خطے کے مظلوم اور بے بس و لاچار عوام کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا تو مجید امجد نے اس کے خلاف ایک نظم لکھی جو عروج کے صفحہ اول پر شائع ہوئی۔ اس نظم میں انھوں نے اپنے رنج و غم اور عوامی غیظ و غضب کو اشعار کے قالب میں ڈھالا۔اس نظم کی اشاعت پر مقتدر برطانوی حلقے بہت سیخ پا ہوئے اور مجید امجد کو عروج کی ادارت سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا۔ایک زیرک، فعال، مستعد اور حریت فکر کے مجاہد سے متاع لوح و قلم چھین کر اور آزادیِ اظہار پر قدغن لگا کر فسطائی جبر نے یہ سمجھ لیا کہ اب ان کے اقتدار کی راہ میں کوئی حائل نہیں ہو سکتا مگر وہ تاریخ کے مسلسل عمل سے بے خبر تھے۔اگر زبان خنجر خا وش بھی رہے تو بھی آستین کا لہو پکار پکار کر ظلم کے خلاف دہائی دیتا ہے۔مجید امجد نے ظلم کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا اور کسی مصلحت کی پروا نہ کی اور عزت و وقار کے ساتھ مجلے کی ادارت سے علیحدگی کے بعد گھر چلے آئے۔ ایک بار پھر بے روزگاری کے جان لیوا صدمات اور جانگسل تنہائیوں کے ہولناک لمحات نے اس حساس تخلیق کار کو اپنے نرغے میں لے لیا۔کچھ عرصہ بعد انھیں ڈسٹرکٹ بورڈ جھنگ میں کلرک کی حیثیت سے نوکری مل گئی اور اس طرح انھوں نے اپنی انا پسندی، سفید پوشی اور خود داری کا بھرم بر قرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔در کسریٰ پہ صدا کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا وہ جانتے تھے کہ یہ جامد و ساکت کھنڈر اس قابل نہیں کہ انسانیت کے مسائل پر توجہ دے سکیں۔مجید امجد کی شادی 1939 میں اپنے چچا کی بیٹی سے ہوئی۔یہ خاتون گورنمنٹ ہائی سکول برائے طالبات جھنگ صدر میں ایلیمنٹری سکول ٹیچر تھیں۔تقدیر کا المیہ یہ ہے کہ یہ قدم قدم پر انسانی تدبیروں کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔مجید امجد کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا۔ان کی یہ شادی کامیاب نہ ہو سکی اور اس کے بعد جدائی کا ایسا غیر مختتم سلسلہ شروع ہو ا جس نے مجید امجد کو خود نگر اور تنہا بنا دیا۔مسلسل اٹھائیس سال تک ان کے درمیان ربط کی کوئی صور ت پیدا نہ ہو سکی۔مجید امجد کی کوئی اولاد نہ تھی، انھوں نے اپنے بھائی عبدالکریم بھٹی (M.Sc. Math)کی بیٹی نوید اختر کی پرورش کی اور اس ہونہار بچی کو اپنی بیٹی قرار دیا۔اب یہ خاتون فزکس میں M. Scکر کے ایک سرکاری ڈگری کالج میں بہ حیثیت پر نسپل خدمات انجام دے رہی ہیں۔ا ن کے شوہر پروفیسر غلام عباس کا شعبہ کیمسٹری ہے۔ ان سے میری ملاقات ہوئی، نہایت خوش خصال، وضع دار، مہمان نواز اور شرافت کے پیکر اور توقیر کی مجسم صورت ہیں۔ان کے کمرے میں میز پر ایک گل دان رکھا تھا جس میں مختلف رنگوں کے گلاب کے پھول سجے تھے۔سامنے دیوار پر ایک خوب صورت فریم میں مجید امجد کی تصویر اور ان کی نظم’’ گلاب کے پھول ‘‘ آویزاں دیکھ کر بے اختیار آنکھیں پر نم ہو گئیں۔یہ شعر پڑھا تو گریہ ضبط کرنا محال ہو گیا :

کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد                   مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

حکومت پاکستان نے 1944میں خوراک اور غذائی اجناس و ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے محکمہ خوراک کے قیام کا اعلان کیا۔مجید امجد نے محکمہ خوراک کی بھرتی کا امتحان پاس کیا اور اس محکمے میں ملاز م ہو گئے۔محکمہ خوراک میں ملازمت کے سلسلے میں وہ پاکستان کے جن اہم شہروں میں تعینات رہے ان میں لائل پور (موجودہ فیصل آباد)، مظفر گڑھ، گوجرہ، راول پنڈی، لاہور اور منٹگمری (موجودہ ساہیوال)شامل ہیں۔وہ جہاں بھی گئے وہاں علمی و ادبی محفلوں کے انعقاد میں گہری دلچسپی لی۔ مجید امجد کو ان کی زندگی میں وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کے وہ یقینی طور پر مستحق تھے۔ذرائع ابلاغ نے ان کو بالکل نظر انداز کر رکھا تھا۔ادب کی ترویج و اشاعت پر مامور مقتدر حلقوں کی مجرمانہ غفلت نے کئی جوہر قابل گوشہ ء گم نامی کی جانب دھکیل دئیے۔ہمارا معاشرہ قحط الرجال کے باعث بے حسی کا شکار ہو چکا ہے۔یہاں جاہل کو تو اس کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے مگر اہل کمال کی توہین، تذلیل، تحقیر اور بے توقیری کے لرزہ خیز، اعصاب شکن واقعات کو دیکھ کر وقت کے ان حادثات کو کوئی نام دینا بھی ممکن نہیں۔مجید امجد نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو اپنا نصب العین بنا یا۔وہ حالات سے اس قدر دل برداشتہ اور مایوس ہو چکے تھے کہ ان کی توقع ہی اٹھ گئی۔نہ وہ کوئی حکایتیں بیان کرتے اور نہ ہی کسی سے انھیں کسی قسم کی کوئی شکایت تھی۔اپنے غم کا بھید انھوں نے کبھی نہ کھولا۔ایک شان استغنا سے زندگی بسر کی اور ان کی زندگی کے دن کشمکش روزگار میں کٹتے چلے گئے ، موہوم بہاروں کی آرزو میں ان کا دم گھٹنے لگا ان کی کوئی امید بر نہ آئی اور نہ ہی انھیں اصلاح احوال کی کوئی صور ت دکھائی دی۔زندگی کا زہر پی کر ایک پل کے رنج فراواں میں کھو جانے والے اس جری تخلیق کار کو زمانے نے بڑی بے دردی سے اپنی ناقدری کی بھینٹ چڑھا دیا۔وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا اور پھر اس حساس شاعر نے اپنی محرومیوں، تنہائیوں اور دکھوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔صبر کی روایت میں انھوں نے لب کبھی وا نہ کیے۔نامور ادیب اور دانش ور انتظار حسین نے ارباب اختیار کو مطلع کر دیا تھا کہ مجید امجد کے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز نا ا نصافیاں اور بے رحمانہ غفلت اس کی زندگی کی شمع بجھا سکتی ہے۔پھر حادثہ ہو کے رہا چشم کا مرجھا جانا۔مجید امجد کو تنہائیوں نے ڈس لیا وہ ساہیوال میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ مجید امجد نے 11مئی1974کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔اس کے ساتھ ہی جدید اردو نظم کا ایک تابندہ ستارہ افق ادب سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔اخلاقی، تہذیبی، ثقافتی اور انسانی اقدار کا عظیم ترجمان ہمیشہ کے لیے پیوند خاک ہو گیا۔حیف صد حیف کہ ایک ایسا رباب اجل کے ہاتھوں ٹوٹ گیا جس نے ہجوم یاس میں بھی دل کو سنبھال کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کی تلقین کی مگر اس سے پھوٹنے والے نغمے تا ابد دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو کر اردو نظم کو نئے امکانات سے آشنا کرتے رہیں گے۔مجید امجد کی نظم گوئی ایک کھلا ہوا امکان ہے اس کے سوتے بے لوث محبت اور بے باک صداقت سے پھوٹتے ہیں۔ان کی شاعری دور غلامی سے لے کر طلوع صبح آزادی تک کی مسافت کی تمام راہوں کی آئینہ دار ہے۔تخلیق فن کی یہ مسافت ایک درخشاں عہد کی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔مجید امجد نے اپنے ذاتی تجربات، احساسات اور مشاہدات کو ایک ذاتی تحریک کے اعجاز سے حدود زمان و مکاں سے آگے پہنچانے کی سعی کی ہے۔یہ لہجہ مقامی نہیں بلکہ ایک آفاقی نوعیت کا حامل دکھائی دیتا ہے۔

کیا روپ دوستی کا، کیا رنگ دشمنی کا                     کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا

آخر کوئی کنارا، اس سیل بے کراں کا                   آخر کوئی مداوا، اس درد زندگی کا

اس التفات پر ہوں لاکھ التفات قرباں                 مجھ سے کبھی نہ پھیرا رخ تو نے بے رخی کا

او مسکراتے تارو، او کھلکھلاتے پھولو                     کوئی علاج میری آشفتہ خاطری کا

مجید امجد کا پہلا شعری مجموعہ ’’ شب رفتہ‘‘1958میں شائع ہوا۔ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’شب رفتہ کے بعد ‘‘1976میں شائع ہوا۔مجید امجد کی تمام شاعری پر مشتمل ’’کلیات مجید امجد ‘‘ کی اشاعت 1989میں ہوئی۔مجید امجد کی شاعری کو علمی و ادبی حلقوں کی طرف سے زبردست پذیرائی ملی۔انھیں تمام پاکستانی زبانوں کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی اور ہندی پر عبور حاصل تھا۔وہ تراجم کے ذریعے دو تہذیبوں کے مابین ربط کی ایک صورت پیدا کرنے کے متمنی تھے۔وہ چاہتے تھے کہ عالمی کلاسیک کے تراجم کے ذریعے تخلیق ادب اور زبان کی توسیع کے عمل کو مہمیز کیا جائے۔اس تمام عمل کے معجز نما اثر سے وسعت نظر پیدا ہو گی اور ادب میں آفاقیت کا عنصر نمو پائے گا۔انھوں نے عالمی ادبیات کا وسیع مطالعہ کیا تھا انھوں نے انگریزی ادب اور امریکی ادب کی نمائندہ شعری تخلیقات کو ترجمے کے ذریعے اردو کے قالب میں ڈھالنے کی ضرورت پر زور دیا۔اس سلسلے میں ان کی مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔اپنی شاعری کے ذریعے فلسفیانہ مسائل کی گہرائی اور وسعت سے قاری کو آشنا کرنے میں ان کے متنوع تجربات ان کی انفرادیت کے مظہر ہیں۔ان کی بات دل کی ا تھاہ گہرائیوں سے نکلتی ہے اور قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے۔ان کی شاعری ان کے ذوق سلیم کی عکاس بھی ہے اور اس کے اعجاز سے تہذیب و تمدن کی بالیدگی کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اسے لا زوال بنا دیتے ہیں۔مثال کے طور پر ان کی نظم مقبرہ ء جہانگیر فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہے۔اس نظم کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے اس میں شاعر نے نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ زندگی اور اس کی مقتضیات کے بارے میں اپنے سوز دروں کا احوال بیان کیا ہے۔

مر مریں قبر کے اندر۔۔تہہ ظلمات کہیں

کرمک و مور کے جبڑوں میں سلاطیں کے بدن !

کوئی دیکھے ، کوئی سمجھے تو اس ایواں میں، جہاں

نور ہے ، حسن ہے ، تزئین ہے ، زیبائش ہے

ہے تو بس ایک بجھی روح کی گنجائش ہے

تم نے دیکھا کہ نہیں، آج بھی ان محلوں میں

قہقہے ، جشن مناتے ہوئے نادانوں کے

جب کسی ٹوٹتی محراب سے ٹکراتے ہیں

مرقد شاہ کے مینار لرز جاتے ہیں

مجید امجد کی زندگی اور معمولات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ان کے نہاں خانۂ دل میں محبت کی کمی کے جذبات شدت اختیا ر کر گئے تھے۔ان کے دل میں ایک تمنا تھی کہ وہ کسی سے ٹوٹ کر محبت کریں اور اس طرح اپنی نا آسودا خواہشات کی تکمیل کی کوئی صور ت تلاش کر سکیں۔ در اصل وہ محبت کے وسیلے سے اپنی جذباتی تشنگی کی تسکین کے آرزومند تھے۔انھیں یقین تھا کہ خلوص، ایثار، درد مندی، وفا اور بے لوث محبت کے ذریعے ایک فرد اپنی ذات کی تکمیل کر سکتا ہے اور زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم پر قادر ہو سکتا ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سچی محبت کرنے والا بالواسطہ طور پر زندگی کی اقدار عالیہ کو فروغ دیتا ہے۔مجید امجد نے محبت کو جذبہ ء انسانیت نوازی کے حوالے سے دیکھا۔مجید امجد کی زندگی میں ایک جرمن خاتون ’’شالاط ‘‘نے محبت کے جذبات کو مہمیز کیا۔یہ 1958کا واقعہ ہے جب شالاط ساہیوال آئی اس خاتون کو عالمی ادبیات، فنون لطیفہ اور آثار قدیمہ سے گہری دل چسپی تھی۔وہ ساہیوال کے قریب واقع ہڑپہ کے کھنڈرات دیکھنے آئی تھی۔اس موقع پر اس کی ملاقا ت مجید امجد سے ہوئی۔مجید امجد کی شاعری اس کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر گئی۔مجید امجد اور شالاط کی یہ رفاقت 83دنوں پر محیط ہے مگر اس عرصے میں وہ دل کی بات لبوں پر لانے سے قاصر رہے۔لفظ سوجھتے تو معانی کی بغاوت سد سکندری بن کر اظہار کی راہ میں حائل ہو جاتی۔مجید امجد نے شالاط کو کوئٹہ تک پہنچایا اور اسے خدا حافظ کہا اس آس پر کہ جانے والے شاید لوٹ آئیں لیکن شالاط نے تو جا کر مستقل جدائی مجید امجد کی قسمت میں لکھ دی۔تقدیر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں انسانی تدبیر کسی طور بھی ان کو بدل نہیں سکتی۔تقدیر اگر ہر لمحہ ہر آن انسانی تدابیر کی دھجیاں نہ اڑا دے تو اسے تقدیر کیسے کہا جا سکتا ہے۔شالاط کی مستقل جدائی نے مجیدامجد کی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ان کی شاعری پر بھی اس کا واضح پرتو محسوس ہوتا ہے مجید امجد کی یہ نظم جو 22نومبر 1958کو شالاط کی جدائی کے موقع پر کوئٹہ میں لکھی گئی لکھی گئی ایک حساس شاعر کے سوز دروں اور قلبی کیفیات کی مظہر ہے۔

برس گیا بہ خرابات آرزو، ترا غم

قدح قدح تری یادیں سبو سبو، ترا غم

ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا

مہک رہا تھا زمانے میں کو بہ کو، ترا غم

غبار رنگ میں رس ڈھونڈتی کرن تری دھن

گرفت سنگ میں بل کھاتی آب جو، ترا غم

ندی پہ چاند کا پرتو ترا نشان قدم

خط سحر پہ اندھیروں کا رقص، تو، ترا غم

ہے جس کی رو میں شگوفے ، وہ فصل، تیرا دھیان

ہے جس کے لمس میں ٹھنڈک، وہ گرم لو، ترا غم

نخیل زیست کی چھاؤں میں نے بہ لب تری یاد

فصیل دل کے کلس پر ستارہ جو، ترا غم

طلوع مہر، شگفت سحر، سیاہیِ شب

تری طلب، تجھے پانے کی آرزو، ترا غم

نگہ   اٹھی تو زمانے کے سامنے ، ترا روپ

پلک جھکی تو مرے دل کے رو بہ رو، ترا غم

مجید امجد کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ مجید امجد کے دل میں شالاط کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کے جذبات مسلسل پروان چڑھتے رہے۔مجید امجد کی شاعری میں اس دور کے تجربات، احساسات اور مشاہدات پوری قوت اور شدت کے ساتھ موجود ہیں وہ اپنی نفسی کیفیات اور محسوسات کو پورے خلوص اور دیانت سے اشعار کے قالب میں ڈھالتے چلے گئے۔اپنی داخلی کیفیات اور سوز دروں کو وہ جس دردمندی کے ساتھ پیرایۂ اظہار عطا کرتے ہیں وہ قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے مزین ہے۔ان کے کلام میں جذبات اور احساسات کی شدت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ شالاط کے لیے مجید امجد نے پھول کا استعارہ کئی مقامات پر استعمال کیا ہے۔ان کی شاعری میں شالاط کے حوالے سے متعدد مقامات پر نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔کہیں وہ اسے عنبر دیاروں کی پر جلی تتلی کی اڑان سے تعبیر کرتے ہیں تو کہیں گلاب کے پھول اس کا عکس بن جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اس موضوع پر متعدد علامات کا استعمال ہوا ہے۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ تمام علامات ایک ایسے نفسیاتی کل کا روپ دھار لیتی ہیں جن کے اعجاز سے مجید امجد کے لا شعور کی تما م صلاحیتیں اشعار کے قالب میں ڈھل کر صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر سفر درد، کھنڈر، نگاہ باز گشت، میونخ، سنگت، ریلوے سٹیشن، کوہ بلند، جیون دیس اور ایک شبیہ کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔شالاط کی جدائی مجید امجد کے لیے شام الم ثابت ہوئی جس نے ان کی روح کو زخم زخم اور پورے وجود کو کرچی کرچی کر دیا۔ جب مجید امجد کا سایہ بھی ان کا اپنا سایہ نہ رہا تو شالاط کی یادوں کی شمعیں فروزاں کر کے زندگی کے دن پورے کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ان کی زندگی کراہتے لمحوں میں ڈھل گئی موج اشک نے امید کی شمع کو گل کر دیا۔ساز گلستاں کو مضراب خار سے چھیڑنے والوں نے انھیں حد درجہ آزردہ کر دیا۔مہجور یادیں ان کے لیے سوہان روح بن گئیں۔مجید امجد کا غم ہستی ہر وقت درد محبت سے الجھتا رہا۔جب بھی شالاط کی یاد آتی وہ ایام گزشتہ کی کتاب کے صفحات کی ورق گردانی میں مصروف ہو جاتے۔جب بھی شالاط کی جدائی کے زخم بھرنے لگتے وہ کسی نہ کسی بہانے اس غم کی یاد تازہ رکھنے کی خاطر اسے کثرت سے یاد کرنے لگتے۔محبت کے وسیلے سے خود کو فروغ دینے کی یہ انوکھی کاوش تھی۔کسی کو چاہنے کی آرزو میں چاندنی راتوں میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومتے رہتے مگر بچھڑنے والے کب واپس آتے ہیں۔اس محبت نے ان کو کبھی نہ ختم ہونے والے غم و حزن کے جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ان کی نظم ’’ کون دیکھے گا ‘‘جو 3جون 1966کو لکھی گئی اس کے پس منظر میں شالاط کی جدائی کے لاشعوری محرکات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

جو دن کبھی نہیں بیتا، وہ دن کب آئے گا

انھی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے

میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا

ہزار چہرے خود آرا ہیں کون جھانکے گا

مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا

سمے کے سم کے ثمر نے مجید امجد کی زندگی کو مسموم کر دیا اور محبت کی ناکامی نے ان کا سکون قلب معدوم کر دیا۔اپنی سوچ کی بے حرف لو کو فروزاں کیے ہوئے نا آسودا خواہشات اور حسرتوں کی شعاعوں کے چیتھڑے زیب تن کیے نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتے ہوئے یہ حساس شاعر لمحہ لمحہ وقت کی تہہ میں اتر گیا اور یوں قلزم خوں پا ر کر گیا۔مجید امجد کی شاعری میں وقت کی برق رفتاری اور بدلتے ہوئے رویوں کا احوال بڑی مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔صحرائے زندگی کی کٹھن مسافت فرد کو تن تنہا طے کرنا پڑتی ہے۔عمر بھر کوئی بھی تعلق نہیں نبھا سکتا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترجیحات اور خیالات میں تغیر و تبدل رونما ہوتا رہتا ہے۔مجید امجد کی زندگی میں قناعت، اطاعت خداوندی اور چاہت کے جذبات کے امتزاج سے ایک دھنک رنگ منظر نامہ قلب و نظر کو مسحور کر دیتا ہے۔شب فراق اور خلوت غم کی اعصاب شکن کیفیات میں وہ اپنے جذبات و احساسات کو پورے خلوص کے سا تھ اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں :

گہرے سروں میں عرض نوائے حیات کر

سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر

یہ دوریوں کا سیل رواں، برگ نامہ، بھیج

یہ فاصلوں کے بند گراں، کوئی بات کر

آ ایک دن، مرے دل ویراں میں بیٹھ کر

اس دشت کے سکوت سخن جو سے بات کر

امجد نشاط زیست اسی کشمکش میں ہے

مرنے کا قصد، جینے کا عزم، ایک ساتھ کر

مجید امجد کی شاعری میں واقعہ کربلا کو حریت فکر کے ایک ایسے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس نے قیامت تک کے لیے استبداد کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی راہ دکھائی۔مقام شبیری کو وہ حقیقت ابدی قرار دیتے تھے جب کہ کوفی و شامی پیہم انداز بدلتے رہتے ہیں۔مجید امجد کے شعری تجربات میں کاروان حسینؓ کے مسافروں اور جاں نثاروں کا عظیم الشان کردار اور وفا ایک وجدانی کیفیت کی حامل ہے۔مجید امجد کے روحانی اور وجدانی تجربات نے اس واقعہ کے بارے میں عقیدت اور تسلیم کی منفرد صورت پیش کی ہے۔مجید امجد نے شام، دمشق، بصرے اور کوفے کو علامتی انداز میں پیش کیا ہے۔کربلائے عصر میں ان شہروں کا وجود آج بھی قاری کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔کاروان حسین ؓ کو آج بھی صعوبتوں کا سفر درپیش ہے جب کہ وقت کے شمر اور یزید آج بھی چین سے مسند نشین ہیں۔اس دشت ستم کو پھر کسی حسین ؓکا انتظار ہے تا کہ آگ انداز گلستاں پیدا کر سکے۔معرکہ سامانی ء نمرود و خلیلؑ، فرعون و موسیٰؑ اور شبیرؓ و یزید سے یہ ظاہر ہوتا ہے قوت شبیری ہی حق کی بالادستی کی ضامن ہے۔مجید امجد نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کو ہر دور میں لائق تقلید قرار دیا ہے۔وہ ایک قطرۂ خوں جو رگ گلو میں ہے وہ حریت فکر کے مجاہدوں کو ہزار بار بھی مقتل وقت میں جانے پر آمادہ کرتا ہے۔ان کی یہ نظم زندگی کی حقیقی معنویت کی مظہر ہے :

بستے رہے سب تیرے بصرے کوفے

اور نیزے پر، بازاروں بازاروں گزرا

سر۔۔۔۔۔ سرور کا

قید میں، منزلوں منزلوں روئی

بیٹی ماہ عرب کی

اور ان شاموں کے نخلستانوں میں گھر گھر، روشن رہے الاؤ!

چھینٹے پہنچے ، تیری رضا کے ریاضوں تک، خون شہدا کے

اور تیری دینا کے دمشقوں میں بے داغ پھریں زر کار عبائیں !

چہرے فرشوں پر!

اور ظلموں کے درباروں میں، آہن پو ش ضمیروں کے دیدے بے نم تھے !

مالک تو ہی اپنے ان شقی جہانوں کے غوغا میں

ہمیں عطا کر۔۔

زیر لب ترتیلیں، ان ناموں کی، جن پر تیرے لبوں کی مہریں ہیں۔

مجید امجد کی شاعری میں واقعہ کربلا کے بارے میں جو تاثر پیش کیا گیا ہے وہ تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ان کا تاریخ اور تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں تجزیہ بڑی اہمیت کا حامل، سیل زماں کی مہیب موجیں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا کر لے جاتی ہیں مگر تاریخ اور تہذیب کی نشانیاں بہ ہر صورت باقی رہ جاتی ہیں۔ واقعہ کر بلا در اصل تاریخ اور زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی بقا کی ایک جد و جہد سے عبارت ہے۔ یہ ایک ایسا معیار ہے جس کی بدولت پیمانہ ء تحقیق سے سرخوش ہو کر کلمہ ء تو حید کی تمازت کو قلب و جگر میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مجید امجد نے اپنے اسلوب کی انفرادیت، تنوع، بو قلمونی اور ندرت کا لو ہا منوایا ہے۔ انھوں نے واقعہ کربلا کے تمام اہم کرداروں کے بارے میں حقیقت ابدی کا سراغ لگایا ہے۔ان کی ایک نظم جو حضرت زینبؓ کے بارے میں ہے اسے پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ظلم کی میعاد کے دن ہمیشہ تھوڑے ہوتے ہیں۔صبح و مسا کی تیرہ شبی کے بعد طلوع صبح بہاراں کی روشنی اور امید فردا کی نوید کو کبھی روکا نہیں جا سکتا۔مجد امجد کی متاع الفاظ سے طوفان حوادث میں بھی امید کا مژدۂ جانفزا نصیب ہوتا ہے۔آباد ضمیروں کے لیے حضرت زینب ؓکا کردار، صبر، ایثار اور حریت فکر کی پیکار ہر عہد میں لائق تقلید رہے گی۔مجید امجد نے عالم اسلام کی اس عظیم ہستی کے حضور جو نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے اس کی تاثیر پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے :

حضرت زینب ؑ

وہ قتل گاہ، وہ لاشے ، وہ بے کسوں کے خیام

وہ شب، وہ سینہ ء کو نین میں غموں کے خیام

وہ رات جب تیری آنکھوں کے سامنے لرزے

مر ے ہوؤں کی صفوں میں ڈرے ہوؤں کے خیام

یہ کون جا ن سکے ، تیرے دل پہ کیا گزری

لٹے جب آگ کی آندھی میں، غمزدوں کے خیام

ستم کی رات کی، کالی قنات کے نیچے

بڑے ہی خیمۂ دل میں تھے عشرتوں کے خیام

تیری ہی برق صدا کی کڑک سے کانپ گئے

یہ زیر چتر مطلا شہنشہوں کے خیام

جہاں پہ سایہ کناں ہے ترے شرف کی ردا

اکھڑچکے ہیں ترے خیمہ آنگنوں کے خیام

مجید امجد کی شاعری میں ایک نئے دور کی بشارت ملتی ہے۔اس کے لیے ہر فرد کو اپنا خون پسینہ ایک کرنے کی ضرورت ہے۔مجید امجد کا خیال ہے کہ نظام کہنہ کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے کا خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔نظام کہنہ تو ایک ایسی گرتی ہوئی عمارت ہے جو سیل زماں کی مہیب موجوں کی تاب نہیں لا سکتی۔جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے وہ ظالمانہ استحصالی نظام اور اس کے پروردہ مفاد پرست اور انسان دشمن مافیا کے قبیح کردار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اسے للکارتے ہیں کہ اگر ان میں اتنا دم خم ہے تو ان کا کام تمام کر دیں۔ان کی نظموں میں ایک تعمیری قوت ہے جو اصلاح کے متعدد پہلو   اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں معاشرتی زندگی کو شدید مصائب و مسائل کا سامنا ہے۔انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کے باعث فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ہلاکت خیزیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اس دنیا کو مقتل وقت کہنا غلط نہ ہو گا۔مجید امجد کا خیال ہے کہ آج کے انسان کو استحصالی مافیا نے زندہ درگور کر دیا ہے مجبور، محروم اور مظلوم انسانیت ایک قبرستان میں دفن ہے جسے اپنی قبروں سے باہر جھانکنے کی بھی اجازت نہیں۔چلتے پھرتے ہوئے مردوں سے ملاقاتیں اب روز کا معمول بن گئی ہیں۔آنسوؤں، آہوں اور اکھڑے دموں میں جینے والے بے بس و لاچار انسان اپنی زندگی کے مقدس غموں کی امانت کو سنبھالے سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔یہاں بے گناہوں پہ ظلم کی شمشیر چل رہی ہے مگر جلتے روم کو دیکھ کر وقت کے نیرو چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں یہاں غریب کی ہستی کو بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔ان لرزہ خیز حالات میں مدعی ء عدل کی پر اسرار خاموشی محروم اور مظلوم طبقے کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتی ہے۔۔مجید امجد نے جو فروش گندم نما، چربہ ساز، سارق اور کفن دزد عناصر کے مکر کی چالوں کے خلاف شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے :

اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال

مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک، اے آدم کی آل

مجید امجد کو بچپن ہی سے اعلیٰ ترین علمی و ادبی ماحول میسر آیا۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں رانا عبدالحمید کی قیادت میں علم و ادب کا کارواں سوئے منزل رواں دواں تھا۔اس زمانے میں اس شہر سدا رنگ میں فروغ ادب کے لیے جو اہم شخصیات فعال کردار ادا کر رہی تھیں ان میں محمد شیر افضل جعفری، خان محمد سرخوش، غلام محمد رنگین، سید مظفر علی ظفر، خادم مگھیانوی، کبیر انور جعفری، سید جعفر طاہر، سردار باقر علی خان، غلام علی چین، رانا سلطان محمود، صدیق لالی، صاحب زادہ رفعت سلطان، شیر محمد شعری، دیوان احمد الیاس نصیب، عاشق حسین فائق، امیر اختر بھٹی، راجہ اللہ داد، مہر بشارت خان اور ظہور احمد شائق کے نام قابل ذکر ہیں۔مجید امجد نے ان تمام ادیبوں کی صحبت میں رہتے ہوئے حالات و واقعات کی تہہ تک پہنچنے کی استعداد حاصل کی۔ان کی چشم بینا نے سات پردوں میں پوشیدہ حقائق کی گرہ کشائی کی اور دنیا جسے شہر کوراں سے تعبیر کیا جاتا ہے اس پر تمام صداقتیں واضح کر دیں۔مجید امجد کی شاعری میں ان کی ذات، ماحول اور شخصیت کے تمام پہلو ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔وہ حریت فکر و عمل کے عملی پیکر تھے۔جابر سلطان کے سا منے کلمۂ حق کہنا ان کا مطمح نظر رہا۔انھوں نے صبر و رضا کا پیکر بن کر زندگی بسر کی۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے انھوں نے اسوۂ شبیر ؓ کی تقلید کو شعار بنایا۔وہ یہ بات بر ملا کہتے تھے کہ زیر تیغ بھی کلمۂ حق پڑھنے والوں نے قیامت تک کے لیے فسطائی جبر کا خاتمہ کر دیا۔زمین کرب و بلا کے بہتر جاں نثار نمازیوں کے امام کا ایک سجدہ متاع کون و مکاں ہے۔نواسۂ رسول ﷺ نے پوری دنیا پر یہ بات واضح کر دی کہ صحرائے کرب و بلا اور فرات کے ساحل سے سلسبیل کی مسافت صرف ایک گام ہے۔ مجید امجد کی نظم چہرۂ مسعود اردو کے رثائی ادب میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے موضوع، مواد اور اسلوب کی ندرت، تنوع، تازگی اور تاثیر میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔ان کے اسلوب سے متاثر ہو کر ان کے معاصرین نے ان کے شعری تجربات کو اپنے اسلوب کی اساس بنانے کی سعی کی۔مجید امجد کی شاعری میں ایک آفاقی لب و لہجہ ہے جو ساری حیات و کائنات کے دکھ درد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے رنگ جہان گزراں اور قسمت کج کلہاں اور تاج وراں کی بربادی کے بارے میں وہ کوئی ابہام نہیں رہنے دیتے۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ آج بھی جس شہر پر نظر ڈالیں وہاں اہل کوفہ جیسی بے وفائی کے مناظر عام ہیں۔آج کا انسان زر و مال اور جان بچا کر بھی ذلت تخریب اور فنا کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے ا س کے بر عکس نواسۂ رسولﷺ نے جان قربان کر کے اور عزیزوں، بچوں اور متاع بے بہا اسلام کی خاطر نثار کر کے مقاصد زیست کو رفعت میں ہم دوش ثریا کر دیا۔انھوں نے مینارۂ عرش کو چھو کر اپنے عظیم منصب کو حقیقت ابدی بنا کر انسانیت کو نئی رفعتوں تک رسائی کی راہ دکھائی۔مجید امجد نے کہا تھا :

سلام ان پہ تہہ تیغ بھی جنھوں نے کہا

جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے

لفظ کی حرمت، اسلوب کی ندرت، احترام انسانیت، وطن اور اہل وطن سے قلبی وابستگی اور جبر سے نفرت مجید امجد کی سرشت میں شامل تھی۔زندگی کے جس قدر موسم انھوں نے دیکھے انھیں وہ صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے رہے۔انھیں اس بات کا یقین تھا کہ روشنی کا یہ سفر بہ ہر صورت جاری رہے گا اور الفاظ و معانی کے جو گھروندے وہ تعمیر کر رہے تھے ان میں ارفع خیالات کا بسیرا ہو گا۔ان کی انفرادیت نے ان کے اسلوب کو مثالی بنا دیا۔انھوں نے جو طرز فغاں ایجاد کی وہی بعد میں آنے والوں کے لیے طرز ادا بن گئی۔ضلع کونسل جھنگ کے دفاتر کے سامنے ایک خوب صور ت باغ ہے جو مجید امجد پارک کہلاتا ہے۔اس باغ کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس کی تمام روشوں پر مختلف رنگوں کے سدا بہار گلاب کثرت سے اگے ہوئے ہیں۔کئی قسم کے اثمار و اشجار اس باغ میں موجود ہیں۔طیور اور تتلیاں یہاں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔کھجوروں کے جھنڈ ہیں جن پر شہد کی مکھیوں کے چھتے ہیں اور شہد کی مکھیاں پھولوں سے شہد کشید کرتی ہیں۔شہر کی واحد سیرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں سر شام ہی حسین و جمیل خواتین کا جمگھٹا لگ جاتا ہے۔نامور ادیب اور دانش ور ڈاکٹر نثار احمد قریشی جب 2006میں پروفیسر غفار بابر کے ہمراہ جھنگ تشریف لائے تو مجید امجد پارک میں بھی گئے۔انھوں نے آہ بھر کر کہا ’’ مجید امجد تمھارے خواب کی تعبیر بالکل درست نکلی۔اور پھر مجید امجد کے یہ اشعار پڑھے تو سب لوگ بے اختیار رونے لگے :

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گلاب کے پھول

حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول

نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہم سب جھنگ کے جنوب میں نصف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بارہ سو سال قدیم شہر خموشاں ’’ لوہلے شاہ ‘‘پہنچے جہاں مجید امجد آسودا ء خاک ہے۔مجید امجد کی آخری آرام گاہ کے قریب گلاب کی ایک سدا بہار بیل اگی ہوئی تھی جس نے پوری قبر کو گلاب کے پھولوں کی چادر سے ڈھانپ رکھا تھا۔ہم سب محو حیرت تھے کہ تقدیر کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں۔دور زماں کی ہر کروٹ جب لہو کی لہر اور دلوں کا دھواں بن جائے تو حساس تخلیق کار کا زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ جاتا ہے مگر اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔پھولوں پر شبنم کے قطرے پڑے ہوئے تھے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس مہیب سناٹے میں طائران خوش نوا، پیلوں کے اشجار، گلاب کے پھول اور شبنم کے قطرے اس یگانہ ء روزگار تخلیق کار کے حضور نذرانہ ء عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔انھوں نے گلو گیر لہجے میں کہا:’’ مجید امجد ایک ایسا تخلیق کار تھا جو ایام کا مرکب نہیں بلکہ راکب تھا وہ مہر و مہ و انجم کا محاسب تھا۔اس کی ہر بات کالنقش فی الحجر ثابت ہوئی۔اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ آسماں بھی اس کی لحد پہ شبنم افشانی کر رہا ہے۔طائران خوش نوا اس لافانی تخلیق کار کی یاد میں احساس زیاں کے باعث گریہ و زاری میں مصروف ہیں۔مجید امجد کی یاد تا ابد ان کے مداحوں کے دلوں کو مرکز مہر و وفا کرتی رہے گی۔‘‘

گلاب کے پھولوں پر پڑے ہوئے شبنم کے قطرے سورج کی پہلی کرن پڑتے ہی موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے مجید امجد کا یہ شعر پڑھ کر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا:

جہان گریۂ شبنم سے کس غرور کے ساتھ

گزر رہے ہیں تبسم کنا ں، گلاب کے پھول

مجید امجد کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے بعد ہم واپس آئے تو دیر تک فرط غم سے نڈھال رہے۔مجید امجد کی داستان حیات بلا شبہ عظیم ہے۔اس داستان حیات میں محبت و مروت، حیرت و حسرت، درد و غم استغنا و انکسار اور صبر و تحمل کا جو دلکش امتزاج دکھائی دیتا ہے وہ اس بے مثال تخلیق کار کی عظمت کو چار چاند لگا دیتا ہے جس نے خودی کا تحفظ کرتے ہوئے انتہائی کٹھن حالات، جانگسل تنہائیوں میں بھی شہرت عام اور بقائے دوام حاصل کی۔جب تک دنیا باقی ہے لوح جہاں پر مجید امجد کا عظیم الشان کام اور قابل صد احترام نام ثبت رہے گا۔مجید امجد نے خود کہا تھا :

تیرے فرق ناز پہ تاج ہے ، مرے دوش غم پہ گلیم ہے

تری داستاں بھی عظیم ہے ، مری داستاں بھی عظیم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

           محمد شفیع بلوچ:وہ جا چُکا ہے پھر بھی سدا محفلوں میں ہے

 

 

جھنگ شہر کے ایک دُور اُفتادہ قدیم قصبے درگاہی شاہ میں مقیم جدید اُردو ادب کے ممتاز تخلیق کار، ماہر تعلیم، نقا د، محقق، مورخ، ماہر لسانیات اور فلسفی محمد شفیع بلوچ نے بیس جنوری 2010 کو داعیِ اجل کو لبیک کہا۔وہ ہماری بزمِ وفا سے یوں اٹھا کہ پھر ستاروں کی روشنی ماند پڑنے لگی اور درو دیوار حسرت و یاس کی تصویر پیش کرنے لگے۔اس کی وفات پر شہر کا شہر سوگوار دکھائی دیتا تھا۔ فرشتۂ اجل نے وہ زیرک، فعال اور مستعد ادیب ہم سے چھین لیا جو گزشتہ تین عشروں سے پرورشِ لوح و قلم میں مصروف تھا۔ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز، اپنی فن کارانہ انا اور خود داری کا بھرم بر قرار رکھتے ہوئے محمد شفیع بلوچ نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی ہے ، اس کے اعجاز سے اس کا ا سلوب پتھروں سے بھی ا پنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔وہ منفرد اسلوب کا حامل ایسا ہر دل عزیز ادیب تھا جس کی خیال افروز اور فکر پرور تحریریں قلب اور روح کی ا تھا ہ گہرائیوں میں اُتر کر قاری کو مسحور کر دیتی تھیں۔اس کے دلکش اسلوب کا کرشمہ قاری کو حیرت و استعجاب کی ایسی فضا سے آشنا کرتا جو اُس کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کی حیثیت رکھتا تھا۔وہ ایک حال مست درویش تھا جو تعمیری سوچ رکھتا تھا اور کسی کی تخریب سے اس نے زندگی بھر کوئی تعلق نہ رکھا۔اپنے تمام احباب اور ملاقاتیوں کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا اس کے مزاج کا امتیازی وصف تھا۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اس نے ہمیشہ اپنا مطمحِ نظر بنایا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حوصلے ، اعتماد اور یقین کا علم بلند کر کے مشرقی تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت کی شیرازہ بندی کے سلسلے میں محمد شفیع بلوچ کی خدمات تاریخ ادب کے اوراق میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس نے غیر یقینی حالات اور ہوائے جور و ستم میں بھی شمعِ وفا کو فروزاں رکھا، حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حق گوئی و بے باکی کو شعار بنایا۔ وہ اپنے عہد کا ایک ہر دل عزیز ادیب تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اسے ایک ایسے رانجھے کی حیثیت حاصل تھی، جو سب کا سانجھا تھا۔ اس کی گل افشانی ء گفتار کا ایک عالم معترف تھا۔اس کی رحلت کے بعد تو وفا کے سب ہنگامے ہی دم توڑ گئے۔ممتاز شاعر ساغر صدیقی نے سچ کہا تھا :

محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا

ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

ہر مُسرت غمِ دیرو ز کا عنوان بنی

وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا

محمد شفیع بلوچ نے ایک محنتی کسان علی خان کے گھر 1957میں جنم لیا۔ پُورے علاقے میں اس خاندان کی علمی فضیلت اور خاندانی شرافت مسلمہ تھی اور لوگ اس خاندان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اس کے والد کو گاؤں کا نمبر دار اور مقامی پنچایت کا سر براہ مقرر کیا گیا۔محمد شفیع بلوچ کی آنول نال بھمبے والا موضع درگاہی شاہ میں گڑی ہے۔اسی کنویں کے دیہی ماحول سے محمد شفیع بلوچ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور اس کے بعد پاکستان کی ممتاز جامعات سے اردو زبان و ادب اور ایجوکیشن میں ایم۔اے اور ایم۔فل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اپنی محنت، لگن اور فرض شناسی سے اس زیرک تخلیق کار نے بڑے بڑے شہروں میں مقیم دانش وروں کو متاثر کیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ محکمہ تعلیم حکومت پنجاب میں ثانوی سکول معلم کی حیثیت سے تدریسی خدمات پر مامور ہوا۔اس کا شمار پاکستان کے نامور ماہرین تعلیم میں ہوتا تھا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے گاؤں کے نزدیک واقع موضع لشاری کے سرکاری ثانوی مدرسے میں انگریزی اور اردو ادبیا ت کی تدریس پر مامور تھا۔ پرانے زمانے میں مطلق العنان بادشاہ اپنی آمرانہ مہم جوئی سے علاقے فتح کر کے انھیں اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی اقلیم میں شامل کر لیتے تھے لیکن محمد شفیع بلوچ علم و ادب کی اقلیم کا ایسا منکسرالمزاج فرماں روا تھا جو اپنی علمی فضیلت اور شگفتہ بیانی کے مسحورکن انداز سے قلب و نظر کو مسخرکر لیتا تھا۔ محمد شفیع بلوچ کی مندرجہ ذیل تصانیف سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا:

حسنِ کلامِ محمد ﷺ، شیخ اکبر محی الدین ابن عربی، جاوید نامہ (ایں کتاب از آسمانِ دیگر است)، مشرق کا فراموش کردہ نابغہ(مولانا احمد رضا بریلوی کے بارے میں انگریزی سے ترجمہ)، سیرِ آفاق

محمد شفیع بلوچ کی مندرجہ ذیل تصانیف تکمیل کے مراحل طے کر نے والی تھیں کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس جری تخلیق کار سے قلم چھین لیا:

مغرب اور اسلام، مذاہبِ عالم، فلسفہ اورفلاسفہ، تصوف کی دنیا، ٹھہرو(افسانے )، مضامین علمی و ادبی، انشائیے ، تحریکِ پاکستان اور علما و مشائخ، بلوچ تاریخ کے آئینے میں، جیون اک عذاب(شاعری)

کتب بینی کی عادت محمد شفیع بلوچ کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔قابلِ مطالعہ کتب کی جستجومیں وہ دیوانہ وار تمام مآخذ تک پہنچتا اور ہر چشمۂ فیض سے اپنا ساغر بھر کر واپس آتا۔نادر و نایاب کتب اور قدیم مخطوطات سے اسے زندگی بھر گہری دلچسپی رہی۔ ساٹھ کے عشرے میں زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ لینے والے ممتاز ادیبوں کے سر خیل غلام علی خان چین، سردار باقر علی خان، خادم مگھیانوی اور حاجی محمد یوسف ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس شہرِ نا پُرساں کی قدیم تاریخ کے بارے میں جو احوال بیان کرتے تھے اس کی سرگزشت کا عینی شاہد محمد شفیع بلوچ تھا، اس کے جاتے ہی درو دیوار کی صورت ہی بدل گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والی اکثر مُلاقاتیں ادھوری رہ جاتیں اور متعدد ضروری باتیں دل میں نا گفتہ رہ جاتیں۔ لوک ادب، لوک داستانوں اور قصے کہانیوں کا مزاج سمجھنے والا بہت دور اپنی نئی بستی بسا نے جا پہنچا۔ اب پتھر کے زمانے کا ماحول پیش کرنے والی اس قدیم ترین بستی کے یہ قصے کون سنائے گا ؟ مختلف قدیم روایات کے حوالے سے جو باتیں میں نے محمد شفیع بلوچ سے سُنیں ان کا ملخص میں اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں :

’’ مگھیانہ شہر میں سطحِ زمین سے تیس فٹ گہرے دو تالاب طوفان نوحؑ کی باقیات سمجھے جاتے تھے۔712میں محمد بن قاسم کی شورکوٹ آمد سے صدیوں قبل مگھیانہ شہرسے ملتان جانے والی شاہراہ کے جھنگ میں نقطہ ء آغاز پر گندے پانی کا ایک جوہڑ ہوا کرتا تھا۔اس جوہڑ کی شناخت ’’گندا ٹوڑا ‘‘ کے نام سے ہوتی تھی۔ دوسرے تالاب میں دریائے چناب سے آنے والی نہر کا صاف پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا جو پینے کے کام آتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کی ضروریات میں اضافہ ہوا تو نظام سقے نے تالاب کی توسیع کی اور شہر کے ہر چوک پر گھڑونچی پر گھڑے رکھوا دئیے اور کئی ما شکی بھرتی کیے اور آب خورے مہیا کیے۔یہ پُر اسرار ماشکی کسی نا معلوم جانور کی متعفن کھال میں پانی بھر کر راہ گیروں کو پلاتے تھے۔جو ماشکی یہ مشکیں بھر کر تشنہ لبوں کی تشنگی اور ان کے جگر کی آگ بجھاتے تھے ان پر یہ الزام تھا کہ وہ ان مشکوں میں آتشِ سیال بھر کر لاتے ہیں اور مے گلفام پلا کر سب کو بے خود کر دیتے ہیں۔ آتشِ سیال کے دلدادہ عیاش ان مفلس و قلاش ماشکیوں کو زر و جواہر سے مالا مال کر دیتے۔نظام سقے کے بعد آنے والوں نے ان ناہنجار ماشکیوں سے مشکیں چھین لیں اور اُن کی مُشکیں کس کر انھیں زندان میں ڈال دیا تا کہ ان کی شورش پر قابو پایا جا سکے۔آب خورے اب عنقا ہیں ان کے بجائے مفت خورے اور حرام خورے دندناتے پھرتے ہیں۔ اس تالاب کے آثار تو اب بھی علامہ اقبال ہال کے قریب پائے جاتے ہیں مگر مشکیزے اُٹھانے والے ماشکی اپنی دکان بڑھا گئے ہیں۔سنا ہے اب ان ماشکیوں کی اولاد ہر سڑک کے کنارے خیمے لگا کر بھنگ کے گھوٹے سر عام تشنہ لبوں کو پلانے کے دھندے میں مصروف ہے اور ان کی پانچوں گھی میں ہیں۔اس قدیم تاریخی تالاب کی حالت سقیم ہونے لگی تو بلدیہ نے ایک سکیم کے تحت اسے کثیر المقاصد کھیل کے میدان میں بدل دیا ہے مگر اس کی گہرائی اب بھی جوں کی توں ہے۔ ہر قماش کے کھلاڑی جان ہتھیلی پر رکھ کر کئی سیڑھیوں سے گُزر کر یوں کھیل کے میدان میں اُترتے ہیں جیسے لحد میں اتر رہے ہوں۔ وقت کے ستم اور آبی آلودگی نے اب دریائے چناب کو گندے نالے میں بدل دیا ہے جس میں کئی سیم نالے اور برساتی نالے گرتے ہیں۔ شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کی غرض سے بلدیہ نے تالاب کے کنارے پر ٹیوب ویل لگا کر اس کے ساتھ ایک فلٹر پلانٹ لگا دیا ہے جس سے بجلی ہونے کی صورت میں پانی پیا جا سکتا ہے۔بلدیہ کے حکام نے حاتم کی قبر پر جس طرح لات ماری ہے ، اسے دیکھ ک لوگ پانی پانی ہو گئے ہیں۔جن کے آبا سو کا سو پشت سے کُتے گھسیٹنے اور گھاس کاٹنے پر مدار تھا، اور کالا دھن کما کر اپنا منہ کالا کرنے والے جن سیاہ کاروں کو کالے پانی بھیجا جانا چاہیے تھا وہ یہیں دندناتے پھرتے ہیں اور بے بسوں کا بھیجا چاٹ رہے ہیں۔ کچھ ناظم تو چُلّو بھر پانی لے کر اس میں غواصی پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں اور لا حاصل ستم کش سفر رہنے کے بجائے زینۂ ہستی سے اُترنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ شہر کے جنوب میں گندا ٹوڑا گزشتہ صدیوں کی تاریخ کا ایک ورق اور عبرت کا ایک سبق تھا۔گزشتہ کئی صدیوں سے اس قدیم تاریخی جوہڑ میں شہر بھر کا کچرا بے دریغ پھینکا جاتا رہا اس طرح یہ گڑھا کچرے سے لبا لب بھر گیا تو بلدیہ کو خیال آیا کہ کیوں نہ کچرے کے اس تیس فٹ گہرے اور چار ہزار مربع فٹ پر پھیلے انبار پر ایک فٹ صاف مٹی کی ایک تہہ بچھا دی جائے اور اس پر ہری خالی گھاس اُگا کر اسے ایک عقوبتی پارک کی شکل دے دی جائے۔اس چنگیزی منصوبے پر عمل کیا گیا اب گندا ٹوڑا تو دب چکا ہے لیکن وہاں ایک مندا پھوڑا نمودار ہو چُکا ہے۔اس جگہ پر اُگی کُتا گھاس کو جب پانی سے سیراب کیا جاتا ہے تو تمام پانی نیچے دبے ہوئے کچرے کے ڈھیر میں جذب ہو جاتا ہے اس کے بعد عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں اور راہ چلنا دشوار ہو جاتا ہے۔کئی مضرِ صحت گیسیں یہاں سے ہر وقت خارج ہوتی رہتی ہیں۔علم کیمیا کے طالب علم ان مہلک گیسوں کی شناخت اور تجزیے کی خاطر علم کیمیا کی اس کتاب کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں جو اُنھوں نے دسویں جماعت کے امتحان سے فارغ ہونے کے بعد رنگو کباڑئیے کو ردی میں فروخت کر دی تھی۔ان کا خیال ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے شاید وہ کسی ایسی گیس کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو مسموم ماحول میں لاحول پڑھتے راہ گیروں کی اکھڑتی سانس کو بحال کر سکے۔

مختلف مضامین کی کتب کا مطالعہ محمد شفیع بلوچ کا مشغلہ تھا۔نادر و نایاب کتب اور مخطوطوں کی تلاش میں اس نے جس محنت اور جگر کاوی کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔کبھی وہ رنگو کباڑئیے کے پاس کتابوں کے ڈھیر میں سے اپنے ذوق سلیم کے مطابق کتابوں کی چھان پھٹک میں مصروف دیکھا گیا تو کبھی جھنگ کے علامہ اقبال ہال اور جناح ہال میں قائم کتب خانوں میں مطالعہ میں مشغول پایا گیا۔جھنگ کے تمام تعلیمی اداروں کی کتب کا اس نے مطالعہ کر لیا تو اس نے پاکستان کے بڑے کتب خانوں سے استفادہ کیا۔ان میں تمام جامعات اور سرکاری اور نجی کتب خانے شامل ہیں۔اس کے باوجود مطالعہ کے سلسلے میں اس کا مرحلۂ شوق طے نہ ہو پایا۔زندگی کے آخری ایام میں اس کے چہرے پر اطمینان اور قناعت کے آثار دیکھ کر حافظ حاجی محمد حیات نے اس سے پُوچھا :

’’کیا بات ہے کئی دنوں سے آپ کو کسی کتب خانے میں نہیں دیکھا گیا، کیا آپ نے کتب بینی ترک کر دی ہے ‘‘

’’کتب بینی تو میری فطرتِ ثانیہ بن چُکی ہے ‘‘ محمد شفیع بلوچ نے کہا ’’علم و ادب کی ویب سائٹس اور سائبر کتب خانوں نے سارا مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ سے فاصلے سمٹ گئے ہیں۔اب میں دنیا بھر کے اخبارات و رسائل اور کتب کا مطالعہ انٹر نیٹ پر آسانی کے ساتھ کر لیتا ہوں۔برقی ڈاک کے ذریعے میرا پوری دنیا کے دانش وروں سے رابطہ ہے اور میرے مطلوبہ مآخذ انٹر نیٹ پر میری دسترس میں ہیں جنھیں میں ڈاؤن لوڈ کر کے ان کے پرنٹ حاصل کر لیتا ہوں۔ان دنوں میں علامہ اقبال سائبر لائبریری سے استفادہ کر رہا ہوں۔‘‘

دُکھی انسانیت کے ساتھ خلوص، دردمندی اور بے لوث محبت کے ذریعے اس نے اپنی ذات کے فروغ اور شخصیت کی نشو و نما کا موثر اہتمام کیا۔بے لوث محبت کو وہ ایک ہاتھ کی تالی اور یک طرفہ عمل سے تعبیر کرتا تھا۔اس کا خیال تھا کہ محبت کو تجارت بنا کر ہوس پرستوں نے محبت کا مفہوم ہی بدل دیا ہے ، بے لوث محبت میں محبوب تک رسائی کے لیے اپنی ذات اور شخصیت کو بالکل اسی طرح نکھار عطا کرنا پڑتا ہے جس طرح فطرت لالے کی حنا بندی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔حسنِ ماہ جب بہ ہنگامِ کمال ہو تو اس کی چاندنی سے فیض یاب ہونے کے لیے مقاصد کو رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنا لازم ہے۔بے لوث محبت میں محبوب کی جستجواس امر کی متقاضی ہے کہ پہلے عاشق اپنی ذات کے جُملہ اسرار و رموز کی گرہ کُشائی کا مر حلہ طے کرے۔اپنی حقیقت کا شناسا بننے کے لیے جس تپسیا کی ضرورت ہے محمد شفیع بلوچ زندگی بھر اس چلہ کشی میں مصروف رہا۔محمد شفیع بلوچ ایک جواں ہمت اور پُر عزم تخلیق کار تھا، اس نے انتہائی صبر آزما حالات میں بھی سعیِ پیہم کو شعار بنایا۔وہ جب تک زندہ رہا مرگ آفریں قوتوں کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کی حیثیت سے سینہ سپر رہا۔اس نے حیات آفریں قوتوں کی نمو اور تحفظ کے لیے مقدور بھر جدو جہد کی۔جب وہ محفلوں کی جان تھا تو اپنے دبنگ لہجے میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتا تھا۔اس کی آنکھیں مُند جانے اور نہ ہونے کی ہونی کی خبر سن کر اس کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں ہیں۔مرگِ ناگہانی اور تقدیر کے چاک سوزنِ تدبیر سے کبھی رفو نہیں ہو سکتے۔ محمد شفیع بلوچ نے تو بھری بزم سے اُٹھ کر یہاں سے بہت دور اپنی بستی بسا لی لیکن اس کی یادوں کے زخم کبھی نہیں بھر سکتے۔

اپنے گرد و نواح کے ماحول، زندگی کے نشیب و فراز، ذاتی مشاہدات اور تجربات سے گزرتے ہوئے اس کی مستحکم شخصیت پروان چڑھی۔ اس نے اپنے سماج اور معاشرے میں رہتے ہوئے ہوئے تکمیلِ ذات کے کٹھن مراحل طے کیے۔عملی زندگی میں خیر و شر اور سُود و زیاں کے مابین پائی جانے والی حدِ فاصل کی تفہیم کی جو صلاحیت اسے حاصل تھی اسے وہ معاشرے اور سماج کی عطاسمجھتا تھا۔ محمد شفیع بلوچ نے آثارِ قدیمہ میں ہمیشہ گہری دلچسپی لی وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس کی آنکھوں نے شہر کے جوہڑوں اور آثار قدیمہ کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے شہر کے جوہڑوں کو تو بہا لے گئے لیکن ان سے وابستہ یادیں اب بھی فضاؤں میں پھیلی ہیں، جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے کئی مانوس اور منحوس چہرے دکھائی دیتے ہیں جن کی وجہ سے یہ مقامات سقر میں بدل گئے۔گندے ٹوڑے کے جنوبی کنارے پر واقع ہوش رُبا دھریس پارٹی کا ڈیرہ ہوا کرتا تھا۔ان بھانڈوں کا جو گی والا پھیرا اور رقص و سرود کا پھریرا دیکھ کر ہر وڈیرہ اپنی زندگی کی شبِ تاریک کا سویرا کرتا تھا۔اسی عفونت زدہ گندے ٹوڑے کے مشرقی کنارے پر ہر قسم کے کباڑ خانے ، چنڈو خانے ا ور قحبہ خانے تھے۔ان میں سے رنگو کباڑئیے کا نام تو ہر شخص جانتا ہے۔ ردی فروش رنگو کباڑیا سو پشت سے اس دھندے سے وابستہ تھا اور اب تو اس کی حیاتِ رائیگاں بھی ایک گورکھ دھندے کا روپ دھار چُکی تھی۔اس کے پاس پرانی کتابیں، مخطوطے ، مکاتیب اور درسی کتابیں ردی کے بھاؤ تُل کر بِک جاتی تھیں۔کبھی کبھی یہ چربہ ساز، سارق اور کفن دُز د متفنی کباڑیا شاعری کو بھی منہ مار لیتا تھا۔اس کے کباڑ خانے کے شکستہ دروازے کے بے خواب کواڑوں پر ذلت و تخریب کے جو کتبے نصب تھے ، ان میں یہ نمایاں تھا:

مال ہے کم یاب پر سارق ہیں کتنے بے خبر

شہر میں کھولی ہے رنگو نے دکاں سے الگ

رنگو کباڑیے نے قارئین ادب کو کتب خانوں سے بے نیاز کر دیا۔اس کے کباڑ خانے میں عالمی کلاسیک کی کتابیں، کوک شاستر، لوک داستانیں، جادو ٹونے ، حسن و رومان، علم نجوم اور لوک گیتوں کی کتب زمین پر بکھری پڑی ہوتی تھیں۔یہ کتابیں یا تو بڑے بڑے کتب خانوں سے چوری کی گئی تھیں یا مرحوم ادیبوں کے علم و ادب سے بے بہرہ لواحقین انھیں یہاں ردی کے بھاؤ فروخت کر جاتے تھے۔رنگو کباڑئیے نے ردی کی دکان کیا کھولی کتب خانوں کے مہتمم صاحبان اور مرحوم ادیبوں کے پس ماندگان نے اپنی علمی و ادبی میراث یہاں کھودی۔ملک کے کئی چربہ ساز محققین اپنی جسارت سارقانہ کے سلسلے میں رنگو کباڑئیے کے شرمندۂ احسان ہیں۔

گندے پانی کے جوہڑ کے کنارے پر رہنے والا تُفتہ فرنگی نامی ایک کندۂ نا تراش جاہل متفنی ڈُوم اس قدر شوم تھا کہ اپنی جہالت کا انعام پانے کی توقع میں رواقیت کا داعی بن بیٹھا۔ تُفتہ فرنگی بھی عجیب خبطی تھا۔مشکوک نسب کا یہ ابلہ کھینچ تان کر اپنا شجرہ نسب واسکوڈے گاما سے ملاتا یہ جو پُرانی وضع کا جامہ پہنتا، اُسے خودسکوڈے گاما نے عالمِ شباب میں پہنا تھا۔یہ کالا انگریز اپنے موہوم اور مشکوک نسلی تفاخر پر خوب ہنہناتا، سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا اور پریوں کا اکھاڑہ سجا کر اس میں راجا اندر بن کر دادِ عیش دیتا۔یہ متفنی بر صغیر میں برطانوی استعمار کا سودائی تھا اور 1857کے بعد برطانوی استبداد کو اپنے آبا و اجداد کی حکومت کا یادگار دور قرار دیتا۔مقامی یونین کونسل کا ایک انگوٹھا چھاپ کونسلراس کا بہنوئی تھا۔تُفتہ فرنگی جہاں جاتا اپنے بہنوئی کا نام لے کر سب حاضرین کو مرعوب کرتا مگر زیرک تخلیق کار اس رسوائے زمانہ چربہ ساز، سارق، کفن دُزد اور جعل ساز کو دیکھ کر لاحول پڑھتے اور جل تُو جلال تُو، آئی بلا کو ٹال تُو کا ورد شروع کر دیتے۔ دو سال قبل ایک دیہی ادبی تنظیم کے زیر اہتمام محمد شفیع بلوچ کی تصنیف ’’سیر آفاق ‘‘کی تقریب رونمائی تھی۔ ادبی نشستوں میں بِن بلائے شامل ہونا تُفتہ فرنگی کا وتیرہ تھا۔ اپنی قبیح عادت سے مجبور تُفتہ فرنگی بھی اس تقریب میں جاگھُسالیکن محمد شفیع بلوچ نے اس گھُس بیٹھیے پر کوئی توجہ نہ دی اور اس کی آمد سے بے خبر ر ہا۔محمد شفیع بلوچ نے تقریب میں شامل ہونے والی ممتاز علمی و ادبی شخصیات کا پُر جوش خیر مقدم کیا اور اپنے دست خط کے ساتھ کتاب ان کی خدمت میں پیش کی۔ تُفتہ فرنگی کو اس بات کا شکوہ تھا کہ کسی نے اس کی آمد پر خوشی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اس کا خیر مقدم کیا گیا۔ تُفتہ فرنگی کھسیانی بلی کی طرح آگے بڑھا اور ناک بھوں چڑھاتے ہوئے نہایت ڈھٹائی سے بو لا: ’’ آپ کے ساتھیوں نے تو یہ سمجھ رکھا ہے کہ میں نہ تین میں ہوں نہ تیرہ میں۔شاید آپ نے بھی مجھے نہیں پہچانا، مقامی کونسلر سارق خان میرے بہنوئی ہیں۔میں، میری بہن اور میرا بہنوئی آپ کے مداح ہیں اور آپ کو اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن کسی نے ہماری یہاں قدر ہی نہیں کی۔‘‘

’’ یہ میری بد قسمتی ہے کہ آپ مجھے اچھی طر ح جانتے ہیں۔کیا آپ نے کبھی میری کوئی کتاب پڑھی ہے ؟‘‘ محمد شفیع بلوچ نے پوچھا ’’وادیِ جنوں کے خارزار اور پُر پیچ راستوں پر چلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔یہ تو بتائیں آپ مجھے کس حوالے سے اور کب سے جانتے ہیں ؟‘‘

’’میری بہن اور بہنوئی دونوں ان پڑھ ہیں لیکن انھوں نے آپ کا نام سُن رکھا ہے ، اس شہر کا ہر شخص آپ کا شیدا اور نام لیوا ہے۔میں پڑھنا لکھنا تو بالکل نہیں جانتا لیکن پڑھے لکھے لوگوں سے ملتا رہتا ہوں۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔گاؤں کے اصطبل میں جتنے خر، بُو زنے ، گرگٹ، خچر اور استر ہیں میں انھیں دیکھ کر پکڑ لیتا ہوں اور ان کے رنگ کا آسمان کے بدلتے ہوئے رنگوں سے موازنہ کرتا ہوں۔پڑھے لکھے لوگوں نے میرا آؤ، جاؤ اور تاؤ نہیں دیکھا ہے۔اب میں سب کو تیل بھی دکھاؤں گا اور تیل کی دھار بھی دکھاؤں گا۔میں نے زندگی بھر گدھوں کے ہل چلائے ہیں اب میں کولھو چلا کر اپنے حاسدوں کو اس میں کچل کر سب کا تیل نکالوں گا۔‘‘

محمد شفیع بلوچ نے ا س بُزِ اخفش، مخبوط الحواس اور فاتر العقل جاہل کی بے سر و پا باتیں سن کر مسکراتے ہوئے کہا’’ دیوانگی کے لیے جس فرزانگی کی احتیاج ہے تم اس سے عاری ہو۔اچھا! تو یہ بات ہے ، کسی شخص کو تین سے یا تیرہ کون نکال سکتا ہے۔ یہ سب تشویش یا اضطراب بلاوجہ اور قبل ا ز مرگ واویلا ہے اب آپ ایک کے بجائے تین کتابیں لے جائیں اور تین کرسیوں پر براجمان ہو جائیں۔پہلے ہی آپ یہاں لیٹ آئے ہیں اب ظاہر ہے ادبی نشست تاخیر سے شروع ہو گی تو آپ کو لیٹ جانا ہو گا۔‘‘

یہ سُنتے ہی تُفتہ فرنگی بے ساختہ انداز میں سامنے میدان میں کچی مٹی کی کلر زدہ خاک پر لیٹ گیا اور گرد سے اٹے ہوئے راستے کی دھُول اس کا پیرہن بن گئی۔

گدا حسین افضل نے کہا ’’ یہ شخص تین میں بھی ہے اور مارِ آستین میں بھی ہے اب تواس پر صر ف تین حرف بھیجنے کی گنجائش ہے۔‘‘

رانا ارشد علی بولا ’’ الفاظ کی بچت کرنا بہت ضروری ہے ، اس پر صر ف دو حرف بھیجیں جو اس کے نام کا مخفف بھی ہے۔ تُفتہ سے ’’ت‘‘ اور فرنگی سے ’’ف ‘‘ لے لیں تو’’ تُف‘‘ بنتا ہے۔‘‘

ہذیان ویرانی کا تعلق نواحی گاؤں بدھوانہ سے ہے اس کی ہزل گوئی چربہ ساز اور لفاظ حشراتِ ادب کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے :

تُف   ہے تم پر اے تُفتہ فرنگی

خذف ریزے ہیں تیرے سارے سنگی

کرگس چشم اور   شِپرانہ   خُو   ہے

ہے رشک ِ   بُوم تُو   متفنی   بھنگی

’’یہ تو آپ کی بندہ پروری ہے جو میری اس طرح عزت کی جا رہی ہے۔‘‘ تُفتہ فرنگی نے اپنی کور مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا ’’میرا عر ف ’’تُف ‘‘ ہی ہے سب لوگ مجھے پیار سے کہتے ہیں تُف ہے تم پر۔ یہ بے تکلفانہ انداز گفتگو مجھے بہت اچھا لگتا ہے اور میں احباب کی پُر تکلف ضیافت کرتا ہوں۔دعوت کے بعد سب مجھ پر تُف بھیجتے ہیں اور ہنسی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔‘‘

تُفتہ فرنگی نے جب تین کتابیں اُچک لیں تو خوشی سے پھُول کر کُپا ہو گیا اور وہاں سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

معاشرتی زندگی کے تضادات، بے ہنگم کیفیات، نا ہمواریوں، کجیوں اور ناگوار ارتعاشات کو دیکھ کر محمد شفیع بلوچ بہت دل گرفتہ ہوتا اور ان سب کے بارے میں فن کارانہ انداز میں ہمدردانہ شعور پیدا کر کے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کرتا تھا۔جھنگ کی سڑکیں اور چوک جو شیر شاہ سوری کے عہد میں تعمیر ہوئے قدیم فنِ تعمیر کی یاد دلاتے ہیں۔اپنی تعمیر کے زمانے سے لے کر اب تک یہ سڑکیں اور چوک اپنے قدیم گڑھوں کی امانت اپنے سینے پر سنبھالے تاریخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے حسرتِ تعمیر میں خجل ہو رہے ہیں۔ اس شہرِ نا پُرساں میں جولوگ بلدیہ کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں وہ ایسے کا م کر تے ہیں جنھیں دیکھ کر ہر شخص دنگ رہ جاتا ہے اور فیصلے کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے لگتا ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک انہونی یہ ہوئی کہ اس شہر کی چار ہزار سال قبل مسیح کی تہذیب و ثقافت کی یاد تازہ کرنے کے لیے شہر کے ہر مصروف چوک پرکسی گدھے ، خچر، گھوڑے ، چِیل، تانگے ، رتھ، کوچوان، گدھا گاڑی اور نیزہ باز کا بہت بڑا دھاتی مجسمہ نصب کر دیا گیا۔ ان بد وضع اور بے رنگ مجسموں کو ہر چوک پر نصب دیکھ کر شہر کے دانش ور ششدر رہ گئے۔ایک ادبی نشست میں شہر کے ہر مصروف چوک اور ہر سڑک کے کنارے نصب کیے جانے والے ان کریہہ مجسموں کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ جاری تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ جانوروں کے ان مجسموں کے بجائے آیات قرآنی، احادیث، اقوالِ زریں، مینار، گنبد اور بُور لدے اشجار سے شہر کے حسن میں اضافہ ہو گا۔ ممتاز ادیب امیر اختر بھٹی نے کہا :

’’کیا پہلے اس شہر میں گدھے ، خچر، گھوڑے اور کوّے کم تھے ؟ان کے مجسموں کی تنصیب کی کیا ضرورت تھی؟ یہ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ بلدیہ نے ہر چوک کو اصطبل اور طویلا بنا دیا ہے ‘‘

شہر میں جانوروں کے بُتوں کی تنصیب پر ادیبوں اور دانش وروں کی تشویش اور اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے محمد شفیع بلوچ نے بے ساختہ کہا :

ابتدائے جہل ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

’’پُوری دنیا میں یہ روایت پروان چڑھ رہی ہے کہ وہاں کے لوگ اپنی محبوب شخصیات کے بڑے بڑے مجسمے گزر گاہوں کے کنارے نصب کر کے ان کے ساتھ اپنی عقیدت، ممنونیت، قلبی وابستگی اور اپنے ان محسنوں کے ساتھ سعادت مندی کا اظہار کرتے ہیں۔اپنے رفتگاں کو یاد رکھنے اور انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہ طریقہ دنیاکے تمام ممالک میں مقبول ہو رہا ہے۔ امریکہ میں ابراہم لنکن، چین میں ماوزے تنگ اور روس میں لینن کے مجسمے شاہراہوں پر نصب ہیں۔اگر اس شہر میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے ؟ ‘‘

’’سچ ہے اب یہاں بھی چام کے دام چلائے جائیں گے اور مقتدر لوگ اسی طرح اپنے ابنائے جنس اور نایاب نسل کے جانوروں کے مجسمے سر عام نصب کر کے خوابوں کے صورت گروں کے حقوق غصب کریں گے۔‘‘سجاد بخاری (بار ایٹ لا) نے پُر نم آنکھوں سے کہا ’’وہ دن دور نہیں جب چُغد، کرگس، بُوم، شپر، زاغ و زغن، گندی مچھلیاں اور کالی بھیڑیں یہاں عام ہوں گی۔‘‘

’’اپنی اصلاح کر لیں سجاد بخاری صاحب ‘‘محمد شفیع بلوچ نے گلو گیر لہجے میں کہا’’جس مخلوق کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ تو تخت و کُلاہ و تاج کی بارہ دریوں اور ایوانوں میں جا گھُسی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری شامت اعمال کسی ہلاکو، چنگیز اور نادر کی صورت میں سامنے آئے گی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں سب گدھے ، خچر، استر، گھوڑے ، لوٹے ، لُٹیرے ، کرگس زادے ، بُوم، شپر، گندی مچھلیاں، سفید کوے ، بگلا بھگت، گرگٹ اور مگر مچھ نیست و نابود ہو جائیں گے۔‘‘

فصیلِ جبر کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کے سلسلے میں محمد شفیع بلوچ وہ کام کر دکھاتا جو اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔ محمد شفیع بلوچ نے ہمیشہ اپنی ذات کو معاشرے کے حوالے سے دیکھا اور احتسابِ ذات کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔طنز کے شدید وار سے ہر انتہا کا کام تما م کرنا زندگی بھر اس کا شیوہ رہا۔ہوسِ زر، افراتفری اور بیگانگی کے اس دور میں ابن الوقت عناصر کی بو العجبی نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔اللہ کریم نے محمد شفیع بلوچ کو انسانی ہمدردی اور انسان شناسی کی جن صفات سے نوازا تھا ان کے اعجاز سے اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو گیا۔انسانی ہمدردی کے جذبات لہو کے مانند اس کے ریشے ریشے میں سرایت کر گئے تھے۔ وہ عجز و انکسار کا پیکر اور سراپا شفقت و خلوص تھا۔وہ کیا گیا کہ دیوار و در کی صور ت ہی بدل گئی اور گلشن ہستی سے فصلِ گُل نے مستقل طور پر رختِ سفر باندھ لیا۔اس شہر نا پرساں کی بے چراغ گلیوں میں اُداسی بال کھولے آہ و فغاں میں مصروف ہے۔ پُورا شہر سائیں سائیں کر رہا ہے ، اُداس بام اور کھُلے در حسرت و یاس کی تصویر بن گئے ہیں۔ حسن و عشق کی لفظی مرقع نگاری کرنے والا جب سے اُٹھا ہے زندگی کی رعنائیوں کا اعتبار ہی اُٹھ گیا ہے۔

زندگی کے آخری ایام میں محمد شفیع بلوچ نے اپنی حقیقت سے آگاہی اور شہر عرفان کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھا۔ جب اس نے پھنکارتی ہوئی تنہائیوں سے نجات حاصل کر لی۔ تو پرچھائیوں سے دور ذات کے عرفان و ادراک کی منزل اس کی منتظر تھی۔ یہاں پہنچ کر اس نے خیال و خواب کے راز ہائے سر بستہ اور وارداتِ قلبی کے انکشاف کے مراحل سے آگہی حاصل کی۔آگہی کے سرور کے حصول کے لیے وہ آبلہ پا مسافر کے مانند دشتِ عرفان میں پیہم صحرا نوردی کر تا رہا۔ یہ آگہی کا دان اس کی زندگی میں ایک ایسا نیا اور غیر معمولی ورد ان بن کر سامنے آیا جس کے چمتکار نے قارئین ادب کو حیرت زدہ کر دیا۔ چربہ ساز، سارق اور کفن دزد عناصر نے رواقیت کا جو مکھوٹا چڑھا رکھا ہے اس کا پردہ فاش کر کے محمد شفیع بلوچ نے اہم خدمت انجام دی۔ حریتِ فکر کے اس مجاہد کی زندگی کا سفرتو جیسے تیسے کٹ گیا مگر اس کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا۔ تیر کھا کر جب وہ کمین گاہ کی طرف دیکھتا تو اس کی اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جا تی۔کئی جو فروش گندم نما لوگ اس کے در پئے پندار رہتے۔اس کے عزیز و اقارب میں بھی کئی عقرب گھس آئے جن کی نیش زنی سے اس کی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو جاتا مگر اس نے اپنوں کے دکھوں کا بھید کبھی نہ کھولا اور بغیر آنسوؤں کے گریہ میں مصروف رہا اور اس طرح تزکیہ نفس کی ایک صورت تلاش کر لی۔ جن لو گوں سے اسے توقع تھی کہ وہ اسے راحتوں، مسرتوں اور سکون کا دوشالہ اوڑھنے کو دیں گے اُن کی طرف سے مصائب و آلام کی رِدا اُس کے سرپر رکھی گئی۔ خزاں کے لہجے میں متکلم اشجار نے یہ با ت ببا نگ دہل کہی کہ ابھی بہار کا کوئی امکان نہیں۔ وہ زندگی بھر بگولوں اور سرابوں کا ہم سفر رہا یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اسے عجیب کیفیت کا سامنا تھا نہ تو وہ سیراب تھا اور نہ ہی تشنہ کا م۔ اسی کشمکش میں اس کی زندگی بیت گئی اور وہ راہِ جہاں سے گُزر گیا۔اس وقت میرے لبوں پر لفظ پتھرا گئے ہیں۔اس دیرینہ رفیق کی دائمی مفارقت کی خبر سن کر پُورا وجود کرچیوں میں بٹ گیا ہے۔جیسے جیسے وقت گزرے گا اس عظیم انسان کی جدائی اور احساسِ زیاں کے کرب میں اضافہ ہو تا چلا جائے گا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں محمد شفیع بلوچ کبھی نہیں مر سکتا۔اگرچہ و ہ ہماری بزمِ ادب سے جا چکا ہے لیکن اس کے مداح اس کی آواز کی باز گشت پر کان دھرے اس کے منتظر ہیں اور ہر محفل میں اس کے وجود کی مہک قریۂ جاں کو معطر کر دیتی ہے۔حسین، منفرد اور ابد آشنا اسلوب کی بنا پر ہر عہد کے ادب میں محمد شفیع بلوچ کے اثرات ملیں گے۔ ممتاز شاعر سردار جعفری نے کہا تھا :

لیکن میں یہاں پھر آؤں گا

بچوں کے دہن سے بولوں گا

چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا

میں پتی پتی ، گلی گلی

اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سےتبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید