FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

عرفان ستّار کی شاعری

 

 

                جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

سمت شمارہ ۲۷ گوشہ عرفان ستار کا نثری حصہ

 

 

 

 

عرفان ستّار کی شاعری میں رنجِ رائیگانی ۔ ۔ ۔ حمیدہ شاہین

 

میر تقی میرؔ صاحب نے کہا تھا

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر

جہاں میں تم آئے تھے، کیا کر چلے

یہ قیمتی احساس ہر کس و ناکس کو ودیعت نہیں ہوتا۔ اس سوال کا اکھوا اسی دل میں پھوٹتا ہے، جس میں احسا س کی نمی اور شعورِ مقصدِ تخلیق کی زر خیزی موجود ہو۔ طلبِ دنیا میں مصروفِ کار وجود اور حُبِّ دنیا میں مست رہنے والا دل اس کرب سے محروم رہتا ہے۔ یہ احساس اگر انسان کو مائل بہ عمل کر پائے تو اس کی زندگی شاخِ ثمر دار بن جائے۔

عرفان ستّار کی شاعری میں یہ احساس ہلکی ہلکی کسک اور چبھن کی شکل میں موجود ہے اور ان کی شاعری میں بار بار ظہور کرتا ہے

۔ ؎ شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے

ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ….

؎ یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اپنے اندرونی موسموں سے لطف کشید کرنے کا ہنر ہی سخن ور کا اثاثہ ہے۔ اس کے اندر احساسِ رائگانی کی ہوا چل پڑے تو خود سے ملاقات کی ساعتیں بھی دھول میں اٹ جاتی ہیں۔ تکرارِساعت کو زندگی نہ سمجھنا، مسلسل اسی ایک حالت میں رہنے کو عذاب کی طرح محسوس کرنا ایک اشارہ ہے، کچھ ایسا کرنے کی خواہش کا اشارہ، جو تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکے۔ لیکن ایسی تبدیلی جو اس کے احساسِ زیاں کا مداوا کر سکے۔ یہ احساسِ زیاں یا رنجِ رائیگانی زندگی کے موجودہ مشینی اور میکانکی تسلسل کی پیداوار ہے۔ قدیم انسان میں یہ جگہ ایک جستجو، کھوج اور تلاش کے جذبات نے پُر کر رکھی تھی۔ مادی اشیا نے زندگی پر اس قدر غلبہ نہ پایا تھا کہ انسان تلاش کے عمل کو یکسرفراموش کر دیتا جو نہ صرف اسے ترو تازہ اور جوان رکھتا تھا بلکہ اپنی زندگی اور اپنے وجود کے کارآمد ہونے کا احساس اسے مصائب و آلام سے نبرد آزما ہونے کی طاقت بھی فراہم کرتا تھا۔ شاعری سمیت تمام فنونِ لطیفہ کا مرکزی نقطہ یہی کھوج تھی، اور ہے۔ اپنے باطن میں کسی نقطہ عظمیٰ کی تلاش یا خارج میں زندگی کو معنی دینے والے راستوں کی جستجو اسے زیاں کاری سے محفوظ رکھتی تھی۔ سوال تو موجود تھے لیکن جوابوں کے خلا ابھی اس قدر بڑے نہ ہوئے تھے کہ انسان اپنا سب کچھ، حتیٰ کہ اپنا وجود بھی اس میں ڈال دے، تو وہ پُر نہ ہوں۔

دور حاضر میں مادی اشیا کی فراوانی نے زندگی کو انسان اور انسانیت کی جس ارزانی کی طرف دھکیلا ہے وہاں خواب، جذبات، آدرش بھی اشیا ہیں، جنھیں پنکھے، فرج یا ٹی وی کی طرح خریدا یا بیچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ہولناک لہر ہے، جو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہائے چلی جا رہی ہے۔ اس لہر سے باہر سر نکالنے کی خواہش اور کوشش ہی آج کے فنونِ لطیفہ کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

وہ لوگ جو خس و خاشاک ہونے کو تیار نہیں، جو اپنے لیے گاجر مولی کی حیثیت کو رد کرتے ہیں۔ ان میں رائیگانی کا دکھ طلوع ہو رہا ہے۔ تخلیقی فنون اس کی روشنی میں نہائے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ روشنی کیا کوئی نیا راستہ تلاش کرنے میں مدد دے سکے گی؟ فی الحال تو صورتِ حال کچھ یوں ہے، جو عرفان ستار بیان کرتے ہیں

؎ وہ ہو رہا ہے، جو میں نہیں چاہتا کہ ہو

اور جو میں چاہتا ہوں، وہی ہو نہیں رہا

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ سخن، یہ خوش کلامی در حقیقت ہے فریب

یہ تماشا روح کی بے رونقی کا جبر ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک ملال تو ہونے کا ہے، اک نہ ہونے کا غم ہے

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک، ایک سا ہُو کا عالم ہے

 

ہاں ویسے تو حجرۂ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں

لیکن کیا ترتیب سے رکھوں، سب کچھ درہم برہم ہے

 

در اصل ہونے کا ملال ہی نہ ہونے کا غم ہے۔ جسے ہو نے کا ملال نہ ہو، اسے نہ ہونے کا دکھ بھی نہیں ستاتا۔ یہی دکھ انسان کو اپنے ہونے پر اصرار کی راہ بھی دکھاتا ہے۔ اس اصرار کے تقاضے پورا کرنے پر اکساتا ہے، اور کہتا ہے

سرسری کیوں گزارتا ہے مجھے

یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں

 

اس نے پوچھا، کہاں گیا وہ شخص

کیا بتاتا کہ تھا نہیں، میں ہوں

ان دو اشعار میں کیا کیا نہیں ہے۔ احتجاج، ملال، اصرار، گلہ اور بے کراں دکھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی دکھ وہ تیشہ ہے، جس سے تخلیق کار انسانیت کے لیے نئے راستے تراشتے ہیں۔

جب ایسی آندھی کا سا منا ہو، جس کی شدت حجرۂ جان میں بھی در آئے اور سب کچھ درہم برہم کر دے تو ہمارا باطنی ارتکاز ہی ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا رکھتا ہے۔ تخلیق میں تاثیر بھی اسی ارتکاز سے آتی ہے۔ یہی ایک چیز ہے جو کسی طاقت ور تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ خواہ یہ تبدیلی اپنی ذات، اپنے سخن اور اپنے فن تک رہے، بہرحال اس کا ایک اثر اور ایک دائرۂ اثر ضرور ہو گا۔

یہ ایک ایسا عجیب زمانہ ہے کہ بہت سے تخلیق کار شعوری طور پر (یا لا شعوری طور پر )اخلاقیات سے رو گردانی میں اپنی انفرادیت تلاش کر رہے ہیں۔ لیکن وہ تاریخ کا مزاج نہیں بدل سکتے، جو اپنی قابلِ قدر سفّاکی کے ساتھ ہولے ہولے ہر شے کو اس کے مقام تک لے آتی ہے اور غیر فطری کاوشوں کو موہوم و معدوم ہو نے میں دیر نہیں لگتی۔ معاصر معاشی نظام ہمارے باطن پر حملہ آور ہیں۔ مذاہب کی خوش نما رواداری ملیامیٹ کی جا رہی ہے۔ حسن و جمال کے فطری قوانین پائے مال ہو رہے ہیں۔ سخن ور بھی خود سے جدا، جمالِ عصر کی فکر میں ہے۔

جانے کیا رنگ چمن کا ہے دمِ صبح فراق

گل کھلے ہیں کہ نہیں، بادِ صبا ہے کہ نہیں

یہی فکر شاعر کے وجدان کو بے دار کرتی ہے اور وہ روح عصر کی پکار سن سکتا ہے۔

اک مہک روز آ کے کہتی ہے

منتظر ہے کوئی گلی میری

لیکن وہ رنجِ رائیگانی جس سے میری بات کا آغاز ہوا تھا، اس مرحلے پر بھی ساتھ ساتھ ہے۔

پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا

اب دھڑکتی ہے بے دلی میری

البتہ رنج کی اس شاخ پر کچھ پھول کھلے ہیں جن کی خوشبو امید کا استعارا ہے۔

یونہی بے یقین یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گیؑ

کہیں ہو نہ جاؤں میں رایگاں، مری آدھی عمر گزر گیؑ

اس غزل کی ردیف میں ایک لفظ چراغ کی طرح روشن ہے۔ امکان، امید، توقع، اور حوصلے کا چراغ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لفظ ہے "آدھی عمر” جو اس بات کا اشارا ہے کہ ابھی وقت کی ڈور ہاتھ سے نہیں نکلی۔ ابھی امکان کا در کھلا ہے۔ ابھی اس درد کی دوا ممکن ہے۔ ابھی رنجِ رائیگانی کے بطن سے زندگی کے معنی جنم لے سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان ستار سے ایک مکالمہ

۹  ۱۰دسمبر ۲۰۱۲ کو فیس بک انحراف فورم میں آن لائن گفتگو

 

سدرہ سحر عمران: عرفان سر تو تمام سوالا ت کے جوابات پہلے ہی دے کر قضیہ مکا چکے لیکن ہم لا ئیو نشست چا ہتے ہیں ان کے ساتھ

افتخار حیدر: جی ہم منتظر ہیں محترم عرفان ستار کے

سدرہ سحر عمران: عرفان سر آ بھی جائیں اب۔ ۔ ۔ ۔

افتخار حیدر: عرفان بھائی سے پوچھتے ہیں اس ہاٹ اشو یعنی نثری نظم کے متعلق وہ کیا رائے رکھتے ہیں

عرفان ستّار: ظفر خان نے بالکل درست بات کہی ہے۔ یہ سلسلہ اسی دن ختم ہو گیا جس دن نثری نظم پر گفتگو شروع ہوئی۔ اب اسے بیچ میں لانے کی کوئی تک نہیں۔ سدرہ کو معلوم تھا کہ میں آج ہی available ہوں۔ اس کے بعد اگر یہ سلسلہ پھر بھی شروع کر دیا گیا تو اسے ہی جاری رہنا چاہئیے۔ میرے پاس بہت دلائل ہیں اب شریک نہ ہونے کے مگر میری عادت نہیں ایسے معاملات میں پڑنے کی کہ کیا، کیوں اور کیسے ہوا۔ یہ بہرحال بالکل غلط طریقہ ہے کہ ایک سلسلے کے بیچ میں ایک اور سلسلہ لایا جائے۔ اس فورم کے ایڈمنز کا بہت شکریہ کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا اور ان احباب کا بھی جنھوں نے مضامین لکھے اور گفتگو کی۔ اب اس سلسلے کو ختم کیجئیے۔ بات اصولی ہے اس لیے برائے مہربانی کسی طرح کے دلائل دینے سے گریز کیجئیے۔ میں یہاں اب مزید کوئی بات نہیں کروں گا۔ شکریہ۔

افتخار حیدر: عرفان بھائی پلیز کم از کم اس سدرہ سحر کی محبت کا تو خیال کریں

افتخار حیدر: جس نے اتنی محنت سے یہ ایونٹ ارینج کیا۔ ۔ ۔ اس بے قاعدگی کے لئیے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں

سدرہ سحر عمران: ہم سے غلطی ہو ئی جس کے لئے ایکیسکیو ز کرتے ہیں سر۔ سلامت رہئے

عرفان ستار: اور اپنی عزتِ  نفس کا نہ کروں ؟ پلیز افتخار صاحب۔ بات کو غلط رخ نہ دیجئیے۔ جو درست ہے اس کے لیے میں ممنون ہوں اور رہوں گا۔ جو غلط ہے اس پر میں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا نہ کروں گا۔ شکریہ۔

افتخار حیدر: سلامت رہیں سرکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوش رہیں

ابرار احمد:

maen ne ye arz kiya tha abhi k agar irfan bhai k sath nashist rakhni the to phr nasri nazm par mukalma nai rakhna chaheay tha.lekn maen to mashvra he dai skta tha.

سدرہ سحر عمران: سر ہم نثری نظم کے حوالے سے بھی آ پ سے بات کرنا چاہتے تھے اور آپ نے بتا یا تھا کہ آ پ باقی کے چھ دن سخت مصروف رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے مجبوراً یہ سلسلہ درمیان میں رکھا گیا تھا۔

افتخار حیدر: ہمیں بھی جب پتہ چلا تو ہم نے بھی یہی کہا تھا ابرار بھائی۔ ۔ لیکن جس کی غلطی ہے وہ تسلیم کر رہی ہے اور معذرت بھی

سدرہ سحر عمران: ابرار سر نثری نظم پہ تو پورا ہفتہ ہی بحث چلتی رہے گی۔ اس لئے چند گھنٹے کا انٹر ویو با آ سانی ہو سکتا تھا

سدرہ سحر عمران: لیکن خیر جس طرح عرفان سر چاہیں

عرفان ستّار: سدرہ پلیز۔ اس طرح کے جوز نہ پیش کریں اور بات ختم کر دیں۔ آپ خوب واقف ہیں کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔ میں بہرحال اس موقف پر قائم ہوں کہ یہ غلط ہے۔ آپ کے خلوص اور محبت کا شکریہ۔

سدرہ سحر عمران: بہتر سر۔ سلامتی

ابرار احمد:

maen hazar hun.irfan nasri nazm par baat kr sktay hain ya phr ham un k sath mukalma chla sktay hain.both r valuable

ظفر خان:  کسی بھی شاعر کے ساتھ ویسے یہ سلوک مناسب نہیں کہ ۱۵ دسمبر تک کی تاریخ کا اعلان کر کے بیچ میں ایک سلسلہ شروع کر دیا جائے۔  مگر میں بھی عرفان صاحب سے درخواست کر سکتا ہوں کہ ان فورم والوں کی بات مان لیں۔ انہوں نے معذرت کر لی ہے۔

سدرہ سحر عمران: ارے سر ہم کہہ رہے ہیں کہ عرفان سر سے کہا تھا کہ کوئی اور دن کر لیں لیکن ان کی ٹایمنگ کا مسیلہ ہے۔ اور ہم نثری نظم کے حوالے سے ان سے تفصیلی با ت کر نا چاہتے تھے

ابرار احمد:

i totally agree.mujha is ka ilm hota to kbi maujuda behs me shamil na hota.i never knew it.

افتخار حیدر: سدرہ پھر بے جواز بات کر رہی ہو تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مان لو کہ یہ غلطی ہوئی ہے

عرفان ستّار: سدرہ نثری نظم نہ میں نے کبھی کہی ہے نہ ابرار صاحب کی طرح میں اس صنف پر کوئی پر مغز گفتگو کا اہل ہوں۔ اسی لیے میں نے عرض کیا کہ ایسے دلائل نہ دیے جائیں تو بہتر ہو گا۔

سدرہ سحر عمران: ما ن چکے غلطی ہو ئی پر اسی جواز کی بنا پہ ہوئی نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سدرہ سحر عمران: اوکے سوری سر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایکسٹیملی سور ی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب جانے دیجئے پلیزززززززززززز

ہم سے ناراض رہیں لیکن ظفر سر کے سوالات کے جواب ہی دے دیں۔ انہیں بہت فکر ہے اپنے سوالات کی۔

عرفان ستّار: خوش رہئیے سدرہ۔ خدا توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ خدا حافظ۔

ظفر خان:  ٹھیک اب مجھے ذلیل کروائیں۔ :)))))))۔

سدرہ سحر عمران: سر ظفر سر کا کہنا ہے کہ آ پ کی کوئی تصویر جون ایلیا کے ساتھ کیوں نہیں ہے ؟؟؟؟؟

معراج رسول رانا:  عرفان بھائی، میرے آپ سے دو سوالات ہیں، باری باری پوچھتا ہوں :

پہلا سوال، آج کل نئے شعراء پر ادبی جگالی کا جو الزام لگایا جا رہا ہے (جو کہ کافی حد تک درست بھی ہے )، سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے دور کے تمام شعراء یا اُس سے پہلے کے لوگ اِس الزام سے بری الذمہ ہیں ؟ اگر آپ اردو شاعری کو لیں کو یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ نئے موضوعات پر لکھنا چاہئے، لیکن شاعری کا ایک بڑا حصہ گھوم گھما کر محبت پر ہی آ پہنچتا ہے، کیا پرانے خیال کو نئے ڈھب سے نہیں پیش کیا جا سکتا؟ یہ بات ٹھیک ہے کہ نئے موضوعات دریافت کرنے چاہئیں لیکن اگر پہلے سے موجود مضامین کو ہی کوئی اپنے انداز میں کہتا ہے تو کیا اُسے قبولیت کا درجہ بھی نہیں مِل سکتا؟

سدرہ سحر عمران: بہت اچھے معراج رسول

سدرہ سحر عمران: ظفر سر آ پ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ امید ہے آپ کی تسلی ہو چکی ہو گی

عرفان ستّار: تمام احباب سے معذرت جن کے سوالات کے جوابات نہ دے پاؤں گا۔ برائے مہربانی اب دوبارہ نثری نظم کی طرف چلئیے کہ اسے بچانا ضروری ہے۔ ہمارا کیا ہے بہتیرے شاعر ہیں۔ خدا حافظ۔

سدرہ سحر عمران: سر جو سوال کر رہے ہیں ان کا کیا قصور۔ انہیں تو جواب دیجئے

سدرہ سحر عمران: ظفر سر کے مزید سوالات

 

میرے بھی کچھ سوالات ہیں۔

ا۔ عرفان صاحب آپ نے آج تک کتنے قومی نغمے لکھے ہیں۔ ان میں کتنے پاکستان کے لئے ہیں اور کتنے کینیڈا کے لئے ؟

۲۔ آپ ایسی آسان فارسی تراکیب کیوں استعمال کرتے ہیں جو کالج کے پروفیسروں کی مدد کے بغیر بھی سمجھ آ جاتی ہیں۔

۳۔ آپ کو پاکستان میں آج تک کسی ادبی ایوارڈ سے کیوں نوازا نہیں گیا؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

۴۔ جتنی دیر میں لوگ شاعری کے پانچ مجموعے چھپواتے ہیں، آپ نے صرف ایک کیوں چھپوایا؟

۵۔ اگر آپ ایسے ہی اچھے شاعر ہیں جیسے یہ سب لوگ سمجھتے ہیں تو آپ کو اس پراپیگنڈے کی کیا ضرورت تھی؟ خاموشی سے ایک کونے میں پڑے یادِ خدا میں مصروف رہتے۔

۶۔ ایک جائزے کے مطابق اردو کے تمام بڑے اور مایہ ناز شاعر چالیس سال کی عمر تک اپنا بہترین کلام لکھ کر نچنت ہو جاتے ہیں، آپ اس ادھیڑ عمری میں ابھی تک اچھی شاعری کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کبھی عظیم شاعر نہیں بن سکتے۔ کیا یہ سچ ہے ؟۹۔ آپ اپنے آپ کو جون ایلیا کا شاگرد کہتے پائے گئے ہیں۔ آج تک آپ کی ایک تصویر بھی ان قبلہ کے ہمراہ فیس بک پر نہیں دیکھی۔ این چہ چکر است؟ ۱۰۔ آج تک آپ کو کتنے ہونہار شعرا اور شاعرات کے مجموعوں کی تقارِیبِ رونمائی میں بطور مہمانِ خصوصی شامل ہونے کی اندرون و بیرونِ ملک دعوت ملی ہے ؟ سچ سچ بتائیں۔

سدرہ سحر عمران: منظور قاضی کے سوالا ت۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

مندرجہ ذیل سوالات بھی شامل کیے جا سکتے ہیں :

۱۔ آپ کی شاعری کے داخلی اور خارجی محرکات کون سی ہیں ؟

۲۔ کیا آپ حالات حاضرہ سے متاثر ہو کر ناانصافی، جبر و تشدد، غربت اور استحصال اور قوم کے رہنماؤں کے بد عملی اور نااہلی، اور مسلمانوں کی بدحالی جیسے موضوعات کو بھی اپنے اشعار میں جگہ دیتے ہیں ؟

۳۔ کیا آپ اپنی شاعری کے ذریعہ پڑھنے والوں کو کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو وہ پیغام کیا ہے ؟

معراج رسول رانا:  دوسرا سوال:

اُردو زبان اور اردو ادب میں فارسی، سنسکرت اور عربی کے الفاظ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے اور اِس کا ظاہری نتیجہ یہی ہے کہ شاعری میں بھی اِن تین زبانوں کے لفظ بے بہا استعمال ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر اردو میں دیگر زبانوں کی قبولیت کی اتنی گنجائش موجود ہے تو ہم اُردو ادب میں اپنی علاقائی زبانوں کے الفاظ کیوں نہیں استعمال کرسکتے ؟ بھئی پنجابی کا کیا قصور ہے ؟ اگر کوئی اپنے شعر میں لفظ مشکل یا کٹھن کی جگہ "اوکھا” استعمال کرتا ہے تو وہ شعر مزاحیہ کیوں کہلاتا ہے ؟ کیا ادب کی دنیا میں یہ علاقائی زبانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ؟ کیوں ہم نے فارسی اور عربی کو اتنی مقدس زبانیں بنا رکھا ہے اردو شاعری میں ؟ پنجابی اور پشتو بیچاریوں نے کیا قصور کیا ہے سر؟

سدرہ سحر عمران: سر ہم سے بھلے خفا ہو جائیے پر ان احباب کے سوالو ں کے جواب ضرور دیجئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آ پ کا اخلاقی فرض ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم سے غلطی ہو ئی تو سزا بھی ہمیں ہی ملنی چاہئیے سب کو نہیں

سدرہ سحر عمران: آ پ چونکہ ہم سے ناراض ہیں اس لئے اس تھریڈ کی نظامت افتخار بھائی  کے سپرد کرتے ہیں۔ سلامت رہئیے

افتخار حیدر: کہیں عرفان بھائی کہیں اس پہ مزید ناراض نہ ہو جائیں یار

سدرہ سحر عمران: وہ کیو ں ؟؟؟؟

افتخار حیدر: ویلکم عرفان بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دل کی ا تھاہ گہرائیوں سے آپ کو خوش آمدید کہا جاتا ہے

سدرہ سحر عمران: بھئی دوستانہ ہے۔ اور ایسے سوال کی جرا ت ظفر سر ہی کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ پیٹھ پیچھے کہتے ہیں )))

دانش نذیر دانی:  مجھے معلوم ہوتا کہ آپ نے کمنٹ پڑھ لیا ہے تو میں ڈلیٹ نہ کرتا، خیر عرفان ستار صاحب کے جواب میں رنج تھا، ہمیں بھی پیٹھ پیچھے بولنے کی عادت نہیں ‌ہے، اور نہ ہی کسی کے منصب کا کوئی خیال۔ ہمارے نزدیک ہر صاحبِ  علم قابل احترام ہے اور ہر صاحب عمل قابلِ ‌تقلید

دانش نذیر دانی:  آج ہم عرفان سر کی حمایت میں بولے ہیں تو کل ظفر خان صاحب کی حمایت میں کود پڑیں گے،

سدرہ سحر عمران: ہیں کمنٹ ڈیلیٹ کر دیا۔ پر کیوں

حمید نیازی :ظفر خان صاحب کے تمام سوالات tongue in cheek تھے -مثلاًّفیس بک پر لوگ جیسے جون صاحب کے ساتھ تصویروں کی نمائش کرتے ہیں، اس پر ان کا مذاق اڑاتے ہوئے تصویر کے حوالے سے سوال کیا تھا- سیاق و سباق کے بغیر یہاں ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ مخالفانہ بات کر رہے ہوں جبکہ در حقیقت انہوں نے لطیف پیرائے میں عرفان ستار صاحب کی ہر سوال میں مدح کی ہے – وضاحت ضروری ہے –

 

 

 

حرف پر روشن آفتاب  :عرفان ستار۔ ۔۔ رفیق راز

 

 

عرفان ستار کی غزلوں سے میں رواں صدی کی پہلی دہائی کے اولیں برسوں میں "شب خون الہ آباد کے توسط سے متعارف ہوا۔ شب خوں نے اشاعت کے آخری چند برسوں میں پاکستان کے جن نئے شعرا کو سرحد کے اس پار متعارف کرایا ان میں عرفان ستار کے علاوہ ابرار احمد، نصیر احمد ناصر، جمیل الرحمان، افضال نوید،  رفیع رضا ، رضی حیدر اور آفتاب حسین قابل ذکر ہیں۔ ان سب کے کلام سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان سب کا اسلوب نگارش ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں بلکہ کسی حد تک متضاد بھی ہے۔ ان سب شعرا میں غالباً ایک ہی چیز مشترک ہے اور وہ ہے جدیدیت۔ جدیدیت کوئی تحریک نہیں بلکہ ایک رجحان ہے جسے جناب شمس الرحمان فاروقی اور شب خوں نے اتنا فروغ دیا کہ اس پر ایک ادبی تحریک کا گماں ہونے لگا۔

ترقی پسند تحریک نے جن چیزوں کو ادب اور فن کے لئے لازمی قرار دیا تھا یعنی اجتماعیت نعرہ بازی پروپیگنڈہ مقصدیت اور منصوبہ بند طریقے سے شعر کہنا وغیرہ جدیدیت نے انہی چیزوں کو ادب و فن کے لئے سم قاتل قرار دیا۔ اجتماعیت کی وجہ سے ادب میں تکلیف دہ یک رنگی اور یکسانیت پیدا ہو گئی تھی۔ جدیدیت نے ادب و فن کے لئے انفرادیت اور داخلیت کو بنیادی اہمیت کا حامل ٹھہرایا۔

عرفان ستار وہ جدید شاعر ہیں جو نہ صرف روایت کا گہرا شعور رکھتے ہیں بلکہ اس سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ جدید ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شاعر اپنی روایت سے بالکل ہی لا تعلق ہو جائے۔ اچھے اور اہم جدید شاعر وہ ہیں جنہیں تخلیقی لمحات میں اس بات کا پورا پورا احساس رہتا ہے کہ متقدمین سے لے کر ان کے اپنے زمانے تک تخلیق کیا گیا سارا ادب ایک ساتھ زندہ اور ایک ہی نظام میں مربوط ہے ، اس سے یہ مطلب نہیں نکالنا چاہئے کہ شاعر و ادیب کو روایت کی پیروی آنکھ بند کر کے کر لینی چاہئے۔ ۔ ادب و فن میں ندرت و جدت کے چشمے روایت سے منحرف ہو کر نہیں بلکہ روایت سے استفادہ کر کے ہی جاری کئے جا سکتے ہیں۔ جدیدیت روایت پسندی کو مستحسن سمجھتی ہے روایت پرستی کو نہیں۔

عرفان ستار وہ جدید شاعر ہیں جس کی جڑیں روایت میں ہیں۔ اسی لئے ان کے لہجے میں ایک شایستگی اور کلاسیکی رچاو سا نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں زباں کا وہ کھردرا پن بالکل ہی نہیں جو جدید دور کے اولیں شعرا میں پایا جاتا ہے۔ ان کے اسلوب پر جناب جاوید احمد نے ان کے شعری مجموعے ساعت تکرار، میں لکھا ہے۔

عرفان ستار بنیادی طور پر شدت احساس کے شاعر ہیں۔ احساس کی شدت اگر ذہن کی شمولیت سے عاری ہو تو شعر میں کم از کم دو چیزیں داخل نہیں ہو سکتیں۔ ایک لفظ کے بیشتر امکانات برتنے کا سلیقہ اور دوسرے تخیل۔ عرفان ستار کی غزل میں یہ دونوں چیزیں تمام و کمال موجود ہیں۔

جناب جاوید احمد سے اختلاف کی کوئی وجہ موجود نہیں۔ احساس پر مبنی شاعری میں جب تخیل کی کرشمہ سازی شامل ہوتی ہے تو ایک ایسی شاعری معرض وجود میں آتی ہے جو پہلی ہی قرات میں دل میں اتر تو جاتی ہے مگر اس کی معنویت غور و خوض کے بغیر نہیں کھلتی۔ عرفان ستار کی شاعری کیفیت کی حامل ہوتے ہوئے بھی فکر سے خالی نہیں۔

 

وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسر ہو

اس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں

 

آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں

میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں

 

ہر ایک رنج اسی باب میں کیا ہے رقم

ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا

 

عرفان ستار زبان کو سلیقے سے برتنے کا گر جانتے ہیں۔ ان کے لہجے میں کوئی درشتی نہیں کوئی کھردرا پن نہیں جو اس کے بعض معاصر شعرا میں پایا جاتا ہے۔ عرفان ستار کے یہ معاصر ظفر اقبال کے زیر اثر کچھ نیا لکھنے کے شوق میں کبھی خلاف محاورہ زبان استعمال کر کے کبھی زبان کی شکست و ریخت کر کے جوکھم تو اٹھا لیتے ہیں لیکن تخلیقی سطح پر انہیں کچھ زیادہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں ظفر اقبال کی بات الگ ہے زبان کے ساتھ ان کا تحکمانہ انداز کئی تخلیقی کارنامے انجام دینے میں ان کا معاون ثابت ہوا ہے۔ عرفان ستار کا اسلوب بقول جاوید احمد، "صاف، دوٹوک اور پتھریلا ہے "۔

وہ بات کو گھما پھرا کے کہنے کے عادی نہیں۔ وہ غیر ضروری پر شکوہ الفاظ استعمال کر کے قاری کو دھوکہ نہیں دیتے۔ وہ بڑی سی بڑی اور پیچیدہ بات کو بھی آساں مگر مناسب الفاظ میں بے ساختہ کہہ ڈالتے ہیں۔

زمیں بھی تنگ ہوئی رزق بھی طبیعت بھی

مرے نصیب میں کیا آسمان لکھا ہوا ہے

 

نہ ہو اداس زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی

خوشی سے جھوم ابھی سر پہ آسمان ہے یہاں

 

ایک امکاں میں روپوش تھا سارا عالم

میں بھی اس گرد تحیر میں نہاں تھا پہلے

جہاں تک شاعری میں موضوعات کا تعلق ہے میں موضوعات کو شاعری سے الگ کر کے ان پر گفتگو کرنا تنقید کے منصب کے منافی سمجھتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ اردو غزلیہ شاعری کی بنیاد مضامین ہی پر ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کلاسیکی شعرا کی توجہ مضامین سے زیادہ مضامین کی ادائیگی اور بیاں پر مرکوز تھی۔ ہمارے اساتذہ جہاں ایک ہی مضموں کو اس میں بہتری لانے کے لئے بار بار استعمال کرتے تھے وہیں دوسرے کے مضموں کو بہتر کر کے یا بلند کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مضامیں سے زیادہ مضامیں کی ادائیگی اہمیت کی حامل تھی۔ اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ میں شاعری میں موضوع کا ہی منکر ہوں۔ میرے کہنے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ جس شعر سے اس کا موضوع الگ کیا جا سکے یا جس شعر کا ما فیہ معنی میں تبدیل نہ ہوا ہو وہ شعر میرے نزدیک بیاں زیادہ اور شعر کم ہو گا۔ اچھے اور اہم شاعر کے یہاں شعر کی ہئیت اور شعر کا موضوع ایک دوسرے پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ نہ موضوع، موضوع ہی رہتا ہے اور نہ شعر میں برتے گئے الفاظ صرف الفاظ رہتے ہیں۔ ان کے یہاں شعر میں ایک صورت حال یا ایک تجربہ ایک سیال معنی کی صورت میں نمو پذیر ہوتا ہے، جس کا ادراک ہر قاری اپنی اپنی ذہنی اور حسیاتی استعداد کے مطابق کرتا ہے۔

عرفان ستار کی لفظیات اور لہجے سے یہ دھوکہ لگتا ہے کہ وہ سہل ممتنع کے شاعر ہیں۔ حقیقت میں وہ اس کے برعکس ہیں۔ ان کی زبان میں سادگی نہیں بلکہ ایک ایسی پیچیدگی ہے جو بیک وقت دل اور دماغ کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ ان کے یہاں فارسیت کی مصنوعی چمک دمک نہیں البتہ ان کی جو تازہ غزلیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں وہ کہیں کہیں فارسی اضافتوں کو بروئے کار لار تراکیب سازی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔

اب کہیں کیا کہ وہ سب قصۂ پارینہ ہوا

رونق  محفل  شیریں سخنان تھے ہم بھی

 

سکون  خانۂ دل کے لئے کچھ گفتگو کر

عجب ہنگامہ برپا ہے تری لب بستگی سے

 

عرفان ستار کی زباں تراکیب سازی کے باوجود عام زندگی سے قریب تر شاید اس وجہ سے بھی ہے کہ انہوں نے فارسیت پر مبنی پیچیدہ استعاروں سے اسے دور ہی رکھا۔  عرفان ستار نے اپنی شاعری میں مضاعف بحور کا استعمال نسبتاً زیادہ کیا ہے اس کی مثال آج کل کم کم ہی ملتی ہے۔

میں عبادت بھی ہوں میں محبت بھی ہوں زندگی کی نمو کی علامت بھی ہوں

میری پلکوں پہ ٹھہری نمی نے کہا اس نمی کے لئے ایک تازہ غزل

 

جب نہ تھا یہ بیابان دیوار و در جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر

کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی

"فاعلن کی تکرار، ایک مصرع میں آٹھ بار”

 

بند ہوتے ہی آنکھوں کے سب واہموں وسوسوں کے وجود و عدم کے کٹھن مسلے ہاتھ باندھے ہوئے صف بہ صف روبرو آئیں گے

سارے پوشیدہ اسرار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے سب وہم مر جائیں گے بد گماں بے یقینی کا سارا دھواں ختم ہو جائے گا

"ایک مصرع میں فاعلن کی تکرار چودہ مرتبہ”

 

مضاعف بحور کی وجہ سے عرفان کے شعری آہنگ میں ایک تنوع اور ایک خوشگواریت پیدا ہو گئی ہے۔ لہجے اور آہنگ میں انفرادیت کا معاملہ اکثر بحور کی سطح پر ہی طے کیا جاتا ہے۔ عرفان ستار نے کچھ کم مروجہ بحور کو بھی بروئے کار لا کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا خوبصورت اظہار کیا ہے۔

 

ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے

کوئی کر گلہ مرے بد گماں مری آدھی عمر گزر گئی

"بحر کامل مثمن سالم”

 

ایسی نامانوس اور کم مروجہ بحروں کا استعمال کر کے جنہیں آج کل کے شعرا چھونے سے بھی ڈرتے ہیں عرفان ستار نے بھیڑ سے الگ ہونے کی مستحسن اور کامیاب کوششیں کی ہیں۔

 

عرفان ستار کا ابھی ایک ہی مجموعہ شایع ہوا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کم گو ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ کم گو شعرا جب لکھتے ہیں تو اچھا اور عمدہ لکھتے ہیں۔ عرفان ستار بھی انہیں اچھا لکھنے والوں میں ایک ہیں۔

 

 

 

یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں ۔ ۔ عرفان ستار۔ ۔ ۔علی زریون

 

بخار بہت شدید تھا اس روز مجھے …شام تھی کہ ٹل ہی نہیں رہی تھی ..کراچی کا یہ موسم میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ..یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ مجھے کراچی میں اپنے گھر کی یاد ستانے لگ گئی تھی ..مشاعروں کی تھکاوٹ، لوگوں کی ملاقاتیں، اور بہت سی محبت کا وزن زیادہ تھا اور میں کمزور شانوں والا شخص ..!! وہ کوئی بہت عجیب شام تھی ..اس شام کوئی ایسا پل رو نما ہونا تھا جب میری ملاقات شاید ایک ایسے وجود سے ہونا تھی جس کے بارے میں ابھی تک میں بے خبر تھا ..کامی شاہ، بازغہ بھابھی اور سب گھر والے بے حد پریشان ہو گئے تھے کہ علی کی طبیعت سنبھل نہیں رہی ..میری ماؤں جیسا روپ رکھنے والی بہن اور بھابھی مسلسل میرے بستر کے کنارے کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی، کہ یہ نا ہنجار انسان آخر کچھ کھا کیوں نہیں رہا ؟؟؟ اسی اثنا میں، میں نے بھابھی سے کہا کہ بھابھی مجھے دلیہ بنا دیں ..بھابھی کی آنکھیں چمکیں اور کہا کہ ابھی بناتی ہوں اپنے بھیا کے لئے ….بس وہ پل ..جب میں کچھ دیر کے لئے اکیلا ہوا …میں نے بیزاری کے عالم میں کامی شاہ کی کتابوں والی الماری کی طرف دیکھا، کہ کوئی کتاب نگاہ پڑے تو میں ذرا دیر پڑھ لوں …نگاہ الماری میں سجی ہوئی کتابوں سے مل کر واپس بیمار آدمی کے پاس آ گئی ..اور میں نے اپنے تکیے پر سر رکھ دیا …ادھ کھلی آنکھ سے ذرا دور پڑے تکیے کی جانب دیکھا تو ایک کتاب کا کنارہ سا نظر آیا ..میں نے آہستہ سے ہاتھ بڑھایا اور کتاب کو کامی شاہ کے تکیے سے باہر نکالا …کتاب کو دیکھا …بڑی دیر تک کتاب کے سر ورق پر انگلی پھیرتا رہا ..غضب کا ٹائٹل تھا….پوری کتاب ہی بہت مہنگے کاغذ پر چھاپی گئی تھی ..میں نے دیکھا اور کہا ہمم …!! امیر لوگ ..!!! ہو گا کوئی یہ بھی پیسے والا آدمی ..ادھر اُدھر سے شاعری خریدی ہو گی اور پھر کتاب چھاپ دی ہو گی ..ایسے لوگ پیسے کے بل پر اپنی کتابیں چھاپ لیتے ہیں، پھر خود ہی رو نمائی کروا لیتے ہیں، اپنے بارے میں قصیدے لکھوا لیتے ہیں اور اللہ اللہ خیر سلہ ….خیر میں نے بیزاری ہی کے عالم میں کتاب کھولی ..اور پڑھنا شروع کیا ….حسبِ عادت سیدھا پیش لفظ پر گیا تا کہ جان سکوں کہ مہاشے کیا فرما رہے ہیں ..اور بس ٹھیک یہیں سے …اس بے پناہ محبت کا آغاز ہوا جو مجھے ہمیشہ سرشار کئے رکھتی ہے کہ میں عرفان ستار کا دوست ہوں۔

عرفان کی کتاب "تکرارِ ساعت” سے میرا پہلا معانقہ اسی شام ہوا ..میں پڑھتا جا رہا تھا اور اچھل اچھل پڑ رہا تھا ..ایک کے بعد ایک اچھی غزل، ایک کے بعد ایک اچھی غزل ..میں بھول چکا تھا کہ میری تو طبیعت ہی ٹھیک نہیں ..میں بالکل فراموش کر چکا تھا کہ میں ابھی کچھ ہی دیر پہلے بیزاری اور بوجھل پن سے تقریباً مرنے والا تھا …اور اب ..کتاب تھی اور میں تھا ..اور وہ انوکھا تخلیق کار کہ کراچی میں عالمی مشاعرہ پڑھنے اور بہت سے لوگوں سے ملاقات کے با وجود میں جس سے نہیں مل پایا تھا ..یہاں تک کہ مجھے شدید حیرت، غصہ اور رنج ہو رہا تھا کہ یار حد ہے ..اتنا عمدہ، ایسا بہترین اور ایسا خوبصورت تخلیق کار اور میں اس بندے کے شہر میں ہونے کے با وجود اس سے مل نہیں پایا ؟؟ ملنا دور کی بات، مجھ سے کسی نے ذکر تک نہیں کیا کہ اس شہر میں عرفان ستار نام کی ایک بلا بھی رہتی ہے ..میں وہ کتاب پڑھ رہا تھا اور میرے من میں عرفان ستار کے لئے محبت بڑھتی جا رہی تھی ..جیسے جیسے صفحے پلٹ رہا تھا، ویسے ویسے اس بے حد خوبصورت تخلیق کار کے لئے عجیب محبت پیدا ہو رہی تھی ..کامی اس وقت وہاں موجود نہیں تھا، ورنہ میں اس سے عرفان کا رابطے کا نمبر لیتا اور اتنی شدید گالیاں دیتا کہ بس …بالکل ..کیفیت ہی ایسی تھی ..جانے کیا کیا کچھ تھا جو گمان میں آ رہا تھا ..جون ایلیا سے اپنی نسبت کا ایسا بہترین اظہار کیا تھا عرفان نے اور میں اس بات پر بھی بہت خوش تھا کہ جون ایسے خطرناک اور بلا شاعر کے ساتھ ایسی سوہنی اور قریبی نسبت کے با وجود عرفان ستار کا خالص اپنا لہجہ اور وہ بھی پوری طاقت کے ساتھ اپنا بھرپور اظہار کر رہا تھا، میرے سامنے آ رہا تھا …یہ ہرگز معمولی بات نہیں تھی ..جو لوگ جون ایلیا کو جانتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ جون کا کلام تو ایک طرف، اس کی حالت تک کا اثر، اپنے سامنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا تھا ..میں جون سے کبھی نہیں ملا، اور نہ ہی اسے دیکھا، لیکن جو ملاقات میری جون سے ہوئی ہے، وہ صرف میں جانتا ہوں ..عرفان ستار کی تخلیق کاری اور اس کا وہ خاص شعوری نظام – فکر جو لفظوں کا گورکھ دھندا نہیں، بلکہ رمزیت اور خالص شعریت کے ذائقے سے رچا ہوا وہ فکری نظام ہے جو اپنے قاری کو کسی بھی جگہ بوجھل نہیں ہونے دیتا۔

شاعری کے جملہ عوامل، جنہیں اکثریت، گھمبیر اور کوئی بہت مشکل امر بنا کر پیش کرتی نظر آتی ہے، ایسے مشکل عوامل بھی نہیں ہیں ..عرفان ستار کی کتاب "تکرارِساعت” اور عرفان کا شعری کل اس بات کا بین ثبوت ہے …وہ لفظ کی بیرونی ساخت، اور اندرونی ساخت سے مکمل آشنا تخلیق کار ہے ..لفظ کا لغوی معنی ہے "پھینکنا ” جب میں لفظ کے لغوی معنی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دھیان کرتا ہوں تو کبھی کبھی بہت سرشار ہو جاتا ہوں کہ”پھینکنے ” کا خالص تشدیدی عمل جب شاعری میں در آتا ہے تو اس لفظ کے معنی کے کیسے کیسے جہان کھلتے ہیں، در حقیقت شاعری کا تمام منظر نامہ اسی "پھینکنے ” کے عمل کی اپنی اپنی شدّت، ہمّت اور توفیق سے سجا ہوتا ہے ..عرفان ستار کے یہاں لفظ اور کیفیت ایسی خوبصورتی سے یکجا ہو جاتے ہیں کہ کیفیت کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو وہ لفظ کی اندرونی ساخت کو ہرگز نقصان نہیں پہنچاتی، اور یہی بات یاد رکھنے کی ہے کہ ابلاغ اور ترسیل کا مسئلہ ٹھیک اسی جگہ سے اور اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب جب اور جہاں جہاں کیفیت نے مروڑا کھاتے ہوئے اتنی شدت اختیار کر لی کہ لفظ کی اندرونی ساخت مجروح ہو گئی ..وہاں معنی گنجلک شکل اختیار کرتا ہے اور شعر کا وجود جو کہ لفظوں ہی سے بنا ہے، مہمل اور ابلاغی فالج کا شکار ہو جاتا ہے …عرفان ستار کی تمام کی تمام شعری ریاضت میں سمجھتا ہوں کہ اسی ایک نکتے پر مدار کرتی ہے اور اس سے آگے اپنا جہاں تخلیق کرتی چلی جاتی ہے ..ایک ایسا جہان جس میں اشیا کے ساتھ برتاؤ ایسا تخلیقی اور منطقی پہلو لئے آتا ہے کہ قاری، احساس اور کیفیت ہر دو معاملوں میں سرشاری سے بھر جاتا ہے، عرفان کا ایک شعر دیکھئے

 

گاہے گاہے سخن ضروری ہے

سامنے آئنہ نہیں، میں ہوں

 

اسی غزل سے ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے

 

سرسری کیوں گزارتا ہے مجھے ؟؟

یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں

 

میں سمجھتا ہوں کہ "ذات” اور "احوالِ ذات ” کے مابین فرق کو اتنی تخلیقی غیرت کے ساتھ بیان کر جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی …کیفیت کے جس شدید ترین حال سے مزین یہ اشعار ہیں، کیا کہیں کسی ایک جگہ بھی کوئی ایسا معاملہ پیش آیا کہ ابلاغ اپنی راہ چھوڑ رہا ہو یا کیفیت کے وزن نے مصرعوں کو بوجھل کر دیا ہو ؟؟ کہیں بھی نہیں، اچھا کہا جا سکتا ہے کہ چھوٹی بحر ہے بھائی، دو مصرعوں میں بات نمٹا دینا کوئی کام نہیں، سب کر لیتے ہیں ..کیا مشکل ہے ؟؟ لیکن مزے کی بات یہی ہے کہ عرفان بحر کی طوالت یا اختصار کے کسی ایک معاملے میں بھی اپنی تہذیبی تخلیقی حدّت ذرّہ برابر بھی سرد نہیں پڑتا، مثال ملاحظہ فرمائیے .

 

جب نہ تھا یہ بیابانِ  دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر

کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسمان ! یا اخی

 

یاس پورے شعر میں کس جگہ بھی”ہاتھ ملنے ” کا ذکر نہیں ہے، کوئی لفظ تک نہیں ہے، اور ذرا آپ شعر کو دیکھئے، کیفیت کو دیکھئے، کیا یہ کیفیت ٹھیک ویسی ہی نہیں کہ جب کوئی بہت ہی حسرت اور بہت ہی یاس سے تہذیب اور مکالمے کی اس لذّت کو یاد کر رہا ہو جس میں گفتگو رات بھر اور سماعت آسمان کی ہوتی تھی !

عرفان ستار کی خالص خاصیت ہی یہی ہے کہ وہ کہیں کسی جگہ بھی اپنی کیفیت سے "غیر ” نہیں ہوتا ..کیفیت کا غیر اور کیفیت سے غیریت، سخن کی اس با جمال لطافت کو مردود کر ڈالتی ہے جسے ہم عرفِ  عام میں شاعری کہتے ہیں ..عرفان ستار کی کیفیت اور انجذابِ  کیفیت نے اسے لفظ کی تمام نشست و برخاست میں ایک نہایت سجیل روش کا حامل کیا ہے، یہ روش کبھی بھی عمومی طرزِ  ادائے سخن کی حامل نہیں ہوتی، نہ ہی عمومی طرزِ  ادائے سخن، سہل پسندی اور کسی خالص معیار کے میسر نہ ہونے کی بنا پر محض ایک ہی طرح کے ڈھب پر چلتی نظر آتی ہے۔ عرفان کے ہاں اس کا قاری کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں کہ سکتا کہ نہیں، یہاں کیفیت ادھوری رہی ہے یا لفظ اپنے پورے خارج و باطن کے اظہار کے ساتھ نہیں آیا یہی خصوصی طرزِ  ادائے سخن، ہر اس سخن ساز کو ایک علاحدہ نشست پر براجمان کرتی ہے، جس کے ہاں کیفیت کے رموز و اوقاف پوری نسبتِ تہذیب اور مکالمے کی سندرتا سے مزین ہوں ..میں یہ سمجھتا ہوں کہ نسبت – تہذیب کا ادراک ہے کسی بھی سخن ساز کے ادبی اور کیفیاتی نام و نسب کی پہچان ہوا کرتا ہے .غالب کی زمین میں عرفان کی غزل سے محض دو اشعار دیکھئے، اور یہ بھی دیکھئے کہ جب کوئی تخلیق کار نسبتِ  تہذیب کے ساتھ وارد ہوتا ہے تو اپنے سخن سے کس کیفیت کو طلوع کرتا نظر آتا ہے۔

 

یہ روز و شب ہیں عبارت اسی توازن سے

کبھی ہنر کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

 

یہاں توازن کا لفظ، معانی کی ایک خاص نشست لے کر آیا ہے ..آج تک ایسی کئی مثالیں دیکھی گئی ہیں جہاں، کہنے والوں نے، بہت سے جید اہل – ہنر بھی، اپنے ہنر اور کارِ ہنر کو "گھر” سے نسبت دیتے ہوئے ایک ہی طرح کی اذیت کا دکھ بیان کیا ہے، کہیں یہ اذیت دہری اور کہیں اکہری ہو کے سامنے آئی ہے، لیکن عرفان کا کمال یہی ہے، کہ اس کے ہاں محض ایک لفظ ایسا آتا ہے جو بکل بقولِ  غالب "گنجینۂ معانی ” ہو کر سامنے آتا ہے، اور اپنا غالب پن ثابت کرتا ہے۔ مندرجہ بالا بیت میں ایک کل وقتی سلسلے کا ذکر ہوا ہے، اور وہ سلسلہ محض کسی شب پر موقوف نہیں، یا کسی دن کی خاص ایک آدھ ساعت پر عبارت نہیں، "روز و شب ” کے ساتھ مکالمہ کرتا ہوا کل وقتی خراج لیتا ہوا سامنے آ رہا ہے۔ توازن کا برقرار رکھنا کارِ طفلاں نہیں، اور توازن بھی وہ کہ جو آج کے معاشرتی نظام کو سامنے رکھ کر اگر دیکھا جائے تو پھر پتا چلتا ہے کہ ہنر اور "گھر ” کے مابین معاملات کو کس درجہ نگہداشت سے دیکھنا پڑتا ہے ..عرفان نے تکرارِ ساعت میں اپنے تخلیقی نظام کی رونمائی کرتے ہوئے جو پیش لفظ تحریر کیا ہے وہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ ایسی اچھی شاعری کے ساتھ ساتھ ایسا عمدہ اور پوری فکری بلوغت کا ثبوت دیتا ہوا پیش لفظ بھی آج کل کم ہے دیکھنے کو ملتا ہے، یہاں اب گفتگو کا رواج اور چالان قریب قریب ختم ہوتا جا رہا ہے، "تکرارِ ِ  ساعت” کا پیش لفظ اور اس میں موجود گفتگو کا آغاز اور انجام ا س کتاب میں موجود تخلیقات کے ساتھ مکمّل طور پر ہم آہنگ ہے۔ عرفان کی تخلیقی شخصیت اور اس کی تخلیقیت کا ایک دوجے کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق ہے۔ وہ فطری طور پر شرمیلا اور معاشرتی طبیعت کے لحاظ سے ایک نہایت پر امن اور صلح جو انسان ہے۔ عرفان کی سب سے بہترین خوبصورتی جیسا کہ کسی بھی بڑے تخلیق کار کی خوبصورتی اور خصوصیت ہونا چاہے، یہی ہے کہ وہ اپنے معاشرتی مکالمے میں کہیں بھی کسی بھی جگہ جنگ و جدل کا قائل نہیں۔ اگر اس نے کوئی احتجاج کیا ہے، اگر اس نے کسی بات سے رد کرتے ہوئے کوئی بات کی ہے تو وہ اپنے ” شعر” میں کی ہے۔ اس کے ہاں لا تعداد ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں وہ یہ بات ثابت کرتا چلا جاتا ہے کہ آپ جس تخلیق کر کو پڑھ رہے ہیں اس کے ساتھ آپ کا جذباتی اور کیفیتی رابطہ صرف اور صرف اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے جب آپ خود ایک نہایت خاص طرح کی حساسیت سے معاملہ اور مکالمہ رکھتے ہوں، ایسا ہرگز نہیں کہ اس کا تخلیقی مکالمہ کوئی محدود حلقۂ  سماعت و نظارت رکھتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جہاں اسے پڑھتے ہوئے ایک عمومی سمجھ بوجھ رکھنے والا قاری ہے وہیں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو بہرحال خداوندِ لم یزل کی عطا کردہ خاص حسِ  فہم رکھتے ہیں۔ عرفان کا شعر اپنے قاری کے ساتھ ایک دوستانہ رویہ اختیار کر رکھتا ہے۔ ہر عمدہ اور انفراد سے مزین تخلیق کار کی طرح عرفان کا شعر اپنے قاری کے لئے محض دعوتِ  لطف ہی نہیں پیدا کرتا، بلکہ اپنے قاری کی ایک خاص انداز سے فکری تربیت بھی کرتا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ ایک بڑے تخلیقی نظام کا پہلا وصف ہوتی ہے .عرفان کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے

 

تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا

کہ تو بھی زندہ رہے، داستاں بھی زندہ رہے

 

یہ اک واحد شعر مندرجہ بالا اس گفتگو کے لئے ایک دلیل ہے جو ابھی میں نے عرفان کے شعر کے قارئین کے حوالے سے کی، اس شعر میں عمومی سمجھ بوجھ (مجھ ایسے کسی بھی قاری ) کی لئے ایک کیفیت ہے اور ایک ہلکا سا پیغام جو ظاہر ہے کہ سچ ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں، لیکن وہ لوگ جو بلا شبہ اپنے فہم و ادراک میں خاص ہیں، اصیل ہیں وہ اس بات کی تہ میں چھپے ہوئے معانی اور اصیل پیغام تک نہایت مزے سے پہنچیں گے کہ شعر کے دوسرے مصرع میں موجود محض ایک لفظ "بھی” نے بات کے اندر جو حسن اور جو تشدیدی کیفیت پیدا کر دی ہے وہ ہرگز عمومی نہیں ہے …اور سب سے مزے کی بات یہی ہے کہ ایسا پر فکر ایسا خوبصورت اور قطعی فیصلہ دیتے ہوئے بھی شعر شعر رہا ہے، کوئی پند و نصیحت کی بوسیدہ کہاوت نہیں بنا، اور یہ عرفان کی خوبصورتی ہے۔ بعض جگہوں پر یہ سجیلا اور بانکا تخلیق کر اپنے جذب اور جنوں سے ایسا سوہنا مکالمہ کرتا نظر آتا ہے کہ لہجے کا در و بست ایک خاص طرح کا بلند آہنگ اپنے قاری کے سامنے لا کھڑا کر دیتا ہے، دو اشعار مزید دیکھئے

 

میں جہاں پاؤں رکھوں، واں سے بگولا اٹھے

ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا

 

اور اسی غزل کا وہ لازوال شعر ملاحظہ کیجئے جہاں عرفان اپنے فن کی معراج پر پرواز کرتا نظر آتا ہے

 

اے مرے حرفِ سخن، تو مجھے حیراں کر دے

تو کسی دن مری امید سے بڑھ کر ہو جا

 

یہ نہایت عجیب شعر ہے، نہایت عجیب ..مکالمہ کس سے ہو رہا ہے ؟ "حرفِ  سخن ” سے ..کر کون رہا ہے ؟ خود صاحبِ  سخن۔ اورکہا کیا جا رہا ہے ؟؟ مری امید سے بڑھ کر ہو جا ..یعنی سبحان اللہ ..!! میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی تخلیق کار کی نگاہ کا ایسا خود نگراں ہونا کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کی جا سکتا ..اس ایک واحد شعر میں سخن اور صاحبِ سخن دونوں "عابد و معبود ” ساجد و مسجود اور خود خالق و مخلوق کے پھرے پر آ کھڑے ہوئے ہیں، صاحبِ سخن اپنے حرفِ سخن کو محض کوئی حرف نہیں جان رہا۔ ایک زندہ جیتا جاگتا اور سانس لیتا نظریہ جان رہا ہے۔ وہ یہ جان رہا ہے کہ حرفِسخن اگر حرفِ سخن ہے تو اپنے دروں میں خلق ہوتے ہوئے بھی خالقیت کا وہ عظیم وصف ضرور رکھا کرتا ہے جو اس کہے ہوئے پر وقت کا کوئی بھی جبر اثر انداز نہیں ہونے دیا کرتا۔

عرفان نے اپنے عرفانِ  کیفیت و عرفانِ  ذات کے حوالے سے جو عمدہ ترین اظہار اپنی کتاب "تکرارِ ساعت” میں بیان کر دیا ہے وہ بلا شبہ سیکھنے والوں کے لئے، جاننے والوں کے لئے اور ان تمام قلوب کے لئے خاص دلکشی اور ہمہ جہت جاذبیت رکھتا ہے جو فنِ  شعر، اکتسابِ کیفیت اور انجذاب – حال کے معاملات پر اپنا مکالم ہمیشہ روشن فہمی اور کھلی باہوں سے کرتے ہیں۔

 

اس بستی میں ایک سڑک ہے، جس سے ہم کو نفرت ہے

اس کے نیچے پگڈنڈی ہے، جس کے ہم گرویدہ ہیں

 

ایسے اشعار در حقیقت ایک کسوٹی ہوتے ہیں، ایک ایسی کسوٹی جس پر کسی بھی سننے، پڑھنے اور جاننے والے کی کیفیاتی حالت اور مرتبے کو پرکھا جا سکتا ہے، جب یہ شعر میں نے پہلے پہل پڑھا تھا تو کتاب ہاتھ سے رکھ دی تھی، اور آنکھیں بند کر لیں تھیں ..اس بظاہر بہت ہی سادہ اور بغیر کسی غیر معمولی بنت کے، اس شعر میں ایسا کیا ہے جو مجھے اس کے نشے میں اس وقت سے لے کر ابھی تک اسی سرشاری میں مبتلا کئے ہوئے ہے جیسا کہ اس وقت پہلی مرتبہ یہ شعر پڑھتے ہوئے طاری ہوئی تھی ..اس شعر میں "سڑک” اور "پگڈنڈی ” محض دو الفاظ کے طور پر برتے جانے والے کردار ہی نہیں، دو ایسے جیتے جاگتے استعارے ہیں جن کی پیروی اور کھوج کرتے ہوئے قاری، صاحبِ  سخن کی پوری تخلیقی، معاشرتی اور تہذیبی کیفیت کو پوری طرح سمجھ سکتا ہے …سڑک، یہاں ایک بہت ٹھوس رویے، لوگوں کے خود ساختہ تعبیر کئے ہوئے، بنے بنائے ہوئے ایسے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا ہوا استعارہ بن کر آئی ہے جو اپنے ٹھوس پن میں ایک لگے بندھے سانچے میں جکڑے ہوئے ہیں، "اس کے نیچے پگڈنڈی ہے جس کے ہم گرویدہ ہیں "…اب میرا نہیں خیال کہ اس مصرعے کی کوئی بھی تشریح یا توضیح کی کوئی حاجت باقی رہ جاتی ہے ..یہ شعر اور ایسے کئی اشعار جو عرفان ستار کے ہاں بڑی تعداد میں جگمگاتے نظر آتے ہیں، اسی خالص شریعت – شعر اور شعریتِ فکر کا ثبوت ہیں کہ عرفان ستار نے اپنا تہذیبی اور تخلیقی معاملہ انسان کی عمومی نفسیات سے خاص قریب رہ کر کیا ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کا ایسا کر جانا ہی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ..

یہ مختصر سا اظہاریہ تحریر کرتے ہوئے میری نظر با امرِ  مجبوری عرفان ستار کی کتاب "تکرارِ  ساعت” سے آگے نہیں گئی، ورنہ عرفان کا کلام جو اس کتاب کے بعد سامنے آیا ہے وہ اپنی معرفت و تصدیق میں زیرِ  نظر کتاب سے کہیں آگے کا ہے۔ عرفان نے اپنے نقوش خود از سرِ  نو مرتب کئے ہیں ..یہ نقوش اور فنِ  ریختہ پر اس کی دسترس اردو ادب کا عمدہ مذاق رکھنے والوں کے لئے بلا شبہ ایک خاصے کی شے ہے .. یہ خصوصی اہلیت رکھنے کے با وصف اس کی گفتگو اور کلام ایک جیسی ہم آہنگی میں ظہور پذیر ہوتے نظر آتے ہیں ..یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اردو ادب میں فکر اور کیفیت کی ایسی ہم آہنگی جو اپنے رقص میں کہیں بھی بے سر بے تال نہیں، کم کم دیکھنے کو ملتی ہے …اللہ سائیں سوہنا اس بانکے سجیلے عرفان ستار کا ما تھا روشن، سینہ خیر اور کمر مضبوط و محفوظ رکھے ..!!

 

یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی

یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا

٭٭٭

 

 

 

شاعر طرح دار … عرفان ستار ۔۔۔ ممتاز رفیق

 

شاعری ہمیشہ ایک پُراسرار عمل رہا ہے۔ شاعری کی دیوی کسی نٹ کھٹ البیلی نار کی طرح صرف اسی خوش نصیب پر مہربان ہوتی ہے جو پوری استقامت اور سچائی کے ساتھ اس میں مبتلا ہو اور اُس کے مطالبات پورے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔ اب جو ایک مدت سے عرفان ستار عمدہ شعر لکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ شاعری کی دیوی ان پر مہربان ہے اور اعلی اشعار کی صورت میں ان پر اپنی محبت نچھاور کر رہی ہے۔ آئیں عرفان کے کچھ اشعار دیکھیں

 

تیری یاد کی خوشبو نے بانہیں پھیلا کر رقص کیا

کل تو اک احساس نے میرے سامنے آ کر رقص کیا

 

اپنی ویرانی کا سارا رنج بھلا کر صحرا نے

میری دل جوئی کی خاطر خاک اُڑا کر رقص کیا

 

پہلے میں نے خوابوں میں پھیلائی درد کی تاریکی

پھر اُس میں اک جھلمل روشن یاد سجا کر رقص کیا

 

دیواروں کے سائے آ کر میری جلو میں ناچ اُٹھے

میں نے اُس پُر ہول گلی میں جب بھی جا کر رقص کیا

 

اُس کی آنکھوں میں بھی کل شب ایک تلاش مجسم تھی

میں نے بھی کیسے بازو لہرا لہرا کر رقص کیا

 

اُس کا عالم دیکھنے والا تھا جس دم اک ہُو گونج

یپہلے پہل تو اُس نے کچھ شرما شرما کر رقص کیا

 

رات گئے جب ستاٹا سرگرم ہُوا تنہائی می

شکریں دل کی ویرانی نے دل سے باہر آ کر رقص کیا

 

دن بھر ضبط کا دامن تھامے رکھا خوش اسلوبی سے

رات کو تنہا ہوتے ہی کیا وجد میں آ کر رقص کیا

 

مجھ کو دیکھ کے ناچ اُٹھی اک موج بھنور کے حلقے میں

نرم ہوا نے ساحل پر اک نقش بنا کر رقص کیا

 

بے خوابی کے سائے میں جب دو آنکھیں بے عکس ہوئیں

خاموشی نے وحشت کی تصویر اٹھا کر رقص کیا

 

کل عرفان کا ذکر ہُوا جب محفل میں، تو دیکھو گے

یاروں نے ان مصرعوں کو دہرا دہرا کر رقص کی

 

غزل کار ہونا تو شاید مشاقی کا مشغلہ ہو لیکن شعر لکھنا بلاشبہ ایک امتیاز اور اعزاز کا معاملہ ہے اور ہمارے عہد میں بہت کم افراد اس اعزاز کے مستحق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان چند افراد میں عرفان ستار ایک نمایاں ترین نام ہے۔ عرفان نے اپنی ادبی شخصیت کی بنت کے لیے کیا راستہ اختیار کیا اس کی تفصیل ذرا آگے چل کر آئے گی لیکن میں نے جو غزل اور شاعری کے حوالے سے بات کی اس بیان سے یہ اشتباہ پیدا ہونے کو احتمال ہے کہ میں غزل اور شاعری کو خانوں میں بانٹنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک کم فہمی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ میں تو محض یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شاعری چیز دیگر است۔ وزن، بحر، ردیف اور قافیہ کے التزام کے ساتھ دو مصرعے موزوں کر لینا شاعری کہلانے کا حق نہیں رکھتے جب تک ان میں کچھ ایسا نہ ہو جو اپنے قاری کو مبہوت کر دے۔ ہاں اس قافیہ پیمائی کو مشاقی کہا جا سکتا ہے۔ معروف شاعر ظفر اقبال نے ابھی حال ہی میں لکھا ہے کہ ہمارے گرد جو غزلیں لکھی جا رہی ہیں ان سے غزلوں کی تعداد میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن شاعری مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ میں ان کے اس بیان سے کلی طور پر متفق نہیں ہوں۔ ہاں یہ بات کچھ ایسی غلط نہیں کہ ہمارے اکثر جونئیر اور سنئیر شعرا محض غزلیں لکھ رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ شاعری سرے سے ناپید ہے، ہمارے بہت سے نوجوان اور پرانے شاعر اب بھی بہت اچھے شعر لکھ رہے ہیں جس کی ایک مثال خود ہمارے عرفان ستار ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اوسطا اچھی شاعری تخلیق کرنے والوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے۔ ظفر اقبال صاحب کا مطالبہ تو یہ بھی ہے کہ محض اچھا شعر کافی نہیں بلکہ اسے بہت اچھا ہوتا چاہئیے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مطالبہ نوجوان شعرا کے ساتھ تھوڑی سی زیادتی ہو گی کہ ابھی تو ہمارے بہت سے غزل کاروں کو اچھا شعر لکھنے کا سلیقہ سیکھنا ہے۔ اور جب وہ شعر لکھنے کی استعداد حاصل کر لیں گے تو اچھے شعر بھی کہیں گے۔ یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اچھا شعر کیا ہوتا ہے ؟ اس کے لیے ہمیں اردو ادب کے کلاسکی شاعری کے اساتذہ کے کلام سے رجوع کرنا ہو گا مثلاً:

 

میر تقی میر کہتے ہیں :

 

دور بیٹھا غبار میر اس سے

عشق بن یہ ادب نہیں آتا

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے ت

تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے

 

مرزا غالب فرماتے ہیں

:کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

 

یا یگانہ چنگیزی کہتے ہیں :ٰ

یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی

کہئیے کیا بات دھیان میں آئی

 

اردو کے کلاسیکی ادب میں سے ایسے کتنے ہی زندہ اشعار کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ تعجب ہوتا ہے کہ جس زبان کے ادب کا سرمایہ اتنا شان دار ہو اس کی شاعری اچھا اشعار لکھنے والوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میرا موضوع تو عرفان ستار کی شاعری ہے پھر میں یہ کیا بحث کھول بیٹھا؟ اچھا تو پہلے عرفان ستار کہ کچھ اور اشعار دیکھ لیں پھر آگے بات ہو گی۔

 

رگوں میں رقص کناں موجۂ  طرب کیا ہے ؟

اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے ؟

 

ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر

مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے ؟

 

مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں

میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں، کب کیا ہے ؟

 

نجانے کیا ہے نظر کی تلاشِ  لا موجود

نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے ؟

 

 

بزعمِ  عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا

اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا

 

یہ شہرِ  کم نظراں، یہ دیارِ  بے ہنراں

کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا

 

حریمِ  دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال

سو گُل اُسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا

 

اور میں یہ بھی سمجھ سکتا ہوں کہ میری اس مختصر سی گفتگو سے کتنی ہی تیوریاں چڑھ چکی ہوں گی اور آنکھوں کی رنگت تبدیل ہو چکی ہو گی کیوں کہ ہمارے اس بد نصیب دور میں ہمارے تخلیق کاروں میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ وہ کسی کی بات سننے یا سمجھنے کا یارا نہیں رکھتے گویا اب اس خطہ زمیں پر پیدا ہونے والا ہر بچہ عقل کل ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ تلخ حقیقت سے آنکھیں موند لینے سے مسئلے کی پیچیدگی میں اضافہ ہونے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ مجھے اجازت دیں کہ اب شاعری کے موجودہ منظر نامے کا مختصر سا جائزہ لے کر میں عرفان ستار کی طرف رجوع کروں جو رجوع کروں جو اس پریشان کن صورت حال میں ایک تواتر اور تسلسل سے اچھے شعر تخلیق کیے جاتے ہیں اور اب اس معاملے کو کئی دہائیاں گزر گئیں۔ جب وہ کراچی میں تھے اس وقت بھی انہیں ایک معتبر اور منفرد لب و لہجے کے شاعر کی حیثیت سے جاتا جاتا تھا اور آج بھی جب وہ ٹورنٹو میں ہیں ان کی حیثیت برقرار ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں اس دوران ان کے فن نے مزید ترقی کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک نوجوان شاعر شعر لکھنے کا ڈھنگ کیسے سیکھے ؟ہمارے معاشرے سے استاد، شاگرد کا ادارہ ناپید ہو چکا۔ مشاعرے، تربیت گاہ ہونے کے اعزاز سے محروم ہو گئے اور اب وہ محفلیں بھی نہیں رہیں جو نئے لوگوں کی تربیت کے لیے ادارے کی حیثیت رکھتی تھی اور اب نوجوانوں میں سے کچھ سیکھنے کی وہ فریفتگی جاتی رہی ورنہ اگر عزم اور ارادہ دیوانگی کی شکل اختیار کر لے تو راستہ تو نکل ہی آتا ہے۔ اچھا اسے جانے دیں یہ دیکھیں کہ بھائی عرفان ستار نے شعر خوانی کا ہنر سیکھنے کے لیے کیا جوکھم اٹھائے۔ ظاہر ہے یہ کہنا تو ضروری نہیں کہ ان میں شاعری کا فطری جوہر موجود تھا جس کہ بغیر کسی کا شاعر بننا ممکن ہی نہیں اور پھر وہ موزوں طبع بھی تھے۔ عرفان ستار کو ایک وقیع اور اہم شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور اہل زبان نہ ہونے کے باوجود عرفان ستاراردو زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں لفظ کو اس کی ممکنہ معنویت کے ساتھ برتنے پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ یہ وہ ہنر مندی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے برسوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ آج جو ہم عرفان ستار کی شاعری میں موضوعات کا تنوع، علامات کا معنی خیز استعمال، تشبیہات اوراستعاروں کا حسین برتاؤ دیکھتے ہیں وہ اردو کے معاصر اور کلاسیکی ادب اور کسی حد تک فارسی زبان کی کلاسکس کے دیوانہ وار مطالعے کی دین ہے۔ اس مطالعے کے دوران عرفان نے الفاظ پر سے نظریں ہی نہیں گزاریں انہیں ان کی پورے معنوی حسن کے ساتھ لہو میں گھول لیا۔ عرفان ستار نے اچھا بلکہ بہت اچھا شاعر بننے کی لپک میں اردو ہی نہیں انگریزی زبان کے ادب کو بھی کھنگالا اور حذر جاں بنایا۔ اور خیال رہے کہ اس وظیفہ کے دوران انہوں نے مطالعے میں نظم اور نثر کی تخصیص نہیں رکھی۔ شاید میرے نوجوان دوستوں کو یہ بات کچھ عجب سی لگے کہ یہ بے صبرے تو شاعر کے لیے بس شاعری کو ہی کافی جانتے ہیں۔ اس غلط فہمی کا سبب نثر سے عدم رغبت اورکسی حد تک نثر کی مشقت طلبی ہے۔ میرے ان دوستوں کو جاننا چاہئیے کہ اچھا شاعر بننے کہ لیے شاعری کے ساتھ نثر کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ آپ ایک خاص عمر تک جذبے کے زور پر شعر کہہ سکتے ہیں لیکن اس کے بعد شعر لکھنے کے لیے آپ کو خام مواد اور تحریک کی ضرورت پڑتی ہے۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ آدمی اپنی جوانی کے تجربات کی معنویت کو تہہ داری گیرائی اسی وقت دے سکتا ہے جب وہ ڈھیروں کتابوں سے گزر چکا ہو اور نثر خصوصیت سے اس لیے کہ نثر کی ہر سطر میں معنویت کا ایک جہان نو رکھتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی شخص اچھی نثر کے مطالعے کے بغیر اپنے ذوق کو کیسے نکھار سکتا ہے۔ عرفان ستار جدید حسیت کے ساتھ دل میں اتر جانے والے اشعار کہنے والے ایک توانا شاعر ہیں۔ ان کی تخلیقی زرخیزی اور زباں و بیان پر گرفت نے انہیں منفرد لب و لہجے کے اہم شاعر کے درجے پر فائز کر وا دیا ہے۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی گفتگو کی تصدیق کے لیے عرفان ستار کے کچھ اشعار نقل کر رہا ہوں

 

سر صحرائے یقیں شہر گماں چاہتے ہیں

ہم کسی شئے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں

 

جس سے اٹھتے ہیں قدم راہ جنوں خیز میں

تیزہم بھی شانے پہ وہی بار گراں چاہتے ہیں

 

رخ نہ کر جانب دنیا، کہ اسیران نظر تجھ کو

ہر دم اسی جانب نگراں چاہتے ہیں

 

ایسے گرویدہ کہاں ہیں لب و رخسار کے ہم

ہم تو بس قربت شیریں سخناں چاہتے ہیں

 

چاہتے ہیں، کہ وہ تا عمر رہے پیش نظر

ایک تصویر سر آب رواں چاہتے ہیں

 

جس میں سیراب ہیں آنکھیں، جہاں آباد ہیں دل

ہم اسی شہر تخیل میں مکاں چاہتے ہیں

 

راز ہستی سے جو پردہ نہیں اٹھتا، نہ اٹھے

آپ کیوں اپنے تجسس کا زیاں چاہتے ہیں

 

شام ہوتے ہی لگاتے ہیں در دل پہ صدا

آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں

 

دور عرفان رہو ان سے کہ جو اہل ہنر

التفات نگہ کم نظراں چاہتے ہیں

 

اب ان کی شاعری کی گونج کراچی سے ٹورنٹو تک سنائی دیتی ہے۔ عرفان نے یہ کمال فن حاصل کرنے کے لیے جہاں کتاب کو آنکھ کا سرمہ بنائے رکھا وہیں وہ علم کے نہایت قدیم لیکن بے حد معتبر ذریعے مکالمے سے بھی خوب خوب فیض یاب ہوئے۔ جب وہ یہاں کراچی میں تھے تو وہ ایک تسلسل سے اس وقت کے صاحبان علم و دانش سے رابطے میں رہے۔ ان علماء ادب کی صحبتوں نے عرفان کی ادبی شخصیت کو گنج گراں مایہ سے نواز کر کندن بنا دیا۔ منفرد ترین لب و لہجہ کے معروف شاعر اور زبان پر مکمل دست رس رکھنے والے جناب جون ایلیاسے عرفان مدتوں پیوست رہے۔ جون سے جہاں انہوں نے زبان و بیاں کے رموز سیکھے وہیں ان کی قربت کے باعث عرفان کی شاعری بوجھل ہونے سے محفوظ رہی۔ سب واقف ہیں کہ جون سہل ممتنع میں لکھنے کے عادی تھے۔ ایک جونئیر کی حیثیت سے عرفان نے یقیناً جون کے کلام کی اس خوبی سے استفادہ کیا ہو گا پھر جون عروض کے بھی بہت بڑے شناور مانے جاتے تھے۔ عرفان ستار نے ان کی اس تکنیکی مہارت سے بھی خوب فیض اٹھایا ہو گا۔ جون سے اپنے حصے کا علم حاصل کر کے عرفان آگے بڑھ گئے۔ اگر انسان کی پیاس سچی ہو تواسے کوئی چشمہ ملتے دیر نہیں لگتی۔ یہ عرفان کی خوش نصیبی کہ اس زمانے کے ایک اور عالم بے مثل جناب احمد جاوید کی محافل دامن کشادہ کیے ان کا خیرمقدم کرنے کی منتظر تھیں۔ جناب احمد جاوید ایک ہمہ صفت شخصیت کے مالک ہیں دینی اسکالر اور علم سے لبالب چھلکتے ہوئے۔ بلا کے مکالمے ساز اور غضب کے شاعر۔ عرفان ستار کو ان کی صحبت خوب راس آئی۔ میرے خیال میں احمد جاوید صاحب کی محفلوں میں عرفان نے شاعری کی کہنہ روایت کے علاوہ کلاسیکی اردو شاعری کے اساتذہ کے کلام کے ذریعہ بڑی شاعری کے محاسن سے آگاہی حاصل کی ہو گی اور اس سے نہ صرف عرفان کے ذوق میں نکھار آیا بلکہ وہ ایک تربیت یافتہ ذوق کے مالک بن گئے۔ اور اسی دور سے ان کی شاعری کا الگ لہجہ استوار ہونا شروع ہوا۔ جن احباب نے عرفان کی کتاب تکرار ساعت دیکھ رکھی ہے وہ گواہی دیں گے کہ وہ ایک صاحب طرز شاعر کی کتاب ہے۔ اس ساری گفتگو سے میری منشا یہ بتانا ہے کہ ایک عمدہ شاعر اپنی ادبی شخصیت کی پرداخت اور تعمیر کے دوران کن مراحل سے گزرتا ہے۔ عرفان کی شاعری میں ان کا امتیاز ان کی طویل بحر میں کہی گئی نظمیں ہیں اور کون نہیں جانتا کہ طویل بحر ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میں چھوٹی بحر کے جادو سے انکاری نہیں اس کی دل کشی اپنی جگہ ہے آخر میر تقی میر بھی تو چھوٹی بحر میں ہی اپنا جادو جگاتے رہے یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن میرا خیال ہے کہ طویل بحر زیادہ کٹھن مطالبات رکھتی ہے۔ اس بحر میں خامہ فرسائی کہ لیے ضروری ہے کہ آپ زبان و بیان پر پوری قدرت رکھتے ہوں اور اس اہلیت کے مالک ہوں کہ اپنے تجربے کو تفصیلات کے ساتھ سلیقے سے شعر کے قالب میں ڈھال سکیں۔ اس بحر میں لکھتے ہوئے ہمیشہ یہ خدشہ دامن گیر رہتا ہے کہ ایک حرف کی الٹ پھیرسے سارا کیا دھرا خاک ہوسکتا ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ ان تمام قباحتوں کے باوجود عرفان ستا ر ایک زمانے سے طویل بحر میں اعلی درجے کی غزلیں لکھ رہے ہیں تو کیا وہ ہماری اور آپ کی تحسین کے مستحق نہیں ہیں ؟عرفان ستار ایک بانکے شاعر ہیں اور جس ہنر مندی سے وہ شعر لکھ رہے ہیں اس پر بجا طور پر وہ ہماری تحسین اور اپنے اعتراف فن کے مستحق ہیں۔ عرفان ستار دلدادگان شاعری کی توصیف قبول فرمائیں۔ ٰٰٰ ٰٰ

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان ستار کی شاعری کا تکنیکی جائزہ۔ ۔ ۔محمد خاور

 

 

سخن شناس کو بہت بہت مبارک کہ اس نے ایسا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس سے فیس بک پر شعرا کے تعارف کے بہانے اچھی شاعری اور اس پر اہل علم حضرات کی گفتگو پڑھنے کو ملتی ہے۔ اس بار۔ عرفان بھائی (نام کے ساتھ صاحب نہیں لکھنا چاہ رہا کہ ان کی قد کاٹھ کے رعب میں کہیں میرا تبصرہ قصیدہ نہ بن جائے ) کی شاعری پر بات کا اعلان ہوا تو دل مچل اٹھا کہ میں بھی کچھ لکھوں

عرفان بھائی کی شاعری میں نہ محبوب کے حسن و سراپے کا بہت ذکر ہے نہ تصوف کے رنگ کی بھرمار ہے۔ نہ جدیدیت کے نام پر تجریدیت ہے اور نہ روایت پسندی کی آ ڑ میں فرسودہ ہجر و وصال کے نغمے۔ ۔ نہ ہی ایک ہارے ہوے انسان کی پژمردگی ہے نہ ہی زندگی کا بہت جوش و جذبہ۔ خیالات میں نہ ہی ایسی سادگی ہے کہ سرسری نظر ڈال کر آگے چلا جائے اور نہ ہی اتنی پیچیدگی کہ رک کے گھنٹوں سوچا جائے۔ زمینیں سادہ ہیں۔ قافیے سامنے کے ہیں۔ بحور میں بہت زیادہ تجربات نہیں مشکل الفاظ و تراکیب بھی ڈھونڈھنے سے ہی ملیں گے۔ ۔ تو پھر کیا وجہ کہ ان کی شاعری بہت متاثر کن ہے۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا جذبات و احساسات کی دھیمی آنچ پر سلگتا ہوا ان کا مخصوص آہنگ ان کا اثاثہ ہے۔ جو بہت پر سوز اور پر اثر ہے۔ جی ہاں میرے نزدیک عرفان بھائی احساسات و جذبات کے شاعر ہیں اور عرفان بھائی کو اس کا علم بھی ہے کی ان کا احساس ان کی دولت ہے

 

یہ تازہ کاری ہے طرزِ  احساس کا کرشمہ

مرے لغت میں تو لفظ کوئی نیا نہیں ہے

اور اسی احساس کے زیر اثر پیدا ہونے والی خود کلامی کا عنصر انسان کی داخلی کیفیت کا عکاس ہے۔ اور بعض اوقات تو لب ہو لہجے کی تازگی شک میں ڈال دیتی ہے کہ کہیں یہ آپ بیتی تو نہیں۔

میں اس مضمون میں عرفان بھائی کی شاعری کے اجتماعی (مجموعی ) تا ثر اور ان کی فکری اساس کا احاطہ کرنے کے بجائے اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں کہ ان کی شاعری کے وہ کون سے تکنیکی پہلو یا خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے سادہ الفاظ اور دھیمے لہجے کے باوجود تازہ کاری کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ وہ تکنیکی خوبیاں اور فنی محاسن جو غیر محسوس طریقے سے ان کی شاعری کا قد کاٹھ بڑھا رہے ہیں اور وہ اپنا احساس قاری تک کس طرح منتقل کر رہے ہیں۔ ؟ تازہ کاری کا کیا راز ہے ؟ اس ضمن میں ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے بے شمار خصوصیات میں سے ان دو تکنیکی خوبیوں کا انتخاب کیا ہے جو میری نظر میں سب سے زیادہ اہم ہیں۔ جو ان کا ایک لہجہ اور آہنگ بنا رہی ہیں۔ یہ دو خوبیاں تکرار لفظی اور مصرعوں میں غیر عروضی سکتے کا استعمال ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ اس کا اہتمام نہیں کرتے بلکہ یہ ان کے آہنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اور مضمون کے آخر میں ایک ایسے پہلو کا بھی ذکر ہے جس میں بہتری کی گنجائش ہے۔ وہ مصرع اولی اور مصرع ثانی کی بناوٹ کا موازنہ ہے۔

عرفان بھائی کی شاعری کی بات کی جائے تو تو ان کے اشعار میں کلیدی الفاظ و تراکیب کی تکرار بہت اہم ہے۔ جس سے دھیمے لہجے میں بھی بلا کا اثر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس پر تفصیلی بات سے پہلے میں ایک اور دلچسپ تکرار کی طرف اشارہ دینا چاہوں گا۔ وہ لفظ۔ میں۔کی تکرار کی طرف ہے :

 

میں اور کہاں خود نگری یاد ہے تجھ کو

جب تو نے میرا نام لیا میں نے کہا میں

 

میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں

پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے

 

دشت حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا

اے جنوں میں بھی تو ہوں اے ہمسفر میں بھی تو ہوں

 

اس نے مجھ کو محال جان لیا

میں یہ کہتا رہا نہیں، میں ہوں

 

درج بالا اشعار والی تمام غزلوں میں ردیف میں بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجود ہے اور اس کے علاوہ بھی کچھ غزلیں ہیں جن کی ردیف میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے۔ ان کی کتاب تکرار ساعت میں پیش لفظ کا عنوان بھی۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ہی ہے اور تو اور تکرار ساعت کی پہلی غزل بھی۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ کہ اسی نعرے کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔

 

جس دن سے اس نگاہ کا منظر نہیں ہوں میں

ہر چند آئینہ ہوں منور نہیں ہوں میں

 

اور اس کے بعد یہ غزلیات بھی نظر آتی ہیں جن کی ردیف میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجود ہے :

 

آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں

مرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے

 

اک تاریک خلا اس میں چمکتا ہوا میں

لفظوں کے برتنے میں بہت صرف ہوا میں

 

سمجھوتا کوئی وقت سے کرنے کا نہیں میں

رفتگاں کی صدا نہیں، میں ہوں

 

جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر

ایک سنسان گھر، چاندنی اور میں

 

اور میرا، مجھ کو یا مجھے ردیف والی غزلیں بھی موجود ہیں۔ اور ایسے اشعار کی تو بھرمار ہے جن میں ردیف کے علاوہ میں، میرا، مجھے یا کوئی ہم معنی لفظ استعمال ہوا ہو۔

مجھے یہ کہنے میں کچھ عار نہیں کہ میں کی یہ تکرار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آواز عرفان کی آڑ میں کسی بھی ذات کی اندر کی آواز ہے جو اپنی پہچان چاہتی ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے یہ آواز درجۂ سماعت تک نہیں پہنچ پائی اور کبھی ایسا لگتا ہے کہ اپنی منزل کے اس پار پہنچنے کی خوشی میں مستی سے شرابور ہے ۔

 

دیکھ مستی وجود کی میری

تا ابد دھوم مچ گئی میری

 

تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے

کم نہ ہو گی سپردگی میری

 

اسی لئے میں، مجھے یا مجھ کو تکرار کی صورت میں مختلف انسانوں کی داخلی کیفیت یا ایک ہی انسان کی داخلی کیفیت کے مختلف درجات سب کچھ ملتا ہے عرفان بھائی کی شاعری کا یہ ایسا رخ ہے جس پر ایک مکمل مضمون درکار ہے۔ لیکن فی الحال مجھے لفظی تکرار کی طرف واپس آنا ہو گا۔

اگر صنعت تکرار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک لفظ کو دو مختلف معنوں میں استعمال کرنا، ایک ہی لفظ سے دو مختلف تراکیب بنانا اور ایک ہی لفظ کو اسی معنوں میں تاکید کے لئے دو بار استعمال کرنا، قریباً ہر طرح کی مثال ان کے کلام میں موجود ہے۔

بہت سے اشعار ایسے ہیں جن کے دوسرے مصرعے میں ضمیر لوٹائی جا سکتی تھی۔ لیکن نہیں لوٹائی گئی۔ اور اسی سے شعر بن گیا۔ اور اگر ان اشعار میں الفاظ کی تکرار ختم کر کے ضمیر استمعال کریں تو شعر کا حسن ختم ہو جائے گا

 

کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں

بس اک نگاہ رکی تھی سو وہ نگاہ بھی کیا

 

اسی شعر میں اگر دوسرے مصرعے میں سے ایک بار نگاہ کا لفظ نکال دیا جائے تو شعر ہی فوت ہو جائے گا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا

کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بس ایک بار رکی تھی سو وہ نگاہ بھی کیا

 

اور کیا اس شعر میں سراب کی تکرار ختم کی جا سکتی ہے ؟

یہ عمر ایک سراب ہے صحرائے ذات کا

موجود اس سراب میں دم بھر نہیں ہوں میں

 

میں جانتا ہوں کہ جواب نہیں میں ہو گا۔ اسی قبیل کے کچھ اور اشعار دیکھئے

 

تو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بدر

اپنی خاطر ہی سہی پر در بدر میں بھی تو ہوں

 

ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے

خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا

 

جو رات بسر کی تھی مرے ہجر میں تو نے

اس رات بہت دیر ترے ساتھ رہا میں

 

اور یہی لفظی تکرار کئی جگہوں پر اشعار کی غنائیت میں بھی اضافہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ کیوں نہیں رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی ردیف والی غزل پڑھ کر دیکھ لیں۔ اشعار میں وہی روانی او غنائیت ہے جو عرفان بھائی کے ہاں عموماً پائی جاتی ہے لیکن لفظی تکرار نے اس شعر کو باقی تمام اشعار سے ممتاز کر دیا ہے ۔

 

وہ زلف زلف رات کیوں بکھر بکھر کے رہ گئی

وہ خواب خواب سلسلہ بحال کیوں نہیں رہا

 

اور شدت خیال کے لئے تو بے شمار مثالیں موجود ہیں :

 

لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لئے، اس دیار سفر میں گذر کے لئے

عاجزی چاہئے، آگہی چاہئے، درد دل چاہئے، چشم تر چاہئے

 

اک امکان کی بے چینی سے اک امکان کی وحشت تک

میں کس حال میں زندہ تھا اور میں کس حال میں زندہ ہوں

 

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا

سو اب تجھ گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

 

میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو

مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے

 

اسی تکرار لفظی کی بدولت سادہ الفاظ و خیالات کے باوجود بھی بھول بھلیاں کا سا ایک منظر سامنے آتا ہے۔ جسے قاری ذرا سی ہے دیر میں حل کر لیتا ہے۔ اس طرح یہ بھول بھلیاں لطف تو دیتی ہے لیکن ناگوار نہیں گذرتی۔

 

رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی

زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا

 

یا مجھ سے گذاری نہ گئی عمر گریزاں

یا عمر گریزاں سے گزارا نہ گیا میں

 

سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی

مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا

 

گماں میں بھی گماں لگتی ہے اب تو زندگی مجھ کو

نظر آتا ہے اب وہ خواب میں بھی خواب سے مجھ کو

 

اور بعض اوقات الفاظ کی تکرار سے ایک موازنہ ہو رہا ہے۔

 

اک طرف دل کا یہ اصرار کہ خلوت خلوت

اک طرف حسرت تسکین نظر کھینچتی ہے

 

وہ دن بھی تھے تجھے میں والہانہ دیکھتا تھا

یہ دن بھی ہیں تجھے میں دیکھتا ہوں بے بسی سے

 

وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا

یہ کون ہیں جو پس جسم و جاں بھی زندہ رہے

 

کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب

کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

پہلے شعر میں اک طرف یعنی ایک ہی اشارے سے دو مختلف سمتیں دکھائی گئی ہیں اور دوسرے شعر میں وہ دن اور یہ دن کا موازنہ ہے۔ تیسرے شعر میں وہ کون اور یہ کون کا استعمال دوسرے شعر کی طرح ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وجود جسم اور پس جسم و جاں کا التزام بھی کیا گیا ہے۔ اور چوتھے شعر میں لفظ کسی کے ساتھ موازنہ کیا ہے اور آہٹ اور صورت کی بھی تکرار ہے۔

اور سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ اس ایک شعر میں نہیں کی تکرار سے پیدا ہونے والا بانکپن کیا ہی پر لطف ہے ۔

 

تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟

نہیں نہیں جاؤ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے

 

تکرار لفظی کے حوالے سے دیکھا جائے تو ردیف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دم بخود۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والی غزل کا تذکرہ کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس غزل میں ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ایک شعر کے علاوہ ہر شعر میں ایک مصرع دم بخود سے ہی شروع ہوتا ہے اور دم بخود پر ہی ختم ہوتا ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہ غزل سوچ کر ایسی نہیں لکھی گئی بلکہ ہو گئی ہے۔ کیونکہ اگر سوچ کر ایسا کیا ہوتا تو جو ایک شعر دم بخود سے شروع نہیں ہوتا وہ نکال دیا گیا ہوتا۔ اس سے میرے اس خیال کو بہت تقویت پہنچتی ہے کہ تکرار لفظی عرفان بھائی کے آہنگ کا فطری حصہ ہے۔ غزل کا صرف مطلع اور ایک شعر ہی یہاں پیش کر پاؤں گا۔

 

دم بخود میری انا تیری انا بھی دم بخود

تیرے پہلو میں رہا اور میں رہا بھی دم بخود

 

رقص کرنے پر تلی ہیں ہجر کی ویرانیاں

دم بخود سارے دئیے ہیں غم کدہ بھی دم بخود

 

تکرار ساعت، تکرار لفظی کی ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

اب چلتے ہیں مصرعے میں سکتے کا استعمال کی طرف۔ خصوصاً مصرعہ ثانی میں۔ وہ بہت سے دوسرے لوازمات کے ساتھ مصرعے میں غیر عروضی سکتہ ڈال کر نہایت شاندار ڈرامہ اور اثر انگیزی پیدا کرتے ہیں۔ یہی سکتے کا استعمال، لہجے کی بے تکلفی، آسان فہم زبان اور روزمرہ کی گفتگو جیسی شاعری ان کی تازہ کاری ہے۔ کچھ مثالیں دیکھتے ہیں :

 

جنوں میں رقص کناں موجۂ  طرب کیا ہے ؟

اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے ؟

 

ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں

خیال کیا تھا، کہا کیا ہے، زیرِ  لب کیا ہے

 

پسِ  زیاں جو درِ  دل پہ میں نے دستک دی

"کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا، کہ "اب کیا ہے ؟

 

ایک ہی غزل میں تین اشعار مل گئے۔ اور اس غزل کا انتخاب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رینڈم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے۔ عرفان بھائی کے کے پروفائل میں سے مثالیں ڈھونڈھنے کے لئے نوٹس کھولے تو یہ تازہ ترین غزل ہے۔ ۔ چلئے اس سے پچھلی غزل بھی دیکھ لیتے ہیں کہ کیا اس میں ایسا کوئی شعر ہے۔

 

تیرا اندازِ  تخاطب، ترا لہجہ، ترے لفظ

وہ جسے خوفِ  خدا ہوتا ہے، یوں بولتا ہے ؟

 

اگرچہ پہلے مصرعے میں بھی سکتے کا استعمال ہے۔ لیکن اس کی مثالیں تو بہت سے شعرا کے ہاں بکثرت ملیں گی آپ دوسرے مصرعے پر غور کیجئے ۔

 

وہ جسے خوف خدا ہوتا ہے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یوں بولتا ہے۔

 

انصاف سے کہئے گا کہ اس سکتے نے خوف خدا کو بہت بڑا نہیں کر دیا؟

اور یہ شعر دیکھئے:

 

حد ہے، کہ تو نہ میری اذیت سمجھ سکا

شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے

 

حد ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بعد کا سکتہ کیا گل کھلا رہا ہے وہ اہل فن خوب سمجھتے ہیں۔

 

کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشم طلب

صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکی بھی نہیں

 

آپ نے محسوس کیا؟ رکنے کے بیان سے پہلے سکتہ۔ یقیناً اس سکتے سے لاشعوری طور پر قاری کی کیفیت میں ۔۔رکی۔ ۔ کا لفظ گہرا تاثر چھوڑتا ہے۔

اور اگر سچ پوچھئے تو مجھے لگتا ہے کہ سادہ الفاظ میں اتنے پر اثر اشعار کہنے کی ملکہ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سکتے۔ ۔ ۔ ۔ کے استمعال کا بہت کردار ہے۔  اور مثالیں دیکھنے کے لئے نوٹس میں سے تیسری غزل دیکھی تو ایسا لگا کہ اگر مثالیں اکٹھی کرنی شروع کی تو بہت شی شاعری ٹائپ کرنی پڑ جائے گی۔ چلئے آپ کے خوشی کے لئے ایک اور غزل، جس میں ایک خاص نکتہ بھی ہاتھ آیا ہے، کا کاپی پیسٹ مار دیتا ہوں :

 

پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ  تر ہمارا

 

بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ  وطن کی خوشبو

اے بادِ  صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا

 

ہیں بزمِ  عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب

سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا

 

ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے

ہے صرف اتفاقاً، آنا اِدھر ہمارا

 

اتمامِ  دل خراشی، اسلوبِ  سینہ چاکی

اظہارِ  کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا

 

اک سعیِ  بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت

مت پوچھیے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا

 

پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر

بس یہ بتاؤ پوچھے، کوئی اگر ہمارا

 

دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے

اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا

 

ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو

اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا

 

خاص نکتہ یہ ہے اس غزل میں معنوی اور عروضی سکتے ایک ہی مقام پر آ پڑے ہیں۔ اور اگر عرفاں بھائی سکتے کی علامت نہ بھی ڈالتے تو بھی اشعار کا آہنگ یہی رہتا۔ لیکن (چھوٹا منہ بڑی بات ) میرا خیال ہے کہ عرفان بھائی۔ معنوی سکتے۔ ۔ کا ہتھیار اتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ انہوں نے یہاں بھی سکتے کا اعلان علامت سے کیا اور اس سے میرے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ۔ ۔ کے مصرعے میں۔ ۔ ۔ ۔ سکتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کا استعمال بھی عرفان بھائی کا خاص ہتھیار ہے ۔

ایک شعر میں منظر کشی میں سکتے کے استعمال کا جادو ملاحظہ فرمائیے۔ ایسے جسیے منظر درجہ بدرجہ قاری کے دل و دماغ پر نازل ہو رہا ہے۔

 

لمحہ لمحہ اجڑتا ہوا شہرِ جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں

 

یہ پہلا مصرع ہے۔ اور اسے تمہید کے طور پر لیں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ عرفان بھائی کی شاعری میں سکتہ اپنا جادو دوسرے مصرعے میں دکھا تا ہے۔

 

پھول پتے شجر، منتظر چشم تر، رات کا یہ پہر، روشنی اور میں

 

اور اب ایک بار یہی شعر میرے ساتھ دوبارہ پڑھئے۔

 

لمحہ لمحہ اجڑتا ہوا شہرِ جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں

پھول پتے شجر، منتظر چشم تر، رات کا یہ پہر، روشنی اور میں

 

سکتے کا استعمال جب جب دوسرے مصرعے میں ہوا۔ اس نے یہی قیامت ڈھائی۔ اسی طرح کا اک اور شعر بھی حاضر ہے۔

 

منتظر ہوں کہ کوئی آ کے مکمل کر دے

چاک پر گھومتا، بل کھاتا، درکتا ہُوا میں

 

بہت سی جگہوں پر سکتے کا یہ استعمال مکالماتی اور بے تکلفانہ انداز کا اظہار ہے۔ لیکن مجال ہے کہ کسی ایک جگہ بھی پھکڑ پن یا عامیانہ پن نظر آیا ہو۔ صرف مہارت ہی مہارت نظر آتی ہے۔ اور ایسے لگتا کہ عرفان بھائی کی یہ گفتگو نہ صرف آپ پڑھ رہے ہیں بلکہ سن اور دیکھ بھی رہے ہیں۔

 

تمہارا نام سرِ  لوحِ  جاں لکھا ہُوا ہے

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

 

کہئے، جاں اور جان کی تکرار، جان اور ہاں کا ہم آواز ہونا، مری جان کو کھپانا اور پھر ۔ہاں۔ کی شکل میں ایک ڈرامہ۔ تو مقطع کیوں نہ قیامت ڈھانے والا ہو۔

 

اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سے آگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جان من۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے بعد سکتے کا کمال دیکھئے

 

تجھ کو چشم تحیر سے تکتا ہوا ایک میں ہی نہیں آئینہ بھی تو ہے

جان من، حسن کی بات اپنی جگہ، مسئلہ کوئی اس کے سوا بھی تو ہے

 

اور تخاطب کا یہ انداز جان و جان من ہی تک محدود نہیں بلکہ عرفان بھائی اسی انداز سے رقیب کو بھی مخاطب کر جاتے ہیں ۔

 

نہیں مشروط کار عاشقاں ترک سکونت سے

میاں، اہل جنوں کی نا مکینی اور ہوتی ہے

 

درج بالا شعر میں سکتے کے استعمال کے علاوہ بھی دو بلا کی خوبیاں ہیں۔ ایک تو لفظ میا ں کا استعمال جس میں بہت سے پہلو ہیں۔ مخاطب رقیب بھی ہو سکتا، دوست بھی اور یہ خود کلامی بھی ہو سکتی ہے اور دوسرا نا مکینی جیسی انوکھی ترکیب جو یہاں بہت لطف دے رہی ہے ۔

سکتے کا اک اور بہترین استعمال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقین مانو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے بعد دیکھئے

 

اداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے

یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے

 

پہلے مصرعے میں کچھ خاص بات نہیں ایک سیدھا سا مصرع ہے۔ شعر کا مضمون بھی نیا نہیں۔ لیکن جیسے ہی یقین مانو۔ ۔ ۔ کے بعد سکتہ آتا ہے۔ قاری کی پوری توجہ حاصل کر لیتا ہے۔

 

اسی طرح کے اور اشعار دیکھتے ہیں جہاں سکتے کہ بعد پہلی والی بات کو بڑھایا گیا۔

 

جسے ہو عرفانِ  ذات وہ کیا تری سنے گا؟

او ناصحا، چھوڑ دے، کوئی فائدہ نہیں ہے

 

آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں

میری جانب اک نظر، اے دیدہ ور! میں بھی تو ہوں

 

میں جہاں پاوں رکھوں واں سے بگولا اٹھے

ریگ صحرا، میری وحشت کے برابر ہو جا

 

شام ہوتے ہی لگاتے ہیں درد دل پہ صدا

آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں

 

کچھ اشعار میں سکتہ قاری کی روانی اور اس کی کیفیت کو کو توڑنے کے لئے استعمال ہوا۔ اور قاری کی کیفیت کو توڑنے کے بعد یا تو اسی بات کو بڑھا دیا ہے یا ایک نئی یا متضاد بات کہہ دی گئی ہے۔ یہ اشعار دیکھئے جن میں نئی یا متضاد بات کی گئی ہے۔

 

چہار جانب یہ بے یقینی کا گھپ اندھیرا

یہ میری وحشت کا انخلا ہے، خلا نہیں ہے

 

جس دن سے اس نگاہ کا منظر نہیں ہوں میں

ہر چند آئینہ ہوں، منور نہیں ہوں میں

 

ہوں اس کی بزم ناز میں مانندِ ذکر غیر

وہ بھی کبھی کبھار ہوں، اکثر نہیں ہوں میں

 

یہ سخن، یہ خوش کلامی، در حقیقت ہے فریب

یہ تکلم، روح کی بے رونقی کا جبر ہے

 

میں نے شرو ع میں ذکر کیا تھا کہ عرفان بھائی کے کرافٹ کے دو خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسے پہلو پر بھی بات ہو گی جہاں کچھ کمزوری محسوس ہوئی۔ اس کے لئے پہلے اور دوسرے مصرعے کا موازنہ کرنا ہو گا۔ دوسرے مصرعے کی بابت تو میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہے کہ بیشتر اچھے اشعار میں سکتے کا استعمال دوسرے مصرعے میں ہی ہوا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی اگر غور کریں تو دوسرے مصرعے بہت مضبوط ہیں اور کسی ایک لفظ کو بھی ادھر سے ادھر کرنا شعر کی عمارت ڈھانے کے مترادف ہے۔ ہاں ایک مطلع ایسا ضرور نظر سے گذرا جس کے دوسر ے مصرعے میں زبان کی غلطی در آئی ہے۔

 

ترے لہجے میں ترا جہل دروں بولتا ہے

بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے

 

دوسرے مصرع میں ہے زائد ہے۔ اور نقص آسانی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا مصرع فعل حال مطلق ( بولتا ہے، جاتا ہے، کھاتا ہے ) میں ہے اور اس کی نفی کے بارے میں مولوی عبدالحق لکھتے ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نفی حال مطلق میں آخری علامت ہے یا ہیں حذف ہو جاتی ہے جیسے وہ نہیں آتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اس ایک مطلع کے علاوہ مجھے کسی بھی مصرع ثانی میں کوئی بات کھٹکتی ہوئی محسوس نہ ہوئی۔ ہاں اس بات پر حیرت ہے کہ کبھی کبھار کوئی ایسا مصرع اولی کیوں نظر آ جاتا ہے جس کی بندش بہتر کی جا سکتی ہے۔ یہ کوئی عیب نہیں۔ اساتذہ کی شاعری میں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہوں۔ لیکن اساتذہ کے ہاں ان کی موجودگی یہ قطعا ثابت نہیں کرتی کہ یہ قابل تقلید روش ہے۔ جتنا بڑا شاعر ہو گا پکڑ بھی اتنی ہی باریک بینی سے ہو گی۔ اگر عرفان بھائی کی شاعری میں کبھی کبھار بھی کوئی ایسا مصرع نظر آئے تو نشاندہی ضرور کی جانی چاہئے تا کہ ایسے تازہ کلام کا حسن اور بکھر سکے۔ اور میں ان کمزور مصرعوں کی نشاندہی اس لئے بھی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ تمام مصرع اولیٰ ہیں۔ ۔ خدا جانے کیا وجہ ہے۔ کیا عرفان بھائی پہلے مصرعے کی بندش پر اتنا خیال نہیں کرتے جتنا دوسرے مصرعے کی بندش پر کرتے ہیں ؟

چلئے مثالوں سے ہی بات کرتے ہیں۔ اور صرف انہی مصرعوں کی بات کروں گا جن میں صرف الفاظ کی ترتیب بدلنے سی ہی بہتری آ جاتی ہے۔

 

ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے تازہ اک شکایت

کبھی تجھ سے، کبھی خود سے کبھی اس زندگی سے

 

شعر شاندار ہے اور عیب سے پاک ہے۔ میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تازہ اک شکایت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کے ٹکڑے کا کیا مقصد ہے یہ اک تازہ شکایت کیوں نہیں جو بحر میں با آسانی آ رہا ہے۔ کیا اس مصرع کی بندش بہت آسانی سے بہتر نہیں کی جا سکتی؟

 

ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے اک تازہ شکایت

کبھی تجھ سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

اور عرفان بھائی کے لئے تو یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔ تو کیا وجہ ہے اس کا خیال نہیں کیا گیا ؟ کیا کوئی رمز ہے ؟ لیکن مجھے تو یہی لگا کہ سہو ہو گیا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی کبھی کبھی ایسے مصرعے نظر آ جاتے ہیں جن مین الفاظ کی ترتیب قابل غور ہو تی۔ جیسے

 

پھونک دی جاتی ہے اس طرح مرے شعر میں روح

جیسے سانسوں میں کوئی کن فیکوں بولتا ہے

 

پھونک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سے مصرع شروع کرنے کی وجہ؟۔ ہو سکتا ہے شعر میں لفظ پھونک کو پھونکا گیا ہے۔ یعنی پھونک کا تا اثر بڑھانے کے لئے شعر کو پھونک سے شروع کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ لیکن مجھے کچھ ٹھیک نہ لگا۔ میں کہتا ہوں کہ اگر لفظوں کی ترتیب بدل کر یوں کر دی جائے

 

اس طرح پھونک دی جاتی ہے مرے شعر میں روح

جیسے سانسوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے مقابلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح۔ ۔ ۔ ۔ آ کر شعر کے حسن کو بڑھا نہ دے گا اور پھونک جیسا نسبتا کم شاعرانہ لفظ مصرعے کے اندر زیادہ بہتر طریقے سے کھپ جائے گی۔ اسی طرح کچھ مصرعے بھی ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی بات کی وضاحت کے لئے ان مصرعوں میں کچھ لفظوں کا ہیر پھیر بھی کروں۔ لیکن یہ تجاویز نہیں ہوں گی بلکہ مقصد نقطہ نظر کو واضح کرنا ہو گا۔

 

وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری

یہ جو سب کو نظر آتا ہے فسوں ہے میرا

 

میں ہے وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسا ڈھیلا ٹکڑا

 

وہ جو مخفی ہے وہی اصل حقیقت ہے مری

یہ جو سب۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

جو یہ نہ ہو تو سخن کا کوئی جواز نہیں

ضمیر زندہ رہے تو زباں بھی زندہ رہے

 

جو یہ نہ ہو تو وغیرہ اکٹھے ہی آ گئے ہیں ۔

 

رہے نہ یہ تو سخن کا کوئی جواز نہیں

ضمیر زندہ رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

یہ جو صحراؤں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری

اور دریاؤں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا

 

یہ ہے خاک مری میں لفظی ترتیب۔

 

یہ جو صحراؤں میں اڑتی ہے مری خاک ہے یہ

اور دریاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

میری تجویز میں مصرع اولی یہ سے شروع ہو کر یہ پر ہی ختم ہو رہا ہے۔ لیکن یہ ایک مبتدی کی کوشش ہے عرفان بھائی کے لئے تو اس مصرعے کی اس سے بہتر شکلیں نکالنا کچھ مشکل نہیں۔

 

کوئی عرفان مجھ میں سے مجھے آواز دیتا ہے

ارے تو سوچتا کیا ہے کبھی کچھ تو بتا مجھ کو

 

کوئی اور عرفان میں فاصلہ ضروری ہے۔

 

کوئی مجھ میں ہی سے عرفاں مجھے آواز دیتا ہے

ارے تو سوچتا کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

میں نے مصرع صرف اپنی بات کی وضاحت کے لئے تبدیل کیا ہے یہ تجویز نہیں ہے۔ اس مین عرفان کی نون نہیں ادا ہو رہی۔

 

تجھ کو معلوم نہیں ہے میری خواہش کیا ہے

مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا

 

پہلے مصرعے میں سے درمیانی ہے اڑانا چاہئے ۔

 

امید ہے کہ عرفان بھائی کے آئندہ کے اشعار میں میں کوئی ایسا مصرع نہ ڈھونڈ پاوں گا کہ جس میں کوئی بہتری ممکن ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان ستار کی غزل گوئی۔ ۔ ۔قیصر مسعود

 

عرفان ستار کی غزلیات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھ پر جو فوری تاثر قائم ہوا وہ یہ ہے کہ وہ جدید غزل کے ایک بھر پور شاعر ہیں۔ ان کے یہاں فن بھی ہے اور فکر بھی۔ نئے اور اچھوتے مضامین کو نہایت خوب صورتی، مہارت، جدت اور سہولت کے ساتھ شعر کا روپ دے دیتے ہیں۔ ان کی تراکیب۔ خود تراشیدہ، اشعار میں بڑی عمدگی سے آمیخت ہوتی ہیں۔

عرفان ستار کی غزلیں کافی عرصے سے پڑھتا چلا آ رہا ہوں لیکن جب ان کے کلام کو کلی طور پر دیکھا تو ان کے فکری اور فنی رجحانات کو سمجھنے میں مزید مدد ملی۔

عرفان ستار جدید شاعر ہونے کے باوجود لا یعنیت اور منفی قسم کی تجریدیت سے بالکل پاک ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے جیتے جاگتے انسانوں سے ہمکلام ہیں جو زمیں پر رہتے ہیں خلاؤں میں نہیں۔ عرفان ستار کی شاعری فنی حوالے سے بھی بڑی مضبوط ہے۔ الفاظ و تراکیب کی نشست و برخاست کا نظام بڑا جاندار ہے جو ان کی فنکارانہ مہارت اور پختگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ۔ وہ زبان کے حوالے سے اپنی شاعری کا خمیر کلاسیکی روایت سے ہی اٹھاتے ہیں لیکن متروک الفاظ و تراکیب سے دامن بچاتے ہوئے اپنا راستہ خود بناتے ہیں اور جدید تراکیب تراشتے نظر آتے ہیں۔ درج ذیل اشعار میری رائے کی گواہی کے طور پر دیکھئے۔

 

تاب یک لحظہ کہاں حسن جنوں خیز کے پیش

سانس لینے سے توجہ میں خلل پڑتا ہے

 

ایک آواز پڑی تھی کہ کوئی سائل ہجر

آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہوا میں

 

کبھی نہ ہونے دیا طاق غم کو بے رونق

چراغ ایک بجھا اور دوسرا رکھا

 

آگہی نے مجھے بخشی ہے وہ نار خود سوز

اک جہنم کی طرح خود میں بھڑکتا ہوا میں

 

یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

اسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں ان کے کلام میں بہ سہولت دیکھی جا سکتی ہیں۔  جدید رنگ کے شعرا میں ایک مسئلہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جدیدیت کو نبھاتے ہوئے شعریت بری طرح متاثر ہوتی ہے، یوں ابلاغ کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں اور اشعار سپاٹ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن عرفان ستار اس مسئلے سے قطعی طور پر آزاد ہیں۔ ان کے یہاں جدیدیت کا رنگ بھر پور شعریت اور معنویت کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ درج ذیل اشعار دیکھئے۔

 

شاید کبھی اسی سے اٹھے پھر ترا خمیر

بنیاد خواب ناز مین مسمار ہو کے رہ

 

ایک ہی سمت ہر ایک خواب چلا جاتا ہے

یاد ہے یا کوئی نقش کف پا ہے مجھ میں

 

حریم دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال

سو گل اسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا

 

کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا

تو بھی تحریر تھا، حرف بیان تھے ہم بھی

 

شوق واماندہ کو درکار تھی کوئی تو پناہ

سو تمہیں خلق کیا اور تمہارے ہوئے ہیں

 

بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے روح وصال

آج ہم پیر ہن خاک اتارے ہوئے ہیں

 

رات گئے جب سناٹا سرگرم ہوا تنہائی میں

دل کی ویرانی نے دل سے باہر آ کر رقص کیا

 

ابھر رہا ہوں میں سطح عدم سے نقش بہ نقش

تری ہی جلوہ گری ہوں ذرا اچھال مجھے

 

عرفان ستار کی غزلوں میں دنیا کی بے ثباتی اور صوفیانہ انداز کے مضامین بھی کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن یہاں بھی وہ بظاہر روایتی مضامین کو اپنے کمال فن سے جدید انداز میں بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایسے اشعار کو پڑھتے ہوئے تازگی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

 

سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی

مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا

 

ہو کر وداع سب سے سبک بار ہو کے رہ

جانا ہے کب خبر نہیں تیار ہو کے رہ

 

نہ پوچھئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں

جو آگہی کے سبب عیش بندگی سے گئے

 

میں کہاں اور بے ثباتی کا یہ ہنگامہ کہاں

یہ مرا ہونا تو مجھ پر زندگی کا جبر ہے

 

میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے وہ ہے ہی نہیں

سو خود کو خواہش دنیا سے ماورا رکھا

 

بس ایک آن میں گزرا میں کس تغیر سے

کسی نے سر پہ توجہ سے ہاتھ رکھا تھا

 

عقل و خرد اور عشق و جنوں کے مضامین ہمیشہ سے اردو غزل کا حصہ اور پہچان رہے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ غزل کا خمیر ہی انہی موضوعات سے اٹھتا ہے۔ عرفان ستار بھی عشق و جنوں اور عقل و خرد کا خوب عرفان رکھتے ہیں۔ لیکن انھوں نے ان موضوعات کو اپنے شعروں میں ڈھالتے ہوئے جدت اور روایت کاحسین امتزاج پیش کیا ہے جس کی وجہ سے اشعار میں تازہ کاری واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔

 

خرد نے دل سے کہا تو جنوں صفت ہی سہی

نہ پوچھ اس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا

 

ذرا اہل جنوں آؤ ہمیں رستہ سجھاو

یہاں ہم عقل والوں کا خدا گم ہو گیا ہے

 

کیا خرد کیسا جنوں، حالت بے حال میں ہوں

چین ہی کب مرے دل کو کسی کل پڑتا ہے

 

خرد سے پوچھا جنوں کا معاملہ کیا ہے

جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا

 

ہزار شکر ترا اے خدائے جنوں

کہ مجھ کو راہ خرد سے گریز پا رکھا

 

ملا تھا ایک ہی دل ہمیں بھی آپ کو بھی

سو ہم نے عشق رکھا آپ نے خدا رکھا

 

میں سمجھا تھا سئیے گی آ گہی چاک جنوں کو

مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے

 

اک تو وہ حسن جنوں خیز ہے عالم میں شہود

اور اک حسن جنوں خیز کو تکتا ہوا میں

 

عرفان ستار نے تقریباً تمام مشہور بحروں میں بھر پور انداز میں غزلیں کہیں۔ فاعلن فاعلن کی طویل اور مترنم بحر میں کہی گئی دو تین غزلوں نے خاص طور پر بہت لطف دیا۔ اگر شعروں کو غزلوں سے الگ کر کے پڑھا جائے تب بھی ہر شعر مکمل اور مضمون کو پوری طرح واضح کرتا نظر آتا ہے۔

عرفان ستار کے کلام کا صوتی نظام بڑا دلکش اور پر تاثیر ہے۔ مترنم اور رواں بحروں میں کہی گئی اکثر غزلیں موسیقی میں ڈھلنے اور گائے جانے کے لیے بھی بڑی مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ میں آپ کے سامنے عرفان ستار کے چند ایسے شعر پیش کر کے اجازت چاہوں گا، جو اپنے بھر پور تغزل اور خوب صورت اسلوب کی وجہ سے قاری کے دل کو چھو لیتے ہیں۔ پڑھیے اور سر دھنیے !

 

منتظر ہوں کہ کوئی آ کے مکمل کر دے

چاک پر گھومتا، بل کھاتا، درکتا ہوا میں

 

دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں

یعنی تکمیل ہو گئی میری

 

کیا عجب وقت کے بچھڑنے کا

دیکھ رکتی نہیں ہنسی میری

 

چراغ یوں تو سر طاق دل کئی تھے مگر

تمہاری لو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا

 

بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں

بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا

 

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا

سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

 

تیری ہر بات مان لیتا ہوں

یہ بھی انداز ہے شکایت کا

 

کبھی ذکر حرمت حرف میں، کبھی فکر آمد و صرف میں

یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عمر گزر گئی

 

خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوام وصال

جئیں گے خاک اگر تیرے خواب سے بھی گئے

 

قاصد شہر دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا

بادشاہ جنوں نے تجھے آج سے لشکر اہل غم کی کماں سونپ دی

 

ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے اک تازہ شکایت

کبھی تجھ سے، کبھی خود سے، کبھی اس زندگی سے

 

کیا بتاؤں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں

ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

 

ترے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً

ترا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں

 

بہت لمبا سفر طے ہو چکا ہے ذہن و دل کا

ترا غم علامت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

روزن چشم تک آ پہنچا ہے اب شعلۂ دل

اشک پلکوں سے چھلکتے ہی شرارے ہوئے ہیں

 

پہلے میں نے خوابوں مین پھیلائی درد کی تاریکی

پھر اس میں اک جھلمل روشن یاد سجا کر رقص کیا

 

نہیں نہیں میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر

یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے

 

میں عبادت بھی ہوں، میں محبت بھی ہوں، زندگی کی نمو کی علامت بھی ہوں

میری پلکوں پہ ٹھہری نمی نے کہا، اس نمی کے لیے ایک تازہ غزل

 

یہ شدت درد کی اس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی

یقیناً اور کچھ اس کے سوا گم ہو گیا ہے

 

اس کو پانے کی اب جستجو بھی نہیں، جستجو کیا کریں آرزو بھی نہیں

شوق آوارگی بول جائیں کدھر، ہو گئے در بدر زندگی اور میں

 

ہاں کہا تھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے

ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تو اب کہاں یا اخی

٭٭٭

 

 

 

 

منتخب اشعار۔۔۔ انتخاب افزا خالد

 

_________________________________________

’تکرارِ ساعت‘ سے انتخاب

_________________________________________

 

بکھرا ہُوا ہوں شہرِ  طلب میں اِدھر اُدھر

اب تیری جستجو کو میّسر نہیں ہوں میں

 

گردش میں ہے زمین بھی، ہفت آسمان بھی

تُو مجھ پہ غور کر کہ مکرّر نہیں ہوں میں

 

تُو جب طلب کرے گا مجھے بہر ِ  التفات

اُس دن خبر ملے گی کہ در پر نہیں ہوں میں

 

دیکھتی ہے جونہی پسپائی پہ آمادہ مجھے

روح کہتی ہے بدن سے، بے ہنر، میں بھی تو ہوں

 

کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں

اب مجھے بھی شکل دے اِس چاک پر میں بھی تو ہوں

 

یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے

تجھ کو خوش رکھے خدا یونہی، مگر میں بھی تو ہوں

 

سب اپنے اپنے طریقے ہیں خود نمائی کے

قبائے عجز بھی کیا فخر کی کلاہ بھی کیا

 

کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں

بس اک نگاہ رکی تھی، سو وہ نگاہ بھی کیا

 

خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے، اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہئیے

چشمِ  رمز آشنا، قلبِ  عقدہ کشا، اک ذرا سی توجّہ اِدھر چاہئیے

 

لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لیے، اس دیار ِ  سخن میں گزر کے لیے

آگہی چاہئیے، عاجزی چاہئیے، دردِ  دل چاہئیے، چشم ِ  تر چاہئیے

 

جنھیں روشنی کا لحاظ تھا، جنھیں اپنے خواب پہ ناز تھا

میں انہی کی صف میں جلا کیا، میں اُسی قطار میں بجھ گیا

 

ترے خیال کی صورت گری کا شوق لیے

میں خواب ہو تو گیا ہوں، اب اور کیا ہو جاؤں ؟

 

ایک منزل ہے جو امکان سے باہر ہے کہیں

کیا مسافت ہے کہ بس گردِ  سفر کھینچتی ہے

 

کھینچ رہی تھی کوئی شے، ہم کو ہر ایک سمت سے

گردشِ  بے مدار میں، عمر گزار دی گئی

 

یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خاکِ  رہگزر

کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو

 

کار ِ  دنیا کے سِوا کچھ بھی مرے بس میں نہیں

میری ساری کامیابی بے بسی کا جبر ہے

 

کون بنتا ہے کسی کی خودستائی کا سبب

عکس تو بس آئینے پر روشنی کا جبر ہے

 

یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا

مسافرانِ  عدم رہگزر کو دیکھتے ہیں

 

وہ جس طرف ہو نظر اُس طرف نہیں اٹھتی

وہ جا چکے تو مسلسل اُدھر کو دیکھتے ہیں

 

جو ہم پہ ایسا نہ کار ِ  دنیا کا جبر ہوتا

تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے

 

یہ اب کھلا ہے کہ اُس میں موتی بھی ڈھونڈنے تھے

کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے

 

بقدر ِ  خوابِ  طلب لہو ہے نہ زندگی ہے

ادا کرو گے کہاں سے اتنا اُدھار کر کے ؟

 

عرصۂ  خواب سے وقتِ  موجود کے راستے میں گنوا دی گئی گفتگو

ایک اصرار کی بے بسی رہ گئی ایک انکار کا بانکپن رہ گیا

 

میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت

اک یار ِ  خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے

 

حدا ہے کہ تُو بھی میری اذیّت نہ پڑھ سکا

شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے

 

بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں

بہت دن تک تکلّف درمیاں باقی رہے گا

 

ہمارے پاس جب تک درد کی دھڑکن رہے گی

ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا

 

جب نہ تھا یہ بیابانِ  دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر

کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی

 

ہاں کہا تھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے

ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تُو اب کہاں یا اخی

 

تُو ہمیں دیکھ آ کر سر ِ  انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جانِ  بزم ِ  سخن

اک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اُس پر ہمارا بیاں یا اخی

 

جو رات گزاری تھی مرے ہجر میں تُو نے

اُس رات بہت دیر ترے ساتھ رہا میں

 

نظر دھندلا رہی ہے یا مناظر بجھ رہے ہیں

اندھیرا بڑھ گیا یا روشنی کم ہو گئی ہے

 

خموشی کو جنوں سے دست برداری نہ سمجھو

تجسّس بڑھ گیا ہے سرکشی کم ہو گئی ہے

 

ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ

ترے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے ؟

 

میں جہاں پاؤں رکھوں واں سے بگولا اٹھے

ریگِ  صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا

 

اے مرے حرفِ  سخن تُو مجھے حیراں کر دے

تُو کسی دن مری امّید سے بڑھ کر ہو جا

 

اتنے برسوں بعد بھی دونوں کیسے ٹوٹ کے ملتے ہیں

تُو ہے کتنا سادہ دل اور ہم کتنے پیچیدہ ہیں

 

اِس بستی میں ایک سڑک ہے جس سے ہم کو نفرت ہے

اُس کے نیچے پگڈنڈی ہے جس کے ہم گرویدہ ہیں

 

بہت آسودگی سے روز و شب کٹنے لگے ہیں

مجھے معلوم ہے مجھ کو گنوایا جا رہا ہے

 

بدن کس طور شامل تھا مرے کار ِ  جنوں میں

مرے دھوکے میں اِس کو کیوں مٹایا جا رہا ہے

 

خرد کی سادگی دیکھو کہ ظاہر حالتوں سے

مری وحشت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے

 

ابھی اے بادِ  وحشت اِس طرف کا رخ نہ کرنا

یہاں مجھ کو بکھرنے سے بچایا جا رہا ہے

 

کہیں تو جاکے سمٹے گا ترا کار ِ  جہاں بانی

کبھی تُو بھی تو دیکھے گا کہ ویرانی کہاں تک ہے ؟

 

رفوگر، میں تو شہر ِ  عشق سے باہر نہیں جاتا

میں کیا جانوں کہ رسم ِ  چاک دامانی کہاں تک ہے ؟

 

چھلک رہی ہے جو دل میں وہ تشنگی ہی نہ ہو

وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو

 

گزر رہا ہے تُو کس سے گریز کرتا ہُوا

ٹھہر کے دیکھ لے اے دل کہیں خوشی ہی نہ ہو

 

بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے

آوارگانِ  شہر کہاں جا کے مر گئے

 

جس دن سے روزگار کو سب کچھ سمجھ لیا

راتیں خراب ہو گئیں اور دن سنور گئے

 

ایک ملال تو ہونے کا ہے، ایک نہ ہونے کا دکھ ہے

شہرِ  وجود سے بابِ  عدم تک، ایک سا ہُو کا عالم ہے

 

تعلق کو نبھانے کے بہت دکھ سہہ چکے ہم

سو باقی عمر اپنے ساتھ رہنا چاہتے ہیں

 

تکمیل تو زوال کا پہلا پڑاؤ ہے

خود کو اسی سبب سے مکمل نہیں کیا

 

بے رنگ ترے در سے، کب خاک بسر اٹھے

یا پیرہنِ  گل میں، یا خون میں تر اٹھے

 

چلے آئے ہیں آنکھوں میں کسی کا عکس پا کر

یہ آنسو آج پھر کوئی تماشا چاہتے ہیں

 

ہمیں بھی سودا کہاں تھا ایسا جو اپنے دل میں ملال رکھتے

اگر تُو اپنا خیال رکھتا تو ہم بھی اپنا خیال رکھتے

 

اپنی ویرانی کا سارا رنج بھلا کر صحرا نے

میری دل جوئی کی خاطر خاک اڑا کر رقص کیا

 

رات گئے جب سنّاٹا سرگرم ہُوا تنہائی میں

دل کی ویرانی نے دل سے باہر آ کر رقص کیا

 

ملے گا کیا تجھے اے دل یہ تجربہ کر کے

ابھی تو زخم بھرے ہیں خدا خدا کر کے

 

ہمیں بھی روز جگاتی تھی آکے ایک مہک

چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا، صبا کر کے

 

اداس تھے سو ترے در پہ آکے بیٹھ گئے

فقیر ہیں سو چلے جائیں گے صدا کر کے

 

ابھی ہوئی ہے پلک سے پلک ذرا مانوس

ابھی نہ جا مجھے اس خواب سے رہا کر کے

 

کوئی نغمہ بُنو، چاندنی نے کہا، چاندنی کے لیے ایک تازہ غزل

کوئی تازہ غزل، پھر کسی نے کہا، پھر کسی کے لیے ایک تازہ غزل

 

اپنی تنہائی میں رات میں تھا مگن، ایک آہٹ ہوئی دھیان میں دفعتاً

مجھ سے باتیں کرو، خامشی نے کہا، خامشی کے لیے ایک تازہ غزل

 

وہ شہرِ  ہجر عجب شہرِ  پُر تحیّر تھا

بہت دنوں میں تو آیا ترا خیال مجھے

 

یہاں تو حبس بہت ہے سو گرد بادِ  جنوں

مدارِ  وقت سے باہر کہیں اچھال مجھے

 

پھر اُس کے بعد نہ تُو ہے، نہ یہ چراغ، نہ میں

سحر کی پہلی کرن تک ذرا سنبھال مجھے

 

ٹھیک ہے میرا ہونا تیرے ہونے سے مشروط نہیں

لیکن اتنا یاد رہے میں ایک ملال میں زندہ ہوں

 

کتنی جلدی سمٹا ہوں میں وسعت کی اُس ہیبت سے

کل تک عشق میں زندہ تھا میں آج وصال میں زندہ ہوں

 

کہیں سے نقش بجھ گئے کہیں سے رنگ اڑ گئے

یہ دل ترے خیال کو سنبھال کیوں نہیں رہا

 

بہارِ  جاں سے تجھے باریاب کر دیں گے

نظر اٹھائیں گے چہرہ گلاب کر دیں گے

 

جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر، ایک سنسان گھر، چاندنی، اور میں

بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیرِ  در، خامشی، اور میں

 

لمحہ لمحہ اُجڑتا ہُوا شہرِ  جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں

پھول، پتّے، شجر، منتظر چشمِ تر، رات کا یہ پہر، روشنی، اور میں

 

کس مسافت میں ہوں دیکھ میرے خدا، ایسی حالت میں تُو میری ہمت بندھا

یہ کڑی رہگزر، رائیگانی کا ڈر، مضمحل بال وپر، بے بسی، اور میں

 

زنجیر کوئی لا مری وحشت کے برابر

اک تیرے کہے سے تو ٹھہرنے کا نہیں میں

 

اب چشم ِ  تماشا کو جھپکنے نہیں دینا

اس بار جو ڈوبا تو ابھرنے کا نہیں میں

 

کیوں مملکتِ  عشق سے بے دخل کیا تھا

اب مسندِ  غم سے تو اترنے کا نہیں میں

 

ہر شکل ہے مجھ میں مری صورت کے علاوہ

اب اس سے زیادہ تو نکھرنے کا نہیں میں

 

ایک مدت میں جا کے مجھ پہ کھلا

چاند حسرت زدہ نہیں، میں ہوں

 

میں ہی عجلت میں آ گیا ہوں اِدھر

یہ زمانہ نیا نہیں، میں ہوں

 

سرسری کیوں گزارتا ہے مجھے

یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں

 

یہ کسے دیکھتا ہے مجھ سے اُدھر

تیرے آگے خلا نہیں، میں ہوں

 

گاہے گاہے سخن ضروری ہے

سامنے آئینہ نہیں، میں ہوں

 

تری تمام ریا کاریوں سے واقف ہوں

یقین کر کہ بڑا لطف اس نباہ میں ہے

 

سپردگی مری فطرت کے ہے خلاف مگر

یہ انکسار ترے غم کی بارگاہ میں ہے

 

ترے لیے بھی کوئی فیصلہ میں کر لوں گا

ابھی تو شوق تمنّا کی سیرگاہ میں ہے

 

مرے خوابوں سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے

میں ایسا چاہتا کب تھا، پر ایسا ہو گیا ہے

 

تعلق اب یہاں کم ہے، ملاقاتیں زیادہ

ہجوم ِ  شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے

 

تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی

مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے

 

میں سمجھا تھا سئیے گی آگہی چاکِ  جنوں کو

مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے

 

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عُمر بھر کا چاہتا تھا

سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

 

ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیّر؟

فقط ترکِ  مراسم کا مداوا ہو گیا ہے

 

یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن

بقدرِ  عُمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے

 

مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز

چلو عرفان، اٹھ جاؤ، سویرا ہو گیا ہے

 

وہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں

مری نظریں اُسی پر تھیں، رہا ہوتے ہوئے بھی

 

مجھے تُو نے بدن سمجھا ہُوا تھا، ورنہ میں تو

تری آغوش میں اکثر نہ تھا، ہوتے ہوئے بھی

 

اگر تیرے لیے دنیا بقا کا سلسلہ ہے

تو پھر تُو دیکھ لے مجھ کو فنا ہوتے ہوئے بھی

 

مسلسل قُرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو

وہی لہجہ، وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی

 

وہ غم جس سے کبھی میں اور تم یکجا ہوئے تھے

بس اُس جیسا ہی اک غم ہے جُدا ہوتے ہوئے بھی

 

ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی

وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں

 

کرم کیا کہ رکے تم نگاہ بھر کے لیے

نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں

 

وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میّسر ہو

اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں

 

یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عُمر گزر گئی

کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عُمر گزر گئی

 

کبھی مجھ کو فکرِ  معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے

کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عُمر گزر گئی

 

کبھی ذکر ِ  حرمتِ  حرف میں، کبھی فکر ِ  آمد و صرف  میں

یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عُمر گزر گئی

 

کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں

اِسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عُمر گزر گئی

 

پوچھتا ہے یہ ہر اک خار سر ِ  دشتِ  جنوں

آنے والا بھی کوئی آبلہ پا ہے کہ نہیں

 

میں تو وارفتگیِ  شوق میں جاتا ہوں اُدھر

نہیں معلوم وہ آغوش بھی وا ہے کہ نہیں

 

جانے کیا رنگ چمن کا ہے دمِ  صبحِ  فراق

گُل کِھلے ہیں کہ نہیں، بادِ  صبا ہے کہ نہیں

 

رازِ  ہستی سے جو پردہ نہیں اٹھتا، نہ اٹھے

آپ کیوں اپنے تجسّس کا زیاں چاہتے ہیں

 

شام ہوتے ہی درِ  دل پہ لگاتے ہیں صدا

آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں

 

دشت ِ  فرقت کی اِس تشنگی تک نہیں، آزمائش فقط ہجر ہی تک نہیں

اِ سے سے آگے تمنّا کے اظہار کا، ایک دشوار تر مرحلہ بھی تو ہے

 

حسن تیرا بہت جاں فزا ہی سہی، روح پرور سہی، خوش ادا ہی سہی

سن مگر دل رُبا، تیرا نغمہ سرا، دیکھتا ہی نہیں، سوچتا بھی تو ہے

 

کس قدر خوش نفس، کس قدر خوش ادا، یاد کے پھول کھلتے ہوئے جا بجا

عشق کی راہ میں رنج بھی ہیں تو کیا، عشق کے دم سے ایسی فضا بھی تو ہے

 

وہ نہیں تو سخن کی ضرورت نہیں، مجھ کو سب سے تکلّم کی عادت نہیں

ہجر سے کچھ سِوا ہے مرا واقعہ، حرف کی موت کا سانحہ بھی تو ہے

 

نجانے رشک سے، غصے سے، غم سے یا رقابت سے

یہ کس انداز میں تکتا ہے تیرا آئینہ مجھ کو

 

کھلے تو سب زمانوں کے خزانے ہاتھ آ جائیں

در ِ اقلیم صد عالم ہے وہ بندِ قبا مجھ کو

 

گماں میں بھی گماں لگتی ہے اب تو زندگی میری

نظر آتا ہے اب وہ خواب میں بھی خواب سا مجھ کو

 

کثافت بار پا سکتی نہیں ایسی لطافت میں

کرم اس کا کہ بخشا دل کے بدلے آئینہ مجھ کو

 

صبا میری قدم بوسی سے پہلے گل نہ دیکھے گی

اگر وحشت نے کچھ دن باغ میں رہنے دیا مجھ کو

 

بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رخی سے

کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے

 

تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ

میں اب اکتا چکا ہوں تیری اس وارفتگی سے

 

کوئی خوش فکر سا تازہ سخن بھی درمیاں رکھ

کہاں تک دل کو بہلاؤں میں تیری دل کشی سے

 

کرم تیرا کہ یہ مہلت مجھے کچھ دن کی بخشی

مگر میں تجھ سے رخصت چاہتا ہوں آج ہی سے

 

تخیّل اور ہے، نادیدہ بینی اور ہوتی ہے

یہ تنہائی ہے بس، خلوت نشینی اور ہوتی ہے

 

نہیں مشروط کار ِ  عاشقاں ترکِ سکونت سے

میاں، اہلِ  جنوں کی نامکینی اور ہوتی ہے

 

عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی

کہ تُو بھی پاس ہو، تیرا گماں بھی زندہ رہے

 

تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا

کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے

 

عدم میں جو بھی نہیں تھا وہ سب وجود میں تھا

یہ ہم ہی تھے جو کہیں درمیاں بھی زندہ رہے

 

ایک امکان میں روپوش تھا سارا عالم

میں بھی اُس گردِ  تحیّر میں نہاں تھا پہلے

 

اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو

کیا تغّیر مری جانب نگراں تھا پہلے

 

کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم

سربرآوردۂ  آشفتہ سراں تھا پہلے

 

کون یہ لوگ ہیں ناواقفِ آداب و لحاظ

تیرا کوچہ تو رہِ  دل زدگاں تھا پہلے

 

اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا

تجھ سے ملنا تو توجّہ کا زیاں تھا پہلے

 

میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں

اب جو تُو ہے یہ فقط میرا گماں تھا پہلے

 

دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا

ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے

 

میری کم مائیگی کو ترے ذوق نے، دولتِ  حرفِ  تازہ بیاں سونپ دی

میں کہ ٹھہرا گدائے دیار ِ  سخن، مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

 

قاصدِ  شہر ِ  دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا

بادشاہِ  جنوں نے تجھے آج سے لشکر ِ  اہلِ  غم کی کماں سونپ دی

 

احتیاطِ  نظر اور وضعِ  خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے

یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی

 

اپنے ذوقِ  نظر سے تری چشم ِ  حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دئیے

تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی

 

راز داری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں

قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں نے انھیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی

 

مجھ میں میرے سِوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا

میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداری ءِ دلبراں سونپ دی

 

ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں، حرفِ  اظہار میں

میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ  آئندگاں سونپ دی

 

یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

تمہیں فرصت ہو دنیا سے، تو ہم سے آ کے ملنا

ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

ہمارا عشق بھی اب ماند ہے، جیسے کہ تم ہو

تو یہ سودا رعایت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں

تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب

کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں

سو اب ان کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

بجا کہتے ہو تم، ہونی تو ہو کر ہی رہے گی

تو ہونے کو قیامت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

شمار و بے شماری کے تردد سے گزر کر

مآل عشق، وحدت کے سوا کیا رہ گیا ہے

 

_________________________________________

تکرارِ  ساعت کے بعد کی غزلوں سے انتخاب

_________________________________________

 

مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا

مری وحشت کی کوئی انتہا نئیں

 

محبت میں بدن شامل نہ ہوتا

یہ ہم بھی چاہتے تھے، پر ہوا نئیں

 

ہماری خواہشوں میں کوئ خواہش

رہینِ  بخششِ  بندِ  قبا نئیں

 

نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی

خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں

 

نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال

نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں

 

ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں ؟

مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں

 

وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی

کہانی میں کہیں وہ ماجرا گُم ہو گیا ہے

 

ذرا اہلِ  جُنوں آؤ، ہمیں رستہ سُجھاؤ

یہاں ہم عقل والوں کا خدا گُم ہو گیا ہے

 

مجھے دکھ ہے، کہ زخم و رنج کے اِس جمگھٹے میں

تمہارا اور میرا واقعہ گُم ہو گیا ہے

 

یہ شدّت درد کی اُس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی

یقیناً اور کچھ اُس کے سِوا گُم ہو گیا ہے

 

وہ جس کو کھینچنے سے ذات کی پرتیں کھُلیں گی

ہماری زندگی کا وہ سِرا گُم ہو گیا ہے

 

ترے جمال سے ہم رُو نما نہیں ہوئے ہیں

چمک رہے ہیں، مگر آئینہ نہیں ہوئے ہیں

 

دھڑک رہا ہے تو اک اِسم کی ہے یہ برَ کت

وگرنہ واقعے اِس دل میں کیا نہیں ہوئے ہیں

 

ترا کمال، کہ آنکھوں میں کچھ، زبان پہ کچھ

ہمیں تو معجزے ایسے عطا نہیں ہوئے ہیں

 

یہ مت سمجھ، کہ کوئی تجھ سے منحرف ہی نہیں

ابھی ہم اہلِ  جُنوں لب کُشا نہیں ہوئے ہیں

 

بنامِ  ذوقِ  سخن خود نمائی آپ کریں

ہم اِس مرض میں ابھی مبتلا نہیں ہوئے ہیں

 

ہمی وہ، جن کا سفر ماورائے وقت و وجود

ہمی وہ، خود سے کبھی جو رہا نہیں ہوئے ہیں

 

خود آگہی بھی کھڑی مانگتی ہے اپنا حساب

جُنوں کے قرض بھی اب تک ادا نہیں ہوئے ہیں

 

کسی نے دل جو دکھایا کبھی، تو ہم عرفان

اُداس ہو گئے، لیکن خفا نہیں ہوئے ہیں

 

بادشاہوں کے قصوں میں یا راہبوں کے فقیروں کے احوال میں دیکھ لو، وقت سا بے غرض کوئی تھا، اور نہ ہے، اور نہ ہو گا کبھی

تم کہاں کس تگ و دو میں ہو وقت کو اِس سے کیا، یہ تو وہ ہے جہاں حکم آیا کہ اب ختم ہونا ہے، یہ بس وہاں ختم ہو جائے گا

 

کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے

سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

 

جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی

نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے

 

تم آ گئے ہو، تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے

ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے

 

نہیں نہیں، میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر

یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے

 

ہم اپنے ہجر میں تیرا وصال دیکھتے ہیں

یہی خوشی کی ہے ساعت، یہی ملال کی ہے

 

گزشتہ رات کئی بار دل نے ہم سے کہا

کہ ہو نہ ہو یہ گھٹن آخری ملال کی ہے

 

رگوں میں چیختا پھرتا ہے ایک سیلِ  جنوں

اگرچہ لہجے میں شائستگی ملال کی ہے

 

دعا کرو کہ رہے درمیاں یہ بے سخنی

کہ گفتگو میں تو بے پردگی ملال کی ہے

 

زندگی، ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا

ہم جو مشاطۂ وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں

 

حوصلہ دینے جو آتے ہیں، بتائیں انھیں کیا؟

ہم تو ہمت ہی نہیں، خواب بھی ہارے ہوئے ہیں

 

بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے رُوحِ  وصال

آج ہم پیرہنِ  خاک اُتارے ہوئے ہیں

 

حرمتِ  حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے

ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ  گراں تھے ہم بھی

 

وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب

ورنہ تردیدِ  صفِ  کجکلہاں تھے ہم بھی

 

تُو بھی کس کس کے لیے گوش بر آواز رہا

ہم کو سنتا تو سہی، نغمۂ جاں تھے ہم بھی

 

ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟

ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی

 

یہ شہرِ  کم نظراں، یہ دیارِ  بے ہنراں

کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا

 

خرد نے دل سے کہا، تُو جنوں صفت ہی سہی

نہ پوچھ اُس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا

 

تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی

غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں

 

اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے

کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں

 

تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً

تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں

 

کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے سُود

آؤ اب میری طرف آؤ، خدا ہے مجھ میں

 

روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی

یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے، یہ کیا ہے مجھ میں ؟

 

گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نامرادِ  جنوں

جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے

 

سنا ہے اہلِ  خرد کا ہے دور ِ  آئندہ

یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے

 

خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوام ِ  وصال

جئیں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے

 

مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟

میاں یہ فکر کرو گے تو شاعری سے گئے

 

ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار

خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے

 

نہ پوچھئیے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں

جو آگہی کے سبب عیشِ  بندگی سے گئے

 

ہو کر وداع سب سے، سبک بار ہو کے رہ

جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ

 

یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں

دنیا ہے تیری تاک میں، ہشیار ہو کے رہ

 

خطرہ شبِ  وجود کو مہر ِ  عدم سے ہے

سب بے خبر ہیں، تُو ہی خبردار ہو کے رہ

 

کس انگ سے وہ لمس کُھلے گا، کسے خبر

تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ

 

وہ زمزمے تھے بزم ِ  گماں کے، سو اب کہاں

یہ مجلسِ  یقیں ہے، عزا دار ہو کے رہ

 

اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں

احوالِ  ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ

 

لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر

عرفان، میری مان لے، دشوار ہو کے رہ

 

پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟

درد ہے، درد بھی قیامت کا

 

یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے

کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟

 

اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر

آج تک بوجھ ہے مروّت کا

 

آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟

قتل کر دیجئیے روایت کا

 

نہیں کُھلتا یہ رشتۂ  باہم

گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟

 

تیری ہر بات مان لیتا ہوں

یہ بھی انداز ہے شکایت کا

 

بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟

شکریہ ہجر کی سہولت کا

 

رات بھی دن کو سوچتے گزری

کیا بنا خواب کی رعایت کا؟

 

اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے

آنکھ پر بار ہے امانت کا

 

اک تماشا ہے دیکھنے والا

آئینے سے مری رقابت کا

 

کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا

ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا

 

خرد سے پوچھا، جنوں کا معاملہ کیا ہے ؟

جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا

 

سنا جو شور کہ وہ شیشہ گر کمال کا ہے

تو ہم لپک کے گئے اور قلب جا رکھا

 

خوشی سی کس نے ہمیشہ ملال میں رکھی؟

خوشی میں کس نے ہمیشہ ملال سا رکھا؟

 

نگاہ دار مرا تھا مرے سِوا نہ کوئی

سو اپنی ذات پہ پہرا بہت کڑا رکھا

 

ترا جمال تو تجھ پر کبھی کھلے گا نہیں

ہمارے بعد بتا آئینے میں کیا رکھا؟

 

دل مرا کب کا ہو چکا پتھر

موت تو کب کی ہو چکی میری

 

اب تو برباد کر چکے، یہ کہو

کیا اسی میں تھی بہتری میری؟

 

میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟

یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟

 

دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں

یعنی تکمیل ہو گئی میری

 

زندگی کا مآل اتنا ہے

زندگی سے نہیں بنی میری

 

چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے

کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟

 

اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں

ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟

 

کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا

دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری

 

تیرے انکار نے کمال کیا

جان میں جان آ گئی میری

 

نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟

فصیلِ  شہر پہ شہرِ  اماں لکھا ہُوا ہے

 

ملی ہے اہلِ  جنوں کو جہاں بشارتِ  اجر

وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے

 

تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے ؟

ذرا ہمیں بھی دکھاؤ، کہاں لکھا ہوا ہے ؟

 

جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا

کتابِ  عمر میں سب ناگہاں لکھا ہُوا ہے

 

شعلۂ  جاں سے فنا ہوتا ہوں قطرہ قطرہ

اپنی آنکھوں سے لہو بن کے ٹپکتا ہُوا میں

 

آگہی نے مجھے بخشی ہے یہ نار ِ  خود سوز

اک جہنّم کی طرح خود میں بھڑکتا ہُوا میں

 

منتظر ہوں کہ کوئی آ کے مکمل کر دے

چاک پر گھومتا، بل کھاتا، درکتا ہُوا میں

 

مجمعِ  اہلِ  حرم نقش بدیوار اُدھر

اور اِدھر شور مچاتا ہُوا، بکتا ہُوا میں

 

میرے ہی دم سے ملی ساعتِ  امکان اِسے

وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہوا میں

 

بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ

اور لوگوں کی توجّہ سے بدکتا ہُوا میں

 

رات کی رات نکل جاتا ہوں خود سے باہر

اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہمکتا ہُوا میں

 

ایسی یکجائی، کہ مٹ جائے تمیز ِ  من و تُو

مجھ میں کھِلتا ہُوا تُو، تجھ میں مہکتا ہُوا میں

 

اک تو وہ حسنِ  جنوں خیز ہے عالم میں شہود

اور اک حسن ِ  جنوں خیز کو تکتا ہُوا میں

 

ایک آواز پڑی تھی کہ کوئی سائل ِ  ہجر؟

آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہُوا میں

 

ہے کشیدِ  سخنِ  خاص ودیعت مجھ کو

گھومتا پھرتا ہوں یہ عطر چھڑکتا ہوا میں

 

راز ِ  حق فاش ہُوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے

خود تک آہی گیا عرفان بھٹکتا ہُوا میں

 

ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری

ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے

 

یاد کا پھول مہکتے ہی نواحِ  شب میں

کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے

 

حجرہِٗ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل

دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے

 

روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ

دوسری سمت سے جاؤں تو ازل پڑتا ہے

 

تابِ  یک لحظہ کہاں حسنِ  جنوں خیز کے پیش

سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے

 

مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی

روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے

 

غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفان

نام لوں اُس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے

 

سب پہ ظاہر ہی کہاں حالِ  زبوں ہے میرا

کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا

 

میرے اشعار کو تقریظ و وضاحت سمجھو

ورنہ دراصل سخن کن فیکوں ہے میرا

 

یہ جو ٹھہراؤ بظاہر ہے اذیّت ہے مری

جو تلاطم مرے اندر ہے سکوں ہے میرا

 

یہ جو صحراؤں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری

اور دریاؤں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا

 

وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری

یہ جو سب کو نظر آتا ہے، فسوں ہے میرا

 

بیچ میں کچھ بھی نہ ہو، یعنی بدن تک بھی نہیں

تجھ سے ملنے کا ارادہ ہے تو یوں ہے میرا

 

راز ِ  حق اس پہ بھی ظاہر ہے ازل سے عرفان

یعنی جبریل کا ہم عصر جنوں ہے میرا

 

اُداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے

یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے

 

ادھیڑ کر سی رہا ہوں برسوں سے اپنی پرتیں

نتیجتاً ڈھونڈنے کو اب کچھ بچا نہیں ہے

 

وہ راز سینے میں رکھ کے بھیجا گیا تھا مجھ کو

وہی جو اک راز مجھ پہ اب تک کھُلا نہیں ہے

 

چہار جانب یہ بے یقینی کا گھپ اندھیرا

یہ میری وحشت کا انخلا ہے، خلا نہیں ہے

 

پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ  تر ہمارا

 

بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ  وطن کی خوشبو

اے بادِ  صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا

 

ہیں بزمِ  عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب

سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا

 

ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے

ہے صرف اتفاقاً، آنا اِدھر ہمارا

 

اتمام ِ  دل خراشی، اسلوبِ  سینہ چاکی

اظہار ِ  کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا

 

اک سعئِ  بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت

مت پوچھئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا

 

پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر

بس یہ بتاؤ پوچھے، کوئی اگر ہمارا

 

دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے

اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا

٭٭٭

 

 

 

 

جنوں پیشہ درد کی خود کلا می۔عرفان ستار۔۔۔ سدرہ سحر عمران

 

ادب پردازی کی اس کتابی دنیا میں تصنع اور بنا وٹی لوگوں کی بھر مار ہے۔ ہر شاعر ہی اپنی ذات میں ”یکتا ”اور ”دانا ”سمجھتا ہے خود کو۔ قصور اس میں بھی تخیل کا ہی ہے کہ خود پسند ی کی پرواز جہاں تک بھی ہو خوش کن اور خوش گماں ہے۔ اپنا محدود حلقہ ارباب اور مجبوری (زبردستی ) کی داد و تحسین کہ اب یہ رسم چل نکلی ہے شہرا یاراں میں اسی لئے ناقدین یا تو رہے نہیں یا انہوں نے بھی منافقت سے ساز باز کر لی اس لئے اچھے شعرا ئ کی شاعری پہ لکھا نہیں جا رہا۔ جو لکھتے ہیں وہ قرابت داری نبھا تے ہیں۔ یا سچ ہیں تو اب خلوص کی جگہ نوٹ بو لتے ہیں۔ عرفا ن ستار جیسی مستحکم شخصیت پہ ہم نے نشست رکھنے کا سوچا تو گما ں غالب یہی تھا کہ جو ہر ہر فورم اور وال پوسٹس پہ اخلا ص و محبت کے ٹو کرے بھر بھر بھیجتے ان سے شاید کہنا بھی نہ پڑے یہ از خود ہی لکھنے کا وعدہ کر لیں گے مگر وہی ساغر والی بات کہ

 

دیا ر پیر مغاں میں آ کر یہ حقیقت کھلی ہے ساغر

 

یہ ادب پرور جو بظاہر بہت مہذب اور مخلص ہیں ہیں ان کے اندر کس قدر بغض، عناد اور کینہ بھرا ہوا ہے۔

یہ اپنی ذات کے اندر ہی مقابلے کا پنڈا ل لگائے بیٹھے ہیں۔ اور کس طر ح کنی کترا کے گزر گئے ہیں

خیر حقیقت کا یہ رخ بہت تکلیف دہ ہے اور انگشت بدنداں کر گیا۔

البتہ یہاں بھی عرفان ستار کا ایک شعر یا د آ یا کہ

 

مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟

میاں یہ فکر کرو گے تو شاعری سے گئے

 

میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟

یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟

 

استجاب ہے یا سوال ؟ یا دونوں ہی باتیں ہیں یا ایک بات بھی نہیں۔ درد مندوں کو زخم شماری کی پرانی عادت ہے۔ اور شاعر تو ہو تا ہی رنج و الم کا ولی یا درد کا پیرو۔ جہاں احساس ہے وہاں لذت آزار ہے لیکن کیا کہئے کہ اس درد میں بھی سرور ہے۔ اس شکایت میں بھی فخر و انبساط ہے کہ عشق جستجو نہیں عطا ہے اوریہ درد کی دولت فقیر کی عمر بھی کی کمائی اور ریاضت ہوتی ہے۔

عرفان ستار کی شاعری میں اس درد کی جھلک سرسری نہیں بلکہ گہرائی لئے ہوئے ہے گو کہ ان کا مزاج رومان پرور ہے مگر ہجر و وصال کی شدتیں پورے احساس کے ساتھ موجود ہیں ۔ یہ احساس کا مارا شاعر اپنی طبیعت میں بے نیاز ہے۔ اگر چہ انجان نہیں۔ با خبر ہے لیکن اس کی بے نیازیاور خود ساختہ لا تعلقی کا اپنا ہی رنگ ہے۔ وہ خود کہتا ہے کہ

 

بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ

اور لوگوں کی توجّہ سے بدکتا ہُوا میں

 

یہی بے نیازی کہیں خود پسندی کا لبادہ بھی پہن لیتی ہے

 

خود پسندی میری فطرت کا بھی وصفِ  خاص ہے

بے خبر تُو ہی نہیں ہے، بے خبر میں بھی تو ہوں

 

لیکن یہ خودساختہ خود پسندی ہے اور لطف دیتی ہے۔ ناگوار نہیں گزرتی۔

 

میرے ہی دم سے ملی ساعتِ  امکان اِسے

وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہوا میں

 

کبھی لگتا ہے کہ۔ یہ بے نیازی خود پہ طاری کر لی گئی ہے اور اس کا پس منظر کچھ بھی رہا ہو لیکن عرفان جیسا شخص لہجوں،آوازوں اور شور و غل سے بے وجہ بیزار نہیں ہو سکتا۔ وہ خول میں بند ہو نے والا انسان ہے ہی نہیں۔ اسے آدمیت میں گھلنا ملنا پسند ہے یہ اس کے مزاج کا حصہ ہے لیکن اسے مجبور کیا گیا ہے یقیناً کہ وہ اپنی ذات میں محصور ہو کے رہے ۔

 

میں سب کچھ جانتا ہوں، دیکھتا ہوں

میں خوابیدہ سہی، سویا ہوا نئیں

 

اب جو رہتا ہے سرِ  بزمِ  سخن مہر بہ لب

یہی عرفان عجب شعلہ بیاں تھا پہلے

 

تو صاحبو! عرفان کی شاعری، شاعری کیا ہے۔ ہفت آ سمان کی پرتیں ہیں۔ جس کے کئی رنگ اور پہلو ہیں۔ جس کی وسعتیں لا محدود ہیں مگر نظر میں اتنا ہی سما سکتا ہے جتنا کہ بینا ئی کی سرحدیں ہیں۔ آغاز کرو تو لگتا ہے یہ درد کی تصویر کشی تو ہر صاحب دل کی کل املاک ہے۔ نظر بھٹکتی ہے۔ دل ٹھہرتا ہے۔ کسی لفظ، خیال یا مفہوم کی چاشنی سے احساس کا پاؤں رپٹ جا تا ہے اور اس کے لفظوں کا اضطراب قاری کے اندر پھیلنے لگتا ہے۔ ایک وحشت نا ک سناٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پھر چا پ ابھرتی ہے۔ اور صفحہ پلٹتا ہے۔ ساعتوں کی تکرار ہونے لگتی ہے۔ لمحے آ پس میں الجھ پڑتے ہیں۔ اور آنکھ پڑھتی ہے کہ

 

یہاں تکرارِ  ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے ؟

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے ؟

 

تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا

ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے ؟

 

اس نے فقط ساعتوں سے تکرار ہی نہیں کی بلکہ ان کی معنی آفرینی، خاموشی، آوازیں اور احساس کا رس بھی کشید کیا ہے۔ اس کی ظاہری شخصیت میں جتنا ٹھہراؤ محسوس ہو تا ہے اس کے لفظ اتنا ہی بو لتے ہیں۔ اور جہاں یہ اپنی اندر کی آوازوں کا گلہ گھونٹتا تو وہ اشعار کی صورت باہر نکل آتی ہیں اب یہ اس کے ہم نفسو کی مجرمانہ غفلت یا خاموشی ہے یا اس کی شکایات کا دائرہ ہی وسیع تر ہو تا جا رہا ہے۔ اس نے بے چینی کا منبع بنا لیا خود کو۔ اس کی شاعری کی فطرت میں اضطراب ہے لیکن یہ اسی پہ ظاہر ہے جو خود بھی مضطر خاک کے خمیر سے اٹھا یا گیا ہو،

 

یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن

بقدرِ  عُمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے

 

اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے

ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

 

اور یہی اضطراب اور بے سکونی کبھی درونِ  ذات سے باہر بھٹکتی ہو تو وہ لکھتا ہے ۔

 

مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی

روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے

 

اسے سمجھنا ہو تو اس کی شاعری پرکھو۔ اس کے اشعار کو جانچو۔ اس کے اسلوب کا قد کا ٹھ نا پو۔ یہ ہر لحا ظ سے قد آور ہے۔ یہ لفظی صناعی نہیں۔ جس نے عرفان کو گہرائی میں جا کے پڑھا وہ اختلاف نہیں کر سکتا کہ روایت سے جڑت میں بھی اگر جدیدیت کا پہلو نظر آئے تو وہ اس کی پہچان بن چکا ہے۔ جدید شعرا ء کو روایت سے انحراف ہے ان کے خیال میں قدیم غزل اپنی کشش کھو چکی ہے۔ فارسی سے مستعار شدہ تلازمے اور استعار ات کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے۔ وہی گل و بلبل، زلف و رخسار، محمل و قیس اور بے آ ب و گیا ہ صحرا، صیاد و قفس کی شورش لیکن یہ عرفان ستارکا طرہ امتیاز ہے کہ اس نے روایتی اسلوب کو اپنی شاعری میں زندہ رکھا۔ مرنے نہیں دیا۔ گو کہ کہیں کہیں یکسانیت بھی غالب ہے لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک ہی تصویر پہ کئی رنگ بکھر گئے ہوں۔ ہم نے اس کی شاعر ی کے خاص استعارے تلاشنا چاہے تو مایوسی ہوئی۔ اس نے اپنی کیفیات کو لفظوں میں مدغم کیا مگر ہر رنگ پہچان میں آ تا ہے گھلا ملا نہیں ہے۔ اس کی شاعری میں بے پناہ حساسیت ہے اور اس کے اشعار کیا ہیں تصویرِ  درد ہیں۔ دیکھئے

 

پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟

درد ہے، درد بھی قیامت کا

 

پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا

اب دھڑکتی ہے بے دلی میری

 

میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان

عمر کس نے گزار دی میری؟

 

اور میر نے کیا خوب کہا تھا کہ

 

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا

 

اسی محتاط پسندی کو عرفان کے نئے رنگ میں دیکھئے کہ

 

تابِ  یک لحظہ کہاں حسنِ  جنوں خیز کے پیش

سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے

 

عرفان کے ہاں جو دوسری شے شدت سے محسوس ہوتی ہے وہ خرد جنوں کی ازلی داستان ہے۔ عرفان نے جنوں کو عالمِ  وحشت میں بھی پکارا اور بے زاری میں بھی:

 

سنا ہے اہلِ  خرد کا ہے دورِ  آئندہ

یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے

 

میں سمجھا تھا سئیے گی آگہی چاکِ  جنوں کو

مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے

 

جس سے اٹھتے ہیں قدم راہِ جنوں خیز میں تیز

ہم بھی شانے پہ وہی بارِ گراں چاہتے ہیں

 

ذرا اہلِ  جُنوں آؤ، ہمیں رستہ سُجھاؤیہاں

ہم عقل والوں کا خدا گُم ہو گیا ہے

 

ملی ہے اہلِ  جنوں کو جہاں بشارتِ  اجر

وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے

 

حسرت نے کہا تھا کہ

 

تر ے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

 

عرفان نے یہی بات اس انداز سے کہی کہ بے ساختہ واہ نکلا منہ سے :

 

مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم

الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا

 

اور اس شعر میں کیا دلکش انداز میں خود کو جنو ں کے وارثان میں شما ر کیا کہ

 

قاصدِ  شہرِ  دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا

بادشاہِ  جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ  اہلِ  غم کی کماں سونپ دی

 

عرفان نے اکثر اشعار میں تجا ہل عارفانہ بھی برتا ہے اور کیا ہی دلکشی سے برتا ہے ۔

 

اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں

ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟

 

اس نے کہیں کائنات کے سر بستہ رازوں کے متعلق بھی خود کلامی کی ہے

 

میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے، وہ ہے ہی نہیں

سو خود کو خواہشِ  دنیا سے ماورا رکھا

 

یہ کائنات سراسر ہے شرحِ  رازِ  ازل

کلامِ حق تو سرِ  کہکشاں لکھا ہوا ہے

 

سادگی اور سلاست کے بھی کیا کہنے۔ بعض غزلیں سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہیں۔ انداز بیا ن بہت سادہ، صاف اور رواں ہے۔ صنائع و بدائع کی بھر ما ر نہیں ہے تاہم تغزل اس کے کلام کی نما یا ں خصوصیت ہے ۔

کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے

 

تیری ہر بات مان لیتا ہوں

یہ بھی انداز ہے شکایت کا

 

مسئلہ میری زندگی کا نہیں

مسئلہ ہے مری طبیعت کا

 

اب تو برباد کر چکے، یہ کہو

کیا اسی میں تھی بہتری میری؟

 

جانے کب دل سے آنکھ تک آ کر

بہہ گئی چیز قیمتی میری

 

تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی

مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے

 

میں تجھ سے ساتھ بھی تو عُمر بھر کا چاہتا تھا

سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے

 

اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا

بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عُمر گزر گئی

 

نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟

فصیلِ  شہر پہ شہرِ  اماں لکھا ہُوا ہے

 

عرفا ن نے چھوٹی بحور میں بھی اپنے فن کا جادو جگا یا اور طویل بحور بھی اس کے کلام میں فنی اعتبار سے مکمل ہیں۔ بلکہ اکثر تو حیران بھی کر دیتی ہیں کہ پورا مصرع اس مشاقی کے ساتھ ادا کیا جائے کہ کہیں وزن ٹوٹنے نہ پائے۔ اس کی یہ غزل ہمیں خصوصی طور پہ بہت پسند ہے اور ہم اکثر و بیشتر گنگناتے رہتے ہیں

 

کوئی نغمہ بُنو، چاندنی نے کہا، چاندنی کے لیے ایک تازہ غزل

کوئی تازہ غزل؟ پھر کسی نے کہا، پھر کسی کے لیے ایک تازہ غزل

 

میں عبادت بھی ہوں، میں محبت بھی ہوں، زندگی کی نُمو کی علامت بھی ہوں

میری پلکوں پہ ٹھہری نمی نے کہا، اِس نمی کے لیے ایک تازہ غزل

 

یہ غزل بھی بہت خوب رواں اور مترنم ہے

 

جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگذر

کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی

 

جب یہ خواہش کا انبوہِ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دستِ فرصت نہ تھا

کتنے آباد رہتے تھے اہلِ ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی

 

ہم نقاد نہیں اس لئے شاعری میں حسن تلا شا ہے عیب نہیں۔ ۔ اور عرفان ستار جیسے شاعر پہ با ت کرنے کے لئے ہمیں اپنی ایڑھیاں اٹھا نی پڑی ہیں۔ اور کچھ اس کا دیا ہوا اعتما د تھا کہ ہم نے بھی ”جرات رندانہ ”کر لی۔ بہت سے پہلو تشنہ ر ہ گئے ہیں ابھی لیکن جتنا ہو سکا اتنا نبھا گئے ہیں۔

عرفان کے ایک شعر کے ساتھ اجازت

 

وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی

تری نگاہ کو پہنچی، تو شاعری ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان ستار سے ایک مکالمہ ۔۔۔ سحر آفرین

 

 

عرفان صاحب سب سے پہلے آپ اپنے خاندانی پس منظر اور ابتدائی حالات کے بارے میں فرمائیے۔

 

میرا تعلق ایک میمن خاندان سے ہے، گویا اردو نہ صرف میری مادری زبان نہیں، بلکہ ہماری کمیونٹی میں اچھی اردو بولنے والے لوگ بھی خال خال ہی ملتے ہیں۔ البتہ میرے والد ڈاکٹر تھے اور ادب اور موسیقی میں خاصا درک رکھتے تھے۔ میری والدہ نے بھی اردو میں گریجوئیشن اس زمانے میں کی تھی جب میمن لڑکیاں پرائمری کلاسز کے بعد اسکول نہیں جاتی تھیں۔ اس لحاظ سے میرے گھر میں صاف اردو بولی جاتی تھی اور والدہ کے پاس خاصی تعداد میں اردو ادب سے متعلق کتابیں تھیں۔ جب میں صرف دو برس کا تھا تو میرے والد کی ملازمت کی غرض سے ہم لیبیا منتقل ہو گئے۔ یہ ۱۹۷۰ کی بات ہے۔ وہاں انگلش میڈیم اسکول نہ تھا اس لیے گھر پر ہی والدہ سے تعلیم حاصل کی اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی سہولت نہ ہونے کے سبب کتابیں پڑھنا شروع کر دیں۔ بغیر سمجھے دواوینِ  غالب و میر، اور نجانے کیا کیا۔ والدہ بتاتی ہیں کہ جن دنوں اردو پڑھنے کے قابل ہوا ہی تھا تو ایک دن گھر کے پیچھے والے ٹیرس میں انھوں نے مجھے یہ شعر بآوازِ  بلند پڑھتے پایا:دور بیٹھا غبارِ  میر اُس سے عشق بِن یہ ادب نہیں آتا وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے پوچھا تمہیں اس کا مطلب سمجھ آتا ہے تو میں نے جواب دیا کہ مطلب تو نہیں آتا مگر مجھے اچھا بہت لگتا ہے۔ گویا شعر کی غنائیت میرے دل میں بہت ابتدا ہی میں گھر کر چکی تھی۔ ۱۹۷۹ میں مجھے سیکنڈری کلاسز کی تعلیم کے لیے کراچی بھیج دیا گیا اور وہاں BVS Parsi School سے میٹرک، DJ Science College سے انٹر میڈئیٹ کیا۔ فرسٹ ائیر میں تھا تو میرے والد صاحب انتقال کر گئے۔ میری عمر اس وقت ۱۷ برس کی تھی۔ نمبر کم آئے۔ میڈیکل میں داخلہ نہ مل سکا۔ DJ College سے ہی BSc کیا۔ BSc کے امتحان سے فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک دوست IBA کا ایڈمیشن ٹیسٹ دینے جا رہا تھا اور کسی کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے والد اسے اکیلے کار نہیں لے جانے دیتے تھے۔ میں اس شرط پر راضی ہو گیا کہ میرے ٹیسٹ کی فیس بھی وہی دے گا۔ میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ MBA کس بلا کا نام ہے (اس وقت یہ شعبہ اتنا عام نہیں تھا۔ یہ ۱۹۸۹ کی بات ہے ) نہ ہی مجھے ٹیسٹ کے فارمیٹ کے بارے میں علم تھا۔ خیر ٹیسٹ دے کر آ گئے۔ دو دن بعد لسٹ لگی تو وہ بے چارہ فیل ہو گیا اور میں پاس۔ شاید IBA کی تاریخ میں پہلا candidate ہو گا جو ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد یہ معلوم کرنے نکلا کہ MBA ہوتا کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ کوئی بہت توپ چیز ہے اور صرف ۳ فیصد ایپلیکینٹس کا داخلہ ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ خیر ہوا یوں کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد سے ایم بی ختم کرنے تک میں تین ملازمتیں کرتا تھا اور ساتھ پڑھتا بھی تھا۔ شاید ہی کسی رات ۴ گھنٹے سے زیادہ سویا ہوں گا۔ یہ سلسلہ دسمبر ۱۹۹۲ تک جاری رہا جب میں نے ایم بی اے مکمل کیا۔ اس دوران کن مشکلات سے گزرا اور کیسے وقت گزارا یہ ایک طویل کہانی ہے جس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ بہرحال اس کے بعد وقت بدلا اور معاشی اعتبار سے اچھے دن آئے۔ ۲۰۰۴ میں SZABIST سے Management Science میں MS کی ڈگری بھی گولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کی۔ ابتدا میں Telecommunication اور ۱۹۹۴ سے اب تک Pharmaceutical and Healthcare سے وابستہ رہا ہوں۔ ساتھ ساتھ گزشتہ ۱۵ سالوں سے بزنس اسکولز میں پڑھاتا رہا ہوں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

 

۲، وہ کون سے عوامل تھے جن کے تحت آپ شعر و ادب کی جانب راغب ہوئے ؟

 

ابتدائی دلچسپی سے متعلق تو میں نے پہلے جواب میں بتا ہی دیا ہے۔ لیبیا میں بچپن اکیلے گزارنے کے باعث میں فطرتاً بہت خاموش طبع ہو گیا تھا۔ حساس طبیعت ہمیشہ سے تھی اور موزوں طبع بھی تھا۔ کسی تربیت کے بغیر یونہی تک بندی نجانے کب شروع ہو گئی۔ یہ بات احباب کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ شاعری کے معاملے میں جب میں سنجیدہ ہوا تو میری عمر تقریباً تیس برس تھی۔ عزم بہزاد کی خدا مغفرت کرے۔ انھوں نے مجھے پہلی بار یہ اعتماد بخشا کہ میں شعر کہتا ہوں۔ پھر جون ایلیا صاحب سے نیاز

ھ۔ ہ بملا ٹتا تو وہ از رحمٰن حفیظ_______==ائن گفتگومندی کا شرف حاصل ہوا اور بس پھر کیا تھا۔ وہ سراپا شاعری تھے اور میں سرتاپا ان کی عقیدت اور محبت سے سرشار۔ اچانک یوں سمجھیں کہ ذہن مستقل شعری فضا میں رہنے لگا۔ ان کی تربیت میں رہنا کسی یونیورسٹی میں برسوں گزارنے نے زیادہ تھا۔ تکرارِ  ساعت کی بیشتر غزلیں ۱۹۹۸ سے ۲۰۰۴ تک کی ہیں۔ بہت لکھا اور ضائع کیا۔ آج بھی بہت کم کہتا ہوں۔ ۲۰۰۵ میں کتاب چھپی اور اس کے بعد سے آج تک صرف ۲۵ غزلیں کہہ پایا ہوں۔ جب تک کوئی تجربہ، واردات یا observation میرے احساس کا حصہ نہ بن جائے، شعر میں منتقل نہیں ہوتا۔ میرا ہر شعر میرے بسر کیے ہوئے کسی لمحے کا عکس ہے۔ مجھے سے شعر گھڑا نہیں جاتا۔ ویسے فی البدیہہ آپ مجھ سے پچاس شعر گھنٹے بھر میں کہلوا لیجیے مگر میں اسے اپنی شاعری شمار نہیں کرتا۔ میرا شعر میرا اظہار ہے۔ میرا شوق نہیں ۔

جون ایلیا اور عزم بہزاد کے علاوہ جن احباب اور بزرگوں کا میرے شعری رویّے کی ساخت اور میری تربیت میں براہِ  راست یا بالواسطہ حصہ رہا ان میں سرِ فہرست میرے مربّی و محسن خواجہ رضی حیدر کا نام ہے۔ ان کے علاوہ محترم لیاقت علی عاصم، سعید آغا، انور جاوید ہاشمی، صابر وسیم، احسن سلیم، ڈاکٹر مختار جیسے احباب کے ساتھ گزاری ہوئی محفلیں ذوق اور فن کو جلا دیتی رہیں۔ بزرگوں میں جناب قمر جمیل، نگار صہبائی، انور شعور، محب عارفی اور رسا چغتائی کی محبت اور شفقت میرے ساتھ رہی۔ شمس الرحمٰن فاروقی، آصف فرخی، مبین مرزا اور لاہور سے خالد احمد نے میرے کلام کو قارئین تک پہنچانے کا کام بہت خلوص سے سرانجام دیا۔ میں یقیناً اس اعتبار سے بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے ایسے باکمال لوگوں کی صحبت، رہنمائی اور محبت نصیب ہوئی۔

 

۳۔ اس کا جواب پچھلے سوال کے ساتھ آ گیا ہے۔

۴، جس وقت آپ نے شعر کہنا شروع کیا اس وقت کا ادبی منظر نامہ کیا تھا؟  آپ سے سینئیر اور ہم عصروں میں کون کون سے اہم نام تھے ؟

 

سینئیرز میں جون ایلیا، رضی اختر شوق، محب عارفی، انور شعور، عبیداللہ علیم، سلیم کوثر، محشر بدایونی، تابش دہلوی، خواجہ رضی حیدر، نصیر ترابی، جمال احسانی، عزم بہزاد، احمد نوید، لیاقت علی عاصم، عقیل عباس جعفری، عارف امام اور کراچی سے باہر خالد احمد، نجیب احمد، احمد فراز، توصیف تبسم، محسن احسان، ادا جعفری، پروین شاکر اور ایک طویل فہرست ہے ناموں کی جو اس وقت آسمانِ  ادب پر جگمگا رہے تھے۔ جو لوگ عمر میں مجھ سے قریب تھے اور جن سے برادرانہ تعلق کا دعوٰی کرسکتا ہوں ان میں اجمل سراج، انعام ندیم، اکبر معصوم، اور شاہین عباس اہم ترین نام ہیں۔

 

۵، شاعری کے لیے آپ نے غزل ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ کیا غزل آپ کے مزاج سے زیادہ قریب ہے ؟

 

غزل میرے مزاج سے قریب بھی ہے اور میرے لیے ذہن کو کسی ایک موضوع پر مرکوز کر کے شعر کہنے میں effort بہت در آتی ہے اور مجھے یوں لگنے لگتا ہے کہ میں بس بات پوری کرنے کی کوشش میں لگ گیا ہوں۔ شعر کے دو مصرع مجھے میرے احساس کی ترجمانی کو کافی لگتے ہیں۔ پھر ردیف و قوافی کے اہتمام سے جو صوتیات پیدا ہوتی ہیں وہ مجھ میں موجود موسیقی کے ذوق کو بھی تسکین پہنچاتی ہیں۔

 

۶، ایک شاعر کے لیے کلاسیکی شاعری کا مطالعہ کتنی اہمیت کا حامل ہے َ

 

بہت ہی زیادہ۔ کلاسیکی شاعری جن لوگوں نے تخلیق کی وہ ہماری طرح بٹے ہوئے لوگ نہیں تھے۔ وہ ہمہ وقت علم اور تخلیقی جستجو میں رہنے والے لوگ تھے۔ جو خزانہ انہوں نے چھوڑا ہے اس میں تحصیلِ  علم اور تربیتِ  ذوق کا اتنا وافر سامان ہے کہ آپ کو کسی استاد کی ضرورت نہیں۔ جون صاحب نے مجھے ازسرِ  نو مصحفی، آتش، داغ، وغیرہ کے دواوین پڑھنے کی تاکید کی اور گھنٹوں ان کے فن پر گفتگو کر کے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیا۔ بڑی شاعری زمان و مکاں کی قید سے ماورا ہوتی ہے۔ میر آج بھی اتنے ہی تازہ ہیں جتنے ۲۰۰ سال پہلے تھے۔ بڑی شاعری انسان اور کائنات کو جن زاویوں سے دیکھتی ہے ان کی universal value and relevance ہوتی ہے۔

 

۷، کون سی چیز آپ کو شعر کہنے پر اکساتی ہے ؟

 

کوئی بھی ایسی بات، واقعہ، رویّہ، تجربہ، جو  مجھے احساس کی سطح پر جھنجھوڑ دے۔ وہ ایک حسین کی ادائے دلربا بھی ہو سکتی ہے، ایکدوست کا دھوکہ بھی، اور میرے اطراف رونما ہونے والا کوئی واقعہ بھی۔ بہت سی باتیں وقوع پذیر ہونے کے بہت عرصے بعد شعر میں ڈھلتی ہیں۔ یہ ایک ایسا پراسس ہے جس کے steps اور timing سب میرے بس سے باہر ہے۔ جب میں شعر کہنے کی کیفیت میں ہوتا ہوں تو مضامین نہیں سوچتا۔ بس شعر کہتا ہوں۔ مضامین میرے احساس کی hard drive سے خودبخود retrieve ہوتے جاتے ہیں۔

 

۸، آپ اپنے سے پہلے کے کن لکھنے والوں سے متاثر ہیں ؟

 

متاثر تو بہت سے لوگوں سے ہوں مگر اگر اسے ذرا بلند سطح پر لیا جائے یعنی وہ شعرا جن کا مطالعہ میں سیکھنے اور اپنے ذوقِ  شعری کو مہمیز دینے کے لیے کرتا ہوں وہ ہیں میر، سودا، غالب، انیس، عزیز حامد مدنی، سراج الدین ظفر، ن۔ م۔ راشد، اور جون ایلیا۔

 

۹، اپنے ہم عصروں اور بعد میں آنے والوں میں سے وہ کون سے نام ہیں جنھیں آپ اہم تصوّر کرتے ہیں۔

 

مسئلہ یہ ہے بہت سے اچھے شاعروں کے مجموعے ابھی تک نہیں چھپے۔ اور بہت سے شاعروں تک میں دیر سے پہنچا۔ فیس بک کا یہ احسان ہے کہ جمیل الرحمٰن، افضال نوید، ابرار احمد (ان کی غزلیں میں پڑھ چکا تھا مگر نظمیں کم پڑھی تھیں )، کو یہیں تفصیل سے پڑھا اور بے حد متاثر ہوا۔ اختر عثمان بے حد اعلٰی شاعر ہیں۔ میرے ہم عصروں میں شاہین عباس، اجمل سراج، انعام ندیم، اکبر معصوم، رفیع رضا غزل کے اہم شعرا ہیں۔ میرے بعد آنے والی نسل میں علی زریون کا ایک اپنا ہی مقام ہے اور وہ بڑے امکانات کا شاعر ہے۔ اس کے علاوہ میں یہاں ایسے بہت سے نوجوانوں کو پڑھتا ہوں جو مجھ سے کہیں آگے جانے والے ہیں۔ خدا انھیں استقامت اور توفیق دے۔ جن شاعروں کی کتابوں کا میں منتظر ہوں ان میں مجید اختر، یاور ماجد، ظفر خان، رشید ندیم کے نام نمایاں ہیں۔ یہاں ٹورنٹو میں نسیم سید بے حد خوبصورت نظم اور غزل کہتی ہیں۔ امیر حسین جعفری اور اسما سلیم کی نظمیں لاجواب ہیں۔ کلیم ظفر غزل کا بھرپور شاعر ہے۔ نسرین سید، فیصل عظیم، سیما نقوی، اور عظمٰی محمود، مسلسل بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ غرض یہ کہ مجھے ادبی منظر نامہ بہت بھرپور اور پر امکان نظر آتا ہے۔ باقی سب محنت اور توفیق کا معاملہ ہے۔ ناموں کا معاملہ برا ہوتا ہے۔ کوئی رہ گیا ہو تو معذرت۔

٭٭٭

 

 

 

 

دس سوالات۔ ۔ تصنیف حیدر

 

عرفان ستار کی سب سے بڑی اور اہم شناخت ان کی شاعری ہے۔ ان کی شاعری غزل کی روایت کے دھارے کو جدیدیت کی ندی میں لائی ہے۔ ان کے خیالات بھی اس معاملے میں بے حد صاف و شفاف ہیں۔ یہ بات واقعی بے حد عجیب و غریب ہے کہ بے حد منفرد شاعروں کو ہمارے یہاں کس قدر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور اچھل کود مچانے والے مچھندر بھی جدید طرز اظہار کا نعرہ لگا کر خود پر تنقیدی مضامین کے انبار لگا لیتے ہیں۔ خیر، ادب اسی طرح کی بے نیازی کا متقاضی ہے۔ اب بات ہوئی ہے، تو امید ہے کہ بات یہاں رکے گی نہیں اور عرفان ستار، آفتاب حسین، فرحت احساس اور ایسے دوسرے اہم شاعروں پر گفتگو کے بھی دروازے کھلیں گے۔ امید ہے کہ یہ مکالمہ بھی اپنے اتفاق و اختلاف سمیت آپ کو کچھ معاملات میں سوچنے یا بولنے پر مجبور کر دے گا۔

 

تصنیف حیدر:آپ کی غزلیں بہت طویل بحر میں ہوتی ہیں، پھر بھی آپ اُن میں بہت اچھے شعر نکال لیتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوتا ہے ؟

 

جواب:اِس کی وجہ ایک تو غالباً یہ ہے کہ میں بغیر تحریک کے از خود طویل بحر کا انتخاب نہیں کرتا۔ کوئی مصرع کوئی شعر جب ہو جاتا ہے تو پھر غزل کہتا ہوں۔ فطری طور پر مجھے طویل بحریں مرغوب ہیں اور اس کی ایک وجہ غالباً میری موسیقی سے بہت گہری دلچسپی ہے اور طویل بحروں میں غنائیت زیادہ ہوتی ہے۔ مجھے کبھی اس مشکل کا سامنا نہیں کرتا پڑتا ہے طویل بحر میں حشو و زوائد سے کیسے بچوں ؟ مصرعے موزوں ہوتے جاتے ہیں اور زیادہ تر ان کی بھرتی کے الفاظ نہیں ہوتے۔ میں اسے خداداد صلاحیت اور طویل بحروں کے ساتھ ایک مزاجی نسبت کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔

 

تصنیف حیدر:کیا شعر میں کوئی گہری بات ہونی ضروری ہے ؟ کیوں ؟

 

عرفان ستار:یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں موجودہ دور کی بیشتر شاعری میں پائی جانی والی غیر شعریت کی وجہ پوشیدہ ہے۔ شاعری میں \” بات کیا کہی گئی ہے \”سے زیادہ \”بات کیسے کہی گئی ہے \” کی اہمیت ہے۔ مصرع کی بنت اور الفاظ کی نشست و برخاست سے جو امیج تخلیق ہوتا ہے وہ کتنا دل خوش کن ہے اور جو آہنگ مرتب ہو رہا ہے وہ کتنا رچا ہوا ہے۔ گہری بات یا بڑا مضمون شعر کی اضافی خوبی تو ہے، مگر شعر کی بنیادی اساس نہیں ہے۔ ہم نے آج شعر کو "بات”موزوں کرنے کا وسیلہ تصور کر لیا ہے، اس لیے ہر طرف ایک پرت کی بیانیہ شاعری کا انبار دکھائی دیتا ہے۔ ہم یہ بات بھول چکے ہیں کہ شاعری اچھی شعریت کی بنیاد پر ہوتی ہے نہ کہ مضمون کی بنیاد پر۔ شعر پڑھتے یا سنتے وقت آپ کے وجدان میں ایک ارتعاش خیال سے پہلے کوئی اور چیز پیدا کرتی ہے اور آپ کو یہ باور کرا دیتی ہے کہ آپ تک ایک شعر پہنچا ہے۔ بقول رابرٹ فراسٹ \”Poertry is what is lost during translation\”. ظاہر ہے جو چیز ترجمہ یا تشریح کے دوران کھو جاتی ہے وہ خیال یا مضمون تو نہیں ہوتا۔ وہ کیفیت ہوتی ہے جو شعر میں خیال کے متوازی اپنا ایک علیحٰدہ وجود رکھتی ہے اور شعر کو کلامِ موزوں سے الگ کر کے شعر بناتی ہے۔ آج کے قاری کی یہ تربیت ہی نہیں ہوئی ہے کہ شاعری سے لطف کیسے لیا جاتا ہے اور شعری محاسن کیا ہوتے ہیں ؟ وہ تو سیدھا شعر کا ترجمہ کرتا ہے اور مضمون سمجھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ شاعری کی بنیاد کرافٹ پر ہے۔ مصرع کیسے بنا گیا ہے اور لفظوں کے باہمی ربط سے کیفیت کیسے ظہور پذیر ہوئی ہے ؟ \”دلِ ناداں تجھے ہُوا کیا ہے \” میں ایسی کیا بات ہے جو \”کیا ہوا ہے تجھے دلِ ناداں \”میں وہی الفاظ اور وہی بحر ہونے کے باوجود نہیں ہے ؟قاری تو قاری آج کا شاعر بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے اور بات کو موزوں مصرعوں میں کہہ کر اسے شاعری سمجھتا ہے۔ شعر میں کہنے سے زیادہ نہ کہنے کی اہمیت ہے۔ قاری کے سوچنے اور اسے اپنی کیفیت سے ریلیٹ کرنے کے کیا کیا گنجائش چھوڑی گئی ہے ؟ بڑا شعر اس بنیاد پر بڑا ہوتا ہے کہ پچاس، سو، دوسو سال بعد کا قاری بھی جب اسے پڑھتا ہے اور اس کیفیت سے خود کو ہم آہنگ پاتا ہے۔ یہ اسی لیے ہوتا ہے کہ شعر میں ایک کیفیت ہوتی ہے جو لافانی ہے۔ مضمون تو ماحول، وقت، اور سماجی اقدار کا تابع بھی ہوسکتا ہے اور زمان و مکاں کی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی قدر کھو دیتا ہے۔ اسی طرح شعر میں جواب دینے سے زیادہ سوال اٹھانے کی اہمیت ہے۔ بات مکمل کرنے سے زیادہ اس کی جانب اشارہ کر کے قاری کے سپرد کر دینا اہم ہے۔ لفظ کی حرمت اور تکریم بے پردگی میں نہیں ہے۔ ایمائیت اور رمزیت میں ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر سرِ دست غالباً اتنا ہی کافی ہے۔

 

تصنیف حیدر:اسی کے بعد کی نسل کا حوالہ ایک غیر منطقی بات ہے، کیونکہ یہ نسل باقاعدہ کسی تحریک سے وابستہ نہیں۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں ؟

 

عرفان ستار: میں اس بات سے تو اتفاق کرتا ہوں کہ چونکہ یہ نسل کسی تحریک سے وابستہ نہیں اس لیے اس نسل کے تخلیق کاروں کو ہم اس طرح الگ سے نہیں categorize کرسکتے جیسے ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ترقی پسندوں کو کیا جا سکتا تھا۔ مگر یہ بات بہت اہم ہے کہ اس نسل نے زندگی اور دنیا کو جس تیزی سے تبدیل ہوتے دیکھا ہے اس کی مثال تاریخ میں کسی اور نسل سے نہیں دی جا سکتی۔ نئے میڈیا اور نئے آلاتِ ترسیل نے ایک نیا منظرنامہ ترتیب دیا ہے جس نے نئے تخلیق کاروں کے سامنے ایک بہت بڑا چیلینج رکھ دیا ہے۔ اس چیلینج کی وجہ سے بیشتر تخلیق کار بوکھلاہٹ میں یہ بات بھول گئے کہ یہ تبدیلیاں مادی سطح پر روز مرہ زندگی سے متعلق ہیں۔ بڑی انسانی اور آفاقی حقیقتیں نہیں تبدیل ہوئیں۔ وہ نئے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں بڑی حقیقتوں سے صرفِ نظر کر کے روزمرہ کو شاعری بنانے میں لگ گیا ہے۔ انسان، خدا، کائنات، مابعد الطبیعاتی حقائق آج بھی وہی ہیں جو میر کے یا غالب کے دور میں تھے۔ ایسی شاعری جو ان زمان و مکاں کی قید سے ماورا معاملات سے متعلق ہو، آج بھی اہم ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ جدید حسیت نامی چیز نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔ ہم شعر میں بلب، ای میل، فون، اور کار لکھنے کو جدید حسیت سمجھ بیٹھے ہیں۔ جدید حسیت وہ ہے جو شعر کی کیفیت کو جدید یعنی آج کے انسان کی کیفیت سے مطابق رکھے۔

کیسا ہنگامہ برابر کے مکاں میں ہے مقیم

میں تو خود شور میں رہتا ہوں، مجھے کیا معلوم؟

(خواجہ رضی حیدر)

یہ ہے جدید حسیت۔ اب اس بات سے ناواقف شخص جب میری شاعری پڑھے گا اور اس میں وہی اردو اور فارسی کے الفاظ دیکھے گا جو\” غیر جدید\” ہیں، تو وہ لازمی طور پر یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ عرفان ستار کے یہاں جدید حسیت کا فقدان ہے۔ ہماری شاعری کو پڑھا ہی غلط premiseکے ساتھ جا رہا ہے۔ ہمیں قارئین اور ناقدین کی ایک ایسی نسل میسر ہے جو ضروری intellectual tools and preparation کے بغیر ہمیں پڑھ رہے ہیں۔ اس اعتبار سے اسی اور اس کے بعد کے تخلیق کاروں کی نسل کو ایک الگ شناخت کے ساتھ پہچاننے میں کوئی قباحت نہیں۔

 

تصنیف حیدر:کسی بہت اہم ناقد کا کوئی مضمون میں نے آپ کی شاعری پر نہیں پڑھا۔ یہ میری کم علمی ہے یا واقعی ناقدین نے آپ کو نظرانداز کیا ہے ؟

 

عرفان ستار:اس میں آپ کی کم علمی کا کوئی دخل نہیں۔ مجھ پر کسی ناقد نے کچھ نہیں لکھا۔ میری کتاب تکرارِ ساعت میں خواجہ رضی حیدر کا ایک مضمون، اور احمد جاوید، آصف فرخی اور جناب رسا چغتائی کی آرا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ابرار احمد نے کہیں کہیں ذکر کیا ہے اور چند مضامین دوستوں نے سوشل میڈیا پر لکھے ہیں جنہیں باقاعدہ تنقیدی مضامین نہیں کہا جا سکتا بلکہ تاثراتی مضامین سمجھا جا سکتا ہے۔ میری کتاب ۲۰۰۵ میں شائع ہوئی تھی جسے اب نو سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ اس لیے یہ سمجھنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس کتاب کو مجموعی طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ شاید اس میں لائقِ اعتنا کچھ تھا ہی نہیں ؟ مجھے نہیں معلوم۔

 

تصنیف حیدر:تخلیقی حسیت کو بیدار رکھنے کے لیے کس جگہ کے حالات زیادہ سازگار ہیں۔ پاکستان کے یا کینیڈا کے؟

 

عرفان ستار:یقیناً پاکستان کے۔ مجھے بہت نقصان ہوا ان صحبتوں سے دور ہو کر جو پاکستان میں میسر تھیں۔ رسا چغتائی، انور شعور، خواجہ رضی حیدر، خالد احمد، نجیب احمد، احمد جاوید، عزم بہزاد، لیاقت علی عاصم جیسے سینئیرز کی مشفقانہ رہنمائی اور ہم عصروں اور بعد میں آنے والوں میں اجمل سراج، کاشف غائر وغیرہ جیسے دوستوں کے ساتھ شعری معاملات پر گفتگو اور شاعری میں شرکت سے جو تحریک ملتی تھی اس کا کوئی بدل نہیں۔ کینیڈا میں نہ اس معیار کی گفتگو کے مواقع ہیں نہ ہی محفلوں میں اس معیار کی شاعری ہوتی ہے جس سے انسان کو تخلیقی تحریک حاصل ہو۔ کتابوں کا میسر نہ ہونا اور رسائل و جرائد کا نہ پہنچنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہ تو کہئیے کہ میں اپنی تربیت کی عمر پاکستان میں گزار آیا تو ان بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کی برکت سے کچھ نہ کچھ کہہ لیتا ہوں، ورنہ جن لوگوں کی تخلیقی عمر زیادہ یہاں بسر ہوئی ہے ان کا مطالعہ، تربیت، اور شعریات پر نگاہ بہت معمولی، اور زعم حد سے زیادہ ہے اور یہ تمام باتیں تخلیقی سفر میں رکاوٹیں ہیں۔

 

تصنیف حیدر:کیا آپ تنقید پڑھتے ہیں ؟ ناقد کو اہمیت دیتے ہیں ؟ کیوں ؟

 

عرفان ستار:تنقید ایک زمانے میں بہت پڑھی اور اس سے سیکھا بھی۔ اب بھی پڑھنا چاہتا ہوں اگر اچھی تنقید پڑھنے میں آئے۔ تنقید اور ناقد کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں۔ مگر آج تنقید نہیں لکھی جا رہی۔ تنقید کے نام پر یا تو تحسینِ باہمی کا سلسلہ ہے یا دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش۔ تنقید قاری کی تربیت کرتی تھی۔ اسے شعر اور غیر شعر کا، اور اچھے برے کا فرق بتاتی تھی۔ شعری محاسن، الفاظ کی مخفی پرتیں، شعر میں صنعتوں کا استعمال، اور شعریت کا لطف اٹھانے کے لیے قاری کے لیے ضروری سمجھ بوجھ سب ناقد کے ذمے تھی۔ یہ سلسلہ اب عرصہ ہوا مفقود ہے۔ اب مضمون شاعری پر نہیں، شاعر پر لکھا جاتا ہے اور ان معاملات پر مرکوز رہتا ہے جو بہت سطحی اور تخلیقی اعتبار سے غیر اہم ہیں۔

 

تصنیف حیدر:کیا جدیدیت نے واقعی غزل کی بنت اور اندرون کو تجربے کی بنیاد پر بدل کر رکھ دیا ہے ؟ کیوں ؟

 

عرفان ستار:جدیدیت ایک حد درجہ misunderstoodاور over-ratedمسئلہ ہے۔ میر کے ڈھیروں اشعار اور غالب کا بہت سارا کلام بے حد جدید ہے اور آج کے قاری کو حسی سطح پر اسی طرح سے متاثر کرتا ہے جیسے اپنے عہد میں کیا کرتا تھا۔ ہُوا صرف اتنا ہے کہ آج کا شاعر بے چارہ جدید بننے کے چکر میں مارا گیا ہے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ پا رہا کہ جدید ہونا احساس کی اور کیفیات کی سطح پر اہم ہے۔ وہ جدید زبان اور طرزِ اظہار کی بنیاد پر ہونا چاہتا ہے جس سے ایک مضحکہ خیز کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ فیض، ناصر، مدنی، جون، احمد مشتاق، حتٰی کہ فراز تک کسی بھی اہم شاعر نے اس معاملہ میں ایسا غچہ نہیں کھایا اور ایسی شاعری تخلیق کی جو آج کے قاری کے لطف و انبساط کا سبب بنتی رہی۔ یہ تباہی گزشتہ بیس پچیس سالوں کے دوران برپا ہوئی ہے۔ ہم یہ سمجھنے لگے کہ قاری ہم سے دور اس لیے ہو گیا ہے کہ ہم غیر جدید ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ قاری اس لیے آپ سے دور چلا گیا ہے کہ آپ اس تک رسائی اس کی ترجیح کے مطابق حاصل نہیں کر رہے۔ وہ انٹرنیٹ اور آڈیو بکس کا بندہ ہے اور آپ اسے کتاب پڑھوانے پر مصر ہیں۔ وہ یو ٹیوب پر لیکچر دیکھتا ہے اور آپ اسے ادبی رسالے میں تنقید پڑھوانا چاہتے ہیں۔ اس کو اسکول اور کالج میں اردو ویسے نہیں پڑھائی جاتی جیسے اس سے پچھلی نسل کو پڑھائی جاتی تھی اور جس سے ان کی بنیادی تربیت کسی نہ کسی حد تک ہو جاتی تھی۔ آپ کو شاعری نصف پیغمبری کے زعم سے نکلنا ہو گا۔ آج مجھ سمیت سوشل میڈیا پر شاعروں کو ہزاروں قارئین میسر ہیں جو ہماری غیر جدید شاعری سے اتنا ہی لطف اٹھا رہے ہیں جتنا کہ شاعری کا حق ہے۔ پھر خدا جانے کس جدیدیت کی تلاش میں ہم اپنی صلاحیتوں کو برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ شاعری اتنی ہی تبدیل ہو گی جتنی ہونی چاہئیے اور ہو رہی ہے۔ یہ organic evolution کی طرح آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہونے والی تبدیلی ہے جو جاری و ساری ہے۔ اس کو rurbo mode میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اردو غزل کی بنیادی شعریات اور حسنِ اظہار و لطافت کی آج کے انسان کو بہت ضرورت ہے۔ بات سمجھنے اور نئے مضامین تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس ایسے ذرائع ہیں جو بیک جنبشِ انگشت میسر ہیں۔ اسے لطف پہنچائیے۔ غنائیت سے سرشار کیجئیے، کیفیت میں شریک کیجئیے۔ بس یہ اصل بات ہے۔

 

تصنیف حیدر:مغربی ممالک میں اس وقت جتنے لوگ بطور شاعر جانے جاتے ہیں ان میں آپ سب سے اچھے شاعر ہیں۔ یہ سن کرکیسا محسوس ہوتا ہے ؟

 

عرفان ستار:آپ اسے کسرِ نفسی نہ سمجہئے گا مگر میں آج پہلی بار یہ بات سن رہا ہوں۔ اگرچہ اس وقت مغربی ممالک میں مجھ سے کہیں زیادہ اہم اور سینئیر شعرا مقیم ہیں اور اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں مگر اگر ان کی فہرست میں کہیں میں بھی ہوں تو یہ بات یقینی طور پر میرے لیے طمانیت کا باعث ہے۔

 

تصنیف حیدر:اردو ادب کی حالت دگرگوں ہے۔ اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ایسے جملے آپ کو سنجیدہ کرتے ہیں یا ہنساتے ہیں ؟

 

عرفان ستار:کسی بھی زبان کے ادب کے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ تخلیق کار، قاری، اور نقاد۔ تخلیق کار موجود ہے اور میں تو یہ کہوں گا کہ اس وقت پاکستان اور ہندوستان میں جتنی اچھی شاعری کی جا رہی وہ بہت خوش آئند ہے۔ مسئلہ صرف قاری کے ساتھ سلیقے سے جڑنے کا ہے اور وہ مسئلہ بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر میسر دیگر وسائل سے آسان ہوتا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ نئی نسل کی ادب کو پڑھنے اور پرکھنے کی تربیت کا فقدان ہے جس میں نقاد کا کردار اہم ہے اور وہ اچھے نقادوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ادا نہیں ہو رہا۔ جب قاری یہ سمجھنے لگے کہ شعر میں مضمون اچھا ہو تو شعر اچھا ہوتا ہے تو یہ شعریت کی موت ہے۔ مگر یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شعریت اور آہنگ کا ایک تعلق وجدان سے بھی ہے اور وہ قاری بھی جس کی مناسب تربیت نہیں ہوئی جب ایک اچھا شعر سنتا ہے تو اسے یہ احسا س ہو جاتا ہے کہ اس میں کچھ ایسا ہے جو اس کے دل میں اتر رہا ہے اور اس کی روح کو سرشار کر رہا ہے۔ اچھی موسیقی کی طرح اچھی شاعری بھی ایک ذوقی معاملہ ہے جس کی بنیاد وجدانی بھی ہے اور اکتسابی بھی۔ تربیت کا ایک موقع اچھی شاعری کی ترسیل اور ترویج بھی فراہم کرتی ہے اور یہ کام بہرحال آج بھی ہو رہا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کتاب کی اہمیت ختم نہیں ہوئی مگر اس کی ترسیل کے طریقے بدل گئے ہیں۔ کیا مجھے میر، غالب، انیس، یا بڑے نثرنگاروں کا کام آڈیو بکس کی صورت میں دست یاب ہے ؟ ہمیں اس پر توجہ دینی ہے۔ Interactive CDs, websites, audio books ادب کا مستقبل ہیں۔ یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ اس میں اضافے کی ضرورت ہے اور اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ احتشام حسین، ممتاز حسین، حسن عسکری، سلیم احمد، ڈاکٹر سلیم اختر، محمد علی صدیقی، محمد علوی، وارث علوی، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، اور دیگر اہم نقادوں کا کام بھی ان جدید ذرائع سے قاری تک پہنچایا جائے۔ ایسے لیکچرز مرتب  کر کے وڈیوز کی صورت میں اپ لوڈ کیے جائیں جس سے قاری یہ سمجھ سکے کہ شاعری کیا ہے اور شعریت کسے کہتے ہیں۔ شعر سے لطف کیسے اٹھایا جاتا ہے ؟ اچھی اور بری شاعری میں تمیز کیسے کی جاتی ہے ؟

 

تصنیف حیدر:کیا لکھنے والے کو تخلیقی حس کے ختم ہو جانے کا احساس ہوتے ہی قلم توڑ دینا چاہئیے یا مرتے دم تک لکھتے رہنا چاہئیے ؟

 

عرفان ستار:میں نہیں سمجھتا کہ تخلیقی حس کبھی بھی ختم ہوتی ہے۔ ہاں طویل عرصے کے لیے غیر متحرک ضرور ہوسکتی ہے اور پھر کوئی بھی تجربہ خواہ وہ ذاتی اور اندرونی ہو یا خارجی، اس حس کو بیدار کرسکتا ہے۔ تخلیق کار کو زبردستی تخلیق کرنے کی کوشش تو نہیں کرنی چاہئیے مگر تخلیق کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہنا چاہئیے۔ کسے معلوم کہ آخری سانس سے پہلے وہ ایک تحریر، ایک شعر، ایک افسانہ، ایک نظر ایسی ہو جائے جو اس تخلیق کار کی ابدی زندگی کا ضامن ہو جائے ؟ لکھتے رہنا ضروری نہیں۔ لکھنے سے شعوری طور پر گریز کرنے سے بچنا ضروری ہے۔

٭٭٭

 

 

 

غزلیں ۔۔۔ عرفان ستار

 

 

 

تمہارا نام سر ِ لوح ِ جاں لکھا ہُوا ہے

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

 

لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاض ِ سخن

حساب ِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے

 

نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟

فصیل ِ شہر پہ شہر ِ اماں لکھا ہُوا ہے

 

ملی ہے اہل ِ جنوں کو جہاں بشارت ِ اجر

وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے

 

زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی

مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟

 

یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟

پڑھو تو، لوح ِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے

 

تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟

ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟

 

جناب ِ شیخ، یہاں تو نہیں ہے آپ کا ذکر

ہمارے نسخے میں پیر ِ مغاں لکھا ہوا ہے

 

یہ کائنات سراسر ہے شرح ِ راز ِ ازل

کلام ِ حق تو سر ِ کہکشاں لکھا ہوا ہے

 

میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود

میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے

 

جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا

کتاب ِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہُوا ہے

 

لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنام ِ خواب ِ وجود

نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے

 

عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان

حساب ِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا  ہے

٭٭٭

 

 

 

ہونے کا اظہار نہیں ہے، صرف خیال میں زندہ ہوں

عمر کا کچھ احوال نہیں ہے، اور مآل میں زندہ ہوں

 

ٹھیک ہے میرا ہونا تیرے ہونے سے مشروط نہیں

لیکن اتنا یاد رہے میں ایک ملال میں زندہ ہوں

 

اپنا دل برباد کیا تو پھر یہ گھر آباد ہُوا

پہلے میں اک عرش نشیں تھا اب پاتال میں زندہ ہوں

 

دنیا میری ذات کو چاہے رد کر دے، تسلیم کرے

میں تو یوں بھی تیرے غم کے استدلال میں زندہ ہوں

 

ایک فنا کی گردش ہے یہ ایک بقا کا محور ہے

ایک دلیل نے مار دیا ہے، ایک سوال میں زندہ ہوں

 

اک امکان کی بے چینی سے ایک محال کی وحشت تک

میں کس حال میں زندہ تھا اور میں کس حال میں زندہ ہوں

 

کتنی جلدی سمٹا ہوں میں وسعت کی اُس ہیبت سے

کل تک عشق میں زندہ تھا میں، آج وصال میں زندہ ہوں

‎٭٭٭

 

 

 

 

آج بام ِ حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں

میری جانب اک نظر اے دیدہ ور، میں بھی تو ہوں

 

بے اماں سائے کا بھی رکھ باد ِ وحشت کچھ خیال

دیکھ کر چل درمیان ِ بام و در میں بھی تو ہوں

 

تُو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بدر

اپنی خاطر ہی سہی پر دربدر میں بھی تو ہوں

 

دشت ِ حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا

اے جنوں میں بھی تو ہوں اے ہم سفر میں بھی تو ہوں

 

رات کے پچھلے پہر پُر شور سنّاٹوں کے بیچ

تُو اکیلی تو نہیں اے چشم ِ تر، میں بھی تو ہوں

 

خود پسندی میری فطرت کا بھی وصف ِ خاص ہے

بے خبر تُو ہی نہیں ہے بے خبر میں بھی تو ہوں

 

سُن اسیر ِ خوش ادائی، منتشر تُو ہی نہیں

میں جو خوش اطوار ہوں زیر و زبر میں بھی تو ہوں

 

دیکھتی ہے جُوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے

روح کہتی ہے بدن سے، بے ہُنر، میں بھی تو ہوں

 

کوزہ گر، بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں

اب مجھے بھی شکل دے، اس چاک پر میں بھی تو ہوں

 

یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے

تجھ کو خوش رکھے خدا یونہی، مگر میں بھی تو ہوں

 

 

 

سمجھوتہ کوئی وقت سے کرنے کا نہیں میں

اب ترک ِ مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں

 

پل بھر کے لیے کوئی سماعت ہو میّسر

بے صوت و صدا جاں سے گزرنے کا نہیں میں

 

زنجیر کوئی لا مری وحشت کے برابر

اک تیرے کہے سے تو ٹھہرنے کا نہیں میں

 

کل رات عجب دشت ِ بلا پار کیا ہے

سو باد ِ سحر سے تو سنورنے کا نہیں میں

 

اب چشم ِ تماشا کو جھپکنے نہیں دینا

اس بار جو ڈوبا تو ابھرنے کا نہیں میں

 

کیوں مملکت ِ عشق سے بے دخل کیا تھا

اب مسند ِ غم سے تو اترنے کا نہیں میں

 

ہر شکل ہے مجھ میں مری صورت کے علاوہ

اب اس سے زیادہ تو نکھرنے کا نہیں میں

 

 

پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشم ِ تر ہمارا

 

بس گاہ گاہ لے آ، خاک ِ وطن کی خوشبو

اے باد ِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا

 

ہیں بزم ِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب

سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا

 

ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے

ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا

 

اتمام ِ دل خراشی، اسلوب ِ سینہ چاکی

اظہار ِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا

 

اک سعئ ِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت

مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا

 

پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر

بس یہ بتاوٗ پوچھے، کوئی اگر ہمارا

 

دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے

اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا

 

ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو

اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا

٭٭٭

 

 

کہے دیتا ہوں، گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی

تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی

 

بچا کر دل گزرتا جا رہا ہوں ہر تعلق سے

کہاں اس آبلے کو تاب ہے اب چوٹ سہنے کی

 

رگ و پے میں نہ ہنگامہ کرے تو کیا کرے آخر

اجازت جب نہیں اس رنج کو آنکھوں سے بہنے کی

 

بس اپنی اپنی ترجیحات، اپنی اپنی خواہش ہے

تجھے شہرت کمانے کی، مجھے اک شعر کہنے کی

 

سخن کرتے تھے پہروں کائناتی مسئلوں پر ہم

مگر وہ بات اب کرتی ہے بس کپڑے کی، گہنے کی

 

جہاں کا ہوں، وہیں کی راس آئے گی فضا مجھ کو

یہ دنیا بھی بھلا کوئی جگہ ہے میرے رہنے کی؟

 

جو کل عرفان پر بیتی سنا کچھ اُس کے بارے میں؟

خبر تم نے سُنی طوفان میں دریا کے بہنے کی؟

٭٭٭

 

 

دنیا سے دور ہو گیا، دیں کا نہیں رہا

اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا

 

رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ

اب رنج صرف قلب ِ حزیں کا نہیں رہا

 

دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی

جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا

 

تُو وہ مہک، جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی

میں وہ شجر، جو اپنی زمیں کا نہیں رہا

 

سارا وجود محو ِ عبادت ہے سر بہ سر

سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا

 

پاس ِ خرد میں چھوڑ دیا کوچۂ جنوں

یعنی جہاں کا تھا میں، وہیں کا نہیں رہا

 

وہ گردباد ِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے

خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا

 

اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا

گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا

 

میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں

وہ تو کبھی بھی عرش ِ بریں کا نہیں رہا

 

ہر ذرۂ زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم

دل کو مرے ملال یہیں کا نہیں رہا

 

آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکان ِ دل

اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا

 

عرفان، اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے

گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید