FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

گفتگو بند نہ ہو

 

(مشرف عالم ذوقی کے مکالموں پر مشتمل)

 

 

 

 

                مرتبہ: الماس فاطمہ

 

 

 

 

 

انتساب

                     میرے دادا پروفیسر ابولحسن رضوی کے نام

 

 

 

 

 

 

پیش لفظ

 

مکالمے زندگی کی حقیقت ہیں۔

بڑا ادیب اپنے مکالموں سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

مکالمے ادیب کو جاننے اور سمجھنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ مشرف عالم ذوقی کا شمار اردو زبان کے عظیم ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ اب یہ صداقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اردو میں قرۃ العین حیدر کے بعد کی صف میں جو معیار مشرف عالم ذوقی نے ناول نگاری کے میدان میں قائم کیا ہے، اس معیار تک پہنچنا آسان نہیں۔ اس کے لیے ایک مکمل زندگی ادب کو قربان کرنی پڑتی ہے۔ ذوقی ایک عرصہ سے ناول لکھ رہے ہیں۔ پہلا ناول انہوں نے صرف ۱۷ سال کی عمر میں لکھا۔ جس شخص نے کم عمری میں ہی زندگی ادب کے نام وقف کر دی ہو، اس کو مفصل سمجھنے کے لیے ایک ایسی کتاب کی ضرورت میں شدت سے محسوس کر رہی تھی، جس میں ذوقی کے افکار خیالات کو بنیاد بنایا گیا ہو۔ اس لیے پچھلے ۸۔ ۷ برسوں سے میں نے ذوقی کے انٹرویو کو جمع کرنے کا کام شروع کیا۔ کچھ انٹرویو مجھے ڈاکٹر تسنیم فاطمہ کی کتاب سے ملے۔ کچھ میں نے جمع کیے۔ اور اب ’گفتگو بند نہ ہو‘ کے نام سے یہ کتاب پیش کرنے کا حوصلہ کر رہی ہوں۔

مشرف عالم ذوقی صوبہ بہار کے آ رہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دنوں تاج انکلیو گیتا کالونی، دہلی میں رہ کر اردو ہندی کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی اب تک۵۰ سے زائد کتابیں منظر عام پر آ کر اردو ہندی دونوں حلقوں میں شہرت اور مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ’’نالۂ شب گیر‘‘ (ناول) منظر عام پر آ کر کافی مقبول ہوئی۔ اس کے علاوہ ’’عقاب کی آنکھیں ‘، ’نیلام گھر‘، ’شہر چپ ہے ‘‘ ، ’’ذبح‘‘ ، ’’بیان‘‘ ، ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ ، ’’مسلمان‘‘ ، ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سانامی‘‘ ، ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ اور ’’آتش رفتہ کا سراغ ‘‘ کو بھی کافی شہرت حاصل ہوئی ہے۔

مشہور و معروف ادیب مشرف عالم ذوقی آج ادب کی دنیا میں ایک روشن ستارے کے مانند چمک رہے ہیں۔ میں نے ان کے ناولوں کو پڑھا، ان کے افسانوں کو پرکھا ہے۔ ان کی گفتگو کو سمجھا ہے، اور اس نتیجہ پے پہنچی کہ ایسی شخصیت کی آواز کو لوگوں تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔ اور اسی کوشش کے تحت میں نے ان کے مکالموں کو یکجا کر نے کی کوشش کی۔ اس کتاب میں ان کے ۳۲؍ انٹرویوز شامل ہیں۔ انٹرویوز میں جہاں انھوں نے اپنے ناول اور افسانوں پر بحث کی ہے، وہیں ٹی وی پروگرام اور ہندوستان میں پیدا ہونے والے مسائل پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔

اپنے پہلے انٹرویو میں انھوں نے جی آر سید سے گفتگو کی، جس میں انھوں نے اپنے آبائی وطن آ رہ(بہار)کے ماحول، تہذیب اور اپنے گھرانے کا ذکر کیا ہے۔ اس انٹرویو کے ذریعہ ہمیں ذوقی کے جذبات اور ان کے خیالات کی معلومات حاصل ہوتی ہے۔ ان کے ناول اور افسانوں میں جو سچائی، تلخ حقیقت اور قوم کے لئے فکر نظر آتی ہے وہ اسی ماحول و حالات کا نتیجہ ہے — ذوقی کی پرورش ایسے دور میں ہوئی جب عورتیں پردہ میں سفر کرتی تھی، مسلمانوں کو گری ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ اور اسی لئے ذوقی کو بھی گھر سے باہر کھیلنے کی اجازت نہ تھی۔ وہ وقت جب باہر کی دنیا کو دیکھنے کا ہوتا ہے، نئے نئے دوست بنانے کا ہوتا ہے، ایسے وقت میں ذوقی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی۔ اس موسم میں انھوں نے کتابوں کو ہی اپنا دوست بنا لیا، اور قلم کے ساتھ ہی کھیلنے لگے۔

مشرف عالم ذوقی جس دور میں کہانیاں لکھ رہے تھے، وہ عہد جدیدیت کا دور تھا— ذوقی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے۔

’’ سن ۱۹۸۰؍ ایک بہت بڑا پڑاؤ تھا۔ اردو افسانے میں جیسے ایک پڑاؤ ترقی پسند افسانہ ہے۔ دوسرا بڑا پڑاؤ جدیدیت ہے۔ یہاں میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں۔ میں جدیدیت سے قطعی اختلاف نہیں کرتا۔ میں جدیدیت کو ادب کا بہت بڑا پڑاؤ مانتا ہوں۔ کیوں کہ اگر جدید افسانے سامنے نہیں آتے توہم جیسے لوگوں کے افسانے بھی سامنے نہیں آتے۔ یعنی ۱۹۸۰ء کے بعد جو افسانے کی واپسی ہوئی ہے اس میں جدیدیت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘

ان کا دوسرا انٹرویو کامران غنی صبا کے ساتھ ہے۔ کامران صاحب نے ذوقی سے ان کے ناولوں کے تعلق سے گفتگو کی اور ایک بہت اہم سوال کیا— وہ یہ کہ کیا ایسا ناول لکھناجس میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر جیسے حساس واقعہ کا ذکر ہو، حقیقی واقعات کو فکشن میں ڈالا گیا ہو، تحقیقی نقطۂ نظر سے خطرناک نہیں تھا۔ ؟اور اس سوال کا ذوقی نے بہت خوبصورتی سے جواب دیا کہ ادب خطرے اٹھا نے کا نام ہے۔

ذوقی نے اس ناول کے ذریعہ اپنی حساس طبیعت کا پتہ دیا ہے۔ آج مسلمانوں کا ہندوستان میں جو حال ہے، جن حالات سے وہ گزر رہے ہیں، جن نا انصافیوں کا ان کو سامنا کر نا پڑ رہا ہے، اس سے تو سبھی واقف ہیں مگرایسے حادثوں پر لکھنے کی جرأت بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ ذوقی نے اس ناول کے ذریعہ نہ صرف مسلمانوں کے حالات زار کا ذکر کیا ہے بلکہ سیاسی لیڈروں اور پولس کی سازش کی قلعی بھی کھولی ہے۔

کامران غنی صبا نے ذوقی کے نئے ناول نالۂ شب گیر کے حوالے سے بحث کی ہے۔ یہ ناول نئی نسل کی فکر اور عورت کی آزاد خیالی کو پیش کرتا ہے۔ اس میں مرد کے ظلم و ستم اور استحصال، اور عورت کے انتقام کی کہانی کو پیش کیا گیا ہے — عورت مرد کو یہ سبق دینا چاہتی ہے کہ آج کی عورت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہ مرد کے سہارے کے بغیر اپنی زندگی گزار سکتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے نالۂ شب گیر کے ذریعہ ایک ایسی عظیم طاقتور عورت کی تخلیق کی، جو شایدکسی دوسرے ناول نگار نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔

ایک انٹرویو عینین علی حق کا بھی ہے — ’ میڈیا ہندو اور مسلمان میں فرق کر رہا ہے ‘ کے عنوان سے لیا گیا ہے۔ اس مکالمے میں ذوقی نے اپنی صحافتی خدمات کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔ ذوقی۱۷ سال کی عمر سے ہی صحافت کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے۔ اس وقت کے کئی اخبارات ایسے تھے جن میں ان کے مضامین مسلسل شائع ہوتے رہتے تھے۔ دہلی آنے کے بعد ۱۹۸۷ء میں ان کی وابستگی دوردرشن سے ہوئی۔ ذوقی نے دوردرشن میں آنے کے بعد بہت سارے سیریل، ڈوکومینٹری فلم، ڈوکو ڈرامہ بنائے او ر ان کی اسکرپٹ بھی لکھی۔ حالانکہ ایک عام انسان کے لئے یہ ایک مشکل کام ہے مگر ذوقی جیسی شخصیت نے اس کام کو بخوبی انجام دیا اور دوردرشن کی دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔

منظر مظفرپوری نے مشرف عالم ذوقی سے صنف افسانہ پر بحث کی، اور افسانے کے تعلق سے بہت سارے سوال کئے — ان سوالوں میں انھوں نے سب سے پہلے ذوقی سے ان کا مختصر تعارف دریافت کیا۔ پھر مظفر صاحب نے کئی اہم اور بنیادی سوالات کئے، مثلاً کیا ادیب کو کسی نظریے سے منسلک ہونا چاہے ؟یا وہ آزاد رہ کر بھی اچھا ادب تخلیق کر سکتا ہے ؟، آپ کی افسانوی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں کیسے کیسے واقعات حصہ لیتے ہیں ؟، کیا ممکن ہے کہ افسانہ نگار معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی لا سکتا ہے ؟اور تجریدی افسانے کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں ؟وغیرہ ذوقی نے بہت ہی خوبصورتی سے ان سوالوں کا جواب دیا ہے۔

ایک انٹرویو میں جناب ساگر صاحب نے مشرف عالم ذوقی سے ٹی وی کے مقبول پروگرام ’’دوسرا رخ ‘‘ کے تعلق سے گفتگو کی۔ یہ سیریل دوردرشن پر کافی عرصہ قبل آتا تھا۔ اس سیریل میں کشمیر کے پس پردہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلق کو واضع کیا گیا ہے۔ نیز دونوں کی نیت کا بھرپور خلاصہ بھی کیا ہے۔ جیسا کہ ہم سب کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں — ایک وہ رخ جو ہمیں باآسانی نظر آتا ہے تو دوسرا وہ رخ جو سب کی نظروں سے پوشدہ رہتا ہے۔ اور اسی پوشیدہ رخ کو مشرف عالم ذوقی نے اس سیریل میں دکھانے کی کوشش کی ہے — تاکہ دونو ملکوں کی عوام اس سے باخبر ہو سکے — اور ساتھ ہی ساتھ ذوقی ہند و پاک کے عوام کودوستی اور صرف دوستی کا پیغام دیتے ہیں۔ کیوں کہ دوستی ہی ایک ایسی چیز ہے جو بے غرض ہوتی ہے — جس کے پیچھے کوئی مفاد پوشیدہ نہیں رہتا ہے۔ ذوقی اس پروگرام کے ذریعہ جو پیغام دیتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہے۔

’’ ’دوسرا رخ‘ کے ذریعہ میں غلط فہمی کے سیاہ بادل کو الگ کرنا چاہتا ہوں اور دوستی کی فضا قائم کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

اس کتاب میں، میں نے مشرف عالم ذوقی اور اقبال جمیل کی ایک گفتگو کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ گفتگو ہمارے موجودہ عہد میں اردو ادب کی سمت و رفتار پر ایک خوبصورت بحث ہے — یہ گفتگو کی ہے پروفیسر مشتاق احمد نے۔ ہندوستان میں اردو زبان کی جو حالت ہے یا آج جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ تسلّی بخش ہے یا نہیں ؟ادب میں جو سیاست ہو رہی ہے اس کا ادب پہ کیا اثر ہو رہا ہے ؟ان سوالوں کا جواب مشرف عالم ذوقی اور اقبال جمیل دونوں نے دانشمندی سے دیا ہے کہ ادب میں سیاست ہونے سے اردو کا معیار بڑھنے کے بجائے کم ہونے لگا ہے۔ اور میں بھی یہی سمجھتی ہوں کے آج کے دور میں لوگ اردو کو کم پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اور والدین بھی بچوں کو اردو کے بجائے انگریزی پڑھانا پسند کرتے ہیں، تو اردو کے مستقبل کا کیا ہو گا؟

خوشتر نورانی علیگ نے بھی ذوقی سے ایک خصوصی ملاقات کی۔ اپنے سوالات کو ذوقی کے ماضی سے شروع کر کے، انہوں نے اردو ادب کے زوال پذیر حالات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالات زار پر ذوقی نے اپنی فکر کا اظہار کیا ہے کہ مسلمان جن حالات میں زندگی گزار رہا ہے، جس ماحول میں پرورش پا رہا ہے، ایسے میں ان کی حمایت میں آواز بلند کرنا بہت ضروری ہے۔ ذوقی نے مسلمانوں کی آواز کو اپنے ناولوں میں شامل کیا ہے۔ آزادی، غلامی، آزادی کے بعد فرقہ وارانہ فسادات اور آزادی کے ۶۸سالوں میں جو کچھ مسلمانوں پر گزر رہا ہے، وہ آسانی سے ذوقی کے ناولوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ خوشتر نورانی نے اردو کے فروغ اور زوال کے علاوہ ایک اہم سوال ذوقی سے کیا— اردو کے فروغ میں مدارس اسلامیہ کے ناقابل فراموش خدمات کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے اس کے تعلق سے بھی ذوقی نے کھل کر اپنا موقف بیان کیا ہے۔

رحمان شاہی نے بھی ’’ پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی‘‘ کے بہا نے سے مشرف عالم ذوقی سے ایک مختصر ملاقات کی۔ ’’اردو ادیبوں کو کشمیر کا درد نظر کیوں نہیں آتا‘‘ کے عنوان کے تحت سمیہ بشیر نے بھی ذوقی سے گفتگو کی۔ اس گفتگو میں انھوں نے ذوقی کے ناول، افسانے اور ان کی دلچسپی وغیرہ کے تعلق سے بہت سے سوالات کئے۔ اس انٹرویو کے مطالعہ سے ذوقی کی ادبی زندگی پر خاصہ روشنی پڑتی ہے۔ ان کا یہ سوال کہ آپ نے موجودہ دور کے سلگتے ہوئے موضوعات پر کہانیاں لکھی ہیں ؟ایک ادیب کے لئے اپنے سماج اور سیاست کے لئے باشعور ہونا کیا ضروری ہے ؟کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اسلئے کہا جاتا ہ ے کہ سیاسی اور سماجی شعور کے بغیر کہانی اور ناول کی تخلیق کرنا بہت مشکل ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے اس بات کو بہت خوبصورتی سے سمجھایا ہے۔ صحافت اور ادب کے آپسی رشتہ کو بھی ذوقی نے بحیثیت اک ادیب عمدگی سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

مشرف عالم ذوقی کو اب تک کئی ایوارڈوں سے نوازا جا چکا ہے جن میں کرشن چندر ایوارڈ، کتھا آجکل ایوارڈ، سر سید ایوارڈ اور اردو اکیڈمی تخلیق نثر ایوارڈ وغیرہ شامل ہیں۔ حال میں مشرف عالم ذوقی کو فروغ اردو ادب ایوارڈ۲۰۱۵ سے نوازا گیا۔ جب ذوقی صاحب نے کچھ دنوں کے لئے لکھنؤ قیام کیا تو راجیو پرکاش ساحر صاحب ان کو مبارک باد دینے پہنچے اور ایک مختصر سا انٹرویو لیا۔ جس میں ساحر صاحب نے ان سے چند سوال کئے کہ کیا موجودہ ادب سے آپ مطمئن ہیں — ، فروغ اردو ادب ایوارڈ ملنے پر آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے — ؟ اردو ادب میں فروغ اردو انعام کی کافی اہمیت ہے۔ یہ ایوارڈ اردو کے بڑے ادیب قرۃالعین حیدر، احمد ندیم قاسمی اور ہندوستان اور پاکستان کے بڑے بڑے ادیبوں کو نوازا گیا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا آپ کی ذمہ داری اب پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی؟ذوقی تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاں ادیب کو ذمہ دار ہونا ہی چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اردو ادب کے بڑے سرمایہ کو انگریزی اور دسری بڑی زبانوں میں منتقل کیا جائے۔

لکھنؤ ایک ایسا شہر ہے جہاں بڑے بڑے شاعر اور ادیب گزرے ہیں۔ واجد علی شاہ سے لے کر عرفان صدیقی جیسے شاعر اسی سرزمین سے ابھرے ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم جیسے ادیب کی قبر آج بھی یہاں موجود ہے۔ اور اسی شہر کو مشرف عالم ذوقی اپنے خوابوں کا شہر مانتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ لکھنؤ آج بھی وہی لکھنؤ ہے جو ۵۰ برس قبل ہوا کرتا تھا— وہ خوبصورت تہذیب آج بھی موجود ہے جو ۵۰ سال پہلے ہوا کرتی تھی— ذوقی نے اپنا ’نالۂ شب گیر‘جیسا ناول بھی اسی سر زمیں پہ لکھا۔ کچھ وقت قبل ذوقی لکھنؤ ایک سیمنار میں شریک ہوئے تو ساحر صاحب نے موقعہ دیکھ کر ان سے ایک انٹرویو کی درخواست پیش کی جس کو مشرف عالم ذوقی نے قبول کر لیا۔ انٹرویو شروع ہوا اور ساحر صاحب نے پہلا سوال یہی کیا کہ لکھنؤ آپ کو کیسا لگا؟اور اس کے بعد انھوں نے لکھنؤ کے سلسلے میں بہت سارے سوالات کئے، جس کا جواب ذوقی نے بھرپور طریقے سے دیا۔ نورین علی حق نے مشرف عالم ذوقی کا انٹرویو لیا اور اردو اداروں اور اکادمیوں کی ذمہ داری کا مدعا اٹھایا— اور بحث کی کہ کیا وجہ ہے کہ ہماری نئی قوم اردو کی طرف راغب نہیں ہے — ؟وہ اردو پڑھنا نہیں چاہتی۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ آج ہندوستان میں مسلمان اور اردو کا مستقبل اندھیرے میں ہے۔ اور اس مسلہ کا حل یہ نکالا کہ اگر نئی نسل کواس بات کا احساس ہو جائے کہ یہاں روزگار کے مواقع ہیں، یہاں بھی مستقبل ہے، تو یہ نسل اردو کی طرف کیوں راغب نہیں ہونا چاہے گی۔ اس کے بعد ذوقی اداروں اور اکادمیوں کی ذمہ داری کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ صرف ’شیریں زبان ہونے ‘ کا نعرہ لگانے کے بجائے اردو کو مارکیٹ سے جوڑیں اور نئی نسل کو یہ بتانے کی کوشش کریں کہ اردو سے بھی ان کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اردو کے فروغ کے لئے اداروں اور اکادمیوں کو قدم اٹھانا ہو گا، اور ساتھ ہی ایک بڑی ذمہ داری کا ثبوت بھی دینا ہو گا۔

۲۰۱۴ء ممبئی اودھ نامہ میں مشرف عالم ذوقی کا انٹرویو شائع ہوا۔ جس میں ہندوستانی ناولوں کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کی گئی— سوال ہوا کہ کیا ہندوستان میں ناول ایک نئی کروٹ لے رہا ہے ؟ اور ذوقی کا جواب تھا— ہاں، یہ عہد ناول کا عہد ہے — اور ہندوستان سے لے کر پاکستان تک اچھے ناول لکھے جا رہے ہیں۔ اس انٹرویو میں جدیدیت پر بھی گفتگو کی گئی کہ جدیدیت کے دور میں ایک بھی بڑا تخلیق فنکار کیوں نہیں وجود میں آیا؟ اور ساتھ ہی فاروقی کے تعلق سے بھی سوال کئے گئے۔

رضی احمد تنہا اور نعمان قیصر نے مشرف عالم ذوقی کا ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کے تعلق سے ا ن سے بات چیت کی اور سوالات بھی کئے۔ اردو ناول میں مسلم تہذیب کی نوحہ خوانی کے علاوہ اور بھی کچھ ہے کیا ؟وغیرہ۔ رضی احمد تنہا کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے اس ناول کے تعلق سے ذوقی سے گفتگو کی جیسے یہ کہ ناول لکھنے کا خیال آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟’لے سانس بھی آہستہ‘یہ نام آپ کی کہانیوں یا دوسرے ناولوں سے مختلف ہے — اس کی کوئی وجہ؟، کیا اس ناول کا ایک موضوع Incestہے ؟ وغیرہ۔ کنیڈا سے بلند اقبال نے اپنے پروگرام پاس ورڈ کے لئے مشرف عالم ذوقی سے فون پہ بات چیت کی اور ’لے سانس بھی آہستہ ‘پر گفتگو کی— ’’معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی سے ایک مکالمہ ‘‘ نثار احمد صدیقی کا انٹرویو بھی اس کتاب میں شامل ہے جس میں انھوں نے ذوقی کی پیدائش، حیات سے لے ان کی ادبی سرگرمیوں کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔ ذوقی کے ناول، افسانہ، سیریل، ڈرامہ اور انعام و اعزاز کا بیان بھی آیا ہے۔ اس کے علاوہ شموئل احمد، پیغام آفاقی، عبد الصمد، غضنفر اور رحمان عباس کے ناولوں کے متعلق بھی ان کی ذاتی رائے معلوم کرنی چاہی۔ شمس الرحمان فاروقی کے ایک مضمون اور ان کے ناول کے تعلق سے بھی بات کی گئی۔

مختصر یہ ہے کہ ذوقی کے ۳۲ مکالموں کو پڑھنے کے بعد ہمیں ان کی شخصیت، ان کی ناول نگاری، افسانہ نگاری، ڈرامہ نگاری اور سیاسی و سماجی تعلق سے بھی بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہے۔ ذوقی نے اردو کے فروغ و زوال کے اسباب بھی بتائے ہیں اور نئی نسل کو اردو کی طرف راغب کرنے کے راستے بھی دکھائے ہیں۔ ان کے تمام مکالموں کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ اگر میں انکو یکجا کر کے ایک کتاب کی شکل دوں تو قارئین کو، ذوقی کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔ اسی کوشش کے تحت میں نے ان مکالموں کو ایک کتاب کی شکل میں آپ دانشوروں کے سامنے پیش کرنے کی جرأت کی ہے۔ اگر اس میں کوئی کوتاہی اور غلطی ہو تو میں معافی کی طلبگار ہوں۔

الماس فاطمہ

 

 

 

 

مردہ زبان کو نئے تماشوں کا تحفہ دو:ذوقی

 

 

                صدف مرزا

 

۴ جون، ۲۰۱۵، میں نے اتنے لوگوں سے گفتگو کی، لیکن ذوقی صاحب سے گفتگو کرنے میں پسینے چھوٹ گئے۔ مجھ سے کہا گیا، ۶ بجے شام میں فون کروں۔ کچھ الجھنوں اور خوف کے باوجود میں نے ۶ بجے شام فون کیا۔ سلام علیک اور کچھ رسمی نوعیت کی گفتگو کے بعد میں نے پہلا سوال کیا۔

صدف: آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے ؟

ذوقی: (ناراض لہجہ)یہ کوئی سوال ہے صدف۔ میں کہاں پیدا ہوا؟ کب پیدا ہوا۔ ؟ کیوں پیدا ہوا؟ ام فل یا پی ایچ ڈی کی تھیسس لکھ رہی ہو کہ ان سوالوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے ؟ اور صرف ادب کیوں ؟ ذاتی تفصیلات ہی کیوں ؟ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں ایک نیم مردہ سائنسداں اسٹیفن ہاکنس مرسی دیتھ کی حمایت کر رہا ہے اور ایک طرف تیزی سے ختم ہوتی دنیا کو لے کر فکر مند ہے۔ نیوٹن نے ایک سیب کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا اور اسی ایپل کو تمہارے اسٹیفن جابس نے نئی دنیا کا استعارہ بنا دیا۔ صرف انیس سال کی عمر میں فیس بک مالک مارک زبرگر نے ہمارے تمہارے لیے سوشل نیٹ ورک کی ایک ایسی دنیا کھوج نکالی، جہاں بکھرے ہوئے گلوبل رشتوں کو جوڑا جا سکے۔ گوگل کے سرچ انجن کے لیے کوئی بھی ملک، کائنات، جزیرہ، دنیائیں اب ان دیکھی اور انجانی نہیں ہیں۔ گوگل خاموشی سے تمہارے گھر، تمہاری، تہذیب میں سیندھ لگا رہا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں سماج سے سیاست تک نوجوان ہمارا آئیڈیل بن رہے ہیں۔ اور یہ نوجوان آئی ٹی انڈسٹری سے دنیا کے ہر شعبے میں حکومت کے لیے تیار ہیں۔ جہاں ہالی ووڈ کی فلموں میں مسلسل اس دنیا کے ختم ہونے کے المیہ پر غور و خوض کیا جا رہا ہے، میں ان بچکانے سوالوں پر غور کرتا ہوں تو کوفت ہوتی ہے۔ ایک بیحد مہذب، ڈراؤنی اور خطرناک دنیا جہاں اس وقت ہم ہیں۔ اور اس بیحد مہذب دنیا کے اس پڑاؤ میں جب جدید ٹکنالوجی اور سائنس کے ارتقا نے اچانک انسان کو بونسائی بنا دیا ہو، تم محض بچکانے اور رسمی سوالوں میں الجھی ہوئی ہو۔ (زور سے ہنسنے کی آواز) مجھے اچ جی ویلس کے ناول ٹائم مشین کی یاد آتی ہے۔ جب مشینیں بغاوت کر جاتی ہیں۔ اور دیکھنا ایک دن یہی ہو گا۔ یہی ہو رہا ہے۔ نابل انعام والے مسٹر نابل ڈائنا مائٹ لے کر آئے۔ انسان نے اپنی بربادی کے لیے نیو کلیئر بم بنائے۔ نئی دنیاؤں کی تلاش کے لیے ناسا اور ترقی یافتہ ممالک چاند اور مریخ پر اپنے راکٹ بھیج رہے ہیں اور تم سوال کر رہی ہو کہ میں کب کہاں اور کیوں پیدا ہوا؟ (جھنجھلاہٹ) کوئی ڈھنگ کا سوال ہو تو فون کرنا۔ دو گھنٹہ بعد۔ ورنہ مت کرنا۔ اور ہاں کیا ادیبوں کی دنیا ادب سے باہر نہیں ہوتی صدف؟ سوچنا غور کرنا۔

(فون ڈسکنکٹ۔ میں نے آواز ریکارڈ کر لی تھی۔ لیکن میں ہراساں اور پریشان۔ دو گھنٹے بعد میں نے پھر فون کیا۔ یہ دو گھنٹے مجھے خود کو سنبھالنے میں لگے تھے۔ )

صدف: سلام عرض ہے۔

ذوقی: جی کہیے

صدف(خود کو مضبوط کرتے ہوئے ) آپ کیوں پیدا ہوئے ؟

ذوقی: (زور سے قہقہہ) یہ ہوئی نہ بات۔ گڈ جاب۔ میں کیوں پیدا ہوا۔ ؟لوگ کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ ؟ آنکھوں کے سامنے ہزاروں جھاڑ جھنکار، جنگل، بے حیا کے پودے، ناگ فنی، آدم قدم اور بونسائی پودھوں کی نہ ختم ہونے والی قطار۔ شیر، ہاتھی، دنیا بھر کے جانور۔ تمہیں معلوم ہے صدف۔ گولیور جب گھوڑوں کے دیش میں پہنچا، تو گھوڑے انسان کے کمزور وجود کو دیکھ کر حیران تھے۔ کہاں ہم اور کہاں یہ چہ پدی چہ پدی کا شور بہ انسان۔ ؟ میں کیوں پیدا ہوا؟ غالب و میر سے پریم چند اور منٹو تک کیوں پیدا ہوئے ؟ کسی نے دیوان لکھا اور ادب کی سلطنت فتح کر لی اور کام ختم؟ چار نقاد سامنے آئے۔ واہ واہی کا ڈھول پیٹا اور ادب کی سلطنت میں کچھ دن اس نام کے ڈنکے پیٹے گئے۔ کیوں پیدا ہوا؟ عمدہ اور بھر پور سوال؟ اور اسی سے وابستہ ایک سوال، ادب کی اہمیت کو لے کر بھی ہے۔ مقصدیت کو لے کر بھی۔ کیا ادب، اس کی اہمیت اور حمایت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے ہم نے مستقبل کے طلسمی گلوب کو دیکھنے کی ضرورت محسوس کی؟ اس یورنیورس کی لائف ہی کیا ہے ؟ سائنسداں اس بات کو لے کر پریشان ہیں کہ سورج سوا نیزے پر آ چکا ہے اور دنیا جلد تباہ ہونے والی ہے۔ پچاس برس یا زیادہ سے زیادہ سو برس۔ آپسی خانہ جنگی، کبھی بھی عالمی جنگ کے المیہ کو سامنے لے کر آ سکتی ہے۔ ایٹم اور نیو کلیئر بم، میزائلوں کی ریس، دہشت گردانہ واقعات اور سوپر پاور کا شور۔ برنارڈ شا نے کہا تھا کہ مجھے تیسری جنگ عظیم کے بارے میں تو نہیں پتہ لیکن چوتھی جنگ یقیناً تیر بھالوں سے لڑی جائے گی۔ ایک نیو کلیئر بم کا تجربہ اور آدھی سے زیادہ دنیا ختم۔ کہاں رہے گی یہ زبان؟ مذہب؟ تہذیبوں کا شور مچانے والے ؟ کیا کچھ بھی باقی رہے گا؟ ہم سب اس بڑی دنیا کو بچانے میں لگے ہیں اور کہا جائے تو اپنی طرف سے ادب بھی یہ ذمہ داری ادا کر رہا ہے۔ شیکسپیئر سے ملٹن، ورڈسورتھ، شیلی کیٹس، میرو اقبال، غالب، اور نئی نسل تک۔ ادب نہیں۔ ہم ایک ٹائم کیپسول جمع کر رہے ہیں۔ تحقیق سے تنقید اور نظریہ تک۔ بیشک اس ٹائم کیپسول میں کچرا زیادہ بھر گیا ہے۔ آج بھی مسلسل موہن جداڑو، ہڑپا کے طرز پر قدیم عمارتوں کے ملبے برآمد ہو رہے ہیں۔ ان پر ریسرچ ہو رہے ہیں۔ اوردوسری طرف ہم سائنس، ٹکنالوجی اور تہذیبوں کے تصادم کے ملبے کو جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیوں آئے ؟ اس وسیع کرۂ ارض پر کیڑے مکوڑوں کی طرح۔ اور اس کا جواب بھی ہاکنس دے دیتا ہے۔ برین۔ دماغ۔ ہمارے پاس دماغ ہے۔ اسی لیے دوسری مخلوقات سے زیادہ ہمیں جینے اور سوچنے کا حق حاصل ہے۔ جو ٹائم پیرئیڈ ہے، ہم اس محدود وقفے میں اپنی کامیابی اور ناکامیوں کا تجزیہ کرنے آئے ہیں۔ اور بیشک، ہیمنگوے کے اس بوڑھے آدمی کی طرح، جو جانتا ہے کہ انسان فتح کے لیے آیا ہے۔ نیم مردہ سائنسداں اسٹیفن ہاکنس کی طرح، جس کے بدن کے اعضا ایک مدت سے سوچکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ نئی نئی کائنات کی تھیوری پیش کر رہا ہے۔ تو یہ جان لو صدف کہ یہاں ایک چھوٹا مگر اہم کردار ہمارا بھی ہے کہ سائنس کی فتوحات، ٹکنالوجی کے فروغ اور زوال آمادہ دنیا پر غور کرتے ہوئے ادب میں، مسلسل نئے نئے نظریات سے گزرتے ہوئے، زندہ انسان کی علامت بن کر اپنے ہونے کے احساس کو ہم مضبوطی سے درج کرا رہے ہیں۔ ہم ہیں، اس لیے یہ دنیا ہے۔ ہم ہیں۔ اس لیے یہ کائنات ہے۔ ہم ہیں۔ اس لیے غور و فکر کے سمندر سے گزرنا ہے۔ ہاکنس نے کہا کہ اگر خدا ہے تو دنیا کی دریافت کے بعد وہ سو رہا ہے۔ ادب لایعنیت، لاسمتیت سے مقصدیت کی طرف ایک قدم ہے۔ یہاں مقصد زندگی ہے۔ اشتراکی فلسفہ سے جدیدیت اور اس کے بعد بھی ہم مسلسل ادب کے ذریعہ الجھی سلجھی زندگی کے نئے نئے معنی برآمد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم کیوں آئے (ہنسی)۔ ؟

صدف: نور محمد کیوں آیا؟ صدی کے اس سب سے کمزور کردار کو لکھنے کی آپ نے ضرورت کیوں محسوس کی؟

ذوقی: نور محمد؟ (وقفہ) لے سانس بھی آہستہ۔ تم نے اس ناول کو پڑھا۔ ؟

صدف: جی۔ اس لیے پوچھ رہی ہوں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ کردار انسانیت پر دھبہ ہے ؟

ذوقی: (قہقہہ) دھبہ ہے کیوں ؟ اس لیے کہ تمہارا مذہب نور محمد جیسے کرداروں کو شک سے دیکھتا ہے۔ ؟ اس نے معاشرہ کی توہین کی ہے۔ ؟ نور محمد بدلتی ہوئی تہذیب کا استعارہ ہے۔ اور تم کس تہذیب کی بات کر رہی ہو صدف۔ ؟ یہاں تہذیب کے پرخچے اڑ چکے ہیں۔ جائز اور ناجائز کی تعریفیں مسلسل تبدیل ہو رہی ہیں۔ ہم تنگ نظر ہو کر نور محمد کے کردار کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ بیک وقت اس کردار میں ایک کمزور انسان بھی ہے اور ایک مضبوط انسان بھی۔ اور غور کرو تو محبت کے لیے نور محمد اس مقام وحشت سے بھی گزر جاتا ہے، جس کا تصور آسان نہیں۔ اور یہی نور محمد ایک دن ایک نئی تہذیبی بستی میں داخل ہو کر اپنے ماضی کو بھول جاتا ہے۔ کیوں لپٹے رہیں ماضی سے ہم؟ نور محمد کا جرم کیا تھا؟ ہوتا یہ ہے صدف کہ ہم سب کچھ مذہب یا تنگ نظری کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ انسانی ترقی کی ریس میں جسم، سیکس، رشتوں کی کوئی جگہ نہیں رہ گئی۔ میں اس بات کی حمایت نہیں کر رہا مگر یہ سچ ہے۔ تم آسانی سے چینی، جاپانی، کوریائی ادب یا فلموں میں بھی اس سچ کو محسوس کر سکتی ہو۔ یہ سچ ہے کہ ابھی بھی بر صغیر میں مذہب اور معاشرہ کی مضبوط عمارت ہمیں کئی مقام پر بھٹکنے سے روکتی ہے مگر انقلاب تو آ چکا ہے۔ رشتے معنویت کھو چکے ہیں۔ تہذیبوں کی تعریفیں مسلسل بدل رہی ہیں۔ انسان ایک بڑے بازار اور ریس کا حصہ ہے۔ یہاں سیکس محض ایک ضرورت۔ کیوں کہ جسم ہے تو مانگیں ہیں۔ یہ سچ خوفناک ہے لیکن بڑی حد تک حقیقت کہ ان مانگوں کے لیے رشتے چھوٹے پڑ گئے ہیں۔ مانگیں دور نکل گئی ہیں۔

صدف: کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اسی لیے اردو کہانیوں کا رویہ اکثر بولڈ رہا ہے۔ میں اگر نام لوں تو…؟

ذوقی: (ہنس کر) خوب۔ نام لینے کی ضرورت نہیں۔ میں نے جن مانگوں کی باتیں اٹھائیں وہ آزادی اظہار سے مشروط ہیں۔ نئے اقدار و معیار اور نئے فکری زاویے سامنے آ رہے ہیں۔ مذہب، عقیدہ، رسم و رواج، علم و حکمت، سائنس و فلسفہ ہر جگہ تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اور اسی لیے نئے افکار و تصورات کی دنیا سامنے ہے۔ میں منٹو کو اس معاملے میں الگ کرتا ہوں۔ اگر آپ منٹو کے عہد کو لیں تو اس زمانے میں منٹو سے بہتر کہانیوں کی امید نہیں کی جا سکتی۔ (ہنستے ہوئے ) لیکن منٹو کی کہانیاں، بولڈ نہیں تھیں۔ وہ تو جراح تھا۔ آپ اسے ایک بے رحم قصاب بھی کہہ سکتے ہیں، وہ ہوشیاری سے سماج اور معاشرہ کے ناسور سے چمڑے ادھیڑتا تھا اور الگ کرتا تھا۔ مگر منٹو سے آج تک کیا ہو رہا ہے۔ کہانی میں عورت ہے تو بولڈ کہانی۔ عورت کو برہنہ کیا تو بولڈ۔ عورت کے ساتھ جنسی مناظر ہیں تو بولڈ۔ مجھے اس پورے لہجہ سے مکاری کی بو آتی ہے اور گھن آتی ہے۔ آج دس بارہ برس کے بچے بھی لیپ ٹاپ، موبائیل، ٹیبلیٹ سے کھیلتے ہوئے عورت مرد کے جسم، اور سیکس کے تمام پہلوؤں سے آگاہ ہوتے ہیں مگر ہم اردو والے۔ ؟ اوہ مائی گاڈ۔ ذائقہ لے کر عورت کے بدن سے چھلکے اتارتے ہوئے طرم سیٹھ اورتیس مار خاں بن جاتے ہیں۔ شور کرتے ہیں کہ وہ مارا۔ ارے صاحب، جہاں سائنس انسانوں کے کلون تیار کر رہی ہے، جہاں سائنس موت پر قد غن لگا نے کی کوشش کر رہی ہے، جہاں مریخ سے آگے اور بلیک ہول کے رازوں کو منکشف کیا جا رہا ہو وہاں آپ محض اس بات پر خوش ہو رہے ہیں کہ آپ کے ناکارہ اور بدبو دیتے چٹخارہ دار لفظوں نے عورت کے جسم کو دیکھ لیا ہے، ؟ یا پھر آپ اس زمانے میں جہاں وائلڈ سیکس کے تجربوں سے لے کر نئے نئے کنڈوم تک ایک بڑے بازار کا حصہ بن رہے ہوں، وہاں آپ سیکس کے مناظر دکھا کر تالیاں پیٹ رہے ہیں تو میں ایسے ادب کو حرام ادب کا درجہ دیتا ہوں۔ آج انسان کو فطرت پر فوقیت حاصل ہے، غیر یقینیت کے عنصر خلاء میں تحلیل ہو کر نئی ڈسکوری کو سامنے لا رہے ہیں۔ انسان کی معاشرتی مذہبی، سماجی زندگی پر ان کے گہرے اثرات نمایاں رہے ہیں، وہاں ایسے تمام جائزے، فلسفے اور وژن سے قطع نظر اگر ہم عورت اور سیکس کا تماشہ بنا رہے ہوں، تو میں اس کی حمایت نہیں کروں گا۔ ہمارے یہاں بولڈ کہانیوں کی شکل میں یہی تصور کار فرما ہے۔ اور المیہ یہ کہ اب بھی ہم بچوں کی طرح پتنگ اڑاتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ واہ کاٹا۔ ڈور ہی کٹ گئی۔ نظریہ کا فقدان بھی ادب کو بڑا ادب بننے سے روکتا ہے۔ ادب کو نئے مصالحوں اور نئے تماشوں کی ضرورت ہے … (ہنسی)

صدف: مردہ زبان اور نئے تماشے ؟ میں ایک سوال کا اضافہ اور کرتی ہوں۔ آپ کی تخلیق کا بنیادی محرک کیا ہے۔ ؟

ذوقی: انتہائی افسوس کے ساتھ کہ میں نے اپنی مادری زبان کو مردہ زبان کہا۔ آزادی کے ۶۸ برسوں میں سیاسی اور اقتصادی سطح پر اس زبان کو ختم کرنے کی کون سی کارروائی نہیں ہوئی صدف؟ اردو کا سلسلہ روزی روٹی سے منقطع ہوا تو نئے بچوں نے اردو کی جگہ انگریزی اور مقامی زبانوں کو اپنا لیا۔ ہم خوش ہوتے ہیں کہ اردو زندہ ہے لیکن اردو تو محض اخبار کی حد یا ادب کی حد تک زندہ ہے۔ اور نئے تماشے ؟ ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے … ہم ایک بڑے تماشے کا حصہ ہیں اور ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں فرقہ واریت حاوی ہے۔ مسلمانوں سے ووٹ کا حق چھین لینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ تاج محل کو راجپوت راجہ کا محل بتایا جا رہا ہے۔ ایک خوفناک سیاست ہے۔ اقلیتوں کو کچلنے کی سازش ہو رہی ہے۔ اردو کے سیاسی استعمال کے مہرے سج چکے ہیں اور ان کے درمیان بڑے تماشے بھی ہیں۔ عالمی تماشے …تم نے پوچھا محرک… یہ سب ایک ہی سوال سے وابستہ سوال ہیں۔ کیوں لکھتا ہے ادیب؟ کیا سماجی وسیاسی شعور کے بغیر ادب لکھا جا سکتا ہے ؟ بر صغیر اور بیرون ملک کتنے لوگوں میں، کتنی تخلیقات میں اس سیاسی شعور کا عکس نظر آتا ہے۔ ؟ اور نہیں تو کیوں ؟ یہ سب تماشے ہیں صدف اور ایک بڑے ادیب کو ان تماشوں پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔ تب ایک تارڑ خس و خاشاک زمانے لکھتا ہے۔ تب ایک رضیہ فصیح احمد صدیوں کی زنجیر میں سقوط بنگلہ دیش اور تہذیبوں کا نوحہ بیان کرتی ہیں۔ نئی منزلوں پر کمند ڈالتے ہوئے مرزا اطہر بیگ کو غلام باگ، صفر سے ایک تک جیسے ناول لکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن کتنے لوگ ہیں ؟ ایسے کتنے ادیب ہیں جو ان ہنگاموں سے، تماشوں سے مکالمہ کر رہے ہیں۔ اور مجھے بتائیں کیوں نہیں مکالمہ کرنا چاہئے ؟ جہاں تک میری بات ہے، میں نے بچپن سے ہی لکھنے کی شروعات کر دی۔ ایک غصہ تھا سسٹم پر۔ یہ غصہ نکال نہیں سکتا تھا۔ شرمیلا تھا۔ اور حد تب ہو گئی جب اس شرمیلے پن کا احساس مجھے اندر ہی کھاتا چلا گیا۔ اور ایسے میں جب مارکس اور ترقی پسندوں کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے ایسا لگا، جیسے جینے کو ایک مقصد مل گیا ہو۔ مگر جلد ہی دو تین سال کے عرصہ کے بعد میں نے سمت بدل دی۔ ہمیں بچپن میں پریوں کی کہانیاں اچھی لگتی ہیں۔ بڑے ہوتے ہیں تو ان کہانیوں کا اثر اکثر زائل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ادب کے اب تک کے سفر میں آئیڈیا لوجی کی سطح پر میں نے کئی راستہ بدلے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ بغیر کسی بڑے نظریہ کے آپ ادب تخلیق نہیں کر سکتے۔ اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ اور اسی لیے ناول ہو یا کہانیاں، یہ اسی نظریہ سے چھن کر آتی ہیں۔ میں اس معاملے میں وکٹر ہیوگو اور تالستائے کے ساتھ ہوں جہاں ادب واقعات و حادثات کے جبر سے گھبرا کر انسانیت کی آغوش میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اسی لیے بڑے بڑے حادثے کے دوران کسی ایک بچے کی مسکراہٹ مجھے پسند آ جاتی ہے۔ مجھے گھبرایا ہوا نور محمد اچھا لگتا ہے۔ مجھے زخمی شیرنی جیسی ناہید میں اپنے عہد کی باغی عورتوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ مجھے اسامہ پاشا میں اپنا بچہ نظر آتا ہے۔ مجھے غلام بخش میں لہو لہو تقسیم کا چہرہ دکھائی دیتا ہے … سیاست اور سماج کی اسی زمین نے اس شرمیلے انسان کو تخلیق کی زمین فراہم کی ہے … کیونکہ ہم نرے گاؤ دی ہیں۔ شرمیلے لوگ۔ سسٹم سے ادب کے آفاقی نظریہ تک، ہم ایک بند بند سے ڈرائنگ روم کا حصہ ہیں۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس خول سے باہر نکلیں۔ لیکن اس خول میں رہ کر بھی ہم میں سے کتنے لوگ ادب کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں یا عمدہ ادب تخلیق کر رہے ہیں ؟

صدف: تو کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ فکشن کو نئے مکالموں کی ضرورت ہے ؟

ذوقی:وقت ایک میکنیکل عمل ہے۔ واقعات کے بہاؤ میں کسی جذباتی عمل کو کوئی دخل نہیں۔ تاریخ کے تخلیقی عمل کی صورت دوسری ہے۔ تمام تہذیبیں انحطاط پذیر ہیں۔ آئن اسٹائن سے اب تک زمان و مکان اور لا مکاں کو لے کر نئی نئی تھیوری سامنے آتی رہی ہے۔ آپ دیکھیں تو شیکسپیئر کے ’ٹوبی آر ناٹ ٹو بی‘ ٹائم پاسٹ، ٹائم پریزینٹ سے لے کر اقبال کے فلسفوں میں بھی سائنس کے فلسفوں کی گونج نظر آتی ہے۔ بڑا اور جینوئن ادیب وہی ہے، جو زندگی کے فلسفوں کو خلق کرے۔ اور نئی آباد ہوتی دنیاؤں اورفلسفوں پر گہری نظر رکھے۔ اردو افسانے کے سو برسوں میں بسیار تلاش کے بعد نہ مجھے غالب ملا نہ اقبال۔

منزل اک بلندی پر اور ہم بنا لیتے

عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا

اور اقبال کو دیکھیں۔ سلسلۂ روز و شب، نقش گر حادثات، سلسلۂ روز و شب، اصل حیات و ممات… یہ کوئی آسمان سے اترا صحیفہ نہیں ہے بلکہ زمان و مکاں کے فلسفوں کو اپنے اپنے عہد کی عینک سے دیکھنے، سمجھنے اور ایک قدم چلنے کا کام ہو رہا ہے۔ فکشن میں دیکھیں تو پریم چند سے ترقی پسند تحریک تک ہندوستان کا چرمرایا ڈھانچہ اور مسائل تو ہیں، مگر زندگی کا فلسفہ ندارد۔ سو برس کے اس سفر میں اچھا تو بہت لکھا گیا۔ مگر کسی بڑی آواز کے لیے ہم ترس گئے۔ آپ مانیں نہ مانیں آپ کی مرضی۔ جدیدیت کی تحریک نے گمراہی زیادہ پھیلائی۔ نیا کچھ بھی نہیں۔ لیکن ادھر ۲۵۔ ۲۰ برسوں کا فکشن مجھے اس معاملے میں زیادہ بہتر لگتا ہے کہ اسد محمد خاں، زاہدہ حنا، مبین مرزا، اکبر علی ناطق، صدیق عالم، صغیر رحمانی، خالد جاوید، فہمیدہ ریاض اور ایسے بہت سے نام ہیں جو فکشن کے نظام حیات میں اپنی طرف سے، نئے فلسفوں کا اضافہ کرنے کے لیے بے چین ہیں، اور اسی لیے ان کی کہانیاں فکشن کی کس ایک لکیر پر نہیں چلتیں۔ اچھے فکشن کو کئی مصالحے چاہئیں، مثال کے لیے فنتاسی، موہوم حقیقت نگاری، جادوئی حقیقت نگاری، ابہام کی حسین پرت بھی ان کی کہانیوں میں شامل ہو۔ دراصل اس مکمل عہد کو میں کنفیوژن کا عہد کہتا ہوں۔ موت پر فتح پانے کی کوشش بھی اور اموات میں اضافہ بھی۔ مریخ پر کمند بھی اور امریکہ یوروپ کی غربت بھی۔ ایک بڑا ایلیٹ کلاس اور اکانومی سے لڑتا ایک کلاس۔ مذہب بھی اور مذہب بیزاری بھی۔ سائنس اور ٹکنالوجی بھی اور ان کی کامیابیاں انسانوں کو پسپا کرنے اور بونسائی بنانے کے لیے کافی۔ ظاہر ہے ایسے عہد میں فکشن کو آپ سپاٹ بیانیہ کے سہارے نہیں گزار سکتے۔ موضوع آپ سے مکالمہ کرے گا تو کئی جہات، کئی شیڈ، کئی ڈائمنشن پیدا ہوں گے۔ اور انہیں کہانی یا ناول میں پیش کرنے کے لیے جب تک آپ کا مطالعہ وسیع نہیں ہو گا، جب تک آپ اپنے عہد کی سائنسی و فکری تمام حقیقتوں سے قریب نہیں ہوں گے، فکشن پر آپ کی مضبوط پکڑ یا دسترس نہیں ہو گی۔ اور اسی لیے فکشن کو اب نئے مکالموں کی ضرورت ہے۔

صدف: ابھی آپ کو فروغ اردو انٹرنیشنل انعام ملا۔ کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی…

ذوقی (زور زور سے ہنس کر) کچھ لوگ نہیں۔ آپ نا انصافی کر رہی ہیں۔ صرف ایک۔ اور میں نام لینا ضروری نہیں سمجھتا۔ لیکن آپ کو کیوں فکر ہے ؟ مجھے حمایت سے زیادہ اختلاف پسند ہے۔ مجھے جذباتی لوگ پسند ہیں۔ آہ جذباتی لوگ۔ ان کے پاس کتنا زیادہ وقت ہوتا ہے دوسرے کے گھروں میں جھانکنے کے لیے۔ ان کے کان بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اور مجھے ہاتھی کی طرح یہ بڑے بڑے کان بھی پسند ہیں۔ اور صدف، ختم ہوتی دنیا میں ایسے جذباتی لوگوں کی قدر کیا کرو۔ میں بھی کرتا ہوں۔ کیونکہ کل کون ہو گا جو آپ پر دھیان دے۔ ؟ اور اس قدر دھیان دے۔ ایسے لوگ مجھے معصوم بچوں کی طرح لگتے ہیں۔ پیارے۔ وہ دوسرے بچوں کے اچھے لباسوں سے جلتے بھی ہیں۔ کوئی بچہ فرسٹ ڈیویژن پر کامیاب ہوتا ہے تو ناک بھوں بھی چڑھاتے ہیں مگر دیکھو تو صدف۔ یہ جذبات ہی تو ہے کہ آپ خود کو بھول جاتے ہیں۔ اور کیسا پیارا جذبہ کہ آپ کاغذ کے تیر اور کمان لے کر میدان میں کود جاتے ہیں۔ اور عمر و عیار کے معصوم سپاہیوں کی طرح ایک معصوم پلٹن بھی آپ کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ یہ آخری جذباتی انسانوں کا قافلہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جذباتی لوگ بھی غائب ہو جائیں گے یا کسی دھند میں اتر جائیں گے صدف۔ رہی بات میری۔ مجھے بچے پسند ہیں۔ میں جذباتی نہیں۔ میں ادب میں بھی جذبات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ مگر ایسے جذباتی لوگوں کی نورا کشتی کو سرآنکھوں پر رکھتا ہوں۔ ممکن ہے وہ غلط ہوں۔ مگر دیکھو تو، وہ رقص کر رہے ہیں۔ جنگ کر رہے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ وہ برہنہ ہیں اور اشارہ کر رہے ہیں کہ ارے بادشاہ تو ننگا ہے۔

صدف: اردو فکشن سے امیدیں ؟

ذوقی: یہ کیا سوال ہوا، اردو فکشن سے امیدیں۔ ؟ مجھے غصہ اس بات پر آتا ہے کہ گھوڑے گدھے ایک ساتھ اصطبل میں نہیں باندھے جاتے۔ ادب میں عیاری اور مکاری کی جو دھند رہی ہے، اس نے کبھی سنجیدہ مکالموں کو آواز نہیں دی۔ آپ کیوں سوچتی ہیں کہ سو فیصد لوگ بہتر لکھیں۔ ؟ ایسا کسی عہد میں نہیں ہوا۔ کسی زبان میں نہیں ہوا۔ اردو کا معاملہ تو ہندوستان میں اور بھی مختلف ہے۔ یہاں ہماری اردو زبان صرف ادب کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ یا تو اردو اخبار ہیں یا ادبی رسائل۔ کمرشیل رسائل کا زمانہ چلا گیا۔ نئی نسل کا دور دور تک پتہ نہیں۔ بڑی بڑی تحریکوں کا بوجھ اٹھائے ادب کے کندھے زخمی۔ سب سے پہلے یہ فکر کرو کہ کیا کوئی زبان محض اخباروں یا ادبی رسائل کے بھروسے زندہ رہ سکتی ہے ؟ اردو ادارے یا اکادمیاں کمرشیل رسائل کی طرف توجہ کیوں نہیں دے رہیں ؟ اب میں تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں۔ میں پر امید نہیں تو نا امید بھی نہیں۔ ناول کی بات کروں تو مستنصر حسین تاڑ، مرزا اطہر بیگ، رضیہ فصیح احمد، عاصم بٹ سے لے کر شاہد جمیل احمد کے سپائی پلان تک اچھے ناول لکھے جا رہے ہیں۔ ہندوستانی فکشن میں قرۃ العین حیدر کے بعد عبدالصمد، غضنفر، انور خاں، حسین الحق، شائستہ فاخری اور رحمان عباس تک مسلسل ناول لکھے جا رہے ہیں۔ ابھی تو مکالمہ کی شروعات ہوئی ہے۔ فیصلہ تو وقت کو کرنا ہے۔ اسی طرح فکشن میں صدیق عالم، مشتاق احمد نوری، اقبال مجید، خالد جاوید، شائستہ فاخری تک فعال ہیں اور نئے موضوعات کو سامنے لا رہے ہیں۔ زندہ لوگوں پر مکالمہ زندگی میں کم ہی ہوتا ہے۔ اقبال مجید، جوگیندر پال سے مشتاق احمد نوری بھائی تک ابھی مکالمہ ہونا باقی ہے۔ نوری بھائی کی کہانیوں کو ہی لیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حکایت اور داستانوں کا دور واپس آ گیا ہو۔ اسد محمد خاں، مبین مرزا، طاہرہ اقبال، انور زاہدی، طاہر نقوی، حامد سراج، اور بالکل نئے لوگوں میں سیمیں کرن، رابعہ الرباء، اقبال خورشید کی کہانیاں مجھے پسند ہیں۔ صغیر رحمانی نے بھی عمدہ کہانیاں لکھی ہیں۔ ان پر گفتگو ہونی باقی ہے۔ یہاں نام گنوانا منشا نہیں مگر مجھے یہ بات تقویت دیتی ہے کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔

صدف: سوشل نیٹ ورک، ویب سائٹس اور بلاگس پر بھی اردو کی ایک نئی بستی آباد ہو رہی ہے۔ آپ اس بستی سے مطمئن ہیں ؟

ذوقی: (کچھ لمحے کی خاموشی) ایک حد تک مطمئن ہوں۔ اور نہیں بھی۔ پرنٹ میڈیا یارسائل میں ایک ڈسپلین ہوا کرتی تھی۔ سخت رویے بھی اپنائے جاتے تھے۔ کمزور لکھنے والوں کی تخلیقات تب تک واپس ہوا کرتی تھیں جب تک وہ بہتر نہ لکھنے لگیں۔ اسی لیے شناخت بنتے بنتے ایک عمر گزر جاتی تھی۔ ایک عمر گزرنے کے بعد کچھ کہانیوں کی خبر لی جاتی تھی۔ اور نام قبول عام ہوتا تھا۔ اور جس نام کو معیار کی سند دی جاتی تھی، اس پر گفتگو اور مباحث کی شروعات ہوتی تھی۔ سنجیدہ مضامین لکھے جاتے تھے۔ بلاگس، ویب سائٹس نے بہت حد تک اس اذہان کو نقصان پہنچایا ہے۔ نئی نسل اور امبیشس ہے۔ مطالعہ سے بھاگ رہی ہے۔ وہ یہ دیکھ کر خوش ہو جاتی ہے کہ اسے Poke کرنے والے یا لائک کرنے والے ہزاروں ہیں۔ معیار اور مقدار میں فرق ہے۔ معیار گم ہے۔ بچکانہ اور کمزور تجربے سامنے آ رہے ہیں۔ اور دیکھو تو صدف… کتنی پیاری بات۔ ابھی بھی ناول اور کہانیوں کی تعریفیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ پرانے لباس اور پرانی روایتوں پر مضبوطی سے جمے ہونے کے باوجود کچھ لوگ اسے نئی روایت کا نام دیتے ہیں۔ کیا محض شور شرابا اور ہنگاموں سے، غیر سنجیدہ فضا میں کسی صحت مند مکالمے کی امید کی جا سکتی ہے ؟ ایک تاریک کنواں اور ہر شخص جو اردو کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہے، وہ بھی اترا ہوا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر اپنی بات کہہ رہا ہے۔ یہ ادب کی جمہوریت نہیں ہے۔ آزادی اظہار کا یہ رویہ نہ صرف ادب کی جمہوریت کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ ادب کی صحت مند قدروں اور فروغ کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ اچھی بات صرف یہ ہے کہ گلوبل گاؤں سے، دور دور سے اردو کے جاننے والے نکل کر سامنے آئے ہیں۔ یہ امید افزا بات ہے۔ غیر مطمئن رویہ یہ کہ ۹۸ فیصد لوگوں کی غیر سنجیدہ باتوں کو ایڈٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے اکثر افسانہ فورم پر صحت مند مکالموں کو غیر ضروری مکالموں سے بوجھل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے باوجود اس نئی بستی کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ آزاد اور ایک بڑی بستی ہے۔ لیکن اس بستی کو شر سے، غیر سنجیدہ مکالموں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور ہاں اب میرے ڈنر کا وقت ہو رہا ہے۔

(فون ڈسکنکٹ۔ موبائیل تھامے ہوئے خاموش تھی۔ جیسے ایک آندھی آئی اور گزر گئی۔ کسی نے کہا تھا، خلا میں آوازیں محفوظ رہتی ہیں۔ انسانوں کے فنا ہو جانے کے ہزار برس بعد بھی۔ میں زیر لب مسکرائی۔ مجھے بھی ڈنر کی تیاری کرنی تھی۔ صدف۔ )

٭٭٭

 

 

 

 

 

جناب مشرف عالم ذوقی سے ڈاکٹر جی۔ آر۔ سید کی گفتگو

 

جی۔ آر۔ سید :  سامعین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارا ادبی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بیشتر فنکار یہاں آئے جن کے انٹرویوز آپ نے سنے۔ آج ہم نے اپنے اسٹوڈیو میں ایک اہم شخصیت کو مدعو کیا ہے۔ اس آسمانِ ادب اور خاص طور سے فکشن رائٹرس کی فہرست میں ایک بہت اہم نام مشرف عالم ذوقی کا ہے۔ مشرف عالم ذوقی اس شخصیت کا نام ہے جو ہمارے معاصرین میں سب سے زیادہ لکھنے والے ہیں۔ ذوقی صاحب سب سے پہلے آپ کا خیر مقدم ہے ہمارے اسٹوڈیو میں۔ ذوقی صاحب ہمارے سامعین نے آپ کی تحریروں کو پڑھا ہے۔

ذوقی صاحب:   جی

جی۔ آر۔ سید :  جس سے آپ مقبول بھی بہت ہوئے ہیں۔

ذوقی صاحب:   بہت شکریہ

جی۔ آر۔ سید :  کبھی کبھی تو ہمیں یہ حسد بھی ہوتا ہے اور رشک بھی کہ آج آپ مقبولیت کی اس بلندی پر ہیں جہاں لوگوں کی زندگی گزر جاتی ہے اور پہنچ نہیں پاتے یہ مقام آپ نے حاصل کر لیا ہے اور بہت کم عرصے میں آپ نے اردو ادب کو بہت کچھ دے دیا ہے کہ لوگ پوری زندگی میں بھی اتنا نہیں دے سکتے۔ سب سے پہلے ذوقی صاحب آپ اپنے ابتدائی حالات بتائیں، کہاں پیدا ہوئے، کہاں تعلیم حاصل کی۔

ذوقی صاحب:   میں آپ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں غیاث الرحمن صاحب کہ جامعہ ریڈیو کی بزم میں آپ نے مجھے شامل کیا اور انٹرویو کے لیے مدعو کیا۔ دیکھیے میری زندگی بہت الجھی ہوئی رہی ہے۔ ایک گھر تھا جو کوٹھی کہلاتی تھا24— مارچ 1962ء کو میری پیدائش ہوئی۔ شعور میں آنے کے بعد اس بات کا احساس ہوا کہ یہاں ایک بند بند سا ماحول ہے اور آپ گھر سے باہر نہیں جا سکتے۔ جب گھرسے باہر نہیں جا سکتے تو کتابیں دوست بن گئیں۔ بہت چھوٹی عمر میں سے ہی لکھنے پڑھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں ایک اور دلچسپ بات آپ کو بتانا چاہوں گا کہ اس زمانے میں اگر کرکٹ کھیلنے کی خواہش ہو تو آپ گھر میں کھیلئے — فٹ بال کھیلنا ہو تو گھر میں کھیلیے — یہاں تک کہ بہت چھوٹے چھوٹے گیمس— لیکن ایک عجیب بات تھی کہ میں ہر گیمس میں ہار جاتا تھا۔

جی۔ آر۔ سید :  اچھا۔

ذوقی صاحب:   فٹ بال کھیلا ہار گئے — دوسرے لوگ بال لے کر آگے بڑھ جاتے تھے — کرکٹ کھیلنے کی شروعات ہوئی وہاں بھی ہار گئے اور آخر میں پریم چند کی ایک بات مجھے یاد آئی— مجھے احساس ہوا کہ قلم کی ذمہ داری نبھائی جا سکتی ہے۔ اور پھر میں نے اپنے آپ سے کہا— مشرف عالم ذوقی اب نہیں ہارنا ہے — اب صرف جیتنا ہے۔

جی۔ آر۔ سید :  واہ۔ واہ

ذوقی صاحب:   بہت چھوٹی سی عمر میں ہی میں نے کہانی لکھنا شروع کر دیا تھا مجھے پڑھنے کا بیحد شوق تھا— ایک چھوٹی سی لائبریری تھی اور یہ لائبریری ہی در اصل میری دنیا بن گئی تھی— گھر سے باہر جانے پر پابندی تھی۔ میٹرک تک میں گھر سے باہر نہیں جا سکتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کتابیں دوست بن گئیں اور چھٹے کلاس میں میری پہلی کہانی شائع ہوئی جس کا نام تھا ’’چور کیوں بنا‘‘ اور یہ جامعہ سے شائع ہونے والی میگزین پیام تعلیم میں شائع ہوئی۔ یہ بھی ایک دلچسپ معاملہ ہے — فکشن کا مطلب ہوتا ہے جھوٹ— میری شروعات بھی جھوٹ سے ہوئی۔ اُس زمانے میں حسین حسّان ندوی ’’پیام تعلیم‘‘ کے اڈیٹر تھے اور ’’پیام تعلیم‘‘ میرے گھر آتا تھا۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ گھر سے باہر نکلنے پر پابندی تھی اور کتابیں دوست ہو چکی تھیں۔ اُس زمانے میں کئی رسائل تھے — پیام تعلیم، نور، کھلونا، ٹافی— مگر اب یہ رسائل بند ہو چکے ہیں اور میری کہانیاں ان رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔ جب کہانی لکھنے کی شروعات ہوئی اس وقت حسین حسان ندوی کا انتقال ہو چکا تھا اور صاحب میں نے جھوٹ سے ابتدا ء کی۔

جی۔ آر۔ سید :  اچھا

ذوقی صاحب:   میں نے ایک کہانی بھیجی کہ میں اپنے والد محترم کے ساتھ دلی گیا اورحسین حسّان ندوی سے ملا— اور ان سے گفتگو ہوئی تو انھوں نے بہت پیارسے کہا کہ تم کو بہت آگے جانا ہے — تو جناب ایک فکشن رائٹر کی شروعات جھوٹ سے ہوئی لیکن یہ جھوٹ آہستہ آہستہ کہانیوں میں تبدیل ہوتا گیا اور جب میری عمر صرف تیرہ سال تھی، بمبئی سے شائع ہونے والی میگزین کہکشاں میں میرا پہلا افسانہ شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’’رشتوں کا صلیب‘‘۔ یہ محبت پر مبنی کہانی تھی اور شاید اس راستے پر بھی میں قدم رکھ چکا تھا۔ بہر کیف یہ بھی زندگی کو دیکھنے کا ایک تجربہ تھا۔ ایک گھر تھا جو کوٹھی کہلاتا تھا۔ کچھ لوگ تھے جو اخلاقیات کے طور پر میرے سامنے تھے۔ ایک تہذیب تھی جو ختم ہوتی جا رہی تھی۔ اس وقت پردے کا ماحول تھا اور میں ارندھتی رائے کے گاڈ آف اسمال تھنگس کی طرح چھوٹی چھوٹی حقیقتوں سے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا—

جی۔ آر۔ سید :  جی

ذوقی صاحب:   صرف پردے کا رواج ہی نہیں، بلکہ جب گھر سے عورتیں نکلتیں اور رکشا آتا تو رکشہ پر بھی پردہ لگایا جاتا— یہ باتیں کہیں نہ کہیں ہماری کہانی کا حصہ بن رہی تھیں۔ میں آپ کو کچھ اور آگے بڑھاؤں کہ ادب زندگی میں شامل ہو چکا تھا اور کہیں نہ کہیں میرا جھکاؤ ناول کی طرف تھا۔ چوں کہ شروعات میں ہی میں نے بہت سے ناول پڑھ رکھے تھے۔ کئی لوگ آئیڈیل بن گئے۔ جیسے دوستو فسکی میرا آئیڈیل بن گیا بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سترہ سال کی عمر تک گھر کی لائبریری سے جو بڑے ناول نگار میرے حصّے میں آئے ان میں کئی لوگ تھے۔ البر کامیو جن کا ’’ناول دی پلیگ‘‘ مجھے بہت پسند ہے — دوستو فسکی جس کے سارے ناول میں پڑھ گیا— بلکہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ روسی افسانہ نگار میرے آئیڈیل تھے اور میرا ادبی سفر جس راستے سے شروع ہوا آپ اسے ترقی پسندی سے تعبیر کر سکتے ہیں — یہ میری زندگی کا پہلا پڑاؤ تھا —

جی۔ آر۔ سید :  جی۔

ذوقی صاحب:   ترقی پسندی کی طرف۔ اس وقت جو دور تھا اور جس طرح کی تحریکیں چل رہی تھیں وہ کہیں نہ کہیں سب مارکس وادکو لے کر تھیں۔ آ رہ میرا شہر جہاں نکڑ ناٹک ہوا کرتے تھے اور ہندی کہانی میں کئی بڑے چہرے سامنے آ چکے تھے۔ میرا جھکاؤ ایک طالب علم کے طور پر ہندی کہانی کاروں سے ہوتا ہے اور ہندی میں اس وقت جن واد کی لہر چل رہی تھی۔ پرگتی شیل مومنٹ کی لہر چل رہی تھی۔ یعنی ترقی پسند تحریک پورے شباب پر تھی اور میں بھی ایک طرح سے ترقی پسند تحریک کا حصہ بن چکا تھا۔ اس وقت میں نے ایک مضمون لکھا تھا(ہنسی) مجھے یاد ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو میری بات پسند نہیں آئی۔ کیونکہ اردو والے زیادہ تر نقاد اپنے طور پر سوچتے ہیں اور آج بھی فکشن یا ناول کو لے کر ان کا رویہ بہت سنجیدہ نہیں ہے — ہاں تو میں نے مضمون میں اس بات کا ذکر کیا کہ فکشن میں زبان کو اولیت حاصل نہیں ہے۔

جی۔ آر۔ سید :  اچھا

ذوقی صاحب:   اولیت حاصل اس لیے نہیں ہے کہ ہم عصمت کی طرح چرب دار زبان نہیں لکھ سکتے۔ ہم منٹو کی طرح نہیں لکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کے ہم بیدی کی طرح بھی نہیں لکھ سکتے اور صرف زبان سے کوئی بڑا ادیب نہیں بن سکتا— یہ وہ دور تھا جب مسلسل فسادات ہو رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا کی شکل بدل چکی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب چھوٹے بڑے مسائل سر نکال رہے تھے اور مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ کہانی میں خوبصورت اور چٹخارے زبان استعمال نہیں کیا جا سکتا— اور نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے اپنی کہانی میں ٹوٹی پھوٹی اور کھردری زبان کا استعمال شروع کیا اور میری کہانیوں نے ترقی پسندی کے راستے سے آگے بڑھنا شروع کیا— یہ میری کہانی کا ایک اور پڑاؤ تھا۔

1980 میں میری عمر 18سال کی تھی۔ 1980کے آس پاس کا جو ادب سامنے تھا وہ جدیدیت کے عروج کا وقت تھا۔ ایک پوری دنیا جدیدیت کی طرف مائل ہو چکی تھی۔ آپ جتنے بھی نام لیں — چاہے وہ علی امام نقوی، سلام الدین رزاق، حسین الحق ہوں۔ لیکن ایک دنیا جدیدیت سے عاجز بھی آ چکی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تیزی سے رسائل بند ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ادب میں ایک بہت بڑی آواز یہ آئی کہ ہمارا قاری کہاں ہے۔ قاری کہیں کھو چکا تھا، جدیدیت میں کہانی گم تھی — احساس اور جذبات حاوی تھے — یہاں تک کہ علامتیں حاوی تھیں — بلکہ کچھ ایسی کہانیاں بھی تھیں جن میں نقشے بنائے جا رہے تھے اور کہانی کا نام دے دیا جاتا تھا— قاری گم ہو چکا تھا۔ 1980کے بعد بیانیہ کی واپسی ہوئی اور ایک شور اُٹھا کہ بیانیہ نہ ہوا پرندہ ہو گیا۔ غائب ہو گیا اور دوبارہ واپس آ گیا۔ لیکن صاحب یہ ایک بہت بڑا معاملہ تھا۔ سن 1980ایک بہت بڑا پڑاؤ ہے۔ اردو افسانے میں جیسے ایک پڑاؤ ترقی پسند افسانہ ہے۔ دوسرا بڑا پڑاؤ جدیدیت ہے۔ یہاں میں ایک بات اور بھی کہنا چاہتا ہوں — میں جدیدیت سے قطعی اختلاف نہیں کرتا۔ میں جدیدیت کو ادب کا وقت کا بہت بڑا پڑاؤ مانتا ہوں۔ کیوں کہ اگر جدید افسانے سامنے نہیں آتے تو ہم جیسے لوگوں کے افسانے بھی سامنے نہیں آتے — یعنی 1980ء کے بعد جوافسانے کی واپسی ہوئی ہے تو ہم لوگ کہانی کو واپس لے کر آئے ہیں۔

جی۔ آر۔ سید :  گویا جدیدیت کے Reactionمیں اصلی افسانے کی واپسی ہوئی ہے ؟

ذوقی صاحب:   جی ہاں، جی ہاں، ____یہی میں عرض کرنا چاہتا ہوں اور اس وقت جس تحریک کو آج بہت سے لوگ چند لوگوں کی تحریک سمجھتے ہیں بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ جدیدیت تو گُم ہو گئی۔ میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صاحب میں خود آپ کو وہ افسانے سنا سکتا ہوں — قمر احسن کی کئی کہانیاں سنا سکتا ہوں، اکرام باگ کی کئی کہانی ایسی ہیں جن کو میں سنا سکتا ہوں۔ سنا سکنے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں کہانی پن تھا۔ لیکن نئی دنیا نہیں تھی — آ ج جب ہم جس نئی دنیا میں آ گئے ہیں تو وہاں کہانی کو پریم چند کی طرح بیان نہیں کر سکتے — اردو فکشن پریم چند سے بہت آگے بڑھ چکا ہے — کہنے کا مطلب یہ ہے کہ 1980میرے لیے اہم سال ثابت ہوا۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا افسانہ نئی سمتوں میں سفر کرنا چاہتا ہے۔ جب مجھے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ اب ترقی پسندی کے راستے سفر نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ افسانے میں کچھ نہ کچھ جدیدیت کے اثرات لانے ہوں گے، یہاں میں ایک بات اور بتا دوں کہ اس وقت میری عمر تھی اٹھارہ سال اور میں سترہ سال کی عمر میں پہلا ناول لکھ چکا تھا۔

جی۔ آر۔ سید :  واہ، گویا نوعمری میں ہی آپ نے فکشن کی راہ میں ایک بڑی چھلانگ لگانے کی ہمت کی۔

ذوقی صاحب:   جی۔ اور وہ ناول تھا، ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘

جی۔ آر۔ سید :  اچھا۔

ذوقی صاحب:   اس بات سے بہت سے دوست واقف ہیں — نئے ناول کے اس موڑ کو عبد الصّمد کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے — عبدالصّمد نے ناول کی روایت کو آگے بڑھایا— مگر میرے دوست جس میں بہت سے نام شامل ہیں جیسے احمد صغیر ہیں۔ ان لوگوں نے یہ ناول سنا ہے — خورشید حیات ہیں، یہ لوگ واقف ہیں کہ اس وقت عبدالصّمد کا وہ ناول بھی سامنے نہیں آیا تھا۔ جب میں ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ناول ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ لکھ چکا تھا، صرف سترہ سال کی عمر میں۔ ۲۰ سال کی عمر تک میں چار ناول لکھ چکا تھا۔

جی۔ آر۔ سید :  واہ۔ بہت خوب۔

ذوقی صاحب:   ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ اس کے علاوہ ’’نیلام گھر‘‘ ، ’’شہر چپ ہے ‘‘ ، ذبح‘‘ میں یہ چار ناول ۲۰ سال کی عمر تک لکھ چکا تھا۔

جی۔ آر۔ سید :  اور یہ شائع ہو چکے تھے۔ ؟

ذوقی صاحب:   نہیں شائع نہیں ہوئے تھے۔ یہاں صرف ایک چھوٹی سی بات کہنی ہے — ’’آرا‘‘ ایک چھوٹا سا شہر ہے — میرے گھر کا ماحول ادبی ضرور تھا۔ لیکن ہم لوگ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ کتابیں کیسے شائع ہوتی ہیں۔ Publishers سے رابطہ کیسے قائم کیا جاتا ہے۔ اور رابطے کی کمی کی وجہ سے میری کتابیں، تمام کتابیں دلی آنے کے بعد ہی شائع ہوئیں۔ اور اس لیے، چونکہ وہ دور تھا جب ہم کہانیوں کی طرف مائل تھے — ناول کی طرف مائل تھے لیکن صاحب کمیونی کیشن گیپ تھا۔ اور اس لیے، ۱۹۸۵ میں میں دلی آیا، اور میری تمام کتابیں ۱۹۸۵ کے بعد ہی شائع ہوئیں۔

جی۔ آر۔ سید :  واہ، گویا یہ رہا کہ آپ نے جو بچپن ہی سے اپنے گھر کے ماحول سے بہت ساری چیزیں سیکھنا شروع کیں، اور وہ جو پابندی آپ پہ لگائی گئی تھی کہ گھر سے باہر نہ جائیں، وہ کہیں نہ کہیں ں آپ کے بال و پر نکال رہی تھی اور اسی سے، یعنی وہ ایک طرح کا احتجاج آپ کے قلم میں آیا۔ اور آپ اس احتجاجی قلم کے ذریعہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ اور جیسا آپ نے فرمایا کہ کتابوں کو آپ نے اپنا دوست بنایا تو یقیناً وہ جو ماحول تھا آپ کے گھرکا اس نے آپ کی آبپاری کی اور آپ کے فن کو جلا بخشی۔ آپ نے یہ بتایا کہ ۱۹۸۰ میں، سترہ سال کی عمر میں آپ نے ناول لکھ لیا تھا۔ پہلا ناول اور اس کے بعد میں ۲۰ سال کی عمر تک آتے آتے چار ناول لکھ دیے۔ تو یقیناً یہ آپ کی Extraordinary شخصیت کا عکاس ہے۔ تو ذوقی صاحب ابھی تک آپ نے جتنے ناول لکھے ہیں اور جتنے افسانے لکھے ہیں۔ لوگوں نے پڑھے مقبول ہوئے بہت ساری بحثیں، مباحثے ہوئے ان پر، بہت سے لوگوں نے آپ پر اعتراضات بھی کئے اور بہت سوں نے آپ کی تعریف بھی کی۔ ان چیزوں جو آپ کے دل پر اثر کیا ہو، آپ کی تعریف یا اعتراض اگر وہ کچھ ہے تو آپ سے Shareکیجیے۔

ذوقی صاحب:   دیکھیئے لکھنے والا صرف لکھتا ہے۔ اعتراضات کی پرواہ نہیں کرتا۔ اگر ہم اعتراضات کی پرواہ کرنے لگیں، اعتراضات کو دیکھنے لگیں تو مجھے لگتا ہے کہ لکھنے والا کہیں نہ کہیں کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کو صرف لکھنا ہے۔ میں نے بہت پہلے دوستو فسکی کا ایک جملہ پڑھا تھا اور اس نے یہی کہا تھا کہ جب ہم کوئی چیز لکھ لیتے ہیں تو وہ چیز میری نہیں ہوتی۔ ہاں بیان دینے کے لیے ہم ضرور ہوتے ہیں

جی۔ آر۔ سید :  ہاں

ذوقی صاحب:   جی میں اس سے ذرا اور ماضی کی دنیا میں آپ کو لے جانا چاہتا ہوں

جی۔ آر۔ سید :  جی۔ جی۔

ذوقی صاحب:   ماضی کی دنیا میں اس لیے کے اگر ہم ماضی کی وضاحت نہیں کریں گے تو شاید انصاف نہیں ہو گا میرے قلم کے ساتھ۔ آج میں بچوں کو دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ بچوں سے بچپن گم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ بچپن ہمارے پاس تھا صاحب۔

جی۔ آر۔ سید :  جی۔

ذوقی صاحب:   تب چاندنی راتیں ہوا کرتی تھیں۔ بستر بچھ جاتے تھے۔ چھت پر پلنگیں نکل جایا کرتی تھیں۔ اس پر چھڑکاؤ ہوا کرتے تھے۔ دادی اماں، نانی اماں اور ابا جیسے لوگ کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ یہ سب آج کل ہمارے بچوں کے ساتھ نہیں ہے۔ میں نے لکھنا بعد میں شروع کیا۔ میں نے کہانیاں پہلے سنیں۔ اسی لیے کہانیوں کی طرف ہماری واپسی ہوئی۔ میں ایک بہت دلچسپ بات آپ کو بتانا چاہوں گا۔ اس وقت میری عمر سترہ سال تھی۔ میں ISCمیں تھا اور کیمسٹری کا امتحان تھا۔ میری بڑے بھائی نے ابی سے شکایت کی کہ کل اس کا امتحان ہے کیمسٹری کا اور آج یہ صاحب کہانی لکھ رہے ہیں — تو مجھے احساس ہوا کہ اب تو مجھے ڈانٹ پڑے گی۔ دسترخوان بچھا ہوا تھا۔ اور ابی نے بہت مسکرا کر ایک بات کہی میرے بڑے بھائی کا نام ہے مسرور عالم۔ ان سے مخاطب ہو کر— مسرور یہ خالق ہے — یہ کہانی لکھے گا ہی اور بہت ممکن ہے کہ امتحان دیتے وقت بھی اگر مشرف کے ذہن میں کوئی کہانی آتی ہے تو وہ اس وقت بھی لکھے گا۔ اس کو لکھنے دو۔ پھر انہوں نے مجھے ایک بات کہی۔ میر کے باپ نے میر تقی میر کی طرح مجھے ایک نصیحت کی تھی—

جی۔ آر۔ سید :  جی۔ جی۔

ذوقی صاحب:   محبت نہیں کرو گے تو آگے نہیں پڑھو گے۔ یہی نصیحت میں تمہیں کرتا ہوں۔ محبت وہ شئے ہے جو آپ کو آگے لے جاتی ہے۔ میں نے بہت بعد میں اس کا مفہوم سمجھا کہ محبت صرف ایک طرفہ نہیں ہے۔ محبت جب اپنے آپ سے کرتے ہیں تو ایک معاشرے سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس میں پوری دنیا شامل ہو جاتی ہے۔ پھر میری زندگی میں کئی دور آئے۔ ۱۹۸۰ کے بعد میں نے جدیدیت کا راستہ اپنا یا۔ میری بہت سی کہانیوں نے علامتوں کے راستے سفر کیا اور اس وقت کی بہت سی کہانیاں مجھے یاد ہیں۔ دابۃ الارض، فاختاؤں کا شہر اور ایسی بہت سی کہانیاں ہیں۔ بعد میں جب میری کہانیوں کا مجموعہ ’’ منڈی شائع‘‘ ہوا تو میں نے ان کہانیوں کے حوالے سے ایک بات کہی کہ یہ وہ کہانیاں ہیں جن کو میں رد کرتا ہوں۔ جب کہ یہ جملہ لکھنا آسان نہیں تھا۔ لیکن میں نے اس وقت کی کہانیوں کو رد کیا اور اپنا راستہ آگے بنایا۔ اُسی دور میں، میں نے ایک حکایت پڑھی اور وہ حکایت میرے ذہن پر نقش ہو گئی۔ میں وہ حکایت آپ سے Share کرنا چاہتا ہوں۔ حکایت یہ ہے کہ ایک بادشاہ کے دربار میں بیک وقت دو فقیر آتے ہیں۔ ایک فقیر صدا لگاتا ہے ’’اے بادشاہ تو اچھا کر تاکہ تجھے اچھا پھل ملے۔ دوسرے فقیر نے صدا لگائی ’’اے بادشاہ تو برا نہ کر کہ تجھے برا پھل نہ ملے۔ بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ پہلے فقیر کو دس دینار اور دوسرے فقیر کو پانچ دینار دے کر رخصت کیا جائے۔ جب فقیر رخصت ہو گئے تو وزیر نے کہا کہ اے انصاف پسند بادشاہ یہ تو انصاف نہیں ہوا۔ بات دونوں کی ایک تھی لیکن آپ نے پہلے کو دس دینار اور دوسرے کو پانچ دینار دینے کا حکم دیا۔ تب بادشاہ مسکرایا اور گویا ہوا کہ اے میرے وزیر— تم نے ایک بات غور نہیں کی کہ پہلے نے اسی بات کے لیے اچھائی کا سہارا لیا اور دوسرے نے برائی کا سہارا لیا— صاحب جدیدیت، ترقی پسندی، روایت پسندی، مابعد جدیدیت۔ اب میرے سامنے ایک نظریہ آ چکا تھا— Positiveامید کی دنیا— یہ دنیا غلط ہے۔ یہ دنیا صرف غلط راستوں پر چل رہی ہے۔ تو صاحب ہم نہیں چل پائیں گے۔ اس طرح یہاں سے کہانیوں نے ندی کی طرح اپنا رخ موڑ لیا اور میں نے انسانیت کی طرف سفر کرنا شروع کیا۔ اسے آپ خواہ کوئی بھی نام دیں۔ مجھے لگا کہ آج اگر کہانیوں کو کہیں سے سفر شروع کرنا ہے تو یہ سفر انسانی زاویہ سے ہی سے شروع ہو سکتا ہے۔ میں نے سارے ازم کو درکنار کیا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ میری زندگی میں ادبی طور پر چار دور آئے اور اب جو کہانیاں سامنے آ رہی ہیں وہ انسانیت کے کی سطح سے گزرتی ہوئی کہانیاں ہیں۔ یہاں میں ایک اور بات Share کرنا چاہوں گا۔ نئی نسل سے بھی Share کرنا چاہوں گا کہ دیکھئے جب فنکار لکھنا چاہتا ہے ہزاروں Shadesہوتی ہیں ہزاروں کہانیاں ہیں جو سامنے آتی ہیں۔

جی۔ آر۔ سید :  جی۔

ذوقی صاحب:   لیکن کوئی نہ کوئی آئیڈ لوجی آپ کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ جب آپ کسی نظریہ کو پی جاتے ہیں۔ اپنے اندر اتار لیتے ہیں تب آپ کی کہانیوں کا سفر شروع ہوتا ہے۔ تب ہزار کہانیوں میں ایک کہانی ہوتی ہے جس کا آپ انتخاب کرتے ہیں اور آپ کو ایسا لگتا ہے کہ ایسی کہانیاں آپ کو لکھنی چاہیے — پھر وہ ہزاروں Shadesپیچھے چلے جاتے ہیں اور ایک کہانی جو آپ کی آئیڈلوجی کے ساتھ چلتی ہے۔ آپ اسی کو لکھتے ہیں — آپ نے ایک سوال اور پوچھا کہ اتنے سارے ناول اور اتنی ساری کہانیاں — میں ذرا حوالہ دینا چاہوں گا — میں نے جو ناول لکھے جیسے پہلا ناول عقاب کی آنکھیں، لمحۂ آئندہ، نیلام گھر، ذبح، شہر چپ ہے، مسلمان، بیان۔ اس کے بعد پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجب داستان وایا سونامی۔ اس سے بھی آگے بڑھیے تو لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ۔ ناول ایک مشکل آرٹ ہے۔ ناول اتنا آسان نہیں ہے۔ صرف صفحات در صفحات لکھنے کا نام ناول نہیں ہے — کہانی ایک چھوٹا سا واقعہ ہے اور ناول ایک مکمل زندگی۔ کہانی زندگی کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہو سکتا ہے لیکن ناول کو ایک مکمل زندگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس مکمل زندگی میں اس عہد کا فلسفہ بھی ہوتا ہے۔ زندگی بھی ہوتی ہے اور تمام تر اتار چڑھاؤ بھی ہوتے ہیں۔ ناول کا مسئلہ آسان نہیں ہے۔ اسی لیے جب میں نے ناول کی طرف سفر کرنا شروع کیا تو یہاں بھی بہت ساری دشواریاں تھیں اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ پوری دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ یہ دنیا ابھی تک اس طرح سے سامنے نہیں آئی ہے۔ جب میں نے دیکھنا شروع کیا تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ہندوستان سے پاکستان تک اور جب میں آگے بڑھتا ہوں اور قرۃ العین حیدر تک پہنچتا ہوں تو بہت بڑی دنیا آباد ہے۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو وہاں ایک تہذیبی نوسٹلجیا یا عہد کا مرثیہ سامنے آتا ہے — اس سے آگے معاملہ نہیں بڑھتا ہے۔ لیکن سمجھتا ہوں کہ معاملہ اس سے آگے بڑھنا چاہیے — پھر میں نے جب سوچنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ نہیں یہ ناول بہت بڑے ناول ہیں۔ لیکن یہ ناول صرف ہندوستان اور اپنے آس پاس کی داستان سنا کر کہیں نہ کہیں خاموش ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تاریخی ناول لکھے۔ بہت بڑے ناول لکھے جس کی ضرورت ہے — زبان کے لحاظ سے — جیسے قاضی صاحب عبدالستار صاحب نے ناول لکھے وہ وقت کی ضرورت تھی۔ لیکن جو ناول ہمارے درمیان لکھے جا رہے تھے، مجھے لگا کہ 65برسوں کا جو ہندوستان ہے، اس ہندوستان میں کھو یا ہوا ناول ہے — جیسے ہم نے تقسیم کا المیہ دیکھا — جیسے ہم نے غلامی دیکھی— جیسے ہم نے آزادی کے بعد مسلسل فسادات کو چوتھے موسم کے طور پر دیکھا اور جیسے گم ہوتی ہوئی تہذیب کو دیکھا۔ مجھے ایسا لگا کہ اردو فکشن ہو یا اردو ناول اس سے آگے کا سفر نہیں ہو رہا ہے۔ خواجہ احمد عباس نے کئی سطحوں پر ناول کو پھیلانے کی کوشش کی— انھوں نے انقلاب جیسا ناول لکھا یا نکسلائٹ جیسی فلم سامنے آئی۔ بہت خوبصورت کہانی۔ مگر اب کوئی اس ہندوستان کی کہانی نہیں کہتا ہے جس ہندوستان کو ہم ایک بہت بڑے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہ ہندوستان شروع سے تبدیل ہو رہا تھا— ہندوستان شروع ہی سے نئی اقتصادی پالیسی کو سامنے لا رہا تھا۔ آج روپیے کی قیمت کم ضرور ہو گئی ہے لیکن یہاں بھی ہندوستان کہیں نہ کہیں اپنا دفاع کر رہا ہے اور دوسری جگہوں پر نظر ڈال رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ آپ گھبرائیے نہیں — آپ شروع سے دیکھیں تو ہندوستان جس طرح سے آگے بڑھا ہے سیاست کو لے کر — تمام چیزوں کولے کر— یہ ہمارا ہی ملک جہاں جمہوریت آج بھی زندہ ہے اور جب ہم غور کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ ساری کہانیاں ابھی باقی ہیں بلکہ انہیں لکھا جانا باقی ہے جس پر غور نہیں کیا گیا۔ جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہندوستانی تناظر میں جیتے ہوئے باہر کی دنیا کا جو اثر ہم پر پڑ رہا ہے، اس کے جو اثرات سامنے ہیں ان اثرات کو کہیں نہیں لیا گیا۔ دوسری بات نئی نسل کی شروع ہی سے جو فکر رہی ہے اس فکر کو کبھی موضوع تحریر میں نہیں لایا گیا۔ نتیجہ کے طور پر جب میں نے دنیا کو دیکھنا شروع کیا تو مجھے ایک خوبصورت خیال پوکے مان کی دنیا کے طور پر ملا— اور میں یہاں اس کی مزید وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ایک سیریل آتا تھا پوکے مان جسے دیکھ کر میں نے یہ ناول لکھا۔ پوکو مان ایک کارٹون سیریل تھا اور یہ وہ اس طرح کا کارٹون سیریل تھا جس میں Monsterیعنی بھوت تھا۔ وہ لڑتا ہے اور برائی ہار جاتی ہے۔ آپ رامائن اور مہابھارت کی کہانیاں پڑھ لیں وہاں بھی یہی ہوتا ہے — برائی پر اچھائی کی جیت۔ یہ ہماری ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے اور یہاں سب کچھ وہی چل رہا ہے جیسے Spidermanیا ان کی فلمیں دیکھتے ہیں یا ہیری پورٹر دیکھتے ہیں تو برائی پر اچھائی کی فتح سامنے آ رہی ہے۔ اب میں نے سوچنا شروع کیا تو مجھے ایک Conflictنظر آیا۔ تضاد یہ یہ تھا کہ ہم ہندوستانی بچوں کو جو کچھ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کیا وہ صحیح ہے — بچے جب آنکھیں کھولتے ہیں تو وہ ہیری پورٹر پڑھنا چاہتے ہیں اور دیکھنا چاہتا ہے تواسے یہی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جب اسکول جانا چاہتے ہیں تو St. Columbusاسکول ملتا ہے۔ شکتی مان کو وہ اس لیے Rejectکرتا ہے کہ آپ اسے شکتی مان جیسی کوئی چیز دے نہیں رہے ہیں۔ جب اُسے نہیں دے رہے ہیں اور جو ماحول اسے دے رہے ہیں وہ بالکل ایک نیا ماحول ہے۔ تو صاحب اس تضاد سے ایک احتجاج پیدا ہوتا ہے۔ ایک غصہ پیدا ہوتا ہے اور میری کہانی کا بارہ سال کا جو ہیرو ہے و ہ ایک ایسا واقعہ یا حادثہ کر بیٹھتا ہے کہ جس سے یہ ناول آگے بڑھتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ جو کچھ بدل رہا ہے جو ایک تہذیب بدل رہی ہے ایک دنیا بدل رہی ہے — صرف ہندوستانی تناظر میں نہیں بلکہ باہری اثرات کولے کر تو ہمیں دیکھنا ہے کہ دنیا کس حد تک بدل چکی ہے اور شاید میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نہ صرف اس دنیا کو بغور دیکھ رہا تھا بلکہ اس کے جائزے سے اپنے ناول کے لکھنے اور مطالعے میں اضافہ کر رہا تھا۔

جی۔ آر۔ سید :  گویا آپ کی ہر تحریر پر آفاقیت لیے ہوتے ہے۔ ذوقی صاحب میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کرداروں کا جو انتخاب کرتے ہیں ان میں آپ کو کن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور کردار کو کس طرح کردار میں ڈھالتے ہیں ؟

ذوقی صاحب:   کردار نگاری جس کے بارے میں اردو میں عام طورسے یہ گفتگو کی جاتی ہے کہ کردار ختم ہو گیا۔ لیکن ابھی ایک مضمون آیا تھا کہ کردار آپ کو میرے یہاں ملیں گے۔ ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ پڑھتے تو سارے کردار ہیں۔ یہاں تک میری ہر کہانی میں کردار ملیں گے — جیسے غلام بخش میں کردار ملیں گے۔ کردار نگاری ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ کردار کہاں سے پیدا ہوتے ہیں یہ بڑا سوال ہے۔ یہاں میں ذرا آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ مارخیز پر ایک کتاب لکھی گئی تھیThe Fragrance of Guvavesمارخیز کے دوست نے لکھا کہ مارخیز جب One Hundred years of Solitudeلکھ رہا تھا اسی زمانے میں ایک دن وہ آیا اور چارپائی پر لیٹ گیا۔ وہ بہت اداس تھا پھر اس کے دوست نے پوچھا کہ نانا مرگیا؟ تو اس نے کہا کہ ہاں میں اس کو مارکر آ رہا ہوں۔ کردار ایک تخلیق کار کے لیے صرف کردار نہیں ہوتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ رائٹر کہیں نہ کہیں خالق سے قریب ہے — وہ خالق ِ حقیقی جس نے ہم کو پیدا کیا ہے۔ خالق کا نام اس لیے دیا گیا کہ ہم کردار ہوا میں نہیں بن سکتے۔ ہم کردار بنتے ہیں تو صاحب اس کردار سے ایک لگاؤ پیدا ہوتا ہے۔ ایک دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ ہم اس کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ یہاں تک جب وہ ہنستا ہے تو ہم بھی ہنستے ہیں۔ جب وہ روتا ہے تو ہم بھی روتے ہیں اور جب وہ مر جاتا ہے تو ہمارے بھی آنسونکل آتے ہیں۔

اب کردار کہاں سے آتے ہیں۔ دوستو فسکی کو پڑھیے — پاموک کے ناول پڑھیے — جیسے آپ ڈچ ڈرامے اُٹھائیے یا آپ نجیب محفوظ کو پڑھ جائیے تو ان تمام لوگوں نے کردار کہیں اور سے نہیں لیا ہے۔ میں نے 23سال اپنے شہر آ رہ میں گزارے جب میں ناول لکھنے بیٹھا ہوں تو کوئی نہ کوئی شخص میرے سامنے آ جاتا ہے۔ جیسے میں جس زمانے میں ذبح لکھ رہا تھا ایک کردار میرے سامنے آ گیا اور اس نے کہا مجھے ہیرو بناؤ— یہ کردار عبدل ثقہ کا تھا۔ وہ مشک سے پانی بھرا کرتا تھا۔ وہ لمبا چوڑا کردار میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا— بالکل واسکوڈی گاما کی طرح۔ اس طرح کردار کے لیے مجھے کہیں باہر نہیں جانا پڑتا ہے۔ جیسے میں نے پوکے مان کی دنیا لکھنا شروع کیا۔ میں یہاں آپ سے ایک اور دلچسپ بات Shareکرنا چاہوں گا۔ ہم لوگ ہر عمر میں سیکھتے ہیں۔ اس لیے مشاہدے سے نئے کردار بنتے ہیں۔ بلکہ کردار بنتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے میں آپ کو بتاؤں کے اپنے بچے سے بھی سیکھتا ہوں۔ میں نے ابھی ایک نیا ناول شروع کیا ہے ’’اُڑنے دو ذرا‘‘ اور میں اپنے بیٹے سے سیکھتا رہتا ہوں۔ کیسے سیکھتا رہتا ہوں۔ میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں — یہ بچے بھی کردار ہیں اور میرے ناول کا اگر آپ مطالعہ کریں تو یہ سارے بچے ہمارے نئے نئے کرداروں کا حصہ بن رہے ہیں۔ جیسے میں آپ کو بتاؤں کہ ایک دن میں نے دیکھا کہ میرے بیٹے نے الٹا Hatپہن لیا۔ میں سوچا کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں، میں نے بھی ہیٹ پہنا تھا— لیکن میں نے کبھی الٹا ہیٹ نہیں پہنا۔ آج سارے بچے الٹا Hatپہنتے ہیں۔ پھر مجھے لگا کہ یہ نئی نسل کا احتجاج ہے کہ ہم زمانے کو الٹا کر سکتے ہیں۔ یہ بات مجھے پسند آئی۔ دوسری بات میں آپ کو بتاتا ہوں۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ میرا بیٹا پندرہ ہزار کی ایک جینس لایا اور ساتھ میں ایک بلیڈ بھی لے کر آیا اور بلیڈ سے جینس کو ادھیڑ نے میں لگ گیا۔ مجھے خیال آیا، بچپن میں عید کے موقع پر جب ہمارے کپڑے بنتے تو ایک ہفتہ کپڑے دیکھنے میں گزر جاتا۔ کوشش ہوتی تھی کہ کپڑا گندہ نہ ہو اور جلدی جلدی مہمان جائیں اور پھر کپڑے تہہ کر کے رکھ دیے جائیں — لیکن صاحب پندرہ ہزار کی جینس اور بلیڈ پھر مجھے لگا کہ صاحب یہ Generationہم کو بتانا چاہتی ہے کہ ہم Practicalلوگ ہیں۔ ہم بیکار کی چیزوں سے محبت نہیں کرتے ہیں یا ہم اس طرح کی جذباتی محبت کے قائل نہیں ہیں۔ تو صاحب میرا کردار وہاں موجود تھا۔ وہ کردار جس کے ہاتھ میں بلیڈ تھا اور جو جینس ادھیڑنے میں لگا ہوا تھا۔ وہ صرف ایک بچہ نہیں تھا۔ وہ میرے لیے ایک کردار تھا۔ مجھے اس پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ نئی نسل اپنی نئی فکر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ یہاں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اس طرح سے کوئی بھی ناول ہو نیلام گھر کا انجم ہو۔ وہ کردار میرے شہر میں تھا اور میں نے اسے لکھ لیا۔ جیمس جوائس بہت بڑے ادیب ہیں۔ جیمس جوائس اورr Dublinکی جو کہانیاں ہیں۔ وہ Dublinمیں رہتا تھا اور Dublinکی ساری کہانیاں لے لیجیے۔ وہ Dublinکی کہانیاں ہیں اور وہ سارے لوگ ان کے گھر کے لوگ— ان کے انکل بیوی— تو صاحب کرداروں کے لیے کہیں دور بھاگنا نہیں پڑتا ہے — کردار آپ کے پاس ہوتے ہیں۔ آپ کو صرف یہ کرنا پڑتا ہے جیسا کہ مارخیز نے ایک جگہ کہا کہ مجھے ایک کردار چاہیے تھا تو مجھے اس میں نانا جان نظر آئے۔ میں نے نانا جان میں دادا جان کو ملا دیا۔ پھر مجھے لگا کہ نہیں تو میں نے اپنے پڑوسی کو ملا دیا۔ اس طرح سے ایک مضبوط کردار پیدا ہو گیا۔ تو کبھی کبھی کردار تو نظر آتا ہے لیکن جب ہم کردار کو ناول کی فضا میں اتارتے ہیں تو ظاہر ہے فکشن کا سہارا لیتے ہیں۔ کچھ اور باتیں ملاتے ہیں، لیکن دنیا کا کوئی بھی ناول نگار ایسا نہیں ہے جس ہوا میں معلق کردار تراشا ہو۔ کوئی نہ کوئی کردار اس کے پاس ہوتا ہے جس کو وہ بہت قریب سے اس کا جائزہ لیتا ہے بلکہ پوسٹ مارٹم بھی کرتا ہے۔ پھر ناول کے معیار کے مطابق اتارتا ہے اور اس کردار کو زندگی دینے کی کوشش کرتا ہے۔

جی۔ آر۔ سید:   ذوقی صاحب بحیثیت افسانہ نگار آپ کی اہمیت مسلم ہے اور مستحکم ہے لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں آپ ایک کثیر رخی یا ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ آپ صرف ناول نگار نہیں ہیں آپ صرف افسانہ نگار نہیں ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو شاعری سے بھی شغف رہا ہے۔ اس کو آپ تسلیم کریں یا نہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی آپ فلم پروڈکشن بھی کرتے ہیں۔ ایک اچھے پروڈیوسر بھی ہیں۔ ایک اچھے ڈائریکٹر بھی ہیں اس کے بارے میں تھوڑا ہمارے سامعین کو بتائیں کہ یہ شوق ہے یا کچھ اور ہے ؟

ذوقی صاحب:   جی۔ شاعری سے مجھے عشق ہے۔ بہت سے قریبی دوست جانتے ہیں کہ شاعری سے مجھے عشق ہے۔ لیکن اچھی شاعری سے اور ظاہر ہے کہ شروعات میں جب میں نے لکھنا شروع کیا تو کچھ ٹوٹی پھوٹی غزلیں سامنے آئیں — مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اس میں میرا رنگ نہیں ہے۔ ان میں علاّمہ اقبال اور فیض احمد فیض کا رنگ زیادہ ہے تو میں شاعری سے کنارے ہو گیا اور میں نے افسانے کی طرف توجہ دینا شروع کر دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بچپن سے ہی میں نے ایک بات سوچ رکھی تھی کہ مجھے جو کچھ بھی کرنا ہے قلم کے ذریعہ کرنا ہے 1985یعنی 23سال کی عمر میں میں دہلی آ گیا۔ دلی آنے کے بعد ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ میرے پاس صرف اور صرف قلم کی طاقت ہے۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ ایک پوری اسٹریٹجی تھی جو میں بنا چکا تھا اور میرا پروگرام یہ تھا کہ جیسے بھی ہو مجھے میڈیا کی طرف جانا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب شاہ رخ خان فلموں میں، سیریل میں آ چکے تھے۔ آپ کو میں بتاؤں کہ شروعاتی زمانے میں شاہ رخ کو دیکھنے اور ساتھ رہنے کا بھی موقع ملا۔ انھوں نے فلم ’’دستک ‘‘ میں کام کیا تھا۔ بڑی خوبصورت ایک گھنٹے کی فلم تھی— بہر کیف یہ بہت دلچسپ کہانی ہے — اس وقت دلی آنے کے بعد میرا جھکاؤ میڈیا کی طرف تھا۔ میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ قلم کے ذریعہ زندگی گزارنی ہے۔ قلم کے معنی یہ کہ مجھے اسکرپٹ لکھنی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دور درشن سے بہت اچھے پروگرام نشر ہوتے تھے اور دور درشن میں اس زمانے میں Quickiکا چلن تھا— مطلب جیسے Petrolium Conservation پر دس سکینڈ سے چار منٹ کی فلم بنا لی۔ قومی ہم آہنگی پر فلم بنا لی۔ یہ Quickiesکا دور تھا اور چھوٹی موٹی فلمیں باہر کے پروڈیوسر کو آرام سے مل جایا کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں دور درشن ایک Quickiesکا بیس ہزار روپیے دیتا تھا۔ مجھے بھی کوئکینر بنانے کا موقع ملا۔ شروعات میں مجھے پہلا سیریل ملا صبح۔ میں ’’صبح‘‘ سے شروعات کی— اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کی — اس کے بعد دوسراسیریل الجھن تھا۔ اب آہستہ آہستہ میں دلی میں دوردرشن کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی جو چھوٹی سی دنیا تھی اس تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میری یہ بھی کوشش تھی کہ دوردرشن میں پروگرام جمع کیسے ہوتے ہیں۔ ان کے طور طریقے کیا ہیں۔ اس وقت بہت بھیڑ نہیں تھی۔ میں نے کچھ پروگرام تیار کر لیا تھا۔ کچھ جگہ میرا نام آ چکا تھا Credits — یہ غالباً 1988کی بات ہے جب میں نے دوردرشن میں دس، پندرہ Quickies جمع کرائی اور پہلی بار میری پانچ Quickiesکو ہری جھنڈی ملی۔ اس کے ساتھ ہی میں پروڈیوسر بن چکا تھا۔ پھر میں نے اس میڈیا کو بہت قریب سے دیکھنا شروع کیا تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اس کی دو شکلیں ہیں۔ ایک شکل ادب کے طور پر میرے سامنے ہے اور دوسری شکل میڈیا بھی ہو سکتی ہے۔ بشرطیکہ آپ ایماندار ہوں اور ایمانداری اور ذمہ داری سے بات کہنے کے لیے آپ آگے بڑھیں۔ مشکل یہ تھی کہ دوردرشن کو آپ وہی پروگرام دے سکتے ہیں جو وہ لینا چاہتا ہے۔ یہ بات اس وقت تک مجھے نہیں معلوم تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں کوئی بھی آئیڈیا دوں گا۔ دور درشن لے لے گا۔ لیکن یہ بات ان لوگوں کو نہیں معلوم ہے جو چھوٹے شہروں میں رہتے ہیں — میں ان کو بھی بتانا چاہوں گا کہ میں بھی اسی غلط فہمی میں تھا— لیکن دوردرشن سے وابستہ ہونے کے بعد میں نے اس بات کو جانا کہ صاحب، وہ جو مانگتے ہیں ہمیں وہی دینا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا پاس آم اور املی پڑی ہے میں نے ان کو دے دیا۔ نہیں اگر وہ آم مانگتے ہیں تو مجھے آم دینا ہو گا وہ مجھ سے سیب طلب کرتے ہیں تو مجھے سیب دینا ہو گا۔ یعنی وہ جو گائیڈ لائن دیتے ہیں ہمیں اسی پر چلنا ہو گا۔ اس کے بعد ایک لمبا سفر رہا۔ اس لمبے سفر میں میرے کئی پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوئے جیسے میرا ناول مسلمان جو اس زمانے میں بہت مقبول ہوا تھا۔ اس ناول پر بھی سیریل بنا اور کہانیاں تھیں جیسے بوڑھے جاگ سکتے ہیں۔ اس پر بہت خوبصورت سیریل بنا۔ میں بتاؤں اس زمانے کے ایک مشہور اداکار ستن کپور تھے جنھوں نے دیوار میں امیتابھ بچن کے باپ کا رول ادا کیا تھا۔ ستن کپور میرے فیملی فرینڈ بن گئے۔ اس طرح بمبئی کے کئی لوگوں کو میں نے اپنے سیریل میں جگہ دی۔ ساکشی تنور نے کئی سیریل میں میرے ساتھ کام کیا۔ میڈیا ہو، فلم انڈسٹری ہو یا ادب ہو اگر آپ ایک ذمہ دار انسان کے طور پر کام کرتے ہیں تو کہیں بھی جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں۔ جو کچھ بھی آپ کے دل میں ہے۔ جو آئیڈیالوجی آپ ایسے زمانے کے لوگ سے Shareکرنا چاہتے ہیں وہ بہت خوبصورتی سے آپ کر سکتے ہیں۔ کوئی ضروری نہیں کہ دوردرشن نے آپ کو جو موضوع دیا ہے اس پر وہ نہ چل سکے۔ اس طرح میں نے تقریباً سو سے زائد Documentaryبنائی ہو گی۔ میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے ادب کو لے کر کئی سیریل بنائے جیسے بہار کا ایک مشہور نام ہے سہیل عظیم آبادی۔ میں نے بے جڑ کے پودے سیریل بنایا۔ اس کے بعد بلونت سنگھ کے مشہور ناول رات، چور اور چاند پر سیریل بنایا۔ اس میں میں نے بہت اچھے آرٹسٹ بمبئی سے لیا۔ یہ ایک لمبا سفر رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بہت ساری ایسی باتیں جن کو ہم ادب کے ذریعہ ہم سامنے نہیں لا سکتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں وہ فلم اور میڈیا کے ذریعہ سامنے آتی رہتی ہے۔

جی۔ آر۔ سید:   ذوقی صاحب! آپ نے بہت کچھ لکھا بہت کچھ سامعین، ناظرین اور قارئین کو دیا۔ اس میں آپ کی سیریل، فلمیں، ڈاکیومینٹری شامل ہیں۔ اب آپ اپنے پورے ادبی سفر پر کون سا ناول، کہانی، سیریل یا ڈاکیومینٹری آپ کے بہت قریب رہی ہے جس میں آپ نے اپنی   فنکار ی کا جو ہر خوب دکھایا ہے۔

ذوقی صاحب:   بہت اچھا سوال ہے۔ آپ کا میں — اپنی بات ستیہ جیت رے کی ایک بات سے شروع کرنا چاہوں گا۔ ستیہ جیت کے انتقال سے قبل ایک انٹر ویو شائع ہوا تھا۔ اس میں پوچھا گیا تھا کہ آپ (سیتہ جیت رے ) نے اتنی ساری فلمیں بنائی ہیں اس میں آپ کو سب سے اچھی فلم کون سی لگتی ہے تو ستیہ جیت رے نے یہ بات مسکرا کر کہی تھی کہ صاحب ہوتا یہ ہے کہ زندگی کا کوئی نہ کوئی پہلو چھوٹ جاتا ہے۔ میں اپنی کسی فلم کو نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب سے اچھی فلم ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس میں یہ Shadeچھوٹ گیا تھا تو میں نے اس شیڈ کو اس فلم میں دیا۔ پھر خیال آیا کہ زندگی کا ایک شیڈ یہ بھی ہے تو اس شید کے لیے مجھے فلم بنانی چاہیے — فنکار کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔ فنکار کو خالق کیا جاتا ہے اور خالق کے سامنے ایک پوری دنیا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ہم کوئی کہانی یا ناول کردار کے لیے لکھتے ہیں۔ یہ کردار میری کہانی میں نہیں آیا ہے۔ ہم آج بھی کہہ سکتے ہیں کہ کون سی کہانیاں ہمیں آج بھی متاثر کرتی ہیں۔ لکھنے کے لمبے سفر کے دوران میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنھوں نے پانچ سو سے زائد کہانیاں لکھی ہیں۔ ابھی میری کہانیوں کا انتخاب بھی شائع ہونے جا رہا ہے ’’بے حد نفرت کے دنوں میں — اگر میں ایک چھوٹی سی کہانی سنانا چاہوں گا۔ ’’ایک بوڑھا اور ایک بوڑھی— بہت تیز آندھی اور ہوا میں ایک پیڑ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹھیک وہی معاملہ ہے جو The last leafمیں تھا۔ ایک پیڑ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ پیڑ گر نہ جائے۔ ایک لگاؤ ہے اس پیڑ سے۔ بالآخر ساری رات جس رسیوں سے دونوں نے پیڑ کو پکڑ کر رکھا تھا اور دونوں مل کر اس پیڑ کو بچا لیتے ہیں۔ ‘‘

سوال یہ ہے کہ ہم کہانیوں کو کتنا بچا پاتے ہیں — اگر ہم انتخاب کی بات کریں تووہ کون سی کہانیاں ہیں فلسفے کی سطح پر زندگی کی سطح پر آئیڈیولوجی کی سطح پر— جب ہم کچھ ایسی کہانیوں کی طرف سوچتے ہیں تو کچھ کہانیاں ایسی ہیں جن کو ہم آپ سے shareکرنا چاہیں گے۔ میں نے اپنی کہانیوں میں شاید ’’آج‘‘ کو سب سے زیادہ لیا ہے یا مستقبل کے اندیشے میری کہانیوں کے موضوعات رہے ہیں یا بدلتا ہوا یہ ماڈرن سماج۔ میں نے ان کہانیوں کو اس طرح نہیں دیکھا جیسے زیادہ تر لوگ دیکھتے رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ایک بدلے ہوئے سماج کی بات کی اور کچھ کہانیاں ایسی ہیں جس نے میری زندگی میں طوفان اٹھا دیتے جیسے مجھے اپنی کہانی فزکس، کیمسٹری، الجبرا بہت پسند ہے۔ مجھے دادا اور پوتا بہت پسند ہے۔ یہ اس لیے پسند ہے کہ اس میں تین نسل ہے اور تین نسل کے لوگ کس طرح سے سوچتے ہیں۔ یہ بات بہت خوبصورت طریقہ سے اس کہانی میں سامنے آئی ہے۔ ایک نسل وہ ہے جو سب کچھ کر گزری ہے اور اس کے سامنے کچھ بھی باقی نہیں ہے۔ ظاہر ہے موت بھی ایک Fantasyبن جاتی ہے۔ میری ایک کہانی ہے باپ بیٹا، یہ کہانی مجھے بہت پسند ہے۔ دو نسل ہے لیکن نئے طریقے سے سامنے آتی ہے۔ اس طرح بوڑھے جاگ سکتے ہیں۔ اس کہانی نے بھی بہت اپیل کی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے مجھے اپنی کہانی ’’نفرت کے دنوں میں ‘‘ بہت اچھی لگتی ہے۔ میری چند کہانیوں کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ چیخوف بھی اس طرح کی کہانیاں نہیں لکھ سکتا۔ واپس لوٹتے ہوئے۔ محبت ایک نشہ ہے صاحب۔ محبت ایک Universal Issueہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے بہت سے ادیب جب آج کے تناظر میں کہانی لکھتے ہیں تو ان کو لگتا ہے کہ آج کے دور میں محبت کی کہانیاں نہیں لکھنی چاہیے —  محبت کی کہانی لکھنا بہت مشکل کام ہے۔ سب کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ محبت خود اپنے اندر ہمہ جہت پہلو رکھتی ہے۔ جب میں نے کہانی واپس لوٹتے ہوئے لکھنا شروع کیا تو میرے سامنے Internetکی ایک دنیا تھی۔ ایک بدلی ہوئی دنیا تھی۔ ایک بدلی ہوئی تہذیب تھی۔ ایک بدلی ہوئی Fantasyبھی تھی۔ اسی طرح مجھے اپنی کہانی فریج میں عورت بہت پسند ہے۔ وہاں بھی ایک Fantasyہے۔ ایک جدوجہد کرنے والے کی Fantasyسامنے آتی ہے۔ اگر ناول کی بات کریں تو جس ناول سے مجھے شناخت ملی وہ ناول ہے بیان— لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے بیان بہت زیادہ پسند نہیں ہے۔ نئے دور کا سفر شروع کیا تو مجھے ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ بہت پسند ہے۔ لیکن مجھے یہاں پہ اعتراف کرنے دیجیے کہ مجھے اپنا ناول جو سب سے زیادہ پسند ہے وہ پروفیسر ایس کی عجیب داستان و ایا سونامی۔ ایک رائٹر کے لیے جتنی محنت درکار ہوتی ہے۔ فنکار اپنے طور پر جتنی بڑی اور خوبصورت دنیا خلق کرتا ہے، میں نے یہ تمام محنت پروفیسر ایس میں صرف کی ہے — میر ی خواہش ہے کہ اگر آپ نے اس ناول کو نہیں پڑھا ہے تو آپ بھی پڑھیں اور سامعین بھی پڑھیں۔

جی۔ آر۔ سید:   مشرف عالم ذوقی صاحب آپ سے سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ اس کے باوجود آپ کی زندگی کے بہت سے پہلو پوشیدہ ہیں۔ آئندہ کسی موقعہ پر آپ سے مزید گفتگو ہو گی اور وہ پوشیدہ پہلو بھی اجاگر ہوں گے۔ آپ تشریف لائے ہمارے اسٹوڈیو میں اور اپنے بارے میں اپنی تخلیقات کے بارے میں ہمارے سامعین کو بتایا ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔

ذوقی صاحب:   آپ کا بھی بہت بہت شکریہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی سے ایک گفتگو

 

                کامران غنی صبا

 

کامران:        آپ کا آبائی وطن کہاں ہے، ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

ذوقی: بہار کا ایک چھوٹا سا شہر آ رہ۔ ۔ ۔ کبھی شاہ آباد کے نام سے مشہور تھا۔ ۔ ۔ میں نے اسی شہر میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔ ۴سال کا تھا تو شاہ آباد اردو اسکول بھیج دیا گیا۔ یہ میرے گھر سے کچھ ہی دوری پر واقع تھا۔ اور میرے ایک رشتہ دار چودھری قمر عالم(قمر چچا) اس اسکول کو چلایا کرتے تھے۔ یہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے جین اسکول میں داخلہ لیا۔ پھر مہا راجہ کالج۔ ۔ ۔ دلی میں اتنے برس گزارنے کے بعد بھی، جب ناول کی تخلیق کر رہا ہوتا ہوں۔ ۔ ۔ میرا شہر میری نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔ ۔ ۔ اور وہاں کے لوگ میرے کہانیوں کے کردار میں ڈھل جاتے ہیں۔

کامران:        فی الحال آپ کی مشغولیات کیا ہیں ؟

ذوقی: ادب کے علاوہ میڈیا سے میری وابستگی ہے۔ ذوقی فلمز کے بینر تلے بہت سی ڈکیومینٹری فلمز اورسیریل بھی بنائے۔ میری کہانیوں کے پہلے مجموعے بھوکا ایتھوپیا پر مذہب نہیں سکھاتا، کے نام سے سیریل بنا۔ ناول مسلمان کو ’ملت ‘ کے نام سے سیرئیل میں ڈھالا گیا۔ کئی کہانیوں پر ٹیلی فلمیں بنیں۔ افسانوی مجموعے لینڈ اسکیپ کے گھوڑے اور صدی کو الوداع کہتے ہوئے پر گل صد رنگ کے نام سے دوردرشن کے اردو چینل کے لئے سیرئیل بنایا گیا۔ میں نے گانے بھی لکھے۔ اسکرین پلے بھی۔ اپنے کئی سیرئیل میں ڈائرکشن بھی دیا۔

کامران:        ذوقی صاحب آپ نے کب سے لکھنا شروع کیا؟ آپ کا پہلا افسا نہ اور ناول کون ساہے ؟

ذوقی: کامران صاحب، آپ نے مجھے ماضی کی وادیوں میں پہنچا دیا۔ ایک گھر تھا جو کوٹھی کہلاتا تھا۔ گھر سے باہر جانے پر پابندی تھی۔ بچپن میں ہی کتابوں سے دوستی ہو گئی۔ چھٹے کلاس میں تھا کہ بچوں کے رسالہ پیام تعلیم میں پہلی کہانی شائع ہوئی۔ پہلا افسا نہ تیرہ برس کی عمر میں کہکشاں (ممبئی) میں شائع ہوا۔ میرا پہلا ناول عقاب کی آنکھیں ہے، جو میں نے ۱۷ سال کی عمر میں لکھا۔ ۲۰۱۴میں اس ناول کا نیا ایڈیشن منظر عام پر آ چکا ہے۔ ادب میری زندگی ہے، کمنٹمنٹ ہے، اوڑھنا بچھونا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں۔ ۔ ۔ ۔

کامران:        خوب۔ ۔ ۔ ۔ اب تک آپ کے کتنے ناول اورافسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

ذوقی:  ناول کی بات کروں تو عقاب کی آنکھیں، نیلام گھر، شہر چپ ہے، ذبح، مسلمان، بیان، پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایاسونامی، لے سانس بھی آہستہ اور آتش رفتہ کا سراغ شائع ہو چکے ہیں، ناول اردو، اور ’اڑنے دو ذرا‘ مکمل کر چکا ہوں۔

ایک ناول ’نالۂ شب گیر‘ اپریل ۲۰۱۴ میں شائع ہو جائے گا۔ افسانوی مجموعوں میں بھوکا ایتھوپیا، منڈی، غلام بخش، صدی کو الوداع کہتے ہوئے، لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، ایک انجانے خوف کی ریہرسل اور نفرت کے دنوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ہندی زبان میں بھی ۱۸مجموعے مل جائیں گے۔ ان میں سے زیادہ تر بڑے پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہوئے ہیں۔ جیسے پینگوئن، گیان پیٹھ، راج کمل، وانی وغیرہ۔ میری تمام کتابیں دونوں زبانوں میں شائع ہوئی ہیں۔

کامران:        اچھا یہ بتایئے، اپنی تخلیقات میں کون سا ایساناول یا افسانہ ہے جو آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟

ذوقی: ناول کی بات کریں تو پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایاسونا می اور لے سانس بھی آہستہ، مجھے بہت پسند ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ناول مجھے سب سے زیادہ پسند تھا اسی پر گفتگو سب سے کم ہوئی۔ پروفیسر ایس کو میں اپنا شاہکار سمجھتاہوں۔ اس ناول کو لکھنا کوئی آسان کا م نہیں تھا۔ اس ناول پر کالج کے زمانے سے سوچتاآیا تھا۔ اور جب ۲۰۰۲میں سونامی آئی تو مجھے احساس ہوا، اب اس ناول کو مکمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس ناول میں کچھ زندہ کرداروں سے مدد لی گئی ہے، شاید یہی وجہ تھی کہ اس ناول کو ایک بڑے طبقے نے نظرانداز کیا۔ لیکن میں اپنے قارئین سے کہنا چاہوں گا کہ وہ اس ناول کا مطالعہ ضرور کریں۔

کامران:        ذوقی صاحب۔ ۔ ۔ ایک عام سا سوال، آپ کیوں لکھتے ہیں ؟

جواب:        لکھنا میرے لیے محض شوق نہیں ایک بڑی ذمہ داری کا نام ہے۔ ادیب اپنے عہد سے وابستہ ہوتا ہے۔ اور عہد میں در آئی تبدیلیوں کو اپنے طور پر دیکھتا اورمحسوس کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے ہی خلق کیے گئے فلسفوں کی آگ سے گزرتا ہے۔ سماج، معاشرہ، سیاست، مذہب کے دروازے اس کے لیے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے تخلیقی عمل میں ان سب سے گزرتا ہے۔ اور جب اس کو احساس ہوتا ہے کہ وہ ان مراحل سے گزر کر اب زندگی کو کوئی نیافلسفہ دے سکتا ہے تو وہ پھر لکھنے بیٹھ جاتا ہے۔ ۔ لکھنا آغاز سے ہی میرے لیے محض شوق کبھی نہیں رہا۔ اوراسی لیے میں نے سرکاری نوکری کی جگہ فری لانسنگ کو ترجیح دی۔ ایسانہیں ہوتا تو شاید میں وہ سب نہیں لکھ سکتا تھا، جو میں نے لکھایا اب لکھنا چاہتا ہوں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں وہ نیافلسفہ کیا ہے ؟ ایک زندگی تو سب جیتے ہیں پھر فلسفہ کہاں سے آ گیا؟ لیکن نہیں صاحب۔ زندگی کو ہر بار اپنے طریقے سے ڈسکورکرناہوتا ہے، سمجھناہوتا ہے،۔ سماج، معاشرہ، سیاست سے مذہب اورسائنس سے ارتقا تک، ایک بڑی دنیا کے تعاقب کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنا ہے پھر شعور کی تیسری آنکھ کھلتی ہے۔ یہاں بہت سے سوال و جواب لکھنے سے قبل حاوی ہوتے ہیں۔ اورجب تخلیق کار ممکن ہو جاتا ہے کہ اس ناول یا افسانہ میں زندگی کا ایک نیا پہلو نکل کر سامنے آئے گا تو انہی تخلیقی محرکات کے ساتھ وہ لکھنے بیٹھ جاتا ہے اوراسی لیے آغاز سے اب تک کے سفرمیں، میں نے کبھی اپنے آپ کو Repeatنہیں کیا۔ ہمہ جہت زندگی سے ہر بار ایک نئی روشنی لے کر، میں نئی کہانیوں کی دنیا آباد کر لیتا ہوں۔ جیسے میرا نیا ناول ہے۔ نالۂ شب گیر۔ آپ کو یہاں ایک نئی عورت کا تصور ملے گا۔ عورت اقبال کے تصور ’وجود زن سے ہے تصور کائنات میں رنگ‘سے کافی آگے نکل گئی ہے۔ دراصل مردوں نے اب تک اسے نمائش یا چٹخارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اب وہ اکھاڑے میں بھی ہے، سیاست میں بھی، وہ کہیں مردوں سے کم تر نہیں۔ بلکہ کئی مقام ایسے ہیں جہاں مرد احساس کمتری میں ہے اور عورت اس سے آگے نکل گئی ہے۔ صدیوں کے جبرسے نکل کر عورت جب یہ کہتی ہے کہ یہ کمرہ میرا، یہ لیپ ٹاپ میرا اور یہ بدن میرا، میں جو چاہے کروں تو مرد تہذیب، مذہب اور معاشرے کی دہائی دیتا ہوا اس پر الزامات لگانے لگ جاتا ہے۔ مسلمان عورت کی بات کریں تو وہ اب تک جنت کی کنجی، دوزخ کا کھٹکا اور بہشتی زیور کی المیرا میں بند کر دی گئی تھی۔ نالۂ شب گیر کی عورت ایک ایسی عورت ہے جو بیوی، اہلیہ، شریک حیات، جیسے لفظوں کو سننا بھی گوارہ نہیں کرتی۔ اسے چوڑیاں پائل، ناز کی، تصویر کائنات جیسے لفظوں اور تشبیہوں سے نفرت ہے۔ وہ اپنے شوہر کو بیوی بلاتی ہے۔ اوراس سے کہتی ہے تم گھرکا کام دیکھو۔ میں کافی ہوں باہر کے کام کے لیے۔ تم گھر سنبھالو اور عیش کرو۔ لیکن وہ کوئی نفسیاتی مریضہ نہیں ہے۔ اگر وہ صدیوں کے سفرمیں عورت کو داسی، طوائف جیسے ناموں میں سمٹی ہوئی دیکھنے کے بعد اگر آزاد ہونا چاہتی ہے تو یہ بغاوت اس کے وجود میں آئے گی ہی۔ سوسال پہلے رقیہ سخاوت حسین نے جب سلطانہ کا خواب لکھا تو ان کے سامنے یہ عورت خواب کے طور پر موجود تھی۔ اب سوسال بعد حقیقت کے طور پر۔ اس لیے عورت جب بغاوت کرتی ہے تو پہلی بغاوت خدا سے اوردوسری مردوں سے کرتی ہے۔ دراصل لکھتے ہوئے میں جب تک تمام پہلوؤں پر غور نہ کر لوں، میں لکھنے نہیں بیٹھتا۔ ادب ڈرائنگ روم کی چیز نہیں ڈرائنگ روم سے نکل کر زمینی حقیقتوں کو سمجھناہوتا ہے – اور ایک بڑی دنیا کا تعاقب کرنا ہوتا ہے۔

کامران:        کیا ایساناول لکھنا جس میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر جیسے حساس واقعہ کا ذکر ہو، حقیقی واقعات کو فکشن میں ڈھالا گیا ہو، تخلیقی نقطۂ نظر سے خطرناک نہیں تھا؟

ذوقی: آپ آتش رفتہ کا سراغ، کا ذکر کر رہے ہیں۔ ادب خطرے اٹھانے کا نام ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عام ادیب جو سرکاری نوکر ہے، ڈر ڈر کے لکھتا ہے۔ میں نے کبھی خوف اور خطرے کو زندگی میں راستہ نہیں دیا۔ حقیقی واقعات کو فکشن میں  ڈھالتے ہوئے سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ اسے صحافت یا رپورٹنگ کا درجہ نہ دے دیا جائے۔ اس لیے حقیقی واقعات کو ادب بناتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوتا ہے۔ آتش رفتہ کا سراغ، کا کینواس بہت بڑا ہے۔ ’اردو‘ اس کا دوسراحصہ ہے۔ جو مکمل ہے۔ میں جب اس ناول کو لکھ رہا تھا، ۶۷برسوں کا ہندوستان سامنے تھا۔ ہندوستان کی سیاست سامنے تھی۔ اور میں یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ ۲۵کروڑ آبادی ہونے کے باوجود مسلمان سہما ہو ا اقلیت کی طرح رہنے پر مجبور ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے اسے محض ووٹ بینک بنا دیا ہے۔ ان ۶۷برسوں میں مسلمانوں کا صرف استعمال اوراستحصال کیا گیا ہے۔ اس لیے ایسے ناول کو تخلیق کرنے میں خطرہ تو تھا ہی۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں نے گہرائی سے ایک ایک پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے لکھا۔ اور جنہوں نے بھی اس ناول کا مطالعہ کیا، انہوں نے یہ بات ضرور کہی کہ آپ نے یہ لکھاکیسے ؟ تو صاحب، ادیب ہوں۔ خطرہ اٹھانا پڑتا ہے۔ ادب میں ڈر گئے تو پھر آپ کیسے لکھ سکیں گے۔

کامران:        شکریہ ذوقی صاحب۔ میرا اگلا سوال دراصل اسی سوال کی ایک کڑی ہے۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے علاوہ بھی کئی ایسے واقعات یا انکاؤنٹر س ہوئے جس نے ہندوستان کی اقلیتی آبادی کو متاثر کیا۔ پھر آپ نے اسی واقعہ کو اپنے ناول کے لیے منتخب کیوں کیا؟

ذوقی: بٹلہ ہاؤس ‘ ناول کی صرف ایک کڑی ہے۔ آپ غور کریں تو ۶۷ برسوں کا ہر وہ واقعہ شامل ہے جس نے مسلمانوں کو اس ملک میں نہ صرف پریشان کیا بلکہ تیسرے درجے کا شہری بننے پر مجبور کیا۔ بٹلہ ہاؤس کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ مجھے سروانٹس کے ناول ڈان کوئزوٹ کی یاد آ گئی۔ پولس محکمہ، ایجنسیاں، میڈیا ایسی ایسی منطق لا رہا تھا کہ ہنسی آ رہی تھی۔ ناول کی تخلیق کے دوران میں بار بار انکاؤنٹر والی جگہ پرگیا۔ اس ایک حادثے میں ۶۷برسوں کے مسلمانوں کا مکمل درد چھپا تھا کہ خونی سیاست کس طرح ایک جھوٹے واقعہ کو سچ بناتی ہے اورسیاست کس طرح مسلمانوں کو دہشت گرد بنا رہی ہے۔ مجھے احسا س ہوا کہ ۶۷ برسوں کے درد کو اس حادثہ کے تناظر میں آسانی سے ناول کی شکل میں پیش کیا جا سکتا ہے اور اب ناول آپ کے سامنے ہے۔

کامران:        کیا اس ناول کی تخلیق میں آپ نے متاثرہ افراد سے رابطہ کیا؟

ذوقی: رابطہ بھی کیا، مگراس بات کو جانیے کہ میں اس حادثہ پر ایک ادبی ناول لکھنے جا رہا تھا۔ روسی ناول نگاروں نے بھی اپنے عہد اور حقیقی واقعات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ گو گول کی ڈیڈ سول کو ہی لے لیجئے۔ میں ناول کی تخلیق کے درمیان کئی بار اس علاقے میں گیا اور وہاں کے لوگوں سے رابطہ کیا۔

سوال: آپ کے یہاں جدید عہد کے ایسے مسائل پربھی توجہ دی گئی ہے جو دوسرے تخلیق کاروں کے یہاں نہیں ملتے۔ مثلاً ٹکنالوجی کا غلط استعمال، بچوں پر ٹکنالوجی کے منفی اثرات، ہندوستانی مسلمانوں کی مٹتی ہوئی تہذیب وغیرہ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان مسائل کی جانب دوسرے تخلیق کار توجہ نہیں دے رہے ہیں یا کم دے رہے ہیں ؟

ذوقی (قہقہہ) : یہ تو دوسرے تخلیق کاروں سے پوچھیے۔ کلاسیکی ادب کے نام پر آسمان یا چاند تاروں اور غالب داغ کی کہانیاں لکھنا بہت آسان کام ہے کامران صاحب۔ نئی دنیا کی تخلیقی اور نئی دنیا کی ڈسکوری کے بعد زندگی کے نئے مفہوم تلاش کرنا خون کی الٹیاں کرنے جیساہے۔ ہمارا ادیب ان چکروں میں کہاں پڑنے والا۔ اسے ڈرائنگ روم چاہئے۔ نیاسماج، نیا معاشرہ، نیاسینیریو   اس کے سامنے کہاں ہے۔ نئی دنیا بھی اس کے سامنے نہیں ہے۔ دراصل ہمارے زیادہ تر ادیب ادب کو داغ کے عہد میں لے جا رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں، صاحب ذراسانئی دنیا کی سیر بھی کر لیجئے۔ کامران: ہم عصر فکشن رائٹر میں آپ کس سے متاثر ہیں۔

ذوقی : خالد طور، مستنصرحسین تارڑ، رضیہ فصیح احمد، اشرف شاد، مرزا اطہر بیگ۔ مصطفی کریم نے بھی کئی اچھے ناول دیئے ہیں۔

کامران:        آپ ایک صحافی بھی ہیں۔ صحافی اور ادیب کے فرق کی مختصر الفاظ میں وضاحت کیجئے۔

ذوقی: ادب کا تعلق سیاست اورسماج سے بہت گہرا ہے۔ صحافت صرف رپورٹنگ تک محدود ہے۔ ادب نظریہ کا نام ہے۔ ادیب واقعہ یا حادثہ کو تراش کر ادب بناتا ہے۔ اور ایک وسیع منظرنامہ میں اسے پیش کر دیتا ہے۔

کامران:        آج کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ناول پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ آپ کس حد تک اتفاق کرتے ہیں ؟

ذوقی: بالکل اتفاق نہیں کرتا۔ مجھے معاف کیجئے گا۔ قارئین کچرا ادب، پسند نہیں کرتے۔ میں کہہ سکتاہوں، مجھے ہر روز کئی کئی فون ہندوستان اورباہرسے موصول ہوتے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ میں نے آپ کا فلاں ناول پڑھا۔ آپ کو تعجب ہو گا، مجھے بھی ہوا کہ ان میں بھاری تعداد مولویوں کی اورمدرسوں کے طالب علم کی بھی ہے۔ میرا ناول لے سانس بھی آہستہ اور آتش رفتہ کے سراغ کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ قاری تو موجود ہے مگر سوال ہے کہ آپ قاری کو دے کیا رہے ہیں ؟ صاحب آج کا عام قاری بھی انڈیا ٹوڈے، دی ہندو اوراسٹیٹس مین پڑھتا ہے۔ آپ کچھ بھی لکھ کر اس کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ ابھی میرے نئے ناول نالۂ شب گیر کا صرف اعلان ہوا ہے اور اس کو پڑھنے کے لیے سوسے زیادہ لوگوں کے فون کالس میرے پاس آ چکی ہے۔

کامران:        اردو زبان ترقی کر رہی ہے یا زوال آمادہ ؟

ذوقی: ابھی کہنا مشکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ زبان زندہ کیسے رہتی ہے۔ صرف ادب سے کسی زبان کو زندگی نہیں دی

جا سکتی۔ ہمارے یہاں ادب بھی کمزور لکھا جا رہا ہے اور اردو کا رشتہ روزی روٹی سے بھی منقطع ہے۔

کامران:        نئی نسل کو کوئی پیغام؟

ذوقی (قہقہہ): نئی نسل کو پیغام۔ نہیں صاحب۔ نئی نسل کو اب پیغام کی ضرورت نہیں۔ نئی نسل سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے۔ نئی نسل بہت طاقتور ہے۔ اس کے پاس اپنا نظریہ ہے اورسب سے اہم بات نئی نسل زندگی کو اپنی شرطوں پر جینے پر یقین رکھتی ہے۔ آپ کوئی پیغام دیں گے تووہ ہنسیں گے۔ کیونکہ آپ کی دنیا ایک پرانی دنیا ہو چکی ہے اور ہمارے زیادہ تر لوگ نئی دنیا سے واقف بھی نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

نالۂ شب گیر کے حوالہ سے معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی سے ایک مکالمہ

 

 

                کامران غنی صبا

 

 

کامران:        ذوقی صاحب، ان دنوں آپ کا یہ ناول زیر بحث ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ آپ نے اس ناول کا نام نالۂ شب گیر کیوں منتخب کیا۔

ذوقی: نالۂ شب گیر۔ یہ ناول لکھنؤ قیام کے دوران تحریر کیا۔ میں ابھی بھی ۱۲ مئی تک لکھنؤ میں ہوں۔ لکھنؤ کی مناسبت سے، اس سے بہتر عنوان کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ شب کے سینے سے پھوٹنے والی آہ و فغاں ہے جس نے مجھے برسوں بے چین کیا ہے۔ مجھے بار بار اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ آج بھی عورت صدیوں کے جبر سے آزاد نہیں ہو پائی ہے۔ اور مردوں نے روز ازل سے آزادی کے احساس کو، صرف مردوں کی ملکیت تسلیم کیا ہے۔ عورت آزاد ہونا چاہتی ہے یا کھلی فضا میں اڑان کی خواہشمند ہوتی ہے تو مرد اس کے پر کتر دیتا ہے۔ اور یہاں اس کی مدد کے لیے مذہب بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لیے ناول کے شروع میں ہی، میں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ روز ازل سے اب تک کے فسانے میں ایک مرد ہے کہ ایک عورت۔ لیکن غور کریں تو دونوں میں کتنا فاصلہ ہے۔

کامران:        اس کا مطلب یہ کہانی نئی عورت کی ہے جو اکیسویں صدی میں خود کو آزاد محسوس کرتی ہے ؟

ذوقی: اکیسویں صدی میں بھی کتنی آزاد ہوئی ہے عورت ؟ وہ ہر جگہ ہے، فلم سے سیاست تک۔ لیکن یہ مرد کی ذات ہے جو اس کے بارے میں خبریں بناتا رہتا ہے۔ عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو معاشقہ بھی ہو گا۔ کسی مرد سے باتیں کرتی ہے تو رشتہ بھی ہو گا۔ کیوں صاحب، مرد اتنی گندی ذہنیت اور گندی نگاہ کیوں رکھتا ہے — ؟ اسی لیے اس ناول میں ایک مقام وہ آتا ہے جب ناول کی ہیروئن کو لغات کا کام ملتا ہے تو وہ فاحشہ، کلنکنی، رنڈی، ویشیا یہ سارے نام مردوں سے منسوب کر دیتی ہے۔ اور وہ کہتی ہے کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں مردوں کو اسی نام سے جینا ہو گا۔

کامران:        معاف کیجئے گا ذوقی صاحب۔ آپ خود بھی ایک مرد ہیں۔ اس ناول کو لکھنا آپ کے لیے آسان نہیں رہا ہو گا۔

ذوقی: آسان تو نہیں رہا بھائی، مشکل بھی نہیں۔ اسی سماج اور معاشرے میں ایک عورت میری ماں بھی تھی۔ یہ عورت میری بہنوں کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ یہ عورت میری بیوی بھی ہے۔ جب مرد یہ کہتا ہے کہ وہ عورت کی عزت کرتا ہے تو دراصل وہ عورت کی عزت اتارتا ہے۔ کس نے کہا ہے عزت کرنے کو— اسے برابر سمجھو گے تو عزت کا لفظ نہیں آئے گا— کبھی آپ نے سنا کسی عورت سے کہ اس نے کہا ہو، وہ مردوں کی عزت کرتی ہے۔ اقبال نے کہا، وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ— یہاں میں اقبال کا معترف و مداح ہونے کے باوجود اقبال کے ساتھ نہیں ہوں۔ وجود مرد کیوں نہیں کہا— عورت صرف کائنات میں رنگ بھرنے کے لیے ہے — ؟ عورت صرف چٹخارے اور ذائقے کے لیے ہے — ؟ آپ اس سے ہمدردی کرتے ہیں۔ آپ اس کی عزت کرتے ہیں لیکن آپ اس مہذب ترین سماج میں بھی اسے برابری کا حق دینے کو تیار نہیں — اس لیے میرے ناول نالۂ شب گیر کی عورت کو ان تمام لفظوں سے نفرت ہے جو مرد عورت ذات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے لیے اہلیہ، شریک حیات، بیوی وہ شادی کرتی ہے تو اپنے شوہر کو بیوی کہہ کر مخاطب کرتی ہے۔ میرا زور اس بات پر ہے کہ وہ نفسیاتی مریضہ نہیں ہے۔ بلکہ اس مقام تک اس لیے پہنچی کہ آپ کے سماج نے اسے بار بار رسوا اور ذلیل کیا ہے اور اب وہ آپ سے انتقام لینا چاہتی ہے۔

کامران:        اور اسی لیے آپ نے اس ناول کا نام نالۂ شب گیر رکھا۔ ؟

ذوقی: بالکل صحیح کہا۔ اس سے بہتر نام میرے خیال سے ہو ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ صدیوں سے سلگتی ہوئی نیم شب کی کراہ بن چکی ہے — وہ صدیوں سے اپنی ہی آگ میں جلتی ہوئی نیم شب اٹھنے والی اور پاکل کرنے والی سسکیوں کی گونج بن گئی ہے۔ وہ نیم شب کے سناٹے کا ایسا زخم ہے جو رسنے لگا ہے — ایک ایسا زخم، جس کے درد کی تاب نہ لا کر جب اس کی چیخ گونجتی ہے تو آسمان بھی پھٹ پڑتا ہے۔ میرے خیال سے اردو تو کجا شاید ہی کسی دوسری زبان میں عورت کو موضوع بنا کر اس طرح کا ناول لکھا گیا ہو۔

کامران:        اگر ہم اس کے مرکزی خیال کے بارے میں جاننا چاہیں تو؟

ذوقی: آپ کو دلی گینگ ریپ کے حادثے کا پتہ ہو گا۔ یہ انہی دنوں کا تذکرہ ہے جب ہندوستانی سرزمین پر سیاست نے نئی کروٹ لی تھی۔ دلی کا انڈیا گیٹ ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ میں انقلابی چوک میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہ دبے پاؤں آنے والی انقلاب کی وہ آہٹ تھی جو شاید اس سے قبل کبھی دیکھی نہیں گئی— یہ وہی دور تھا جب دنیا کے کئی حصوں میں اس طرح کے مظاہرے عام تھے۔ سیاسی چہروں کو یہ فکر دامن گیر کہ عوام کا غصہ جاگ گیا تو تخت وتاج کا کیا ہو گا۔ بار بار تباہ و برباد اور آباد ہونے والی دلی آزادی کے بعد محض سوئی ہوئی، خاموش تماشائی بن کر رہ گئی تھی۔ لیکن ایک حادثے نے دلی والوں کو نہ صرف جگا دیا تھا بلکہ دلی کے ساتھ ہی پورا ہندوستان بھی جاگ گیا تھا۔ اور یہ معاملہ تھا جیوتی گینگ ریپ کا معاملہ۔ ایک معصوم سی لڑکی جیوتی جس کو میڈیا اور چینلس نے ابھیا، نربھیا جیسے ہزاروں نام دے ڈالے تھے۔ ایک کالج کی لڑکی جو صبح سویرے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک خالی بس میں بیٹھی اور بس میں سوار پانچ لوگوں نے بے رحمی کے ساتھ بوائے فرینڈ کی موجودگی میں اسے اپنی ہوس کا شکار بنا لیا اور چلتی بس سے دونوں کو باہر پھینک دیا۔ یقینی طور پر ایسے معاملات پہلے بھی سامنے آئے تھے۔ لیکن بے رحمی اور درندگی کی نہ بھولنے والی مثال نے دلی کو احتجاج اور انقلاب کا شہر بنا دیا تھا۔ جنتر منتر سے لے کر دلی گیٹ اور انڈیا گیٹ تک ہزاروں لاکھوں ہاتھ تھے جو انقلاب کے سرخ پرچم کے ساتھ ہوا میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بطور مصنف کبھی سوچتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی نئی دنیا میں قدم رکھنے کے باوجود آج تک جبلت اور درندگی کے واقعات میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی تو عالم نفسیات کی موٹی موٹی کتابیں بھی ہانپ جاتی ہیں کہ نہ قدیم عہد میں کچھ بدل نہ سکا اور اس انفارمیشن ٹکنالوجی اور سائنسی انقلاب میں کچھ بدلنے کی امید ہے۔ وہی مرد ہے۔ عورت کو اپنی حکومت کے طور پر محسوس کرنے والا۔ اور صدیوں کے انقلاب کے باوجود برتری کا وہی پیمانہ ہے جو آج بھی عورتوں کو حاشیہ پر دیکھنے کا خواہشمند ہے۔ اور اسی لیے عورت ہونے کے تصور میں مرد نے کبھی اس کے اڑان کا استقبال نہیں کیا بلکہ ایسی ہر اڑان اس کی مردانگی کو للکارتی رہی — سیمون دبوار سے تسلیمہ نسرین تک عورت جب یہ کہتی ہے کہ یہ گھر میرا ہے، یہ فرج میرا، یہ لیپ ٹاپ میرا، اور یہی بدن میرا تو مردی کی آنکھیں تن جاتی ہیں۔ مرد نہ عورت کو برانڈ بنتے دیکھ سکتا ہے نہ سماج سے سیاست تک اس کے قد کو پھیلتے بڑھتے ہوئے — یوروپی ممالک کی عورتیں بھی اس معاملے میں وہی ہیں، جو ایک عام ایشیائی عورت کا معاملہ ہے، وہاں بھی زنا بالجبر اور زور زبردستی کی وارداتیں عام ہیں اور یہ وارداتیں ہر سطح پر ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ تہذیب کی اتنی صدیاں گزارنے کے بعد بھی ایک تعلیم یافتہ لڑکی رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر سفر نہیں کر سکتی۔ دفتروں میں کام کرتے ہوئے اسے چوکنا رہنا ہوتا ہے۔ وہ گھر میں بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہاں باپ سے بھائی تک کے قریبی رشتوں میں بھی سگ زرد برادر شغال کی مثال ہی سامنے آتی ہے۔ صرف ایک بدن کے قصور میں آزاد ہوتے ہوئے اور ترقی کے منارے چڑھتی ہوئی عورت بھی زمانہ قدیم کی داسی معلوم ہوتی ہے جس کی ڈور روز ازل سے مرد کی پاس ہے اور اسے مرد کے اشاروں پر ہی ناچنا ہوتا ہے۔ اور یہیں مجھ سے دو کردار ٹکراتے ہیں۔ ایک صوفیہ مشتاق احمد، جو مرد اساس معاشرہ کی دین ہے۔ ایک سہمی ہوئی لڑکی۔ اور دوسری ناہید ناز۔ جو مرد سے انتقام لینا چاہتی ہے۔ مکمل ناول کے لیے آپ کو اپریل تک انتظار کرنا ہو گا۔

کامران:        نالۂ شب گیر کی دوسری عورت یعنی ناہید ناز آخر مردوں سے انتقام کیوں لینا چاہتی ہے؟

ذوقی: اس کی پیدائش ایک حویلی میں ہوئی ایک ایسی حویلی جہاں بہت سے مرد رہتے تھے — قریبی رشتہ دار۔ دور کے رشتہ دار۔ ایک حادثہ ہوتا ہے اور ناہید کی چچیری بہن جس کی عمر صرف ۱۷ سال کی تھی، ماں بن جاتی ہے۔ گھر والے اسے زہر دے کر مار دیتے ہیں۔ ناہید نکہت کی ہم عمر تھی۔ پہلے وہ ان مردوں کے سامنے بغاوت کرتی ہے … وہ مردوں کے مجمع میں جاتی ہے۔ وہ پوچھتی ہے۔ کس نے مارا میری بہن کو۔ ایک رشتہ دار اسے ڈانٹتے ہیں کہ بے غیرت اندر جاؤ۔ ناہید پہلی بار غصہ ہوتی ہے … ’بے غیرت … اس گھرکے مردوں کو غیرت سے کوئی واسطہ بھی ہے۔ کس غیرت کی بات کرتے ہیں یہ لوگ؟ ارے اس گھر کی لڑکیاں تو پیدا ہوتے ہی ان مردوں کے ’سائز‘ تک سے واقف ہو جاتی ہیں — پردہ میں رہنے والی اماں، پردہ سے باہر نکل کر اس کا ہاتھ تھامنا چاہتی ہیں تو وہ روک دیتی ہے۔ آج نہیں اماں … آج کوئی میری طرف بڑھا تو شہید ہو جائے گا۔ یہاں کے مرد گھر میں اپنا شکار تلاش کرتے ہیں۔ مرغیاں، بکریاں، اور میمنے تک ان مردوں کے سائز سے واقف ہیں۔

کامران:        بھیانک…

ذوقی: آپ غور کریں تو ایسے واقعات عام ہیں۔ اور مردوں کی مردانگی بس یہیں جاگتی ہے۔ اور اسی لیے جب ناہید کے قدم انقلاب بنتے ہیں تو مردوں کے اس سماج میں زلزلہ آ جاتا ہے۔ میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا۔ میں نے یہ ناول قطعی جذباتی ہو کر نہیں لکھا۔ میں نے یہ ناول بہت سوچ سمجھ کر تحریر کیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سیمون دبوار کو کہنا پڑتا ہے کہ عورت پیدا نہیں ہوتی بنائی جاتی ہے۔ سارا شگفتہ جیسی عورتیں خودکشی کیوں کرتی ہیں۔ تسلیمہ نسرین کو ادیبہ مت قبول کیجئے مگر اپنی آپ بیتی میں وہ مردوں کے خلاف غصہ کیوں اتارتی ہے۔ ؟ اور مرد اس غصہ سے الگ اسے ’کرپٹ‘ کہتے ہوئے بھی سوچتا نہیں ہے کہ دراصل یہ لفظ اس کے لیے بنا ہے۔ میں تسلیمہ کی حمایت نہیں کر رہا۔ میں اس کی اسلام بیزاری سے خوش نہیں ہوں۔ مگر اس نے جو مردوں کے واقعات گنوائے ہیں وہ بھیانک ہیں۔ تمہینہ درانی اور کشور ناہید کی بری عورت کی آتم کتھا کو پڑھ جائیے۔ پاکستان سے ابھی ایک انگریزی ناول آیا تھا۔ جائیداد کی حفاظت کے لیے ایک بیحد حسین و جمیل لڑکی کی شادی قرآن شریف سے کر دی جاتی ہے۔ کیسا سماج ہے یہ؟ اور اس سے بڑا سوال ہے۔ بھیانک نظر آنے والا یہ مرد آخر عورت پر حکمرانی کا خواہشمند کیوں ہے ؟ بس یہی میرے ناول کا مرکزی خیال ہے۔

کامران:        آپ نے یہ ناول کتنے دن میں مکمل کیا۔

ذوقی: کامران صاحب، بات مکمل کرنے کی نہیں ہے۔ کوئی بھی آئیڈیا کئی برسوں تک دماغ میں پکتا رہتا ہے۔ پھر آپ کے vision کے ساتھ تحریری شکل میں ڈھل جاتا ہے۔

کامران:        وہ کون سے عوامل تھے جو اس ناول کی تخلیق کا سبب بنے۔

ذوقی:  میں اس کے بارے میں بتا چکا ہوں۔ خدا نے مرد کا تصور کیا تو نا تراشیدہ خوفناک چٹانوں اور عظیم الشان پہاڑیوں کی تخلیق میں مصروف ہو گیا۔ خدا نے عورت کا تصور کیا تو گڈ مڈ ہوتی آسیبی پرچھائیوں کو دیکھا۔ عورت کی تخلیق کے ساتھ گدلے پانی کو عالم بالا سے عالم سفلی کی طرف اچھال دیا۔ اور وہاں خوف کی شکلیں نمودار ہوئیں۔ مرد چٹانوں پر شان کبریائی سے کھڑا تھا۔ عورت گدلے پانی میں جھانکتی ہوئی خوف کی پرچھائیوں سے سہمی ہوئی تھی۔ اور اس کی تقدیر اسی نالۂ شب گیر سے جوڑ دی گئی تھی۔ یہی وہ عوامل تھے جو ناول کی تخلیق کا سبب بنے۔

کامران:        اور آخر میں عورتوں کے مسائل پر بیشمار ناول اور افسانے لکھے گئے۔ نالۂ شب گیر کی کوئی انفرادیت۔

ذوقی: میرے خیال سے میں نے ایک نیا موضوع اٹھایا ہے۔ فیصلہ ہمیشہ کی طرح قارئین کریں گے۔

کامران:        آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا۔ اس کے لیے شکریہ۔

ذوقی: آپ کا بھی شکریہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

نالۂ شب گیر: ایک ضروری مکالمہ عورتوں کے تعلق سے

 

                سیمیں کرن

 

نوٹ: مشرف عالم ذوقی کے ناول نالۂ شب گیر کے مطالعہ کے دوران میں کئی اہم سوالوں سے گزری۔ ان کا جواب تلاش کرنا ضروری تھا۔ پہلے اس ناول کے بارے میں مختصر سی گفتگو کر لوں تو اس مکالمے کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ نالۂ شب گیر … بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ ان کے حل پیش کرتا ہے — conception سے perception کی جانب سفر کرتا ہے۔ ایک مفکر کی طرح، عظیم فلسفیوں کی طرح ذوقی صاحب نے بھی ایک مثالی انسان کا تصور دیا ہے …مگر سب سے بڑا اور ہلا دینے والا تجربہ یہ ہے کہ انسان کے اب تک کے تجربوں کے برخلاف اس عورت کو پیش کیا گیا ہے جو ایک عظیم عورت ہے ایک مفکر ہے …آگ پہ پکی کندن کی طرح جس کے رستے میں رشتے ناطے حتی کہ ممتا کی بھی بیڑی بھی نہیں ..سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عورت مشرف عالم ذوقی کے ذہن کی پیداوار ہے یا اس نے ایسی کسی عظیم عورت کا مشاہدہ کیا — ؟اور سوال تو یہ بھی ہے کہ کونسے عوامل ہیں جو مصنف کو مرد کے اس حد تک خلاف جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ ؟ عورت جو ایک فلسفی کی طرح اس معاشرے میں زہر گھولتے حروف کی بدرو کو صاف کرنے جیسی اہم مہم انجام دیتی ہے … ایک ایسا کردار جو فطرت سے بھی جنگ پہ آمادہ ہے اور مالک سے سوال کرتی ہے اتنا کمزور کیوں بنا دیا عورت کو— ؟ جسم سے بڑی بھوک کیوں بنا دی…؟اسی عورت کا اک دوسرا عکس صوفیہ ہے جو آخر اپنے خوف کو محبت بنا لیتی ہے …سوال تو یہ بھی ہے کہ مشرف عالم ذوقی نے کیسے عورت کے من میں بیٹھ کر اس کے ہر خوف اور زخم کو کھوجا ہے اور بیان کرنے کی جرأت بھی کی ہے ..وہ مردانہ سماج کی ان عورتوں سے زیادہ عورت سے مخلص نظر آتے ہیں اور اس کی معاشی آزادی اور تعلیم میں اس کے زخموں کا مرہم بھی کھوجتے ہیں …ایک ایسا سماج تشکیل کرنے کی آرزو جہاں مرد کی مردانگی عورت کی نسوانیت سے بڑی نہیں … دعا ہے کہ یہ خواب تمام آنکھوں میں منتقل ہو جائے۔

نالۂ شب گیر نے زخم کھرچ دیئے — بچپن سے ہی مجھے مردانہ سماج کے یہ محاورے یاد رہے کہ عورتیں دی مت گت پچھے ..بزدلوں کو عورت ہونے کا طعنہ .. بچپن سے ہی عورت بہت سا زہر پیتی آئی ہے … صوفیہ میں بھی اک خوفزدہ عورت ہے جو رشتوں کو کھو دینے کے خوف میں مبتلا ہے …یہ ناول اتنا بھرپور ہے کہ ایک مدت تک ذہن پہ حکومت کرے گا … اس ناول نے کہاں کہاں تازیانے نہیں مارے … ان خوابوں کو زندہ کیا کہ عورت اتنی خودمختار اور مضبوط کیوں ہو نہیں سکتی ہے …؟ اس ناول کو کہاں کہاں کن کن زاویوں سے دیکھوں …

میں نے کوشش کی ہے کہ اک بہت بڑے ناول پر بڑے سوال اٹھاؤں تاکہ اس کی تحقیق کا صحیح رخ متعین ہو سکے …میں نے یہ سوال اس لیے اٹھانا ضروری سمجھا کہ اس ناول کی روح کسی ایک مرد میں جاگی تو کیسے جاگی— ؟ کسی نے ایسا سوچا تو کیسے سوچا…؟ ایک پل میں لگا کہ میں کسی ایسی چوٹی پہ کھڑی ہوں جس نے اس ناول کی روح کو جانا ہے … اور میرا دل چاہا کہ اس روح کو ہر مرد اور عورت کے اندر رکھ دوں …

میری دلی خواہش ہے کہ اس مکالمہ پر باتیں ہوں … ان سوالوں کو سوچا جائے … کیونکہ لفظ کی قوت سے میں آگاہ ہوں …اسی بات سے اک اور سوال میرے ذہن میں تھا۔ ذوقی صاحب نے بدلتے حالات اور زمانے کے ارتقا سے بلی کی علامت میں جس طاقت ور عورت کو دیکھا ہے، وہیں الفاظ کے ارتقا کا نظریہ بھی پیش کیا ہے ؟ کیا یہ درست ہے ؟ لفظ قتل بھی کرتے ہیں اور لفظ زندہ بھی کرتے ہیں — ادا کس نے کیا بس یہ اہم ہے … کن بھی تو اک لفظ ہی ہے …میں اکثر سوچتی ہوں کہ کیا ہمیں اس مالک نے شودروں کی طرح پیروں سے پیدا کیا تھا— ؟ کوئی جواب نہیں ملتا— پھر کہتی ہوں اچھا میرے رب میں نے تسلیم کیا جو تو نے مجھ سے میری نظر اور عقل سے پوشیدہ رکھا…

کچھ منتشر خیالات تھے جو نالۂ شب گیر کا مطالعہ کرتے وقت میرے ذہن میں پیدا ہوئے۔ اب اس مکالمے میں، میں آپ کو شامل کر رہی ہوں۔

سیمیں کرن: آپ کے خیال میں مصنف کو بے شرم ہونا پڑتا ہے۔ وہ کسی جوکر کی طرح ہے کیا یہ انفرادی نظریہ ہے یا پھر اب اسے اجتماعی نظر میں دیکھتے ہیں ؟

مشرف عالم ذوقی: مصنف پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بیک وقت وہ کئی کردار نبھا تا ہے۔ وہ محبوب بھی ہوتا ہے اور ظالم بھی۔ وہ منصف بھی ہوتا ہے اور قاتل بھی۔ کئی بار کہانی اور واقعات کے تعلق سے اسے جلاد کا کردار بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ تم نے پوچھا ہے یہ انفرادی نظریہ ہے یا اجتماعی نظریہ— ؟ میرے خیال سے یہ نظریہ تمام لکھنے والوں پر صادق آتا ہے۔ کیونکہ محض شرافت کردار اور واقعات کے تعلق سے ایک دنیا کا تعاقب کرنے میں ناکام رہے گی۔ منٹو بیحد شریف تھا لیکن اس کی کہانیوں میں ہر طرح کے واقعات اور ہر طرح کے کردار تھے۔ طوائف بھی۔ دلّے بھی۔ سماج کے ٹھیکیدار بھی۔ ایک مکمل عریاں معاشرہ منٹو کے سامنے تھا— اور اسی لیے ناول کی شروعات میں ہی مجھے کہنا پڑا کہ میں ایک جو کر ہوں۔ یہ جوکر دوستو فکسی کی کہانی کا ریڈیو کلیس مین بھی ہے اور ایڈیٹ بھی۔ یہ جوکر مذاق مذاق میں زندگی کے فلسفوں کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ جوکر کو دوسروں سے کہیں زیادہ یہ پتہ ہوتا ہے کہ زندگی کیا ہے۔ دوستو فکسی کے مشہور زمانہ ناول ایڈیٹ میں جب شہزادی ایڈیٹ کو لے کر اپنے دوستوں سے ملانے آتی ہے تو اس نئے ماحول میں ایڈیٹ کے جسم میں لرزہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس چھوٹ جاتا ہے۔ جب شہزادی کے دوست اس مسخرے پر ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں تو شہزادی کہتی ہے، اس بھیڑ میں یہ شخص خالص سوناجیسا ہے۔ جہاں کوئی نمائش نہیں۔ یہی جوکر کا کمال ہے۔ وہ اپنے مذاق، اپنی طبیعت سے ایک مکمل معاشرے اور دنیا کو آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ آپ اس پر ہنس سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ انتہائی کمال و ہشیاری سے اس نے آپ کو بے نقاب اور عریاں کر دیا ہے۔

سیمیں کرن۔ آپ نے اپنے ناول میں ایک عظیم طاقتور عورت کی تخلیق کی ہے۔ جبکہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہے یعنی کیا یہ محض تخیل ہے۔ ؟

مشرف عالم ذوقی: تم نے پوچھا کہ میں نے ناول میں ایک عظیم طاقتور عورت کی تخلیق کی ہے۔ جبکہ یہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہے۔ تمہیں یقین نہیں آئے گا سیمیں کرن، تمہارے اس سوال پر حیران ہوں۔ تم خود ایک عورت ہو۔ اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ مرد اساس معاشرے کا جبر ہے کہ تم نے خود کو کبھی عظیم یا طاقتور نہیں سمجھا۔ کمزور ہی سمجھا۔ میں عورتوں کو قصوروار نہیں ٹھہراتا کہ ایسا کیوں ہے۔ کیونکہ اس کے پیچھے صدیوں کی تاریخ ہے۔ ظالم مرد نے کبھی عورت کو بلند یا طاقتور ہونے دیا ہی نہیں۔ تم نے مجھے موقع دیا ہے کہ میں نالۂ شب گیر کے حوالہ سے مرد، عورت اور آزادی کے تعلق سے دو باتیں کر سکوں۔ آزادی… ذرا تصور کرو، اس لفظ میں کتنی زندگی اورسرشاری ہے۔ مگر افسوس، صدیوں سے آج تک مرد نے اس آزادی کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور عورت کے لیے اس لفظ کو ممنوعہ قرار دیا۔ حضرت نوحؑ سے آخری نبی حضرت محمدؐ تک عورت وہی کچکڑے کی گڑیا رہی، جس کا استعمال ہوتا رہا۔ قرآن میں کہا گیا— ’عورت تمہارے لئے کھیتیاں ہیں ‘— لیکن ان ’کھیتیوں ‘ نے صدیوں سے مردوں کی طاقت اور کمزوریوں کو سمجھ لیا تھا۔ عرب میں حضرت محمدؐ کے آنے تک عورت بازاروں میں بکنے والی چیز تھی۔ جس کے ہاتھ لگ جاتی، اُسی کی ملکیت ہو جاتی— صدیوں میں سانس لیتی عورت نے جب اپنی آزادی کے آسمان کی تمنا کی، تو سب سے پہلی جنگ اُسے مذہب سے ہی لڑنی پڑی— خود اسلام میں عورت کے نام پر اتنی ساری پابندیاں اُس کی تقدیر میں لکھ دی گئی تھیں، جنہیں آج کے مہذب ترین دور میں بھی عورت نبھائے جانے کے لئے مجبور ہے۔ مذہب کی حیثیت کیسی تلوار جیسی ہے، جو عورت کے سر پر صدیوں سے لٹک رہی ہے۔ عورت اس تلوار کے خلاف جاتی ہے، تو وہ سرکش، باغی تو کبھی بے حیا اور طوائف بھی ٹھہرا دی جاتی ہے۔

اسلام میں عورت کو جو بھی مقام عطا گیا ہے، شریعت کا فرمان جاری کرنے والے اور اُس پر عمل کرنے والے مولویوں نے ہر بار مذہب کی حفاظت کی آڑ لے کر عورت کو اپنے پاؤں کی جوتی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسلسل ظلم، کئی کئی بیویوں کا رواج، آزادی سے کچھ قبل تک بیوی کی موجودگی میں ’داشتہ‘ رکھنے اور کوٹھوں پر جانے کا رواج، اس بارے میں اپنی مردانگی کی جھوٹی دلیلیں، شہزادوں، نوابوں اور مہاراجاؤں کے ہزاروں لاکھوں قصوں میں عورت نام کی چڑیا سچ مچ کھیتی، بن گئی تھی___ مرد عورت کی ’زمین‘ پر ہل چلا سکتا تھا، رولر چلا سکتا تھا۔ زمین کو چاہے تو زرخیز اور چاہے تو بنجر بنا سکتا تھا___ وہ مرد کی ’کھیتی‘ تھی اس لئے اُسے بولنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ مرد اُس کا کوئی بھی استعمال کر سکتا تھا۔

مسلم معاشرے نے عورت کو وہیں اپنایا، جہاں وہ مجبور تھی، جہاں اُسے مارا پیٹا یا سزا دی جا سکتی تھی۔ جہاں مرد دو دو، تین تین، بلکہ چار چار عورتوں سے شادی کر سکتے تھے۔ جہاں مرد عورتوں کو ’حلال‘ کر کے جبراً ان کے مالک بن سکتے تھے — جہاں زنا یا عصمت دری میں ذہنی چوٹ سہنے کے باوجود سزا صرف اُن کے لئے ہی لکھی گئی تھی— جہاں ان کے سجنے سنورنے اور ان کے سنگار پر پابندی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے مذاہب میں یہ عورت راحت و آرام کی سانس لے رہی تھی— یہ عورت ہر جگہ بندشوں میں گھری ہوئی تھی— عورت ہر جگہ قید میں تھی۔ تبھی تو سمون دبوار کو کہنا پڑا— ’عورت پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ ‘

سمون دبوار کی آپ بیتی کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ قاہرہ کے ایک سیمینار میں بولتے ہوئے سمون نے مردوں پر عورتوں کے لئے حاکمانہ، زمیندارانہ اور ظالمانہ رویہّ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔ وہاں تقریب میں شامل مردوں نے سمون کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ عورتوں کی نا برابری اُن کے مذہب کا حصہ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر ہے اور مذہب کا قانون دنیا کے ہر قانون سے اوپر ہے۔

سمون نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی— کیونکہ برابری اور نا برابری جیسے معاملوں کے درمیان بار بار مذہب کو فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ ایم جی لیوس کا مشہور ناول ’دی میک…‘جب1796 میں شائع ہوا، تو ادبی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ دنیا بھر کے عیسائی طبقے میں اس ناول کو لے کر نا اتفاقی کی فضا پیدا ہو گئی۔ پادریوں نے خاص اعلان کیا کہ یہ ناول نہ خریدا جائے، نہ پڑھا جائے اور نہ گھر میں رکھا جائے۔ ’دی میک‘ میں عورتوں کو ’نن‘ بنانے والی رسم کے خلاف جہاد چھیڑا گیا تھا___ مذہبی پادریوں کے، عورتوں کے جسمانی استحصال کے ایسے ایسے قصّے اس کتاب میں درج تھے کہ دنیا بھر میں اس کتاب کی ہولی جلائی گئی___ سچ تو یہی ہے، جیسا کہ سیمون دبوار نے کہا تھا___ ’’عورتیں پیدا نہیں ہوتیں بنائی جاتی ہیں۔ وہ ہر بار نئے مردانہ سماج میں نئے نئے طریقے سے ’ایجاد‘ کی جاتی رہی ہے۔ ‘‘

اب حجاب امتیاز علی کی ایک کہانی کی مثال لو 1936میں تحریر کی گئی۔ کیا عورت قوم سے خارج ہے ؟ کیا قوم صرف مردوں کی جماعت کا نام ہے ؟

’’اﷲ، کیا مشرق میں لڑکی صرف اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی خوشیوں پر قربان کر دی جائے ؟ کیا اُسے خود اپنی زندگی کے معاملے میں دخل دینے کا اختیار نہیں ؟ کدھر ہے وہ ریفارمر، جو قوم کے آگے لمبی لمبی تقریریں کرتے اور بہبودیِ قوم کا ترانہ بڑے زور شور سے گاتے ہیں ؟ اسٹیجوں پر کھڑے ہو کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ رکھ کر قومی درد جتانے والے ریفارمر کدھر ہیں ؟ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں، انہوں نے اپنی ماؤں کے لئے کیا کیا؟ لڑکیوں کے لئے کیا کیا؟ اگر اُن کے احساس صرف مردوں کے دکھ درد تک ہی محدود ہیں، تو پھر یہ بزرگ کس منہ سے قوم کے امام بنے پھرتے ہیں ؟ پھر وہ کیوں اس نام سے جوڑے جاتے ہیں ؟ کیا وہ عورت کو قوم سے ’خارج‘ سمجھتے ہیں ؟ کیا قوم صرف مردوں کی جماعتوں کا نام ہے۔ ‘‘        ___بیمار غم

ایک مثال کشور ناہید کی بھی ہے، جسے کہنا پڑا۔ ’پاکستان نے اپنے وجود کو عورت کے وجود کی طرح تقسیم ہوتے دیکھا۔ شکار ہمیشہ عورتیں رہیں۔ ‘

سیمیں کرن۔ تہمینہ درانی نے بھی اپنے ناول میں اسی آزادی کی بات کی تھی۔ میں نے اسی لیے آپ سے پوچھا کہ جو ناول آپ نے تخلیق کیا ہے، وہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہے۔

مشرف عالم ذوقی:۔ تم نے صحیح کہا۔ دراصل نئے اسلامی معاشرے میں نوکر شاہی اور سیاست کا جو گھنونا کھیل شروع ہوا تھا، وہاں ’حاکم‘ صرف اور صرف مرد تھا۔ عورت نئی اسلامی جمہوریت میں، مذہب کا سہارا لے کر پاؤں کی جوتی بنا دی گئی تھی، درد بھرے انجام کو پہنچی عورتوں کی اسی کہانی کو لے کر تہمینہ درّانی نے اپنی آپ بیتی لکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی سیاست کے اہم ستون مصطفیٰ کھر نے سیاست اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی قائم کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے ساتھ ایسے ظلم کئے کہ آج کے مہذب سماج کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تہمینہ کی آپ بیتی ’میرے آقا‘ نے پاکستان کے سیاسی ادبی حلقے میں ہنگامہ کھرا کر دیا۔ یہ عورت کے ظلم وستم کی داستاں تو تھی ہی۔ لیکن عورت اب بھی اپنے وجود کے لئے مرد کو نیچا دکھانے پر اتر آئی تھی۔ اب تہمینہ کے ناول مائی لارڈ سے ایک مثال دیکھو۔

’’میرے ابا جان، بھائی اور کچھ نزدیکی رشتہ داروں کے سوا مرد لوگ میرے لئے پرائے تھے اور شروعاتی لمحوں سے ہی مجھے مردوں سے دور رہنا سکھایا گیا تھا۔ میرے بچپن میں ایسی ہدایتوں کی فہرست بہت لمبی تھی کہ مجھے کیا کیا نہیں کرنا ہے اور اِن سب کا ہی مقصد میرے اور مردوں کی دنیا کے درمیان ایک غیر تجاوز دوری بنائے رکھنا تھا۔ جیسے کریم پاؤڈر یا نیل پالش کا استعمال مت کرو۔ لڑکوں کی طرف مت دیکھو، نئے زمانے کی سہیلیاں مت بناؤ اور ایسی کسی بھی لڑکی سے دوستی مت کرو، جس کا کوئی بڑا بھائی ہے۔ بغیر اجازت کسی دوست کے گھر مت جاؤ۔ کبھی فون مت اُٹھاؤ۔ ڈرائیور کے ساتھ کبھی اکیلی باہر مت جاؤ۔ نوکروں کے ساتھ کبھی باورچی خانہ میں کھڑی مت رہو۔ ‘‘

یہ کہانی کا ایک رُخ ہے، دوسرا رُخ کشور ناہید کی کتاب ’بُری عورت کی کتھا‘ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ آخر وہ کیسا نظام ہے، جہاں پیدائش کے بعد سے ہی ظلم و جبر سہتی ایک مسلمان عورت کبھی اپنی آزادی اور کبھی مذہب کے خوف سے گھبرا کر باغی بن جاتی ہے —

’جب ماں نے مصالحہ پیسنے کو کہا، تو میں نے گلی میں نکل کر اپنے ہم عمروں سے پوچھا— کیا یہ میری سگی ماں ہے ؟ مجھے مرچیں پیسنے کو دیتی ہیں اور میری انگلیوں میں مرچ لگ جاتی ہے۔ آگے بڑھوں تو سات سال کی عمر… اب مجھے برقعہ پہنا دیا گیا۔ میں گر گر پڑتی تھی، مگر مسلمان گھرانوں کا رواج تھا— 13سال کی عمر کی ہوئی تب سارے رشتے کے بھائیوں سے ملنا بند۔ 15سال کی عمر کالج میں داخلے کے لئے بھوک ہڑتال۔ 19سال کی عمر یونیورسٹی میں داخلے کے لئے واویلا۔ 20سال کی عمر، شادی خود کرنے پر اصرار— 20سال کی عمر کیا آئی، شادی کیا ہوئی، سوچ میرا پہریدار ہو گیا۔ ‘

مجھے معاف کرنا سیمیں، یہی وہ عوامل تھے، جس نے مجھے نالۂ شب گیر لکھنے پر مجبور کیا۔ کشور ناہید سے تہمینہ درانی تک، غور کرو تو ایک سہمی ہوئی عورت ہے اور جابر مرد ہاتھوں میں ہنٹر لیے کھڑا ہے۔ آخر ایسا کب تک ہو گا؟ صدیوں سے آج تک اس مہذب سماج میں یہی کہانی دہرائی جاتی رہی ہے۔ ممکن ہے یہ معاشرتی رویوں کے برعکس ہو، ممکن ہے یہ تخیل ہو، مگر اب بہت ہو چکا۔ وہ عظیم عورت پیدا ہو چکی ہے۔ یا پیدا ہو رہی ہے۔ یا اسے پیدا ہونا ہی پڑے گا۔ مردوں کے لیے یہ خوفزدہ کرنے والی خبر ہے کہ صدیوں کے ظلم کے بعد اب ناہیدوں، نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔

سیمیں کرن: مردانہ طاقت جس کے ساتھ ایک دنیا، ایک معاشرہ، فطرت، مذہب سب کچھ شامل ہے، آخر کون سا ایسا محرک ہے کہ مردانہ انا پر پاؤں رکھ کر آپ نے عورت کو اتنا طاقتور بنا دیا۔ ؟

مشرف عالم ذوقی: مردانہ انا پہ پاؤں نے تمہارے اس سوال کو پہلے سوال سے الگ کر دیا ہے۔ میں مصنف بعد میں ہوں۔ پہلے ایک مرد ہوں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ اکیلا مرد سماج اور معاشرے کے لیے بیکار ہے۔ اسے جنم دینے والی بھی ایک عورت ہے۔ جو ماں کہلاتی ہے۔ اور یہ عظیم درجہ ہے، جو ماں کو دیا گیا۔ ایک وہ بھی عورت ہے، جو اس کی زندگی میں نصف بہتر کی حیثیت سے شریک ہوتی ہے۔ اور زندگی کے سفر میں اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نسل کو آگے بڑھاتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ صدیوں کے سفر میں مرد نے عورت سے وابستہ رشتوں کی عظمت سے بھی انکار کیا اور ایک ایسی انا پر اپنی سفاک سلطنت کی بنیاد ڈالی جہاں عورت، ماں، بہن بیٹی ہوتے ہوئے بھی محکوم تھی— کیا مرد خوفزدہ تھا؟ مرد زندگی کے کچھ ہی مقام پر بڑا یا مضبوط تھا، فطرت نے عورت کو زیادہ ذمہ داریاں تھیں۔ وہ مرد کی دیکھ بھال، ایک گھر کی نگرانی کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش میں بھی وقت دیتی تھی۔ دراصل اس نظام میں مرد نے ازل سے ہی عورت کی عظمت اور طاقت کو محسوس کر لیا تھا۔ اور اسی لیے فطرتاً معصوم، بے زبان اور جسم سے کمزور عورت پر اپنی مردانہ انا کا پاؤں رکھ کر اس نے یہ انداز اختیار کیا کہ عورت کبھی اٹھنے یا بلند ہونے کا تصور ہی نہ کرے۔ اور دیکھا جائے تو صدیوں میں یہی ہوتا رہا۔

ورجینا وُلف کی ایک کتاب تھی___ ’اے روم آف ونس آن‘۔ اُن سے جب عورت اور اصناف ادب پر بولنے کے لئے کہا گیا تو وہ ایسی کھری سچائیوں تک پہنچی، جہاں پہنچنا آسان نہیں تھا۔ ورجینیا نے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’میں عورتوں کی پوری اور مکمل آزادی کو پسند کرتی ہوں۔ ‘‘ لیکن ورجینیا کو بھی پتہ تھا کہ اس، مردوں کے سماج میں عورتوں کی کیا جگہ ہے ؟ شاید اسی لئے اس نے سخت الفاظ میں اپنے وقت کے سماج کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہا— ’’اب مجھے تھوڑا سخت لہجہ اپنانے دیجئے۔ کیا میں نے پیچھے لکھے الفاظ میں مردوں کے چیلنج کو آپ تک پہنچایا نہیں ؟ میں نے آپ کو بتایا کہ ’مسٹر آ سکربراؤننگ‘ آپ کے بارے میں بہت ہلکی رائے رکھتے ہیں۔ میں نے اشارہ کیا تھا کہ کبھی نیپولین نے آپ کے بارے میں کیا سوچا تھا اور ابھی موسولنی کیا سوچتا ہے ؟ اگر آپ میں سے کوئی افسانہ یا ادب لکھنا چاہے تو آپ کے فائدے کے لئے میں ایک ناقد کی صلاح اُتار لائی ہوں جو عورتوں کی تنقید حوصلہ منظور کرتے ہیں۔ میں نے پروفیسر ایمنس کا نام لیا ہے اور اُن کے اِس بیان کو اولیت دی ہے کہ عورتیں شعوری، اخلاقی اور جسمانی طور پر مردوں سے کمزور ہیں اور اب یہ آخری چیلنج کے ساتھ ہے۔ مسٹر جان لیگڈن ڈیوس کی طرف سے۔ مسٹر جان لیگڈن ڈیوس عورتوں کو چیلنج دیتے ہیں کہ ’جب بچوں کا ’چاہنا‘ پوری طرح ختم ہو جائے گا تو عورتوں کی ضرورت بھی پوری طرح ختم ہو جائے گی۔

سمون دَبوبوآر نے ’دی سکنڈ سیکس‘ میں لکھا تھا— ایمانداری وہ نہیں ہے، جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔ ’المیہ یہی ہے۔ اگر آپ حقیقت میں ایمانداری کا بیان کرنا چاہتے ہیں تو آپ پر تہمت اور لگام لگانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ شاید اِسی لئے ’بوبوآر‘ اس سچ کو اور بھی خطرناک طریقے سے کہنے کی کوشش کرتی ہیں … ’ایک مرد کی زبان سے نکلا ہوا لفظ ’عورت‘ ایک طرح کی ذلت کی علامت ہے۔ دوسری طرف اپنے بارے میں یہ سن کر فخر محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ تو مرد ہے … علم حیات کی سطح پر اس بات کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ سوال یہ جاننے کا ہے کہ انسانی تہذیب نے ’انسان مادہ‘ کا کیا حال کر دیا ہے۔ ‘‘

سیمیں، مجھے اسی انسان ہونے سے شکایت تھی کہ اس نے انسان (مادہ) کا کیا حشر کر دیا ہے۔ اور اس کے لیے اس مردانہ انا کو کچلنا ضروری تھا، جس نے صدہا ہزار برسوں میں عورت کو غلام بنا رکھا تھا۔ ایک مہذب دنیا میں، چاند سے مریخ تک کا سفر طئے کرتے ہوئے، نئی نئی دنیاؤں پر کمند ڈالتے ہوئے میں عورت کو، مرد کے کھلونے کے طور پر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے مجھے ایک ایسے موضوع کی ضرورت تھی جہاں میں اس مرد کی تمام کمزوریوں کو بے نقاب کر سکوں، جس کے دم پر اس نے اپنی سلطنت قائم کر رکھی ہے۔ ناہید نے قریب سے اس مرد کو دیکھا تو وہ ایک چوہا نظر آیا۔ معمولی گوشت کی جھلی، جس کے سہارے مرد اپنے وجود کی عمارت کو مضبوط اور پختہ تصور کرتا ہے۔ مگر ناہید کے لیے عورت ایک ایسی بلی کی علامت ہے، جو ارادہ کرے تو اس چوہے کا کام تمام کر سکتی ہے۔ مگر نہیں۔ وہ اس چوہے کا راز جان کر اس کو آزاد کرتی ہے۔ اور اپنے لیے بھی آزادی کی روش اختیار کرتی ہے۔

سیمیں کرن۔ عظیم انسان کو ایک عظیم عورت کے روپ میں دکھانا میرے محدود علم کے مطابق تو اک انوکھا تجربہ تھا۔ مگر کیا یہ عورت تخلیق کرتے کرتے کیا آپ کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ بہت جگہ آپ کی لڑائی فطرت سے ہے ؟ یعنی کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ نظریہ قابل عمل ہے ؟

مشرف عالم ذوقی: میں فطرت کے خلاف گیا ہی نہیں۔ میری جنگ فطرت سے ہے نہیں۔ مرد عورت دونوں اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ آدم کو بھیجا گیا تو پسلی سے حوا بھی پیدا کی گئی۔ اور سیمیں، حقیقت یہ ہے کہ میں نے کسی عظیم عورت کی تخلیق نہیں کی۔ یہ وہی عام عورت ہے، جیسا کہ عام مرد۔ یہ عورت میری بیوی بھی ہو سکتی ہے۔ اور تم بھی۔ یہ مرد تھا جس نے اپنی سفاک آزادی میں اعلان کیا کہ خدا نے فطرتاً عورت کو کمزور پیدا کیا ہے۔ پھر مرد نے مذہب کا سہارا لیا۔ مذہب سے دلیلیں پیدا کیں کہ عورت کمتر ہے۔ عورت کے لیے گھٹن بھرے سامان پیدا کیے گئے۔ اسے داسی بنایا گیا۔ اس نے آزادی کی خواہش کی تو اسی مردانہ سماج اور معاشرے نے اسے برے ناموں سے یاد کیا۔

دراصل یہ بھی مرد کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ عورت کو معاشرہ اور مذہب کا ایسا خوف دکھاؤ کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی آزادی کا کوئی تصور بھی نہ کر سکے۔ میری جنگ فطرت سے نہیں، مردانہ فطرت سے ضرور ہے۔ غور کریں تو آج عورت اپنی شناخت کی جنگ لڑتی ہوئی نظر آئے گی۔

سیمیں کرن:اور اگر عورتیں اس نہج پر تیار ہونا شروع ہو جائیں تو کیا معاشرتی اور عائلی زندگی منہدم نہیں ہو جائے گی۔

مشرف عالم ذوقی:کیا معاشرتی زندگی میں توازن ہے ؟ کیا مردوں نے اس زندگی کو منہدم نہیں کیا؟ تاریخ کے صفحات آتشیں پر نظر دوڑاؤ تو عورت کس کس عذاب سے دوچار نہیں ہوئی۔ وہ فروخت کی جاتی تھی۔ وہ داسی تھی۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کا جسم بھی اس کا جسم نہیں تھا۔ اس کا گھر بھی اس کے لیے محفوظ قیام گاہ نہیں تھا۔ اس کی بولی لگتی تھی۔ وہ سرعام نیلام ہوتی تھی۔ اور آج بھی ایک مہذب دنیا میں وہ نیلام ہی تو ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بھی وہ بندش کا شکار ہے۔ گھر کی چہار دیواری میں قید۔ ہندوستان میں اس کی آزادی کا یہ عالم ہے کہ سرعام سڑکوں پر خونی منقار والے گدھ اس کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں۔ اور آئے دن وہ زنا بالجبر کی شکار ہوتی رہتی ہے۔ مہذب دنیا کی کتاب میں شرمندہ کرنے والے یہ صفحے بھی موجود ہیں کہ ایک لڑکی اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں۔ وہ دفتر میں محفوظ نہیں۔ سڑکوں پر محفوظ نہیں۔ کیا تم اسی کو زندہ معاشرے کا نام دیتی ہو؟ ہاں یہ صحیح ہے کہ صدیوں کے جبر و ظلم کے بعد، تعلیم یافتہ ہونے کے بعد عورت اپنے لیے بھی ترقی کے نئے نئے راستوں پر نظر دوڑا رہی ہے۔ آج وہ حکومت چلا سکتی ہے۔ عورت بہترین پائلٹ ہے۔ وہ ہوائی جہاز اڑا سکتی ہے۔ وہ کشتی لڑ سکتی ہے۔ وہ سرکاری محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر ہے۔ صدیوں پہلے مرد نے اس کی آواز چھین لی تھی۔ آج کی نئی تہذیب میں اس نے بولنا سیکھ لیا ہے۔ بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ عورت آج برانڈ بن چکی ہے۔ ایک ایسا برانڈ، جس کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹ کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے عورتوں کی مدد لیتی ہیں۔ چاہے وہ جنیفیر لوپیز ہوں، ایشوریہ رائے یا سشمتا سین۔ سوئی سے صابن اور ہوائی جہاز تک، بازار میں عورت کی مارکیٹ ویلیو، مردوں سے زیادہ ہے۔ تیزی سے پھیلتی اس مہذب دنیا، گلوبل گاؤں یا اس بڑے بازار میں آج عورتوں نے ہر سطح پر مردوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے — یہاں تک کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف میں بھی عورتوں کے حسن اور جسمانی مضبوطی نے صنف نازک کے الزام کو بہت حد تک ردّ کر دیا ہے۔ یعنی وہ صنف نازک تو ہیں لیکن مردوں سے کسی بھی معنی میں کم یا پیچھے نہیں۔ صدہا برسوں کے مسلسل جبر و ظلم کے بعد آج/ اگر عورت کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے تو کسی غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عورت اب مرد اور مرد کی حکومت کی بیڑیاں توڑ کر آزاد ہونا چاہتی ہے — اور اب آپ اُسے روک نہیں سکتے۔

سینکڑوں، ہزاروں برسوں کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو عورت کا بس ایک ہی چہرہ بار بار سامنے آتا ہے۔ حقارت، نفرت اور جسمانی استحصال کے ساتھ مرد کبھی بھی اُسے برابری کا درجہ نہیں دے پایا— عورت ایک ایسا ’جانور‘ تھی جس کا کام مرد کی جسمانی بھوک کو شانت کرنا تھا اور ہزاروں برسوں کی تاریخ میں یہ ’دیوداسیاں ‘ سہمی ہوئی، اپنا استحصال دیکھتے ہوئے خاموش تھیں — کبھی نہ کبھی اس بغاوت کی چنگاری کو تو پیدا ہونا ہی تھا۔ برسوں پہلے جب رقیہ سخاوت حسین نے ایک ایسی ہی کہانی ’مرد‘ کو لے کر لکھی تو مجھے بڑا مزہ آیا۔ رقیہ نے عورت پر صدیوں سے ہوتے آئے ظلم کا بدلا یوں لیا کہ مرد کو، عورتوں کی طرح ’کوٹھری‘ میں بند کر دیا اور عورت کو کام کرنے دفتر بھیج دیا۔ عورت حاکم تھی اور مرد آدرش کا نمونہ— ایک ایسا ’دو پایا مرد‘، جسے عورتیں، اپنے اشاروں پر صرف جسمانی آسودگی کے لئے استعمال میں لاتی تھیں۔ میں رقیہ سخاوت حسین کی اس کہانی کا دلدادہ تھا اور بچپن سے کسی بھی روتی گاتی مجبور و بے بس عورت کو دیکھ پانا میرے لئے بے حد مشکل کام تھا— میں عورت کو کبھی بھی دیوداسی، بڑنی، سیکس ورکر، نگر بدھو، گنیکا، کال گرل یا بارڈانسر کے طور پر دیکھنے کا حوصلہ پیدا ہی نہ کر سکا۔ بادشاہوں یا راجے مہاراجاؤں کی کہانیوں میں بھی ملکہ یا مہارانی کے ’رول ماڈل‘ کا میں سخت مخالف رہا۔ میں نہ اُسے شہزادی کے طور پر دیکھ سکا، نہ ملکہ عالم یا مہارانی کے طور پر وہ مجھے مطمئن کر سکیں — کیونکہ ہر جگہ وہ مردانہ سامراج کے پنجوں میں پھنسی کمزور اور ابلا نظر آئیں۔ خواہ انہوں نے اپنے سر پر ملکہ کا تاج یا شہزادیوں سے کپڑے پہن رکھے ہوں۔ تاریخ اور مذہب کی ہزاروں برسوں کی تاریخ میں، خدا کی اِس سب سے خوبصورت تخلیق کو میں لاچار، بدحال اور مجبوری کے ’فریم‘ میں قبول نہیں کر سکتا تھا— ایسا نہیں ہے کہ نالۂ شب گیر لکھ کر میں ان لوگوں کی مخالفت کر رہا ہوں جو عورت کی حمایت میں صفحے در صفحے سیاہ کرتے رہے ہوں۔

اس مہذب دنیا میں جب مرد، عورت کہتا ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ فطرت کے قانون کو توڑ کر عورت دھجیاں بکھیر رہا ہو۔ اسے کمتر گردان رہا ہے۔ معاشرے میں توازن کے لیے ضروری ہے کہ ترازو کے دونوں پلڑے برابر ہوں۔ اور میں نے اس ناول میں یہی کیا ہے۔ یہ ایک قرض تھا مجھ پر اور میں نے اس قرض کی ادائیگی کی کوشش کی ہے۔ میری ماں بھی ایک عورت تھی۔ میری بیوی بھی ایک عورت ہے۔ میں نے ان دونوں کو مضبوط دیکھا ہے۔ عورت کی مضبوطی اور آزادی سے ہی ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد پڑے گی۔

سیمیں کرن:آپ مرض کو پکڑتے پکڑتے اس کی جڑ تک چلے گئے … یہ بات مکمل تو تھی مگر آدھی درست ضرور ہے کہ مرد کو آدھی قوت ان الفاظ نے دے رکھی ہے … مگر کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ رویے بھلے موجود تھے اور لفظ تو صرف ان کا اظہار بن کر آئے۔ ؟ اس ناول میں بیک وقت آپ الفاظ کی طاقت کا ادراک بھی کر رہے ہیں۔ لفظ جو اپنے وجود میں حیرت انگیز قوت رکھتے ہیں … صوفی ان الفاظ کی قوت سے آگاہ ہوتا ہے۔ الفاظ کی قوت الکیمسٹ میں ہمیں مظاہر فطرت تک کو تابع کرنا سکھاتی ہیں۔ اور دوسری طرف اب لاشعوری سطح پر یہ انہیں بے جان سمجھتے ہیں کہ محض ان کو بدل دینے سے رویے بدلاؤ میں آئیں گے ؟ آپ اس امر کی وضاحت کیجئے ؟

مشرف عالم ذوقی: ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے صرف مرض کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کی جڑ تک جانا ضروری سمجھا۔ اور اس لیے مرد کا نفسیاتی تجزیہ ضرور تھا۔ وہ کہاں مضبوط ہے اور کہاں کمزور۔ الفاظ میں طاقت ہے۔ بائبل میں کہا گیا، جب کچھ نہیں تھا، تب بھی لفظ تھے — لفظوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور اسی لیے ناول میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے جب ناہید لغات کے الفاظ کو تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھاتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ تمام کمزور الفاظ عورتوں سے منسوب ہیں۔ فاحشہ، رنڈی، کلنکی، بے غیرت… وہ ان خوفناک لفظوں میں اپنا ماضی دیکھتی ہے۔ اپنی ماں کو یاد کرتی ہے۔ ایک اجڑی اجڑی حویلی یاد آتی ہے جہاں عورتوں کے منہ میں زبان ہی نہیں تھی۔ وہ اس حویلی کو چھوڑ آئی تھی۔ اس حویلی میں، اس نے مردوں کے ایسے ایسے روپ دیکھے تھے کہ اسے مردوں سے نفرت ہو گئی تھی۔ لیکن ناہید نے یہ بھی دیکھا کہ آخری عمر میں ماں کی ایک چیخ پر اس کا ظالم باپ ایک کمزور مرد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پہلی بار ناہید کی ماں بھی محسوس کرتی ہے کہ اگر شروع میں ہی یہ چیخ اس کا ساتھ دے دیتی تو آج یہ دور نہیں آتا— تم نے صحیح کہا کہ مرد کو آدھی قوت الفاظ نے دے رکھی ہے۔ الفاظ کی اہمیت کو جاننا ہو تو جارج آرویل کا ناول 1984 پڑھ لو۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے ہندی میں ترجمہ کیا ہوا۔ ایک خوفناک ناول پڑھا تھا۔ لیسبن کی گھیرا بندی۔ وہاں لفظ ایک ذرا سی پروف کی غلطی کے ساتھ اس قدر خطرناک اور بھیانک ہو جاتا ہے کہ پوری انسانیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ناول نگار انسانی عمارت سے لفظ کی ایک چھوٹی سی اینٹ کھسکا دیتا ہے اور ایک ایسا نفسیاتی نکتہ سامنے آتا ہے جو مذہب کے عام اصولوں سے انکار کا حوصلہ رکھتا ہے۔

اسی لیے سیمیں، میں نے لفظوں کی اہمیت کو سامنے رکھا۔ ناہید لفظوں سے جنگ کرتی ہے۔ اور تم نے صحیح کہا کہ یہ رویے پہلے سے ہمارے سماج میں موجود تھے۔ مگر عورت سے اس کی چیخ، اس کے لفظ اس کی زبان چھن لی گئی تھی۔ اس پر مذہب، عقیدے، سماج اور معاشرے کا ایسا بوجھ رکھ دیا گیا تھا کہ اس کی آزادی مصلوب ہو گئی تھی۔ اور یہی تو صدیوں سے ہوتا رہا۔ اور آج بھی ہو رہا ہے۔ لیکن اسی سماج اور معاشرے میں، جس نے سن ۲۰۰۰ کے بعد ایک نئی کروٹ لی ہے، وہیں عورت کو اس کے ہونے کا احساس بھی دلا دیا ہے۔ تم نے صحیح کہا ہے کہ اس ناول میں، میں نے الفاظ کی طاقت کو بیان کیا ہے۔ تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ لاشعوری سطح پر میں نے ان الفاظ کو بے جان تصور کیا— ؟ اگر بے جان تصور کرتا تو ناہید معاشرے سے جنگ لڑتی ہوئی الفاظ کو بدلنے پر آمادہ ہی کب ہوتی۔ وہ مردانہ سماج کی تمام برائیوں کی ایک جڑ ان الفاظ کے ذخیرے میں بھی محسوس کر رہی تھی کہ یہ الفاظ بھی مردوں کی ہی دین تھے۔ لغات بھی مرد ہی تیار کرتے تھے۔ ناہید نے الفاظ بدلے تو اس رویہ کی مکمل تبدیلی تم ناول میں ہی دیکھ سکتی ہو۔ جب پبلشر ناہید اور کمال کو دفتر میں بلاتا ہے۔ اور اس کے اندر کا کمزور مرد زندہ ہو جاتا ہے۔

’شکریہ۔ میں تبدیلی کی بات کر رہا تھا۔ جیسا کہ آپ نے لغات میں تبدیلی کے دوران محسوس کیا ہو گا۔ اگر تبدیلی آئی ہے تو دوچند لوگ ہی کیوں محسوس کریں ؟ میں پچھلے دنوں جان گرے کی ایک کتاب ’مین آر فرام مارس اینڈ ویمن آر فرام وینس‘ پڑھ رہا تھا۔ سیکسوئیلیٹی کو ہی لیجئے۔ عورت زیادہ سخت ہو گئی ہے۔ بیڈ روم کا مرد ہار رہا ہے۔ باب ڈلن کا ایک گیت یاد آ رہا ہے … کیا تم کھانا پکا سکتے ہو، بیج بو سکتے ہو؟ پھول کھلا سکتے ہو… کیا تم میرے درد کو محسوس کر سکتے ہو— ؟ اور نیا مرد کہتا ہے — ہاں … یہ نیا مرد آج شیف ہے۔ سب سے اچھا کھانا بناتا ہے۔ مساج پارلر میں آج اس کی ڈیمانڈ عورتوں سے زیادہ ہے۔ وہ جم جا کر باڈی بھی بنا رہا ہے اورجسم میں لچک بھی پیدا کرہا ہے۔ وہ کانوں میں چھلے پہنتا ہے — وہ مونچھ اور داڑھی کٹا رہا ہے۔ اسے چکنا نظر آنا زیادہ پسند ہے۔ وہ نیا ماچو مین ہے … وہ کچن بھی سنبھال رہا ہے اور گھر بھی— نرمل اساس کا لہجہ بدلا ہوا تھا… یہ نیا مرد وجود میں آ چکا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں پیدا ہو رہا ہے۔ ایک لچر سماج میں، ایک ختم ہوتی تہذیب میں، ایک کمزور ہوتی جمہوریت میں اور اس آئی ٹی انڈسٹری میں ہم نے نئی عورت اور نئے مرد کو تلاش کر لیا ہے۔ یہ ہماری ٹنڈ منڈ اور مغرب سے برآمد تہذیب، ملی جلی اکانومی اور پزا برگر کے ذائقہ سے برآمد ہوا ہے اور حقیقت ہے کہ اس وقت سب بدل چکا ہے … آئینہ کے سامنے لپسٹک لگاتا ہوا مرد اور فائیلوں میں گھری عورت— نرمل اساس آہستہ سے بولے — خوفناک…

کیا… ناہید چونک کر بولی…

’اور اب میری سمجھ میں آیا کہ ان سب کے پیچھے کون ہے — ؟ مائی گاڈ… سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے تھا اور ہم کتنے بے خبر تھے۔

’ان سب کے پیچھے کون ہے ؟‘ ناہید کا لہجہ بھی بدل گیا تھا۔

’عورت۔ ‘

نرمل اساس کا لہجہ اس وقت برف کی طرح سرد تھا— ’ عورت، جس نے آئی ٹی انڈسٹری سے سائبرا سپیس تک قبضہ کر لیا۔ اور انتہائی ہوشیاری سے مردوں کو ایک نیا مرد بنا دیا۔ یعنی عورت…‘

بطور ناول نگار میرے لیے ان واقعات سے سرسری گزرنا آسان نہیں تھا— کیونکہ نئی صدی کی شروعات سے ہی ان تبدیلیوں کا بہت کچھ، اشارہ ملنے لگا تھا— اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ نئی، تیز رفتار بدلتی ہوئی دنیا اگر نئی عورت کو ڈسکورکر رہی تھی تو یہاں نیا مرد بھی پیدا ہو رہا تھا— اور یہ حقیقت ہے کہ یہ نیا مرد اور یہ نئی عورت سائبر سے آئی ٹی انڈسٹری اور تمام گلیمر ورلڈ تک پھیل گئی تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس انڈسٹری کی اپنی سوشل نیٹ ورکنگ تھی— فیس بک سے ٹوئٹر تک پرانے الفاظ غائب ہوتے چلے گئے تھے اور ان کی جگہ نئے الفاظ لے رہے تھے۔ ٹوئٹ کرنے والوں اور فیس بک کا استعمال کرنے والوں کے لیے لفظ و معنی کی اپنی دنیا آباد تھی اور ان میں بے شمار الفاظ ایسے تھے، جو لغات یا ڈکشنری میں نہیں تھے — اور یہ نسل اس نئی سوشل نیٹ ورکنگ کے سہارے رشتے، معیار اور زندگی کا اپنا راستہ تلاش کر رہی تھی یا ان کی نئی تعریفیں ڈھونڈھنے میں لگی تھی— کرن جوہر، راہل ملہوترہ جیسے ہزاروں نام جس نے ماچو مین کی تعریف بدل کر رکھ دی۔ کیا مرد کو اس نئی تہذیب میں لانے والی عورت ہے — ؟مرد سیلون جاتے ہیں — فیشئل اور پیڈیکیور کراتے ہیں — وہ اچھا نظر آنا چاہتے ہیں اورجیساکہ ایک سائیکوتھریپسٹ نے کہا تھا— ’ ہندوستانی مردوں میں عورتوں کی صفات دیگر ملکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں — ‘ لیکن ہوتی ہر جگہ ہے — ہر ملک میں — اور اس لیے مرد کے تصور میں ایک نئی عورت سامنے آ گئی تھی—

سامرسیٹ مام نے ایک جگہ لکھا تھا، لفظوں نے ندی کے بہاؤ کی طرح اپنا رخ تبدیل کر دیا ہے۔ یہ وقت پرانے لفظوں کے زوال کا ہے۔ نئے لفظ نئی تبدیلی کے ساتھ پیدا ہونگے — سیمیں، دراصل ہم تہذیب کے اس پڑاؤ پر ہیں جہاں ایک تیز آندھی ہے۔ پرانے درخت گریں گے اور پرانی تہذیبی عمارت بھی مسمار ہو گی۔ عورت کا جاگنا ایک علامت ہے۔ ایک نئی تہذیب اس ’جاگی ہوئی عورت‘ کے سہارے ہمارے معاشرے میں داخل ہو رہی ہے۔ ابھی سناٹا ہے۔ لیکن یقین رکھو، انقلاب کی رفتار سست ضرور ہے لیکن انقلاب میں تاریخ کو بدلنے کی ہمت ہوتی ہے۔

سیمیں کرن: شکریہ ذوقی صاحب …میں سمجھتی ہوں کہ لاشعوری طور پہ لفظوں کو بے جان اس لیے متصور کیا کہ ہم ان کو کوئی بھی مفہوم دینے پر قادر ہیں … مگر لفظوں کے ان معنی و مفہوم کے پیچھے ایک طویل سفر ہے … جب کچھ نہیں تھا، تب بھی خلا میں ان لفظوں کا سفر جاری تھا۔ آپ نے ان لفظوں سے نالۂ شب گیر میں بڑا کام لیا۔ مرد ذات کے ساتھ عورت کی نفسیات تک پہنچنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ بلا شبہ کسی بھی بڑے ناول کی کامیابی چھپی ہوتی ہے کہ وہ صحت مند سوالوں کو جنم دے۔ مکالمے کو جنم دے … بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرف عالم ذوقی نے اس ناول میں جن ممنوعہ سرحدوں کو چھوا وہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ عورت کے اس منصب پہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی یہ ممکن ہے کہ ہم لفظوں کی بدرو کی صفائی کرنا شروع کریں تو رویوں کی علامت بھی صاف ہونی شروع ہو جائے گی۔ آپ کا ایک بار پھر شکریہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

                تصنیف حیدر

 

۱۔      بھائی تصنیف— پہلا ہی سوال تم نے کچھ لوگوں کے حوالے سے کیا ہے — تم اپنی بات کرتے تو میرے لیے جواب دینا آسان ہوتا— کوئی تم سے آ کر کہے کہ کچھ لوگ تمہیں برا بھلا کہہ رہے ہیں، اس پر تمہارا ردّ عمل کیا ہو گا؟ مجھے یقین ہے کہ تم مسکراؤ گے اور کہو گے، ان کو کہنے دیجئے — لیکن یہاں ایک دشواری یہ پیدا ہو رہی ہے کہ سوال ادب سے متعلق ہے — یعنی یہ کچھ لوگ ادب کے ’خاندان‘ سے ہیں — یہ کچھ لوگ، ہمیشہ سے ’کچھ لوگ‘ ہی ہیں — انہیں عظیم سقراط کی طرح سامنے آ کر سچ بولنے اور زہر پینے کا حوصلہ کہاں ہوتا ہے — چلو، شرلاک ہومز کی طرح ان کچھ لوگوں کی تلاش میں نکلتے ہیں — کیونکہ اگر یہ کچھ لوگ واقعی ہیں، تو ان کا اتہ پتہ، ٹھکانا تو ہونا ہی چاہئے — بیان لکھنے کے ایک سال بعد بھوپال سے محترم اقبال مسعود صاحب کا فون آیا— ذوقی— ’کچھ لوگوں ‘ نے تمہارے ناول کو بُرا بھلا کہا تھا اور مطالعہ کرنے سے منع کیا تھا— دیکھو تصنیف یہاں بھی کچھ لوگ موجود ہیں — لیکن اقبال صاحب منع کرنے کے باوجود تجسس کو روک نہیں سکے — ناول پڑھ کر ہی دم لیا— پھر ان ’کچھ لوگوں ‘ سے الگ ان کی اپنی ایک رائے بن گئی— ایسی ہزاروں مثالیں ہیں تصنیف— مجھے آئے دن ایسے فون موصول ہوتے ہیں ’… کچھ لوگ آپ کے بارے میں کہہ رہے تھے ‘— سنو تصنیف… اب آہستہ آہستہ مجھے ان کچھ لوگوں سے محبت ہوتی جا رہی ہے — تم جانتے ہو نا— انکار، اقرار کی پہلی سیڑھی ہے — ایمان کی پہلی منزل بھی لا ہے — نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے — ابھی زیادہ دن نہیں گزرے — لے سانس بھی آہستہ کی اشاعت کے بعد پیارے زمرد مغل کے کئی میسج ایک ساتھ موبائل پر آئے — وہ ناول پڑھ کر حیران اور خوش تھے — ملنے بھی آئے — یہاں بھی معاملہ ’کچھ لوگوں ‘ کا تھا— مجھے تو خوشی ہے کہ ان کچھ لوگوں کی وجہ سے میرا دائرہ محدود نہیں ہوا بلکہ وسیع ہوا ہے — بھائی تصنیف اب میری بات سنو: ایک بزرگ کے پاس یہی کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے — بزرگ نے ایک کتاب پر غصہ ظاہر کرتے ہوئے کہا—

یہ کوئی کتاب ہے —

’کچھ لوگوں نے ایک ہی زبان میں کہا— بجا فرمایا—

بزرگ پھر گویا ہوئے — اس کتاب میں کچھ نہیں —

’کچھ لوگوں ‘ نے بھی اسی انداز میں کہا— بجا فرمایا— اس کتاب میں کچھ نہیں —

بزرگ نے کتاب کو ہوا میں اچھالتے ہوئے کہا— خیال رہے، آئندہ اس شخص کی کتابیں میرے سامنے نہ آئیں —

’کچھ لوگوں ‘ نے بزرگ کی بات دہرائی— اب اس شخص کی کتابیں آپ کے سامنے نہیں آئیں گی—

ڈرتے ڈرتے ان کچھ لوگوں میں سے ایک نے بزرگ سے دریافت کیا— کیا آپ نے اس کتاب کا مطالعہ بھی کیا ہے ؟

بزرگ غصے میں بولے — کیا اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت ہے ؟

میرے بھائی تصنیف — کچھ لوگوں پر مت جاؤ— کچھ لوگ کان کے کچے پکے ہوتے ہیں — اب تم ماشاء اللہ اس عمر میں آ گئے ہو جہاں تمہیں ان کچھ لوگوں سے فاصلہ بنانے کی ضرورت ہے — ایک بات یاد رکھو— یہ دنیا کچھ لوگوں تک محدود نہیں ہے — اردو کی ایک بڑی دنیا نے لے سانس بھی آہستہ کو پسند کیا ہے اور اعتراف بھی کیا ہے — پھر یہ کچھ لوگ جو بغیر مطالعہ کے، برسوں سے میرے خلاف رہے، میں انہیں کیوں تسلیم کروں — ؟ اور اس بڑی آبادی کو کیوں نہ تسلیم کروں جو نہ صرف مطالعہ کا حق ادا کرتی ہے بلکہ سچ بولنا بھی جانتی ہے — کچھ لوگوں کی جگہ اگر تم نے اپنی بات کی ہوتی، دلیل دی ہوتی تو اس پہلے سوال پر مکالمہ قائم کیا جا سکتا تھا— اب سنو تصنیف میاں — ۱۶ سے ۲۰ سال کی عمر تک میں داستان سے مغربی ادب تک بڑے بڑے ناولوں کو کھنگال چکا تھا— پہلے ناول ’عقاب کی آنکھیں ‘ میں بھی، فن پر میری گرفت تم کو نظر آ جائے گی— یہ ناول میں نے محض ۱۷ سال کی عمر میں لکھا تھا— اس عمر میں بھی میرا سارا زور ناول کی باریکیوں پر تھا— اب تم ایک نئی بات اور بھی کہتے ہو… ’ کہ آپ جس تیزی سے ناول لکھتے ہیں … بھئی کمال ہے … میں نے اب تک صرف ۱۱ ناول لکھے — ۵۲ سال کی عمر ہے — ارے بھائی— ادب کی دنیا میں ہوں — تم ہر روز فیس بک پر ایک تحریر دیتے ہو— میں ناول کے لیے وقت نکالتا ہوں — محترم فاروقی صاحب تنقید کے میدان میں ہیں تو وہ بھی اسی تیزی سے لکھتے ہیں — ان کی کتابیں دیکھ لو اور میری کتابیں —

۱۹۹۰ سے ۲۰۱۴ تک بیان، پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ شائع ہوئیں — یعنی ۲۵ برس کا عرصہ اور پانچ ناول— اب ایک نیا ناول نالۂ شب گیر— ‘ ۲۵ سال کے عرصہ میں تجارت نہیں کی۔ مجلسوں میں نہیں گیا— مطالعہ کیا اور لکھنے پر زور رہا تو یہ پانچ کتابیں بہت زیادہ کیسے ہو گئیں — ؟اور آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں ان ’کچھ لوگوں ‘ کے بیان سے متفق ہوں — یہ بات آپ خود سے بھی دریافت کر سکتے ہیں کہ کیا ۲۵ برس میں اگر کوئی ادیب پانچ ناول لکھتا ہے تو کیا اسے زود نویس کہا جا سکتا ہے — ؟ایک بات اور سن لیجئے — پچھلے ۱۰ برسوں میں، میں نے کوئی کہانی نہیں لکھی— ٹیشو پیپر میری آخری کہانی تھی، جو میں نے ۲۰۰۴ میں لکھی تھی— اس درمیان کہانی کی شکل میں جو تحریریں شائع ہوئیں، وہ دراصل ناول کا حصہ تھے — اور ان کی تعداد کچھ اتنی زیادہ نہیں کہ مجھے بسیار نویس کہا جا سکے — پھر تو ہندوستان کے دیگر زبانوں میں لکھنے والے اور مغرب کے بہت سارے ناول نگاروں کو آپ ریجکٹ کر دیں گے —

۲۔      ادب میرے نزدیک رومانی مسرّت یا تفریح طبع کا ذریعہ ہرگز نہیں ہے — ہر نئی تخلیق سے قبل غالب کا یہ مصرعہ یاد رکھتا ہوں — کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے — اس لیے ناول کی تخلیق میرے لیے تفسیر زندگی بھی ہے اور زندگی کی رنگا رنگ تصویر کو نئی فکر اور نئے فلسفوں کے ساتھ پیش کرنا بھی— یہاں میں زندگی کی تصویر اور تفسیر کو پیش کرتے ہوئے جناب فاروقی صاحب کے ساتھ ہوں کہ ان سب کے باوجود ادب زندگی میں کوئی کرشمہ نہیں کرتا یا اس سے کسی معجزہ کی امید فضول ہے — موضوع کی مناسبت سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا اثر ادب ضرور قبول کرتا ہے — اور اس لحاظ سے دیکھیں تو مجھے اپنا ناول پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی میرا اب تک کا سب سے پسندیدہ ناول ہے — کس ادیب کو زیادہ کیا پسند ہے، اس کا جواب دینا مشکل ہوتا ہے — ’ پروفیسر ایس‘ میں شروع سے آخر تک ایک ابہام کی فضا ہے — زندگی کے مختلف حادثوں میں ابہام کی یہ کیفیت ساتھ ساتھ چلتی ہے — کیونکہ زندگی کے نقوش اور ان کی حقیقت ایک عمر گزارنے کے بعد ہی معنویت کے ساتھ سامنے آتی ہے — میں نے سونامی کی گرج میں موبی ڈک اور ہیمنگ وے کے اُس بوڑھے آدمی کی کشمکش کو محسوس کیا ہے جو سمندر پر فتح کے لیے بے قرار ہے — بیحد ناکام زندگی گزارنے والے شخص کی زندگی کا بھی مطالعہ کریں تو وہاں بھی یہ کامیابی پوشیدہ ہے کہ آخر اتنے دنوں تک وہ لڑا تو سہی— جیا تو سہی— سچ پوچھیں تو یہی ابہام ہے کہ وقت فیصلوں کو اپنے پاس رکھتا ہے — کبھی کبھی جسے ہم کامیابی سمجھتے ہیں اُس کی حقیقت مشت خاک اور جسے ناکامی تصور کرتے ہیں، اس میں کامیابی کی کئی صورتیں نکل آتی ہیں — اس لیے میرا سب سے اچھا ناول کون سا ہے — یہ فیصلہ بھی میں نے وقت پر چھوڑ دیا—

۳۔ معاصر ناول نگاروں میں صرف دو نام آپ کو کیوں یاد آئے ؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ اس سوال کے پر پردہ بھی وہی ’کچھ لوگ‘ ہیں، جو ہر دور میں چلمن سے لگے بیٹھے ہیں — صاف چھپتے بھی نہیں — سامنے آتے بھی نہیں — میں تخلیق کار ہوں بھائی— خامیاں نکالنے کے لیے ناول نہیں پڑھتا— ہر جینوئن تخلیق کار کے پاس ایک انفرادی فکر ہوتی ہے — صحت مند اختلاف ادب کے لیے ضروری ہے — مگر معاصر ناول نگاروں کے فن کی خامیاں تلاش کرنے کی بات، وہ بھی ایک ناول نگار سے کی جائے تو سامنے والے کی نیت پر شبہہ ہوتا ہے —

۴۔ علی اکبر ناطق کا ناول میں نے نہیں پڑھا۔ مرزا اطہر بیگ کے دو ناول میرے مطالعہ میں ضرو آئے ہیں — پاکستان میں مجھے سب سے زیادہ مستنصر حسین تارڑ پسند ہیں — رضیہ فصیح احمد کا ناول صدیوں کی زنجیر نے مجھے متاثر کیا— انہوں نے اب تک ۷ ناول لکھے — اور میں نے ان سب کا مطالعہ کیا ہے — عاصم بٹ کا دائرہ، وحیدہ احمد کا ناول زینو بھی مجھے پسند ہے — طاہرہ اقبال کے ناولٹ بھی مجھے پسند ہیں — میں اس بات کو پھر دہرانا پسند کروں گا کہ ہر عہد میں کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جو بہت عمدہ لکھتے ہیں — ایسے لوگ ہندوستان میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی— ضرورت مطالعہ کی ہے —

۵۔  یہ سوال میری سمجھ سے باہر ہے — میں اس ناول کے پروموشن میں آپ کا ساتھ نہیں دوں گا—

۶۔      مسلمان بکاؤ موضوع ہے — ؟ تو آپ عالمی ادب کو بھی ردّ کرتے ہیں — ؟ عیسائیت اور ہندوازم کولے کر بھی ناول لکھے گئے — کیا داغ بکاؤ موضوع نہیں ہے ؟ کبھی عینی سے پوچھا گیا کہ آپ پر انی تہذیبوں کو ہی ناولوں میں زندہ کیوں کرتی ہیں — ؟ فرانسیسی ادب سے لے کر روسی ادب تک سیاست اور سماج کو نشانہ بنایا گیا— کہیں چرچ، کہیں زوال پذیر قومیں — مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ آپ ہندوستان کے فنکار سے پیرس اور سوئزرلینڈ کی کہانیاں لکھوانا چاہتے ہیں — ؟ کم از کم میں ایسا نہیں کر سکتا— کیوں کہ میں پیرس اور سوئزرلینڈ کو قریب سے نہیں جانتا— ہندوستان بھی ایک وسیع ملک ہے — میں ہندوستان کی کہانیاں لکھنا زیادہ پسند کروں گا— لیکن یہاں ایک قوم رہتی ہے جس پر آزادی کے ۶۷ برسوں میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے — یہ میرے لیے بکاؤ موضوع نہیں تھا، جیسے محسن حامد نے The Reluctant Fundamentalist لکھتے ہوئے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ وہ عالمی ادبی بازار میں مسلمانوں کو بیچنے جا رہے ہیں — یا پھر نجیب محفوظ سے خالد حسینی تک کے ذہن میں یہ بات کبھی نہیں آئی ہو گی کہ وہ اپنے ملک یا اپنی قوم کا سودا کرنے جا رہے ہیں — میں نے ہندوستان کی سیاست کو موضوع بنایا— اس طرح جسے کوئی فنکار لاطینی امریکہ، افریقہ، یا کسی بھی ملک کو اپنا موضوع بنا سکتا ہے — ظاہر ہے، اُس ملک میں مختلف قومیں بھی رہتی ہوں گی— یہ کردار انہی لوگوں میں سے پیدا ہوں گے — جیمس جوائز نے اپنے شہر ڈبلن کو موضوع بنایا، اوہان پامک نے استنبول کو، گنتر گراس اپنے وطنDanzig اور وہاں کے لوگوں کو موضوع بناتا ہے — نام گنوانا منشا نہیں ہے — میرے لیے ذمہ داریوں سے الگ ہونا ایک ادیب کا کام نہیں — میں نے مسلمان، بیان اور آتش رفتہ کا سراغ تین ناول لکھے — ان کی بنیاد میں مسلمان ضرور ہیں لیکن یہاں مسلمان خوف و دہشت کی علامت ہیں جہاں سیاست اور باہری طاقتوں کے مضبوط پنجے ان کا استعمال اور استحصال کر رہے ہیں — معاف کیجئے گا، میں صرف ماضی، ناستلجیا اور پرانی تہذیب کے دائرے میں سمٹ کر اپنے فن کو آواز نہیں دے سکتا— مجھے ہر بار اس سے باہر نکلنا ہوتا ہے — میرا بڑا موضوع وہ دنیا ہے جسے ابھی ڈسکور نہیں کیا گیا، یا آہستہ آہستہ ڈسکور کیا جا رہا ہے — پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان، لے سانس بھی آہستہ، نالۂ شب گیر میں یہ نئی دنیائیں آپ کو آسانی سے نظر آئیں گی— میں چونکانے پر یقین نہیں رکھتا— میرا مسئلہ وہ وژن ہے جہاں وکٹرہیوگو، تالستائے کی راہ پر چلتا ہوا، میں امید کے راستہ کو تلاش کرتا ہوں — بیانیہ کو کبھی علامتوں کا راستہ دکھاتا ہوں اور کبھی فنطاسی کا— میں مجبور بیانیہ کے ساتھ ادب تخلیق نہیں کر سکتا— میرے لیے ہندوستانی سیاست بھی ایک موضوع ہے جسے میں بکاؤ نہیں سمجھتا— میرا یقین اس بات پر ہے کہ ناول اور فکشن کو سیاست سے جدا نہیں کیا جا سکتا— عالمی شہکاروں پر نظر ڈالیں تو میری بات پر یقین کرنا آسان ہو جائے گا—

۸۔     ضرور یہ بات بھی کچھ لوگوں نے کہی ہو گی— کیا ریختہ میں رہ کر، ہر روز ایک پوسٹ کے ذریعہ آپ اپنی پبلی سیٹی کرتے تھے ؟ یا ابھی بھی اپنے بلاگ کے ذریعہ آپ اپنی پبلی سیٹی کر رہے ہیں ؟ میرے پاس نہ تو کوئی رسالہ ہے نہ اخبار— میں تو اُس بڑی دنیا سے بھی کٹ گیا ہوں، جس دنیا میں آپ رہتے ہیں — لے دے کر ایک سوشل میڈیا ہے — فیس بک کا استعمال کرتا ہوں — ٹوئٹر پر بھی نہیں ہوں — کیا فیس بک میں اپنی کتابوں کی تصویریں لگانا جرم ہے ؟ گناہ ہے — پبلی سیٹی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ کام تو آپ جیسے لوگ مجھ سے کہیں زیادہ کر رہے ہیں — میں تو اس معاملے میں بھی بدنام ہوں کہ اپنی کتابیں کم کم تقسیم کرتا ہوں — ہاں وعدہ ضرور کرتا ہوں — رہی تاجر ہونے کی بات، تو صاحب ادب واحد جگہ ہے جہاں کسی سمجھوتے کے لیے تیّار نہیں — اور اسی لیے میں شروع سے باغی رہا— اور آپ بہتر جانتے ہیں کہ تجارتی دماغ ہوتا تو بغاوت نہیں کرتا— بلکہ آپ کی طرح ایک تحریک اور تحریک کے پیشوا کی قدم بوسی کو ترقی کی منزل سمجھ لیتا— میں دلّی ۲۳ سال کی عمر میں آیا— جوش اور چنگاری لے کر آیا تھا— اس لیے میری کسی سے نہیں بنی— سب سے لڑا— کسی کو تسلیم نہیں کیا— کیا تاجر ایسا ہوتا ہے ؟ میرے پاس اپنی بات کہنے اور رکھنے کے لیے صرف فیس بک ہے — اگر کچھ لوگوں کو میرا فیس بک پر آنا پسند نہیں، تو کیا کروں — ایک بات اور سن لیجئے — ۱۷ سال کی عمر میں، میں نے اپنے لیے موت کا انتخاب کیا تھا— صرف ایک ہی خیال مجھ پر حاوی تھا— مجھے مرنے کے بعد زندہ رہنا ہے — جس شخص نے انتہائی کمسنی میں اپنے لیے موت کا انتخاب کر لیا ہو، وہ زندگی سے کیا کوئی فرمائش کرے گا؟

۹۔      نئی غزل گو نسل عمدہ شاعری کر رہی ہے — میں انہیں غور سے پڑھ رہا ہوں — ۷۰ کے بعد جو جدید نسل ابھر کر سامنے آئی تھی، اس میں بھی، کیؤں میں نئی بات تھی— اور بہت سے لوگوں نے آگے چل کر خود کو ثابت بھی کیا— زیب غوری اور عرفان صدیقی بننے کی صلاحیت اس نئی نسل کے کئی شاعروں میں موجود ہے — ۷۰ کی نسل اور آج کی نسل میں ایک بنیادی فرق ہے — ۷۰ کی نسل والے فیشن پرستی کو فروغ دے رہے تھے — کچھ کچھ شعر اچھے ہو جاتے تھے — ان نئے ۱۵۔ ۱۰ غزل گو شاعروں کے یہاں فیشن پرستی نہیں ہے — شعر دماغ سے گزرتے ہیں اور دل کے راستہ کندن بن کر سامنے آ جاتے ہیں —

۱۰۔ بالکل بھی نہیں — شروع میں امیدیں وابستہ تھیں — مگر ان کی تمام کہانیوں کے پیٹرن ایک رہے ہیں — ایک جیسا لہجہ— ایک جیسا اسلوب— اب Repetition کچھ اتنا زیادہ ہو رہا ہے کہ مجموعہ سامنے رکھیے تو کئی کئی اقتباس ایک جیسے مل جائیں گے — صدیق عالم کے یہاں تو پھر بھی نئے نئے موضوعات مل جائیں گے مگر خالد کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ کہانی اور ناولوں کے پاراگراف در پاراگراف آپ کو ایک جیسے ملیں گے — کیا خیال کا قحط ہے ؟ ہر بار ایک ہی کہانی، ایک ہی موضوع کو دہرانے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے — ؟اب اس Cult of Ugliness سے خالد کو باہر نکلنا چاہیے — ان کے دوسرے ناول کا مطالعہ بھی کر چکا ہوں — اس کے فارم میں رحمن کے ناول کا عکس نظر آیا—  ایک بات اور— آپ کے ذہن میں اور دوسرے نام کیوں نہیں آئے ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

مشرف عالم ذوقی سے ٹیلی فونک گفتگو پر مبنی ایک مکالمہ

 

 

۹ جولائی:۔ ظہیر صدیقی پر گوشہ کے لیے ذوقی صاحب نے مبارکباد کے لیے فون کیا تو دل میں آیا کہ ان سے کچھ اور باتیں کر لی جائیں۔

میں نے ساہتیہ اکادمی کے ناول سے می نار میں بھی شرکت کی تھی اور اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ مشرف عالم ذوقی نے لے سانس بھی آہستہ کی شکل میں ایک ایسا ناول اردو کو دیا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ جس کی گونج بڑھتی جائے گی۔ تین دن کے ناول سے می نار میں جس ناول پر سب سے زیادہ گفتگو ہوئی، وہ ذوقی کا ناول تھا۔ گوپی چند نارنگ، شافع قدوائی اور مولا بخش صاحبان نے بھی اس ناول کی تعریف میں جو قصیدے پڑھے، اس کی گونج اب بھی میرے ذہن میں باقی ہے۔ اسی لیے گفتگو کے دوران میں نے ذوقی صاحب سے پوچھ ہی لیا۔ اتنا بڑا ناول۔ آپ نے اکادمی میں جمع نہیں کرایا۔

ذوقی:۔ جمع کرایا تھا۔ اس لیے نہیں کہ مجھے انعام مل جائے۔ اس لیے کہ میں دوردرشن سے بھی وابستہ ہوں۔ اب وہاں کا رویہ یہ ہے کہ اگر آپ کو انعامات ملے ہوں تو آپ کے پروجیکٹ کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔

غوثی:۔ پھر کیا ہوا۔

ذوقی:۔ (ہنس کر) بھلا ہوا ان لوگوں کا۔ آج مکمل اردو دنیا میں جس ناول کی تعریف ہو رہی ہے۔ انہوں نے اس ناول کو انعام کے لائق سمجھا ہی نہیں۔

غوثی:۔ کیا بات کر رہے ہیں آپ؟ ایسا کیسے ممکن ہے۔ کیا آپ نے انیس اعظمی اور راغب صاحبان سے بات کی۔

ذوقی:۔ انیس صاحب راغب صاحب دونوں میرے اچھے دوست ہیں۔ میں ادب کی سیاست سے دور رہتا ہوں۔ اس لیے آپ دیکھیے کہ میں آج تک کسی بھی کمیٹی میں نہیں ہوں۔ جبکہ کیسے کیسے لوگ ہیں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انیس صاحب فون پر موجود نہیں تھے۔ میں نے راغب صاحب کو اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا اس ایم ایس کیا۔ ان کا جواب آ گیا۔ جواب یہ تھا کہ ذوقی صاحب شاید ہم (اکادمی) اس لائق نہیں تھے کہ آپ کو انعام دیا جا سکتا (ہنسی)

غوثی:۔ یہ کیا بات ہوئی، کیا اردو اکادمی کو اپنے جرم کا احساس ہے۔ اگر وہ لے سانس بھی آہستہ جیسی بڑی کتاب کو انعام کے لائق نہیں سمجھتی ہے تو میرے خیال سے یہ نا قابل معافی جرم ہے۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اردو اکادمی اپنی ہی سیاست میں گھر گئی ہے۔

ذوقی:۔ مجھے سیاست میں دلچسپی نہیں۔ میرے لیے خوشی اور تسلی کی بات یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں، اردو جہاں جہاں بھی ہے، میرے اس ناول کو پسند کیا جا رہا ہے۔ دراصل اس ناول کا مقابلہ زیادہ تر لوگ قرۃ العین حیدر کے آگ کا دریا سے کرنے لگے ہیں۔ آگ کا دریا میں بھی ا یک تہذیب ہے۔ وقت کے ساتھ تہذیب کی یہ شکل بدل چکی ہے۔ ابجد نے اس ناول پر ایک مختصر ساگوشہ دیا تھا۔ اور اب سبق اردو اس ناول پر ایک خصوصی شمارہ شائع کر رہا ہے جس میں ۳۰ سے زائد اردو والوں کے مضامین شامل ہیں۔ اب اردو اکادمی نے میرا ناول پسند نہیں کیا تو یہ ان کی مرضی۔ وہاں سب دوست ہیں اور میں دوستوں کے خلاف نہیں بولتا۔

غوثی:۔ لیکن یہ صرف آپ کا معاملہ نہیں ہے۔ آپ نہ بولیے لیکن ہمیں بولنے سے نہ روکیں۔ کیونکہ ان کی حد اگر اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ لے سانس بھی آہستہ جیسے ناول کو نظرانداز کریں تو یہ معاملہ صرف ذوقی کا معاملہ نہیں ہے یہ اردو زبان سے وابستہ معاملہ ہے۔

ذوقی (خاموشی )

غوثی: اکادمی کو سیاست کرنے کا حق ہے۔ لیکن سیاست میں اتنی چھوٹ نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی آصفہ زمانی کو تو انعام کے لائق سمجھیں اور وہ کتاب، جس کی جگہ تاریخ میں ہے اس کتاب کو نظرانداز کر دیں۔

ذوقی: میں نے شروع میں سوچا تھا کہ یہ معاملہ اخبار میں اٹھاؤں۔ پھر خیال آیا، کیوں اٹھاؤں۔ سب دوست ہیں۔ میں نے انہیں معاف کیا، اب آپ بھی معاف کر دیجئے۔

ذوقی صاحب نے دلی اردو اکادمی کو معاف کر دیا ہے۔ لیکن یہ معاملہ میں قارئین کی عدالت میں رکھتا ہوں۔ کیا یہ معاملہ صرف مشرف عالم ذوقی کا معاملہ ہے، یا یہ معاملہ لے سانس بھی آہستہ جیسے شہرہ آفاق ناول کا معاملہ ہے، جس کے لیے اکادمی کی سیاست اور ناکامی کی جس حد تک مذمت کی جائے کم ہے — اب یہ معاملہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ مسرت کو آپ کے خطوط کا انتظار رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

میڈیا ہندو اور مسلمانوں میں فرق کر رہا ہے — ذوقی

(ادب اور صحافت کے بہانے ذوقی سے ایک مکالمہ)

 

 

                نورین علی حق

 

نورین: میں سب سے پہلے تو آپ سے یہ جاننا چاہوں گا کہ صحافتی حوالے سے آپ کی کیا خدمات ہیں اور کب سے آپ اس میں لگے ہوئے ہیں۔ خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ہو۔

ذوقی:  سب سے پہلے جسے آپ سماجی اور سیاسی شعور کہتے ہیں، میں یہ بتانا چاہوں گا کہ صحافت اور ادب کے درمیان کوئی بہت بڑا فاصلہ نہیں ہے۔ اچھا اور بڑا ادب پختہ سیاسی سمجھ کے بغیر تخلیق نہیں ہو سکتا۔ ایک ادیب کے لیے سب سے ضروری چیز ہے سوشیو، پولیکٹکل سینسی بلیٹی کا ہونا— مغرب میں عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ سیاست ادب کا بنیادی منتر ہے — یعنی سیاست کو سمجھے بغیر ایک اچھا ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا— رہی میری بات، صحافت سے دلچسپی شروع سے رہی— ادب کو جب میں نے سوچنا شروع کیا تو ایسا لگا کہ ادب کے علاوہ صحافت کے میدان میں بھی اترنا چاہئے — اس لیے میں نے دونوں ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا فیصلہ کیا— شروع سے ہی کہانیاں لکھتا رہا، ناول لکھتا رہا— سترہ سال کی عمر میں میرا پہلا ناول سامنے آیا ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ — اس وقت بھی بہت سارے ایسے اخبار تھے جن میں میرے مضامین شائع ہو رہے تھے۔ یہ باتیں میں اس لیے بتانا چاہ رہا ہوں کہ موجودہ سیاست کوسمجھے بغیر ایک اچھے ادب کی تخلیق ممکن نہیں ہے۔ 1985میں، میں دہلی آیا۔ دہلی آنے کے بعد روزنامہ ہندستان اور جن ستّہ جیسے اخباروں میں لکھنا شروع کیا۔ ملک کی فضا خراب ہوئی— بابری مسجد کا حادثہ پیش آیا— اس کے بعد کا جو ہندستان سامنے تھا وہ ہندستان کہیں نہ کہیں مجھے ڈرا رہا تھا۔ میں نے مسلسل راشٹریہ سہارا اور دوسرے اخباروں میں مضامین لکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ بہت لمبا چلتا رہا یہاں تک کہ گجرات حادثہ سامنے آیا جب گجرات حادثہ سامنے آیا— تو اس وقت مجھے اچانک محسوس ہوا کہ اس ملک میں کچھ لوگ ہیں جو آج بھی آپ کی آزادی کو کہیں نہ کہیں چھیننا چاہتے ہیں — گجرات پر میری ایک کتاب شائع ہوئی لیبارٹری، لیبارٹری کے شائع ہونے کے دو تین مہینے بعد ایک رات لودی روڈ تھانے سے دو سپاہی آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ کو لودھی روڈ تھانے میں بلایا گیا ہے جب میں وہاں گیا تو سات گھنٹے تک میری پوچھ تاچھ ہوئی اور یہ پوچھ تاچھ ادب اور صحافت کو لے کر زیادہ رہی — اور آخر میں مجھے ایک دھمکی دی گئی کہ آپ صحافتی مضمون لکھنا بند کر دیجئے — آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ صحافتی ذمہ داری کتنی بڑی ہوتی ہے — وہ لوگ جو غلط کر رہے ہیں وہ لوگ کہیں نہ کہیں خوفزدہ بھی رہتے ہیں — اس لیے صحافت اور ادب دونوں کو ساتھ رکھتے ہوئے میں نے جینا سیکھا ہے۔

نورین: اس حوالے سے گفتگوسے ظاہر ہے کہ صحافت اور ادب کوئی بہت الگ نہیں ہیں لیکن پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں نے دونوں کی بات کی تھی— کیونکہ آپ کے حوالے سے بہت مشہور ہے کہ جتنا لکھتے ہیں اسی قدر پروڈیوسربھی ہیں ڈائرکٹر کی خدمات انجام دیتے ہیں اور آپ کے کئی سیریل اور ڈوکو مینٹری فلمیں بھی آ چکی ہیں۔ تو اس حوالے سے میں جاننا چاہتا ہوں کہ کب سے اور کتنے ڈوکومینٹری فلمیں کیں آپ نے اور کتنے سیریل لیے اس میں پسند کس کو کیا گیا اور تجربہ آپ کا کیا ہے اس حوالے سے۔

ذوقی:  1985میں، میں دہلی آیا تھا— 1987سے میری وابستگی دوردرشن سے ہو گئی تھی— اس زمانے میں دوردرشن میں سیریلس کے علاوہ ڈوکومینٹری فلم، ڈوکو ڈرامہ اور اس طرح کے پروگرام بنائے جاتے تھے — چھوٹی موٹی کوٹکینر جن میں صحافت کو کہیں نہ کہیں دخل ہوتا تھا— شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر میں نے ڈوکومینٹری نہ بنائی ہو اور ایک ڈوکومینٹری فلم کے لیے اسکرپٹ لکھنا، تحقیق ریسرچ کا جو کام ہے اس کی ذمہ داری بھی کم و بیش میں ہی سنبھالتا تھا۔ ادب بھی میرا موضوع رہا ہے — میں نے ہندی اور اردو کے باون بڑے لوگوں پر جن میں قرۃ العین حیدر، نامور سنگھ، راجندر یادو، جوگندر پال، ڈاکٹر محمد حسن شامل ہیں۔ ڈوکومینٹری فلمیں بنائی ہیں — اور یہ کام مسلسل جاری ہے — اس کے علاوہ میں نے اپنے ناول مسلمان کو لے کر ایک سیریل بنایا ملت کے نام سے جو بہت مقبول ہوا— اس کے علاوہ بے جڑ کے پودے جو سہیل عظیم آبادی کا مشہور ناول ہے میں نے اس پر بھی ایک سیریل بنایا تھا— ای ٹی وی اردو کے لیے — بلونت سنگھ کا مشہور ناول رات چور چاند — میں نے اس کے لیے ڈی ڈی انڈیا کلاسکس کے لیے سیریل بنایا— میں نے اس میں ممبئی کے بڑے بڑے فنکاروں کو لیا اور یہ سیریل بھی بہت مشہور ہوا— ایک طرف فکشن ہے دوسری طرف ڈوکومینٹری فلمیں ہیں — زیادہ مزہ مجھے ڈوکومینٹری فلموں میں آتا ہے چونکہ کسی نئی چیز کو دریافت کرنا جیسے ہم آپ کو بتائیں نورین صاحب کہ وہ قبائل جو جھارکھنڈ میں رہتے ہیں یا وہ جگہ جہاں ڈاکو رہتے ہیں چمبل کی گھاٹیوں میں — تو ان جگہوں پر جانے کا اتفاق، ان جگہوں کو دیکھنے کا اتفاق، لوگوں سے ملنے کا اتفاق— تو ایک بڑی خوبصورت دنیا آپ کے لیے کھلتی چلی جا رہی ہے۔ اور اس دنیا کو دریافت کرنا اور ایک اینکر کے طور پر لوگوں سے گفتگو کرنا، باتیں کرنا ان کے رہن سہن کو دیکھنا— مجھے لگتا ہے کہ میری کہانیوں میں جیسا عام طور پر کہا جاتا ہے — ایک نئی دنیا کہیں نہ کہیں ذوقی ڈسکور کرتا ہے تو ان چیزوں کا بھی کہیں نہ کہیں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کئی بار مجھے لگتا ہے کہ ہمارے دوستوں میں جو ادب لکھتے ہیں تخلیق کرتے ہیں، ہندستان کو دیکھا ہی نہیں ہے — اس لیے ہندستان کی تہذیب سے واقف نہیں ہیں — ہندستان کی رنگا رنگ تہذیب ابھی ایک ڈوکومینٹری کے سلسلے میں جس پر آگے فیچر فلم بنانے کا ارادہ ہے — یہ دلچسپ اس لیے ہے کہ ہندستان کی تہذیب کتنی نئی ہے — ہم لوگ نہیں جانتے ہیں — اس لیے میں اس کی تفصیل آپ کو دینا چاہتا ہوں — مجھے ہماچل پردیش کے ایک شہر جانے کا اتفاق ہوا اور جب میں نے اس شہر کے لوگوں سے ملاقات کی ان کے رہن سہن، پہناوے اور ان کی تہذیب کو جاننا چاہا تو مجھے بہت سی نئی معلومات حاصل ہوئی ہوئیں — جیسے ایک معلومات تو یہ تھی کہ وہاں آج بھی پانڈو کی رسم موجود ہے — ایک لڑکی کی شادی پانچ پانچ بھائی سے کر دی جاتی ہے اگر سب سے چھوٹے بھائی کی عمر ایک سال ہے تو وہ بھی اس لڑکی کا شوہر ہوتا ہے اور جب وہ بڑا ہوتا ہے اور وہ لڑکی ادھیڑ یا بوڑھی ہو چکی ہوتی ہے وہ بچہ جوان ہو کر اپنا شوہرانہ حق مانگ سکتا ہے۔ میں یہ بات اس لیے بتا رہا ہوں کہ ہندستان کی اپنی ایک رنگا رنگ تہذیب ہے — ایک گنگا جمنی کلچر ہے — کہا جاتا ہے کہ اتنی ندیاں ہیں — اتنے پہاڑ ہیں — اتنے رنگ ہیں — ڈوکومینٹری فلم بناتے ہوئے ان تمام تر رنگوں کو دیکھنے کا بہت قریب سے احساس ہوتا ہے اور مزہ آتا ہے — اس لیے فیچر سے زیادہ ڈوکومینٹر فلمیں بنانے میں مجھے زیادہ مزہ آتا ہے۔

نورین: ابھی دوردرشن کے حوالے سے ایک بات سامنے آئی کہ اردو والوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جا رہے ہیں جبکہ پروجیکٹ منظور ہو چکے ہیں اس کو کلیئر نہیں کیا جا رہا ہے اور اردو والوں کے بہت سارے پیسے اور پروگرام زیر التوا ہیں تو اس سلسلے میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ دیگر تمام شعبوں میں جس طریقے سے اردو کا قتل کیا جا رہا ہے تو کیا اسی ڈگر پر یہ پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا بھی چل چکا ہے جس طریقے ہم دیکھتے ہیں آل انڈیا ریڈیو ہو یا دوردرشن ہو یا ایسی ہی جگہوں پہ اردو والوں کو بالخصوص اور بالعموم تمام جگہوں پہ اردو اکادمی ہو یا قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ہو ان جگہوں پر ریگولر ملازم کے طور پر نہیں رکھا جا رہا ہے تو کیا یہ سوچی سمجھی سازش ہے۔

ذوقی:  اس ایک سوال میں بہت سارے سوال چھپے ہوئے ہیں — سب سے پہلے آپ نے دوردرشن کے ارد و چینل کا ذکر کیا ہے میں اپنی بات یہیں سے شروع کرتا ہوں جب دوردرشن کے اردو چینل کا اعلان ہوا اس وقت ای ٹی وی اردو کو چھوڑ کر اور کوئی اردو چینل موجود نہیں تھا آزادی کے ۶۵ برسوں میں اس بات کا شدت کا احساس ہوا ہے کہ جس زبان کا رشتہ روزی روٹی سے کاٹ دیا جاتا ہے وہ زبان مردہ ہو جاتی ہے۔ کم و بیش اردو کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا۔ ای ٹی وی اردو شروع ہوا — اردو کو ایک اچھا خاصا حلقہ ملا، کئی لوگوں کو نوکریاں ملیں ای ٹی وی سے پہلے یو ٹی وی ارد و تھا جو بند ہو گیا اس کے بعد ای ٹی وی کی شروعات ہوئی۔ دوردرشن کو اردو میں شروع کرنے مطلب تھا ایک بڑا روزگار— جب دوردرشن کا اردو چینل شروع کیا گیا تو ایک گائڈ لائن بنائی گئی— اس گائڈ لائن کے مطابق کوئی بھی اردو پروگرام بنا سکتا ہے۔ جس کے پاس کم سے کم پانچ سال کا تجربہ ہو، لیکن پروگرام بنانے والا کوئی بھی ہو اس کو اردو ایکسپرٹ رکھنا ضروری ہے — دوسری بات جو اسکرپٹ جمع کی جائیں گی اس کی زبان اردو میں ہو گی— تیسری بات جو ڈائرکٹر ہو گا وہ اردو جاننے والا ہو گا۔ ایک ایسی فضا بن رہی تھی جیسے اردو کے دروازے چاروں طرف سے کھول دیے گئے ہیں — ظاہر ہے اردو والوں کی خدمات لی جائیں گی— پروجیکٹ اردو میں جمع ہوں گے — پروجیکٹ اردو میں جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے لوگ جو کمپوزنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں ان کو بھی کام ملے گا۔ تیسری بات اردو ڈائرکٹر بھی اردو جاننے والا ہو گا، اردو میں عام لوگوں کی دلچسپی پیدا ہو گی— بہت ممکن ہے کہ آگے آنے والے وقت میں اردو سیکھنے کا سلسلہ شروع بھی ہو جائے اور یہ شروع ہو گیا ہے میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میرے بہت سارے دوست جو میڈیا سے ہیں وہ کہیں نہ کہیں اردو کی ٹریننگ لے رہے ہیں تاکہ وہ اردو تھوڑا بہت پڑھ لکھ سکیں شروع میں دوردرشن اردو نے ایکیوزیشن پروگرام نکالا، ایکیوزیشن پروگرام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کے پاس پہلے سے کوئی پروگرام بنا ہوا ہے ؟ہم کہتے ہیں کہ بنا ہوا ہے — اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ جمع کر دیجئے — ہم جمع کر دیتے ہیں اور وہ اس پروگرام کو اپنے یہاں دکھاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ پروگرام اردو سے متعلق ہوتے ہیں۔ شروع میں ایکیوزیشن میں جو پروگرام دکھائے گئے وہ ڈوکومینٹری یا ڈوکو ڈرامہ نوعیت کے پروگرامس تھے جن میں اردو تہذیب، اردو شاعری، اردو مثنوی، یہاں تک کہ اردو ڈرامے کو فوقیت دی گئی تھی۔ یہ پروگرام چونکہ یکیوزیشن کے تھے اس لیے ان کا بجٹ بہت کم تھا۔ 2009میں یہ اعلان کیا گیا کہ اردو پروگرام کو کمیشنڈ کیا جا رہا ہے — اس کے شروع ہونے کا اعلان تھا کہ پورے ہندستان میں ڈی ڈی اردو چینل کو لے کر ایک انقلاب آ گیا— بالی ووڈ کے بڑے بڑے لوگ جاگ گئے دہلی جاگ گئی— یہاں تک کہ حیدرآباد آسام، گوہاٹی ان جگہوں میں جو لوگ تھے وہ لوگ بھی پروگرام بنانے کے لیے سامنے آ گئے — اب دیکھیے کہ ایک تیر سے اردو چینل نے کتنے راستے پیدا کیے — آسام جہاں اردو نہیں ہے حیدرآباد جہاں اردو ہے لیکن ایک بڑا طبقہ جو فلمیں بناتا ہے وہ اردو نہیں جانتا ہے — یہ سارے کے سارے لوگ میدان میں اتر پڑے بڑے پیمانے پر پروگرام جمع کیے گئے۔ جو پروگرام جمع کئے گئے جو ان کی گائڈ لائن تھی— اس میں اردو کلاسکس کے علاوہ عصری ادب کو فوقیت دی گئی تھی اور شاید ہی اردو کا کوئی ایسا ادیب ہو جس کے پروجیکٹ کو دوردرشن میں جمع نہ کیا گیا ہو— لیکن اس درمیان دوردرشن کی صورت بدلتی رہی، دوردرشن کے سی او مسٹر لالی پر اسپیکٹرم گھوٹالے کا الزام لگا اور وہ الگ ہو گئے — ڈی جی الگ ہو گئے — چیزیں بدلتی رہیں یہاں تک کہ دوسال کا عرصہ گذر گیا۔ لوگ امید کر رہے تھے کہ پروگرام مل جائے گا۔ درمیان میں یہ باتیں چل رہی تھیں کہ پروگرام کو ایک شکل دے دی گئی ہے اور منظوری مل گئی ہے اور جلد ہی لوگوں کے پاس خطوط آ جائیں گے۔ لیکن اچانک ایک نئی گائڈ لائن آ جاتی ہے۔ وہ پروگرام جو منظور کر لیے گئے تھے وہ پروگرام نئی گائڈ لائن اور نئے پروگرام میں ضم کر دیے گئے۔ ہم لوگوں نے ابھی بھی امیدیں نہیں چھوڑی ہیں۔ یہ امید کی جا رہی ہے کہ جو پروگرام پہلے منظور کر لیے گئے تھے وہ پروگرام ضرور ملنے چاہئیں اور جس کو جتنے اے پی سوڈ دیئے گئے تھے اتنے اے پی سوڈ ہی ملنے چاہئیں — 2009 میں ہم سب لوگوں نے اردو پروگرام کے لیے جی جان سے محنت کی تھی—

دوسرا پہلو چونکہ آپ کے ایک سوال میں کئی سوال پوشیدہ ہیں۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اردو پر اور بھی چینلس سامنے آئیں ذی اردو سامنے آیا ہے — سہارا اردو چینل بھی سامنے آیا ہے۔ لیکن ابھی یہ پروگرام عام لوگوں تک نہیں پہنچے ہیں۔ ایک کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ یہ پروگرام عام لوگوں تک پہنچیں یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں منصف اپنا چینل لانے والا ہے — کچھ اور چینل بھی آنے والے ہیں — یہاں ضروری بات یہ ہے کہ ڈی ڈی اردو چینل کی طرح اگر یہ لوگ بھی اردو والوں سے، اردو جاننے والوں سے اگر خود کو ریلیٹ نہیں کرتے ہیں تو اس کا فائدہ نہیں ہو گا۔ اگر یہ اردو چینلس کو اردو گھرانوں سے جوڑتے ہیں تو بڑا فائدہ مل سکتا ہے۔ ہم جو بات ۶۵ برسوں سے کہتے چلے آئے ہیں کہ زبان اگر روزی روٹی سے کاٹ دی جائے گی تو زبان مر جائے گی — اس لیے زبان کوچینلس روزگار سے جوڑتے جاتے ہیں تو اردو کا مستقبل تابناک ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں ایک سوال اور ہے جو بہت ہم ہے اور اس کو لکھنے کی ضرورت ہے کہ دوردرشن نے ڈی ڈی اردو چینل شروع کر دیا— لیکن ریڈیو نے نہیں کیا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو کی بہت ساری شاخیں ہیں — ریڈیو اردو کے لیے الگ سے کوئی پروگرام شروع کیوں نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ ان گاؤں قصبوں تک جہاں ٹی وی نہیں پہنچتا ہے ریڈیو پہنچ جاتا ہے۔ ریڈیو میں کچھ کچھ پروگرام تو ہو رہے ہیں لیکن یہ کوشش ہونی چاہئے کہ چوبیس گھنٹے کا خوبصورت پروگرام شروع ہو جس میں اردو کے سیریلس ہوں۔

نورین: ابھی آپ نے بہت ساری تعریفیں کیں اور یہ کہا کہ روزی روٹی سے جوڑیے اور فلموں اور ڈوکومینٹری کے حوالے سے آپ نے گفتگو کی۔ ایک سوال میرا آپ سے بھی ہے اور آپ کی طرح تمام پروڈیوسر اور ڈائرکٹر سے ہے جو اردو حوالے سے سامنے آئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ آزادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد جتنی فلمیں بنی کوئی آج تک آزادی سے پہلے سے لے کر بلکہ انڈین فلموں میں اردو کا آغاز نہیں ہوا تب سے لے کر آج تک کوئی ایسی فلم نہیں ہے جو اردو سے خالی ہو ٹھیک ہے آپ اتفاق کرتے ہیں اس کے باوجود کوئی ایک فلم ایسی نہیں ہے جس کے انٹرڈکشن میں یا تعارف نامے میں یہ لکھا ہو زبان کے حوالے سے کہ یہ اردو میں فلم ہے آپ بھی جب سیریل بناتے ہیں یا ڈوکومینٹری فلم بناتے ہیں اور آپ کے بہت سارے ساتھی ہیں جو بناتے ہیں تو ان میں لکھا ہوتا ہے زبان کے کالم میں ہندی جب کہ اسے بے تحاشا زبان مطلب پوری فلم اردو زبان کے حوالے سے ہوتی ہے تو اس کے لیے کیا کرنا چاہئے یا آپ کیا کر رہے ہیں یا آپ اس سے مطمئن ہیں کہ ہندی لکھ کر کے آ جائے تو کوئی خسارہ اردو زبان کا نہیں ہے۔

ذوقی:  تمہارا سوال بہت اچھا ہے — اردو فلمیں پہلے بھی بنتی رہی ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک فلم آئی تھی طوائف جو علیم مسرور کے ناول بہت دیر کر دی پر مبنی تھی۔ اس طرح وشال نے ایک فلم بنائی— مقبول، اور جہاں تک مجھے یاد آتا ہے کہ شروع میں کچھ لوگوں نے جیسے یش چوپڑا نے بھی کچھ ایسی فلمیں بنائی تھیں جن میں اردو کو سرٹیفکیٹ دیا گیا تھا۔

شاید گلزار صاحب نے اپنی کچھ فلموں کے سرٹیفکیٹ اردو میں حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بات صرف ایک چھوٹے سے سرٹیفکیٹ کی نہیں ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ اگر اردو والے لینے کی کوشش کرتے ہیں تو عام لوگوں تک خود بخود ایک بڑا پیغام پہنچ جاتا ہے۔ فلمی دنیا میں آج بھی اردو سے وابستہ یا اردو کو چاہنے والے ہزاروں لوگ ہیں جو اردو کے لیے سامنے آ سکتے ہیں اور ان کو اس کے لیے آگے آنا چاہئے۔

کیونکہ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ اچھی زبان کے لیے آپ کو اردو جاننا ضروری ہے چاہے وہ مادھوری دکشت ہو یا کوئی بھی ہو کہیں نہ کہیں اردو سے ایک وابستگی ضروری ہوتی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ کہیں کوئی احتجاج نہیں فلمیں اردو کے نام پر بنتی ہیں لیکن ان کا سرٹیفکیٹ ہندی کے طور پر ملتا ہے تو بھائی ایک بڑی سزا ہے جس کے لیے عام آدمی کو بھی کہنا بہت بھاری پڑے گا چونکہ ممبئی بالی ووڈ میں بیٹھے ہوئے لوگ پیسے کی چکا چوند میں ڈوب چکے ہیں ان اس بات کا احساس نہیں ہے کہ چھوٹا سا سرٹیفکیٹ جو سنسر بورڈ جاری کرتا ہے اگر اس میں اردو کا نام شامل ہوتا ہے تو یہ ایک چھوٹی بات نہیں بلکہ کتنی بڑی بات ہو گی وہ لوگ جو فلمیں دیکھ رہے ہیں جب ان کے سامنے پہلا سینٹینس پیش کیا جائے گا جب اس پر اردو لکھا ہوا آئے گا تو کتنا بڑا فرق پڑے گا۔ وہ لوگ یہ جانتے ہیں کیونکہ دیکھیے کہ کیا ہوا آزادی کے ۶۵ برسوں میں اردو زندہ اسی لیے رہی کہ اردو اتنی میٹھی زبان تھی کہ روزی روٹی سے کاٹ دیے جانے کے باوجود بھی زندہ رہی لیکن کسی اسی کا ایک وقت میں کہ اردو عام بول چال کی زبان تھی لیکن شاید اردو جو ہماری علاقائی زبانیں ہیں ان میں بھی کہیں بہت بعد کی زبان بن گئی تھیں جو فنڈ آتے تھے ان میں بھی کہیں اردو کو جا کر فنڈ ملتا تھا جب باتیں کی جاتی تھیں کہ ہمارے ملک میں یہ بھی ہوا کہ وہ زبان جو آزادی کے وقت سے اب یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ہندی کے بعد کہیں اردو کو لانے کی بات ہوتی تو ہے آر ایس ایس یا بہت سے لوگ اور بھی ہم آر ایس ایس کا تذکرہ ہی کیوں کریں کہ بھائی پنجابی میں کیا کمی ہے، گجرات میں کیا کمی ہے، تیلگو میں کیا کمی ہے فلاں زبان میں کیا کمی ہے یعنی اردو زبان کو بہت ساری زبانوں سے چغلی کرتے ہیں یہ بہت بڑی نا انصافی ہے کیونکہ اردو کا وجود ان زبانوں کے وجود سے کہیں بڑا ہے اور اردو وہ چیز ہے جس نے آزادی کے وقت میں بھی نمایاں رول ادا کیا تھا اور وہ زبان تھی ایک وقت میں جب ہندستان کو آزادی ملی تھی چالیس کروڑ کے بعد تو یہ چالیس کروڑ لوگ زبان اس لیے جب آپ سرٹیفکیٹ کی بات کی تو ہم آپ کی اس جنگ میں شامل ہوں اور میری بھی یہ کوشش ہو گی کہ آگے چل کر اگر کوئی فلم اردو میں بنائی جا رہی ہے تو اس کا سرٹیفکیٹ اردو ملنا چاہئے سنسد بورڈ سے ہم اس کی گزارش کر رہے ہیں۔

بہت سارے اردو پروفیشنر اور اردو کے پروڈیوسر اور جو لوگ فلمیں وغیرہ بناتے ہیں جب ہم ان سے بات کرتے ہیں کہ اردو کے ساتھ یہ ہو رہا ہے، اردو والوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو وہ یہ مثالیں دیتے ہیں کہ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ فلم اردو جو ہے اردو کو بالی ووڈ اختیار کیے ہوئے ہے اس لیے اردو مر نہیں سکتی پورے ہندستان میں دکھائی جا رہی ہے گو کہ وہ اس کے حوالے باز پرس کر لی میں نے اس کے اسباب سے متعلق گفتگو کر لی۔ لیکن ہم یہ سوال کریں گے کہ کیا آج کی تاریخ میں فلمی دنیا کو یعنی بالی ووڈ کو اردو زندہ رکھے ہوئے ہے یا اردو کو بالی ووڈ زندہ رکھے ہوئے ہے۔

دیکھئے ایسا ہے کہ فلموں، مکالموں کی زبان بہت حد تک بنی ہے اس کو ؟؟اردو آج بھی زندہ ہے اور بہت شان سے زندہ ہے لیکن اس کے باوجود جو نمبر ہم کل دیتے تھے یعنی سو میں نوے یا اسی آج ہم نہیں دے سکتے کیونکہ فلموں کا معاملہ اس وقت ؟؟؟کہ ہمارے یہاں ملٹی پلیسس کی بنیاد پر۔ ملٹی پلیسس کا مطلب تھا آج کا یوتھ کیا ہوتا ہے آج کا یوتھ اگر آپ کالج میں جائیں یا اسکولوں میں جائیں تو آج کا یوتھ فلمی دنیا کی زبان بدل گئی۔ منا بھائی اور اس طرح کی جو فلمیں سامنے آئیں ان میں ایک نئی زبان تھی موالیوں کی زبان یہ زبان کم و بیش وہی تھی جو اسکول اور کالج کے بچے بولتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس طرح کی فلمیں نہیں بننی چاہئیں لیکن ان فلموں میں کہیں نہ کہیں دس برسوں سے اردو زبان کو بہت حد تک نقصان پہنچا یا ہے۔ ملٹی پلیسس کے لیے آج جو فلمیں زیادہ سے زیادہ ریلیز ہو رہی ہیں جن میں وشال کی فلمیں ہیں بڑے بڑے لوگوں کی فلمیں ہیں ان میں اردو اب غائب ہوتی جا رہی ہے۔ ہاں کچھ لوگوں نے اردو کو زندہ رکھا ہے۔ ایک وقت تھا جب شہر یار ندا فاروقی یا شکیل حیدر بڑے خوبصورت اردو مکالمے لکھے جاتے تھے۔ اس سے پہلے کا وقت تھا جب آپ کے شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری یہ لوگ بھی تھے جو اردو میں بہت خوبصورت گانے لکھ رہے تھے لیکن وقت کے ساتھ کچھ چیزیں تبدیلی ہوتی ہیں اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آج بالی ووڈ کا منظرنامہ ان چیزوں کو لے کر بہت حد تک بدل چکا ہے اب وہ بات نہیں ہے کچھ لوگ کوشش کر رہے ہیں لیکن دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔

نورین:         میں یہ جاننا چاہوں گا کہ آج اردو صحافت اور ہندی صحافت جس طریقے سے ہو رہی ہے یا کی جا رہی ہے لیبیا کے حوالے سے افغانستان کے حوالے سے تو اس میں جو بعد ہے تو کس طرح سے ختم ہو سکتا ہے یا دونوں میں بہتر کون ہے اور کیا صحیح صورت حال اور صحیح سمت کی طرف آپ اشارہ کرنا پسند کریں گے ؟

ذوقی:  نورین صاحب سب سے پہلے میں آپ کو مبارکباد دوں گا کہ آپ نے ایک بہت اچھے اور بہت ضروری سوال کی بنیاد ڈالی ہے سب سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ اس سے پہلے کہ ہم اس پر آئیں کہ جس پر آپ نے اشارہ کیا ہے کہ آج ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں وہاں کبھی کبھی یہ ڈر بھی ہوتا ہے کہ صحافت کا معیار ختم ہو چکا ہے اردو صحافت کہیں اور ہے ہندی اور انگریزی صحافت کسی اور دنیا میں ہے اس بات پر ہم ذرا بعد میں آئیں گے اس سے پہلے ایک بات اور بھی کرتے ہیں پچھلے دس برسوں میں ناگ ناگن، جیوتش، سنتھ اور تانترکوں کو دکھانے والے نیوز چینل پیسوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اس دنیا میں چلے گئے جہاں تیز نیوز کی باتیں بھی سامنے آنے لگیں جب تیز نیوز کی باتیں سامنے آنے لگیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ صحافت کا معیار کیا ہے یعنی وہ خبریں جو پیسے لے کر چھاپی جاتی ہیں کبھی کبھی خبریں بنا دی جاتی ہیں۔ ایک بچہ کنویں میں پھنسا ہوا ہے نکالا جا رہا ہے معلوم یہ ہوا کہ اس بچہ کو کنویں کی سرحد میں رکھ دیا گیا تھا اس کے باپ کو پیسے دیے گئے تھے خبر بنائی گئی تھی عوام کی چنتا کی گئی ہمدردی کی گئی تو اس دنیا میں یہ بھی ہو رہا ہے کہ ٹی آر پی، ٹی آر پی کے لیے سارے نیوز چینل عوام کی سمپیتھی بٹورنے کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں اس کی مذمت ہونی چاہئے اب ہم آپ کی بات آتے ہیں۔ آپ نے جس موضوع اٹھایا ہے وہ ایک بہت ضروری ہے افغانستان کے حوالے سے عراق کے حوالے سے یا حالیہ دنگوں کے حوالے سے جو میڈیا ہمارے سامنے آ رہا ہے ہم اس میڈیا پر بھروسہ نہیں کر سکتے ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہیں نہ کہیں ہم تقسیم تک پہنچ چکے ہیں 1947کا ماحول ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے آپ دیکھیے کہ کتنے بڑے بڑے دنگے ہوئے بھرت پور دنگے، ردر پور فساد، بنارس کے حالیہ دنگے جب آپ اردو اخبار پڑھتے ہیں تو ایک الگ دنیا ہوتی ہے لیکن جب آپ ہندی یا انگریزی اخبار پڑھتے ہیں یا بہت ممکن ہے کہ دوسرے اخبار جو الگ الگ صوبوں سے نکلتے ہیں دوسری زبانوں کے ہوں انہیں ان خبروں کو اہمیت نہیں دینی چاہئے، گجرات فساد کے تعلق سے سنجیو بھٹ کی خبر ہی کو لیجئے تو ہندی یا انگریزی صفحے تک بس چھوٹی سی خبر بنتی جا رہی ہے۔ مودی کو ہیرو بنانے کا کام وہاں آج بھی جاری ہے ایک بات ہم اور کہنا چاہیں گے کہ میڈیا کیسے بھول جاتی ہے چاہے وہ ہندی انگریزی پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا ہو کیسے بھول جاتی ہے کہ ۲۰۰۳ میں جو فساد ہوا مودی کے اشاروں پر ہوا تھا اس کے ثبوت ہیں چشم دید گواہ ہیں، سی ڈیز ہیں۔ اور یہ سی ڈیز تمام چینلس کے پاس آج بھی موجود ہیں وہ لوگ ہیں جو مودی کے ان کارناموں کو جانتے ہیں قریب سے دیکھا ہے مودی کیسے ہیرو بن سکتا ہے ایک آدمی جس نے لاش کی تجارت کی ہو وہ ہیرو کیسے بن سکتا ہے لیکن میڈیا آج بھی کہیں نہ کہیں مودی کے نئے کارناموں کو لے کر گجرات کی ترقی کی داستانوں کو لے کر ہیرو بنانے کا کام شروع کیا ہے اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر آئیے فرقہ کہاں ہے اناہزارے کا ان شن لے لیجئے اردو میڈیا نے انا ہزارے کو معاف نہیں کیا ہم بھی معاف نہیں کریں گے وہ آدمی جو کبھی آر ایس ایس کے ساتھ ہو یا مودی کے حق میں بیان دی ہو یا جس کے بل پر آر ایس ایس کے لوگ آتے رہے ہم اس آدمی کو معاف نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ پورے ان شن کے دوران اناہزارے نے کہیں مسلمانوں کا تذکرہ نہیں کیا سوائے یہ کہ ان شن ختم ہونے کے لیے رسم کے طور پر ایک مسلمان لڑکی بٹھا دی گئی اور ایک دلت کو بٹھا دیا گیا اب آگے بڑھیے۔ لیبیا کے کرنل قذافی، الیکٹرانک میڈیا نے ایک وحشی، درندے، عیاش کے طور پر کرنل قذافی کو پیش کیا کم و بیش ہندی اور انگریزی اخباروں میں بھی یہی صورت حال رہی آپ اردو اخبار دیکھیے بالکل الگ ہے ٹھیک ہے قذافی برا آدمی تھا قذافی کو مارنے کا، سزا دینے کا حق عوام کو تھا نہ امریکہ کو صدام کو مارنے کا حق عراق کی عوام کو تھا نہ کہ امریکہ کو۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا حق امریکہ کو کس نے دیا امریکی مدافعت پر تو یہاں کچھ بھی نہیں لکھا جاتا ہے سوائے اردو اخباروں کے اتنا بڑا فرق کیوں آ گیا ہے ہم اس فرق کو کہیں کم کر کے نہیں دیکھ سکتے وجہ یہ ہے کہ شاید آپ غور کر رہے یا نہیں کر رہے ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کہیں نہ کہیں آنے والے وقتوں میں اڈوانی جی کی تاج پوشی کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ ایک بہت بڑی جنگ شروع ہو چکی ہے جہاں مسلمان حاشیے پر ہیں آپ دیکھ لیجئے کہ پچھلے دس برسوں میں کون سا فرضی انکاؤنٹر سامنے آیا ہے میں پوچھتا ہوں کہ میڈیا کے نیوز چینل یا دوردرشن میں کون لوگ کام کرتے ہیں جو یہ نہیں جانتے ہیں کہ فرضی انکاؤنٹر کے قصے کو نہیں جانتے ہیں لیکن کتنی بار یہ قصہ سامنے آیا ہے کہ آج بھی میڈیا وہی کھیل کھیل رہی ہے فرضی انکاؤنٹر، مسلمان لڑکا — ٹوپی پہنے ہوئے — کرتا پائجامہ پہنے ہوئے — وہی اردو کی چٹ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پوری سوسائٹی ایسی ہے کہ بہت خاموشی سے ایک ایسی فضا بنائی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اور اسلام کو حاشیے پر ڈال دیا جائے کہیں نہ کہیں ابھی بھی ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل یا یہودیوں کی سازش بڑے پیمانے پر سنگھ کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنا کھیل کھیل رہی ہے اور اسی لیے اردو کا مزاج اور ہے اور انگریزی اور ہندی کا مزاج اور ہے یہاں تک کہ جتنے بھی نیوز چینلس ہیں وہاں مسلمانوں کے لیے ہم اقلیت نہیں کہیں گے اقلیت اس لیے نہیں کہیں تے کہ پچیس کروڑ کی آبادی اقلیت میں نہیں آتی ہے۔ اقلیت کہہ کر مسلمانوں کو اس ملک میں کمزور، ناکارہ، بزدل، امپوٹنٹ بنا دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی جانب سے کوئی آواز بلند نہ کر سکے ہم اقلیت نہیں کہیں گے۔ یہ مسلمانوں کو منظم طور پر حاشیے پر ڈالنے کی کارروائی ہے اور مسلمان بھول جائیں کہ اس کے لیے آواز ہندی اور انگریزی الیکٹرانک میڈیا اٹھائے گی۔ اس کے لیے مسلمانوں کو ہی سامنے آنا پڑے گا۔ ان کو اپنے چینلس تیا کرنے ہوں گے ان کو بڑے پیمانے پر سامنے آنا ہو گا ان کو اپنی آواز اور مضبوطی سے اٹھانا ہو گا اورمستقبل میں اگر ایک بڑی جنگ لڑنی ہے تو اردو کے علاوہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں انکو اپنے اخبار لانے ہونگے جہاں اپنی باتوں کو مضبوطی کے ساتھ رکھا جا سکے۔ آپ یہ بھول جائیں کہ آپ کی خبروں کو انگریزی یا ہندی اخبارسرخیاں بنائے گا۔ جب یہ لوگ بھرت پور کے فساد کو سرخیاں نہیں بنا سکے، ردر پور کے فساد کو سرخیاں نہیں بنا سکے، بنارس کے فساد کو سرخیاں نہیں بنا سکے تو ان کو آپ کے ساتھ کہیں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ہاں جہاں آپ پر شک کی سوئی ہوتی ہے جہاں انہیں ایسا لگتا ہے آپ کو ذلیل کیا جا سکتا ہے وہاں یہ سامنے آئیں گے، وہاں یہ دکھائیں گے، وہاں یہ آپ کو کیرکٹر بنا کر پیش کریں گے۔ لیکن آپ کے مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

نورین:         اردو اخبارات اب کارپوریٹ سیکٹر کی زینت بنتے جا رہے ہیں اور آر ایس ایس جیسی تنظیمیں بھی اس میں دلچسپی لے رہی ہیں تو کیا آئندہ اردو صحافت بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گی اور اس کے ذریعہ بھی انہیں شکار بنایا جائے گا۔ ؟

ذوقی:  میرا شمار ترقی پسندوں میں کیا جا رہا ہے عام طور پر میرا خیال تھا کہ زبان کسی کی جاگیر نہیں ہوتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ میرا یہ خیال غلط ہوتا گیا اور اردو زبان سمٹتی چلی گئی اور اس کے جاننے والے صرف مسلمان رہ گئے۔ ایسا ہم نے نہیں کیا ان لوگوں نے کیا کہ انہوں نے اردو کو خالص مسلمانوں کی زبان بنا دی۔ آزادی کے وقت معاملہ دوسرا تھا اس وقت اردو سب کی زبان تھی لیکن ۶۰ برسوں میں معاملہ بالکل الٹ گیا سب سے پہلے میں کارپوریٹ سیکٹر کو خواہ وہ چوتھی دنیا ہو، جاگرتی گروپ ہو یا سہارا گروپ ہو انہیں مبارکباد دینا چاہوں گا۔ جنہوں نے یہ ذمہ داری قبول کی۔ ان اخبارات سے پہلے جو مشہور میگزین اور ہفتہ روزہ تھے یا اردو روزنامے تھے وہ اپنی روٹیاں سینک رہے تھے۔ مسلمانوں کی سیاست کر رہے تھے، ان اخبارات میں وہ بات نہیں ہے۔ یہ صحیح صورت حال کی طرف اشارہ سبھی کر رہے ہیں اہم مسائل اٹھا رہے ہیں۔ حقائق بیان کر رہے ہیں اس سے کم از کم اتنا تو ہوا کہ ہندستانی مسلمانوں کی شبیہ تو سامنے آئی۔ اور آپ نے جو کہا اس سے میں میں متفق ہوں۔ یقیناً مسلمانوں کے خلاف یہ بڑی سازش ہے۔ لیکن مسلمان بڑے پیمانے پر اردو اخبارات نہیں نکال رہے ہیں حالانکہ ان کی بڑی نمائندگی ہے تمام میدانوں میں۔ ان کی بھی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں۔ ادارے ہیں لیکن اردو اخبارات غیر مسلم کارپوریٹ سیکٹر کے مالک نکال رہے ہیں۔ آر ایس ایس ۱۸۹۲ سے ہندو راشٹر کے جس مشن پر کام کر رہا ہے۔ اس مشن کے لیے اسے سنسکرت، ہندی، انگریزی سے زیادہ اسے اردو، فارسی، عربی کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ۱۸۹۲ سے اب تک سوسالہ سفر میں وہ جس طرح ٹارگیٹ کرنا چاہتے ہیں وہ اس میں ناکام ہیں۔ اس لیے انہیں اس کی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مسلم بچہ دیگر اخبارات کو نہ خرید کر ایک اردو اخبار خرید لے گا اور وہ بھی اسے سمجھ رہے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنا ایک ترجمان چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے اخبارات سامنے آ رہے ہیں جسے ہم آنے سے روک نہیں سکتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی سامنے آئیں۔ کوئی منصف، سیاست سامنے آئے اور بڑے پیمانہ پر آئے۔ تاکہ ان کے بھی اثرات مسلمانوں پر ہوں۔ اس کے علاوہ یہ کہ ہندستان میں جمہوری قدریں اس وقت بھی باقی ہیں یہی وجہ ہے کہ بی جے پی پانچ سال کے اندر اقتدار سے الگ کر دی جاتی ہے اور کانگریس اقتدار پر آ جاتی ہے۔ جس سیکولرزم کو ہم گالیاں دیتے ہیں۔ وہ یہاں بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ آپ دیکھیں کہ جب بابری مسجد شہید کی جاتی ہے کہ اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے اخبارات بھی سیاہ حاشیے لگاتے ہیں اور آر ایس ایس، بجرنگ دل اور بی جے پی کی مذمت کرتے ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ اس آزاد ہندستان میں ہم بھی آگے بڑھیں۔

نورین:         آپ نے اپنے آنے والے ناول آتش رفتہ کا سراغ میں جس طرح آر ایس ایس، بجرنگ دل وغیرہ کے حقائق سے مسلمانوں کو واقف کرایا کیا آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان اسے سمجھیں گے اور آپ کی باتوں پر عمل پیرا ہوں گے ؟

ذوقی:  لے سانس بھی آہستہ میں بھی میں نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کی طرف جب میں نے اشارہ کیا ہے تو وہاں میں بابری مسجد کی شہادت بھی بیان کی ہے اور اس گھنونے پڑاؤ کو لے کر میں نے ’’بیان‘‘ بھی لکھا ہے۔ لیکن ۱۹۹۱ کے بعد صورت حال بدتر ہوئی ہے بہتر نہیں ہوئی ہے صرف ایک چیز ہوئی ہے کہ مسلمانوں نے خاموش رہنا سیکھ لیا ہے۔ لیکن خاموش رہنا کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے لے سانس بھی آہستہ کے بعد آتش رفتہ کاسراغ لکھنے کا ارادہ کیا۔ تاکہ مسلمان ان چہروں کو بھی دیکھ لیں آر ایس ایس بہت منظم طریقے سے اپنے کاموں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ مجھے کچھ پمفلٹ ملے جنہوں نے اس ناول کو آگے بڑھانے میں میری مدد کی۔ جنہیں پڑھ کر میری روح تک لرز گئی۔ ان میں لکھا تھا کہ ان اسکولوں میں جہاں مسلم طلبہ زیادہ ہیں ان کے سرکاری کھاتوں میں کچھ ایسی چیزیں ملائیں جن کے کھانے سے ان کا ذہن کمزور ہو، ان کی لڑکیوں کو اغوا کر کے انہیں طوائف خانوں میں فروخت کر دیں، میڈیکل اسٹورز میں جب نسخہ سامنے آئے اور اس پر کسی مسلمان کا نام لکھا ہو تو انہیں اکسپائر دوا دیں۔ اس کے لیے ہم نے فریش ریپر تیار کر لیے ہیں تاکہ آپ اکسپائر دوا کو ان میں رکھ کر انہیں دیں۔ یہ پمفلٹ آر ایس ایس کے دفاتر سے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ان کے اراکین ان پمفلٹ پر عمل کرتے ہیں۔ آتش رفتہ کا سراغ میں ایک ایسا بھی پڑاؤ آتا ہے جہاں انور پاشا جو ناول کا اہم کردار ہے اور اس کا برسوں پرانا دوست جو اس کے ساتھ رہتا ہے اور اس کے حقوق کی لڑائی لڑتا ہے۔ آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو دوست نہیں دشمن ہے اور آر ایس ایس کا چیف ہے۔ یہ سب سن کر وہ حیران رہ جاتا ہے۔ انور پاشا اس کے دفتر ساڑھے تین بجے دن میں جاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ وہاں کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، قرأت ایسی کہ کیو ٹی وی اور پی ٹی وی پر بھی اس نے نہیں سنی ہو گی۔ پیشانیوں پر نماز کے نشانات بھی۔ وہ کہتا ہے کہ تم کیا سوچتے ہو صرف ہمیں نماز پڑھتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو اس لیے تیار کر رہا ہوں کہ یہ تم میں اس طرح گھل مل جائیں جیسے دودھ میں پانی۔ میں نے یہ سب کچھ لکھ کر کہیں نہ کہیں مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔ اور ان تمام باتوں کو آتش رفتہ میں گواہ بنانے کی کوشش کی ہے۔

نورین: آپ کی تمام باتوں کو پیش نظر رکھ کر موجودہ حالات میں جے این یو کے طلبا کے لیے آپ کا کوئی پیغام؟

ذوقی: ایک بات میں آپ کو بتا دوں کہ جے این یو میرا خواب تھا یہ بات میں نے وہاں بھی کئی پروگراموں میں کی ہے۔ جے این یو میرا خواب اس لیے چونکہ آج بہت کچھ بدلنے کے بعد بھی جے این یو کا چہرہ ایک سیکولر چہرہ ہے۔ وہ جو طلبہ آتے ہیں خواہ وہ کہیں سے بھی آئیں وہ ایک سیکولر کردار کے طور پر ابھرتے ہیں۔ جے این یو نے ہمیشہ ایک سیکولر چہرہ کو سامنے رکھا ہے آب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اور زیادہ مستحکم ہو کر عملی ہونے کی ضرورت ہے۔ فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ باتیں میں کسی اور یونیورسٹی کے طلبہ سے نہیں کہہ سکتا چونکہ جے این یو کے طلبہ جانتے ہیں کہ انہیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے۔ جب بھی بڑے حادثے یہاں رونما ہوئے ہیں جے این یو کے طلبہ نے احتجاج کیا ہے جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ آخر میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اب زیادہ کھل کر سامنے آئیں اور فرقہ وارانہ کھیل کھیلنے والوں سے نبرد آزما ہوں۔

 

— تحریر نو/ سبق اردو / سب رس

٭٭٭

 

 

 

 

صنف افسانہ کو میں اظہار کاپاور فل میڈیا تصور کرتا ہوں

 

(مشرف عالم ذوقی سے ایک ملاقات)

 

 

                منظر مظفر پوری

 

منظر: سب سے پہلے آپ اپنا مختصر تعارف کرائیں۔ ؟

ذوقی: میرا اصل تعارف میری کہانیاں ہیں۔ بچپن میں ماں باپ نے جو نام دیا وہ مشرف عالم تھا۔ شعرو شاعری کا ذوق بچپن سے ہی تھا۔ تب شاعروں میں مجھے ذوق کا کلام بے حد پسند تھا۔ جب مسرور ہوتا تو ذوق کا کلام بلند آواز میں گنگنانے لگتا۔ ابا حضور جناب مشکور عالم بصیری نے اسی ذوق پسندی کی وجہ سے میرا تخلص ذوقی کر دیا۔ اس طرح میرے نام میں ذوقی کا اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے قدم قدم پر میری حوصلہ افزائی کی۔ اپنے والد محترم کا میں شکر گزار ہوں۔ بہت چھوٹی سی عمر میں میری تخلیقات رسائل کی زینت بننے لگیں۔ تب سے اب تک ادب میں ایک بہت لمبا سفر طے کر چکا ہوں۔

منظر: آپ کا ادبی اور تخلیقی سفر کب اور کیسے شروع ہوا؟

ذوقی:  تخلیقی سفر کی شروعات بچوں کے رسالے ’’پیامِ تعلیم‘‘ سے ہوئی۔ پہلا افسانہ بمبئی سے نکلنے والے رسالے ’’کہکشاں ’’ میں ۷۵ء میں شائع ہوا۔

منظر:  کیا ادیب کو کسی نظریے سے منسلک ہونا چاہئے۔ ؟یا وہ آزاد رہ کر بھی اچھا ادب تخلیق کر سکتا ہے ؟

ذوقی:  ادیب آزاد رہ کر ہی اچھی تخلیق کر سکتا ہے۔ نظریہ یا کسی ISM سے منسلک ہونے کو اکثر لوگوں نے غلط طرح سے Propagate کیا ہے۔ ایک خاص نظریہ پہ ٹھہراؤ کا مطلب ہوتا ہے کہانی کو سمت عطا کرنا۔ مذہب بھی ایک خاص طرح کی پابندی کا نام ہے۔ کہانی یا ادب کسی طرح کی پابندی کا قائل ہو تو اس میں اختلاف کیسا؟۔

منظر:  دلی جذبات کے لیے آپ نے صنف افسانہ کو ہی منتخب کیوں کیا؟

ذوقی:  افسانہ یا ادب دلی جذبات یا روحانی تسکین کے لیے نہیں لکھا جاتا۔ ادب اظہار یا بیان کا وسیلہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ ادب میں صنف افسانہ کو میں اظہار کا Power full media تصور کرتا ہوں۔ اس لیے میں افسانہ نگاری ہی نہیں، بلکہ میں ناول کے میدان میں بھی اترا۔ چیخوف، موپاساں اور ایسے کچھ بہت اہم نام کو چھوڑ دیں تو بہت اچھا لکھنے والوں کی جو فہرست مرتب ہو گی وہ ناول نگاروں کی ہی ہو گی۔

منظر:  آپ کی افسانوی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں کیسے کیسے واقعات حصہ لیتے ہیں ؟

ذوقی:  میری کوئی افسانوی شخصیت نہیں ہے۔ کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ ہاں، ادب لکھنے والے کے لیے سب سے اہم چیز کمٹمنٹ ہے۔ اس کمٹمنٹ کے لیے وہ محنت کرتا ہے، مطالعہ کرتا ہے۔ اس مطالعے سے وہ اپنے وژن کو ایک ٹھہراؤ دیتا ہے۔ یہی ٹھہراؤ آگے چل کر اس کی ادبی نشو و نما میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

منظر:  کیا یہ ممکن ہے کہ افسانہ نگار معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی لا سکتا ہے ؟

ذوقی:  بے شک افسانہ نگار تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے — چاہے وہ معاشرے کی بدعنوانیاں ہوں یا کوئی عالمگیر مسئلہ۔ انقلاب کو اگر محدود معنوں میں استعمال نہ کریں تو جو چیز اسے کھٹکتی ہے، سماج میں اور ہر جگہ، وہ وہاں تعمیر اور تبدیلی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی تخلیقی مراحل میں اس کا ادب پھلتا پھولتا ہے۔ معاشرے پر ادب کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے — آج جس نوع کی کہانیوں کی ضرورت ہے ویسی لکھی جائیں تو ہم خوبصورت تبدیلیوں کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

منظر:  آج کل ادب میں مختلف اسکول آف تھاٹ بنے ہوئے ہیں۔ گروہ بندیاں ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کس طرح سوچتے ہیں ؟

ذوقی:  اسکول آف تھاٹ، گروہ بندی، سب الگ الگ چیزیں ہیں — گروہ بندی مغالطے میں ڈالنے والا لفظ ہے۔ جبکہ اسکول آف تھاٹ ادب کے لیے ضروری ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہی اٹھتا ہے کہ آپ کیوں لکھتے ہیں ؟ لکھنے والا اس کا جواب اسکول آف تھاٹ کے وسیلے سے سوچتا ہے۔ یہ الگ سے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہ خود ہی اظہار کی Perfectness کے ذریعہ تخلیقی زون میں منتقل ہو جاتی ہے۔ ہاں، گروہ بندی نے کبھی ادب کو فائدہ نہیں پہنچایا۔ الگ رہ کریا گوشہ نشیں ہو کر لکھتے رہنا زیادہ بہتر ہے۔

منظر:  تجریدی افسانے کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں ؟

ذوقی:  ایبسٹریکٹ پینٹنگس (Abstract Paintings) ہو سکتی ہیں۔ ادب نہیں۔ تجریدی افسانے اردو ادب کو بہت دنوں تک دھوکے میں رکھا اور نقصان پہنچایا۔ ایسے افسانوں کا سر ہوتا تھا نہ پیر۔ ادب دیکھئے، وہ لوگ جو تجریدی افسانے لکھ رہے تھے، کہاں گم ہو گئے۔

منظر:  ہمارے ادب میں قدامت پسندی کا جو احساس بھرا ہوا ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟

ذوقی:  قدامت پسندی کسی بھی ادب کے لیے مضر ہے۔ آج میں سانس لیتے ہوئے ہمیں آج کی صورتحال اور آج کی ہوا کو شدت سے دیکھنا اور محسوس کرنا ہوتا ہے۔ ہاں، قدامت پسندی کے تحت آپ پرانی قدروں اور روایتوں کی بات تو نہیں کر رہے — ؟ کچھ پرانی قدروں اور روایتوں کا پاس ضروری ہے۔ یہ بہت تفصیل طلب بحث ہے۔

منظر:  اگر آپ نے اپنے بہترین افسانوں کی کوئی فہرست تیار کی تو اس میں آپ اپنے کون کون سے افسانے کو شامل کریں گے ؟

ذوقی: میں بسیار نویس ضرور ہوں مگر ہر افسانہ ہر تخلیق کے پیچھے ایک مثبت رویہ اور مقصد پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی کوئی فہرست تیار کرنا میرے لیے ممکن ہی نہیں ہے … میں اچھا لکھنے اور خوب لکھنے پر عمل کرتا ہوں۔

منظر: ہمارے ملک میں زبان و ادب کی خدمات کیلئے سرکاری و غیر سرکاری سطح سے دیئے جانے والے انعامات و اعزازات کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟

ذوقی: انعام و اعزازات تخلیق کار کے قد کو کبھی بڑا نہیں کرتے — چھوٹے، سرکاری یا غیر سرکاری اعزازات کی بات رہنے دیں، نابل پرائز اور بک ایوارڈ تک نے اب مایوس کر دیا ہے۔ ادیب اور اچھے ادیب کے لیے ضرورت ہمیشہ اچھی تخلیق کی رہی ہے، نہ کہ انعام و اعزاز کی۔

منظر:  آپ کن کن افسانہ نگاروں سے متاثر ہیں ؟

ذوقی:  بہت کم لوگ ہیں جو متاثر کرتے ہیں، ویسے دوستووسکی میرا آئیڈیل ہے۔ اپنے ادبی سفر میں، میں سب سے زیادہ متاثر دوستووسکی سے ہی ہوں۔

منظر:  آپ کا سیاسی نظریہ کیا ہے ؟

ذوقی:  میرا کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے، ہاں ادب کے لیے سیاسی بصیرت کو ضروری سمجھتا ہوں۔

منظر: اور آخر میں قارئین کے لیے کوئی پیغام؟

ذوقی:  پیغام کیا؟ زندگی کو سمجھنا ہی سب سے اہم شئے ہے۔ صرف ایک زندگی ہمیں ملتی ہے۔ جینے کے لیے اور ہم اسے بھی بیکار گزار دیتے ہیں — زندگی محض کاٹنے کی چیز نہیں۔ زندگی کو صحیح طور پر سمجھنے کا نظریہ اچھا ادب فراہم کرتا ہے۔

تیر ینم کش، اگست ۱۹۹۵

٭٭٭

 

 

 

 

 

مقبول ٹی وی پروگرام ’’دوسرا رخ‘‘ کے حوالے سے

مشرف عالم ذوقی سے انٹرویو

 

 

                ساگر

 

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مشرف عالم ذوقی گزشتہ دس برسوں سے دور دردشن کے لیے مختلف طرح کی ٹیلی فلمیں، ڈیکومینٹری اور سیریل بنا چکے ہیں۔ اور اب ۵۲ قسطوں پر مشتمل ایک میگزین پروگرام ’’دوسرا رخ‘‘ ۱۴ مارچ سے دور درشن کے نیشنل چینل پر شروع ہو گیا ہے جو ہر اتوار ۲ بج کر ۴۵ منٹ پر آ رہا ہے۔ ’’دوسرا رخ‘‘ ایک ایسا سیریل ہے جس میں کشمیر کے پس پردہ ہندستان اور پاکستان کے تعلقات کو واضح کیا گیا ہے، نیز دونوں کی نیت کا بھرپور خلاصہ بھی کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو آسانی سے سب کو نظر آ جاتا ہے اور ایک وہ جو پوشیدہ رہتا ہے۔ اسی پوشیدہ ’’دوسرا رخ‘‘ کو اس سیریل میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ دونوں ملکوں کے عوام اس سے باخبر ہو سکیں۔ اس سیریل کے فلم ساز اور ہدایت کار جناب مشرف عالم ذوقی سے میں نے ایک ملاقات کی اور ان سے اس سیریل کے متعلق کچھ بات چیت کی، جس کا کچھ حصہ یہاں پیش خدمت ہے۔

سوال:  ’’دوسرا رخ‘‘ کا خیال آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟

جواب:        دراصل میں پاکستانی ٹیلی ویژن کے پروپیگنڈہ سے پریشان تھا۔ پی ٹی وی تقریباً ہندستان میں سبھی جگہوں پر دیکھا جاتا ہے اور سبھی طبقے کے لوگ دیکھتے ہیں۔ اس کے دیکھنے سے مسلمانوں کے بارے میں سوالیہ نشان ضرور لگتا ہے کہ کیا سارے مسلمان اسی انداز سے سوچتے ہیں ؟ جب کہ میرا ماننا ہے کہ ہندستان کی نئی نسل بالخصوص مسلمانوں کی جو نئی جینئس نسل آئی ہے یہ مکمل طور پر پاکستان کے ارادے سے پوری طرح واقف ہے اوراس کے حرکات وسکنات پر فکرمند بھی ہے۔ پاکستانی میڈیا جس طرح کی خبریں پھیلاتے رہے ہیں اس کا اثر یہاں کے مسلمانوں پر بالواسطہ پڑتا رہا ہے اور اسی وجہ سے نئی نسل پاکستان کا نام تک سننا نہیں چاہتی— ’’دوسرا رخ‘‘ کے خیال نے یہیں سے جنم لیا۔ یہ پاکستان میڈیا پر جوابی حملہ ہے سیدھا اٹیک۔ یعنی پہلا رخ وہ ہے جو ان کا پروپیگنڈہ ہے۔ دوسرا رخ ہمارا ہندستانی آئینہ ہے۔ یعنی وہ سچی بات جو ہم ہندستان کے حوالے سے پوری دنیا اور بالخصوص ہندستان کے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں۔

سوال:  آپ کے زیادہ تر افسانے پاکستانی رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ کیا اس پروگرام کے بعد آپ کو ایسانہیں لگتا کہ پاکستان میں اس کا منفی اثر پڑے گا۔ ؟

جواب: قطی نہیں، میں پاکستان کا مخالف نہیں۔ ہاں پاکستان کے پروپیگنڈے کے خلاف ہوں۔ پاکستان کے زیادہ تر ادباء و شعراء میرے دوست ہیں۔ اس لیے وہ ہمارے ’’دوسرا رخ‘‘ اور ہماری سوچ کو ضرور پسند کریں گے۔ میں صرف سچی بات کہنے کا حوصلہ دکھا رہا ہوں پاکستانی ادیب بھی ہندستان سے دوستی کے خواہاں ہیں، میں اور میرے جیسے ادیب بھی اس کے حق میں ہیں۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ دوستی کی شروعات ہوئی ہے و ویزا ا وغیرہ کا مسئلہ حل ہو جانا چاہئے — اس لیے کہ ایسی بندشیں بھی دل کے راستے حائل رہتی ہیں اور دونوں کو ملنے سے روکتی ہیں … اس لیے ’’دوسرا رخ‘‘ کے بارے میں یہ اطمینان کر لیں کہ یہ پاکستان کے خلاف نہیں ہے بلکہ پاکستانی پروپیگنڈے کے خلاف ہے۔ آپ آگے کی قسطوں میں زاہدہ حنا، ناصر بغدادی وغیرہ کی کہانیوں کی جھلک بھی دیکھ سکیں گے — ادیب کا کام ہی ہے حقیقت کو عوام کے سامنے لانا۔

سوال:  ’’دوسرا رخ‘‘ میں آپ کن کن لوگوں سے مدد لے رہیں ؟

جواب: میرے پاس پوری ٹیم ہے، رہ گئی صحافیوں سے انٹرویو کی بات تو اس کے لیے ایک ایڈوائزری پینل ہے جس سے صلاح و مشورہ کے بعد فیصلہ لیا جاتا ہے، جیسے جمنا داس اختر، کلدیپ نیر، پربھات جوشی اور بھی کئی لوگ ہیں۔ اخباری رپورٹس کے لیے ہندی کے مشہور صحافی اوم پیش اور اردو کے مشہور افسانہ نگار اور صحافی احمد صغیر۔

پہلی قسم کے مضامین کی مثال ایسی ہے جیسے ایک موضوع پر طویل مقالہ بھی لکھا جا سکتا ہے اوراسی موضوع پر دس منٹ میں ختم ہونے والی ریڈیائی تقریر بھی ہو سکتی ہے۔ جو مربوط ہوتی ہے لیکن اس میں سیر حاصل بحث کا سا انداز نہیں ہوتا۔ اردو میں دونوں قسم کے مضامین موجود ہیں۔ مگر ان کو کوئی نام الگ سے نہیں دیا گیا ہے۔ اردو میں اس طرح کی تحریر کو مضمون کہا جاتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مضمون نگاری کی ابتدا اب سے تقریباً ۴۵۰ برس پہلے فرانس میں ہوئی۔ جب مختلف خیالات، تجربات، تجزیوں کو ہلکے پھلکے انداز میں عام لوگوں کے پڑھنے کے لیے ترتیب دیا گیا۔ تو مشہور انگریزی مصنف بیکن نے ایسی تحریروں کو ’’افکارِ پریشاں ‘‘ کا نام دیا۔

نوجوان ہیں جو ’’دوسرا رخ‘‘ میں تعاون دے رہے ہیں اور دوسرے ذرائع بھی ہیں۔ انٹرنیٹ کی مدد بھی لیتا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ اس پروگرام کو اچھا سے اچھا بنایا جا سکے۔

سوال:  ’’دوسرا رخ‘‘ کے ذریعہ ہندستانی اور پاکستانی عوام کو آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ؟

جواب: دوستی، صرف دوستی، جس کے پیچھے کوئی غرض اور مفاد پوشیدہ نہ ہو۔ ’’دوسرا رخ‘‘ کے ذریعہ میں غلط فہمی کے اس سیاہ بادل کے ٹکڑے کو الگ کرنا چاہتا ہوں اوردوستی کی فضا قائم کرنا چاہتا ہوں — اس لیے شروعاتی پانچ چھ قسطوں میں مستقل اس دوستی کے سفر کو آگے بڑھایا ہے — خواہ وہ ہندستان کے عوام ہو یا پاکستان کے ؟ وہ نفرت نہیں بلکہ صرف اور صرف دوستی چاہتے ہیں۔ کاش کہ دل ملیں، سرحدیں کھلیں اور دونوں ملکوں کے درمیان پیار و محبت بڑھے، بس یہی میرا پیغام ہے۔

سوال:  ’’دوسرا رخ‘‘ کے علاوہ آپ اور کیا بنا رہے ہیں ؟

جواب: کئی پروگرام ہاتھ میں ہیں۔ ’’وہائٹ کالر‘‘ سوشل کمٹمنٹ‘ ٹیلی فرینڈ شپ، تلاش‘‘ وغیرہ تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔

— پندرہویں صدی اگست ۱۹۹۹

٭٭٭

 

 

 

 

اردو فکشن : سمت و رفتار

 

(اردو کے مشہور افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی اور اقبال جمیل سے ایک مختصر گفتگو)

 

 

                پروفیسر مشتاق احمد

 

سوال: ان دنوں ہندستان میں جو فکشن لکھا جا رہا ہے، کیا وہ تسلی بخش ہے ؟

جواب:        تسلی بخش؟ کہیں بھی نہیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ ہندستان میں اردو میں انگلیوں پر گنے جانے والے چند لوگ ہی ہیں، جن کی بمشکل سال، دو سال میں ایک یا دو کہانیاں، وہ بھی کمزور کہانیاں منظر عام پر آ جاتی ہیں۔ نئی نسل کا آنا، اردو فکشن میں کب کا رک چکا ہے۔ لے دے کر ابھی بھی کچھ پرانے لوگ ہی ہیں جو ڈھنگ کی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ نئے لوگوں میں سیاست زیادہ ہے۔ اور آپ بخوبی واقف ہیں کہ سیاست کبھی کسی کو بڑا فنکار نہیں بناتی۔

اقبال جمیل: میں آپ سے معذرت کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خیال میں آپ کا سوال کچھ نا مناسب سا ہے۔ تسلی بخش کس معنی میں ؟ کس کے لیے ؟ کس پیمانے سے ؟ میں کسی پر فیصلہ سنانے کا کیا حق رکھتا ہوں ؟ صرف اپنی ناقص رائے کا اظہار کر سکتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ جس زبان کو بولنے پڑھنے اور لکھنے والوں کو اکثریت کا شمار ملک کے سب سے پسماندہ اور کم تعلیم یافتہ طبقوں میں ہوتا ہے اس زبان کے فکشن لکھنے والوں کی اکثریت میں معیار کی تلاش گھوڑے کے آگے گاڑی لگانے جیسا ہو گا۔ اگر اردو اور اردو ادب کے خیر خواہ ہیں تو اردو والوں کے معاشی، سیاسی اور تعلیمی Environment پر دھیان دیں اور یہ بالکل سیاسی مسئلہ ہے۔

سوال: ابھی آپ نے ادبی سیاست کا ذکر کیا؟ تو آپ بتائیں گے، کس نوعیت کی سیاست؟

اقبال جمیل: ادب کی سیاست زیادہ خطرناک ہے۔

ذوقی: وہی عرض رہا ہوں۔ سن ۲۰۰۴ سے میں نے سمیناروں میں جانا بہت کم کر دیا۔ اب تو سن ۲۰۰۵ میں میں کسی بھی ادبی سمینار میں شامل نہیں ہوا۔ یہ سیاسی چہرے سرکس کے مسخرے ہوتے تو کوئی بات نہیں تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ ہم ادبی سیاسی چہرے شاطر اور خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ میں ان سب میں جارج ارویل کے بگ برادر کو دیکھ رہا ہوں۔ سوچتا ہوں۔ ہم کس عہد میں آ گئے ہیں۔ یہاں اچھا لکھنے کے لیے ریس نہیں ہے۔ ریس اچھا لکھنے کے لیے ہوتی تو مزہ آتا لیکن یہاں تو منٹوں میں خود کو شہرت کی بلندیوں پر دیکھنے کا نشہ ہے۔ جو بڑے عہدے پر ہے، وہی بڑا فنکار ہو گا، اس جھوٹ کو عام قاری پر مسلط کرنے کی ناجائز کوشش کی جا رہی ہے۔

اقبال جمیل: یہ صحیح ہے لیکن مجھے کہنے دیجئے۔ ہندستان میں اردو زبان اور ادب کا المیہ ہے کہ یہ باہر اور اندرونی دنوں طرح کی سیاست کے مارے ہوتے ہیں۔ باہر والے تقسیم ہند کے بعد سے اردو کو مسلمانوں کی زبان مان کر اس کا تقریباً گلا گھوٹ چکے ہیں۔ اور اندر والے اپنی ذاتی مادی اور نفسیاتی تسکین کے لیے اردو کی تعلیم اور ادبی بہبود کو سولی چڑھانے سے لمحہ بھرکے لیے نہیں ہچکتے۔ جس دن اردو کا کوئی کہانی کار اردو پڑھنے والوں (جن کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے ) اسے اپنی تھوڑی بھی پہچان بنا لیا ہے وہ اپنی اوقات کے مطابق یا تو ناخدا بن بیٹھتا ہے اور اپنا گروہ بنا لیتا ہے یا کسی کو اپنا ناخدا بنا کر اس کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے اور اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے حصول کی جدو جہد ہی نصب العین رہتا ہے۔ اردو کے مستقبل کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہانے کا سلسلہ صرف پبلک میٹنگوں اور سمیناروں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔

سوال:  آپ کی باتیں سر آنکھوں پر۔ کیا اس سے باہر امید کی کوئی کرن آپ کو نظر آتی ہے۔ ؟

ذوقی:  امید۔ ہارتے ہارتے۔ کہیں ایک Positive سا احساس رہ جاتا ہے۔ ایسا ہو گا۔ ایک دن یہ دنیا بدل جائے گی۔ اردو کا نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر ایسی کسی خوشگوار تبدیلی کی امید کیس یوٹوپیا سے زیادہ نہیں لگتی۔ کیونکہ یہاں خوش فہمیوں کے پل پر سوار ہیں۔ اور حیرت اسی بات پر ہوتی ہے کہ جیسے آپ کے پاس کچھ بھی نہیں ہے — آپ تہی دامن ہیں تو پھر یہ خوش فہمیاں کیسی؟ نئی نسل میں کچھ لوگ بہت آ رہے تھے۔ ہاں امید کے چراغ بالکل مدھم نہیں ہوئے ہیں عبدالصمد کے نئے ناول دھمک نے ایک نئی جوت جگائی ہے۔ دراصل اس ناول کو آزادی ’بابری مسجد‘ گودھرا سانحہ کے پر سپیکٹومیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بلیغ اشاریے ہیں۔ یہ ناول دو گز زمین سے بلا شک و شبہ آگے کا سفر ہے۔ پروفیسر جابر حسین نے ادبی ڈائری کی صورت میں فکشن میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ میرے جیسا آدمی جو دلت ورش، مسلم ورش اور استری مرش سے خوف کھاتا ہے، اس نے بھی پروفیسر جابر حسین کی ان کہانیوں کے آگے سر جھکایا۔ چھوٹی چھوٹی زندگیاں، چھوٹے چھوٹے خوبصورت اشارے۔ سلام بن رزاق، علی امام نقوی، اشرف، شوکت حیات، آپ فہرست سازی کرتے ہیں تو بمشکل چند نام انگلیوں پر آ کر ٹھہر جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ کہانیوں کے نام پر اردو قارئین کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی حال میں ناوک حمزہ پوری کا ایک خط غضنفر کے ناول کے بارے میں پڑھا خود میرا بھی یہی خیال ہے۔ زبان میں مکالمہ ہونا چاہئے، اس لیے کہ ہمارے درمیان زیادہ تر لوگ جو زبان لکھتے ہیں وہ سرے سے فکشن کی زبان ہے ہی نہیں۔ اب ایک نئی روایت اور شروع ہوئی — پیغام آفاقی اپنے مکان کو لے کر دلی سے ممبئی تک اپنے خرچ پر سے می نار کرتے رہتے ہیں۔ ان سے آپ بھیشم ساہنی کی موت پر بولنے کو کہیں گے تو وہ مکان کا ذکر اٹھا کر لے آئیں گے۔ مکان ایک کمزور سا ناول ہے جسے یار دوستوں نے پیغام کی محبت میں اچھال دیا۔ اب ان خوش فہمیوں سے باہر نکل کر آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ آپ سچائی کی بات کریں گے تو پھر آپ اکیلے رہ جائیں گے۔ تمام دوستوں سے آپ کے رشتے منقطع ہو جائیں گے۔ کیونکہ سچ کوئی بھی سننا نہیں چاہتا۔ جبکہ یہ سچ یقیناً ان کی بھلائی کے لیے بولا جا رہا ہے۔

اقبال جمیل: میرا خیال ہے کہ اردو کا مستقبل اگر آپ اردو کی روٹی کھا رہے ہیں مافیاؤں، گروہوں اورسیاست دانوں میں تلاش کریں گے تو بہت نا امیدی ہو گی۔ یہ بہت جلد اردو کو پوری طرح دفن کرنے کے بعد اس کا مزار بنا کر اس پر مجاور بن کر بیٹھ جائیں گے اور اردو سے جڑا نیا اور زیادہ منافع بخش پیشہ اپنا لیں گے۔ اردو کا مستقبل اردو کو آج کے تقاضوں کے مطابق ایک زندہ اور عوامی زبان بنانے کے عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جو عام آدمی کی تعلیمی، اقتصادی، اورسماجی ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ مگر آج کے زمینی حالات ان مقاصد کے حصول کے لیے کافی ناسازگار نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی زبان ایک تہذیب اور تمدن کی پیداوار ہوتی ہے اور اگر وہ ملک اورسماج کے بدلتے ہوئے حالات سے قدم نہ ملا سکے تو اسے مصنوعی طور سے زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔ اردو کی امیدیں صرف اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر کسی لائحہ عمل کی تشکیل سے جڑی ہوئی ہیں۔

سوال:  اچھا یہ بتائیے ان دنوں آپ نے جو کچھ پڑھا، اس میں آپ کو کچھ تو اچھا لگا ہو گا یا پسند آیا ہو گا۔ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے آپ Extremist ہیں لیکن اردو دنیا کے تمام لوگ یہ بھی قبول کرتے ہیں کہ آپ اپنے چھوٹوں کو بھی باقاعدہ پڑھتے رہتے ہیں۔ تو ان دو برسوں، پانچ برسوں میں آپ نے کچھ تو یقیناً پڑھا ہو گا۔

ذوقی:  اس طرح امتحان مت لیجئے۔ دنیا بھرکا ادب ذہن پر حاوی رہتا ہے۔ جو گندر پال نے متاثر کیا۔ کہانیوں کا دائرہ سمٹ سمٹ کر ایک ہی دائرے میں گھوم رہا ہے۔ سلام بھائی اور علی امام نقوی کا میں شروع سے مداح رہا ہوں۔ اشرف کی کئی کہانیاں مجھے بے چین کرتی ہیں۔ میں نے لکھا بھی ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ غلط طریقے سے استعمال نہ ہوں۔ اپنے آپ کو غلط طریقے سے ادب کا سو پر ماڈل بننے کے لیے پراجیکٹ نہ کریں۔ پرانے لوگوں میں ابھی شفیع جاوید کا ایک خوبصورت مجموعہ آیا ہے۔ کئی کہانیوں کے جملے نے مجھے متاثر کیا۔ شوکت حیات کی ایک کہانی مباحثہ پر پڑھی تو جو مجھے پسند آئی۔ علیم کا ناول اچھا تھا۔ کئی نام اس وقت یاد نہیں آ رہے ہیں۔ میں پڑھتاسب کو ہوں۔ میں دشمن کسی کو نہیں سمجھتا۔ چاہتا ہوں کوئی بھی آ کر اپنی کسی نئی کہانی سے مجھے خوش کر دے۔ کوئی اچھی چیز پڑھ لیتا ہوں تو بچوں کی طرح خوش ہو جاتا ہوں۔ اور ساری دنیا میں اس کا ڈنکا بھی پیٹتا رہتا ہوں۔ مگر بتائیے اچھی چیزیں کہاں لکھی جا رہی ہیں۔ صغیر رحمانی نے ایک ناول ہند میں لکھا۔ اردو میں نہیں آیا۔ ہندی میں نوٹس نہیں لیا گیا۔ اردو میں آتا تو ایک معرکہ کی چیز ہوتی۔ مشتاق احمد نوری کی کہانی لمبے قد والا بونا اور مچھر دانی شمائل احمد کی کئی کہانیاں۔ حسین الحق کی آتم کتھا لیکن یہ برسوں پرانی بات ہو گئی۔ اس کہانی کا مجھ پر آج تک اثر ہے۔

اقبال جمیل:۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے یہ سوال اٹھایا۔ میری باتوں سے یہ قطعی اندازہ نہ لگائیں کہ میں اردو سے نا امید ہوں۔ اردو میں اچھا فکشن لکھا جا رہا ہے۔ مگر پچھلے سالوں میں لکھے گئے فکشن کے تنقیدی جائزے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس معیار کا تعلق سیدھی طرح سے لکھنے والوں کی تعلیمی قابلیت اور فکری بلندیوں سے جڑا ہوا ہے — ذوقی نے جن لوگوں کے نام لیے وہ بلا شبہ اردو کے موجودہ دور کے اہم اور اور لگاتار لکھنے والے ہیں۔ مگر شاید جو بات وہ کہنے سے چوک گئے ہیں وہ میں جوڑنا چاہوں گا کہ ذوقی ہندستان میں اردو ادب کے وہ فکشن لکھنے والے ہیں جو سب سے زیادہ منظر عام پر رہے ہیں اور خوب رہے ہیں اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہندستان سے باہر شاید اردو والوں کا تعلیمی اور شعوری معیار زیادہ بہتر ہے خاص طور سے وہ لوگ جو برصغیر سے باہر بس گئے ہیں جن میں اشرف شاد اور مصطفی کریم یہاں پر قابل تذکرہ ہو سکتے ہیں۔

سوال: آخر میں اردو ادب کی اس سمت و رفتار کا تعین کرتے ہوئے ہم ایک بار پھر آپ سے چاہیں گے کہ کیا حقیقتاً امید کی کوئی کرن روشن نہیں۔ یا سمجھ لینا چاہئے کہ اردو ادب مر چکا ہے۔

ذوقی:  بالکل نہیں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ صورتحال افسوسناک ہے تو ایسا کہتے ہوئے خود مجھے بھی صدمہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، اسی اندھیرے سے میں اپنے ادب کا چراغ روشن کرنے میں مصروف ہوں۔ لینڈ اسکیپ کے گھوڑے سے پوکے مان کی دنیا اور پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی تک۔ شموئل، شوکت حیات، حسین الحق، مشتاق احمد نوری، اشرف، محسن۔ ممبئی کے کئی لوگ ہیں۔ ادھر شاعر میں انور قمر کی ایک اچھی کہانی پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ممبئی کی نئی نسل سامنے آئی ہے۔ ایم حسین، اشتیاق سعید، اور کئی اچھا لکھنے والے۔ ادھر ایک نام تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ رحمان عباس— کمال کا ناول لکھا۔ ممبئی میں ہنگامہ مچ گیا۔ مگر باقی اردو دنیا خاموش رہی۔ اور جہاں تک روشن مستقبل کا سوال ہے، اردو پرنٹ میڈیا سے گم ہو کر انٹرنیٹ کے آسمان پر چھا گئی ہے۔ فاروقی کی طرح اردو کو فارسی کے دائرے تک محدود مت رکھیے۔ اردو کو کھلا آسمان دیجئے اور یقیناً نئے دھماکے ہوں گے۔ ابھی ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں۔ طوفان ذرہ موسم بس گزرنے والا ہے۔ ہم پھر ایک روشن مستقبل کی ضمانت بن جائیں گے۔

اقبال جمیل: جناب جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ زبان اور ادب کی موت ثقافتوں اور تہذیبوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اردو ہماری تاریخ میں ایک ملی جلی، گنگا جمنی تہذیب کی دین ہے۔ جہاں پر آپسی میل جول، ثقافتی لین دین اور عوامی تال میل بغیر کسی روک ٹوک کے ہے۔ مگر بدقسمتی سے پچھلی نصف صدی سے زیادہ عرصے سے یہ قدریں لگاتار سکڑتی جا رہی ہیں اور افراد میں ذہنی کشادگی اورسماج میں آپسی برداشت کا مادہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ مثالیں بر صغیر کے تعلق سے ہر روز اخبارات میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک سیکولر اور مہذب سماج جو مختلف ثقافتی اور تہذیبی دھاروں، برابری اور باہمی عزت کو یک جا کر سکے، اردو کی بقا کی پہلی شرط ہے۔

ادب عالیہ۔ پاکستانی رسالہ۔ ۲۰۰۰

٭٭٭

 

 

 

معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی سے ایک خصوصی ملاقات

 

                خوشتر نورانی علیگ

 

 

سوال: سب سے پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ نے ناول نگاری کا آغاز کب سے کیا؟

جواب: ناول نگاری کا آغاز میں نے سترہ سال کی عمر سے کیا، میرا پہلا ناول تھا ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ جس کو میں نے صرف ۱۷ سال کی عمر میں مکمل کیا، بچپن سے ہی میرے دل و دماغ میں ایک بات داخل ہو چکی تھی کہ مجھے کہانیاں لکھنا ہے، کہانیاں چونکہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو پیش کرتی ہیں، مگر ناول کا جو منظر نامہ ہے وہ بہت وسیع ہے، ناول میں ایک پوری رقص کرتی ہوئی زندگی کو ہم دکھا سکتے ہیں، اس لیے ناول لکھنا کسی بھی اچھے کہانی کار کے لیے سب سے مشکل کام ہے۔ تو بچپن سے میرے ساتھ یہ بات رہی کہ اگر مجھے ایک پوری زندگی کو دکھانا ہے، زندگی کے فلسفے کو قید کرنا ہے، تو مجھے ناول نگاری کی طرف رخ کرنا ہو گا، ان ہی افکار کے ساتھ میں ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوا اور مجھے اس میں بہت کامیابیاں ملیں۔

سوال:  آپ ماضی و حال کے کن اچھے قلم کاروں سے متاثر ہیں ؟ کیا آپ نے اپنے اسلوب میں ان میں سے کسی کی تقلید بھی کی ہے ؟

جواب: جہاں تک ماضی کی بات ہے تو داستانوں سے ہی اردو فکشن وجود میں آیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ آج کی جو نسل سامنے آ رہی ہے، اس نے الف لیلیٰ پڑھا ہے اور نہ داستان امیر حمزہ، حالانکہ ان داستانوں کے بغیر تو انگریزی ادب بھی وجود میں نہیں آیا، مغربی لٹریچر پر ہمیشہ ان کتابوں کا اثر رہا ہے، اب رہی بات ہم لوگوں کی تو مجھے لگتا ہے کہ جب ۱۹۰۰ کے آس پاس ادب شروع ہوا اور اس زمانے میں جو کہانیاں لکھی گئیں ان کے اثرات آج بھی باقی ہیں جب کہ ہماری کہانیوں نے سوسال کا ایک لمبا سفر طے کر لیا ہے، لیکن خوشتر صاحب! اس حوالے سے میں ایک خاص بات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو بہت ضروری ہے، مجھے لگتا ہے کہ ہماری کہانیاں آج بھی منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی یا بیدی سے آگے نہیں بڑھ سکیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ چوراہے پر چار بتوں کو نصب کر دیتے ہیں اوراس کے آگے نہیں دیکھتے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ بعد میں پیش آنے والے ادب کے ساتھ نا انصافی ہے — ان کے بعد کیا لکھا گیا؟ قرۃ العین حیدر کا ادب سامنے آتا ہے، انتظار حسین کا ادب سامنے آتا ہے مگر اس کے بعد خاموشی رہ جاتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس کے بعد کوئی ادب ہی سامنے نہیں آیا۔ حالانکہ یہ سچ نہیں ہے، ادب سامنے آ رہا ہے اور اردو زبان زندہ ہے۔

ایڈیٹر:  مگر میرا سوال اب تک تشنہ ہے، میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی تحریروں میں کسی کی تقلید کی ہے یا خود اپنا ایک اسلوب بنایا ہے ؟

ذوقی صاحب: دیکھئے ! میں نے شروع سے کوشش کی کہ میں اپنا ایک الگ اسلوب بنا سکوں، جب میں نے کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا تھا، اس وقت میر اسلوب کچھ اور تھا، مجھ پر مغرب کے کچھ فنکاروں کا اثر تھا اور روسی فنکار میرے آئیڈیل تھے، میری شروعات کے ناولوں میں روسی فنکاروں کا اثر رہا لیکن آہستہ آہستہ ان اثرات سے باہر نکل آیا، اس کے بعد خود اپنا راستہ تلاش کیا— اپنی کہانیوں کا ایک الگ بنیادی ڈھانچہ تیار کیا—  مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنا ایک الگ اسلوب بنایا ہے، اس کی وجہ یہ رہی کہ جب میں نے سوچنا شروع کیا اور جن ناولوں کی بنیاد رکھی اور وہ ہندستانی زمین اور ہندستانی مسلمانوں پر رکھی، میں نے جب آزادی کے بعد اپنا تخلیقی سفر شروع کیا تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اس ملک میں مسلمان جس ماحول میں زندگی گزار رہا ہے، مسلمان جن ماحول میں پرورش پا رہا ہے یا مسلمان جو ڈر ڈر کے جی رہا ہے، ایسے میں ان کی حمایت میں آواز بلند کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ بتائیے کہ اپنے ہی ملک میں بار بار اسے کہا جا رہا تھا کہ تم غدار ہو، اس لیے میں نے ہندستانی مسلمانوں کی آواز کو اپنی ناولوں میں شامل کیا۔

سوال:  آپ کی کہانیوں اور ناولوں کے موضوعات کیا رہے ہیں ؟

جواب: میری تمام تر کہانیوں اور ناولوں کے موضوعات شروع میں بہت محدود تھے، لیکن بعد میں ان کے اندر وسعت آتی چلی گئی، جیسے آزادی، غلامی، آزادی کے بعد فرقہ وارانہ فسادات اور آزادی کے ۵۸ برسوں میں جو کچھ مسلمانوں پر گزری، یہ میری کہانیوں کے موضوعات ہوا کرتے تھے، میری ایک کہانی بابری مسجد المیہ پر تھی، اس کے بعد میرا ایک اور ناول ہے، جس کا نام ہے ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ جس میں میں نے دکھانے کی کوشش کی تھی کہ اس ملک میں کس طرح سے مسلمانوں کو اقلیت کہہ دیا جاتا ہے، ایک بہت بڑی آبادی جس کو دوسری بڑی اکثریت کہنا چاہئے تھا، لیکن ہوا یوں کہ ہمارے علماء اور دانشوروں نے بھی پتہ نہیں کس دباؤ میں مسلمانوں کو بار بار اقلیت کہا، جس کی وجہ سے ایک بڑی قوم کے پھلنے پھولنے کے مواقع میسر نہیں آ سکے، مسلمانوں کو اگر آج بھی ہم دوسری بڑی اکثریت کے طور پر منوا لیں، دوسری بڑی اکثریت کہنا شروع کر دیں تو مجھے لگتا ہے کہ مسلمانوں کے حق میں یہ بہت بڑی جیت ہو گی اور ہمیں اپنا راستہ تلاش کرنے میں آسانی ہو گی۔

ایڈیٹر:  مگر یہ تو تعبیر کا فرق ہے، آپ مسلمانوں کو ہندوؤں کے مقابلے میں اقلیت کہہ سکتے ہیں اور ہندوؤں کے بعد مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے انہیں دوسری بڑی اکثریت بھی کہہ سکتے ہیں، کیا تعبیر کے فرق سے ان کی مشکلات کم ہو سکیں گی۔

ذوقی صاحب: تعبیر کے فرق اور لفظوں کی تبدیلی سے بہت فرق آتا ہے، میں اس کی مثال ایک حکایت سے دینا چاہتا ہوں کہ ایک بادشاہ کے دربار میں بیک وقت دو فقیر آتے ہیں، ایک فقیر صدا لگاتا ہے کہ اے بادشاہ! تو اچھا کرتا کہ تجھے پھل ملے، دوسرا فقیر کہتا ہے کہ تو برا مت کرتا کہ تجھے خراب پھل نہ ملے، بادشاہ پہلے فقیر کو دس دینار دیتا ہے اوردوسرے کو پانچ دینار دیتا ہے، جب فقیر چلے جاتے ہیں تو وزیر بادشاہ سے پوچھتا ہے کہ اے بادشاہ سلامت! بات تو دونوں کی ایک تھی لیکن آپ نے پہلے فقیر کو دس دینار اور دوسرے کو پانچ دینار دیے، یہ نا انصافی کیوں ؟ تب بادشاہ مسکرا کر گویا ہوتا ہے کہ تم نے ایک بات محسوس نہیں کی، بات دونوں کی ایک ہی تھی لیکن پہلے فقیر نے اچھائی کا سہارا لے کر اور دوسرے نے برائی کا سہارا لے کر پیش کی، اس لیے میں نے بھی مسلمانوں کے لیے لفظ اقلیت کے خلاف آواز اٹھائی، کیوں کہ جیسے ہی ہم لفظ اقلیت بولتے ہیں، ہم کمزور ہو جاتے ہیں اور سننے والا بھی ہمیں کمزور سمجھتا ہے، لیکن جب ہم اسی کو بدل کر دوسری بڑی اکثریت کہتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ مسلمان بھی ایک طاقت ور قوم کی شکل میں یہاں موجود ہے۔

سوال:  اردو کی بقا کے تعلق سے آج متضاد آراء سامنے آ رہی ہیں، ایسے میں آپ اردو کا مستقبل کیسا پاتے ہیں ؟

جواب: دیکھئے ! میں اردو کا مستقبل بہت تابناک سمجھتا ہوں، مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ اردو کا مستقبل اندھیرے میں ہے یا اردو ختم ہوتی جا رہی ہے، ظاہر ہے کہ آزادی کے بعد روزی روٹی سے کاٹ دیے جانے کے بعد بھی یہ بھی زبان زندہ رہی تو یہ اردو کی مضبوطی اور شیرینی کا اثر ہے اور چونکہ اردو ہمیشہ عوام کی زبان رہی اس لیے یہ آج بھی زندہ ہے۔ اب یہ کہ کچھ باتوں سے اردو کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے — جیسے اردو خوبصورت زبان ہے، اردو بہت شیریں زبان ہے، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اردو بہت خوبصورت ہے، حسین ہے، پیاری ہے تو ہم اسے ایک حجرے میں بند کر دیتے ہیں، اب آج کے ماحول میں اسے زمین پر لانے کی ضرورت ہے، دوسری بات جو کافی توجہ طلب ہے کہ اردو کا سرمایہ دھیرے دھیرے ختم ہوتا چلا جا رہا ہے، ہمارے یہاں ادب میں نئی نسل کا آنا رک گیا ہے، اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، نئی نسل کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آج ادب سے جڑے ہوئے ہیں ان کی عمریں چالیس سے گزر چکی ہیں اور نئی نسلیں بالکل اس طرف نہیں آ رہی ہیں، اسی طرح شاعری کی حالت بھی ہے، شاعری کے تعلق سے پہلے ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ آپ ایک پتھر پھینکیں تو وہ کسی شاعر کے یہاں گرے گا لیکن اب یہ معاملہ بھی بالکل ختم ہو گیا ہے، کیونکہ وہ ماحول نہیں رہا، نہ گھروں میں وہ ماحول رہا اور نہ سماج میں۔

سوال:  اردو کی بقا کے لیے کچھ آپ کی تجاویز؟ اگر ہو تو اختصار سے بیان فرمائیں ؟

جواب: ہمارا سارا زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ کسی طرح اردو نہ صرف زمین سے وابستہ ہو بلکہ ایک ایسی عملی زبان بھی بن جائے، جس کے بغیر آگے سفر طے کرنا آسان نہ ہو اور جب تک ہم اردو کو عملی زبان نہیں بنائیں گے اردو کے راستے میں رکاوٹیں آتی رہیں گی لیکن ان سب کے باوجود میرا ماننا یہ ہے کہ اردو کا مستقبل تابناک ہے، اب ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے پاس اچھے اخبارات کیسے ہوں، جب تک انگریزی اخبارات کی طرح ہمارے پاس اخبارات نہیں ہوں گے، جب تک انڈیا ٹوڈے اور آؤٹ لک جیسی میگزین ہمارے پاس نہیں ہوں گی اور جب تک اچھی سائنسی اور سماجی میگزین ہمارے پاس نہیں ہے، اردو کے فروغ میں دشواریاں پیدا ہوں گی۔

سوال:  عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اردو کے فروغ کا نعرہ لگانے والوں کے گھروں کی حالت خود اردو کے حوالے سے بڑی ابتر ہوتی ہے، وہ نہ اپنے بچوں کو اردو پڑھاتے ہیں اور نہ انہیں اردو کا کوئی ماحول دیتے ہیں، میرا خیال ہے کہ یہ رویہ اردو کے ساتھ بہت منافقانہ ہے، آپ کی کیا رائے ہے ؟

جواب: یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے، آپ اگر یاد کریں تو جس وقت عصمت چغتائی نے اردو کے رسم الخط کی تبدیلی کی بات کی تھی تو یہی مالک رام تھے جو ان کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے، جن کے بعد ان کے گھر میں کوئی اردو جاننے والا نہیں رہا، خود عصمت چغتائی کے بچے اردو نہیں جانتے ہیں، لیکن آپ عصمت چغتائی اور مالک رام کی بات چھوڑ دیجئے آج ہمارے بچے بھی اردو نہیں پڑھنا چاہتے، لیکن اگر ہمارے بچے اردو نہیں پڑھنا چاہتے ہیں تو ہماری ذمہ داری کیا ہے ؟ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اردو کی طرف لائیں، اس کے لیے ہمیں منصوبے بنانے ہوں گے، اگر ہم اردو کے حوالے سے ان کے مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کر پاتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری بہت بڑی غلطی ہو گی۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ اردو کی بقا کے لیے کون سا قدم صحیح ہو گا، اس لیے میرا خیال ہے کہ ہمیں اردو کو روزی روٹی سے جوڑنے کی ضرورت ہے، اب دیکھئے اگر آپ ہندی جانتے ہیں اور کہانیاں لکھتے ہیں تو آپ کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اردو اگر آپ جانتے ہیں اور یہ کام کرتے ہیں تو آپ کو کچھ نہیں ملتا، جب تک یہ صورتحال باقی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ اردو کی طرف ہمارے بچے مائل ہو سکیں گے۔

اب آپ دیکھیں کہ آج الیکٹرانک میڈیا کسی بھی نظریہ یا تحریک کی اشاعت کے لیے آج بہت بڑا اور وسیع ذریعہ ہو گیا ہے، آج بچے بڑی تیزی کے ساتھ اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں، اگر ہمارے پاس بھی اردو کے بہت سے چینل ہو جائیں تو زبان اور مذہب دونوں کو بڑی تیزی سے فروغ ملے گا، ہمارے پاس آج کیو ٹی وی ہے، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمیں کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں، ہمارے دو چینل اور بھی آ رہے ہیں، ایک الکتاب، اور دوسر پیس (امن) اس طرح کے اور چینل ہمارے پاس ہو جائیں تو زبان و ادب کو بہت فروغ ملے گا، کیوں کہ ان کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا اور بالواسطہ لسانی اور مذہبی کام بھی ہو گا۔

سوال:  کہا جاتا ہے کہ اس مصروف زندگی میں لوگوں کے پاس لمبی کہانیاں اور ناول پڑھنے کا وقت نہیں رہا، اب لوگ چھوٹے چھوٹے افسانے پڑھ کر اپنے ذوق کو تسکین فراہم کر رہے ہیں، ایسے میں آپ عہد حاضر کے ایک نمائندہ ناول نگار ہونے کی حیثیت سے ناول کی مقبولیت کو کس حال میں پاتے ہیں ؟

جواب: دیکھئے ! چند ہی لوگ ہوں گے لیکن ناول پڑھا جائے گا، ہندستان میں الیکٹرانک میڈیا کی یلغار تو اب ہوئی ہے، جب امریکہ میں الیکٹرانک میڈیا کی یلغار ہوئی تھی— ۲۴ گھنٹے چینل شروع ہو گئے تھے، اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ اب ناول کون پڑھے گا؟ لمبی کہانیاں کون پڑھے گا؟ لیکن پھر یہ باتیں دھیرے دھیرے ختم ہو گئیں اور لوگ کہانیوں اور ناولوں کی طرف لوٹ آئے، ہندستان میں الیکٹرانک میڈیا کی یلغار پچھلے دس برسوں میں ہوئی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس بیچ ناول پڑھنے کا رجحان ختم ہو گیا ہے، ہاں یہ صحیح ہے کہ ادب سمٹ کر رہ گیا ہے، جو لکھنے والے ہیں وہی پڑھنے والے ہیں۔

سوال:  اردو کے فروغ میں مدارس اسلامیہ نے ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں، مگر افسوس کہ اردو کے مخصوص ٹھیکیدار انہیں مسلسل نظر انداز کرتے آ رہے ہیں، اس تعلقات سے آپ کیا رائے ہے ؟

جواب: مدارس کا رول بہت اہم ہے مگر ہم نے انہیں مسلسل نظر انداز کیا ہے — اردو کے فروغ کا درد لیے جو لوگ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں انہوں نے ہمیشہ اپنے تحفظات اور مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کیے لیکن مدارس جنہوں نے اردو کے فروغ میں عملی کام کیا اور کر رہے ہیں نہ تو ان کا اعتراف کیا اور نہ ان کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا، اردو کے ٹھیکیدار آزادی کے بعد اردو کے فروغ کے حوالے سے مختلف سوالات اٹھاتے رہے ہیں اور ایک دوسرے کی پذیرائی بھی کرتے رہے ہیں مگر مدارس کو اس حوالے سے کبھی نہیں پوچھا گیا کہ ان کی اپنی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ اس تعلق سے مدارس کے ساتھ سخت نا انصافی ہوئی ہے، میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔

سوال:  آپ کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ آپ مذہبی ادب کو کوئی حیثیت ہی نہیں دیتے ہیں، آخر ایسا کیوں ؟ کیا آپ اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ مذہبی ادب خصوصاً صوفیانہ ادب رواداری اور عدم تشدد کا درس دیتا ہے، کیا اس کی اہمیت و افادیت میں کسی کو شبہ ہو سکتا ہے ؟

جواب: جب ہم لکھنا چاہتے ہیں، جب ہم لکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور جب ہم پر ایک ادیب ہونے کی ذمہ داری ہوتی ہے تو ہم مذہب سے الگ ہو جاتے ہیں — قلم ہندو یا مسلمان نہیں ہوتا— اس وقت قلم کو تمام دائروں سے الگ ہو کر سوچنا پڑتا ہے اس لیے ہندو ادب یا اسلامی ادب، میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا، ایسا نہیں کہ میں اسلامی کتابیں نہیں پڑھتا— احیاء العلوم ہو، غنیۃ الطالبین ہو سبع سنابل ہو، میں سب کو پڑھتا ہوں، مجھے اگر ان پر لکھنے کی ضرورت پیش آئے گی تو میں لکھوں گا بھی، لیکن میں ان کو ادب تسلیم نہیں کروں گا، یہ محض اسلامی معلومات پر مشتمل کتابیں ہیں، آپ انہیں پڑھیں، آپ کو ان سے اسلام کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

ایڈیٹر:  لیکن ایسا کیوں ؟

ذوقی صاحب: کیو نکہ ادب نہ تو اصلاح ہوتا ہے اور نہ ہی تعمیری ہوتا ہے، بلکہ ادب صرف ادب ہوتا ہے، اگر آزادی کے بعد ان ۵۸ برسوں میں مسلمانوں کا مسئلہ نہ ہوتا بلکہ ہندوؤں کا ہوتا تب بھی ہم لکھتے، یہاں ایک مغربی ادیب کی مجھے اچھی بات یاد آ رہی ہے کہ ’’مٹی کا ایک ٹکڑا بھی سمندر بہا کر لے جاتا ہے تو دھرتی کم ہو جاتی ہے، اسی طرح ایک آدمی بھی مرتا ہے تو انسانی برادری میں کمی آ جاتی ہے ‘‘ ایک بھی آدمی، یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ ایک بھی مسلمان آدمی، اسی طرح جب ہم ادب لکھنے بیٹھتے ہیں تو مذہب سے الگ ہو کر لکھتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مذہبی نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک مسلمان نہیں ہیں، قلم کا اپنا فریضہ ہے، اس کی اپنی ذمہ داری ہے اور قلم کی اپنی ضرورت ہے، اس کومحسوس کرتے ہوئے ہم لکھتے ہیں۔

ایڈیٹر:  مذہبی کتابوں کو بطور ادب تسلیم کرنا الگ بات ہے اور ان کو اہمیت نہ دینا الگ مسئلہ ہے، اس لیے دونوں میں آپ کو فرق کرنا پڑے گا۔

ذوقی صاحب: مجھے لگتا ہے کہ مسلمان ہونا اور ادیب ہونا دو الگ چیزیں ہیں، میں شروع سے کہتا آ رہا ہوں کہ میرا ادب اسلامی ادب نہیں ہے اور یہ بات صرف مشرف عالم ذوقی نہیں کہہ رہا ہے بلکہ ہر ادیب کہتا ہے کہ کوئی بھی ایسا ادب جو اپنے ساتھ مذہب، اس کی رواداری، تعلیمات یا اصلاحی پہلوؤں کو لے کر اپنے ساتھ آتا ہو، ایسے کسی بھی ادب کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

ایڈیٹر:  آپ کی ان ہی باتوں کو لے کر کئی ایک رسالوں نے ہنگامہ کیا اور خوب لکھا، اس میں سچائی کیا ہے ؟

ذوقی صاحب: جی ہاں، مجھے ان رسائل نے سمجھا نہیں اور مجھ پر کئی طرح کے الزامات لگائے، مگر مجھے کبھی ان سے ڈر نہیں محسوس ہوا— افکار ملی میں تو مجھ پر ایک سال تک بحث ہوتی رہی— ایک میگزین ہے اردو بک ریویو، اس میں میں نے ایک بار کہا تھا ’’آپ مجھ پر جو اسلامی کتابیں Impose کرنا کیوں چاہتے ہیں ان کو میں پڑھنا نہیں چاہتا‘‘ اس پر کافی ہنگامہ ہوا، اس پر میں نے کہا کہ ہاں میں اسلامی کتابیں پڑھنا چاہتا ہوں، لیکن میں دوزخ کا کھٹکا اور بہشتی زیور جیسی کتابیں نہیں پڑھنا چاہتا، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ان سے مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی نہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ انہیں اور پیچھے لے کر جا رہی ہیں، جب ہمارے پاس مستند کتابیں موجود ہیں جیسے میں مثنوی مولانا روم اور احیاء العلوم جیسی کتابوں کو پڑھتا ہوں تو میری آنکھیں کھلتی ہیں، تو پھر میں ان غیر مستند کتابوں کو کیوں پڑھوں ؟

ہمارے یہاں بعض علماء نے اسلام کا دائرہ بہت تنگ کر دیا ہے حالانکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے، اس لیے بھی میں نے کہا تھا کہ ایسی اسلامی کتابوں کو آپ کو کیوں مجھ پر Impose کرنا چاہتے ہیں جو میں نہیں پڑھنا چاہتا اور اردو بک ریویو میں زیادہ تر تبصرے ایسی ہی کتابوں پر ہوتے ہیں جنہیں میں پڑھنا نہیں چاہتا— میں نے ان کتابوں کو پڑھنے کی کوشش کیں لیکن پڑھ نہ سکا اور میں نے بند کر دیا، ایسی کتابیں اسلام کو بہت پیچھے لے جا رہی ہیں۔

اب آپ دیکھئے فتویٰ آتا ہے کہ ’’عورتیں الیکشن لڑ سکتی ہیں مگر برقعہ پہن کر۔ ‘‘ کیا برقعہ پہن کر بھی کوئی عورت الیکشن لڑ سکتی ہے ؟ ہم اسلام کو کہاں لے کر جا رہے ہیں ؟ دیوبند کی فتویٰ بازی نے اسلام کو مشکوک اور تنگ نظر بنا دیا ہے، دیوبند ایک فتویٰ دیتا ہے اوراس کو دوسرے علماء رد کر دیتے ہیں، ایسے میں دنیا اور میڈیا کے سامنے اسلامی نظریات کا مذاق اڑایا جاتا ہے، حالانکہ اسلام کا کینوس بہت وسیع ہے، جہاں زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسئلے میں بھی رہنمائی کی گئی ہے۔

سوال:  عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان اقتصادی، سیاسی، سماجی، ادبی اور تعلیمی طور پر ترقی کر جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے مذہب کو چھوڑتا ہے، جب کہ دوسری قوموں کے افراد زندگی کے مختلف شعبوں میں جتنا آگے بڑھتے ہیں اپنے مذہب کی طرف وہ زیادہ مائل ہوتے ہیں، آخر یہ فرق کیوں ؟

جواب: دیکھئے ! مجھے لگتا ہے کہ اس بات سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے، ہم نے یہاں مختلف لوگوں کو دیکھا ہے یہاں تک کہ ترقی پسندوں کو بھی دیکھا، ایک خاص وقت آتا ہے جب وہ پنچ وقتہ نمازی ہو جاتے ہیں مگر ہمارے یہاں زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے — ہم جس ماحول میں آنکھ کھولتے ہیں اور جی رہے ہوتے ہیں وہاں آپ اسلام کو کسی پر زبردستی تھوپ نہیں سکتے۔ ہمارے یہاں موڈرن عورتیں کچھ بھی پہن کر باہر نکل جاتی ہیں، مگر اسلامی ممالک میں بالعموم ایسا نہیں ہے، ہندستان کا ماحول مختلف ہے اس کو آپ سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آزادی کے بعد جو فضا ہمارے یہاں تھی، اس فضا نے غیر محسوس طریقے سے مسلمانوں پر اپنا ایک دباؤ اور عام مسلمان جو مذہب سے بہت قریب نہیں ہیں انہیں ایک لچیلا Flexible اسلام کو اپنانے پر مجبور کیا اور اکثریتی طبقے کے ساتھ تہذیبی و نسلی اختلاط نے اسے مزید فروغ دیا، اس لیے ترقی پسند مسلمان اور ہمارے ترقی پسند بچے اپنے مذہب کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، مگر مجھے پورا یقین ہے کہ وہ ایک دن لوٹ کر اپنے مذہب کی طرف آئیں گے کیونکہ وہ سچا ہے اور روحانی سکون کا ذریعہ بھی۔ اس تناظر میں میں یہاں ایک بات اور کہنا چاہوں گا، مجھے لگتا ہے کہ بابری مسجد اور گجرات کے سانحے کے بعد بہت تیزی سے مسلمانوں کا ہر طبقہ اپنے مذہب کی طرف لوٹ رہا ہے اور بچے بھی اپنے مذہب کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سوال: ماہنامہ جام نور کے لیے آپ کا کوئی پیغام؟

جواب: مجھے بہت دنوں کے بعد ایک ایسا رسالہ جام نور کی شکل میں نظر آیا، جو مذہبی تعلیمات کو عصری پس منظر میں سمجھانے کا ہنر جانتا ہے، اس نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ایسے ایسے مباحث اٹھائے ہیں جن کے بارے میں مذہبی رسائل و جرائد سوچ بھی نہیں سکتے تھے، یہ رسالہ مذہبی اور معاشرتی سطح پر ہندستان میں ایک انقلاب بن کر آیا ہے اور ہم جیسے لوگوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، اگر یہ یونہی ذہن سازی کرتا رہا تو مذہبی صحافت کی تاریخ کا ایک نہ بھولنے والا باب ہو گا۔

جامِ نور۔ نومبر ۲۰۰۵

٭٭٭

 

 

 

پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامیکے بہانے

مشرف عالم ذوقی سے ایک مختصر گفتگو

 

 

                رحمان شاہی

 

سوال:  میرا پہلا سوال، آپ نے اب تک کتنے ناول لکھے ؟

٭     ’ ’عقاب کی آنکھیں ‘‘ میرا پہلا ناول تھا، جو میں نے محض سترہ سال کی عمر میں لکھا۔ بیس سال کی عمر تک میں ’’لمحۂ آئندہ‘‘ اور ’’نیلام گھر‘‘ لکھ چکا تھا۔ اس کے علاوہ ’’شہر چپ ہے ‘‘ ، ’’ذبح‘‘ ، ’’بیان‘‘ ، ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ ، ’’مسلمان‘‘ ، ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔

سوال: سارے مطبوعہ ہیں ؟

٭     ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ سن 2006 میں منظر عام پر آ جائے گا۔ ’’اردو‘‘ لکھ رہا ہوں۔ سب سازندے ابھی غیر مطبوعہ ناول کی فہرست میں ہے۔

سوال:  آپ کا سب سے اچھا ناول آپ کی نظر میں ؟

٭     ’’سب سازندے ‘‘ ___ یہ ہندستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے۔ ممکن ہے، میں ڈاکٹر محمد حسن کی اس بات کو سچ کر دکھاؤں کہ اُردو میں اگر کوئی تالستائے ہے تو وہ آپ ہیں اور آپ ہی مسلمانوں کو لے کر ’’وار اینڈ پیس‘‘ جیسا شاہکار دے سکتے ہیں۔

سوال:  قاری کی نظر میں ؟

٭     قاری کی نظر میں جس ناول کو سب سے زیادہ مقبولیت ملی، وہ ’’بیان‘‘ ہے۔

سوال:  کس ناول کا سب سے زیادہ Response ملا؟

٭     ’’بیان‘‘ ، ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ کا ریسپانس سب سے زیادہ ملا۔

سوال:  پروفیسر ایس کی عجیب داستان… کی تخلیق کے پیچھے آپ کے تخلیقی محرکات کیا تھے ؟

٭     تخلیقی محرکات ___ سچ تو یہ ہے کہ میں ایک لمبے عرصے سے اِس ناول پر غور کر رہا تھا، مگر مجھے ناول کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لینے کے لئے کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ راستہ اچانک ملا۔ 26؍دسمبر2004 سونامی کے حملے نے جیسے ناول کا مکمل تانا بانا بُن لیا۔ دراصل بہت پہلے ہرمن ہیسسے کا ناول ’’ڈیمیان‘‘ پڑھتے ہوئے میں ’’سپرمین‘‘ سے انسپائر ہوا تھا۔ برنارڈشا کے یہاں بھی جا بہ بجا اس سوپرمین کے اشارے ملتے ہیں۔ ہرمن ہیسسے کا خیال تھا کہ ہم میں سے ہر شخص کی زندگی اُس راستے کی نمائندگی کرتی ہے جو خود اس کی طرف جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ میں مکمل نہیں ہے۔ پھر بھی وہ اپنے مکمل ہونے کا بھرم پال لیتا ہے۔ پھر اِس بھرم کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا رہتا ہے۔ یہیں سے میں نے Altra۔ humanکا Concept لیا ___ دراصل آج کا سب سے بڑا ہیرو موسم ہے۔ ہم سب خوفناک یا پھر کسی حد تک خوشگوار تبدیلیوں سے گھر گئے ہیں۔ میں ’موسم‘ کو ہیرو کی طرح پیش کرنا چاہتا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارا سسٹم کرپٹ ہو چکا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی عام آدمیوں کو کمزور اور بیکار کرتی جا رہی ہے۔ ایک معمولی روبوٹ عام انسان پر بھارتی پڑتا ہے۔ انٹرنیٹ، سائبر کرائم سے لے کر جینوم اور کلوننگ پروسیس تک آنکھ کھول کر دیکھئے ___انسان اپنی ایجادوں کی روشنی میں اگر فاتح ہے تو وہیں وہ ہارا ہوا بھی ہے۔ وہ اپنے جیسے کلون بناتا ہے اور آئن اسٹائن سے لے کر اب تک کے سائنسداں اِس پر بھی مغز ماری کرتے ہیں کہ خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خدا کے کاموں میں دخل نہیں دیا جا سکتا۔ اسی لئے کلوننگ پروسیس کو ابھی تک انٹرنیشنل قانون نے عام انسانوں کے لئے Approve نہیں کیا ہے۔ حال میں ہنگامہ ہوا کہ برین ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے، پچاس یا سو سال کے بعد کوئی بھی نہیں مرے گا۔ نئی دنیا کا ایک بھیانک تصور اِن سب سے الگ میزائل اور ایٹم بم بنا لینے کے راستوں سے بھی گزرتا ہے۔ امریکہ جیسے ملک اس بات سے بھی ڈر رہے ہیں کہ آج چھوٹے چھوٹے ملکوں نے بھی نیوکلیائی، ایٹم بم اور دوسرے نیوکلیائی ہتھیار تیار کر لئے ہیں۔ کہتے ہیں آج عدم تحفظ کی فضا کو لے کر امریکی پریشان ہیں۔ ایک مثال اور دیکھئے غیر معمولی طور پر امریکہ اور یوروپ کے ملکو ں میں صوفیانہ کلام مشہور ہو رہا ہے۔ امریکہ میں مولانا روم کا صوفیانہ سنگیت اِس قدر مشہور ہو رہا ہے کہ امریکی اِس موسیقی پر ناچ رہے ہیں۔ دراصل خدا واپس آ گیا ہے۔ ایک بار پھر خدا کے خوف نے گرجا گھروں میں لوگوں کی آمدورفت بڑھا دی ہے۔

’سونامی‘ لکھتے ہوئے میں بار بار ان حادثوں سے گزرا کیونکہ نئی الفی یا نئے ہزارا کی سب سے بڑی دریافت ہے خدا۔ خدا، جو واپس آ چکا ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے اور جو سب کچھ فنا کر سکتا ہے۔ اس لئے ہزارہا ترقی کے باوجود ایک لہر سونامی آتی ہے اور سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے۔ ایک معمولی سا زلزلے کا جھٹکا آتا ہے اور پاکستان کا ایک شہر مظفر آباد دیکھتے ہی دیکھتے مردہ انسانوں کا قبرستان بن جاتا ہے ___ سونامی کے بعد بھی قدرتی تباہی کے دروازے بند نہیں ہوئے ___ ریٹا، کیٹرینا، ویلومی ___ چینئی میں بارش کا عذاب، ممبئی میں بارش کا قہر ___ ’پروفیسر ایس‘ لکھتے ہوئے میں بار بار اسی خیال سے گزر رہا تھا، کہ ہمارا مکمل سسٹم اگر کرپٹ ہو گیا ہے تو اس میں ہماری تیز رفتار ترقی کو بھی دخل ہے ___ اس لئے کہ سوپر نیچرل پاور سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہ کرپشن زندگی کے ہر شعبے میں ہے ___ اسی لئے ابھی حال میں ایک امریکی صحافی نے صارفیت کے موضوع پر کتاب لکھتے ہوئے کہا کہ جدید دور کا خاتمہ ہو چکا ہے ___ ہم ایک بار پھر پرانے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور اس پرانے دور کا ہیرو، رئیل ہیرو ہو گا۔ خدا ___

قاعدے سے دیکھیں تو سونامی میں جا بجا میری اِس فکر کے اشارے ملتے ہیں۔ ایک طرف ہمارا Cultural Pollution ہے تو دوسری طرف Litterary Pollution۔ اور ان کے درمیان ہے۔ ہمارا الٹرا ہیومین یعنی پروفیسر صدر الدین پرویز قریشی۔ جو جذبات اور احساس کو خاطر میں نہیں لاتا۔ لیکن وقت کے دھارے میں یہی چیز اُس کو آہستہ آہستہ کھوکھلا اور کمزور کرتی چلی جاتی ہے۔ پھر وہ ایک بھیانک سائیکی کا شکار ہو جاتا ہے ___ غورسے دیکھیں تو اس ناول کا کینوس کافی بڑا ہے۔ ایک پوری دنیا میرے سامنے ننگی ہے۔ روس کا ٹوٹنا بکھرنا، مذہب کی طرف واپسی، زندگی کی جدوجہد، محبت، جنگ، بے وفائی اور مضبوطی کے تین مونولاگ۔ میں نے عصری شعور کے ساتھ اِس ناول کو آج کے عہد میں جینے کی کوشش کی ہے۔

سوال:  آپ کے گذشتہ ناولوں کے برعکس اس ناول میں کوئی اہم سیاسی وسماجی مدا نہیں اٹھایا گیا۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟

٭     تخلیقی محرکات پر ہونے والی گفتگو کے بعد اب آپ یہ نہیں کہیں گے کہ میں نے گذشتہ ناولوں کے برعکس اِس ناول میں کوئی اہم سیاسی اور سماجی مدّا نہیں اُٹھایا ہے۔ ’’پوکے مان‘‘ کی اگلی کڑی کے طور پر میں نے اِس بھیانک سوچ کو ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان‘‘ میں پیش کیا ہے۔ ہاں ! اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ ناول بہت غور سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی چیز ہے کیونکہ قدم قدم پر میں نے اِس ناول کو اِس وقت کی سب سے بڑی فکر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے سیاسی اور سماجی شعور کے بغیر میں قلم اُٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

سوال:  اس ناول کے کرداروں کے نام بعض ادبی شخصیات کے نام کا چربہ لگتے ہیں۔ یہ ناول کسی ادبی تنازعہ کا Result تو نہیں ؟

٭     میں جانتا تھا، اِس ناول کے تعلق سے یہ بات اُٹھے گی کہ یہ ناول کسی ادبی تنازعہ کا نتیجہ تو نہیں۔ ذرا غور کیجئے ادبی تنازعے کو اِس ناول میں کتنے صفحے ملے ہیں۔ ادبی پولیوشن کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ جب ادب بھی پولیوٹیڈ ہو چکا ہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اس لئے میں نے ادب کو بھی ’سونامی‘ کا شکار بنایا اور جب شکار بنایا تو ادب کے لٹیرے میری نظروں کے سامنے آ گئے۔ نام لینا ضروری نہیں سمجھتا۔ لیکن برسوں سے ادب کی لوٹ جاری ہے۔ ادب ایک مافیا بن چکا ہے۔ ادیب اگر بڑے عہدے اور رتبے پر ہے تو زبان کا ناجائز استعمال کر رہا ہے۔ مجھے بتائیے، آخر اِس Pollutionکے خلاف مجھے آواز بلند کیوں نہیں کرنی چاہئے تھی۔ میں نے ’سونامی‘ کا سہارا لیا اور پتھر اُچھال دیا۔ یہ شروعات ہے۔ ’اردو‘ میں اور بھی کئی چہرے بے نقاب ہوں گے۔ انتظار کیجئے۔

سوال:  اس ناول میں ’سونامی‘ کا واقعہ اصل کہانی سے Matchنہیں کرتا اور قاری کو تقریباً سوصفحات کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے ___ کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟

٭    Matchنہیں کرنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ ’سونامی‘ پر 100صفحات سے زائد اسی لئے خرچ کئے گئے کہ یہاں ’سونامی‘ ایک علامت ہے۔ ذرا البیر کامو کی ’پلیگ‘ دیکھئے ___ پلیگ پھیل رہا ہے ___ ایک جنگ شروع ہوتی ہے۔ Survival for Existance ___ پورے ناول میں پلیگ کا اثر ہے اور زندگی کی کشمکش جاری ہے۔ الکزنڈر سولنسٹین کا کینسروارڈ اور گلاگ آرکیپلاگو اٹھا لیجئے ___ ’موبی ڈک‘ دیکھئے ___ دی اولڈ مین اینڈ دی سی ___ زندگی اور کشمکش کو پیش کرنے کے لئے یہ ایک شارٹ کٹ راستہ ہے ___ کینسروارڈ کا ہر باب مختلف ہے ___ پھر بھی یہ ایک مکمل ناول ہے اور ساری دنیا اس میں ننگی نظر آتی ہے ___ اسی لئے دنیاداری سے مذہب، سماج اور سیاست کے تعلق سے ہر چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے مجھے ’سونامی‘ لہروں کی ضرورت تھی، جو سب کچھ بہا کر لے گئی ہے اور سونامی کے بعد ؟ موت کو کیش کیا جا رہا ہے۔ عام انسان سے حکومت تک۔ اِسی لئے پروفیسر ایس کو کہنا پڑتا ہے ___

’’موسیو، موت کے بعد بھی زندگی چلتی رہتی ہے ___ سونامی سے جہاں نقصان ہوا ہے وہاں فائدے اور روزگار کے نئے نئے دفتر کھل رہے ہیں۔ اب ایسے مجھے چونک کر مت دیکھئے موسیو ___ سمندر میں ہزاروں طرح کے روزگار چھپے ہیں ___ بایواسنیوگرافی، فزیکل اسنیوگرافی، مرین کیمسٹری اور آگے بڑھئے موسیو ___ سمندری غذا، سمندری علاج، سمندری کھیل، موتیوں کی تجارت___ سونامی لہریں موت دیتی ہیں تو آپ کو زندگی بھی دیتی ہیں ___ ذرا لہروں سے نکل کر ساحل پر جا کر دیکھئے ___ زندگی سے لبریز لوگ ہنستے گاتے قدرتی لباس میں مساج یاسن باتھ لیتے ہوئے ___ موسیو، مجھے تعجب اِسی بات پر ہے کہ آپ موت کھوجتے رہے اور میں سمندر سے زندگی تلاش کرتا رہا ___ موت کے ہر ڈر کے بعد زندگی کے دس راستے کھل جاتے ہیں۔ ‘‘

ایک مثال اور دیکھئے ___

’’موسیو، وہ ساری پیشن گوئیاں اب صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔ ریگستان پھیل سکتے ہیں ___ مونگے کی چٹانیں غائب ہو سکتی ہیں۔ گرم ہوائیں اپنا رُخ بدل سکتی ہیں ___ دنیا کا ایک بڑا حصہ برف میں گم ہو سکتا ہے ___ اور ایک بڑے حصے کو دھوپ کی ہر پل بڑھتی ہوئی شدت جھلسا کر راکھ کر سکتی ہے ___ انٹارکٹیکا میں گھاس اُگ سکتی ہے ___ گلیشیر پگھلنے لگیں گے ___ چھوٹے چھوٹے ندی تالاب میں ان کا پانی بھر جائے گا اور یہ سمندر سے بھی زیادہ بھیانک ہو جائیں گے ___ موسیو، ممکن ہے تب بھی یہ دنیا قائم رہے ___ ایک مرد اور ایک عورت جیسے ___ اُس اطالوی فلم میں دکھایا گیا تھا ___ بس ایک مرد اور ایک عورت ___ ساری دنیا ختم ہو چکی ہے ___ لیکن دنیا بننے کا عمل جاری ہے ___ کیونکہ ہم ہیں ___ گلیشیر کے ٹوٹنے، بھیانک زلزلے، سونامی کے قہر کے باوجود ہم میں جینے کی طاقت موجود ہے ___ مگر آہ، موسیو، ابھی کچھ دیر پہلے جو کچھ ہوا وہ آگے نہیں ہونا چاہئے ___‘‘

زندگی اور موت کی کشمکش کے یہ اشارئیے ناول میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔ اس لئے یہ ناول کا سب سے ضروری حصہ ہے ___ ’ہاں ‘یہاں آپ کو ٹھہرنا پڑے گا۔ کیونکہ پروفیسر ایس پہلی بار انہی سونامی لہروں کے درمیان بے نقاب ہوتا ہے۔ حکومت کرنے کے دو اہم مونولاگ سے اُس کا سابقہ یہیں پڑتا ہے۔ اپنے کلون یعنی پرویز سانیال اِسی سونامی سے اپنے اندر ایک مضبوطی پیدا کرتا ہے اور الٹرا ہیومین کا کینسپٹ(Concept) بھی یہیں ٹوٹتا ہے۔

سوال:  پروفیسر ایس، جو اس ناول کا بنیادی کردار ہے، حکومت کرنے کے لئے اپنا ایک کلون تیار کرنا چاہتا ہے یا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ ایک ایسا انسان تیار کنا چاہتا ہے جو جذبات سے عاری ہو یا شاید وہ انسان کو Dehumanise کرنا چاہتا ہے اور ہوتا ایسا ہے کہ جس نوجوان کو وہ Dehumanise کرنے کا سبق پڑھاتا ہے، وہی اس کا قتل کر دیتا ہے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ پروفیسر ایس اپنے مشن میں کامیاب ہوا؟ یعنی یہ ممکن ہے کہ انسان کو Dehumanise کیا جا سکے ؟

٭     گابرئیل گارسیا مارکیز نے اپنے ایک ناول میں لکھا کہ ہم یہاں فطرت کو شکست دینے آئے ہیں لیکن آپ جانئے، اس کادوسرا پہلو ہے کہ آپ فطرت کو شکست نہیں دے سکتے۔ فطرت لگاتار آپ کو Dehumanise کر رہا ہے۔ آپ ترقی اور ایجادات کے نئے راستے تلاش کرتے ہیں اور قدرت سکنڈ میں آپ کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ تعمیر کے ہر شعبے میں تخریب کی پیوندلگی ہے۔ Theory of deconstraction ___آپ ہتھیار بناتے ہیں، امن کے لئے، ملک کی سلامتی کے لئے اور ڈر جاتے ہیں کہ دوسرے ممالک نے بھی ایسے ہتھیار تیار کر لئے ہیں۔ کہیں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ پروفیسر ایس اپنے مشن میں کامیاب ہوہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اُس کا کلون بغاوت پر آمادہ تھا۔ برسوں پہلے ایچ جی او پلس نے ایک ناول لکھا تھا۔ نام اِس وقت یاد نہیں آ رہا ہے۔ انسان نے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے بھی روبوٹ تیار کر لئے ہیں اور ایک دن یہ روبوٹ انسان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیتے ہیں ___ انسان بڑی بڑی مشینیں ایجاد کرتا جا رہا ہے اور ہر بڑی ایجاد کے ساتھ اُس کا اپنا قد، مائیکرو ہوتا جا رہا ہے یقیناً ایک دن وہ یا تو مارا جائے گا یا پھر دھماکے اُسے ہوا میں تحلیل کر دیں گے۔ یہی ہے اُس کی ترقی کا آخری پڑاؤ ___ Dehumanisation اِسی لئے ناول کے آخر میں پروفیسر ایس کو مرنا ہی تھا اور پروفیسر ایس مرا بھی کہاں۔ اُس کی اپنی خطرناک سائیکی نے اُس کی جان لے لی___ اردو کے مشہور ناول نگار جوگیندرپال نے ناول کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ___ پروفیسر کے کمرے کی کھڑکی ایک ایسا بلیغ اشارہ ہے جہاں ہم سب کی سانس پھول جاتی ہے۔ تم نے اتنا بھیانک منظر کیسے لکھا ___

یہ پال صاحب کی محبت ہے۔ مجھے لگتا ہے، قدرت کے ہاتھوں ہم سب کھلونا ہیں۔ حقیر کھلونا۔ شاید اسی لئے مجھے اپنے الٹرا ہیومین کو Dehumanise کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

سوال:  گذشتہ برسوں میں اردو میں کئی ناول آئے ہیں۔ آپ ان میں سے کن ناولوں سے مطمئن ہیں ؟ اور کیوں ؟

٭     وحید احمد کا ناول ’زینو‘ ایک شاہکار ناول ہے۔ کئی اعتبار سے یہ ناول آگ کے دریا سے بھی بڑا ہے۔ یہ ناول پاکستان میں ایک سال پہلے شائع ہوا۔ یہاں بھی وقت ہیرو ہے۔ ’زینو‘ ایک ایسا کردار ہے جو ہر عہد میں بدلے بدلے کرداروں کے ساتھ جنم لے رہا ہے۔ وہ گوتم بدھ بھی ہے، اُسامہ بن لادن بھی ___ ناول میں ایک عجیب و غریب زبان استعمال ہوئی ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اردو میں اتنا بھرپور فکشن اِس سے پہلے نہیں پڑھا۔ اِس کے علاوہ اشرف شاد کا ’بے وطن‘، وزیر اعظم‘، عاصم بٹ کا ’دائرہ‘ اور مصطفی کریم کا ناول ’طوفان کی آہٹ‘ ممبئی سے رحمان عباس کا ایک چونکانے والا ناول آیا ہے۔ یاروں نے اُس ناول کو پورنو ناول کا درجہ دے دیا۔ مجھے ایسی سوچ رکھنے والوں پر ترس آتا ہے۔ ناول لکھنے کے نتیجہ میں رحمان عباس کو نہ صرف اُس اسکول سے نکالا گیا جہاں وہ پڑھایا کرتا تھا بلکہ ممبئی کے ایک اخبار ’’اردو ٹائمس‘‘ نے تو اُسے ’کافر‘ بھی قرار دے دیا لیکن فکریہ اعتبار سے رحمان کا یہ ناول بھی متاثر کرتا ہے ___ یہ سارے ناول بڑے ہیں۔ بڑے اس لئے ہیں کہ اِن میں بڑی فکر ہے۔ ایسی فکر جو ہمارے یہاں نہیں ہے۔ ہندستان میں عبدالصمد کا ’دھمک‘ اور ترنم ریاض کے ناولٹ ’مورتی‘ کو میں اچھے ناولوں میں شمار کرتا ہوں۔

سوال: کیا آپ کے پاس نئے ناول نگاروں کے لئے کوئی Messageہے ؟

٭     پیغام دینا میرا کام نہیں ہے۔

سوال:  اردو میں ناولوں کی اشاعت ہو تو رہی ہے، لیکن تعداد کے لحاظ سے اس کی رفتار بہت سست ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں ؟

٭     ناول لکھنا ایک مشکل کام ہے جو لوگ پانچ سال میں ایک ڈھنگ کی کہانی نہیں دے سکتے اُن سے آپ ناول لکھنے کی امید کیوں کرتے ہیں ؟

سوال:  اردو میں افسانہ لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، لیکن بہت کم افسانہ نگاروں نے ناول کی طرف مراجعت کی ہے ؟ کیا ناول لکھنا بہت دقت طلب ہے ؟ کیا افسانہ نگار اتنی محنت نہیں کرنا چاہتے ؟

٭     آج کوئی بھی محنت کرنا نہیں چاہتا۔ پڑھنا نہیں چاہتا، اس لئے ناول کون لکھے گا۔ ہاں یہ اطمینان ہے کہ پاکستان میں اچھا ادب لکھا جا رہا ہے۔ ہندستان کا دامن اچھے ادب سے لگ بھگ خالی ہو چکا ہے۔ کوئی فعال نہیں ہے۔ بس گنتی کے چند لوگ عبدالصمد، شوکت حیات، ترنم ریاض ___ ممبئی میں سناٹا ہے۔ سلام بھائی اور علی امام نقوی کا بھی قلم خاموش ہے۔ اِس سناٹے سے ہول آتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

اردو ادیبوں کو کشمیر کا درد نظر کیوں نہیں آتا؟

(مشہور ناول نگار مشرف عالم ذوقی سے ایک گفتگو)

 

 

                سمیہ بشیر

 

سمیہ:   آپ کسی تحریک سے وابستہ ہیں ؟ یا تحریک سے الگ رہنا پسند کرتے ہیں ؟

ذوقی:  میرا تعلق کسی تحریک سے نہیں ہے — ادب کی سطح پر میں آزاد رہنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ لیکن میری شروعات ایک جدید ادیب یا افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ یہ 1980ء کے آس پاس کا زمانہ تھا جب علامتی اور تجریدی افسانے تحریر ہو رہے تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں بھی اس سیلاب میں بہہ گیا تھا— کچھ وقت گذارنے کے ساتھ جب میں نے لینن اور مارکس کے فلسفے کو پڑھنا شروع کیا تو میری شناخت ایک ترقی پسند افسانہ نگار کے طور پر بنتی چلی گئی— دس سے لے کر پندرہ برس تک ترقی پسندتحریک سے وابستہ رہا۔ لیکن اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ترقی پسند ادیب اپنے وقت میں جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں، ان میں ترقی پسند تحریک کا پروپیگنڈا زیادہ شامل ہے — کہانی بڑے نظریہ کا احاطہ نہیں کر پا رہی ہے — ایسی کہانیاں تقسیم، فسادات، تہذیبی نا ستلجیا(Nostalgia) سے آگے کی فکر کا احاطہ کرنے میں ناکام تھیں۔ 1980ء کے بعد دنیا بہت حد تک بدل چکی تھی۔ نیا نظام سامنے تھا — تقسیم کو ایک عرصہ گذر چکا تھا— نئی تحریکیں سامنے آ رہی تھیں — اور دنیا آہستہ آہستہ Globalisationکا شکار ہو گئی تھی۔ جاگیر دارانہ نظام ختم ہو چکا تھا۔ نئی دنیا نے نئے مسائل اُٹھانے شروع کر دیئے تھے۔ جو مغرب میں لکھا جا رہا تھا ہم اُس سے کافی پیچھے چل رہے تھے — قُراۃؔ العین حیدر تک، اقدار اور تہذیبی نا ستلجیا کے موضوعات کے موضوعات سے آگے نکلنے کو تیار نہیں تھیں — انتظارؔ حُسین اساطیری کہانیاں، دیومالائی داستانیں، قصے، حکایتوں کے اندر افسانے کو دریافت کر رہے تھے — لیکن نئی دنیا پر ان میں سے کسی بھی ادیب کی نظر نہیں تھی۔ ترقی پسند ی 1960ء کے آس پاس گم ہو چکی تھی۔ 1980ء کے آس پاس جدیدیت کا جنازہ اُٹھ چکا تھا۔ اب ادب کا کام نئے راستوں کو تلاش کرنا تھا— 2010ء تک دہشت گردی دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی— ادب کا کام ہر دور میں نئے سماجی، سیاسی شعور کے راستے اپنی جگہ بنانے کا ہوتا ہے — اسی لیے میں نے اپنے آپ کو آج کی فضا میں کسی تحریک سے وابستہ نہیں رکھا۔ میرا دب آزاد ہے — اپنے حساب سے موضوعات کا انتخاب کرتا ہوں۔

سمیہ:   کن نظریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ کہانی لکھتے ہیں ؟

ذوقی:  اس سوال کے جواب میں مجھے ایک حکایت یاد آ رہی ہے — ایک بادشاہ کے دربار میں بیک وقت دو فقیر آئے۔ پہلے فقیر نے صدا لگائی— ’’اے بادشاہ تو اچھا کرتا کہ تجھے اچھا انعام ملے۔ دوسرے فقیر نے کہا "اے بادشاہ تو بُرا نہ کرتا کہ تجھے بُرا انعام نہ ملے۔ بادشاہ         نے پہلے فقیر کو 10دینار اور دوسرے کو 5 دینار دے کے رخصت کیا— جب فقیر چلے گئے تو وزیر نے کہا— اے انصاف پسند بادشاہ بات دونوں کی ایک تھی، پھر آپ نے یہ نا انصافی کیوں کی— بادشاہ مسکرا کر بولا— تم نے ایک بات غور نہیں کیا، دونوں فقیروں کی بات ایک ہی تھی— لیکن پہلے فقیر نے اسی بات کو اچھائی کا سہارا لے کر بیان کیا تھا— میرا ادب اسی نظریہ پر مبنی ہے — میں Positive سوچتا ہوں اگر کوئی نظریہ میری کہانی یا ناول میں ہے تووہ انسانی زاویہ یا نظریہ ہو سکتا ہے۔ اور اس سطح پر میں فرینچ ناول نگار Victor Hugoسے خود کو قریب محسوس کرتا ہوں — میری کہانیاں اسی انسانی زاوئیے کے ارد گرد گھومتی ہیں۔

سمیہ:   آپ کی دلچسپی ادب سے کس طرح ہوئی اور کیسے بڑھ گئی؟

ذوقی:  میرے گھر کا ماحول ادبی تھا— جہاں میں پیدا ہوا وہ گھر کوٹھی کہلاتا تھا— وہاں اکثر مشاعرے ہو ا کرتے تھے — خاندان میں ایسے کئی لوگ تھے جو شاعری کرتے تھے — میرے والد محترم مشکور عالم بصیری خود بھی ایک اچھے شاعر تھے۔ ابا جان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قُرآن شریف ہو، حدیث، گیتا ہو، یا رامائین— انگریزی ادب ہو یا سائنس کا مطالعہ ہو— بچپن سے ہی ابا حضور ہم سب بھائی بہنوں کو لے کر بیٹھ جاتے اور ادب کی گفتگو شروع ہو جاتی— گھر کی لائبریری میں اردو اور انگریزی کی دنیا بھر کی کتابیں موجود تھیں — اس کے علاوہ وقت ملتے ہی ابا حضور ہم بھائی بہنوں کو قصے اور داستانوں کی دنیا میں لے جا یا کرتے تھے۔ اسی لیے بچپن سے لکھنے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ گیارہ سال کی عمر میں پہلی کہانی بچوں کے لیے لکھی — جو بچوں کے رسالہ پیام تعلیم میں شائع ہوئی — اس کے بعد غنچہ، ٹافی، کھلونا اور نور میں کہانیاں شائع ہوتی رہیں — اس لئے لکھنے کا شوق مجھے وراثت میں ملا۔

سمیہ:   آپ کو ناول اور افسانے میں کون سی صنف زیادہ پسند ہے اور کیوں ؟

ذوقی:  کہانی ایک چھوٹے سے واقعہ پر مبنی ہوتی ہے — جب کہ ناول کا فن ایک مکمل زندگی کا احاطہ کرتا ہے — مجھے کہانیاں بھی پسند ہیں اور ناول بھی۔ لیکن ناول کی تخلیق آسان کام نہیں ہے — پچھلے 6برسوں میں، میں نے ایک بھی کہانی نہیں لکھی— ان دنوں میں نئے نئے موضوعات کو لے کر صرف اور صرف ناول کی دنیا میں ہی رہنا چاہتا ہوں — آج کی دنیا بہت اُلجھی ہوئی دنیا ہے انسانی نفسیات کو سمجھنے کا پیمانہ بھی بہت حد تک تبدیل ہو چُکا ہے — اس سے زیادہ کسی مہذب دنیا کا تصور اب فکر کی سطح پر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست کے ساتھ سماج اور مذہب تک نئے مکالمے سامنے آ رہے ہیں — یہ ایک بدلی ہوئی دنیا ہے جو کہانیوں سے زیادہ ناول کا تقاضہ کرتی ہے — آپ پاکستان میں دیکھیے تو خالد طور سے لے کر عاصم بٹ تک نئے موضوعات کو اپنا رہے ہیں۔ ہمارا اردو ادیب نئے موضوعات کو گم کر بیٹھا ہے۔ ہندستانی سطح پر ادب بھی کمزوریوں کا شکار ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کشمیر کے موضوعات پر خاموش ہو جاتے ہیں۔ جب لکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو ہمارے پاس جواب نہیں ہوتے۔ اس کا واحد جواب ہے، ادب کی سلطنت کو خوف سے جدا کرنا ہو گا۔ میں بہت جلد کشمیر کے موضوع پر ایک ضخیم ناول لکھنے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔ اور شاید اسی لیئے میں خود کو ناول کی دنیا سے زیادہ قریب محسوس کرتا ہوں۔

سمیہ:   میں نے پڑھا ہے کہ آپ نے پانچ سو سے زائد کہانیاں لکھی ہیں ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟ اگر ہاں تو یہ کہانیاں کن کن رسائل میں شائع ہوئیں اور کیا آپ کے پاس وہ کہانیاں تحریری شکل میں موجود ہیں ؟

ذوقی:  گیارہ سال کی عمر سے میری وابستگی ادب کی دنیا سے ہو چکی تھی— میں ان لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے شاید سب سے زیادہ کہانیاں لکھی ہیں۔ تیرہ 13 سے بیس 20 سال کے عرصے تک میری کہانیاں اُس وقت کے تمام مشہور جرائد، شمع، روبی، بیسویں صدی، محل، شادمان، فلمی ستارے، باجی، بانو میں شائع ہو چکی تھیں۔ اسی کے ساتھ اُس وقت جو زیادہ تر ادبی رسائل نکل رہے تھے میری کہانیاں وہاں بھی جگہ پا رہی تھیں — بہت سی کہانیاں وقت کے ساتھ ضائع ہو گئیں۔ اس لئے ان کہانیوں کے نام کو بتانا میرے لئے آسان نہیں ہے — میری ایک بہت بڑی دنیا ہندی زبان کی بھی دنیا ہے — ایک دنیا پاکستان کی ہے۔ جہاں میری کہانیاں مسلسل شائع ہوتی رہتی ہیں۔ ہندی میں میری کہانیوں کے ۱۹ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ادبی رسالہ ہو جہاں میری کہانی شائع نہیں ہوئی ہے — اس لئے اتنی ساری کہانیوں میں رسائل کا نام گنوانا اور کہانیوں کا نام گنوانا میرے لئے آسان نہیں ہے۔ یہ کام تحقیق کا ہے جن لوگوں کو میری کہانیوں میں دلچسپی ہو گی، آئندہ آنے والے وقت میں انشاء اﷲ وہ یہ کام ضرور کریں گے۔

سمیہ:   آپ کے ناولوں میں آپ کو کون سا ناول سب سے زیادہ پسند ہے ؟

ذوقی:  کسی بھی ادیب کے لئے اس کا جواب آسان نہیں ہے — میرے لئے بھی اس کا جواب دینا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ "پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی” کو لکھنا میرے لئے آسان نہیں تھا۔ سونامی ایک مشکل ناول تھا— اس ناول میں وقت ہیرو تھا— اور سونامی کی سطح پر میں محسوس کر رہا تھا کہ قدرت کا بھیجا ہوا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جا رہا ہے — یہاں ہماری قدریں بھی بہہ رہی ہیں تعلیم سے لے کر سیاست، مذہب اور سماج تک ایک ایسی بیزار کن فضا پیدا ہو چکی ہے جس سے باہر نکلنا آسان نہیں ہے — میں نے سونامی میں ایک پوری دنیا کو قید کرنے کی کوشش کی تھی— مجھے لے سانس بھی آہستہ بھی پسند ہے — ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ صرف ہندوستانی تہذیب کا مرثیہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے globalسماج کا آئینہ بھی ہے — ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ کے بعد ’’آتش رفتہ کا سُراغ‘‘ منظر عام پر آیا— یہ ناول ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے — اور یہ ناول بھی مجھے بہت پسند ہے۔

سمیہ:   آپ نے موجودہ دور کے سلگتے ہوئے موضوعات پر کہانیاں لکھی ہیں ؟ ایک ادیب کے لئے اپنے سماج اور سیاست سے با شعور ہونا کتنا ضروری ہے ؟

ذوقی:  سیاسی اور سماجی شعور کے بغیر کہانی یا ناول کو تحریر کرنا آسان نہیں ہے — میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ سیاست آج کے ادب کا بنیادی مسئلہ ہے — اگر سیاسی اور سماجی سطح پر ہمارا فنکار گہری فکر کے ساتھ اپنے موضوعات کو لے کر چلنے میں ناکام ہے تو بڑی تخلیق کر ہی نہیں سکتا— آج مغرب کے ادب کو دیکھئے — وہاں ایک سیاسی بیداری ملتی ہے — ہمارا ادیب اس سیاسی بیداری سے دور نظر آتا ہے — میں نے سلگتے ہوئے مسائل کا احاطہ اسی لئے کیا کہ اس کے بغیر کسی بھی تحریر کو لکھنا آسان نہیں تھا— عام طور پر میرے لیے موضوعات کا انتخاب مشکل کام ہے — ایک موضوع مسلمانوں کے ارد گرد گھومتا ہے — دوسری طرف ایک تیزی سے بدلتا ہوا سیاسی اور سماجی منظر نامہ بھی ہے — میں جسکا تعاقب کرتا ہوں — اور انہیں اپنی کہانی یا موضوع بناتے ہوئے مجھے ایک خاص طرح کی مسرت حاصل ہوتی ہے۔

سمیہ:   آپ نے ناول اور افسانے کی ابتداء کب اور کیسے کی؟ اور آپ کا سب سے پہلا افسانہ اور ناول کون سا ہے ؟

ذوقی:  میں نے پہلا ناول 17 سال کی عمر میں لکھا۔ ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ اسی کے آس پاس میں ایک ناولٹ ’’لمحۂ آئندہ‘‘ بھی مکمل کر چکا تھا۔ لمحہ آئندہ جدید طرز کا ناول تھا۔ سب سے پہلا افسانہ ’’جلتے بجھتے دیب ‘‘ تھا جو میں نے ریڈ یو کے لئے لکھا تھا— لیکن پہلا افسانہ جو اشاعت کی منزلوں سے گذرا اس کا نام لمحہ رشتوں کی صلیب ہے — یہ کہکشاں ممبئی میں شائع ہوا۔ لکھنے کی ابتداء بچپن سے ہی ہو چکی تھی۔ ایک گھر تھا جس کی خستہ ہوتی ہوئی دیواروں میں صدیاں قید تھیں — یہ گھر کوٹھی کہلاتا تھا۔ ہمیں کہیں بھی آنے جانے پر پابندی تھی— اس لئے بچپن سے ہی کتابوں سے دوستی ہو گئی۔ اور کم سنی سے ہی کہانی اور ناولوں کی طرف متوجہ ہوا۔

سمیہ:   آپ کے ناولوں کے مطالعوں سے ہم یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ خاص طور پر آپ کی ناولیں نئی نسل کے مسائل پر مبنی ہوتی ہیں — اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل درپیش ہیں — جیسے عورتوں کے مسائل، بچوں کے مسائل، وغیرہ— کیا آپ نے اس پر بھی کبھی روشنی ڈالی ہے ؟

ذوقی:  جہاں تک ناول کا سوال ہے، ناول کا فن ایک مکمل دنیا کا احاطہ کرتا ہے — اس دنیا میں بچے بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔ اقبالؔ نے کہا تھا:

؎ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

عورتوں کے وجود کے بغیر کسی تخلیق کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا— میرا پہلا ناول ـ ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ میں بھی ایک بچہ ہے — جو اپنی معصوم آنکھوں سے دنیا کے جبر اور استحصال کا جائزہ لے رہا ہے — پہلے ناول سے ہی میں نے ایسے بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی— جنہیں سماج تو بچہ سمجھتا ہے لیکن وہ اپنی عمر سے بہت آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔ ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ بھی ایک بارہ 12 سال کے بچے کی کہانی تھی اور اس ناول میں بھی میں نے بہت باریکی سے ان بچوں کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کی تھی— ایسے بچے جو جنک فوڈ کھاتے ہیں — سائبر اسپیس کی پیداوار ہیں — انٹرنٹ سے دوستی کرتے ہیں۔ ماں باپ کی نظریں بچا کر پورن سائٹس دیکھتے ہیں — اور ایک دن کسی بڑے جرم کا شکار ہو جاتے ہیں — اسی طرح میں نے کم و بیش اپنے تمام ناولوں میں عورتوں کے الگ الگ مسائل کو سامنے رکھا ہے — میں عورتوں کے کمزور وجود کو پسند نہیں کرتا— اس لئے میرے ناول کی عورتیں کمزور نہیں ہیں — وہ اپنی جنگ لڑتی ہیں — وہ اپنی شناخت چاہتی ہیں — وہ حکومت کرتی ہیں — وہ برابری کی خواہشمند ہیں — وہ خواب دیکھتی ہیں — اور مردوں کے شانہ بہ شانہ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتی ہیں — بلکہ زندگی کی ریس میں ان سے بھی آگے نکلنا چاہتی ہیں — عورتوں کے مسائل اپنی جگہ لیکن کہانیوں میں بھی عورتوں کو کمزور کرنا، ان کا استحصال کرنا ان کی شناخت کو ختم کرنا مجھے کبھی منظور نہیں ہے — اسی لیئے میرے ناولوں میں ہر عورت اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ سامنے آتی ہے اور اپنی جنگ خود لڑتی ہے۔

سمیہ:   آپ نے کس مقصد کے تحت ’’نیلام گھر‘‘ لکھا؟ اور اس کے ذریعے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟

ذوقی:  ’’عقاب کی آنکھیں ـ‘‘ کے بعد ’’نیلام گھر‘‘ میرا دوسرا ناول تھا— نیلام گھر کو لکھنے سے پہلے میں ALBERT CAMUSکے ناول The Plagueسے بہت زیادہ متاثر ہوا تھا— یہ 1980ء کے آس پاس کی بات ہے — آزادی کے 33۔ 32سال گذر چکے تھے — فسادات ملک کا چوتھا موسم بن چکا تھا— میری عمر اُس وقت 20 سال کی ہو گی— میں نے سیاسی اور سماجی سطح پر جب اس دنیا کو دیکھنے کا ارادہ کیا تو یہ دینا مجھے نیلام گھر کی طرح نظر آئی— ایک ایسا نیلام گھر جہاں سب کچھ فروخت ہو رہا ہے — علم سے سیاست، مذہب اور سماج تک— جیسے ہر شے نیلام ہو رہی ہے — انسانی قدریں ختم ہو چکی ہیں — میں نے انجم کے کردار میں ایک ایسے بزرگ کو دیکھنے کی ضرورت محسوس کی جسکی آنکھوں کے سامنے سب کچھ نیلام ہو رہا ہے — بدلتے ہوئے وقت سے رشتے بے معنی ہو چکے ہیں — قدریں ختم ہو چکی ہیں — مذہب صرف خوف کی علامت کے طور پر رہ گیا ہے۔ اور یہ فاتح انسان اپنی بربادیوں کا جشن منا رہا ہے — ’’نیلام گھر‘‘ کی شروعات کہانی کے مرکزی کردار انجم سے شروعات ہوتی ہے جو اپنے کمرے سے تیز بدبو کو اُٹھتا ہو محسوس کرتا ہے — یہ بدبو زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو جاتی ہے — میں نے اس ناول میں آزادی کے 33۔ 32برس کے بعد کے ہندوستان کو دیکھنے کی کوشش کی تھی— المیہ یہ تھا کہ نہ پاکستان کے لوگ پاکستان میں خوش تھے اور نہ ہندستان کے لوگ ہندوستان میں — جمہوری قدروں کا مذاق اُڑایا جا رہا تھا— شاید اسی لئے تقسیم کے بعد کے ہندوستان کو لے کر بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں، میں نے اس ناول کو لکھنے کی شروعات کی تھی۔

سمیہ:   آپ کے ناولوں میں سب سے زیادہ مقبولیت کس ناول کو حاصل ہے ؟

ذوقی:  میرے شروعاتی ناولوں میں سب سے زیادہ مقبولیت ’’بیان‘‘ کو ملی— بیان بابری مسجد کے المیہ پر مبنی ایک ایسا ناول تھا جس میں آپ اُس وقت کے ہندوستان کی جھلک دیکھ سکتے تھے — اردو کے مشہور نقاد ڈاکٹر محمد حسن نے ’’بیان‘‘ کو آزادی کے بعد کا سب سے اہم ناول قرار دیا ہے — ’’بیان‘‘ ایک ایسا ناول تھا جس پر دنیا بھر کے مضامین لکھے گئے — ’’جہان اردو‘‘ نے ایک خصوصی شمارہ بیان کے نام منسوب کیا— ڈاکٹر مشتاق احمد نے بیان منظر پسِ منظر کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی جن میں بیان پر تحریر کردہ مضامین شامل کئے گئے تھے — بیان کے بعد پو کے مان کی دنیا کو کئی ناقدوں نے اردو ناول کا turning pointکہا— ’’پوکے مان کی دنیا‘‘ کے بعد ’’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ شائع ہوئی— مجھے افسوس ہے کہ اس ناول پر شاید سب سے کم بات ہوئی— لیکن مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں اس ناول پر بھی گفتگو کے دروازے کھلیں گے — ’’بیان‘‘ کے بعد سب سے زیادہ شہرت ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کو ملی— لے سانس آہستہ کے بعد ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ منظر عام پر آیا اور یہ ناول بھی اشاعت کے کچھ ہی مہینوں کے بعد قارئین اور نقادوں کے درمیان ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

سمیہ:   ’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘ میں ’’سونامی‘‘ کا واقعہ اصل کہانی سے Match نہیں کرتا— اور قاری کو تقریباً سو صفحات کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے ___ کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟

ذوقی:  Matchکرنے کا سوال ہی نہیں ہے۔ "سونامی”پر 100 صفحات سے زائد اسی لئے خرچ کئے گئے کہ یہاں "سونامیــ” ایک علامت ہے — ذرا البیر کامو کی "پلیگ” دیکھئے ___پلیگ پھیل رہا ہے ___ ایک جنگ شروع ہوتی ہے۔ Survival for Existence _ پورے ناول میں پلیگ کا اثر ہے اور زندگی کی کشمکش جاری ہے۔ الکزنڑر سو لنسٹین کا کینسر وارڈ اور گلار آرکیپلا گورا اٹھا لیجئے __ ’’ موبی ڈک‘‘ دیکھئے __ دی اولڈ مین اینڈ دی سی __زندگی اور کشمکش کو پیش کرنے کے لئے یہ ایک شارٹ کٹ راستہ ہے __ کینسر وارڈ کا ہر باب مختلف ہے ___ پھر بھی یہ ایک مکمل ناول ہے اور ساری دنیا اس میں ننگی نظر آتی ہے ___ اسی لئے دنیا داری سے مذہب، سماج اور سیاست کے تعلق سے ہر پہلو کو پیش کرنے کے لیے مجھے "سونامی” لہروں کی ضرورت تھی۔ جو سب بہا کر لے گئی ہے — اور سونامی کے بعد موت کو کیش کیا جا رہا ہے۔ عام انسان سے حکومت تک— اسی لئے پرفیسر ایس کو کہنا پڑتا ہے — ’’موسیو‘‘ موت کے بعد بھی زندگی چلتی رہتی ہے — سونامی سے جہاں نقصان ہوا ہے وہاں فائدے اور روزگار کے نئے دفتر کھل رہے ہیں۔ اب ایسے مجھے چونک کر مت دیکھئے موسیو— سمندر میں ہزاروں طرح کے روزگار چھپے ہیں — سونامی لہریں موت دیتی ہیں تو آپ کو زندگی بھی دیتی ہیں — ذرا لہروں سے نکل کر ساحل پر جا کر دیکھئے — زندگی سے لبریز لوگ ہنستے گاتے قدرتی لباس میں مساج یاسن باتھ لیتے ہوئے — موسیو، مجھے تعجب اسی بات پر ہے کہ آپ موت کھوجتے رہے اور میں سمندر سے زندگی تلاش کرتا رہا— موت کے ہر ڈر کے بعد زندگی کے دس راستے کھل جاتے ہیں ‘‘۔

ایک مثال اور دیکھئے۔

’’موسیوـ‘‘ وہ ساری پیشن گوئیاں اب صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔ ریگستان پھیل سکتے ہیں — مونگے کی چٹانیں غائب ہو سکتی ہیں۔ گرم ہوائیں اپنا رُخ بد سکتی ہیں — دنیا کا ایک بڑا حصہ برف میں گم ہو سکتا ہے — اور ایک بڑے حصے کو دھوپ کی ہر پل بڑھتی ہوئی شدت جھلسا کر راکھ کر سکتی ہے — انٹارکٹیکا میں گھاس اُگ سکتی ہے — گلیشیر پگھلنے لگیں گے — چھوٹے چھوٹے ندی تالاب میں ان کا پانی بھرے گا اور یہ سمندر سے بھی زیادہ بھیانک ہو جائیں گے — موسیو، ممکن ہے تب بھی یہ دنیا قائم رہے — ایک مرد اور ایک عورت جیسے — اُس اطالوی فلم میں دکھایا گیا تھا— بس ایک مرد اور ایک عورت— ساری دنیا ختم ہو چکی ہے — لیکن دنیا بننے کا عمل جاری ہے — کیونکہ ہم ہیں — گلیشیر کے ٹوٹنے، بھیانک زلزلے، سونامی کے قہر کے باوجود ہم میں جینے کی طاقت موجود ہے۔ مگر آہ، موسیو، ابھی کچھ دیر پہلے جو کچھ ہوا وہ آگے نہیں ہونا چاہئے۔

زندگی اور موت کی کشمکش کے یہ اشارے ناول میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔ اس لئے یہ ناول کا سب سے ضروری حصہ ہے — پروفیسر ایس پہلی بار انہی سونامی لہروں کے درمیان بے نقاب ہوتا ہے۔ حکومت کرنے کے دو اہم مونولاگ سے اس کا سابقہ یہی پڑتا ہے۔ پرویز سانیال اسی سونامی سے اپنے اندر ایک مضبوطی پیدا کرتا ہے۔ اور الٹرا ہومین کا کینسپٹ بھی یہیں ٹوٹتا ہے۔

سمیہ:   آپ کے ناول ’’ذبح‘‘ کا عنوان جرمن شاعر اریش فریڈ کی ایک نظم سے لیا گیا ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟

ذوقی:  عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی تخلیق کار یا ناول نگار کسی کہانی یا ناول کی تخلیق کر رہا ہوتا ہے تو اُس موضوع سے وابستہ کوئی قول یا کوئی شعر اُس کے ذہن میں آ جاتا ہے — ’’ذبح‘‘ کی تخلیق کے دوران بار بار اس جرمن شاعر کی نظم میرے ذہن میں گونجتی رہی تھی— مجھے اس بات کا احساس تھا کہ یہ system ہر ایک کمزور انسان کو ’’ذبح‘‘ کر رہا ہے — ایک طرف مسلمان ہیں جن کا سیاسی اور سماجی سطح پر استحصال ہو رہا ہے — اور دوسری طرف دلت طبقہ بھی ہے — اس کی جنگ لڑنے والا کوئی بھی نہیں ہے — اردو میں اس وقت تک دلتوں کے مسائل کولے کر کوئی بھی ناول منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب جاگیر دارانہ نظام میں عبدل سقہ جیسے لوگ پرورش پاتے تھے — بلکہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ نسل در نسل ایسے لوگ یا خاندان اپنی خدمات انجام دیتے آئے تھے۔ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے بعد ایسے لوگ حاشیے پر چلے گئے — اسی سلسلے کی ایک دوسری کڑی ہے کہ جب ترقی ہوتی ہے کچھ چیزیں کمزور اور بے کار ہو کر ماضی کا حصہ بن جاتی ہے — مثال کے لئے ایک زمانہ تھا جب اردو کتابیں اور رسائل کا تب اور کتابت کے بھروسے تھے — کتابت ختم ہو گئی اور کاتب بے کار ہو گئے — نئی ٹیکنالوجی (technology) آ گئی— اسی طرح یکہ اور تانگے کا دور چلا گیا— عبدل سقہ جیسے لوگ مشک سے پانی بھر کر روز گار حاصل کرتے تھے۔ ایسے لوگ بھی سڑکوں پر آ گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے لوگ کہاں جائیں گے — ایسے لوگوں کا کیا ہو گا— ناول کا مرکزی نقطہ یہی وہ مقام ہے جہاں مجھے جر من شاعر کی نظم کا سہارا لینے کے لئے مجبور ہونا پڑا— مجھے لگا، سڑے گلے اس نظام (system)میں ایسے لوگوں کا مسلسل استحصال ہو رہا ہے — اور کوئی بھی خواہش کے باوجود بھی ان کی مدد اس لئے نہیں کر سکتا کہ Globalہوتی ہوئی دنیا میں ہر چیز پُرانی ہو رہی ہے — اس لئے ناول کے آخر میں عبدل سقہ کے بیٹے کو کہنا پڑتا ہے — اب ہم تیار نہیں ہیں بار بار ذبح ہونے کے لئے۔ ‘

سمیہ:   آپ نے اپنے ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا عنوان میرؔ کے شعر سے مستعارلیا ہے۔ آپ کے ناول پر یا آپ کی کہانی سے یہ شعر کس طرح مطابقت رکھتا ہے ؟

ذوقی:  اس ناول کے عنوان کے لیے میرؔ کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان ممکن ہی نہیں تھا۔ ناول میں ایک جگہ پروفیسر نیلے میرؔ کے شعر کے تشریح کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میرؔ نے کتنا قبل ختم ہوتی تہذیب کا سراغ لگا لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی حالات کچھ ایسے تھے کہ میرؔکو یہ شعر لکھنا پڑا— آج کے ماحول میں دیکھے تو تجزیہ کے لیے اس سے بہتر کسی اور شعر کی امید نہیں کی جا سکتی۔

سمیہ:   آپ اکثر ناولوں کا عنوان کسی کی غزل یا نظم سے کیوں لینا پسند کرتے ہیں ؟

ذوقی:  ایسا میرے تمام ناولوں کے ساتھ نہیں ہے۔ ـ ’’شہر چپ ہے ‘‘ ’’ذبح، نیلام گھر، عقاب کی آنکھیں، مسلمان، لمحۂ آئندہ، بیان، پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ کے عنوانات کسی شعر سے متاثر ہو کر نہیں رکھے گئے — ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کا موضوع ایسا تھا کہ میرؔ کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ آفاق کی شیشہ گری کا کام اتنا نازک ہے کہ سانس بھی لینے سے ایک دنیا کے منتشر ہو جانے کا خطرہ سامنے آ جاتا ہے — اس لئے جب عنوان کی بات آئی تو میں نے میرؔ کے شعر کا سہارا لیا— ’’آتش رفتہ کا سراغ‘‘ کی کہانی آزادی کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے۔ دراصل وہ آگ جو بجھ چکی ہے — وہ ماضی جو گم ہو چکا ہے، یہ ناول اُسی ماضی کے تلاش کا حصہ ہے — اب اسی لئے میرے سامنے اقبال کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان نہیں تھا— آتش رفتہ کا سراغ کا دوسرا حصہ اردو کے نام سے منظر عام پر آ رہا ہے — اور میں نے اس کے لئے بھی کسی شعر کی مدد نہیں لی ہے۔

سمیہ:   کیا آپ شاعری سے دلچسپی رکھتے ہو؟

ذوقی:  ادب کی شروعات شاعری سے ہوئی— آج بھی اقبالؔ، غالبؔ ، مومنؔ ، جگر،ؔ  فیضؔ ، فراقؔ، کی شاعری میرے مطالعے میں رہتی ہے — میں اچھی شاعری کا عاشق ہوں — شروعات شاعری سے ہوئی— لیکن مجھے جلدی اس بات کا احساس ہونے لگا کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں یا ادب کو دینا چاہتا ہوں اس کے لئے مجھے شاعری سے الگ کا میدان منتخب کرنا ہو گا— اس لیے میں فکشن یا ناول کی دنیا میں آ گیا— 17سال کی عمر میں نے اپنا پہلا ناول لکھا— عقاب کی آنکھیں — اور 20سال کی عمر تک میں چار ناول تخلیق کر چُکا تھا۔ لیکن آج بھی میں اچھی شاعری کا عاشق ہوں — خصوصی طور پر ن۔ م۔ راشدؔ اور فیضؔ کی نظمیں مجھے بے حد پسند ہیں۔

سمیہ:   صحافت اور ادب کا آپس میں کیا رشتہ ہے ؟

ذوقی:  صحافت اور ادب کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے — اردو نقاد آج بھی صحافت کو ادب کا حصہ تسلیم نہیں کرتے — وہ اس باریکی کو سمجھ نہیں پاتے کہ سیاسی اور صحافتی شعور کے بغیر اچھے ناول کو لکھنا ممکن ہی نہیں ہے — ایک صحافی، ایک اچھا صحافی سماج اور سیاست کے تعلق سے مدلل اپنے خیالات کو سامنے رکھتا ہے — ایک ادیب اسی سیاسی شعور کو تخلیقی امکانات سے گذارتے ہوئے ادب کا حصہ بنا لیتا ہے — ایک اچھا ادیب سیاست اور صحافت سے آنکھیں بند کر کے ادب کی تخلیق کر ہی نہیں سکتا۔

سمیہ:   آپ ادب میں کس شاعر یا ادیب سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ؟

ذوقی:  رُوسی ادیب دوستو فسکی میرا آئیڈیل ہے — جب میں نے لکھنا شروع کیا، اُس وقت روسی ادب کو پڑھنے کا موقع ملا— پشکن، ٹالسٹائے، گوگول جیسے ناول نگاروں کو پڑھنے کا موقع ملا— میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ناول لکھنے کا آرٹ روسی ناول نگاروں سے سیکھا۔ بیس برس کی عمر تک میں مغرب کا بڑا ادب کھنگال چکا تھا۔ میں victor hugo سے بھی متاثر تھا—  Albert Camus میرا پسند یدہ ناول نگار تھا— اسطرح چیخوف اور مو پاسان کی کہانیاں بھی مجھے پسند آتی تھیں۔ گنتر گراس کے The Tin Drum نے مجھے متاثر کیا— میں نے دیکھا، گنترگراس اپنی کتابوں میں اپنے وطن ڈنزیگ کے قصے بیان کرتا ہے — جوائز اپنے شہر ڈبلن کے گیت گاتا ہے — روسی مصنفوں کے ناولوں میں ان کا شہر ہنستا مسکراتا ہے — مجھے گابرئیل گارسیا مارخیز کے ناول one hundred years of Solitude   نے بھی متاثر کیا— اسی طرحBoris Polo   کے ناول The Story of a Real Man کا میں عاشق تھا— کہتے ہیں ایک زندگی وہ ہوتی ہے جو آپ کا، مطالعہ آپ کا وژن Vision آپ کو دیتا ہے — اسی لئے میں مسلسل کتابوں کے مطالعے سے گذر رہا تھا۔ دوستو فسکی، پشکن، نکولائی گوگول، میخائل شیلو خوف، ترگنیف، یہ سب مجھے متاثر کر رہے تھے — مجھے اردو داستانوں نے لکھنا سکھایا۔ ’’طلسم ہوش رُبا‘‘ کا میں شیدائی تھا۔ منٹو اکثر مجھے پریشان کرتا تھا، کرشن چندرؔ کی نثر کسی جادو کی طرح مجھ پر سوار تھی— شاعری میں اقبالؔ، غالبؔ، مومنؔ، میرؔ فیضؔ، میراجیؔ— ن۔ م۔ راشدؔ، جگرؔ، فراقؔ کا میں دیوانہ تھا— اسی لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان میں سے مجھے سب سے زیادہ کس نے متاثر کیا۔ George Orwell کے 1984 اور Animal Farm سے میں نے سیاسی شعور کو ادب میں شامل کرنے کا فن سیکھ لیا تھا— میرے لئے شاعری بھی اہم تھی— اور کہانی اور ناول کی دنیا بھی— میں ان دونوں کے توازن سے اپنے ادب کو فروغ دے رہا تھا۔

سمیہ:   موجودہ دور کے لکھنے والوں میں آپ کے پسندیدہ قلم کار کون ہیں اور کیوں ؟

ذوقی:  موجودہ دور کے لکھنے والوں میں اگر اردو کی بات کریں تو مجھے مستنصر حسین تارڑ کا ناول خس و خاشاک زمانے بے حد پسند ہے — تارڑ کی تحریر میں ہم تقسیم کے بعد کی صورتحال کو نئے معنی اور نئے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں — مجھے خالد طور کا ناول ” بالوں کا گچھا”بھی بے حد پسند ہے —  قدرت اﷲ شہاب کے شہاب نامہ نے مجھے نیا اُفق دکھایا— ہندوستانی منظر نامے میں مجھے منٹو اور قُراۃالعین حیدر کی تحریریں بے حد پسند ہیں۔

سمیہ:   ادب کے موجودہ منظر نامے پر کچھ اظہار خیال کیجیے ؟

ذوقی:  اردو ادب کا موجودہ منظر نامہ ناول کے لحاظ سے بہتر ہے — یہ خوشی کی بات ہے کہ اردو ناولوں کو لے کر مسلسل سیمنار اور مکا لمے ہو رہے ہے۔ سن 2000ء تک اردو ادب کا منظر نامہ ایک طرح سے دھند میں ڈوب چکا تھا۔ 2000ء کے بعد اچانک یہ پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا— نئے لوگ سامنے آنے لگے — رسائل کی تعداد بھی بڑھ گئی اور سب سے زیادہ خوشی کا مقام یہ ہے کہ ہندوستان سے پاکستان تک اردو ناولوں کی تعداد میں گراں قدر اضافہ ہوا— اچھے ناول سامنے آئے — پاکستان میں بہت ہی اچھا ادب لکھا گیا— اور یہ سفر ہنوز جاری ہے۔

سمیہ:   اگر آپ چاہتے تو پروفیسر یا کسی اور سرکاری محکمے میں اعلیٰ آفیسر کی حیثیت سے وابستہ ہو سکتے تھے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں ؟

ذوقی:  میں حکومت کے کسی ادارے سے وابستہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ میرے اندر ایک ادیب چھپا بیٹھا تھا جو بار بار مجھ سے یہی کہتا تھا کہ اگر کالج میں گئے یا سرکاری نوکری قبول کی تو وہ سب نہیں لکھ پاؤ گے جو تم لکھنا چاہتے ہو۔ میں دلی آ گیا۔ فری لانسنگ شروع کی— کچھ اخبارات سے وابستہ ہوا اور اسطرح ایک نئی زندگی کی شروعات کی— تعلیم میرے لئے بی۔ اے یا ایم۔ اے کی ڈگری نہیں۔ تعلیم میرے لئے پروفیسر بن جانا یا I.A.S   بن جانا نہیں ہے تعلیم میرے لئے ایک ایسا سمندر ہے جہاں ہم ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ آزادی کے بعد ہی اردو کا رشتہ روزی روٹی سے منقطع کر دیا گیا— اسی لئے اگر اردو کا پروفیسر بن جاتا تو روز گار کے ذریعے کھل سکتے تھے لیکن میں اس محدود دنیا میں نہیں جانا چاہتا تھا— آ رہ سے دلی کے سفر تک میں اپنا پراناطوم انگرام ترتیب دے چکا تھا— میں نے سوچ لیا تھا کہ جو کچھ بھی کرنا ہے قلم کے سہارے ہی کرنا ہے — دلی آنے کے بعد میں کچھ اخبارات سے منسلک ہوا۔ 1986 میں دلی آیا اور 1987 تک دور درشن اور Electronic Media کے دروازے میرے لئے کھل چکے تھے — میں دو سال تک دلی کے کئی Production house کے لئے فلم اسکرپٹ لکھی— اور 1989 سے میں نے اپنا پروگرام بنانا شروع کیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے —

— اُڑان (جموں )

٭٭٭

 

 

 

 

اب وہ وقت آ گیا ہے جب اردو کے کے ادبی سرمایے کو دیگر بڑی زبانوں میں منتقل کرنا ہو گا: ذوقی

(قطر کا عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ ۲۰۱۵ ملنے کے بعد، مشرف عالم ذوقی سے ایک مختصر گفتگو)

 

                راجیو پرکاش ساحر

 

ساحر :اہل لکھنؤ کی طرف سے مبارکباد

ذوقی: شکریہ

ساحر:ہمیں خوشی ہے کہ آپ کے ادبی سفرمیں اب لکھنؤ کا نام بھی شامل ہو گیا ہے۔ میں اس بات کا گواہ رہا ہوں کہ لکھنؤ کے ۶ ماہ کے قیام کے دوران آپ نے اسی شہر میں رہ کر اپنا معروف ناول نالۂ شب گیر تحریر کیا۔

ذوقی:لکھنؤ سے میری روحانی وابستگی ہے۔ یہ میرے خوابوں کا شہر ہے۔ دلی کی بھاگتی دوڑتی مشینی زندگی سے الگ میں نئے ناول ’یک ماندگی کا وقفہ‘ کے لیے بہت جلد اس شہر میں دوبارہ آنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ یہ ناول بھی لکھنؤ میں ہی مکمل کروں گا۔

ساحر:فروغ اردو ادب ایوارڈ کی بڑی اہمیت ہے۔ اس ایوارڈ سے قرۃ العین حیدر، احمد ندیم قاسمی اور ہندو پاک کے تمام بڑے ادیبوں کا نام وابستہ ہے۔ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ ؟

ذوقی:مجھے خوشی ہے کہ میرے نام پر غور کیا گیا۔ میں خصوصی طور پر پروفیسر گوپی چند نارنگ کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ادب کی مجموعی خدمات کے طور پر میرے نام کا انتخاب کیا۔ میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں۔ انعام کی خبر آنے پر میں نے اپنے کمرے میں اندھیرا کر دیا۔ میری اہلیہ نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔ کس کا فون تھا؟ کوئی بری خبر تھی۔ میں نے کہا، ایسا محسوس کر رہا ہوں جیسے اپنے قاری سے دور ہو گیا ہوں۔ میری اہلیہ نے کہا کہ اب آپ قاری سے زیادہ قریب ہو جائیں گے۔ پھر مجھے اطمینان ہوا۔

ساحر:کیا موجودہ ادب سے آپ مطمئن ہیں ؟

ذوقی:سو فی صد۔ ان دنوں برا بھی لکھا جا رہا ہے۔ لیکن بہت اچھا بھی لکھا جا رہا ہے۔ ہندو پاک میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ مضامین، غزلیں، نظمیں، کہانیاں اور ناول۔ ہر جگہ ہم کامیاب ہیں۔ مضامین میں مضبوط دلیلیں آ گئی ہیں۔ ناول اور افسانے کی سطح پر ہم نئے موضوعات سے قریب ہیں۔ شاعری بھی بہتر ہو رہی ہے۔ آپ آج کے ادب کا موازنہ کلاسیکی ادب سے نہ کریں۔ وہ ہمارا خزانہ ہے۔ اس کا اعتراف بھی ضروری ہے۔ مگر یہ نہ بھولیں کہ وقت تبدیل ہوتا ہے۔ اور اس تبدیل ہوتے وقت کی آہٹ ادب میں بھی سنائی دیتی ہے۔ اس لیے شعری لہجہ بھی بدلا ہے اور افسانوی لہجہ بھی۔ ایک بات اور کہنا چاہوں گا۔ اردو کو صرف ہندوستان تک محدود نہ کیجئے۔ اردو کی گونج صرف برصغیر نہیں پوری دنیا میں ہے۔ پاکستان میں بہت عمدہ ادب لکھا جا رہا ہے۔ میں تو اکثر پاکستانی رسائل پڑھ کر حیران رہ جاتا ہوں۔ ہمارے یہاں بھی رحمن عباس، خالد جاوید، صدیق عالم ایک سے بڑھ کر ایک تخلیق کار ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نقاد انصاف کرنا سیکھے۔ خیموں سے باہر نکلے اور مطالعہ کے لیے اپنی کسوٹی نہ بنائے۔ کیونکہ ممکن ہے، اس کی فکر کا پیمانہ محدود ہو۔ اس لیے نقاد کو اپنے بنائے گئے پیمانے سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ لکھنؤ میں دیکھئے، انیس اشفاق نے کیا عمدہ ناول لکھا۔ میں نے اعتراض کیا تھا، لیکن صاحب، اعتراض وہیں کیا جاتا ہے، جہاں بڑی بات ہوتی ہے۔ عبدالصمد نے شکست کی آواز میں رومانیت سے باہر ایک بڑے مسئلہ کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ رحمن عباس نے بہت اچھے ناول اردو کو دیئے ہیں۔ شائستہ فاخری کے دونوں ناول بہت عمدہ ہیں۔ ہم سائنس اور تکنالوجی کی جس دنیا میں ہیں، اس دنیا کے اپنے تقاضے اپنی اڑان ہیں، اور ہم بہرحال اس اڑان کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔

ساحر:کیا آپ کی ذمہ داری اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گی؟

ذوقی:ادیب کو ذمہ دار ہونا ہی چاہئے۔ ادب ایک بڑی ذمہ داری کا نام ہے۔ ادب محض شوق نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اردو ادب کے بڑے سرمایے کو انگریزی اور دوسری بڑی زبانوں میں منتقل کیا جائے۔ یہ کام انفرادی طور پر کچھ ادیب کرتے ہیں۔ لیکن اب اردو اداروں کو یہ ذمہ داری لینی ہو گی۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ دیگر زبان میں بھی اردو کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔

ساحر:شکریہ آپ کا۔

ذوقی:آپ کا بھی شکریہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

لکھنؤ میرے خوابوں کا شہر ہے۔ ذوقی

عالمی شہرت یافتہ ناول نگار ذوقی سے ایک انٹرویو، لکھنؤ کے حوالہ سے

 

 

                راجیو پرکاش ساحر

 

 

مشرف عالم ذوقی، ایک نام جس نے آج کی ادبی تاریخ میں شہرت اور مقبولیت کی تمام منزلوں کو عبور کر کے اپنا ایک مخصوص مقام بنا لیا ہے۔ محض ۱۷ سال کی عمر ذوقی نے اپنا ناول تخلیق کیا۔ عقاب کی آنکھیں۔ اس کے بعد ذوقی کے قدم رکے نہیں، آگے بڑھتے رہے۔ ان کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ ان کے افسانے، ان کی کتابیں دوسری زبانوں میں منتقل ہو رہے ہیں اور ان کی مقبولیت نے سرحدوں کے فاصلے ختم کر دیئے ہیں۔ گوگل یا کسی بھی ویب سائٹس پر ان کی تمام کتابوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے بعد اردو ناول نگاری کی دنیا میں ایک ایسا نام جہاں زندگی کا فلسفہ بھی ہے، سائنس کی اڑان بھی، تہذیبوں کا المیہ بھی ہے اور نئی دنیا کی تلاش بھی۔ مسلمان، بیان، پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ، نالۂ شب گیر جیسے ناولوں نے آج ذوقی کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ان کے مقابل دور دور تک کوئی نظر آتا۔ مسرت اس بات کی ہے کہ ذوقی ان دنوں ہمارے اور آپ کے شہر لکھنؤ میں ہیں۔ میں ان سے دو مہینے قبل لکھنؤ یونیورسٹی کی ایک تقریب میں ملا۔ میں ڈرا ہوا تھا کہ اتنے بڑے ادیب سے باتیں کیسے کروں گا۔ یونیورسٹی کے اسٹیج سے جب انہوں نے اپنی گفتگو شروع کی تو ہال میں سناٹا چھا گیا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ کہانی سنانے کا یہ انداز، یہ فن میں نے آج تک کہیں نہیں دیکھا، نہ میں نے کبھی تصور کیا۔ تقریب کے خاتمہ کے بعد میں ان سے ملا اور میں نے انٹرویو کے لیے کہا تو وہ کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر منظوری دے دی۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ ذوقی سے گفتگو اور مکالمے تو آئے دن رسائل اور اخباروں کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن میں انٹرویو کو نئی سمت دینے کی کوشش کروں گا— مجھے یاد آیا، لکھنؤ یونیورسٹی کے تاریخی پروگرام میں ذوقی نے اسٹیج سے کہا تھا کہ اردو کو دکن والے، پنجاب والے اور دلی والے لے گئے۔ کوئی بھی زبان محض شعر و شاعری کے وسیلے سے زندہ نہیں رہتی۔ واجد علی شاہ نہ ہوتے تو اردو عوام سے قریب نہ ہوتی۔ یہ آپ کا شہر لکھنؤ تھا جس نے اردو کو عوام سے وابستہ کیا۔ میں نے سوچ لیا تھا، ممکن ہوا تو میں اس انٹرویو کو لکھنؤ تک محدود رکھوں گا— میری کوشش آپ کے سامنے ہے۔ میں کتنا کامیاب رہا، یہ آپ سے جاننا ابھی باقی ہے۔ (ر۔ پ۔ س)

 

سوال: لکھنؤ آپ کو کیسا لگا؟

ذوقی: لکھنؤ میرے خوابوں کا شہر ہے۔ یہاں میں اکثر آتا ہوں۔ ایک وقت تھا جب میں نے لکھنؤ دوردرشن کے لیے پروگرام بھی بنائے۔

سوال: لیکن آج کا لکھنؤ بہت حد تک تبدیل ہو۔ چکا ہے۔ وہ پہلے والی بات نہیں رہی۔

ذوقی: کہاں تبدیل ہوا ہے۔ لکھنؤ آج بھی وہی ہے۔ اور آنے والے پچاس برس بعد بھی وہی رہے گا۔ ہاں آپ کو یہ ہر زمانے میں سننے کو ملے گا کہ لکھنؤ اب پہلے والا لکھنؤ نہیں ہے۔ صاحب، ہم جس دور میں ہیں، وہاں ہردن زندگی کا مزاج اور معیار دونوں تبدیل ہوتا ہے۔ لکھنؤ کی سب سے بڑی خوبصورتی یہاں کی تہذیب ہے۔ یہ وقت گزرنے کے ساتھ بھی کہاں بدلی۔ عابد سہیل، شارب ردولوی، صبیحہ انور، شہنواز قریشی، ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی، ملک زادہ منظور احمد، فیاض، رفعت، احمد ابراہیم علوی اور میرے بہت اچھے دوست منور رانا کی ہی مثال لے لیجئے۔ یہاں شرافت ہے۔ تہذیب ہے، اخلاق ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ بھی کہیں کچھ نہیں بدلا۔ پرانا لکھنؤ آج بھی وہی ہے۔ گزشتہ لکھنؤ کو یاد کرتے ہوئے شرر بھی یہی کہتے تھے۔ وہ لکھنؤ نہیں رہا۔ لیکن لکھنؤ وہی ہے۔ حضرت گنج سے امین آباد کی گلیوں تک، ٹنڈے کے کباب اور بریانی جیسے لذیذ کھانوں تک اور صاحب، نیر مسعود عرفان صدیقی تک… آپ کا لکھنؤ بھلایا ہی نہیں جا سکتا۔

سوال: نیر مسعود؟ سننے میں آیا کہ آپ ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ؟

ذوقی: اختلاف ہمیشہ بڑے لوگوں سے ہوتا ہے۔ جو معیار کا نہ ہو وہاں اختلاف ممکن ہی نہیں۔ نیر مسعود اردو فکشن کا ایک ایسا معتبر نام ہے جس کو الگ کر کے ہم اردو فکشن کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ کچھ کہانیوں کو لے کر اختلاف ضرور تھے لیکن بھائی اختلاف تو آپ شیکسپئر سے بھی کرتے ہیں۔ میں آج تک نیر مسعود سے نہیں ملا، ملنے کی خواہش اور حسرت دونوں ہے۔ اور میں یہ جانتا ہوں کہ فکشن میں جو لہجہ اور راستہ نیر مسعود نے اپنایا، وہاں وہ اپنے اسلوب کے شہنشاہ ٹھہرے۔ اور یہی بات میں عرفان صدیقی کے تعلق سے بھی کہتا ہوں۔ غالب کے بعد گنتی کے دو چند شاعر ہیں جہاں ایسی زمین، ایسے بلند خیالات ملتے ہیں۔ اور آپ کو فخر کرنا چاہئے کہ ان دونوں کا تعلق لکھنؤ کی سرزمین سے رہا ہے۔

سوال: لیکن ان دنوں لکھنؤ کے ادب میں خاموشی چھائی ہے … اردو فکشن کی بات کریں تو محسن خاں بھی خاموش ہیں۔

ذوقی: محسن نے غضب کی اڑان بھری تھی۔ زہرا کمال کی کہانی تھی۔ محسن کو ملیح آباد کے آم کچھ ایسے پسند آئے کہ ادب سے دور چلے گئے۔ لیکن اسی لکھنؤ میں عابد بھائی آج بھی فعال ہیں … لا جواب انسان۔ ان کی قدر کیجئے۔

سوال: افسانے اور ناول کی بات چلی ہے تو ابھی حال میں انیس اشفاق کا ناول دکھیارے منظر عام پر آیا ہے۔ کیا آپ نے اس ناول کا مطالعہ کیا ہے ؟

جواب: میں لکھنؤ آیا تو اردو اخباروں سے اس ناول کا نام سنا۔ میں ناول کا آدمی ہوں اس لیے میری دلچسپی اس ناول میں پیدا ہوئی۔ اتفاق سے ایک ادبی تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی اور اس طرح یہ ناول میرے ہاتھ میں آ گیا۔ میں ساری رات ناول کا مطالعہ کرتا رہا۔

سوال: یعنی آپ نے ناول کا مطالعہ کر لیا۔ اس ناول کے بارے میں آپ کی رائے ؟

جواب: انیس اشفاق ناول لکھنے کے فن سے واقف ہیں جبکہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے بیشتر ناول نگاروں کو ناول نگاری کا فن ہی نہیں معلوم۔ زبان و مکالمہ پر قدرت ہے۔ کردار نگاری پر عبور حاصل ہے۔ جب پڑھنا شروع کیا تھا تو تن کر بیٹھ گیا۔ چند صفحات کے بعد ہی احساس ہونے لگا کہ اپنے عہد کا بڑا شاہکار پڑھنے جا رہا ہوں۔ کمال کا کرافٹ۔ کوئی لفظ کم نہ زیادہ۔ ناول نگاری کے لیے یہ بھی ایک آرٹ ہے۔ زبردست ریڈ یبلیٹی اور قاری کو باندھ کر رکھنے کا فن۔ ناول میں ایک بڑا بھائی ہے جو اردو ناول کی دنیا میں ایک نہ بھولنے والے کردار کے طور پر یاد رہے گا۔ ناول ختم کیا تو گھنٹوں سوچ میں ڈوبا رہا۔ کمی کہاں رہ گئی؟ ایک آنچ کی کسر کہاں رہ گئی۔ اتنا خوبصورت پلاٹ اٹھانے کے بعد بھی انیس اشفاق چوک کہاں گئے ؟ یہ ناول گزشتہ لکھنؤ سے عبارت ہے۔ اور یہ لکھنؤ ماضی اور حال دونوں کو سمیٹے ہوئے اس ناول میں موجود ہے۔ مگر مجھے احساس ہوا کہ انیس اشفاق امام باڑوں کی تاریخ میں الجھ گئے۔ گزشتہ لکھنؤ کا محض ایک صفحہ یہاں موجود ہے، کاش وہ گزشتہ لکھنؤ کے کچھ اور صفحات پر بھی نظر ڈالتے۔ ناول کے آخری جملے میں ایک خاموش محبت کی کسک موجود ہے مگر اس سے کوئی بات نہیں بنتی۔ اور اس کی وجہ وژن کی کمی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بڑے بھائی کے ناقابل فراموش کردار کے لیے اس ناول کو یاد رکھا جائے گا۔

سوال: اگر آپ اس ناول کا انجام لکھتے تو کیا ہوتا؟

ذوقی: میں امام باڑوں کو علامت کے طور پر استعمال کرتا۔ میں بڑے بھائی کو زندہ رکھتا— کہانی میں آیا ہے کہ ایک امام باڑہ تعمیر ہو رہا ہے۔ میں انہیں وہاں لے جاتا اور یہ بات سامنے آتی کہ وہ وہیں سے گم ہوئے۔ اس طرح بڑے بھائی کو میں گمشدہ تہذیب یا گزشتہ لکھنؤ کی علامت بنا کر پیش کرتا۔

سوال: لکھنؤ سے الگ بات کریں تو کیا اندنوں اچھے ناول لکھے جا رہے ہیں ؟

ذوقی: یہ دور ناولوں کے لیے ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اندنوں ہمارے یہاں جو ناول لکھے جا رہے ہیں، وہ عالمی معیار کے ہیں۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول غلام باغ، ایک سے صفر تک، مستنصر حسین تارڑ کا ناول خس و خاشاک زمانے، خالد طور کا ناول ’بالوں کا گچھا‘ رضیہ فصیح احمد کا ناول’ صدیوں کی زنجیر‘ اشرف شاد کا ناول’ بے وطن‘ اور وزیر اعظم خود میرے دو ناولوں ’لے سانس بھی آہستہ اور آتش رفتہ کا سراغ‘ کو بیحد پسند کیا گیا۔ اور کئی کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ لوگ مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ اردو نہ صرف شان سے زندہ ہے بلکہ آج بھی ہماری زبان میں لاجواب فکشن اور ناول لکھے جا رہے ہیں۔

سوال: لکھنؤ کے ادبی مزاج میں جدیدیت کا رنگ غالب رہا ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری دیکھ لیجئے۔ نیر مسعود اور انیس اشفاق کے یہاں بھی یہی جدیدیت حاوی ہے۔

ذوقی: (روکتے ہوئے ) میں آپ کا سوال سمجھ گیا۔ جدیدیت سے انکار کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ہر تخلیق کو جدید ہونے کا حق حاصل ہے۔ انیس اشفاق کے تازہ ناول کو دیکھیں تو یہاں ایک مخصوص بیانیہ ملے گا۔ نیر مسعود کے یہاں بھی یہی بیانیہ حاوی ہے۔ آج کوئی بھی کہانی پریم چند کے طرز پر نہیں لکھی جا سکتی۔ جب ایک خیال کو کہانی بنانا ہوتا ہے تو وہ فنٹاسی، علامت کئی موڑ سے گزرتی ہے۔ خود فاروقی صاحب کا ناول دیکھ لیجئے۔ دراصل ہمارے یہاں جدیدیت کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ جدیدیت محض ایک کورا فلسفہ نہیں، ایک ویژن بھی ہے اور یہ کسی ایک شخصیت سے منسوب نہیں۔ اس کا دائرہ وسیع ہے۔ آپ میرے ناولوں کو ہی دیکھیں تو واقعات کی زیریں لہر علامتوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔

سوال: ایک اور سوال، لکھنؤ نے آپ کو کیا تحفہ دیا۔

ذوقی: لکھنؤ نے ہمیشہ ہی دیا ہے۔ اردو کی بات کریں تو دکن پنجاب اور دلی سے زیادہ اس زبان پر آپ کا حق ہے۔ میں نے لکھنؤ کو موضوع بنا کر جب آتش رفتہ کا سراغ‘ کا دوسرا حصہ ’اردو‘ لکھنا شروع کیا تو مجھے ایک ہزار برس کی تاریخ میں لکھنؤ کی یاد سب سے پہلے آئی۔ واجد علی شاہ نہ ہوتے تو اردو محض شعر و شاعری کی زبان بن کر رہ جاتی۔ واجد علی شاہ نے اردو کو عوام سے وابستہ کیا۔ اس سے قبل تک اردو خواص کی زبان تھی۔ ڈرامے، سنگیت اور رقص کے ذریعہ واجد علی شاہ آپ کی زبان کو عوام تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ مجھے خوشی ہے، کہ اس بار لکھنؤ کے سفر نے مجھے بھی ایک قیمتی تحفہ دیا ہے۔ یہ قیمتی تحفہ میرا نیا ناول نالۂ شب گیر ہے جس کی شروعات بھی لکھنؤ سے کی اور اس ناول کا انجام بھی لکھنؤ میں لکھا۔ اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ نالۂ شب گیر، لکھنؤ کی سرزمین کے سوا کہیں اور لکھا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

سوال: ایسا کیوں ؟

ذوقی: یہ شب کے سینے سے اٹھتی ہوئی درد و فغاں کی آواز ہے۔ اس ناولہ کو قلمبند کرنے کے لیے مجھے اسی سرزمین کی تلاش تھی۔ انشاء اللہ یہ ناول بہت جلد آپ کے ہاتھوں میں ہو گا۔

سوال: لکھنؤ کی کوئی بات جو آپ کو بری لگتی ہو۔

ذوقی: کہتے ہیں اس سے زیادہ مہذب دنیا کا کوئی تصور کسی کے پاس نہیں ہے۔ لیکن جب اس مہذب دنیا میں ایک ہی کلمہ پڑھنے والے نفرت کی شمشیریں نکال لیتے ہیں تو دل زخمی ہو جاتا ہے۔ اردو اخبارات دیکھتا ہوں تو کبھی کبھی دل کو چوٹ پہنچتی ہے۔ فرق کیوں آیا؟ کہاں سے آ گیا؟ کیا چنگیز خاں یا ہٹلر کو انسان کہا جا سکتا ہے ؟ پھر یزید کو معاف کیسے کیا جا سکتا ہے ؟

میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا

میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے

اور اس سے آگے بڑھیں تو۔ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ میں صدمے میں ہوں لیکن اس یقین کے ساتھ کہ ایک ہی کلمہ پڑھنے والوں کے درمیان نفرتیں بہت دنوں تک نہیں رہ سکتیں۔ اور یہ بھی سازش کا حصہ ہے۔ نئی نسل کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ بھائی بھائی آپس میں لڑ جائیں اور مسلمانوں کو کمزور کر کے ان پر حکومت کی جا سکے۔

سوال: لکھنؤ کی سیاست؟

ذوقی: سیاست مجھے راس نہیں آتی۔ ہاں ایک آزاد شہری کی طرح لوک سبھا انتخاب اور ملک کی سیاست کے بارے میں غور کرتا ہوں تو دھکا لگتا ہے۔ کوئی جامعہ نگر کو دہشت گردوں کا ٹھکانہ کہہ رہا ہے۔ کوئی مسلمانوں کو ٹکڑے کرنے کی بات کہہ رہا ہے۔ اور کوئی مسلمانوں سے انتقام لینے کی۔ یہ انتخاب فرقہ واریت بنام سیکولرزم نہ ہو کر ہندو بنام مسلم ہو گیا ہے۔ ایک بار پھر تقسیم کا جن باہر نکل آیا ہے۔ آرایس ایس اپنے خطرناک منصوبوں کو پورا کرنے میں لگ گئی ہے۔ اس انتخاب نے ہندو اور مسلمانوں کو دو الگ الگ حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ ہندو اور مسلمان دونوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہے کہ صدیوں کی یہ ملت ماضی کا قصہ بن کر نہ رہ جائے۔ رہی ادب کی بات تو آپ دل سے اس بات کو نکال دیں کہ کہیں سیاست بھی ہے۔ آپ اپنا کام کیجئے۔ دوسروں کو اپنا کام کرنے دیجئے۔ ان باتوں پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ اچھی تخلیق ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اردو اداروں اور اکادمیوں کو بڑی ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا: مشرف عالم ذوقی

 

                عینین علی حق

 

سوال: انعام و اعزاز ایک ادیب کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتے ہیں

جواب: انعام و اعزاز کی حیثیت ثانوی ہے۔ ادیب کا کام صرف لکھنا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ساری زندگی اچھا لکھنے کے باوجود وہ محدود قاری تک پہنچتا ہے۔ اردو میں ادبی رسائل کی تعداد یوں بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ اور ان کی تعداد اشاعت بھی کم ہے۔ انعام و اعزاز سے یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن صرف اضافہ کا ہونا معنی نہیں رکھتا۔ گلشن نندہ کے ایک زمانے میں لاکھوں قاری تھے۔ رومانی فحش اور جاسوسی دنیا جیسی کتابوں کے قارئین بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ ادب کے سنجیدہ قارئین کی تعداد ہمیشہ سے کم رہی ہے۔ ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ اس کنزیومر ورلڈ میں ادب کی نہ کوئی شناخت ہے نہ خریدار۔ اس لیے اس مشکل وقت میں ایک ادیب کو نہ صرف بہتر لکھنے پر زور دینا ہے بلکہ اس بات کی بھی کوشش کرنی ہے کہ اس کے ادب کی رسائی زیادہ سے زیادہ قارئین تک ہو۔ دیگر زبان کے بڑے لکھنے والے مارکیٹ اسٹریٹجی اور بازار کو سامنے رکھتے ہیں۔ ابھی ہم اس حد تک کمر شیل نہیں ہوئے لیکن ہونے کی ضرورت ہے۔ فروغ ادب اردو جیسے انعامات آپ کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ آپ کی ایک انٹرنیشنل شناخت ہو۔ پھر آپ کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ آپ کے ادب کا دائرہ پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہو گیا ہے۔

سوال: ابھی آپ نے مارکیٹ اسٹرینجی کی بات کی۔ ایک زندہ زبان کے ساتھ مارکیٹ اسٹریٹجی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، مگر اردو کے ساتھ تو ہر روز یہ کہا جاتا ہے کہ اردو مردہ زبان ہے۔

جواب: پہلے تو یہ بات سمجھ لیجئے کہ اردو مردہ زبان نہیں ہے۔ مجھے یہ بات سنتے ہوئے تیس سے زائد برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر اردو شان سے زندہ ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اکادمیوں اور اردو اداروں کے ہونے کے باوجود وہ کوششیں کم ہوئیں کہ اردو کا دائرہ کار وسیع ہو سکے۔ کئی سوال ہیں، کیا ہم لوگوں میں ایمانداری کی کمی تھی؟ یا نئی نسل اب اردو سیکھنا نہیں چاہتی۔ نئی نسل کسی بھی زبان کو اس وقت اپنانا چاہے گی جب اسے شدت سے اس بات کا احساس ہو گا کہ یہاں روزگار کے مواقع ہیں۔ اس لیے کونسل اور اکادمیوں کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف اردو کی مٹھاس کا نعرہ نہ لگائیں بلکہ اردو کو مارکیٹ سے جوڑیں اور نئی نسل کو یہ بتانے کی کوشش کریں کہ صاحب، یہاں بھی آپ کا ایک مستقبل ہے۔ جس تجارتی اور کمرشیل سطح پر یہ کوشش ہونی چاہئے تھی، وہ کوشش نظر نہیں آ رہی۔ اردو کو ادب کی زبان بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ محض ادب سے کوئی زبان زندہ زبان نہیں بنتی۔ یہ اردو ہی ہے کہ روزی روٹی سے منقطع ہونے کے باوجود زندہ رہی بلکہ اب تو ٹی وی چینلس اور روزگار کے دوسرے راستے بھی کھلتے نظر آ رہے ہیں، جو پہلے نہیں تھے۔ اردو کو تجارت اور روزگار سے جوڑنا ہو گا، اور اس کے لیے اردو اداروں اور اکادمیوں کو بڑی ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا۔

سوال: کیا ادب کی موجودہ فضا سے آپ مطمئن ہیں۔ ؟

جواب: صد فی صد۔ کیونکہ ہر عہد میں کچھ ہی بہتر لکھنے والے ہوتے ہیں۔ ہندو پاک کے ادب کا جائزہ لیں تو دونوں جگہ بہتر لکھنے والے موجود ہیں۔ ادب میں سیاست ضرور حاوی ہے۔ مگر یہ بھی دیکھئے کہ سیاست ہر دور میں حاوی رہی ہے۔ جینوئن ادیب سیاست سے دور رہتا ہے اور اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ اب یہی دیکھئے۔ دلی اردو اکادمی ہر سال نئے پرانے چراغ پروگرام کے تحت ریسرچ اسکالرس کو موقع دیتی ہے، ان بچوں کو ذرا سی تربیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اور ہندی زبان میں نئے لکھنے والے بہت تیزی سے داخل ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں ابھی یہ رفتار سست ہے مگر آپ انہیں تربیت دیں گے تو انہیں کھل کر سامنے آنے کا موقع ملے گا۔ اور آنے والے وقت میں ان میں سے ہی کوئی منٹو اور کرشن چندر ہو گا۔

سوال: فروغ اردو ۲۰۱۵ کا یہ انعام، آپ کے نام کی وجہ سے ان دنوں سرخیوں میں ہے۔ خاص کر فیس بک پر۔ پہلی بار دو ادیبوں کا تنازعہ بھی سامنے آیا۔ یہ آپ کی مقبولیت ہے، جو سرحدوں سے بلند ہے۔ اس طرح کے تنازعہ پر آپ کیا سوچتے ہیں ؟

جواب: میں کچھ بھی نہیں سوچتا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا کام صرف لکھنا ہے، میرا کام اپنے وژن کو پھیلانا ہے۔ میرے بارے میں کون کیا سوچتا ہے، اس بات کی فکر مجھے کبھی نہیں رہی۔ ایک جینوئن ادیب کو اس کی فکر ہونی بھی نہیں چاہئے۔ جب آپ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو جہاں آپ کو چاہنے والے پیدا ہوتے ہیں، وہاں ایک بڑی جماعت اور بھی ہوتی ہے۔ میں ادب میں کسی بھی طرح کی سیاست کو برا سمجھتا ہوں۔ ادیب اگر سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے تو وہ اپنی تخلیقات کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے گا۔ اور میرے پاس فضول کاموں کے لیے وقت نہیں۔

سوال: اور آخر میں ایک سوال — زندگی کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں ؟

جواب: زندگی خوبصورت ہے، مگر ان کے لیے جو جینا جانتے ہیں۔ ادب میں ہم اسی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور رنگوں کو جینے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوال: شکریہ

جواب: آپ کا بھی شکریہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

آج کے اردو ادب کو آپ کسی بھی عالمی شاہکار کے سامنے رکھ سکتے ہیں : ذوقی

(انجمن فروغ اردو عالمی انعام ۲۰۱۵ کے لیے منتخب ناول نگار مشرف عالم ذوقی سے جسیم قاسمی کی ایک مختصر گفتگو)

 

 

جسیم: آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں ؟

ذوقی: میں نے زندگی میں کبھی انعام و اعزاز کی توقع نہیں کی۔ محترم پروفیسر گوپی چند نارنگ، جیوری کے ممبران اور انجمن فروغ اردو کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے نام پر غور کیا۔ میں نے بار بار کہا ہے کہ لکھنا ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ اور میں اسے نبھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

جسیم: آپ کا تعلق فکشن سے زیادہ ناول سے ہے۔ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ اردو ناولوں کو عالمی شہہ پاروں کے سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ ؟

ذوقی: یقیناً— عالمی ادب کو اردو پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو کو عالمی ادب پر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ مستنصر حسین تارڑ، رضیہ فصیح احمد، مرزا اطہر بیگ، اشرف شاد، اور ہندوستان میں بھی عبدالصمد، شائستہ فاخری، رحمان عباس، کئی ایسے نام ہیں، جن کی تحریروں کو ایک زمانہ کا اعتبار حاصل ہے۔ پچھلے پچاس برسوں کے ناولوں کا تجزیہ کیجئے تو ایسے کتنے ہی نام ہیں جن کی کتابیں مغرب کی کتابوں پر بھاری پڑیں گی۔ مستنصر حسین تارڑ تقسیم کے پس منظر میں سلگتے ہوئے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں تو انیس ناگی قلعہ جنگی اور کیمپ میں عالمی دہشت گردی کے درمیان پناہ کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ شوکت صدیقی جانگلوس کے بہانے دیہی مافیا کو بے نقاب کرتے ہیں تو طوفان کی آہٹ میں مصطفی کریم پلاسی کی جنگ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے ساتھ سراج الدولہ کے شکست کی کہانی کو آج کی صدی اور کشمکش سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقبال مجید کسی دن اور نمک میں انسانی شکست و ریخت کا المیہ بیان کرتے ہیں۔ عبدالصمد شکست کی آواز میں محبت سے آگے نکل کر نئے عہد یعنی جادو نگری کو آواز دیتے ہیں۔ رحمن عباس خدا کے ہونے اور نہ ہونے پر مکالمہ کرتے ہیں۔ شائستہ فاخری کے دو ناول شائع ہوئے ان دونوں ناولوں میں انہوں نے عورتوں سے متعلق نئے مسائل کو اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ آج اسد محمد خان، انور زاہدی، محمد الیاس، مبین مرزا، اقبال خورشید، اخلاق احمد، شوکت حیات، حسین الحق، بیگ احساس کئی ایسے نام ہیں جن کی بیشتر کہانیاں ایسی مل جائیں گی، جن پر آپ فخر کر سکتے ہیں، مگر حال یہ ہے کہ لوگ پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ اردو نقاد کو قرۃ العین حیدر سے آگے نکل کر اردو فکشن اور ناول کے نئے منظرنامہ کو دیکھنا ہو گا۔

جسیم: کیا خوشی کی بات نہیں کہ آج اردو مین اسٹریم میں ہے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب اور انتظار حسین کی کتابیں بڑے عالمی انعام کے لیے منتخب ہو رہی ہیں ؟

ذوقی: بیشک یہ خوشی کی بات ہے اور اس سے اردو زبان و ادب کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے — مستقبل کو لے کر یہ امید پیدا ہو رہی ہے کہ آئندہ بھی اردو کتابوں پر غور کیا جائے گا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ عالمی انعام کے لیے جو کتابیں منتخب ہو رہی ہیں، ان کا دائرہ محدود ہے۔ انتظار حسین نے جاتک کتھاؤں، پنج تنتر، داستان امیر حمزہ، طلسم ہوشربا سے فیض حاصل کیا۔ یہ کتابیں تو پہلے سے ہی تھیں پھر نیا کیا ہے ؟ صرف زبان کی سطح پر کسی ادب کو بڑا نہیں کہا جا سکتا۔ فاروقی صاحب کے ناول کا کینواس بھی وسیع نہیں ہے۔ آپ غور کریں تو کینواس کے ساتھ اس وژن کی کمی ہے جس میں کسی تحریر کو شاہکار بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ میں فاروقی صاحب کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ جب ان کا پہلا ناول شائع ہوا، تو مجھے یقین تھا کہ یہ ایک شاہکار ہو گا مگر اس ناول کی فضا مجھے قرۃ العین کے ناولوں سے مختلف نظر نہیں آئی۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہم نئی دنیاؤں کی طرف کیوں نہیں دیکھتے یا ہم اس نئی سائبر دنیا کو سمجھ ہی نہیں پائے — ؟ ہم ایک ایسے عہد میں ہیں جہاں پانچ سو سال جینے کی تیاری ہو رہی ہے، سائنس موت پر فتح حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ہم کیا لکھ رہے ہیں ؟ پرانی تہذیبوں کا نوحہ؟ تو صاحب یہ نوحے بہت لکھے گئے۔ اب نئے وژن کے ساتھ نئی دنیا کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اردو کے نئے منظر نامے میں بین الاقوامی سطح پر کئی ایسے دستخط ہیں جن کے پاس بھرپور صلاحیت ہے۔ یہ وقت نئے مسائل کو ڈسکور کرنے کا ہے۔ نئے مکالمے ہونے چاہئیں۔

جسیم: اردو کی نئی نسل کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟

ذوقی: ہندوستان سے پاکستان تک کے رسائل دیکھ لیجئے۔ زیادہ تر نئے نام آپ کو مل جائیں گے۔ ایک زمانہ تھا جب ایسا لگ رہا تھا کہ یہ زبان چند دن کی مہمان ہے مگر اچانک ۲۰۰۷ کے بعد یہ احساس ہونے لگا کہ اس زبان کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ کئی اردو چینلس آ گئے۔ کسی حد تک روزی روٹی کا مسئلہ حل ہوا۔ نئی نسل کو یہ مضبوطی ملی کہ زبان کے ذریعہ بھی روزگار پایا جا سکتا ہے۔ غزالہ قمر، سیمیں کرن، رابعہ الرباء بہت اچھا لکھ رہی ہیں، سیمیں کرن کے افسانوں میں زندگی کے تسلسل کی ایک روحانی بستی آباد ہے۔ یہ بستی نئی بھی ہے اوراس کی فضا تازگی کا احساس کراتی ہے۔ دانیال طریر، اقبال خورشید، اکبر علی ناطق نے ادب میں اپنی مضبوط موجودگی درج کی ہے۔ اقبال خورشید کی کہانیوں کو سمجھنے کے لیے آپ کو عالمی سیاست سے گزرنا ہو گا۔ ۸۰۔ ۷۰ کے آس پاس جس طرح فیشن زدہ کہانیاں لکھی جا رہی تھیں، ان نئے لوگوں کی کہانیوں میں آپ کو زبردستی کے فلسفے نہیں ملیں گے۔ ان میں زبردست بیانیہ ہے، جدید لب و لہجہ بھی اور مابعد جدیدیت کی جھلک بھی— بلا شک و شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو کہانیوں کا مستقبل روشن ہے۔

جسیم: ناول نگاری کی طرف آپ نے قدم کیسے رکھا۔ ؟

ذوقی: آپ کے علم میں ہو گا کہ میں نے اپنا پہلا ناول عقاب کی آنکھیں اس وقت لکھا جب میری عمر ۱۷ سال کی تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں، میں نے آغاز ہی ناول نگاری سے کیا۔ بیس سال کی عمر تک میں ۴ ناول تحریر کر چکا تھا۔ اس درمیان میری رسائی عالمی ادب سے ہو چکی تھی۔ میں دوستو فسکی، وکٹر ہیوگو، البر کامو، جارج آرویل جیسے ناول نگاروں سے متاثر تھا۔ اور میں بھی اسی روش پر چلنا چاہتا تھا۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، اس کے لیے مجھے ناول نگاری کی طرف ہی آنا ہو گا۔ اور آپ دیکھئے پچھلے سات آٹھ برسوں سے میں نے کوئی کہانی نہیں لکھی۔ ناول کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ناول کے ساتھ جینا ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے بہت سے ادیب ہیں جنہوں نے ناول نگاری کے میدان میں قدم رکھا تو افسانے کو بھول گئے۔ میں افسانہ بھولا تو نہیں مگر ناول کا میدان مجھے زیادہ پسند آنے لگا ہے۔

جسیم: نالۂ شب گیر کے بعد آپ کیا لکھ رہے ہیں ؟

ذوقی: ’یک ماندگی کا وقفہ‘ — یہ میرا نیا ناول ہے۔ میر نے درست کہا ہے — مرگ یک ماندگی کا وقفہ ہے۔ یعنی آگے چلیں گے دم لے کر— یہ ناول موت کے فلسفہ پر ہے۔ لیکن آپ کو یہاں اداسیاں نہیں ملیں گی۔ موت ایک ان دیکھا، ان جانا سفر ہے۔ ایک مکمل فنٹاسی۔ میں اس فنٹاسی کو جینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس کے علاوہ ’اردو‘ ’اڑنے دو ذرا‘ یہ دو ناول بھی مکمل ہو چکے ہیں۔

جسیم: آخر میں دوحہ قطر ایوارڈ ملنے کی خوشی پر کیا آپ نئے لکھنے والوں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟

ذوقی: سیکھنا خود سے ہوتا ہے۔ کوئی سکھاتا نہیں۔ آپ کو مطالعہ کرنا ہے۔ آپ کا مطالعہ ہی آپ کو بلندی پر لے جائے گا۔ آپ مشورے کو سنیں ضرور لیکن فیصلہ خود کریں۔ آپ کو کیا لکھنا ہے، یہ آپ کو سوچنا ہے۔ اور اس پر خطر راستے میں سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانا ہے۔

جسیم: شکریہ ذوقی صاحب

ذوقی: بہت بہت شکریہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

فاروقی نے فکشن کا ایسا شمسی نظام قائم کیا جہاں سن باتھ کا ذائقہ لینے والوں اور خود کشی کرنے والوں کی کوئی کمی نہ تھی: ذوقیؔ

 

                م۔ ناگ

 

ناگ:  کیا آپ اردو کی موجودہ صورت حال سے مطمئن ہیں ؟

ذوقی:  اردو فکشن کی موجودہ صورتحال کو لے کر مطمئن ہوں — میں ادب کو بہار، یوپی، اور ممبئی کی سطح پر تقسیم نہیں کرتا— اچھا لکھنے والے ہر دور میں رہے ہیں — اور اچھا لکھنے والوں کی تعداد ہر دور میں کم رہی ہے — اقبال مجید، عبدالصمد، غضنفر، حسین الحق، شوکت حیات، سلام بن رزاق، شموئل احمد، رتن سنگھ، شائستہ فاخری، تک افسانے کا سفر جاری ہے۔

یہاں نام گنوانا منشا نہیں ہے۔ ادب کے بارہ — چودہ برسوں میں تخلیقی کائنات میں جو تبدیلیاں سامنے آئی ہیں اس کا تجزیہ ہونا ضروری ہے۔ ادب بہت حد تک سمٹ چکا ہے۔ لیکن یہ کم بڑی بات نہیں ہے کہ روزی روٹی سے رشتہ استوار نہ ہونے کے باوجود اردو ابھی بھی شان سے زندہ ہے۔ یہ ہر دور میں ہوتا ہے کہ ایک قلم خاموش ہوتا ہے اور دوسرا اسے تھامنے کے لیے آگے بڑھ جاتا ہے — کبھی کبھی گہری خاموشی اور وقت کی یلغار کو سمجھنے میں کئی برس گزر جاتے ہیں۔ آج یہی ہو رہا ہے۔ کئی بڑے قلم خاموش ہیں اور ہمیں ان کے جاگنے کا انتظار ہے۔ ادب حاشیے پر ضرور ہے لیکن ادب زندہ ہے۔ اور ہر دور میں کچھ ہی بہتر اور اچھا لکھنے والے ہوتے ہیں۔ مگر ایسے لوگوں کو بھی سلام کرنا چاہئے جو اردو کی محبت میں مسلسل افسانے اور افسانچے لکھ کر اردو کو زندہ رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کہانی کا نیا منظرنامہ مٹھی بھر ناموں کے ساتھ نئے فلسفوں کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ نئی کہانی پریم چند یا منٹو کی طرح سپاٹ بیانیہ کا شکار نہیں ہو گی۔

ناگ:  ہندوستان میں اردو ناول ایک نئی کروٹ لے رہا ہے — کیا یہ بات صحیح ہے —

جواب: بالکل صحیح ہے — یہ ناول کا عہد ہے — ہندوستان سے پاکستان تک اچھے ناولوں کی کوئی کمی نہیں — لیکن اگر آپ صرف ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو اندنوں ہندوستان میں بھی خوب لکھا جا رہا ہے — ناول میں نئے تیور کی واپسی ہوئی ہے — میں کہنا چاہوں گا کہ آپ ناول خلاء میں نہیں لکھ سکتے — ایسے ناولوں کی زندگی بہت کم ہوتی ہے — آپ صرف خوبصورت الفاظ کے سہارے ایک اچھے ناول کا تانا بانا نہیں تیار کر سکتے — ناول نگار کے پاس ایک بڑے وژن کا ہونا ضروری ہے — اب دیکھیے — رحمن عباس کے ۳ ناول سامنے ہیں — چوتھا ناول آنے والا ہے — ہر ناول موضوع اور اسلوب کی سطح پر ایک دوسرے سے مختلف ہے — نخلستان کی تلاش سے ایک ممنوعہ محبت کی کہانی اور خدا کے سائے میں آنکھ مچولی تک آتے آتے رحمن عباس کے یہاں خیال و فکر کی جو چھلانگ نظر آتی ہے، اس نے قاری کو حیرت زدہ کر دیا— وہ اپنا نیا ڈکشن لے کر آئے اور ناولوں پر مسلسل مکالمے بھی کرتے رہے — وقت کے ساتھ قاری بھی بدلا ہے — اب وہ قاری نہیں ہے جسے آپ نئے پن اور جدیدیت کے نام پر بے وقوف بنا دیں — شائستہ فاخری نے دو ناول لکھے — نئے ناول پر مکالمہ کی شروعات ہو چکی ہے — ابھی حال میں عبدالصمد کا بھی ایک ناول آیا ہے — شکست کی آواز— غضنفر کا مانجھی ہے — قومی اور بین اقوامی مسائل کو لے کر عالمی اوروسیع تر تناظر میں ناول لکھے جا رہے ہیں۔ معاصر ناول نگار فنکارانہ چابکدستی اور بڑے وژن کو لے کر زندگی اور عہد کے مختلف النوع گوشوں پر سیاسی وسماجی بصیرت کے ساتھ قلم کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں — ہمارا ناول نگار سیاست وسماج کے گہرے اثرات کو نہ صرف اپنے مشاہدہ کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے بلکہ ذمہ داری اور کرب کے ساتھ انہیں صفحہ قرطاس پر بکھیر رہا ہے۔

ناگ:  آپ نے کئی نام لیے — فاروقی اور خالد جاوید کے ناولوں کا ذکر نہیں ہوا—

ذوقی:  کبھی یہ سوال ان لوگوں سے بھی پوچھیے کہ آخر یہ لوگ ذوقی اور رحمن عباس کا نام لینے سے کیوں خوف کھاتے ہیں ؟ فاروقی صاحب تو فاروقی صاحب، فاروقی خیمے کے لوگ بھی یہ دو نام نہیں لے سکتے — کیوں نہیں لے سکتے — یہ ان سے پوچھیے — میں اپنی بات کہوں کہ مجھے فاروقی کا ناول پسند نہیں آیا— خالد جاوید کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جس موضوع کو مسلسل اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس موضوع پر ۱۹۶۰ کے آس پاس احمد ہمیش بہت کچھ لکھ چکے تھے — ۱۹۴۴ میں احمد ہمیش کا مجموعہ شائع ہو چکا تھا— فاروقی صاحب نے احمد ہمیش کی کہانی کوCult of Ugliness کا نام دیا تو اس وقت مکھی کو لے کر ادب میں طوفان آ گیا تھا— حمید شاہد نے اپنے مضمون میں بھی اس کا ذکر کیا ہے —

’’شمس الرحمان فاروقی نے احمد ہمیش کو Cult of Ugliness کا نمائندہ افسانہ نگار کہہ کر سب سے الگ دکھایا تو احمد ہمیش کو اس طرح الگ ہو کر دکھائی دینا اچھا لگا تھا۔ پھر وہ ساری عمر اسی فضا میں رہے۔ افسانہ ’مکھی‘ کی فضا کیا تھی: تعفن، بدبو، فضلات، غلاظت اور کثافت۔ رذیل جذبوں سے لتھڑے ہوئے آدمی کا ظاہر نامہ— خبث، ذلالت اور کمینگی سے بھرا ہوا باطن— ایک مہذب صاف ستھرے ماحول کی ضد اور صاف ستھرے ماحول کی تکفیر— (حمید شاہد)

خالد’ کتاب کی موت‘ سے نعمت خانہ تک لتھڑے ہوئے آدمی، فضلات، غلاظت سے آگے نہیں بڑھ سکے — اور یہ کارنامہ تو ۵۵ سال پہلے احمد ہمیش انجام دے چکے تھے — پھر خالد کی تحریر میں نیا کیا ہے — دوسری اہم بات، خالد میں ان سب کچھ کے باوجود اسپا رک ہے — مگر فاروقی کی مشکل یہ ہے کہ فاروقی نے فکشن کا ایسا شمسی نظام قائم کیا جہاں سن باتھ کا ذائقہ چکھنے والوں اور خود کشی کرنے والوں کی کمی نہ تھی— جدیدیت کے ۳۰۔ ۲۰ برسوں کے تمام نمائندہ نام گمنامی میں کھو گئے — قمر احسن اور اکرام باگ بھی— اب فاروقی یہی سلوک خالد جاوید اور صدیق عالم کے ساتھ کر رہے ہیں —

۳۔     جدیدیت کا دور ایک بھی بڑا تخلیق فنکار کیوں نہیں پیدا کر پایا— ؟

جواب: در اصل یہ سوال فاروقی صاحب سے کرنا چاہئے — جب فاروقی نے جدیدیت کی تحریک کو ہوا دی، مغرب میں جدیدیت کی موت کا اعلان ہو چکا تھا— ہندوستان میں جدیدیت تو پہلے سے ہی موجود تھی— منٹو اور کرشن چندر کی کئی کہانیاں جدید لب و لہجہ کی کہانیاں ہیں — ہر کہانی کو جدید ہونے کا حق حاصل ہے — مگر فاروقی صاحب کی جدیدیت نے ’نئے پن‘ کے نام پر ادب کو گمراہ کرنے کا کام کیا— آپ اُس زمانے کی غزلیں دیکھ لیجئے —

بکری شور مچاتی ہے

بکرا زور لگاتا ہے

کتے بھونکا کرتے ہیں

ہاتھی آتا جاتا ہے

عادل منصوری کا ایک شعر تھا:

سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا

کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی

اس زمانے میں اسی قسم کی شاعری ہو رہی تھی— اور افسانے ایسے لکھے جا رہے تھے جن کا کوئی سر پیر نہ تھا— جدیدیت فیشن بن چکا تھا— فاروقی نہ پریم چند کو پسند کرتے تھے، نہ منٹو بیدی، کرشن چندر، عصمت کو— ہر جگہ ان کی پسند کا معیار مختلف تھا۔ اور شاید اسی لیے ادب میں نئے طوفان برپا کرنے کی غرض سے ۶۵۔ ۱۹۶۶ء میں شب خون رسالے کی پالیسی سامنے آ گئی۔ جدیدیت کا فروغ— اور اس فروغ کے لیے، دو کالم کے ذریعہ فاروقی نے ادب پر ہلّہ بول دیا۔ مرضیات جنسی کی تشخیص— اور بھیانک افسانہ— اب افسانہ سماجی قدروں اور مسائل سے نظریں چرا کر مرضیات جنسی کی تشخیص میں پناہ لیتے ہوئے بھیانک ہو چکا تھا— یہ منٹو کی کہانیوں کی طرح چونکانے والا معاملہ تھا۔ اس میں اگر نیا کچھ تھا تو یہ، کہ فاروقی نے اس عہد کے فنکاروں کو اس پس منظر میں جدیدیت کے سبز باغ دکھا دیئے تھے۔ وہ وہی دور تھا، جہاں فاروقی نے ۱۹۶۶ء میں بہت سوجھ بوجھ اور اسٹریٹجی کے ساتھ شب خون کا اجراء کیا۔ جاگیردارانہ نظام سے باہر نکل کر ایک ہونہار ذہین نوجوان کچھ نیا کرنا چاہتا تھا۔ وہ مغربی ادب کا مطالعہ کرتا ہے۔ پھر غالب کو پڑھتا ہے۔ … داستانوں کو— وہ جانتا ہے، داستان سے غالب تک تفہیم و تنقید کے لیے اگر اس نے اپنے لیے نئے راستوں کا انتخاب نہیں کیا تو وہ بہت سے لوگوں کی طرح بھیڑ میں شامل ہو جائے گا— یہاں زبردست مطالعہ، اردو زبان و ادب کے ساتھ کھلواڑ کا مطالبہ کر رہا تھا— شاید اسی لیے نئے افسانوں کی تلاش کرتے ہوئے وہ بھیانک افسانوں کی سرنگ میں بھی اترتے چلے گئے — اور پھر افسانہ نگاروں کا ایک ایسا قافلہ سامنے آیا جو سچ مچ بھیانک کہانیوں (جدید، تجریدی) کے خالق بن گئے تھے — اور جب انہیں ہوش آیا تو ان میں سے کئی زندہ رہتے ہوئے بھی گمنامی کی گود میں چلے گئے —

۴۔     کیا فاروقی نے جان بوجھ کر لوگوں کو ابہام کی ترغیب دی تھی—

جواب: ایک بار یہ سوال آپ کو قمر احسن اور اکرام باگ سے ضرور کرنا چاہیے — یہ ترغیب دوسروں کو دی اور خود جب لکھنے کو آئے تو بیانیہ اور مکالمے کا راستہ اپنایا— در اصل وہ کیا چاہتے ہیں — اس کا علم انہیں بھی نہیں ہے — وہ ذاتی زندگی میں بھی کمزور اور کنفیوز ہیں — ۲۰۰۳ میں کراچی روشنائی نے فاروقی نمبر شائع کیا تھا— اس میں ایک مضمون نیر مسعود کا بھی شامل تھا— فاروقی سے وابستہ ایک واقعہ آپ نیر مسعود کی زبانی سنیے اور عبرت حاصل کیجئے —

’’فروری ۱۹۷۵ء میں میرے بہنوئی ڈاکٹر مسیح الزماں کی دل کے دورے میں وفات ہو گئی— میری بہن موت سے اور خاص کر مردے سے بہت ڈرتی تھیں — دل کی مریض بھی تھیں — مسیح الزماں صاحب کی لاش اسپتال سے لائے جانے کے پہلے ہی بہن کو احتیاطاً فاروقی کے یہاں پہنچا دیا گیا— میں نے فاروقی سے کہا کہ شوہر کی میت اٹھتے وقت بیوی کا شہر میں ہوتے ہوئے گھر میں موجود نہ ہونا غیر مناسب بات معلوم ہوتی ہے —

فاروقی بولے : ’’غیر مناسب کیا، نہایت معیوب بات ہے — ان کو بالکل موجود رہنا چاہئے — ‘‘

بہن کے معالج حمید عثمانی صاحب اس تجویز کی مخالفت کر رہے تھے — فاروقی نے ان سے دیر تک حجت کی تو وہ جھلا کر بولے :

’’ صاحب، ان کو گھر میں لایا گیا تو وہ مر جائیں گی۔ ‘‘

فاروقی بولے۔ ’’ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ عورت شوہر کے ساتھ ہی مر جائے — ‘‘

شوہر چلا گیا ہے تو بیوی بھی جان دے دے — بیوی چلی جائے تو شوہر زندہ رہے — یہ کیسا ابہام ہے ؟ اس ایک واقعہ سے فاروقی کی تنگ نظری کا علم ہوتا ہے — فکری سطح پر جس شخص کی سوچ اتنی چھوٹی ہو وہ ادیب کیسے ہو سکتا ہے —

(۲۰۱۴ ممبئی، اودھنامہ میں شائع ہوا)

٭٭٭

 

 

 

 

 

عہد حاضر کے معروف ناول نگار جناب مشرف عالم ذوقی سے گفتگو

(ذوقی کے تازہ ناول لے سانس بھی آہستہ کی روشنی میں )

 

                رضی احمد تنہا

                نعمان قیصر

 

رضی احمد تنہا:    اپنے گاؤں کے بارے میں بتائیے ؟چونکہ گاؤں کی پوری زندگی کام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ عموماً ادبی سفر کا آغاز لوگ شاعری سے کرتے ہیں، لیکن آپ نے افسانے سے کیا اور محض۱۷ سال کی عمر میں آپ نے ’عقاب کی آنکھیں ‘لکھا۔ ناول دراصل داستان کی جدید شکل ہے، یہ داستانی جراثیم آپ کے اندرکیسے آیا؟۔

ذوقی:          تنہا صاحب، گاؤں کا میری زندگی سے گہرا تعلق رہا ہے۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں۔ میں بہار کے ایک چھوٹے سے شہر آ رہ میں پیدا ہوا۔ میرا ننیہال برہ بترا ہے۔ برہ بترا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ امی جان اکثر مجھے لے کر برہ بترا جایا کرتی تھیں۔ وہاں آم کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ہم عمر بچوں کے ساتھ ہاتھ میں غلیل لے کر میں آم توڑنے کے لیے نکل جاتا۔ وہاں ایک چھوٹی سی ندی ہے۔ ایک بار تیرنے کی کوشش میں، میں ڈوبنے لگا تھا— گاؤں کی کہانیاں لکھتے ہوئے میں اسی گاؤں کا سہارا لیتا ہوں۔ چھٹے کلاس سے کہانیاں لکھنے لگا تو یہ گاؤں الگ الگ شکلوں میں میری کہانیوں میں نمایاں ہونے لگا۔

تنہا صاحب، آپ کے اس ایک سوال میں کچھ اور سوال بھی چھپے ہوئے ہیں جن کا جواب دینا ضرور ی ہے۔ گھر میں ادب کا ماحول تھا۔ ابا حضور مشکور بصیری شاعری کا بلند ذوق و شوق رکھتے تھے۔ گھر میں مشاعرہ بھی ہوتا تھا۔ ابابچپن سے میر وغالب کے اشعار سنایا کرتے۔ ان شاعروں میں ذوق سے مجھے کچھ زیادہ ہی محبت ہو گئی۔ مجھے یاد ہے۔ ایک چھوٹی سی بچوں والی سائیکل ہوا کرتی تھی۔ میں سائیکل چلاتا ہوا بلند آواز میں ذوق کے اشعار پڑھا کرتا… کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا… نہنگ واژدہاؤ شیر ونر مارا تو کیا مارا۔ ایک دن ابا اتنے خوش ہوئے کہ مجھے گلے سے لگایا اور کہا… یہ ذوقی ہے۔ اور اور لیجئے میں مشرف عالم سے مشرف عالم ذوقی بن گیا۔ شاعری وراثت میں ملی۔ مگر چھوٹی عمر سے ہی افسانوں نے مجھے متوجہ کرنا شروع کیا۔ گھر میں جتنی بھی کتابیں تھیں، سب پڑھ ڈالیں۔ پھر ناول پڑھنا شروع کیا۔ رائیڈرس ہیگررڈ اور ڈیوما کے ناولوں نے کچھ اس حد تک متاثر کیا کہ ۱۷ سال کی عمر میں عقاب کی آنکھیں کے عنوان سے پہلا ناول لکھ ڈالا۔ داستانی جراثیم مجھ میں کیسے پیدا ہوا یہ بھی ایک خوبصورت اور لمبی کہانی ہے۔

نعمان قیصر:     ہم یہ کہانی بھی آپ سے جاننا چاہیں گے۔

ذوقی:          ضرور۔ گرمیوں کے موسم میں چھت پر چارپائیاں بچھی ہوتی تھیں۔ آسمان پر تاروں کی بارات… ٹھنڈی ٹھنڈی بہتی ہوئی ہوا۔ ہم بھائی بہن چھت پر ابا کے آنے کا انتظار کرتے۔ ابا کے آتے ہی ہم انہیں گھیر کر بیٹھ جاتے۔ ابا پھر داستانوں کو لے کر بیٹھ جاتے۔ داستان امیر حمزہ۔ طلسم ہوشربا… عمرو عیار کی ٹوپی۔ یہاں تک کہ سراج انور کے ناول بھی ابا سے ہی سننے کا موقع ملا۔ مطالعہ میں بعد میں کیا۔ ابا کے سنانے کا مخصوص انداز تھا۔ وہ ڈرامائی انداز میں ان کہانیوں کو بیان کیا کرتے۔ آج محفلوں میں کہانیاں سناتے ہوئے میں کسی حد تک اس انداز کو اپنا نے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ ہنر کہاں سے لاؤں جو ابا مرحوم کے پاس تھا۔ داستانی جراثیم میرے اندر یہیں سے پیدا ہوا۔ وہ چاندنی راتیں، چھت پر پانی کا چھڑکاؤ، ابا کا داستانی انداز— میں آج بھی کچھ نہیں بھولا۔ آپ نے داستانوں کا مطالعہ نہیں کیا تو آپ اچھا ادب لکھ بھی نہیں سکتے۔ نہ کہانی یا ناول کے کرافٹ سے واقف ہو سکتے ہیں۔

نعمان قیصر:     گزشتہ دنوں ’ آج کل‘ میں ابرار رحمانی نے انکشاف کیا کہ اردو افسانے میں انبار ہے شاہکار نہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟

ذوقی:          ابرار رحمانی میرے گہرے دوست ہیں، ان کی بات سر آنکھوں پر، وہ ایک سلجھے ہوئے ذہین انسان ہیں۔ میں نے ابرار کے بیشتر مضامین پڑھے ہیں۔ ابرار اکثر قارئین کے لیے کچھ ایسی فضا پیدا کرتے ہیں جہاں سوالات ہوتے ہیں۔ آپ ابرار رحمانی کی جگہ ہوتے اور آجکل کی ڈاک میں روز آنے والی کہانیوں کا مطالعہ کرتے تو شاید آپ کا بھی یہی حال ہوتا قیصر صاحب۔ ایسا نہیں ہے کہ کہانیاں نہیں لکھی جا رہی ہیں۔ ابرار صاحب کا یہ اداریہ میں نے بھی پڑھا تھا۔ میں نے ایک طویل خط بھی لکھا تھا اور آجکل کے ۴۔ ۳ شماروں میں اداریہ اور میرے خط کو لے کر نئی بحث کی شروعات ہوئی تھی۔ پھر اسی موضوع پر میں نے ایک مضمون لکھا جو تحریر نو میں شائع ہوا— کیا 1980کے بعد کہانیاں نہیں لکھی گئیں۔ یہ ہر دور میں ہوا ہے قیصر صاحب۔ شاہکار سامنے کم آتے ہیں۔ انبار زیادہ لگتے ہیں۔ مگر نقاد پڑھتے کہاں ہیں۔ کسی سے بھی پوچھیے تو اپنے خیمے کے چند لوگوں کے سوا کوئی کہانی پڑھی ہی نہیں۔ میں یہ قطعی ماننے کو تیار نہیں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے، وہ انبار ہے۔ کیونکہ جب اس طرح کا الزام لگایا جاتا ہے تو اس دائرے میں، میں بھی آتا ہوں۔ مجھ پر لگائے گئے بسیار نویس، زود حس فنکار کے الزامات پرانے ہو گئے۔ میں سال میں ایک یا دو کہانیاں ہی لکھتا ہوں۔ اور دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں شوقیہ، فیشن کے تحت یا زبردستی نہیں لکھتا۔ میں ہر بار اسلوب اور کہانی کی سطح پر نئے تجربے کرتا ہوں۔ یہ تو رہی میری بات۔ مگر ایک بات اور جان لیجئے کہ اردو صرف ہندستان میں نہیں ہے۔ پاکستان میں بہت بہتر لکھا جا رہا ہے۔ طاہرہ اقبال نے تو کمال کی کہانیاں لکھی ہیں۔ ہندستان میں شائستہ فاخری، رخشندہ روحی، رحمن عباس، خورشید حیات تک بہت اچھی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ ابھی حال میں شائستہ فاخری کی ایک ایسی کہانی میں نے پڑھی جو مجھے لحاف سے عمدہ معلوم ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ آپ پڑھیں گے ہی نہیں تو جانیں گے کیسے کہ کیا لکھا جا رہا ہے اور کیا نہیں — اور میرا دعویٰ ہے۔ زیادہ تر لوگ نہیں پڑھتے۔ بغیر پڑھے ہی فتویٰ صادر کر دیتے ہیں۔ منٹو اور عصمت چغتائی کے دور میں بھی کوئی بہت اچھا نہیں لکھا جا رہا تھا۔ اسے آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ بہت کم لوگ تھے جو اچھا لکھ رہے تھے۔ اور یہ ہر عہد کا المیہ ہے۔ انبار زیادہ لگے شاہکار کم آئے۔

رضی احمد تنہا:    کیا یہ ممکن ہے کہ ہر تخلیق شاہکار ہی ہو؟

ذوقی:          ہر تخلیق شاہکار ہو یہ ضروری نہیں — میر و غالب کی غزلیں ہوں یا چنچوف، موپاساں کے افسانے — لیکن ایک بات توجہ طلب ہے۔ ایک اچھا ادیب اپنی طرف سے کبھی کسی کمزور موضوع کو لے کرافسانہ نہیں بناتا۔ ممکن ہے وہ افسانہ پہلی نظر میں آپ کو متاثر نہ کر پائے مگر یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ تخلیق کار نے اسے لکھنے کی ضرورت کو کیوں محسوس کیا ہے۔ ایک بستی خدا کی ہے۔ ایک بستی ہم جیسے لکھنے والوں کی۔ یہاں بھی ہم نئے نئے واقعات اور کرداروں سے کھیلتے ہیں۔ یوں تو ذہن و دماغ میں ہزاروں کہانیاں فلیش کرتی ہیں۔ مگر ان ہزاروں کہانیوں میں ہم اپنے نظریہ یا آئیڈیا لوجی کے مطابق کچھ، کا ہی انتخاب کرتے ہیں جنہیں لکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اور لکھنا اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ، کہیں نہ کہیں یہ احساس بھی وابستہ ہوتا ہے کہ اگر یہ کہا نی رہ گئی تو تخلیقی کائنات کی تکمیل میں کمی رہ جائے گی۔ کیوں کہ جیسا میں نے پہلے کہا، خدا کی بستی کی طرح ایک بستی ہم تخلیق کاروں کی بھی ہوتی ہے۔ اور ہم جتن سے محنت سے اس بستی میں ہزاروں لاکھوں کرداروں کو کھڑا کر دیتے ہیں — اس کے باوجود— ہر کہانی شاہکار کا درجہ رکھے یہ ممکن نہیں — لیکن شاہکار، کے ہونے کا فیصلہ کون کرے گا صاحب۔ تنہا صاحب آپ؟ نعمان قیصر صاحب آپ، نقاد یا قاری؟ پریم چند کو کفن پسند نہیں تھی لیکن کفن کو شاہکار کہانی کا درجہ مل گیا۔

رضی احمد تنہا:    اگر تمام تخلیقات شاہکار ہی ہوں تو پھر کن معنوں میں شاہکار ممکن ہے۔ اب تک آپ کے کتنے ناول شائع ہو چکے ہیں۔ غیر مطبوعہ ناول بھی ہے ؟

ذوقی:          شاہکار تو کوئی کوئی ہوتا ہے تنہا صاحب۔ مجھے اپنا ناول پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی کئی وجوہات کی بنا پر بیحد پسند ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ ناول پسند نہیں آیا۔ زیادہ تر لوگ سمجھ ہی نہیں سکے۔ اسی طرح بیان کا مطالعہ آج کرتا ہوں تو مجھے بس ٹھیک ٹھیک لگتا ہے۔ لیکن پروفیسر محمد حسن کو یہ ناول آزادی کے بعد کے تمام نالوں میں سب سے بڑ الگا— ایک طرح سے دیکھیے تو بیان کانام ہی میری شناخت بن گیا۔ بیان پر گوشہ نکلا۔ کتاب شائع ہو گئی۔ ناول پر تحریر کیا جانے والا کوئی بھی مضمون بیان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارا کام صرف لکھنا ہے — اچھا لکھنا — شاہکار کا فیصلہ آنے والا وقت کرتا ہے اوراس میں ہزاروں لاکھوں قارئین کی آراء بھی شامل رہتی ہیں۔

عقاب کی آنکھیں میرا پہلا ناول تھا۔ لمحہ آئندہ دوسرا۔ اس کے بعد کئی ناول لکھے — نیلام گھر، شہر چپ ہے، مسلمان، ذبح، بیان، پو کے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی، لے سانس بھی آہستہ اور آتش رفتہ کا سراغ— آتش رفتہ کاسراغ ابھی غیر مطبوعہ ہے۔ ۷۰۴ صفحات پر مشتمل یہ ناول ممکن ہے آپ کا رسالہ آنے تک منظر عام پر آ جائے۔ یہ ناول ہندستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے — آزادی کے بعد سے لے کر اب تک مسلمانوں پر جو بھی گزری، اس کا مکمل تجزیہ ہے یہ ناول— ابھی اس ناول کے بارے میں، میں زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے بعد ایک اور ناول ہے جو ان دنوں زیر تحریر ہے۔ سرحدی جناح، یہ ناول میں نے سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خاں کی زندگی سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا ہے۔

نعمان قیصر:     اپنے معاصرین ناول نگاروں میں آپ کی نگاہ میں فعال اور عہد حاضر پر گرفت رکھنے والے کون کون ہیں ؟۔

ذوقی:          معاصرین میں کئی لوگ ہیں جو بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ پیغام نے مکان کے بعد پلیتہ لکھا۔ نورالحسنین نے اہنکار، غضنفر نے پانی اور مم۔ شفق اپنے عہد کی Triology قلمبند کرنے والے تھے مگر عمر نے موقع نہیں دیا۔ اب بادل پڑھیے۔ کابوس پڑھیے تو بادل کے کردار ہی کابوس میں سامنے آتے ہیں۔ ۱۱؍۹ کا حادثہ۔ راشٹریہ سویم سوک سنگھ، مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی سازش۔ کابوس کے ذریعہ شفق گودھرہ حادثے تک پہنچے تھے۔ اور اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے تیسرا ناول قلمبند کرنا چاہتے تھے۔ مگر یہ ممکن نہ ہو سکا — اشرف، ترنم ریاض— سب قابل لوگ ہیں جو اپنی اپنی سطح پر نئی فکر سے گزر رہے ہیں۔ غضنفر نے پانی اور مم کے ذریعہ ماحولیات کی ایک نئی دنیا ہمارے سامنے رکھی۔ پاکستان میں حامد سراج اور طاہرہ اقبال نے عمدہ ناول لکھے — عبدالصمد اورحسین الحق کے ناولوں پر دفتر کے دفتر کھلے — ممبئی سے ہی رحمن عباس نے ایک ایسا ناول تحریر کیا، جسے میں ایک بیحد ضروری ناول قرار دیتا ہوں۔ ایک ممنوعہ محبت کی کہانی— میں نے اس ناول کے بارے میں یہ اشاریہ دیا تھا کہ یہ ناول اردو کے بڑے ناولوں خصوصاً اشرف شاد کے ناول بے وطن، وزیر اعظم اور صدر اعلیٰ کی طرح اردو زبان میں ایک گرانقدر اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں رحمن کے اس ناول کی مکمل فضا کو کن کے مسلمانوں کی ترجمانی کرتی ہے لیکن اصل میں یہ ناول آج حاشیہ پر پھیکے گئے مسلمانوں کی آپ بیتی بھی ہے۔ رحمن نے کوکن کے مسلمانوں کے بہانے آج کی سیاست کو بے نقاب کرنے کی جو ہمت دکھائی، وہ کم لوگوں میں ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو فعال بھی ہیں اور عہد حاضر پر گرفت بھی رکھتے ہیں۔

رضی احمد تنہا:    آپ کا تازہ ترین ناول ’لے سانس بھی آہستہ، ایسا نہیں لگتا کہ یہ آپ کے سابقہ ناولوں سے الگ ہے اور آپ جیسابا تدبر آدمی تقدیر کی گرفت میں کیسے آ گیا۔ اور انہونی اور ہونی جیسے اوہام کا شکار کیسے ہو گیا؟۔

ذوقی:          مجھے خوشی ہے کہ آپ نے لے سانس بھی آہستہ کا ذکر شروع کیا۔ یہ ناول مجھے بے حد پسند ہے۔ لیکن یہ ناول ہونی انہونی یا تو ہم پرستی کا شکار نہیں ہے۔ میں طلسمی حقیقت نگاری کا شروع سے قائل ہوں — میرے بیشتر ناولوں میں طلسمی حقیقت نگاری کے نمونے آپ کو آسانی سے مل جائیں گے۔ میں محض کرداروں کے سہارے سپاٹ بیانیہ میں ناول تحریر نہیں کر سکتا۔ ناول میں ایسے مقام آتے ہیں جب ایک گھر، ایک خاندان کے کچھ لوگ اوہام پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دراصل جسے آپ اوہام کا شکار ہونا قرار دے رہے ہیں میں نے اسے ناول میں جادو نگری سے تعبیر کیا ہے — پدرم سلطان بود— تباہ ہوتی ہوئی حویلیاں — نکمے لوگ— نو آبادیات— دنیا کی ترقی— اور ایک قوم فقط ۷۰۰ برسوں کی اسلامی حکومت کا قصیدہ پڑھتی ہوئی— قوم کا جب برا وقت آتا ہے تو یہ قوم جادو اور اوہام کا شکار ہو جاتی ہے۔ بوڑھی ہوتی حویلی کی تقدیر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ عبدالرحمن کاردار آزادی کے بعد کا وہ منظر دیکھتے ہیں، جسے دیکھنے کے بعد کم عمری کے باوجود وہ سوچتے ہیں کہ یہ منظر دیکھا ہی کیوں۔ حویلی کھنڈر میں تبدیل ہو رہی ہے۔ پرانے زمانے کے ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے خاندانی قصیدہ پڑھتے ہوئے زندگی گزار دی۔ اور جب حویلی کے پاس کچھ نہیں رہا تو حویلی والوں کو گمشدہ خزانے کاخ یال آتا ہے۔ جو قوم کچھ کرنا نہیں چاہتی صرف ماضی کے بھروسے رہتی ہے۔ وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے تہذیبوں کا نوحہ لکھنے کے لیے میں نے ان کرداروں کا سہارا لیا۔ یہاں میں عبدالرحمن کاردارہوں جو پہلی بار مضبوط ہو کرسوچتا ہے کہ حویلی فروخت کر دینی چاہئے۔ اس زمانے میں مسلمان، مسلمان سے ہی سودے بازی کیا کرتے تھے — یہی تجارت کا اصول تھا۔ مگر ایک ہندستان میں رہتے ہوئے یہ اصول ٹوٹ رہے تھے۔ پرانے بت ٹوٹ رہے تھے اور پرانے متھ یا بت کی جگہ نئی قدریں لے رہی تھیں — میں نے جس موضوع کا انتخاب کیا، مغرب میں بھی اس موضوع پر بحث چھڑ چکی ہے۔ ہٹنگن نے تہذیبوں کا تصادم لکھا۔ ابھی حال میں دی ہندو میں ایک کتاب کا ریویو پڑھا۔ دس برسوں میں بدلے بدلے ہوئے امریکہ کو لے کر ایک ناول ابھی حال میں آیا ہے۔ اس طرح اسامہ اوراس کی دہشت پسندی کو لے کر ڈامنک لیپٹر اور لاری کالنس نے بھی ایک ناول لکھا۔ میں بدلتی ہوئی قدروں اور تہذیبوں کو لے کر وسیع کینواس پر ایک ناول لکھنا چاہتا تھا— مگر محتاط ہو کر— میں تہذیبی ناستیلجیا کاشکار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اور اس طرح کے ناول قلم زد نہیں کرنا چاہتا تھا، جیسے ناول ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر فاروقی تک نے تحریر کیے۔ میرے لیے اس ناول کو لکھتے ہوئے بہت سارے چیلنج تھے، جنہیں مجھے ہمت کے ساتھ عبور کرنا تھا—

نعمان قیصر:     مثال کے لیے ؟

ذوقی:          جیسے ہماری تہذیب— یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہماری تہذیب سے بڑھ کر کوئی تہذیب نہیں۔ مثال کے لیے، رن صابن کا اشتہار لیجئے۔ میرا کپڑا ان کے کپڑے سے کم سفید کیوں۔ آنکھیں کھولتے ہی گنگا اور ہمالیہ کی عظمت کے سبق یاد کرائے جاتے ہیں اور اپنی تہذیب کی وکالت کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ مغربی تہذیب تو واہیات ہے۔ میں مسلسل ناول لکھتے ہوئے تہذیبوں کے تصادم سے دوچار رہا۔ سچ کیا ہے۔ جائز اور ناجائز کی تشریحات کیا ہیں۔ روسو سے ڈارون تک کے فلسفے — مذہب سے اخلاقیات تک کیا صرف سچ وہی ہے جو ہمارا ہے ؟ یعنی ہمارا مذہب۔ ہمارالباس۔ ہماری تہذیب…؟ مثال کے لیے ایک دشمن ملک کا ایک سپاہی ہمارے ملک میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ ہمارے ملک کے لیے کیا ہوا ؟ غدار— لیکن دوسرے ملک کے لیے ؟ وفادار اور جانباز سپاہی— دو عورتیں ہیں۔ دونوں بچے پیدا کرتی ہیں۔ ایک کی شادی نہیں ہوئی تو بچہ ناجائز۔ دوسری کی شادی ہوئی تو بچہ جائز— جائز اور ناجائز، صحیح اور غلط پر مسلسل غور و فکر کرتا ہوا تہذیبوں کی شکست و ریخت تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اور یہ سلسلہ اپنے ملک سے جوڑنا چاہتا تھا۔ اور مجھے حیرانی ہوئی، میری آنکھوں کے سامنے لے سانس بھی آہستہ کی کہانی پردے پر کسی فلم کی طرح چل پھر رہی تھی۔

رضی احمد تنہا:   اسے اور واضح کیجئے ذوقی صاحب

ذوقی:          سمجھاتاہوں۔ میں ذرا سا پیچھے لوٹا تو تہذیبوں کے شکست و ریخت کی ایک کہانی یہاں بھی روشن تھی۔ حویلیوں کا زوال۔ نوآبادیات کامسئلہ۔ گھروں میں قید عورتوں نے پہلی بار گھرسے باہر نکلنا کب شروع کیا ہو گا؟ تب عموماً عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ضرورت کے ہرسامان گھر آ جاتے تھے۔ کپڑے لتے سے لے کر دودھ دہی تک— لے سانس بھی آہستہ میں ایک وہ موڑ آتا ہے جب عبدالرحمن کاردار کی ماں پہلی بار حویلی کا دستور توڑ کر تھانے جاتی ہے۔ کیونکہ گمشدہ خزانہ تو ملا نہیں، وسیع الرحمن کاردار کے گھر پہلی بار پولیس آئی تھی اور ایک مہذب آدمی ڈر گیا تھا— تب سے قدریں مسلسل بدلتی رہیں اور عبدالرحمن ان تیزی سے بدلتی ہوئی قدروں کا گواہ بنتا گیا۔ مجھے ارسطو کی یاد آئی جس نے پہلی بار اخلاقی فلسفے کا وہ تعارف پیش کیا جو اس سے پہلے کسی نے پیش نہیں کیا تھا۔ آپ لے سانس بھی آہستہ میں دیکھیں تو Ethics اور تہذیب پر شروع ہوئی بحث صرف وہیں تک محدود نہیں رہتی وہ سن ۲۰۱۰ تک کا احاطہ کرتی ہے۔ اوراس ناول کے لیے اسی لیے میں نے تاریخ کو گواہ بنا کر پیش کیا ہے۔ یہاں بھی ایک نشاۃ الثانیہ کی کرن پھوٹی ہے۔ ادب اور آرٹ کی دنیا میں انقلابات آئے۔ تحقیق وجستجو نے اس بات کا احساس دلایا کہ اس سے زیادہ مہذب ترین عہد کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ مگر کیا ہو رہا ہے۔ کہیں مذہب جاگ رہا ہے، کہیں سیکس اور بچے کنزیومر ورلڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس لیے عبدالرحمن کاردار جب حویلی سے ہجرت کرتا ہے تو وہ ایک ساتھ ہزاروں نئے واقعات اور نئی تہذیب کا بھی گواہ بن جاتا ہے۔ اور یہیں اس کی ملاقات اس نور محمد سے ہوتی ہے جو محبت کی صحیح تعریف جانتا تھا مگر کیا ہوتا ہے۔ یہ سچی محبت، محبت میں قربانی کا جذبہ ایک دن ان قدروں کی پامالی کا سبب بن جاتا ہے، جسے نور محمد سمیٹنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔ اور ایک آئیڈیل محبوب ہونے کے باوجود سب سے زیادہ نقصان میں بھی وہی رہا۔ کیونکہ تہذیب کے جس شکست و ریخت کی کہانی نور محمد کی زندگی نے لکھی تھی، اس سے بھیانک کہانی ممکن بھی نہیں تھی—

رضی احمد تنہا:    لے سانس بھی آہستہ، پڑھ کر کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ آدمی محض قدرت کے مشین کا ایک پرزہ ہے جس میں اس کے اپنے ارادے اور آدرشوں کے لیے کوئی مقام نہیں ہے ؟۔

ذوقی:          آپ نے بالکل کہا تنہا صاحب۔ دراصل یہ سوال ہی میرے ناول کا موضوع ہے۔ آدرش، آئیڈیل یہ ہم بناتے ہیں۔ ہم تنگ نظر اور غیر محفوظ لوگ ہیں۔ اس لیے آغاز سے ہی ہم بت بنانے کے عادی رہے ہیں۔ مگر آپ کسے آئیڈیل مانیں گے ؟ ناول کو ہی لیجئے — نور محمد کو یا عبدالرحمن کاردار کو؟ اور ان دونوں کی کڑیوں کو جوڑنے کے لیے میں نے پروفیسر نیلے کا کردار رکھا ہے — جو کہتا ہے، ہم تو کٹھ پتلیاں ہیں۔ تباہ و برباد اور آباد تو قدرت کرتی ہے۔ اس لیے جب گاؤں کے نئے اوتار میں عبدالرحمن، نور محمد کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے — ماضی کو مت دیکھو— ممکن ہے، سچ وہی ہو جو تمہارا آج ہے۔ کیونکہ— ہرنفس نومی شود دنیا وما— ہر آن ایک دنیا تعمیر ہو رہی ہے۔ دراصل یہ ایک عام غلطی ہے کہ ہم لوگ شروع سے ہی ایک آدرش یا آئیڈیل کا مکھوٹا لگانے کے عادی ہو گئے ہیں۔ سماج سے سیاست تک آدرش اور آئیڈیل کے متھ مسلسل ٹوٹتے رہے ہیں۔ اس ملک میں گاندھی کو ہی لیجئے۔ ۵۰ فی صد لوگ اگر گاندھی کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں تو ۵۰ فیصد گاندھی کی مخالفت میں۔ کہیں کسی کے لیے مذہب ایک آدرش ثابت ہوتا ہے تو کسی کے لیے سیکولرزم اور لبرزم۔ سیکولر کردار کے لوگ مذہب کو گالیاں دیتے ہیں اور مذہب کو ماننے والے سیکولرزم کو ایک سوکالڈڈرامہ، جس کی اس جمہوریت میں کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں نہ راہل گاندھی آدرش ہیں نہ اناہزارے۔ اس لیے لے سانس بھی آہستہ میں آدرش سے سماج اورسیاست تک میں نے صرف سوال کھڑے نہیں کیے بلکہ نور محمد کو آئیڈیل کے طور پر پیش کر کے اس بت کو بھیانک اور خطرناک طریقے سے توڑتے یا لکھتے ہوئے مجھے بھی وحشت کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ بائیسویں صدی کی اس مہذب ترین دنیا کے لیے آدرش ایک مضحکہ خیز لفظ ہے جس کی بنیادیں سالم نہیں بچی ہیں۔

رضی احمد تنہا:    زیر بحث ناول کا مرکزی کاردار رحمان بابو آزادی ہند کی رات کو ۱۲ بجنے سے ایک گھنٹہ قبل ہی کیوں پیدا ہوا، ایک گھنٹہ بعد کیوں نہیں ؟

ذوقی:          بالکل درست۔ دراصل ایسا کرنے کی ایک خاص وجہ تھی۔ یہاں دو اخلاقیات سے عبدالرحمن کاردار کا واسطہ پڑتا ہے۔ آزادی سے آدھا گھنٹہ قبل یعنی ایک غلام ملک کی اخلاقیات۔ اس اخلاقیات میں غلامی اور آدرش کے وہ چتھڑے شامل ہیں، ایک نسل جن کا شکار ہوئی تھی۔ آزادی صرف آزادی نہیں تھی۔ ایک لہولہان آزادی تھی۔ ملک کے آزاد ہوتے ہی گاندھی جی تشدد کے واقعات سے گھبرا کر ان شن پر بیٹھ گئے۔ چاروں طرف مار کاٹ مچی تھی۔ اوراس خوں خرابے سے ایک نئی اخلاقیات یا ایک نئی تہذیب کا جنم ہو رہا تھا۔ عبدالرحمن کاردار یوں تو آزاد ہندستان میں پیدا ہوا لیکن اس کے باطن میں ایک غلام ہندستانی بھی موجود تھا— آزادی کے ۶۵ برسوں میں آزاد مسلمان اس غلامانہ ذہنیت سے باہر نہیں نکل سکے۔ میں خوف کے مسلسل انجکشن کو بھی اسی غلامانہ ذہنیت سے تعبیر کرتا ہوں۔ آج تک مسلمان اپنا ایک حق نہیں لے پائے۔ آزادی کے بعد کے ایک بھی بڑے فیصلے پران کے نام کی مہر نہیں لگی۔ سچر کمیشن صرف رپورٹ پیش کرتی ہے۔ میں ایک آدھے گھنٹے کے پروگرام کے لیے راجندر سچر سے ملا تو ان کے اس جواب سے مجھے مایوسی ہوئی کہ وہ تو ایک سرکاری رپورٹ تھی۔ مسلمان جس رپورٹ کو لے کر مستقبل کے آئنہ میں مضبوط ہونے کی کوشش کر رہے تھے، وہ سچر بابو کے لیے ایک معمولی رپورٹ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی— اس ملک میں اسی لیے مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت سے فائدہ اٹھا کر انہیں محض ووٹ بینک کا ایک حصہ تصور کر لیا گیا ہے۔ سیاست اور سماج میں آج بھی ان کی حصہ داری نہیں کے برابر ہے۔ اور ظاہر ہے اس صورت میں عبدالرحمن کاردار کے کردار کو پیش کرنا آسان نہیں تھا۔ دراصل اس کردار کے آئنہ میں، میں نے اپنی صورت دیکھی ہے۔ ایک مہذب شرمیلا انسان، جو نادرہ کی محبت کو بھی سمجھ نہیں پاتا۔ اور ایک آسان زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یہاں تک کہ نور محمد جب نگار سے اپنے تعلق کی داستان مجبور الفاظ کے سہارے بیان کرتا ہے تو عبدالرحمن کاردار یہاں سے ہجرت کر کے پہاڑوں کی زندگی کو اختیار کرتا ہے — اور یہ پہاڑ اپنی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے انسان کو اس کی کمتری کا احساس دلاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے گولیور جب گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو گھوڑے انسانی جسم کا مذاق اڑاتے ہیں۔ میرے لیے انسانی تہذیب کی اس جدید داستان کو قلمبند کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ ناول میں کئی ایسے بھیانک موڑ تھے جہاں الفاظ میرا ساتھ چھوڑنے لگے تھے۔

رضی احمد تنہا:    زیر بحث ناول میں چار نسلیں ہیں — رحمان، بابو، ان کے والد ان کے لڑکے، ان کی لڑکیاں — ان چار نسلوں کے جینے کے اپنے آداب ہیں — کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ سارے کردار اپنے ہی طلسم کے اسیر ہیں ؟۔

ذوقی:          نہیں۔ ایسانہیں ہے۔ سب سے پہلے کچھ باتیں اپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ میری کسی بھی کہانی یا ناول کی عمارت ہوا میں معلق نہیں ہے۔ اس ناول کو بھی میں نے مکمل پلاننگ اور اسٹریٹیجی کے ساتھ لکھا ہے۔ میں جب بھی کسی ناول کا پلاٹ بنتا ہوں تو سب سے پہلے اس کے کرداروں پر جم کر کام کرتا ہوں۔ فٹ نوٹس لیتا ہوں۔ کتابیں پڑھتا ہوں۔ چھوٹی سے چھوٹی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر کردار کا ٹریٹمنٹ دوسرے کردار سے مختلف ہو۔ یہاں ایک بات اور بھی کہنا چاہوں گا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اردو کہانی میں کردار نہیں ہیں۔ وہ میری کہانیاں یا ناول پڑھ سکتے ہیں۔ بیان کا بال مکند شرما جوش، پوکے مان کی دنیا کا سنیل کمار رائے، لے سانس بھی آہستہ کا عبدالرحمن کاردار اور نور محمد— میرا دعویٰ ہے کہ ناول ختم کرنے کے بعد بھی یہ کردار دیر تک آپ کے ساتھ چلتے رہیں گے۔ اب آپ کی بات پر آتا ہوں — ناول میں چار نسلیں ہیں۔ اس لیے شروع میں، میں نے ان خاندانوں کا شجرہ بھی دیا ہے۔ ان چار نسلوں کے سماجی سیاسی حالات مختلف ہیں۔ ذہنیت مختلف ہے۔ ان کی فکر اور ان کی جنگ مختلف ہے۔ دراصل یہی ارتقاء کی ریس ہے، جسے میں نے پیش کرنا چاہا ہے۔ سب اپنی اپنی تہذیب کی جنگیں پیش کر رہے ہیں۔ شہر سے نکل کر نور محمد جب گاؤں میں بس جاتا ہے تو وہاں زندگی کی جنگ مختلف ہے اور یہ کہنا مشکل کہ کون سی تہذیب سب سے بہتر ہے۔

نعمان قیصر:     تقسیم ہند اور تقسیم ہند کے بعد کے واقعات و حادثات پر اردو میں لامتناہی ذخیرہ موجود ہے اورایسے میں آپ کا بھی اس موضوع پر قدر توسیع کے ساتھ لکھنا کیا اسے دوہرانا نہیں ہے ؟۔

ذوقی:          قیصر صاحب۔ آپ کی بات حق ہے مگر یہ ایسا موضوع ہے جس پر اگلے سوسال تک مسلسل لکھا جائے تب بھی کم ہو گا۔ ہم جب بھی آزاد ہندستان اور شائننگ انڈیا کے مستقبل، سیاسی اورسماجی حالات پر غور کریں گے، ماضی کی گھپاؤں سے تقسیم کا ناگ سر تو نکالے گا ہی— بابری مسجد، گودھرہ اور گودھرہ کے بعد کے واقعات یا ہندستان پر تجزیہ کرنا ہو تب بھی ۶۵برسوں کے ہندستان کا پوسٹ مارٹم تو کرنا ہی ہو گا— تقسیم ہند پر ایک سے بڑھ کر ایک کہانیاں لکھی گئیں — مگر آپ دیکھیے تو سب کی نوعیت اور فکر مختلف تھی۔ منٹو اپنے انداز میں سوچتا تھا۔ عصمت اور عزیز احمد اپنے انداز میں۔ اپندر ناتھ اشک اور سہیل عظیم آبادی کا اپنا انداز تھا۔ اسی طرح خدیجہ مستور سے انتظار حسین تک تقسیم کے مختلف Shades تھے جو سامنے آ رہے تھے۔ اسی طرح میرے ناولوں کی طرف آئیے تو بیان کی مختلف کہانی تھی اور لے سانس بھی آہستہ اسی ۶۵ برس کے ہندستان سے تہذیبوں کے تصادم کی ایک بالکل نئی کہانی لے کر سامنے آتا ہے۔ ہندی زبان میں تقسیم کو کم موضوع بنایا گیا۔ لیکن پنجابی اور اردو زبان میں آج بھی اس کے اثرات کو لے کر کہانیاں رقم ہو رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی۔

نعمان قیصر:     اردو فکشن میں قرۃ العین حیدر کے بعد معیار و مقبولیت کے لحاظ سے وہ کون ایسا ناول نگار ہے جس کا نام سرفہرست رکھا جا سکتا ہے ؟۔

ذوقی:          نعمان قیصر صاحب، اچھا کیا جو آپ نے یہ سوال پوچھ لیا۔ معیار و مقبولیت کا پیمانہ مختلف ہے۔ جو شہرت اور مقبولیت قرۃ العین کے حصے میں آئی، وہ کسی اور کے حصے میں آنی مشکل ہے۔ ناول سے الگ اگر ان کی ذات کا احاطہ کروں تو قرۃ العین کیا نہیں تھیں۔ مصور بھی تھیں۔ لندن تک ان کی پینٹنگس کی نمائش ہوئی۔ لکھنؤ اسکول سے موسیقی سیکھی۔ ڈاکومینٹری بنائی۔ امپرنٹ اور السٹریٹیڈ ویکلی کی ادارت سنبھالی۔ اپنے ناول آگ کا دریا کا انگریزی ترجمہ خود کیا۔ اور یہ بات سب نے تسلیم کیا ہے۔ قرۃ العین نے مخصوص اسلوب میں اپنے ناولوں میں تہذیب کے المیہ کو ہی قلمبند کیا ہے۔ اور اس کے لیے انہوں نے تاریخ کے حوالے سامنے رکھے۔ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ بدلتے ہوئے وقت کی رفتار کے ساتھ کہانی اور ناول کا مزاج بھی تبدیل ہوا ہے۔ قرۃ العین کے بعد کون؟ اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا ہے۔ شاید آگے کے دس بیس برسوں میں بھی نہیں ہو گا۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ نقاد قرۃ العین کے بعد کے ناولوں کو بھی ایمانداری کے ساتھ پڑھنا شروع کریں۔ کسی قدر ان کے بعد مقبولیت (معیار نہیں ) کے لحاظ سے انتظار حسین کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن نئی تہذیب اور نئے تقاضوں کے ساتھ کچھ اور بہتر ناول بھی سامنے آئے ہیں۔ جیسے مجھے آسٹریلیا میں مقیم اشرف شاد کے ناول بہت پسند ہیں۔ اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ نئے ناولوں پر گفتگو کے دروازے کھلنے چاہئیں جواب تک نہیں کھلے ہیں۔

نعمان قیصر:     اردو ناول میں مسلم تہذیب کی نوحہ خوانی کے علاوہ اور بھی کچھ ہے کیا؟

ذوقی:          نعمان قیصر صاحب، آپ نے یہ اچھا سوال پوچھا ہے۔ اس لیے کہ یہ سوال اکثر لوگوں کے ذہن میں ہے کہ اردو ناول تہذیب کی نوحہ خوانی سے آگے کا سفر طے نہیں کرتا ہے۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ ہندستان سے پاکستان تک اچھے ناول مسلسل لکھے جا رہے ہیں۔ اشرف شاد نے اپنے ناولوں میں جن موضوعات کا احاطہ کیا، وہاں دہشت پسندی ہے۔ ہلاکت خیزی ہے اور بدلتا ہوا پاکستانی معاشرہ ہے۔ عاصم بٹ کے ناول دائرے کی فضا مختلف ہے۔ وہاں علاقوں سے کام لیا گیا ہے لیکن یہاں بھی پاکستانی مشنری اور حکومت پر گہرا طنز موجود ہے۔ رحمن عباس کے ناول میں کوکن کے مسلمانوں کے تعلق سے آج کے مسلمانوں کا المیہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میرا ناول پوکے مان کی دنیا مختلف تھا۔ عبدالصمد کا مہاتما یا حسین الحق کے ناول بولو مت چپ رہو کے بارے میں بھی آپ یہ بات نہیں کہہ سکتے۔ پیغام کا مکان اور پلیتہ دونوں نئے معاشرے کو سامنے رکھتے ہیں۔ سید محمد اشرف کا ہی ناول دیکھیے۔ ہاں، کچھ اور لوگ اب بھی ایسے ہیں جو ناول میں ان موضوعات سے آگے نہیں بڑھتے۔ نام لینا مناسب نہیں۔ ان کے قد اور نام سے ساری دنیا واقف ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے پاس ناول لکھنے کے لیے اس سے زیادہ آسانیاں کہیں اور ممکن نہیں ہیں۔ اس لیے وہ سہولت کے حساب سے وہی لکھتے ہیں جو وہ لکھ سکتے ہیں۔ ناول کے لیے جو ایک تخیلی دنیا آباد کرنی پڑتی ہے، یہ ہنر سب کو نہیں آتا۔

رضی احمد تنہا:    اردو ناول میں اطراف تقسیم ہند کے علاوہ عہد نو کے چیلنج کا سامنا کرنے کا مادہ اردو کے کن کن ناول نگار میں ہے۔ کچھ مثال دیں تو بہتر اور آپ نے عہد نو کے چیلنج کو کس طرح برتنے کی کوشش کی ہے ؟۔

ذوقی:          تنہا صاحب، نئے عہد میں نئے چیلنج تو ہونگے ہی۔ اور یہ چیلنج مختلف سطح پر ہوں گے۔ مذہبی، سیاسی، سماجی، تعلیمی— یہ دنیا بدل چکی ہے — مکاری و عیاری کے معنیٰ بدل چکے ہیں — سیاست اور سماج کا چہرہ تبدیل ہو چکا ہے — چھوٹے چھوٹے بچے ڈپریشن اور ہائپر ٹینشن جیسے مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ ماں باپ اور بچوں کی دنیا بدل چکی ہے — ایک طرف دہشت پسندی ہے اور دوسری طرف کنڈوم کلچر۔ مسلمانوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ کیونکہ اس وقت عالمی نظام میں مسلمانوں کو دہشت کی علامت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے وہ مسلمان جو ہندستان میں ہے، پاکستان میں یا غیر ملکوں میں — وہ اردو میں لکھتا ہو یا دوسری زبانوں میں — وہ کہیں نہ کہیں دہشت پسندی کے چیلنج کو بھی قبول کر رہا ہے۔ نجیب محفوظ کو پڑھ جائیے۔ اور ہان پا مک کو— خالد حسین کے ناول— سوال ہے، جب ٹارگیٹ آپ ہیں تو اس موضوع سے بچ کیسے سکتے ہیں ؟ افغانستان اور عراق کا المیہ سامنے ہے۔ ابھی حال میں لیبیا اوردوسرے اسلامی ممالک میں بغاوت کی جوآگ پھیلی ہے، اس کا بھی جائزہ لیجئے۔ ابھی حال میں ایک خبر آئی۔ امریکہ نے مودی کو ہندستان کا ہیرو بنا کر پیش کیا۔ یہی امریکہ کچھ سال پہلے تک مودی کو ویزا دیئے جانے کے خلاف تھا— ۱۱؍۹ حادثے کے بعد امریکن کرنسی گریٹ ڈپریشن کا شکار ہو چکی ہے — بش ہوں یا ابامہ ان میں زیادہ فرق نہیں — ان کی ایک ہی منزل ہے، امریکیوں کوخوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو حاشیے پر پھینکنا۔ آپ غور کریں تو عہد نو کے دوسرے چیلنج اسی چیلنج کی شاخیں ہیں جہاں مسلمان دہشت پسندی کے الزام سے الگ خود کو مضبوط کرتے ہوئے ارتقاء کی ریس میں آگے رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے یہ موضوعات پاکستان سے ہندستان تک مسلسل ہمارے ناولوں کا ایک حصہ بن رہا ہے — پیغام آفاقی نے پلیتہ میں بڑے کنواس پراسی موضوع کو برتنے کی کوشش کی ہے۔ شفق کے بادل اور کابوس کا موضوع بھی یہی تھا— پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان اور لے سانس بھی آہستہ میں، میں نے عہد نو کے مسخ شدہ چہرے کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔

رضی احمد تنہا:    میرا ماننا ہے کہ قرۃ العین حیدر کے بعد والی نسل کے نمائندہ فکشن نگار آپ ہیں اور اس کے لیے میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں — میں آپ کے شکریے کا خواہش مند نہیں ہوں۔ آپ کو میرے اس خیال پر اعتراض تو نہیں ؟۔

ذوقی:          یہ آپ کی محبت ہے — ابھی حال میں آفاق عالم صدیقی نے بھی کم و بیش یہی بات میرے فکشن کو لے کر کی تھی۔ مشرف عالم ذوقی اپنے انداز کے سب سے توانا اور منفرد افسانہ نگار ہیں۔ تہذیب کی ہر نئی کروٹ اور تیز رفتار زندگی سے پیدا ہونے والے ہرمسئلہ پر عموماً ذوقی کی نظر سب سے پہلے پڑتی ہے۔ وہ آج کی زندگی کے ایسے سفاک افسانہ نگار ہیں جو تمام تر معنویت کو جھیلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ وہ سنگین سے سنگین ترین مسائل اور پیچیدہ ترین صورتحال پر اتنی خوبصورتی سے افسانے کا محل کھڑا کر دیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی کی افسانہ نگاری ہو یا ناول نگاری کا معاملہ ان کے تمام ہمعصر اور پیش روؤں سے مختلف ہے۔ ان کے کہانی کہنے کا ڈھنگ اور طریقہ بھی سب سے الگ ہے۔ انہیں اپنے ہمعصروں میں وہی انفرادیت حاصل ہے جو کبھی قرۃ العین حیدر کو حاصل تھی۔ یا جو انتظار حسین کو حاصل ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ منٹو، ابن صفی، اور یوسفی جو کچھ اور جس طرح لکھ سکتے ہیں ضرور ہی لکھ سکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں لکھ سکتا یہی بات قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، اور ذوقی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے — مجھ پر اعتراض کرنے والے یا ناک بھوں چڑھانے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے مجھے پڑھا ہی نہیں یا جنہوں نے میری ۲۵ سال پہلے پڑھی ہوئی کسی کہانی کو پڑھ کر کوئی رائے قائم کی تو اس سے ہٹے نہیں۔ آج بھی اسی رائے پر قائم ہیں۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے میری نئی کہانیاں یا نئے ناول پڑھے ہیں اب ان کی رائے میرے بارے میں بہت حد تک بدل چکی ہے۔ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں محنت سے اور ایمانداری سے لکھتا ہوں۔ آپ کے خیال پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔

نعمان قیصر:     موجودہ عہد میں مذہب اور سیکس میں زیادہ کون بکتا ہے ؟

ذوقی:          نعمان قیصر صاحب، سچ تو یہ ہے کہ دونوں بکتے ہیں۔ دونوں میں کون زیادہ بکتا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا لیکن دہشت پسندی اور فرقہ واریت نے مذہب کے بند دروازے کھول دیئے ہیں۔ یہاں ترشول اور بھگوا جھنڈے بھی بکتے ہیں۔ دوزخ کا کھٹکا اور جنت کی کنجی بھی—

— ابجد (خصوصی گوشہ لے سانس بھی آہستہ)

٭٭٭

 

 

 

’لے سانس بھی آہستہ‘کے بہانے معروف ناول نگار، مشرف عالم ذوقی سے ایک گفتگو

 

                نبی احمد

 

سوال: ذوقی صاحب، سب سے پہلا سوال، آپ نے لکھنا کب سے شروع کیا؟

جواب:        نبی احمد صاحب، اسے مختصر لفظوں میں بتانا مشکل ہے۔ گھر کا ماحول ادبی تھا اس لیے بچپن سے ہی لکھنا اور پڑھنا پہلے شوق پھر جنون بنتا گیا۔ چھٹی کلاس میں تھا تو پہلی کہانی بچوں کے رسالہ پیا م تعلیم میں شائع ہوئی۔ پہلا افسانہ تیرہ سال کی عمر میں ممبئی سے نکلنے والے رسالہ کہکشاں میں شائع ہوا۔

سوال: آپ کا پہلا ناول؟

جواب:        بچپن سے ہی کتابیں اوڑھنا بچھونا بن گئیں — رائیڈرس ھیگڈرڈ سے متاثر ہوا۔ ۱۷سال کی عمر میں پہلا ناول لکھ ڈالا— عقاب کی آنکھیں۔ بیس سال کی عمر تک ۴ناول لکھ چکا تھا— لمحۂ آئندہ، عقاب کی آنکھیں، نیلام گھر اور شہر چپ ہے — ان میں صرف عقاب کی آنکھیں اب تک شائع نہیں ہوا ہے۔ سن ۲۰۱۲ میں اس کی اشاعت متوقع ہے —

سوال: گفتگو کی شروعات آپ کے نئے ناول لے سانس بھی آہستہ سے کرتے ہیں — یہ ناول لکھنے کا خیال آپ کو کیسے آیا؟

جواب:        لے سانس بھی آہستہ دراصل تہذیبوں کے تصادم کی کہانی ہے — میرے ذہن میں اس ناول کو لے کر کئی بنیادی سوال راستہ روکے کھڑے تھے۔ ڈارون سے روسو، والٹیر اور ہٹنگٹن تک میں مسلسل اخلاقیاتی نظریے سے ایک جنگ لڑتا رہا۔ کون بناتا ہے یہ نظریہ— ؟ جب ایک نظریہ سچ ہے تو اختلاف کی گنجائش ہی کیوں پیدا ہوتی ہے ؟ کیا اخلاقیات ہر بار ہمارے ایک چیلنج ہیں ؟ کیا وقت اپنے حساب سے اپنی اخلاقیات کی تھیوری پیش کرتا ہے — ؟ کیا آ ج کی ساری بحث صرف اور صرف اخلاقیات تک سمٹ کر رہ گئی ہے — ؟ گلوبل دنیا اور گلوبل وارمنگ کے اس دور میں الگ الگ اخلاقیات کے عفریت ہمیں حصار میں لیے کھڑے ہیں … کہ پہلے ہم سے الجھو… اورجیسا کہ ان دنوں مغرب کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مغرب کے بنیادی مسائل نہ تو معاشی ہیں اور نہ ہی آبادی کا بڑھنا— بلکہ اصل مسئلہ ہے — اخلاقیات کا گم ہو جانا— ثقافتی خود کشی— اور انہی سب سے ایک نہ ختم ہونے والا سیاسی بحران پیدا ہو گیا ہے — ایک طرف دہشت پسندی اور القاعدہ تہذیب ہے جس کی زمین بنیاد پرستی سے زیادہ دہشت پسندی پر کھڑی ہیں … دراصل اس ناول کو لکھنے کا بنیادی نکتہ یہی تھا— مختلف تہذیبوں کے درمیان عالمی جنگ کے خطرات کے امکانات سے بچنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے — ؟ کیا دنیا کے حکمراں اس کی تہذیبی فطرت کو قبول کرنے اوراسے بچانے کے لیے تیار ہیں — اندھیرے سے جنم لینے والی ایک نئی دنیا ہے — معاشرتی تبدیلیوں کی دھند میں شناخت گم ہوتی جا رہی ہے۔

سوال: پھر آپ نے کیامحسوس کیا؟ کیا یہ ناول ہمیں اندھیرے کی طرف لے جاتا ہے۔ ؟ مثال کے لیے، جس طرح کے ناول آج کل لکھے جا رہے ہیں۔ دکھ، رنج، تاریکی اور ایک دنیا اندھیرے میں ڈوبی ہوئی۔ کیا آپ کا اشارہ بھی اسی جانب ہے۔

جواب:        میں اندھیرے کا قائل ہی نہیں۔ آغاز سے ہی میں نگیٹیو فکر کا قائل نہیں رہا— مجھے لگتا ہے، تہذیبیں جب نئی شکل لینے کو آتی ہیں تو ایک دھماکہ ضرور ہوتا ہے۔ اسی لیے ناول کے آغاز میں، میں نے ہر من ہیسے کے مشہور ناول ڈیمیان کاسہارا لیا ہے۔ یونانی لوک کتھاؤں میں ابراکسس نام کے ایک دیوتا کا ذکر ملتا ہے — ابراکسس کے مطابق، جائز اور ناجائز سب ایک برابر ہیں اور ہر شخص کو اپنے حساب سے جھوٹ، سچ، غلط، جائز اور ناجائز کی تعریف کرنی پڑتی ہے۔ قدرت کے نظام کو بھلی اور بری باتوں کے درمیان تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اور— ارتقا کے راستے میں اخلاقیات کا کوئی دخل نہیں —

سوال: گویا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ تہذیبیں ختم ہو چکی ہیں اوراسی لیے آپ نے القاعدہ جیسی تنظیموں کو بھی ایک تہذیب قرار دیا ہے۔ کیاسچ مچ دہشت پسندی کو کسی تہذیب سے وابستہ کیا جا سکتا ہے۔

جواب: آپ نے جوسوال پوچھا ہے دراصل یہی میرے ناول کا موضوع ہے۔ نئی صدی کی شروعات ہوتے ہی ہم نے ایک نئی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ 31دسمبر 1999 ہندستانی طیارے کو اغوا کر کے افغانستان لے جایا گیا۔ 9/11 جیساحادثہ پیش آیا۔ جس نے امریکہ جیسے ملک کو خوفزدہ کر دیا۔ دہشت پسندی کی کوکھ سے ایک نئی تہذیب برآمد ہو رہی تھی۔ مجھے ڈیمیان کی یاد آ رہی تھی۔ ایک انڈہ ٹوٹنے والا ہے۔ ایک نئی دنیا نئی شکل لینے والی ہے۔ یہ خطرہ ان لوگوں کے ہے جو پرانی دنیاؤں سے چپکے ہوئے ہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں آ گئے تھے جہاں رشتے کھو گئے تھے۔ جنسی اشتعال انگیزی کا بازار گرم تھا۔ سیکس کے نئے کھلونے بازار میں آ چکے تھے۔ جہاں کنڈوم کے لیے بنداس بول کاسہارالیا جا رہا تھا۔ دراصل یہ خطرناک دہشت پسندی کی کوکھ سے برآمدہ تہذیبیں ہی تھیں جو نئی نسل کا شکار کر رہی تھیں — اس لیے میں نے اس کو لکھتے ہوئے ایک ایسی کہانی کا انتخاب کیا جو ہالی ووڈ کی ہارر فلم سے زیادہ بھیانک تھی۔

سوال: لے سانس بھی آہستہ، یہ نام آپ کی کہانیوں یادوسرے ناول کے ناموں سے مختلف ہے۔ آخر اس کی کوئی وجہ۔

جواب: مجھے اس نام سے بہتر کوئی دوسرا نام نہیں آیا—

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہہِ شیشہ گری کا

میرا نیا ناول ’ لے سانس بھی آہستہ‘ در حقیقت میرؔ کے اسی شعر کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس انتہائی ترقی یافتہ سائنسی عہد میں ہمارا معاشرہ اچانک ایک ایسی تاریک سرنگ میں داخل ہو گیا ہے۔ جہاں حقیقت اور تصوریت سے الگ ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے … ’ کہ کیا مذہبی تصورات اس جینوم اور کلوننگ عہد میں قابلِ قبول بھی ہیں یا نہیں — ؟یا پھر یہ— کہ جدید طرز زندگی اور عریانیت اگر ایک دوسرے کے ہم خیال ہیں تو پھر انسانی اخلاقیات کے کورے صفحوں کو لکھنے کی نہ ذمہ داری کس کی ہے …؟شاید اسی لیے یہ کہانی ایک ایسے موقع پر جنم لیتی ہے جب سن۲۰۰۹ کے آخر میں کوپن ہیگن میں ماحولیات کے تحفظ کو لے کر ہونے والی کانفرنس ایک فلاپ شو میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک ایسے پر آشوب اور پر فریب عہد میں ‘ جہاں بھوتوں کی آن لائن شاپنگ کے دروازے کھلتے ہیں، یہ کہانی ایک ایسے کردار کو شامل لے کر چلتی ہے جو ۴۷ء آزادی ملنے سے صرف ایک گھنٹے پہلے پیدا ہوتا ہے۔ ایک غلام ملک کی اخلاقیات جو صرف ایک گھنٹے بعد ایک آزاد ملک کی اخلاقیات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ لیکن تقسیم کے بطن سے پیدا ہونے والی نفرتوں نے سرحد کے دونوں طرف جنگ کے شعلوں کو کبھی مدھم ہونے کا موقع نہیں دیا— لیکن ان شعلوں میں بہت کچھ جلا— بہت دل ٹوٹے — اور پھر …تہذیب کی اندھیری سرنگ میں دو آنکھیں تھیں، جو ایک سترہ سال کی بچی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی— ’یہ میری بیٹی ہے …‘ اس کی آواز زلزلوں کے جھٹکوں سے زیادہ تیز تھی۔ …لیکن شاید آپ یقین نہ کریں کہ اس کی ماں بھی میری بیٹی تھی— کہیں نہ کہیں اس بے حد لاغر اور مجبور انسان کی اخلاقیات، انسان نہیں بلکہ قدرت لکھ رہا ہے۔ تہذیبوں کا تصادم جاری ہے۔ مگر ریموٹ اور کمان در حقیقت قدرت کے ہاتھ میں ہے اور یہی اس ناول کا موضوع ہے۔

سوال: آپ کے ناولوں میں سیاسی، سماجی اور تاریخی حوالے بھی ملتے ہیں۔ آپ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی کہانیاں اور ناول مستقبل کے خطرات کو بھی پیش کرتے ہیں۔ کیا اس ناول میں بھی آپ نے تاریخی حقائق کوسامنے رکھا ہے۔ ؟

جواب:        کہانی ایک چھوٹے سے واقعے پر مبنی ہوتی ہے۔ ناول کی دنیا ایک بڑی دنیا ہوتی ہے جہاں زندہ کردار ہوتے ہیں۔ زندگی سے موت تک کی رسم کو نبھاتے ہوئے — بھیانک واقعات کاگواہ بنتے ہوئے۔ اس لیے یہ ناول تحریر میں تب آیا جب بیحد سہمی ہوئی خوفزدہ کرنے والی صدی کے دس سال گزر گئے تھے۔ انسانی زندگی کے ساتھ تاریخ کی وابستگی کی کہانی بہت پرانی ہے۔ اس لیے یہ ناول ایسے دس برسوں کا گواہ بن گیا جہاں ساری دنیا میں بھوک مری اور غریبی لوٹ آئی تھی۔ تیل کی قیمتیں آسمان چھو رہی تھیں۔ شیئر بازار لڑھک کر گر پڑے تھے۔ ہزاروں بینکوں کو دیوالیہ قرار دے دیا گیا تھا۔ ابوظہبی اور دوبئی جیسے جدید مراکز ہل گئے تھے۔ امریکی کرنسی گریٹ ڈپریشن کاشکار ہوئی۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے نئے نئے ماڈل بنائے گئے تھے جو ناکام رہے — انٹاریٹکا کے بڑے بڑے گلیشر سمندر میں گم ہو گئے تھے — سرجوڑتے ہوئے دنیا کے تمام بڑے سائنسدانوں نے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ انسانی ترقی اورکامیابی کی کہانیاں ہی دراصل انسانی بربادی کی بھی اصل وجہ ہیں۔ ایک طرف دہشت پسندی ہے اوردوسری طرف خطرناک بیماریوں سے لڑتے ہوئے لوگ۔ اور ان سے الگ تہذیبیں ہیں جو اپنی شکلیں تبدیل کر رہی ہیں۔ اسی لیے تاریخی حقائق و شواہد کے بغیر میں ناول تحریر نہیں کر سکتا۔

سوال: لے سانس بھی آہستہ کے بعد آپ کا اگلا پروجیکٹ ؟

جواب:        آتش رفتہ کاسراغ— 720صفحہ پر مشتمل یہ ناول ہندستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے۔ یہ ناول مکمل ہے — ان دنوں ایک نیا ناول لکھ رہا ہوں— سرحدی جناح— یہ ناول سرحدی گاندھی، خان عبدالغفار، خان کی زندگی سے متاثر ہو کر لکھ رہا ہوں۔

سوال: آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا۔ آپ کا بیحد شکریہ۔

جواب:        نبی احمد صاحب، آپ کا بھی شکریہ۔

— سبق اردو (خصوصی شمارہ)

٭٭٭

 

 

 

 

لے سانس بھی آہستہ: کچھ نئی باتیں

 

                رضوانہ

 

نوٹ: یہ بتا دینا ضروری سمجھتی ہوں کہ مشرف عالم ذوقی کے ناول لے سانس بھی آہستہ پر جے این یو سے میں ڈاکٹر خواجہ اکرام کی نگرانی میں ایم فل کر رہی ہوں۔ ناول کو سمجھنے کے لیے مجھے ایک نہیں دو تین بار اس کے مطالعہ سے گزرنے کا اتفاق ہوا۔ ذوقی صاحب کو میں ذوقی سر کہتی ہوں۔ ناول کے مطالعہ کے دوران کئی ایسے سوال میرے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے، جنہیں جاننے کا تجسس مجھے بہت زیادہ تھا۔ یہ انٹر ویو انہی سوالات کی روشنی میں ہے جو مجھے پریشان کر رہے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ ذوقی سر نے نہ صرف مجھے وقت دیا بلکہ میرے سوالوں کا جواب دے کر ناول کے سلسلہ میں میری الجھنوں کو بہت حد تک کم کر دیا— رضوانہ شمسی

سوال: اس ناول کا کون سا ایسا کردار ہے جو بحیثیت ناول نگار آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے۔

ذوقی: کسی بھی ناول نگار کے لیے اس طرح کا سوال اسے مشکل میں ڈالنے جیسا ہے۔ اس ناول کے جتنے بھی کردار ہیں وہ سب مجھے پسند ہیں — چاہے وہ نور محمد کا کردار ہو یا عبدالرحمن کاردار کا کردار ہو— لیکن جس کردار کو لکھنا یا سنوارنا میرے لیے مشکل امر تھا، وہ نادرہ کی بیٹی نگار کا کردار تھا— یہ کردار جب میرے سامنے آیا تو بطور ناول نگار میرے لیے چیلنج یہ تھا کہ میں اس کردار کو سنبھال پاؤں گا یا نہیں — یا اگر سنبھالنے کی کوشش کروں گا تو کیا یہ میرے لیے بہت آسان ہو گا — نگار کا کردار میرے لیے ایک مشکل کردار تھا میں نے اس کردار میں آزادی کے 65 برسوں کے ہندستان کو روتا بلکتا ہوا محسوس کیا تھا— یہ کردار میرے لیے ایک ایسا کردار تھا جس میں بہت حد تک میں نے اس ملک کے مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی زندگی کو بھی محسوس کیا تھا— تقسیم ایک پڑاؤ تھا— تقسیم سے بہت آگے نکل آنے کے باوجود بھی مسلمان مین اسٹریم میں ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ حاشیہ پر نظرآئے — کوئی بھی فساد ہوتا ہے تو آنچ مسلمانوں پر آتی ہے — اس ملک میں کہیں کچھ بھی ہوتا ہے تو سوالیہ نشان مسلمانوں پر لگ جاتے ہیں — مسلمانوں کی حمایت میں اتنی ساری پارٹیاں ہیں لیکن سوال ہے یہ پارٹیاں کیا کر رہی ہیں — آپ بٹلہ ہاؤس کو ہی دیکھ لیجئے — ایک فرضی انکاؤنٹر ہوتا ہے — کچھ معصوم بچے شہید ہو جاتے ہیں — پورے ہندستان کا ماحول دیکھ لیجئے — اس طرح کے واقعات کہاں نہیں ہو رہے ہیں — نگار ایک علامت بن جاتی ہے — یہ وہی وقت ہے جب ملک فرقہ وارانہ فسادات کی آندھی میں کھو چکا ہے — آڈوانی جی کی رتھ یاترائیں نفرت سے بھرا ہوا ماحول پیدا کر رہی تھیں اسی پر آشوب موسم میں نگار پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی لڑکی ایب نارمل ہی ہو گی وہ روتی ہوئی پیدا ہوتی ہے اور وہ مسلسل روئے جا رہی ہے — ڈاکٹر کے پاس اس کے رونے کا جو جواز ہے، اس کے آئینہ میں بھی نگار کو بطور علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک جنگ ہے … اور بچے اپاہج پیدا ہو رہے ہیں … جہاں ہر طرف تباہیاں ہیں اور بچے آدھے ادھورے جنم لے رہے ہیں۔ جہاں بم پھٹ رہے ہیں — گولے داغے جا رہے ہیں … اور بچے پیدائش کے ساتھ ہی سیزر اور جھٹکے سہنے لگتے ہیں — ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ— اور بچے مسلسل مینٹل ڈس آرڈر کا شکار ہوتے جا رہے ہیں — آج کی حقیقت کو پیش کرنے کے لیے مجھے نگار سے بہتر کردار کوئی دوسرا نظر نہیں آیا۔ بلند حویلی کے زوال کی دردناک داستان— ماضی سے لپٹے ہوئے لوگ— گمشدہ خزانے کی تلاش— آسمان پر منڈلانے والے جنگی طیارے — ہندستان اور پاکستان کی جنگ— آنکھوں میں سمائی ہوئی نفرت— پاکستان کی تقسیم— دونوں ملکوں کے آپسی رشتوں کا تکلیف دہ حد تک خراب ہو جانا— سفیان ماموں کا آنا— نادرہ کی شادی اور… نگار کا جنم… مسلسل خوف کی بارش… جنگیں … تباہیاں … اور ایک نئے انسان کی آمد… ناول لکھتے ہوئے پہلے یہ خیال آیا کہ اس کردار کو مار دوں لیکن یہ کردار ناول کے مجموعی خیال کا ایک اہم حصہ تھا— تقسیم اور تقسیم کے بعد بدلتی ہوئی صورتحال اور تہذیبوں کے انہدام کو دکھانے کے لیے مجھے اس کردار کا سہارا لینا تھا— اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے نگار کے کردار کو کہیں ہلکا نہیں ہونے دیا۔

سوال:  اس ناول کو لکھنے کا خیال آپ کو کہاں سے آیا۔ ؟

ذوقی:  ہندستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے — آنے والے وقتوں میں اسے سپرانڈیا کے طور پر ابھی سے دیکھا جانے لگا ہے — آزادی کے بعد اس ملک میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں — اس ملک کی خوبی یہ ہے کہ یہاں گنگا جمنی سنسکرتی کو فروغ ملا ہے — یہاں مختلف زبانوں کے لوگ رہتے ہیں۔ آزادی کے بعد قدریں ٹوٹتی اور بدلتی رہیں — بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا— 1990 کے بعد بہت حد تک ہندستان کا چہرہ بدلنے لگا تھا— ایک طرف فرقہ پرستی ہے اور دوسری طرف نئی تہذیب میں ہندستانیوں کے داخل ہونے کا رویہ— آپ میٹرو سیٹیز میں دیکھئے تو ایک نیا ہندستان آپ کو دیکھنے کو ملتا ہے — تہذیبیں بدل گئیں — کال سینٹرس کھل گئے — بچے بدل گئے — اس ملک کی اخلاقیات بدل گئیں — ایک لمبی اڑان ہے — کچھ لوگ آج بھی مذہب سے کھیل رہے ہیں، لیکن زیادہ بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اڑنا چاہتے ہیں — اور یہ لوگ اسی طرح اڑنا چاہتے ہیں جیسے دیگر ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ اڑ رہے ہیں۔ اس ناول کو لکھتے ہوئے میں مسلسل نئی اخلاقیات کی سرنگ سے گزرتا رہا— کچھ ایسے بھی سوالات تھے جو مجھے پاگل کر رہے تھے — جیسے مذہب اور اخلاقیات کی یہ دیوار نہ ہوتی تو… ؟ والٹیر سے روسو تک انسانی نفیسات کی ایک ایک گرہیں میرے آگے کھل رہی تھیں۔ ایک پوری دنیا میرے سامنے تھی— پھر میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ نئے واقعات کو گواہ بنا کر مجھے ایک ناول لکھنے کی ضرورت ہے — اور اسی لیے میں ایک بے حد ڈراؤنی صدی کا گواہ بن کر سامنے آیا۔ جہاں ایک طرف دہشت پسندی ہے اور دوسری طرف بیماریوں سے لڑتے ہوئے لوگ— اور اسی کے درمیان ایک بدلتی ہوئی نئی تہذیب ہے۔ لیکن ان سب سے الگ قدرت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیبیں مرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ کوئی کوئی تہذیب بہت جلد مرجاتی ہے — پھر ایک نئی تہذیب سر اٹھاتی ہے — ان تہذیبوں میں جینے کے لیے ہم اپنی آسانی اور سہولت کے حساب سے اپنے مذہب چن لیتے ہیں — ظاہر ہے یہ ایک بہت وسیع موضوع تھا— مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس موضوع پر کام کرنا شروع کیا— مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میری محنت کام آئی اور اکثریت اس ناول کو پسند کر رہی ہے۔

سوال:  ایک طرف نئی تہذیب لیکن کہانی کے آخر میں ایک گاؤں آتا ہے — بحیثیت ناول نگار نور محمد کو گاؤں میں لے جا کر آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ؟

ذوقی:  ناول نگار کوئی مبلغ نہیں ہوتا— اس لیے ناول نگار کا کام پیغام دینا نہیں ہوتا۔ ناول کا اختتام میں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ نور محمد جیسے کردار کو بلند شہر اور حویلی سے نکال کر گاؤں لے جانا کوئی آسان کام نہیں تھا— لیکن، ہر نفس نومی شود دنیا وما— ہر آن ایک نئی دنیا بن رہی ہے — ایک تہذیب مرتی ہے دوسری پیدا ہو جاتی ہے۔ نور محمد نے چھوٹی عمر میں ہی ایک ایسی دنیا دیکھی ہے جو خوبصورت بھی ہے اور بدصورت بھی— جہاں تہذیبوں کے رنگ بھی ہیں اور ایک ایسا رنگ بھی، جہاں قدریں پامال ہوئیں — تہذیب کا نوحہ سامنے آیا— میں چاہتا تو نور محمد کے کردار کو آسانی سے مار سکتا تھا— لیکن میں نے اسے زندہ رکھنے کا جوکھم اٹھایا— ناول نگار کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوتا ہے — کیونکہ کہانی یا ناول خلا میں تخلیق نہیں ہوتا— اس کے پیچھے ایک بڑا وژن ہوتا ہے — نور محمد کو مار دیتا تو ناول بہت حد تک کمزور ہو جاتا— شاید اسی لیے میں نے آخر آخر تک اسے زندہ رکھا اور آخر میں کاردار کو یہاں تک کہنا پڑا— کہ ماضی یاد رکھنے کے لیے نہیں ہوتا نور محمد— بلند شہر اور وہاں کی یادوں سے دور نکل کر تم ایک نئی بستی نئی دنیا اور ایک نئی تہذیب آباد کر چکے ہو— اس تہذیب میں پرانی تہذیب کھولنے کی حماقت بھی نہ کرنا— جنگوں کے بعد اکثر ایک نئی تہذیب کی شروعات ہوتی ہے — اور ایسی ہی ایک شروعات تمہارے ساتھ بھی ہوئی ہے۔

سوال:  کیا عبدالرحمن کاردار کا کردار آپ کو ایک کمزور کردار نہیں لگتا۔ ؟

ذوقی:  نہیں، وہ کردار اپنی جگہ ایک مضبوط کردار ہے — عبدالرحمن جیسے لوگ ہمارے آس پاس آسانی سے مل جائیں گے — ایسے لوگ دولت پیدا کرتے ہیں — اپنی آسانی کے لیے گھر بناتے ہیں — سکون سے رہنا چاہتے ہیں — اپنی سہولت سے محبت کرتے ہیں — لیکن محبت کے لیے کوئی جنگ نہیں لڑتے — لیکن ایسے لوگوں کا مشاہدہ بہت گہرا ہوتا ہے — میں نے عبدالرحمن کاردار کے اسی مشاہدے سے فائدہ اٹھایا اس لیے ناول کا بڑا حصہ اسی کردار کے ارد گرد گھومتا ہے — عبدالرحمن آزادی سے ایک گھنٹہ قبل ایک غلام ملک کی اخلاقیات میں جنم لیتا ہے — ایک گھنٹہ بعد ہی ملک کو آزادی نصیب ہوتی ہے — دراصل یہ عبدالرحمن بھی کہیں نہ کہیں آج کے مسلمانوں کی علامت بن کر سامنے آتا ہے — جہاں دو طرح کی اخلاقیات کی کشمکش جاری ہے ایک طرف مسلمان اس ملک میں آزادانہ طور پر اپنی زندگی بسر کر رہا ہے — وہیں اس ملک میں کہیں کچھ بھی ہوتا ہے تو مسلمانوں سوالیہ نشانات لگنے شروع ہو جاتے ہیں — اندر گہرے اندیشے اور وسوسے بھی پیدا ہونے لگتے ہیں — مثال کے لیے، یہ کہ اپنے ملک کو اپنا ملک کہنے کے لیے بھی کسی گواہ کی ضرورت ہے — یا پھر یہ کہ ۶۵ برس بعد بھی ایک قوم کو شک کے دائرے میں کیوں دیکھا جاتا ہے — اس پورے ناول میں عبدالرحمن کاردار دراصل ایک فوٹو گرافر ہے جو آزادی کے بعد سماج میں آئی ہوئی تبدیلیوں کی تصویریں اتار رہا ہے۔

سوال:  کیا اس ناول کا ایک موضوع Incest ہے — ؟

ذوقی:  نہیں، لیکن یہ مت بھولیے کہ پورا سماج تبدیل ہو چکا ہے — چودہ پندرہ سال کے بچے بالغ بچوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس سائبر نظام سے یہ بچے جتنا واقف ہیں، ۶۰، ۶۵ سال کا آدمی بھی اتنی واقفیت نہیں رکھتا۔ پزا اور برگر کھاتے ہوئے یہ بچے اندھیری سرنگ میں اتر گئے ہیں — یہاں ہاٹ چیٹ ہے پارن سائٹ ہے اور رول پلے یا انسیسٹ ہے — چھوٹے چھوٹے بچے سیکس کا برانڈ بنتے جا رہے ہیں۔ ایک بڑی آبادی سیکس میں فنٹاسی تلاش کرتے ہوئے اب نازک رشتوں تک آ گئی ہے۔ اس لیے ناول کے آخری حصہ میں تہذیب کی اس کشمکش کو دکھانا ضروری تھا۔ اور مجھے اسے پیش کرتے ہوئے کوئی بھی پریشانی نہیں ہوئی— کیونکہ یہ ہمارے آج کا سچ بن چکا ہے۔

 

— سبق اردو (خصوصی شمارہ، لے سانس بھی آہستہ)

٭٭٭

 

 

 

 

لے سانس بھی آہستہ پر ایک گفتگو

(کنیڈا سے بلند اقبال کا پاس ورڈ پروگرام کے لیے فون پر لیا گیا انٹرویو)

 

 

                بلند اقبال

 

بلند اقبال:      ناظرین کرام! مشرف عالم ذوقی صاحب کاRemarkable Novel پچھلے دنوں ملا۔ یہ ناول میں نے چھ دنوں میں پڑھا اور اس کے بعد میں دو دن تک عجیب کیفیت میں رہا۔ ایک کے بعد ایک سوال میرے سامنے کھڑا تھا— میں سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی انسانی جبلت اپنے ارتقا میں قدرت کے فیصلوں کی محتاج ہے — ؟ یا قدرت کی سرشت انسان کے حیوانی مزاج کو صدیوں پہلے تخلیق کر چکی ہے اور یہ حیوانیت تہذیب کے مصنوعی غلاف میں تہہ در تہہ نیم بے ہوشی کے عالم میں دبکی ہوتی ہے اور موقع پر برہنہ ہونے کی منتظر ہے — یہ سوال بہت اہم ہے اس کے علاوہ اس کتاب کا موضوع بہت اہم ہے — اس کتاب کا موضوع Incest ہے — ناظرین Incest کا مطلب ہے، خاندان کے افراد کے درمیان ناجائز جنسی تعلقات— کیا ایسا ممکن ہے۔ ؟ اس پر میں نے بہت سوچا— اس ناول کو پڑھ کے تہذیب کے حوالے سے — نفسیات کے حوالے سے — کیا کہتی ہے سائنس— ہر اینگل سے — جہاں تک میری سمجھ میں آیا میں نے سوچا اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے ان سوالوں کا جواب چاہئے — ان سوالوں کا جو میرے ذہن کے پچھلے حصے میں تھے اور اس ناول کو پڑھنے کے بعد اگلے حصے میں آ گئے ہیں — ناظرین— یہ سوچا کہ اس پروگرام میں ہم مشرف عالم ذوقی کی اس کتاب لے سانس بھی آہستہ پر باتیں کریں گے۔ ہم پوچھیں گے کہ کیا واقعی تہذیب ہمیں اس طرح لے جا رہی ہے۔ کیا واقعی تہذیب کا یہ بے ہنگم پرندہ اپنی پوری بھیانک شکل کے ساتھ ہمارے سامنے واپس آنے والا ہے — مشرق و مغرب اس ملاپ کے ساتھ کیا واقعی اس نئی Generationمیں شامل ہونے والے ہیں — یہ بڑا کرب ناک معاملہ ہے۔ ہم جاننا چاہیں گے۔ اس ناول کے موضوع کے حوالے سے اور اس کے علاوہ بھی ہندستان میں کیا لکھا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کیسا لکھا جا رہا ہے — مغرب میں جو ناول لکھے جا رہے ہیں۔ اس کے حوالے سے بھی— اگر یہ ناول English میں آئے، اس کا Translation ہو تو کیا واقعی یہ Comparative study کے لیے باہر کے ملکوں میں پیش کیا جا سکتا ہے — ؟ اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جنہیں Discourse کر سکتے ہیں — ہم گفتگو کرتے ہیں مشرف عالم ذوقی صاحب سے جو دہلی میں ہیں۔ ہمارے ساتھ مشرف عالم ذوقی صاحب موجود ہیں انڈیا سے، نیو دہلی سے — اور ذوقی صاحب سے اردو ادب واقف ہے — انہیں کسی تعارف کی ضرورت نہیں — ہاں ہمارے بہت سے ویورس viewers ایسے ہیں جن کا تعلق ادب سے ہے وہ یقیناً جاننا چاہیں گے۔ ذوقی صاحب کے بارے میں — ہم ان سے براہ راست پوچھیں گے بھی— ذوقی صاحب آداب بجا لاتا ہوں۔

ذوقی : جی آداب بہت بہت شکریہ آپ کا اقبال صاحب۔

بلند اقبال :      آپ کی طبیعت کیسی ہے آپ ٹھیک ٹھاک ہیں۔

ذوقی : صحت مند ہوں — آپ کی دعائیں ہیں۔

بلند اقبال:      آپ کا بہت بہت شکریہ— آپ نے ہمیں ٹائم دیا— آپ کے ناول کے حوالے سے بات کرنی ہے اور بھی بہت سی باتیں ہیں مگر اس سے پہلے میں جاننا چاہوں گا کہ آپ اپنے بارے میں کچھ اپنے ناظرین کو بتائیے۔ جن کا تعلق ادب سے ہے۔ آپ سے اردو ادب اچھی طرح واقف ہے لیکن ہمیں اپنے دوسرے ویورس کا بھی تھوڑا خیال رکھنا پڑتا ہے تو تھوڑا سا اپنے بارے میں اپنے ادبی سفر کے بارے میں تھوڑی سی ناول نگاری کے بارے میں کچھ بتا دیجئے۔

ذوقی:  اقبال صاحب— سب سے پہلے تو میں آپ کا شکریہ ادا کروں گا کہ آپ نے اتنی دور سے مجھے یاد کیا— میرا نام مشرف عالم ذوقی ہے۔ ذوقی تخلص ہے۔ بہت چھوٹا تھا تو ذوق کا کلام گنگنا یا کرتا تھا— تب سے یہ تخلص ذوقی میرے نام کا ایک حصہ بن گیا— جب میں چھٹی جماعت میں تھا میں نے پہلی کہانی لکھی تھی اور اس کے بعد مسلسل کہانیوں کا جو سفر شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے — ۱۷ سال کی عمر میں میں نے اپنا پہلا ناول لکھا ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ — جب میری عمر ۲۰ سال کی تھی میں چار ناول لکھ چکا تھا۔ جس میں لمحہ آئندہ، نیلام گھر، شہر چپ ہے اور عقاب کی آنکھیں — یہ چار ناول ۲۰ سال کی عمر تک لکھ چکا تھا اور یہ سفر اب تک جاری ہے۔

بلند اقبال :      تو ذوقی صاحب بتائیے کہ یہ ناول بالخصوص جب یہ میرے مطالعے سے گزرا تو میں چونک گیا کہ لے سانس بھی آہستہ— تو کچھ دیر کے لیے میری اپنی سانسیں رک گئیں — یہ انتہائی خطرناک موضوع تھا— میں چاہوں گا پہلے ہم تھوڑا سا اس ناول کے حوالے سے گفتگو کر لیں اور اس گفتگو کے بعد ہم ہندستان میں ہونے والی ناول نگاری، پاکستان میں بھی اور مغرب میں بھی لکھا جا رہا ہے — ان کے حوالے سے بھی کچھ تقابلی بات بھی کریں گے — مگر یہ موضوع خصوصاً انسیسٹ کے حوالے سے یہ ایک بہت ہی یونیک موضوع ہے — مجھے نہیں لگتا کہ اردو میں اس موضوع کے حوالے سے کبھی لکھا گیا ہو۔

ذوقی : جی بے حد شکریہ— آپ نے اس پروگرام میں میرے نئے ناول لے سانس بھی آہستہ کو موضوع گفتگو بنایا— جیسا کہ نام سے ظاہر ہے بلند اقبال صاحب کہ میں نے اس ناول کو معنویت عطا کرنے کے لیے میر تقی میر کے مشہور شعر کا سہارا لیا۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا

دلچسپ بات یہ ہے اقبال صاحب کہ میر جس دنیا کو بچانے کی فکر میں آہستہ آہستہ سانس لینے کی بات کہہ رہے تھے صدیوں کے طلسم میں یہ سانس ہی گم ہو گئی— تغیرات کی وہ آندھی چلی کہ تہذیبوں کے تصادم کو لے کر بہت ساری کتابیں لکھی گئیں اور آج بھی لکھی جا رہی ہیں — کچھ دن پہلے ایک مشہور انگریزی اخبار میں ایک کتاب کا Review پڑھا— اس کا موضوع بھی یہی تھا— اس کے کچھ دن بعد میں ایک اور ناول پڑھا جس میں بولتی ہوئی تہذیبوں اور قدرت کو لے کر دہشت پسندی کے حوالے سے ناول لکھا گیا تھا— میرے ذہن میں بہت دن سے اس موضوع کو لے کر بیقرار کر دینے والی کیفیت تھی کہ اگر بات ہندستان کی کریں — ۱۰۰ سال کی تاریخ پر نظر رکھیں تو تہذیبوں کے تصادم کے اتنے سارے پہلو سامنے آئیں گے، جن پر لکھنا ایک خوبصورت قدم ثابت ہو گا۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ اسے لکھنے کی ضرورت ہے اور اب یہ کتاب لے سانس بھی آہستہ آپ کے سامنے ہے۔

بلند اقبال :    اس کے علاوہ وہ کیا موضوعات ہیں جو آپ کے سامنے ہیں — آپ کیا سمجھتے ہیں کہ واقعتاً بلکہ ہم تھوڑی دیر کے لیے اور ٹھہریں اس موضوع پر— یہ نئی تہذیب جونئی شکل میں سامنے آ رہی ہے۔ مغرب و مشرق کے تصادم سے یہ جو Space اور Technology کا دور ہے — ہم وقت کی تشہیر کر چکے ہیں آپ کا خیال ہے — یہ سارا ایڈورس Effect تیز رفتاری کی وجہ سے ہے — یہ سائنس کی ترقی جو ہر لمحے میں ہمیں نت نئی ایجادات سے نواز رہی ہے — یہ سارے ایڈورس Effect بھی ہیں تہذیب کواس کے لیے Play Back کرنا پڑے گا۔

ذوقی:  نہیں۔ دیکھیے ایسا ہے کہ جب ترقی ہوتی ہے تو اس طرح کے واقعات پیش آتے ہی ہیں — بات لے سانس بھی آہستہ کی ہے تو تہذیبوں کی شکست و ریخت کے حوالے سے ایک کہانی یہاں بھی روشن ہے — اگر آپ دیکھیں جب کہانی شروع ہوتی ہے ہم وہاں حویلیوں کا زوال دیکھتے ہیں — پھر شروع ہوتا ہے نو آبادیات کا مسئلہ— ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اپنی کہانیوں کے تعلق سے، ناول کے تعلق سے کبھی بھی جھوٹ دکھانے کا عادی نہیں رہا۔ اگر ایک ترقی سامنے آتی ہے تو اس کا استقبال کرنا چاہئے۔ دوسری بات یہ کہ اس پر جو اثرات سامنے آتے ہیں اس کو بھی دیکھنا ایک ناول نگار کا کام ہوتا ہے — اس لیے اگر آپ دیکھیں تو آزادی کے آس پاس جو تبدیلیاں سامنے آئی تھیں ناول میں جا بجا ان کا ذکر ملتا ہے۔ اگر میں اس معاملے کو اور آگے بڑھاؤں تو جب نو آبادیات کا مسئلہ سامنے آتا ہے — گھروں میں قید عورتیں باہر نکلتی ہیں — اس سے پہلے ہماری عورتیں گھروں سے باہر نہیں جایا کرتی تھیں۔ کپڑے لتے سے لے کر دودھ دہی تک ہر چیز گھر کے اندر— لیکن آپ دیکھے کہ ناول میں وہ موڑ آتا ہے جب عبدالرحمن کاردار کی ماں پہلی بار حویلی کا دستور توڑ کر تھانے جاتی ہے۔ تو یہ جو تبدیلیاں ہیں۔ یہیں سے تہذیب پر نئی بحث شروع ہوتی ہے — حویلیاں۔ حویلیوں کا زوال آتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ ایک ادیب کے طور پر ان تمام تر چیزوں کو دیکھتے ہوئے کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچنا تھا— اور پھر یہ تہذیبوں کا تصادم میرے سامنے آتا ہے اور نور محمد، عبدالرحمن کاردار کی شکل میں دو بڑے کردار ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں — ایک کردارجس کی نظر میں محبت سب کچھ ہے اور جو محبت کے لیے اپنے آپ کو فنا کر دیتا ہے۔ دوسری طرف نو آبادیات سے نکلا ہوا ایک کردار عبدالرحمن جو محبت تو کرتا ہے مگر وقت کے حساب سے چلتا ہے۔

بلند اقبال:     اچھا کچھ دیر قبل ڈاکٹر ستیہ پال آنند سے بات ہو رہی تھی— ان کی ایک کتاب کے حوالے سے — ہم دیکھ رہے ہیں مغرب میں ایک دوسری طرح کی تبدیلی بھی آ رہی ہے۔ جہاں ایک میکنیکل دوڑ لگی ہوئی ہے۔ وہاں پر صوفی ازم پر بھی گفتگو ہو رہی ہے — رومی کا کلام English میں Translation ہو رہا ہے — ایک طرف لوگ Hindu فلسفے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ تو ایک الگ طرح کا مزاج سامنے آ رہا ہے —  یعنی Civilisation کا وہ شیپ ہے جو الگ Vibration کی شکل میں ہمیں ایک نئے نظام کی طرف لے جاتی ہے — دوسری طرف مشرق میں، ہم ایشیا میں پاکستان میں ہندستان دیکھتے ہیں کہ وہاں Westernisation آ رہا ہے — ہمارے یہاں موڈرن کلچر آ رہا ہے — نئی شکل بن رہی ہے — درمیان میں جو انٹرنیٹ ٹیکنولوجی ہے اس نے جو بھی اپنے اثرات دیئے وہ سامنے ہیں — تو یہ دونوں طرف دو طرح کی تبدیلیاں Opposite Direction میں نظر آتی ہیں — آپ اس کے بارے میں ذرا کچھ کہیں گے — آپ کا کیا خیال ہے اس کے بارے میں۔

ذوقی:  جی بہت خوبصورت سوال اٹھایا ہے آپ نے — تہذیبیں جب تک مذہب کے فورم میں آپ کے سامنے نہ ہوں، بدلتی رہتی ہیں۔ یوروپ والے برہنگی سے اکتا گئے۔ پوپ میوزک، فیوژن سے اکتا گئے۔ اور ایشیائی تہذیب ان چیزوں کی شرن میں آ گیا۔ دیکھیے میں خود بہت دنوں سے اس بارے میں سوچ رہا تھا— جب ہم ناول کی بات کرتے ہیں تو داستانیں یادآتی ہیں — طلسم ہوش ربا کی یاد آتی ہے جیمس جوائز کی یولیسز کی بات کریں تو وہاں پر بھی داستانیں پیچھا نہیں چھوڑتیں — وہاں بھی داستانیں ہیں — بلیک ماؤنٹین دیکھ لیجئے — وہاں بھی داستانی سلسلہ ہے — جو مجھے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر آپ Western لیٹریچر کی بات کریں تو وہ اپنے مسائل سے گھبرا کر ہماری طرف دیکھتا ہے — جب ہماری طرف دیکھتا ہے تو انکو وہ داستانیں، طلسم ہوش ربا کی یاد آتی ہے۔ یہ تمام تر چیزیں کہیں نہ کہیں علامت کے طور پر ان کے ناول یا ان کی کہانیوں کا حصہ بن جاتی ہیں — ہم نے داستانیں گم کر دیں — ہم نے شروع سے ہی ویسٹ کو دیکھنا شروع کر دیا— ایک بات ہم آپ کو یہ بتا دیں جو لوگ کہتے ہیں کہ اردو ناول کا سفرزیادہ پرانا نہیں تو اردو ناول اپنی عمر کے ایک سواڑتالیس سال مکمل کر چکا ہے — یہ مدت کوئی کم نہیں ہے نذیر احمد نے 1869میں مراۃ العروس کے نام سے اپنا پہلا ناول قلم بند کیا تھا تو یہ ڈیڑھ سو سال کی مدت ہے — ہم نے کتنی ترقی کی ہے — تو مجھے لگتا ہے کہ نظر کچھ ناولوں پر جا کر ٹھہر جاتی ہے — اس لیے ایک بار پھر ہم وہیں آتے ہیں کہ آپ ویسٹرن کو دیکھیں تو وہاں آج بھی ہر طرح کی چیزیں لکھی جا رہی ہیں — ٹالسٹائی نے بھی کس طرح داستانوں کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی کہانیوں کو آگے بڑھایا— لیکن ہمارے یہاں کہیں نہ کہیں تہذیبیں کھو گئی ہیں — یہ ہماری غلطی ہے کہ ہم بہت زیادہ Western کی طرف نظر لگائے کھڑے ہیں جبکہ راستہ ہمارے یہاں سے بھی جاتا ہے۔

بلند اقبال:     تو ذوقی صاحب بات ہو رہی ہے لے سانس بھی آہستہ کے حوالے سے یہ موضوع جو ہے میں اس پر تھوڑا سا اور فوکس کرنا چاہوں گا کہ یہ موضوع بہت یونیک موضوع ہے — خود West میں ہی دیکھیں اس پر خاص Discussion ابھی تک نہیں ہوا۔ Social taboos ہے — یہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر قانونی بھی ہے — تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ چیز ہندستان میں ہے یا ہندستان میں بھی اس حد تک پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ اس کے خوف میں مبتلا ہیں کہ کل یہ کسی حد تک کلچر کا حصہ بھی بن سکتی ہے۔

ذوقی:  یہ بہت خوبصورت سوال اٹھایا ہے بلند صاحب — یہ تہذیب ہندستان میں آ چکی ہے — ایشیاء میں آ چکی ہے — مجھے لگتا ہے کہ اچانک دنیا نے جو انگڑائی لی ہے اس نے فاصلے مٹا دیئے — کل کی جنریشن کی بات کریں تو یہ دنیا اتنی نہیں پھیلی تھی لیکن ہمارے لیے بچوں تک یہ دنیا اتنی پھیل گئی ہے کہ بہت ساری باتیں جو ہم اور آپ نہیں جانتے ہیں بچوں کے علم میں ہے — مجھے اس بات کا بھی احساس تھا کہ کہیں نہ کہیں اس موضوع کو اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ آج کے بچے ہیں — بلکہ بدلے ہوئے وقت کے بچے ہیں — ان کے پاس احساس و جذبات کی وہ شکل نہیں ہے جو ہمارے اور آپ کے پاس ہے — پوری دنیا بدل چکی ہے — ان کے اندر وقت کے ساتھ ایک باغی بچہ سانس لے رہا ہے — تو جب میں نے اس کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو اس کے تعلق سے کئی کردارسامنے آئے۔ دوسری بات یہ کہ آپ نے چونکہ ہندستان کے دوسرے ناولوں کی باتیں بھی کی ہیں — یہاں میں ایک بات اور بھی آپ کو بتانا چاہوں گا اور شاید وہ باتیں ہمارے سامعین کے لیے بہت دلچسپ ہوں گی— ۱۵۰ سال کی طویل مدت میں ہند و پاک سے شائع ہونے والے ناولوں کی تعداد کسی بھی لحاظ سے دو تین ہزار سے کم نہیں ہو گی— لیکن المیہ یہ ہے کہ بہت کم ناولوں کی گونج ہوتی ہے — ایسا کیوں ہے — جبکہ ایسے بہت سے ناول ہیں جن میں میرے ناول کی طرح اپنے وقت میں تہذیبوں کے تصادم کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اب آپ دیکھیے ڈپٹی نذیر احمد کی بات لیجئے۔ ڈپٹی صاحب کے تمام ناولوں میں تہذیبیں موجود ہیں — بلکہ تہذیبوں کا تصادم موجود ہے — آپ آگے بڑھیے شوکت صدیقی پر آ جائیے — آپ خدا کی بستی دیکھیے تو یہ ایسی بستی ہے جہاں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں — اس کی معرفت ایک تہذیب کی کھوج کی جا رہی ہے — ایک پوری خدا کی بستی موجود ہے — دیکھیے ایسا ہے کہ ہمارے یہاں نقادوں نے ٹارگیٹ صرف ایک ناول نگار کو بنایا۔ قرۃ العین حیدر— آگ کا دریا اردو کا سب سے بڑا ناول— لیکن اگر آپ آگے بڑھتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ ڈاکٹر احسن فاروقی کا بھی ناول ہے سنگم— مشہور ترین ناول— لیکن نقادوں نے اس ناول کو چھوا تک نہیں — اس میں بھی وقت ہے — تہذیبیں ہیں — لیکن کیا وجہ ہے کہ قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کا دریا پر تو گفتگو ہو رہی ہے لیکن ڈاکٹر احسن فاروقی کے تمام ناول شام اودھ اور آبلہ پا، سنگم پر گفتگو ہی نہیں ہوئی — میرا خیال یہ ہے کہ نقادوں نے سہولت سے کام لیا— جب ناول آگ کا دریا آیا اس پر گفتگو شروع ہو چکی تھی— پھر قرۃ العین حیدر ہندستان سے پاکستان آ گئی— ڈاکٹر احسن فاروقی یا عزیز احمد یا شوکت صدیقی ان کے یہاں بھی موضوعات اچھے تھے — ان کے یہاں بھی وہ موضوعات تھے مگر سب کے دماغ میں قرۃ العین حیدر کا ہی بھوت سمایا رہا— آگے بڑھیے جمیلہ ہاشمی تک آ جائیے — تلاش کے بعد— نقادوں نے صرف اور صرف ٹارگیٹ کیا تو قرۃالعین حیدر کا ناول نظر آیا— آج بھی اردو صرف ہندستان میں نہیں ہے اردو صرف پاکستان میں نہیں ہے اردو کیرالہ میں بھی ہے — اس وقت آپ مجھ سے باتیں کر رہے ہیں — اردو ایک بہت بڑی دنیا ہے — جب ہم اردو دنیا کی بات کرتے ہیں تو صرف ہندستان پاکستان بنگلہ دیش کے ناول کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ مصطفی کریم بھی ہیں — جن کے بہت خوبصورت ناول سامنے آئے — ان کا ایک ناول میں نے پڑھا تھا جس میں ہندستانی تہذیب کو لے کر شجاع الدولہ کو ہیرو بنا کر ناول لکھا گیا تھا۔ ایک سے بڑھ کر ایک ناول سامنے آئے — اس سے دو قدم آگے بڑھیں تو مجھے لگتا ہے کہ آج جب ہم سائبر Space کی باتیں کرتے ہیں۔ بدلے ہوئے بچوں کی باتیں کرتے ہیں تو یہ تمام موضوعات ہیں جو اردو ناولوں کا حصہ بن رہے ہیں — لیکن یہ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہندستان سے لے کر پاکستان تک— ایک تو یہ نقاد بہت کم فکشن پر اور ناول پر لکھتے ہیں پاکستان کی بات کریں تو ایک دو نام سے آتے ہیں اس کے بعد یہ معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ آپ آگے بڑھیے غلام حسن نقوی کا ناول آتا ہے آپ دیکھیں کیا خوبصورت ناول ہے جبکہ آرا کے چھوٹے سے گاؤں کے بہانے پاکستانی معاشرے کی پوری آواز آپ اس ناول میں سن سکتے ہیں — فضل کریم فضلی کو دیکھیے خون جگر ہونے تک۔ کو موضوع بنایا گیا ہے — ممتاز مفتی کو دیکھ لیجئے — علی پور کا ایلی — الطاف فاطمہ کے ناول دیکھ لیجے — فہیم اعظمی نے ناول لکھا— یہاں تک کہ اشرف شاد کے ناول سامنے آئے — بے وطن وزیر اعظم اور صدر اعلیٰ اس طرح سے اگر ہم ہندستان میں دیکھیں تو غضنفر ہیں ان کا بھی حال میں ایک ناول آیا ہے مانجھی— اسی طرح سے رحمن عباس ہیں ان کا تازہ ناول آپ کے ابھی سامنے آیا ہے۔ خدا کے سائے میں آنکھ مچولی— پیغام آفاقی ہیں جنہوں نے مکان لکھا اور ابھی حال میں ان کا ایک ناول سامنے آیا ہے پلیتہ— بہت اہم ناول ہے — تو ایسا نہیں ہے موضوعات کی ہمارے یہاں کوئی کمی نہیں ہے اور دوسری بات میں جو بار بار آپ سے کہنا چاہوں گا کہ اردو ناول کسی بھی لحاظ سے مغرب یا انگریزی ناولوں سے موضوعات کے لحاظ سے کم نہیں ہے — لیکن ضرورت ہے اردو ناولوں کو بڑی سطح سے پروجیکٹ کیے جانے کی۔

بلند اقبال:      بھائی آپ نے تو بہت کم وقت میں ناول کی تمام تر تاریخ پر بہت اچھی روشنی ڈال دی— اتنے خوبصورت انداز سے اس بارے میں معاملے کو Clouse کر لیا کہ میں کیا میرے ناظرین بھی آپ کے شکر گزار ہیں — وقت اب بس ختم ہی ہو رہا ہے — مگراس ناول کو پڑھ کر مجھے تھوڑی سی بے بسی کا احساس ضرور ہوا تھا— جیسا کہ اس میں لکھا ہے کہ قدرت کتنی طاقت ور ہے — قدرت انسان کے حیوانی مزاج کو پہلے سے ہی Create کرچکی ہے اور وہ بس مجھے ایک بے بسی کا احساس ہوا ہے — جب تہذیبوں کا تصادم سامنے آیا تو شاید اتنا ہی بے بس ہو گیا— لیکن مشرف عالم ذوقی آپ سے گفتگو کر کے مجھے بہت کچھ ملا— اور اس ناول کے حوالے سے بھی بہت سے ایسے سوالات جو میرے ذہن میں تھے وہ دور بھی ہوئے — مجھے یقین ہے کہ ہمارے قارئین بھی اس ناول کو پڑھنا چاہیں گے — اس موضوع کو ڈسکس کرنا چاہیں گے اور آنے والے وقت پر بھی ایک نظر رکھیں گے — میں ایک بار پھر دل سے آپ کا بہت شکر گزار ہوں —

ذوقی:  میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ایک تو یہ لوگ اردو کی کتابیں پڑھیں — کہانیاں پڑھیں — جو چیزیں لکھی جا رہی ہیں — ہندستان سے پاکستان تک— دوسری اہم بات کہ اردو کو علاقوں میں محدود نہ کریں — ہندستان کی اردو یا پاکستان کی اردو یا کنیڈا کی— اردو— جب ہم اردو کی بات کریں تو پوری اردو دنیا ہمارے سامنے ہو— جب پاکستان کا نقاد اردو پر لکھتا ہے تو پاکستان تک کی بات آتی ہے اور کنیڈا کے بلند اقبال کو بھول جاتے ہیں — جب ہندستان کے نقاد لکھتے ہیں تو مصطفی کریم رہ جاتے ہیں — ہندستان کا نقاد جب لکھنے کو آتا ہے تو ہندستان تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے — نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ ہندستان اور پاکستان سے باہر ہیں وہ حوالہ نہیں بن پاتے ہیں — مجھے لگتا ہے کہ ان سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے — ہم جب اردو سوچیں تو پوری اردو دنیا ہمارے سامنے روشن ہو — مجھے کہنا ہے کہ اردو میں اچھے ناول لکھے جا رہے ہیں — بہت اچھی کہانیاں لکھی جا رہی ہیں — لوگ زیادہ سے زیادہ ان کا مطالعہ کریں — اس سے ہم لوگ اور اچھا لکھنے کی کوشش کریں گے۔

بلند اقبال: شکریہ

— تحریر رضوانہ شمسی

٭٭٭

 

 

 

 

’لے سانس بھی آہستہ‘ تہذیبوں کے تصادم کی کہانی

 

 

                طالب حسین آزاد

 

تعارف: اردو ہندی کے مشہور و معروف ناول نگار اور ٹی وی کے دنیا کے ڈائریکٹر، پرڈیوسر جناب مشرف عالم ذوقی صوبہ بہار کے آ رہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دنوں تاج اینکلو گیتا کالونی دہلی میں رہ کر اردو ہندی ادب کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی ۵۰ سے زائد کتابیں منظر عام پر آ کر اردو ہندی دونوں حلقوں میں شہرت اور مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ (ناول) منظر عام پر آ کر کافی مقبول ہوئی ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے محض ۱۷ سال کی عمر سے ہی لکھنا شروع کیا تھا اور ان کا پہلا ناول تھا ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ اور دوسرا ناول تھا ’’نیلام گھر‘‘ اس کے علاوہ ’’شہر چپ ہے ‘‘ ’’ذبح‘‘ ، ’’بیان‘‘ ، ’’پوکے مان کی دنیا ‘‘ مسلمان اور پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘‘ کو بھی کافی شہرت ملی۔

ذوقی صاحب کا ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ ان دنوں کافی مقبول ہوا ہے — ابھی حال ہی میں مجھے ذوقی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

میں نے بہار جھارکھنڈ اور لکھنؤ سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت روزنامہ قومی تنظیم کے لیے انٹرویو لیا۔ پیش ہے ان سے لیے گئے انٹرویو کے چند اہم اقتباسات۔

سوال:  ذوقی صاحب آپ کا سب سے پہلا ناول کون سا تھا…؟

جواب:        طالب صاحب ! آپ کو یہ جان کو خوشی ہو گی کہ میں نے اپنا پہلا ناول دربھنگہ میں لکھا اس وقت میری عمر ۱۷ سال کی تھی— میرے پہلے ناول کا نام ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ ہے۔ اسمیٹر کے ذریعہ پٹنہ سے دربھنگہ جاتے ہوئے میری ملاقات ایک نوجوان ڈاکٹر سے ہوئی تھی، ان دنوں میں سمستی پور میں رہتا تھا— لیکن میں کسی ضروری کام سے پٹنہ سے دربھنگہ جا رہا تھا— اسی دوران میری ملاقات نوجوان ڈاکٹر سے ہوئی— یہ ملاقات اتنی دلچسپ تھی کہ میں نے اس کی زندگی کو ناول میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح ’’عقاب کی آنکھیں ‘‘ کو میں اپنا پہلا ناول مانتا ہوں۔

سوال: ذوقی صاحب آپ نے اب تک کتنے ناول لکھے …؟

جواب:        ’عقاب کی آنکھیں ‘ کے بعد ناول نگاری میں میری دلچسپی بہت حد تک بڑھ گئی تھی— ۲۰ سال کی عمر تک میں لمحہ آئندہ ’’شہر چپ ہے، نیلا م گھر‘‘ جیسے ناول تخلیق کر چکا تھا— جب میں نے یہ چاروں ناول تحریر کر لیا اس وقت تک عبدالصمد کا ناول ’’دو گز زمین‘‘ بھی منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ نیلام گھر کے بعد میں نے ’’مسلمان اور ذبح‘‘ لکھا اور اس کے بعد بابری مسجد شہادت کو لے کر ’’بیان‘‘ — پھر ’’پو کے مون کی دنیا— پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی‘‘ یہ دونوں ناول بھی اردو کے ادبی حلقوں میں بہت پسند کئے گئے۔

سوال : ذوقی صاحب! لے سانس بھی آہستہ جو آپ کا نیا ناول ہے اس ناول کا آئیڈیا آپ کے ذہن میں کیسے آیا؟

جواب:        طالب صاحب آپ نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے اس ناول کا آئیڈیا کم و بیش ۱۰ برسوں سے میرے ذہن میں تھا— نئی صدی یا نئی الفی کی شروعات ہی دہشت پسندی سے ہوئی۔ اس دہشت پسندی نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا تھا کہ تہذیبیں کس طرح اپنا رنگ بدلتی ہیں — طالب صاحب آپ کو یاد ہو گا کہ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو ہندستانی طیارے کے ساتھ ایک المیہ پیش آیا تھا— یعنی نئی صدی کی شروعات ہی دہشت پسندی سے ہوئی تھی— مجھے یہ خیال آیا کہ تہذیبوں کے رنگ بدلنے کا سلسلہ تقسیم سے شروع ہوا تھا— ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا— اس سے پہلے ایڈوانی جی کی رتھ یاتراؤں نے ہندستان کے ماحول کو بوجھل کر دیا تھا۔

سن 2002ء میں گودھرا کا حادثہ سامنے آیا۔ ۱۲ سال کے وقفے میں تہذیبوں کے تصادم کو لے کر جب میں نے ناول لکھنے کا ارادہ کیا تو اس کے تین پڑاؤ تھے۔

پہلا پڑاؤ تقسیم تھا— دوسرا بابری مسجد شہادت کا دن— اور تیسرا پڑاؤ گودھرا — میں نے ہندستانی تہذیب کو تین تین پڑاؤ کے درمیان رنگ بدلتے ہوئے محسوس کیا ہے۔ شاید اسی لیے ’لے سانس بھی آہستہ‘ میں آپ کو بدلتی ہوئی تہذیبوں کے رنگ نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔

سوال : ذوقی صاحب! لے سانس بھی آہستہ کے بعد آپ کا ناول کون سا ہے …؟

جواب :       طالب صاحب میرے نئے ناول کا نام’ آتش رفتہ کاسراغ‘ ہے — یہ ناول سات سو بیس صفحات پر مشتمل ہے۔ طالب صاحب! آپ یہ بہتر طور پر جانتے ہوں گے کہ میں نے مسلمانوں کو لے کر پہلے بھی کئی ناول لکھے ہیں — جیسے بیان، مسلمان، ذبح— آتش رفتہ کا سراغ۔ آزادی کے بعد کے ہندستانی مسلمانوں کی آپ بیتی ہے آپ دیکھیے کہ آزادی کے بعد اب تک اس ملک میں مسلمانوں کو جھوٹے دلاسے اور تسلیاں تو بہت ملیں مگر انصاف کبھی نہیں ملا— بابری مسجد کا فیصلہ آیا تب بھی مسلمان انصاف کے لیے ترس گئے — مسلمان ہندستانی پارٹیوں کی نظر میں ووٹ بینک سے زیادہ نہیں ہیں اور شاید اس لیے میں نے ۶۵ برسوں کے آزاد ہندستان کو لے کر ایک ضخیم ناول لکھنے کا ارادہ کیا— آتش رفتہ کا سراغ، اردو ویب سائٹس پر پڑھا جا سکتا ہے۔

— (پاس ورڈ پروگرام سے )

٭٭٭

 

 

 

معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی سے ایک مکالمہ

 

 

                نثار احمد صدیقی

 

اصلی نام:       مشرف عالم

ادبی نام:        مشرف عالم ذوقی

تاریخ پیدائش: ۲۴ مارچ ۱۹۶۲

جائے پیدائش: آ رہ (بہار)

پہلی تخلیق:     رشتوں کی صلیب: کہکشاں

ناول: عقاب کی آنکھیں، نیلام گھر، شہر چپ ہے، ذبح، مسلمان، بیان، پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سنامی، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ، اردو، اڑنے دو ذرا۔

افسانوی مجموعہ: بھوکا ایتھوپیا، منڈی، غلام بخش، صدی کو الوداع کہتے ہوئے، لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، ایک انجانے خوف کی ریہرسل، نفرت کے دنوں میں، فرشتے بھی مرتے ہیں، فزکس کمسٹری الجبرا، بازار کی ایک رات، مت رو سالگ رام، فرج میں عورت، امام بخاری کا نیپکن، لیبارٹری، شاہی گلدان، ذوقی کی پریم کہانیاں۔

تنقیدی کتابیں : آبِ روانِ کبیر، سلسلہ روز و شب، اردو ادب، مکالمہ کے سات رنگ، اپنا آنگن

ماس میڈیا: ٹیلی اسکرپٹ (قومی اردو کونسل)

تالیف:         سرخ بستی، تقسیم کی کہانیاں، منٹو پر آٹھ کتابیں (وانی پبلی کیشن) عصمت کی کہانیاں، بیدی کی کہانیاں، جو گندر پال کی کہانیاں، مسلم باغی عورتوں کی کتھا، جدید افسانے (ان بی ٹی)

بچوں کی کتاب: کنگن (ان بی ٹی)

ڈرامہ: گڈ بائے راجنیتی، ایک سڑک ایودھیا تک

ٹی وی پروگرام: ۱۰۰ سے زیادہ ڈکیومنٹری، مسلمان، رات چور اور چاند، بے جڑ کے پودے جیسے ناولوں پر سیرئیل، ۱۹۹۸ سے مسلسل ٹی وی پروگرام بنانے کا سلسلہ، اردو شاعری، اردو صحافت پر پروگرام، قمر رئیس، ڈاکٹر محمد حسن، قرۃ العین حیدر جیسے ادیبوں پر ۵۲ سے زیادہ ڈکیومینٹری فلمیں —

انعام و اعزاز: کرشن چندر ایوارڈ(۱۹۹۶)، کتھا آجکل ایوارڈ (۱۹۹۷)، الیکٹرونک میڈیا ایوارڈ (دلی اردو اکیڈمی، ۱۹۹۹)، ملینیم ایوارڈ (جامعہ اردو علی گڑھ ۲۰۰۰)، اردو اکیڈمی ایوارڈ (۲۰۰۵)، انٹر نیشنل ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن ایوارڈ (۲۰۰۷) اردو اکیڈمی تخلیقی نثر ایوارڈ (۲۰۰۷)، دہلی اردو اکیڈمی (پروفیسر ایس کی عجیب داستان پر انعام ۲۰۰۶)

 

س:    اپنی ادبی و ذاتی زندگی کے مختصر کوائف بتائیے ؟

ج:    نثار صاحب، عمر کی اس دہلیز پر آ کر احساس ہوتا ہے کہ سب کچھ کتنا پیچھے چھوٹ گیا۔ ۲۴ مارچ ۱۹۶۲ کو پیدا ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب چینی ہندی بھائی بھائی کا طلسم ٹوٹ چکا تھا۔ آزادی کو ۱۵ سال گزر گئے تھے۔ لیکن فسادات کا دھواں مختلف حصوں سے اٹھتا ہوا نظر آتا تھا۔ بہار کا ایک چھوٹا سا شہر آ رہ۔ آ رہ کے گلی کوچوں میں زندگی کا نغمہ سنتے ہوئے کب کہانیوں اور قصوں کی آغوش میں پناہ لینے لگا، نہیں جانتا— ایک عمر گزر گئی۔ ماضی کی سرنگوں میں لوٹتا ہوں تو احساس ہوتا ہے، کہانیاں ہمیشہ سے میرے پاس تھیں — اور شاید میں اسی ایک کام کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ بچپن میں ہی قلم سے دوستی ہو گئی اور دوستی کا سفر مسلسل جاری ہے۔ میری ادبی زندگی کا ایک ایک صفحہ قارئین کے سامنے رہا ہے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں، ادب ایک ذمہ داری ہے۔ محض شوق نہیں۔ جو لوگ ادب کو شوق کی سطح پر لیتے ہیں وہ گم بھی ہو جاتے ہیں اور ایک دن دنیا انہیں بھول بھی جاتی ہے۔

س:    آپ کے شروع کے چند افسانے بیانیے، علامیہ، اور تجریدی نظر آتے ہیں۔ ان افسانوں کے متعلق آپ کیا کہنا چاہیں گے ؟

ج:    ۹۰ کا دور تھا۔ میری عمر یہی کوئی اٹھارہ برس رہی ہو گی۔ یہ وہ عہد تھا جب مبہم علامتی اور تجریدی، بے سر پیرکی کہانیاں لکھی جا رہی تھیں۔ اردو فکشن کے لیے یہ خطرناک تجربوں کا دور تھا۔ المیہ یہ تھا کہ اس وقت کے تمام بڑے فکشن رائٹر ایسی ہی کہانیاں تحریر کر رہے تھے جن کو سمجھنا آسان نہ تھا۔ ظاہر ہے، عمر کی ان منزلوں میں، میں بھی جدیدیت کی طرف راغب ہوا— ۹۰ تک آتے آتے جدیدیت کے پر پرزے بکھر چکے تھے۔ میں نے اپنے افسانوی مجموعہ منڈی میں ایسی کچھ کہانیاں شامل کرتے ہوئے تحریر کیا— ’’یہ وہ کہانیاں ہیں جنہیں میں رد کرتا ہوں ‘‘۔ میرے دوست رحمن عباس نے مجھ سے پوچھا، یار ذوقی بتاؤ، ۹۰ کے آس پاس جب بیدی بھی زندہ تھے، قرۃ العین بھی اور اردو کے کئی بڑے تخلیق کار ڈھنگ کی کہانیاں لکھ رہے تھے تو پھر یہ جدیدیت کہاں تھی۔ ؟ میں نے جواب دیا۔ وہ فاروقی کی اختراع تھی اور فاروقی نے اپنے ناکام تجربے میں اس عہد کے کئی بڑے افسانہ نگاروں کو محض بیوقوف بنانے کا کام کیا— میں اس سے آگے بڑھ کر کہتا ہوں، ہر ادب کو جدید ہونے کا حق حاصل ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا، وہ محض روایتی نہیں بلکہ جدیدیت کی طرف اٹھنے والا قدم ہے۔ مجھے جدیدیت سے انکار نہیں۔ فاروقی کی تھوپی گئی جدیدیت سے انکار کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ صدمہ اس بات کا ہے کہ فاروقی نے اس عہد کے قمر احسن اور اکرام باگ جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں جدیدیت کا پرچم دے کر ان کے ہاتھوں سے قلم چھین لیا۔ کئی ایسے فنکار تھے جو جدیدیت کے نام پر قربان نہ ہوتے تو آج اردو فکشن کی شکل مختلف ہوتی۔

س:    ذوقی صاحب۔ آپ کی فکشن نگاری دو ادوار میں بٹی ہوئی ہے، ایک جدیدیت، دوسرے ما بعد جدیدیت۔ ان دونوں نظریہ یا رجحان سے متعلق جو کہانیاں ہیں، اس کے متعلق آپ کیا کہنا چاہیں گے ؟

ج:    ’صدی کو الوداع کہتے ہوئے ‘ کہانیوں کا مجموعہ میں نے خصوصی طور پر اپنے فکشن کا جائزہ لیا ہے۔ میری کہانیوں کو چار شیڈ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک، جب روایتی کہانیاں لکھ رہا تھا۔ ۱۴ سے ۱۸ سال کی عمر۔ اس کے بعد مجھے اس عہد کے جدید افسانہ نگاروں نے متاثر کیا۔ اور میں نے جدیدیت کو بنیاد بنا کر کئی کہانیاں لکھیں۔ کچھ کہانیاں آپ کے آہنگ میں بھی شائع ہوئیں۔ مثال کے لیے پاشان یگ، فاصلے کے درمیاں جلتی ہوئی ایک لالٹین۔ فاختاؤں کا شہر— میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا۔ ادبی تحریکیں جینوئن رائٹر پر اپنے اثرات نہیں چھوڑتیں۔ جو جینوئن ہوتا ہے، وہ اپنا راستہ خود تلاش کرتا رہتا ہے۔

س:    جدید یا علامتی کہانی پر کہانی پن، اور ابلاغ کے نقطہ نظر سے جو اعتراضات کیے گئے اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟

ج:    جدیدیت پر سب سے پہلا اعتراض تو یہی ہوا کہ کہانی کہاں ہے ؟ کردار بھی گم تھے۔ کہانیاں محض گھسا پٹا فلسفہ بن کر رہی گئی تھیں۔ یا اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ احساس کی سوکھی ہوئی ندی رہ گئی تھی۔ کہانی ہوا میں معلق تھی اور انہیں سمجھنے والے صرف فاروقی تھے۔ یہ تو رہی فاروقی کی جدیدیت۔ غالب نے کہا تھا، کچھ اور چاہئے وسعت میرے بیاں کے لیے — نثار صاحب، کہانی بہت آگے نکل چکی ہے۔ اور اب کہانی راست بیانیہ کے سہارے نہیں لکھی جا سکتی۔ میں بھی اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ آج ہم ایک جادو کی صدی میں آ گئے ہیں۔ موبائل بھی جادو۔ انٹرنیٹ بھی۔ یہ صارفی سماج بھی طلسم۔ سائنس، ٹکنالوجی، انفارمیشن ٹکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے بڑھتے دائرے میں جو کچھ ہے، جادو کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اسی لیے فکشن میں چور دروازے سے طلسمی حقیقت نگاری نے سرنکالا۔ کہانیوں میں علائم کا استعمال بھی ہو گا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ علامتیں خود بہ خود کہانیوں کا حصہ بنتی جائیں گی۔ ترقی پسندی بھی ہو گی۔ جدید افکار بھی ہوں گے۔ مابعد جدیدیت کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان بھی ہوں گے۔ نئی صدی کے دروازے پر اب نئی کہانی نے دستک دی ہے۔ ان بیس برسوں میں زندگی بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ اور ظاہر ہے ان کا عکس کہانیوں میں تو آئے گا مگر روایتی سطح پر نہیں۔ فنٹاسی بھی شامل ہو گی۔ فکشن کو نئے تناظر میں دیکھنے اور جینے کی ضرورت ہے۔

س:    کیا یہ سچ ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے ’’سوار‘‘ اور اس طرح کے کئی دوسرے افسانے لکھ کر فکشن میں نئی علامتی استعاراتی اور تاریخی تصوف کی بلندیوں کو چھونے میں کامیابی حاصل کی ہے ؟ جواب مدلل اور تفصیل دیں ؟

ج:    یہ شخص کہانیاں نہیں لکھ سکتا۔ کہانیاں لکھے گا تو چوتھے درجے کی۔ یہ سب شب خون نکالنے کا کمال ہے۔ آپ بھی ایک ادبی رسالہ نکالیے، دیکھیے، کتنے لوگ سر کٹا کر آپ سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ آپ کو آہنگ کے دور کا تجربہ ہو گا— جب میں سوارجیسی کہانیوں کو تسلیم ہی نہیں کرتا تو تفصیلی گفتگو کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔

س:    ’’انگارے ‘‘ کے افسانوں سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ کیا اس کتاب میں کوئی ایک دو اہم افسانے ہیں۔ جس پر صالح، ادبی مباحثے کیا جا سکے ؟

ج:    اس وقت انگارے کی اشاعت ادب میں ایک بڑا دھماکہ ثابت ہوئی تھی۔ انگارے میں کئی افسانے ہیں، جو آج بھی متاثر کرتے ہیں۔ دلی کی سیر کو ہی لیجئے تو یہ مختصر سی کہانی بھی اس وقت آگ کا گولہ ثابت ہوئی تھی۔ ملک غلام تھا۔ انگریزی بیڑیوں نے جینا مشکل کر رکھا تھا۔ ترقی پسند تحریک اس وقت ایک بڑی ضرورت تھی۔ بڑے نام اور بڑی کہانیاں سامنے آئیں۔ ایسی کہانیاں جو آج بھی روشن ہیں۔ میں اس سلسلے کو آگے بڑھاؤں تو عرض کروں کہ ترقی پسندی کبھی مر ہی نہیں سکتی۔ کیا آپ سیاسی وسماجی شعور کے بغیر لکھ سکتے ہیں ؟ صاحب؟ یہ شعور نہ ہو تو آپ جی بھی نہیں سکتے۔ آج کے حالات پر نظر ڈالیے تو کہیں کچھ بھی نہیں بدلا۔ کل غلامی تھی۔ آج غلامانہ ذہن تیار کیا جا رہا ہے۔ آج دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے ہیں۔ ۱۱/۹ اور ۱۱/۲۶ جیسے حادثات سامنے آتے ہیں۔ اس مہذب ترین عہد میں جہاں انسان اپنے جیسے کلون تیار کر رہا ہے اور موت پر فتح حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہیں ایک سچ اور بھی ہے کہ یہ انسان خوفزدہ ہے — اس انسان کو فاروقی نہیں دیکھ پائیں گے۔ مگر سارترے ہوتا تو ضرور دیکھتا۔ مارخیز ہندستان میں ہوتا تو اس ماحول پر ون ہنڈریڈ ایرس آف سالیٹیوڈ کا دوسرا حصہ لکھ جاتا۔ فاروقی کو تسلیم کریں تو پورا روسی ادب فضول ہے۔ وکٹرہیوگو، البر کامیو اور ساری دنیا کے تمام بڑے لکھنے والے نکمے ہیں۔ صرف فاروقی کے پیمانے میں فٹ ہونے والے ہی فنکار ٹھہرے۔ یہ جملہ معترضہ اس لیے کہ نثار صاحب، غصہ آتا ہے۔ اس شخص نے ترقی پسندی کی مخالفت میں جدیدیت کی شروعات کی مگر غور کیجئے تو یہ سمٹی ہوئی کھوکھلی جدیدیت فاروقی کی جدیدیت تھی۔ صاحب، اردو افسانہ تو اپنے آغاز سے ہی جدید تھا۔ سجاد حیدر یلدرم کی کہانی دوست کا خط پڑھ لیجئے۔ منٹو کی کئی کہانیوں میں جدیدیت کے عنصر مل جائیں گے۔ میں جدیدیت کا مخالف نہیں، فاروقی کی جدیدیت کا مخالف اور منکر ہوں۔ بہر کیف، انگارے پر گفتگو بہت ہو چکی۔ اب ترقی پسندی اور جدیدیت کے حوالے سے نئے مباحثے کا وقت ہے۔

س:    آپ کا ناول کلاسیکی فارم سے بغاوت کرتا ہے۔ کردار کی پیدائش و پرورش اور جوانی و بڑھاپے کو نہیں بیان کرتا۔ ایسا کیوں ؟

ج:    میں کلاسیکی فارم سے بغاوت کر ہی نہیں سکتا۔ جزئیات نگاری پر بہت زور دیتا ہوں۔ غلام بخش سے نور محمد تک، میرے کردار آپ کے سامنے ہوں گے تو خود بہ خود آپ کی آنکھوں کے سامنے ایک تصویر نمایاں ہو گی۔ میں نے یہ آرٹ روسی ناول نگاروں سے سیکھا ہے۔ ایک کردار کی بنت کوئی آسان کام نہیں۔ میں کردار کے بننے میں جی جان لگا دیتا ہوں۔ اور میری کوشش ہوتی ہے کہ جب آپ مطالعہ کریں وہ کردار سیدھا کہانی سے نکل کر آپ سے مکالمہ کر سکے۔

س:    آپ کے کئی ناول نئی تکنیک و نئی فکر کے ساتھ منظر عام پر آئے لیکن اردو دنیا نے وہ وقعت و اہمیت نہیں دی جو دوسری زبان والے اپنی زبان کے ناول کو دیتے ہیں۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟

ج:    میں نے جب لکھنے کا آغاز کیا، اسی وقت سوچ لیا تھا کہ مجھے زندگی کی پرواہ نہیں کرنی ہے۔ ممکن ہے جو میرا حق ہو، وہ مجھے آج نہ ملا ہو تو میری موت کے بعد ملے گا۔ کیونکہ اردو زبان میں میری طرح بہت کم لوگ ہیں جن کی زندگی کا ہر دن ادب کی آغوش میں گزرا ہے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس زندگی میں بہت ملا۔ مجھے اپنے قارئین پر بھروسہ ہے۔ قاری میری سب سے بڑی طاقت ہے۔ ہندی سے پاکستان تک مجھے پسند کرنے والوں کی ایک بڑی دنیا آباد ہے۔ اور میں اس دنیا میں خوش ہوں۔ مطمئن بھی۔

س:    ’لے سانس بھی آہستہ‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک معیاری اور اچھوتا ناول ہے۔ کیا یہ آپ بتائیں گے کہ اس موضوع پر ناول لکھنے کا خیال کیسے آیا؟

ج:    لے سانس بھی آہستہ لکھنے کا ارادہ کیا تو اس وقت میرے سامنے دوسو برسوں کا ہندستان تھا۔ ہندستان ایک ترقی یافتہ ملک ہے — آنے والے وقتوں میں اسے سپرانڈیا کے طور پر ابھی سے دیکھا جانے لگا ہے — آزادی کے بعد اس ملک میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں — اس ملک کی خوبی یہ ہے کہ یہاں گنگا جمنی سنسکرتی کو فروغ ملا ہے — یہاں مختلف زبانوں کے لوگ رہتے ہیں۔ آزادی کے بعد قدریں ٹوٹتی اور بدلتی رہیں — بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا— 1990 کے بعد بہت حد تک ہندستان کا چہرہ بدلنے لگا تھا— ایک طرف فرقہ پرستی ہے اور دوسری طرف نئی تہذیب میں ہندستانیوں کے داخل ہونے کا رویہ— آپ میٹرو سیٹیز میں دیکھئے تو ایک نیا ہندستان آپ کو دیکھنے کو ملتا ہے — تہذیبیں بدل گئیں — کال سینٹرس کھل گئے — بچے بدل گئے — اس ملک کی اخلاقیات بدل گئیں — ایک لمبی اڑان ہے — کچھ لوگ آج بھی مذہب سے کھیل رہے ہیں، لیکن زیادہ بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اڑنا چاہتے ہیں — اور یہ لوگ اسی طرح اڑنا چاہتے ہیں جیسے دیگر ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ اڑ رہے ہیں۔ اس ناول کو لکھتے ہوئے میں مسلسل نئی اخلاقیات کی سرنگ سے گزرتا رہا— کچھ ایسے بھی سوالات تھے جو مجھے پاگل کر رہے تھے — جیسے مذہب اور اخلاقیات کی یہ دیوار نہ ہوتی تو… ؟ والٹیر سے روسو تک انسانی نفیسات کی ایک ایک گرہیں میرے آگے کھل رہی تھیں۔ ایک پوری دنیا میرے سامنے تھی— پھر میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ نئے واقعات کو گواہ بنا کر مجھے ایک ناول لکھنے کی ضرورت ہے — اور اسی لیے میں ایک بے حد ڈراؤنی صدی کا گواہ بن کر سامنے آیا۔ جہاں ایک طرف دہشت پسندی ہے اور دوسری طرف بیماریوں سے لڑتے ہوئے لوگ— اور اسی کے درمیان ایک بدلتی ہوئی نئی تہذیب ہے۔ لیکن ان سب سے الگ قدرت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیبیں مرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ کوئی کوئی تہذیب بہت جلد مر جاتی ہے — پھر ایک نئی تہذیب سر اٹھاتی ہے — ان تہذیبوں میں جینے کے لیے ہم اپنی آسانی اور سہولت کے حساب سے اپنے مذہب چن لیتے ہیں — ظاہر ہے یہ ایک بہت وسیع موضوع تھا— مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس موضوع پر کام کرنا شروع کیا— مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ میری محنت کام آئی اور اکثریت اس ناول کو پسند کر رہی ہے۔

س:    شمس الرحمن فاروقی کا ناول ’کئی چاند تھے سر آسماں ‘ کے مقابل آپ کا ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ دونوں کا پس منظر تاریخ ہے، آپ کے ناول میں نئی و پرانی تہذیب کے تصادم ہے تو فاروقی کے ناول میں اٹھارہویں و انیسویں صدی کی اسلامی تہذیب جلوہ گر ہے۔ آپ اس کے متعلق کیا کہنا چاہیں گے۔ جواب تفصیلی دیں ؟

ج:    آپ لے سانس بھی آہستہ کے بارے میں دریافت کریں گے تو میں گھنٹوں گفتگو کر سکتا ہوں مگر آپ نے جس دوسرے ناول کا تذکرہ کیا، میں اسے ناول ہی تسلم نہیں کرتا۔ فاروقی کی مجبوری یہ تھی کہ داستانوں سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ وہ دنیا جو آپ اور ہم دیکھ رہے ہیں، فاروقی نے کبھی یہ دنیا دیکھی ہی نہیں۔ جس کا مشاہدہ کمزور ہو وہ صرف مطالعہ سے ناول کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔ میرا یہ ناول بھی تاریخ سے وابستہ ہے۔

ذرا پیچھے لوٹوں تو تہذیبوں کے شکست و ریخت کی ایک کہانی یہاں بھی روشن ہے۔ حویلیوں کا زوال۔ نوآبادیات کامسئلہ۔ گھروں میں قید عورتوں نے پہلی بار گھرسے باہر نکلنا کب شروع کیا ہو گا؟ تب عموماً عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ضرورت کے ہرسامان گھر آ جاتے تھے۔ کپڑے لتے سے لے کر دودھ دہی تک— لے سانس بھی آہستہ میں ایک وہ موڑ آتا ہے جب عبدالرحمن کاردار کی ماں پہلی بار حویلی کا دستور توڑ کر تھانے جاتی ہے۔ کیونکہ گمشدہ خزانہ تو ملا نہیں، وسیع الرحمن کاردار کے گھر پہلی بار پولیس آئی تھی اور ایک مہذب آدمی ڈر گیا تھا— تب سے قدریں مسلسل بدلتی رہیں اور عبدالرحمن ان تیزی سے بدلتی ہوئی قدروں کا گواہ بنتا گیا۔ مجھے ارسطو کی یاد آئی جس نے پہلی بار اخلاقی فلسفے کا وہ تعارف پیش کیا جو اس سے پہلے کسی نے پیش نہیں کیا تھا۔ آپ لے سانس بھی آہستہ میں دیکھیں تو Ethics اور تہذیب پر شروع ہوئی بحث صرف وہیں تک محدود نہیں رہتی وہ سن ۲۰۱۰ تک کا احاطہ کرتی ہے۔ اوراس ناول کے لیے اسی لیے میں نے تاریخ کو گواہ بنا کرپیش کیا ہے۔ یہاں بھی ایک نشاۃ الثانیہ کی کرن پھوٹی ہے۔ ادب اور آرٹ کی دنیا میں انقلابات آئے۔ تحقیق وجستجو نے اس بات کا احساس دلایا کہ اس سے زیادہ مہذب ترین عہد کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ مگر کیا ہو رہا ہے۔ کہیں مذہب جاگ رہا ہے، کہیں سیکس اور بچے کنزیومر ورلڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس لیے عبدالرحمن کاردار جب حویلی سے ہجرت کرتا ہے تو وہ ایک ساتھ ہزاروں نئے واقعات اور نئی تہذیب کا بھی گواہ بن جاتا ہے۔ اور یہیں اس کی ملاقات اس نورمحمد سے ہوتی ہے جو محبت کی صحیح تعریف جانتا تھا مگر کیا ہوتا ہے۔ یہ سچی محبت، محبت میں قربانی کا جذبہ ایک دن ان قدروں کی پامالی کا سبب بن جاتا ہے، جسے نور محمد سمیٹنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔ اور ایک آئیڈیل محبوب ہونے کے باوجود سب سے زیادہ نقصان میں بھی وہی رہا۔ کیونکہ تہذیب کے جس شکست و ریخت کی کہانی نور محمد کی زندگی نے لکھی تھی، اس سے بھیانک کہانی ممکن بھی نہیں تھی—

س:    آپ کے اس ناول میں طلسمی حقیقت نگاری کی جو فضا ملتی ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟

ج:    میرے بیشتر ناولوں میں طلسمی حقیقت نگاری کے نمونے آپ کو آسانی سے مل جائیں گے۔ میں محض کرداروں کے سہارے سپاٹ بیانیہ میں ناول تحریر نہیں کر سکتا۔ ناول میں ایسے مقام آتے ہیں جب ایک گھر، ایک خاندان کے کچھ لوگ اوہام پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دراصل جسے آپ اوہام کا شکار ہونا قرار دے رہے ہیں میں نے اسے ناول میں جادو نگری سے تعبیر کیا ہے — پدرم سلطان بود— تباہ ہوتی ہوئی حویلیاں — نکمے لوگ— نو آبادیات— دنیا کی ترقی— اور ایک قوم فقط ۷۰۰ برسوں کی اسلامی حکومت کا قصیدہ پڑھتی ہوئی— قوم کا جب برا وقت آتا ہے تو یہ قوم جادو اور اوہام کا شکار ہو جاتی ہے۔ بوڑھی ہوتی حویلی کی تقدیر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ عبدالرحمن کاردار آزادی کے بعد کا وہ منظر دیکھتے ہیں، جسے دیکھنے کے بعد کم عمری کے باوجود وہ سوچتے ہیں کہ یہ منظر دیکھا ہی کیوں۔ حویلی کھنڈر میں تبدیل ہو رہی ہے۔ پرانے زمانے کے ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے خاندانی قصیدہ پڑھتے ہوئے زندگی گزار دی۔ اور جب حویلی کے پاس کچھ نہیں رہا تو حویلی والوں کو گمشدہ خزانے کا خیال آتا ہے۔ جو قوم کچھ کرنا نہیں چاہتی صرف ماضی کے بھروسے رہتی ہے۔ وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے تہذیبوں کا نوحہ لکھنے کے لیے میں نے ان کرداروں کا سہارا لیا۔ یہاں میں عبدالرحمن کاردار ہوں جو پہلی بار مضبوط ہو کرسوچتا ہے کہ حویلی فروخت کر دینی چاہئے۔ اس زمانے میں مسلمان، مسلمان سے ہی سودے بازی کیا کرتے تھے — یہی تجارت کا اصول تھا۔ مگر ایک ہندستان میں رہتے ہوئے یہ اصول ٹوٹ رہے تھے۔ پرانے بت ٹوٹ رہے تھے اور پرانے متھ یا بت کی جگہ نئی قدریں لے رہی تھیں — میں نے جس موضوع کا انتخاب کیا، مغرب میں بھی اس موضوع پر بحث چھڑ چکی ہے۔ ہٹنگن نے تہذیبوں کا تصادم لکھا۔ ابھی حال میں دی ہندو میں ایک کتاب کا ریویو پڑھا۔ دس برسوں میں بدلے بدلے ہوئے امریکہ کو لے کر ایک ناول ابھی حال میں آیا ہے۔ اس طرح اسامہ اوراس کی دہشت پسندی کو لے کر ڈامنک لیپٹر اور لاری کالنس نے بھی ایک ناول لکھا۔ میں بدلتی ہوئی قدروں اور تہذیبوں کو لے کر وسیع کینواس پر ایک ناول لکھنا چاہتا تھا— مگر محتاط ہو کر— میں تہذیبی ناستیلجیا کاشکار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اور اس طرح کے ناول قلم زد نہیں کرنا چاہتا تھا، جیسے ناول ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر فاروقی تک نے تحریر کیے۔ میرے لیے اس ناول کو لکھتے ہوئے بہت سارے چیلنج تھے، جنہیں مجھے ہمت کے ساتھ عبور کرنا تھا—

س:    شموئل احمد کا ناول ’مہا ماری‘ عبد الصمد کا ’بکھرے اوراق‘ پیغام آفاقی کا ’پلیتہ‘ اور غضنفر کا ’مانجھی‘ سے متعلق آپ کی ذاتی رائے یا نظریہ کیا ہے۔ ان ناولوں میں آپ کو کون سا ناول زیادہ پسند ہے اور کیوں ؟

ج:    بکھرے اوراق کا مطالعہ میں نے نہیں کیا ہے۔ عبدالصمد میرے بڑے بھائی ہیں۔ بہت عمدہ لکھتے ہیں۔ ان کے یہاں سماجی اور سیاسی شعور کی پختہ مثالیں موجود ہیں۔ بکھرے اوراق کے بارے میں مجھے ابھی حال میں ہی پتہ چلا۔ شموئل، غضنفر سب کی اپنی الگ الگ اور بڑی تخلیقی دنیائیں آباد ہیں۔ شموئل نے ندی جیسا ناول لکھا تو غضنفر نے مانجھی میں ہندستانیت، کی آواز بلند کی۔ یہ ناولوں کا دور ہے، پاکستان سے ہندستان تک مسلسل اچھے ناول لکھے جا رہے ہیں۔ عبدالصمد کا دو گز زمین اور خوابوں کاسویرا۔ مجھے پسند ہے۔ غضنفر نے اب حکایتوں کا سہارا لینا شروع کیا ہے۔ اور جیسا میں نے ابھی کچھ دیر پہلے آپ سے کہا، کچھ اور چاہئے وسعت میرے بیاں کے لیے … غضنفر بیانیہ کو حکایت سے وابستہ کر کے فکشن کو نیا رخ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شموئل کے یہاں بھی سیاسی شعور غضب کا ہے۔ اس کے علاوہ حسین بھائی نے فرات جیسا ناول دیا۔ فرات میں بھی گفتگو کے دروازے کھلنے چائیں۔ شائستہ فاخری، نور الحسنین، پیغام کے ناولوں پر بھی بحث ہونی چاہئے۔ ان تمام ناول نگاروں کو نظرانداز کر کے آپ ناول پر مکالمہ کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہ ہو گا۔

س:    گجرات کے واقعات کو رحمن عباس نے اپنے ناول ’خدا کے سائے یں آنکھ مچولی‘ میں جس علامتی و استعاراتی زبان و انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

ج:    نوجوان نسل میں رحمن عباس کی موجودگی ایسے فنکار کی موجودگی ہے جس کے پاس مطالعہ بھی ہے، وژن بھی۔ رحمن عباس نے نہ صرف ناولوں کا مطالعہ کیا ہے بلکہ ناول پر مکالمہ کرنا بھی جانتے ہیں۔ خدا کے سائے میں آنکھ مچولی کا کمال یہ ہے کہ یہ ناول پہلی سطر سے آپ کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ رحمن کی نثر میں ترقی پسندی اور جدیدیت کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ رحمن نے اپنے پہلے ناول سے ہی اردو دنیا کو چونکا یا تھا مگر برا ہو ادب میں بنیاد پرستی کو ہوا دینے والوں کا، کہ یہ ناول نہ صرف متنازع ہوا بلکہ رحمن عباس کو وہ صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں جس نے آگے چل کر رحمن کو یہ ناول لکھنے پر مجبور کیا۔ رحمن عباس مسلم گھرانوں کے ثقافتی، خانگی اور تہذیبی رویوں سے ناراض نظر آتے ہیں اوراس کی وجہ صاف ہے، اس معاشرے میں تبدیلی و ترقی کی مدھم رفتار۔ زیادہ ترمسلم گھرانے آج بھی پندرہویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس ان کی اپنی سہولت کے حساب سے ایک شرعی زندگی ہے۔ جس میں مذہب کے علاوہ نئی دنیا کی کوئی روشنی ان کے جہاں کو منور نہیں کرتی۔ پہلے ناول کے تحفہ کے طور پر مذہب اور بنیاد پرستی کے خطرناک رجحان کی سیر کرنے والے رحمن نے اسی لیے یہاں محبت کی ایسی کہانی پیش کی ہے، جہاں مسلمانوں سے متعلق، نئی دنیا اور فکر و آگہی کے کتنے ہی سوال سراٹھاتے نظر آتے ہیں۔ رحمن کا اسلوب ماڈرن ہے۔ آپ دیکھیں تو بیانیہ میں ہی علامتیں بھی چھپی ہوتی ہیں۔

س:    کیا آپ بھی شمس الرحمن فاروقی کا مضمون ’افسانے میں بیانیہ اور کردار کی کشمکش‘ کو ایک انوکھا، ان چھوا مضمون مانتے ہیں، اگر ایسا ہے تو کیونکر؟

ج:    جسے خدا ہونے کا غرور ہو اسے فکشن کا طالب علم نہیں مانتا۔ ان کی ایک کتاب ہے۔ افسانے کی حمایت میں۔ غرور کی انتہا ہے۔ جیسے یہ حمایت نہ کریں تو افسانے کو عروج حاصل نہ ہو گا۔ یہ شخص نہ فکشن پر عبور رکھتا ہے نہ تنقید پر۔ میرو غالب کی تفہیم میں اس نے ایک دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نثار صاحب، میں نے آپ کے انٹرویو کا مجموعہ پڑھا ہے۔ اب آپ فاروقی کا ذکر کرنا چھوڑیے۔ یہ دنیا فاروقی کے خیال و فکر سے بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ فاروقی آپ کو پندرہویں صدی میں لے جائیں گے۔ نئی دنیا، نئی فکر کا فاروقی کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ناول کی دنیا میں انقلاب آ چکا ہے۔ اس انقلاب کو فاروقی سمجھ بھی نہیں سکتے۔

س:    ہندو پاک کے مشہور و معروف بزرگ افسانہ نگار ناول نگار ابو الفضل صدیقی سے ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ ’’پریم چند پکے مہا سبھائی تھے، پریم چند، دیا نند سرسوتی کا ادبی روپ تھے، اور گاندھی جی اس کا سیاسی روپ۔ ان سب میں مسلم دشمنی قدر مشترک تھی۔ پریم چند کے ہاں جو مسلم کردار آئے ہیں۔ وہ بدمعاش ڈاکو اور ظالم ہیں۔ یہاں تک کہ محمد بن قاسم کو انہوں نے نرالی ثابت کیا ہے۔ یقین نہ آئے تو پریم پچسی، اور پریم تیسی ملاحظہ کیجئے، موصوف نے کبھی پانی کا جہاز نہیں دیکھا لیکن کود کر اسپین پہنچ گئے اور وہاں پہنچ کر عیسائیوں پر عرب مسلمانوں کے مظالم کا ذکر کرنے لگے۔ پریم چند نے آخر میں عہد کیا تھا کہ وہ اردو میں ایک لفظ بھی نہیں لکھیں گے۔ مرتے دم تک انہوں نے اس پر عمل کیا اور صرف ہندی میں لکھتے رہے۔ یہ سب انہوں نے گاندھی کے چکر میں کیا تھا۔ ‘‘ آپ مندرجہ بالا پیرا گراف کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپنا نظریہ واضح طور پر پیش کریں ؟

ج:    میں نے اس بارے میں پڑھا ہے۔ یہ الزام تنگ نظری کا شکار ہے۔ اس طرح کے الزامات سے پہلے اس عہد کا تجزیہ ضروری ہے۔ اقبال جیسے وطن سے محبت رکھنے والے شاعر نے پاکستان بننے کی حمایت کی۔ تقسیم اور دنگوں پر افسانے لکھے گئے تو ہندو اور مسلم ہونے کا احساس بھی کہانیوں میں غالب نظر آنے لگا۔ پریم چند ایک سچے انسان تھے۔ حق کی آواز بلند کرنے والے۔ الزامات کے دائرے میں تو گاندھی جیسی شخصیت کو بھی نہیں بخشا گیا۔ آپ بتائیے، اپندر ناتھ اشک ہندی میں کیوں چلے گئے ؟ عمر کے آخری دور میں گیان چند جین کو اتنی بڑی سزا کیوں ملی۔ ؟ نفسیاتی تجزیہ کیجئے تو کہیں نہ کہیں بدترین لمحوں کا بھی ایک فرسٹریشن ہوتا ہے۔ اقبال نے پاکستان کی جب حمایت کی ہو گی تو ممکن ہے وہ ایک بہت برے دور سے گزر رہے ہوں۔ عیدگاہ جیسی کہانی لکھنے والا پریم چند مہاسبھائی نہیں ہو سکتا۔ اپندر ناتھ اشک اردو والوں کے رویہ سے ناراض ہو کر ہندی میں چلے گئے اور دیکھیں تو یہی معاملہ بہت حد تک پریم چند کے ساتھ بھی تھا۔

س:    جدید و علامت پسند افسانہ نگاروں نے ناول پر طبع آزمائی کیوں نہیں کی، کوئی خاص وجہ؟

ج:    وہ دور خالص افسانوں کا دور تھا۔ قرۃ العین حیدر ناول لکھ رہی تھیں۔ پاکستان میں ناول کا منظرنامہ تھا۔ جدیدیت کی دھند تھی۔ افسانے لکھنا آسان تھا، ناول تحریر کرنا مشکل۔ شفق نے کانچ کا بازیگر لکھا۔ عصمت چغتائی نے بھی تعریف کی۔ ادب کے تیس برس نام نہاد جدیدیت کے نام پر فاروقی نے چھین لیے۔ ورنہ نثار صاحب، اچھے ناول بھی سامنے آتے۔

س:    اردو فکشن کی تنقید اور نقادوں کے رویے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟

ج:    نارنگ صاحب پر الزام لگتے رہے لیکن اردو فکشن کی تنقید کا حق بھی نارنگ صاحب نے ہی ادا کیا۔ باقی تو اپنے چاپلوسوں کا مختصر قافلہ لے کر تنقید کے رتھ کو آگے بڑھاتے رہے۔ پاکستان میں مبین مرزا جیسے لوگ فکشن پر اچھا کام کر رہے ہیں۔ زیادہ تر نقادوں کا رویہ قاری کو گمراہ کرنے والا رہا ہے۔ لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا۔ علی احمد فاطمی، کوثر مظہری، مولا بخش، نسیم احمد، شہاب ظفر اعظمی کئی نام ہیں جو افسانے پر معیاری تنقید کا حق ادا کر رہے ہیں۔ اب فکشن نگاروں نے بھی مضامین تحریر کرنا شروع کر دیا ہے۔

س:    آپ تیسری دنیا کے اردو ادباء و شعراء سے متعلق کیا نظریہ رکھتے ہیں، کیا وہاں اردو زبان پھل پھول رہی ہے ؟

ج:    بہت اچھا سوال کیا آپ نے۔ جب ہم اردو کہتے ہیں تو اردو کا مطلب برصغیر، صرف ہندستان یا پاکستان نہیں ہوتا— المیہ یہ ہے کہ ہم ہندو پاک سے باہر رہنے والوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ مصطفی کریم، خالد سہیل، بلند اقبال، نیلم احمد بشیر، جیتندر بلو کئی ایسے نام ہیں جو بہت عمدہ لکھ رہے ہیں۔ آسٹریلیا میں مقیم اشرف شاد ہیں، جن کے ناول بے وطن، وزیر اعظم، صدر اعلیٰ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اردو ایک زندہ زبان ہے۔ اس زبان پر برا وقت ضرور آیا ہے لیکن یہ زبان مر نہیں سکتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

بیان اور ذوقی۔۔ ایک مکالمہ

 

 

                ڈاکٹر مشتاق احمد

 

گفتگو بیان سے شروع ہوئی لیکن اردو ادب کے مختلف گوشوں تک پھیلتی چلی گئی___ اتنا غصہ، اتنی آگ؟ شاید اس مکالمہ سے قبل میں اس نئے ذوقی سے واقف ہی نہیں تھا۔ ذوقی نے بتایا، کالج کے دنوں میں جب وہ آ رہ میں تھے، کہانی سوڑ باڑی پڑھ کر ڈاکٹر محمد حسن کا ایک خط ملا تھا۔ ’اپنے اندر کی چنگاری کو بجھنے مت دینا‘۔ ۴۳ سال کی عمر ہو جانے کے باوجود ذوقی نے یہ چنگاری اب تک بجھنے نہیں دی ہے۔ اس گفتگو میں ذوقی کھل کر بولے اور خوب بولے ___ اور ان میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں، جس کا اظہار ذوقی نے شاید پہلی بار اس بات چیت میں کیا ہے۔

مشتاق احمد : آپ کا تعارف یا آپ کی کتابوں کے بارے میں کسی کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو کیوں نہ سیدھے، بات بیان سے ہی شروع کی جائے۔

ذوقی : آپ بات کہیں سے بھی شروع کریں گے، ذوقی کی بات آئے گی تو ’’بیان‘‘ کا تذکرہ ہو گا ہی___

مشتاق احمد : تو کیوں نہ ’’بیان‘‘ کے پس منظر کے بارے میں کچھ بات کر لی جائے ___

ذوقی : منظر اور پس منظر کے بارے میں، میں نہیں جانتا۔ آنکھیں کھولیں تو بہار میں دنگے بھڑک رہے تھے۔ اس زمانے میں دنگے ہونا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ میں جین اسکول آ رہ میں پڑھتا تھا۔ وہاں کے بچے، مسلمانوں کے بارے میں جو رائے رکھتے تھے، اس سے تکلیف ہوتی تھی۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں توجیسے صدیاں گزر گئیں معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن لگتا ہے، آزادی کے بعد نفرت کا کہرا چھٹا نہیں ہے۔ وہ دلوں میں گھر کر گیا ہے۔ بابری مسجد تو ۱۹۹۲ء میں شہید ہوئی۔ گجرات کا زخم تو حالیہ ہے ___ لیکن آ رہ شہر میں برسوں پہلے میں کیا دیکھ رہا تھا، جس نے بعد میں مجھ سے نہ جانے کتنی کہانیاں اور ’’مسلمان‘‘ جیسا ناول بھی لکھنے پر مجبور کیا۔ دوستی اور محبت کی رسم نبھاتے ہوئے بھی لگتا تھا، گھر اور باہر کی دنیا دو مختلف دنیائیں ہیں۔ آدمی ایک ہوتا ہے۔ لیکن گھر میں زبان مختلف اور باہر کی زبان مختلف ہوتی ہے۔ آدمی اتنا دوغلہ ہوتا ہے کیا___؟ باہر کا ترقی پسند گھر کے دروازے پر پہنچتے ہی ہندو اور مسلمان بن جاتا تو خود پر رونا آتا۔ سچّائیاں کیوں نہیں لکھتے ہو تم؟ بولو___ جھوٹ لکھتے ہو۔ اس لیے کہ جھوٹ لکھنے پر مجبور ہو۔ اور تو اور جب نوکری کرنے لگ جاؤ گے تو سرکاری پابندیوں کی قید میں وہی لکھنے پر مجبور ہو گے جو حکومت چاہتی ہے۔ بچپن میں ہی طے کر لیا تھا___ سرکاری نوکری نہیں کرنی ہے مجھے ___ اتنا غصہ، اتنی آگ تھی کہ پریشان رہتا تھا۔ جھوٹ برداشت نہیں کر سکتا تھا___ نوجوانی کے زمانے میں منٹو، اقبال مجید کے بعد والی نسل کی کہانیاں پڑھتا تو رونا آتا تھا۔ وہ زمین کہاں ہے ؟ جھوٹ لکھتے ہیں سب کے سب___ اس لیے کہ سچ لکھ ہی نہیں سکتے۔ پھر ایسی کہانیاں لکھنے سے فائدہ___ بچپن میں طے کر لیا تھا کہ جو کچھ یہ آنکھیں دیکھ رہی ہیں، اس سچ سے منہ چھپانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ مشتاق صاحب، اسی لیے میری شروعات کی کہانیاں دیکھ لیجئے، ان میں بہار کے دنگے ہیں۔ ہنگامے ہیں۔ دہشت ہے اور سماج اور سیاست کا ننگا سچ ہے ___ آزادی کے ۱۵ برس بعد ۱۹۶۲ء میں، میرا جنم ہوا۔ کتابوں اور بڑے بزرگوار کے منہ سے غلامی کی جو کہانیاں سنیں اور پڑھیں، اس کا بھی اثر تھا۔ اور پھر آ رہ کے گلی کوچوں، جین اسکول اور وہاں سے گھر کی چہار دیواری تک واپس آتے ہوئے میں جس سچ سے آپ گزر رہا تھا، اسے لکھنا میرے لیے ضروری ہو گیا تھا۔ ایک خاص بات بتاؤں۔ ۱۹۸۳ء مظفر پور میں امی کا انتقال ہوا۔ میں اس زمانے میں کالج، شاید گریجویشن کے دوسرے سال میں تھا۔ امّی جیسی ہستی الوداع کی گھاٹیوں میں ہمیشہ کے لئے گم ہو گئی تھیں اور میں ___ دنگے کی کہانی لکھ رہا تھا۔ مجھے تسلّی مل رہی تھی۔ امّی، اچھا کیا، جو تم یہ شہر، یہ دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ یہ رہنے والوں کی جگہ ہی نہیں ہے ___ میں مانتا ہوں۔ یہ نفرت اس ملک کا سچ نہیں ہے۔ اچھے لوگ بھی ہیں ___ مگر بچپن سے جوانی تک واقعات کی لڑیوں نے مجھے اتنا توڑا، اتنا تقسیم کیا کہ میں نے اپنی کہانیوں کا ’ فلک‘ محدود کر لیا۔ غلامی، ہجرت، تقسیم اور تقسیم کے بعد ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ دنگے۔ میری کہانیاں یہیں سے شروع اور یہیں پر ختم ہو جاتی تھیں۔ میں ذکی انور کی شہادت کو بھی نہیں بھول پایا۔ بھاگلپور، ملیانہ، بھیونڈی کے فسادات کو بھی نہیں۔ ۱۹۸۵ء میں، میں دلّی چلا آیا___ ۱۹۸۹ء میں پاکستان کو لے کر پراکسی وار، کی شروعات ہو چکی تھی۔ اڈوانی جی کی رتھ یاتراؤں نے نفرت کو اپنی انتہا پر پہنچا دیا تھا۔ اب لگتا ہے، گجرات ہو، یا پھر پروین توگڑیا جسے زہر میں ڈوبے ہوئے لوگ، یہ سب تو اڈوانی کی پیداوار ہیں۔ ان سب کا مجرم تو اڈوانی ہے۔ مودی تو اسی نقش پا کے پیچھے چلا، جہاں اڈوانی کھڑے تھے۔ اڈوانی کی خوبی یہ تھی کہ ایک سیکولر ملک میں جہاں جن سنگھ، جیسی فاشسٹ تنظیم یا پارٹی کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملا، اُس نے زہریلے دماغ دیئے۔ زہر کے بیج بوئے۔ اور جب یہ پودا تھوڑا بڑا ہوا تو اپنی نگرانی میں اس پودے کو سینچا۔ بڑا کیا___ یہ ملک کی خوش نصیبی ہے کہ بی جے پی چھ برسوں میں سمٹ گئی یا کھو گئی___ اور خدا نہ کرے یہ دوبارہ واپس آئے۔ کیونکہ اگر یہ دوبارہ واپس آتی ہے تو یہ اس بار یہ اپنا کھلا کھیل فرخ آبادی ‘ کھیلنے پر مجبور ہو گی۔ اور مسلمانوں کے لیے اس ملک میں چین سے جینا مشکل ہو جائے گا۔ سچ یہ ہے کہ میں جب آج کے حالات پر غور کرتا ہوں تو ماضی میں تقسیم کے ہولناک واقعات میرا راستہ روک لیتے ہیں۔

اور سچ یہ ہے ملک کی تقسیم کی تاریخ کو، بعد کی نسلیں بھی فراموش کرنے میں ناکام رہیں۔ گویا یہ اپنے آپ میں ایسا زخم تھا جس کا ذکر آتے ہی مسلمانوں کے لئے ایک عجیب سی نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا تھا___ جن سنگھ اور جن سنگھ سے پیدا ہوئی ہندوتو۔ شاکھاؤں نے اسی نفرت بھرے تصور کو پروان چڑھایا۔ اور لوگوں کو بھڑکایا… دراصل یہ وہی فلسفہ تھا، جو خون آلودہ تقسیم کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا… شاید یہ سچ بھی جلد ہضم نہیں ہو سکا کہ بٹوارے سے پیدا ہوا ایک ملک تو اپنے کلچر اور تہذیب کو لے کر ’’ جمہوریت‘‘ اور سیکولرزم کا دعویٰ ٹھوکتا رہا___ وہیں دوسرے ملک نے جمہوریہ اسلام کا ’’ٹھپّہ‘‘ لگا کر رہی سہی وفاداری اور دوستی کی دیوار پر آخری کیل ٹھونک دی___ یہی نہیں جب اس جمہوریہ اسلام کہنے جانے والے ملک سے بنگلہ دیش الگ ہوا… تب اس دوسرے ملک پر بھی اسلامی ملک کا ٹھپّہ برقرار رہا___

پچھلے 57 برسوں میں وشو ہندو پریشد، ہندو مہا سبھا، یا شیوسینا جیسی جماعتوں کے گلے سے اسلام کی ہڈّی نہیں نکلی ہے۔ آزادی کی بعد کی تاریخ میں پڑوسی ملک کے تعلق سے جب کبھی مذہبی آزادی کو لے کر کلنک‘ جیسا کوئی بھی حادثہ سامنے آیا ہے، اسے فوراً اسلام سے یا مسلمانوں سے جوڑ کر دیکھا گیا ہے … نتیجے کے طور پہ نفرت کی آندھی کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی ہے۔

آزادی کے بعد جن سنگھ کی مسلسل شکست نے مسلمانوں اور سیکولرازم کے خلاف نیا مورچہ کھولنا شروع کیا۔ جن سنگھ کے نئے اوتار بھاجپا نے جن سنگھ سے سبق لیتے ہوئے نئے طریقے سے کام کرنا شروع کر دیا۔ کام مشکل تھا، لیکن ٹھوس اور کامیاب نتیجہ دینے والا۔ اور جس رتھ کے مہارتھی اٹل بہاری، شری اڈانی اور مرلی جی جیسے دانشور ہوں، وہاں ’ صبر‘ انتظار اور راج کرو، کے نظریئے خود ہی کام کرنے لگتے ہیں۔ رتھ یاترا، بابری مسجد یا متنازعہ ڈھانچے کے گرائے جانے کے بعد سے ہی نئے ہندو سمی کرن، بننے شروع ہو گئے تھے … انہیں سمی کرنوں ‘ سے کٹیار، توگڑیا اور مودی جیسے تیز دھار والے بے لگام شمشیروں کی تخلیق ہوئی تھی۔ اب یہ ایسے بے لگام گھوڑے بن چکے ہیں، جن کی آواز اگر روکی نہیں گئی تو ملک کو ایک بار پھر سخت مصیبت سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ کوشش کیجئے کہ یہ حکومت بنی رہے اور ہماری غلطیاں بی جے پی کی واپسی نہ کرا دیں۔

مشتاق احمد : بیان پر جلد ہی ہم واپس لوٹیں گے۔ ظاہر ہے اس گھناؤنی سیاست نے ہندستان کے تمام مسلمانوں کا دل دکھایا ہے۔ تقسیم کے بعد بابری مسجد شہادت کی داستان یا پھر گودھرا کانڈ کے بعد ہونے والے فسادات کو ہی دیکھ لیجئے۔

ذوقی: تقسیم ایک پڑاؤ تھا… اب ایک اہم پڑاؤ گودھرا بن گیا ہے۔ مسلمان آنے والے وقت میں بھی اس پڑاؤ سے گزرے بغیر آگے نہیں جا سکتے … مہیش مانجریکر کی حالیہ فلم ’’ پران جائے پر شان نہ جائے ‘‘ میں ایک مسلم غریب کردار ایک ہندو کے منہ سے بار بار پاکستانی کہے جانے پر چیختا ہے … ’ سالے … ورلڈ ٹریڈ ٹاور میں ہوائی جہاز گھستا ہے تب بھی یہاں آ کر ہم سے پوچھتے ہو جیسے ہم نے ہی گھسایا ہے۔ ‘‘

اصلیت یہی ہے کہ آپ اقلیت میں ہوتے تو جانتے کہ اقلیت ہونا کیا ہوتا ہے۔ تقسیم کے بعد سے لے کراب تک میں نے پتہ نہیں اپنے کتنے مضامین میں اس لفظ اقلیت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ مجھے شروع سے ہی اقلیتی کمیشن جیسے اداروں سے خدا واسطے کا بیر رہا ہے۔ میری اپنی منطق تھی کہ ہندستان میں مسلمان کی آبادی ۲۰ کروڑ سے کم نہیں اور اتنی بڑی آبادی اقلیت نہیں ہو سکتی۔ اسے دوسری بڑی اکثریت کا نام دینا چاہئے۔ مجھے احساس تھا کہ محض دوسری بڑی اکثریت کے اعلان کے انجکشن سے ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن شاید میں غلطی پر تھا۔

گودھرا کانڈ کے بعد جیسے ساری حقیقتیں بدل گئیں۔ مودی کا ہندوتو چمکا… گجرات ہندوتو کی پہلی لیبارٹری بنا… وی ایچ پی، بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں کی نفرتیں کھل کر سامنے آئیں … توگڑیاکا ترشول گھر گھر پہنچا… ملک میں ا س سے پہلے بھی فساد ہوتے رہے لیکن نفرت کی ایسی کہانی کا جنم پہلی بار ہوا تھا… کیا تاریخ خود کو دھرا رہی تھی؟ تہذیبوں کی تاریخیں بدلی تھیں … نئی دنیا میں مہذب ہونے کا ایک ہی مطلب تھا… طاقتور ہونا___ ہم نے یہ بھی جانا کہ اصول، قاعدے قانون اقلیتوں کے پاس نہیں ہوتے ___ طاقتوروں کے پاس ہوتے ہیں۔ ہزاروں چشم دید گواہوں کے باوجود مودی یا توگڑیا پر کوئی پوٹا کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا۔ لیکن اب حالات بدلے ہیں۔ کتنوں دنوں تک بدلے رہیں گے۔ کوئی نہیں جانتا___ لیکن ایک بات ہے مشتاق صاحب کبھی کبھی لگتا ہے ___ بی جے پی کو تھوڑے دنوں تک اور رہنا چاہئے تھا۔

مشاق احمد : کیوں ؟

ذوقی: اردو والوں کے چہروں کا ماسک اترتا۔ پہلے بھی اُتر چکا تھا۔ قاضی عبید الرحمن ہاشمی سے علی احمد فاطمی تک___ میں زور دے کر کہتا ہوں اگر بی جے پی دوبارہ برسر اقتدار آ گئی ہو تی تو شاید اردو والے سارے ہی سینگ کٹا کر بی جے پی میں شامل ہو گئے ہوتے۔ مگر اس آندھی میں، یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، پانچ فیصدی ہندی والے ہی ہوتے جو اپنی جنگ بی جے پی کے خلاف جاری رکھتے۔

مشتاق احمد : چلیے تسلیم___ غلامی، تقسیم اور دنگوں پر ڈھیر ساری کہانیاں لکھنے کے باوجود آخر آپ کو وہ درجہ کیوں نہیں دیا گیا، جو منٹو کو دیا گیا؟

ذوقی: درجہ آسانی سے نہیں مل جاتا۔ منٹو اس معاملے میں خوش قسمت تھے۔ اس کی زندگی میں … خوش قسمتی کی لاٹری نکل چکی تھی۔ قصور ہمارے نقادوں کا ہے، جنہوں نے اپنی تساہل پسندانہ طبیعت کی وجہ سے منٹو سے آگے جھانکنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ وہی چار بڑے۔ منٹو، عصمت، کرشن، بیدی___ لیکن ایک زمانہ آتا ہے جب اچانک تبدیلی اور خوشگوار انقلاب کے تھپیڑے چلتے ہیں۔ اور پھر اچانک آپ تک لوگوں کی نگاہ جاتی ہے ___ مجھے لگتا ہے۔ آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں، میرے مرنے کے بعد ہی سہی۔ کم سے کم یہ دن ضرور آئیں گے کہ منٹو کی کہانیوں سے الگ میری کہانیوں پر بھی توجہ کی جائے گی___ وہ کہانیاں جو غلام بخش سے شروع ہو کر احمد آباد ۳۰۲ میل تک پھیلتی چلی گئی ہیں۔

مشتاق احمد : لیکن بیان کے بعد آپ کے یہاں زبردست تبدیلی بھی دیکھنے کو ملی۔ جیسے آپ ماڈرن سینسی بیلیٹی کی بات کرنے لگے۔ آپ کی کہانیوں میں دلت سے لے کر ایلٹ کلاس کے لوگ بھی جگہ بنانے لگے۔ کیا یہ بکھراؤ ہے یا کہانی کو نئے اُفق میں دیکھنے کی کوشش۔

ذوقی :        بیشک صحیح کہا آپ نے۔ مگر خدارا، دشمنوں کی زبان نہ بولیے۔ ذوقی کے یہاں جتنے یا ڈائمنشن ہیں۔ کس کے یہاں ہیں۔ میں عبد الصمد یا شوکت حیات کے بعد کی نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔ اگر آ رہ جیسی چھوٹی جگہ میں مجھے پبلشر مل گئے ہوتے تو سب سے پہلا ناول اس نسل میں، عبد الصمد سے پہلے میرا آ گیا ہوتا۔ ۱۹۸۰ء تک میں یہ ناول لکھ چکا تھا۔ لمحۂ آئندہ، شہر چپ ہے، نیلام گھر اور عقاب کی آنکھیں۔ میں ہمیشہ نئے موضوعات کی تلاش میں رہا۔ دلت سے ایلٹ کلاس تک__ آپ اسے ویرائیٹی کیوں نہیں کہتے کہ جتنی ویرائٹی ذوقی کے یہاں ہے۔ کسی میں نہیں۔ ناول کی بات کریں تو بیان کے بعد ذبح، پوکے مان کی دنیا اور اب ’ پروفیسر ایس کی کی عجیب داستان وایا سونامی‘ تک___ میں لفظوں کا غلام نہیں۔ زبان سے کھیلتا ہوں میں۔ لوگ جلتے ہیں اور میرے بارے میں زبان زبان کی افواہیں پھیلاتے ہیں یا پھر بسیار نویس کہہ کر میرے قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حساب لگائیے تو سن ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۵ء تک مشکل سے دس کہانیاں اور دو ناول یعنی ایک سال میں دو کہانیوں کا حساب بس۔ کیا یہ بسیار نویسی ہے ___ کیا ذوقی اپنے آپ کو ریپیٹ کرتا ہے۔ پچھلے سال صرف دو نئی کہانی لکھی۔ وارن ہسٹنگس کی ٹوپی اور ڈرا کیولا۔ اس سال ایک نئی کہانی شروع کی ہے۔ امام بخاری کی نیپکین۔ کہانی بھی ناول کی طرح کئی نشست میں لکھتا ہوں۔ ہاں، میرا اُفق اتنا بڑا ہے کہ فاطمیوں اور قاسمیوں کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ علی گڑھ کے نقاد، ہاں یہ نام زیادہ موزوں ہے (ہنسی)۔ علی گڑھ والے، شافع قدوائی کو چھوڑ دیجئے۔ کہاں پڑھتے ہیں۔ علی گڑھ کی سنتے رہیں ‘ علی گڑھ پر لکھتے ہیں۔ ہندستان میں اردو کی نمائندگی نہیں کرتے۔ صرف علی گڑھ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اور پھر آپ کیوں سوچتے ہیں کہ ہر ایرہ غیرہ آپ کا نام لیتا رہے۔ میرے لیے قارئین کی محبت سب سے زیادہ اہم ہے۔ اور وہ میرے حصے میں شروع سے رہی ہے۔

مشتاق احمد : ابھی حال میں گجرات کے موضوع پر آپ کی کتاب ’’لیبارٹری‘‘ شائع ہوئی۔ مگر ہندی میں ___ اردو میں کیوں نہیں ؟ دیکھا تو جائے تو اس نوعیت کی کتابیں بیان کا ہی Extension لگتی ہیں۔

ذوقی: بجا فرمایا۔ لیبارٹری کو ہندی میں پبلشر مل گئے۔ اردو میں نہیں ___ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ اردو کا مصنف صرف اپنی جیب سے پیسے لگاتار ہے اور لوگوں کو اپنے ڈاک خرچ پر کتابیں بھیجتا رہے۔ اتنا سرمایہ نہیں ہے میرے پاس۔ خواہش تھی کہ لیبارٹری بھی اردو میں شائع ہو سکے۔ نہیں ہو سکی۔ میں ٹھہر ٹھہر کر در اصل اسی موضوع پر، آ جاتا ہوں۔ بی جے پی کے دورِ اقتدار میں بھلا فرقہ واریت سے الگ، کسی موضوع پر سوچا ہی کیسے جا سکتا تھا؟ اور جہاں گجرات، مودی کا ہندوتو، اور ترشول پورے بھارت میں چمک رہا ہو تو آپ بھلا ایک مصنف کی حیثیت سے ایسے Issues کو Ignore کیسے کر سکتے ہیں۔ جابر حسین نے گجرات پر نظمیں شائع کیں تو ان کی کتاب میں میری ۳۰ نظمیں گجرات پر ایک ساتھ شامل تھیں ___ یہ نظمیں پسند کی گئیں۔ اس لیے یہ طے کرنا مشکل نہیں ہے کہ اردو میں زیادہ کون جاگ رہا ہے ___ باقی سوئے ہوئے لوگوں کو ہمارے عہد کے دانشور جتنا چاہیں، تاڑ پر چڑھانے کی کوشش کر لیں، کوئی فائدہ نہیں۔

سوال: بیان کو لے کر زبان کی بات چھڑی اور خوب چھڑی۔ آج بھی جب آپ پر بات ہوتی ہے تو زبان کا ذکر آ جاتا ہے۔

ذوقی :        میرے بھائی، جب آپ کو کچھ نہیں کہنے کے لیے ملے گا تو زبان کا ذکر ہی سہی۔ ان کے ترکش میں اس کے سوا کوئی تیر نہیں ہے اور سنیے آپ___ جب بیان منظر عام پر آیا تو مجھے گجراتی اور ہندی کے بڑے ادیب عابد سورتی کا خط ملا۔ تعجب کا اظہار تھا کہ اردو میں ایسی کہانیاں، ایسی جادوئی زبان بھی ملتی ہے۔ میرا موازنہ ہنری ملر سے کیا گیا___ بھوپال سے اقبال مسعود صاحب دلی شریف لائے فون پر بات ہوئی۔ ملنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا۔ بیان پڑھنے سے پہلے ڈرایا گیا کہ کس کو پڑھ رہے ہو‘ ڈراؤنی زبان لکھنے والے کو___ اب ناول پڑھ لیا ہے۔ تو کہہ سکتا ہوں یہ لہجہ، یہ رنگ یہ زبان کسی دوسرے کے پاس نہیں ___ ایسی ہزاروں مثالیں ہیں۔ اب وہ لوگ بھی جو زبان زبان چلاتے تھے۔ میری کہانیوں، کہانیوں میں در آئی فکر کے عاشق ہو چکے ہیں۔ کب تک زبان کی شکایت لے کر مجھے کنارے کرنے کی کوشش کریں گے۔ ذوقی اپنی دنیا کا بادشاہ ہے۔ اسے کسی نقاد کی ضرورت نہیں۔ ذوقی کے لیے قارئین کی محبت کافی ہے۔ بیان کا ذکر آیا تو ایک خاص بات بتاتا چلوں۔ زبان کی بات بھی پہلی بار یہیں سے شروع ہوئی___ زندگی کا سب سے زیادہ دل دکھا دینے والا واقعہ__ میرے ایک دوست ہیں۔ نام لینے کی ضرورت نہیں۔ میرے دکھ سکھ کے حصے دار۔ میں شاید سب سے زیادہ بھروسہ ان پر کرتا تھا۔ بیان کے ریلیز فنکشن کی ذمہ داری ان پر سونپی گئی۔ انہوں نے نظامت کے لئے اپنے دوست سراج اجملی کا نام لیا۔ اور بیان فنکشن میں جو ہوا، وہ ایک نہ بھولنے والا حادثہ ہے۔ میری کتاب کا فنکشن تھا۔ مجھے سامعین کے بیچ بیٹھنا پڑا۔ ایسے لوگوں کو شروع میں بلوایا گیا۔ جنہوں نے بیان اور میرے خلاف بولنے کی تمام حدیں پار کرنی شروع کر دیں۔ تھیٹر کو مقبولیت دینے والے حبیب تنویر سے رہا نہیں گیا تو انہوں نے دریافت کیا، کیا یہ پروگرام بیان کی مخالفت میں کیا جا رہا ہے۔ پھر باری آئی مشہور شاعر شجاع خاور کی۔ جب وہ بھی خلاف بول کر جانے لگے تو آخر میں، میں ڈائس پر آیا۔ انہیں روکا کہ اُنہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ابھی ان کی بات ختم ہوئی ہے۔ میری بات ادھوری ہے۔ پھر میں خوب بولا۔ جی بھر کر بولا۔ اور اس کے ایک ہفتہ کے اندر ہی سننے کو ملا کہ موصوف کو پار الائسز ہو گیا ہے۔ مجھے افسوس ہوا کہ ایک اچھے شاعر کے اندر کس قدر گمراہ کرنے والے خیالات تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب شجاع لگاتار پارٹیاں بدل رہے تھے۔ بی جے پی کی حمایت میں ان کا بولنا تو سمجھ میں آ رہا تھا مگر دوستوں کی کرم فرمائی مجھے حیرت میں ڈال رہی تھی۔ اس کے بعد سنیے۔ قومی آواز میں کسی مظہر صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا۔ غلط بیان۔ بیان کے بارے میں غلط فہمیاں یہیں سے شروع ہوئیں۔ تب میرے وہ دوست تاج انکلیو میں، میرے آمنے سامنے رہتے تھے۔ میں قومی آواز نہیں خریدتا تھا۔ وہ قومی آواز لے کر آئے۔ بولے ___ یار یہ مظہر کون ہے ؟ میں صرف جے۔ ان یو والے مظہر کو جانتا تھا۔ اس کے دو دنوں بعد ہی معلوم ہوا۔ میرے دوست، سراج، سہیل وحید اور مظہر تو گہرے دوستوں میں ہیں۔ پھر ایک دن اپنے اسی دوست کے گھر مجھے اتفاق سے اپنی کتاب بیان بھی مل گئی۔ کتاب پر پنسل سے جہاں جہاں نشان لگایا گیا تھا۔ وہی باتیں کتاب میں تھیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ فکشن یا ناول پڑھنے کا یہ کون سا انداز ہے۔ ظاہر ہے یہ ساری سازش جان بوجھ کر رچی گئی تھی۔ پھر ایک دن اردو سرکاری رسالہ آجکل کے دفتر کی سیڑھیوں پر مجھے سہیل وحید ایک خاصے صحت مند آدمی کے ساتھ نظر آیا، جس نے مجھے دیکھ کر چھپنے کی کوشش کی۔ یہ آدمی مظہر تھا۔ میں نے سہیل اور اپنے دوست دونوں سے کہا۔ جو آدمی مجھے دیکھ کر آنکھیں ملاتے ہوئے گھبراتا ہو، وہ مجھ پر نہیں لکھ سکتا۔ بتاؤ یہ شخص کتنے میں بکا ہے ؟ تو صاحب، یہ دلّی ہے دلّی___ بیان کے سلسلے میں سازش تو انہوں نے کی مگر کیا ہوا___ بیان سے پہلے ہندستان کی سیاست پر، خاص کر مسلمانوں کی سیاست پر اس انداز سے عملاً کس نے سوچا اور لکھا تھا___ ؟خوشی اس بات کی ہے کہ بیان کے خلاف جس قدر لکھا یا بولا گیا، بیان کی اس سے کہیں زیادہ تعریف ہوئی۔

مشتاق احمد: میرے خیال میں یہ وہ باتیں ہیں، جو اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک جینوئن رائٹر ہیں ___ لیکن کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ہیں جو جینوئن کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔ ایسے میں، یہ کیسے سمجھا جائے کہ کون جینوئن ہے اور کون نہیں ؟

ذوقی :        یہ دلیل گمراہ کن ہے کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ جینوئن کون ہے ؟ کون نہیں ہے ؟ اچھے ادیب کو اس کا عرفان ہوتا رہتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے خلاف یا حق میں فیصلہ صادر کرنے والا وقت ہوتا ہے۔ میں نے کبھی خود کے لئے نہیں لکھا۔ نہ اپنی ذات یا روح کی تسکین کے لئے۔ میرے سامنے ہمیشہ میرا عہد رہا ہے۔ تغیرات رہے ہیں۔ ’’ باپ‘‘ ، ’’بیٹا‘‘ ، ’’ دادا اور پوتا‘‘ ایک صدی کو الوداع کہتے ہوئے ‘‘ ، ’’بارش میں ایک لڑکی‘‘ ، ’’ نہیں آپ اس شہر کا مذاق نہیں اڑا سکتے۔ ‘‘ ’’مرد‘‘ ، ’’کاتیائن بہنیں ‘‘ میں نئے نئے کردار کا خالق ہوں۔ نئی نئی دنیائیں آباد کرتا ہوں ___ اپنی کہانیوں میں۔ میں صرف لکھتا نہیں ہوں۔ کہانیوں کو اپنی فکر سے گزارتا ہوں۔ راستہ دیتا ہوں ___ کبھی خود راستہ بنتا ہوں۔ میں زندگی کو نئی صبح، نیا آسمان، نئی دنیا اور نئے خیال دینے آیا ہوں اور یہ سب میرے سامنے الفاظ کے چمکتے ستارے نہیں ہیں۔ میں براہ راست عوام سے مخاطب ہوتا ہوں اور اس کے لئے تنگ گلیاں، ٹیڑھے میڑھے راستہ چنتا ہوں ___ کبھی اُجلی نورانی راتیں مجھ پر مہربان ہوتی ہیں اور کبھی میں سڑے گلے چہروں میں جیتا ہوں۔ میں ڈرائنگ روم میں بند ہو کر نہیں لکھ سکتا۔ مجھے محض جذباتی ہونے سے چڑ ہے۔ انسانوں کے لئے امڈی ہوئی ہمدردیاں مجھے پسند نہیں۔ جیسے مجھ میں صرف ایک ہندستان نہیں بستا __ ایک ملک سے بے پناہ محبت یا قربان ہو جانے کا خیال دوسرے ملک کے لئے نفرت یا دشمنی کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسے میں محض کرۂ ارض کے ایک خطہ سے، ایک انسان سے محبت نہیں کر سکتا اور بقول ہیمنگ وے ’’ ساحل سے ایک ’ ڈھیلا‘ بھی سمندر بہا لے جاتا ہے تو دھرتی کم ہو جاتی ہے ___ ایک بھی آدمی مرتا ہے تو انسانی برادری میں کمی آ جاتی ہے۔ ‘‘ میرے لیے یہ مکمل کائنات کسی صحیفہ یا آیت جیسی ہے جسے مجھے پڑھنے یا سمجھنے کا حق حاصل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اچھا ادیب کشف سے گزرتا ہے، نئے خیال وضع کرتا ہے اور اپنی نئی دنیائیں اپنے پڑھنے والوں کو سونپ دیتا ہے۔ میں یہ نئی بستیاں، سو کروڑ کی آبادی والے اس ملک کے صرف پانچ سو، یا ہزار لوگوں تک پہنچا کر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اور یقیناً وہ لوگ بھی مطمئن نہیں ہو سکتے جو اچھا ادب خلق کر رہے ہوں۔ اور جو اپنی بسائی ہوئی دنیائیں یا نئی بستیاں ایک زمانے کو دکھانے کا ارادہ کر چکے ہوں۔

شاید اسی لیے، میں نے اپنے لیے اردو کے علاوہ ایک دوسری زبان کا سہارا لیا۔ ہندی کا___ ہندی میں میری کہانیوں کے ترجمے نہیں چھپتے۔ مجھے ہندی میں اب اردو افسانہ نگار کے طور پر نہیں پہچانا جاتا___ میں ہندی میں ہندی افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوں، اردو میں اردو افسانہ نگار کی حیثیت سے۔ ممکن ہے کہ میرے دوست اب اس بات کو بھی اٹھانے کی کوشش کریں کہ ارے ذوقی تو ہندی کا آدمی ہے۔ لیکن جو آدمی مسلسل بیسیوں برس سے اردو میں لکھتا رہا۔ اور آج بھی لکھ رہا ہے، کیا صرف ان کے کہنے سے میرے قارئین گمراہ ہو جائیں گے۔ قطعی نہیں۔ صرف ہندی نہیں۔ میں تو کہتا ہوں۔ جس میں صلاحیت ہے۔ اسے اپنی تخلیق کو اب انگریزی زبان میں لانے پر غور کرنا چاہئے۔ کیونکہ جب تک ہم اپنی کہانیوں کا دائرہ نہیں بڑھاتے ہیں۔ اردو کی مخصوص شناخت عالمی سطح پر طے نہیں ہو سکتی۔

مشتاق احمد: یوں تو آپ نے لکھنا ۸۰ء سے کافی پہلے ہی شروع کر دیا تھا۔ لیکن آپ کی شناخت ۸۰ کے کافی بعد سامنے آئی۔ کیا اپنی شروعاتی کہانیوں کے بارے میں کچھ روشنی ڈالنا پسند کریں گے ؟

ذوقی: ۸۰ء کے آس پاس کا عہد مجھے الجھنوں میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھا، کیونکہ میں جو لکھنا چاہتا تھا، وہ اس عہد کے لئے موزوں نہیں تھا جو نہیں لکھنا چاہتا تھا، رسائل میں چھپنے کے لئے، وہ لکھنے پر مجبور تھا___ جدیدیت کی آندھی میں، سچ پوچھئے تو میں بھی بہتا چلا گیا تھا___

دابۃ الارض، فاختائیں، اعرف نفسک بنفسک، پیر تسمہ پا، اب قید ہے، اشغلا کی بند مٹھّیاں، پتھّر یگ، فاصلے کے درمیان جلتی ہوئی ایک لالٹین، فاختاؤں کا شہر، وغیرہ___ افسانوی مجموعہ منڈی میں، میں نے ان میں کچھ کہانیاں شامل تو کیں، لیکن اس بات کا بھی اظہار کیا ہے ۔

’’یہ وہ کہانیاں ہیں، جنہیں میں نے ردّ کیا‘‘

دلّی یعنی مہانگر___ چھوٹے سے قصباتی شہر میں رہ کر، اس شہر کا تصور کر پانا بھی مشکل تھا___ مجھے اس شہر سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ہجرت کیا ہوتی ہے۔ اپنے گھر کا سکھ کیا ہوتا ہے۔ یہاں تو در در کی ٹھوکریں تھیں اور خالی ہاتھ تھے ___ دلّی دل والوں کی دلّی نہیں تھی، تنگ دل لوگوں کی دلّی بن کر رہ گئی تھی بے شمار خطرات، ذہنی یا تنائیں، پریشانیاں ___ بہت ممکن ہے، میں ہار گیا ہوتا، مگر، میں نے جو کچھ پڑھا تھا، اب وہی میرے کام آ رہا تھا___ کہتے ہیں، ایک زندگی وہ ہوتی ہے، جسے اپنے طور پر جینے کی کوشش کرتے ہیں ___ ایک زندگی وہ ہوتی ہے، جو آپ کا مطالعہ، آپ کا Vision آپ کو سونپتا ہے ___ الکزینڈر پشکن، نکولائی گوگول، فیودر دوستوفسکی، لیوتالستائے، میخائل شولو خوف، میکسم گورکی، ترگنیف___ روسی ادب کا میں مداح تھا۔ اور یہ لوگ میرے لئے مشعل راہ___ ان سب کے یہاں زندگی سے لڑنے کی جسارت موجود تھی۔ خاص کر آ رہ چھوڑنے سے قبل، ایک بہت بعد کے روسی مصنف کی کتاب میں نے پڑھی تھی۔ بورس پولو، کتاب کا نام تھا___ The story of a real man ایک فوجی جس کا پاؤں کاٹ ڈالا جاتا ہے۔ اور جو اپنے ول پاور سے اپنی خود اعتمادی دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ___ مجھے ہیمنگ وے کے The old man and the sea سے محبت تھی___ ہیمنگ وے کی کہانیوں کے مرد آہن مجھ میں نیا جوش، نیا دم خم بھرتے تھے۔ مجھے ہنری ملر کے موبی ڈک سے پیار تھا___ وکٹر ہیوگو، کفکا، ورجیناؤلف، البیر کامو، یہ سارے میرے اپنے تھے۔ خاص کر Les۔ miserable کا پادری اور The Plague کا Dr. Riox میرا آئیڈیل تھا۔ ٹھیک اسی طرح کرائم اینڈ پنشمنٹ کا رسکلانیکود، گور کی مدر کا پاویل ولا سوف اور ترگنیف کی the father and the son کے باپ بیٹے مجھے بے حد پیارے تھے۔ گوگول کی کتاب Deal Soul مجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کرتی تھی۔ وہیں گبریل گارشیا مارکیز کا ادب مجھے ایک نئی دشا میں لے جانے کی تیاری کر رہا تھا___ عجیب بات یہ تھی کہ مجھے الیکزینڈر سولنسٹین سے بھی اسی قدر محبت تھی۔ گلاگ آرکیپلاگو اور کینسر وارڈ دونوں مجھے پریشان کر رہے تھے۔ نیتھنیئل ہینیٹیے کی The Scarlet Letter بھی مجھے پسند تھی۔ جارج آرویل کی Animal Farm اور ۱۹۸۴ء مجھے نئی فکر سے روشناس کرا رہے تھے ___ میں سال بیلو کو بھی پڑھنا چاہتا تھا، ولیم گولڈنگ اور گراہم گرمین کو بھی___ اردو میں قرۃ العین حیدر کے یہاں مجھے تصنع کی جھلک ملتی تھی۔ منٹو مجھے چونکاتا تھا، لیکن فکری اعتبار سے زیادہ بلند نہیں لگتا تھا۔ عصمت مجھے راس نہیں آئیں __ راجندر سنگھ بیدی کی کہانیاں ہر بار زیادہ سے زیادہ قربت کا احساس دلا رہی تھیں۔ اور کرشن کی نثر کسی جادو کی طرح مجھ پر سوار تھی___ مجھے اردو کی داستانوں نے لبھایا تھا اور مجھے لکھنا سکھایا تھا۔ مجھے پنچ تنتر بھی پسند تھی اور The magic mountionmountain بھی۔ طلسم ہوش ربا کا تو میں شیدائی تھا___ دلّی کی پاگل بھیڑ بھری سڑکوں پر ہیمنگ وے کا The old man تسمہ پا کی طرح مجھ پر سوار تھا___ دلّی کی پریشان حال زندگی اور لڑتے رہنے کا جذبہ، ۸۵ء سے ۹۵ء تک کے بیچ میری کہانیوں پر ترقی پسندانہ رنگ غالب رہا___ میں سوچتا تھا نثر، غریبی کے بدحال جسم کی طرح ہونی چاہئے۔ Glamour less نثر کو کی زبان عصمت کی کہانیوں کی طرح رواں دواں نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنا تجزیہ کیا اور ایک نئی روش اپنائی، نئی ڈگر پر چلا۔

میں ترقی پسندی کے راستے پر اسی لئے چلا کہ میں ان سوالوں سے بچ بچا کر نہیں گزر سکتا تھا۔ میرے اندر کا تخلیق کار ان سوالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ اور میں صرف شوقیہ ادیب نہیں بننا چاہتا تھا___ میں، کسی ایک قاتل لمحے سے بھی کہانی چرا سکتا تھا___

مشتاق احمد : ذوقی صاحب، آپ کا بیحد شکریہ ___ اردو کہانی یا ناول کی تاریخ میں آپ آج ایک نا قابل فراموش ادیب کی حیثیت سے ہمارے سامنے ہیں۔ یقیناً منٹو اور بیدی کے بعد کا ادبی سفرنامہ جب بھی لکھا جائے گا، ذوقی کی کتابوں کے دفتر کھلیں گے اور نئی نئی باتیں سامنے آئیں گی۔ آپ نے اپنی کہانیوں یا ناولوں کے کردار پر بھی بہت محنت کی ہے۔ خصوصاً پوکے مان کی دنیا کا سنیل کمار کے رائے اور بیان کا بالمکند شرما جوش۔ آخر میں ایک سوال۔ بالمکند شرما جوش، بیان کا یہ کردار کیا کوئی فرضی کردار ہے یا…؟

ذوقی :        بالکل نہیں ___ آ رہ کے چھوٹے سے شہر میں اس کردار کو میں نے دیونندن سہائے پارسا آروی اور جین صاحب کی شکل میں اتنی بار دیکھا ہے کہ جب بیان لکھنے کا وقت آیا تو یہ دونوں کردار مجھ پر حاوی ہو کر ایک زندہ کردار میں بول گئے۔ یعنی بالمکند شرما جوش___ کردار نگاری ایک مشکل فن ہے اور یہ ریاضت چاہتی ہے ___ بہر کیف، آنے والے دنوں میں، میں آپ کو ایک اور نہ بھولنے والا کردار دینے والا ہوں۔ پروفیسر ایس ___میرے ناول ’پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘ کا انتظار کیجئے۔

مشتاق احمد : ذوقی بھائی آپ کا ایک بار پھر بہت بہت شکریہ!

— جہانِ اردو (بیان پر خصوصی شمارہ)

— بیان منظر پس منظر (ڈاکٹر مشتاق احمد)

٭٭٭

 

 

 

 

مشہور ہندی کتھا کارسدرشن نارنگ کی مشرف عالم ذوقی سے ایک مختصر گفتگو

 

 

                سدرشن نارنگ

 

سوال: دونوں زبانوں میں لکھنے والوں کے ساتھ ایک عام دشواری یہ ہے کہ آخر اُنہیں کس زبان کا تسلیم کیا جائے ؟

جواب:        آپ نے بات بالکل صحیح جگہ سے شروع کی ہے، میری خود بھی یہی خواہش تھی کہ دونوں زبانوں میں لکھنے والوں کے مسئلہ کو ذرا صحیح طریقے سے اٹھایا جائے۔ زبان کسی قوم کی جاگیر نہیں ہے۔ اگر کوئی تخلیق کار دو زبان جانتا ہو اور وہ دونوں زبانوں میں لکھتا ہے تو اُسے دونوں ہی زبانوں میں اپنانے میں پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ اگر پریم چند کی بات کریں تو پریم چند نے بھی دونوں ہی زبانوں کو اپنایا۔ شروع میں وہ اردو میں لکھتے رہے، پھر ہندی میں بھی لکھنا شروع کر دیا۔ صرف پریم چند اس معاملے میں خوش قسمت رہے کہ اُنہیں اردو اور ہندی دونوں ہی زبانوں میں پائینیر تسلیم کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اُن کی ہندی اور اردو کہانی کی بدلی بدلی فضا کو لے کر اُن پر فرقہ پرست ہونے کا الزام بھی تھوپا گیا، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پریم چند آج بھی اردو اور ہندی کہانی کے بانی کے طور پر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہی خوش قسمتی اُپیندر ناتھ اشک یا دیویندر ستیارتھی کے ساتھ نہیں رہی۔ ’گرتی دیواریں ‘ جیسی کتاب کے مصنف اُپیندر ناتھ اشک یا ستیارتھی کو جس طرح سے آج دونوں ہی زبانوں میں ریجکٹ کر دیا گیا یہ افسوسناک ہے۔ جہاں تک میرا سوال ہے میں نے شروع سے ہی دونوں زبانوں میں لکھنا شروع کیا____ کہانی میں زبان کی سطح پر میں نے وہی زبان استعمال کی جس سے میں دونوں ہی زبانوں میں اپنی بات کہنے میں اہل تھا۔ یعنی کہ ہندستانی زبان۔ میں اُسی طرح اپنے آپ کو اردو کا افسانہ نگار مانتا ہوں جیسے ہندی کا۔ میں ہندی میں جیسا ہوں ٹھیک اُسی طرح اردو کا بھی ہوں، ہاں اِس نظریئے سے مجھے ہندی کے نقاّدوں سے شکوہ ضرور ہے کہ مجھے ہندی کا تسلیم کرنے کے باوجود بھی جب نام گنوانے کی باری آتی ہے تو اُن پر میرا اردو لکھنا کچھ زیادہ ہی حاوی ہو جاتا ہے۔

سوال: آج جب یہ دنیا ایک چھوٹے سے گلوبل ویلیج میں داخل ہو چکی ہے۔ آپ اپنی کہانیوں کو کہاں دیکھتے ہیں ؟

جواب:        بات گلوبل ویلیج میں داخل ہونے یا انفارمیشن ٹکنالوجی میں ہونے والے انقلاب کی نہیں ہے۔ سچ پوچھئے تو ایک طرف ایسے انقلاب کا چونکانے والا عمل ہے تو دوسری طرف ہماری کہانی، آج بھی دلت سے متعلق ادب اور خواتین سے متعلق ادب جیسے ہزاروں تنگ نظریئے کا سامنا کر رہی ہے۔ کیا صرف ایک چھوٹی سی تنگ زمین کو بنیاد بنا کر ہم کوئی بین الاقوامی کہانی کا تانا بانا بُن سکتے ہیں ؟ حیرانی تب ہوتی ہے جب ایک بے حد سپاٹ کہانی آپ کی علاقائی زبان کے بوجھل لباس میں، آپ کے سامنے آ جاتی ہے۔ جسے پڑھنے کے لئے کنواں کھودنے سے زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے۔ کہانی اتنا لمبا سفر طے کرنے کے باوجود آج بھی ہندی میں کنویں کے مینڈک کی طرح کسی تنگ قید خانے میں یا اندھیرے کنویں میں گھٹن کا شکار لگتی ہے۔ فنتاسی کی کمی، تصور یا جدید ترخیالات سے الگ یا بغیر کسی نئے تجربے کے کہانی آج بھی، جب اُسی پریم چند کے زمانے میں جیتی ہوئی نظر آتی ہے تو دکھ ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے میں ایسی کسی کہانی کا تصور نہیں کر سکتا جس میں علامت یا فنتاسی نہ ہو۔ ہم آخر اپنی ہی کہانیوں کی ایک نئی یا جدید زمین کیوں نہیں تیار کرتے ؟ مجھے لگتا ہے، ہندی کے نقاّدوں کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی اس پر بھی بڑا تعجب ہوتا ہے کہ کیا کسی کا دلت ہونا، یا بدقسمتی سے زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہونا نقادوں کی نظر کو اتنا پسند آتا ہے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے عظیم بن جاتا ہے۔ اپنی بات کہوں تو شروع میں میرا فلک محدود تھا یعنی جب لکھنا شروع کیا تو ترقی پسندی کی ایک تنگ زمین سامنے تھی۔ میں نے اپنا ادب اسی پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر لکھنا شروع کیا۔ اِس کے بعد، آزادی کے دوران ہونے والے دنگے اور اقلیتوں کے مسائل پر میرا دھیان گیا۔ لگا، اِن پر بھی لکھنے کی ضرورت ہے۔ تب بہار میں فساد برپا ہونا ایک عام سی بات تھی۔ نفرت کی خلیج تو بہت پہلے ہی پڑ چکی تھی۔ مسلمان لگاتار گھائل کر دینے والے سوالوں کی زد میں تھے۔ اس طرح اپنی شروعاتی کہانیوں پر غور کرتا ہوں تو یہ کہانیاں آزادی سے پہلے کی غلامی، تقسیم کا درد اور اُس کے بعد سامنے آنے والے فرقہ وارانہ فساد کی سیاہ تاریخ تک پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ ایک بات جو میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی، وہ تھی کہ آخر پندرہ کروڑسے زیادہ مسلم آبادی کو آپ اقلیت کیسے کہہ سکتے ہیں۔ غلام بخش، بیان، ذبح، سب سازندے سے لے کر تازہ افسانوی مجموعہ لیبارٹری (ہندی) تک میں مسلسل اپنے اس سوال سے لڑتا بھڑتا رہا کہ آخر اتنی بڑی مسلم آبادی کو اقلیت کی جگہ دوسری بڑی اکثریت کیوں نہیں کہا جاتا۔ 90کے بعد کہانی کی سطح پر میرے انداز فکر میں بڑا فرق آیا۔ میں کہانی کو سپاٹ طرز پر دیکھنے سے بچنا چاہتا تھا۔ ممکن ہے اس درمیان جو کچھ ’بڑا‘ پڑھا تھا اُس کا بھی اثر ہو لیکن ایک وقت آتا ہے جب آپ تخلیقی سطح پر ناسترودیمس کی تیسری آنکھ کی تلاش میں لگ جاتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ زندگی کے نئے فلسفے آپ کی کہانیوں پر حاوی ہونے لگتے ہیں۔ لیکن یہ وہ وقت تھا جب میں سپاٹ کہانی کے جنگل سے آزاد ہو کر اپنی الگ پہچان یا راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا۔ میرے نزدیک زندگی کے معنی بہت حد تک بدلے تھے اور میں اپنی کہانی کو اپنے ماحول یا گھر کی چہار دیواری میں گھٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سچ کہوں تو اس سطح پر اگر ہندی میں مجھے کسی نے چونکایا ہے تو وہ صرف ایک نام ہے الکاسراوگی۔

سوال: تو ذوقی صاحب، اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ آپ نے مسلمانوں سے متعلق ادب پر تو لکھا ہے لیکن دلت سے متعلق ادب اور عورت سے متعلق ادب…؟

جواب:        جیسا میں نے پہلے ہی عرض کیا، میں کہانی کو ان دائروں سے الگ دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں۔ اگر میں دلت پر لکھنا بھی چاہوں گا، تو جھکا ہوا، غربت کا مارا دلت میرے سامنے نہیں ہو گا۔ دلت آج اس مہذب ترین سماج میں بڑے بڑے عہدوں اور رتبوں پر نظر آئیں گے۔ آخر ہم خود کو ایک تنگ نظام میں قید یا گھٹا ہوا کیوں محسوس کرتے ہیں ؟ ڈاکٹر امبیڈکر کے انقلابی خیالات کے بعد، اتنا لمبا سفر طے کرنے کے باوجود ہم آج بھی اگر اس تنگ نظر لفظ دلت میں گھرے ہوئے ہیں تو یہ افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ دنیا تیزی سے بدلی ہے، کہانی صرف چار گھر کی نہیں، چار سو گھروں کی بھی ہوتی ہے۔ ممکن ہے یہ مسئلے آج بھی موجود ہوں لیکن سورج پال چوہان جیسے لوگ بھی ہیں، جن کی آپ بیتی پڑھ کر ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ میں بہت ہی زیادہ دل آزار یا Pathos میں ڈوبی کہانیاں نہیں لکھ سکتا۔ اس معاملے میں، میں ’ایڈگرایلن پو‘ کے قریب ہوں جو زندگی بھر بیمار رہا لیکن آپ اُس کی کہانیوں میں بیماری یا دکھ تلاش نہیں کر سکتے۔ اب رہی عورت سے متعلق ادب کی بات۔ عورت کو میں ویسے ہی دیکھتا ہوں جیسے مرد ہیں۔ اس لئے مجھے روتی گاتی تہمینہ درّانی میں دلچسپی ہے نا ’ناری‘ کے دکھ کا پہاڑ اٹھائے ’اَبلا اَبلا‘ چلاتی تسلیمہ نسرین میں۔ دونوں اپنے اپنے دکھ کی ذمہ دار خود ہیں۔ ایک بار بار کے تجربے کے باوجود اپنے جسم کی کہانی یا آپ بیتی لکھنے میں مصروف رہیں تو دوسری اپنے استحصال میں، اپنے وجود اور مذہب کی حصہ داری تلاش کرتی رہیں۔ اس لئے مجھے عصمت چغتائی زیادہ پسند رہیں یا پھر فہمیدہ ریاض، کشور ناہید یا سارا شگفتہ میری پسند میں شامل ہیں۔ آج جہاں W.W.F.کی سطح پر بھی عورت کسی سے کم نہیں ہے، کہانی کی سطح پر مسلسل آپ اُسے ایک ستائی گئی ابلا ناری کے طور پر کیوں دیکھ رہے ہیں۔ خاص کر جس طرح آج مسلمانوں میں نکاح، طلاق یا نماز پڑھانے کے نام پر ہنگامے ہو رہے ہیں، وہ اچانک مجھے اکیسویں صدی سے پندرہویں صدی میں کھینچ لے جاتے ہیں۔ آخر عورت مردوں کی امامت کیوں نہیں کر سکتی۔ معاملہ طلاق کا ہو یا شریعت کا، عورت کو اپنا فیصلہ خود لینے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ ڈر لگتا ہے۔ ہم آج بھی ایک گمراہ کن معاشرے میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں ہمارے مردانہ سماج اپنی خوبصورت تسلیوں سے آج بھی عورت کا استحصال کر رہا ہے۔ دراصل ان سب کی ذمہ دار ہماری تہذیب رہی ہے۔ جس کا صدیوں سے ڈھول پیٹا جاتا رہا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ رشتہ ازدواج ایک عجیب سی افسردگی اور بورڈم کا شکار ہو جاتا ہے، سات پھیرے لینے والے کبھی کبھی ایک دوسرے کو پسند نہ کرنے کے باوجود زندگی بھر بس نبھائے جانے کے ڈھونگ میں اپنی زندگی ختم کر دیتے ہیں، آخر کیوں ؟ اسی لئے مجھے کبھی کبھی غیر ملکی تہذیب زیادہ پسند آتی ہے۔ چار دن ہی سہی، لیکن اس چار دن میں وہ جو زندگی کا بہتر تجربہ حاصل کرتے ہیں، ہم زندگی بھر نبھائے جانے کے ڈھونگ میں اُس سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ ایک دوغلی زندگی۔ ایک تقسیم شدہ چہرہ۔ ابھی کچھ دن قبل ماہنامہ ہنس (ہندی) نے ایک نیا کالم شروع کیا، تخلیق کاروں کو سچ بولنا تھا۔ کچھ تخلیق کاروں نے سچ کا بیڑا اُٹھایا بھی، لیکن اُن کی آپ بیتی سے بھی پوری طرح واضح تھا کہ وہ ذاتی زندگی میں دوہرے کردار کے عادی رہے ہیں۔ چلئے، تسلیم کرتا ہوں، لیکن اِس انٹرویو کا سچ بھی لوگ ہضم نہیں کر پائے۔ آخر کیوں ؟ سچ بولنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے ؟ شاید اسی لئے تخلیق کی سطح پر بھی وہ سچا اور ایماندار آدمی سامنے نہیں آ پاتا۔ میں صرف کہانی لکھتا ہوں۔ عورت یا مرد محض اُس کہانی کے کردار ہوتے ہیں ممکن ہے، یہ ادب سے متعلق باتیں آج ہندی کہانی کی ضرورت ہو لیکن یہ میری تخلیق کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: ذوقی صاحب! ہندی کی باتیں تو ہو گئیں … لیکن آپ کا تعلق اردو سے بھی ہے تو کیوں نا کچھ باتیں اردو کہانیوں پر بھی کر لی جائیں۔ مین اسٹریم میں، آپ آج کی اردو کہانی کو کہاں رکھتے ہیں ؟

جواب: اردو کہانیاں۔ سوچتا ہوں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ جس زبان نے منٹو، بیدی، کرشن چندر اور عصمت جیسے بڑے نام دیئے، آج وہ زبان کہاں ہے ؟ کس حالت میں ہے ؟ اردو کہانیوں کی ایک سنہری، فخریہ تاریخ رہی ہے، صرف بیدی یا کرشن چندر نہیں، اچھا لکھنے والوں کی لمبی قطار رہی ہے۔ لیکن بھلا ہو، شمس الرحمن فاروقی کا، جنہوں نے جدیدیت کی شمع جلا کر اردو کہانی کا روشن مستقبل چھین لیا۔ یہ آدمی آج اردو کی بدقسمتی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے، ناقابل معافی۔ اس نے اپنے پیمانے بنائے۔ اپنے ڈھول پیٹے اپنی پسند کے پتلے کھڑے کئے اور اردو کہانی کو اندھیرے میں ڈھکیل دیا۔ 2005 اس معاملے میں ایک یادگار سال ہے کہ اس سال ان کا رسالہ بند ہونے جا رہا ہے۔ میرے نزدیک اس سے بڑا جرم کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا کہ قاری کے نہیں چاہنے کے باوجود آپ اپنی پسند کے پتلے اُن پر تھوپنے کی کوشش کریں۔ اردو کے بیس پچیس برسوں میں فاروقی نے جو ذلیل ترین کام کیا وہ کسی کو قتل کرنے سے بھی زیادہ سنگین اور بڑا جرم تھا۔ عام طور پر لکھنے والے جیسے، سیّد محمد اشرف یا خالد جاوید کو آسمان پر بیٹھانے کی مہم شروع ہوئی۔ شمیم حنفی جیسے لوگ ساتھ میں تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قاری کا غصّہ اُبل پڑا۔ یہ سارے ناٹک روز کے ناٹک تھے۔ سب اپنی ڈفلی اپنا راگ الاپ رہے تھے۔ پھر باری آئی عہدے، رُتبے اور اکادمیوں کی، کرسی پر بیٹھے لوگوں کی۔ جیسا مافیا اردو میں ہے شاید کسی دوسری زبان میں نہیں ہو گا۔ اردو کو سربازار رسوا اور ذلیل کرنے کی ذمہ داریاں کسی ایک نے نہیں اٹھا رکھیں۔ اردو والے ہی اردو کے زوال کے اصل ذمہ دار ہیں۔ کہانیاں نہیں ہیں۔ شاعری گم ہے۔ ادب خاموش ہے اور سیاست کا عالم یہ ہے کہ اردو اپنے ملک میں رسوا اور ذلیل ہو رہی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم ایک مردہ زبان کے گواہ بن گئے ہیں۔ نئی نسل کے نام پر اردو کا مستقبل تاریک ہے۔ نئے لوگ ہندی یا غیر علاقائی زبانوں کی طرف دوڑ لگا رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مشرف عالم ذوقی سے ایک گفتگو

 

 

                راشد حسین

 

س:    آپ نے ناول اور افسانہ لکھنے کی ابتدا کب کی اور آپ کا سب سے پہلا افسانہ اور ناول کون سا ہے ؟

ج:            میں نے پہلا ناول ۱۷ سال کی عمر میں لکھا۔ عقاب کی آنکھیں، اسی کے آس پاس میں ایک ناولٹ لمحۂ آئندہ بھی مکمل کر چکا تھا۔ اس زمانے میں ناوک حمزہ پوری قوس نکالتے تھے۔ لمحۂ آئندہ جدید طرز کا ناول تھا۔ سب سے پہلا افسانہ جلتے بجھتے دیپ تھا جو میں نے ریڈیو کے لیے لکھا تھا۔ لیکن پہلا افسانہ جو اشاعت کی منزلوں سے گزرا اس کا لمحہ رشتوں کی صلیب ہے۔ یہ کہکشاں ممبئی میں شائع ہوا۔ لکھنے کی ابتدا بچپن سے ہی ہو چکی تھی۔ ایک گھر تھا جس کی خستہ ہوتی دیواروں میں صدیاں قید تھیں۔ یہ گھر کوٹھی کہلاتا تھا۔ ہمیں کہیں بھی آنے جانے پر پابندی تھی۔ اس لیے بچپن سے ہی کتابوں سے دوستی ہو گئی۔ اور کم سنی سے ہی کہانی اور ناولوں کی طرف متوجہ ہوا۔

س:           آپ نے کبھی اردو کو بطور سبجیکٹ نہیں پڑھا پھر بھی اردو میں آپ نے بہترین ناول اور افسانے لکھے ہیں تو اردو کی طرف رغبت کی کوئی خاص وجہ؟

ج:            اردو زبان میری پہلی محبت ہے۔ مجھے آج بھی اس بات کا افسوس ہے کہ مجھے وہ زبان لکھنے میں قدرت حاصل نہیں جو عبدالحلیم شرر کی زبان تھی یا شاہد احمد دہلوی کی نثر میں جس کا لطف حاصل کرتا ہوں۔ اس زمانے میں تعلیم کا معیار دوسرا تھا۔ اصل تربیت گھر میں ہوتی تھی۔ میں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، وہاں اٹھتے بیٹھتے ادب پر ہی گفتگو ہوا کرتی تھی۔ ابا حضور مشکور عالم بصیری میرے آئیڈیل تھے۔ تب چاندنی راتوں میں چھت پر پلنگڑیاں بچھ جاتیں۔ گرمی کے دن ہوتے تو چھت پر جانے کا نشہ سا ہوتا۔ ابا حضور کسی داستان گو کی طرح ہم سب بھائی بہنوں کو گھر کر داستانوں کو زندہ کر دیتے۔ طلسم ہوشربا، داستان امیر حمزہ سے لے کر سراج انور کے ناول بھی پہلی بار ابا حضور سے ہی سنے۔ اردو کے علاوہ انگریزی ناول اور قصوں کا دور بھی شروع ہوتا۔ سردی کا زمانہ ہوتا تو کمرے میں بورسی یا انگیٹھیاں جل جاتیں۔ ہم لحاف میں دبکے ہوئے ابا حضور سے کہانیاں سنا کرتے۔ افسوس یہ بھی ہے کہ ہم یہ تربیت اپنے بچوں کو نہیں دے سکے۔ اس لیے اردو کا طالب علم نہ ہونے کے باوجود میں نے داستانوں اور کہانیوں کی آغوش میں ہی آنکھیں کھولیں۔ اور یہ فیصلہ میں نے بچپن کے دنوں میں ہی کر لیا تھا کہ مجھے کہانیوں کی سمت پڑھنا ہے۔ اس راہ میں مشکلیں ضرور تھیں لیکن کہا جا سکتا ہے کہ میں نے قصے کہانیوں کے لیے اپنے اچھے کیریئر کو قربان کیا تھا۔ کل بھی مجھے کہانیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا اور آج بھی مجھے کہانیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

س:           اب تک آپ کتنے ناول لکھ چکے ہیں ؟

ج:            عقاب کی آنکھیں، لمحۂ آئندہ، نیلام گھر، شہر چپ ہے، ذبح، مسلمان، بیان، پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ— اس کے بعد سرحدی جناح، اردو، اڑنے دو ذرا—

س:           ذوقی کیا آپ کا قلمی نام ہے ؟

ج:            ذوقی میرا قلمی نام ہے۔ اصل نام مشرف عالم ہے۔ ابا حضور مشکور عالم کا تخلص بصیری تھی۔ میں اسی طرز پر اپنا تخلص بھی چاہتا تھا۔ بچپن میں مجھے ذوق بے حد پسند تھے۔ کیوں ؟ یہ بتانا مشکل ہے۔ ایک چھوٹی سی بچوں کی سائیکل ہوا کرتی ہے۔ سائیکل پر بیٹھ کر میں خود کو ابراہیم ذوق سمجھنے لگتا۔ ذوق کے کلام میں اتنا لہک لہک اور جوش کے ساتھ پڑھتا کہ ایک دن ابا حضور خوش ہو کر بولے یہ ذوقی ہے۔ بس وہ دن ہے اور آج کا دن۔ میں مشرف عالم سے مشرف عالم ذوقی بن گیا۔

س:           انگریزی ناول نگاری میں فیملی انسیسٹ پر ۱۷ ویں صدی کے نصف اول سے ہی قلم اٹھائے گئے ہیں مگر اردو ادب میں آپ نے پہلی بار اس موضوع کو چھونے کی کوشش کی ہے۔ دونوں ادب میں اس فرق کی وجہ آپ کیا سمجھتے ہیں ؟

ج:            ماحول اور معاشرہ کا فرق سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ مغرب کا ماحول اور ہے مشرقی تہذیب میں بہت سی باتوں کا گزر ممکن نہیں۔ یہ مشکل موضوع تھا، جب میں نے لکھنے کا ارادہ کر لیا۔ آپ کو بتاؤں جب قلم اٹھانے کو سوچا تھا، اس وقت یہ فکر بھی لاحق ہوئی تھی کہ اردو والے اس موضوع کو قبول نہیں کریں گے۔ کیونکہ اردو والے آج بھی ایک مخصوص قسم کے تہذیبی ناستلجیا میں سانس لیتے ہیں۔ ناول لکھنے کے بعد بھی میں ڈرا ہوا تھا۔ مگر کل اور آج کے اس فرق کو بھی سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اس ناول کی نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ اس خطرناک موضوع کو اردو والوں نے قبول بھی کیا اور اس کی وجہ بہت صاف ہے۔ سائبر اور صارفی سماج کے ساتھ جو گندگیاں سامنے آئی ہیں، وہ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ لوگ ؟؟؟ہیں کہ ان کے اثرات معاشرے پر کس طرح کے ہو رہے ہیں۔ The Clash of civilisation کی الگ الگ وجوہات دونوں جگہ تھیں۔ ایک جائزہ وہاں بھی لیا جا رہا تھا۔ کیونکہ مغرب بھی بدل رہا ہے۔ مغرب میں سیکس عام ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں اس کا نام لینا بھی گناہ۔ مغرب کھلے پن کی وجہ سے کئی حصوں میں تقسیم ہوا، ہمارے یہاں یہ کھلا پن ادھر دس برسوں میں آیا ہے پھر بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ نوجوانوں اور بچوں پر اس کے اثرات کو لے کر میں نے پوکے مان کی دنیا تحریر کیا تھا۔ اب گلوبلائزیشن کی تھیوری کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے ایک Rich پلاٹ کی ضرورت تھی۔ اور میں نے اسی لیے ’لے سانس بھی آہستہ‘ پر کام کرنا شروع کیا۔ مشرف ابھی بھی اتنا ایڈوانس نہیں ہوا پھر بھی آپ دیکھ سکتی ہیں کہ فیملی انسیسٹ کے موضوع کو یہاں بھی قبول کیا گیا کیونکہ یہ ہماری مغرب سے ہوتی ہوئی ہمارے دروازے پر دستک دے چکی ہے۔

س:           آپ کے ناولوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ خاص طور سے نئی نسل کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو اس حوالے کیا دقتیں در پیش ہوئی ہیں ؟

ج:            میرا ٹارگیٹ آج کے نوجوان ہیں۔ ’پو کے مان کی دنیا ‘سے لے کر’ اڑنے دو ذرا‘ تک میں در اصل آج کے بچوں کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ پھٹی ہوئی جنس، الٹی ٹوپی پہننا دراصل ان نوجوانوں کے Attitude کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ نوجوان بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ ان کے پاس زندگی، محبت اور کیریئر کی اپنی تعریف ہے۔ بہت کم بچے ہیں جو ماں باپ کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اپنا راستہ کود بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ان بچوں کے مزاج کو میں تنقید کا نشانہ نہیں بناتا۔ کل یہی بچے مستقبل کے افق پر طلوع ہوں گے۔ کل یہ بچے سماج سے سیاست تک ہر جگہ ہوں گے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان بچوں کی نفسیات کو سمجھا جائے۔ میں نئی نسل کو پرکھتا نہیں، ہر قدم پر ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرا بیٹا ۱۷ سال کا ہے۔ عکاشہ عالم۔ ہم پیار سے اسے ساشا بلاتے ہیں۔ ’پوکے مان کی دنیا ‘تحریر کرتے ہوئے بھی ساشا میرے سامنے تھا۔ ’ اڑنے دو ذرا‘ میں بھی میں نے ساشا کو ہی سامنے رکھا ہے۔ جب آپ نوجوان نسل کو سنجیدگی اور ایمانداری سے سمجھنا چاہتے ہیں تو کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ ذرا ان بچوں کے قریب جائیے تو آپ کو پتہ چلے گا۔ یہ بچے Complicated نہیں ہیں۔ ان بچوں کو سمجھنا بے حد آسان ہے۔

س:           آپ نے اپنے ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ کا عنوان میر کے شعر سے مستعار لیا ہے۔ آپ کے ناول پر یا آپ کی کہانی سے یہ شعر کس طرح مطابقت رکھتا ہے ؟

ج:            اس ناول کے عنوان کے لیے میر کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان ممکن ہی نہیں تھا۔ ناول میں ایک جگہ پروفیسر نیلے میر کے شعر کے تشریح کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میر نے کتنا قبل ختم ہوتی تہذیب کا سراغ لگا he Cleارسدرشن نارنگ

لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی حالات کچھ ایسے تھے کہ میرے کو یہ شعر لکھنا پڑا لکھنا آج کے ماحول میں دیکھے تو تجزیہ کے لیے اس سے بہتر کسی اور شعر کی امید نہیں کی جا سکتی۔

س:           آپ نے اپنے ناول کا اختتام رومی کے مصرعے ہر نفس نومی شود دنیا وما— ہر آن ایک نئی دنیا تعمیر ہو رہی ہے پر کیا ہے — اس شعر کے تناظر میں آپ اپنے ناول کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟

ج:            ہر نفس نومی شود دنیا وما— میرے ناول کا موضوع دراصل یہی ہے — ہر آن ایک نئی دنیا تعمیر ہو رہی ہے — کسی تہذیب پر تنقید یا تبصرے کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ ایک تہذیب پرانی ہوتی ہے اس کی جگہ نئی تہذیب آ جاتی ہے۔ ’لے سانس بھی آہستہ‘ کا نور محمد جب گاؤں کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو نئی تہذیب کے ساتھ نیا نور محمد ہوتا ہے۔ وہ پرانے نور محمد کو بلند شہر دفن کر آیا ہوتا ہے۔ اور وہ ایک نئی آئیڈینٹٹی کے ساتھ اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ ماضی یا تاریخ میں ہمارا حصہ اتنا ہی ہوتا ہے کہ ہم اسے بھول نہیں پاتے۔ مگر اصل چیلنج اپنے وقت کا سامنا کرنا ہوتا ہے — نور محمد نے یہی کیا اور اسی لیے وہ مشکل حالات کے باوجود زندہ رہا۔ بلکہ جس طرح کے مسائل اس کے سامنے آئے، وہاں اسے مر جانا چاہئے تھا۔ مگر میں نے جان بوجھ کر اسے زندہ رکھا۔ کیونکہ وہ مر جاتا تو میں نئی تہذیب کی جھلک دکھانے سے چونک جاتا کوئی بھی ناول کوئی پیغام نہیں دیتا بلکہ وقت کو آئینہ دکھاتا ہے۔ میں نے بھی پیغام نہیں دیا ہے بلکہ بدلتی ہوئی تہذیبوں کا آئینہ اپنے قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے۔

س:           تہذیبوں کا تصادم عرصے سے مفکرین کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس تصادم کے اسباب و عوامل کیا ہیں ؟

ج:            یہ لمبی بحث کا موضوع کا ہے اور کوئی ضروری نہیں کہ ہم جس نتیجے پر پہنچیں اس پر اتفاق کیا جائے۔ تہذیبوں کے تصادم کو میں نے اس ناول میں گلوبلائزیشن کے آئینہ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے لیکن موضوع کے لیے جس ملک کا انتخاب کیا، وہ ہندستان ہے۔ ہندستان سے تقسیم کے بعد ایک ملک جدا ہو چکا ہے۔ پاکستان کی اپنی جمہوریت اپنی قدریں ہیں۔ اسی لیے میں نے تصادم کے اس سلسلے کی شروعات جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ سے کی ہے۔ مغل بادشاہوں کے زوال کے بعد کی تصویر ابھی بہت دھندلی نہیں ہوئی ہے — سراج الدولہ تک آتے آتے انگریز اس ملک کے نگہبان ہو چکے تھے۔ واجد علی شاہ تک آتے آتے اودھ کی تہذیب کے تار تار بکھر چکے تھے۔ دلی بار بار لٹتی رہی اور بار بار آباد ہوتی رہی۔ انگریزوں کی حکمرانی اور تقسیم نے ایک ایسے ہندستان کی بنیاد رکھی تھی، جسے نئے سرے سے آباد ہونا تھا۔ اس لیے آزادی کے بعد کے ۶۷ برسوں کا جائزہ مقصود تھا۔ اس درمیان جو تبدیلیاں آئیں ان کے اسباب و عوامل پر بھی غور کرنا تھا اور اس کے لیے سماج، معاشرے سے لے کر مذہب تک کا مطالعہ ضروری تھا۔ ۹۰ کے بعد ہندستان نے ترقی کے ریس میں قدم رکھا۔ اور بھاجپا کی حکومت آنے تک سپر شائننگ انڈیا کے نعرے تیز ہو چکے تھے۔ لیکن اس درمیان نفرت اور تیرتھ یاتراؤں کا دور بھی چلا۔ مسجد اور مندر کا جھگڑا بھی۔ اس سے الگ دکھیں تو نو آبادیاتی نظام اور ہندستان آہستہ آہستہ بڑے ممالک کے درمیان اپنی جگہ بناتا جا رہا تھا۔ نئی نسل کی برین واشنگ ہو چکی تھی۔ گلوبلائزیشن نے نوجوان نسل کو مغرب کے رنگ میں رنگ دیا تھا۔ لڑکیوں نے بھی آزاد ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ گلوبلائزیشن کو میں کوئی چیلنج یا خطرہ نہیں مانتا بلکہ نئے سے نئے ریو میں اسے سمجھنا چاہتا ہوں۔ اور اس کے لیے مجھے بالکل نئے اور اچھوتے موضوع پر ایک ناول کی ضرورت تھی۔

س:           ’ لے سانس بھی آہستہ‘ ایک سماجی ناول ہے۔ آج تبدیل ہوتی اس دنیا اورسماج میں اخلاقیات کا رول کیا ہو سکتا ہے ؟

ج:            ناول میں بدلتی ہوئی اخلاقیات کی میں نے کھل کر تعریف کی ہے۔ ایک طرف غلام ملک کی اخلاقیات ہے اور دوسری طرف آزاد ملک کی۔ آزادی کے بعد کی نسل دونوں طرح کی اخلاقیات کو ساتھ لے کر چلی۔ آج کے نوجوان غلام ملک کی اخلاقیات اور اس کی فکر سے باہر نکل آئے ہیں اور وہ اپنی نئی اخلاقیات کی تھیوری پیش کر رہے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی اخلاقیات ہیں۔ تبصرے اور تنقید کا حق جائز نہیں۔ ابھی اس پورے پروسیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

س:           آپ ماضی، حال سے اٹھ کر اپنی کہانی کو مستقبل سے بھی جوڑتے ہیں۔ موجودہ تناظر میں مستقبل میں آپ کس طرح کے سماجی نتائج کی امید کرتے ہیں۔

ج:            ناول یا تخلیق کا کام نتائج برآمد کرنا نہیں ہوتا۔ میں نے پہلے ہی کہا ہے، ایک تہذیب پرانی ہوتی ہے، دوسری آ جاتی ہے۔ میرے لیے جو آج کا چہرہ ہے وہ بھی قبول ہے بلکہ برائیوں کے باوجود یہ مہذب دنیا کا چہرہ ہے۔ انسانی آبادی کے ساتھ مسائل تو آئیں گے۔ زندگی ایک چیلنج ہے اور اس کا سامنا کرنا ہی دستور ہے۔

٭٭٭

 

 

 

مشرف عالم ذوقی سے ایک گفتگو

 

                جہاں نظیر

 

جہاں نظیر:      آپ نے ناول اور افسانہ لکھنے کی ابتدا کب کی اور آپ کا سب سے پہلا افسانہ اور ناول کون سا ہے ؟

ذوقی : میں نے پہلا ناول ۱۷ سال کی عمر میں لکھا۔ عقاب کی آنکھیں، اسی کے آس پاس میں ایک ناولٹ لمحۂ آئندہ بھی مکمل کر چکا تھا۔ اس زمانے میں ناوک حمزہ پوری قوس نکالتے تھے۔ لمحۂ آئندہ جدید طرز ناول تھا۔ سب سے پہلا افسانہ جلتے بجھتے دیپ تھا جو میں نے ریڈیو کے لیے لکھا تھا۔ لیکن پہلا افسانہ جو اشاعت کی منزلوں سے گزرا اس کا لمحہ رشتوں کی صلیب ہے۔ یہ کہکشاں ممبئی میں شائع ہوا۔ لکھنے کی ابتدا بچپن سے ہی ہو چکی تھی۔ ایک گھر تھا جس کی خستہ ہوتی دیواروں میں صدیاں قید تھیں۔ یہ گھر کوٹھی کہلاتا تھا۔ ہمیں کہیں بھی آنے جانے پر پابندی تھی۔ اس لیے بچپن سے ہی کتابوں سے دوستی ہو گئی۔ اور کم سنی سے ہی کہانی اور ناولوں کی طرف متوجہ ہوا۔

جہاں نظیر:      آپ نے کبھی اردو کو بطور سبجیکٹ نہیں پڑھا پھر بھی اردو میں آپ نے بہترین ناول اور افسانے لکھے ہیں تو اردو کی طرف رغبت کی کوئی خاص وجہ؟

ذوقی : اردو زبان میری پہلی محبت ہے۔ مجھے آج بھی اس بات کا افسوس ہے کہ مجھے وہ زبان لکھنے میں قدرت حاصل نہیں جو عبدالحلیم شرر کی زبان تھی یا شاہد احمد دہلوی کی نثر میں جس کا لطف حاصل کرتا ہوں۔ اس زمانے میں تعلیم کا معیار دوسرا تھا۔ اصل تربیت گھر میں ہوتی تھی۔ میں نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں، وہاں اٹھتے بیٹھتے ادب پر ہی گفتگو ہوا کرتی تھی۔ ابا حضور مشکور عالم بصیری میرے آئیڈیل تھے۔ تب چاندنی راتوں میں چھت پر پلنگڑیاں بچھ جاتیں۔ گرمی کے دن ہوتے تو چھت پر جانے کا نشہ سا ہوتا۔ ابا حضور کسی داستان گو کی طرح ہم سب بھائی بہنوں کو گھیر کر داستانوں کو زندہ کر دیتے۔ طلسم ہوشربا، داستان امیر حمزہ سے لے کر سراج انور کے ناول بھی پہلی بار ابا حضور سے ہی سنے۔ اردو کے علاوہ انگریزی ناول اور قصوں کا دور بھی شروع ہوتا۔ سردی کا زمانہ ہوتا تو کمرے میں بورسی یا انگیٹھیاں جل جاتیں۔ ہم لحاف میں دبکے ہوئے ابا حضور سے کہانیاں سنا کرتے۔ افسوس یہ بھی ہے کہ ہم یہ تربیت اپنے بچوں کو نہیں دے سکے۔ اس لیے اردو کا طالب علم نہ ہونے کے باوجود میں نے داستانوں اور کہانیوں کی آغوش میں ہی آنکھیں کھولیں۔ اور یہ فیصلہ میں نے بچپن کے دنوں میں ہی کر لیا تھا کہ مجھے کہانیوں کی سمت پڑھنا ہے۔ اس راہ میں مشکلیں ضرور تھیں لیکن کہا جا سکتا ہے کہ میں نے قصے کہانیوں کے لیے اپنے اچھے کیریئر کو قربان کیا تھا۔ کل بھی مجھے کہانیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا اور آج بھی مجھے کہانیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

جہاں نظیر:      اب تک آپ کتنے ناول لکھ چکے ہیں ؟

ذوقی : عقاب کی آنکھیں، لمحۂ آئندہ، نیلام گھر، شہر چپ ہے، ذبح، مسلمان، بیان، پوکے مان کی دنیا، پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی، لے سانس بھی آہستہ، آتش رفتہ کا سراغ— اس کے بعد سرحدی جناح، اردو، اڑنے دو ذرا—

جہاں نظیر:      ذوقی کیا آپ کا قلمی نام ہے ؟

ذوقی : ذوقی میرا قلمی نام ہے۔ اصل نام مشرف عالم ہے۔ ابا حضور مشکور عالم کا تخلص بصیری تھی۔ میں اسی طرز پر اپنا تخلص بھی چاہتا تھا۔ بچپن میں مجھے ذوق بے حد پسند تھے۔ کیوں ؟ یہ بتانا مشکل ہے۔ ایک چھوٹی سی بچوں کی سائیکل ہوا کرتی ہے۔ سائیکل پر بیٹھ کر میں خود کو ابراہیم ذوق سمجھنے لگتا۔ ذوق کے کلام میں اتنا لہک لہک اور جوش کے ساتھ پڑھتا کہ ایک دن ابا حضور خوش ہو کر بولے یہ ذوقی ہے۔ بس وہ دن ہے اور آج کا دن۔ میں مشرف عالم سے مشرف عالم ذوقی بن گیا۔

جہاں نظیر:      انگریزی ناول نگاری میں فیملی انسیسٹ پر ۱۷ ویں صدی کے نصف اول سے ہی قلم اٹھائے گئے ہیں مگر اردو ادب میں آپ نے پہلی بار اس موضوع کو چھونے کی کوشش کی ہے۔ دونوں ادب میں اس فرق کی وجہ آپ کیا سمجھتے ہیں ؟

ذوقی:  ماحول اور معاشرہ کا فرق سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ مغرب کا ماحول اور ہے مشرقی تہذیب میں بہت سی باتوں کا گزر ممکن نہیں۔ یہ مشکل موضوع تھا، جب میں نے لکھنے کا ارادہ کر لیا۔ آپ کو بتاؤں جب قلم اٹھانے کو سوچا تھا، اس وقت یہ فکر بھی لاحق ہوئی تھی کہ اردو والے اس موضوع کو قبول نہیں کریں گے۔ کیونکہ اردو والے آج بھی ایک مخصوص قسم کے تہذیبی ناستلجیا میں سانس لیتے ہیں۔ ناول لکھنے کے بعد بھی میں ڈرا ہوا تھا۔ مگر کل اور آج کے اس فرق کو بھی سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اس ناول کی نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ اس خطرناک موضوع کو اردو والوں نے قبول بھی کیا اور اس کی وجہ بہت صاف ہے۔ سائبر اور صارفی سماج کے ساتھ جو گندگیاں سامنے آئی ہیں، وہ لوگ دیکھ رہے ہیں۔ لوگ ؟؟؟ہیں کہ ان کے اثرات معاشرے پر کس طرح کے ہو رہے ہیں۔ The Clash of civilisation کی الگ الگ وجوہات دونوں جگہ تھیں۔ ایک جائزہ وہاں بھی لیا جا رہا تھا۔ کیونکہ مغرب بھی بدل رہا ہے۔ مغرب میں سیکس عام ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں اس کا نام لینا بھی گناہ۔ مغرب کھلے پن کی وجہ سے کئی حصوں میں تقسیم ہوا، ہمارے یہاں یہ کھلا پن ادھر دس برسوں میں آیا ہے پھر بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ نوجوانوں اور بچوں پر اس کے اثرات کو لے کر میں نے پوکے مان کی دنیا تحریر کیا تھا۔ اب گلوبلائزیشن کی تھیوری کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے ایک Rich پلاٹ کی ضرورت تھی۔ اور میں نے اسی لیے ’لے سانس بھی آہستہ‘ پر کام کرنا شروع کیا۔ مشرف ابھی بھی اتنا ایڈوانس نہیں ہوا پھر بھی آپ دیکھ سکتی ہیں کہ فیملی انسیسٹ کے موضوع کو یہاں بھی قبول کیا گیا کیونکہ یہ ہماری مغرب سے ہوتی ہوئی ہمارے دروازے پر دستک دے چکی ہے۔

جہاں نظیر:      آپ کے ناولوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے خاص طور سے نئی نسل کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو اس حوالے سے کیا دقتیں در پیش ہوئی ہیں ؟

ذوقی:  میرا ٹارگیٹ آج کے نوجوان ہیں۔ ’پو کے مان کی دنیا ‘سے لے کر’ اڑنے دو ذرا‘ تک میں در اصل آج کے بچوں کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ پھٹی ہوئی جنس، الٹی ٹوپی پہننا دراصل ان نوجوانوں کے Attitude کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ نوجوان بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ ان کے پاس زندگی، محبت اور کیریئر کی اپنی تعریف ہے۔ بہت کم بچے ہیں جو ماں باپ کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اپنا راستہ خود بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے ان بچوں کے مزاج کو میں تنقید کا نشانہ نہیں بناتا۔ کل یہی بچے مستقبل کے افق پر طلوع ہوں گے۔ کل یہ بچے سماج سے سیاست تک ہر جگہ ہوں گے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان بچوں کی نفسیات کو سمجھا جائے۔ میں نئی نسل کو پرکھتا نہیں، ہر قدم پر ان سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرا بیٹا ۱۷ سال کا ہے۔ عکاشہ عالم۔ ہم پیار سے اسے ساشا بلاتے ہیں۔ ’پوکے مان کی دنیا ‘تحریر کرتے ہوئے بھی ساشا میرے سامنے تھا۔ ’ اڑنے دو ذرا‘ میں بھی میں نے ساشا کو ہی سامنے رکھا ہے۔ جب آپ نوجوان نسل کو سنجیدگی اور ایمانداری سے سمجھنا چاہتے ہیں تو کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ ذرا ان بچوں کے قریب جائیے تو آپ کو پتہ چلے گا۔ یہ بچے Complicated نہیں ہیں۔ ان بچوں کو سمجھنا بے حد آسان ہے۔

جہاں نظیر:      آپ نے اپنے ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ کا عنوان میر کے شعر سے مستعار لیا ہے۔ آپ کے ناول پر یا آپ کی کہانی سے یہ شعر کس طرح مطابقت رکھتا ہے ؟

ذوقی : اس ناول کے عنوان کے لیے میر کے اس شعر سے بہتر کوئی عنوان ممکن ہی نہیں تھا۔ ناول میں ایک جگہ پروفیسر نیلے میر کے شعر کے تشریح کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ میر نے کتنا قبل ختم ہوتی تہذیب کا سراغ لگالیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بھی حالات کچھ ایسے تھے کہ میرے کو یہ شعر لکھنا پڑا آج کے ماحول میں دیکھے تو تجزیہ کے لیے اس سے بہتر کسی اور شعر کی امید نہیں کی جا سکتی۔

جہاں نظیر:      آپ نے اپنے ناول کا اختتام رومی کے مصرعے ہر نفس نومی شود دنیا وما— ہر آن ایک نئی دنیا تعمیر ہو رہی ہے پر کیا ہے — اس شعر کے تناظر میں آپ اپنے ناول کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟

ذوقی : ہر نفس نومی شود دنیا وما— میرے ناول کا موضوع دراصل یہی ہے — ہر آن ایک نئی دنیا تعمیر ہو رہی ہے — کسی تہذیب پر تنقید یا تبصرے کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ ایک تہذیب پرانی ہوتی ہے اس کی جگہ نئی تہذیب آ جاتی ہے۔ ’لے سانس بھی آہستہ‘ کا نور محمد جب گاؤں کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو نئی تہذیب کے ساتھ نیا نور محمد ہوتا ہے۔ وہ پرانے نور محمد کو بلند شہر دفن کر آیا ہوتا ہے۔ اور ٭٭وہ ایک نئی آئیڈینٹٹی کے ساتھ اپنا سفر شروع کرتا ہے۔ ماضی یا تاریخ میں ہمارا حصہ اتنا ہی ہوتا ہے کہ ہم اسے بھول نہیں پاتے۔ مگر اصل چیلنج اپنے وقت کا سامنا کرنا ہوتا ہے — نور محمد نے یہی کیا اور اسی لیے وہ مشکل حالات کے باوجود زندہ رہا۔ بلکہ جس طرح کے مسائل اس کے سامنے آئے، وہاں اسے مر جانا چاہئے تھا۔ مگر میں نے جان بوجھ کر اسے زندہ رکھا۔ کیونکہ وہ مر جاتا تو میں نئی تہذیب کی جھلک دکھانے سے چوک جاتا کوئی بھی ناول کوئی پیغام نہیں دیتا بلکہ وقت کو آئینہ دکھاتا ہے۔ میں نے بھی پیغام نہیں دیا ہے بلکہ بدلتی ہوئی تہذیبوں کا آئینہ اپنے قارئین کے سامنے ر کھ دیا ہے۔

جہاں نظیر :     تہذیبوں کا تصادم عرصے سے مفکرین کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس تصادم کے اسباب و عوامل کیا ہیں ؟

ذوقی : یہ لمبی بحث کا موضوع ہے اور کوئی ضروری نہیں کہ ہم جس نتیجے پر پہنچیں اس پر اتفاق کیا جائے۔ تہذیبوں کے تصادم کو میں نے اس ناول میں گلوبلائزیشن کے آئینہ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے لیکن موضوع کے لیے جس ملک کا انتخاب کیا، وہ ہندستان ہے۔ ہندستان سے تقسیم کے بعد ایک ملک جدا ہو چکا ہے۔ پاکستان کی اپنی جمہوریت اپنی قدریں ہیں۔ اسی لیے میں نے تصادم کے اس سلسلے کی شروعات جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ سے کی ہے۔ مغل بادشاہوں کے زوال کے بعد کی تصویر ابھی بہت دھندلی نہیں ہوئی ہے — سراج الدولہ تک آتے آتے انگریز اس ملک کے نگہبان ہو چکے تھے۔ واجد علی شاہ تک آتے آتے اودھ کی تہذیب کے تار تار بکھر چکے تھے۔ دلی بار بار لٹتی رہی اور بار بار آباد ہوتی رہی۔ انگریزوں کی حکمرانی اور تقسیم نے ایک ایسے ہندستان کی بنیاد رکھی تھی، جسے نئے سرے سے آباد ہونا تھا۔ اس لیے آزادی کے بعد کے ۶۷ برسوں کا جائزہ مقصود تھا۔ اس درمیان جو تبدیلیاں آئیں ان کے اسباب و عوامل پر بھی غور کرنا تھا اور اس کے لیے سماج، معاشرے سے لے کر مذہب تک کا مطالعہ ضروری تھا۔ ۹۰ کے بعد ہندستان نے ترقی کے ریس میں قدم رکھا۔ اور بھاجپا کی حکومت آنے تک سپر شائننگ انڈیا کے نعرے تیز ہو چکے تھے۔ لیکن اس درمیان نفرت اور تیرتھ یاتراؤں کا دور بھی چلا۔ مسجد اور مندر کا جھگڑا بھی۔ اس سے الگ دکھیں تو نو آبادیاتی نظام اور ہندستان آہستہ آہستہ بڑے ممالک کے درمیان اپنی جگہ بناتا جا رہا تھا۔ نئی نسل کی برین واشنگ ہو چکی تھی۔ گلوبلائزیشن نے نوجوان نسل کو مغرب کے رنگ میں رنگ دیا تھا۔ لڑکیوں نے بھی آزاد ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ گلوبلائزیشن کو میں کوئی چیلنج یا خطرہ نہیں مانتا بلکہ نئے سے نئے ریو میں اسے سمجھنا چاہتا ہوں۔ اور اس کے لیے مجھے بالکل نئے اور اچھوتے موضوع پر ایک ناول کی ضرورت تھی۔

جہاں نظیر:      ’ لے سانس بھی آہستہ‘ ایک سماجی ناول ہے۔ آج تبدیل ہوتی اس دنیا اورسماج میں اخلاقیات کا رول کیا ہو سکتا ہے ؟

ذوقی:  ناول میں بدلتی ہوئی اخلاقیات کی میں نے کھل کر تعریف کی ہے۔ ایک طرف غلام ملک کی اخلاقیات ہے اور دوسری طرف آزاد ملک کی۔ آزادی کے بعد کی نسل دونوں طرح کی اخلاقیات کو ساتھ لے کر چلی۔ آج کے نوجوان غلام ملک کی اخلاقیات اور اس کی فکر سے باہر نکل آئے ہیں اوروہ اپنی نئی اخلاقیات کی تھیوری پیش کر رہے ہیں۔ سب کی اپنی اپنی اخلاقیات ہیں۔ تبصرے اورتنقید کا حق جائز نہیں۔ ابھی اس پورے پروسیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

جہاں نظیر:      آپ ماضی، حال سے اٹھ کر اپنی کہانی کو مستقبل سے بھی جوڑتے ہیں۔ موجودہ تناظر میں مستقبل میں آپ کس طرح کے سماجی نتائج کی امید کرتے ہیں۔

ذوقی:  ناول یا تخلیق کا کام نتائج برآمد کرنا نہیں ہوتا۔ میں نے پہلے ہی کہا ہے، ایک تہذیب پرانی ہوتی ہے، دوسری آ جاتی ہے۔ میرے لیے جو آج کاچہرہ ہے وہ بھی قبول ہے بلکہ برائیوں کے باوجود یہ مہذب دنیا کا چہرہ ہے۔ انسانی آبادی کے ساتھ مسائل توآئیں گے۔ زندگی ایک چیلنج ہے اور اس کا سامنا کرنا ہی دستور ہے۔

— لے سانس بھی آہستہ کا تہذیبی پس منظر سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

It was a mistake to label Indian Muslims a minority: Musharraf Zauqi

 

                By Kashif.ul. huda

TwoCircles.net

Urdu writer, Musharraf Alam Zauqui, is based in the city of Delhi, India. For decades he has been writing on the condition of Muslims in India, their identity issues and their status in the social and political canvas of India. Zauqi has also been successful in writing about the ever۔ changing modern society, brought about by phenomenal scientific and technological advances.

Zauqi spoke to our sister publication Urdustan.com on the topic of the backdrop of fake encounter revelations and the Hyderabad bomb blasts. Writers mirror the society they live in and they have unique insight into the society’s psyche. They can see the trends long before they are visible to the general public. Musharraf Alam Zauqui, who has a deep sense of history, can also provide a historical perspective on issues affecting the Muslims of India. Therefore, we decided to call him up and we talked to him about his novels and saw whether his characters and their conditions mirror the reality of Indian Muslims.

You can listen to the complete interview in Urdu on the player below this article. Zauqui started out by what he termed a ‘grave mistake’ by Indian Muslim leadership to start calling Muslims a minority. He argued that for such a large population, which is greater than in many other countries of the world, cannot be called a minority.

Mr. Zauqui agreed that it is possible that some parties may try to exploit this statement. But if Muslims stopped calling themselves Minorities, it can be a medicinal ‘capsule’ that will give Muslims who live in small towns and villages of India confidence that he or she is part of a substantial group. It will give them courage and strength, this concept unfortunately is still not understood by Muslim leaders.

Muslims who have been part of the landscape of India for hundreds of years, have been forced to live on the margin and have been systematically removed from the mainstream. In 1857, soldiers of Meerut chose an old Muslim king as their leader, but now after 150 years Muslims have no leadership to offer.

Talking about the political process in India, Zauqi pointed to the fact that if there are only 40% of people voting in the election, then MPs and MLAs who get elected cannot claim to be representing the majority of the people. "Common Indians who are Muslims, Hindus, and Christians have been reduced to become a mute spectator. People, who get elected, organize fake encounters, play political games and in the process create tensions between communities.”

Appreciating the roles played by the print and electronic media, he said there are people who are fighting for just cause on behalf of the Muslims. He says that the courts are also part of this struggle. But Muslims need to come forward in this struggle and be visible.

"It seems that Urdu writers have written least on the topic of Indian Muslims.” Lamenting this fact, Zauqi appreciats what has been written about Muslims in different Indian languages. He called Kamleshwar’s ‘Kitne Pakistan’ as one of the finest pieces of literature written in India. "It should be a recommended read for every Indian person”, Zauqui added.

٭٭٭

 

 

 

 

گلیمر کی وجہ سے ٹی وی کی دنیا میں نہیں آیا

 

                جاوید اقبال

 

 

اردو ادب کے ایک مقبول افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی ادب کی دنیا میں تو سرگرم تھے ہی اب گزشتہ چند برسوں سے وہ ٹی وی کی دنیا میں بھی رو بہ عمل ہیں پچھلے دنوں ان سے ملاقات ہوئی تو ہم نے سوچا کہ ان کی مصروفیات کے بارے میں کچھ معلومات کر لیا جائے لہذا ہم نے پوچھا۔

سوال:  آپ کا پہلا سیریل کون سا تھا؟

جواب: میرا پہلا سیریل الجھن تھا جو دوپہر میں دوردرشن پر تقریباً دوسال قبل دکھایا گیا۔ اس میں پہلی بار ہم نے پونم ریحانی (اب پونم سرین) کو پیش کیا تھا۔

سوال:  الجھن کا مرکزی خیال کیا تھا؟

جواب: یہ گاؤں میں رہنے والی ایک ایسی لڑکی کہانی پر مبنی تھا جو شہر آ کر اپنے ماحول سے بغاوت کی علامت بن جاتی ہے۔

سوال:  آپ نے دوردرشن سے وابستگی کیوں اختیار کی کوئی خاص وجہ؟

جواب: ایک بات واضح کر دوں کہ میں چھوٹے پردے کی چمک دمک اور گلیمر سے متاثر ہو کر اس دنیا میں نہیں آیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اس کے لیے اس سے بڑا میڈیا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور بس آ گئے اس دنیا میں۔ آج اللہ کا فضل ہے کہ کام ہی کام ہے۔

سوال:  مثال کے طور پر کیا کام ہے ؟

جواب: میں نے صبح کے پروگرام کے لیے کامیڈی سیریل ’’صبح صبح‘‘ بھی لکھا تھا جو کافی مقبول رہا۔ اس کے علاوہ ٹیلی فلم کو لے کر ڈوکومینٹری، سب ہی کر رہا ہوں۔ ۹ بجے کے پروگرام بھی ہیں میرے پاس ابھی حال میں بھی ’دکھاوا‘ اور ’دو رنگ‘ کے نام سے دو ٹیلی فلمیں کی ہیں۔ جو جلد ہی چھوٹے پردے پر دکھائی جائیں گی۔

سوال:  کہانی اور اسکرپٹ لکھنے میں آپ کو کیا فرق محسوس ہوا؟

جواب: کہانی کو اگر پوری طرح سے کریٹیو پروسیس کہا جائے تو اسکرپٹ کا معاملہ پوری طرح تکنیکی ہے۔ اسکرپٹ لکھتے وقت کیمرے کا خاص طور پر خیال رکھنا پڑتا ہے۔ دلی میں رائٹر تو بہت ہیں لیکن اسکرپٹ رائٹر نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے پروڈیوسر اب بھی اچھی اسکرپٹ کے لیے ممبئی کی خاک چھانتے ہیں وہاں کے لوگ دلی سے زیادہ پروفیشنل ہیں۔ اس فیلڈ میں پروفیشنل ہونا بہت ضروری ہے۔

سوال:  آپ کے نزدیک سب سے اچھا اسکرپٹ رائٹر کون ہے ؟

جواب: میں ڈاکٹر راہی معصوم رضا (مرحوم) سے بے انتہا متاثر تھا۔ مہا بھارت اور ان کی فلموں کا ذکر تو ایک طرف رکھئے ابھی حال میں منٹو کی کہانی ٹوبہ ٹیک سنگھ پر جو ٹیلی فلم دوردرشن سے دکھائی گئی اس کی اسکرپٹ بھی راہی معصوم رضا مرحوم کی تھی جس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے واقعی منٹو کی کہانی کی اونچائیوں کو سمجھا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پر فلم بنانا سچ مچ مشکل ترین کام تھا۔ لیکن راہی معصوم رضا کی شاندار اسکرپٹ نے اس کو آسان کر دکھایا۔

سوال:  آپ اپنے لیے بھی کچھ بنا رہے ہیں ؟

جواب: جی ہاں۔ کوئیکز، ٹیلی فلم، فیس ان دی کراؤڈ، سب ہی بنا رہا ہوں۔

سوال:  اتنی مصروفیت کے باوجود آپ ادب کے لیے کیسے وقت نکال لیتے ہیں ؟

جواب: دیکھئے۔ ادب میری ضرورت نہیں مجبور ہے وہ نہیں ہے تو میں بھی نہیں ہوں۔ میں تو ہرسانس ادب کی دنیا میں لینے کا قائل ہوں۔

سوال:  کیا آپ آج کی اردو کہانیوں سے مطمئن ہیں۔

جواب: کچھ دن پہلے تک نہیں تھا۔ اب ہوں نئی نسل اچھا لکھ رہی ہے۔

سوال:  کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ کہانی کو اس وجہ سے آڈیو وزول میڈیا سے جوڑنا ہو گا تاکہ آپ کی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔

جواب: یقیناً ایسا نہ کیا تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

— راشٹریہ سہارا (اردو)

٭٭٭

 

 

 

 

پروفیسر ایس کی عجیب داستان کے بہانے اردو کے مشہور ادیب مشرف عالم ذوقی سے گفتگو

 

                منجری شری واستو

 

سوال: آپ نے اب تک کتنے ناول لکھے ؟

جواب:        عقاب کی آنکھیں میرا پہلا ناول تھا۔ جو میں نے صرف ۱۷ سال کی عمر میں لکھا تھا۔ ۲۰ سال ہونے تک میں لمحہ آئندہ، نیلام گھر، لکھ چکا تھا۔ اب تک دس ناول شائع ہو چکے ہیں۔

سوال: ان دنوں آپ کیا لکھ رہے ہیں ؟

جواب:        ان دنوں میں ہزاروں برسوں کی داستان کو اردو کے نام سے قلم بند کر رہا ہوں۔ یہ ایک ہزار سال کا سفر ہے۔ جہاں مغلوں کے زوال سے اب تک کے اردو کے سفر کو دیکھ سکیں گے۔ یہ ناول بہت حد تک تاریخ اور ماضی کے اندھیرے میں سانس لیتا ہے۔ اور تقسیم کے فرقہ وارانہ دنگوں سے اپنی جڑوں کو تلاش کرنے کے کوشش کرتا ہے۔ اردو اچانک حاشیے پر آ گئی اور ایک پوری تہذیب اندھیرے میں کھو گئی۔ اس کا موضوع وسیع ہے۔

سوال : آپ کا سب سے اچھا ناول آپ کی نظر میں ؟

جواب:        کسی بھی مصنف کے لئے یہ بتا پانا مشکل ہے۔ میرے ناول ‘ بیان ‘ کو مسلمانوں کی آپ بیتی کہا گیا۔ ڈاکٹر محمد حسن نے کہا کہ آپ ہی مسلمانوں کو لے کر وار اینڈ پیس جیسا تحفہ ادب کو دے سکتے ہیں۔ پوکے مان کی دنیا، اور سونامی میرے پسندیدہ ناول میں شامل ہیں۔

سوال : پروفیسر ایس کی عجیب داستان لکھنے کی ترغیب آپ کو کیسے ملی؟

جواب:        عام طور پر اپنی تخلیقات کے بارے میں کسی ادیب کے لیے رائے دینا مشکل ہوتا ہے۔ بہت ہوا تو سیمینار میں، یا پھر کتابوں پر ہونے والے سیمنار میں وہ اپنی رائے رکھ کر آزاد ہو جاتا ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں، کتاب لکھ دینے کے بعد بھی خاموش رہنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کتاب شائع ہو جانے کے بعد وہ قاری یا نقادوں کی ملکیت ہو جاتی ہے۔ مصنف کا اس کے بعد کوئی کام نہیں رہ جاتا۔

لیکن ناول نگار ناول لکھنے کے بعد بھی مسلسل اسی ناول کی دنیا میں گم رہتا ہے۔ پروفیسر ایس لکھنے کی ترغیب کیسے ملی، یہ کہنا مشکل ہے۔ مین اینڈ سپر مین خیال برسوں سے میرے ذہن پر حاوی تھا۔ سونامی آئی تو میرے لیے اس ناول کو قلمبند کرنا آسان ہو گیا۔

سوال : اس ناول کا خیال آپ کے ذہن میں کہاں سے آیا ؟

جواب:        سچ تو یہ ہے کہ میں ایک طویل عرصے سے اس ناول پر غور کر رہا تھا۔ لیکن مجھے اس ناول کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لینے کے لئے کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ راستہ اچانک ملا . 26، دسمبر 2000 سونامی کی تباہی نے جیسے ناول کا مکمل تانا بانا بن لیا۔ بہت پہلے ہرمن ہیسے کا ناول ” ڈیمیان ” پڑھتے ہوئے میں ” سپرمین سے انسپایر ہوا تھا۔ برنارڈ شا کے یہاں بھی یہ سپر مین کے اشارے ملتے ہیں۔ ہرمن ہیسے کا خیال تھا کہ ہم میں سے ہر شخص کی زندگی اس راستے کی نمائندگی کرتا ہے جو خود اس کی طرف جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے آپ میں مکمل نہیں ہے۔ پھر بھی وہ اپنے پورے ہونے کا بھرم پال لیتا ہے۔ پھر اسی بھرم کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا رہتا ہے۔ یہیں سے میں نے ناول کا بنیادی خیال لیا۔ اصل میں آج کا سب سے بڑا ہیرو موسم ہے۔ ہم سب خوفناک یا پھر کسی حد تک خوشگوار تبدیلیوں سے گھر گئے ہیں۔ میں ‘ موسم ‘ کو ہیرو کی طرح پیش کرنا چاہتا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارا نظام برباد ہو چکا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی عام آدمیوں کو بیکار کرتی جا رہی ہے۔ ایک معمولی روبوٹ انسان پر بھاری ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ، سائبر کرائم سے لے کر جینوم اور کلوننگ پراسیس تک آنکھ کھول کر دیکھئے۔ انسان اپنی ایجادات میں اگر کامیاب ہے تو وہیں وہ شکست بھی ہے۔ وہ اپنے جیسے کلون بناتا ہے اور ائن اسٹائن سے لے کر اب تک کے سائنسداں اس پر بھی مغزماری کرتے ہیں کہ خدا کے کاموں میں دخل نہیں دیا جا سکتا۔ اس لئے کلوننگ پراسیس کو ابھی تک انٹرنیٹ قانون نے عام انسانوں کے لیے تصدیق نہیں کیا۔ حال میں ہنگامہ ہوا کہ دماغ کو ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے، پچاس یا سو سال کے بعد کوئی نہیں مرے گا۔ نئی دنیا کا ایک خوفناک تصور— ان سب سے الگ میزائل اور ایٹم بم کی تباہ کاریاں۔ امریکہ جیسے ملک اس بات سے بھی ڈرے رہے ہیں کہ آج چھوٹے۔ چھوٹے ملکوں نے بھی نیوکلیائی ایٹم بم اور دوسرے نیو کلیائی ہتھیار تیار کر لئے ہیں۔ کہتے ہیں آج عدم تحفظ کی فضا کو لے کر امریکہ پریشان ہے۔ ایک مثال اور دیکھئے، غیر معمولی طور پر امریکہ اور یورپ کے ملکوں میں ’صوفیانہ کلام‘ مشہور ہو رہا ہے۔ امریکہ میں مولانا روم کا صوفیانہ سنگیت اتنا مشہور ہو رہا ہے کہ امریکی اس موسیقی پر ناچ رہے ہیں۔ اصل میں خدا واپس آ گیا ہے۔ ایک بار پھر خدا کے خوف نے گرجا گھروں میں لوگوں کا آنا جانا بڑھا دیا ہے۔

سوال : تو کیا عام زندگی میں خدا کی واپسی سچ مچ ہو چکی ہے ؟

جواب:        ‘ سونامی ‘ لکھتے ہوئے میں بار۔ بار ان حادثوں سے گزرا۔ کیونکہ نئی صدی کی سب سے بڑی ایجاد ہے — خدا۔ خدا جو واپس آ چکا ہے۔ جو سب کو دیکھ رہا ہے اور جو سب کو مٹا سکتا ہے۔ اس لئے ہزاروں ترقی کے باوجود د ایک لہر سونامی آتی ہے اور سب کو بہا کر لے جاتی ہے۔ ایک معمولی سا زلزلے کا جھٹکا آتا ہے اور پاکستان کا ایک شہر مظفر آباد دیکھتے ہی دیکھتے مردہ انسانوں کا قبرستان بن جاتا ہے۔ سونامی کے بعد بھی قدرتی تباہی کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ ریتا، کیٹرینا، ویلومی، چینئی— میں بار بار اسی خیال میں گزر رہا تھا، کہ ہمارا سارا سسٹم اگر برباد ہو گیا تو اس میں ہماری تیز رفتار ترقی کو بھی دخل ہے ؟ اس لیے کہ سپر نیچرل پاول سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اور یہ کرپشن زندگی کے ہر ایک حصہ میں ہے۔ اس لیے ابھی حال ہی میں ایک امریکی صحافی نے اس موضوع پر کتاب لکھتے ہوئے کہا کہ ’جدید ترین دور ختم ہو چکا ہے۔ ہم ایک بار پھر پرانے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور اس پرانے دور کا ہیرو ریل ہیرو ہو گا خدا۔

سونامی میں جگہ جگہ میرے اس خیال کے اشارے ملتے ہیں۔ ایک طرف ہماری سنسکرتک بیماری ہے تو دوسری طرف ادبی آلودگی اور اس کے درمیان ہے ہمارا الٹرا ہیومین مثال کے لیے پروفیسر صدر الدین پرویز قریشی۔ جو جذبات اور احساس کو خاطر میں نہیں لاتا۔ لیکن وقت کے دھارے میں یہی چیز اس کو دھیرے دھیرے کھوکھلا اور کمزور کرتی چلی جاتی ہے۔ پھر وہ ایک بھیانک نفسیات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک پوری دنیا اس کے سامنے ننگی ہے۔ روس کا ٹوٹنا بکھرنا، مذہب کی طرف واپسی، زندگی کی جدوجہد، محبت، جنگ، بے وفائی اور مضبوطی کے تین مونولاگ۔ میں نے وسیع موضوع کے ساتھ اس ناول کو آج کے دور میں جینے کی کوشش کی ہے۔

سوال: کیا اس ناول میں آپ اپنے دوسرے ناولوں کی طرح کوئی سیاسی یا سماجی مدعا نہیں اٹھایا ہے ؟ کیا آپ کو لگتا ہے حقیقت اور فنٹاسی کے مرکب کو ہندی والے قبول کر پائیں گے۔ ؟

جواب: ناول کے مطالعہ کے بعد آپ یہ نہیں کہیں گے کہ میں نے پچھلے ناولوں کے برعکس اس ناول میں کوئی خاص سیاسی یا سماجی مدعا نہیں اٹھایا ہے۔ پوکے مان کی اگلی کڑی کے طور پر میں نے اس بھیانک سوچ کو اس ناول میں پیش کیا ہے۔ ہاں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ ناول بہت غور سے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی چیز ہے کیونکہ قدم قدم پر میں نے اس ناول کو اس وقت کی سب سے بڑی فکر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے سیاسی اور سماجی سوجھ بوجھ کے بغیر میں قلم اٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

سوال : یہ ناول کسی تنازعہ یا ٹکراہٹ کا نتیجہ تو نہیں ؟ جیسے مثال کے لئے ہندی میں عام طور پر ادبی ایوارڈ خریدے جاتے ہیں۔ اس ناول میں کچھ مشہور کرداروں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے . اس کا کیا سبب ہے ؟

جواب:        میں جانتا تھا، اس ناول سے متعلق یہ بات اٹھے گی کہ یہ ناول کسی ادبی ٹکراؤ کا نتیجہ تو نہیں۔ ذرا غور کیجئے ادبی ٹکراؤ کو اس ناول میں کتنے صفحات ملے ہیں ؟ ادبی ماحولیات کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ جب ادب بھی بک ہو چکا ہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اس لیے میں ادب کو بھی سونامی کا شکار بنایا اور جب شکار بنایا تو ادب کے لٹیرے میری نظروں کے سامنے آ گئے۔ نام لینا ضروری نہیں سمجھتا۔ لیکن برسوں سے ادب کی لوٹ جاری ہے۔ ادب ایک مافیا بن چکا ہے۔ مجھے بتائیے آخر اس ماحول کے خلاف مجھے آواز بلند کیوں نہیں کرنی چاہئے تھی؟ میں نے سونامی کا سہارا لیا اور پتھر اچھال دیا۔ یہ صرف شروعات ہے۔

سوال : آپ نے سونامی کی تباہی پر سو سے زیادہ صفحہ دیئے ہیں اس کا کیا سبب ہے ؟

جواب:        ‘ سونامی ‘ کا المیہ پر 100 صفحہ سے زیادہ اس لیے لکھے گئے کہ یہاں سونامی ایک علامت ہے۔ ذرا الویر کامو کی طاعون دیکھئے۔ طاعون پھیل رہا ہے۔ ایک جنگ شروع ہوتی ہے۔ پورے ناول میں طاعون کا اثر ہے اور زندگی کی کشمکش جاری ہے۔ الیکزینڈر سولنسٹین کا کینسر وارڈ اور گلاگ آرکے پلاگو اٹھا لیجئے ’موبی ڈک‘ دیکھئے۔ ’دی اولڈ مین اینڈ دی سی‘ — زندگی اور کشمکش کو پیش کرنے کے لیے یہ ایک شارٹ کٹ راستہ ہے۔ کینسر وارڈ کا ہر باب مختلف ہے۔ پھر بھی ایک مکمل ناول ہے اور ساری دنیا اس میں ننگی نظر آتی ہے۔ اسی لیے دنیاداری سے مذہب، سماج اور سیاست سے وابستہ ہر چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے مجھے سونامی لہروں کی ضرورت تھی۔ جو سب کچھ بہا کر لے گئی اور سونامی کے بعد موت کو کیش کیا جا رہا ہے۔ عام انسان سے حکومت تک۔ اسی لیے پروفیسر ایس کو کہنا پڑتا ہے۔

’موسیو، موت کے بعد بھی زندگی چلتی رہتی ہے۔ سونامی سے جہاں نقصان ہوا ہے وہاں فائدے اور روزگار کے نئے نئے دفتر کھل رہے ہیں۔ اب ایسے مجھے چونک کر مت دیکھئے۔ سمندر میں ہزاروں طرح کے روزگار چھپے ہیں۔ بایو سناگرافی، فزیکل سناگرافی، میرین کیمسٹری اور آگے بڑھیے موسیو، سمندری غذا، سمندری علاج، سمندری کھیل، موتیوں کی تجارت۔ سونامی لہریں آپ کو موت دیتی ہیں تو آپ کو زندگی بھی دیتی ہے۔ ذرا لہروں سے نکل کر ساحل پر جا کر دیکھئے۔ زندگی سے لبریز لوگ ہنستے گاتے قدرتی لباس میں مساج کا لطف لے رہے ہیں۔ یا آپ موت تلاش رہے اور میں سمندر سے زندگی تلاش کرتا رہا۔ موت کے ہر ڈر کے بعد زندگی کے دس راستے کھل جاتے ہیں۔ ‘‘

ایک مثال اور دیکھئے۔

’’موسیو، وہ ساری پیشین گوئیاں اب صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔ ریگستان پھیل سکتے ہیں۔ مونگے کی چٹانے غائب ہو سکتی ہیں۔ گرم ہوائیں اپنا رخ بدل سکتی ہیں۔ دنیا کا ایک بڑا حصہ صرف میں گم ہو سکتا ہے۔ اور ایک بڑے حصہ کو دھوپ کی ہر پل بڑھتی ہوئی شدت جھلسا کر راکھ کر سکتی ہے۔ آنٹارٹکٹا میں گھاس اگ سکتی ہے۔ گلیشیئر پگھلنے لگیں گے۔ چھوٹے چھوٹے ندی تالاب میں ان کا پانی بھر جائے گا اور یہ سمندر سے بھی زیادہ بھیانک ہو جائیں گے۔ موسیو۔ ممکن ہے تب بھی یہ دنیا قائم رہے۔ ایک مرد اور ایک عورت جیسے۔ اس اتالوی فلم میں دکھایا گیا تھا۔ بس ایک مرد اور عورت۔ ساری دنیا ختم ہو چکی ہے۔ لیکن دنیا بننے کا عمل جاری ہے۔ کیونکہ ہم ہیں۔ گلیشیئر کے ٹوٹنے، بھیانک زلزلے، سونامی کے قہر کے باوجود ہم میں جینے کی طاقت موجود ہے۔

زندگی اور موت کی کشمکش کے یہ اشارے ناول میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔ اس لیے یہ ناول کا سب سے ضروری حصہ ہے۔ کیونکہ پروفیسر ایس پہلی بار ان سونامی لہروں کے درمیان بے نقاب ہوتا ہے۔ حکومت کرنے کے دو اہم مونولاگ سے اس کا سامنا یہیں ہوتا ہے — اپنے کلون یعنی پرویز سانیال اسی سونامی سے اپنے اندر ایک مضبوطی پیدا کرتا ہے اور الٹرا ہیومین کا کنسیپٹ بھی یہیں ٹوٹتا ہے۔

گابریل گارسیا مارخیز نے اپنے ایک ناول میں لکھا کہ ہم یہاں قدرت کو شکست دینے آئے ہیں لیکن آپ جانیے، اس کا دوسرا پہلو ہے کہ آپ قدرت کو شکست نہیں دے سکتے۔ قدرت آپ کو مسلسل Dehumanise کر رہا ہے۔ آپ ترقی اور ایجادات کے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں اور قدرت سکنڈ میں آپ کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ تعمیر کے ہر حصہ میں توڑ پھوڑ کی پیوند لگی ہے۔ Theory of deconstruction   آپ ہتھیار بناتے ہیں، امن کے لیے، ملک کی سلامتی کے لیے اور ڈر جاتے ہیں کہ دوسرے ملکوں نے بھی ایسے ہتھیار تیار کر لیے ہیں۔ کہیں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے پروفیسر ایس اپنے مشن میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کا کلون بغاوت پر آمادہ تھا۔ برسوں پہلے ایچ جی او ویلس نے ایک ناول لکھا تھا۔ نام اس وقت یاد نہیں آ رہا ہے۔ انسان نے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے بھی روبوٹ تیار کر لیے ہیں اور ایک دن یہ روبوٹ انسان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیتے ہیں۔ انسان بڑی بڑی مشینیں ایجاد کرتا جا رہا ہے اور ہر بڑی ایجاد کے ساتھ اس کا اپنا قد، مائکرو ہوتا جا رہا ہے۔ یقیناً ایک دن وہ یا تو مارا جائے گا یا پھر دھماکے اسے ہوا میں گم کر دیں گے۔ یہی ہے انسان کی ترقی کا آخری پڑاؤ۔ Dehumanisation اس لیے ناول کے آخر میں پروفیسر ایس کو مرنا ہی تھا۔ اور پروفیسر ایس مرا بھی کہاں ؟ اس کی اپنی خطرناک سائکی نے اس کی جان لے لی۔

یہاں کہنا صرف اتنا ہے کہ میں چاہتا ہوں، یہ ناول اردو ہندی کے ہر طبقہ تک، عام قاری تک پہنچے۔ شاید بد سے بدتر ہوتی صورتحال میں آج اس ناول کو آپ تک پہنچانے کی ضرورت میں شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔

سوال:  کچھ اپنی تحریر اور غور و فکر کے بارے میں بتائے ؟

جواب:        کہانی لکھنے میں موضوع یا مدعوں کی ترجیح بھی مصنف کی فکر سے وابستہ ہوئی ہوتی ہے۔ اس لئے ہزاروں موضوعات/ غور و فکر کے درمیان وہ اسی تحریر کو دعوت دیتا ہے جو اس کی اپنی فکر کی کسوٹی میں فٹ اترتی ہے۔ میرے لیے موضوع بہت ہیں۔ خالد حسینی سے اوہان پامک تک اپنے اپنے شہر یا ملک کو، یا اپنی اپنی پریشانیوں کو بڑے کینوس پر اتارتے نظر آتے ہیں۔ بچپن سے ہی کہانیوں کی شروعات ہو گئی۔ فکریں بدلتی رہیں۔ ۲۵ سال پہلے دلی آ گیا لیکن روح ’آ رہ‘ میں ہی رہ گئی۔ کہانی میں جو بھی موضوع لیتا، کہیں نہ کہیں جیمس جوایس کے ڈبلن یا گنٹر گراس کے ڈانزگ کی طرح میرا شہر میری طرف اپنی بانہیں پھیلا دیتا۔ اور وہاں کے کردار زندہ ہو کر میرے سامنے آ جاتے۔ لکھنا شروع کیا تو فرقہ پرستوں کی آگ روشن تھی۔ کالج کے دنوں تک فرقہ پرست فسادات کی اتنی ساری کہانیاں سنیں اور دیکھیں کہ تقسیم کا المیہ میرا محبوب موضوع بن گیا۔ ۴۷ کے بعد کے ہندستان کو دیکھنے اور پرکھنے کا استفسار مجھے غلامی کے نفرت بھرے دنوں میں لے جاتا تھا۔ یہیں سے پیدا ہوا غلام بخش، عبدل سقہ اور میرے کئی کردار، جو الگ الگ نفرتوں کا دھواں پی رہے تھے۔ شاید اپنی پوری نسل میں تقسیم اور فرقہ وارانہ فساد کو لے کر میں نے سب سے زیادہ لکھا۔ سرخ بستی (دو جلدیں ) تقسیم کی کہانیاں، غلام بخش، مت رو سالگرام، لیبارٹری، مسلمان، بیان، ذبح۔ کیونکہ ملک پر سوچتے ہوئے تقسیم کا وہ سیاہ باب میرا راستہ روک لیتا ہے۔ ابھی بھی اردو (ناول) اور آتش رفتہ کا سراغ اسی تقسیم سے نکلے ہیں۔ جنہیں مکمل کر رہا ہوں لیکن یہ میرے منتخب کیے گئے موضوعات کا صرف ایک حصہ ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ادیب ماضی کا ایک حصہ بن جائے تو یہ بھی نا انصافی ہے۔ اس لیے ایسے برے وقت اپنے موضوعات میں اسے اپنے سیاسی وژن کا بھی اعتراف کرنا چاہئے۔ ممکن ہو تو اسے ارندھتی یا گنٹر گراس کی طرح فیلڈ میں آ کر بھی اپنی خدمات دینی چاہئے۔ لیکن اس سے الگ اپنے عہد، انسانی حقوق اور انصاف سے گزرنا بھی میرے موضوعات رہے۔ ’صرف بہت اندھیرا ہے ‘ کہنے سے کام نہیں چلے گا۔ اندھیرا کب نہیں تھا۔ اس لیے میرے موضوعات میں انسان کی بنیادی حساسیت بھی شامل ہو جاتی ہے۔ وقت اور سیاست کے اس پڑاؤ پر جہاں موسیلونی، ہٹلر کی طرح صرف چہرے بدل گئے ہیں۔ دہشت گردی کی بھیانک سطح پر امریکہ اور اسامہ جیسے لوگ عالمی ادب کے موضوعات بن رہے ہیں۔ چیچنیا، فلسطین، افغانستان، عراق، ایران کو امریکہ کے ذریعہ حاشیے پر ڈالنے کی تیاری، پاکستان کا طالبانی اور ہندستان کا کٹر پنتھی چہرہ… یہ سب میرے موضوعات ہیں۔

سوال: تو آپ مانتے ہیں ایسے دیگر موضوعات میں ادب کی مداخلت ضروری ہے ؟

جواب:        ادب مداخلت کرتا ہے۔ اور اسی مداخلت میں کہیں نہ کہیں خود کو شامل کر لیتا ہوں میں۔ ہاں، میں بے حد سپاٹ نہیں لکھ سکتا۔ مجھے علامت اور فنٹاسی چاہئے۔ موضوع کے انتخابات کے ساتھ ہی یہ علامت اور فنٹاسی بھی تخلیق کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بہت پہلے میری ایک کہانی ‘ اندر۔ اندر گھاس ‘شاید واگرتھ میں شائع ہوئی تھی۔ ایک ماں۔ باپ ہیں۔ ایک ان کی بیٹی ہے۔ بیٹی کے اندر کی آگ جوان ہو گئی ہے۔ ایک نوجوان طالب علم وہاں کرایے پر رہتا ہے۔ بیٹی کی آگ سے ناراض ماں۔ باپ ایک رات چپکے سے اس لڑکے کے پاس جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں۔ انہیں بیٹی کے لئے تھوڑی آگ چاہئے۔ ٹھیک اسی وقت کہیں گولی دغتی ہے اور لڑکا ایک مینڈک میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ کہانی اس لئے کہ عورت مرد دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ بدلتے وقت میں ان دونوں کو الگ۔ الگ کر کے سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ٹیلنٹ ہنٹ کے اس دور میں جہاں مختلف چینلز میں عام گھروں کی لڑکیاں وہ سب کرتی دکھائی دیتی ہیں، جس کے بارے میں صرف 5 سال قبل سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ تصویریں بدلی ہیں۔ اور اس کی وجہ ہے . ‘ سیکس’ عام ہو گیا ہے۔ انٹرنیٹ، سائبر کیفے سے کالج میں پڑھنے والے نوجوان تک۔ کل تک جو ‘ سیکس ‘فحش تھا، اب اسے ایک ضرورت بڑی حد تک تسلیم کر لیا گیا ہے۔ مستقبل کے عورت مرد کے درمیان جنگ تو ہو گی لیکن ایک ’سلجھی‘ ہوئی آزادی بھی دونوں کا حصہ ہے۔ اس لئے ’ لیوان ریلینشپ‘ بھی بڑے شہروں میں عام ہو چلی ہے۔ لو میرج میں اب دھرم کی ہانڈی پکنی کم سے کم ہو گئی ہے۔ مستقبل میں عورت مرد کے طور پر میں ایک ایسی ذاتی آزادی کا ماحول دیکھتا ہوں جہاں سیرابی ہے۔ اس لئے توانائی ہے۔ تشنہ رہ جانے کا احساس صرف فتنہ جگاتا ہے اور توانائی کے اثرات کو بھی تباہ کرتا ہے۔ اور میں ہمیشہ سے آزادی کا قائل رہا ہوں۔

سوال : آپ روایات اور ثقافت کی توڑ۔ جوڑ میں یقین رکھتے ہیں ؟

جواب:        میرے لئے ‘تہذیب ‘ لفظ صرف ایک شک پیدا کرتا ہے۔ تہذیب، سنسکرتی پراچین تہذیب کہیں نہ کہیں یہ ایک طرح کی فرقہ واریت یا تنگ نظری سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ اپنی تہذیب کا بخان کرتے ہوئے باقی تہذیبیں لونج پونج اور نازیبا نظر آتی ہیں۔ ہاں سنسکرتی میں ایک وسیع سماج یا تاریخ کی تلاش ہو تو ٹھیک لیکن سنسکرتی سے نسلوں کو بوجھل بنانا ٹھیک نہیں۔ میرا دیش، میری گنگا، میرا ہمالیہ، میری تہذیب جیسے ڈرامے سے باہر نکل کر دیکھنے کا دور ہے یہ۔ اس لئے مصنف کے طور پر صرف ایک آزاد سماج کے حق میں ہوں۔

سوال: آ رہ سے دہلی اور دہلی سے اب تک کا سفر، اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں ؟

جواب:        دہلی یعنی میٹروپولیٹن، چھوٹے سے قصباتی شہر کا تصور بھی کر پانا مشکل تھا۔ مجھے اس شہر سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ہجرت کیا ہوتی ہے۔ اپنے گھر کا سکھ کیا ہوتا ہے۔ یہاں تو در در کی ٹھوکریں تھیں اور خالی ہاتھ تھے …دلی دل والوں کی دلی نہیں تھی، تنگ دل لوگوں کی دلی بن کر رہ گئی تھی۔ بے شمار خطرات، ذہنی اذیتیں، پریشانیاں … بہت ممکن ہے میں ہار گیا ہوتا۔ مگر میں نے جو کچھ بھی پڑھا تھا اب وہی میرے کام آ رہا تھا۔ کہتے ہیں ایک زندگی وہ ہوتی ہے جسے آپ اپنے طور پر جینے کی کوشش کرتے ہیں … ایک زندگی وہ ہوتی ہے جو آپ کا مطالعہ آپ کا ویژن آپ کو سونپتا ہے۔ الیکزینڈر پشکن، نکلوئی گوگول، فیودر دوستووسکی، لیوٹالسٹائے، مخایل شولوخوف، میکسم گورکی، ترگنیف… روسی ادب کا ذخیرہ تھا اور یہ لوگ میرے لیے آئیڈیل ان سب کے یہاں زندگی سے لڑنے کی جسارت موجود تھی۔ ان دنوں بورسپولوو کی کتاب پڑھی، کتاب کا نام تھا د اسٹوری آف اے ریل مین… ایک فوجی جس کا پاؤں کاٹ ڈالا جاتا ہے۔ اور جو اپنے ’ول پاور‘ سے اپنے یقین کو دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ہیمنگ وے کے ’د اولڈ مین اینڈ د سی‘ سے محبت تھی… ہومنگ کی کہانیوں کے مرد مجھ میں نیا جوش، نیا دم خم بھرتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح کرائم اینڈ پنشمنٹ کا رسکلانکاؤ، گورکی کی مدر کا پاویل ولاسو اور ترگنیف کی ’دی فائر اینڈ دی سن‘ کے باپ بیٹے مجھے بیحد پیارے تھے۔ گوگول کی کتاب ’ڈیڈ سول‘ مجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کرتی تھی۔ وہیں گابریل گارسیا مارخیز کا ادب ایک نئی سمت میں لے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ عجیب بات تھی کہ مجھے الیکزینڈر سے بھی اسی قدر محبت تھی۔ گلارگ آرکیپلاگو اور کینسر وارڈ دونوں مجھے پریشان کر رہے تھے۔ نیتھیل کی دی اسکارلیٹ بھی مجھے بیحد پسند تھی۔ جارج آرول کی انیمل فارم اور 1984مجھے نئی فکر سے متعارف کرا رہے تھے۔ میں سال بیلو کو بھی پڑھنا چاہتا تھا۔ ولیم گولڈنگ اور گراہم گرین کو بھی … اردو میں قرۃ العین حیدر کے یہاں مجھے جوایس کی جھلک ملتی تھی۔ منٹو چونکاتا تھا، لیکن فکری اعتبار سے زیادہ بلند نہیں لگتا تھا۔ میری کہانیاں تقسیم کی کوکھ سے پیدا ہونے والی تھیں۔ آزادی کے پندرہ سال بعد میرا جنم ہوا تھا۔ لیکن میرے ہوش سنبھالنے تک یہ زخم تازہ تھے۔ بوڑھے۔ بزرگ ہونٹوں پر تقسیم کا درد زندہ تھا اور کراہتا تھا۔ غلامی میرے لئے ایک خوفناک تصور تھا، اور آزادی کے بعد کے فسادات میرے نزدیک انتہائی بے رحم خون بھری سوغات کی طرح تھے۔ اور ان ہی سے میری کہانیوں کا جنم ہوا تھا۔

سوال: اور آخر میں، کیا ہندی میں آج جو بھی لکھا جا رہا ہے، وہ آپ کو مطمئن کرتا ہے ؟

جواب: نہیں۔ ہر دور میں اچھے اور برے لکھنے والے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہندی میں صحافت حاوی ہے۔ کہانی کھو گئی ہے۔ یہ اردو کے ساتھ ہو چکا ہے۔

— پریورتن سے

٭٭٭

تشکر: مشرف عالم ذوقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید