FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

اُردو دَوہے کا ارتقائی سفر

 

حصہ دوم

 

 

خاور چودھری

 

 

 

 

 

پاکستانی عہد

 [عمومی مطالعہ ]

 

 

 

تڑپ تڑپ کر بہتا پانی، بیکل بیکل موجیں

بچھڑی ہوئی باؤلی کونجیں، جانے کس کو کھوجیں

شجاعت علی راہی

 

 

 

جلال میرزا  خانی

 

جلال مرزا خانی کوالیاس عشقی نے جلال مرزا جانی لکھا ہے۔ اُن کے بہ قول ’’آل انڈیا ریڈیو دہلی اور قیام پاکستان کے بعدریڈیوپاکستان لاہور کے مقر ر مرحوم مرزا جانی نے جو پاکستان آنے کے بعد مظفر گڑھ میں بس گئے تھے، قیام ملتان کے زمانے میں مجھے بتایا کہ انھوں نے کافی تعداد میں دوہے کہے ہیں۔ ‘‘(۱) عرش صدیقی مرزا جانی کو مرزا خانی قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’الیاس عشقی کے مضمون میں جہاں بھی اس شاعر کا ذکر آیا ہے، انھیں مرزا جانی ہی لکھا گیا۔ یہ سہوہے یا کتابت کی غلطی۔ اسے درست کر لینا بہ ہر حال ضروری ہے۔ یہ نام در اصل جلال مرزا خانی تھا۔ آل انڈیا ریڈیو، پاکستان ریڈیو لاہور سے ان کا کیا تعلق تھا اس کا مجھے علم نہیں لیکن جناب الیاس عشقی کے بہ طوراسٹیشن ڈائیریکٹر ریڈیوپاکستان ملتان آنے سے بہت پہلے میری بھی جناب جلال مرزا خانی سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان ملاقاتوں سے ہی پتا چلا تھا کہ غزل کے ساتھ ساتھ انھوں نے دوہا بھی بہ طور خاص لکھا ہے اور بہت لکھا ہے۔ یہ بات 1962-63کی ہے۔ جلال مرزا خانی نے اپنے کلام کی اشاعت کی طرف بہت کم توجہ دی ہے۔ سب رنگ[انتخاب شعرائے ملتان]کے صفحہ320پرجناب جلال مرزا خانی کے پانچ دوہے شامل ہوئے ہیں۔ ‘‘(۲)

جابر علی سیدکابیان اس سلسلے میں مزید معلومات فراہم کرتا ہے۔ ان کے بہ قول مرزا خانی نے چھے سو دوہے کہہ رکھے تھے اور اُن میں سے ایک سوپینتیس انھیں بھی روانہ کیے تھے۔ بیان ملاحظہ ہو:

’’جلال میرزا خانی مرحوم دوہا نگاری میں غیر معروف ہیں۔ لیکن ان کے مخصوص فن کا تجزیہ کیا جائے تو ہندی کلاسیکی دوہے کے خاندان سے ان کا رشتہ استوار ہو جاتا ہے۔ راقمِ مضمون کی درخواست پر انھوں نے ۱۹۶۶ء میں چھ سو میں سے ایک سوپینتیس دوہے منتخب کر کے ارسال کیے تھے۔ ‘‘(۳)

میرزا خانی کے دوہے جدید اور قدیم کے خمیر میں گندھے ہوئے ہیں۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے :

ہاتھوں سے میٹھا نہ دے، منھ سے میٹھا بول

زہر شہد منھ میں ترے، جو چاہے سو گھول

 

آنسو پینا زہر ہے، بوند بوند میں سانپ

مورکھ یہ آگ ہے، دامن سے مت ڈھانپ

 

سادے سے سیدھا رہے اور گھاگ سے گھاگ

پانی کی دوا پانی اور آگ کے مارے آگ

 

کچا پن انسان کی ہر گت میں موجود

بندہ بشر ہے آدمی، پیا ہے کچا دُود(۳)

ان تمام دوہوں کی عمارت رائج مضامین پر اُٹھائی گئی ہے۔ وہی اُسلوب اور وہی ڈھنگ جو دوہے سے مخصوص ہے۔ بہ قول جابر علی سید: ’’ان حکیمانہ اور دانش مندانہ دوہوں میں ایجاز تمثیل کی زمین سے پھول کی طرح اُگتا ہے اور اپنے ارد گرد عقل عامہ کی خوش بُو پھیلا دیتا ہے۔ (۴)یہ علم و دانش اور اختصار وسادگی دوہے کا اعجاز ہے۔ جلال میرزا خانی کا سن ولادت وسن وفات تحقیق طلب ہے۔

 

 

 

 

افضل پرویز

(۲ مارچ۱۹۱۷ء… یکم جنوری۲۰۰۱ء)

 

آپ کا خاندانی نام قاضی محمد افضل [ولد قاضی محمد کیچ مکرانی ]اور قلمی نام افضل پرویز ہے۔ آپ دو مارچ ۱۹۱۷ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ میٹرک کے بعد انڈین آرمی سے وابستہ ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران آپ فوج کا حصہ تھے۔ بعد ازاں محکمہ خوراک میں بھی ملازمت کی۔ اخبارات اور ریڈیو سے وابستہ رہے۔ اُردو کے علاوہ فارسی، عربی اور پوٹھوہاری زبان سے بھی گہری شناسائی ہے۔ افضل کی مشہور تصانیف میں ’’ ککراں دی چھاں ‘‘، ’’بن پھلواری‘‘، ’’غم روزگار کے ‘‘ اور ’’کہندا سائیں ‘‘ شامل ہیں۔ (۵) ’’لوک تھیٹر‘‘

’’چٹھیاں ‘‘، ’’نوائے راز‘‘ بھی آپ کی کتابیں ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے حال ہی میں آپ کی شخصیت اور فن پر کتاب شائع کی ہے۔ افضل پرویز کے دوہے ملاحظہ کیجیے :

گھونگھٹ کاڑھے لاجو روئے نین رتن ڈھلکائے

چھپے ہوئے زخموں کو پگلی کون کرے گا اُپائے

 

رات ہے کالی ڈائن، کایا چھایا ایک کرے

اُوشا کی جے ہو ہر آشا اصلی روپ بھرے

 

اپنی جیبھ کو بس میں رکھ اے گیانی سُرت سنبھال

گیان یہاں اَت پاپ ہے اور اُپدیش مہاں جنجال

 

نت پینے والا گمبھیر رہے اور منوں پچائے

بُوند پڑے تو اُتھلا باسن را سی را مچائے

 

شیر دہاڑے، جنگل دھڑکے، گونج رہی کچھار

غُلے تھامے چلے اوپچی کرنے اُسے شکار

 

اک آدرش کی کھوج میں بھونرا چومے کلی کلی

بدنامی ہرجائی پن کی گھومے گلی گلی

 

جوگ لیے پر بھی رہے بھو گی سکھ مندر سے دُور

کڑی کسیلی مدھ پی کر بھی پایا نہیں سُرور

 

اتنی کرپا اور کر اب چوکھٹ سے بھی دھُتکار

جھوٹی آس کا دیپ بجھے تو دیکھوں دوجا دوار

 

منھ کا سواد خراب کیا اور کڑوے گھونٹ پیے

اک پل نشے کی خاطر ہم نے کیا کیا جتن کیے

(ماہنامہ ادب لطیف، نومبر/دسمبر۱۹۵۸ء،ص ۶۳)

دل کا خون کیا ہے ہم نے تب یہ کبت کہے

وُہی گُنی ان کو پرکھے گا جس نے درد سہے

 

پتواروں کے سبھاؤ سے ہوتی ہے نیّا پار

بھونڈی لٹھ بازی تو خود بن جاتی ہے منجدھار

 

بہو ہوئی باغی تو ساس پڑوس پہ دوش دھرے

اپنے کشٹ کرودھ کا بیرن ذرا نہ دھیان کرے

 

کب تک چپکے چپکے آہ بھرو گی گھونگھٹ کاڑھ

پون جھکولوں کو کیسے روکے تنکوں کی باڑھ

 

گلشن میں بلبل کی اسیری پہ قمری بھی ڈری

’’میں بھی تو نردوش ہوں اور آواز ہے سوز بھری ‘‘

 

ایسے سہاگ سے رانڈھ بھلی میں، پگ پر واروں سوت

بھاڑ میں جائے ایسا ساجن، کھوٹ ہو جس کی گوت

 

بیری، نگری نگری آپ ہی کال الاؤ جگائے

تاکہ دانہ دانہ دان کرے، داتا کہلائے

 

مل بیٹھی چنڈال چوکڑی، مانی ہوئی چھنال

پریم لتا کے لیے بُنے باتوں گھاتوں کے جال

اک ابلا کی لاج لُٹے جو بھرے سوئمبر بیچ

جھوٹے دعوے دار ہی اپنی آنکھیں لیں گے میچ

(ماہنامہ ادب لطیف، جولائی۱۹۵۹ء،ص ۳۱)

جتن سے جو پلوایا جائے، وہ امرت بھی زہر

کھلیانوں پر گھر گھر برسے جو برکھا، وہ قہر

 

جیون ایک پہاڑ ہے، پگ اونچائی نیچائی

میرے گھر کی چھت ہو یا تیرے گھر کی انگنائی

 

جو میرا بیری ہے، وہ اپرار ہے تیرا میت

ساجن! میں بھولی ہی سہی، پریہ ہے کیسی پریت

 

کیچ ہی کیچ ہے نیل کنول تک، کائے کروں اُپائے

اک پگ کھینچ نکالوں دوجا اور بھی دھنستا جائے

 

شکوہ جور پہ لب سی دُنیا یہ ہے کیسی نیائے

دُکھ کا دارو یہ تو نہیں کہ دُکھیا ہی مٹ جائے (۶)

ان دوہوں میں جہاں فکروفلسفہ کی ثقالت کوشائستگی اور ملائمت میں ڈھالا گیا ہے، وہاں الفاظ کے چناؤ سے مزیدبرجستگی پیدا کی گئی ہے۔ روایتی مضامین کے باوجود ان میں تازگی اور جدت کا احساس ہوتا ہے۔ زندگی اور اس کے متعلقات کا بیان خوش سلیقگی سے ہوا ہے۔ البتہ دوہا نگار نے دوہے کے مخصوص وزن سے اغماض برتتے ہوئے سرسی چھند یا عالی چھند کو اختیار کیا۔

 

 

 

 

قتیل شفائی

(۲۴ دسمبر۱۹۱۹ء…۲۰۰۲ء)

 

آپ کی پیدائش ہری پور میں ہوئی اور تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ قتیل کا اصل نام اورنگزیب [ولدفیروز خان ]ہے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کے جنرل سیکرٹری رہے۔ قیام پاکستان کے وقت سے لاہور میں مقیم ہوئے۔ فلمی گیت نگاری کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ان کی تصانیف میں ’’ہریالی‘‘،  ’’گجر‘‘، ’’جلترنگ‘‘، ’’جھومر‘‘، ’’مطربہ‘‘، ’’چھتنار‘‘ اور ’’آوازوں کے سائے ‘‘ شامل ہیں۔ (۷) ’’روزن‘‘، ’’گفتگو‘‘، ’’ابابیل‘‘، ’’پیراہن‘‘، ’’برگد‘‘، ’’گھنگرو‘‘ اور ’’سمندر میں سیڑھی‘‘ بھی آپ کی مقبول تصانیف میں سے ہیں۔ بائیوببلیوگرافی میں آپ کا سن وفات ۱۱ جولائی ۲۰۰۱ء درج ہے۔

قتیل شفائی نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان سمیت دُنیا بھر میں اُردوداں طبقے میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی فلمی شاعری پرساحرلدھیانوی کے اثرات نمایاں ہیں۔ وہ رائٹرز گلڈ کے سات سال تک سیکرٹری رہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے سال ۱۹۹۴ء میں انھیں تمغۂ حسن کارکردگی ملا۔ جب کہ عالمی اُردو کانفرنس منعقدہ دہلی میں امیرخسروایوارڈ سے سرفراز ہوئے۔ مطربہ پر آدم جی ایوارڈ سمیت کئی اعزازات و انعامات ان کے حصے میں آئے۔ گیت نگار ہونے کی وجہ سے زبانِ دوہا آپ کے مزاج سے بہت لگا کھاتی ہے۔ اسی لیے آپ نے دوہے بھی کہے۔ یہ دوہے آپ کے جذب واحساس کے اظہار کا بہترین نمونہ ہیں :

وہ نردوئی ضرور تھا، بھلے نہ تھا چنگیز

جس نے سمدھی سے لیا، پہلی بار جہیز(۸)

یہ دوہا ہمارے معاشرے کے مجموعی رویے پر گہرا طنز ہے۔ ایک غلیظ رسم جو ہمارے یہاں نہایت ڈھٹائی سے جاری ہے، اس پر قتیل کا یہ دوہا ضربِ کاری کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذرا غربت میں لپٹے ہوئے حسن کی کتھا ملاحظہ کیجیے :

سُندر نار چمار کی، جس کا باپ اچھوت(۹)

چومے اُس کے پاؤں کو، پنڈت جی کا پُوت

حسن کی یہ نیرنگیاں ایک کھلی حقیقت کی نقیب ہیں۔ حسن گھائل کرنے والا ہو تو ذات پات کی گھمن گھیریاں اپنا اثر خود بہ خود زائل کر بیٹھتی ہیں۔ یہ عشقیہ انداز دیکھیے :

اُس نے گھونگھٹ کھول کر، کی جب پیا سے بات

اور بھی روشن ہو گئی، چیت کی چاندنی رات(۱۰)

آخرالذکر دوہے میں حسن کو جو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے، یہی دوہے کا خاص انداز اور مزاج ہے۔ قتیل شفائی عامۃ الناس کے اداشناس تھے، اس لیے ان کے گیتوں کے طرح یہ دوہے بھی دامنِ دل کو باندھ کر رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی شناخت ان کی نظمیں، غزلیں اور خصوصاً گیت ہیں مگر بہ حیثیت دوہا نگار بھی انھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

 

 

 

 

الطاف پرواز

(۱۹۲۴ء…۲۰۰۱ء)

 

آپ کا خاندانی نام الطاف حسین[ولد مولانا محمد حسین علوی] اور قلمی نام الطاف پرواز ہے۔ آپ کا مولد ’’درویش‘‘ ہزارہ ہے۔ زیادہ تعلیمی اسناد نہیں رکھتے تھے، لیکن خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے علمی و اَدبی دُنیا میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کام یاب ہوئے۔ آپ ریڈیوپاکستان اور اخبارات کی اُردو صحافت سے وابستہ رہے۔ اُردو اور پنجابی[ہندکو] میں آپ کی کئی تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ (۱۱)بائیوببلوگرافی میں آپ کی تاریخ پیدائش۷ جنوری ۱۹۲۰ء جب کہ تاریخ وفات یکم دسمبر۱۹۹۲ء درج ہے۔ آپ ناول نگار، ڈراما نگار، افسانہ نگار اور شاعر ہیں۔ الطاف پرواز جدید اُردو کو اپنی دوہا نگاری میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ دوہے دیکھیے :

دھُوپ کھلی ہے سر پر سمٹے تنہائی کے سائے

تن بگیا پرواز ہے سونی، ساون بیتا جائے

راکھ میں دب کر چنگاری مر جائے یا سوجائے

آگ لگی پرواز کے من میں، اس کو کون بجھائے

ایک اکیلا چاند گگن پر، دھرتی سنگ ہے شور

جگ پرواز ہے جنگل سارا، ناچے پیا کا مور(۱۲)

یہ دوہے عامیانہ فضا کے عام سے دوہے ہیں۔ البتہ اجتماعی دانش کا اظہار واضح دکھائی دیتا ہے۔ ہندی الفاظ کی موجودگی بھی فضا کاری میں معاون ہے۔ دوسرے اور تیسرے دوہے میں احساس کی حدت دیکھی جا سکتی ہے۔

 

 

 

 

 

جمیل عظیم آبادی

(۷ جنوری ۱۹۲۴ء… )

 

اصل نام محمد جمیل احسن[ولد محمد یوسف] ہے۔ ۷ جنوری ۱۹۲۴ء کو عظیم آباد (پٹنہ، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ کی مطبوعات میں ’’دل کی کتاب‘‘، ’’گیان درپن‘‘ (دوہے )، ’’وحدت و مدحت‘‘، ’’آب وسراب‘‘، ’’گل ہائے صد رنگ‘‘، ’’گل سہ برگ‘‘، ’’رحمن‘‘، ’’دوہاسنسار‘‘، ’’روایت کے قیدی‘‘ اور ’’روشنی شامل ہیں۔ ‘‘(۱۳) دیگر تصانیف میں ’’حمد میری بندگی، المدثر، ، میری نظر میں، نا مراد اور دوسری کہانیاں ‘‘ شامل ہیں۔ آپ نے پٹنہ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور محکمہ ڈاک و تار سے منسلک ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں خدمات انجام دیں۔ ملک ٹوٹنے کے بعد کراچی چلے آئے۔ (۱۴)

ان کے حوالے سے علیزہ صدیقی نے : ’’ جمیل عظیم آبادی فن اور شخصیت‘‘ اور یاور امان نے ’’جمیل عظیم آبادی شخصیت اور فن‘‘ نامی کتابیں لکھی ہیں۔ کراچی میں مقیم ہیں اور آج کل ہومیوپیتھی سے منسلک ہیں۔ ان کے فن کارانہ تیوروں کے بارے میں شان الحق حقی صاحب یوں رقم طراز ہیں : ’’گیان درپن جمیل عظیم آبادی کے گیتوں اور دوہوں کا مجموعہ ہے، جسے میں نے بہت لطف لے کر پڑھا اور ان کے سلیس اندازِ بیان، مُدھر بانی اور رسیلے بولوں کی دل سے داد دی۔ اپنے ہلکے پھلکے انداز میں اُنھوں نے حمد و نعت سے لے کر فکری، رومانی، اخلاقی اور ناصحانہ مضامین تک بڑی خوبی سے سے نظم کیے ہیں۔ ‘‘(۱۵)جمیل عظیم آبادی کے دوہوں سے متعلق نظیر صدیقی کی رائے قدر سے خالی نہیں : ’’ مجھے ان کے دوہے، غزلوں اور گیتوں سے زیادہ جاندار اور جاذبِ توجہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے دوہے، ان کے مشاہدے کی وُسعت، ان کے ذاتی تجربات کے نچوڑ، ان کی انسانی دردمندی اور دوہے کی تکنیک کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ‘‘(۱۶)

ان معتبرآراسے دو باتیں سامنے آتی ہیں، ایک تو یہ کہ جمیل عظیم آبادی کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے اور دوسری یہ کہ انھوں نے دوہے کی تکنیک کا اہتمام کیا ہے۔ البتہ ان کے یہاں عالی چھند یا سرسی چھند کی بحر غالب ہے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے:

بپھرا ساگر، چڑھتی ندّی، نیّا نا پتوار

اللہ کو تم ہانک لگاؤ، ہو جاؤ گے پار(۱۷)

 

پریم کتھا کی اُلٹی بانی، اُلٹی اس کی ریت

جیت کو اپنی ہار سمجھ لے، ہار کو اپنی جیت(۱۸)

جیون پتھ پر پل پل ڈھونڈھو اللہ کا فرمان

جھوٹا سارا جگ ہے پیارے، سچّا ہے بھگوان(۱۹)

دھرتی دھرتی بھید چھپے ہیں، ان کا کھوج لگاؤ

ودّیا کارن چین بھی جانا ہو تو ، پیارے جاؤ(۲۰)

جمیل عظیم آبادی کی زبان دوہے سے مخصوص ہے۔ انھوں نے عمداً فارسی اور عربی کے بڑے بڑے الفاظ سے گریز کیا۔ ورنہ نئی فضا کے مطابق بہت سے شاعروں نے ایسا کرنے میں عار نہیں محسوس کی۔ یہ ایک طرح سے ان کی روایت سے جڑت اوراس کی پاسداری کاسلیقہ ہے۔

 

 

 

 

سید قدرت نقوی

(۱۹۲۵ء…۲۰۰۲ء)

 

آپ کاخاندانی نام سیدشجاعت علی، جب کہ قلمی نام سیدقدرت نقوی ہے۔ آپ میرٹھ اُتر پردیش بھارت میں پیدا ہوئے۔ ترقی اُردو بورڈ کراچی سے طویل عرصہ تک وابستہ رہے۔ آپ نے لسانیات، قواعد اور تحقیقِ غالب کے سلسلے میں کتابیں تحریر کیں۔ (۲۱) ان کے علاوہ آپ نے ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ کے چوتھے ایڈیشن کی تصحیح اور فرہنگ پربھی کام کیا۔ یہ کتاب انجمن ترقیِ اُردو، کراچی نے ۱۹۸۶ء میں شائع کی۔ (۲۲)

سید قدرت نقوی نے فنِ دوہا نگاری پر مضامین بھی لکھے۔ انھوں نے خصوصیت کے ساتھ دوہا چھند کے حق میں دلائل و براہین کے ساتھ لکھا۔ ان کا ایک مضمون بہ عنوان ’’دوہا‘‘… تخلیق، شمارہ ۵، ۶، ۱۹۸۴ء میں شائع ہوا۔ جس پر خوب لے دے ہوئی۔ عرش صدیقی صاحب نے بھی ان پر گرفت کی اورسرسی چھند کے حق میں دلائل دیے۔ نمونۂ کلام دیکھیے، جس میں دوہا کی مخصوص فضاسے بننے والے منظر خوش نمائی کے ساتھ موجود ہیں :

پنکھ پسارے جو پنچھی، اُونچا اُڑتا جائے

نیچے ہر ننھی شے دیکھے، تیر نہ دیکھا جائے (۲۳)

 

سچ سچ ہی کہلائے اور جھوٹ رہے بے ٹھور

چور نہ پہنچے سادھ کو، سانجھ بھئے نہ بھور(۲۴)

 

من درپن ساجن آئے، درش دیا دکھلائے

رم جھم ساون بھادوں کی، نین مرا برسائے (۲۵)

لیکن یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ لفاظی تو پرانی موجود ہے مگر احساس نیا ہے۔ جس سے ایک تازگی اور اگلے پڑاؤ کی خبر ملتی ہے۔ خصوصاً پہلے دوہے میں ایک مشاہدہ ہے جو روایت میں رہتے ہوئے بھی الگ دکھائی دیتا ہے۔

 

 

 

 

ڈاکٹر وحید قریشی

(۱۴  فروری ۱۹۲۵ء…۲۰۰۹ء)

 

آپ کی پیدائش گوجرانوالہ میں ہوئی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا۔ ایم اے فارسی، ایم اے تاریخ، پی ایچ ڈی فارسی، ڈی لٹ اُردو کی ڈگریاں پنجاب یونی ورسٹی سے حاصل کیں۔ اسلامیہ کالج لاہور میں صدر شعبہ فارسی اوراستاد شعبہ اُردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۱۹۶۲ء میں پنجاب یونی ورسٹی کے اورینٹل کالج سے منسلک ہوئے۔ صدر شعبہ اُردو اور غالب، پروفیسر اُردو، ڈین فیکلٹی علوم اسلامیہ و شرقیہ اور پرنسپل اورینٹل کالج کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ مارچ ۱۹۸۳ء میں مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشیں ہوئے۔ آپ کی تصانیف میں ’’شبلی کی حیات معاشقہ‘‘(۱۹۵۲ء)، ’’انتخابِ سودا مع مقدمہ‘‘(۱۹۵۳۰ء)، ’’میرحسن اور  ان کا زمانہ‘‘ (۱۹۵۹ء)، ’’مقدمہ شعرو شاعری‘‘ (ترتیب و تحشیہ)، ’’مطالعہ حالی…مقالات‘‘(۱۹۶۱ء)، ’’پنجاب میں اُردو…از حافظ محمود شیرانی‘‘ ترتیب وتحشیہ (۱۹۶۵ء)، ’’اُردو کا بہترین انشائی ادب‘‘(۱۹۴۴ء)، ’’انتخابِ آتش مع مقدمہ‘‘ (۱۹۶۵ء)، ’’مثنوی سحر البیان… ترتیب و تحشیہ‘‘(۱۹۶۵ء)، ’’مثنویاتِ میرحسن‘‘ جلد اول، ترتیب و تحشیہ، ’’کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ‘‘، ’’مقالات‘‘، ’’تنقیدی مطالعے ‘‘، ’’باغ و بہار…ایک تجزیہ‘‘ (۱۹۶۸ء)، ’’نقدِ جاں ‘‘(شعری مجموعہ)، ’’نامہ عشق… ترتیب وتحشیہ‘‘، ’’اُردو نثر کے میلانات‘‘(۱۹۸۶ء) شامل ہیں۔ (۲۶)ان کتابوں کے علاوہ ’’اساسیاتِ اقبال‘‘، ’’نذرِ غالب‘‘، ’’اقبال اورپاکستانی قومیت‘‘، ’’مطالعہ ادبیاتِ فارسی‘‘، ’’پاکستان کی نظریاتی بنیادیں ‘‘ آپ کی اہم تصانیف ہیں۔

ڈاکٹر وحید قریشی اُردو اَدب میں شاعر کی نسبت کم، نقاد، محقق اور منتظم کی حیثیت سے زیادہ نامور ہیں۔ آپ کے شعری مجموعوں ’’نقدِ جاں ‘‘ اور ’’الواح‘‘ میں غزلوں اور نظموں کے علاوہ دوہے بھی شامل ہیں۔ آپ کی شاعری کے حوالے سے عارف عبد المتین یوں رقم طراز ہیں : ’’ڈاکٹر وحید قریشی کی شاعری آسمانِ شعر پر ایک ایسی قدرتی دھنک کی مماثل ہے، جس میں روح، وطن، ملت، انفس، آفاق، جمال اوراستمرار کو ان سات رنگوں کا اعزاز حاصل ہے۔ جن سے یہ نظر افروز دھنک متشکل ہوئی ہے۔ ‘‘(۲۷) اس تناظر میں وحید قریشی کے یہ دوہے ملاحظہ کیجیے :

موسم کی دہلیز پر، رُکی خزاں کی شام

منظر دھندلے ہو گئے، کس کو دیں الزام

سرما کی دوپہر تھی، اُجلی اُجلی دھُوپ

ایک سنہرا خواب تھا، ایک سہانا رُوپ(۲۸)

چنچل ناری ساج کے، دیدوں کو مٹکائے

میٹھے بول سنائے کے، جی مورا پرچائے (۲۹)

 

چاند کا پنچھی سو گیا، لمبی چادر تان

گلیاں شہر لہور کی، سونی اور ویران(۳۰)

ان تمام دوہوں کا وزن اگرچہ دوہا چھند ہے اور لفظیات بھی اسی فضا کے ہیں مگر ان میں ندرت ایک تو مضامین نے پیدا کی ہے، پھر خاص احساس کی رچاوٹ بھی انھیں ممتاز کرتی ہے۔ سیدھے سبھاؤ میں کہے گئے یہ دوہے ماضی کی روایت میں پوری طرح پیوست ہوتے ہوئے بھی استقبال سے ہم کلام ہیں۔ یہی ان کی خوبی ہے۔ ماہنامہ تخلیق، لاہور کے شمارہ اپریل ۲۰۰۴ء میں آپ کے شخصی دوہے بھی شامل ہیں۔ ان شخصیات میں اشفاق احمد خاں، اظہر جاوید، انتظار حسین، عطاء الحق قاسمی، امجداسلام امجد، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹرسلیم اختر، ڈاکٹر معین الرحمان اورڈاکٹرتحسین فراقی شامل ہیں۔ ان حضرات کے حوالے سے ڈاکٹر وحید قریشی نے اپنے احساسات کو خوب دوہا بند کیا ہے۔

 

 

 

 

ع س مسلم

(۱۹۲۵ء…)

 

آپ کا اصل نام عبدالستار، کنیت ابوالامتیاز  اور تخلص مسلم ہے۔ آپ نکودر ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کراچی سے بی اے کیا۔ پہلے ائیرفورس میں ملازمت اختیار کی، بعد ازاں ذاتی کاروبار شروع کیا، جو خوب پھلا پھولا۔ (۳۱)آپ کا تجارتی سلسلہ کراچی سے دوبئی تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے کاروباری مصروفیات میں سے شاعری کے لیے بھی وقت پس انداز کیا۔ مسلم کے دوہوں کے مجموعے کا نام ’’برگِ تر‘‘ ہے۔ یہ مجموعہ مختلف ابواب میں منقسم ہے۔ جن کے عنوانات یہ ہیں : ’’آندھی اور بگولے ‘‘، ’’بستی بستی گلی گلی میں ‘‘، ’’رس گھولے ‘‘، ’’کچی مٹی کا تانا ہے ‘‘، ’’دیپک شمع چراغ‘‘، ’’سوراج‘‘، ’’کسی کی جیت‘‘ اور ’’یضرب الامثال‘‘ وغیرہ۔ (۳۲) آپ کی زبان سادہ مگر پُر معنی اور پُر لطف ہے۔ مسلم کے موضوعات میں ہمہ رنگی ہے۔ یہ دوہے دیکھیے :

آتی رُت بہار کی، مسلم خوب چمن ہے پھولے

قسمت یارو اُس کی، جس کو خوشبو تیری چھو لے (۳۳)

 

پل پل برہا بھاری مسلم، خوب چمن ہے پھولے

کنگھی چوٹی کر کے بیٹھی، آئے میت قبولے (۳۴)

 

آہستہ آہستہ اک دن جائے گا جیون بیت(۳۵)

آخر ایک ہی منزل، کس کی ہار ہے، کس کی جیت

 

اے مالک ! جگ کے رکھوالے، تجھ سے مرا سوال

تو ظاہر، تو باطن، تجھ پر روشن مرا حال (۳۶)

یہ تمام دوہے احساسات و جذبات کا بہترین اظہاریے ہیں۔ ساتھ ہی دوہے کے مقبول موضوعات بھی مسلم کے یہاں پوری طرح مجسم و متشکل ہیں۔ حسن و عشق اور تصوف وفلسفہ کی کار گزاریاں اچھی طرح واضح ہیں۔

 

 

 

 

بشیر منذر

(جنوری ۱۹۲۵ء …۱۴ جون ۱۹۹۰ء)

 

آپ کی پیدائش لاہوریاں، ضلع گجرات میں ہوئی۔ [اصل نام بشیر احمد ولد ملک حسن محمد جب کہ مقام وصال لاہو رہے۔ ]آپ نے ایم اے اردو اور ایم اے پنجابی کیا۔ ’’ضلع گجرات دے پنجابی شاعر‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھا۔ پنجابی شاعری پر ۱۹۶۹ء میں رائٹرز گلڈ کی طرف سے انعام ملا۔ بچوں کے لیے پنجابی زبان میں ’’الھڑبلھڑ باوے دا‘‘ نامی کتاب لکھی اور انعام پایا۔ (۳۷) آپ کی ایک اور پنجابی تصنیف ’’کلارکھ‘‘ پر بھی پاکستان رائٹرز گلڈ نے انعام دیا۔ آپ کی اُردو تصانیف میں ’’شاخ در شاخ‘‘ اور بچوں کے لیے نظموں اور گیتوں پر مشتمل کتاب ’’اب ومجھے بتائیں ‘‘ شامل ہیں۔ (۳۸)

بشیر منذر دوہا نگار بھی ہیں۔ آپ نے معنی آفرینی کو خوب نبھایا۔ سادہ پیرائے میں مدعا بیان کیا۔ پاکستان میں موجود روش کے مطابق آپ نے بھی اظہار کے لیے سرسی چھند کورو بہ راہ کیا۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

بیتی ریناں، کھلے ہیں نیناں، ہار ترے مرجھائے

ایک رات کے ساتھی گوری، مڑ کر کبھی نہ آئے

 

مجھ گھائل کو چھوڑ گئی ہے ڈار کی ہر ایک کونج

پردیسی کے نالوں کی اب کون سنے گا گونج

 

پو پھٹے جو وہ دودھ بلوئے، کھل کھل ہنسے کپاس

میرا جیون اک ویرانہ، کوئی دور نہ پاس

نیل گگن پر چاند ستارے، پھلواری میں پھول

اپنی انگنائی میں منذر، اُڑتی ہے بس دھُول(۳۹)

یہ تمام دوہے زرعی ثقافت اور دوہے کی مخصوص فضا کے خوب اظہاریے ہیں۔ ان میں محبت کی بے تابیاں اور اجتماعی دانش کی خوش رنگیاں لطف سے ہم آمیز ہوئی ہیں۔ یہی چیز منذر کو ممتاز کرتی ہے۔

 

 

 

 

عبد العزیز خالد

(جنوری ۱۹۲۷ء …۲ جنوری ۲۰۱۰ء)

 

آپ کامولد نکودر، ضلع جالندھر ہے۔ میٹرک اسلامیہ ہائی اسکول ننگل انبیا سے کیا اور ایم اے کا امتحان پنجاب یونی ورسٹی سے پاس کیا۔ ۱۹۵۰ء میں دورانِ تعلیم ہی شعر گوئی شروع کر دی۔ اس ضمن میں آغا صادق حسین سے عروض کی تحصیل کی۔ ’’برگِ خزاں ‘‘، ’’دشتِ شام‘‘، ’’ سرودِ رفتہ‘‘، ’’حدیثِ خواب‘‘، ’’فارقلیط‘‘، ’’ورقِ ناخواندہ‘‘، ’’غزل الغزلات‘‘، ’’غبارِ شبنم‘‘، ’’لحنِ صریر‘‘ اور ’’گلِ نغمہ‘‘ آپ کے شعری مجموعے ہیں۔ (۴۰) دیگر تصانیف میں ’’زرِ داغِ دل‘‘، ’’ کفِ دریا‘‘، ’’زنجیرِ رمِ آہو‘‘، ’’اقبال از عطیہ‘‘ اور ’’کجدارومریز‘‘ نمایاں ہیں۔ فارقلیط نعتیہ شعری مجموعہ ہے۔ اس پر آپ کو آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ (۴۱)

عبدالعزیز خالد مشکل پسند شاعر ہیں۔ آپ کی تراکیب عموماً ثقیل اورسخت ہوتی ہیں۔ آپ کی تصانیف کے عنوانات میں ان کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔ آپ نے اپنے لیے الگ ڈگر بنائی، جس کے موجد ہونے کے علاوہ خاتم بھی خود ہیں۔ دوسری شاعری کے علاوہ آپ کی دوہا نگاری میں بھی یہی رنگ غالب ہے۔ دوہا عمومیت بلکہ عامۃ الناس کی چیز ہے۔ اس لیے یہ سادگی و ابلاغ کا متقاضی ہے۔ لیکن آپ کے یہاں یہ چیز مفقود ہے۔ بعض غیر مانوس الفاظ کا استعمال آپ کے دوہوں کو مشکل تر بنا دیتا ہے۔ نمونۂ کلام دیکھیے :

کرم پھل کی لابسا، کرتے نہیں وِدوان

جو ملکت ہو راگ دویش، وہی اُتم انسان

 

اس بزمِ کون و فساد میں، تلاش کنج سکوں

اے دیدہ آغشتہ بخون محال است و جنوں

 

چہروں کے بین السطور پڑھ، دلوں کے اندر جھانک

جوہری کی آنکھ سے انسانوں کو آنک

 

اہلِ تملق طے کریں، ترقی کے درجات

عبدالعزیز خالد کی کوئی پوچھے نہ بات(۴۲)

آپ کی مشکل پسندی پر عموماً بات ہوتی آئی ہے مگر عبدالعزیز خالد نے آخر تک اپنی وضع برقرار رکھی۔ یہی وضع آپ کو جداگانہ شناخت بھی عطا کرتی ہے اور مقام بھی۔

 

 

 

 

جمال پانی پتی

(۱۹۲۷ء…۲۰۰۵ء)

 

آپ کا نام گلزار احمد اور تخلص جمال ہے۔ پانی پت میں پیدا ہوئے اسی نسبت سے پانی پتی کہلائے۔ آپ نے گریجویشن کرنے کے بعد بینک میں ملازمت اختیار کر لی۔ شاعری کے علاوہ ترجمہ کاری بھی آپ کے مشاغل میں شامل رہی۔ مشہورفرانسیسی مفکر ’’رینے گینوں ‘‘ کی کتاب کا ’’عہد جدید کے بحران‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا۔ آپ نے اُردو میں اَدبی مقالات بھی تحریر کیے۔ جمال پانی پتی نے دوہا نگاری بھی کی۔ لیکن اپنے لیے سرسی چھند کو شعار کیا۔ نمونۂ کلام دیکھیے، جو روایت اور جدت کے سنگم پر کھڑا ہے :

سوچ کی کرنیں رنگ برنگی، کیا کیا چھب دکھلائیں

دھیان کی اوٹ سے پل پل جھانکیں، جھانکیں اور چھپ جائیں

 

گگن سے اُتریں اوس کے موتی، رم جھم پڑے پھوار

چھم چھم چھم چھم کرنیں برسیں، ناچیں ہار سنگھار

 

لہروں لہروں دُکھ ساگر میں، ڈولے جیون ناؤ

کیا جانے کس گھاٹ اُتارے، سمے کا تیز بہاؤ

دیا بجھے، پھر جل جائے اور رت بھی پلٹا کھائے

پر جو ہاتھ سے جائے سمے وہ، کبھی نہ لوٹ کے آئے

(سیپ، کراچی، شمارہ ۴۳، اٹھارہویں سالگرہ نمبر، ص۲۲۷)

ان مترنم دوہوں میں غمِ ذات اور غمِ زمانہ یوں ہم آمیز ہوئے ہیں کہ پہلے تاثر میں دُکھ نہیں ہوتا۔ لیکن جوں ہی غور کیا جائے تو ایک میٹھا درد  اور خلش دل کے آر پار ہو جاتی ہے۔ جمال پانی پتی کی ڈکشن وہی ہے، جو دوہے کے لیے خاص ہے۔ اس کے باوجود آپ کے یہاں تازگی اور ندرت کی کرنیں خوبی سے منعکس ہوتی ہیں۔

 

 

 

رشید قیصرانی

(۱۳ دسمبر۱۹۳۰ء…۲۱ جون ۲۰۱۰ء)

 

آپ کا اصل نام رشید احمد جب کہ قلمی نام رشید قیصرانی ہے۔ آپ ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ (۴۳) آپ کا پورا نام سردار رشید احمد خاں قیصرانی ولد سردار شیر بہادر خاں قیصرانی ہے۔ آپ کا مولد تونسہ شریف جب کہ مقام وصال شیرگڑھ ہے۔ آپ پاکستان ائیرفورس میں ملازم رہے اوراسکوارڈن لیڈر کے منصب سے سبک دوش ہوئے۔ ’’فصیلِ لب‘‘ کے نام سے آپ کا مجموعۂ کلام شائع ہوا، جس میں دوہے بھی شامل ہیں۔ رشید قیصرانی نے پاکستان میں عمومی رائج سرسی چھند کوہی اپنے لیے چُنا۔ البتہ آپ کے دوہوں میں مضمون کی سطح پر ایک خاص ندرت اور تازگی ہے۔ یہ دوہے ملاحظہ کیجیے، جن میں ان کے مشاہدات اور ذات پوری طرح داخل ہیں :

میرے اندر دھڑکن دھڑکن آوازوں کی بستی ہے

میرے لب پہ چپ کی ناگن دھرنا مارے بیٹھی ہے

کتنے جگنو پکڑے میں نے، کتنے چاند شکار کیے

سب گھاٹے کے سودے نکلے، جتنے بھی بیوپار کیے

میں نے کہا وہ سانول تجھ بن خون کے آنسو روتا ہے

من بولا سب جھوٹی باتیں، کون کسی کا ہوتا ہے (۴۴)

یہ جو اُوپر تازگی اور ندرت کی بات کر آیا ہوں، در حقیقت غزل کی شان ہے۔ ان دوہوں کو غزل کے مطلعے کہا جائے تو کچھ زیادہ نامناسب نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ جو بات دوہے سے مخصوص ہے، وہ یہاں مفقود نہیں تو کم کم ہے۔

 

 

 

صہبا اختر

(۳۰ دسمبر۱۹۳۲ء …۱۹ فروری ۱۹۹۶ء)

 

آپ کا اصل نام اختر علی ہے اور پیدائش جموں میں ہوئی۔ بریلی سے ایف ایس سی کیا اور پھرپاکستان آ کر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ مختلف جرائد میں آپ کا کلام شائع ہوتا رہا۔ آپ کی تصانیف میں ’’سرکشیدہ‘‘ اور ’’اقراء‘‘ شامل ہیں۔ (۴۵)ان کے علاوہ ’’مشعل‘‘ اور ’’سمندر‘‘ بھی آپ کی کتابیں ہیں۔ صہبا بنیادی طور پر گیت کے شاعر ہیں، اس لیے آپ کی طبیعت دوہا کی طرف مائل ہوئی۔ یہ دونوں اصناف اپنی اصل میں ایک ہیں۔ گیتوں کاسارس لوچ اور میٹھی چبھن آپ کے دوہوں میں پوری طرح متشکل ہے۔ نمونۂ کلام دیکھیے :

رین اندھیری سانس کے جھکڑ، توڑیں جیون ڈور

باہر کتنی چپ چھائی ہے، من میں کتنا شور (۴۶)

 

صہبا جی ! کیوں من کی گپھا میں بیٹھ رہے چپ سادھ

آؤ چندن رات کی دھن کو بانٹ لیں آدھوں آدھ

 

جس کی دیپکا ایسی، جیسے کرنوں کی برسات

اس کے ساتھ گزاری میں نے، دیوالی کی رات

 

اس کی سندرتا کا جادو کیسے سمجھ میں آئے

جو بولے تو پھول گریں اور چپ ہو تو مہکائے (۴۷)

سرسی چند میں کہے گئے ان دوہوں میں روپ اَمرت اورحسن و عشق کی کتھائیں اُسی سلیقے سے بیان ہوئی ہیں جو دوہے کا خاصہ ہے۔ صہبا نے ہندی کے وہی الفاظ استعمال کیے ہیں جو عام فہم ہیں۔ ان کے لیے ذہن کو دباؤ میں نہیں لانا پڑتا۔ سیدھے سبھاؤ میں بات قاری کے دل میں اُتر جاتی ہے۔

 

 

 

 

تاج سعید

(۱۹۳۳ء…۲۰۰۲ء)    

 

آپ صوبہ سرحد کے ممتاز صحافی اور شاعر ہیں۔ نظم اور غزل کے علاوہ نثر بھی لکھی۔ ادبی رسالے ’’قند‘‘ کے مدیر رہے۔ ’’دھنک‘‘، ’’ہم قلم‘‘، ’’دھڑکنیں ‘‘ اور ’’سوچ سمندر‘‘ آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ (۴۸)ان کے علاوہ ’’پشتو اَدب کی مختصر تاریخ‘‘، ’’لیکھ‘‘، ’’شہرِ ہفت رنگ‘‘ اور ’’رُتوں کی صلیب‘‘ اہم تصنیفات ہیں۔ (۴۹) پشتو ادب کی تاریخ، تحقیقی کتاب ہے، جب کہ لیکھ ان کی ہندکو شاعری کا مجموعہ ہے۔ شہرِ ہفت رنگ، پشاور کے متعلق طویل نظمیہ اظہار ہے۔

دوہا نگاری میں تاج سعید کی خاص شناخت ہے۔ مشاہیرِ اَدب نے اُن کے حوالے سے قابلِ قدر آرا ظاہر کی ہیں۔ تاج سعید نے بھی جمیل الدین عالی اور ڈاکٹر وحید قریشی کی طرح شخصیات کے حوالے سے دوہے لکھے۔ ایسے دوہوں میں ان کی دلی کیفیت دیدنی ہوتی ہے۔ مشاہیرِ اَدب کے حوالے سے کہے گئے دوہوں میں ان کے جذبات اور عقیدتیں پوری طرح واضح ہوتی ہیں۔ آپ کے فنِ شعر کے حوالے سے عرش صدیقی صاحب یوں رقم طراز ہیں : ’’تاج سعید کی بطور دوہا نگار مقبولیت صرف اور صرف دوہوں کے حسن اور ان کی شاعرانہ تاثیر کی وجہ سے قائم ہوئی۔ ‘‘(۵۰) یہ دوہے ملاحظہ کیجیے، جو عرش صدیقی صاحب کے بیان کی توضیح کرتے ہیں :

لوبھی پریم کے کارن، ٹوٹ گئی ہے آن

من اپنا ہے دھیان کی اُجڑی یادوں کا شمشان

 

مانگے ملے نہ بھیّا ہم کو، اک دمڑی بھی اُدھار

بکتے ہیں انسان یہاں پر، یہ ایسا سنسار

 

داتا تیرے کارن ہی نت مٹیں جہاں کے روگ

ملے ہوؤں کی سنگت چھوٹے، یہ کیسا سنجوگ

 

انیائے کے راج کے کارن، ہم تو پہروں روئیں

کچھ ایسے بھی مورکھ ہیں، جو چادر تانے سوئیں

 

لوبھی جگ میں سو ملیں، پر دیالو نہ ملے ایک

جو نہ لوٹے ساوتری کو، ایسا نہیں کوئی نیک

 

ایسی پَون چلی ہے اب کے، ٹوٹی ملن کی آس

دیکھ کے جگ کے بگڑے تیور، بھئے سعید اُداس

(ماہنامہ افکار کراچی، فروری ۱۹۶۰ء،ص ۲۵)

ندیا کے اُس پار ہے سکھیو، اپنے پیا کا گاؤں

پیڑ وہاں کے بڑے سندر ہیں، ٹھنڈی ہے ان کی چھاؤں

دیپ چندی کے تال پہ گوری، یوں ناچے لہرائے

جیسے بن میں ناچتا مور اپنے پر پھیلائے

 

اس ناری کا جو بنوا ہے، ایک مہکتا پھول

دیکھ کے جس کو منوا اپنا آپ گیا ہے بھول

 

چھیلا بن کر میلے پہونچے کسی سے نین لڑانے

نا سندریوں نے تاکا نا آیا کوئی دھیر بندھانے

 

تاج پیا کے گیت اور دوہے سن کر دیس کی ناری

ٹھمک ٹھمک کر چلتے چلتے، جھوم اُٹھے متواری

( ماہنامہ افکار کراچی، جون ۱۹۶۰ء،ص ۲۸)

 

گھور گھٹا جب ٹوٹ کے برسے، ناؤ کھائے جھکولے

گُم سم مانجھی بڑھتا جائے، منھ سے کچھ نہ بولے

 

ہم نے کل کی آس پہ پگلی، شیش محل تھا بنایا

شیش محل کی نیو میں تھا، آشا کا لہو رچایا

 

گلی گلی میں دوہے گاتے، بیتا جیون سارا

جس کے کارن جوگ لیا تھا، وہ نہ بنا ہمارا

پیا پیا نہ کوک باوری، پیا بڑا بدنام

چھل اور کپٹ سے یار لوگ، سدا چلائیں کام

رشید امجد صاحب کی یہ رائے بھی توجہ سے خالی نہیں ہو گی: ’’ تاج سعیدکا انداز اپنا ہے۔ یہ انداز موضوع، بنت اور اظہار تینوں سے مل کر اپنا وجود پاتا ہے۔ ‘‘(۵۱) اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تاج سعید نے صرف چھند کے معاملے میں عالی جی کو پیش رو بنایا ہے، موضوعات اور خیال کی سطح پران کا میدان جدا اور خالص ہے۔ تاج سعید کے یہاں ہندی کا اظہار قرینے سے ہوا۔ یہ عنوانات ملاحظہ کیجیے جوان کی زبان کا پتا دیتے ہیں :چندرنار، من لگن، جوگ، پیا ملن، مانجھی، سانوری رادھا، ندیا، بستی بستی، روپ سروپ، پریت ریت، پریم رس، دھنک رنگ، سُرتال، روپ بہروپ۔ ان تمام عنوانات سے ہندی اثرات کا پتا ملتا ہے۔ عرش صدیقی صاحب اس حوالے سے رقم طراز ہیں : ’’تاج سعید کے دوہوں کی یہ خصوصیت بہرحال نمایاں ہے کہ انھوں نے عموماً بحیثیت مجموعی وہ ہندی زبان استعمال کی ہے، جس سے ہم مانوس ہیں اور جو اُردو دُنیا کے لیے اجنبی بھی نہیں۔ ‘‘(۵۲)

 

 

 

 

صابر آفاقی، ڈاکٹر

(۹ مارچ ۱۹۳۳ء … ۱۰ اپریل ۲۰۱۰ء)

 

آپ شاعر اور ادیب ہیں، پیدائش گوہاڑی تحصیل مظفر آباد، آزاد کشمیر میں ہوئی۔ آپ کا اصل نام چودھری احمد دین خان ہے۔ دینیات اور عربی وفارسی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ درس نظامی اور علوم مروجہ اسلامیہ کی تحصیل کے بعدتدریس کاسلسلہ بھی جاری رکھا اور پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو، ایم اے فارسی کے امتحانات اول درجے میں پاس کیے۔ گورنمنٹ کالج مظفر آباد میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر پی ایچ ڈی کے لیے تہران چلے گئے۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ آپ کی تصانیف میں ’’راج ترنگنی‘‘، ’’گل ہائے کشمیر‘‘، ’’پھل کھیلی‘‘، ’’ حسین ابن منصور‘‘، ’’ اقبال اور کشمیر‘‘، ’’شہرِ تمنا‘‘، ’’ تاریخ کشمیر‘‘ اور ’’جلوۂ کشمیر‘‘ شامل ہیں۔ آپ اُردو کے علاوہ، گوجری، پہاڑی، پنجابی، فارسی اور انگریزی پردستگاہ رکھتے ہیں۔ (۵۳)دیگر تصانیف میں ’’کشمیر اسلامی عہد میں، سارے جہاں کا درد، سفر محبتوں کا، کثرت نظارہ، نقش ہائے رنگ رنگ، نئے موسموں کی بشارت، شہر تمنا‘‘ شامل ہیں۔

ڈاکٹر صابر آفاقی نے ’’کیسرکیاری‘‘ کے نام سے گوجری زبان میں بھی ایک مجموعۂ شاعری شائع کروایا تھا۔ علاوہ ازیں آپ نے بہائی فرقے کے لیے بھی کتابیں لکھیں۔ نمونۂ کلام دیکھیے :

دوہا میرے خون میں، دوہا میرا شیر

راجستھان کی مٹی سے اُٹھا مرا خمیر

 

غم کی فوجیں بیٹھ رہیں، مجھ پہ لگائے گھات

پھر بھی میں نے کاٹ دی، ٹھنڈی لمبی رات

 

ناری تیرے درس کو، ترسیں پھول اور پات

جگنو دیپ جلاتے ہیں، تیری خاطر رات(۵۴)

دوہا چھند میں کہے گئے ان دوہوں کا رَس جس ان کی تازگی اور سادہ بیانی میں ہے۔ پُر گوئی اور ہمہ وصفی کاموں کے باوجود ڈاکٹر صابر آفاقی کے دوہوں میں شاعری کے تمام لوازم موجود ہیں۔

 

 

 

 

شاعر صدیقی

( یکم فروری ۱۹۳۳ء …)

 

شاعر صدیقی کا اصل نام عبدالرزاق[ولد عبدالغفار] ہے۔ آپ یکم فروری ۱۹۳۳ء کو کلکتہ(انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شعری مجموعہ ’’آنکھوں میں سمندر‘‘۲۰۰۴ء میں شائع ہوا۔ آپ کراچی میں مقیم ہیں۔ (۵۵)دوسری تصانیف میں شیشہ و سنگ، بْجھتے سورج نے کہا شامل ہیں۔ آپ ہفت روزہ ’’ چترالی‘‘ کے مدیر اور ماہنامہ ’’شمع‘‘ کے معاون مدیر بھی رہے۔ آپ کا کلام مختلف جراید میں شائع ہوتا رہتا ہے۔ دوسری اصناف سخن کے ساتھ ساتھ آپ نے دوہے بھی کہے ہیں۔ یہ کلام دیکھیے :

سجنی تیرے پریمی کا چہرہ ہے ایسا ماند

نیلے سے آکاش پہ جیسے دن کا پھیکا چاند

 

ہار یہاں پروانے کی ہے اور بھنورے کی جیت

پیار کرے پاگل کہلائے، اس نگری کی ریت

 

تیرے دیس میں ہوتے دیکھا، پیار کا بھی بیوپار

مان بہت تھا پریت پہ اپنی، مان گئے ہم ہار(۵۶)

مضامین کے اعتبار سے ان دوہوں میں کوئی نیا پن نہیں ہے اور نہ ہی روایتی دوہے کے مزاج سے ہم قدم ہوتے ہیں۔ البتہ شخصی اظہار کے طور پر انھیں اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ ان میں شاعر نے اپنی کیفیات کو مجسم کیا ہے۔

 

 

 

 

پرتو روہیلہ

(۱۰ اگست ۱۹۳۳ء…)

 

پرتو روہیلہ کا اصل نام مختار علی خان ہے۔ آپ ۱۰ اگست ۱۹۳۳ء کو رام پور، بھارت میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تصانیف میں ’’پرتوِ شب‘‘، ’’نوائے شب‘‘، ’’رین اجیارا‘‘ (دوہے )، ’’پشتو ٹپے ‘‘، ’’سفرگزشت‘‘، ’’دامِ خیال‘‘، ’’شکست رنگ‘‘، ’’اک دیا دریچے میں ‘‘، ’’غالب کے فارسی خطوط‘‘، ’’کلیاتِ عطا‘‘ شامل ہیں۔ پرتو روہیلہ کو صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ (۵۷)

پرتو روہیلہ نہ صرف بہ طور شاعر قبولیت کا مقام رکھتے ہیں، بلکہ دوہا نگار کی حیثیت سے بھی ان کی انفرادیت موجود ہے۔ آپ کے دوہوں میں جذبات یوں متشکل ہوتے ہیں ، جیسے متحرک تصویرسامنے آ کھڑی ہوں۔ آپ کی دوہا نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی کی یہ رائے دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے : ’’اہلِ فن جانتے ہیں کہ پرتو نے دوہے کہہ کر اُردو شاعری کی جدید تاریخ میں اپنا مقام بنا لیا ہے۔ ‘‘(۵۸) جب کہ جمیل ملک یوں رقم طراز ہیں : ’’ پرتو روہیلہ اپنے دوہے کے تمام تخلیقی سفر میں زبان و بیان اور لب و لہجے کے اعتبارسے لوک رس اور لوک مس سے قریب تر رہا ہے۔ جو ہمیشہ سے دوہے کی روایت ہے۔ ‘‘(۵۹) ضمیر جعفری کے بہ قول ’’پرتو نے اس صنف کو وسعت اور توانائی بخشی ہے۔ ‘‘(۶۰) غرض یہ کہ آپ نے دوہے کی تمام جہتوں کو روشن آنکھوں سے دیکھا اور پیش کیا۔ نمونۂ کلام دیکھیے جو خود اس بات کا شاہد ہے :

ساجن تو پردیس میں بیٹھا، کھیلے بالک کھیل

میں برہن لوہو سے اپنے، سینچوں پیار کی بیل(۶۱)

اس دوہے میں ہجر کا کرب پوری قوت کے ساتھ جمع ہو گیا ہے۔ اَن اور جل کے چکر میں انسان کیسے اپنوں سے دُور ہو جاتا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کس کس دُکھ سے آشنا ہوتے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں بھی پردیس کی کٹھنائیاں موجود رہی ہیں مگر لمحۂ موجود میں تو یہ دُکھ کم و بیش ہر پانچویں گھر کو محیط ہے۔ مزید دوہے دیکھیے :

آنکھیں میچے سمے کی چکی، بیٹھا کون چلائے

موتی، کنکر، ہیرا، پتھر سب کچھ پستا جائے

جبر و قدر کا موضوع اورانسان کی بے بسی کی مکمل تصویراس دوہے میں دکھائی دیتی ہے۔ اب یہ صورت گری ملاحظہ ہو:

جیون اک بلوان کی لاٹھی ٹھاکر کا انیائے

نربل کی یہ چیخ ہے پرتو، بے بس کی یہ ہائے

کیسی تمھاری ریت ہے لوگو، کیسا تمھارا نیائے (۶۲)

جس کے ہاتھ میں ہل کی ہتھی، کھیت سے خالی جائے

ان دوہوں میں لمحۂ موجود کا دُکھ پوری طرح سمٹ آیا ہے۔ جدید دوہا نگاری کے تناظر میں ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کا درج بالا اظہاریہ بہت مناسب معلوم ہوتا ہے۔ پرتو روہیلہ کے یہاں محض احساسات و جذبات کی ندرت نہیں، بلکہ بیان کا قرینہ بھی نیا ہے۔ اگرچہ یہ دوہے سرسی چھند کی روش کواستوار رکھتے ہیں، مگر دوہے کی فضا معدوم نہیں ہے۔ پرتو روہیلہ کی زبان کے حوالے سے عرش صدیقی کی یہ رائے بھی اہم ہے : ’’ پرتو روہیلہ، تاج سعید، جمیل عظیم آبادی اور الیاس عشقی دوہوں کی زبان کا ہندی مزاج قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں کہیں عصری دباؤ کے تحت بعض نئے اور جدید الفاظ ان کے دوہوں میں در آئیں تو وہ ایک فطری عمل ہے۔ ورنہ بحیثیت مجموعی یہ شعرا دوہے میں لغت کو تبدیل کرنے کی آرزو نہیں رکھتے اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ زبان ہندی ہو، لیکن عام فہم ہو۔ ‘‘(۶۳)

 

 

 

 

امین خیال

(۱۹۳۴ء…۲۴ جولائی ۲۰۱۴ء)

 

امین خیال کا اصل نام محمد امین ہے۔ آپ بیک وقت پنجابی اور اُردو زبان کے شاعر ہیں۔ آپ کی توجہ خصوصی طور پرکلاسیکل اصناف پر رہی۔ پنجابی زبان میں آپ کا کلام اور کتابیں اُردو کے تناسب سے زیادہ ہیں۔ آپ کی تصانیف میں ’’سَولاں سِر سرداری، امر، پھہاراں، کن من، شرلاٹے، یادوں کے سفینے اور من کی آنکھیں کھول‘‘ شامل ہیں۔ آپ نے اُردو زبان میں ماہیا کہنے کے علاوہ دوہا بھی کہا۔ ’’من کی آنکھیں کھول‘‘ دوہوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں آپ نے دوہا چھند اور سرسی چھند کو برتا ہے۔ امین خیال کی شاعری سیدھے سبھاؤ کی مگر خوب صورت لحن رکھتی ہے۔ آپ نے معاشرے میں موجود دُکھوں اور مسائل کو جہاں موضوعِ کلام بنایا ہے، وہاں صدیوں کی دانش بھی آپ کے زیرِ قلم رہی ہے۔ امین خیال کے کلام کے مطالعے سے اُن کی شخصیت کی سادگی اور فکرکی تازگی اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ ذیل میں دیے گئے انتخاب سے امین خیال کے فنِ دوہا نگاری کا اندازہ ہو سکتا ہے :

ایسی بولی بولیو، ہر کے من جو بھائے

باٹ نہ ایسی تولیو، جس پر چلا نہ جائے

 

مان گمان گھمنڈ ہو، کوڑ کباڑ انا

دیکھا بھالا جگت میں، سب کی انت فنا

 

اونچا اس کو جانیو، نیچا جس کا سیس

کبھی نہ کرنا بھول کے، تم امبر کی ریس

 

جگت تماشا دیکھ کے، آیا ایک خیال

جیون کا یہ کھیل بھی، ہے اُس کی ہی چال

 

چندا تورے روپ کی، تھاہ کو پاوے کون

جگ تساہت لوبھ کا، تو من بھاوے کون

 

جس من سے نہ جائے ہے، گندگی کا سیلاب

ایسا من نہ دھوئے رے، گنگا اور چناب

 

اُلٹی گنگا چل پڑی، ہوئیو عجب بگاڑ

راجے پاپ کمائیو، چھیتر کھائیو باڑ

(متفرق صفحات۔ من کی آنکھیں کھول)

ان دوہوں میں دوہا بانی کی روایت خوب رچی ہوئی ہے۔ امین خیال نے ایک التزام البتہ یہ کیا ہے، کہ جدید زبان کو بھی ہم آہنگ کر دیا ہے۔ اس طرح یہ زبان عام فہم اور زیادہ وسیع ہو گئی ہے۔ ان کے یہاں ترنم خصوصیت کے ساتھ موجود ہے، جو ہندی اصناف کی اساس ہے۔

 

 

 

 

سہیل غازی پوری

(۳۰/جون ۱۹۳۴ء…)

 

آپ کا اصل نام سہیل احمد خاں، جب کہ ولدیت ڈاکٹر طفیل احمد خاں ہے۔ آپ غازی پور(یوپی) میں پیدا ہوئے۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی اورپاکستان کسٹمز سے منسلک ہوئے۔ اسی ادارے سے ریٹائرمنٹ لی۔ کراچی میں مقیم ہیں اور ایک زمانے سے ’’شاعری‘‘ کے نام سے سہ ماہی رسالہ باقاعدگی کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ اس رسالے کی خاص بات یہ ہے، کہ اس میں صرف شاعری ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اداریہ، رسالے کا پتا  اور کتابوں پر تبصرے بھی منظوم شائع ہوتے ہیں۔ انھی خطوط کو جگہ ملتی ہے، جو منظوم ہوتے ہیں۔ آپ کی تصانیف یہ ہیں : ’’اجالوں کے دریچے، موسموں کی گرد، شہرِ علم، عکسِ جاں، ہائیکو، باتیں سخنوروں کی (منظوم تبصرے )، لفظوں کو زنجیر کیا، حمد و نعت، قرضِ سخن، باتیں سخنوروں کی (دوسراحصہ)، مکے سے مدینے۔ ‘‘

آپ کی شخصیت اور فن پر بیسیوں علمائے ادب نے آرا ظاہر کیں، جنھیں ’’سہیل غازی پوری سے ملیے ‘‘ کے عنوان سے جمال ضیاء اور احمد کمال خاں نے مرتب کر کے شائع کروا دیا ہے۔

سہیل غازی پوری بنیادی طور پر غزل اور ہائیکو کے شاعر ہیں مگر آپ نے دوہا بھی منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کہا ہے۔ یہاں بھی غزل کی وجہ سے ہی آمد دکھائی دیتی ہے۔ ایک دوہا غزل ملاحظہ کیجیے، جو انڈیا کے ایک انتخاب ’’دوہا غزل… دوہا گیت‘‘ (مرتب: ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی)میں شائع ہوئی۔

بھائے کب مجھ کو خوشی، بھائے من کی پیڑ

میری تو میراث ہے، غم کی یہ جاگیر

موسم کا یہ رنگ بھی کتنا ہے دلگیر

سن لو اس کو غور سے بجتی ہے زنجیر

 

صحرا تیرے پیڑ کی، یہ بھی ہے اک شان

ٹھنڈا اس کو جان کر رُکتا ہے رہگیر

 

ہم بھی اُترے ایک دن، دریا کے اس پار

ہمت سے ثابت ہوا، بنتی ہے تقدیر

 

پہناوے پر ایک دن کہہ دی بس اک بات

اتنی چھوٹی بات پر بھی اب تک ہو دلگیر

 

خط بھی اپنے نام ہی خوش ہو کر لکھوں

اس کی ہر تحریر سے ملتی ہے میری تحریر

 

کتنے کتنے کوس تک اُڑتی ہے خوشبو

رہتی ہے اک عمر تک لہجے کی تاثیر

 

ٹھوکر سے کیسے بچے، پتھریلی ہے راہ

چلنے والے شخص کو آتی ہے تدبیر

 

اس سے ملنے پر اگر دل بھی ہو غمگین

بھولی بسری یاد کی ہوتی ہے تحقیر

(دوہا غزل۔ دوہا گیت۔ ص۱۲۶)

اس غزل میں سوائے دوہا چھند کے استعمال کے کوئی بات نہیں ہے۔ دوہا کا روایتی مزاج عنقا ہے، البتہ غزل کی شان سلامت ہے۔

 

 

 

 

شارق بلیاوی

(۱۹۳۶ء …۳۱ اگست ۲۰۰۸ء)

 

شارق بلیاوی کا اصل نام شمس الدین ہے۔ آپ ۱۹۳۶ء میں بلیا (اُتر پردیش)، انڈیا میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تصانیف میں ’’بے گمان‘‘، ’’زخم کی خوشبو‘‘(دوہے )، ’’آس بے آس‘‘، ’’ یادوں کا عکس‘‘(نظم/دوہے ) شامل ہیں۔ آپ کراچی میں مقیم ہیں [تھے ]۔ (۶۴) بنیادی طور پر آپ نے خود کوکسی ایک صنفِ سخن تک محدود نہیں رکھا اور نہ بالعموم دوہے کہتے ہیں۔ لیکن جو کچھ اس بانی میں کہا ہے، قابل توجہ ہے۔ ان کے کلام پر شفیق احمد شفیق کی رائے دیکھیے : ’’شعرا میں جہاں یکسانیت، تکرار، اعادہ اور ایک سی بولی کی بہتات ہے، وہ اپنی ایک الگ آواز اور پہچان رکھتے ہیں۔ ‘‘(۶۵)

آپ کی دوسری تصانیف میں ’’ایمان و عقیدت کے پھول، مجموعوں کا مجموعہ‘‘ شامل ہیں۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے :

جیون دھوپ کہانی ہے، ڈھونڈ نہ اس میں چھاؤں

دھیرج سے من ٹھنڈا رکھ، جل جانے دے پاؤں (۶۶)

 

کوئی دُکھ میں کام نہ آئے، ناری ہو یا نار

دُکھ ہے جیون ساتھی اپنا، دُکھ سے کر بیوپار(۶۷)

جلدی جلدی جانے والا، ہاتھ نہ آئے پل

جو کل ہے وہ آج نہ ہو گا، آج نہ ہو گا کل(۶۸)

ان دوہوں میں زندگی اور اس کے متعلقات کو بالغ نظری سے دیکھ کر سادگی سے بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ اجتماعی دانش کا اظہار ہے مگر شارق بلیاوی کا اپنا سلیقہ ہے، جو انھیں دوسروں سے الگ کھڑا کرتا ہے۔

 

 

 

 

ناصر شہزاد

(۱۲ دسمبر۱۹۳۷ء…۲۲ دسمبر۲۰۰۷ء)

 

ناصر شہزاد کا پورا نام سیدناصرشہزادگیلانی ہے۔ آپ۱۲ دسمبر۱۹۳۷ء کو اوکاڑہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تصانیف میں ’’چاند کی پتیاں ‘‘، ’’بن باس‘‘، ’’کون دیس گئیو‘‘ اور ’’بھیجے پتر ہزار‘‘ شامل ہیں۔ آپ کو ’’میاں محمد بخش ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ (۶۹)ناصر شہزاد اپنے ہندی لفظیات کے سبب اُردو اَدب میں الگ شناخت رکھتے ہیں۔ اس زبان کے حوالے سے خود وہ ایک مقام پر لکھتے ہیں ’’یہ زبان ہمارے لیے کوئی نئی زبان نہیں ہے۔ اسے اُردو زبان سے کسی حالت میں بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اُردو کے ماخذ اسی زبان سے تلاش ہوتے ہیں اور ہم صدیوں سے اسے آزما رہے ہیں۔ چنانچہ جادو ناتھ سرکار اس امر کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’عوامی زبان کے ادب کی تخلیق اس امداد و خوش حالی کا ثمرہ تھا، جو عوام کو دہلی کی مسلم سلطنت میں حاصل ہوئی۔ ‘‘ اور ڈاکٹر لچھمی دھَر نے یوں اعتراف کیا: ’’ بھاشا کو ادبی مقاصد کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی استعمال کیا۔ ورنہ برہمنوں کے نزدیک تو یہ ایک گنوار بولی تھی، جس میں لکھنا پڑھنا تو درکنار کوئی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ ‘‘(۷۰) اس بحث سے در اصل وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ  اس زبان پر معترض ہو کراسے دیس نکالا دینے کی کوشش میں ہیں، در اصل وہ اپنے ماضی سے جان چھڑانے کی کوشش میں ہیں۔ اس طرح وہ ایک لحاظ سے اُردو زبان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ناصر شہزاد نے عملاً دوہے نہیں کہے بلکہ مزاجاً ان کے کلام میں دوہوں کی سی رس جس دَر آئی ہے۔ چوں کہ اُن کی زبان ہندی آمیز اور گیت اور دوہے سے بہت زیادہ قریب ہے، اس لیے بحر کے التزام کو نظرانداز کیا جائے تو اکثر مطلعوں میں یہ صورت نکالی جا سکتی ہے۔ سرسی چھند کی لے میں کہے گئے یہ اظہاریے دیکھیے :

پریت کے سندر سپنے اُس کے نینن میں مسکائیں

دُور اک پگڈنڈی پر لہکیں، ان دیکھی پرچھائیں

 

جام، چھلکتے جام مُدھر  متوارے نین

نین کسی کے نین انوکھے، نیارے نین(۷۱)

البتہ با الاصرار ان ابیات کودوہاکہنامناسب نہ ہو گا۔ کیوں کہ ان میں دوہوں کی مخصوص فضا ناپید نہیں تو کم کم ہے۔ پہلا دوہاسرسی چھند کے قریب ہے اور دوسرے میں ارکان کم ہیں۔ اس کے باوجود ناصرشہزاد کا شعری لحن سب سے ممتاز بھی ہے اور قابلِ توجہ بھی۔

 

 

 

 

عمر فیضی

(۱۹۳۸ء…۲۰۰۰)

 

آپ کا اصل نام عمر محمد خان اور تخلص عمر فیضی ہے۔ مولد دہلی ہے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان آ گئے۔ لاہور میں زیادہ وقت گزارا۔ پہلے لائبریرین کی حیثیت سے ملازم رہے، پھر ایم اے اُردو کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور۱۹۶۳ء میں اُردو کے لیکچرار ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے چند سال بعد۲۰۰۰ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ (۷۲) فیضی نے دوہا چھند میں خوب رنگ جمایا ہے۔ جہاں پنگل کا خیال رکھا، وہاں مضمون اور فضا کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ نمونۂ کلام دیکھیے، جواس بات کی تصدیق کرتا ہے :

سونے چاندی کے لیے، لوگ بہائیں نیر

تپ کر حسن کی آگ میں، کندن ہوئے فقیر

 

گوری تو پچھتائے گی، ہم سے کر کے پیت

سادھو سب کے ساتھ ہیں، سادھو کی کیا میت

 

سندرتا کی چاندنی، یا بِرہا کی آگ(۷۳)

سب پریتم کے رُوپ ہیں، رنگت ہو یا آگ

ان دوہوں میں جہاں روایت موجود ہے، وہاں جدت کا اظہار بھی واضح ہے۔ یوں جیسے کہنے سے پہلے خوب سوچ کو نتھارا اور پرکھا گیا ہو۔ تاکہ سننے والا کہے پر از خود ایمان لا سکے۔ بسرام سے پیدا ہونے والی خوب صورتیاں بھی اپنی جگہ پوری طرح روشن ہیں۔

 

 

 

رفیع الدین راز

(۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء…)

 

آپ کا خاندانی نام مرزا رفیع الدین بیگ ہے۔ آپ بیگو سرائے، بہار(انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ کراچی یونی ورسٹی سے آپ نے ایم اے تاریخ کی ڈگری حاصل کی۔ راز ؔقادر الکلام شاعر ہیں۔ آپ کے کلام میں حمدو نعت، سلام، منقبت، غزل، رباعی اور نظم سبھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے انشائیے بھی لکھے ہیں۔ آپ کا ایک خاص کارنامہ منظوم سیرت النبی صلی اللہ علیہ و الہٖ و سلم ہے۔ آپ کے فن کے اعتراف میں ’’رنگِ ادب‘‘ کراچی نے خصوصی نمبر شائع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم اے سطح کا ایک مقالہ بھی آپ کی شخصیت اور فن پر لکھا جا چکا ہے۔ آپ کی تصانیف میں ’’ دیدۂ خوش خواب‘‘، ’’بینائی‘‘، ’’پیرہنِ فکر‘‘، ’’روشنی کے خد و خال‘‘، ’’ابھی دریا میں پانی ہے ‘‘، ’’اتنی تمازت کس لیے ‘‘، ’’ جو اِک دن آئینہ دیکھا‘‘، ’’جمالِ حرفِ راز‘‘، ’’سازوراز‘‘، ’’سقراط سے شیخ چلی تک‘‘، ’’دل آئینہ ہوا‘‘ اور ’’دوہا پھلواری ‘‘ شامل ہیں۔ (۷۴) راز کا دوہوں پر مشتمل مجموعہ ۲۰۱۲ء میں کراچی سے شائع ہوا ہے۔

آپ کے دوہوں کے حوالے سے محسن اعظم محسن ملیح آبادی کی رائے ملاحظہ ہو:

’’رفیع الدین راز کا مشاہدہ گہرا ہے۔ وہ معمولی سی بات کو بھی حکمت کی بات بنا دیتے ہیں۔ زیرک شاعر ہیں، معاشرے سے وہ اپنے دوہوں کے لیے خیال استنباط کرتے ہیں۔ ان کے دوہے سادگی کے ساتھ مفہوم کی بوقلمونی رکھتے ہیں۔ پچاس سال پر پھیلی ہوئی ان کی ریاضتِ سخن نے انھیں ایک معتبر شاعر کے روپ میں دکھایا ہے۔ وہ خبر کو انشا بنانے کے فن سے واقف ہیں۔ ان کے یہاں تخیل اور محاکات میں ہم آہنگی ہے۔ ان کی فکر اعتدال پسند ہے۔ اس میں جذبات کی شعلگی ایسی نہیں کہ توازن برقرار نہ رہے۔ تجربوں سے گزرے حساس ترین شاعر ہیں۔ ‘‘(۷۵)

راز کا یہ حمدیہ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے :

ذرّہ ذرّہ دہر کا، دیکھے تیری اور

اس ہاری مزدور کا، کب چلتا ہے زور

 

تیرے ہی سب پیڑ ہیں، تیرے ہی سب پات

سر تا پا تو نُور ہے، حق ہے تیری ذات

 

ہر دھڑکن ہر سانس میں، گنگا اور کیلاش

ہر بندے کی روح میں، ہے تیری پرکاش(۷۶)

اول الذکر دوہا موجودہ عہد کا نوحہ ہے۔ ایک طرح سے فریاد ہے جو مالک کے رو بہ رو پیش ہوئی ہے۔ دوسرے دونوں دوہے حمد کی روایت کے امین ہیں۔ اب ذرا یہ رنگ ملاحظہ ہوں :

ہم اس سے دوچار ہیں، ہم سے پوچھو یار

ہر دن کنواں کھودنا، کتنا ہے دُشوار

 

یہ کیسا دستور ہے، کیسا ہے قانون

موسیٰ کے ہر شہر میں، بستے ہیں قارون

 

باندی قاضی کی مَری، آیا پورا شہر

قاضی جی کی موت پر، اُٹھی نہ کوئی لہر(۷۷)

ان دوہوں سے انسان کی بے چارگی اور بے حسی خوب واضح ہوتی ہے۔ رفیع الدین راز کے دوہوں کے مطالعے سے ایک بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے کہ انھوں نے اس معاشرے سے بے نیاز رہ کر زندگی نہیں گزاری بلکہ ہر ایک پل اپنے آپ کو اس مٹی اور مٹی پر رینگنے والی مخلوقات سے جوڑے رکھا۔

 

 

 

 

عابد صدیق

(۱۹۳۹ء…۲۰۰۰ء)

 

آپ ریاست پٹیالہ(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں اورینٹل کالج پنجاب یونی ورسٹی سے اول درجے میں ایم اے اُردو کا امتحان پاس کیا۔ پھردرس وتدریس سے وابستہ ہو گئے اور زیادہ عرصہ ایس ای کالج بہاول پور میں گزارا، وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور میں ایم اے اُردو کی کلاسوں کو بھی پڑھاتے رہے۔ آپ کا ایک ہی شعری مجموعہ ’’پانی میں ماہتاب‘‘۱۹۸۷ء میں شائع ہوا۔ (۷۸)آپ کی دلچسپی کا موضوع تنقید بھی رہا ہے۔ اس موضوع پر آپ کی کتاب ’’مغربی تنقید کا مطالعہ‘‘ بھی موجود ہے۔ خواجہ محمد زکریا آپ کی شخصیت اور کام کے حوالے سے یوں اظہار کرتے ہیں : ’’ پروفیسر عابد صدیق اُردو اَدب کے انتہائی مخلص اور لائق خدمت گار، وسیع المطالعہ نقاد، شیریں بیاں شاعر اور کامیاب اُستاد تھے اور ان جملہ حیثیات میں اُن کی خدمات لازوال ہیں۔ ‘‘ (۷۹) یہ ایسا اعتراف ہے، جس کی موجودگی اور جس کے تناظر میں اگر عابد صدیق کی شاعری کو دیکھا جائے تو زیادہ آسانی ہو گی۔ ’’پانی میں مہتاب ‘‘کا دوسرا ایڈیشن بھی اضافوں کے ساتھ شائع ہوا۔ دونوں اشاعتوں میں دوسری اصناف کے ساتھ دوہے بھی موجود ہیں۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:

بالک بوڑھے سب ہیں، جیون پتلی کے اوتار

سمے کی رسی کے گھیرے میں ناچے سب سنسار

جو گی تیری آتما، جیون مرلی کا ہے سانس

تو ہی سچا سُر ہے جگ میں، باقی تیری آنس

 

اپنا دُکھڑا کہنا بھی ہے، اب تو جان کا روگ

ہونی کیا کیا ہو گئی، کرنی کر گئے کیا کیا لوگ(۸۰)

اول الذکر دوہے میں زندگی کی ایک اہم حقیقت بیان ہوئی ہے۔ تمام انسان وقت کی قید میں ہیں۔ وقت کی رسی ہر ایک کو محیط ہے۔ اس بے بسی اور بے چارگی کو عابد صدیق نے نہایت بلاغت سے پیش کیا۔ آخر الذکر دوہے میں ناکامی اور حالات کی ستم ظریفی کا بیان آیا ہے۔ ان دوہوں کی زبان سادہ اورپُر معنی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے عابد صدیق دوہے کی فضا قائم رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

 

 

 

 

کشور ناہید

( ۳ فروری ۱۹۴۰ء…)

 

آپ معروف ادیبہ، شاعرہ اور کالم نگار ہیں۔ ۳ فروری ۱۹۴۰ء کو[بلند شہر میں ] پیدا ہوئیں۔ آپ کو ادبی خدمات پر آدم جی ایوارڈ، یونیسکو ایوارڈ، منڈیلا ایوارڈ، ستارۂ امتیاز اور کولمبیا یونی ورسٹی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی تصانیف میں ’’فتنہ سامانیِ دل‘‘، ’’سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ‘‘، ’’خواتین افسانہ نگار‘‘، ’’بری عورت کی کتھا‘‘، ’’زیتون‘‘، ’’عورت خواب اور خاک کے درمیان‘‘، ’’لیلیٰ خالد‘‘، ’’بری عورت کے خطوط‘‘،  ’’نوزائیدہ‘‘، ’’بیٹی کے نام‘‘، ’’آ جاؤ افریقہ‘‘، ’’میں پہلے جنم میں رات تھی‘‘، ’’عورت زبان خلق سے زبان حال تک‘‘، ’’نئے زمانے کی برہن‘‘ اور ’’شناسائیاں رسوائیاں ‘‘ شامل ہیں۔ آپ اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ (۸۱)

کشور ناہید ایک فعال ادیبہ ہیں۔ سرکاری ادبی اداروں سے وابستگی کی وجہ سے آپ اَدب اور اس کی رفتار سے بروقت آگاہ رہیں۔ ملک اور بیرونِ ملک آپ کے فن کی گونج موجود ہے۔ آپ نے شاعری میں حقیقی عورت کو بلاغت کے ساتھ پیش کیا۔ عورت اور اس کے متعلقات کو پوری جرأت اور بے باکی سے پیش کر کے بعض موقعوں پر نشانہ بھی بنیں۔ آپ کی شاعری روایت سے ایک قدم نکلتی ہوئی ہے۔ دیگر اصناف کے علاوہ آپ نے دوہا میں بھی طبع آزمائی کی۔ یہاں بھی دوہا چھند اور سرسی چھند کو برتا۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے، پہلا دوہا دوہا چھند میں ہے اور دوسرے دونوں سرسی چھند میں :

میں وہ پھوٹی ڈھوبری، کوئی نہ رکھے پاس

دے گئے مجھ کو ساجنا، بن کارن، بن باس

 

ساری رات میں بیٹھی جاگوں، چاند بھی اُٹھ کے دیکھے

پریتم پاس ہے میرے لیکن، لمبی تان کے سووے

ٹھنڈی رات اور ٹھنڈا بستر، سکھی ری کانٹے آئے

لوگ کہیں جو دُکھ سانجھیں ہوں، دل ہلکا ہو جائے (۸۲)

ان تینوں دوہوں میں عورت کی کتھا بیان ہوئی ہے۔ جہاں جہاں اور جیسے جیسے اس کے وجود کی نفی ہوتی ہے، اسے موضوع بنایا گیا ہے۔ عورت کو جب طاق پر رکھی ہوئی چیز سمجھ لیا جائے توایسے ہی جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ہر ایک کو کہنے کاسلیقہ کہاں ؟ یہ قرینہ کشور ناہید کو نصیب ہے کہ انھوں نے اپنی ذات کے ادراکات اورمحسوسات کو بغیر ہچکچاہٹ کے سب کے سامنے رکھ دیا۔ یہی ان کی خاص شناخت بھی ہے۔

 

 

 

انوار انجم

(۱۹۴۲ء …۱۹۶۹ء )

 

آپ اس جہانِ آب و گل سے زیادہ نہ نبھا سکے۔ محض ستائیس سال جی پائے۔ ۱۹۶۳ء میں اورینٹل کالج لاہور سے اول درجے کے ساتھ ایم اے اُردو کا امتحان پاس کیا۔ کچھ برس تک گورنمنٹ کالج ملتان میں تدریس کے فرائض انجام دیے اور پھر دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپ کا شعری مجموعہ وفات کے بعد ’’شاخِ نہالِ غم‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ آپ کے دوہوں کی گونج گرج اُسی فضا سے متشکل ہے، جو اس عمر کے لوگوں کے یہاں موجود ہوتی ہے۔ البتہ یہاں خاص امتیاز یہ ہے کہ محض انکشافِ ذات سے کام نہیں لیا گیا، بلکہ ادراکِ کائنات کو بھی روبہ راہ کیا گیا ہے۔ انوار انجم کے یہ دوہے اس بیان کا ثبوت ہیں، ملاحظہ ہو:

ہم سے پوچھو پیا لگن نے جو جو کام کرائے

ریت بھری بنیادیں تھیں اور کیا کیا محل بنائے

 

ہر دم یہ آشا ہے اب، بجھ جائے گی من کی پیاس

انجم جی اس روگ کے کارن، سدا رہے اُداس

کالا ہو یا اجرا ہو، وہ گندہ ہو یا نیک

ہم تواُس کے رسیا، جو باہر بھیتر ایک (۸۳)

ان دوہوں میں اُمید و بیم کے ڈوبتے نکلتے ستارے اپنی چھب دکھا رہے ہیں۔ پہلا دوہا ذات کے کرب کا کھلا اظہار ہے۔ دوسرے دوہے میں بھی یہی کیفیت نمایاں ہے۔ آخری دوہا زمانے کے منھ پر پڑے نقاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اُصول بیان کرتا ہے۔

 

 

 

مشتاق عاجز

(یکم اپریل ۱۹۴۴…)

 

آپ کا اصل نام ملک مشتاق احمد ہے۔ یکم اپریل ۱۹۴۴ء کو جنڈ، اٹک میں پیدا ہوئے۔ (۸۴)آپ کی تصانیف میں ’’آئینے سے باہر‘‘، ’’الاپ‘‘ اور ’’ سمپورن‘‘ (دوہے ) شامل ہیں۔ آپ اٹک میں مقیم ہیں۔ مشتاق عاجز فنونِ لطیفہ کی مختلف جہتوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ آپ مصور کی حیثیت سے بھی دوستوں کے حلقے میں شناخت رکھتے ہیں۔ بعض دوستوں کی کتابوں کے سرورق تخلیق کیے۔ بعض احباب کے اشعار کی تشریح اپنے فنِ مصوری سے کی۔ خود اپنی کتاب ’’الاپ‘‘ اور ’’سمپورن‘‘ کو ابواب میں تقسیم کرنے کے لیے مختلف عکس بنائے۔ یہ مصوری ان کے ذہنِ رسا سے یوں پھوٹتی ہے، جیسے صدیوں کے سفرمیں رواں جھرنا۔

شاعری میں مشتاق عاجز کا باقاعدہ تعارف ۲۰۰۰ ء میں ’’آئینے سے باہر‘‘ کی وساطت سے ہوتا ہے۔ آپ نے غزلیں، نظمیں کہیں اور خوب کہیں۔ آپ کا دوسرا شعری سفر ’’الاپ‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس مجموعے میں آپ کی شاعری جذبے سے نکل کر خیال و فن کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ ’’سمپورن‘‘ آپ کے دوہوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے کی وجہِ تخلیق کے بارے میں خود کہتے ہیں :

آج سے کوئی دو برس پہلے ایک صبح موبائل فون کی گھنٹی نے مجھے جگایا، پروفیسرملک محمد اعظم خالد کا فون تھا۔ کہنے لگے کاغذ قلم اٹھاؤ اور لکھو:

عاجز جیون کتھا کہانی، ایک دیئے کا جل

جل بجھیا  اندھیار مٹانے، باقی رہ گیا تھل

میں نے لکھ لیا تو انھوں نے بتایا ’’میں ابھی ابھی خواب سے بیدار ہوا ہوں، خواب میں دیکھا کہ آپ کی تیسری کتاب منظرِ عام پر آئی ہے، جس کے پہلے ورق پر یہ شعر لکھا ہے۔ ‘‘ اس شعر میں کیا تھا اور اس کا ادبی مقام کیا ہے، اس سے قطع نظر اس کی زبان میں جیون، کتھا، جل اور اندھیار جیسے الفاظ نے مجھے اسی بحر اور زبان میں دوہے کہنے کی طرف راغب کیا۔ اگرچہ قبل ازیں جناب خاور چودھری کے دوہا چھند میں لکھے دوہے بھی پڑھے تھے مگر اعظم خالد کے اس خواب سے پہلے میرے دل میں دوہا کہنے کی خواہش پیدا نہ ہوئی تھی۔ (۸۵)

عاجز صاحب کا یہ بیان ۷ جون ۲۰۱۱ء کا ہے۔ اگر پورے دو سال پہلے بھی ملک محمد اعظم خالد کا خواب تسلیم کر لیا جائے تواس طرح دوہا نگاری میں ان کاسفراسی وقت سے شروع ہوتا ہے، جو خود انھوں نے متعین کیا ہے۔ جب کہ خاور چودھری کی تقدیم کو وہ خود تسلیم کرتے ہیں اور مختلف جرائد اور ’’حدیثِ دیگراں ‘‘ مرتبہ سیدنصرت بخاری، مطبوعہ ۲۰۰۸ء میں خاور کے دوہے بھی موجود ہیں۔

مشتاق عاجز کی زبان میں خوب رس جس ہے۔ آپ نے دوہے کی فضا میں ڈوب کر دوہا نگاری کی ہے۔ اس لیے دوہا کی تمام تر روایت ان کے یہاں عکس فگن ہے۔ اگرچہ آپ نے سرسی چھند کو شعار کیا، لیکن مضمون اور ماحول کو پوری ذمہ داری سے برقرار رکھا ہے۔ جدید دوہا نگاروں میں آپ کی آواز توانا بھی ہے اور پُر تاثیر بھی۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے :

اِکتارے کی دھُن سے پھوٹا، کُن کا سُر سنگیت

کُن ہے سات سُروں کی دھارا، کُن ہے اُتّم گیت

 

کُن سمپورن راگ ہے، جس کا وادی سُر انسان

پُن جس کا سموادی سُر ہے، انوادی ہے دھیان

 

ناچ رہا ہے اِکتارے کی دھُن میں سب سنسار

ہر دیکھی اَن دیکھی شے میں باج رہا ہے اِک تار(۸۶)

ان حمدیہ دوہوں سے مشتاق عاجز صاحب کی فنکارانہ اُنگلیوں کا پتا ملتا ہے۔ یہ مترنم دوہے اس بات کے شاہد ہیں کہ آپ کو موسیقی کی باریکیوں سے بھی مس ہے۔ اس سلسلے میں مہان دوہانگارڈاکٹرطاہرسعید ہارون یوں رقم طراز ہیں : ’’سمپورن‘‘ ایک سُر ساگر ہے اور یہ قاری کی ژرف نگاہی پر منحصر ہے کہ وہ کون سے موتی ڈھونڈ نکالتا ہے۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ مشتاق عاجز اپنے موتیا دوہوں سے مالائیں پروتے رہیں گے اور یہ مالائیں من بھاونی ہوں گی۔ ‘‘(۸۷)

یہ دوہے ملاحظہ کیجیے، جن میں موسیقیت، ترنم اور فنِ موسیقی کا اظہار نتھرا نتھرا ہے :

تَنَن تَنَن تَن کا تُونبا باجے، جب تک باجے تار

ٹوٹا دم کا تارا تو تن کا تونبا ہے بے کار

 

آتے جاتے دَم سے باجے، تُمڑی کا سنگیت

جب تک دم میں دم ہے گالے، پیا ملن کا گیت(۸۸)

اس تناظر میں اعجاز عبید کا بیان دیکھیے : ’’مشتاق عاجز کے دوہے اُن کی جمال پسندی اور فن موسیقی سے اُن کے گہرے شغف کے بھی غماز ہیں۔ اُنھوں نے اپنے دوہوں میں موسیقی کی اصطلاحات کو برتا ہے اور خوب برتا ہے۔ ‘‘(۸۹)

سمپورن میں ایسے اظہاریے جا بہ جا بکھرے پڑے ہیں جواحساسِ جمال کو گرفت میں رکھتے ہیں۔ مشتاق عاجز زندہ رہنے والی آواز کے خالق ہیں۔ دوہا بانی کا یہ کوی بہت دیر تک اپنی میٹھی بانی کی بنا پر موجود رہے گا۔ بہ قول ڈاکٹر غلام شبیر رانا: ’’ مشتاق عاجز کی حقیقت نگاری ہر دور میں اُن کی مثبت سوچ کا اثبات کرے گی اور قاری اپنے من میں ڈوب کر زندگی کے حقائق سے آشنا ہوتا رہے گا۔ ‘‘(۹۰)

 

 

 

شجاعت علی راہی

(۱۹۴۵ء…)

 

آپ کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ڈھاکہ یونی ورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ انگلستان کے مختلف تعلیمی اداروں سے مزید تعلیم حاصل کی۔ پہلے کیڈٹ کالج کوہاٹ میں انگریزی کے استاد رہے۔ پھر پاکستان ٹیلی ویژن میں ملازمت اختیار کر لی۔ شاعری کے دو مجموعے ’’ برف کی رگیں ‘‘ اور ’’ریشم ہوا اور تتلی‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ (۹۱) آپ نے صنفِ دوہا میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے :

کڑوی نیم کی میٹھی شاخ سے گری جو اک نمکولی

گوری کو یاد آئی ہر ایک بچھڑی ہوئی ہم جولی

 

برکھا، بادل، آم کے جھرمٹ، پینگ پینگ پر ناری

برہا رُت میں دل پر ماریں، یادیں ایک کٹاری

 

تڑپ تڑپ کر بہتا پانی، بیکل بیکل موجیں

بچھڑی ہوئی باؤلی کونجیں، جانے کس کو کھوجیں

 

جذبوں کے سربستہ چہرے، دوہے بن کر نکھرے

تہ میں چھپے کچھ نرمل موتی، ساحل پر آ بکھرے

 

گھر میں بھری ہیں ماں کی دعائیں، جو چھتنار کے سائے

چاند کے رس میں گھل کر آئے، جتنی دھوپ بھی آئے (۹۲)

سرسی چھند میں کہے گئے ان دوہوں میں شوریدہ تر جذبہ تو محبت کا ہے۔ وہ محبت سکھیوں سے ہو، ماں سے ہو یا محبوب سے ان دوہوں میں پوری طرح موجود ہے۔ پھر کچی عمر کی بے فکری اور پختہ عمر کا دھیان بھی موجود ہے۔ ان دوہوں کا مزاج نئی زبان سے بہت قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ براہِ راست دامنِ دل کو پکڑتے ہیں۔

 

 

 

اعتبار ساجد

(یکم جولائی ۱۹۴۸ء…)

 

آپ ملتان میں پیدا ہوئے۔ شاعر، ادیب اور کالم نگار ہیں۔ آپ کی تصانیف میں ’’دستک بند کواڑوں پر‘‘، ’’پذیرائی‘‘، ’’آمد‘‘، ’’پورے چاند کی رات‘‘، ’’وہی ایک زخم گلاب سا‘‘، ’’مجھے کوئی شام اُدھار دو‘‘، ’’تمھیں کتنا چاہتے ہیں ‘‘، ’’یہ تنہائی مجھے دے دو‘‘، ’’سرخ گلابوں کاموسم‘‘، ’’مرے اجنبی، مرے آشنا‘‘، ’’موشگافیاں ‘‘، ’’قلم کاریاں ‘‘، ’’واہ بھائی وا‘‘ اور ’’ہاؤس فل‘‘ شامل ہیں۔ (۹۳) آپ نے نظم و نثر دونوں میں لکھا اور خوب لکھا۔ مزاحیہ تحریریں بھی آپ کے قلم سے نکلیں۔ آپ بنیادی طور پر نظم اور غزل کے شاعر ہیں مگر ’’آمد‘‘ میں کچھ دوہے بھی شامل ہیں۔ یہ مثالیں دیکھیے، ان دوہوں کی لغت، بیان اور سلیقہ دوہے کی فضا کوکس حد تک موافق ہے :

تم ناہیں تو کیا چمپا، کیا چندن، کیا تیوہار

پیتم سب دن ایک سماں، کیا منگل کیا بدھوار

 

مری سماں سنسار میں کوئی، کیوں نہ اکیلا ہوئے

جوں پنچھی بے پھول ہیں، پر گئی بہار کو لائے (۹۴)

ہجر کے تلخابے میں اُترتے ہوئے یہ دوہے گہرا تاثر چھوڑتے ہیں۔ اور قاری کو ایک وقت تو حزن آشنا کر ہی جاتے ہیں۔ تخلیق کار کی یہی کامیابی ہے کہ اُس کے کہے ہوئے لفظ دوسروں کے سینوں میں ترازو ہو جائیں۔

 

 

 

 

توقیر چغتائی

(۱۳ مئی ۱۹۶۱ء… )

 

آپ کا اصل نام مشتاق چغتائی ہے اور آپ ضلع اٹک کے گاؤں ’’بوٹا ‘‘ میں پیدا ہوئے۔ وفاقی اُردو یونی ورسٹی کراچی سے آپ نے ایم ایس سی ماس کمیونی کیشن کی سندحاصل کی۔ اوائل عمری میں ہی نہ صرف آپ شعر گوئی کی طرف راغب ہوئے، بلکہ اخبار و جرائد میں لکھنے کے ساتھ ان کی ادارت بھی شروع کر دی تھی۔ ان دنوں آپ کراچی میں مقیم ہیں اور ’’سماء ٹیلی ویژن‘‘ میں بہ طور کاپی ایڈیٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

آپ نے بہ یک وقت اُردو، پنجابی اور ہندکو زبانوں میں شاعری کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان زبانوں میں کہانیاں بھی لکھیں۔ آپ کی زیادہ تر کتابیں انڈیاسے شائع ہوئیں۔ حال ہی میں ہندکو(اٹک کی مقامی بولی) شاعری کی کتاب ’’ولوہنا‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ آپ نے بہ طور ادیب مختلف ملکوں کے دورے کر کے پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ آپ کی مطبوعہ تصانیف کے نام یہ ہیں : ’’تمہارا خط نہیں آیا ‘‘(اردو شاعری)، وچھوڑا (پنجابی شاعری)، نور جہاں (آپ بیتی۔ پنجابی۔ لوک گیت پبلشرز دہلی، انڈیا)، اخیرلا ہنجو (پنجابی کہانیاں۔ چیتنا پبلشرز، چنڈی گڑھ، انڈیا )، روشن خیال لوگ (انٹرویو)، ولوہنا (ہندکو شاعری)۔ ‘‘

اگرچہ آج کل آپ کا دوہا کی طرف کچھ زیادہ رجحان نہیں ہے، لیکن کچھ زمانہ پہلے آپ نے سرسی چھند میں دوہا نگاری کی۔ شاید یہ جمیل الدین عالی صاحب کی تحریک کے اثرات تھے۔ بہ طور دوہا نگار آپ کا تذکرہ ڈاکٹر عرش صدیقی نے اپنی کتاب ’’کملی میں بارات‘‘ میں بھی کیا ہے۔ آپ کے دوہے روایتی لوچ اور رَس جَس سے بھرے ہوئے ہیں۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے :

دھیرج دھیرج بول ری پائل شور سنیں گے لوگ

چھن چھن تیری ہر کوئی جانے کوئی نہ جانے روگ

 

چندا تیری کھوج میں اڑتے میں تو چکوری ہوئی

پنکھ ٹوٹے تن زخمی سارا بس موئی کے موئی

 

آش نراش بھنور میں تو نے چھوڑی اک بے چاری

من کہتا ہے جیت ہے تیری لوگ کہیں تو ہاری

 

تجھ سے پہلے من مندر میں لوگ ہزاروں آئے

تیکھے نینوں والے تو نے سب کے سب بسرائے

 

لوگ کہیں ترا پیتم جھوٹا قول قرار بھی جھوٹے

سب کچھ جانوں پر نہ مانوں من کی آس نہ ٹوٹے

 

دوار چلیں کسی سادھو جی کے اپنے ہاتھ دکھائیں

شاید اک دوجے کے ہاتھ کی ریکھائیں مل جائیں

 

دھرتی مجھ کو بیٹا بولے میں دھرتی کو ماتا

سورج اور آکاش کا جیسے جنم جنم کا ناتا

 

تم پیتم اس دیش میں بیٹھے ہم بیٹھے اس پار

پھر بھی سپنے روک نہ پائی دیشوں کی دیوار

 

جنم کرم کیا دھرم بھرم کیا چھوڑی لاج شرم تک

ہم تو پہنچے آخر دم تک وہ پہنچا نہ ہم تک(۹۵)

توقیر چغتائی کے یہاں لفظ بولتے ہی نہیں گنگناتے بھی ہیں۔ ان کے دوہوں کی چاشنی پڑھنے والے کو اپنے زیرِ اثر رکھتی ہے اور دیر تک پڑھنے والا خاص کیفیت کا اسیر رہتا ہے۔ ایک اور خاص وصف یہ ہے، کہ آپ کی فکر تنوع پسندی کی طرف مائل ہے۔ پیت اور پیتم کے ساتھ دھرتی ماتا اورپھرسرحدوں کی محدودیت اور شرم وحیاجیسے موضوعات ان دوہوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

 

 

 

 

سید زاہد حیدر

[۸ مئی ۱۹۶۷ء…)

 

آپ کراچی میں مقیم ہیں اور پُر گو شاعر ہیں۔ پاک و ہند سے شائع ہونے والے مختلف ادبی جرائد میں آپ کا کلام تواتر کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔ غزلیہ شاعری کے علاوہ دوہا اور گیت کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں۔ آپ ادبی محفلوں میں ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ نمونۂ کلام دیکھیے :

گجلیں، کبتیں، گیت کے، چاہے کچھ ہوں بول

رچنا ساری جیو کی، لکھت میں انمول

گردش کرتی ہے زمیں، چندا ناچے ناچ

میں ناچوں جب جھوم کے، کون بھرے ہے آنچ

آہٹ سنتا آج بھی، گزرے پل کی روز

بچھڑا پل کب لوٹتا، جاگے من میں سوز

انگلی پکڑے باپ کی، جاتے تھے ہم ساتھ

بیٹا میرے ساتھ ہے، دیکھو پکڑے ہاتھ(۹۶)

منظر دیکھے دھُوپ کے، چمکا جب بھی چاند

حیرانی بھی سوچ کے، پڑ جاتی ہے ماند

جیون کی رنگینیاں، بدلیں کتنے رُوپ

سوکھے سے تالاب میں، جلتی دیکھی دھُوپ

سپنے جب بھی دیکھتا، کھوجے ہم کو چین

نندیا لگتی چیخنے، کرتی کا ہے بین

دوہا چھند میں کہا گیا یہ کلام خوب رس جس رکھتا ہے۔ ان دوہوں میں گزرے کل کے ساتھ آج بھی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ حساس دل میں پھوٹنے والی کونپلوں کی نمو اچھی طرح واضح ہے۔ سیدزاہدحیدر نے عمومی طور پر دوہے کی مخصوص زبان کا التزام کیا ہے۔ البتہ کہیں کہیں جدید زبان کو بھی برتا ہے مگر خوب۔ آپ کے کلام میں علم و عرفان کے ساتھ حسن و عشق کی ترنگیں بھی موجود ہیں۔

 

 

 

خاور چودھری

 

خاور چودھری[راقم]۱۵ اپریل ۱۹۷۲ء کو حضرو، اٹک میں پیدا ہوا۔ ادب اور صحافت سے تعلق ہے۔ تصانیف میں ’’خواب، کرچیاں اور مسافر‘‘، ’’ٹھنداسورج‘‘، ’’چراغ بہ کف‘‘، ’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ اور ’’مئے خاور‘‘ شامل ہیں۔ حضرو میں سکونت پذیر ہوں۔ (۹۷) میری ہائیکو اور واکا نظموں کا انگلش میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ یہ ترجمہ ڈاکٹر محمد اشرف الحسینی صاحب نے کیا ہے۔ اس شعری مجموعے کا نام ’’دی کولڈ سن‘‘ ہے۔ جامعہ پنجاب سے ایم اے اُردو بہ درجہ اول پاس کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے ایم ایس سی ماس کمیونی کیشن کا امتحان بھی بہ درجہ اول پاس کیا۔ روزنامہ اسلام کا مستقل کالم نگار ہوں۔ پانچ ہزار سے زیادہ کالم شائع ہو چکے ہیں۔ روزنامہ اسلام کے ساتھ گیارہ سال سے وابستگی ہے۔ حضرو سے ہفت روزہ ’’حضرو‘‘، ہفت روزہ ’’ تیسرارُخ‘‘، روزنامہ ’’تیسرارُخ‘‘ اور ماہنامہ ’’سحرتاب ‘‘ جبکہ راولپنڈی سے روزنامہ ’’تعلّم ‘‘ جاری کیا۔ پروفیسرسید نصرت بخاری نے میرے حوالے سے ایک کتاب ’’حدیثِ دیگراں ‘‘ کے نام سے مرتب کی ہے۔ جس میں مشاہیرِ ادب کے میرے حوالے سے لکھے گئے مضامین اور تاثرات شامل ہیں۔ اس کتاب میں نمونۂ کلام غزل، نظم، واکا، ماہیا، ہائیکو اور دوہا کی صورت میں موجود ہے۔ انتخاب میں دو افسانے بھی دیے گئے ہیں۔ (۹۸)یہ کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نے ۲۰۰۸ء میں شائع کی۔ دوہا خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ پہلے یہ نعتیہ دوہے ملاحظہ ہوں :

من موہن دلدار وہ، مورے سر کا تاج

کاری کملی شاہ کی، جس کا ہر سو راج

دھُوپ کڑی تھی آد سے، جلتا تھا سنسار

توری میٹھی چھاؤں سے، چار دِشا اُپکار(۹۹)

پورب پچھم رحمتیں، جگ جگ چمکے نام

اے مدنی* سرکار جی، تم پر لاکھ سلام

*      … مدنی سمجھ کا باندھا ہے۔

توری بانی شہد ہے، توری وِرتا بھور(۱۰۰)

رمتا آوے باٹ پر، پاوے سب یگ ٹھور

اپنے دوہوں کے حوالے سے خود کیا کہوں، نصر ملک صاحب کی رائے جان لیجیے میرے فنِ دوہا نگاری کا اندازہ ہو جائے گا، ملاحظہ کیجیے :

’’پراچین بھاشا میں آپ کے دوہوں کا ہر اک شبد اتنا سندر ہے کہ من کو ہلا رہا ہے اور اَنوبھوتی کی کرنیں پردان کرتا ہے۔ بھاشا کی اس سہجتا اور احساس کے اظہار نے پنتھ نیتا کے سنتر پر ایک ایساسَم موہن رَچ دیا ہے، کہ ہمیں اَرَمبھ سے لے کرانت تک باندھ رکھتا ہے۔ یہ اُدبھت ہے۔ ہماری انوبھوتیوں کی شانت جھیل میں آپ کے دوہے بھاؤناؤں کی ایسی ترنگیں پیدا کرتے ہیں کہ اس کی انو گنج بہت دیر تک سنائی پڑتی ہے۔ پرماتما آپ کوسدا سکھی رکھے اور عالی جی کے سنگھ ادب تلسی کا درجہ دے۔

خاور تیرے دوہے پڑھ کر اپنا من بہلایا(۱۰۱)

تیرا اک اک شبد ہے ساتھی، گھنے پیڑ کا سایا‘‘

یہ دوہے ملاحظہ کیجیے جو لمحۂ موجود کا کرب اپنے اندر سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں :

دھرتی موری آگ ہے، میں دھرتی کی آگ

میں بھولا ہوں ماترے، بھولا دیپک راگ

 

جوت بجھی من آنگنا، کاری ہے ہر سوچ

مار نہ جی کو لاٹھیاں، نا اپنا منھ نوچ

جگ جگ اندر جال ہے، سیتلتا بھی آگ

سُر سچا ہے بھیرویں، نا ہی دیپک راگ

 

اجیارے کی آس میں، جیون مورا ماند

دھن والوں کی بھور ہے، دھن والوں کا چاند

 

توری جھولی چھیکلا، پگ پگ تو پھیلائے

لوبھی بھکشو دھیرتا، دھیرج ہی کام آئے (۱۰۲)

عموماً دوہا چھند کے التزام کے ساتھ میں نے دوہا کہا ہے۔ قصیدہ بردہ شریف کا دوہا میں ترجمہ کر رہا ہوں، زیادہ حصہ مکمل ہو چکا ہے۔ سات سو سے زیادہ دوہوں کا انتخاب بھی شائع کرنے کے ارادہ ہے۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد میری دوہا نگاری پریوں رقم طراز ہیں :

’’اس[خاور] کے دوہے زبان و بیان اور تأثر کے لحاظ سے بھرپور ذائقے کے حامل ہیں۔ ان میں دانش و بینش کا وہ سرمایہ بھی لو دیتا ہے جو انسانوں کی کئی صدیوں کی میراث ہے اور حال کے وہ منظر بھی تاب ناکی کے ساتھ ان میں اُترے ہیں جو شاعر کی آنکھ نے دیکھے ہیں۔ ‘‘

شاکر القادری صاحب نے میرے دوہوں پریوں خیال ظاہر کیا:

خاور توری جوت سے روشن من سنسار

تیرے دوہے سندس سندری کی سنچکار

 

دھیمے دھیمے کومل لہجے کی سنچائی(۱۰۳)

صدیوں پیاسی آشاؤں کو مدھوا آج پلائی

 

حوالہ جات

 

۱…     سیپ، نمبر۴۹، بحوالہ کملی میں بارات، لاہور، ۱۹۹۱ء، ص۱۶

۲…    کملی میں بارات، عرش صدیقی، ص۱۷

۳…    تنقیدو تحقیق، جابر علی سید، کاروان ادب، ملتان، ۱۹۸۷ء، ص۵۲

۴…    ایضاً ص۵۳

۵…    ہمارے اہلِ قلم، زاہدحسین انجم، ملک بکڈپو، لاہور، ۱۹۸۸ء، ص۸۹

۶…    ماہنامہ اَدب لطیف، شمارہ۱، جلد۶۴، ۱۹۶۶ء، لاہور، ص۱۷۸

۷…    اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، ص۱۱۳۱

۸…    انتخابِ قتیل شفائی، الحمد پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۳ء ص۲۲۸

۹…     ایضاً، ص۲۲۹

۱۰…   ایضاً، ص۲۲۹

۱۱…    ہمارے اہلِ قلم، زاہدحسین انجم، ص۱۰۱

۱۲…   دوہا رنگ، مرتبین مناظر عاشق ہرگانوی، شاہد جمیل، نئی دہلی، ۲۰۰۳، ص۴۶

۱۳…   اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ۲۰۰۸ء،ص ۷۹

۱۴…   اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۸۹۴

۱۵…   گیان درپن، جمیل عظیم آبادی، راشد پبلی کیشنز، کراچی، ۱۹۸۵ء، پس سرورق

۱۶…   ایضاً، پس آخر ورق

۱۷…   ایضاً،ص ۳۰

۱۸…   ایضاً،ص ۳۹

۱۹…    ایضاً، ص۴۵

۲۰…   ایضاً، ص۸۷

۲۱…   ہمارے اہلِ قلم، زاہدحسین انجم،ص ۳۶۸

۲۲…   تاریخ اَدب اُردو، ڈاکٹر جمیل جالبی، مجلس ترقی اَدب، لاہور، جلدسوم، طبع دوم، ۲۰۰۸ء، ص۱۶۲

۲۳…   ماہنامہ تخلیق، لاہور، جولائی ۱۹۸۳ء

۲۴…   ایضاً

۲۵…   ماہنامہ تخلیق، لاہور، ستمبر۱۹۸۱ء

۲۶…   اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۱۷۹۴

۲۷…  الواح، وحید قریشی، قرطاس پبلشرز، فیصل آباد، اگست ۱۹۸۴ء، پس سرورق

۲۸…   ایضاً،ص ۲۸

۲۹…   ایضاً،ص ۲۹

۳۰…   ایضاً، ص۳۰

۳۱…   ہمارے اہلِ قلم، زاہدحسین انجم،ص ۱۲۹

۳۲…   پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت،ص ۱۳۸

۳۳…   برگِ تر، ع۔س مسلم، کراچی، ۱۹۹۸ء، ص۱۴۹

۳۴…   ایضاً

۳۵…   ایضاً، ص۱۴۴

۳۶…   ایضاً، ص۶۳

۳۷…  اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۲۴۸

۳۸…   ہمارے اہلِ قلم، زاہدحسین انجم، ص۱۲۹، بحوالہ پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت

۳۹…   اوراق، لاہور، شمارہ خاص، جلد۲…۱۹۶۷ء، ص۲۳۰

۴۰…   اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۵۶۶

۴۱…   ہمارے اہلِ قلم، زاہدحسین انجم، ص۳۳۶

۴۲…   اوراق، لاہور، خاص شمارہ نومبر/دسمبر۱۹۸۴ء،ص ۱۴

۴۳…   اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ۲۰۰۸ء،ص ۱۰۷

۴۴…   پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت، ص۱۴۶/۱۴۷

۴۵…   اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۹۲۹

۴۶…   ماہنامہ نیرنگِ خیال، راولپنڈی، ۱۹۶۷ء، ص۴۲، بحوالہ پاکستان میں اُردودوہے کی روایت

۴۷…  سہ ماہی سیپ، کراچی، بحوالہ پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت، ص۱۴۷

۴۸…   اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۳۶۸

۴۹…   پاکستانی اہل قلم کی ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، سن،ص ۶۴

۵۰…   سیپ، کراچی، شمارہ ۵،ص ۱۸۵

۵۱…   موج موج دریا، مضمون رشید امجد، مشمولہ سوچ سمندر،ص ۲۳

۵۲…   کملی میں بارات، عرش صدیقی، ص۵۴

۵۳…   اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۹۱۳

۵۴…   دوہا رنگ، مرتبین مناظر عاشق ہرگانوی، شاہد جمیل، نئی دہلی، ۲۰۰۳، بحوالہ

پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت،ص ۱۵۱/۱۵۲

۵۵…   اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان،ص ۱۳۶

۵۶…   اوراق، سالنامہ، شمارہ ۹/۱۰…۱۹۸۵ء، لاہور،ص ۳۶

۵۷…  اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان،ص ۶۶

۵۸…   پرتو روہیلہ:شخصیت اور شاعری، فیروزسنز، لاہور، ۱۹۹۸ء، ص۱۰

۵۹…   ایضاً

۶۰…   ایضاً،ص ۱۰۸

۶۱…   رین اجیارا، پرتو روہیلہ، ۱۹۷۶ء

۶۲…   انتخاب از: پرتو روہیلہ :شخصیت اور شاعری، فیروزسنز، لاہور، ۱۹۹۸ء

۶۳…   کملی میں بارات، عرش صدیقی، ص۵۲

۶۴…   اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان،ص ۱۳۵

۶۵ …  پیش رفت انٹرنیشنل، کراچی، شمارہ ۲۰۰۳،ص ۱

۶۶…   زخم کی خوشبو، شارق بلیاوی، فرید پبلشرز، کراچی، ۲۰۰۳، ص۱۵۷

۶۷…  ایضاً، ص۱۶۱

۶۸…   ایضاً، ص۱۵۹

۶۹…   اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان،ص ۲۴۹

۷۰…  دیباچہ گیان درپن، جمیل عظیم آبادی، راشد پبلی کیشنز، کراچی، ۱۹۸۵ء،ص ۱۶

۷۱…   چاند کی پتیاں، ناصر شہزاد، مکتبہ اَدب جدید، لاہور، ۱۹۶۵ء،ص ۱۴

۷۲…  بیسیویں صدی ایک نظر میں، زاہد حسین انجم، خزینہ علم و اَدب لاہور، ص۱۱۹۶

۷۳…  ماہنامہ ’’سیپ‘‘، کراچی، شمارہ نمبر۴۹، جون ۱۹۸۶ء، ص۲۵۸

۷۴…  دوہا پھلواری، رفیع الدین راز، رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی، ۲۰۱۲ء، ص۱۹۹/۲۰۰

۷۵…  ایضاً، ص۱۲

۷۶…  ایضاً، ص۲۶

۷۷…  ایضاً، ص۶۲/۶۳

۷۸    پاکستان اُردو دوہے کی روایت، ص۱۶۱

۷۹…   مغربی تنقید کا مطالعہ، عابد صدیق، پورب اکادمی اسلام آباد، ۲۰۰۸ء، ص۱۴

۸۰…   انتخاب از:پانی میں مہتاب، اشاعت اول، ملتان، ۱۹۸۷ء

۸۱ …  اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان،ص ۲۱۲

۸۲…   فتنہ سامانیِ دل، کشور ناہید، لاہور، ۱۹۸۵ء،ص ۱۷۵/۱۸۸

۸۳…   سیپ، کراچی، شمارہ ۴۶، جون ۱۹۶۶ء، ص۲۰۲

۸۴…   اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان،ص ۲۳۴

۸۵…   سمپورن، مشتاق عاجز، مثال پبلشرز فیصل آباد، ۲۰۱۱ء، ص۳۳

۸۶…   ایضاً، ص۳۶/۳۷

۸۷…  ایضاً، ص۱۲

۸۸…   ایضاً، ص۴۷/۴۸

۸۹…   ایضاً، ص۱۶

۹۰…   روزنامہ دُنیا، اسلام آباد، ۱۶ اپریل ۲۰۱۴ء،ص ۱۶، ادبی ایڈیشن

۹۱ …   ہمارے اہلِ قلم، زاہدحسین انجم، ص۲۱۶

۹۲…   اوراق، لاہور، جولائی /اگست ۱۹۹۴ء

۹۳…   اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان، ص۳۳

۹۴…   آمد، اعتبار ساجد، مکتبہ الخطاب، لاہور، ۱۹۸۲ء، ص۴/۵

۹۵…   یہ معلومات شاعر نے اس کالر کو بہ ذریعہ ای میل ارسال کی ہیں۔

۹۶…   سہ ماہی شاعری، کراچی، شمارہ۵۱، جنوری ۲۰۱۴، ص۱۰۵

۹۷ …  اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان،ص ۹۵

۹۸…   حدیثِ دیگراں، مرتب سیدنصرت بخاری، مثال پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۰۸ء

۹۹…   سہ ماہی شاعری، شمارہ ۴۷، جنوری ۲۰۱۳ء، کراچی،ص ۱۰۶

۱۰۰…  سہ ماہی تجدید نو، شمارہ ۳/۴، جولائی تاستمبر۲۰۱۰ء، لاہور،ص ۱۸

۱۰۱…  حدیثِ دیگراں، مرتب سیدنصرت بخاری، فیصل آباد، ۲۰۰۸ء،ص ۱۵۲

۱۰۲…  ایضاً ص ۱۵۰/۱۵۱

۱۰۳…  ایضاً ص ۱۵۳

٭٭٭

 

 

 

 

خصوصی مطالعہ

 

 

 

آپ بنا بنجارہ میں اور آپ بنائی باٹ

سچ کہیو رے دیکھنے والے ایسے کس کے ٹھاٹ

جمیل الدین عالی

 

 

 

 

 

دل، خواجہ دل محمد

(۱۸۸۴ء …۱۹۶۱ء)

 

آپ ۱۸۸۴ء میں پیدا ہوئے اور۱۹۶۱ء میں انتقال کیا۔ مشہور شاعر اور ریاضی دان تھے۔ ۱۹۰۷ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں ریاضی کے پروفیسر مقر ر ہوئے اور ترقی کر کے پرنسپل ہو گئے۔ ۱۹۴۴ء میں سبک دوش ہو کر آخر دم تک علم و ادب کی خدمت میں مصروف رہے۔ یونی ورسٹی کے فیلو اور سنڈیکیٹ کے رکن بھی تھے۔ ریاضی میں بتیس کتابیں لکھیں۔ گیتا کا منظوم ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے کئی آسان اور دلکش نظمیں لکھیں۔ تصانیف میں رباعیوں کا مجموعہ ’’ صد پارۂ دل‘‘، ’’پیت کی ریت‘‘ اور ایک اُردو لغت ’’گلزار معانی‘‘ شامل ہیں۔ (۱)

آپ کے آباء و اجداد غزنی سے مہاجرت اختیار کر کے لاہور میں آبسے تھے۔ آپ کا مولد کوچہ گیان عقب کشمیری بازار لاہو رہے۔ والد گرامی کا نام خواجہ نظام الدین ہے۔ (۲) خواجہ دل محمد دل اگرچہ ریاضی دان تھے اور اس مضمون پر آپ کی متعدد تصانیف ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ آپ دوہا کوی کی حیثیت سے بھی منظر پر آئے۔ آپ اس اعتبار سے زیادہ توجہ کے حق دار ہیں کہ پاکستان میں دوہا نگاری کی روایت کے بنیاد گزار آپ ہی ہیں۔ آپ کے دوہوں کا مجموعہ ’’پیت کی ریت‘‘ اُس وقت منظر پر آیا جب یہ صنف تقریباً دم توڑ چکی تھی۔ غزل اوراس کے بعد جدید نظم کے سامنے کسی اور صنف کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ خواجہ دل محمد دل نے فنِ دوہا نگاری کے تمام لوازم کا التزام کیا اور مخصوص وزن کے ساتھ، خاص مضامین اور خاص لفظیات و نغمگی کا بھی اہتمام کیا۔ ان کے دوہوں کا مجموعہ ’’ پیت کی ریت ‘‘ نور کمپنی، ۱۷۴۔ انارکلی، لاہور کے تحت شائع ہوا۔ البتہ اس پرسن اشاعت درج نہیں۔ اس لیے اب تک جتنے لوگوں نے بھی اس مجموعے کی بابت لکھا، وہ قیاسی ہے۔ ایسا ہی ایک قیاس عرش صدیقی صاحب نے کرتے ہوئے کہا ہے : ’’خواجہ دل محمد کے دوہوں کا مجموعہ ’’پیت کی ریت‘‘ کے نام سے قیام پاکستان کے زمانے کے آس پاس چھپا تھا۔ ‘‘ (۳)

دلچسپ بات یہ ہے کہ تقدیم کے باوجود خواجہ صاحب کو تاخیر کا شکار ہونا پڑا۔ اس بحث میں خصوصاً اُن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جو جمیل الدین عالی صاحب کے طرف دار ہیں۔ اس میں بھی خاص امتیاز یہ ہے کہ جب عالی جی کی اختیار کردہ بحر  پر اعتراضات اٹھائے گئے تو دوہا اور فنِ دوہا پر خصوصیت کے ساتھ بحث شروع ہوئی۔ اعتراض کرنے والوں کی کمی نہیں تھی، تو طرف دار بھی کم نہ تھے۔ رسائل و جرائد میں ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ دوہا کی تاریخ کو کھنگالا گیا، یہاں تک کہ اس کے بنیادی اوزان کا کھوج لگایا گیا۔ عرش صدیقی صاحب نے تو ایک طویل مقالہ ’’پاکستان میں اُردو دوہا‘‘ جمیل الدین عالی کے تحفظ میں لکھ ڈالا۔ یہی نہیں بلکہ اس مقالے میں خواجہ دل محمد دل کا قد کاٹھ اور ادبی مقام گھٹانے کی پوری کوشش کی۔ وہ کہتے ہیں :

’’خواجہ دل محمد کا دوہے پڑھنے کا اندازسپاٹ اور سادہ تھا۔ اتناسپاٹ اور سادہ کہ اکثر ان کے دوہوں کاحسن اور تاثیر ان کے پڑھنے کے انداز سے کم ہو جاتے تھے۔ اسی لیے خواجہ صاحب دوہا نگاری کو تحریک نہ بنا سکے۔ عالی کی بے مثال کامیابی نے اُردو شعرا کو دوہا نگاری کی طرف یوں مائل کیا، جیسے یہ صنف ان کے تخلیقی اظہار کے لیے ایک فطری ذریعہ تھی۔ ‘‘(۴)

گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دوہے کے ارتقا و روایت میں اصل کام عالی جی اور ان کا رنگ اپنانے والوں کا ہے۔ حالاں کہ یہ پوراسچ نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب خود عرش صدیقی صاحب خواجہ دل محمد دل کا زمانہ قیام پاکستان کے آس پاس تسلیم کرتے ہیں، تو انھیں یہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ جمیل الدین عالی کا مجموعہ ’’غزلیں دوہے گیت‘‘ ۱۹۵۸ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں محض ۱۴۹ دوہے ہیں۔ اس کے برعکس خواجہ صاحب کا ’’پیت کی ریت‘‘ تمام کا تمام دوہوں پر مشتمل ہے اور اس میں پانچ سو دوہے ہیں۔ صرف وزن کے تفاوت کی وجہ سے خواجہ دل محمد دل کے کام کو گھٹانا قرینِ انصاف نہیں دکھائی دیتا۔ حالاں کہ انھوں نے مروج وزن اور رائج مضامین کو انتہائی خوب صورتی سے برتا ہے۔ پھر یہ طرفہ تماشا دیکھیے کہ خود عرش صدیقی صاحب خواجہ دل محمد دل کا یوں اعتراف بھی کرتے ہیں ’’قیام پاکستان کے وقت ہمارے ہاں دوہا نگاری میں صرف ایک نام تھا۔ خواجہ دل محمد کا نام اور یہ نام پورے برصغیر میں اُردو دوہے کا سب سے بڑا حوالہ تھا۔ ‘‘(۵) اس حقیقت کے باوجود یہ سمجھنا کہ خواجہ دل محمد دل کا انداز اور رنگ قابلِ تحریک نہیں تھا، تجاوزسے کم نہیں۔ پھر ایک اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ خواجہ دل محمد دل نے نسبتاً مشکل بحر اور متنوع موضوعات کو ہاتھ لگایا۔ اس کے برعکس نئے لوگ بہ شمول عرش صدیقی صاحب، آسان گوئی کی طرف گئے۔ ایک مقام پر خود تسلیم کرتے ہیں :

’’ بطور شاعر میرا اپنا تجربہ بھی یہ ہے کہ خواجہ دل محمد والی بحر میں لکھنا جمیل الدین عالی والی بحر میں لکھنے سے کچھ مشکل ہے۔ ہری پد دوہے اور ر للت پد دوہے یعنی سرسی چھند کے وزن کی روانی خیال اور احساس کو زیادہ فطری بناتی ہے۔ جبکہ دوہا چھند رک رک کر لکھنا پڑتا ہے۔ یہ بہرحال ایک ذاتی احساس بھی ہو سکتا ہے، جس کی بنیاد میری کمزوری ہو، لیکن یہ احساس بہت سے لوگوں کو ہے۔ ‘‘(۶)

صدیقی صاحب نے کشادہ دلی سے اپنے عجز کا اظہار کر کے ایک زاویے سے خواجہ دل محمد دل کی قدر افزائی کر دی ہے۔ ویسے بھی وزن کی بنیاد پر رَدواستردادکارویہ کچھ زیادہ قابلِ تحسین نہیں ہو سکتا۔ ایک پیمانہ، ایک زاویہ، ایک قرینہ سابقون الاولون نے بنایا۔ اب نئے لوگ اپنی ضرورت اورسہولت کی بنیاد پر کوئی نئی شکل وضع کرتے ہیں تو قابلِ گرفت نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ایک حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے کہ اس بحث سے جذبۂ مسابقت نے جنم لیا اور فائدہ بہ ہر حال صنفِ دوہا کو ہوا۔ یہ ایسی بات ہے، جسے نہ سراہنابھی بخل ہو گا۔

پیت کی ریت میں پانچ سودوہے شامل ہیں۔ ان کی زبان خالص دوہے کی زبان ہے۔ اس لیے اسے ہندی آمیز کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ اُردو کے خمیر میں برج بھاشا اور دوسری مقامی بولیاں پوری تاثیر کے ساتھ موجود ہیں۔ ایسے میں خواجہ دل محمد کی روایت آشنائی قابلِ توجہ بھی ہے اور قابلِ قدر بھی۔ ان کے دوہوں پر ایک تو علامہ شیخ محمد رفیق عصری نے بسیط مقالہ لکھا ہے۔ ان کے علاوہ مولاناعبدالمجیدسالک اور مولانا چراغ حسن حسرت کی آرا بھی موجود ہیں۔ خواجہ دل محمد کے دوہوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان تمام حضرات نے بھرپور پذیرائی کی ہے۔ زبان کے سلسلے میں مولانا عبدالمجیدسالک کا یہ بیان اہم ہے :

’’دوہوں کی زبان نہایت نرم و نازک، ہلکی پھلکی ہندوستانی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ دوہوں کے لیے یہی زبان موزوں تھی۔ عنوانات عربی فارسی کے ہیں، تاکہ پاکستانی ان کے مطالب کوآسانی سے سمجھ سکیں۔ اگر یہ عنوانات ہندی میں ہوتے تو ہمارے لیے نہایت غریب و نامانوس ثابت ہوتے۔ ان دوہوں کوپڑھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ شاعر عمر بھر ہندی شاعری کا دلدادہ رہا ہے۔ حالاں کہ ہمارے خواجہ صاحب اُردو کے نہایت کہنہ مشق سخنور ہیں۔ اور انھیں ہندی سے کوئی دور کاواسطہ بھی نہیں رہا ہے۔ بہر کیف میں تو ان دوہوں کی زبان کو ہندی کہنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ زبان لازماً اور اساساً اُردو ہے۔ ‘‘(۷)

اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خواجہ دل محمد دل کی زبان اُن اساتذہ کی زبان ہے، جنھوں نے دوہے کی آب یاری اپنے خون سے کی۔ اُن کا مخاطب طبقہ عامۃ الناس تھا، اس لیے ان لوگوں نے عام بولی شعار کی۔ ’’پیت کی ریت ‘‘میں یہ رویہ پوری طرح متشکل و نمایاں ہوا ہے۔ اسی بات کی تائید مولانا چراغ حسن حسرت یوں کرتے ہیں :

’’یہ عجیب بات ہے، جن دنوں دوہا ہندی شاعری میں اپنا اصل مقام کھو بیٹھا تھا۔ پنجاب کا ایک کہنہ مشق شاعر اُسے اُردو کی ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے دُنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش میں تھا۔ ‘‘(۸)

خواجہ دل محمد کی تقدیم کے سلسلے میں بھی ایک اہم بات چراغ حسن حسرت کے وسیلے سے ہم تک پہنچتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’خواجہ صاحب تقریباً نصف صدی سے مختلف اصناف سخن پر طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ چنانچہ اُن کی نظموں کے کئی مجموعے جن میں رباعیات کا ایک مجموعہ بھی ہے، شائع ہو چکے ہیں۔ دوہے کہنے کا شوق انھیں مدت سے ہے۔ ‘‘(۹)

ان حضرات کے بیانات سے خواجہ صاحب کی زبان اور تقدیم کا معاملہ سُلجھ جاتا ہے، اس کے باوجود اگر کوئی بحث کرتا ہے، تو یہ اُس کی اپنی تاویلیں ہیں، جواس کے اپنے لیے ہیں۔ خواجہ دل محمد نے وزن کے اعتبار سے بالکل اُسی قرینے کی پابندی کی، جو دوہے کے لیے مخصوص ہے۔ روایتی طور پراُسے فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فاع یا فع کے پیمانے پر ماپا جاتا ہے۔ ماہرینِ فن نے بھی اسی پر اصرار کیا ہے۔ اس لیے کہ بسرام دوہے کاحسن ہے۔ خواجہ دل محمد کی زبان پر معترضین کے لیے حسرت کا یہ کہنا بہت ہو گا:

’’ جن لوگوں کو اُردو زبان کی وسعت اور اس کے سرمایۂ الفاظ کا اندازہ نہیں۔ وہ ان دوہوں کو چاہے ہندی کہہ لیں، چاہے کوئی اور نام رکھ دیں۔ لیکن میں تواسے اُردو ہی کہوں گا۔ ‘‘(۱۰)

آگے چل کر مزید کہتے ہیں :

’’خواجہ دل محمد دل کے یہ دوہے اُردو ہی کے دوہے ہیں۔ انھیں ہندی دوہے کہنا بہت بڑی بد مذاقی ہے۔ ‘‘(۱۱)

ان مشاہیر کی آرا سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ اوّل یہ کہ خواجہ دل محمد دل ہی جدید دوہا بانی کے دیباچہ نگار ہیں اور دوّم یہ کہ ان کی زبان، مضامین، بحر تینوں دوہے کے مروّج نظام میں پوری طرح پیوست ہی نہیں، بلکہ وہ اپنی زبان کے حقیقی ورثے کو دُرست ہیئت اور حیثیت کے ساتھ سامنے لائے ہیں۔ ان کی بندشیں، تراکیب، استعاراتی و تشبیہاتی ڈھانچہ اسی وراثت کا حصہ ہے۔ محاکات نگاری اور منظر نگاری کا وہ خاص قرینہ جو دوہے کی شناخت ہے، ان کے یہاں پوری طرح مجسم ہے۔

’’پیت کی ریت‘‘ کو جن دس عنوانات میں منقسم کیا گیا ہے، وہ سبھی دوہے کے نظام کا مربوط حصہ ہیں۔ البتہ یہاں یہ امتیاز ہے کہ خواجہ دل محمد دل نے انھیں عربی وفارسی کا جامہ عطا کر کے اُن لوگوں کے لیے بھی کشش پیدا کر دی ہے، جو پُرانی اُردو یا بھاشا سے مس نہیں رکھتے۔ باریک زبانی خط جو اپنے پیچھے خیالات کے نقطے چھپا لیتا ہے، وہ ان عنوانات کی وجہ سے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ یوں ہر طرح کے قاری کے لیے اپنے مطلب کے موتی چننا آسان ہو جاتا ہے۔ ذرا ان عنوانات کے تیور دیکھیے :

۱…     عرفان

۲ …   عشق ومستی

۳…    شہود

۴…    حسنِ مجاز

۵…    علم

۶…    عمل

۷…    حرص و ہوا

۸…    عالمِ آشوب

۹…     فنا

۱۰…   بقا

یہ تمام عنوانات کائنات کی تشکیل اوراس میں انسان کے کردار کو محیط ہیں۔ یہ ترتیب اتفاقی نہیں، بلکہ انتخابی ہے۔ ہر ہر عنوان اپنے مقام پراس قدرپیوست ہے کہ یک سرموہٹانے سے پورا ڈھانچہ بگڑ جاتا ہے۔ پہلا عنوان دیکھیے جو اپنے اندر پورا ابلاغ ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے ذیل میں جو کچھ آیا ہے وہ روح کے تاروں کو چھیڑتا ہے۔

 

عرفان:

 

عرفان وہ اکائی ہے جو رموزِ خلق سے رمزِ خالق تک کاسفرکراتی ہے۔ ایسی پختہ اکائی جس کے بغیر انسانی تصورات، ترجیحات حتیٰ کہ خود تکمیلِ ذات اور شناختِ ذات کا معاملہ عدم کا شکار ہو سکتا ہے۔ پھر یہ نمایاں تر تعلیم اسی تناظر میں ہے : ’’ جسے اپنا عرفان ہوا، اُسے خدا کا عرفان ہوا۔ ‘‘ یہی ایک حوالہ ایسا ہے، جس کے ہوتے ہوئے اس عنوان اوراس کے ذیل میں آنے والے مباحث کا اندازہ ہوتا ہے۔ عصریؔ نے کیا خوب توضیح کی ہے :

’’علم کی رسائی اشیا کے ظواہر تک ہے۔ عرفان بطونِ اشیا کی غواصی کرتا ہے۔ شاعر نے یہاں اُسی کی روشنی میں کائنات کو دیکھا ہے۔ انسان بظاہر صورت و پیکر اور رنگ و بو کے طلسم میں اسیر ہے، لیکن حقیقتاً وہ اس بے روپ اور بے رنگ ہستیِ مطلق سے جدا نہیں جو روح بن کر کائنات کے ذرّے ذرّے میں سما رہی ہے۔ ‘‘(۱۲)

جب جز و کل میں سما کر ایک ہے تو پھر بنیادی سوال تو وہی ’’من و تو‘‘ کی تفریق کا ہے، جو صدیوں سے اٹھایا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہاں انسان کے اندر موجود تفاوت، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر اٹھائی گئی دیواروں کا احوال اور معاشرتی ناہمواریوں کا بصیرانہ مشاہدہ زیادہ واضح ہوتا ہے۔ عرفانِ ذات کی یہ منزل در اصل اُسی دائمی اور طویل سلسلے کو محیط ہے۔ لیکن یہ جو عارضی پڑاؤ ہے، اس میں انسان کا جلال و جمال نہ نظر آئے تواس کاسفراکارت ہے۔ عرفان کا بنیادی تقاضا ہی یہی ہے۔ خواجہ دل محمد دل نے اس پس منظر میں جو لکھا، وہ اہمیت کا حامل ہے۔ اُٹھتے ہوئے تیوروں کے حامل عرفانِ حق کارَس جس لیے ہوئے ان دوہوں کو دیکھیے :

اَب کی اَب کے ساتھ ہے، جب کی جب کے ساتھ

جس کی ربَّ کے ساتھ ہے، اُس کی سب کے ساتھ(۱۳)

 

سب جلوے اُس ذات کے، اس میں تیر نہ میر

میں جب آ کر ’’میں ‘‘ کہوں، پڑے دوئی کا پھیر

 

ہر ذرّے میں پی بسے، لُوں آنکھوں سے چُوم

میں گھوموں جس اور کو، قبلہ جائے گھُوم (۱۴)

پہلے دوہے میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ اَب جو موجود ہے اور اب جن سے تعلق ہے، اصل نباہ اور حسنِ معاشرت انھی کے ساتھ کرنی ہے۔ غیر موجود لوگوں سے خوش سلیقگی کا تصور اپنی جگہ اہم سہی لیکن موجود سے رغبت اصل معاملہ ہے۔ پھرانسانیت سے سچی محبت کا دعوے دار وہی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا اسیر ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی محبت خام ہے۔ اس لیے کہ محبت کا منبع و مرکز وہی ذاتِ لاشریک ہے۔

دوسرے دونوں دوہوں میں وحدت الوجود کا نظریہ پوری طرح کارفرما ہے۔ شاعر کو اپنے وجدان کی آنکھ اور روحانی نگاہ سے ہر منظر میں وہی ذات منعکس نظر آتی ہے، سب جگ جس کے نورسے جگمگاتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے آپ کو بھی الگ کرنا اُس ذات پاک کے شرک کے مترادف ہے۔ آخری دوہے میں اس نظریے کو پوری طرح بیان کر کے یہ کہا گیا ہے کہ انسان ہی اُس مقدس ذات کا پرتو ہے۔ اسی لیے عمارتوں اور رُخوں کاتقدس اسی کی ذات سے جڑا ہوا ہے۔ جس طرف انسان رُخ پھیر لے، وہی رُخ محترم ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ خود انسان کے اندر خالق کا عکس ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے خواجہ صاحب نے وحدت الوجود کی فکر کو ہمہ اوست کے تناظر میں پوری طرح خود پر طاری کر کے یہ دوہے لکھے ہیں۔ ایک ایک زاویے سے تصوف کا یہ خاص رنگ چھلکتا ہے۔

اب ذرا یہ اسلامی تعلیم کی تفسیر دیکھیے :

میں مالک کی آنکھ ہوں، میں مالک کا ہاتھ

میں مالک کے ساتھ ہوں، مالک میرے ساتھ(۱۵)

جب بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی مرضی میں ڈھل جاتا ہے، تواسلامی تعلیم کی زبان میں اُس کے ہر عمل میں خود اللہ شریک ہو جاتا ہے۔ تب ہاتھ اللہ کے ہاتھ ہو جاتے ہیں۔ آنکھ اللہ کی آنکھ ہو جاتی ہے۔ اُس کا چلنا بیٹھنا، رُکنا، سوچنا اور کرنا سبھی کچھ جب ذاتِ مقدس کے تابع ہو تو پھر کیا دوئی اور غیریت کا تصور باقی رہے ؟

عرفانِ ذات کا یہ قرینہ ملاحظہ کیجیے :

میں سورج میں نور ہوں، میں کرنوں میں رنگ

جُگ جُگ میں نے سیر کی، ان تاروں کے سنگ(۱۶)

 

میں پنچھی اُس پیڑ کا، جو اُپجے دن رات

کرنیں جس کی ڈالیاں، تارے جس کے پات(۱۷)

 

آد سے لے کر اَت تک، پی کا کُل سنسار

اُس کا ہاتھ بٹائیں ہم، آج ہماری بار(۱۸)

پہلے دونوں دوہوں میں وہی مضمون ہے، جو پہلے بیان ہوا۔ آخرالذکر دوہے میں انسان کا کردار واضح کیا گیا ہے۔ وہ کردار جو خو د قرآن کی زبان میں یہ ہے کہ ’’میں زمین پر اپنا خلیفہ اُتارنے والا ہوں۔ ‘‘ نیابتِ الٰہی کا تصور اس دوہے سے پوری طرح مترشح ہے۔ خواجہ دل محمد دل حقیقت میں وہی کام کر رہے ہیں، جو علامہ اقبال نے نظریۂ خودی کے عنوان تلے کیا۔ انسان کوانسان کا عرفان ہو جائے کہ اسی میں اس کی بقا اورسلامتی ہے۔ ورنہ یہ بھٹک کر خود اپنے آپ کو اور اپنے جیسے دوسروں کو اذیت آشنا کرے گا۔ اگر اپنی شناخت کا قرینہ پا لیتا ہے، تو اپنے خالق کو پہچان لیتا ہے اور یوں محبت کا آفاقی تصوراُسے محیط ہوتا ہے، تووہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی محبتیں اُتارنے کی شعوری کوشش کرتا ہے۔ یہی اصل تعلیم ہے اور یہی اساسی نکتہ۔

شہ رگ کے قریب ہونے کا تصور کچھ نیا نہیں ہے، لیکن جس خوبی سے خواجہ دل محمد دل نے اسے بیان کیا ہے، سماں باندھ دیا ہے۔ جیسے کوئی اندر ہی اندر دھمال ڈالتا ہو۔ ملاحظہ کیجیے :

مرکز اپنا ڈھونڈتا، پھرتا ہے سنسار

مرکز تیرے دل میں ہے، گھُوم نہ او پُرکار

 

ہاتھ بڑھا کر موج کا، مت مانگ سمندر چاند

بیٹھ چین سے باورے، ترے من کے اندر چاند(۱۹)

لیکن اس تلاش کی تکمیل ہر ایک کے لیے ممکن نہیں۔ وہی منزل تک پہنچتا ہے، جو راہوں کی کٹھنائیاں اور صعوبتیں کھلے دل سے برداشت کرنے کا ہنر رکھتا ہو۔ چہرے پر تیوریاں چڑھا کر چلنے والے کبھی با مراد نہیں ہوا کرتے۔ ہر حال میں، ہر آن میں خوشی اور صبر و رضا کے ساتھ مسلسل پیش قدمی شرط ہے۔ اس خیال کو وہ یوں رقم کرتے ہیں :

راہیں اُس کی اَن گنت، جو ڈھونڈے سو پائے

پتھّر میں بھی لہریا، چکر کھاتا جائے (۲۰)

 

دین ، دھرم، مت، پنتھ، سب لہریں اٹھیں انیک

رہیں اُلجھتی رات دن، گیان سمندر ایک (۲۱)

یہاں بھی ہمہ اوست کا تصور جلوہ نما ہے۔ شاعر نے اُسی روش کو بیان کیا ہے، جوان سے پہلے دوہا نگاروں کے یہاں رائج ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جس کے تابع یہ تعلیم ہے کہ ہرانسان ایک اصل سے ہے اور وہ اصل اس کی متقاضی ہے کہ انسان اُسے بہ ہر حال راضی رکھے۔ قرینہ ہر ایک کا الگ ہے، سلیقہ ہر ایک کا جدا ہے۔ یہ رنگ ونسل اور مذہب و ملت کا امتیاز محض شناخت کا حوالہ ہیں، اس کے سوا ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ ورنہ اپنی حقیقت میں سب ایک ہیں۔ ایک مرکز سے بچھڑے ہوئے اور ایک مرکز پر جمع ہونے والے۔ اس خیال کو خواجہ دل محمد دل یوں قلم بند کرتے ہیں :

چنچل امبر پرتھوی، چنچل سب سنسار

ایک اَچل پر ماتما، سب کا پالنہار(۲۲)

خواجہ دل محمد دل عرفان کی منزل کے وہ راہی ہیں، جو اپنی بصارتوں کو دوسروں کے لیے عام کرتے ہیں۔ وہ اپنی کویتا کی اس سہجتا میں سب کو شریک کر کے اُس ذائقے سے آشنا کرنے کے متمنی ہیں، جسے عموماً لوگ اندھیروں میں دیکھتے اورمحسوس کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ سب کو مرکز سے جوڑنا اوراُس سے فیض یاب ہوناسکھاتے ہیں۔

 

عشق ومستی:

 

’’پیت کی ریت ‘‘کا دوسراعنوان ’’عشق ومستی ‘‘ ہے۔ جب عرفانِ ذات کی منزل سر ہوتی ہے، تو لامحالہ اگلا پڑاؤ عشق کی کھیتیوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ مرحلہ شناخت سے نکل کر نمود تک آ جاتا ہے۔ خواجہ دل محمد دل اس مقام پر حقیقی و مجازی دونوں رنگوں کو ہم آمیز کر کے جب مستانہ وار دھمال ڈالتے ہیں، تویوں معلوم ہوتا ہے جیسے خود یہ کائنات محوِ رقص ہے۔ اُن کا جذبہ ہیجان خیز نہیں، بلکہ سکون آور ہے۔ وہ نہایت انہماک اور دیانت داری سے اس دریا کو پاٹتے ہیں۔ اتنے سلیقے اور قرینے سے کہ آس پاس کی موجوں پر چھینٹے نہیں پڑتے، بلکہ انھیں بھی جواں تر ہونے کا ہنر بتاتے ہیں۔ انسانی زندگی لذائذ کا مجموعہ توہے مگر جسمانی لذتیں نہ دائمی ہیں نہ پائیدار۔ اس لیے جہاں کہیں شاعر نے ایسے جذبوں پر قلم اٹھایا بھی ہے، تو روحانی اور قلبی تسکین کو فوقیت دی ہے۔ زیادہ تر مقامات پرتوسرشاری اور طمانیت تصور اور خیال کی سطح پرہی نصیب ہو جاتی ہے۔

اس حصے کی شاعری میں کہیں محبوب مستور ہے، تو کہیں کھویا ہوا۔ ہجرکامسلسل صحرا ہے، جسے پاٹتے پاٹتے شاعر کے تلوے زخمی ہو جاتے ہیں۔ چھالوں کو زبان مل جاتی ہے اوراس زبان پر فراق کے زخم خوش بودار ہونے لگتے ہیں۔ یہی خوش بو جب ہرسو پھیلتی ہے، تو بجائے خود شاعر اضطراب آشنا ہو جاتا ہے۔ بن میں مارے مارے پھرنے کی کیفیتیں سوا ہونے لگتی ہیں۔ کہیں کہیں تو یہ بھی اندازہ ہوتا ہے، کہ یہ وچھوڑا شاعر کا اختیاری ہے۔ شاید اس وسیلے سے وہ اپنے دل میں ایک میٹھی آنچ مسلسل محسوس کرنے کا تمنائی ہے۔ ہجر کی کرب ناکیوں میں لپٹا ہوا یہ اظہاریہ دیکھیے :

چاند پھرے اور میں پھروں، ڈھونڈیں پی کا دیس

رات گئی دن آ گیا، روپا ہو گئے کیس (۲۳)

چاند کے لیے دن موت کی علامت ہے۔ اس لیے کہ اُس کاوجوداس منطقے میں محض اضافی ہو جاتا ہے۔ دن میں اس کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں ایک جیسی ہیں۔ یہاں شاعر نے بلیغ صورت نکالی ہے۔ پھر جوانی کے ولولہ انگیز روز  و شب کا گزر جانا اور بالوں میں چاندی اُتر آنا بھی کچھ کم تکلیف دہ نہیں۔ وصالِ یار کی خاطر پوری زندگی سفر کر آنا کچھ کم حوصلے کی بات نہیں۔ چاند سے مشابہت کادوسرازاویہ دیکھیے :

سُورج نکلا، دن چڑھا، ہوئے ستارے ماند

بن میں پھروں اُداس میں، جیسے دن میں چاند(۲۴)

یہ بے چارگی کی انتہا ہے، کم ہمتی کی نہیں۔ اس لیے کہ چاند بہ ہر حال اپناسفرجاری رکھتا ہے، چاہے اُس کی ہستی ضو فشاں ہویا نہ ہو۔ اسی طرح شاعر بھی اپنی طلب میں جنگلوں اور ویرانوں میں مارا مارا پھرتا ہے، چاہے اس کے جذبے شانت ہوں یا نہ ہوں۔ یہ مشابہت ملاحظہ کیجیے، جس میں داخلی اور خارجی دونوں صورتیں ہم آمیز ہیں۔ مالا کے دانے چھالوں کی صورت ہیں اورمسلسل حرکت میں رہتے ہیں، اسی طرح پاؤں بھی محوِ سفر رہتے ہیں :

میں اور مالا دو جنے، گھومیں چکر کھائیں

پانْو میں چھالے پڑ گئے، پی کا بھید نہ پائیں (۲۵)

یہ محض لفظی اظہار نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے گہرا فلسفہ موجود ہے۔ ساری عمر زبان سے اللہ اللہ کہتے رہے مگر اللہ کا بھید نہ پایا۔ اسی طرح پوری عمر محبوب کی تلاش میں گزار دی مگراس کا پتا نہ مل سکا۔ یہ عجز ہی نہیں، ایک مقام پر پہنچ کر اس بات پربھی دال ہے کہ سفر میں کھوٹ ہے۔ یہاں شاعر یہی جتا رہے ہیں کہ ایسے لوگ جو زندگی بِتا آتے ہیں مگر ان کا دامن موتیوں سے خالی ہوتا ہے، اگرچہ ہاتھ میں ہر وقت مالا ہوتی ہے۔ عشقِ حقیقی اور مجازی کا یہ نظارہ دیکھیے :

پیتم چُن چُن نعمتیں، لاکھوں ڈھیر لگائے

ان ڈھیروں کو کیا کروں ؟ آپ وہ چھپتا جائے (۲۶)

 

ہیرے موتی رول کر، ہار کروں اَرداس

ہیرے موتی سب ترے، آنسو میرے پاس(۲۷)

 

من میں تیری پیت ہے، جیوں بِینا میں گیت

کانپے دل کا ٹھاٹھ سب، یہی پیت کی ریت(۲۸)

 

پیتم پر قربان ہو، جاپ اُسی کا ورد

بن کر بھومی رات دن، پھر سورج کے گرد(۲۹)

 

دھُن رے دھُنیے ! خوب دھُن، روم روم کو توم

پی کی دھُن میں جھوم لے، پی کی دھُن میں گھوم(۳۰)

 

ہستی تیری ذات ہے، تُو ہستوں کا ہست

مستی تیرے نام میں، مَیں مستوں کا مست(۳۱)

یہ تمام دوہے خودسپردگی اور راضی بہ رضا ہونے کا بہترین نمونہ ہیں۔ لذتِ وصال کی طلب تو ہے، مگر جھنجھلاہٹ نہیں۔ محبوب کے چرنوں میں سب کچھ تیاگ دینے کی تمنا تو ہے مگر بے صبری نہیں۔ یہ تمام ترسفربہ رضا و رغبت یوں جاری ہے، جیسے کسی جانور کی باگ اُس کے مالک کے ہاتھ میں ہو اور وہ پورے اطمینان سے اُس کے پیچھے پیچھے چلتا جائے۔

 

شہود:

 

یہاں وحدت الوجود اور شہود کی جلوہ فرمائیاں پوری طرح دکھائی دیتی ہیں۔ شاعر اپنے حیطۂ خیال میں رنگ بہ رنگ منظر اُجالنے کے بعد اپنے قاری کو نظّارگی کی دعوت دیتا ہے۔ ایسی دعوت جس میں وہ خود ایک پیش رو کی حیثیت سے بڑھتا جاتا ہے۔ ہر ہر منظر کی خوب صورتیوں کو اپنے ناخنوں اور پوروں سے چُن کر بلند کرتا ہے اور اپنے ساتھ والے ناظر کو دکھائے جاتا ہے۔ یہ مشاہداتی اور تجرباتی عمل ایک لحاظ سے انسان کواُس ذاتِ کریم کا قرب عطا کرتا ہے، جس کی بو قلمونیوں کے طفیل یہ ہمہ رنگیاں ہیں۔ ذرا یہ اظہاریے ملاحظہ ہوں :

ہر پتّی میں ریکھ ہے، ہر ریکھا میں لیکھ

ہر پتّی کے ہاتھ میں، ہاتھ پِیا کا دیکھ (۳۲)

 

دُنیا کالی کوٹھڑی، سُورج پی کا نُور

کرنیں جھاڑو پھیر کر، کریں اندھیرا دُور(۳۳)

کرنیں نُوری انگلیاں، بجے دھنک کا ساز

رنگوں میں آواز ہے، پیتم کی آواز (۳۴)

 

چھائے سائے مخملی، پتّے ساز بجائیں

پھُول رنگیلی جیبھ سے، مہما اُس کی گائیں (۳۵)

 

لہریں لکھ لکھ نہر پر، میٹیں اپنا نام

نام اُسی کا حق جسے، نہیں نام سے کام(۳۶)

پہلا، تیسرا اور پانچواں دوہا ہمہ اوست کے تصور کے ترجمان ہیں، جبکہ دوسرا اور چوتھا دوہا نظریۂ شہود کے علم بردار ہیں۔ اس لیے جب دُنیا کالی کوٹھڑی ہے اور وہ مالک کے نُور کی محتاج ہے۔ ایسے میں خود دُنیا مالک کا عکس کیوں کر ہو سکتی ہے ؟ اسی طرح جب پھول اپنی رنگیلی زبان سے حمد و ثنا کرتے ہیں، تو ظاہر ہے، خود اپنی ثنا کوئی نہیں کرتا۔ یہاں یہ وضاحت اس لیے کر رہا ہوں کہ خواجہ دل محمد دل صرف نظریۂ وحدت الوجود کے قائل نہیں ہیں، بلکہ ان کی فکر کے سوتے نظریۂ شہود سے بھی پھوٹتے ہیں۔ وہ مشہود اور شاہد کا فرق جانتے ہی نہیں، اُسے شناخت کروانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

 

حسنِ مجاز:

 

اس عنوان تلے خواجہ دل محمد دل خوب چہکتے ہیں۔ ان کا مزاج روایتی دوہے سے ہم آہنگ ہو کر خوب رس جس کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ زبان بھی خالصتاً وہی چولا پہن لیتی ہے، جو دوہے کے لیے مخصوص ہے۔ اس حصے کا پہلا دوہا ہی سازِ دل کو حیرت آشنا کر جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

رُوپ نگر کی کامنی، پیت نگر کو آئے (۳۷)

پانوں دھرے جس دھُول پر، پھول وہاں کھل جائے

پاؤں کی نزاکت دیکھیے کہ جہاں پڑتے ہیں پھول کھلا دیتے ہیں۔ یہ حسن کا اعجاز ہی تو ہے۔ ایسی کامنی تصور کی آنکھ سے دیکھی جا سکتی ہے اور یہاں صنعتِ مبالغہ کا خوب خوب استعمال ہوا ہے۔ جو خوب رو بھی ہے اور خوش خو بھی۔ مشابہت کی یہ رنگ آرائی دیکھیے :

چُور جوانی رس بھری، کرنیں جوت دکھائیں

چاند اُتارے آرتی، تارے پھول اُڑائیں (۳۸)

گویاچاندحسنِ ملیح کا طواف کار ہے۔ اس کے پھیروں کا مقصد و منتہا اپنے حسن میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ خوب صورت دوہا احساس کی نزاکت کا جلوہ گزار ہے۔ یہ رنگ نظروں میں بھریے :

گھونگٹ کھولے کامنی، پھولوں کو غش آئے

شبنم چھینٹے مارتی، تتلی پنکھ ہلائے (۳۹)

ایسی نزاکت اور ایسی خودفراموشی ہماری کلاسیکل شاعری کا حصہ تو رہی ہے، مگر نئے زمانے میں ایسے منظروں کی تشکیل کم کم ہوئی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے خود شاعران منظروں کی بھول بھلیوں میں کھو گیا ہے۔ حسن کی یہ منزلیں اُس کے لیے طلسم آگیں ہی نہیں، بلکہ اس سے بھی سوا ہیں۔ نگاہِ مردانہ سے ذرا یہ منظر دیکھیے :

 

نین کٹورے رس بھرے، آشائیں چھلکائیں

نازک چھب کے بوجھ سے، پلکیں جھکتی جائیں (۴۰)

 

گوری کا مکھ چوم کر، آنچل ہٹتا جائے

نکلی آئے چاندنی، بادل چھٹتا جائے (۴۱)

گوری تیرے نین میں، بستے ہیں دن رین

عیش، جوانی، رُوپ، رَس، لاج، حیا، سکھ، چین(۴۲)

 

گوری تیرے کان پر، سو موتی قربان

موتی تیرے کان میں، تو موتی کی کان (۴۳)

 

چنچل کرنیں چاند کی، ناچیں اور مسکائیں

چل گوری ! ہم گور تک، ہنستے ہنستے جائیں (۴۴)

ایک بے خودی کی کیفیت ہے، جو پڑھنے والے پربھی طاری ہو جاتی ہے۔ آخر الذکر دوہے میں ’’گوری‘‘ اور ’’گور‘‘ سے کیا منظر کشی کی گئی ہے۔ جیسے خود ہی خود کوئی حسن پر قربان ہوتا ہوا قبر میں اُترتا چلا جاتا ہو۔ اس دیار میں خواجہ دل محمد، دل کے ہاتھوں پورا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

 

علم:

 

علم و عرفان ایک مرکب کی صورت میں ہمارے سامنے متشکل ہوتے آئے ہیں۔ لیکن خواجہ صاحب نے انھیں دو الگ عنوانات دیے ہیں۔ یہ محض اضافت نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک خاص بات ہے۔ جس کا انکشاف انھوں نے اپنے دوہوں کے ذریعے کیا۔ عرفان کی الگ دُنیا ہے اور علم کا الگ جہان۔ ان کا ربط و ضبط علامتی نہیں اشاری ہے۔ بہ قول عصریؔ:

’’عرفان سے مراد اشیائے عالم کی باطنی کیفیت کا وہ انکشاف ہے جوانسان پر وجدان کے ذریعے سے ہو۔ علم سے مراد اشیائے عالم کا وہ ادراک ہے، جوانسان کو حواس کے ذریعے سے حاصل ہو۔ ‘‘(۴۵)

سادہ لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ عرفان وہبی چیز ہے اور علم کسبی۔ محسوسات انسان کے دائرہ کار میں شامل ہیں۔ انسان اپنے حواس کو اپنے تابع کر کے کسی مشاہدے یاکسی تجربے سے گزرسکتا ہے۔ لیکن وجدان کی کیفیت از خود طاری نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے جذبۂ محرکہ اندر سے پھوٹتا ہے اور اندر ہی نمو پکڑتا ہے۔

علم کے عنوان تلے خواجہ دل محمد دل نے نہ صرف نئے علوم کو موضوعِ بحث بنایا ہے، بلکہ یہاں انسان کے گھمنڈ کو بھی جگہ جگہ مہمیز لگاتے گئے ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، معاشیات، معاشرت اور اس میں نمو پانے والے اظہاریے، سبھی کچھ شاعر کے زیرِ قلم آئے ہیں۔ پہلا دوہا ہی دیکھیے، جو علم و حکمت سے مالامال ہے :

تِل ننھا سا بیج ہے، تِل کے اندر تیل

تیل کے اندر نُور ہے، دِل کو تِل سے میل (۴۶)

تیل کا منبع تِل ہے۔ خود فنا ہو کر تیل عطا کرتا ہے اور تیل بھی سفرتھام نہیں لیتا، بلکہ خود جل کر روشنی اُگاتا ہے۔ شاعر یہاں ایک حقیقت کے بیان کے ساتھ انسان سے بھی یہ چاہتے ہیں، جس طرح تِل اس دُنیا کے لیے کارآمد ہے، ایسے ہی انسانی دل بھی کارآمد بن جائے۔ جب دل بھی تِل جیسا ہو جائے تو ہر طرف نُور کے بقچے اور قمقمے فروزاں نظر آئیں گے۔ یہ نور محبت و آتشی کا مظہر ہو گا۔ امن و خوش حالی کا اظہار ہو گا۔ یہ طنزیہ ملاحظہ ہو:

قابو کر لے بجلیاں، آگ، ہوا اور بھاپ

میں جانوں جب تو کرے، قابو اپنا آپ(۴۷)

چغہ پہن کر ریچھ کب، عالم فاضل ہوئے

گدھا نہ گیانی بن سکے، لاکھ کتابیں ڈھوئے (۴۸)

 

راہ بتائیں اور کو، آپ پھریں گمراہ

مشعل جن کے ہاتھ ہے، انھیں نہ سوجھے راہ(۴۹)

 

دُنیا کو تسخیر کر، ذرّے کا دل چیر

لیکن پہلے صاف کر، اپنا پاک ضمیر (۵۰)

ضبطِ نفس اور تربیتِ نفس کی تعلیم سالکین کا حصہ ہے اور صوفیوں کا قرینہ۔ یہاں شاعر دونوں کی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے۔ اپنے آپ کو بھی سمجھا رہا ہے اور اپنے ارد گرد بسنے والوں کو بھی۔

ورثہ ہے انسان کا، سو صدیوں کا مال

ترکہ تو بھی چھوڑ جا !، اپنا کوئی کمال (۵۱)

 

چھانٹیں سو باریکیاں، عقل بھید کب پائے ؟

اِس سوئی کی نوک سے، کُنواں نہ کھودا جائے (۵۲)

ان دوہوں میں کم علمی اور جہالت کو نشانہ بنا کر یہ احساس دلایا گیا ہے، کہ علم مومن کی میراث گم گشتہ ہے۔ محض اس کا حصول ہی نہیں واجب، بلکہ اس کا پھیلانا اور عام کرنا بھی لازم ہے۔ اس لیے کہ یہ ایسا مال ہے، جو گھٹتا نہیں اور صدیوں تک اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ علم محض کچھ چیزیں رَٹ لینے کا نام بھی نہیں، بلکہ اُن چیزوں کی ماہیت کو سمجھنے کا کام ہے۔ اس کے لیے چند تصورات اور خالی خولی باتیں کافی نہیں، بلکہ جہدِ مسلسل اور عمل درکار ہے۔

 

عمل:

 

علم سے اگلا پڑاؤ عمل کا ہے۔ عمل کا مرحلہ اُسی صورت میں دل پذیر ہوتا ہے، جب دولتِ علم دستِ ہنر میں موجود ہو۔ میں نے شروع میں عرض گزاری تھی کہ یہ عنوانات اتفاقی نہیں بلکہ انتخابی ہیں۔ اس لیے ہر ایک اپنی جگہ ٹھیک طرح چسپاں ہے۔ عمل اصل ہے، جذبہ احساس، خیال اورمحسوسات سبھی اس کے تابع ہیں۔ خواجہ دل محمد کے یہ دوہے اسی بات کی تفسیر ہیں :

سیوہ جن کا کام ہے، راس نہ رکھیں پاس

سوئی ننگی خود رہے، سب کا سِیے لباس

 

سیوہ سے میوہ ملے، بیج عمل کا بو!

لاکھ بار گڑ بولیے، منہ کب میٹھا ہو؟(۵۳)

 

سورج سا دھَر ماتما، اُتّم جس کی ذات

لاج نہ جانے دوستو ! نیچوں کے گھر جات

 

دھوپ سہے جب کشٹ کی، بنے اور کا کام

پیپل اپنے سائے میں، کب پائے آرام(۵۴)

 

بڑھ جائے جو باپ سے ، ایسا پوت سپوت

بڑے باپ کا لاڈلا، رہے اُوت کا اُوت (۵۵)

ان دوہوں اور ان جیسے دوسرے دوہوں میں وعظ و نصیحت کے موتی ہی نہیں پروئے گئے، بلکہ یہ احساس دلانے کی بھی کوشش کی گئی ہے، کہ کس طرح ایک صاحبِ عمل شخص دوسروں کے لیے سکون و راحت کاسبب بنتا ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر مشکلات درپیش آتی ہیں مگر عمل کا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے۔ پھر با عمل شخص کو دُنیا یاد رکھتی ہے۔ آخری دوہے میں بے عملی کا انجام دکھایا گیا ہے۔ یہ تمثیلیے عام فہم بھی ہیں اور زود اثر بھی۔

 

حرص و ہوا:

 

یہ عنوان شوریدہ تر ہے۔ عمل کے بعداس کی موجودگی اس لیے بھی لازم ہے کہ ہر عمل مثبت نہیں ہوتا۔ انسان جو اپنے تئیں اپنی دُنیا آباد کرنے میں جُتا رہتا ہے، نہیں جانتا کہ اُس کے عمل کی وجہ سے کسی کو نقصان ہو رہا ہے۔ یا خود اُس کی اپنی ذات پستیوں میں اُتر رہی ہے۔ اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے روزی کمانا عبادت ہے۔ اس سے نہ مذہب روکتا ہے نہ معاشرہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ البتہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز جمع کرنے کی خصلت کو دونوں اچھا نہیں خیال کرتے۔ قارون کی دولت کا اپنا مقام ہے اور حاتم کی دولت کا اپنا۔ ظاہر میں دونوں کے یہاں اس کی فراوانی ہے، مگراستعمال دونوں کا قرینہ ہی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اسی تناظر میں خواجہ صاحب گویا ہوتے ہیں :

 

ہیرے موتی چاب کر، بھرے نہ تیرا پیٹ

دو روٹی کے واسطے، کیوں اتنی السیٹ (۵۶)

 

جب سونے کا فرش ہو، ہیرے کی دیوار

پھر بھی چین نہ پائے گا، لوبھی دُنیا دار (۵۷)

 

دل لوبھی انسان کا، ہے بنیے کی ہاٹ

دین دھرم سب بیچ دے، بِن تکڑی، بِن باٹ (۵۸)

 

جس اَمرت میں بِس بھرا، مُورکھ اُسے نہ چاٹ

زَر کی برچھی جب ملے، گلا نہ اپنا کاٹ (۵۹)

دُنیا بوڑھی بیسوا، چاتر، گھاگ، دلیر

تُجھے ایٹرن کر گیا، کس رَنڈی کا پھیر!

 

اِس دُنیا کی پیت سے، مٹے نہ من کی جھانجھ

سو خصموں کی بیسوا، رہے بانجھ کی بانجھ (۶۰)

پیت کی ریت کے شاعر نے جو تیز نشتر ہاتھ میں لیا ہے، اُس سے دل چھلنی تو ہوتا ہے، مگر سچ یہی ہے اسی سے فاسد مواد بھی باہر نکلتا ہے۔ اور تازہ خون کا موقع پیدا ہوتا ہے۔ یہ مثالیں ہماری اجتماعی دانش کا حصہ ہیں۔ اس لیے زود اثر بھی ہیں۔ یہ اور ان جیسے بیسیوں دوہے ایسے ہیں، جواس عنوان کی وضاحت کرتے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ یوں جیسے صدف میں موتی بند ہو۔ دانش کے ان موتیوں سے کوئی چاہے تو اپنا من اُجال سکتا ہے۔ حرص و ہوا کے بازار سے جان چھڑا کر صبر و رضا اور قناعت کے باغ میں منتقل ہو سکتا ہے۔ قارون اور حاتم کا امتیاز ان دوہوں سے ہوتا ہے :

نُور لٹائے چاندنی، خوشبو باٹیں پھول

جو عادی پُن دان کے، وہ کیوں رہیں ملول (۶۱)

 

اِس دُنیا کو کیا کروں ؟ چھینے جو ایمان

وہ سونا کس کام کا، جس سے پھوٹیں کان(۶۲)

 

عالم آشوب:

 

حرص و ہوا کی آندھیوں کا لازمی نتیجہ تباہی و بربادی ہے۔ اور تباہی کی منظر کشی کا نام شہرِ آشوب ہے۔ یہاں عالم آشوب کی ترکیب اسی سے مستعار ہے۔ پیت کی ریت کے اس عنوان تلے جمع شدہ دوہوں کو پڑھ کرانسان کی بے حسی اور بے بسی کا وہ منظر جاگتا ہے، کہ الاماں !الحفیظ! خواجہ دل محمد دل نے جاگتی آنکھوں سے ان نوحوں کو دیکھا اور دُکھتے کانوں سے سُنا، پھر روتے قلم کے ساتھ لکھ کر پیش کیا۔ ہر ہر دوہا اپنے عہد کا المیہ ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ منظر ہمارے آج کو بھی محیط ہے اور نہیں معلوم کب تک پھیلا رہے۔

شاعر نرا مرثیہ خواں ہوتا ہے اور نہ ہی نوحہ گزار، بلکہ وہ احساس کے نشتر سے دوسروں کے بند سینوں کو کھولنے کا جتن کرتا رہتا ہے۔ عالم آشوب کا شاعر بھی اپنے نشتر کو صیقل کر کے پوری چابک دستی سے مردہ ضمیروں کے گندے چھالے پھوڑنے کی کوشش میں ہے۔ بعض دوہے تو پڑھتے ہوئے سینے میں ترازو ہو جاتے ہیں اور درد کی لے مستقل قیام کرنے لگتی ہے۔ اس پس منظر میں کہے گئے ان دوہوں کودیکھیے، جومحض نوحہ نہیں ہیں، بلکہ احساس کی سطح کے زندہ اظہاریے ہیں۔ کوئی دل رکھتا ہو تواُس کے لیے ان میں بہت کچھ موجود ہے۔ کچھ دوہے ملاحظہ ہوں :

جگنو لے کر دِیے کو، پھرا باغ میں رات

روتے دھوتے سب ملے، کیا پھول کیا پات (۶۳)

 

داج دہیج نہ دے سکے، لاج کرے محتاج

کنیا بوڑھی ہو گئی، کون رچائے کاج (۶۴)

 

خون اُچھلے کنگال کا، یہ ہولی کا کھیل

گرم لہو مزدور کا، دیوالی کا تیل (۶۵)

 

بھوکا پُوت کسان کا، جس کے ہاتھ اناج

نُور باف کا چھوکرا، چتھڑوں کا محتاج (۶۶)

 

دین دھرم کے نام پر، پڑی جگت میں پھوٹ

ناتے بندھن ٹوٹ کر، لوٹ مچی رے لُوٹ(۶۷)

 

جیسی جس کی بھاؤنا، ویسا سکھ دُکھ پائے

کُتّا دیکھے آئینہ، بھونک بھونک مر جائے (۶۸)

یہ المیاتی دوہے ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کو بہت ہیں۔ انسان جو اپنی جبلی خواہشوں کے نرغے میں پوری طرح جکڑا ہوا ہے، اُسے یہ فرصت نہیں کہ وہ دیکھے کہ اُس کی لگائی ہوئی آگ سے کس کس کا گھر راکھ ہوا ہے۔ اور کس کس کے سینے میں الاؤ جلتے ہیں۔ یہاں خواجہ دل محمد دل صرف احساس ہی نہیں دلاتے، بلکہ بے ضمیری اور کج روی پر حرفِ حق بھی سنگ زن کرتے ہیں۔ یہ دوہا نگاری کا خاص مزاج اور زوایہ ہے۔ اس کے بغیر دوہا کوی کا الاپ نامکمل رہتا ہے۔

 

فنا:

 

عالم آشوب کے بعد فنا کی منزل ہے۔ یہ کائنات اوراس کے تمام متعلقات اپنے وقتِ معین پر فنا کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی دوام پالے۔ یہاں شاعر نے یہ احساس دلایا ہے، کہ جب مآل کار فنا ہونا ہے تو پھر حرص و ہوا میں پڑنے سے کیا حاصل؟ انھوں نے دلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے پہلے سے زیادہ تیزاورسخت الفاظ استعمال کیے اور تشبیہات و تمثیلات سے کام لیا۔ اس منزل میں وہ یہ احساس بھی دلاتے ہیں کہ فنا وہ ہیں، جو یہاں نامناسب وقت گزار گئے ہیں۔ ورنہ یہ منزل بقا کی طرف پیش قدمی ہے۔ ایک سیڑھی ہے، اُن کے لیے جنھوں نے یہاں خوش سلیقگی شعار کیے رکھی۔ اپنے فکر و عمل سے دُنیا کو گلزار کیا۔ دوسروں کے دلوں میں نور کی شمعیں روشن کرنے کی کوشش کی۔ اس ذیل کا پہلا دوہا دیکھیے، کس طرح تمثیل سے بیان کر کے سمجھایا گیا ہے :

پتّہ ٹوٹے ڈال سے، ڈال بڑھائے ہاتھ

کانپے، لرزے، سر دھُنے، پات نہ آئے ہاتھ (۶۹)

یہاں پیچھے رہ جانے والوں کا دُکھ پوری طرح ظاہر ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ فنا ہو جانے والے تو کسی خاص کیفیت میں ہوں گے۔ جو بچ جاتے ہیں، وہ عبرت نہیں پکڑتے۔ بس ذرا دیر کو پچھتاوے کی ردا اوڑھتے اور پھر اُتار دیتے ہیں۔ یہ دوہا دیکھیے، کیا خوب صورت تمثیل ہے :

مکڑی تانا تن رہی، چُن چُن تار مہین

آندھی آئی موت کی، تیرہ رہے نہ تین (۷۰)

انسان اپنے تئیں محلات، پختہ دیواریں اور فولادی دروازے بناتا ہے۔ بھول جاتا ہے کہ قومِ عاد و ثمود کا کیا حشر ہوا تھا۔ کیوں کر موت کی چنگھاڑ نے اُن کے فولادی مسکنوں کو بھی پچھاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان کی زندگیاں وہاں بھی نہ بچ پائیں۔ در اصل یہ پختہ تعمیریں موت کے طوفان کے سامنے تارِ عنکبوت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ کچھ اور اظہاریے دیکھیے :

جیون کی ہر بوند میں، کال بھنور چکرائے

اس چکر کی پیٹھ پر، آسن کون جمائے (۷۱)

 

جا کی ہونی ہو چکی، دیر نہ جات لگائے

پکّا میوہ ڈال سے، آپ ہی گرتا جائے (۷۲)

 

اُڑے سواری وقت کی، تارے دھول اُڑائیں

کُچلی جائیں بستیاں، قومیں پستی جائیں (۷۳)

 

لُوٹ مچائی موت نے، رُستم دیے پچھاڑ

تن من دھن سب چھین کر، دِیا گڑھے میں گاڑ (۷۴)

ان تمام دوہوں سے یہ ثابت کیا گیا ہے، کہ زندگی کسی سے نباہ نہیں کرتی۔ بہ ہر حال ایک وقتِ معین پر موت کے منھ میں ڈال دیتی ہے۔ کوئی کتنا ہی جرّی، منھ زور، بہادر اور طاقت ور کیوں نہ ہو۔ فنا کا ہاتھ اُسے اُچک لیتا ہے۔ اسی لیے تمام مذاہب اس بات پر زور دیتے ہیں، کہ یہ زندگی اُس مسافر کی سی ہے، جومسلسل سفر میں رہتا ہے۔ اس لیے وہ سرائے عام میں قیام کرے تو یہی اُس کے لیے بہتر ہے۔ کسی ایک مقام پر جم جانا، اُس کے سفر کی موت ہے۔ اب متضاد رنگ کے دوہے ملاحظہ کیجیے۔ یہ رنگ اُن لوگوں کے لیے ہے، جو من کے اُجلے اور تن کے صاف ہیں :

مرنے کا مت خوف کر، ہنسی خوشی سے جی

پل پل چھِن چھِن وہ مریں، ڈولے جن کا جی (۷۵)

 

پھول، ستارے، چاندنی، جی سے مجھے پسند

گور میں آخر لیٹنا، آنکھیں کر کے بند (۷۶)

 

ملنے جاؤں غیر کو، دھڑکے مورا جی

بے دھڑکے میں گور کو، چلا بلاوے پی! (۷۷)

 

کیوں دلدل میں سوچ کی، دھنستے دھنستے جاؤ

روتے روتے آئے تھے، ہنستے ہنستے جاؤ (۷۸)

یہ بندۂ مومن کی شان ہے۔ ویسے بھی صوفیائے کرام موت کو وصالِ یارسے منسوب کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اپنی اصل سے جڑت اوراُس میں سماجانے کا مقام موت کے توسط سے ہی ہاتھ آتا ہے۔ اس لیے صوفیہ و سالکین کے لیے موت کاسفرخوش کن ہی نہیں، لذت آمیز بھی ہے۔ ان دوہوں سے یہ ترنگ اور اُمنگ پوری طرح ظاہر ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے شاعر نے اس سفرکے لیے بہت کشٹ کھینچے اور اب اس کا پھل ملنے کو ہے۔

 

بقا:

 

فنا کے بعد بقا ہے، وہ بقا جو دائمی ہے، وہ بقاجس کا وعدہ ہے۔ یہ اس کتاب کا ہی نہیں، بلکہ انسانی زندگی کا بھی آخری اور حتمی پڑاؤ ہے۔ یومِ حساب کا دن گزر جانے کے بعد شروع ہونے والی زندگی جو اصل الاصل ہے۔ اس حصے میں خواجہ دل محمد دل فنا کی نفی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ فانی وجود ہے، روح اوراس کی سرشاریوں کو موت نہیں۔ روح اپنی آرائشوں اور آلائشوں کے ساتھ موجود رہے گی۔ شانت وہی ہو گی، جس نے جیون شانت بِتایا۔ فنا تو اصل میں اَنت اَرَمبھ کا میل ہے۔ اس تناظر میں کہے گئے دوہوں میں شاعر تکرار کی صورت میں یہ کہتے ہیں کہ وجود کا عدم ہونا اہم نہیں، بلکہ روح کی موجودگی زیادہ اہم ہے۔ یہ دوہے دیکھیے، جو مکمل معنی آفرینی کے ساتھ کہے گئے ہیں :

فانی فانی کیوں کہیں، نادانی سے لوگ

لافانی سے روح کا، لافانی سنجوگ (۷۹)

 

ماٹی میں ماٹی ملی، روح چلی آکاس

فانی تن کو چھوڑ کر، لافانی کے پاس (۸۰)

کب تک میری موت کو، یاد کریں گے خویش

پی کے من میں جا بسوں، زندہ رہوں ہمیش (۸۱)

روح کہے تن باورے، گھر میرا آکاس

تُو سو رہیو گور میں، مَیں پیتم کے پاس (۸۲)

ہم ساگر کے بُلبُلے، پھولیں اور لہرائیں

دم نکلے تو ٹوٹ کر، ساگر میں مل جائیں (۸۳)

تن ماٹی کی مورتی، رُوح ازل کا پھول

پھُول کھلا آکاش میں، ملی دھُول میں دھُول (۸۴)

بہت خوب صورت اور مؤثر پیرایۂ اظہار میں شاعر نے جسم و روح کے تعلق اور ان کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ مجموعی طور پراس مختصر مطالعے سے جو تاثر اُبھرتا ہے، وہ یہ ہے کہ جدید دوہا نگاری میں خواجہ دل محمد دل کی حیثیت ولی دکنی جیسی ہے۔ انھوں نے ایسا لوچ رس اورایسی چاشنی متعارف کروائی ہے، جس کی تاثیرسے بعد میں آنے والا کوئی عمداً بھی نہیں بچ پایا۔ جس طرح خود خواجہ دل کے یہاں کلاسیکی عہد اپنی پوری رعنائیوں اور تابناکیوں کے ساتھ موجود ہے، اسی طرح ان کی روشن کی گئی شمعوں سے اٹھنے والی روشنی کی پھوار بعد میں آنے والوں کے یہاں کسی نہ کسی زاویے سے ضرور موجود ہے۔ دل محمد نے اگرچہ اپنے دوہوں کو عنوانات کے تابع کیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے موضوعات میں تنوع ہے۔ یہاں محض انھی دوہوں کا انتخاب ہوا ہے، جو عنوان سے لگا کھاتے ہیں، ورنہ ایسے دوہوں کی بھی کمی نہیں، جو الگ عنوان کے متقاضی ہیں۔ عرضِ مدعا یہ ہے کہ اُن کے یہاں بوقلمونیاں ہیں، خوش رنگیاں ہیں۔ احساسات و جذبات کی ترنگیں ہیں، امنگیں ہیں۔ پیت کی ریت ایسا مجموعہ ہے جسے جدید دوہا نگاری کی اساسیت سے کوئی نہیں سرکا سکتا اور نہ ہی اسے کبھی نظرانداز کیا جا سکے گا۔ اس لیے کہ یہ ایک زندہ شاعری کا زندہ حوالہ ہے۔

 

 

 

 

 

محمدالیاس خان، ڈاکٹر/الیاس عشقی

(۲۵ دسمبر۱۹۲۲ء…۱۲ جنوری ۲۰۰۷ء)

 

 

آپ شاعر، نقاد ا ور مترجم ہیں۔ آپ کی پیدائش جے پور بھارت میں ہوئی۔ آگرہ سے ایم اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد مہاراجہ کالج جے پور میں لیکچرار کی حیثیت سے تعینات ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کوٹری آ گئے۔ ۱۹۵۰ء میں ریڈیوپاکستان سے منسلک ہوئے اور۱۹۸۰ء میں اسی ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ آپ کو اُردو، فارسی، سندھی اور انگریزی زبانوں پر دسترس ہے۔ اس کے علاوہ سندھی کی جدید شاعری کے تراجم ’’موج موج مہران‘‘ کے نام سے بھی کیے جوبعد میں شائع بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ فارسی مجموعہ کلام ’’شہر آشوب‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ (۸۵)ایک کتاب ’’گنبدِ بے در‘‘ کے نام سے ہے۔

الیاس عشقی نے چار مضامین، اُردو، انگریزی، فارسی اوراسلامیات میں ایم اے کرنے کے علاوہ جامعہ سندھ سے ’’اُردو شاعری میں مغرب کے اثرات‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ ریڈیو کی ملازمت انھوں نے پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے شروع کی اور پھر کنٹرولر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ آپ کے والد محمداسماعیل خان رزمی شاعر اور معلم ہونے سمیت اُردو، عربی، فارسی، ہندی، راجستھانی اور پنجابی ادب سے بہ خوبی واقف تھے۔ (۸۶)

الیاس عشقی کے دوہوں پر مشتمل مجموعہ ۲۰۰۳ء میں ’’دوہا ہزاری ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے کو انھوں نے چھے عنوانات: ’’ شہر شبداولی‘‘، ’’دوہاولی‘‘، ’’روپاولی‘‘، ’’گرنتھا ولی‘‘، ’’سورٹھاساگر‘‘ اور ’’وچنا ولی‘‘ میں منقسم کیا ہے۔ اشاعت سے قبل اسے ’’عشقی ست سئی‘‘ کا نام دیا گیا۔ ست سئی بہ معنی سات سو ہے۔ خود مصنف کے مطابق جب تعداد زیادہ ہو گئی تو کتاب کا نام ’’دوہا ہزاری‘‘ رکھا گیا۔ اس کتاب کا دیباچہ ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے جمیل الدین عالی صاحب نے رقم کیا ہے۔ انھوں نے دوہے کے وزن، تاریخ اور ارتقاپرسرسری گفتگو کی اورخصوصاًپاکستان میں اس کی روایت پر بات کی۔ عالی جی نے کھلے دل سے الیاس عشقی کی تقدیم کے بارے میں یوں اعتراف کیا:

’’عمر میں حضرت الیاس عشقی مجھ سے سینئراوران سے بھی سینئر خواجہ دل محمد مرحوم… یوں ان دو محترمین کو پاکستان میں تاریخی طور پر دوہا متعارف کرانے کا تقدم حاصل ہے، جس کا میں نے آج کی طرح ہمیشہ کھلے دل سے مدّاحانہ اور محبتانہ اعتراف کیا ہے۔ حضرت الیاس عشقی نے پہلے اپنی ست سئی مرتب کی تھی۔ اس کی اشاعت میں بوجوہ تاخیر ہوئی، ورنہ اس کا عام مطالعہ اور اس پرا ہل نظر کی گفتگو سے اب تک دوہے کی آن بان شان بہت بڑھ چکی ہوتی۔ ‘‘(۸۷)

یہ ایسا اعتراف ہے، جو عرش صدیقی صاحب اور دوسرے بہت سے لوگوں کے اعتراض اور بحث کو رفع کرتا ہے، جوپاکستان میں دوہے کی ابتدا کاسہرا کھینچ تان کر عالی جی کے سرپرسجاتے ہیں۔ عشقی کی عدم مقبولیت یا کم معروفی کے حوالے سے بہت سی باتیں موجود ہیں۔ عرش صدیقی صاحب اسی سبب سے انھیں پوری توجہ سے نہ دیکھ پائے اور کہیں جارحانہ انداز بھی اپنایا، جسے آگے چل کر پیش بھی کیا جائے گا۔ البتہ عالی جی نے اس باب میں جو بیان کیا ہے، وہ بھی توجہ طلب ہے۔ وہ یوں رقم طراز ہوتے ہیں :

’’عشقی صاحب کا آبائی وطن جے پور تھا۔ عددی لحاظ سے انھیں بہاری سے تو کہیں زیادہ جانا جاتا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ انھیں تا حال وہ شہرت نہیں ملی جس کے وہ مدتوں سے مستحق تھے اور ہیں۔ میرے خیال میں اس کی وجوہ تین رہیں۔ اول یہ کہ وہ نہایت ہی بے نیاز اور خود دار انسان ہیں۔ کسی قسم کا سجھوتہ گوارا نہیں کرتے۔ دوسری یہ کہ وہ خالص ہندی بحر میں کہتے ہیں … تیسری یہ کہ وہ واقعی ایک ایسے بڑے شاعر ہیں جو مشکل پسندنہ ہو کر بھی اپنے دور میں کچھ زیادہ نہیں کھلتا۔ ‘‘(۸۸)

ہندی زبان اوراُس کی لفظیات اگرچہ موجودہ عہد کے لوگوں کے لیے کچھ نامانوس ہیں، لیکن قیام سے پہلے اُردو دان طبقہ اس زبان سے اچھی طرح واقف تھا۔ نظیر اکبرآبادی کی شاعری کا بڑا حصہ اسی زبان میں ہے۔ البتہ بحر کی وجہ سے کوئی مشکل نہیں پیدا ہوتی۔ غالباً عالی جی کی مراد زبان ہی ہے۔ ایک اور مقام پر عالی جی کہتے ہیں :

’’جس بحر میں حضرت الیاس عشقی نے ہزار سے زیادہ اور ڈاکٹر خواجہ دل محمد نے پانچ سو دوہے کہے، وہ ہندی میں دوہا شاعری کی سب سے زیادہ مستند بحر ہے۔ مجھ جیسوں کے لیے تو، یعنی میرے ’’غنائی‘‘ مزاج کے لیے خاص مشکل بھی ہے۔ ‘‘(۸۹)

یہاں اُن کی بات سے جو نکتہ نکلتا ہے، وہ غنائیت اورموسیقیت ہے۔ ان کے نزدیک دوہا چھند میں غنائیت کم ہے اورشایداسی وجہ سے نئے عہد کے اُردو شعرا اس طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ لیکن بحر کا زبان سے، بہ ہر حال کوئی تعلق نہیں۔ جہاں تک اس زبان کا تعلق ہے تو ’’پیت کی ریت‘‘ میں مولاناعبدالمجیدسالک اور مولانا چراغ حسن حسرت بہت وضاحت سے کہہ چکے ہیں کہ یہ اُردو ہی ہے، اسے ہندی کسی بھی طرح نہیں کہا جا سکتا۔ عالی جی کے واضح اعتراف کے بعد اب عرش صدیقی صاحب کا اظہار دیکھیے، جو انھوں نے عمداً یا غیر ارادی طور پرالیاس عشقی صاحب کے ضمن میں کیا۔ کہتے ہیں :

’’جو کچھ لکھا گیا اور اب تک لکھا جا رہا ہے، وہ یا تو عالی کے تتبع میں ہے یاپھراس کے خلاف ردِ عمل کی صورت میں۔ اگر عالی نے دوہا نگاری نہ کی ہوتی تو سلیم جعفراورمحمدحسن عسکری سے لے کر الیاس عشقی اور عادل فقیر[عرش صدیقی ] تک کوئی بھی شخص ہمارے ہاں نہ تواتر اور حوصلے سے دوہے تخلیق کرتا نہ اس صنف کے بارے میں کچھ لکھنے کا حوصلہ آسانی سے کر سکتا۔ ‘(۹۰)

اس بیان سے صدیقی صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے گویا عشقی صاحب بہ ہر حال عالی جی کے ردِ عمل میں اور ان کے بعد آئے۔ کیوں کہ الیاس عشقی کے دوہوں کی زبان پراکرت یابرج بھاشا ہے اور ان کی بحر بھی دوہا چھند ہے، جو دوہا کے لیے مخصوص ہے۔ اپنی بات کی پختگی کے لیے صدیقی صاحب مزید لکھتے ہیں :

’’الیاس عشقی کے حوالے سے یہ بات اس لیے اہم ہے، کہ ان کے دوہوں کا مزاج کسی بھی طور ہندی کی اس روایت سے الگ نہیں ہوتا جو دوہے کو عورت کے ذکر سے مرد کے لیے تلذذ کا ذریعہ بناتی ہے۔ دوہے کے جدید دور میں جناب الیاس عشقی دوہے کی قدیم روایات کے سب سے بڑے امین ہیں۔ ان کے ہاں کسی بھی حوالے سے عصری رجحانات اور موضوعات کا اضافہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ ‘‘(۹۱)

اگر عرش صدیقی صاحب کا یہ خیال تسلیم کر لیا جائے کہ عالی جی کے تتبع میں الیاس عشقی صاحب نے لکھا ہے تو یقیناً انھیں پھر ’’عالی چال‘‘ سمیت عالی جی کی زبان بھی استعمال کرنا چاہیے تھی۔ لیکن صدیقی صاحب غالباً الیاس عشقی کو رد عمل کا شاعر تسلیم کرتے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ عالی جی الیاس عشقی کو خود سے سینئراوراستاد شاعر تسلیم کر چکے ہیں۔ اُصولی طور پرالیاس عشقی صاحب کے اپنے بیان کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔ آئیے دیکھتے ہیں، وہ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

’’میں اپنے ساتھ ہمیشہ دیوان غالب، دیوان حافظ، تلسی داس کی رام چرترمانس (رامائن)اور بہاری داس کی ’’ست سئی‘‘ رکھتا تھا۔ لیکن کوئی چار پانچ سال پہلے ’’ست سئی‘‘ دیمک کی نذر ہو گئی تھی۔ اس لیے میں نے سب سے پہلے اس کا ایک نسخہ ایک دوست کے ساتھ جا کر خریدا، جس کو دوہوں سے میرے انہماک اور دلچسپی کا علم تھا۔ اس نے یاد دلایا کہ میں نے اس کی فرمائش پر زمانہ طالب علمی میں دس بارہ دوہے کہے تھے۔ جو میں بھلا چکا تھا، اُسے تین دوہے یاد تھے، ایک مجھے یاد آ گیا، وہ محفوظ کر لیے۔ اور ست سئی میں شامل کیے گئے۔ (۹۲)

گویا عشقی صاحب کی دوہا نگاری کا نقطۂ آغاز ان کے طالب علمی کے ایام سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ انھوں نے باقاعدہ اس فن کی طرف بعد میں توجہ دی۔

عشقی کے دوہوں کا خاص امتیاز یہ ہے، کہ ان میں دوہوں کے مروج تمام یا کم و بیش زیادہ مضامین کو برتا گیا ہے۔ موضوعاتی تنوع میں دوہوں کے مختلف انداز اور زاویوں کو بھی برتا گیا ہے۔ روایتی ناموں کی موجودگی سے دوہوں کی اقسام بھی واضح ہوتی ہیں۔ فنی اعتبارسے ان دوہوں کی وساطت سے سیکھنے اور ماضی کی روایت کو سمجھنے میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے۔ خودالیاس عشقی صاحب کا اس حوالے سے بیان اہمیت سے خالی نہیں ہے، ملاحظہ ہو:

’’یہ اُردو میں اپنی قسم کا شاید پہلا اور آخری مجموعہ کلام ہے۔ اس کی تکمیل و تذہیب و ترتیب و تدوین کی وجہ بھی ایسی ہی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے مرتب کو کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ اس لیے کہ کوئی شاعرانہ مشق یا تجرباتی کوشش شاعری کی تعریف میں شاید نہیں آتی۔ ‘‘ (۹۳)

آگے چل کر کہتے ہیں :

’’یہ ہے دوہا ہزاری جو ایک غیر معمولی مجموعہ ہے۔ اور جسے میں بغیر کسی معذرت کے اہلِ ذوق کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ‘‘(۹۴)

اور یہ بیان بھی دیکھ لیجیے :

’’دوہا ہزاری کی شاعری کے بارے میں میرا کچھ عرض کرنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ اتنا بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس کی ایک اکیڈمک اہمیت ضرور ہے۔ اس لیے کہ دوہوں کی شاعری سے متعلق جو باتیں ایک جگہ آئی ہیں، وہ ہندی میں بھی اس طرح کسی ایک جگہ موجود نہیں۔ ‘‘(۹۵)

یہاں دو باتیں خصوصیت کے ساتھ سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ عشقی صاحب ان دوہوں کی زبان کے اُردو ہونے کا اصرار کر کے معترضین کا جواب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دوسری یہ کہ لفظ ’’مرتب‘‘ اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ ان دوہوں کی تکمیل میں ساراتخلیقی عمل نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اخذواکتساب یا انتخاب کی کیفیت ہے۔ اس بات کی وضاحت بھی خود انھی کی زبانی ہوتی ہے۔ یہ اظہاریہ دیکھیے :

’’دوہا ہزاری کے تمام دوہے طبع زاد نہیں ہیں۔ چوں کہ دوہوں کے مضامین کے علاوہ اصل دوہوں سے تعارف بھی مقصود تھا۔ اس لیے مشہور دوہوں سے آزادانہ اخذ و استفادہ کیا گیا ہے۔ ‘‘(۹۶)

دوہا ہزاری کے مصنف نے اپنی زبان کے حوالے سے جو نظریہ پیش کیا ہے، اُسے دیکھ لینا بھی لازم ہے۔ اس لیے کہ عرش صدیقی صاحب نے اپنی رائے میں اسے ہندی ہی کہا ہے۔ بحر اور زبان کے حوالے سے صدیقی صاحب کا یہ اظہاریہ توجہ طلب ہے۔ اس کے بعد ہی عشقی صاحب کی رائے کو دیکھا جائے گا، ملاحظہ ہو:

’’جناب الیاس عشقی نے خود دوہے لکھنے میں سخت احتیاط برتی ہے۔ اور وہ دوہا چھند کے پابند رہے ہیں۔ قدیم رنگ میں ان کے دوہے آج کے دور میں یقیناً مکمل اور بے مثال ہیں۔ انھوں نے قدیم بحر ہی نہیں بلکہ دوہے کے تمام اوصاف یعنی فضا، زبان و بیان، اور موضوعات و خیالات کو بھی پوری طرح قائم رکھا ہے۔ اور کوشش کی ہے کہ ان میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ انھوں نے حتی المقدور اُردو زبان کے رائج الفاظ کو بھی دوہوں میں نہیں آنے دیا اور نہ ہی کوئی موضوع اپنے عصر کا دوہوں میں داخل ہونے دیا۔ ‘‘(۹۷)

یہ بیان سخت ہی نہیں، بلکہ انتہاپسندانہ بھی ہے۔ اس لیے کہ یہ زبانوں اور ذہنی ارتقا کے اُصولوں سے متصادم ہے۔ کیوں کر ممکن ہے کہ کوئی شخص یا زبان ایک ہی جگہ جامد رہیں۔ کسی رنگ کا غلبہ توتسلیم کیا جا سکتا ہے، لیکن کسی ایک مقام سے چپک جانا ممکن ہی نہیں۔ اب عشقی صاحب کا زبان کے ضمن میں نظریہ ملاحظہ ہو:

’’میں اُردو زبان کے متعلق اپنے عقیدے کی وضاحت کر دوں، میرے نزدیک اُردو زبان کے تین روپ ہیں۔ ان میں سب سے پہلا روپ امیر خسرو کی زبان ہے۔ جسے عام طور پر لوگ پوربی زبان کہہ دیتے ہیں۔ لیکن پوربی کوئی زبان نہیں۔ وہاں کئی زبانیں، جن میں مماثلت ہے، رائج ہیں۔ ان میں سے ہر زبان کو لوگ پوربی کہہ دیتے ہیں۔ مگر امیر خسرو کی زبان برج بھاشا ہے نہ اودھی نہ بھوجپوری نہ بُندیلی، بلکہ اس میں ان سب سے مماثلت ہے۔ اگر غور سے دیکھیں تو امیر خسرو کی پہیلیاں، مکرنیاں، دوسخنے، انمل، ڈھکوسلے، گیت اور راگوں کے بول اور بعض دوہے، جوان کے نام سے مشہور ہیں۔ اپنی خصوصیات میں کھڑی بولی سے قریب تر ہیں۔ جس سے اُردو پیدا ہوئی۔ اور جو اُردو کا اولین عوامی اور وسیع روپ ہے۔ امیرخسروکواُردو اور ہندی دونوں زبانوں کا اولین شاعر سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ دونوں زبانیں بنیادی طور پر ایک تھیں۔ بعد میں سیاسی اغراض و مقاصد کے تحت علیحدہ زبانیں ہو گئیں۔

کھڑی بولی کا عام ادبی روپ بھارتیندو ہرش چندر کی زبان ہے۔ ان کی زبان اور اُردو میں فارسی، عربی اور سنسکرت الفاظ کے تناسب کا فرق ہے۔ کھڑی بولی کے اس دور تک اُردو کا یہ دوسرا رُوپ ہے۔ تیسرا رُوپ وہ ہے، جو اُردو کا ادبی روپ ہے اور حسن شوقی، نصرتی اور محمد قلی قطب اور ولی سے ہوتا ہوا مظہر جانِ جاناں خان آرزو کو شامل کرتے ہوئے میر، سودا اور خواجہ میر درد تک آتا ہے۔ اور جواب تک اُردو زبان کا ادبی روپ ہے۔ یہ روپ بھارتیندو ہرش چندر کی زبان سے علیحدہ ہو گیا ہے۔ اس طرح دوہا ہزاری جس میں عشقی ست سئی شامل ہے۔ امیرخسرو کی زبان سے قریب قریب رہی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ اس میں بعض مشکل الفاظ آ گئے ہیں۔ یہ بہت نامانوس نہیں ہیں۔ اس لیے مجھے عرش صدیقی کی رائے سے اتفاق نہیں۔ ‘‘(۹۸)

اگرچہ الیاس عشقی کے دوہوں، ان کی بحر، ان کی زبان کے رَد و قبول میں بحث کچھ طویل ہو گئی ہے۔ لیکن ایک اہم اور اپنے عصر میں زیادہ توجہ طلب مجموعے کے ضمن میں اس کی گنجائش بہ ہر حال موجود ہے۔ جس طرح اُوپر بیان کر آیا ہوں، کہ یہ کتاب اپنے مضامین، تکنیک اور ہیئت کے اعتبارسے جہاں دوہے کے مزاج کو سمجھنے میں ممد و معاون ہے، وہاں نئے لوگوں کے لیے کئی راستے کھولتی ہے۔ اس لیے اس پر تفصیلی بات واجب ہے۔

جہاں تک موضوعات کی بوقلمونی اور اثر پذیری کاسوال ہے، تو یہ نہایت اہم اس لیے بھی ہے، کہ دوہا ایک زمانے تک پند و نصائح کے آلہ کے طور پرمستعمل رہا ہے۔ اس لیے عمومیت، بلکہ ایک مقام پرجا کروسعت اور تکرار کا جو عنصر نمایاں ہوتا ہے، وہ اسی پیرائے میں دیکھا جانا چاہیے۔ مسلمان صوفیا، سنتوں اور بھگتوں کی بنیادی ضرورت جب دوہے کے توسط سے پوری ہو رہی تھی۔ یا پھر کچی مٹی کی مہک میں نمو پانے والے جذبوں کا اظہار ہوتا تھا تووہ اسی زبان و فضا میں ہی زیادہ نمایاں ہو سکتا تھا۔ جو عشقی صاحب اور ان جیسے دوسرے لکھنے والوں نے اختیار کی۔ پھر دوہے کا خاص مزاج اور ذائقہ اگر معدوم ہو جائے، توایسی شاعری کو دوہا کہنے پر اصرار ایک الگ سے انتہا ہے۔ یہاں ارتقا کا عمل بہ ہر حال موجود رہتا ہے اور اسے تسلیم کیا جاتا ہے، مگر روایت کو اُکھاڑ کر پھینک دینے کا رویہ کسی طور مناسب نہیں۔ اس لیے کہ روایت نسلِ آیندہ کی امانت ہوا کرتی ہے۔ اُسے پورے احترام اور توجہ کے ساتھ منتقل کرنا واجب ہے۔

اب عشقی صاحب کے دوہوں کی پرتیں اُتاری جائیں گی اور دیکھا جائے گا، کہ کس طرح انھوں نے اپنے موضوعات، ہیئت اورساخت کو متشکل ومجسم کر کے پیش کیا ہے۔ چوں کہ دوہا ہزاری عنوانات کی پابند ہے، اس لیے یہ جائزہ بھی اسی طرح مرحلہ وار ہو گا۔ دوہا ہزاری کا آغاز ’’حمد و نعت‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس عنوان تلے مجموعی طور پر پندرہ دوہے ہیں۔ یہ حمدیہ دوہے ملاحظہ کیجیے :

 

آپ ابتدا خلق کی، آپ ہی خود انجام

سارے نام اُسی کے ہیں، پھر بھی ہے بے نام

اپنی خود تشبیہ ہے، اپنی آپ مثال

اپنی حقیقت آپ ہے، اپنا آپ خیال

اب نعتیہ رنگ دیکھیے :

سرداری کونین کی آئی جس کو راس

اسی کو خاک اور نور کے زیبا دونوں لباس

 

مردہ دلوں کو حرف ہے، جس کا آبِ حیات

اس کی شفاعت حشر میں ہو گی، وجہِ نجات (۹۹)

یہ دوہے عام فہم زبان میں اورسامنے کی باتوں پر مشتمل ہیں۔ نہ تشبیہات کی بوجھلاہٹ اور نہ استعاروں کا وزن۔ ایک اور عنوان ’’ابتدائیہ ‘‘ ہے۔ اس میں اکیس دوہے نظم کی صورت میں ہیں۔ ان دوہوں میں کلاسیکی عہد کے دوہا نگاروں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ عشقی کے ممدوحین میں خسرو، کبیر، سورداس، تلسی داس، ملک محمدجائسی، رحیم، کیشو داس، رس کھان، متی رام، بہاری لال وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ جھکاؤ عشقی کا بہاری لال کی طرف رہا ہے۔ اس کی وجہ ایک یہ ہے، کہ خود اُن کی دوہا نگاری بہاری لال کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ یہ خراج تحسین دیکھیے :

ملا بہاری لال سے دوہوں کو وہ مان

لے گیا اپنے ساتھ جو فردوسی ارمان

 

ایک بہاری ست سئی، اشرفیوں کے مول

ایک یہ عشقی ست سئی، جائے نہ کوڑی تول(۱۰۰)

دوہا اوراس کی اقسام کے ذیل میں عشقی نے بہت خوب بحث کی ہے۔ اس بحث سے جہاں دوہے کے اوزان کا پتا ملتا ہے، وہاں دوہوں کی رائج اقسام کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس حصے کو ’’دوہا چھند کلا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو:

دوہا:

جو کوئی دوہا کہے، اس کا رکھے دھیان

چار چرن دو دل میں ہوں، ماترے ایک سمان

 

دو دل چرن چار ہوں، تُک آخر میں آئے

کُل چوبیس ہوں ماترے، تو دوہا کہلائے

 

تیرہ گیارہ ماترے دونوں دلوں میں جان

یہی ہے دوہا چھند کی ’’پنگل ‘‘ میں پہچان

سورٹھا:

دو چرنوں کا ایک دل، دو دل دوہا ہوئے

اس دوہے کو اُلٹ دو، بنے سورٹھا سوئے

 

دوہا اُلٹا جائے تو نام کو اپنے کھوئے

گیارہ تیرہ ماترے گنتی اُلٹی ہوئے

ڈِنگل:

ایسے چھند میں روپ ہیں ’’ڈنگل‘‘ میں اب تین

دوہا سورٹھا لائیں تو یہ ہون پانچ نگین

بڑا دوہا:

پہلا دل ہو سورٹھا، دوجا دوہا لائے

ایسا چھند جڑے تو پھر دوہا بڑا کہلائے

تونبیری دوہا:

پہلا دل دوہے کا ہو سورٹھا دوجا جان

تونبیری دوہے کی ہے سہج یہی پہچان

کھرا دوہا:

دوہے کا دوہا رہے اور سورٹھا ہوئے

اُسے کھرا دوہا کہے جانے بھید جو کوئے

پنچ کھنیا دوہا:

پنچ کھنیا دوہا کہے جب کوی موج میں آئے

دوسرے دل کے انت میں اور اک چرن بڑھائے

دوہا نیابنائے

چھے کھنیا دوہا:

چھے کھنیا میں مستزاد دونوں دلوں میں لائیں

دوہا کلا نبھائیں

چار جگہ پر چار تُک، ٹھیک ٹھیک بٹھلائیں (۱۰۱)

دوہا بانی کے لیے وضع کردہ یہ اُصول اگر آج کوئی اختیار کرے، تو یقیناً اُس کے لیے بہت آسانی ہے اور یہ جو الیاس عشقی صاحب کا کہنا ہے، کہ ان کی مکتبی حیثیت ہے، تو یہ اسی تناظر میں خاص ہے۔ دوہے کے وزن اور مزاج پر بہت زیادہ بحث ہمارے یہاں ہوئی ہے۔ خصوصاً جمیل الدین عالی کی اختیار کردہ بحر کے حق میں بہت سے دلائل دیے گئے اور ’’دوہا چھند‘‘ کو خالصتاً ہندی دوہے سے جوڑنے کی کوششیں ہوئیں۔ ان متذکرہ دوہوں سے وہ مخصوص فضا بھی رفع ہوتی ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے، کہ اصل وزن وہی سمجھا جائے گا، جوکلاسیکی دوہے کا امتیاز ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نئے وزن کو بھی قبول کر لیا جائے یاپسندیدگی کا درجہ نصیب ہو۔ ’’دوہرا‘‘ کے باب میں مزید بارہ دوہے ہیں، ان میں سے یہ وضاحت کے لیے بہت کارگر ہیں :

کہنے کو تو تین سو چونسٹھ ہیں اوزان

راس نہ آیا دوہے کو کوئی ’’بگر‘‘ سمان

 

اس کی کوئی مخالفت اور نہ کوئی دفاع

فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فاع(۱۰۲)

عروض کے وضع کردہ ارکان کی اس وضاحت سے تمام ابہام ختم ہو جاتے ہیں۔ البتہ ہمارے یہاں ’’عالی چال‘‘ کی پسندیدگی کا رجحان اگرچہ اب تک تضاد کی صورت میں ظاہر ہوا ہے، لیکن حق یہ ہے کہ اب اس بحث کو ختم ہو جانا چاہیے۔ اس لیے کہ اُردو کی دوسری اصنافِ سخن بھی اپنی روایت سے کہیں بہت آگے جا چکی ہیں، تو دوہا کیوں ارتقا آشنا نہ ہو؟ اسی خیال کوالیاس عشقی نے یہ پیرایہ عطا کیا:

یوں اگلوں کی ریت کا پڑے گا آگے کام

نئے دوہے کا ہم رکھیں اگر دوہرا نام

 

عالی جی کو نہ آئے گر دوہرا نام پسند

وہ کہیں ’’عالی چال‘‘ تو میں کہوں ’’عالی چھند‘‘ (۱۰۳)

الیاس عشقی دوہا بانی کے اوزان، رنگوں اور تیوروں کے بیان کے بعد جب ’’شہرِ شبداولیٰ‘‘ میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے ہیں تواس سے پہلے یوں دل کی بات زبان پر لاتے ہیں :

اپنا دوہا سورٹھا، پیش کیا نہیں جائے

چھب سے ’’گلابی شہر‘‘ کی میری کلا لجائے

 

شبد نہیں ان کو کہو اُلٹی سیدھی لیک

پھر بھی کوِتا ہے مری اسی شہر کی بھیک

 

آنکھیں آنسوؤں سے کوئی جب تک اپنی نہ دھوئے

روپ ’’گلابی شہر ‘‘ کا ان میں کیسے سموئے !

 

موتی آنسو بوند کے شبد سمجھ کے پروئے

تب کہیں شہر شبد اولی، عشقی پوری ہوئے (۱۰۴)

یہاں شاعر کا عجز بھی ظاہر ہے اور گلابی شہر جے پورسے محبت بھی۔ شاعر کا مولد وقریۂ اجداد ہونا بھی ایک سبب ہے، لیکن دوہا بانی کی روایت اور مسکن ہونے کی وجہ سے بھی جے پور قابل قدر ہے۔ پھر بہاری لال کا حوالہ از خود دل کو جھکا دیتا ہے۔ اس عجز کے اظہار کے بعد شاعر گلابی شہر میں داخل ہوتا ہے۔ ندامت اور جھکی ہوئی نظروں کے ساتھ۔ اپنے آپ سے سوال کرتا، پوچھتا، جانچتا ہوا بڑھتا ہے۔ آئیے شہر شبداولی کا سفرشاعرکی آنکھوں سے کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس دوہا کوی نے اپنی جنم بھومی کے ساتھ کیوں کر محبت کاسلسلہ اُستوار رکھا۔

 

شہر شبد اولی:

 

ایک جنم کے بعد تم اس بستی میں آئے

کہو کہ خالی ہاتھ ہو یا کچھ ساتھ بھی لائے

اس بستی کی بات کیا، دل کو ملا سکھ چین

مڑ مڑ کے دیکھوں ہر گلی اور تھکیں نہیں نین

 

اس کے باسی خوش رہیں، جئے گلابی شہر

اس کی ہواؤں سے اُٹھے سپنوں کی سی لہر (۱۰۴)

ان دوہوں سے شاعر کی وارفتگی اور اپنے شہر اوراس کے باسیوں سے وابستگی اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ زبان آج کی رائج اُردو سے قطعی مختلف نہیں ہے۔ ایک آدھ لفظ بھی ایسا نہیں جونامانوس ہو۔ اس حصے میں اٹھارہ دوہے ہیں، جو ایک ہی خیال کو منظوم کرتے ہیں۔ وہ خیال جواس گلابی شہر کے پڑاؤ کے دوران شاعر کے ذہن میں جگمگاتا ہے اور وہ پوری شدت اوراحساس کے ساتھ اُسے قلم بند کر دیتا ہے۔

شہر شبداولی کا ایک ذیلی عنوان ’’اُجڑی سبھا‘‘ ہے۔ یہ در اصل دوستوں کی انجمن ہے، جو اُجڑ گئی ہے اور شاعر کو دوستوں اور تعلق داروں کی یاد ستاتی ہے۔ وہ اپنے احساسات و جذبات کو یوں قلم بند کرتا ہے، جیسے اپنے بچھڑے ہوؤں کو پکارتا ہو۔ انھیں احساس دلاتا ہو کہ کوئی انھیں یاد کر کے دکھی ہے۔ اس حصے میں بھی وہی نظمیہ انداز ہے۔ مسلسل گفتگو ہے۔ مجموعی طور پر۶۷دوہے ہیں۔ جن شخصیات کا تذکرہ ہوا ہے، اُن کے اسماکچھ یوں ہیں : مکرم، احمر، زیب منور خان، اثر امین الدین، نازش، عارف، طالب، عاصم، ظہیر، امیر، کوثر، شاغل، تنویر، قمر شاہ، احمد علی، رزی، حافظ یوسف عزیز، انور علی شاد، صبا طوطیِ راجستھان، عیسیٰ میاں بسمل، یوسفی خان عبدالکریم، حامی دین، خیری، طاہر نقوی، نور محمد خان، شاہ نیاز، شاہ عزیز، مولوی عبدالسلام، افضل، فاضل، الہ دین، عبدالصمداسلام، تقوی مہر حکیم، ولی احمد خاں، مصرجے لال، کتھک آچاریہ، حافظ مبارک علی، جے پایس، کنور اعظم خان خسروی، میکش، نند لال، شمیم، پسٹن جی جہانگیر، احسان علی خان اور مرزا نعیم الدین خاں۔ جے پور کے ان لوگوں کی یادیں شاعر کے سینے میں پیوست ہیں۔ یہ اظہار دیکھیے جوان کا اضطراب ظاہر کرتا ہے :

عشقی ایسا تو نہ تھا حافظ ؔ کا انداز

دستک اس کے گھر پہ دی پلٹ آئی آواز

 

دور سے آئیں اور یہاں پتہ نہ اُن کا پائیں

اے نگری تو ہی بتا کہاں ڈھونڈنے جائیں (۱۰۵)

حافظ نا بینا تھے اور پورا نام مبارک علی تھا۔ شہر جے پور کے دانش مندوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ چاند نرائن مہر کی جدائی پر عشقی صاحب نے ’’بُری خبر‘‘ کے عنوان تلے ۱۷ دوہے لکھے ہیں۔ ایسی منظر کشی کی گئی ہے کہ قاری اُداس ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسانوں کی دُنیا میں جب کوئی انسان کے لیے ترس جائے تو یقیناً وہ جنگل ہی ہو سکتا ہے، انسانی معاشرہ نہیں۔ ۱۹۸۰ء میں جب شاعر جے پور جاتے ہیں اور وہاں ان کی کس مپرسی دیکھتے ہیں، تو تڑپ اٹھتے ہیں اور یوں گویا ہوتے ہیں :

کلجگ میں اُلٹی ہوئی ایسی جگت کی ریت

آدمیوں سے اٹھ گئی بندر میں رہی ریت (۱۰۶)

اس عرصے میں حافظؔ کی جلوت و خلوت کاساتھی ایک بندر ہی تھا اور بہ قول شاعر وہی وفادار تھا، اگرچہ کبھی کبھار انھیں زخمی بھی کر دیتا تھا۔ یہ حالت اُس شخص کی ہے، جس کے اچھے دنوں کا منظر شاعر نے یوں کھینچا ہے :

وہ بھی دن تھے ہر کوئی جب تھا ان کا میت

سمے جو بدلا جگت کی بدل گئی وہ ریت

 

وہ بھی دن تھے ناریاں کر کے سولا سنگھار

ان کی چھب پر اپنا من خود دیتی تھیں وار (۱۰۷)

بے چارگی اور بے بسی کا یہ عالم اگرچہ ہر ایک پر نہیں آتا، لیکن یہ منظرضرورانسان کو زندگی کے کسی پڑاؤ پر اپنی جھلک دکھا جاتا ہے۔ وہ بہت سے لوگ جو اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں، وقت بدلے تو بدل جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ڈھلتی عمر میں کوئی محبتیں نچھاور نہیں کرتا۔ یہ تحفہ تو جوانی کا ہے جو جوانی کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتا ہے۔

اگلا بیان اس سے بھی شوریدہ تر اور جذباتی ہے۔ شاعر گزرے ہوئے ماہ وسال میں اپنی محبتوں اور جذبوں میں یوں گم ہے، جیسے اُن گھڑیوں کواحساس کی سطح پر مجسم کرنا چاہتا ہو۔ احساس کی کٹھنائیوں کے یہ اظہاریے دیکھیے، جو سینے کے آر پار ہوتے ہیں اور لہولہان کر جاتے ہیں :

اس سے بچھڑ کر کس طرح گذرے اتنے سال

روؤ تم اپنی پیر کو اس کا نہ جانو حال

 

اس چندن سی گات کی باس ہوا نہیں لائے

پھر بھی جاگتی آنکھ سے سپنا سا دکھلائے

 

چاند سا مکھڑا کہاں کہاں کیس سی رات

کان میں امرت گھولنے والی کہاں وہ بات

 

رہے نہیں وہ دھوم تھی جن کی چاروں دانگ

عشقی بیچ بجار میں خیر سبھی کی مانگ

 

تم سیلانی چیوڑے کہاں سے عشقی آؤ

نکلے تھے کس کو ڈھونڈھنے، کون دیس کو جاؤ(۱۰۸)

یہ کتھا بارہ دوہوں کو محیط ہے اور ہر ایک من کے تار ہلاتا ہے۔ ایک ہجر گزیدہ کی بپتاسناتا ہے اوراحساس کو گھائل کرتا ہے۔ تقسیم ہندوستان کے بعدایسی ہزارہا کہانیاں اِدھر اور اُدھر والوں کے حصے میں آئیں۔ خود شاعر نے ایک مقام پرایسا اعتراف کیا ہے، جو اُن کے دُکھ کو جو جے پور سے جڑا ہوا ہے، واضح کرتا ہے، کہتے ہیں :

’’مجھے اعتراف ہے کہ خود سے کیے ہوئے اپنے وعدے کو میں نباہ نہ سکا اور ایک بار میرا جے پور جانا ہوا۔ بادل نہ خواستہ مگر وہاں پہنچاتوانتیس تیس سال گزرنے کے بعد بھی ایسامحسوس ہوا جیسے وہاں سے کبھی گیا ہی نہ تھا۔ ‘‘(۱۰۹)

اگلے چار دوہے ’’ بہاری کی سیو امیں ‘‘ ہیں۔ یہ رنگ ملاحظہ ہو:

بہ گئے اپنے دُکھ میں کیوں اتنے عشقی داس

کوی بہاری لال بھی ہو گئے ہوں گے اُداس

 

دھیان میں ان کی ’’ست سئی ‘‘ دوہا دوہا لاؤ

پھر بھی تم کوتا کرو، جو کچھ ان سے پاؤ

 

ان کی بڑی سرکار ہے، کرو نہ من کو ملول

معمولی دوہوں کو بھی وہ کر لیں گے قبول (۱۱۰)

اس باب کا آخری عنوان ’’پھُٹکل دوہے ‘‘ سے موسوم ہے۔ اس میں ۵۶ دوہے شامل ہیں، جو ایک دوسرے میں پوری طرح پیوست ہیں۔ ایک کہانی ہے، ایک کتھا ہے، جو شاعر بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ وہی مانوس لہجہ اورمانوس زبان ہے جو ابھی تک ہمارے مطالعے میں آ چکی ہے۔ سمجھنے میں کوئی مشکل اور نہ کسی ابہام سے واسطہ۔ یوں جیسے صاف سیدھے راستے پر ندی بہتی جاتی ہو۔ یوں جیسے ہوائیں کسی رکاوٹ کے بغیر وادی میں خراماں خراماں چلتی ہوں۔ کچھ دوہے ملاحظہ کیجیے، جوحسن و عشق کی کتھا تو ہیں ہی، ملن و جدائی کی بپتا بھی ہیں۔

اور اُبھارے اوڑھنی ان نینوں کا رُوپ

جوں پھولوں کی ڈالی سے چھن کر آئے دھوپ

 

ملن تمھارے ہاتھ تھا اور نہ ہمارے ہاتھ

چھوڑا اکیلا کب ہمیں سدا رہا دُکھ ساتھ

 

برسیں نیناں من جلے، جیا مورا گھبرائے

برہ کا موسم ایک ہے بدل نہیں رُت پائے

 

وقت پڑے تو بھول کر سارے قول قرار

پار لگانے آئے تھے، چھوڑ گئے منجدھار

 

جیبھ جلے اور من پھُنکے ہر دم رہوں نڈھال

لاج کی ماری چپ رہوں، کہانہ جائے حال(۱۱۱)

 

دوہا ولی:

 

اس باب میں مجموعی طور پر۲۸۶ دوہے شامل ہیں۔ ہر دوہا کسی نہ کسی عنوان کے تحت ہے۔ گویا یہاں بھی عنوانات کا التزام کیا گیا ہے۔ الیاس عشقی کے یہاں خیالات کا مربوط نظام ہے۔ جو اپنے قاری کو ایک خاص جذبے کے تابع رکھتا ہے۔ یہ سرنامے ملاحظہ کیجیے جو اپنی کہانیاں خودسُنا رہے ہیں : ’’ بھید، سمرن، دودھ، دان، مٹی، تن تنبور، پُرکھا بانی، بھائی، بچن، کلہاڑی، بیج، چندن، روکھ، کنول، آنکھیں، ناری، کنواری بیاہی، زر زمین زن، مایا، موہ، باس، کستوری، بنجارا، نیچے نین، پاتی، راجا  رنک، اندھیرا اُجالا، تلوار، ہیرا پارس، گھوڑا، بیل کولہو، ناگ، دھیان، چاندنی، جھیل، ستی، بپتا، چکّی، کپوت، گھٹا، نیچ، سرحد، تریاہٹ، نین بان، آنکھ اوٹ، سوئی، راگ رنگ، پنکھ پکھیرو اور پریوار‘‘ ان تمام عنوانات کے تابع مضامین جہاں شاعر کی کتھا ہیں، وہاں اجتماعی محبتیں، نفرتیں، احساسات و جذبات کا بھی بیانیہ ہیں۔ کہیں کہیں ان کا رنگ جگ بیتی دکھائی دیتا ہے تو کہیں آپ بیتی۔ لیکن خاص بات یہ ہے، کہ ہر دو رنگوں میں قاری یوں بندھا رہتا ہے، جیسے اپنی بپتا پڑھ رہا ہو۔ یہ احساس شروع سے آخر تک رہتا ہے، کہ یہ کسی غیر کی کتھا نہیں ہے۔ نہ زبان اجنبی، نہ بیان اجنبی۔ ایسے میں ایک میٹھاسادرد اور خلش ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کچھ دوہے ملاحظہ کیجیے، جواس باب میں آئے ہیں :

دو دن کا پیاسا پئے اور پی کر چھک جائے

چُلّو دو چُلّو بھرے، ساگر گھٹ نہیں جائے

 

دیتا رہ جب تک تجھے دیتا ہے بھگوان

اتنا ہی دھَن بھی بڑھے جتنا دے کوئی دان (۱۱۲)

ان دوہوں میں سخاوت کا درس دیا گیا ہے۔ سخی ہونا اللہ کی صفات میں سے ہے اور جو لوگ اُس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پسندیدہ ٹھہرتے ہیں۔ اس لیے اُن کے مال میں کبھی کمی نہیں ہوتی۔ انسان کی وقعت کا عالم دیکھیے :

 

مٹی سے اُپجا ہے تو، بن مٹی کے سمان

اک دن ملنا ہے تجھے، مٹی میں نادان

ماٹی اور کمھار کی، بات نہ سمجھے کوئے

پاؤں نہ روندے جب تلک، ہاتھ سے کچھ نہ ہوئے (۱۱۳)

یہ دوہے انسان کی ہستی اوراس کی جد و  جہد اور انجام کا بہترین تجزیہ ہیں۔ اجتماعی دانش کے کچھ اظہاریے دیکھیے :

جو جوڑے وہ چھوڑ دے، جو کھائے سو پائے

عشقی پُرکھے کہہ گئے، جو دے وہ لے جائے

 

زر، زن، زمین کچھ نہیں، کچھ نہیں اب کے میت

عشقی پُرکھے کہہ گئے اور چیز ہے پیت

 

بھائی کو بھائی سمجھ تو طاقت بن جائے

بھائی تری تلوار ہے، یہ مت دل سے بھلائے (۱۱۴)

ان دوہوں میں خرچ کرنے والوں اور جمع کرنے والوں کا حال بیان ہوا ہے۔ رشتوں کی خوب صورتیوں اور لالچ سے پردہ اُٹھایا گیا ہے۔ اب یہ دوہے ملاحظہ کیجیے، جن میں زبان کا ڈنک اور طبائع اصل کی شناخت کروائی گئی ہے :

 

ایک بچن وہ، سن کے جو من جاتا ہے جل

ایک بچن من کو لگے جیسے شیتل جل

 

کوئی بچن بے ڈول ہے، کوئی بچن انمول

پہلے من میں تول لے، پھر اپنا منھ کھول

دیکھ کلہاڑی کے جتن، شرم اسے نہیں آئے

دستہ مانگ کے پیڑ سے، جنگل کاٹنے جائے

 

کاتے چندن روکھ کو، کب کا بیر نبھائے

چندن اسی کلہاڑی کو باس سے اپنی بسائے (۱۱۵)

پہلے دونوں دوہے اس اُصول کو بیان کرتے ہیں، کہ یہ الفاظ ہی ہیں، جوسلیقے سے استعمال ہوں تو وقار میں اضافہ کرنے کے ساتھ دوسروں کے دلوں میں جگہ بناتے ہیں۔ اگربدسلیقگی کا شکار ہو جائیں تو عزت جانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے دلوں میں نفرت اور حقارت بھی بڑھتی ہے۔ آخری دونوں دوہے تمثیلی انداز سے احسان فراموشوں کی کتھا سناتے ہیں۔ جس طرح کلہاڑی کو طاقت درخت سے ملتی ہے، وہ اُسی درخت کا تنا کاٹتی ہے۔ جس صندل پر کلہاڑی وار کرتی ہے، صندل اُسے اپنی خوشبو میں لپیٹ کر معطر کر دیتی ہے۔ اپنی اپنی خصلت اور اپنا اپنا مزاج ہے۔

یہ تمثیلیے ملاحظہ ہوں، جن کی وساطت سے نیکوکاروں کی کٹھنائیوں اور مشکلوں کا پتا ملتا ہے :

ہرے روکھ سے پھل ملیں، پتھر اس کے بھاگ

سوکھ جائے تو کاٹ کر اس سے جلائیں آگ

 

موسم کے سب دُکھ سکھ سہے، روکھ کھڑا چپ چاپ

پھل دے اور چھایا کرے، پُن جانے نہ پاپ (۱۱۶)

یہ قرینہ نیک خصلتوں کا موجود ہے، کہ وہ اپنی فطرت نہیں بدلتے۔ بچھو ڈنکتا رہے، لیکن وہ اُسے پانی سے نکالتے رہتے ہیں۔ اس باب میں نصف صد کے قریب نظمیے اور کئی ایک موضوعات ہیں۔ خود شاعر کا بیان دیکھیے :

’’دوہا ولی دوسراباب ہے، جس میں دوہے کے معروف مضامین کاجس حد تک ممکن ہوا، تفصیل اور شرح وبست سے بیان کیا۔ ‘‘(۱۱۷)

اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے جو دوہے کی ریت ہے، وہ یہاں پوری طرح مجسم ہوئی ہے۔ ہر ہر موضوع پر دوہے موجود ہیں۔ قاری کے لیے اس باب میں اتنا کچھ موجود ہے، کہ وہ آسانی سے دوہے کا مزاج شناس ہو سکتا ہے۔

 

روپا ولی:

 

اس باب میں بارگاہِ حسن میں عشق کا بیان آیا ہے۔ آرائشِ جمال کے قرینوں، وسیلوں اور طریقوں کے ساتھ ساتھ ان سے پیدا ہونے والی کیفیات کے اظہاریے یوں چمکتے ہیں، کہ انسانی جبلت کا یہ خاص رنگ پوری طرح واضح ہونے لگتا ہے۔ عورت، اُس کا حسن، اُس کا بناؤ سنگھاراوراُس کی ادائیں سبھی کچھ تواس باب میں شامل ہیں۔ پھر عشق اور اس کی ہمہ رنگیوں سے پیدا ہونے والی تحریک اور جذبے بھی یہاں سراُبھارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ’’نائیکا بھید‘‘ میں عورتوں کانفسیاتی اورجسمانی تجزیہ کیا گیا ہے۔ ’’انگ درپن‘‘ میں اُس کے سراپے کا بیان ہوا ہے۔ عشق کی بو قلمونیوں میں بارہ ابھرن اورسولہ سنگھارکے اظہاریے بھی واضح ہوتے ہیں۔ آخر میں پھُٹکل دوہے، یعنی فردیات ہیں، جو اپنے موضوع میں اکائی ہیں۔ روپا ولی میں نو ذیلی عنوانات ہیں، ان ذیلی سرناموں کے نیچے بھی کئی ایک مزید ذیلی عنوان ہیں۔ جیسے ’’نورس ‘‘ کے تحت شرنگار، ہاسیہ، کرن، رُدر، بیر، بھیانک، بِبھُتس، ادبھت، شانت اور کوتا، کوی وغیرہ۔ عورتوں کی اقسام کے الگ عنوانات ہیں، اسی طرح موسموں اور عشق کی کیفیتوں کے لیے بھی ذیلی عنوانات موجود ہیں۔

پہلا عنوان ’’نورس‘‘ ہے اس میں شاعرانہ جذبوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ یہ ابتدائیہ اس کی خوب وضاحت ہے :

رس پیدا ہو بھاؤ سے، بھاؤ ہیں کیا جذبات

جذبہ نہیں تو کچھ نہیں، بنے نہ چاہ کی بات

 

رس کی قسمیں نو ہوئیں، ہاسیہ رُدر، شرنگار

کرن، بیر، اُدبھت ہوئے، شانت دوسرے چار

 

بِبُبھتس بھیانک مل کے نو ہوئے نیم انوسار

رس ہوتے ہیں اتنے کل پورا ہوا شمار(۱۱۸)

دوسرا عنوان ’’نایکا بھید‘‘ ہے۔ اس میں عورتوں کی اقسام ان ذیلی عنوانات کے تحت بیان ہوئی ہیں : ’’ سُکیا، مگھدا،ا گیات یوونا، گیات یوونا، نیوڈھا، مدھیا، پرکلھا، جیشٹا، کنشٹا، پرکیا، اوڈھا، انوڈھا، گُپتا، کُلٹا، سامانیاں، سندرج گرتا، گنگا، گج گامنی، موہنی، ماننی، کامنی اور پدمنی۔ ‘‘ دوہا کوی کیسے ان اقسام کی وضاحت کرتے ہیں، کچھ مثالیں دیکھیے :

سکیا:

کل کی لاج رکھے سدا ’’سکیا‘‘ جو کہلائے

پیار کرے پریتم ہی سے اور کو دیکھ لجائے

مگھدا:

بھری جوانی کا جسے اپنی ہو احساس

سپنے میں بھی بے غیرتی جس کو آئے نہ راس

ا گیات یوونا:

روز لڑے درزن سے وہ چولی کر دی تنگ

اب تک وہ جانے نہیں، بڑھت پہ اس کا انگ

پرکلھا:

پریت کرے تو پریت کی ہر ہر ریت نبھائے

موقع جیسے ہی ملے، پیا ملن کو جائے

جیشٹا:

بڑی عمر میں ہو مگر ساجن چھوٹا چاہے

اس کی خوشی کو آخری حد تک پریت نبھائے

پرکیا:

عشق کرے اُس مرد سے جو بھی اسے مل جائے

اچھی صورت والے کو سکھ دے اور سکھ پائے

اوڈھا:

اپنے مرد سے چھپ کر جو غیروں سے پریت لگائے

چاہے جسے، اُس سے ملے، ساجن کو بہلائے (۱۱۹)

دوہا بانی کا یہ مقبول موضوع رہا ہے۔ بیشترکلاسیکی عہد کے دوہا نگاروں نے اس باب میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ اجتماعی شعور ہے، جواس خطے کی روایت میں شامل ہے۔

ایک اور ذیلی عنوان ’’نایک برنن ‘‘ ہے۔ اس عنوان کے تحت مردوں کی اقسام بیان ہوئی ہیں، جنھیں ان ناموں سے یاد کیا گیا ہے : ’’ انکول، چھن، دھرشٹ، شٹھ، مانی اورچتر۔ ‘‘یہ وضاحتیں ملاحظہ ہوں :

انکول:

ایک نایک انکول ہے، اس کا ہے یہ ڈھنگ

عمر گزارے اپنی جو، اک عورت کے سنگ

چھن:

وہ نایک ہے جو سدا ہو رنگین مزاج

اک وقت کئی عورتیں رکھے نہ آئے لاج

مانی:

مانی وہ نایک ہے ہو جس کو سدا غرور

پاس نایکا رکھے، پر رہے دل سے دُور(۱۲۰)

اگلا عنوان ’’موسم‘‘ ہے۔ اس میں بارہ مہینوں اور چھے رُتوں کا احوال ہے۔ یہ ذیلی سرنامے اسی موضوع کے متعلق ہیں : ’’بسنت، گریشم، ورسا، شرد، ہیمنت اور ششر۔ ‘‘ذرا گریشم رنگ ملاحظہ ہوں :

پاپی گرمی آ گئی، تن میں لگی ہے آگ

دن گزرے گا پہاڑ سا، رات کٹے گی جاگ

 

لگے پسینے چھوٹنے، آئے جیٹھ اساڑ

جس کے پیا پردیس ہیں، رو رو کھائے پچھاڑ(۱۲۱)

یہ موضوع بھی دوہے کی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ موسموں کے مزاج کے مطابق انسان کے جذبات کی منظر کشی کی جاتی ہے۔ وہ ساری کیفیتیں جو ہجر و وصال کے خانوں میں منقسم ہیں، یہاں پوری طرح روشن ہوتی ہیں۔

’’روپ سروپ‘‘ کے ذیل میں ’’سولہ سنگھار، بارہ ابھرن اورہارسنوار‘‘ جیسے عنوانات ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ سجنا سنورنا دیکھیے :

روپ وتی جب آئے وہ کیسر سے نہلائے

سوچے قد کو دیکھ کر کیسے اسے سجائے

داتن مسی کر کے تن اُبٹن میں بسائے

مانگ بھرے سیندور سے، چندن تلک لگائے

 

سُرما کجرا آنکھ میں، ٹھوڑی پہ نیلا تل

تیل اور کنگھی چوٹی کے فن میں ہے کامل

 

مہندی رچائے ہاتھ میں، پاؤں مہاور دے

تھوڑی تھوڑی دیر میں دیکھے جائزہ لے (۱۲۲)

یہ آرائشِ جمال مردِ حسن پرست کے لیے بڑی تحریک ہے۔ یہی وہ خاص ہتھیار ہے حسن کے پاس، جس سے وہ بڑے بڑے سورماؤں کوپچھاڑ دیتا ہے۔ یہی وہ قرینہ ہے، جس سے محبتوں کے رشتے استوار ہوتے ہیں اور گھروں میں سکون کی فصلیں اُگتی ہیں۔

’’انگ درپن‘‘ میں عورت کے سراپے کا تفصیلی بیان ہوتا ہے۔ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے تلووں تک خوب صورتی اور نازکی شاعر کے قلم سے چھلکتی ہے اور ہر ہر انگ یوں نکھر کرسامنے آتا ہے، اُسی میں قاری محو ہو کر رہ جاتا ہے۔ ذرا عنوانات کی سرسری جھلک دیکھ لیجیے، جس سے انگ درپن کی تفصیل اور بیان کا اندازہ ہوتا ہے۔ ’’ بال، جوڑا، چوٹی، مانگ، ما تھا، گال، مکھ، آنکھ، ابرو، چتون، ناک، ٹھوڑی، ہونٹ، دانت، ہاتھ، انگلیاں، چھاتی، کمر اور پاؤں۔ ‘‘ ان عنوانات سے انگ درپن میں شاعر کے تیوروں کا کیا حال ہو سکتا ہے، بہ خوبی ظاہر ہے۔ کچھ دوہے ملاحظہ ہوں :

جوڑا:

ہنس ہنس سینا تان کر، پیچھے کر کے ہاتھ

من کو بھی باندھے مرے، وہ جوڑے کے ساتھ

مکھ:

کالے بالوں میں سدا وہ مکھ ایسے سہائے

جیسے اندھیری رات میں بجلی چمک دکھائے

آنکھ:

جیسے نکلے اور چھپے، چندا بادل اوٹ

وہ چنچل نیناں کریں، گھونگھٹ میں سے چوٹ

ہاتھ:

چنچل لے کے جمائی جب دونوں ہاتھ اُٹھائے

دھرتی پر آکاش سے بجلی سی گر جائے

 

ہرے پات کے لال گن یوں ہی نہیں سہائے

گوری کے ہاتھوں میں رچے، تب مہندی کہلائے

کمر:

دو ٹکڑے ہو کر کنول اس کی کمر بن جائے

ایک کنک کا تار ان دو ٹکڑوں کو ملائے

 

ایسے پھول گلاب کو گھیریں اس کے پات

نیلی انگیا میں دِکھے، جیسے گوری گات

پاؤں :

نرم انگلیاں پاؤں کی، اُس پر چھلے تنگ

جب وہ جھلک دکھلائے تو، چومے گلابی رنگ(۱۲۳)

حسنِ دل آویز کی یہ منظر آرائی قاری کو باندھ کر رکھتی ہے۔ وہ خود ہی خوداس طلسم کا شکار ہوتا جاتا ہے۔ ان اظہاریوں سے جوسماں بندھتا ہے، وہ حسن کی سرکارمیں با اَدب کھڑا ہونے کاسلیقہ سکھاتا ہے۔ وہ ہنرسکھاتا ہے، جو کسی صاحبِ دل کی آنکھوں کو اُجالتا اور دلوں کوسنبھالتا ہے۔

 

گرنتھا ولی:

 

اس عنوان کے تحت ’’پھٹکل دوہے ‘‘ شامل ہیں۔ یہ فردیات کی صورت میں ہیں اور یہی آج کل زیادہ رائج صورت ہے۔ اس ذیل میں مجموعی طور پر۱۲۹ دوہے ہیں۔ الگ الگ موضوعات اور الگ مضمون کے حامل یہ دوہے دوہا بانی کی مخصوص فضا کو پوری طرح متشکل کر کے قاری کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں۔ مضمون کی بوقلمونیاں اور بیان کی نیرنگیاں شاعر کی قادرالکلامی پر دال ہیں۔ کچھ رنگ بصارتوں میں اُتاریے :

آنکھ ہی اس کو کیوں کہو، جو نہ دکھائے راہ

جیبھ ہے وہ کس کام کی، جو نہ کہے ’’اللہ!‘‘

بوڑھا شیر کچھار میں نہ دے بھوک سے جان

وہیں شکار اس کو ملے دین ہار کا دان

اوروں کو کیا لوٹنا، ہاتھ نہیں کچھ آئے

اپنا آپ لٹائے جو، وہی سخی کہلائے

نینا میں ساجن کو چھپا، پلک کپاٹ نہ کھول

وہ ہے تیرے پاس تو چت کیوں ڈانوا ڈول(۱۲۳)

موضوعات کی ہمہ رنگی اپنی جگہ، اسی باب میں سورٹھے بھی شامل ہیں۔ اختتامیہ کا اعلان ہے اور آخر میں ’’انتساب ابا جی کے نام‘‘ کے تحت دوہے ہیں۔

 

وچنا ولی:

 

یہ ’’دوہا ہزاری‘‘ کا آخری باب ہے۔ اس کی شروعات حمد سے ہوتی ہے۔ پھر ’’نعت، توصیفِ اصحابِ کبار، کربل کتھا، اہل سنت کے امام اور منقبت دوازدہ امام‘‘ جیسے عنوانات کے تحت دوہے ہیں۔ اس کے بعد پھٹکل دوہے ہیں۔ تونبیری دوہے، بڑے دوہے، کھرے دوہے، پچ کھنیا(مستزاد) دوہے اسی باب کا حصہ ہیں۔

مجموعی طور پر ’’دوہا ہزاری‘‘ ایسا مجموعہ ہے، جس کی ضرورت و اہمیت ایسی ہی ہے جیسے کلاسیکل شعرا کے کلام کی۔ اس لیے کہ اس مجموعے میں دوہا بانی کے تمام تر رنگ اور ذائقے اپنی اصل کے ساتھ ہی موجود نہیں، بلکہ انھیں آج کی شاعری اور جذبوں سے بھی ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ زبان اگرچہ سادہ نہیں ہے مگر ثقیل بھی نہیں، کہ ناقابلِ فہم ہو۔ زیادہ حصہ ایسے ذخیرۂ الفاظ پر مشتمل ہے، جس سے اُردوداں طبقہ بہ خوبی واقف ہے۔ دوہے کی مخصوص فضا اور آہنگ پہلے مصرعے سے آخر تک اچھی طرح قائم ہے۔ جیسے خود شاعر نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی مجموعہ ہے تواس کے مشمولات اس دعوے کوسچاثابت کرتے ہیں۔ ایک ایک دوہا اور ایک ایک مضمون سوچنے اور غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ روایت سے جڑت ہمیں اس خطے کی اَدبی تاریخ سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اُس وقت کے انسان کی نفسیات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے، تو لمحۂ موجود سے اس کے تقابل کا بھی موقع پیدا ہوتا ہے۔ ایک خاص بات اس مجموعے کی یہ بھی ہے، کہ اس میں اخذوکسب کا رنگ غالب ہے۔ پھر زیادہ حصہ ایک خاص وقت میں تخلیق ہوا، جس کا اظہار خود مصنف نے بھی کر دیا ہے۔ اگرچہ شاعر نے دوہا بانی کو قیام پاکستان سے پہلے اختیار کیا، مگراس کے ساتھ مضبوط جڑت بہت بعد میں ہوتی ہے۔ دوہا نگاری کی تحریک پر جو بحث ہوئی ہے، اُس میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ تقدیم و تاخیر کا قضیہ اپنی جگہ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں، کہ یہ مجموعہ اپنے ہم عصر دوہا نگاروں کے مجموعوں میں سب سے نمایاں مقام پر ہے۔

 

 

جمیل الدین عالی

(۰۲ جنوری۱۹۲۶ء…۲۳ نومبر۲۰۱۵ء)

 

 

جمیل الدین عالی کا پورا نام نواب زادہ مرزا جمیل الدین احمد خان ہے۔ عالی ۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے۔ آپ پاکستان کے ممتاز ادیب، شاعر اور دانش ور ہیں۔ آپ کو صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی، ہلال امتیاز اور کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔ آپ کی تصانیف میں ’’غزلیں، دوہے، گیت‘‘، ’’نئی کرن‘‘، ’’لاحاصل‘‘، ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘، ’’دُنیا مرے آگے ‘‘، ’’تماشا مرے آگے ‘‘، ’’صدا کرچلے ‘‘، ’’دعا کر چلے ‘‘، ’’ حرفے چند‘‘، ’’اے مرے دشتِ سخن‘‘ اور ’’وفا کر چلے ‘‘ شامل ہیں۔ آپ کراچی میں مقیم ہیں [تھے ]۔ (۱۲۴)بعض حوالوں میں آپ کاسن پیدائش جنوری ۱۹۲۵ء بھی ملتا ہے۔ ریاست لوہارو کے نواب اور غالب کے دوست اور شاگرد علاء الدین علائی آپ کے دادا تھے۔ صدر ایوب خان کے افسربکار خاص رہے۔ اس کے علاوہ رائٹرز گلڈ کے پلیٹ فارم سے فعال کردار ادا کیا۔ آپ کے دوہوں پر مشتمل مجموعہ ’’دوہے ‘‘۲۰۰۳ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں آپ کے قریباً تمام دوہے یکجا کر دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں سفرنامہ ’’آئس لینڈ‘‘ بھی آپ کے دستِ ہنر سے نکلا ہے۔ آپ نے شراکت میں تراجم بھی کیے۔ ان میں ’’شنگھائی کی عورتیں ‘‘، ’’ایشین ڈراما‘‘، ’’اصطلاحاتِ بینکاری‘‘ اور ’’لغت منتخب جدید اقتصادی اصطلاحات‘‘ شامل ہیں۔ آپ کے دوہوں اور غزلوں کے انگریزی تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔

عالی جی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ نے بھرپور علمی، اَدبی، صحافتی، تنظیمی اور عملی زندگی گزاری۔ آخری عمر تک آپ اُسی شان سے کالم نگاری کرتے رہے۔ آپ کی شخصیت کا ہر رُخ اس قابل ہے، کہ اُس پر الگ سے لکھا جائے۔ ہر ہر رُخ میں آپ بے مثال اور باکمال ہیں۔ عالی جی کے ملی نغمے ہر طرف گونجتے ہیں۔ انجمن ترقیِ اُردو کی مطبوعات پر آپ کے ’’حرفِ چند‘‘ الگ سے شان رکھتے ہیں۔ آپ کی علمی بصیرت و بصارت ادراکات کے کئی در وا کرتی ہے۔ عالی جی کا سب سے بڑا کمال اُردو دوہے کو قبولِ عام کی سند دلوانا ہے۔ آپ نے جس تسلسل اور تدریجی عمل کے ساتھ اس صنف کو امتیاز و افتخار عطا کیا، یہ اعزاز کسی اورکو نصیب نہ ہو سکا۔ عالی جی کا دوسرا بڑا امتیاز یہ ہے، کہ انھوں نے دوہے کو ایک نئے ذائقے اور نئی ہیئت سے آشنا کیا۔ وہ ہیئت جو آج انھی کے نام سے منسوب ہے اور اَدبی دُنیا میں ’’عالی چال‘‘ کے نام سے شناخت رکھتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا یہ تکنیکی اور ہیئتی تجربہ طویل زمانے تک وجہ نزاع بنا رہا۔ تنقید نگاروں نے نقد و نظر کے کسوٹیاں اُستوار کیں۔ اخبارات اور کُتب میں تبصرے ہوئے۔ حتیٰ کہ شدید مخالفتیں ہوئیں اور عالی جی کے دوہوں کو دوہا ماننے سے ہی انکار کر دیا گیا۔ خطِ استردادکھینچنے والوں کی اگر کمی نہیں تھی تو معترفین بھی کچھ کم نہ تھے۔ اس بحث کا خوب صورت پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے صنفِ دوہا کو وقار نصیب ہو گیا۔ یہاں خاص امتیاز یہ ہے کہ عالی چھند میں لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست مرتب ہو گئی۔ یہی نہیں بلکہ بعضوں نے مزید ہیئتی تجربے بھی کر ڈالے۔

اگرپاکستان میں کسی دوہا نگار کو شایانِ شان مقبولیت نصیب ہوئی ہے، تووہ عالی جی ہی ہیں۔ بلکہ پاکستان سے باہر بھی سب سے بڑی اور نمایاں حیثیت اور مرتبہ انھی کو نصیب ہوا۔ اس کے بہت سے عوامل اور محرکات ہیں، لیکن ان میں نمایاں تراس صنف سے آپ کی جڑت ہے۔ وہ اخلاص جو فن کے لیے درکار ہوتا ہے، عالی جی کی زندگی اور فن دونوں میں موجود ہے۔ عالی جی کی شہرت کابڑاسبب اُن کی اختراع کردہ بحر بنی۔ اگرچہ یہ بحر، جسے سرسی چھند کہا گیا ہے، پہلے سے کویتا اور نظموں میں مستعمل تھی، لیکن دوہا کوی مخصوص چھند میں ہی دوہا کہتے آئے تھے۔ یہ تکنیکی اختلاف انھیں اَمر کر گیا۔ آج، آج سے پہلے اورمستقبل میں دوہے کے حوالے سے جب بھی بحث ہو گی، عالی چھند ایک اساسی حیثیت کے ساتھ موجود ہو گا۔

عالی جی کی ردّ و قبولیت میں لکھے جانے والے مضامین اور تبصرے بھی دوسرے دوہا کویوں پر لکھے جانے والی مضامین کی نسبت زیادہ ہیں۔ اس بات نے بھی ان کی شہرت میں اضافہ کیا۔ اس بحث کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ناقدین نے کلاسیکی دوہے کا مطالعہ کیا۔ اُس کے مزاج اور تیوروں کوسامنے لائے۔ مختلف ادوار اور زبانوں میں رائج دوہے کی بحر کو نشان زَد کیا۔ اس مجموعی فضا کے باعث صنفِ دوہا کی جانب تخلیق کاروں کی رغبت بڑھی۔ اس کے حسن و قبح کو سمجھا گیا، اس کے برتنے کے سلیقوں سے آشنائی ہوئی۔ خاص کرکلاسیکی شعرا کی یاد نگاری سے خوب صورت منظر تشکیل ہوا۔ بادی النظر میں اس بڑی اَدبی خدمت کے محرک عالی جی ہی ہیں۔

عالی جی پر لکھنے والوں نے اتنا لکھا ہے اور اتنے زاویوں سے لکھا ہے، کہ نئے لوگوں کے لیے الگ راہ نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک بات جو سب میں مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی اکثریت نے ان کے وزن پر بات کی ہے۔ اگرچہ ان کی زبان اور مضامین پر کچھ کم نہیں لکھا گیا، لیکن یہ نسبتاً کم ہے۔ عالی جی نے خود بھی گلزار جاوید سے ’’چہار سو ‘‘ کے لیے انٹرویو میں یہی شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا:

’’لیکن میں نے دو دو مصرعوں میں کیا کیا کہہ دیا ہے، یہ خود کیا بتاؤں۔ وہی کہ قارئین جانیں، ناقدین جانیں۔ افسوس اب بھی فارم پر ہی زیادہ بحث جاری ہے۔ مہربان نہ جانے یہ کب دیکھیں گے کہ کہا کیا ہے۔ صرف دو مضامین پر تفصیلی گفتگو آئی ہے، ورنہ احیا ء یا اسے مقبولیت ملنے کے حوالے سے بات کیے جاتے ہیں۔ ‘‘

(چہارسو، نومبر۔ دسمبر۱۹۹۵ء)

ناقدین، تبصرہ نگاروں اور گفتگو کرنے والوں سے اُکتاہٹ کا شکار ہو کر یوں بھی کہتے ہیں :

بول ہزاروں روپ بھرے پر دھرم ہے میرا پیت

نا مری بانی غزل ہے پیارے نا دوہے نا گیت

البتہ اس مطالعے کے دوران میری کوشش ہو گی کہ میں اُن کی موضوعاتی جہتوں کا احاطہ کروں۔ اُن کے فکر و خیال پر بات کروں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے، کہ جب لکھنے والوں نے زیادہ زور چھند پر لگایا ہے، تو اصل بات قدرے دُور ہو گئی ہے۔ ڈھانچہ ثانوی چیز ہے، شعر کا اصل حسن ابلاغ ہے اورپھراس سے بھی بڑی بات تخیل کی ہے۔ اگرکسی شعر سے یہ عناصر عنقا ہیں، تو محض ڈھانچے یا ہیئت کی پُرکاری اور خوش نمائی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر روایتی چھند میں لکھنے والے پھسپھسے انداز کو اپنا لیں، تو اُن کی بات کیوں کر توقیر آشنا ہو؟ یہاں خواجہ دل محمد دل کا خیال ذہن میں نہیں آنا چاہیے، کیوں کہ انھوں نے جاندار بھی لکھا ہے اور تہ دار بھی۔ ان کے دوہے صنعتِ لفظی و صنعتِ معنی سے مالا مال بھی ہیں اور پُر جمال بھی۔ البتہ بعضوں کے یہاں اور خصوصاً ہندوستان میں اس بحر کو اپنانے والوں نے روایت بینی کو بھی اُس حد تک نہیں شعار کیا، جتنا لازم تھا اور وقتِ موجود کو بھی کاملاً نہیں گرفت کر پائے۔ ہمارے یہاں کی بعض آوازیں بھی سطحی ہیں۔

جہاں تک عالی جی کی تقدیم و تاخیر کا قضیہ ہے، تومیں بھی خود کواس سے الگ نہیں رکھ سکتا۔ تاریخی شواہد ان کو بانیوں کی صف میں تو رکھتے ہیں، مگرپاکستان میں اوّلین دوہا نگار کا تاج ان کے سرپرنہیں سجاتے۔ اس کے حق دار بہ ہر حال خواجہ دل محمد دل ہی ہیں۔ وہ کتنے مقبول ہوئے، کتنی شناخت قائم کی، ان کے دوہوں نے تحریک کی صورت اختیار کی یا نہیں ؟ یہ الگ بحث ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف دوہے کے مخصوص چھند کو نبھایا، بلکہ اس کے مضامین و موضوعات کو بھی خوب صورتی سے اور عالی جی سے پہلے برتا۔ اس بات سے نہ عالی جی کا قد کم ہوتا ہے اور نہ ان کی جد و جہد اور تحریک کو نقصان پہنچتا ہے۔ جو کام انھوں نے کیا اس کاسہرا ہمیشہ انھی کے سرسجتا رہے گا۔

عالی جی کی پذیرائی کرنے والوں میں ڈاکٹر سید عبداللہ، پروفیسر محمدحسن عسکری، پروفیسر اسلوب احمد انصاری، قرۃ العین حیدر، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سید قدرت نقوی، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر سمیع اللہ اشرفی، ڈاکٹر عرش صدیقی، ڈاکٹر روئندر کمار بھرمر، ڈاکٹر حنیف فوق اور جمال پانی جیسے جید عالم شامل ہیں۔ ان علمائے اَدب نے مختلف موقعوں پر عالی جی کے فکر و فن اور خدمات کوسراہا۔ ’’عالی چال‘‘ کی پذیرائی میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کا اظہارِ خیال ملاحظہ کیجیے، جو تکنیک کے ساتھ ساتھ ان کی خدمات کا بھی اعترافیہ ہے :

’’عالی نے دوہا نگاری میں کچھ ایسا راگ چھیڑا ہے یا اُردو سائیکی کے کسی ایسے تار کو چھو دیا ہے، کہ دوہا ان سے اور وہ دوہے سے منسوب ہو کر رہ گئے ہیں۔ دوہا تو ان سے پہلے بھی تھا۔ لیکن ’’عالی چال‘‘ سے انھوں نے دوہے کی جو بازیافت کی ہے اور اسے بطور صنفِ شعر کے اُردو میں جو استحکام بخشا ہے، وہ خاص ان کی دین ہو کر رہ گیا ہے۔ عالی اگر کچھ اور نہ بھی کرتے تو یہ بھی ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا۔ کیوں کہ شعر گوئی میں کمال توفیق کی بات سہی، لیکن یہ کہیں زیادہ توفیق کی بات ہے، کہ تاریخ کا کوئی موڑ، کوئی رُخ، کوئی نئی جہت، کوئی نئی راہ، چھوٹی یا بڑی، کسی سے منسوب ہو جائے۔ ‘‘(۱۲۵)

یہ عالمانہ رائے محض پذیرائی نہیں ہے، بلکہ عالی جی کے فن کو خراج بھی ہے۔ کیوں نہ ہو کہ عالی جی جب یوں دوہے کہتے ہوں تو کون خراج نہیں پیش کرے گا:

مل گئی کوئی نار نئی یا کوئی پرانی میت

آخر کیسے ہار بنی یہ جیون بھر کی جیت (۱۲۶)

 

اُودا اُودا بادل گہری کالی گھٹا بن جائے

اس کے دھرم میں فرق ہے، جواس موسم کو ٹھکرائے

ٹھنڈے پون جھکورے آئیں تیری یاد دلائیں

ہم کچھ بھی کہیں من تجھے مانگے من کو کیا سمجھائیں (۱۲۷)

ان دوہوں میں جذب واحساس کی مترنم موجیں ٹھاٹھیں مارتی ہیں، تو قاری کو اپنا اسیرکر لیتی ہیں۔ اُس یونانی دیوی کی طرح جو ملاحوں کو گیت سُنا کر انھیں لوٹ لیا کرتی تھی۔ ان دوہوں میں موسموں کی من بھاؤنائیں، رنگوں کی ترنگیں اور رشتوں کی پرچھائیاں سبھی کچھ تو نہایت سادگی اور برجستگی سے بیان ہوا ہے۔ نہ دُور از کار استعاروں کا بوجھ نہ کنایوں کی ثقالت۔ رواں دواں مترنم دل میں اُترتے ہوئے دوہے کہنا عالی جی کا خاص قرینہ ہے۔ ذرا یہ تیور دیکھیے :

آپ بنا بنجارہ میں اور آپ بنائی باٹ

سچ کہیو رے دیکھنے والے ایسے کس کے ٹھاٹ

 

بیتے دنوں کی یاد ہے کیسی ناگن کی پھنکار

پہلا وار ہے زہر بھرا اور دوجا امرت دھار

 

ٹھنڈی چاندنی اُجلا بستر بھیگی بھیگی رین

سب کچھ ہے پر وہ نہیں ہے جس کو ترس گئے نین(۱۲۸)

پہلے دوہے میں عالی جی دوہا نگاری میں بنیاد گزار ہونے کا دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ خود کوکسی کا مقلد نہیں کہتے۔ یہ بات بڑی حد تک دُرست بھی ہے، کہ انھوں نے خود جو باٹ بنائی، اُس پر چلنے والوں کی قطار ہے۔ دوسرے دونوں دوہے ہجر و فراق کی کتھا سناتے ہیں۔ یادِ یار کو ناگن کی پھنکار سے مشابہت دے کر اس کی سنگینی کا اظہار کیا گیا ہے مگرساتھ ہی تریاق کی فراہمی کاوسیلہ بھی۔ جیسے میر نے دِلّی والوں کو دل کے مرثیے لکھ کر دیے تھے، کچھ ایسی ہی حالت سے عالی جی بھی گزرے ہیں۔ یہ اظہاریہ دیکھیے :

دوہے کبت کہہ کہہ کر عالی من کی آگ بجھائے

من کی آگ بجھی نہ کسی سے اسے یہ کون سمجھائے (۱۲۹)

 

میٹھی میٹھی کسک تھی دل میں نا کوئی دُکھ نا سوگ

دو ہی دن کے بعد مگر یہ پریت تو بن گئی روگ (۱۳۰)

ڈاکٹرسید عبداللہ کا بیان اس ضمن میں اہمیت رکھتا ہے، کہتے ہیں :

’’اہلِ درد کے لیے تو عالی کا ایک دوہا بھی کافی ہے اور کلامِ عالی میں تو بہت سے ایسے دوہے اور اشعار ہیں جن پر اُردو کا تالستائی یا دوستو یا فسکی اگر کوئی کہانی مرتب کرنا چاہے تواس کی گنجائش بہرطور موجود ہے، کیوں کہ اس کی غزل، دوہا، گیت جو کچھ اس نے لکھا ہے دل کی بھاشا میں لکھا ہے۔ ‘‘(۱۳۱)

اس تناظر میں ان دوہوں کو دیکھیے اور اندازہ کیجیے، ہمارے یہاں بابوؤں اور کلرکوں کی کتنی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ غلام عباس نے ’’کتبہ‘‘ بھی توکسی بابو کی کتھا کو بنیاد  بنا کر لکھا تھا۔ یہ دوہے دیکھیے :

بابو گیری کرتے ہو گئے عالی کو دو سال

مرجھایا وہ پھول سا چہرہ بھورے پڑ گئے بال

 

دھیرے دھیرے کمر کی سختی کرسی نے لی چاٹ

چپکے چپکے من کی شکتی افسر نے دی کاٹ (۱۳۲)

یہ ہماری غربت کی کہانیاں ہیں اور بے بسی کی تصویریں، جو زر پرستوں کی بے حسی کے کارن نمو پاتی ہیں۔ ایسے میں ہی حسرت موہانی کی ’’مشقِ سخن‘‘ اور ’’چکی کی مشقت‘‘ یاد آتی ہے اور تنویر سپرا کا ’’دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹنا‘‘ بھی۔ دال روٹی کے گھیرے میں گھرے ہوئے فنکاروں کی زندگیاں اَنگنت کہانیاں بنتی ہیں۔ مرزا اَدیب جیسے لوگ ’’لہو اور قالین‘‘ میں نیازی کا کردار تصور کی دُنیاسے کھینچ کر نہیں لاتے، بلکہ حقیقتاً کئی ایک کی صورت موجود ہوتے ہیں۔ یہ رنگ ملاحظہ کیجیے :

جیون بوجھ بہت بھاری اور بوجھ کے سو سو ٹھاٹ

سامنے ہے اک لمبا مر گھٹ جس کو کہہ دیں باٹ

 

اُوپر سورج خود دہکے، نیچے دھرتی دہکائے (۱۳۳)

پھر کیوں کر دم لے نہ مسافر، چھاؤں جہاں آ جائے

بے بسی اور بے چارگی کا مظہر یہ دوہے ہمارے عہد میں جاری استحصال اور عدمِ مساوات کا کھلا ثبوت ہیں۔ انسان کی مشکلیں اور بے بسیاں اُسے کس کس احساس تک پہنچاتی ہیں، یہ ان دوہوں سے واضح ہوتا ہے۔ عالی جی نے حسن و عشق کی بہت کتھائیں بھی سنائی ہیں مگر وہ محض حسن و عشق کے بیان تک محدود نہیں رہتے ہیں، بلکہ اپنے ارد گرد موجود ہر منظر منظوم کرتے ہیں۔ بہ قول ڈاکٹر خلیق انجم: ’’عالی کے دوہے محض رومانی نہیں ہیں، بلکہ ان میں موضوعات کا کینوس بہت وسیع ہے۔ ‘‘(۱۳۴)

یہ دوہے دیکھیے، جوانسانی زندگی اوراس کی کٹھنائیوں کے نقیب ہیں :

تہ میں بھی حال وہی ہے جو تہ کے اُوپر حال

مچھلی بچ کر جائے کہاں جب جل ہی سارا جال (۱۳۵)

 

اک گہرا سنسان سمندر جس کے لاکھ بہاؤ

تڑپ رہی ہے اس کی اک اک موج پہ جیون ناؤ (۱۳۶)

 

دور ہی دور سے آس کی کرنیں چمک دمک دکھلائیں

جن کے گھروں میں گھور اندھیرے اُن کے پاس نہ آئیں (۱۳۷)

 

آج بھی کتنی کومل کلیاں کانٹوں کی خوراک

آج بھی کوئی نہیں پہچانے کیا کندن کیا خاک (۱۳۸)

 

سو رنگوں کے سو بادل لیں چار طرف سے گھیر

سورج تڑپ تڑپ رہ جائے دُور نہ ہوا ندھیر (۱۳۹)

جو اذیت ناکیاں اس کائنات میں پہلے تھیں، سو آج ہیں۔ تہذیب کے نام پر وحشت جوں کی توں ہے۔ تعلیم کے نام پر جہالت کا بازار گرم ہے۔ صیّاد کا ریشمی جال ہر طرف پھیلا ہے۔ کوئی جتنی جان بچانا چاہے، گرفت میں آ جاتا ہے۔ ہرسانس گھائل ہے جوں، سمندر کی موجیں تڑپتی ہیں۔ آج بھی روشنی وہیں اُترتی ہے، جہاں پہلے ہی نور کی بارش ہے۔ غریبوں کے جھونپڑے اب بھی ظلمت کدوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ آج بھی انصاف کا خون ہوتا ہے اور معصوم انسان اپنے بچاؤ سے عاجز ہے۔ روشنی اُگانے والے ہاتھ جتنی بھی کوشش کرتے ہیں، بچ نہیں پاتے۔ روشنی قتل کر دی جاتی ہے۔ یہ تمثیلیے حقیقت میں ہمارے عہد کا نوحہ ہیں۔ عالی جی نے پوری فنی مہارت سے انھیں نشان زد کیا ہے۔

عالی جی کے دوہوں میں دُکھ، اُداسی یا مایوسی کا رنگ مستقل نہیں ہے، بلکہ جہاں کہیں موقع ملتا ہے، وہ ہنستے ہیں، زندگی سے لطف اٹھاتے ہیں۔ چہکتے ہیں، اٹھکھیلیاں کرتے ہیں۔ حسن کی پذیرائی کرتے ہیں۔ اپنے من کو ناچ نچاتے ہیں، رنگوں اور ذائقوں کو چکھتے ہیں۔ بہ قول پروفیسر اُسلوب احمد انصاری :

’’عالی کے ہاں تمام تر اُداسی نے ہی اپنے ڈیرے نہیں ڈالے۔ ان میں تنومندی، بشاشت اور خود اعتمادی کی جھلکیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں اور یہ پختگی اور ثمر رسیدگی کی آئینہ داری کرتی ہیں۔ (۱۴۰)

ذرا عالی جی کی یہ رنگ ملاحظہ کیجیے :

چھم چھم چھم کرنیں برسیں پون کھاوج تاج

تم ہی کہو اب ایسے سمے میں کیا پُن ہے کیا پاپ

 

چھنن چھنن چھنن چھنن چھنن چھن گھنگرو جیسے باج

چال دکھائے کویتا رانی دھُن سوچے کوی راج

 

چال دکھائے کویتا رانی اور سب سُر لہرائیں

اب جو سمے پل بھر بھی ٹھہرے لوگ اَمر ہو جائیں (۱۴۱)

ان دوہوں میں رنگ و نغمہ کے ساتھ ساتھ جذب واحساس کی جو قندیلیں روشن ہوتی ہیں، انھیں عالی جی کی بان کی سوچ کے زاویے سے دیکھیں تو ایک عجیب سے مستی طاری ہونے لگتی ہے۔ عالی جی کے دوہوں میں نغمگی اور آہنگ ہر دوہے میں یوں رچا ہوا ہے، کہ پوری شاعری نظم کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ کہیں کہیں تو انھوں نے خیال کو عمداً مسلسل کیا ہے۔ ایسے دوہوں کی کمی نہیں، جو نظموں کی صورت میں ہیں۔ اگرچہ انھوں نے اپنے دوہوں کو مختلف عنوانات کے تابع نہیں کیا، لیکن ایک ہی مضمون کو تسلسل کے ساتھ بیان کرنے کا مزاج ان کے ہاں نمایاں ہے۔ ’’بنگلہ ناری‘‘ کے لیے گیت دیکھیے، جو عالی جی کے مترنم قلم پر بلند ہوا ہے :

باتیں بہت سنیں عالی کی اب سن لو یہ بانی

جس نے بنگلہ نار نہ دیکھی وہ نہیں پاکستانی

 

ہولے ہولے نوکا ڈولے گائے ندی بھٹیالی

گیت کنارے، دوہے لہریں، اب کیا کہوے عالی

پیچھے ناچیں ڈاب کے پیڑ اور آگے پان سپاری

انھی ناچوں کی تھاپ سے اُبھرے سانوری بنگلہ ناری

 

سانوری بنگلہ ناری جس کی آنکھیں پریم کٹورے

پریم کٹورے جن کے اندر کن کن دکھوں کے ڈورے

 

دکھوں کے ڈورے مٹ جائیں گے جب کوئی پیار سے چومے

لیکن پیار سے چومنے والا دریا دریا گھومے

 

دریا دریا گھومے مانجھی پیٹ کی آگ بجھانے

پیٹ کی آگ میں جلنے والا کس کس کو پہچانے (۱۴۲)

عالی جی نے اس خیال کو تیرہ دوہوں میں بیان کیا ہے۔ مضمون تو اپنی جگہ لطف آرائی کرتا ہے، سوکرتا ہے۔ لیکن یہاں صنعتِ تکرار سے جو رنگ اُبھرا ہے، وہ شاعرانہ سطح پر بہت خوب ہے۔ پہلا مصرع جن لفظوں پر ختم ہوتا ہے، دوسرا اُن سے شروع ہوتا ہے۔ اس تکرار سے جہاں چاشنی اُبھرتی ہے، وہاں کیفیت بھی دو چند ہو جاتی ہے۔ عالی جی کے یہاں اس طرح کے کئی اظہاریے ہیں۔ نتھیا گلی کے ’’پائن ہوٹل‘‘ میں جلوؤں سے ہم کنار ہوتے ہیں، توسب رنگوں کو سمالینے کی دھُن میں اُٹھ نکلتے ہیں۔ اگرچہ یہ دوہا بانی کے مقبول موضوع ’’نائیکہ بھید‘‘سے مماثل کیفیت ہے مگر وہ بہ ہر حال نہیں ہے۔ یہاں عالی جی کے اپنے مشاہدے، پرچھائیاں اور نم ناکیاں واضح ہوتی ہیں۔ ملاحظہ ہو:

نتھیا گلی کا پائن ہوٹل سرگ سماں ہے یار

رنگ برنگے پھول کے تختے رنگ برنگی نار

واہ کی کنواری جس کے اک اک انگ میں کیا کیا لوچ

جس پر آنکھ کا پل بھر پڑنا جیون بھر کی سوچ

 

برقعہ پوش پٹھانی جس کی لاج میں سو سو روپ

کھل کے نہ دیکھی، پھر بھی دیکھی، ہم نے چھاؤں میں دھوپ

 

باپ نہ ہوتا ساتھ تو ہم کہہ جاتے من کا حال

اک پل میں دو پنچھی پھانسے پریم نہیں وہ جال

 

بیر بہوٹی رنگت والی اک ناری انگریز

بات میں کتنی سیدھی سنبھلی گھات میں کتنی تیز

 

جرمن کی کیا ٹھوس جوانی کیا رنگت کیا ہاڑ

اس کے بوجھ سے دل پھٹ جائے چیز ہی کیا ہے پہاڑ

 

ایک فرانسیسی ابلا تھی الگ تھلگ چپ چاپ

ایسے پیارے لوگ دُکھی ہوں ہائے رے یہ کیا پاپ

 

اک لاہور کی تیکھی بان کی پڑھی لکھی مغرور

شاعر کو آوارہ کہوے افسر کو مزدور

اور پھر یہ بدلتے تیور دیکھیے :

عالی تیرا بھید ہے کیا ہر دوہے پر بل کھائے

میں جانوں ترے پاپی من کو گھر والی یاد آئے

 

گھر والی جو سکھوں کی ساتھی دُکھوں میں تیری داس

جھوٹا پرکھے سچا جانے رکھے تری ہی آس

 

وہ ترے بچے پالنے والی وہ ترے گھر کی لاج (۱۴۳)

کیا اُسے بھول کے مست ہوا ہے، تُف تجھ پر کوی راج

ان دوہوں کے پس منظر میں بھنورا اور دل پھینک عالی ظاہر ہوتا ہے، لیکن یہ کیفیت آخر میں ختم ہو جاتی ہے۔ جب جیون ساتھی کی قربانیاں، وفائیں، اخلاص اور محبتیں سوا محسوس ہوتی ہیں تو ندامت کا احساس جاگتا ہے۔ یہی وہ احساس ہے، جوانسان کو بہت سی آلائشوں سے بچا لیتا ہے۔ پھر گھر والی بھی وہ ہو جسے عالی جی نو عمری میں جی جان سے چاہنے کے بعد لائے ہوں۔ میں نے اس پوری کتھا کو ایک شعر میں یوں سمونے کی کوشش کی ہے :

تتلیاں آنکھ مچولی کھیلیں

یاد تیری نگراں ہوتی ہے

دلچسپ بات یہ ہے، کہ جمیل الدین عالی صاحب کا یہ رنگ عرش صدیقی مرحوم سے اوجھل رہا ہے۔ حالاں کہ انھوں نے ’’عالی چال‘‘ کے تحفظ میں ایک بسیط مقالہ لکھ ڈالا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اُسے اپنی کتاب ’’کملی میں بارات‘‘ کا باقاعدہ حصہ بھی بنایا۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ وہ دوسرے تمام شعرا کے ایسے کلام پریوں خطِ استرداد کھینچتے ہیں :

’’میں بہاری سمیت دوسرے شعرا کے اس عاشقانہ کلام کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو حسن کے حوالے سے ہوس کا اظہار کرتا ہے۔ ‘‘(۱۴۴)

مندرج بالا تمام دوہوں میں شاعر کی پیاس واضح ہے۔ پھر ’’بنگلہ ناری ‘‘اور کوئٹے میں ’’مل گئی کوئی نار نئی یا کوئی پرانی میت‘‘ سمیت ’’بدیسی نار‘‘، ’’پورب کی ابلا، دکن کی ابلا، یا پنجاب کی نار‘‘، ’’کچے محل کی رانی‘‘ اور ’’پنڈی دیس کی ناریاں ‘‘ بہت کچھ بتاتی ہیں۔ لیکن عرش صدیقی صاحب کا قلم ان کو چھو تک نہیں گیا۔ البتہ ڈاکٹر تنویر احمد اپنے اس اظہاریے میں بین السطور بہت کچھ کہہ گئے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

’’ان کے دوہے ان کی ذہنی زندگی اوراحساس جمال کی پرچھائیاں ہی نہیں ہیں، بلکہ جگہ جگہ ان میں ان کے سفر و حضر کے واردات بھی موجود ہیں، جن سے ان کے سوانح وسیرت کے مطالعے میں مدد مل سکتی ہے۔ ‘‘(۱۴۵)

محمدحسن عسکری نے جس اندازسے تبصرہ کیا ہے، وہ بھی کچھ اشارے دے جاتا ہے، ان کا بیان دیکھیے :

’’ان کی حیثیت شاہد کی رہی ہے، جو زندگی کی رنگارنگی سے لطف لیتا ہے اور آگے چل پڑتا ہے۔ حسن و عشق کے معاملے میں یہاں ان کا یہی رویہ رہا ہے۔ لیکن جہاں تک حسن کے مشاہدے کا تعلق ہے، ان کی ایک نظر بھی مشہود کا سارا رنگ روپ نچوڑ لائی ہے۔ ‘‘ (۱۴۶)

اب ایک اور کہانی سنیے خود عالی جی کی زبانی، جس کا وہ شکار ہوئے۔ اس کہانی کو بھی انھوں نے نظمیہ انداز میں مسلسل اٹھارہ دوہوں میں قلم بند کیا ہے۔ پہلا دوہا اور کچھ مزید دوہے ملاحظہ کیجیے :

یہ من جس پر سو سو کنواری کنوار پتا دے تول

اک سو خصمی ناگن اس کو مار گئی بے مول(۱۴۷)

 

دس دس مہماں پاس بٹھا کر سب سے آنکھ لڑائے

جس کا اس پر دل آ جائے اس سے دل بھر جائے (۱۴۸)

 

پھر اک جھٹکا دے کر اٹھی اور آ بیٹھی پاس

سانس میں گرمی، آنکھ میں نرمی، پیاس ہی پیاس ہی پیاس

 

کیا کہیے کیا پڑ گئی ہم پر، ہم بھی ہیں انسان

جیسے چار طرف سے آ کر پھٹ جائے طوفان (۱۴۹)

 

پیار کرے اور سسکی بھرے پھر سسکی بھر کر پیار(۱۵۰)

کیا جانے کب اک اک کر کے بھاگ گئے سب یار

ان دوہوں کے نیچے سن ۱۹۶۷ء درج ہے۔ ’’سو خصمی ناگن‘‘ سے ظاہر ہے محبوب کا ٹھکانا کیا ہے، پھر سب یاروں کی موجودگی میں، سب کچھ ہو جانے سے بھی بہت کچھ باتیں ظاہر ہیں۔ ان دوہوں کی زبان نہایت سادہ ہے اور کہانی میں بھی کوئی اُلجھاؤ نہیں کہ بات سمجھ نہ آتی ہو۔ اس لیے مزید گفتگو کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹرسید عبداللہ نے عالی جی کے اس رجحان پر ملفوف پیرائے میں جو بات کی ہے، وہ بھی دیکھ لیجیے :

’’کرشن بھگتوں کے مانند پریم دھرم اس کا اصلی روپ ہے۔ کچھ اس طرح لگتا ہے، تتلی ہے جو ہر پھول پر بیٹھنا چاہتی ہے، مگر پھول پتی سے ہونٹ لگاتے ہی یہ اُڑی، وہ گئی… اور پھر دوسرا پھول سامنے آیا، وہی ماجرا، وہی سر گزشت… بس رس کی پیاس ہے جو بجھتی نہیں۔ ‘‘(۱۵۱)

یہاں عالی جی کی خوش رنگی سے بحث نہیں، بلکہ عرش صدیقی صاحب کے امتیازات سے بات ہے۔ پسند و ناپسند کے پیمانوں پر اَدب کو ماپنا کچھ تحسین خیز نہیں ہوا کرتا۔

عالی جی کا نظمیہ انداز صرف حسن و عشق کی وارداتوں میں ظاہر نہیں ہوا، بلکہ انھوں نے سسکتی انسانیت، بے چارگی، ظلم و جبر، بے پروائی اور بے سلیقگی سمیت حب الوطنی جیسے موضوعات کو بھی اسی انداز میں پرویا ہے۔ ایک گاؤں کی کتھا عالی جی کی زبانی سنیں :

بھوکی آنکھ سے بیٹا دیکھے، خالی پیٹ ہو باپ

ساوتری ماں بیٹی لاج سے روز کرائے پاپ

 

آلہا  اودل گانے والے پیادے سے کترائیں

ہل کا بوجھ اٹھانے والے ڈنڈے سے دب جائیں

 

کھیت کٹا تو لے گئے ٹھاکر، منشی، ساہو کار

گھر پہنچے تو بھوکی بہو اک برچھی سی دے مار

 

کھیتی، سونا چاندی اُگلے گھر میں پہنچے روگ

پاسی آگ انگار چبائے، بنیے اُڑائیں بھوگ

 

اے بھیّن ترا جھلسا چہرہ ان کے رنگ بڑھائے

اے بھیّن تری اپنی عورت دوجے کے گھر جائے

 

کس کس ماں کی کوکھ جلے، کس کس دلہن کا سہاگ

ایک پرانی چنگاری سے کب تک جلے گی آگ (۱۵۲)

اس موضوع پر بھی مسلسل اٹھارہ دوہے ہیں، جو ایک دوسرے میں یوں پیوست ہیں، جیسے نظم کا ہر مصرع دوسرے مصرعے کو گرہ لگاتا ہے اور بات بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ان نظمیہ دوہوں میں غربت اوراس کے متعلقات کی تصویر کشی اس خوب صورتی سے کی گئی ہے کہ پڑھتے ہوئے ایک ہوک، ایک کسک اور چبھن سی دل کے آر پار ہو جاتی ہے۔ دوہے کا اعجاز یہی ہے کہ کم لفظوں میں اور زیادہ بامعنی طریقے سے ابلاغ کا قرینہ ہاتھ میں رکھا جائے۔ بہ قول رحیم:

دی رکھ دوہا اَرتھ کے آکھر تھوڑے آہیں

جوں رحیم نٹ کنڈلی، سمٹ کود چل چاہیں

عالی جی اس وضع میں بھی کامران ہیں اور اپنی وضع میں بھی بہت کامیاب ہیں۔ ان کے دوہوں، دوہوں کے مضامین اور مزاج پرڈاکٹرسیدعبداللہ کی رائے بہت اہم ہے :

’’عالی کے دوہے تقلیدی نہیں، اپنی فضا کی پیداوار ہیں۔ ان میں ایک افسردہ سی شہزادگی کی بوباس بھی ہے اور قلندروں، جو گیوں، فقیروں کی ترنگ بھی۔ ‘‘(۱۵۳)

جب کہ اس باب میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں :

’’اس سے انکار نہیں کہ عالی کے دوہے کی بھاشا واقعی ان کی ہے، ان کے دل کی آواز ہے۔ اپنے رنگ میں سب سے الگ ہے۔ ‘‘(۱۵۴)

ان آرا سے اندازہ ہوتا ہے، کہ انھوں نے صرف وہی کہا جو اُن کے دل نے چاہا اوراُسی سلیقے اور قرینے کی طرف مائل ہوئے، جو اُن کی طبیعت نے چاہا۔ نہ خود پر جبر کیا نہ دوہا بانی پر۔ ایک فطری تخلیق کار کا یہی پیشہ ہوتا ہے اور یہی طرزِ ادا۔ اسی کی وضاحت اور تحفظ میں وہ خود کہتے ہیں :

 

آپ بنا بنجارہ میں اور آپ بنائی باٹ

سچ کہیو رے دیکھنے والے، ایسے کس کے ٹھاٹ

 

عالی کا کیا ذکر کرو ہو، کوی تو وہ کہلائے

جو ناخن سے پربت کاٹے اور پربت کٹ جائے

 

اُردو والے ہندی والے دونوں ہنسی اُڑائیں

ہم دل والے اپنی بھاشا، کس کس کو سکھلائیں

تم کہو دوہا تم کہو بیت اور تم کہو سرسئی چھند

نہیں مری من ندی کا طوفان ناموں کا پابند

 

دوہے کبت کہہ کہہ کر عالی، من کی آگ بجھائے

من کی آگ بجھی نہ کسی سے، اسے یہ کون بتائے

(از:دوہے …۲۰۰۳ء)

عالی جی نے اگر خیال کیا ہے تو جذبے کا، لحاظ رکھا ہے تومحسوسات کا۔ کہنا یہ نہیں کہ انھوں نے ہیئت اور ڈھانچے کو نظرانداز کیا، غرض یہ ہے کہ ان کے سامنے یہ چیز ثانوی تھی اور ہونی بھی چاہیے۔ ان دوہوں کو دیکھیے :

یہ نہ سمجھ مری عمر بڑھی تو پریم میں کچھ فرق آئے

لوہا جتنا ٹھنڈا ہووے سخت بھی ہوتا جائے

 

پریم کے سب دُکھ سچے ہیں، پر وہی یہ بھی سکھلائے

روتے جھینکتے مرد سے کوئی نار نہ جیتی جائے

 

پریم اور بُدّھی اک دوجے کے بیری تھے کہلائے

اب تو دیکھ کہ ہم تجھے کیسے اپنے گھر لے آئے (۱۵۵)

پہلے دوہے میں محبت اوراس کی طاقت کو تمثیلی انداز میں خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ دوسرے دوہے میں بزدلوں کی کتھا بیان ہوئی اور آخری دوہا اپنے مزاج اور بیان میں خاص سلیقہ رکھتا ہے۔

عالی جی کی دوہا بانی میں جہاں حسن و عشق کے اظہاریے چمکتے ہیں اور درد و اَلم نمایاں ہوتے ہیں۔ وہاں اپنے سوہنے دیس کی مٹی سے محبت میں بھی کچھ کمی نہیں ہے۔ شہروں، محلوں اورسڑکوں سے خاص نسبت بھی ان کے یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ پھر دیار غیر میں موجود دوستوں اور ان کی محبتوں کوسلیقے اور محبت سے یاد کرنا بھی عالی جی کی ریت میں شامل ہے۔ جہاں جہاں وہ گئے، اپنوں کو محبت دے کر اور اُن سے محبت سمیٹ کر لائے۔ شکاگو رنگ دیکھیے :

یہ نہ سمجھنا، ہم کوئی شعر خزانہ بھر کر لائے

اہل شکاگو ہم ہیں دعا گو دعا ہی دینے آئے

 

دیس سے اتنی دُور اور دیس کلا سے اتنا پیار

اے بھگوان ان سب سجنوں میں اک اک بنے ہزار (۱۵۶)

 

عالی جہاں بھی جائے پچھلی شہرت کام چلائے

یارو دبئی میں کیا ہے جو اس سے نئے دوہے کہوائے (۱۵۷)

پیرس اور لندن کی بوقلمونیاں عالی جی کی نظر سے ملاحظہ ہوں :

دو سو برس پہلے چھینا تھا، یونھی تمھارا تاج

پیرس رانی آنکھیں کھولو، پرجا مانگے راج

تاریخی حقیقت پرکیا خوب صورت اظہار ہے۔

لندن جس کا شور تھا اتنا نکلا پیار سے خالی

گھومے کیا کیا نار نویلی ٹک ٹک دیکھے عالی

 

لندن بھی مرے جیون جیسا کچھ دھَولا کچھ کالا

تھوڑی وہسکی باقی پانی بھدا نکھد پیالا (۱۵۸)

 

لندن پریم لگن میں کس کو چک جھُمرے کی سوجھ

او دیسی ! یہ دیس پہیلی تو اسے خود ہی بوجھ (۱۵۹)

امریکا اور یورپ کی کتھا سنیے :

ہم یورپ اور امریکہ کی ناریوں کو رُلوائیں

ایک ترنم ایک تبسم کیا خاطر میں لائیں (۱۶۰)

یہ رنگ ملاحظہ ہو:

بمبئی، پونہ، حیدر آباد نہ آئے ہم کو راس

پیٹ کو بھر کر کیا کیجیے جب من ہی رہے اُداس (۱۶۱)

ان دوہوں میں دیارِ غیرسے وابستہ یادیں اور کہانیاں بیان ہوئی ہیں۔ جب کہ پاکستان اور یہاں موجود دوستوں کے ذکر پر تو وہ اس سے بھی زیادہ چہکتے اور کڑھتے ہیں۔ ان کے یہ دوہے ایسے میں ایک سفرنامہ بن جاتے ہیں۔ ایسا سفرنامہ جس میں داخل کاسفربھی پوری ہوش مندی سے طے ہوتا ہے۔ ذہنی و قلبی کیفیات کو ان اسفارمیں یوں مجسم کرتے ہیں کہ سماں بندھ جاتا ہے۔ دوستوں اور ان کے شہروں سے والہانہ پیار عالی جی کے مزاج کا خاص حوالہ ہے۔ اسی طرح مٹی سے منافقت اور اپنے عہدوں اور رسوخ کاناجائزاستعمال بھی انھیں شدت سے کھٹکتا ہے۔ پہلے عالی جی کے دوستوں سے مراسم کے کچھ اشارے دیکھیے :

پنڈی دیس میں کویتا پڑھنے عالی جی کیا آئے

کوئی غزلوں پر سر دھُن لے کوئی دوہوں پر مٹ جائے

 

کہیں مدرا کا مینہ برسے اور کہیں دعوت کی دھوم

کوئی بڑھ کر سینے سے لگا لے اور کوئی لے چوم(۱۶۲)

اس کتھا کوتئیس دوہوں میں سمیٹا گیا ہے۔ جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے، اُن میں رائے تجمل، ملک نسیم الظفر، ابن انشا، باقیؔ، جعفر طاہر، یوسف ظفر، مختار عمر، فطرت اور کرم وغیرہ شامل ہیں۔ ان دوہوں میں دل بستگی اور وارفتگی کی ایسی فضا ہے، کہ دل ایسی مجلسوں اورایسے لوگوں کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ ’’پاکستان کتھا‘‘ میں تو بہت سے رنگ سمٹ آئے ہیں۔ کچھ اظہاریے نمونے کے طور پر ملاحظہ ہوں :

عالی اپنے دیس کی لکھیں اور ٹوڈی کہلائیں

سُورما لوگ بدیسی پیسے کھائیں اور اترائیں

 

پیسے کھانے کی ترکیبیں نقد، وظیفہ، سیر

اب جو کوئی جس کا کھائے اُس کی مانگے خیر

 

کوئی کھل کر جاپان گھمائے اور کوئی چھپ کر چِین

کہیں بدیسی ڈفلی باجے کہیں بدیسی بِین

 

کوئی چھُٹ بھیّا پیرس پہنچے اور لیکھکھ بن جائے

کوئی افسر نیو یارک کے بل پر کتھا کلا سکھلائے

 

جن کے پڑوسی بھی نہیں جانے ہیں ان کے شبھ نام

لندن، بمبئی، ہالی وُڈ میں وہ سب کویتا رام(۱۶۳)

اب ذرا چاپلوسوں کا احوال عالی جی کی زبانی سنیے :

رُت کے ساتھی، سمے کے سنگی، بے دھرمے بے ذات

جو جس دم ہو ان کا افسر اونچی اس کی ذات

 

افسر بولے یارو ہم کو بھائے نہیں اقبالــؔ

یہ بولیں جی شبد کا دھوکا دھیان کاخالی جال

 

افسر بولے فیضـؔ نراجی، یہ بولیں غدار

افسر بولے اینی انگھڑ، یہ بولیں مکار

 

نا یہ جیون بھید کے رو گی نا انھیں ہر دم سوچ

نا یہ دن کی سختی جانیں نا یہ رات کا لوچ

 

ان کا دھندا پلّو بندھن، یہ سب کے دلال

یہ کیا جانیں یہ کیا سمجھیں اپنے دیس کا حال(۱۶۴)

’’پاکستان کتھا‘‘ میں عالی جی کا جی گھائل ہی نہیں، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے مسلسل اس سے خون رِستا ہو۔ ظاہری وجوہ تو اپنی جگہ موجود ہیں ہی، خود عالی جی کا خاندانی پس منظر اور یہاں اُن کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اُس نے انھیں حساس کر دیا تھا۔ خود ایک جگہ جب کہتے ہیں ’’پاکستان میں جو کچھ بھی ہوں، وہاں عالی نواب تھے۔ ‘‘ تواس سے اُن کی سوچ کا یہ زاویہ دیکھا جا سکتا ہے۔ عالی کی جیون کتھا پرڈاکٹرسید عبداللہ کا یہ تبصرہ بہت مناسب ہے :

’’عالی، شہزادوں کے گھر میں پیدا ہوا، پھر قدرت نے اسے سنیاسی تو نہ بنایا مگر سیلانی بننے کا بھرپور موقع دیا۔ مفارقت اورمسافرت اس کی تقدیر میں تھی۔ سیاسی احوال اور واقعات نے جدائی کے درد سے کھل کر آشنا کیا۔ وہ نگر نگر پھرا کہ درد اشتیاق کی تسکین ہو لیکن درد بڑھتا گیا۔ گیانی دھیانی بن کر حیدرآباد، پونہ، لاہور، ہر جگہ گھوم گھما کر سچ کو جاننا چاہا، لیکن شہزادگی برطرف ’’بابوجی‘‘ کہلایا۔ ‘‘(۱۶۵)

ان کا یہ انفرادی دُکھ ان کے دوہوں میں اجتماعی کرب کی صورت میں جگہ بنا لیتا ہے۔ ان دوہوں کے تناظر میں عالی جی مختارمسعود کی ’’آوازِ دوست‘‘ کا وہ کردار نظر آتے ہیں، جواس دھرتی کے لیے سب کچھ تیاگنے کے بعد مینارِ پاکستان کے سائے میں بے کسی و بے بسی کے عالم میں بھی خوش پھرتا ہے۔

عالی جی اپنے قومی نغموں کے سبب ہمارے یہاں ایک قومی شاعر کی حیثیت سے مکمل تعارف رکھتے ہیں۔ پاکستان اورپاکستانیت اُن کی شخصیت، بلکہ ایمان کا نمایاں پہلو ہے۔ ان کا یہ رنگ ان کے دوہوں کے ہرقسم کے موضوعات میں از خود جگہ بنا لیتا ہے۔ مٹی کی یہ محبت انھیں انسانی محبت سے الگ نہیں کر سکتی۔ زمین کاحسن انھیں انسانی حسن میں گُم نہیں کر دیتا، بلکہ یہ دونوں کوساتھ ساتھ لیے چلتے ہیں۔ دیارِ غیر کے خوب صورت منظروں میں انھیں اپنے دیس کا غبار یوں یاد آتا ہے، کہ دیوانہ وار پلٹتے ہیں اوراس وارفتگی کا اظہار کرتے ہیں، جیسے صدیوں بعد اپنی محبوب ہستی سے ملے ہوں۔

عالی جی کے دوہوں کادوسرا خاص وصف انسان سے محبت ہے۔ غربت اورافلاس کی چکی میں پستے ہوئے بے بس اور بے کس انسان انھیں احساس کی سطح پر بہت ستاتے ہیں اور وہ خود کو اُن کا مجرم سمجھتے ہیں۔ یوم مئی کے تناظر میں لکھے گئے دوہوں میں وہ اُوپری دل سے یہ نہیں کہتے، بلکہ اُن کا خون پوری طرح ان میں شامل نظر آتا ہے :

 

جس کی گاڑھی کھری کمائی مفت میں تم نے کھائی

ّآج سے پہلے عالی جی تمھیں اس کی یاد نہ آئی

جیتے جیتے لہو کا دریا جس نے روز بہایا

عالی جی کبھی تم نے اس پر دو آنسونہ گرائے

 

جس کی رنگت ہلدی جیسی جس کی جان عذاب

اس کوبھول کے تو نے عالی، سونگھے سُرخ گلاب (۱۶۶)

یہاں عالی جی محض ترقی پسندوں کا راگ نہیں الاپتے، بلکہ ان کے کہے ہوئے سے اُن کا درد پوری طرح واضح ہے۔ اسی طرح انھیں عورت کی بے چارگی اور شخصیت پر عاید قدغنوں کا درد بھی چین نہیں لینے دیتا، دیکھیے :

کوئی پتی اور کوئی پتا کوئی بیٹا اور کوئی بھائی

اے لوگو! اک نار پہ تم نے کیا کیا قید لگائی(۱۶۷)

عورت کی خودمختاری اور آزادی کے لیے اس سے بہتر اظہار شاید ہی ہو سکتا ہو۔

عالی جی کاتیسراخاص رجحان حسن پرستی ہے۔ اس باب میں وہ اپنے سارے ہم عصروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے وہ کسی کھو جانے والے کی تلاش میں ہر چہرے اور ہر ناری کے دیوانے ہو گئے ہیں۔ واہ کینٹ کی ناری سے لے کر بنگلہ ناری تک اور یورپ کی حسینائیں انھیں پرچاتی اور للچاتی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ان کی پیاس مٹتی نہیں دکھائی دیتی اور وہ یوں اظہار کرتے ہیں :

پنّوں بِن کب سسی ہوئی اور رانجھا بِن کب ہیر!

کوئی تجھ پر کیوں ستی ہو عالی ! ستی تو مانگے ویر (۱۶۸)

یہی وہ احساس ہے جو عالی جی کاسفرتمام نہیں ہونے دیتا۔

ان تین نمایاں رنگوں کے علاوہ بھی عالی جی کی بوقلمونیاں بہت ہیں۔ یہ رنگ سرسری قائم نہیں ہوئے، بلکہ اس کے لیے خونِ جگر کو رو  بہ راہ کیا گیا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر خلیق انجم:

’’ان کے مضامین میں غیر معمولی تنوع ہے۔ ان دوہوں میں ایک تخلیقی ذہن، طبع رسا، با شعور اہلِ دل کے غیر معمولی تخلیقی تجربوں کا اظہار ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ ان دوہوں میں شاعر کا لب و لہجہ عام مفکر یا دانش ور کا نہیں بلکہ ایک عام انسان کا ہے۔ ‘‘(۱۶۹)

بہ قول پروفیسر اسلوب احمد انصاری: ’’دوہوں کی روایت کے سلسلے میں عالی نے تلسی داس یا کبیر کا اتباع نہیں کیا ہے۔ جو کچھ لکھا ہے، وہ اندرونی تحریک اور دباؤ کے زیر اثر لکھا، اور اسے اپنی نجی واردات کا وسیلہ، فن بنا کراس سے اپنی تطہیرِ نفس کاسامان مہیا کیا ہے۔ ‘‘(۱۷۰)

’’عالی غزل اور گیت دوہے کے شاعر کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں۔ انھوں نے ان اصناف میں اتنا کچھ کہا ہے جو شاید کمّیت کے لحاظ سے معتدبہ نہ کہا جائے لیکن کیفیت کے پہلوسے کئی بسیار گو شعرا کے ضخیم دیوانوں پر بھاری ہے۔ ‘‘(۱۷۱)عالی کا رول ماڈل جو بھی رہا ہو، انھوں نے شعر کی وادی میں اپنی راہ سینے کے بل طے کی ہے اور اپنی ڈگر الگ بنائی ہے۔ ‘‘(۱۷۲)

عالی جی کا نام سربلند ہے اور دوہا کویوں میں ان کی شان سلامت رہے گی۔ ’’عالی چال‘‘ ان کا مستقل حوالہ ہے جو تابندہ ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالی جی کے دوہوں میں زندگی اوراس کے متعلقات کے تمام نہیں تو زیادہ تر حصے چمکتے ہیں۔ موضوعات کا تنوع، ان میں بھی باریکیاں اور خوش رنگیاں اور ایک ایک خیال کو کئی زاویوں سے پیش کرنا عالی جی کا خاص امتیاز ہے، جو انھیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی امتیاز ان کی ابدی زندگی کا نمایاں اور نہ مٹنے والا عکس ہے۔

 

 

 

 

عادل فقیر/عرش صدیقی

(۲۱ جنوری ۱۹۲۷ء…۱۹۹۸ء)

 

 

آپ ڈاکٹر عرش صدیقی کے نام سے اُردو ادب میں شناخت رکھتے ہیں۔ شاعر، نقاد اور افسانہ نگار ہیں۔ آپ کی پیدائش ضلع گورداسپور(مشرقی پنجاب) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ ایم اے انگلش کی ڈگری لی۔ قیام پاکستان کے بعد ترکِ وطن کر کے پہلے لاہور میں قیام کیا اور پھر مستقل طور پر ملتان میں سکونت اختیار کر لی۔ گورنمنٹ کالج ملتان میں ایک عرصہ تک انگریزی پڑھاتے رہے۔ پھر ملتان یونی ورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ آپ کی تصانیف میں ’’ میرزا ادیب کے بہترین افسانے ‘‘، ’’دیدۂ یعقوب‘‘، ’’ سب رنگ‘‘، ’’سونا آنگن‘‘، ’’محبت لفظ تھا میرا‘‘، ’’باہر کفن سے پاؤں ‘‘ اور ’’ہر موجِ ہوا تیز‘‘ شامل ہیں۔ ’’باہر کفن سے پاؤں ‘‘ پر آپ کو آدم جی ادبی انعام ملا۔ (۱۷۳) عرش صدیقی کاسلسلۂ نسب حضرت ابوبکر صدیق سے ملتا ہے۔ آپ کے والد کا نام بشیر الرحمن، جب کہ آپ کا اصل نام ارشاد الرحمن ہے۔ (۱۷۴) بائیوببلی گرافی میں آپ کی تاریخ وفات ۸ اپریل ۱۹۹۷ء درج ہے۔

دیگر تصانیف میں ’’محاکمات، ارتقا اور تکون‘‘ شامل ہیں۔ عرش صدیقی صاحب کے دوہوں کا مجموعہ ’’کملی میں بارات‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ کنول ظہیر نے اس عنوان کی بابت عرش صدیقی صاحب کے انٹرویو کا ایک حصہ نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو:

’’میں نے آج سے ۶۱برس پہلے دوہے کا ایک مصرع لکھا اور خواب میں لکھا۔ ۱۹۴۷ء میں کالج میں پڑھتا تھا۔ سائنس کا طالب علم تھا۔ مگر تصوف کی طرف رجحان تھا۔ کالج کے زمانے میں سیرت کے بارے میں مقابلہ ہوا۔ اس میں شرکت کی اور اول انعام حاصل کیا۔ مسجد میں ایک سائیں بابا سے ملاقات کے سبب ذکر و فکر بڑھتا چلا گیا۔ میرا مرنے کو بہت دل چاہتا تھا اور اب بھی یہ خواہش موجود ہے۔ اسی بات پر حضور صلی اللہ علیہ و الہٖ و سلم سے خواب میں تین بار ملتجی ہوا کہ میرا مرنے کو دل چاہتا ہے تو اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے دوہے کا پہلا مصرع کہا:کالی کملے اوڑھ لو سارے، کملی میں بارات‘‘ (۱۷۵)

یہ انٹرویو۱۹۸۷ء میں لیا گیا۔ اگراس تاریخ سے ۶۱ سال پیچھے کی طرف سفر کیا جائے تو۱۹۲۶ء کاسن برآمد ہو گا۔ یوں یہ واقعہ اُن کی پیدائش سے بھی ایک سال پہلے چلا جاتا ہے۔ اگر مصنف کی بیان کردہ تاریخ، یعنی ۱۹۴۷ء کو تسلیم کیا جائے تو یہ ۴۰ سال بنتے ہیں، ۶۱ نہیں۔ بہ ہر حال یہ ایک بہت دلچسپ حوالہ ہے۔ ایسی باتیں بہت سے صاحبانِ دل کے حوالے سے بیان ہوتی رہتی ہیں۔ عرش صدیقی نے جو اپنے لیے عادل فقیر کا نام منتخب کیا، تواس سے بھی ان کے ذہن اور طبع کے خاص رجحان کی وضاحت ہوتی ہے۔ پھر اُن کی دوہا بیتی کا بڑا حصہ ہے بھی مذہبی رنگ میں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے، کہ انھوں نے فکری اعتبارسے اسی رنگ سے قربت رکھی۔ یہاں دوہے کے روایتی مضامین سے ان کا اختلاف بھی سمجھ میں آتا ہے۔ جیسے انھوں نے ایک مقام پر کہا:

’’میں بہاری سمیت دوسرے شعرا کے اس عاشقانہ کلام کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا، جو حسن کے حوالے سے ہوس کا اظہار کرتا ہے۔ ‘‘(۱۷۶)

عرش صدیقی صاحب کا اُردو دوہے کے حوالے سے بڑا کارنامہ اُن کا طویل مضمون ’’پاکستان میں اُردو دوہے کا ارتقا‘‘ ہے۔ اس مضمون کا اصل محرک تو جمیل الدین عالی صاحب کی رائج کردہ بحر کا تحفظ کرنا ہے، لیکن اس کے اثرات بہت خوش کن اور توجہ طلب برآمد ہوئے۔ دوہے کی زبان، دوہے کی مروجہ بحور، کلاسیکی عہد کے شاعروں کا سرسری جائزہ اور عصری دوہا نگاروں کا مختصراً تذکرہ، دوہے کی مخصوص فضا، رنگ و آہنگ اور روایت سے آشنا کرتا ہے۔ یہ طویل مضمون ۹۸ صفحات کو محیط ہے اور ’’کملی میں بارات میں ‘‘میں ہی شامل ہے۔ ایک طرح سے یہ اس کتاب کا دیباچہ بھی بن گیا ہے، اوراس کی الگ سے بھی وہی شان ہے، جو الطاف حسین حالی کے مقدمۂ شعر و شاعری کی ہے۔

اس مضمون کا بڑا حصہ تو عالی جی کے حق میں اور اُن کے مخالفین کے نظریات کی رد میں ہے۔ البتہ بعض باتیں ایسی بھی بیان ہوئی ہیں، جن کا عمومی فائدہ ہے۔ خصوصاً دوہے کی زبان کے متعلق انھوں نے جو روایات اکٹھی کی ہیں، اس سے جہاں اُن کے مؤقف کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، وہاں اُردو کی بنیاد گزاری کے کچھ قرینے بھی جھلک دکھا جاتے ہیں۔ پھر دوہے کے رائج اوزان کی نشان دہی بجائے خود ایک اہم کام ہے۔ اس مضمون کی ایک خوبی یہ بھی ہے، کہ اس میں اُن شخصیات کے نام شامل کر لیے گئے ہیں، جنھوں نے دوہا نگاری پر بحث کی ہے۔ وہ لوگ بھی نشان زد کیے گئے ہیں، جنھوں نے عالی چال کو اپنایا اور وہ بھی جنھوں نے اس چال کی مخالفت کی اور دوہا چھند کو اختیار کیا۔ اس مضمون کا ایک خاص وصف یہ بھی ہے، کہ اس میں نقد و نظر کی کسوٹی سے بعض شاعروں کو بھی گزارا گیا۔ جیسے پاکستان میں اُردو دوہے کے بنیاد گزار خواجہ دل محمد ہیں۔ ان کے علاوہ الیاس عشقی سمیت کئی ایک دوسرے لوگوں کا بھی بیان ہوا ہے۔ عالی جی کا مطالعہ اگرچہ موضوع کے اعتبار سے نہیں ہے، مگر ان کی بحر کے حوالے سے بہت زیادہ مواد جمع کیا گیا ہے۔ اس طرح عالی جی کوپسند کرنے والوں کے لیے اس میں بہت زیادہ خوبیاں ہیں۔ پھر عرش صدیقی  صاحب کے نظریات اور ان کی نفسیات کی مکمل تشریح بھی بہ خوبی ہو جاتی ہے۔

اگرچہ یہ ایک جانبدارانہ مضمون ہے، لیکن بعض دلائل و براہین بہت مضبوط ہیں۔ اس لیے، اس کی حیثیت سے انکار نہیں ہو سکتا۔ پھراس کی ایک حیثیت روایت سازی کی بھی ہے۔ کیوں کہ اس کے وسیلے سے بہت سے ہم عصر شاعروں کوراستے کے تعین میں مدد ملی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی مکتبی حیثیت بھی موجود ہے۔ دوہا بانی کو سمجھنے کے لیے بہت سے لوگوں نے اس سے مدد لی اور اب بھی یہ ویسے ہی کار گر ہے۔

کملی میں بارات کادوسراحصہ دوہوں پر مشتمل ہے۔ اس میں مجموعی طور پر۱۴۳ دوہے شامل ہیں۔ اور یہاں شاعر نے اپنے لیے عادل فقیرجیسا نام منتخب کیا ہے۔ وزن کے اعتبار سے عرش صدیقی نے عالی چھند اور دوہا چھند دونوں کو اختیار کیا۔ اگرچہ عالی چھند میں کہا گیا کلام نسبتاً زیادہ ہے، لیکن دوہا کے روایتی چھند کو اختیار کرنا اور پھر اس کو ’’دل محمد چھند‘‘ کہنا اس بات کی دلیل ہے، کہ اوزان کی ساری بحث کے باوجود انھوں نے کھلے دل سے روایتی چھند کو نہ صرف قبول کیا، بلکہ اُسے خراج بھی پیش کیا۔ عالی چھند میں کہے گئے دوہوں کے عنوانات دیکھیے : ’’کملی میں بارات‘‘ پہلا عنوان ہے اور اس کے ذیلی عنوانات یہ ہیں ’’ میرا فخر محمدؐ، جس کا بخت نصیر، باقی جھوٹ فریب، اُس کا عدل مثال، عدل رہا نایاب، عادل اور کٹھور، حرمت کا بیوپار۔ ‘‘ دوسرا عنوان ’’ہیرا، موتی، راکھ‘‘ ہے اور اس کے ذیلی عنوانات یہ ہیں ’’ہم ازلوں کے فقیر، عظمت کرسی طور، ہیرا، موتی، راکھ، بخت نہ بدلا جائے، ادھ لکھی تحریر، عادل اور فقیر، خواہش، خواب، گمان، بھکشا اور فقیر۔ ‘‘ تیسراعنوان ہے ’’کس کو کریں وکیل‘‘ اوراس کے ذیلی عنوانات ملاحظہ ہوں ’’ عدل بڑا انمول، ہم ٹھہرے مجہول، عدل بڑا دشوار، عظمت کی دیوار، کس کو کریں وکیل۔ ‘‘چوتھا عنوان ہے ’’پیار کے روپ ہزار‘‘ اور ذیلی عنوانات ہیں ’’شفقت کی مہکار، لے خلقت کی دعائیں، پیار کے روپ ہزار۔ ‘‘پانچواں عنوان دیکھیے ’’ مایا اونچی ذات‘‘ اور ذیلی عنوانات ملاحظہ ہوں ’’مایا کس کی میت، مایا جل کے بیچ، جب تک ہاتھ میں زور، مایا اونچی ذات۔ ‘‘ چھٹا عنوان ہے ’’ کرسی اور تقدیر‘‘ اور ذیلی عنوانات یہ ہیں ’’ کرسی آنی جانی، جھوٹی ہے سب شان، کرسی اور تقدیر۔ ‘‘ ساتواں عنوان ہے ’’سُن مرغے کی بانگ‘‘ اور ذیلی عنوانات ہیں ’’اپرادھی عادل، اندر باہر ایک، عادل ڈنڈی مار، بول بھی اونچے بول، نام بشیر نذیر، سن مرغے کی بانگ۔ ‘‘

دل محمد چھند میں جو دوہے کہے گئے ہیں، اُن کے عنوانات دیکھیے : ’’ پھیکا پکوان، خالی ہاتھ فقیر، دکھ سکھ آدھوں آدھ، پاؤں میں تقدیر، جھوٹ سچ اور عادل ڈنڈی مار۔ ‘‘یہ مختصر حصہ ہے اور صرف پانچ صفحات اور اٹھارہ دوہوں کو محیط ہے۔ شایداس کاسبب وہی ہے، جو خود انھوں نے ایک جگہ اعتراف کے طور پرکیا، ملاحظہ ہو:

’’بطور شاعر میرا اپنا تجربہ بھی یہ ہے، کہ خواجہ دل محمد والی بحر میں لکھنا جمیل الدین عالی والی بحر میں لکھنے سے کچھ مشکل ہے۔ ہری پد دوہے اور للت پد دوہے یعنی سرسی چھند کے وزن کی روانی خیال کے اظہار کوآسان اور زیادہ فطری بناتی ہے۔ جبکہ دوہا چھند رُک رُک کر لکھنا پڑتا ہے۔ یہ بہرحال ایک ذاتی احساس بھی ہو سکتا ہے، جس کی بنیاد میری اپنی کمزوری ہو، لیکن یہ احساس بہت لوگوں کو ہے۔ ‘‘(۱۷۷)

البتہ عالی چھند میں اُن کے کلام کا بڑا حصہ ہے اور یہ ۴۹صفحات اور۱۲۵دوہوں کو محیط ہے۔ ایک اور مقام پر عالی چھند کے حق اور دوہا چھند کے رد میں یوں رقم طراز ہیں :

’’جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے پنگل ہماری آج کی شاعری کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ روایت پرستی، طرزِ کہن پر اڑنے اور آئینِ نو سے ڈرنے بلکہ اسے مردود قرار دینے کی روش نے بار بارانسان کی معاشرتی زندگی کو صدمے پہنچائے ہیں۔ ‘‘(۱۷۸)

صدیقی صاحب کے اس جارحانہ رویے پر پہلے بھی کہا جا چکا ہے، کہ ارتقائی عمل جاری وساری رہتا ہے۔ اس لیے کہ کوئی بھی اس کے سامنے بند نہیں باندھ سکتا۔ البتہ روایت سے انحراف حقیقت میں ایک قومی ذمہ داری سے فرار بھی ہے۔ کیوں کہ اَدب اُس قومی وراثت میں شامل ہے، جسے نسلِ نو کی امانت کے طور پراُس تک پہچانا لازم ہے۔ اس کا بڑا وسیلہ یہ ہے، کہ اُس روایت کو جدیدیت سے ہم آہنگ کیا جائے۔

’’کملی میں بارات ‘‘کی زبان نہایت سادہ اور عام فہم ہے۔ اس کی ایک وجہ تو شعوری احساس ہے، جو اُن کے مضمون ’’پاکستان میں اُردو دوہا کا ارتقا‘‘ میں بھی شوریدہ تر ہے، اوردوسراسبب پاکستانی زبان کا امتیاز ہے۔ اس لیے کہ جب لکیر کھنچ گئی تو اُردو کا مقام سربلند رکھنا ضروری تھا، کیوں کہ تقسیم کے عمل کے پیچھے ایک وجہ یہ زبان بھی تھی۔ دونوں قوموں کی تہذیب و تمدن میں تفاوت میں خطِ امتیاز جوکھنچتا ہے، توزبان پہلاحوالہ بنتی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ نئے دوہانگاروں نے نہایت آسانی سے مختلف مضامین اور موضوعات پرقلم اُٹھایا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ دوہے کی روایتی زبان ترک بھی نہیں ہوئی۔ خواجہ دل محمد اورالیاس عشقی توسینئرہیں، متاخرین میں بھی بڑی تعدادایسے دوہاکویوں کی ہے، جواسی زبان کو ساتھ لے کرچلتے ہیں۔ جمیل عظیم آبادی، ڈاکٹرطاہرسعید ہارون اور پرتوروہیلہ سے لے کر نئے لوگوں میں توقیرچغتائی، سیدزاہدحیدر، مشتاق عاجز اور خاورچودھری تک سبھی کے یہاں یہ زبان پوری شدت کے ساتھ ظاہرہوتی ہے۔ یہی روایت سے جُڑت کا ایک واضح ثبوت ہے۔ اس تقابل سے مراد صرف یہ ہے کہ دونوں رنگوں کی اپنی اپنی اہمیت اوراپنا اپنامقام ہے۔

عرش صدیقی صاحب کا مزاج صوفیانہ ہے، جس کا اظہار خودبھی انھوں نے کیا اوراُن کے کلام سے بھی واضح ہے۔ ان کی اس روش کے بارے میں عاصی کرنالی صاحب کا اظہاریہ اہم ہے :

’’کملی میں بارات ‘‘کے دوہوں میں تصوف کا ذوق رچا ہوا ہے اور خدا اور رسولِ خدا سے محبت، شیفتگی اور شعور آمیز والہانہ پن کا رنگ چھایا ہوا ہے۔ (۱۷۹)

چوں کہ عرش صدیقی صاحب کی زیادہ تر شاعری عنوانات کے تابع ہے، اس لیے اسی تناظر میں اسے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ عددی اور مقداری اعتبارسے اس مجموعے میں شامل کلام کچھ زیادہ نہیں ہے، لیکن سخن فہمی اور خاص رجحان کی وجہ سے یہ مجموعہ اہمیت کا حامل ہے، جس سے صرفِ نظر کرنا بددیانتی ہو گی۔ ’’کملی میں بارات‘‘ کے عنوان تلے شائع ہونے والے یہ دوہے ملاحظہ کیجیے :

حاکم اور محکوم سبھی کو، ہے اس گھر کی تلاش

جس پر سایہ افگن ہو، غم خواری کا آکاش

 

میرے پاس علاج ہے اس کا، سنو فقیر کی بات

کالی کملی اوڑھ لو سارے، کملی میں بارات

 

عادل میرا فخر محبت، عجز، لحاظ، نیاز

تیرا فخر حقارت، عہدہ، کرسی، کبر، مجاز

 

تیرا فخر عدالت والے بے حس رسم و رواج

میرا فخر محمد، عادل، پیر مرا حلّاج

 

کیا کیا زرّیں تخت سجے، اور کیا کیا پھیلے راج

اک شاہی ان سب سے اونچی، بن کرسی، بن تاج

 

یہ شاہی قرآن کی شاہی، یاں قدروں کا راج

یہ شاہی انصاف کی شاہی، یہاں نہ سود بیاج

 

یہ شاہی اُس شخص کی شاہی، جس کا بخت نصیر

جس کا احمد نام ہوا، جو عادل، شاہ، فقیر (۱۸۰)

ان حمدیہ اور نعتیہ دوہوں کی فضا میں جو وارفتگی اور دل بستگی ہے، عرش صدیقی کا یہ خاص مزاج ہے۔ دین اور دینی تعلیمات سے محبت کا ایک خاص زاویہ ان کی پوری شاعری میں چھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک بیان کا تعلق ہے، تو نہایت شستہ اورسادہ ہے۔ زبان میں عمومی غلبہ تو عربی اورفارسی کا ہے، البتہ کچھ لفظ ہندی روایت کے بھی موجود ہیں۔ جیسے آکاش، باٹ، کھاٹ، رواج، راج، تاج اور بیاج وغیرہ۔ یہ تناسب کچھ زیادہ نہیں ہے، اس لیے کہ عربی فارسی کے الفاظ کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ بعض دوہوں میں ایک آدھ لفظ ہندی کا آیا ہے اور کچھ میں توسرے سے ہے ہی نہیں یا پھر رابطے کے الفاظ ہیں۔ ایمان فروشوں اور مایا پرستوں کا پردہ کس طرح چاک کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:

عادل بیٹھا کیوں بانٹے، ان اندھوں میں انعام

نعت کہیں جو لے کر پیسے، خوب کمائیں دام

 

حمد کہیں اور یاد نہ رکھیں، مولا کے فرمان

خلقت سے دل تنگ رہیں، اور بنے پھریں ودوان

 

حرمت کا بیوپار کریں، اور لفظوں کی تحقیر(۱۸۱)

جذبے، قدریں، عزت، عظمت، سب جن کے نخچیر

خدایانِ منبر و مکتب کی سرشت کو ان دوہوں میں خوب بے نقاب کیا گیا ہے۔ ان میں لہجے کی کاٹ اتنی شدید ہے، کہ ایک لمحے کے لیے قاری کا دل بھی دھک سے رہ جاتا ہے۔ احساس کی سطح پریہ اظہارانسانی رویوں پر بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ایسی سچائیاں ہیں، جن سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ اب تو خیر ہمارے یہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا نام بیچنا ایک فن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ماضی میں بھی کچھ لوگ موجود تھے۔

’’ ہیرا، موتی، راکھ‘‘ تلے  جو اظہاریے چمکتے ہیں، اُن میں سے کچھ ملاحظہ کیجیے :

عید کے دن بھی مانگ کے کھائیں، ہم ازلوں کے فقیر

ہم ہی سب کا درد بٹائیں، ہم ہی پھریں دلگیر

 

عادل نیچ نہ جان ہمیں، گر ہاتھ کبھی پھیلائیں

مانگنا تو اک عادت ٹھہرا، ناں مانگیں مر جائیں

 

ناں مانگیں تو پھر داتا کی، کیسے ہو پہچان

کہیں تو جھکنا پڑ جاتا ہے، ٹھہرے جو انسان

 

ہم ہیں فقیر مگر رکھتے ہیں، اپنی سی اک ساکھ

اپنی نظر میں ایک ہیں سارے … ہیرا، موتی، راکھ

 

سب آدم کے بیٹے ہیں، یہ کون کسے سمجھائے (۱۸۲)

کاش کوئی آکاش پہ لکھ دے … ’’اونچ نیچ انیائے ‘‘

ان دوہوں میں انسان کی بے چارگی، بے بسی، عدمِ مساوات اور رنگ ونسل کے امتیازات کا بیان آیا ہے۔ انسانوں کی اس دُنیا میں انسان کی ناگفتہ بہ حالت دلوں کو چیرتی ہے۔ مقتدر طبقے کی کج ادائیاں اور صاحبانِ نصاب کی بے پروائیاں ایک مستقل دُکھ کاسبب ہیں۔ عرش صدیقی صاحب اپنے اندازسے طنز کے تیر کھینچتے ہیں اور ہر ظالم و جابر کو احساس دلاتے ہیں، کہ کوئی ایسی ذات بھی موجود ہے، جو بہت آہستگی سے سانسیں اُچک لیتی ہے۔ اس لیے کہ انسان بہ ہر حال کمزور ہے اور زیادہ اختیار نہیں رکھتا۔ اس لیے جزوی اختیار کو آلودگیوں سے بچائے، تاکہ سہل گام رہے اور لوگوں کی زندگیاں اُس کی وجہ سے شاد و آباد رہیں۔

’’کس کو کریں وکیل‘‘ ایک عنوان ہے، جس کے ذیل میں عدل کے قتل کے ثبوت جمع کیے گئے ہیں۔ انصاف کے نام پر ظلم اور منصفوں کے نام پر ظالم ہر طرف پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کائنات کی بنا جب سے پڑی ہے، تب سے یہ منظر موجود ہے اور آج دُنیا جو خود کو مہذب اور تعلیم یافتہ کہتی ہے، اب بھی وہی منظر ہے۔ عرش صدیقی صاحب نے ان مضامین کو اپنے اندازاوراحساس کی سطح پر بلند کیا۔ کچھ دوہے ملاحظہ کیجیے :

قاتل چور پہ بے شک عادل، لپکیں لاکھ سزائیں

لیکن اس کے بیوی بچے، کیوں بھوکے مر جائیں !

 

یا پھر بھٹکیں گلی گلی، اور کوئی نہ پوچھے حال

عادل تیرے عدل کی پستک لگے مجھے کنگال

 

ہم ازلوں سے عدل کے بھوکے، پھریں بہاتے نیر

دھن دولت اور کس بل والے، کہیں اسے تقدیر

 

عادل وہ کیا عدل کہ جس میں، لمبے برس لگ جائیں

ملزم عدل کٹہرے اندر کھڑے، کڑھیں کُرلائیں (۱۸۳)

ان دوہوں میں بہ ظاہر عمومیت ہے، مگر خاص بات ایک نظریے پر ضربِ کاری ہے۔ عدم مساوات کے شکار لوگوں کو ایک زمانے سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی، کہ اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ان کے بخت میں لکھا تھا۔ اس لیے انھیں صبر شکر کے ساتھ جیون بِتانا چاہیے۔ یہ ایسا ہتھیار ہے، جس کی بنیاد پر ظالم و غاصب ہمیشہ لطف آشنا رہے اور مقہور و مجبور قسمت کا لکھا سمجھ کر خاموش۔ حق و انصاف کچھ نہیں، ماسواطاقت وروں کے گھر کی لونڈی ہونے کے۔ پھر انصاف کے نام پر ہونے والے ظلم کی نشان دہی بھی موجود ہے۔ یہ کیوں کر انصاف ہوا کہ کسی کے کیے کی سزاکسی اور کو دی جائے ؟ نہ دین دھرم اور نہ قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے باوجود شب و روز ہمارے سامنے یہ جبر ہوتا ہے۔ کسی کی سزا کسی اور کو کاٹتے ہم روزانہ دیکھتے ہیں اور خاموشی سے جیتے ہیں۔ لیکن عادل فقیر خاموش نہیں رہے۔ اپنے تئیں آواز بلند کی، چاہے کسی کے کانوں تک رسائی حاصل کرے یا نہ کرے۔

’’پیار کے روپ ہزار‘‘ بھی ایک سرنامہ ہے۔ یہاں روایتی پیار کا اظہار مفقود ہے اور اس کی جگہ پیار کی وہ تفہیم ہے، جو مجاز سے حقیقت کی طرف محوِ پرواز ہے۔ عادل فقیر نے اس باب میں بہت خوبی سے اپنے آپ کو روایتی روش سے بچایا ہے۔ کچھ نمونے ملاحظہ کیجیے :

مولا کے بندے ہیں سارے، حاکم اور محکوم

ناں کوئی اصغر، ناں کوئی اکبر، تجھ کو نہیں معلوم

 

عادل! عدل کے یخ چہرے پر، پیار کا چھینٹا مار

پیار کی گرمی میں بہہ جائیں گے، نفرت کے کہسار

 

پیار کی گرمی پھول کھلائے، پیار گل و گلزار

پیار خزانہ ، پیار دفینہ، پیار کے روپ ہزار(۱۸۴)

ان دوہوں میں ’’انگ درپن‘‘ کی توصیف ہے اور نہ نائیکا بھید کی کارفرمائیاں۔ ایک الگ اور آفاقی رنگ ہے، جس سے یہ پوری کائنات بھی رنگ جائے تو نیا رنگ موجود رہے، ایک ایسا راگ ہے، جس کی لے پر تمام کائنات ناچتی ہے۔ ایک ایسا نغمہ ہے، جو نباتات و جمادات و حیوانات کے لبوں پر ہے۔

’’مایا اونچی ذات‘‘ ایک اور شوریدہ تر عنوان ہے۔ دھن دولت کی اہمیت اور ضرورت سے انکار کیسے ہو سکتا ہے ؟اس کے حصول کے لیے انسان کیا کچھ نہیں کرتا اور اس کے بل پرانسان کیا کچھ نہیں کرتا؟ یہ سارے منظر روزانہ ہماری بصارتوں میں اُترتے ہیں۔ اس باب میں عادل فقیر نے اپنے احساسات کو اجتماعی دانش سے ہم آمیز کر کے بہت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔ ایک تیز نشتر کی صورت یہ دوہے دل میں پیوست ہوتے ہیں۔ دماغ جاگتا ہو تو ہر ایک دوہا بہت کچھ سمجھاتا ہے۔ کچھ مثالیں دیکھیے :

مایا مایا کہتے عادل، جائے عمریا بیت

مایا اندھی، بہری، گوں گی، مایا کس کی میت!

 

مایا کے لوبھی دھن والے، مال سے کھینچیں مال

عدل کریں تو سب چھن جائے، عدل بڑا جنجال

جب تک سر پر تاج شہی کا، جب تک ہاتھ میں زور

تب تک ڈنکا نام کا تیرے، عادل چاروں اور

ہر شے مال بکاؤ عادل، ہر دھندا بیوپار

پیسا ہو تو مل جاتا ہے، عدل بھرے بازار(۱۸۵)

ان دوہوں سے انسانی سرشت اوراس کے اثرات کی نشان دہی بہت اچھی طرح ہوتی ہے۔ ایک اور رنگ دیکھیے، جو بغل میں چھری اور منھ میں رام رام کی تفصیل ہے :

عادل بن کر لُوٹ مچاؤ، اور کہلاؤ فقیر

بنے رہو ابلیس، پہ رکھ لو، نام بشیر، نذیر(۱۸۶)

اپنے اردگرد نظر دوڑائیے تو کئی ایسے کردار دکھائی دیں گے، جواس دوہے کی مکمل تصویرو تفسیر ہوں گے۔

دوہا چھند کو عادل فقیر، یعنی عرش صدیقی صاحب نے ’’خواجہ دل محمد چھند‘‘ نام دیا ہے۔ دوہے کے اس روایتی چھند میں کہے گئے کچھ دوہے ملاحظہ ہوں۔ اگرچہ عنوانات موجود ہیں، لیکن یہاں کچھ مثالیں ہی پیش کی جائیں گی۔

اوروں کے دُکھ دیکھتا، کھڑا رہا دلگیر

کیا رکھتا، کیا بانٹتا، خالی ہاتھ فقیر

صبح کا سورج دیکھیے، تو رات بھی رکھیے یاد

رہیے ساتھ فقیر کے، ہر چہ بادا باد

جیب میں رکھے راستے، جیبھ میں باندھا لوچ

کیا پایا کیا کھو دیا، بھول گئے یہ سوچ

رکھا تو نے نام وہ، جو ہے ربّ کا نام

لیکن بے توقیر ہیں، تیرے سارے کام (۱۸۷)

موضوعات کے اعتبار سے ان دوہوں میں پچھلوں کی نسبت کچھ خاص فرق نہیں، سوائے اس کے کہ چھند بدل گیا۔ بہت خوب صورت پیرائے اور چست بندش کے ساتھ یہ دوہے کہے گئے ہیں۔ جواس بات کا ثبوت بھی ہیں، کہ دوہا چھند وہ قید نہیں لگاتا، جس کا شکوہ عرش صدیقی صاحب کو ہوا۔ یہ تو کچھ مثالیں ہیں، خود انھی کے کلام میں مزید ایسی خوب صورت مثالیں موجود ہیں، جودوہا چھند کو اچھی طرح قبول کرتی ہیں۔

مجموعی طور پر ’’کملی میں بارات‘‘ اہم مجموعہ ہے۔ اس کی ایک اہمیت تواس میں شامل دوہے کے فن پر مضمون کی وجہ سے ہے۔ دوسری اہمیت اس کے دوہوں کی وجہ سے ہے۔ اخلاقیات، تصوف اور نصائح پر مشتمل یہ دوہے، دوہا بانی کی مخصوص فضاسے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ہر ایک دوہاکلاسیکیت کا غماز ہے۔ اگرچہ لفظیات یا بحر جدید ہی کیوں نہیں۔ اس اعتبار سے یہ دوہے کی روایت کا تسلسل ہے۔

 

 

 

 

تاج قائم خانی

[۱۳ مئی ۱۹۲۹ء … ۲۱ اگست ۲۰۱۱ء )

 

 

تاج قائم خانی کا اصل نام گلاب خان ولد احمد خان ہے۔ آپ کا مولد گھانگور  بیکانیر(انڈیا) ہے، جب کہ میرپور خاص سندھ میں آپ کا وصال ہوا۔ بہ طور قانون دان آپ نے اپنے لوگوں کی بہت خدمت کی۔ اُردو اَدب میں آپ کی شناخت گیت نگار، دوہا نگار اور غزل گو کی حیثیت سے ہے۔ ’’چھاؤں سلگتی راہوں میں ‘‘تاج کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو ۲۰۰۰ء میں اشاعت آشنا ہوا۔ اس مجموعے میں حمد، نعت، غزلیں اور دوہے شامل ہیں۔ ’’گیت یہ کیول گیت نہیں ‘‘آپ کادوسرا مجموعہ ہے، جو گیتوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ مہا کوی بچن کے طرزِ اظہار کی یاد دلاتا ہے۔ اور یہ ۲۰۰۲ء میں اربابِ نقد و نظر کے ہاتھوں میں آیا۔ ’’دل ہی عشقی تاج کا‘‘ دوہوں پر مشتمل مجموعہ ہے، جو۲۰۰۴ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں صرف دوہے شامل کیے گئے ہیں، جو تمام کے تمام دوہا چھند میں ہیں۔

اس مجموعے کا عنوان بہت دلچسپ ہے۔ دلچسپ اس لیے کہ یہ مرکب تین شخصیات خواجہ دل محمد، ڈاکٹر الیاس عشقی اور تاج قائم خانی کے نام معنون ہے۔ پھر اس سے عشق کی طرف رغبت کا اشارہ بھی موجود ہے۔ اس مرکب میں ’’دل‘‘ اور ’’عشقی‘‘ کی مناسبت سے تاج قائم خانی نے خوب راہ نکالی ہے۔

دوہے کی روایت میں خواجہ دل محمداورالیاس عشقی ایک مضبوط اور قائم حوالہ ہیں۔ ان سے نسبت اور محبت ہی کے وسیلے سے اس کتاب کا نام پڑا۔ کتاب میں مختلف النوع مضامین ہیں۔ دوہے کے روایتی موضوعات بھی ہیں اور عصرِ جدید کے سلگتے ہوئے مسائل بھی۔ سبھی کچھ تو ان دوہوں میں مجسم ہوا ہے۔ یہ تجسیم الہامی نہیں شعوری ہے۔ اس لیے کہ شاعراس دُنیا کا ایسا فرد ہے، جسے روزانہ صدہا مشکلوں اور مصائب کاسامناہوتا ہے اور وہ صدہا لوگوں کو اذیت ناکیوں سے دوچار دیکھتا ہے۔ ایک بیدار مغز اور ہمدرد دل ہی دوسروں کی مشکلوں اور مصیبتوں کو جان سکتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ مجموعہ بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے۔

یہ دوہے روایتی دوہا چھند کے سختی سے پابند ہیں۔ شاعر نے پوری کوشش اور توجہ کے ساتھ اپنے خیالات کو اس چھند کا تابع کیا۔ اور بھر پور کامیابی اور روانی سے ہر طرح کا مضمون باندھا۔ تاج کے مترنم دوہے اس بات کا ثبوت ہیں کہ چھند بہ ہر حال رکاوٹ کا سبب نہیں، جس طرح دوہا چھند کے خلاف عام خیال یہی ظاہر کیا گیا۔ پھر تاج قائم خانی کی زبان میں وہی رَس جس اور لوچ ہے، جو دوہے کے لیے لازم ہے۔ اس زبان میں عربی فارسی الفاظ کو یوں سمیٹا گیا ہے، کہ کسی بھی طرح پیوند نہیں نظر آتا۔ یہاں بھی اُن کی طبیعت کی روانی اور مزاج کی شائستگی واضح ہے۔ ان کی عمومی زبان کے حوالے سے مشہور شاعرحضرتِ محسن بھوپالی کا یہ بیان قابلِ توجہ ہے، جو انھوں نے ’’چھاؤں سلگتی راہوں میں ‘‘ پر رائے دیتے ہوئے ظاہر کیا، ملاحظہ ہو:

’’تاج صاحب کی مادری زبان مارواڑی ہے، لیکن انھوں نے اُردو شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ ‘‘(۱۸۸)

اس مجموعے میں ’’اول ربّ رحیم، بعدازخدارسول، ڈاکٹر خواجہ دل محمد، ڈاکٹر الیاس عشقی، ساحر شیوی، اُردو میں دوہا، میر پور خاص، دوہے، سورٹھیا دوہے، پیار، اقبال، یوم آزادی، ادبی چوپال اور دوہوں کی دستار‘‘ جیسے عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ دوہے اور سورٹھیادوہے اس کتاب کا طویل حصہ ہیں۔ ایک خاص بات اس کتاب کا آخری عنوان ہے۔ اس عنوان کے تحت شاعر نے کلاسیکی دوہا نگاروں میں سے بعض کا کلام نمونہ کے طور پر دیا اور پھر نثری ترجمہ بھی ساتھ وضاحت کے لیے موجود ہے۔ روایت کوسمجھنے میں یہ حصہ کسی حد تک مددگار بھی ہے۔

تاج صاحب اور ان کے فن پر نوید سروش کی رائے دیکھیے جو ’’دل ہے عشقی تاج کا‘‘ کے تناظر میں ہے :

’’تاج صاحب کے دوہے قدامت شناسی اور جدت پسندی کی بہترین مثال ہیں۔ تاج صاحب کے دوہوں کے موضوعات میں وعظ و نصیحت، مذہبی رواداری، حقوقِ نسواں، حسن و عشق، انصاف پسندی، مساوات، امن و آشتی، بھائی چارہ، دہشت گردی اور جنگ سے نفرت کا اظہار فنی باریکیوں کے ساتھ ملتا ہے۔ تاج صاحب کے دوہوں میں مقصدیت نمایاں ہے۔ یہ مقصدیت ہر حال میں انسان کی فلاح اور بہتری کے گرد گھومتی ہے۔ ‘‘ (۱۸۹)

ایک اور مقام پر کہتے ہیں :

’’تاج صاحب کی شخصیت قول و فعل کے تضاد سے پاک ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں حیران کر دینے والے فیصلے بڑی آسانی سے، بغیر کسی دباؤ کے کیے۔ یہی بات اُن کے کلام میں بھی نمایاں ہے۔ وہ اصلاح و بہتری کے کام کا آغاز اپنے گھر سے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ‘‘(۱۹۰)

ان آرا سے یہ بات واضح ہوتی ہے، کہ تاج قائم خانی نے دوہے کے بنیادی مقصد کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے دوہا کویوں کی طرح سنت یا صوفی کا چولا بھی پہنا۔ اس لیے کہ دوہا کوی یا تو صوفی، بھگت یاسنت ہوتا ہے یا پھر عاشقِ خود فراموش۔ ہر دو حوالوں سے اُس کی ذات کے زاویے روشن ہوتے ہیں۔ اگر حسن و عشق کے بیان پر آتا ہے، تو سینہ چیر کر رکھ دیتا ہے اور پند  و نصائح کے باب میں پیش قدمی کرتا ہے توہر زاویہ دیکھ کر بڑھتا ہے۔ ظاہر ہے محض زبانی بات کبھی بھی ثمر بار نہیں ہوا کرتی۔ بھگتوں، صوفیوں اور عاشقوں کی زندگیاں قابلِ تقلید نمونہ ہوا کرتی تھیں۔ تاج قائم خانی کو اگر یہ دولت نصیب تھی، تو یہ انعام سے کم نہیں۔

دوہے کی طرف رغبت اور کتاب کی اشاعت کی بابت خود مصنف کا خیال بھی جان لینا بہتر ہو گا۔ ملاحظہ ہو: ’’۱۹۹۹ء کے آغاز تک میرے دوہوں کی تعداد۱۰۰سے بھی کم تھی اور سورٹھیا دوہا تو ایک بھی نہیں تھا۔ اس لیے دوہوں پر مشتمل کسی مجموعے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا مگر بھلا ہو ’’ادبی چوپال‘‘ کا اوراس کے اراکین کا، جنھوں نے ایک قرار داد کے ذریعے پابندی لگائی کہ ہر ہفتہ وار اجلاس میں کچھ نہ کچھ ضرور پیش کرنا ہو گا… ایسی صورت حال میں میرے لیے بھی ہر ہفتے کچھ نہ کچھ کہنا لازمی ہو گیا اور میں ہر ہفتے ایک دو دوہے پیش کر کے جرمانے سے بچتا رہا۔ ‘‘(۱۹۰)

گویا شاعر نے دوہے کی تحریک ادبی چوپال سے پائی اور پھر یہی چوپال اس مجموعے کی اشاعت کاسبب بھی بنی۔ یہ بات ایک طرح سے قدیم مشاعروں کی روایت تازہ کرتی ہے۔ جہاں جذبۂ مسابقت کے ساتھ ساتھ کچھ کرنے کی تمنا بھی دلوں میں جگہ بنایا کرتی تھی۔ عنوانات کے تحت لکھے گئے دوہوں کا مطالعہ مرحلہ وار ہو گا۔ ملاحظہ ہو:

 

اوّل ربّ رحیم:

 

اس حصے میں آٹھ حمدیہ دوہے ہیں۔ ان کی زبان جدید اُردو ہے۔ شاعر عجز کے اظہار کے ساتھ ساتھ مناجات بھی پیش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی عظمتیں اور کبریائی بھی بیان کرتا ہے۔ یہ مثالیں دیکھیں :

حمد و ثنا سے رُوح کو، ملتی ہے تسکین

دُعا حمد کے ساتھ کر،د ل سے کہہ آمین

 

ہُوں تیری ہی بندگی، کرنے کا پابند

تجھ ہی سے میں مدد کا، طالب ہوں ہر چند

جن لوگوں پر غضب کی، تیری ہوئی نگاہ

رکھیو مجھ سے دُور ہی، یا ربّ اُن کی راہ(۱۹۱)

یہ دوہے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ہیں۔ سیدے سبھاؤ میں انھی مضامین کو قلم بند کیا گیا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے، جو ماضی کے دوہا نگاروں نے اپنی اپنی قوم کی اصلاح کے لیے اختیار کیا۔ چوں کہ دوہا کوی کا مخاطب عام آدمی ہی رہا ہے، اس لیے تاج قائم خانی کے یہاں بھی زبان اُس سطح پر رہتی ہے، جو عامۃ الناس کوآسانی سے سمجھ آئے۔ پھر مقصد بھی زیادہ سے زیادہ استفادے کی صورتیں پیدا کرنا ہوتا ہے۔

 

بعد از خدا رسولؐ:

 

اس حصے میں بھی آٹھ دوہے آئے ہیں۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی بارگاہ میں سلام کی عرض گزاری کے ساتھ ساتھ آپؐ کے فیضان اور آپؐ کی آمد سے منور ہونے والے مناظر کا بیان بھی شاعر نے اپنے سلیقے سے کیا ہے۔ یہ دوہے ملاحظہ کیجیے، جن میں شاعر کی مودت کاسمندرٹھاٹھیں مارتا ہوامحسوس ہوتا ہے :

ہیں نبیوں میں آپؐ جیوں، تاروں میں مہتاب

اُسوۂ حسنہ آپؐ کے، نورانی محراب

 

ربّ کی سبھی تجلیاں، دیکھیں بلا حجاب

ذکر شبِ معراج کا، یوں کرتی ہے کتاب

 

بتلا دیے حضورؐ نے، جینے کے آداب

کیا حجۃ الوداع میں، رحمت بھرا خطاب (۱۹۲)

نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ آپؐ کی تعلیمات پر عمل پیرائی ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ اُردو شاعری میں نعت گوئی ایک خاص حیثیت سے موجود ہے۔ یہاں وہی مضامین ہیں۔

شخصیات کے باب میں ڈاکٹر خواجہ دل محمد کے لیے دس دوہے، ڈاکٹر الیاس عشقی کے لیے آٹھ، جب کہ ساحر شیوی کے لیے بھی آٹھ دوہے کہے گئے ہیں۔ تینوں شخصیات سے معنون دوہے، شاعرکی ان سے عقیدت اور محبت کا مظہر ہے۔ بالترتیب ہر شخص کے لیے کہے گئے دوہوں میں سے ایک ایک ملاحظہ ہو:

دوہے کے دن اَدب میں، نہیں گئے ہیں بیت

خواجہ دِل بھی یاد ہے، اور ’’پیت کی ریت‘‘

 

دوہا دوہا سب کریں، دوہا کہے نہ کوئے

جو سچ مچ دوہا کہے، وہ عشقی سا ہوئے

 

ساحرـؔ اُردو کا ہے اک، بڑا سفارت کار

دُنیا بھر میں کر رہا ہے، اُردو کا پرچار(۱۳۹)

 

اُردو میں دوہا:

 

اس عنوان کے تحت تیرہ دوہے منظوم ہوئے ہیں۔ جن میں دوہے کی زبان، وزن اور مضامین کو بیان کیا گیا ہے۔ کلاسیکی عہد کے بعض دوہا کویوں کو بھی یاد کیا گیا ہے۔ وزن اور مضمون کے حوالے سے یہ دوہے ملاحظہ ہوں :

نا مانگے پچیس یہ، نا راکھے تیبیس

دوہے کی ہر سطر میں، حرف سجیں چوبیس

دو مصرعوں میں باندھ کر، درد، نصیحت، پریت

بھید کھولنا جُگُت سے، ہے دوہے کی ریت (۱۹۴)

’’میرپور خاص‘‘ کا تعارف پانچ دوہوں میں ہوا ہے۔ ایک خوب صورت اظہاریہ دیکھیے :

واقف خاص و عام ہے، اس میں نہیں کلام

خاص چیز اس شہر کی، میٹھے سندھڑی آم (۱۹۵)

 

دوہے :

 

اس عنوان کے تحت ۸۰ دوہے منظوم ہوئے ہیں۔ موضوعات کا تنوع ہے۔ جہاں روایتی اندازِ نظر ہے، وہاں جدید رجحان کی جھلک بھی موجود ہے۔ پرانی اقدار کی اکھاڑ پچھاڑ اور نئی مگر بے ہودہ رسموں کی قبولیت پر بھی گفتگو اس حصے میں نظر آتی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ دوہا کوی فضا میں نہیں معلق رہا اور نہ ہی اُس کے مخاطب کسی اور منطقے کے باشندے ہیں۔ بلکہ اسی زمین اور مٹی کے پوت سپوت شاعر کے سامنے ہیں اور انھی کی اصلاح مقصود و مطلوب ہے۔ بعض دوہے صیقل نشتر کی طرح چبھتے ہیں اورسینے کے آر پار ہو جاتے ہیں۔ کہیں کہیں مدھم اور نرم انداز سے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی حصے میں مذہب و ملت، دھرتی اوراس کی خوش بو، غربت اور عدم مساوات، عورت، اس کا وجود، اس کا استحصال، حسن و عشق اور جد و جہد کا بیان بھی ہے۔ دوہے کی پوری فضا اصل میں اسی حصے میں متشکل ہے۔ ہر ہر دوہا خاص زاویے کے ساتھ کسی شخص، مزاج، رویے کی بپتا یا پھرکسی کی خواہش کا پرتو ہے۔

اس باب کی شروعات حمدیہ اور نعتیہ رنگ سے ہوتی ہے۔ اسلامی تعلیمات، تصوف، خلقت سے محبت، ان کے حقوق و فرائض اور بعض قرآنی آیات اور مقبول اقوال کو منظوم کیا گیا ہے۔ اگلا رنگ دوہا بانی کا ہے۔ دوہے کے وزن، مزاج اور آہنگ پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے، جنھوں نے دوہے کے نام پر بہت کچھ لکھ دیا اور نت نئے تجربے کر کے دوہے کی ساکھ برباد کرنے کی کوشش کی۔ مشہور دوہا نگاروں، خصوصاً خواجہ دل محمد اور جمیل الدین عالی کو بھی خراج تحسین یہیں پیش کیا گیا ہے۔ پھر موضوعات کی بوقلمونیاں ہیں، جو آخر دَم تک سلامت ہیں۔ عنوانات سے خالی یہ حصہ فردیات کی صورت میں ہے۔ اس لیے موضوعات بکھرے پڑے ہیں۔ عورت کے حوالے سے کہے گئے کچھ دوہے ملاحظہ کیجیے :

نا عورت سا منتظم، نا عورت سا نیک

نر نے اپنا کھو دیا، اونچا درجا ایک

 

سہے قدرتی درد سب، کام کرے دن رات

صنفِ نازکس طرح، ہے عورت کی ذات ؟

 

عورت کی نسوا نیت، ہے عورت کے ہاتھ

رہے غلامی سے پرے، آزادی کے ساتھ(۱۹۶)

 

کیا ہے بیٹی، ماں، بہن، کیا ان کے درجات

حیوانوں کی سمجھ سے، باہر ہے یہ بات

 

ماں کی ممتا اور اک، نر ناری کا پیار

ہے دھرتی پر ازل سے، جیون کا آدھار(۱۹۷)

ان دوہوں میں عورت کی عظمت، مرتبہ، حیثیت و اہمیت اوراس پرہونے والے ظلم کا خوبی سے بیان ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ حقوقِ نسواں کا ایک منشور ہے، جو شاعر نے منظوم کر دیا ہے۔ اس ذیل کے بعض دوہے تو طبیعت ملال کرجاتے ہیں۔ چوتھے دوہے پرغور کیجیے تواندازہ ہوتا ہے، کس کس طرح ان رشتوں کی بے توقیری کی جاتی ہے۔ کاروکاری کی لعنت کی وجہ سے کیسے کیسے ان کی زندگیاں چھینی جاتی ہیں۔ ونی، سورہ اور وٹہ سٹہ کی رسموں میں کس طرح عورت کے جسم کی بولی لگتی ہے اور کیسے اُس کے احساس اورشخصیت کاکھلے عام قتل کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے اظہاریے ہیں، جوبجائے خود حزن آشنا کرجاتے ہیں۔

دوست اور دوستی کے معیار کے تناظر میں یہ دوہے ملاحظہ کیجیے :

لاکھ جتن دشمن کرے، کوئی نہ دھوکا کھائے

مگر فریبی دوست کا، کیسے کرے اُپائے

 

اُس سے کیسی دوستی، اُس سے کیسا یوگ

جس کو اوروں سے بڑا، بننے کا ہو روگ

 

ہم سے پوچھو تاج کے، کیسے کیسے میت

عیب گنائیں پیٹھ پر، منھ پر گائیں گیت(۱۹۸)

 

سائے کے بھی ساتھ ہے، اُس کےد ل کا کھوٹ

جب بھی نکلے دھُوپ تو، لے لے میری اوٹ(۱۹۹)

 

خود غرضی ہی عمر بھر، لگی رہی ہے ساتھ

باقی سب چلتے بنے، ملا ملا کے ہاتھ(۲۰۰)

سیدھی اورصاف باتیں ہیں، نہ کوئی دورازکاراستعارہ، نہ تشبیہات کابوجھ۔ بس ایک قرینہ ہے، جس کے وسیلے سے سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ البتہ انجام کی خبر اور منطق کادامن نہیں چھوڑا گیا اور یہ ضروری بھی ہے، کہ سبب اور مسبب ایک ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ کبھی مسبب سوچنے پرمجبورکرتا ہے، توکبھی سبب بڑھنے سے روکتا ہے۔

تاج قائم خانی کے یہاں دوسرے معاصردوہاکویوں کی نسبت موضوعات کاتنوع ہے۔ انھوں نے زندگی کے ہر رنگ کوسمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ عورت کی بے چارگی کی اگربات کی ہے، تواُس کی بے راہ روی اورکج سمتی کو بھی موضوع بنایا ہے۔ راہبروں کاذکر کیا ہے، توراہزنوں کی بھی خبر لی ہے۔ دین اوراخلاقیات سمیت آدم اورشیطان کی کش مکش اور رحمان کی جانب سے دونوں کوچھوٹ کو بھی قلم بند کیا ہے۔ قوم پرستی مذکور ہے، تو قوم کے غداروں کا بھی ذکر آیا ہے۔ غرض یہ کہ ہر رنگ اورہر ذائقہ ان کے قلم پر چہکتا، مہکتا، تڑپتا، لرزتا، سسکتا اور پھڑکتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسا موضوع ہے، ویسا اظہار ہے اورویسی ہی فضابنائی ہے۔ عریانی کے تناظر میں یہ دوہے دیکھیے :

بے شک ہے ہر حال میں، سچی بات صریح

عورت کی عریانیاں، مردوں کی تفریح (۲۰۱)

 

عورت یوں کرنے لگی، زینت کا اظہار

فن پاروں اور اَدب میں ہونے لگا شمار(۲۰۲)

 

عورت کی نسوانیت، میں ہے ماں کا روپ

نفس پرستی کی لگے، کبھی نہ اس کو دھوپ

کرتی ہے اب جگت میں، خود غرضی بیوپار

حسن، جوانی، پیار کا، لگتا ہے بازار (۲۰۳)

یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم نے عورت کو بازار کی جنس بنا کر رکھ دیا ہے۔ نہ ہی عورت سراسر قصور وار ہے اور نہ ہی مرد۔ مگر ایک روش ہے، جس پر خاموشی سے دونوں بڑھ رہے ہیں اور دونوں ایک دوسری کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ دونوں دین و اخلاقیات کے قاتل ہیں۔

قوم، قیادت اور طرزِ حکمرانی کے باب میں تاج قائم خانی کے یہاں بہت دوہے ہیں۔ ان دوہوں میں مضامین کی تکرار نہیں ہے، البتہ ایک ہی موضوع کو مختلف رنگوں سے پیش کیا گیا ہے۔ کچھ دوہے ملاحظہ ہوں، جواس پس منظر میں ہیں۔ ان دوہوں کو پڑھ کر عہدِ موجود کی مکمل تصویر آنکھوں میں مجسم ہو جاتی ہے۔ یہی ان کا اعجاز ہے۔

ہم پر ہو گا ظلم یہ، آتا نہیں یقین

تھا ’’ دو قومی ‘‘ نظریہ، بن گئیں قومیں تین

 

اتحاد بِن دیس کی، ہے خطرے میں جان

نو نو آنسو رو رہے، تنظیم و ایمان

 

آئے گا کس راہ سے، یومِ استقلال

بچھا ہوا ہے ہر طرف، قومیت کا جال(۲۰۴)

 

مذہب، نسل و ملک ہیں، کہنے کو پہچان

عملاً ان سے غیریت، چڑھتی ہے پروان

 

رشوت ہے جمہوریت، کا اک لمبا ہاتھ

لاگت گنتے جائیو، تم ووٹوں کے ساتھ(۲۰۵)

دے دی ہے جمہوریت، کے زیرے کی گھونٹ

جانے بیٹھے کس طرف، ڈکٹیٹر کا اونٹ

 

ملک مرا اقبال کے، خوابوں کی تعبیر

مگر نہیں کر پائے ہم، اک ملّت تعمیر(۲۰۶)

ان دوہوں میں ہماری قوم کی مجموعی بے حسی، کج روی، قیادت کی دھوکادہی، نام نہاد جمہوریت کی آلائش اور شب خون مارنے سے لے کر قیام پاکستان سے پہلے آنکھوں میں بسائے گئے سپنوں کی موت کا احوال بیان ہوا ہے۔ احساس کے تیر سینے میں ترازو ہوتے ہیں۔ یہ ایسے اظہاریے ہیں، جنھیں ہمارے کان روز سنتے ہیں۔ ایسے منظر نامے ہیں، جو ہماری بصارتوں میں روز اُترتے ہیں۔

مذہب کی آڑ لیے اُن سانپوں کا احوال بھی دیکھ لیجیے، جن کے پھن پوری طرح پھیلے ہوئے ہیں اور جن سے انسانیت ڈستی چلی جاتی ہے :

حامی فرقہ واریت، کے ہیں وہ افراد

جن نربھاگوں کو نہیں، رہتا کلمہ یاد(۲۰۷)

 

تیرا میرا ہے کہاں، دین ایک اسلام

ہم تو فرقہ واریت، کے بن گئے غلام

 

مذہب سکھلاتا نہیں، ظلم، لڑائی، بیر (۲۰۸)

پھر مذہب کے نام پر، کیوں ہے یہ اندھیر؟

ہے یہ بلندی خیر کی، مسجد کا مینار

مسجد میں کیسے ہوا، ممکن شر کا وار(۲۰۹)

ان دوہوں کاپس منظر ہماری باہمی منافرت، ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی اور حقارت ہے۔ حالاں کہ مذاہب امن و آتشی اور صلہ رحمی کادرس دیتے ہیں، مگر مذاہب کے نام لیواؤں کا عمل اس کے یک سر اُلٹ ہوتا ہے۔ اسی بات کو تاج قائم خانی نے اپنے دوہوں کا موضوع بنایا۔

سورٹھیادوہے بھی کتاب کا حصہ ہیں، کچھ مثالیں دیکھیے، جن سے اس صنف کا مزاج اور ہیئت واضح ہوتی ہے۔ یہاں بھی موضوعات کا تنوع ہے، جو بجائے خود بہت سی باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

وہ پاکیزہ قول ہی، رب کے من کو بھائے

نیک عمل انسان کا، اونچا جسے چڑھائے

اونچا جسے چڑھائے، صرف خدا کے واسطے

بس وہ عزت پائے، عزت رب کے پاس ہے

 

پیار، محبت، عشق ہے، اک جذبہ انمول

ساتھ خواہشِ نفس کے، تاج اسے مت تول

تاج اسے مت تول، یہ تن کی دولت نہیں

تو یہ گُہر ٹٹول من ساگر میں اُتر کر

 

تن کی آنکھیں موند کر، من میں کر دیدار

باہر اُس کاحسن ہے، اندر ہے خود یار

اندر ہے خود یار، کرنی ہے گر بندگی

کر بندوں سے پیار، باہر آ کر ذات سے (۲۱۰)

ارکان کی اُلٹ پھیر اور مرکبات کی تکرار سورٹھیادوہوں کاحسن ہے۔ تاج قائم خانی نے اس فن کو بھی خوب نبھایا ہے۔ مجموعی اعتبار سے ’’دل ہے عشقی تاج کا‘‘ قابل توجہ مجموعہ ہے۔ اس لیے کہ اس میں جہاں تکنیک، ہیئت اور مضامین کی روایت نبھائی گئی ہے، وہاں خالص اُردو، بلکہ یوں کہنا چاہیے رائج اُردو کو برتا گیا ہے۔ دوہے کی مخصوص بحر اور مخصوص فضا میں اُردو کی یہ رچاوٹ اور گھلاوٹ بہت دلکش ہے۔ موضوعاتی بوقلمونی کے سبب قاری کی توجہ بھٹکتی نہیں بلکہ ایک سے ایک منظر میں از خود منتقل ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ شاعر کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتا رہتا ہے۔ تا وقتے کہ خود شاعر پڑاؤ نہیں کرتا۔ یہ اس کتاب کی کامیابی ہے۔

تاج قائم خانی نے محض خارجی مناظر کو ہی قلم بند نہیں کیا اور نہ صرف مذہب و قوم کے لیے پند و نصائح پر بات ختم کر دی ہے، بلکہ کہیں کہیں حسن و عشق اور اس کی کار گزاریوں کو بھی بیان کیا ہے۔ آخری عنوان ’’پیار‘‘اسی پس منظر میں ہے۔ یہ باب بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

 

 

 

 

ڈاکٹرطاہرسعیدہارون

(۵ مارچ ۱۹۴۰ء …)

 

 

آپ کی ولادت علم و اَدب کے مرکز لاہور میں سعیداحمد کے ہاں ہوئی۔ آپ کے والد مکرم سنٹرل ٹریننگ کالج(موجودہ ایجوکیشن کالج) کے پرنسپل تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی سعیدہ بانو ہے اور انھوں نے میٹرک تک تعلیم پائی تھی۔ تعلیم یافتہ والدین کی ترجیحات کا ہی نتیجہ تھا، کہ ڈاکٹر صاحب کے تمام بہن بھائی اعلیٰ تعلیم سے فیض یاب ہوئے۔ خود انھوں نے کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔ یہ ادارہ اُس وقت بھی اور اب بھی ملک بھرمیں ممتاز ہے۔ پھر وہاں سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ گئے اورڈرمٹالوجسٹ کی حیثیت سے بیرونِ ملک خدمات انجام دیتے رہے۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں ڈرمٹالوجی کا شعبہ قائم کیا گیا تو آپ کو بہ حیثیت سربراہ ذمہ داریاں سنبھالنے کی پیش کش ہوئی، جو آپ نے وطن کی محبت میں قبول کر لی اور برطانیہ کو خیر باد کہہ دیا۔ ۱۹۷۶ء سے ۱۹۷۹ء تک آپ اسی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، پھر آپ کا تبادلہ کنگ ایڈورڈ کالج میں بہ طور پروفیسرشعبۂ امراض جلد کر دیا گیا، جہاں سے آپ ۲۰۰۲ء میں ریٹائر ہوئے۔

آپ کے ایک بھائی طارق سعید ہارون فیڈرل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ، دوسرے بھائی خالدسعیدہارون ائیر کموڈور رہے اور ذوالفقار علی بھٹو کے ADCبھی، تیسرے بھائی پاک فضائیہ سے گروپ کیپٹن ریٹائر ہوئے۔

ڈاکٹر طاہر نے طبی موضوعات پر پانچ مستقل کتابیں اور سو سے زائد تحقیقی مقالات لکھے۔ کئی طبی تنظیموں اور طبی جرائد کے سربراہ اور رُکن رہے۔ کالج کے زمانے سے ہی آپ نے شاعری شروع کر دی تھی۔ گورنمنٹ کالج چکوال میں دورانِ تعلیم ہی کالج کے مجلے میں لکھنا شروع کیا۔ پھر کنگ ایڈورڈ کالج کے میگزین ’’کیمکول‘‘ میں بھی تحریریں شائع ہوئیں۔ (۲۱۱)

طاہرسعیدہارون کا شعری سفرغزل گو اور نظم نگار کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ تین شعری مجموعے بالترتیب ۱۹۸۴ء میں ’’رفعتِ انجم‘‘، ۱۹۸۹ء میں ’’نئی رتوں کاسراغ‘‘ اور ۱۹۹۳ء میں ’’سحر کی پہلی کرن‘‘ شائع ہوئے۔ لیکن اپنی خاص طبع کے باعث ادبی منظر نامے پر زیادہ روشن نہ ہو سکے۔ جب دوہا نگاری شروع کی تو آپ کے کلام کی شہرت ملک سمیت بیرون ملک بھی ہو گئی۔ کراچی سے شائع ہونے والے رسالے ’’رنگِ ادب ‘‘ نے ایک خصوصی نمبر شائع کر کے ’’مہان دوہا نگار‘‘ کا لقب دیا۔ اس سے پہلے انڈیا کے معروف شاعر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی آپ کے فنِ دوہا نگاری پر کتاب بھی شائع کر چکے تھے۔ بعض جامعات میں آپ پر تحقیقی کام بھی ہو چکا ہے۔

طاہرسعیدہارون کے دوہوں کی تعداد بارہ ہزار سے متجاوز ہے اور اب تک گیارہ مجموعے بالترتیب: ’’من موج، نیلا چندرماں، پریت ساگر، من بانی، میگھ ملہار، بھور نگر، پریم رس، کُوک، من دیپک، نیناں درپن اور روپ کرن۔ ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ان مجموعوں میں سے پہلا۲۰۰۱ء اور آخری۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔ ان کتابوں کے علاوہ ’’جلترنگ‘‘ (ثلاثیاں)، ’’بارش میں دھوپ‘‘ (تروینیاں )اور ’’ماہیا رے ماہیا‘‘(اُردو ماہیے ) بھی شائع ہو چکی ہیں۔ مجموعی طور پر طبی اور ادبی کتابوں کی تعداد۲۲ ہے۔

اب تک شائع ہونے والے دوہوں کے مجموعوں میں سے چھے ’’دوہا چھند‘‘ میں اور پانچ ’’سرسی چھند‘‘ میں ہیں۔ یہ تمام مجموعے معروف اشاعتی ادارے سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئے۔ آپ کے فن پر بیسیوں مشاہیرِ ادب آرا دے چکے ہیں۔ ان نامور ہستیوں میں ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹرسلیم اختر، جمیل الدین عالی، ڈاکٹرانورسدید، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، حمایت علی شاعر، ڈاکٹر فراز حامدی، پروفیسرعاصی کرنالی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، عارف منصور، جمیل یوسف، ناصر شہزاد، پرتو روہیلہ، مشفق خواجہ، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، محسن بھوپالی، پروفیسرمحسن احسان، مرزاسلیم بیگ، ڈاکٹر محمد طہور خاں پارس، ڈاکٹر ظہور اعوان، سہیل غازی پوری، ڈاکٹرسعیداقبال سعدی، بشریٰ اعجاز، احمدسعیدفیض آبادی، شہناز پروین، کنول ظہیر، ڈاکٹر محمد محفوظ الحسن، ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی، ڈاکٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر محمد نوشاد عالم آزاد، پروفیسر افتخار اجمل شاہین، ڈاکٹر سیفی سرونجی، ڈاکٹر ضیاء الحسن، شارق بلیاوی اور انور مسعود سمیت کئی ایک دوسروں کے اسمائے گرامی آتے ہیں۔

ان شخصیات کی پذیرائی اور ’’مہان دوہا نگار‘‘ کے لقب سے آپ کے ادبی مقام کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی دوہا نگاری کا خاص وصف یہ ہے، کہ اس میں جہاں روایت سے جُڑت پوری طرح موجود ہے، وہاں نئے زمانے کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ نہ موضوعاتی سطح پر نہ لسانی اعتبار سے۔ دوہوں کے تمام روایتی عنوانات یعنی مذہب، اخلاق، معاشرت، حسن و عشق اوراس کی جزئیات، لوبھ، ظلم، جھوٹ، مکرو فریب، دانائی، علم و عرفان، تصوف، حکومت، سیاست اور ان جیسے بیسیوں مضامین جو ہمارے آج کو محیط ہیں، ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی شاعری کا حصہ ہیں۔ لسانی سطح پر ڈاکٹر طاہر کا پہلا مجموعہ اگرچہ ہندی لفظیات کا حامل ہے، لیکن یہ ایسے الفاظ ہیں، جو ہماری آج کی اُردو میں مستعمل ہیں۔ یہ اثردوسرے مجموعے میں بھی موجود ہے۔ پھر بہ تدریج آپ کے یہاں دوہے کی خالص زبان یعنی برج بھاشا کے اثرات نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ تاثیر آٹھ مجموعوں کو محیط ہو جاتی ہے، باقی تین مجموعوں میں پھر وہ اس ثقالت اور گنجلک کو کم کر کے اُس کی جگہ مقامیت کو داخل کر دیتے ہیں۔ یہ معکوسی سفر شاید اُن کے مطالعے کی وجہ سے ہے۔

خود اُن کے اپنے قول کے مطابق وہ جمیل الدین عالی سے متاثر ہوئے اور اچانک انھیں احساس ہوا کہ وہ دوہا کہہ سکتے ہیں۔ اسی سبب سے انھوں نے پہلے پہل سرسی چھند اختیار کیا اور زبان بھی کم و بیش وہی اپنائی جو جمیل الدین عالی صاحب کی تھی۔ وہی مستعمل ہندی الفاظ پر مشتمل۔ لیکن جوں جوں دوہے کی روایت سے ڈاکٹر طاہر سعید ہارون واقف ہوتے گئے، ان کے مضامین اور فکر و فن میں بھی وسعت آتی گئی۔

ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے اپنی تمام کتابوں کو عنواناتی تقسیم عطا کی ہے۔ یہ عنواناتی یونٹ قاری کے لیے دلچسپی کا سبب ہیں۔ یہ عنوانات اللہ تعالیٰ، رسولِ مکرم، قرآن، وطن، حسن، عشق، ہجر، علم، عرفان، لالچ، ظلم، عدمِ مساوات، شخصیات وغیرہ کو محیط ہیں۔ عمومی طور پر تمام کتابوں میں ایک جیسی ہی ترتیب ہے۔ بس عنوانات میں الفاظ بدل دیے گئے ہیں، لیکن مفہوم وہی رہتا ہے۔ یہاں ترتیب وار تمام کتابوں کے سرنامے دیے جا رہے ہیں، تاکہ اندازہ ہو سکے :

 

۱…من موج:

 

یہ کتاب۱۲۸ صفحات کو محیط اور سات دیے گئے عنوانات پر مشتمل اور سرسی چھند میں ہے : ’’مولا شان، پیارا سائیں، اپنی ماٹی، پون جھکورے، گیان دھیان، دھنک رنگ اور ہنستی کلیاں۔ ‘‘ پہلا عنوان حمدو مناجات کا احاطہ کرتا ہے، دوسرا نعت کے موضوع سے منسلک ہے، تیسرے عنوان سے مٹی کی محبت چھلکتی ہے، چوتھا حسن و عشق کا باب ہے، پانچویں میں علم و عرفان کی گتھیاں سلجھائی گئی ہیں، چھٹا متفرق مضامین کو محیط ہے اور ساتویں میں طنز و مزاح ہے۔

 

۲…نیلا چندرماں

 

یہ کتاب۱۶۸صفحات اور چودہ ابواب پر مشتمل ہے اوراس میں بھی سرسی چھند اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے عنوانات کچھ یوں ہیں : ’’ وہ بیٹھا آکاش، کالی کملی والا، کہتا ہے قرآن، میرا سوہنا دیس، سندرتا کے روپ، من لاگی ہے آگ، سویاجاگ فریدا، روئے بھگت کبیر، بولے شاہ حسین، تن من تیرے ھُو، بلھے شاہ تو کون، ساگر کتنا گہرا، دریا دریا موج اور بھیتر نیر بہائے۔ ‘‘

یہاں بھی پہلا عنوان حمد و دُعا، ودسرامحبتِ رسول، تیسراتعلیماتِ قرآن، چوتھا حبِ وطن، پانچواں بارگاہِ حسن میں خراج اور چھٹا دیارِ عشق کی جولانیوں کو محیط ہے۔ ساتواں بابا فرید، آٹھواں بھگت کبیر، نواں شاہ حسین، دسواں سلطان باہو اور گیار ہواں بلھے شاہ کی تعلیمات کا احاطہ کرتا ہے اور انھیں خراج عقیدت بھی انھی ابواب میں پیش کیا گیا ہے۔ بارہواں اور تیرہواں باب علم و عرفان جیسے مضامین کا احاطہ کرتا ہے۔ تیرہویں اور چودہویں باب میں خود کلامی اوراحساسِ ندامت جیسے مضامین بھی موجود ہیں۔

 

۳… پریت ساگر

 

پریت ساگرشاعرکا تیسرامجموعہ ہے۔ یہ دوہا چھند میں ہے۔ یہ مجموعہ ۱۸۰ صفحات کو محیط ہے اوراسے دس دیے گئے سرناموں میں تقسیم کیا گیا ہے : ’’الکھ ذات، مدنی سرکار، اپنی بگیا، کو ملتا، بیاکلتا، کبرا کہے، بلھا رنگ، سوچ فریدا، گیان دھیان اور دھنک۔ ‘‘

فصل اول حسب سابق ذاتِ رحیم و کریم سے منسلک ہے، فصلِ دوم بارگاہِ رسالت مآبؐ سے مخصوص ہے، فصل سوم میں وطن کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ فصلِ چہارم حسن کی سرکارکے لیے ہے۔ فصلِ پنجم میں عشق و ہجر کی صعوبتوں کا بیان ہے۔ چھٹا باب بھگت کبیر، ساتوں باب بلھے شاہ اور آٹھواں بابا فرید کی تعلیمات و ارشادات سے منسلک ہے۔ نویں باب میں علم و عرفان کی منزلیں طے ہوئی ہیں اور آخری باب میں مضامین کی بوقلمونیاں ہیں۔

 

۴… من بانی

 

۱۸۰ صفحات کا حامل یہ مجموعہ نو عنوانات میں منقسم اور سرسی چھند میں ہے۔ لیکن اس میں کہیں کہیں بسرام کا التزام بھی ہے۔ یہ کیفیت دوہا چھند کے ذائقے سے آشنا کرتی ہے۔ سرنامے ملاحظہ ہوں : ’’اکلا مولا، سچل سائیں، دھرم پُستک، میری دھرتی، جوبن رُت، من اگنی، سُچے موتی، بھولا بالک اور موج بہار۔ ‘‘

وہی حمد، نعت، قرآن، وطن، حسن، عشق، علم و عرفان جیسے موضوعات اس کتاب کا حصہ ہیں۔ بھولا بالک میں ایک بچے کی حیثیت سے مختلف مضامین پرسوالات اٹھائے گئے ہیں۔ عدمِ مساوات اور جبر پر بات ہوئی ہے اور آخری عنوان تلے محبت اوراس کی بے چینیوں کا اظہار کیا گیا ہے۔

 

۵… میگھ ملہار

 

۲۷۹ صفحات کو محیط اس مجموعے میں سترہ عنوانات سجائے گئے ہیں، جو کچھ یوں ہیں : ’’ پالنہار، سوہنا سائیں، کسوٹی، سندردیس، روپ سروپ، برہا اگنی، گیان رنگ، بھگت کبیر، واصف علی واصف، دریا ساگر، من بگیا، پنچھی نگری، بالپن، پھلجھڑی، لہریں، دوہا غزل اور عشق۔ ‘‘ یہ مجموعہ دوہا چھند میں ہے۔

ابواب کی وہی ترتیب ہے، یعنی حمد، نعت، قرآن، وطن، حسن، عشق و ہجر اور علم و عرفان۔ پھر بھگت کبیر کی فکر کے ساتھ واصف علی واصف کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ دریاساگر میں پانی اوراُس سے پھوٹنے والے احساسات کو قلم بند کیا گیا ہے۔ من بگیا میں پھولوں، باغات اور ان کے متعلقات کو موضوع بنایا گیا۔ بالپن میں بچپنے کی باتیں بیان ہوئی ہیں۔ اگلے عنوان کے تحت طنزو مزاح ہے، مگر طنز کی کاٹ زیادہ ہے۔ لہریں کے تحت مختلف النوع مضامین ہیں۔ ’’دوہا غزل‘‘ انڈیاوالوں کا ایک تجربہ ہے، جس پر شروع میں بات ہو چکی ہے۔ آخر میں عشق کی تفہیم پر ایک مسلسل نظم ہے۔

 

۶…  بھور نگر

 

سرسی چھند میں کہا گیا ’’بھور نگر ‘‘شاعر کا چھٹا مجموعہ ہے۔ یہ ۱۹۵ صفحات کا احاطہ کرتا ہے، جب کہ اسے اکیس عنوانات میں منقسم کیا گیا، جو یہ ہیں : ’’ حمد، نعت، قرآن، وطن، سندرتا، برہا، نوحہ، ساگر، بگیا، پنچھی نگری، ماں، بچے، مزاحیہ، متفرق، گیان، رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، میاں محمد بخش، واصف علی واصف اور دُعا۔ ‘‘

زیادہ تر موضوعات وہی ہیں، البتہ اس بار پشتو زبان و اَدب کی دو مقبول ہستیوں رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک سمیت پنجابی زبان کی نامورہستی میاں محمد بخش کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان شخصیات کے فکر و خیال کو شاعر نے اپنے دوہوں میں ڈھالا ہے۔ ’’نوحہ‘‘ آٹھ اکتوبر کے پس منظر میں کہی گئی نظم ہے، جو آٹھ ہی دوہوں کو محیط ہے۔

 

۷… پریم رس

 

دوہا چھند میں کہی گئی یہ کتاب۲۰۸ صفحات کو محیط ہے اور بارہ عنوانات میں تقسیم ہوئی ہے، جواس طرح ہیں : ’’ بخشنہار، کملی والا، پارکھ، دیش، سندرتا، پریت، بجوگ، اپدیش، کرنیں، ترنگ، گرو، ادبی چوپال۔ ‘‘

حمد و مناجات، گلہائے عقیدت بارگاہِ رسالت مآب، قرآن، پاکستان، محبت، جدائی، پند و نصائح، امنگیں اور ارادے اس کے موضوعات ہیں۔ ’’گرو‘‘ ڈاکٹر سلیم اختر کو کہا گیا ہے اور ’’ادبی چوپال‘‘ میر پور خاص سندھ میں ہے۔ جہاں مرحوم تاج قائم خانی کی سرپرستی میں رسالہ ’’پہچان‘‘ چھپتا تھا۔ ذوالفقار دانش، کرن سنگھ، نویدسروش، فرحت سپنا، خورشید قائم خانی اور دیگراس کے رُکن رکین ہیں۔

 

۸… کُوک

 

’’کوک ‘‘ ڈاکٹرطاہرسعید ہارون کی آٹھویں کتاب ہے اور دوہا چھند پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب۱۷۶صفحات کا احاطہ کرتی ہے اور ۱۳عنوانات میں منقسم ہے، جو یہ ہیں : ’’حمد، نعت، دیس، سندرتا، پریت، بیاکلتا، لوبھ، چٹکلے، پھلواری، من جوتی، طاہر جی، پھلجھڑی اور دعا۔ ‘‘

اس کتاب میں قرآن سے متعلق عنوان نہیں سجایا گیا، البتہ تعلیمات سے افادہ بہ ہر حال موجود ہے۔ حسن، عشق، ہجر، لالچ، طنز اس کا حصہ ہیں اور یہاں دو عنوانات کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک تو ’’طاہر جی‘‘ کے باب میں شاعر کی کتھا اور فکری و فنی ارتقا کا احوال ہے، دوسرا ’’دعا‘‘ کے لیے باقاعدہ عنوان چنا گیا۔ پھلواری میں حسن و محبت اور من جوتی میں گیان دھیان کے مضامین شامل ہیں۔

 

۹…  من دیپک

 

’’من دیپک‘‘ بھی دوہا چھند میں ہے۔ اس کی ضخامت ۲۱۲ صفحات ہے۔ یہ کتاب۲۷ذیلی عنوانات میں منقسم ہے، جو یہ ہیں : ’’حمد، نعت، قرآن، دعا، دیس، گیان، جھوٹ سچ، ناری، من رانجھنا، بجوگ، مایا موہ، پاپ، ناگ، جل ساگر، دھرتی، اماوس، چاندنی، پھلواری، پنکھ پنکھیرو، گاؤں، غریب، چرخہ، سُرتال، کوِتا، چٹکلے، طاہر جی اور چھانٹ۔ ‘‘

اس کتاب کی خاص بات یہ ہے، اس میں مضامین کو الگ الگ کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر نئے عنوانات پہلے دوسرے مضامین کے تابع ہی تھے۔ جیسے جھوٹ، سچ، پاپ اور ناگ۔ یہاں شاعری اورسُرتال سمیت چھانٹ بھی نئے عنوانات ہیں۔ لیکن یہ مضامین کسی نہ کسی طرح پہلے بھی بیان ہوئے ہیں۔ آخری عنوان انتخاب ہے۔ اس میں تمام مضامین کی جھلک موجود ہے۔

 

۱۰… نیناں درپن

 

ا۱۹ صفحات اور۳۱ موضوعاتی ابواب کو محیط نیناں درپن سرسی چھند میں ہے۔ عنوانات ملاحظہ ہوں : ’’حمد، نعت، قرآن، دیس، سندرتا، پریت، برہا، صوفی رنگ، کیا ہوتا، طاہر جی، مزاحیہ، بگیا، پنکھ پکھیرو، متفرق، دعا، چاند، سورج، پُروا، بھور، کوِتا، سپنے، لوبھ، گاؤں، راگنی، ماں، غریب، ساگر، بنجارہ، مینہا، سچ اور جگنو۔ ‘‘

یہاں من دیپک کا تجربہ دُہرایا گیا ہے۔ عنوانات کومزیدتقسیم کر دیا گیا ہے۔ یوں ابواب کا حجم بھی کم ہوا ہے۔ پہلے ایک عنوانات کے تحت مختلف رنگ جمع ہوتے تھے۔ اس نئی تقسیم سے ایک خاص کشش یہ پیدا ہوئی ہے، کہ اب قاری جس موضوع تک رسائی چاہتا ہے، آسانی سے پہنچ جاتا ہے۔ ایک دلچسپ عنوان ’’کیا ہوتا‘‘ مکالماتی انداز لیے ہوئے ہے۔ اس عنوان تلے استفہام کے پردے میں خواہشیں اور ’’اے کاش‘‘ کی تصویریں نمایاں ہوتی ہیں۔

 

۱۱… رُوپ کرن

 

۱۶۷ صفحات کو محیط یہ کتاب ۲۳ ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے، جو یہ ہیں : ’’ حمد، نعت، قرآن، اسلام کی دین، دعا، میرے پاکستان، پریت، روپ، جدائی، جیون، گیان، انیائے، غریب، نیتا، عزم، پھول کے کانٹے، بَن، رُت، پنکھ پنکھیرو، آس، آکاس، متفرق اور ماں۔ ‘‘یہ کتاب بھی دوہا چھند میں ہے۔ اور اب تک شائع ہونے والی آخری کتاب ہے۔ یہاں بھی عنوانات کو مزید تقسیم کیا گیا ہے۔ ظلم، غربت اور سیاست جیسے موضوعات کو بھی الگ عنوانات کے تابع کر دیا گیا ہے۔

ان عنوانات کی روشنی میں دیکھا جائے توڈاکٹرطاہرسعید ہارون کے یہاں بڑے مضامین یہ ہوں گے :

حمد و ثنا اور مناجات، نعت، وطن، حسن، عشق، اخلاقیات اور معاشرت۔ پھر ان کی متعدد جزئیات ہیں، جن کا شمار ممکن نہیں۔ اس لیے کہ ہر مضمون سے کئی ایک الگ مضامین نکلتے ہیں۔ ان شاخوں سے آگے مزید شاخیں اور پھول پتیاں پیدا ہوتی ہیں، جن کا احاطہ مشکل ہے۔ ایک اور بات جو مطالعے کے دوران سامنے آئی وہ مضامین کا تکرار ہے۔ ایک ہی موضوع اور ایک ہی خیال کو کئی بار ادا کیا گیا۔ کہیں تو دوبارہ کہنے سے ندرت اور جدت کا احساس ہوتا ہے، لیکن کہیں کہیں وہی احساس دوبارہ جاں گزیں ہو جاتا ہے۔ اس کاسبب شاید ڈاکٹر طاہر صاحب کی زود بیانی ہو۔ کیوں کہ اُن کی پہلی کتاب سے آخری کتاب تک کاکل سفربارہ سال بنتا ہے۔ ان بارہ سالوں میں قریباً ہر سال اُن کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ آخری سال میں دو کتابیں ہیں۔

کوشش یہ ہو گی کہ اہم مضامین پر زیادہ گفتگو ہو اور ماہرینِ اَدب نے جو آراء دی ہیں، ان میں سے بھی بعض کو شامل کیا جائے۔ پھر ذیلی عنوانات پر بات کی جائے۔ یہ صفحات ہر کتاب کا الگ تجزیہ کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔ اس لیے عنوانات کو یکجا کر کے ان کی یکجائی پر بات ہو گی۔ پہلا عنوان ہے :

 

حمد:

 

اس عنوان تلے گیارہ کتابوں میں مجموعی طور پر۵۴۳دوہے شامل ہوئے ہیں۔ حمد و مناجات پر مشتمل اتنی بڑی تعداد میں دوہے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان و ایقان اور اس کی کبریائی اور عظمت پر شاعر کے مکمل بھروسے کی دلیل توہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی ذات سے سچی محبت کی عکاس بھی ہے۔ عمومی طور پر شعرا حضرات اپنے مجموعوں کے شروع میں روایت نبھانے کے لیے ایک آدھ حمد یا کچھ حمدیہ اشعار شامل کر لیتے ہیں، لیکن ڈاکٹرطاہرسعیدہارون نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس انھوں نے اس مضمون کو باقاعدہ عنوان کے تحت بیان کیا۔ یہاں اُن کی محبت کا رُخ وہی ہے، جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذات سے وابستہ وہی تصورات انھوں نے قلم بند کیے ہیں، جو مسلمانوں کے یہاں پوری طرح تسلیم شدہ ہیں۔ اُس کی کبریائی، قہاری، جبروتی، کریمی، رحیمی، غفاری اورستاری جیسی تمام صفات کو بیان کر کے اپنے عجز کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ کہیں کہیں ہمہ اوست کافلسفہ بھی ان کے یہاں دکھائی دے جاتا ہے، لیکن اکثر نظریہ شہود کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ ان دوہوں میں خصوصیت کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آتی ہے، کہ تمام مذاہب کا منبع اور مدعا ایک ہے۔ بس پانے کا قرینہ ہر ایک نے الگ الگ اختیار کیا ہوا ہے۔ وہ توسینے کے اندرسبھاجمائے بیٹھا ہے۔ اُس کی مسندآسمانوں پر تلاش کرنے والے اگر اُسے اپنے خانۂ دل میں ڈھونڈیں تو جلد کام یاب ہو جائیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے، کہ یہی سب سے مشکل کام ہے۔ اُس کی بے کنار اور لامختتم رحمتوں اور محبتوں کا ہر کوئی سزاوارہے۔ کوئی اُس کا منکر ہی کیوں نہ ہو، اُس کے خلاف لب کشائی ہی کیوں نہ کرتا ہو، اُس پر مالک رحیم و کریم کی مہربانیاں تسلسل کے ساتھ اُترتی ہیں۔ کڑی دھوپ میں اگر کوئی سائبان ہے، تواُسی کی رحمت کا ہے۔ اُس کی نعمتوں پر کسی کے لیے بندش نہیں۔ وہی سب کا پالنہار رکھوالا اور نگہبان ہے۔ اُسی کی حکمتوں سے پیاسی زمینیں سیراب ہوتی ہیں۔ تڑپتی روحیں قرار پاتی ہیں۔ صحراؤں میں پھول کھلتے ہیں۔ سمندروں، جنگلوں اور بیابانوں میں حیات نمو پاتی ہے۔ اُسی کی پرداخت سے سب کچھ اپنی دُرست حالت میں ہے۔

ایسے ہی اظہاریے ڈاکٹرطاہرسعید ہارون کے دوہوں میں چمکتے ہیں۔ انھوں نے اس باب میں جہاں گلہائے حمد و ثنا پیش کیے ہیں، وہاں مناجات اور آہ و زاری بھی کی ہے۔ جگہ جگہ بارگاہِ ربِّ ذوالجلال میں جھولی پھیلاتے ہوئے اپنے لیے، اس قوم کے لیے اوراس ملک کے لیے دعائیں مانگی گئی ہیں۔ ان دوہوں کے پردے سے ایک سچے اور کھرے انسان کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ کئی مقامات توایسے آتے ہیں، کہ قاری پربھی رقت طاری ہونے لگتی ہے۔ مالکِ ارض وسماوات کی بے پناہ رفعتوں کے سامنے دل خود بہ خود جھکتا چلا جاتا ہے۔ اُس کی دین اور عطا کی وسعتوں کا اندازہ انسان کبھی کر سکتا ہی نہیں، یہاں اس جیسے موضوعات بھی موزوں کیے گئے ہیں۔

عمومی طور پرتو  ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی بانی دوہا آمیز ہے، لیکن حمد و ثنا، نعت اور قرآنی تعلیمات کے باب میں اُن کے یہاں عربی لفظیات پوری شان سے موجود ہوتی ہیں۔ اس امتزاج سے جہاں اُن کا مذہبی تعلیمات سے مکمل شناساہوناواضح ہوتا ہے، وہاں لسانی سطح پر اُن کی ہنر مندی بھی دکھائی دیتی ہے۔ عربی کے ثقیل الفاظ کو ہندی میں یوں جڑناجیسے انگوٹھی میں نگینہ جڑا جاتا ہے، انھی کا کمال ہے۔ کہیں کوئی ٹانکا یا جھٹکا محسوس نہیں ہوتا۔ یہ فنی مہارت اور چابک دستی اُن کی پچاس سالہ ریاضت اور مشق کا نتیجہ ہے۔ بہ قول خورشید رضوی:

’’طاہرسعید ہارون دوہے کی طرف آئے تو انھوں نے اس صنف کے نواح سے گہری واقفیت بہم پہنچائی اور یہ اُس تکمیل پسندی کا فطری تقاضا تھا، جو اُن کے مزاج کا حصہ اور اُن کی سائنسی تربیت کی عطا ہے۔ چنانچہ برصغیرسے باہر بھی شرق و غرب میں جہاں کہیں کوئی من موجی بیٹھا دوہوں میں اپنے من کی بانی کہہ رہا ہے، اُن کی نگاہ سے اوجھل نہیں۔ وہ تکنیکی اعتبارسے دوہے کے چھندوں، ماتراؤں، اُس کی اقسام، زبان اور اسلوب پر اجتہادی نظر رکھتے ہیں۔ ‘‘(۲۱۲)

یہاں زبان اوراُسلوب کا اجتہاداُسی طرف اشارہ ہے، جو اُوپر بیان کیا گیا ہے۔ ایک اور بات جواس بیان سے واضح ہوتی ہے، وہ یہ کہ ڈاکٹرطاہرسعید ہارون نے اجتماعی شعور سے اپنے حصے کے موتی چنے ہیں اور خُوب احتیاط سے چنے ہیں۔ خدا کی عبادت، اُس سے محبت، تصوف اور عرفان کی بوقلمونیاں برصغیر کی پختہ روایت کا حصہ ہیں۔ صوفیوں حتیٰ کہ سنتوں، بھگتوں اورسادھوؤں کے یہاں بھی حمد و مناجات کے ایسے ہی ستارے روشن ہوتے ہیں۔ کچھ حمدیہ و مناجاتیہ دوہے دیکھیے :

پت جھڑ ہو یا گل کا موسم چھایا ہو یا دھوپ

سارے رنگ سہانے اس کے سب مولا کے روپ

 

پنڈت، ملّا، لاما سارے کرتے اُسے تلاش

وہ بیٹھا ہے دل کے اندر یہ ڈھونڈیں آکاش

 

آپ بٹھائے سنگھاسن پر آپ ہی داس بنائے

رکشا تیرے ہات میں سب کی تُو مالک کہلائے

 

وہ مولا ہے کرموں والا سب کا وہ لجپال(۲۱۳)

رحمت کی برسات سے بھر دے من کے سوکھے تال

پہلا دوہا نظریۂ وحدت الوجود کا ترجمان ہے۔ اس نظریے کے تحت کائنات کے ہر ایک رنگ اور ہر ایک چیز میں خود خالق موجود ہے۔ یہاں بھی سارے موسموں اور رنگوں میں اللہ تعالیٰ کی موجودگی کی بات کی گئی ہے۔ دوسرے دوہے میں انسان کے ایک مرکز کی طرف دیکھنے کی بات کی گئی ہے۔ یہاں پہلی بار ’’لامہ‘‘ کو بہ طور علامت پیش کیا گیا ہے۔ پنڈت، ملّا، سادھو، فقیر، بھگت اور درویش کی اصطلاحات ہمارے یہاں عام ہیں۔ یہ اس بات کی وضاحت ہے، کہ شاعر نے خود کواسی خطے تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اپنے ذہنی سفر کو بہت وسیع پس منظر اور منظر تک پھیلا دیا ہے۔ تیسرے دوہا اس آیت کا مفہوم ہے : ’’وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ ‘‘ چوتھے دوہے میں اُس کی رحیمی و کریمی کی بے پناہ وسعتوں کا بیان ہے۔

مومن بھی ہے اور مہیمن رب سائیں کی ذات

تجھ کو اپنی اوٹ میں رکھے ہر پل تیرے سات

خالق ہے قدوس بھی ہے تُو رب سائیں جبار

والی ہے متعال بھی ہے تُو ہادی اور غفار (۲۱۴)

یہاں ہندی الفاظ میں عربی لفظوں کو مہارت سے ہم آمیز کیا گیا ہے۔ خصوصاً دوسرے دوہے میں تو عربی الفاظ کا تناسب زیادہ ہے اور اس کے باوجود کھٹکتا نہیں ہے۔ لفظوں کا یہ اتصال اور امتزاج بغیر مہارت کے ہو نہیں سکتا۔ پھر معنوی اعتبار سے روایت پسندی نہیں ہے، بلکہ ان مضامین کواحساسات کی سطح پر بلند کیا گیا ہے اور ادبی چاشنی پوری طرح موجود ہے۔

جگ مجھ کو دھتکارتا، دیکھو میرا حال

سائیں میری لاج رکھ، تو سب کا لجپال

 

جیون بھر کا اوگنی، آیا تیرے دوار(۲۱۵)

رکھ لے میری لاج رے، میرے بخشنہار

حمد و ثنا اور مناجات الگ الگ عنوانات ہیں، لیکن ہمارے یہاں عمومی طور پر حمدیہ اشعار میں مناجاتیہ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ روش شاید ہماری عبادات سے آئی ہے۔ نماز کا یہی قرینہ ہے۔ سورۃ فاتحہ ربِّ رحیم و کریم کی ثناسے شروع ہوتی ہے اور پھر دعائیہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کے یہاں اس روش کی پیروی زیادہ ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے خالق و مخلوق ہم کلام ہوں اور مخلوق اپنا دُکھ، اپنا بھید اپنی زبانی خالق کو سناتی ہو۔ یہ میٹھا اور پُر اثر پیرایۂ اظہار ہے اور یہی وہ مقام ہے، جہاں آنکھیں تر ہونے لگتی ہیں۔

ملاحظہ ہو:

جب چاہے وہ برکھا بھیجے رب سائیں رحمان

جلتے تھر کی آگ بجھا دے شیتل کر دے پران

اس کی ذات ہے عادل بھیا ظلم اسے نا بھائے (۲۱۶)

جس نگری میں عدل نا ہووے رب سائیں اُلٹائے

اللہ ہی ہر چیز  پر قادر ہے، وہ چاہے تو صحراؤں کو جل تھل کر دے اور چاہے تو باغوں کو جھلسادے۔ وہ چاہے تو ڈھیل دے اور چاہے تو بستیاں اُلٹا دے۔ اُسی کی قدرت کے احاطے میں یہ ساری کائنات اور وہ عالم ہیں، جوانسان کے حیطۂ خیال سے بھی پرے ہیں۔ وہی ان کا خالق اور ان کا مالک ہے۔

پربت، جھرنے، وادیاں کرتی ہیں تقدیس

اللہ کی دہلیز پر سبھی نوائیں سیس

 

اندھیارا تھا چار سُو رب نے جوت جگائی(۲۱۷)

کُن کی اک آواز سے جگ نے لی انگڑائی

کیا پہاڑ، کیا اُس سے اُترنے والے ٹھنڈے اور میٹھے جھرنے اور کیاسرسبزوادیاں، کائنات کا ہر ایک ذرّہ اللہ کی عبادت میں مشغول ہے اور اُسی کے سامنے سرجھکاتا ہے۔ پہلے دوہے میں کس مہارت اور خوب صورتی سے یہ بات بیان کی گئی ہے۔ دوسرے دوہے میں اللہ کی خلّاقی کا بیان ہے اوراُس آیت کی طرف اشارہ ہے، جس میں ’’کُن فیکون‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے۔ مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے، کہ یہ کائنات اللہ کے نور سے تخلیق ہوئی اوراُسی کی روشنی سے روشن ہے۔

کس کے دم سے پنکھ پکھیرو اپنے پر پھیلائیں

کس کے دم سے پُروا پچھوا جُگ جُگ بہتی جائیں

 

بگیا  بگیا راج ہے اس کا دم مارے نہ کوئے (۲۱۸)

اک پتّہ نہ سرکے جب تک اس کی اِچھا ہوئے

یہاں بھی اللہ کی قدرتوں کا بیان ہے۔ فضاؤں، خلاؤں اورآسمانوں پر اونچی اور نیچی پرواز کرنے والے ان پرندوں کے پروں میں طاقتِ پرواز اللہ نے باندھی ہے۔ وہ چاہے تو ان کو بے اُڑان کر دے۔ اُس کی منشا سے ہی پورب اور پچھم کی ہواؤں کا رقص جاری ہے اور ہر ایک باغ میں پتے ناچتے ہیں۔ وہ چاہے توسب کو بے تال کر دے اور ان کی زینت چھین لے۔ اس کائنات کا ایک ایک تنکا اسی کی مرضی کے تابع ہے۔

مردے تُو زندہ کرے باعث تیرا نام

محیی تُو، خلّاق تُو، جیون دینا کام

 

تُو ہے منبع نُور کا، تجھ سے سندر بھور(۲۱۹)

کندن کرنیں چاند کی دیتی تیری ٹھور

یہاں ہندی اور عربی الفاظ کی آمیزش سے خاص فضا تشکیل ہوئی ہے۔ ایسی فضا جو خوش نظر بھی ہے اور خوش لحن بھی۔ اللہ کے صفاتی نام اور عربی الفاظ ہمارے یہاں تو یقیناً عام فہم ہیں، مگر جب ہندی بانی میں شامل ہوتے ہیں، تواُس تہذیب کو بھی نیا رنگ دیتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ڈاکٹر طاہر کا تجربہ بہت کامیاب ہی نہیں سود مند بھی دکھائی دیتا ہے۔ اسی لسانی اور تہذیبی فرق کے حوالے سے ایک مقام پر ڈاکٹر فراز حامدی کہتے ہیں :

’’دوہوں میں سنسکرت اور ہندی لفظیات کا استعمال بھی ہوتا ہے، لیکن اُن کے استعمال کا سلیقہ بھی ضروری ہے۔ طاہرسعید ہارون نے بھی ہندی لفظیات کا استعمال کیا ہے، لیکن ہنر مندی کے ساتھ۔ وہ لائق تحسین ہیں کہ انھوں نے رنگ ڈھنگ اور آہنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے خالص دوہا رنگ کی شاعری کی ہے۔ دوہے کا انداز اور لب و لہجہ اُن میں پوری طرح جھلکتا ہے اور اُن کے دوہے جامعیت اور معنویت میں بھی بھر پور دوہے کی کیفیت رکھتے ہیں۔ ‘‘(۲۲۰)

اسی بات کے پس منظر میں ڈاکٹر وزیر آغا اپنے مضمون ’’طاہر سعید ہارون کے دوہے میں صوتی بہاؤ‘‘ میں بحث کے بعد ڈاکٹر طاہر کی لسانی خدمات کے اعتراف میں لکھتے ہیں :

’’انھوں [طاہر]نے دوہا نگاری کے باب میں طرحِ نو کا اہتمام کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے، کہ انھوں نے اُردو دوہے کی تعلیمات میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔ کلیثوں کی دست برد سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نئے الفاظ کی کمک کا انتظام کیا جائے، بشرطیکہ یہ الفاظ اپنی صوتی مناسبت کے علاوہ معنی آفرینی کے عمل میں بھی معاون ہوں۔ طاہر سعید ہارون نے لفظوں کے انتخاب میں منصوبہ بندی نہیں کی، بلکہ چناؤ کو ذہنی عمل کے تابع کیا ہے، جس سے اُن کے دوہوں کی زبان میں تازگی اور تازہ کاری کا احساس ہوتا ہے۔ ‘‘(۲۲۱)

اس کا ڈنکا چار سُو اس کی ہے تمجید

ہونٹوں پر سنسار کے جگ جگ ہے تحمید

 

پانی کی اک بوند میں، ساگر تُو کرتار(۲۲۲)

میں ہوں ذرّہ خاک کا، تیرا ہے سنسار

یقیناً حمد و  ثنا کے لائق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لیے موجودات میں سے ہر چیز اُسی کی تعریفوں میں رطب اللساں ہے۔ دوسرے دوہے میں وحدت الوجودکافلسفہ بولتا ہے۔ عموماً توڈاکٹرطاہراُسی فکر کو لے کر چلتے ہیں جو عامۃ الناس نے اختیار کر رکھی ہے، مگر کہیں کہیں وہ ان مشہور نظریوں کے پرچارک بھی دکھائی دیتے ہیں۔

یہ رنگ ملاحظہ ہو:

جیون لِیلا دیکھتے بھول گیا بھگوان

انمٹ تیری ذات ہے میں فانی انسان

دور کہیں پاتال میں دھرتی لاکھ چھپائے

ذرّہ اس کی ذات سے اوجھل نہ ہو پائے (۲۲۳)

ان دوہوں میں جیون، لیلا، بھگوان، انمٹ، دھرتی، پاتال اور اوجھل ہندی الفاظ ہیں۔ بعض کو چھوڑ کر عموماً رائج اُردو میں برتے جاتے ہیں، لیکن جو نہیں برتے جاتے انھیں بھی خوب صورتی سے دوہوں کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر نے ہیئت کے ساتھ اُسلوب اور لسانیات کو بھی ثروت مند کیا۔ پہلے بھی یہ عرض گذاری جا چکی ہے، کہ انھوں نے ہندی، فارسی اور عربی زبانوں کے امتزاج سے ایک نیا مگر خوب صورت لحن ایجاد کیا ہے۔ یہ اُن کے شخصی اُسلوب کا  نمائندہ بھی ہے اور فنِ دوہا نگاری کے باب میں ایک قدم آگے بڑھتا ہوا سفر بھی۔ بعض دوسروں کی نسبت نہ تو انھوں نے عربی فارسی الفاظ کو دیس نکالا دیا ہے اور نہ ہی ہندی لغت سے جان چھڑائی ہے۔ بلکہ دونوں کے تال میل سے ایک خاص رنگ وضع کیا ہے، یہی رنگ اُن کی شناخت بھی بن چکا ہے۔ ان کے اکثر دوہوں میں یہی فضا موجود ہے۔

سورج کو تُو جوتی بخشے، چندر ماں کو نور

مولا تیرے دم سے بہتا، سندرتا کا بھُور

 

مُردوں کو تو زندہ کر دے، زندوں کو بے جان

تُو قادر ہر شے پر مولا، نربل ہے انسان(۲۲۴)

یہاں پر اللہ کی قدرتِ کاملہ پر ایمان کی جلوہ نمائی ہے۔ ایک ایک حرف اس بات پر  شاہد ہے، کہ شاعر کے دل میں اس کی ذات کے سوا کسی اورکابسیرا نہیں ہے۔ وہی خالق و مالک ہے، جو شاعر کے دل میں، احساس میں اور جذبوں میں حتیٰ کہ ہر ایک سانس میں رواں دواں ہے۔ شاید شہ رگ سے قریب ہونے کی ایسی ہی نشانیاں ہوتی ہوں، کہ انسان اُس کی قدرت پر مکمل ایمان لے آئے۔

ساگر ساگر جھانکتے حیرانی سے دیپ

کس ہستی کے کارنے، موتی اُگلیں سیپ

 

پھُوٹا تیری مہر سے سندرتا کا بھُور

اندھیارے کو چیر کر اُترا جگ میں نُور (۲۲۵)

قرآنی تعلیمات کا اظہار ان دوہوں سے ہوتا ہے۔ وہی ہے جو بارش کے قطرے کو فیض عطا کر کے سیپ کے منھ میں رکھتا ہے اوراُسے موتی بناتا ہے۔ وہی ہے جس کے نُورسے، جس کے جمال سے ہر طرف روشنی اور ہر طرف حسن کی کرنیں پھیلی ہوئی ہیں۔ اُسی کی ذات نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اور اُسی کی ذات سے تمام روشنی، رنگینی اور حسن ہے۔ پورب پچھم، دکن اتّر میں اُسی کی جلوہ فرمائی ہے اور وہی محیطِ کائنات ہے۔

 

نعت:

 

بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم میں ڈاکٹرطاہرسعیدہارون نے ۲۰۲ گلہائے عقیدت پیش کیے ہیں۔ ان نعتیہ دوہوں میں روایتی رنگ بھی ہے اوراحساس کی شمعوں پر روشن ہونے والی نئی شعاعیں بھی۔ اجتماعی شعور کا اظہار بھی ہے اور انفرادی تفکرات و  تصورات کی کٹھالی میں کندن ہونے والے جذبے بھی۔ آقائے نامدار جنابِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ذاتِ با برکات ہرمسلمان کے لیے وجہِِ راحت وسکوں اور باعثِ نجاتِ دُنیا و آخرت ہے۔ اس لیے آپؐ سے محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر نے یہاں بھی محض روایت کو نبھاتے ہوئے ایک دو نعتیں کتاب کے آغاز کے لیے نہیں لکھیں، بلکہ ہر کتاب میں بڑی تعداد میں دوہے یہ ثابت کرتے ہیں، کہ وہ آپؐ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ایک بات جو خصوصیت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے، وہ یہ کہ شاعر کا قلم بارگاہِ محمدؐ میں انتہائی مؤدب ہو جاتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے سر کے ساتھ ساتھ دل بھی جھکتا جا رہا ہو۔ جب مدینہ اور خاص کر حضورؐ کے روضے کی جالیوں کا ذکر آتا ہے، تو شاعر اپنے اعمال پر ندامت کا اظہار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور آپؐ کی رحمتوں کا طالب نظر آتا ہے۔ یہی وہ خاص تعلیم ہے جوکسی بھی راسخ العقیدہ مسلمان کا شیوہ ہے۔ یہاں تمام کتابوں سے بالترتیب دو دو نعتیہ دوہے دیے جا رہے ہیں :

مولا جس کی کملی کالی من جس کا اجیارا

جھوٹ نگر کے اندھیارے میں سچ کا روشن تارا

 

ودیا جس کے گھر کی لونڈی ہر فن میں گنوان

تن من جس کا سچا درپن، جیون تھا قرآن (۲۲۶)

 

جُگ جُگ تیرا نُور محمدؐ من کی باٹ اُجال

اللہ سائیں منزل جس کی اس رستے پر ڈال

 

صادقؐ اور مصدقؐ تو ہے حقؐ ہے تیری ذات

اک اک اچھّر سچا تیرا اک اک تیری بات (۲۲۷)

 

ہردے جس کے پریم تھا نیناں میٹھی سار

جگ سے دھو کر بیر کو بخشا جس نے پیار

 

اللہ سائیں بھیجتا تجھ پر آپ درود

رب کا تو محبوب ہے، تو حامد، محمود(۲۲۸)

 

طیبیٰ کی ماٹی کو چوموں ماتھے اسے لگاؤں

ذرہ ذرہ افشاں لاگے اپنی مانگ سجاؤں

ایک مسلمان کو جو محبت حاصل ہے، وہ یہاں پوری طرح دکھائی دیتی ہے۔ ہماری تعلیمات میں ربِّ کریم کا یہ احسان بھی بتایا جاتا ہے، کہ اُس نے مسلمانوں کے دلوں میں اپنے محبوب کی محبت رکھ دی اور یوں نیابتِ الٰہی کا ایک اور وصف نمایاں کر دیا۔ یعنی جو جو ادائیں خود اللہ تعالیٰ کی ہیں، انھی کا پرتو وہ انسان، دوسرے لفظوں میں اپنے خلیفہ کے اندر دیکھنا چاہتا ہے۔ حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے محبت اللہ کی سنت ہے۔ یہاں شاعر آپؐ کے راستے یعنی شریعت کو کامیابی کی دلیل ثابت کرتے ہیں۔ آپؐ کی محبتوں اور رحمتوں کا بیان کرتے ہیں، جو بلا امتیاز سب کے لیے ہیں۔ باطل کے مقابل حق کی کارفرمائی اور ٹھہراؤ کا ہنر ہمیں اسی بارگاہ سے عطا ہوا ہے۔

 

مہکی ہے من بگیا موری، بر آئی ہے آس(۲۲۹)

کملی والے کے روضے سے پُروا لائی باس

 

نقش مٹائے پاپ کے پُن کی ڈالی ریت

احمدؐ سائیں مرشدی جگ کا سچا میت

 

پہلو میں سو دھڑکنیں نئی نویلی آس

تیرے دم سے مجبتیٰ جاگا ہے احساس (۲۳۰)

رب سائیں کو واحد جانا، سمجھا اک معبود

حمد خدا کی کرنے والا ٹھہرا خود محمود

 

کل تک میں نے پاپ کمائے من بھیتر شرماؤں

روضے کی جالی سے ما تھا کیسے آج لگاؤں (۲۳۱)

 

کینہ، تہمت، بیر سے من تھا جن کا صاف

نرمی، دھیرج، شانتی سب ان کے اوصاف

 

سرداری کونین کی سر پر سچ کا تاج

پہنچے جو معراج پر نُوری جن کا باج(۲۳۲)

 

دُنیا جاگی خواب سے پایا نیا گیان

تیرے کارن اے نبیؐ اللہ کا عرفان

 

مولا کی یکتائی کا بہہ نکلا ہے بھُور(۲۳۳)

تیرے کارن اے نبیؐ دوئی من سے دُور

آخری دوہے میں شاعر نے توحید کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ توحیدجس کادرس نبیِ مکرمؐ نے عطا کیا۔ جہل اور گندگی میں اَٹا ہوا معاشرہ بتوں کی پوجا پاٹ چھوڑ کر ایک خدائے واحد کے سامنے سرنگوں ہو گیا۔ یقیناً یہ آپؐ کی تعلیمات کا حصہ ہے۔

مولا تیری دین ہے دھویا من سے بیر

رشتہ جوڑا پیار کا بانٹی سب میں خیر

 

مسلم بھائی بھائی ہیں آقا کا فرمان

جیسے موتی ہار کے آپس میں یک جان(۲۳۴)

ان دونوں دوہوں میں پختہ دُشمنیوں کادوستیوں اور محبتوں میں بدلنے کا احوال ہے۔ آپؐ نے اپنے حسنِ سلوک سے سنگ دل عربوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے لیے موم کیا اور ان میں باہمی محبتوں کی شمعیں روشن کیں۔ رحمت اللعالمینی کے وصف، سلامتی وراستی کے درسات، امن و محبت کے پیغامات کی ساری خوبیاں اور رعنائیاں آپؐ کی ذات با برکات کا نمایاں اور اہم حصہ ہیں۔ ڈاکٹر طاہر نے اپنی توفیقات کے مطابق کچھ رنگوں کو نمایاں کیا ہے :

ایسا سندر خواب عطا ہو رب سے آس لگاؤں

نین جھروکے طیبیٰ دیکھوں گلیوں میں کھو جاؤں

 

میرے پاک نبیؐ کا روضہ جنت کا گلزار(۲۳۵)

جاری ہے فیضان خدا کا سارے جگ مہکار

 

رُوں رُوں لرزے پاپ سے، من بھیتر شرماؤں

لکھوں نعت حضورؐ کی، کیسے قلم اٹھاؤں

 

لات و عزّیٰ سرنگوں، دوئی ہوئی بے نام

جگ کو بخشا آپؐ نے وحدت کا پیغام(۲۳۶)

ڈاکٹر طاہر کا ہر حرف جھک جھک کر سلام پیش کرتا ہے اور ہر ہر خیال سجدہ ریز ہو کر گلہائے عقیدت نذر کرتا ہے۔ یہ محبت و مؤدت کاو ہ سلسلہ ہے، جو سالکین کی منزل اور عاشقانِ رسول کے لیے خاص ہے۔ نعتیہ کلام تب اپنے مرتبے تک پہنچتا ہے، جب وہ پوری محبت اور پورے ایمان کو محیط ہو۔ اگرچہ عمومی اشعار بھی اثر رکھتے ہیں، لیکن دل میں وہی سماتے ہیں، جو دل سے لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر کے نعتیہ دوہے اُن کے دل کی آواز ہیں، اسی لیے پُر تاثیر بھی ہیں۔ ان کی لگائی گئی محبت کی شمعیں پڑھنے والے کے دل کو بھی منور کرتی ہیں۔ یہی سچی شاعری کا انعام ہے۔

 

قرآن فہمی:

 

یہ باب قرآنی تعلیمات کے تراجم کو محیط ہے۔ یہ روایت صوفیا اورسالکین کی ہے، جو اپنے مریدین اور متوسلین کی راہ نمائی کی خاطر مذہبی تعلیمات کا عام فہم ترجمہ کیا کرتے تھے۔ ہندو مذہب میں بھگتوں، سنتوں اور سادھوؤں نے اپنی مذہبی اور اخلاقی تعلیمات کے لیے دوہے سے بعینہٖ یہی کام لیا۔ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے اپنی تمام کتابوں میں مجموعی طور پر با قاعدہ اس عنوان کے تحت ۱۵۴ تراجم کیے، البتہ اسلامی تعلیمات، حتیٰ کہ قرآنی تعلیمات کا اظہار بھی ان کی شاعری میں جا بہ جا ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ سارا کام ایک مبلغ، ایک مصلح، ایک سالک اور ایک صوفی کی حیثیت میں کیا ہے۔ جو بے لوث رہ کرانسانیت کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔ سب کی خیراورسب کا بھلا چاہتا ہے۔ اصغر ندیم سیدنے ڈاکٹر طاہر کا یہ رُوپ شناخت کر کے یوں اظہارِ خیال کیا:

’’دوہا اگرچہ برصغیر کے داخلی اور جذباتی مزاج کے بے حد قریب رہا ہے۔ لیکن اس صنف کے لیے جس داخلی تپسیا، تڑپ اور اندر کی پکار کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ صرف صوفیوں، بھگتوں، سنتوں، درویشوں اور فقیروں میں پائی جاتی ہے۔ دوہے کی صنف کے قابل ہونے کے لیے انسانوں سے محبت، کائنات سے عشق، زمینی ثقافتوں سے نسبت اور دائمی قدروں سے خلوص کا رشتہ لازمی ہے۔ ڈاکٹر طاہر سعیدہارون سے پہلی ہی ملاقات میں یقین ہو جاتا ہے، کہ وہ دوہے کی صنف کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ گویا قدرتی طور پران کی شخصیت میں اس صنف کے لیے فطری میلان موجود ہے۔ ‘‘(۲۳۷)

قرآنی آیات کے یہ خوب صورت تراجم دیکھیے، جو ڈاکٹر طاہر نے پورے ایمانی جذبے اور فنی لگن سے کیے ہیں :

اک بندے کے بوجھ کو دُوجا نہیں اُٹھائے

محنت جتنی شخص کی، اُتنا ہی وہ پائے (۲۳۸)

(سورۂالنجم۔ آیات ۳۸۔ ۳۹)

معصوموں پر باندھتا جو جھوٹا بہتان

بھاری بوجھ اٹھائے گا وہ پاپی انسان(۲۳۹)

(سورۂ النسا۔ آیت۱۱۲)

جس دن رب کی تکڑی تولے لوگوں کے اعمال

جن کے پلڑے بھاری نکلیں جنت میں خوشحال

 

بھاگوں پھوٹے پاپی جن کی ہلکی ہو میزان(۲۴۰)

جُگ جُگ دوزخ میں کُرلائیں سر اوندھے ہلکان

(سورۃ المومنون۔ آیات۱۰۲تا۱۰۳)

من میں اس کے آئے تو اک پل کا ہے کام

کُن کے اک فرمان سے پائے سرانجام

جس ہستی کے ہات میں سارے جگ کی راس

اس پاکیزہ ذات کے لوٹو گے تم پاس(۲۴۱)

(سورۂ یٰسین۔ آیات۸۲تا۸۳)

دھرتی اورآکاس ہیں اس کے، خالق جانے حال

جس کو چاہے بالک بخشے، جس کو چاہے بال

جس کو چاہے دونوں دیووے، یا دیووے نا کوئے

اس جیسا نا عالم قادر سارے جگ میں ہوئے (۲۴۲)

(سورۂ شوریٰ۔ آیات ۴۹تا۵۰)

ٹیک لگا کر تکیوں پر سب بیٹھے نیکو کار

سیج ہے ان کی مخمل جیسی ابریشم کے تار

کون سی نعمت اپنے رب کی پھر دونوں جھٹلاؤ

نیچے نین کیے ہیں بیٹھی ناریں سو گنوان

جن کے پاس سے گذرا کوئے نا جن نا انسان

کون سی نعمت اپنے رب کی پھر دونوں جھٹلاؤ

اُجلے مکھڑے ایسے ان کے جیسے سندر لال

مونگے جیسے نیناں ان کے ہیرے جیسے گال

کون سی نعمت اپنے رب کی پھر دونوں جھٹلاؤ

یہ بدلہ ان کرموں کا ہے جو جگ میں کر کے آئے

جیون سے اک پن جو لایا، لاکھوں یہاں کمائے

کون سی نعمت اپنے رب کی پھر دونوں جھٹلاؤ

(سورۂ الرحمن)(۲۴۳)

یہ تمام تراجم اس فنی مہارت اور توجہ سے ہوئے ہیں، کہ ان کے مطالعے سے تلاوت جیساماحول پیدا ہو جاتا ہے، جوانسان رات کی تنہائی میں سمجھ کر کرتا ہے۔ یہ اللہ کی عطا ہے، جسے بخش دے۔ خورشید رضوی نے طاہر سعید ہارون کی حمد و نعت نگاری اور قرآن فہمی پر کیا خوب صورت تبصرہ کیا ہے :

’’قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ یہ حمد یہ و نعتیہ دوہے رسمی پیرایہ نہیں رکھتے بلکہ گہرے احساس اور یقین کے آئینہ دار ہیں۔ یہی حال اُن دوہوں کا ہے جن میں انھوں نے بعض مضامینِ قرآنی کا مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی ہے، مثلاً سورۂ علق کی ابتدائی آیات کی ترجمانی دیکھیے :

پڑھیے رب کے نام سے، پیدا جو فرمائے

وہ جو جمتے خون سے آدم ذات بنائے

پڑھیے رب کے نام سے، جو ہے بڑا کریم

خامے سے انسان کو، دیتا ہے تعلیم

اسلامی تعلیمات، ڈاکٹر صاحب کی نظر میں، انسانوں کو جوڑنے، سچائی کو جھوٹ پر غالب کرنے، ایثار، خلوص، حسن و خیر، تقویٰ و طہارت اور امن و محبت کے پیغام سے عبارت ہیں۔ ‘‘(۲۴۴)

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے ان تراجم کی وجہ سے قرآن فہمی کے باب میں ایک نئے صفحے کا اضافہ ہوا ہے۔ وہ لوگ جنھیں قرآن پڑھنے کی توفیقات نہیں یاوہ لوگ جومسلمان نہیں ہیں، ان تعلیمات سے ضرور مستفید ہوں گے، یہی شاعر کی تمنا ہے اور یہی کوشش۔

 

اگرچہ وطن کی محبت اوراس مٹی کی بُوباس شاعر کے احساس میں پوری طرح رچی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اور ہر دوہے میں نہیں تو اکثر دوہوں میں کسی نہ کسی رنگ سے جھلک دے جاتی ہے، لیکن باقاعدہ عنوان کے تحت انھوں نے اپنی گیارہ کتابوں میں ۲۱۷ دوہے لکھے ہیں۔ ان دوہوں میں جہاں وطن کی مٹی سے محبت ملتی ہے، وہاں اس کے موسموں، پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندر، صحراؤں، کھیتوں، کھلیانوں، رسموں، رواجوں، کھانوں، بوڑھوں، بچوں اور جوانوں سے بھی محبت و مؤدت کی کرنیں واضح ہوتی ہیں۔ انھوں نے جہاں شہروں کی محبت میں گیت گائے ہیں، وہاں کوہستانوں اور صحراؤں کی مست پون اور اُڑتے بادلوں کو بھی اپنی بصارتوں سے دیکھ کر قریۂ دل میں جگہ دی اور پھر لفظوں کے وسیلے سے ان منظروں اورپس منظر میں ٹھاٹھیں مارتے جذبات کو پڑھنے والوں تک پہنچایا۔ امین خیال صاحب، ڈاکٹرطاہرسعیدہارون کی وطن سے محبت کے باب میں ایک مقام پر لکھتے ہیں :

’’وطن کے ساتھ محبت ایک قدرتی امر ہے۔ اس دکھ اور ہجرت سے پیر، پیغمبر، اولیا بھی نہ بچ سکے۔ یہ کوئی ان سے پوچھے جو اپنی کسی مجبوری کے باعث اپنادیس چھوڑ کر بدیس جا کر آباد ہو جاتے ہیں۔ ہجرت مدینہ کے وقتِ نبی اکرمؐ مڑ مڑ کر مکہ دیکھتے اور رنجیدہ ہوتے تھے۔ دیس پر کوئی آفت آئے، وبا و بلیات کی چھایا پڑے کس کو گوارا ہے، یا دیس میں اتحاد و یگانگت کی بجائے پھوٹ پڑ جائے، ملک انتشار و خلفشار کا شکار ہو جائے کس کو بھاتا ہے۔ ‘‘

(نیناں درپن۔ص ۱۶)

ڈاکٹرطاہرسعیدہارون، اللہ، جنابِ محمدؐ اور قرآن کے بعداگرکسی سے محبت کرتے ہیں تووہ یہی وطن ہی ہے۔ گویا وہ زمین وآسمان کی محبت میں یوں گندھے ہوئے ہیں، کہ دونوں سروں کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ اُن کی یہی وسعت پذیری انھیں دوسرے دوہا کویوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کی محبت، ان کی ادائیں اور ان کا اسلوب انھیں کوِتا کی سہجتا پر موجودہ عہد کے تمام دوہا نگاروں میں ممتاز کرتا ہے۔ وطن کی محبت میں چمکنے والے اظہاریے دیکھیے :

اونچے اونچے پربت جس کے ہرے بھرے میدان

میٹھے میٹھے جھرنے جس کے میرا پاکستان

اک سے اک ہے شیر بہادر چیتے جیسی چال

پوٹھو ہاری مائیں جنتی کیسے کیسے لال (۲۴۵)

 

گلگت، ہنزہ، شیگر، پھنڈر، اپنا بلتستان

اک کنٹھے کے نگ ہیں سارے کنٹھا پاکستان

 

راکا پوشی، نانگا پربت، کے۔ ٹو اور مستاغ(۲۴۶)

پربت میرے دیس کے اونچے ان چھوئے بے داغ

 

چوڑے در لاہور کے اونچے لاٹ منار

کہنے کیا اس شہر کے سب جائیں بلہار

 

میں جٹّی پنجاب کی، رانگھڑ میرا ویر(۲۴۷)

سپنے سانجھے پیار کے، وہ رانجھا میں ہیر

 

سچل سائیں پیار سکھائے، باہو سچی پریت

میٹھی میٹھی بانی ان کی من لیتی ہے جیت

 

چیکو، کینو، گرما، سردا، کیلا، سیب، انار(۲۴۸)

سارے اپنے دیس کے میوے کیسی کیسی سار

 

باسی اپنے دیس کے کیسا بھاؤ سبھاؤ

چھیل چھبیلی ناریاں، نر ہیں بان کے راؤ

برکھا ہو پردیس میں بالک پن یاد آئے

سوندھی ماٹی دیس کی سپنوں کو مہکائے (۲۴۹)

 

ہرے رہیں سب کھیت تمھارے، بھرے رہیں کھلیان

اللہ تجھ پر سایہ رکھے جُگ جُگ پاکستان

 

تُو نے مجھ کو راحت بخشی، تُو میرا آدھار(۲۵۰)

جیون بھر نہ بھولوں دھرتی، ماں سا تیرا پیار

 

کوئل کُوکُو بولتی، چاتک کرے پکار

اپنے سندر دیس میں آئی موج بہار

 

لوگو اپنے دیس کی ہٹ کر ہے پہچان

لجونتی ہیں ناریاں، گھونگھٹ ان کا مان

 

پُوری، حلوہ، گلگلے دیوے تُو پکوان(۲۵۱)

کھانے میرے دیس کے اللہ تیری شان

ڈاکٹرطاہرسعید ہارون کی دوہا نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹرسلیم اختر ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’طاہر صاحب کے ہاں موضوعات کا خاصا تنوع نظر آتا ہے۔ چنانچہ وہ پیاری کے ساتھ اپنی مٹی سے بھی پیار کرتے ہیں اورسوہنی دھرتی کے صوفیوں اور سیانوں کے افکار و اقوال کے دوہا روپ میں تراجم کرتے ہیں اور سب پر مستزاد قرآن شریف کی بعض آیات کے دوہے کی صورت میں خوب صورت تراجم!(۲۵۲)

ایک اور مقام پریوں رقم طراز ہیں :

’’دوہے کا تخلیقی مزاج زرعی معاشرے کی روایت سے مشروط ہے۔ اس لحاظ سے دوہے کی اپنی ودّیا اور اس ودّیا کے اپنے گن ہیں۔ دوہے کے کوی کا دل اگر اُفق تک پھیلے کھیتوں، چمکے لیے نیلے آسمان، گیلی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو کی تال پر نہیں دھڑکتا تو پھر وہ اچھا ہندی نگار تو ہو سکتا ہے، دوہا نگار نہیں۔ اور یہی فضا کوی طاہر کے دوہوں میں ملتی ہے۔ ان کے دوہے پڑھتے ہوئے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کر لیں تو پُر ہجوم شہر کے بدبو دار لوگوں اور پُر تعفن گلیوں سے دُور، خود کو صاف ستھری ہوا میں سانس لیتا محسوس کریں گے۔ ‘‘(۲۵۳)

حبِ وطن کے باب میں تو یہ تمام چیزیں دکھائی ہی دیتی ہیں، عمومی شاعری میں بھی ان کے یہاں یہی ثقافت نمایاں ہے۔ دیہات کا نتھرا، کھرا اور سچا پن ان کی شاعری کو محیط ہے۔ دوہے میں عمومی طور پر بھگتی تحریک کا اثر نمایاں ہوتا ہے۔ اُس کی لفظیات، ڈکشن اور اُسلوب، بیان اور تشبیہات ایسی ہوتی ہیں، جو ہندو مذہب سے جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ چوں کہ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون خدائے لم یزل، نبیِ بے مثال اور قرآنِ مجید کی تعلیمات سمیت وطن کی محبت میں پوری طرح منہمک اور ان سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے دوہا بانی کی روایت کو تو اپنایا، اُس کے بعض مضامین تو اختیار کیے، لیکن اپنی شناخت کو مٹنے نہیں دیا۔ اس روش کو اپنانے کے لیے یقیناً انھوں نے بہت کشٹ اٹھائے ہیں۔ ڈاکٹر وحید قریشی صاحب نے شاید اسی کیفیت کو بھانپتے ہوئے یہ رائے دی:

’’قدیم ہندو روایات کے بعض پہلو کلامِ طاہر میں دکھائی نہیں دیتے۔ کائنات کی دیوی دیوتا کا سفر یہاں نہیں ہے۔ اسی طرح کرشن کا رنگِ کبود بھی کہیں بیان نہیں ہوا۔ تیسری چیز جوان دوہوں کو ہندو فضاسے الگ کرتی ہے، وہ یہ کہ آپ مذہب کو جنس کے مرکزی نقطے سے منسلک نہیں کرتے۔ ہندو مت میں مذہب کیTotal Approach جنسی ہے۔ ڈاکٹر طاہر کے ہاں کرشن کی گوپیاں اظہارِ محبت تو کرتی ہیں، لیکن جنس کو موضوعِ خاص نہیں بناتیں۔ نتیجتاً وہ ویدوں کے دور تک محدود نہیں رہے، بلکہ گنگا اور جمنا کی وادی کے رسم و رواج، دیہاتی رہن سہن اور حکومتی ڈھانچہ کو بیان کرتے چلے گئے ہیں اور اشوک، چندر گپت اور ہرش کے زمانے سے لے کر مغلیہ عہد تک جا پہنچے ہیں۔ یہ طریقِ بود و باش پاکستان کے لیے اجنبی ہے، لیکن ڈاکٹر طاہر کے لیے ایسا زندہ ماضی ہے، جس میں وہ ہمیشہ صاف چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ‘‘(۲۵۴)

یہاں جو نکتہ ڈاکٹر صاحب نے ’’اجنبیت‘‘ والا اٹھایا ہے، تو یہ کئی اعتبارات سے دُرست ہے۔ لیکن ایک خاص اور اہم بات یہ ہے، جب دوہا کہا جائے گا تو ممکن نہیں ہے، کلی طور پراُس کی فضاسے آزادی حاصل کر لی جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے، تو بادی النظر میں یہ خوشبو کو پھول سے الگ کرنے والا معاملہ ہو گا۔ دوہے کارَس جَس اور لوچ مٹھاس اسی مخصوص فضا اور تہذیب میں ہے۔ البتہ شاعر کا یہ کمال ہوتا ہے، کہ وہ اُسے اپنے مزاج اور ماحول سے ہم آہنگ کر لے۔ جس طرح ’’قرطبہ کا قاضی‘‘ کی اصل کہانی مغربی اَدب سے لی گئی ہے، مگراُسے جس طرح قرطبہ کے ماحول سے ہم آہنگ کیا گیا ہے، وہ کمال ہے۔ ڈاکٹر طاہر نے حمد، نعت، قرآن اورپاکستان کے باب میں ہی نہیں سندرتا، بیاکلتا، گیان دھیان اور دوسرے مضامین میں بھی حتی الوسع اپنی شناخت قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن تاثیر کا باقی رہنا ضروری بھی ہے اور فطری بھی، اس لیے کہ یہی امتیاز ہے، جواس فن کو دوسری اصناف پر تفوق دیتا ہے۔ اور بہ قول ڈاکٹر فراز حامدی :

’’انھوں نے فنی اور روایتی قدروں کا احترام کرتے ہوئے دوہوں کی جو کائنات سجائی ہے، وہ بہت دلکش اور جاذبِ نظر ہے۔ انھوں نے دوہے کی قدیم پرمپرا کواس نوتن یگ میں بل شالی بنایا ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ ‘‘(۲۵۵)

 

سُندرتا:

 

ڈاکٹرطاہرسعیدہارون کی شاعری کا بڑا حصہ تین موضوعات کا احاطہ کرتا ہے اور وہ ہیں حسن، عشق اور گیان دھیان۔ ان میں بھی حسن و عشق کا حصہ بھاری ہے۔ یہ فطری بات ہے، انسان اپنی اخیر عمر تک حسن و عشق سے کسی نہ کسی اعتبار سے جڑا رہتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ریٹائرمنٹ کی زندگی گذار رہے ہیں، اس کے باوجود ان کی نئی کتابوں کے مطالعے سے یوں معلوم ہوتا، جیسے کوئی نوجوان کھلنڈرا عاشق اپنی محبوبہ کی طلب میں گاتا پھرتا ہے۔ اُس کے حسن کو تمثیلوں سے بیان کرتا ہے۔ درختوں کی چھالوں اور تنوں کو کاٹ کراُس پر محبوبہ کا نام لکھتا ہے۔ دریاؤں کی موجوں، ٹھنڈی ہواؤں اور پنکھ پکھیروؤں سے اُس کی باتیں کرتا ہے۔ ساونوں اورسردیوں کی ٹھنڈی راتوں میں اُس کے لیے آہیں بھرتا ہے۔ یہ حسن کی عطا ہے، جوانسان کو زندہ رکھتی ہے۔

بارگاہِ حسن میں ڈاکٹرطاہرسعیدہارون بہت احترام اور وقار سے چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے ان کے قلم سے ایسی کوئی بات نہیں نکلتی جو شانِ حسن میں کمی لاتی ہو۔ در اصل یہ اپنا احترام ہی ہے، جب کوئی عاشق اپنے محبوب کا احترام نہیں کرتاتودوسرے لفظوں میں اُسے اپنی عزت کاپاس بھی نہیں ہوتا۔ جمیل یوسف نے ڈاکٹر طاہر کی اسی روش کا اندازہ کرتے ہوئے یوں اظہارِ خیال کیا:

’’یہ دوہے اس مشرقی عورت کی یاد دلاتے ہیں، جواب مشرق میں ناپید ہو چکی ہے، ہاں البتہ یہ آغازِ محبت کے جذبات ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے معصوم اور نازک من موہنے جذبات کا ذکر اُردو غزل میں حسرت موہانی کے ہاں بہ طور خاص ہوا ہے۔ عام طور پر اُردو غزل اس نزاکتِ احساس سے خالی ہے، جس کا اظہار ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کے ان دوہوں میں جا بجا ہے۔ ان دوہوں میں غالب کے شعر کی طرح کوئی اور بات نہیں۔

ڈاکٹر طاہرسعید ہارون کے یہ دوہے پڑھتے ہوئے مجھے شیکسپیئر کا ڈرامہ ’’رومیو اور جیولٹ‘‘ یاد آ گیا ہے۔ وہاں رومیو نے جیولٹ کے گھر کے باغ میں درختوں کی اوٹ میں چھپ کر بالکنی سے جیولٹ کی ایک جھلک دیکھنے کے انتظار کے دوران جس نازک اور محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا ہے، یہ دوہے اسی والہانہ پن، اسی شوقِ فروزاں اور اسی لطیف بیان کے آئینہ دار ہیں اور یقیناً بڑی شاعری کے زمرے میں آتے ہیں۔ رومیو اور جیولٹ میں رومیو، جیولٹ کے خوب صورت چہرے کو چاند سے تشبیہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک طرف چاند نکلا ہے، دوسری طرف تم طلوع ہوئی ہو، جسے دیکھ کر چاند کاحسن ماند پڑ گیا ہے۔

ان دوہوں میں فطرت سے اسی قرب اور ہم آہنگی کا رنگ ہے۔ پنگھٹ، ندی، کنارے، دریا، چاند، پروا، دھنک… ان سب مناظر سے جو تصویر بنتی ہے، اس کی مثال ڈھونڈنی آسان نہیں۔ ان دوہوں میں برصغیر کے دیہات کا پورا ماحول اور سارا منظر اپنی تمام دلفریبیوں کے ساتھ سمٹ آیا ہے۔ ‘‘(۲۵۶)

یہ دوہے مشرقی حسن کی خبر بھی دیتے ہیں اوراس حسن کی قدردانی پربھی آمادہ کرتے ہیں۔ یہی نہیں شاعر نے کہیں کہیں مغربی حسن کا مشرقی حسن سے موازنہ کر کے اس کی اہمیت بھی اُجاگر کی ہے۔ کچھ نکھرتے رنگ دیکھیے :

جوتی تیرے رُوپ کی گھونگٹ کہاں سمائے

چندر مکھ کی چاندنی ہر سُو بکھری جائے

 

سندرتا کی بھیک دے، بیٹھا تیرے دوار(۲۵۷)

اک پل گھونگٹ کھول دے، مکھڑا دیکھوں نار

 

گھور اندھیرے راستے، گھونگٹ اپنا کھول

چندا جیسی سندری سُن ساجن کے بول

 

گوری رُوپک پیار کی ہردے لاکھ چھپائے

جوتی سندر روپ کی چھن چھن باہر آئے (۲۵۸)

 

کچے سارے راستے ناری میرے گاؤں

کانٹے بیٹھے گھات میں کومل تیرے پاؤں

 

ناری مجھ سے بات کر کیوں لاگا ہے مون

امرت تیرے ہونٹ کا لے کر بھاگا کون(۲۵۹)

 

من پنگھٹ پر ناریاں جل بھرنے کو آئیں

چل دیں روپ سنوار کے، ہم تکتے رہ جائیں

 

گوری چلی بہار کو جھانجن باندھے پاؤں

چھم چھم کی آواز سے گونجے سارا گاؤں

 

پی سے پوچھے کامنی، کیسا ہے پردیس

اُت کیسی ہیں ناریاں، کیسا اُن کا بھیس(۲۶۰)

 

ڈھونگ رچائے سندری کانٹا چبھا ہے پاؤں

ساجن گود اُٹھائے کے لے چل اپنے گاؤں

اموا نیچے سندری ڈاری اوپر مور

دیکھیں باندھے ٹکٹکی ساجن تیری اور

 

راکھی بیٹھی کھیت کے رتناری اک نار

کیسی لاگے کامنی نیناں ٹپکے سار(۲۶۱)

حسن کہیں بھی نظر آ جائے اُس پر شیدا ہونے کی تمنا عاشق کا خاص رجحان ہے۔ کہیں توایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے محبوبہ اپنے حسن کا اظہار کھلے عام کرتی ہے، اس لیے ہر کوئی اُس پر قربان ہونا چاہتا ہے۔ اور کہیں محبوبہ مستور ہے، نقاب میں ہے اور صرف اُس کے نین کٹوروں سے عاشق مدھوا پی کر مدہوش ہوا چاہتا ہے۔ من پنگھٹ پر ناریوں کے جھرمٹ کی آرزو یہ بتاتی ہے، کہ عاشق اپنے چاروں طرف حسن کی جلوہ فرمائی دیکھنے کا متمنی ہے۔

ڈاکٹرطاہرسعید کے یہاں عورت کا صرف یہی ایک رُوپ اُجاگر نہیں ہوا، بلکہ انھوں نے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو بھی اپنے دوہوں کا حصہ بنایا ہے۔ عورت کے جتنے رُوپ ہیں، انھوں نے ہر رُوپ کی تکریم کی ہے۔ انگ درپن کا بیان دوہے کا مخصوص و مرغوب مضمون ہے۔ لیکن ڈاکٹر طاہر کا یہ کمال ہے، کہ وہ اس بیان میں بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں جاتے۔ نسوانی حسن کی تعریف و توصیف تو کرتے ہیں، لیکن اس میں ہوس کا جذبہ شامل نہیں ہونے دیتے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے وہ حسن کی سرکار کو دیوی کا مرتبہ دیتے ہیں اور دیوی اور دیوتاؤں سے ہوس کا کوئی رشتہ نہیں جوڑا جاتا۔ بلکہ اُن کی پوجا کی جاتی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے گشتیوں، پنج گھریوں اور بیسواؤں کا بھی حال بیان کیا ہے۔ یہاں وہ پاکدامن بیبیوں سے ان کا موازنہ کر کے یہ بتاتے ہیں، کہ اُنھوں نے غلط راہیں منتخب کر کے اپنا مقام گھٹا لیا ہے۔

 

عشق کتھا:

 

حسن کے بعد عشق کا مرحلہ آتا ہے یا پہلے ؟ یہ ایک الگ سوال ہے۔ لیکن ڈاکٹرطاہرسعیدہارون نے بالعموم حسن کے بعد عشق کی بے تابیاں ظاہر کی ہیں۔ حسن تب حسن ہے، جب عشق ہو اور عشق تب عشق ہے، جب حسن ہو۔ دونوں کی موجودگی سے وہ جذبہ پروان چڑھتا ہے، جسے محبت، پیار یا پریت کہتے ہیں۔ انھی لفظوں سے محب، پیتم اور عاشق کی شناخت ہوتی ہے۔ لفظ کیفیتوں کو کہاں اسیر کر سکتے ہیں یا اُن کیفیتوں کی تاثیر کہاں جمع کر سکتے ہیں۔ بس ایک تصوراتی ڈھانچے کی تشکیل یا شبیہ ان سے ممکن ہو پاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود لفظوں کی کاٹ سینہ چیر جاتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرسعید کے یہاں عشق بے باک تو نہیں اور نہ ہی دوہا کے روایتی شاعروں کی طرح انگ درپن کا بیان کر کے جنسی لطف پیدائی کی گئی ہے، لیکن بے ساختہ اور تڑپانے والا ضرور ہے۔ انھوں نے جہاں جہاں عشق و ہجر یا بجوگ اور بیاکلتا کا بیان کیا ہے، پوری شدت سے کیا ہے۔ یہاں انھوں نے انفرادی دُکھوں کو بھی موضوع بنایا ہے اور تصور کی آنکھ سے دوسروں کو پہنچنے والے دُکھ تک بھی رسائی حاصل کی ہے۔ مگر یہاں روایتاً انھوں نے نر اور ناری دونوں کی بے چینیوں کو کئی ایک مقامات پر بیان کیا ہے۔ جہاں حسن کی تڑپ میں محبوب کی کُرلاہٹیں، ٹیسیں، کسکیں اور درد و الم بیان کیے ہیں، وہاں سجنی اور کامنی کو بھی اپنے ساجن کے لیے اضطراب آشنا اور کانٹوں پر لوٹتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک طرح سے دو طرفہ آگ کی صورت ہے، جس میں حسن و عشق دونوں مسلسل سلگتے ہیں۔ اوراس سلگاہٹ سے بیاکلتا یا بجوگ کا گیت پیدا ہوتا ہے۔ اس گیت میں سنجوگ اورکو ملتا کی خواہش ہوتی ہے، اس گیت میں ملن اورلمس کی تمنا ہوتی ہے۔ اور سچ تو یہی ہے، کہ جدائیاں مار ڈالتی ہیں۔ طاہرسعید کے یہاں ان جذبوں کی شدت کا رنگ چوکھا ہے :

روگن سوگن دیکھتی برہا ماری ہیر

نین جھروکے نیر میں رانجھے کی تصویر

 

میں بے چاری ماکھڑی رُوٹھا یار مناؤں

پل پل پوچھوں کاگ سے کیسے من پرچاؤں

 

پردیسی کت اور ہو لیتی تیرا نام

رستہ تیرا دیکھتی، بیتی جیون شام

 

چھپ چھپ روئے بانوری، دنیا جانے بھید

نیناں آنسو بولتے ہردے میں سو چھید(۲۶۲)

 

اک ہی چنتا کھائے گوری من کو دن رین

بن دیکھے میں سپنا تیرا، رہتا ہوں بے چین

 

پاتھر ہردے سے میں تیرے کب تک آس لگاؤں

کب تک نیناں تال میں تیری گوری بہتا جاؤں

 

جب تک پون جھکورے سجنی من میں تیری آس

کب سے کھڑکی کھولے بیٹھا آئے تیری باس

 

گوری من کی گاگر خالی پنگھٹ کیوں نا جائے

ساجن تیرا رستا دیکھے نینن آس لگائے (۲۶۳)

عشق اور پھر وچھوڑے کی آگ توسب کچھ راکھ کر ڈالتی ہے۔ پل پل کا تڑپنا  اور پل پل کا مرنا عاشق کی زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔ ان جنوں خیزیوں اور جنوں کاریوں کاکچھ علاج نہیں۔ بہ قول کسے :اب سنگ مداوا ہیں اس آشفتہ سری کا

نہ گروِ بام و د ر رہنے سے سکون ہے اور نہ ہی وسعتِ صحراسکوں ساز ہوتی ہے۔ اس باب میں ڈاکٹر طاہر سعید نے بہت سی ایسی کیفیات قلم بند کی ہیں، جو پڑھنے والے کے دل کو بھی متاثر کر جاتی ہیں۔

 

علم و عرفان:

 

گیان دھیان دوہے کا خاص موضوع ہے۔ صوفیوں، سنتوں، بھگتوں اور سادھوؤں نے عامۃ الناس کی اصلاح اورنفس کشی کے لیے اسی مضمون کو خصوصیت کے ساتھ دوہے کا حصہ بنایا۔ ہر اپدیشک نے اپنے اپدیشوں، وعظوں اور نصیحتوں کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ کی جو کوشش کی، وہ اپنے زمانے کے مطابق اسی صنف میں تھی۔ حق تو یہ ہے، جب بھی دوہے کا ذکر ہوتا ہے، بلا تامل ذہن میں یہی علم و عرفان کی گتھیاں سلجھاتی ہوئی باتیں آ جاتی ہیں۔ یہ مضمون اسی صنف سے خاص ہے۔ اگرچہ بعض شاعروں، جس طرح خواجہ میر درد اور چند ایک دوسروں نے غزل میں بھی تصوف کے مضامین کثرت سے بیان کیے ہیں، لیکن دوہے جیسی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے اس باب میں بہت سے رنگ یکجا کیے ہیں۔ کون سا ایسا رنگ ہے، جوانسانیت سے وابستہ ہو اور یہاں موجود نہ ہو۔ اس بیان میں دینیات، اخلاقیات، انسانیت، معاشرہ، تعلیم، رسم و رواج، محبتیں، نفرتیں، موسموں کے اُتار چڑھاؤ، امنگیں اور ترنگیں، عزم و ارادے، امیدیں اورمایوسیاں سبھی کچھ تو دکھائی دیتے ہیں۔ حسن و عشق کے اظہاریے بھی اگر خاص زاویے سے چمکتے ہیں، تو جبر و تسلط کے انگارے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ رنگارنگ موضوعات اور طرزِ ادا کا مرقع ہے۔ جو پڑھنے والے کو رُلاتا بھی ہے اور تڑپاتا بھی ہے۔ تقدیر کے شکوے بھی ہیں اور شکر گذاری کے پھول بھی۔ وعظ و نصیحت کے سلسلے بھی ہیں اور اپنی ہستی کاتمسخر بھی اڑایا گیا ہے۔ غرضے کہ ہر وہ رنگ موجود ہے، جو ممکنہ طور پرکسی انسان کے حیطۂ خیال میں سما سکتا ہے یا اُسے پیش آ سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی اسی بوقلمونی اور تنوع پسندی کے باب میں ایک مقام پر ڈاکٹر محمد نوشاد عالم آزادیوں رقم طراز ہیں :

’’ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کے دوہوں میں زندگی اور اسے جڑے معاملات و مسائل کا تفصیلی ذکر ہے، تجربات و مشاہدات پر مبنی خیالات و نظریات کی حقیقی تصویر کشی ہی نہیں ہوئی ہے، بلکہ ان کے دوہوں میں عالمِ رنگینی کے تمام نظارے اور کائنات کی تمام مصروفیتیں اورانسانی زندگی کی تمام دلچسپیاں اور رنگینیاں، رعنائیاں اور افسردگی ومایوسی کی بھی پیش کش میں ڈاکٹرطاہرسعیدہارون نے نمایاں کام یابی حاصل کی ہے۔ اگر ان کے دوہوں کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں راگنی بھی ہے، پیار بھی ہے، ملہار بھی ہے، جھانجھر بھی ہے، ملّا بھی ہے، پادری بھی ہے، اوتار بھی ہے، برگد کا پیڑ بھی ہے، مالی بھی ہے، کلیاں بھی ہیں، چور بھی ہے، پنڈت بھی ہے، ڈاکو بھی ہے، غریبی بھی ہے، مفلسی بھی ہے، پوجا بھی ہے، مالا بھی ہے، جاپ بھی ہے، ہریالی بھی ہے، رادھا بھی ہے، رانی بھی ہے، کھلتے پھول بھی ہیں، رات کی انگڑائیاں بھی ہیں، برکھا کی بارش بھی ہے، تارے بھی ہیں، چاندنی بھی ہے، رات بھی ہے، گہری نیند بھی ہے، سنہرے سپنے بھی ہیں، دھوپ بھی ہے، چھاؤں بھی ہے، جیون بھی ہے، سنگیت بھی ہے، بارات بھی ہے، سیندور بھی ہے، جوبن بھی ہے، انتظار بھی ہے، سندر کلیاں بھی ہیں، ناری بھی ہے، کرشن بھی ہے، کنہیا بھی ہے، لاج بھی ہے، گھونگھٹ بھی ہے، راجا بھی ہے، رانی بھی ہے، سنگھاسن بھی ہے، آشا کے پھول بھی ہیں، بادل کا رتھ بھی، سیاں بھی ہیں، سجن بھی ہے، گوری بھی ہے، ظلمی بھی ہے، ناچ بھی ہے، نغمے بھی ہیں، سپنے بھی ہیں، پریت بھی ہے، شوبھا بھی ہے، پیلا چولا بھی ہے، لال چنریا بھی ہے۔

زندگی کا کون سارنگ ہے جو ڈاکٹر طاہر سعید کے دوہوں میں نہیں ہے۔ چاندسا خوب صورت اور حسین مکھڑا ہے، ماتھے پر لہراتی لٹ ہے، چھیل چھبیلی بان کی ناری ہے، پھلواری ہے، پھلواری میں جھومتی کلیاں ہیں، پھولوں کی رُت ہے، مرلی ہے، پنگھٹ ہے، رادھا ہے، تان ہے، جنگل ہے، ساون ہے، طوطا ہے، مینا ہے، کاگا ہے، رستے ہیں۔ جھمیلے ہیں، کالی رین ہے، سمندر ہے، ساگر ہے۔ ‘‘(۱۰۲)

یہ رائے ڈاکٹر طاہر سعید کی دوہا نگاری کے باب میں جامعیت کو محیط ہے۔ جو لفظیات، جو ڈکشن، جو جذبات، جومحسوسات، جو تعلیمات اور ان کی جزئیات اور ان کے ممکنہ اثرات ہو سکتے ہیں، وہ شاعر کے حیطۂ خیال سے نکل کر نوکِ قلم پر آئے ہیں اور مبصر نے انھی باتوں کوسرسری منقش کیا ہے۔

رنگارنگ کیفیات کے حامل ان دوہوں سے کچھ رنگ ملاحظہ کیجیے :

سونا چاندی کی ہی پگلے بات کرے دن رات

تو ہے فانی دھن ہے فانی لافانی وہ ذات

 

دکھ اور سکھ ہیں سانجھے بالک آج ہنسے کل روئے

تُو تو خالی خوشیاں مانگے، یہ مورکھ نا ہوئے

 

گنگا جل سے میل بدن کا دھُل کر ہووے دُور

پاپی من کی باس نا چھوٹے ہرے رہیں ناسور(۲۵۶)

 

خود کو ایک سمندر جانے کیسا وہ سودائی

اُتھلا دریا بھانپ سکے نا ساگر کی گہرائی

ماٹی نرم تو چلّو پانی چوکھا ناج اُگائے

ماٹی ہو پتھریلی بھیّا مینہا کام نہ آئے

 

لوبھی کب آنند ہوا ہے سب کچھ پا کر کھوئے

لوبھ تو بیہڑ پتھ ہے ایسا جس کا انت نا کوئے (۲۶۶)

 

چھوٹا مت گرادنیو، اونچی ان کی ذات

ہر ذرّے میں ریت کا صحرا ہے آباد

 

دُنیا پتھر مارتی ہنس کر سہے کھجور

سب کو میوہ بانٹتی خود زخموں سے چور

 

کھڑکی کھولو گیان کی، نیناں جوتی آئے

ہر قطرے میں اوس کے، ساگر روپ دکھائے

 

جو آیا سو جائے گا دُنیا کا آچار(۲۶۷)

گھومے پہیہ وقت کا کس نے روکا یار

یہ دوہے ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ ہیں، ان مضامین کو بیشتر شعرا نے بیان کیا ہے۔ لیکن ڈاکٹر طاہر کی خوبی یہ ہے، کہ انھوں نے ہر مضمون کو ایک نیا پیرایۂ اظہار دیا ہے۔ انھوں نے روایت سے جڑت کے باوجود جدت کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ تمثیلوں، تشبیہوں اور براہِ راست انداز میں کہے گئے ان دوہوں سے ایک عام شخص اپنی زندگی کی قدروں سے آشنا ہو سکتا ہے، یہ ایک طرح سے سمت نمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر کی پیشہ ورانہ زندگی بھی ایسی ہے، جہاں انسانوں سے براہِ راست واسطہ رہتا ہے۔ لوگوں کے دُکھوں، غموں اور ملالوں سے جہاں آشنائی ہوتی ہے، وہاں اُن کے بھٹکنے، کھٹکنے اور سرکنے کے مناظر بھی نظر آتے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں معاشرے کے نباض ہیں۔ ڈاکٹرانورسدیداسی پہلو کو اپنے انداز میں یوں بیان کرتے ہیں :

’’جس طرح مسیحا اپنے مریضوں کاجسمانی اور روحانی درد و غم بانٹنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتا ہے۔ اسی طرح دوہا نگار معاشرے کو ان تجربات سے آشنا کرتا ہے، جس میں دُنیاوی فلاح اور روحانی طمانیت کا زاویہ موجود ہے۔ لیکن لوبھی اور خود فراموش انسان نے جسے نظر انداز کر رکھا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا بے حد مناسب ہے کہ طاہر سعید ہارون کے دوہوں میں نروان پا لینے والے اس انسان کی آواز موجود ہے، جس کے باطن میں صدیوں سے زمینی اور حقیقی تجربات سمائے ہوئے ہیں۔ جو اپنے معاشرے کے عوام سے دوہے کی زبان میں مخاطب ہے۔ لیکن در حقیقت وہ اس سماجی فریضے کو ادا کر رہا ہے جو بھگت کبیر، بلھے شاہ اور بابا فرید نے اپنے عہد میں کیا تھا اور بھٹکے ہوئے انسانوں کو سالکِ حیات بنانے کی سعی کی تھی۔ طاہر سعید ہارون نے ان تینوں شاعروں کو بار بار بلاوجہ یاد نہیں کیا، بلکہ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ انھیں دوہا نگاری کا ’’خرقۂ خلافت‘‘ بزرگوں سے ملا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کے کلام میں جہاں کہیں ان صوفی اور بھگت شاعروں کا نام آتا ہے تو یہ رسمی نظر نہیں آتا، بلکہ وہ اپنی آواز کو طاہرسعید ہارون کی آواز میں شامل کر کے آج کے معاشرے میں ہم کلام نظر آتے ہیں۔ ‘‘(۲۶۸)

جن بزرگوں اور شاعروں کاڈاکٹرانورسدیدنے ذکر کیا ہے، ڈاکٹر طاہر نے ان سے بلاواسطہ بھی فیض اٹھایا ہے۔ ان کی اکثر کتابوں میں ان شعرا کی فکر سے فیض یابی اوراستفادے کی صورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ بعض جگہوں پر تو انھوں نے باقاعدہ عنوانات سجا کران کے کلام کو اپنے اندازسے دوہا بند کیا ہے۔ یہ تفصیل کتابوں کے تعارف کے باب میں عنوانات کی ذیل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں نمونے کے طور پران ہستیوں کے کچھ اظہاریے دیے جاتے ہیں، جنھیں ڈاکٹر طاہر نے اپنے انداز میں بیان کر کے افادۂ عام کی صورت پیدا کی:

سوکھے باغ پہ رحمت برسے جُگ جُگ وہ ہریائے

بوٹا میری آس کا یارب میوے سے بھر جائے

 

تیری رحمت سے رب سائیں میٹھا پھل ہات آئے

نعمت تیری ہم پائیں تو دُکھ سارا مٹ جائے (۲۶۹)

(میاں محمد بخش)

مادھو سادھو بن گیا پہنے مالا چار

باہر نیکو لاگتا بھیتر بھرا وکار

دن میں سُکھ نا رات سُکھ نا سپنے آرام

کیسی تیری زندگی بھولا رب کا نام(۲۷۰)

(بھگت کبیر)

سو کر پچھلا پہر فریدا کر ڈالا برباد

رب سائیں کو بھول گیا تُو اُس نے رکھا یاد

 

کبھی فریدا ماٹی کی تحقیر کرے نا کوئے (۲۷۱)

جیتے جی ہے پگ کے نیچے، مرکر اوپر ہوئے

(بابا فرید)

ہیر کو ملّا لاکھ پڑھائے کلمہ اور درود

نا جب رانجھا پریم سکھائے سب کچھ ہے بے سُود

سکھیاں سب گنونتی نکلیں میں پاپن بے چاری

سب نے کنیا دان سجایا میں ہی ایک کنواری (۲۷۲)

(شاہ حسین)

پڑھ پڑھ ملّا پنڈت ہو گئے دھن دولت کے میت

من پاپی کو مارو کیسے درویشوں کی ریت

 

اس کو نا پہچانا کوئے دیکھے سارے وید(۲۷۳)

شہ رگ سے نزدیک ہے سائیں عشق نے کھولا بھید

(سلطان باہو)

من کے بھید چھپا کر رکھیو ساکھ چلی نا جائے

منھ پر آئی کب رکتی ہے مہریں لاکھ لگائے

 

منھ پر مہر لگا لے بلّھے کوشش ہے بے کار

کوئی تیری بات نہ مانے آخر تیری ہار(۲۷۴)

(بلّھے شاہ)

دوہے کی حیات میں جہاں دوسرے عناصر اور محرکات کارفرما ہیں، وہاں ایک عنصر ان بزرگوں کی تعلیمات بھی ہیں۔ ان لوگوں نے دُنیا تیاگ کرانسانیت کی فلاح اور بھلائی کے لیے پند و نصائح اور اپدیشک کاسلسلہ اُستوار کیا۔ مالک ان کی کوششوں کو رائے گاں کہاں ہونے دیتا ہے۔ جہاں اخلاص اور مہر و وفا کام کرتے ہوں، وہاں مآلِ کار پیڑ ثمر بار ہوتے ہیں۔ ورنہ اٹھارہویں صدی پوری اور نصف صدی انیسویں دوہا بانی کے حوالے سے بالکل بنجر دکھائی دیتی ہے۔ کہیں کسی کونے کھدرے میں کوئی پھول کھلا بھی ہے، تووہ سامنے نہیں آیا۔ یہ ایک طرح سے رد کی کوشش تھی۔ اس استردادی عمل میں جہاں سیاست کارفرما تھی، وہاں نئی اصناف کی طرف رجحان اور خصوصاً نظم کی جانب جھکاؤ تھا۔ غزل توسخت جان نکلی کسی نہ کسی طرح موجود رہی، لیکن دوہا کو یہاں اور وہاں کوئی اچھا شاعر نصیب نہیں ہو سکا۔ تب کہیں پاکستان میں خواجہ دل محمد مرحوم نے قیام پاکستان سے متصل زمانے میں اس فن کی آبیاری کی اور آج ڈاکٹرطاہرسعید ہارون جیسابڑاشاعراس کا مقدر بنا۔ یہ انھی بزرگوں کا فیضان اور تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اس ضمن میں اصغر ندیم سید کی گواہی اہمیت سے خالی نہیں ہو گی، ملاحظہ ہو:

’’دوہے کی صنف ہمارے خطے کی اپنی صنف ہے، اس لیے اس کی سچائی شبہہ سے بالاتر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ دوہے کی صنف میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے کوئی وسعت پیدا کی ہے یا روایت کو نبھایا ہے۔ ویسے تو روایت کو نبھانا بھی معمولی بات نہیں ہے۔ بھگت کبیر، بلھے شاہ، شاہ حسین، میرا بائی اور خواجہ غلام فرید کے ہمسائے میں مکان بنانا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے دوہے کی صنف کی معنوی، موضوعاتی، فکری اور معاشرتی حدود کو لامحدود کر دیا ہے۔ میں محتاط انداز سے یہ محسوس کر سکتا ہوں کہ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون دوہے کی صنف کے امکانات کو دریافت کرنے والے پہلے شاعر ہیں۔ میں دعوے اور فتوے کا قائل نہیں ہوں۔ لیکن دوہے کو معروضی حالات اور عصری موضوعات سے جوڑنے والے پہلے شاعر ڈاکٹر طاہر سعیدہارون ہیں۔ میرے پاس بے شمار اشعار کے ثبوت ہیں۔ ‘‘(۲۷۵)

ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے لسانی سطح پر جو تجربات کیے ہیں اور دوہا بانی کو جس طرح ثروت مند کیا ہے، آخر میں اُسے بھی ایک نظر دیکھ لینا چاہیے۔ لفظوں کی اس کہکشاں میں زیادہ تر لفظ اُردوداں طبقے کے لیے غیر مانوس ہیں۔ یہ لفظیات پُرانی روایت کے امین ہیں، ملاحظہ ہو:

ماتری، مادھری، ماکھڑی، ماچھری، ساتھری، مامری، کامنی، دامنی، کنچنی، ڈنکنی، جیرنی، اوگنی، درشنی، چوپڑی، کمودنی، بندھکی، مالتی، کاگلی، اوکلی، جا چکی، بانوری، ڈانگری، جھاکری، راکھڑی، روکڑی، لاکڑی، بھوکڑی، دھیوری، ڈھوبری، سمپٹی، بورسی، چھیکلا، لیروا، موتھرا، نرجلا، سمپدا، تومنا، دوشنا، بیدوا، ناڈکا، دونگڑا، کندرا، چاندنا، چانگلا، گیگلا، تانبڑا، مولنا، ڈھولنا، پنجکا اور موٹیا۔

یہ الفاظ ’’فاعلن‘‘ کے وزن پر ہیں اور دوہا چھند کے بسرام کی وجہ سے بھی شاید ان کی موجودگی لازم ٹھہرتی ہو۔ جیسے بعض اوقات غزل میں قافیہ کی تنگی میں بہت سے لفظ تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ لیکن یہ محض ایک زاویہ ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ان الفاظ کی شیرنی ایسی ہے کہ دوہا کوی کو خود بہ خود اپنی طرف کھینچ کر رکھتی ہے۔ انھوں نے کمال ہنری مندی اور فنی تازگی سے ان الفاظ کو برتا ہے۔ کچھ اور الفاظ ملاحظہ کیجیے جو انھوں نے دوہے کے آسمان پرسجائے ہیں :

باجنتری، پرمارتھی، بھکسی، ٹونی ہائی، رجنی، رتناری، کوکر چندی، جے جے ونتی، پرچارک، جا چک، جنگال، چونچال، چوکھان، چودھان، پیک، بھنجیک، بہنت، باج، چھاج، پاچ، پراگ، کاگ، سکل، تھور، گیل، گات، باٹ، برلے، منساء، امرت سار، وکارچھار، مسان چمبا، سنتاپ، اسمپارنا، سمپت، بھوبل، چاچر، پاتر، استھاور، ترور، کُٹل، کوش، اچھت، نندن، پروٹ، سکل، بیہڑ پتھ، الکھ نرنجن اور پون جھکورا وغیرہ۔

ان الفاظ نے یقیناً  اُردو زبان کا دامن وسیع کیا ہے۔ اب وہ الفاظ بھی دیکھ لیجیے جنھوں نے دوہا بانی کے سینے کو خوشبو سے مہکایا ہے۔ یہ الفاظ عربی، فارسی اور رائج اُردو کی روایت کے امین ہیں۔ ملاحظہ ہو:

اللہ، قرآن، کملی، ملت، شاہی، سوغات، طیبہ، منسوب، آغاز، نماز، مالک، قائم، معبود، موجود، عرفان، غافر، ستار، آگہی، رحمت، حباب، ایمان، ایقان، دین، متقی، فخر موجودات، ہادی، مہدی، احمدؐ، محمدؐ، حامد، محمود، رسول، پیغمبر، مرشد، رہبر، مرشدی، سیدی، رحیم، کریم، توحید، انوار، محبوب، دوست، صادق، امین، اصول، تسنیم، طاہر، ظاہر، باطن، حاضر، فیضان، قبض، رحمت، لافانی، غفار، مسجد، صاحب، خاموش، زرد، درد، دورد، زہر، بہار، قرار، حال، ظفر، زنجیر، دھمک، ٹھمک، رُت، خوشبو، پروانہ، بازی، آخرکار، غافل، تیار، فائدہ، عزت، آبرو، رعنائی، آرام، بخشنہار، قطرہ، کامل، شعلہ، ذات، کنجوس، ضوابط، بدنام، ظالم، عالی، سائیں، داتا، مولا، صحرا، بحر، سمندر، جنگل، من وسلویٰ، طعنہ، فرصت، قسمت، برف، خیر، فرض، قرض، دیس، حرف، چاہت، واحد، خالق، ماجد، واجد، رافع، نافع، جامع، مانع، صبور، مختار، مکی، مدنی، ہاشمی، طہٰ، عادل، امین، یاسین، انوار، بطحا، شاد، دلیل، قندیل، معراج، نورانی، شیریں، گفتار، حوصلہ، کردار، حقانی، آواز، ایثار، صحرا، گلزار، نقش، نمود، کلام، نہال، فقیر، تقدیر وغیرہ

شروع میں بھی یہ عرض گذاری گئی تھی کہ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے جہاں مقداری سطح پر موجودہ عہد کے تمام شاعروں سے زیادہ دوہے لکھے، وہاں انھوں نے لسانی سطح پر بھی سب سے زیادہ دوہا بانی کا دامن وسیع کیا۔ ان کی محنتیں، ریاض اور سلیقہ اُردو دوہے کو ہمیشہ ممتاز رکھے گا اور اُردو دوہے کی تاریخ ان کے تذکرے کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہو گی۔ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ ان کچھ صفحات میں نہ تو ان کے فکر و فن کا احاطہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تمام رنگوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ مقبول شاعر ناصر شہزاد کوبھی یہی صورت درپیش تھی، اس لیے یوں اظہار کیا:

’’ڈاکٹر جی کے دوہوں کی بولی ہر جگہ دوہا کی ہم جولی کے طور پر رندھور ہوئی ہے۔ نہایت ہی سلیس، نفیس، رئیس اور بیتال بتیس پیرایہ میں، جہاں دوہا کی دلربائی انتہائی زیبائی کے قریب ہے، اپنے ماترہ، چرن اور ورن کے سرمایہ سے ڈاکٹر جی ایسے ورن سے بار بار گزرے ہیں، جس سے ان کی راہگزار زرتار اور مشکبار ہو گئی ہے۔ ‘‘

آگے چل کر کہتے ہیں :

’’ڈاکٹر جی کی ان سب کشٹ کاریوں پر لکھنا محال بھی ہے اور کار بے مآل بھی کہ ڈاکٹر جی اپنے شعری کمال میں ہر اُس خیال تک پہنچے ہوئے ہیں، جہاں فنی جمال کی منزلیں شروع ہو کر، اپنے حتمی وصال تک چلی جاتی ہیں۔ جہاں تخلیق کار کے سینے سے لامتناہی اسرار کے کئی ایک مرغزار خزینے پھوٹتے ہیں اور انگ انگ میں کتنے ہی نگینے ٹوٹتے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ موجودہ دوہا نگاروں میں ڈاکٹر جی کا نام سر فہرست ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ دوہا میں جتنا کام ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے التزام سے کیا ہے، اس کے دوام تک کوئی دوسرا نہیں پہنچتا۔ ‘‘(۲۷۶)

اس معتبر رائے سے جہاں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی موضوعاتی جولان گاہوں کے اشارے ملتے ہیں، وہاں ان کی کشٹ کاریوں، ریاضتوں، مہارتوں اور ہنر مندیوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ زبان و بیان اوراُسلوب کے ساتھ ساتھ انھوں نے مروجہ ہیئتوں میں جو تبدیلیاں برپا کی ہیں، وہ بھی دوہا کی تاریخ میں حوالے کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔ سرسی چھند میں بعض مقامات پر ارکان کی کمی بیشی سے انھوں نے اپنے لحن میں دلنوازی اور مٹھاس پیدا کی۔ بلاشبہ اُن کی اجتہادی روش نے دوہا کو ثروت مند کیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سارا کام اُنھوں نے سچے اور سُچے جذبوں کو رو بہ راہ کر کے کیا۔ اُنھیں صلے کی تمنا رہی اور نہ ستائش کی خواہش۔ بس ایک صوفی اور سالک کی طرح اپنے من کو اُجالتے اُجالتے دوسروں کا راستہ منور کرنے لگے۔ اُردو اَدب اور خصوصاً صنفِ دوہا ہمیشہ ان کی سپاس گزار رہے گی۔ ہماری خوش بختی یہ ہے کہ یہ جوہرِ قابل ہمارے حصے میں آیا اوراس سے بھی بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ ہمیں مہان دوہا نگار کے عہد میں سانس لینے کا موقع ملا۔

 

 

 

 

ڈاکٹر وِدّیا ساگر آنند

(پ۔ ۱۹۳۹ء……)

 

 

آپ ہندوستان کے مشہور شہر ’’گڑ گاؤں ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ راجستھان کے پھُلیرا اور جے پور شہر میں آپ کے دو بھائی برسوں سے آباد ہیں۔ خود گزشتہ نصف صدی سے لندن میں مقیم ہیں۔ آپ کے والد شیودیال فرخ ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر تھے اور فارسی زبان کے عالم بھی۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام شلیا دیوی، جب کہ ایک بھائی کا نام سریش کمار چڈّھا اور دوسرے کا پریم ساگر چڈّھا ہے۔ آپ کی اہلیہ کرسٹل ایلزبتھ آنند جرمن نژاد تھیں۔ جو ۱۹۳۸ء میں پیدا ہوئیں اور۲۰۰۹ء میں وفات پا گئیں۔ آپ کی شناخت شاعر، محقق، مؤرخ، نقاد، فلسفی، سیاست دان، خدمت گار اور مقر ر کی حیثیت سے ہے۔ اب تک آپ کے چھے شعری مجموعے : ’’ مئے آنند(۱۹۹۳ء)، کلامِ نرم و نازک (۲۰۰۵ء)، بہارِ بے خزاں (۲۰۰۶ء)، ساون میں دھوپ(۲۰۰۸ء)، پانچواں گگن(۲۰۰۹ء) اور دوہا رنگ‘‘ (۲۰۱۰ء) شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کی دوسری کتاب ’’کلامِ نرم و نازک‘‘ پر آپ کو تلوک چند محروم ایوارڈ دیا گیا اور ساتھ ہی ’’محسنِ اُردو‘‘ اور ’’سفیرِاُردو‘‘ جیسے خطابات بھی دیے گئے۔ آپ کی تصانیف مختلف موضوعات پر انگریزی زبان میں بھی ہیں۔ مئے آنند کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۰ء میں شائع ہوا۔ دو نثری کتابیں ’’افکار ہند‘‘(۲۰۰۵ء) اور ’’جنگِ آزادی کے اولین مجاہد اور بہادر شاہ ظفر‘‘(۲۰۰۷ء)بھی شائع ہو چکی ہیں۔

ڈاکٹر ودیاساگرآنندکواُردو کی خدمات کے عوض ہمیشہ سراہا گیا۔ اُردو داں طبقے نے ان کی بھر پور پذیرائی کی۔ خودساگرصاحب بھی اُردو کو اپنی آنکھ سے مماثل قرار دیتے ہیں۔ اُردو سے محبت میں اُن کا یہ دوہا دیکھیے :

اُردو میری آتما، اُردو میری جان

اُردو میرا مان ہے، اُردو میری شان

آپ کی شخصیت اور فن پر اب تک شائع ہونے والی کتابوں کی تفصیل یہ ہے : ’’وِدیاساگرآنند: انسان دوست، شاعرو ادیب ‘‘ (مرتب:پروفیسر یونس اگاسکر)، ’’ ڈاکٹر ودیا آنند ساگر:فن و شخصیت‘‘(مرتب:ڈاکٹر فراز حامدی)، ’’محبتوں کاسفیر:ودیا آنندساگر‘‘( مرتب : ڈاکٹر سیفی سرونجی)، ’’ساون میں دھوپ کا خالق:ودیاساگرآنند‘‘(سیدمعراج جامی)، ’’ ڈاکٹر ودیاساگر آنند کا تخلیقی سفرنامہ‘‘ (ڈاکٹر نذیر فتح پوری)، ’’ودیا کا منظوم ساگر‘‘(پروفیسرحافظ عبد المنان طرزی)۔ (۲۷۷)

’’دوہا  رنگ‘‘ ڈاکٹر ودیا آنند کا دوہوں پر مشتمل مجموعہ ہے، جو دوہا چھند میں ہے۔ اس مجموعے میں جہاں انھوں نے روایتی دوہا کہا ہے، وہاں انھوں نے معرّیٰ دوہا، مردّف دوہا، کرجاں دوہا، شخصیاتی دوہا، دوہا غزل، دوہا گیت، دوہا قطعات اور دوہا  دو بیتیاں بھی کہے ہیں۔ انڈیا میں یا تو دوہا کوسخت نظرانداز کر دیا گیا تھا اور یا اب اس میں اتنے صنفی تجربات ہو رہے ہیں، کہ خود دوہا کی اپنی اصلیت کی بقا مشکوک ہو کر رہ گئی ہے۔ لیکن ایک مستحسن بات یہ ہے، کہ ان تمام تجربہ کنندگان نے اپنے دوہوں یا صنفی تجربوں میں وہ زبان استعمال کی ہے، جو پاکستان میں رائج ہے۔ یعنی وہ اُردو جو ہم بولتے، سنتے اور لکھتے پڑھتے ہیں۔

یہ بڑی دلچسپ بات ہے، ہماری طرف دوہا لکھنے والے بیشتر شاعر دوہا کی روایتی بانی یعنی برج بھاشا کی طرف لپکے ہیں اور اُس طرف لکھنے والے اکثر رائج اُردو کو وسیلۂ اظہار بنائے ہوئے ہیں۔ اسی سبب سے وہاں کے بعض لوگ خود کو ’’اُردو دوہا‘‘ کا بانی سمجھتے ہی نہیں لکھتے اور لکھواتے بھی ہیں۔

دوہا رنگ کا انتساب شاعر نے اپنی آنجہانی بیوی کے نام کیا ہے۔ دو الگ نظمیں بالترتیب دس اور پانچ اشعار پر مشتمل دی گئی ہیں، جن سے اُس مہر و وفا کی پیکر کے ساتھ گذرے ہوئے وقت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب پر رائے دینے والوں میں ساحرشیوی، رفیق شاہین، ڈاکٹر ظفر عمر قدوائی، ڈاکٹر جمیلہ عرشی اور ڈاکٹر ناصرہ بصری شامل ہیں۔ ان علمائے ادب نے جہاں شاعر کی شخصیت کو بیان کیا ہے، وہاں فن کی پرتیں بھی کھولی ہیں۔ رفیق شاہین ودیا ساگر آنند کے کلام پریوں رقم طراز ہیں :

’’ودّیا ساگرآنند ایک پختہ گو اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ انھوں نے اُردو دوہوں اور مردف دوہوں میں بھی اپنی سخنورانہ اور فنکارانہ آن بان اور شان کو مستحکم و برقرار رکھا ہے۔ ان کی شاعری میں جمالیت کی حسن آمیزی اور معنویت کی بلاغت و ارتفاعیت کی فسوں کاری و سحرخیزی اپنے نقطۂ عروج پر نظر آتی ہے۔ وہ سادگی میں پُرکاری کے قائل ہیں۔ ان کی شاعری لفظوں کی سادگی، لب ول ہجے کی نرمی، جذبے کے گداز، فکر کی آنچ، معنی کی صداقت، اُسلوب کی لطافت و ندرت سے عبارت ہے۔ وہ ایک مختلف النوع متنوع اور کثیر الجہات شاعر ہیں۔ انھوں نے ۱۳+۱۱ کے ماترائی نظام میں پابند رہ کر جمال و جلال کی کیفیت سے سرشار قلبی واردات اور عشقیہ معاملات کی اپنے دوہوں میں بڑی روح افزا اور جاں افروز عکاسی کی ہے۔ ‘‘(۲۷۸)

ڈاکٹر ودیا کے ہاں موضوعات کی بوقلمونیاں اُن کے جذب واحساس کی خبر دیتی ہیں۔ اُن کے قلم میں بلا کی روانی ہے۔ فنی اعتبار سے انھوں نے لفظوں سے وہ جادو جگایا کہ پڑھنے والا ششدر رہ جاتا ہے۔ بعض روایتی مضامین کو اس ڈھنگ سے ادا کیا، کہ جی خوش ہو جاتا ہے۔ کچھ لفظوں کو روایتی معنوں کی بجائے نئے مفہوم عطا کیے ہیں۔ وہ لفظوں اور معنی سے کھیلے نہیں ہیں، بلکہ اُن کی پوشیدہ صورتیں اور ذائقے ظاہر کیے ہیں۔ کچھ دوہے دیکھیے :

لڑتا اپنی ذات سے، لکھّوں جب احوال

خامہ تو تلوار ہے، کاغذ میری ڈھال

اندھیاروں سے ہے بھرا، مفلس کا سنسار

اُجیارا تو پائے ہے، دُنیا میں زر دار

 

نفرت کے اب دیکھ لو، آنکھوں میں ہیں رنگ

انسانوں میں آ گئے حیوانوں کے ڈھنگ

 

خوشیاں ساری مٹ گئیں، پھوٹے میرے بھاگ

دہشت گردی کھا گئی، میرا آج سہاگ (۲۷۹)

بنیادی طور پر ڈاکٹر وِدّیا آنند ترقی پسند اَدیب ہیں، اس لیے ان کے دوہوں میں ایک تو اس وسیلے سے یہ مضمون داخل ہوئے ہیں۔ کیوں کہ ترقی پسندوں کا اوڑھنا بچھونا ہی جبر و استحصال کے خلاف لکھنا ہے۔ دوسرا انھوں نے پاک و ہند کے معاشرے کو دُور بیٹھ کر دیکھا اور پرکھا ہے۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے، کہ دور سے منظر دھندلا جاتے ہیں، لیکن یہ سچائی اور خیال بھی موجود ہے، کہ چراغ تلے اندھیرا ہوا کرتا ہے۔ عام فہم اورسادہ زبان میں کہے گئے ان دوہوں سے شاعر کا کرب اور دُکھ واضح ہے۔ یہ اجتماعی کرب ہے، جس میں پورا خطہ اور خصوصاً پاک و ہند مشکلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اب یہ رنگ دیکھیے :

 

ریکھاؤں کو ہاتھ کی، کیول سمجھ لکیر

ہمت ہے تو آپ لکھ، تُو اپنی تقدیر

 

دُنیا کا تو کام ہے، دینے دے دشنام

کر یُوں ہی تُو رات دن، بس نیکی کے کام

سوئی موت کو چھیڑ مت، موت بڑی سفّاک (۲۸۰)

ڈوبے موت کے ہاتھ سے، بڑے بڑے تیراک

پہلے دونوں دوہے ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ ہیں۔ پہلا دوہا پڑھ کر فوراً یاد آتا ہے :       ع

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

دوسرا دوہا بھی ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کی طرف ذہن لے کر جاتا ہے۔ آخری دوہے میں شاعر نے اگرچہ ایک زندہ حقیقت کو ہی بیان کیا ہے، لیکن اس سلیقے سے کہ تازگی کی داد دیے بغیر بات نہیں بنتی۔

بچوں کو کروائیے، اچھی باتیں یاد

ویسا ہی بنتا ہے گھر، جیسی ہو بنیاد

 

کوشش کر کے دیکھ لو، ہو گے تم ناکام

جامن کے جب پیڑ پر ڈھونڈو گے بادام

 

ہوتا ہے بد کام سے، ہر کوئی بدنام

اچھے کاموں کا ملے، اچھا ہی انعام(۲۸۱)

یہ تمام دوہے بھی ہماری روایت کا حصہ ہیں۔ دوہے کا بنیادی مقصد اور کمال یہ ہے، کہ وہ عام فہم ہو اور تبلیغ یا اصلاحِ معاشرہ کا وظیفہ اُس سے بہتر طریقے سے لیا جا سکے۔ کیوں کہ دوہے کے بنیادی وظائف میں سے ایک یہی ہے۔ صوفیوں، سنتوں، بھگتوں، سادھوؤں نے جو بانی اختیار کی، وہ اُس زمانے کے لوگوں کے لیے عام فہم تھی۔ آج اگر اُسے زندہ رکھا جاتا ہے تو محض روایت کی پاسداری کے لیے۔ لیکن کیا عجب بات ہے، کہ آج صوفیوں، سنتوں اور بھگتوں کو دوہا سے کوئی غرض نہیں۔ یہ کام شاعروں نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور بہ طور فن اس میں کمال پیدائی کا شوق ہر شاعر کو ہے۔ ودیاساگر کے بیشتر دوہے سہل ممتنع کی عمدہ مثالیں ہیں۔ گیان دھیان کی یہ سوغاتیں ملاحظہ ہوں :

چند ٹکوں کے واسطے، بیچے ہے ایمان

کتنا نیچے گر گیا، اس یُگ کا انسان

 

کایا تو مٹ جائے گی، چمڑی ہو گی کھاد

تیرے اچھے کرم ہی، ہوں گے تیری یاد

 

خوشبو بننا ہے بھلا، سب کا من مہکائے

بدبو ہے کس کام کی، بھیجا ہی سڑ جائے (۲۸۲)

ایمان اور ضمیر کی بولیاں صبح شام لگتی ہیں اور بتانے والے صبح و شام بتاتے ہیں، کہ اس لوبھ سے نکلو، یہ جان آخر مٹی میں مل جائے گی، اپنے آنے والے کل کے لیے کچھ روشنی بچا لو، کچھ کرنیں جمع کر لو جو تمھیں اندھیروں میں کام آئیں۔ لیکن اس کے باوجود ہوس پرستی سے انسان نہیں نکل پایا۔ چاہے وہ مغرب میں سانس لیتا ہویا مشرق میں، شیطان ہر وقت اس کے تعاقب میں رہتا ہے۔ ڈاکٹر ظفر عمر قدوائی ودیاساگر کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ڈاکٹر آنند کے دوہوں میں ان کی دوسری اصناف کی طرح روایت کے احترام اور عہد حاضر کے حالات کا نہایت حسین سنگم ہے۔ اتحادِ باہمی، انسانیت کی بازیافت کی فکر، اخلاق و محبت کے پیغامات، اُونچ نیچ، بھید بھاؤ سے پاک، جیو اور جینے دو کے اصول کو اپنائے رکھنے کی نہایت مخلصانہ تلقین، ناصحانہ رنگ سے دامن بچاتے ہوئے اپنائیت میں ملبوس طرزِ تخاطب، شگفتگی اور سنجیدگی سے لبریز زبان، نیز پاک باطنی اور کائنات کو ایک کنبہ یا کٹمبھ مان کر زندگی گزارنے کے آداب جیسے اوصاف ان کے دوہوں کو جزوِ پیغمبری کا درجہ عطا کرتے ہیں۔ ‘‘(۲۸۳)

دوسرے لفظوں میں شاعر نے بھی بھگتوں، سادھوؤں اورسنتوں کی طرح خالصتاً نیک نیتی سے امن و آشتی، محبت و ایثار، اخلاص و وفا کی قندیلیں ہر دل میں، ہر گھر میں، ہر شہر میں فروزاں کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ اسی تناظر میں مزید دوہے دیکھیے جو اپنی سچائی کی خود دلیل ہیں :

میٹھی بانی ہے بھلی، سچ ہے تیرا قول

کڑوے ہوں جب تجربے، کڑوے ہوں گے بول

 

یہ تو ڈھلتی چھانْو ہے، جھوٹی اس کی شان

عزت تُو دھنوان کی، دھن سے مت پہچان

 

باندھے ہے انسان کو، جب لالچ کی ڈور

دو روٹی کے واسطے، بن جاتا ہے چور

 

چغلی غیبت سے بچو، گھٹتا اس سے مان

دُنیا میں اس فعل سے، گِرتا ہے انسان(۲۸۴)

یہ تمام وہی تعلیمات ہیں، جو ہمارے یہاں پڑھائی جاتی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے، نیکی ہر کہیں نیکی اور بدی ہر مذہب و مسلک میں بدی ہی ہے۔ گویا انسانی ذہن اورانسانی معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ یکساں ہے۔ اگر کہیں تفریق ہے، تو وہ عمل داری یا پھر طریقِ اظہار میں ہے۔ رفیق شاہین ایک اور زاویے سے اس بات کو یوں ظاہر کرتے ہیں :

’’مذہب کے بعد جو حق و حقانیت، امن و آشتی، یکجہتی، عدل و انصاف، انسانیت نوازی اورانسان دوستی جیسی عظیم المرتبت تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور روحانی قدروں کے تحفظ اور ان کے احیا و ترویج کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دیتا ہے، وہ ادب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری کو جزوِ پیغمبری کہا جاتا ہے۔ ودیاساگرآنند نے بھی اپنے دوہوں کے وسیلے سے تہذیب و تمدن، اخلاص و ایثار، مہر و محبت اور روا داری و وضع داری کی مرحوم روایت میں نئی روح پھونکنے کی سعیِ جمیلہ میں کوئی کسربقایا نہیں چھوڑی ہے۔ ‘‘ (۲۸۵)

اب ذرا حسن و عشق کی کارفرمائیاں بھی ملاحظہ کیجیے۔ دوہے کے خاص الخاص مضامین میں سے ایک یہ ہیں۔ ڈاکٹر ودیا آنند کے یہاں عشق کی اگرچہ پُرانی اقدار موجود ہیں اور دوسروں کے لیے سب کچھ وار دینے اور چھوڑ دینے کو بھی اہم سمجھتے ہیں اور یہ نظریہ رکھتے ہیں، کہ وفادار ہی در اصل دُنیا میں نام کماتے ہیں۔ چاہے وہ سوہنی ہو یا ہیر۔ لیکن کہیں کہیں وہ خالصتاً ایک ہاتھ دے ایک ہاتھ لے والی حالت میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اگر سامنے سے وفا کا اظہار نہیں ہوتا تو یہ بھی منھ پھیر کر گزر جانا ہی بہتر خیال کرتے ہیں۔ شاید یہ نئے زمانے کے دستور پر شاعر کی طرف سے خفیف طنز ہو۔ جو بھی ہو ایسے اظہاریے اُن کے کلام میں موجود ہیں۔ آئیے ذرا حسن کی جلوہ فرمائیاں اور عشق کی نغمہ سرائیاں دیکھیے، یہاں اندازہ ہو گا، خود شاعر کس کوچے میں پھرتے ہیں :

دل کو بے قابو کرے، ظالم ترا شباب

تیرے حسن کو دیکھ کر، شرمائے مہتاب

 

کسی سے پہلے پیار کا، بڑا بُرا ہے روگ

دیکھو مجھے کہ پیار میں، لیا ہے میں نے جوگ

 

میری چِنتا چھوڑ تو، خوش رہ میرے مِیت

میں خود بازی ہار کر، تجھے دلاؤں جیت

ہے اس میں میری خوشی، سدا رہے تو شاد

میرا کیا ہے، میں تو ہوں ازل سے ہی برباد

 

درد اُس کی آواز کا، اور لہجے کا سوز

بس میں کر لے گا مجھے، لگتا ہے اک روز

 

کیسے قائم رہ سکے، تیرا میرا میل

تیرے لیے تو پیار بھی، ہے بچوں کا کھیل

 

دیکھ میں تیرا پیار ہوں، مجھ سے دُور نہ بھاگ

جلا کے رکھ دے گی تجھے، میرے من کی آگ

 

جب سے تو او بے وفا! گئی ہے مجھ سے روٹھ

میرا دل کا آئینہ، گیا ہے چھن سے ٹوٹ(۲۸۶)

حسن و عشق کی یہ کش مکش ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی۔ اس کھینچا تانی کا حاصل ہی در اصل محبت کو زندہ رکھتا ہے۔ وصال کو توسالکین نے موت کا نام دیا ہے۔ زندگی تو بجوگ میں اور برہا میں ہے۔ وچھوڑوں میں ہونے والی تڑپ ہی تو عشق کو پختہ کرتی ہے۔ سیدھے سبھاؤ میں کہے گئے ان دوہوں میں نہ تو تمثیلوں اور تشبیہوں کا بوجھ ہے، نہ رمزوں اور اشاروں کا۔ دل کی بات بغیر پیچ تاؤ کے کھلی کھلی بیان کر دی گئی ہے۔

عورت کی تقدیس میں کہے گئے یہ دوہے ملاحظہ ہوں :

عورت گھر کی چاندنی، عورت گھر کا نور

رکھنا اس کا دھیان تو، مت کرنا رنجور

 

عورت کا ہی ہر جگہ، آتا پہلے نام

چاہے رادھے شیام ہو، چاہے سیتا رام

اب اسی عورت کی سادگی اور بے چارگی کا بیان بھی دیکھ لیجیے :

گوری اس کی بات کو، سچ لیتی ہے مان

جتنا وہ چالاک ہے، اُتنی وہ نادان

آنسو ٹپکے آنکھ سے، بھیگے ہیں رُخسار(۲۸۷)

کس سے اپنا دُکھ کہے، گوری ہے لاچار

ودّیاساگرآنند کی شاعری میں بے پناہ تنوع ہے، انھوں نے نہ صرف دوہے کے روایتی مضامین کو برتا ہے، بلکہ نئی دُنیا میں منتشر سیکڑوں موضوعات بھی ان کے زیرِ قلم ہیں۔ ملکوں کی رنجشیں، مذاہب کی کھچاوٹیں اور نفرتیں، رنگ و نسل کا امتیاز، معاشرتی جبرو استحصال، حق تلفی اور نا انصافی، رشتوں کی بے توقیری اور طمع پران کی اُستواری، لوبھ کے گمبھیرمسائل، ظلم، چھینا جھپٹی اور آج کی دُنیا کے متعددمسائل اور معاملات پران کی گرفت ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اپنی ذات کے دُکھ ہی نہیں بیان کیے، بلکہ پوری انسانیت کو درپیش مسائل پر اظہار کیا ہے۔ اُن کی فکر کی یہ ہمہ گیری اُن کے دوہوں کو ممتاز کرتی ہے۔ کچھ متفرق موضوعات کے حامل دوہے ملاحظہ ہوں :

بستی کے چاروں طرف، بھڑکی ایسی آگ

بستی باسی جل گئے، بھاگے سب ہی کاگ

چاروں بیٹے بس گئے، بھایا ہے انگلینڈ

رنجیدہ ماں باپ ہیں، کیسا ہے ’دی اینڈ‘

گرچہ دولت مند ہوں، پھر بھی ہوں رنجور

میرے مجھ سے ہو گئے، دھن کے کارن دُور

 

تنظیموں کے ناگ نے، پھیلایا جو زہر

دیکھ چلے بلوے کئی، گانْو، بستیاں، شہر

 

گھر گھر جا کر آگ دے، مارے جا انسان

دھو ڈالے گا پاپ سب، گنگا میں اشنان

 

بڑھتی عمر کے بوجھ نے کر ڈالا ہے پست

ورنہ تو ہر حال میں، رہتا تھا میں مست

 

جب بھی دیکھوں سامنے، بہتا ہوا چناب

سوہنی اور مہینوال کے، آئیں مجھے خواب

 

لودھی کی جب فوج کی، بگڑ گئی ترتیب(۲۸۸)

بابر کے اس جنگ میں، جگمگ ہوئے نصیب

ہر دوہا پوری کتھا ہے، حقیقت کا اظہاریہ ہے۔ احساسات و جذبات کی سطحوں پر روزانہ ایسے منظر طلوع ہوتے ہیں، لیکن حقیقت کاسامنا ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ پہلے، چوتھے اور پانچویں دوہے میں دہشت گردی اور توسیع پسندی کے عزائم کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کس طرح انسان اپنی انا اور ذہنی آسودگی کی خاطر دوسرے انسانوں کا خون کرتا ہے اور پھر روایتی عبادات کر کے سمجھتا ہے، وہ پوتر ہو گیا ہے۔ گنگا اشنان نے اُس کے پاپ دھو ڈالے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے دوہے میں ہمارے معاشرے کی ایک اور خرابی کا ذکر ہے۔ دولت کی ہوس رشتوں سے دُور کر دیتی ہے۔ اولاد دولت کی خاطر والدین کو چھوڑ دیتی ہے، تو اپنے اسی دولت کی وجہ سے اپنوں سے منھ پھیر لیتے ہیں۔ ساتواں دوہا محبت کی علامتوں سے یادگار ہے اور آخری دوہے میں ایک تاریخی واقعے کا ذکر ہوا ہے۔ موضوعات کی یہ بوقلمونی اس بات پر شاہد ہے کہ ڈاکٹر ودیا ساگرآنند کا فکری کینوس بہت وسیع ہے اور اُن کے حیطۂ خیال میں کئی منظر جگمگاتے ہیں۔

ڈاکٹر ودیا بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں، جنھوں نے دوہا میں صنفی تجربوں کو بڑھاوا دیا۔ دوہے میں جو نئے جوڑ لگائے گئے ہیں، اُن کا جو حصہ ظاہر ہوا ہے، وہ شروع میں بیان کر دیا گیا ہے۔ یہاں اُن اصناف سے نمونے پیش کیے جا رہے ہیں۔

 

مردّف دوہا:

سچائی کا ہی عمل، بوتا ہے وِشواس

جھوٹ نہ بولو جھوٹ سے، کھوتا ہے وشواس

 

یوں نہ بے لطفی سے تُو، میرے گھر میں ڈال

میرے وطن کی خاک کو، میرے سر میں ڈال (۲۸۹)

 

معرّیٰ دوہا:

انسانوں کے خون سے، ہوئے شہر زرخیز

شہروں میں کٹنے لگی، انسانوں کی فصل

 

کریں دواؤں میں بھی اب، خوب ملاوٹ لوگ

کتنی سستی ہو گئی، انسانوں کی جان (۲۹۰)

 

شخصیاتی دوہا:

دھرموں کے مت بھید سے، گاندھی جی تھے دُور

ہر اک دل میں پیار کا، پھیلاتے تھے نور

ناخوش تھے تقسیم سے، مولانا آزاد(۲۹۱)

گاندھی جی کے دوست تھے، مولانا آزاد

 

کُرجاں دوہا:

سندیسہ پی کا مرے، کیا لائی ہے بول؟

خاموشی کے بھید، کُرجاں منھ سے کھول

کُرجاں ! کیا تجھ کو خبر، کیا ہوتا ہے پیار

جینا ہو جائے کٹھن، مرنا بھی دشوار (۲۹۲)

کُرجاں راجستھانی پرندہ ہے، جو ہنس کی طرح ہوتا ہے۔ مقامی طور پراُسے پیغام رسانی کا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں کبوتر اور کوے کو محبوب کاسندیسہ لانے کاوسیلہ سمجھا جاتا رہا ہے اور ہماری لوک کہانیوں اور شاعری میں ان کا بڑا ذکر ہے۔ ’’صنف سازوں ‘‘ پر حیرت ہوتی ہے، کہ محض ایک پرندے کی مخاطبت سے انھوں ایک ’نئی صنف ‘وضع کر لی۔

 

دوہا غزل:

جمنا تٹ پر بانسری، کی دھُن جب چھڑ جائے

بنسی سُن کے رادھکا، چھم چھم کرتی آئے

مست جوانی آئے تو خالی ہاتھ نہ آئے

نینوں میں پی کے لیے، پریم سندیسہ لائے

گوری کی پتلی کمر جب، سو سو بل کھائے

سر سے گگری جل بھری، چھلکی چھلکی جائے

مست پون جب جھوم کر، اپنا رنگ جمائے

چُنری اُس کی جھوم کر، اُڑے اور لہرائے

چنچل سجنی کو پیا، جب جب پاس بلائے

الہڑ گوری دُور سے انگوٹھا دکھلائے

ساجن کی شوخی پہ وہ، بھاگے کہہ کر ہائے

دھڑک دھڑک چھتیاں کریں، مکھ پر لالی چھائے

لمحہ لمحہ جب اسے، یاد پیا کی آئے (۲۹۲)

مصری کی میٹھی ڈلی، روح میں گھلتی جائے

 

دوہا گیت:

کُرجاں ساون کی گھٹا، اگنی سی برسائے

پڑ جائے اک بوند تو، تن من سب جل جائے

آنکھیں دریا ہو گئیں، بہہ وے ایسے نیر

اس موسم میں کیا کہوں، کتنی ہوں دلگیر

ساون پر قربان ہے، وہ کیا جانے پِیر

کوئل کُوکے ڈال پر، سب کا من ہرشائے !

کُرجاں ! ساون کی گھٹا…………

بارہ مہینے زندگی، لگتی ہے جنجال

ساون بھادوں آئیں تو، ہوتی ہوں بے حال

اب تو آ جا بالما ! مورے بان کے لال

تجھ تک میری بات یہ، میگھا لے کر آئے

کُرجاں !ساون کی گھٹا………

میں توہوں اک باوری، تجھ کو کرتی یاد

مجھ پر، ہر پل، ہرگھڑی، ہوتی ہے اُفتاد

کیسا سکھ آنند اب، جیون ہے برباد

ایسا نہ ہو جائے کہیں، یہ پگلی مر جائے

کُرجاں ! ساون کی گھٹا……!(۲۹۳)

’’دوہا رنگ‘‘ کی شاعری سے جہاں ڈاکٹر وِدّیا ساگرآنند کے شعری مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے، وہاں بھارت میں دوہا کہنے والوں کی سمتوں اور رویوں کا بھی پتا چلتا ہے۔ وہاں اس وقت مجموعی طور پر دوہا کے حوالے سے یہی فضا ہے، جواس مجموعے سے ظاہر ہوتی ہے۔ البتہ اندازِ بیاں، اُسلوب اور قرینہ ہر ایک کا جدا ہوتا ہے۔ پھر جس ادبی گروہ سے ڈاکٹر صاحب کا تعلق ہے، اُس کے پیش نظر جہاں دوہا میں نت نئے تجربات لازم ہیں، وہاں جدید اُردو کو دوہے کا حصہ بنانا بھی ان لوگوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس مقالے کے شروع میں صنفی بحث کے دوران کچھ ہندوستانی شاعروں کا کلام دیا گیا ہے اور تفصیلی بحث بھی کی گئی ہے، جس سے ان کی روش کا اندازہ ہوتا ہے۔ میرے نزدیک جہاں دوہا کے ساتھ دوسری اصناف کا لاحقہ سابقہ لگا کر ایک بدعت اختیار کی گئی ہے، وہاں دوہا چھند کا باقاعدہ التزام اور رائج اُردو کو دوہا بانی کا حصہ بنا کر ایک مستحسن کام کیا جا رہا ہے۔ لسانی سطح پریہ تبدیلی دوہا کے قبولِ عام اور پرکھ میں اہم کردار کی ضامن ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں ان کی خدمات لائق تحسین اور قابلِ توجہ ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

حاصلات

 

 

 

دوہا ہندی کی قدیم شعری صنف ہے، جو دو مصرعوں کی حامل ہوتی ہے۔ اسے بیت جیسا اور غزل کے مطلع سے بھی مماثل قرار دیا جاتا ہے، البتہ مضامین اور مزاج کے اعتبار سے یہ ان سے مختلف ہے۔ اس کی بنیاد گذاری کی تاریخ بھی بعض دوسری اصناف کی طرح اندھیرے میں ہے۔ البتہ اَپ بھرنش بولیوں میں اس کا وجود ڈھونڈا گیا ہے۔

اُردو دوہے کی جڑیں پراکرتوں میں موجود ہیں۔ بعض صاحبان قیاسی طور پر دوہے کا سلسلہ سنسکرت سے جوڑتے ہیں، لیکن اس کے شواہد نہیں ملے۔ سنسکرت اعلیٰ طبقے کی زبان تھی۔ اسی زبان میں ہندو مذہب کی کتابیں لکھی گئیں۔ پراکرتوں یا اَپ بھرنش زبانوں کوتعلیم یافتہ طبقہ اہمیت ہی نہیں دیتا تھا۔ جب کہ دوہا بانی عامۃ الناس کی زبان ہے۔ اسی لیے سنسکرت میں دوہا کی موجودگی مشکوک تصور کی جاتی ہے۔

ہندی زبان کا پہلا باقاعدہ شاعر چندربردائی کوتسلیم کیا جاتا ہے۔ انھوں نے ڈھائی ہزار صفحات کو محیط کتاب ’’پرتھوی راج راسو‘‘ لکھی۔ جس میں قریباً ایک لاکھ پنکتیاں (مصرعے ) ہیں۔ اس کتاب میں جہاں انھوں نے راجا پرتھوی کی جنگی مہمات بیان کی ہیں، وہاں انھوں نے راجکمار پرتھوی اور راجکماری سنجوگتاکی محبت کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب مختلف ہندی اصناف پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں دوہا اُس مقام پر ظاہر ہوا ہے، جہاں پریم کتھا کا بیان ہوا اور خصوصیت کے ساتھ جہاں ان دونوں کے سنجوگ اور بجوگ کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں دوہا ملتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دوہا  کا پہلا با قاعدہ کوی پرتھوی راج کے اس درباری شاعر چندربردائی کوتسلیم کرنا پڑتا ہے۔ چندربردائی کا مولد لاہو رہے۔ لیکن اُن کی شاعری کی شہرت مشرق میں زیادہ ہوئی۔ وہ کسی طرح اجمیر پہنچے اور وہاں راجا کے دربار تک رسائی حاصل کر لی۔ وہیں اُن کی شہرت کاستارہ بلند ہوا۔

دوہا کی ابتداکاسہرا عموماً یمین الدین خسرو کے سرباندھا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے، کہ اُن سے بھی بہت پہلے شیخ فرید الدین گنج شکرؒ، شیخ حمید الدین سوالیؒ، شیخ شرف الدین بو علی قلندر اور دوسرے بزرگوں کے یہاں اس کی ابتدائی صورتیں دکھائی دیتی ہیں۔ ہر شعری صنف کی طرح اس کا تار پود اور پرداخت فوک یا عوامی اَدب میں دکھائی دیتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تغیر و ارتقا آتا گیا۔ تا وقتے کہ اسے باقاعدہ شعری ہیئت نصیب ہوئی اور ’’دوہا چھند‘‘ اس سے مخصوص ہوا۔ دوہا خالص عروضی صنف سمجھی جاتی ہے۔ دوہا چھند دو پنکتیوں پر مشتمل چھند ہے۔ اس کی ہر پنکتی دو اجزا کی حامل ہوتی ہے۔ پہلے جزو میں تیرہ اور دوسرے جزو میں گیارہ ماترائیں ہوتی ہیں۔ مجموعی طور پر ایک دوہا اڑتالیس ماتراؤں کو محیط ہوتا ہے۔

عمومی طور پر دوہا کی ۲۳ قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔ جو تمام کی تمام دوہا چھند پر مشتمل ہیں۔ اس چھند کے علاوہ ’’سرسی چھند‘‘ میں بھی بعض کلاسیکی عہد کے شاعروں کے یہاں دوہے ملتے ہیں۔ سرسی چھند۲۷ ماتراؤں کو محیط چھند ہے۔ پھر پچ کھنیا دوہا، چھے کھنیا دوہا، تونبیری دوہا، کھرا دوہا، بڑا دوہا اور مختلف ماتراؤں کو محیط دوہا بھی موجود ہے۔

ہندی کا عروض ’’پنگل‘‘ کہلاتا ہے۔ پنگل کے ضمن میں ایک عجیب و غریب کہاوت بیان ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پنگل نامی ایک سانپ، جو بہت ظالم تھا۔ اُس کا ظلم جب حد سے بڑھنے لگا تو نیولے نے اُسے ٹھکانے لگانے کی ٹھانی۔ یوں دونوں کے مابین مقابلہ ہوا۔ جب پنگل مات کھانے لگا تواُس نے نیولے سے مخاطب ہو کر کہا: ’’میرے پاس ایک علم ہے، مجھے مارنے سے پہلے وہ علم آپ لے لیں۔ ‘‘ یوں پنگل کو مہلت ملی تواُس نے ہندی عروض لکھا اوراس طرح ’’چھند ودیا‘‘ یا ’’پنگل‘‘ کا آغاز ہوا۔

دوہا کے بہت سے شاعر گذرے ہیں، لیکن مستند اور مشہور صرف چند ہیں، جن میں سے چندربردائی کے علاوہ خسرو، ملا داؤد، کبیر، سعد، ملک محمدجائسی، میرا بائی، تلسی داس، کیشو داس، رحیم، رس خان، نر ہر، گنگ، مبارک، عالم شیخ، سیناپت، بہاری، بھوشن، متی رام لال، دیودت، بھارتندو ہریش چندر، سید غلام نبی بلگرامی، عبدالرحمن، پریمی، سید عبدالجلیل بلگرامی، سریتایک بلگرامی، سیدرحمت اللہ بلگرامی، سردار گنیش پرشاد، للو لال خاص طور سے مشہور ہیں۔ ان ناموں کے علاوہ عبدالرحیم خان خاناں، رسکھان، تلسی داس، سورداس اور باباگرو نانک کے دوہے بھی مقبول ہیں۔

در اصل دوہا بانی اصلاحِ معاشرہ کے لیے کام آئی۔ صوفیوں، سنتوں، بھگتوں اور سادھوؤں نے عام لوگوں کی تربیت اور ان کی اصلاح کے لیے دوہا میں مذہبی اور اخلاقی تعلیمات بیان کرنا شروع کیں، تو یہ صنف ایک طرح سے انھی مضامین کے لیے مخصوص ہو گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں حسن و عشق کا بیان بھی ہونے لگا۔ دوہا زرعی ثقافت کی حامل صنف ہے۔ اس میں صاف اور سیدھے سبھاؤ سے دل کی بات بیان کر دی جاتی ہے۔ تمثیلیں اور تشبیہات اس کا آلہ ہیں۔ البتہ استعاروں سے گریز اور اجتناب دوہا کی روایت میں رہا ہے۔

ہندی دوہا میں جہاں مذہبی معتقدات کا بیان آیا ہے، وہاں اس میں جنس کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ ’’انگ درپن‘‘ کے باب میں خصوصیت کے ساتھ عورت کے اعضا کی اس طرح منظر کشی کی جاتی ہے، جس سے یک گونہ ہوس پرستی چھلکتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات پوری شاعری پر منطبق نہیں کی جا سکتی۔ بعض شاعروں نے خود کو اخلاقی اور مذہبی موضوعات تک ہی محدود رکھا۔ اگر کہیں حسن و عشق کا بیان کیا بھی ہے، تو پورے احترام اور وقار کے ساتھ۔

فرنگی تسلط اور دوسرے معاشرتی اسباب کے باعث اٹھارہویں صدی میں دوہا پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اس پوری صدی میں کوئی ایک بھی نامور دوہا کوی دکھائی نہیں دیتا۔ تقسیم ہند کے بعداس کا احیا پاکستان میں ہوتا ہے۔ یہاں سے پہلا مجموعہ ’’پیت کی ریت‘‘ خواجہ دل محمد کا۱۹۵۱ء کے نواح میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ مکمل طور پر برج بھاشا یا امیرخسروکی زبان میں ہونے کے ساتھ دوہا کے مروجہ چھند یعنی ’’دوہا چھند‘‘ میں ہے۔ کچھ سال بعد جمیل الدین عالی نے سرسی چھند میں دوہا کہنا شروع کیا اورساتھ ہی مشاعروں میں دوہے ترنم کے ساتھ پڑھے بھی۔ تو یوں اُن کی موسیقیت اور نغمگی کے باعث دوہا کی طرف شاعروں کا دھیان ہوا۔ یہ رجحان اس قدر شدید تھا، کہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگوں نے اسی چھند میں دوہا کہنا شروع کر دیا۔ اسی مرحلے میں جمیل الدین عالی صاحب کے اختیار کیے گئے چھند پر اعتراضات اٹھنا شروع ہوئے اور ان کے دوہوں کو دوہا تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا گیا۔ اس بحث میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا۔ قبول واسترداد کے اس ماحول میں کلاسیکی دوہے کو کھنگالا گیا اور یوں دوہا کے باقی اوزان بھی سامنے آ گئے، جو متقدمین نے اس صنف کے لیے اختیار کیے تھے۔

پاکستان میں دوہا مقبول ہونے کے پچیس تیس سال بعد بھارت میں بھی دوہا کہا جانے لگا۔ لیکن اس امتیاز کے ساتھ کہ وہاں دوہا چھند کی سختی سے پابندی کی گئی، جب کہ ہمارے یہاں دونوں چھندوں میں دوہا کہا جاتا رہا۔ یہی نہیں سرسی چھند میں ارکان کی کمی بیشی کا رجحان بھی نمایاں ہوا۔ خود جمیل الدین عالی صاحب نے اور ان کی پیروی کرنے والوں نے سرسی چھند میں بعض ہیئتی تجربات کیے۔ دوہا چھند اختیار کرنے والوں میں خواجہ دل محمد کے بعد بڑا نام ڈاکٹر الیاس عشقی کا ہے۔ انھوں نے ’’دوہا ہزاری‘‘ کے نام سے ایک رجحان ساز کتاب پیش کی اور اس سے پہلے فنِ دوہا نگاری پر مبسوط مضامین لکھے۔ ان کے علاوہ تاج قائم خانی اور موجودہ زمانے میں ڈاکٹرطاہرسعید ہارون نے اس چھند میں باقاعدہ کئی مجموعے شائع کروائے۔ تقسیم ہند کے بعد پاک و ہند میں سب سے زیادہ بارہ ہزار کے قریب دوہے کہنے کا اعزاز بھی انھی کو حاصل ہے۔ ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کے اب تک گیارہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں، ان میں سے نصف کے قریب سرسی چھند میں ہیں۔ اس کے برعکس خواجہ دل محمد، جمیل الدین عالی اور الیاس عشقی کے دوہوں کی مجموعی تعداد تین ہزار سے کچھ ہی زیادہ ہو گی۔

پاکستان میں دوہا نگار کی حیثیت سے ممتاز ہونے والے ناموں میں ایک نام پرتو روہیلہ کا ہے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی، ڈاکٹر عرش صدیقی، سیدقدرت نقوی، جمال پانی پتی، کشور ناہید، ڈاکٹر وحید قریشی، بشیر منذر،ع س مسلم، عبدالعزیز خالد، رشید قیصرانی، صہبا اختر، تاج سعید، امین خیال، تاج قائم خانی، شاعر صدیقی، صابر آفاقی، ناصر شہزاد، شارق بلیاوی، عمر فیضی، عابد صدیق، توقیر چغتائی اور اعتبار ساجد وغیرہ بھی دوہا نگار کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

انڈیا میں سامنے آنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، مگر نمایاں چند ایک ہوئے۔ ڈاکٹر فراز حامدی، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، بھگوان داس اعجاز، ڈاکٹرودیاساگر آنند، ڈاکٹرساحرشیوی، ڈاکٹرساغرجیدی، کوثر صدیقی وغیرہ ان لوگوں میں شامل ہیں، جنھیں پاکستان میں بھی پہچانا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض کا کلام یہاں کے رسالوں میں شائع بھی ہوتا رہتا ہے۔

انڈیا والوں نے دوہا میں صنفی تجربات بھی کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے دوہا چھند پر سختی سے عمل درآمد کیا اور ساتھ ہی رائج اُردو کو ہی زیادہ تر اپنے دوہوں میں برتا۔ یہ کام خصوصیت کے ساتھ ڈاکٹر فراز حامدی نے کیا۔ انھوں نے : ’’دوہا غزل، دوہا گیت، دوہا نظم، دوہا ہائیکو، دوہا دو بیتیاں، دوہا مردّف، دوہا قطعات‘‘ وغیرہ کی اختراعات کیں۔ انڈیا ہی میں ’’کُرجاں دوہا‘‘ اور ’’شخصی دوہا‘‘ کے عنوانات کے تحت بھی دوہے کہے گئے۔ ’’دوہا غزل‘‘ تو یہاں بھی کہنے والے شاعر موجود ہیں۔ ان میں ڈاکٹرطاہرسعید ہارون، تاج قائم خانی، سہیل غازی پوری، عثمان قیصر، شاہین فصیح ربانی، عبید اللہ ساگر، صابر عظیم آبادی اور محمد نورالدین موج وغیرہ نمایاں ہیں۔

مجموعی طور پریہ کہا جا سکتا ہے، کہ اب دوہا متروک صنف نہیں ہے اوراس نے غزل کی طرح اپنا آپ منوا لیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے، کہ انڈیا میں بڑی تعداد میں دوہا کہا جا رہا ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں اکیلے ڈاکٹرطاہرسعید ہارون بارہ ہزار کے قریب دوہے کہہ چکے ہیں۔ نئے لوگوں میں رفیع الدین راز اور مشتاق عاجز کے مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ جب کہ سیدزاہدحیدر، خاور چودھری، تنویر پھول اور کئی ایک دوسرے باقاعدگی سے دوہا کہہ رہے ہیں۔

پاکستان میں دوہا کے بنیاد گذاروں نے اگراس کے احیا میں اہم کردار ادا کیا اور اسے وقار بخشا ہے، تو نئے لوگ بھی اس کی توقیر میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ جواس بات کا پتا ہے، کہ مستقبل میں دوہا ایک مقبول صنف کی صورت میں ہمارے یہاں موجود ہو گا۔ رفتہ رفتہ دوہا دوبارہ اپنے اصل مقام کی طرف لوٹے گا جہاں اُس نے رہ کر عامۃ الناس کی اصلاح کا کام کیا تھا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ودّیا ساگرآنند کا مجموعہ ’’دو ہاچھند‘‘ بہ طور حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس مجموعے کی زبان رائج اُردو ہے، جو معمولی پڑھے لکھے شخص کی راہ نمائی کا بھی فریضہ انجام دیتی ہے اور علمی سطح پر بھی اس کی قدردانی اور شناخت موجود ہے۔ اندازہ یہ ہے، کہ آنے والے وقت میں دوہا اپنا روایتی چولا یعنی ہندی رنگ بھی بدل کر رہے گا اور اس کی مخصوص بانی رائج اُردو سے پوری طرح ہم آہنگ ہو جائے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

حوالہ جات

 

۱…     اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول،ص ۶۰۰

۲…    ہمارے اہل قلم، مرتب زاہد حسین انجم،ص ۲۰۸

۳…    کملی میں بارات، عرش صدیقی، مقبول اکیڈمی، لاہور، طبع اول نومبر۱۹۹۱ء، ص۱۶

۴…    ایضاً، ص۱۹

۵…    ایضاً، ص۱۶

۶…    ایضاً، ص۹۶

۷…    پیت کی ریت، خواجہ دل محمد دل، نور کمپنی، انارکلی لاہور، سن، ص۷/۸

۸…    ایضاً، ص۱۳

۹…     ایضاً، ص۱۳

۱۰…   ایضاً، ص۱۴

۱۱…    ایضاً، ص۱۴

۱۲…   علامہ شیخ محمد رفیق عصری، تمہید:پیت کی ریت، نور کمپنی، انارکلی لاہور، سن، ص۳۰

۱۳…   ایضاً، ص۷۱

۱۴…   ایضاً، ص۷۲

۱۵…   ایضاً، ص۷۳

۱۶…   ایضاً، ص۷۴

۱۷…   ایضاً، ص۷۵

۱۸…   ایضاً، ص۷۹

۱۹…    ایضاً، ص۸۳

۲۰…   ایضاً، ص۸۳

۲۱…   ایضاً، ص۸۴

۲۲…   ایضاً، ص۸۷

۲۳…   ایضاً، ص۸۹

۲۴…   ایضاً، ص۹۱

۲۵…   ایضاً، ص۹۱

۲۶…   ایضاً، ص۹۸

۲۷…  ایضاً، ص۱۰۰

۲۸…   ایضاً، ص۱۰۲

۲۹…   ایضاً، ص۱۰۳

۳۰…   ایضاً، ص۱۰۴

۳۱…   ایضاً، ص۱۰۶

۳۲…   ایضاً،ص ۱۰۸

۳۳…   ایضاً، ص۱۰۹

۳۴…   ایضاً، ص۱۱۱

۳۵…   ایضاً، ص۱۱۶

۳۶…   ایضاً، ص۱۲۴

۳۷…  ایضاً، ص۱۲۵

۳۸…   ایضاً، ص۱۲۶

۳۹…   ایضاً، ص۱۲۷

۴۰…   ایضاً، ص۱۲۹

۴۱…   ایضاً،ص ۱۳۰

۴۲…   ایضاً، ص۱۳۱

۴۳…   ایضاً، ص۱۳۲

۴۴…   ایضاً، ص۱۴۲

۴۵…   علامہ شیخ محمد رفیق عصری، تمہید پیت کی ریت، نور کمپنی، انارکلی لاہور، سن، ص۴۰

۴۶…   ایضاً، ص۱۴۳

۴۷…  ایضاً، ص۱۴۴

۴۸…   ایضاً، ص۱۴۵

۴۹…   ایضاً، ص۱۴۶

۵۰…   ایضاً، ص۱۴۷

۵۱…   ایضاً، ص۱۵۲

۵۲…   ایضاً، ص۱۵۵

۵۳…   ایضاً، ص۱۶۲

۵۴…   ایضاً، ص۱۶۳

۵۵…   ایضاً، ص۱۷۱

۵۶…   ایضاً، ص۱۷۹

۵۷…  ایضاً،ص ۱۸۰

۵۸…   ایضاً، ص۱۸۱

۵۹…   ایضاً،ص ۱۸۵

۶۰…   ایضاً، ص۱۸۹

۶۱…   ایضاً، ص۱۸۸

۶۲…   ایضاً،ص ۱۹۵

۶۳…   ایضاً، ص۱۹۸

۶۴…   ایضاً، ص۲۰۱

۶۵…   ایضاً، ص۲۰۲

۶۶…   ایضاً، ص۲۰۵

۶۷…  ایضاً، ص۲۱۰

۶۸…   ایضاً، ص۲۱۲

۶۹…   ایضاً، ص۲۱۵

۷۰…  ایضاً، ص۲۱۷

۷۱…   ایضاً، ص۲۱۸

۷۲…  ایضاً، ص۲۱۹

۷۳…  ایضاً، ص۲۲۰

۷۴…  ایضاً، ص۲۲۳

۷۵…  ایضاً، ص۲۲۴

۷۶…  ایضاً، ص۲۲۵

۷۷…  ایضاً، ص۲۳۰

۷۸…  ایضاً، ص۲۳۲

۷۹…   ایضاً، ص۲۳۴

۸۰…   ایضاً، ص۲۳۵

۸۱…   ایضاً،ص ۲۳۹

۸۲…   ایضاً،ص ۲۴۲

۸۳…   ایضاً، ص۲۴۵

۸۴…   پیت کی ریت، خواجہ دل محمد دل، نور کمپنی، انارکلی لاہور، سن، ص۲۴۷

۸۵…   اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۱۴۴۵/۱۴۴۶

۸۶…   پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت،ص ۲۲۶/۲۷۷

۸۷…  دوہا ہزاری، الیاس عشقی، ادراک پبلی کیشنز، لطیف آباد، حیدرآباد، ۲۰۰۳،ص ۱۲

۸۸…   ایضاً،ص ۸

۸۹…   ایضاً، ص۱۰/۱۱

۹۰…   کملی میں بارات، عرش صدیقی، ص۲۱/۲۲

۹۱…    ایضاً، ص۳۲

۹۲…   دوہا ہزاری، الیاس عشقی، ص۱۷

۹۳…   ایضاً، ص۱۳

۹۴…   ایضاً، ص۲۰

۹۵…   ایضاً، ص۲۱

۹۶…   ایضاً، ص۲۲

۹۷…   کملی میں بارات، عرش صدیقی، ص۶۴

۹۸…   دوہا ہزاری، الیاس عشقی، ص۲۰/۲۱

۹۹…   ایضاً، ص۳۵/۳۶

۱۰۰…  ایضاً، ص۳۸

۱۰۱…  ایضاً، ص۴۰تا۴۲

۱۰۲…  ایضاً، ص۴۴

۱۰۳…  ایضاً، ص۴۵

۱۰۴…  ایضاً، ص۴۸

۱۰۵…  ایضاً، ص۵۴

۱۰۶…  ایضاً، ص۵۷

۱۰۷… ایضاً، ص۵۶

۱۰۸…  ایضاً، ص۵۸

۱۰۹…  ایضاً، ص۱۷

۱۱۰…  ایضاً، ص۵۹

۱۱۱…   ایضاً، ص۶۰/۶۱

۱۱۲…  ایضاً، ص۶۹

۱۱۳…  ایضاً، ص۷۰

۱۱۴…  ایضاً، ص۷۱/۷۲

۱۱۵…  ایضاً، ص۷۲/۷۳

۱۱۶…  ایضاً، ص۷۴/۷۵

۱۱۷…  ایضاً، ص۱۸

۱۱۸…  ایضاً، ص۱۰۵

۱۱۹…   ایضاً، ص۱۰۷تا۱۰۹

۱۲۰…  ایضاً، ص۱۱۲/۱۱۳

۱۲۱…  ایضاً، ص۱۱۴

۱۲۲…  ایضاً، ص۱۱۶

۱۲۳…  دوہا ہزاری، الیاس عشقی، ادراک پبلی کیشنز، لطیف آباد، حیدرآباد، ۲۰۰۳،ص ۱۳۶/۱۳۷

۱۲۴…  اہلِ قلم ڈائیریکٹری، اکادمی ادبیات پاکستان،ص ۷۹

۱۲۵…  جمیل الدین عالی … فن اور شخصیت، ایم حبیب خان، علمی مجلس دلّی، ۱۹۸۸ء بحوالہ دوہے،ص ۱۸۰

۱۲۶…  دوہے، جمیل الدین عالی، کوپرا، لاہور، کراچی، ۲۰۰۳ء، ص۶۶

۱۲۷… ایضاً، ص۶۷

۱۲۸…  ایضاً، ص۴۲

۱۲۹…  ایضاً، ص۴۰

۱۳۰…  ایضاً، ص۴۴

۱۳۱…  ماہنامہ چہار سو، راولپنڈی، جلد۴، شمارہ ۳۸/۳۹، ۱۹۹۵ء، بحوالہ دوہے، ص۱۷۴

۱۳۲…  دوہے، جمیل الدین عالی، ص۵۷

۱۳۳…  ایضاً، ص۷۰

۱۳۴…  جمیل الدین عالی … فن اور شخصیت، ایم حبیب خان، علمی مجلس دلّی، ۱۹۸۸ء بحوالہ دوہے،ص ۱۸۸

۱۳۵…  دوہے، جمیل الدین عالی، ص۷۱

۱۳۶…  ایضاً، ص۷۵

۱۳۷… ایضاً، ص۱۰۰

۱۳۸…  ایضاً، ص۱۰۱

۱۳۹…  ایضاً، ص۱۰۲

۱۴۰…  ششماہی ’’نقد و نظر‘‘ علی گڑھ، جلد۲۰، شمارہ ۲، جون ۱۹۹۸ء بحوالہ دوہے، ص۱۹۰

۱۴۱…  دوہے، جمیل الدین عالی، ص۸۶

۱۴۲…  ایضاً، ص۸۷/۸۸

۱۴۳…  ایضاً، ص۶۷تا۷۰

۱۴۴…  کملی میں بارات، عرش صدیقی، ص۵۶

۱۴۵…  جمیل الدین عالی … فن اور شخصیت، ایم حبیب خان، علمی مجلس دلّی، ۱۹۸۸ء

بحوالہ دوہے، ص۱۸۴

۱۴۶…  دیباچہ: غزلیں، دوہے، گیت، پہلا ایڈیشن، ۱۹۵۷ء، بحوالہ دوہے، ص۱۷۶

۱۴۷… دوہے، جمیل الدین عالی، ص۱۱۴

۱۴۸…  ایضاً، ص۱۱۵

۱۴۹…  ایضاً، ص۱۱۷

۱۵۰…  ایضاً، ص۱۱۸

۱۵۱…  ماہنامہ چہار سو، راولپنڈی، جلد۴، شمارہ ۳۸/۳۹، ۱۹۹۵ء، بحوالہ دوہے، ص۱۷۴

۱۵۲…  دوہے، جمیل الدین عالی، ص۵۳/۵۴/۵۵

۱۵۳…  ماہنامہ چہار سو، راولپنڈی، جلد۴، شمارہ ۳۸/۳۹، ۱۹۹۵ء، بحوالہ دوہے، ص۱۷۴

۱۵۴…  ایضاً، ص۱۹۴

۱۵۵…  دوہے، جمیل الدین عالی، ص۱۴۵

۱۵۶…  ایضاً، ص۱۴۶

۱۵۷… ایضاً، ص۱۳۶

۱۵۸…  ایضاً، ص۱۰۷/۱۰۸

۱۵۹…  ایضاً،ص ۱۰۰

۱۶۰…  ایضاً، ص۱۱۶

۱۶۱…  ایضاً، ص۴۹

۱۶۲…  ایضاً، ص۸۰

۱۶۳…  ایضاً، ص۹۲/۹۳

۱۶۴…  ایضاً، ص۹۶تا۹۹

۱۶۵…  ماہنامہ چہار سو، راولپنڈی، جلد۴، شمارہ ۳۸/۳۹، ۱۹۹۵ء، بحوالہ دوہے، ص۱۷۳

۱۶۶…  دوہے، جمیل الدین عالی، ص۱۲۱/۱۲۲

۱۶۷… ایضاً، ص۱۲۵

۱۶۸…  ایضاً، ص۱۲۴

۱۶۹…  جمیل الدین عالی … فن اور شخصیت، ایم حبیب خان، علمی مجلس دلّی، ۱۹۸۸ء

بحوالہ دوہے، ص۱۸۸

۱۷۰… ششماہی ’’نقد و نظر‘‘ علی گڑھ، جلد۲۰، شمارہ ۲، جون ۱۹۹۸ء بحوالہ دوہے، ص۱۹۱

۱۷۱…  مالک رام، جمیل الدین عالی … فن اور شخصیت، ایم حبیب خان، علمی مجلس

دلّی، ۱۹۸۸ء،ص ۱۲/۱۳

۱۷۲… ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ارمغان عالی، کوپرا، کراچی، لاہور، ۱۹۹۷ء، بحوالہ

دوہے، ص۱۸۳

۱۷۳… اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم، ص۹۹۳

۱۷۴… جہت سازدانشور…ڈاکٹرعرش صدیقی، ڈاکٹرطاہرتونسوی،ص ۱۷/۱۸

۱۷۵… عرش صدیقی سے انٹرویو، روزنامہ نوائے وقت، لاہور، ۱۳ جولائی ۱۹۸۷ء، بحوالہ پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت

۱۷۶… کملی میں بارات، عرش صدیقی، ص۵۶

۱۷۷… ایضاً، ص۹۶

۱۷۸… ایضاً، ص۷۱

۷۹ا…  اُردو حمد و نعت پرفارسی شعری روایت کا اثر، بحوالہ پاکستان میں اُردو دوہے کی

روایت، ص۱۴۲

۱۸۰…  کملی میں بارات، عرش صدیقی، ص۱۰۳تا۱۰۵

۱۸۱…  ایضاً، ص۱۱۰

۱۸۲…  ایضاً، ص۱۱۳تا۱۱۶

۱۸۳…  ایضاً، ص۱۲۳تا۱۲۷

۱۸۴…  ایضاً، ص۱۳۱تا۱۳۳

۱۸۵…  ایضاً، ص۱۳۷تا۱۴۰

۱۸۶…  ایضاً، ص۱۵۱

۱۸۷… ایضاً، ص۱۵۵تا۱۶۰

۱۸۸…  بحوالہ مضمون نویدسروش، مشمولہ ’’دل ہے عشقی تاج کا، ص۳۲

۱۸۹…  دل ہے عشقی تاج کا، تاج قائم خانی، ادارہ پہچان، میرپور خاص، سندھ، ۲۰۰۴ء، ص۲۵

۱۹۰…  ایضاً، ص۳۶/۳۷

۱۹۱…   ایضاً، ص۴۲/۴۳

۱۹۲…  ایضاً، ص۴۵/۴۶

۱۹۳…  ایضاً، ص۴۹تا۵۵

۱۹۴…  ایضاً، ص۶۱/۶۳

۱۹۵…  ایضاً، ص۶۴

۱۹۶…  ایضاً، ص۷۶

۱۹۷…  ایضاً، ص۸۲/۸۳

۱۹۸…  ایضاً، ص۷۴/۷۵

۱۹۹…  ایضاً، ص۸۱

۲۰۰… ایضاً، ص۹۱

۲۰۱…  ایضاً، ص۸۱

۲۰۲… ایضاً، ص۸۵

۲۰۳… ایضاً، ص۹۳/۹۵

۲۰۴… ایضاً، ص۷۸تا۸۰

۲۰۵… ایضاً، ص۸۹

۲۰۶… ایضاً، ص۹۹

۲۰۷… ایضاً، ص۷۹

۲۰۸… ایضاً، ص۸۹

۲۰۹…  ایضاً، ص۱۰۱

۲۱۰…  ایضاً، ص۱۰۵تا۱۰۷

۲۱۱…  ڈاکٹرطاہرسعید ہارون کی دوہا نگاری، ثمینہ علیم، ماورا پبلشرز، لاہور، ۲۰۱۲،ص ۶۷ تا ۶۹

۲۱۲…  رُوپ کرن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص۱۰

۲۱۳…  من موج، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۱۹/۲۰

۲۱۴…  نیلا چندرماں، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص۲۱

۲۱۵…  پریت ساگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۴ء، ص۱۷/۱۸

۲۱۶…  من بانی، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص۱۱/۱۳

۲۱۷… میگھ ملہار، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۷ء، ص۱۹

۲۱۸…  بھور نگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۸ء، ص۱۱/۱۲

۲۱۹…  پریم رس، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۹ء، ص۱۰/۱۳

۲۲۰… رنگِ اَدب، کراچی، کتابی سلسلہ ۵، ڈاکٹرطاہرسعید ہارون نمبر،س ن، ص۷۸

۲۲۱…  ایضاً،ص ۳۳

۲۲۲… کُوک، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۰ء، ص۹

۲۲۳… من دیپک، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۱ء، ص۱۵

۲۲۴… نیناں درپن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص۲۶

۲۲۵… رُوپ کرن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص۱۹

۲۲۶… من موج، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۲۴/۲۵

۲۲۷… نیلا چندرماں، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۲

۲۲۸… پریت ساگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۲۲/۲۳

۲۲۹…  من بانی، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۲۵

۲۳۰… میگھ ملہار، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۱

۲۳۱…  بھور نگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۲۲

۲۳۲… پریم رس، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۳

۲۳۳… کُوک، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر،ص ۱۴

۲۳۴… من دیپک، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۲۱

۲۳۵… نیناں درپن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۲

۲۳۶… روپ کرن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۲۴/۲۵

۲۳۷… من دیپک، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۷

۲۳۸… ایضاً، ص۲۳

۲۳۹… روپ کرن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۳

۲۴۰… نیناں درپن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۳

۲۴۱…  پریم رس، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۶

۲۴۲… بھور نگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۲۸

۲۴۳… میگھ ملہار، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۶

۲۴۴… روپ کرن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۱۳

۲۴۵… من موج، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر،ص ۲۶

۲۴۶… نیلاچندرماں، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۴۶

۲۴۷… پریت ساگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۰

۲۴۸… من بانی، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۳/۳۴

۲۴۹… میگھ ملہار، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر،ص ۳۸/۳۹

۲۵۰… بھور نگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر،ص ۳۰

۲۵۱…  پریم رس، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۹/۴۰

۲۵۲… نیلا چندرماں، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر،ص ۱۵

۲۵۳… من موج، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر،ص ۱۴

۲۵۴… دیباچہ من بانی، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۹/۱۰

۲۵۵… رنگِ اَدب، کراچی، کتابی سلسلہ ۵، مرتب:شاعر علی شاعر،س ن، ص۷۹

۲۵۶… ایضاً، ص۸۶

۲۵۷… کُوک، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۲۳

۲۵۸… ایضاً، ص۳۶

۲۵۹… روپ کرن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۱۴۰/۱۴۲

۲۶۰… پریم رس، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۴۹تا۵۱

۲۶۱…  پریت ساگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۳۴تا۳۷

۲۶۲… من دیپک، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۹۳تا۹۸

۲۶۳… من بانی، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۶۹/۷۸

۲۶۴… رنگِ اَدب، کراچی، ص۱۶۰/۱۶۱

۲۶۵… من موج، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۷۲/۷۳

۲۶۶… نیلا چندرماں، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۱۲۴/۱۲۵

۲۶۷… روپ کرن، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۸۲/۸۳

۲۶۸… رنگِ ادب، شاعر علی شاعر، ص۴۵/۴۶

۲۶۹…  بھور نگر، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر،ص ۱۷۷

۲۷۰… میگھ ملہار، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۱۶۲

۲۷۱… نیلا چندرماں، طاہر سعیدہارون، ڈاکٹر،ص ۹۳

۲۷۲… ایضاً، ص۱۰۴

۲۷۳… ایضاً، ص۱۰۸

۲۷۴… ایضاً۔ ص۱۱۱

۲۷۵… دیباچہ: من دیپک، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۸

۲۷۶… دیباچہ:میگھ ملہار، طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، ص۱۱/۱۲

۲۷۷… ماخوذ:مضامین بر’دوہارنگ‘ودیاساگرآنند، ڈاکٹر، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی،         ۲۰۱۰ء متفرق صفحات

۲۷۸… دوہا رنگ، ودیاساگرآنند، ڈاکٹر، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، ۲۰۱۰ء،ص ۲۴/۲۵

۲۷۹… ایضاً، ص۶۵/۶۶

۲۸۰… ایضاً، ص۶۷/۶۹

۲۸۱…  ایضاً، ص۷۰/۷۱

۲۸۲… ایضاً، ص۷۹

۲۸۳… ایضاً، ص۳۹

۲۸۴… ایضاً، ص۸۱/۸۳

۲۸۵… ایضاً،ص ۲۷

۲۸۶… ایضاً، ص۷۰تا۷۸

۲۸۷… ایضاً، ص۸۴تا۸۹

۲۸۸… ایضاً، ص۹۱تا۹۹

۲۸۹… ایضاً، ص۱۱۲

۲۹۰…  ایضاً، ص۱۱۷

۲۹۱…  ایضاً، ص۱۱۹

۲۹۲…  ایضاً، ص۱۳۵/۱۳۶

۲۹۳… ایضاً،ص ۱۹۵/۱۹۶

٭٭٭

 

 

 

 

 

کتابیات

 

٭     اعتبارساجد، آمد، لاہور: مکتبہ الخطاب، ۱۹۸۲ء

٭      اعظم کریوی، ڈاکٹر، ہندی شاعری، طبع دوم، سگماپرنٹنگ پریس، اسلام آباد، ۲۰۰۹ء

٭     الیاس عشقی، دوہا ہزاری، حیدرآباد:لطیف آباد، سندھ، ادراک پبلی کیشنز، ۲۰۰۳ء

٭     امام قاسم ساقی، فکر و فن کے پھول، نوشین پبلیکیشنس، کڈپہ، انڈیا، ۲۰۰۹ء

٭     امتیاز علی تاج(مرتب)، آرام کے ڈرامے، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۹ء

٭     امتیاز علی تاج(مرتب)، بنارسی کے ڈرامے، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۵ء

٭      امتیاز علی تاج(مرتب)، حافظ محمد عبداللہ کے ڈرامے، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۱ء

٭     امتیاز علی تاج(مرتب)، رونق کے ڈرامے، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۹ء

٭     امتیاز علی تاج(مرتب)، ظریف کے ڈرامے، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۹ء

٭      امتیاز علی تاج(مرتب)، کریم الدین مراد کے ڈرامے، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۷۲ء

٭     ایم سلطانہ بخش، ڈاکٹر، (مرتبہ)اُردو میں اُصول تحقیق، جلد اول، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۸۹ء

٭     ایس ایم شاہد، ابلاغی تحقیق، طبع دوم، پبلشرز ایمپوریم، اُردو بازار، لاہور، ۲۰۰۵ء

٭     تاج سعید، رُتوں کی صلیب، پشاور: مکتبہ ارژنگ، ۱۹۹۹ء

٭     تاج قائم خانی، دل ہے عشقی تاج کا، میر پور خاص:۲۰۰۴ء

٭     ثمینہ علیم، ڈاکٹرطاہرسعیدہارون کی دوہا نگاری، ماورا پبلشرز، لاہور، ۲۰۱۲ء

٭     جابر علی سید، تنقید و تحقیق، ملتان: کاروانِ ادب، ۱۹۸۷ء

٭     جابر علی سید، لسانی و عروضی مقالات، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۹ء

٭     جمیل جالبی، ڈاکٹر، تاریخ ادب اُردو، جلد اول، طبع ہفتم، مجلس ترقی اَدب، لاہور، ۲۰۰۸ء

٭     جمیل جالبی، ڈاکٹر، تاریخ ادب اُردو، جلد دوم، طبع ششم، مجلس ترقی اَدب، لاہور، ۲۰۰۹ء

٭     جمیل جالبی، ڈاکٹر، تاریخ ادب اُردو، جلدسوم، ، طبع دوم، مجلس ترقی اَدب، لاہور، ۲۰۰۸ء

ؤ٭    جمیل الدین عالی، دوہے، کراچی: پاکستان رائٹرز کوآپریٹوسوساءٹی، ۲۰۰۳ء

٭     جمیل الدین عالی، غزلیں، دوہے، گیت، کراچی: مکتبہ اسلوب، طبع اول، ۱۹۸۵ء

٭      حافظ محمود شیرانی، مقالاتِ حافظ محمود شیرانی(جلد اول)، لاہور:مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۶ء

٭      حبیب اللہ ملک، قائد اعظم کی شخصیت کا رومانی پہلو، لاہور: کاروان بک ہاؤس، ۲۰۰۹ء

٭      حفیظ صدیقی، ابوالاعجاز(مؤلف) کشاف تنقیدی اصطلاحات، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۵ء

٭     دل محمد، خواجہ، پیت کی ریت، نور کمپنی، انارکلی لاہور، سن، ص

٭     رشیدحسن خان(مرتب)، زٹل نامہ، نئی دہلی: انجمن ترقی اُردو ہند، ۲۰۰۳ء

٭     ساغرجیدی، ڈاکٹر، کیسرکیسر دوہے، رائل سیما اُردوراءٹرس فیڈریشن، کڈپہ، انڈیا، ۲۰۰۹ء

٭     ستارطاہر، پاکستان کا مستقبل، لاہور: مقبول اکیڈمی، شاہراہ قائد اعظم، ۱۹۹۲ء

٭     سلیم اختر، ڈاکٹر، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۰ء

٭      سلیم اختر، ڈاکٹر، جوش کانفسیاتی مطالعہ اور دوسرے مضامین، لاہور: فیروزسنز، س۔ ن

٭      سمیع اللہ اشرفی، ڈاکٹر، اُردو شاعری میں دوہے کی روایت، علی گڑھ، اردو بک سنٹر، ۱۹۹۰ء

٭     شارق بلیاوی، زخم کی خوشبو، کراچی: فرید پبلشرز، ۲۰۰۳ء

٭     شاعر علی شاعر(مرتب)رنگ ادب، کتابی سلسلہ ۵، کراچی،س ن

٭     شمیم اَنہونوی(مرتبہ)، سب رس، لکھنو: نسیم بک ڈپو، ۱۹۶۲ء

٭     شاہ حسین، کافیاں شاہ حسین، لاہور، مطبوعہ مجلس شاہ حسین، س۔ ن

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، بارش میں دھوپ، کراچی: بزم رنگِ ادب۔ ۲۰۱۰ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، بھور نگر، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، پریت ساگر، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۴ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، پریم رس، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، رُوپ کرن، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، کوک، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۰ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، من بانی، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۵ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، من دیپک، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۱ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، من موج، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۱ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، میگھ ملہار، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۷ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، نیلا چندرماں، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۳ء

٭     طاہرسعیدہارون، ڈاکٹر، نیناں درپن، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۲ء

٭     عابد صدیق، پانی میں ماہتاب، ملتان:طبع اول، ۱۹۸۷ء

٭     عبادت بریلوی، ڈاکٹر، جدید شاعری، کراچی: کتاب دُنیا، ۱۹۶۱ء

٭      عبد الحمید خان عباسی، اصول تحقیق، طبع دوم، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۲ء

٭      عرش صدیقی، پاکستان میں اُردو دوہے کا ارتقا اور کملی میں بارات، لاہور، مقبول اکیڈمی، ۱۹۹۲ء

٭     ع۔ س۔ مسلم، برگِ تر، کراچی، ۱۹۹۸ء

٭     عشرت رحمانی(مرتب)، صیدِ ہوس، لاہور:اُردو مرکز، ۱۹۵۵ء

٭     عظمت اللہ خان، سریلے بول، کراچی:اُردو اکیڈمی سندھ، ۱۹۵۹ء

٭     عظمت زبیدہ بیگم، سریلے بول، حیدرآباد دکن:۱۹۴۰ء

٭     غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر، اُردو شاعری کاسیاسی وسماجی پس منظر، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء

٭     فیاض محمود(مدیر)، تاریخ ادبیاتِ مسلمانانِ پاکستان و ہند(جلد اول)، لاہور، پنجاب یونی ورسٹی، ۱۹۷۱ء

٭     قتیل شفائی(مرتبہ)، انتخاب قتیل شفائی، لاہور:الحمد پبلی کیشنز، ۱۹۹۳ء

٭     کشور ناہید، فتنہ سامانیِ دل، لاہور:۱۹۸۵ء

٭     کنول ظہیر، پاکستان میں اُردو دوہے کی روایت، کراچی:انجمن ترقی اُردو پاکستان، ۲۰۰۵ء

٭     کوثر صدیقی، ڈھائی آکھر، ادبی دُنیا پبلی کیشنز، جے پور، انڈیا، ۲۰۰۶ء

٭     گیان چند جین، ڈاکٹر، اُردو کا اپنا عروض، نئی دہلی:انجمن ترقی اُردو ہند، ۱۹۹۹۰ء

٭      گیان چند جین، ڈاکٹر، تحقیق کا فن، طبع سوم، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۲۰۱۲ء

٭     محمد آصف خان، آکھیا بابا فرید نے، لاہور، پاکستان پنجابی ادبی بورڈ، ۲۰۰۱ء

٭     محمدحسن، ڈاکٹر، ہندی ادب کی تاریخ، علی گڑھ: انجمن ترقی اُردو ہند، ۱۹۵۵ء

٭     مناظر عاشق ہرگانوی، ڈاکٹر، مرتب:دوہا غزل۔ دوہا گیت، مکتبۂ کہسار، بہار، انڈیا، ۲۰۰۶ء

٭     مولوی عبدالحق، اُردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام، کراچی: انجمن ترقی اردوپاکستان، ۱۹۹۳ء

٭     ناصر شہزاد، چاند کی پتیاں، لاہور: مکتبہ ادبِ جدید، ۱۹۶۵ء

٭      نجم الغنی، بحر الفصاحت(جلد دوم)، مرتبہ قدرت نقوی، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۲۰۰۱ء

٭     نظیر اکبرآبادی، کلیاتِ نظیر اکبرآبادی(مہادیو کا بیان)، لکھنو:منشی نول کشورپریس، ۱۹۲۲ء

٭     وحید قریشی، ڈاکٹر، الواح، فیصل آباد:قرطاس پبلشرز، ۲۴/اگست۱۹۸۴ء

٭     وحید قریشی، ڈاکٹر، نقدِ جاں، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۶۸ء

٭     ودیاساگرآنند، دوہا رنگ، موڈرن پبلشنگ، ہاؤس، نیو دہلی، ۲۰۲۰ء

٭     ہری اودھ، بھگت کبیر، فلسفہ و شاعری، لاہور:فکشن ہاؤس، س۔ ن

 

 

 

لغات

 

اقبال صلاح الدین، وڈی پنجابی لغت(جلد اول)، لاہور:عزیز پبلشرز، ۲۰۰۲ء

جمیل جالبی، ڈاکٹر، قدیم اُردو لغت(جلد نہم)، کراچی، اُردو لغت بورڈ، ۱۹۸۸ء

جیسور رائے اصغر، راجہ، ہندی اُردو لغت، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ۱۹۹۳ء

سیداحمددہلوی، فرہنگ آصفیہ(جلد اول)، لاہور: مرکزی اُردو بورڈ، ۱۹۷۷ء

عبد المجید، خواجہ، جامع اللغات(جلد دوم)، لاہور:اُردوسائنس بورڈ، ۱۹۸۹ء

فیروز دین، مولوی، فیروز الغات، فیروزسنز، لاہور

نورالحسن نیر، نور اللغات(جلدسوم)، اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۷۵ء

وارث سرہندی، علمی اُردو لغت، علمی کتب خانہ، لاہور، ۱۹۹۶ء

John T , Platts , Urdu Classical Hindi and English Dictionary , New Delhi : 1977

  1. C. Pattak Vamasai , Bhargaua’s Standard Illustred Dictionary , Jan 1976

The Oxford English Dictionary۔ Delhi , 1977

٭٭٭

 

کتاب اور صاحب کتاب

 

سید کفایت بخاری

 

وادیِ چھچھ ضلع اٹک کے شمالی حصہ میں دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی ہے، جہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں اور توانائیوں کے ساتھ چشمِ نظارہ کا استقبال کرتی ہے۔ یہ خطہ اپنی زرخیزی و مردم خیزی میں شہرت عام کے بام عروج پر ہے اور اس خطہ کے باسی ملک اور بیرون ملک میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بالخصوص علم و ادب سے اس خطہ کی دلچسپی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے اور یہاں اہل علم کی کثرت کی وجہ سے اسے بخارا ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کے علماء و مشائخ اور شعراء و ادباء ماضی قدیم سے ہی تاریخ کے دربار میں نمایاں مقام کے حامل رہے ہیں اور آج بھی وہ اس اعزاز کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

انھی اہل علم و ادب میں ایک نمایاں نام محترم خاور چودھری کا ہے جو بلا شبہ اس خطہ کی جدید علمی تاریخ کا ایک اہم عنوان اور اس وادی کا قابل فخر سرمایہ ہیں۔ وہ جس قدر خوب صورت انسان ہیں، اس سے کہیں زیادہ نفیس شخصیت کے مالک اور اس سے بڑھ کر اُجلے کردار کے حامل ہیں۔ تعلیم کے میدان میں ابتداء سے لے کر ایم۔ ایس سی (ماس کمیونیکیشن )، ایم۔ اے (اردو) اور ایم۔ فل اُردو تک ان کا سفرایک روشن کہکشاں ہے، جو یقیناً مجھ جیسے کم ہمتوں کے لیے دعوت سعی پیہم و عمل مسلسل ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں اور جو کرتے ہیں اس کے لیے پوری تن دہی سے محنت و کوشش کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ان کی سوچ واضح اور ان کا عمل مکمل منصوبہ بندی اور سخت کوشی کا مظہر ہوتا ہے۔ اس لیے وہ جہاں کھڑے ہیں، عظمت و وقار کے ساتھ کھڑے ہیں اور اہل علم کی بھرپور داد و تحسین اور دوستوں کی بے پایاں محبت سمیٹ رہے ہیں۔ یوں وہ بڑے خوش نصیب ہیں۔

خاور چودھری اُردو کے اہم کالم نگاروں میں شمار ہوتے ہیں اور ایک وسیع حلقۂ قارئین رکھتے ہیں۔ وہ نظریاتی ادیب ہیں اور دینی، معاشرتی اور ادبی موضوعات پر شگفتہ ادبی زبان میں نہ صرف اپنے قارئین کو بھرپور تجزیہ فراہم کرتے ہیں، بلکہ ان کی ذہنی تربیت بھی کرتے ہیں۔ ان کے کالم متوازن اور سنجیدہ تجزیہ کا عمدہ نمونہ ہوتے ہیں اور اہل اردو کے نظریاتی حلقہ میں اپنی اہمیت تسلیم کروا چکے ہیں۔

چودھری صاحب نے جدیدافسانہ بھی لکھا ہے۔ ان کے جدید افسانوں کا مجموعہ ’’چیخوں میں دبی آواز‘‘ اُردو کے بڑے افسانہ نگاروں سے داد تحسین حاصل کر چکا اور اپنے لکھاری کی اہمیت کو منوا چکا ہے۔ ان کے کالم اور افسانے بتاتے ہیں کہ چودھری صاحب نے زندگی کو گہری نظر اور باریک بینی سے دیکھا ہے اور اس کی ناہمواریوں نے ان کے حساس دل کو شدت سے گھائل کیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے مختلف معاشرتی مسائل پر بڑی جاندار اور بھرپور تحریریں نذر قارئین کی ہیں۔

چودھری صاحب کے شعری سفر کی ابتداء نعت گوئی سے ہوئی اور آج وہ اردو غزل، ہائیکو، واکا اور دوہے کا ایک اہم نام ہیں۔ ان کے ہاں شعری فضا مقامی ثقافت سے ترتیب پاتی ہے اور ان کے موضوعات و مضامین اسی معاشرہ کے متعلق ہیں۔ ان کے ہاں موجود احساس کی شدت اور خیال کی ندرت نے ان موضوعات و مضامین کو جدت و تازگی بخشی ہے اور یوں ان کی شاعری خیال کے نئے نئے در وا کرتی ہے۔

چودھری صاحب کا ایک اہم کارنامہ حال ہی میں مکمل ہونے اور ناردرن یونیورسٹی نوشہرہ سے منظور ہونے والا ان کا ایم۔ فل کا مقالہ ’’ اردو دوہے کا ارتقائی سفر‘‘ ہے، جو ہے تو ایم۔ فل لیول کا مگر مقدار مواد، معیار تحقیق اور اسلوب تحریر کے لحاظ سے پی۔ ایچ۔ ڈی کے مقالوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ پورے مقالے میں مواد کی تحقیق و پیشکش اور اسلوب نہایت بھرپور جبکہ تجزیہ بہت جاندار اور متوازن ہے۔

مقالے کی ابتداء یونیورسٹی کی ضرورت کے مطابق تحقیق کی تعریف و اہمیت اور دائرہ کار سے ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ مقالے کا رسمی حصہ ہے مگر یہ ایک رسمی تحریر نہیں بلکہ چودھری صاحب کی محنت اور ادبی اسلوب نے اسے ایک شگفتہ و رواں علمی تحریر کا روپ دے دیا ہے۔

[یہ باب کتاب میں شامل نہیں کیا گیا۔ خاور]

دوسرے باب میں دوہا کے پس منظر کے زیر عنوان دوہا بانی(دوہا نگاری)کی ابتداء کا سراغ لگانے کی کوشش میں دوہا بانی کی مختصر ابتدائی تاریخ بیان ہوئی ہے اور ضمناً  اردو، ہندی زبانوں کے حوالے سے کئی اہم باتیں شاملِ مقالہ ہو گئی ہیں۔ دوہے کے فن، زبان اور روایتی مضامین پر بڑی اہم علمی بحث اور متوازن تجزیہ دیا گیا ہے، جبکہ دوہا کی عروض پر کی گئی بحث کئی حوالوں سے اچھوتی ہے اور متعدد اہم اور نئے نکات سامنے لاتی ہے۔ دوہا کے عروضی وزن ( دوہا چھند) پر کی گئی بحث تاریخی تناظر میں دوہا کے آہنگ پر خوب صورت اور متوازن تجزیہ کی حامل ہے، جس میں روایت کی اہمیت اور اس کے تسلسل پر زور دینے کے ساتھ ساتھ فنی ارتقاء کی اہمیت کو بھی قرار واقعی مقام دیا گیا اور سرسی چھند یا عالی چھند میں لکھے گئے دوہوں کو دوہا کی ارتقائی صورت اور جدید تجربہ قرار دے کر اسے تسلیم کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ چودھری صاحب خود مستقل دوہا نگار (دوہا کوی) ہیں اور وہ عالی چھند میں نہیں لکھتے۔ اس کے باوجود جب وہ عالی چھند کی نفی نہیں کرتے تو وہ اپنے فطری اعتدال اور توازن کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔

انھوں نے دوہا کی تاریخ (یا ان کے الفاظ میں ’’دوہا ورتا ‘‘)پر گفتگو کرتے ہوئے اس کی معلوم تاریخ کو تین حصوں کلاسیکی عہد، تھیٹر کے عہد اور پاکستانی عہد میں تقسیم کیا، اور ہر عہد کے نمائندہ دوہا نگاروں (دوہا کویوں ) کا تعارف اور نمونہ کلام دے کر ان کے کلام اور موضوعات کا تحقیقی و فنی تجزیہ پیش کیا ہے جو تلاش مواد میں چودھری صاحب کی محنت و ریاضت کے ساتھ ساتھ ان کی تجزیہ نگاری کی صلاحیت اور اس فن کے ساتھ ان کی طبعی مناسبت کا بھی عمدہ ثبوت ہے۔

انہوں نے کلاسیکی عہد کے (۴۳) دوہا کویوں کا مختصر تعارف بیان کر کے ان کے کلام کی خصوصیات پر گفتگو کی اور ساتھ نمونہ کلام بھی دیا ہے۔ ان (۴۳) دوہا کویوں میں (۳۳) مسلم جبکہ (۱۰) غیر مسلم دوہا کوی ہیں۔ مسلم دوہا کویوں میں (۱۷) صوفی بزرگ ہیں جن میں بابا فرید گنج شکر، شیخ حمید الدین صوفی، شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری، شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور بابا بلھے شاہ جیسے کبار مشائخ بھی شامل ہیں۔ اس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ مشائخ صوفیہ کس طرح عوام کے دلوں پر دستک دیتے اور عوامی زبان کو ہی اہمیت دیتے ہوئے اسے کس طرح علمی خزانوں سے مالا مال کرتے تھے۔ یہاں مذکور (۱۰) غیر مسلم دوہا کویوں میں دو عورتیں بھی شامل ہیں اور دیگر میں زیادہ ترسادھو سنت وغیرہ ہیں۔ غرض زیادہ تر دوہا کوی مصلحین قوم میں سے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات خالق سے محبت، مخلوق سے ہمدردی و خیر خواہی اور دنیا کی بے ثباتی ہیں۔ دوہے کی غنائیت و موسیقیت اور سادگی و سلاست کے سوتے بھی اسی سرزمین سے پھوٹتے ہیں جسے مصلحین کی عامۃ الناس سے خطاب کی ضرورت کہا جا سکتا ہے۔ دل کے تاروں کو غنائیت سے مالا مال سادہ وسلیس کلام چھیڑتا ہے اور عالمانہ و فلسفیانہ بیانات کا اس دنیا میں کوئی گزر نہیں۔ ایک سالک اپنی تنہائیوں میں اپنے خالق کو یاد کرتے ہوئے جو اشعار گنگناتا اور آنسوؤں کے ہار پروتا ہے، وہ اس کے شاہد عدل ہیں۔ اسی وجہ سے یہ عناصر دوہے کے تانے بانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

چودھری صاحب نے تھیٹر کے عہد پر گفتگو کرتے ہوئے اس عہد کے گیارہ نمائندہ شعراء کے کلام کا تجزیہ کیا ہے۔ انہوں نے کلاسیکی اور تھیٹر کے عہد کا تاریخی و تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے مجموعی طور پر پاک و ہند کے ادیبوں کی کتب سے ڈیڑھ سو سے زائد حوالہ جات سے اپنی بات کو مدلل بنایا ہے۔ اس سے ان کی محنت کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے پاکستانی عہد کا مطالعہ کرنے کے لئے اس دور کے اکتیس (۳۱) دوہا کویوں کا انتخاب کیا ہے اور ان کے مختصر تعارف کے ساتھ ان کا نمونہ کلام دے کر ان کے فن پر مختصر مگر جاندار گفتگو کی ہے اور سو سے زائد حوالہ جات سے اپنی بات کو پختہ بنایا ہے۔

چودھری صاحب نے پاکستانی عہد کی دوہا نگاری کے خصوصی مطالعہ کے لیے اس دور کے سات نمائندوں کو لیا ہے، جن میں سے چھے شعراء (خواجہ دل محمد دل، الیاس عشقی، جمیل الدین عالی، عرش صدیقی، تاج قائم خانی اور ڈاکٹر طاہر سعید ہارون )کا تعلق پاکستان سے جبکہ ایک دوہا کوی ڈاکٹر ودیا ساگر آنند کا تعلق بھارت سے ہے۔ چودھری صاحب نے اس دور کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور ان شعراء کے کلام پر مفصل گفتگو کی ہے۔ اگر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ باب ایک سو تیئیس (۱۲۳) صفحات پر مشتمل ہے لیکن اس میں مختلف کتابوں کے دو سوترانوے (۲۹۳)حوالے دیے گئے ہیں تو ان کی محنت و کاوش اور جگر کاوی کا اندازہ ہو سکے گا۔ آخر میں ’’حاصلات‘‘ کے زیر عنوان اس مقالے کی بحث کو سمیٹتے ہوئے حاصل بحث یا نتائج کو مرتب صورت میں پیش کیا گیا ہے، جس سے دوہا نگاری پر تحقیق کے حوالے سے مستقبل کے امکانات کی طرف چند معنی خیز اشارے بھی ملتے ہیں۔

مقالہ کے آخر میں ’’کتابیات‘‘ کے عنوان کو دیکھیں تو حیرت کے کئی در وا ہو جاتے ہیں کہ چودھری صاحب نے ایم۔ فل کے مقالہ کے لئے اردو اور انگریزی کے تریسٹھ(۶۳) ادباء و محققین اور ناقدین ادب کی چھیاسی(۸۶) کتب سے استفادہ کیا ہے جن میں سے کئی کتب پاکستان میں دستیاب ہی نہیں اور وہ بطور خاص اس مقالہ کے لئے بھارت سے منگوائی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر یہ مقالہ نہایت محققانہ اور فاضلانہ کام ہے، جو اپنے ادبی اسلوب اور معتدل مگر جاندار تجزیوں کی بنا پر اردو ادب کے قارئین کے لیے انمول تحفہ ہے۔ ان شاء اللہ اس مقالہ کو لمبے عرصہ تک یاد رکھا جائے گا، محققین اپنے کاموں میں اس سے استناد پکڑیں گے اور مدتوں اس کے حوالے دیے جاتے رہیں گے۔ اللّھم زد فزد

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید