FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ملک و معاشرہ انتہائی خطرناک موڑ پر

               مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

 

۵؍ اکتوبر ۱۹۸۶ء کو ناگپور میں دانشوروں اور صحافیوں کے ایک چیدہ مجمع میں ایک اہم گفتگو اور تبادلۂ خیال Dialogue۔

بعنوان: ملک و معاشرہ کی جلد خبر لینے اور فکر کرنے کی ضرورت ہے

ناشر: پیام انسانیت فورم، لکھنؤ

بشکریہ

www.abulhasanalinadwi.org

 

            دوستو ، بھائیو اور بزرگو ! میں آپ سب کی تشریف آوری اور تکلیف فرمائی کا اپنی طرف سے اور اپنے سب بلانے والے ساتھیوں کی طرف سے خلوص دل سے خیر مقدم کرتا ہوں ، ہمارے دور اور ہمارے ملک میں سیاسی کانفرنسوں ، پارٹیوں کے اجلاس ، علمی سیمیناروں اور ادبی نشستوں کی کمی نہیں ، شاید کوئی دن خالی جاتا ہو کہ کوئی ایسی نشست نہ ہوتی ہو، پریس کانفرنسوں کی بھی کمی نہیں ، مگر وہ خاص اغراض کے ماتحت کی جاتی ہیں ، اور ان میں بے تکلف تبادلۂ خیال کی نوبت کم آتی ہے، ضرورت ہے کہ رسوم و تکلفات سے آزاد ہو کر جس طرح ایک خاندان یا ایک محلہ کے لوگ کسی جگہ اکٹھے ہو کر بے تکلف بات چیت کرتے ہیں ، دوستانہ و عزیزانہ گلہ شکایت ہوتی ہے، غلط فہمیاں رفع کی جاتی ہیں ، اپنے خاندان یا محلہ کے فلاح و بہبود کے لیے مشورے ہوتے ہیں ، بچھڑے ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں ، اس طرح ہم کبھی کبھی کسی مرکزی مقام پر جمع ہو کر دوستانہ و بے تکلفانہ گفتگو و تبادلۂ خیال کریں ،  اسی خیال و تجربہ کے ماتحت Dialogue زیادہ مفید سمجھا گیا ہے، اور اس کے بہتر نتائج نکلے ہیں ، اسی خیال کے ماتحت آپ حضرات کو آج تکلیف دی گئی ہے۔

اصل فکر و پریشانی کی بات اور خطرناک صورت حال

            حضرات ! انسان کے لیے بیماری کوئی غیر فطری چیز نہیں ہے، صحت کا اعتدال سے ہٹ جانا اور بیماری کا شکار ہو جا نا انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہے،  بلکہ یہ ایک طرح سے زندگی کی علامت ہے، پتھر غلطی نہیں کرسکتا، درخت غلطی نہیں کرسکتا، انسان ہی غلطی کرتا ہے، اس لیے غلطی زیادہ پریشانی کی بات نہیں اور اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ، انسانوں کی ایک بڑی جماعت کا کسی غلط راستہ پر پڑ جانا، اپنی سفلی خواہشات اور پست درجہ کے مقاصد کی تکمیل کے پیچھے دیوانہ ہو جانا، تاریخ انسانی کے لیے بھی اور تقدیر انسانی کے لیے بھی شدید تشویش کی بات نہیں ہے، تشویش کی بات یہ ہے کہ بگڑے ہوئے حالات سے پنجہ آزمائی کرنے، فساد و انتشار پیدا کرنے والی طاقتوں سے آنکھیں ملانے والے، اپنی سہولتوں ، عزتوں (اور بعض اوقات حکومت و اقتدار ) کو خطرہ میں ڈال کر میدان میں اتر نے والے نایاب ہو جائیں ، اصل تشویش کی بات یہ ہے، انسان بارہا ایسی بدنیت، فساد انگیز اور انتشار پسند طاقتوں ، قیادتوں یا سازشوں کے شکار ہو گئے ہیں اور ایسا نظر آنے لگا ہے کہ انسانیت سکرات کے عالم میں ہے، وہ جلد دم توڑ دے گی۔

            لیکن تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ ایسے ہر موقع پر کچھ ایسے افراد میدان میں آ گئے جنہوں نے زمانہ کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر حالات کا مقابلہ کیا، ان غلط رہنمائیوں اور قیادتوں کے مد مقابل بن کر کھڑے ہو گئے اور انھوں نے جان کی بازی لگا دی۔ انسانی تہذیب کا تسلسل جو ابھی تک قائم ہے، محض نسلی تسلسل نہیں ،  بلکہ انسانی خصوصیات کا تسلسل جو ہر دور میں رہا ہے ، انسانی احساسات و جذبات ، اعلی مقاصد و اخلاقی تعلیمات اور ان کی بقا و ترقی کے لیے ہمت و جرأت اور قربانی کا جذبہ جو اس وقت تک چلا آ رہا ہے، یہ در حقیقت انھیں لوگوں کا رہین منت ہے ، جو بگڑے ہوئے حالات میں میدان میں آئے اور انھوں نے زمانہ کے چیلنج کو قبول کیا، اور ان بگڑے ہوئے حالات سے پنجہ لڑایا اور بعض اوقات زمانہ کی کلائی موڑ دی، انھیں لوگوں کی بدولت انسانیت زندہ ہے۔

            ہر زمانہ کے شاعر ، ہر زمانہ کے ادیب اور ہر زمانہ کے اہل دل زمانہ کی بگاڑ کی شکایت کرتے چلے آئے ہیں ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد بھی انسانی خوبیوں کا سرمایہ ، انسانی احساسات و جذبات اور نیک انسان موجود رہے۔ یہ اصل میں انھیں لوگوں کی جد و جہد کا نتیجہ ہے جو اس وقت اپنے مفادات سے آنکھیں بند کر کے میدان میں آ گئے، انھوں نے اپنے لیے بھی، اپنے خاندانوں کے لیے بھی اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے بھی خطرہ مول لیا، زمانہ کا رخ موڑ دیا اور انسانیت کی کھیتی ان کی کوششوں اور قربانیوں کے پانی سے ہری ہو گئی۔

انسانیت کے بقا کی حقیقی ضمانت

            انسانیت کی بقا کی حقیقی ضمانت وہ جری، دلیر ، جان باز اور دردمند انسان ہیں ، جو زخمی دل ، اشک بار آنکھیں اور سلگتے اور جلتے ہوئے دل و دماغ رکھتے ہیں ، جو ناسازگار حالات کا سامنا کریں ، چوٹ کو برداشت کریں ، اور تاریخ کے دھارے کو بدلنے کے لیے جان کی بازی لگا دیں ، جب کبھی اس جنس کی کمی نظر آتی ہے تو پورا سماج ، پورا معاشرہ خطرہ میں پڑ جاتا ہے، خواہ دیکھنے میں آپ کو فربہی نظر آئے، جیسے ایک فربہ جسم جس کے اندر بیسیوں قسم کی بیماریاں پرورش پاتی ہیں ،  لیکن اس کی فربہی سب پردہ ڈالے رہتی ہے، دیکھنے والوں کو دھوکہ ہوتا ہے، اور سمجھتے ہیں کہ یہ انسان بہت تندرست ہے ،  لیکن حقیقت میں وہ بیماریوں کا مجموعہ ہے۔

سماج کے لیے سب سے بڑا خطرہ

            کسی سماج کے لیے بڑا خطرہ ( خواہ وہ دنیا کا قدیم سماج ہو یا جدید سماج ہو ) یہ ہے کہ اس کے اندر ظلم کا مزاج پیدا ہو جائے، پھر اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس ظلم کو ناپسند کرنے والے اس معاشرہ میں انگلیوں پر بھی گنے نہ جا سکتے ہوں ، دور بین تو دور بین، خوردبین سے بھی ان کو دیکھا نہ جا سکتا ہو، پورے سماج میں چند درجن آدمی بھی ایسے نہ ہوں جو اس ظلم کو، اس سفاکی کو، اس قساوت اور سنگدلی کو، کمزوروں پر دست درازی کو ناپسند کرتے ہوں ، اور اپنی ناپسندیدگی کا اعلان کرتے ہوں ، گھر بیٹھ کر ناپسند کرنے والے تو مل جائیں گے، جو چار چھ آدمیوں کی موجودگی میں کہہ دیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے، بڑے خطرہ کی علامت ہے،  لیکن اپنی ناپسندیدگی کا اعلان کریں ، اور اس کو لے کر میدان میں آ جائیں ،  ایسے افراد کی جب کسی سماج میں کسی معاشرہ میں کمی ہوتی ہے تو اس سماج ، اس معاشرہ اور اس سوسائٹی کو کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ہے۔ جب کسی معاشرہ میں ظلم پھیلنے لگا ہو، اور پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہو، جب ظلم کیے لیے یہ معیار بن گیا ہو کہ ظالم کون ہے ؟ ظالم کی قومیت کیا ہے ؟ ظالم کا فرقہ کیا ہے ؟ ظالم کی زبان کیا ہے؟ ظالم کس برادری سے تعلق رکھتا ہے ؟ تو انسانیت کے لیے ایک عظیم خطرہ پیدا ہو جاتا ہے، جب انسانیت کو اس طرح خانوں میں بانٹا جانے لگے اور ظالم کی بھی قومیت دیکھی جانے لگے، جب اس کا مذہب پوچھا جانے لگے، جب آدمی اخبار میں کسی فساد یا کسی ظلم و زیادتی کی خبر دیکھے تو پہلے اس کی نگاہیں یہ تلاش کریں کہ کس فرقہ کی طرف سے یہ بات شروع ہوئی ، اس میں نقصان کس کو پہنچا؟ جب ظلم کے ناپنے اور ظالم ہونے کا فیصلہ کرنے کا یہ پیمانہ بن جاتا ہے کہ وہ کس قوم ، فرقہ ، طبقہ و برادری سے تعلق رکھتا ہے تو اس وقت معاشرہ کو کوئی طاقت، کوئی ذہانت ، کوئی سرمایہ اور بڑے بڑے منصوبے بچا نہیں سکتے۔

مذاہب اور تاریخ عالم کا متفقہ فیصلہ

             میں مذہب ، انسانی تاریخ اور فلسفہ اور اخلاق کا ایک طالب علم ہونے کے ناتے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں ( اور مجھے اندیشہ ہے کہ شاید دوسرا شخص جس پر سیاسی طرز فکر غالب ہے ، نہ کہے گا ) کہ اس ملک کے لیے سب بڑا خطرہ اور آپ کی پہلی توجہ کا مستحق ظلم تشدد کا رجحان ، انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کی بے قیمتی ہے، ( خواہ اس کا تعلق کسی فرقہ سے ہو ) جس کا ظہور فرقہ وارانہ فسادات، طبقاتی اونچ نیچ کی بنا پر پورے پورے خاندانوں اور محلوں کی صفائی ، تھوڑے سے مالی فائدہ کے لیے انسان کی جان لے لینا، سفاکانہ جرائم اور مظالم کی کثرت ، اور سب کے آخر میں ( لیکن سب سے زیادہ شرمناک حقیقت ) مطلوب و متوقع جہیز نہ لانے پر نئی بیاہی دلہنوں کو جلا دینا، یا زہر دے کر مار دینا اور ان سے پیچھا چھڑانا ہے ۔ جو لوگ مذہب پر یقین رکھتے ہیں ، ان کے لیے تو یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا اور چلانے والا جو ماں سے زیادہ محبت کرنے والا اور مہربان ہے، اس عمل سے خوش نہیں ہوسکتا اور اس کو زیادہ دن برداشت نہیں کرے گا، اور اس کے نتیجہ میں ہزاروں کوششوں اور قابلیتوں کے باوجود کوئی ملک پنپ نہیں سکتا اور وہ معاشرہ زیادہ دن باقی نہیں رہ سکتا۔

            خدا کے وجود کے بعد جس حقیقت پر تمام مذاہب ، فرقوں اور مکاتب خیال کا اتفاق ہے، وہ یہ ہے کہ ظلم (خواہ کسی سے سر زد ہو) بڑا گناہ (مہا پاپ) اور ملکوں اور قوموں کے حق میں سم قاتل ہے، اور اس کا نتیجہ دیر یا سویر نکل کر رہتا ہے، اور اس کی موجودگی میں کوئی ملک یا قوم (خواہ اس کے پاس کیسے ہی قدرتی وسائل ، جنگی طاقت، عددی کثرت ، شاندار تاریخ اور علم و ادب اور فلسفہ کے خزانے ہوں ) پھل پھول نہیں سکتی۔

            لیکن جو لوگ مذاہب پر اعتقاد نہیں رکھتے، وہ اس تاریخی حقیقت سے واقف ہیں کہ اس سے کم درجہ کے ظلم اور سفاکی کی وجہ سے بڑی بڑی شہنشاہیاں اور وہ تہذیبیں جن کا کسی زمانہ میں ڈنکا بچتا تھا، اور آج بھی تاریخ و ادب کے صفحات پر ان کے روشن نقوش ہیں ، زوال کا شکار ہو گئیں اور داستان پارینہ بن کر رہ گئیں ۔ اس صورت حال کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے ، سیاسی مسائل اور انتخابی مہم سے زیادہ اس کے خلاف طوفانی مہم چلانے کی ضرورت ہے، سخت قوانین، عبرتناک سزاؤں ، ابلاغ عامہ کے ذرائع سے کام لینے اور انتظامیہ کو سخت سے سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ، ورنہ نہ بانس رہے گا نہ بانسری۔

جارحیت اور تشدد کا انجام خود سوزی اور خانہ بر اندازی

            فرقہ پرستی ، جارحیت اور تشدد کا کھلا رجحان ، ملک کو زمین دوز اور دھماکہ خیزسرنگوں کے رحم و کرم ر چھوڑ دینا ہے، جو بالآخر ملک کو لے ڈوبے گی۔ گاندھی جی اس حقیقت کو خوب سمجھتے تھے کہ فرقہ وارانہ منافرت، تشدد اور جارحیت، پہلے ملک کی آبادی کے دو اہم عنصروں ( ہندو مسلم فرقوں ) کے درمیان اپنا کام کرے گی ، پھر یہی دینی مذہبی اختلافات ، طبقات اور برادریوں کی صف آرائی اور نسلی ، لسانی ، صوبائی و علاقائی تعصبات کی شکل میں ظاہر ہو گی، اور جب یہ کام بھی ختم ہو جائے گا تو وہ آگ کی طرح ( جب اس کو چلانے کے لیے ایندھن نہ ملے تو اپنے کو کھانے لگتی ہے ) ملک کو اور امن پسند شہریوں کو اپنا لقمہ بنا لے گی، اور یہ ملک تباہ ہو کر رہ جائے گا۔

تعمیری کاموں اور خدمت انسانیت کا سب سے بڑا محرک اور راز یہ ہے کہ انسان کبھی انسان سے مایوس نہیں ہوا

            حضرات ! انسانیت کے حال و مستقبل اور سارے تمدنی، معاشی ، سیاسی، حتی کہ اخلاقی اور مذہبی مسائل کا انحصار اور تمام فلسفوں و افکار و نظریات کا دار و مدار تمام تر اس پر ہے کہ انسان موجود اور محفوظ ہے، اس کو اپنی زندگی کی طرف سے اطمینان ، انسانی زندگی کی قدر و قیمت کا احساس اور اس کے تقدس پر غیر متزلزل عقیدہ ہے۔ اس عقیدہ نے کہ انسان ہی اس دنیا کی پیدائش کا مقصود اور اس کائنات کا سب سے بیش قیمت وجود ہے اور اس کے اندر بہتر سے بہتر بننے کی صلاحیت موجود ہے، دنیا کے ذہین ترین، شریف ترین اور لائق ترین انسانوں کو انسانوں پر محنت صرف کرنے پر آمادہ کیا اور انھوں نے ان کی ذہنی صلاحیتوں اور ان کے ذہن و دماغ کے سوتوں کو چھیڑا، اور وہ تمام اصلاحی، تعمیری، تخلیقی، علمی ، ادبی ، تمدنی اور روحانی شاہکار وجود میں آئے، جن پر قدیم و جدید دنیا کو فخر ہے۔ تاریخ کے قدیم ترین دور سے لے کر ہمارے زمانہ تک جس چیز نے انسانیت کی شمع مسلسل طور پر روشن رکھی، وہ خدا کی یہ نعمت ہے کہ کچھ انسان ، انسان سے مایوس نہیں ہوئے، انھوں نے اس کو ناقابل علاج مریض اور ناقابل اصلاح حیوان نہیں سمجھا، وہ کبھی اس کے وجود سے ایسے متنفر نہیں ہوئے کہ اس کی صورت دیکھنے تک کے روادار نہ ہوں ، انھوں نے کبھی اس کے زندہ رہنے کے استحقاق کا انکار نہیں کیا، انسانیت کا چراغ بے تیل بتی کے جل سکتا ہے، وہ ہوا کے تیز جھونکوں اور طوفان کے تھپیڑوں میں روشن رہ سکتا ہے۔ اور انسانیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمت والوں اور انسانیت کا درد رکھنے والوں نے برسوں بے تیل بتی کے انسانیت کا چراغ روشن رکھا ، انھوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر اور مسلسل فاقہ کر کے جنگلوں اور بیابانوں ، کڑاکے کے جاڑوں کی راتوں اور تپتی ہوئی دو پہریوں میں انسانیت کی خدمت کی ، ان میں سے کوئی چیز ان کی ہمت توڑنے اور ان کو ان کے مقدس کام سے روکنے کے لیے کافی نہ تھی، ان کی نہ ختم ہونے والی قوت ِ مقابلہ کا راز، اور ان کی حیرت انگیز قوت عمل کی بنیاد یہ تھی کہ وہ انسان کو دستِ قدرت کا شاہکار (Master Piece) سمجھتے تھے، ان کو انسان کی فطرت سلیم پر یقین و اعتماد تھا، ان کو یقین تھا کہ انسان کے لیے برائی عارضی، اور بھلائی اصلی اور فطری ہے ، ان کو یقین تھا کہ وہ انسان پر جو محنت کریں گے وہ کبھی نہ کبھی رنگ لائے گی، ان کے عقیدہ میں اس باغ کی ہر کلی کو کھلنا اور حسین بننا چاہیے، عالم انسانی میں کوئی چیز اس سے زیادہ خطرناک اور تشویش انگیز نہیں کہ انسان انسان سے ناامید ہو جائے۔ اور اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ اس نفرت و یاس کے جنون میں بے زبان عورتوں اور معصوم بچوں پر دست درازی کرے اور غنچوں کو کھلنے اور مسکرنے سے پہلے ہی مسل کر رکھ دے۔ تعلیم و تربیت ہو یا اصلاح و ترقی، معاشی خوشحالی ہو یا سیاسی استحکام، یہ نشیمن جس شاخ پر قائم ہے اور ہمیشہ جس شاخ پر قائم رہے گا، وہ انسانی زندگی کے تحفظ اور امن و امان کی فضا ہے۔ اس لیے نشیمن کو سجانے اور بنانے کے منصوبوں اور اس کی ترتیب و تنظیم کی بحثوں سے پہلے اس شاخ کی حفاطت ضروری ہے۔

ملک کی سب سے بڑی طاقت اور دولت حق گو اور بے لاگ اور جان باز انسانوں کا وجود ہے

            حاضرین کرام ! ملک کی طاقت کا حقیقی سر چشمہ اور جینے اور پھلنے پھولنے کے لیے اس کا سب سے بڑا سہارا ایسے حق گو اور بے لاگ انسانوں کا وجود ہے جو بڑے سے بڑے نازک اور جذباتی موقع پر ظلم کو ظلم ، ناانصافی کو ناانصافی اور غلطی کو غلطی کہہ سکتے ہیں ۔ اگر آپ واقعی کسی قوم کی بیداری اور اس کی زندگی کی صلاحیت کو جانچنا چاہتے ہیں ، اور یہ اندازہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ قوم یا ملک انسانیت اور اخلاق اور علم و فن کی امانت کی حفاظت کی کہاں تک اہل ہے، تو یہ دیکھیے کہ اس میں کتنے ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو تنقید کے موقع پر اپنے پرائے کی تمیز نہ کرتے ہوں ، جو صریح غلطی کے موقع پر بڑی سے بڑی اکثریت اور بڑی طاقتور حکومت کو بر ملا ٹوک دیتے ہوں ، جو مظلوموں اور کمزوروں کے لیے سینہ سپر بن جاتے ہوں ، اور بگڑے ہوئے حالات میں عیش کے ایوانوں کو چھوڑ کر دیوانوں کی طرح پھرنے لگتے ہوں ، اور کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرتے ہوں ، جن کو آئندہ کے فوائد اور وقت کے مصالح سچی بات کہنے سے باز نہ رکھتے ہوں ، جو حق کی حمایت اور اعلان میں اپنی قوم کا معتوب بننے کو، اپنی قوم کا محبوب بننے پر ہزار بار ترجیح دیتے ہوں ، جب سارے ملک میں زیادتی، حق تلفی ، جانب داری اور مصلحت پرستی کی ہوا چل رہی ہو، تو وہ اپنا کھانا پینا بھول جائیں اور حالات کو درست کرنے کے لئے کوئی کوشش اٹھا نہ رکھیں ، جو وقت کے مسئلہ کے سامنے تمام مسائل کو بالائے طاق رکھ دیں ، ہر طرح کے اختلافات کو بھلا دیں ، بلا تمیز قومیت و ملت انسانی جان و آبرو کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دیں ۔ اگر ایسے افراد اس قوم کی تعداد کے مناسب اور ضرورت کے مطابق پائے جاتے ہیں تو اس قوم اور اس کے مستقبل کی طرف سے مایوس و ہراساں کی ضرورت نہیں ، اس کی ہر پریشانی دور ہو جائے گی ، ہر کمی پوری ہو جائی گی، پتھر موم اور دشمن دوست بن جائیں گے ، اس کی اخلاقی برتری کا ساری دنیا میں آوازہ بلند ہو گا، اس کے ملک میں خوش حالی ، سر سبزی اور شادابی، محبت و الفت کا دور آ کر رہے گا، اس کی بین الاقوامی حیثیت اچانک بلند ہو جائی گی، قومیں اور ممالک نازک حالات میں اور بین الاقوامی گتھیوں کے سلجھانے کے لیے اس کی مدد کے طالب ہوں گے۔

انسانیت کا آخری سہارا دو طبقے ( سچے مذہبی انسان اور اعلی دانشور) ہیں جن میں سب سے آخر میں بگاڑ آتا ہے

            جب کسی انسانی نسل پر کسی دور میں اخلاقی گراوٹ کا ایسا دورہ پڑتا ہے یا وہ کسی انسانی سازش یا کسی انتشار پسند طاقت کا شکار ہوتی ہے ، اس وقت دو طبقے میدان میں آتے ہیں : ایک دانشوروں کا طبقہ اور ایک مذہبی انسانوں کا طبقہ،  یہ دو طبقے ہیں جن میں بگاڑ   (Corruption) سب سے اخیر میں داخل ہوتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے، قیاس بھی یہی چاہتا ہے، اور عقل سلیم (Common Sense)کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ سب سے اخیر میں جس طبقہ میں فساد داخل ہوتا ہے اور خرابی آتی ہے ، وہ مذہبی آدمیوں کا طبقہ ہے، اس کے بعد دانشوروں کا طبقہ ہے ،  لیکن جب دانشوروں میں اور مذہبی انسانوں میں بھی بگاڑ (Corruption) آ جائے تو پھر اس معاشرے کا (یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ خدا حافظ ہے ، خدا حافظ ہو تو اطمینان ہی اطمینان ہے)،  لیکن پھر اس معاشرے کو کوئی چیز بچا نہیں سکتی۔

            اس وقت ہندوستان میں یہ موڑ آ گیا ہے کہ پڑھے لکھوں کی جماعت، دانشوروں کی جماعت ، ہماری جامعات اور دانش گاہوں کے فضلاء کی جماعت میدان میں آئے، اس وقت میدان دانشوروں کا ہے، مذہبی آدمیوں کا اور ایسے بے لاگ انسانوں کا ہے جو سیاسی پارٹیوں اور سیاسی مفادات سے بالکل آنکھیں بند کر لیں ، اس سے کوئی مطلب نہ رکھیں کہ ایسا کرنے سے ہماری پارٹی پاور میں آئی گی اور ہمیں حکومت ملے گی۔ ایسی مثالیں بھی تاریخ میں ملتی ہیں کہ جب موقع آیا انعام ملنے کا، اور جب حکومت تھالی میں رکھ کر پیش کی جانے لگی ، تو اللہ کے بندوں نے کہا کہ ہم نے اس لیے کام نہیں کیا تھا، ہم نے ہمدردی میں کیا تھا، خلوص کے ساتھ کیا تھا، خدا کی خوشنودی کے لیے کیا تھا، ہمیں اس کا انعام نہیں لینا ہے۔

ہندوستان کی تاریخ میں سب سے خطرناک دور

            میں بغیر کسی معذرت کے صاف کہتا ہوں کہ میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ ہمارا ہندوستانی معاشرہ کبھی ایسے خطرہ سے دوچار ہوا ہو جیسا کہ اس وقت ہوا ہے۔ میں بالکل اس پر معذرت نہیں کروں گا، ہندوستان کا جسم بار ہا زار و نزار ہوا، ہندوستان نے شکست کھائی، ہندوستان پر برطانیہ کی بدیسی حکومت رہی، یہ سب تاریخی واقعات ہیں ،  لیکن ہندوستان کی روح اور ہندوستان کا ضمیر اس طرح سے کمزور نہیں ہوا تھا کہ اس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہو، ہندوستان کی تاریخ میں ایسا دور نہیں آیا کہ برائی کو اور ظلم کو اس آسانی کے ساتھ گوارا کر لیا گیا ہو جس آسانی کے ساتھ آج گوارا کیا جا رہا ہے،  بلکہ اس کو فلسفہ بنا یا جا رہا ہے، اس کے ذریعہ سے جماعتوں کو مستحکم اور منظم کیا جا رہا ہے، اس کے ذریعہ ہندوستان میں حکومت کا استحقاق ثابت کیا جا رہا ہے، ہندوستان سیکڑوں مصیبتوں کا شکار ہوا ہے،  لیکن ضمیر انسانی کا ( Conscience ) زندہ رہا، اس نے اپنا کام کرنا ، اپنا (Function) کبھی چھوڑا نہیں ، اس وقت جو اصل خطرہ کی چیز ہے، وہ یہ ہے کہ جس کو شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے:

مجھے یہ  ڈر  ہے دل  زندہ  تو نہ  مر جائے

کہ زندگی ہی  عبارت ہے  تیرے جینے سے

زندہ اور بیدار ضمیر کی کار فرمائی اور انقلاب آفرینی

            مجھے یہ ڈر ہے کہ ہندوستان کا ضمیر کہیں مر نہ گیا ہو، اس سے بڑھ کر کوئی خطرہ کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اتنے بڑے ملک میں کسی دل درد مند کی کراہ سننے میں نہیں آتی کہ تڑپ کر کسی نے فریاد کی ہو اور قلندرانہ شان سے میدان میں آ گیا ہو، لیڈر اپنی جگہ پر، سیاسی جماعتیں اپنی جگہ پر ، دانش گاہیں اپنی جگہ پر، لائبریریاں اپنی جگہ پر ، خطیب و مقرر اپنی جگہ پر، ذہین (Intelligent) ، بلکہ (Genius) قسم کے انسان اپنی جگہ پر،  لیکن وہ ضمیر کہاں ہے ، جو معاشرہ کی اس پستی پر ، انسانیت کی اس بستی پر خون کے آنسو روئے ؟ انسانیت کی حفاظت اسی ضمیر نے کی ہے، تفنگ اور شمشیر نے نہیں کی ہے، سپاہ اور فوج نے نہیں کی ہے، شاہی خزانوں اور دولت کی بہتات نے نہیں کی ہے، علم انسانی کی ترقی نے نہیں کی ہے ، ٹکنالوجی اور سائنس نے نہیں کی ہے،  بلکہ ایک ضمیر انسانی ہے جو سب پر غالب آیا، جہاں وسائل نہیں تھے اس نے وہاں وسائل پیدا کر لیے، آپ دیکھیے جب کسی کے دل پر چوٹ لگتی ہے، اور جب کوئی بے قرار ہوتا ہے ، وہ کیا کر لیتا ہے! ایک آدمی کے پاس وسائل کا ڈھیر ہے، ، لیکن اس کے دل میں درد نہیں ہے اور کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہے، تو وقت گزر جاتا ہے اور وہ کچھ نہیں کرتا۔ مجھے جو خطرہ ہے ، وہ یہ ہے کہ ہندوستانی معاشرے کا ضمیر تعطل کا شکار ہو گیا ہے، اس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے، یہ خطرہ کی بات ہے، اس لیے کہ انسانیت کی آس اسی ضمیرسے ہے، اس دنیا میں جو کچھ خیر و فلاح کی امید ہے وہ اسی ضمیر سے ہے۔ جب یہ ضمیر بیدار ہو تا ہے، اس کو خدا کی طرف سے روشنی ملتی ہے، پیغمبروں کی طرف سے اس کو غذا ملتی ہے، اور یہ دولت پرستی کا شکار نہیں پوتا، طاقت پرستی کا شکار نہیں ہوتا، پھر یہ ضمیر وہ کام کرتا ہے جو بڑی بڑی سلطنتوں سے اور بڑی بڑی فوجوں سے نہیں ہو سکا ۔ دیکھیے کچھ زندہ ضمیروں نے ، کچھ درد مند ضمیروں نے اپنے اپنے زمانہ میں کیا کام کر لیا؟ یہ بزرگان دین، یہ رشی منی کیا رکھتے تھے؟ ان کے پاس کیا سرمایہ تھا؟ لیکن انھوں نے ایک نیا معاشرہ پیدا کر دیا، ایک نیا دور ان کی ذات سے شروع ہو گیا۔

ملک کا اخلاقی زوال اپنی آخری حد پر

            آج ہمارے معاشرہ کو ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو میدان میں آئیں اور ملک کو اخلاقی زوال سے بچائیں ، اخلاقی زوال اپنی آخری حد تک پہنچ گیا ہے، ایک آدمی کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو یہ تو ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ اس کے قرب و جوار میں کہرام مچ جائے، لوگ جمع ہو جائیں ، مائیں اپنے گھروں سے نکل آئیں ، اپنے بچوں کو چھوڑ دیں ، کوئی پانی لے کر آئے، کوئی دوا لے کر آئے کہ ہمارے بھائی معلوم نہیں کہاں جار ہے تھے ، حادثہ کا شکار ہو گئے،  لیکن اس ملک کی اخلاقی گراوٹ کا حال یہ ہے کہ اس وقت لوگ ان مرے ہوئے، کچلے ہوئے انسانوں کے ہاتھ سے گھڑیاں نکال لیتے ہیں ، اور ان کے پرس کی تلاشی لیتے ہیں ، اس وقت بجائے اس کے کہ ان خشک لبوں میں پانی کا ایک قطرہ ڈالیں ، وہ ظالم ان کی قیمتی چیزیں لوٹنے میں لگ جاتے ہیں ۔ آپ یہ واقعات تاریخ میں پڑھتے تو یقین نہ کرتے اور دوسرے ملک کے لوگ یقین نہیں کریں گے،  لیکن ہم کیا کریں ، ریلوں میں بارہا ایسے حادثے پیش آتے ہیں ، قریب کی دیہاتی آبادی دیکھتی ہے کہ ایک آدمی دبا ہوا ہے، دو لکڑیوں کے بیچ میں اس کا بدن آ گیا ہے، وہ کہتا ہے کہ میرا سب کچھ لے لینا،  لیکن کسی طرح مجھے اس شکنجہ سے نکال دو، انھوں نے اس کے ہاتھ سے گھڑی چھین لی اور اس کی جیب سے کچھ روپیے نکال لیے اور اس کو مرتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے۔ جو معاشرہ اس تنگ دلی کی حد تک پہنچ گیا ہو، اس معاشرہ کی کسی چیز کو دیکھ کر بھلا دل خوش ہو سکتا ہے؟ اس سے کچھ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ معاشرہ دنیا میں باقی رہے گا؟ کوئی بڑا قیادت کا رول ادا کرے گا؟

            میں نے کئی مرتبہ اس کا نقشہ کھینچا ہے کہ ایک مسافر بڑے ارمانوں کے ساتھ ممبئی سے آ رہا ہے، تھوڑی سی پونجی بچا کر، سنا ہے کہ ماں بیمار ہے، میں جاتے ہی دوا لاؤں گا، وہ میری صورت دیکھ کر خوش ہوں گی ، ان کے اندر طاقت آ جائے گی، وہ آنکھیں کھول دیں گی ، ابھی وہ اسٹیشن سے چلا ہی تھا کہ اسے چھرا بھونک دیا گیا، ادھر ماں تڑپ رہی ہے اور یہاں بیٹے نے جان دے دی۔ جس معاشرے میں یہ واقعات ہوں ، اس معاشرے میں کیا کوئی بھی ترقی ، اقتصادی ، سیاسی اور علمی ترقی خوشی کی بات ہوسکتی ہے؟ اس ملک میں جو یونیورسٹیوں کی تعداد بتلائی جاتی ہے ، میں کہتا ہوں اس کے دس گنا یونیورسٹیاں ہو جائیں ، جب بھی اس معاشرے کے لیے کوئی خوشی اور اطمینان کی بات نہیں ، کوئی عزت کی بات نہیں ، متوسط پڑھے لکھے لوگ ہوں ،  مگر ظلم سے نفرت ہو، گناہ سے نفرت ہو، (Corruption) سے نفرت ہو، وہ معاشرہ زندہ ہے، طاقتور ہے اور ممکن ہے کہ دوسری قوموں کی قیادت کرے۔

ملک کے ایک عظیم دانشور کا انتباہ اور ایک دُکھتے ہوئے دل کی کراہ

            میں اس موقع پر سابق صدر جمہوریۂ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین خاں مرحوم کے خطبۂ استقبالیہ کا ایک اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا جو انھوں نے ۱۷؍ نومبر ۱۹۴۶؁ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سلور جو بلی کے موقع پر دیا تھا، اس وقت ڈائس پر وزیر اعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو، صدر کانگریس مولانا آزاد، وزیر داخلہ سردار پٹیل ، وزیر تعلیم مسٹر راج گوپال اچاریہ ، مسلم لیگ کے قائد و صدر مسٹر جناح، اور عبوری حکومت ( Interim Government ) کے مسلم وزراء، ہندوستان کے چوٹی کے دانشور، ماہر تعلیم اور سوشل ورکر موجود تھے ۔ یہ وقت وہ تھا کہ فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا تھا اور دار الحکومت دہلی میں چاقو زنی کی وارداتیں پیش آ رہی تھیں ، جبلی کی تاریخیں مقرر ہو گئی تھیں اور التوا ممکن نہ تھا، ملک کے ممتاز و معزز مہمانوں کو اپنی قیام گاہ پر پہنچانے کے لیے حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے، یہ اقتباس آج بھی بر محل ، درد و اثر سے لبریز اور زندہ ہے۔

             ڈاکٹر صاحب نے فرمایا :

            ’’آپ سب صاحبان آسمان سیاست کے تارے ہیں ، لاکھوں نہیں ،  بلکہ کروڑوں آدمیوں کے دل میں آپ کے لیے جگہ ہے، آپ کی یہاں کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر میں تعلیمی کام کرنے والوں کی طرف سے بڑے ہی دکھ کے ساتھ چند لفظ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ آج ملک میں باہمی منافرت کی جو آگ بھڑک رہی ہے ، اس میں ہمارا چمن بندی کا کام دیوانہ پن معلوم ہوتا ہے، یہ آگ شرافت اور انسانیت کی سر زمین کو جھلسے دیتی ہے ، اس میں نیک اور متوازن شخصیتوں کے تازہ پھول کیسے پیدا ہوں گے ؟ حیوانوں سے بھی پست تر سطح اخلاق پر ہم انسانی اخلاق کو کیسے سنوار سکیں گے ؟ اس کے لیے خدمت گزار کیسے پیدا کرسیکں گے؟ یہ لفظ شاید کچھ سخت معلوم ہوتے ہوں ،  لیکن ان حالات کے لیے جو روز بروز ہمارے چاروں طرف پھیل رہے ہیں ، اس سے سخت لفظ بھی بہت نرم ہوتے ، ہم جو اپنے کام کے تقاضوں سے بچوں کا احترار٭٭٭٭٭ م کرنا سیکھتے ہیں ، آپ کو کیا بتائیں کہ ہم پر کیا گزرتی ہے؟ جب ہم سنتے ہیں کہ بہیمت کے اس بحران میں معصوم بچے بھی محفوظ نہیں ہیں ، شاعر ہندی نے کہا تھا کہ ’’ہر بچہ جو دنیا میں آتا ہے ، اپنے ساتھ یہ پیام لاتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے پوری طرح مایوس نہیں ہوا ‘‘ مگر کیا ہمارے دیس کا انسان اپنے سے اتنا مایوس ہو چکا ہے کہ ان معصوم کلیوں کو بھی کھلنے سے پہلے ہی مسل دینا چاہتا ہے ؟ خدا کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیے اور اس آگ کو بجھائیے، یہ وقت ا س تحقیق کا نہیں کہ آگ کس نے لگائی؟ کیسے لگی ؟ آگ لگی ہوئی ہے، اسے بجھائیے، یہ مسئلہ اس قوم اور اس قوم کے زندہ رہنے کا نہیں ہے، مہذب انسانی زندگی اور وحشیانہ درندگی میں انتخاب کا ہے ، خدا کے لیے اس ملک میں مہذب زندگی کی بنیادوں کو یوں کھُدنے نہ دیجیے!‘‘۔

اپنے فرقہ اور اپنے ساتھیوں کا بے لاگ اخلاقی محاسبہ کرنے اور ان کی خبر لینے کے بجائے دوسرے فرقہ کو وعظ و نصیحت

            یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ عام طور پر جو لوگ اس صورت حال میں کچھ کرنے کے لیے بھی کھڑے ہوتے ہیں ، وہ اپنے فرقہ یا جماعت کی اصلاح و تربیت کے پُر مشقت اور محنت طلب کام کو چھوڑ کر دوسرے فرقہ اور جماعت کو وعظ و نصیحت ، اس کو خلاقی و علمی درس دینے، اور اس پر واقعات کی ذمہ داری عائد کرنے کے آسان کام کو اختیار کر لیتے ہیں ۔ قوموں کی جدید ذہنی تعمیر و تشکیل ، مختلف عناصر میں دیانت دارانہ اور مساویانہ طریقہ پر ہم آہنگی پیدا کرنے ، اور ملک کو اس خطرہ سے بچا لینے کے لیے (جو ننگی تلوار کی طرح اس کے سر پر لٹک رہا ہے، ) فرہاد کا جگر اور قیس کا جنون چاہیے، حیرت اور اس سے زیادہ حسرت کی بات ہے کہ اپنے ساتھیوں کا بے لاگ اخلاقی محاسبہ کرنے ، اور تمام مصلحتوں اور خطروں سے بے نیاز ہو کر طاقت اور اکثریت کے مُنہ پر حق بات کہنے والے افراد بہت کم نظر آتے ہیں ، اور یہ کسی ملک کا سب سے بڑا خلا اور خطرہ کی نشانی ہے۔

            خاص طور سے موجودہ حالا ت اتنے غیر معمولی، اتنے تشویشناک ، اور اتنے مُہیب ہیں کہ اب معمولی اخلاقی اپیلوں یا حکومتی انتظامات سے کام نہیں چل سکتا، اس کے لیے تو ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ نے ، اس کی روح کو چیخ کر پکارنے ، اور انسانی شرم و حیا، انسانیت دوستی اور خوف خدا کے آخری رمق سے کام لینے کی ضرورت ہے، جس سے یقیناً ابھی تک اس قدیم مذہبی ملک اور یہاں کا نرم اور پریمی دل خالی نہیں ہوا ہے۔ اس کے لیے چند آدمیوں کو اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر نکلنے کی ضرورت ہو گی، اس کے لیے کچھ مدت کے لیے اپنے تمام کاموں کو ملتوی اور بالائے طاق رکھنے کی ضرورت ہو گی۔

قوم کی تعمیر اور شعور و ضمیر کی تربیت میں مجرمانہ کوتاہی

            ہمیں اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اس ملک کا انسانی شعور بیدار کرنے کیے لیے اور انسان کو انسان سے محبت کرنے کا سبق سکھانے کیے لیے اور انسانی جان اور انسانی ناموس کی قیمت ذہن نشین کرنے کے لیے کہاں تک اور کتنی جد جہد کی ہے ، اور اس کے لیے کب کوئی ہند گیر تحریک چلائی ہے ؟ ہم نے حصول آزادی کے لیے یقیناً جان کی بازی لگا دی ، اس کے لیے ایک طویل مہم چلائی جس میں ایک طرف ہر ہندوستانی کے دل میں آزادی کی آگ لگا دی، دوسری طرف اس سے برطانیہ کا قصر استعمار تزلزل میں آ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نا ممکن بات ممکن ہو گئی، اور ہندوستان کو آزادی مل گئی،  لیکن ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے جتنی کوشش کی ، قوم کے ضمیر کو آزاد کرانے کی ادنی کوشش بھی نہیں کی ، ہم نے اس کو برطانیہ کے ظلم سے متنفر بنایا،  لیکن ظلم کی ہر شکل سے متنفر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ آج بھی ہم ملک کی تعمیر کی جتنی کوشش کر رہے ہیں ، قوم کی تعمیر کی اس کی آدھی اور چوتھائی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں ، اس کا نتیجہ ہے کہ ملک موجود اور قوم موجود نہیں ، ہم اپنی زمین کا ایک انچ بھی دوسرے کے قبضہ میں دینے کے لیے تیار نہیں ( اور یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیے )،  لیکن ہم بے تکلف اپنے ہی جسم کو زخمی کرتے ہیں ، اپنا ہی بازو کاٹنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں ، اپنے ہی ہاتھوں اپنا گھر ڈھاتے ہیں ، اور ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلا کاٹتا ہے۔

اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں

            دوستو اور بزرگو ! کوئی کا م شدید جد و جہد ، خطرات اور قربانیوں کے بغیر نہیں ہوسکتا، قوم کی صحیح تعمیر اور انسانیت کا احترام اور باہمی اعتماد و محبت پیدا کرنے کے لیے ہم کو ایک مجنونانہ اور سر فروشانہ جد و جہد کی ضرورت ہے۔ ہندوستان تاریخ کے ایک نازک موڑ اور فیصلہ کن دورا ہے پر کھڑا ہے ، ایک راستہ ہمیشہ کی تباہی، نہ مٹنے والے انتشار اور نہ ختم ہونے والے زوال کی طرف جاتا ہے، ایک راستہ ہمیشہ کے امن و امان، اتحاد و یک جہتی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہر ایسے موڑ پر کچھ ایسے لوگ سامنے آ جا تے ہیں جو تاریخ کا رخ اور واقعات کا دھارا بدل دیتے ہیں ، ان کی دلیری ، ان کی صاف گوئی اور ان کی جان بازی پورے پورے ملک اور قوم کو بچا لے جاتی ہے، یہی لوگ ملک کے معمار ہوتے ہیں ، ان کا عمل اس حکیمانہ شعر پر ہوتا ہے  ؎

اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں

اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں

            اکثر ایسے لوگ سیاست اور حکومت کے ایوانوں سے باہر ملک کے بے لوث خادموں اور سچے روحانیوں اور دانشوروں میں پائے جاتے ہیں ، جن کی نیتوں پر شبہ نہیں کیا جا سکتا، جن کی صداقت اور بے غرضی مسلم ہوتی ہے، اور ان کا ماضی ہر داغ سے پاک ہوتا ہے۔ اگر خدانخوستہ یہ بھی اپنا مقام چھوڑ دیں اور اپنے منصب سے نا آشنا ہو جائیں ، یہ بھی اپنی جگہ تلاش کرنے میں لگ جائیں کہ اس بگڑتے ہوئے ماحول میں ہماری کیا جگہ ہے، اور یہ سمجھ کر کہ اس ملک یا اس تہذیب کی قسمت میں تباہی تو لکھی ہی ہوئی ہے اور اب یہ کشتی تو ڈوب کر ہی رہے گی ، اس لیے ڈوبنے سے پہلے کچھ فائدہ اٹھا لیں اور اپنی خواہشات پوری کر لیں ، تو یہ تبدیلی کسی قوم کے لیے بس قیامت ہوتی ہے، پھر اس قوم کو کسی مصنوعی تدبیر یا دنیا کی کسی بڑی طاقت سے بچایا نہیں جا سکتا، اگر دنیا کے سارے مفکر اور تمام فلاسفر جمع ہو جائیں اور حکومت کے سارے وسائل موجود ہوں تو بھی اس ملک یا تہذیب کو کوئی بچا نہیں سکتا، اس لیے کہ دانشور اور مذہب کا صحیح علم رکھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا طبقہ ان خطرات سے آگاہ ہو جاتا ہے، جو برادر کشی، انسان دشمنی، مردم آزاری، سفاکی اور سنگدلی سے پیدا ہوتے ہیں ، انھوں نے مذہبی کتابوں میں خدا کا ان کے ساتھ معاملہ اور تاریخ میں ان کا انجام پڑھا ہوتا ہے، وہ قوموں کے عروج و زوال کے فلسفہ اور ان کے حقیقی اسباب و علل سے باخبر ہوتے ہیں ، تو اس کے نتیجہ میں کیا تباہیاں آتی ہیں ؟ اس لیے وہ اس صورت حال سے سب سے زیادہ تشویش اور خطرہ محسوس کرتے ہیں ، ہر طبقہ سے زیادہ ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے، اور وہ اس موقع پر میدان میں آ جاتے اور ملک ، قوم اور معاشرہ کو ہلاکت سے بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ، میں اس موقع پر بلا کسی معذرت کے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھوں گا، جس میں ماضی کے آئینہ میں حال کی بولتی ہوئی تصویر موجود ہے اور اس کی اصلاح کے لیے ایسے ہی لوگوں سے توقع ظاہر کی گئی ہے جن کے دماغوں میں کچھ بچی کھچی روشنی اور دلوں پر انسانیت کا رہاسہاصدمہ اور اثر ہو:

            {فَلَوْلاَ کَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ أُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّنْ أَنْجَیْْنَا مِنْہُمْ  وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ أُتْرِفُوْا فِیْہِ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ}(۱) (سورۃ ھود: ۱۱۶)

( تم سے پہلے کے انسانی نسلوں اور گروہوں میں کچھ ایسے صاحب شعور لوگ کیوں نہ ہوئے جو ملک میں فساد اور بگاڑ کو منع کرتے، ان میں تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوئے جو ان خصوصیات کے حامل تھے، اور ہم نے ان کو ( اس عام تباہی سے ) بچا لیا، باقی جنہوں نے اس زیادتی اور ظلم کا راستہ اختیار کیا وہ انھیں آسائشوں اور لطف و عیش کے راستہ میں پڑ گئے، جن کے ذرائع و مواقع ان کو مہیا کیے گئے تھے اور وہ مجرم تھے۔)

چار نکاتی ( ہمہ گیر اور طویل المیعاد ) پروگرام کی ضرورت

            اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جو ملک کے لیے تباہ کن، اس کو بدنام کرانے والی اور بیرونی دنیا کی نگاہ میں اس کو غیر وقیع، بے اعتبار، غیر متمدن اور غیر ترقی یافتہ ثابت کرنے والی ہے، اور جس کی اصلاح یا تدارک میں ملک کے ذی شعور، درد مند اور انسان دوست طبقہ کی بہترین توانائیاں اور صلاحیتیں صرف ہوتی ہیں ، ایک ہمہ گیر طویل المیعاد پروگرام کی ضرورت ہے جس پر ملک کے دانشوروں ، اصلاحی اور تعلیمی کام کرنے والوں اور سیاسی رہنماؤں کو جلد توجہ کرنی چاہیے۔

            میں اس سلسلہ میں ان چار نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں جو میرے نزدیک فوری طور پر مؤثر اور مفید ہوسکتے ہیں :

            ۱۔ خالص مذہبی ، اخلاقی، انسانی بنیاد پر عوام سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کی کوشش اور دوروں ، وفود، ملاقاتوں ، محلوں ، بستیوں ، گاؤں اور قصبات کی سطح پر جلسوں اور خطابات کی تنظیم، جن میں انسان کی جان ، اس کی عزت و آبرو، مال و املاک کے قدر و قیمت ذہن نشین کرنے کی کوشش کی جائے، ان کے احترام و تحفظ کی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔

            مذہبی، اخلاقی و انسانی بنیاد پر یہ کام اس لیے مفید اور مؤثر ہے کہ اس ملک کے باشندوں کا مزاج فطرتاً مذہبی ، امن پسند، محبت آشنا اور انسان دوست واقع ہوا ہے ، وہ اسی زبان کو زیادہ سمجھتے ہیں ، اور اسی راستہ سے ان کے دل و دماغ تک پہنچنا آسان ہے ، اور اسی کا اثر مستقل اور دیر پا ہوتا ہے۔ دوسرے اس لیے کہ (افسوس اور شرم کے ساتھ یہ بات کہی جاتی ہے ) بار بار تجربوں کے بعد عوام کا سیاسی پارٹیوں اور الکشن کے موقع پر منشور اور اعلانات پر سے بھروسا اور عقیدہ اٹھتا جا رہا ہے، اور وہ اس سے متأثر نہیں ہوتے۔

            ۲۔ پرائمری کے مرحلہ سے لے کر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی مرحلہ تک نصاب تعلیم، بالخصوص تاریخ کے مضامین اور اس کے نصاب کی اصلاح جو ملک کے دو بڑے فرقوں (مسلمانوں اور غیر مسلموں ) کے دل و دماغ میں منافرت کے بیج بونے کا ذمہ دار ہے،  چونکہ تعلیم و تلقین کا یہ سلسلہ بچپن کے ابتدائی دور سے شروع ہو جاتا ہے اور کتاب میں پڑھی ہوئی باتوں کا یقین ( بالخصوص جب ان کو واقعات ، قصوں اور کہانیوں سے مستحکم کیا جائے، اور استاد بھی اس کے پر جوش مبلغ و داعی ہوں ) طالب علموں کے دلوں میں پیوست ہو جاتا ہے، اور وہ ہر لکھی اور چھپی ہوئی بات کو ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ان کا ذہن و دماغ اسی میں ڈھل جاتا ہے، اور ان کی پوری زندگی اسی کے سایہ میں گزرتی ہے۔ یہی زہر ہے جو آج ہمارے پورے معاشرہ میں پھیلا ہوا ہے، اور کسی وقت ہانڈی کا ابال اور جذباتی اشتعال بن کر فرقہ وارانہ فسادات اور عملی تصادم کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جب تک اس نصاب تعلیم کی (جس کی داغ بیل انگریزوں نے اپنے سامراجی مقاصد اور ’’ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ (Divide and Rule) کے اصول کے ماتحت ڈالی تھی ) اصلاح نہیں ہو گی، اس امن و آشتی ، باہمی اعتماد اور دونوں فرقوں کے درمیان خوش گوار تعلقات کی امید نہیں کی جا سکتی۔

            ۳۔ ہندوستانی پریس میں اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کی مؤثر اور طاقتور اور منظم اور مخلصانہ کوشش ، یہ اخبارات اپنے ہیجان انگیز مضامین، سنسنی خیز خبروں اور تصویر کا بالعموم ایک رخ پیش کرنے اور ایک فرقہ کے ظلم اور ایک فرقہ کے مظلومیت ہی کو نمایاں کرنے کے ذریعہ لاکھوں انسانوں کے دل میں نفرت و عداوت کی آگ بھڑکا دیتے ہیں اور کسی فرقہ، جماعت یا آبادی کے ایک عنصر کی طرف سے شکوک و بد گمانیوں کا ایک بادل بنا دیتے ہیں ۔

            میں نے کچھ عرصہ ہوا لکھنؤ میں مدیران جرائد کی ایک معقول تعداد کے سامنے جو ایڈیٹرس کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے تھے، فارسی کے ایک مشہور شعر کا ایک مصرع پڑھا تھا:

زیر قدمت ہزار جان است

            شاعر محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے: ’’تیرے قدم کے نیچے ہزاروں جانیں ہیں ، اس لیے چلنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘ اس مصرع میں صرف ایک حرف کی ترمیم کے ساتھ میں نے اس کو اس طرح پڑھا تھا:

زیر قلمت ہزار جان است

            ’’آپ کے قلم کے نیچے ہزاروں انسانی جانیں ہیں ، اس لئے لکھنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘

            ۴۔ برطانوی حکومت نے اپنی کمزوری اور اس حقیقت کا احساس کر کے کہ اس کے نمائندے ہندوستان میں بہت تھوڑی تعداد میں ہیں ، اور وہ سات سمندر پار سے اس ملک اور اہل ملک کی مرضی کے خلاف اس پر اپنا قبضہ اور اقتدار قائم کیے ہوئے ہے، ہندوستان میں اپنے اور پبلک کے درمیان ایک ’’ایجنسی‘‘ کی ضرورت سمجھی تھی، جو اس کا پبلک پر رعب و داب قائم رکھے اور جس سے یہاں کے عوام دہشت زدہ اور مرعوب رہیں ، اور جس کے سہارے وہ یہاں اپنے جابرانہ قوانین نافذ اور حالات کو کنٹرول کرسکے، یہ پولس کا ادارہ تھا، اور چونکہ بدیسی حکومت میں اس کی بنیاد اسی نظر یہ پر پڑی تھی ، اس لیے اس نے اس کی تربیت دہشت انگیزی پر کی تھی، اس کو جان بوجھ کر ہر طرح کی اخلاقی تربیت، ہم وطنوں کے احترام اور لطیف و بلند انسانی احساسات و جذبات سے الگ رکھا تھا، اس کا نتیجہ اس کیریکٹر کی شکل میں ظاہر ہوا جو اس ادارہ کا نہ صرف امتیازی نشان،  بلکہ قابل تعریف اور باعث افتخار بن گیا۔

            لیکن اب جبکہ ہندوستان آزاد ہے، اور ہمارے منتخب کیے ہوئے بھائیو ں کا کام اس ملک پر حکومت کرنا نہیں ،  بلکہ اس کا انتظام سنبھالنا اور پبلک کی خدمت کرنا ہے، پولیس کا معیار اور اس کے بارے میں نقطۂ نظر بدلنا چاہیے، اور اس مفید ادارہ کی تربیت ( جو ملک کی آبادی کا ایک اہم جزو اور قابل احترام عنصر ہے )بالکل دوسرے نہج پر ہونی چاہیے۔ اس میں اخلاقی تربیت، ہندوستانی شہریت، اور انسانی احساسات، دوسروں کی مدد کا جذبہ ، کمزوروں پر رحم ، چھوٹوں پر شفقت اور پاکباز انسانوں کا احترام اور اپنے فرائض کو بہتر سے بہتر طریقہ پر ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ وہ اس طرح سے اہل ملک اور اپنے ہم وطنوں کی نظر میں مونس و غم خوار اور معاون و مدد گار نظر آئیں ، دوسرے ملکوں میں حتی کہ خود برطانیہ میں ان کو اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

انوکھی معذرت

            حضرات ! ’’پیام انسانیت ‘‘ کے داعیوں اور کارکنوں نے آپ کو اسی توقع پر یہاں آنے ، اور ایک جگہ جمع ہو کر ملک کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے، اور اس کو تبدیل کرنے کی تدبیروں پر غور کرنے کے لیے زحمت دی۔ میں نے آپ کے سامنے ملک کی موجودہ صورت حال کا جو مُہیب نقشہ پیش کیا ہے، اس میں قطعاً مبالغہ اور رنگ آمیزی نہیں ہے، اور اس پر جس تشویش اور خطرہ کا اظہار کیا ہے، اس میں بھی تخیل آرائی یا بد شگونی سے کا م نہیں لیا ہے۔میں آپ سے اپنی صاف گوئی اور تلخ نوائی کی معافی مانگتے اور اس پر معذرت کرتے ہوئے غالب کا یہ شعر پڑھنے کے بجائے کہ

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

            اس پر متأسف اور نادم ہوں کہ میں اس سے بڑھ کر صاف گوئی اور اس سے زائد تلخ نوائی کی جرأت نہ کرسکا، اور میری زبان و قلم نے میرے دردِ دل کا ساتھ نہیں دیا اور لکھنؤ کے قدیم شاعر امیر مینائی کا شعر پڑھ کر رخصت ہوتا ہوں کہ

امیر جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے

پھر التفات دل دوستاں رہے نہ رہے

٭٭٭

تشکر: ابو الہادی الاعظمی جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید