FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

میری کہانی کی اور دوسری کہانی کار عورتیں

تنقیدی مضامین

                مصنف کی کتاب  ’آبِ روانِ کبیر‘ کےتیسرےحصے کا ایک حصہ

               مشرف عالم ذوقی

 

 

دو حرف اور

’آبِ روانِ کبیر‘ جیسی ضخیم کتاب  مکمل تو برقی کتاب نہیں بن سکی۔ میں نے اس کے پہلے دو ابواب کے دو حصے کر دئے ہیں۔ اور تیسرا حصہ کیونکہ متفرقات کے ذیل میں تھا، اس کی تین علیحدہ سے برقی کتب بنا دی ہیں۔ ذوقی کا لکھا  ’دو لفظ اس کتاب کے تعلق سے‘ محض پہلے حصے میں شامل کیا ہے۔ برادرم ذوقی سے  تو اجازت تو اس امر کی اجازت اب تک نہیں لی ہے، اور  نہ لے رہا ہوں، اس امید سے کہ وہ برا نہ مانیں گے۔ لیکن یہ نوٹ لکھ رہا ہوں کہ اس مواد کو بطور حوالہ استعمال کرنے والے طلبا، رسرچ سکالر اور ادیب اصل کتاب ’آبِ روانِ کبیر‘ کا ہی حوالہ دیں۔

زیر نظر کتاب متفرقات کی ذیل میں شامل مضامین  پر مبنی ہے۔ دوسرے دو  حصے ہیں ’منٹو اور میں‘ اور ’ادبی ڈائری‘۔

اعجاز عبید


 

اردو کی خواتین باغی افسانہ نگار

’’اور بالآخر وہ ایک دن

اپنے مذہب کے خلاف چھیڑیں گی جہاد/

جس مذہب نے قید کر دیا تھا اُنہیں

ایک بند، گھٹن اور حبس سے بھرے

اندھیرے کمرے میں /

___صمد یزدانی(سندھی شاعر)

نافرمانی یعنی بغاوت کی طرف پہلا قدم

’مسلمان عورت‘ ___نام آتے ہی گھر کی چہار دیواری میں بند یا قید پردے میں رہنے والی ایک ’خاتون‘ کا چہرہ سامنے آتا ہے۔ اب سے کچھ سال پہلے تک مسلمان عورتوں کا ملا جلا یہی چہرہ ذہن میں محفوظ تھا۔ گھر میں موٹے موٹے پردوں کے درمیان زندگی کاٹ دینے والی یا گھر سے باہر خطرناک برقعوں میں اوپر سے لے کر نیچے تک خود کو چھپائے ہوئے___ نام یاد نہیں آ رہا ہے۔ عرصہ پہلے پارٹیشن پر لکھی ہوئی کسی مشہور ’ہندو افسانہ نگار‘ کے ایک افسانہ میں ایسی ہی ایک برقعہ پوش خاتون کا تذکرہ ملتا ہے___ ہم انہیں دیکھ کر ڈر جایا کرتے تھے۔ کالے کالے برقعہ میں وہ کالی کالی ’چڑیل‘ جیسی لگتی تھیں، تب ہم سڑکوں پر شاپنگ کرتی ان عورتوں سے صرف ڈرنے کا کام لیا کرتے تھے۔ ‘

وقت کے ساتھ کالے کالے برقعوں کے رنگ بدل گئے___ لیکن کتنی بدلی مسلمان عورت یا بالکل ہی نہیں بدلی___ قاعدے سے دیکھیں، تو اب بھی چھوٹے چھوٹے شہروں کی عورتیں برقعہ تہذیب میں ایک نہ ختم ہونے والی گھٹن کا شکار ہیں۔ لیکن گھٹن میں بغاوت بھی جنم لیتی ہے اور مسلمان عورتوں کے بغاوت کی لمبی داستان رہی ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ’مذہب کے اصولوں اور قاعدے قانونوں کو زندگی سے تعبیر کرنے والی‘ صوم وصلوٰۃ کی پابند عورت نے ایک دن اچانک بغاوت یا جہاد کے لئے بازو پھیلائے اور کھلی آزاد فضا میں سمندری پرندے کی طرح اڑتی چلی گئی۔

’فرہنگ آصفیہ‘ میں بغاوت کا لفظ بے معنی نافرمانی اور سرکشی کے آیا ہے۔ نافرمانی کی پہلی کہانی دنیا کے پہلے انسان یا مسلمانوں کے پہلے پیغمبر حضرت آدمؑ کی بیوی حضرت حوّا سے شروع ہو جاتی ہے۔ اﷲ نے سب سے پہلے آدم کو پیدا کیا اور پھر آدم کی تنہائی ختم کرنے کے لئے اُس کی پسلی سے حضرت حوّا کو پیدا کیا۔ جنت میں سب کچھ کھانے پینے کی آزادی تھی، لیکن ایک درخت کے بارے میں حکم تھا کہ اس کا پھل کبھی مت چکھنا۔ ’نافرمانی‘ کی پہلی روایت یہیں سے شروع ہو جاتی ہے۔ عورت پیدائش کے وقت سے ہی اپنی تجسس کو دبا پانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے اندر سوالوں کی ایک ’دنیا‘ پوشیدہ ہوتی ہے۔ حضرت آدمؑ نے لاکھ سمجھایا۔ لیکن آخر کار حضرت حوّا نے ’گندم‘ توڑ کر کھا ہی لیا اور اسی نافرمانی کے نتیجے میں آدمؑ اور حوّا کو جنت سے نکالا گیا اور وہ دنیا میں آ گئے۔

تو دنیا کے دروازے آدمؑ اور حوّا کے لئے کھل چکے تھے۔ وہ آپس میں مل کر رہنے لگے۔ حضرت حوّا جب پہلی دفعہ حاملہ ہوئیں، تو ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی ایک ساتھ پیدائش ہوئی۔ بیٹے کا نام ’قابیل‘ اور بہن کا نام ’اقلیمہ‘ رکھا گیا۔ دوسری دفعہ جب حاملہ ہوئی، تو ایک بیٹا ’ہابیل‘ اور بہن ’یہودا‘ کی پیدائش ہوئی۔ شریعت کے مطابق خدا کا حکم یہ تھا کہ ایک پیٹ کی بیٹی کو دوسری پیٹ کے بیٹے سے رشتۂ ازدواج کرنا تھا۔ یعنی شریعت کے مطابق ’قابیل‘ کی شادی ’یہودا‘ کے ساتھ اور ’ہابیل‘ کی ’اقلیمہ‘ کے ساتھ طے پائی تھی۔

یہ کیسی افسوسناک بات ہے کہ دنیا کے پہلے قتل کے لئے بھی جواب دہ ایک عورت تھی۔ پہلا قتل ایک عورت کے نام پر ہوا تھا۔ قابیل پہلی لڑکی یعنی اقلیمہ سے پیار کر بیٹھا۔ اس طرح عورت کے نام پر ’ہابیل‘ کو اپنی جان گنوانی پڑی۔

حضرت آدم کے بیٹے حضرت نوحؑ تک آتے آتے دنیا کافی پھیل چکی تھی۔ برائیاں اتنی بڑھ چکی تھیں کہ حضرت نوح کو خدا کا فرمان پہنچا کہ ایک بڑی سی کشتی بناؤ۔ جو لوگ تم پر ایمان لائیں گے۔ اُنہیں اپنی کشتی میں جگہ دو۔ جو تم پر ایمان نہیں لائیں گے اُن پر اﷲ کا عذاب نازل ہو گا۔ کہتے ہیں ___یہاں بھی نوح کے بیٹے کنعان اور نوحؑ کی منکوحہ نے اپنے شوہر پیغمبر کے آگے بغاوت کا اعلان کیا۔ بعد میں جو کچھ ہوا، سب جانتے ہیں۔ بھیانک سیلاب آیا۔ اِس سیلاب میں صرف نوحؑ کی کشتی محفوظ رہی۔ باقی سارے غرقاب ہو گئے۔

حضرت نوحؑ سے آخری نبی حضرت محمدؐ تک عورت وہی کچکڑے کی گڑیا رہی، جس کا استعمال ہوتا رہا۔ قرآن میں کہا گیا ___ ’عورت تمہارے لئے کھیتیاں ہیں ‘___ لیکن ان ’کھیتیوں ‘ نے تو صدیوں سے مردوں کی طاقت اور کمزوریوں کو سمجھ لیا تھا۔

عرب میں حضرت محمدؐ کے آنے تک عورت بازاروں میں بکنے والی چیز تھی۔ جس کے ہاتھ لگ جاتی، اُسی کی ملکیت ہو جاتی۔ صدیوں میں سانس لیتی عورت نے جب اپنی آزادی کے آسمان کی تمنا کی، تو سب سے پہلی جنگ اُسے مذہب سے ہی لڑنی پڑی۔ خود اسلام میں عورت کے نام پر اتنی ساری پابندیاں اُس کی تقدیر میں لکھ دی گئی تھیں، جنہیں آج کے مہذب ترین دور میں بھی عورت نبھائے جانے کے لئے مجبور ہے۔ مذہب کی حیثیت کیسی تلوار جیسی ہے، جو عورت کے سر پر صدیوں سے لٹک رہی ہے۔ عورت اس تلوار کے خلاف جاتی ہے، تو وہ سرکش، باغی تو کبھی بے حیا اور طوائف بھی ٹھہرا دی جاتی ہے۔

اسلام میں عورت کو جو بھی مقام عطا گیا ہے، شریعت کا فرمان جاری کرنے والے اور اُس پر عمل کرنے والے مولویوں نے ہر بار مذہب کی حفاظت کی آڑ لے کر عورت کو اپنے پیر کی جوتی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسلسل ظلم، کئی کئی بیویوں کا رواج، آزادی سے کچھ قبل تک بیوی کی موجودگی میں ’داشتہ‘ رکھنے اور کوٹھوں پر جانے کا رواج، اس بارے میں اپنی مردانگی کی جھوٹی دلیلیں، شہزادوں، نوابوں اور مہاراجاؤں کے ہزاروں لاکھوں قصوں میں عورت نام کی چڑیا سچ مچ کھیتی، بن گئی تھی___ مرد عورت کی ’زمین‘ پر ہل چلا سکتا تھا، رولر چلا سکتا تھا۔ زمین کو چاہے تو زرخیز اور چاہے تو بنجر بناسکتا تھا___ وہ مرد کی ’کھیتی‘ تھی اس لئے اُسے بولنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ مرد اُس کا کوئی بھی استعمال کر سکتا تھا۔

ادب اور عورت

ادب میں یہ باغی عورت بار بار چیختی چلاتی رہی ہے۔ رشید جہاں سے لے کر ممتاز شیریں، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم، رقیہ سخاوت حسین، تسلیمہ نسرین، تہمینہ درّانی، سارا شگفتہ، فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید تک یہ عورتیں صدیوں کی تاریخ میں خود کو عریاں دیکھتے ہوئے جب اپنی آواز بلند کرتی ہے، تو قلم اتنا تیکھا اور پینا بن جاتا ہے کہ مردانہ سماج کو ڈر محسوس ہونے لگتا ہے۔ پھر ایسی کتابوں پر سنسر شپ اور گھر میں نہیں پڑھنے کے لئے پابندی لگا دی جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا___ شاید نہیں یہ زمانہ آج بھی بہت سے مسلم خاندانوں میں زندہ ہے۔ جہاں گھر کے بڑے بوڑھے ایسی تحریریں پڑھنے کے لئے منع کرتے ہیں۔ ابھی حال تک لکھنے پڑھنے کی حد تک مسلم معاشرے میں کچھ ایسے مکالمے ہوا کرتے تھے___

٭       آپ عصمت کی کہانیاں پڑھتے ہیں ___؟

٭       نہیں، بڑی بے حیا عورت ہے___

٭       آپ واجدہ تبسم کی کہانیاں پڑھتے ہیں ___؟

٭       نہیں، بڑی ننگی کہانیاں لکھتی ہے۔

٭       تسلیمہ نسرین اور تہمینہ درّانی کو پڑھا ہے___؟

٭       نہیں، کچھ عورتیں اتنی بے حیائی پر اتر آئی ہیں کہ سمجھتی ہیں، اسلام کے خلاف لکھ دو تو راتوں رات مشہور ہو جائیں گی۔

کہاں پابندیوں اور بندشوں میں گھرا ہوا ایک مذہب اور کہاں مذہب اور سیکس پر کھلم کھلا اپنی رائے دینے والی مسلم عورتیں ___ وہ جب اٹھتی ہیں، تو مذہب کو ایک سرے سے جھاڑ پھینکتی ہیں ___

یہاں تک کہ اپنے اندر کی آگ کے لئے بھی خود کو آزاد مختار پاتی ہیں۔ وہ جب آزادی کا اعلان کرتی ہیں، تو بے رحم سے بے رحم مردوں سے بھی ہزاروں گنا آگے بڑھ جاتی ہیں۔ ’بے حیائی پر اترتی ہیں، تو مرد اُسے دیکھتے رہ جاتے ہیں ___ لکھنے کی سطح پر مسلم باغی عورتوں میں آخر یہ خونخوار رویہّ آیا کیسے___؟ دراصل یہ بھی برسوں سے اندر ہی اندر جمع ہونے والی مذہب کے نام پر چیخیں تھیں، جنہوں نے ان باغی عورتوں کے قلم میں آگ بھر دی تھی۔

اپنے زمانے کی تیز طرار عورت ممتاز شیریں نے جب ’آئینہ‘ جیسی کہانی لکھی، تو جیسے مسلم معاشرے میں زلزلہ سا آگیا۔ آخری دنوں میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں ممتاز شیریں نے بھی اس بات کو مانا تھا کہ دراصل مسلم عورت کی کہانیوں میں بغاوت کے پیچھے عورتوں کا وہی استحصال رہا ہے، جو مذہب ایک لمبے عرصے سے اُن کے ساتھ کرتا آ رہا ہے۔ ممتاز شیریں نے ایسے کٹھ ملاّؤں کا تذکرہ بھی کیا تھا، جنہوں نے قرآن پاک کی آیتوں کا سہارا لے کر عورت پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رکھے ہیں۔

اس میں کہیں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کو ایک بڑا درجہ عطا کیا ہے، وہیں اُسی کی آیتوں کا فائدہ اٹھا کر کٹھ ملاّؤں نے عورت پر اپنی سیاست کی روٹیاں بھی سینکی ہیں۔ قرآن شریف میں عورتوں کے مسائل پر سورہ النساء اتاری گئی ہے۔

’’جو عورتیں بے حیائی کا کام کرے تمہاری بیویوں میں سے، سو تم لوگ اُن عورتوں پر چار آدمی اپنے سے گواہ کر لو، اگر وہ گواہی دے دیں، تو تم اُن کو گھروں کے اندر قید رکھو، یہاں تک کہ موت اُن کا خاتمہ نہ کرے یا اﷲ اُن کے لئے کوئی اور راستہ نکال دے۔ ‘‘(آیت 15-)

’’اے ایمان والو! تم کو یہ بات حال نہیں کہ عورتوں کے (مال یا جان کے) زبردستی مالک ہو جاؤ اور اُن عورتوں کو قید مت کرو کہ جو کچھ تم لوگوں نے اُن کو دیا ہے، اُس میں کا کوئی حصہ وصول کر لو۔ ‘‘ (آیت19-)

’’وہ منکوحہ بنائی جائیں، نہ تو اعلانیہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والی ہوں، پھر جب وہ لونڈیاں بنائی جائیں، پھر اگر وہ بڑی بے حیائی کا کام (زنا) کریں، تو اُن پر اس سزا سے نصف سزا ہو گی کہ آزاد عورتوں پر ہوتی ہے۔ ‘‘              (آیت34-)

’’اس بات کا شک ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے، تو عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں، نکاح کر لو۔ دو عورتوں سے، تین تین عورتوں سے اور چار چار عورتوں سے، اگر تم کو شک اس کا ہو کہ انصاف نہ رکھو گے، تو پھر ایک ہی بیوی پر بس کرو۔ ‘‘(آیت3-)

لیکن ایسی آیتوں یا سورہ کی تعداد کہیں زیادہ ہے، جہاں اسلام نے عورت کو عزت دی ہے یا سر آنکھوں پر بٹھایا ہے___ جیسے اسلام نے سب سے ناپسندیدہ عمل ’طلاق‘ کو ٹھہرایا ہے۔ طلاق کے بارے میں یہ تذکرے دیکھئے___

’’طلاق سے بڑھ کر کوئی ناپسندیدہ چیز نہیں ہے، یا پھر طلاق کی عدت گزارنے تک اُنہیں گھر سے ہرگز نہ نکالو، یا پھر طلاق دی گئی عورتوں کو بہتر طریقے سے نفع پہنچاؤ۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، لیکن اسلام میں بار بار پردے کا ذکر آیا ہے، جیسے___

’’اپنی چادریں اپنے اوپر ڈھانک لیا کرو۔ ‘‘ (سورہ الاحزاب، آیت59-)

اپنے گھروں میں شرافت سے رہو، سجنا سنورنا، جو جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کو دکھانے کے لئے ہوتا تھا، اسے چھوڑ دو، نماز کو قائم رکھو۔ زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اﷲ اُس کے رسول کا حکم مانتے رہو۔ (سورہ الاحزاب، آیت33-)

جو عورتیں جوانی کے حد سے اتر کر بیٹھ چکی ہوں، نکاح کی امید بھی نہ رکھتی ہو، اگر وہ اپنی چادریں رکھ دیں، تو اُنہیں کوئی گناہ نہیں۔ البتہ اُن کا ارادہ سجنے سنور نے کا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن اگر پھر بھی وہ شرم، ہچکچاہٹ سے چادریں ڈالتی رہیں، تو اُن کے حق میں بہتر ہے۔ اﷲ تو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔         (سورہ نور، آیت 60-)

مسلم معاشرے نے عورت کو وہیں اپنایا، جہاں وہ مجبور تھی، جہاں اُسے مارا پیٹا یا سزا دی جا سکتی تھی۔ جہاں مرد دو دو، تین تین، بلکہ چار چار عورتوں سے شادی کر سکتے تھے۔ جہاں مرد عورتوں کو ’حلال‘ کر کے جبراً ان کے مالک بن سکتے تھے___ جہاں زنا یا عصمت دری میں ذہنی چوٹ سہنے کے باوجود سزا صرف اُن کے لئے ہی لکھی گئی تھی___ جہاں ان کے سجنے سنورنے اور ان کے سنگار پر پابندی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے مذاہب میں یہ عورت راحت و آرام کی سانس لے رہی تھی۔ یہ عورت ہر جگہ بندشوں میں گھری ہوئی تھی۔ لیکن یہاں میں صرف تخلیق کی سطح پر مسلمان خواتین افسانہ نگاروں کا ہی جائزہ لینا چاہوں گا، جہاں مذہب کی بیڑیاں توڑ کر عورت جب چیخی، تو اُس کی چیخ سے آسمان میں بھی سوراخ پیدا ہو گیا۔ دیکھا جائے تو عورت ہر جگہ قید میں تھی۔ تبھی تو سمون دبوار کو کہنا پڑا___ ’عورت پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ ‘

سمون دبوار کی آپ بیتی کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ قاہرہ کے ایک سیمینار میں بولتے ہوئے سمون نے مردوں پر عورتوں کے لئے حاکمانہ، زمیندارانہ اور ظالمانہ رویہّ اختیار کرنے کا الزام لگایا۔ وہاں تقریب میں شامل مردوں نے سمون کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ عورتوں کی نا برابری اُن کے مذہب کا حصہ ہے اور قرآن میں اس کا ذکر ہے اور مذہب کا قانون دنیا کے ہر قانون سے اوپر ہے۔

ظاہر ہے کہ سمون نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی تھی، کیونکہ برابری اور نابرابری جیسے معاملوں کے درمیان بار بار مذہب کو فوقیت دی جاتی ہے۔ یہاں میں صرف ایک مثال دینا چاہوں گا۔ صرف یہ دکھانے کے لئے کہ دیگر ملک یا مذہب میں بھی شروع سے ہی عورت کی یہی حالت رہی ہے۔ انگریزی ناول ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ایم جی لیوس کا مشہور ناول ’دی میک…‘جب1796 میں شائع ہوا، تو ادبی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ دنیا بھر کے عیسائی طبقے میں اس ناول کو لے کر نااتفاقی کی فضا پیدا ہو گئی۔ پادریوں نے خاص اعلان کیا کہ یہ ناول نہ خریدا جائے، نہ پڑھا جائے اور نہ گھر میں رکھا جائے۔ ’دی میک‘ میں عورتوں کو ’نن‘ بنانے والی رسم کے خلاف جہاد چھیڑا گیا تھا___ مذہبی پادریوں کے، عورتوں کے جسمانی استحصال کے ایسے ایسے قصّے اس کتاب میں درج تھے کہ دنیا بھر میں اس کتاب کی ہولی جلائی گئی___ سچ تو یہی ہے، جیسا کہ سیمون دبوار نے کہا تھا___ ’’عورتیں پیدا نہیں ہوتیں بنائی جاتی ہیں۔ وہ ہر بار نئے مردانہ سماج میں نئے نئے طریقے سے ’ایجاد‘ کی جاتی رہی ہے۔ ‘‘

ترقی پسندی کا عہد اور نئی عورتیں

1936کی ترقی پسند تحریک نے ایک طرف جہاں بغاوت کی ’تان‘ چھیڑی، وہیں اردو ادب کو باغیانہ تیوروں کا دستاویز انگارے کی شکل میں بھی سونپ دیا۔ اس تحریک نے رشید جہاں، ممتاز شیریں اور جانے کتنی باغی عورتوں کو نیا پلیٹ فارم دیا۔

اردو میں یہ باغیانہ سُر آج بھی تیز ہے۔ کشور ناہید، فہمیدہ ریاض سے ہندستان کی نگار عظیم، واجدہ تبسم اور نفیس بانو شمع تک___ آخر عورتوں میں اتنی آگ کہاں سے جمع ہوئی؟

کیا یہ بند بند سے معاشرے کا احتجاج تھا، یا مسلم مردانہ سماج سے صدیوں میں جمع ہونے والی بوند بوند نفرت کا نتیجہ۔ یہ مذہب کا کرشمہ تھا یا صدیوں قید میں رہنے والی عورت اور اُس کی گھٹن کا نتیجہ___ برسوں سے گھر کی چہار دیواری میں قید عورت کو آخر ایک نہ ایک دن اپنا پنجڑا تو توڑنا ہی تھا۔ دیکھا جائے تو یہ بغاوت کے تیور معاشرے میں کم و بیش جنم لیتے رہے تھے۔ نبیوں کی روایت میں حضرت محمدؐ کو آخری نبیؐ کہا گیا تھا۔ یعنی اُن کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ لیکن بہت بعد میں قرۃ العین طاہرہ نام کی ایک عورت نے اسلام کو چیلنج کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں ’’نبیہ‘‘ ہوں۔ اﷲ نے یہ کہا ہے کہ مرد پیغمبر نہیں آئیں گے۔ یہ کہاں کہا گیا ہے کہ عورت پیغمبر نہیں آئیں گی۔ قرۃ العین طاہرہ کو بدلے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اردو کے مشہور نقاّد سجاد حیدر یلدرم کو کہنا پڑا ___’’میں حشر کا قائل نہیں، مگر حشر کا منتظر ضرور ہوں۔ میں قرۃ العین طاہرہ کے قاتلوں کا حشر دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

روایت اور بغاوت سے جڑی ایسی کتنی ہی کہانیوں نے تخلیقی سطح پر خواتین افسانہ نگاروں میں روح پھونکنے کا کام کیا تھا۔ دیکھا جائے تو 1857 کے آس پاس ’نوجاگرن‘ کی آوازیں تیزی سے اٹھنے لگتی تھیں۔ آریہ سماج اور برہم سماج نے عورتوں کی تعلیم کی آواز بھی اٹھائی۔ مسلمانوں میں، خاص طور سے عورتوں میں تعلیم کا رجحان ذرا دیر سے پیدا ہوا۔ 1896 میں علی گڑھ میں شعبہ نسواں کھولا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عورت کی طرفداری میں اور آزادی کی حمایت میں پڑھی لکھی عورتیں سامنے آنے لگیں۔

دراصل عورت اب عورت کے گندے ماضی سے لڑ رہی تھی___ عورت کی وحشت ناک تاریخ پر چابک برسا رہی تھی۔ وہ صدیوں میں سمٹے اُن پہلوؤں کا جائزہ لے رہی تھی، جب جسمانی طور پر اُسے کمزور ٹھہراتے ہوئے مردانہ سماج میں اُس پر ظلم وستم ایک ضروری مذہبی فریضہ بن چکا تھا۔

مسلم خواتین میں جس عورت نے پہلی بار تخلیقی سطح پر بغاوت کا پرچم بلند کیا، وہ شیخ عبد اﷲ کی بڑی بیٹی رشید جہاں تھی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسے مردانہ سماج میں، جہاں عورتوں کا پردے سے باہر نکلنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ایک کے بعد ایک کئی رشید جہاں پیدا ہونے لگیں۔ برسوں سے اندر جمع نفرت الفاظ کی شکل میں مذکورہ حدود کو لگاتار توڑ رہی تھیں ___

’’جان یہاں اُتار دو، یہاں کون بیٹھا ہے۔ ‘‘ انہیں پانچ چھ مردوں میں سے ایک نے کہا۔ ’’کیوں پیاری ایک بوسہ دو گی؟‘‘ کی سخت آواز کچھ عرصے بعد میرے کانوں تک آئی۔ ’’اے ہے، ہم آئے کاہے کو ہیں، تم لوگوں کو تو ہم دیں گے۔ ‘‘ ایک برقعہ پہنے عورت نے جواب دیا۔ ‘‘

___سودا، رشید جہاں

انقلاب اور بغاوت کی بلند آواز

غور طلب ہے کہ اردو کی خواتین افسانہ نگار اپنے شروعاتی دور میں ہی ’بوسے‘ کی باتیں کرنے لگی تھیں۔ یہ سب برسوں سے اندر جمع نفرت کو نکالنے کا ایک راستہ بھر تھا۔ سجاد ظہیر کے ’ہنگامہ خیز انگارے میں بھی خواتین کی شکل میں صرف ایک عورت، یعنی رشید جہاں کی کہانی شامل تھی۔ ’دلّی کی سیر‘___ فرید آباد سے ایک روز کے لئے ’دلّی کی سیر‘ پر نکلی ملکہ بیگم نے آخر کس دلّی کو دیکھ لیا تھا‘___ ’’خدا کے لئے مجھے اپنے گھر پہنچا دو۔ میں باز آئی اس موئی دلّی سے۔ تمہارے ساتھ تو کوئی جنت میں بھی نہ جائے۔ ‘‘

آخر دلّی کی سیر کو لے کر تب اتنا واویلا کیوں مچا تھا؟ بات جنت کی نہیں تھی۔ یہ جنت تو عورت کے اندر کی جنت تھی، جسے اپنے معاشرے سے گھبرائی عورت نے محسوس کیا تھا۔ آگے بڑھ کر خاموشی سے اندر کھلنے والی کھڑکی کھول لی۔ جنت کی اس کھلی کھڑکی نے ادب میں تبدیلی لانے کا کام کیا۔ محبت کی اور پُراسرار کہانیاں لکھنے والی حجاب امتیاز علی نے 1936 میں اپنی کہانی ’بیمار غم‘ میں نئی عورت کی مخالفت کو صاف صاف دکھا دیا___

’’اﷲ، کیا مشرق میں لڑکی صرف اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کی خوشیوں پر قربان کر دی جائے؟ کیا اُسے خود اپنی زندگی کے معاملے میں دخل دینے کا اختیار نہیں ؟ کدھر ہے وہ ریفارمر، جو قوم کے آگے لمبی لمبی تقریریں کرتے اور بہبودی قوم کا ترانہ بڑے زور شور سے گاتے ہیں ؟ اسٹیجوں پر کھڑے ہو کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھ رکھ کر قومی درد جتانے والے ریفارمر کدھر ہیں ؟ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں، انہوں نے اپنی ماؤں کے لئے کیا کیا؟ لڑکیوں کے لئے کیا کیا؟ اگر اُن کے احساس صرف مردوں کے دکھ درد تک ہی محدود ہیں، تو پھر یہ بزرگ کس منہ سے قوم کے امام بنے پھرتے ہیں ؟ پھر وہ کیوں اس نام سے جوڑے جاتے ہیں ؟ کیا وہ عورت کو قوم سے ’خارج‘ سمجھتے ہیں ؟ کیا قوم صرف مردوں کی جماعتوں کا نام ہے۔ ‘‘            ___بیمار غم

دراصل یہی تیزی سے آنے والی تبدیلیاں تھیں۔ مرد کے سامنے نگاہ نیچی رکھنے والی اور ہونٹ بند رکھنے والی عورت جرح کر رہی تھی۔ مردوں سے یہاں تک کہ قاضی مولوی اور علماؤں سے سوالوں کی بوچھاریں کر رہی تھی___ وہ خوف خدا اور مذہب کا ڈر بھول کر تیز طرار باغی عورت بن کر قوم کے ریفارمر اور مسجد کے اماموں سے دریافت کر رہی تھی کہ آخر عورتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ کر تم کس منہ سے امام بنے پھرتے ہو؟

اس سے دو قدم آگے نکل گئی تھیں رقیہ سخاوت حسین___ 1903 میں شائع ’سلطانہ کا سپنا‘ میں انہوں نے ’مردانہ طرز شطرنج‘ کی بساط ہی اُلٹ دی۔ پہلے جہاں کٹ گھرے میں عورت تھی، رقیہ نے وہاں مردوں کو بیٹھا دیا۔ یعنی عورتوں کی حکومت۔ ’سلطانہ کا سپنا‘ میں مرد کہیں نہیں ہے۔ مرد گھروں میں ہے۔ وہی عورت والی چہار دیواری میں بند۔ گھٹن اور بے بسی کے شکار___ آخر وہ کیسا سماج تھا، کیسا معاشرہ تھا، جہاں عورت بار بار سلطانہ جیسا سپنا دیکھنے پر مجبور ہو رہی تھی___

’’سب مرد کہاں ہیں ؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’اپنی صحیح جگہ پر ہیں، جہاں ہونا چاہئے۔ ‘‘

’’صحیح جگہ سے تمہارا کیا مطلب ہے بھلا۔ ‘‘

’’اوہ، سمجھی، تم پہلے کبھی یہاں نہیں آئی ہو۔ نا اس لئے ہمارے رواجوں سے واقف نہیں۔ ہم اپنے مردوں کو اندر بند رکھتے ہیں۔ جیسے ہمیں اپنے زمانہ میں رکھا جاتا تھا۔ ‘‘___سلطانہ کا سپنا

دراصل عورت اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہی تھی۔ وہ برسوں کی ذلت، ہمدردی، اپنی کمزوریوں سے باہر نکلنے کے لئے بیتاب ہو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ سماج کا نقشہ بدلنے لگا تھا۔ مشرقی، روایتی لڑکی اپنے خول سے باہر نکل کر کھلم کھلا آزادی اور سیکس کی باتیں کرنے لگی تھیں۔ عصمت تک آتے آتے مردانہ سماج کی تنگ نظری سے گھبرا کر عورت سرعام دوسری عورت کے ساتھ ایک ہی ’لحاف‘ میں گھس جانے کا تجربہ بھی کر رہی تھی۔

’’لحاف پھر اُبھرنا شروع ہوا۔ میں نے بہتیرا چاہا کی چپکی پڑی رہوں، مگر اس لحاف نے تو ایسی عجیب عجیب شکلیں بنانے شروع کیں کہ میں لرز گئی۔ معلوم ہوتا تھا، غوں غوں کر کے کوئی بڑا سا مینڈک پھول رہا ہے۔ اب اُچھل کر میرے اوپر آیا۔   ___لحاف

اب باضابطہ، ان کہانیوں پر بحث و تکرار کے دفتر کھل گئے تھے۔ یہی کم نہیں تھا کہ مردوں کے اس سماج میں ان مسلم خاتون افسانہ نگاروں کو ’دھرم نکالا‘ کے لئے مجبور نہیں کیا گیا۔ ان خاتون مسلم افسانہ نگاروں کی بے حیائی کے قصّے مردانا سماج میں ’ذائقے‘ اور ’بے شرمی‘ کی علامت بن گئے۔ لیکن دوسری طرف اسی مردانا سماج میں ایک طبقہ اور بھی تھا، جو سنجیدگی سے ان عورتوں کی بے باکی اور حقیقت پسندی کے نظریئے پر غور کر رہا تھا۔ عصمت ان باغی عورتوں میں اپنی چٹخارے دار زبان کی وجہ سے کافی آگے نکل گئی۔ ’’گیندا‘ ‘ سے شروع ہونے والا سفر ’لحاف‘ اور ’چوتھی کا جوڑا‘ تک آتے آتے معاشرے سے بغاوت کی علامت بن چکا تھا۔ اب اس کارواں میں اختر جمال، جمیلہ ہاشمی، الطاف فاطمہ، رشیدہ رضویہ، فرخندہ لودھی ہاجرہ مسرور، خالدہ حسین جیسی خواتین افسانہ نگار شامل ہونے لگی تھیں۔

زنجیریں ٹوٹ رہی تھیں۔ لیکن کتنی ٹوٹی تھیں زنجیریں ؟ کچھ شہروں میں مذہب کا کاروبار کرنے والے علماء کی نظر میں عورت اب بھی وہی تھی، چہار دیواری میں بند، برقعہ اور پردے میں گھری، مرد کی جھوٹن۔ حیدرآباد سے چٹخارے دار زبان میں نوابوں کے قصّے لے کر آئی واجدہ تبسم___ ’ہور اوپر، ہور اوپر‘ اور ’’اُترن‘ جیسی کہانیاں دیکھتے ہی دیکھتے مردوں کے سر پر چڑھ کر بولنے لگیں۔ یہ حیدرآبادی نوابوں کے ایسے قصّے تھے، جو حرص و شہوت کے ’مربی‘ تو تھے ہی، ساتھ ہی اُن کے حرم کے کالے کارناموں کا بیان بھی تھے۔ بیوی صرف گھر کی عزت تھی، یعنی برائے نام بیوی۔ مرد اپنی مردانہ حمایت میں ٹھیک اُس کے سامنے کسی کنیز، دائی، آیا، ملازم یا داشتہ کے ساتھ کوئی بھی کارنامہ کر سکتا تھا۔ لیکن اب نئی ہواؤں میں بغاوت کے تیور آ گئے تھے۔ ’اُترن‘ کہانی کی کنیز کی یہ خوشی آپ بھی دیکھئے___

’’رخصتی کے دوسرے دن دیوڑھی کے دستور کے مطابق جب شہزادی پاشا اپنی اُترن، اپنا سہاگ کا جوڑا، اپنی کھلائی کی بٹیا کو دینے گئی۔ تو چمکی نے مسکرا کر کہا،

’’پاشا… میں … میں … میں زندگی بھر آپ کی اُترن استعمال کرتی آئی، مگر اب آپ بھی…‘‘

اور وہ دیوانوں کی طرح ہنسنے لگی، ’’میری استعمال کی ہوئی چیز اب زندگی بھر آپ بھی…‘‘ اُس کی ہنسی تھمتی ہی نہ تھی، سب لوگ یہی سمجھے کہ بچپن سے ساتھ کھیلی سہیلی کی جدائی کے غم نے عارضی طور سے چمکی کو پاگل کر دیا ہے۔ ‘‘

___اُترن

پاکستان، بنگلہ دیش اور ’باہر‘ کا منظر نامہ

یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ دراصل بغاوت کی بیار زیادہ تر وہیں بہہ رہی تھی، جہاں بندشیں تھیں ___ دم گھٹنے والا معاشرہ تھا۔ شاید اس لئے تقسیم کے بعد کے جمہوریہ اسلام پاکستان میں حکومت کرنے والے علماؤں اور ملاؤں کے خلاف عورتوں نے بغیر خوف اپنی آواز بلند کرنا شروع کی۔ کہاں ایک طرف پردہ نشینی کا حکم اور کہاں دوسری طرف دھکا دھک سگریٹ پیتی ہوئی، الفاظ سے تلوار کا کم لیتی ہوئی خواتین افسانہ نگار___ کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، زاہدہ حنا سے لے کر تہمینہ درّانی تک___ پاکستان سے علیحدہ ملک کے طور پر جب بنگلہ دیش کا ’قیام‘ عمل میں آیا، تو وہاں بھی عورتوں میں یہ باغی سُر پہنچ چکے تھے۔ رقیہ سے تسلیمہ نسرین تک بغاوت کی بیار کبھی رُکی نہیں ___ اس سارے منظر نامے کو کشور ناہید نے کچھ زیادہ ہی قریب سے دیکھا ہے___

’’پاکستان نے اپنے وجود کو عورت کے وجود کی طرح تقسیم ہوتے دیکھا۔ خود کو عورت کی طرح دولت کی غلامی میں جکڑا ہوا محسوس کیا۔ آقاؤں نے 200 سال پرانا کھیل پھر دوہرایا۔ اب یہ کھیل وہ خود نہیں کھیل رہے تھے۔ بلکہ اُس کے زر خرید سیاستداں اور نوکر شاہی کھیل رہی تھی۔ 1965 میں چھیڑ چھاڑ اور طاقتوں کو آزمانے کا کھیل کھیلا گیا۔ اب شکار پھر عورتیں ہی تھیں۔ پاکستان لال قلع پر جھنڈا لہرانے کے لالچ میں ’تھینک یو امریکہ‘ سے دوچار ہو رہا تھا___‘‘

دراصل نئے اسلامی معاشرے میں نوکر شاہی اور سیاست کا جو گھنونا کھیل شروع ہوا تھا، وہاں ’حاکم‘ صرف اور صرف مرد تھا۔ عورت نئی اسلامی جمہوریت میں، مذہب کا سہارا لے کر پیر کی جوتی بنا دی گئی تھی، درد بھرے انجام کو پہنچی عورتوں کی اسی کہانی کو لے کر تہمینہ درّانی نے اپنی آپ بیتی لکھنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی سیاست کے اہم ستون مصطفیٰ کھر نے سیاست اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی قائم کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے ساتھ ایسے ظلم کئے کہ آج کے مہذب سماج کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تہمینہ کی آپ بیتی ’میرے آقا‘ نے پاکستان کے سیاسی ادبی حلقے میں ہنگامہ کھرا کر دیا۔ یہ عورت کے ظلم وستم کی داستاں تو تھی ہی۔ لیکن عورت اب بھی اپنے وجود کے لئے مرد کو نیچا دکھانے پر اتر آئی تھی۔

’’میرے ابا جان، بھائی اور کچھ نزدیکی رشتہ داروں کے سوا مرد لوگ میرے لئے پرائے تھے اور شروعاتی لمحوں سے ہی مجھے مردوں سے دور رہنا سکھایا گیا تھا۔ میرے بچپن میں ایسی ہدایتوں کی فہرست بہت لمبی تھی کہ مجھے کیا کیا نہیں کرنا ہے اور اِن سب کا ہی مقصد میرے اور مردوں کی دنیا کے درمیان ایک غیر تجاوز دوری بنائے رکھنا تھا۔ جیسے کریم پاؤڈر یا نیل پالش کا استعمال مت کرو۔ لڑکوں کی طرف مت دیکھو، نئے زمانے کی سہیلیاں مت بناؤ اور ایسی کسی بھی لڑکی سے دوستی مت کرو، جس کا کوئی بڑا بھائی ہے۔ بغیر اجازت  کسی دوست کے گھر مت جاؤ۔ کبھی فون مت اُٹھاؤ۔ ڈرائیور کے ساتھ کبھی اکیلی باہر مت جاؤ۔ نوکروں کے ساتھ کبھی باورچی خانہ میں کھڑی مت رہو۔ ‘‘

٭٭

’’ایک رات مصطفیٰ نے مجھ سے جسمانی رشتہ بنانا چاہا۔ اُس کے رخ سے مجھے لگا کہ وہ ماننے والا نہیں تھا۔ مجھے ہتھیار ڈالنا ہی تھا۔ میں نے اپنے آپ کو اُس لمحہ سے الگ کر اپنی نفرت پر قابو کیا۔ میں اُس کے کندھے کے اوپر سے خلاء میں تاکتی رہی اور خدا سے دعاء کرتی رہی کہ اُسے سزادے۔ یہ زنا ہے۔ خدا! اپنے مرد سے منع کیا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں دو بہنوں کے ساتھ جسمانی رشتہ نہ بنائے۔ یہ آپ کے قرآن میں لکھا ہے۔ اگر یہ قانون آپ نے بنایا ہے، تو آپ میرے ساتھ یہ دوبارہ نہیں ہونے دیں گے۔ اِس آدمی کو آئندہ مجھے کبھی مت چھونے دینا، کبھی وہ آپ کی حکم عدولی کرنے کی گستاخی نہ کر پائے، میں کچھ نہیں کر سکتی۔ لیکن آپ تو اسے روک سکتے ہیں۔ ‘‘

ذرا سوچئے، جہاں کریم یا نیل پالش لگانا منع ہو، فون اُٹھانا منع ہو، فون اُٹھانے پر پابندی ہو، پرائے مردوں سے ملنا بے شرمی سمجھا جاتا ہو، ایسے ماحول میں مصطفیٰ کھر کی پانچ بیویوں میں سے ایک، یعنی تہمینہ درّانی تمام نا انصافیاں سہتی ہوئیں آخر اپنے وجود کا آخری ہتھیار اُٹھا لیتی ہے۔ وہ مصطفیٰ، جو تہمینہ کو لات جوتے اور گھوسوں سے پیٹتا ہوا کہا کرتا تھا، تمہاری کوئی آئیڈنٹیٹی نہیں ہے تہمینہ درّانی۔ تم ہمیشہ بیگم مصطفیٰ کھر ہی رہو گی۔ تمہیں اپنا تعارف میری سابق بیوی کے طور پر ہی دینا ہو گا۔ لیکن تہمینہ اپنے اس جہاد میں اس طرح جیتی کہ اُس نے کسی فاتح حکمراں کی طرح اپنی آپ بیتی قلمبند کے بعد مصطفیٰ کو فون کر کے کہا___

’’دیکھو مصطفیٰ، اب دنیا جلد ہی تمہیں تہمینہ درّانی کے سابق شوہر کے روپ میں جانے گی۔ ‘‘

بغاوت کی یہ آواز آج پاکستان میں خاتون افسانہ نگاروں کے یہاں عام بات ہے۔ مردوں کے ظلم وستم سے گھبرا کر عورت اپنا ’’پرسنل اکاؤنٹ‘‘ تک الگ کرنا چاہتی ہے۔ یہ پرسنل اکاؤنٹ دراصل اُس کی اپنی شناخت ہے، جس کے لئے وہ ’جنگ‘ تیز کر چکی ہے___

’’میرے پیارے وطن پاکستان کے مرد کیسے ہیں ! یہ سب اپنی بیویوں کی تنخواہیں اپنی ہتھیلیوں پر رکھوا لیتے ہیں یا گھر کو جنت نامی دوزخ میں جھونک دیتے ہیں … اپنی خوشی سے وہ اپنی کمائی کا ایک دھیلا بھی کیوں خرچ نہیں کر سکتیں ؟        ___فہمیدہ ریاض

یہ کہانی کا ایک رُخ ہے، دوسرا رُخ کشور ناہید کی کتاب ’بُری عورت کی کتھا‘ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ آخر وہ کیسا نظام ہے، جہاں پیدائش کے بعد سے ہی ظلم و جبر سہتی ایک مسلمان عورت کبھی اپنی آزادی اور کبھی مذہب کے خوب سے گھبرا کر ایک باغی عورت بن جاتی ہے___

’’جب ماں نے مصالحہ پیسنے کو کہا، تو میں نے گلی میں نکل کر اپنے ہم عمروں سے پوچھا___ ’’کیا یہ میری سگی ماں ہے؟ مجھے مرچیں پیسنے کو دیتی ہیں اور میری انگلیوں میں مرچ لگ جاتی ہے۔ ‘‘

آگے بڑھوں تو سات سال کی عمر… اب مجھے برقعہ پہنا دیا گیا۔ میں گر گر پڑتی تھی، مگر مسلمان گھرانوں کا رواج تھا___ 13سال کی عمر کی ہوئی تب سارے رشتے کے بھائیوں سے ملنا بند۔ 15سال کی عمر کالج میں داخلے کے لئے بھوک ہڑتال۔ 19سال کی عمر یونیورسٹی میں داخلے کے لئے باویلا۔ 20سال کی عمر، شادی خود کرنے پر اصرار___ 20سال کی عمر کیا آئی، شادی کیا ہوئی، سوچ میرا پہریدار ہو گیا۔

___کشور ناہید

دراصل ایک مکمل اسلامی معاشرہ اور تہذیبی ماحول خاتون افسانہ نگاروں کی کہانیوں میں بار بار بغاوت کی وجہ بنتی رہی ہے۔ پاکستان کے 55-56 سال کے عامرانہ حکومت میں ’کٹّرپنتھی‘ ملاّؤں کی حکومت رہی ہے۔ جہاں عورت ہر بار اپنے ہی گھر کی چہار دیواری میں دفن کر دی جاتی ہے۔ چھوٹی عمر سے ہی سرپر دوپٹّہ رکھنے، رشتے کے بھائیوں سے ملنے پر پابندی اور پھر پردے کی مجبوریاں۔ شادی کے بعد شوہر مذہب کی آڑ لے کر اُس پر اپنے ظلم وستم کے پہاڑ توڑتا ہے۔ اِسی ظلم سے جنم لیتی ہے کہانیاں۔ عفرا بخاری سے طاہرہ اقبال اور بشریٰ اعجاز تک کی کہانیوں میں یہی ستائی ہوئی عورت بار بار بغاوت کا پرچم لے کر سامنے آ جاتی ہے۔ کیسا عجیب المیہ ہے کہ مردانہ سماج سے ٹکّر لینے والی اِن عورتوں کو بھی بے حیا اور بدکار کہنے سے ہمارا سماج پرہیز نہیں کرتا۔ عصمت چغتائی، واجدہ تبسم سے لے کر آج یہی رویہّ برقرار ہے___

بقول سلوِیا باتھ___

’میں تو شبدوں کی پہیلی ہوں۔

ایک ہاتھ/

ایک طلسمی گھر/

ایک تربوز/

جو لڑھک رہا ہو/

ایک سرخ پھل ہاتھی دانت، صندل کی لکڑی /

وہ ریزگاری

جو ابھی ابھی تازہ، ٹکسال سے نکلی ہو،

میں ایک رشتہ ہوں

اسٹیج ہوں، گائے کا بچھڑا ہوں

میں نے سنہرے سیبوں کا بھرا تھیلا کھایا ہے

اور اب میں

اُس ٹرین میں سوار ہوں

جو کہیں رُک نہیں سکتی‘‘

 

 

بغاوت کی سطح پر نیا عورت کا ادب

بغاوت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ تخلیق کی سطح پر عورتوں کا قلم باغی اور وحشیانہ بن گیا ہے، تو یہ بھی مرد سماج کی ہی دین ہے۔ بشریٰ اعجاز، ثمینہ راجا، طاہرہ اقبال، نفیس بانو شمع، ترنم ریاض کے یہاں بغاوت نئی کہانی کا مرکز بن گئی ہے۔ غزال ضیغم لیسبیئن بن جانے کی صلاح دیتی ہیں۔ تو کہانی ’عکس‘ میں نگار عظیم باپ بیٹی کے جنسی رشتے پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہیں۔ عورت دراصل اپنے وجود کی نفرت میں جی رہی ہے۔

عورت… اُسے خود سے نفرت کا احساس ہوا؟ عورت سبھی سلوک و برتاؤ میں، زندگی کے ہر موڑ پر پاؤں کی دھول جھاڑتے ہی چت کیوں ہو جاتی ہے؟ ایک دم سے چت اور ہاری ہوئی۔ مرد فاتح ہوتا ہے اور عورت کتنی بڑی کیوں نہ ہو جائے، عورت کی عظمت کہاں سوجاتی ہے۔

___جرم، تبسم فاطمہ

میں بے حد چاہ کے ساتھ ساتھ اُس سے نفرت بھی کرنے لگی۔ ایک ساتھ دونوں جذبے مجھ پر جاری وساری تھے۔ محبت کے مارے میں اُس کے گندے موزے تک سونگھتی اور بھیگی بنیان اپنے تکیہ پر رکھ دیتی۔

وہ عجیب قسم کا ذلیل اور کمینہ آدمی تھا۔ میں روتی، تو وہ اُٹھ کر سب سے پہلے گھر کے دروازے کھڑکیاں بند کرنے لگتا۔ ہاتھ پیڑ جوڑنے لگتا۔ ’’خدا کے لئے مت رو، لوگ تیرا رونا سنیں گے، تو میرے بارے میں کیا رائے کریں گے؟‘‘                   ___’نیک پروین‘، ’غزل ضیغم‘

اِن بدلے ہوئے حالات میں، خواتین افسانہ نگار کے افسانوں کے وہ پہلو ہیں، جہاں خاص طور پر کچھ پختہ فیصلے جاری کئے گئے ہیں۔

عورت اب نیک پروین بن کر نہیں رہ سکتی (غزل ضیغم)، ’دکھ موسم‘ کہانیوں کے دن بیت گئے۔ عورت اب دکھ سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ شوہر اُس کے لئے ’بُل ڈاگ‘ (’نیک پروین‘ کہانی کے آگے کا حصہ دیکھئے) ہے۔ تب بھی ایسے شوہر کو ہینڈل کرنا وہ اچھی طرح جانتی ہے اور وہ ’نیک پروین‘ صرف اپنے شوہر پر منحصر نہیں ہے___

یہ کہانی کا ایک حصہ ہے۔ اب ایک دوسرا نظریہ دیکھتے ہیں۔

’عورت ہی ہر بار چت کیوں ہوتی ہے۔ ‘ جسمانی طور سے بھی، اس ناکامی سے باہر نکلنے کا حوصلہ کوئی عام حوصلہ نہیں ہے۔ یعنی عورت کس کس طریقے سے اپنے آپ کو جانچ سکتی ہے۔ یہ غور کرنے کا وقت ہے۔

نئی صدی کے گلوبل گاؤں سے آج کی عورت اندیکھی نہیں ہے۔ یقیناً اسی وجہ سے وہ پرانی صدی سے باہر نکل کر کچھ زیادہ پھیل گئی ہے یا کچھ نیا کرنے کی خواہش مند ہے۔

بشریٰ اعجاز، نگار عظیم، غزل ضیغم اور تبسم فاطمہ نئی صدی کی نئی دنیاؤں کے بارے میں جس طرح غور و فکر کر رہی ہیں، وہ ہمارے لئے نہ صرف نیا ہے، بلکہ چونکانے والا بھی ہے۔

کل اور آج

ممتاز شیریں سے خدیجہ مستور، مسز عبدالقادر سے ہیجان انگیز کہانیوں والی حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر سے واجدہ تبسم اور جیلانی بانو، رفیعہ منظور الامین، شمیم صادقہ، ذکیہ مشہدی سے نئی خواتین افسانہ نگاروں تک، جو بغاوت کے تخم سفر میں کل موجود تھے، وہی آج بھی موجود ہیں۔ ممتاز شیریں جلتے ہوئے انگارے کی بارش کرتی ہے، تو خدیجہ آنگن کے بٹوارے پر سو سو آنسو بہاتی ہے۔ مسز عبدالقادر سنجیدگی سے عورت کے وجود، بدلتے وقت اور بدلتے تیوروں کی بات کرتی ہے، تو حجاب امتیاز علی ہیجان انگیز وادی میں پُراسرار واقعات کو یکجا کر کے خوش ہو جاتی ہے۔ یعنی ایک ڈراؤنے اور خوفناک ماحول میں یہ دنیا ایک ایسی علامت بن جاتی ہے، جہاں روحوں کا بسیرا ہے اور انسان صرف بھوت پریت… جو ایک دوسرے کو ڈرا دھمکا کر اپنا اُلّو سیدھا کر رہا ہے۔

عصمت کا ’لحاف‘ والا واقعہ دوسرا تھا۔ عصمت نے ’لحاف‘ میں خوفزدہ پاگل ہاتھی دیکھ لیا تھا۔ پتہ نہیں یہ اُن کے گھریلو ماحول کا اثر تھا یا مجبوری، یا سماج کی ستم ظریفی کا دباؤ۔ ’چوتھی کا جوڑا‘ سے ’چاچا چا بڑے‘ تک عصمت عورت سے متعلق کہانیاں تلاش کرتی رہیں اور اس لئے ’لحاف‘ کے اندر سے دیواروں پر رینگتے پاگل ہاتھی سے زیادہ کچھ بھی دیکھ پانے میں کامیاب نہیں رہیں۔

حقیقت میں یہ عصمت کی کہانیوں کا قصور نہیں تھا، بلکہ عصمت کی ’عورت‘ بغاوت کی جگہ اُسے خودسپردگی پر زور دے رہی تھی۔ قرۃ العین حیدر کی دنیا اِس تعلق سے تھوڑا الگ تھی۔ یعنی وہ عورت کے متعلق بہت حد تک الجھن بھری تھیں، یعنی اُن کی آپ بیتیوں میں عورت کے لئے اُن کا جلا کٹا رُخ ایسا تھا، جیسے کوئی گھمنڈی راجکماری اپنی داشتاؤں کو نفرت بھری نظر سے دیکھ رہی ہے… چاہے اُن میں فلم ایکٹریس نرگس ہوں یا کوئی ترم خاں، قرۃ العین حیدر نے کبھی عورت کے مسائل کی پرواہ نہیں کی۔ اُن کے پاس ماضی کا ایک جھروکا تھا۔ لکھنے کی ایک میز تھی اور اپنی تعریف کا جذبہ تھا۔ جس کے آگے پیچھے اُن کی آنکھیں کچھ بھی دیکھ سکنے کی حالت میں نہیں تھیں۔

واجدہ تبسم کا قلم ’ہور اوپر، ہور اوپر‘ سے آگے کبھی نہیں بڑھا، یعنی جس حد تک عورت کے ’ہور اوپر ہور اوپر‘ کے تصور کو وہ چٹخارے دار الفاظ میں پیش کر سکیں، یعنی ’عورت‘ کی حصولی اُن کے نزدیک ’چٹخارے‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔

اس کے برعکس دیکھیں، تو مسرور جہاں، جیلانی بانو، رفیعہ منظورالامین، شمیم صادقہ اور ذکیہ مشہدی کی کہانیوں کی فضا الگ تھی۔ ایک طرف جیلانی بانو جہاں انسانی مسائل کے درد، زمین کی زبان میں سنانے کی کوشش کر رہی تھی، شکیلہ اختر عورت کو ڈائن بنانے والی وجہوں پر غور کر رہی تھیں۔ شمیم صادقہ قابلیت کے سہارے عورت کی سائکی کی جانچ کر رہی تھی۔

عورتوں کے اِس کارواں میں بہت سے نام رہ گئے ہیں۔ مجھے اِس بات کا احساس ہے لیکن ناموں کی گنتی کرنا یہاں میرا مقصد نہیں ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں نے جب بھی قلم اٹھایا ہے۔ وہی پرانا، خود کو حکمرانی کے بوسیدہ کمبل میں چھپائے ہوا مرد سامنے آگیا ہے یا مذہب کی زنجیروں کے درمیان صدیوں کی تہذیب میں وہی مرد کی ذات رنگ بدل بدل کر اِس نئی بغاوت کا ایک حصہ بنتی رہی ہے۔

غیرملکوں سے آتی ہوئی نئی ہوا، یا وہی دقیانوسی ڈھانچہ

غیر ممالک جیسے انگلینڈ، امریکہ وغیرہ میں بھی مسلمان خواتین افسانہ نگاروں کی کمی نہیں ہے، لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ آج ’مغربی‘ ہواؤں میں سانس لینے کے باوجود وہ ڈری سہمی مشرقی یا روایتی لڑکی سامنے آ جاتی ہے۔ باہر کے کھلے پن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہتھیار وہی کالے کالے برقعہ بن جاتے ہیں۔ اوپر سے لے کر نیچے تک خود کو ڈھکے ہوئے، لالی چودھری سے لے کر بانو اختر، پروین لاشری، حمیدہ معین رضوی، سعیدہ سلیم عالم، عطیہ خاں، صفیہ صدیقی وغیرہ اپنی کہانیوں میں اُسی عورت کو زندہ کرنے میں ترجیح دیتی ہیں، جو مذہبی پابندیوں میں اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری میں زندگی بسر کرنے کو ہی شرعی راستہ جانتی ہوں۔

باہر کے رنگیں اور کھلم کھلا ماحول میں ذرا سی آزادی چرانے والی عورت کتنی محتاط ہو جاتی ہے، اس کا حوالہ آغا سعید (یہاں ایک مرد افسانہ نگار کی کہانی کا حوالہ جان بوجھ کر دے رہا ہوں )کی ایک چھوٹی سی کہانی ’تضاد‘ میں دیکھئے۔ لڑکی غیر ملکی ہے۔ کسی مرد نے اُسے پھولوں کی ٹوکری بھیجی ہے۔

’’میں کہتی ہوں کہ اِن پھولوں کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی اور تم نے یہ پھولوں کی ٹوکری اور یہ گلابی کارڈ مجھے کیوں بھیجا؟ یہ تو خیریت ہوئی کہ میرے شوہر گھر نہیں تھے، ورنہ قیامت برپا ہو جاتی۔ میں کہتی ہوں کہ تم میرے کون ہو، جو تم نے ایسا کیا؟‘‘ یہ مس ’ت‘ کی آواز تھی۔ ‘‘

’’نہیں، میں آپ سے کوئی چیز قبول نہیں کر سکتی۔ وہ بات محفلوں اور مشاعروں تک ہی ہے۔ میرے شوہر اِس کو پسند نہیں کرتے اور نہ میں پسند کرتی ہوں۔ مجھ سے غلطی ہوئی جو آپ کو بیماری کا بتایا۔ پھر آپ کوئی چیز بھیجنے کی تکلیف نہ کریں اور نہ ہی مجھے فون کریں۔ ‘‘___’تضاد‘ آغا محمد سعید

یہ بے باکی کا موضوع نہیں ہے کہ باہر کی خونخوار آزادی اچانک اِن عورتوں کو اپنے ہی بنائے گئے پنجرے میں رہنے پر مجبور کیوں کر دیتی ہے؟ جبکہ ایشیائی ممالک میں رہنے والیاں اسی پنجرے کو توڑنے میں اپنی تمام صلاحیت خرچ کر دیتی ہیں۔ کیا یہ ’بکنی چولی‘ کا ڈر ہے، یا تہذیب کے خاتمے کا اثر ہے؟ جیسا کہ کشور ناہید کی کتاب ’بُری عورت کی کتھا‘ میں اُس کا ایک مستری دوست کہتا ہے___

’’میری ماں برقعہ اوڑھتی تھی، مگر میری بیٹی بکنی پہنتی ہے۔ ‘‘

کنڈوم تہذیب سے گھبرائے لوگ سیدھے سیدھے اپنی تہذیب یا مذہب کے سائے میں لوٹ آتے ہیں، دیکھا جائے، تو بدلا کچھ بھی نہیں ہے، ہاں، تبدیلی کی آگ کچھ دیر کے لئے بغاوت کی ایک ’چنگاری‘ کو جنم دے کر پھر سے بجھ جاتی ہے۔ 1903 میں رقیہ سخاوت حسین، ’سلطانہ کا سپنا‘ لکھتی ہیں، تو ساری بغاوت، مردوں سے لیا جانے والا مورچہ صرف سپنے کی حد تک ہوتا ہے۔ عورت مرد سے بغاوت بھی کرتی ہے، تو سپنے میں ___ رقیہ سخاوت حسین سے اب تک کے 100برسوں کے سفر میں آج بھی عورت وہیں کھڑی ہے۔

’’وہ اپنے جسم کے تنے سے اپنے گرے پتّے اُٹھاتی ہے

اور روز اپنی بند مٹھی میں سسک کے رہ جاتی ہے/

وہ سوچتی ہے

کہ انسان ہونے سے بہتر تو وہ گندم کا ایک پیڑ ہوتی/

تو کوئی پرندہ چہچہاتا تو وہ اپنے موسم دیکھتی/

لیکن وہ مٹی ہے، صرف مٹی

وہ اپنے بدن سے روز کھلونے بناتی ہے/

اور کھلونے سے زیادہ ٹوٹ جاتی ہے…/

وہ کنواری ہے، لیکن ذلت کا لگان سہتی ہے/

وہ ہماری ہے

لیکن ہم بھی اُسے اپنی دیواریوں میں چُن کے رکھتے ہیں /

کہ ہمارے گھر اینٹوں سے بھی چھوٹے ہیں /

___سارا شگفتہ

وقت بدلا، منظر نامہ بدلا، لیکن کتنی کتنی بدلی ہے یہ مسلم عورت؟ یا تخلیق کی سطح پر بالکل ہی نہیں بدلی ہے؟ نئی صدی نے اُگنے والے سورج کی پیشانی پر لکھ دیا ہے، دہشت گرد___ تو لہولہان تھا سورج___ لہولہان تھا مذہب___ اور لہولہان تھے ایک مذہب کو ماننے والے___ دیکھتے ہی دیکھتے اسلام دہشت گردی کی علامت بن گیا اور مسلمان دہشت گرد! وقت کے بہتے صفحات پر مسلمان مرد تخلیق کاروں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے نظریئے تک بدل دیئے۔ اُن کی کہانیوں میں ایک بڑی جنگ اس ’نابرابری‘ کے جذبے سے بھی ہے۔ اس بڑی جنگ کے خلاف، جہاں ایک پوری جماعت پر دہشت گرد ہونے کی مہر لگا دی گئی ہے___ مرد افسانہ نگار اِس المیہ کو لے کر تخلیق کا گراں قدر بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں مگر خواتین افسانہ نگاروں میں ایسا لگتا ہے، وہ آج بھی وہیں ہیں، صرف اپنی شناخت، اپنی آئیڈنٹیٹی سے بھڑتی ہوئی___ شاید وہ اس پورے معاملے پر اس لئے بھی خاموش ہیں کہ___ بادشاہ تو ننگا ہے/اصلی دشمن تو مذہب ہے۔

٭٭٭

 

 

میری کہانیوں کی عورتیں

 عورت آج برانڈ بن چکی ہے۔ ایک ایسا برانڈ، جس کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اپنے پروڈکٹ کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے عورتوں کی مدد لیتی ہیں۔ چاہے وہ جنیفیر لوپیز ہوں، ایشوریہ رائے یا سشمتا سین۔ سوئی سے صابن اور ہوائی جہاز تک، بازار میں عورت کی مارکیٹ ویلیو، مردوں سے زیادہ ہے۔ سچ پوچھئے تو تیزی سے پھیلتی اس مہذب دنیا، گلوبل گاؤں یا اس بڑے بازار میں آج عورتوں نے ہر سطح پر مردوں کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے___ یہاں تک کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف میں بھی عورتوں کے حسن اور جسمانی مضبوطی نے صنف نازک کے الزام کو بہت حد تک ردّ کر دیا ہے۔ یعنی وہ صنف نازک تو ہیں لیکن مردوں سے کسی بھی معنی میں کم یا پیچھے نہیں۔ صدہا برسوں کے مسلسل جبر و ظلم کے بعد آج/ اگر عورت کا نیا چہرہ آپ کے سامنے آیا ہے تو یقیناً آپ کو کسی غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عورت آپ اور آپ کی حکومت کی بیڑیاں توڑ کر آزاد ہونا چاہتی ہے___ اور اب آپ اُسے روک نہیں سکتے۔

سینکڑوں، ہزاروں برسوں کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو عورت کا بس ایک ہی چہرہ بار بار سامنے آتا ہے۔ حقارت، نفرت اور جسمانی استحصال کے ساتھ مرد کبھی بھی اُسے برابری کا درجہ نہیں دے پایا___ عورت ایک ایسا ’جانور‘ تھی جس کا کام مرد کی جسمانی بھوک کو شانت کرنا تھا اور ہزاروں برسوں کی تاریخ میں یہ ’دیوداسیاں ‘ سہمی ہوئی، اپنا استحصال دیکھتے ہوئے خاموش تھیں ___ کبھی نہ کبھی اس بغاوت کی چنگاری کو تو پیدا ہونا ہی تھا۔ برسوں پہلے جب رقیہ سخاوت حسین نے ایک ایسی ہی کہانی ’مرد‘ کو لے کر لکھی تو مجھے بڑا مزہ آیا۔ رقیہ نے عورت پر صدیوں سے ہوتے آئے ظلم کا بدلا یوں لیا کہ مرد کو، عورتوں کی طرح ’کوٹھری‘ میں بند کر دیا اور عورت کو کام کرنے دفتر بھیج دیا۔ عورت حاکم تھی اور مرد آدرش کا نمونہ___ ایک ایسا ’دو پایا مرد‘، جسے عورتیں، اپنے اشاروں پر صرف جسمانی آسودگی کے لئے استعمال میں لاتی تھیں۔ میں رقیہ سخاوت حسین کی اس کہانی کا دلدادہ تھا اور بچپن سے کسی بھی روتی گاتی مجبور و بے بس عورت کو دیکھ پانا میرے لئے بے حد مشکل کام تھا___ سچ پوچھئے تو میں عورت کو کبھی بھی دیوداسی، بڑنی، سیکس ورکر، نگر بدھو، گنیکا، کال گرل یا بارڈانسر کے طور پر دیکھنے کا حوصلہ پیدا ہی نہ کر سکا۔ بادشاہوں یا راجے مہاراجاؤں کی کہانیوں میں بھی ملکہ یا مہارانی کے ’رول ماڈل‘ کا میں سخت مخالف رہا۔ میں نہ اُسے شہزادی کے طور پر دیکھ سکا، نہ ملکہ عالم یا مہارانی کے طور پر وہ مجھے مطمئن کر سکیں ___ کیونکہ ہر جگہ وہ مردانہ سامراج کے پنجوں میں پھنسی کمزور اور ابلا نظر آئیں۔ خواہ انہو ں نے اپنے سر پر ملکہ کا تاج یا شہزادیوں سے کپڑے پہن رکھے ہوں۔ تاریخ اور مذہب کی ہزاروں برسوں کی تاریخ میں، خدا کی اِس سب سے خوبصورت تخلیق کو میں لاچار، بدحال اور مجبوری کے ’فریم‘ میں قبول نہیں کر سکتا تھا___ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب لکھ کر میں ان لوگوں کی سخت مخالفت کر رہا ہوں جو عورت کی حمایت میں صفحے در صفحے سیاہ کرتے رہے ہوں۔ ممکن ہے، بلندی پر پہنچی عورت کے لئے وہ اپنی طرف سے بھی ایک لڑائی لڑ رہے ہوں، مگر آج کی زیادہ تر کہانیوں میں یہی عورت مجھے اتنی مجبور و بے بس نظر آتی ہے، جیسے آپ بیچ سڑک پر اُسے ننگا کر رہے ہوں ___ چلئے مان لیا۔ بے حد مہذب، آزاد ہندستان کے کسی گاؤں، قصّبے میں ایک ننگا ناچ ہوتا ہے___ اجتماعی عصمت دری یا کوئی بھی ایسا جرم سرزد ہوتا ہے، جس میں ایک کمزور، بے سہارا عورت کا دامن تار تار ہو جاتا ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہی ہے، ایک بار وہ اپنی عصمت دری کا ماتم کر چکی ہے۔ یہ کیسی فنکاری ہے کہ بار بار ایک جھوٹی تخلیق کے لئے آپ اس کو مزید عریاں کرنے میں جٹے ہوئے ہیں ___ شاید زمانہ قدیم سے ہندی اور اردو کہانی کا یہی سب سے بہتر موضوع رہا ہے۔ جسے آزادی کے بعد کی ترقی پسندی نے بھیانک، دانشورانہ انداز میں سعیٔ کی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بہار، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان یا ہندستان کے قبائلی علاقوں یا گاؤں میں نکل جائے تو وہاں ایسے حادثے نہ ہوتے ہوں ___ لیکن بے حد ذائقہ دار انداز میں اُنہیں پیش کرنا بھی عریانیت کی حدود پار کرنا ہے۔ ہماری کہانیاں مادام باواری یا اناّ کارنینا کی سطح پر ہے۔ عورت کو دیکھنے سے ہمیشہ گریز کرتی رہی۔

ایسا کیوں ہے، یہ میری سمجھ میں آج تک نہیں آیا___ لولیتا سے دی اسکارلیٹ لیٹر تک، ایسا نہیں ہے کہ عورتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم اور استحصال کے خلاف وہاں نہیں لکھا گیا، مگر مغرب میں ادب سے متعلق زیادہ تر موضوعات کا محور یا مرکز صرف یہ جسمانی استحصال نہیں ہے۔ لیکن ہمارے یہاں اردو ہندی دونوں زبانوں میں محض ایک کمزور اور ظلم سہتی ہوئی عورت کا تصور ہی رہ گیا ہے___ کیا آج ایسا ہے___؟ صرف چھوٹے موٹے گاؤں، قصبوں میں ہونے والے واقعات کو درکنار کیجئے___ آپ کہہ سکتے ہیں، بڑے شہروں میں بھی اس طرح کے واقعات عام ہیں ___ جیسے سیکس اسکنڈلس سے لے کر عورتوں کو زندہ جلائے جانے تک کی داستانیں ابھی بھی مہذب دنیا کا مذاق اُڑانے کے لئے کافی ہیں ___

دوستو۔ اس حقیقت کو تسلیم کئے جانے کے باوجود مجھے احساس ہے کہ یہ وہ موضوعات ہیں جنہیں پریم چند سے منٹو اور منٹو سے سلام بن رزاق تک ہزاروں لاکھوں بار دہرایا جا چکا ہے___ اور اس سے بھی بڑا ایک سچ ہے کہ نئے ہزارہ کا سورج طلوع ہونے تک عورت نے اپنی ہر طرح کی بیڑیاں توڑ کر آزاد ہونے کی بھی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ جہاں تک میری بات ہے، نہ میں اُسے غلام دیکھ سکتا ہوں، نہ کمزور___ نہ وہ مجھے شاہ بانو کے طور پر قبول ہے اور نہ ہی عمرانہ کے طور پر___ میں اُس پر قدرت کی صناّعی دیکھتا ہوں اور یہی چیز میرے ادب کے لئے نئی نئی فنتاسیوں کو جنم دے جاتی ہے___

یعنی وہ ہے ایک پُراسرار ترین مخلوق___

رائیڈرز ہیگرڈ کی ’شی‘ کی طرح___ ایک چونکا دینے والی حقیقت___

’جسم___‘ جسم سے جسم تک___ وہ ایک آگ ہے، شرارہ ہے۔ وہ اپنی خوبصورتی اپنے جمال سے آپ کو ’بھسم‘ کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے___

تو آپ اپنی کہانیوں میں اس عورت کو کیوں نہیں تلاش کرتے!

میرے ساتھ مشکل یہی ہے کہ میں عورت کے لئے ہمدردی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ میرے سامنے اُسے دیکھنے اور محسوس کرنے کے لئے دوسرے فریم بھی ہیں۔ میں عورت کو صرف مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا___ وہ مجھے فنتاسی کے لئے اتنی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ یہ نام آتے ہی کسی دوسری دنیا کی مخلوق یا جنت کے دروازے یا ’پری لوک‘ کا تصورسامنے آ جاتا ہے۔ وہ محبت بھی کرتی ہیں اور ایسی محبت کہ اُس کی محبت کے آگے نہ صرف سجدہ کرنے کی خواہش ہوتی ہے بلکہ آپ سوبار مر کر سو بار زندہ ہوسکتے ہیں۔ وہ ایک نہ ختم ہونے والا ’اسرار‘ہے۔ اُس کی خوبصورتی آپ الفاظ میں قید نہیں کر سکتے۔ اُس کا نشیلا لچکدار جسم آپ کے سارے تصوراتوں سے زیادہ شیریں اور غیر یقینی کی حد تک آپ کے الفاظ کو کھوکھلا اور بے معنی بناتا ہے، کیونکہ وشوامتر کی اس مینکا کو آپ الفاظ کے ذریعہ باندھ ہی نہیں سکتے۔ یعنی، عورت ہر بار میرے لئے طلسم ہوشربا کی ایک ایسی ساحرہ بن کر آتی ہے جسے پلٹ کر دیکھنے والا انسان پتھر کا ہو جاتا ہے۔ ناقابل یقین، حسن کا مجسمہ اور تخلیقی محرکات کے لئے ایک بیش قیمت تحفہ۔

وہ ندی بھی ہے اور نہیں بھی ہے۔ کوئی سونامی لہر، کوئی جوار بھاٹا، کوئی سیلاب شرارہ، سیلاب، جھومتا گاتا آبشار۔ وہ سب کچھ ہے اور نہیں بھی ہے۔ وہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والی ’پری کتھا‘ ہے۔ وہ دنیا کی ساری غزلوں، نظموں سے زیادہ خوبصورت اور’پُراسرار بلا‘ ہے۔ جو آج کی ہر تلاش و تحقیق کے ساتھ نئی اور نئی اور پُراسرار ہوتی چلی جاتی ہے۔

اسی لئے اپنی کہانی ’کاتیائین بہنیں ‘ لکھتے ہوئے، مجھے شروعات میں ان الفاظ کا سہارا لینا پڑا___

’’قارئین! کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جس کا مستقبل مصنف طے کرتا ہے۔ لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا مستقبل کہانی کے کردار طے کرتے ہیں۔ ایسا اس کہانی کے ساتھ بھی ہوا ہے… اور ایسا اس لئے ہوا ہے کہ اس کہانی کا موضوع ہے… ’عورت‘___ کائنات میں بکھرے ہوئے تمام اسرار سے زیادہ پُراسرار، خدا کی سب سے حسین تخلیق___ یعنی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ عورت کو جان گیا ہے تو شاید اُس سے زیادہ گھامڑ اور شیخی بگھارنے والا یا اس صدی میں اتنا بڑا جھوٹا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ عورتیں جو کبھی گھریلو یا پالتو ہوا کرتی تھیں۔ چھوٹی اور کمزور تھیں۔ اپنی پُراسرار فطرت یا مکڑی کے جالے میں سمٹی، کوکھ میں مرد کے نطفے کی پرورش کرتیں۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ محض بچہ دینے والی ایک گائے بن کر رہ گئیں تھیں ___ مگر شاید صدیوں میں مرد کے اندر دہکنے والا یہ نطفہ شانت ہوا تھا یا عورت کے لئے یہ مرد آہستہ آہستہ بانجھ یا سرد یا محض بچہ پیدا کرنے والی مشین کا محض ایک پُرزہ بن کر رہ گیا تھا… تو یہ اس کہانی کی تمہید نہیں ہے کہ عورت اپنے اس احساس سے آزاد ہونا چاہتی ہے… شاید اسی لئے اس کہانی کا جنم ہوا… یا اس لئے کہ عورت جیسی پُراسرار مخلوق کو ابھی اور کُریدنے یا اُس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ابھی بھی مہذب دنیا میں اسے صرف پاک ناموں اور رشتوں میں جکڑ رکھا ہے۔ ‘‘___کاتیائین بہنیں

کاتیائین بہنوں کی اپنی الگ دنیا تھی۔ دو عورتوں کی اپنی دنیا۔ لیکن اچانک غلطی سے چھوٹی کاتیائن کی دنیا میں ایک مرد آ جاتا ہے جب کہ بڑی کاتیائین کا خیال تھا ___

’’سنو، ریتا کاتیائین اپنی عمر کو دیکھو۔ مرد کب کا اس تندور کو ٹھنڈا کر چکا ہوتا ہے۔ مگر دیکھو___ تم لاش گھر نہیں ہو___ برف گھر بھی نہیں ___ تم تو جلتا ہوا تندور ہو۔ ‘‘

ایسا نہیں ہے کہ لیسبین عورتوں پر کہانیاں نہیں لکھی گئیں ___ لیکن یہاں معاملہ دوسرا تھا۔ ساٹھ سال کی عمر میں پہنچی ہوئی دو عورتیں۔ لیکن Against Nature مجھے کچھ کبھی پسند نہیں۔ اس لئے عورت کے اس بدلے ہوئے مزاج پر مجھے اپنا اعتراض درج کرانا پڑا۔

’’اچانک چھوٹی کاتیائین کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی۔ نائٹی کے تمام ’ہُک‘ اُنہوں نے کھول ڈالے تھے۔ آئینے میں ایک سہما، بے ڈھنگا جسم مردہ پڑا تھا۔ وہ بوکھلاہٹ میں چیختی ہوئی بڑی کاتیائین کی طرف بڑھی…

’’آگ کہاں ہے؟ میرے جسم کی آگ کیا ہوئی؟‘‘

’’بڑی کاتیائین ایسے چپ تھی، جیسے اُس نے کچھ سنا ہی نہیں ہو___ سنو، میرے اندر… تم نے تو کہا تھا… چھوٹی کاتیائن کی نظریں جیسے مدتوں بعد بڑی کاتیائین کی آنکھوں میں سمائی جا رہی تھیں … یاد ہے… تم نے ہی کہا تھا، آہ تم اب بھی ویسی ہو… بالکل ویسی ریتا کا تیائین… مرد اس تندور کو کب کا ٹھنڈا کر چکا ہوتا ہے…‘‘ وہ پھر چیخی… ’’آگ کہاں ہے، میرے اندر کی آگ کہاں ہے…؟‘‘

بڑی کاتیائین کا چہرہ ہر لمحہ تیزی سے بدل رہا تھا۔

’’تم… تم سن رہی ہو۔ میں … میں کیا پوچھ رہی ہوں …؟‘‘

کافی دیر بعد بڑی کاتیائین کے بدن میں حرکت ہوئی… اُس نے چھوٹی کی جلتی آنکھوں کی تاب نہ لا کر نظریں جھکا لیں۔

’’آگ تو میرے پاس بھی نہیں ہے۔ ‘‘

بڑی کاتیائین کے لفظ ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ ‘‘

___کاتیائین بہنیں

ماں، ماں ہوتی ہے۔ بہن کی ایک پاکیزہ اور مقدس دنیا ہوتی ہے۔ بیوی کی دنیا ایک الگ دنیا ہوتی ہے۔ ان سب نے صرف پاکیزہ رشتے اوڑھے ہوتے ہیں، عورت کا جسم نہیں۔ ان رشتوں میں کہیں جسم کا تصور نہیں آتا(ممکن ہے، بیوی کے رشتہ میں آپ اس جسم کو تلاش کرنے کی کوشش کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عورت سے بیوی بنتے ہی اُس میں شردھا اور تقدس کے پھول بھی کھل اٹھتے ہیں )۔ وہ تصور جو اچانک ’عورت‘ کہتے ہی، آپ کے آگے ایک خواب رنگوں والے اندر دھنش کی خوبصورتی بکھیر دیتی ہے۔ اس لئے عورت کے نام کے ساتھ ان پاکیزہ رشتوں کا تصور نہیں آتا۔ صرف ایک دل کو لبھانے والا جسم، یعنی ایک ایسا جھنجھنا کر بجنے والا جسم، جس کے صرف خیال سے آپ کسی ہوائی گھوڑے پر سوار ہو جاتے ہیں۔ شاید اسی لئے میری کہانیوں کی عورتیں محدود دائرے میں قید نہیں رہیں۔ وہ اپنی شناخت کے لئے کچھ بھی کر سکتی تھیں۔ یاد آیا، ایک کہانی تھی___ بارش میں ایک لڑکی___ زندگی میں وقوع پذیر ایک سچا واقعہ کو میں نے فکشن کا لباس پہنایا تھا۔ حقیقت میں عورتوں سے متعلق بڑی بڑی باتیں کرنے کے باوجود ہم وہیں ہوتے ہیں ___ اپنی تنگ نظری کا دھواں پیتے ہوئے۔

’’عورت‘‘___ ہزاروں برسوں کے اس سفر میں کہاں کھو گئی ہے عورت؟پہلے بھی کہیں تھی یا نہیں ؟ قدیم گرنتھوں میں دروپدی، کُنتی، سیتا، ساوتری، پاروتی، دمینتی، شکنتلا، میتری وغیرہ___عزت سے پکاری جانے والی، الفی کے آخر تک لکس کا عریاں اشتہار کیسے بن گئی؟ یا وہ اشتہار نہیں بنی۔ ’لرل‘ اور ’لکس‘ کے اشتہاروں سے آگے نکل کر اور بھی مورچے سنبھالے ہیں اس نے___ کہا جائے تو ایک پڑاؤ W.W.F.بھی ہے۔ آنے والے ملینیم میں کہاں ہو گئی یہ عورت؟

مجھے یاد نہیں، میں نے اپنی گفتگو میں کیا کیا جوڑا تھا۔ مگر___شاید! مجھے یاد کرنے دیجئے۔ ہمیشہ کی طرح میں الفاظ کی لہروں میں بہہ گیا تھا۔ میں نے بات عورت کی ’آئیڈینٹٹی‘‘ یا ’’آئیڈینٹی کرائسس‘ سے شروع کی تھی۔ میں بڑی بڑی فلسفیانہ قسم کی باتوں میں الجھنا نہیں چاہتا تھا، اس لئے میں نے ٹودی پوائنٹ مختصر میں اپنے نظرئیے لوگوں کے سامنے رکھے تھے۔ یعنی کیوں ہے عورت میں یہ ’آئیڈینٹی کرائسس‘__؟ پہلے باپ کا گھر، باپ کے نظرئیے پر سنبھل سنبھل کر پاؤں رکھنے والی بیٹی، یہاں سے باہر جب وہ پرائے گھر میں بھیج دی جاتی ہے، یعنی شوہر کا گھر۔ شوہر کے نظریئے۔ باپ اور شوہر کے الگ الگ نظرئیے کو ماننے پر مجبور عورت کی اپنی آئیڈینٹٹی کہاں باقی رہتی ہے؟ اگر ابھی وہ اپنی یعنی سیلف آئیڈینٹٹی کے لئے لڑنا چاہتی ہے تو__نہیں ! اُف، سماج میں انجنا مشرا جیسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ کیا غلطی پہلی بار وہاں نہیں ہوتی، جب وہ اپنے شوہر کا آدھا نام اوڑھ لیتی ہے۔ یعنی، اگر وہ سیما ورما ہے اور شادی کسی راجن شریواستو سے ہوتی ہے تو، وہ سیماورما سے اچانک سیما شریواستو ہو جاتی ہے۔ کیوں ؟ وہ صرف اپنی پہچان نہیں بدلتی، شاید انجانے میں بہت کچھ کھودیتی ہے۔ پھر کھونے اور بدلنے کا ایک لمبا سلسلہ مسلسل چل پڑتا ہے…

___بارش میں ایک لڑکی سے بات چیت

اسی کے بعد ٹکرائی تھی، وہ بارش والی لڑکی۔ کیا حقیقت میں مرد ایسا سوچتا ہے___ یا ایسی سوچ صرف باہری میز کی پیداوار ہے۔ آدرش اور ہیرو بن جانے کے لئے۔ وہ مرد کی زندگی میں سیندھ لگاتی ہے اور آخر اُس سچائی کا راز جان لیتی ہے۔

’وہ مسکرارہی تھی___مجھے کبھی بُرا نہیں لگا۔ میں جو سوچتی ہوں، وہ حقیقت میں نہیں ہوتا۔ ہم آخر تک تیار رہتے ہیں کسی بڑی آئیڈیالوجی کے دھماکے کے لئے۔ ‘

وہ کراس ورڈس سے کھیلتی ہے۔ کیونکہ وہ خود میں ایک کراس ورڈس تھی___ جہاں مناسب لفظ چننا آسان نہیں ہوتا۔ شاید اسی لئے کہانی کے آخر میں وہ اپنے آدرش مرد سے کہتی ہے___

’کیوں ___ ڈر گئے تم کہ میں تم پر ایک گولی برباد کر دوں گی… وہ فاؤنٹین پین لے کر پورے وجود کے ساتھ کراس ورڈس پر جھک گئی تھی۔ ‘

آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ لڑکیاں آپ کے گاؤں، قصبے یا شہر‘ محلے کی نہیں۔ کبھی خاموشی سے ان کو گفتگو کرتے ہوئے سنئے۔ یہ سب آپ کو طلسم ہوشربائی، بے حد پُراسرار دنیا کی پریاں ہی لگیں گی اور مجھے ہر بار، ان میں نئی نئی دنیائیں نظر آ جاتی ہوں، تو اس میں میرا کیا قصور۔

سچی آزادی کے لئے

’خدائے ستاّر

عصمتوں کو ہزار پردے میں رکھنے والے/

صفات میں تیری عدل بھی ہے/

تو پھر میرے اور میرے محرم کے بیچ

تفریق کا سبب کیا___؟‘

___عشرت آفریں

ادب تحریر کرنے والی عورتوں کے لئے ایسے سوال کوئی نئے نہیں ہیں۔ کہ اے خدا، اگر تو انصاف پسند ہے تو مرد اور عورت کے درمیان اتنا فرق کیوں ؟ اسی لئے آج کی عورت جب اڑان کے لئے اپنے پر کھولتی ہے تو کبھی کبھی ’جوناتھن سی گل‘ کی طرح اپنے دائرے کو توڑتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔ ہم اُسے تسلیمہ یا کسی بھی نام سے پکاریں لیکن آخر اسے ایسا کرنے کا حق بھی ہم نے ہی دیا ہے۔

میری ایک کہانی تھی ___ صدی کو الوداع کہتے ہوئے۔ ریا کے کردار کو گڑھتے ہوئے میں خاصی الجھن کا شکار تھا۔ چودہ برس کی ایک لڑکی۔ نئی الفی کی شروعات میں ابھی چند لمحوں کی دیر ہے اور ریا کو پتا چلتا ہے کہ___

’’کیا ریا کے بارے میں ایسا کہا جانا صحیح ہے؟ شاید نہیں (یہاں ایک تخلیق کار کی حیثیت سے میں اپنا اعتراض درج کرنا چاہوں گا)… ریا دادی نانی سے چپکی، طلسمی کہانیاں سننے والی ریا، نہیں ہے۔ یہ ریا آج میں جنمی ہے۔ ان تین کروڑ برسوں میں یا شاید جیسا اب ہے، کوئی ریا خرگوش جیسی نرم اور ہرنی کی طرح قلانچیں بھرنے والی نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

___صدی کو الوداع کہتے ہوئے

حقیقت میں ایک نئی تہذیب، سنامی لہروں کی طرح عورت کے ذہنی اعصاب پر سوار ہے۔ لیکن ہمیں فی الحال تبصرے کا اختیار نہیں۔ ہاں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کے اس ہتھیار کا استعمال کب، کہاں اور کیسے کرتی ہے۔ جیسے اسی کہانی میں ریا کی ماں نے، ریا کا مستقبل پہلے سے ہی سوچ رکھا تھا____

’’ریا ابھی بھی بچی جیسی نظر آتی ہے؟‘‘ رما کی آنکھوں کے کنول مر جھا گئے تھے۔

’’بچی ہے تو بچی جیسی ہے…‘‘ لیکن دیتیہ کار 12سالہ ریا کو دیکھتے ہوئے ڈر گئے تھے…

’’نہیں۔ ‘‘ ریا کے لہجے میں تیزی اور کڑواہٹ تھی… ’’میں یہی کہہ رہی ہوں کہ… اُسے بچی جیسی نہیں دکھنی چاہئے۔ ‘‘

’’لیکن کیوں ؟‘‘ دیتیہ کار کے لہجے میں ڈر کوند گیا۔

’’کیونکہ بچی لگنے میں اس کا نقصان ہے۔ اس کا کیریر، اُس کا مستقبل؟‘‘

دیتیہ کار کے اندر بیٹھے باپ نے مورچہ سنبھالا…’’بارہ سال کی عمر کے بچے پڑھتے ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں مستقبل کہاں سے آگیا۔

’’اس لئے کہ…‘‘ رما کے ہونٹ جکڑ گئے تھے۔ ’جو غلطی ہم سے ہوئی۔ ہمارے بچوں سے نہیں ہونی چاہئے… کیونکہ یہی عمر ہے اب…‘‘

دیتیہ کار ڈر گیا تھا۔

’’ڈرومت۔ میں جو کروں گی، ریا کی بھلائی کے لئے کروں گی۔ ‘‘

’’لیکن تم کرو گی کیا؟ کیا ریا کو جوان کر دو گی… اُس کے مستقبل کے نام پر…‘‘دیتیہ کار کو لگا تھا کہ رما کو اس طنز پر ہنسنا چاہئے۔ مگر رما سنجیدہ تھی۔

’’ہاں، میں اُسے جوان کر دوں گی۔

میں ریا کو ہارمونس کے انجکشن دلاؤں گی۔ ‘‘

____صدی کو الوداع کہتے ہوئے

یہ مت بھولئے کہ صدیوں کے ظلم اور مردوں کی غلامی سے نجات کے بعد، اپنی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی ایک نئی دنیا بھی بنا سکتی ہے۔ اس نئی دنیا کو تنگ نظری کی آنکھوں سے مت دیکھئے___ وہ اڑنا چاہتی ہے تو اِ اُڑان کے نتیجے میں کچھ ’حادثے‘ بھی ہوسکتے ہیں ___ مگر یہاں سب سے اہم بات یہی ہے کہ وہ اب اپنی اُڑان کے لئے مکمل طور پر آزاد ہے___ اسی لئے میں نے اپنی اس کہانی کے لئے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا جب پرانی ملینیم رخصت ہو رہی تھی اور نئی ملینیم کی ’عورت‘ بس سامنے آنے والی تھی۔ میرے لئے یہ کوئی چونکنے والی بات نہیں تھی، کہ صدیوں سے استحصال کا بوجھ اٹھاتی عورت اپنے وجود، اپنے جسم اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑتے ہوئے کہاں کہاں لہولہان یا شکست کی سامنا کر سکتی ہے یا پھر کہاں کہاں وہ مردوں کو شکست دے سکتی ہے۔

’’اس سلسلے میں کئی معمولی قسم کے چھوٹے چھوٹے حادثے ہوتے رہے… جیسے ’ماڈلنگ‘ کے لئے رما نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا… جیسے نیلامبر نے دھیرے دھیرے گھر آنا بند کر دیا… جیسے ریا خاموش رہنے لگی۔ لمبی گہری اداسی، جو کسی صدمے سے جنمی ہو یا جو ڈپریشن کے مریضوں کے لئے عام بات ہے…اس لمبی گہری اداسی کے پیچھے وہ لگاتار رما کی شکست دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ دنیا گول ہے لیکن یہ یقین نہیں تھا کہ رما عورت کی جون میں کبھی واپس بھی آسکتی ہے___ یا تو یہ مکمل شکست تھی یا پھر اُس حادثے کا وہ آخری صفحہ، جہاں نیند کی کئی گولیاں نگل کر ریا نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔ تو کیا چڑیا انڈا توڑ کر باہر نکل آئی تھی…؟

___صدی کو الوداع کہتے ہوئے

بالزاک نے کہا تھا ___شادی شدہ عورت غلام سے بھی بدتر ہے۔ میری کہانی ’باپ بیٹا‘ یوں تو باپ، بیٹے کی کہانی تھی، مگر کسی ’غلام‘ کی طرح افسردگی کی چادر اوڑھے ’ماں ‘ بھی اچانک ہی اس کہانی کا ایک کردار بن جاتی ہے۔ ایک جوان بیٹے کی موجودگی کے باوجود بھی باپ کی زندگی میں ایک لڑکی آ جاتی ہے۔ کچھ کچھ اس کے بیٹے کے عمر کی۔ بھاگتی دوڑتی مشینی زندگی میں اندر کے سناٹے کو کم کرنے کے لئے باپ اس لڑکی کی قربت پانا تو چاہتا ہے، مگر باپ کو اُس عورت کا بھی احساس ہے، جس نے برسوں اس کا ساتھ دیا ہے اور جو اس کے بیٹے کی ماں بھی ہے___ لیکن شاید بیوی کی افسردگی یا اندر کے خالی پن نے ایک چور لمحے اسے اُس لڑکی کے قریب کھڑا کر دیا___

’’باپ ان دنوں عجیب حالات سے دوچار تھا۔ باپ جانتا تھا کہ ان دنوں جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہو رہا ہے، اس کے پیچھے ایک لڑکی ہے۔ لڑکی جو پنکی کی عمر کی ہے۔ یہاں تک کہ باپ جیسا اسٹیٹس(Status) رکھنے والوں کے لئے اس طرح کی باتیں کوئی خبر نہیں بنتی ہیں، مگر باپ کی بات دوسری تھی۔ باپ اس معاشرے سے تھا، جہاں ایک بیوی اور ایک خوشگوار گھریلو زندگی کا ہی سکہ چلتا ہے۔ یعنی جہاں ہر بات کسی نہ کسی سطح پر خاندانی پن سے جڑ جاتی ہے۔ زندگی کے اس الجھے ہوئے لمحے سے گزرتے ہوئے باپ کو اس بات کا احساس ضرور تھا کہ وہ لڑکی یوں ہی نہیں چلی آئی تھی۔ دھیرے دھیرے ایک ویکیوم یا خالی پن اس میں ضرور سما گیا تھا جس کی خانہ پری کے لئے کسی چور دروازے سے وہ لڑکی، اس کے اندر داخل ہو کر اس کے ہوش وہواس پر چھا گئی تھی۔

___باپ اور بیٹا

باپ کی زندگی میں جوار بھاٹا آتا ہے، لیکن بیوی اس جوار بھاٹا کو نہیں پہچان پاتی۔ بیٹا اس سے پوچھتا ہے کہ اگر باپ کی زندگی میں کوئی دوسری عورت آ جائے تو؟

بالزاک کے لفظوں میں کہیں تو ایسی غلام عورتیں ’سوائے مستقبل کے اور کسی پر بھی یقین نہیں کرتیں ___ اس لئے میری یہ کہانی ماں کے اردگرد نہ گھوم کر بیٹے کی ماڈرن محبوبہ کے چاروں طرف گھومتی ہے، جسے باپ کے بدلے ہوئے نفسیات میں بھی کچھ بھی چونکنے جیسا نہیں لگتا___

ہاں، بیٹے کی محبوبہ کو دھکاّ اُس وقت لگتا ہے، جب وہ سنتی ہے کہ باپ کی زندگی سے وہ لڑکی دور جاچکی ہے۔ کیونکہ باپ کی موت کے بعد ماں کی زندگی میں آئے ہوئے مرد کے لئے، ماں کی بے رُخی وہ پہلے ہی دیکھ چکی تھی۔ وہ ماں کے فیصلے سے خوش نہیں تھی اور اب وہ ’بیٹے‘ کے باپ کے فیصلے پر اپنی ناراضگی کی مہر لگاتی ہے۔

’’باپ نارمل ہو چکا ہے۔ ‘‘

بیٹے نے اس کہانی کا کلائمکس لکھتے ہوئے کہا____

’’کیا؟‘‘ لڑکی چونک گئی تھی۔

’’ہاں، اُس میں توازن لوٹ آیا ہے، وہ برابر ہنستا ہے یعنی جتنا ہنسنا چاہئے وہ برابر برابر… یعنی اتنا ہی مسکراتا ہے، جتنا مسکرانا چاہئے اور کبھی کبھی کسی ضروری بات پر اتنا ہی سنجیدہ ہو جاتا ہے، جتنا…

’’یعنی وہ لڑکی اُس کی زندگی سے دور جاچکی ہے۔ ‘‘

’’یا اُسے باپ نے دور کر دیا۔ ‘’

___(باپ اور بیٹا)

’مرد‘ میری ایک مختلف کہانی ہے۔ ایک گھر ہے، جہاں ایک بوڑھی عورت ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ رہتی ہے۔ اس کے ٹھیک سامنے ایک گھر ہے جہاں کرائے دار آنے والے ہیں۔ بوڑھی عورت، بچی کو اسٹول پر چڑھا کر، کھڑکی سے سامنے والے گھر میں دیکھنے کو کہتی ہے۔ اُسے مردوں سے نفرت ہے۔ ایک دن بچی بتاتی ہے کہ سامنے گالے گھر میں مرد آ گئے ہیں۔ بوڑھی عورت کا تجسس ہر بار ایک نئی کہانی کو جنم دے جاتا ہے۔ دراصل مرد کے بہانے میں نے عورت جیسی پہیلی کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔

’’لوگ عورت کو پہیلیاں کہتے ہیں۔ لیکن… پہیلیاں تو مرد ہے… اس کے وجود کا کھردرا پن اپنے آپ میں ایک پہیلی ہے اور اس کھردرے پن میں جو نرمی ہے، وہ… عورت کہاں سے لائے…؟

____مرد

بوڑھی عورت کی زندگی میں آنے والا مرد مزاج سے جنگلی تھا۔ نفرت کرنے کے باوجود، سامنے والے گھر میں ہونے والی ہر ہلچل پر بوڑھی عورت کے ماضی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ہاں، پہلی بار اپنے بچوں کی موت پر اس نے مرد کو روتے ہوئے پایا تھا۔ وہ بھی اس طرح کہ کسی کو بھی خبر نہ ہو۔ لیکن عورت کی اپنی تلاش کا آسمان اتنا گھنا ہوتا ہے، کہ اُسے پہچان پانا آسان نہیں۔ تبھی تو یکایک تانیہ وہ منظر دیکھ کر چونک جاتی ہے۔

’’، تھالی لے کر واپس آتے ہوئے ایک عجیب سا منظر سامنے تھا۔ اماّں کسی طرح اسٹول پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئی تھیں اور گردن اُچکا اُچکا کر سامنے والے فلیٹ میں کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

____مرد

’بھنور میں ایلیس‘ میری ایک مختلف کہانی تھی۔ کینسرپیشنٹ ایلیس عام عورت ہو کر بھی اندر سے بے حد مضبوط اور صابر عورت ہے۔ اس بات کا احساس ہو جانے کے بعد کہ اُسے کینسر ہے، وہ جینا بند نہیں کرتی۔ بلکہ باقی بچے ہوئے وقت میں کئی زندگیوں کا ’امرت‘ پی جانا چاہتی ہے۔ شوہر اسے لے کر پریشان تو ہے، لیکن رات میں ’کامنی‘ بنی ایلیس کو دیکھ کراس کا شوہر تعجب میں پڑ جاتا ہے۔

’’بس اپنی موجودگی کا گواہ رہنے تک۔ ‘’ اس نے انگلیوں کا رقص پہلے کی طرح جاری رکھتے ہوئے کہا___آج تم وہی کرو گے جو میں چاہوں گی۔ اس کے بعد نہ میں چاہوں گی اور نہ اس کے لئے موجود رہوں گی___ ہاں تم ہو گے تمہاری دنیا ہو گی اور تم اپنی ضرورتوں کے لئے آسمان میں سیر کرتی چڑیوں کی طرح آزاد ہو گے چلو مجھے سیراب کرو…‘‘

پھر وہ کسی ناگن کی طرح لہرائی، سمندر کی طرح گرجی اور کسی سیلاب زدہ ندی کی طرح بہتی چلی گئی۔

____بھنور میں ایلیس

ایلیس چلی جاتی ہے۔ ہمیشہ کے لئے۔ لیکن ایسے جیسے بہار آتی ہے۔ خزاں آتی ہے اور دنیا چلتی رہتی ہے۔ ایسے بازار کے موسم میں کوئی بھی پہلے کی طرح اب اس خزاں یا بہاروں کا حساب نہیں لگانا چاہتا۔ میں دراصل عورت کے اس نئے چہرے کو دیکھنا چاہتا تھا۔ لمحہ لمحہ پاس آتی موت کے بعد بھی ایک نڈر اور بے باک عورت کی سچی تصویر میرے ذہن پر چھائی ہوئی تھی۔

’’میں دیکھنا چاہتی تھی… اس لئے اس کے بارے میں دسیوں طرح کے پُراسرار تصور آنکھوں میں سجائے تھے… میں جینے کی طرح جی اور مرنے کی طرح مر گئی۔ میں اپنے سانس سانس کو بٹور کر اس میں زندگی رکھ کر جینا چاہتی تھی…مرنے سے پہلے میں پیاسی نہیں رہنا چاہتی تھی…مجھے خوشی ہے میں پیاسی نہیں رہی۔ میں نے شاہانہ کو کبھی بے بس اور لاچار نہیں سمجھا… اس لئے کبھی اسے اُپدیش نہیں دیا___کسی کے چلے جانے سے کوئی بدنصیب نہیں ہو جاتا…(کاٹی ہوئی لائین)… زندگی جس کے پاس ہے…(پھر کٹی ہوئی)… اس میں اس کے ہونے کا احساس ہی اس نیاّ کو پار لگا سکتا ہے۔ (حرف موٹے ہو گئے ہیں ) ایک انجانے سفر پر نکلتے ہوئے اپنی خواہش کو زندہ رکھنا چاہتی ہوں میں یا یوں کہیں کہ میں چاہتی ہوں …۰کچھ سطور کاٹی ہوئی) پتہ نہیں انجانے سفر میں انسان کو کیسا لگتا ہو گا اور یہی چیز مجھے مطمئن کر رہی ہے۔ ‘‘

___بھنور میں ایلیس

’حیران مت ہو سنگی مترا‘ میں عورت کا ایک نیا روپ میرے سامنے تھا۔ ایک پیار کرنے والی بیوی، شوہر کے لئے نچھاور___ چھوٹے شہر سے میٹروپولیٹن شہر میں قدم رکھنے کے بعد سپنا کہیں ٹوٹتا ہے کیا___؟ سنگی مترا حیران ہوتی ہے___ جواب کے لئے مجھے دور نہیں جانا پڑا۔ وہی مردوں کے بارے میں جہاں اس کی اپنی آئیڈیالوجی ٹوٹتی یا نئی بنتی ہے___؟ کھینچی ہوئی لکیر کے برابر اچانک ایک ٹیڑھی، مُڑی ہوئی بڑی لکیر آ جاتی ہے اور سارے مردوں کے بارے میں یکایک نظرئیے کا دھماکہ ہوتا ہے۔

’’اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور اندرونی چنگاریوں کو ایک ایک کر کے نکالنا شروع کیا___’’میں پاگل ہو رہی ہوں جسدیو… جو پوچھتی ہوں اُس کا خیال مت کرنا۔ صحیح صحیح جواب دینا… دیکھو میری خاطر کچھ چھپانا نہیں۔ تم مردوں سے یقین اٹھتا جا رہا ہے میرا… پھر بھی یقین دلاتی ہوں میں … برا نہیں مانوں گی… عام زندگی میں تم کتنی عورتوں سے ملے ہو۔ اُن سے تمہارے رشتے کس حد تک رہے ہیں۔ تم بس میں سفر کرتے ہونا۔ بس میں لڑکیاں تم سے ٹکراتی ہوں گی۔ تم بھی ٹکراتے ہو گے۔ اُن کے اعضاء چھوتے ہوں گے۔ کبھی میرے سوا کسی اور کی مانگ نے جنم لیا ہے تمہارے اندر؟… جسدیو یقین کرو، میں ہرگز برا نہیں مانوں گی… کبھی کسی کو دیکھ کر سوئی ہوئی بھوک لہرائی ہو۔ رات دن لڑکیوں سے سامنا ہوتا رہتا ہے تمہارا___

بولو جسدیو سچ تو یہ ہے کہ ساری ترقی پسندی ایک طرف۔ مردوں کے لئے ہم صرف گوشت کی بوٹیاں ہیں ___ مجھے بوٹیاں نہیں بننا جسدیو۔ میں مردوں میں تمیز نہیں کر پا  رہی… اصول اور آدرش کی سبھی کتابیں مجھے جھوٹی لگ رہی ہیں اور اس کے لکھنے والے بھی۔ ‘‘

___حیران مت ہو سنگی مترا

سچائی یہ ہے کہ عورت ہر بار ایک نئے روپ میں آ کر آپ کو چونکا دیتی ہے۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس کی پسند اور ناپسند کی سطح کیسی ہوسکتی ہے۔ ’تم میرے جیسے ہو جمّی، کی کہانی ایک پیار کرنے والے جوڑے اور ان کے بیٹے جمّی کے اردو گرد گھومتی ہے۔ جمّی باپ کی فوٹوکاپی ہے۔ بیوی کو اچھا لگتا ہے۔ اسے چڑاتی بھی ہے کہ اس میں میرا کوئی ’حصہ‘ نہیں۔ لیکن پیار کرنے والے شوہر کی موت ہو جانے کے بعد وہ اپنے جمّی میں اپنا عکس تلاش کرنے لگ جاتی ہے اور ایک دن اس تلاش میں اسے کامیابی بھی مل جاتی ہے۔

’’جمّی اچانک چونک کر، گھبرا کر اس کی طرف دیکھ رہا ہے___جیسے اس سے اس کی گھبراہٹ کی وجہ پوچھ رہا ہو۔ مگر وہ یکایک جیسے سب کچھ بھول گئی ہے… اور ایک ٹک جمّی کو دیکھے جا رہی ہے… جمّی کو… اس کی آنکھیں … اس کے ہونٹ…اس کی آنکھوں میں حیرانی ہے… اس نے جمی کا ہاتھ تھام لیا ہے… وہ ابھی بھی غور سے دیکھے جا رہی ہے…

جمّی میں اچانک وہ کیسے اتر آئی… وہ کیسے داخل ہو گئی؟ اُس کی آنکھیں … اس کے ہونٹ…

’’کیا بات ہے جمّی؟‘‘

’’نہیں۔ وہ بس دھیرے سے کھلکھلا دی۔ ‘‘

____تم میرے جیسے ہو جمّی

یہ کہانی لکھتے ہوئے میں کشمکش کا شکار تھا۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ شوہر کی موت کے بعد تو ہونا یہ چاہئے، کہ بیوی اپنے بیٹے میں اسی کا عکس دیکھے اور ماضی کی سرسبز گھاس پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لے۔ یہ کم از کم ہندستانی عورت ایسے باغیانہ خیالات نہیں رکھ سکتی ہے۔ لیکن نہیں۔ اب تک میں نے یہی پایا، محبت کی تعریف بالکل الگ ہے۔ عورت اپنی تخلیق میں اپنا ’شیئر‘ یا اپنا عکس دیکھنا چاہتی ہے۔

وقت بدل چکا ہے اور اس بدلے ہوئے وقت میں اپنی برسوں برس پرانی غلامی کی گرد جھاڑتے ہوئے ’وہ‘ اپنی ’سیلف آئیڈنٹٹی‘ کی تلاش میں نکل چکی ہے۔ یہ بغاوت جذبوں کی سطح پر بھی ہے لیکن یہاں یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ پختہ یا مضبوط ہو چکی ہے۔ شاید اس لئے کچھ باتوں کو چھوڑ دیں تو، وہ اپنی اڑان کے لئے سچ مچ آزاد ہو چکی ہے۔

کیا سچ مچ وقت بدل گیا؟ ایک صدی گزر گئی۔ ایک ملینیم ختم ہو گیا___نئی صدی اور نئے ماحول میں رشتوں کی تعریف بدلی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں، میری یہ کہانیاں نئے رشتے، نئی Sensibility کی کہانیاں ہیں۔ ان رشتوں کو میں کوئی نام دینا نہیں چاہتا۔ مگر وقت تیزی سے بدلا ہے اور تیزی سے بدلتے وقت نے سب سے زیادہ اثر انسانی رشتوں پر ڈالا ہے۔ نئے چینلس کے حملے، بدلتے ہوئے انٹرنیٹ کے ماحول میں آنکھیں کھولنے والے بچے____دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل ہو چکی ہے۔

میں سوچتا ہوں، یہ رشتے کھو گئے، تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ انسانی رشتوں کی Values کی نئی تعریفیں بھی تلاش کرنی ہیں۔ ایک طرف باپ بیٹی کے، عصمت دری کے واقعات بڑھے ہیں، تو ایک دلچسپ سروے یہ بھی کہتا نظر آتا ہے کہ بیٹی کے لئے باپ زیادہ سمجھدار اور Loyalثابت ہو رہا ہے۔ آج کی بیٹیاں ماں کی جگہ باپ کو اپنا دوست سمجھنے لگی ہے اور اپنے ہر طرح کے معاملے بس اسی سے شیئر کرتی ہے۔

ایک زمانے میں بہو اور ساس کی لڑائیاں چلتی تھیں۔ ’انڈیا ٹوڈے ‘نے ایک سروے کیا تو دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ زیادہ ترساس اپنی بہوؤں سے زیادہ خوش ہیں۔ کیونکہ بہوئیں نہ صرف ان کے پاس رہتی ہیں بلکہ انہیں سمجھتی بھی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ میں نے صرف بڑے شہروں کی ہی کہانیاں لکھیں۔ ایک کہانی تھی ’بچھو گھاٹی‘____ محبوبہ جب بیو بن جاتی ہے تو؟ کیا ہوا اپنا رخ بدل لیتی ہے؟ محبوبہ، بعد میں شوہر کوسنگھرش کے راستے پر چلنے کے لئے کہہ کر خود مضبوطی کی ایک ڈور بن جاتی ہے۔ محبوب کہیں ہارتا ہے۔ شوہر کہیں ٹوٹتا ہے____ مگر وہ شوہر یا محبوب میں ایک جھکا ہوا ’قدیم انسان‘ نہیں دیکھ سکتی۔ میری کہانیوں میں مرد سمجھوتہ کرنے والے تو ہو سکتے ہیں، لیکن میں عورت جیسی شے کو کسی کمزوری یا سمجھوتہ کے دائرے میں نہیں دیکھ سکتا۔ اس لئے اپنے تخلیق کار شوہر کے آگے بیوی کسی ڈھال کی طرح، تن کر سامنے آ جاتی ہے۔

’’ہاں یہ بہت کم ہے۔ شاید تمہاری تخلیق کا مقصد بھی نہیں۔ کم سے کم یہ میرے نزدیک کوئی مقصد نہیں ہوسکتا۔ مقصد اتنا کھوکھلا___اتنا دھندلا___ جیسے پانی کی سطح پر تیرتا ہوا تیل اور تمہارے پاس آگ جلانے کے لئے صرف ایک بجھی ہوئی تیلی ہے۔  یہ دیپیکا تھی۔ اس وقت کی دیپیکا، جب ہم کالج میں تھے اور دیپیکا میرے ساتھ پڑھنے والی لڑکی۔

’’ہر جگہ میں تمہارے خیالات سے متفق نہیں پتہ نہیں ___ کیوں لگتا ہے جب تمہارے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہ جاتا ہے۔ تب اچانک تم سوئے ہوئے طبقے کے کسی آدمی سے پتھر چلا دیتے ہو اور کہانی ختم ہو جاتی ہے___

___بچھو گھاٹی

عورت کسی ٹھہری ہوئی ندی کی طرح شانت اور مرد سے زیادہ سمجھدارہوتی ہے۔ مرد، عورت سے کہیں زیادہ جذباتی اور اخلاقی طور پر جنگلی ہوتا ہے۔ ممکن ہے، یہ جنگلی پن آپ عورتوں میں بھی تلاش کر لیں۔ یہ بحث نہیں ہے، لیکن ایسی عورتوں کے لئے ان کا ’مردانا سماج‘ زیادہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے بچھو گھاٹی لکھتے وقت میں نے ایک سلجھی ہوئی عورت کو دیکھا تھا۔ جو ٹوٹتی نہیں۔ بکھرتی نہیں۔ مسائل تو آتی جاتی لہریں ہیں۔ وہ خوفزدہ نہیں ہوتی اور ان سب سے اس کی اپنی آئیڈیالوجی بھی متاثر نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ شوہر کو بھی اپنے اسی روپ سے جذباتی کر دیتی ہے۔

’’لفظ چباتے ہوئے کسی فیصلہ کن موڑ پر آ کر ٹھہرا ہوں … اور صرف ٹھہرا ہی نہیں بلکہ مسکرابھی دیا ہوں۔ کچھ سوچ کر___ ایک پرانی بات یاد آ گئی۔ دیپیکا… سنوگی___ یاد ہے ایک بار تم نے ہی کہا تھا… سپنے برے بھی تو ہوتے ہیں … یاد آیا؟ تم نے ہی کہ تھا کہ اس بار بار کی دھلی ہوئی ساڑی میں بھی… وہ مسکرا رہی ہے… اور اپنا آشوتوش بھی مٹّی کے آنگن میں سونے کے پلنے جیسا ہی کھیلتا ہے… ہاں تمہارے سوچنے میں ہی کہیں غلطی ہو گئی۔ اب لگتا ہے تم نے ٹھیک ٹھیک پہچانا تھا… سنگھرش کا عمر کے کسی پڑاؤ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا… اور ان سے لڑنے والا کبھی بوڑھا ہو ہی نہیں سکتا… اور ان سے لڑتے رہنے کا یہ احساس ہی وہ خوبصورت سا خواب ہوتا ہے دیپیکا___ جو ہم نے دیکھے تھے اور جو…‘‘

___بچھو گھاٹی

’مرگ نینی نے کہا کی عورت جب اندر جھانکتی ہے تو خود کو ایک تنگ دائرے میں قید محسوس کرتی ہے۔ پیدا ہوئی تو باپ کا سنسار۔ شادی کے بعد شوہر کا۔ تو پھر مرگ نینی کا سنسار کون؟ دراصل عورت کے روپ کو بٹا ہوا رکھنے میں سماج نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور المیہ ہے کہ کچھ گھریلو قسم کی عوروں نے اسے قبول بھی کر لیا ہے لیکن جس دن وہ اپنے خیال ظاہر کرنے کے لئے آمادہ ہوں گی، اس دن اُن کے صبر کے باندھ ٹوٹیں گے اور نئی عورت کا جنم ہو گا۔

’’مرگ نینی کو لگتا ہے پاپا اور ان کے تعلقات کے درمیان کہیں دراڑ پڑ گئی ہے۔

ایک سنجیدہ خیال میں ڈوب گئی ہے مرگ نینی۔ رات جیسے جیسے سرکتی رہی، مرگ نینی گہری اداسی میں ڈوبتی چلی گئی۔ اندر صدیوں سے خاموش بیٹھے ناگ نے جیسے اسے ڈسنا شروع کر دیا… تم کہاں ہو مرگ نینی… اس پورے منظر نامے میں تم کہاں ہو؟… شاید کہیں نہیں …کیا اوقات ہے تمہاری… کیا حیثیت…؟ تمہاری اپنی شخصیت کیا ہے…؟ یا بالکل ہی نہیں …؟ تم صرف دوسروں پر منحصر رہی… یا جیتی رہی… شادی سے پہلے پاپا کے مذہبی خیالوں والے کٹگھرے میں … اور شادی کے بعد شوہر کی آزاد خیالی کے آسمان میں … لیکن یہ تو دوسروں کے وجود کا حصہ تھا… تم خود کہاں رہی مرگ نینی؟ اگر نہیں رہی تو کیوں نہیں رہی…؟‘‘

___’مرگ نینی نے کہا‘

مرگ نینی کے لئے صرف اپنی شناخت کافی نہیں تھی۔ اس شناخت کے آئینے میں وہ اپنے شوہر کو بھی دیکھتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کی نہ صرف عزت کرتی ہے، بلکہ چاہتی ہے، یہی عزت سب جگہ ملے اور جب اپنے خاندان میں وہ شوہر کی شان میں کمی پاتی ہے تو ناگن سی دہاڑ اٹھتی ہے۔

’’مرگ نینی کو احساس ہوا، اوناش کا لہجہ پوری طرح اُبھر نہیں سکا ہے اور دن کو رات کہنے والی بے معنی جرح سے کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا۔ اسے لگا، وہ ڈائننگ ٹیبل کسٹمس بندھی نہیں رہ سکتی۔ رشتے صرف خون کے تو نہیں ہوتے۔ آخر عبدل بھائی بھی تو ہیں۔ کیا لگتے ہیں وہ کیوں اتنی محبت دے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ اوناش کا سر، ماحول کے بوجھ کے نیچے دب جاتا، اندر سے اندر تھوڑا تھوڑا کر کے جمع ہو رہے زہر کو، ایک دم سے سمیٹ کر مرگ نینی چیخ پڑی۔ ’’آخر میں کہیں ہو کہ نہیں پاپا۔ اگر ہوں تو مجھے اپنی بات کہنے کا پورا حق ہونا چاہئے۔ کل میں نہیں تھی۔ کل کیا، کبھی آج سے پہلے نہیں تھی۔ اس لئے کہ پیدا ہوئی تو آپ تھے اور آپ کے خیال تھے۔ ہمارے تو صرف پاؤں تھے، آپ جیسے چاہتے ہمیں چلایا کرتے۔ ہمیں آپ کی کسی بات کو ردّ کرنے کا حق نہیں تھا۔ غلط اگر غلط ہے تو اس کے لئے کسی منطق کی ضرورت نہیں۔ اتنا مان لینا کافی ہے کہ یہ غلط ہے۔ اگر ایک مکان جل رہا ہے تو یہ پوچھنا بے معنی ہے کہ یہ کیوں جل رہا ہے۔ سب سے پہلا کام آگ بجھانا ہے۔ جب دو خیالات میں زمین اور آسمان کا فرق ہو اور یہ احساس بھی ہو کہ اُنہیں ملانے کی کارروائی بیکار ہے تو…؟ ایسے رشتے ٹھہریں گے تو نہیں نا… پھر ان رشتوں کو ڈھویا جانا کیا ضروری ہے۔ اس لئے میں ابھی سے یہ رشتہ توڑ رہی ہوں۔ ‘‘

___مرگ نینی نے کہا

چار سال پہلے، شاید 2001 میں، میں نے ایک کہانی لکھی۔ ’بیٹی‘ بیٹی میرے لئے کسی خواب کی طرح تھی___ ’بیٹی‘___ مجھ میں سے نکلا ہوا ایک نازک عکس۔ میری بٹیا دو برس تین ماہ بعد ہی اس دنیا کو چھوڑ کر رخصت ہو گئی۔ ’بیٹی‘ لکھتے ہوئے عورت کے نفسیات کے کتنے ہی پہلو نظروں میں سما گئے۔ اسی کے فوراً بعد اپنی بیٹی کو بڑا ہوتے دیکھنے کی آرزو میں ایک اور کہانی لکھ ڈالی۔ فزکس، کیمسٹری، الجبرا… یہ کہانی میرے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں تھی۔ بیٹی میں لڑکی یا عورت ڈھونڈنا باپ کے لئے چیلنج سے بڑھ کر ہوتا ہے مگر میں اس میں ایک عورت تلاش کرتے ہوئے باپ کو پاکیزہ خیالات کی بلندی پر دیکھنا چاہتا تھا۔ شاید اسی لئے میں نے اس کہانی کو لکھا نہیں، جیا ہے۔

’’بیٹی میں لڑکی کا جسم۔ میں نے بہت معمولی بات کہی ہے۔ مسز ڈھلن۔ یہ لڑکیاں کیوں آ جاتی ہیں۔ بیٹی میں … لڑکیاں۔ پرائی لڑکیاں۔ پرائی لڑکیوں کے جسم پر، مدھو مکھی کے چھتوں کی طرح، گرتی ہوئی پرائی آنکھیں … یہ بیٹیاں بس بیٹیاں کیوں نہیں رہتیں … بغیر جسم والی… نہیں، سنو مسز ڈھلن! قصور آپ کا نہیں ___یقیناً آپ میری بات نہیں سمجھ سکتیں …لیکن بیٹیوں میں یہ لڑکیوں والا جسم نہیں آنا چاہئے… ہے، نا؟‘‘            ____فزکس، کیمسٹری، الجبرا

باپ کے لئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے بکھرے کپڑوں میں ’انڈرگارمنٹس‘ دیکھ کر لرز کیوں جاتا ہوتا ہے۔ کہانی میں نیا موڑ اُس وقت آتا ہے جب پریشان باپ اپنی بیٹی کے کمرے میں پہنچتا ہے___ اور اُس کی گرد آلود میز کو دیکھتا ہے___ میز پر روشنائی بکھری ہے۔ کتابیں پھیلی ہوئیں ہیں ___ وہ آہستہ سے ایک ایک کتاب اٹھا کر دیکھتا ہے۔  فزکس، کیمسٹری، الجبرا… انہیں چھوتے، رکھتے، سجاتے ہوئے دراصل باپ نئے احساس والے کپڑے پہن لیتا ہے___ باپ کتابیں سجا سکتا ہے۔ بیٹی کے اندرگارمنٹس دیکھ کر ڈرتا کیوں ہے؟ نفسیات کی اس بھیانک سطح پر میں جسم، روح اور رشتے کا توازن دیکھنے کا خواہشمند تھا۔ شاید اسی لئے ایک ہندستانی سماج میں اپنی تنگ ذہنیت کی وجہ سے زیادہ تر باپ مجھے کسی نفسیاتی مریض سے کم نہیں لگتے۔ اِسی لئے میں نے کہانی میں ایک خوفناک منظر کو جنم دیا تھا۔

’’مڈشاٹ___کلوز میں، میں ہوں۔ میں نے ہاتھ بڑھا دیا ہے اور یہ کیا___میرے ہاتھوں سے سانپ کے پھن غائب ہو گئے ہیں … کلوز میں میرا ہستا ہوا چہرہ… ڈیزولو…انجلی کپڑے بدل کر کمرے میں آ جاتی ہے… سجی ہوئی میز کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکراتی ہے… I am proud of you, my papa تم نے میری میز صاف کر دی۔

’کیوں ؟‘ اس میں پراؤڈ کی بات کیا ہے؟‘

’ہے کیسے نہیں ؟‘

’کیسے___؟‘

’میری سہیلیوں کے پاپا ایسا نہیں کر سکتے۔ ‘

___فزکس، کیمسٹری، الجبرا

’انکیوبیٹر‘ کی عورت ایک بھٹکتی ہوئی روح ہے۔ جسے باپ کی بدنصیبی نے ایسے مرد سے باندھ دیا، جس کے پہلے سے ہی دو بچے تھے۔ سنگیت اور آرٹس میں بے حد شوق رکھنے والی ترپتی کو ایک ایسا مرد ملا تھا، جو محکمہ آثار قدیمہ میں تھا۔ شاید اسی لئے وہ ترپتی کو بھی اپنے ’دماغ‘ کے آثار قدیمہ کا مرکز میں دیکھنے کا خواہشمند تھا۔ لیکن تیزی سے بدلتے واقعات میں ایک دن ترپتی ایک انکیوبیٹر میں ایسے بچے کو دیکھ لیتی ہے، جو ابھی بنا نہیں، لیکن بننے جا رہا ہے___ ترپتی یکایک ہی نئی الجھنوں کا شکار ہوتی ہے۔

’’ماں کے پیٹ یعنی Womb… جہاں نو مہینہ تک بچے کے روپ میں ایک مرد سڑتا ہے___ پتہ ہے۔ میرے شوہر تک جب اس نمائش کی بات پہنچی تو وہ پانچ مہینے تک مجھ سے غصّہ رہے تھے۔ بات چیت کمپلیٹلی بند۔ آپ دکھانا ہی چاہتے ہیں تو وہ جگہ کیوں نہیں دکھاتے جہاں سے تخلیق، یعنی ایک عورت Creatorبنتی ہے۔ تخلیق کرنے والی۔ مرد کو جننے والی۔ اب یہاں دیکھئے نا…‘‘

___انکیوبیٹر

اُسے لگتا ہے، نئی تہذیب فیوژن کی دین ہے۔ جہاں کچھ بھی اوریجنل باقی نہیں ہے۔ وہ بھی ایک تصنّع کے ساتھ جی رہی تھی۔ ان تمام ہیبت ناک حالات کے باوجود مجھے ترپتی کو مغموم دکھانے کی خواہش بالکل نہیں تھی۔ اس لئے کہ میں عورت کو دکھی اور مظلوم دیکھ ہی نہیں سکتا۔

’’بہلانے آئی تھی خود کو۔ مگر بور… انڈین اوشن کے اس بینڈ کو دیکھا تم نے…، اس کے لہجے میں کڑواہٹ تھی… فن مر گیا ہے۔ ہم دو تہذیبوں کو ملا دینا چاہتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ ایک جھوٹا تماشا۔ تمہیں لکھنا چاہئے۔ ہندستانی سروں کا یہ کیسا میل ہے۔ جاز، ریگے، راک، پاپ اور ہندستانی تہذیب کا بریک فاسٹ ملا دیا۔ مکسچر تیار۔ کلچرل موٹف کو نئے ماڈرن ڈھانچہ میں ڈھال دیا اور نیو جنریشن کے سامنے پروس دیا۔ یہی ’فیوژن‘ ہے… سکڑتی سمٹتی دنیا کو، پاگل بنا دینے والی میوزک کمپنیوں کا دیا ہوا غیر ملکی تحفہ___‘‘         ___انکیوبیٹر

انکیوبیٹر مجھے عورت پر لکھی جانے والی، زندگی کی چند بہترین کہانیوں میں سے ایک لگتی ہے۔ کیونکہ اس کہانی میں، میں نے عورت کے اندر کی خوبصورت کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ آرٹس کی خوبصورتی، جو کہ حقیقت میں عورت کے اندر ہے۔ اس میں سنگیت ہے کیونکہ  عورت ایک ’مدھر سنگیت‘ کی طرح ہے۔ اس میں مقناطیسی لہریں ہیں، سمندر سی طاقت کا احساس ہے۔ دکھ کے بھنور بھی ہیں۔ لیکن آخر تک اُسے انکیوبیٹر سے باہر ہی دیکھنا چاہتا ہوں۔ اپنے آرٹ اور سنگیت کی دنیا میں۔

’’ہے نا… میں نے کہا تھا۔ وہ بن رہی ہے___‘میں نے ترپتی کا ہاتھ زور سے تھام لیا… یاد ہے ترپتی۔ میں نے کہا تھا، عورت ہر بار بننے کے عمل میں ہوتی ہے___ ایک بے چین روح… ایک یونانی ’دنت کتھا‘ میں پڑھا تھا___عورت کی جون میں داخل ہونے سے پہلے، روح دھرتی کی سوپریکرمائیں پوری کرتی ہے۔ کبھی آرٹ اور کبھی…‘

ترپتی میری طرف تیزی سے مڑی۔ ہنستے ہوئے بولی…

’سنو۔ اس انکیوبیٹر میں مینن کو ڈال دوں ؟‘

’نہیں۔ ‘

میرا لہجہ نپا تلا تھا… سب سے پہلے ابھی تمہیں اس انکیوبیٹر سے باہر نکلنا ہے۔ ‘‘                 ___انکیوبیٹر

’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، لکھتے ہوئے بھی میں انکیوبیٹر یا آرٹ کی خوبصورتی سے باہر نہیں نکل پایا۔ ایک جگمگاتی ہوئی، طلسمی عورت میرے وجود پر حاوی تھی۔ جو ہواؤں میں رقص کرتی تھی… جس کے زلف لہراتے تھے۔ جو ’پری لوک‘ کی اپسرا کی طرح تھی۔ بے حد عام عورت کا کوئی تصور دراصل میرے لئے ہے ہی نہیں۔ میں تو اُسے آرٹ اور سنگیت کے درپن میں دیکھتا آیا تھا۔ اسی لئے لینڈ اسکیپ میں، میں نے عورت کا ایک نیا کردار گڑھا___ طاقتور، ماڈرن اور مردوں کی بنا قید سے الگ آزاد___

’’کمرے میں ٹپ ٹپ بارش رک چکی تھی۔

’’برسوں پہلے موہن جوداڑو کی کھدائی سے___تمہیں یاد ہے… سفید چادر میں اس کے ہلتے پاؤں نے میرے ننگے پاؤں پر اپنا مسلسل بوجھ ڈال دیا تھا___تمہیں یاد ہے حسین وہ آرکائیو والوں کے لئے ایک انوکھی، قیمتی اور مہنگی چیز تھی۔ مجھے یاد کرنے دو… ایک عظیم بھینسا، راکچھس جیسا… اور بڑی بڑی سینگیں … لیکن چھوٹا سر… دو نکیلی سینگیں آسمان سے باتیں کر رہی تھی… میں نے یہ تصویر کسی امریکن میگزین میں دیکھی تھی… لیکن، مجھے یاد رہ گئی۔ پتہ ہے، وہ عظیم بھینسا کون تھا، وہ تم تھے حسین!

وہ اچھلی… سفید چادر اس کے اجلے نرم ملائم بدن سے پھسل کر اس کی جانگھوں تک چلی گئی تھی___’’تم اس وقت بھی تھے۔ موہن جوداڑو کی تہذیب میں ایک عظیم بھینسے کی صورت میں۔ لیکن اس وقت میں کہاں تھی حسین…؟‘‘وہ تار کول کی طرح میرے بدن پر پھسل رہی تھی… ’’میں بن رہی تھی شاید… ہر بار بننے کے عمل میں تھی۔ کئی صدی قبل یونان میں … کبھی ’پارتھانیان‘ کے آدھے گھوڑے، آدھے انسانی مجسمے کی صورت… کبھی وینس اور ’اپالو‘ کی پینٹنگ میں …کبھی لیونازڈوی ونپچی کی مونالزا اور جن آف راکس، دی میڈونا اینڈ چائلڈ اور باچنیوز میں … اور کبھی رافل، رمبراں اور جان اور میر کی تصویروں میں …‘‘

___لینڈ اسکیپ کے گھوڑے

لیکن یہ مت بھولئے کہ عورت انتہائی ’پُراسرار‘ شئے ہے۔ دنیا کے تمام جادوئی کرشمہ سے زیادہ پُراسرار___ اور یہ ’راز‘ اس وقت زیادہ گہرا ہو جاتا ہے، جب عورت پیار میں ڈوبی ہو۔ سنسار میں آج تک عورت کے پریم کا سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ وہ سدا سے ایک ناسمجھنے والی پہیلی کی طرح رہی ہے۔ شاید اسی لے اس کے نام سے اناّ کارنینا، مادام بواری اور کبھی لولیتا جیسے کردار اسی تلاش یا اسے سمجھنے کی کوشش میں جنم لیتے رہے ہیں۔ لینڈ اسکیپ کے گھوڑے کا انجام میرے لئے کافی مشکل تھا۔  20برس بعد، دنیا دل چکی ہے۔ پریمی، اپنی پریمیکا سے ملنے آتا ہے___

’’دروازہ کھولنے والی وہی تھی… وہ ذرا سی بجھ گئی تھی___ لیکن 20-22 برس کے فاصلے کو بہت زیادہ اس میں محسوس کیا جا سکتا تھا… اس نے ’ول پال‘ کی پینٹنگ کی طرح بہتے ہوئے پانی اور بہتی ہوئی ہوا کو ہاتھ کے اشارے سے، آدھے میں ہی روک رکھا تھا___مجھے دیکھ کر اُسے ذرا بھی تعجب نہیں تھا___ یہ سب کچھ ایسا تھا جیسے میں اپنے ہی گھر میں، صبح آفس سے گیا گیا شام کو واپس گھر لوٹ آیا تھا۔ ہاں، اُس کی آنکھیں تھکی تھکی تھیں۔ لیکن ان آنکھوں میں اس نے ایک لمبا انتظار رکھ دیا تھا___تو اس نے دروازہ کھولا۔ میری طرف دیکھا اور میرا، آخری ملاقات میں بولا گیا، میرا ہی جملہ میرے سامنے رکھ دیا…’’آواگون کو مانتی ہوں۔ ہم پہلے بھی ملے تھے اور ہم پھر مل رہے ہیں۔ ‘‘

___لینڈ اسکیپ کے گھوڑے

’فریج میں عورت‘ میری اپنی کہانیوں میں مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔ کسی عورت کا محض تصور آپ میں ایک نئی اُمنگ جگا سکتا ہے۔ عورت ہر بار آپ کے خیالوں پر کسی خوشبو سی مہکتی ہوئی پھیل جاتی ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور ادھورا ہے۔ نربھے چودھری کی زندگی میں تھا ہی کیا؟ بہار سے دلّی آتے ہوئے سارے سپنے خزاں میں بدل چکے تھے۔ کام کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے دوردرشن کے لئے پروگرام بنانے والے ایک پروڈیوسر کا سہارا تو ملتا ہے۔ لیکن پیسہ وہاں بھی نہیں ملتا۔ ہاں، ایک دن پروڈیوسر کی کوٹھی پر رکھا ہوا پرانا ’فریج‘ علاء الدین کے بوتل کی طرح نربھے کے گھر آ جاتا ہے۔ رات تھکا ہارا نربھے گھر آتا ہے تو تالا کھولنے، اپنے کمرے میں داخل ہونے تک وہ سن سے رہ جاتا ہے۔

’’وہاں روشنی تھی۔ روشنی کے دائرے میں ایک بلا کی قیامت کھڑی تھی___ قیامت کے بدن پر کپڑے بھی قیامت کے تھے۔ چہرہ ایسا کہ خوبصورتی نے اپنی حدوں کو چھو لیا ہے… بس اس سے زیادہ نہیں … بدن کے نقوش اتنے تیکھے کہ دنیا کی ساری حسین عورتوں کے بدن بھی شرما جائیں ___ کپڑے اتنے باریک کہ شاہی مخمل و کم خواب کہ خزانے بھی ماند پڑ جائیں۔

اپنے نربھے چودھری کافی ہکلا رہے تھے۔

___’کہاں … کہاں سے آئی ہو؟‘

’وہاں۔ فریج سے!‘

___’فریج سے؟‘

___’ہاں …‘

___’کیوں …؟‘

’کیوں !‘___عورت کے ہونٹوں پر بلا خیز مسکراہٹ تھی… ’بوتل سے جن آسکتا ہے۔ فریج سے عورت نہیں آسکتی!

___’لیکن کیوں آئی ہو؟‘

جواب میں عجیب سنی بے تکلفی شامل تھی۔

___’تمہارے لئے۔ ‘

___فریج میں عورت

میں نے پہلے بھی کہا ہے۔ عورت میرے لئے پہیلی ہے۔ دنیا کی سب سے خوبصورت فنتاسی۔ اسی لئے عورت کے بغیر، میرا ماننا ہے کوئی کہانی لکھی ہی نہیں جا سکتی۔ عورت ایک ایسی فنتاسی ہے، جس کے راز کو بار بار کھولتے ادھیڑتے ہوئے مجھے تخلیقی سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔ نربھے کی زندگی میں، فریج سے آنے والی عورت ایک نئی فنتاسی کو لے کر آتی ہے۔ وہ اس کا کمرہ سجاتی ہے۔ دیواروں پر رنگ برنگی پینٹنگس لگاتی ہے۔ عورت ایک قیمتی کوہ نور ہیرے کی طرح ہے۔ جو اپنی حفاظت کی گارنٹی مانگتی ہے۔

’’اس لئے کہ عورت خواب دیکھ رہی ہے… جانتے ہو… ناریوفو نے یہ غیر معمولی پینٹنگ کب بنائی تھی؟ 1942کے آس پاس۔ جب تم دنیا کو دوسرے عالمی جنگ میں جھونک چکے تھے۔ کیا نہیں …؟ یاد آیا اور خود تم لوگ کیا تھے… آزادی مانگ رہے تھے۔ بھکاریوں کی طرح… مٹھی بھر لوگ جو تمہارے گھر پر قبضہ کر چکے تھے۔ تم اُن سے چلے جانے کی مانگ کر رہے تھے… ہے نا، وہ بھی بھکاریوں کی طرح…ایسے ہی ہو تم… اُس نے ٹھنڈا سانس بھرا… ایک پُراسرار مہذب شہر کی تعمیر کرنے والے اور جھوٹی جذباتیت کا استقبال کرنے والے… ہے نا… وہ کہتے کہتے پھر ہنسی…

’’لیکن یہ سب تم…؟‘‘

’’تمہارے لئے لائی ہوں۔ گھبراؤ مت۔ چوری نہیں کر سکتی… بازار سے لائی ہوں ؟‘‘

…’’تم بازار گئی تھی؟‘‘

…’ہاں، کیوں ؟‘

…’نہیں میں سمجھ رہا تھا…‘

…’تم زیادہ سمجھنے کی کوشش مت کیا کرو… سنو مجھے اس طرح گندے میں رہنا پسند نہیں ہے… سنا تم نے۔ اس لئے میں صفائی کی… عطر کا چھڑکاؤ کیا… دیواروں پر پینٹنگ لگائی۔ پھر تمہارے آنے کی راہ تکنے لگی اور تم آ گئے…‘‘

___فریج میں عورت

لیکن فریج میں عورت کی فنتاسی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ فریج والی عورت نربھے کی شخصیت میں خوشگوار تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ اس میں بغاوت کے بیج پھوٹنے لگتے ہیں۔ اب وہ اپنے پروڈیوسر سے اپنے حقوق کی لڑائی لڑنا چاہتا ہے، کیونکہ نربھے ہر حالت میں یہی چاہتا ہے کہ وہ فریج والی عورت اُسے چھوڑ کر نہیں جائے۔ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے اور اس کا حوصلہ بڑھاتی رہے لیکن اچانک فریج والی عورت اس کے سامنے ایک شرط رکھ دیتی ہے۔

’’سنو۔ اب میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ آواز میں تھرتھراہٹ تھی… ہاں پیسے۔ جو تھے سب ختم ہو گئے۔ پینٹنگس… عطر، چادریں اور… جو پیسے تھے وہ تمہارے گھر کی خریداری میں لگ گئے…

’مجھے چاہتے ہو تم۔ ‘

’ہاں۔ ‘

’میری سانسوں سے پیار ہے؟‘

’ہاں۔ ‘

’میرے جسم سے؟‘

’ہاں۔ ‘

’اور مجھ سے‘

’ہاں ‘

’اور یہ بھی چاہتے ہو کہ میں کہیں نہیں جاؤں۔ میں ہمیشہ تمہارے پاس رہوں ‘

’ہاں ‘

’تو پھر تمہیں میرا خیال رکھنا ہو گا۔ ‘

وہ اپنے بدن کی، بے کراں موجوں کو سنبھالے اس کے بدن کے ساحل سے ہٹ گئی تھی…

’سمجھ رہے ہو نا‘ نربھے چودھری… تمہیں میرا خیال رکھنا ہو گا‘___

وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنی ریشمی ساڑی کی شکنوں میں کھو گئی تھی___

’’تمہیں مجھے خوش رکھنا ہو گا۔ میری… میری فرمائش پوری کرنی ہو گی… سن رہے ہو نربھے چودھری… میرے لئے…‘

اس کی نقرئی، لڑکھڑاتی آواز کا جل ترنگ کمرے میں گونج رہا تھا…

’سوچو میں … ڈھل جاؤں تو؟ میں جیسی ہوں، ویسی نظر نہ آؤں تو___یہ سب کچھ تم پر ہے نربھے چودھری… تم پر___مجھے خوبصورتی پسند ہے… میرے لئے خوشبوؤں کا خزانہ لے آؤ___ میرے لئے تم بھی اپنے آپ کو بدلو گے نربھے چودھری… بدلو گے نا…؟ خوشبو کو، خوشبو اور ایک خوبصورت جسم کو، ایک خوبصورت جسم کی چاہت ہوتی ہے… میرے لئے تم یہ سب کرو گے نا، نربھے چودھری، ورنہ… ورنہ…‘‘                      ___فریج میں عورت

میں اس کہانی کے اختتام کے لئے بھی ذمہ دار نربھے چودھری کو ہی مانتا ہوں کیونکہ جب ہمارے سپنے پورے ہونے لگتے ہیں تو غیبی طاقتیں فریج کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔

میری ایک کہانی تھی بیٹی۔ جیسا میں بتا چکا ہوں۔ یہ کہانی میں نے اپنی بٹیا کو سامنے رکھ کر لکھی۔ جو دنیا کے لئے نہیں ہے۔ مگر میرے لئے ہے۔ ایک تصوراتی کہانی چنی میں نے___ بٹیا کے آنے کے بعد کیا شوہر بیوی کے رشتوں میں گرہن لگ جاتا ہے۔ اس کے لئے اپنے زمانے اور آج کی ’بیٹی‘ کا محاکمہ ضروری تھا۔

’’بیٹی باپ سے ڈرتی تھی، اس کے برعکس ماں کو اپنا دوست سمجھتی تھی___ماں بیٹی سے ڈرتی تھی، اس لئے کہ بیٹی دنوں دن تاڑ جتنی لمبی ہوتی جا رہی تھی…باپ کو بیٹی سے بالکل ڈر نہیں لگتا تھا۔ اس لئے کہ باپ مصروف رہتا تھا___اس لئے کہ باپ کا زیادہ وقت اپنے کاروباری قسم کے لوگوں کے پاس گزرتا تھا اور اس لئے کہ بہت تھوڑے سے وقت میں، جو باپ اکثر اپنی بیٹی کے لئے چرا لیا کرتا تھا اور باپ یہ لمحے اپنی بیٹی کے ساتھ ہی گزارنا پسند کرتا تھا___یہ اور بات تھی کہ یہ لمحے سال میں کبھی کبھی ہی باپ کو حاصل ہوتے تھے۔ ‘‘                 ___بیٹی

وقت کے ساتھ بیٹیاں، ماں سے زیادہ باپ کی دوست بن چکی ہیں۔ بیٹیاں، ما ں سے زیادہ باپ سے شیئر کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی محبت کے رشتوں پر بھی وہ باپ سے آزادانہ گفتگو کر سکتی ہیں۔ آج کا باپ زیادہ پریکٹیکل اور بیٹی کو اچھائی، برائی سمجھانے کے قابل ہے، لیکن باپ چاہتا ہے___کہ بیٹی دنیا کو سمجھے اور اس کے لئے محبت کرنا ضروری ہے۔

’’بیٹی حیران تھی… جیسے بہت سے پلاش کے پھول اس کی ننھی منی ہتھیلیوں میں جا کر رنگ بن گئے ہوں … رنگ… پھر اس نے آدھے رنگوں رنگوں کو اپنی ہتھیلیوں سے کھرچ دیا…

’تو اس کا مطلب؟‘

’باپ برسوں بعد اپنی بیٹی سے شیئر کر رہا تھا۔ ‘

’ہاں۔ ‘

’تو تم آدھا ہنستی ہو اور آدھا تمہاری ماں کی تحویل میں ہے۔ ‘

’ہاں۔ ‘

پھر تم مکمل کہاں رہ گئیں … آدھا آدھا… بڑے ہونے سے اُڑنے تک___بچپن سے جوانی اور جسم سے روح تک… گھر سے کالج اور کالج سے گھر تک___ آنکھوں سے مسکراہٹ اور مسکراہٹ سے خواب تک…

’ہاں ‘

’راتیں … پُراسرار راتیں … تمہیں پتہ ہے___تم ایک حسین زندگی کا صرف آدھا لطف لے رہی ہو___ ایک بے حد خوبصورت سنسنار کے صرف آدھے حصّے کو تمہاری آنکھیں چھو رہی ہیں ___جبکہ…‘

باپ اُداس تھا…

’تم نے پریم کیا ہے…؟‘

واپس لوٹنے سے پہلے باپ کا جملہ نپا تلا تھا… ’پریم آدھا نہیں ہوتا۔ پریم پورا ہوتا ہے… اور تم عمر کے اس حصے میں ہو، جہاں تمہیں پریم کے احساس سے… یعنی میرا مطلب تو تم سمجھ رہی ہونا…       ___بیٹی

سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس کہانی کا انجام لکھتے ہوئے تکلیف ہوئی۔ کیا میری بیٹی بھی، گھر چھوڑ کر چلی جائے تو میں اسے نظر انداز کر دوں گا۔ کہانی کے آخر میں باپ، اسے پہچان کر بھی نہیں پہچان پاتا۔ لیکن، اسی کا ایک پہلو ہے کہ باپ چاہتا ہے، کہ وہ اپنی آزاد دنیا کا استقبال خود کرے۔ کیونکہ وہ بڑی اور سمجھدار ہو چکی ہے۔ میں نے یہی سوچا تھا۔ ایک ’آدرش‘ بیٹی کے لئے میں کہیں جوابدہ یا بوجھ نہیں بنوں گا۔ اس ’آدرش‘ کو میں ہندستانی سماج کی حدوں میں نہیں، بلکہ جدیدیت کے تقاضوں میں دیکھتا ہوں اور سے مجھے، کہیں سے بھی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔

’’4، اسکیم پارلے___ماؤنٹ روڈ سے ذرا آگے___تھرڈ لین۔ مسٹر آئی جے کے… ریسیڈنس نمبر…‘ کہتے کہتے وہ ٹھہر گئی ہے۔ ایک زمانہ میں یہاں ان کی بیٹی رہتی تھی۔ ‘‘

ماں نے پیار سے دروازہ بند کرتے ہوئے جواب دیا___

’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے… اب وہ یہاں نہیں رہتی…‘

بیٹی نے انجانے راستوں پر ٹھٹھرتی ہوئی کہرے کی صبح، اپنے قدموں کو ڈالتے ہوئے ماں کا جملہ پورا کیا…

’کیونکہ اس نے اپنی آزادی خرید لی ہے اب وہ کہیں اور رہتی ہے۔ ‘‘

___بیٹی

’پانی:اندر اندر گھاس‘ اور نئی کہانی ’’ڈراکیولا‘‘ تک میں عورت کو سہمے ہوئے ’جانور‘ کی طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔ شاید اس لئے کہ خدا کی اس ’بے مثال تخلیق‘ کو میں کسی قید خانے میں گھٹتے ہوئے یا مسلسل استحصال کا شکار ہوتے ہوئے برداشت نہیں کر سکتا تھا___

جیسی وہ ہے،

آپ اسے ویسا کیوں نہیں دیکھتے،

ایک جادو/

ایک طلسم کی طرح/

کہ اس طلسم میں ہزاروں کہانیاں ہیں /

اور شاید اسی لئے کسی بزدل، مظلوم عورت کا کوئی تصور، آپ کو میری کہانیوں میں نہیں ملے گا۔ میں نے ہر بار اُسے مضبوطی کے ساتھ جیا ہے۔ Female Foeticide یعنی نسائی نطفے کے قتل اور ہزار اُداس کرنے والی کہانیوں کے باوجود میں ہر بار عورت میں امید اور یقین کی ایک ’نئی عورت‘ کو بہرصورت تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہوں۔ یہ نئی عورت نہ صرف میری مضبوطی کی علامت ہے بلکہ میری کہانیوں کی مضبوطی بھی۔

٭٭٭

تشکر مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید