FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

                JORGE LUIS BORGES

خورخے لوئس بورخیس کا انتخاب

 

 

                مدیر: اجمل کمال

ماخذ: ’آج‘ کتاب۔1، مدیر اجمل کمال

 

 

 

 

 

بورخیس: ایک تعارف

 

 

ہسپانوی زبان کا عظیم اور شہرت یافتہ ادیب خورخے لوئس بورخیس 24 اگست 1899 کو بیونس آئرس، ارجنٹینا، میں پیدا ہوا۔ اس کے اجداد انیسویں صدی میں ارجنٹینا کی قومی آزادی کی جدوجہد میں فوجی اور سیاسی طور پر شریک رہے تھے۔ یوروپ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ اسپین کے آواں گارد ادیبوں سے شناسا ہوا اور 1921 میں اپنے ملک واپسی پر اس نے اسپین کی ULTRAISM کی تحریک کو متعارف کرایا۔ 1930 تک وہ مختلف جریدوں کی ادارت میں شریک رہا اور بیونس آئرس کے پس منظر میں نظمیں لکھتا رہا۔ 1935 میں اس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ A UNIVERSAL HISTORY OF INFAMY شائع ہوا اور اس کے بعد کی دہائی میں اگلے دو مجموعے FICCIONES اور EL ALEPH چھپے جو اس کی شہرت کی بنیاد ثابت ہوئے۔ انگریزی میں اس کے ترجمے 1960 کے بعد ہوئے۔ اس کی تحریروں کو کئی بین الاقوامی اعزازات مل چکے ہیں۔ بورخیس نے مختلف موضوعات پر بہت سے تخلیقی مضامین بھی لکھے ہیں، اور بیونس آئرس اور کیمبرج کی یونیورسٹیوں میں اینگلوسیکسن ادب پر لیکچر دے چکا ہے۔ 1955 سے لے کر اب سے کچھ برس پہلے تک وہ ارجنٹینا کی نیشنل لائبریری کا ڈائرکٹر رہا۔ اب اپنی بینائی کے رفتہ رفتہ زائل ہو جانے کے بعد وہ بیونس آئرس میں رہتا ہے اور اپنے زندگی بھر کے محبوب موضوعات پر کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتا ہے جو پہلے دور کی تحریروں کی طرح پیچیدہ نہیں ہوتیں۔

بورخیس کی تحریروں کا موضوع تقدیر اور انسان کے درمیان شطرنج کا ایک طویل کھیل ہے جس میں دونوں اگلی چال چلنے کے لیے دوسرے فریق کے محتاج ہیں۔ اس کے کرداروں کو احساس ہے کہ وہ ایک ہار جانے والی جنگ لڑ رہے ہیں، اس لیے بورخیس کی کہانیاں ٹریجک ہیں۔ یوں اس احساس سے وہ جرأت بھی پیدا ہو سکتی ہے ’جو تقدیر کو ایک انسانی معاملہ بنا دیتی ہے جسے انسانوں کے درمیان طے ہونا ہے۔ ‘ اس تشکیک سے بورخیس اس تحیر تک پہنچتا ہے جو سارے مذاہب اور فلسفوں کی ابتدا ہے، اگرچہ وہ ایک نی ہی لسٹ ہے اور اسے کسی بھی نظام فکر کے صرف جمالیاتی پہلو سے دلچسپی ہے۔

بورخیس کی تحریروں کی خصوصیت حیران کن ذہانت، ایجاد کی فراوانی، ان کا کسا ہوا، تقریباً ریاضیاتی اسلوب ہے۔ اپنی اس اوریجنل فارم کو وہ فکشن (FICCIONE) کا نام دیتا ہے جس میں وہ کسی کہانی، مضمون یا کسی فرضی مصنف کی تحریروں پر تبصرے کی شکل میں انفی نٹی (INFINITY) سے کھیلتا ہے۔ وقت، امکانات اور لامتناہیت کے ساتھ یہ کھیل جتنا پیچیدہ ہو، بورخیس کی مسرت اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ اس نے حکایات (PARABLES) بھی لکھی ہیں جو اختصار اور ایمائیت کا کمال ہیں۔

بورخیس لکھنے والوں میں ایک بہت بڑا پڑھنے والا ہے، جو اسی کے الفاظ میں بڑے لکھنے والے سے بھی نایاب جنس ہے۔ اس نے قدیم ترین مذہبی منقولات سے لے کر ڈٹیکٹو اسٹوری تک سب کچھ پڑھا ہے۔ وہ وقت اور فاصلے سے بے نیاز انسانی فکر کے وقیع ترین دھاروں میں تیرتا ہے۔ اسی لیے پیدائش اور مزاج کے اعتبار سے ارجنٹینا کا ہوتے ہوئے بھی اس کا کوئی روحانی وطن نہیں۔ وہ اپنی تحریروں پر بہت سے لکھنے والوں کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے، اور اسے اپنے اوریجنل ہونے پر سب سے کم اصرار ہے۔ ایڈگر ایلن پو کے بارے میں کہی جانے والی بات بورخیس کے لیے شاید زیادہ صحیح ہے کہ جینیئس مستعار لینے سے کبھی نہیں گھبراتا کیونکہ وہ اس قرض کو اپنے سکے میں ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

وہ کافکا، آندرے ژید، ورجینیا وولف اور ولیم فاکنر کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ کر چکا ہے۔

بورخیس کا مضمون THE ARGENTINE WRITER AND TRADITION اس کے ادبی خیالات پر بہت خوبی سے روشنی ڈالتا ہے لیکن اس کا ترجمہ اس انتخاب میں بوجوہ شامل نہیں کیا جا سکا۔ اس کی مختلف تحریروں سے لیے گئے مندرجہ ذیل اقتباسات اس کا زیادہ دیانتدارانہ تعارف ہیں :

’’میرے پڑھنے والے کو بعض صفحات میں ایک فلسفیانہ محویت کا احساس ہو گا۔ یہ میرے ساتھ بچپن سے ہے جب میرے باپ نے ایک شطرنج کی بساط کی مدد سے (جو مجھے یاد پڑتا ہے بلوط کی لکڑی کی تھی) مجھے کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا پیراڈوکس سمجھایا تھا… کسی گلی یا نیشنل لائبریری کی گیلری سے گزرتے ہوئے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی شے میرے اندر صورت پذیر ہونے کو ہے۔ یہ شے کوئی کہانی بھی ہو سکتی ہے اور نظم بھی۔ میں اسے گوندھتا نہیں بلکہ خود اپنا راستہ بنانے دیتا ہوں۔ اسے اپنی شکل اختیار کرتے دور سے دیکھتا رہتا ہوں۔ مجھے آغاز اور انجام تو دھندلے سے نظر آتے رہتے ہیں لیکن درمیان کا اندھیرا خلا نہیں۔ یہ درمیانی حصہ مجھے رفتہ رفتہ ملتا ہے۔ اگر اس کا انکشاف دیوتاؤں کے ہاتھوں روک لیا جائے تو میری شعوری ذات کو مداخلت کرنی پڑتی ہے، اور یہ ناگزیر تدبیر میرے خیال میں میرے کمزور ترین صفحات ہوتے ہیں …میں منتخب اقلیت کے لیے نہیں لکھتا جو میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی، نہ میں اس خوشامد یافتہ افلاطونی ENTITY کے لیے لکھتا ہوں جسے عوام کہا جاتا ہے۔ میں ان دونوں تجریدوں پر یقین نہیں رکھتا۔ میں اپنے لیے اور اپنے دوستوں کے لیے لکھتا ہوں اور میں وقت کے گزرنے کو سہل بنانے کے لیے لکھتا ہوں … میرے سیاسی عقائد عام طور پر معلوم ہیں۔ میں کنزرویٹو پارٹی کا ممبر ہوں، جو بجائے خود ایک طرح کی تشکیک ہے … میرا یقین ہے کہ ہم ایک روز اس کے مستحق ہو جائیں گے کہ حکومتیں نہ رہیں۔ میں نے اپنے خیالات کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا، آزمائش کے دنوں میں بھی نہیں، لیکن میں نے انھیں ادبی تحریروں میں در آنے کی بھی اجازت نہیں دی… لکھنے کا فن پراسرار ہے اور ہمارے نظریات قلیل زندگی رکھتے ہیں … سیاسی یا مذہبی عقائد کی طرح ادبی نظریات بھی محرکات سے زیادہ نہیں۔ یہ ہر ادیب کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ وٹمین کا قافیے سے چھٹکارا حاصل کرنا درست تھا، لیکن یہ نفی وکٹر ہیوگو کے لیے احمقانہ ہوتی…

’’ادب شاعری سے شروع ہوتا ہے اور نثر کے امکان تک پہنچنے میں اسے صدیاں لگ جاتی ہیں … لفظ ابتدا میں ایک ساحرانہ علامت رہا ہو گا جو وقت کی سودخوری کے ہاتھوں گِھس کر رہ گیا۔ شاعر کا مشن یہ ہونا چاہیے کہ وہ لفظ کو اور اس کی ابتدائی (اور اب مخفی) قوت کو بحال کرے، خواہ جزوی طور پر ہی سہی۔ ہر نظم پر دو باتیں لازم آتی ہیں : ایک تو کسی محدود لمحے کی ترسیل اور دوسرے ہمیں جسمانی طور پر چھونا، جیسے سمندر چھوتا ہے …

’’اندھا پن ایک قید ہے۔ لیکن یہ ایک آزادی بھی ہے۔ ایک تنہائی جو ایجاد کو راس ہے، ایک کلید اور ایک الجبرا۔ ‘‘

 

اگلے صفحات میں آپ بورخیس کی تحریروں کا ایک مختصر اور نامکمل انتخاب دیکھیں گے جس میں اس کی کہانیاں، حکایات اور ایک مضمون شامل ہے۔ ان سب کا تعلق اس کے شروع کے دور سے ہے۔ اگلی کتاب میں اس کی دوسرے دور کی کہانیوں اور نظموں کا انتخاب پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

کوئی دو زبانیں، بورخیس کہتا ہے، ایک دوسرے کے متبادل مترادفات کا مجموعہ نہیں ہوتیں بلکہ وہ حقیقت کو دیکھنے اور مرتب کرنے کے دو ممکنہ طریقے ہیں۔ اردو میں بورخیس کی ایک کہانی کا ترجمہ اسد محمد خاں نے کیا ہے اور ایک حکایت کا صلاح الدین محمود نے۔ باقی ترجمے میں نے کیے ہیں۔ یہ ترجمے مجبوراً کیے گئے ہیں کیونکہ مجھ سے زیادہ اس کی اہلیت رکھنے والے لوگوں میں سے بعض اپنے ذمے لینے کے باوجود اس کام پر خود کو آمادہ نہ کر سکے۔ اپنے کیے ہوئے ترجموں کے ناقص ہونے کے اعتراف کے ساتھ ہی مجھے یہ اطمینان بھی ہے کہ انگریزی میں بھی بورخیس کی بہت سی تحریروں کے ایک سے زیادہ بار ترجمہ کیے جانے کی روایت موجود ہے۔

— اجمل کمال

٭٭٭

 

 

 

 

                انگریزی سے ترجمہ:اسد محمد خاں

 

دستِ خداوند کی تحریر

 

قیدخانے کی عمارت بلند ہے اور پتھر کی بنی ہوئی ہے۔ اس کی شکل تقریباً ایک کامل نصف کرے کی ہے، کیونکہ فرش نے، جو پتھر کا ہے، نصف کرے کو اس کے انتہائی ممکنہ قطر سے ذرا وپر کاٹ دیا ہے۔ اس طرح عمارت کے پھیلاؤ، اس کے جبر کا تاثر کچھ اور گہرا ہو گیا ہے۔ ایک دیوار عمارت کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرتی ہوئی اوپر تک چلی گئی ہے ؛ یہ اگر چہ بہت بلند ہے لیکن عمارت کی محرابی چھت تک نہیں پہنچتی۔ دیوار کے ایک طرف میں موجود ہوں، تزیناکن—قہولوم کے اس ہرم کا مہنت جسے پیدرو دی الویریدو نے نذرِ آتش کر دیا تھا—اور دوسری جانب ایک گُلدار ہے جو اپنی اسیری کے زمان و مکاں کو رازدارانہ اور ہموار قدموں سے ناپتا رہتا ہے۔ فرش کی سطح پر بیچ کی دیوار کو چھیدتی ہوئی ایک لمبی کھڑکی ہے جس میں سلاخیں جڑی ہیں۔ اس ایک ساعت (نصف النہار) میں کہ جب سائے نہیں ہوتے، چھت میں ایک دروازہ کھلتا ہے اور ایک جیلر جو گزرتے برسوں کے ساتھ گلتا، معدوم ہوتا جا رہا ہے، لوہے کی ایک چرخی کو حرکت دیتا ہے اور ہمارے لیے رسے کے سرے پر بندھے پانی کے مرتبان اور گوشت کے ٹکڑے اتار دیتا ہے۔ تب گنبد میں روشنی داخل ہوتی ہے۔ اس ایک لمحے میں میں گلدار کو دیکھ سکتا ہوں۔

میں جتنے برس تاریکی میں پڑا رہا ان کا شمار بھول چکا ہوں۔ ہرچند کہ میں کبھی جوان تھا اور اس قید خانے میں چل پھر سکتا تھا؛ اب میں کچھ نہیں کرتا، بس اپنی موت کی مُدرا میں انتظار کرتا ہوں، اس خاتمے کا جو الہٰوں نے میرے لیے تیار کر رکھا ہے۔ میں نے اپنے وقت میں چقماق کے لانبے خنجر سے قربان کیے جانے والوں کے سینے چاک کیے ہیں، مگر اب کسی افسوں کے بغیر میں خود کو خاک سے اٹھا بھی نہیں سکتا۔

ہرم کی آتش زنی سے پہلے والی رات میں، اُن آدمیوں نے جو بلند قامت گھوڑوں سے اترے تھے، ایک کنزِ مخفی کا پتا معلوم کرنے کے لیے مجھے تپا کر سرخ کی ہوئی دھات سے پیٹا۔ میری آنکھوں کے سامنے انھوں نے خداوند کے مجسمے کو گرا دیا، مگر اُس نے مجھے بے یار و مددگار نہیں چھوڑا اور میں ان کی اذیتوں تلے بھی خاموش رہا۔ انھوں نے مجھے چیر دیا، مجھے ضربیں پہنچائیں، میرے ہاتھ پاؤں توڑ دیے، اور پھر اس قید خانے میں میری آنکھ کھلی جس سے اس فانی زندگی میں مجھے چھٹکارا نصیب نہیں ہو گا۔

وقت گزارنے کی خاطر، کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت سے مجبور ہو کر، میں نے فیصلہ کیا کہ اس اندھیرے میں وہ سب کچھ یاد کروں جو میں جانتا ہوں۔ بعض سنگی اژدروں کی ترتیب اور تعداد، یا افسوں سازی کے کسی درخت کی شکل یاد کرنے میں میں نے پوری پوری راتیں ضائع کر دیں۔ اس طرح میں نے برسوں پر فتح پائی اور وہ سب جو میری مِلک تھی، اس کا قبضہ حاصل کیا۔ ایک رات میں نے محسوس کیا کہ میں ایک قطعی یادداشت کے قریب پہنچ رہا ہوں۔ سمندر کو دیکھنے سے قبل مسافر اپنے لہو میں ایک ہیجان محسوس کرتا ہے۔ گھنٹوں بعد میں نے کہیں دور اس یاد کی موجودگی کا ادراک کرنا شروع کیا۔ یہ خداوند سے متعلق ایک روایت تھی۔ تخلیق کے پہلے دن، ایک پیش آگہی سے جان کر کہ وقت کے خاتمے پر بڑی بدنصیبی اور تباہی برپا ہو گی، خداوند نے ایک ایسا کلمۂ سحر تحریر کر دیا تھا جو ان بلاؤں کے رد کی تاثیر رکھتا تھا۔ اس نے یہ کلمہ اس طور لکھا تھا کہ انتہائی دور دراز نسلوں تک پہنچے اور اتفاقِ محض سے متاثر نہ ہو سکے۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس جگہ اور کن حروف میں یہ کلمہ لکھا گیا ہے، لیکن یقینِ کامل ہے کہ یہ راز ہی رہے گا اور بلاشبہ کوئی چنندہ انسان ہی اسے پڑھے گا۔ میں نے غور کیا کہ ہمیشہ کی طرح ہم ایک یُگ کے اختتام پر ہیں اور کیونکہ خداوند کا آخری مہنت ہونا میرا مقدر ہے، سو عین ممکن ہے کہ مجھے ہی اس لکھت کا رمز پڑھنے کی سعادت نصیب ہو۔ ہرچند کہ میں قید خانے میں پڑا تھا مگر اس حقیقت کا احساس مجھے امید سے محروم نہ کر سکا۔ شاید میں نے قہولوم میں ہزار دفعہ یہ تحریر دیکھی ہو گی، اور میں شاید اسے سمجھنے سے قاصر رہا ہوں۔

اس خیال نے مجھے حوصلہ دیا، مجھے عجیب طرح خیرہ و سرشار کر دیا۔ زمین کی حدود میں ایسے قدیم و کہنہ اجسام اپنا وجود رکھتے ہیں جن میں کوئی بگاڑ نہیں پیدا ہو سکتا —جو لافانی ہیں۔ تو ممکن ہے انھی میں سے کوئی جسم وہ علامت ہو جسے میں ڈھونڈتا ہوں۔ ایک پہاڑی خداوند کا لفظ ہو سکتی ہے ؛ اسی طرح ایک دریا، ایک سلطنت، یا ستاروں کی ترتیب — لیکن صدیوں کے دورانیے میں پہاڑیاں ہموار ہو جاتی ہیں، دریا اپنی گزرگاہیں بدل لیتے ہیں، سلطنتیں پامال ہوتی اور تغیر کا شکار ہو جاتی ہیں، ستاروں کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ آسمان میں ایک تبدّل ہے۔ پہاڑیاں ثابت و سیّار افراد ہیں، اور افراد معدومیت کی زد پر ہوتے ہیں۔ میں نے زیادہ مستحکم چیزوں کی تلاش شروع کی، کسی ایسی چیز کی جو کم غیر محفوظ ہو۔ میں نے اناجوں کی نسلوں، اور گھاس، چڑیوں اور انسانوں کی پیڑھیوں کے بارے میں سوچا۔ شاید یہ افسوں میرے چہرے پر لکھا ہو گا۔ شاید اپنی تلاش کا مقصود میں خود ہوں۔ میں اس گتھی کے الجھاوے میں تھا—اچانک مجھے یاد آیا کہ خداوند کی صفات میں سے ایک صفت یہ گلدار ہے۔

اور تب میری روح تکریم و تقدیس سے معمور ہو گئی۔ میں نے شروعاتِ وقت کی اُس پہلی صبح کا تصور کیا۔ میں نے تصور کیا کہ میرا خداوند گلداروں کی زندہ کھال کو یہ ابدی پیغام تفویض کر رہا ہے۔ گلدار لاتعداد بار جفتی کریں گے، غاروں گپھاؤں میں، آبی گھاس کے قطعوں پر، جزیروں میں اپنے جیسوں کو جنتے رہیں گے تاآنکہ آخری آدمی تک یہ پیغام پہنچ جائے۔ میں گلداروں کے اس تسلسل کو، پیچیدگی کے اس سیلِ گرم کو اپنے تصور میں لایا، خیال کیا کہ یہ تسلسل جو چراگاہوں، گلّوں میں دہشت پھیلائے ہوئے ہے، یہ اس لیے ہے کہ ایک غایتِ خداوندی کو محفوظ رکھا جا سکے۔ تو دوسرے حصے میں ایک گلدار تھا۔ میں نے معلوم کر لیا کہ یہ موجودگی میرے قیاس کی تصدیق ہے، ایک رازدارانہ عنایت ہے۔

میں نے طویل برس اس گلدار کی کھال پر پڑے نشانات کی ترتیب اور ہیئت کو یاد کرنے میں صرف کیے۔ ہر اندھا دن میرے لیے روشنی کا ایک لمحہ روا رکھتا تھا تاکہ میں زرد کھال پر پڑے سیاہ دھبوں کو اپنے ذہن پر مرتسم کر سکوں۔ ان میں سے کچھ چتّیاں تھیں، کچھ نے ٹانگوں کے اندرونی رخ کو چوڑائی میں کاٹتی ہوئی دھاریوں کی شکل اختیار کر لی تھی، کچھ خود کو دُہراتے ہوئے چھلّوں کی صورت میں تھے —شاید ان سے ایک اکیلی آواز، ایک اکیلا لفظ مراد ہو گا۔ بہت سے دھبوں کے گرد سرخ حاشیے تھے۔

میں اپنی مشقت کی تھکن کو بیان نہیں کروں گا۔ ایک سے زیادہ مرتبہ میں نے اس گنبد میں چیخ کر کہا کہ اس عبارت کو پڑھنا ممکن نہیں ہے۔ ایک خداوند کے لکھے جملے کی کلّی چیستاں کے مقابلے میں مجھے الجھانے والی ایک محسوساتی چیستاں کا تردد رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ میں نے خود سے سوال کیا کہ ایک ذہنِ مطلق کس قسم کا جملہ تراشے گا؟ میں نے غور کیا کہ انسانوں تک کی زبانوں میں کوئی بیان ایسا نہیں ہے جو پوری کائنات کو مبتلا نہ کر لیتا ہو، لفظ ’گلدار‘ کہنا ان گلداروں کو بیان کرنا ہے جو اسے وجود میں لائے، ان ہرنوں اور کچھووں کو بیان کرنا ہے جو اس نے مار کر کھا لیے، ان چراگاہوں کو جن میں وہ ہرن چرتے رہے، اس زمین کو جس نے چراگاہیں پیدا کیں اور اس آسمان کو بیان کرنا ہے جس نے زمین پر روشنی اتاری۔ میں نے غور کیا کہ ایک خداوند کی زبان میں ہر لفظ حقائق کی اس سلسلہ بندی کو ظاہر کر دے گا — کسی مضمرانہ بالواسطہ انداز میں نہیں، بلکہ ایک صریح اور قطعی انداز میں ؛ بتدریج نہیں بلکہ ایک دم۔ ایک وقت ایسا آیا کہ کسی ربّانی کلمے کا تصور ہی مجھے رکیک اور بے حرمتی والا لگا۔ میں نے سوچا ایک الٰہ کو ایک لفظ ادا کرنا ہے کہ اس ایک لفظ میں ہر بات ادا ہو جائے گی۔ بولا ہوا کوئی بھی لفظ اس کے لیے کائنات سے کمتر یا وقت کے میزانِ کل سے کم نہیں ہو سکتا۔ ’تمام‘، ’کل عالم ‘، ’کائنات‘ — یہ غریب اور ہوس مند الفاظ تو اس ایک لفظ کی پرچھائیاں اور عکس ہیں جو لفظ کہ ایک پوری زبان کے برابر اور اس ’کل‘ کے مساوی ہے جو کوئی زبان اپنے اندر لیے ہوئے ہو سکتی ہے۔

ایک دن یا ایک رات — میرے دنوں اور میری راتوں میں فرق بھی کیا ہو سکتا ہے ؟ — میں نے خواب دیکھا کہ قید خانے کے فرش پر ریت کا ایک ذرہ ہے۔ میں بے اعتنائی سے پھر سو گیا، اور خواب دیکھا کہ میں جاگ اٹھا ہوں اور فرش پر ریت کے دو ذرے ہیں۔ میں دوبارہ سو گیا اور میں نے خواب دیکھا کہ ریت کے ذرے تین ہیں۔ وہ اسی طرح بڑھتے گئے یہاں تک کہ قید خانہ ان سے بھر گیا، اور میں ریت کے اس نصف کرے میں دم توڑنے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، سو بڑی کاوش سے میں نے خود کو بیدار کیا۔ بیداری بے فائدہ تھی، ریت کے بے شمار ذرے میرا دم گھونٹ رہے تھے۔ کسی نے مجھ سے کہا، ’’تم جاگ کر کسی حالتِ بیداری میں نہیں اٹھے، یہ تو ایک پچھلا خواب ہے۔ یہ خواب ایک اور خواب میں چل رہا ہے اور اس طرح ایک لا متناہیت جاری ہے، جو ریت کے ذروں کی تعداد ہے۔ جس مسافت کو تمھیں پھر سے کاٹنا ہے وہ قطع نہیں ہونے کی، اور اس سے قبل کہ تم حقیقت میں بیدار ہو سکو، تم ہلاک ہو جاؤ گے۔ ‘‘

میں نے محسوس کیا کہ میں مٹ رہا ہوں۔ ریت میرے دہانے کو کچلے دیتی تھی مگر میں چیخ اٹھا کہ ’’خواب کی ریت مجھے ہلاک نہیں کر سکتی اور خواب اندر خواب کا کوئی وجود نہیں۔ ‘‘ ایک درخشندگی نے مجھے بیدار کر دیا۔ بالائی تاریکی میں روشنی کا ایک دائرہ نمودار ہوا۔ مجھے جیلر کا چہرہ، ہاتھ، چرخی، رسہ، گوشت کے ٹکڑے اور مرتبان نظر آئے۔

مقدر جو شکل اختیار کر لے، آدمی بتدریج خود کو اس سے شناخت کرنے لگتا ہے، کہ بالآخر آدمی خود ہی اپنے فعل کا ماحول ہے۔ چیستانوں کو بوجھنے والے، یا ایک منتقم، یا خداوند کے ایک مہنت سے زیادہ میں تو ایک قیدی تھا۔ ان تھک بھول بھلیوں سے میں پھر اپنے سنگین قید خانے میں لوٹ آیا، جیسے کوئی اپنے گھر کو لوٹتا ہے۔ میں نے اس کی سیلن کو دعا دی، گلدار کو دعا دی، میں نے اس روزن کو دعا دی جو روشنی کو راہ دیتا تھا، میں نے اپنے بوڑھے، دکھتے ہوئے بدن کو دعا دی، میں نے تاریکی اور پتھر کو دعا دی۔

تب ایسا مظہر پیش آیا جسے نہ میں کبھی بھول سکتا ہوں نہ بیان کرسکتا ہوں ؛ کہ الوہیت سے، موجودات سے اتصال کا ظہور ہوا (مجھے نہیں معلوم کہ آیا یہ دو لفظ ہم معنی ہیں )۔ انبساط اپنی علامتوں کو نہیں دُہراتا: بعضوں نے خداوند کو درخشندگی میں دیکھا ہے، بعضوں نے تلوار میں، اور بعضوں نے گلاب کی پنکھڑیوں کے دائروں میں۔

میں نے ایک انتہائی بلند پہیہ دیکھا جو نہ میری آنکھوں کے سامنے تھا، نہ پیچھے، نہ دائیں بائیں — وہ بیک وقت ہر جانب تھا۔ یہ پہیہ پانی سے بنا تھا اور آگ سے بھی، اور (اگرچہ اس کے سرے نظر آ رہے تھے ) وہ لامتناہی تھا۔ وہ منجملۂ ماضی و حال و مستقبل سے مرتب تھا۔ اس پوری بُنت کا ایک دھاگا میں تھا اور دوسرا دھاگا پیدرو دی الویریدو، کہ جس نے مجھے اذیتیں دی تھیں۔ اب اسباب و علل منکشف تھے اور معلول منکشف تھے کہ ہر شے کو لا محدودیت کے ساتھ سمجھنے کے لیے میرا ایک بار اس پہیے کی طرف دیکھنا ہی کافی تھا۔

تصور کرنے یا محسوس کرنے کی مسرت کے مقابلے میں علم و آگہی کی مسرت کس درجہ بڑی ہوتی ہے۔ میں نے کل ممکنات کو دیکھا۔ میں نے کائنات کے مخفی نقش دیکھے۔ میں نے مبدا و مآخذ دیکھے کہ کتابِ صلاح میں جن کا بیان ہے۔ میں نے پہاڑیاں دیکھیں جو پانیوں پر سے اٹھی تھیں۔ میں نے دشت کے پہلے انسانوں کو دیکھا۔ میں نے پانی کے ظروف دیکھے جو ان آدمیوں سے منحرف ہو گئے تھے۔ میں نے وہ کتے دیکھے جنھوں نے ان کے چہرے چیرپھاڑ دیے تھے۔ میں نے وہ بے چہرہ الٰہ دیکھے جو الہٰوں کے عقب میں ہیں۔ میں نے وہ طریقِ لامتناہی دیکھے جو ایک تنہا مسرت کی تشکیل کرتے ہیں اور ہر شے کی آگہی حاصل کرتے ہوئے مجھے گلدار کی کھال کی لکھت کا علم بھی حاصل ہو گیا۔

یہ چودہ بے ضابطہ الفاظ سے ترتیب دیا ہوا ایک افسوں ہے (یا شاید وہ ایسے لفظ ہیں جو فی الاصل بے ضابطہ نہیں ہیں بلکہ ایسے نظر آتے ہیں )۔ مجھے قدرت و اختیار حاصل کرنے کے لیے محض بلند آواز سے انھیں ادا کرنا ہو گا۔ مجھے اس سنگین قید خانے کو معدوم کرنے کے لیے، اپنی شبِ تاریک میں دن کے نفوذ کے لیے، مردِ جواں بن جانے کے لیے، لافانی بننے کے لیے، اور اس بات کے لیے کہ شیر الویریدو کو فنا کر دے، ہسپانویوں کے سینوں میں مقدس خنجر اتارنے کے لیے، ہرم کی دوبارہ تعمیر کے لیے، سلطنت کو پھر سے تشکیل دینے کے لیے، ان الفاظ کو ادا کرنا ہو گا— چالیس ارکانِ تہجی، چودہ لفظ—اور پھر میں، تزیناکن، اس قلمرو پر حکمرانی کروں گا جو مونتے زوما کے زیرِنگیں تھی۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ میں وہ الفاظ کبھی ادا نہیں کروں گا، اس لیے کہ اب مجھے کوئی تزیناکن یاد نہیں۔

تو اب گلدار کی کھال پر لکھا ہوا رمز میرے ساتھ ہی فنا ہو جائے۔ وہ جس نے موجودات کی جھلک دیکھ لی ہو، جسے ممکنات کی شعلہ زن نگارشوں کا ایک جلوہ نظر آ گیا ہو، وہ ایک آدمی کے بارے میں، اور اس کی ادنیٰ مسرتوں، اس کی بدنصیبیوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، خواہ یہ آدمی وہ خود ہی کیوں نہ ہو۔ بے شک کبھی وہ یہ آدمی تھا، لیکن اب اسے کوئی پروا نہیں۔ اب جبکہ وہ کوئی بھی نہیں ہے، وہ اس دوسرے کے مقدر کے بارے میں کیوں فکرمند ہو، وہ اس دوسرے کے قبیلے کے بارے میں کیوں سوچے۔

اس لیے میں وہ افسوں نہیں پڑھتا؛اس لیے میں اندھیرے میں پڑا ہوا دنوں کو اجازت دیتا ہوں کہ مجھے فراموش کر دیں، فنا کر دیں۔

٭٭٭

 

 

 

                انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

 

 

کرشمۂ مخفی

 

پھر مردہ رکھا اس شخص کو اللہ نے سو برس

پھر اٹھایا اس کو

کہا تو کتنی دیر یہاں رہا

بولا میں رہا ایک دن، یا ایک دن سے کچھ کم

(القرآن 2/259)

 

14 مارچ 1943 کی شب پراگ شہر کے زیلٹرنر گاسے کے ایک اپارٹمنٹ میں جیرومیر ہلاڈک نے، جو نامکمل ڈرامے ‘‘دشمنان’’ (THE ENEMIES)، ابدیت کی ایک تاریخ اور جیکب بوہم کے بالواسطہ یہودی مآخذ کے ایک مطالعے کا مصنف تھا، شطرنج کا ایک طویل کھیل خواب میں دیکھا۔ کھلاڑی دو افراد نہیں بلکہ دو عالی مرتبت خانوادے تھے۔ کھیل صدیوں سے جاری تھا۔ کیا شے داؤ پر لگی تھی یہ کسی کو بھی یاد نہیں تھا، لیکن کہا جاتا تھا کہ وہ بہت بڑی، شاید بے نہایت چیز ہے۔ مہرے اور بساط ایک مخفی برج میں تھے۔ جیرومیر اپنے خواب میں ان مقابل خانوادوں میں سے ایک کا ولی عہد تھا۔ وقت بتانے والی تمام گھڑیوں نے اگلی چال کے وقت کا اعلان کر دیا جسے ٹالا نہ جا سکتا تھا۔ اب خواب دیکھنے والا تیز بارش میں دوڑتا ہوا ایک بیابان کے ریتیلے پن کو عبور کررہا تھا اور مہروں اور شطرنج کے قاعدوں کو فراموش کر چکا تھا۔ اس موقعے پر وہ بیدار ہو گیا۔ بارش کا شور اور وحشت ناک گھنٹے کی گونج تھم گئی۔ ایک ہموار دھمک، جس پر فوجی آوازے تال دے رہے تھے، زیلٹرنر گاسے سے بلند ہوئی۔ فجر کا وقت تھا اور تیسری رائخ کے مسلح ہر اول دستے پراگ میں داخل ہو رہے تھے۔

انیس تاریخ کو جیرومیر ہلاڈک کے خلاف حکام کو ایک فردِ جرم موصول ہوئی اور اسی روز شام پڑے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اسے مولڈاؤ کے دوسرے کنارے پر ایک بے داغ سفید بیرک میں لے جایا گیا۔ وہ گسٹاپو کے لگائے ہوئے کسی بھی الزام کو رد کرنے سے قاصر رہا۔ اس کی ماں کا خاندانی نام جیروسلاوسکی تھا، اس کی رگوں میں یہودی خون تھا، بوہم کے بارے میں اس کی تحقیق یہودیانہ نوعیت کی تھی، ANSCHLUSS 1 کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں اس کے دستخط نے ایک کا اضافہ کیا تھا۔ 1928 میں اس نے ہرمن بارسڈوف کے اشاعت گھر کے لیے سیفر یزیراہ (SEFER YEZIRAH) کا ترجمہ کیا تھا۔ اشاعت گھر کی جامع فہرست میں تجارتی مقاصد کے لیے ترجمہ کرنے والے کی شہرت کے بیان میں مبالغہ کیا گیا تھا۔ یہ فہرست جولیس روتھ کی نظر سے گزری جو ان افسروں میں سے ایک تھا جن کے ہاتھوں میں ہلاڈک کی تقدیر تھی۔ کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنے مخصوص میدان سے باہر کے معاملات میں دھوکا کھا جانے والا نہ ہو۔ گوتھک خط میں دو تین اسماے صفت جولیس روتھ کو ہلاڈک کے امتیاز کا یقین دلانے اور اس بات کا حکم دینے کے لیے کافی تھے کہ اسے سزاے موت دی جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ سزا کی کارروائی کے لیے 29 مارچ صبح نو بجے کا وقت مقرر کیا گیا۔ یہ تاخیر (جس کی معنویت سے قاری آگے چل کر واقف ہو گا) حکام کی اس خواہش کے سبب سے تھی کہ وہ سبزی کی بیلوں اور پودوں کی طرح آہستہ اور غیر شخصی انداز میں اسے سرانجام دیں۔

ہلاڈک کا پہلا ردعمل محض دہشت کا تھا۔ اسے یقین تھا کہ پھانسی یا خنجر کے وار یا گردن اڑا دینے کی سزا اسے خوفزدہ نہیں کر سکتی تھی، لیکن فائرنگ اسکواڈ کے سامنے مرنا ناقابلِ برداشت تھا۔ اس نے خود کو قائل کرنے کی بے سود کوشش کی کہ خوف کا اصل منبع موت کی سادہ اور بے ریا حقیقت ہے نہ کہ وہ حالات جن میں موت واقع ہوتی ہے۔ وہ موت کے تمام حالات کا تصور کرنے سے کبھی نہیں تھکا؛ اس نے ذرا ذرا سی تبدیلیوں کے ساتھ اپنے ذہن میں تمام ممکنہ حالات کو جمع کرنے کی دیوانگی سے کوشش کی۔ اس نے لامتناہی انداز میں اپنی موت کے عمل کا تصور کیا — بے خواب فجر سے لے کر رائفلوں کی پراسرار باڑھ کے چلنے تک۔ جولیس روتھ کے مقرر کردہ دن سے پیشتر اس نے سیکڑوں بار موت کا سامنا کیا، ان احاطوں میں جن کی شکلوں اور زاویوں کے تنوع کے سامنے اقلیدس کے تمام امکانات عاجز تھے ؛ سپاہیوں کی ہر ممکنہ تعداد پر مشتمل دستوں کے سامنے جو کبھی قریب سے اس پر موت عائد کرتے تھے اور کبھی دور جا کر۔ ان اموات کا سامنا اس نے اصیل دہشت (شاید اصیل مردانگی) کے ساتھ کیا۔ ان مناظر میں سے ہر ایک کا دورانیہ صرف چند سیکنڈ تھا۔ ہر بار دائرہ مکمل ہونے پر جیرومیر طوالت کی تھکن سے چور اپنی موت سے پیشتر کی لرزاں شام میں لوٹ آتا۔ اس نے خیال کیا کہ ہم جو پیش بینی کرتے ہیں حقیقت عموماً اس جیسی نہیں ہوتی۔ اس سے اپنی ہی ایک منطق سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ واقعے کی کسی تفصیل کی پیش بینی کر لینا اسے ہونے سے روک دینا ہے۔ اس ضعیف افسوں پر یقین کرتے ہوئے اس نے انتہائی ہولناک تفصیلات اپنے ذہن میں ایجاد کیں تاکہ انھیں ہونے سے روک دے۔ جیسا کہ فطری بات تھی، آخر میں وہ اس خوف کے نرغے میں آ گیا کہ شاید یہ تفصیلات آنے والے واقعات کا الہام تھیں۔ ابتلا کی ان راتوں میں اس نے کسی نہ کسی طور وقت کی گریز پا حقیقت سے چمٹے رہنے کی کوشش کی۔ وہ جانتا تھا کہ وقت 29 تاریخ کی صبح کی طرف اندھا دھند دوڑ رہا ہے۔ اس نے بلند آواز میں استدلال کیا: ’’میں اس وقت 22 مارچ کی رات میں ہوں۔ جب تک یہ رات باقی ہے (اور آنے والی چھ راتوں تک) میں محفوظ ہوں، لافانی ہوں۔ ‘‘ اسے اپنی نیند کی راتیں گہرے تاریک تالاب معلوم ہوئیں جن میں وہ خود کو غرق کرسکتا تھا۔ بعض لمحوں میں وہ بے تابی سے رائفلوں کی آخری باڑھ کے چلنے کی آرزو کرنے لگتا جو اسے تصورات کے بے بنیاد جبر سے رہائی دلا دے، خواہ انجام کچھ بھی ہو۔ 28 مارچ کو جب آخری غروبِ آفتاب سلاخوں والی کھڑکی سے جھلملا رہا تھا، اپنے ڈرامے ’’دشمنان‘‘ کا خیال اسے ان زبوں تصورات سے نکال لے گیا۔

ہلاڈک چالیس برس سے زیادہ کا تھا۔ چند دوستوں اور بہت سی عادتوں کو چھوڑ کر ادب کی دشوار گزار ریاضت سے اس کی زندگی عبارت تھی۔ تمام لکھنے والوں کی طرح وہ دوسرے لکھنے والوں کو ان کی کارکردگی سے پرکھتا اور خود یہ چاہتا تھا کہ اسے اس منصوبوں اور خیالات سے پرکھا جائے۔ اس کی تمام تصانیف سے اسے صرف ندامت کا احساس حاصل ہوا تھا۔ ابن عذرا، بوہم اور فلڈ کی تحریروں پر اس کی تحقیق کی خصوصیت صرف مشقت تھی، اور سیفریزیراہ کے ترجمے کی خصوصیت بے پروائی، اکتاہٹ اور قیاس آرائی۔ شاید اس کی لکھی ہوئی ابدیت کی تاریخ میں کم خامیاں تھیں۔ اس کی پہلی جلد میں ابدیت کے بارے میں انسان کے تصورات کی تاریخ بیان کی گئی تھی، پارمے نیدس کے ناقابلِ تغیر وجود سے لے کر ہنٹن کے قابلِ تبدیل ماضی تک۔ دوسری جلد میں (فرانسس بریڈلے کے ساتھ) اس بات کو رد کیا گیا تھا کہ کائنات کے تمام واقعات ایک زمانی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ دلیل یہ تھی کہ انسان کے ممکنہ تجربات کی تعداد لامحدود نہیں ہے اور کسی بھی ایک واقعے کی تکرار یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وقت ایک مغالطہ ہے … بدقسمتی سے جو دلائل اس مغالطے کو درست ثابت کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں وہ بھی اتنے ہی مغالطے میں ڈالنے والے ہیں۔ ہلاڈک ان دلائل کو تحقیر آمیز الجھن کے ساتھ سننے کا عادی تھا۔ اس نے ایکسپریشنسٹ انداز کی چند سلسلہ وار نظمیں بھی لکھی تھیں، اور وہ اس بات پر برہم تھا کہ انھیں 1924 میں مرتب ہونے والے ایک انتخاب میں شامل کیا گیا اور اس کے بعد شائع ہونے والا شاعری کا کوئی بھی انتخاب ان سے خالی نہیں تھا۔ ہلاڈک اپنے منظوم ڈرامے سے اپنے اس دھندلے بے کیف ماضی کی تلافی کی امید رکھتا تھا۔ (وہ نظم کی ہیئت کو ضروری خیال کرتا تھا کیونکہ اس سے دیکھنے والوں کی نظروں سے لاواقعیت اوجھل نہیں ہونے پاتی، اور یہ آرٹ کے مطالبات میں سے ہے۔ )

ڈرامے میں زمان و مکاں اور عمل کی اکائیاں قائم رکھی گئی تھیں۔ منظر انیسویں صدی کی آخری سہ پہروں میں سے ایک سہ پہر شہر ہراڈکینی میں بیرن رومرسٹاٹ کی لائبریری میں واقع ہوتا ہے۔ پہلے منظر میں ایک اجنبی شخص رومرسٹاٹ سے ملاقات کے لیے آتا ہے۔ (گھنٹہ سات بجا رہا ہے، ڈوبتے ہوئے سورج کی تند کرنوں سے کھڑکیاں دمک رہی ہیں، ایک جانی پہچانی پر جوش ہنگیرین موسیقی سے فضا لبریز ہے۔ ) اس ملاقات کے بعد اور ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ رومرسٹاف ان خوشامدی لوگوں سے ناواقف ہے جو اسے پریشان کر رہے ہیں، لیکن اسے یہ الجھن آمیز احساس ہوتا ہے کہ اس نے انھیں کہیں دیکھا ہے — شاید کسی خواب میں۔ وہ لوگ اس کی چاپلوسی کر رہے ہیں، لیکن یہ ظاہر ہو جاتا ہے — پہلے دیکھنے والوں پر اور پھر خود بیرن پر بھی — کہ وہ لوگ اس کے چھپے ہوئے دشمن ہیں جنھوں نے اسے برباد کر دینے کی سازش کر رکھی ہے۔ رومرسٹاٹ ان کے گمراہ کن منصوبوں کو سمجھنے اور بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مکالمے میں اس کی محبوبہ جولیا ویڈیناؤ کا ذکر ہوتا ہے اور کسی جیروسلاو کیوبن کا بھی جو کبھی اس کا امیدوار رہ چکا ہے۔ کیوبن اب ذہنی توازن کھو چکا ہے اور خود کو رومرسٹاٹ خیال کرتا ہے۔ خطرے بڑھتے جاتے ہیں۔ دوسرے ایکٹ کے خاتمے پر رومرسٹاٹ ایک سازشی کو قتل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تیسرا اور آخری ایکٹ شروع ہوتا ہے۔ اب بے ربطیاں رفتہ رفتہ بڑھنے لگتی ہیں — وہ کردار جو ڈرامے سے جا چکے ہیں، پھر سے نمودار ہو جاتے ہیں ؛ وہ شخص جسے رومرسٹاٹ نے قتل کر دیا تھا ایک لمحے کے لیے لوٹ آتا ہے ؛ کوئی شخص بتاتا ہے کہ ابھی شام نہیں ہوئی۔ گھنٹہ سات بجا رہا ہے، بلند کھڑکیاں مغرب کے سورج سے جھلملا رہی ہیں، ہوا میں ایک جذباتی ہنگیرین نغمہ تیر رہا ہے۔ پہلا اداکار آتا ہے اور وہی جملے دُہراتا ہے جو اس نے پہلے ایکٹ کے پہلے منظر میں کہے تھے۔ رومرسٹاٹ اس سے بغیر کسی استعجاب کے گفتگو کرتا ہے۔ ناظرین سمجھ جاتے ہیں کہ رومرسٹاٹ خود خستہ حال جیروسلاو کیوبن ہے ؛ ڈراما کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا، یہ صرف ایک چکر دار ہذیان ہے جسے کیوبن لاانتہا طور پر بار بار بسر کرتا ہے۔

جیرومیر ہلاڈک نے کبھی خود سے یہ سوال نہیں کیا کہ آیا یہ فروگزاشتوں کا الم طربیہ (TRAGICOMEDY) بے معنی ہے یا قابلِ تعریف، اچھی طرح سوچا سمجھا ہے یا بے تکا۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ ابھی بیان کیا گیا پلاٹ اس کی خامیوں پر پردہ ڈالنے اور اس کی خوبیاں اجاگر کرنے کے لیے بہترین تدبیر ہے، اور اس میں یہ امکان موجود ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معنی (علامتی طور پر) بحال کر سکے۔ وہ پہلا ایکٹ مکمل کر چکا تھا اور تیسرے ایکٹ کے ایک یا دو مناظر۔ تحریر کے منظوم ہونے کی وجہ سے اس کے لیے یہ ممکن ہو گیا تھا کہ مسودہ سامنے رکھے بغیر اس پر مزید کام کرتا رہے اور اشعار میں تبدیلیاں کرتا رہے۔ اس نے سوچا کہ ابھی دو ایکٹ باقی ہیں اور اس کی موت جلد آنے والی ہے۔ وہ اندھیرے میں خدا سے ہم کلام ہوا: ’’اگر میں وجود رکھتا ہوں، اگر میں تیرا حرفِ مکرر، تیری غلطی نہیں ہوں، تو میرا وجود اس ڈرامے کے مصنف کی حیثیت سے ہے۔ اس ڈرامے کو مکمل کرنے کے لیے، جو میرا جواز ہو گا، اور تیرا بھی، مجھے ایک سال درکار ہے۔ مجھے یہ سال عطا کر، کہ صدیاں اور وقت تیرے ہی تصرف میں ہیں۔ ‘‘ یہ آخری رات تھی، تمام راتوں سے زیادہ دہشت ناک، لیکن دس منٹ بعد ایک تاریک سمندر کی طرح نیند نے اس پر غلبہ پا لیا، اور وہ اس میں غرق ہو گیا۔

فجر کے قریب اس نے خواب دیکھا کہ وہ کلیمنٹائن لائبریری میں الماریوں کی قطاروں سے بنی ہوئی ایک راہداری میں جا چھپا ہے۔ سیاہ شیشوں کی عینک لگائے ایک لائبریرین نے اس سے پوچھا، ’’تم کیا تلاش کر رہے ہو؟‘‘ ہلاڈک نے جواب دیا، ’’میں خدا کو تلاش کر رہا ہوں۔ ‘‘ لائبریرین نے اس سے کہا، ’’خدا کلیمنٹائن کی چار لاکھ کتابوں میں سے کسی کتاب کے کسی صفحے کے کسی حرف میں ہے۔ میرے باپ اور میرے باپوں کے باپ اسی حرف کو ڈھونڈتے رہے ہیں۔ میں بھی اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے اندھا ہو گیا ہوں۔ ‘‘ اس نے اپنی عینک اتاری اور ہلاڈک نے اس کی آنکھیں دیکھیں جو مردہ ہو چکی تھیں۔ اتنے میں کوئی پڑھنے والا ایک اٹلس واپس کرنے کے لیے آیا۔ ’’یہ اٹلس بے کار ہے، ‘‘ اس نے کہا اور اسے ہلاڈک کے ہاتھ میں تھما دیا جس نے اسے یونہی ایک جگہ سے کھول لیا۔ غنودگی کی سی کیفیت میں اسے ہندوستان کا ایک نقشہ نظر آیا۔ اچانک اس نے ایک انتہائی چھوٹے حرف کو گہرے یقین سے چھوا۔ ایک ہمہ گیر آواز اس سے ہم کلام ہوئی: ’’تجھے تیری محنت کا وقت عطا کیا گیا۔ ‘‘ اس جگہ ہلاڈک بیدار ہو گیا۔

اسے یاد تھا کہ انسان کے خوابوں کا تعلق خدا سے ہوتا ہے، اور میمونائدس نے لکھا ہے کہ خواب میں سنے گئے لفظ الوہی ہوتے ہیں جب وہ واضح اور ممتاز ہوں اور انھیں ادا کرنے والا شخص نظر نہ آئے۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ دو سپاہی کوٹھڑی میں داخل ہوئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔

دروازے کے پیچھے سے ہلاڈک راہداریوں، زینوں اور جدا جدا عمارتوں کی بھول بھلیوں کا تصور کرتا رہا تھا۔ حقیقت اتنی قابلِ دید نہ تھی — وہ ایک تنگ آہنی سیڑھی سے ایک اندرونی احاطے میں اترے۔ چند سپاہی، جن میں سے کئی کی وردیوں کے بٹن کھلے ہوئے تھے، ایک موٹرسائیکل کا معائنہ کرتے ہوئے اس پر بحث کر رہے تھے۔ سارجنٹ نے گھنٹے کی طرف دیکھا: آٹھ بج کر چوالیس منٹ ہوئے تھے۔ انھیں نو بجے تک انتظار کرنا تھا۔ ہلاڈک، جو قابلِ رحم سے زیادہ غیر اہم تھا، جلائی جانے والی لکڑیوں کے ایک ڈھیر پر بیٹھ گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ سپاہی اس سے نظریں ملانے سے کترا رہے ہیں۔ انتظار کو اس پر آسان کرنے کے لیے سارجنٹ نے اسے ایک سگریٹ دے دیا۔ ہلاڈک تمباکو نہیں پیتا تھا لیکن اس نے شائستگی یا انکسار کے باعث سگریٹ لے لیا۔ اسے جلاتے ہوئے اسے معلوم ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ دن کا آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ سپاہی آہستہ آواز میں باتیں کر رہے تھے جیسے وہ مر چکا ہو۔ اس نے اُس عورت کو یاد کرنے کی بے سود کوشش کی جس کی ایک علامت جولیا ویڈیناؤ تھی۔

اسکواڈ ترتیب سے تیار ہو کر کھڑا ہو گیا۔ بیرک کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہلاڈک باڑھ چلنے کا انتظار کرنے لگا۔ کسی نے کہا کہ دیوار پر خون کے چھینٹے پڑ جائیں گے۔ قیدی کو چند قدم آگے آنے کا حکم دیا گیا۔ اس سے ہلاڈک کو بڑے بے محل انداز میں اناڑی فوٹوگرافروں کی تصویر کھینچنے کی تیاریوں کا خیال آیا۔ بارش کا ایک بڑا سا قطرہ ہلاڈک کی کنپٹی پر پڑا اور اس کے گال پر سے ہوتا ہوا نیچے بہنے لگا۔ سارجنٹ نے چلا کر آخری حکم دیا۔

مادّی کائنات تھم گئی۔

بندوقوں کا رخ ہلاڈک کی طرف تھا لیکن اسے ہلاک کرنے والے لوگ بے حس وحرکت کھڑے تھے۔ سارجنٹ کا بازو ایک دوامی نامکمل حرکت میں تھا۔ فرش پر جمے ہوئے ایک پتھر پر ایک مکھی کا ساکت سایہ پڑ رہا تھا۔ ہوا ٹھہری ہوئی تھی، جیسے کسی تصویر میں۔ ہلاڈک نے چلّانے کی، کوئی لفظ ادا کرنے کی، ہاتھ کو جنبش دینے کی کوشش کی۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ مفلوج ہو گیا ہے۔ رکی ہوئی دنیا سے کوئی آواز اس تک نہیں آ رہی تھی۔ اس نے سوچا: ’’میں دوزخ میں ہوں، میں مر چکا ہوں۔ ‘‘ اس نے سوچا: ’’میں پاگل ہوں۔ ‘‘ اس نے سوچا: ’’وقت رک گیا ہے۔ ‘‘ پھر اسے خیال آیا کہ اگر ایسا ہوتا تو اس کا ذہن بھی رک گیا ہوتا۔ اس نے اس کا امتحان کرنا چاہا۔ ہونٹ ہلائے بغیر اس نے ورجل کے چوتھے رمزیانہ بیت کو دہرایا۔ اس نے سوچا کہ دور کھڑے سپاہی بھی اسی کرب سے دوچار ہوں گے۔ وہ ان سے رابطہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ اسے حیرانی ہوئی کہ اسے کوئی تھکن محسوس نہیں ہو رہی تھی، قید کی بے حرکتی سے پیدا ہونے والا کھنچاؤ تک نہیں۔ ایک درمیانی وقفے کے بعد وہ سو گیا۔ جب وہ بیدار ہوا تو دنیا اسی طرح ساکت اور خاموش تھی۔ بارش کا قطرہ اب بھی اس کے گال پر تھا، مکھی کا سایہ اب بھی پتھر پر ٹھہرا ہوا تھا، اس کے پھینکے ہوئے سگریٹ کا دھواں بھی ٹھہر گیا تھا۔ ہلاڈک کے سمجھنے میں ایک ’دن‘ اور گزر گیا۔

اس نے اپنا کام مکمل کرنے کے لیے خدا سے پورا ایک سال مانگا تھا۔ قادرِ مطلق نے اسے یہ عرصہ عطا کر دیا تھا۔ خدا نے اس کے لیے ایک کرشمۂ مخفی کا اہتمام کیا تھا۔ جرمن سیسے کو اسے مقررہ وقت پر ہلاک کر دینا تھا لیکن حکم اور اس کی تعمیل کے درمیان اس کے ذہن میں ایک سال کا عرصہ گزرنا تھا۔ وہ الجھن سے استعجاب پر آیا، استعجاب سے تسلیم پر، اور تسلیم سے ایک فوری شکر گذاری پر۔

اس کے پاس کوئی مسودہ نہیں تھا، صرف اس کی یادداشت تھی؛ ہر نئے شعر کے اضافے کی تربیت سے اسے ایک باضابطگی حاصل ہو گئی تھی جس پر وہ لوگ شبہ نہیں کر سکتے جو نامکمل عارضی پیراگرافوں کو ذہن میں بٹھاتے اور بھول جاتے ہیں۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیے کام نہیں کر رہا تھا؛ خدا کے لیے بھی نہیں جس کے ادبی مذاق سے وہ لاعلم تھا۔ نہایت باریک بینی سے، بے حرکت، رازدارانہ انداز میں وہ اپنی مقدس غیر مرئی چیستاں کو وقت میں بُنتا رہا۔ اس نے تیسرے ایکٹ کو دو مرتبہ نئے سرے سے بنایا۔ اس نے کچھ ایسی علامات ترک کر دیں جو بہت زیادہ واضح تھیں، مثلاً گھنٹے اور موسیقی کی تکرار۔ اس پر کسی چیز کی پابندی نہ تھی۔ وہ حذف اور تلخیص اور اضافہ کرتا رہا۔ بعض موقعوں پر وہ ڈرامے کے اصل ورژن پر واپس آ جاتا۔ وہ قتل گاہ کے احاطے اور بیرکوں سے اُنس محسوس کرنے لگا۔ اس کے سامنے جو چہرے تھے انھوں نے اس کے رومرسٹاٹ کے کردار کے ادراک کو بہتر بنایا۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ ناگوار بے آہنگی جو فلوبیر کو مکدر کرتی تھی صرف مرئی توہمات تھے ؛ یہ لکھے ہوئے لفظ کی کمزوریاں اور بندشیں تھیں، بولے ہوئے لفظ کی نہیں … اس نے اپنا ڈراما مکمل کیا۔ اس کا مسئلہ صرف ایک جملے کا تھا، اور اس نے وہ جملہ پا لیا۔ پانی کا قطرہ اس کے گال سے نیچے گر گیا۔ اس نے ایک مجنونانہ چیخ میں اپنا منھ کھولا، اپنا چہرہ پھیرا اور چار سمتوں سے آنے والی باڑھ سے فرش پر گر گیا۔

جیرومیر ہلاڈک 29 مارچ کو صبح نو بج کر پانچ منٹ پر ہلاک ہو گیا۔

 

حاشیہ:

 

1 ANSCHLUSS آسٹریا کے جرمنی میں ضم کیے جانے کی تجویز، جس پر ہٹلر کے دباؤ پر آسٹریا نے رضامندی ظاہر کی، پھر اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی، جس کے نتیجے میں ناتسی جرمنی کی فوجوں نے آسٹریا پر قبضہ کر لیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

 

گول کھنڈر

 

 

AND IF HE LET OFF DREAMING ABOUT YOU…

THROUGH THE LOOKING GLASS, IV

 

کسی نے اُسے اس ذہنِ واحد کی رات میں اس کنارے پر اترتے نہیں دیکھا تھا، کسی نے بانس کی اس ناؤ کو کنارے کے مقدس گدلے پانی میں غرقاب ہوتے نہیں دیکھا تھا، لیکن چند ہی روز میں کوئی شخص اس سے بے خبر نہیں رہا کہ وہ خاموش آدمی جنوب سے آیا تھا اور اس کا گھر سنگلاخ پہاڑوں میں دریا کے قریب کے بے انت گاؤوں میں سے کوئی گاؤں تھا جہاں ژند زبان یونانی سے آلودہ نہیں ہوئی تھی اور جہاں کوڑھ اتنا عام نہیں تھا۔ یقین ہے کہ اس خاکی مائل رنگت والے آدمی نے خاک کو بوسہ دیا اور اپنے گوشت کو پھاڑتی ہوئی خاردار جھاڑیوں کو ایک طرف ہٹائے بغیر (شاید انھیں محسوس کیے بغیر) کنارے سے اوپر آیا، اور خود کو گھسیٹتا ہوا، خونم خون ہوتا اور متلی محسوس کرتا ہوا اس گول احاطے تک لایا جس کے دروازے کے اوپر ایک پتھر کا بنا ہوا شیر یا گھوڑا نصب تھا، اور جو کبھی آگ کے رنگ کا تھا اور اب راکھ کے رنگ کا۔ یہ دائرہ ایک معبد تھا جسے بہت پہلے قدیم آگ نے نگل لیا تھا اور ملیریائی جنگل نے گھیر لیا تھا اور آدمی جس کے خداوند کی اب عبادت نہیں کرتے تھے۔ اجنبی ستون کے پائے کے قریب پیر پھیلا کر دراز ہو گیا۔ سورج چڑھنے پر اس کی آنکھ کھلی۔ اس نے بغیر استعجاب کے دیکھا کہ اس کے زخم بھر چکے ہیں۔ اس نے اپنی زردی مائل آنکھیں پھر بند کر لیں اور سو گیا۔ کسی جسمانی کمزوری کے سبب سے نہیں بلکہ مضبوط عزم کے ساتھ۔ اسے خبر تھی کہ یہ معبد ہی وہ جگہ ہے جو اس کے ناقابلِ تسخیر مقصد کو درکار ہے۔ اسے خبر تھی کہ دریا کی دوسری جانب درخت ایک اَور مقدس معبد کو گھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں، جہاں کے معبود بھی جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اسے خبر تھی کہ اس کی فوری ذمہ داری سونا ہے۔ آدھی رات کے قریب ایک پرندے کی دلگیر پکار سے وہ جاگ اٹھا۔ ننگے پیروں کے نشانات، انجیروں اور پانی کے کوزے سے اسے معلوم ہوا کہ علاقے کے لوگ چھپ کر اسے سوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں، اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اس کے طلسم سے خوفزدہ ہیں۔ اسے خوف کی سرد لہر محسوس ہوئی اور وہ شکستہ دیوار میں مردے دفن کرنے کا ایک طاق تلاش کر کے خود کو نامعلوم پتوں سے ڈھانپ کر لیٹ گیا۔

اس کے سامنے جو مقصد تھا وہ ناممکن نہیں تھا، اگرچہ مافوق الفطرت تھا۔ وہ ایک شخص کا خواب دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ اسے خواب میں تفصیلی سالمیت کے ساتھ دیکھنا اور اسے حقیقت میں لانا چاہتا تھا۔ اس طلسمی منصوبے نے اس کے جسم و جان کے کُل کو کھینچ لیا تھا۔ اگر کوئی اس سے اس کا نام یا اس کی پچھلی زندگی کی کوئی بات دریافت کرتا تو وہ جواب نہیں دے سکتا تھا۔ یہ غیرآباد اور شکستہ معبد اسے موزوں تھا کیونکہ یہ مرئی دنیا کا کم سے کم حصہ تھا، کاشتکاروں کا قریب ہونا بھی اس کے لیے مناسب تھا کیونکہ وہ اس کی موہوم ضروریات کی چیزیں فراہم کرتے۔ ان کے نذر کیے ہوئے چاول اور پھل اس کے جسم کو باقی رکھنے کے لیے کافی تھے جو سونے اور خواب دیکھنے کے کام کے لیے وقف ہو چکا تھا۔

ابتدا میں اس کے خواب منتشر تھے، کچھ عرصے بعد ان کی نوعیت منطقی سی ہو گئی۔ اجنبی نے خواب دیکھا کہ وہ ایک گول تماشا گاہ کے درمیان میں ہے جو کسی نہ کسی طرح یہ جلا ہوا معبد ہے۔ نشستوں کی قطاریں خاموش طالب علموں کے بادلوں سے پُر ہیں۔ آخر میں بیٹھے ہوؤں کے چہرے صدیوں دور اور ایک کائناتی بلندی پر آویزاں معلوم ہوتے تھے، لیکن بالکل واضح اور مکمل تھے۔ آدمی انھیں علم الابدان، ترکیبِ کائنات اور طلسم کا سبق دے رہا تھا۔ وہ چہرے اسے احتیاط سے سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے تھے، جیسے وہ اس امتحان کی اہمیت سے باخبر ہوں جو ان میں سے کسی ایک کو اس بے حقیقت وجود کی حالت سے نکال کر اسے حقیقت کی دنیا میں داخل کر دے گا۔ آدمی نے خواب میں، اور خواب سے جاگ کر، اپنے خیالی پیکروں کے جوابات پر غور کیا۔ وہ عیاروں کے فریب کا شکار نہیں ہوا، اس نے بعض پیچیدگیوں میں ایک بڑھتی ہوئی ذہانت کو محسوس کیا۔ وہ ایک ایسی روح کی تلاش میں تھا جو کائنات میں شرکت کی مستحق ہو۔

نو یا دس راتوں کے بعد وہ کچھ تلخی سے اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ ان طالب علموں سے کوئی توقع نہیں کر سکتا جو اس کے نظریات کو مجہول انداز میں قبول کر لیتے ہیں، لیکن اسے اُن سے کچھ امید ہو سکتی ہے جو کبھی کبھار کسی معقول اختلاف کا حوصلہ کرتے ہیں۔ اول الذکر طلبا اگرچہ محبت اور شفقت کے مستحق ہیں لیکن افراد کے رتبے پر نہیں پہنچ سکتے ؛ آخرالذکر طلبا پہلے ہی سے ان سے کچھ زیادہ وجود رکھتے تھے۔ ایک سہ پہر (اب اس کی سہ پہریں بھی نیند کی نذر ہوتی تھیں، اور وہ صرف صبح کے وقت چند گھنٹوں کے لیے جاگتا تھا) اس نے اس خیالی درسگاہ کو ہمیشہ کے لیے نابود کر دیا اور صرف ایک طالب علم کو باقی رکھا۔ وہ ایک خاموش لڑکا تھا، زرد رنگت والا، کچھ کچھ ضدی۔ اس کے تیکھے نقوش خواب دیکھنے والے کے نقوش کو دہراتے تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے یکایک معدوم ہو جانے سے بہت دیر تک پریشان نہیں رہا۔ چند خصوصی اسباق کے بعد اس کی ترقی نے اس کے استاد کو متحیر کر دیا۔ اس کے باوجود مصیبت تعاقب میں رہی۔ ایک روز آدمی خواب سے یوں باہر آیا جیسے کسی دلدلی ریگستان سے، اور اس نے سہ پہر کی رائیگاں روشنی کو دیکھا جو اسے پہلے فجر کی روشنی معلوم ہوئی، اور وہ سمجھا کہ درحقیقت اس نے خواب نہیں دیکھا ہے۔ اس پوری رات اور تمام دن بے خوابی کی ناقابلِ برداشت خیرگی اس پر مسلط رہی۔ اس نے جنگل میں مارا مارا پھر کر خود کو تھکانے کی کوشش کی لیکن شیکران کے زہریلے درختوں کے درمیان بمشکل ہلکی سی نیند کے چند جھونکے پا سکا جو بے سود نامکمل بینائی سے ملوث تھے۔ اس نے درسگاہ کو پھر سے جوڑنے کی کوشش کی، اور ابھی نصیحت کے بمشکل چند الفاظ ادا کیے تھے کہ اس کی صورت بگڑنے لگی اور وہ فنا ہو گئی۔ اس تقریباً مسلسل بے خوابی میں اس کی بوڑھی آنکھیں غصے کے آنسوؤں سے جلنے لگیں۔

اس کی سمجھ میں آیا کہ خواب جس بے ربط اور چکرا دینے والے مادّے سے بنے ہیں، اسے ڈھالنے کی کوشش کرنا سب سے کٹھن کام ہے جو کوئی انسان اپنے ذمے لے سکتا ہے، خواہ وہ بلندوپست ہر قسم کے چیستانوں کو بوجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ یہ ریت کی رسی بٹنے یا بے چہرہ ہوا کی تشکیل کرنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ اس کی سمجھ میں آیا کہ ابتدا میں ناکامی ناگزیر ہے۔ اس نے عہد کیا کہ ان بے شمار واہموں کو فراموش کر دے گا جنھوں نے اسے شروع میں گمراہ کیا تھا۔ اس نے ایک اور راستہ دریافت کیا۔ اسے اختیار کرنے سے پہلے اس نے ان قوتوں کو پھر سے مجتمع کرنے کی غرض سے ایک مہینہ وقف کیا جو اس کے اضطراب سے ضائع ہو گئی تھیں۔ اس نے پہلے سے کوئی خواب دیکھنے کے ارادے کو ترک کر دیا اور تقریباً فوری طور پر دن کا بڑا حصہ سو کر گزارنے کے قابل ہو گیا۔ اس عرصے میں چند بار اسے خواب نظر آئے لیکن اس نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اپنا کام پھر سے شروع کرنے کے لیے وہ انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ چاند کا طشت مکمل ہو گیا۔ تب اس نے سہ پہر کے وقت دریا کے پانی سے خود کو پاک کیا، آسمانی معبودوں کی پرستش کی، ایک قدرت والے نام کا ایک جائز حصہ زبان سے ادا کیا، اور سو گیا۔ تقریباً اسی وقت اس نے ایک دھڑکتے ہوئے دل کو خواب میں دیکھا۔

خواب میں اس نے اس دل کو سرگرم، پُر حرارت، مخفی اور بند مٹھی جتنا دیکھا۔ چہرے یا جنس سے بے نیاز ایک انسانی جسم کے نیم سائے میں وہ ایک لعل کے رنگ کا تھا۔ باریک بیں اشتیاق کے ساتھ وہ چودہ راتوں تک اسے دیکھتا رہا۔ ہر رات وہ پچھلی رات سے زیادہ صراحت سے اس کا ادراک کرتا۔ اس نے اس دل کو چھوا نہیں، خود کو صرف اسے دیکھنے، اس کا مشاہدہ کرنے، شاید اسے نظروں سے سنوارنے تک محدود رکھا۔ اس نے مختلف فاصلوں اور مختلف زاویوں سے اس کا ادراک کیا، اسے بسر کیا۔ چودھویں رات اس نے پھیپھڑے کی شریان کو انگلی سے چھوا، اور پھر اندر اور باہر سے پورے دل کو۔ اس آزمائش سے وہ مطمئن ہو گیا۔ دانستہ طور پر اس نے ایک رات کوئی خواب نہ دیکھا، اور پھر دل کو ہاتھ میں لیا۔ ایک سیارے کی مناجات کی اور پھر ایک اور عضوِ رئیس کا تصور کرنا شروع کیا۔ ایک سال میں وہ ڈھانچے کو مکمل کر کے پلکوں تک پہنچ چکا تھا۔ ناقابلِ شمار بال شاید سب سے مشکل تھے۔ اس نے ایک مکمل انسان کا خواب دیکھا، ایک لڑکے کا، لیکن یہ لڑکا اٹھ نہیں سکتا تھا، نہ بول سکتا تھا۔ بہت سی راتوں تک خواب میں وہ اسے مسلسل خوابیدہ دیکھتا رہا۔

غناسطی نظریۂ تکوینِ کائنات میں ہے کہ خداوند نے سرخ مٹی کو گوندھ کر آدم کو بنایا جو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ خاک کے آدم جتنا ہی خام اور نا پختہ ساحر کی مشقت کی راتوں کا بنایا ہوا یہ خواب کا آدم تھا۔ ایک سہ پہر کو آدمی نے اپنی غلطی سے اپنے کام کو تلف ہی کر دیا ہوتا، لیکن پھر وہ نادم ہوا۔ (اس کے لیے بہتر ہوتا اگر وہ اسے تلف کر دیتا۔ ) اس نے دریا اور زمین کے معبودوں کے سامنے دعائیں پوری کر کے خود کو اس سنگی مجسمے کے قدموں پر گرا دیا جو شیر تھا یا شاید گھوڑا، اور اس کی نامعلوم نصرت کی التجا کی۔ اس جھٹپٹے میں اس نے خواب میں اس مجسمے کو دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک زندہ اور مرتعش چیز ہے، وہ محض شیر اور گھوڑے کا وحشیانہ مرکب نہیں بلکہ یہ دونوں تند مخلوقات بیک وقت، اور ساتھ ہی ایک بیل، ایک گلاب اور ایک سمندری طوفان بھی ہے۔ اس گوناگوں خداوند نے اس پر منکشف کیا کہ اس کا زمینی نام آتش ہے، اور اس گول معبد میں (اور اس طرح کے اور معبدوں میں ) لوگ اس کے سامنے قربانیوں اور عبادات کی نذر دیتے رہے ہیں، اور یہ کہ وہ اپنے افسوں سے اس خوابیدہ خیالی پیکر کو زندگی بخشے گا، اس طرح کہ خود آگ اور خواب دیکھنے والے کے سوا تمام مخلوقات اسے گوشت پوست کا آدمی خیال کریں گی۔ اس الوہیت سے آدمی کو یہ حکم صادر ہوا کہ وہ اپنی مخلوق کو اس کی مذہبی رسوم کی تعلیم دے اور اسے دوسرے شکستہ معبد میں بھیجے جس کے ہرم نما مینار دریا کے دوسری طرف ابھی باقی ہیں، تاکہ اس ویران مکان میں ایک آواز خداوند کی شان بیان کرے۔ خواب دیکھنے والے کے خواب میں، خواب کے پیکر نے آنکھ کھولی۔

ساحر نے ان احکام کی تعمیل کی۔ اس نے وقت کا ایک وقفہ (جو بالآخر دو سال پر محیط ہوا) اپنے خواب کی اولاد پر کائنات اور آتش پرستی کے بھید کھولنے کے لیے وقف کیا۔ اندرونی طور پر اسے لڑکے سے جدا ہوتے ہوئے تکلیف ہو رہی تھی۔ معلمانہ ضروریات کے بہانے سے وہ ہر روز خواب کے لیے وقف گھنٹوں کا دورانیہ بڑھاتا گیا۔ اس نے دائیں شانے کو پھر سے بنایا جس میں شاید کچھ نقص رہ گیا تھا۔ کبھی کبھی اسے یہ تاثر پریشان سا کر دیتا کہ یہ سب کچھ پہلے بھی ہو چکا ہے … عام طور پر اس کے دن مسرور تھے۔ جب وہ آنکھیں بند کرتا تو سوچتا، ’’وہ بچہ جسے میں نے خلق کیا ہے میرا انتظار کر رہا ہے، اور اگر میں اس کے پاس نہیں گیا تو وہ فنا ہو جائے گا۔ ‘‘

رفتہ رفتہ اس نے لڑکے کو عالمِ حقیقت سے آشنا کیا۔ اس نے ایک بار اسے دورافتادہ پہاڑ کی چوٹی پر ایک پھریرا گاڑنے کے لیے کہا۔ اگلے روز پھریرا پہاڑ کی چوٹی پر لہرا رہا تھا۔ اس نے اسی طرح کے اور تجربے کیے، جن میں سے ہر ایک پچھلے سے زیادہ حوصلہ آزما ہوتا تھا۔ کچھ تلخی سے اس نے محسوس کیا کہ اس کا بیٹا پیدا ہونے کے لیے تیار —اور شاید بے قرار — ہے۔ اس رات اس نے پہلی مرتبہ اسے بوسہ دیا اور دوسرے معبد کی طرف روانہ کر دیا جس کے سفید کھنڈر ناقابلِ گزر جنگل اور دلدلوں کے اُس طرف نظر آ رہے تھے۔ لیکن اس سے پہلے (اس غرض سے کہ اسے کبھی یہ معلوم نہ ہو کہ وہ محض ایک خیالی پیکر ہے اور اسے دوسروں کی طرح ایک انسان سمجھا جائے ) اس نے اس کے تربیت کے برسوں کی جگہ ایک مکمل فراموشی داخل کر دی۔

آدمی کی فتح اور اس کی تسکین تھکن سے دھندلا گئی۔ فجر اور غروب کے وقت وہ خود کو سنگی مجسمے کے سامنے سربسجود کر دیتا اور یہ تصور کرتا کہ اس کا بیٹا بھی دریا کے کنارے پر گول معبد میں یہی رسم ادا کر رہا ہو گا۔ رات میں وہ خواب نہ دیکھتا، یا اسی طرح خواب دیکھتا جیسے سب انسان دیکھتے ہیں۔ وہ کائنات کی شکلوں اور آوازوں کا ادراک بے رنگی سے کرتا، اس کا غیر موجود بیٹا اس کی روح کے اس زوال پر پرورش پا رہا تھا۔ اس کی زندگی کی مقصد پورا ہو چکا تھا۔ آدمی اب ایک سرخوشی میں زندہ تھا۔ ایک عرصے کے بعد، جسے اس کی کہانی کے بعض راوی برسوں میں شمار کرنا پسند کرتے ہیں اور بعض قرنوں میں، ایک نصف شب اسے دو کشتی بانوں نے جگایا۔ وہ ان کے چہرے نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن انھوں نے اسے شمال کے معبد کے طلسمی آدمی کے بارے میں بتایا جو آگ پر چلتا تھا اور وہ اسے نہیں جلاتی تھی۔ ساحر کو ایک دم خداوند کے الفاظ یاد آئے۔ اسے یاد آیا کہ دنیا کی تمام مخلوقات میں صرف آگ جانتی ہے کہ اس کا بیٹا محض ایک پیکرِ خیال ہے۔ اس یاد نے، جو پہلے پہل اسے تسکین آمیز محسوس ہوئی، بعد میں اسے عقوبت میں مبتلا کر دیا۔ اسے خوف ہوا کہ کہیں اس کا بیٹا اپنی اس غیر معمولی مراعت پر غور کر کے یہ معلوم نہ کر لے کہ وہ صرف ایک شبیہ کی حالت میں ہے۔ انسان نہ ہونا، محض کسی اور انسان کے خوابوں کی توسیع ہونا، کیسی ذلت اور پریشانی کی بات تھی۔ تمام باپ اپنے ان بچوں میں دلچسپی لیتے ہیں جنھیں انھوں نے لاعلمی یا لذت میں پیدا کیا ہو (یا وجود میں آنے کی اجازت دی ہو) تو یہ قدرتی بات تھی کہ ساحر اپنے اس بچے کے مستقبل کے لیے فکرمند ہوتا جس کا ایک ایک عضو، ایک ایک نقش اس نے عالمِ خیال کی ایک ہزار ایک رازدارانہ راتوں میں تخلیق کیا تھا۔

اس کے مراقبات کا انجام ناگہانی تھا، اگرچہ بعض آثار اس کی پیش گوئی کر چکے تھے۔ پہلا (ایک طویل خشک سالی کے بعد) دور ایک پہاڑی پر پرندے کی طرح سبک اور تیز رفتار بادل، پھر جنوب کی سمت آسمان پر چیتے کے منھ جیسا گلابی رنگ، پھر آہنی راتوں کو زنگ خوردہ کرتا ہوا دھواں، اور آخر میں حیوانوں کا وحشت میں فرار — کہ جو کچھ ہو رہا تھا، کئی صدیوں پہلے بھی ہو چکا تھا۔ خداوندِ آتش کے معبد کا کھنڈر آگ کے ہاتھوں تلف ہوا۔ ایک بے طائر صبح نے دیواروں کے قریب حلقہ در حلقہ شعلے دیکھے۔ ایک لمحے کے لیے اس نے دریا میں پناہ لینے کے بارے میں سوچا، لیکن پھر وہ جان گیا کہ موت اس کے بڑھاپے کے سر پر تاج رکھنے اور اسے اس کی مشقت سے سبک کرنے آ پہنچی ہے۔ وہ شعلوں کی دیواروں میں داخل ہو گیا — لیکن انھوں نے اس کے گوشت میں دانت نہیں گاڑے۔ انھوں نے اسے احترام سے مس کیا اور اسے جلائے یا جھلسائے بغیر اپنے غلاف میں لے لیا۔ تسکین اور ذلت اور دہشت کے ساتھ اسے معلوم ہوا کہ وہ بھی محض ایک شبیہ تھا جسے کسی اور نے خواب میں دیکھا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

                انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

 

بابل کی لاٹری

 

 

بابل کے تمام باشندوں کی طرح میں ایک حاکم رہا ہوں، اور سب کی طرح ایک غلام بھی۔ میں قدرتِ مطلق، ذلت اور قید سے بھی واقف رہا ہوں۔ دیکھو: میرے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت غائب ہے۔ دیکھو: میری قبا کے اس چاک سے تم میرے پیٹ پر بنے اس سرخ کیے ہوئے نقش کو دیکھ سکتے ہو۔ یہ دوسرا حرف ’ب‘ ہے۔ یہ حرف پورے چاند کی راتوں کو مجھے ان لوگوں پر قدرت عطا کرتا ہے جن کا نشان ’ج‘ ہے، لیکن یہ مجھے ’الف‘ کے نشان والوں کے تابع بھی کر دیتا ہے، جو بے چاند کی راتوں کو ’ج‘ کے نشان والوں کے مطیع ہوتے ہیں۔ فجر کے وقت ایک تہہ خانے میں میں نے ایک سیاہ پتھر پر متبرک بیلوں کی شہ رگیں قطع کی ہیں۔ ایک قمری سال کے دوران مجھے غیر مرئی قرار دے دیا گیا تھا: میں چلّاتا تھا اور میری آواز کا کوئی جواب نہیں ملتا تھا، میں روٹیاں چراتا تھا اور میرا سر قلم نہیں کیا جاتا تھا۔ میں اس چیز سے بھی واقف ہوں جس سے یونانی بے خبر تھے : غیر یقینیت سے۔ کانسی کی ایک کوٹھڑی میں پھانسی دینے والے کے خاموش رومال کے سامنے امید ہمیشہ مجھ سے وفادار رہی ہے، جس طرح مسرتوں کے بہاؤ میں دہشت نے کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ پونٹیکا کے ہیریقلیطس نے مداحانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ فیثاغورث کو یاد تھا کہ وہ اس سے پہلے فیرو رہ چکا ہے، اور اس سے پہلے یوفوربس، اور اس سے پہلے کوئی اور۔ ان یکساں نشیب و فراز کو یاد کرنے کے لیے مجھے موت سے (حتیٰ کہ عیاری سے بھی ) رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔

اس تقریباً وحشیانہ تنوع کے لیے میں ایک ایسے ادارے کا مرہونِ منت ہوں جس کے بارے میں دوسری جمہوریتیں کچھ نہیں جانتیں، یا جو ان کے درمیان خام صورت میں یا خفیہ طور پر کام کرتا ہے — یہ ادارہ لاٹری ہے۔ میں نے اس کی تاریخ کی کرید نہیں کی۔ مجھے معلوم ہے کہ داناؤں میں اس بارے میں اتفاقِ رائے نہیں ہو سکتا۔ اس کے طاقتور مقاصد کے بارے میں میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا علمِ فلکیات سے ناواقف کوئی شخص چاند کے بارے میں۔ میرا تعلق ایک مضطرب سرزمین سے ہے جہاں لاٹری پر حقیقت کی بنیاد ہوتی ہے۔ آج تک میں نے اس کے بارے میں اتنا ہی کم سوچا ہے جتنا ناقابلِ فہم خداؤں کے طرز عمل کے بارے میں یا اپنے دل کے بارے میں۔ اب جبکہ میں بابل سے اور اس کے محبوب رسم و رواج سے دور ہوں، میں لاٹری کے متعلق قدرے تعجب سے سوچتا ہوں اور جھٹ پٹے کے وقت نقاب پوش انسانوں کے ان ملحدانہ منتروں کے ادا کرنے پر غور کرتا ہوں۔

میرا باپ بیان کیا کرتا تھا کہ شروع میں — صدیوں یا شاید برسوں پہلے — بابل کی لاٹری ادنیٰ طبقے کے لوگوں کا ایک کھیل تھی۔ اس کا کہنا تھا (میں نہیں جانتا یہ کہاں تک سچ تھا) کہ حجام تانبے کے سکّوں کے بدلے ہڈی یا منقش چمڑے کے مستطیل ٹکڑے دیا کرتے تھے جن پر علامتیں کندہ ہوتی تھیں۔ نصف النہار کے وقت لاٹری کا قرعہ ڈالا جاتا تھا۔ جیتنے والوں کو قسمت کی مزید تائید کے بغیر چاندی کے ڈھلے ہوئے سکے ملتے تھے۔ یہ طریقہ، جیسا کہ تم دیکھ سکتے ہو، بالکل ابتدائی درجے کا تھا۔

قدرتی طور پر یہ ’لاٹریاں ‘ ناکام ہو گئیں۔ ان کی اخلاقی خوبی صفر تھی۔ ان میں انسانوں کی تمام صلاحیتوں کے لیے کشش نہ تھی، بلکہ صرف امید کے لیے۔ لوگوں کی بے توجہی کے سبب وہ تاجر جنھوں نے یہ زر اندوز لاٹریاں قائم کی تھیں، نقصان اٹھانے لگے۔ پھر کسی نے ایک خفیف سی اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ جیتنے والے اعداد کے درمیان چند ناموافق ٹکٹ بھی شامل کر دیے گئے۔ اس اصلاح سے منقش مستطیلوں کے خریدار ایک رقم جیتنے یا ایک بڑا جرمانہ ادا کرنے کے دوہرے امکان کا سامنا کرنے لگے۔ اس خفیف سے خطرے نے (ہر تیس جیتنے والے اعداد پر ایک ناموافق ٹکٹ ہوتا تھا) فطری طور پر لوگوں کی دلچسپی کو ابھارا۔ بابلیوں نے خود کو اس کھیل کے سپرد کر دیا۔ جو شخص رقمیں نہ جیتتا اسے پست ہمت اور کم ظرف سمجھا جاتا۔ رفتہ رفتہ اس حقارت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب نہ صرف جو شخص کھیل میں حصہ نہ لیتا اسے حقیر سمجھا جاتا تھا بلکہ ہار کر جرمانہ ادا کرنے والوں پر بھی نفرین کی جاتی تھی۔ کمپنی کو (اسے اس نام سے جبھی پکارا جانے لگا تھا) جیتنے والوں کے تحفظ کے لیے انتظامات کرنے پڑے جنھیں جیتی ہوئی رقم اس وقت تک نہیں مل سکتی تھی جب تک جرمانوں کی ساری رقم جمع نہ ہو جائے۔ کمپنی نے ہارنے والوں پر مقدمہ دائر کر دیا۔ منصف نے انھیں جرمانہ اور مقدمے کے اخراجات ادا کرنے یا کچھ دن قید میں گزارنے کی سزا میں انتخاب کرنے کو کہا۔ کمپنی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے ہر شخص نے قید کا انتخاب کیا۔ ابتدا میں چند لوگوں کی اسی دکھاوے کی بہادری کے سبب کمپنی کو اس کی موجودہ متبرک مابعد الطبیعیاتی حیثیت حاصل ہوئی۔

کچھ عرصے بعد قرعہ اندازی کی فہرستوں میں جرمانوں کی رقم کا اندراج غائب ہو گیا اور اس کی جگہ ہر ناموافق عدد کے لیے لازم آنے والی قید کی میعاد نے لے لی۔ یہ بلیغ اختصار، جسے اس وقت محسوس نہیں کیا گیا، بعد میں اصل اہمیت کا حامل بن گیا۔ ’’یہ لاٹری میں غیر مالیاتی عنصر کی پہلی آمد تھی۔ ‘‘ اسے عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی۔ کھیلنے والوں کے اصرار پر کمپنی کو ناموافق اعداد میں اضافہ کرنا پڑا۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ بابل کے لوگ منطق کے بہت دلدادہ ہیں، حتیٰ کہ موزونیت کے بھی۔ انھیں یہ بات بے جوڑ معلوم ہوئی کہ خوش قسمت اعداد کو گول سکّوں میں شمار کیا جائے جبکہ بدقسمت اعداد کو قید کے دنوں اور راتوں میں۔ کسی معلّمِ اخلاق نے استدلال کیا کہ دولت کی ملکیت ہمیشہ مسرت کا باعث نہیں ہوتی اور یہ کہ خوش بختی کی دوسری صورتیں شاید زیادہ موثر ہیں۔

غریب لوگوں میں بے چینی کا ایک اور سبب بھی تھا۔ راہبوں کے کالج کے ارکان نے داؤ پر لگائی جانے والی رقم بڑھا دی اور دہشت اور امید کے مدّ و جزر سے خود لطف اندوز ہونے لگے۔ غریب لوگوں نے معقول یا ناگزیر رشک کے ساتھ خود کو اس بدنام لذت سے بھرے مد و جزر سے محروم پایا۔ اس جائز مطالبے نے کہ غریب اور امیر دونوں کو لاٹری میں برابر کا حصہ حاصل ہو، اس غضب ناک احتجاج کو جنم دیا جس کی یاد اتنے برسوں میں بھی محو نہیں ہوئی۔ چند ضدی لوگ نہ سمجھ سکے (یا انھوں نے نہ سمجھنے کا ڈھونگ رچایا) کہ یہ نیا ضابطہ تاریخ کی ایک لازمی منزل تھی… ایک غلام نے ایک قرمزی رنگ کا ٹکٹ چرا لیا جس سے اگلی قرعہ اندازی کے موقعے پر اس کی زبان جلائی جانے کا قرعہ نکلا۔ تعزیرات میں ٹکٹ چرانے والے کے لیے یہی سزا مقرر کر دی گئی۔ بہت سے بابلیوں نے کہا کہ وہ اس چوری کی پاداش میں تپتے ہوئے لوہے سے داغے جانے کا مستحق ہے۔ جو زیادہ عالی ظرف تھے انھوں نے قرار دیا کہ جلاد لاٹری کی سزا کو خود عائد کرے کہ قسمت کا یہی فیصلہ ہے۔

ہنگامے پھوٹ پڑے، افسوسناک طریقے سے خون بہنے لگا۔ لیکن آخرکار بابل کے عوام نے امیروں کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی منوا لی۔ لوگوں کو اپنے اعلیٰ مقاصد مکمل طور پر حاصل ہو گئے۔ ایک تو یہ کہ کمپنی کو مطلق اختیار حاصل ہو گیا۔ (نئے طریقوں کی وسعت اور پیچیدگی کے پیش نظر یہ اکائی قائم کرنا ضروری تھا۔ ) دوسرے یہ کہ لاٹری کو خفیہ، مفت اور عام کر دیا گیا۔ رقم کے بدلے ٹکٹوں کی فروخت ختم کر دی گئی۔ ایک بار بعل کے اثر میں آ جانے کے بعد، ہر آزاد شخص خودبخود مقدس قرعہ اندازی میں حصہ لینے لگتا، جو ہر ستر راتوں کے بعد دیوتاؤں کی بھول بھلیوں میں کی جاتی تھی اور اگلی قرعہ اندازی تک ہر شخص کی تقدیر کو متعین کرتی تھی۔ اس کے نتائج ناقابلِ شمار تھے۔ کوئی موافق نتیجہ کسی شخص کو داناؤں کی کونسل تک پہنچا سکتا تھا یا کسی بدنام یا جانی دشمن کو اس کی تحویل میں دے سکتا تھا یا وہ ایک کمرے کے سکون بھرے سایوں میں اشتعال دلانے والی اس عورت کو پا سکتا تھا جسے دوبارہ دیکھنے سے وہ مایوس ہو چکا ہو۔ کسی ناموافق نتیجے سے مراد قطعِ اعضا، ذلت یا موت ہو سکتی تھی۔ کبھی کبھی کوئی ایک واقعہ — مثلاً ج کا مے خانے میں قتل یا ب کے درجات میں پراسرار بلندی — تیس یا چالیس قرعہ اندازیوں کا پُرمسرت نتیجہ ہو سکتا تھا۔ بہت سی قرعہ اندازیوں کے نتائج کو جوڑنا مشکل تھا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کمپنی کے عملدار عیار اور سب کچھ کرنے پر قادر تھے (اور ہیں )۔ بہت سی صورتوں میں یہ علم ہو جانے سے کہ کسی خاص مسرت کا سبب محض قسمت ہے، ان کی مہارت کی شہرت کو ضعف پہنچ سکتا تھا۔ اس سے بچنے کے لیے کمپنی کے ایجنٹ ترغیب اور جادو کی قوت کا استعمال کرتے تھے۔ ان کے افعال اور نقل و حرکت خفیہ تھی۔ ہر شخص کی دلی دہشتوں اور دلی امیدوں کا کھوج لگانے کے لیے وہ نجومیوں اور جاسوسوں کو استعمال کیا کرتے تھے۔ کچھ پتھر کے بنے ہوئے شیر تھے، ایک مقدس بیت الخلا تھا جو قفقہ کہلاتا تھا، ایک نالے میں کچھ دراڑیں تھیں جو عام خیال کے مطابق کمپنی کی طرف لے جانے والی تھیں۔ حاسد یا بہی خواہ لوگ ان شگافوں کو اپنی معلومات سے بھرتے رہتے تھے۔ سچائی کے مختلف معیاروں کی حامل ان معلومات کو حروفِ تہجی کے اعتبار سے ایک فائل میں اکٹھا کیا جاتا تھا۔

ناقابلِ یقین بات یہ ہے کہ شکایات پھر بھی ہوتی تھیں۔ کمپنی اپنی دوراندیشی کی عادت کے سبب براہ راست جواب نہیں دیتی تھی۔ اس نے نقابوں کے کارخانے میں لکڑی کے بیکار ٹکڑوں پر وہ مختصر سا بیان بے اعتنائی سے گھسیٹ دینے کو ترجیح دی جو اب مقدس منقولات میں شامل ہے۔ ادب کے اس اصول ساز نمونے میں کہا گیا تھا کہ لاٹری دنیا کے نظام میں قسمت کو داخل کرنے کا نام ہے اور غلطیوں کے وجود کو قبول کرنا قسمت کو رد کرنا نہیں بلکہ اس کی تائید کرنا ہے۔ مزید یہ کہ ان شیروں اور مقدس دراڑوں کو اگرچہ کمپنی کی طرف سے ناجائز قرار نہیں دیا گیا (کہ وہ ان سے استفادہ کرنے کے حق سے دستبردار نہیں ہونے والی) لیکن وہ کسی سرکاری ضمانت کے بغیر کام کرتے تھے۔

اس اعلان نے لوگوں کی بے چینی فرو کر دی۔ اس سے کچھ اور اثرات بھی پیدا ہوئے جو لکھنے والے کے اندازے سے باہر تھے۔ اس نے کمپنی کی روح اور افعال میں گہری ترمیم کر دی۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے، ہمیں پہلے ہی تنبیہ کی جا چکی ہے کہ جہاز لنگر اٹھانے والا ہے، پھر بھی میں وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا۔

خواہ یہ کتنا ہی خارج از امکان نظر آتا ہو، لیکن اس وقت تک کسی نے کھیلوں کا کوئی عام نظریہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بابلی زیادہ قیاس آرائیاں کرنے والے نہیں ہوتے۔ وہ تقدیر کے فیصلوں کی تعظیم کرتے ہیں اور اپنی زندگیاں، اپنے خوف اور اپنی امیدیں اس سے وابستہ کر دیتے ہیں، لیکن انھیں کبھی ان کے چیستانی قوانین یا ان کا اعلان کرنے والے گھومتے ہوئے کُروں کی تحقیق کرنے کا خیال نہیں آتا۔ اس کے باوجود اس غیرمستند اعلان سے، جس کا میں نے ابھی ذکر کیا، بہت سی قانونی اور ریاضیاتی بحثوں کی ابتدا ہوئی۔ ان میں سے ایک بحث سے یہ قیاس پیدا ہوا کہ اگر لاٹری کا مقصد قسمت میں شدت پیدا کرنا ہے، اور کائنات میں انتشار کا مسلسل نفوذ ہے، تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اتفاق کا دخل صرف قرعہ اندازی کے موقعے پر ہونے کے بجاے ہر مرحلے پر ہو؟ کیا قسمت کے لیے یہ بات مضحکہ خیز نہیں کہ وہ صرف کسی کی موت کا اعلان کرے جبکہ اس کی موت کے تفصیلی حالات، اس کا برسرِعام یا خفیہ ہونا، یا ایک گھنٹے یا ایک صدی کے بعد واقع ہونا، اس کی دسترس سے باہر رہیں ؟ آخرکار ان اعتراضات نے بہت بڑی اصلاح کی راہ ہموار کی جس کی پیچیدگیاں (جن میں برسوں کے عمل سے اور اضافہ ہو گیا) معدودے چند ماہرین کے سوا کوئی بھی نہ سمجھ سکتا تھا۔ لیکن میں انھیں، علامتی طور پر ہی سہی، مختصراً بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ایک پہلی قرعہ اندازی کا تصور کرو جس میں کسی شخص کے لیے موت کی سزا کا قرعہ نکلتا ہے۔ اس سزا کی انجام دہی کے لیے ایک اور قرعہ اندازی ہوتی ہے جس سے (مثال کے طور پر) نو ممکنہ جلادوں کے نام تجویز ہوتے ہیں۔ ان میں سے چار ایک اور قرعہ ڈال سکتے ہیں جس سے اصل جلاد کا تعین ہو جائے ؛ دو اس ناموافق حکم کو موافق حکم میں بدل سکتے ہیں (مثلاً کسی خزانے کا حصول)؛ ایک اور شخص سزاے موت کے حکم میں مزید شدت پیدا کر سکتا ہے (یعنی اسے خفیہ رکھ کر یا اس میں تشدد کا اضافہ کر کے )؛ باقی لوگ اس سزا کو عائد کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ اس کی علامتی صورت اس طرح کی ہے : درحقیقت قرعہ اندازیوں کی تعداد لامحدود ہے، کوئی فیصلہ آخری نہیں، سب دوسرے فیصلوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ بے خبر لوگ فرض کر لیتے ہیں کہ لامحدود قرعہ اندازیوں کے لیے لامحدود وقت درکار ہوتا ہو گا، حقیقت میں وقت کا صرف لامحدود طور پر قابلِ تقسیم ہونا کافی ہے، جیسا کہ کچھوے اور خرگوش کی مشہور حکایت میں ہے۔ یہ لا محدودیت لاٹری کے اس مقدس نمونے سے پُرستائش مطابقت رکھتی ہے جس کے فلاطونی مداح تھے۔ ہمارے رواج کی ایک ذرا بگڑی ہوئی گونج دریائے ٹائبر کے کنارے پر سنائی دیتی معلوم ہوتی ہے۔ ایلیس لیمپریڈیس نے اپنی کتاب LIFE OF ANTONINUS HELIOGABALUS میں بتایا ہے کہ کس طرح یہ بادشاہ اپنے مہمانوں کو ملنے والی چیزیں سیپیوں پر تحریر کر دیا کرتا تھا کہ کسی کو دس پونڈ سونا حاصل ہو اور کسی کو دس مکھیاں، دس گلہریاں یا دس ریچھ۔ یہ یاد کرنا برمحل ہو گا کہ ہیلیوگبالس نے ایشیائے کوچک میں نامور خدا کے راہبوں کے درمیان پرورش پائی تھی۔

غیر شخصی قرعہ اندازیاں بھی ہوتی ہیں جن کا مقصد متعین نہیں ہوتا، مثلاً کسی قرعے سے یہ حکم صادر ہو سکتا ہے کہ ٹپروبین کا ایک یاقوت فرات کے پانیوں میں پھینک دیا جائے، یا یہ کہ ایک پرندے کو کسی مینار پر سے آزاد کیا جائے، یا یہ کہ ساحل پر پڑے ہوئے ریت کے ناقابلِ شمار ذروں میں ہر ایک صدی کے بعد ایک ذرہ بڑھا (یا گھٹا) دیا جائے۔ اس کے دوررس نتائج ہولناک ہو سکتے ہیں۔

کمپنی کے مفید اثر سے ہمارے رواجوں میں اتفاق کا بے حد دخل ہو گیا ہے۔ دمشق کی شراب کے درجن بھر مٹکے خریدنے والے کو کوئی تعجب نہیں ہو گا اگر ان میں سے کسی میں کوئی تعویذ یا سانپ موجود ہو۔ معاہدے تحریر کرنے والے خوش نویس ہمیشہ اس میں کوئی نہ کوئی نادرست مفروضہ شامل کر دیتے ہیں۔ میں نے خود اس عجلت میں کیے ہوئے ذکر میں کچھ نہ کچھ رد و بدل کر دیا ہے اور ایک قسم کا جلال یا کرختگی شامل کر دی ہے — شاید ایک پراسرار یک آہنگی بھی۔ ہمارے مورخوں نے، جو دنیا میں سب سے زیادہ دانشمند ہیں، اتفاق کی تصحیح کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا ہے۔ اس طریقے کے افعال عام طور پر قابلِ اعتماد تصور کیے جاتے ہیں، اگرچہ فطری طور پر اس کی شہرت میں کچھ نہ کچھ عنصر فریب کاری کا بھی شامل ہے۔ بہرصورت، کمپنی کی تاریخ سے زیادہ افسانوں سے ملوث اور کوئی چیز نہیں ہے۔ کسی معبد سے برآمد ہونے والی ایک دستاویز کسی کل کی قرعہ اندازی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور صدیوں پہلے کی قرعہ اندازی کا بھی۔ کوئی کتاب ایسی نہیں جس کے ہر نسخے میں کچھ نہ کچھ فرق نہ ہو — کاتب حذف، تحریف اور تبدیل کرنے کا خفیہ طور پر حلف اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ بالواسطہ جھوٹ کو بھی رواج دیا جاتا ہے۔

الوہی انکسار کے سبب کمپنی ہر قسم کی تشہیر سے گریز کرتی ہے۔ اس کے عملدار، جیسا کہ فطری بات ہے، خفیہ ہیں۔ اس کے مسلسل جاری ہوتے رہنے والے احکام دھوکے بازوں کے جاری کیے ہوئے نقلی احکام کے سیلاب سے مختلف نہیں ہوتے۔ اور پھر کون ہے جو دھوکے باز ہونے کا خود دعویٰ کرے گا؟ مدہوشی میں لایعنی فیصلے صادر کرنے والا شرابی، یا کوئی خواب دیکھنے والا جو یکایک نیند سے چونک کر اپنے پہلو میں سوئی ہوئی عورت کا گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالتا ہے، کیا یہ دونوں غالباً کمپنی کے کسی خفیہ فیصلے کو پورا نہیں کر رہے ہوتے ؟ یہ خاموش کارگزاری، جو خدا کے کاموں کی ہم پلّہ ہے، ہر قسم کی قیاس آرائیوں کو جنم دیتی ہے۔ ان میں سے ایک قیاس بڑے مکروہ انداز میں یہ جتاتا ہے کہ کمپنی کی عمر چند صدیوں سے زیادہ نہیں، جبکہ ہماری زندگیوں کی یہ بے ترتیبی موروثی ہے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ کمپنی ابدی ہے اور دنیا کی آخری رات تک قائم رہے گی جب آخری خدا کائنات کو منہدم کر دے گا۔ ایک اور قیاس یہ اعلان کرتا ہے کہ کمپنی ہر شے پر قادر ہے لیکن وہ اپنی قدرت صرف بہت چھوٹے معاملات میں استعمال کرتی ہے، مثلاً کسی پرندے کی چیخ، زنگ اور غبار کی تہوں یا فجر کی غنودگی میں۔ ایک اور خیال، چھپے ہوئے بے عقیدہ لوگوں کی زبان میں، یہ ہے کہ ’’کمپنی کا وجود کبھی نہیں تھا، اور نہ کبھی ہو گا۔ ‘‘ اتنا ہی حقارت آمیز ایک اور قیاس یہ بھی ہے کہ کسی مشتبہ کارپوریشن کے ہونے کے اقرار یا انکار سے کچھ فرق نہیں پڑتا، کیونکہ بابل اتفاق کے ایک لامحدود کھیل کے سوا کچھ نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

                انگریزی سے ترجمہ: اجمل کمال

 

مینارِ بابل کی لائبریری

 

BY THIS ART YOU MAY CONTEMPLATE THE VARIATION OF 23 LETTERS…

THE ANATOMY OF MELANCHOLY

(PART 2, SECT 11, MEM IV)

 

کائنات (جسے دوسرے لوگ لائبریری کہتے ہیں ) مسدس گیلریوں سے بنی ہوئی ہے جن کی تعداد غیر متعین، شاید لامحدود، ہے اور جن کے درمیان میں پستہ قد جنگلوں سے گھری بڑی بڑی ہوادار سرنگیں ہیں۔ ہر مسدس سے اوپر اور نیچے کی منزلیں دور دور تک دیکھی جا سکتی ہیں۔ پانچ پانچ طویل الماریوں نے دو کے سوا ہر دیوار کو ڈھانپ رکھا ہے۔ ان کی اونچائی، جو ہر منزل کی بلندی کے برابر ہے، ایک اوسط لائبریرین کے قد سے زیادہ نہیں۔ دو خالی پہلوؤں میں سے ایک میں ایک تنگ سی راہداری کا دروازہ ایک اور گیلری میں کھلتا ہے جو بالکل پہلی گیلری اور باقی تمام گیلریوں کی طرح ہے۔ دروازے کے دائیں اور بائیں جانب دو چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں ؛ ایک میں کھڑے ہو کر سونے کی جگہ ہے اور دوسرے میں اسفل ضروریات کی تسکین کا انتظام ہے۔ اس حصے سے ایک چکر دار زینہ بھی گزرتا ہے جو نیچے کہیں پاتال میں اتر جاتا ہے اور اوپر دور بلندیوں میں چڑھتا چلا جاتا ہے۔ راہداری کے دروازے میں ایک آئینہ لٹکا ہوا ہے جو آثار کو وفاداری سے دُہراتا رہتا ہے۔ لوگ عام طور پر اس آئینے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ لائبریری لامحدود نہیں ہے (کہ اگر واقعی ایسا ہوتا تو اس پُر فریب دُہراہٹ کی کیا ضرورت تھی؟) میں یہ خیال کرنے کو ترجیح دیتا ہوں کہ چمکدار سطحوں میں لامتناہیت کی ایجاد کا امکان چھپا ہوتا ہے … روشنی ان گول قمقموں سے آتی ہے جنھیں لیمپ کہا جاتا ہے۔ ہر مسدس میں اس طرح کے دو لیمپ ایک دوسرے کے مقابل نصب ہیں۔ ان سے نکلنے والی روشنی ناکافی اور متواتر ہے۔

لائبریری کے تمام لوگوں کی طرح میں اپنی جوانی میں سفر کر چکا ہوں ؛ میں ایک کتاب کی تلاش میں سرگرداں رہا ہوں جو شاید فہرستوں کی ایک فہرست ہے۔ اب جبکہ میری آنکھیں میرا اپنا لکھا ہوا بھی مشکل سے پڑھ سکتی ہیں، میں خود کو اُس مسدس سے چند فرسنگ دور مرنے کے لیے تیار کر رہا ہوں جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ مرنے کے بعد مجھے جنگلے سے نیچے دھکیلنے کے لیے پارسا ہاتھوں کی کمی نہیں۔ میری قبر اتھاہ ہوا ہو گی۔ لامتناہی طور پر گرتے ہوئے میرا جسم لمبا ڈوبتا جائے گا اور گل کر مخالف ہوا میں مل جائے گا۔ میں کہتا ہوں کہ لائبریری لا انتہا ہے۔ مثالیت پسند بحث کرتے ہیں کہ مکانِ مطلق کے لیے، یا جو کچھ اس کا ہمارے ذہن میں تصور ہے اس کے لیے، مسدس ہال لازمی ہیئت ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مثلث یا مخمس ہال کا تصور ناممکن ہے۔ (صوفیوں کا دعویٰ ہے کہ انبساط ان کے لیے ایک گول کمرہ ہے جس میں ایک عظیم کتاب کمرے کی دیواروں کو اپنی مسلسل پشت سے ڈھکے ہوئے ہو۔ لیکن ان کی شہادت غیر معتبر ہے اور الفاظ مبہم۔ یہ کروی کتاب خدا ہے۔ ) فی الحال میں صرف اس کلاسیکی مقولے کو دُہرانے پر اکتفا کرتا ہوں : ’’لائبریری ایک کرہ ہے جس کا مرکز کوئی ایک مسدس ہے اور جس کا محیط ناقابلِ ادراک ہے۔ ‘‘

ہر مسدس کی ہر دیوار کے لیے پانچ الماریاں ہیں۔ ہر الماری میں یکساں تقطیع کی بتیس کتابیں ہیں، ہر کتاب چار سو دس صفحات پر مشتمل ہے، ہر صفحہ چالیس سطروں پر اور ہر سطر کم و بیش اسّی سیاہ حروف پر۔ ہر کتاب کے پشتے پر بھی کچھ حروف لکھے ہوئے ہیں ؛ کتاب میں جو کچھ کہا جانے والا ہے یہ حروف اس کا کوئی خلاصہ یا اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ بے ربطی کبھی پراسرار معلوم ہوتی تھی۔ مختصر طور پر اس کا حل بیان کرنے سے پہلے (جس کا انکشاف، اپنے المیہ کنایوں کے باوجود، شاید تاریخ کی بنیادی حقیقت ہے ) میں چند مسلمہ مفروضوں کو یاد میں لانا چاہتا ہوں۔

اول: ’’لائبریری کا وجود ازل سے ہے۔ ‘‘ کوئی معقول ذہن اس حقیقت پر شک نہیں کر سکتا، جس کا فوری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا مستقبل میں ہمیشہ باقی رہے گی۔ انسان، ناقص لائبریرین، کا وجود محض اتفاق یا بد اندیشی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ کائنات، اپنی الماریوں، اپنی چیستانی کتابوں، مسافروں کے لیے ان تھک سیڑھیوں اور بیٹھے ہوئے لائبریرین کے لیے مخصوص نشستوں کی خوش وضع ترتیب کے ساتھ، کسی خدا ہی کا کام ہو سکتی ہے۔ الوہیت اور انسان کے درمیان فاصلے کے ادراک کے لیے ان بھدے شکستہ حروف کا جو میرا غلطی کرنے والا ہاتھ کسی کتاب کے آخر کے سادہ صفحوں پر رقم کرتا ہے، کتاب کے اندر کے نامیاتی حروف سے موازنہ کرنا کافی ہے جو باقاعدہ، نازک، بالکل سیاہ اور ناقابلِ تقلید طور پر موزوں ہیں۔

دوم: ’’ہجے کی علامتوں کی تعداد پچیس ہے۔ ‘‘1 اس چھوٹی سی شہادت سے، تین سو سال قبل یہ ممکن ہوا کہ لائبریری کا ایک عمومی نظریہ قائم ہو سکا اور اس مسئلے کا اطمینان بخش حل دستیاب ہوا جس کی وضاحت آج تک کسی قیاس سے نہیں ہو سکی تھی: یعنی تقریباً تمام کتابوں کی بے ہیئتی اور انتشار۔ ان میں سے ایک کتاب جو سرکٹ نمبر 1584 کے ایک مسدس میں میرے باپ نے دیکھی تھی، پہلی سے آخری سطر تک تین حروف MCV کی ضدی پن سے تکرار پر مشتمل تھی۔ ایک اور کتاب (جس سے اس علاقے میں بہت رجوع کیا جاتا ہے ) محض حروف کی بھول بھلیاں ہے لیکن آخری سے پہلے صفحے پر یہ الفاظ پڑھے جا سکتے ہیں : OH TIME THY PYRAMIDS۔ جیسا کہ بخوبی جانا جاتا ہے، سیدھے سادے بیانیے کی ایک معقول سطر کے لیے بے حس بے آہنگی، الفاظ کے پچ میل اور بے ربطی کے فرسنگ کے فرسنگ ناپنے پڑتے ہیں۔ (مجھے ایک ایسے علاقے کا علم ہے جہاں کے لائبریرین کتابوں میں کسی مفہوم کو تلاش کرنے کے بے فائدہ توہمانہ رواج کو رد کرتے ہیں، اور اسے خوابوں میں، یا ہتھیلی کی منتشر لکیروں میں کوئی مفہوم ڈھونڈنے کے مترادف سمجھتے ہیں … وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان تحریروں کے موجدوں نے پچیس فطری علامات ہی کو نقل کیا ہے، لیکن ان کا اصرار ہے کہ یہ استعمال محض اتفاق ہے اور کتابیں بجائے خود کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ رائے مکمل طور پر غلط نہیں ہے۔ )

بہت عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ ناقابلِ گزر کتابیں کسی قدیم زمانے کی یا دور دراز علاقے کی زبانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ قدیم ترین انسان، جو اولین لائبریرین تھے، ایسی زبان بولتے تھے جو ہماری آج کل کی زبان سے یکسر مختلف تھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ دائیں جانب چند میل کے فاصلے پر زبان کا محاورہ مقامی ہے، اور نوے منزل اوپر یہ بالکل ناقابلِ فہم ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ یہ سب سچ ہے لیکن چار سو دس صفحات تک MCV کی بے تغیر تکرار کسی زبان سے مطابقت نہیں رکھتی، چاہے وہ کتنی ہی علاقائی یا ابتدائی زبان کیوں نہ ہو۔ کچھ لائبریرین خیال کرتے تھے کہ ہر حرف اپنے اگلے حرف کو متاثر کرتا ہے، اور صفحہ 71 کی تیسری سطر پر MCV کی قدر وہ نہیں ہو گی جو کسی اور صفحے کی کسی سطر پر، لیکن یہ مبہم نظریہ پنپ نہ سکا۔ کچھ اور لوگ اسے خفیہ زبان کی تحریر سمجھتے تھے ؛ یہ قیاس اب عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، اگرچہ ان معنوں میں نہیں جن میں اس قیاس کے موجدوں نے اسے وضع کیا تھا۔

پانچ سو برس پہلے ایک بالائی منزل کے سربراہ2 کو ایک ایسی کتاب ملی جو یوں تو باقی تمام کتابوں ہی کی طرح پراگندہ کن تھی لیکن جس میں ہم آہنگ سطروں پر مشتمل کم و بیش دو صفحے موجود تھے۔ اس نے اپنی دریافت ایک خفیہ زبانیں پڑھنے والے کو دکھائی جس نے بتایا کہ یہ سطریں پرتگالی زبان میں لکھی ہوئی ہیں۔ دوسروں کا خیال تھا کہ یہ یِدش زبان میں ہیں۔ ایک صدی سے کم عرصے میں اس زبان کی نوعیت طے ہو گئی: یہ گوارانی زبان کی سوئیدک لتھوینین بولی تھی جس پر کلاسیکی عربی کے بھی اثرات تھے۔ متن کو بھی پڑھ لیا گیا: یہ الفاظ کے ملاپ کے تجزیے سے متعلق چند نظریات تھے جو الفاظ میں ذرا ذرا سی تبدیلی کے ساتھ لامحدود تکرار کی مثالوں سے مزین تھے۔ ان مثالوں کی مدد سے ایک ذہین لائبریرین کے لیے لائبریری کے بنیادی اصول کا سراغ لگانا ممکن ہو گیا۔ اس مفکر کا خیال تھا کہ تمام کتابیں، چاہے وہ کتنی ہی مختلف ہوں، یکساں عناصر سے بنی ہیں : پیریڈ، کاما، وقفہ اور بائیس حروفِ تہجی۔ اس نے ایک اور حقیقت پیش کی جس کی تصدیق مسافروں نے کی: ’’اس وسیع لائبریری میں کوئی دو کتابیں ایسی نہیں ہیں جو مکمل طور پر یکساں ہوں۔ ‘‘ ان تمام ناقابلِ تردید مقدمات سے اس نے اخذ کیا کہ لائبریری ’’مکمل ‘‘ ہے، اور اس کی الماریوں کے خانوں میں بائیس حروف تہجی کی تمام ممکنہ ترتیبیں موجود ہیں (جن کی تعداد چاہے کتنی بھی وسیع ہو، لامحدود نہیں ہے ) —یعنی تمام زبانوں میں ہر قابلِ اظہار شے۔ ان الماریوں میں ہر چیز ہے : مستقبل کی تفصیلی تاریخ، فرشتوں کے سرداروں کے خودنوشت سوانح حیات، لائبریری کے درست کٹیلاگ، ہزارہا غلط کٹیلاگ، غلط کٹیلاگوں کی غلطیوں کی فہرستیں، صحیح کٹیلاگوں کی غلطیوں کی فہرستیں، باسیلیدس کے عارفانہ ملفوظات کی تفسیر، اس تفسیر کی تفسیر، تمھاری موت کا درست احوال، ہر کتاب کا ہر زبان میں ترجمہ، تمام کتابوں کے درمیان ہر کتاب کا نفوذ۔

جب یہ اعلان کیا کہ لائبریری ’’تمام ‘‘ کتابوں پر مشتمل ہے تو پہلا تاثر بے پناہ خوشی کا تھا۔ تمام انسانوں نے خود کو ایک مخفی، ان چھوئے خزانے کا مالک محسوس کیا۔ کوئی نجی یا کائناتی مسئلہ ایسا نہ تھا جس کا حل کسی نہ کسی مسدس میں موجود نہ ہو۔ کائنات با جواز ہو گئی، امید کی بے نہایت حدوں تک پھیل گئی۔ اس موقعے پر روداد کی کتابوں کا بہت چرچا ہوا: یہ عذرخواہی اور پیش گوئی کی وہ کتابیں تھیں جو ہر زمانے کے لیے، کائنات کے ہر انسان کے تمام افعال کی تفصیل رکھتی تھیں اور مستقبل کے لیے بے شمار امکانات کا ذخیرہ۔ روداد کی کتابیں حاصل کرنے کے فضول مقصد سے حریص انسان اپنے اپنے عزیز آبائی مسدس کو چھوڑ کر زینوں پر ہجوم کرنے لگے۔ یہ یاتری تنگ راہداریوں میں ایک دوسرے سے جھگڑتے، ایک دوسرے کو سیاہ بد دعائیں دیتے، الوہی زینوں پر ایک دوسرے کی راہ روک لیتے، پر فریب کتابوں کو ہوادار سرنگوں کی تہہ میں پھینک دیتے، اور دور دراز علاقوں کے انسانوں کے ہاتھوں اسی قسم کی موت کا شکار ہو جاتے۔ کچھ لوگ پاگل ہو گئے … روداد کی کتابوں کا وجود ہے (میں نے خود ایسی دو کتابیں دیکھی ہیں جن کا تعلق آنے والے زمانوں کے افراد سے تھا، افراد جو شاید فرضی نہیں تھے ) لیکن انھیں تلاش کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی شخص کے اپنی کتاب یا اس کی کوئی تبدیل شدہ شکل پا لینے کا قابلِ شمار امکان تقریباً صفر ہے۔

اس زمانے میں یہ توقع بھی کی جاتی تھی کہ انسانیت کے بنیادی اسرار—لائبریری کی اور وقت کی حقیقت—کی وضاحت ممکن ہے۔ یہ بات قابلِ یقین ہے کہ ان گمبھیر رازوں کو الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اگر فلسفیوں کی زبان ناکافی ثابت ہو تو متنوع لائبریری یہ بے مثال زبان، اور اس کے ضروری ذخیرۂ الفاظ اور قواعد، پیدا کر لے گی جو اس بیان کی متحمل ہو سکے گی۔

تقریباً چار صدیاں ہوتی ہیں کہ انسان ان مسدسوں میں بھٹک رہے ہیں … ان میں کچھ سرکاری متلاشی (INQUISITORS) ہیں۔ میں نے انھیں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے دیکھا ہے : وہ ہمیشہ اپنے سفر سے تھکے ہوئے آتے ہیں، ان کی زبان پر ایک ٹوٹے ہوئے زینے کا ذکر ہوتا ہے جس کے باعث وہ مرتے مرتے بچے تھے۔ وہ مقامی لائبریرین سے گیلریوں اور زینوں کی باتیں کرتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ اجنبی الفاظ کی تلاش میں اپنے قریب رکھی ہوئی کوئی کتاب اٹھا کر اس کی ورق گردانی شروع کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے اس طرح کوئی بھی کسی دریافت کی توقع نہیں کر سکتا۔

قدرتی طور پر اس غیر معمولی امید کی جگہ گہری مایوسی نے لے لی۔ یہ یقین کہ کسی مسدس کی کسی الماری میں قیمتی کتابیں موجود ہیں جن کا حصول ناممکن ہے، ناقابلِ برداشت معلوم ہونے لگا۔ ایک بدعتی فرقے نے تجویز کیا کہ اس تلاش کو ترک کر دیا جائے اور تمام لوگ ہر جگہ حروف اور علامتوں کو چھانٹتے رہیں، یہاں تک کہ وہ قسمت کی ایک غیر اغلب عنایت سے ان قوانین کی کتابیں مرتب کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ حکام کو سخت احکام جاری کرنے پڑے۔ یہ فرقہ نابود ہو گیا، لیکن میں نے اپنے بچپن میں ایسے بوڑھے آدمی دیکھے ہیں جو بہت طویل عرصے کے لیے چھوٹے کمروں میں پانسہ پھینکنے کی ممنوعہ ڈبیوں میں دھات کے ٹکڑے لے کر چھپ جایا کرتے اور الوہی بے ترتیبی کو منھ ہی منھ میں دہرایا کرتے۔

اس کے برخلاف دوسرے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ پہلا کام بے مصرف تحریروں کو تلف کرنا ہے۔ وہ مسدسوں پر حملہ آور ہوتے اور ایسے کاغذات دکھا کر جو ہمیشہ جعلی نہیں ہوتے تھے، ایک کتاب کو سرسری طور پر ناگواری سے دیکھتے اور پھر پوری الماری کو تباہ کرنے کے قابل قرار دے دیتے : ان کا یہ راہبانہ اور معالجانہ طیش لاکھوں کتابوں کے لایعنی نقصان کا ذمہ دار ہے۔ ان کے نام پر لعنت کی جاتی ہے، لیکن اس جنون کے ضائع کردہ ’خزانوں ‘ کا افسوس کرنے والے لوگ دو اہم حقائق کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ لائبریری اتنی بڑی ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں ہونے والی کوئی بھی کمی انتہائی خفیف ہے۔ دوسرے یہ کہ یوں تو ہر کتاب منفرد اور بے بدل ہے، لیکن (چونکہ لائبریری ’مکمل‘ ہے ) سیکڑوں ہزار ناقص نقلیں اور ایسی تحریریں موجود ہیں جن میں صرف ایک حرف یا ایک کاما کا فرق ہے۔ عام خیال کے برعکس، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان جنونیوں کی پھیلائی ہوئی دہشت سے اس غارت گری میں مبالغہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس غارتگری کو مزید مہمیز سرخ مسدس میں ان کتابوں تک پہنچنے کی خواہش سے ملی جو عام تقطیع سے چھوٹی، ہر شے پر قادر، مصور اور طلسماتی تھیں۔

ہم اس زمانے کے ایک اور واہمے کو بھی جانتے ہیں : یعنی مردِ کتاب کا تصور۔ لوگوں کا اصرار تھا کہ کسی مسدس کی کسی الماری میں ایک کتاب ضرور ایسی موجود ہے جو ’’باقی تمام کتابوں ‘‘ کی کلید اور مکمل ترین تلخیص ہے : ایک لائبریرین اس کا مطالعہ کر چکا ہے اور وہ خدا کے مثل ہے۔ اس قدیم کار پرداز کی پرستش کے آثار اس علاقے کی زبان میں اب بھی ملتے ہیں۔ بہت سوں نے اس کی تلاش کی ہے۔ ایک صدی تک وہ پیچیدہ ترین علاقوں کو بے سود کھنگالتے رہے ہیں۔ اس پراسرار مسدس کا سراغ کس طرح لگایا جائے جہاں وہ موجود ہے ؟ کسی نے اس کے لیے ایک مراجعتی طریقہ تجویز کیا تھا: کتاب الف کا مقام معلوم کرنے کے لیے پہلے کتاب ب سے رجوع کیا جائے جس میں کتاب الف کا سراغ موجود ہے، کتاب ب کا پتا لگانے کے لیے کتاب ج سے رجوع کیا جائے، اور اسی طرح لا متناہیت تک …

میں نے اس قسم کی مہمات میں اپنی زندگی کے برس لٹائے اور صرف کیے ہیں۔ مجھے یہ بات غیر ممکن نہیں لگتی کہ کائنات کی کسی الماری میں کوئی مکمل کتاب موجود ہے۔ 3 میں نامعلوم خداؤں سے دعا کرتا ہوں کہ کسی شخص نے — کسی ایک شخص نے، خواہ وہ ہزاروں برس پہلے کا کوئی شخص ہو— اس کتاب کو پرکھا اور پڑھا ہو۔ اگر اعزاز اور دانش اور مسرت میرے لیے نہیں ہیں تو وہ کسی اور ہی کے لیے ہوں۔ جنت کا وجود ہو، چاہے مجھے جہنم ہی میں جگہ ملے۔ خواہ میں پامال اور نابود ہو جاؤں لیکن تیری عظیم لائبریری کا کسی ایک موقعے پر کسی کے لیے جواز فراہم ہو۔

بے دین لوگ اصرار کرتے ہیں کہ بے معنویت لائبریری کا قاعدہ ہے اور کوئی بھی معقول شے (یہاں تک کوئی معمولی یا سادہ سا ربط بھی) تقریباً معجزاتی استثنیٰ ہے۔ وہ لوگ (میں جانتا ہوں ) اس سرسامی لائبریری کی بات کرتے ہیں ’’جس کی اتفاقیہ کتابیں ہمیشہ دوسری کتابوں میں تبدیل ہو جانے کے خطرے سے دوچار رہتی ہیں اور ایک ہذیانی الوہیت میں ہر شے کا انکار، اقرار اور الجھاؤ پیدا کرتی رہتی ہیں۔ ‘‘ یہ الفاظ (جن میں خود وہ بے نظمی موجود ہے جس کی یہ مذمت کرتے ہیں ) کہنے والوں کی بد مذاقی اور جہالت پر گواہ ہیں۔ درحقیقت لائبریری میں الفاظ کی تمام ممکنہ ترکیبیں، پچیس تحریری علامات کی ہر ممکن ترتیب موجود ہے، لیکن اس میں مطلق لایعنیت کا وجود ممکن نہیں۔ یہ کہنا بے معنی ہو گا کہ ان بے شمار مسدسوں میں جو میرے تصرف میں ہیں، بہترین کتاب THE COMBED THUNDERCLAP یا THE PLASTER CRAMP یا AXAXAXAS MLO ہے۔ یہ فقرے جو پہلی نظر میں بالکل بے ربط معلوم ہوتے ہیں، بلاشبہ اپنا رمزی یا تمثیلی جواز رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ جواز بھی الفاظ پر مشتمل ہے اس لیے مفروضاتی طور پر یہ بھی لائبریری میں موجود ہے۔ میں الفاظ کو کسی ایسی ترتیب (مثلاً DHCMRLCHTDJ) میں یکجا نہیں کر سکتا جو اس الوہی لائبریری میں پہلے ہی سے موجود نہ ہو، اور جو اس کی خفیہ زبانوں میں سے کسی زبان میں کسی دہشت ناک مفہوم کا احاطہ نہ کرتی ہو۔ کوئی شخص ایسی کسی آواز کو تحریر میں نہیں لا سکتا جو نرمی اور دہشت سے پُر نہ ہو اور جو کسی نہ کسی زبان میں کسی نہ کسی خدا کا طاقتور نام ظاہر نہ کرتی ہو۔ بولنے کا مطلب تکرار کا شکار ہو جانا ہے۔ یہ بے مصرف اور لفظی تحریر بھی جو میں لکھ رہا ہوں، پہلے سے کسی مسدس کی کسی الماری پر رکھی تیس کتابوں میں کہیں نہ کہیں موجود ہو گی — اور اس کا رد بھی۔ (تمام ممکنہ زبانوں کی تعداد N، ایک ہی ذخیرۂ الفاظ کو استعمال کرتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک زبان میں لفظ ’’لائبریری‘‘ کا مطلب یہ ہے : ’’مسدس گیلریوں کا ہمہ گیر اور ابدی نظام۔ ‘‘ لیکن کسی اور زبان میں اس اس کے معنی ’’روٹی‘‘ یا ’’ہرم‘‘ کے ہو سکتے ہیں، اور لائبریری کی تعریف بیان کرنے والے سات الفاظ کا مفہوم کچھ اور ہو سکتا ہے۔ تم جو مجھے پڑھتے ہو، کیا تمھیں یقین ہے کہ تم میری زبان سمجھتے ہو؟)

لکھنے کا باضابطہ کام مجھے انسانوں کی موجودہ صورت حال سے نکال لیتا ہے، لیکن یہ یقین کہ ہر تحریر پہلے سے لکھی جا چکی ہے، ہم سب کو باطل کر دیتا اور خیالی پیکروں میں بدل دیتا ہے۔ میں ایسے علاقوں سے واقف ہوں جہاں نوجوان کتابوں کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں اور ان کے صفحات کو بربریانہ انداز میں چومتے ہیں، حالانکہ وہ ایک حرف کو بھی شناخت کرنا نہیں جانتے۔ وباؤں، بدعتی اختلافات اور قتل و غارتگری میں بدل جانے والی یاتراؤں نے آبادی کے دسویں حصے کو تلف کر دیا ہے۔ اور خود کشیوں کا ذکر تو میں پہلے ہی کر چکا ہوں، جن میں ہر سال اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس گمراہی کی وجہ بڑھاپا اور خوف ہو لیکن مجھے شبہ ہے کہ نوع انسانی—منفرد نوعِ انسانی—خاتمے کے راستے پر ہے، جبکہ لائبریری ہمیشہ باقی رہے گی: روشن، تنہا، لامحدود، ساکت، قیمتی کتابوں سے پُر، بے مصرف، ناقابلِ مسخ اور مخفی۔

میں نے ابھی ابھی ’’لامحدود‘‘ کا لفظ لکھا ہے۔ میں نے اسے خطیبانہ عادت کے سبب استعمال نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوچنا غیر منطقی بات نہیں ہے کہ دنیا لامحدود ہے۔ وہ جو اسے محدود خیال کرتے ہیں، گویا یہ سمجھتے ہیں کہ بہت دور دراز کسی جگہ پر راہداریوں، سیڑھیوں اور مسدسوں کا یہ سلسلہ (ناقابل تصور طور پر) رک سکتا ہے —جو کہ ظاہر ہے بالکل لایعنی بات ہے۔ دوسری طرف وہ جو اسے بے نہایت جانتے ہیں، یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ کتابوں کی ممکنہ تعداد محدود ہے۔ اس قدیم مسئلے کا میں یہ حل تجویز کرنے کی جسارت کرتا ہوں : ’’لائبریری لامحدود اور تکراری نوعیت کی ہے۔ ‘‘ اگر کوئی ابدی مسافر کسی سمت میں بڑھتا چلا جائے تو وہ صدیوں بعد یہ پائے گا کہ وہی کتابیں اسی بے ترتیبی میں دہرائی جا رہی ہیں (جن کی تکرار سے وہ نظام بنتا ہے جو اصل نظام ہے )۔ اس لطیف توقع سے میری تنہائی کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔ 4

 

حاشیے :

1 اس تحریر کے اصل مسودے میں ہندسے یا بڑے حروف نہیں ہیں۔ پنکچویشن صرف کاما اور پیریڈ تک محدود ہے۔ ان دونوں علامتوں کے علاوہ وقفہ اور بائیس حروفِ تہجی مل کر وہ پچیس کافی علامات ہیں جو نامعلوم مصنف نے بیان کی ہیں۔

2 پہلے ہر تین مسدسوں پر ایک آدمی ہوا کرتا تھا۔ خود کشی اور پھیپھڑے کی بیماریوں نے اس تناسب کو غارت کر دیا۔ میری یادداشت میں ناقابلِ بیان ویرانی کے مناظر محفوظ ہیں جب میں کئی کئی راتوں تک راہداریوں اور چمکدار زینوں میں سفر کرتا رہتا تھا اور مجھے کوئی لائبریرین نہیں ملتا تھا۔

3 میں دُہراتا ہوں : کسی کتاب کے ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ اس کا ہونا ممکن ہو؛ صرف جو ناممکن ہے وہ اس سے باہر ہے۔ مثلاً کوئی کتاب ایسی نہیں جو کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زینہ بھی ہو۔ اگرچہ اس امکان سے بحث کرنے والی، اسے رد کرنے والی اور اس کی تائید کرنے والی کتابیں موجود ہیں، اور ایسی کتابیں جو اپنی ساخت میں زینوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔

4 لتیزیا الواریز دی تولیدو نے تبصرہ کیا ہے کہ یہ وسیع لائبریری بے مصرف ہے۔ درحقیقت ’’صرف ایک کتاب‘‘ کافی ہے، عام تقطیع کی ایک کتاب، جو نو یا دس پوائنٹ کے ٹائپ میں چھپی ہو، اور لا انتہا طور پر باریک اوراق کی لامحدود تعداد پر مشتمل ہو۔ (سترھویں صدی کے شروع میں کوالیئری نے کہا تھا کہ تمام ٹھوس اجسام مستویوں PLANES کی لامحدود تعداد کے ایک دوسرے کے اوپر واقع ہونے سے بنتے ہیں۔ ) اس ریشمی دفتر کو برتنا سہل نہیں ہو گا کیونکہ ہر ورق اپنے جیسے اور اوراق میں تقسیم ہو جائے گا۔ صرف ناقابل تصور درمیانی ورق کا کوئی الٹ نہیں ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

انگریزی سے ترجمہ:صلاح الدین محمود

 

انفرنو 32/1

 

 

صبح کے جھٹ پٹے سے شام کے جھٹ پٹے تک ایک چیتا، تیرھویں صدی کے آخری برسوں میں، چند لکڑی کے تختوں، چند لوہے کی عمودی سلاخوں، بدلتے مردوں اور عورتوں، ایک دیوار اور شاید خشک پتوں سے بھری پتھر کی ایک ناند کو دیکھتا تھا۔ اس کو علم نہیں تھا، نہ ہو سکتا تھا، کہ وہ محبت، سفاکی، چیزوں کو پھاڑنے کی تپتی مسرت اور ہرن کی مہک پائے ہوا کی طلب کرتا ہے۔ مگر کوئی چیز اس کے اندر گھٹ گئی اور اس نے بغاوت کی اور خدا ایک خواب میں اس کا ہم گفتار ہوا: ’’تم اس اسیری ہی میں زندگی گزارو گے، اور مر جاؤ گے، اس واسطے کہ ایک انسان، جس کے بارے میں میں جانتا ہوں، تم کو معدودے چند بار دیکھ پائے اور تم کو نہ بھولے اور تمھاری ہستی و نقش کو ایک نظم میں جگہ دے، کہ اس کائنات کے اسلوب میں، جس کا ایک مقام ہے، تم قید جھیلتے ہو مگر تم اس نظم کو ایک لفظ دے گزرو گے۔ ‘‘ خدا نے، اس خواب میں، اس جانور کی حیوانیت کو روشن کیا اور جانور نے ان وجوہات کو سمجھ کر اپنے مقدر کو قبول کیا، مگر جب کہ وہ بیدار ہوا اس میں محض ایک مخفی توکل تھا، ایک بہادرانہ بے خبری، اس لیے کہ اس جہان کی ساخت، ایک جانور کی سادگی کے واسطے، از حد پیچیدہ ہے۔

برسوں بعد، دانتے راوینہ میں فوت ہو رہا تھا، ویسا ہی بے داد اور اکیلا جیسے کوئی اور انسان۔ ایک خواب میں خدا نے اس پر اس کی حیات اور جدوجہد کا پوشیدہ مقصد عیاں کیا اور اس نے اپنی جان کی تلخی کو شاد کہا—روایت ہے کہ بیدار ہونے پر اس کو احساس تھا کہ جیسے اس نے کوئی لا انتہا شے پا کر گنوا دی ہو، ایسی شے کہ جس کو بحال کرنا، جس کی جھلک تک پانا ناممکن تھا، اس لیے کہ اس جہان کی ساخت، ایک انسان کی سادگی کے واسطے، از حد پیچیدہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

 

بورخیس اور میں

 

 

یہ دوسرا، جو بورخیس کہلاتا ہے، وہ ہے جس کے ساتھ واقعات پیش آتے ہیں۔ میں بیونس آئرس کی گلیوں سے گزرتے ہوئے کسی ہال کے دروازے کی محراب اور پھاٹک کی جالیوں پر ایک نگاہ کرنے کی غرض سے، اب شاید میکانکی طور پر، ایک لمحے کے لیے رک جاتا ہوں۔ میں بورخیس کو اس کی ڈاک سے جانتا ہوں اور اس کا نام پروفیسروں کی فہرست یا کسی سوانحی لغت میں دیکھتا ہوں۔ مجھے ریت گھڑیاں، نقشے، اٹھارھویں صدی کے چھاپے کے حروف، کافی کا ذائقہ اور اسٹیونسن کی نثر پسند ہیں۔ وہ بھی ان ترجیحات میں شریک ہے لیکن ایک رائیگاں انداز سے جس سے یہ سب کسی اداکار کے ڈھونگ میں بدل جاتے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ ہمارا رشتہ عداوت کا رشتہ ہے۔ میں جیتا ہوں، خود کو زندگی کرنے دیتا ہوں، تاکہ بورخیس اپنے ادب کی تدبیر کر سکے، اور یہ ادب میرا جواز فراہم کرتا ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ اس نے چند معتبر صفحات لکھے ہیں، لیکن وہ صفحات مجھے نہیں بچا سکتے، شاید اس لیے کہ جو کچھ اچھا ہے کسی کا نہیں ہے، اس کا بھی نہیں، بلکہ زبان اور روایت کی ملکیت ہے۔ اس کے علاوہ، فنا حتمی طور پر میرا مقدر ہے، اور صرف میرا کوئی لمحہ ہی اس میں باقی رہ سکتا ہے۔ رفتہ رفتہ میں ہر چیز اس کے حوالے کرتا جا رہا ہوں، حالانکہ میں اس کے تحریف اور مبالغہ کرنے کے گمراہ طریقے سے بخوبی واقف ہوں۔ اسپینوزا کو علم تھا کہ تمام اشیا اپنی ہی جون میں باقی رہنا چاہتی ہیں : پتھر ابد تک پتھر رہنا چاہتا ہے اور چیتا چیتا۔ میں خود میں نہیں، بورخیس میں رہوں گا (اگر یہ سچ ہے کہ میں بھی کوئی ہوں )، لیکن میں خود کو اس کی کتابوں سے زیادہ دوسری بہت سی کتابوں میں اور گٹار کے تھکا دینے والے سُروں میں شناخت کرتا ہوں۔ برسوں پہلے میں نے خود کو اس سے آزاد کرانے کی کوشش کی تھی، اور گرد و نواح کی دیومالا سے وقت اور ابدیت سے کھیلنے کی طرف چلا گیا تھا، لیکن یہ کھیل اب بورخیس کی ملکیت ہیں اور مجھے دوسری چیزوں کا تصور کرنا پڑے گا۔ میری زندگی ایک فرار ہے اور میں ہر شے ہار جاتا ہوں اور ہر شے آخرکار فراموشی کی ملکیت ہے، یا اس کی۔

میں نہیں جانتا کہ یہ صفحہ ہم میں سے کس نے لکھا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

                انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

 

سب کچھ اور کچھ نہیں

 

 

اس شخص کے اندر کوئی نہیں ہے۔ اس کے چہرے کے پیچھے (جو اُس زمانے کی ناقص مصوری کے باوجود کسی اور سے مشابہت نہیں رکھتا) اور اس کے لبریز، پُر تخیل اور طوفانی لفظوں کے پیچھے، صرف ایک ہلکی سی خنکی تھی—ایک خواب جسے کسی نے نہیں دیکھا۔ پہلے پہل وہ سوچتا تھا کہ تمام لوگ اس جیسے ہیں، لیکن جب ایک دوست سے اس نے اپنے خالی پن کی بات کرنا شروع کی تو اس کی حیرت نے اسے اپنی غلطی کا احساس دلا دیا، اور اس میں ہمیشہ کے لیے یہ سوچ پیدا کر دی کہ کسی فرد کو اپنی ظاہری وضع میں مختلف نہیں ہونا چاہیے۔ ایک بار اس نے سوچا کہ وہ کتابوں میں اپنی اس بیماری کا علاج پا لے گا، اور یوں اس نے تھوڑی بہت لاطینی اور یونانی زبانیں سیکھیں جو اس وقت مروج تھیں۔ بعد میں اس نے خیال کیا کہ اسے جس شے کی تلاش ہے وہ انسانیت کے بسیط رسوم و رواج میں مل سکتی ہے، اور جون کی ایک طویل سہ پہر کو خود کو این ہیتھاوے سے آشنا ہو جانے دیا۔ بمشکل بیس برس کی عمر میں وہ لندن چلا گیا۔ جبلی طور پر اس کی یہ ظاہر کرنے کی عادت پختہ ہو گئی تھی کہ وہ کوئی ہے —تاکہ دوسرے لوگ یہ نہ جان لیں کہ وہ کوئی نہیں ہے۔ لندن میں اس نے وہ پیشہ اپنا لیا جو اس کے لیے مقدر ہو چکا تھا — ایک اداکار کا پیشہ جو اسٹیج پر کوئی اور شخص ہونے کا ڈھونگ رچاتا ہے، ان لوگوں کے اجتماع کے سامنے جو اسے وہ دوسرا شخص سمجھنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ اس کے ان دکھاوے کے کارناموں نے اسے ایک منفرد تسکین بخشی، شاید پہلی مرتبہ وہ کسی تسکین سے آشنا ہوا۔ لیکن جب آخری مصرع داد پا چکتا اور آخری مردہ کردار اسٹیج سے ہٹا لیا جاتا تو بے حقیقتی کی نفرت انگیز مہک اس کے پاس لوٹ آتی۔ جوں ہی وہ فیریکس یا تیمور لنگ ہونا ترک کرتا، ایک بار پھر کوئی نہیں ہو جاتا۔ اسی ہانکے میں اس نے دوسرے سورماؤں اور دوسری المیہ داستانوں کا تصور کرنا شروع کر دیا۔ اور اس طرح جب اس کا جسم لندن کے چکلوں اور مے خانوں میں جسم کے طور پر اپنی تقدیر کو پورا کر رہا ہوتا تھا، اس میں موجود روح سیزر ہوتی تھی جو نجومیوں کی فہمائشوں کو خاطر میں نہ لاتا تھا، اور جولیٹ جسے گانے والے پرندوں سے وحشت ہوتی تھی، اور میکبتھ جو ان چڑیلوں سے روبرو ہو کر بات کرتا تھا جو تقدیریں بھی ہیں۔ کوئی اور شخص کبھی اتنے سارے اشخاص نہیں ہوا جتنا یہ شخص، جو مصری پروتیئس کی طرح حقیقت کے سارے بھیس تمام کر سکتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنی تحریروں کے کسی کونے میں ایک اعتراف اس یقین کے ساتھ چھپا چھوڑ دیتا تھا کہ اسے کوئی نہیں پڑھ سکے گا۔ رچرڈ اقرار کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں بہت سے لوگوں کا کردار ادا کرتا ہے، اور ایاگو عجیب الفاظ میں دعویٰ کرتا ہے کہ ’’میں وہ نہیں ہوں جو ہوں۔ ‘‘ ہونے، خواب دیکھنے اور اداکاری کرنے کی بنیادی پہچان نے اس کے مشہور اقتباسات کو متاثر کیا۔

بیس برس تک وہ اس منضبط واہمے میں رہا لیکن اچانک ایک صبح تلوار سے قتل کیے جانے والے بہت سے بادشاہ اور ملنے بچھڑنے اور گاتے ہوئے ختم ہو جانے والے بہت سے دکھی عاشق ہونے کی دہشت اور کوفت نے اسے آ لیا۔ اسی روز اس نے اپنا تھیٹر بیچ ڈالا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر وہ اپنے آبائی گاؤں واپس پہنچ چکا تھا، جہاں اس نے اپنے بچپن کے درخت اور دریا بحال کیے، اور ان کا ذکر اُن دوسروں سے نہ کیا جنھیں اس کے استغراق سے شہرت ملی تھی اور جو دیومالائی تلمیحات اور لاطینی اصطلاحوں سے مزین تھے۔ اسے کوئی شخص ہونا تھا۔ وہ ایک تھیٹر کا ریٹائرڈ منتظم تھا جس نے اپنی جائیداد بنائی اور خود کو قرضوں، مقدموں اور حقیر سودخوری میں مصروف رکھا۔ یہ سب اس کے کردار کا حصہ تھا کہ وہ اس بنجر قوتِ ارادی اور دوراندیشی کا استعمال کرے جس سے ہم بھی واقف ہیں۔ اس کردار سے اس نے جان بوجھ کر دلگدازی اور ادب کے تمام شائبوں کو خارج کر دیا تھا۔ جب اس کے لندن کے دوست اس سے ملنے اس کی آرام گاہ پر آتے تو وہ ان کے لیے اپنا شاعر ہونے کا کردار دوبارہ اختیار کر لیتا۔

تاریخ اضافہ کرتی ہے کہ مرنے سے پہلے یا بعد میں اس نے خود کو خدا کے حضور میں پایا، اور اس سے کہا: ’’میں جو بے فائدہ اتنے بہت سے افراد رہا ہوں، چاہتا ہوں کہ میں ایک فرد ہو جاؤں، اور وہ میں خود ہوں۔ ‘‘ ایک گردباد میں سے خداوند کی آواز نے جواب دیا: ’’میں بھی کوئی نہیں ہوں۔ میں نے اس جہان کا خواب دیکھا، جیسے تم نے اپنی تحریروں کا خواب دیکھا۔ اور اے میرے شیکسپیئر، میرے خواب کی شکلوں میں تم بھی ہو، جو میری طرح بہت سے ہو، اور کوئی نہیں ہو۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

انگریزی سے ترجمہ:اجمل کمال

 

کافکا اور اس کے پیشرو

 

 

میں نے ایک مرتبہ کافکا کے پیشرووں کا مطالعہ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ پہلے پہل میں اسے ایسا ہی یکتا سمجھتا تھا جیسے خطیبانہ مدح کا ابوالہول۔ اس کے صفحات سے ذرا روزانہ کی آشنائی کے بعد مجھے خیال ہوا کہ میں اس کی آواز یا اس کے انداز مختلف ادبیات اور مختلف زمانوں کی تحریروں میں پہچان سکتا ہوں۔ یہاں میں ان میں سے چند کو زمانی ترتیب سے درج کرنا چاہتا ہوں۔

پہلا زینو (ZENO) کا حرکت کے خلاف پیراڈوکس ہے۔ (ارسطو بیان کرتا ہے کہ) مقام الف پر موجود ایک آبجیکٹ مقام ب تک نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ پہلے اسے ان دو نقاط کے درمیانی فاصلے کا نصف طے کرنا ہو گا، اور اس سے پہلے اس نصف کا نصف، اور اس سے پہلے اس نصف کے نصف کا نصف، اور اسی طرح لامتناہی طور پر۔ اس معروف قضیے کی ہیئت بالکل THE CASTLE کی طرح ہے، اور یہ متحرک آبجیکٹ اور تیر اور خرگوش ادب کے اولین کافکائی کردار ہیں۔ دوسری تحریر میں، جو اتفاق سے میرے سامنے آئی، مشابہت ہیئت کی نہیں بلکہ لہجے کی ہے۔ یہ نویں صدی کے ایک چینی نثرنگار ہان یو کا ایک قصہ ہے، اور مارگولیے کے قابلِ تحسین انتخاب ANTHOLOGIE RAISONNEE DE A LITTERATURE CHINOIS میں دوبارہ درج کیا گیا ہے۔ یہ وہ پراسرار اور خاموش پیراگراف ہے جسے میں نے نشان زد کیا: ’’یہ بات مسلمہ ہے کہ یونی کورن اچھے شگون والا مافوق الفطرت حیوان ہے۔ یہی کچھ قصیدوں، قصوں اور نامور انسانوں کے سوانح حیات میں اور دوسری تحریروں میں درج ہے جن کا استناد شک وشبے سے بالاتر ہے۔ بچے اور دیہاتی عورتیں بھی جانتی ہیں کہ یونی کورن ایک اچھا شگون ہے۔ لیکن یہ جانور گھریلو جانوروں میں شمار نہیں ہوتا۔ اسے پانا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، یہ خود کو حیوانی درجہ بندی کا مطیع نہیں ہونے دیتا۔ نہ یہ گھوڑے یا بیل کی طرح ہے، اور نہ ہی بھیڑیے یا ہرن کی طرح۔ ان حالات میں ممکن ہے ہم ایک یونی کورن کے روبرو ہوں اور یقین سے نہ جان پائیں کہ یہ کیا تھا۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اس شکل کا ایال والا جانور گھوڑا ہے، اور اس صورت کا سینگوں والا حیوان بیل ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یونی کورن کس طرح کا ہوتا ہے۔ ‘‘1

تیسری تحریر ایک ایسے ماخذ سے برآمد ہوتی ہے جس کی پیش گوئی کرنا آسان ہے، یعنی کیرکیگارد کی تحریروں سے۔ ان دونوں لکھنے والوں کی روحانی مماثلت ایسی چیز ہے جس سے کوئی بھی بے خبر نہیں، لیکن جو بات ابھی تک دریافت نہیں کی گئی، میرے خیال میں، یہ ہے کہ کیرکیگارد نے کافکا کی طرح کئی مذہبی حکایات لکھی تھیں، جو ہم عصر اور بورژوا موضوعات پر تھیں۔ لاری نے اپنی تصنیف کیرکیگارد (آکسفورڈ یونیوسٹی پریس، 1938) میں ان میں سے دو کو نقل کیا ہے۔ پہلی حکایت ایک جعلساز کا قصہ ہے جو مستقل بے اعتباری کی حالت میں بینک آف انگلینڈ میں نوٹ گنتا رہتا ہے۔ اسی طرح خدا کیرکیگارد پر بھروسا نہ کرتے ہوئے اسے ایک کام سونپتا ہے کیونکہ خدا کو معلوم ہے کہ وہ بدی سے واقف ہے۔ دوسری حکایت کا موضوع قطبِ شمالی کی مہمات ہیں۔ ڈنمارک کے پادری اپنے منبروں سے اعلان کرتے ہیں کہ ان مہمات میں حصہ لینا روح کی ابدی بھلائی کے لیے مفید ہے۔ لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قطب تک پہنچنا مشکل، بلکہ شاید ناممکن ہے، اور یہ کہ تمام لوگ اس مہم کا بیڑا اٹھا بھی نہیں سکتے۔ آخر میں وہ اعلان کرتے ہیں کہ کوئی بھی سفر—مثلاً معمول کے مطابق چلنے والی اسٹیمر پر ڈنمارک سے لندن تک کا سفر—غور کیا جائے تو قطبِ شمالی کی مہم ہے۔ چوتھی پیش گویانہ تحریر جو میں نے تلاش کی ہے، براؤننگ کی نظم FEARS AND SCRUPLES ہے جو 1876 میں شائع ہوئی۔ ایک شخص کا ایک نامور دوست ہے، یا اس کا خیال ہے کہ وہ اس کا دوست ہے۔ اس نے اپنے دوست کو کبھی نہیں دیکھا اور حقیقت یہ ہے کہ اس کے دوست نے آج تک کبھی اس کی مدد نہیں کی، اگرچہ اس کے با عزت اطوار کی کہانیاں زبان زد ہیں اور اس کے معتبر خطوط گردش کرتے رہتے ہیں۔ پھر ایک شخص ان اطوار پر شک کا اظہار کرتا ہے اور تحریر کا ماہر خطوط کو ناقابل اعتبار قرار دیتا ہے۔ آخری سطر میں وہ شخص سوال کرتا ہے : ’’اور اگر یہ دوست—خدا ہو؟‘‘

میرے نوٹس میں دو کہانیاں بھی درج ہیں۔ ایک لے اوں بلوئے کی HISTOIRS DESOBLIGEANTES سے ہے اور کچھ لوگوں کا معاملہ بیان کرتی ہے جن کے پاس ہر قسم کے گلوب، اٹلس، ریلوے گائیڈ اور صندوق ہیں، لیکن جو اپنے آبائی شہر سے روانہ ہو پانے سے پہلے مر جاتے ہیں۔ دوسری کہانی کا عنوان ’’کارکاسون‘‘ ہے اور یہ لارڈ ڈنیسنی کی تحریر ہے۔ جنگ بازوں کی ایک ناقابل تسخیر فوج ایک لامتناہی قلعے سے روانہ ہوتی ہے اور سلطنتوں کو فتح کرتے اور بلاؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے پہاڑوں اور ریگزاروں کو طے کرتی ہے لیکن وہ لوگ کبھی کارکاسون تک نہیں پہنچ پاتے، اگرچہ ایک مرتبہ انھیں دور سے اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ یہ کہانی، جیسا کہ ہر شخص دیکھ سکتا ہے، پہلی کہانی کی قطعی الٹ ہے — پہلی کہانی میں شہر کبھی چھوڑا نہیں جاتا، دوسری میں کبھی وہاں پہنچا نہیں جاتا۔

اگر میں غلطی پر نہیں تو یہ مختلف النوع اقتباسات جو میں نے شمار کیے ہیں، کافکا سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو یہ ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے۔ دوسری حقیقت زیادہ معنی خیز ہے۔ ان تمام تحریروں میں ہمیں کافکا کا مزاج ملتا ہے، کسی میں کم کسی میں زیادہ؛ لیکن اگر کافکا نے کبھی ایک سطر بھی نہ لکھی ہوتی تو ہم اس خصوصیت کا ادراک نہ کر پاتے۔ دوسرے لفظوں میں، اس کا وجود ہی نہ ہوتا۔ براؤننگ کی نظم کافکا کی تحریروں کی پیش گوئی کرتی ہے لیکن ہمارا کافکا کا مطالعہ قابلِ احساس طور پر نظم کے مطالعے میں شدت اور انحراف پیدا کر دیتا ہے۔ براؤننگ نے اسے اس طرح نہیں پڑھا ہو گا جیسے ہم اب اسے پڑھتے ہیں۔ نقادوں کی لغت میں لفظ پیشرو بے بدل ہے، لیکن اسے نزاع اور رقابت کی تمام تعبیرات سے پاک کر لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر لکھنے والا اپنے پیشرووں کو خود ’خلق‘ کرتا ہے۔ اس کی تحریر ہمارے ماضی کے تصور کو تبدیل کر دیتی ہے، اور پھر ہمارے مستقبل کے تصور کو بھی۔ 2 اس باہمی تعلق میں شامل لوگوں کی انفرادی پہچان اور مجموعیت غیراہم ہے۔ BETRACHTUNG (MEDITATION)کا ابتدائی کافکا، افسردہ اساطیر اور وحشیانہ اداروں والے کافکا کا اتنا پیشرو نہیں جتنے براؤننگ اور لارڈ ڈنیسنی ہیں۔

 

حاشیے :

 

1 مقدس جانور کو نہ پہچان پانا، اور لوگوں کے ہاتھوں اس کی بے حرمت یا حادثاتی موت چینی ادب کے روایتی قصوں میں سے ہے۔ ژونگ کی PSYCHOLOGIE UND ALCHEMIE (زیورچ، 1944) کا آخری باب ملاحظہ کیجیے جس میں اس قسم کی دو مثالیں موجود ہیں۔

2 ٹی ایس ایلیٹ، POINTS OF VIEW، 1944، صفحہ 25-6۔

٭٭٭

متن یہاں سے حاصل ہوا

http://adabiduniya.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید