FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ہندوستانی جمالیات

 

 

حصہ ۱

دس حصوں میں (اصل کتاب دو جلدوں میں)

 

شکیل الرحمن

 

 

 

©  جملہ حقوق بحق عصمت شکیل   محفوظ ہیں۔

 

 

 

 

(۱) ہندوستانی تہذیب کا نظامِ جمال

 

 

 

 

 

اِنتساب

 

غالب نے کہا تھا:

’اے پتّھر تجھے اپنی طاقت کا دعویٰ صرف اسی لمحے تک زیب دیتا ہے

جس لمحے تک تو کسی شیشہ گرکے ہاتھ میں نہیں جاتا!

 

تمہاری شیشہ گری نے واقعی میری طاقت کا دعویٰ ختم کر دیا!

یہ شیشہ گری نہ ہوتی تو میں اپنی زندگی میں

صرف ایک پتّھر ہوتا

مضبوط لیکن ساکت اور جامد پتّھر!

 

اگر میں شیو تھا، غیر متحرک ، ساکت

تو تم شکتی بن گئیں میرے لیے

میرے ہر تحرّک کا انحصار تمہارے ہی تحرک پر تو ہے!

 

 

 

غالبؔ نے کہا تھا:

’عشق کے صحرا میں ریگ ابھی تک رواں ہے

کون جانے، کتنے پاؤں اس راہ میں گھس چکے ہیں!‘

 

ایک ہمہ گیر بے پناہ پھیلے ہوئے

اور انتہائی پُر اسرار صحرا کی تلاش کا یہ سفر نامہ

صرف میرے پاؤں کے گھسنے ہی کی خبر دیتا ہے

 

میناؔ

یہ تحفہ قبول کرو

 

 

 

 

 

مقدمہ

 

بر صغیر کی صدیوں کی تاریخ اور تہذیب میں تخلیقی وقت  (CREATIVE: TIME) کا ایک حیرت انگیز تسلسل قائم رہا ہے، عوامی زندگی اور مختلف نسلوں کی تہذیب میں تخلیقی وقت اور تخلیقی لمحات ہمیشہ جذب رہے ہیں ، تمام مادّی اور روحانی تصوّرات اور اقدار میں تخلیقی وقت اور لمحات کو محسوس کیا جا سکتا ہے، اس ہمہ گیر اور جہت دار تسلسل نے روحانی تمدّن کی اعلیٰ ترین قدروں سے آشنا کیا ہے، ہندوستان کے فنون ہزاروں برسوں کے جمالیاتی تجربوں کے تئیں بیدار کرتے ہیں — وہ جمالیاتی تجربے جو تخلیقی وقت اور تخلیقی لمحات کی دین ہیں !

ہندوستانی فن کاروں کا جمالیاتی شعور بیدار اور متحرّک رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر عہد میں فنون کی جمالیاتی سطح بلند رہی ہے، فن کار کا اپنا تجربہ بھی اہم رہا ہے اور اُس کی وہ تخلیقی صلاحیت بھی اہم رہی ہے کہ جس سے عمدہ اور اعلیٰ جمالیاتی صورتوں کی تخلیق ہوئی ہے، ہر اچھی تخلیق کا ایک سماجی کردار موجود ہے جو سماج اور تہذیب کے تقاضوں کو نمایاں کرتا ہے، تخلیق محض موضوع کا جمالیاتی عکس نہیں بلکہ جمالیاتی موضوع بھی ہے، جمالیاتی صورت، سماجی تجربے کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچاتی رہی ہے، تخلیق کے رموز و اسرار کو سمجھنے اور جاننے کے لیے جہاں خارجی حالات پر نظر رہی ہے وہاں داخلی اقدار و عناصر کا بھی ایک گہرا شعور حاصل رہا ہے، خارجی اور داخلی اقدار و عناصر کی ہم آہنگی اور وحدت کے احساس نے انسان اور کائنات کے رشتوں کا عرفان عطا کیا ہے۔ جمالیاتی تخلیقی شخصیت کا اظہار اُس وقت ہوا ہے جب خارجی اور داخلی اقدار و عناصر کے گہرے شعور نے دانشوری کی ایک عمدہ سطح قائم کی ہے ، دونوں کی وحدت نے حیات و کائنات کے جلال و جمال کا عرفان عطا کیا اور انسان کے مرکز پر فنکار کی نظر گہری رہی ہے، جمالیاتی تخلیقی شخصیت نے تخلیقی عمل میں حسن و جمال کے اصول متعین کیے ہیں اس شخصیت کے تحرک میں مشاہدہ، تاثر، احساس ، جذبہ اور وجدان سب شامل رہے ہیں ۔

سماجی ارتقاء کی تاریخ میں اکثر غیر جمالیاتی حالات پیدا ہوئے لیکن ہندوستان کے تخلیقی فنکاروں نے ایسے ماحول میں بھی فطرت کے جلال و جمال اور فطرت کے آہنگ کو محسوس کیا اور فن کی فطرت کو جو خود آہنگ سے مرتب ہوتی ہے نیچر کے آہنگ سے جذب کرنے کی کوشش کی، زندگی میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش بنیادی طور کسی نہ کسی سطح پر نغمے

کی ترتیب ہے لہٰذا اس عمل میں زندگی اور فن کا مربوط رشتہ قائم رہا اور جمالیاتی قدروں کی تخلیق ہوتی رہی۔ جمالیات، انسان اور حقیقت کے درمیان تخلیقی رشتے کی صورت رہی ہے جس کی وجہ سے مختلف عہد اور مختلف سماجی حالات میں فطرت یا نیچر کے حسن و جمال کی نئی تخلیق ہوتی رہی ہے، کچھ اس طرح کہ مرکز انسان رہا ہے اور اُس کے وجود کے گرد جلال و جمال کا ہمہ گیر دائرہ خلق ہوتا رہا ہے۔

کوئی جمالیات خالص نہیں ہوتی اس لیے کہ کوئی تہذیب خالص نہیں ہوتی، فنون تہذیب اور کلچر کی علامت ہیں لہٰذا یہ بھی تجربوں اور اظہار کے پیشِ نظر مرکّب ہیں ۔

ہندوستانی جمالیات میں مختلف قوموں اور نسلوں کے تجربے ہیں اس لیے کوئی خالص آریائی جمالیات ہے اور نہ کوئی خالص دراوڑی جمالیات ، بدھ جمالیات سے قبل اپنی بعض نمایاں جہتوں کے باوجود ہندوستانی جمالیات، خالص نہیں ہے، اسی طرح بدھ جمالیات اپنے نمایاں پہلوؤں کو شدّت سے واضح کرنے کے باوجود’ خالص‘ نہیں ہے مغل جمالیات بھی اسی طرح خالص نہیں ہے ہم جمالیاتی جہتوں کو پہچاننے اور اہم ترین پہلوؤں کی نشاندہی کے لیے نام دیتے ہیں ، خالص ہونا تہذیب اور کلچر کی فطرت ہی نہیں ہے اس لیے جمالیات بھی خالص نہیں ہوتی مختلف نسلوں اور قوموں کے تجربے ہم آہنگ ہوئے ہیں ۔ صدیوں ان کی آویزش اور آمیزش کا سلسلہ رہا ہے، دوسرے ملکوں اور خطّوں کے جمالیاتی تجربے بھی ان سے ہم آہنگ ہوئے ہیں ۔

’آریائی جمالیات ‘ کا رشتہ دراوڑی جمالیات سے قائم ہوتا ہے اور پچھلی نسلوں کے تجربوں کی روایات روشنی عطا کرتی ہیں ۔ ’دھرتی ماں ‘ اور شیو کے پیکروں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ فکری اور جمالیاتی تجربوں کی آمیزش نے کتنی نعمت عطا کی ہے،دراوڑی عبادت گاہوں اور مندروں کی تعمیر اور ’رقص‘ اور ’موسیقی‘ میں آریائی جمالیات کے نقوش اور آہنگ جذب محسوس ہوتے ہیں کچھ اس طرح جیسے سب ایک ہی قوم کے تجربے ہوں ، انہیں علیحدہ کر کے دیکھنا ادھوری سچائی کو دیکھنا ہے۔ ’بدھ جمالیات‘ کی اپنی انفرادی خصوصیات جتنی بھی واضح ہوں ، ہندو تفکر، اور ہندوستانی جمالیات نے ’بدھ ‘ بودھی ستوا، مایا، تارا وغیرہ کے پیکروں اور استوپوں اور بدھ ویہاروں کی تخلیق میں اپنی اعلیٰ روایات اور اپنے کلاسیکی آہنگ کو شدّت سے جذب کیا ہے خود بدھ جمالیات نے انہیں جذب کر کے اپنی اعلیٰ تکمیل کا احساس بخشا ہے! مغل جمالیات مسلمانوں کے ہزاروں برسوں کی تجربوں کی عظیم تر علامت ہے۔ اس کا رشتہ ایک طرف وسط ایشیا سے ہے اور دوسری طرف اسلامی تہذیب اور تمدن کے اُس سفر سے کہ جس کے سنگ میل کوفہ، بصرہ، ہرات بغداد، تبریز، سلطانیہ اور قاہرہ وغیرہ میں نصب ہیں ، اس کا رشتہ ہندوستان کے اُن مسلمانوں کے جمالیاتی تجربوں سے ہے جو مغلوں سے قبل آئے اور اپنی فکر و نظر اور اپنی جمالیات کے ساتھ ہندوستانی جمالیات میں جذب ہو گئے، یہ بھی سچائی ہے کہ مغل جمالیات کا گہرا با معنی رشتہ ہندوستان کے فنّی اور جمالیاتی تجربوں سے اس طرح قائم ہوا کہ انہیں علیحدہ کر کے دیکھنا ممکن نہیں ہے، اپنی امتیازی خصوصیتوں کے باوجود مغل جمالیات، ہندوستانی جمالیات میں جذب ہے اور اس کا ایک انتہائی سنہرا باب ہے،مغل جمالیات نے ہندو بدھ جمالیات سے گہرا رشتہ قائم کیا جس کی آفاقیت کا احساس مسلمان فنکاروں کو شدت سے ہوا تھا۔

بر صغیر میں تخلیقی آرٹ کا رشتہ اپنی مٹی اور اپنی تہذیب سے بہت گہرا رہا ہے، قدیم فنِ تعمیر، فنِ مجسمہ سازی، فنِ مصوری اور فنِ موسیقی وغیرہ دھرتی سے گہرے تعلق کی خبر دیتے ہیں ۔ ہندوستانی جمالیات مادّی تجربوں کے جانے کتنی جہتوں سے آشنا کرتی ہے، مذہبی اور متصوفانہ تجربے ان ہی تجربوں کے پہلو ہیں ، گہرے مذہبی اور متصوفانہ تجربوں نے دراصل ، انسان ، اُس کے جسم اور مٹی کے تئیں اور بیدار کیا ہے، جمالیاتی وحدت کا بنیادی تصوّر بھی مادّی تجربوں سے پھوٹا ہے، وہ فنّی نمونے جو بظاہر مذہبی خیالات اور تصورات کی شدّت کو پیش کرتے ہیں ، انسان کی مادّی زندی اور عہد اور ماحول کے تجربوں سے سرشار ہیں ۔ اجنتا، امراؤتی، سانچی اور بھارہت کے جمالیاتی پیکراسی دھرتی سے اُبھرے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، مندروں کی بنیادیں زمین میں پیوست ہیں ، دیوی دیوتاؤں کے جلوے زندگی کے جلال و جمال کو نمایاں کرتے ہیں ، انسان کے جسم کا حُسن ہی مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے، جوانی ہو یا سندرتا، چہرے کی خاموشی ہو یا ہونٹوں کی دلکشی ، سوچنے کا انداز ہو یا مسکراہٹیں ، سب انسان کی بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ ہی نمایاں ہیں ، ہندو بُدھ اور جین پیکر زمین کے جلال و جمال کو لیے حُسن کا اعلیٰ معیار پیش کرتے ہیں ۔

ہندوستانی سماج میں جسم ، زمین اور جنگل اور پرندوں ، جانوروں اور پھولوں کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے، ان ہی کے ذریعہ کائنات اور روحانی اقدار کو پہچاننے اور ایک جمالیاتی وحدت کو محسوس کرنے کا شعور پیدا ہوا ہے، مختلف علاقوں کے عوامی جمالیاتی رجحانات نے اس شعور کی آبیاری میں بڑا حصّہ لیا ہے، انسان کے جسم کو مٹّی کے برتن  (GHATA)سے تعبیر کیا گیا کہ جسے آگ پر پکا کر پختہ کرنا ضروری ہے ’یوگ‘ کا ایک قدیم ترین تصوّر یہ رہا ہے کہ یوگ کی آگ ہی سے اس برتن میں پختگی پیدا ہوسکتی ہے، ہتھ یوگ، (HATH YOGA)کی بنیاد اسی تصور پر ہے، شیو جو ایک انتہائی قدیم ترین حسّی جمالیاتی پیکر ہیں ، دھرتی کے تمام مظاہر کا سر چشمہ ہیں ، زمین اور جسم کے تعلق سے تمام خیالات اور تصورات اسی سرچشمے تک پہنچے ہیں ، وہی پہلے اور سب سے عظیم یوگی ہیں کہ جنہوں نے پاروتی کو یوگ کے رموز و اسرار سے آگاہ کیا تھا، پہاڑوں کی بلندیوں سے یہ رموز سرسراتے ہوئے نیچے آئے اور جسم کی کچّی مٹی اور ’یوگ ‘ کی آگ اور اس کی تپش کی معنویت کا احساس ملا، عوامی زندی میں یہ قصّہ یوں ہے کہ جب شیو پاروتی کو یوگ کے رموز سے آشنا کر رہے تھے تو قریب ہی تالاب میں ایک مچھلی نے اُن کی باتیں سُن لیں ، دوسرے جنم میں یہی مچھلی ’’متسیا گرو‘‘ یا گرو متسیا ’’(GURU MATSYENDRANATH)کے پیکر میں ڈھل گئی (متسیا (MATSYA) کے معنی ہیں مچھلی! برہمنوں نے گرو متسیا کو، آدی ناتھ،   (ADINATH)کا نام دیا ہے گرو گور گھشا ناتھ اِن ہی کے چیلے تھے، ناتھ نپتھیوں نے ان کے بُت تراشے اور بر صغیر کے جانے کتنے مندروں کو اُن سے منسوب کر دیا)

اپنے وجود اور اپنی ذات کو پہچاننے کا جو طویل سلسلہ قائم رہا ہے اُس سے ہندوستانی جمالیات کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہوئی ہیں اور جلال و جمال کے مظاہر وجود میں آئے ہیں ، جسم، وجود، ذات اور دھرتی کی پہچان ہی بنیادی سچائی ہے۔

جسم وجود اور ذات کی توانائی کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے دھرتی کے ایک انتہائی خوبصورت پھول، کنول کی علامت ہی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ انسان کے ذہن کی توانائی کے تئیں ایک عجیب و غریب بیداری رہی ہے ، کنول چکر اور جمالیاتی وحدت کا بھی معنی خیز علامّیہ بنا رہا ہے، ’’بیج منتر‘‘ (اوم) کی آواز کا تعلق بھی وجود کے آہنگ سے ہے، عبادت اور مراقبے میں بھی جسم ہی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ’’اجنا چکر‘‘  (AJNA CHAKRA)کی سطح تک جسم اور ذہن کی توانائی کے ساتھ ہی پہنچا جا سکتا ہے ذہن کی توانائی کو ایک نقطے یا بندو کی صورت میں محسوس کیا گیا ہے جو پھیلتا ہے مظہر بنتا ہے اور اشیاء و عناصر کی جمالیاتی وحدت کے ہمہ گیر چکر کو پالیتا ہے، ہندوستانی جمالیات نے ’وژن‘ کو بڑی اہمیت دی ہے اس لیے کہ اس کے تحرک سے زمان ومکاں کی تمام زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں سورج اور چاند دونوں وجود میں جذب ہو کر اس کا حصّہ بن سکتے ہیں ، جسم کے چکر  (CHAKRAS)ذہنی صلاحیتوں کے تئیں بیدار کرتے ہیں جن سے تمام مادّی اشیاء و عناصر گرفت میں آ جاتے ہیں ۔

ہندوستانی فنون میں صرف ’’موتف‘‘ (MOTIFS)کا مطالعہ کیجئے تو اس سچائی کا علم ہو گا کہ فن کاروں نے اپنی مادّی زندی کی علامتوں کو کتنی اہمیت دی ہے، درخت ، پودے ، پھول ، پرندے ، جانور، اور انسانی جسم بنیادی ’موتف‘ ہیں جن میں معنوی جہتیں پیدا کی گئی ہیں ۔ ’پانچ عناصر‘ یا پنچ مہا بھوت ‘‘ (PANCH MAHABHUTA)یا ’’پنچ تتوا‘‘۔ (PANCH TATWA)کی فلسفیانہ سطحیں بعد میں قائم ہوئی ہیں ، زمین، پانی، آگ، ہوا اور آکاش کو اپنے وجود کے اندر اور اپنے وجود کے باہر محسوس کرنے کا عمل بہت ہی قدیم ہے، یہ تصور بہت ہی پُرانا ہے کہ انسان اور تمام مادّی اشیاء و عناصر کی تخلیق ان عناصر سے ہوئی ہے، یہ عناصر ہر لمحہ سامنے موجود تھے، قدیم نقشوں اور تصویروں میں ان کی علامتیں موجود ہیں ، اقلیدی نقوش اُبھارتے ہوئے اِن کی سچائیوں کا احساس دیا گیا ہے، مربعوں ، زاویوں ، دائروں سے اور لفظوں سے انہیں سمجھایا گیا ہے، پرانے فنون اور خصوصاً قبائلی آرٹ میں اِن کے موتف  (MOTIFS)موجود ہیں ویدوں اور اُپنشدوں کی روشنی میں ان کی مذہبی، روحانی اور فلسفیانہ سطحیں قائم کی گئی ہیں ہندوستانی فنون میں ’’پانچ عناصر‘‘ کو جسم کے تعلق سے جانا پہچانا گیا اور ان کے خاکوں میں مناسب رنگ بھرے گئے، جو خاکے بنے وہی فنّی اسالیب کی تخلیق کے محرّک ثابت ہوئے، غور کیجئے تو محسوس ہو گا کہ ابتدائی ہندوستانی آرٹ کے اسالیب بہت صاف سادہ اور واضح ہیں ، جب یہ اسالیب تمثیلوں سے مزّین ہوتے ہیں تو جانے کتنی جمالیاتی جہتیں پیدا ہو جاتی ہیں ، فن کاروں نے مرّبع،  (SQUARE)(زمین کی علامت) بنا کر زمین اور زندگی کے تحفّظ کا احساس بخشا اور پھر ان میں رنگ بھر کر یا ان کے اندر نقش اُبھار کر دل کی دھڑکنوں کا رشتہ زندگی کے آہنگ سے قائم کر دیا، دھر ان (DHARANA) دھیان (DHAYANA)اور سمادھی (SAMADHI)سب زمین اور جسم، ذہن اور ذہن کی توانائی کے کرشمے ہیں یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ انسانی جسم میں سب سے اہم نفسی مرکز ابروؤں کے درمیان پیشانی کا حصّہ ہے جہاں تلک لگاتے ہیں اور عورتیں بندی ڈالتی ہیں ، اس کی علامت بھی کنول ہے –’اجنا چکر ‘  (AJNACHAKRA)کی فلسفیانہ بنیادیں بعد میں قائم ہوئیں ، ویدوں کی تخلیق سے قبل اس کی روایات موجود تھیں ، ذہن کی توانائی کے تحرّک کو بہت پہلے محسوس کیا گیا ’بندو‘ یا ’بندی‘ میں نمایاں کر کے اس کی ایک جمالیاتی صورت اُبھاری گئی، بنیادی طور پر یہ انسان کے جسم اور اُس کے وجود کی عظمت اور بزرگی کا اشاریہ ہے یہ نشان حیات و کائنات کی وحدت کی علامت ہے، تانتر نے اس نفسی مرکز کو انسان اور شیو کی وحدت کی منزل سے تعبیر کر کے اسے جتنا اہم اور معنی خیز بنا دیا ہے اس کی ہمیں خبر ہے۔

’بندو‘ نے بھی اپنے طور پر ’’سورج‘‘ سے جسم اور وجود کا ایک پُر اسرار رشتہ قائم کیا ہے، سورج کے سات رنگوں اور ان رنگوں کے ارتعاشات –   (VIBRATIONS) کا غیر معمولی لاشعوری اور شعوری احساس رہا ہے، سورج ، کی عبادت کرتے ہوئے اُس کے رنگوں کے ارتعاشات اور آہنگ کو انسان کے جسم کے ارتعاشات اور آہنگ سے قریب تر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہندوستانی فنون لطیفہ کی روایات ، دنیا کی قدیم ترین فنی اور جمالیاتی روایات ہیں جو ہر عہد میں اپنے تحرکات اور اپنی تازگی اور شادابی کی اعلیٰ ترین مثالیں پیش کرتی رہی ہیں ، ہندوستانی جمالیاتی روایات کی پہچان تاریخ کے تسلسل میں ہوتی ہے، تازہ اور نئے موضوعات کے پیش نظر بھی اور اظہار کی مختلف جمالیاتی صورتوں کے ساتھ بھی، کثرت کا حسن بھی ملتا ہے اور وحدت کے جلوے بھی نظر آتے ہیں ، فطرت اور انسان انسان اور دھرتی اور انسان اور انسان کے رشتوں نے ہندوستانی فنون کی جمالیات کو ایک تابناک موضوع بنا دیا ہے۔ یکشی (بارہُت) بُدھ ( گپت عہد) اور نٹ راج، فنون کے نقطہ عروج کی تین بڑی سطحیں ہیں ، یکشی کا تعلق زمین سے ہے، بدھ کا انسان کے وجود سے اور نٹ راج کا پوری کائنات سے! ایلورا کے کیلاش مندر سے سارناتھ تک، بارہت اور سانچی سے اجنتا تک اور بادامی سے ایلفینٹا تک ہندوستانی جمالیات کی اعلیٰ ترین اور افضل ترین جمالیاتی اقدار بھی فنکاروں کے تحلیقی شعور اور تخلیقی عمل کو نمایاں کر رہی ہیں یہ انسان کے تجربے ہیں جو حسّی بھی ہیں اور آفاقی بھی، وادیِ سندھ کی تہذیب میں بچّوں کے کھلونوں اور تین چہروں کے یوگی دیوتا، اور دیوی ماں ، سے جو کہانی شروع ہوتی ہے وہ ایک طرف بدھ اور نٹ راج اور اجنتا اور ایلورا کے پیکروں کو لئے اپنی جمالیاتی جہتوں کو نمایاں کرتی ہوئی نقطہ عروج پر پہنچتی ہے اور دوسری طرف ’کنول‘ ’’پہیہ ، اور ’لنگم‘ کی علامتی معنویت کے ساتھ منتہا پر پہنچ کر جمالیاتی پہلوؤں کے تئیں بیدار کرتی ہے۔

کرشنا اور گوداوری ندیوں کے جنوب میں ایک بڑی تہذیب اپنی اعلیٰ روایتوں کے ساتھ موجود رہی ہے، تلگو، تمل، کنڑ اور ملیالم زبانوں میں ادبیات کا ایک بڑا خزانہ ملتا ہے، مذہبی اور فلسفیانہ خیالات کے علاوہ جمالیات کے تعلق سے تجربوں کے ایک طویل سفر کی داستان متاثر کرتی ہے۔ دکن وہ علاقہ ہے کہ جہاں دنیا کی قدیم ترین آبادی کے تعلق سے خبر ملتی ہے۔

قدیم ترین تہذیبی اور تمدّنی زندگی کے نقوش ملتے ہیں ، دکن کے لوگوں نے سمندر کے ذریعہ ہند چین اور انڈو نیشیا وغیرہ کا سفر کیا اور سنہ عیسوی سے قبل اپنے ساتھ ہندوستانی تہذیب کی عمدہ روایات مختلف علاقوں اور ملکوں میں لے گئے۔ سمندر پار جو نو آبادیاں تھیں اُن کے ساتھ تجارت کرتے رہے ،بدھ آرٹ نقطۂ عروج پر پہنچ گیا تو فنکاروں نے غاروں کے اندر عبادت گاہوں کی تعمیر کی، قدیم احساسِ جمال اور جمالیاتی طرزِ فکر اور اسالیب کو آج بھی امراوتی، گوبی اور غاروں کے اندر مندروں اور استوپوں میں دیکھتے ہیں ۔ کرشنا وادی میں بدھ آرٹ نے عمدہ ترین جمالیاتی روایات قائم کر دی تھیں ۔ دکن ہی وہ سب سے قدیم علاقہ ہے کہ جہاں پہلی بار یونانی اور ہندوستانی جمالیات کی خوبصورت آمیزش ہوئی تھی، ستواہن دور میں سمندر کے ذریعہ کئی علاقوں اور ملکوں سے تہذیبی اور تمدنی رشتے قائم تھے، یونان اور روم سے دکن کے باشندوں کے تجارتی تعلقات بہت ہی قدیم ہیں ، دکن کی مجسّمہ سازی پر یونان اور روم دونوں کی فنکاری کے گہرے اثرات ہوئے ہیں ۔ ستواہن دور کے حاکموں نے جہاں سیاست اور صنعت میں گہری دلچسپی لی وہاں فنون سے بھی گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور فنون کی سرپرستی میں آگے بڑھ گئے۔ چھٹی صدی کے آخر میں پانڈلیوں اور پلوؤں کا دور بھی اہم رہا، ستواہن سلطنت کو کئی حصّوں میں تقسیم کیا گیا اور اس طرح ہر مقام پر ایک تمدنی مرکز اُبھر آیا، کدمبوں ، پلوؤں ، گنگوؤں (جنوبی دکن) ابھیروں اور ترے کو تکوں (شمال مغرب) سالنکیا نوں اوراکش واکوؤں (مشرقی دکن) وغیرہ نے بدھ ازم اور جین ازم کو فروغ دیا، تخلیقی فنکاروں نے فنِ مجسمہ سازی اور رقص، فنِ تعمیر اور فنِ مصوری میں اپنی بے پناہ فنّی صلاحیتوں کا اظہار کیا، بدھ ازم کے ساتھ بدھ فنکار بھی ہند چین ، جاوا، بور نیو، ملایا اور برما پہنچے۔ اسی طرح چالوکیہ خاندان (۶۰۰ء ۔۹۰۰ء کے راجاؤں نے بعض خوبصورت مندر بنوائے، چٹانوں کو تراش کر بھی مندر کی تعمیر ہوئی، بادامی ، ایہوے وغیرہ اُسی دور کی یادگار ہیں ۔ اجنتا کی تصویروں میں اضافہ کیا گیا، چالوکیہ خاندان کے افراد نے جس طرح فنِ تعمیر سے گہری دلچسپی لی اُسی طرح فنِ مصوّری سے بھی اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا، راشٹرکوٹوں نے چٹانوں کو تراش کر مندروں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا، ایلورا کا ’’کیلاش مندر ‘‘ اسی عہد کے فنکاروں کا عمل ہے۔

دکن کے قدیم حکمرانوں نے ادبیات کی بھی بے پناہ قدر کی ہے۔ پانڈیوں اور پلوؤں نے فنِ تعمیر، فنِ رقص اور فنِ مصوری وغیرہ کے ساتھ شاعری اور نثری ادب کو فروغ دے کر ایک مثال قائم کر دی، سنسکرت، تمل اور تلگو زبانوں کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔ حکمراں طبقے کے افراد بھی کنڑ اور تلگو میں شاعری کرتے تھے، ان کے لیے اعلیٰ فنکار و خیالات اور عمدہ اسالیب اور ’ڈکشن‘ کا سرچشمہ سنسکرت زبان و ادب تھا۔ پلّو خاندان کا مہندر وردھن اپنے عہد کا بڑا دانشور گزرا ہے، اپنے عہد ہی میں وہ ایک ’’لیجنڈ‘‘  (LEGEND) بن گیا تھا، اُس کے ’’وحپتر‘‘ دماغ کا ذکر ملتا ہے۔ وہ مصوّر بھی تھا اور موسیقار بھی، فنِ تعمیر پر بھی اُس کی بڑی گہری نظر تھی۔ ’’بھگتی تحریک‘‘ (شیو اور وشنو) کے دور میں عبادت گاہوں اور مندروں کے اسالیب میں تبدیلی آئی، چالوکیہ حکمرانوں نے گیارہویں صدی سے کچھ پہلے اپنی حکومتوں کو مضبوط اور مستحکم کر کے فنون لطیفہ کی سرپرستی میں نمایاں حصّہ لیا۔ چولوں کے شہر آباد ہوئے اور مندروں کی نئی تعمیر ہوئی۔ شیو اور وشنو کے تعلق سے جانے کتنے گیت اور نغمے خلق ہوئے ، نٹ راج کی تخلیق اس عہد کا سب سے اہم اور معنی خیز جمالیاتی نشان ہے! دکّن کے حکمرانوں نے کنّڑ، تمل اور تلگو زبانوں کی زبردست سرپرستی کی، رامائن اور مہابھارت کے ترجمے ہوئے، شاعری کو عروج حاصل ہوا، مذہبی فلسفوں کو پروان چڑھانے میں پیش پیش رہے۔ رامانج کے افکار و خیالات نے گہرے طور پر متاثر کیا، کرشن اور رادھا کی شخصیتوں نے ایک جانب مذہبی شعور کو متاثر کیا اور دوسری جانب فنون کو جلال و جمال بخشا۔ چولوں اور چالوکیوں کے عہد (۹۰۰ء ۔۱۲۰۰ئ) میں فنون لطیفہ نے بڑی ترقی کی، آج بھی اُس دور کے بڑے بڑے خوبصورت مندر اور مجسمے دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں ۔

چوتھی صدی قبل مسیح کی تخلیق ’’تو لکا پیّم  (TOLKAPPIYAM)تمل زبان و ادب کی قدامت کے ساتھ جنوبی ہند کے بعض جمالیاتی رجحانات کی بھی خبر دیتی ہے، اسی طرح نویں صدی عیسوی کی تصنیف ’’کوی راج مارگا‘‘  (KAVIRAJA MARGA) سے کنڑ زبان کے جمالیاتی اسالیب کا پتہ چلتا ہے، تلگو زبان کے لوگ گیتوں کی تاریخ ماضی کے اندھیرے میں پوشیدہ ہے، تلگو لوک گیتوں اور لوک کہانیوں نے تلگو ادب کی آبیاری میں نمایاں حصّہ لیا ہے۔ گیارہویں صدی میں معروف تلگو دانشور اور فنکار ’نینا بھٹ‘ NANNAYABHATTAنے مہا بھارت کا ترجمہ کیا تھا، ملیالم کے متعلق ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کا تعلق تمل کی کسی ترقی یافتہ بولی سے ہے تمل کے ادبی اسالیب پر سنسکرت کے گہرے اثرات موجود ہیں چودھویں صدی عیسوی میں کالی داس کی معروف تخلیق ’میگھ دوت‘ (میگھ سندیسم) کا ترجمہ ہوا تھا، ان تمام زبانوں میں تمل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس کے ذریعہ دراوڑی تہذیب اور اس تہذیب کی جمالیات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس زبان کو قدیم ترین روایات ہندوستانی تہذیب و تمدن کی بنیادیں مستحکم کرتی ہیں ، آریائی اور دراوڑی جمالیات کی آویزش اور آمیزش جس طرح روحانی اور دانشورانہ سطحوں پر ہوئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ آریائی فکر و نظر نے دراوڑی فکر و نظر کو یقیناً شدت سے متاثر کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ دراوڑی فکر و نظر نے آریائی تصورات اور افکار و خیالات کو اپنی گہری روشنی عطا کی ہے، آریائی رشی منیوں نے ویدی تفکر اور سنسکرت کے رسوں سے آشنا کیا اور دراوڑی تخلیقی فنکاروں نے اپنے دیو تاؤں اور اپنی دیویوں کے پیکروں غاروں کی آرائش و زیبائش اور مندروں کی تعمیر کے ساتھ رقص کی جمالیات سے متاثر کیا، آریائی اور دراوڑی تہذیب کی آمیزش غیر معمولی نوعیت کی تھی، اسی آمیزش سے وہ جمالیاتی وحدت وجود میں آئی ہے جو ہندوستانی تہذیب کی روح ہے، جنوبی ہند میں تہذیبی آمیزش سے قبل شمالی ہند میں بھی آریاؤں اور دراوڑیوں کے درمیان ایک تہذیبی رشتہ قائم ہوا تھا، ویدی دور سے قبل اور ویدی دور کے بعد اس رشتہ کی تاریخ، تمدّن اور جمالیات کے مطالعے میں بڑی اہمیت رکھتی ہے، ویدی سنسکرت میں دراوڑی عناصر موجود ہیں ، اسی طرح آریوں کے عقائد و رسوم، اُن کی اساطیر اور مذہبی تصورات پر دراوڑی اثرات نمایاں ہیں ، شمالی ہند میں تہذیبی آمیزش کی وجہ سے فنون میں جمالیاتی جہتیں پیدا ہوئی ہیں ، ہندوستانی جمالیات کی تاریخ میں یہ دور بھی ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتا ہے۔

تہذیبی تعلقات اور تمدنی آمیزش کی داستان کئی صدیوں میں پھیلی ہوئی ہے، کہا جاتا ہے آریاؤں اور دراوڑوں کے تعلقات جو حضرت عیسیٰ سے ایک ہزار سال قبل شروع ہوئے تھے چوتھی صدی قبل مسیح تک قائم رہے ہیں ۔ دکن میں آریا سمندر کے بھی ذریعہ آئے اور وندھیاچل کو عبور کر کے بھی!

بر صغیر میں فنّی اور جمالیاتی پیکروں کی تخلیق کا سلسلہ جانے کب سے قائم ہے، مہنجو دارو اور ہڑپّا کی تخلیقات (جانوروں کے پیکر ہاتھی دانت کی مہریں ، برتن، دیوی نوجوان عورت اور رقص کرتے ہوئے مردوں کے پیکر وغیرہ) پیکروں کی تراش خراش کی روایات کے تعلق سے سرگوشیاں کرتی ہیں ۔ تیسری اور دوسری صدی قبل مسیح کی تاریخ موجود نہیں ہے،ہڑپّا اور مہنجودارو کی ان ہی تخلیقات کی مدد سے ہم بعض تاریخی، مذہبی اور سماجی لہروں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اُس عہد کے بعض موضوعات نے اپنا سفر جاری رکھا ہے جس کی وجہ سے قدیم فنّی اور جمالیاتی روایات کے تئیں آگاہی حاصل ہوتی ہے،بدھ اور ہندو آرٹ میں دو ہزار سال بعد اِن روایات اور اقدار کی پہچان ہوتی ہے۔ نیشنل میوزیم پاکستان (کراچی) برٹش میوزیم (لندن) اور نیشنل میوزیم ہندوستان (نئی دہلی) میں ہڑپّا  مہنجودارو کے جو فنّی نمونے ہیں اُن کے مطالعے سے بر صغیر کی پیکر تراشی کے آرٹ کی تسلسل کی بخوبی پہچان ہو جاتی ہے۔ نیشنل میوزیم دہلی میں ہڑپّا کی تخلیق ’’رقص‘‘ (۲۳۰۰۔۱۷۵۰ق م) اور رقص کرتی ہوئی دوشیزہ‘‘ پاکستان نیشنل میوزیم کراچی کی ’’ماں ‘‘ اور برٹش میوزیم لندن کی وہ مہریں کہ جن پر جانوروں کے پیکر ہیں ، قدیم جمالیاتی تصوّرات اسالیب اور آہنگ کو پیش کرتے ہیں ، ہڑپّا میں اب تک ہزاروں کی نقاشی میں فنکاروں کا احساس جمال توجہ طلب ہے ، ہر جانور کا اپنا حُسن ہے، کچھ علامتیں مثلاً دائرے نقطے اور سوایتکا کی صورتوں کو لیے نقشے اور پیپل کے درخت کے پتّوں کے نقش ، فنّی اور جمالیاتی روایات کے تئیں بیدار کرتے ہیں ۔ شیر، ہاتھی، خرگوش، مگر مچھ، بیل وغیرہ مرکزی پیکرہیں ۔ ہندوستانی فنکاری اور نقاشی اور فنکاروں کی تخلیقی صلاحیتوں کے پیش نظر اب تک یہ ’نقش اول‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ایک مہر پر کسی ’’یوگی‘‘ کا پیکر ہے جسے دیکھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شیو کی صورت ہے، برتنوں پر نقاشی کا عمل بھی جمالیاتی رجحان کو واضح کرتا ہے، اسی طرح کھلونے بھی توجہ طلب ہیں ۔

————

 

ویدوں کی تخلیق کے بعد ہندوستانی مجمسہ سازی اور پیکر تراشی میں ایک انقلاب آ گیا۔ رگ وید (۵۰۰۔۹۰۰ ق ۔ م ) ہندوستانی پیکر سازی کا ایک بہت بڑا سر چشمہ ثابت ہوا۔ آریوں کے احساسِ جمال سے نت نئے پیکر وجود میں آئے۔ چھٹی صدی قبل مسیح بدھ ازم اور جین ازم نے پیکر تراشی کے فن کو جو تحرک بخشا اُس کی دوسری مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ پہلی صدی عیسوی سے بدھ، جین اور ہندو آرٹ نے فن کی منزلوں کو بڑی تیزی سے طے کیا، کشان راجاؤں نے مجسّمہ سازی اور پیکر تراشی کے فن کی سرپرستی کی، شیو، وشنو اور کرشن کے خوبصورت پیکر اور مجسمے خلق ہوئے، دیدوں نے جانے کتنے دیوتاؤں اور جانے کتنی دیویوں کے پیکروں کے تئیں فنکاروں کو بیدار کیا، علاقائی دیوی دیوتاؤں کی صورتیں بھی خلق ہوتی رہیں ، رامائن اور

مہابھارت اور پرانوں نے صورت گری کے لیے جانے کتنے کردار اور واقعات سامنے رکھ دئیے، تخلیقی فنکاروں نے اپنے احساسِ جمال کے ساتھ انہیں نکھارا اور جاذب نظر بنایا۔ گپت راجاؤں (چوتھی۔ چھٹی صدی عیسوی) نے مجسمہ سازی کے فن کو پروان چڑھانے میں جو حصّہ لیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مجسّموں کے ساتھ واقعات بھی پتھروں پر نقش ہوئے۔ قدیم ہندوستانی مجسموں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ فنکاروں کے احساسِ جمال نے صورتوں کو خلق کر کے مذہبی خیالات اور تصورات کی سطح اور بلند کر دی ہے۔ انسانی چہروں کے ساتھ جانوروں اور پرندوں کے پیکر بھی خلق ہونے لگے، انسان اور جانور کے رشتے کو ان کی وحدت میں نمایاں کیا گیا، اسطور سازی میں فنکاروں کی تخلیقی صلاحیتوں نے بھی بڑا حصّہ لیا ہے۔ ایک ہی دیوی اور ایک ہی دیوتا مختلف صورتوں میں جلوہ گر ہو کر مختلف واقعات کے عنوان بن گئے ہیں ۔ مختلف چہرے مختلف واقعات کے ساتھ ملتے ہیں ، فنکاروں نے جمالیاتی سطح پر خالقِ کائنات کو طرح طرح سے محسوس کر کے ان کے مختلف چہرے بنائے ہیں ، اور اُن کے چہروں کے مختلف تاثرات پیش کیے ہیں ،اور اُن کے خارجی اور باطنی تحرک کو نمایاں کیا ہے۔ یہ بڑا غیر معمولی کارنامہ ہے۔ یہ تمام مجسمے یہ احساس اور تاثر دیتے ہیں کہ سچائی ان سے پرے ہے، یہ پیکر اور یہ چہرے دراصل سچائی یا ابدی سچائی کے مظاہر ہیں جو التباس کو بہت حد تک کم کرتے ہیں اور ابدی سچائی کے تئیں بیدار کرتے ہیں ۔

————

 

بدھ جین اور ہندو آرٹ میں انسان کا جسم تخلیقی تحرک کا سب سے اہم ذریعہ بنا رہا ہے، مقدّس پیکروں کو خوبصورت اور زیادہ سے زیادہ جاذب نظر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بنیادی احساس یہ رہا ہے کہ اس طرح حسن اور ابدی حسن کا تعلق قائم ہوتا ہے اور حسن کی وحدت کا شعور حاصل ہوتا ہے۔ جسم کی خوبصورتی اور جسمانی جلوؤں کو طرح طرح سے محسوس کیا گیا، حُسن کو پھیلا کر دیکھنے کی کوشش کی گئی صرف اس لیے کہ الو ہی جمال کی تشریحیں ممکن ہوسکیں ۔ دیوتاؤں کے مجسموں میں بازوؤں اور سینے کی خوبصورتی کو مختلف انداز سے اُبھارنے کی کوشش کی گئی، دیویوں کے مجسموں میں چھاتیوں کو زیادہ بھاری اور پر کشش بنانے کا انداز رہا، کولہے زیادہ اُبھارے گئے، ہر پیکر کو پُر وقار انداز دیا گیا اور ہر جسم کو پر کشش زیورات سے آراستہ کیا گیا۔ الوہی حسن و جمال کو پانے اور محسوس کرنے کے یہ مختلف انداز غیر معمولی نوعیت کے ہیں ، عمدہ اورنفیس مجسموں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے ہر مجسمہ اپنے وجود کے تئیں بیدار ہے اور اُس کی سانس اور روح (پران (PRANA) اُس کی مکمّل گرفت میں ہے، پیکروں کا ہر انداز اپنا اپنا آہنگ رکھتا ہے۔ ہندوستانی مجسّموں میں ’مُدراؤں ‘  (MUDRAS) کو بڑی اہمیت حاصل ہے، مدراؤں کے فن کے خالق بدھ فنکار ہیں جنہوں نے ہاتھوں اور انگلیوں کی معنی خیز حرکتوں کے تئیں بیدار کیا، ہاتھوں اور انگلیوں کے اشاروں کو معنویت بخشے ہوئے ان کی ایک زبان خلق کر دی، ہندوستانی مجسمہ سازی کا یہ اسلوب دنیا کی مجسمہ سازی کی تاریخ میں اپنا ثانی یہیں رکھتا، ہندو آرٹ نے بھی اس اسلوب کو قبول کر لیا، مدراؤں کے ذریعہ تخلیقی فنکاروں نے ہندوستانی جمالیات میں بڑی کشادگی پیدا کی، دیوی دیوتاؤں اور دیویوں کے کردار کا اظہار ہونے لگا، مزاج اور رویّوں کو پہچاننے میں مدد ملنے لگی یوگ اور رقص دونوں نے اس اسلوب کی معنویت بخشی ہے۔

————

 

پہلے باب میں پھیلے ہوئے اور انتہائی تہہ دار نظامِ جمال کے تعلق سے گفتگو ہے، ہندوستانی تہذیب، انسان کی اعلیٰ ترین قدروں کا سرچشمہ ہے، اس تہذیب نے ہر دور میں اعلیٰ اور انتہائی عمدہ صفات و اقدار کا شعور دیا ہے، سب سے اہم تصوّر یا رجحان یوگ وششٹھ کا ہے یعنی تمام مختلف اور متضاد راہیں ایک ہی عظیم سچائی کی جانب جاتی ہیں ، یہ حد درجہ غیر معمولی روّیہ ہے، اس سے ہندوستانی تہذیب کے منفرد مزاج کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ انیک انت کا تصور اور شعور غیر معمولی ہے۔ ہندوستانی تہذیب نے اپنے نظام جمال کو بھی ایک لچک عطا کی ہے، مختلف قوموں اور نسلوں کے جمالیاتی تصورات اس نظام میں جذب ہو گئے ہیں ، جمالیاتی کثرت میں وحدت اور جمالیاتی وحدت میں کثرت کی تصویریں ہر دور میں ملتی ہیں ۔ تمام فنون میں یہ جلوے جاذب نظر بنتے ہیں ۔ ہندوستانی تفکّر میں متضاد خیالات و تصورات کی کمی نہیں ہے لیکن بظاہر مختلف اور متضاد تصورات اور خیالات کسی نہ کسی سطح پر ایک ہی سچائی کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں ، جمالیات کی تاریخ میں یہ واحد نظام جمال ہے کہ جس نے اعلیٰ اور افضل ترین تجربوں کو قبول کرتے ہوئے کسی قسم کی تنگ نظری کا ثبوت نہیں دیا ہے، قلب و نظر کی کشادگی نے اس نظامِ جمال کو ایک قابلِ توجّہ نشان بنا دیا ہے۔ ہر عہد میں جمالیاتی تجربوں کی بہتر آویزش اور آمیزش ہوئی ہے اور صدیوں میں ان کی وحدت سے ایک تاریخ بن گئی ہے۔

’یوگ‘ نے خارج اور باطن کی وحدت کا شعور عطا کیا اور ہندوستانی فکر و نظر اور نظامِ جمال پر اثر انداز ہوا۔ ’’یوگ‘‘ دراصل فرد اور کائنات کی وحدت کا نام ہے۔ ’کنڈنی یوگ‘ نے انسان کے جسم کے جن چھ خاص مرکزوں کے تئیں بیدار کیا وہ مرکز فنون میں بھی اُجاگر ہوئے، مندروں کی تعمیر میں ان مرکزوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔’تانتروں ‘ کے سات چکروں نے بھی نیچے سے اوپر اُٹھنے کے تئیں حسّی طور پر بیدار کیا ، وجدان اور تخیل کو متحرک کیا۔ وسعت اور بلندی کے حسّی پیکروں نے اجتماعی تجربوں کو اس طرح متاثر کیا، وجدان اور تخیل کو متحرک کیا، وسعت اور بلندی کے حسّی پیکروں نے اجتماعی تجربوں کو اس طرح متاثر کیا کہ تمام فنون متاثر ہوئے، فن تعمیر، فن رقص اور فن موسیقی میں یہ چکر جمالیاتی سطحوں کی صورتوں میں جلوہ گر ہوئے، مکاں ، میں باطن کے نقطے یا ’بندو‘ کو پھیلانے کی خواہش نے فنون لطیفہ کی تخلیق میں نمایاں حصّہ لیا اور تمام فنون کی جمالیاتی اقدار کی تخلیق کی مضبوط اور مستحکم سطحیں قائم کیں ۔

ہندوستانی نظام جمال میں وقت کا میکانکی تصوّر بار بار ٹوٹا ہے، شیو، بدھ اور دیوی دیوتاؤں کی باطنی کیفیتوں میں رقص کے آہنگ کو شامل کر کے بڑی فنکاری کا ثبوت دیا گیا ہے اور یہ پیکر خود جمالیات کا معیار بن گئے ہیں ۔

 

ہندوستانی فنون لطیفہ کے خالق عوام ہیں تمام فنون کا گہرا رشتہ ’سماجی‘ اقتصادی نفسی اور حسّی زندگی سے ہے۔ ہر عہد کی تمدنی زندگی کا انحصار مادّی پیداوار کے خاص تاریخی روّیہ اور انداز پر ہے، ہندوستانی سماج کا تصوّر بھی اسی گہری سچائی سے پیدا ہوتا ہے۔ ’’ہندوستانی جمالیات‘‘ کا گہرا باطنی رشتہ قدیم نسلی اور قبائلی زندگی کے عقائد اور توہمات ، سماجی اور مذہبی تصورات اور تمدنی اندازِ فکر سے قائم ہے۔ مختلف علاقوں میں چھوٹے چھوٹے کلچر وجود میں آئے ہیں اور ان کا کردار نسلی اور قبائلی ہے چونکہ ابتدائی تجربوں میں یکسانیت بھی ہے لہٰذا تجربوں میں ایک جمالیاتی وحدت بھی پیدا ہوتی رہی ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ تہذیبیں بنیادی طور پر ’’سماجی ثقافتی‘‘ مرکّبات ہیں جو مختلف عہد اور مختلف علاقوں میں ظہور پذیر ہو کر اپنے وجود کا احساس دیتی رہتی ہیں ، اس عمل میں اُن کی امتیازی تکنیکی ، اقتصادی اور تمدنی خصوصیات کا اظہار ہوتا رہتا ہے، اس باب میں ہندوستانی نظامِ جمال اور عوامی احساسات و جذبات کے گہرے رشتوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چھوٹے چھوٹے کلچر جب ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں تو تجربوں کا تصادم بھی ہوا ہے اور ساتھ ہی تہذیبی تجربوں کی جدلیاتی آویزش اور آمیزش سے نظامِ جمال بھی متاثر ہوا ہے۔ رد و قبول کا نا محسوس سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ اس سچائی پر اصرار کیا گیا ہے کہ ہندوستانی جمالیات میں اگرچہ مذہبی اعتقادات کی اہمیت ہے لیکن یہ تہذیب کی بنیاد نہیں ہیں ، ان ہی بنیاد کے اوپر ایک قوت یا توانائی سے تعبیر کرنا ہی مناسب ہو گا، ہندوستانی تہذیب کا ایک اور روحانی کردار موجود ہے جو اعتقادات اور مذہبی تصورات کے سانچے تیار کرتا رہا ہے لیکن جب یہ ان سانچوں میں ڈھلے ہیں تو اُن کی صورتیں جمالیاتی ہو گئی ہیں ، تصوّرات مذہبی ہونے کے باوجود مذہبی نہیں رہے ہیں ، تہذیب کا روحانی کردار بھی بنیاد نہیں بلکہ نتیجہ ہے! مادّی احساس و شعور نے فینتاسی اور ’’آئیڈیل ازم کی آبیاری میں حصّہ لیا ہے، روحانیت کے احساس و شعور کو اس طرح متحرک کیا ہے کہ مادّی سچائیوں اور مٹی کی خوشبو سے ایک گہرا پُر اسرار رشتہ قائم ہو گیا ہے۔ قدیم ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانی نظامِ جمال کا مطالعہ کرتے ہوئے کلچر کی مختلف اکائیوں پر بڑی گہری نظر کی ضرورت ہے اس لیے کہ یہی اکائیاں آہستہ آہستہ ایک وحدت کا شعور عطا کرنے لگی ہیں ۔ تہذیب اور فنون لطیفہ کے رشتوں کی دریافت کرتے ہوئے مختلف اکائیوں اور اِن کی وحدت پر نظر ضروری ہے، غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ہر ثقافتی اکائی قبیلے یا جماعت کی مادّی اور روحانی عمل کی وحدت کے حُسن ہی کو پیش کرتی ہے۔ ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانی نظامِ جمال میں ثقافتی تخلیقی محنت کا مطالعہ مشکل ضرور ہے لیکن ضروری بھی ہے، اس کے بغیر نظامِ جمال کا مطالعہ ممکن بھی نہیں ہے۔ کلچر صرف ’’مادی‘‘ نہیں ہوتا اور صرف چند خاص پُر اثر روّیوں کے عمل پر منحصر نہیں کرتا اور صرف اُن تحریروں کا نام نہیں ہے کہ جنہیں سماج خاص وقت یا عہد میں ضروری اور اہم قرار دیتا ہے اور جنہیں کچھ افراد منتخب کرتے ہیں ، کلچر انسان کے ماحول کو خوبصورت اور دلکش بنانے کا بھی نام ہے، یہ جلال و جمال کی تخلیق کا سرچشمہ بھی ہے۔

ہندوستانی عوام نے مختلف علاقوں میں زندگی کو زیادہ زرخیز، دلکش، دلفریب اور حسین اور حسین تر محسوس کرنے کی کوشش کی اور یہی وجہ ہے کہ فنونِ لطیفہ کی تخلیق میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے، ’تخلیقی محنت، کے پیش نظر تخلیقات اور اُن کی جمالیات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’تخلیقی محنت ‘ ہی ہے اور ہر شے میں حُسن کو شامل کرنے کی آرزو کہ جن سے ایلورا، اجنتا، ایہوے اور کھجوراہو اور بھرت ناٹم، کچی پڑی اور کتھا کلی کی تخلیق ہوئی ہے۔ تمام عظیم جمالیاتی تجربوں کے پس منظر میں عوامی تحرک کی ایک تاریخ موجود ہے۔

دوسرے باب میں ’’ہندوستانی فنونِ لطیفہ اور عوامی حسیّات ‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے، ابتداء میں ایک بنیادی امتیازی پیکر ’ناگ‘ پر گفتگو کی گئی ہے، جہاں عوامی عقائد اور توہمات کے  بطن سے فنون کا جنم ہوا ہے وہاں فنّی احساس و شعور نے بھی عقائد اور توہمات اور نئے مذہبی خیالات کو جنم دیا ہے۔ ہندوستانی تہذیب میں ’سانپ‘ یا ’ناگ‘ ایک متحرک معنی خیز پیکر رہا ہے لہٰذا فنون میں بھی یہ حسّی پیکر مختلف قصّوں اور کہانیوں اور علامتی معنویت کو لیے موجود ہے۔ عوامی زندگی میں اسے ہمیشہ بڑی اہمیت حاصل رہی ہے، فنونِ لطیفہ میں اس بنیادی حسّی پیکر کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ عبادت کی مانند فنون میں بھی اس کی حیثیت ایک ’کلٹ‘ کی ہے۔ ’ناگ‘ ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانی جمالیات کا ایک فکری سرچشمہ ہے، ہندوستانی فنون نے اس پیکر اور اس پیکر کی جہت دار معنویت کو طرح طرح سے قبول کیا ہے، ’ناگ پوجا، میں محض احساس اور عمل نہیں بلکہ اظہارِ ذات بھی ہے کہ جس کا گہرا اثر فنون پر ہوا ہے۔ ’ناگ‘ نے تمدنی قدروں کی تشکیل میں حصّہ لیا ہے، سماجی اور اخلاقی رویوں کی تشکیل کی ہے، ’ناگ‘ نے زمین اور آسمان میں ایک حسّی رشتہ قائم کر کے زندگی اور کائنات کے حُسن کی وحدت کا عرفان عطا کیا ہے ، ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانی جمالیات میں یہ ایک غیر معمولی پیکر ہے جس کی عبادت کی تاریخ ماضی کی تاریکیوں میں پوشیدہ ہے۔ بدھ ازم میں بھی یہ پیکر شامل ہوا ہے یہ صرف ’’مذہب اور عقیدہ نہیں بلکہ ایک انتہائی معنی خیز جمالیاتی علامت اور تمثیل بھی ہے۔

اسی باب میں (ب) پھولوں اور پودوں کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ پھول اور پتے داخلی تہذیب کے اشارے ہیں ہندوستانی عوام نے اِن کے ذریعہ اپنے احساسِ جمال کو نمایاں کیا ہے، پھولوں اور پودوں کے رنگ اہمیت رکھتے ہیں ، عوامی احساس و شعور نے پھولوں اور پودوں کی خوشبوؤں اور ان کے رنگوں اور پیکروں سے ہمیشہ گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے احساس جمال کو ظاہر کیا ہے۔ ’کنول‘ صرف ایک پھول ہی نہیں ، ایک تہہ دار علامت بھی ہے کہ جسے بدھ ازم نے بھی شدت سے قبول کیا۔ عوامی قصوں اور کہانیوں میں ہندوستان کے خوبصورت پھول اور پودے کرداروں کی مانند عمل کرتے ہوئے ملتے ہیں ، پھولوں اور پودوں ، درختوں اور رنگوں کی جمالیاتی قدروں کا بھی ’’سماجی، تاریخی‘‘ کردار ہے۔ معاشی زندگی سے بھی ان کا گہرا باطنی رشتہ ہے۔

ہندوستانی سماج میں بھی لکیروں ، خاکوں اور رنگوں سے عوامی احساسات اور جذبات کا گہرا رشتہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ ینتروں کے وجود کی داستان بھی ماضی میں پوشیدہ ہے۔ نیتروں کی جمالیاتی حیثیت بھی غور طلب ہے، ہندوستانی تہذیب میں ’’صورت‘‘ یا ’فارم‘ ابتدا سے اپنی زبان رکھتی ہے، لکیریں ، دائرے وغیرہ موضوع بنے رہے ہیں ۔ فن مجسمہ سازی اور فنِ تعمیر دونوں کی بنیاد صورتوں کی معنویت پر ہے۔ فنِ موسیقی اور فن رقص میں صورتوں کے حسّی پیکر ہی اہمیت رکھتے ہیں ۔ ینتروں کی مذہبی اور فلسفیانہ سطحوں کے ساتھ اِن کی جمالیات پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ منتروں کے شامل ہو جانے سے ’’ینتر‘‘ میں پُر اسرار توانائی پیدا ہو جاتی ہے۔ اقلیدسی صورتیں ، رنگ اور منتر سب مل کر تخلیقی اسرار بن گئے ہیں کہ جن سے تخلیقی بیداری میں بڑی مدد ملی ہے۔ ’حقیقت کو گرفت میں لینے اور حقیقت کی وحدت کو سمجھنے کا یہ شعور مذہبی اور فلسفیانہ تصورات کے لیے بنیاد بنا ہے۔ ہندوستانی تہذیب اور اس ملک کے نظام جمال تک ان کی روایات کی بڑی اہمیت ہے۔ تخلیقی عمل اور جمالیاتی فکر و نظر کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے اسرار کے خارجی اور داخلی دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے، یہاں ’ینتروں ‘ اور منتروں کے رشتوں پر گفتگو کی گئی ہے۔ ’حقیقت‘ احساسِ حقیقت اور فنکار کا موضوع بنیادی طور پر اسی نوعیت کا ہے۔ ’رنگاؤلی‘ اور مصوری نے انہیں فنون کی بنیاد بنایا ہے، ایک صورت سے کئی صورتیں خلق کی ہیں ، ہندوستانی تمدن میں ، منتروں ، کے تئیں بڑی بیداری رہی ہے، منتروں کی سحر انگیزی نے تخیلی فکر اور فنکاروں کے ’وژن‘ کو متاثر کیا ہے۔

(ج) میں رنگوں پر گفتگو کی گئی ہے، عوامی ذہن اور رنگوں کا تعلق کئی لحاظ سے اہم ہے اور فنون کے مطالعے میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستانی ذہن رنگوں سے ہمیشہ وابستہ رہا ہے۔ عوامی احساسِ جمال کا یہ کرشمہ تھا کہ قدیم ترین ’ینتروں ‘ کے لیے رنگوں کے سفوف تیار کیے گئے، ہر رنگ کی اپنی معنویت  ہے، دیوی دیوتاؤں کے بھی اپنے رنگ ہیں ، منتروں کے بھی اپنے مخصوص رنگ ہیں ، ہندوستانی جمالیات میں ، رنگ، ایک مستقل عنوان ہے، بنیادی رنگوں کی علامتی جہتیں اپنی معنویت رکھتی ہیں ۔ مصوّری کے فن میں رنگوں کا مطالعہ کرتے ہوئے رنگوں کی جمالیاتی روایات مدد کرتی ہیں ۔ رنگوں کے تئیں ایسی بیداری دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی، بنیادی جمالیاتی حسّی روایات میں ، ناگ ، اور ینتروں ، اور منتروں کی طرح رنگوں کی روایات بھی زندہ اور متحرک روایات ہیں ۔ مختلف علاقوں کی تصویر کاری کے پس منظر میں ’’منڈل ’’ینتر‘‘ اور ’رنگاولی‘ وغیرہ کی قدیم روایات کسی صورت نظر انداز نہیں کی جا سکتیں ۔

تیسرا باب ’’کلا‘‘ بنیادی جمالیاتی تصور ہے۔‘ تخلیقی آرٹ کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے تحلیق کے پُر اسرار عمل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’ہندوستانی جمالیات‘ میں ’کلا‘ کو ایک پر وقار درجہ حاصل ہے۔‘ ہندوستانی علماء نے اساطیر کی پُر اسرار فضا میں جمالیاتی تجربوں کی کیفیتوں پر اپنے خاص انداز سے سوچا تھا، یوگ ، کی توانائی اور حُسن کی تخلیق پر اُن کی نظر غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے، ہندوستانی علمائے جمالیات نے ’کلا‘ سے تخلیقی آرٹ کی مختلف تشریحیں کی ہیں ۔ ’کلا‘ کی جمالیاتی اصطلاح کا مطالعہ فنونِ لطیفہ کی جمالیاتی قدروں اور اعلیٰ ترین فنّی تجربوں کا مطالعہ ہے۔

چوتھے باب میں جمالیاتی نقّالی کا ایک جائزہ لیا گیاہے، ہندوستانی جمالیات میں نقّالی کا تصور یونانی تصوّر سے مختلف ہے’وجود‘ اور شعور اور تجربہ کی وحدت، حسن مطلق کا عرفان عطا کرتا ہے۔ اس باب میں ’کلا‘ یا تخلیقی آرٹ کی وضاحت کی گئی ہے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی جمالیات میں تجربوں کی سطح کتنی بلند ہے اور فنّی تخلیق کو کتنا بر تر اور افضل تصور کیا گیا ہے، آرٹ کی شناخت اُس کائنات سے ہوتی ہے جو خود حُسنِ مطلق کا آئینہ ہے، محسوس ہو گا کہ تخلیقی پیکر تراشی کی سطح کتنی اونچی ہے۔

پانچویں باب میں آہنگ اور آہنگ کی وحدت پر گفتگو ہے، آہنگ کی وحدت کا عرفان غیر معمولی ہے۔ کائنات کے باطن میں جو پُر اسرار آہنگ ہیں ، اُن کا تخلیقی اظہار آہنگ کی وحدت سے ہوتا ہے جو فنون کی روح ہے یہ انتہائی غیر معمولی فکر ہے کہ جس کے مطالعے کے بغیر ہندوستانی جمالیات کے باطن میں اُترنا ممکن نہیں ہے۔

چھٹے باب میں ’وبھو‘  (VIBHAVA) اور ’رس‘  (RASA)کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’نورس‘ دراصل ’’نووی بھوہیں ‘ رسوں کو نام دینا مناسب نہیں ہے۔ ’وبھو، رسوں کی تخلیق کی ذمہ دار ہیں ۔ اس باب میں جلال و جمال کے تصورات کے پیشِ نظر ’رس ‘ کو سمجھنے کی کوشش ہے۔

ساتویں باب کا تعلق ’’آنند‘‘ سے ہے، ’آنند‘ کی اصطلاح بھی غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے، یونانی اصطلاح’کتھارسیس ‘  (CATHARSIS) اور ’آنند‘ میں فرق ہے۔ ہندوستانی فنون لطیفہ میں انتہائی بلند سطح پر مسرّت اور لذّت حاصل کرنے کی آرزو نے ’’آنند‘‘ کے تصور کو جنم دیا ہے، اعلیٰ اور افضل جمالیاتی تجربہ وہی ہے کہ جس سے ’آنند‘ حاصل ہو۔

آٹھویں باب میں ، اظہار کے حسن‘ پر گفتگو ہے، یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان جمالیات میں اظہار کے حسن کا مطالعہ جمالیاتی تجربوں سے علیحدہ ممکن نہیں ہے اس لیے کہ تجربہ اور اظہار کی وحدت ہی فن ہے۔ ’النکاروں ‘ کی وضاحت کی گئی ہے۔ تشبیہوں اور استعاروں کو تمام فنون میں اظہار کے حسن کی بنیادی اقدار سے تعبیر کرنے والے علماء نے بلا شبہ تخلیقی آرٹ کی گہرائیوں کا شعور بخشا ہے۔

ہندوستانی جمالیات کی دوسری جلد کی ترتیب یوں ہے:-

رقص —آفاقی اور کائناتی آہنگ!

موسیقی— تخلیقی آرٹ کے باطن کا آہنگ!

فنِ تعمیر— شیو شکتی کے تحرک کا آہنگ!

مجسّمہ سازی اور مصوّری — جلال و جمال کا آہنگ۔

ہندوستانی تفکّر نے جسم کے آہنگ کو اہم تصور کیا ہے۔’روح کا آہنگ‘ جسم کا آہنگ بن گیا ہے، روح اور جسم کی وحدت نے کائنات کے آہنگ سے پُر اسرار رشتہ قائم کیا ہے ، ہندوستانی جمالیات میں رقص کے اُن پیکروں کی اہمیت زیادہ ہے جو کائنات کے مسلسل اُبھرنے والے مترنم آہنگ کی مابعد الطبیعات کے پیکر ہیں ’رقص‘ ’یوگ‘ ہے اور عظیم تر روح ’شیو‘ ہے

جو سب سے بڑا ’یوگی ہے کائنات کے آہنگ کی وحدت سب سے واضح لیکن ساتھ ہی سب سے معنی خیز اور تہہ دار علامت ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں ’رقص‘ کو امتیازی حاصل ہے۔ یہ محض تجریدیت کا کھیل نہیں بلکہ اظہار و ابلاغ کا وہ نقطۂ عروج ہے جہاں ’آنند‘ یا جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے اس باب میں رقص کی جمالیات کے امتیازی پہلو پیش کیے گئے ہیں ۔ اور اس کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے، بھرت ناٹم، شیو لیلا ناٹم، برہم میلہ، کچی پُڑی، کوراؤنجی ، کھتاکلی، موہنی آٹم، کھتک، اور ’منی پوری‘ کی خصوصیات اور اُن کی جمالیاتی جہتوں کو کسی حد تک واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دوسرا باب’ہندوستانی موسیقی کی جمالیات ‘ کا ہے۔ موسیقی کا تخلیقی آرٹ کے باطن کا آہنگ تصور کیا گیا ہے۔ ’رقص ‘ مصوری مجسمہ سازی اور تعمیر سازی، سب کے باطن میں اس کا آہنگ موجود رہتا ہے۔‘ ہندوستانی جمالیات میں اس کا مقام بھی بہت بلند ہے۔‘

ہندوستانی موسیقاروں نے فطری ارتعاشات کو سمجھتے ہوئے جو نفیس اور نازک مدراج قائم کیے ہیں وہ توجہ طلب ہیں ۔

تیسرے باب کا تعلق ’’فن تعمیر کی جمالیات‘‘ سے ہے جس میں ’شیو شکتی‘ کے تحرک کے آہنگ کو پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے، تاریخی جائزہ لیتے ہوئے ’دائرہ‘ مربع اور مثلث وغیرہ کی جمالیات پر گفتگو کی گئی ہے، ریاضیاتی اور ہندی سچائیوں کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ یوگ اور فن تعمیر کے رشتے کی وضاحت سے اس فن کی جمالیات کا مطالعہ اور زیادہ دلچسپ اور فکر انگیز بن جاتا ہے۔

آخری باب کا تعلق فنِ مجسمہ سازی اور فنِ مصوری کی جمالیات سے ہے۔ ان فنون کا تاریخی جائزہ لیا گیا ہے۔ اور حسّی حقیقت نگاری اور حقیقت پسندی پر اظہار خیال کیا گیا ہے ’عظیم ماں ‘ عورت اور درخت، اردھ نار ایشور، عورت، متھن، شیو، شیو لنگ، نٹ راج، وشنو، گنیش، ہمالہ، کیلاش، گنگا، بدھ، بودھیستو، اور چند دوسرے پیکروں کی تخلیق اور اُن کی جمالیاتی جہتوں کو موضوع بنایا گیا ہے، ہندوستانی مجسّمہ سازی اور مصوّری میں مختلف نسلوں کے تجربے ملتے ہیں ، عمدہ تخلیقی پیکروں کے علاوہ مصوّری کی امتیازی خصوصیات اور اس فن کی جمالیاتی جہتوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

ہم اردو والوں کی بد نصیبی یہ ہے کہ سنسکرت اور پراکرتوں سے نا واقفیت کی وجہ سے ان زبانوں کی عمدہ اور اعلیٰ روایات اور تخلیقات تک براہِ راست پہنچ نہیں ہے مجھے بھی انگریزی کتابوں اور ترجموں کا زیادہ سہارا لینا پڑا اور ان کے ذریعہ سچائیوں کو سمجھتے ہوئے اپنی رائے قائم کرنا پڑی۔ ہندوستان کے فنون کے مطالعے میں عالموں اور محققوں کی کتابوں کا سہارا ضروری تھا۔ اکثر کتابیں بہت قیمتی ہیں ، ان سے بہت کچھ حاصل تو ہوا لیکن ان کے مطالعے کے بعد مختلف تصورات اور عوامل ، رجحانات اور وژن وغیرہ پر اپنی رائے قائم کرنا اور ان پر اظہار خیال کرنا آسان کام نہ تھا، کئی ایسی بنیادی سچائیوں کا علم ہوا کہ جن کا ذکر پہلے کہیں نہیں ملتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جمالیاتی تجربوں تک براہ راست پہنچنے کی تڑپ پریشان کرتی رہی لہٰذا بنیادی جمالیاتی تجربوں اور ان کی مختلف جہتوں اور اُن کے مختلف پہلوؤں کو اپنے طور سمجھنے کے لیے غاروں استوپوں اور مندروں کا خود مطالعہ کیا۔ فنِ تعمیر اور فن مجسّمہ سازی اور مصوّری کے نمونے خود دیکھے۔ ہندوستان اور نیپال کے غاروں ، مندروں ، استوپوں اور میوزیم کو کتابوں کی طرح پڑھنے کی کوشش کی، اپنے طور جمالیاتی تجربوں کا تجزیہ کیا، اس طرح براہ راست مطالعہ کرتے ہوئے اپنے ملک کے عظیم ماضی کی عظمت کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوئی، بعض ایسی جہتوں کا علم ہوا کہ جن کا ذکر کتابوں میں نہیں ملتا، مختلف علاقوں کا سفر میرے مطالعے کا سب سے اہم اور مفید ذریعہ ثابت ہوا۔

کئی فنکاروں سے براہ راست گفتگو کی اور موسیقی اور رقص کے سلسلے میں معلومات حاصل کرتا رہا۔ موسیقی کی محفلوں میں بیٹھا اور بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی۔

رقص کی اداؤں ، مدراؤں اور جہتوں کا مطالعہ کیا۔ ’یوگ‘ سے میری دلچسپی بہت بہت پرانی ہے۔ ۱۹۶۰ء میں ایک گرو سے ’’یوگ‘‘ کی معمولی سی تربیت حاصل کی تھی اور اُن کی صحبت میں بیٹھ کر گھنٹوں اُن کی پُر مغز گفتگو سُنی تھی۔ اُن سے روز صبح ’یوگ‘ پر بات چیت کرتا، وہ میرے سوالات کا جواب دیتے اور میرے علم میں اضافہ ہوتا۔ رفتہ رفتہ میری دلچسپی بڑھتی گئی۔ جب اس موضوع پر کتابیں پڑھیں تو اندازہ ہوا کہ یہ اپنے ملک کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اپنے تجربوں کا ذکر یہاں غیر ضروری ہو گا۔ صرف یہ کہنا چاہوں گا ’یوگ‘ کی عظمت کے احساس کے ساتھ جب میں ہندوستانی فنون کا مطالعہ کرنے لگا تو محسوس ہوا کہ یہ سب ’یوگ‘ کے اعلیٰ احساس و شعور کے نتائج ہیں ۔

۱۹۵۴ء میں جب میں اُڑیسہ میں تھا تو بھدرک ڈگری کالج میں سنسکرت زبان و ادب کے اُستاد تھے پروفیسر بنرجی! اُنہوں نے مجھے پہلی بار ینتروں کو سمجھایا تھا۔ اُن کے پاس بیٹھ کر میں نے سنسکرت ادب کے ارتقا اور تانتروں کے رموز و اسرار کو کسی حد تک سمجھنے کی کوشش کی تھی وہ خود ’تانترک‘ تھے۔ مہابھارت ، رامائن ، اُپنشد اور ویدوں پر اُن کی نظر بڑی گہری تھی، اُن سے میں ان مقدس کتابوں کے ترجمے سنتا، سوالات کرتا اور وہ میرے سوالات کا جواب دیتے،تشریحیں کرتے، وہ کالی کے بھگت تھے، اُن کے ساتھ میں راتوں میں شمسان گھاٹوں پر بھی گیا ہوں اور کئی تجربوں کا مشاہدہ کیا ہے، شیو اُس زمانے میں میرے ذہن میں اپنی جمالیات کے ساتھ رچ بس گئے تھے۔ کشمیر آیا تو شیو کو اور زیادہ قریب محسوس کیا، تانتروں کی قدر و قیمت کا احساس بڑھا، ان ذرائع کو اپنے تجربوں کا ایک سرچشمہ سمجھتاہوں ، ان سے جو کچھ حاصل ہوا وہ میرے لیے بہت قیمتی ہیں ۔

اس کتاب کی دو جلدیں اور ہیں ’’ہند اسلامی جمالیات ‘‘ جلد اوّل اور ’’ہند اسلامی جمالیات جلد دوم‘‘۔ پہلی جلد میں اسلامی فنون کی جمالیات پر گفتگو ہے۔ جو ہند اسلامی جمالیات کا پس منظر ہے اور دوسری جلد میں ہند اسلامی جمالیات پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے ان کے بغیر ہندوستانی جمالیات کا مطالعہ مکمّل نہیں ہوسکتا۔

اس موضوع پر کام کرتے ہوئے جن اداروں ، کتب خانوں اور عجائب گھروں اور تاریخی مقامات سے مدد ملی ہے اُن میں چند یہ ہیں :

اقبال لائبریری، کشمیر یونیورسٹی               سری نگر (کشمیر)

کتب خانہ ، شعبہ اردو، کشمیر یونیورسٹی        سری نگر (کشمیر)

بہار یونیورسٹی لائبریری            مظفر پور (بہار)

پٹنہ یونیورسٹی لائبریری                پٹنہ     (بہار)

پرنس آف ویلز میوزیم آف و سٹرن انڈیا                  بمبئی     (مہاراشٹر)

اسٹیٹ میوزیم           بھونیشور            (اڑیسہ)

پٹنہ میوزیم                   پٹنہ      (بہار)

دکن کالج             آرکیا لوجی ڈیپارٹمنٹ               پونے    (مہاراشٹر)

راجہ کلکر میوزیم           پونے    (مہاراشٹر)

نیشنل میوزیم                    نئی دہلی

کلکتہ میوزیم (انڈین میوزیم)                    کلکتہ      (مغربی بنگال)

لکھنؤ میوزیم (اسٹیٹ لکھنؤ میوزیم)            لکھنؤ     (اتر پردیش)

سالار جنگ میوزیم      حیدر آباد           (آندھرا پردیش )

اجنتا

ایلورا

سانچی

نالندہ

وکرم شیلا

آرکیا لوجیکل میوزیم               کھجورا ہو (مدھیہ پردیش)

راجگیر

بودھ گیا

سارناتھ

باغ

بھارت کلا بھون          بنارس   (اتر پردیش)

نیپال

نیشنل میوزیم                    کھٹمنڈو

سویام بھوناتھ چیتہ                        (استوپ)

ہنومان ڈھوکا

کماری کا مندر

پشوپتی ناتھ مندر

بودھ ناتھ مندر

لندن

وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم    لندن      (انگلستان)

اسلامک کلچرل سینٹر

گیلیری ۴۲؍۴۷بی

’’دی آرٹ آف اسلام‘‘

وکٹوریہ اینڈ البررٹ میوزیم   لندن     (انگلستان)

ڈیپارٹمنٹ آف انڈولوجی

اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹیڈیز لندن     (انگلستان)

لندن یونیورسٹی

————

 

تلاش و جستجو میں میری رفیقۂ حیات عصمت اکثر میرے ساتھ رہیں ، میری مدد کرتی رہیں ۔ میرے لیے نوٹس تیار کرتی رہیں ۔ نیپال، اڑیسہ ،مغربی بنگال ، مہاراشٹر، بہار اور روس اور وسط ایشیا میں تنہا نوٹس بنانا میرے لیے مشکل تھا، انہوں نے بڑی حد تک میری مشکلوں کو آسان کیا۔ عجائب گھروں اور اجنتا، ایلورا، اور ایلیفنٹا میں بھی انہوں نے قدم قدم پر مدد کی۔ اسی طرح میرے بیٹے ڈاکٹر نصر شکیل رومی اور میری دونوں بیٹیوں ڈاکٹر انجم شکیل اور ڈاکٹر شاہینہ شکیل نے بھی میری بڑی مدد کی، پٹنہ میوزیم ، دہلی میوزیم ، وکرم شیلا، نیپال اور وسط ایشیا میں اُن کے فراہم کیے ہوئے نوٹس میرے کام کے سلسلے میں بڑے مفید ثابت ہوئے ، تینوں روسی زبان سے بخوبی واقف ہیں اس لیے روس میں قیام، بہت قیمتی ثابت ہو ا اور وسط ایشیا سے حاصل کیے ہوئے مواد کو سمجھنے میں اُن سے بڑی مدد ملی۔

شکیل الرحمن

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

(ایک)

 

ہندوستانی تہذیب کا نظامِ جمال

 

 

 

 

 

 

 

 

 

’ہندوستانی تہذیب، انسان کی اعلیٰ ترین اقدار کا سرچشمہ ہے، اس تہذیب نے ہر عہد میں اعلیٰ اور افضل صفات و اقدار کا شعور عطا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی تہذیب اور کلچر کو ’’مانو سنسکرتی‘‘ یا مانو دھرم کے نام سے یاد کیا ہے۔ ہم نے ہمیشہ یہی سمجھا اور سمجھایا ہے کہ ہندوستانی تہذیب اور اس کی ثقافت، آفاقی اقدار کی ترجمان ہے۔ اِس کی آفاقیت کے پیشِ نظر، تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے کبھی غلط نہیں سمجھا۔

ہندوستانی تہذیب اور ثقافت کی معنی خیز اور تہہ دار داستان کب شروع ہوتی ہے، تاریخ ابھی تک نہیں بتا سکی ہے اور اس سلسلے میں ’’پہلے عنوان‘‘ کی تلاش بھی ممکن نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ’انادی‘ (ANADI) ہے یعنی یہ ابتداء کے بغیر ہے! انتہائی پُر اسرار آفاقیت (سناتن) ہے کہ جس کی بے پناہ رومانیت اور جس کے لذّت آمیز ’رس‘ ہی سے محسوسات کی ایک کائنات سامنے آتی ہے۔

ہر عہد میں انسان اور دھرتی اور انسان اور انسان اور کائنات۔ اور فطرت کے رشتوں کی مسلسل تلاش و جستجو نے اپنی سچائی کو پہچانا ہے اور اس معاملے میں ذہن کے دریچے ہمیشہ کھلے رہے ہیں ۔ دوسرے تجربوں کو قبول کرنے اور انہیں اپنے تجربوں سے ہم آہنگ کرنے کا عمل مسل جاری رہا ہے۔

ابدی سچائی یا ایک ہی سچائی کو کبھی کسی نے صفر (شونیہ) سے تعبیر کیا یعنی ’’کچھ نہیں !‘‘ کسی نے اسے ’برہم‘ کہا، کسی نے ’ایشور‘ کسی نے ’شیو‘ اور کسی نے ’بدھ‘ ! کسی نے اسے وقت، یا زمانہ، کہا اور کسی نے اسے ’ذات‘ یا خودی کے نام دیے۔

غور کیجیے تو محسوس ہو گا کہ سب سے اہم تصوّر یا تجربہ، رجحان یا رویہ، ’’یوگ وششٹھ‘‘  (YOGA VASISTHA) کا ہے یعنی مختلف عہد اور زمانے میں اُبھرے ہوئے تمام مختلف اور متضاد راستے ایک ہی عظیم تر حقیقت یا سچّائی کی طرف جاتے ہیں !

یہ رویّہ یا رجحان یا تصوّر اور تجربہ انتہائی غیر معمولی ہے۔ اس سے تہذیب کا ایک منفرد روشن مزاج بنا ہے۔ یہی مزاج ہمیں عزیز تر ہے، یہی مزاج اپنا سب سے عظیم سرمایہ ہے۔ ہم اسے بخوبی پہچانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسے ’’انیک انت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا مفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ عظیم تر سچّائی کے انگنت پہلو ہیں اور سوچنے والوں نے اپنے اپنے انداز سے اسے پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ کوئی ایک پہلو کو پہچانتا ہے اور کوئی دوسرے پہلو کو لیکن ہر صاحبِ نظر نے عظیم تر سچائی کو کسی نہ کسی طرح پہچانا ضرور ہے کسی کی پہچان غلط نہیں ہے۔ لہٰذا ہر پہچان قیمتی ہے۔ اسے اپنی فکر و نظر سے ہم آہنگ کرنا ہی بڑا کام ہے۔ ہم نے یہ کام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اپنی تہذیب کی تاریخ پھیلی ہوئی، تہہ دار اور معنی خیز نظر آتی ہے اور اس میں انگنت تجربوں کی روشنیوں کا جلال و جمال ملتا ہے، اس کے انگنت معنی خیز پہلو ہیں اور ہر پہلو مانند نور ہے۔!

ایسی لچک دنیا کے کسی ملک کی تہذیب و ثقافت میں نہیں ہے۔’انیک انت‘ کے بہتر شعور اور احساس اور اس سچّائی پر مکمل اعتماد کی وجہ سے ہم ایک انتہائی وسیع اور حد درجہ گہرا ’وژن‘ رکھتے ہیں جو تہذیب و تمدن کی تاریخ کے ہر دور میں واضح طور پر محسوس ہوتا ہے اور اپنی اس سچائی کا احساس عطا کرتا ہے۔

 

٭ہندوستان میں مختلف نسلیں اور قومیں آباد ہوتی رہی ہیں ۔ یہاں کی مٹی کے جادو کا کرشمہ ہے کہ تمام قومیں یہاں اس طرح رچ بس گئیں جیسے یہی ان کا وطن ہو، مختلف اور متضاد سماجی، ثقافتی، فنّی اور فکری تجربے موجوں کی طرح ٹکرائے لیکن ایک بڑے سمندر کی لہروں کی مانند سمندر کی عظمت بن کر رہے۔ ایک دوسرے کے تجربوں کی روشنی حاصل ہوتی۔ کچھ لوگ اسے قوّتِ برداشت کہتے ہیں ، اسے قلب و نظر کی وسعت سے تعبیر کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ معاملہ بہت کچھ حاصل کرنے، جاننے اور انسانی اقدار کے پیشِ نظر ایک ساتھ جینے اور اعلیٰ جمالیاتی صفات کے ساتھ زندگی کرنے کی خواہش کا بھی ہے۔

ہندوستانی تہذیب کی بے شمار جہتوں ، افکار و خیالات کے تمام پہلوؤں اور اس کی جمالیات کی تمام وسعتوں اور گہرائیوں کا مطالعہ آسان نہیں ہے۔ چند خاص فکری اور جمالیاتی پہلوؤں سے بنیادی امتیازی رجحانات کی پہچان ہوسکتی ہے۔ آریائی اور غیر آریائی تجربوں کو علیحدہ کرنا بھی آسان نہیں ہے اور اس ملک کے بیش قیمت تجربوں کا مطالعہ بھی اس طرح قطعی مناسب نہیں ہے۔ جب اشیاء و عناصر اور فطرت کے باطنی رشتے پر نظر جاتی ہے اور داخلی آہنگ کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہندوستان کے آچاریہ اور قدیم سوچ والے اپنے وجود اور فطرت کے آہنگ سے پُر اسرار رشتہ قائم کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور آہنگ کی وحدت کا قیمتی تصوّر، رقص، موسیقی، مجسّمہ سازی، مصوّری اور فن تعمیر کے اعلیٰ ترین نمونوں میں شامل ہوتا ہے تو بھلا کون آریا اور کون غیر آریا رہ جاتا ہے!

جب مندروں کی تعمیر میں ’شکتی‘ نیچے سے اوپر جاتی ہے اور ذاتِ لا محدود سے آشنا ہو کر اُس میں جذب ہو جاتی ہے اور تخلیق کا ایک خوبصورت نمونہ سامنے آ جاتا ہے تو مختلف قوموں اور نسلوں کے تجربوں کے اَن گنت جلووں کے باوجود ’’وحدت‘‘ کا احساس اور ’وحدت ‘ کی جمالیاتی صورت پذیری ہی توجہ طلب رہتی ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں جب ’’عظیم تر زندگی‘‘ اور ’’عظیم تر روح‘‘ رقص کرتی ہے تو اس کے آہنگ کی آفاقیت کی پہچان مختلف نسلوں اور قوموں کے تجربوں کے ساتھ اس بڑی سچّائی سے بھی ہوتی ہے کہ وہ سب کس طرح ایک ہی سچّائی کی جانب بڑھتے ہیں ۔ جب ’موسیقی‘ کا آہنگ زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہو کر فطرت کے آہنگ سے رشتہ قائم کرتا ہے اور انتہائی مجرّد جمالیاتی قدروں کی تخلیق ہوتی ہے تو ہم انہیں صرف ایک قوم یا ایک نسل کے تجربوں سے تعبیر نہیں کرسکتے، اس لیے کہ مختلف اور متضاد تجربوں کی انتہائی خوبصورت ’وحدت‘ سامنے آتی ہے جو ان تجربوں کے نور سے سنور کر حیرت انگیز جمالیاتی آسودگی عطا کرتی ہے۔ برہما، وشنو، شیو، دھرتی ماں اور بدھ وغیرہ کے پیکروں کی تخلیق ہوتی ہے تو افضل ترین جلووں کو صرف ایک قوم یا ایک دو نسلوں کے تجربوں کا سرمایہ نہیں کہہ سکتے۔ صدیوں کے تجربوں کی روشنی جلال و جمال کے ان پیکروں میں نظر آتی ہے۔ ’وحدت‘ کثرت کے جلووں کی ہے کثرت کے ساتھ ہی وحدت کے جلووں کا مطالعہ اہمیت رکھتا ہے۔

ہندوستانی تفکّر میں متضاد خیالات و تصوّرات کی کمی نہیں ہے لیکن بظاہر مختلف اور متضاد تصوّرات اور خیالات کسی نہ کسی سطح پر ایک ہی سچّائی کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ جیسے باطنی تحرک ایک ہی تھا اور ہم اب تک انہیں الگ الگ کر کے دیکھ رہے تھے۔ ’ہندوستانی جمالیات‘ کا عالم بھی یہی ہے۔ انیک انت کو ہم نے ہر دور میں قبول کیا ہے۔ مختلف رجحانات، میلانات، تحریکات اور انفرادی تجربات کے ’حاصل‘ کو ہم نے بہت سے ’انت‘ سے تعبیر کیا ہے، یہ سب اہمیت رکھتے ہیں ، سب کسی نہ کسی سچائی کو ظاہر کرتے ہیں ۔

اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی فکر اور ہندوستانی جمالیات نے اعلیٰ اور افضل ترین تجربوں کو ہمیشہ قبول کیا ہے۔ ’ہندوستانی جمالیات ‘ کا دائرہ — اسی وجہ سے اتنا پھیلا ہے، تہہ دار پہلو دار اور حد درجہ معنی خیز بنا ہے۔ قلب و نظر کی کشادگی کسی بھی تہذیب اور اُس کی جمالیات کے لیے بڑی نعمت ہے۔ تجربوں کی بہتر آمیزش اور آویزش کے لیے قلب و نظر کی کشادگی ہندوستان کی صدیوں کی تاریخ کا سب سے عظیم ورثہ ہے!

 

٭’یوگ‘ کے تمام طریقے ہی منزل تک جانے کے ہیں ۔ یعنی سب سے افضل یا افضل ترین ہستی سے جذب ہو جانے کی منزل!

’یوگ‘ کا لفظ سنسکرت کے ’یج‘  YUJ سے پھوٹا ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’ملنا‘ ہم آہنگ ہونا، جذب ہونا!

اپنے باطن کی دریافت کے لیے روحانی منزلوں کو پانے کی تعلیمات کی تاریخ بہت پُرانی ہے۔ اسے مذہب اور فلسفے نے جتنا اہم تصوّر کیا ہے اس سے بخوبی واقف ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تعلیمات کے سلسلے میں جتنی راز داری برتی گئی ہے اور ان کے لیے جتنے عقائد اور رسومات سامنے آئے ہیں اُن میں بہت سی سچّائیاں ہم سے بہت دُور ہو گئی ہیں ۔ ’’برہم ودیا‘‘ نے انہیں کسی حد تک محفوظ رکھا ، ’یج‘ YUJ کی معنویت ’’یوگ‘‘ میں واضح کی یہ بتایا کہ ’’یوگ‘‘ فرد اور کائنات کے نظام کی وحدت کا نام ہے۔ افراد کی شخصیتیں مختلف ہوتی ہیں لہٰذا رد و قبول کا انداز بھی بدلتا ہے۔ یوگ کی تعلیمات کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے مختلف طریقوں میں مزاج اور شخصیت کے مطابق عمل کے طریقوں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جہاں تک سادھنا  SADHNA کا معاملہ ہے۔ اپنے اپنے طور پر اس کا انتخاب ہوسکتا ہے۔’’یوگ ستروں ‘‘ کے مطابق ’’سادھنا‘‘ کے آٹھ مختلف طریقے ہیں ۔ غور کیجیے تو محسوس ہو گا کہ سب کی منزل ایک ہی ہے یعنی فرد کا عظیم تر رُوح سے ہم آہنگ ہونا۔ ’آسن‘ ’بندھ اور ’کِریا‘ کے مختلف طریقوں سے اپنے مزاج اور شخصیت کے مطابق مناسب انتخاب بڑی بات ہے۔

’کنڈلنی یوگ‘  (KUNDALINI YOGA) نے انسان کے جسم کے چھ خاص مرکزوں کی اہمیت بتاتے ہوئے ’کنڈلنی‘ شکستی کو بنیادی قوّت کہا ہے‘ باطنی طور پر بیدار رکھنے میں اس قوّت نے ابتدا سے نمایاں حصّہ لیاہے۔ یہ شکتی ایک مسلسل عمل ہے کہ جس سے باطنی طور پر جاگرتی پیدا ہوتی ہے۔ انسان اپنے وجدان اور تخیّل کے تحرک کے ساتھ نیچے سے اوپر جاتا ہے۔ یعنی یہ ’شکتی‘ نیچے سے اوپر جاتی ہے۔ اس کی منزل ’’ساہس رار‘‘ ہے۔ اسی کے بعد رُوح ’ذاتِ لا محدود سے آشنا ہو کر اس میں جذب ہو جاتی ہے۔’تانتروں کے سات چکّروں کے پیچھے یہی قدیم حسِّی تصوّر ہے۔ ’وسعت‘ اور ’بلندی‘ کے آرچ ٹائپس (ARCHETYPES) نے اس میں یقیناً نمایاں حصّہ لیا ہے۔ اسی حسّی تصوّر سے شعور حاصل ہوا کہ تمام تجربے ایک ہیں اور اجتماعی تجربوں میں متضاد اور مختلف کیفیتوں کے باوجود بڑی حد تک یکسانیت ہوتی ہے۔ تخلیقی عمل کا کرب مختلف ہوتا ہے۔ ’مکاں ‘  SPACE میں باطن کے نقطے یا بندو BINDU کو پھیلانے کی خواہش عظیم تر خواہش ہے اور فنونِ لطیفہ کی تخلیق اسی خواہش کا نتیجہ ہے۔

 

٭ہندوستانی فنونِ لطیفہ میں ’’یوگ‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ رقص ہو یا موسیقی، فن تعمیر ہو یا فن مجسّمہ سازی، ’یوگ‘ بنیادی جوہر ہے۔ اس جوہر کے بغیر ، ہندوستانی فنون لطیفہ اور ان کی جمالیات کا سچّا احساس و شعور حاصل ہونا ممکن نہیں ۔ رقص کی مدراؤں ، (MUDRAS) موسیقی کے نشیب و فراز، فنِ تعمیر کی منزلوں کی تقسیم اور اُٹھان، پھیلاؤ اور جھکاؤ اور نیچے سے اوپر جانے کے پورے عمل اور فنِ مجسّمہ سازی کی جہتوں میں ’’یوگ‘‘ ہی کا جوہر ہے۔ ’یوگ فنونِ لطیفہ کی روح ہے۔ جلال و جمال کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ فنونِ لطیفہ کے فسوں کا ا نحصار اسی پر ہے، نرمی، سختی، آہستگی ، تیز روی، رکنے، ٹھہرنے اور دوسرے تمام عمل میں ’یوگ‘ کا فسوں کار فرما ہے۔ ’یوگ‘ ہی نے تجربوں کی عظیم تر جمالیات کی نعمت اور دولت عطا کی ہے۔

 

٭’ہندوستانی جمالیات‘ کی سب سے بڑی دین ’’بندو‘‘ (نقطہ) ہے! صفر کا تعلّق بھی اِسی سے ہے۔ ’بندو‘ پھیلتا ہے تو دائرہ بن جاتا ہے اور دائرہ سمٹتا ہے تو بندو بن جاتا ہے۔ اسی بندو اور دائرے میں سب کچھ ہے۔ جلال و جمال کے تمام تجربوں کا جنم اسی میں اور اسی سے ہوتا ہے۔ ’اوم‘ (OM) سواستیکا (SAWASTIKA) ’چکر‘  (CHAKRA) سوریا (SURYA) ’پہیہ لنگم ‘LINGUM ’یونی‘ (YONI)’شیو ‘(SHIVA) ’شکتی، کائنات‘ (UNIVERSE)  رقص، موسیقی، مجسّمہ سازی ، فنِ تعمیر – سب اسی ’بندو‘ اور دائرے سے ہیں ، خارج اور باطن کے آہنگ (RHYTHM)کی آمیزش کا مرکز بھی یہی ہے اور یہی خارج ہے،باطن ہے! دھرتی ماں کا تصوّر ، طاقت، قوّت اور تخلیق کا سب سے قدیم حسِّی تصوّر ہے۔ ’ماں ‘ کے پیکر کو طاقت اور تخلیق کا سب سے بڑا سر چشمہ تصوّر کیا گیا ہے۔ ’ماں ‘ نے دائرے کی صورت صرف زمین نہیں بلکہ پوری کائنات کو گھیر لیا۔ بندو نے پھیل کر دائرے کی صورت اختیار کر لی اور دائرے میں ایک زاویہ بنا۔ اس کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی گئی۔ اور بندو بھی اپنی جگہ پر موجود رہا۔ ’دائرہ‘ خود اپنے ’کل‘ کا اسرار بن گیا۔ یہ اسرار جمالیاتی تجربوں کی رُوح ہے۔ ان کا جوہر ہے! اردھ نار ایشور (ARDH NARISHWER) کے تصوّر نے صرف اعلیٰ ترین پیکروں کی تخلیق نہیں کی بلکہ انتہائی سیّال صورت میں یہ تصوّر مختلف فنون کو متاثر کرتا رہا۔ جب شیو اور شکتی ایک ہی شعور کے دو پہلو بنے تو جمالیاتی تجربوں میں نئی تازگی آ گئی۔ یہ سب ’بندو‘ اور ’دائرے ‘ کا کرشمہ ہے! اسے ’بدھ آرٹ‘ نے بھی شدّت سے قبول کیا اور اس کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہا۔

 

٭ہندوستانی فنونِ لطیفہ میں وقت کا میکانکی تصور ٹوٹ گیا۔ شیوؔ، بدھؔ  اور دیوی دیوتاؤں کی رُوحانی کیفیتوں میں رقص کی جمالیات انتہائی ارفع اور افضل معیار پیش کرتی ہے۔ خاموش اور ساکت پیکروں کے باطن میں بھی رقص کا پُر اسرار آہنگ ملتا ہے ۔ موسیقی کی لہروں کی طرح خاموش اور ساکت پیکر ماورائے حقیقت کی طرف جاتے محسوس ہوتے ہیں ۔ ’محبت‘ عقیدت، طاقت، عظمت اور پاکیزگی کے احساسات کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں ، عوامی جذبات کی پیش کش بھی فنکارانہ انداز میں ہوئی ہے، اور ایک عابد کی انفرادی رُوح بھی جلوہ گر ہے۔ گرم اور ٹھنڈی روشنی کا امتزاج شدّت سے متاثر کرتا ہے کئی، نسلوں کے جمالیاتی رجحانات کی دل کش آویزش کتنی جہتوں کا احساس عطا کرتی ہے۔ مادّی اور روحانی زندگی کے خوبصورت امتزاج کی یہ تصویریں ہندوستانی فنون کے اُس رُجحان کی غماز ہے کہ جس میں ’مادّہ‘ اور ’روح‘ کو علیٰحدہ کر کے دیکھنے کا کوئی لمحہ نہیں آتا۔ بظاہر بکھری ہوئی اور متضاد کیفیتوں میں ’وحدتِ جمال‘ ہے۔ انسانی اور غیر انسانی پیکروں میں یہ ’وحدت‘ موجود ہے۔ کائنات کو ایک وحدت کی صورت میں پانے کا جو شعور حاصل ہوا تھا اُس کی یہ عمدہ مثالیں ہیں ۔ ہندوستان کے تخلیقی آرٹ کا یہ ایک بنیادی امتیازی رجحان ہے۔ رقص ، مصوّری ، مجسّمہ سازی، موسیقی اور تعمیر سازی کے علاوہ ملک کے قدیم علمائے جمالیات کے تصوّرات میں یہ بنیادی رجحان موجود ہے۔ شیوؔ کا رقص ہو یا اُپنشیدوں کے ما بعد الطبیعاتی رُوحانی تصوّرات اور نغمہ ریز خیالات، اجنتاؔ، سانچی اور سارناتھؔ کی تخلیقات ہوں یا موسیقی کے سُروں کی تخلیق اور ترتیب، تمام اشیاء کو ایک وحدت میں پانے کا رجحان شدّت سے متاثر کرتا ہے۔ زندگی کئی صورتوں میں جلوہ گر ہوتی ہے لیکن رُوح کی رفعت اور لطافت ، گہری انسان دوستی، حُسن اور پاکیزگی اور ’وحدت‘ کے حسین تر تصوّر کے ساتھ!

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

٭ہندوستانی فنونِ لطیفہ کے خالق عوام ہیں ۔

تمام فنون کا گہرا باطنی رشتہ ’’سماجی۔ اقتصادی‘‘ اور نفسی اور حسی زندگی سے ہے۔ ہر عہد کی تمدّنی زندگی کا انحصار مادّی پیداوار کے خاص تاریخی رویّہ اور انداز پر ہے۔ کسی سماج کا تصوّر اس گہری سچّائی کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔ ہندوستانی جمالیات کا گہرا باطنی رشتہ قدیم نسلی اور قبائلی زندگی کے عقائد اور توہمّات، سماجی اور مذہبی تصوّرات اور تمدّنی اندازِ فکر سے قائم ہے۔ مختلف علاقوں میں نسلی اور قبائلی کردار ایک چھوٹے سے کلچر کو جنم دیتا رہا ہے کہ جس میں اُس کے احساسِ جمال کی پہچان ہوتی رہی۔ ابتدائی تجربوں کی یکسانیت بھی ایک وحدت کو جنم دیتی ہے اور مختلف اور متضاد تجربوں کی تمدّنی آمیزش کے بعد بھی ایک ’وحدت‘ کا احساس ملتا ہے۔ مادّی اور روحانی تجربوں کی ’’سماجی۔ ثقافتی بنیادیں قائم ہوتی گئی ہیں اور ایک چھوٹا کلچر دوسرے کلچر کے قریب آتا گیا ہے، تجربوں کی آویزش اور آمیزش کے بعد ذہنی زرخیزی کے تئیں بیداری پیدا ہوئی اور یہ اسی شعور کا کرشمہ ہے کہ علاقائی تہذیبیں ایک دوسرے میں جذب ہو گئیں اور اس بڑے ملک کی جمالیات کا ایک تسلسل قائم ہو گیا۔ فطرت کے جلال و جمال کے احساس و شعور سے اپنی زندگی کے حسن کو دیکھنے کے مختلف معیار قائم ہو گئے۔ فطرت کے جلال اور حملوں ، جنگوں اور سیاسی اور مذہبی تقسیم کی وجہ سے بڑا نقصان ہوتا رہا ہے لیکن عوام نے ہمیشہ بہت سی تہذیبی اور جمالیاتی روایتوں کو زندہ رکھا، ان کا تحفّظ کیا، قربانیاں دے کر انہیں آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ ہندوستانیوں کا ذہن اتنا شاداب رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ آنے والی نسلوں کو اپنے تجربوں کے ساتھ انسانی قدروں کا شعور بخشا ہے۔

 

٭اس ملک کے فنون اتنے ہی قدیم ہیں کہ جتنے یہاں کے پہاڑ، یہاں کی ندیاں اور یہاں کے کھیت اور کھلیان ! رقص، موسیقی، مجسّمہ سازی، مصوّری اور تعمیر کے فن کو عوامی جذبوں نے پروان چڑھایا ہے۔ عوام کے معصومانہ عقائد اور توہمّات نے اِن میں تحرک پیدا کیا ہے۔ تصویروں میں رنگ بھرے ہیں ۔ قبائلی تجربوں اور قبائلی احساس اور جذبوں کے مختلف علاقوں میں جانے کتنے چھوٹے بڑے دبستان قائم کر دیے تھے۔ ایسے جانے کتنے فنّی شاہ کار ہیں کہ جن کے خالق کے نام سے ہم واقف نہیں ہیں ، فنکار اپنی تخلیقات پر اپنے نام نقش کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

کوئی نہیں جانتا کہ ’نٹ راج‘ ’تری مورتی‘ اور متھرا کے بدھ کے خالق کون تھے۔اجنتا کی تصویروں کو خلق کرنے والے کون تھے۔ نٹ راج کے رقص کی معنی خیز جہتوں کی وضاحتیں مختلف قسم کے رقص میں کن لوگوں نے کی تھیں ۔ کسی فن کی تخلیق میں کتنے فنکار شریک رہے۔ نت راجؔ، تری مورتیؔ، متھراؔ کے بدھ اور اجنتا کی تصویروں کے پیچھے عوامی فنون کی ہزاروں سال پُرانی روایتوں کا تسلسل قائم رہا ہے کہ جن کی پہچان آسان نہیں ہے۔ ان میں مختلف علاقوں کی عوامی روایتیں بھی ہیں اور مختلف عوامی روایتوں کی وحدتوں کی بھی۔ ایک مقام سے دوسرے مقام اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی ہجرتیں تجربوں میں وحدت پیدا کرتی رہی ہیں ۔ مختلف علاقوں میں مستقل دبستانوں کے قائم ہونے سے قبل ہندوستانی فنونِ لطیفہ نے عوامی جذبوں اور تجربوں کے ساتھ جانے کتنی صدیوں میں سفر کیا ہے۔ آج بھی یہ قدیم روایتیں موجود ہیں اور ان سر چشموں کو پا کر بہت سی بنیادی سچّائیوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

 

٭تہذیبیں بنیادی طور پر ’’سماجی ثقافتی‘‘ مرکبات ہیں جو مختلف عہد اور مختلف علاقوں میں ظہور پذیر ہو کر اپنے وجود کا احساس دیتی رہتی ہیں ۔ اس عمل میں اُن کی امتیازی تکنیکی، اقتصادی اور تمدّنی خصوصیات کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ ہر تہذیب ساختیاتی عناصر کے باہم دگر عمل اور با ہم دگر اثر پذیری کے نظامِ کلیّات کو نمایاں کرتی ہے، سماجی تنظیم کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو بھی پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ تمام باہم دگر اثر انداز ہونے والے یا عمل کرنے والے عناصر یکساں اہمیت نہیں رکھتے۔ کچھ زیادہ اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اور کچھ کم۔ کسی بھی تہذیب کی تاریخ میں یہ سچائی بھی دلچسپ ہے کہ کسی علاقے میں جب نئے تمدّنی اور تہذیبی تجربے داخل ہوتے ہیں تو پُرانے تجربے دَب جاتے ہیں ۔ مختلف خانوں میں تقسیم ہو کر زندہ رہتے ہیں ۔ ایک پُر اسرار سی خاموش زندگی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ سب بہت کمزور پڑ گئے ہیں یا گم ہو گئے ہیں لیکن اپنی مٹّی سے گہرا رشتہ رکھنے کی وجہ سے یہ پھر تازہ دم ہو کر آہستہ آہستہ اُبھرنے لگتے ہیں ۔ تصادم اور ٹکراؤ کے بعد نئے اور پُرانے تہذیبی تجربوں کی جدلیاتی آویزش اور آمیزش ہونے لگتی ہے۔ ردّ و قبول کا نامحسوس سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت سے مضبوط ، معنی خیز اور جہت دار پُرانے تجربے اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اور کبھی کبھی اس طرح بھی کہ نئے تجربوں کو اپنے مخصوص اندازِ فکر میں جذب کر لیتے ہیں ۔ اپنا رنگ و آہنگ دے کر انہیں اپنے تسلسل میں کچھ اس طرح شامل کر لیتے ہیں جیسے یہ نئے تجربے خود اُن کے  بطن سے پھوٹے ہوں ۔ ہندو تفکّر نے جس طرح بدھ تفکّر کو اپنا انداز دیا ہے اور مسلمانوں کے اندازِ فکر نے جس طرح ہندوستانی اندازِ فکر کو قبول کیا ہے بہترین مثالیں ہیں ۔

سماجی تنظیم میں دو تہذیبوں کے عناصر ایک دوسرے میں اکثر اس طرح پیوست ہو جاتے ہیں کہ انہیں علیٰحدہ کر کے دیکھنا آسان نہیں ہوتا ۔ معاشرہ انہیں ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھتا رہا ہے۔ جدلیاتی آمیزشوں کے بعد عناصر کی صورتیں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ تجربوں کے رنگ تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر تجربوں اور صورتوں اور عناصر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہر ایسے تہذیبی سلسلے کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک بڑی سچّائی کا احساس ہوتا رہتا ہے اور وہ یہ کہ رو و قبول اور آویزش اور آمیزش کے جدلیاتی عمل کے بعد افکار و خیالات اور تجربات کے جو نئے سانچے سامنے آئے ہیں اُن کی بنیادیں مستحکم اور مستقل ہیں ۔ چند ایسی بنیادی سچائیاں اور کچھ ایسے بنیادی اصول ہیں جو اتنے مستحکم اور مستقل ہیں کہ نئے تمدّنی اور جمالیاتی تجربوں کے اصولوں کو متعیّن کرسکتے ہیں ۔

 

٭ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانی جمالیات کا مطالعہ کرتے ہوئے عموماً مذہبی اعتقادات کی بعض صورتوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اپنی تہذیب کی تاریخ اور اپنی تہذیب کی جمالیات کا مطالعہ کرتے ہوئے مذہبی تصوّرات اور اعتقادات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرتا، یہ بہت اہم اور اپنے عمل میں انتہائی پُراسرار اور معنی خیز ہیں ۔ لیکن مذہبی اعتقادات اور تصوّرات چوں کہ تہذیب کی بنیاد نہیں ہیں اس لیے انہیں بنیاد کے اوپر ایک قوّت یا طاقت ہی سے تعبیر کرنا مناسب ہو گا۔ بلاشبہ ہر تہذیب کا اپنا ایک خاص رُوحانی کردار ہوتا ہے کہ جس کے گہرے حسین اور خوبصورت نقوش ساخت اور تہذیبی عمارت پر نمایاں رہتے ہیں ، کسی بھی تہذیب کا مطالعہ اُس کے رُوحانی کردار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ رُوحانی کردار، اعتقادات اور مذہبی تصورات کے مختلف سانچے تیار کرتا ہے اور جب یہ اعتقادات اور تصوّرات ان سانچوں میں ڈھلتے ہیں تو اُن کی صورتیں جمالیاتی ہو جاتی ہیں ۔ وہ ’مذہبی‘ ہونے کے باوجود مذہبی نہیں رہتے۔ یہ آفاقی رُوحانی کردار کا کرشمہ ہے کہ فنونِ لطیفہ کا جنم ہوتا ہے۔ مذہب کا رُوحانی کردار بھی ’بنیاد‘ نہیں ’نتیجہ‘ ہے ’حاصل‘ ہے! دراصل مادّی حالات کسی تہذیب کو جنم دیتے ہیں اور مختلف نظریات کے اُبھرنے کی مناسب فضا کی تشکیل کرتے ہیں ۔ نظریات میں ان کی وجہ سے تازگی اور زرخیزی، تہہ داری اور پہلو داری پیدا ہوتی ہے۔ مادّی حالات ہی سے مذہبی اعتقادات اور تصوّرات کا جنم ہوتا رہا ہے۔ زندگی کو دیکھنے اور کائنات کے جلال و جمال کو محسوس کرنے کا شعور حاصل ہوا ہے۔ کسی بھی تہذیب کے افکار و خیالات ، نظریات، یا مذہبی اعتقادات و تصوّرات کا مطالعہ کیجیے۔ عہد کے مادّی حالات کی پہچان ہو جائے گی۔ نظریات اور تصوّرات میں مادّی افکار کی روشنی اپنے مختلف رنگوں کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ تاریخی اور پیداواری رشتوں کے بغیر کسی تہذیب اور کسی تہذیب کی جمالیات کا مطالعہ ناقص ہو گا۔

ہندوستانی تہذیب میں بھی ، مذہب، ’فلسفہ‘ اور ’آئیڈیل ازم‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس لیے کہ یہ انسان اور اس کے وجود کے پیچیدہ مسائل کو سلجھانے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں ۔ زندگی کی قدروں کا تعیّن کرتے رہے ہیں حیات و کائنات کے مسائل کی جانب فکر کو متحرک کرتے رہے ہیں اور اس طرح وجود کے تئیں بیداری پیدا ہوتی رہی ہے۔ مادّی احساس و شعور نے ’فینتاسی‘ اور ’آئیڈیل ازم کی آبیاری میں حصّہ لیا ہے۔ ’آئیڈیل ازم‘ کا عمل پُر اسرار۔ اور دلچسپ رہا ہے، اس نے روحانی کردار کی اُٹھان اور تحرک میں مدد کی ہے۔ فرد اور حیات و کائنات کی وحدت کا احساس پیدا کیا ہے۔ حُسن اور جلال کو طرح طرح سے سجایا ہے۔ روحانیت کے احساس و شعور کو اس طرح متحرک کیا گیا ہے کہ مادّی سچائیوں اور مٹی کی خوشبو سے ایک گہرا پُر اسرار۔ رشتہ پیدا ہو گیا ہے۔ ہندوستانی تہذیب میں ’فینتاسی‘ اور ’آئیڈیل ازم‘ نے مادّی زندگی سے جنم لے کر اپنے نقطۂ عروج پر مادّی سچائیوں کا ہی گہرا شعور عطا کیا ہے۔ مذہب تجربوں کا بہترین معنی خیز سرچشمہ بنا ہے لیکن فنونِ لطیفہ میں جمالیات کے ایک بڑے نظام کی صورت میں جلوہ گر ہوا ہے۔ ہندوستانی تہذیب اور اس کی جمالیات میں مذاہب نے ’فینتاسی‘ اور’ آئیڈیل ازم ‘ کی تشکیل میں جو نمایاں حصّہ لیا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حیات و کائنات کی ’وحدت‘ اور ’جمالیاتی وحدت‘ کے افضل ترین احساس نے انہیں ایک مضبوط تاریخی، ثقافتی اور فلسفیانہ قوّت بنا دیا تھا کہ جس کی وجہ سے زندگی کی مختلف سطحوں پر ان کا بے اختیار اظہار ہوا ۔ ہندوستانی تہذیب میں مذہب ہمیشہ ایک تابندہ علامت کی صورت میں جلوہ گر رہا ہے ۔ انسان کی بنیادی خواہشوں اور آرزوؤں اور اس کے مسائل کے ساتھ تہذیب اور اس کی جمالیات کے تئیں بھی بیدار رکھا ہے۔ فنونِ لطیفہ کے لیے معنی خیز سر چشمہ بنا رہا ہے۔ مختلف فنون میں جذب بھی ہو گیا۔ لیکن تہذیبی سفر اور فنون کی تخلیق کے تسلسل پر کبھی اس طرح حاوی نہیں رہا کہ تمدّن اور فنون کی قدروں کا احساس ہی جاتا رہا ہے۔ تمدّن اور فنون کو اپنی گہری روشنی عطا کرتے ہوئے بھی ان کے وجود کو خود میں جذب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ تہذیب اور فنونِ لطیفہ کی اقدار بھی ایسی ہوتی ہیں کہ وہ مختلف قسم کے اثرات کو قبول کرنے کے باوجود اپنی انفرادیت اور اپنی قدروں کو ہمیشہ محسوس بناتی رہتی ہیں ۔

 

٭قدیم ہندوستانی تہذیب کا مطالعہ کرتے ہوئے ثقافت یا کلچر کی مختلف اکائیوں پر بڑی گہری نظر کی ضرورت ہے، یہی اکائیاں آہستہ آہستہ ’’ایک وحدت‘‘ کا شعور عطا کرتی ہیں ۔ مختلف عقائد اور تصورات کے لیے کسی بھی اکائی کے لوگ اور ان کے کلچر کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ایک دوسرے میں جذب ہیں ، تاریخی تسلسل میں ہر اکائی کے کلچر کو اس طرح سمجھنا چاہیے کہ یہ انسان کے عمل کا حاصل بھی ہے اور جو کچھ حاصل کیا گیا ہے اس کا اظہار بھی، اس طرح ہر کلچر، وہ محدود دائرے میں ہو یا کسی قدر وسیع دائرے میں ، انسان کے ارتقاء اور اس کی سوسائٹی کی ترقی کی نشان دہی کرتی ہے، کلچر ایک ایسا انسانی عمل ہے جو اپنی پیچیدگی کا احساس کسی نہ کسی طرح دیتا رہتا ہے اس لیے کہ یہ انسانی ارتقاء کا پیچیدہ اظہار ہے جو اپنی فطرت میں متحرک اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے، کسی بھی کلچر کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوسکتی ہے کہ حیات و کائنات یا مظاہر فطرت سے رشتہ قائم ہوا ہے اس پر انسان کی گرفت کس حد تک ہے اور وہ خود اپنی ذات یا وجود کو کس حد تک گرفت میں لیے ہوئے ہے، انسان ہی کلچر کی تخلیق کرتا ہے لہٰذا ہر کلچر کا انسانی کردار ہی اہمیت رکھتا ہے، کردار کتنا تخلیقی، کتنا پر اسرار ، کتنا متحرک اور مختلف قسم کی شعاعوں کو خلق کرنے والا ہے کلچر متحرک فطرت ہی سے جانا جا سکتا ہے، کلچر انسان کی تخلیقی صلاحیتوں ہی کا مظہر ہے لہٰذا خالق سے علیٰحدہ اس کا کوئی تصور پیدا نہیں ہوسکتا— اور اس کا بنیادی موضوع تو انسان ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلچر عمدہ انسانی قدروں کا گہوارہ ہوتا ہے۔

قدیم ہندوستانی تہذیب کی مختلف ثقافتی اکائیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے جہاں ان سچائیوں کی پہچان ہوتی ہے وہاں یہ سچائی بھی شدّت سے محسوس ہوتی ہے کہ ہر ثقافتی اکائی قبیلے یا جماعت کے مادی اور روحانی عمل کی وحدت کے حسن کو پیش کرتی ہے، کارل مارکس نے درست کہا تھا کہ انسان کا عمل دو انداز اختیار کرتا ہے، ایک مادی اور دوسرا غیر مادّی، غیر مادّی، کو ’روحانی ‘ انداز سے تعبیر کیا جاتا ہے جو دراصل بنیادی طور پر ذہنی عمل یا محنت ہے اور مادّہ کا مظہر ہے، انسان کی پوری تاریخ میں یہ دونوں انداز ہر جگہ نمایاں ہیں ، انہیں اس طرح بھی پہچانا جا سکتا ہے کہ مادی انداز مادی دولت اور مادّی اشیاء و عناصر کی تخلیق کرتا ہے اور ’غیر مادّی‘ یا ذہنی اور روحانی انداز روحانی اقدار اور دولت کی تخلیق کرتا ہے، کلچر، میں دونوں انداز اہمیت رکھتے ہیں ، دونوں کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے، دونوں انسانی عمل ہیں ، کلچر، انسانی عمل کی زرخیزی کا حامل ہے لہٰذا اس سے انسان کی فطرت کی زرخیزی کی پہچان ہوتی رہتی ہے، اس کے ارتقاء کا مطالعہ بنیادی طور پر انسان کے ذہن اور اس کے تخلیقی عمل کا مطالعہ ہے۔ جب ہم ’روحانی کلچر‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو دراصل ان تمام روحانی اقدار کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جنہیں انسان خلق کرتا ہے، ان میں فلسفہ ، سائنس ، فن و ادب، مذہب، تعلیم سب شامل ہیں ۔ انسان کے شعوری اور لاشعوری عمل اور اس کے ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کی پہچان روحانی کلچر ہی سے ہوتی ہے، اس میں وجود اور تخلیقی کیفیتوں کا، جوہر، ہی توجہ طلب بنتا ہے کہ جسے ہم ’روح‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ فلسفہ، سائنس، فن و ادب، سب انسان کی ذہنی، تخلیقی اور روحانی صلاحیتوں کا احساس عطا کرتے ہیں ، کارل مارکس نے سائنسی اور فنی تخلیقات کو روحانی تخلیقات کا اہم ترین ’اظہار‘ قرار دیا ہے اور انہیں ’سائنسی تمدن‘ اور ’فنّی تمدن‘ کی اصطلاحوں سے سمجھایا ہے۔ یہ کہا ہے کہ سائنس میں ’تصورات‘ کا عمل ’سچّائی‘ کی دریافت کرتا ہے اور فن و ادب میں ’سچّائی کی دریافت جمالیاتی فکر سے ہوتی ہے‘ ’سچائی کا حسن‘ علامتوں سے واضح ہوتا ہے، فلسفہ اور مذہب سے رشتہ رکھتے ہوئے بھی، فنی تمدن، کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے، اس کے ارتقا کے اپنے اصول معیّن ہو جاتے ہیں ، آزادانہ عمل‘ سے اس میں آفاقیت پیدا ہو جاتی ہے، کلچر سماجی زندگی کے مادی پہلو میں پیوست ہوتا ہے لہٰذا ہر پہلو سے وابستہ رہتا ہے۔ اقتصادی، معاشی اور نظریاتی پہلو سے بھی اس کی گہری وابستگی ہوتی ہے، ان کے گہرے اثرات اس کے ارتقاء میں مدد کرتے رہتے ہیں ، طبقاتی سماج کا طبقاتی کردار اس کی روح بن جاتا ہے، ان سچائیوں کے پیش نظریہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ ’کلچر‘ انسانی عوامل کا تخلیقی پہلو ہے۔ محنت،  (LABOUR) ہی سے دراصل انسان کی تخلیق ہوتی ہے، انسان کی پہچان ہوتی ہے اور اسی سے انسان اپنی دریافت بھی کرتا ہے، اسی سے حسرت اور جمالیاتی مسرّت حاصل ہوتی ہے، جمالیاتی آسودگی کی بنیادی وجہ یہی ہے لیکن سب سے بڑی مسرت اور سب سے بڑی جمالیاتی مسرت اور آسودگی اس محنت سے حاصل ہوتی ہے جو نئی تمدنی قدروں کی تخلیق کرتی ہے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب انسان ’’ثقافتی تخلیقی محنت‘‘ کے تئیں تخیلی اور فکری طور پر بیدار ہوتا ہے اور اپنے ’وژن‘ کے غیر معمولی تحرک کو شدّت سے محسوس کرتا ہے۔

’ثقافتی تخلیقی محنت‘ کا شعور انسان کے باطنی یا روحانی تحرک کی دین ہے اور اس تحرک کا سبب وہ متحرک سرچشمہ ہے کہ جسے ہم خیالات ، تصورات، نظریات اور جذبات،احساسات، درون بینی اور وجدانی کیفیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ثقافتی تخلیقی محنت ہو یا غیر ثقافتی تخلیقی محنت، ’مقصد‘ اور ’’خواہش‘‘ ’اور ارادہ‘ سب کی اہمیت ہوتی ہے ’مقصد‘ پگھل جاتا ہے جب ’ثقافتی تخلیقی محنت‘ کا عمل شدت اختیار کر لیتا ہے اور جب ’تخلیق‘ ہو جاتی ہے تو ایسا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے بنیادی ’مقصد ‘ نے دوسرا جنم لے لیا ہے اور ’جمالیاتی صورت‘ اختیار کر لی ہے۔ ’ثقافتی تخلیقی محنت‘ سے وجود میں آنے والی شے اپنے حسن کے ساتھ مختلف جہتوں میں ایک ساتھ مختلف رشتوں کا پر اسرار احساس دینے لگتی ہے فنکار کی ذات سے اس کے رشتے کا احساس ملتا ہے، سماج اور سماج کے افراد سے رشتوں کے ساتھ فطرت اور اس کے جلال و جمال سے اس کی گہری وابستگی محسوس ہونے لگتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر ثقافتی فنی ’’تخلیق‘‘ ’’شے‘‘ بھی ہوتی ہے اور ’رشتہ‘ بھی! — اور اسی لیے یہ ایک نئی مادّی اور روحانی قدر بن کر جلوے کی صورت اجاگر ہوتی ہے۔ روحانی ثقافت، کی روایات مضبوط اور مستحکم بھی ہوتی ہیں اور متحرک اور رواں بھی، ’فنکار‘ ان سے وابستہ ہوتا ہے تو اسے اپنی اصابت اور پختگی (SOUNDNESS) اپنی سالمیّت (COMPLETENESS) اور اپنی دیانت داری (INTERGRITY) کے اظہار کے امکانات نظر آنے لگتے ہیں ، اپنے وجود کی اہمیت کا احساس ملنے لگتا ہے، ان کے تحرکّ سے وہ اپنے باطن کے جو ہر کا اظہار اس طرح کرنا چاہتا ہے کہ جو نئی تخلیق ہو اس میں آفاقیت پیدا ہو جائے۔ یہ روایات ’’ذات‘‘ کے عرفان کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔ جب کوئی ’’تخلیق‘‘ ہو جاتی ہے تو روحانی ثقافت اور آگے بڑھ جاتی ہے اور جمالیاتی آسودگی اور جمالیاتی انبساط میں اضافہ ہوتا ہے۔ بڑا تخلیقی عہد وہ ہوتا ہے کہ جس میں روحانی ثقافت کے تمام تجربوں اور روایتوں کے ساتھ فنکار اپنے وجود کے جوہر کو شدت سے نمایاں کر کے کلچر کی متحرک علامت بن جاتا ہے۔ ہندوستانی تہذیب میں کلچر کی اعلیٰ ترین تخلیقات جو تخلیقی فنکاروں کی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں اور پوری قوم کی عظمت کا نشان بن گئیں انسان کی تخلیقی بیداری اور اس کے روحانی کردار کو ثابت کر دیتی ہیں ، ان سے ہندوستان کے فنکاروں کے احساسِ جمال اور آزادی اور جمالیاتی انبساط و مسرت کی آرزو کا بھی پتہ چلتا ہے، ان کے فنون کی موزونیت، مطابقت دلکشی، نفاست اور ہم آہنگی روحانی کلچر کی عظمت کا احساس عطا کرتی ہیں ، بڑی تخلیق، بڑی آرزو، سے جنم لیتی ہے، ہندوستانی تہذیب کی تاریخ میں مختلف تمدنی اکائیوں کے کلچر میں انسان کی آرزوؤں کی جو مجسّم آفاقی صورتیں ہیں کہ جن سے ہر تمدنی اکائی متحرک نظر آئی ہیں اس کی تمناؤں اور اس کے باطنی روحانی کردار کے تحرک سے علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا، ہر آرزو ایسی جو سماجی اور فطری وجود سے بلند اپنی انفرادیت کو محسوس تر بنائے!‘‘ فطرت، تمدن، سماج‘‘ کی وحدت کے درمیان انسان ہی کھڑا نظر آتا ہے جو کلچر کی تخلیق کر کے سماج ، فطرت، اور تمدن —اور اپنی ’ذات‘ میں ایک معنی خیز، پر اسرار رشتہ قائم کرتا ہے اور جو رشتے قائم ہو جاتے ہیں ان میں موزونیت اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔

مختلف علاقوں کے تمدن اور فنون کا مطالعہ کرتے ہوئے اس سچائی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کلچر صرف افادی نہیں ہوتا اور صرف چند خاص پر اثر رویوں کے عمل پر منحصر نہیں کرتا اور صرف ان’ تجربوں ‘ کا نام نہیں ہے کہ جنہیں سماج خاص وقت یا عہد میں ضرورت اور اہم قرار دیتا ہے اور جنہیں کچھ افراد منتخب کر لیتے ہیں ، کلچر انسان کے ماحول کو خوبصورت اور دلکش بنانے کا بھی نام ہے۔ یہ جلال و جمال کی تخلیق کا سر چشمہ بھی ہے۔ کائنات کے حسن کو شدت سے محسوس کر کے جمالیاتی قدروں کی تخلیق کا سلسلہ بھی اسی سے قائم ہے یہ دنیا کو حسن کے سانچے میں ڈھالتا رہتا ہے۔ حسن کا معیار طرح طرح سے قائم کرتا ہے یہ سب کچھ انسان کی فطرت کی تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے ہوتا ہے کہ جس کا ایک بڑا فطری بنیادی مقصد مادی جسمانی اور جمالیاتی انبساط حاصل کرنا ہے۔ انسان کی جمالیاتی تخلیقی صلاحیتوں کے حدود کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

قدیم ہندوستانی فنون کے مطالعے میں سب سے بڑی دشواری یہ آئی ہے کہ قدیم ہندوستان کے مختلف علاقوں کے اقتصادی اور سماجی حالات اور معاشی اور سماجی ارتقاء کی تلاش و جستجو بہت ہی کم ہوئی ہے۔ ’’سماجی رشتوں ‘‘ اور سماج کے ڈھانچے اور اس کی ساخت سے ہم زیادہ با خبر نہیں ہیں ، ان کے تعلق سے مواد بھی حاصل نہیں ہیں ، قدیم ہندوستان کے مذاہب اور عقائد سے ہم جتنے واقف ہیں معاشی اور سماجی حالات سے واقف نہیں ہیں ، مذہبی تصورات، نظریات اور عقائد کو معاشی سماجی حالات کے سمجھنے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے، یہ بہت مشکل اور نازک کام ہے، فنونِ لطیفہ سے بھی بہت مدد مل سکتی ہے، ہندوستانی علوم، کے علما کو یقیناً اس موضوع پر زیادہ کام کرنا چاہئے۔ فنون ، تصوّرات اور نظریات تک لے جا سکتے ہیں ۔ اور نظریات اور تصوّرات سماجی اقتصادی حالات کو بہت حد تک سمجھا سکتے ہیں ۔

٭٭

 

 

 

 

 

انسان اور تہذیب و ثقافت کے پیش نظر یہ سچائی بہت اہم ہے کہ ہم زندگی کو زیادہ زرخیز، معنی خیز، دلکش دلفریب اور حسین محسوس کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح زندگی گزارنے کی ایک خوبصورت راہ تلاش کرتے ہیں، سماجی زندگی اور اس کی تنظیم کی پوری صورت اور اس کی اقدار، انسانی رشتوں ، حرکت و عمل اور روّیوں اور سماجی آمیزشوں کی مختلف صورتوں کی وجہ سے تخلیق کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ محنت سے تخلیقی محنت تک پہنچتے ہیں، آرزو بیدار اور متحرک ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی تخلیقی صلاحیتیں ابھرنے لگتی ہیں۔ کسی فرد کی تخلیقی صلاحیتیں جب کسی ’شے‘ کی تخلیق کر دیتی ہیں تو سماج کے دوسرے افراد سے ایک جذباتی رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ کسی جمالیاتی تخلیق کے ساتھ یہ رشتہ بہت اہم ہوتا ہے اس لیے کہ بنیادی طور یہ جذبات اور احساسات کا رشتہ ہوتا ہے کہ جس سے وسعت اور گہرائی دونوں پیدا ہوتی ہیں، قبیلوں کی زندگی میں یہ بات بہت اہم رہی ہے، چھوٹے سے معاشرے اور فطرت کی ہم آہنگی کی وہ تصویریں ابھرتی رہی ہیں کہ جن کے درمیان قبائلی انسان ہی ہوتا تھا ہر صورت کو حسین بنانے کی کوشش تخلیقی تھی، قبائلی سماج میں ایسے تمام تخلیقی عوامل اپنی فطرت میں انقلابی تھے اس لیے کہ ان سے مادّی اور روحانی قدریں متاثر ہوئی ہیں۔ مادّی اور روحانی اقدار نے نئی تخلیقی صورتیں اختیار کر کے عمل کے دائرے میں وسعت پیدا کی ہیں، سماجی تصورات تبدیل کیے ہیں، ارتقا کی منزلوں سے آشنا کیا ہے اور افراد کی شخصیتوں کو استحکام بخشا ہے، سماج نے بھی ایسے تجربوں کو سراہا ہے اور تخلیقی فنکاروں کی شخصیتوں کی جانب بیدار رکھا ہے، ابتدائی تخلیقات نے قدیم قبائلی اعتقادات کو جلال و جمال عطا کر کے سماجی ثقافتی دلچسپیوں کو اس قدر بڑھایا کہ سماج کو اپنی نئی ضرورتوں کا احساس ہونے لگا، نظریات اور عقائد میں نئی زندگی اور نئی روح پھونکنے کے لیے تخلیقی فنکاروں کو ہر ممکن مدد دی گئی۔ ابتدائی ستونوں اور ابتدائی مذہبی نقاشی کی اہمیت میں جتنی بھی ہو، فنکاروں نے اپنے احساسِ جمال سے سنوار کر انہیں انفرادیت عطا کر دی کچھ اس طرح کہ عقائد  اور نظریات کی خبر بھی نہ ہو تو یہ ستون اور یہ نقوشِ پیکر جلال و جمال بن کر زندہ رہیں ان کی اپنی معنویت ان کے ساتھ رہی، کسی بھی دوسری معنویت محتاج نہ رہے۔

مختلف قسم کے قدیم مذہبی عقائد اور تصورات میں شعور اور تحت الشعور، تجربہ اور احساس اور جذبے کی وجہ سے سطحوں پر باطنی رشتوں کی پہچان ہوتی ہے۔ فنون لطیفہ کا مطالعہ کرتے ہوئے مذہبی تصورات اور عقائد کا تجزیہ بنیادی طور پر سماج کی تاریخ کا

 

 

 

تجزیہ ہونا چاہیے اس لیے کہ مذاہب کی تاریخ سماج کی تاریخ ہی کا ایک نمایاں پہلو ہے اور مجموعی طور پر تہذیب کی تاریخ کا پہلو! سماجی تبدیلیوں سے ہی کا ایک نمایاں پہلو ہے اور مجموعی طور پر تہذیب کی تاریخ کا پہلو! سماجی تبدیلیوں سے ہی تہذیب کا ارتقاء ہوتا رہا ہے اور تہذیب کے ارتقاء کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ مذہبی شعور میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی رہی ہے، مذہب کی ایک صورت نے دوسری صورت کو جنم دیا ہے اور ہر نئی صورت ، نئے سماجی حالات سے تعلق رکھتی ہے۔ قدیم مذہبی عقائد اور تصورات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ سچائی پوشیدہ نہیں رہتی کہ سماجی رشتوں اور تبدیلیوں سے صرف مذہبی تصورات میں وسعتیں نہیں آئی ہیں بلکہ ان میں نئے امکانات بھی پیدا ہوتے رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو مذہبی عقائد اور تصورات کا ارتقاء ہی رک جاتا، قدیم ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مذاہب اور مذہبی عقائد اور تصورات کی کئی صورتیں اور جہتیں ملتی ہیں۔ ایک مذہب نے کئی ’مذاہب‘ کی صورتیں پیدا کی ہیں، ایک ہی جوہر، اور ایک ہی روح ہونے کے باوجود کئی مختلف اور متضاد صورتیں ملتی ہیں۔ سماجی حالات اور رشتوں کی وجہ فکر و نظر میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، علاقائی سطح پر محدود دائرے میں جب فکر و نظر میں تبدیلی آئی ہے، ایک نئی صورت یا کوئی نئی جہت وجود میں آ گئی ہے، ’وحدت‘ کے اندر کئی پہلو ابھر آئے ہیں، سماجی شعور نے مذہبی شعور کو مختلف انداز سے متاثر کیا ہے، پیداواری رشتوں نے دیوتاؤں کی نئی تشکیل کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ مذہب کی صورتیں تبدیل کی ہیں، تاریخی تقاضوں اور اقتصادی اور معاشی حالات نے مذاہب کو براہِ راست بھی متاثر کیا ہے، قدیم ہندوستان کے مختلف علاقوں کے مذاہب اور فنون کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا علم ہو گا کہ مذہب اور مذہبی تصورات اور نظریات پر طبقاتی زندگی کے گہرے اثرات رہے ہیں، چند خاص طبقوں کا نظام اہم رہا ہے لہٰذا ان کے مفادات بھی اہم رہے ہیں۔ حاکموں اور اونچے طبقے کے لوگوں نے ایسے مذہبی نظریے قائم کیے کہ جن سے غریبوں اور نچلے طبقے کے افراد کا استحصال ہوتا رہا ہے، پجاریوں نے بھی اپنے علوم سے ان کی مدد کی۔ اونچے طبقے کے لوگوں نے اپنے ’’بلند درجے اور مقام‘‘ کی ’صداقت‘ کے لیے مذہبی تصورات سے اجازت اور منظوری لی اور عموماً اس طرح کہ سماج میں ان کی فکر و نظر کے سانچے میں طبقوں کی تقسیم کی صورتیں ، ڈھل کر سامنے آئیں، مذہبی احکامات ، کی مدد سے عوام کا مسلسل استحصال کرتے رہے جب بھی کوئی اہم سماجی مسئلہ پیدا ہوا، مذہبی تصورات کی مدد لی اور اکثر اپنے مدد کے پیش نظر مذہبی خیالات کے مفاہیم تبدیل کر دیے، مسئلے کے حل کے لیے عوام میں مختلف انداز سے التباس پیدا کیا، انہیں التباس میں الجھائے رکھا اور خود تماشائی بنے رہے۔ بارش نہیں ہوتی تو کہا جاتا دیوتا ناراض ہیں اور وہ اسی وقت خوش ہوں گے جب چاندنی رات میں برہنہ نوجوان عورتیں، کنواری عورتیں بیلوں کی جگہ ہل میں جت جائیں اور رات بھر ہل جوتیں یا برہنہ کنواری عورتیں رات بھر رقص کرتی رہیں‘ گھر میں بچے پیدا ہوں اناج مندروں میں رکھ دیں، مقدس ندیوں میں اتر کر رات بھر پرارتھنا کریں، جوان ہوتی بچیوں کو دیوداسی بنا دیں۔

عوام کے نچلے طبقوں نے جو خاموش احتجاج کیا ہے وہ فنون کے پیش نظر بہت اہم ہے۔ انہوں نے اپنے گھروں اور کھیتوں میں اپنے دیوتا خلق کیے اور نئے عقائد وجود میں آ گئے، ذہنی اور جذباتی انتشار میں آہستہ آہستہ کمی آئی، محدود دائرے میں خود اپنی دنیا کو نئے انداز سے خلق کرنے کی کوشش بہت اہم ہے، مضبوط اور انتہائی مستحکم مذہبی روایات کے کٹر پن سے گریز کرنے کی ایسی کوششیں غور طلب ہیں، اس طرح مذہبی شعور میں تبدیلیاں آئی ہیں اور مستحکم کٹر روایات کے خلاف رد عمل کا اظہار ہوا ہے، اپنے محدود دائرے میں نچلے اور پچھڑے ہوئے طبقوں اور خصوصاً کسانوں نے جہاں اپنے دیوتا اور اپنی دیویاں خلق کیں وہاں اپنے قدیم مذاہب کے دیوتاؤں اور دیویوں کو بھی آہستہ آہستہ اپنے قریب کر لیا، اس طرح ان کے اپنے پروہت بھی پیدا ہو گئے جو تاریخ کے سفر میں آہستہ آہستہ محدود پیمانے پر ایک بار پھر عوام کا استحصال کرنے لگے۔

فنون کے مطالعے میں اس سچائی کی بڑی اہمیت ہے اس لیے کہ اس طرح عوام میں حسن کا نیا احساس بھی جاگا ہو گا اور مختلف سطحوں پر تصویر نگاری، رنگوں کے استعمال اور بت تراشی اور چھوٹے چھوٹے مندروں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا ہے، مختلف علاقوں میں عوامی رقص کی نئی بنیادیں قائم ہوتی رہی ہیں، عوامی نغموں کا آہنگ بکھرتا رہا ہے، ہر ایسے عوامی تحرک نے سماج کو متاثر کیا ہے، مذہبی کٹرپن کے سامنے یہ چیلنج بھی بنا رہا ہے، مذہبی اور فنی شعور کی تبدیلیوں میں ان کا عمل غیر معمولی ہیئت کا حامل رہا ہے، قربانی کی محنت، اور محنت کی قربانی سے علیحدہ ایک آزاد انسانی عمل کی فضا ملتی ہے کہ جس میں فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کھل کر ہوتا ہے، کام اور محبت کرنے کی بہتر صلاحیتوں کے ابھرنے کے مواقع ملے کہ جن سے عوامی فنون کے ارتقا میں مدد ملی فنون میں بہتر اور نفیس انسانی جہت یا یہ کہیے کہ سچی انسانی جہت پیدا ہوئی۔ انسان کے وجود کی قدر و قیمت کا احساس بڑھتا گیا۔ تخلیقی محنت، (CREATIVE LABOUR) کی قدر و قیمت کو اسی مقام سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو فنون کے تعلق سے بعض بنیادی سچائیوں کی بہتر پہچان ہو گی۔ فطرت کے جلال و جمال کو ایک آزاد اور کھلی فضا میں محسوس کرنے کی وجہ سے ہر شے کو حسن بخشنے کی آرزو نے بڑا کام کیا ہے۔

قدیم ہندوستان کے مختلف سماج میں ایک ساتھ کئی سطحیں ملتی ہیں کہ جن میں مختلف تمدنی قدروں کی آمیزشیں ہوئی ہیں، ان سے عوامی شعور اور تحت الشعور کی سطحیں بھی متاثر ہوتی رہی ہیں، فرد اور اس کے چھوٹے سماج دونوں کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے۔ یہی تخلیقی محنت ہے اور ہر شے میں حسن میں شامل کرنے کی آرزو کہ جن سے ایلوراؔ، اجنتاؔ، ایہولے اور کھجوراؔ ہو کی تخلیق ہوئی ہے۔ بھرت ناٹم ’’کچی پڑی‘‘ اور کتھاؔ کلی جیسے رقص وجود میں آئے ہیں، نٹ راجؔ اور وشنوؔ، اور بدھؔ اور بودھی ستوا کے پیکر بنے ہیں، تمام بڑی اور عظیم تخلیقات کے پس منظر میں عوامی تحرّک کی ایک بڑی تاریخ موجود ہے۔

ناگا لینڈ کی مثال سامنے رکھیے تو پورے ملک میں قدیم فنی تجربوں کی آمیزشوں کا احساس ملے گا۔ اس ریاست کے لوگوں کی تاریخ اندھیرے میں ہے لیکن اس بات کی خبر ہے کہ چین کے بعض علاقوں مثلاً یانسی کیانگ  (YANTZE KIANG) اور ہوانگ ہو (HWANGAHO) کی وادی سے جانے کتنے قبیلوں نے برہمپتر کی وادی کی جانب ہجرت کی تھی، ایک کے بعد دوسرے قبیلے نے بڑی تیزی کے ساتھ اس ملک کی مٹی پر قدم رکھا تھا، جانے کتنے عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا ہے ، یہ ہجرت غیر معمولی نوعیت کی تھی، کسی ہجرت میں اتنی تیزی اور شدت کی مثال ملک میں آسانی سے نہیں ملے گی، ان کی زبان ’’تبتی برمی‘‘ زبان سے قریب تر نظر آتی ہے کہ جس پر چینی اثرات نمایاں ہیں، جب یہ لوگ مختلف قبیلوں میں تقسیم ہو کر آسام کی وادی میں رچ بس گئے، تو تجربوں کی آمیزش کی پہچان ہونے لگی اور پھر ان کی زبان ’’بود و کچھاری‘‘ (BODO KACHARIS) کی صورت ابھر کر سامنے آ گئی، آسام کے قدیم عقائد اور تصورات، توہمات اور مذہبی تصورات کے گہرے اثرات ہونے لگے، کچھاری حکومت (تیرھویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی تک) کے آثار کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ نا گاؤں کے فنی تجربے کتنے قدیم ہوسکتے ہیں! یہ آثار ایک انتہائی قدیم تہذیب کی روایتوں کا احساس عطا کرتے ہیں کہ جن میں عوامی تجربوں اور جذبوں کی روشنی اپنی تابناکی کے ساتھ موجود تھی۔ روحیت ظاہر  (ANIMISM) پر ان کا زبردست اعتقاد تھا اور آج بھی ہے۔ پتھروں اور پیڑ پودوں کی روح سے ایک انتہائی پر اسرار جذباتی اور حسّی رشتہ قائم کر کے زندگی میں توازن قائم کرنے کا عقیدہ بنیادی عقیدہ تھا، پتھر اور پیڑ پودے زرخیزی کی علامتوں کی صورتوں میں ابھرے، پتھروں سے ایک سنگی ستون، کو وہ اپنے احساس جمال کے مطابق سنوارتے تھے، آج بھی تبتی برمی، پہاڑی قبیلوں میں یہ روایت موجود ہے۔

ان کے قریب آباء و اجداد کی روحوں کی عبادت ہوتی اور اور بھوت پریت اور عالمِ ارواح سے ذہنی اور جذباتی رشتہ قائم ہوتا، رفتہ رفتہ یک سنگی ستون کے قریب حیات و کائنات کی تمام قوتیں سمٹ آئیں اور ان سے با معنی پر اسرار رشتہ قائم کرنے کے لیے قربانیوں کا رواج بھی شروع ہو گیا، یک سنگی یادگار، پر مختلف جانوروں کا لہو لگایا جاتا اور ان کے باطن کو متحرک کیا جاتا، مختلف قبیلوں کے احساس جمال نے یک سنگی ستونوں کو مختلف نقشوں اور صورتوں سے سنوارنا شروع کیا، ان پر تصویریں بننے لگیں، قبائلی فنون کے نمونے سامنے آنے لگے، ناگالینڈ اور آسام میں آج یک سنگی ستون ماضی کے فنی تجربوں کی جانب بیدار کرتے ہیں ، ستونوں کے نقش و نگار، ماضی کے احساس اور جذبے سے رشتہ قائم کر دیتے ہیں۔ پتّھروں کے بلند ستونوں نے آسمانوں سے رشتہ قائم کر رکھا تھا، روحوں اور کائنات سے پر اسرار تعلق قائم کرنے کے لیے بلندی کے آرچ ٹائپ،  (ARCH TYPE) میں بڑی شدّت پیدا ہو گئی تھی، پھولوں ، پودوں، پرندوں اور جانوروں کی تصویریں بنا کر انہیں جاذب نظر بنانے کی کوشش بھی توجہ چاہتی ہے اور ساتھ ہی ایسے تمام پیکروں کی علامتی معنویت بھی غور طلب بن جاتی ہے۔

’یک سنگی ستون‘ یا ’یادگار‘ ایک جیسے نہیں ہوتے تھے، ایک ستون دوسرے سے مختلف ہوتا تھا۔ آرائش و زیبائش مختلف انداز کی ہوتی تھی، عوامی ذہن نے ان ستونوں کو طرح طرح سے سنوارا تھا اور اپنے احساس جمال کا مظاہرہ کیا تھا۔

افسوس ہے کہ وقت نے ان ستونوں کو مٹا کر رکھ دیا اور ان کے پیش نظر مختلف قبیلوں کے احساسِ جمال کا مطالعہ نہ ہوسکا! اس وقت جو ستون موجود ہیں ان میں ایک ستون ۲۰ فٹ بلند ہے۔ اور پانچ اشخاص کی پھیلی ہوئی بانہیں بھی اسے گرفت میں نہیں لے سکتیں۔ کئی ایسے ستون ہیں جو دس اور بارہ فٹ بلند ہیں ’فارم‘ ایک جیسا ہے لیکن آرائش مختلف ہے، اوپر کا حصّہ نیم مستدیر (SEMI CIRCULAR) ہے، نچلے حصّوں پر تصویریں بنی ہوئی ہیں، مختلف خاکے اور نقشے ابھرے ہوئے ہیں، بعض بیل بوٹے اور نقش و نگار ماضی کی جمالیاتی روایات کے تئیں بیدار کرتے ہیں، جمالاتی زرخیزی توجہ طلب بن جاتی ہے، مختلف نقشے اس طرح آمنے سامنے ہیں کہ ان سے تناسب اور جمالیاتی موزونیت (AESTHETIC SYMMETRY) کا احساس فوراً مل جاتا ہے، ایسے عوامی جمالیاتی تجربوں کی یہ خصوصیت غیر معمولی ہے جس سے ماضی کی جمالیاتی روایتوں کی عظمت کی پہچان ہو جاتی ہے، ہندوستانی جمالیات، میں قدیم ترین آرٹ میں جمالیاتی تقابل  AESTHETIC JUXTA POSITION کا مطالعہ ابھی نہیں ہوا ہے، صرف اس مطالعے سے ہندوستانی جمالیات میں ’سمسٹری‘ (SYMMETRY) یا تناسب اور موزونیت کی اعلیٰ ترین روایت کا عرفان حاصل ہوسکتا ہے۔

یک سنگی ستونوں پر جو بنیادی نقش یا ’موتف‘  (MOTIF) میں ان میں پودےؔ، مورؔ، طوطےؔ، کتّےؔ، ہاتھیؔ، ہرنؔ، شیرؔ، بھینس اور بطخ کے علاوہ تمغہ کلاں کی مانند ایسے چکر بھی ہیں کہ جن میں ’نقش ابھارے گئے ہیں‘۔ ابھرواں خاکے اور نقش (RELIEF) بہت واضح ہیں اور پتھروں پر انہیں ’پینل‘  (PANEL) کے اندر رکھنے میں احتیاط سے کام لیا گیا ہے، فنکار اس معاملے میں جتنے محتاط ہیں اسے دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ آرائش و زیبائش میں ان کا جمالیاتی شعور کتنا متوازن تھا۔

ایک پتھر پر انسان کا سر ملتا ہے، ناگا قبیلوں میں رواج یہ تھا کہ دشمنوں کے سر کاٹ کر بانس پر لٹکا دیے جاتے تھے اور اس کے بعد فتح کا جشن منایا جاتا تھا، ممکن ہے اس کا تعلق اسی رواج سے ہوا۔ یہ بھی عوامی جذبے کا ایک مظہر ہے، ناگا قبیلے روح کی موت کے قائل نہ تھے، کم و بیش تمام قبیلوں کا یہ راسخ عقیدہ تھا کہ موت کے بعد روح زندہ رہتی ہے روحوں سے پراسرار باطنی رشتہ قائم رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ کھیتوں میں زیادہ اناج پیدا نہ ہو، زیادہ سے زیادہ مویشی حاصل نہ ہوں اور قبیلے میں عزت نہ بڑھے۔ جادو یا سحر سے یہ رشتہ قائم ہوسکتا ہے، روحوں کی عبادت سے خواہشیں پوری ہوسکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آباء و اجداد اور رشتہ داروں کی روحوں کی عبادت کی جاتی تھی اور ان کی روحوں کو خوش کرنے کے لیے جانوروں کی قربانیاں روایت کا ایک حصّہ بن گئی تھیں، وہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی قبریں تعمیر کرتے تھے، بڑے بڑے پتھروں سے اُن کی لاشیں چھپا دی جاتی تھیں اور ایسے تمام مقامات کو انتہائی مقدس تصور کیا جاتا تھا۔ زمین کی زرخیزی، زندگی اور موت، اولاد کی کثرت اور زیادہ سے زیادہ مویشیوں کو حاصل کرنے کے لیے ان قبروں کی عبادت کی جاتی تھی، جو قدیم قبریں دریافت ہوئی ہیں ان میں اکثر منقش اور دائروں کی صورتیں میں ابھری ہوئی ہیں، ان پر گول بھاری پتھر رکھے ہوئے ہیں اور جہاں اقلیدسی نقوش واضح ہیں وہاں پرندوں جانوروں پودوں کے پیکر بھی ملتے ہیں۔

تیرہویں صدی عیسویں سے سولہویں صدی عیسوی تک جو قدیم کچھاری حکومت رہی اس نے عوامی فنون کی روایات کو زندہ رکھا۔ کچھاری حکومت کے پورے عہد کے جو آثار ملتے ہیں ان سے عوامی فنون کی قدیم ترین روایتوں کی بہت حد تک پہچان ہو جاتی ہے، یہ آثار عوامی روایات کے تسلسل میں جانے کتنی قدیم فنی قدروں کو سمجھاتے ہیں اور عوام کے احساسِ جمال کے تئیں بیدار کرتے ہیں، دیما پور میں اب تک بہت سے ایسے آثار محفوظ ہیں، ان میں پتھر سے تراشے ہوئے شطرنج کے مہروں کی مانند کئی یادگار ہیں، انہیں شطرنج کے مہروں  (CHESS MAN) سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے، ناگاؤں کے عقائد اور توہمّات وغیرہ جب ہندوؤں کے عقائد اور تصورات کے قریب آئے تو صدیوں ایک پر اسرار تہذیبی اور فکری آمیزش ہوتی رہی، مہا بھارت کی قدیم عوامی کہانیوں نے نا گا قبیلوں کے تمدن کو اتنا متاثر کیا کہ رفتہ رفتہ ناگاؤں نے اپنی قدیم ترین تاریخ کو ہندوستانی تاریخ سے وابستہ کر دیا اور اس حد تک کہ وہ یہ سمجھنے لگے کہ ان کی تاریخ ہندوستان کی تاریخ کا ایک حصّہ ہے، اپنے عقائد اور توہمات کو بھی اس سے جذب کر دیا، ابتدا سے اپنی تاریخ اور اپنی روایات سے ہندوستان سے وابستہ کر کے دیکھنے اور محسوس کرنے لگے، عقائد اور خیالات کی وحدت قائم ہونے لگی، رفتہ رفتہ وہ تہذیب کے اس بڑے سمندر میں شامل ہو گئے تہذیبی آمیزش کی یہ قدیم ترین مثال غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے، کچھاریوں نے خود کو ’ایپک‘ کے عہد سے وابستہ کر لیا، رزم کے قصوں میں اپنے آباء و اجداد کے متحرک پیکروں اور کرداروں کو پانے لگے، یہ عقیدہ راسخ ہو گیا کہ کچھاریوں کا رشتہ آسورما شہزادی ’ہد مّبا‘ (HIDIMBA) سے ہے، مہابھارت کے بھیم کی شادی اسی شہزادی سے ہوئی تھی، پھر وہ وقت آیا جب کچھاریوں نے اپنی حکومت کو، ہدمبّا ، اور اپنے دارالسلطنت کو ’’ہد مبا پور‘ کہنے لگے، کہا جاتا ہے دیما پور، پہلے ‘‘ ہمد مباپور، تھا ۔ قنوج اور متھلا کے برہمنوں نے ان کی تعلیم و تربیت میں نمایاں حصہ لیا ہے، یہ برہمن اپنے آباء و  اجداد کا رشتہ اندر، اور ’شیو‘ سے قائم کرتے تھے، دیوی دیوتاؤں اور رزمیہ قصّوں اور کہانیوں نے انہیں ایک دوسرے سے بہت قریب کر دیا اور اس آمیزش جانے کتنی لوک کہانیوں اور جانے کتنے لوک گیتوں اور نغموں کو جنم دیا۔ تعمیر کے فن میں بھی نئے تجربے ہوئے ۔ کچھاری مزدوروں نے سرخ اینٹوں سے مکان بنائے کچھ آثار اب بھی موجود ہیں، شطرنج کے مہروں جیسے یادگار قائم کیے، ان پر فنکاروں کی نقاشی آج بھی توجہ طلب ہے۔

’یک سنگی ستون ‘ شطرنج کے مہروں جیسے یادگار اور دیوارو ں کے نقوش یا موتف، (MOTIFS) وغیرہ غالباً اس بڑے دور کی تصویریں ہیں جب غیر آریوں اور آریوں کے درمیان پہلی بار فکری اور تمدنی سطح پر رشتہ قائم ہو رہا تھا، کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یک سنگی ستون کا تعلق شیو کے لنگم سے ہے۔ شیو اور ان کے لنگ کے پیکر کی داستان ماضی میں پوشیدہ ہے لنگ کا حسی پیکر

بہت ہی قدیم ہے، عوامی ذہن نے اسے کب اور کس طرح قبول کیا اور اس کے پیکر کب تراشے گئے، کوئی نہیں جانتا، اس کی علامتی اہمیت پر جانے کتنے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، ناگا قبیلوں اور خصوصاً ناگ کی پرستش کرنے والوں نے اسے ہمیشہ کسی نہ کسی طرح بڑی اہمیت دی ہے، یہ کہنا مشکل ہے کہ ’لنگم‘ کا حسّی پیکر شیو کے پیکر سے قدیم ہے یا شیو کے پیکر کی تخلیق کے بعد اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ قیاس یہی ہے کہ انسانی شکل و صورت کے شیو سے قبل عوامی ذہن نے اس کی تخلیق کی تھی اور اس کی ہر صورت کو مقدس تصور کیا تھا، تانترؔ اور یانترؔ دونوں کی فسلفیانہ بنیادیں اور سطحیں بعد میں قائم ہوئی ہیں، یہ دونوں عوامی ذہن کے کرشمے ہیں، قدیم ترین قبیلوں کی تاریخ میں ’لنگم‘ کی پرستش کے ثبوت موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ ہندوؤں نے یہ پیکر قدیم ترین قبیلوں اور قدیم ترین باشندوں سے حاصل کیا ہے۔ پرانے رشی مینوں نے اپنے تفکر سے اس میں علامتی جہتیں پیدا کی ہیں اور اسے اتنا مقدس بنا دیا ہے کہ کسی نے اسے نا پسندیدہ پیکر تصور نہیں کیا، اسے مذہب میں قانون شکنی یا جارحیت سے تعبیر نہیں کیا، ’پدم پران (PADMA PURANA) میں ’بھرگو رشی‘ کی بددعا کا ذکر ملتا ہے انسان کی بد دعا یا شراب کے ایسے ’اثر‘ کی کہانی ملتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گی دامن نے بد دعا یا شراب کی ایک دوسری کہانی بیان کی ہے، ایک تیسری کہانی ’شیو پران‘  (SHIVA PURANA) میں ملتی ہے کہ جس میں کام روپ ، کے راجہ اور راکھشسوں کی جنگ کے بعد جب راجہ کو فتح حاصل ہوئی تو اس نے سب سے پہلے مٹی سے ’لنگم‘ بنایا اور اس کی پرستش کی، ان کے علاوہ قدیم ہندوستان نے جانے کتنی کہانیوں کی تخلیق کی ہے، یہ ساری کہانیاں اور ’لنگم‘ کے تعلق سے تمام عوامی قصے عوامی ذہن کے کرشمے ہیں، ’لنگم‘ کے پیکروں کی تخلیق کی ایک بڑی داستان ہے، اس کے جانے کتنے روپ ہیں، بعض پیکروں میں اس کی معنوی جہتوں کو بعض علاقوں میں بھی پیش کیا گیا ہے ناگاؤں کے تمدن اور کچھاریوں کے تمدن کی آمیزش نے ممکن ہے ’لنگم‘ کی ایک نئی صورت کو جنم دیا ہو اور یہ یک سنگی ستون ہو یا اس نوعیت کی کوئی دوسری شے ’لنگم‘ بلا شبہ ناگ کے وجود کے گہرے تاثر کو بڑی شدت سے ابھارتا ہے۔ برہمپتر کی وادی پر جب ورمن سوتیا اور پالا خاندانوں کے افراد کا قبضہ ہو گیا اور دوسرے علاقوں خصوصاً مشرقی علاقوں کے قبیلے اس وادی میں بسنے لگے تو کچھاری اپنی روایات کو لیے برہمپتر کے مغربی علاقوں کی جانب بڑھ گئے اور مختلف پہاڑی حصوں میں آباد ہو گئے، بظاہر ان کی وحدت بگڑ گئی لیکن ان پہاڑی علاقوں میں اپنی روایات کی آبیاری میں مصروف رہے۔ مختلف علاقوں میں انہیں مختلف نام بھی ملے، حیرت کی بات ہے کہ جب ۱۲۰۳ء میں ترکوں نے بنگال پر قبضہ کیا اور بختیار خلجی نے کام روپ (آسام) کا سفر کیا تو اس نے کچھاریوں کی زندگی اور ان کے تمدن کے نقوش کو دیکھ کر بے اختیار کہا ’’یہ لوگ تو ترک قبیلوں سے ملتے جلتے ہیں!‘‘

تہذیبی آمیزش اس طرح ہوئیں کہ کچھاریوں نے ہندو اور مسلم فنِ تعمیر کے اثرات قبول کیے اور مزدوروں نے ایسی عمارتیں اور دیواریں تعمیر کیں کہ ناگا، کچھاری، ہندو اور مسلم روایات ایک دوسرے میں جذب ہو گئیں، تمغہ کلاں کی مانند جو چکر پتھروں پر ابھارے جاتے تھے ان کے اندر ’’کنول‘‘ کے پھول نظر آنے لگے بعض دروازے ایسے بنے کہ جنہیں دیکھ کر مشرقی سلطانوں کے منقش دروازوں (۱۳۹۹ء ۱۴۸۴ء)کی یاد آ جاتی ہے۔ جونپور کی عمارتوں اور خصوصاً مسجدوں کی تعمیر میں جو فن ملتا ہے کم و بیش اسی نوعیت کا فن یہاں بھی موجود ہے جونپور میں مشرقی سلطانوں نے ہندو معماروں کی فنی صلاحیتوں پر ہی زیادہ اعتماد کیا تھا۔ (ایک مسجد کے مشرقی دروازے پر دیوناگری تحریر توجہ طلب ہے) کہا جاتا ہے کہ ۱۴۸۴ء میں جب حسین شاہ شرقی کی شکست ہوئی تو جونپور کے ہندو اور مسلمان معمار اور فنکار مشرقی علاقوں کی جانب چلے گئے، کون جانے یہ برہمپترؔ کی وادی میں بھی آئے ہوں، کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا لیکن جونپور کی عمارتوں اور کچھاریوں کی جدید عمارتوں کی تعمیر اور نقاشی کے عمل میں جو مماثلتیں ہیں ان سے کچھ یقین سا آ جاتا ہے کہ جونپور کے فن کاروں نے بھی ناگاؤں اور کچھاریوں کو متاثر کیا ہے، فنکارانہ عوامی نقاشی کے ایسے نمونے پہلے موجود نہ تھے۔

قدیم قبیلوں کے نظام حیات میں انسانی ذہن کے مہمانہ تحرک نے تخلیقی صلاحیتوں کے آبیاری میں بڑا حصّہ لیا ہے۔ وژن اور اعتماد نے جس ’مسٹی سزم‘ کو پیدا کیا اسی نے تجربہ اور احساس کی مدد سے اجتماعی سطح پر وسعت اور گہرائی پیدا کی اور سماجی شعور کی ایک سے زیادہ سطحوں کو ابھارا سماجی ارتقاء کے تسلسل میں انسانی اقدار کو خلق کیا۔ اجتماعی روحانی تقدیر کا وہ تصور پیدا ہوا کہ جس کا رشتہ اپنی مٹی سے بہت ہی گہرا تھا۔ فرد کی نظر، اجتماعی تجربوں سے روشن ہوئی کہ جس سے انسان اور انسان کے رشتے میں استحکام پیدا ہوا۔ انفرادی سطح کی ’آئیڈیل ازم‘ اور ’مسٹی سیزم‘ نے قبیلوں کے احساس میں جاگرتی پیدا کی اور ایسے تجربوں کے تئیں بیداری پیدا کی حسن ، آہنگ اور موزونیت کی تلاش شروع ہو گئی، فنی اظہار نے کلچر کی تشکیل میں نمایاں حصّہ لینا شروع کیا، عقل ، وجدان، تکنیک اور تجربوں کا سفر نسل در نسل جاری رہا۔ روایات آہستہ آہستہ مستحکم اور جہت دار بنتی گئیں، چوں کہ عوامی فنون کی جڑیں دھرتی کے اندر پیوست ہوتی ہیں اس لیے دھرتی کے اندر انسان اور انسان کے رشتوں کے لیے بڑی تیزی سے آگے بڑھنا چاہتی ہیں، مستبقل کی نہیں بلکہ ان کے ساتھ جینے کی بھی ضرورت ہے۔ اعلیٰ فنی روایات تو وہ ہوتی ہیں جو انسان اور انسان کے رشتوں کو مضبوط اور مستحکم کرتے ہوئے افراد کے احساس، خیال اور مختلف قسم کی عمدہ تمناؤں اور آرزوؤں میں وحدت پیدا کر کے انہیں زیادہ سے زیادہ بلند کرتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فنون اکثر مذاہب کی جگہ لیتے رہے ہیں، زندگی کی سچائیوں کا جمالیاتی اظہار تہذیب میں سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔

قدیم سماج میں ہر فرد ایک فنکار ہے، کوئی کہانی خلق کر کے سناتا ہے کوئی رقص کرتا ہے۔ ہر فرد کسی نہ کسی سطح پر ایک شاعر بن کر ابھرتا ہے، رقص اور نغمے سماج کے آہنگ کو مرتب کرتے ہیں، کہانی اور کہانی، رقص اور رقص اور گیت اور گیت میں مختلف سطحوں پر رشتے پیدا ہوتے ہیں، کچھ لوگ کچھ واقعات کو سوانگ کی صورت پیش کرتے ہیں، نقالی کے عمل سے حقیقت کی عجیب و غریب صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، پیدائش اور موت، شکار اور کھیتی باڑی، عشق و محبت اور جنگ وغیرہ کے جذباتی تاثرات ڈرامائی انداز میں پیش کیے جاتے ہیں، رسومات اور فن سماجی حالات میں شامل ہو کر جذبات اور ہیجانات میں ترتیب اور موزونیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اجتماعی رقص سے جذباتی تناؤ میں کمی آتی ہے جس سے فرد اور جماعت دونوں سماجی تطابق، انضباط، اور ہم آہنگی کی قدر و قیمت سے آگاہ ہوتے رہتے ہیں دونوں میں سماجی ہم آہنگی کا ایک شعور پیدا ہوتا رہتا ہے، رقص میں آہنگ کی وحدت اور جسم کی حرکت کے یکساں عمل سے جذباتی یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ سماج چھوٹا ہو یا بڑا، احساس اور عمل کی وحدت سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔

آج بھی اپنے ملک کے کئی قبیلوں کے رقص میں قدیم ترین رقص کی رسومات موجود ہیں۔ پتھر کے زمانے کے شکاریوں کے رقص کی کئی خصوصیات واضح طور پر نظر آتی ہیں جن میں سحر انگیز اقتصادی یا معاشی، پہلو سب سے اہم ہے، رقص اور گیت کی وحدت ایسی ہے کہ انہیں علیٰحدہ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا۔ تجربات اور جذبات کی ہم آہنگی سے یہ وحدت قائم ہوتی ہے اور لفظ اور آہنگ دونوں جسم کی حرکتوں کا جمالیاتی اظہار بن جاتے ہیں، ہر حرکت، کسی نہ کسی تجربے یا کسی نہ کسی جذبے کا اظہار ہے، جذبہ، تجربہ ہے اور تجربہ جذبہ! رقص کوئی نہ کوئی واقعہ بن جاتا ہے، کہانی سنانے یا کہانی کو محسوس تر بنانے کے لیے رقص کا اسلوب بہت اہم بنا رہا ہے، قبائلی رقص، کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ رقص عموماً جانوروں کی بعض آوازیں پیدا کرتے ہیں اور اپنے رقص سے ان جانوروں کی حرکتوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ وقت کی تبدیلی سے بہت سی آوازیں آج موجود نہیں ہیں لیکن کچھ آوازیں اب بھی ہیں جو لمحوں میں ابھر کر رقص کے آہنگ میں گم ہو جاتی ہیں، جانوروں کے ’ماسک‘ کی روایت ابھی زندہ ہے، شکار پر جانے ، جانوروں کو اپنے نقلی چہروں سے فریب دیتے، انہیں پکڑنے اور مارنے کے سارے عمل کو آج بھی قبائلی رقص میں دیکھا جا سکتا ہے، اسی طرح زمین کی زرخیزی کے تعلق سے قدیم رقص کی بعض بنیادی خصوصیات اب بھی موجود ہیں، بیج بونے کے لیے زمین کی تیاری، بیج ڈالنے کا عمل، اناج کے پیدا ہونے کے مختلف تاثرات اور اناج کی کٹائی کے وقت انسان کی محنت کی مختلف تصویریں پیش کی جاتی ہیں، قدیم روایات کی سحر انگیزی رقص کے اجتماعی تحرک میں متاثر کرتی ہے، ساحلی علاقوں کے باشندوں نے مچھلیوں کے شکار اور ان کے روزگار کے تعلق سے رقص کی جانے کتنی جہتیں پیش کیں۔ اور اجتماعی تحرک سے مچھلیوں کے تحرک کو طرح طرح سے پیش کیا، اسی طرح ناگ کی عبادت کے رقص میں سانپوں کے تحرک کو اپنے جسم کا تحرک بنا لیا۔ سانپ کے لہرانے کی کیفیتیں جسم کے اٹھان سے پیش کی گئیں اور بعض مدراؤں میں ناگ کے عمل کو شامل کیا گیا۔ قبائلی رقص میں ناگ رقص کی بڑی اہمیت ری ہے۔ یہ ’توتمی کردار‘ جدید دور میں بھی ایک جلوہ بن گیا ہے۔ ابتدائی رقص اور مصوّری اور نقاشی میں ’ناگ‘ ایک اہم ترین ’موتف‘  (MOTIF) ہے۔ ’درخت‘ اور ’ناگ‘ دوا ہم’ تو تم‘ (TOTEM) رہے ہیں، دونوں خوف، اور ’خطرہ‘ اور ’محافظ‘ ’دیوتا‘ اور ’ہمدرد‘ کی صورتوں میں زندہ رہے ہیں، ان سے قبیلوں کے پر اسرار رشتے اور سمبندھ رہے ہیں۔ یہ دونوں ’محافظ روح ‘ اور ’مدد گار‘ کے پیکروں میں ڈھلتے رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے قبیلوں کے افراد پر ہمیشہ کچھ ذمہ داریاں رہی ہیں جو مقدس تصوّر کی گئی ہیں، ’توتمی کردار  (TOTEMIC CHARACTER) وراثت میں ملتا رہا ہے، صرف چند افراد کو نہیں بلکہ ان افراد کے پورے قبیلے کو! تہواروں میں ایسے قبائلی کردار کو پہچانا جا سکتا ہے اور خصوصاً اس وقت جب وہ اپنے رقص میں ایسے پیکروں کو نمایاں کرتے ہیں یا پتھروں اور زمین پر نہایت احترام کے ساتھ تصویریں بناتے ہیں۔ قدیم قبائلی سماج کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ کسی ’تو تم‘ کا تعلق صرف ایک یا کسی خاص علاقے سے نہیں ہے بلکہ ایک ہی ’تو تم‘ ایک ساتھ کئی مختلف علاقوں میں مقبول اور محبوب ہے، توتمی رشتہ بہت مضبوط اور انتہائی مستحکم ہوتا ہے سگمنڈ فرائڈ نے تو یہ کہا تھا کہ توتمی رشتہ خاندان اور خون کے رشتے سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے۔ جس طرح’ تو تم جانوروں ‘ کے متعلق ساری دنیا میں سیکڑوں کہانیاں خلق ہوتی رہی ہیں اسی طرح ’ناگ‘ کے تعلق سے بھی جانے کتنے قصّے خلق ہوتے رہے ہیں، ہندوستان نے اسے ’جانور‘ ’انسان‘ ’دیوتا‘ اور فوق الفطری روح، کی صورتوں میں محسوس کرتے ہوئے انگنت کہانیاں دی ہیں۔ اس طور اور مذاہب نے انہیں قبول کیا ہے اور ان میں اساطیری رنگ اور روحانی جہتیں پیدا کی ہیں۔ بڑی بات ہے کہ ’ناگ‘ نے بھی روحیت مظاہر (ANIMISM) کی طرح سوچ اور فکر اور خیالات کا ایک اولین مکمل نظریہ پیش کیا ہے جسے زندگی اور اپنی محسوس کی ہوئی زندگی کا ایک مکمل اولین نظریہ کہا جا سکتا ہے۔ وہاں پوشیدہ جذباتی رویوں کا بھی اظہار ہوا ہے۔ تردد اور فکر کے ساتھ خوابوں کے تاثرات بھی نقش ہوئے ہیں۔ سانپ یا ناگ خاندان، برادری اور چھوٹے قبیلوں  (CLANS) کا بھی ’توتم‘ ہے، جنس یا سیکس  (SEX) کا بھی اور بنیادی خوف اور تحفظ کی آرزو کا بھی جو لا شعور میں ہمیشہ نمایاں طور پر متحرک رہا ہے اور بنیادی خوف اور تحفظ کی سے پہچانے جاتے ہیں عقیدہ یہ ہے کہ تمام ناگاؤں کا رشتہ خون کا رشتہ ہے ایک ہی خاندان سے آئے ہیں لہٰذا سب کا ایک دوسرے پر یکساں حق ہے، ایسے غیر معمولی نفس احساس سے سماج کا ابتدائی نظام قائم ہوا ہے کہ جس میں مضبوط سماجی رشتے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تکلیف کا خیال اور ایک دوسرے کے تحفظ کے تئیں بیداری اس سماج کی نمایاں خصوصیات ہیں، اسی احساس نے مذہبی رسوم کو زندہ رکھا ہے، کھیتوں میں اجتماعی محنت کو ضرور جانا ہے اور تخلیقی محنت میں ایک فرد کو دوسرے فرد سے قریب تر کیا ہے۔

ہندوستانی جمالیات میں ’ناگ اور سانپ ‘ ایک اہم ترین موضوع ہیں، مذہب ، فلسفہ، یوگ، تانتر اور اسطور نے ان میں معنوی جہتیں پیدا کر کے اور ان کی فلسفیانہ اور ما بعد الطبعیاتی رومانی اور فوق الفطری بنیادیں قائم کر کے ہندوستانی جمالیات کے دائرے کو وسیع تر کر دیا ہے۔

قدیم آرٹ کا مطالعہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آرٹ، حسن یا جلال و جمال کے تعلق سے عام ہیجانات اور جذبات کے اظہار کی صلاحیت اور استعداد کو نمایاں اور واضح کرتا ہے، جلال و جمال کے احساس سے جمالیاتی حس بیدار ہوتی ہے اور تخلیقی تخیل عام جذبات اور ہیجانات کو مختلف جمالیاتی صورتیں عطا کرتا ہے۔ آرٹ ایسا جذبہ بن جاتا ہے جو حقیقت یا حسی حقیقت کو اچھے ’فارم‘ میں ڈھال دیتا ہے۔ ایسے عمل سے حقیقت اور فینتاسی، دونوں کو قبول کرتے رہنے اور تخلیقی صلاحیتوں میں تحرک پیدا کرتے رہنے کا شعور حاصل ہوتا رہا ہے۔

قبائلی لوک گیتوں اور رقص کے پس منظر میں قدیم تمدن کے روایتی فن کی قدریں بڑی مستحکم ہیں، زندگی کے جلال و جمال نے قدیم جمالیاتی حس کو بیدار کر کے عام ہیجانات اور جذبات کے اظہار کی جو صلاحیت بخشی تھی اسی سے رقص اور نغموں میں یہ وقار پیدا ہوا ہے رومانی قدروں کے ساتھ اور بھی بہت سی قدریں ایسی ہیں جو ذہن کو ماضی کے تجربوں کی جانب مائل کرتی ہیں، محنت، قربانی، اور جنگ کے نغمے اور رقص خاص طور پر توجہ طلب ہیں، ڈھول اور نقاروں کے آہنگ میں جتنی بھی تبدیلیاں آئی ہوں، یہ آہنگ مختلف سطحوں پر مختلف روایات کا احساس دیتا رہتا ہے ۔ کھاسیؔ قبیلے کے دو معروف رقص ’’نونگ کریم‘‘ اور ’’شد۔ سک’منسیم کے ساتھ اگر جینتیا ‘قبیلے کے ’’لاہو رقص‘‘  (LAHODANCE) گارو قبیلے کے ’رابھا رقص‘ (RABHA DANCE) نو شائی کوکی، قبیلے کے ’چیرو‘  (CHERO) اور بانس کے رقص ’’ما  (BAMBOO DANCE) ناگاؤں کے جنگ کے رقص ‘‘  (WAR DANCE)  مش مس  (MISHMIS) قبیلے کے ایگو رقص ’’ ۔  (IGU DANCE) اور بدھ قبیلوں مثلاً مونپاس  (MONPAS) ممباس (MEMBAS) کھمباس (KHAMBAS) کھامتی (KHAMTI) کے مور، شیر، تبتی بیل، (YAK) رقص کو دیکھا جائے تو قدیم روایتی فن کی قدروں کے استحکام کا بخوبی علم ہو گا۔ ناگاؤں کے رقص کی کئی خصوصیات ایسی ہیں جو تندو رقص میں ملتی ہیں، کتھا کلی، منی پوری، اور بیہو  (BIHU) وغیرہ کے پس منظر میں یہ قدیم رقص اور ان کی روایات بہت اہم ہیں کہ جن کا مطالعہ ابھی نہیں ہوا ہے۔ پہاڑی علاقوں کے قبیلوں کے رقص میں کہانیاں بھی پیش کی جاتی رہی ہیں جو کتھا کلی کے رقص کی تخلیق کے پس منظر میں توجہ طلب ہیں۔ کھیتوں میں جانے ، بیج بونے اور اناج کاٹنے، شادی بیاہ اور دیوتاؤں کی عبادت وغیرہ کو ابتدا سے اہمیت دی گئی ہے لہٰذا یہ بنیادی موضوعات رہے ہیں۔ گیتوں اور رقص کے آہنگ اور تحرکات ، موضوعات اور جمالیاتی اظہار بن جاتے ہیں۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

٭٭٭

تشکر:ڈاکٹر شکیل الرحمن  جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید