FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

روشن گلاب

                   رضیہ اسماعیل

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

غزلیں

غموں پہ ہاتھ ملنا آ گیا ہے

کھلونوں سے بہلنا آ گیا ہے

بہت پتھر کیا تھا خود کو میں نے

تو بچھڑا تو پگھلنا آ گیا ہے

محبت ہے کہ تو نفرت ہے، جو ہے

تِرے سانچے میں ڈھلنا آ گیا ہے

یہ کیسی درد کی سوغات دی ہے

بنا شعلوں کے جلنا آ گیا ہے

تجھے یہ سُن کے دُکھ ہو یا خوشی ہو

مجھے گر کر سنبھلنا آ گیا ہے

گلابوں کو تم اپنے پاس رکھو

مجھے کانٹوں پہ چلنا آ گیا ہے

٭٭٭

 

لفظوں کی جھنکار کو مرنے مت دینا

اندر کے فن کار کو مرنے مت دینا

کوثر اور تسنیم سے دھو لو ہونٹوں کو

ناطق ہو، گفتار کو مرنے مت دینا

پتی پتی چُن کر پھول بنا لینا

خوشبو کے سنسار کو مرنے مت دینا

منزل دُور بہت اور پاؤں زخمی ہیں

چلتے رہو، رفتار کو مرنے مت دینا

 سجدوں اور دعاؤں کی سوغاتوں سے

تم اپنے بیمار کو مرنے مت دینا

مرنا پڑے سو بار اگر تو مر جاؤ

پر اپنے کردار کو مرنے مت دینا

٭٭٭

 

اک لفظ بھی نظر نہیں آتا کتاب میں

یہ کیا لکھا ہوا ہے محبت کے باب میں

دنیا کی فکر میں بھلا دیوانی کیا کروں

آتی نہیں یہ چیز تو میرے حساب میں

اب چاندنی سے کوئی گلہ ہی نہیں رہا

چہرہ نظر جو آیا تِرا ماہتاب میں

خط کے جواب نے مجھے حیران کر دیا

اب سوچتی ہوں کیا لکھوں تجھ کو جواب میں

تتلی کو دیکھ اس کو پکڑنے کی جستجو

ہوتا سبھی کے ساتھ ہے دَورِ شباب میں

احوال دل کا دل کے سوا کون جانتا

گزری جو ہم پہ وہ نہ لکھی تھی نصاب میں

توڑا تھا پھول شاخ سے تیرے خیال میں

محفوظ اس کو کر لیا دل کی کتاب میں

٭٭٭

 

انوکھا کام کرنا چاہتی ہوں

زمانے کو بدلنا چاہتی ہوں

گھٹائیں جھوم کر اٹھی ہیں مجھ میں

میں بارش ہوں ، برسنا چاہتی ہوں

ستم کو، جور کو، سب نفرتوں کو

محبت سے نمٹنا چاہتی ہوں

ہوا جو نذرِ طوفاں آشیانہ

میں اس میں پھر سے بسنا چاہتی ہوں

خطا کس سے بھلا ہوتی نہیں ہے

گری ہوں تو سنبھلنا چاہتی ہوں

              ٭٭٭

رفاقتوں کے زمانے ہنساتے رہتے ہیں

جدائیوں کے زمانے رُلاتے رہتے ہیں

تمھاری آنکھ میں تِل دیکھ کر نہ جانے کیوں

عجیب وہم سے مجھ کو ڈراتے رہتے ہیں

تلاشِ خواب میں راتوں سے دوستی کر لی

اندھیرے رات کے پھر بھی ڈراتے رہتے ہیں

ہمیں کچھ ایسی ضرورت نہیں ہے اشکوں کی

تمھاری یاد میں ساون مناتے رہتے ہیں

کسی کے ہاتھ کے لمس اب بھی چپکے چپکے سے

رفاقتوں کی کہانی سناتے رہتے ہیں

وہ شام ہے کہ سحر، فرق ہی نہیں پڑتا

تمھاری یاد کی شمعیں جلاتے رہتے ہیں

٭٭٭

 

یوں دُوریوں کی آگ میں اب نہ جلا مجھے

معلوم بھی تو ہو کوئی اپنی خطا مجھے

باتیں ہزار آ کے لبوں پر ٹھہر گئیں

کہتی میں کیا کہ اس نے بھی کچھ نہ کہا مجھے

وہ گم تھا اپنی ذات کے صحرا میں اس طرح

کچھ دیر کو بھٹک گئی میں بھی، لگا مجھے

وہ چاند تھا گھٹاؤں میں چھپتا چلا گیا

میں چاندنی تھی، ہونا تھا آخر جدا مجھے

موقع ملے ملے، نہ ملے سوچنا ہے کیا

میں تو نمازِ عشق ہوں ، کر لو ادا مجھے      ٭٭٭

 

چپ کا دریا ہے اور بہتا نہیں

سب سمجھتے ہیں ، کوئی کہتا نہیں

پتھروں کے نگر میں آ نکلی

کوئی انساں یہاں پہ رہتا نہیں

اپنے حصے کے دُکھ اٹھانے ہیں

کوئی پیڑیں پرائی سہتا نہیں

خواب بارش میں دھُل گئے سارے

کوئی کاغذ کے گھر میں رہتا نہیں

دل کی سنسان سی حویلی کو

اب حویلی بھی کوئی کہتا نہیں

غم کی شدّت سے منجمد ہے دل

اب تو خوں بھی رگوں میں بہتا نہیں

٭٭٭

 

خواب آنکھوں میں کچھ پرانے دو

مجھ کو گزرے ہوئے زمانے دو

اشک آنکھوں میں اب نہیں آتے

مجھ کو رونے کے کچھ بہانے دو

وہ تماشا بنا گیا مجھ کو

غم کا بازار اب لگانے دو

تیرے انساں نے کر دیا مایوس

مجھ کو اک بُت نیا بنانے دو

اب تو جینا بھی موت لگتا ہے

مجھ کو اپنی چتا سجانے دو        ٭٭٭

 

سب کو رزقِ زمین ہونا ہے

منتظر خاک کا بچھونا ہے

جو بھی کرتے ہیں اس جہاں میں ہم

اس کا آخر حساب ہونا ہے

موت ہے زندگی ہمیشہ کی

کیسے آنسو، یہ کیسا رونا ہے

مفت میں دل فگار کرتے ہو

دل کو آخر تباہ ہونا ہے

جم گئے آنکھ میں کہیں آنسو

برف پگھلی تو سب ڈبونا ہے

پاؤں منزل سے آگے جا نکلے

راستوں کا یہی تو رونا ہے

٭٭٭

 

سمندر آگ بن جائیں تو اشکوں سے بجھا ڈالوں

ہوائیں برق بن جائیں تو آہوں سے جلا ڈالوں

مِرا چہرہ، مِرے بازو مجھے اپنے نہیں لگتے

اگر تیری اجازت ہو، نیا اک بُت بنا ڈالوں

محبت زخم ہے تو ڈھونڈ کر لاؤ کوئی مرہم

وگرنہ درد کے رستے کو پھولوں سے سجا ڈالوں

وفائیں ہاتھ ملتی ہیں ، جفائیں مسکراتی ہیں

نہ کیوں میں سلسلے ایسے زمانے سے مٹا ڈالوں

کٹی شاخوں پہ بھی اب تک پرندے روز آتے ہیں

کہیں ایسا نہ ہو میں اِن پرندوں کو اُڑا ڈالوں

٭٭٭

 

ہمیں آغاز کرنا ہے کسی انجام سے پہلے

سحر کو شام کرنا ہے کسی الزام سے پہلے

ہمارے عہد کے انسان تو خوابوں میں رہتے ہیں

انھیں بیدار کرنا ہے کسی کُہرام سے پہلے

ہمارے نام کی تختی نہ ڈھونڈو تم مکانوں پر

جہاں میں لوگ گزرے ہیں بہت گمنام سے پہلے

مکاں پکے ہوں یا کچے، ہمیں اس سے غرض کیا ہے

ہمیں تو کوچ کرنا ہے یہاں بسرام سے پہلے

زباں کے زہر کا تریاق دنیا میں نہیں ملتا

تعلق توڑ لینا تم کسی دُشنام سے پہلے

کہو، غم کے سفینے کس طرف بہتے ہوئے دیکھے

کہا، دل کے سمندر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھے

٭٭٭

 

کہو، غمگین چہرے پر تمھیں کیسی لگی آنکھیں

کہا، ویراں سرائے میں دیئے جلتے ہوئے دیکھے

کہو، انسان کے غم میں کبھی غمگیں ہوئے تم بھی

کہا، آنسو فلک کی آنکھ سے گرتے ہوئے دیکھے

کہو، جب بھی پکارا ہے تِرے بندوں نے مشکل میں

کہا، دریا محبت کے سبھی بہتے ہوئے دیکھے

کہو، انسان کی قسمت میں مرنا کس لئے لکھا

کہا، پاؤں ہواؤں کے کبھی رکتے ہوئے دیکھے

٭٭٭

 

نظمیں

                   راز و نیاز

فلک تیرا،  زمیں تیری

تِرے لوح و قلم، شمس و قمر اور آب و گِل تیرے

تِرے مجبور بندے ہیں

بدن کی قید میں محصور بندے ہیں

فریضہ سونپ کر ہم کو نیابت کا، امامت کا

بٹھا کر مسندِ شاہی پہ

پائے تخت تو نے توڑ ڈالے ہیں

یہ کیسا تخت ہے، یہ تاج کیسا ہے!

نہ جاری کر سکیں فرمان کوئی ہم

ہمارا بخت کیسا ہے

کیے امر و نہی کے فیصلے روزِ ازل سے جب

تو پھر تقدیر اور تدبیر کیوں دست و گریباں ہیں

کبھی اترو فلک کی چوٹیوں سے

دیکھنے بندوں کے روز و شب

کہ ہم پر کیا گزرتی ہے

زمیں کتنی پریشاں ہے

تِرے بندوں نے اس کو

نفرتوں کی آگ میں کیسے جلا ڈالا

اسی دوزخ میں ہم ہر آن جلتے ہیں

سنا ہے!

تو نے بھی انساں کے ایندھن سے

کوئی دوزخ بنایا ہے

ذرا اس آگ سے کہہ دو

بھڑکنا چھوڑ کر آنکھوں کو کھولے …غور سے دیکھے

ہمارے دل میں بھی اک آگ جلتی ہے

دُکھوں کی آگ جو دن رات جلتی ہے

اے میرے منصفِ اعلیٰ!

تِرے مظلوم اور محکوم بندے

 کس طرح آتش کے پھر صدمے اٹھائیں گے

ستم جو ہو چکے ہم پر انھیں کیسے بھلائیں گے

کہو!نارِ جہنم سے

بھڑکنا چھوڑ کر گلزار ہو جائے

ہماری مونس و غم خوار ہو جائے…!

٭٭٭

 

                   ماں

کہا ہر دم زمیں کی گود کیوں بے چین رہتی ہے

جواب آیا کہ ماں اولاد کے دُکھ دل پہ سہتی ہے

کہا ممتا کے دم سے ہی زمانے میں اُجالا ہے

جواب آیا کہ یہ ہستی ہمارے دل میں رہتی ہے

کہا سوتے محبت کے کبھی سوکھے نہیں دیکھے

جواب آیا یہ وہ ندّی ہے جو ہر وقت بہتی ہے

کہا جب ماں بچھڑ جائے تو کس دنیا میں جاتی ہے

جواب آیا کبھی کرنوں ، کبھی تاروں میں رہتی ہے

کہا جذبات کی لہروں کو دل میں کس طرح دیکھوں

جواب آیا کہ ممتا ہر سمندر میں جو رہتی ہے

٭٭٭

 

                   سب مٹی میں   مِل جاتے ہیں

ہم خاکی صورت لوگ جہاں میں

 کیا کیا ڈھونگ رچاتے ہیں

سب ڈھونگ یہیں رہ جاتے ہیں

ہم مٹی میں مل جاتے ہیں

یہ مٹی اوّل آخر ہے

 یہ مٹی ظاہر باطن ہے

اس مٹی میں ہم تیرتے ہیں

اس مٹی میں بہہ جاتے ہیں

اس مٹی سے تم پیار کرو!

جاں سو سو بار نثار کرو!

کبھی مٹی سے بھی پوچھو تم

جب چکی پاٹ پسی تھی یہ

جب آوے پار اتاری گئی

بے چین سلگتی روحوں سے

 جب اس کی گود سنواری گئی

نخوت سے روندی جائے جب

کیا اس کے دل پر بیتتی ہے

یہ منہ سے چاہے کچھ نہ کہے

پر ایک حقیقت جانتی ہے

جسے ساری دنیا مانتی ہے

ہم خاکی صورت لوگوں کو

آغوش میں اک دن لے لے گی

پھر راز و نیاز کرے گی یہ

بے نور ہوئی ان آنکھوں میں

تب سو سو اشک بھرے گی یہ

جب یہ ہی اندر باہر ہے

جب یہ ہی آگے پیچھے ہے

یہی اوپر ہے، یہی نیچے ہے

کس بات پہ تم اتراتے ہو!

مٹی ہو تو مٹی بن کے رہو

اے خاکی صورت لوگو  تم…   !

٭٭٭

 

                   تحریر

لکھو،  اتنا لکھو

یہ زندگی تحریر بن جائے

کسی کاغذ کے ٹکڑے پر

کوئی بگڑی ہوئی تقدیر بن جائے!

لکھو ایسے کہ حرفوں سے

کسی ماہر مصوّر کی کوئی تصویر بن جائے!

تِرے لفظوں میں وہ تاثیر ہو

جو پاؤں کی زنجیر بن جائے!

انڈیلو دل کا سارا درد

تم کاغذ کے ٹکڑوں پر

کوئی فقرہ قلم سے روٹھ کر کچھ اس طرح نکلے

کسی نادیدہ کل کی قیمتی جاگیر بن جائے!

اسی تحریر کے ناتے ہمارے ملنے کی

شاید کوئی تدبیر بن جائے!

کہا تھا تم نے یہ مجھ سے…!!

میں جب سے لکھ رہی ہوں

میں ہر اک حرف پر یہ سوچ کر نقطے لگاتی ہوں

کہ ان میں نقش ابھرے گا…تمھارا نقش!

جسے لفظوں کے پیچ و خم میں ہی میں قید کر لوں گی

مگر لفظوں کو سو سو بار لکھنے پر

کئی نقطے لگانے اور مٹانے پر

کوئی بھی عکس تو کاغذ کی بانہوں میں نہیں آتا

کہاں ہو تم…کتابِ زندگی کے

کون سے پنے میں رہتے ہو!

ہمیں لفظوں کے گھر میں چھوڑ کر

 تم نے کہاں پر گھر بنایا ہے!

کہاں دل کو لگایا ہے!

ہمیں کیسے بھلایا ہے!

نہیں آنا، نہیں ملنا

کوئی تحریر ہی بھیجو

کہ اک تحریر کا تحریر سے رشتہ تو ہوتا ہے…!

٭٭٭

 

                   منظروں کی تلاش

چلو ان منظروں کو ڈھونڈتے ہیں

کھو گئے ہیں جو!

گلابوں سے لدی شاخوں

اور ان کے خارزاروں میں

کِھلا روشن گلاب اِک تھا

کہ جس کو توڑنے کی چاہ میں

ہاتھوں پہ میرے زخم آئے تھے

تِرے ہاتھوں نے چھو کر

پیار کے مرہم لگائے تھے

درختوں کی زمیں کو چومتی شاخیں

پھلوں کے بوجھ سے دم توڑتی شاخیں

پرندے جن پہ آ کر

پیار کے نغمے سُناتے تھے

انہی پیڑوں کی چھاؤں میں

 ہزاروں رنگ سپنوں کے

کنول نینوں سے ہو کر

پھیل جاتے تھے فضاؤں میں

نشہ ایسا نگاہوں میں

 کہ طائر بھول کر سب بولیاں اپنی

ہمارے پیار کے منظر میں جیسے کھو سے جاتے تھے

تو بچھڑا ہے … تو تیرے بعد سب منظر پرائے ہیں

اداسی ہی اداسی ہے

گلوں کے رنگ پھیکے ہیں

پرندے ڈھونڈتے ہیں پیار کا پھر سے وہی منظر

مگر ہم کو نہ پاکر…

اوڑھ لیتے ہیں ردائے غم

وہی غم جو اترتا ہے

 دلوں میں منظروں کے روٹھ جانے پر

وہ میرا غم…وہ تیرا غم…

ہمارا غم…جسے کوئی نہیں محسوس کر سکتا…!

٭٭٭

 

                   مصوّر

تمھارا رات بھر…

 یوں کروٹیں لینا، بتاؤ کس لئے ہے!

کبھی آنکھیں ، کبھی تکیہ

کبھی بانہوں کا ہالہ سا بنا کر

آنکھ سے اوجھل

گئے وقتوں کے سپنوں سے گلے ملنا

کہو!

یادوں کے بستر پر کہاں تک کروٹیں لو گے!

مِرا ماضی بھی تم اور حال بھی تم ہو

تو پھر یہ کیسے اندیشوں نے دل میں سر اٹھایا ہے!

یہ سوچوں کا گھنا جنگل

تمھیں ماضی کی قیدِ با مشقت سے

کرے گا کس طرح آزاد

جب تک تم

گئے وقتوں کے پیڑوں کے تنوں سے

 سر ٹکائے موند کر آنکھیں یونہی بیٹھے رہو گے

بھلا کس شخص کا ماضی نہیں ہوتا!

اسی ماضی سے ہی ہم حال کی تعمیر کرتے ہیں

کسی آنکھوں سے اوجھل

کل کے ہر لمحے میں

اک ماہر مصوّر کی طرح سے رنگ بھرتے ہیں

اگرچہ شوق میں جینے کے سو سو بار مرتے ہیں

مگر!

ہاتھوں سے ہم اپنے برش گرنے نہیں دیتے

کسے معلوم…

کس سوئے ہوئے بے رنگ لمحے میں

نہ جانے کس طرح کے رنگ بھر جائیں

انہی رنگوں سے منزل کا

کوئی دھندلا نشاں ہی ہاتھ آ جائے…!

٭٭٭

 

                   آغازِ نو

چلو آغاز کرتے ہیں

کسی انجام سے پہلے

سفر کو ختم کرتے ہیں

اترتی شام سے پہلے

کسی انجام کی وحشت کا سارا خوف

دریا بُرد کر ڈالیں

ازل سے ٹھوکریں کھاتے ہوئے

تنہا مسافر کے لئے تاریک رستے میں

کوئی شمع جلا ڈالیں

چلو مٹی کے پیالوں سے چھلکتی

مضطرب، بے چین روحوں کو

محبت، پیار اور امید کا نغمہ سنا ڈالیں

ہمیں انسان کی کھوئی ہوئی عظمت کے

 جتنے بھی حوالے ہیں

سبھی کو ڈھونڈنا ہو گا

ہمیں انسان کے قدموں سے باندھے سب بھنور

اک ایک کر کے کھولنے ہوں گے

ہمیں میزان کے پلڑوں میں

سچ اور جھوٹ کے سارے حوالے تولنے ہوں گے

کسی انجام سے پہلے اگر آغاز ہو جائے

تو پھر انجام کی وحشت کا سارا خوف

اپنے آپ مر جائے…!

٭٭٭

 

                   بدلتے موسم

کبھی میرا بسیرا تھا

تِرے دل کے نہاں خانوں میں

آنکھیں موند کر میں

صحنِ دل میں رقص کرتی تھی

کبھی اٹھلاتی پھرتی ناز سے

موسم بدلتے دیکھتی تھی

آتے جاتے سارے موسم بے اثر تھے

اس لئے کہ صحنِ دل کا اپنا موسم تھا

میں دل کی آنکھ سے

ہر لمحہ تجھ کو دیکھتی رہتی

کہ تم ہی مرکز و محور بنے میرے

مِرے خوابوں ، گلابوں

رتجگوں ، قوسِ قزح

مانوس، نامانوس جذبوں کے

مگر جب لے کے انگڑائی اٹھی میں بسترِ دل سے

اندھیرا چار سُو تھا، گھور اندھیرا

لگا یوں روح جیسے

کر چکی پرواز جسمِ ناتواں سے

مِرے خوابوں ، گلابوں

رتجگوں ، قوسِ قزح کے

رنگ سارے کھو چکے تھے

مِرے اُس چاہنے والے کے

سب جذبے پرانے ہو چکے تھے

مگر یہ زندگی میری، مگر یہ دل تو میرا ہے

نئے جذبوں نئے رنگوں سے

اس کو پھر سجانا ہے

مجھے اُس نے بھلایا ہے

مجھے اُس کو بھلانا ہے

مکمل بھول جانا ہے

اگر موسم بدلتے ہیں

تو دل بھی ایک موسم ہے

اسے بھی لہلانا ہے

اسے بھی مسکرانا ہے…!

٭٭٭

 

                   ہمیں اب تیز چلنا ہے

ہمیں اب تیز چلنا ہے

بہت ہی تیز چلنا ہے

ہمیں قندیل کی لو تیز کرنی ہے

اسی قندیل کی لو سے ہمیں

دل کے کسی تاریک گوشے میں چھپی

 نیکی کی اک ننھی کرن کو ڈھونڈنا ہو گا

اسے رستہ دکھانا ہے

جو صدیوں کے سفر میں بھول کر رستہ

کہیں سہمی، کہیں سمٹی

سجا کر خواب آنکھوں میں

ہمارے راستے میں آنکھ بن کر دیکھتی ہو گی

قدم آگے بڑھاؤ تم

کہ اب پیچھے پلٹ کر دیکھنے کے

سارے لمحے کھو چکے ہیں

سبھی امکان اب گم ہو چکے ہیں

ہمارے خواب اب تحلیل ہو کر

وقت کی سولی پہ چڑھنے کے قریں ہیں

ہمیں نیکی کی اس ننھی کرن سے ہی

زمانے بھر کی تاریکی میں

 اب سورج اگانے ہیں

ہمیں بیتی ہوئی صدیوں کے

سب احساں چکانے ہیں

ہمیں مرتے ہوئے انسان کو

 پھر سے بچانا ہے

اسے ارفع…

اسے اعلیٰ…

اسے اشرف…بنانا ہے!

٭٭٭

 

                   میں تم سے محبت کرتا ہوں

وہ دن ہے ابھی تک یاد مجھے

سو پیار بسا کر آنکھوں میں

جب تم نے کہا تھا ہولے سے

’’میں تم سے محبت کرتا ہوں ‘‘

اِک وہ بھی دن پھر آیا تھا

جب سیج پہ میں دلھن بن کر

نظروں کو جھکائے بیٹھی تھی

مِرا ہاتھ پکڑ کر ہولے سے

یہ تم نے کہا تھا پھر مجھ سے

’’میں تم سے محبت کرتا ہوں ‘‘

پھر آنگن پھولوں سے مہکا

خوشبوئیں بکھریں چاروں طرف

اک بار محبت سے تم نے

پھر مجھ سے کہا اے جانِ جہاں

’’میں تم سے محبت کرتا ہوں ‘‘

پھر سارا منظر بدل گیا

دل دور ہوئے، رنجور ہوئے

آئینے محبت کے سارے

جتنے تھے چکنا چُور ہوئے

آواز مجھے اب آتی ہے

میں تم سے نفرت کرتا ہوں …!

٭٭٭

 

                   سوچ سمندر

(میرا جی کے لیے ایک نظم)

ہمیں لفظوں کے جنگل سے

بہت آگے نکلنا ہے

ہمیں الفاظ کے ان دائروں کی سمت جانا ہے

جہاں پاؤں میں گھنگرو باندھ کر

مدہوش جذبے رقص کرتے ہیں

ہماری سوچ کے رستے میں جتنے بھی سمندر ہیں

ہمیں سب پار کر کے

ان جزیروں پر اترنا ہے

جہاں مدت سے تنہائی کی دلہن

مانگ میں افشاں سجائے منتظر ہے

وصل کے انمول لمحوں کی

ہمارے راستے میں ، آئنوں کے شہر آئیں گے

ہمیں رستے میں حائل سب فصیلوں کو

کسی جذبے کی ٹھوکر سے گرانا ہے

ہمارے پاؤں سے لپٹے ہوئے جتنے سمندر ہیں

ہمیں کڑوے کسیلے پانیوں کو

 اسمِ اعظم پڑھ کے زم زم میں بدلنا ہے

بدن کی چاندنی

 صحرا کی تپتی ریت میں کندن بنانی ہے

کہیں سے ڈھونڈ کر ہم کو

کٹھالی عشق کی لانی ہے جس میں

مرغِ بسمل کی طرح سے رقص کرنا ہے

ہمیں جانا ہے نگری پیار کی

اور گھر کا رستہ بھول جانا ہے

ہمیں صحرا کی تپتی ریت میں رستے بنانے ہیں

انہیں حدت بھرے رستوں پہ چل کے

سوچ کے آئینہ خانوں میں اترنا ہے

جہاں الفاظ کی دیوی۔۔۔۔

قلم کا دیوتا۔۔۔۔۔

کاغذ کے رتھ پر بیٹھ کر

اہلِ قلم کی سوچ کو

اپنی سلامی پیش کرتے ہیں !

٭٭٭

 

نثری نظمیں

                   عقوبت خانے

زندگی کے عقوبت خانے میں

صرف جسم ہی قید نہیں ہوتے

ضمیر دربان بن جاتے ہیں

سوچوں کے چہرے پر سیاہی مل دی جاتی ہے

خیالوں کے پاکیزہ بدن کو

ناپاک ہاتھ چھوتے ہیں

اندھیرا روشنی کی آبروریزی کرتا ہے

رات، دن کی داشتہ بنتی ہے

خواب اندھے ہو جاتے ہیں

خوشبو بیوہ ہو جاتی ہے

عورتیں مرد بن جاتی ہیں …!

٭٭٭

 

                   سوچ کے بادباں کھول دو

سر اٹھا  کے بہت ناز سے جانے والی ہوا نے کہا

سن کے پیغام یہ

سوچ بھی سوچ میں پڑ گئی

میں تو صدیوں سے زندان خانوں میں ہوں

لب سلے ہیں مرے

ہاتھ جکڑے ہوئے

پاؤں میں بیڑیاں

نرم و نازک سراپا ہے اک آبلہ

سلسلہ ظلم کا ہے کہ رکتا نہیں

سوچ کے بادباں

اس ہوا

اس فضا میں

کھلیں بھی تو کیسے کھلیں

مجھ کو تو ہی بتا

عورتوں کے درد کا لہو ان اشعار کی رگوں میں بھی دوڑ رہا ہے…

عورتوں کی قبروں پر ایستادہ

بڑے بڑے کتبوں کو دیکھ کر

سوچتی ہوں

اس قبر پر اتنی عنایت کیوں ؟

کیا یہ کتبے

محبتوں کے مظہر ہیں یا

احساس جرم کے کفارے

جو موت کے بعد ادا کیے جا رہے ہیں ؟

٭٭٭

 

                   پورا خواب

موجۂ گل نے نوید دی…

خوابوں کی تکمیل کا موسم آ گیا

میرے خواب…

عورت کے خواب…

ماں کے خواب…

سب آپس میں مدغم

لمحہ لمحہ…

آنکھوں سے ٹپک ٹپک کر

نہ جانے کب…

میری بیٹیوں کی آنکھوں میں منتقل ہو گئے

قندیلوں سی روشن آنکھیں …

جذبوں کی چمک…

پر تقدیس اور پر عزم چہرے

آنکھوں میں گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند

کومل کومل کھلتے ہوئے خواب

اور…

کہیں دُور سے آتی ہوئی صدا…

’’ بیٹے اگر باپ کے نسب کے وارث ہیں

تو بیٹیاں …

ماؤں کے خوابوں کی امین ہو تی ہیں ‘‘…!

٭٭٭

 

                   اترن

عورتیں

اترن پہننے سے گھبراتی ہیں

دوسری عورتوں سے ذکر کرتے ہوئے شرماتی ہیں

مگر…

دوسری عورتوں کے شوہر چرا کر

اوڑھ لیتی ہیں !

٭٭٭

 

                   دردِ زِہ

اے دردِ زِہ!

تیری کوئی جنس کیوں نہیں ہے!

تو بیٹی کی پیدائش پر…

کوئی رعایت کیوں نہیں کرتا…!

٭٭٭

 

                   خوشی

بدصورت پاؤں والا

وہ پرندہ ہے

جو ناچتے ناچتے

اپنے پاؤں دیکھ کر

اداس ہو جاتا ہے

اور ناچنا چھوڑ کر

کونے میں جا بیٹھتا ہے

٭٭٭

 

                   روح

خوابیدہ وجود کو

نہ جانے کہاں

اڑائے اڑائے پھرتی ہے

بدن نیند سے بیدار ہوتا ہے

روح قیدی بن جاتی ہے

رات روح کا رتجگا ہے

دن کی روشنی

روح کا میلہ

اجاڑ دیتی ہے

٭٭٭

 

                   ہماری سوچوں میں

زندگی اور موت کا فاصلہ ہے

مہد سے لحد تک کی دوریاں ہیں

اندھیرے سے روشنی تک کی

جدائیاں ہیں

بہار کی پہلی کلی چٹکنے سے لے کر

خزاں میں آخری پتہ گرنے تک کا/ماتم ہے

دھرتی کی مٹیالی رنگت اور

آسمان کی نیلاہٹوں کا فرق ہے

آنسوؤں سے ہنسی تک کا سفر ہے

خواب سے تعبیر تک کا خوف ہے

بلندی اور پستی کا خلا ہے

یقین کے جنگل سے بے یقینی تک کے صحرا کی ریت ہے

ہوش و خرد سے

جنون و مستی تک کا بحر بیکراں ہے

شاید

ہمارے ستارے نہیں ملتے

٭٭٭

 

دوہے

میں سلفے کی لاٹ ہوں سجناں ، تو گھبرو پنجابی

سیدھے راہ پہ آ جا ورنہ ہو گی بڑی خرابی

٭

کِھلے شگوفے پیڑوں پر، رُت پیا مِلن کی آئی

من ہی من میں دیکھ کے اس کو گوری ہے شرمائی

٭

روٹھ گئی نینوں سے نِندیا، رینا بیتی جائے

جس رینا میں آئے پیتم، وہ رینا نہ آئے

٭

کاجل، ٹیکا،  مہندی،  پائل سب ہی شور مچائیں

یاد کریں بچھڑے پیتم کو، ہر دم اُسے بلائیں

٭

سو گئے تارے، نیند کے مارے اور جاگے اِک بِرہن

لوٹ کے جانے کب آؤ گے، چوکھٹ پر ہیں نینن

٭

کانٹے تیری راہ کے گوری پلکوں سے میں چُن لوں

نکل سکے نہ جیون بھر تُو، جال میں ایسا بُن دوں

٭

نیناں بھرسیں ساون بھادوں ، کجلا بکھرا جائے

راہ تکوں بیٹھی ساجن کی، کب ساجن گھر آئے

٭

کاجل، مسّی، بِندیا، پائل پیار کے سب پہناوے

آ جائے گا ساجن تیرا، کیوں کجلا بکھراوے

٭

کتنے ساون بیتے مجھ کو، پیتم نظر نہ آئے

کومل ڈوری پریم کی سجناں ، ٹوٹ کہیں نہ جائے

٭

پریم کی ڈوری کچی ناہیں ، پل بھر میں جو ٹوٹے

جنم جنم کا ناتا ہے یہ، ساتھ کہاں یہ چھوٹے

٭

ہمرے من کی چاہ کرے وہ، مفت نہیں دل دینا

سچا سودا پریم کا سجنا، دل دینا اور لینا

٭

جھوٹ موٹ کا پیار جتائے، میں طوطا تو مینا

ایسی بانوری نہیں میں جاؤ، کھوؤں جو دل کا چینا

٭

پریم کا سندر گہنا پہنا، چلی پیا کے گاؤں

بیتے گا اب جیون سُکھ سے، اپنے پریم کی چھاؤں

٭

پریت کے نام لگا بیٹھی ہوں جیون، جاگ، سویرا

پیار میں ایسی سُدھ بُدھ کھوئی، کیا تیرا کیا میرا

٭

پریم کی ڈوری بیری سجناں ، راہ میں کاہے توڑی

پریم سندیسہ لے کے آ جا، راہ تکے ہے گوری

٭

چھوڑ گیا جو راہ میں پگلی، اس سے کیسی آشا

شام ہوئی گھر لوٹ کے آ جا، کاہے بنی تماشا

٭

بیر بہوٹی بن کر بیٹھی، کب ساجن گھر آئے

پاگل منوا پہلو میں رہ رہ کر شور مچائے

٭٭٭

 

ماہیے

تو  باغ کا  مالی  ہے

 تیری رحمت کا

جگ سارا سوالی ہے

٭٭

رب کے احکام ہوئے

آقاؐ آپ کے ہم

بے دام غلام ہوئے

٭٭

اک شاخ انجیر کی ہے

رشتہ مدینے سے

صورت زنجیر کی ہے

٭٭

ہمیں تیرےؐ سہارے ہیں

پیاس  بجھا  دینا

کوثر کے کنارے ہیں

٭٭

دریا میں سفینہ ہے

ماہِ   رمضاں تو

بخشش کا مہینہ ہے

 

معراج کی رات آئی

جھولیاں بھر لو تم

رب کی سوغات آئی

٭٭

جب غم کی گھٹا چھائی

پیٹتی سر اپنا

کربل میں قضا آئی

٭٭

پانی کا سوالی ہے

نانا نبیؐ، جس کا

کوثر کا  والی ہے

اشکوں سے وضو کر کے

ماہیے لکھتی ہوں

میں دل  کو  لہو کر کے

٭٭

تو  آمنہ  جایا  ہے

بی بی حلیمہ نے

تجھےؐ دودھ پلایا ہے

٭٭

دو فاطمہ جائے تھے

توؐ نے محبت سے

کاندھوں پہ بٹھائے تھے

بڑے دکھ سکھ ہوتے ہیں

تیرےؐ پہلو میں

تیرے یار بھی سوتے ہیں

٭٭

کڑوے ہیں سکھ  ماہیا

کس کو سنائیں اب

انگلینڈ  کے  دکھ  ماہیا

٭٭

کلچر   کا   رونا   ہے

آ کے ولایت میں

اب کچھ  تو کھونا  ہے

سب زخم چھپاتے ہیں

رہنے کا یورپ میں

ہم  قرض چکاتے ہیں

٭٭

یو۔ کے  میں بستے ہیں

کیسا مقدر ہے

روتے ہیں ، نہ ہنستے ہیں

٭٭

انگلینڈ کے میلے ہیں

جھرمٹ لوگوں کے

ہم پھر بھی اکیلے ہیں

ہیریں ہیں نہ رانجھے ہیں

ہم نے ہوٹل میں

برتن  بھی  مانجھے  ہیں

٭٭

کس دیس میں رہتے ہیں

بچے پیرنٹس کو

یہاں شٹ اپ کہتے ہیں

٭٭

دادا  ہے   نہ  دادی ہے

پکڑ کے ڈیڈی نے

شادی  کروا  دی  ہے

یہاں  کون  ہمارا ہے

سردی دشمن ہے

ہیٹر  کا   سہارا    ہے

٭٭

اس جگ کا نور ہے ماں

رب کے بعد یہاں

دوجے رب کا ظہور ہے ماں

٭٭

ہر طرف بلائیں تھیں

بچ کر نکل گئے

سب ماں کی دعائیں تھیں

ہائے کتنی گرمی ہے

چھاؤں ممتا کی

پھولوں سی نرمی ہے

٭٭

کونجوں کی ڈاریں ہیں

بینیفٹ آفس میں

بڑی لمبی قطاریں ہیں

٭٭

کشمیر کی وادی ہے

جائے کوئی روکے

یہ جبری شادی ہے

میں لہر چناب کی ہوں

غیرت بھائیوں کی

بیٹی پنجاب  کی ہوں

٭٭

اک  لڑکی  گاؤں میں

ماہیے لکھتی ہے

پیپل کی چھاؤں میں

٭٭

اک  نہر  کنارا  ہے

گاؤں کا ہر ذرہ

مجھے جان سے پیارا ہے

بیلوں  کی  جوڑی  ہے

اس نے شرارت سے

میری گاگر  توڑی ہے

٭٭

فصلوں کی کٹائی ہے

ساگ پراٹھے ہیں

کہیں دودھ ملائی ہے

٭٭

ہاتھوں کی لکیریں ہیں

جوگیا! دیکھ ذرا

کیسی  تحریریں  ہیں

عورت کو ستاؤگے

جنم جلی ہے جو

کیا اس کو جلاؤ گے

٭٭

یہ دئیے کی باتی ہے

قدر کرو اس کی

دکھ سکھ کی ساتھی ہے

٭٭

عورت کو دغا دو گے

بیوی بنا کر تم

چولہے میں جلا دو گے

کمہار  کا  آوا   ہے

پکتا رہتا ہے

مِرے دل کا جو لاوا ہے

٭٭

شبنم  کا  قطرہ  ہے

تنہا عورت کو

ہر طرف سے خطرہ ہے

٭٭

یہ دل کی کہانی ہے

کوئی نہیں سنتا

اب خود کو سنانی ہے

دارا ہے، سکندر ہے

ڈوب گئی میں تو

یہ عشق سمندر ہے

٭٭

مٹّی کا کھلونا ہے

رکھ لے کھٹالی میں

چن دل میرا سونا ہے

٭٭

سب دکھ سکھ بانٹے ہیں

چُن دو ذرا ساجن

رستے میں کانٹے ہیں

تیری آنکھ کا تِل ماہیا

بڑا ہرجائی ہے

کبھی آن کے مِل ماہیا

٭٭

خوشبو ہے گلابوں کی

رستے میں حائل ہے

دیوار حجابوں کی

٭٭

پیڑوں کی قطاریں ہیں

پت جھڑ گزر گیا

جوبن پہ بہاریں ہیں

پنگھٹ پہ گوری ہے

نٹ کھٹ ماہیے نے

میری بانہہ مروڑی ہے

٭٭

تِرے پیار کی برکھا ہے

بھیگ گئی ساجن

تو ایسے برسا ہے

٭٭

دیوار کا سایہ ہے

دیکھ کے شرمائی

میرا ماہیا آیا ہے

مجرم ہے، کٹہرا ہے

پیار تو کر بیٹھے

سارے جگ کا پہرا ہے

٭٭

بارود کا گولہ ہے

اپنی محبت پر

جگ آگ بگولہ ہے

٭٭

دریا میں کشتی ہے

اجڑ نہ جائے کہیں

یہ دل کی بستی ہے

روتے، کبھی ہنستے ہیں

دل میں یادوں کے

جگنو سے چمکتے ہیں

٭٭٭

ماخذ: عکاس، اسلام آباد کے مختلف شمارے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید